FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مونچھ کا بال

ابرار محسن

کسی زمانے میں انڈونیشیا کے جنگلوں میں ایک جانور رہتا تھا جسے "ماؤس ڈئیر” کہا جاتا تھا۔ یہ ایک قسم کا ہرن ہوتا ہے، دنیا کا سب سے چھوٹا ہرن۔ یہ خرگوش جتنا بڑا ہوتا ہے اور انڈونیشیا والے اسے سب جانوروں سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور اس کا ایک سبب بھی بیان کرتے ہیں۔

ننھا منا سا یہ ہرن بڑا ہی خوب صورت، پھرتیلا اور شان دار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ بے انتہا چالاک بھی ہوتا ہے۔ اس کی چالاکی کی بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔

انڈونیشیا ایک ایسا ملک ہے جو بہت سے جزیروں سے مل کر بنا ہے۔ ان جزیروں میں "جاوا” ،”سماترا” اور "بورنیو” بڑے بڑے جزیرے ہیں۔

ہاں، تو کسی زمانے کی بات ہو رہی تھی۔

جاوا کے جنگلوں کا بادشاہ ایک ٹائیگر تھا جسے اپنی طاقت پر بڑا غرور تھا۔ وہ کسی دوسرے بادشاہ کو اپنے برابر نہیں سمجھتا تھا۔ جنگل کے تمام جانور اس سے ڈرتے تھے۔ اور اس کے سامنے سر جھکائے رہتے تھے۔ جس طرف سے بھی اس کا گزر ہوتا، جانور خوف سے میلوں دور بھاگ جاتے، درختوں پر چھلانگیں مارنے والے لنگور اور بندر چپ چاپ پتوں میں چھپ جاتے۔

آس پاس کے تمام جزیروں کے بادشاہوں سے اس نے اپنی اطاعت قبول کرا لی تھی۔

ایک دن اسے خیال آیا۔

"تمام جزیروں کے بادشاہوں نے ہمیں شہنشاہ تسلیم کر لیا ہے اور خراج کے طور پر ہمارے کھانے کے لیے ہمارے حضور بہت سے جانور بھیجتے ہیں، لیکن بورنیو کا بادشاہ ابھی تک بچا ہوا ہے۔ اس نے ابھی تک ہماری اطاعت قبول نہیں کی۔ ہم اسے بھی پیغام بھیجیں گے۔ اسے تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم اس سے برے ہیں۔ اگر اس نے انکار کیا تو ایسی خوف ناک سزا دیں گے کہ اس کی یاد ان جنگلوں میں صدیوں باقی رہے گی۔”

اس نے اپنے دربار کے تین ٹائیگروں کو بلا کر کہا: "ابھی بورنیو جاؤ اور وہاں کے بادشاہ کو ہمارا پیغام پہنچاؤ۔ اس سے کہو کہ وہ دوسرے تمام بادشاہوں کی طرح ہمیں بادشاہ تسلیم کرے۔ ہماری اطاعت قبول کرے اور ہر ماہ جب چودھویں کا چاند نکلے تو خراج کے طور پر ہمارے لیے موٹے تازے جانور بھیجے۔ اگر وہ ہمارا حکم نہیں مانے گا تو ہم خود بورنیو آ کر اسے کھا جائیں گے۔”

درباری بولے: "ہم ابھی جاتے ہیں، حضور! کون ہے جو جہاں پناہ کا حکم ٹال سکے؟”

جب وہ جانے لگے تو بادشاہ نے آواز دی: "ٹھروو۔”

وہ جھٹ واپس آ گئے۔

"جی حضور!” انھوں نے کہا۔

بادشاہ نے اپنی مونچھ کا بال توڑ کر انھیں دیتے ہوئے کہا: "بورنیو کے بادشاہ کو پیغام کے ساتھ ہی ہماری شاہی مونچھ کا عالی شان بال بھی پیش کرنا اور اس سے کہنا کہ آج تک ہمارے سامنے سر جھکے ہیں، اٹھے نہیں۔ جنگلوں میں بادشاہ تو بہت ہیں، شہنشاہ صرف ایک ہے۔ ہماری مونچھ کا یہ بال گواہ ہے کہ ہم کس قدر طاقت ور اور کتنے خوف ناک اور خوں خوار ہیں۔ ہمارا غصہ سمندر کے طوفان کی طرح بپھرتا ہے۔ جاؤ، اور بورنیو کے بادشاہ کا سر جھکا دو۔”

جب تینوں ٹائیگرز  بورنیو پہنچے تو بری طرح تھک چکے تھے۔ گرمی بہت سخت تھی۔ دو قدم چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ گھنے درخت کا ٹھنڈا سایہ ملتے ہی وہ سستانے لگے۔

ان میں سے ایک بولا: ” ابھی تو ہمیں اور چلنا ہے، کیوں کہ بادشاہ جنگل کے بیچ کہیں رہتا ہے۔ اب ہم کیا کریں؟”

باقی دونوں ساتھی کہنے لگے: "اب تو ہماری ٹانگوں نے جواب دے دیا ہے۔ تھوڑی دیر آرام کر کے تازہ دم ہو لیں، پھر آگے کا سفر طے کیا جائے گا۔”

اتفاق کی بات ہے اسی وقت ننھا ہرن "ماؤس ڈئیر” اس طرف آ نکلا۔

انھوں نے اتنا چھوٹا سا ہرن کبھی نہیں دیکھا تھا۔

انھوں نے پکارا: ” ارے او، ادھر آ۔”

ہرن ڈر گیا۔ سامنے موٹے تازے ٹائیگروں کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا اور کانپتا ہوا نزدیک آیا اور ادب سے بولا: "آپ نے مجھے بلایا ہے؟”

انھوں نے ڈراؤنی آواز میں سوال کیا: "کون ہے تو؟”

اس نے سہم کر جواب دیا: "جی، میں ایک چھوٹا سا ہرن ہوں۔”

وہ زور زور سے ہنسنے لگے۔

ان میں سے ایک نے پوچھا: ” تیرا بادشاہ کہاں رہتا ہے؟”

ہرن نے پوچھا: ” کیا آپ بادشاہ سلامت سے ملنا چاہتے ہیں؟”

وہی ٹائیگر بولا: "ہاں، ہم جاوا کے جنگلوں سے اپنے شہنشاہ کا پیغام لے کر آئے ہیں۔”

دوسرے نے کہا: "بورنیو کے بادشاہ کو ہمارے شہنشاہ کی اطاعت قبول کرنی ہو گی۔”

"اور خراج کے طور پر ہر ماہ چودھویں رات کو بطور خراج بہت سے جانور جاوا بھیجنے ہوں گے۔ اگر اس نے حکم نہ مانا تو شہنشاہ یہاں آ کر اسے کھا جائیں گے۔ نشانی کے طور پر شہنشاہ نے اپنی شاہی مونچھ کا یہ بال بھیجا ہے۔” تیسرے نے بات پوری کر دی۔

ہرن نے شہنشاہ کی مونچھ کا لمبا اور موٹا بال دیکھا اور سوچنے لگا۔

"یہ تو بہت برا ہو گا۔ بورنیو کی بڑی بےعزتی ہو گی۔ ان ٹائیگروں کو بادشاہ تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے، مگر میں کیا کروں؟”

آخر وہ کچھ سوچ کر بولا: ” آپ تھکے ہوئے ہیں۔ اس گرمی میں کہاں پریشان ہوتے پھریں گے۔ لائیے یہ بال۔ میں خود بادشاہ تک پیغام لے جاتا ہوں اور ان کا جواب لے کر ابھی واپس آتا ہوں۔”

ٹائیگر آپس میں مشورہ کر کے بولے: "ٹھیک ہے۔ تو جلد واپس آ جا۔ ہم یہیں آرام کرتے ہیں۔”

ہرن بال لے کر چل دیا۔

وہ سوچ رہا تھا۔

” اگر بادشاہ تک یہ پیغام پہنچ گیا تو وہ ڈر کر تمام باتیں مان لے گا۔ اس جنگل کا اصل حکمران جاوا کا بادشاہ ہو گا۔ ہمارا بادشاہ دوسرے بادشاہ کے سامنے سر جھکائے گا۔ یہ تو بہت شرم کی بات ہے اور پھر تمام جانوروں کا خراج بھیجا جائے گا۔ ہو سکتا ہے ایک دن میری باری آ جائے۔ نہیں نہیں، یہ پیغام بادشاہ تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ اف، میں کیا کروں؟ اتنا چھوٹا سا تو ہوں میں!”

وہ ان ہی خیالات میں کھویا ہوا چلا جا رہا تھا کہ کسی نے آواز دی: "کہاں چلے جا رہے ہو؟”

اس نے مڑ کر دیکھا۔ اس کی پرانی دوست سیہی سامنے کھڑی تھی۔ سیہی کا سارا جسم بڑے بڑے کانٹوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ بس اچانک ہی ہرن کو ایک خیال سوجھ گیا۔

اس نے سیہی سے کہا: "ذرا اپنا ایک کانٹا تو دینا۔”

"کیوں، خیر تو ہے؟” سیہی نے تعجب سے پوچھا اور اسے ایک کانٹا اکھاڑ کر دے دیا۔

"کچھ نہیں، بس یوں ہی۔” اس نے جواب دیا اور چھلانگیں مارتا ہوا غائب ہو گیا۔

ٹائیگر اسے دور سے دیکھ کر پکار اٹھے۔

"کیا جواب ہے تیرے بادشاہ کا؟”

ہرن نے کہا: "بادشاہ سلامت نے کہا ہے کہ انھوں نے کبھی کسی بےوقوف ٹائیگر کو نہیں کھایا۔ تمھارا بادشاہ احمق ہے جو مجھے کھانا چاہ رہا ہے، اس لیے میں خود جاوا آ کر تمھارے بادشاہ کو کھا جاؤں گا۔ جاؤ، اپنے نادان بادشاہ کو یہ پیغام دے دو اور اس کے ساتھ ہی نشانی کے طور پر بادشاہ سلامت کی مونچھ کا یہ چھوٹا سا بال لے جاؤ۔”

ہرن نے انھیں سیہی کا کانٹا دے دیا۔ سخت، لمبا اور نوک دار۔

ٹائیگر کانٹا دیکھ کر بوکھلا گئے۔

"جب مونچھ کا بال اتنا خوف ناک ہے تو بادشاہ خود کیسا ہو گا!” وہ سوچنے لگے۔

"جلدی سے بھاگ نکلو ورنہ وہ ہمیں ہی چٹ کر جائے گا۔” انھوں نے آپس میں کہا اور وہاں سے بھاگ گئے۔

اس دن کے بعد سے بورنیو کے جنگلوں میں آج تک کوئی ٹائیگر نہیں دیکھا گیا۔
٭٭٭

٭٭٭
ٹائپنگ:مقدس
پروف ریڈنگ :ذو القرنین، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید