کچھ یادیں کچھ باتیں
عمر انصاری
عصر حاضر میں پنڈت آنند نرائن ملّا، ان خوش نصیب لوگوں کی فہرست میں سر فہرست ہونے کا درجہ رکھتے ہیں، جو پٹواری کی طرح کسی پر اپنا کوئی واجب نہیں چھوڑتے، چاہے ان پر کسی کے کتنے ہی واجبات کیوں نہ ہوں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک انھیں جتنے ایوارڈ مل چکے ہیں اور جو رتبہ اور اعزاز انھیں حاصل ہے، وہ کم از کم آج کی اردو دنیا میں تو کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔
ملّا صاحب کی شاعری لکھنؤ اسکول کی پروردہ ہے، یہیں انھوں نے آنکھ کھولی اور یہیں کی مٹی سے ان کی شخصیت اور شاعری کا خمیر اُٹھا، جس میں عصری حسیت اور ان کی شعوری کوششوں نے وہ چار چاند لگائے کہ آج کا لکھنؤ پکار پکار کر یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ میرے ماضی پر نظر کرنے والو، میرے حال کو دیکھو اور پھر یہ بتاؤ کہ میرے دامن میں وہ کیا نہیں جس کی تمہیں تلاش ہے اور در حقیقت آج کے لکھنؤ کی شاعری، ملّا صاحب اور ان کے چند رفقا ہی کی شاعری سے عبارت ہے۔ یہ کہہ کر گزر جانا ہرگز انصاف کی بات نہیں، جیسا کہ پروفیسر آل احمد سرور نے حبیب احمد صدیقی صاحب آئی۔ اے۔ ایس سے جب وہ آل انڈیا ریڈیو کے مشاعرے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اور انھیں کے دولت کدے پر فروکش تھے، فرمایا کہ لکھنؤ آتے ہیں، تو شعر تو ملّا صاحب اور عمر انصاری ہی سے سننے کو ملتے ہیں، لیکن یہ دونوں بھلے ہی لکھنوی ہوں، ان کی شاعری لکھنوی نہیں۔ ‘‘
یہاں پر یہ تحریر کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے معلوم ہے ملّا صاحب خود بھی کچھ سرورؔ صاحب ہی کے جیسے خیالات رکھتے ہیں اور ابھی ایک حالیہ ملاقات میں جب میں یہ سن کر کہ وہ دلّی میں پارلیمنٹ ہاؤس کی سیڑھیوں سے گر گئے ہیں، ان کی مزاج پرسی کے لیے دلّی ان کی رہائش گاہ پر پہنچا، تو انھوں نے بھی لکھنوی شاعری کی برائی کرتے ہوئے سراجؔ لکھنوی کا یہ شعر پیش کیا ؎
آپ کے پانو کے نیچے دل ہے
اِک ذرا آپ کو زحمت ہو گی
اور کہا کہ میں بھی مشاعرے میں شریک تھا، لیکن داد سب سے زیادہ اسی شعر پر ملی۔
جواب میں اب ایسے موقع پر میں اور کیا کہتا، بس یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ:
’’ملّا صاحب! آج کے لکھنو کی شاعری کا تجزیہ مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی اور سراجؔ لکھنوی کی شاعری کو سامنے رکھ کر نہیں، بلکہ ملّا صاحب اور عمر انصاری کی شاعری کو پڑھ کر کیا جانا چاہیے اور اس شعر میں بھی ہر چند کہ کسی ’’گل بدنِ سرخ‘‘ کی مدح سرائی نہیں، لیکن ایک بڑی تہذیب اور معاشرے کی نمائندگی کے آثار نظر آتے ہیں کہ لوگ کس انداز سے گفتگو کرتے تھے اور کیا مفاہیم مراد لیتے تھے۔ آخر رموز و علائم کا بھی شاعری میں کوئی مقام ہے کہ نہیں ؟‘‘۔
اور سہلِ ممتنع کہنے میں بھی کیا برائی ہے ؟ اور پھر بات کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں بھی گویا ہوا کہ:
’’معلوم ہوتا ہے ملّا صاحب اس مشاعرے میں آپ کو کچھ داد واد ملی نہیں، جس کی بنا پر آپ ڈنڈا لے کر بے چارے سراجؔ صاحب پر پل پڑے اور ایک شاعر کے ایک شعر کی بنیاد پر سارے مکتبۂ فکر کو گردن زدنی قرار دے دیا۔ آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ سراج لکھنوی نے بعض اچھے اور بعض بہت اچھے شعر بھی تو کہے ہیں جیسے :
آنکھوں میں آج آنسو پھر ڈبڈبا رہے ہیں
ہم کل کی آستینیں اب تک سکھا رہے ہیں
ٍ ظاہر ہے کہ میرے جواب میں ملّا صاحب کی ترقی پسندی کے اس اعلان کی بھی کسک پائی جاتی ہے، جس سے یقیناً اہل لکھنو کے دلوں پر چوٹ لگی تھی اور انھوں نے سمجھا تھا کہ مجاز ردولوی اور مجروحؔ سلطانپوری کی طرح ہمارے اس شاعر کو بھی بھیڑیے اٹھا لے گئے۔ اور جس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ان دنوں پروفیسر احتشام حسین اور پروفیسر آل احمد سرور دونوں ہی لکھنؤ یونیورسٹی میں جمع ہو گئے تھے اور یہ دونوں حضرات بنّے بھائی (سیّد سجاد ظہیر) کی چلائی ہوئی تحریک کے نہ صرف ہم نوا تھے، بلکہ ان کے تیر کمان بنے ہوئے تھے، تحریک کے شباب کا بھی وہی زمانہ تھا اور ان دونوں پروفیسر صاحبان سے ملّا صاحب کے گہرے روابط تھے۔ حضرت گنج انڈیا کافی ہاؤس میں ان سب کی بیٹھکیں جمتیں، جہاں کا قاعدہ یہ تھا کہ ملّا صاحب کی میز پر، جو کئی میزوں کو ملا کر ایک کر دی جاتی تھی، جس کا جو دل چاہے کھائے پئے، لیکن بل ادا کرنے کا حق کسی کونہ تھا، بل ملا صاحب ہی ادا کرتے تھے۔ وہیں ملا صاحب کے شعر سن سن کر اور خاص طور پر ان کی نظم ’’ٹھنڈی کافی‘‘ سن کر ان دونوں پروفیسر ان نے ملا صاحب کو یہ یقین دلانا شروع کیا کہ آپ تو ترقی پسند شاعر ہیں۔ اور ایک صبح ملّا صاحب کو یقین آ گیا کہ ہاں میں تو واقعی ترقی پسند شاعر ہوں۔
میں غور کرتا ہوں تو ملّا صاحب کے اس رویے کو فراق صاحب کے اس رویے سے بالکل مختلف پاتا ہوں کہ وہ کہا کرتے تھے اور جسے خو دمیں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ ’’ترقی پسند میرا بھی نام لیے پھرتے ہیں۔ لیکن کہاں وہ ’’وَن ٹریک مائنڈڈ‘‘ اور کہاں میں چو مکھا شاعر‘‘۔
جہاں تک ترقی پسندی کا سوال ہے، مجھے آج تک کوئی اللہ کا بندہ ایسا نہیں ملا جو اپنے آپ کو تنزل پسند مانتا ہو، نہ ہی ادب کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی ایک جگہ پر کھڑا رہے، یہ تو دریا کی لہر ہے، ابھی یہاں، ابھی وہاں اور ابھی اور آگے۔ اور اسی قانونِ فطرت کا ہمارے لکھنؤ کی شاعری پر اطلاق کیا جانا چاہیے۔ اور اسی بنیاد پر میں یہ تو مانتا ہوں کہ ملّا صاحب بے شک ترقی پسند شاعر ہیں، لیکن وہ ترقی پسند شاعر اور ہم سے علاحدہ کوئی چیز ہیں، یہ ماننے سے معذرت چاہتا ہوں۔ اور اس سلسلہ میں اگر ملّا صاحب سے بالمشافہ بھی گفتگو ہو تو میں یہی عرض کروں گا کہ:
’’نہیں ملّا صاحب۔ آپ کسی غلط فہمی میں نہ مبتلا ہوں، آپ ہمارے دبستان کے شاعر ہیں اور ہماری نمائندگی کرتے ہیں، آپ کو ہم اپنا نمائندہ شاعر تسلیم بھی کرتے ہیں اور مقر ر بھی کرتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے اردو مہم میں اپنا قائد بنایا‘‘۔
اور ہمارے ملّا صاحب کو تحریک کا ترقی پسند شاعر نہ ماننے کے وجوہ بھی موجود ہیں۔
ملّا صاحب کبھی کسی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر نہیں بنے، جو تحریک کے ترقی پسند شاعر ہونے کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک لازمی شرط قرار دی گئی تھی، نہ ہی انھوں نے کبھی کمیونسٹ پارٹی کے روزانہ بدلتے رہنے والے پروگراموں پر بہ قول حیات اللہ انصاری، سردارؔجعفری اور کیفیؔ اعظمی کی طرح عمل کیا، بلکہ میرا تو خیال ہے کہ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی باقاعدہ ممبر نہیں رہے۔ اور برعکس اس کے وہ کانگریسی دل و دماغ رکھنے والے شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ کانگریس میں شامل رہے۔ یہاں تک کہ ۱۹۳۶ء میں کانگریس کے اجلاس میں جو لکھنؤ موتی نگر میں منعقد ہوا تھا، اس کے اس مہتم بالشان مشاعرے کے صدر مجلس استقبالیہ وہی تھے، جس کا افتتاح پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا اور صدارت بلبلِ ہند مسز سروجنی نائیڈو نے اور جس کا سوینیر ’’جواہرات‘‘ آج بھی اس دور کے ادبی رجحانات جاننے کے لیے سب سے معتبر دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملّا صاحب کی وہ استقبالیہ نظم جو انھوں نے مسز نائیڈو کے لیے لکھی اور پڑھی تھی، اس سوینئر میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ ۱۹۳۶ء ہی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا افتتاحیہ جلسہ منشی پریم چند کی صدارت میں لکھنؤ میں منعقد ہوا تھا۔
ملّا صاحب کے کانگریسی ہونے کے اتنے شواہد موجود ہیں کہ سب کو یک جا کرنا مضمون کو لامتنا ہی کر دینے کے مصداق ہو گا، حدیہ ہے کہ جب ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھیں پارلیمنٹ کا لکھنؤ کی سیٹ سے کانگریس کا ٹکٹ نہیں مل سکا اور وی۔ آر۔ موہن کو دے دیا گیا، تو وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الکشن لڑے اور جیت کے پھر کانگریس میں شامل ہو گئے اور لکھنؤ میں ان کی کتاب ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘ کی رسمِ اجرا مسز اندرا گاندھی نے ادا کی۔
ملّا صاحب کی شاعری کی ابتدا ۲۷؍۱۹۲۸ء میں انگریزی زبان کی شاعری سے ہوئی اور ان کے لکھنؤی شاعر ہونے کا بنیادی ثبوت وہیں سے فراہم ہو جاتا ہے کہ سب سے پہلے میر انیسؔ کے کلام سے متاثر ہوئے اور میر انیسؔ کی کئی رباعیات کا منظوم ترجمہ انھوں نے انگریزی میں کیا۔ اس کے بعد وہ اردو کی جانب متوجہ ہوئے اور جوش ملیح آبادی سے روابط کی بنا پر انھیں غزل کے ساتھ نظم لکھنے کا بھی چسکا لگ گیا۔ نظم کی صنف ملّا صاحب کے جیسا دل و دماغ رکھنے والے شاعر کے لیے زیادہ مناسبت بھی رکھتی تھی کہ اس میں انھیں اپنے دماغ کی اُپج نکالنے کے بہتر مواقع فراہم تھے۔ پھر انھوں نے یہ کیا کہ اقبالؔ کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ابتدا میں اقبالؔ سے لڑے بھی کہ ہمارے میخانے کا میخوار خواہ مخواہ حجازی بن بیٹھا، لیکن شاید بعد میں ان کی سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ اقبالؔ کی اس حد تک مداح بن گئے کہ اپنے پرانے دوست سراجؔ لکھنوی کو انھوں نے کلام اقبال پڑھنے کی ترغیب دی اور سراج لکھنوی نے اپنے دیوان ’’شعلۂ آواز‘‘ میں اس کا اقرار کیا کہ ملّا صاحب کے توجہ دلانے پر میں نے اقبال کو پڑھا تو پتا چلا کہ
’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔
ہر چند کہ وہ دور ہی گویا نظم گوئی کا دور تھا۔ لکھنؤ میں ملّا صاحب کے علاوہ بھی کئی اور شعرا بالاہتمام نظمیں لکھ رہے تھے، جن کے مجموعہ ہائے نظم بھی شائع ہو چکے ہیں اور اس زمانے کے تمام رسائل و اخبارات میں ان کی نظمیں چھپتی رہتی تھیں، لیکن ملّا صاحب کی ہوش مندی کا یہ ایک اور بہتر ثبوت ہے کہ انھوں نے نظم کی طرف متوجہ ہو کر بھی غزل کی شاعری کو جوش ملیح آبادی کی طرح بالکل ترک نہیں کیا اور عروسِ غزل کی شانہ کشی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ انھوں نے غزل کی پرانی اور صالح روایتوں کو توڑا نہیں، کئی نئے اسالیب کے ساتھ انھیں جوڑا ہے اور اس کوشش کی بدولت ان کے کلام میں ندرت و انفرادیت کے ایسے عناصر داخل ہوئے ہیں جو خود ان کی شخصیت کو منفرد اور ممتاز بناتے ہیں۔ وہ خود غزل کے سلسلے میں اپنی مساعیِ جمیلہ کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ:
کھڑا کر دیا نظم کے پاس تجھ کو
جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ صنفِ نظم کو صنفِ غزل پر ترجیح دیتے ہیں۔
ملّا صاحب نے ۱۹۳۰ء میں جب مشاعروں کی دنیا میں قدم رکھا تو کم و بیش وہی زمانہ میرے بھی آغازِ شاعری کا تھا۔ لیکن وہ مجھ سے عمر میں بھی بڑے ہیں عمرِ شاعری میں بھی۔ ۱۹۳۲ء میں جب میں لکھنؤ کی مرکزی انجمن معین الادب کا ممبر بنا اور اس کے جس پہلے مشاعرے میں پہنچا، جس کی طرح تھی ’’قول و قرار کچھ نہیں، پھر بھی ہوں انتظار میں ‘‘ تو میں نے وہاں ملّا صاحب کو پہلے سے بیٹھا پایا۔ معین الادب کے سرپرست سرتیج بہادر سپرو تھے، صدر مولانا علی نقی صفیؔ لکھنؤی اور سکریٹری بہارؔ لکھنؤی اور بہارؔ صاحب کی یہ سکریٹری شپ بھی اپنی نوعیت کی ایک ہی سکریٹری شب تھی۔ پہلے وہ جا کر دعوت نامہ دے آتے، پھر وعدہ لینے جاتے، پھر یہ پوچھنے جاتے کہ حضور نے غزل شروع کر دی اور کچھ شعر کہہ لیے ہیں یا نہیں، کیوں کہ اس طرح انھیں یقین ہو جاتا کہ اگر شاعر نے دو ایک شعر بھی کہہ لیے ہیں تو وہ مشاعرے میں ضرور آئے گا۔ پھر ایک مرتبہ یاد دہانی کے لئے جاتے کہ حضور کل یا پرسوں مشاعرہ ہے، تجدیدِ وعدہ کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میں نے اس اہتمام کے ساتھ مشاعروں میں مدعو کرنے والا پھر کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔
بہر حال بہارؔ صاحب کو اپنی خدمات کا صلہ اس صورت میں ملا کہ ان کے انتقال کے بعد شہر کی ایک اور انجمن معراج الادب کے ساتھ معین الادب کا الحاق کر کے ایک نئی انجمن کی تشکیل کی گئی اور اس کا نام بہار صاحب کے نام پر بہار ادب رکھا گیا۔ لیکن یہ الحاق بھی ملّا صاحب ہی کی کوششوں کی بدولت عمل میں آیا کہ اس وقت ملّا صاحب کے علاوہ کوئی دوسرا اس کام کو انجام دینے کا اہل ہی نہ تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ معراج الادب کے سارے ممبران جو ینگ پارٹی کے نام سے جانے جاتے تھے، پہلے معین الادب ہی میں شامل تھے، لیکن بعد میں علاحدہ ہو کر انھوں نے اپنی الگ انجمن بنا لی تھی۔ ملّا صاحب ایک طرف تو معین الادب کے ممبر تھے اور معین الادب میں شامل تمام اساتذہ ان پر بڑا پیار نچھاور کرتے تھے اور دوسری طرف معراج الادب والوں سے وہ معاصرانہ یارانے رکھتے تھے۔ لہٰذا ان کے علاوہ کوئی دوسرا تھا ہی نہیں جو ان بچھڑے ہوؤں کو پھر سے ملا سکتا۔ بہار ادب کے پہلے جنرل سکریٹری بھی ملّا صاحب ہی مقر ر ہوئے اور ان کے ساتھ قدیرؔ لکھنوی اور عمر انصاری سکریٹریز، لیکن عملی طور پر یہ ہو گیا کہ ایک سال ملا صاحب جنرل سکریٹری رہتے اور دوسرے سال سید آل رضا جنرل سکریٹری بنا دیے جاتے۔ جس کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جو جنرل سکریٹری آتا، کوشش کرتا کہ اس کے زمانے میں کوئی ایسا مشاعرہ ہو جائے جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔ چناں چہ اسی مہم کی یادگار لکھنؤ کے وہ دو مشاعرے ہیں، جن میں سے ایک ’’محفلِ شعر و نغمہ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا اور دوسرا ’’دریائی مشاعرہ‘‘ کہلایا۔
’’محفل شعر و نغمہ‘‘ میں، جو سید آل رضا کی جنرل سکریڑی شپ میں منعقد ہوئی۔ جہاں اس وقت کے متحدہ ہندوستان بھر کے مشہور و معروف شعراواساتذہ کو دعوتِ شرکت دی گئی اور ایک رات سفید بارہ دری قیصر باغ میں ایک عظیم الشان مشاعرہ منعقد ہوا جو پھر دیکھنے میں نہ آیا، وہیں دوسری رات ملک بھر کی مشہور و معروف گانے والیوں نے انھیں شعرا کی معرکۃ الآرا طبع زاد غزلیں گا کر سنائیں جو انھیں ایک ماہ قبل دے دی گئی تھیں اور وہ سب بڑی تیاریوں کے ساتھ آئی تھیں۔ غرض کہ یہ پروگرام ایسا ہوا کہ محفل تو ایک رات سجی اور ختم ہو گئی، لیکن اس کا چرچا برسوں چلا اور بعض مقامی شاعروں نے تو اپنی گانے والیوں کے کوٹھوں کو اپنا شام کا بیٹھکا ہی بنا لیا۔ سراجؔ لکھنوی نے یہ شعر اپنی گانے والی ہی کے لیے کہا تھا:
کبھی تو گا کے کبھی گنگنا کے لوٹ لیا
مرا کلام مجھی کو سنا کے لوٹ لیا
اور اب باری تھی ملّا صاحب کی، میں نے اور قدیر صاحب نے ملّا صاحب کے ہاں آمد و رفت بھی تیز تر کر دی کہ کوئی پروگرام ایسا ہی ترتیب دیا جا سکے جو ’’محفلِ شعر و نغمہ ‘‘ کا جواب ہو سکے۔ بہر حال ایک شام ملّا صاحب ہی نے کہا کہ بھئی تقریبات کے انعقاد میں موسم کا بھی لحاظ رکھنا ہوتا ہے اور آج کل کے موسم کا تقاضا ہے کہ ’’دریائی مشاعرے ‘‘ کا اہتمام کیا جائے۔ پہلے سب لوگ دریائی مشاعرے کا نام سن کر بہت حیرت میں پڑ گئے، پھر سب نے دیکھا کہ دریائی مشاعرہ اس شان سے منعقد ہوا کہ گرمیوں کا زمانہ تھا، چاند کی چودھویں تاریخ، گومتی کے پانی کی سطح پر ایک ایسا مہتم بالشان پنڈال تیار کیا گیا کہ پورا پنڈال ایک شاندار بجرہ نظر آتا تھا، چاروں طرف پانی چاند کی کرنوں کو اپنی لہروں میں سمیٹے پوری روانی کے ساتھ بہہ رہا تھا اور شعرا اسی روانی کے ساتھ مختلف پھولوں کی خوشبوؤں سے بسے ہوئے پنڈال میں باری باری اپنا کلام سنا رہے تھے، مصرع طرح بھی اسی مناسبت سے مولانا صفیؔ نے نکالا تھا:
’’دریا کی روانی ہے، بہتا ہوا پانی ہے ‘‘
مجھے یاد ہے، ملّا صاحب اور امین سلونوی یو۔ پی کانگریس کے سالانہ جلسوں میں بھی امین الدولہ پارک میں مشاعروں کا اہتمام کرتے، جن میں سے ایک مشاعرے کی طرح تھی:
’’وطن پرست، وطن پر نثار ہوتے ہیں ‘‘
اور ایک مشاعرے کی طرح:
’’ہمارا ہی ہے گلشن اور ہمیں بھارو ہیں گلشن میں ‘‘
اور یہ مشاعرے، ان مشاعروں کے علاوہ ہوتے، جو بہار ادب کے ماہانہ مشاعرے ہوا کرتے تھے، ملّا صاحب کے دور میں بہار ادب ملک کی مقتدر ترین انجمنوں میں شمار ہوتی۔ مالک رام نے بھی اپنی یادداشتوں میں انجمن بہار ادب کو یاد کیا ہے۔
ملّا صاحب بہت ہی متحرک اور فعال شخصیت ہیں، لکھنؤ سے دلی منتقل ہو جانے کے بعد بھی جب وہ لکھنؤ آتے تو پہلے سے مجھے مطلع کروا دیا کرتے۔ میں ان کی آمد پر ’’بزم شعرائے لکھنؤ‘‘ کی شعری نشست کا اہتمام کرتا، ملّا صاحب کی آمد کی خبر سن کر لوگ اور بھی زیادہ بڑی تعداد میں شرکت کرتے، اور اس طرح ایک بڑی بھری پری نشست ہو جایا کرتی۔ ایک بار میں نشست میں انھیں لانے کے لیے جب نرالا نگر پہنچا جہاں وہ مقیم تھے، تو دیکھا تنہا تاش کی بازی جمائے بیٹھے ہیں اور دونوں طرف سے چالیں چل رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ تنہائی میں بھی خالی بیٹھنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔
پیشہ کے اعتبار سے ملّا صاحب نے وکالت ہی سے اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا، لیکن وکالت شروع کرتے ہی جو پہلا مقدمہ انھوں نے لڑا، وہ بھی ایک ادبی مقدمہ تھا جس کا عنوان تھا ’’سراجؔ لکھنوی بنام افقر موہانی‘‘ اور جس میں سراجؔ لکھنوی نے یہ شکایت کی تھی کہ افقر موہانی میرے کلام کو سراجؔ جھنجھانوی کا بتاتے ہیں اور مولانا افقر ؔموہانی نے واقعی سراجؔ جھنجھانوی کا ایک کرم خوردہ دیوان نہ جانے کیوں کر تیار کر کے پیش کیا تھا، جس میں وہ بہت سی غزلیں موجود تھیں جو سراجؔ لکھنوی پڑھا کرتے تھے۔ یہ مقدمہ ادبی اعتبار سے بڑا ہی دلچسپ مقدمہ تھا اور اس وقت کے تمام اہم شعرا سراجؔ لکھنوی کی جانب سے خانۂ شہادت میں آئے تھے، جن سے بڑی ادبی اور فنی جرحیں کی جاتیں۔
میرے ساتھ ان کے روابط اور وضع داری کا یہ حال ہے کہ ۱۹۷۴ء میں منعقد ہونے والی ’’جشن عمر انصاری‘‘ کی تقریب میں جب وہ سپریم کورٹ کے کسی مقدمہ کی مصروفیت کی بنا پر شرکت نہ کر سکے، تو لکھنؤ آتے ہی صباح الدین عمر کو ساتھ لے کر میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور پھولوں کے ہاروں کے ساتھ زری کے بہت ہی بیش قیمت ہار سے مجھے نوازا اور میری عزت افزائی کی۔
وہ ہمیشہ مجھے ’’استاد عمر انصاری‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور گلے لگاتے ہیں۔ لیکن استادی شاگردی کی روایت سے انحراف کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں شاعری کے لیے استادی شاگردی کی قطعی ضرورت نہیں۔ چنانچہ ایک ملاقات میں جو دلی میں انھیں کے دولت کدے پر ہوئی، کہنے لگے آج کل کیا ہو رہا ہے، میں نے کہا ’’شاعری‘‘ کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام سیکھا ہی نہیں۔ کہنے لگے ’’بھئی، یہاں دلی میں تو میرے زیرِ اثر استادی شاگردی کا انسٹی ٹیوشن ہی ختم ہو گیا، تم بتاؤ کہ لکھنؤ میں اسے کب ختم کرو گے۔ ‘‘ میں نے عرض کیا:
’’ ملّا صاحب آپ اس پر جتنا چاہے فخر کریں، آپ کی مرضی ہے، لیکن غالبؔ نے تو اس خیال سے کہ کوئی انھیں بے استاد نہ کہے، ایک خیالی استاد ہر مزد عبد الصمد خود تخلیق کر لیا تھا اور اس پر غالب کو بڑا ناز تھا، اس حد تک کہ اسی کو بہانہ بنا کر وہ قتیل اور صاحبِ غیاث اللغات جیسے اساتذہ سے بھڑ گئے اور جو منھ میں آیا سو کہہ ڈالا، ورنہ استاد کا نام لیے بغیر غالبؔ میں یہ جرأت کہاں سے آتی۔
اور آپ اس انسٹی ٹیوشن کے ختم کرنے کی جو بات کرتے ہیں، تو وہ ہمارے آپ کے ختم کیے ہرگز ختم نہ ہو گا۔ دلّی ہی میں مجھے ذرا اس شاعر کا نام تو بتائیے، جو کبھی کسی کا شاگرد نہ رہا ہو، انھوں نے کہا ’’گلزار‘‘ میں نے کیوں ؟ کیا گلزار نے کبھی اپنے والد زارؔ صاحب سے اصلاح نہ لی ہو گی ’’بولے ‘‘ وہ تو انھوں نے باپ بیٹے کے رشتے سے مشورہ سخن کر لیا ہو گا‘‘ میں نے کہا ’’ملّا صاحب! باپ بیٹا ہو یا بیٹا باپ، مشورہ سخن تو شاگردی کی علامت ہے۔ ‘‘
ایک اور موقع پر جب انھوں نے ایک غزل سنائی، جس کا قافیہ دام، نام وغیرہ تھا اور ردیف ’’دو‘‘ تو اس وقت تو میں نے غزل سن لی، لیکن اس کا ایک مصرع میرے ذہن میں رہ گیا، کیوں کہ اس پر میرا دماغ آ ٹکا تھا۔ لہٰذا میں نے ان کے جاتے ہی، ان کے دلّی کے پتہ پر ایک خط لکھ مارا۔ اور لکھا کہ:
’’ملّا صاحب! آپ نے جو غزل سنائی اور جس شعر کا پہلا مصرع کچھ یوں تھا، کہ آپ نے اللہ میاں سے کہا ہے کہ زمانہ بہت خراب آ گیا ہے، لہٰذا اس کی تعمیر نو کے لیے :
پھر کوئی غالبؔ، کوئی حافظؔ، کوئی خیام دو
میرا خیال ہے کہ خواہ مخواہ آپ نے فارسی ہی کے تین تین شاعروں کو جمع کر دیا ہے۔ اور اگر آپ کہیں کہ غالبؔ کو اردو شاعر کی حیثیت سے لیا ہے، تو بھی میں عرض کروں گا کہ اردو کے بعد فارسی کے دو دو شاعروں کوٹھونسے رکھنا اور ہندی کے تلسیؔ داس کو چھوڑ دینا، کوئی مناسب بات نہیں، میرے نزدیک تو یہ مصرع یوں ہونا چاہیے تھا:
پھر کوئی غالبؔ، کوئی تلسیؔ، کوئی خیام دو
اور اسی سے آپ یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ شاگردی استادی کا انسٹی ٹیوشن کوئی کارآمد انسٹی ٹیوشن ہے یا نہیں ‘‘۔
مجھے نہیں معلوم کہ ملّا صاحب فنِ شاعری کو فن بھی مانتے ہیں یا نہیں، کیوں کہ اگر واقعی وہ اسے فن مانتے ہیں، تو یہ ماننا بھی لازمی ہو جاتا ہے کہ فن تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔
ملّا صاحب کے دس شعروں کا بھی جس کسی نے انتخاب کیا ہے، تو اس میں ملّا صاحب کا یہ شعر ضرور شامل کیا ہے :
خونِ شہید سے بھی ہے قیمت میں کچھ سوا
فن کار کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند
اور ملّا صاحب کو بھی یہ شعر اتنا عزیز ہے کہ اسی پر انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘ رکھا اور اس کی رسمِ اجرا وزیرِ اعظم ہند مسز اندرا گاندھی کے ہاتھوں کرائی۔ میرا خیال ہے کہ ایسے تمام لوگوں نے جن میں ان کے مقدمہ نگار بھی شامل ہیں، ملّا صاحب کا حقِ دوستی نہیں ادا کیا، بلکہ انھیں گمراہ کیا ہے۔ میرے نزدیک اگر ملّا صاحب کا کوئی استاد ہوتا اور وہ یہ شعر اس کے سامنے لے جاتے تو پہلے تو وہ یہی پوچھتا کہ ’’جناب کو یہ شعر کہنے کی کیا ایسی ضرورت پیش آ گئی جب کہ جوشؔ کا یہ شعر موجود ہے ‘‘:
بخدا عظیم تر ہے شہدا کے بھی لہو سے
میرے سینۂ قلم میں جو بھری ہے روشنائی
اور پھر بھی اگر ملّا صاحب شعر رکھنے ہی پر اصرار کرتے، تو وہ بتاتا کہ ’’بھئی‘‘ آپ کا شعر اس لیے سقیم ہے کہ آپ نے جہاں پر لفظِ شہید واحد استعمال کیا وہ جمع کا مقام ہے ’’شہداء، یا شہیدوں ‘‘ ہونا چاہیے، جیسا جوشؔ ملیح آبادی کے وہاں ہے۔ اور اپنا لال روشنائی والا قلم اٹھا کر ملّا صاحب کا مصرع کاٹ کے یہ مصرع لکھ دیتا: ع
قیمت میں ہے شہیدوں کے خوں سے بھی کچھ سوا
اور ملّا صاحب کا شعر درست ہو جاتا۔
مجھے افسوس ہے کہ ملّا صاحب نے اپنے ایسے عزیز ترین شعر کو ایسی سقیم حالت میں کیوں رہنے دیا، جب کہ وہ اگر ذرا غور کرتے تو خود بھی درست کر سکتے تھے۔ اور بہت سوچنے اور غور کرنے کے بعد بھی جو وجہ میری سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ملّا صاحب کی شاعری کا یہ ایک المیہ ہے کہ اول تو انھوں نے کسی کے آگے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا۔ دوسرے یہ کہ بجز تحسین و آفریں کی آوازوں کے کوئی دوسری آواز کبھی ان کے کانوں میں گونجی ہی نہیں۔ اور ۱۹۴۷ء کی تقسیم ملک کے بعد جب اردو پر وقت پڑا تو ہُش ہُش اور چپ چپ میں شدت پیدا ہو گئی، جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ملّاؔ کا کلام تنقید کی سان پر چڑھنے سے رہ گیا، جب کہ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ: ؎
رہ نما نقد ہے، تحسین ہے رہزن مرے دوست
دوست دشمن ہیں مرے، اور ہیں دشمن مرے دوست
یا پھر ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ترقی پسندوں کے گھیرے میں پہنچنے کے بعد ملّا صاحب نے خود ہی زبان کی لگام کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہو، کیوں کہ ترقی پسند موضوع کا نعرہ بلند کر کے زبان کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ کسی کے شعر میں اگر ذرا بھی زبان کا چٹخارہ پاتے، تو اس کی ہنسی اڑاتے اور موضوع وہ اسی کو مانتے تھے جس میں ان کے مطلب کی بات کہی گئی ہو۔ لیکن وہ تو ایسا اس لیے کرتے تھے کہ زبان و بیان کے معاملے میں کچے تھے۔ ملّا صاحب اہلِ زبان ہیں اور انھیں میں ان کے جیسا کچا نہیں سمجھتا۔
جب ان کی کتاب ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ شائع ہوئی اور اس پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا تو اس وقت تک وہ دلی منتقل نہیں ہوئے تھے، میں، ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی اور امین سلونوی سب مل کر ملّا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اس وقت ہمیں لوگ یہاں کی انجمن ترقی اردو چلا رہے تھے اور وہ اس کے صدر تھے۔ اور عرض کیا کہ ہم لوگ آپ کے لیے ایک استقبالیہ جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس روز ملّا صاحب کا نہ جانے کیا موڈ تھا کہ خلافِ معمول انہوں نے ہم لوگوں سے کچھ بہت اونچے سے بات کی، جو ہم تینوں کو کھل گئی، کیوں کہ ہمیں تو وہ لوگ تھے جو ہمیشہ انھیں اونچے سے اونچا اڑاتے رہے، مثل مشہور ہے ’’پیراں نمی پرند، مریداں می پرانند‘‘ انھیں اٹھانے میں ہمارے شانے دکھ دکھ گئے تھے، آوازیں پڑ پڑ گئی تھیں اور ہمیں سے وہ ایسی باتیں کریں کہ اے ون استقبالیہ ہو گا تو منظور کروں گا اور اس میں یہ بھی ہونا چاہیے اور وہ بھی وغیرہ وغیرہ۔ میں نے بات کو یہیں پر چھوڑ کر ملّا صاحب سے پوچھا ’’اچھا ملّا صاحب یہ تو بتائیے کہ ’’ع‘‘ کے سقوط کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ‘‘۔ انھوں نے بے موقع میرے سوال پر کچھ سکوت کے بعد کہا ’’پہلے تم یہ بتاؤ کہ مجھ سے یہ کیوں پوچھ رہے ہو‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میں نے آپ کا ’’ع‘‘ گرا ہوا پایا ہے ‘‘۔ کہنے لگے ’’کہاں سے ‘‘ میں نے کہا ’’آپ کی اسی میری حدیث عمر گریزاں سے ‘‘۔ میرا جواب سنتے ہی ملا صاحب فوراً اٹھ کر اندر گئے اور کتاب لا کر مجھے دیتے ہوئے بولے ’’دکھاؤ‘‘ میں نے کہا ’’دیکھ لیجئے کتاب کے آخر میں جو غزل چھپتے چھپتے کے عنوان سے چھپی ہے اسی میں ہے ‘‘ اور میں نے وہ صفحہ نکال کر کتاب ملا صاحب کو دے دی۔ ملا صاحب نے غور سے پڑھا، کتاب بند کر دی اور دوسری کتابیں شروع کر دیں۔ بہر حال ہمارا استقبالیہ انھوں نے منظور کر لیا، لیکن استقبالیہ تقریب میں جو چودھری شرف الدین صاحب کی کوٹھی پر منعقد ہوئی۔ پڑھنے کے لیے جو تازہ غزل کہہ کے لائے اس میں شعوری طور پر دو جگہ ’’ع‘‘ گرا کے لائے اور اس اعلان کے ساتھ پڑھا کہ ’’ع‘‘ چوں کہ الف کی آواز دیتا ہے، اس لیے میں اس کے سقوط کو جائز سمجھتا ہوں۔ ‘‘
میں یہاں یہ لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ملّا صاحب اپنے سہو کا اعتراف کر لیتے جو کبھی اور کسی سے بھی ہو سکتا ہے، تو میری نظر میں ان کا قد اور بلند ہو جاتا، لیکن جس طرح انھوں نے اپنی غلطی کا دفاع کیا، اس سے میں نے یہی سمجھا کہ ملّا صاحب جیسی شخصیت جب اپنی ذرا سی کمزوری کو چھپانے کے لیے فن کی سطح سے اتنا نیچے اتر سکتی ہے تو پھر کارِ طفلاں تمام خواہد شد کے علاوہ کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ کل کو اردو ہندی الفاظ کے ساتھ لطف و اضافت کو جائز قرار دینے ولا بھی ملا صاحب کی صف میں آ کھڑا ہو گا۔
میں ملّا صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ وہ مجھے اندھیرے سے روشنی میں لے آئے اور یہ اعلان کر کے انھوں نے کبھی کسی سے مشورہ سخن نہیں کیا، میری ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کر دیا، ورنہ آج آنکھ بند کر کے میں انھیں مولانا صفی لکھنوی کا شاگرد لکھ دیتا، کیوں کہ ایک موقع پر یہی تاثر میرے دماغ نے قبول کر لیا تھا۔ اور وہ موقع وہ تھا جب بہار ادب کا ماہانہ مشاعرہ خود ملّا صاحب کے گھر ریڈ گیٹ پر منعقد ہوا تھا۔ طرح تھی: ’’سر اور کہیں، ہاتھ کہیں، پانو کہیں ہے، بہار ادب کے مشاعروں میں قدیر ؔ صاحب کو اور مجھے پہلے سے پہنچنا ہوتا تھا۔ چنانچہ قدیرؔ صاحب میرے یہاں آ گئے اور ہم دونوں ملّا صاحب کے گھر کی طرف چل پڑے، راستے میں قدیرؔ صاحب نے فرمایا ’’ہر گھر میں ایک الو ہوتا ہے، جو صاحبِ خانہ کہلاتا ہے، ہماری انجمن میں دو الو ہیں، ایک تم اور ایک میں، جو سکریٹری کہلاتے ہیں، کیوں کہ ہر بات کی ذمہ داری ہمیں دونوں کی اور پھر ہمیں دونوں کچھ نہیں، ‘‘ میں نے ان کی تالیف قلب کے لیے کہا ’’قدیرؔ صاحب ایسا ہے کہ ہم لوگ تو تاج محل کے مزدور ہیں، کہ تاج محل تو ہمیشہ شاہجہاں کا ہی کہلائے گا چاہے ہم لوگ اسے بنانے میں کتنی ہی اپنی جان کیوں نہ کھپا دیں۔ ‘‘ اور ہم لوگ یوں ہی باتیں کرتے ملّا صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ گھر میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا ملا صاحب نہیں ہیں، ہال کمرے میں ملازمین انتظام میں لگے ہوئے تھے، ہم لوگ بھی لگ گئے۔ کوئی گھنٹہ پون گھنٹہ کے بعد ملّا صاحب کے دفتر کا وہ دروازہ کھلا، جو ہال کمرے ہی میں کھلتا تھا اور آگے پیچھے صفیؔ صاحب اور ملّا صاحب برآمد ہوئے اور ہم لوگوں نے معاً یہی تاثر لیا کہ ملّا صاحب اپنی آج کی غزل مولانا صفی کو دکھا رہے ہوں گے۔ صفیؔ صاحب کو بعض دوسرے موقعوں پر سرِ مشاعرہ ٹو کم ٹاکی کرتے بھی دیکھا گیا۔ لیکن صفیؔ صاحب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تو یہ عادت ہی تھی۔ ایک مشاعرے میں جو راجہ صاحب محمود آباد کی زیر صدارت انھیں کے محل میں اقبال منزل میں ہو رہا تھا اور جس کی طرح ’’ مجھ کو پہچانا نہیں شاید مرا قاتل ابھی‘‘۔ جب سراجؔ صاحب کی باری آئی اور انھوں نے یہ شعر پڑھا:
یہ جو حرکت میں نظر آتے ہیں پانی کے پہاڑ
کسی نے فرمائش کی ’’ مکر ر ارشاد ہو‘‘ اور جیسے ہی سراجؔ صاحب نے پہلا مصرع دہرایا:
یہ جو حرکت میں نظر آتے ہیں پانی کے پہاڑ
کسی نے بلند آواز مصرع کو اُٹھایا:
یہ جو جنبش میں نظر آتے ہیں پانی کے پہاڑ
سراجؔ صاحب نے گھبرا کر مڑکے دیکھا، تو صفیؔ صاحب سے نگاہیں چار ہوئیں اور انھوں نے فرمایا: ’’ہاں میاں۔ حرکت تو فعلِ ناشائستہ کو کہتے ہیں۔ ‘‘
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ اس زمانے کا کچھ دستور ہی ایسا تھا کہ جسے بھی جو کہنا ہوتا با لا علان کہتا۔ بہارِ ادب ہی کے ایک سالانہ مشاعرے میں جو رفاہِ عام کلب میں منعقد ہوا تھا، جب جگر ؔ مرادآبادی غزل پڑھنے ڈائس پر تشریف لائے تو بیٹھتے ہی انھوں نے کہا ’’مطلع میں ایطا ہے اور میں ایطا کو نہیں مانتا۔ ‘‘ آرزوؔ صاحب نے جو میرے پاس ہی تشریف فرما تھے اور کچھ اونچا سننے لگے تھے، ایک ہاتھ اپنے ایک کان پر رکھ کے اور دوسرا کان میرے منھ کے پاس بڑھا کے پوچھا ’’بھیا، جگر صاحب کیا فرما رہے ہیں ‘‘ میں نے کہا ’’فرما رہے ہیں، مطلع میں ایطا ہے اور میں ایطا کو نہیں مانتا‘‘ اس پر آرزوؔ صاحب دونوں ہاتھ اور آنکھیں چمکا کر بلند آواز سے جو جگرؔ صاحب کے کانوں تک بھی گئی، بولے ’’ نہیں مانتے تو پھر جو جی چاہے پڑھیں۔ ‘‘
اثر صاحب کا جب مجموعۂ کلام ’’بہاراں ‘‘ شائع ہوا تو وہ خاصا ضخیم تھا۔ اثرؔ صاحب نے جہاں اور رسالے والوں کو بھیجا وہیں ’’نگار ‘‘ میں ریویو کے لیے نیاز ؔ فتحپوری صاحب کو بھی بھیجا۔ کئی مہنے تک ریویو نہیں چھپا۔ آخر ایک تقریب میں دونوں کی ملاقات ہو گئی۔ نیازؔ صاحب نے فرمایا ’’اثرؔ صاحب! وہ آپ کا بہاراں مجھے مل گیا تھا، ابھی ریو یو شائع نہیں ہوا، لیکن شائع ہو گا۔ آپ نے دو تین شعر واقعی بہت اچھے کہے ہیں۔ ‘‘ اثرؔ صاحب نے جل کے جواب دیا ’’ جی ہاں، وہ غلطی سے شائع ہو گئے ہیں، آئندہ اڈیشن میں نکال دیے جائیں گے۔ ‘‘
مولانا وصلؔ بلگرامی، لکھنؤ سے ماہنامہ ’’مرقع‘‘ نکالتے تھے، قیصر باغ میں رہتے تھے اور جاپلنگ مارٹ کے ایک کوٹھے پر ان کا دفتر تھا، جو شہر بھر کے شاعروں، ادیبوں کی آما جگاہ تھا۔ ایک روز وصلؔ صاحب ایک اور صاحب کے ساتھ دفتر میں بیٹھے تھے کہ مولانا بیخودؔ موہانی آ گئے جو مولانا نیازؔ فتحپوری کو ابھی صورت سے نہیں پہچانتے تھے۔ وصلؔ صاحب نے کہا ’’مولانا! آپ بڑے موقع سے آ گئے، میں مولانا نیازؔ فتحپوری صاحب کے بارے میں آپ سے پوچھنا چاہتا تھاکہ آپ کی کیا رائے ہے ‘‘ بیخودؔ صاحب نے بے ساختہ جواب دیا ’’ مہا گدھا‘‘ اس پر وصلؔ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ٹھیک کہا آپ نے مولانا اور لیجیے اب ان سے مل بھی لیجیے، یہی ہیں مولانا نیازؔ فتحپوری ’’بیخودؔ صاحب بغیر کسی جھجھک کے با نہیں پھیلائے نیاز ؔ صاحب کی طرف بڑھے اور کہا ’’نیاز ؔ صاحب! وہ میری رائے تھی اور یہ میرا اخلاق ہے، آئیے ہم آپ دونوں بغل گیر ہوں ‘‘ نیازؔ صاحب نے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا ’’مولانا! اگر آپ مجھے خالی گدھا کہتے تو برا ماننے کی بات ہوتی، مہا لگا کے آپ نے مجھے بڑا تو بنا ہی دیا۔ ‘‘
سردارجعفری نے کہیں لکھا ہے کہ اس زمانے میں لوگ فیشن کے طور پر اپنے آپ کو ترقی پسند کہنے لگے تھے۔ اور اس میں کسی حد تک سچائی بھی ہے ترقی پسند بننا کوئی مشکل بات تو تھی نہیں، میرے دو بیٹے شوکت عمر اوراقبال یہاں کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے باری باری سکریٹری رہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ملا صاحب ایک بھرا پرا کنبہ چھوڑ کر جس میں صفیؔ، عزیزؔ، یگانہؔ، ثاقبؔ، ناطقؔ، آرزوؔ، اثرؔ، منظرؔ، سراجؔ، سالکؔ اور عمر انصاری تک کے نام شامل تھے، جو ترقی پسندوں کی آغوش میں جا بیٹھے، تو اس سے انھیں فیض کیا حاصل ہوا۔ کیوں کہ میں تو آج بھی ترقی پسندوں کی جو فہرست بھی اٹھا کر دیکھتا ہوں، اس میں ملّا صاحب کا نام تو کہیں ڈھونڈے بھی نہیں ملتا، برعکس اس کے، ہم نے جب بھی کوئی فہرست تیار کی ہے، سرِ فہرست انھیں کا نام لکھا ہے۔ حد یہ ہے کہ خود کو محرومین کی فہرست میں شامل کر کے بھی، اور اس ’’پہلے ہم‘‘ والے زمانے پر نظر رکھتے ہوئے بھی ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ’’حضرت پہلے آپ‘‘۔
یگانہ ہر چند کہ اس وقت حیدرآباد میں تھے، لیکن انھوں نے لکھنؤ کو خیر باد نہیں کہہ دیا جس کا گواہ ان کا یہ شعر ہے : ؎
کششِ لکھنؤ ارے توبہ
پھر وہی ہم، وہی امین آباد
کوئی کہہ سکتا ہے کہ حسرتؔ تو خود ترقی پسند تحریک میں شامل تھے، لیکن حسرتؔ ہوں، جوشؔ ہوں یا خود ملّا صاحب، ان کا تحریک میں شامل ہونا اور بات ہے اور تحریک کا کسی کو شاعر بنا کر پیش کرنا اور بات۔ کسی کے بنے بنائے مکان پر آپ قبضہ کر لیں اور کہیں کہ ہم نے بنایا ہے، تو کون یقین کرے گا۔ ترقی پسند تحریک کی پیداوار وہی شعرا ہیں، جو ۱۹۳۶ء کے بعد تحریک کے پلیٹ فارم سے روشناس ہوئے۔
ترقی پسند تحریک یقیناً ایک بڑی تحریک تھی، لیکن تعداد کے اعتبار سے بڑی تھی، وزن کے اعتبار سے نہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ اتنی چیخ و پکار کے بعد بھی، وہ نہ ہی کوئی صفیؔ، عزیزؔ یگانہؔ، ثاقبؔ، ناطقؔ اور آرزوؔ ہی پیدا کر سکی۔ نہ کوئی حسرتؔ، اصغرؔ، فانیؔ، جگرؔ، جوشؔ اور فراقؔ۔ لے دے کے اس کے پاس ایک فیض احمد فیضؔ ہیں تو وہ بھی محض پبلسٹی کے شاعر ہیں، ورنہ ویسے ہی ہیں جسیے ہمارے سراجؔ لکھنوی۔ اور فیضؔ کی شاعری کا امتیاز بھی بس اسی میں ہے کہ انھوں نے لکھنو کا آہنگ اور انداز اختیار کیا۔ مثال کے لیے یہ دو شعر ملاحظہ کیجئے اور خود فیصلہ کر لیجیے : ؎
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
(میرا نیسؔ)
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے، تو سوئے دار چلے
(فیض احمد فیضؔ)
اور اگر اس سلسلے میں کچھ مزید تا حال ثبوت درکار ہو، راقم الحروف، خاکسار، ہیچمداں بھی اپنے اشعار پیش کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔
فیض ؔ صاحب فرماتے ہیں : ؎
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
خاکسار عرض کرتا ہے : ؎
جھونکے کچھ آ گئے جو کبھی یادِ یار کے
ہمراہ ہولیا میں نسیمِ بہار کے
فیض ؔ صاحب کا شعر ہے : ؎
احساسِ جنوں جبر نہیں فیضؔ کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے، تو بھلا کیوں نہیں دیتے
اس ہیچمداں کا شعر ہے : ؎
جن آنکھوں نے دیکھا ہے انھیں آنکھوں سے پوچھو
ہم اس بت کافر کو بھلا کیوں نہیں دیتے
سفرِ زندگی کے اتنے لمبے ساتھ اور رفاقت کا بہر حال یہ صلہ ہے کہ مجھے ملّا صاحب کی خدمت میں خوش طبعی اور ان کے ساتھ چھیڑ خانی کی بھی چھوٹ ملی ہوئی ہے جو میں نے خود لے رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مضمون لکھتے وقت اس کا قطعی لحاظ نہیں رکھا ہے کہ اخلاقی باتوں سے گریز کر جاؤں یا انھیں ہمیشہ کی طرح چھپائے رکھوں۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں وہ میرے خلوص پر یقین رکھتے ہیں اور میری شوخی زبانی کا کبھی برا نہیں مانتے اور جب شوخ زبانی کا برا نہیں مانتے، تو شوخ نگاری کا بھی کیا برا مانیں گے۔ مزید برآں مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ملا صاحب جمہوری مزاج رکھتے ہیں، وہ صرف ہاں میں ہاں ملانے والوں کو پسند نہیں کرتے اور اختلاف رکھنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ تو میرے سامنے کی بات ہے کہ وہ تو شوکت تھانوی کی اوٹ پٹانگ بھی سہہ لیتے تھے، بلکہ اس پر خوش بھی ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ شوکت تھانوی نے لکھا کہ ’’ملا صاحب جب مشاعرے میں غزل پڑھتے ہیں تو لگتا ہے ہم امین آباد میں کھڑے ہیں اور تار پر کوا گھمانے والا، کوا تار پر گھما گھما کر بیچ رہا ہے۔ کیوں کہ ملّا صاحب کی آواز ویسی ہی نکلتی ہے جیسے تار پر گھومنے والے کوّے کی۔ اس پر ملا صاحب نے اتنا لطف لیا کہ شوکتؔ کو بلا کر ان کی فن شناسی کی داد دی اور کہا ’’ میں تو سمجھتا تھا کہ میری موسیقی کو کوئی سمجھتا ہی نہ ہو گا، لیکن تمہارے تبصرے سے معلوم ہوا کہ ابھی کچھ جان کار موجود ہیں۔ ‘‘
اپنی غزل سرائی کے سلسلہ میں ملّا صاحب نے خود بھی ایک قطعہ لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے کسی دوست نے یہ کہہ کے انھی مشورہ دیا کہ آپ ترنم سے غزل نہ پڑھا کریں، کیوں کہ:
گلے میں ہے آپ کے جو سرگم، کوئی نہیں ان سروں سے واقف
سمجھنے والا ہی جب نہیں ہے، تو فن دکھانے کی کیا ضرورت
ملّا صاحب قائدِ اردو کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں کہ انھوں نے بڑی ذہانت سے اردو کا کیس تیار کیا اور بڑی مضبوطی کے ساتھ لڑا، اور یہاں تک کہہ دیا کہ:
’’میں اپنا مذہب تبدیل کر سکتا ہوں، زبان نہیں۔ ‘‘
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بنچ کے جج کی حیثیت سے بھی کئی معرکۃ الآرا دو ٹوک فیصلے صادر کیے اور خاص کر پولیس کے بارے میں تو ان کا ریمارک ہر چند کہ کاروائی کی دستاویز سے نکال دیا گیا، لیکن لوگوں کے دماغوں میں محفوظ ہے اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔
ملّا صاحب کی شرافت نفس، عادات و اطوار سب نہایت نفیس اور مثالی ہیں اور ورثے میں ایک ایسے شفیق باپ پنڈت جگت نرائن ملا سے ملے ہیں، جو بذاتِ خود لکھنوی تہذیب اور قومی یک جہتی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے کہ انھوں نے آخری سانس بھی لی، تو فرم ’’احمد حسین دلدار حسین‘‘ کے پروپرائٹر احمد حسین صاحب کی کوٹھی پر، انھیں کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے، احمد حسین صاحب نے کوئی چال چلی اور قدرے انتظار کے بعد جب کہا ’’پنڈت جی چال چلیے، کیا سوچ رہے ہیں ‘‘ تو معلوم ہوا کہ پنڈت جی تو واقعی چال چل گئے۔
غرض کہ ملّا صاحب میرے لیے ایک ایسی کھلی کتاب کی سی حیثیت رکھتے ہیں، جسے میں گذشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے پڑھتا ہی رہا ہوں۔ انھیں میں نے لکھنو کی عدالتوں میں وکالت کرتے بھی دیکھا ہے، جج کی کرسی پر بیٹھے بھی دیکھا ہے، ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے بھی دیکھا ہے، قائد اردو، شاعر، ادیب اور دانش ورکی حیثیت سے بھی دیکھا ہے اور اسی بنا پر میں یہ کہنے کا منھ رکھتا ہوں کہ: ؎
مجھ سے پوچھے کوئی اس کا عالم
میں نے دیکھا ہے اس کا زمانہ
ملّا صاحب کی کئی نظمیں، کتنی ہی غزلیں اور بے شمار اشعار مجھے زبانی یاد ہیں لیکن یہاں چند ہی اشعار پر اکتفا کرنا مقصود ہے : ؎
سب خضر مگر رستہ دو گام نہیں ملتا
ہر موڑ کا اک ساقی اور جام نہیں ملتا
اکیلا غم کی سیہ شب میں خستہ پا انساں
ازل سے جنتِ گم گشتہ کی تلاش میں ہے
آرزو پوری نہ ہوتی تو نہ ہوتی غم نہ تھا
غم تو یہ ہے، آرزو کا حوصلہ جاتا رہا
تجھ سے اوبتا کبھی اے زیست
تجھ کو جی بھر کے پیار ہی نہ کیا
جنت اجڑی تو کیا ہم سے، فرشتوں کو بلا
ہم نکالے بھی گئے اور بسائیں بھی ہمیں
قفس کے، دارورسن کے ہر اک زباں پہ سخن
ترس گئے کہ کبھی آشیاں کی بات چلے
روشنی کا لے کر نام لڑ رہے ہیں آپس میں
اس طرف بھی کچھ سائے، اس طرف بھی کچھ سائے
امن کی اس جنگ جو دنیا میں سنتا کون ہے
ہر پیام صلح، صحرا کی اذاں بنتا گیا
ملّا یہ اپنا مسلک فن ہے کہ رنگ فکر
کچھ دیں فضائے دہر کو، کچھ لیں فضا سے ہم
انقلاب، اتحاد، آزادی
کل یہ نعرے تھے، آج نالے ہیں
مل پائے ہیں اب تک، نہ یہ فرزانے ملیں گے
اک روز انھیں روند کے دیوانے ملیں گے
میں کیا سمجھ سکوں ترے آئینِ عدل کو
کانٹوں کا بھی تو ہی تو خدا ہے خدائے گل
دل اعترافِ جرم سے پھر جگمگا اٹھا
سب داغ دھل کے اشکِ پشیماں میں آ گئے
وادیِ شعر میں یہ جادۂ ملّا ہی نہ ہو
اک الگ ہٹ کے نشانِ کف پا ہے تو سہی
آخر میں اتنا اور عرض کرنا چاہوں گا کہ ’’مقصدی شاعری‘‘ جس کا ترقی پسندوں نے اپنے زمانے میں بڑا شور اٹھا رکھا تھا، یقیناً اچھی اور مفید شاعری ہے، میں بھی اس کا قائل ہوں، لیکن بڑی شاعری کا درجہ اسے نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ اس کی عمر کم ہوتی ہے، مقصد پورا ہوتے ہی اس کا اثر زائل ہو جاتا ہے اور وہ محض تاریخ کا ایک حصہ ہی بن کر رہ جاتی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ مقاصد ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں ٹکراؤ بھی رکھتے ہیں اور زمان و مکان کے اعتبار سے مختلف بھی ہوتے ہیں اور بدلتے بھی رہتے ہیں۔ خود ہندوستان ہی میں دیکھ لیجئے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی صبح کا یہ حال تھا کہ ہم یہ کہہ رہے تھے : ؎
قدم قدم پہ اندھیروں نے بیڑیاں ڈالیں
طلوع ہوکے رہا آفتابِ آزادی
اور ترقی پسند یہ فرما رہے تھے :
چلے چلو، کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
٭٭٭
کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ : مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی کا ایک حصہ
تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید