فہرست مضامین
مٹی آدم کھاتی ہے
(ناول)
محمد حمید شاہد
آدمی کے نام
جو زمین کی محبت میں دیوانہ ہو گیا ہے
۔۔۔تو کہانی یوں چلتی ہے
دیباچہ
’’دکھ‘‘ انسانی صورت حال کا مستقل عنصر ہے۔ یہ ہمہ جہت اور ہمہ وقوع ہے۔اولیا ء اللہ کرام کو ہر باب میں نفس مطمئنہ حاصل ہوتا ہے لیکن ’’دکھ‘‘ سے خالی وہ بھی نہ تھے۔ حضرت نظام الحق والدین نظام الاولیا اکثر راتوں کو نہ سوتے اور اشکبار رہتے۔ایک بار امیر خسرو نے ہمت کر کے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ جب اس شہر میں ہزاروں بندگان خدا پر رات اس طرح گذرتی ہے کہ ان کے پیٹ میں روٹی نہیں اور تن پر چادر نہیں تو میں کیونکہ سو سکتا ہوں۔ مشہور ہے کہ حضرت بابا نظام الدین صاحب رات کو استراحت کرنے کے پہلے گھر کا سب غلہ، شکر، کھانا، حتیٰ کہ پانی اور نمک بھی تقسیم فرما دیتے اور صرف اتنا پانی بچا رکھنے کا حکم دیتے جو تہجد اور فجر کے وضو کے لئے کافی ہو۔ میر کا شعر اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے (دیوان سوم)
جب سے ملا اس آئینہ رو سے خوش کی ان نے نمد پوشی
پانی بھی دے ہے پھینک شبوں کو میر فقیر قلندر ہے
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جینا اور دکھ سہنا ایک ہی شے ہیں، یا یوں بھی کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ جو دکھ سہتا ہے وہی جیتا ہے۔ اقبال نے اسی بات کو ایک اور رنگ میں ڈال کر انسان سے، یا شاید خدا سے، یا شاید دونوں ہی سے پوچھا تھا
یہ شب درد و سوز غم کہتے ہیں زندگی جسے
اس کی سحر ہے تو کہ میں اس کی اذاں ہے تو کہ میں
بظاہر اقبال کو کسی جواب کی توقع نہ تھی، اگرچہ ان کے کلام میں بعض ایسے بھی مقام آتے ہیں جہاں سوال سے زیادہ جواب کا وفور معلوم ہوتا ہے۔لیکن اس کے باوجودانسان ان کے یہاں بھی سر راہ بیٹھا ستم کش انتظار نظر آتا ہے۔اجنبی اور غیر جنس کائنات میں انسانی وجود کا مقدر یہی ہے کہ وہ طرح طرح کے دکھ سہے۔ محمد حمید شاہد کے اس چھوٹے سے لیکن بقیمت بہت بہتر ناول میں دو راوی ہیں اور ان میں سے ایک اپنے باپ کے بارے میں بتاتا ہے:
وہ اس بات پر یقین رکھتا رہا کہ ایک روز وہ معمول کی طرح یوں ہی اپنے بدن کو خوب تھکا کر سوئے گا اور موت سے ہم کنار ہو جائے گا۔ اور ہوا بھی یہی…اس روز وہ پوری طرح خالی الذہن تھا۔ اس نے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالا کہ اس کا انگ انگ دکھنے لگا حتیٰ کہ اس کا وہیں ایک کونے میں بچھی پرالی تک پہنچنا بھی ممکن نہ رہا۔ اس نے دوچار قدم جیسے عادتاً اٹھائے اور گھوڑوں کے عقب میں پہنچ کر ننگی زمین پر ہی ٹانگیں پسار کر ڈھیر ہو گیا۔ اگلے روزاس کا مردہ وہیں سے یوں اٹھایا گیا کہ اس کا بدن دوہرا ہو گیا تھا۔
جب زندگی خالی الذہن ہو کر گذرے تو ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی محسوس نہ ہو گا۔ لیکن راوی کا باپ خالی الذہن ہونے کے باوجود احساس کی دولت (لعنت؟) سے عاری نہ تھا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ’’چکرا گر گرتے وقت وہ زندہ تھا، اسے سوتے میں شدید سردی نے مار دیا تھا۔‘‘ یہ سردی شاید صرف موسم کی سردی نہ تھی، بلکہ بنی نوع انسان کے دلوں کی سردی تھی۔ ناول کا دوسرا واحد متکلم راوی اپنی محبوبہ کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے:
یقین جانو یہ تو میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اپنی زمین چھوڑنے کو تیار ہو جائے گی۔
ابھی تک ہم دونوں پانی میں کھڑے تھے۔انھوں نے اسٹیمر چلا دیا۔ میں بوکھلا کر اسٹیمر کی طرف لپکا۔اسی اثنا میں ادھر سے سنسناتی ہوئی گولی آئی اور میری ران چیرتی ہوئی نکل گئی۔منیبہ سب کچھ بھول کر یوں میری جانب بڑھی جیسے پھر سے زندہ ہو گئی ہو۔ اس نے مجھے تھام لیا اور ایک لمحے کا توقف کئے بغیر مجھے اسٹیمر کی طرف ڈھکیلا اور اس پر چڑھنے میں مجھے مدد دی۔اب اسٹیمر کا رخ گہرے پانیوں کی طرف تھا مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔میں نے صاف صاف دیکھا تھا کہ فوراً بعد اس کا جسم وہیں پانی کے اوپر تک اچھلا تھا۔ مین نے گولیوں کی آواز نہیں سنی تھی۔ محض اس کا اچھلتا ہوا وجود دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ کہ جہاں سے پانی کے چھینٹے اوپر کو اٹھے تھے وہاں کوئی اور حرکت نہیں ہوئی تھی۔
ایک شخص اپنے باپ سے محروم ہو جاتا ہے۔ دشمن کے ہاتھوں نہیں، یہ اس کے اپنے ہی ہیں جو اس کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ ایک عورت کو اس کے اپنے گولی مار دیتے ہیں، کیونکہ وہ انھیں چھوڑ کر جانا چاہتی ہے۔ ایک شخص جسے بچ رہنے کا کوئی حق نہیں (کیونکہ اس کی محبوبہ نے اس کی خاطر اپنا گھر، اپنا پہلا شوہر، اور اپنی زمین ہی نہیں چھوڑی، بلکہ ایک اصول حیات کو چھوڑا ہے)، وہ لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہوتے ہوتے بچ نکلتا ہے۔ دکھ کی چادر بیمار اور صحت مند، قوی اور ضعیف، سب کو ڈھک لیتی ہے۔
لیکن جو بچ نکلا وہ بچا نہیں۔ اس کی منیبہ کو مکتی باہنی کے کسی بہادر نے گولی ماردی تو کسی خرم بھائی کی زرجان کا دامن اس سے باندھ دیا گیا اور زر جان کی ماں بیگم جان کو اس کا میاں مار مار کر ادھ موا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو ہی اس لونڈیا کو شہر میں پڑھنے کے لئے لائی تھی، یہ سب کرتوت تیرے ہیں۔ اور اس کے اگلے ہی روز زرجان کا خرم کسی ’’حادثے‘‘ کا شکار ہو کر اسی بے بس دکھ کی آغوش میں جان دیتا ہے جس نے پہلے راوی کے باپ پر رات نہ گذرنے دی تھی۔ زر جان کو نکاح کے دھاگے میں باندھ دینے سے زندگیاں سدھریں گی نہیں۔ دکھ نے منیبہ کے معشوق کیپٹن سلیم اور خرم کی معشوق زرجان دونوں کو کہیں اندر زخمی کر دیا ہے۔زرجان کے باپ کا چہیتا گھوڑا سنہریا بھی اچانک زخمی ہو گیا تھا، لیکن اس کا زخم اس کے دائیں گھٹنے پر تھا۔ زرجان، سلیم، اور سنہریا کے زخموں میں مشابہت یہ ہے کہ ان میں سے کسی کا زخم مندمل نہیں ہوتا۔
دو نالی سے شعلے نکلے اور سنہریا گر کر زمین پر تڑپنے لگا۔خان جی پلٹے، کہا، ’’اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا۔‘‘ پھر دو نالی کو جھٹکے سے دوہرا کیا اور کارتوس کے خول نکال کر اچھالتے ہوئے کہا، ’’جو کام کا نہیں رہتا، کہیں کا نہیں رہتا۔‘‘
زرجان کا کپتان شوہر اسے آٹے کی عورت کہتا ہے، ایسی عورت جس سے بھوک تو مٹ سکتی ہے لیکن جو ’’روح پر دستک‘‘ نہیں دے سکتی۔ لیکن اس کا دکھ یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس جو عورت ہے وہ آٹے کی عورت ہے۔ اس کا دکھ یہ ہے کہ وہ زمین کو کھرچتا رہتا ہے۔ پہلا راوی کہتا ہے، ’’نئے دکھ کی شدید باڑھ میں میرے قریب آنے والا ایک دم فاصلے پر ہو گیا تھا…دکھ نے تو ایک ہی ہلے میں ہمیں قریب کر دیا تھا…وہ سنتا رہتا اور جب اسے دھیان بڑھانا ہوتا تو زمین کھرچنے لگتا تھا۔‘‘ وہ زمین کھرچتا ہے، شاید اس لئے کہ زمین ایک دن سونا اگل دے گی، یا شاید اس لئے کہ وہ زمین میں سوراخ کر کے پاتال تک پہنچ جائے گا جہاں منیبہ اس کا انتظار کر رہی ہے۔ لیکن اسے پتہ چلتا ہے کہ ’’مٹی تو مٹی ہے، یہ اپنی کہاں رہتی ہے۔‘‘
محمد حمید شاہد اپنے افسانوں میں ایک نہایت ذی ہوش اور حساس قصہ گو معلوم ہوتے ہیں۔ بظاہر پیچیدگی کے با وجود (مثلاً ان کا زیر نظر ناول، اور ’’شب خون‘‘ ۲۹۳تا۲۹۹ میں مطبوعہ ان کا افسانہ ’’بدن برزخ‘‘ ) ان کے بیانیہ میں یہ وصف ہے کہ ہم قصہ گو سے دور نہیں ہوتے، حالانکہ جدید افسانے میں افسانہ نگار بالکل تنہا اپنی بات کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ (اسی بات کو باختن (Bakhtin)نے یوں کہا تھا کہ فکشن نگار سے بڑھ کر دنیا میں کوئی تنہا نہیں، کیونکہ اسے کچھ نہیں معلوم کہ اس کا افسانہ کون پڑھ رہا ہے اور کوئی اسے پڑھ بھی رہا ہے کہ نہیں۔) اسی وجہ سے جدید افسانہ نگار اپنے قاری کے لئے کتابی تو وجود رکھتا ہے لیکن زندہ وجود نہیں رکھتا۔ محمد حمید شاہد اس مخمصے سے نکلنا چاہتے ہیں اور شاید اسی لئے وہ اپنے بیانیے میں قصہ کوئی، یا کسی واقع شدہ بات کے بارے میں ہمیں مطلع کرنے کا انداز جگہ جگہ اختیار کرتے ہیں۔
محمد حمید شاہد کی دوسری بڑی صفت ان کے موضوعات کا تنوع ہے۔اس لحاظ سے وہ منشا یادسے کچھ کچھ مشابہ لگتے ہیں لیکن محمد حمید شاہد کے سروکار سماجی سے زیادہ سیاسی ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے ماحولیاتی افسانوں میں بھی کچھ سیاسی پہلو پیدا کر لیتے ہیں۔ ’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں مشرقی پاکستان/بنگلہ دیش کی حقیقت سے آنکھ ملانے کی کوشش رومان اور تشدد کو یکجا کر دیتی ہے۔ اسے محمد حمید شاہد کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہیئے کہ وہ ایسے موضوع کو بھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگار گو مگو میں مبتلا ہوں گے کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔دکھ شاید سب کچھ سکھا دیتا ہے۔
الٰہ آباد، ۲ دسمبر ۶۰۰۲ شمس الرحمٰن فاروقی
اپنی بات
اس کہانی کا موضوع انسان ہے اور اس کی محبتیں بھی۔ کہانی لکھتے ہوئے میری نظر میں وہ انسان رہا ہے جو ’’صلصال من حمأ مسنون‘‘ سے خلق ہوا اورجس کی نسل’’ مآء مھین‘‘ کی تلچھٹ سے چلی مگر مقدر کا ایسا دھنی نکلا کہ مسجود ٹھہرا تھا۔ اب یہ الگ قصہ ہے کہ اسی حضرت انسان کو ابھی تک ڈھنگ سے چلنا نہیں آیا۔ جب بھی قدم اُٹھاتا ہے، مٹی پہ گرتا ہے، بار بار گرتا ہے اور منھ کے بل گرتا ہے۔
میرا حوصلہ دیکھیے کہ میں نے عین ایسے زمانے میں انسان کو اپنی کہانی کی کائنات میں مرکزی جگہ دی ہے جب اسی گرے پڑے انسان کو مادہ مرکز سے بے دخل کر کے سارے میں دندنا پھر تا ہے۔انسان کے ساتھ چوں کہ اس کی محبتوں کا محور بھی بدل گیا ہے لہذا کہانی کا معمول کی ڈگر پر چلنا ممکن نہ رہا۔ لکھتے ہوئے یہ تجربہ بھی میرے لیے بہت پر لطف رہا ہے۔
محمد حمید شاہد
urdufiction@gmail.com
اسلام آباد : یکم نومبر ۲۰۰۶
٭٭٭
کہانی سے پہلے
مدیر کا نوٹ
یہ ایک ایسی کہانی عجیب و غریب کہانی ہے جو چھپنے کے لیے نہیں لکھی گئی تھی اور شاید یہ کبھی منظر عام پر نہ آتی اگر آٹھ اکتوبر والا شدید بھونچال نہ آیا ہوتاجس نے بہت وسیع علاقے میں تباہی پھیلائی تھی۔ قیامت کے ان دنوں میں ہمارے نمائندے تباہ شدہ علاقوں سے جو روح فرسا واقعات لکھ لکھ کر بھیجتے رہے وہ ہمارا جریدہ آپ تک پہنچاتا رہا۔ اسی عرصے میں اس تباہ ہونے والے علاقے سے ہمارے نمائندوں میں سے ایک نے کاغذوں کا ایک پلندہ بھیجا تھا۔ بہت عرصہ تو اسے پڑھنے کا بھی کسی کو ہوش نہ رہا کہ کوئی اپنے حواسوں میں کہاں تھا ، لہذا اس کی تب اشاعت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ان دنوں مرنے والوں ، زخمی ہونے اور گم ہو جانے والوں کے علاوہ تباہ حال مدد مدد کے لیے پکارنے والوں کی خبریں اتنے تواتر سے آ رہی تھیں کہ ہمیں بالعموم کہانیوں کے لیے مختص صفحات کچھ عرصہ کے لیے ان خبروں کو دینا پڑے اور یوں چاہتے بھی تو اس طویل تحریر کی اشاعت کی گنجائش نکل ہی نہ سکتی تھی۔ اب کہیں جا کر اس غیر معمولی کہانی کی اشاعت کی طرف راغب ہوئے ہیں تو اس میں رفو کا بہت سا کام نکل آیا۔ یاد رہے ہمارے نمائندے نے کاغذوں کے اس پلندے کو جس علاقے سے روانہ کیا ہے وہ میرا دیکھا بھالا ہے۔ اگرچہ کہانی میں کہیں بھی گاؤں کا نام نہیں آیا تاہم میں نے اس کے متن میں موجود اشاروں اور کرداروں سے اس گاؤں کا محل وقوع پا لیا ہے۔ یہ اس بدقسمت گاؤں سے مشرق میں ہے جو بھونچال سے روئے کے گالوں کی طرح فضا میں اڑنے والی دو پہاڑیوں کے درمیان تھا مگر جونہی فضا میں اڑتی پہاڑیاں واپس زمین پر آکر ایک نیا پہاڑ بن گئیں ، یہ گاؤں اپنے مکینوں سمیت اس کے اندر دفن ہو گیا تھا۔ اس مسودے کے ساتھ ایک چٹ بھی موصول ہوئی تھی۔ اس چٹ پر نمائندے نے لکھا تھا کہ اسے یہ کاغذات ایک بہت بڑی تباہ شدہ حویلی کے داہنی سمت والے حصے کے ملبے سے، ایک ایسی لاش کے پاس سے ملے تھے جو ایک بھاری شہتیر کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ اس جریدے کے نمائندے نے اطلاع دی تھی کہ باقی کی لاشیں حویلی کے وسطی حصے سے نکالی گئیں۔
ممکن ہے اس کہانی کو پڑھتے ہوئے آپ کو محسوس ہو کہ ان صفحات کو لکھنے والا نئی کہانی لکھنے کی تیکنیک سے آگاہ نہیں تھا۔ یہ احساس درست بھی ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ اس نے جا بجا عنوانات قائم کر دیئے ہیں اور جہاں اشارے، کنایے اور علامت کے ذریعے تفصیلات سے احتراز ہو سکتا تھا وہاں اس طرف دھیان نہیں دیا گیا۔ آغاز کی وضاحتیں پہلی نظر میں کہانی سے اچٹی ہوئی لگتی ہیں مگر جوں جوں آپ آگے بڑھیں گے انہیں کہانی سے پیوست پائیں گے اور تسلیم کریں گے ان کے بغیر اس تحریر کو مکمل طور پر سمجھنے میں بہت دقت پیش آنے کا احتمال تھا۔ اسی خیال کے پیش نظریہ مناسب معلوم ہوا ہے کہ اس سارے مسودے کو ملبے میں دب جانے والوں کی امانت سمجھ کر شائع کر دیا جائے۔یہیں یہ وضاحت بھی ضروری ہو گئی ہے کہ اس کہانی کا براہ راست تعلق بھونچال سے نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے اس زمین کا حوالہ کہ جس کی طمع نے آدمی سے آدمی کی محبت کو قصہ پارینہ بنادیا ہے ، وہ کسی دور کے تلازمے میں کہانی سے جڑ جائے ورنہ بس اس کہانی کا بھونچال سے محض اتنا ہی تعلق بنتا ہے کہ یہ اس سبز حویلی کے ملبے سے نکلی تھی جو آٹھ اکتوبر کو اپنے مکینوں کے اوپر آپڑی تھی۔
٭٭
چتکبرے بیل سے پست آدمی
یہ کہانی ایک ایسے شخص کی یادداشتوں سے شروع ہوتی ہے جو خان گل باز خان اور ان کے بیٹے خان دلاور خان کی حویلی کا بہت اہم فرد ہوتے ہوئے بھی بوجوہ متروک ہو کر غیر واجب ہو چکا ہے۔ شروع شروع میں مجھے ایسی یادوں سے نپٹنا پڑا جن کی صورت کچھ عالم جنوں میں غیر مربوط لفظی ابکائیوں اور بڑبڑاہٹوں کی سی ہو جاتی تھی تاہم بعد ازاں میں ان سے کچھ نہ کچھ مفہوم نکالنے لگا تھا۔ جب میں اس شخص کے ساتھ نتھی ہوا تھا تو مجھے فقط اسے اپنے ہاتھ پر لانا تھا اور اس کے لیے حکمت عملی مجھے خود طے کرنا تھی۔ اسے رام کرنے کا میں نے یہ حیلہ خود چنا تھا۔ اور جب ایک بار اس تدبیر پر دل ٹھک گیا تومیں نے یہ وتیرہ بنا لیا تھا کہ وہ جنوں میں چاہے کچھ کہتا ، میں ترت لکھ لوں ، جملوں کے بیچ کوئی ربط بنے یا نہ بنے۔ تب میں اس تردّ دمیں نہیں پڑتا تھا کہ اُس کے کہے کو جملے میں ڈھالتے ہوئے بامعنی بنانے لگ جاؤں۔ کہانی کو ترتیب دیتے ہوئے میری کوشش ہو گی کہ جملوں کی ساخت کو زیادہ نہ بدلا جائے مگر اس شخص کی اب تک کی صحبت یہ بتاتی ہے کہ میں چاہتے ہوئے بھی ایسا نہ کر پاؤں گا۔ خیر خلوص نیت سے ارادہ تو یہی ہے کہ کاغذ کے ان پرزوں کو اسی رات جب کہ اس شخص کو میری حاجت نہ رہے اور وہ مجھ سے بے نیاز ہو کر بستر پر پڑ رہے، میں سوچ سوچ کر نئے سرے سے ترتیب دوں۔ اس سارے عمل کو مجھے خان جی سے اخفا میں بھی رکھنا ہے ، سو رکھوں گا کہ یہ بات کھل گئی تو کہانی تو ایک طرف رہی جان کے بھی لالے پڑ سکتے ہیں۔
ویسے خان جی کو اس غیر واجب شخص کی باتوں سے بظاہر کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو یوں شک گزرتا ہے جیسے وہ اس شخص کو یوں ہی مجہول دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ خان جی مجھ سے اس شخص کی بابت رپورٹ لیتے ہوئے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ شخص کس قدر میرے قریب ہو گیا ہے۔ جب کبھی میں اس سے کوئی بامعنی جملہ وابستہ کر بیٹھتا تو خان جی کی آنکھیں پوری طرح کھل کر میرے وجود پر جم جاتیں۔ میرے لیے خان جی کا یوں دیکھنا خطرے سے خالی نہیں لہذا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے مجھے دل کے اس طرح زور زور سے بجنے کو موقوف رکھنا ہے ، کم از کم تب جب میں خان جی کے سامنے ہوتا ہوں۔ لہذا میں اس کے لیے خود کو تیار کرتا رہتا ہوں۔ ہمیشہ اس خدشے کو پرے دھکیلتا رہا ہوں کہ یہ جو میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر کہانی مربوط کرتا رہتا ہوں ، خان جی اس تک کبھی پہنچ پائیں گے۔ تاہم رات بھر جملوں میں ربط پیدا کرنے کے عمل نے مجھے چوکس کر دیا اور اس چوکسی نے اس لائق بنا دیا ہے کہ صبح تک اپنی یادداشت سے جملوں کی نئی ترتیب منہا کر دوں اور خان جی میری چوری نہ پکڑسکیں۔
میں نے یادداشتوں کو دوسروں سے چھپا کر رکھنے کا حیلہ یہ کیا ہے کہ انہیں مرتب کر کے لوہے کے ٹرنک میں چھپانے لگا ہوں۔ اور ہاں ایک مزے کی بات بتاؤں کہ میں اس طرح لکھنے کو پہلے پہل کھیل سمجھتا رہا۔ سارا دن ایک ایسے شخص کے ساتھ رہنا جسے مات دینے کے لیے اپنی چال چلنی ہو، بظاہر اس کے معمولات سے بے نیاز ہو کراس کی خدمت پر مامور رہنا مگر پوری طرح ہوشیار بھی رہنا اور لمبی چپ میں ان وقفوں کا انتظار کرنا جب اس کا سینہ کچھ کہنے کے لیے ابلنے لگے۔ کبھی کبھی بات کا یوں صاف سمجھ آنا جیسے کوئی شیشے کے آر پار دیکھتا ہے اور کبھی محض سنتے رہنا اور دھیان دینے پر بھی کسی مفہوم کا پلے نہ پڑنا۔ ایسے میں اندازے لگانا،پہلے کی کہی ہوئی باتوں کے ساتھ اب کہے ہوئے جملے جوڑنا۔ یہ اعصاب توڑ دینے والا کام ہے مگر میں اس میں جت گیا ہوں۔ سارے دن کی ذہنی اور اعصابی مشقت کے بعد مجھے تفریح کا کوئی لمحہ چاہیے ہوتا ہے اس کہانی کو مرتب کرتے ہوئے مجھے یوں لگنے لگا ہے کہ جیسے میرا بدن چرخی جیسا ہے جس پر بہت سی رسی لپٹی ہوئی ہے۔ یہ رسی کھینچ کھینچ کر اتنی شدت سے لپیٹی گئی ہے کہ میری پسلیاں دہری ہو گئی ہیں۔ لکھتے ہوئے ، تنے ہوئے اعصاب کی پسلیاں توڑنے والی یہ رسی یوں کھلنے لگتی ہے جیسے چرخی گھوم رہی ہے اور رسی کے سرے سے بندھا ڈول کنویں کی گہرائی میں پانی کی سطح پر جست مارنا چاہتا ہے۔ جونہی کوئی عبارت مربوط ہو کر مفہوم دینے لگتی ہے میرا اندر سانسوں اور دھڑکنوں سے بھر جاتا ہے، اس چرمی اس ڈول کی طرح جو پانی پر جست لگاتے ہی اس کی پاتال تک اترجاتا ہے اور لوٹتے ہوئے یہی ڈول شفاف میٹھے پانی سے اپنے کنارے چھلکا رہا ہوتا ہے۔
جس کام پر میں لگ گیا ہوں بظاہر بہت آسان ہے اور اگر اس کا مقابلہ اس جسمانی مشقت سے کیا جائے جو میرے باپ کی زندگی کا لازمہ ہو گئی تھی تو اسے کوئی کام سمجھا ہی نہیں جانا چاہیے۔ مجھے بتا دینا چاہیے کہ میرا باپ خان جی کے ذاتی اصطبل میں گھوڑوں کے ساتھ رہتا تھا۔ یہیں یہ وضاحت بھی ضروری ہو گئی ہے کہ وہ گھوڑوں کا سائیس نہیں تھا وہ تو محض ان کے راشن پانی کا اہتمام کرتا ، صاف ستھرارکھتا اور ان کی لید باہر ڈھوتا رہتا تھا۔ گھوڑوں کا سائیس تو صاحب خان تھا جسے سب صاحبے کہتے تھے۔ صاحبے کا باپ محمد جان عرف جانے اپنے بچپن سے خان جی کے گھوڑوں کو سدھاتا آیا تھا ، تب سے کہ جب اس اصطبل میں قسم قسم کے گھوڑے ہوتے تھے۔ مانکیا، امرینا اور بہو پڑیا سے لے کر عربی نسل کے گھوڑوں تک۔ کہتے ہیں انہی گھوڑوں میں ایک گندیکہ نسل کا بھی گھوڑا تھا جوسائیس جانے کی بو پہچانتا تھا۔ جانے اس کی آنکھیں باندھ دیتا تب بھی وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہتا تھا۔ مشکی ، ابلق ، چتکبرے گھوڑے پالنے کا ایک مقصد ان دنوں یہ بھی تھا کہ انگریزی راج تھا اور گھوڑے پالنے والے فوراً توجہ پا لیتے تھے۔ انگریزوں کی فوج کو گھوڑوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی تھی۔کہتے ہیں ان کی ضرورتوں کا احساس اس حویلی والوں کو تھا لہذا اس حویلی والوں کی ضرورتوں کا خیال بھی انگریز کرنے لگا لہذا اصطبل میں تھاروبریڈ نسل کے گھوڑے بھی آ گئے تھے۔
اگرچہ وہ لوگ جو ذرا پرانے ہیں یہ بھی کہتے ہیں انگریزوں کے زمانے تک اس اصطبل میں گھوڑے کم اور خچر زیادہ پالے جاتے تھے کیوں کہ انگریزوں کو مال برداری کے لیے ان کی بہت ضرورت رہتی۔ پہاڑی علاقوں میں اوپر تک اور اندر تک یہی جانور ان کا ساتھ دے سکتا تھا تاہم بعد میں حویلی والوں کا کہنا رہا ہے کہ ان کے اصطبل میں ہمیشہ خالص تھاروبریڈ نسل کے گھوڑے رہے ہیں۔ اندر کی بات جاننے والے اور گھوڑوں کی نسلیں پہچاننے والے کہتے ہیں کہ اس اصطبل میں جتنے بھی دانے تھاروبریڈ نسل کے رہے وہ سب رَل گَڈ یعنی مخلوط نسل کے تھے۔ وہ گھوڑا جس کا قد درمیانہ تھا اور سر بڑا، یا پھرجس کے کان لمبے اور رنگ نقرئی تھا، دونوں بلوچی گھوڑیوں نے جنمی تھیں۔ اسی طرح جس کی ٹانگیں پتلی تھیں ، گردن لمبی، بال سیدھے اور کان نوکیلے اس کی ماں شاہ جیونے کی تھی۔ وہ جو جوش میں آنے پر گردن لمبی کر لیتا ، دم اکڑا لیتا اور دونوں کانوں کی نوکیں باہم ملا لیا کرتا تھا اس کی ماں ٹوبے والوں نے بڑے خان جی کو تحفے میں دی تھی۔ عربی نسل والی گھوڑیاں بھی وسطی پنجاب کے ریماؤنٹ ڈپوؤں سے آئی تھیں۔ جاننے والوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ افزائش نسل سرگودھا والے ریماونٹ ڈپو سے کرائی جاتی رہی ، جہاں اصلی تھاروبریڈ نسل کے گھوڑے موجود تھے ، جو نسل کشی کے لیے خاص طور پر سمند پار سے منگوائے گئے تھے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی گھوڑوں کے سائیس کی اور میں بتا رہا تھا کہ میرا باپ گھوڑوں کا سائیس نہیں تھا وہ توصرف اصطبل میں کاما تھا جو ہر وقت وہاں جتا رہتا تھا مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسا رہ جاتا تھا کہ خان جی اس پر برستے اور کبھی کبھار تواس پر اپنا ہاتھ بھی چھوڑ دیتے تھے۔
میرا باپ شروع سے خان جی کے اصطبل میں نہیں تھا۔ وہ زمین کے ایک ٹکڑے کا مالک تھا۔ اس نے اپنا گھوڑا رکھا ہوا تھا۔ جب کبھی خان جی کے والد بڑے خان جی کو کورٹ کچہری کے لیے شہر جانا ہوتا یا میل ملاقات کے لیے کسی اور گاؤں جانے کا ارادہ باندھتے تو یہی گھوڑا رنگلے پہیوں اور لش لش کرتے چھجے والے تانگے کے آگے جوت لیا جاتا تھا۔ ایسے موقعوں پر چھوٹے خان جی( جنہیں آئندہ میں صرف خان جی لکھا کروں گا) ساتھ ہوتے تھے۔ تاہم میرا باپ کہتا تھا ،
’’جب تک اللہ بخشے بڑے خان جی زندہ رہے وہ ان کے وجود میں مست رہا۔ جو وہ کہتے اسے حکم اور فرض جان کر فوراً بجا لاتا ایسے میں چھوٹے خان جی کا ہونا نہ ہونا ایک ہو جاتا تھا۔‘‘
مگر بعد میں میرا باپ کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ میرا باپ نہ میں۔ بڑے خان کے مرنے کے بعد زمین کا وہ ٹکڑا جو بڑے خان جی نے اپنی زندگی میں اس کے نام کر دیا تھا خان جی نے واپس لے کر اپنے اصطبل کے ساتھ ملا لیا، اس قرض کے بدلے جو میرے باپ نے ، میری بہشتی ماں کو مرنے سے بچانے کے لیے اٹھایا اور شہر کے ڈاکٹروں کو لٹا کر لاش اٹھا لایا تھا۔
٭٭
معاف کیجئے میں اپنے باپ کا قصہ لے کر بیٹھ گیا ہوں حالاں کہ مجھے اپنے باپ کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کو نہیں لکھنا ہے۔ دراصل میرا باپ ان لوگوں میں سے ہے ہی نہیں ، جن کی زندگیوں کو لکھنے کا چلن ہو گیا ہے۔ مشقت میں پڑا ہوا ایک عام آدمی ، جسے آدمی کہتے ہوئے بھی سینہ دُکھ سے جھنجھنانے لگتا ہے۔ حویلی کے ادھر کنوئیں میں جتا ہوا چتکبرا بیل اور یہ نام نہاد آدمی مشقت کے اعتبار سے لگ بھگ ایک ہی حیثیت میں رکھ دیئے گئے ہیں۔ بلکہ ایک اعتبار سے چتکبرے کو میرے باپ پر فوقیت حاصل ہے کہ جب اصطبل کا کامی بخشو بیمار پڑ جاتا ہے تو دوسری بھینسوں ، گایوں اور بیلوں کے ساتھ ساتھ وہ اس چتکبرے کو بھی چارہ ڈالتا ہے، اس کا تھکا ٹوٹا بدن سہلاتا ہے اور اس کے نیچے کی جگہ خشک کرتا ہے۔
میرے باپ کی گیلی آنکھیں پونچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ میری ماں دکھ اور درد سہہ سہہ کر بہت پہلے گزر گئی ورنہ بس ایک وہ تھی جو اس کے جثے سے جڑ کر بیٹھ جاتی، اس کے سر اور داڑھی میں پھنسے ہوئے تنکوں اور لید کے ذروں کو چنتی ، روتی اور اپنے بوسید ہ ہو چکی چادر کے پلو سے اس کے ماتھے، آنکھوں ، گالوں اور منھ سے رالوں کی طرح بہتی جھاگ کو صاف کرتی رہتی تھی۔ ماں کے مرنے کے بعد مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ میں باپ کے پاس بیٹھ پاتا۔ میں جب بھی اس کے قریب ہوتا تو وہ تڑپ کر مجھے سینے سے لگا لیتا اور زور زور سے رونے لگتا ایسے میں اسے سنبھالنا چاہتا تو بھی میں نہیں سنبھال پاتا تھا۔ اس کے سینے سے یوں آوازیں آنے لگتیں جیسے اسے اندر سے کوٹا جا رہا ہو۔ ایک بار وہ ہاتھ پاؤں چھوڑ کر میرے ہاتھوں میں ڈھیر ہو گیا اور میں نے سمجھا ، کہ وہ مر گیا ہے۔ مگر وہ نہیں مرا تھا ایسوں کا مقدر ایک ہی ہلے میں مر جانا نہیں ہوتا کہ انہیں قسطوں میں موت آیا کرتی ہے۔
اوہ، میں آپ سے ایک بار پھر نادم ہوں کہ وہ یادداشتیں جو مجھے صاف صاف لکھنا ہیں کاغذ کے ٹکڑوں پر بکھری ایک طرف دھری ہیں اور میں تمہید میں اپنے باپ کا قصہ لے بیٹھا ہوں۔ خیر، ایک لحاظ سے یہ ٹھیک ہی ہوا ہے کہ میرے قلم پر بظاہر غیر متعلق مگر ایک ایسے شخص کی کہانی رواں ہو گئی ہے جوان یادداشتوں کو لکھنے اور اب انہیں ایک کہانی میں ڈھالنے والے کا باپ تھا۔ گویا یہاں محض میرے باپ کی حیثیت سے اس غیر متعلق شخص کا قصہ بیان نہیں ہوا بلکہ اپنے پورے وجود کو محض سماعت بنا کر ایک غیر مربوط آدمی کی یادداشتیں محفوظ کرنے والے کے باپ کا قصہ بیان ہوا ہے۔ جی، ایسے شخص کے باپ کا قصہ، جواب محض ان یادداشتوں کا محرر نہیں رہا ہے۔
٭٭
کہانی میں ملاوٹ کا جواز
میں جانتا ہوں کہ جب کسی کی کہانی لکھنی ہو تو اس میں اپنے پلے سے کچھ ملا لینا یوں ہے جیسے کوئی اللہ میاں کے نور جیسے دودھ میں جوہڑ کا پانی ملا لے۔ اور یہ کہ میں اپنی بات کہنے کی ہوس میں مرا بھی نہیں جا رہا ہوں۔ تاہم میری مجبوری یہ ہے کہ میں اس کہانی کو چاہوں بھی تو خالص نہیں رکھ سکتا۔ اس کا سبب یا پھر اس باب میں میری مجبوری یہ ہے کہ میں متروک ہو چکے ایسے شخص کے ساتھ نتھی ہوں جسے پٹکنا میرا کام ہے مگر جو میرے خالی وجود کے اندر اتر کر میری دھڑکنوں کی طرح بولنے لگا ہے۔ میں نے دھڑکنوں کو گننا اور لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اب اگر انجانے میں کبھی کبھار سینے کی تھراہٹ قلم سے قضا ہو جائے تواس ملاوٹ پر میں عین آغاز میں معافی مانگ لینا چاہتا ہوں تاہم میں چاہتا ہوں کہ میری مجبوری کو بھی مد نظر رکھا جائے۔
اور ہاں اوپر درج ہونے والے اپنے باپ کے قصے کو میں نے شروع میں اس لیے بھی در آنے دیا ہے کہ مجھے اپنی بابت الگ سے کچھ نہیں کہنا پڑے گا سوائے اس کے کہ بڑے خان جی نے بہت پہلے میرے باپ کو ترغیب دے کر مجھے شہر بھیج دیا تھا۔ دراصل انہیں بی بی زرجان کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ، جو ادھر ہی کالج میں پڑھتی تھی ، ایک ننھے منے کامے کی ضرورت تھی۔ تاہم بڑے خان جی چوں کہ بڑے دل کے مالک تھے لہذا میرے باپ کی اس خواہش کو بھی مان لیا تھا کہ مجھے ادھر سکول میں ڈلوا دیں۔ میں دن کو سکول جاتا اور لگن سے پڑھتا (کہ پڑھنا مجھے دوسرے سارے کاموں سے اچھا لگتا تھا) اور چھٹی کے بعد بی بی زرجان اور اس کی ماں بیگم جان کی خدمت میں جت جاتا( مجھے اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا گیا تھا کہ یہ میرا فرض تھا جو سب کاموں سے افضل تھا )۔
بڑے خان جی کے مرنے تک میں جتنی جماعتیں پڑھ سکتا تھا، پڑھ لیں۔ بیگم جان کو میرا پڑھنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا لہٰذا میرا اسکول جانا ممکن نہ رہا۔ بیگم جان دیر تک سوئے رہتیں ، اٹھتیں تو بھی جوڑوں کے دردوں کی وجہ سے بستر سے نیچے نہ اترتی تھیں۔ میرے جیسا لڑکا جسے خدمت اور لفظوں کا چسکا لگ گیا تھا کتنی دیر یونہی بے کار رہ سکتا تھا۔ بی بی زرجان کا بستر درست کرتا، جوتیاں صاف کرتا اور کتابیں ترتیب دیتا۔ یوں کتابیں کھول کر دیکھنے اور ان کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ کاغذ کا لمس مجھ پر عجب طرح کا خمار طاری کر دیتا تھا۔ زرجان کو کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ وہاں ایسی بہت سی کتابیں تھیں۔ میں وقت کاٹنے کو انہیں پڑھتا رہتا۔ شاید ان کہانیوں کا اثر تھا کہ اس متروک آدمی کی غیر مربوط یادداشتوں کو کہانی کی صورت لکھنے کا نہ صرف خیال سوجھا، اسے لکھنے کا آغاز کر کے خود کو پوری طرح اس آگ میں جھونک چکا ہوں۔
میں نے کہا نا کہ یہ کام میں چھپ کر کر رہا ہوں اور وہ بھی یوں کہ یہ کہانی بناتے ہوئے جو لذت اور لطف میرے اندر ہلکورے لینے لگا ہے اسے اپنے بدن میں دبائے رکھوں اور کسی پر کچھ ظاہر نہ ہونے دوں۔ کہیئے بھلا آدمی ایک کہانی اکٹھی کر رہا ہو، اسے خاص ترتیب میں ڈھال رہا ہو مگر اتنا بے بس ہو کہ اپنا یہ بھید بھرا تجربہ کسی سے کہہ نہ پائے ، کتنی شدید بات ہے۔ آغاز میں ، جب کہ یہ کہانی نشے کی طرح مجھے چڑھی ہوئی تھی(خیر یہ نشہ تو اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے ، مگر تب) خان جی کے مقابل ہوتے ہی بوکھلا دیتی۔ جب کہ مجھے حکم ہے کہ میں تین اوقات میں بطور خاص ان کے ہاں حاضری دوں۔ میں جان گیا ہوں کہ وہ ان اوقات میں میرے منتظر رہتے ہیں۔ صبح، جب وہ گھوڑا دوڑانے باہر کھیتوں کو نکلتے ہیں ، اپنے تھان سے گھوڑے کے کھلنے سے لے کر اس پر زین کسے جانے اور اپنے سوارکو لے کر حویلی سے باہر نکلنے تک۔ مجھے ان کے ساتھ ساتھ رہنا ، دوڑنا اور بولنا ہوتا ہے۔ دوسری بار دوپہر ڈھلنے کے بعد، جب وہ ڈیرے پر پنچایت لگاتے ہیں۔ تب سکون سے بیٹھے وہ بات سنتے رہتے ہیں اور اپنی مونچھوں کو دائیں ہاتھ سے سہلاتے ہوئے ہونٹوں کو وقفے وقفے سے تھوڑا تھوڑا پھیل جانے دیتے ہیں جس سے گمان گزرتا ہے کہ وہ زیر لب مسکرا رہے ہیں۔ اور رات گئے تب تک کہ وہ حویلی کے اندر نہیں چلے جاتے۔ حویلی میں جانا وہ اکثر یوں ملتوی کیے چلے جاتے کہ گمان گزرنے لگتا، وہ باہر ڈیرے پر ہی بیٹھے بیٹھے رات بتا دیں گے۔ اِن تینوں اوقات میں خان جی مجھے سن رہے ہوتے تو مجھے یوں لگتا، جیسے وہ مجھے نہیں میری کہانی کے خمار کو دیکھ اور سونگھ رہے ہوتے ہیں۔
رفتہ رفتہ میں ادھر ادھر کی کہہ کر اپنے آپ کو معمول پر لانا سیکھ گیا ہوں اور یہ بھی سیکھ چکا ہوں کہ وہ سب کچھ کہنے سے کیسے بچنا ہے جو کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھتا رہتا ہوں اور رات گئے جنہیں ایک مربوط تحریر میں ڈھالنے کے جتن کرتا ہوں۔ رات کو جب میں اس کام میں مشغول ہو جاتا ہوں تو خان جی کی پوری طرح کھلی ہوئی آنکھوں کے سرخ ڈورے وہاں نہیں ہوتے ہیں۔
٭٭٭
باب :۱
کچھ نا واجب آدمی کے بارے میں
یادداشتوں سے کہانی بنانے کا عمل عین آغاز ہی میں میرے لیے بہت کٹھن ہو گیا ہے۔ شاید کٹھن کی جگہ کوئی اور لفظ لکھا جانا چاہیے تھا مگر مجھے مناسب لفظ سوجھ ہی نہیں رہا۔ یوں سمجھیں میں پچھواڑے والے جوہڑ سے زندہ مینڈک اٹھا لایا ہوں اور اب انہیں ترازو کے پلڑے میں ڈال کر ایک ہی ہلے میں تولنا چاہتا ہوں مگر یوں ہوتا ہے کہ ہر بار کوئی نہ کوئی مینڈک چھلانگ لگا دیتا ہے اور مجھے اس کی جانب متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ خیر ، یہ تو ہوتا ہی رہے گا یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اور بنیادی باتیں غیر واجب آدمی کی بابت کر لی جائیں۔
حویلی کے بغلی حصے میں سب سے الگ ہو کر ایک لمبی چپ میں رہنے والا یہ آدمی شروع سے ایسا نہیں تھا۔ جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تب یہ شخص فوجی وردی میں آیا تھا اور اس پر پڑی نظر ٹکتی نہ تھی۔ اس دن سے کچھ ہی عرصہ پہلے میرا باپ مر ا تھا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے جب کہ وہ چلتے پھرتے مردے جیسا دکھائی دینے لگا تھا میں اس کے ساتھ گھوڑوں کی خدمت پر مامور کیا گیا تھا۔ ان دنوں گھوڑے تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ میرا باپ بہت محنتی اور جان مار کر کام کرتا مگر سب گھوڑوں کو دیکھنا اس کے بس سے باہر ہو گیا تھا۔ ایک روز میرے باپ نے ڈرتے ڈرتے خان جی سے کہا تھا کہ اس کام پر اس کے ساتھ ایک اور آدمی لگایا جائے۔ خان جی تو جیسے پہلے سے کچھ سوچے بیٹھے تھے فوراً کہہ دیا، ہاں کیوں نہیں تم اپنے بیٹے کو ساتھ لگا لو۔ اِنہی گھوڑوں میں سے ایک پر ، جسے ہم سنہریا کہتے تھے( کہ اس کا بدن سورج کی کرنوں کو لوٹاتے ہوئے سنہرا ہو جاتا تھا) اس آدمی نے سواری بھی کی تھی۔ تب اس آدمی کے جثے پر کلف لگی خاکی وردی تھی جو سورج کی کرنوں کو لوٹا کر سنہری ہو جانے والے گھوڑے کی جلد جیسی لگ رہی تھی۔ وہ سیاہ پالش سے چمکتا بھاری بوٹ رکاب میں اڑس کر یوں پلک جھپکنے میں سنہریے پر سوار ہو گیا تھا کہ میں کاٹھی کے پیچھے سے گھوم کر دوسری طرف جاتی اس کی ٹانگ کو پوری طرح دیکھ نہ پایا تھا۔ پھر جب اس نے سنہریے کی باگ کے دونوں لڑ ایک ہاتھ میں تھام کر قدرے فضا میں بلند کیے اور اپنے گھٹنے اس کی چھاتی پر مارے تھے تو میں نے دیکھا تھا دوسرے ہاتھ کو اپنے عقب میں موڑ کر وہ اس کی پشت بھی سہلا رہا تھا اور شاید اسی تھپکی کو پا کروہ اڑیل ہوا ہو گیا تھا۔ میں اس منظر کے سحر میں وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا حتی کہ مجھے خان جی کی جھڑکیاں اور گالیاں سنائی دیں۔ وہ مجھے میری اس نادانی پر کوس رہے تھے کہ میں نے سنہریے پر کیپٹن سلیم کو بیٹھنے ہی کیوں دیا تھا۔
٭٭
لاش پر روتی اجنبی لڑکی
کیپٹن سلیم خان جی کے چھوٹے بھائی شہروز خان کا بیٹا تھا۔ کہتے ہیں شہروز خان شروع ہی سے مزاج کا دھیما تھا۔ اس کے بارے میں یہ بھی مشہور رہا ہے کہ وہ جوانی میں کچھ زیادہ ہی دل پھینک واقع ہوا تھا۔
اس کے شہر منتقل ہونے کا قصہ بھی خوب ہے۔ ہوا یوں کہ بڑے خان جی نے اسے شہر میں کچہری کے کسی کام سے بھیجا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اے سی صاحب کو ملتا آئے۔ اے سی سے مراد وہی افسر نصیب اللہ تھا جو کبھی اس علاقے کا تحصیلدار رہ چکا تھا اور جس کے کہنے پر بڑے خان جی ، اکثر ضلعے کے اعلی افسروں کو گھوڑوں پر پہاڑوں کے اس طرف لے جاتے رہے تھے۔ وہاں انہیں شکار کرایا جاتا اور جب وہ تھک چکتے تو وہیں شاندار دعوت کا اہتمام ہوتا۔ نصیب اللہ کے مطابق یہ بڑے خان جی کی مہربانی تھی کہ اس پر ترقی کے دروازے کھل گئے تھے۔ نصیب اللہ کی تعیناتی مختلف شہروں میں ہوتی رہی اور کچھ ہی روز پہلے وہ بڑے خان جی کو ملنے آیا اور بتایا تھا کہ اب وہ اسی علاقے میں اسسٹنٹ کمشنر لگ کر آ گیا تھا۔ چھوٹے قد کا یہ آدمی اس سارے عرصے میں کچھ اور بھی چھوٹا ہو گیا تھا، اپنے دوہرے جثے کی وجہ سے۔ جب وہ پہلے یہاں تھا تو اتنا ناٹا نہیں لگتا تھا۔ اسی دورانیے میں اس کی آواز کے ساتھ بھی کچھ ہو گیا تھا۔ اب وہ بولتا تو آواز یوں دور سے آتی سنائی دیتی جیسے گردن کی چربی نے تین چوتھائی آواز دبا لی ہو جب کہ باقی واپس پیٹ سے پلٹا کھا کر باہر لڑھک رہی ہو۔ اس کی آنکھیں سرخ رہنے لگی تھی اور نیچے کا گوشت ڈھلک کر اکٹھا ہو گیا تھا۔ غالباً اسی ملاقات میں جب اس نے شہروز خان کی ٹہل سیوا اپنے انداز سے کرنا چاہی تھی اور شہروز خان نے پینے سے معذرت چاہ لی تھی تو اس نے بتایا تھا کہ کھانے پینے اور کئی دیگر معاملات میں حد درجہ کی بے احتیاطی نے اسے کئی طرح کے روگ لگا دیے تھے۔
اس کی سانسیں پھولتی تھیں ، گھٹنوں کے جوڑوں سے اُٹھتے بیٹھتے ہوئے چاہنگیں اُٹھتیں ، فشار خون بلند ہو گیا اور آنکھوں کے بیرے باہر ابل ابل پڑتے تھے۔ اس نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا تھا وہ غیر معمولی سرخی اور ورم لیے ہوئی تھیں۔ انہی آنکھوں میں ، سرخی کے عقب میں جھلک دیتی شخصیت سے عجب طرح کی کراہت ابلتی رہتی تھی۔ وہ گفتگو میں اس قدر غیر محتاط تھا کہ جملے جملے کے بعد اس کراہت میں اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ اسے اپنی بیوی سے بہت شکوے تھے ، یہ اس نے اسی ملاقات میں بتا دیا تھا۔ اور جب اس نے یہ بتایا تھا کہ اس کی بیوی مولوائن تھی اور اس کی طرح طرح کی بے اعتدالیوں کو برداشت کرنے کی بجائے بات بے بات ٹوکتی اور شور مچاتی تھی تو وہ بے طرح ہنسا تھا حتی کہ اس کے پیٹ کی آگے کو پھیلی اور نیچے کو ڈھلکی ہوئی چربی جھٹکے دے دے کر اوپر کی سمت اچھلنے لگی تھی۔ وہ ہنستے ہوئے عجیب و غریب آوازیں نکال رہا تھا اور اس کے منھ سے چھینٹے اڑ رہے تھے اور جھاگ ٹھوڑی پر بہنے لگی تھی۔ پھر جب اس نے اپنی ہنسی کو پوری طرح روکے بغیر کہا تھا، بھلا تم ہی کہو خان جب بازار میں دودھ ملتا ہو ، جب چاہو تب ملتا ہو تو گھر میں ایسی بھینس پالنے کا کیا فائدہ جو دودھ کم دے اور پونچھ زیادہ جھاڑتی ہو، تو اسے یوں لگا جیسے نصیب اللہ ہنس نہیں رہا تھا ایک ایسے جوہڑ میں تیرنے کے جتن کر رہا تھا جس کی تلچھٹ کا کیچڑ سارا پانی پی گیا تھا۔ نصیب اللہ نے اپنی رک رک کر آتی ہنسی کو پھر سے رواں کرتے ہوئے اسے بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا تھا، ہمیشہ کے لیے۔ ایسا کہتے ہوئے اس کے چہرے پر ذرا بھی ملال نہ تھا۔
اس کے بعد شہروز خان، نصیب اللہ کو ملنے نہیں آیا تھا حالاں کہ اس روز وہ بچھ بچھ رہا تھا اور اس نے لگ بھگ تکلف کے سارے ہی پردے اٹھا دیے تھے مگر کچھ تھا جو اسے روکتا تھا۔ اس روز بھی وہ اسے ملنے نہیں آیا تھا۔ وہ اپنے ایک ملازم لال مست خان کے ہمراہ اس کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے سے گزر کر کہیں آگے جا رہا تھا کہ اس کی نظر تانگے سے اترتی سواری پر پڑی۔ سیاہ فینسی برقعے میں ملبوس اترنے والی کی بابت اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ بہ مشکل اٹھارہ بیس سال کی ہو گی۔ اگرچہ اس کا وجود پوری طرح برقعے میں بھر گیا تھا تاہم اس کی بلند قامتی سے بہم ہو کر اتنا متناسب ہو گیا تھا کہ دیکھنے والے کی نظریں باندھ لیتا تھا۔ وہ تانگے سے اتری ، اپنے بدن کو قدموں پر پوری طرح سہارا ، ایک نظر دروازے کی تختی کو دیکھا جیسے اسے پڑھ رہی ہو اور اندر داخل ہو گئی۔ ایسے ہی کسی لمحے میں اسے شائبہ ہوا کہ ہوا کا جھونکا آیا اور سیاہ نقاب لرزا کراس کے چہرے کی جھلک دکھا گیا تھا۔ جب وہ وہاں سے کچھ آگے گزر گیا تو اسے گمان باندھنے میں دقت ہو رہی تھی کہ اس نے لرزتے نقاب سے چہرہ دیکھا تھا یا سیاہ فینسی برقعے میں سرو کی قامت اچھالتے وجود پر ایک خوب صورت چہرے کا تصور خود بہ خود قائم ہو گیا تھا۔ تاہم اسی مخمصے کے بیچ اس نے عہد کر لیا تھا کہ وہ کچھ دیر بعد نصیب اللہ کو ملنے ضرور آئے گا۔ تب اس نے نصیب اللہ کو بڑبڑاتے ہوئے حرام زادہ کہا اور ساتھ ہی اس کی قسمت پر رشک بھی کیا کہ اتنے بے ہودہ وجود کے ساتھ بھی وہ سچے موتیوں جیسا مال برتنے پر قادر تھا۔ جب وہ قدرے آگے نکل گیا تو اسے یوں لگا اس کا دل کہیں پیچھے ہی رہ گیا تھا۔ اس نے نیت باندھی کہ وہ آج نصیب اللہ کے ہاں ضرور جائے گا اور اس کی کسی بھی پیشکش ک نہیں ٹالے گا۔
وہ ایک معقول وقت گزار نے اور لال مست سے چھٹکارا پانے کے بعد واپس آیا تو وہاں سارا منظر بدل چکا تھا۔ قہقہے اچھالنے والے نصیب اللہ کی رہائش گاہ کے دروازے پر لوگوں کا جم غفیر تھا اور اندر سے رونے ، چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھی۔ اگرچہ زور دے کر رونے والی کے حلقوم کی خراشیں اس کی آواز میں شامل ہو کر اسے بھاری بنا گئی تھیں مگر اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یوں بے طرح رونے والی یہ وہی لڑکی تھی جس کو اس نے کچھ وقت پہلے تانگے سے اترتے دیکھا اور جس نے اسے پلٹ آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسے دیکھ کر لوگوں نے خود ہی راستہ بنادیا تھا۔ وہ اندر گھس گیا اور سیدھا وہاں پہنچا جہاں نصیب اللہ کرسی پر لڑھکا ہوا تھا۔ وہ لڑکی جو نصیب اللہ کے ملازم سودے اور اس کی بیوی سونی سے بے نیاز نصیب اللہ کے قدموں میں پڑی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی ، اس کی اچانک آمد پر چونک کر چپ ہو گئی ، پوری طرح ضبط کرتے ہوئے۔ سونی جو رونے میں لڑکی کا ساتھ دے رہی تھی وہ بھی دم سادھ کر ایک طرف منھ بسورنے لگی۔ وہ لاش کی طرف بڑھا تو لڑکی سیدھی۔۔۔۔۔۔
٭٭
[ قارئین، ہم معذرت خواہ ہیں کہ باوجود کوشش کے ہم کاغذات کے اس پلندے میں اگلا صفحہ تلاش نہیں کرپائے تاہم جس صفحے کی عبارت کو یہاں جوڑا جا رہا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لڑکی نصیب اللہ کی اسی بیوی کے پیٹ سے ہو گی جسے وہ چھوڑ چکا تھا۔ خیال ہے کہ یہ لڑکی پہلی بار اپنے باپ سے ملنے آئی ہو گی۔ کہانی نصیب اللہ کی موت کا احوال بھی تفصیل سے نہیں بتاتی لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی بیٹی کو اپنے گھر میں پہلی بار دیکھ کر وہ اپنے دل پر قابو نہ رکھ پایا ہو گا۔ کہانی لکھنے والے نے بتا دیا ہے کہ وہ بلند فشار خون کا مریض تھا۔ اوپر کی تحریر پڑھتے ہوئے جس گوں کے شخص کا حلیہ ذہن میں آتا ہے اس کی آنکھیں سوجی ہوئی ہیں ، اس کے پیٹ کی چربی لٹکی ہوئی اور اس کا جسم بہت پھیلا ہوا ہے۔ لگ بھگ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف شرابی تھا ، حرام خور اور عورتوں کا رسیا بھی تھا۔ یوں ، اگرچہ اس کی موت کی زیادہ تفصیلات اس پلندے سے برامد نہیں ہوئیں تاہم اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دل کا مریض تھا اور اسی دل نے اسے اوندھا دیا تھا۔ ]
٭٭
۔۔۔لاش کہاں لے جانی ہو گی؟ بہت سا وقت گزرنے کے بعد ، جب سارے میں چپ چیخ رہی تھی تو ساتھ ہی یہ سوال بھی گونجنے لگا تھا۔ لڑکی اس سوال پر چپ رہی تھی یوں جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ جب سودے اور سونی کی مدد سے اس کی ذاتی ڈائری سے اس کے عزیزوں کے فون نمبر تلاش کیے جا رہے تھے تو وہ بھی سامنے دیوار کو ایک ٹک دیکھتی رہی تھی۔ کئی جگہوں پر فون کرنے کے بعد بھی اس سوال کا جواب نہ مل پایا کہ لاش کہاں لے جائی جائے گی تو شہروز خان نے فیصلہ کیا اسے مقامی قبرستان میں امانتاً دفنا لیتے ہیں۔ اس نے جب سودے اور سونی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور کہا کہ وہ کل صبح کے جنازے کے اعلان کے لیے مساجد میں جائے تو لڑکی بازوؤں کو پھیلا کر اور ان کا راستہ روک کر یوں کھڑی ہو گئی تھی جیسے وہ لڑکی نہیں تھی ایک مقدس پری تھی جو اڑنے کو اپنے پر تول رہی تھی۔ کھلے ہوئے دونوں بازوؤں اور ایک طرف کو قدرے جھکے ہوئے سر کے اوپر قمقمے کی روشنی پانی کی طرح بہہ کر یوں اس کے وجود کا حصہ ہو رہی تھی کہ اسے دیکھنے پر آنکھیں چندھیانے لگتی تھیں۔
جب اس کی آنکھوں اور دل پر ایک ساتھ ایک ایسامنظر کھلا جو اپنی تاثیر میں مقدس بھی ہو گیا تھا تو وہ یوں چونکا جیسے کسی لمبے خواب سے بیدار ہو گیا ہو یا جیسے لاش والے خواب جیسے ماحول سے کٹ کر ایک اور گہرے خواب میں جست لگا چکا ہو۔ اسے لگا تھا جہاں کھلے بازو تھے، وہاں سے اس تک، سب کچھ ساکت ہو گیا تھا اور جو ساکت ہو گیا تھا وقت کی انتہائی مختصر اکائی نے اسے معدوم کر دیا تھا۔ اب وہاں ایک مانوس قرمزی روشنی تھی جو بہتی تھی تو خوشبو بن کر سارے میں پھیل رہی تھی۔
لاش دروازے پر پڑی تھی ، لڑکی گھر کے اندر تھی اور لوگوں سے گلی بھر گئی تھی مگر کوئی بھی رو نہیں رہا تھا۔ گھر کے اندر ، نہ گلی میں۔ وہ آٹھ گھنٹے کی مسافت اور سینہ پھاڑ دینے والی چپ جھیل کر یہاں پہنچے تھے۔ لڑکی لاش کو دروازے پر اتروا کر گھر میں یوں گھسی کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ پہلے کچھ لمحے شبہ ہوا جیسے دو سینوں سے ایک ایسی چیخ اٹھی تھی جسے فوراً دبا لیا گیا۔ بعد کی ساری آوازیں بھی یوں لگتا تھا جیسے اسی ادھوری چیخ نے دبا لی تھیں۔ حتّٰی کہ ساری گلی میں اکتاہٹ سی تن گئی۔ اور ابھی اس اکتاہٹ کا تناؤ ٹوٹ کر بھنبھناہٹ میں نہیں ڈھلا تھا کہ اچانک دروازے پر پڑا ٹاٹ لرز اُٹھا۔ سفید بڑی چادر میں لپٹی لپٹائی ایک عورت برامد ہوئی، یوں جیسے اکتاہٹ کا ٹوٹتا تناؤ اور ساری بھنبھناہٹیں اس کے قدموں کا بچھونا ہو گئی ہوں۔ اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس چارپائی کو نہ دیکھا جس پر نصیب اللہ کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ چغلی کھا رہا تھا کہ وہ شدید اذیت میں تھی مگر اس کی چال میں کوئی لڑکھڑاہٹ نہ تھی۔ لوگوں کے بیچ سے نکلتی جب وہ ساتھ والی گلی میں مڑ گئی تو ٹاٹ کے اندر سے لڑکی کی آواز آئی:
’’بابا کی چارپائی اندر لے آئیں‘‘
٭٭
تحریر کنندہ کی طرف سے اِعلان
یہاں پہنچ کر مجھے شدت سے محسوس ہونے لگا ہے کہ میں کہانی لکھنے کے فن میں ابھی بہت خام ہوں اور اس غیر مربوط آدمی کی یادداشتوں کو ایک چست کہانی میں نہیں ڈھال پاؤں گا۔ جب جب میں کہانی کی اپنی گرفت میں آتا رہا مجھے محسوس ہوتا رہا کہ وہ یادداشتوں سے کنی کاٹ کر نکلنا چاہتی ہے۔ میں نے اوپر کہانی کو اپنی سی کرنے بھی دی ہے مگر میری مشکل یہ ہے کہ ا س کہانی کو لکھنے کا بنیادی مقصد غیر مربوط آدمی کی یادداشتوں کو مرتب کرنا ہے۔ لہذا لکھتے ہوئے چونک چونک کر اپنے سامنے بکھرے اوراق کی طرف پلٹنے سے یہ جو کہانی پر فروعی معاملات کے دریچے کھل جاتے ہیں اس نے نئی طرز کی ایسی کہانی لکھنے کی راہیں مسدود کر دی ہیں جس میں واقعہ احساس بن کر ہوا ہو جایا کرتا ہے۔
میری کہانی کے سروکاروں میں واقعہ اور اس کی جزئیات سے وفاداری کا عنصر بھی شامل ہے لہذا اعلان کیے دیتا ہوں کہ میں کہانی میں رخنے ڈال کر اسے چست کر لینے کی للک سے آزاد ہو گیا ہوں۔ اور ہاں یہاں میں کہانی کا وہ حصہ درج کرنے جا رہا ہوں جو اس غیر مربوط آدمی نے یوں سنایا تھا کہ اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں آخر تک آتے آتے وہ یک دم طیش میں آ گیا ، اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور ہونٹ دانتوں تلے دے کر کاٹ ڈالے تھے۔ اس کے بعد وہ کئی دنوں کے لیے خاموش ہو گیا تھا۔ یوں ، کہ مجھے خدشہ ہونے لگا جیسے وہ اب کبھی نہ بولے گا تاہم آٹھویں دن اس نے میری طرف دیکھا اور کہا تھا:
’’ آگے کی کہانی سنو گے؟‘‘
آگے کی سنائی ہوئی کہانی تو میں آپ کو بعد میں سناؤں گا پہلے کہانی کا وہ ٹکڑا ملاحظہ ہو جو مجھے اس کی جانب سے لکھنا ہے۔
٭٭
نفرت کے تھوک سے پرے زندگی کا دائرہ
یہ بات اہم نہیں ہے کہ وہ لڑکی میرے باپ کی منکوحہ کیسے ہو گئی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نے میرے باپ کی زندگی کو بالکل بدل کر ہی رکھ دیا تھا۔ بڑے خان جی نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اس نامعلوم نسب والی لڑکی کو بہو قبول نہیں کر سکتے۔ مجھے معلوم ہے یہ بات وہ خان جی کے بہکانے پر کہتے تھے ورنہ وہ جانتے تھے کہ میری ماں پر نسب کے عدم پتہ ہونے کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی تھی۔ خان جی نے اپنے باپ کو اس قدر بھڑکا دیا تھا کہ انہوں نے میرے باپ اور میری ماں کو حویلی کی دہلیز سے کھڑے کھڑے لوٹ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہیں حویلی سے بڑے خان جی نے نکالا مگر گاؤں انہوں نے خود چھوڑ دیا کہ چاہتے ہوئے بھی تو اس گاؤں میں وہ اپنی زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔ تو یوں ہے کہ میرے باپ نے میری ماں کو ساتھ لیا اور اپنا گاؤں چھوڑ دیا، باپ کی حویلی چھوڑ دی جس میں بڑے بھائی کی مرضی چلتی تھی اور ان کی زندگی سے ہی نکل کر شہر میں اپنی زندگی کا ایک الگ دائرہ بنا لیا۔
ایک ہی ہلے میں اس زندگی سے نکلنا، جو کل تک اپنی رہی ہو، کہاں ممکن ہو پاتا ہے۔ ابا نے ممکن بنا لیا تھا۔ مگر بڑے خان جی کی موت کی خبر نے انہیں یوں تڑپایا جیسے وہ حویلی سے ابھی نکلے تھے اور وہ بھی یوں جیسے مچھلی بھرے تالاب سے ابھی ابھی نکال کر باہر پکے فرش پر تڑپنے کو چھوڑ دی گئی ہو۔
اُدھر، مرنے سے پہلے بڑے خان جی بہت اذیت میں تھے۔ موت سے کوئی سات ساڑھے سات سال پہلے ان پر فالج کا حملہ ہوا تھاجس نے ان کا آدھا بدن مار دیا تھا۔ باقی والے آدھے بدن میں اتنی سکت نہ تھی کہ میرے باپ یعنی اپنے چھوٹے بیٹے کو اپنی زندگی میں دوبارہ شامل کر لیتے تاہم وہ آخری وقت تک جتن کرتے اور اپنی ساری جائیداد خان جی کے نام کرنے سے کتراتے رہے۔ اندر کی خبر رکھنے والے ایک شخص نے یہ بات بڑی راز داری سے میرے باپ کے کان میں تب انڈیلی تھی جب انہیں باپ کی میت سے الگ کر کے چارپائی اٹھا لی گئی تھی اور وہ ہم دونوں کے پاس میرے باپ کے ہوش میں آنے تک کے لیے خان جی سے آنکھ بچا کر ٹھہر گیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ لگ بھگ وہ بے بس ہو چکے تھے اور اگر گزشتہ رات وہ نہ مرتے تو اگلے روز انہیں خان جی کے حق میں جائیداد کے کامل حصے کے ہبہ انتقال کے لیے بیان دینا پڑتا کہ اس کانا چار وہ وعدہ کر بیٹھے تھے اور خان جی نے سارے انتظامات بھی مکمل کر لیے تھے۔
تب میں بہت چھوٹا تھا اور کئی باتوں سے درست درست معنی اخذ کرنے کی پوری صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ خیر سب کچھ اور صحیح صحیح سمجھ لینے کا دعوی تو آدمی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں نہیں کر سکتا۔ میرے لیے بہت کچھ پہلی بار ہو رہا تھاجس نے مجھ پر ایک عجب طرح کا جادو سا کر دیا۔ مجھے بڑے خان جی کی موت سے کہیں زیادہ خان جی کی با رعب شخصیت نے متوجہ کیے رکھا۔ اتنے سارے لوگوں کے اندر وہ سب سے الگ نظر آتے تھے۔ لیکن تب مجھے شدید صدمہ پہنچا جب میں اپنے باپ کے ساتھ ان کے قریب پہنچا تھا اور انہوں نے منھ پھیر کر صابرے کو بلایا اور اس سے قبر کی تیاری کی تصدیق شروع کر دی تھی۔ میں اور میرا باپ وہاں بہت دیر کھڑے رہے حتی کہ میری پنڈلیوں میں اینٹھن اور میرے دل میں چبھن ہونے لگی۔ پھر خان جی حویلی کے اندر چلے گئے اور میرا باپ اس دروازے کو دیکھتا رہاجس کی دہلیز سے اگرچہ بہت پہلے وہ اپنی بیوی کے ساتھ لوٹا دیے دیئے گئے تھے مگر اسے یوں لگتا تھا جیسے یہ کل کی بات ہو۔ اس دروازے کے دوسری طرف ، حویلی کے آنگن میں بڑے خان جی کی لاش پڑی تھی۔ میرے باپ میں ہمت نہ تھی کہ اپنے بیٹے کے ساتھ اس دہلیز کو پھلانگ پاتا لہذا دل گرفتہ ہو کر وہیں ان لوگوں کے درمیان بیٹھ گیا جو جنازہ اٹھنے کا انتظار کرتے کرتے اب باقاعدہ اکتانے لگے تھے۔ یہی وہ دورانیہ تھا جب لوگ ایک ایک کر کے میرے باپ کے قریب آتے ر ہے، اور نہایت احتیاط سے اس کے کانوں میں افسوس کی سرگوشیاں انڈیلتے رہے۔ خان جی کے نمودار ہوتے ہی یہ سلسلہ یوں رکا کہ میں اور میرا باپ دونوں اپنے دکھ کے ساتھ پھر تنہا ہو گئے تھے۔
اس ایک دن کو میں ساری زندگی اپنے ذہن سے کھرچنے کے جتن کرتا رہا ہوں مگر میرے باپ کی بے بسی کا منظر ایسا ہے کہ کبھی نہ بھول پاؤں گا۔ بطور خاص قبرستان میں جنازہ پڑھنے کے بعد کا وہ منظر جب لوگ باری باری میت کا چہرہ دیکھ رہے تھے اور جب میرے باپ اور میری باری آئی تو ساتھ ہی خان جی کی بے زاری میں لتھڑی ہوئی آواز بھی آئی تھی:
’’بس جی بس، میت دفنانے قبر کی طرف لے چلو ، بہت دیر ہو رہی ہے۔‘‘
ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کے منشی نے کہا تھا:
’’ کھدی قبر انتظار کر رہی ہے ، دفنانے میں دیر کریں تو میت پر بوجھ ہوتا ہے‘‘ ۔
میت کا بوجھ میرے باپ کے دل پر پڑ چکا تھا۔ خان جی کے حکم اور منشی کی نصیحت میں بہت دیر ہو گئی تھی کہ میرا باپ اس عرصے میں دھاڑیں مارتا میت پر گر چکا تھا۔ اسے جتنا کھینچ کھینچ کر میت سے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی وہ اتنا ہی پسرتا اور چھاتی کا زور لگا کر روتا۔ اور جب میرا باپ اپنے باپ کی میت کے پاؤں پکڑ کر اور رو رو کر معافی مانگتے مانگتے لگ بھگ بے ہوش ہو گیا تھا تو میں نے دیکھا تھا کہ خان جی نے ایک طرف منھ کر کے تھوکا اور کھنکار کر گلا صاف کیا تھا۔
٭٭
چلتی کہانی میں لکھنے والے کے درد کا ٹانکا
خان جی کے منھ ٹیڑھا کر کے تھوکنے سے یاد آیا کہ میرے حافظے میں جو کھنکار اور تھوک محفوظ ہے اس سے دو الگ الگ چہرے وابستہ ہیں۔ ایک چہرہ میری ماں کا ہے، جو مجھ سے محبت کرتی تھی نہ نفرت مگر میں اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ دوسرا چہرہ ذہن میں آ تے ہی میرے اندر سے نفرت امنڈنے لگتی ہے۔ اگر میری نفرت میں آگ کی طرح جلانے کا وصف ہوتا تو جس شخص سے میں نفرت کرتا ہوں اس کی بوٹی بوٹی اس الاؤ میں تڑ تڑاتے ہوئے بھن جاتی۔ معاف کیجئے کہ میں کہانی کی قواعد کی پاسداری نہیں کرپا رہا، ایک تو چلتے قصے میں اپنی بات لے آیا ہوں اور دوسرا اپنی نفرت کو واقعہ کے بطن میں رکھنے کی بجائے بیان کرنے بیٹھ گیا ہوں۔ خیر ، وہ واقعہ ، جو مجھے یاد آیا، صاف صاف اور سیدھا سیدھا لکھ دینا ہو گا کہ یقیناً اب تو آپ کو بھی اس کے بیان میں دلچسپی ہو گئی ہو گی۔
تویوں ہے کہ ابھی میں کمسن تھا ، اِتنا ہی کمسن جتنا کہ کہانی والا بچہ اوپر والے واقعے میں دکھایا گیا ہے۔ تب تک میرا باپ مستقل طور پر خان جی کے اصطبل نہیں پہنچا تھا۔ ایک روز راہ چلتے ہوئے شیدے نے روک کر میری ماں پر نظریں جماتے ہوئے کھنگورا مارا اور آنکھوں کے کناروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تھا ’’بیبئے! یہ چھوکرا تو ہو بہو اپنے خان جی پر گیا ہے۔‘‘ پہلے تو میری ماں کا دل دھک سے رہ گیا ہو گا کہ وہ وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔ پھر کھسیا کر میرے چہرے پر نظر ڈالی اور اپنی جثے کو یوں اپنے دوپٹے میں لپیٹنے لگی جیسے شیدے نے جملہ نہ پھینکا ہو اس کے بدن کے کپڑے نوچ لیے ہوں۔ شیدا یوں ہی راہ روکے اور دانت نکوسے کھڑا رہا تو میری بوکھلائی ہوئی ماں نے ایک طرف منھ کر کے نفرت سے یوں تھوکا تھاجیسے وہ شیدے کی بات پر نہیں اپنے خان جی کے منھ پر تھوک رہی ہو۔ فوراً بعد ماں نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ دوسرے ہی لمحے جیسے کوئی خیال آ گیا ہو مجھے جھٹکے سے کیا اور ذرا فاصلے پر ہو کر میرے چہرے پر ایک بار پھر اس تیزی سے نگاہ کی جیسے یہ اس کا شعوری عمل نہ تھا خود بخود اس سے سرزد ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں کا رنگ کچھ اور سا ہو گیا تھا۔ اس نے منھ پھیر لیا، یوں جیسے اب وہ کبھی بھی پلٹ کر نہیں دیکھے گی۔ اس نے بغیر پیچھے دیکھے اپنا داہنا ہاتھ مضبوطی سے میرے باہنے بازو پر جمایا اور راستہ روکے شیدے سے پہلو بچا کر نکلی تو میں اس کے پیچھے پیچھے گھسٹ رہا تھا۔ وہ مجھے دیکھے بغیر پھولی سانسوں کے ساتھ مسلسل بھاگتی رہی۔ میں گھر تک لگ بھگ گھسٹتا ہوا چلا گیا۔ گھر پہنچ کراس نے جیسے نفرت سے مجھے پرے اچھال دیا۔ میرا سر دیوار کے ساتھ جا لگا۔ مجھے شدید چوٹ آئی اور خون چھوٹ بہا۔
جو کچھ ہو رہا تھا میں اسے نہ سمجھ پانے کے باعث کچھ یوں ہکا بکا تھا کہ رونا تک بھول گیا تھا۔ ماں صحن میں بکائن تلے بچھی کھاٹ پر اوندھی پڑی ، رو رہی تھی اور اس کا سارا جسم جھٹکے کھا رہا تھا۔ تب میں نے بکائن کی شاخوں اور پتوں سے چھن چھن کر آتی دھوپ کے ٹکڑوں کو دیکھا جو ماں کے جسم پر پڑ رہے تھے تو مجھے لگا جیسے وہ جھولتے ہوئے آنکھیں جھپک جھپک کر مجھے پاس بلا رہے تھے۔ میں لپک کر قریب پہنچا اور ان میں سے ایک کو ، جو قدرے زیادہ روشن تھا ، ہتھیلی کے نیچے چھپانا چاہا۔ دھوپ کا روشن اور چوکس ٹکڑا جیسے پہلے ہی میری اس حرکت کا اندازہ لگائے بیٹھا تھا ، فوراً اُچھلا اور میری ہتھیلی کی پشت پر سوارگیا۔ ابھی اس کا وجود پوری طرح ساکت نہ ہوا تھا کہ ماں کا جسم تڑپ کر سیدھا ہو گیا۔ میں دھوپ کے ٹکڑے کو اور ماں جھٹکے کھا کھا کر رونے کو بھول چکی تھی۔ میرا درد جاگ گیا اور ماں میرے سر سے بہہ کر گالوں تک آنے والے خون کو دیکھ کر ممتا کو جگانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ وہ ممتا جسے میں ہمیشہ محبت کے ہم پلہ سمجھتا رہا ہوں۔ ماں نے جلدی سے اپنے دوپٹے سے میرا بہتا خون صاف کیا۔ پھر اسی دوپٹے کو اس کی چوڑائی کی جانب سے دونوں کناروں سے پکڑ کر تانا اور لمبائی میں آخر تک پھاڑتی چلی گئی۔ دوپٹے سے الگ ہونے والی پٹی کا ایک سرا میرے سر پر زخم کے اوپر لپیٹ کر باندھ دیا پھر اس نے میری پیشانی پر بوسہ دیا ، بھینچ کر چھاتی سے لگایا اور خوب کھل کر روئی تھی۔
٭٭
اپنے باپ کی لاش پر روتے روتے بے ہوش ہونے والے کی کہانی میں جس بچے کا ذکر ہو رہا ہے اس نے اپنے باپ کو اس طرح کھلے میں اور سب کے سامنے منھ پھاڑ کر روتے پہلی بار دیکھا تھا۔ چپکے چپکے رونا، چنری میں منھ لپیٹ کر یا یوں کہ آنسو آنکھوں کے اندر بھر تو جائیں مگر بہہ نہ پائیں اس نے اپنی ماں کے ہاں دیکھ رکھا تھا۔ بغیر آنسوؤں کے رونے کا احساس کبھی کبھی اسے باپ کے ہاں تب ہوتا تھا جب گاؤں کا ذکر آنے پر اس کی آواز حلقوم میں چپکنے لگتی اور بوجھل ہو کر بیٹھ جاتی تھی۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے ، عام حالات میں بے وزن لگنے والے بدن کے کپڑے بارش کے پانی سے بھیگ کر ماس سے چپکتے ہیں اور اپنا سارا بوجھ بدن پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کس کا دکھ بڑا تھا، اس بچے کی ماں کا جو کہانی کی اخلاقیات کی پروا نہ کرتے ہوئے بار بار کہانی میں آگھستا ہے یا اس بچے کی ماں کا ، جس کی ذات فی الاصل اس کہانی کی مالک و منبع ہے، یہ فیصلہ کرنا مقصود ہے نہ یہ آنکنا کہ دونوں بچوں میں سے کس کا باپ زیادہ دکھی تھا کہ اس کہانی کو لکھنے کا یہ منشا ہے ہی نہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کہانی کو لکھ دینے کا اس کے سوابھی کوئی مقصد ہو سکتا ہے کہ اسے عین مین اس طرح لکھ لیا جائے جیسی کہ وہ ہے ، یا جیسی مجھ پر کھلتی گئی ہے۔ کسی بھی کھوٹ اور ملاوٹ کے بغیر۔ کھوٹ سے تو میں اب تک پوری طرح بچ بچا کر یہاں تک پہنچ گیا ہوں مگر میرا یہ دعوی ہر گز ہر گز نہیں ہے کہ اسے ملاوٹ سے بچا پایا ہوں گا۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ خود میری ذات کی چھوٹ اس کہانی کی ملاوٹ بنتی رہی ہے۔
٭٭
کیا خواب زندگی ہیں اور تعبیر موت؟
مجھے یاد ہے کہ یہاں مجھے کہانی کا وہ حصہ درج کرنا ہے جو اس روز کے آٹھ دنوں بعد سنایا گیا تھا جس روز اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ جس دن کی میں بات کرنے جا رہا ہوں وہ لمبی اور مسلسل چپ کے پچھلے سرے سے جڑا ہوا دن تھا۔ مجھے یاد ہے، اپنی بات ختم کرنے سے پہلے وہ طیش میں آ گیا تھا۔ اس نے اپنی مٹھیاں بھینچیں اور نچلے ہونٹ کو دانتوں میں گھسیڑ کر کاٹ ڈالا۔ میں نے اس کے کٹے ہوئے ہونٹ سے رستے لہو کو دیکھا تو میرا دل درد سے بھر گیا مگر اس کی زبان سے سی کی آواز بھی نہ نکلی تھی۔ وہ تو یوں چپ ہو گیا جیسے دانتوں تلے کٹنے والے اس کے ہونٹ نہ تھے وہ تو اس کے لفظوں کا سارا ذخیرہ اور اس کے اندر سے برآمد ہونے والی آوازیں تھیں ، اورسب کچھ کترا گیا تھا۔
میں نہیں جانتا ان آٹھ دنوں میں اس نے یوں ہی زندہ رہے چلے جانے کی ہمت کیسے پکڑی تھی تاہم یوں ہے کہ میں نے اِنتہائی تجسس میں یہ شدید خواہش کی تھی کہ وہ جو وقفے وقفے سے کہانی کہتا آیا ہے اسے یہ کہانی ضرور مکمل کرنی چاہیے۔ خدا خدا کر کے لمبی خامشی ٹوٹی اور جب اس نے کہا ’’آگے کی کہانی سنو گے؟‘‘ تو میں وہیں اس کے سامنے ٹانگیں پسار کر بیٹھ گیا تھا۔
٭٭
سنو !یہ آگے کی کہانی ہے مگر یاد رکھو کہانیوں میں وقت کبھی سیدھی لکیر میں نہیں چلا کرتا۔۔۔ تو یوں ہے کہ اس میں بھی وقت پلٹ پلٹ کر ماضی میں گر رہا ہے ، اس آنگن میں جس میں میرا باپ میری پیدائش کے بعد روشن مستقبل کے خوابوں سے وابستہ ہو گیا تھا۔ یہ وہ خواب تھے جو میری ماں نے بنے تھے۔ میں بڑا ہو رہا تھا اور ماں نے میری تربیت کی جو بنیادیں رکھ دی تھیں وہ میرے باپ کے مزاج سے سراسر مختلف تھیں۔ جس ماحول میں میرے باپ کی پرورش ہوئی تھی اس میں مزاج کا اکھڑ ہو جانا لازمی امر تھا مگر میری ماں نے میری طبع میں اپنی حلیمی رکھ دی۔ میں تو نرم شاخ کی طرح تھا ، محض ایک بچہ ، جس طرح اور جس رُخ پر ماں نے ڈھالنا چاہا ڈھلتا گیا مگر لطف کی بات تو یہ ہے کہ میرا باپ بھی ویسا بن گیا جیسا میری ماں نے چاہا تھا۔ ایک بار یوں ہوا کہ ماں اندر بیمار پڑی تھی اور میں اس کے تپتے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام کر سکول نہ جانے کی ضد کر رہا تھا، میرا باپ مجھے دھکیلتا دھکیلتا باہر صحن میں لے آیا۔ مجھے بہت برا لگا مگر اس نے میرے کندھے پر بستہ جما کر کہا کہ میری ماں نے میرے حوالے سے کچھ خواب دیکھ رکھے تھے اور اگر وہ تعبیر سے ہمکنار نہ ہوئے تو وہ بے موت مر جائے گی۔ ایسا کہتے ہوئے اس کی آنکھیں کناروں تک آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ دھوپ اٹھلاتی پھرتی ہو اور بارش کی پھوار برسنے لگے ، مجھے ہمیشہ سے اچھا لگتا رہا ہے۔ جذبوں کی آنکھ مچولی میں اس کی کناروں تک بھر جانے والی آنکھیں اور خوابوں کے ذکر کے ساتھ اعتماد سے چمک اٹھنے والی آواز ، دونوں مجھے اچھے لگے تھے۔
میں نے یہ بات اپنے باپ کو نہیں جتلائی اور سکول چلا گیا تھا۔
ماں اچانک نہیں مری تھی۔ اس نے لمبی بیماری کاٹی تھی۔ اس کی اذیت اور صبر کی حالتوں کو میں نے دیکھا اور سہا بھی ہے۔ یہ باتیں جو میں اب بتانے جا رہا ہوں ان میں وہ باتیں بھی شامل ہیں جو میرے باپ نے بتائی تھیں اور وہ بھی جو خود بخود میرے شعور کا حصہ بنتی گئیں۔ یہ پہلی برسی کا موقع تھا جب میرے باپ نے اتنی تفصیل سے میری ماں کی بیماری کا ذکر کیا جتنی تفصیل سے وہ اس کے ان خوابوں کا تذکرہ کیا کرتا تھا جو اس نے مجھ سے وابستہ کر رکھے تھے۔ اس نے بتایا کہ میرے پیدا ہونے کے کوئی آٹھ ماہ بعداسے پیٹ میں شدید اینٹھن ہونے لگی تھی۔ پہلے تو وہ اِدھر اُدھر سے دوائیں لیتی رہی مگر جب تکلیف برداشت سے باہر ہو گئی تو اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ مختلف ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹر نے ڈکلیئر کر دیا کہ ماں کو رحم میں کینسر تھا۔ ماں کا آپریشن ہوا۔ کینسر زدہ حصہ کاٹ کر نکال دیا گیا مگراس کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے بگڑتی ہی چلی گئی۔ دوبارہ ٹیسٹ ہوئے۔ کینسر کی جڑیں پہلے آپریشن میں کھرچی نہ جا سکی تھی لہذا موت اسے اپنی سمت مسلسل کھینچتی رہی تھی۔
یوں بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی ہمت والوں نے موت کو پچھاڑ دیا ، موت کے فرشتے کو غچہ دیا اور کئی برس اور جی لیے۔ انہی لوگوں میں میری ماں کا شمار بھی کر لو۔ بیماری کی تیز آنچ سے اس کا جسم پگھلتا جا رہا تھا مگر اس نے اپنی سانسوں کو میری زندگی کے ساتھ یوں پیوست کر دیا تھا کہ میرے کیپٹن بننے کی امید میں وہ انہیں کھینچتے چلی گئی۔ اب ، میں یعنی اس کا بیٹا جواں ہو گیا تھا۔ اسے اطمینان ہو گیا کہ جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ تعبیر سے ہمکنار ہوا ہی چاہتا تھا لہذا اس نے اپنی تانت بھری سانسوں کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ بس یہی وہ وقت تھا کہ اس کی سانسیں اکھڑنے لگی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہو، تنے ہوئے اعصاب کے ساتھ، مگر یکلخت اسے یوں لگے جیسے وہ دوسرے کنارے پر پہنچ ہی گیا ہے تواس کے اعصاب کا تناؤ ٹوٹ جائے۔
تو یوں ہے کہ اس نے دوسرا کنارا آنے کا یقین کر لیا تھا۔ اس نے بیماری کی اتنی طویل اذیت سہی تھی کہ اپنے بیٹے کی جانب سے مطمئن ہو کر مزید اذیت سہے چلے جانے والی ہمت اب اس کے پاس نہیں رہی تھی۔ میرا باپ ساری بات سمجھ گیا تھا دونوں کے درمیان محبت کا بہت گہرا اور مستحکم رشتہ تھا۔ جہاں ایسا رشتہ قائم ہو جائے وہاں کچھ بتانے کی ضرورت اضافی ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اسے بوکھلا دینے کے لیے کافی تھا۔ ماں ایک بار پھر ہسپتال میں تھی اور میرا باپ اسے بچا لینے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔ میں تب تک اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھےض لگا تھا کہ باپ کو حوصلہ دوں۔۔۔ مگر حوصلہ کہاں تھا۔۔۔ اس کے پاس ، نہ میرے پاس۔۔۔ لہذا ہم دونوں ایک ساتھ رودیتے تھے۔ میرے باپ نے ڈاکٹروں کو اس پر مائل کر لیا تھا کہ ایک اور آپریشن کا حیلہ کیا جائے۔ اس رات چپکے سے میرا باپ گاؤں آیا تھا اپنے باپ کی جائیداد سے اپنا حصہ لینے۔ یہ بات اس نے مجھے گاؤں سے لوٹ کر بتائی تھی۔ اور یہ بھی بتایا تھا کہ خان جی نے اسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اس نے کچھ رقم مجھے دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ آپریشن کے خرچ کا بندوبست ہو گیا تھا۔ اسے اس بات کی بہت خوشی تھی کہ اس کے بھائی نے اس کے دکھ کو سمجھا تھا اور یہ وعدہ بھی کر لیا تھا کہ بہت جلد جائیداد میں سے اس کا حصہ دے دیا جائے گا۔ میں باپ کو قدرے مطمئن اور ماں کو ہسپتال میں چھوڑ کر کاکول آ گیا تھا اور یہیں مجھے ماں کے مرنے کی خبر ملی تھی۔
٭٭
خوابوں سے بچھڑی ہوئی موت
جب وہ اپنی ماں کی موت کا قصہ مکمل کر رہا تھا تو میں جو اس کہانی کو لکھ رہا ہوں ، اس سوال سے الجھ رہا ہوں کہ کیا خواب زندگی ہوتے ہیں اور ان کی تعبیر موت ؟ یہ سوال میرے لیے بالکل ایک نئے احساس جیسا تھا کم از کم اپنی ماں اور باپ کے حوالے سے۔ ماں کے لیے تو شاید خواب ہمیشہ سے ممنوعہ علاقہ رہے تھے تاہم میرا باپ ایک محدود وقت کے لیے ان کا اسیر رہا اور جب سے وہ گھوڑوں کی خدمت پر مامور ہوا تھا، خوابوں سے بالکل کنارہ کش ہو گیا تھا۔ گھوڑوں کی کھال کھروچتے، مالش کر کے چمکاتے ، ان کو چارا پانی ڈالتے اور ان کی لید صاف کرتے اس کی ساری حسیں کند ہو چکی تھیں۔ وہ ان کاموں میں تن دہی سے جت کر روز اپنا بدن نڈھال کرتا ، اتنا کہ اکثر وہیں ایک طرف پرالی کے اوپر ڈھے کر خراٹے مارنے لگتا۔ ایسے میں نہ تو اسے گھوڑوں کے پیشاب اور لید کی سڑانداور بو پریشان کرتی، نہ کوئی خواب اور خیال ستاتا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا رہا کہ ایک روز وہ معمول کی طرح یوں ہی اپنے بدن کو خوب تھکا کر سوئے گا اور موت سے ہمکنار ہو جائے گا۔ اور ہوا بھی یہی۔۔۔ اس روز وہ پوری طرح خالی الذہن تھا اس نے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالا کہ اس کا انگ انگ دکھنے لگا حتی کہ اس کا وہیں ایک کونے میں بچھی پرالی تک پہنچنا بھی ممکن نہ رہا۔ اس نے دو چار قدم جیسے عادتاً اٹھائے اور گھوڑوں کے عقب میں پہنچ کر ننگی زمین پر ہی ٹانگیں پسار کر ڈھیر ہو گیا۔ اگلے روز اس کا مردہ وہیں سے یوں اٹھا یا گیا کہ اس کا بدن دہرا ہو گیا تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ چکرا کر گرتے وقت وہ زندہ تھا، اسے سوتے میں شدید سردی نے مار دیا تھا۔
میری ماں کو خواب کیوں نہیں آتے تھے میں اس کا تجزیہ کرنے سے اس لیے قاصر ہوں کہ جب تک ماں زندہ رہی، میں چھوٹا تھا اور اسے ایک معمے سے زیادہ نہ جان پایا تھا۔ بعد میں گاؤں والوں نے مجھے جو کچھ اشاروں کنایوں میں سجھایا تھا اس سے مجھے اپنا وجود گھوڑوں کی لید کے کیڑوں جیسا لگا تھا ، وہ لیدجسے میرا باپ صاف کرتا رہا تھا اور جس کے اوپر گر کر وہ مر گیا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ میری ماں اور باپ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے مگر وہ حقیقت جو مجھ پر بعد میں خان جی نے کھولی تھی اس کے بعد میری ماں کا کوئی خواب دیکھنا بنتا ہی نہیں تھا۔ خان جی نے کیا کہا تھا ، اس قصے کو میں ابھی موقوف کر رہا ہوں کہ مجھے تو اپنی نہیں ، کسی اور کی کہانی کہنی ہے۔ بس یہاں میں اس کہانی میں یوں گھس بیٹھا ہوں کہ میری ماں بھی ایک روز مر گئی تھی۔ اسے کئی بدنی عارضے تھے جن کی اسے پروا بھی نہیں تھی مگر ذلت کے شدید احساس کے زیر اثر اسے یوں لگتا جیسے اس کا سارا وجود ایک بہتے ہوئے بدبو دار پھوڑے کی طرح تھا اور جب وہ ایسا سوچتی توایسے میں اسے محبت کرنے والا شوہر نظر آتا نہ اس کی اپنی کوکھ سے جنم لینے والا۔ ایسے میں وہ خواب کیسے دیکھ سکتی تھی۔ تو یوں ہے کہ وہ بے خواب ہی مر گئی۔ اپنی ماں کے بارے میں سوچتا ہوں اور اس کا موازنہ میں اس کی ماں کی موت سے کرتا ہوں جس کی کہانی لکھی جا رہی ہے تو اس ماں پر رشک آتا ہے جس نے خواب دیکھا ، تعبیر کی دھیمی سی دھمک سنی اور آسودگی سے موت کو گلے لگا لیا۔ مگر زندگی وہاں رک نہیں گئی تھی وہ آگے بڑھ رہی تھی اور جب ہم اس سارے منظر نامے کو وسیع تناظر میں دیکھتے تھے تو اس کا لایعنی پن ہمیں اندر سے کھدیڑ ڈالتا ہے۔
آسودگی سے مرنا یوں جیسے اس کی ماں مری تھی اور تڑپ تڑپ کر مرنا، اس طرح جیسے میری ماں مر گئی۔ تو کیا موت نے دونوں کو ایک جیسا نہ کر دیا تھا۔ میرا باپ جو گھوڑوں کے اصطبل میں یخ زمین پر دہرا ہو کر مر گیا تھا، کیا وہ اس کہانی والے شخص کے باپ کا سا نہیں ہو گیا تھا جسے کچھ ہی عرصے کے بعد کسی نامعلوم گاڑی نے ایک ویران سڑک پر کچل دیا تھا۔ موت اس میں تمیز نہیں کر رہی تھی کہ کون خواب دیکھتا تھا اور کون خوابوں سے پرے مر رہا تھا۔
٭٭
آدمی کیسے مات کھاتا ہے!
اس روز میں پاس آؤٹ ہو رہا تھا اور پروگرام کے مطابق میرے باپ کو کاکول آنا تھا۔ کاکول میں پاس آؤٹ ہونے والوں کے والدین اور اعزاء کو تقریب میں شرکت کے خصوصی دعوت نامے جاری کیے جاتے اور میرے باپ کو جب یہ دعوت نامہ ملا تھا تو اس نے مجھے فون کر کے آنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ میں نے اس کی آواز کو جذبات کی شدت سے کانپتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ جب وہ بہت خوش ہوتا تواس کی آواز اس کے حلق سے رواں ہو کر نہیں نکلتی تھی اور اس میں ایک تھرتھری سی بھی آ جاتی تھی۔ آج ، جب کہ اس واقعہ کو کئی برس بیت چکے ہیں ، میں اس آواز کو بالکل ویسے ہی سن اور محسوس کر سکتا ہو ں جیسے اس روز سنا اور محسوس کیا تھا۔ یقین جانو وہ خوش تھا ، بہت خوش۔ اور میں بھی تو بہت خوش تھا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے یعنی اپنے بیٹے کیپٹن سلیم کو وردی پہنے لیفٹ رائیٹ کرتے سیڑھیوں سے اوپر چڑھتے ہوئے جب وہ دیکھے گا تو اس سے خوشی سنبھالے نہ سنبھلے گی اور یہ بھی یقین تھا کہ ایسے میں وہ میری ماں کو یاد کرے گا اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جائیں گی۔
میری آنکھیں مسلسل اس کی راہ تک رہی تھیں۔ وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ تقریب شروع ہو گئی توبھی وہ نہیں آیا تھا۔ ہم سب جو پاس آؤٹ ہو رہے تھے قطاروں میں اسٹیج سے ذرا فاصلے پر تھے۔ نمایاں کارکردگی دکھانے پر انعامات عطا کیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو بھی میرا دھیان شامیانوں تلے بیٹھے لوگوں کی طرف رہا جن کے درمیان میرے باپ کو آ کر بیٹھ جانا چاہیے تھا۔ وہ وہاں نہیں تھا اور جب مجھے اپنے اعزاز کو وصول کرنے کے لیے اسٹیج پر بلایا گیا تو عین اسی لمحے میری نظر اپنے باپ کی بجائے خان جی پر پڑی اور میں حیرت زدہ رہ گیا تھا کہ یہ یہاں کیسے پہنچے تھے ؟
ہاں تو میں بتا چکا ہوں کہ میرا باپ ایک ویران سڑک پر کچل دیا گیا تھا۔ اور خان جی کا کہنا تھا کہ انہیں یہ خبر بہت دیر بعد ملی تھی۔ اور یہ بھی کہ وہ اسے کبھی معاف نہیں کریں گے جس نے ان کے بھائی کو یوں بے دردی سے کچل کر مار ڈالا تھا۔ انہوں نے یہ بات مجھے’’ بیٹا‘‘ کہہ کر شروع کی تھی اور پہلی بار میرے باپ کے لیے’’ اپنا بھائی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ باپ کی موت کی خبر میرے لیے بجلی کا کوندا تھی۔ میں دُکھ سے نڈھال تھا۔ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ خان جی نے مجھے کھل کر رونے دیا اور کچھ نہ کہا۔ جب میں چپ ہوا تو انہوں نے کچھ کہا تھا مگر میں ابھی تک صدمے کی گرفت میں تھا لہذا جو کچھ وہ کہہ رہے تھے ، مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی کہیں گر رہا تھا۔ میرے اندر ایک اودھم مچا ہوا تھا۔ اچانک اسی صدمے سے وابستہ کئی وسوسوں نے سر اٹھایا۔ تاہم خان جی ٹھہری ہوئی آواز میں بولتے رہے ، اپنی نرم نرم آواز میری سماعت تک پہنچاتے رہے حتی کہ میں اندر سے نرم پڑنا شروع ہو گیا۔ اور جب انہوں نے یہ بتایا کہ یہ حادثہ پرسوں ہوا تھا تو میں ایک بار پھر بپھر گیا تھا:
’’آخر مجھے اِطلاع کیوں نہ دی گئی‘‘ ۔
’’مجھے بھی کل صبح اخبار کی خبر پڑھ کر علم ہو تھا‘‘
انہوں نے اپنی آواز کو ہموار رکھتے ہوئے کہا:
’’ اور خیال تھا کہ تم نے بھی خبر پڑھ لی ہو گی۔‘‘
ایسا کہتے ہوئے اُنہوں نے کار کے ڈیش بورڈ سے ایک تہہ کیا ہوا اخبار اُٹھایا اور پچھلی سیٹ کی طرف اُچھال دیا۔ یہ اخبار کا اندرونی صفحہ تھا۔ خبر کے ساتھ ا یک کچلے ہوئے شخص کی تصویر بھی چھپی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس کا چہرہ پوری طرح دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر میں پہچان گیا کہ سڑک پر مردہ پڑا ہوا وہ شخص میرا باپ ہی تھا جس کی ٹانگیں دوہری ہو گئی تھی۔
میری نظر سے یہ خبر کیسے نکل گئی ؟
میں الٹ پلٹ کر اخبار دیکھ رہا تھا کہ خان جی کی آواز ایک بار پھر گونجی۔
’ ’ہم لاش لے کر پہلے تمہارے گھر گئے تھے۔ تمہارے پاس آؤٹ ہونے کا دعوت نامہ وہیں سے ملا۔ بھائی کا بیٹا بھی تو اپنا ہی بیٹا ہوتا ہے لہذا ہم آ گئے۔‘‘
باقی راستے میں ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ گاؤں کی طرف مڑ گئے اور میں چاہتے ہوئے بھی یہ نہ کہہ سکا کہ مجھے پہلے گھر جانا تھا۔ گاؤں آیا۔ وہی گاؤں جو بڑے خان جی کی موت پر میں نے دیکھا تھا۔ تب اچانک مجھے یاد آیا کہ خان جی نے مجھے پہچانا کیسے ؟ اس وقت تو میں بہت چھوٹا تھا۔ پھر میں نے اخبار کی تصویر کو دیکھا اور یاد آیا کہ میرا باپ ایک بار اپنے حصے کی جائیداد لینے گاؤں آیا تھا اور کچھ رقم پا کر لوٹ گیا تھا۔ ماں کی موت پر جب میں گھر آیا تو اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ گاؤں بھائی کے پاس پھر جائے گا۔
تو کیا یہ سب ایک طے شدہ منصوبہ تھا ؟
میری نظر جب اخبار کے سرنامے پر پڑی تو یہ جان کر کہ یہ لوکل ایڈیشن تھا، مجھے مزید دھچکا لگا۔
تو کیا یہ خبر دوسرے شہروں کو جانے والے ایڈیشنز میں چھپنے سے رکوائی گئی تھی؟
ایسا ممکن بنا لینا کچھ مشکل بھی نہ تھا۔ لہذا میں نے نفرت سے خان جی کو دیکھا اور یقین کر لیا کہ اس شخص سے کچھ بھی تو بعید نہیں تھا۔
عین اُس لمحے کہ جب میں اَپنے غصے میں آمیز نفرت کے شدید جذبے سے مغلوب ہو کر کچھ بھی کر بیٹھنے کی کیفیت کو پہنچ چکا تھا ، کار رُک گئی۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا تو جانا کہ ہم قبرستان میں تھے۔ اگلی نشست پر بیٹھا وہ شخص جسے میں دنیا کا سب سے قابل نفرت فرد ٹھان چکا تھا ، کار سے نکلا ، پچھلے دروازے تک آیا، جھک کر شیشے میں سے مجھے دیکھا ، دروازہ کھول دیا اور کہا:
’’آؤ پہلے اپنے باپ سے مل لو۔‘‘
میں گاڑی سے یوں نکلا تھا جیسے وہ کوئی اور تھا جو کچھ ہی دیر پہلے وہاں اس سیٹ پر بیٹھا ہوا غصے میں پھنک رہا تھا۔ بڑے خان جی کے قدموں میں میرے باپ کو قبر ملی تھی۔
اور جب ہم قبر ستان سے باہر نکل رہے تھے تو خان جی نے بتایا تھا کہ قبر کی جو جگہ انہوں نے اپنے لیے خالی رکھوائی ہوئی تھی اپنے بھائی کو دے دی۔
حویلی میں داخل ہونے کے بعد میں کئی روز حیران رہا کہ وہ شخص جس نے میرے باپ کو اپنی حویلی میں داخل نہیں ہونے دیا میرے لیے سارے دروازے کیوں کھول دیئے تھے۔ میرے آنے سے پہلے شہر سے ہمارے گھر کا سارا سامان حویلی میں منتقل ہو چکا تھا اور یہاں میرے لیے مختص کمرے کی ترتیب وہی رکھی گئی تھی جواُس گھر میں میرے کمرے کی تھی۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی میں جان گیا تھا کہ خان جی نے پاسنگ آؤٹ پریڈ والے دن مجھے ان تصویروں سے پہچانا تھا جو اب اس کمرے کی دیواروں پر منتقل کی جا چکی تھی۔ میرے ماں اور باپ کی تصویر بھی پہلے کی طرح سائیڈ ٹیبل پر سجا دی گئی تھی مگر مجھے اتنی زیادہ توجہ اور آسائش ملی کہ لگ بھگ میں ان دونوں کی یاد سے بے نیاز ہو گیا تھا۔ انہی دنوں میں سے ایک دن تھا جب خان جی نے مجھے اپنی وردی پہن کر دکھانے کو کہا اور جب میں وردی پہن چکا تو انہوں نے مجھے دونوں بازوؤں سے تھام کر میرے چہرے کو اپنے چہرے کے مقابل کیا، بیٹا کہہ کر میرا ما تھا چوما تھا۔
۔۔۔۔۔۔
اکثر اوقات کہانیاں ایسے مقام پر پہنچ کر اور اسے منزل قرار دے کر تمام ہو جایا کرتی ہیں۔ ان کہانیوں میں زیادہ سے زیادہ اس کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ مرکزی کردار کی شادی اس غاصب شخص کی بیٹی سے کرا دی جائے جو پوری کہانی میں اپنے ظلم کی وجہ سے چھایا رہا مگر آخرکار حد درجہ مہربان ہو گیا۔ یوں میاں بیوی کے ہنسی خوشی زندگی بتانے اور کہانی کے ختم ہونے کا جواز نکل آیا کرتا ہے۔ میرے لیے بھی کچھ ایسا ہی موقع نکل آیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ خان جی کی اکلوتی بیٹی زرجان کی شادی بھی کیپٹن سلیم سے ہو گئی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کہانی یہیں سے آغاز پاتی ہے۔
٭٭٭
باب:۲
کہانی لکھنے والے کا حلف نامہ
میں ، جو اس کہانی کا تحریر کنندہ ہوں یہاں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں کہانی کے پہلے حصے میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ تو کرتا رہا ہوں مگر اسے بری طرح توڑنے کا مرتکب ہوتا رہا ہوں۔ اگرچہ میں بعض مقامات پر اپنے آپ کو حق بہ جانب سمجھتا ہوں اور خلوص نیت سے جانتا ہوں کہ میری ذات، اور میرے ماں باپ کے تذکرے کے بغیر اس کہانی کا ماحول بنایا ہی نہیں جا سکتا تھا مگر پھر بھی میرا دل چاہتا ہے کہ اس عہد شکنی کے کفارے کے لیے میں اپنے خدا کو حاضر نا ظر جان کر عہد کروں کہ میں کہانی کے اس دوسرے حصے سے اپنی ذات کو بہ ہر صورت فاصلے پر رکھوں گا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ کہانی جست لگا کر جس ماحول میں پہنچ گئی ہے اس کا ذکر ہمیشہ سے میرے لیے نامانوس رہا ہے لہذا جو کچھ مجھے بتایا جا رہا ہے و ہی لکھنا پڑے گا۔ خیر اس دورانیے میں میرے ذہن میں جو سوالات اُٹھیں گے اور جوجو خیالات آئیں گے انہیں کہانی کے اگلے حصے میں سنبھال رکھنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔
٭٭
سمندر ، ساحل اور گھماؤ
میں یہ بتانا بھول رہا ہوں کہ عین اس روز سے ، کہ جس روز میں خان جی کے ساتھ قبرستان میں اپنے باپ کی قبر پر پہنچا تھا ، ایک عجب سی سراسیمگی کو اپنے اندر نفرت اور غصے کی اوٹ سے جھانکتے پایا تھا۔ وہ سراسیمگی تھی یا کچھ اور ، میں صحیح طور پر شناخت کرنے سے اب بھی قاصر ہوں۔ بس یوں جانو کہ یہ ایک مقناطیسی لہر تھی جو بدن کے خلیوں کے اندر اور اردگرد تھراتی رہتی۔ کبھی اس کا رخ باہر سے اندر کی طرف ہوتا کچھ اس طرح جیسے اندر اتر کر یہ تھراہٹ ایک مہین نقطے پر مرتکز ہو کر وہاں چھید ڈالنا چاہتی ہو اور کبھی اسی نقطے سے برآمد ہو کر یوں گھومتے ہوئے باہر کا رخ کرتی کہ لگتا جیسے اس گھماؤ کی زد میں آ کر سارا بدن ریزہ ریزہ ہو کر چار سمتوں میں بکھر جائے گا۔ اس روز مقناطیسی لہروں کا زور اندر سے باہر کی سمت تھا اور میں اپنے تئیں گمان باندھے بیٹھا تھا کہ یہ ایک ایسے شخص کی دین تھا جس سے کچھ لمحے پہلے تک میری کوئی جذباتی وابستگی نہیں تھی، اور جس کے حوالے سے عین اس لمحے میں بے پناہ نفرت اور شدید طیش کے جذبوں کے ساتھ موت کا خوف آمیز ہو گیا تھا۔ میں نے تب ہمت کر کے ارادتاً اِس باب میں مزید سوچنا معطل کر دیا تھا۔ جس نہج پر میں نے پیشہ ورانہ تربیت پائی تھی اس کا تقاضہ تھا کہ میں اپنے شدید جذبات پر قابو پانا چاہوں تو انہیں اپنے اعصاب پر حاوی نہ ہونے دوں کہ یوں میرا دشمن چوکنا ہو سکتا تھا۔ تاہم بعد میں زندگی کی دھج بدل گئی اور خان جی کی شخصیت ایک نئے روپ میں سامنے آئی مگر وہ بات جو میرے لیے ہمیشہ تشویش کا سبب رہی وہ یہ ہے کہ بدن کے خلیوں کے اندر باہر تھراہٹ کا گھماؤ کا ڈھنگ وہی رہا۔ بظاہر میں پرسکون ہوتا مگر اندر ہی اندر چکی کے پاٹوں کی صورت گھماؤ جاری رہتا کبھی مدھم کبھی تیز۔ جس روز کا ذکر میں اب کرنے جا رہا ہوں اس روز تھراہٹ کے پاٹ سارا گھماؤ پیس پیس کر باہر پھینک رہے تھے۔
٭٭
ہم سمندر کے پانیوں سے اوب چکے تھے۔ سامنے بندر گاہ تھی اور اس پُر لطف خیال سے کہ ابھی کچھ لمحوں بعد ہمارا جہاز کنارے جا لگے گا اپنے اندر خون کے ابال کی عجب لذت محسوس کر رہے تھے۔ سمندر کے پانی بپھرے ہوئے تھے۔ لہریں موج در موج اُٹھتیں اور بندر گاہ پر لگے ہمارے جہاز سے ٹکرا کر ایسا شور پیدا کر رہی تھیں کہ ان لہروں کی باڑھ سیدھا ہمارے دلوں پر پڑتی تھی۔ مگر ہم اس باڑھ سے ہیبت زدہ نہیں تھے کہ سمندر کے پھیلاؤ کو پاٹتے پاٹتے ہم نے اس کی ہیبت کو بھی کاٹ ڈالا تھا۔ اب جب کہ کنارہ قریب تھا اور اس قرب کے لطف کا ایسا کیف تھا کہ ان لہروں کی ہر ضرب ہمارے دلوں میں لذت آمیز گد گدی سی پیدا کرتی تھی۔ جب ہم اس مہم کے لیے جہاز پر سوار ہوئے تھے تو ہمارے دل ہر طرح کے وسوسوں سے خالی تھے۔ بس ایک تجسس تھا ، سمندر پار اپنے ہی ملک کے ایک حصے کو دیکھنے کا تجسس۔ بنگال کے حسن کا جادو سن رکھا تھا ، اتنا کہ وہ ہماری حسوں کا حصہ ہو گیا تھا۔ کچھ کر لینے کا جوش اور انجانی مہم کا بھید اس تجسس میں آمیز ہو گئے تھے کہ ہماری پیشہ وارانہ ذمہ داریوں نے ہماری حسوں کو اسی نہج پر سدھا یا ہوا تھا۔ کنارا قریب آتے آتے ہم سمند رکی موجوں اور اُبال کو اپنی سماعتوں میں بسا کر ان سے اس قدر مانوس ہو چکے تھے کہ ہمارے ہونٹوں پر گنگناہٹ سی پھسلنے لگی تھی۔
میری جس بھی جوان پر نظر پڑتی اس کا چہرہ جوش سے تمتمایا ہوا لگتا۔ صوبیدار شیر خان جو چیخ جیخ کر احکامات کو عرشے کے آخری حصے تک پہنچا رہا تھا اس کہانی کے شیر کی طرح لگتا تھا جو میں نے لڑکپن میں سندر بن کے اس جنگل کے بارے میں پڑھی تھی جس میں سورج کی کرنوں کو اترنے کی اجازت نہ تھی اور جس کے اندر شیر اپنے شکار کو سامنے پا کر یوں دھاڑتا تھا کہ اس کی دھاڑ میں کچھ ہی لمحوں کے بعد زبان کا ذائقہ ہو جانے والے لہو کی لذت بھی شامل ہوتی۔ تو یوں تھا کہ ہمارا صوبیدار شیر خان ، شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا یوں کہ آنے والی مہم کی لذت کو میں اس کی موج در موج اٹھتی آواز میں صاف محسوس کرسکتا تھا۔
اب تک کی فوجی زندگی میں یہی دیکھا گیا تھا کہ افسروں اور جوانوں کی چھاتیاں کسی بھی انجانی مہم پر نکلنے سے پہلے کچھ ولولوں سے بھر جایا کرتی تھیں اور اس کا سبب شاید اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ ہماری محسوسات کو کمال نفاست اور چالاکی سے مرتب کیا جاتا کہ ہم اسے ہی سب سے ارفع انسانی قدر سمجھنے لگتے تھے۔ ایک ایسا مقدس فریضہ جس کے آگے انسانی وجود تک ہیچ ہو جاتا۔ وہ انسانی وجود جس کا عکس تختے پر بنا کر ہمیں نشانہ باندھنا سکھایا جاتا اور ہم اس میں اتنے طاق ہو جاتے تھے کہ عکس کو اصل سے بدل دیا جاتا تو بھی ہمارا نشانہ نہ چوکتا۔ تربیت کے اِسی عرصے میں ہمیں ممکنہ حد تک مصروف رکھا جاتا۔ یہاں تک کہ ہم یکسانیت سے اکتا جاتے اور پھر ایک روز اچانک کسی نئی مہم کی خبر سے اس یکسانیت کو توڑ دیا جاتا۔ اس نفسیاتی حربے کا اثر تھا کہ ایسے میں کسی حقیقی مہم کا موقع نکل آتا تو اسے ہم قسمت کے مہربان ہونے کے مترادف سمجھتے تھے۔
تو یوں ہے کہ ہمارے ولولے اس قدر بلند کر دیئے گئے تھے کہ اس میں کچھ کرنے کے عزم کواس مہم کے ساتھ وابستہ ہو ہی جانا تھا اور وہ ہوا بھی۔
ابھی کنارہ ذرا فاصلے پر تھا مگر جوانوں نے اپنے اپنے ٹرنکوں کو کھینچ کر انہیں اٹھانے کے لیے تیار کر لیا تھا۔ جہاز کنارے کی طرف جانے کی بجائے وہیں رک گیا تھا اور جب اسے رکے کچھ زیادہ وقت گزر گیا تو سمندر کے پانیوں کے ہچکولوں نے ہمارے اندر عجب بد مزہ سی کھد بد رکھ دی تھی۔ ایسی کھد بد جو دیمک کی طرح ہمیں اندر ہی اندر سے چاٹنے لگی تھی۔ وہ ساری تمتماہٹ جو میرے اور با وردی جوانوں کے چہروں پر چٹا گانگ کی بندرگاہ پر اترنے کے جوش میں عجب سی لو دینے لگی تھی، اب کہیں نہ تھی۔ ہر طرف جگر چیر ڈالنے والی خاموشی تھی۔ جوش اور جذبے سے دھاڑنے والا صوبیدار شیر خان اپنے ٹرنک پر یوں بیٹھ گیا تھا جیسے اس کا غبارے کی طرح پھولا ہوا حوصلہ یکدم ہوا نکلنے سے ایک طرف لڑھک گیا تھا۔ ہمارے دل، جو نئی مہم کے تجسس سے چھلک رہے تھے، تکلیف دہ انتظار سے اوب کر طرح طرح کے وسوسوں میں ڈوب گئے تھے۔
خدا خدا کر کے جہاز آگے کو سرکا اور اس کے ساتھ ہی جیسے عرشے کے دوسرے سرے تک سارا ماحول انگڑائی لے کر بیدا رہو گیا۔ ٹرنک ایک بار پھر گھسیٹے جانے لگے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میرے بدن کے ہر خلیے کے اندر ایک موہوم سے نقطے سے گھماؤ برآمد ہوا۔ جی، عین اس وقت جب جہاز کا زیر آب حصہ دیسی ساخت کی ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے گھسیٹے جانے والے ٹرنکوں کی آوازیں جہاز کے اندر ، جب کہ جوانوں کے دل اپنے اپنے سینوں کے وسط میں ، معلق ہو گئے تھے۔ پہلے تو ہم سب نے اپنے اپنے قدموں پر اپنے جھولتے بدنوں کو ٹھہر جانے دیا اور پھر ان سارے رومانی خیالات کو جھٹک دیا جواس مہم کے حوالے سے ہماری حسیات کو خوابناک بنائے ہوئے تھے۔ یوں ہم صورت حال کی سنگینی کے مقابل ہونے کے قابل ہو گئے تھے۔
گزشتہ رات کی تاریکی میں کسی شرپسند کی زیر آب لگائی ہوئی دیسی ساخت کی بارودی سرنگ کا ہمارے جہاز کے چھونے سے پھٹنا کسی بھی دوسری اور خطرناک مہم میں ایک معمولی واقعہ ہوتا مگر ہمارے لیے اس مہم میں یہ بہت غیر معمولی ہو گیا تھا۔ ہم جس زمین کی جانب اپنائیت کے احساس کے ساتھ لپک رہے تھے ، اس چھوٹے سے حادثے کے بعد ، یکلخت پرائی ہو گئی تھی۔ ہمارے جہاز کو کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچا تھا مگر وہ بھی ہماری طرح بوکھلاہٹ میں جیسے وہیں کا وہیں رکا لہروں پر جھول رہا تھا۔ اس کا یوں جھولنا اس لمحے میں ، ہمیں اپنے دل کے کانپنے کا سا لگنے لگا تھا۔
جہاز اتنی دیر وہاں رکا رہا کہ جوان اکتا کر اپنے ٹرنکوں پر ایک بار پھر بیٹھ گئے تھے۔
رات پڑی تو جہاز بندر گاہ پر لنگر انداز ہوسکا۔ ابھی ایک کمپنی ہی اتری تھی کہ جہاز کے کپتان نے اخراج کا عمل روک دیا اس کے ساتھ ہی شہر میں جاری شورش کی خبر جست لگا کر اوپر آ گئی تھی۔ میرے خلیوں کے گھماؤ نے مجھے اندر ہی اندر سے اوندھا کر رکھ دیا۔ میں پاک فوج کا ایک ذمہ دار آفیسر تھا اور یہ میرے فرائض میں شامل تھا کہ جوانوں کا مورال بلند رکھوں۔ انہیں اپنی جانوں کے نقصان کے اندیشوں سے بے نیاز کر کے ان کے دلوں میں تفویض شدہ فرض کو مرکز و محور بنانے کے لیے جذبوں کی آنچ بھڑکائے رکھوں لہذا مجھے اپنے آپ کو سنبھالا دینا تھا۔ اور میں کچھ یوں کامیابی سے اس اعصاب توڑ دینے والی کیفیت سے نکل آیا تھا جس طرح میں غصے نفرت اور خوف کی کیفیات سے اس روز نکلنے میں کامیاب ہوا تھا جس روز اگلے ہی لمحے میں مجھے اپنے باپ کی قبر پر پہنچنا تھا۔
٭٭
فرار سے پہلے
جس روز مجھے وہاں سے نکلنا تھا ، اُس روز، سراسیمگی (جسے فقط سراسیمگی نہیں سمجھاجا سکتا ) کے احساس میں شکست کی ذلت اور ایک پر لطف دُکھ بھی آمیز ہو گیا تھا۔ جس شکست کی میں بات کر رہا ہوں وہ ہمارے اپنے ہی کارن ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔ یہ محض تب کا واقعہ نہ تھا جب ہم نے ہتھیار ڈالے تھے بلکہ یہ قسطوں میں ہمیں رسوا کر رہی تھی۔ تم یہ بات نہیں سمجھو گے۔ تم اس بات کو، اپنی حقیقی شدت کے ساتھ، سمجھ ہی نہیں پاؤ گے۔ سچ تو یہ ہے کہ ادھر کے لوگ بنگالیوں کو صحیح طرح سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہاں ڈنڈے سے، روپے پیسے سے یا پھر مرعوب کر کے سارے کام نکالے جا سکتے ہیں۔ یہاں کے خان جی، چوہدری صاحب، ملک صاحب، وڈیرا سائیں اور پیر صاحب اپنے ٹکڑوں پر پلنے والے تم اور تمہارے باپ جیسے لوگوں سے ووٹ بھی لے لیتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ان کے کامی، مزارعے، رعایا یا پھر ارادت مند ہوتے ہیں۔۔۔ مگر ادھر کا عام بنگالی بھی ایسا نہیں تھا۔ تو یوں ہوا کہ جتنا عرصہ میں وہاں رہا، میں نے انہیں اِدھر کے مقتدر لوگوں سے بے پناہ نفرت کرتے ہوئے پایا۔ اُن کی محرومیوں سے پھوٹنے والی یہی وہ نفرت تھی جس نے ایک ملک کے دونوں حصوں میں فاصلہ رکھ دیا تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے لیے ان کی نفرت درست تھی۔ یقیناً وہ سوفی صد درست نہ تھے اور ہمارے دشمن نے بھی انہیں بھڑکا رکھا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نفرت کی آگ کو ہم نے خود ہی تیل ڈال ڈال کر جلایا تھا۔ جن کے دل محبت سے جیتے جانے چاہئیں تھے ان کے لیے ہماری بندوقوں میں گولیوں کے تحفے تھے۔
ابھی ایسٹ بنگال رجمنٹ کو غیر مسلح نہیں کیا گیا تھا ، مگر یہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ اس کی پشت پناہی سے باغی حوصلہ پکڑ رہے ہیں ، ہم اس رجمنٹ کے ایک افسر محمد جلیل الرحمن کی طرف سے ڈنر کے لیے چٹاگانگ کلب میں جمع تھے۔ اس دعوت میں دو چار آفیسر ہی کسی دوسری رجمنٹ کے ہوں گے ورنہ باقی سب کا تعلق جلیل کی اپنی رجمنٹ سے تھا۔ بہت عرصہ پہلے جب میں کاکول میں تھا تو ہم اکٹھے ہو گئے تھے ، تب سے ہماری جان پہچان تھی۔ اس کا باپ اپنی ملازمت کی وجہ سے ادھر کئی برس اسلام آباد میں رہا۔ لہذا جلیل بھی ادھر ہی پڑھتا رہا۔ تاہم ریٹائر ہونے کے بعد اس کا باپ واپس کھلنا چلا گیا اور وہاں کے لوگوں کو بتاتا پھرتا کہ اسے تو ادھر اسلام آباد میں رہتے ہوئے کشادہ کارپٹڈ سڑکوں سے اور خوب صورت عمارتوں سے پٹ سن کی بو آیا کرتی تھی۔
جلیل یہاں اکیلا تھا اور مزے لے لے کر اپنی باپ کی ایسی ہی باتیں یوں بتاتا تھا جیسے وہ انہیں پھلجھڑیاں سمجھتا تھا۔ یہ باتیں اس کا باپ اسے اپنے خطوں میں لکھ لکھ کر بھیجتا رہتا تھا۔ وہ چھٹی پر بھی گھر نہیں جا سکتا تھا۔ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ بعد میں وہ کم گو ہو گیا اور ان باتوں کو چھپانے لگا تھا۔ اگرچہ وہ مجھ سے جونیئر تھا مگر میل ملاقات نے ہمیں قریب کیا اور دوست بنا دیا تھا۔ دھیمے مزاج کا نوجوان، دبلا پتلاجسم ، سانولا رنگ ، ٹھہر ٹھہر کر بولنا جیسے ہر جملہ کہہ چکنے کے بعد وہ آگے کچھ کہنے سے پہلے اس کے مقابل کی سماعت کا حصہ ہو جانے کا انتظار کرنے لگا ہو۔ جلیل بھی دوسرے بنگالیوں کی طرح اردو بولتے ہوئے کئی الفاظ کی صوت بدل دیتا تھا۔ ہم اس کے لہجے کی نقل کرتے ہوئے اسے ذلیل بھائی کہہ کر پکارتے تو وہ ناراض ہونے کی بجائے ہنس دیا کرتا تھا۔
وہ ہنستا رہا، جتنا کہ وہ ہنس سکتا تھا۔ حتی کہ ہنستے ہنستے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ پھر آنسو بھی خشک ہو گئے۔ اب اس کی ہنسی بہت پیچھے رہ گئی تھی۔
میں نے وہاں رہتے ہوئے جلیل کی پچھڑ جانے والی اسی ہنسی کو بہت تلاش کیا مگر وہ وہاں تھی ہی نہیں۔ اس کے چہرے پر نہ کسی دوسرے بنگالی کے چہرے پر۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جب ملکی صورت حال پر بات چل نکلی تو گہری نفرت ایک لاوے کی صورت ان کے دلوں سے پھوٹ بہی تھی۔ اس محفل میں ہم دو تین غیر بنگالی آفیسر تھے ، میجر محمود، جو بہاری تھا۔ اس کے والدین تقسیم کے وقت پاکستان کے اس مشرقی حصے میں ہجرت کر کے آئے مگر ان دنوں جب اردو اور بنگالی کا جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا تھا کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ ان دو ہجرتوں نے اس کے مزاج میں کسی تلون کو نہ رہنے دیا تھا۔ تاہم میجر فاروق بھٹی کا مزاج بہت متلون تھا۔ تھا تو وہ سیالکوٹ کا رہنے والا مگر بعد میں لاہوریا ہو گیا۔ سوچتا کم اور بولتا زیادہ تھا۔ اگر میجر محمود گفتگو کو اس نہج پر چلتا دیکھ کر پریشان تھا تو میجر بھٹی اندر ہی اندر طیش میں ابل رہا تھا۔ اس نے اس طرح کی سوچ کو دشمنوں کی چال کہا تو فضا میں ایک تلخی سی گھل گئی۔ اب ان کی طرف سے محرومیوں کی طویل فہرست سنائی جانے لگی تھی اور پوچھا جانے لگا کہ کیا یہ بھی دشمن کی سازش تھی۔
میجر محمود نے ماحول کو بہتر بنانا چاہا ، کہا:
’’ بھئی مولوی فضل الحق جیسے لوگ تو قائد اعظم کے پاس بنگال کا تحفہ خود لے کر گئے تھے۔ یہ ملک تو ہمارا ہی بنایا ہوا ہے۔‘‘
میں نے نادانی میں میجر محمود کی بات مکمل کرنا چاہی:
’’ اور اب یہ ہو رہا ہے کہ آپ کا بنگلہ بندو نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کیلئے کئی نقاط پر مشتمل مطالبات کے پتھر اٹھا لایا ہے۔‘‘
یہ سن کر جلیل آپے سے باہر ہو گیا:
’’ جسے تم ہمارا بنگلہ بندو کہہ رہے ہو نا ، اُس کی پارٹی الیکشن میں بھاری اکثریت سے جیتی ہے۔‘‘
میں نے اپنے اس معصوم دوست کو یوں بھڑکتے پہلی بار دیکھا تھا۔ مجھے اپنا دم سادھ لینا پڑا۔ ہم سب خاموش تھے یوں کہ ہمارے لقمے لینے کی آواز بھی سماعتوں تک پہنچنے لگی تھی۔ جب جلیل نے اپنے غصے پر قابو پا لیا تو کہا:
’’ جب ادھر کے لوگوں کو الیکشن جیتنے کے بعد بھی اقتدار سے صرف اس لیے محروم رکھا جائے گا کہ ہم بنگالی ہیں تو بنگالیوں کو باغی ہونے سے کون روک سکے گا؟‘‘
اُس نے جیسے یکلخت اپنی بات ختم کر دی تھی۔ وہ سب چاول بہت شوق سے کھایا کرتے تھے۔ جلیل کے سامنے بھی چاولوں کی پلیٹ دھری تھی جن میں بہت سا شوربا ڈال کر انہیں گیلا کر لیا گیا تھا۔ میں نے اسی پلیٹ کے قریب اس کی غصے سے کانپتی انگلیوں کو دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کا کہا ہوا جملہ اس کی لرزتی انگلیوں کے اوپر ناچ رہا تھا۔ دفعتاً اس کی انگلیاں تن گئیں اور پھر بجلی کے کوندے کی طرح آگے کو لپکیں۔ اس نے اپنی پلیٹ سے ذرا فاصلے پر پڑی بانس کی نرم شاخوں سے بنی ٹوکری میں لپٹی ہوئی چپاتی کو نکال کر اوپر اٹھایا اور اپنی آنکھوں کے سامنے پوری طرح پھیلا کر ہم سب کی طرف دیکھا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ ہم سب اسے دیکھ رہے تھے تواس نے چپاتی کو چیر کر اس کے دو حصے کر دیئے تھے۔
٭٭
کلب کے اس کھانے میں دوسرے افسروں کی بیگمات کے علاوہ منیبہ بھی تھی، جلیل کی بیوی۔ کہنے کو تو منیبہ میری بھابی ہوئی مگر دل ہی دل میں اس کی سانولی رنگت اور لمبے سیاہ بالوں کا جی جان سے اسیر ہو گیا تھا۔ اتنا کہ یہاں آنے کے بعد کئی بار اس کی دلکش شخصیت کا موازنہ اپنی گوری چٹی ، بھرے ہوئے جسم اور خوب صورت نقش والی بیوی زرجان سے کر چکا تھا اور ہر بار اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ منیبہ کا پلڑا بھاری تھا۔ وہ بلا کی ذہین تھی اور باتوں میں عجب طرح کی مٹھاس اور دانش کا لطف رکھ دیا کرتی تھی۔ میں یہاں آتے ہی پہلی بار اگرچہ اپنے کاکول کے ز مانے کے دوست جلیل کے ہاں گیا تھا مگر بعد میں جلیل سے ملنا فقط بہانہ بنتا رہا۔
منیبہ کا مزاج بہت نفیس اور شاعرانہ تھا۔ میں نے اسے کئی دوسری بنگالی عورتوں کی طرح گانے کا رسیا پایا۔ خدا نے اسے نہ صرف آواز بے حد رسیلی اور لوچ دار عطا کی تھی۔ وہ ستار بھی خوب بجا لیتی تھی۔ جب ستار پر اس کی سانولی مخروطی انگلیاں تیرتیں تو یوں لگتا جیسے تتلیاں پھول کی پتیوں پر اڑ رہی ہوں۔ اور جب وہ آنکھیں موند کر لے اٹھاتی توسینے سے دل اوپر اٹھ کر حلقوم میں گد گدی کرنے لگتا تھا۔ اسے یہ اچھا لگتا کہ میں پوری توجہ سے اسے سنتا اور لطف اندوز ہوتا تھا۔ بنگالی کے بول پوری طرح نہ سمجھتے ہوئے بھی جس بے پناہ انہماک اور ارتکاز کی کیفیت کو میں اپنے ہاں پاتا تھا اس سے وہ بہت متاثر تھی حالاں کہ یہ میرے لیے ارادی نہ تھا۔ وہ گا رہی ہوتی تو مجھے یوں لگتا جیسے اس کی آواز پر ادھر سمندر میں لہریں متلاطم ہو کر اپنے سینوں پر رواں کشتیوں اور ان میں زندگی کے چپو کھیتے ماہی گیروں سے ہمکلام ہو گئی ہوں۔ ایسے میں میری نظر اس کے وجود پر پڑتی تو وہ بھی سمندر کے پانیوں کی طرح اچھلتا اور ابلتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔
چٹاگانگ کلب میں جلیل کی اس دعوت میں آنے کی ایک دلکشی یہ بھی تھی کہ میں منیبہ کا گانا سن پاؤں گا۔ حالات جب سے کچھ زیادہ کشیدہ ہوئے تھا اسے سننا ممکن نہ رہا تھا۔ مگر چپاتی کے دو ٹکڑے ہو جانے کے بعد تو جیسے ساری فضا بوجھل ہو گئی تھی۔ عین ایسے عالم میں مجھے یوں لگا جیسے منیبہ نے مجھے گوشۂ چشم سے دیکھا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اپنی ساتھی دوسری بیگمات کی طرف دیکھ رہی تھی۔ تو گویا اس نے میری طرف نہیں دیکھا تھا۔ میں نے مایوس ہو تے ہوئے سوچا اس کا دل بھی یقیناً ہم جیسوں کی نفرت سے بھر گیا ہو گا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو گئی تھی۔ تاہم دوسرے ہی لمحے میں نے سنا تھا، وہ کہہ رہی تھی:
’’ مسز منعم میں تو آج کے لیے ایک نیا گیت تیار کر کے لائی تھی اور۔۔۔‘‘
اس نے جان بوجھ کر اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ مسز منعم کچھ کہتی ہم سب تناؤ سے نکل آئے اور سب ہی اصرار کر رہے تھے کہ وہ نیا گیت ضرور سنائے۔ میں نے دیکھا منیبہ کا شوہر میجر جلیل بھی اسے گیت سنانے پر آمادہ کر رہا تھا۔
وہ اٹھی ، اپنی کاسنی ساڑھی کا پلو سیدھا کر کے کندھے پر جماتے ہوئے۔ اس کے بلاؤز کے اندر سے پھسل اس کی ناف ایک لمحے کے لیے باہر آئی اور فوراً کندھے پر تن جانے والی ساڑھی کے پلو تلے چھپ گئی۔ ایک تواس کا قد قدرے نکلتا ہوا تھا اور دوسرے اسے ساڑھی کو بدن پر بٹھانے کا سلیقہ خوب آتا، جس سے اس کے بدن کے ابھار نمایاں ہوتے اور قد کچھ اور زیادہ طویل دکھائی دینے لگتا۔ جب وہ وہاں پہنچی جہاں سازندے بیٹھے فضا میں سر بکھیر رہے تھے تو ان کے ہاتھ رک گئے۔ وہ ان کے بیچ بیٹھ گئی۔ اب ہم سب خاموش تھے۔ اس نے سازندوں سے کچھ کہا اور کچھ ہی لمحوں بعد فضا میں کسی گیت کی بجائے فضل شہاب الدین کی نظم’’ پکھیرو‘‘ کے بول ایک دبیز دُکھ گھول رہے تھے۔ ایک بار شاعری پر بات ہو رہی تھی تو یہ نظم منیبہ نے مجھے سنائی تھی اور اس اندیشے سے کہ میں اس کا مفہوم پوری طرح گرفت میں نہ لے پاؤں گا، وہ اس کا ترجمہ بھی کرتی گئی تھی۔ آج جب کہ وہ ایک بار پھر وہی نظم سنا رہی تھی ، اسے گیت بنا کر ، اور گیت کی طرح گا کر تو میں اس کے اندر سے رواں حزن سے اپنے باطن کو ہم آہنگ کر چکا تھا:
’’ پکھیرو شام پڑے جب گھروں کو لوٹتے ہیں
اپنے ساتھ تاریکی کی شال اٹھا لاتے ہیں
ماند پڑتی چمک کے ساتھ ان کے پر پھڑپھڑاتے ہیں
ان کی آنکھیں افسوس کے گہرے پانیوں میں اتر جاتی ہیں
پکھیرو اپنے ساتھ تاریک شال اٹھا لاتے ہیں
اسے وہ بھید بھرے گیت کی طرح پھیلا لیتے ہیں
زمین کے اوپر، سورج کے مقابل ، ستاروں کے آر پار۔۔۔‘‘
٭٭
آنکھیں سب کچھ کہہ جاتی ہیں
ہر طرف رات تنی ہوئی تھی ، یوں جیسے تاریکی کی شال میں ساری فضا کی گٹھری باندھ دی گئی ہو۔ میں وہاں سے فرار ہو رہا تھا۔ واپس جانے کے لیے جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔ جب ہم پانیوں کو کاٹ کر چٹاگانگ کی بندر گاہ پر اترنے والے تھے تو سراسیمگی وہاں پہلے سے منتظر تھی۔ تب سے اب تک لگ بھگ ہر لمحہ اس سراسیمگی کی صورتیں بدلتی رہی تھیں۔ میں رات منیبہ سے آخری ملاقات کی کوشش میں اس کے ہاں گیا تھا تو ساتھ ہی یہ خدشہ بھی تھا کہ شاید یہ ملاقات نہ ہو پائے گی۔
مگر میری قسمت میرا ساتھ دے رہے تھی۔
میں جونہی اس لین میں پہنچا جس میں جلیل کی بیرک تھی تو گیٹ کی واحد لائیٹ نے مجھے یوں سجھایا تھا جیسے میرے گلی میں داخل ہوتے ہی ایک سایہ سا اندر گھس گیا تھا اور کچھ ہی دیر بعد وہاں سے کئی سائے برآمد ہوئے۔ میں نے گلی کی مدھم روشنی سے ہٹ کر گہری تاریکی کی آڑ لے لی اور انہیں گننے لگا، وہ کل پانچ تھے اور اپنا اسلحہ چھپا لینے کا تردد بھی نہیں کر رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا تھا کہ مجھے منیبہ سے ملے بغیر ہی واپس چلے جانا چاہیے مگر جب وہ سب گلی سے نکل گئے اور میں نے خود منیبہ کو گیٹ لائیٹ کے عین نیچے کھڑے پایا ، یوں کہ وہ گلی کے اس آخری سرے کی جانب دیکھ رہی تھی جس پر میں نے اندھیرے کی اوڑھ لے رکھی تھی۔ میں لپک کر گلی کے وسط میں ہو گیا۔ اس کے نیم روشن سائے میں حرکت سی ہوئی اور مجھے یوں لگا کہ اس نے مجھے دیکھ کر اپنی ایڑیاں زمین پر لگا لیں اور ایک لمبا سانس لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اس تک پہنچتا اس نے دو تین بار لین کی دوسری طرف اور میرے عقب میں دیکھا اور اس اطمینان کے بعد کہ ہمارے علاوہ وہاں کوئی اور نہیں تھا وہ گیٹ سے باہر آ کر کھڑی ہو گئی اور جب میں اس کے قریب پہنچا تو میرا ہاتھ تھام کر کہا :
’’ اندر آ جاؤ۔‘‘
پھر جب میں ذرا رک کر خود کو اندر جانے کے لیے تیار کر رہا تھا تو اس نے سمجھا شاید مجھے جلیل سے سامنا کرنے میں تامل ہو رہا ہے۔ اس نے ہنس کر میری طرف دیکھا اور لگ بھگ میرا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا :
’’اس کے مکتی باہنی والے دوست ملنے آئے تھے، انہی کے ساتھ وہ بیپانی بیتان مارکیٹ تک گیا ہے۔‘‘
میں جانتا تھا کہ جلیل کے مکتی باہنی والوں سے تب کے رابطے تھے جب وہ چھپ چھپ کر حملہ آور ہوتے تھے۔ اب تو انہوں نے تقریباً شہر پر کنٹرول حاصل کر ہی لیا تھا۔ ہم ان کے متصادم ہوتے رہے تھے اس جوش اور جذبے کے ساتھ جو ادھر سے ہم ساتھ لائے تھے مگر اب ہمارے او پر کچھ ایسی افتاد آ پڑی تھی کہ ہم جیسے اپنے ہتھیاروں کا بوجھ اس دشمن کے حوالے کرنے کے لیے اٹھائے پھرتے تھے جس کی پوری پشت پناہی مکتی باہنی کو حاصل تھی۔ ہر آنے والا دِن ہمیں بوکھلانے کے لیے کافی تھا۔ انہی دنوں میں ایک سیاہ ترین دن وہ بھی تھا جب جلیل کی رجمنٹ سے ہتھیار لے کر اس کے افسروں اور جوانوں کو نظر بند کر دیا گیا تھا۔ یوں ہم ان کے رہے سہے تعلق ، بچی کھچی محبتوں اور ہمدردیوں سے بھی محروم ہو گئے تھے۔ جلیل بھی نظر بند ہونے والوں میں شامل تھا اور اس عرصے میں منیبہ کے سوالات اتنے شدید ہوتے جا رہے تھے کہ ان کی تلخی میں اس کے ہونٹوں کی صورت بگڑ جاتی تھی۔ دانتوں سے اپنے خوب صورت ہونٹوں کو کاٹتے رہنے یا منھ میں ناخن دے کر انہیں چباتے رہنے کی عادت اسے اسی دورانیے میں پڑی تھی۔ منیبہ کو میں اس کیفیت میں دیکھتا تو اپنے تئیں بہت شرمندہ ہوتا۔
اب جب کہ میں تمہیں یہ واقعات سنا رہا ہوں تو مجھے یہ اعتراف بھی کر لینا چاہیے کہ میری جلیل کے ساتھ بہت گہری دوستی سہی مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ دوستی اسی نے آخری لمحے تک نبھائی تھی ورنہ میری ساری کمینگیاں جو میرے مزاج کا حصہ تھیں ، میرے ساتھ رہیں۔ وہ انہیں دیکھتا ، محسوس کرتا رہا اور انہیں نظر انداز کر کے دوستی کا بھرم نبھاتا رہا۔ میں اپنے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اگر مجھ پر ایسا وقت آتا تو میں تعلق کا یوں بھرم رکھ سکتا تھا۔ وہ اپنی زمین ، اپنے لوگوں اور اپنی زبان سے محبت کرتا تھا۔ اپنے پانیوں کے بہاؤ، ان کی لہروں سے اور ان پر رواں دواں کشتیوں اور ان کشتیوں کو کھیتے مفلوک الحال مچھیروں سے وہ محبت کرتا تھا۔ اسے دھان اور پٹ سن کی مہک سے اور اپنے گیتوں سے اتنی ہی محبت تھی جتنی وہ اپنی بیوی منیبہ سے محبت کرتا تھا۔ اس محبت میں وہ کچھ بھی کر سکتا تھا، وہ سب کچھ جو میں اس کی جگہ ہوتا تو مجھ سے اپنی طینت کی اٹھان کی وجہ سے سرزد ہو جاتا مگر اس نے مجھے جانے دیا تھا یوں کہ منیبہ میرے ساتھ رات کی دبیز تاریکی میں ساحل تک آ گئی تھی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اس رات مکتی باہنی والوں کو اس نے خود گھر بلایا تھا وہ یقیناًاسے ملنے آئے ہوں گے۔ اس کی رہائی کے بعد ہمیں خبر یں ملتی رہتی تھیں کہ ان لوگوں کا اس کے ہاں آنا جانا بڑھ گیا تھا۔ پھر جب ہمارے ٹائیگر نیازی نے ، کہ جس کی قیادت میں ہم زمین بچانے اور لڑنے کے لیے یہاں موجود تھے ، پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیے، تو اسے اپنے دوستوں سے چھپ چھپ کر ملنے کا تردد بھی نہ کرنا پڑتا تھا۔ کہ اب تو ہم چھپ چھپ کر جانیں بچا رہے تھے۔ ہم میں سے کتنے گلیوں میں بھگا بھگا کر اور گھسیٹ گھسیٹ کر مار دیئے گئے تھے۔
میرا دل کہتا ہے اپنی لین میں مجھے پا کرسب کو ساتھ لے کر اور منیبہ کو گیٹ پر چھوڑ کر مارکیٹ کو نکل جانا اتفاقی نہیں ہو سکتا تھا۔ میں اب اندازہ لگا سکتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے ڈھنگ اور اپنی سہولت سے وہاں سے نکل جانے دینا چاہتا ہو گا۔ اپنی زمین سے اور اپنی زندگی سے بھی ، لہذا وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر خود ہی نکل گیا ہو گا۔ وہ وہاں سے ان کو لے کر کچھ اس عجلت سے نکلا تھا کہ مجھے تب ہی شک سا ہو گیا تھا۔ جب منیبہ کو میں نے اپنے نکل بھاگنے کا منصوبہ سنایا تو منیبہ نے یہ کہہ کر ، کہ ہم لوگوں کے فرار کا منصوبہ جلیل اسے پہلے ہی بتا چکا تھا، بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ میں نے عین اس لمحے اپنے بدن کے خلیوں کے اندر سراسیمگی کے بھونچال چلتے محسوس کیے۔ گویا جلیل ہماری مخبری کروا رہا تھا۔ منیبہ نے میرے چہرے سے ہوائیاں اُڑتی دیکھیں تو کہا:
’’ فکر نہ کرو تمہارے تمام ساتھی تم لوگوں کو لے جانے والے اسٹیمر تک پہنچ چکے ہوں گے۔ میں نے جلیل سے تم لوگوں کو کوئی بھی نقصان نہ پہنچانے کا وعدہ لے رکھا ہے‘‘
میں نے یہ سنا تو میرے اوسان بحال ہوئے۔ اب جو منیبہ کے چہرے کی جانب احساس تشکر کے ساتھ دیکھنا چاہا تو یوں لگا جیسے اس کی آنکھیں کناروں تک چھلک آئی تھیں۔ اس نے منھ دوسری طرف پھیر کر اٹھتے اٹھتے کہا:
’’ چلو ، میں بھی تمہارے ساتھ چل رہی ہوں‘‘
٭٭
فرار ہوتے ہوئے
منصوبے کے مطابق فرار میں شامل ہمارے سارے ساتھی پہلے سے وہاں پہنچ چکے تھے تاہم اس خدشے کے پیش نظر کہ اسٹیمر کے انجن کی آواز لوگوں کو چوکنا کر کے ان کے فرار کو ناکام نہ بنا دے، اسے بغیر چلائے کھلے سمندر میں اندر تک لے جایا گیا تھا۔ وہ بار بار پیچھے دیکھتے رہے اور اگر میں کچھ دیر مزید وہاں نہ پہنچتا تو وہ مجھے چھوڑ کر بھی نکل سکتے تھے۔ منیبہ پانی میں اتر کر اسٹیمر تک میرے ساتھ ساتھ آئی تھی۔ میرا ہاتھ پکڑ کر، یوں کہ اسے پانی سے ، ماحول سے اور میرے ساتھیوں سے کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
میرے ساتھی اسے میرے ساتھ دیکھ کر متردد ہو رہے تھے۔ ہم ان کے قریب پہنچے ہی تھے کہ ان میں سے ایک نے تو صاف صاف کہہ دیا:
وہ اس عورت کو ساتھ نہیں لے جا سکیں گے۔‘‘
منیبہ نے بوکھلا کر میری طرف دیکھا۔ میرے ہونٹوں پر چپ کی پپڑی تھی۔ یوں ، جیسے میں نے کچھ سنا ہی نہ تھا۔ میرا یوں دم سادھ لینا منیبہ کو بہت کَھل رہا تھا مگر میں کیا کر سکتا تھا۔
’’تم نے آنا ہے تو آؤ‘‘
یہ غالباً میجر محمود کی آواز تھی جس نے مجھے چونکا دیا تھا، اس نے دو ٹوک الفاظ میں ساتھ ہی فیصلہ بھی سنا دیا تھا:
’’ ورنہ مجبوراً ہم تمہیں بھی چھوڑ کر جانا پڑے گا‘‘
منیبہ نے میرے منھ پر جمی چپ کی دھول دیکھی ، پھر واپس اس ساحل کو دیکھا جو اس کے لیے اجنبی ہو چکا تھا، کچھ سوچا اور سن کر ہنس دی۔ پھر یوں گویا ہوئی جیسے وہ وہاں نہیں کہیں دور سے بول رہی تھی:
’’اوہ آپ لوگ مت الجھیں ، میں تو یہیں تک آئی تھی۔‘‘
میں نے اس کے ڈوبتے ہوئے لہجے سے اندازہ لگایا کہ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔ تاہم اس نے اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لیے ایک بار پھر ہنسنا چاہا۔ میں دیکھ رہا تھا، اس کی ہنسی اس کے ہونٹوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر پانی میں گر رہی تھی۔ اس نے منھ پھیرے پھیرے اپنے کان، کلائیاں اور گردن اس چھوٹے سے بیگ میں خالی کیں ، جو وہ اپنے ساتھ اٹھا لائی تھی وہیں پانی میں کھڑے کھڑے اسے مجھے تھماتے ہوئے کہا:
’’یہ تمہارے کام آئیں گے۔‘‘
ایسا کہتے ہوئے اس کی آواز بہ مشکل حلقوم سے نکل پائی تھی۔ اس کے گھر پہنچنے اور وہاں سے نکلنے کے دورانیے میں ، میں نے غور ہی نہیں کیا تھا کہ وہ خلاف معمول بہت چپ تھی۔ بس وہی چند جملے، جو میں تمہیں بتا چکا ہوں ، اس نے کہے تھے اور جب میں اپنے فرار کا منصوبہ کھلنے پر چکرایا ہوا تھا تو وہ جلدی جلدی زیورات پہن کر اور ایک بیگ اٹھا کر چلنے کو تیار ہو گئی تھی۔ میں جو اس کی طرف پوری طرح دھیان دینے سے قاصر تھا اس پر غور ہی نہ کر سکا تھا بالعموم اس کے کان کلائیاں زیورات سے عاری رہتیں ، تو وہ اب کیوں وہ یوں میرے ساتھ اسٹیمر تک آ گئی تھی۔ یقین جانو یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی زمین چھوڑنے کو تیار ہو جائے گی۔
ابھی تک ہم دونوں پانی میں کھڑے تھے۔ انہوں نے اسٹیمر کا انجن چلا دیا میں بوکھلا کر اسٹیمر کی طرف لپکا۔ اسی اثنا میں ادھر سے سنسناتی ہوئی گولی آئی اور میری ران چیرتی ہوئی نکل گئی۔ منیبہ سب کچھ بھول کر یوں میری جانب بڑھی جیسے پھر سے زندہ ہو گئی ہو۔ اس نے مجھے تھام لیا ، اور ایک لمحے کا بھی توقف کیے بغیر مجھے اسٹیمر کی طرف دھکیلا اور اس پر چڑھنے میں مدد دی۔ اب اسٹیمر کا رخ گہرے پانیوں کی طرف تھا مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔ میں نے صاف صاف دیکھا تھا کہ فوراً بعد اس کا جسم وہیں پانی کے اوپر تک اچھلا تھا۔ میں نے گولی کی آواز نہیں سنی تھی محض اس کا اچھلتا ہوا وجود دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ جہاں سے پانی کے چھینٹے اوپر کو اٹھے تھے وہاں کوئی اور حرکت نہیں ہوئی تھی۔ ہمارا اسٹیمر اگرچہ بہت دور نکل آیا تھا مگر میری نظر یں وہیں جم کر رہ گئی تھیں۔ جب تک چٹاگانگ کی روشنیاں نظر آتی رہیں میں اندازے سے اس مقام کا تعین کرتا رہا جہاں اس کا وجود ڈوب گیا تھا۔
٭٭٭
باب:۳
کہانی سے باہر رہ جانے والی باتیں
منیبہ اس کہانی کا ایسا کردار ہے جسے میں پوری طرح سمجھ نہیں پایا ہوں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اس کردار کو کہانی کے بہاؤ کے اندر سے ابھاروں مگر اب، جب کہ میں نے لگ بھگ اس کا قد کاٹھ بنا لیا ہے اور کہانی کے اندر اسے پیوست کر کے دکھا دیا تو سوچ رہا ہوں کہ اصلی منیبہ تو کہانی کے باہر ہی رہ گئی ہے۔ اگلا باب شروع کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ باب سے قضا ہو جانے والے صرف تین اہم واقعات کو آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ ان کو جانے بغیر اب تک لکھی جا چکی کہانی کو ڈھنگ سے سمجھنا ممکن نہیں ہو گا۔ آپ اپنی سہولت کے مطابق جہاں مناسب سمجھیں ان واقعات کو وہاں کہانی سے جوڑ کر پڑھ سکتے ہیں۔
پہلا واقعہ:
اس پہلے واقعے کے ذریعہ مجھے یہ جاننے میں مدد ملی تھی کہ منیبہ نے محض یہ بتانے کے لیے کہ بنگالی اپنی نفرت میں سچے تھے میجرسلیم کو، کومیلا تک گھما لائی تھی۔ اس نے اسے پام، کیلے، ناریل، پپیتے اور انناس کے سر سبز و شاداب باغات دکھائے ، سڑکوں ، کھیتوں ، باغوں اور بازاروں میں محنت و مشقت میں مصروف ناکافی خوراک سے کمزور رہ جانے والے بنگالی مردوں اور بنگالی عورتوں سے ملوایا اور اس تلخی کو سمجھنے میں مدد دی تھی جو ان سانولے اور نمکین وجودوں کا حصہ ہو گئی تھی۔
اسی واقعہ میں دونوں کا خلیج بنگال کے ساحل پر کاکسس بازار تک چلے جانا بھی شامل کر لیں کہ جس میں وہ بنگالیوں پر قدرت کی نا مہربانیوں کا ذکر لے بیٹھی تھی اور ان سمندری طوفانوں کی تباہ کاریوں کی تفاصیل بتائیں تھیں جن میں لگ بھگ ہر طوفان نے چالیس ہزار سے لے کر تین لاکھ انسانوں کو نگل لیا تھا اور جو باقی بچے تھے ان سے عزت سے جینے کی للک بھی چھین لی تھی۔ تاہم اس نے فخر سے بتایا تھا کہ بنگالیوں کو محنت کرنا آتی ہے۔ اسی محنت نے ان کے بدنوں میں پھر سے جینے کی امنگ بھر دی تھی۔
دوسرا واقعہ:
یہ واقعہ کہانی میں اوپر کہیں درج ہونا چاہیئے تھا مگر کہانی سے باہر پڑا رہ گیا ہے۔ ان دنوں کہ جب ملک کے دوسرے حصے سے ڈھاکہ آنے والے نو منتخب ممبران اسمبلی کو ادھر سے ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکیاں دے کر روک دیا گیا تھا تو لگ بھگ انہی دنوں یہ قصہ اس کہانی کا حصہ بنا تھا تاہم میں اس کہانی کو چوں کہ سیاسی نعرہ بازی سے الگ رکھنا چاہتا تھا لہذا اس کہانی کو اس واقعہ سے بھی پہلو بچا کر نکل جانے دیا۔ مگر اب لگتا ہے کہ منیبہ کے اندر کی الجھنوں کو سمجھنے کے لیے اسے یہاں نقل کرنا ہی پڑے گا۔ سنائی گئی کہانی کے مطابق بہت سارے افسروں نے اپنی بیگمات اور بچوں کے ساتھ ایک چھٹی فائے جھیل پر گزاری تھی۔ وہ سب سبزے سے ڈھکی ہوئی پہاڑیوں کے درمیان گردش کرتی جھیل ، مصنوعی آبشاروں اور آسمان کی طرف اچھلتے فواروں سے دن ڈھلے تک لطف اندوز ہوتے رہے۔ منیبہ بھی میجر جلیل کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ وہیں ادھر ادھر کی باتوں کے بعد جب گھوم گھما کر بنگالیوں کی محرومیوں کا ذکر چل نکلا تو کسی نے کہا تھا:
’’ یہ خوب صورت نظارہ بھی تو اسی زمین کا حصہ ہے‘‘
منیبہ اپنے شوہر کی طرح بہت پرسکون رہنے والی خاتون تھی مگر اس روز جیسے وہ تلخ ہو گئی۔ اس نے کہا تھا :
’’تم درست کہتے ہو ، ہاں یہ بھی اس دھرتی کا حصہ ہے مگر جانتے ہو یہ نظارہ جو تم دیکھ رہے ہو کس نے اس زمین کا حصہ بنایا تھا؟‘‘
اس نے سب کی طرف دیکھا۔ جب کوئی بھی نہ بولا تو اس نے کہا :
’’اگر تم جانتے ہوتے تو یوں بات ہی کیوں کرتے۔ یہ اس نام نہاد آزادی کی عطا نہیں ہے جس کے حصول میں اِدھر کے لوگوں نے بھی قربانیاں دی تھیں مگر جس کی برکتوں کی تمام بارشیں صرف اُدھر کی زمین پر برستی رہی ہیں۔ یہ تو عہد غلامی کا تحفہ ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ رُک گئی اور اپنا سر ایک طرف جھٹک کر جیسے اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہی، پھر سے رواں ہو گئی :
’’ یہ محض انگریز نے بھی ہم پر مہربانی نہیں کی تھی۔ ریلوے آفیسرمسٹر فائے کو بھاپ سے چلنے والے انجن چلانے کے لیے یہاں پانی چاہیے تھا۔ تم مانو نہ مانو مگر یہ سچ ہے کہ انگریز غلامی کی زنجیر کو بھی خوب صورت بنانے کا ہنر جانتا تھا۔ اسی ہنر کا یہ کرشمہ ہے۔ خوب صورت منظر ، گھومتی جھیل ، وہ چڑیا گھر، یہ ایک دوسرے سے آگے نکلتی اور ٹکراتی کھلونا کاریں ، اچھلتے فوارے اور اوپر سے گرتے پانی کے دھارے ، سب کچھ کتنا دلکش ہو گیا ہے۔‘‘
وہ یوں بول رہی تھی جیسے بولتے بولتے کسی خواب میں پہنچ گئی تھی اور پھر اس کا لہجہ یک لخت تلخ ہو گیا، کچھ اس طرح، جیسے یک لخت خواب سے جاگ اٹھی ہو:
’’ آزاد قوم۔۔۔ تف ہے اس پر ، کہ آزادی جیسے خوب صورت لفظ کی آب بھی گنوا بیٹھی ہے‘‘
تیسرا واقعہ:
اس تیسرے واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے اس نے وضاحت کی تھی کہ منیبہ کا شوہر میجر جلیل اپنی بیوی سے ہمیشہ ٹوٹ کر محبت کرتا رہا ہے۔ منیبہ بھی اس تیسرے واقعہ سے پہلے تک اپنے شوہر سے اتنی ہی شدید محبت کرتی تھی جتنی وہ اس سے کرتا تھا تاہم اس شدید دکھ دینے اور اس کی زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دینے والے واقعہ کے بعد وہ نہیں جانتی تھی کہ اس بے پناہ محبت سے کتنی اس کے دل میں باقی رہ گئی تھی۔
ان دنوں کہ جب ہمارا ہمسایہ ملک اپنی فوجیں بنگالیوں کو آزادی دلانے اندر تک گھس آیا تھا۔ ہر طر ف لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور سب سے ارزاں انسانی وجود ہو گیا تھا انہی دنوں پگلا میاں روڈ سے آگے فینی میں منیبہ کے باپ کو گھر میں گھس کر بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک نہتے فوجی کو اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ منیبہ کا باپ بنگالی تھا اور سب جانتے تھے کہ وہ پاکستان کا حامی تھا۔ مکتی باہنی باہنی والے پاکستان کی حمایت کو کسی حد تک برداشت کرتے رہے تھے مگر ادھر کے ایک فوجی کو پناہ دینا انہیں مشتعل کر گیا تھا۔ وہ گھر میں گھس گئے منیبہ کی چیختی چلاتی ماں کو دھکا دے کر ایک طرف کیا۔ وہ پہلے ہی دل کی مریضہ تھی ایک ہی دھکے میں پرے گر کر ڈھیر ہو گئی۔ ان میں سے کسی نے بھی پلٹ کر اسے نہ دیکھا تھا اور منیبہ کے باپ کے جسم پر مسلسل وار کرتے رہے حتی کہ وہ بھی گر کر بے سدھ ہو گیا۔ اب جسے وہ لینے آئے تھے اسے لے کر جا سکتے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہاں سے گھسیٹ کر لے جانے والے کے ساتھ ان لوگوں نے کیا کیا تھا۔ تاہم یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ زندہ نہیں رہا ہو گا۔
منیبہ نے یہ واقعہ سناتے ہوئے میجر سلیم سے پوچھا تھا :
تم ہی کہو میجر میں تمہارے دوست سے کیا اب بھی اتنی محبت کر سکتی تھی جتنی کہ اسے مجھ سے تھی یا بالکل ویسی ، جیسی کہ مجھے اس سے رہی تھی اور جس کی تلچھٹ بھی میرے دل میں باقی نہیں تھی۔‘‘
منیبہ جانتی تھی کہ اس سارے معاملے میں میجر جلیل ملوث نہیں تھا اور ممکن تھا کہ مکتی باہنی کے مقامی لوگوں نے اپنے تئیں اس خون ریزی کا فیصلہ کیا ہو گا۔ بنگالیوں کے مقصد کے لیے درپردہ جتنی مدد میجر جلیل کرتا آیا تھا بدلے میں وہ منیبہ کے باپ کی پاکستان کی حمایت سے صرف کیا جا سکتا تھا مگر اس سانحے کے بعد منیبہ چاہتی تھی کہ اس کا شوہر اس کے باپ کے قاتلوں کی حمایت ترک کر دے۔ اگرچہ منیبہ کے لیے سب کچھ بدل چکا تھا مگر میجر جلیل کے لیے اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ چاہتا بھی تو اس سارے معاملہ سے الگ نہیں ہو سکتا تھا اور پھر مکتی باہنی والوں کی قیادت خود اس کے گھر چل کر آئی اور ساری صورت حال کی وضاحت کی تھی انہوں نے منیبہ سے بہت افسوس کیا اور کہا تھا کہ وہ اس کے ماں باپ کے اس سانحے کو بھی آزادی کے حصول کے ضمن کی قربانیوں میں سے سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔
اسی رات منیبہ نے میجر جلیل سے طلاق مانگ لی تھی۔
یہ درست کہ اس رات منیبہ کا مطالبہ نہ مانا گیا تھا تاہم یہ بھی درست ہے کہ وہ دونوں ایک ہی گھر میں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو گئے تھے۔ میجر جلیل کی خواہش تھی کہ اچھے دنوں کے احترام میں انہیں اپنی محبت کو سب کے سامنے رسوا نہیں کرنا چاہیے اور الگ ہونا ہی ہے تو کسی مناسب لمحے کا انتظار کرنا چاہیے۔ لہذا وہ لوگوں کے سامنے اپنی اجنبیت چھپاتے رہے۔
جس رات وہ فرار ہونے سے پہلے منیبہ سے ملنے گیا تھا اس رات غالباً وہ لمحہ آ گیا تھا جسے طلاق کے لیے مناسب جانا گیا تھا۔ اسی رات اس نے اپنے ساتھیوں سے اس کے سامنے عہد لیا تھا کہ وہ منیبہ کو فرار ہونے والوں کے ساتھ بہ حفاظت نکل جانے دیں گے۔ یقیناً جن دوستوں سے میجر جلیل نے وعدہ لیا تھا ان میں سے کسی نے ان کا تعاقب نہ کیا ہو گا مگر کوئی تو تھا جو وہاں پہنچ گیا تھا اور اب اسے اس زمین کی طرف نہ جانے دے رہا تھا جس سے اس نے ٹوٹ کر محبت بھی کی تھی۔
٭٭
کہانی لکھنے والے کے کردار کا از سرنو تعین
مجھے داد دیجئے کہ میں نے اس بار اپنا عہد ایفا کیا اور کہانی کے دوسرے حصے سے مکمل طور پر باہر رہا ہوں۔ مانتا ہوں کہ میرے لیے کہانی سے الگ ہو کر کہانی لکھتے چلے جانا انوکھا تجربہ رہا ہے مگر کہانی کے اس تیسرے حصے میں داخل ہو کر اپنی قسم سے آزاد ہو گیا ہوں۔ اور یہیں بتاتا چلوں کہ کہانی کے مرکزی کردار کے مشرقی پاکستان( جو بعد میں بنگلہ دیش بن گیا تھا)، چلے جانے اور وہاں سے فرار ہو کر ایک عرصہ تک گم رہنے کے دورانیے میں کہانی یہاں رکی نہیں ، ایک عجب دھج سے چلتی رہی تھی۔ جس ڈگر پر یہاں کہانی چل رہی تھی آغاز کے کچھ عرصہ کو منہا کر لیں ، یعنی اُدھر اپنی زمین پر جو پرائی ہو چکی تھی ، اپنے دشمن کی فوجوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور جنگی قیدی بننے سے لے کر اپنے پیاروں کے نام آل انڈیا ریڈیو سے اپنی خیریت کے پیغامات نشر کرانے تک کا عرصہ، اور اس میں وہ اعصاب توڑ دینے والا وہ زمانہ بھی شامل کر لیں جو خان جی ، بیگم جان اور زرجان نے اس پیغام کے انتظار میں گزار دیا تھا جسے کبھی بھی نشر نہیں ہونا تھا، کسی نے بھی خان جی کو اتنے اعصابی تناؤ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے سوچ میں اتنے گم ہوتے کہ اپنے اردگرد سے بے خبر ہو جاتے تھے۔ اسی ذہنی دباؤ کے دورانیے میں ایک روز خان جی نے مجھے وہ کچھ بتایا تھا کہ میری اس کہانی میں حیثیت بالکل بدل گئی تھی۔
میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ خان جی کے ہاں گھوڑوں کی ٹہل سیوا میرا کار منصبی تھا تاہم میں نے یہ نہیں بتایا کہ میں اپنے باپ کی طرح گھوڑوں کے تھان سے لید اٹھاتا وہیں کونے میں نہیں سوجایا کرتا تھا۔ ممکن ہے میں بھی اسی کی طرح وہیں پڑ رہتا ، شروع شروع میں ایسا ہوا بھی ، مگر ایک بار خان جی ادھر آ نکلے تو میرے باپ کو خوب ڈپٹا اور کہا تھا کہ اگر اس نے مجھے آئندہ یہاں سوتے دیکھ لیا تو وہ میرے باپ کی گردن پر پاؤں رکھ کر مار دے گا اور میری سانسیں بھی گھونٹ دے گا۔ میرے باپ کو مرنے سے کوئی خوف نہ تھا تاہم وہ میرے لیے لمبی سانسیں چاہتا تھا۔ ادھر اصطبل میں کام اتنا بڑھ جاتا کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ میرا باپ مسلسل جتا رہتا ، حتی کہ رات پڑ جاتی اور مجھے نیند آنے لگتی تب بھی وہ فارغ نہ ہوتا۔ مجھے میرا باپ اہتمام سے حویلی کے عقبی حصے میں اس جھونپڑی نما اکلوتے کمرے والے مکان میں سونے کے لیے بھیج دیتا تھا جو ہمارے گھرکے چھننے کے بعد ہمیں رہنے کے لیے خان جی کی طرف سے عطا ہوا تھا اور جس کے سامنے گھوڑوں کی لید کے علاوہ گائے بھینسوں کے گوبر کے ڈھیر لگائے جاتے تھے۔
رفتہ رفتہ یوں ہوا کہ جس حیثیت میں میرا باپ تھا اس میں رہنا بھی مجھے برا لگنے لگا۔ میں اب تجزیہ کرتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خان جی کے بدلے ہوئے رویے نے میرے اندر یہ احساس پیدا کیا تھا۔ پھر جب سے مجھے رہنے کے لیے حویلی کے دائیں جانب ایک صاف ستھرا کمرہ مل گیا اور گھوڑوں کی دیکھ بھال پر گل جان کو لگا دیا گیا تھا میں ادھر کم کم جاتا تھا۔ خان جی نے میرے لیے صاف ستھرے لباس کا انتظام کر کے مجھے ڈیرے آ کر بیٹھنے اور آنے جانے والوں سے رکھ رکھاؤ سے پیش آنے کو کہا تو مجھے بدل جانا پڑا۔ ان دنوں ، میں کبھی کبھی سوچتا کہ کاش خان جی اس وقت اتنے مہربان ہوتے جب میرا باپ زندہ تھا تو وہ یوں اصطبل کے فرش پر سردی سے ٹھٹھر کر مرنے سے بچ جاتا۔ بعد میں جب میری حیثیت اس کہانی میں بدل گئی تو میں نے جانا کہ خان جی کا یوں بدل جانا میرے باپ کی زندگی میں ممکن ہی نہیں تھا۔
جب خان جی کی عنایات کا سلسلہ دراز ہوا تو میں نے اپنے باپ اور اس کی موت کی بابت سوچنا ہی چھوڑ دیا اور جس روز خان جی نے مجھے حویلی کے اندر بلا کر بیگم جان اور زرجان سے میری نئی حیثیت میں ملوایا میں نے اپنے باپ کو اپنی یادداشتوں سے مکمل طور منہا کر دیا۔ میرا باپ اب وہ نہیں رہا تھا جو لید اکٹھی کرتا کرتا مر گیا تھا بلکہ میں چھوٹے خان جی کی اولاد تھا۔ یہ انکشاف ایسا تھا کہ اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو میں اس کی گردن اپنے ہاتھوں سے دبا کر اسے مار سکتا تھا۔ خان جی نے اٹھ کر مجھے چھاتی سے لگایا ہوا تھا۔ وہ نکاح نامے کا پرچہ اپنی بیوی اور بیٹی کے سامنے لہرا کر انہیں یقین دلا چکے تھے کہ میں ان کی جائز اولاد تھا۔
میرے اصلی والے باپ ( کہ جس کے پاس میرے باپ ہونے کا ثبوت بھی تھا)کی فراہم کردہ تفصیلات کا وہ حصہ جو اس کہانی کا جزو بنایا جا سکتا ہے ، یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ یعنی بڑے خان جی (جو اب میرے دادا ہوئے ) سے چھپ کر میری ماں (جو تھی تو فقیریے جولاہے کی بیٹی مگر خدا نے اسے بے حساب حسن دیا تھا )سے شادی کر لی تھی۔ مگر عشق اور مشک چوں کہ چھپے نہیں رہ سکتے لہذا یہ راز بھی بہت جلد بڑے خان جی پر کھل گیا تھا۔ انہوں نے اس شادی کو قبول نہ کیا اور تمام جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے کر میری ماں کو نہ صرف طلاق دلوا دی اس کی شادی بھی اپنے خاص خادم دراز خان سے کر دی۔ اتنے پر ہی اکتفا نہ کیا انہوں نے خان جی کی شادی اپنے قبیلے میں کرنے کے لیے اپنے خاندانی دوست شمیر خان سے بات کی۔ یوں بیگم جان کا رشتہ خان جی سے طے ہو گیا۔ دلہن خاندان کا نام اور بہت ساری زمین ساتھ لائی تھی لہذا وہ بہت جلد میری ماں کو بھول چکے تھے۔ بیگم جان کے بطن سے دو حمل گرنے کے بعد زرجان پیدا ہوئی تھی۔
میں شادی کے ساتویں مہینے ہی میں دراز خان کے گھر اس عورت کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا جسے خان جی نے چھوڑ کر بھلا دیا تھا۔ ساتویں مہینے ہی ایک صحت مند بچے کی پیدائش کے بعد میری ماں کے مقدر میں جو رسوائی آئی اور جیسی جیسی آزمائش کو میرے باپ نے سہا، اس کا قصہ اوپر کہہ آیا ہوں۔
اسی روز خان جی یعنی میرے نئے باپ ، میرا مطلب ہے حقیقی باپ نے جب میرے چہرے سے اپنا دایاں گال جوڑتے ہوئے بیگم جان ، یعنی میری سوتیلی ماں سے یہ کہا تھا کہ دیکھو اس کی صورت ان سے کتنی زیاد ملتی ہے تو بیگم جان نے منھ دوسری طرف پھیر کر تھوک دیا تھا۔ بہن کے رشتے سے شناخت ہونے والی زر جان کے سفید گالوں پر بھی زردی سی کھنڈ گئی تھی اور وہ مجھے ہکا بکا دیکھے جا رہی تھی۔ مجھے لگا وہ ان دنوں کو یاد کر رہی ہو گی جب میں اس کا بھائی نہیں بس ایک ننھا منا کاما تھا۔
٭٭
میں نے بتا رکھا ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو زر جان کے باہر کے کام کاج کے لیے مجھے شہر بھیج دیا گیا تھا اور یہ بھی بتا رکھا ہے کہ تب وہ کالج میں پڑھتی تھی۔ مگر یہ بتانا بھول گیا تھا کہ کہانیوں کی ان کتابوں میں ، کہ جنہیں پڑھنے کی مجھے لت پڑ گئی تھی ، پھولوں والے خوشبودار کا غذ پر کچھ لکھ کران کے اندر رکھتی اور کتاب مجھے دے کر کہا کرتی کہ میں انہیں خرم بابو کو لوٹا آؤں۔ خرم بابو سامنے والے اس گھر میں رہتا تھا جس کی چھت پر کبوتروں کی چھتری بنی ہوئی تھی۔ اگرچہ مجھے ان خوشبودار کاغذوں کو نہ کھولنے کا حکم تھا مگر میں چھوٹا ہونے کے باوجود کہانیاں پڑھتے رہنے کے سبب بہت کچھ سمجھنے لگا تھا۔ لہذا چھتری والے گھر تک پہنچتے پہنچتے کتاب کے اندر موجود تہہ کئے ہوئے خوشبودار کاغذوں کے الفاظ کبوتروں کی طرح غٹر غوں غٹر غوں کرتے اتنا شور مچاتے کہ میرا دل سینے سے باہر آنے کوپسلیوں سے ٹکریں مارنے لگتا۔ روز روز کے ان خطوں کی وجہ سے ایک خوف اور لذت کا ملا جلا احساس میرے وجود کا حصہ بنتا چلا گیا تھا۔ ان دنوں میں زرجان کو دیکھا کرتا تھا تو یوں لگتا، جیسے اس کے سارے بدن کا خون اس کے گالوں کی سمت جوش کرنے لگا تھا۔ دودھ جیسی سفید جلد میں اس سرخ لہو کا چھن چھن کر آنا اتنا لذیذ اور پر لطف ہو تا تھا کہ میں زرجان کے راز کا جی جان سے امین ہو گیا۔ میں تب بھی اس راز کا امین رہا جب زرجان دو روز تک شہر والے گھر سے غائب رہی اور اس کی ماں بیگم جان رو رو کر اس قدر نڈھال ہو گئی تھی کہ بار بار بے ہوش ہوتی تھی۔ ادھر خان جی تک خبر پہنچی، وہ آئے تو میرے جسم میں فقط خوف ناچ رہا تھا۔ ان کا دھیان میری طرف جاتا تو شاید مجھے بہت بڑے امتحان سے گزرنا پڑتا۔ وہ مسلسل بیگم جان پر برستے رہے اس کی چوٹی پکڑ لی اور اس کے بھاری وجود کو اس چوٹی سے جھٹکے دیتے اور مسلسل کہے جاتے تھے:
’’تو ضد کر کے اسے پڑھانے شہر لائی میں یہ کیسے مان لوں کہ تجھے کچھ بھی خبر نہیں ہے کہ تیری بیٹی کیا گل کھلانے والی ہے۔‘‘
جب وہ مار کھاتے کھاتے ایک بار پھر بے ہوش ہو گئی تو ان کی نگاہ مجھ پر پڑی۔ میں ایک کونے میں سہما کھڑا تھا۔ وہ دو قدم میری طرف بڑھے اور میں نے جانا کہ اگر انہوں نے ایک بھی اور قدم میری طرف اٹھایا تو میں موت آنے سے پہلے ہی مر جاؤں گا۔ وہ اچانک وہیں ٹھہر گئے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی میری طرف اٹھائی اور اسے وہیں تان کر لرزش دیتے ہوئے کہا :
’’اگر یہ بات اس چاردیواری سے باہر نکلی تو میں تمہاری زبان تالو سے کھینچ لوں گا اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر تمہارا بدن چیر کر تمہاری بوٹی بوٹی کتوں کو کھلا دوں گا۔‘‘
میرا سر بے اختیار دائیں بائیں حرکت کرنے لگا جیسے ’’نہیں نہیں‘‘ کی تکرار کر رہا ہو۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کمرے میں گھستے جس میں زرجان اپنی کتابوں کے ساتھ ہوا کرتی تھی ، میں خوف کی شدت سے پچھڑ کر اپنے ہی پاؤں پر بیٹھ گیا تھا۔ اگلے ہی روز ایک حادثے میں مر جانے والے خرم بابو کی لاش چھتری والے گھر میں آئی تھی اور اسی روزگم ہونے والی زرجان کو بھی ڈھونڈ لیا گیا۔ مگر یہ تو تب کا قصہ ہے جب ابھی خاکی وردی پہن کر سنہری گھوڑے پر بیٹھ کر مرکزی کردار بن جانے والا اس کہانی میں داخل نہیں ہوا تھا۔ ان دنوں وہ شاید کاکول میں پڑھتا اور فوجی ٹریننگ لیتا ہو گا اور وہ کچھ نہیں جانتا ہو گا ، جو میں زرجان بی بی کی خدمت پر مامور رہ کر جان گیا تھا۔ جن دنوں میں اپنے پرانے باپ کے ساتھ گھوڑوں کی جلد کھروچتا اور مالش کر کے چمکایا کرتا اور ان کی پچھلی ٹانگوں کے درمیان بکھر جانے والی لیدکو لکڑی کے پھاوڑے سے کھینچ کھانچ ایک کونے تک لایا کرتا اور وہاں سے ٹوکروں میں ڈال کراپنے سر پر لادتا اور حویلی کے عقب اپنے ہی کھولی کے سامنے ڈھیر کرتا رہتا تھا ان دنوں تک اس گھر کی دونوں عورتوں کو حویلی سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ تو بعد کی بات ہے کہ یہ سنہری وردی اور گہری بھوری آنکھوں والا آیا تھا اور ساری حویلی ، جو پہلے آسیب زدہ لگتی تھی، انگڑائی لے کر جاگ اٹھی تھی۔
٭٭
سقوط ڈھاکہ کے اعلان سے لے کر آل انڈیا ریڈیو پر اپنے نام پیغام سننے کی خواہش میں مسلسل نشرئے سنتے رہنے والے دورانیے تک اور بعد میں چھپن ہزار قیدیوں کے چھوٹ کر آنے والے دورانیے میں حویلی ایک بار پھر آسیب زدہ ہو گئی تھی۔ انہی دنوں میں سے وہ ایک دن تھا جب خان جی اپنے چہیتے سنہریے کو دیکھنے آئے جو گزشتہ روز تھان پر کھڑا کھڑا گر کر زخمی ہو گیا تھا۔ میں نے خان جی کو بتایا کہ گھوڑے کا اگلا بایاں گھٹنا دہرا ہو کر لوہے کے کھونٹے سے ٹکرایا اور چھل گیا تھا اور یہ کہ میں نے دوائی لگا کر پٹی باندھ دی تھی۔ یہ بھی یقین دلایا تھا کہ زخم معمولی ہے، دو ایک روز میں مندمل ہو جائے گا مگر خان جی تو جیسے میری بات نہیں سن رہے تھے ، مسلسل مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں جھینپ کر چپ ہو گیا تو بھی مجھے دیکھتے رہے۔ اچانک انہوں نے منھ موڑا اور تیزی سے باہر نکل گئے۔ شام تک لگ بھگ میں اس واقعے کو بھول چکا تھا کہ خان جی کو پھر آتا دیکھا۔ میں کام کاج چھوڑ کر ادھر متوجہ ہوا اور جلدی سے اپنے لتھڑے ہوئے ہاتھ اپنی بوسیدہ قمیض کے دامن سے یوں صاف کیے جیسے وہ مجھے ہی ہاتھ ملانے آرہے تھے حالاں کہ آج تک ایسا موقع ایک بار بھی نہیں آیا تھا۔ وہ آئے نپے تلے قدم اٹھاتے ہوئے، جیسے انہیں کوئی جلدی نہ تھی۔ میں نے ان کے بائیں کندھے پر جھولتی دو نالی کو دیکھا۔ جب وہ شکار کے لیے نکلتے تو یہی دو نالی یوں ہی ان کے کندھے کا جھلارا لیتی تھی۔ میں نے ان کے عقب میں نگاہ دوڑائی وہاں ان میں سے کوئی بھی نہ تھا جو شکار پر ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ کیسا شکار تھا جس کے لیے وہ اکیلے ہی نکل کھڑے ہوئے تھے۔ خان جی کا مجھ تک پہنچنا شاید لمحوں کی بات تھی مگر اس عرصے میں ان کا مسلسل مجھے دیکھتے ہوئے چلے آنا جیسے صدیوں پر محیط واقعہ تھا۔ یوں مجھے وہ دوسری بار دیکھ رہے تھے ، سو طرح کے وسوسے میرے اندر سے اٹھے مگر ان کے مطمئن چہرے نے مجھے بھی ان کی طرف دیکھے چلے جانے پر مائل رکھا۔ میرے قریب آ کر وہ رکے ، سنہریے کی طرف مڑے، کندھے سے دو نالی اتاری، اس کی طرف سیدھی کی۔ میں سہم کر دیوار کے ساتھ لگ گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس روز دیوار کے ساتھ جا لگا تھا جس روز شہر والے گھر میں خان جی نے بیگم جان کی چوٹی سے اس کا فربہ وجود چھلکا ڈالا تھا۔ دو نالی سے شعلے نکلے اور سنہریا گر کر زمین پر تڑپنے لگا۔ خان جی پلٹے ، کہا :
’’اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا‘‘
پھر دو نالی کو جھٹکے سے دوہرا کیا اور کارتوس کے خول اچھال کر نکالتے ہوئے کہا:
’’جو کام کا نہیں رہتا ، کہیں کا نہیں رہتا‘‘
یہ منظر دیکھ کر میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں اس کیفیت سے نکلا نہ تھا کہ وہ میری طرف بڑھے۔ اس بار وہ رکے نہیں بلکہ بالکل سیدھا میرے پاس پہنچ گئے۔ میرے جسم کے ہر مسام نے پسینہ اگل دیا تھا۔ انہوں نے میری کیفیت جانے بغیر مجھے نرمی سے تھاما، میرے چہرے پر جھکے، یوں جیسے میری ماں مرنے سے پہلے میرے ماتھے کا بوسہ لینے میرے چہرے پر جھکا کرتی تھی۔ میں نے آنکھیں میچ لیں۔ جیسے اگر وہ بوسہ دینا چاہتے تھے تو میں بوسہ لینے کے لیے بالکل تیار تھا۔ میں اس کیفیت سے ایک جھٹکے کے ساتھ تب نکلا جب وہ مجھے کھینچتے ہوئے حویلی کی طرف لے جا رہے تھے۔
٭٭
بے ذائقہ عورت اور غیر مربوط مرد کی کہانی میں واپسی
دور پانیوں کے اوپر روشنیوں کو جھلملاتے دیکھتے ہی شاید محمود یا فہیم چلایا تھا:
’’وہ رہا برما۔‘‘
سب خوشی سے اتنا اچھلے کہ اسٹیمر بھی مستی سے جھولنے لگا تھا۔ محمود نے برما دیکھ رکھا تھا وہ اکثر ہمیں برما کے قصے سنایا کرتا تھا۔ اس نے دور ذرا اوپر کی سمت جھلملاتی روشنیوں کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اس کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا۔ وہی روشنیاں جو پانی کے اوپر تھیں اس کے اندر جا کر اسی طر ح جل بجھ رہی تھیں۔ محمود نے ہمیں ان روشنیوں کی طرف متوجہ کرنے کے بعد جب یہ کہا تھا کہ وہ ا یلیفنٹ پوائنٹ ہے تو اس پر شہباز نے شوخی سے دونوں بازو ایک بار پوری طرح کھولے اور پھر جھٹک دینے کے بعد دو انگلیوں سے چٹکی بناتے ہوئے کہا تھا :
’’ہا ہا ہا ا ا اتھی ی ی ی۔۔۔ اور۔۔۔ پوائنٹ۔‘‘
اس کے ساتھ ہی فضا میں قہقہے گونجنے لگے تھے۔ وہ قہقہے اتنے بے ساختہ اور اتنے مسلسل تھے کہ دیر تک سمند رکے پانی پر تیرتے رہے۔ انہی گونجتے قہقہوں میں شہباز نے لمحہ بھر کو اداس ہو کر یہ بھی کہا تھا :
’’کبھی ہمارا وجود ہاتھی جیسا قوی تھا اور اب شاید ایک مہین نقطہ بھی نہیں ہے‘‘
تاہم وہ سب خوش تھے اور اس طرح کی حرکتوں سے اور اپنی اپنی ذات پر چوٹ لگا کر وہ اپنے اندر کی ساری توڑ پھوڑ باہر پھینک دینا چاہتے تھے۔
ٹوٹ پھوٹ تو میرے اندر بھی بہت ہوئی تھی مگر میرے لیے یہ سب کچھ بے معنی ہو گیا تھا۔ میری ران سے اگرچہ محمود نے گولی نکال کر پٹی باندھ دی تھی کہ وہ اس میں خوب ماہر تھا اور ناگہانی ضرورت کا ہر سامان اپنے ساتھ اتنے اہتمام سے رکھا کرتا کہ ہم سب اس سگھڑاپے کی وجہ سے اسے پھوپھی کہا کرتے تھے۔ میں اس درد کو پی گیا تھا جو گولی نے میرا اپنا جسم چھید کر مجھے دیا تھا مگر وہ درد سہا ہی نہیں جا رہا تھا جو گولیوں نے اس کے بدن پر لگائے تھے جو میری نظروں کے سامنے پانیوں کو اچھال کر معدوم ہو گئی تھی۔
تو کیا وہ واقعی مر گئی تھی؟
میں بار بار اپنے آپ سے سوال کرتا تھا حالاں کہ میں نے اسے پانی سے پھر ابھرتے نہیں دیکھا تھا۔
٭٭
غیر مربوط آدمی کا قصہ یہاں روک کر ایک بار پھر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کہانی جب مجھے سنائی جا رہی تھی تو اس میں بہت سارے رخنے تھے اور یہ بھی کہ میں نے اسے لکھتے ہوئے ایک خاص ترتیب دے دی ہے۔ اب جب کہ میری اس حویلی میں حیثیت بدل چکی ہے ، میرا جی چاہنے لگا ہے کہ اس چلتی کہانی کو روک کر خود کو اس کا لازمی حصہ بنا دوں۔۔۔ اور۔۔۔ وہ بھی کچھ اس قرینے سے کہ آخر میں پہنچ کر یہ میری اپنی کہانی ہو جائے۔ خیر مجھے اب اتنا گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ ایک مدت باہر کی خاک چھاننے اور ادھر ادھر منھ مارنے کے بعد وہ واپس آیا تو یوں تھا کہ حویلی میں اسے کوئی گھاس نہیں ڈال رہا تھا۔ میں نے اس کی باتوں سے اخذ کیا کہ شادی کی رات ہی اس پر کھل گیا تھا کہ اس کی بیوی زرجان اعصابی مریضہ تھی۔ بعد ازاں اس سے نباہ کرنے کا اس نے یہ طریقہ نکالا کہ وہ خان جی کی طرح زنان خانے میں کم سے کم جائے اور ضرورت سے زیادہ ایک جملہ نہ کہے۔ یوں زرجان اور اس کے درمیان ایک فاصلہ قائم ہو گیا۔ واپس آنے کے بعد تو مجھے یوں لگتا تھا جیسے وہ اکیلا نہیں آیا تھا اپنے ساتھ بنگالی عورت منیبہ کو بھی لے آیا تھا جس کے دھیان کے بہت پیچھے گہرے سایوں میں زرجان بالکل ہی چھپ گئی تھی۔
زرجان جہاں چھپی ہوئی تھی ، وہ وہاں سے نکلنا ہی نہیں چاہتی تھی کہ زندگی کے اب اس کے نزدیک کوئی معنی نہیں تھے۔ بیگم جان تو اپنی بیٹی کی اس حالت کو دیکھ کر کب کے ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھی تھی۔ البتہ خان جی اپنے معاملات میں پوری طرح مگن تھے۔ سارا گاؤں چوں کہ ان کا مطیع تھا اور جو کچھ وہ چاہتے تھے وہ ہو جاتا تھا لہذا انہیں ان پل پل مرتی عورتوں کی پروا ہی نہیں تھی۔ انہیں اس واپس لوٹ آنے والے غیر مربوط آدمی کی بھی پروا نہ ہوتی مگر انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ آدمی ان کے ساتھ کوئی چال چل رہا تھا یا سچ مچ کا مجذوب ہو گیا تھا۔ خیر یہ معاملہ بھی ان کے لیے ثانوی تھا اصل معاملہ تو کچھ اور تھا۔ وہی جس کے لیے اس کا باپ یعنی خان جی کا سگا بھائی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ میں صورت حال کو یوں دیکھنے کے کبھی لائق نہ ہو پاتا اگر میری رسائی حویلی کے اندر تک نہ ہو جاتی کہ باہر سے یہ شاندار حویلی ایک خواب کی طرح لگتی ہے۔
جب میں اس خواب ، میرا مطلب ہے کہ اس حویلی، کا حصہ ہو رہا تھا تو وہ پلٹ آیا۔ اس کے آنے پر پہلے پہل مجھے خدشہ ہوا تھا کہ کہیں مجھے واپس گھوڑوں کے اصطبل میں نہ بھیج دیا جائے۔ اس خدشے کی وجہ یہ تھی کہ خان جی نے اگرچہ حویلی کے اندر یہ اعلان کر دیا تھا کہ میں ان کا بیٹا ہوں مگر ابھی تک اس بات کو حویلی سے باہر نکلنے کی اجازت نہ ملی تھی۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں ان کے مقربین میں شامل ہو گیا تھا۔ یہی لوگ جب اکیلے میں ایک دوسرے سے ملتے تو میری اصلی والی ماں کا نام لے لے کر ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں انڈیلتے اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہہ بار ہوتے تھے۔ میں ادھر ادھر جاتے ، گلی باڑی سے گزرتے ، انہیں سرگوشیاں کرتے اور ہتھیلیاں بجاتے دیکھتا رہتا۔ مجھ تک ان کے الفاظ نہ پہنچتے تھے مگر جو کچھ میں بچپن سے سنتا آ رہا تھا، اسے سہولت سے سمجھ جاتا تھا۔ یہ سب کچھ مجھے بہت آزردہ کر تا تھا تاہم کبھی کبھی میں سوچتا اس معاملے میں لوگوں کا قصور نہیں تھا کہ انہیں ابھی تک میری ماں کے نکاح کا وہ پکا کاغذ نہیں دکھایا گیا جو میں دیکھ کر مطمئن ہو گیا تھا۔
تو یوں ہے کہ میں پکے کاغذ والا ان کا بیٹا تھا اور مجھے اکیلے میں بتا یا گیا تھا کہ ایک روز میں نے ان کی ساری جائیداد کا وارث ہونا تھا۔ خان جی کا کہنا تھا کہ ان کی ساری جائیداد ان کے اپنے نام پر نہیں تھی ، وہ حصہ جو ان کے اس بھائی کے نام تھا جسے شہر میں گاڑی نے کچل دیا تھا، ان کے اس پاگل داماد کو منتقل ہو گئی تھی۔ ساری خرابی اس داماد میں تھی۔ پتہ نہیں یہ پاگل تھا یا پاگل ہونے کا ڈرامہ کر رہا تھا۔ اور شاید یوں پاگل ہونے کی بجائے فوج میں رہ کر حویلی کی قوت بنا رہتا تو بات دوسری ہوتی مگر اب تو یہ کسی کام کا نہ تھا لہذا وہ بڑے دور کی کوڑی لائے، مجھے قرب دے کر اپنے اعتماد کا آدمی بنا لیا اور ایک ایسی بات کہہ دی جو مجھے کسی اور سے نہیں کرنی تھی۔ میں نے خوب سمجھ لیا کہ پکے کاغذ والا رشتہ پکا امتحان چاہتا تھا۔ مجھے یوں لگنے لگا ہے جیسے میرے چہرے پر لپی کالک دھلنے والی تھی لہذا میں نے خان جی یعنی اپنے حقیقی والد سے وعدہ کر لیا کہ میں وہی کروں گا جو وہ چاہتے تھے۔
اگرچہ میں نے ان سے پکا وعدہ کر لیا مگر کچھ ہی روز بعد مخمصے میں پڑ گیا۔ ہوا یوں کہ ایک روز خان جی دن کے اجالے میں اور بڑے دھوم دھڑکے سے اپنی نئی بیوی کو شہر سے حویلی میں لے آئے۔ ویسے وہ اتنی نئی بھی نہیں تھی اس کی گود میں کوئی پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا جس کے بارے میں خان جی کا سب کے سامنے کہنا تھا کہ وہ ان کی جائیداد کا وارث تھا۔ یوں نہیں تھا کہ شہر والی خبر اچانک گاؤں پہنچی تھی۔ لوگ پہلے سے جانتے تھے کہ ان کے شہر میں شیخوں کے گھر آنا جانا تھا اور یہ بھی کہ وہاں وہ کسی عورت کے لیے جاتے تھے۔ خان جی جیسے لوگوں کا عورتوں کے ہاں آنا جانا کوئی نئی بات نہیں تھی ، اپنی بیوی بنا کر گھر لے آنا یوں بڑی بات ہو گئی کہ خان جی کو اپنی جائیداد کا وارث مل گیا تھا۔ بیگم جان کے بھائیوں نے حویلی آ کر خوب اودھم مچایا تھا مگر خان جی نے بیگم جان کو کھڑے کھڑے طلاق دینے کی دھمکی دے کر انہیں چپ ہو نے پر مجبور کر دیا تھا۔ ان دنوں کہ جب اشتمال ہو رہا تھا ، اپنی ساری جائیداد کو ایک جگہ کر لینے کے بہانے وہ بیگم جان کے نام والی ساری جائیداد پہلے ہی اپنے نام منتقل کرا چکے تھے۔ ان کی بیٹی زرجان اس حویلی میں تھی مگر یوں بھلا دی گئی تھی جیسے وہ تھی ہی نہیں۔ بیگم جان کے بھائیوں کو صاف لگ رہا تھا کہ اگر خان جی نے ان کی بہن کو طلاق دینا چاہی تو کوئی رشتہ یا خوف حائل نہ ہو سکے گا لہذا وہ دونوں کان لپیٹ کر حویلی سے نکل گئے تھے۔
جب طوفان تھما تو میں نے ٹھنڈے دل سے اپنے حیثیت کا ازسر نو تعین کرنا چاہا۔ میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور دل بھر آیا۔ اس رات میں بہت رویا تھا۔ اسی رات مدت بعد مجھے ماں یاد آئی تھی اور وہ باپ بھی جو ذلت اور بے بسی کی موت مر گیا تھا۔ ان دنوں میں منھ چھپا کر ایک طرف پڑا رہتا، بالکل اسی طرح ، جیسے ان کا داماد ایک کونے میں گم صم پڑا رہتا تھا۔ میں نے محسوس کیا ہم اس کیفیت میں بہت قریب ہو گئے تھے۔ ہم کچھ نہ بولتے تھے مگر یوں لگتا تھا جیسے پہروں باتیں کرتے اور جی بھر کر روتے تھے۔ خان جی نے میرا یہ وتیرہ دیکھا تو ایک روز مجھے بلا کر کہا کہ وہ مجھے میرا حق ضرور دیں گے۔ مجھے ان پر بہرحال اعتماد کرنا تھا کہ اس کے سوا میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مجھے اپنا کام جلد نبٹانا چاہیے۔ میں نے اس وقت تصور باندھا جب پکا کاغذ سب کو دکھایا جانا تھا اور دل کو سمجھا لیا کہ ایک باپ کے ایک سے زیادہ بیٹے بھی تو ہو سکتے تھے۔
نئے دُکھ کی شدید باڑھ میں میرے قریب آنے والا ایک دم فاصلے پر ہو گیا تھا۔ میں نے بہت جلد محسوس کیا کہ خان جی کی مہربانیوں کا سلسلہ اسی طرح دراز تھا جس طرح پہلے تھا۔ اب میں منصوبے کے مطابق ان کے داماد قریب کھسک رہا تھا۔ دکھ نے تو ایک ہی ہلے میں ہمیں قریب کر دیا تھا مگر منصوبہ بنا کر قریب ہونا چاہا تو سو طرح کے حیلے کرنا پڑے تھے۔ اس کی کہانی لکھتے اور اسے ہی سناتے سناتے کہیں جا کر میں نے اسے ایسابنالیا تھا کہ وہ میری دوسری باتوں کو بھی دھیان سے سننے لگے۔ وہ سنتا رہتا اور جب اسے دھیان بڑھانا ہوتا تو زمین کھرچنے لگتا تھا۔
٭٭٭
باب:۴
مٹھی بھر زمین
یوں ہی زمین کھرچتے کھرچتے ایک دن عجب واقعہ ہوا۔ میری زبان سے زمین کے لفظ کی تکرار سن سن کروہ یک دم اٹھا، اپنے قدموں پر گھوما جیسے اباؤٹ ٹرن کر رہا ہو اور بالکل سامنے دیکھتے ہوئے لیفٹ رائیٹ کرتا حویلی کے اندر گھس گیا۔ ابھی میں صورت حال کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ وہ حویلی کے دروازے پر نمودار ہوا۔ اسی طرح بازو زور زور سے آگے پیچھے مارتا ، پاؤں اوپر تک اٹھا کر ان سے زمین کو کوٹتا۔ باہر نکلتے وقت وہ پہلے سے اتنا مختلف تھا کہ اب اس کے جسم پر خاکی وردی تھی۔ یہ وردی اس نے پہلے سے پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر چڑھا لی تھی۔
وہ غیر مربوط ضرور تھا مگرایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے لگے۔ جہاں بٹھاؤ بیٹھا رہتا، نہ بلاؤ تو بولتا تک نہیں تھا۔ سنتا رہتا، بات پسند آتی تو اس میں شریک ہو جاتا ، ناگوار گزرتی تو چپ ہو کر منھ پھیر لیتا۔ طیش آتا تو زمین کھرچنے لگتا تھا۔ مگر اب تو وہ باقاعدہ لیفٹ رائیٹ کی آوازیں نکال رہا تھا، یوں کہ اس کے منھ سے کف اڑنے لگی تھی۔ زور زور سے ہاتھ آگے پیچھے مارتے ہوئے وہ شرٹ کے پلو بھی جھلاتا آگے پیچھے لے جاتا کہ اس نے شرٹ کے بٹن نہیں لگائے تھے۔ کچھ اور آگے آیا تو میں نے دیکھا، اس کے پیچھے دروازے سے زرجان اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ جس وقت اس کی اوپر چڑھائی ہوئی پینٹ، جس کی زپ لگائی گئی تھی نہ ہک، ڈھیلی ہو کر اس کے گھٹنوں تک آ گئی تھی اور وہ الجھ کر لڑکھڑانے لگا ، تب بھی وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے منھ کے بل گرتے ہی وہ منھ چھپا کر واپس اندر چلی گئی۔ مجھے یوں گماں ہوا تھا جیسے وہ بھاگ کر واپس جا رہی تھی اور اس گمان کی وجہ یہ تھی کہ مجھے قدرے دور سے اس کی چیخ کی آواز سنائی دی تھی۔
میں نے آگے بڑھ کر اسے سیدھا کرنا چاہا تو وہ ٹانگیں پھیلا کر چت لیٹ گیا۔ میں نے اس کے کندھوں کے نیچے ہاتھ ڈال کر اسے اٹھانا چاہا۔ اُس نے اپنا سارا بدن ڈھیلا کر کے وزن زمین پر گرا رکھا تھا۔ میں زور لگاتے ہوئے دوہرا ہو گیا تو وہ ہنسا ، یوں جیسا انار پھوٹتا ہے۔ پھر تووہ یوں ہنسے جاتا تھا جیسے میں نے اسے کندھوں سے نہیں پسلیوں کے نیچے سے تھاما تھا اور اسے گدگدی ہو رہی تھی۔ میں نے اپنے ہاتھ نکال کر گویا اپنی ناکامی کا اعلان کر دیا تھا۔ میرے پرے ہٹتے ہی وہ پہلو بدل کر پھرت سے سیدھا ہوا اور اچھل کر اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا۔ وہ اب بھی ہنس رہا تھا اور شرارت اس کی آنکھوں سے جھانک رہی تھی۔ اس کی خاکی وردی ، ساری کی ساری مٹی میں اٹی ہوئی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر مٹی جھاڑنے کے لیے ایک بار ہی وردی کو چھوا تھا کہ وہ یک دم اچھل کر پرے جا کھڑا ہوا ، ہونٹوں پر انگلی رکھ کر آنکھوں کو ذرا سا میچا اور ہونٹوں سے دائرہ بنا کر اس سے’’ ہش‘‘ جیسی آواز نکال کر یوں ادھر ادھر دیکھا جیسے راز داری سے کچھ کہنا چاہتا ہو۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے گردن لمبی کی داہنے کان کا رُخ اس کی طرف کیا اور بائیں ہتھیلی سے اس کے پچھلی جانب چھجا سا بنا دیا۔ گویا میں اس کا راز چپکے سے اپنی سماعتوں کا حصہ بنانے کے لیے تیار تھا۔ اس نے سرگوشی کی:
’’آدمی تو مٹی ہے‘‘
اس نے یہی جملہ ایک بار پھر دہرایا۔ اب اس کی آواز اونچی ہو گئی تھی۔ دفعتاً اس نے خاکی شرٹ کو کھینچ کر اتارا اور اسے زمین پر ڈال کر اوپر بیٹھ گیا۔
’’مٹی تو خاکی ہے ، بس خاک اڑتی ہے۔۔۔
مٹی تو مٹی ہے، یہ اپنی کہاں رہتی ہے‘‘
اسے مٹی کے نئے نئے مضمون سوجھنے لگے تھے۔ وہ اٹھا اور عین اس جگہ جہاں وہ بیٹھا تھا پنجوں پر اچھل اچھل کر اور گھوم گھوم کر بچوں کی طرح ردھم بنا بنا کر گانے لگا:
’’مٹی تو مٹی ہے۔۔۔
مٹی میں پانی ہے۔۔۔
پانی میں مٹی ہے ، ۔۔۔
مٹی تو مٹی ہے‘‘
وہ دھپ سے زمین پر بیٹھ گیا دونوں ہتھیلیاں خاک پر بچھائیں اور مٹھیاں اس سے بھر لیں۔ پھر سیدھا کھڑا ہو کر دائیں بائیں اپنے بازوؤں کو یوں پھیلایا کہ اس کی مٹھیاں اسی طرح سختی سے بند رہیں۔ اچانک اس کے ہاتھوں نے سامنے کی جانب حرکت کی اور ہتھیلیاں آسمان کے رخ پر پھیل گئیں۔ مٹی اس کی دونوں ہتھیلیوں پر اب بھی موجود تھی۔ میرا دھیان اس کی ہتھیلیوں سے ہٹا نہ تھا کہ اس نے آنکھیں نچا نچا کر اور لفظ اچھال اچھال کر کہا:
’’مٹی لو گے؟‘‘
میں نے کچھ بھی نہیں کہا تھا مگر اس نے فوراً مٹھیاں بھینچ کر مٹی چھپا لی۔
’’یہ تو میری ہے‘‘
ایسا کہتے ہوئے اس کی مٹھیاں اس کی بغلوں میں چلی گئی تھیں۔ وہ جھومتے جھومتے گانے لگا ، یوں جیسے ہم بچپن میں دونی کا پہاڑا پڑھتے ہوئے زور لگا کر آگے پیچھے جھوما کرتے تھے:
’’مٹی تو میری ہے۔۔۔
مٹی تو مٹی ہے۔۔۔
مٹی کو چاہتے ہو۔۔۔ مٹی تو کھاتی ہے‘‘
’’مٹی تو مٹی ہے، مٹی میں ملتی ہے۔۔۔
ملتی ہے مٹی کو، مٹی تو مٹی ہے۔۔۔
مٹتی مٹاتی ہے، مٹی تو مٹی ہے‘‘
جب وہ اپنے پنجوں پر اچھلتا گھوم رہا تھا، ناچ رہا تھا اور مزے مزے سے گا رہا تھا تو عین اس وقت خان جی ادھر آ نکلے۔ میری اوپر کی سانسیں اوپر اور نیچے کی سانسیں نیچے رہ گئیں۔ ابھی میں نے انہیں کل ہی بتایا تھا کہ وہ ڈھب پر آ گیا تھا مگر۔۔۔
میں نے دیکھا ، جیسے خان جی اسے پاگلوں کی طرح یوں گھومتے گاتے پا کر مطمئن ہو گئے تھے۔ کل تک گم صم رہنے والا اور کبھی کبھی بہت گہری عقل کی باتیں کر کے حیران کرنے والا پاگل اب سچ مچ پاگل نظر بھی آنے لگا تھا۔ وہ مونچھوں ہی مونچھوں میں ہنسے اور بڑبڑائے :
’’ پاگل‘‘
وہ ناچتا رہا ، گاتا رہا اور اسی عالم میں اپنی مٹھیاں اپنے سر کے اوپر کھو ل دیں :
’’مٹی تو چاہتی ہے۔۔۔مٹی میں ملنے کو۔۔۔مٹی تو میری ہے۔۔۔مٹی کو ملتی ہے‘‘
اچانک اس کی نگاہ خان جی پر پڑی ، وہ جہاں تھا ، وہیں رک گیا۔ پھر یوں لگا جیسے وہ انہیں نفرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنی مٹھیاں کھول کر دیکھا ، دونوں ہاتھ خالی تھے وہ زمین پر جھکا دونوں مٹھیاں پھر خاک سے بھر لیں اور انہیں آمنے سامنے کی بغلوں میں چھپاتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر اور زور دے کر کہا:
’’یہ مٹی تو میری ہے۔۔۔تمہیں نہیں دوں گا‘‘
جس طرح وہ خان جی کو دیکھ رہا تھا اور جس طرح اس نے ٹھہر ٹھہر کر اپنا فیصلہ سنایا تھا کون کہہ سکتا تھا کہ وہ پاگل تھا۔
٭٭
ناکافی اشاروں سے متن بنانے کی کوشش
]میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ[ زمین کھرچنا، ]کبھی[ ناخنوں سے، ]یوں کہ وہ[ زمین کی جلد اپنے پنجوں سے ادھیڑ دینا ]چاہتا ہو، اور کبھی اپنی انگلیوں کی[ پوروں کا دباؤ ]بڑھاتے ہوئے کہ لگتا وہ [زمین کی کھال چھیل نہیں رہا ، ] محض[ گدگدی ]کر رہا تھا یا پھر اس کا [لمس] اپنی انگلیوں سے کشید کرنے میں لگا ہوا تھا۔ ایسے میں اس کے منھ سے[ عجب عجب جملے ]نکلتے۔ مثلاً ایک بار اس نے کہا تھا[ زمین اور عورت جس کے پاس ہوں بس اسی کی وفادار ہوتی ہیں۔ ] پھر بہت دیر سوچتا رہا اور جب میں لگ بھگ[ مایوس] ہو گیا تھا کہ وہ[ کچھ نہیں کہے گا ]تو وہ منھ ہی منھ میں بڑ بڑایا- [ہم اس دھوکے میں ہیں ] کہ ہم جس [زمین ]پر ہیں وہ کبھی[ ہماری بھی ہو سکتی ہے- ]یہ تو ہمیں [ اپنا رزق ]بنانے کے لیے ہمیں [ محبت کی تاہنگ کا دھوکا ]دے کر نگلتی رہتی ہے۔ اسی روز اس نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ [زمین سے نفرت ]کرتا ہے کیوں کہ[ یہ آدم خور ]ہوتی [ہے۔
]اس طرح کی باتوں سے کبھی تو میں معنی اخذ کر لیتا اور کبھی ان میں اتنی[ الجھنیں ] ہوتیں کہ کوئی بھی[ مفہوم ]اخذکرنا[ ناممکن ]ہو جاتا۔ جس روز وہ[ زمین ]کو اپنے پنجوں سے کھرچ کھرچ کر اسے[ مردہ باد ]کہہ رہا تھا اسی روز اس نے [منیبہ] کو بہت یاد کیا تھا جس نے [زمین] پر مرنے کی بجائے[ پانی] پر مرنا قبول کیا تھا۔ [ منیبہ کا ذکر] طول کھینچ گیا تو میں نے[ زر جان کا ذکر کر دیا]۔ دراصل جب سے میں زرجان کو اپنی[ بہن] سمجھنے لگا تھا مجھے اس کی حالت پر[ رحم] آنے لگتا تھا۔ مگر اس کے شوہر کے دل میں اس کے لیے کوئی[ جذبہ] نہ تھا۔ میں بار بار اس کا دھیان ادھر لے گیا تو وہ بھڑک اٹھا اور بڑ بڑایا[ ’’ آٹے کی عورت‘‘ ]۔ میں نے دہرایا۔ [’’ آٹے کی عورت ؟‘‘ ]وہ ہنسا اور [ راز داری سے ] بات کہنے کے لیے اپنا منھ میرے بائیں کان کی لووں تک لا کر کہنے لگا، ’’ایسی عورت جو آٹے کی طرح گوندھی جا سکتی ہو ، جس کا[ پیڑا ]بنا کر اپنے جسم کی[ آنچ ]سے ایسی[ روٹی ]بنائی جا سکے جو[ بھوک] مٹا دے مگر جو آپ کی [روح] پر دستک نہ دے سکے۔‘‘ اس نے ایک بار پھر منیبہ کو یاد کیا تھا اور آہ بھر کر کہا تھا وہ ایسی تھی کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر اور اس کی باتیں سن کر[ صدیاں ] بتائی جا سکتی تھیں۔ [
٭٭٭
کہانی سے باہر
کہانی سے باہر کہانی کے اندر کی باتیں
قارئین، آپ نے اندازہ لگا ہی لیا ہو گا کہ اوپر والے حصے تک پہنچتے پہنچتے کہانی لکھنے والا اپنی توجہ کہانی پر مرکوز نہیں رکھ سکا تھا۔ کئی خالی صفحوں کے بعد اوپر نیچے کچھ لفظوں سے میں نے ایک عبارت بنا لی ہے۔ ممکن ہے اسے کہانی لکھنے والا خود لکھتا تو اس کی صورت کچھ اور ہوتی۔ تاہم میں نے کہانی کے کاغذوں کے ساتھ نتھی اوراق پر اسی طرح اوپر نیچے لکھے گئے لفظوں سے اندازہ لگایا ہے کہ وہ کہانی لکھنے کے لیے اشارے لکھ لیا کرتا تھا اور یہ بھی جان چکا ہوں کہ اس طرح کے اشاروں سے کہانی کو مکمل کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ میں نے اوپر کی چند سطروں کو ترتیب دینے میں پورا ایک ماہ لگا دیا ہے۔ قوسین کے اندر کی عبارت میری جانب سے اضافے ہیں اور وہ الفاظ جوقوسین کے باہر ہیں وہ کہانی کہنے والے کے ہیں جنہیں کہانی لکھنے والے نے اوپر نیچے لکھ لیا تھا۔
یہیں بتاتا چلوں کہ کئی خالی صفحات پر یونہی قلم دبا دبا کر لکیریں کھینچی گئی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا شدید ذہنی دباؤ میں تھا۔ وہ کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر لکھنا اس کے لیے ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ کچھ اور اور اق الٹیں تو صفحے کے اوپر کی جانب کچھ لکھ کر اسے بار بار کاٹا گیا ہے۔ میں نے پوری توجہ دے کر کٹا ہوا نام پڑھ لیا۔ ’’مولوی دوزخی‘‘ ۔ میں نے بہت غور کیا مگر مولوی دوزخی کا اس کہانی سے براہ راست کوئی تعلق نہ سوجھا۔ یہیں بتاتا چلوں کہ میں اس مولوی کو جانتا تھا۔ یہ وہاں کا مشہور مولوی تھا۔ اپنی تقریروں میں ہمیشہ دوزخ کے مناظر کو زیر بحث لاتا اور گناہگار آدمیوں کے دوزخ کی آگ میں ڈالے جانے اور سوکھی لکڑیوں کی طرح ان کی ہڈیوں کے تڑ تڑا کر جلنے کا واقعہ وہ یوں مزے لے لے کر، جھوم جھوم کر اور گا گا کر سناتا تھا کہ لوگوں نے اس کا نام ہی مولوی دوزخی رکھ چھوڑا تھا۔
ایک اور صفحہ پر ایک مستطیل بنا ہوا تھا۔ اس مستطیل کے اوپر نیچے دو تیر بنائے گئے تھے۔ ان میں سے اوپر والے تیر کا رخ مستطیل کی طرف تھا۔ اسے دیکھتے ہی دھیان فوراً مستطیل کے اندر کے خالی پن کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ تاہم جوں ہی مستطیل کے نیچے بنائے گئے اس تیر پر نگاہ پڑتی ، جس کا رخ اوپر سے نیچے کی طرف تھا تو یوں لگتا جو کچھ خانے کے احاطے میں تھا نیچے پاتال میں اتر گیا تھا۔ یہیں ایک طرف صرف دو الفاظ سے ایک جملہ بنایا گیا تھا:
’’ بھاگ گیا‘‘
میں نے یہاں مستطیل سے مراد کھیت یا زمین لی کیوں کہ زمین کا ذکر کہانی کے آخری حصے میں بڑھ گیا تھا تاہم دھیان قبر کی طرف بھی جاتا رہا۔ تیروں سے یا تو یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ جس کی کہانی لکھی گئی تھی وہ قبر کے راستے زمین کا رزق ہو چکا تھا۔ اس خیال کو کہانی لکھنے والے نے ’’بھاگ گیا‘‘ کا جملہ لکھ کر تقویت دی ہو گی۔ ممکن ہے یہ خیال درست نہ ہو اور وہ واقعی بھاگ گیا ہو۔ ایسے میں خیال گزرتا ہے کہ یہ کھدی ہوئی قبر ، کہانی لکھنے والے کا انتظار کر رہی ہو گی۔ لکھنے والے نے اس انتظار کوجس شدت سے محسوس کیا اسے اوپر نیچے کے دو تیروں سے دکھا دیا ہو گا۔
٭٭
نامکمل کہانی کا تتمہ
تسلیم کرتا ہوں کہ کسی پرچے کے مدیر کا یہ کام ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی کہانی میں اپنی جانب سے اضافے کرنے لگے مگر یہاں معاملہ اور ہے۔ یہ کہانی ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی ہے اور ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہو رہی۔ اس کے مسودے کے ساتھ نتھی باقی کاغذات کی ساری عبارت یا تو بہت شکستہ ہے جو پڑھی نہیں جا سکتی یا محض ایک آدھ لفظ لکھ کر اس پر اتنی لکیریں کھینچی گئی ہیں کہ پڑھنا محال ہو گیا۔ جس ذہنی دباؤ نے کہانی کا راستہ روک دیا تھا اس کی شدت کو کاغذات کا یہ پلندہ دیکھے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ تاہم اس کا انداز ہ ان جملوں سے لگایا جا سکتا ہے جو اگلے کئی صفحات پر ادھر ادھر بکھرے ہوئے ملتے ہیں اور جنہیں لکھ کر کاٹا جاتا رہا ہے۔ پہلے وہ جملہ جسے دائروں کی صورت قلم چلا کر کاٹا گیا :
’’حرامی کہتا ہے میں اس کے ساتھ کوئی کھیل، کھیل ہا ہوں۔‘‘
ایک اور جملہ جسے ایک سے زیادہ بار کا ٹا گیا ہے اور اس کی سیاہی بھیگ کر پھیل گئی ہے۔
’’ ہم زمین کھودنے والے کوے ہیں۔‘‘
لگتا ہے یہ جملہ لکھ کر وہ کاغذ پر جھک کر بہت دیر روتا رہا ہو گا۔ یہیں قریب ہی ’’ہابیل‘‘ اور ’’ قابیل‘‘ کو الگ الگ لکھ کر اور ان کے گرد مسلسل دائرے لگا کر دونوں الفاظ کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ دونوں الفاظ اسی صفحہ پر ذرا نیچے جا کر لکھے گئے ہیں جس پر اوپر کی جانب ’’مولوی دوزخی‘‘ لکھ کر کاٹ دیا گیا تھا۔ یوں گمان گزرتا ہے کہ کہانی لکھنے والے نے مولوی دوزخی سے ہابیل اور قابیل کی کہانی سن رکھی ہو گی جس میں ایک کوا زمین کھود کر لاش دبانے کا گر بتاتا تھا۔ یہاں وہ زمین کے حوالے سے اسی کا ذکر کرنا چاہتا ہو گا۔ لکھنے والے کی طرف سے انسانی قتل کے پہلے سانحے کی طرف اشارے سے ، ایسے سانحے کی طرف کہ جس میں بڑے بھائی نے ، ہابیل کو قتل کر دیا تھا، اکھڑی ہوئی کہانی کو پھر سے سنبھالا دے دیا ہے۔ اگلے صفحے پر محض ایک لکیر ہے جو اوپر سے گہری ہے مگر جوں جوں لہرا کر نیچے جاتی ہے، مدھم پڑتی جاتی ہے۔ کاغذ کے نچلے حصے میں ابھی دوسطروں کی گنجائش باقی تھی کہ لکیر ختم ہو جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے یہ لکیر عین اس وقت لگ گئی تھی جب پہاڑوں پر قیامت ٹوٹ گری اور سبز حویلی اپنی ہی بنیادوں پر آ گری تھی۔ آگے کے سارے صفحات خالی ہیں جیسے ان پر ابھی بہت کچھ لکھا جانا ہے۔ میرا قلم آخری صفحے پر اپنی جبین سرنگوں کرتے ہوئے لکھنے لگتا ہے:
’’مٹی تو مٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
٭٭٭
تشکر: تصنیف حیدر
ماخذ:
http://www.adbiduniya.com/2015/11/mitti-aadam-khati-hai-by-muhammad-hameed-shahid.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید