FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مسعود حسین خاں :احوال و آثار

 

 

 

                مرزا خلیل احمد بیگ

سابق پروفیسر و صدر شعبۂ لسانیات

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

 

 

 

 

 

دیباچہ

 

 

پروفیسر مسعود حسین خاں (1919-2010)کی ذاتِ گرامی سے نا چیز کا تعلق، مختلف حیثیتوں سے، تقریباً 40سال تک رہا ہے۔ سب سے پہلے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میرے شفیق استاد بنے، پھر وہ میرے تحقیقی مقالے کے نگراں مقرر ہوئے۔ اس کے بعد بہ حیثیتِ رفیقِ کار مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ رفتہ رفتہ وہ میرے بزرگ دوست بن گئے، اور مجھے ان سے یک گونہ ذہنی قربت پیدا ہو گئی۔ عمر میں تفاوت کے باوجود وہ میرے ہم خیال تھے، اور ہماری علمی دل چسپیاں بھی مشترک تھیں۔ اکثر سفر و حضر میں بھی میرا اور ان کا ساتھ رہا ہے۔ جامعۂ اردو، علی گڑھ کے اعزازی عہدیداران میں جب بہ حیثیتِ اعزازی خازن میری شمولیت عمل میں آئی تو انھیں اور بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کہ وہ اس ادارے کے شیخ الجامعہ تھے۔

اِسی دیرینہ تعلق اور ذہنی قربت کی بِنا پر مَیں ان کی وفات (16اکتوبر2010) کے بعد سے اکثر یہ سوچتا رہا تھا کہ ان کی شخصیت و سوانح اور علمی و ادبی، نیز لسانیاتی خدمات پر ایک کتاب لکھ کر انھیں خراجِ عقیدت پیش کروں۔ اُس روز میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے انھیں ایک شب خواب میں دیکھا۔ میں نے اسی روز سے اس کتاب کی تسوید و تہذیب کا کام شروع کر دیا، اور اب بفضلہ یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔

یہ کتاب چھے ابواب میں منقسم ہے۔ اس کے پہلے باب میں مسعود حسین خاں کے سوانحی کوائف اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ ان کی زندگی کے تمام اہم حالات و واقعات سامنے آ گئے ہیں۔ اس باب میں ان کی سیرت و شخصیت کے نمایاں اور روشن پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ دوسرا باب ان کی شاعری اور گیت نگاری سے متعلق ہے۔ ان کی شاعری حقیقی معنیٰ میں ان کی زندگی کا عکس پیش کرتی ہے۔ وہ ایک کامیاب گیت نگار بھی تھے۔ ان کے گیتوں پر ’چھایا واد‘ کا گہرا اثر ہے۔ وہ ٹیگور کی ’گیتانجلی‘ سے بھی گہرے طور پر متاثر تھے۔ کتاب کا تیسرا باب ان کی تنقید نگاری سے متعلق ہے۔ ہرچند کہ مسعود حسین خاں نے اپنے ادبی سفرکا آغاز شعر گوئی سے کیا تھا، لیکن اس کے ساتھ وہ تنقیدی نوعیت کے مضامین بھی لکھتے رہے تھے، لیکن وہ روایتی اندازِ نقد سے مطمئن نہ تھے۔ امریکہ سے واپسی(1960)کے بعد سے انھوں نے اسلوبیاتی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مسعود حسین خاں کے انھی مضامین سے اردو میں اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد پڑتی ہے۔ کتاب کے چوتھے باب میں، جو ان کی لسانیاتی تحقیق سے متعلق ہے، ان کے نظریۂ آغازِ زبانِ اردو سے بحث کی گئی ہے، اور اسی باب میں اردو ’لفظ‘ کے حوالے سے ان کے نظریۂ ’عروضی صوتیات‘ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ پانچویں باب میں ان کی ادبی تحقیق اور تدوینِ متن سے متعلق مباحث موجود ہیں، اور چھٹے باب میں ان کی تصنیفات و تالیفات کا توضیحی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں ان کی تحریر کے نمونے بھی دیے گئے ہیں۔

مَیں اپنے کرم فرما محمد مجتبیٰ خاں صاحب کا تہِ دل سے ممنون ہوں کہ ان کی توجہ سے یہ کتاب منظرِ عام پر آ سکی۔

 

لکھنؤ،                                  مرزا خلیل احمد بیگ

25اگست2015                     mkabeg@rediffmail.com

 

 

 

بابِ اوّل: شخصیت و سوانح

 

                خاندان اور وطن

 

مسعود حسین خاں (1919-2010)اتر پردیش کے ضلع فرخ آباد میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے قائم گنج کے ایک متمول اور ذی علم پٹھان گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے مورثِ اعلیٰ حسین خاں کا وطن شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ پاکستانی صوبہ خیبر پختون خوا) میں واقع ایک مقام تیراہ (کوہاٹ کے شمال کا آزاد قبائلی علاقہ) تھا جہاں آفریدی پٹھان آباد تھے۔ حسین خاں ’’تلاشِ معاش میں ‘‘ اپنے آبائی وطن کی سکونت ترک کر کے 1715کے لگ بھگ قائم گنج میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ (1)یہ ایک نو آباد قصبہ تھا جسے محمد خاں بنگش نے، جو فرخ آباد کے نوابینِ بنگش خاندان کا بانی تھا، 1713میں اپنے بیٹے قائم خاں کے نام پر آباد کیا تھا۔ حسین خاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’’پٹھانوں کے معلم، مرشد اور صوفیِ با صفا‘‘ تھے۔ وہ ’مد آخون‘(بڑے استاد) کے لقب سے مشہور تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس اور معلمی کے پیشے میں گزار دی اور طویل عمر (تقریباً سو سال سے زائد) پاکر فوت ہوئے۔ ان کے بیٹے احمد حسین خاں، پوتے محمد حسین خاں اور پڑ پوتے غلام حسین خاں نے ذریعۂ معاش کے طور پر پیشۂ سپہ گری اختیار کیا۔ غلام حسین خاں (جنھیں عرفِ عام میں جھمّن خاں کہتے تھے) مسعود حسین خاں کے پردادا تھے۔ انھوں نے حیدرآباد (دکن) جا کر فوجی ملازمت اختیار کی، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے وطن قائم گنج واپس آ گئے۔ وہیں انھوں نے اپنی کاشت اور باغات کی دیکھ بھال میں باقی ماندہ زندگی گزار دی۔ (2)

غلام حسین خاں کے چھوٹے بیٹے فدا حسین خاں نے، جو مسعود حسین خاں کے دادا تھے، اپنی راہ الگ نکالی۔ انھوں نے پیشۂ سپہ گری اختیار کرنے کے بجائے حیدرآباد (دکن) جا کر وکالت کا امتحان پاس کیا اور قانون کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ اس پیشے میں انھوں نے اتنی ترقی کی کہ ان کا شمار حیدرآباد ہائی کورٹ کے ’’چوٹی‘‘ کے وکیلوں میں ہونے لگا تھا۔ انھوں نے حیدرآباد کے بیگم بازار میں ایک نہایت شان دار دو منزلہ عمارت تعمیر کرائی تھی اور نہایت پرسکون اور آسودہ حال متاہل زندگی گزار رہے تھے کہ انھیں دِق کا مرض لاحق ہو گیا جس کی وجہ سے انھیں حیدرآباد سے قائم گنج آنا پڑا جہاں 1907میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 39سال تھی۔ مسعود حسین خاں کی دادی نازنین بیگم بھی اپنے شوہر کی علالت کی وجہ سے اپنے بچوں کو لے کر حیدرآباد سے قائم گنج آ گئی تھیں جہاں ان بچوں کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا، لیکن 1911میں ان کا بھی طاعون کی وبا میں انتقال ہو گیا۔

فدا حسین خاں کے سب سے بڑے بیٹے مظفر حسین خاں (مسعود حسین خاں کے والدِ ماجد) چھٹی پیڑھی میں حسین خاں (مد آخون)کی نسل سے تھے۔ وہ 1893میں قائم گنج میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول، اٹاوہ(یوپی) میں حاصل کی، پھر محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (M.A.O. College)، علی گڑھ میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی اے، ایل ایل بی کرنے کے بعد ریاستِ حیدرآباد (دکن) جا کر وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ وہ ترقی کر کے اس ریاست کے ضلع ورنگل کے محکمۂ عدالت میں مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے، لیکن دِق کے موذی مرض نے انھیں بھی نہیں چھوڑا۔ وہ قائم گنج آ کر اپریل 1921میں راہیِ ملکِ عدم ہو گئے۔ اس وقت وہ صرف 28سال کے تھے۔

مسعود حسین خاں کے چھے چچا تھے جن میں سب سے بڑے عابد حسین خاں تھے۔ دوسرے چچا ذاکر حسین خاں (ڈاکٹر ذاکر حسین)، تیسرے چچا زاہد حسین خاں اور چوتھے چچا یوسف حسین خاں تھے۔ پانچویں چچا جعفر حسین خاں بچپن ہی میں چھے سال کی عمر میں فوت ہو گئے تھے۔ مسعود حسین خاں کے چھٹے اور سب سے چھوٹے چچا محمود حسین خاں تھے۔ مسعود حسین خاں کے پھوپھی کوئی نہ تھیں، حالاں کہ ان کی دادی کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کاش کہ ان کی کوئی بیٹی بھی ہوتی، لیکن ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی اور ان کے یہاں سات بیٹے ہی پیدا ہوئے۔ عابد حسین خاں تعلیم یافتہ تھے اور غیر معمولی ذہانت رکھتے تھے، لیکن وہ بھی دِق کے مریض ہو کر فوت ہو گئے۔ ذاکر حسین خاں (ڈاکٹر ذاکر حسین) نے خاندان کا خوب نام روشن کیا اور صدرِ جمہوریۂ ہند کے عہدے پر فائز ہوئے، اور ’’فخرِ خاندان‘‘ کہلائے۔

ذاکر حسین حیدرآباد میں 1897میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول، اٹاوہ (یوپی) میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (ایم اے او کالج)، علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ 20اکتوبر1920کو جب گاندھی جی (1869-1948) علی گڑھ آئے اور انھوں نے کالج کے یونین ہال میں طلبہ و اساتذہ کے سامنے تقریر کی اور اپنی تحریکِ عدم تعاون سے انھیں روشناس کرایا اور ان کی حمایت طلب کی تو نوجوان ذاکر حسین ان کی باتوں سے بے حد متاثر ہوئے۔ انھوں نے چند دنوں بعد اپنے بعض ساتھیوں اور اساتذہ کے ساتھ ایم اے او کالج کو خیرباد کہہ دیا۔ پھر انھی لوگوں نے گاندھی جی سے تحریک پا کر علی گڑھ ہی میں 29اکتوبر 1920کو ایک چھوٹے سے قومی ادارے کی بنیاد ڈالی جس نے بعد میں جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نیشنل مسلم یونیورسٹی) کے نا م سے شہرت حاصل کی۔ ذاکر حسین 1922میں مزید تحصیلِ علم کے لیے جرمنی گئے اور 1926میں برلن یونیورسٹی سے معاشیات (Economics)میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جرمنی سے اسی سال واپسی پر وہ جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر (شیخ الجامعہ ) مقرر ہوئے۔ اس وقت وہ 29سال کے تھے۔ ان دنوں جامعہ کی حالت بہت ابتر تھی۔ مالی وسائل بہت محدود ہو گئے تھے اور لوگوں میں وہ جوش، جذبہ اور ولولہ بھی باقی نہ رہا تھا جو اس کے قیام کے وقت دیکھا گیا تھا۔ گاندھی جی کی ایما پر جامعہ کو 1925میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔ وائس چانسلر بننے پر ذاکر حسین نے جامعہ کو اپنے خونِ جگر سے سینچا اور رفتہ رفتہ اسے اپنے پیروں پر لا کھڑا کیا۔ وہ 22سال تک اس کے وائس چانسلر رہے۔ ملک کی آزادی کے بعد ذاکر حسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور اس کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ 1957میں انھیں بہار کا گورنر بنایا گیا اور 1962میں وہ جمہوریۂ ہند کے نائب صدر بنائے گئے۔ پانچ سال بعد 1967میں وہ صدرِ جمہوریۂ ہند کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک کی بیش بہا خدمات کے لیے انھیں 1963میں ملک کے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بھارت رتن‘ سے نوازا گیا۔ 3مئی 1969کو راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر)، نئی دہلی میں انھوں نے آخری سانسیں لیں۔

مسعود حسین خاں کے تیسرے چچا زاہد حسین خاں ایم اے او کالج (علی گڑھ) میں زیرِ تعلیم تھے کہ دِق کے خاندانی مرض نے انھیں آ گھیرا جو مرض الموت ثابت ہوا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً 18سال تھی۔ وہ ذ اکر حسین سے عمر میں پونے دو سال چھوٹے تھے۔

فدا حسین خاں کی پانچویں اولاد اور مسعود حسین خاں کے چوتھے چچا یوسف حسین خاں حیدرآباد میں بیگم بازار والے مکان میں 1902میں پیدا ہوئے۔ والد کی علالت کی وجہ سے یہ بھی اپنی والدہ اور دوسرے بھائیوں کے ساتھ حیدرآباد سے قائم گنج آ گئے تھے۔ یوسف حسین خاں نے تعلیمی مدارج اٹاوہ، علی گڑھ اور دہلی میں طے کیے، اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس گئے اور سوربون یونیورسٹی (پیرس) سے ڈی.لٹ (D.Lit)کی ڈگری حاصل کی۔ 1930میں ہندوستان واپس آنے پر انھوں نے کچھ عرصہ تک مولوی عبدالحق (1872-1961)کے ساتھ مل کر انگریزی-اردو لغت کی ترتیب کا کام انجام دیا۔ اسی زمانے میں وہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) کے شعبۂ تاریخ میں استاد مقرر ہوئے اور 1957 میں وہاں سے بہ حیثیت پروفیسر سبک دوش ہوئے۔ اس کے بعد ان کا تقرر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے 1965تک کام کیا۔ بعد ازاں وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈ و انسڈ اسٹڈیز، شملہ میں فیلو رہے، پھر ان کا انتخاب انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے نائب صدر کی حیثیت سے ہو گیا۔ زندگی کے آخری سالوں میں ان کا قیام نئی دہلی میں رہا۔ وہیں کے ہولی فیملی ہسپتال میں انھوں نے 21فروری 1979کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

مسعود حسین خاں کے سب سے چھوٹے چچا محمود حسین خاں اپنے والد کے انتقال (1907)کے تین ماہ بعد قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم اٹاوہ کے اسلامیہ ہائی اسکول میں ہوئی، پھر وہ مزید تحصیلِ علم کے لیے اپنے بھائی یوسف حسین خاں کے ساتھ علی گڑھ آ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے جامعۂ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ جرمنی گئے اور یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ سے 1932میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے اپنا کیریر معلمی کے پیشے سے شروع کیا اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں 1933میں ’جدید تاریخ‘ کے ریڈر مقرر ہوئے۔ وہ 1960میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے 1971میں کراچی یونیورسٹی کے بھی وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا اور اپنی وفات (1975)تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھیں تعلیم کے فروغ سے خصوصی دل چسپی تھی، چنانچہ انھوں نے کراچی کے نواحی علاقے مَلیر میں 1952میں ایک تعلیمی ادارے موسوم بہ جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی جو آج عصری علوم کی ایک عظیم الشان درس گاہ ہے۔ انھوں نے کچھ عرصے تک عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا اورپاکستان کے وزیرِ تعلیم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

محمود حسین خاں کی بیٹی ثاقبہ کی شادی پاکستان آرمی کے میجر رحیم الدین خاں سے ہوئی جو بعد میں جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ جنرل رحیم الدین خاں اور ثاقبہ کی بیٹی کی شادی جنرل ضیاء الحق (پاکستان کے چھٹے صدر) کے بیٹے اعجاز الحق سے ہوئی۔ بیگم ثاقبہ رحیم الدین کو فلاحی کاموں کے علاوہ شعر و ادب سے بھی دل چسپی رہی ہے۔ چنانچہ ثاقبہ نور کے ادبی نام سے ان کے کئی شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں ’خاموشی‘ اور ’حسن کی چاہ میں ‘ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے افسانوں کے بھی کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ ادبِ اطفال سے بھی خصوصی دل چسپی رکھتی ہیں اور اس ضمن میں ان کے کارنامے لائقِ ستائش ہیں۔ ثاقبہ رحیم الدین نے 1979میں ادبی تنظیم قلم قبیلہ کی بنیاد رکھی جس کی وہ حیاتیاتی صدر ہیں۔

شجرۂ نسب مسعود حسین خاں

 

مورثِ اعلیٰ حسین خاں

احمد حسین خاں

محمد حسین خاں

غلام حسین خاں

فدا حسین خاں

مظفر حسین خاں

عابد حسین خاں

ذاکر حسین خاں

زاہد حسین خاں

یوسف حسین خاں

جعفر حسین خاں

محمود حسین خاں

 

 

 

 

                مسعود حسین خاں

                (1919-2010)

 

                پیدائش اور بچپن

 

مسعود حسین خاں کے دادا فدا حسین خاں ریاستِ حیدرآباد (دکن) میں وکالت کے پیشے میں غیر معمولی کامیابی کی وجہ سے کافی ثروت مند ہو گئے تھے۔ انھوں نے حیدرآباد کے بیگم بازار میں زمین خرید کر ایک شان دار دو منزلہ عمارت تعمیر کرائی تھی، لیکن قائم گنج میں بھی انھوں نے اپنے والد غلام حسین خاں (عرف جھمّن خاں ) کی نگرانی میں اپنی کمائی ہوئی دولت سے 1900میں ایک پختہ حویلی تعمیر کرائی تھی جسے وہاں کے لوگ ’جھمّن خاں کا محل‘ کہتے تھے۔ مسعود حسین خاں کی پیدائش 28جنوری 1919کو اسی ’محل‘ یا حویلی کے ’’زنانے حصے کی بائیں طرف والی کوٹھری میں ہوئی تھی۔ ‘‘(3)یہ حویلی قائم گنج کے محلہ موال خیل میں آج بھی واقع ہے۔ غلام حسین خاں کا آبائی مکان محلہ شکل خیل میں واقع تھا جو اب کھنڈر بن چکا ہے۔

مسعود حسین خاں کے والدِ ماجد مظفر حسین خاں اپریل 1921میں محض 28سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اس وقت مسعود حسین خاں صرف دو سال اور دو مہینے کے تھے۔ انھیں اپنی یتیمی کا احساس تمام عمر رہا۔ وہ اپنے والد کی پانچ اولادوں میں سے تیسری اولاد تھے۔ ان کے بڑے بھائی امتیاز حسین خاں عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) کے شعبۂ کامرس کے صدر تھے۔ بعد ازاں وہ سکندرآباد کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے، لیکن عمر نے وفا نہ کی اور دورانِ ملازمت ہی تقریباً 54سال کی عمر میں مارچ 1966میں حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ امتیاز حسین خاں سے چھوٹی (مسعود حسین خاں سے بڑی) ایک بہن خدیجہ بیگم تھیں جو 76سال کی عمر کو پہنچ کر علی گڑھ میں (جہاں وہ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ سکونت پذیر تھیں ) دسمبر 1989میں انتقال کر گئیں۔ مسعود حسین خاں سے چھوٹی ایک بہن رفیعہ بیگم تھیں جو بچپن ہی میں (اپنے والد کی زندگی میں ) فوت ہو گئی تھیں۔ ان سے چھوٹے ایک بھائی شاہد حسین خاں تھے جو اپنے والد کی وفات کے بعد پیدا ہوئے تھے لیکن وہ بھی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔

مظفر حسین خاں کے انتقال (1921)کے بعد مسعود حسین خاں کی والدہ فاطمہ بیگم بچوں کو لے کر اپنے میکے پتورہ (قائم گنج کی ایک بستی) آ گئیں، لیکن تین سال بعد اپریل 1924میں ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس وقت مسعود حسین خاں کی عمر پانچ سال اور دو مہینے تھی۔ ان کی پرورش و پرداخت اب پورے طور پر ننہال میں ہونے لگی جو ایک ’’بھرا پُرا خاندان‘‘ تھا، لیکن والدین کی کمی انھیں بری طرح ستاتی رہتی تھی۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں جب انھوں نے اپنی آخری نظم ’’سخنِ واپسیں ‘‘ لکھی، تب بھی اس غم نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ان سے یہ شعر کہلوائے:

دوا سے کچھ نہ ہوا اور دعا سے کچھ نہ ملا

بشر نے کچھ نہ دیا اور خدا سے کچھ نہ ملا

زوال میرا مقدر بنا کے چھوڑ دیا

مجھے خیال و حدیثِ بقا سے کچھ نہ ملا

میں درد و داغِ یتیمی میں یوں رہا محصور

پدر سے کچھ نہ ملا مامتا سے کچھ نہ ملا(4)

قائم گنج کے محلہ موال خیل (جہاں مسعود حسین خاں کا آبائی مکان ہے) سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک بستی پتورہ تھی جہاں آفریدی پٹھانوں کا ایک دوسرا خاندان آباد تھا۔ مسعود حسین خاں کے نانا جانِ عالم خاں (عرف ننھے میاں ) پتورہ کے متمول ترین شخص تھے، بلکہ وہاں کے ’رئیسِ اعظم‘ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے گھر میں جو ’بڑا گھر‘ کہلاتا تھا خوش حالی اور فارغ البالی کا دور دورہ تھا۔ انھوں نے زیادہ تعلیم نہیں پائی تھی اور اپنا سارا وقت جائداد کی دیکھ بھال کے علاوہ فراغت و آسودہ حالی اور عیش کوشی میں گزار تے تھے۔ جانِ عالم خاں کے نصف درجن سے زائد بچے پیدا ہوئے، لیکن چھے اولادیں (چار بیٹے اور دو بیٹیاں ) نسلی اعتبار سے بار آور ثابت ہوئیں۔ مسعود حسین خاں کی والدہ فاطمہ بیگم جانِ عالم خاں کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ مسعودحسین خاں کے چار ماموؤں میں سب سے بڑے ماموں سلطان عالم خاں کو سیاست سے گہری دل چسپی تھی۔ انھوں نے یوپی کی سیاست میں خوب نام پیدا کیا اور سمپورنانند (1891-1969)کی کانگریسی وزارت میں نائب وزیر کے عہدے تک پہنچے۔ دوسرے ماموں قدوس عالم خاں (جو مسعود حسین خاں کے خسر بنے) قائم گنج میں خاندانی جائداد، باغات اور فارم وغیرہ کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ تیسرے ماموں غلام ربانی تاباں (1914-1993)اردو کے ممتاز شاعر تھے۔ اگرچہ انھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا تھا، لیکن اس میں انھیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ مسعود حسین خاں کے چوتھے ماموں خورشید عالم خاں (1919-2013)تھے جو مسعود حسین خاں ہی کے ہم عمر تھے اور بچپن میں ایک ہی ساتھ کھیلے کودے تھے۔ وہ ملک کی سیاست سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور انڈین نیشنل کانگریس کے سینیر لیڈر تھے اور پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے تھے۔ وہ مرکزی کابینہ میں مختلف محکموں کے وزیر رہنے کے علاوہ کئی ریاستوں کے گورنر بھی رہے تھے۔

جیسا کہ مذکور ہوا، مسعود حسین خاں کے والد کا جب انتقال ہو گیا تو ان کی والدہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے پتورہ چلی آئیں اور مستقل طور پر وہیں رہنے لگیں۔ مسعود حسین خاں ننہال میں اپنی والدہ کے زیرِ عاطفت صرف تین سال ہی رہنے پائے تھے کہ ان کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف پانچ سال اور دو مہینے تھی۔ ننہال میں ان کی بڑی ممانی (بیگم سلطان عالم خاں ) نے ان کی دیکھ بھال اور پرورش کی۔ وہاں انھیں ہر طرح کا عیش و آرام تھا۔ ان کی نانی ان سے بے حد محبت کرتی تھیں اور نہایت شفقت سے پیش آتی تھیں۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ان کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔ متمول زمیں دار گھرانے میں ہر چیز کی فراوانی تھی۔ اگر کمی تھی تو صرف ماں باپ کے پیار کی۔ مسعود حسین خاں نے اپنے بچپن کی تلخ و شیریں یادوں کو اپنی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘(1988)میں محفوظ کر دیا ہے جس میں نہ صرف قائم گنج کے اس زمانے کے پٹھانوں کے قصے اور ان کے شخصی خاکے اور مرقعے نظر آتے ہیں، بلکہ اس دور کی تہذیب و روایات، رسم و رواج، رہن سہن اور گھریلو زندگی کی جھلکیاں بھی صاف دکھائی دیتی ہیں۔

 

                تعلیم اور ذہنی تربیت

 

مسعود حسین خاں کا تعلیمی سلسلہ ننہال (پتورہ) کے میونسپل اسکول سے شروع ہوتا ہے، لیکن یہاں کی پڑھائی لکھائی کا معیار انتہائی ناقص اور غیر تشفی بخش تھا۔ اسکول کی حالت بھی نہایت خستہ تھی، اس لیے ان کے بڑے چچا ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969)نے، جو 1926میں جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی سند لے کر لوٹے تھے اور جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر (شیخ الجامعہ) مقرر ہوئے تھے، انھیں تعلیم کی غرض سے جامعہ بلا لیا۔ جامعہ اس وقت تک دہلی منتقل ہو چکی تھی اور قرول باغ کے ایک کرایے کی عمارت میں اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی۔

مسعود حسین خاں نے جامعۂ ملیہ اسکول کے دار الاقامہ (بورڈنگ ہاؤس) میں رہ کر آٹھویں جماعت تک 1933) تک(تعلیم پائی۔ یہاں ان کی ملاقات اخلاق الرحمن قدوائی سے ہوئی جو بعد میں ترقی کر کے گورنر کے عہدے تک پہنچے۔ وہ مسعود حسین خاں کے روم فیلو تھے اور اکثر فوڈ مانیٹر بنا دیے جاتے تھے۔ یہاں انھیں اور بھی کئی اچھے ساتھی اور اساتذہ ملے جنھوں نے ان کی کردار سازی اور ذہنی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں ان کی شخصیت کو نکھرنے کا خوب موقع ملا۔ یہیں ان کے اندر قومی بیداری کا احساس پیدا ہوا۔ یہیں وہ غالب (1797-1869)، حالی(1837-1914)، اقبال (1877-1938)سے روشناس ہوئے، یہیں انھوں نے گاندھی جی (1869-1948)اور محمد علی جوہر(1878-1931)کو دیکھا، اور یہیں سے وہ اکتوبر 1932میں جامعہ کے ایک استاد سید نذیر نیازی کے ساتھ پہلی بار کشمیر کی سیر کے لیے روانہ ہوئے اور لاہور میں قیام کر کے علامہ اقبال سے ان کے دولت کدے پر ملاقات کی۔ اس وقت ان کی عمر 13سال اور چند مہینے تھی۔

جامعہ ہی کی ذہنی تربیت اور یہاں کی علمی و ادبی فضا کی وجہ سے مسعود حسین خاں کے اندر اردو زبان و ادب سے گہرا شغف پیدا ہوا جس نے آگے چل کر انھیں ایک بلند پایہ ادیب و انشا پرداز اور شاعر بنا دیا۔ انھوں نے پہلا شعر کشمیر کے 1932کے سفر کے دوران میں کہا جب وہ جامعۂ ملیہ اسکول کے طالب علم تھے۔ گویا جامعہ کے شش سالہ (1927-33) قیام نے ان کی کایا ہی پلٹ دی، ورنہ قائم گنج سے جب وہ یہاں آئے تھے تو ایک ’’کندۂ نا تراش‘‘ تھے جس کا اعتراف انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں خود کیا ہے۔

جامعہ اسکول سے آٹھواں درجہ پاس کرنے کے بعد مسعود حسین خاں 1933میں اپنے سب سے چھوٹے چچا محمود حسین خاں (1907-1975)کے ساتھ ڈھاکہ آ گئے۔ ان کے آئندہ کے تعلیمی مراحل یہیں طے ہوئے۔ محمود حسین خاں جب جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر وطن واپس لوٹے تو ان کا تقرر ڈھاکہ یونیورسٹی میں ’جدید تاریخ‘(Modern History) کے ریڈر کی حیثیت سے ہو گیا، چنانچہ وہ اپنے بھتیجے مسعود حسین خاں کو بھی مزید تحصیلِ علم کے لیے اپنے ساتھ ڈھاکہ لے گئے۔ وہاں ان کا داخلہ ارمنی ٹولہ گورنمنٹ ہائی اسکول کی نویں جماعت میں ہو گیا۔ یہاں کا پورا ماحول بنگالی زبان و ادب میں ڈوبا ہوا تھا۔ گویا ایک طرح سے وہ غالب اور اقبال کے ماحول سے نکل کر ٹیگور (1861-1941)اور نذرل(1899-1976)کے ماحول میں آ گئے تھے۔ اسکول میں انھی کے ’’گانے اور ترانے‘‘ گائے جاتے تھے۔ رابندر سنگیت کا بھی ہر طرف چرچا تھا۔ غرض کہ مسعود حسین خاں کے لیے یہ ایک بالکل اجنبی ماحول تھا، لیکن رفتہ رفتہ ماحول کی اجنبیت ختم ہوتی گئی اور یہاں کی سحر آگیں فضا انھیں راس آ گئی۔ یہیں ان کے اندر ایک شاعر اور گیت نگار نے جنم لیا جو آگے چل کر ’’روپ بنگال‘‘ جیسی شعری تخلیق کا خالق بنا جس میں یہیں کی فضا، یہیں کے ماحول اور یہیں کی مٹی کی خوشبو پائی جاتی ہے۔

مسعود حسین خاں نے 1935میں میٹرک کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کرنے کے بعد رمنہ کے علاقے میں واقع گورنمنٹ انٹر کالج میں داخلہ لیا جس کا شمار ڈھاکہ کے بہترین کالجوں میں ہوتا تھا۔ انٹر میڈیٹ کا امتحان بھی انھوں نے، باوجود اپنی علالت کے، 1937میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ڈھاکہ کو خیرباد کہہ دیا، اور بنگال میں اپنے چہار سالہ (1933-37)قیام کی یادوں کے ساتھ دہلی واپس آ کر اینگلو عربک کالج میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔

اجمیری گیٹ (دہلی) کے قریب واقع یہ وہی اینگلو عربک کالج تھا جہاں کبھی غازی الدین حیدر کا مدرسہ واقع تھا، لیکن بعد میں یہ دہلی کالج کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر مسز اندرا گاندھی (1917-1984)کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں اس کا نام بدل کر ذاکر حسین کالج کر دیا گیا۔ مسعود حسین خاں نے اسی کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کی تعلیم کے دو سال انھوں نے اپنے بڑے چچا ڈاکٹر ذاکر حسین (جو اس زمانے میں جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر تھے) کے یہاں رہ کر گزارے جس سے انھیں پہلی بار اپنے چچا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

اینگلو عربک کالج سے 1939میں بی اے کرنے کے بعد مسعود حسین خاں علی گڑھ آ گئے اور یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں ایم اے میں داخلہ لیا اور آفتاب ہوسٹل کو اپنی قیام گاہ بنایا، لیکن چند دنوں بعد ہی تاریخ کو چھوڑ کر ایم اے (اردو) میں داخلہ لے لیا۔ شعبۂ اردو میں ان کی ملاقات رشید احمد صدیقی (1892-1977)اور آل احمد سرور (1911-2002) سے ہوئی۔ یہ دونوں اساتذہ ایم اے کی کلاسیں پڑھاتے تھے۔ دوسرے اساتذہ میں ابواللیث صدیقی، معین احسن جذبی اور محمد عزیر تھے۔ مسعود حسین خاں رشید احمد صدیقی سے بہ حیثیتِ ادیب و مزاح نگار پہلے سے واقف تھے۔ البتہ آل احمد سرور ان کے لیے نئے تھے۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں اپنے دونوں اساتذہ کے بارے میں کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ آل احمد سرور کے بارے میں ان کی ر ائے تھی کہ وہ نہایت ’’لگن اور تیاری‘‘ کے ساتھ پڑھاتے تھے۔ وہ چوں کہ انگریزی میں بھی ایم اے تھے، اس لیے اپنے لکچرز کو ’’پر مغز‘‘ بنانے کے لیے اکثر انگریزی ادب کے حوالے بھی دیتے تھے۔ ان کا حافظہ بھی بہت اچھا تھا، اس لیے لکچر کے دوران اشعار خوب کوٹ (Quote)کرتے تھے۔ رشید احمد صدیقی کے بارے میں مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ان کے پڑھانے کا انداز ذرا مختلف تھا۔ انگریزی ادب سے ان کی واقفیت زیادہ نہ تھی، لیکن فارسی شعر و ادب کا ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ پڑھاتے وقت ’’ذاتی تاثرات‘‘ اور ’’وجدان‘‘ سے کام لیتے تھے۔ اس کے علی الرغم سرور صاحب کا علم ’’کتابی و اکتسابی‘‘ تھا۔ مسعود حسین خاں نے علی گڑھ میں ان دونوں اساتذہ سے بھرپور استفادہ کیا۔

مسعود حسین خاں نے 1941میں ایم اے (اردو) کا امتحان اول درجے میں امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ ان کا علی گڑھ میں ایم اے کا دوسالہ (1939-41)دور، جیسا کہ انھوں نے خود اعتراف کیا ہے، ’’ذہنی ریاضت اور ادبی تربیت‘‘ کا دور تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی ادبی اٹھان اور ان کے شعری مزاج کی تربیت کا یہی زمانہ تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ایم اے کی ضرورت کے تحت پریم چند (1880-1936)کی افسانہ نگاری پر مقالہ لکھا جس کی توقع سے زیادہ پذیرائی ہوئی۔ ان کی ہندی دانی کی بنیاد بھی اسی زمانے میں پڑی۔ اردو ادب کا بالاستیعاب مطالعہ بھی انھوں نے انھی دو سالوں میں کیا۔ رشید احمد صدیقی جیسے انشا پرداز کی صحبتوں سے فیض اٹھانے کے مواقع تو انھیں ہر وقت حاصل تھے۔ علاوہ ازیں ادبی مباحثے، علمی مذاکرے اور شعر و شاعری کا چرچا علی گڑھ میں عام بات تھی۔ باہر سے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی تھی جن سے استفادے کا موقع انھیں برابر ملتا رہتا تھا۔ علی گڑھ کے ماحول میں اپنی ذہنی اور ادبی تربیت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

’’میں اب اردو زبان کے رموز و نکات سے آشنا ہونے لگا تھا۔ الفاظ کے طلسمِ معنی کو سمجھنے اور ان میں احساس کی بھری ہوئی بجلیوں سے متاثر ہونے کی صلاحیت پیدا ہو گئی تھی… اس طرح میرا شغف شعر اور مطالعۂ شعر سے بڑھتا گیا… میری علی گڑھ میں تربیتِ شعر نہ ہوتی تو سخن وری تو کجا شاید سخن فہمی کی بھی نوبت نہ آتی… اس زمانے میں سخن فہمی اور سخن وری کے لیے علی گڑھ سے بہتر کوئی محفل نہیں تھی۔ اختر انصاری، مجاز، سردار جعفری، جذبی، جاں نثار اختر، اختر الایمان، راز مراد آبادی، شکیل بدایونی، مسعود علی ذوقی بزم پر چھائے ہوئے تھے۔ ان میں میرا ربط ضبط زیادہ تر اختر انصاری اور جذبی سے رہا۔ دونوں شعبۂ اردو میں میرے رفیقِ کار رہے۔‘‘(5)

مسعود حسین خاں لسانیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے 1950میں سفر یورپ پر روانہ ہوئے اور سب سے پہلے لندن پہنچے۔ وہاں انھوں نے اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز کے شعبۂ لسانیات میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں مشہور ماہرِ صوتیات اور لسانیات کے دبستانِ لندن (London School of Linguistics)کے بانی جے. آر. فرتھ(1890-1960)اس شعبے کے پروفیسر اور صدر تھے۔ مسعود حسین خاں نے ان سے خاطر خواہ کسبِ فیض کیا۔ فرتھ(Firth) کے عروضی نظریۂ صوتیات (Theory of Prosodic Phonology)سے وہ اس حد تک متاثر ہوئے کہ انھوں نے ان کے اس نظریے کا اطلاق اردو صوتیات پر کیا۔ لندن میں ایک سال گزارنے کے بعد وہ فرانس گئے اور پیرس یونیورسٹی کے صوتیات کے ادارے Institute de Phonetiqueمیں داخلہ لیا اور دو سال کی محنتِ شاقہ کے بعد اپنا تحقیقی مقالہ پیرس یونیورسٹی کے سپرد کر دیا جس پر انھیں 1953میں ڈی. لٹ (D.Lit)کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ہندوستان واپس آنے پر انھوں نے اپنا یہ تحقیقی مقالہ A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urduکے نام سے شائع کیا۔ اس مقالے کا راقم السطور نے اردو میں ترجمہ کیا جو ’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجز صوتیاتی مطالعہ‘ کے نام سے شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے 1986میں شائع ہوا۔

 

                شادی اور اولادیں

 

مسعود حسین خاں کی شادی ان کی ماموں زاد بہن نجمہ بیگم سے قائم گنج میں 3 فروری 1948کو ہوئی۔ نجمہ، مسعود حسین خاں کے دوسرے ماموں (منجھلے ماموں ) قدوس عالم خاں کی بڑی بیٹی تھیں۔ ان کی والدہ کا تعلق علی گڑھ کے شروانی پٹھان خاندان سے تھا۔

مسعود حسین خاں اور نجمہ دونوں شادی سے پہلے ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے، کیوں کہ مسعود حسین خاں کا بچپن اپنے ننہال ہی میں گذرا تھا اور اس کے بعد بھی، دورانِ تعلیم، ان کا دہلی سے وہاں برابر آنا جانا رہتا تھا۔ وہ ’’نور جہانی خط و خال‘‘ کی نجمہ کو جو عمر میں ان سے 12سال چھوٹی تھیں، پسند کرنے لگے تھے۔ چنانچہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے درمیان ’’اتفاقِ رائے‘‘ سے یہ شادی طے ہو گئی۔ شادی کے 40سال بعد جب مسعود حسین خاں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘(1988)لکھی تو نجمہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا:

’’میں اس اعتبار سے خوش قسمت رہا کہ مجھے ایک محبت اور خدمت کرنے والی رفیقۂ حیات ملی، جس نے ’ممتا‘ کی کمی کو بہت کچھ دل سے بھلا دیا۔ وہ مجھ سے عمر میں 12برس چھوٹی تھی۔ جب 1948میں وہ میرے گھر میں دلہن بن کر آئی تو اس وقت سترہ برس کی بھولی بھالی لڑکی تھی۔ آتے ہی اس پر خانہ داری کا بوجھ پڑ گیا۔ اپنی والدہ کی تربیت کی وجہ سے وہ اس پُر آشوب دور سے خوش اسلوبی سے گذری۔ کم عمری کی وجہ سے اس سے کبھی کبھی کوتاہیاں ہو جاتی تھیں۔ میں بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر برافروختہ ہو جاتا۔ غصے سے زیادہ ضد ہوتی، لیکن داد دیتا ہوں اس وفا کی دیوی کے صبر و تحمل کی۔ وہ ہر بار یہی کہتی کہ میری ماں نے رخصت کرتے وقت نصیحت کی تھی کہ بیٹی! جس گھر میں جا س مقالے کا راقم السطور نے ا رہی ہو کیسے ہی نامساعد حالات کیوں نہ ہوں، وہاں سے چار کے کندھوں ہی پر نکلنا۔ اس مہر وفا کی دیوی کے صبر و تحمل نے بالآخر کام کیا اور یہ کندۂ نا تراش پٹھان بچہ رفتہ رفتہ را م ہوتا گیا…عمر کے ساتھ ساتھ ہم دونوں کی محبت، رفاقت سے مل کر دو آتشہ ہو گئی۔ اب من تو شدم تو من شدی کا مقام ہے۔ وہ یقیناً میری نصف بہتر ہے اور مَیں اس کا نصف کم تر۔ ‘‘(6)

مسعود حسین خاں اور نجمہ کے پانچ اولادیں ہوئیں      ایک بیٹا اور چار بیٹیاں۔ ان سب نے اعلیٰ تعلیم پائی۔ ان کے اکلوتے بیٹے جاوید حسین خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، لیکن انھوں نے اپنے ریٹائرمنٹ سے قبل ہی ملازمت سے رضاکارانہ سبک دوشی (VRS)لے لی تھی۔ جاوید حسین ایک بیٹے کے باپ ہیں، لیکن ان کا بیٹا امریکہ میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے اور ابھی زیرِ تعلیم ہے۔ مسعود حسین خاں نے اس کا نام آفتاب حسین خاں رکھا تھا۔ (7)اسے شاید نہیں معلوم کہ وہ نویں پیڑھی میں اپنے مورثِ اعلیٰ حسین خاں کی نسل سے ہے۔

مسعود حسین خاں کی چار بیٹیوں میں سب سے بڑی فریدہ ہیں جو ڈاکٹر عبدالرشید سے منسوب ہوئیں۔ دوسری بیٹی نادرہ، ناصر محمد خاں سے منسوب ہوئیں۔ تیسری بیٹی شاہدہ کی شادی ڈاکٹر شارق عالم خاں آفریدی سے ہوئی جو نیوجرسی( امریکہ) میں سکونت پذیر ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی زیبا کے شوہر محمد عمران خاں جامعۂ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی (نئی دہلی) میں پروفیسر ہیں۔ مسعود حسین خاں کی ان چاروں بیٹیوں نے اعلیٰ تعلیم پائی ہے اور اب اپنے اپنے گھروں میں مسرور و مطمئن ہیں اور آسودہ حال زندگی گزار رہی ہیں۔ ان بیٹیوں نے اپنے والدین کا ہمیشہ خیال رکھا اور ان کی اطاعت و فرماں برداری اور خدمت گزاری میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔

 

                ملازمت اور منصبی ذمہ داریاں

 

مسعود حسین خاں نے 1941میں ایم اے (اردو)کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انھیں تلاشِ معاش کی فکر دامن گیر ہوئی۔ موسمِ گرما کی تعطیلات کا زمانہ انھوں نے بے کاری کے عالم میں قائم گنج میں گزارا۔ چوں کہ اردو میں ایم اے کی اس وقت کوئی قدر و منزلت نہ تھی، اس لیے انھوں نے فلسفہ (Philosophy)میں، جسے وہ ’’اردو سے بھی زیادہ بے مصرف مضمون‘‘ سمجھے تھے، دوسرا ایم اے کرنے کا ارادہ کر لیا، لیکن فلسفے سے چوں کہ ان کی پرانی دل چسپی تھی، اس لیے کچھ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے بھی انھوں نے اسی سال دہلی جا کر ہندو کالج میں ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیاتھا، لیکن سرمیں کیا سمایا کہ اس کے پہلے سال کی کلاسوں میں شرکت کرنے کے باوجود امتحان نہ دینے کا فیصلہ کر لیا اور واپس قائم گنج آ گئے۔ اسی زمانے میں ان کی طبیعت شعر گوئی کی جانب مائل ہوئی۔ یہ 1942کا بے کاری کا زمانہ تھا جو انھوں نے قائم گنج میں رہ کر کھانے پینے اور صحت بنانے میں گزارا۔ نجمہ بیگم کے لیے ’’کشش‘‘ انھوں نے اسی زمانے میں محسوس کی جو پانچ سال بعد ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ ان سے راہ و رسم کا ذکر مسعود حسین خاں نے اپنی خود نوشت میں نہایت سچائی سے کیا ہے۔ (دیکھیے ’ورودِ مسعود‘ کا چھٹا باب ’’کچھ غمِ جاناں، کچھ غمِ دوراں ‘‘، ص95-109)۔

مارچ 1943میں مسعود حسین خاں کا تقرر آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے ہو گیا جس کے لیے کئی ماہ قبل انھوں نے درخواست دے رکھی تھی۔ آل انڈیا ریڈیو میں انھیں ہندوستانی (اردو+ہندی) ٹاکس کا انچارچ بنایا گیا تھا۔ یہاں ان کی ملاقات ن م راشد(1910-1975)اور میرا جی (1912-1949)سے ہوئی۔ راشد آل انڈیا ریڈیو میں ان سے اونچے عہدے، پروگرام ایگزیکیٹو Programme Executive))کے عہدے پر فائز تھے۔ مسعود حسین خاں کو ریڈیو کی ملازمت قطعی راس نہ آئی اور محض چھے ماہ کے اندر ہی وہ ستمبر 1943میں ملازمت سے مستعفی ہو گئے اور علی گڑھ آکر رشید احمد صدیقی سے ملے، اور ان کے مشورے سے اردو میں ریسرچ میں داخلہ لے لیا۔ ان کی تحقیق کا موضوع تھا ’’اردو زبان کی ابتدا اور ارتقا‘‘، اور نگراں تھے آل احمد سرور۔ خوش آیند بات یہ ہوئی کہ مسعود حسین خاں کے ریسرچ میں داخلہ لیتے ہی شعبۂ اردو میں ایک جونیر لکچرر کی گنجائش پیدا ہو گئی جس پر نومبر 1943میں ان کا عارضی طور پر تقرر ہو گیا۔ دس سال تک اس شعبے میں بہ حیثیت لکچرر کام کرنے کے بعد وہ اسی شعبے میں 1954میں ریڈر مقرر ہوئے۔ ریڈر کی حیثیت سے آٹھ سال تک (1954-62)کام کرنے کے بعد جب انھیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ علی گڑھ میں ترقی کی راہیں مسدود ہیں تو انھوں نے وہاں سے باہر نکلنے کا تہیہ کر لیا، چنانچہ خوش قسمتی سے 1962میں ان کا تقرر عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) کے شعبۂ اردو میں پروفیسر کی حیثیت سے ہو گیا۔ وہ اس شعبے کے صدر بھی مقرر ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں انھوں نے چھے سال (1962-68)گزارے اور درس و تدریس کے علاوہ کئی قابلِ قدر علمی کارنامے بھی انجام دیے جن میں قدیم اردو متون (بہ شمولِ دکنی متون) کی تدوین، ’دکنی اردو کی لغت‘ کی اشاعت اور تحقیقی مجلے ’قدیم اردو‘ کا اجرا خاص ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں لسانیات کے فروغ کے ساتھ ساتھ جب یہاں کی جامعات میں لسانیات کے شعبے قائم ہونا شروع ہوئے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی 1968میں لسانیات (Linguistics)کا نیا شعبہ قائم ہوا۔ مسعود حسین خاں کا اس شعبے کے پروفیسر اور صدر کی حیثیت سے اگست 1968میں تقرر عمل میں آیا جہاں سے وہ 30ستمبر 1977کو سبک دوش ہوئے۔ وہ اس عہدے کے لیے ہر لحاظ سے موزوں ترین شخص تھے۔ انھوں نے یورپ اور امریکہ کی دانش گاہوں میں قیام کر کے لسانیاتِ جدید(Modern Linguistics) کی تربیت حاصل کی تھی۔ علاوہ ازیں وہ 1954میں راک فیلر فاؤنڈیشن (امریکہ) کی مالی امداد سے منعقد ہونے والے دکن کالج، پونا کے مختصر مدتی سرمااور طویل مدتی گرما اسکولوں میں لسانیات کا درس دینے پر مامور ہوئے تھے۔ ان اسکولوں کا انعقاد تقریباً دس سال تک مختلف مراکز پر ہوتا رہا۔ مسعود حسین خاں نے ٹریوینڈرم (کیرالہ) کے لسانیات کے سمر اسکول میں استاد کی حیثیت سے آخری بار 1964میں شرکت کی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کی تعمیر و ترقی اور شیرازہ بندی میں ان کی خدمات لائقِ ستائش ہیں۔

مسعود حسین خاں 3نومبر 1973کو جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے اور 15 اگست 1978کو اس عہدے سے مستعفی ہو کر علی گڑھ آ گئے۔ اس عہدے کی پنج سالہ مدتِ کار پوری ہونے میں صرف ڈھائی مہینے باقی رہ گئے تھے کہ وہاں کے ناگفتہ بہ حالات نے انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ علی گڑھ آنے پر انھیں یہاں کے شعبۂ لسانیات میں دو سال کے لیے دوبارہ تقرری (Reappointment)مل گئی۔ اس کے بعد وہ اس شعبے میں ایک سال تک وزٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ ستمبر 1981میں ان کا شعبۂ لسانیات سے تعلق بالکل ختم ہو گیا۔ اسی سال ان کا تقرر اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی (سری نگر) میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے اقبال کا جم کر مطالعہ کیا اور درس بھی دیا۔ علاوہ ازیں ایک تنقیدی کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ بھی تصنیف کی جس پر انھیں ساہتیہ اکادمی کا 1984کا اردو ایوارڈ ملا۔ کشمیر سے واپسی پر انھیں ترقیِ اردو بیورو (اب نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج[NCPUL]، نئی دہلی کی اردو-اردو لغت کا چیف ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ انھوں نے علی گڑھ ہی میں رہ کر تدوینِ لغت کا یہ کام شروع کیا جو 1985تک جاری رہا۔

 

                اعزازات و انعامات اور علمی اسفار

 

جس زمانے میں مسعود حسین خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر تھے، اسی زمانے (1958)میں وہ امریکہ کی ایسوسی ایشن آف ایشین اسٹڈیز (Association of Asian Studies) کی سینیر فیلوشپ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے جس کے تحت انھوں نے وہاں کی ٹیکسس یونیورسٹی (آسٹن) اور ہارورڈ یونیورسٹی میں قیام کے دوران میں لسانیات اور اس کی شاخ اسلوبیات (Stylistics)میں اعلیٰ تربیت حاصل کی۔ آسٹن میں اپنے قیام کے دوران میں انھوں نے مشہور ماہرِ اسلوبیات اور نقاد آر کی بالڈ اے.ہل (1902-1992)کے لکچرز میں شرکت کی اور ہارورڈ یونیورسٹی میں ممتاز ادبی نقاد آئی.اے.رچرڈز(1893-1979)سے استفادہ کیا۔ اگلے سال (1959)ان کا تقرر یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے ڈپارٹمنٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں وزٹنگ ایسوسی ایٹ پروفیسر (Visiting Associate Professor)کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے علمی کاموں میں منہمک رہنے کے علاوہ اردو اور ہندی کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ برکلے میں ایک سال گزارنے کے بعد 1960 میں وہ وطن واپس آ گئے۔

مسعود حسین خاں نے اکتوبر 1969تا مئی1975انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے قائم مقام سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ علاوہ ازیں وہ اس انجمن کی مجلسِ عام کے حیاتیاتی رکن (Life Member)بھی رہے۔ وہ 1978میں نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج(NCPUL)، نئی دہلی کے وائس چیرمین (نائب صدر) کے عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ اس کونسل کی (جس کا نام پہلے ترقیِ اردو بیورو تھا) لسانیات کی اصطلاحات کمیٹی کے صدر بھی رہے۔ مسعود حسین خاں گیان پیٹھ ایوارڈ کے انتخابی بورڈ کے دس سال تک (1974-84) صدر رہے۔ علاوہ ازیں وہ 1970تا 1972علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹاف ایسو سی ایشن کے صدر بھی رہے۔

مسعود حسین خاں، رشید احمد صدیقی کی تحریک پر پہلی بار 1973میں جامعۂ اردو، علی گڑھ کے شیخ الجامعہ(وائس چانسلر) منتخب ہوئے۔ انھوں نے تقریباً 25سال تک اس ادارے کی اعزازی خدمات انجام دیں۔ اس دوران میں جامعۂ اردو کا نہ صرف وقار بلند ہوا، بلکہ اس کی توسیع و ترقی کے امکانات بھی روشن ہوئے۔ وہ 1987میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایمے ریٹس پروفیسر (Emeritus Professor)کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ یہ اعزاز ملنے پر انھوں نے 13جنوری 1988کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنا خطبہ بہ عنوان ’’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘‘ پیش کیا جس کی صدارت یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید ہاشم علی نے فرمائی۔ اس خطبے کو سننے کے لیے کثیر تعداد میں اساتذہ و طلبہ آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں جمع ہوئے۔ مسعود حسین خاں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس (علی گڑھ) کے صدر بھی منتخب ہوئے اور تا دمِ آخر اس عہدے سے سرفراز رہے۔ یہ وہ با وقار عہدہ ہے جس پر کبھی سرسید احمد خاں (1817-1898)فائز ہوئے تھے۔

اعزازات کے علاوہ مسعود حسین خاں کئی انعامات سے بھی سرفراز ہوئے۔ انھیں اتر پردیش اردو اکادمی کے انعامات پہلی بار 1957میں ’دو نیم‘(مجموعۂ کلام) پر، دوسری بار 1970میں ’ابراہیم نامہ‘(مرتبہ) پر، اور تیسری بار 1974میں ’اردو کا المیہ‘ پر ملے۔ ’اردو کا المیہ‘ مسعود حسین خاں کے تحریر کردہ ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ (انجمن ترقیِ اردو[ہند])کے اداریوں اور اسی ہفت روزہ میں ’میرا صفحہ‘ (کالم) کے تحت شائع شدہ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے راقم السطور نے مرتب کر کے شعبۂ لسانیات (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کی جانب سے 1973میں شائع کیا۔ مسعود حسین خاں کو ان کی مجموعی علمی و ادبی خدمات پر 1982میں اتر پردیش اردو اکادمی کا خصوصی انعام بھی ملا۔ ساہتیہ اکادمی (حکومتِ ہند) نے ان کی تنقیدی کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ پر انھیں 1984کا اردو ایوارڈ پیش کیا۔ وہ 1986میں کراچی (پاکستان) کے نیاز فتح پوری ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوئے۔ اس سلسلے میں منعقدہ جلسے میں مسعود حسین خاں نے اپنا گراں قدر خطبہ بہ عنوان ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش‘‘ پیش کیا جو بعد میں رسالہ ’نگارِ پاکستان‘(کراچی) کے شمارہ نمبر 2، بابت فروری1987میں شائع ہوا۔ مسعود حسین خاں کے اعزاز میں غالب انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کی جانب سے علی گڑھ میں 20فروری 2010کو ایک تہنیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں مقررین نے ان کی علمی، ادبی، تحقیقی اور لسانی خدمات کی ستائش کی۔ اس جلسے میں مسعود حسین خاں کی شخصیت اور علمی خدمات پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع شدہ ایک کتاب کی رسمِ اجرا بھی عمل میں آئی اور انھیں انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک سپاس نامہ بھی پیش کیا گیا۔ اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمات کے لیے مسعود حسین خاں دہلی اردو اکادمی کے سب سے بڑے اعزاز ’کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ‘ سے بھی سرفراز ہوئے۔ یہ ایوارڈ   مارچ 2010میں دہلی میں منعقدہ ایک پر وقار تقریب میں دہلی کی وزیرِ اعلیٰ مسز شیلا دکشت نے، جو اردو اکادمی، دہلی کی صدر (Chairperson)بھی تھیں، اپنے دستِ مبارک سے انھیں پیش کیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ نے فرمایا کہ ’’اردو ایک خوب صورت اور شیریں زبان ہے، ہر قیمت پر اس کا تحفظ لازمی ہے۔ ‘‘ علاوہ ازیں غالب انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) نے مسعود حسین خاں کو ان کی ادبی خدمات کے لیے 1999میں ’غالب ایوارڈ‘ بھی دیا۔ ان کی خدمت میں مجلسِ فروغِ اردو ادب، دوحہ (قطر) کا با وقار عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈ‘ بھی پیش کیا گیا۔

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں نے لسانیات کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے 1950میں پہلے لندن، پھر 1951میں فرانس کا سفر کیا جہاں وہ دو سال تک مقیم رہے۔ وہ علمی استفادے اور اردو، ہندی کی تدریس کی غرض سے 1958میں امریکہ بھی گئے اور دو سال تک وہاں قیام کیا۔ انھوں نے مرکزی وزارتِ فروغِ انسانی وسائل اور وزارتِ خارجہ (حکومتِ ہند) کے ایک خیر سگالی و ثقافتی وفد کے رکن کی حیثیت سے 1986میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد کے لیڈر معروف اردو ادیب و شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ (1909-1992)تھے۔ اس سفر کے دوران مسعود حسین خاں کو موہن جوداڑو کے قدیم آثار دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ وہ ایک سرکاری ڈیلی گیٹ کی حیثیت سے 1976میں ڈھاکہ گئے۔ انھوں نے 1976ہی میں حکومتِ ہند کے سرکاری حج ڈیلی گیشن کے رکن کی حیثیت سے سعودی عرب کا بھی دورہ کیا اور حج و زیارت کی سعادت حاصل کی۔ عالمی اسلامی تعلیمی کانفرنس کے سلسلے میں انھوں نے 1977میں سعودی عرب کا دوسرا دورہ کیا۔ اس کے بعد ایک علمی سیمینار میں شرکت کی غرض سے وہ 1984میں اردن گئے۔

مسعود حسین خاں 1996میں اپنی اہلیہ نجمہ کے ساتھ نجی دورے پر آخری بار امریکہ گئے اور اپنی بیٹی شاہدہ اور داماد ڈاکٹر شارق عالم خاں آفریدی کے یہاں نیوجرسی میں چند ماہ قیام کرنے کے بعد وطن واپس آ گئے۔

 

                صحت و تندرستی، علالت اور وفات

 

مسعود حسین خاں بنیادی طور پر ایک عملی انسان تھے۔ انھوں نے تمام عمر علمی و ادبی کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ وہ جہاں بھی رہے سرگرمِ عمل رہے۔ وہ اپنی فعال زندگی میں اپنی صحت کی جانب سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ پابندیِ وقت کے ساتھ ٹہلنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ راقم السطور نے انھیں اکثر علی الصبح نقوی پارک(یونیورسٹی سے متصل پارک) کی جانب تیز تیز قدموں سے ٹہلتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن وہ اکثر شام کو بھی ٹہلنے نکل جاتے تھے اور اپنی رہائش گاہ ’جاوید منزل‘ (واقع جامعۂ اردو روڈ، دودھ پور) سے میڈیکل کالج کی جانب ٹہلتے ہوئے کافی دور تک نکل جاتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں بید (چھڑی) ضرور ہوتی تھی اور سر پر مغربی طرز کی کیپ (Cap)۔ گرمیوں میں وہ پینٹ اور شرٹ میں ملبوس ہوتے تھے، لیکن سردی شروع ہوتے ہی وہ بند گلے کا کوٹ یا اووَر کوٹ پہن کر گھر سے نکلتے تھے۔ اکثر گرم شروانی، پتلی مہری کا پاجامہ اور دو پلی ٹوپی زیبِ تن کیے ہوتے تھے۔ آنکھوں پر عینک ضرور ہوتی تھی۔

کھانے پینے میں وہ بے حد احتیاط برتتے تھے۔ جن چیزوں میں فیٹ (Fat)کا عنصر ہوتا تھا ان سے وہ احتراز کرتے تھے۔ مرغن غذائیں انھیں مرغوب نہ تھیں۔ و ہ ایسی غذائیں کھانا پسند کرتے تھے جن میں فَیٹ کے بجائے پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی تھی۔ مچھلی وہ بہت شوق سے تناول فرماتے تھے۔ موسم کے تازہ پھل کھانے کے تو وہ عادی تھے۔ اکثر وہ اپنی پسند کے پھل خود بازار سے خرید کر لاتے تھے۔ سنترے کا جوس (عرق) بھی انھیں بے حد مرغوب تھا۔ کبھی کبھی عمدہ قسم کی آئس کریم سے بھی شوق فرماتے تھے۔ انھوں نے ’بنتِ عنب‘ کو کبھی منہ نہیں لگایا (مغربی ممالک میں قیام کے دوران میں بھی نہیں !) سگریٹ، سگار، تمباکو یا پان کی لت انھوں نے کبھی نہیں ڈالی۔ ہاں، اپنے ملنے جلنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے یا کافی نوش فرمانے سے انھیں پرہیز نہ تھا، لیکن ان کی چائے میں شکر ندارد ہوتی تھی اور دودھ بہ قدرِ اشکِ بلبل ہوتا تھا۔ وہ اکثر شام کو ٹہلتے ہوئے راقم السطور کے غریب خانے پر تشریف لاتے تھے۔ جب انھیں چائے پیش کی جاتی تو فرماتے، ’’چائے میں دودھ ڈالنے کا اختیار مجھے ملنا چاہیے، ‘‘ اور خود دودھ دانی لے کر اپنی چائے کے کپ میں حسبِ ضرورت دودھ ڈال لیتے تھے۔ کافی (Coffee)بھی انھیں بے حد مرغوب تھی۔ اکثر سردیوں میں وہ کافی پینا (اور پلانا بھی) پسند کرتے تھے۔

مسعود حسین خاں جسمانی طور پر دراز قد، قوی الجثہ اور بھاری بھرکم ڈیل ڈول والے آفریدی پٹھان تھے۔ ان کی رنگت گوری اور سرخی مائل تھی۔ پیشانی چوڑی اور ناک نقشہ خوبصورت تھا۔ وہ جس محفل یا مجلس میں ہوتے، سب میں نمایاں نظر آتے اور دور سے پہچان لیے جاتے۔ وہ جلدی جلدی قدم اٹھا کر تیز چلنے کے عادی تھے۔ ان کے ساتھ چلنے والا اکثر ان کے پیچھے رہ جاتا تھا۔ وقت کی ان کے نزدیک بے حد قد ر تھی۔ وقت سے سونا، وقت سے جاگنا، وقت سے ٹہلنا، وقت سے کھانا پینا اور ہر کام اپنے معمول کے مطابق وقت پر کرنا ان کی عادت بن گئی تھی جس کے ساتھ وہ کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے۔

مسعود حسین خاں نے اپنی صحت و تندرستی کا ہمیشہ خیال رکھا اور اس معاملے میں وہ ہمیشہ محتاط رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کھانسی یا زکام جیسے عام عارضے سے بھی ہمیشہ محفوظ رہے۔ بہت کم سننے میں آیا کہ وہ علیل ہیں۔ وہ ڈائی بیٹک(Diabetic)ضرور تھے، اسی لیے انھیں شکر اور میٹھی چیزوں سے پرہیز تھا۔ آشوبِ چشم کے بھی وہ شکار رہے تھے اور آنکھ کی جراحی (Eye Surgery) کے مرحلے سے گذر چکے تھے۔ افسوس کہ آخری زمانے میں ان کی بینائی بہت کمزور ہو گئی تھی اور انھوں نے لکھنا پڑھنا تقریباً بند کر دیا تھا۔

انتقال سے تقریباً 15سال قبل (غالباً 1995میں )، مسعود حسین خاں کو ایک موذی مرض پارکنسنس(Parkinson’s Disease)نے آ گھیرا تھا جس کا اثر روز بروز بڑھتا گیا تھا۔ انھیں خود بھی اس کا علم تھا، چنانچہ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’امریکہ سے واپسی پر 1996سے پارکنسنس کا علاج جاری [ہے]، انفعالیت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ مایوسی بھی …‘‘(8)انھیں اس بات کا بھی علم تھا کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ کے دوسرے ایڈیشن (جو شائع نہ ہوسکا) کے لیے جو آخری باب ’’علی گڑھ تا خدا گڑھ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا اور جس کا ذیلی عنوان ’’رخصت اے بزمِ جہاں …‘‘ قائم کیا تھا، اس میں اِس بیماری کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ انھوں نے نہایت کرب کے عالم میں ذیل کی سطور سپردِ قلم کی تھیں :

’’پارکنسنس(Parkinson’s)کی بیماری نے مجھے اپنی مٹتی ہوئی زندگی کا تماشا دیکھنے کی فرصت فراہم کی ہے۔ اب مَیں اپنی عمر کا 86واں سال مکمل کر رہا ہوں اور اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہوں۔ پارکنسنس قلب کی بیماری سے بالکل مختلف بیماری ہے۔ اس کی آماجگاہ انسان کا دماغ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس تا حال لا علاج مرض میں بتدریج مرنے کو کس شے سے تشبیہ دوں … اس بیماری کے رومانی عذاب کا اندازہ صرف وہ لوگ جانتے ہیں جو دماغ اور اعصاب کی بتدریج موت کا تجربہ رکھتے ہیں، بشرطیکہ وہ نیستی کے خوف پر فتح پا چکے ہوں۔ یہ مرض انسان سے اعلیٰ ترین جرأت کا خواست گار ہے۔ مریض کو اچھی طرح سے علم ہوتا ہے کہ اس مرض کا تا حال کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ اب تک اس کی ساری دوائیں تخفیفِ شدتِ مرض کی ہیں، شفا کی نہیں۔ اس کا آدھا علاج مریض خود کرتا ہے۔ دوا اور غذا کی احتیاط، ایک منظم طرزِ حیات، ترکِ کام و دہن کی لذت۔ اس کے مریض کو ان سے زیادہ شعر و موسیقی میں سکون ملتا ہے…‘‘(9)

اس تحریر کے آخر میں مسعود حسین خاں نے اپنا یہ شعر درج کیا تھا:

تو نے مٹی سے بنایا تھا مجھے

ڈھیر مٹی کا ہوا چاہتا ہوں

ان کے جسم میں اس مرض کے Symptomsبدستور جاری رہے اور مرض میں بتدریج شدت پیدا ہوتی گئی، چنانچہ رفتہ رفتہ دماغ نے کام کرنا بند کر دیا اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو گئی اور آخری زمانے میں تو وہ اپنے اہلِ خانہ کو بھی پہچاننے سے قاصر تھے۔ جب ان کی حالت کافی بگڑنے لگی تو انھیں یونیورسٹی کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ کئی روز تک کوما (Coma)میں رہے۔ مرض میں افاقہ نہ ہونے کی صورت میں انھیں گھر لایا گیا جہاں انھوں نے 15اور 16اکتوبر 2010کی درمیانی شب میں ایک بج کر دس منٹ پر اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا۔ اسی روز (16اکتوبر2010) بعد نمازِ ظہر منٹوئی (یونیورسٹی قبرستان) میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 91 سال، 8ماہ، اور 18دن تھی۔

 

                سیرت و شخصیت اور مزاج کی افتاد

 

مسعود حسین خاں طبعاً خوش مزاج واقع ہوئے تھے۔ ان کی تحریر و تقریر میں مزاح کی چاشنی پائی جاتی تھی اور کبھی کبھی طنز کے نشتر بھی۔ وہ شوخیِ گفتار کے دھنی تھے اور باتوں ہی باتوں میں ایسے پُر لطف جملے، فقرے اور ترکیبیں استعمال کر جاتے تھے جن سے ان کا مخاطَب محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کی چند مثالیں ان کے خطوط سے پیش کی جاتی ہیں جو انھوں نے اپنے دوستوں اور خوردوں کو لکھے تھے:

مسعود حسین خاں (جو آفریدی پٹھان تھے) 1973میں جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ جامعہ والے وائس چانسلر کو ’شیخ الجامعہ‘ کہتے ہیں۔ ظہیر احمد صدیقی نے انھیں شیخ الجامعہ بننے پر مبارک باد کا خط لکھا۔ مسعود حسین خاں نے انھیں جواب میں لکھا: ’’عنایت نامہ ملا۔ جی ہاں، ’شیخ‘ بنا دیا گیا ہوں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک پٹھان کو شیخ کا منصب عطا کیا گیا ہے۔ ‘‘(10)

مرزا خلیل احمد بیگ نے جب خط لکھ کر مسعود حسین خاں کو جامعۂ ملیہ اسلامیہ کا وائس چانسلر بننے کی مبارک باد دی تو جواب میں انھوں نے لکھا : ’’تہنیت کا شکریہ …دوستوں سے کہتا ہوں کہ میں نے اردو میں ایک نئے محاورے کا اضافہ کیا ہے       لوگ کہتے ہیں ’اوکھلی میں سر دینا‘، میں نے اوکھلا میں سر دیا ہے۔ ‘‘(11)جامعۂ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں اوکھلا کے علاقے میں واقع ہے۔ محاورے سے قطع نظر، مسعود حسین خاں نے یہاں لفظِ ’اوکھلا‘ کا ذو معنی استعمال کیا ہے۔ ’اوکھلی‘ چوں کہ اسمِ مؤنث ہے اور کنایۃً صفتِ تصغیر سے متصف ہے، اس لیے انھوں نے اس کی مذکر شکل ’’اوکھلا‘‘ (یعنی اوکھلی سے بڑی چیز) کا استعمال کر کے مزاح کا حسن پیدا کیا ہے۔

مسعود حسین خاں نے غالب اکادمی (نئی دہلی) میں لغت نویسی کے مسائل پر ایک خطبہ دیا تھا جس میں یہ کہا تھا کہ ’’ہ‘‘ (ہائے ہوز)اور ’’ھ‘‘(ہائے مخلوط) کا امتیاز سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے متعین کیا تھا۔ اس خطبے کے بعد رشید حسن خاں نے انھیں خط لکھ کر ہائے مخلوط والے حروف (بھ، پھ، تھ، وغیرہ) کے سلسلے میں بعض نئی معلومات فراہم کی تھیں۔ مسعود حسین خاں کو اس خطبے کے دوران میں رشید حسن خاں کہیں نظر نہیں آئے تھے (حالاں کہ وہ وہاں موجود تھے)۔ مسعود حسین خاں نے رشید حسن خاں کو ان کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’حروفِ مخلوط (بھ، پھ وغیرہ) کے سلسلے میں نئی معلومات کا شکریہ … لیکن یہ تو بتائیے آپ خطبے کے دن تھے کہاں ؟ مجھے تو آپ کہیں نظر نہیں آئے۔ شاید مجمع میں ہائے مخلوط بن کر خلط ملط ہو گئے تھے۔ ‘‘(12)

مسعود حسین خاں نے خلیق انجم کو ایک خط میں لکھا: ’’معلوم نہیں آپ کے علم میں ہے کہ نہیں، پریم چند کے سپوت امرت رائے نے … اردو بے چاری کے خلاف اپنی تازہ تصنیف A House Dividedمیں زہر اگلا ہے۔ یہ تصنیف دیدۂ عبرت نگاہ سے دیکھنے کے قابل ہے … اردو والے اردو کے ’کفن‘ میں لپٹے رہتے ہیں اور انھیں پتا بھی نہیں چلتا کہ انگریزی کے وسیلے سے ہمارے خلاف بات سات سمندر پار جا رہی ہے۔ ‘‘(13) غالباً یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ’کفن‘ پریم چند کے ایک اردو افسانے کا نام بھی ہے۔ یہاں لفظِ کفن کے ذو معنی استعمال سے گہرا طنز پیدا کیا گیا ہے۔

کبیر احمد جائسی نے مسعود حسین خاں کو موسمِ سرما میں سری نگر (کشمیر) سے ایک خط لکھا جس میں علاوہ اور باتوں کے وہاں کی سردی کا بھی ذکر تھا۔ مسعود حسین خاں نے جب اس خط کا جواب دیا تو لکھا: ’’یہاں بھی کل بارش ہو جانے سے ہوا میں سردی اور سرد مہری دونوں بڑھ گئی ہیں۔ ‘‘(14)

گیان چند جین کے نام اپنے ایک خط میں مسعود حسین خاں نے ’’آشنا‘‘، ’’آشنائی‘‘ اور ’’داشتہ‘‘ جیسے الفاظ کے استعمال سے مزاح کی چاشنی پیدا کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’آپ کی فرستادہ گراں قدر تصانیف ’اردو ادب میں ہندی ادب کا اثر‘ اور ’ذکر و فکر‘ دست بدست موصول ہوئیں۔ دونوں سے میں عرصۂ دراز سے آشنا تھا۔ اب ’داشتہ‘ بن جانے کے بعد ان سے ’آشنائی‘ کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ ‘‘ (15)

مسعود حسین خاں کی شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ وہ نہایت خندہ رو واقع ہوئے تھے۔ دمِ گفتگو ان کا چہرہ متبسم رہتا تھا۔ وہ جب بھی کسی سے بے تکلفانہ انداز میں ہم کلام ہوتے تھے تو ہنس مکھ نظر آتے تھے۔ حلم و بردباری اگرچہ ان کا شیوہ تھی، تاہم ’پٹھانی جلال‘ انھیں ورثے میں ملا تھا جس کی جھلک کبھی کبھی دیکھنے کو مل جاتی تھی۔ اشخاص کی پسند و ناپسند کا ان کا اپنا پیمانہ تھا۔ اگر وہ کسی کو ناپسند کرتے تھے تو اس کی کچھ وجوہات ہوتی تھیں جن سے وہ سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے۔ وہ کسی شخص سے بلا وجہ ناراض نہیں ہوتے تھے۔ ناراضگی کی وجہ عموماً اس شخص کی سرکشی و نافرمانی یا قبیح و ناپسندیدہ حرکات ہوتی تھیں۔ ایسی صورت میں مصالحت کے تمام دروازے بند ہو جاتے تھے اور وہ شخص سماجی و سیاسی یا ادبی اعتبار سے خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، اسے وہ یک قلم Write off کر کے ہمیشہ کے لیے بھول جاتے تھے۔ اپنے ایک شاگرد سے ناراضگی کا حال بیان کرتے ہوئے انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں لکھا ہے کہ ’’عرصہ ہوا میں ان سے دست بردار ہو چکا ہوں۔ ‘‘(16)اسی طرح جب وہ اپنے ایک اور شاگرد سے ناراض ہوئے تو ان کے بارے میں لکھا کہ ان سے ’’مصالحت کی کوئی شکل ممکن نہیں۔ ‘‘(17)

مستثنیات سے قطع نظر، مسعود حسین خاں اپنے شاگردوں سے ہمیشہ محبت و شفقت سے پیش آتے تھے اور ان سے غایت درجہ ہم دردی رکھتے تھے۔ وہ ان کی ہر ممکن مدد کے لیے بھی ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ یہ انھیں کا طفیل ہے کہ ان کے شاگردوں نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنی عملی زندگی میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگردوں نے ان کے تئیں اپنے دل میں ہمیشہ عزت و احترام کا جذبہ رکھا۔

مسعود حسین خاں کی سیرت و شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ ان کے اندر اعلیٰ اخلاقی قدروں کا پاس تھا۔ علاوہ ازیں شرافت، حلم و بردباری، عزتِ نفس، خود داری، نیکی، ایمان داری، سچائی، دیانت داری، حق گوئی، اصول پسندی، نرم خوئی، خوش مزاجی اور شائستگی     یہ سب قدریں ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھیں۔ (18)

مسعود حسین خاں کی اصول پسندی اور دیانت داری کے ایک واقعے کا ذکر عبد اللطیف اعظمی نے ان پر لکھے ہوئے اپنے ایک مضمون میں نہایت صاف گوئی سے کیا ہے۔ عبد اللطیف اعظمی جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں وائس چانسلر کے پی اے (P.A.)کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ جب مسعود حسین خاں کا تقرر جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ہو گیا تو انھوں نے علی گڑھ جا کر ان سے تحریری رضا مندی لی، اور دریافت کیا کہ ’’آپ کب اور کس ٹرین سے دہلی تشریف لا رہے ہیں تاکہ مَیں کار لے کر اسٹیشن پر آپ کا استقبال کروں۔ ‘‘ عبد اللطیف اعظمی کو مسعود حسین خاں کا جواب سن کر سخت حیرت ہوئی، کیوں کہ انھوں نے فرمایا کہ ’’جب تک مَیں اپنے عہدے کا چارج نہ لے لوں، اس وقت تک جامعہ کی کار کیوں کر استعمال کر سکتا ہوں ؟‘‘(19)عبد اللطیف اعظمی لکھتے ہیں کہ ’’یہ جواب میرے لیے حیرت کا باعث اور غیر متوقع اس لیے تھا کہ مَیں نے اپنے طویل تجربے میں دیکھا تھا کہ اچھے اچھے لوگ یونیورسٹی کی کار کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ مسعود صاحب تو بہرحال منتخب شیخ الجامعہ تھے اور اس ذمہ داری کو قبول کر لینے کے بعد میرے خیال میں جامعہ کی کار کو استعمال کرنے کے مستحق اور حق دار تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ ان کی یہ احتیاط آخر تک قائم رہی۔ ‘‘(20)

مسعود حسین خاں نے جامعۂ ملیہ اسلامیہ کی و ائس چانسلر شپ سے، اپنی پنج سالہ مدتِ کار ختم ہونے سے ڈھائی ماہ پیشتر استعفیٰ دے دیا تھا، کیوں کہ اساتذہ کے مختلف گروپوں نے حالات ہی ایسے پیدا کر دیے تھے۔ عبد اللطیف اعظمی نے وہاں کے حالات کا بڑی باریک بینی سے تجزیہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’مسعود صاحب ہر طرح کامیاب ہوتے اگر ان میں دو خامیاں نہ ہوتیں : ایک ضرورت سے زیادہ ایمان داری اور دوسرے ان کی ’پٹھانیت‘۔ ان دونوں وجہوں سے وہ حالات سے سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے۔ ‘‘(21)

جامعہ میں مسعود حسین خاں کو بہ حیثیت وائس چانسلر جس نا کامیابی کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خالص علمی و ادبی انسان تھے، اور ان کا سروکار ہمیشہ علم و ادب اور تحقیق و تدوین ہی سے رہا تھا۔ انتظامی امور سے انھیں نہ تو کوئی دل چسپی تھی اور نہ اس کا کوئی تجربہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نا مناسب جگہ پر پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں خود اس امر کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’انتظامی امور میری سرشت سے بعید تھے۔ ‘‘(22)

انھوں نے آگے چل کر لکھا:

’’بنیادی طور پر میرے ذہن کی افتاد انتظامی کے بجائے تعلیمی ہے۔ ‘‘(23)

’ورودِ مسعود‘ ہی میں ایک اور جگہ انھوں نے اس امر کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں یوں کیا ہے:

’’اب دفتر، کار اور بنگلے کی سہولت تھی۔ پانچ اسٹار ہوٹلوں میں سرکاری ضیافتوں میں شرکت، اونچی کرسی والوں سے ملاقاتیں، یہ سب کچھ تو تھا لیکن ہمیشہ یہ احساس رہا کہ میاں مسعود! نہ یہ تمھارا صحیح مقام ہے اور نہ منصب۔ ‘‘(24)

مسعود حسین خاں طبعاً کم آمیز اور خلوت پسند واقع ہوئے تھے۔ ان کے دوستوں اور ملنے والوں کا حلقہ ہمیشہ بہت محدود رہا۔ کسی زمانے میں ان کے ملنے والوں میں محمد عمر الدین، ظفر احمد صدیقی، اختر انصاری، معین احسن جذبی وغیرہ تھے۔ رشید احمد صدیقی سے انھیں والہانہ لگاؤ تھا۔ ان کے یہاں وہ پابندی سے جایا کرتے تھے۔ آل احمد سرور کے یہاں بھی وہ اکثر جاتے تھے۔ مختار الدین احمد (1924-2010)سے بھی ان کے دوستانہ مراسم تھے اور ان دونوں کا ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا تھا۔ ریاض الرحمن خاں شروانی(شعبۂ عربی) کو بھی میں نے ان کے یہاں اکثر دیکھا ہے۔ ظہیر احمد صدیقی(شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی) جب دہلی سے علی گڑھ منتقل ہوئے تو وہ بھی ان کے حلقۂ احباب میں شامل ہو گئے۔ ان کے علاوہ عبدالستار دلوی ممبئی سے اور سلیمان اطہر جاوید حیدرآبادسے جب بھی کسی کام سے علی گڑھ آتے تو مسعود حسین خاں سے ملنے ان کے دولت کدے پر ضرور حاضر ہوتے۔ اولاد احمد صدیقی (آل احمد سرور کے برادرِ خورد) سے بھی مسعود حسین خاں کے دوستانہ مراسم تھے اور ایک دوسرے کے یہاں اکثر آنا جانا تھا۔ ان کے علی گڑھ کے بعض پرانے شاگرد بھی ان سے ملنے اکثر ان کے گھر آ جایا کرتے تھے جن سے وہ اسی خلوص سے ملتے تھے۔ ان کے پرانے شاگردوں میں عبدالغفار شکیل اور عبد العظیم (1933-2014)کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ آخری زمانے میں آخر الذکر سے ان کے شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے جن کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘ میں بھی کیا ہے۔

مسعود حسین خاں ذہنی طور پر عقلیت پسند واقع ہوئے تھے۔ مذہب سے ان کی دوری کی بنیادی وجہ یہی تھی۔ راقم السطور کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے فرمایا تھا کہ وہ فکر کا کوئی ’’سانچہ‘‘ نہیں رکھتے ’’اور نہ مذہب کا!‘‘(دیکھیے انٹرویو ’’مسعود حسین کا نظریۂ شعر اور شعری محرکات و اکتسابات[ایک گفتگو کی یاد داشت]، ‘‘ مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات از مرزا خلیل احمد بیگ، ص 201)۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں بھی ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میں کسی منظم مذہب کا پابند نہیں ہوں ‘‘(ص203)۔ مسعود حسین خاں اگرچہ ’’عملی مسلمان‘‘ (سوائے جامعۂ ملیہ اسلامیہ اسکول کے زمانے کے) کبھی نہیں رہے، لیکن وہ اسلام اور اسلامی اقدار کو بے حد ’’عزیز‘‘ رکھتے تھے۔ وہ اگرچہ ماہِ صیام کے روزے نہیں رکھتے تھے، لیکن ان کا احترام ضرور کرتے تھے۔

یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ مسعود حسین خاں اگرچہ ’’مذہبی انسان‘‘ نہیں تھے، لیکن وہ اشتراکی بھی نہیں تھے۔ انھوں نے کئی موقعوں پر کمیونسٹ آئیڈیالوجی کی سخت تنقید کی ہے۔ وہ کمیونسٹوں کے حلقے سے ہمیشہ دور رہے۔ ان کا یہی رویّہ ترقی پسند ادبی تحریک کے ساتھ بھی رہا تھا۔ اپنی شعری اٹھان کے زمانے میں انھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کا کوئی ’’نوٹِس‘‘ نہیں لیا۔ انھوں نے متذکرہ انٹرویو کے دوران میں راقم السطور کے ایک سوال کے جواب میں اس تحریک کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا:

’’میں اس تحریک کے ماخذ اور مولد دونوں کی جانب اپنے لیے کشش نہیں رکھتا تھا۔ مجھے نہ تو مارکس کی فکر، اور نہ اسٹالن کی آمریت متاثر کر سکی۔ ‘‘(دیکھیے محولۂ بالا انٹرویو، ص 200)

مسعود حسین خاں کسی زمانے میں اقبال (1877-1938)کی فکر کے بہت قائل تھے، لیکن رفتہ رفتہ اس کے ’’ناقد‘‘ بن گئے۔ اس کے باوجود وہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے ہمیشہ قائل رہے۔ وہ اقبال کے ساتھ غالب (1797-1869) اور ٹیگور (1861 -1941)کے بھی ’’دلدادہ‘‘ تھے۔ غالب کے یہاں انھوں نے کسی فکر کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی، لیکن غالب کی فلسفیانہ بصیرت سے وہ کبھی کبھی ’’چونک‘‘ ضرور جاتے تھے (ایضاً، ص201)۔ انھوں نے کلاسیکی شعرا میں سب سے زیادہ مطالعہ غالب کا کیا تھا جو ان کے ’’رگ و پے‘‘ میں بس گیا تھا۔ غالب کے ساتھ انھوں نے اقبال کا بھی ’’بھرپور‘‘ مطالعہ کیا تھا۔ وہ اقبال کو غالب کے ساتھ اردو کے عظیم ترین شاعروں میں شمار کرتے تھے۔ (ایضاً، ص205)

مسعود حسین خاں کے لیے اقبال کی فکر ہمیشہ ’’جاذبِ نظر‘‘ رہی تھی، لیکن اقبال کی سیاسی فکر سے انھیں ’’سخت تکلیف‘‘ پہنچی تھی۔ اس کا اظہار انھوں نے متذکرہ انٹرویو کے دوران میں ان الفاظ میں کیا تھا:

’’1940میں مسلم لیگ کا تقسیمِ ملک کا ریزولیوشن پاس ہو جانے کے بعد اور اقبال کا آخری عمر میں قائدِ اعظم جناح کی تحریک سے خود کو وابستہ کرنے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی جانب جو Write off کا دونوں قائدین کا رویہ رہا ہے، اس سے مجھے سخت تکلیف رہی ہے۔ ‘‘(ایضاً، ص205)

مسعود حسین خاں کے اِس بیان سے ان کے ذ ہن کی تربیت اور افتاد کا بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتاہے۔ ان کی ذہنی تربیت جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے نیشنلسٹ ماحول اور قوم پرستی کی فضا میں ہوئی تھی، لہٰذا ان کا ذہن جناح اور اقبال کی سیاسی فکر سے کیوں کر ہم آہنگ ہوسکتا تھا!

٭٭

 

                حواشی

 

۱       دیکھیے مسعود حسین خاں کی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ (پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1988)، ص7۔

۲      مسعود حسین خاں کے خاندانی حالات کے لیے دیکھیے ان کی محولۂ بالا خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ کا پہلا باب، ص 7-36۔

۳      مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص9۔

۴      مسعود حسین خاں، ’’سخنِ واپسیں ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’سب رس‘ (حیدرآباد)، بابت مارچ 2007، ص22۔

۵      مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص 91-93۔

۶      ایضاً، ص 297-98۔

۷      اِس بات کا ذکر مسعود حسین خاں نے راقم السطور سے ایک نجی گفتگو کے دوران میں کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’اس کی ماں نے اس کا نام (آدِتیہ)رکھا تھا، ‘‘ لیکن انھوں نے(مسعود حسین خاں نے) اس لفظ کا ترجمہ ’آفتاب‘ کر کے اپنے اکلوتے پوتے کا نام آفتاب حسین خاں رکھ دیا۔

۸      بحوالہ مرزا خلیل احمد بیگ، ’’پروفیسر مسعود حسین خاں : ماہ و سال کے آئینے میں ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی)، جلد 80، شمارہ 9، بابت ستمبر2009، ص13۔ (دیکھیے اس توقیت نامے کے آخر میں مسعود حسین خاں کے قلم سے اضافہ)۔

۹      مسعود حسین خاں، ’’علی گڑھ تا خدا گڑھ: رخصت اے بزمِ جہاں …‘‘، [’ورودِ مسعود‘ کا آخری باب برائے طبعِ دوم]، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی) جلد 80، شمارہ 9، بابت ستمبر2009، ص14۔

۱۰     مسعود حسین کا خط بنام ظہیر احمد صدیقی، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: تعلیمی مرکز، 1989)، ص403۔

۱۱      مسعود حسین خاں کا خط بنام مرزا خلیل احمد بیگ، مشمولہ نذرِ مسعود‘، ص427-28۔

۱۲     مسعود حسین خاں کا خط بنام رشید حسن خاں، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، ص 227۔

۱۳     مسعود حسین خاں کا خط بنام خلیق انجم، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، ص415-16۔

۱۴     مسعود حسین خاں کا خط بنام کبیر احمد جائسی، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، ص 441۔

۱۵     مسعود حسین خاں کا خط بنام گیان چند جین، مطبوعہ ماہنامہ’ کتاب نما‘ (نئی دہلی)، جلد 32، شمارہ 10، بابت اکتوبر1992(گوشۂ مسعود حسین خاں )، ص 71۔

۱۶     مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص 159۔

۱۷     ایضاً، ص 257۔ انھی شا گرد کے بارے میں مسعود حسین خاں نے مزید لکھا کہ’’ اندیشہ ہے کہ اپنے ریٹائرمنٹ تک وہ شعبے کو مکمل طور پر تباہ کر جائیں گے۔ ‘‘(ایضاً، ص258)۔

۱۸     مسعود حسین خاں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں : ’’میری اقدارِ عالیہ کا سب سے بڑا اصول دیانت داری ہے، دو سروں سے اور خود اپنے سے… یہی میرا رویہ سچ اور حق کے بارے میں رہا۔ ‘‘دیکھیے مسعود حسین خاں کا مضمون ’’جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘‘، مطبوعہ پندرہ روزہ ’آواز‘ (نئی دہلی)، جلد 52، شمارہ 1، بابت یکم تا 15جنوری1987۔

۱۹     دیکھیے عبد اللطیف اعظمی، ’’پروفیسر مسعود حسین خاں : بہ حیثیتِ شیخ الجامعہ، جامعۂ ملیہ اسلامیہ ‘‘، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، ص 55۔

۲۰     عبد اللطیف اعظمی، محولۂ بالا مضمون، مشمولہ ’نذرِمسعود‘، ص 55-56۔

۲۱     ایضاً، ص 58۔

۲۲     مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص 222۔

۲۳    ایضاً، ص242۔

۲۴    ایضاً، ص243۔

٭٭٭

 

 

 

بابِ دوم: شاعری

 

                شاعری کی ابتدا اور نظریۂ شعر

 

مسعود حسین خاں نے اپنا ادبی سفر شعر گوئی سے شروع کیا تھا۔ انھوں نے پہلا شعر اس وقت کہا تھا جب وہ محض ساڑھے13سال کے تھے اور کشمیر کی سیر کے لیے گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ ان کے ہمراہ جامعۂ ملیہ اسکول کے ایک استاد سید نذیر نیازی تھے۔ یہ لوگ لاہور ہوتے ہوئے اور علامہ اقبال (1877-1938)سے ان کے دولت کدے پر ملتے ہوئے اکتوبر1932میں کشمیر پہنچے تھے۔ (1)پہلا شعر جو کشمیر میں ان کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا:

نہیں، نہیں، نہیں جاتے تم اُس طرف کو مگر

قدم قدم پہ یہ لرزہ قدم کا، کیسا ہے ؟

اس شعر سے مسعود حسین خاں کی شعر گوئی کا آغاز تو ہو گیا تھا، لیکن اس کی رفتار بہت سست رہی تھی، کیوں کہ وہ طبعاً بہت کم گو واقع ہوئے تھے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’دو نیم‘ پہلی بار 1956میں دہلی سے شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا کوئی اور مجموعۂ کلام شائع نہیں کیا۔ یہی مجموعہ 30سال بعد چند اضافوں کے ساتھ دوسری بار 1986میں، اور اس کے 14سال بعد تیسری بار 2000میں شائع ہوا، لیکن انھوں نے اپنی شاعری اس سے بہت پہلے ترک کر دی تھی۔ انھوں نے آخری شعر 1982میں کشمیر ہی میں کہا تھا جو یہ ہے:

ہر گلی کوچے میں، ہر موڑ پہ وہ ہی آہٹ

کیسا یہ شہر ہے ہر راہ میں تم ہی تم ہو

یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ مسعود حسین خاں کی شاعری کا باقاعدہ طور پر آغاز گیت نگاری سے ہوا۔ گیت ہی کے راستے سے وہ غزل کے میدان میں داخل ہوئے، پھر نظم کو اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا۔ پہلا شعر 1932میں کہنے کے بعد انھوں نے دس سال تک کچھ نہیں کہا تھا، لیکن 1942میں قائم گنج میں اپنے قیام کے زمانے میں انھوں نے پہلا گیت لکھا جس کے لیے زمین پہلے سے تیار ہو چکی تھی۔ اس کے دو سال بعد 1944میں انھوں نے پہلی غزل کہی، اور اس کے اگلے سال (1945)میں وہ نظم نگاری کی جانب مائل ہوئے۔ ان کی گیت نگاری کا سلسلہ 1948میں موقوف ہو گیا، لیکن نظمیں وہ 1981تک لکھتے رہے۔ غزل گوئی کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے 1981تک جاری رہا۔ اس دوران میں وہ اکثر انقباض کے بھی شکار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ان کا شعری سفر 40سال (1942-82)کے عرصے کو محیط ہے، لیکن شعری سرمایہ نہایت قلیل ہے۔ اس کی وجہ راقم السطور کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے یہ بیان کی تھی:

’’شاعری سے میرا شغف بہ وجوہ ’گنڈے دار‘ رہا ہے       کبھی بہت زیادہ اور کبھی بہت کم۔ اس لیے کہ جس طرح میرے لیے فکر کی ایک لکیر پر چلتے رہنا دشوار ہوتا تھا، جذبات کے ایک سیل میں بھی بہتے رہنا ناممکن تھا۔ شاعری نہ صرف ریاض چاہتی ہے، یہ شغف بھی چاہتی ہے۔ ‘‘(2)

اپنی کم گوئی کی وجوہات پر مسعود حسین خاں نے ’دونیم‘(طبعِ سوم) کے دیباچے میں بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’یہ سوال میرے اور میرے بعض قدردانوں کے ذہن میں مسلسل اٹھتا رہا ہے کہ آخر میں نے تیس بتیس سال کے بعد شعر کہنا کیوں ترک کر دیا، ترک نہیں تو اس قدر کم ہو گیا کہ اب دس دس سال کے عرصے میں صرف چند غزلیں اور گنتی کی نظمیں (گیت ایک بھی نہیں ) برآمد ہوسکیں۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے، پیشہ ور اور پُر گو شاعروں سے قطع نظر ہر شاعر کے یہاں سخن وری میں ’قبض و بسط ‘ کے دور آتے ہیں …ابتدا سے میری علمی و ادبی مصروفیات اور دل چسپیاں متنوع رہی ہیں جو مجھے شعر و ادب کے کوچے سے لسانیات کی تنگنائے میں ڈھکیل کر لے گئیں … لسانیات ایک عمرانی علم ہے۔ اس لیے اس کے سائنسی اندازِ فکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان جذ بہ و تخیل کی دنیا سے نکل کر تعقلی استدلال اور منطقی فکر کو اختیار کرے۔ جوں جوں ذہن کی یہ مہارت بڑھتی گئی، میں خواب و خیال کی دنیا سے دور ہوتا گیا۔ اس میں بڑھتی ہوئی عمر کے تقاضے بھی کارفرما تھے۔ ‘‘ )ص(32-33

مسعود حسین خاں شاعری سے متعلق اپنا مخصوص نظریہ رکھتے تھے جس کا ذکر انھوں نے ’دونیم‘ (طبعِ اول) کے دیباچے ’’تمہیدِ شعر‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔ یہی دیباچہ ’دونیم‘ (طبعِ سوم) میں بھی شائع ہوا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اپنے ایک مضمون ’’میرا شعری تجربہ‘‘ میں بھی اپنے نظریۂ شعر سے بحث کی ہے۔ یہ مضمون ’دونیم‘ کے تیسرے ایڈیشن (2000)میں دیباچے کے طور پر شامل ہے۔ ان کے علاوہ(1 ’’تخلیقِ شعر‘‘، (2’’مطالعۂ شعر‘‘، (3’’غزل کا فن‘‘ جیسے مضامین سے بھی ان کے نظریۂ شعر کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ تینوں مضامین ان کے مجموعۂ مضامین ’اردو زبان اور ادب‘ (1983)میں شامل ہیں۔ (3)

شعر مسعود حسین خاں کے لیے ہمیشہ ’’ذریعۂ نجات‘‘ رہا ہے۔ اس نے کبھی بھی ’’مشغلے‘‘ یا ’’مشق‘‘ کی صورت اختیار نہیں کی۔ یہ ان کا ’’فن‘‘ بھی نہیں ٹھہرا۔ (4)انھوں نے ’’ذریعۂ نجات‘‘ کی وضاحت ’دونیم‘(طبعِ سوم) کے دیباچے میں ان الفاظ میں کی ہے:

’’بعض اوقات کسی جذبے یا صدمے کے باعث ایک خاص ذہنی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، تو اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے اظہار کا سہارا لیتا ہوں،  ع

کہ جس سے ہلکا ہو جی، اک غزل ہی کہہ لائیں ‘‘

(ص26)

مسعود حسین خاں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’شعر میرے لیے اپنی شخصیت کا بھرپور اور موثر اظہار ہے۔ ‘‘ تخلیقِ شعر کے بارے میں بھی ان کا مخصوص نظریہ تھا۔ راقم السطور کو انٹرویو دیتے ہوئے تخلیقِ شعر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا تھا:

’’میرا شعر’ اظہار کے دباؤ‘ پر ورود کرتا ہے۔ اس کی جد و جہد زبان سے ’وارستگی‘ میں مضمر ہے۔ اسی لیے میں نے اس کو اپنے لیے ’ذریعۂ نجات‘ کہا ہے۔ ‘‘(5)

مسعود حسین خاں ’’اظہار کے دباؤ‘‘ کو ’’ہیجاناتِ شعری‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’میرے تخلیقی عمل کا آغاز زبردست ہیجاناتِ شعری اور اظہار کے دباؤ پر شروع ہوتا ہے۔ ‘‘(6)وہ وزنِ شعر کو ’’ہیجاناتِ شعری‘‘ کے لیے ضروری قرار دیتے تھے۔ اسی لیے وہ تخلیقِ شعر کے وقت ٹہلتے اور گنگناتے رہتے تھے۔ اپنے ایک مضمون ’’ تخلیقِ شعر‘‘ میں انھوں نے تخلیقی عمل کے خارجی اور داخلی محرکات کا بہ تفصیل ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں تحریکِ شعری ایک نہایت شدید قسم کا ذاتی تجربہ ہے جس کے تعلق سے وہ دو قسم کے محرکاتِ شعری پر نظر رکھنا چاہتے ہیں : خارجی محرکات، اور داخلی محرکات۔ (7) مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ’’شاعر کے تخلیقی عمل کا قیاس بہت کچھ جسمانی تخلیقی عمل پر کیا جا سکتا ہے، ‘‘ کیوں کہ شاعر کے تخلیقی عمل میں بھی ایک مسلسل درد و کرب، سختی، انہماک اور لذتِ تخلیق کی کسک پائی جاتی ہے، اور اس میں بھی ’’وہی بے چینی، وہی انتظار اور آخر میں وہی آسودگی ملتی ہے جس کی شہادت صرف ایک ماں دے سکتی ہے۔ ‘‘ (8)

اظہار کے لیے وزنِ شعر کو ضروری قرار دینے کے ساتھ وہ قافیہ اور ردیف کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’قافیہ اور ردیف سے اظہار کا حسن دونا ہو جاتا ہے‘‘، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ان سے وقتِ ضرورت قطع نظر بھی کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’زبان کا استعاراتی استعمال اس کے حسن میں افزائش کرتا ہے۔ شاعر الفاظ کے جھلملاتے ستارے تراشتا ہے، معنی کی کیلیں گاڑتا نہیں چلتا۔ ان ستاروں میں ایک سے زائد اشارے ہوتے ہیں۔ ‘‘(9)

’دو نیم ‘ کے دیباچے ’’تمہیدِ شعر‘‘ میں مسعودحسین خاں نے سماج اور شعر کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’شعر سماج کی ایک قدیم اور جداگانہ قدر ہے۔ اکثر اوقات اس کا ارتقا سماج کی مادی بنیادوں کے متوازی نہیں ہوتا۔ شعر معاشرے سے ابھرتا ہے، لیکن اسے معاشرتی اداروں اور تحریکوں پر مبنی سمجھنا غلط ہے۔ وہ سماج کی ایک مستقل اور متعین قدر ہے اور صرف اسی حیثیت سے اس کا سماج کے دوسرے اداروں اور اعمال سے گہرا رشتہ ہے۔ ’سماجی شعر‘ شاعری کی صرف ایک قسم ہے جس میں ہماری معاشرتی زندگی کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ ‘‘ (’دونیم‘[تیسرا ایڈیشن]، ص8)

شاعر اور سماج کے رشتے پر روشنی ڈالتے ہوئے مسعود حسین خاں لکھتے ہیں :

’’جس طرح شعر سماج کی ایک اہم قدر ہے، شاعر سماج کا ایک اہم فرد ہے، جس کو عزت اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ شاعر کا منصب یہ نہیں ہے کہ وہ قلم رکھ کر ہاتھ میں تلوار لے لے یا نعرہ بازی کرتا پھرے۔ اس کی صداقت وہی ہے جس کو وہ محسوس کرے، اور اس کی وسعتِ نظر کا اندازہ اس کے محسوسات سے ہو گا۔ وہ اپنا ہدایت نامہ خود مرتب کرتا ہے۔ بیرونی ہدایات نے اردو کے اکثر ہونہار شاعروں کو تباہ کیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر کو اپنے خول سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ حسبِ توفیق اسے اپنے معاشرے کی ان گہری سانسوں میں شریک ہونا چاہیے جس سے اس کا اندرون وسعت پذیر ہو۔ ‘‘(ایضاً)

ہر چند کہ مسعود حسین خاں نے اپنی شاعری کی ابتدا گیت سے کی تھی، لیکن یہ بوجوہ ان کے ’’ذہنی سفر‘‘کا تا دیر سا تھی نہ بن سکا، چنانچہ وہ ’’غیر شعوری طور پر ‘‘غزل اور نظم کی جانب کھنچتے چلے گئے۔ اس ذہنی تبدیلی کی روداد انھوں نے ’دونیم‘ (طبعِ سوم) کے دیباچے ’’تمہیدِ شعر‘‘ میں یوں بیان کی ہے:

’’ہندی شاعری سے متاثر ہو کر میں نے پہلے پہل گیت کو اپنایا اور کوشش اس بات کی کی کہ ہندوستانی پریم کی ریت کو ٹھیٹھ زبان کے ٹھاٹھ میں پیش کیا جائے۔ کچھ دنوں تک گیت خوش اسلوبی کے ساتھ ذریعۂ نجات بنا رہا، لیکن میرے ذہنی سفر میں یہ بہت دور تک ساتھ نہ دے سکا۔ اس کے ہلکے پھلکے بول جھنکار کے ساتھ گہرے معنی نہ پیدا کر سکے۔ یہ محسوس ہونے لگا کہ گیت میں گہرائی لانے کے لیے آریائی زبان کے ڈھائی ہزار سال کے جمالیاتی عمل میں ڈوبنا پڑے گا۔ یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے غیر شعوری طور پر اس کی جگہ رفتہ رفتہ غزلوں اور نظموں نے لے لی۔ مجھے یقین ہے کہ غزل میں بات بھرپور انداز میں کہی جا سکتی ہے…غزل کے سانچے میں ڈھلنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی، لیکن ابھی اس صنفِ سخن کے امکانات سلب نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی رمزیت اور اشاریت کے لیے ابھی بہت سی جہات موجود ہیں۔ ‘‘(ص9-10)

 

                گیت نگاری

 

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں کی شاعری کا باقاعدہ طور پر آغاز 1942میں گیت نگاری سے ہوا۔ دو سال تک گیت لکھتے رہنے کے بعد وہ غزل کی جانب متوجہ ہوئے، پھر نظم کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا۔ ان کے گیتوں کا تنقیدی جائزہ لینے سے پہلے، ان کی گیت نگاری کے محرکات کا پتا لگانا ضروری ہے۔

واضح رہے کہ مسعود حسین خاں نے چھے سال تک (1927-33)جامعۂ ملیہ اسکول (دہلی) میں تعلیم پائی۔ اس کے بعد مزید تحصیلِ علم کے لیے وہ اپنے چھوٹے چچا محمود حسین خاں (1907-1975)کے ساتھ 1933میں ڈھاکہ گئے، جہاں انھیں لسانی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بالکل اجنبی ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں ہر طرف بنگالی زبان کا بول بالا تھا۔ اسکول میں بھی بنگالی زبان کے ’’گانے اور ترانے‘‘ گائے جاتے تھے۔ رابندر سنگیت کا بھی چرچا عام تھا۔ غرض کہ ٹیگور اور نذرل کے نغموں سے ساری فضا مسحور رہتی تھی۔ چنانچہ بنگالی زبان اور اس کی موسیقیت رفتہ رفتہ ان کے دل میں گھر کرتی چلی گئی جس کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘ میں ان الفاظ میں کیا ہے:

’’مَیں اس وقت تک بنگالی سے اچھی طرح واقف نہیں ہوا تھا، لیکن جب اس کے گیت سنتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ بغیر معنوں کے کوئی چیز میرے خون میں اترتی جا رہی ہے۔ ‘‘ (ص 50)۔

بنگالی زبان کے سحر نے انھیں ’گیتانجلی‘ کے مطالعے پر مجبور کیا، چنانچہ جب انھوں نے اپنا شاہکار گیت ’’روپ بنگال‘‘ (1947)لکھا تو اس میں ٹیگور(1861-1941) کے ’ویدانتی تصور‘ کو پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسعود حسین خاں کی گیت نگاری کا محرک ’’بنگلہ دیس‘‘ (یہ نام مسعود حسین خاں نے اپنے گیت ’’روپ بنگال‘‘ میں 1947میں استعمال کیا تھا) کا چہار سالہ (1933-37)قیام ہے، لیکن انھیں اصل تحریک ہندی شاعری سے ملی جس کا انھوں نے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد جم کر مطالعہ کیا تھا۔ یہ ان کی بے کاری کا زمانہ (1942)تھا جو انھوں نے قائم گنج میں رہ کر گزارا تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ’’مقامی پاٹھ شا لا کے ایک بنارسی پنڈت‘‘ سے ہندی اور سنسکرت زبانیں سیکھیں، اور ہندی میں اتنی مہارت اور اہلیت پیدا کر لی کہ ہندی شاعری کا مطالعہ کر سکیں، چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں وہ ہندی ادب سے بہ خوبی روشناس ہو گئے اور ہندی کے چھایا وادی گیت نگاروں کی تخلیقات کو پسند کرنے لگے۔ (10)ان کے گیتوں پر ہندی کے اِن گیت نگاروں کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسعود حسین خاں نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے ’’ہندی شاعری سے متاثر ہو کر…پہلے پہل گیت کو اپنایا۔ ‘‘ (11)انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 1942کا قیام قائم گنج ان کے اکتسابِ ہندی کے لیے ’’یادگار‘‘ رہا۔ (12) وہ قائم گنج میں اپنے قیام کے زمانے (1942)کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’1941میں ایم اے کی سند ہاتھ میں لے کر بے روزگاری کی کلفت کو دور کرنے کے لیے اپنے وطن قائم گنج چلا گیا۔ وہاں میرے لیے مکمل فراغت کے ماحول میں کئی کششیں تھیں : آم، بالائی اور ایک نوبہار خاندان کے آغازِ شباب کا انتظار۔ ایسے میں ہندی کے چھایا وادی شاعروں کی جانب جھک پڑا۔ ‘‘ (’دونیم‘[طبعِ سوم’، ص20)

مسعود حسین خاں نے راقم السطور کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی گیت نگاری کے محرکات کے با رے میں فرمایا:

’’میرا بنگال (ڈھاکے) میں چار سال تک قیام، رابندر سنگیت اور ’گیتانجلی‘ سے سابقہ گیت نگاری کے اصل محرک تھے۔ ان کو تائید ملی ہندی کے چھایا وادی کوِیوں کے مطالعے سے۔ ‘‘(13)

مسعود حسین خاں نے پہلا گیت 1942میں لکھا جس کا عنوان تھا ’’وہ بات !‘‘ اور جو خالص ’چھایا وادی‘ یعنی رومانی طرز کا گیت تھا۔ اِس گیت کے شانِ نزول کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

’’اپریل 42‘، پھر وہی قائم گنج اور مَیں، وہی آم، وہی ملائی، وہی مردانے گھر کی طویل بیٹھکیں۔ صرف فرق یہ تھا کہ شاعری کی دیوی نے گدگدانا شروع کر دیا تھا۔ ہندی کے چھایا وادی گیت نگار اور ٹیگور کی ’گیتانجلی‘ زیادہ تر زیرِ مطالعہ رہتے۔ اچانک معلوم ہوا کہ سینے میں دلِ گداختہ پیدا ہو چکا ہے۔ محبت اور پریم ایک لا محدود عمل کا تسلسل معلوم ہونے لگا۔ کس کا پریم، یہ نہیں بتا سکتا، بہرحال تھا، وہ یوں پہلا گیت بن کر پھوٹا!

یہ کیا کہتے ہو تم پریتم!

ختم ہوئی وہ بات

پھول کے کان میں جو بھونرے نے

گن گن کر کے گائی

منہ سے کہہ نہ سکی جو تم سے

آنکھوں نے بتلائی

ختم کہاں وہ بات

وہ چلتی دن ر ات

ہم دونوں کا جیون اس کے

سامنے اک پرچھائیں

وقت کی چپ چپ بہتی گھڑیاں

اس کو ناپ نہ پائیں

کھائی مات پہ مات

ختم کہاں وہ بات! ‘‘

(’ورودِ مسعود‘، ص98-99)۔

ہرچند کہ ڈکشن، امیجری اور اسلوب کے اعتبار سے یہ ایک گیت ہے، تاہم اس کی رمزیت و اشاریت اور آہنگ غزل سے بہت قریب ہے، مثلاً ’’یہ کیا کہتے ہو تم پریتم!‘‘ کا شعری آہنگ

یہ کیا

کہتے

ہو تم

پریتم

فعلن

فعلن

فعلن

فعلن

عروضی اعتبار سے میر تقی میر (1724-1810)کی مشہور غزل ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں …‘‘ کی یاد دلاتا ہے:

الٹی

ہو گئیں

سب تد

بیریں

فعلن

فعلن

فعلن

فعلن

یہ ایک داخلی انداز کا گیت ہے اور اس کا تعلق حکایتِ غمِ دل سے ہے۔ گیت نگار نے اس گیت میں ’’درپردہ‘‘ بہت کچھ کہہ دیا ہے جسے ہم شرحِ دل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اسے’چھایاواد‘ کا ایک بہترین گیت کہنا بے جا نہ ہو گا۔

اسی طرح کا ایک گیت موسوم بہ ’’موج کا گیت‘‘ ہے جو استعاراتی انداز میں عشق کی ناکامیوں اور محرومیوں کی داستان بیان کرتا ہے۔ ایک طرف دریا کی موج ہے جو ’’بے کل‘‘ ہے اور جس کے سینے میں بیتابی و بیقراری اور ’’ہل چل‘‘ ہے اور جو ساحل تک پہنچنے کی شدید ’’چاہت‘‘ رکھتی ہے۔ دریا کی موج ساحل کے قدموں تک پہنچتی ہے، اس کے لبوں کا بوسہ لیتی ہے، لیکن ساحل کی بے حسی کی وجہ سے اس سے ٹکرا کر چوٹ کھاتی ہے اور گر پڑتی ہے، لیکن پھر اٹھتی ہے اور اچھلتی ہے، لیکن پھر ساحل سے ٹکرا کر چوٹ کھاتی ہے۔ ساحل کی اس بے حسی اور بے التفاتی پر موج آنسو بہاتی ہے اور روتی ہے، بالآخر ناکام و نامراد واپس لوٹ جاتی ہے:

بے حس ساحل، بے حس ساحل!

کیسی چوٹ لگائی

دور سے لب پر بوسہ لے کر

اِن چرنوں تک آئی

کیوں سمٹے ہے تیرا آنچل

میرے آنسو ہوتے چھل چھل

میں بے کل، چاہت سے پاگل

لے کر کومل من میں ہل چل

کھِل کھِل ہنستی کھیلتی آئی

بے حس! کیسی چوٹ لگائی

میرے آنسو ہوتے چھَل چھَل

اٹھ اٹھ پھر پھر، کرتی کل کل

اچھل اچھل کر دیکھتی پَل پَل

رہ رہ روتی ہوتی واپس

ساحل بے حس، بے حس، بے حس!

(’دو نیم‘[طبعِ سوم]، ص180-81)

’’آج سہی انکار‘‘ ایک اور پیارا گیت ہے جس میں شاعر کی یہ معصوم سی خواہش ہے کہ اس کی محبوبہ اپنے سرخ لبوں کو وا کر دے (’’کھول دے لال دوار‘‘)، اور کچھ تو وہ بولے خواہ ’’انکار‘‘ ہی کی بات کیوں نہ ہو، تاکہ اس کی مترنم آواز(’’جھنکار‘‘) سے شاعر کے کانوں کو آسودگی حاصل ہو اور محبوبہ کے منہ سے چند بول سننے کی اس کی دلی مراد بر آئے:

آج سہی انکار!

لیکن کچھ تو بول

اِن ہونٹوں کو کھول

جو کرتے ہیں پیار

آج سہی انکار

کھول دے لال دوار

ہے بس اتنی چاہ

رکھ دے کیا پرواہ

ہر ہر بول پہ دھار

آج سہی انکار

سب معنی ٰ بے کار

بولوں کو مت تول

ہو گا سُر کا مول

مکھ کی بس جھنکار!

آج سہی انکار!

(’دونیم‘[طبعِ سوم]، ص 184-85)

مسعود حسین خاں کی گیت نگاری کا دور محض چھے سال کے عرصے کو محیط ہے۔ اس کی ابتدا 1942میں ہوئی، اور آخری گیت انھوں نے 1948میں لکھا۔ ان میں سے بیشتر گیت 1942سے 1945تک لکھے گئے۔ آخر کے تین برسوں میں انھوں نے صرف پانچ گیت لکھے جن میں ان کا روپک ’’روپ بنگال‘‘ بھی شامل ہے جو 1947میں لکھا گیا۔ گاندھی جی(1869-1948)کے سانحۂ قتل پر ’’باپو‘‘ کے عنوان سے انھوں نے 1948میں ایک گیت لکھا، اس کے بعد اسی سال ایک اور گیت لکھ کر گیت نگاری کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔

مسعود حسین خاں نے اپنے بہت کم گیتوں کے عنوانات قائم کیے ہیں۔ ان کے 22گیتوں میں سے صرف چھے گیت ایسے ہیں جن کے عنوانات دیے ہوئے ہیں، بقیہ 16گیت بغیر کسی عنوان کے ہیں۔ اگر ان گیتوں کے بھی عنوانات دے دیے جاتے تو ان کے مرکزی خیال کو سمجھنے میں مدد ملتی، تاہم زیادہ تر گیت محبت یا پریم، بلکہ ’اپار پریم‘ کے جذبے سے مملو ہیں اور عشقیہ خیالات (Love Themes)کی ترجمانی کرتے ہیں کہ ’چھایا واد‘ کا بنیادی سروکار بھی یہی ہے اور جیسا کہ مذکور ہوا، مسعود حسین خاں نے چھایا واد کا گہرا اثر قبول کیا ہے۔ وہ ان گیتوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ان گیتوں میں ٹیگور کی ’گیتانجلی‘ اور ہندی کے چھایا وادی کوِیوں کی چھاپ ضرور ملے گی، لیکن ہر جگہ شاعر کے دل کی دھڑکن اور ذاتی واردات کا اثر موجود ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ یہ میرے لیے شکستِ دل کا زمانہ رہا ہے۔ میں نے بہ یک وقت ایک گوشت پوست کے پیکر اور ایک ’پرچھائیں ‘ سے محبت کی تھی۔ یہ ’چھایا‘ اور ’مایا‘ کی کشمکش کا کھیل تھا۔ میں اس کی تفصیل فراہم کرنا نہیں چاہتا۔ البتہ ان گیتوں کے بین السطور ایک حساس اور زخمی دل ضرور مل جائے گا۔ مجھے یہ گیت اس لیے پسند ہیں کہ یہ عشقیہ واردات کا صحیح عکس ہیں۔ صرف کہیں کہیں روایت نے انھیں ماورائی بنا دیا ہے۔ ‘‘ (’’میرا شعری تجربہ‘‘، مشمولہ ’مقالاتِ مسعود‘[1989]، ص 168)

مسعود حسین خاں نے بعض گیت ’رومانیت‘ سے ہٹ کر بھی لکھے ہیں، مثلاً ’’ہچکولے‘‘، ’’غلاموں کا ناچ‘‘، ’’باپو‘‘، ’’روپ بنگال‘‘، وغیرہ۔ ’’ہچکولے‘‘ انھوں نے جرمن خاتون مِس فلپس بورن کے انتقال پر 1943میں لکھا تھا۔ مِس بورن کچھ دنوں جامعۂ ملیہ میں آ کر رہی تھیں۔ وہاں کے لوگ انھیں ’آپا جان‘ کہتے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اور ان کے افرادِ خانہ سے وہ کافی مانوس ہو گئی تھیں۔ مسعود حسین خاں کی مس بورن سے ملاقات جامعہ ہی میں ہوئی تھی۔ ’’غلاموں کا ناچ‘‘ ان کا تحریکِ آزادی پر لکھا ہوا گیت ہے اور ’’باپو‘‘ میں انھوں نے گاندھی جی کے سانحۂ قتل پر اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ (14)

مسعود حسین خاں کا شاہکار گیت ’’روپ بنگال‘‘ ہے جو 1947کے پس منظر میں لکھا گیا ہے، جب ملک تقسیم کے دہانے پر کھڑا تھا اور ایک تہذیب د و نیم ہو رہی تھی۔ یہ گیت ایک ’روپک‘ ہے جس میں استعاراتی و تمثیلی اندازِ بیان سے کام لیا گیا ہے۔ مسعود حسین خاں نے اپنی بات کہنے کے لیے ایک بنگالی لڑکی منجل اور ایک افغانی (جو ایک پردیسی ہے) کا سہارا لیا ہے۔ یہ دونوں کردار دو مختلف فلسفیانہ تصورات کے نمائندہ ہیں۔ منجل ٹیگور (1861-1941)کے فلسفۂ وحدت الوجود کی قائل ہے اور ویدانتی فکر کی نمائندگی کرتی ہے۔ افغانی اقبال (1877-1938)کے فلسفۂ خودی کا ترجمان ہے، اور حرکت و عمل اور اثباتِ ذات میں یقین رکھتا ہے۔ مسعود حسین خاں نے راقم السطور کو متذکرہ انٹرویو کے دوران میں بتایا تھا کہ یہ گیت ان کے افکار کی ’’کلیات‘‘ پیش کرتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ یہ ان کی گیت نگاری کا ’’سب سے بڑا تحفہ‘‘ ہے، (15)لیکن انھیں ہمیشہ اس بات کا افسوس رہا کہ نقادوں نے اس گیت کا صحیح تناظر میں مطالعہ نہیں کیا اور اس کی ’’تہہ تک‘‘ نہ پہنچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ کا 1986میں دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو اس گیت کے ساتھ انھیں ایک ’’تشریحی نوٹ‘‘ بھی دینا پڑا۔ (16)

’’روپ بنگال‘‘ روپک کی شکل میں ایک فلسفیانہ گیت ہے جو اپنے زمانی و مکانی حوالے بھی رکھتا ہے۔ زمانی اعتبار سے یہ 1947کے اس ’’کرب‘‘ کی یاد دلاتا ہے جو شاعر نے اپنے ملک کے دو ٹکڑے (دونیم) ہونے پر محسوس کیا تھا، اور مکانی اعتبار سے اس کا تعلق بنگال کی اس سرزمین سے ہے جو شاعر کے اِس شعری تجربے کا پس منظر رہی ہے اور جسے اس نے ’’بنگلہ دیس‘‘ کہا ہے جو ’’پریم کی بھومی، راگ کی بھومی، رنگ کی بھومی‘‘ ہے۔ یہ گیت چھے حصوں میں منقسم ہے: (1دیس، (2روپ، (3ایک شا م، (4ناؤ میں، (5 بانس کے جنگل میں، اور (6 آموں کے کنج میں۔

منجل اور افغانی دونوں بنگال کے دِل کش مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ساتھ ساتھ گھومتے ہیں اور فلسفیانہ گفتگو کرتے ہیں۔ افغانی فلسفۂ خودی کے بارے میں منجل کو بتاتا ہے اور منجل افغانی کو فلسفۂ وحدت الوجود کا درس دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ گھومتے گھومتے آموں کے کنج میں پہنچ جاتے ہیں اور گیت اپنے نقطۂ عروج تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ منجل دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہونے لگتی ہے اور افغانی سے کہتی ہے:

’’تم میرے سائے بن جاؤ

خود کو کھو کر مجھ کو پاؤ!‘‘

افغانی کہتا ہے:

’’منجل، منجل! ٹھیرو، کیوں مٹتی جاتی ہو!‘‘

یہ سن کر منجل کہتی ہے:

’’پتلے عمل کے!

کر دو اپنے بندھن ڈھیلے

منجل کو سایوں میں ڈھونڈو

اور اس کا سایہ بن جاؤ

خود کو کھو کر اس کو پاؤ…‘‘

(افغانی کا آموں کے کنج میں یہ گیت گانا)

’’آج کیا میں نے کچھ ایسا

خود کو کھویا اس کو پایا

مل جاؤں گا اس سے، یا پھر

بن جاؤں گا اس کا سایا!‘‘

(’دونیم‘[طبعِ سوم]، ص 213-40)

یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ گیت مسعود حسین خاں نے ڈھاکے سے اپنی واپسی (1937)کے دس سال بعد 1947میں لکھا تھا۔ وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’’بنگلہ دیس کی یہ سیربین یادوں کے ان سینکڑوں رنگین ٹکروں کو جوڑ کر بنائی گئی ہے جو میرے حافظے میں محفوظ رہ گئے تھے۔ ‘‘ (’ورودِ مسعود‘، ص56)

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں، اقبال کی سیاسی فکر سے اتفاق نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اس کے ناقد تھے۔ اقبال کی سیاسی فکر کے مقابلے میں وہ مولانا ابوالکلام آزاد (1888-1958)کی سیاسی فکر کو ’’لائقِ پیروی‘‘ سمجھتے تھے، (17) چنانچہ ان کا یہ گیت بھی اقبال کے ’’فلسفۂ خودی اور تقسیمِ ملک دونوں کے بارے میں ’’ایک شاعرانہ طنز‘‘ ہے۔ (18) انھوں نے ایک جگہ یہ بھی کہا ہے کہ ’’یہ [گیت]وطن کو یک جا رکھنے کی میری آخری شعری کاوش تھی۔ ‘‘(19)

مسعود حسین خاں کے سارے گیت ان کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ کے پہلے ایڈیشن میں 1956میں شائع ہوئے جس میں ان کی نظمیں اور غزلیں بھی شامل تھیں۔ اسی سال انھوں نے اپنے تمام گیتوں کا ایک مجموعہ ہندی(دیوناگری رسمِ خط) میں بھی ’روپ بنگال اور دوسرے گیت‘ کے نام سے شائع کیا، لیکن ان کے بہ قول ’’ہندی والوں نے تو اردو شعری محاورے سے بہت زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے اسے لائقِ اعتنا بھی نہ سمجھا۔ ‘‘(20) چنانچہ مسعود حسین خاں نے تمام تر شہرت اردو گیت نگار ہی کی حیثیت سے حاصل کی۔ ان کے گیت ’ادبِ لطیف‘ اور ’شاہراہ‘ جیسے ممتاز ادبی رسائل میں شائع ہوئے اور اکثر ریڈیو سے بھی نشر کیے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو گیت نگاری میں عظمت اللہ خاں (1887-1923)اور میراجی(1912-1949)کے بعد سب سے زیادہ شہرت مسعود حسین خاں ہی کو حاصل ہوئی، حالاں کہ اس دور میں اردو کے بعض دیگر شعرا بھی گیت لکھ رہے تھے۔ بلا شبہ مسعود حسین خاں کے گیت فکر کی ندرت، جذبہ واحساس کی سچائی، لہجے کی نرمی اور مٹھاس، نیز ٹھیٹھ ہندوستانی زبان کے لیے ہمیشہ قابلِ توجہ رہیں گے۔

 

                غزل گوئی

 

گیت نگاری کے آغاز (1942)کے دو سال بعد مسعود حسین خاں غزل گوئی کی جانب متوجہ ہوئے۔ انھوں نے پہلی غزل 1944میں کہی اور 1958تک وہ مسلسل غزلیں کہتے رہے۔ اس کے بعد سے ان کی غزل گوئی کا سلسلہ ختم ہو گیا، لیکن 1981میں جب وہ دوبارہ کشمیر گئے تو 23سال بعد انھوں نے وہاں ایک غزل کہی جو ’’میری غزل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ مسعود حسین خاں نے گیت نگاری اور غزل گوئی چار سال تک (1944-48) ساتھ ساتھ کی، اگرچہ انھوں نے 1945سے نظم نگاری بھی شروع کر دی تھی۔ گیت نگاری 1948میں بالکل موقوف ہو گئی، لیکن غزل گوئی کا سلسلہ اگلے دس سال (1958)تک جاری رہا۔ ان کی غزل گوئی کا زمانہ 14سال (1944-58)کے عرصے کو محیط ہے۔ اس دوران میں انھوں نے 46غزلیں کہیں، علاوہ ازیں چند قطعات اور چند متفرق اشعار بھی کہے جو ان کے مجموعۂ کلام ’دو نیم‘‘ میں شامل ہیں۔

مسعود حسین خاں کے گیتوں کی طرح ان کی غزلیں بھی رومانی طرز کی ہیں جن میں عشقیہ جذبات ومحسوسات اور داخلی تجربات کو سچائی کے سا تھ بیان کیا گیا ہے۔ مجموعۂ کلام ’دو نیم‘ (طبعِ سوم)سے غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

ترے خیال کی مستی شراب سے بڑھ کر

ترے لبوں کا تصور گلاب سے بڑھ کر

 

وہ دل ہی کیا جو محبت سے آشنا نہ ہوا

سفینہ کیا وہ جسے بحرِ بیکراں نہ ملا

 

ہزار بار اسے ناکامیوں نے سمجھایا

مگر یہ دل تری الفت سے باز کب آیا

 

چاہ بھی کیا گناہ ہوتی ہے؟

میں گنہ گار، شرمسار نہیں

 

جہاں بھی دیکھا وہیں تجھ کو پایا جانِ وصال

تری نگاہ کا پرتو کہاں کہاں نہ ملا

شاعر نے ’حدیثِ عشق‘ اور ’حکایتِ غمِ دل‘ سا دہ لفظوں میں بیان کر دی ہے جس میں نہ تصنع ہے اور نہ غلو۔ بعض اشعار تو سہلِ ممتنع کی مثال پیش کر تے ہیں :

عشق میں اضطراب رہتا ہے

جی نہایت خراب رہتا ہے

 

کوئی اتنے دن تک خفا کیسے ہو گا

انھیں جائیں گے ہم کسی دن منانے

 

کبھی کبھی تو محبت سے ساز باز کرو

کسی کے ناز اٹھاؤ، کسی سے ناز کرو

 

ہر غنچہ دل گرفتہ ہوا سن کے میری بات

چھوڑو بھی، اب وہ قصہ سنایا نہ جائے گا

 

ہم اس شوخ سے کچھ توقع کریں بھی

مگر ٹھیک کیا بات مانے نہ مانے

خالص غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں حسنِ بیان بھی ہے اور روایتی علامتیں اور رمزو اشاریت بھی:

آج کہنا ہی پڑے گی دلِ مجبور کی بات

اس کے پردے میں کہیں گے بتِ مغرور کی بات

 

نیا جنوں ہے جو اپنا نئی جفا ہو گی

نہ جانے طرزِ ستم ان کی کیا سے کیا ہو گی

 

تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے

سامنے اک سراب رہتا ہے

 

مرحمت کا تری شمار نہیں

درد بھی بے حساب رہتا ہے

 

ابھی تو غنچۂ دل ہی کے منہ میں ہے وہ بات

مگر نسیمِ سحر ہے چمن میں فتنہ طراز

محبت میں انتظار کی گھڑیاں بھی آتی ہیں۔ انتظار میں عاشق کو ’’قرار‘‘ نصیب نہیں ہوتا، وہ  ’’سوگوار‘‘ رہتا ہے، اور اس کے دل کی ’’دھڑکنیں ‘‘ تیز تر ہوتی جاتی ہیں۔ ’دونیم‘ کے شاعر کا بھی انتظار میں کچھ یہی حال تھا:

تجھے بہار ملی مجھ کو انتظار ملا

اس انتظار میں لیکن کسے قرار ملا

 

ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے

مجھے گمان ہے کچھ اس کو انتظار سا ہے

 

وہ انتظار کہ آنکھوں نے آہٹیں سن لیں

وہ دھڑکنیں ہیں کہ ہوتیں نہیں کبھی مدھم

اِن اشعار کی معنویت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے ’ورودِ مسعود‘ میں نجمہ (جو مسعود حسین خاں سے منسوب ہو چکی تھیں ) سے شادی کے حوالے سے ان کا یہ جملہ پڑھا: ’’میں بھی انتظار سے عاجز آ چکا تھا‘‘ (ص126)۔ مسعود حسین خاں نے اکثر یہ کہا ہے کہ ’’میری شاعری اور میری زندگی میں گہرا ربط رہا ہے‘‘ (ایضاً، ص118)۔ اسی لیے ان کے عشقیہ جذبات سے مملو اشعار کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی شاعری روایتی شاعری نہیں ہے، بلکہ ذاتی تجربات پر مبنی ’شرحِ دل‘ ہے۔

مسعود حسین خاں کی شاعری محض عشقیہ جذبات کے اظہار اور وارداتِ قلبی کے بیان تک ہی محدود نہیں، بلکہ اس میں خارجی دنیا کے مسائل اور زمانے کا دکھ درد بھی ہے، نیز معاشرتی سطح پر ’دونیم‘ (دو ٹکڑے )ہوتی ہوئی زندگی کی جانب بلیغ اشارے بھی ہیں۔ ایک خاص مرحلے تک پہنچنے کے بعد ان کے شعری تجربے میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور ان کی شاعری ’’ذات‘‘ سے ’’کائنات‘‘ کی جانب سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سلیمان اطہر جاوید نے ان کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کی شاعر ی میں ’’رومانیت اور انقلاب کی لہریں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ انھوں نے جہاں رومانی موضوعات اور پیرایے کو اختیار کیا ہے، وہاں زمانے کے نشیب و فراز اور پیچ و خم پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے، اور بعض مواقع پر تو بہت کھل کر۔ ‘‘(21)

مسعود حسین خاں کے ذیل کے اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں عصرِ حاضر کی ابتری و انتشار اور حشر سامانی کا عکس نمایاں ہے:

سب حنا بندیِ نظر ہے مری

ورنہ عالم میں کچھ بہار نہیں

 

تجھی پہ کچھ نہیں موقوف اے دلِ محروم

جہاں بھی دیکھیے عالم میں انتشار سا ہے

مجھے تلاش نہیں ہے کہ ابنِ مریم ہو

مگر جہان میں کوئی تو ابنِ آدم ہو

 

بڑھے گا اور زمانے میں اضطرابِ خرد

مگر جنوں میں بھی گہرائیاں بڑھیں گی ابھی

 

گزر بھی جائیں گے اے جان یہ عذاب کے دن

بسے ہوئے ہیں تصور میں اک گلاب کے دن

 

میری افسردہ دلی گردشِ ایام سے ہے

لوگ کہتے ہیں محبت مجھے گلفام سے ہے

1947میں ملک آزاد ہوا، لیکن موجِ خوں سر سے گذر گئی۔ شاعر کے حساس دل نے اس کرب کو یوں محسوس کیا:

کیا کیا نہ سمجھیں، کیا کیا نہ سوچیں

کیا سن رہے تھے، کیا ہو رہا ہے

گھبرا گئے ہم رنج و الم سے

اے مالکِ غم کیا ماجرا ہے

 

کوئی سبیل نکالو کہ غم ذرا کم ہو

برنگِ لالہ جگر میں کبھی تو شبنم ہو

ہے بجلیوں کو اشارہ کہ ہم اسیروں پر

کھلیں جو بندِ سیاست تو بندشِ غم ہو

 

جو ارضِ پاک میں گذری ہمیں وہ سب معلوم

رِشی کے دیس میں لیکن بشر یہ کیا گذری

مسعود حسین خاں ایک سچے قوم پرست تھے، اور تا دمِ آخر وہ قوم پرست رہے۔ انھوں نے دو قومی نظریے کو رَد کر دیا تھا۔ وہ ملک کی تقسیم کے خلاف تھے۔ اسی لیے انھوں نے محمد علی جناح (1876-1948)کی سیاسی فکر کی تنقید کی تھی۔ وہ انگریزوں کو بھی ملک کی تقسیم کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور اسے ان کے لگائے ہوئے ’’داغ‘‘ سے تعبیر کرتے تھے:

دیارِ ہند سے جاتے ہوئے بتانِ فرنگ

وہ داغ دے گئے جس کا نہ کوئی مرہم ہو

مسعود حسین خاں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میرے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں آیا تھا کہ ملک ’دونیم‘ ہوسکتا ہے‘‘(ص124)، لیکن جو ہونا تھا سو ہوا۔ تقسیم کے بعد ملک چھوڑ کر جانے والوں کو انھوں نے یہ مشورہ دیا تھا:

کنارِ گنگ و جمن آپ چھوڑ کر مسعودؔ

کہیں نہ جائیں، نظر لاکھ ان کی برہم ہو

مسعود حسین خاں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ اور امریکہ بھی گئے۔ وہاں کے قیام کے زمانے میں انھیں اپنی غریب الوطنی اور تنہائی کا شدید احساس رہا۔ یہ احساس شعر کے سانچے میں ڈھل کر یوں برآمد ہوا:

پھر وہی شامیں سونی سونی، پھر وہی راتیں تیرہ و تار

کس نے کہا تھا پھول کھلے تھے، کس نے کہا آئی تھی بہار

 

ترے دیار میں کوئی بھی ہم زباں نہ ملا

ہزار نقش ملے کوئی راز داں نہ ملا

ادائے خاص ملی اور صلائے عام ملی

مگر کہیں بھی وہ اندازِ جانِ جاں نہ ملا

کسے سنائیں غزل بہرِ شرحِ دل مسعودؔ

کہ اس دیار میں کوئی بھی نکتہ داں نہ ملا

 

کہاں ہے تو مرے مشرق، بتا مرے مشرق!

عزیز جامِ سفالیں ترا، تری شبنم

 

نہ بام و در نہ فضائیں نہ آسماں ہم راز

مری نوا کو مگر اجنبی دیار ملا

 

                نظم نگاری

 

مسعود حسین خاں نے اپنی پہلی نظم ’’ماہِ تمام‘‘ 1945میں لکھی، لیکن اس سے پہلے وہ غزل گوئی کی جانب مائل ہو چکے تھے اور اس سے بھی پہلے وہ خاصی تعداد میں گیت لکھ چکے تھے۔ ان کی گیت نگاری کا سلسلہ تو 1948میں موقوف ہو چکا تھا، لیکن غزلیں وہ 1958تک لکھتے رہے تھے، اگرچہ آخری غزل انھوں نے ’’میری غزل‘‘ کے عنوان سے 1981میں لکھی تھی۔ ان کی نظم نگاری کا سلسلہ بھی 1981تک جاری رہا۔ درمیان میں اکثر انقباض کی صور ت بھی پیدا ہوتی رہی۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ انتقال سے تین سال قبل جب وہ اپنی بینائی کے کم زور ہو جانے کی وجہ سے شدید طور پر اداس اور افسردہ (Depressed)تھے تو انھوں نے ایسے عالم میں دل کو چھو لینے والی نظم ’’سخنِ واپسیں ‘‘ کہی جو پہلے ہفت روزہ ’ہماری ز بان‘(نئی دہلی) میں شا ئع ہوئی، پھر ماہنامہ ’سب رس‘ (حیدرآباد) میں چھپی۔ (22) علاوہ ازیں یہ نظم انھوں نے اپنے حلقۂ احباب میں بھی تقسیم کی۔ مسعود حسین خاں نے 1981تک کل 22نظمیں لکھیں۔ اگر ’’سخنِ واپسیں ‘‘ کو بھی شمار کر لیا جائے تو ان کی نظموں کی کل تعداد 23ہو جاتی ہے۔

غزلوں کی طرح مسعود حسین خاں کی نظمیں بھی ان کی زندگی کا عکس پیش کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ (طبعِ سوم) کے دیباچے ’’تمہیدِ شعر‘‘ میں لکھا بھی ہے کہ ’’شعر میرے لیے اپنی شخصیت کا بھرپور اور مؤثر اظہار ہے۔ ‘‘ انھوں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘ میں بھی اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ ’’میری شاعری میری زندگی ہے‘‘ (ص99)۔ اسی لیے انھوں نے اپنی یہ خود نوشت لکھتے وقت ’’جا بجا‘‘ اپنی شاعری کا سہارا لیا ہے اور کہا ہے، ع

مجھ سے ملنا ہے تو ’دو نیم‘ کے اشعار میں مِل(23)

مسعود حسین خاں کی ابتدائی نظموں میں ’’جمال‘‘ ایک خوبصورت نظم ہے جو انھوں نے نجمہ (جو ان سے منسوب ہو چکی تھیں ) کی یاد میں علی گڑھ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ نجمہ کا ذکر پہلے بھی آ چکا ہے۔ یہ 1946کی بات ہے کہ نجمہ سے ان کی نسبت طے ہو چکی تھی۔ مسعود حسین خاں اس زمانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد تھے اور وہاں تنہائی کی زندگی گزار رہے تھے۔ نجمہ ان کی ہونے والی بیوی ہی نہیں، ان کا ’’انتخاب‘‘ بھی تھیں۔ اس نظم کو انھوں نے ’’خراجِ محبت‘‘ کہا ہے۔ ’ورودِ مسعود‘میں ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’میں نے علی گڑھ کے صحرا میں بیٹھ کر نجمہ کی یا د کے دیے روشن کیے اور ’’جمال‘‘ کے عنوان سے اسے یہ خراجِ محبت پیش کیا۔ ‘‘(ص122)

اس نظم کے ابتدائی د و شعر دیکھیے:

کہاں سے آ گئیں رنگینیاں تمنا میں

کہ پھر خیال نے لالے کھلائے صحرا میں

تری نگاہ سے میری نظر میں مستی ہے

ترے جمال سے موجیں ہیں دل کے دریا میں

پوری نظم محبوب (خیالی محبوب نہیں !) کے حسن و جمال کا بیان ہے جس میں حسنِ بیان سے کام لیا گیا ہے۔ آخری شعر میں شاعر اس نتیجے پر پہنچتا ہے:

جمالِ یار لطیف، آرزو ہے اس سے لطیف

یہ آئی ہے، نہ وہ آئے گا حرفِ سادہ میں

 

نجمہ سے نسبت کے بارے میں انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں لکھا:

’’اِس نسبت کے بعد ایسا لگا کہ، ع

’عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا‘

زندگی میں ایک معنویت اور مرکزیت آ گئی اور شاعری میں وسعت۔ ‘‘(ص123)

ایک دوسری رومانی نظم ’’پرچھائیں کی موت‘‘ کا بھی مسعود حسین خاں کے وجود اور ذاتی تجربے سے گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک ایسی داستانِ عشق ہے جو مبنی بر حقائق ہے اور جس کی تفصیل ’ورودِ مسعود‘ میں انھوں نے خود بیان کر دی ہے (دیکھیے ص 115-18)۔ اس داستانِ عشق میں شاعر نے نہ تو کبھی اپنے محبوب کا چہرہ دیکھا اور نہ کبھی اس سے ملا اور بات کی     بس اس کی پرچھائیں اور صرف پرچھائیں ہی شاعر کا مقدر تھی، لیکن ایک طویل عرصے کے بعد شاعر تک جب یہ خبر پہنچی کہ ملک کی سرحدوں سے د ور وہ ابدی نیند سوگئی ہے تو شاعر ’’تھوڑی دیر کے لیے ساکت و صامت رہ گیا۔ ‘‘ اسی کے بعد 1979میں ’’پرچھائیں کی موت‘‘ کی تخلیق عمل میں آئی۔ اس نظم کی شانِ نزول کے با رے میں مسعود حسین خاں لکھتے ہیں :

’’میری ایک نظم ’’پرچھائیں کی موت‘‘ خالص رومانی ہے، لیکن اس کی تہہ میں واردات نقلی یا تخئیلی نہیں، اصلی اور واقعاتی ہے۔ اس ’پرچھائیں ‘ کو جو دیارِ غیر میں جا کر اب فنا ہو چکی ہے، پسِ مرگ بے نقاب کرنا میری کم ہمتی کی دلیل ہو گی۔ یہ ہمارے قدامت پرست معاشرے کی ایک ایسی پڑھی لکھی لڑکی کی داستان ہے جو خود اپنی آگ میں جل کر بھسم ہو گئی۔ یہ ایک راز ہے جس کا سربستہ رہنا ہی اب بہتر ہے۔ لیکن نظم کو پڑھیے گا تو بین السطور اس کی پوری کہانی سمجھ میں آ جائے گی۔ ‘‘(24)

نظم کے بعض اجزا ملاحظہ ہوں :

’’وہ پرچھائیں تھی

سیاہ برقع میں ملبوس ایک پرچھائیں

میرا روشن وجود جس کا برسوں تعاقب کرتا رہا

میری دزدیدہ نظریں جس کی سیہ نقاب سے

برسوں کشاکش میں مبتلا رہیں

تاکہ اس کے رخِ روشن کو بے نقاب کر سکیں

تاکہ اس کے خط و خال کو رنگوں کا غسل دے سکیں

لیکن سماج کو یہ منظور نہ تھا

میں جلتا رہا اور وہ کوئلہ بنتی رہی

اپنے انگاروں کی دباتی رہی!

وقت فاصلے میں تبدیل ہوتا گیا

بالآخر ایک دن وہ بھڑک اٹھی

اور اس کی زبان پر پہلی بار خدا کے بجائے میرا نام آ گیا؟

فاصلے بڑھتے گئے

وہ میری یادوں کے طاق کا گلدستہ بنتی گئی

لیکن میں اس کے روشن وجود میں سایہ بن کر داخل ہوتا گیا

دونوں بے خبر       لیکن دور ہو کر قریب

یکایک خبر کی بجلی ٹوٹی کہ چند سال پہلے وطن سے دور

وہ قبر کی تاریکیوں میں اتر گئی

’غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا‘

میری زبان پر پہلی بار خدا کا نام آ گیا!‘‘

(’دو نیم‘[طبعِ سوم]، ص 90-91)

’’انتظار‘‘ مسعود حسین خاں نے اپنے قیامِ لندن کے دوران میں 1950میں لکھی۔ یہ نظم انھوں نے سب سے پہلے لندن کے ادبی حلقے کے ماہانہ جلسے میں سنائی جس پر سامعین نے اظہارِ خیال کیا اور داد دی۔ اس جلسے میں جو لوگ موجود تھے ان میں منیب الرحمن، انور انصاری، اعجاز حسین بٹالوی، غلام عباس اور حفیظ جاوید کے نام خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ نظم مغرب کے حوالے سے نو آبادیاتی تناظر میں لکھی گئی ہے جس کی جانب نظم میں واضح اشارہ موجود ہے:

’’تھکی تھکی سی یہ شامیں سوادِ مغرب کی

میں رو رہا ہوں

کہ ان کی سحر نہیں معلوم

ہجومِ لالہ و گل

(داغہائے دل کہ نہ پوچھ!)

انھیں غرض ترے مشرق کی سر زمینوں میں ‘‘

مغرب کی نو آبادیاتی فکر نے تیسری دنیا کی سماجی قدروں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ شاعر کو انھی قدروں (کی بازیابی) کا انتظار ہے:

’’وہ انتظار جو بیگانۂ وفا نہ ہوا!

کھلی ہوئی ہیں وہ آنکھیں

کہ تھک چکی ہے نظر

مگر وہ شام و سحر مشعلیں جلائے ہوئے

تکا کریں یونہی محرابِ روز و شب کے پار

(کہ وقت شرما جائے)‘‘

’’فرنگی خزاں ‘‘1951میں پیرس میں لکھی ہوئی نظم ہے۔ مسعود حسین خاں جب پیرس پہنچے تھے تو اس وقت وہاں پت جھڑ یعنی Fallکا موسم شروع ہو چکا تھا اور درختوں کی پتیاں زرد ہو ہو کر زمیں بوس ہو رہی تھیں۔ بلند قامت درخت بے لباس اداس کھڑے تھے۔ یہ منظر بڑی اداسی اور افسردگی کا تھا۔ افسردگی کی وجہ یہ بھی تھی کہ سردی یخ بستہ ہواؤں کے ساتھ خزاں کا تیزی سے پیچھا کر رہی تھی۔ شاعر نے ان تاثرات کو اپنی متذکرہ نظم میں شاعرانہ حسن کے ساتھ پیش کیا ہے:

سونا اگل دیا ہے فرنگی خزاں نے آج

شرما دیا بہار کو زخمِ نہاں نے آج

بادِ سحر میں بڑھ گئیں کچھ سرد مہریاں

کیا بے رخی دکھائی ہے آبِ رواں نے آج

شبنم نے پھر بہار کے شعلے بجھا دیے

کیا تر جبیں کیا اسے بادِ خزاں نے آج

’’یومِ آزادی‘‘ 15اگست 1947کے موقع پر لکھی ہوئی نظم ہے جو اہلِ وطن کے لیے خوشی کا دن ہوتا ہے، لیکن شاعر کے خیال میں ملک کے نوجوانوں اور عورتوں کو وہ سب کچھ نہیں ملا جس کی انھیں توقع تھی۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے، ع

ایسی آزادی کا آیا نہ سمجھ میں مفہوم

مسعود حسین خاں نے اپنے بیٹے (جاوید حسین) کی ولادت پر 1950میں ایک نظم بہ عنوان ’’ننھا شاہکار‘‘ کہی تھی جس میں پدرانہ جذبات کو شعری اظہار کی صورت دی گئی ہے۔ یہ نظم اس Excitementکو منعکس کرتی ہے جو ایک شخص پہلی بار باپ بننے پر محسوس کرتا ہے۔

مجموعۂ کلام ’دونیم‘ (طبعِ سوم) میں چار ایسی نظمیں بھی شامل ہیں جن میں مسعود حسین خاں نے چار ایسے ’بچھڑنے والوں ‘ کو خراجِ عقیدت و محبت پیش کیا ہے جن سے ان کے نہایت قریبی دوستانہ مراسم تھے۔ پہلی نظم ’’اشعر کی موت‘‘ ہے جو انھوں نے اپنے عزیز شاگرد اور دوست اشعر ملیح آبادی کی یاد میں 1950میں لکھی۔ دوسری نظم انھوں نے ’’پیرِ مغانِ اردو‘‘ کے عنوان سے نصیر الدین ہاشمی کی یا د میں 1965میں لکھی۔ اپنے بزرگ دوست عمرالدین (سابق صدر، شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کی وفات پر بھی اسی سال ایک نظم لکھی اور ایک نظم نجیب اشرف مرحوم پر 1968میں لکھی جس میں ان کے اوصاف بیان کیے اور انھیں بڑی محبت سے یاد کیا۔ اس نظم کے دو اشعار درجِ ذیل ہیں :

حریمِ اردوئے بے کس کا پاسباں نہ رہا

ہزار حیف کہ اک پیرِ نوجواں نہ رہا

زبان روتی ہے، الفاظ سر پٹکتے ہیں

فغاں، کہ حرف و معانی کا اک جہاں نہ رہا

’دو نیم‘ میں شامل دوسری نظمیں، مثلاً ’’ماہِ تمام‘‘، ’’خوابِ سنگ‘‘، ’’وادیِ رنگ‘‘، ’’زندگی کا خلا‘‘، ’’مدینۂ آدم‘‘، ’’دیے جلاؤ ساتھیو!‘‘وغیرہ بھی فکری اعتبار سے لائقِ توجہ ہیں، لیکن یہاں زیادہ تفصیل کا موقع نہیں۔ مسعود حسین خاں کی ابتدائی غزلوں کی طرح ان کی ابتدائی دور کی نظمیں بھی ان کی شخصیت کا ’’بھرپور‘‘ اظہار ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسعود حسین خاں نے اپنے ادبی سفر میں کسی قسم کی گروہ بندی نہیں کی اور نہ وہ کبھی کسی گروہ میں شامل ہوئے۔ انھوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ’’میرا انفرادیت پسند ذہن ہر قسم کی گروہ بندی سے متنفر رہا ہے۔ ‘‘(25)انھوں نے اپنی شاعری میں بھی کسی کا تتبع نہیں کیا۔ وہ بعض شعرا سے متاثر ضرور ہوئے، مثلاً غالب، اقبال، ٹیگور وغیرہ یا ہندی کے بعض چھایا وادی گیت نگار۔ وہ میر، اصغر گونڈوی، حسرت موہانی اور فانی بدایونی کو بھی پسند کرتے تھے، بلکہ ان کے ’’دل دادہ‘‘ تھے۔ علاوہ ازیں فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی اور ن.م.راشد بھی ان کے پسندیدہ شعرا کی فہرست میں شامل تھے، (26) لیکن ان شعرا کا پرتو ان کی شاعری میں کہیں نظر نہیں آتا۔ انھوں نے راقم السطور کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک جگہ کہا ہے کہ ’’سیاست ہو کہ ادب، فلسفہ ہو کہ مذہب میرا ذہن ’تابعین‘ کی ذہنیت کبھی اختیار نہیں کرتا۔ اسی طرح افراد متاثر کرتے ہیں، مغلوب نہیں کر پاتے۔ ‘‘(27)

مسعود حسین خاں کی شاعری کا ابتدائی دور، ترقی پسند ادبی تحریک کے عروج کا زمانہ تھا، لیکن اس تحریک کی جانب ان کا رویہ ’’نوٹِس‘‘ نہ لینے کا رہا۔ وہ مارکس اور اسٹالن دونوں سے بیزار تھے، البتہ لینن کو پسند کرتے تھے۔ وہ خود کہتے ہیں :

’’مجھے نہ تو مارکس کی فکر اور نہ اسٹالن کی آمریت متاثر کر سکی… صرف لینن کی شخصیت سے میں متاثر رہا، لیکن نہ اس حد تک کہ وہ میرے خمیرِ شعر کا ہیرو بن سکے۔ ‘‘(28)

اس کے با وصف ان کی بعض نظموں، مثلاً ’’خوابِ سنگ‘‘، ’’دیے جلاؤ ساتھیو!‘‘، ’’ہند کی شبِ مہتاب‘‘، ’’وادیِ رنگ‘‘، وغیرہ میں ترقی پسند شاعری کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح رفعت سروش نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنی نظموں میں ’’اقبال کی فرہنگ‘‘ سے متاثر ہیں۔ (29)

فنی اعتبار سے اگر مسعود حسین خاں کی شاعری کو دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ انھوں نے ہیئت کا کوئی خاص تجربہ نہیں کیا، اور نہ زبان کے سلسلے میں کوئی جدت طرازی کی۔ انھوں نے شعر کی جو مسلمہ ہیئتیں ہیں انھی میں طبع آزمائی کی ہے اور فری ورس(Free Verse)کا بھی استعمال کیا ہے۔ ’’انتظار‘‘، ’’پرچھائیں کی موت‘‘ اور ہچکولے‘‘ (گیت) اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ بعض نظمیں آزاد مقفّیٰ انداز رکھتی ہیں، مثلاً ’’ماہِ تمام‘‘۔ قافیے کے بارے میں ان کا قول ہے کہ ’’قافیہ پیمائی میرا شعار نہیں۔ یہ نہیں کہ قافیہ کی رہبری سے محروم ہوں، لیکن بہرحال قافیے کو تنگ نہیں ہونے دیتا۔ ‘‘(30)

٭٭

 

                حواشی

 

۱       دیکھیے مسعود حسین خاں کی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ (پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1988)، ص 44-45۔

۲      دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو بہ عنوان ’’مسعود حسین خاں کا نظریۂ شعر اور شعری محرکات و اکتسابات (ایک گفتگو کی یاد داشت)‘‘، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘ از مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2012)، ص 201۔ [یہ انٹرویوسب سے پہلے سہ ماہی ’اردو ادب‘ (نئی دہلی) کی اشاعت 353، بابت جولائی، اگست، ستمبر2011میں شائع ہوا۔]

۳      مسعود حسین خاں، ’اردو ز بان اور ادب‘(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1983)، طبعِ اول (علی گڑھ، 1954)۔

۴      دیکھیے مسعود حسین خاں، ’دونیم‘ (مجموعۂ کلام)، طبعِ سوم (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2000)، ص 7۔

۵      دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص206۔

۶      ایضاً، ص208۔

۷      مسعود حسین خاں، ’اردو زبان اور ادب‘ (ایڈیشن 1983)، ص11۔ مسعود حسین خاں کے قول کے مطابق ’’خارجی محرکات کے تحت شراب، تمباکو، افیون اور منشیات آجاتی ہیں جن کا عادی شاعروں کا طائفہ ازل سے رہا ہے…داخلی محرکاتِ شعری…کا تعلق شاعر کی جبلّی اور جذباتی زندگی اور ذہنی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔ ‘‘ (ص11-12)۔

۸      ایضاً، ص 13۔

۹      دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص206۔

۱۰     ’چھایا واد‘ ہندی کی ایک ادبی اصطلاح ہے جس سے مراد ’رومانیت‘ (Romanticism)ہے۔ اس کا ارتقا ہندی شاعری کے ایک ’دبستان‘ کے طور پر 1918-1937کے دوران میں ہوا۔ اس کے نمائندہ گیت نگاروں میں جے شنکر پرساد، سوریہ کانت ترپاٹھی ’نرالا‘، سمترانندن پنت، اور مہا دیوی ورما کے نام لیے جاتے ہیں۔

۱۱      مسعود حسین خاں، ’دو نیم‘ (طبعِ سوم)، ص 9۔

۱۲     مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص 103۔

۱۳     دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص204۔

۱۴     گاندھی جی کے سانحۂ قتل پر مسعود حسین خاں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے اپنی خود نوشت ’درودِ مسعود‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بچپن سے میر ی عادت رہی ہے کہ موت پر بھی میرے آنسو نہیں نکلتے، لیکن 30جنوری کی رات کو مَیں دیر تک سسکیوں سے روتا رہا۔ ‘‘(ص126)۔

۱۵     دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص206۔

۱۶     ’’تشریحی نوٹ‘‘ کے لیے دیکھیے مسعود حسین خاں کے مجموعۂ کلام ’دو نیم‘ کا دوسرا ایڈیشن (1986)، ص182، اور تیسراایڈیشن(2000)، ص214۔

۱۷     دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص205۔

۱۸     ایضاً، ص 205۔

۱۹     ایضاً، ص 206۔

۲۰     ایضاً، ص 204۔

۲۱     دیکھیے سلیمان اطہر جاوید کا تبصراتی مضمون ’’دونیم‘‘، مطبوعہ روزنامہ ’سیاست‘ (حیدرآباد)، بابت 12فروری 2001۔ [یہ مضمون اِس اخبار کے ’ادبی ڈائری‘ کے کالم میں شائع ہوا]۔

۲۲     مسعود حسین خاں، ’’دمِ واپسیں ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’سب رس‘ (حیدرآباد)، بابت ما رچ 2007، ص22۔

۲۳    یہ مصرع راقم السطور کو مسعود حسین خاں کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ کے کسی بھی ایڈیشن میں نہیں ملا، اور ان کی خود نوشت سوانح حیات، ’ورودِ مسعود‘ (1988)میں بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ لیکن جب ’دونیم‘ کا تیسرا ایڈیشن 2000میں چھپ کر آیا تو مسعود حسین خاں نے از راہِ کرم اس کا ایک نسخہ مجھے عنایت فرماتے وقت اس کے اندرونی صفحے پر اپنے قلم سے یہ مصرع لکھ دیا اور دستخط کر دیے۔ یہ نسخہ تا دمِ تحریر میرے پاس محفوظ ہے۔

۲۴    دیکھیے مسعود حسین خاں کے مجموعۂ کلام ’دونیم‘ کے تیسرے ایڈیشن (2000)کا دیباچہ بہ عنوان’’طبعِ سوم‘‘، ص30-31۔

۲۵    دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص200۔

۲۶     ایضاً، ص201۔

۲۷    ایضاً، ص203۔

۲۸    ایضاً، ص200۔

۲۹     بہ حوالہ مکتوبِ رفعت سروش بنام مسعود حسین خاں، مورخہ 5فروری 2001۔ (اس خط کا عکس راقم السطور کے پاس محفوظ ہے)۔

۳۰    دیکھیے مسعود حسین خاں کا انٹرویو، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘، ص 208۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بابِ سوم: تنقید نگاری

 

مسعود حسین خاں تنقید نگار کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے تو وہ بنیاد گزار ہیں۔ ادبی تنقید کے ضمن میں اقبال پر ان کے مطالعات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے مصحفی، جوش اور اصغر گونڈوی کی شاعری پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ اپنے علمی سفر کے آغاز میں انھوں نے روایتی تنقید کا انداز اختیار کیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ وہ اس اندازِ نقد سے دور ہوتے گئے، اور امریکہ پہنچنے پر ان کے تنقیدی نظریے میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی۔ وہ اب ادب کے معروضی، تجزیاتی اور توضیحی مطالعے کی جانب مائل ہوئے اور لسانیات کے اطلاق کو ادب کے معروضی مطالعے کے لیے ضروری سمجھنے لگے۔ یہی اندازِ نقد ’اسلوبیات‘ یا ’اسلوبیاتی تنقید‘ کہلایا جو ادب کے داخلی، تاثراتی اور تشریحی اندازِ نقد کے بالکل برعکس ہے۔

 

                ادبی تنقید

 

مسعود حسین خاں نے اگرچہ اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا، لیکن اس کے ساتھ وہ علمی میدان میں بھی سرگرم رہے اور مختلف ادبی و لسانی موضوعات پر مضامین و مقالات لکھتے رہے۔ ان کے ابتدائی دور کے مضامین کا مجموعہ ’اردو زبان اور ادب‘ کے نام سے پہلی بار 1954میں شائع ہوا۔ اس کا موجودہ ترمیم شدہ ایڈیشن 1983میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا جس میں ان کے دس ادبی مضامین اور پانچ لسانی موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ ادبی مضامین میں سے چھے مضامین پانچ شاعروں (اقبال، جوش، مصحفی، اصغر گونڈوی، عظمت اللہ خاں ) پر ہیں اور چار مضامین مختلف ادبی و شعری موضوعات پر۔ علاوہ ازیں انھوں نے اقبال انسٹی ٹیوٹ، سری نگر (کشمیر) میں اپنے قیام کے دوران میں اقبال پر ایک مختصر کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(1983)لکھی جس پر انھیں 1984کا ساہتیہ اکادمی کا قومی اردو ایوارڈ ملا۔

مصحفی (1751-1824)کو بالعموم، اردو ادب کی تاریخ میں ایک شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، لیکن مسعود حسین خاں کے نزدیک مصحفی ’’نقاد شاعر‘‘ تھے جنھوں نے تذکرہ نویسی کے ذریعے نہ صرف اپنے ذوقِ انتخاب کا، بلکہ تنقیدی شعور کا بھی ثبوت دیا ہے۔ مصحفی کے فارسی اور اردو شعرا کے تین تذکرے ملتے ہیں۔ انھی کی مدد سے مسعود حسین خاں نے اپنے مضمون ’’مصحفی نقاد شاعر‘‘(1) میں مصحفی کے نظریۂ فن کا ’’خاکہ‘‘ تیار کیا ہے، پھر ان کی شاعری کو انھی کی پیش کردہ ’’تنقیدی کسوٹی‘‘ پر پرکھا ہے۔ مسعود حسین خاں کی یہ تنقیدی کاوش لائقِ ستائش ہے۔

شاعر نقادوں کے بارے میں مسعود حسین خاں کی رائے یہ ہے کہ ’’یہ نرے شاعر نہیں ہوتے، بلکہ انھیں تنقید کا بھی چسکا ہوتا ہے۔ ‘‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’فنِ شعر کے بارے میں سب سے گہری باتیں شاعر نقادوں ہی نے کہی ہیں۔ ‘‘ وہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شاعر نقادوں کے یہاں تنقید بہت کم ملتی ہے اور شعرا کے تذکرے اور انتخاب زیادہ، تاہم ان کے خیال میں ’’شعرا کے کلام پر رائے دیتے وقت وہ اپنے نظریۂ فن کے بارے میں بلیغ اشارات کر گئے ہیں۔ ‘‘ مصحفی کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ خود ساختہ اصولِ فن پر اپنے کلام کے بیشتر اور بہتر حصے میں عامل بھی رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی ’’تنقیدی کسوٹی‘‘پر پورے اترتے ہیں۔ (2)

مصحفی کے تذکروں سے ان کے نظریۂ فن کے بارے میں مسعود حسین خاں کو بہت سی باتوں کا علم ہوا جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاعر ’’بمقتضائے موزونیِ طبع‘‘ یعنی طبع یا طبیعت میں موزونیت کے تقاضے کے تحت شعر کہتا ہے۔ اگر اس کی طبیعت میں موزونیت نہیں ہے، یعنی اسے وزن کا احساس نہیں ہے تو وہ شعر نہیں کہہ سکتا۔ لہٰذا مصحفی کے نزدیک شاعر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ وزن کا احساس رکھتا ہو۔ ’’موزونیِ طبع ‘‘ ایک نوع کی تربیت و تہذیب چاہتی ہے جو کسی استاد کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے مصحفی نے اپنے تذکروں میں ’’فیضِ صحبتِ بزرگان‘‘ پر زور دیا ہے۔ اگر کسی کو استاد میسر نہ ہو تو وہ شعری تربیت سے محروم رہ جاتا ہے۔ مصحفی نے اپنے اس نظریے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی استادی سے نہ جانے کتنوں کو فیض پہنچایا اور ان کی شعری صلاحیتوں کی تربیت کی۔ لکھنؤ کے شاعرانہ ماحول میں اس کی اہمیت و افادیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔

مصحفی کے نظریۂ فن سے متعلق دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ تخیلی اسلوب کو ناپسند کرتے تھے۔ تخیلی اسلوب’’ معنی بندیِ تازہ‘‘ کی شکل میں امام بخش نا سخ (1776-1838) کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، چنانچہ مصحفی ان کے بھی خلاف تھے۔ مصحفی، شیخ محمد بخش واجد کے ’’اشعارِ خیالی‘‘ کو بھی ناپسند کرتے تھے جن کے دو شعر یہاں نقل کیے جاتے ہیں :

لکھا ہے ہر غزل میں مَیں نے مضموں چشمِ گریاں کا

بجا ہے گر ہو تارِ اشک سے شیرازہ دیواں کا

حذر مینائے دل کو کیوں نہ ہو ان نرم رویوں سے

رگِ سنگِ صنم ہر تار ہے زلفِ پریشاں کا

مصحفی اس قسم کے چیستانی اسلوب کو ہرگز پسندنہیں کرتے تھے اور اس کے شدید مخالف تھے۔ ان کا یہ نظریہ ان کے تنقیدی شعور کا آئینہ دا ر ہے جس پر وہ خود عمل پیرا رہے، چنانچہ اس اندازِ تغزل سے ان کی شاعری ہمیشہ ’’عاری‘‘ رہی۔ مسعود حسین خاں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مصحفی معنی آفرینی کے قائل ہیں، لیکن ’معنی بندی‘ کے نہیں۔ وہ شعر محض خیال کی آرائش کے لیے نہیں کہتے۔ شعر ان کے لیے نہ تو بال کی کھال نکالنا ہے اور نہ خارجیت پرستی… نہ صرف زمینوں کے لیے وہ متقدمین کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں، بلکہ معنوی اعتبار سے بھی غزل گوئی کی معراج یہی سمجھتے ہیں کہ ’’شعر را سا دہ سادہ می گوید‘‘ … مصحفی نے اپنے کلام کے بہترین حصے میں لفظ پرستی اپنا شعار نہیں کیا، اور نہ خیال بندی کو کمالِ فن جانا۔ ‘‘(3)

مسعود حسین خاں مثال کے طور پر مصحفی کے درجِ ذ یل اشعار پیش کرتے ہیں :

ترے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا

کبھی اس سے بات کرنا، کبھی اس سے بات کرنا

 

مصحفی آج تو قیامت ہے

دل کو یہ اضطراب کس دن تھا

 

خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا

ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا

مصحفی شب جو چپ تو بیٹھا تھا

کیا تجھے کچھ ملال تھا کیا تھا

 

چمن میں آنے کی اس گل کے ہے خبر شا ید

جو مضطرب سی ہے بادِ صبا سحر سے آج

مصحفی نے اپنے تذکروں میں ’’معانی‘‘ پر زور دینے کے ساتھ ساتھ ’’مہارتِ تام‘‘ کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے جو مشق سے آتی ہے۔ ان کے تذکروں میں ’’کلام شستہ‘‘، ’’شعر درست‘‘ اور ’’زبان با مزہ و شیریں ‘‘ کی تراکیب بھی ملتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں زبان و ہیئت کی درستی، نرمی، رچاؤ اور مٹھاس کا کتنا شدید احساس تھا۔ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ’’خود مصحفی کے کلام میں جو نرمی اور گھلاوٹ ہے وہ زبان کے صوتی پہلوؤں کے احساس کے بعد آئی ہے۔ کلام میں موسیقیت اور رچاؤ اسی وقت آتا ہے جب شاعر ہیئت اور الفاظ پر برسوں غور و فکر کرے۔ ‘‘(4)

مسعود حسین خاں نے جوش ملیح آبادی (1898-1982)کی شاعری پر بھی تنقیدی نظر ڈالی ہے۔ انھوں نے جوش کی شاعری کے دو پہلو بیان کیے ہیں۔ یہ دونوں پہلو ان کی شاعری میں اس طرح ہم دگر ہیں کہ انھیں بہ یک وقت شاعرِ انقلاب بھی کہا جا سکتا ہے اور شاعرِ شباب بھی۔ مسعود حسین خاں نے اپنے مضمون ’’جوش ملیح آبادی‘‘ میں جوش کی شاعری کے ان دونوں پہلوؤں کا بڑی تنقیدی بصیرت کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔ ان کے مطابق ’’اس انقلاب و شباب کو بہم کرنے والا خود جوش کا وہ عجیب و غریب ذہن ہے جو بہ یک وقت نرمی و سختی، لطافت و کثافت، جلال و جمال اور غفاری و قہاری کا حامل ہے۔ اس کی توجیہہ کسی حد تک خود جوش کے افغانی نسلی امتیازات اور اس لکھنوی معاشرت سے کی جا سکتی ہے جس میں ان کی پرورش ہوئی ہے۔ ‘‘(5)

جوش نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’روحِ ادب‘(1921)کے دیباچے میں اپنے ’’مزاج کی بنیادی سختی‘‘ اور ’’لہجے کی درشتی‘‘ کا ذکر کیا ہے جس سے ان کے باغیانہ تیور کا پتا چلتا ہے۔ یہی باغیانہ تیور آگے چل کر انقلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے، لیکن مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ ’’جوش انقلابی نہیں، باغی ہیں ‘‘، کیوں کہ انھوں نے پہلے اپنے خاندان سے بغاوت کی، پھر حکومت اور سماج سے بغاوت کی، پھر خدا سے بغاوت کر بیٹھے۔ (6) جوش انقلابی رہے ہوں یا باغی، ان کی قومی اور وطنی شاعری سے انکار نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ بہ قولِ مسعود حسین خاں جوش نے اپنی قومی شاعری میں ’’تحریکِ آزادی کی شد و مد کے ساتھ ہم نوائی کی‘‘، نیز وہ تحریکِ آزادی کے ’’نقیب‘‘ بھی رہے ہیں۔ (7)

جوش کی جمالیاتی شاعری (جسے ’شبنمی شاعری‘ بھی کہتے ہیں ) کا محور غزل ہے، اور ان کے تغزل کے بنیادی عناصر ’’شبابیات اور خمریات‘‘ سے مرکب ہیں جسے انھوں نے ’’جدید رنگِ تغزل‘‘ سے تعبیر کیا ہے:

دل رسم کے سانچے میں نہ ڈھالا ہم نے

اسلوبِ سخن نیا نکالا ہم نے

لیکن مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ ’’غزل کے بارے میں جوش کا یہ دعویٰ صحیح نہیں، محض تعلّی ہے۔ ‘‘ جوش کی غزل گوئی کے بارے میں وہ مزید لکھتے ہیں :

’’وہ [جوش]خود کو نہ تو غزل کی ہمہ گیر روایات سے بچا سکے اور نہ غزل میں کسی اسلوب کے بانی ہیں۔ ان کی رندی اور سرمستی میں وہ والہانہ کیفیت نہیں جو جگر کے یہاں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک رئیس زادے کی رندی اور سرمستی ہے جس میں مستی کم اور بدمستی زیادہ ہے۔ ‘‘(8)

مسعود حسین خاں کے خیال میں جوش ’’اچھی غزل‘‘ نہ لکھ سکے، اور جو غزلیں انھوں نے لکھیں ان میں ’’ان کا اپنا لہجہ نہیں ملتا‘‘:

’’نظموں کی طرح جوش کی غزلوں میں ان کا اپنا لہجہ نہیں ملتا۔ وہ لہجہ جو میر، غالب، حسرت، فانی اور اصغر کی شاعرانہ شخصیتوں کی پہچان کراتا ہے۔ جوش کے اچھی غزل نہ لکھنے کا سبب شاید یہ بھی ہو کہ وہ لکھنؤ کے لالہ زاروں میں پلے تھے۔ غزل کے لیے جس قدر سپردگی، رقت اور خود میں ڈوب جانے کی ضرورت ہے وہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔ کاوش سے غزل نہیں بنتی، لیکن کاوش لکھنوی شعرا کی طرح جوش کے مزاج کا بھی خمیر معلوم ہوتی ہے۔ غزل میرے خیال میں اترتی بھی نہیں ہے، یہ پھوٹتی ہے اور پھوٹنے کے لیے جوش کا دل سطح در سطح نہیں۔ وہ پہلی بات پھر یاد رکھیے کہ جوش کے مزاج میں ایک بنیادی سختی ہے۔ وہ ایک چٹان ہیں، جس سے سوتے نہیں پھوٹ سکتے!‘‘(9)

مسعود حسین خاں کو جوش کی غزلیں ’’حد درجہ پھیکی ‘‘معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جوش کی غزلیں ’’فکر و تخیل کے افلاس‘‘ کی غمازی کرتی ہیں۔ موضوع کی یکسانیت اور قندِ پارسی کی زیادتی کی وجہ سے ہی جوش کی بیشتر غزلیں حد درجہ پھیکی معلوم ہوتی ہیں۔ مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ جوش فارسی کی ترشی ترشائی ترکیبوں پر اکتفا کرتے ہیں، مثلاً حسنِ مجاز، محرمِ سوز و گداز، شمیم عنبر افشاں، غارت گرِ ایماں، گلشن بکف، خلد بداماں، کاکلِ پیچاں، گل بیز، گل افشاں، گوہر بار، وغیرہ۔ اس قسم کی تراکیب سے نہ تو رس ٹپکتا ہے اور نہ رنگ، بلکہ اکثر اوقات گہرے اور سچے جذبات ان خوش نما اور خوش رنگ ترکیبوں کے ڈھیر میں تربت بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ادب میں اسلوب کا یہ انداز فکر و تخیل کے افلاس کا غماز ہوتا ہے۔ (10)

جوش کے ذہنی سفر میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جب وہ ’فطرت‘ (Nature)سے بہت قریب ہو جاتے ہیں۔ مسعود حسین خاں اسے ’’گریز‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جو ’’انھیں دامنِ فطرت میں کھینچ کر لے جاتا ہے۔ ‘‘ جوش نے خود بھی اس کا اعتراف کیا ہے:

چھوڑ کر انسان کو فطرت کا شیدا ہو گیا

خوبیِ قسمت کہ فوراً ربط پیدا ہو گیا

جوش نے اس زمانے میں بہت خوب صورت نظمیں لکھیں جن میں منظر نگاری کے دل کش مرقعے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسعود حسین خاں نے اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ’’جوش کی فطرت پرستی کا اصل پس منظر میرانیس کی منظر نگاری ہے۔ ‘‘ اس کے با وصف انھیں جوش کو فطرت کا اچھا شاعر تسلیم کرنے میں تامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’جس طرح جوش انقلاب کے صحیح مفہوم سے ہمیشہ نا آشنا رہے اسی طرح نبضِ فطرت کو بھی دل کی دھڑکنوں سے ہربار ہم آہنگ نہ کر سکے… مشاہدہ کی باریکی اور تشبیہ و استعارہ کی ندرت کی وجہ سے وہ منظر نگار تو بن گئے، پیغمبرِ فطرت نہ بن سکے۔ یہ ان کی عام ذہنی سطح کے مطابق بھی ہے۔ وہ شاعری کے کوہسار پر کسی بھی رُخ سے یلغار کریں ایک خاص بلندی سے اوپر نہیں جا سکتے۔ ‘‘(11)

جوش کی شاعری کے بارے میں مسعود حسین خاں نے جہاں سخت تنقیدی رویہ اختیار کیا ہے وہیں ان کے کلام کی قدر و قیمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ جوش پر اپنے متذکرہ مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’جدید شعرا میں جوش کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنے ہر دورِ شاعری میں مختلف ادبی تحریکات کا سنگم رہے ہیں۔ وہ رومانی اور قومی شاعری کے درمیان بہ طور ایک کڑی آتے ہیں۔ قومی اور عہدِ جدید کی اشتراکی شاعری کا نقطۂ اتصال بھی ان کی شاعری میں ملتا ہے، لیکن کسی جگہ بھی انھوں نے اپنا باغیانہ آہنگ نہیں کھویاہے۔ وہ جدید اردو شاعری کے ایک وسیع میدان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ‘‘ مسعود حسین خاں نے جوش کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’وہ منزل بہ منزل آگے بڑھتے رہے، ہر دور میں دوسروں سے آگے رہے، اپنے کو منواتے رہے۔ ‘‘ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’پچھلی نسل میں اقبال کو چھوڑ کر جوش ہی واحد شاعر ہیں جن کا ذہنی ارتقا مسلسل ہوتا رہا ہے…یہی جوش کی عظمت کا راز ہے۔ ‘‘

اصغر گونڈوی(1884-1936)کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مسعود حسین خاں نے اپنے مضمون ’’اصغر گونڈوی‘‘(12) میں ان کی شاعری کو ’’نیم صوفیانہ شاعری‘‘ کہا ہے۔ اسی مضمون میں ایک جگہ انھوں نے اصغر کی شاعری کو ’’ماورائی شاعری‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’میں نے اصغر کی شاعری کو ماورائی بالقصد کہا ہے۔ صوفیانہ شاعری ہو کہ عشقیہ، اصغر کہیں بھی واردات میں مبتلا نظر نہیں آتے۔ ایک فاصلہ ہے جو ان کے اور واردات کے درمیان ضرور نظر آئے گا۔ اسی فاصلے کی وجہ سے ان کے کلام میں کمال درجہ کی شگفتگی آ گئی ہے۔ یہ شگفتگی براہِ راست اس بے لاگی سے پیدا ہوتی ہے جو شاعر اور اس کی واردات کے مابین ہے … بیسویں صدی کے غزل گو شعرا کو لے لیجئے۔ حسرت مبتلائے واردات ہیں، فانی کشتۂ واردات، جگر اس سے مخمور ہیں، لیکن اصغر محض چٹخارے لیتے ہیں اور دور کھڑے رہتے ہیں۔ ‘‘(13)

اصغر گونڈوی کی شاعری کے موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ یہ ایک ’’محدود اور مخصوص دنیا‘‘ ہے۔ اصغر کی غزل کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ’’خلش ہائے روزگار‘‘ کی متحمل نہیں، کیوں کہ اصغر غمِ روزگار کو بھی غم جاناں میں تبدیل کر لیتے ہیں، مثلاً:

 

مجھ کو نہیں ہے تابِ خلش ہائے روزگار

دل ہے نزاکتِ غمِ لیلیٰ لیے ہوئے

اصغر کی شاعری کو مسعود حسین خاں نے ’’بے افادہ شاعری‘‘(14) کہا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاعری کسی افادی پہلو(Utilitarian Aspect)کو پیشِ نظر رکھ کر کی جاتی ہے؟ اس کا مقصد تو جمالیاتی حظ(Aesthetic Pleasure)   بہم پہنچانا ہوتا ہے!

اس میں کوئی شک نہیں کہ اصغر کی شاعری پر تنقیدی سرمایے کی کمی ہے۔ اصغر پر مسعود حسین خاں کا مضمون بھی محض سات صفحات میں سمٹ کر رہ جاتا ہے، تاہم اصغر اور ان کی شاعری کے تعلق سے انھوں نے بعض گہری باتیں لکھ دی ہیں جن پر مزید تنقید و تحقیق کی ضرورت ہے۔ ذیل میں اصغر پر ان کے متذکرہ مضمون سے ان کی چند تنقیدی آراء پیش کی جاتی ہیں :

’’اصغر ایک غلط زمانے میں پیدا ہوئے۔ جب وہ اپنی نیم صوفیانہ شاعری میں مشغول تھے، زمانہ تیزی سے کروٹیں بدل رہا تھا۔ ‘‘(ص115)

’’اصغر کی شاعری کے اصل مآخذ ہماری سماجی زندگی کے تڑپتے ہوئے مسائل نہیں۔ اس کے سرچشمے اس انفرادیت پسند ذہن سے پھوٹتے ہیں جس کے پس منظر میں ولی، خواجہ میر درد، میر، آتش اور غالب کے افکار تھے۔ ‘‘(ص116)

’’اصغر نے دو عظیم جنگوں کے درمیان شاعری کی ہے۔ اردو ادب کے لیے یہ زمانہ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اس دور میں ہماری شاعری کے قلب و قالب دونوں بدلے ہیں۔ غزل بھی ایک نئے مزے سے آشنا ہوئی، لیکن اصغر کے ماحول، ان کی یک طرفہ علمیت، اور طرفہ طبیعت نے شاعری اور زندگی کے درمیان ہمیشہ ایک خلیج حائل رکھی۔ ‘‘(ص116)

’’ان کے کلام میں نفسانیت کیا، حسیت تک نہیں ملتی۔ بوسہ و لب ان کے یہاں معدوم ہے۔ صرف رنگِ رخسار کا تذکرہ ملتا ہے۔ ممکن ہے یہ لکھنوی اندازِ شاعری کے خلاف ردِ عمل ہو… اس رجحان کو مزید تقویت اصغر کی صوفیانہ طبیعت سے ملی ہے جو بے حجابی کو بھی حجاب بنا لیتی ہے۔ بہرحال جب غزل میں حسن و عشق کی رسیلی باتوں کو بھی نہ آنے دیا جائے اور غمِ روزگار سے بھی اجتناب کیا جائے تو اس میں عارفانہ انداز کا آ جانا لازمی بات ہے۔ ‘‘(ص118)

’’ان کے یہاں جگر اور حسرت کی بہ نسبت فکر کا عنصر زیادہ ہے۔ وہ فانی سے دور ہوتے ہوئے بھی ان سے قریب ہیں۔ ‘‘(ص118)

’’اصغر نے غزل کی فرہنگ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا، البتہ پرانے نگینوں کے اَن چھوئے پہلوؤں کو اردو غزل میں شاید آخری بار اُجاگر کیا ہے۔ ‘‘(ص119)

مسعود حسین خاں کے مجموعۂ مضامین ’اردوزبان اور ادب‘ میں اقبال (1877 -1938)پر ان کے دو مضامین ملتے ہیں : (1’’اقبال (ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو!)‘‘، اور (2 ’’فلسفۂ اقبال پر تنقیدی اشارے‘‘۔ اول الذکر مضمون میں انھوں نے فکراِقبال کے تضاد کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس سے اس کی تنقیص مقصود نہیں۔ ان کے خیال کے مطابق فلسفۂ جدید میں تصورِ تضاد محمود ہے، نہ کہ نامحمود۔ ‘‘(15)

اقبال صحیح معنیٰ میں ایک دانش ور تھے۔ ان کا مطالعہ اور علم بہت وسیع تھا۔ انھوں نے نہ صرف مشرقی افکار کا غائر مطالعہ کیا تھا، بلکہ مغربی فکر و فلسفے سے بھی ان کی واقفیت بہت گہری تھی۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے فلسفے سے تصورات کی خوشہ چینی ہی سے اپنی ایک نئی فکر کی تشکیل کی تھی جس کی بنیاد، بہ قولِ مسعود حسین خاں، ’’تعلیماتِ اسلامی‘‘ تھی۔ انھوں نے اقبال کی اس نئی فکر کو ’’مرکب فلسفہ‘‘ کہا ہے جس کی کئی سطحیں ہیں، لیکن ان کے خیال کے مطابق ’’ہر سطح پر اقبال کا اجتہادی نقطۂ نظر قائم ہے۔ ‘‘ ان سطحات پر فکرِ اقبال کے تضادات کو بہ خوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ اقبال کے افکار کی پہلی سطح مابعد الطبیعیاتی ہے، دوسری سطح ان کا تصورِ کائنات ہے، تیسری سطح ان کا سماجی فلسفہ ہے اور چوتھی سطح کا تعلق ان کے سیاسی نظریات سے ہے۔ ان تمام سطحات پر اقبال کے فکری تضادات کا تجزیہ مسعود حسین خاں نے بڑی دقتِ نظر کے ساتھ کیا ہے۔ آخر میں وہ لکھتے ہیں :

’’اقبال کے متضاد افکار کا سرچشمہ ہندی مسلمانوں کی یہی زندگی ہے جو ہندیت اور اسلامیت، مشرقیت اور مغربیت، عجم کے حسنِ طبیعت اور عرب کے سوزِ دروں سے مل کر بنی ہے۔ ہماری تاریخ کے صرف چند موڑوں پر ان عناصر میں اعتدال ملتا ہے۔ اقبال کے افکار اس اعتدال سے عاری ہیں۔ ‘‘(16)

متذکرہ کتاب میں شامل اقبال پر اپنے دوسرے مضمون’’فلسفۂ اقبال پر تنقیدی اشارے‘‘ میں مسعود حسین خاں نے پہلی جو بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ فلسفۂ اقبال ’’خودی کا فلسفہ‘‘ ہے۔ د وسری بات وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’خودی کا فلسفہ ہونے کی حیثیت سے یہ اثباتِ حیات کا فلسفہ ہے۔ ‘‘ تیسری بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ فلسفہ اقبال نے ’’مغرب‘‘ سے لیا ہے۔ مسعود حسین خاں کہتے ہیں کہ اس فلسفے کو اقبال نے ’’اپنی فطرت کے عین مطابق‘‘ پایا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال نے اسلام میں اس کا ’’جواز‘‘ پایا۔ ان کا یہ بیان بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’اس سے آج کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اقبال اسلام تک ایک دور دراز راستے سے پہنچے ہیں۔ ‘‘(17) مسعود حسین خاں کے متذکرہ مضمون میں بعض فلسفیانہ اصطلاحات کا ذکر با ر بار ملتا ہے، نیز مغربی فلسفیوں کانٹ(1724-1804)، شو پنہار (1788-1860)، نیٹشے (1844-1900)، برگساں (1859-1941)، وغیرہ کا بھی ذکر آتا ہے جس سے یہ مضمون کافی عالمانہ ہو گیا ہے۔

اقبال کے فلسفۂ خودی کا ذکر اقبال پر مسعود حسین خاں کی ایک دوسری کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ (1983)میں بھی ملتا ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے در اصل اقبال کی فکر سے زیادہ ان کے فن پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جتنا تنقیدی سرمایہ ان کی فکر پر جمع ہو گیا ہے، اس کی بہ نسبت ان کے فن پر توجہ کم کی گئی ہے، متذکرہ کتاب کے دو حصے ہیں : (1 اقبال کی نظری شعریات، اور (2 اقبال کی عملی شعریات۔ اقبال کی نظری شعریات کے تین ذیلی حصے کیے گئے ہیں : (الف) اقبال کا تصورِ حسن و فن ’خودی‘ سے پہلے، (ب) اقبال کا تصورِ فن و شعر ’خودی‘ کے بعد، (ج) اقبال کا تصورِ شعر۔ کتاب کے دوسرے حصے اقبال کی عملی شعریات کے بھی تین ذیلی حصے ہیں جن کا ذکر بعد میں آئے گا۔

اقبال کے تصورِ شعر کو مسعود حسین خاں ان کے تصورِ حسن و فن سے ماخوذ بتاتے ہیں، چنانچہ اقبال کے تصورِ شعر کو سمجھنے کے لیے ان کے تصورِ حسن و فن کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ جب اقبال 27-28سال کی عمر (1905)میں یورپ گئے تو وہ ’وجودی‘ تھے۔ مسعود حسین خاں نے خلیفہ عبدالحکیم کے حوالے سے لکھا ہے کہ یورپ کے دورانِ قیام میں بھی اقبال پر ’وحدتِ وجود‘ کا نظریہ طاری تھا۔ (18)اقبال کے تصورِ حسن سے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ خدا یا ہستیِ مطلق کو ’حسنِ مطلق‘ سمجھتے تھے جس کا موجودات کے تمام مدارج اور مظاہر میں بہ فرقِ مراتب ظہور ہوتا ہے۔ صوفیہ کے عقیدے کے مطابق ’حسنِ مطلق‘ ہمہ گیر ہوتا ہے، چنانچہ اقبال کہتے ہیں، ع

بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

(’بانگِ درا‘)

’حسنِ مطلق‘ کو اقبال نے ’حسنِ ازل‘ بھی کہا ہے:

حسنِ ازل سے پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے

(’’جگنو‘‘)

’حسنِ مطلق‘ اور اس کی ہمہ گیری سے متعلق اقبال کے خیالات ان کی وجودی فکر کے زمانے کے ہیں جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 1905میں کیمبرج پہنچے تھے۔ وہاں سے وہ جرمنی گئے اور 1908میں وطن واپس لوٹے۔ اسی دوران میں ان کی فکر میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی اور وہ وجودی فکر کے دائرے سے نکل کر فلسفۂخودی کے زیرِ اثر آ گئے۔ مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ وجودی فکر سے خودی کے فلسفے تک جو تبدیلی اقبال کے ذہن میں رونما ہوئی اس میں جرمنی کے حیات پرست مفکرین فشٹے (1762-1814)اور نیٹشے (1844-1900)کے افکار کا خاصا دخل ہے۔

مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ’’اقبال کا تصورِ فن مکمل طور پر ان کے تصورِ خودی کے تابع ہے۔ ‘‘(19)فلسفۂ خودی کے جمالیاتی مضمرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا تعلق ان کے تصورِ فن سے بھی ہے جس میں جلال و جمال کے تصورات کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ مسعود حسین خاں کے خیال کے مطابق اقبال جلال اور جمال دونوں کو حسن کی صفت مانتے ہیں، یا بہ الفاظِ دیگر دونوں حسن کے دو مظاہر ہیں، ایک قوت و جبروت اور قہاری و جباری سے عبارت ہے اور دوسرا لطافت و نزاکت سے۔ (20)اقبال کو مسجدِ قرطبہ میں دونوں کی جھلک نظر آئی:

تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل

(’’مسجدِ قرطبہ‘‘)

مسعود حسین خاں کہتے ہیں کہ ’’اس جلال و جمال دونوں کا سرچشمہ ’خودی‘ ہے۔ ‘‘(21) اقبال کے تصورِ خودی اور تصورِ حسن و فن سے بحث کرنے کے بعد انھوں نے اقبال کے تصورِ شعر کا بھی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق اقبال ’’فن برائے زندگی‘‘ کے قائل تھے۔ وہ شعر کو محض الفاظ کی بازی گری نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے ’’وہبی اور ودیعی‘‘ تصور کرتے تھے۔ اقبال کا نظریۂ شعر کسی منطقی فکر کا نتیجہ نہیں، بلکہ ’’مقصدی‘‘ فکر کا زائیدہ تھا۔ ملکۂ شعر کے بارے میں اقبال کا خیال یہ تھا کہ یہ پیہم ریاضت کا طالب ہے۔ مسعود حسین کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’شعر و فن کے مقاصد میں حقیقت پسند ہونے کے باوجود، اقبال کا شعر و فن کا فلسفہ خالص وجدانی ہے۔ ‘‘(22)

 

                اسلوبیاتی تنقید

 

’اسلوبیات‘(Stylistics)، اطلاقی لسانیات(Applied Linguistics)کی ایک شاخ ہے جس میں ادب کا مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اسے ’اسلوبیاتی تنقید‘ بھی کہتے ہیں۔ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید در اصل لسانیاتی مطالعۂ ادب ہے جس میں لسانیاتی طریقِ کار سے کام لیتے ہوئے لسانیات کی مختلف سطحوں (صوتی، صرفی، نحوی، معنیاتی) پر ادبی فن پا رے کے اسلوبی خصائص (Style-features)کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اسلوبیاتی تجزیے میں نہ تو تاثرات اور ذاتی پسند و ناپسند اور وجدان سے کام لیا جاتا ہے اور نہ اقداری فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہ خالص معروضی تجزیہ ہوتا ہے جس میں ادبی فن پارے یا متن (Text)کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اسلوبیات کا لسانیات سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ لسانیات سے کماحقہٗ واقفیت کے بغیر اسلوبیاتی تنقید سے انصاف نہیں کیا جا سکتا۔

اسلوبیاتی تنقید مسعودحسین خاں کی علمی دل چسپی کا خاص میدان رہا ہے۔ اسلوبیات سے انھیں دل چسپی اس وقت پیدا ہوئی جب انھوں نے یورپ کی دانش گاہوں میں لسانیاتِ جدید(Modern Linguistics)کی اعلیٰ تربیت حاصل کی۔ وہ سب سے پہلے 1950میں لندن پہنچے جہاں انھوں نے اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز (لندن یونیورسٹی) کے شعبۂ لسانیات سے منسلک رہ کر لسانیات و صوتیات کی تربیت حاصل کی۔ اگلے سال وہ فرانس گئے اور دو سال بعد 1953میں پیرس یونیورسٹی سے لسانیات میں ڈی.لٹ (D.Lit رعر شا شا … اردو و )کی ڈگری حاصل کی۔ لسانیات میں اعلیٰ تربیت حاصل کرنے کے باعث ہی ان کا ذہن معروضی اور تجزیاتی طرزِ فکر کا حامل بن گیا تھا۔ وہ تخیل اور وجدان کے مقابلے میں مشاہدے اور تجربے کو اہمیت دینے لگے تھے، نیز ادب کے مطالعے میں وہ معروضی، توضیحی، اور تجزیاتی طریقِ کار کو پسند کرنے لگے تھے۔ ’مقالاتِ مسعود‘ (1989)میں وہ ایک جگہ لسانیاتی مطالعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اس میں سائنسی اندازِ فکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبہ و تخیل کی دنیا سے نکل کر انسان تعقلی استدلال اور منطقی فکر کو اپنائے۔ ‘‘ (ص179)

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسعود حسین خاں ادب اور لسانیات کو ’’ہم دگر‘‘ دیکھنا چاہتے تھے اور لسانیات سے جو علمی بصیرت حاصل ہوتی ہے اس سے وہ ادب کے مطالعے میں فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے اور زبان ہی کے سائنسی مطالعے کا نام ’لسانیات‘ ہے، لہٰذا ادب کے لسانیاتی مطالعے کا وافر جواز پایا جاتا ہے۔

مسعود حسین خاں مطالعۂ ادب کے داخلی، تاثراتی اور وجدانی انداز کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ ناقدینِ ادب کے بلند بانگ دعووں اور مبالغہ آمیز تعمیمات سے بیزار ہو چکے تھے اور تنقید کے خالص داخلی و سوانحی رنگ کو بے جا تصور کرتے تھے۔ اسی طرح خالص ذوقی اور وجدانی تنقید بھی ان کے لیے کارِ عبث تھی۔ اپنے اس نظریے کا اظہار انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘(1988)میں ایک جگہ یوں کیا ہے:

’’میں ادبی تنقید کی نعرے بازی اور قولِ محال سے بیزار تھا       ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں، مقدس وید اور دیوانِ غالب‘‘، ’’غزل اردو شاعری کی آبرو ہے۔ ‘‘ جن فقروں پر لوگ سر دُھنتے تھے، میری سمجھ میں ان کا مفہوم نہیں آتا تھا۔ میں زیادہ سے زیادہ انھیں انشا پردازی کہہ سکتا ہوں، ادبی تنقید ہرگز نہیں۔ ان سے مجھے لطف مل سکتا ہے، بصیرت نہیں ملتی۔ جہاں تک قدماء کے مشاہدات کا تعلق ہے ان میں کچھ جان پاتا تھا، لیکن ہر سطح پر علوم کے حوالے سے ان کی نئی تشریحات کی ضرورت محسوس کرتا۔ بیان و بلاغت کی کتب میں ’حرف‘ کا تصور اس طرح چھایا رہا ہے کہ ’صوت‘ کا کہیں پتا نہیں چلتا، حالاں کہ حرف تو صرف جامہ ہے، زبان کی جان تو صوت ہوتی ہے۔ ‘‘(ص180)

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسعود حسین خاں روایتی تنقید کے داخلی اور تاثراتی انداز سے مطمئن نہ تھے اور ایک ایسے تنقیدی رویّے کی تلاش میں تھے جس میں ادب اور لسانیات کا امتزاج پایا جاتا ہو، اور جو معروضی اور تجزیاتی طرز کا حامل ہو، چنانچہ اسلوبیاتی مطالعۂ ادب کی تحریک صحیح معنی میں انھیں اس وقت ملی جب انھوں نے امریکہ کی ٹیکسس یونیورسٹی (آسٹن) کے انگریزی اور لسانیات کے استاد آرکی بالڈ اے. ہِل(1902-1992)کے لکچرز میں شرکت کی۔ اس امر کا ذکر مسعود حسین خاں نے ’ورودِ مسعود‘میں ان الفاظ میں کیا ہے:

’’پروفیسر ہل کے لکچروں میں، جن میں مَیں پابندی سے حاضری دیتا تھا، وہی پایا جس کی مجھے تلاش تھی، یعنی لسانیات اور ادب کو کس طرح ہمدگر کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘(ص179-80)

مسعود حسین خاں کو مشہور امریکی ماہرِ سماجی لسانیات جان جے.گمپرز (1922 -2013)کی تحریک پر 1958میں امریکہ کی ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (Association of South Asian Studies)کی جانب سے ’سینیر فیلوشپ‘ تفویض ہوئی تھی جس کے تحت انھوں نے ٹیکسس یونیورسٹی (آسٹن) اور ہارورڈ یونیورسٹی میں قیام کے دوران میں لسانیات اور اسلوبیات میں اعلیٰ تربیت حاصل کی۔ ٹیکسس یونیورسٹی میں انھوں نے مشہور ماہرِ اسلوبیات آر کی بالڈ اے. ہل(Archibald A. Hill)جو انگریزی اور لسانیات کے استاد تھے، کے لکچرز میں شرکت کر کے اسلوبیاتی طریقِ کار کا علم حاصل کیا اور ہارورڈ میں رہ کر وہ ادب پر لسانیات کے اطلاق کے با رے میں غور و خوض کرتے رہے اور اپنے مطالعے کو وسعت دیتے رہے۔ اپنی سینیر فیلوشپ کے اختتام کے بعد وہ جان جے.گمپرز(John J. Gumperz)ہی کی دعوت پر 1959میں برکلے چلے گئے جہاں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں ان کا تقرر وِزِٹنگ ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ایک سال کے لیے ہو گیا۔ وہاں بھی وہ ز بان اور ادب کے رشتوں پر غور کرتے رہے اور اسلوبیات سے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہے۔ اگلے سال (1960)وہ ہندوستان واپس آ گئے۔

مسعود حسین خاں نے امریکہ سے ہندوستان واپس آنے پر اردو میں اسلوبیاتی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مضامین میں انھوں نے اسلوبیاتی طریقِ کار کو واضح کیا اور مطالعۂ ادب کے لسانیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈا لی، نیز مصنف کے احوال و کوائف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے فن پارے کی مرکزیت کو تسلیم کیا اور لسانیات کی ہر سطح پر اسلوبیاتی تجزیے کے امکانات بیان کیے اور مثالیں پیش کیں۔ ان کے یہ تجزیے معروضی اور توضیحی اہمیت کے حامل ہیں، روایتی ادبی تنقید کی طرح داخلی اور تاثراتی نہیں۔

مسعود حسین خاں نے پہلا اسلوبیاتی مضمون بہ عنوان ’’مطالعۂ شعر (صوتیاتی نقطۂ نظر سے)‘‘ 1962کے آس پاس لکھا اور آخری اسلوبیاتی مضمون بہ عنوان ’’اسلوبیات‘‘ 2002 میں تحریر کیا۔ گویا چالیس سال کے عرصے تک وہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کو فروغ دینے کا کام سر انجام دیتے رہے۔ جس وقت انھوں نے اردو میں اسلوبیاتی موضوع پر مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس وقت نہ تو کوئی اسلوبیات سے واقف تھا اور نہ اسلوبیاتی تنقید سے۔ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کو متعارف کرانے کا سہرا صحیح معنی میں مسعود حسین خاں ہی کے سر ہے۔ وہ بلا شبہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گزار ہیں۔ انھوں نے اردو میں نہ صرف ایک نئے دبستانِ تنقید کی بنیاد ڈالی، بلکہ ایک پوری نسل کی ذہنی تربیت کا کام بھی انجام دیا، اور اپنے شاگردوں کی ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے ان سے تحریک پاکر اسلوبیاتی موضوعات پر مضامین لکھے اور کتابیں شائع کیں، اور ان کی قائم کردہ علمی روایت کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ممتاز ناقد سلیم اختر لکھتے ہیں :

’’پروفیسر مسعود حسین خاں بنیادی طور پر ماہرِ لسانیات ہیں …مگر انھوں نے محض لسانیات پر تکیہ کرنے کے برعکس ذہنی جستجو کا سفر جاری رکھا جس کا اظہار متنوع سوچ کی حامل تحریروں کی صورت میں ہوا۔ اسلوبیات سے دل چسپی بھی ذہنی جستجو کے اسی عمل کا مظہر ہے، بلکہ بھارت میں تو اسے یونیورسٹی میں تدریسی سطح تک لے آنے کا سہرا بھی ان ہی کے سر بندھا ہے، اور اگر ڈاکٹر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ جیسے شاگردوں کو اسلوبیات کی راہ پر لگا دیا تو گویا ان کی کاوش با ثمر ہوئی۔ ‘‘(23)

مسعود حسین خاں نے بھی اپنے دونوں شاگردوں مغنی تبسم(1931-2012)اور راقم السطور کا ذکر اپنے ایک مضمون میں ان الفاظ میں کیا ہے:

’’صوتیاتی سطح پر تجزیے کے اس انداز کو میرے دو شاگردوں پروفیسر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ نے اپنی تحریروں میں آگے بڑھایا۔ مغنی تبسم کا فانی کی شاعری کا تجزیہ اور ’’غالب کی شاعری بازیچۂ اصوات‘‘ قابلِ ذکر ہیں اور مرزا خلیل احمد بیگ صاحب کا مضمون ’’شعری اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ (فیض اور اقبال کی نظمیں ’ تنہائی‘)‘‘ اس قسم کے تجزیے کی اچھی مثالیں ہیں۔ ‘‘(24)

جیسا کہ مذکور ہوا، چوں کہ ادب کا ذریعۂ اظہار ز بان ہے، اس لیے ادب کی تخلیق میں زبان جو ر ول یا کردار ادا کرتی ہے اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ زبان کی اسی کارکردگی یا رول کے مطالعے کو لسانیاتی مطالعۂ ادب کہا گیا ہے۔ اسی کا دوسرا نام اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید ہے۔ مسعود حسین خاں اس نظریۂ تنقید کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اس کا اندازہ ان کے درجِ ذیل بیان سے بہ خوبی کیا جا سکتا ہے:

’’لسانیاتی مطالعۂ شعر، در اصل شعریات کا جدید ہیئتی نقطۂ نظر ہے۔ لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ جامع ہے، اس لیے کہ یہ شعری حقیقت کا کلی تصور پیش کرتا ہے اور قدماء کے مشاہدات اور اصطلاحاتِ ادب کو سائنسی بنیاد عطا کرتا ہے۔ لسانیاتی مطالعۂ شعر صوتیات کی سطح سے ابھرتا ہے اور ارتقائی صوتیات، تشکیلیات، صرف و نحو اور معنیات کی پر پیچ وادیوں سے گذرتا ہوا ’اسلوبیات‘ پر ختم ہو جاتا ہے۔ ‘‘(25)

وہ آگے چل کر اس کے اور بھی اہم نکات بیان کرتے ہیں :

’’لسانیاتی مطالعۂ شعر میں نہ تو فن کار کا ماحول اہم ہوتا ہے اور نہ خود اس کی ذات۔ اہمیت در اصل ہوتی ہے اس فن پارے کی جس کی راہ سے ہم اس کے خالق کی ذات اور ماحول دونوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ‘‘(26)

مسعود حسین خاں نے اسلوبیاتی تنقید کی نہ صرف نظری بنیادیں (Theoretical Foundations)فراہم کی ہیں اور اس کی مبادیات سے روشناس کرایا ہے، بلکہ اردو شعر و ادب کے حوالے سے اسلوبیاتی تجزیے بھی پیش کیے ہیں۔ جہاں تک کہ اسلوبیاتی تنقید کے نظری مباحث کا تعلق ہے، ان کے ذیل کے مضامین خصوصی اہمیت کے حامل ہیں :

1      ’’مطالعۂ شعر : صوتیاتی نقطۂ نظر سے۔ ‘‘(27)

2      ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر۔ ‘‘(28)

3      ’’ادب میں اسلوب کی اہمیت۔ ‘‘(29)

4      ’’تخلیقی زبان۔ ‘‘(30)

5      ’’اسلوبیات۔ ‘‘(31)

مسعود حسین خاں نے اسلوبیاتی تنقید کے جو نمونے پیش کیے ہیں ان میں شعر کے صوتی تجزیوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے غالب، اقبال اور فانی بدایونی کے کلام کے صوتی آہنگ کا بڑی باریک بینی کے ساتھ تجزیہ کیا ہے جس سے ان شعرا کے شعری آہنگ کی لسانیاتی بنیادوں کا پتا چلتا ہے اور ان کے کلام کی انفرادیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ شعری تجزیوں سے متعلق مسعود حسین خاں کے قابلِ ذکر مضامین یہ ہیں :

1      ’’کلامِ غالب کے قوافی و ردیف کا صوتی آہنگ۔ ‘‘(32)

2      ’’کلامِ غالب کے صوتی آہنگ کا ایک پہلو۔ ‘‘(33)

3      ’’اقبال کا صوتی آہنگ۔ ‘‘(34)

4      ’’فانی کا صوتی آہنگ: ایک غزل کا لسانیاتی تجزیہ۔ ‘‘(35)

مسعود حسین خاں نے اسلوبیاتی تنقید کے شعری نمونوں کے علاوہ نثری نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے حسبِ ذیل تین مضامین کا پتا چل سکا ہے:

1      ’’غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت۔ ‘‘(36)

2      ’’خواجہ حسن نظامی: زبان اور اسلوب۔ ‘‘(37)

3      ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش۔ ‘‘(38)

مسعود حسین خاں نے امریکہ سے واپسی کے بعد گذشتہ 40سال (1962 -2002) کے دوران میں بے شمار اسلوبیاتی مضامین لکھے جن میں سے بعد از تلاشِ بسیار صرف متذکرہ بارہ مضامین ہی کا پتا چل سکا ہے۔ ان کے اس نوع کے متعدد مضامین پرانے رسائل میں دبے پڑے ہوسکتے ہیں، جنھیں ڈھونڈ نکالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں !

 

                اسلوبیاتی تجزیے

 

جیساکہ مذکور ہوا، مسعود حسین خاں نے اسلوبیات کی نظری بنیادیں (Theoretical Foundations) فراہم کرنے کے علاوہ اسلوبیاتی تجزیے بھی پیش کیے ہیں جن میں غالب، اقبال، فانی بدایونی وغیرہ کے کلام کے تجزیے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے بعض نثری تجزیے بھی کیے ہیں۔ ذیل میں ان تجزیوں کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

مسعود حسین خاں نے اقبال کے کلام اور ان کے فلسفے، نیز فکر و فن کا نہایت باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔ وہ ان کی شاعرانہ عظمت کے ہمیشہ قائل رہے ہیں، چنانچہ اقبال پر اپنی کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(1983) کے پہلے حصے ’’اقبال کی نظری شعریات‘‘ میں انھوں نے ان کے تصورِ فن و شعر پر، ان کے فلسفۂ خودی کے حوالے سے، تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، لیکن اس کتاب کے دوسرے حصے ’’اقبال کی عملی شعریات‘‘ میں انھوں نے اقبال کی لسانی صلاحیت اور شعور، نیز صوتی آہنگ اور ہیئتی تجربے سے بڑی عالمانہ بحث کی ہے اور ان کی دو نظموں ’’ایک شام (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر)‘‘ اور ’’حقیقتِ حسن‘‘کا صوتی سطح پر اسلوبیاتی تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔

مسعود حسین خاں نے ’’ایک شام‘‘ کے تجزیے سے یہ ثابت کیا ہے کہ شعری پیکر میں ’’صوت و معنی‘‘ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس نظم میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شا م کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ ‘‘(39)ان کے تجزیے کے مطابق اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں چھے بار آیا ہے۔ یہ لفظ پانچ اصوات یعنی صوتیوں (Phonemes)کو ترکیب دینے سے بنا ہے جویہ ہیں :خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس نظم کی کلیدی اصوات ہیں جنھیں غالب اصوات (Dominant Sounds)بھی کہتے ہیں۔ انھیں اصوات کی مدد سے اقبال نے ماحول کی خاموشی اور قدرتی مظاہر و مناظر میں پائے جانے والے سکوت و سکون کی بڑی کامیابی کے سا تھ عکاسی کی ہے۔

مسعود حسین خاں نے اقبال کی جس دوسری نظم کا صوتی تجزیہ پیش کیا ہے وہ ’’حقیقتِ حسن‘‘ ہے۔ ان کے قول کے مطابق اقبال نے اس نظم میں ’’اردو اصوات کے وہ تانے بانے بن دیے ہیں کہ خیال اور حسنِ صوت ایک ہو گئے ہیں۔ ‘‘ انھوں نے اس نظم کے کلیدی لفظ کا تعین ’’حسن‘‘ کیا ہے اور کلیدی اصوات ح+س+ن اور پیش بر ’ح‘ بتائی ہیں۔ ان کے خیال میں اس نظم کا لہجہ ’’حزنیہ‘‘ ہے جس کی عکاسی ؍ن؍ کی 21بار تکرار سے ہوتی ہے۔ ؍ن؍ کی الم انگیز صوتی کیفیت کو نظم کی دوسری انفی آواز ؍م؍ اور غنیّت (Nasalization)کی تائید حاصل ہے جو تکرار کے ساتھ اس نظم میں موجود ہیں۔

اقبال کے لسانی شعور اور صوتی آہنگ کا محاکمہ کرتے ہوئے مسعود حسین خاں ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(1983) میں لکھتے ہیں :

’’اقبال نہ لفظ پرست شاعر ہیں اور نہ ’صوت پرست‘۔ ان کی شاعری کے بہترین حصوں میں لسانیات کی پانچوں سطحات   صوتیات، صوتیہ یات، تشکیلیات (صرف)، نحو اور معنیات مکمل طور پر برآمد ہوتی ہیں۔ اس طرح کہ صوت لفظ کا ساتھ دیتی ہے اور لفظ صرف و نحو کا، اور سب مل کر معنی و مفہوم کا جو شاعر کا اصل مقصود ہوتا ہے… اقبال ایک محتاط فن کار ہیں۔ انھیں نہ صرف اردو کی تذکیر و تانیث کی فکر رہتی تھی اور نہ صرف اردو محاورے اور روزمرے پر نظر رکھتے تھے، بلکہ اردو فارسی شاعری کے وسیع مطالعے اور اپنے ذوقِ موسیقی کی بدولت الفاظ کی صوتی قدرو قیمت کا پورا احساس تھا، اور وہ جہاں چاہتے تھے اس کو کمال کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ ‘‘(ص79)

مسعود حسین خاں نے اپنے ایک مضمون(40) میں اردو کلامِ غالب کے قافیوں اور ردیفوں کے صوتی آہنگ کا دل چسپ اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس مطالعے کے لیے انھوں نے جو مواد لیا ہے وہ متداول دیوانِ غالب کی معروف اور منتخب غزلیں ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں ’’صوتی نقطۂ نظر سے سب سے اہم اور نازک مقام قافیے اور ردیف کا نقطۂ اتصال ہے، ‘‘ کیوں کہ قافیے اور ردیف کی ’’چولیں بٹھانا‘‘ کوئی آسان کام نہیں۔ (41)

غزل کے حوالے سے قافیے اور ردیف کے سلسلے میں مسعود حسین خاں کے مشاہدات حسبِ ذیل ہیں :

ہر ردیف ہر قافیے سے تال میل نہیں رکھتی۔

قافیے کی چولیں بٹھاتے وقت شاعر کے ذہن کو رد و قبول کی سخت آزمائش سے گذرنا پڑتا ہے۔

قافیے میں تنوع کی گنجائش ملتی ہے۔

ردیف کی شکل مقررہ ہوتی ہے اور اس کی تکرار ضروری ہوتی ہے۔

ردیف ایک لفظ بھی ہوسکتی ہے اور ایک فقرہ بھی۔

ردیف جس قدر طویل ہوتی ہے قافیے سے اس کا ہم آہنگ کرنا اسی قدر مشکل ہوتا ہے۔

ان عمومی باتوں یا عام مشاہدات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ کلامِ غالب کے قوافی و ردیف کے صوتی آہنگ کے تجزیے کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا طریقِ کار یہ رہا ہے کہ پہلے وہ مواد (Data)اکٹھا کرتے ہیں (جو کلامِ غالب کی شکل میں انھیں دست یاب ہے)، پھر اس کے تمام قافیوں اور ردیفوں کا صوتی سطح پر تجزیہ (Analysis)کرنے کے بعد اعداد و شمار تیار کرتے ہیں، اس کے بعد نتائج (Findings)تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان نتائج سے غالب کے صوتی آہنگ کے طریقِ کار پر روشنی پڑتی ہے۔ ‘‘(42)

مسعود حسین خاں کا یہ طریقِ کار خالص مشاہداتی (Observational)ہے، قیاسی (Speculative)نہیں، اور اس حوالے سے سائنٹفک بھی ہے کہ سائنس کی بنیاد مشاہدے پر قائم ہے، نہ کہ قیاس پر۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر اسلوبیاتی مطالعے یا تجزیے کے لیے مواد یا متن کا ہونا ضروری ہے، یہاں تخیل سے کام نہیں لیا جا سکتا۔

اس تجزیے سے مسعود حسین خاں جو نتائج اخذ کرتے ہیں وہ نہایت دل چسپ ہیں، مثلاً یہ کہ غالب ردیف کی موسیقیت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ردیف کی تکرار اور پابندی سے غزل میں شدتِ تاثر اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے جس سے انھوں نے بھرپور کام لیا ہے، اور قافیے اور ر دیف کے درمیان عام طور پر صوتی گرہ کامیابی کے ساتھ لگائی ہے۔ اس کی چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں :

1 مصوتوں (Vowels)کا ردیف کے پہلے جزو کے مقابلے میں قافیوں کے اختتام پر آنا، مثلاً:

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی                  (۱/ک)

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے          (ا/ک)

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں        (ا/ک)

2 قوافی و ردیف کے صوتی اتصال میں غنّے (Nasalization)کا استعمال، مثلاً:

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا    (اں /ن)

ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے

میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے     (اں /م)

3 ارتعاشی مصمتہ(Tirll)، یعنی /ر/ کا دیگر مصمتوں (Consonants)کے ساتھ اتصال، مثلاً:

حیراں ہوں دل کو پیٹوں کہ روؤں جگر کو میں (ر/ک)

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر          (ر/ک)

منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی            (ر/ک)

4 ایک مصوتے (Vowel)کی گرہ دوسرے مصوتے کے ساتھ نہیں لگتی۔ بہ قولِ مسعود حسین خاں ’’غالب نے اس قسم کی ناکام کوشش صرف چار جگہ کی ہے اور ثقالتِ صوتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ‘‘(43)مثلاً :

عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا                    (ا/آ)

ہم سے کھل جاؤ بہ وقتِ مے پرستی ایک دن  (ی/اے)

کوئی دن گر زندگانی اور ہے           (ی/او)

مسعود حسین خاں کے نثری تجزیے بھی اسلوبیاتی تجزیے کی بہترین مثالیں ہیں۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش‘‘(44) میں نیازکی نثر کے ’اسلوبی خصائص‘ (Style-features)سے مع مثالوں کے تفصیل سے بحث کی ہے۔ یہ خصائص اسلوب کی سطح پر ان کی انفرادیت کے ضامن ہیں۔ مسعود حسین خاں نے نیاز کی نثر کا وصفِ خاص ’’الفاظ میں تخیل کی کشیدہ کاری‘‘ بتایا ہے جس سے ان کا سارا ادب بھرا پڑا ہے۔ تخیل کی کشیدہ کاری کا یہ کام نیاز نے ’’اچھوتی تشبیہات اور استعارات‘‘ کے ذریعے انجام دیا ہے۔ نیاز کے ادبی اسلوب کی جاذبیت کا ذکر کرتے ہوئے مسعود حسین خاں نے بجا طور پر ان کی نثر میں پائے جانے والے ’’وزن‘‘ پر زور دیا ہے جو بہ قول ان کے ’’کچھ مصوتوں اور مصمتوں کے تانے بانے سے بنتا ہے اور کچھ جملوں کے درو بست سے۔ ‘‘نثر کے اس اسلوب کے ڈانڈے جس میں وزن ’’صوتی آرکسٹرا‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے، شعر سے جاملتے ہیں۔ (45)نیاز کا یہ نثر پارہ دیکھیے:

’’راجپوتوں کی لڑکیاں ہیں بلند و بالا، صحیح و توانا، تیوریاں چڑھی ہوئی، گردنیں تنی ہوئی، آنکھوں میں تیر، مانگوں میں عبیر، ابروؤں میں خنجر، بالوں میں عنبر، ہاتھوں میں مہندی، ماتھے پر بندی، اب آپ سے کیا کہوں کیا چیز ہیں۔ ‘‘(46)

نثری اسلوب کے تجزیے سے متعلق مسعود حسین خاں کا ایک اور مضمون ’’خواجہ حسن نظامی: زبان اور اسلوب‘‘(47)ہے۔ مسعود حسین خاں نے خواجہ حسن نظامی کو بعض لحاظ سے ’’دہلی کی زبان‘‘کا سب سے اچھا نمائندہ کہا ہے، لیکن ان کے اسلوب کو ’’خانقہی اسلوب‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے، کیوں کہ انھوں نے دہلی کی زبان میں بے شمار ایسے الفاظ اور تراکیب داخل کیے ہیں جن کا تعلق خانقاہ اور صوفیانہ مسلک سے تھا۔ (48)

بہ قولِ مسعود حسین خاں خواجہ حسن نظامی کے اسلوب میں رنگینی و رعنائیِ خیال کی کمی ہے، لیکن قافیہ اور وزن ان کی نثر کا ایک اہم وصف ہے۔ وہ رعایتِ لفظی سے بھی کام لیتے ہیں جس کی چند مثالیں یہ ہیں :

’’برسات وہ اچھی جس میں بَر ساتھ ہو۔ ‘‘

(’سی پارۂ دل‘، ص10)

اپنا چِت چِتا کی سلگتی آگ میں لگا۔ ‘‘

(’سی پارۂ دل‘، ص148)

خواجہ حسن نظامی کے نثری اسلوب کی ایک خصوصیت مسعود حسین خاں کے خیال میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے عربی و فارسی الفاظ کے علاوہ ہندی اور ہندو مت کے تہذیبی الفاظ بھی برمحل استعمال کیے ہیں جس سے ان کے انفرادی ذہن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے جدت پسند ذہن نے اسلوب میں کئی اختراعات کیے، لیکن ’’دِلّی کی اصل زبان‘‘کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔

مسعود حسین خاں نے فانی بدایونی کی ایک نمائندہ غزل کا بھی صوتیاتی تجزیہ کیا ہے۔ (49)اس غزل کا مطلع یہ ہے:

دَیر میں یا حرم میں گذرے گی

عمر تیرے ہی غم میں گذرے گی

انھوں نے اس تجزیے سے یہ واضح کر دیا ہے کہ شاہکار شعری تخلیقات میں نہ صرف لفظ و معنیٰ ہم آہنگ ہوتے ہیں، بلکہ اس کا سلسلہ اصوات تک پہنچتا ہے جو بالذات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ انھوں نے فانی کی متذکرہ غزل کے تجزیے کے بعد اس کا کلیدی لفظ ’’غم‘‘ بتایا ہے اور کلیدی آواز’’م‘‘ کی نشان دہی کی ہے جو ایک انفی آواز ہے، اور اس غزل میں کثرت سے واقع ہوئی ہے۔ مسعود حسین خاں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کا صوتی تانا بانا غزل کے المیہ موڈ سے ہم آہنگ ہے۔ (50)

٭٭

 

                حواشی

 

1      مسعود حسین خاں، ’’مصحفی نقاد شاعر‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘ از مسعود حسین خاں

(علی گڑھ :ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1983)، ص102114۔

2      تفصیلات کے لیے دیکھیے ایضاً، ص102105۔

3      ایضاً، ص110111۔

4      ایضاً، ص112۔

5      مسعود حسین خاں، ’’جوش ملیح آبادی‘‘، مشمولہ’ اردو زبان اور ادب‘، ص81۔

6      ایضاً، ص88۔

7      ایضاً، ص 8995۔

8      ایضاً، ص 86۔

9      ایضاً، ص 87۔

10    ایضاً، ص 8687۔

11    ایضاً، ص85۔

12    مسعود حسین خا ں، ’’اصغر گونڈوی‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘، ص11522۔

13    ایضاً، ص11617۔

14    ایضاً، ص 117۔

15    مسعود حسین خاں، ’’اقبال( ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو!)‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘، ص56۔

16    ایضاً، ص68۔

17    مسعود حسین خاں، ’’فلسفۂ اقبال پر تنقیدی اشارے‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘، ص6970۔

18    مسعود حسین خاں، ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، 1983)، ص13۔

19    ایضاً، ص36۔

20    ایضاً، ص34۔

21    ایضاً، ص34۔

22    تفصیل کے لیے دیکھیے ایضاً، ص 4346، اور ص60۔

23    سلیم اختر، ’’مسعود حسین خاں بہ حیثیتِ نقاد(’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ کی روشنی میں )‘‘، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ(علی گڑھ: تعلیمی مرکز، 1989)، ص16465۔

24    مسعود حسین خاں، ’’لسانیاتی اسلویبات اور شعر‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’آج کل‘ (نئی دہلی)، بابت جون 1991، ص 4۔

25    مسعود حسین خاں، ’’مطالعۂ شعر(صوتیاتی نقطۂ نظر سے)‘‘، مشمولہ ’مقدماتِ شعر و زبان‘ از مسعود حسین خاں (حیدرآباد، 1966)، ص16۔

26    ایضاً، ص18۔

27    مشمولہ ’مقدماتِ شعر و زبان‘ازمسعود حسین خاں (حیدرآباد، 1966)۔

28    مطبوعہ ماہنامہ ’آج کل‘ (نئی دہلی)، بابت جون 1991۔

29    مطبوعہ پندرہ روزہ ’آواز‘(نئی دہلی)، بابت یکم مارچ 1983۔

30    مطبوعہ پندرہ روزہ ’آواز‘ (نئی دہلی)، بابت یکم دسمبر 1986۔

31    مطبوعہ مجلہ ’اطلاقی لسانیات‘ (شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)، شمارہ 12، بابت20022003۔

32    مشمولہ ’اردو میں لسانیاتی تحقیق‘، مرتبہ عبدالستار دلوی (بمبئی: کوکل اینڈ کمپنی، 1971)۔

33    مطبوعہ ماہنامہ ’آج کل‘ (نئی دہلی)، غالب نمبر، بابت فروری 1969۔

34    مشمولہ ’مقالاتِ مسعود‘ از مسعودحسین خاں (نئی دہلی: ترقیِ اردو بیورو، 1989)۔

35    مشمولہ ’تحفۃ السرور‘، مرتبہ شمس الرحمن فاروقی (نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، 1985)۔

36    مشمولہ ’غالب: فکر و فن‘ (گورکھپور: شعبۂ اردو، گورکھپور یونیورسٹی، 1970)۔

37    مطبوعہ روزنامہ ’قومی آواز‘(نئی دہلی)، بابت 4مارچ1984۔

38    مطبوعہ رسالہ ’نگارِ پاکستان‘ (کراچی)، بابت فروری1987۔

39    مسعود حسین خاں، ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(1983)، ص7980۔

40    مسعود حسین خاں، ’’کلامِ غالب کے قوافی و ر دیف کا صوتی آہنگ‘‘، مشمولہ ’اردو میں لسانیاتی تحقیق‘، مرتبہ عبدالستار دلوی(بمبئی: کوکل اینڈ کمپنی، 1971)، ص35461۔

41    ایضاً، ص354۔

42    ایضاً، ص355۔

43    ایضاً، ص35657۔

44    مسعود حسین خاں، ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)۔

45    ایضاً، ص 76۔

46    نیاز فتح پوری، ’مکتوباتِ نیاز‘(حصہ اول)۔

47    مسعود حسین خاں، ’’خواجہ حسن نظامی: زبان اور اسلوب‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘ (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997ئ)۔

48    ایضاً، ص 80-81۔

49    مسعود حسین خاں، ’’فانی کی ایک غزل کا صوتیاتی تجزیہ‘‘ مشمولہ ’مقالاتِ مسعود‘ (نئی دہلی: ترقیِ اردو بیورو، 1989)۔

50    ایضاً، ص150۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بابِ چہارم: لسانیاتی تحقیق

 

                نظریۂ آغازِ زبانِ اردو

 

لسانیاتی تحقیق کے میدان میں مسعود حسین خاں کا سب سے اہم اور قابلِ قدر علمی کارنامہ اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق ان کا وہ لسانی نظریہ ہے جس کی وجہ سے انھیں ایک ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ اس نظریے کی رو سے ’’حضرتِ دہلی‘‘ اردو کا ’’حقیقی مولد و منشاء‘‘ ہے، اور ’’دہلی و نواحِ دہلی کی بولیاں ‘‘ اس کا ’’اصل منبع اور سرچشمہ‘‘۔ یہ اردو کے آغاز کا سب سے قابلِ قبول نظریہ(Most Acceptable Theory)ہے جسے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی چیلنج نہیں کیا جا سکا۔

اس نظریے کی تشکیل سے قبل اردو کے کئی عالم اور بعض مغربی مصنّفین بھی اردو کے آغاز کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تھے۔ مسعود حسین خاں نے ان تمام خیالات و نظریات کا لسانیاتی بنیادوں پر تجزیہ کرنے اور انھیں رَد کر دینے کے بعد آغازِ اردو کے ایک ایسے نظریے کی تشکیل کی جو تاریخی و تقابلی لسانیات (Historical and Comparative Linguistics)کے ٹھوس علم پر مبنی ہے اور جس میں تحقیقی طرزِ استدلال سے کام لیا گیا ہے۔ یہ نظریہ ہند آریائی لسانیات(Indo-Aryan Linguistics)سے ان کی گہری واقفیت کی بھی دلیل ہے۔

آغاز و ارتقائے اردو کے اس نظریے کو مسعود حسین خاں نے اپنی عالمانہ تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں بالتفصیل پیش کیا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1948میں دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے یہ بار بار شائع ہوتی رہی جس میں ہر بار کچھ نہ کچھ ترمیم و تنسیخ بھی کی جاتی رہی۔ اس کا آخری ترمیم شدہ ایڈیشن جو ساتواں ایڈیشن ہے 1987میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا، لیکن اس کے بعد بھی اس کے کئی ری پرنٹس (Reprints)شائع ہوئے۔ یہ کتاب در اصل مسعود حسین خاں کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں 1945میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ.ڈی(Ph.D)کی ڈگری تفویض ہوئی تھی۔ اس کتاب کے متذکرہ ساتویں ایڈیشن میں انھوں نے ’’تھوڑی سی نظریاتی ترمیم‘‘ بھی کی ہے اور تیسرا باب از سرِ نو لکھا ہے جس سے اس کتاب کی قدر و قیمت اور افادیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ (1)

کسی زبان کے لسانیاتی مطالعے کے دو پہلو ہیں : تاریخی(Historical)اور توضیحی(Descriptive)۔ تاریخی لسانیات میں کسی زبان کے عہد بہ عہد ارتقا اور اس میں رونما ہونے والی مختلف النوع لسانی تبدیلیوں سے بحث کی جاتی ہے۔ زبان کا تقابلی مطالعہ بھی تاریخی لسانیات کا ایک اہم پہلو ہے، کیوں کہ تقابلی مطالعے ہی کی بنیاد پر ’ہم رشتہ زبانوں ‘(Related Languages)کا تعین کیا جا سکتا ہے، اور ان کے ماخذ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاریخی لسانیات کی تمام تر بنیاد تحریری مواد پر قائم ہے۔ اس کے برعکس توضیحی لسانیات میں زبانوں کی ساخت (Structure)کا مطالعہ و تجزیہ کسی ایک وقت میں ان کی تاریخ کے حوالے کے بغیر کیا جاتا ہے۔ مسعود حسین خاں کی متذکرہ تصنیف تاریخی و تقابلی لسانیات کے زمرے میں آتی ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کوئی زبان معرضِ وجود میں آتی ہے تو وہ اپنے زمانی و مکانی حوالے بھی ساتھ لاتی ہے، نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر زبان ایک مخصوص لسانیاتی عمل (Linguistic Process)کے نتیجے کے طور پر ظہور پذیر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زبان کا تاریخی مطالعہ کرتے وقت تین سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں کہ یہ زبان کب پیدا ہوئی، کہاں پیدا ہوئی، اور کیسے پیدا ہوئی؟ اردو کے آغاز کے ضمن میں بھی یہی تینوں سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ اردو کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوئی؟ مسعود حسین خاں کی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں ان تینوں سوالوں کے جوابات تحقیقی استناد کے ساتھ نہایت مدلل انداز میں مل جاتے ہیں۔ ان کے نظریۂ آغازِ زبانِ اردو کو سمجھنے کے لیے یہ تینوں سوالات نہایت موزوں ہیں جو باہم مربوط بھی ہیں، لیکن ان پر غور کرنے سے قبل ہم اس طریقِ کار (Procedure)پر غور کریں گے جو انھوں نے اپنے نظریے کی تشکیل کے سلسلے میں اختیار کیا تھا۔

مسعود حسین خاں نے سب سے پہلے شمالی ہندوستان میں ہند آریائی کے لسانی ارتقا کا جائزہ لیا کہ اردو کا تعلق ہند آریائی خاندانِ السنہ (Indo-Aryan Family of Languages)سے ہے جو زبانوں کے ہند یورپی خاندان(Indo-European Family of Languages)کی ایک شاخ ہے اور جس کا ارتقا شمالی ہند میں ہوا۔ پھر انھوں نے 1000سنہِ عیسوی کے آس پاس شمالی ہند بالخصوص دہلی کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی صورتِ حال کا جائزہ لیا جس کے دور رس اثرات وہاں کے لسانی منظر نامے پر بھی پڑے۔ بعد ازاں انھوں نے اردو کے ابتدائی نمونوں کی دریافت اور چھان بین کا کام انجام دیا اور ان کا مقابلہ دہلی و نواحِ دہلی کی بولیوں سے کیا۔ اس کے بعد آغازِ اردو کے مختلف نظریات کا لسانیاتی بنیادوں پر تجزیہ کیا اور انھیں رَد کیا، اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہی انھوں نے اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق ایک نئے نظریے کی تشکیل کی۔ اس نظریے کو ٹھوس علمی بنیاد فراہم کرنے کے لیے انھوں نے بے شمار دلیلیں اور مثالیں دیں اور مستند حوالے پیش کیے۔ یہ بات کسی خوفِ تردید کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ خالص لسانیاتی بنیادوں پر سائنسی انداز سے تکمیل شدہ اردو کے آغاز کے بارے میں یہ پہلا تحقیقی کام ہے، ورنہ اس سلسلے میں ار دو کے عالموں نے قبلاً جو کچھ بھی کہا تھا وہ محض قیاس یا زیادہ سے زیادہ نیم لسانی صداقتوں پر مبنی تھا۔

اردو کب، کہاں، اور کیسے پیدا ہوئی؟ ہر چند کہ یہ تینوں سوالات باہم مربوط ہیں، تاہم دوسرے سوال کو کہ اردو کہاں پیدا ہوئی، ہم پہلے لیں گے جس سے مراد اردو کی جائے پیدائش ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ اردو کی پیدائش کے سلسلے میں علماء نے تحقیقی استدلال سے کم اور قیاس آرائیوں سے زیادہ کام لیا ہے جس سے ان کے نظریات مفروضوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں، مثلاً سید سلیمان ندوی (18841953)نے سندھ کو اردو کا مولد قرار دیا اور اپنی تصنیف ’نقوشِ سلیمانی‘(1939)میں لکھا کہ ’’اردو کا ہیولیٰ… وادیِ سندھ میں تیار ہوا ہو گا۔ ‘‘ یہ محض قیاس آرائی ہے، کوئی نظریہ نہیں۔ ان کی یہ دلیل کہ چوں کہ ’’مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں ‘‘، اس لیے اردو کا وہاں پیدا ہونا ’’قرینِ قیاس‘‘ ہے، (2)نہایت بودی اور کمزور دلیل ہے۔ ان کے اس قیاس کو مسعود حسین خاں نے پورے طور پر رَد کر دیا ہے۔

اگر ہم تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط سب سے پہلے سندھ میں قائم ہوتا ہے، لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں کہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا ورود ہو وہاں اردو بھی معرضِ وجود میں آ جائے۔ محمد بن قاسم(695715)(3) کی سرکردگی میں 711سنہِ عیسوی میں جو مسلمان بحری راستے سے دیبل (کراچی کے نزدیک واقع ایک قدیم بندرگاہ) پہنچے، اور راجا داہر کے قلعہ کو فتح کر کے سندھ میں داخل ہوئے وہ عربی گو تھے۔ ہند آریائی کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت سندھ میں بڑا چد اپ بھرنش رائج تھی جس کا ارتقا پشاچی پراکرت سے ہوا تھا۔ 1000سنہِ عیسوی تک پہنچتے پہنچتے بڑا چد اپ بھرنش کا وجود ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بطن سے سندھ میں سندھی زبان پیدا ہوتی ہے جو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے۔ اردو بھی اگرچہ ایک جدید ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا ارتقا1000سنہِ عیسوی کے بعد شورسینی اپ بھرنش سے ہوا ہے جو دہلی و نواحِ دہلی اور مغربی یوپی، نیز اس کے قرب و جوار میں رائج تھی، چنانچہ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں مسلمانوں کی سندھ میں آمد کی وجہ سے وہاں اردو کا ہیولیٰ تیار ہونا قرینِ قیاس نہیں۔ اردو کے آغاز کے بارے میں اس قسم کا خیال پیش کرنا جدید ہند آریائی زبانوں کے ارتقا اور ان کی تاریخ سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ سید سلیمان ندوی کے متذکرہ بیان کو نظریہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسے محض قیاس آرائی پر محمول کرنا چاہیے۔

اسی طرح حافظ محمود خاں شیرانی(1880-1946)پنجاب کو اردو کی ’’ولادت گاہ‘‘ بتاتے ہیں، کیوں کہ مسلمان دوسری بار دسویں صدی عیسوی کے اواخر میں فاتح کی حیثیت سے پنجاب میں داخل ہوتے ہیں۔ شیرانی اردو کے ساتھ پنجابی کو بھی شامل کر کے دونوں زبانوں کی ’’ولادت گاہ‘‘ پنجاب بتاتے ہیں۔ وہ اپنی تصنیف ’پنجاب میں اردو‘ (1928)میں لکھتے ہیں :

’’اردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانی ہو گئی ہیں تب ان میں جدائی واقع ہوئی ہے۔ ‘‘(4)

شیرانی اپنی متذکرہ تصنیف میں مزید لکھتے ہیں :

’’اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں، بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چوں کہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کر کے جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے۔ ‘‘(5)

شیرانی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اردو اور پنجابی زبانیں، جن کی ’’ولادت گاہ‘‘ بہ قول ان کے پنجاب ہے، کس زبان سے ارتقا پذیر ہوئیں اور وہ کہاں کی زبان تھی؟ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جب مسلمان فاتح کی حیثیت سے پنجاب میں داخل ہوئے اس وقت وہاں کیکیئی اپ بھرنش رائج تھی، جس کے بطن سے بعد میں پنجابی (مغربی) پیدا ہوئی جو اگرچہ اردو ہی کی طرح ایک جدید ہند آریائی زبان ہے، لیکن اردو سے مختلف ہے۔ مشرقی پنجابی کا ارتقا شور سینی اپ بھرنش سے ہوا ہے، لیکن یہ بھی اردو سے مختلف اور ہریانوی سے ملتی جلتی زبان ہے۔ اردو کا بنیادی ڈھانچا کھڑی بولی کا ہے جو 1000سنہِ عیسوی کے آس پاس دہلی اور نواحِ دہلی (بہ جانبِ شمال مشرق) میں رائج تھی۔ اردو کی اصل و اساس یہی کھڑی بولی ہے، نہ کہ پنجابی۔ مسعود حسین خاں نے شیرانی کے اس نظریے کو کہ اردو پنجاب میں پیدا ہوئی، رَد کر دیا ہے۔ شیرانی نے اردو کے پنجاب میں پیدا ہونے کا نظریہ اس غلط فہمی کی بنیاد پر قائم کیا تھا کہ دکنی اردو (قدیم اردو) کی بعض خصوصیات پنجابی سے ملتی جلتی ہیں۔ مسعود حسین خاں نے جو تاریخی و تقابلی لسانیات (Historical and Comparative Linguistics)کے ماہر تھے، یہ نظریہ پیش کیا کہ قدیم اردو اور دکنی کی جو خصوصیات شیرانی پنجابی سے منسوب کرتے ہیں وہ نواحِ دہلی کی ایک بولی ہریانوی میں بھی پائی جاتی ہیں، چنانچہ قدیم اردو اور دکنی کا ’’پنجابی پن‘‘ اس کا ’’ہریانی پن‘‘ بھی ہے۔ (6)

ٹی.گریہم بیلی (T. Grahame Bailey)بھی محمود خاں شیرانی کے نظریے سے اتفاق کرتے ہوئے ’’لاہور‘‘ (پنجاب) کو اردو کی جائے پیدائش قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب A History of Urdu Literature (1932)میں لکھتے ہیں :

"The formation of Urdu began as soon as the Ghaznavi forces settled in Lahore, i.e. in 1027.”(70)

(=’’غزنوی افواج کے لاہور میں 1027میں قدم جماتے ہی اردو کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ ‘‘)

گریہم بیلی ’’لاہور‘‘ کو اردو کی جائے پیدائش قرار دینے کے علاوہ لاہور کی اردو کو قدیم پنجابی پر مشتمل بتاتے ہیں جس پر فارسی کے اثرات مرتسم ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہی اردو 1193میں دہلی پہنچتی ہے، اور کھڑی بولی کے زیرِ اثر آ کر دہلی کی اردو میں متشکل ہو جاتی ہے۔ (8)

جس سال گریہم بیلی کی متذکرہ کتاب لندن سے شائع ہوئی اسی سال (1932) ان کے شاگردسید محی الدین قادری زور (19051962)کی کتاب ’ہندوستانی لسانیات‘ بھی شائع ہوئی۔ گریہم بیلی کی اس کتاب کا مسودہ زور کی نظر سے گذر چکا تھا، (9) چنانچہ بیلی سے اتفاق کرتے ہوئے انھوں نے اردو کے آغاز کے بارے میں یہی نظریہ قائم کیا کہ اردو ’’پنجاب‘‘ میں بولی جانے والی زبان پر مبنی ہے۔ وہ ’ہندوستانی لسانیات‘(1932)میں لکھتے ہیں :

’’اردو کا سنگِ بنیاد در اصل مسلمانوں کی فتحِ دہلی سے بہت پہلے ہی رکھا جا چکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے اس وقت تک ایک مستقل زبان کی حیثیت نہیں حاصل کی تھی جب تک کہ مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت نہ بنا لیا …اگر یہ کہا جائے تو صحیح ہے کہ اردو اس زبان پر مبنی ہے جو پنجاب میں بارھویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔ ‘‘(10)

اردو کی جائے پیدائش کے سلسلے میں سندھ اور پنجاب کے علاوہ گجرات اور دکن کا بھی نام لیا جاتا ہے، لیکن یہاں بھی محض قیاس آرائی ہی سے کام لیا گیا ہے۔ مسعود حسین خاں نے ان تمام قیاس آرائیوں یا نظریوں کو رَ د کرتے ہوئے اس سلسلے میں تحقیقی و لسانیاتی بنیادوں پر اپنا موقف پیش کیا ہے جو بالکل واضح ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں مذکور ہوا کہ وہ شہرِ دہلی کو اردو کا مولد تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کے اس نظریے کی رو سے دہلی اس وقت اردو کا مولد بنتی ہے جب 1193میں مسلمان اسے فتح کر کے اپنا پایۂ تخت بنا لیتے ہیں۔ چنانچہ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں، ’’ اردو کا نقطۂ آغاز 1193میں مسلمانوں کا داخلۂ دہلی ہے۔ ‘‘(11)

جس وقت مسلمانوں نے دہلی کو فتح کر کے اسے اپنا مستقر بنایا اس وقت وہاں اور اس کے نواح میں، مسعود حسین خاں کے خیال کے مطابق، چار بولیاں     کھڑی بولی، ہریانوی، برج بھاشا اور میواتی رائج تھیں۔ کھڑی بولی دہلی کے شمال مشرق میں بہ جانب مغربی یوپی پھیلی ہوئی تھی، دہلی کے شمال مغرب میں ہریانوی کا چلن تھا، اور دہلی کے جنوب مشرق میں ذرا آگے جا کر برج بھاشا مل جاتی تھی، اور دہلی کے جنوب مغرب میں راجستھان کی ایک بولی میواتی رائج تھی۔ دہلی ان چاروں بولیوں کا ’’سنگم‘‘ تھی۔ مسعود حسین خاں کے نظریے کے مطابق مسلمانوں کی فتحِ دہلی (1193)کے بعد انھی بولیوں کے اشتراک سے اردو معرضِ وجود میں آئی۔ ان میں سے کھڑی بولی نے اردو کے آغاز و ارتقا میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اردو پر ابتدائی زمانے میں ہریانوی کے بھی اثرات پڑے جس کا ثبوت دکنی اردو کی بعض لسانی خصوصیات ہیں۔ مسعود حسین خاں اس لسانی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’قدیم اردو کی تشکیل براہ راست دو آبہ کی کھڑی [بولی]اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے۔ ‘‘(12)

انھوں نے یہ بات محض قیاساً نہیں لکھی، بلکہ امیر خسرو (12531325) کے فقرے ’’دہلی و پیرا منش‘‘ (دہلی اور اس کے نواح کی بولیاں ) سے اشارہ پاکر، نواحِ دہلی کی بولیوں کا تقابلی مطالعہ کیا اور دکنی زبان کی خصوصیات کو پنجابی کے بجائے ان بولیوں میں پہچاننے کی کوشش کی اور ایسا کرتے وقت ان بولیوں کے جدید روپ اور دست یاب شدہ قدیم نمونوں کو بھی سامنے رکھا، پھر اپنے نظریے کی تشکیل اس طرح کی کہ دو آبہ، اور جمنا پار کا علاقہ یعنی دہلی اردو کا ’’مولد و منشا‘‘ قرار پایا۔ د وسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ’’دہلی و نواحِ دہلی‘‘ کو اردو کی ولادت گاہ تسلیم کیا ہے۔

مسعود حسین خاں نے ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ اور اپنے بعض مضامین میں اردو کے آغاز و ارتقا کے سلسلے میں بجا طور پر کھڑی بولی اور ہریانوی پر زور دیا ہے اور یہ دونوں دہلی و نواحِ دہلی کی بولیاں ہیں۔ قدیم و جدید اردو کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اردو کی بنیاد کھڑی بولی پر قائم ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم اردو (دکنی اردو) پر ہریانوی کے اثرات نمایاں ہیں اور قدیم متون سے ان اثرات کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اردو کی تشکیل میں انھوں نے کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی کو ’’برابر کی حصہ دار‘‘ بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’امیر خسرو کی ’’نہ سپہر‘‘میں دی ہوئی بارہ ہندوستانی زبانوں کی فہرست سے زبانِ ’’دہلی و پیرا منش‘‘ (دہلی اور اس کے نواح کی بولیاں ) کو اردو کا سرچشمہ ثابت کیا گیا ہے، اس طرح کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی بھی اس میں برابر کی حصہ دار ہو گئی ہے۔ ‘‘(13)

لیکن جیسے جیسے اردو معیاری روپ اختیار کرتی گئی، ہریانوی کے اثرات زائل ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ اٹھارھویں صدی عیسوی کے وسط میں شمالی ہند میں تحریکِ اصلاحِ زبان کے نا م پر شیخ ظہور الدین حاتم (1700-1783)اور ان کے بعض معاصرین نے ان اثرات کا قلع قمع کر دیا۔

اردو کے مکانی تعین کی طرح اردو کے زمانی تعین کے بارے میں بھی مسعود حسین خاں کا نظریہ نہایت واضح ہے۔ وہ 1193کو اردو کا ’’نقطۂ آغاز‘‘ تسلیم کرتے ہیں، کیوں کہ یہ مسلمانوں کے فتحِ دہلی کی تاریخ ہے۔ علمائے زبان و ادب میں اس سوال پر بھی اختلافِ رائے رہا ہے کہ اردو کب پیدا ہوئی؟ میر امن (c. 1750-1837)نے ’باغ و بہار‘ (1803)کے دیباچے میں اردو کی پیدائش کو شہنشاہِ اکبر(م1605.) کے عہد سے منسوب کیا ہے جو ان کی لاعلمی کی دلیل ہے۔ محمود خاں شیرانی اردو کی ابتدا کے زمانے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اصل یہ ہے کہ اردو کی داغ بیل اسی دن سے پڑنی شروع ہو گئی ہے جس دن سے مسلمانوں نے ہندوستان میں آ کر توطن اختیار کر لیا ہے۔ ‘‘(14)گر یہم بیلی نے اردو کے آغاز کی تاریخ 1027متعین کی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب محمود غزنوی کی فوجیں پنجاب میں داخل ہوتی ہیں۔ اردو کے آغاز کا سلسلہ امیر خسرو کے عہد سے بھی ملایا جاتا ہے۔ اردو کو شاہجہانی عہد کی یادگار تو بتایا ہی جاتا ہے۔ ہندی کے معروف اسکالر امرت رائے (19211996)اس کا آغاز اس وقت سے مانتے ہیں جب سے اس کا نا م ’’اردو‘‘ پڑتا ہے، یعنی اٹھارھویں صدی کے نصفِ دوم سے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اس سے قبل اردو ’’ہندوی‘‘ اور ’’ہندی‘‘ کے ناموں سے پکاری جاتی تھی۔ (15)

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں کے نظریے کی رو سے اردو کے آغاز کی تاریخ مسلمانوں کے فتحِ دہلی (1193)کی تاریخ ہے، کیوں کو اس تاریخ سے عربی و فارسی کے لسانی اثرات زبانِ ’’دہلی و پیرا منش‘‘ میں نفوذ کرتے ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی عربی و فارسی کے الفاظ یہاں کی بولیوں میں داخل ہونا شروع ہو گئے تھے، لیکن یہ اردو کی پیدائش کا سبب نہیں بنے تھے۔ وہ ’مقدمۂ تا ریخِ زبانِ اردو‘ میں لکھتے ہیں :

’’ہندوستان کی زبانوں میں عربی و فارسی الفاظ کا داخلہ ہی اردو کی تخلیق کی ضمانت نہیں کرتا، بلکہ جب یہ لسانی اثرات زبانِ ’’دہلی و پیرا منش‘‘ میں نفوذ کرتے ہیں تب اردو کا پہلا ہیولیٰ تیار ہوتا ہے، اور یہ ہوتا ہے مسلمانوں کی فتحِ د ہلی (1193)کے بعد۔ ‘‘(16)

عربی و فارسی کے لسانی اثرات کا ’’نفوذ‘‘ دہلی اور نواحِ دہلی کی جس بولی میں سب سے زیادہ ہوا ہے وہ کھڑی بولی ہے، چنانچہ اردو کا خمیر عربی و فارسی عناصر کے ساتھ مل کر کھڑی بولی ہی سے تیار ہوتا ہے اور امیر خسرو کے یہاں پہلی بار اس کا ادبی اظہار ملتا ہے۔ یہی زبان ہریانوی عناصر (بہ قولِ محمود شیرانی پنجابی عناصر) کے ساتھ علاء الدین خلجی کی فوجوں کے ساتھ 1294میں دہلی سے دکن پہنچتی ہے۔ چوں کہ اردو کی اساس کھڑی بولی پر قائم ہے، اس لیے یہ زبان دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی معاصر کھڑی بولی ہندی سے قدیم تر ہے۔ قدیم و جدید اردو کا تمام تر سرمایہ کھڑی بولی پر مشتمل ہے، جب کہ قدیم ہندی کے نمونے کھڑی بولی میں نا یاب ہیں۔

اردو کی ابتدا اور ارتقا کی تاریخ کے بارے میں مسعود حسین خاں ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں مزید لکھتے ہیں :

’’پنجاب پر غوریوں کے حملے 1186سے شروع ہو جاتے ہیں۔ 1193میں بالآخر ایک شکست کھانے کے بعد شہاب الدین غوری دہلی کے آخری ہندو سمراٹ پرتھوی راج کو شکستِ فاش دے کر دہلی اور اجمیر پر قابض ہو جاتا ہے جہاں اس کا سپہ سالار قطب الدین ایبک، اس کے انتقال کے بعد 1206میں سلطنتِ غلامان کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اردو کی ابتدا اور ارتقا کی اصل تاریخ اس کے بعد ہی سے شروع ہوتی ہے۔ ‘‘(17)

جیسا کہ مسعود حسین خاں نے ذکر کیا، مسلمانوں کے داخلۂ دہلی کے بعد یہاں ایک نئے سیاسی نظام کا قیام عمل میں آتا ہے جس کے دور رس اثرات یہاں کی بولیوں پر بھی پڑتے ہیں۔ مسلمانوں کی دہلی میں آمد کے وقت جو چار بولیاں دہلی و نواحِ دہلی میں رائج تھیں ان میں سے کھڑی بولی میں آپسی میل جول کی وجہ سے عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس سے یہ بولی چمک اٹھتی ہے۔ نو وارد مسلمان اسے ’’ہندوی‘‘ اور ’’ہندی‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ آگے چل کر یہی زبان ’’اردو‘‘ کہلاتی ہے۔

اب رہا تیسرا سوال کہ اردو کیسے پیدا ہوئی؟ یہ سوال اردو کی پیدائش کے لسانیاتی عمل (Linguistic Process)سے متعلق ہے۔ ہر فطری زبان ایک لسانیاتی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے، اور یہ عمل ہے ایک زبان کے بطن سے دوسری زبان کے پیدا ہونے کا۔ اس سلسلے میں یہ دیکھنا لازم ہے کہ جس زبان یا بولی سے یہ نئی زبان نکلی یا پیدا ہوئی ہے وہ کیسی اور کہاں کی بولی تھی؟ اس کے لسانی خصائص (Linguistic Features)کیا تھے، اور تاریخ کے کس موڑ پر اس میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں کہ ایک نئی زبان کی تشکیل کا پیش خیمہ بنیں ؟ یہ سارا کام تاریخی و تقابلی لسانیات کے دائرے میں آتا ہے۔ مسعود حسین خاں نے اپنی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں اس گتھی کو بھی کہ اردو کیسے پیدا ہوئی، سلجھانے کی کوشش کی ہے۔

اردو کی پیدائش در اصل تاریخ کے ایک مخصوص دور میں شمالی ہند وستان میں رونما ہونے والی لسانی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، اردو کا تعلق ہند آریائی خاندانِ السنہ سے ہے، لہٰذا مسعود حسین خاں کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’اردو زبان کی تاریخ‘‘وسیع تر معنوں میں ہند آریائی زبان کی تاریخ ہے جسے قدیم ہند آریائی، وسطی ہند آریائی اور جدید ہند آریائی کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ‘‘(18)صورتِ واقعہ یہ ہے کہ قدیم ہند آریائی دور 1500)ق م تا 500ق م )میں شمالی ہندوستان میں شمال مغرب تا مشرق سنسکرت زبان پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہے۔ وسطی ہند آریائی دور 500)ق م تا 1000سنہِ عیسوی )میں ان علاقوں میں جہاں جہاں سنسکرت رائج تھی وہاں پراکرتیں اور اپ بھرنشیں رائج ہو جاتی ہیں، اور جدید ہند آریائی دور 1000)سنہِ عیسوی تا حال) میں رفتہ رفتہ جدید ہند آریائی زبانیں ارتقا پذیر ہوتی ہیں اور اپ بھرنشوں کی جگہ لے لیتی ہیں۔ سنسکرت سے پراکرتوں کا پیدا ہونا، اور پراکرتوں سے اپ بھرنشوں کا ارتقا پانا، پھر اپ بھرنشوں سے جدید ہند آریائی زبانوں کا ابھرنا ایک فطری لسانی و تاریخی عمل ہے۔ 1000سنہِ عیسوی تک پہنچتے پہنچتے اب بھرنشیں ختم ہو جاتی ہیں۔ دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں اورخطوں میں بولی جانے والی اپ بھرنش کا بھی، جو شور سینی اپ بھرنش کہلاتی تھی، خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کے بطن سے چھوٹی چھوٹی بولیوں اور زبانوں کے بیج پھوٹنے لگتے ہیں، چنانچہ گجرات میں گجراتی، راجستھان میں راجستھانی، پنجاب میں پنجابی(مشرقی)، اور دہلی و نواحِ دہلی میں کھڑی بولی، ہریانوی، برج بھاشا، اور میواتی کا ارتقا اسی لسانی تبدیلی اور لسانیاتی عمل کا نتیجہ ہے۔ کھڑی بولی سے اردو کے ’ابھار‘ کا زمانہ بھی یہی ہے۔

اگرچہ برج بھاشا بھی نواحِ دہلی کی ایک بولی ہے، لیکن اردو کا ارتقا برج بھاشا سے نہیں ہوا ہے۔ محمد حسین آزاد (1830-1910)کے اس نظریے کو کہ ’’اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے، ‘‘ مسعود حسین خاں نے ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں رَد کر دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برج بھاشا کے بعض اسما، افعال، صفات اور ضمیریں مصوتے(Vowel)/او/ یعنی واؤ(و) پر ختم ہوتی ہیں، مثلاً ’ساون آیو، بادر گرجو، پانی برسو‘، یا ’میرو بڑو بیٹو آج دلّی گیو‘ وغیرہ۔ اس کے برخلاف کھڑی بولی کے یہی اسماء، افعال، صفات اور ضمیریں مصوتے /آ/یعنی الف (ا) پر ختم ہوتی ہیں، مثلاً ’ساون آیا (فعل)، بادل گرجا( فعل)، پانی برسا(فعل) یا ’میرا(ضمیر) بڑا (صفت) بیٹا (اسم) آج دِلّی گیا‘(فعل)۔ اردو نے اپنے ارتقا کے کسی بھی دور میں /و/پر ختم ہونے والی شکلیں (-o ending forms)اختیار نہیں کیں۔ اردو کے کھڑی بولی پر مبنی اور مشتمل ہونے کی بنیادی پہچان یہی ہے کہ یہ /آ/ پر ختم ہونے والی (-a ending)بولی ہے۔

اردو کے برج بھاشا سے نکلنے کے نظریے کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہوسکی، کیوں کہ یہ نظریہ لسانیاتی تحقیق پر مبنی نہ تھا، بلکہ آزاد نے محض اپنے قیاس کی بنیاد پر ’آب حیات‘ (1880)کے دیباچے میں یہ بات لکھ دی تھی اور ظاہر ہے کہ کسی تحقیق یا تجزیے کے بغیر لکھی تھی۔ (19)انھوں نے اس سلسلے میں نہ تو کوئی دلیل پیش کی تھی اور نہ کوئی ثبوت فراہم کیا تھا۔

اگر ہم اپ بھرنش کے آخری دور کے نمونے، جو مشہور جین عالم ہیم چندر (10881172)کی قواعد ’ہیم چندر شبد انوشاسن‘(1155)میں نقل ہوئے ہیں، دیکھیں تو ہمیں ان میں قدیم کھڑی بولی کی جھلک صاف دکھائی دے گی۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ 1000سنہِ عیسوی کے آس پاس کس طرح یہ اپ بھرنش کھڑی بولی میں متشکل ہوتی جا ءر رہی تھی۔ لسانیاتی عمل کے ذریعے امتدادِ زمانہ کے ساتھ ایک زبان دوسری زبان میں متشکل ہوتی یا دوسری زبان کا روپ اختیار کرتی چلی جاتی ہے، جسے ماہرینِ لسانیات ایک زبان کے بطن سے دوسری زبان کا پیدا ہونا مراد لیتے ہیں، چنانچہ ہر فطری زبان (Natural Language)کسی نہ کسی سابقہ زبان سے پیدا ہوتی یا ارتقا پاتی ہے۔   اس عمل کے بعد وہ سابقہ زبان متروک ہو جاتی ہے اور اصطلاحی معنیٰ میں ’مردہ زبان‘ (Dead Language) قرار دے دی جاتی ہے۔ قدیم الا یام میں دنیا میں بولی جانے والی بے شمار زبانیں آج مردہ ہو چکی ہیں۔ ہمارے سامنے یونانی (Greek)، لاطینی (Latin)، عبرانی (Hebrew)، ہٹائٹ(Hittite)، سنسکرت اور پالی ز بانوں کی مثالیں موجود ہیں جو آج مردہ ہو کر کلاسیکی زبانوں کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔

لسانیاتی عمل کسی زبان کی ساخت (Structure)میں رونما ہونے والی صوتی، صرفی، نحوی اور معنیاتی تبدیلیوں کا عمل ہے، کسی زبان میں جب یہ تبدیلیاں نمایاں طور پر رونما ہو جاتی ہیں تو یہ زبان بدل جاتی ہے۔ یہی بدلی ہوئی زبان نئی یا جدید زبان کہلاتی ہے جو پرانی یا سابقہ زبان سے ہر اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ لسانیاتی عمل کے ذریعے ہی شمالی ہندوستان میں سنسکرت زبان پراکرت میں متشکل ہوئی، پھر پراکرتوں ہی سے اپ بھرنشیں پیدا ہوئیں، اس کے بعد اپ بھرنشوں نے جدید ہند آریائی زبانوں کو جنم دیا۔ اردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے۔ اس کا لسانی و تاریخی سلسلہ سنسکرت سے جا کر مل جاتا ہے۔ سنسکرت (قدیم ہند آریائی) سے اردو (جدید ہند آریائی) تک کا یہ سفر ڈھائی ہزار سال1500)ق م تا 1000سنہِ عیسوی) میں طے ہوا ہے۔ جیسا کہ مذکور ہوا، 1000سنہِ عیسوی میں اپ بھرنشوں کے خاتمے کے بعد جدید ہند آریائی زبانیں سر اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔ دہلی و نواحِ دہلی کی بولیوں کے طلوع کا زمانہ بھی یہی ہے۔ انھی بولیوں میں بہ قولِ مسعود حسین خاں عربی و فارسی کے لسانی اثرات کے ’’نفوذ‘‘ کر جانے کی وجہ سے اردو معرضِ وجود میں آتی ہے۔ عربی و فارسی کے لسانی اثرات کا نفوذ دہلی و نواحِ دہلی کی جس بولی میں سب سے زیادہ ہوا ہے وہ کھڑی بولی ہے۔

1193میں مسلمانوں کے داخلۂ دہلی سے پہلے وہاں کھڑی بولی موجود تھی۔ کھڑی بولی کی ارتقائی شکل ان شعری نمونوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے جو ہیم چندر کی متذکرہ قواعد میں نقل ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک نمونہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:

[ایک راجپوت عورت کہتی ہے]

 

’’بھَلاّ ہو آجُ ماری آ بہنی مَہارا کنتُ

لَجّے جام تُ وَسِیَّاہُ جَئی بَھگّا گھروانتُ‘‘   (20)

[بھلا ہوا بہن جو میرا کنت (پیارا، سوامی، شوہر) مارا گیا، جو بھاگا گھر آتا تو ویاس یاؤں (ہم عمر سہیلیوں ) میں مجھے لاج آتی۔ ]

بہ قولِ مسعود حسین خاں ’’اس دوہے کا پورا کینڈا قدیم کھڑی [بولی]کا ہے، جس کی قواعد کی شکلیں اس میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ‘‘(21)

شورسینی اپ بھرنش کے آخری دور کے کچھ اور نمونے (جن میں قدیم کھڑی بولی کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے) اس دور کی طویل رزمیہ نظموں میں بھی ملتے ہیں جنھیں ’راسو‘ کہتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور ’’پرتھوی راج راسو‘‘ ہے جس کا مصنف چندر بردائی ہے۔ اس کے علاوہ اپ بھرنش کے آخری دور کے کچھ اور نمونے بدھ سدھوں، ناتھوں اور گورکھ پنتھی جوگیوں سے بھی منسوب ہیں۔ اپ بھرنش کے ان تمام ادبی نمونوں میں مسعود حسین خاں نے اردو کے کھڑی بولی روپ کی نشاندہی کی ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کے داخلۂ دہلی (1193)سے پہلے دہلی و نواحِ دہلی میں کھڑی بولی کا وجود تھا۔

غرض یہ کہ شورسینی اپ بھرنش کا ایک مخصوص عہد میں دہلی کے آس پاس کی بولیوں میں متشکل ہونا اور اس عہد کے سیاسی و سماجی، نیز تہذیبی اسباب کے ماتحت ان بولیوں میں سے کھڑی بولی میں عربی و فارسی کے لسانی اثرات کا نفوذ کر جانا اردو کے آغاز و ارتقا کا لسانیاتی عمل (Linguistic Process)قرار دیا جا سکتا ہے۔ اردو کی اصل و اساس اور اس کا بنیادی ڈھانچا اگرچہ کھڑی بولی کا ہے، لیکن ابتدائی دور میں اردو پر ہریانوی بولی (جو نواحِ دہلی کی ایک بولی ہے) کے اثرات بھی مرتسم ہوئے ہیں جس کا بیّن ثبوت قدیم دکنی اردو کا ادب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود حسین خاں نے اردو کے آغاز کے سلسلے میں ابتداء ً یہی نظریہ قائم کیا تھا کہ ’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست ہریانی کے زیرِ اثر ہوئی ہے، اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں۔ ‘‘(22)اپنے اس نظریے پر وہ 1987تک قائم رہے، لیکن جب انھوں نے اسی سال (1987)، اپنی تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ کا ساتواں ایڈیشن تیار کیا تو اس میں، جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، ’’تھوڑی سی نظریاتی ترمیم‘‘ کی، اور اردو کی پیدائش کے سلسلے میں ہریانوی کے مقابلے میں کھڑی بولی کو اہمیت، بلکہ اوّلیت دی۔ وہ اس کتاب کے ساتویں ایڈیشن (1987)میں لکھتے ہیں :

’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی [بولی]اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے۔ ‘‘(23)

مسعود حسین خاں تا دمِ آخر آغازِ اردو کے اپنے اِسی نظریے پر قائم رہے۔

 

                نظریۂ عروضی صوتیات

 

لسانیاتی تحقیق سے متعلق مسعود حسین خاں کا دوسرا علمی میدان نظریۂ عروضی تجز صوتیات (Theory of Prosodic Phonology)ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے قابلِ قدر تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے، اور وہ ہے ’عروضی تجز صوتیات‘(Prosodic Phonology)کے حوالے سے اردو لفظ کا مطالعہ و تجزیہ۔ مسعود حسین خاں پہلے ماہرِ لسانیات ہیں جنھوں نے اردو سے متعلق اس نوع کا صوتیاتی و تجز صوتیاتی مطالعہ و تجزیہ پیش کیا ہے۔

’عروضی تجزصوتیات‘کا تصور سب سے پہلے برطانوی ماہرِ لسانیات جے. آر. فرتھ (1890-1960)نے پیش کیا تھا جن کا تعلق لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز کے شعبۂ لسانیات سے تھا۔ مسعود حسین خاں کو قیامِ لندن (1950-51) کے دوران میں جے.آر.فرتھ(J.R. Firth)سے علمی استفادے کا کافی موقع ملا، چنانچہ انھوں نے اپنے ڈی.لٹ(D. Lit.)کے تحقیقی مقالے A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urduکی بنیاد فرتھ کے اسی صوتیاتی نظریے پر رکھی، اور انھیں کا طریقِ کار اپنایا، لیکن اس کی تکمیل فرانس میں عمل میں آئی۔ مسعود حسین خاں 1951میں لندن سے پیرس(فرانس) منتقل ہو گئے تھے جہاں دو سال (195153) قیام کر کے انھوں نے پیرس یونیورسٹی سے 1953میں ڈی.لٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کا یہ تحقیقی مقالہ پہلی بار 1954میں شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے انگریزی میں شائع ہوا، جس کی وجہ سے 30سال سے زائد عرصے تک یہ اہلِ اردو کی نظروں سے اوجھل رہا، چنانچہ راقم السطور نے اس کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے ’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجز صوتیاتی مطالعہ‘ کے نام سے 1986میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع کیا جس سے اردو کے لسانیاتی ادب میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ اس ترجمے کو اردو کے علمی حلقوں میں بہ نظرِ تحسین دیکھا گیا۔ خود مسعود حسین خاں نے اسے پسند فرمایا اور راقم السطور کو بھرپور داد دی۔ انھوں نے اس ترجمے کو اپنے مجموعۂ مضامین ’مقالاتِ مسعود ‘ (1989) میں شا مل کیا، اور اس کے دیباچے (’’سخن ہائے گفتنی‘‘) میں اِس کا ذکر اِن الفاظ میں کیا:

’’اردو لفظ کا صوتی و تجز صوتیاتی تجزیہ‘ انگریزی میں لکھا گیا تھا جس کا نہایت عمدہ ترجمہ میرے فاضل شاگرد ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ نے کیا ہے۔ یہ کسی دوسرے کے بس کی بات نہ تھی۔ ‘‘(24)

کمال احمد صدیقی (19262013)نے اپنے ایک مضمون میں اس ترجمے کے بارے میں لکھا کہ ’’ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ نے اس کا مثالی ترجمہ کیا ہے۔ انگریزی مونوگراف …بہت پہلے پڑھا تھا، اب ترجمہ دیکھا جو اصل کی اہمیت رکھتا ہے۔ ‘‘(25)

عروضی صوتیات(26) سے متعلق مسعود حسین خاں کے اس علمی و تحقیقی کام کے بارے میں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ یہاں ’عروض‘(Prosody)سے ان کی مراد شعری عروض نہیں ہے، بلکہ یہ ایک صوتیاتی اصطلاح ہے جس سے وہ ’صوتیاتی قوس‘ مراد لیتے ہیں جو صوت رکن(Syllable)، لفظ یا جملے پر پھیلی ہوتی ہے۔ عروضی صوتیات میں دو طرح کے عناصر کا بیان ہوتا ہے:

-1    صوتی اکائیاں (Phonetic Units)، یعنی مصوتے (Vowels)، اور مصمتے(Consonants)۔

-2    عروضیات(Prosodies)، یعنی وہ خصوصیات مثلاً سُر لہر(Intonation)، تان (Tone)، طول(Length)، زور(Stress)؛ نیز معکوسیت (Retroflexion)، مسموعیت اور غیر مسموعیت (Voicing and Unvoicing)، انفیت (Nasalization)، وغیرہ جو صوتی اکائیوں (مصوتوں اور مصمتوں ) پر بہ صورتِ ’قوس‘ پھیلی ہوتی ہیں۔

صوتی اکائیوں اور عروضیات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ صوتی اکائیاں سلسلہ وار ترتیب دی جا سکتی ہیں، مثلاً پ+ا+ن+ی= ’پانی‘ جس میں دو مصوتے (ا، ی)اور دو مصمتے (پ، ن) شامل ہیں۔ عروضیات یا عروضی خصوصیات صوتی اکائیوں (مصوتوں اور مصمتوں ) پر مشتمل نہیں ہوتیں، بلکہ ایک سے زائد صوتی اکائیوں پر ’قوس‘کی مانند افقی طور پر (Syntagmatically)پھیلی ہوتی ہیں۔ صوتی اکائیوں کو سلسلہ وار ترتیب دینے سے صوت رکن اور لفظ بنتے ہیں اور لفظوں کو ترتیب دینے سے جملوں کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ عروضی خصوصیات، صوت رکن، لفظ اور جملے تینوں پر محیط ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’عروض‘ کا حلقۂ اثر کوئی صوت رکن یا لفظ بھی ہوسکتا ہے، یا کوئی فقرہ یا جملہ بھی، مثلاً’ سُر لہر‘ (Intonation)کا تعلق فقرے یا جملے کی عروضیات سے ہے۔ اسی طرح ’تان‘ (Tone)، ’طول‘(Length)اور ’زور‘(Stress)کا تعلق صوت رکن (Syllable)کی عروضیات ہے۔

مسعود حسین خاں نے متذکرہ تحقیقی مقالے میں سب سے پہلے ’لفظ‘ کی تعریف اور اس کی حد بندی سے بحث کی ہے، پھر ’صوت رکن‘ کی ساخت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد اردو الفاظ میں ’انفیت‘(Nasalization)اور ’معکوسیت‘ (Retroflexion) کے مسائل سے بحث کرتے ہوئے ’کمّیت‘ اور ’مربوطیے‘ کی عروضیات(Prosodies of Quantity and Juncture)کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے بعض دوسری عروضیات(Prosodies)، مثلاً ’مصوتی تسلسل‘(Vowel Sequence)، ’بین مصوتی تداخل‘(Anaptyxis)، ’ تشدید‘(Gemination)، ’ہائیت‘(Aspiration)، اور ’مسموعیت‘ اور’ غیر مسموعیت‘(Voicing and Unvoicing)سے بھی کافی تفصیل اور باریک بینی کے ساتھ بحث کی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ’عروض‘(Prosody)کا تصور اگرچہ مسعود حسین خاں نے فرتھ سے لیا ہے، لیکن اردو کے تعلق سے اس نظریے میں انھوں نے جو جامعیت اور وسعت پیدا کی ہے وہ ان کا اپنا کارنامہ ہے۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ اردو لفظوں کا اس نقطۂ نظر سے اتنا ہمہ گیر مطالعہ اور اس اعلیٰ معیار کا تجزیہ آج تک کسی عالم نے پیش نہیں کیا۔

 

                اردو صوتیوں کا تعین اور ان کی درجہ بندی

 

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں نے لسانیاتِ جدید کی اعلیٰ تربیت یورپ (انگلستان اور فرانس) میں رہ کر حاصل کی تھی اور 1953میں وہاں سے وطن واپسی پر لسانیاتی مطالعہ و تحقیق میں مصروف ہو گئے تھے۔ اب ان کی دل چسپی کا میدان توضیحی لسانیات بالخصوص ’صوتیات‘ (Phonetics)تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ چنانچہ عروضی صوتیات کے علاوہ انھوں نے اردو صوتیات کے دیگر پہلوؤں کی جانب بھی اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔

مسعود حسین خاں غالباً پہلے ماہرِ لسانیات ہیں جنھوں نے معیاری اردو کے صوتیوں (Phonemes)کا تعین کیا اور بین الاقوامی انجمنِ صوتیات (International Phonetic Association=IPA)کی طرز پر اردو صوتیوں کی درجہ بندی پیش کی۔ یہ وہ دور تھا جب لسانیات سے لوگوں کی واقفیت محض برائے نام تھی اور اردو میں لسانیاتی ادب کا کوئی وجود نہ تھا۔ مسعود حسین خاں سے قبل سید محی الدین قادری زور(19051962) نے یورپ جا کر لسانیاتِ جدید (Modern Linguistics)کی تربیت ضرور حاصل کی تھی، اور لسانیاتی موضوع پر دو گراں قدر کتابیں بھی شائع کی تھیں، (27)لیکن انھوں نے یورپ سے واپسی کے بعد لسانیاتی مطالعہ و تحقیق کی جانب خاطر خواہ توجہ مبذول نہ کی اور خود کو دکنیات کے لیے وقف کر دیا۔ مسعود حسین خاں نے یورپ سے واپسی کے بعد لسانیات سے اپنی دل چسپی برقرار رکھی اور اس موضوع پر ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے اور شائع کراتے رہے۔ انھوں نے لسانیات کی درس و تدریس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کے پروفیسر اور بانی صدر (Founder Chairman)کے عہدے پر فائز ہوئے اور وہیں سے سبک دوش ہوئے۔

مسعود حسین خاں نے اردو صوتیوں کا تعین اور ان کی درجہ بندی (Classification) اپنے ایک ابتدائی دور کے مضمون’’اردو حروفِ تہجی کی صوتیاتی ترتیب‘‘ میں پیش کی ہے جو ان کے مجموعۂ مضامین ’اردو زبان اور ادب‘(1954) میں شامل ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس زمانے میں مسعود حسین خاں نے لسانیات و صوتیات کے موضوع پر اردو میں لکھنا شروع کیا تھا، اس وقت لسانیات بالخصوص صوتیات کی اصطلاحیں اردو میں نہ ہونے کے برابر تھیں، چنانچہ انھوں نے عربی اور فا رسی کی مدد سے یہ اصطلاحیں خود وضع کیں جن میں سے بیشتر آج بھی رائج ہیں۔

مسعود حسین خاں نے متذکرہ مضمون کی اشاعت کے چند سال بعد اردو صوتیات سے متعلق ایک اور مضمون بہ عنوان ’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘ قلم بند کیا تھا جس میں اردو صوتیوں کی درجہ بندی کے علاوہ بعض دیگر صوتیاتی مسائل سے بھی بحث کی گئی ہے۔ یہ مضمون ان کے مجموعۂ مضامین ’مقدماتِ شعر و زبان‘(1966)میں شامل ہے۔

یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ ’صوتیہ‘(Phoneme)کسی زبان کی ’ممیز آواز‘ (Distinctive Sound Unit)کو کہتے ہیں جس کی تبدیلی سے معنی میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً:

/پانی/ ‘water’، اور

/بانی/ ‘founder’

یہاں /پانی/کی /پ/کو/ ب/ سے بدل دینے پر ایک دوسرا بامعنی لفظ/بانی/ تشکیل پاتا ہے۔ معنی کی یہ تبدیلی صرف /پ/ کی /ب/ سے تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، ورنہ بقیہ آوازیں یعنی ’انی‘ تو دونوں الفاظ میں یکساں ہیں۔ صوتیاتی تجزیے میں دو یکساں عناصر سے معنی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ معنی میں تبدیلی کے لیے تخالفی عناصر (Contrastive Elements)کا ہونا لا زمی ہے۔ /پانی/ اور /بانی/ میں /پ/ اور /ب/ کی آوازیں تخالفی عناصر کا درجہ رکھتی ہیں، اسی لیے یہ دو ممیز آوازیں کہلاتی ہیں، جنھیں لسانیاتی اصطلاح میں ’صوتیہ‘ کہتے ہیں۔ /پانی/ اور /بانی/ میں پائی جانے والی ابتدائی دونوں آوازیں /پ/ اور /ب/ اردو زبان کے دو صوتیے ہیں۔ اسی طرح /بالو/ ‘sand’، اور /بھالو/’bear’میں /ب/اور /بھ/ دو اردو صوتیے ہیں، نیز /اَب/’now’، اور /آب/’water’میں /اَ/اور/ آ/کی ابتدائی آوازیں دو اردو صوتیوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ دونوں صوتیے مصوتے (Vowels)ہیں۔ ہر زبان میں صوتیوں کی تعداد محدود ہوتی ہے۔ انھی محدود صوتیوں کی مدد سے متعلقہ زبان کے لامحدود الفاظ ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔ مسعود حسین خاں نے معیاری اردو کے صوتیاتی تجزیے کے بعد، اس ز بان کے 47صوتیوں کا تعین کیا ہے جن میں سے 37مصمتے (Consonants)، اور 10مصوتے (Vowels)ہیں۔ تکلمی سطح پر انھی صوتیوں (مصمتوں اور مصوتوں ) کے امتزاج سے لفظ بنتے ہیں اور لفظوں سے فقرے اور جملے تشکیل پاتے ہیں۔

مسعود حسین خاں نے اردو زبان کے صوتیوں کا تعین کرتے وقت جن امور یا اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے وہ یہ ہیں :

1 ایک آواز یا صوتیے (Phoneme)کے لیے ایک ہی علامت کا استعمال-

2 مصمتوں کی ’مسموع‘(Voiced)اور ’غیر مسموع‘(Voiceless) آوازوں میں تقسیم۔

3 ’بندشی آوازوں ‘(Stop Sounds)کی ’ہائیہ‘ (Aspirated)اور ’غیر ہائیہ ‘(Unaspirated)آوازوں میں تقسیم۔

4 دس غیر ہائیہ بندشی آوازوں (Unaspirated Stop Sounds)یعنی /پ، ب، ت، د، ٹ، ڈ، چ، ج، ک، گ/ میں سے ہر ایک کی ’ہائیہ‘(Aspirated) شکلوں کا تعین، یعنی علی الترتیب/ پھ، بھ، تھ، دھ، ٹھ، ڈھ، چھ، جھ، کھ، گھ/ کا تعین – علاوہ ازیں غیر ہائیہ معکوسی آواز (Unaspirated Retroflex Sound)، یعنی /ڑ/کی بھی ’ہائیہ‘(Aspirated)شکل، یعنی /ڑھ/ کا تعین۔

5 ہائیہ آوازوں (Aspirates)کی تشکیل کے لیے ’ہائے مخلوط‘(دو چشمی ’’ھ‘‘) کا استعمال، یعنی پھ، بھ، تھ، دھ، وغیرہ۔ صوتی اعتبار سے یہ ’’علاحدہ اور مستقل آوازیں ‘‘ ہیں، اور منفرد صوتیوں (Separate Phonemes)کا درجہ رکھتی ہیں۔

6 اردو میں مستعمل آٹھ عربی حروف، یعنی ث، ص، ذ، ض، ظ، ح، ط، اور ع کی اردو کے صوتیاتی جدول (Phonetic Chart)میں عدم شمولیت کہ اردو میں ان کی حیثیت صوتیوں (Phonemes)کی نہیں، بلکہ محض حروف(Letters)، یعنی تحریری شکلوں کی ہے۔ مسعود حسین خاں نے انھیں ’’عربی کی دوہری آوازیں ‘‘ کہا ہے، کیوں کہ اردو میں ث، ص، کے لیے /س/کی آواز؛ ذ، ض، ظ کے لیے /ز/ کی آواز ؛ ط کے لیے /ت/ کی آواز)؛ ح کے لیے /ہ/ کی آواز، اور ع کے لیے الف /ا/ کی آواز موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حروف اردو میں فاضل (Redundant)تصور کیے جاتے ہیں۔ مسعود حسین خاں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’صوتی نقطۂ نظر سے یہ سب مُردہ لاشیں ہیں جسے اردو رسمِ خط اٹھائے ہوئے ہے، صرف اس لیے کہ ہمارا لسانی رشتہ عربی سے ثابت رہے۔ ‘‘(28)

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کسی زبان کے صوتیے کا تعین کرتے وقت ماہرینِ لسانیات اس زبان کے الفاظ کے اقلی جوڑے (Minimal Pair of Words)تلاش کرتے ہیں۔ الفاظ کے اقلی جوڑوں سے مراد وہ دو الفاظ ہیں جن میں صرف ایک آواز کا فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ دیکھنا ہو کہ /ڑھ/ کی آواز اردو میں ’صوتیہ‘ ہے یا نہیں، تو سب سے پہلے ہمیں اردو کا ایک ایسا لفظ ڈھونڈنا ہو گا جس کی تین حالتوں (ابتدائی، درمیانی، آخری) میں سے کسی بھی ایک حالت میں /ڑھ/ کا استعمال ہوا ہو۔ پھر اس لفظ کے اقلی جوڑے (Minimal Pair)کو تلاش کرنا ہو گا جس میں /ڑھ/تخالفی کردار (Contrastive Role)ادا کرتا ہو۔ اگر کوئی ایسا جوڑا مل جائے جسے اقلی لفظی جوڑا کہہ سکیں، یعنی جس میں اسی حالت میں صرف ایک آواز کا فرق ہو اور جس کی وجہ سے معنی میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو /ڑھ/ کو اردو کا صوتیہ قرار دیا جا سکے گا۔ درجِ ذیل مثال میں /ڑھ/ اقلی لفظی جوڑے میں درمیانی حالت میں واقع ہوکر /ڑ/کے ساتھ تخالفی کردار ادا کر رہا ہے، اس لیے /ڑھ/کو اردو زبان کا ایک منفرد صوتیہ(Separate Phoneme)قرار دیا جا سکتا ہے، مثلاً:

/بڑائی/’greatness’

/بڑھائی/’lengthened’

(ع، جنابِ شیخ نے داڑھی بڑھائی، سَن کی سی)

واضح رہے کہ صوتیوں کے تعین کے لیے دونوں آوازوں کا ایک ہی حالت میں (خواہ وہ ابتدائی حالت ہو یا درمیانی یا آخری) پایا جانا لازمی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی شرط پوری نہ ہوئی تو وہ آواز ’صوتیہ‘ نہیں کہلائے گی۔ صوتیے کو ترچھی لکیروں (Slant Lines) کے درمیان میں رکھا جاتا ہے جسے صوتیاتی اصطلاح میں ‘Phonemic Notation’ کہتے ہیں، مثلاً / /، چنانچہ اس علامت کے اندر جو بھی آواز رکھی جائے گی وہ ’صوتیہ‘ کہلائے گی، جیسے کہ /ڑ/، /ڑھ/، وغیرہ۔

مسعود حسین خاں نے صوتیوں کے تعین (Identification of Phonemes) کے اس مرحلے سے گذرنے کے بعد ہی اردو کے 47صوتیوں (ممیز آوازوں ) کا تعین کیا ہے جن میں 37مصمتے اور 10مصوتے شامل ہیں۔ مصمتوں کی درجہ بندی انھوں نے بین الاقوامی انجمنِ صوتیات (IPA)کی طرز پر افقی(Horizontal)اور عمودی(Vertical)رکھی ہے۔ افقی درجہ بندی میں مصمتوں کو مخارج(Points of Articulation)کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے اور عمودی درجہ بندی میں طرزِ ادائیگی(Manner of Articulation) کے اعتبار سے، اور جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، انھوں نے بندشی آوازوں (بہ استثنائے /ق/) کو ہائیہ اور غیر ہائیہ، اور مسموع اور غیر مسموع آوازوں میں بھی تقسیم کیا ہے۔ ان کے صوتیاتی جدول(29) کو یہاں من و عن پیش کیا جاتا ہے:

 

اردو کے مصمتے

 

    دو لبی دندانی معکوسی حنکی غشائی لہاتی
بندشی غیر مسموع پ ت ٹ چ ک ق
(اسپھوٹ) ہاکاری پھ تھ ٹھ چھ کھ  
  مسموع ب د ڈ ج گ  
  ہاکاری بھ دھ ڈھ جھ گھ  
انفی(ناک کی) مسموع م ن        
چستانی غیر مسموع ف س   ش خ ہ
( صفیری) مسموع و ز   (ژ) غ  
تالیکا مسموع   ر        
پہلوئی مسموع   ل        
تھپک دا ر مسموع     ڑ      
  مسموع(ہاکار)     ڑھ      
نیم مصوتہ         ی    

 

جہاں تک کہ اردو مصوتوں (Vowels)کا تعلق ہے، مسعود حسین خاں نے ان کی تعداد 10بتائی ہے۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کے تمام مصوتے ہند آریائی ہیں اور تعداد و نوعیت کے اعتبار سے فارسی اور عربی کے مصوتوں سے کافی مختلف ہیں۔ انھوں نے اردو کے جو 10مصوتے متعین کیے ہیں وہ یہ ہیں :(30)

 

اردو کے مصوتے

 

اردو رسمِ خط دیوناگری رسمِ خط مثالیں
َ (اَ) اَکبر/بَرکت
ا (آ) آفتاب/رات
ِ (اِ) اِتنا/کِتنا
یٖ (اِی) اِیکھ/نیٖند)
ُ (اُ) اُتنا/رُکنا
وٗ (اوٗ) اوٗن/خوٗن
ے (اِے) اِیکا/ٹھیکا
ے َ (اَے) اَیسا/پَیسہ
ُ و (اُو) اُولا/کھُولا
َ و (اَو) اَوندھا/کھَولا

 

مذکورہ دس مصوتوں میں آٹھ ’خالص مصوتے ‘(Pure Vowels)ہیں اور دو ’دوہرے مصوتے‘(Diphthongs)۔ دوہرے مصوتے یہ ہیں : اَے اور اَو اردو مصوتوں کو اردو رسمِ خط میں ظاہر کرنے کے لیے تین حروفِ علت (ا، و، ی)، اور تین اعراب (زیر، زبر، پیش) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بقیہ چار مصوتے (بہ شمولِ دوہرے مصوتے) انھی سے مرکب شکلوں سے ظاہر کیے جاتے ہیں۔

دیگر لسانیاتی مسائل

 

مسعود حسین خاں نے اردو مصوتوں اور مصمتوں کے تعین اور ان کی درجہ بندی کے علاوہ اردو کے حوالے سے بعض دیگر صوتیاتی مسائل سے بھی بحث کی ہے، جن میں انفی آوازوں، کو ز آوازوں، مصمتوں کی ہاکاریت، مصمتوں اور مصوتوں کی کمیت اور مصمتی خوشوں کی خصوصیات شامل ہیں جن پر ذیل میں روشنی ڈالی جاتی ہے:

مسعودحسین خاں کے تجزیے کے مطابق اردو میں دو انفی مصمتے (Nasal Consonants)پائے جاتے ہیں جو /م/ اور /ن/ہیں، لیکن اردو کے تمام مصوتے انفیائے، یعنی Nasalizedکیے جا سکتے ہیں، مثلاً باٹ /بانٹ، مَے/مَیں، گئی/ گئیں، تھی/تھیں، وغیرہ۔ اردو میں انفیت (Nasalization)ممیز (Distinctive)ہے، یعنی اس کی وجہ سے معنی میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ انفی آوازوں کے سلسلے میں مسعود حسین خاں نے ایک صوتیاتی نکتہ یہ پیش کیا ہے کہ /ن/کی آواز جب کسی دوسرے مصمتے سے قبل واقع ہوتی ہے تو ہم آہنگ (Homorganic)ہو جاتی ہے، مثلاً (1 ن/ب: انبہ، (2 ن/ت: سنت،   (3 ن/د : اندازہ، (4 ن/ڈ: انڈا، (5 ن/ج: رنج، (6 ن/گ: رنگ، وغیرہ۔ لیکن جب یہی /ن/ کی آواز /ق/ کے ساتھ واقع ہوتی ہے تو ہم آہنگ نہیں ہوتی، مثلاً ن/ق: انقلاب، انقسام، انقباض، وغیرہ۔ /ک/کی آواز کے ساتھ حسبِ ذیل مستثنیات پائی جاتی ہیں : انکار، انکسار، انکشاف، وغیرہ۔

مسعودحسین خاں کے تجزیے کی رو سے اردو کی کوزیا معکوسی آوازیں (Retroflex Sounds)چھے ہیں : ٹ، ٹھ، ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ۔ اردو میں ٹ، ٹھ کی آوازیں لفظ کی تینوں حالتوں (ابتدائی، درمیانی، آخری) میں پائی جاتی ہیں۔ بقیہ چار معکوسی آوازوں (ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ) کی لفظ کی ابتدائی، درمیانی اور آخری حالتوں میں تقسیم انھوں نے خالص توضیحی انداز میں بیان کی ہے جس کے مطابق /ڈ/ اور/ ڈھ/ کی آوازیں صرف لفظ کی ابتدائی حالت میں، /ڈّ/کی آواز مشدد شکل میں صرف درمیانی حالت میں، اور /نڈ/ کی آواز انفی شکل میں صرف لفظ کی درمیانی اور آخری حالتوں میں واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح /ڑ/اور /ڑھ /کی آواز یں درمیانی اور آخری حالتوں میں واقع ہوتی ہیں۔ /نڑھ/کی آواز انفی شکل میں صرف لفظ کی آخری حالت میں واقع ہوتی ہے۔ /ڑّ/کی آواز مشدد شکل میں لفظ کی کسی بھی حالت میں واقع نہیں ہوتی۔ /ڑ/ اور /ڑھ/کی آوازیں ابتدائی حالت میں اردو کے کسی لفظ میں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح/ڈّ/مشدّد اور /نڈ/ انفی کی آوازیں بھی لفظ کی ابتدائی حالت میں مفقود ہیں۔ علاوہ ازیں /نڑھ/انفی شکل میں لفظ کی ابتدائی اور درمیانی حالتوں میں مفقود ہے۔ اردو کے صوتی نظام میں معکوسی آوازوں (ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ) کی تقسیم کو مسعود حسین خاں نے ذیل کے جدول کے ذریعے بھی پیش ک یا ہے۔ ( دیکھیے ’مقدمات شعر و زبان‘، ص 257):

 

 

  لفظوں کی ابتدا میں لفظوں کے درمیان میں    لفظوں کے آخر میں
ڈ ü × ×
ڈھ ü × ×
ڈّ(مشدّد) × ü ×
نڈ(انفی) × ü ü
ڑ × ü ü
ڑّ (مشدّد) × × ×
ڑھ × ü ü
نڑھ (انفی × × ü

 

مسعودد حسین خاں نے اردو کے ہاکاری( نفسی) مصمتوں (Aspirates) کی تعداد 11بتائی ہے جن میں 10بندشی آوازیں (Stop Sounds)ہیں اور ایک تھپک دار(Flapped):

-1    بندشی غیر مسموع: پھ تھ ٹھ چھ کھ

-2    بندشی مسموع   : بھ دھ ڈھ جھ گھ

-3    تھپک دار مسموع:           ڑھ

اردو کے صوتی نظام میں مذکورہ آوازوں کو صوتیوں (Phonemes)کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے علاوہ لھ، مھ، نھ، وھ، اور ر ھ کی نشان دہی بھی مسعود حسین خاں نے کی ہے۔ یہ بھی ہاکار آوازیں ہیں لیکن انھیں صوتیوں کا درجہ حاصل نہیں، کیوں کہ بہ قولِ مسعود حسین خاں یہ ’’ممیز نہیں ہیں۔ ‘‘ علاوہ ازیں ان کا استعمال بہت کم الفاظ میں ہوتا ہے۔

مسعود حسین خاں نے اردو مصوتوں کی کمیت (Quantity)سے بھی بحث کی ہے جو ان کی صوتیاتی بصیرت کی دلیل ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اردو صوتیات کا کتنی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ ان کا یہ مشاہدہ لائقِ ستائش ہے کہ اگرچہ مصوتے /اَ/یعنی’Shwa’ کا طول، مصوتے /آ/یعنی / a/سے کم ہے، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کی چھوٹی بڑی شکلیں نہیں۔ صوتیاتی اعتبار سے /اَ/ایک درمیانی وسطی مصوتہ (Central Vowel) ہے، اور (آ) ایک زیریں عقبی مصوتہ(Low Back Vowel) ہے۔ ان کا یہ مشاہدہ بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں کہ اردو مصوتے کی لمبائی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب بعد میں آنے والا مصمتہ مسموع(Voiced) ہوتا ہے، اور اس وقت کم ہو جا تی ہے جب اس کے بعد کا مصمتہ غیر مسموع (Voiceless)ہوتا ہے، مثلاً آب:آپ۔ ان میں /ب/ایک مسموع اور /پ/ ایک غیر مسموع مصمتہ ہے۔

مصمتی خوشے (Consonant Cluster)کے با رے میں مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ یہ ’’صوتیات کے عام رجحان کے خلاف ہے، ‘‘ کیوں کہ عام بول چال میں مصمتی خوشے اکثر توڑ دیے جاتے ہیں۔ اردو میں یہ لفظ کی ابتدا میں بھی آتے ہیں اور خاتمے پر بھی، جب کہ ان کے بہ قول ’’خاتمے کے خوشے کا اردو احترام کرتی ہے، ‘‘ مثلاً تَخْت، مُفْت، ذِکْر، وَقْت، وغیرہ۔

٭٭

 

 

                حواشی

 

1      دیکھیے مسعود حسین خاں، ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘، ساتواں ایڈیشن(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، (1987، ’’پیش لفظ‘‘۔ [طبعِ اوّل ]1948

2      سید سلیمان ندوی، ’نقوشِ سلیمانی‘ (اعظم گڑھ: دارالمصنّفین، (1939، ص31۔

3      تاریخ سے ثابت ہے کہ حجاج بن یوسف کے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد جب محمد بن قاسم کا قتل ہوا تو اس وقت اس کی عمر محض 20برس تھی۔ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا۔ حجاج بن یوسف بنو امیہ کے عہدِ خلافت میں ایک اہم انتظامی عہدے پر فائز تھا۔

4      حافظ محمود خاں شیرانی، ’پنجاب میں اردو‘ (لکھنؤ: نسیم بک ڈپو، (1970، ص99۔ [طبعِ اوّل ]1928

5      ایضاً، ص19۔

6      مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ’’پیش لفظ‘‘۔

7      ٹی.گریہم بیلی (T. Grahame Bailey)، A History of Urdu Literature(لندن، 1932)، ص7۔

8      ایضاً، ص78۔

9      گریہم بیلی نے اپنی کتاب A History of Urdu Literature (1932)کے”Preface” کے آخری پیراگراف میں محی الدین قادری [زور]کو اپنا شاگرد بتایا ہے اور اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ متذکرہ کتاب کی تمام تر پروف خوانی کا کام انھوں نے ہی انجام دیا اور قیمتی مشورے دیے۔ بیلی کے الفاظ یہ ہیں :

"I wish to express my thanks to an old student of my own, Dr. Mohiuddin Qadri of the Osmaniya University, for having read all the proofs of the volume and made valuable suggestions.”

10    سید محی الدین قادری زور، ’ہندوستانی لسانیات‘ (لکھنو: نسیم بک ڈپو، (1960، ص 9495۔ [طبعِ اول، [1932

11    مسعود حسین خاں، ’’اردو زبان: تاریخ، تقدیر، تشکیل‘‘، خطبۂ ایمے ریٹس پروفیسر(علی گڑھ : شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، (1988، ص5۔ [یہ خطبہ پروفیسر مسعود حسین خاں نے 13جنوری 1988کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس میں دیا تھا جس کی صدارت سید ہاشم علی (وائس چانسلر) نے فرمائی تھی۔ ]

12    مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 236۔

13    ایضاً، ’’پیش لفظ‘‘۔

14    حافظ محمود خاں شیرانی، محولۂ بالا کتاب، ص54۔

15    دیکھیے امرت رائے کی کتاب A House Divided: The Origin and Development of Hindi / Hindavi (نئی دہلی: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1984)۔

16    مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 78۔

17    ایضاً، ص 7778۔

18    ایضاً، ص71۔

19    دیکھیے محمد حسین آزاد کا یہ قول: ’’اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے۔ ‘‘ (’آبِ حیات‘، ص13)۔

20    منقول از سنیتی کمار چٹرجی، Indo-Aryan and Hindi(کلکتہ: فرما کے. ایل. مکھوپادھیائے، (1960، ص183۔ [طبعِ اول،][1942

21    مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 73۔

22    ایضاً، ص 241(چوتھا ایڈیشن، 1970)۔

23    ایضاً، ص 236(ساتواں ایڈیشن، 1987)۔

24    مسعود حسین خاں، ’مقالاتِ مسعود‘ (نئی دہلی: ترقیِ اردو بیورو، (1989، ص7۔

25    کمال احمد صدیقی، ’’اردو اور مسعود حسین خاں کی خدمات‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’کتاب نما‘ (نئی دہلی)، جلد 32، شمارہ 10، بابت اکتوبر [1992خصوصی شمارہ: ’’پروفیسر مسعود حسین خاں -علمی، لسانی اور ادبی خدمات‘‘، مرتبہ ایم. حبیب خاں، ص]13۔

26    عروضی تجز صوتیات کو اکثر عروضی صوتیات بھی کہہ دیتے ہیں۔ اردو کے لسانیاتی ادب میں ’تجزصوتیات‘ کی اصطلاح Phonologyکے لیے استعمال کی جاتی ہے، جب کہ Phoneticsکے لیے ’صوتیات‘ کی اصطلاح رائج ہے۔

27    ان کتابوں کے نام ہیں ’ہندستانی فونے ٹکس‘(1930)، اور ’ہندستانی لسانیات‘ (1932)۔

28    مسعود حسین خاں، ’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘، مشمولہ ’مقدماتِ شعر و زبان‘ (حیدرآباد: شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی، (1966، ص252۔

29    ایضاً، ص 251۔

30    دیکھیے مسعود حسین خاں کا مضمون ’’اردو حروفِ تہجی کی صوتیاتی ترتیب‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘ (1983)، ص17677، اور ’مقدماتِ شعر و زبان‘، ص 24648۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بابِ پنجم: ادبی تحقیق و تدوینِ متن

 

                ادبی تحقیق

 

لسانیاتی تحقیق کے علاوہ مسعود حسین خاں نے شعر و ادب سے بھی دل چسپی لی اور اسلوبیاتی تنقید کے میدان میں بھی کا رہائے نمایاں انجام دیے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ادبی تحقیق اور تدوینِ متن کے بھی جوہر دکھائے۔ ان کی ادبی تحقیق کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں، تاہم انھوں نے پریم چند (1880-1936)کے ناولوں کے اردو ترجموں بالخصوص ’گودان‘ کے اردو ترجمے کے بارے میں جو حقائق پیش کیے اور جو نتیجہ اخذ کیا اس نے لوگوں کو چونکا دیا، اور پوری اردو دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔

پریم چند سے متعلق مسعود حسین خاں کی تحقیقات کا سلسلہ 1970سے شروع ہوتا ہے جب انھوں نے انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ میں ’میرا صفحہ‘ کے کالم کے تحت یکے بعد دیگرے تین مضامین بہ عنوان ’’گؤدان(1) (‘‘، ’’گؤ دان(2)‘‘، اور ’’گؤدان(3)‘‘ شائع کیے۔ (1)علاوہ ازیں انھوں نے اپنے تین دیگر مضامین میں بھی پریم چند پر اپنی تحقیقات سے متعلق بحث اٹھائی ہے اور اپنا موقف پیش کیا ہے۔ یہ مضامین ہیں : (1’’گؤدان: تصنیف یا ترجمہ‘‘ (سہ ماہی ’فکر و نظر‘علی گڑھ، جلد 11، شمارہ 2، بابت 1971)، (2’’گودان تا گؤدان‘‘ (ہفت روزہ ’ہماری زبان‘۔مشترکہ شمارہ، بابت یکم و 8مئی 1981)، اور (3 ’’رنگ بھومی تا چوگانِ ہستی‘‘(ہفت روزہ ’ہماری زبان‘، بابت 22ستمبر1981)۔

مسعود حسین خاں نے پریم چند پر اپنی تحقیق کے سلسلے میں یہ انکشاف کیا کہ پریم چند نے ناول ’گؤدان‘ اردو میں نہیں لکھا، بلکہ یہ سب سے پہلے ’گودان‘ کے نام سے ہندی میں لکھا گیا، پھر اقبال ورما سحر ہتگامی (18861942)نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ اپنے مضمون ’’گؤدان(1)‘‘مطبوعہ ہفت روزہ ’ہماری زبان‘، بابت 15دسمبر 1970میں لکھتے ہیں :

’’گؤدان‘‘ بہ اتفاقِ رائے اردو کا بہترین ناول تسلیم کیا جاتا رہا ہے لیکن کیا اردو ’گؤدان‘ پریم چند کے قلم سے نکلی ہوئی تصنیف ہے یا یہ ترجمہ ہے جو انھوں نے اپنے دیرینہ دوست اقبال ورما سحرؔ ہتگامی کی مدد سے کیا ہے؟ اگر اس ترجمے میں سحر کا ہاتھ زیادہ ہے اور سوانحی شہادتوں کے مطابق پریم چند نے صرف نظرِ ثانی کی ہے تو اردو ’گؤدان‘ کو پریم چند کی تصنیف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کی حیثیت صرف ہندی ’گودان‘ کے ترجمے کی ہے، اور کسی دوسری زبان کے ترجمے کو اردو کی اصل تصنیف شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ’گؤدان‘ اردو تصنیف نہیں اور نتیجۃً اردو کا بہترین ناول بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ‘‘(2)

مسعود حسین خاں نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے داخلی شواہد بھی فراہم کیے ہیں۔ انھوں نے ’گؤدان‘ کا اس کے ہندی متن ’گودان‘ سے مقابلہ کیا اور ان دونوں میں زبان و اسلوب اور روز مرہ کے فرق کی وجہ سے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ اس کا ہندی متن ہی اصل متن ہے اور اردو متن اس کا ترجمہ ہے، اور ترجمے کو کسی زبان کے ادب کی تاریخ میں وہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی جو طبع زاد تخلیق کو حاصل ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’گؤدان ) (2‘‘ میں جو ’ہماری زبان‘ کی 8مئی 1971کی اشاعت میں شائع ہوا، ذیل کی عبارت درج کی:

’’چوں کہ کسی زبان کے ناول کا ترجمہ جس زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے اس کی تاریخِ ادب کا جز و قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے ہم پریم چند کی اردو ’گؤدان‘ کو ان کی تصنیف نہیں کہہ سکتے۔ یہ بہرحال ترجمہ ہے اور اس لیے اسے اردو کا ناول یا بہترین ناول قرار دینا حقائق سے انحراف کرنا ہے۔ ‘‘(3)

مسعود حسین خاں نے سہ ماہی ’فکر و نظر‘ (علی گڑھ) میں شائع شدہ اپنے متذکرہ مضمون میں بھی دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ دیا:

’’’گؤدان‘ کا اردو ناول نگاری کی تاریخ میں کوئی مقام نہیں۔ ‘‘

ان کے اس انکشاف اور تحقیقی نتیجے سے اردو دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اس کے ردِ عمل میں طرح طرح کے بیانات سامنے آئے۔ مانک ٹالا(19242013) نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مسعود حسین خاں ’’پریم چند کو بہ طورِ اردو ادیب Disownکرنے کے دَرپے ہیں۔ ‘‘(4)گیان چند جین (19232007)نے لکھا کہ ’’ان مضامین میں مسعود صاحب نے انہدامی دستے (Demolition Squad)کا رول سر انجام دیا ہے۔ ‘‘(5)بعض دوسرے اہلِ علم، مثلاً ویریندر پرشاد سکسینہ، غافل انصاری، جعفر رضا، صفدر آہ اور قمر رئیس وغیرہ نے بھی اس بحث میں حصہ لیا، لیکن وہ مسعود حسین خاں کے اس نقطۂ نظر سے اتفاق نہ کر سکے کہ ’گؤدان‘ یا پریم چند کے بعض دوسرے ناول جو بہ قول ان کے ہندی سے ترجمہ ہوئے ہیں، اور جن پر پریم چند نے نظرِ ثانی بھی کی ہے، انھیں اردو ادب کی تاریخ میں کوئی مقام نہ دیا جائے۔ لیکن مسعود حسین خاں اپنے موقف پر قائم رہے۔

جو لوگ ’گؤدان‘ کو اردو ناول قرار دیتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’گؤدان کا اردو مسودہ پریم چند کی زندگی ہی میں تیار ہو چکا تھا اور وہ (پریم چند) اس کی اشاعت کے لیے کسی ناشر کی تلاش میں تھے۔ اس کی تصدیق ان کے (پریم چند کے) اس خط سے ہوتی ہے جو انھوں نے 1936میں اختر رائے پوری کو لکھا تھا۔ خط کا متن یہ ہے:

’’میرا اپنا ناول ’گودان‘ (ہندی) ابھی حال میں نکلا ہے …اب ’گؤدان‘ کے لیے بھی ایک پبلشر تیار کر رہا ہوں۔ ‘‘(6)

اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ’گؤدان‘ (اردو) کا مسودہ مکمل صورت میں پریم چند کی تحویل میں تھا اور اشاعت کا منتظر تھا۔ ’گؤدان‘ کے پریم چند کی تحویل میں ہونے کی تصدیق پریم چند کے بیٹے اور ہندی کے اسکالر امرت رائے (19211996)کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جو انھوں نے بھوپال میں نومبر 1979میں پریم چند پر منعقد ایک سمینار میں دیا تھا۔ ان کا (امرت رائے کا)کہنا تھا کہ ’’میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ صرف اس قدر یاد پڑتا ہے کہ پریم چند کی میز پر ایک کاپی میں لال روشنائی سے اردو میں ’گؤدان‘ لکھا ہوا دیکھا تھا۔ ‘‘(7) ہندی کے معروف اسکالر کمل کشور گوینکا جو پریم چند پر اپنے تحقیقی کاموں کے لیے بہ خوبی جانے جاتے ہیں، ایک جگہ یہ لکھتے ہیں :

’’پریم چند نے مول اپنیاس اردو میں لکھے اور بعد میں سویم ان کا انوواد کیا۔ ‘‘ (8)

(= پریم چند نے اصل نا ول اردو میں لکھے اور بعد میں خود ان کا ترجمہ کیا۔ )

’گؤدان‘ کو اردو ناول تسلیم کرنے والوں نے امرت رائے اور گوینکا کے ان بیانات کی روشنی میں یہ موقف اختیار کیا کہ پریم چند نے اپنے بیشتر ناولوں کی طرح ’گودان‘(ہندی )بھی پہلے اردو ہی میں لکھا، کیوں کہ اردو لکھنے میں انھیں زیادہ مہارت حاصل تھی اور یہی زبان ان کے لیے فطری زبان کا درجہ رکھتی تھی، جسے وہ بچپن ہی سے لکھتے پڑھتے آئے تھے، لیکن اشاعت میں سہولت اور مالی منفعت کی وجہ سے وہ اپنے (اردو میں لکھے ہوئے) ناولوں کو ہندی کے قالب میں ڈھالنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ چنانچہ ’گؤدان‘ کے سا تھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ یہ پہلے اردو میں لکھا گیا، اور پریم چند نے جب اسے ’گودان‘ کے نام سے ہندی میں منتقل کیا تو اصل اردو مسودے میں کچھ کاٹ چھانٹ اور ترمیم و اضافہ بھی کیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ’گودان‘ (ہندی) تیار ہوا جو جلد (ان کی زندگی ہی میں )چھپ بھی گیا۔ ان کے انتقال (1936)کے بعد ہندی متن کو سحر ہتگامی نے اردو میں تبدیل کیا۔ سحر ہتگامی نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے پریم چند کے کئی ناول (بہ شمولِ ’گؤدان‘)اردو میں ترجمہ کیے۔

پریم چند کے ناولوں سے متعلق مسعود حسین خاں کی تحقیقات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ پریم چند کے ایک دوسرے ناول ’چوگانِ ہستی‘ کے بارے میں بھی انھوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ مکمل طور پر سحر ہتگامی کا ترجمہ کیا ہوا ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سحر ہتگامی نے یہ ترجمہ پریم چند کی زندگی میں کیا جس کے لیے پریم چند نے انھیں مبلغ دو سو روپے معاوضے کے طور پر دیے۔ خود سحر ہتگامی نے بھی اپنے خود نوشت حالات میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ’چوگانِ ہستی‘ ان کا ترجمہ کیا ہوا ہے۔ رسالہ ’زمانہ‘ (کانپور) کی ستمبر 1937کی اشاعت میں شائع شدہ ایک اعلان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سحر ہتگامی نے پریم چند کی حیات میں ’چوگانِ ہستی‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا۔

لیکن ’چوگانِ ہستی‘ کے بارے میں ایسے دلائل و شواہد بھی موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ناول بھی اصلاً اردو ہی میں لکھا گیا۔ اس کی سب سے بڑی شہادت خود پریم چند کی تحریر ہے۔ پریم چند نے ’چوگانِ ہستی‘ (طبعِ دوم) کے دیباچے میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ ناول پہلے اردو ہی میں لکھا گیا، اور اس کا ہندی ایڈیشن ’رنگ بھومی‘ بعد میں تیار کیا گیا جس میں کافی ترمیم و اضافہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں گیان چند جین نے مسعود حسین خاں پر اپنے مضمون(9)میں مانک ٹالا کے حوالے سے امرت رائے کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں وہ (امرت رائے) کہتے ہیں کہ ’’رنگ بھوم کی چھپائی شروع ہو گئی ہے، لکھی پہلے اردو میں گئی، چھپی پہلے ہندی میں۔ ‘‘گیان چند جین نے مانک ٹالا کے حوالے سے کمل کشور گوینکا کی بھی ایک تحریر کا حوالہ دیا ہے جس میں ’چوگانِ ہستی‘ کے بارے میں گوینکا کہتے ہیں کہ ’’اس ناول کی رچنا اردو میں ہوئی اور پریم چند نے بعد میں اس کا ہندی کرن کیا۔ ‘‘ جعفر رضا کو بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ ’رنگ بھومی‘ پریم چند کے اردو ناول ’چوگانِ ہستی‘ کا ہندی ترجمہ ہے۔

’چوگانِ ہستی‘ سے متعلق بھی وہی بات سچ ہے جو ’گؤدان‘ کے با رے میں کہی گئی ہے، یعنی پریم چند نے اصلاً اردو ناول ’چوگانِ ہستی‘ لکھا، لیکن جب اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی تو اس کے مسودے میں انھوں نے تھوڑی ترمیم و اضافہ کر کے اسے ہندی نا ول ’رنگ بھومی‘ کی شکل د ے دی۔ بعد ازاں ’رنگ بھومی‘ کو اردو میں ترجمہ کرنے کا کام سحر ہتگامی نے انجام دیا۔ پریم چند نے انھیں معاوضے کے طور پر دو سو روپے دیے۔ مسعود حسین خاں اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ’چوگانِ ہستی‘ اصلاً اردو ہی میں لکھا گیا۔

مسعود حسین خاں کا تیسرا نشانہ پریم چند کا اردو ناول ’گوشۂ عافیت‘ ہے۔ اس کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہے کہ یہ اصلاً ہندی میں ’پریم آشرم‘ کے نام سے لکھا گیا جس کا بعد میں سحر ہتگامی نے ’گوشۂ عافیت‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا۔ سحر ہتگامی نے اپنے خود نوشت حالات میں ’گوشۂ عافیت‘ کا بھی ترجمہ کرنے کی بات کہی ہے۔ ’گوشۂ عافیت‘ کے بارے میں بھی معاملہ یہی ہے کہ یہ ناول پہلے لکھا اردو میں گیا، پھر اس کا ہندی متن تیار ہوا اور وہ چھپ گیا، اس کے بعد سحر ہتگامی نے اسے اردو میں منتقل کیا۔ پریم چند کے دوسرے ناولوں، مثلاً ’میدانِ عمل‘(’کرم بھومی‘)، ’سیواسدن‘، ’نرملا‘ وغیرہ کے بارے میں بھی محققین کی یہی رائے ہے کہ یہ اصلاً اردو ہی میں لکھے گئے، اور بعد میں انھیں ہندی روپ دیا گیا۔

مسعود حسین خاں نے پریم چند پر اپنی تحقیقات کے سلسلے میں بعض حقائق کو نظر انداز کر دیا ہے، مثلاً یہ کہ سحر ہتگامی نے پریم چند کے جن ناولوں کے ترجمے ہندی سے اردو میں کیے ہیں وہ پہلے اردو ہی میں لکھے گئے تھے، لیکن پریم چند نے ان کا ’ہندی کرن‘ کر کے انھیں پہلے ہندی میں چھپوا دیا تھا۔ ہندی میں چھپوانے سے قبل انھوں نے ان ناولوں میں کچھ ترمیمات اور اضافے بھی کیے تھے۔ جیسے جیسے ان کے ناول ہندی میں چھپتے گئے، سحر ہتگامی ان کے ترجمے اردو میں کرتے گئے۔ اردو میں مترجمہ بعض ناولوں پر پریم چند نے نظرِ ثانی بھی کی، اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مسعود حسین خاں کے تحقیقی نتائج درست معلوم ہوتے ہیں، یعنی یہ کہ پریم چند کے کئی اردو ناول ان کے ہندی ناولوں کے ترجمے ہیں، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پریم چند نے اپنے ناول اصلاً اردو میں نہیں لکھے تھے۔ اصلاً اردو میں لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ انھیں اردو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا اور اردو ہی ان کی پہلی زبان تھی۔ جس سہولتِ اظہار اور روانی کے ساتھ وہ اردو لکھ لیتے تھے، ہندی نہیں لکھ سکتے تھے۔ ہندی میں پہلے چھپوانے کی وجہ یہ تھی کہ ہندی کے پبلشر انھیں بہ آسانی مل جاتے تھے اور وہ انھیں معاوضہ بھی نہایت معقول دیتے تھے۔

 

                تدوینِ متن

 

مسعود حسین خاں نے پریم چند پر اپنی تحقیق کے علاوہ ادبی تحقیق کے ضمن میں کوئی اور قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا، لیکن انھوں نے جو تدوینی کام کیے ہیں ان میں تحقیق کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنے ایڈٹ کیے ہوئے قدیم متون پر جو سیر حاصل مقدمات لکھے ہیں، ان سے ان کی تحقیقی لگن اور گہری چھان بین کا بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

مسعود حسین خاں نے اپنے علمی سفر کے دوران میں ایک نثری داستان اور چار مثنویاں مدون کی ہیں جن میں سے دو دکنی مثنویاں ہیں اور دو مثنویوں کا تعلق شمالی ہند سے ہے۔

 

(الف) نثری داستان

 

مسعود حسین خاں نے حیدرآباد کے دورانِ قیام میں ایک نثری داستان ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ اپنے سیر حاصل مقدمے کے ساتھ ایڈٹ کر کے پہلی بار 1966میں شائع کی۔ یہ شمالی ہند کی اردو کی قدیم ترین طبع زاد نثری داستان ہے۔ اس کے مصنف کا نام عیسوی خاں بہادر ہے جس نے سنہ 1732اور 1759کے درمیان یہ داستان لکھی۔ اس دا ستان کا واحد نسخہ آغا حیدرحسن (حیدرآباد، دکن) کے ذاتی کتب خانے کی ملکیت تھا جہاں سے مسعود حسین خاں نے اس کا عکس حاصل کیا اور اس پر سیر حاصل مقدمہ لکھا۔ ان کا خیال ہے کہ عیسوی خاں نے اپنے عہد کی ’’بول چال کی زبان‘‘ میں یہ داستان لکھی ہے، نیز ’’اردو کے قدیم ادب میں اس سے زیادہ سہل اور سا دہ عبارت نظم و نثر میں آج تک نہیں لکھی گئی۔ ‘‘(10)

 

(ب) مثنویاں

 

مسعود حسین خاں نے حیدرآباد میں اپنے قیام کے زمانے میں سب سے پہلے اردو کی دو مثنویاں ’پرت نا مہ‘ اور ’بکٹ کہانی‘ ایڈٹ کر کے 1965میں مجلہ’ قدیم اردو‘ (حیدرآباد) کی جلدِ اول میں شائع کیں۔ ’پرت نامہ‘ ایک دکنی مثنوی ہے جس کا مصنف قطب الدین قادری فیروز بیدری ہے جسے دبستانِ گول کنڈہ کا ’’مسلّم الثبوت استاد‘‘ تسلیم کیا گیا ہے، مسعود حسین خاں نے اس مثنوی کا سنہِ تصنیف 1564سے قبل کا زمانہ مانا ہے۔ یہ مثنوی حضرت عبدالقادر جیلانی اور فیروز بیدری کے پیر شیخ ابراہیم مخدوم جی (م۔ (1564 کی مدح میں لکھی گئی ہے۔ جس زمانے میں یہ مثنوی لکھی گئی اس وقت ’’مخدوم جی‘‘ حیات تھے۔

’پرت نا مہ‘ کی ترتیب و تہذیب کے بعد مسعود حسین خاں نے ایک دوسری مثنوی ’بکٹ کہانی‘ ایڈٹ کی جسے ’’بارہ ماسہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے ’’شمالی ہند میں اردو شاعری کا پہلا مستند نمونہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ سنہ 1625سے پہلے کی تصنیف ہے، کیوں کہ اس کے مصنف محمد افضل افضلؔ کا انتقال 1625عیسوی میں ہوا۔ ’بکٹ کہانی‘ کی ترتیب و تہذیب کا پورا کام مسعود حسین خاں نے خود انجام دیا، بڑی تحقیق اور چھان بین کے بعد اس پر سیر حاصل مقدمہ لکھا اور نہایت دقتِ نظر کے ساتھ اختلافِ نسخ تیار کیے۔ چوں کہ ’بکٹ کہانی‘ کے چند نسخے نورالحسن ہاشمی (لکھنؤ یونیورسٹی) کو بھی دست یاب ہوئے تھے اور انھوں نے وہ نسخے لکھنؤ میں ایک ملاقات کے دوران میں مسعود حسین خاں کے سپر د کر دیے تھے، اس لیے انھوں نے نورالحسن ہاشمی کو بھی اس کام میں شریک کر لیا اور مرتب کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ ان کا نام بھی لکھ دیا۔ ’بکٹ کہانی‘ پہلی بار 1965میں حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن جس پر مسعود حسین خاں نے نظرِ ثانی کی اور’ ’مقدمہ (طبعِ دوم)‘‘لکھا، راقم السطور کے ’’پیش لفظ‘‘ کے سا تھ 2002میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع ہوا۔ اس دوران میں اترپردیش اردو اکادمی (لکھنؤ) نے بھی اسے کئی با ر چھاپا۔

’ابراہیم نامہ‘ ایک دوسری دکنی مثنوی ہے جسے مسعود حسین خاں نے ایڈٹ کیا۔ اس کی اشاعت مجلہ ’قدیم اردو‘ کی جلدِ سوم کے طور پر 1969میں عمل میں آئی جب وہ حیدرآباد چھوڑ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات سے منسلک ہو گئے تھے۔ اس مثنوی کا مصنف عبدل دہلوی ابراہیم عادل شاہ ثانی (1580-1626)کا درباری شاعر تھا۔ مسعود حسین خاں نے’ ابراہیم نامہ‘ کو ’’دبستانِ بیجا پور کا پہلا ادبی نقش‘‘ قرار دیا ہے، اور اس کا سنہِ تصنیف 1611/12تسلیم کیا ہے۔ یہ ایک قسم کا ’شاہ نامہ‘ ہے جس میں بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت کے چھٹے حکم راں ابراہیم عادل شاہ ثانی کی مدح سرائی کی گئی ہے۔ ’ابراہیم نامہ‘ مسعود حسین خاں نے بڑی دیدہ ریزی اور دقتِ نظر کے ساتھ مدون کیا ہے اور 67صفحات پر مشتمل اس کا تحقیقی مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں اس مثنوی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

چوتھی اور آخری مثنوی جو مسعود حسین خاں نے مدون کی وہ روشن علی کی ’عاشور نامہ‘ ہے۔ یہ مجلہ ’قدیم اردو‘ کی جلدِ چہارم کے طور پر 1972میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع ہوئی۔ اس کا واحد نسخہ (مخطوطہ) رضا لائبریری، رام پور (یوپی) کا مخزونہ ہے۔ سید سفارش حسین رضوی نے اس کی مائکرو فلم وہیں سے حاصل کی اور پہلے اپنی کتاب ’اردو مرثیہ‘(1965)میں اور بعد میں رسالہ’ اُردو ادب‘ کے 1971کے شمارے میں اس کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ اس کے بعد اس مخطوطے کی مائکرو فلم اور اس کی ایک نقل انھوں نے مسعود حسین خاں کے سپرد کر دی۔ اس مثنوی کا سنہِ تصنیف 1688ہے اور اس کے اشعار کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد ہے۔ مسعود حسین خاں نے ’عاشور نا مہ‘ کے مقدمے میں اس کی زبان، نیز دیگر لسانی اور ادبی خصوصیات سے تفصیل سے بحث کی ہے۔

٭٭

 

 

                حواشی

 

1      یہ تینوں مضامین مسعود حسین خاں کے مجموعۂ مضامین ’اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ : شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973) میں شامل ہیں۔

2      مسعود حسین خاں، ’ اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ، ص 182۔

3      ایضاً، ص 196۔

4      بہ حوالہ گیان چند جین، ’’ڈاکٹر مسعود حسین خاں : بہ حیثیتِ ادبی محقق‘‘، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: تعلیمی مرکز، 1989)، ص156۔

5      ایضاً، ص143۔

6      بہ حوالہ ایضاً، ص 146۔

7      بہ حوالہ مسعود حسین خاں، ’’گودان تا گؤدان‘‘، مشمولہ ’مقالاتِ مسعود‘ (نئی دہلی: ترقیِ اردو بیورو، 1989)، ص204۔

8      یہ بیان گیان چند جین نے مانک ٹالا کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ دیکھیے گیان چند جین کا محولۂ بالا مضمون، مشمولہ ’نذرِمسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ، ص147۔

9      دیکھیے گیان چند جین، محولۂ بالا مضمون، ص51۔

10    دیکھیے مسعود حسین خاں (مرتب)، ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ (حیدرآباد، 1966)، ’’پیش نامہ‘‘۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بابِ ششم: تصنیفات و تالیفات

(توضیحی جائزہ)

 

مسعود حسین خاں نے 91سال سے زائد عمر پائی۔ انھوں نے اپنی عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ درس و تدریس کے علاوہ علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں، نیز تصنیفی سرگرمیوں میں صرف کیا۔ وہ ادب، فلسفہ، تاریخ اور لسانیات کا ٹھوس علم رکھتے تھے۔ انھیں کئی زبانوں پر عبور بھی حاصل تھا۔ انھوں نے اپنی طویل عمر کے دوران میں شاعری بھی کی اور تنقید بھی لکھی، نیز لسانیاتی تحقیق کے جوہر بھی دکھائے۔ تدوینِ متن ان کی ادبی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ لغت نویسی کے مسائل سے بھی انھیں دل چسپی رہی ہے۔ وہ ماہرِ دکنیات بھی کہے جاتے تھے، اور اردو تحریک کے فعال قلم کار کی حیثیت سے بھی ان کا مرتبہ نہایت بلند تھا۔ ادبی صحافت کے میدان میں بھی وہ پیش پیش رہے۔ آخر آخر میں انھوں نے اپنی زندگی کی سرگذشت بھی لکھ ڈالی۔ غرض کہ ان کی شخصیت کثیر جہاتی تھی اور ان کی علمی و ادبی دلچسپیاں متنوع تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصنیفات و تالیفات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ ذیل میں زمانی اعتبار سے مسعود حسین خاں کی تصنیفات و تالیفات کا توضیحی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

 

                تصنیفات

 

1۔’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ (1948): مسعود حسین خاں کی سب سے پہلی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ ہے جو 1948میں دہلی سے شائع ہوئی۔ یہ در اصل ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 1945میں پی ایچ.ڈی (Ph.D.)کی ڈگری تفویض کی۔ اس کتاب کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا ساتواں ایڈیشن 1987میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا جس میں انھوں نے ’’تھوڑی سی نظریاتی ترمیم‘‘ بھی کی ہے۔ اس کتاب میں د ہلی اور اس کے نواح کی بولیوں کو اردو کا سرچشمہ اور 1193میں فتحِ دہلی کو اردو کا نقطۂ آغاز ثابت کیا گیا ہے۔ اردو کے آغاز کے سلسلے میں انھوں نے کھڑی بولی کو فوقیت دی ہے، لیکن ہریانوی کو بھی اس میں ’’برابر کی حصہ دار‘‘ بتایا ہے۔ اردو کے آغاز و ارتقا کے بارے میں مسعود حسین خاں نے اپنے نظریے کا خلاصہ متذکرہ کتاب 1987) ایڈیشن( کے صفحہ 262پر یوں پیش کیا ہے: ’’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘ اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہے، اور ’حضرتِ دہلی‘ اس کا حقیقی مولد و منشائ‘‘۔

2 ۔’اردو زبان اور ادب ‘ (1954): مسعود حسین خاں کے ادبی، تنقیدی اور لسانی مضامین کا پہلا مجموعہ ’اردو زبان اور ادب‘1954میں علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس کتاب کے بھی اب تک کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس کا آخری ایڈیشن 1983میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ نے شائع کیا۔ اس میں کل 15مضامین شامل ہیں۔ فلسفۂ اقبال، مصحفی، اصغر گونڈوی اور جوش ملیح آبادی پر لکھے ہوئے ان کے مضامین خاصے اہم ہیں جن سے ان کی تنقیدی بصیرت کا پتا چلتا ہے۔ ’’اردو حروفِ تہجی کی صوتیاتی ترتیب‘‘ لسانیاتی اعتبار سے ایک اہم اور قابلِ قدر مضمون ہے جس میں پہلی بار اردو صوتیوں (Phonemes)کا تعین کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مضمون ’’مطالعۂ شعر (صوتیاتی نقطۂ نظر سے)‘‘ میں بعض اسلوبیاتی نکات اردو میں پہلی بار بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں دو مضامین عظمت اللہ خاں پر بھی شامل ہیں۔ آخر کے تین مضامین میں اردو کے بعض لسانی و تہذیبی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعۂ مضامین اب نایاب ہو گیا ہے۔

  1. "A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urdu”(1954)

یہ مسعود حسین خاں کا تحقیقی مقالہ ہے۔ انھوں نے یورپ میں اپنے قیام (1950-53)کے دوران میں لسانیاتِ جدید کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ لندن میں صوتیات (Phonetics)کی تربیت حاصل کرنے کے بعد فرانس گئے اور پیرس یونیورسٹی سے 1953میں متذکرۂ مقالے پر لسانیات میں ڈی.لٹ (D.Lit) کی ڈگری حاصل کی۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں 1954میں شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ یہ انتہائی اہم لسانیاتی دستاویز 32سال تک اہلِ اردو کی نظروں سے اوجھل رہی، چنانچہ راقم السطور نے اس کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے ’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ‘ کے نام سے 1986میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع کیا۔ اس مقالے کی تیاری میں مسعود حسین خاں نے برطانوی ماہرِ لسانیات جے.آر.فرتھ(J.R. Firth) کے عروضی صوتیات (Prosodic Phonology) کے نظریے سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ اردو لفظ کے اس قسم کے صوتیاتی مطالعے کی یہ پہلی کوشش ہے۔

4 ۔ ’روپ بنگال اور دوسرے گیت ‘ (1954): مسعود حسین خاں کی شاعری کی ابتدا 1942میں گیت نگاری سے ہوئی تھی۔ وہ ابتدا میں ہندی کے چھایا وادی کوِیوں کے زیرِ اثر رہے، چنانچہ 1942تا 1948انھوں نے کل 22گیت لکھے۔ ان کا شاہکار گیت ’’روپ بنگال‘‘ ہے جو در اصل ایک ’روپک‘ ہے اور جو 1947میں لکھا گیا جب ملک تقسیم کے دہانے پر کھڑا تھا۔ اُن کے اِن گیتوں کا مجموعہ ’روپ بنگال اور دوسرے گیت‘ کے نام سے دیوناگری رسمِ خط میں 1954میں علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی علی گڑھ سے 1956میں شائع ہوا۔ بہ قول مسعود حسین خاں ’’یہ ٹھیٹھ ہندوستانی کے گیت ہیں۔ ‘‘

5۔ ’دو نیم ‘ (1956): ’دو نیم‘ مسعود حسین کا مجموعۂ کلام ہے جو پہلی بار 1956میں آزاد کتاب گھر، کلاں محل، دہلی سے شائع ہوا۔ ’دو نیم‘ کا دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن 30سال بعد 1986میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا، اور اس کا تیسرا اور آخری ایڈیشن (اضافہ شدہ) بھی 2002میں علی گڑھ ہی سے شائع ہوا، جس میں 22نظمیں، 47غزلیں اور 22گیت شامل ہیں۔ ’دونیم‘ کے شروع میں ’’تمہیدِ شعر‘‘ کے عنوان سے مسعود حسین خاں کا لکھا ہوا ایک دیباچہ بھی شامل ہے جس میں انھوں نے اپنے نظریۂ شعر کی وضاحت کی ہے۔

6 ۔’مقدماتِ شعرو زبان ‘ (1966): مسعود حسین خاں کے مضامین کا دوسرا مجموعہ ’مقدماتِ شعر و زبان‘ 1966میں حیدرآباد سے شائع ہوا۔ اس میں کل 12مضامین شامل ہیں جن میں سے سات مضامین شعر و ادب سے متعلق ہیں، اور پا نچ زبان سے متعلق۔ اس مجموعے کا آخری مضمون ’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘ توضیحی لسانیات (Descriptive Linguistics)کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے جس میں اردو صوتیات کے بعض اہم نکات بیان کیے گئے ہیں اور مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ شروع کے چار مضامین ’’تخلیقِ شعر‘‘، ’’مطالعۂ شعر‘‘، ’’سماج اور شعر‘‘ اور ’’غزل کا فن‘‘ ادبی تنقیدی نوعیت کے مضامین ہیں اور اس اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں کہ ان میں مصنف نے اپنا موقف اور ادبی نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ زبان سے متعلق مضامین اردو کے حوالے سے لکھے گئے ہیں جن سے اردو کے تاریخی و تہذیبی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ محمد افضل افضلؔ )م 1625.)پر جو مضمون اس مجموعے میں شا مل ہے وہ در اصل ’بکٹ کہانی‘ کا مقدمہ ہے۔

7۔ ’اردو زبان کی تاریخ کا خاکہ‘ (1970): یہمسعود حسین خاں کی تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ کی تلخیص ہے جو انھوں نے خود تیار کی ہے۔ اس سے طلبہ ہر سال خاطر خواہ استفادہ کرتے ہیں۔ اس کے متعدد ایڈیشن اور ری پرنٹس (Reprints) نکل چکے ہیں۔ یہ تلخیص پہلی بار1970میں سرسید بک ڈپو، علی گڑھ کی جانب سے شائع ہوئی تھی۔

8 ۔ ’اردو کا المیہ‘ (1973): مسعود حسین خاں نے مختلف زمانوں میں انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری کے فرائض انجام دیے اور اس کے ترجمان ہفتہ وار ’ہماری زبان‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس کے اداریے قلم بند کیے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ’ہماری زبان‘ کے ’’میرا صفحہ‘‘ (کالم) کے تحت مختلف موضوعات پر مختصر مضامین بھی لکھے۔ راقم السطور نے مسعود حسین خاں کے تحریر کردہ اِن اداریوں اور مختصر مضامین کو کتابی شکل میں ’اردو کا المیہ‘ کے نام سے مرتب کیا۔ یہ کتاب 1973میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوئی۔ اس کے شروع میں رشید احمد صدیقی کا ’’پیش لفظ‘‘ شامل ہے، جو در اصل ان خطوط اور رقعات کے اقتباسات پر مشتمل ہے جو وہ ان کے       اداریوں اور مضامین کے بارے میں وقتاً فوقتاً انھیں لکھتے رہے تھے۔ اس کتاب کے آخر میں ’’ضمیمہ‘‘ کے تحت ہندوستان میں اردو آبادی کے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ 1961اور 1971کی مردم شماری کے مطابق کن کن ریاستوں اور ضلعوں میں اردو بولنے والوں کی تعداد کتنی تھی۔

9 ۔ ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ (1983): یہ اقبال کے تصورِ فن و شعر پر مسعود حسین خاں کی ایک مختصر تصنیف ہے جو اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی (سری نگر) کی جانب سے 1983میں شائع ہوئی۔ مسعود حسین خاں نے 198182کے تعلیمی سال کے دوران میں اقبال انسٹی ٹیوٹ میں بہ طور وزٹنگ پروفیسر کام کیا تھا۔ یہ کتاب ان کے اسی زمانے کی یادگار ہے جس میں نہ صرف اقبال کے تصورِ حسن و فن اور تصورِ شعر سے بحث کی گئی ہے، بلکہ ان کی لسانی صلاحیت و شعور اور صوتی آہنگ، نیز ہیئتی تجربے کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے، اور ان کی دو نظموں ’’حقیقتِ حسن‘‘ اور ’’ایک شام (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ‘‘ کا صوتیاتی سطح پر اسلوبیاتی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب پر مسعود حسین خاں کو ساہتیہ اکادمی کا 1984کا اردو ایوارڈ مل چکا ہے۔

10 ۔’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ‘ (1986): یہ مسعود حسین خاں کے انگریزی تحقیقی مقالے "A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urdu”. کا ترجمہ ہے جسے راقم السطور نے کیا اور جو 1986میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ مسعود حسین خاں نے انگلستان اور فرانس میں اپنے قیام کے دوران میں (1950-53)یہ مقالہ تیار کیا تھا جس پر انھیں 1953میں پیرس یونیورسٹی سے ڈی۔ لٹ کی ڈگری تفویض ہوئی تھی۔ متذکرہ ترجمے کے شروع میں راقم السطور کا 10صفحات پر مشتمل ’’مقدمہ‘‘ شامل ہے جس میں برطانوی ماہرِ لسانیات جے.آر.فرتھ (J.R.Firth) کے حوالے سے ’عروضی صوتیات‘(Prosodic Phonology) کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور مسعود حسین خاں کے اس وقیع لسانیاتی کارنامے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس ترجمے کو اردو کے علمی حلقوں میں بہ نظرِ تحسین دیکھا گیا۔

11 ۔ ’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘ (1988): اِس نا م سے مسعود حسین خاں کا ایک مختصر کتابچہ 1988میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ یہ در اصل ان کا خطبۂ پروفیسر ایمے ریٹس ہے جو انھوں نے 13جنوری 1988کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دیا تھا۔ اس کتابچے میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا اور تشکیل سے لے کر موجودہ صورتِ حال تک کے تمام لسانی مسائل و مباحث پر خالص علمی انداز سے نظر ڈالی گئی ہے۔ علمی حلقوں میں اس کتابچے کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔

12 ۔’ورودِ مسعود‘ (1988): مسعود حسین خاں نے 304صفحات پر مشتمل اپنی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ کے نام سے لکھی جو 1988میں خدا بخش اورینٹل پبلک لا ئبریری، پٹنہ سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنی پیدائش (1919)سے لے کر 1988تک کے اپنی زندگی کے حالات و واقعات نہایت سچائی اور صاف گوئی کے ساتھ قلم بند کر دیے ہیں۔ مبصرین نے ’ورودِ مسعود‘کو اردو کی ’’بہترین‘‘ اور ’’کامیاب‘‘ خود نوشت کا درجہ دیا ہے۔

13۔ مقالاتِ مسعود‘ (1989) : مسعود حسین خاں کے مضامین کا تیسرا مجموعہ ’مقالاتِ مسعود‘ 1989میں ترقیِ اردو بیورو، نئی دہلی کی جانب سے شائع ہوا جس میں ان کے 16مضامین شامل ہیں۔ ان میں سے آٹھ مضامین ز بان و اسلوب اور اسلوبیات سے متعلق ہیں۔ بقیہ آٹھ مضامین دیگر لسانی و تحقیقی موضوعات پر ہیں۔ کتاب کے شروع میں ’’سخن ہائے گفتنی‘‘ کے نام سے مسعود حسین خاں کی ایک تحریر شامل ہے جس میں انھوں نے کتاب کے مشمولات کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔

14 ۔محمد قلی قطب شاہ‘ (1989): ساہتیہ اکادمی کی فرمائش پر مسعود حسین خاں نے دکن کے فرماں روا اور شاعر محمد قلی قطب شاہ پر ایک مونو گراف تحریر کیا جسے ساہتیہ اکادمی نے ہی 1989میں نئی دہلی سے شائع کیا۔ اس مونو گراف میں محمد قلی قطب شاہ کی شخصیت و سوانح کے علاوہ اس کی شاعری (نظم نگاری اور غزل گوئی) کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور زبان کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے، اور آخر میں اس کا منتخب کلام بھی دیا گیا ہے۔

15 ۔’یوسف حسین خاں ‘ (1990):ساہتیہ اکادمی ہی کی فرمائش پر مسعود حسین خاں نے دوسرا مونو گراف اپنے چچا یوسف حسین خاں کی شخصیت اور علمی کارناموں پر تحریر کیا۔ یہ مونوگراف بھی ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی کی جانب سے 1990میں شائع ہوا۔

16 ۔ ’اردو غزل کے نشتر‘ (1995) : مسعود حسین خاں نے غالب اکیڈمی، واقع بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی میں یکم ستمبر 1993کو ’غالب خطبات‘ کے سلسلے کا خطبہ ’’اردو غزل کے نشتر‘‘ کے عنوان سے دیا تھا۔ یہ خطبہ ’اردو غزل کے نشتر‘ ہی کے نام سے کتابی صورت میں 1995میں غالب اکیڈمی (نئی دہلی) سے شائع ہوا۔ مسعود حسین خاں کے قول کے مطابق ’’غزل کے شعروں کو تیر و نشتر بنا دینا بہت دشوار ہے۔ ‘‘ پھر بھی انھوں نے محمد قلی قطب شاہ تا میر تقی میر اردو غزل کے ایسے بے شمار نشتر ڈھونڈ نکالے ہیں جو دل کو چھوتے ہیں، اور جنھیں میر کی زبان میں ’’جادو کی پُڑی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔

.17’مضامینِ مسعود‘ (1997): یہ مسعود حسین خاں کا چوتھا اور آخری مجموعۂ مضامین ہے جو 1997میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس میں ادبی، لسانی، تحقیقی اور بعض دیگر قسم کے مضامین یک جا کر دیے گئے ہیں جن کی کل تعداد 25ہے۔ آخر میں ’لسانی چہ می گوئیاں ‘(کالم) کے تحت رسالہ ’ادیب‘ (جامعۂ اردو، علی گڑھ)میں شائع شدہ ان کی 10مختصر ترین تحریریں بھی شامل ہیں جن کے موضوعات متنوع ہیں۔

 

                تالیفات

 

1 ۔’سریلے بول ‘ (1954): مسعود حسین خاں نے عظمت اللہ خاں کے 17گیتوں کا ایک مجموعہ ’سریلے بول‘ کے نام سے مرتب کیا جو 1954میں انجمن ترقیِ اردو (ہند) کی جانب سے شائع ہوا۔ یہ ٹھیٹھ کھڑی بولی کے گیت ہیں۔ شروع میں ’’دوبول‘‘ کے عنوان سے مرتب کا دیباچہ بھی شامل ہے۔

2 ۔’بکٹ کہانی‘ (1965): مسعود حسین خاں نے 1965میں محمد افضل افضلؔ کی مثنوی ’بکٹ کہانی‘ (جسے ’بارہ ماسہ‘ بھی کہتے ہیں ) مرتب کی اور اس پر سیر حاصل تحقیقی مقدمہ لکھا۔ یہ پہلی بار مجلہ ’قدیم اردو‘ (حیدرآباد) کی جلدِ اول میں شائع ہوئی۔ مسعود حسین خاں نے مرتب کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ نور الحسن ہاشمی کا نام بھی لکھا، کیوں کہ انھوں نے ’بکٹ کہانی‘ کے بعض نسخوں کی معلومات مسعود حسین خاں کو فراہم کی تھیں۔ ’بکٹ کہانی‘ 1965کے بعد کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ اس کا آخری ایڈیشن مسعود حسین خاں کی نظرِ ثانی کے بعد راقم السطور کے ’’پیش لفظ‘‘ کے ساتھ 2002میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔

3 ۔ ’پرت نامہ‘ (1965): ’پرت نا مہ‘ ایک دوسری مثنوی ہے جسے مسعود حسین خاں نے ایڈیٹ کر کے 1965ہی میں مجلہ ’قدیم اردو‘ (حیدرآباد) کی جلدِ اول میں شائع کیا۔ اس کا مصنف قطب الدین قادری فیروز بیدری ہے جسے د بستانِ گول کنڈہ کامسلّم الثبوت استاد تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ مثنوی 1564سے قبل لکھی گئی۔

4 ۔ ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ (1966): یہ شمالی ہند کی اردو کی پہلی طبع زاد نثری داستان ہے جسے مسعود حسین خاں نے ایڈٹ کر کے 1966میں حیدرآباد(دکن) سے شائع کیا۔ اس کے مصنف کا نام عیسوی خاں بہادر ہے اور یہ 1732تا 1756کے درمیان لکھی گئی۔ اس کی زبان کافی حد تک صاف اور نکھری ہوئی ہے۔

5 ۔’قصۂ مہر افروز و دلبر‘، دیوناگری رسمِ خط میں (1966): مسعود حسین خاں نے ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘کو ایڈٹ کر کے دیوناگری رسمِ خط میں بھی 1966میں حیدرآباد سے شائع کیا، لیکن اسے اہلِ ہندی میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔

6 ۔’دکنی اردو کی لغت ‘ (1969): مسعود حسین خاں نے اپنے قیامِ حیدرآبادکے دوران 1962)تا 1968) ’دکنی اردو کی لغت‘ کی ترتیب کا کام بھی انجام دیا۔ یہ ان کے لیے ایک دشوار گزار کام تھا، کیوں کہ وہ ایک غیر ’دکنی‘ تھے، لیکن انھیں ایک دکنی اسسٹنٹ سید بدیع حسینی کی خدمات حاصل ہو گئیں، اور یہ کام پانچ سال بعد بہ طریقِ احسن انجام کو پہنچا۔ ’دکنی اردو کی لغت‘ 1969میں آندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈمی، حیدرآباد کی جانب سے شائع ہوئی۔ اس لغت کے تمام الفاظ دکنی متون کے مطبوعہ اور قلمی نسخوں سے حاصل کیے گئے ہیں جن کی تعداد تقریباً 7,000ہے۔

7 ۔’ابراہیم نامہ‘ (1969) : یہ ایک دوسری دکنی مثنوی ہے جسے مسعود حسین خاں نے ایڈٹ کر کے 1969میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع کیا۔ اس کے مصنف عبدل دہلوی کا تعلق دبستانِ بیجاپور سے تھا۔ مرتب نے اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں ’ابراہیم نامہ‘ کی ادبی خوبیوں کے ساتھ اس کی زبان کا بھی تجزیہ کیا ہے۔

8 ۔’عاشور نامہ ‘ (1972) ’بکٹ کہانی‘ کے بعد ’عاشور نامہ‘ شمالی ہند کی دوسری مثنوی ہے جس کا سنہِ تصنیف 1688بتایا گیا ہے۔ اس کے مصنف کا نام روشن علی ہے اور وطن ’’سہارنگ پور‘‘ (سہارنپور) ہے۔ ’عاشور نامہ‘ کو ’شہادت نامہ‘ بھی کہا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ شمالی ہند کا قدیم ترین شہادت نامہ ہے۔ اس کا واحد مخطوطہ رضا لائبریری، رام پور (یوپی) میں موجود ہے۔ سید سفارش حسین رضوی نے اس کی مائکرو فلم وہیں سے حاصل کر کے مسعود حسین خاں کے سپرد کی جنھوں نے اسے مدون کیا اور 30صفحات پر مشتمل اس کا مقدمہ لکھا۔ ’عاشور نامہ‘1972 میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ مسعود حسین خاں نے مرتب کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ سید سفارش حسین رضوی کا نام بھی دے دیا۔

9 ۔ ’رقعاتِ رشید صدیقی ‘ (1981): مسعود حسین خاں کے رشید احمد صدیقی سے نہایت گہرے روابط تھے۔ وہ مسعود حسین خاں کے نہ صرف استاد بلکہ مربی بھی تھے۔ انھوں نے مسعود حسین خاں کو وقتاً فوقتاً تقریباً 200خطوط لکھے جنھیں مرتب کر کے انھوں نے کتابی شکل دی اور اس کا نا م ’رقعاتِ رشید صدیقی‘ رکھا۔ یہ کتاب ان کے مقدمے کے ساتھ 1981میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری (پٹنہ) نے 1987میں شائع کیا۔

10 ۔’انتخابِ نظیر اکبر آبادی ‘ (1989): اترپردیش اردو اکادمی کی تحریک پرمسعود حسین خاں نے نظیر اکبر آبادی کی نظموں کا ایک جامع انتخاب مرتب کیا اور اس پر سیر حاصل مقدمہ لکھا۔ یہ کتاب ’انتخابِ نظیر اکبرآبادی‘ کے نام سے 1989میں اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ کی جانب سے شائع ہوئی۔

11 ۔’تاریخِ جامعۂ اردو ‘ (1990): جامعۂ اردو، علی گڑھ کی جشنِ زرّیں (1989)کے موقع پر اربابِ جامعہ نے اس کی تاریخ قلم بند کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے مرتبِ اعلیٰ کی ذمہ داری مسعود حسین خاں (شیخ الجامعہ، جامعۂ اردو) کو سونپی گئی۔ انھوں نے جامعۂ اردو کی تاریخ لکھنے کا کام جامعۂ اردو سے بہ طورِ اعزازی منسلک تین ’’اہلِ قلم‘‘   مغیث الدین فریدی، ظہیر احمد صدیقی، اور مرزا خلیل احمد بیگ کے سپرد کر دیا۔ مسعود حسین خاں نے انھی تینوں مرتبین کے تحریر کردہ مواد کو ایڈٹ کر کے اپنے وقیع ’’پیش لفظ‘‘ کے ساتھ 1990میں ’تاریخِ جامعۂ اردو‘ کے نام سے شائع کیا۔

12 ۔’انتخابِ کلامِ اقبال‘ (1991): جامعۂ اردو، علی گڑھ کے ادیبِ کامل کے طلبہ کے لیے مسعود حسین خاں نے اقبال کے کلام کا ایک جامع انتخاب ترتیب دیا جو ’انتخابِ کلامِ اقبال‘ کے نام سے 1991میں سرسید بک ڈپو، علی گڑھ سے شائع ہوا۔

13 ۔’انتخابِ کلامِ غالب‘ (1991): مسعود حسین خاں نے جامعۂ اردو، علی گڑھ کے طلبہ کے استفادہ کے لیے غالب کے کلام کا بھی ایک جامع انتخاب تیار کیا اور اپنے مقدمے کے ساتھ اسے ’انتخابِ کلامِ غالب‘ کے نام سے 1991میں سرسید بک ڈپو، علی گڑھ سے شائع کیا۔

مسعود حسین خاں کی تصنیفات و تالیفات کی کل تعداد 30قرار پاتی ہے۔ زمانی اعتبار سے ان کی تصنیفی سرگرمیاں تقریباً نصف صدی (بیسوی صدی عیسوی کا نصفِ آخر) کو محیط ہیں۔ زندگی کے آخری دس بارہ برسوں کے دوران میں ان کی کوئی تصنیف یا تالیف معرضِ وجود میں نہیں آئی، حالاں کہ عہدِ پیری میں بھی ان کے اندر حوصلۂ قلم و رقم بہت زیادہ تھا، تاہم چھوٹے موٹے مضامین وہ بعد تک لکھتے رہے تھے۔ ان کے بہت سے مضامین اب بھی رسائل میں بکھرے پڑے ہیں جن کے کم از کم دو مجموعے ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔

 

                تحریر کے نمونے

 

نمونۂ کلام

 

۱- نظمیں

 

زندگانی کا خلا

 

زندگانی کا خلا

یہ نہ بھر پایا کبھی

لالہ و گل کو کبھی پیار کیا

رات بھر تاروں کو بیدار کیا

کم نہ ہوتی تھی مگر دل کی کسک

دل کا غم آنکھوں سے برسایا کبھی

یہ نہ بھر پایا کبھی

زندگانی کا خلا

بھر لیا اس میں کبھی دردِ چمن

کبھی بے نام مقاصد کی لگن

جن سے احساس بھی جاتا تھا بہک

شیشۂ دل کو بھی چھلکایا کبھی

یہ نہ بھر پایا کبھی

زندگانی کا خلا

فن کی دیوی نے بھی برسائی شراب

وقت کی موج نے پھینکے دُرِ ناب

جن سے آئی مرے خوابوں میں چمک

جی ذرا ان سے بھی بہلایا کبھی

یہ نہ بھر پایا کبھی

زندگانی کا خلا

(1946)

 

جمال

 

کہاں سے آ گئیں رنگینیاں تمنا میں

کہ پھر خیال نے لالے کھلائے صحرا میں

تری نگاہ سے میری نظر میں مستی ہے

ترے جمال سے موجیں ہیں دل کے دریا میں

یہ ہو رہا ہے گماں تیرے جسمِ خوبی پر

بھٹک کے حور چلی آئی ہو نہ دنیا میں

نظر میں کچلے ہوئے موتیوں کی جھلکاریں

لبوں پہ رنگ جو ملتا ہے جام و مینا میں

وہ مسکراتے سے آنکھوں میں بے شمار کنول

وہ کسمساتی ادائیں تمام اعضا میں

جو گوشے گوشے میں پنہاں ہے اس کے راہِ گریز

خیال گم ہوا جاتا ہے قدِّ رعنا میں

جمالِ یار لطیف آرزو ہے اس سے لطیف

یہ آئی ہے نہ وہ آئے گا حرفِ سادہ میں

(1946)

 

وادیِ گل

 

دید ہی دید ہے اے عمرِ رواں ! کچھ بھی نہیں

یہ جہاں کتنا حسیں ہے، یہ جہاں کچھ بھی نہیں

یہ تبسم، یہ تکلم، یہ تماشا، یہ نگہ

یوں تو سب کچھ ہے یہاں اور یہاں کچھ بھی نہیں

تیرے ابرو سے سوا وہ نگہِ تشنۂ خوں

تیر جب نکلا کماں سے تو کماں کچھ بھی نہیں

عمر کے فاصلے طے کر نہ سکا جذبۂ شوق

خونِ دل کچھ بھی نہیں، قلبِ تپاں کچھ بھی نہیں

ڈھونڈیے چل کے کہیں عمرِ گذشتہ کا سراغ

کشتیِ دل کے لیے سیلِ زماں کچھ بھی نہیں

ان نظاروں میں نظر اپنی بھی جانب مسعودؔ

وادیِ گل میں بجز دل کا زیاں کچھ بھی نہیں

(کشمیر، ستمبر1981)

 

 

سخنِ واپسیں

 

دوا سے کچھ نہ ہوا اور دعا سے کچھ نہ ملا

بشر نے کچھ نہ دیا اور خدا سے کچھ نہ ملا

 

زوال میرا مقدر بنا کے چھوڑ دیا

مجھے خیال و حدیثِ بقا سے کچھ نہ ملا

 

میں درد و داغِ یتیمی میں یوں رہا محصور

پدر سے کچھ نہ ملا، مامتا سے کچھ نہ ملا

 

جہانِ علم و ہنر میں تو سرفراز رہا

دیارِ شوق میں میری وفا سے کچھ نہ ملا

 

میں اپنے آپ میں جھانکا تو یہ صدا آئی

خودی سے کچھ نہ ملا اور انا سے کچھ نہ ملا

 

کسی نے دیدۂ بینا کی روشنی لے لی

کہوں میں کس سے تری اس اداسے کچھ نہ ملا

 

میں خالی ہاتھ چلا آ رہا ہوں تیری طرف

تجھے بتانے کہ تیری عطا سے کچھ نہ ملا

 

ترے جہان سے خاموش چل دیا مسعودؔ

نوائے شعر کو اس بے نوا سے کچھ نہ ملا

(بشکریہ ماہنامہ ’سب رس‘ ۔حیدرآباد، بابت مارچ2007)

نوٹ: جب یہ نظم چھپ کر آئی تو مسعود حسین خاں نے اپنے قلم سے اس میں درجِ ذیل دو اشعار کا اضافہ کیا:

میں اپنا قصۂ ہستی کہوں تو کس سے کہوں

یہ انتہا ہے، مجھے ابتدا سے کچھ نہ ملا

 

کتاب میری حیات الکتاب تیرا ثبات

کتاب چھین لی، اس انتہا سے کچھ نہ ملا

(اضافہ شدہ نظم راقم السطور کے پاس محفوظ ہے)

 

2 ۔  غزلیں:

 

(1)

 

عشق میں اضطراب رہتا ہے

جی نہایت خراب رہتا ہے

 

خواب سا کچھ خیال ہے لیکن

جان پر اک عذاب رہتا ہے

 

تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے

سامنے اک سراب رہتا ہے

 

مرحمت کا تری شمار نہیں

درد بھی بے حساب رہتا ہے

(1946)

 

(2)

 

ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے

مجھے گمان ہے کچھ اس کو انتظار سا ہے

 

میں سادہ دل تھا کہ دامن پہ ان کے رو بھی دیا

مگر گلوں کے دلوں میں ابھی غبار سا ہے

 

وہ معتبر تو نہیں ہے پر اس کو کیا کیجے

کہ اس کے وعدوں پہ پھر آج اعتبار سا ہے

 

میں تجھ سے رمزِ محبت کہوں تو کیسے کہوں

میں بے قرار ہوں اور تجھ کو کچھ قرار سا ہے

 

تجھی پہ کچھ نہیں موقوف اے دلِ محروم!

جہاں بھی دیکھیے عالم میں انتشار سا ہے

 

تو ہوش مند کہاں کا تھا کچھ تو کہہ مسعودؔ

یہ کیا ہے آج تجھے دل یہ اختیار سا ہے

(1949)

 

 

(3)

 

تجھے بہار ملی مجھ کو انتظار ملا

اس انتظار میں لیکن کسے قرار ملا

 

کسی کی آنکھوں میں تاروں کی مسکراہٹ ہے

کسی کی آنکھوں کو شبنم کا کاروبار ملا

 

یہ میرے جیب و گریباں پہ کچھ نہیں موقوف

کہ تیرا دامنِ رنگیں بھی تار تار ملا

 

تری وفا نے محبت کو اعتبار دیا

تری نظر سے مجھے حسنِ اعتبار ملا

(پیرس، 1951)

 

 

(4)

 

میری افسردہ دلی گردشِ ایام سے ہے

لوگ کہتے ہیں محبت کسی گل فام سے ہے

 

چشمِ ساقی نے بھی یہ مشورۂ نیک دیا

کہ علاجِ غمِ دل تلخیِ بدنام سے ہے

 

چاندنی رات میں یہ اور چمک اٹھے گا

درد کچھ دل میں سوا آج سرِ شام سے ہے

 

رنگ اڑایا ہے زمانے نے جہاں سے مسعودؔ

اپنی نسبت بھی اسی یارِ گل اندام سے ہے

(1957)

 

 

3۔    گیت:

 

رنگ دونا، جیون کے کچھ پل

 

رنگ دونا، جیون کے کچھ پل

پریم چبھن سے مَیں الجھن میں

امرت رس ہو کر تم برسو

اترو ایک کرن بن، من میں

پھر یہ شیش محل ہو جھل مل

رنگ دونا، جیون کے کچھ پل

چنچل من تو چاہ سے پاگل

کون کرے یہ راہیں روشن

بِرہ کی اگنی تم ہی بھر دو

کر دو من میں چتائیں روشن

جیون میں پھر کر دو ہل چل

رنگ دونا، جیون کے کچھ پل

(1944)

 

جیون پتھ پر

 

جیون پتھ پر

چل چل کر جب تھک تھک جاتے

تم یاد آتے

چاہت اِس کی، چاہت اُس کی

ہر ہر پل اک نئی خوشی سی

ہنس ہنس کر جب کچھ نہیں پاتے

تم یاد آتے

اِس کو پا لوں، اُس کو پالوں

تارے چھو لوں، چاند کو جا لوں

گر کر پر جب اٹھ نہیں پاتے

تم یاد آتے

اِس سے کھیلوں، اُس سے کھیلوں

اِس کو لے کر، اُس کو لے لوں

پا کر بھی جب کچھ نہیں پاتے

تم یاد آتے

(1944)

 

 

یاد کی لہروں پر تم آؤ

 

یاد کی لہروں پر تم آؤ

سوچ میں آنکھ ہے، سوچ میں ہے من

من کی سوچ بنے جب الجھن

تم آنسو بن کر شرماؤ

یاد کی لہروں پر تم آؤ

اُس دم اِن آنکھوں میں چھپ کر

جب یہ دل حیران پڑا ہو

اَدھروں پر بنسی کو دھر کر

ایک مچلتی تان اڑاؤ

یاد کی لہروں پر تم آؤ

(1944/45)

نوٹ: بہ استثنائے ’’سخنِ واپسیں ‘‘، مسعود حسین خاں کی مندرجۂ بالا تمام شعری تخلیقات ان کے مجموعۂ کلام ’دو نیم‘، تیسرا ایڈیشن ۔علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس، [2000سے ماخوذ ہیں )۔

 

                نمونۂ نثر

 

                1۔  لسانی تاریخ

 

اردو زبان

 

اردو زبان صحیح معنوں میں ایک مخلوط زبان ہے، جیسا کہ اس کے ایک تاریخی نام ’ریختہ‘ سے بھی ظاہر ہے۔ یوں تو دنیا کی اکثر زبانیں دخیل الفاظ کی موجودگی کی وجہ سے مخلوط کہی جا سکتی ہیں، لیکن جب کسی لسانی بنیاد پر غیر زبان کے اثرات اس درجہ نفوذ کر جاتے ہیں کہ اس کی ہیئتِ کذائی ہی بدل جائے تو وہ لسانیاتی اصطلاح میں ایک مخلوط یا ملواں زبان کہلائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے اردو کی نظیر کہیں ملتی ہے تو فارسی زبان میں، جس کی ہند ایرانی بنیاد پر سامی النسل عربی کی کشیدہ کاری نے کلاسیکی فارسی کو جنم دیا۔ عربی کے اس عمل کی توسیع جب فارسی کے وسیلے سے تیرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان کی ایک ہند آریائی بولی، امیر خسرو کی ’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘‘ پر ہوتی ہے تو اردو وجود میں آتی ہے۔ اس لسانی عمل کی توسیع کی دیگر مثالیں کشمیری، سندھی اور مغربی پنجابی ہیں، لیکن ’’زبانِ دہلی‘‘ کی طرح یہ کبھی بھی کل ہند حیثیت اختیار نہ کر سکیں۔

اردو کا نقطۂ آغاز 1193میں مسلمانوں کا داخلۂ دہلی ہے۔ اس کا پہلا مستند شاعر امیر خسرو دہلوی ہے جس کا بیشتر ہندوی کلام غیر مستند سہی، لیکن جس کا شاعرِ ہندوی ہونا مسلّم ہے۔ خسرو کی مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ میں ہمیں پہلی بار ہندوستان کی معروف زبانوں کی فہرست ملتی ہے۔ یہ تعداد میں بارہ ہیں۔ سندھی، لاہوری( پنجابی)، کشمیری، ڈوگری(ڈگر؟)، کنڑ(دھورسمندری)، تلنگی، گجراتی (گجر)، تمل (معبری)، مغربی بنگالی (گوڑی)، مشرقی بنگالی( بنگال)، اودھی (اَود)، اور سب سے آخر میں ’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘‘(یعنی دہلی اور اس کے نواح کی بولیاں )،   ع

ایں ہمہ ہندو یست کہ ز ایامِ کہن

یہ ’’مصطلحے خاصہ‘‘ ہیں (یعنی اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہیں )۔ ان کے علاوہ ایک اور زبان، برہمنوں کے نزدیک برگزیدہ ’’سنسکرت نام ز عہدِ کہن‘‘ بھی ہے جس کے     بارے میں خسرو رقم طراز ہیں ’’عامہ ندارد خبر از کن مکنش‘‘۔

خسرو نے ’’زبانِ دہلی‘‘ کے ساتھ ’’پیرا منش‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ ’’پیرامن‘‘ (اطراف) جاٹوں اور گوجروں کی زبان پر مشتمل تھا۔ جاٹوں سے منسوب کھڑی بولی اور ہریانوی ہیں اور گوجروں سے متعلق برج بھاشا۔ اِنھی کے نسوانی حسن کے بارے میں خسرو اس طرح رطب اللسان ہیں :

گجری کہ تو در حسن و لطافت چو مَہی

… … …

ہر گاہ بگوئی کہ ’’دَہی لیہو دَہی‘‘

جاٹوں کی زبان کھڑی اور ہریانوی [ا]بنیاد بولیاں ہیں، یعنی ان میں اسماء صفات، اور افعال کا خاتمہ بالعموم]آ[ پر ہوتا ہے۔ برج بھاشا ]او[بنیاد کہی جا سکتی ہے جس میں اسماء، صفات اور افعال کا خاتمہ عموماً [او]پر ہوتا ہے۔ اسی لیے ’پرانی ہندی‘ کے مصنف چندر دھر شرما گلیری نے اسے کھڑی کے مقابلے میں ’’پڑی بولی‘‘ کہا ہے۔

دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوں کا یہ ملغوبہ پرانی دِلّی کے بازاروں، حصاروں اور خانقاہوں میں تقریباً سو سال تک اپنی ابتدائی شکل میں ارتقا پاتا رہا تا آں کہ چودھویں صدی کے ربعِ اول میں یہ فتوحاتِ علائی و تغلق کے ذریعہ گجرات کے راستے دکن تک پہنچ جاتا ہے۔ گجرات میں اس کا مقامی نام ’گجری‘ پڑا جو غالباً ’گذری‘ کا مہنّد ہے۔ ’گذری‘ بازار کو کہتے ہیں، لیکن اس کا عمومی نام ’ہندی‘ یا ’ہندوی‘ قائم رہا۔ دکن میں سترھویں صدی عیسوی میں اس کا مقامی نام ’دُکھنی‘ یا ’دکنی‘ پڑتا ہے، حالاں کہ وجہی کی ’’زبانِ ہندوستان‘‘ کی ترکیب اور فرشتہ کی ’’ہندوستانی‘‘ میں یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ اس کا تعلق شمالی ہند سے ہے۔ سرزمینِ دکن میں جہاں یہ سلطنتِ بہمنیہ کے قیام کے بعد پھلی پھولی مراٹھی، کنّڑ اور تلگو زبانیں رائج تھیں۔ پہلی کا تعلق ہند آریائی سے ہے جب کہ آخری دو دراویدی زبانیں ہیں۔ مراٹھی چونکہ متجانس ہند آریائی زبان تھی، اس لیے اس سے لین دین کا کاروبار زیادہ رہا۔ حالاں کہ جن محققین نے دکنی پر مراٹھی کے اثرات کا شد و مد کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جن الفاظ کی نشان دہی وہ مراٹھی سے کرتے ہیں ان میں سے بیشتر نواحِ دہلی کی بولیوں میں تلفظات کے ہیر پھیر کے ساتھ آج تک رائج ہیں۔ ڈاکٹر عبدالستار دلوی نے ’دکنی اردو‘ میں ایسے کئی سو الفاظ کی فہرست دی ہے جن میں سے 80فی صد الفاظ کی شناخت شمال کی ’ہندوی‘ میں بہ آسانی کی جا سکتی ہے …مراٹھی سے قطع نظر تلگو اور کنّڑ کے اثرات کا بھی دکن کے بعض محققین ڈاکٹر زورؔ وغیرہ نے تذکرہ کیا ہے۔ یہ اثر عام طور پر چند الفاظ اور محاورات پر مشتمل ہے اور وہ بھی تحریری نہیں تقریری زبان پر …گوجری اور دکھنی میں نمایاں فرق نہیں جس کا ثبوت احمد گجراتی کی مثنوی ’یوسف زلیخا‘ ہے جو اس نے گول کنڈہ کے فرماں روا محمد قلی قطب شاہ کی دعوت پر گجرات سے گول کنڈہ آکر لکھی تھی…اِن لسانی شہادتوں کے پیشِ نظر میرے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ گجرات تا بیجا پور تا گول کنڈہ، ادبی حیثیت سے ایک ہی محاورہ رائج تھا، جسے ہم چودھویں صدی عیسوی کی ’زبانِ دہلی‘ کہہ سکتے ہیں۔ چوں کہ شمال سے نواحِ دہلی کی ایک سے زائد بولیاں دکن پہنچی تھیں اس لیے کچھ عرصے تک ان میں آنکھ مچولی ہوتی رہی تا آں کہ وجہی، نصرتی، غواصی جیسے با کمالوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر ان کی معیار بندی ہو جاتی ہے۔

1686اور 1687سنہِ عیسوی میں بیجاپور اور گول کنڈہ کے سقوط کے بعد اورنگ آباد ایک بار پھر سلطنتِ دہلی کا صدر مقام بن جاتا ہے۔ اورنگ زیب دکن میں 1682میں لال قلعہ، دہلی کی سکونت ترک کر کے مستقل طور پر اورنگ آباد میں قیام پذیر ہو گیا تھا۔ شمال اور جنوب کے سارے دروازے ایک بار پھر کھل گئے۔ اورنگ آباد، شاہ جہان آباد کا ایک محلہ معلوم ہونے لگا۔ ایسے میں ولیؔ دکن کی خاک سے اٹھے، 1700میں دہلی پہنچے، اور شاہ گلشن کے مشورے پر ریختہ کو ’’بموافقِ محاورۂ شاہجہان آباد‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ دیکھتے دیکھتے پچاس سال کے عرصے میں دہلی میں ریختہ گویوں کی ایک کھیپ سی نکل پڑی …مرزا مظہر جانجاناں اور حاتم نے زبان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ متروکات کے نام پر اور ’مرزا ایانِ دہلی‘ کی سند لے کر بے شمار ہندی کے الفاظ پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ حاتمؔ کو شرم آئی تو اپنے ضخیم دیوان سے 1755میں ایک ’ دیوان زادہ‘ کی تولید کی۔ اس کے بعد سوداؔ نے اپنے قصائد کے ذریعے اس میں فارسی لغات کا دہانہ چھوڑ دیا۔

(ماخوذ از ’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘، خطبۂ پروفیسر ایمے ریٹس، علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1988، ص59)۔

 

                2۔  اسلوبیاتی تنقید

 

اقبال کی عملی شعریات

 

ڈاکٹر یوسف حسین اور مجنوں گورکھپوری دونوں نے اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں اور موثر بتایا ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر ’تغزل‘ کہا جا سکتا ہے۔ صوتی سطح پر اس تغزل کی سب سے اہم خصوصیت اس کی موسیقیت ہوتی ہے جسے ہم شعر کا صوتی آرکسٹرا کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف صوتی اکائیوں (صوتیوں ) کے صحیح انتخاب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے مشاقانہ جوڑ توڑ سے بھی۔ اردو کے شاعر کے پاس ان ’صوتیوں ‘ کا کل سرمایہ 47ہے۔ ان میں سے 10مصوتے(Vowels)ہیں اور 37مصمتے (Consonants)۔ ان مصمتوں میں 6عربی فارسی سے مستعار آوازیں ہیں : /ف/، /ز/، ژ/، /خ/، /غ/، اور/ق/۔ ان میں /ژ/کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے۔ /ق/ سے قطع نظر جو ایک بند شیہ(Stop)ہے، باقی تمام آوازیں صفیری(Fricatives)ہیں جن کی ادائیگی کے وقت ہوا خفیف ’رگڑ‘ کے ساتھ نکلتی ہے۔ غالب اور اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا صوتی آہنگ فارسی کا ہے، اس لیے بے بنیاد ہے کہ مذکورۂ بالا 6آوازوں کو چھوڑ کر اردو کی باقی تمام آوازیں (بہ شمولِ مصوتے) خالص ہند آریائی ہیں۔ ہرچند ان میں سے بعض فارسی عربی کے ساتھ اشتراک رکھتی ہیں۔ فارسیت کا الزام ان دونوں شاعروں کے شعری فرہنگ پر کیا جا سکتا ہے، صوتی آہنگ پر نہیں …

[اقبال کی]ابتدائی دور کی دو نظمیں اس اعتبار سے دل چسپ مواد فراہم کرتی ہیں کہ صوت و معنیٰ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نظم ’بانگِ درا‘ کے دوسرے حصے میں شامل ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ہے جس میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیاہے۔ سات اشعار پر مشتمل یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شام کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ شاعر نے یہ کام شعوری طور پر نہیں کیا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، یہ ایک ایسی کیفیت سے برآمد ہوتی ہے جسے ہم مکمل ’اظہار‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں 6بار آیا ہے۔ جن اصوات (صوتیوں ) سے یہ مرکب ہے وہ ہیں : خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس کی کلیدی اصوات ہیں۔ ان میں /خ/کی تکرار 8بار، /ا/کی 21بار، /م/کی 12 بار، /و/ کی 22بار، اور /ش/ کی 6/بار ہے۔ خاموشی کا منظر ہے جسے شاعر بصری اور سماعی دونوں اعتبار سے محسوس کر رہا ہے۔ مفعول مفاعلن، فعولن کی تفکر اور تامل سے لبریز بحر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ /ا/اور /و/ کے علاوہ خاموشی کی گہرائی میں اضافہ کرنے والے دیگر طویل مصوتے /ی/، /اَی/ اور /اَے/ ہیں جن کی مجموعی تعداد 32ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ /ش/کی/16/ہُش ہُش کرتی آوازوں میں /س/کی 7’سرسراتی‘ آوازیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ /م/کی غنائی کیفیت کے لیے 3/ن/اور 9انفیائے مصوتے بھی شامل ہیں …

مجموعی طور پر اقبال کے صوتی آہنگ کے سب سے اونچے سُر انفی مصمتوں اور انفیت (Nasalization)سے مرتب ہوتے ہیں اور 6صفیری آوازوں خ، غ، ش، س، ز، اور ف سے۔ اقبال بنیادی طور پر غالب کی طرح صوتی آہنگ کے شاعر نہیں …فکر اور تخیل کی آویزش اور آمیزش سے ان کے یہاں نور و نغمہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ نور ان کی شاعرانہ بصیرت ہے اور نغمہ ان کا صوتی آہنگ!

(ماخوذ از ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ ،سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، 1983، ص 7583)۔

 

                3۔  اردو تحریک

 

اردو کا محضر نامہ

 

اردو خالص ہندوستانی زبان ہے۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں پر اسے یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس کی بناوٹ میں ہماری تاریخ کے عہدِ قدیم اور ازمنہِ وسطیٰ دونوں کے تانے بانے شامل ہیں۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں اس ملک کے ہر دور کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک سنگم ہے جس میں قدیم و جدید دونوں کے دھارے آکر ملتے ہیں …اس پر بدیسی ہونے کی تہمت ظلمت پسندی کی بدترین مثال ہے۔ اس کو ہضم کر جانے کی نیت ہوس پرستی کا کمال ہے۔ اس کے بولنے والوں کے ذہنوں پر دوسری زبانوں کے تالے ڈالنا ناسمجھی کی دلیل ہے۔ اس زبان کے بچوں کو اس کے شیریں لہجے میں لب کشا نہ ہونے دینا تہذیبی فسطائیت کی بدترین تمثیل ہے …

آزادی، ہندوستان کی سب زبانوں کو راس آئی، نہ راس آئی تو اردو بے چاری کو۔ یہ بھرے بازار میں تہی دست رہی۔ بھری بہار سے تہی دامن لوٹی …سراسیمگی کے عالم میں ہر قسم کے بیانات اور تجاویز اردو وا لوں کی جانب سے سرزد ہو رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اس کا رسمِ خط بدل دیا جائے۔ کسی کا مشورہ ہے کہ اگر اس کو علاقائی زبان تسلیم کر لیا جائے تو پھر سرکاری زبان کے لیے اصرار کی ضرورت نہیں۔ کوئی اس خیالِ خام میں مبتلا ہے کہ فلم اور مشاعرے اس کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں، لیکن اردو کے تحفظ و بقا کی ضمانت ذیل کی بنیادی مانگوں کو پورا کیے بغیر ناممکن ہے :

اردو کو اترپردیش، بہار، آندھراپردیش، مہاراشٹر، میسور اور دہلی میں دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے۔ چوں کہ دستور میں نہ تو ’علاقائی زبان‘ کی تعریف کی گئی ہے اور نہ تشریح۔ اس لیے محض علاقائی زبان کی مانگ سے کسی قسم کی قانونی مطلب بر آری نہیں ہوتی۔ آٹھویں شیڈول میں جو زبانیں گنائی گئی ہیں ان کا عنوان بھی ’علاقائی زبانیں ‘ نہیں ہے، صرف ’’زبانیں ‘‘ہے۔ اس لیے جب تک اردو کی سرکاری حیثیت کا تعین نہیں ہوتا، ریاستی حکومتوں سے اردو کے تحفظ و ترقی کے سلسلے میں کسی خیر و برکت کی توقع کرنا عبث ہے۔

ثانوی سرکاری زبان تسلیم ہو جانے کے بعد ہی ہم ان ریاستوں میں اردو کے متوازی نظامِ تعلیم کی قانونی مانگ پیش کر سکتے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم کو درجہ بدرجہ ابتدائی، ثانوی، اور ہائی اسکول کی سطحات پر تشکیل دینا ہو گا۔ ریاستی وزارتِ تعلیم کے تحت اردو سیکشن قائم کرانا ہوں گے تاکہ اسکولوں کی تعلیم کی جملہ ضروریات کی نگرانی کی جا سکے۔ بالآخر ہر ریاست میں جہاں اردو دوسری سرکاری زبان تسلیم کر لی جائے گی، ایک یا ایک سے زائد الحاقی یونیورسٹیوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی۔

اس نظامِ تعلیم کو چلانے کے لیے تعلیمی وزارتیں نصابی کتب کی تیاری کے صیغے قائم کریں گی۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے کالج کھولیں گی۔ جامعاتی سطح پر اردو کو زندہ رکھنے کے لیے ریاست کی کسی ایک اردو میڈیم یونیورسٹی میں دار الترجمہ و تالیف کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جہاں اعلیٰ تعلیم کی کتب کی تیاری کا کام ہو گا۔

یہ خیال کہ اردو میڈیم کے فارغ التحصیل طلبہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے، بے بنیاد ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات جو غور طلب ہے، یہ ہے کہ سرکاری ملازمتیں ہمارے روزگار کے چند فی صد وسائل بھی فراہم نہیں کرتیں۔ نئی نسلوں کی زیادہ تر کھیپ زراعت، صنعت اور پھیلے ہوئے کاروباروں میں ہو گی۔ ان میدانوں میں داخل ہونے والا اردو کا طالب علم ریاستوں کی بڑی زبانوں سے اس قدر واقفیت رکھتا ہو گا کہ اپنا کاروبار چلا سکے، لیکن اس کی تعلیم کا تہذیبی محور اس کی مادری زبان ہو گی۔

اردو کے مسئلے کا یہ حل معقول بھی ہے اور دستور اور ہندوستانی قومیت کی روح کے عین مطابق بھی۔

(ماخوذ از ’اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ، علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973، ص(143-47۔

 

                4 ۔ شخصی خاکے

 

عبدالقادر سروری مرحوم

 

مرنے والے کی خوبیاں اور نیکیاں یاد رہ جاتی ہیں۔ سروری صاحب کے اچانک انتقال کی خبر جب چند روز تاخیر سے علی گڑھ پہنچی تو یقین نہیں آیا کہ سرزمینِ دکن کا ایک ہیرا وادیِ کشمیر میں گم ہو گیا۔ ڈاکٹر زورؔ صاحب کے انتقال کے بعد کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی صدارت پر اپنے تقرر کے موقع پر سروری صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ اس وادی سے کسی کی بازگشت نہیں ہوتی…امسال حسبِ معمول وہ 5مارچ 1971تک حیدرآباد میں موجود تھے۔ 15مارچ 1971کو کشمیر یونیورسٹی تعطیلات کے بعد کھل رہی تھی، اس غرض سے انتقال سے دو روز قبل [وہ]سری نگر پہنچے اور 11مارچ کو ان کا وہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا جس کے جواب میں مَیں نے ہنس کر کہا تھا کہ دکن اپنے لعلوں کو کبھی نہیں کھوتا!

اب جو مہ و سال کی غلام گردش میں یادوں کے چراغ لے کر نکلا ہوں تو خیالات و واقعات کا ایک ہجوم ہے جو سیل در سیل گذر رہا ہے۔ میں نے انھیں قریب و دور، ہر فاصلے سے اور ہر رنگ میں دیکھا ہے۔ علمی مشاغل میں ان کی بے پناہ لگن، تحصیلِ علم کے لیے ان کی سن و سال سے بالا تر ہو کر مسلسل تگ و دو، اپنے پسندیدہ طلبہ کی زندگی بنانے کے لیے ان کے جوڑ توڑ، اپنے کم عمروں سے علمی استفادہ حاصل کرنے میں ان کی بے تکلفی اور سب سے بڑھ کر اردو زبان کا درد اور اردو والوں کی شکستہ حالی سے ہار نہ ماننے کا جذبہ   بے شمار واقعات ہیں جو اس سلسلے میں یاد آرہے ہیں۔

جب 1955میں پونا میں لسانیات کے اسکولوں کا آغاز ہوا تو دوسرے ہی اسکول میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنا نام درج کرایا۔ اور ڈیڑھ ماہ تک طالب علم کی حیثیت سے دیگر طالب علموں کے ساتھ ہاسٹل میں مقیم رہے۔ میں ان اسکولوں میں استاد کی حیثیت سے پڑھانے جاتا تھا۔ جب بھی ان کی اس ریاضت کے ذکر پر تعجب کا اظہار کرتا تو ہنس کر کہتے، اکتسابِ علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ان کے اسی مطالعے کا نتیجہ ان کی تصنیف ’زبان اور علمِ زبان‘ ہے جو اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی تصنیف ہے۔

سروری صاحب تو توانائیِ مجسم تھے۔ مسلسل حرکت ان کے لیے ناگزیر تھی۔ جہاں جاتے نئی دوستیاں اور نئی مخالفتیں بہ آسانی پیدا کر لیتے۔ انھیں مولوی عبدالحق کا یہ قول بہت پسند تھا جسے وہ اکثر دہراتے تھے کہ انسان کی مخالفت درختوں یا جڑوں سے نہیں پیدا ہوتی، انسانوں ہی سے ہوتی ہے۔ میں ہمیشہ اس قول پر ان کو داد ان الفاظ میں دیتا: ’’سروری صاحب آپ میں مخالفت پیدا کرنے اور پھر اس کو سر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے‘‘،   ع

تبسّمے بہ لبِ او رسید و ہیچ نہ گفت

کا منظر کھنچ کر رہ جاتا۔

حیدرآباد کی سرزمین اور تاریخ میں ایک مخصوص قسم کا جذبہ کارفرما ہے جو کبھی ملکی غیر ملکی، کبھی دکنی اور ہندوستانی کے الفاظ میں نمایاں ہوتا رہا ہے۔ یوپی والے، جنھیں حیدرآباد کی تہذیب اور زبان، دہلی، لکھنؤ کی تہذیب و زبان کی توسیع اور تتمہ معلوم ہوتی ہے، کبھی اس جذبے کے راز کو نہ سمجھ سکے۔ لیکن پایا اس میں گرفتار اچھے اچھے ادیبوں اور اہلِ علم کو بھی، چنانچہ دکنی اردو کو علاحدہ زبان بنانے اور سمجھنے کا شاخسانہ بھی یہیں سے نکلا ہے …سروری صاحب کو میں نے اس علمی خرافات سے بہت دور پا یا۔ اس مسئلے پر ان کی نظر عالمانہ تھی اور ان کا جذبہ غیر مقامی۔ وہ جہاں بھی رہے قیدِ مقام سے آزاد ہو کر رہے۔ حیدرآباد میں رہ کر دکنی اردو ادب کی بازیافت اور ترتیب و تہذیب میں نمایاں کام کیا۔ زندگی کے آخری سال کشمیر میں گزارے تو وہاں کا حقِ خدمت اس طرح ادا کیا کہ اہلِ کشمیر کی فارسی اور اردو ادبیات سے متعلق خدمات پر تصانیف تحریر کیں۔ وہ اپنی آخری تصنیف کا جو کشمیر میں اردو ادب کی تاریخ سے متعلق ہے، بڑے چاؤ سے ذکر کرتے تھے۔

سروری صاحب کی وفاداری ایک عالم کی حیثیت سے مقام سے نہیں زبان سے تھی۔ اردو کو جہاں جہاں جس روپ میں پایا اس کے تحفظ و بقا کے لیے اپنی علمی صلاحیتوں کو وقف کر دیا۔ اس زبان کے لیے ان میں ایک لگن تھی۔ اس کا میدان میسور تا کشمیر تھا۔ سروری صاحب کا بھی جولاں گاہ میسور تا کشمیر رہا۔ ہمہ وقت وہ اس کی تعلیم اور تنظیم میں منہمک رہے۔ اسی کا کھایا اسی کا گایا۔ اسی کو اپنی میراث جانا۔ اسی کو اپنی نجات جانا۔ آج جو وہ ہم میں نہیں تو اردو کے قافلے کا ایک اہم شہ سوار نابود ہو گیا ہے۔ آج جو وہ دور چلے گئے ہیں تو       اردو کا افق کچھ اور غبار آلود ہو گیا ہے!

(ماخوذ از ’اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ ،علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973، ص18993)۔

 

                5 ۔ خود نوشت سوانح حیات

 

سترھواں باب: ’’شادم از زندگیِ خویش… ‘‘

 

میں اب عمر کی ستّرھویں سال کی چوٹی پر کھڑا ہوں۔ 28جنوری 1989کو امید ہے، اسے سر کر لوں گا۔ یتیمی کے بچپن سے لے کر شادمانی کے اس دور تک جب میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو خود کو مطمئن پاتا ہوں۔ ہرچند ماں باپ کی بے وقت موت کی وجہ سے میں ان کی محبت اور شفقت سے محروم رہا۔ زندگی کے بعض موڑوں پر مجھے ان کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا اور اس وقت بے بسی کے عالم میں میری آنکھوں [سے]آنسو چھلک اٹھتے، لیکن چوں کہ میرے حافظے میں ان کا کوئی مادی نقش محفوظ نہیں تھا، اس لیے اس کیفیت پر بہت جلد قابو پا لیتا، اور اس کے ساتھ یہ احساس قوی تر ہو جاتا کہ مجھے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔ مجھے میری ننہال کے مشترکہ خاندان نے زندگی کی بہت سی تلخیوں سے بچا لیا۔ اسی لیے میں ایسے خاندان کی برکتوں کا قائل رہا ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ مجھے ضروریاتِ زندگی کے سلسلے میں وہ فراخ دستی حاصل نہیں رہی جو مجھے ہوتی اگر والدین کی شفقت کا سا یہ نصیب رہتا، لیکن میں اس اعتبار سے خوش قسمت رہا کہ مجھے ایک محبت اور خدمت کرنے والی رفیقۂ حیات ملی جس نے ’ممتا‘ کی کمی کو بہت کچھ دل سے بھلا دیا …

نجمہ نے مجھے پانچ تندرست، خوب صورت اور ذہین بچوں کا باپ بنایا۔ میری چاروں لڑکیاں     فریدہ، نادرہ، شاہدہ اور زیبا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کی ہو چکی ہیں جہاں وہ خوش اور مطمئن ہیں۔ میں اب پانچ بچوں کا نا نا بن چکا ہوں۔ گرما کی تعطیلات میں جب ان کی آمد سے گھر بھر جاتا ہے تو مجھے اپنے بچوں کے بچپن کا سماں یاد آ جاتا ہے اور دن بھر کی کلفت، کوفت ختم ہو جاتی ہے۔

اپنے لڑکے جاوید حسین کی جانب سے …البتہ ہم دونوں فکر مند رہتے ہیں۔ وہ ہر اعتبار سے ایک سعادت مند بیٹا ہے، لیکن اپنی دنیا میں اس قدر مست رہتا ہے کہ نہ اسے اہلِ خاندان کا خیال ہے اور نہ سماجی رشتوں کا …سوائے کتاب کے اسے کسی کی رفاقت عزیز نہیں۔

جب میں اپنی گذری ہوئی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ایک خاص قسم کی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے سب سے بڑی خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ خود کو دوسروں اور اپنی نظر میں با وقار پاتا ہوں۔ میں روایتی قسم کا مذہبی انسان نہیں ہوں۔ زندگی میں میرا عمومی رویہ عقلیت پسندی کا ہے، لیکن سینے میں ایک دلِ گداختہ رکھتا ہوں۔ سیاست کو اجتماعی زندگی کی ناگزیر ضرورت سمجھتے ہوئے مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہوں، اس لیے کہ اس میدان میں جواہر لال جیسے انسان کم نظر آتے ہیں۔ میری نظر میں اہلِ علم و ہنر زیادہ لائقِ تعظیم ہیں۔ اسی لیے میر، غالب، اقبال اور ٹیگور جیسی ہستیوں کو دل سے عزیز رکھتا ہوں۔

عزتِ نفس مجھے ورثے میں ملی ہے۔ یہی میری طاقت بھی ہے اور کم زوری بھی۔ میں نہ کسی کی توہین کرنا چاہتا ہوں اور نہ توہین برداشت کرتا ہوں۔ عام طور پر صلحِ کل میرا مسلک ہے، لیکن جب خودی اور خود داری پر چوٹ پڑتی ہے تو اس کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دینے پر تیار رہتا ہوں۔ میں عام طور پر دوست داری کا رویہ رکھتا ہوں، لیکن نا معقولوں سے انتہائی درجے کی سرد مہری بھی دکھا سکتا ہوں …انسانی تعلقات میں مَیں ذکی الحس اور زود رنج واقع ہوا ہوں، لیکن اسی وقت جب کسی کے قول و فعل سے مجھے تکلیف پہنچی ہو۔ بنیادی طور پر میں جلوت کا نہیں خلوت کا آدمی ہوں، اس لیے زندگی میں میرے دوستوں کا حلقہ ہمیشہ محدود و مخصوص رہا۔ میں کسی دوست کو اپنی نسبت سے احساسِ برتری کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ میرے لیے سب دوستوں کے ’قد‘ برابر ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اگر وہ کسی لحاظ سے فوقیت رکھتا ہے تو میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ جہاں کسی د وست نے آنکھیں بدلیں، میں نے راہیں بدل لیں …میں تنہائی سے مطلق نہیں گھبراتا، اس لیے کہ خود سے نہیں گھبراتا۔ البتہ اس دن کے تصور سے بھی کانپ اٹھتا ہوں جب ’مونسِ تنہائی‘ کی رفاقت سے محروم ہو جاؤں گا۔

میں عام طور پر پابندیِ اوقات سے کام کرتا ہوں، لیکن بعض دنوں میں میرے معمولات میں کوئی نظم و ضبط نہیں رہتا۔ یہی صورت جسمانی ورزش کی ہے جس میں مجھے صبح و شام ٹہلنا سب سے زیادہ پسند ہے۔ دہلی جیسے بڑے شہروں میں میرا سب سے محبوب مشغلہ’ دکان بینی‘ رہا ہے۔ اس مشغلے میں گھنٹے گزار سکتا ہوں …روپے پیسے کی جانب سے لا پرواہ رہا ہوں، یعنی کوئی گوں کی چیز مل جاتی ہے تو پھر ’مانعِ دشت نوردی کوئی زنجیر‘ نہیں ہوتی۔ پیسے کو میں نے ہمیشہ خرچ کرنے کی چیز سمجھا لیکن اسی قدر کہ قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے آج تک کسی سے قرض نہیں لیا، اور نہ دیا۔ کبھی دینا پڑا تو اس کو شمار نہ کیا۔ ستّر برس کی عمر ہو جانے پر بھی میں ابھی زندگی سے تھکا نہیں ہوں، ع

میری پیری میں ہے مانندِ سحر رنگِ شباب

ابھی تک میرے دل و دماغ چاق و بند ہیں اور مجھے کسی قسم کا جسمانی عارضہ لاحق نہیں ہوا ہے۔ خون میں شکر کی زیادتی ہو جاتی ہے جسے میں غذا میں احتیاط کر کے قابومیں رکھتا ہوں۔ مجھ میں ابھی تک حوصلۂ قلم و رقم باقی ہے، بلکہ یہ کہوں کہ زورِ قلم زیادہ ہو گیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ علمی کاموں کے کچھ منصوبے رہ گئے تھے جن کی سمیٹا سمیٹی میں لگا ہوا ہوں۔ البتہ شاعری اب دور کی آواز ہو گئی ہے اور یہ تمنا دل کی دل میں رہ گئی کہ کاش میں اپنے خونِ جگر سے کچھ اور شعری پیکر تراش سکتا! بعض اوقات اپنا کلام دیکھتا ہوں تو ایک اجنبیت سی محسوس ہوتی ہے۔ یہ میں نے کیوں کر کہا؟ اگر مجھے زندگی دوبارہ عطا ہو تو نجمہ کے ساتھ شعر کی دیوی کا پھر خواہش مند رہوں گا!

(ماخوذ از ’ورودِ مسعود‘، خود نوشست سوانح حیات ،پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1988، ص 297304)۔

٭٭٭

 

 

 

 

کتابیات

 

آزاد، محمد حسین، ’آبِ حیات‘ (کلکتہ: عثمانیہ بک ڈپو، 1967)، طبعِ اوّل 1880۔

اعظمی، عبداللطیف، ’’پروفیسر مسعود حسین خاں : بہ حیثیتِ شیخ الجامعہ، جامعۂ ملیہ اسلامیہ‘‘، مشمولہ ’ نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ۔

امرت رائے، A House Divided: The Origin and Development of Hindi-Urdu.، دوسرا ایڈیشن (دہلی: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1991)

بیگ، مرزا خلیل احمد (مرتب)، ’نذرِ مسعود‘ (علی گڑھ: تعلیمی مرکز، (1989، مجموعۂ نگارشات جو پروفیسر مسعود حسین خاں کی خدمت میں ان کی 70ویں سال گرہ پر پیش کیا گیا )یہ کتاب 1990میں بیکن بکس، ملتان سے بھی شائع ہوئی)۔

بیگ، مرزا خلیل احمد، ’’مسعود حسین خاں اور اسلوبیات‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’کتاب نما‘ (نئی دہلی)، جلد ۳۷، شمارہ 12، بابت دسمبر 1979، نیز مشمولہ ’اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے‘ از مرزا خلیل احمد بیگ(نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو ز بان، 2014)۔

بیگ، مرزا خلیل احمد، ’’مسعود حسین خاں : ماہ و سال کے آئینے میں ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘ (ممبئی)، جلد 80، شمارہ 9، بابت ستمبر (2009اِس توقیت نامے کے آخر میں مسعود حسین خاں نے اپنے قلم سے چند اضافے کیے)۔

بیگ، مرزا خلیل احمد، ’’مسعود حسین خاں کی لسانیاتی تحقیق‘‘، مطبوعۂ ’فکر و تحقیق‘ (نئی دہلی)، جلد14، شمارہ1، بابت جنوری، فروری، مارچ2011۔

بیگ، مرزا خلیل احمد، ’’مسعود حسین خاں کا نظریۂ شعر ارو شعری محرکات و اکتسابات (ایک گفتگو کی یاد داشت)‘‘، مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات‘ از مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2012)۔

جاوید، سلیمان اطہر، تبصراتی مضمون ’’دو نیم‘‘، مطبوعہ روز نامہ’ سیاست‘ (حیدرآباد)، بابت 12فروری 2001)یہ مضمون اس اخبار کے ’ادبی ڈائری‘ کے کالم میں شائع ہوا۔)

جین، گیان چند، ’’ڈاکٹر مسعود حسین خاں : بہ حیثیتِ ادبی محقق‘‘، مشمولہ ’نذرِ مسعود، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ۔

چٹرجی، سنیتی کمار، Indo-Aryan and Hindi، دوسرا ایڈیشن (کلکتہ : فرما کے.ایل.مکھوپادھیائے، 1960)، طبعِ اول1942۔

حسنین، سید امتیاز، "Firthian Linguistics and Masud Husain Khan’s A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urdu”، مشمولہ ’پروفیسر مسعود حسین خاں : نقاد اور دانش ور‘، مرتبہ شاہد ماہلی۔

خاں، مسعود حسین، A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urdu(علی گڑھ: شعبۂ اردو، (1954، اردو ترجمہ: ’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ‘، مترجم: مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 6 198)۔

خاں، مسعود حسین، ’مقدماتِ شعر و زبان‘(حیدرآباد، (1966۔

خاں، مسعود حسین، ’اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، (1973۔

خاں، مسعود حسین، ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، (1983۔

خاں، مسعود حسین، ’اردو زبان اور ادب‘ (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، (1954۔

خاں، مسعود حسین، ’’من کہ …‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’آج کل‘ (نئی دہلی)، جلد 45، شمارہ 9، بابت اپریل1987۔

خاں، مسعود حسین، ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘، ساتواں ایڈیشن(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1987)، طبعِ اوّل1948۔

خاں، مسعودحسین، ’’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘‘، خطبۂ پروفیسر ایمے ریٹس (علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، (1988۔

خاں مسعود حسین، ’ورودِ مسعود‘، خود نوشت سوانح حیات (پٹنہ:خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1988)۔

خاں، مسعود حسین، ’مضامینِ مسعود‘(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، (1997۔

خاں، مسعود حسین، ’دو نیم‘ (مجموعۂ کلام)، طبعِ سوم(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2000)، طبعِ اوّل1956۔

خاں، مسعود حسین، نظم ’’سخنِ واپسیں ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’سب رس‘ (حیدرآباد)، بابت مارچ2007۔

خاں، مسعود حسین، ’’علی گڑھ تا خدا گڑھ (رخصت اے بزمِ جہاں …)‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘ (ممبئی)، جلد 80، شمارہ 9، بابت ستمبر 2009یہ تحریر مسعود حسین خاں کی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ کا آخری باب ہے جو انھوں نے اس کے دوسرے ایڈیشن کے لیے لکھا تھا، لیکن دوسرا ایڈیشن بوجوہ شائع نہ ہوسکا۔

خلیق انجم، ’’مسعود حسین خاں : نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو‘‘، مشمولہ’پروفیسر مسعو د حسین خاں : نقاد اور دانش ور‘، مرتبہ شاہد ماہلی۔

دلوی، عبدالستار، ’’مسعود حسین خاں : شخصیت، یادیں اور خدمات‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’ کتاب نما‘ (نئی دہلی)، جلد 51، شمارہ 6، بابت جون 211پروفیسر مسعود حسین خاں نمبر۔

رؤف پاریکھ، "Prof. Masood Husain Khan turns 90″، مبروقہ Dawn, the Internet Edition (http://dawn.com)، بابت 03فروری 2009(=07صفر1430)، زیرِ کالم’Literary Notes‘۔

زور، سید محی الدین قادری، ’’اردو کی ابتدا‘‘، مطبوعہ مجلہ ’اردوئے معلّٰی‘ (شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی)، اردو لسانیات نمبر، بابت 1962۔

سلیم اختر، ’ ’مسعود حسین خاں بہ حیثیتِ نقاد(’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ کی روشنی میں )‘‘، مشمولہ’ نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ۔

شاہد ماہلی(مرتب)، ’پروفیسر مسعود حسین خاں :نقاد اور دانش ور‘(نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، 2010)

شکیل، عبدالغفار، ’’ذکرِ مسعود‘‘، مطبوعہ ماہنامہ’ اردو دنیا‘(نئی دہلی)، جلد 12، شمارہ 12، بابت دسمبر2010۔

شیرانی، محمود خاں، ’پنجاب میں اردو‘ (لکھنؤ: نسیم بک ڈپو، 1970)، طبعِ اوّل1928۔

صدیقی، کمال احمد، ’’اردو اور مسعود حسین خاں کی خدمات‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’کتاب نما‘(نئی دہلی)، جلد 32، شمارہ 10، بابت اکتوبر 1992’کتاب نما‘ کا خصوصی شمارہ: ’پروفیسر مسعود حسین خاں     علمی، لسانی اور ادبی خدمات‘، مرتبہ ایم.حبیب خاں ۔

فتیحی، علی رفاد، ’’مسعود حسین خاں کی نظم سخنِ واپسیں ‘‘، مشمولہ’ پروفیسر مسعود حسین خاں : نقاد اور دانش ور‘، مرتبہ شاہد ٭٭ ماہلی۔

ندوی، سیدسلیمان، ’نقوشِ سلیمانی‘ (اعظم گڑھ: دار المصنّفین، 1939)۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید