FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

عجب اک سلسلہ ہے

 

( سفرِریاست ہائے متحدہ عرب ا مارات اور عمرہ کے تاثرات)

 

 

 

                ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ

 

 

 

برادر بزرگ جناب عبد الوہاب خان سلیم کے نام

 

 

 

جواز

 

۲۰۰۱ء کی بات ہے۔ حج کا بلاوا آیا واپسی پر اپنی یاد داشت کے لیے وہاں کا احوال رقم کیا،لکھتے ہوئے محسوس ہوا کہ اصل حج تو یہ ہے۔ دورانِ حج تو ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہے اور ہر عمل کی کامیابی پر اللہ کا شکر بجا لاتے اور اگلے مرحلے کی تیاری میں مصروف ہو جاتے،حج کو محسوس کرنے کی مہلت کم کم ملتی رہی۔ کسی کیفیت کے سحر میں خود فراموشی کی حالت طاری ہوتی، ابھی اس حصار سے نکل بھی نہ پاتے تو یاد آتا کہ اب سعی کے لیے جانا ہے، اب حلق کروانا ہے، اب نوافل ادا کرنے ہیں، صلواۃ التسبیح صبح سے نہیں پڑھ سکی،ابھی کتنی ہی تسبیجات رہتی ہیں … روز ایک نیا تجربہ ایک انوکھی لذت لیے رونما ہوتا لیکن روز کی عبادات کی فہرست اس سے فیض یاب ہی نہ ہونے دیتی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حج کے تمام مناسک ادا کرنے کے بعد وطن واپس ہوئے اور آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ حج کی خواہش سے لے کر اختتام حج تک کی تمام روداد صرف اس نیت سے لکھی کہ مجھے بھولنے میں کمال حاصل ہے اور یہ سفر ایسا نہیں کہ اس کا ایک لمحہ بھی میں اپنے ذہن سے محو ہوتا دیکھنا چاہوں۔ڈاکٹر علی شریعتی نے بالکل درست کہا ہے کہ اصل حج تو تب ہوتا ہے جب فرد اپنے قبیلے میں آ کر اپنے احباب کو اس کی روداد سناتا ہے۔ تارڑ کہتے ہیں کہ میں جب سفرنامہ لکھتا ہوں تو اس سارے عمل میں، اس مکمل سفر میں دوبارہ زندہ ہو تا ہوں، وہ منظر جس سے میں سرسری گزر گیا تھا، لکھتے ہوئے مجھ پر وہ کچھ منکشف کر جاتا ہے جو اس روا روی میں، اس تکان میں نظر انداز ہو گیا تھا۔ یہ حقیقت ہے سفر کے بعد سفر کی اصل لذت تو اسے بیان کرنے میں ہے۔

اس سفرِ حج کی روداد کے چند غیر مطبوعہ صفحات جناب مستنصر حسین تارڑ کی نظر سے گزرے۔ ان کے تحسینی کلمات اچھے لگے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن سے ’’ دسترس میں آسمان‘‘ شائع ہوئی۔ بہترین ادب ۲۰۰۲ء کا اعزاز بھی پایا۔ جن چند ایک اصحاب نے کتاب پڑھی انھوں نے بھی سراہا۔ امریکہ سے جناب عبد الوہاب خان سلیم کا خط آیا کہ آپ کے حج کا سفر نامہ مشفق خواجہ کی شفقت و محبت کے سبب مجھ تک پہنچا۔ انھوں نے بھی اس سفرنامے کی تعریف کی۔ یوں ان سے میرا تعارف ہوا۔ پھر گاہے گاہے ان کے خطوط اور فون آتے رہتے۔ اگلے حج یا عمرے کے پروگرام کے متعلق پوچھتے، اپنی تازہ حاضری کے واقعات سناتے، میں اکثر سوچتی کہ مجھے تو کہتے ہیں کہ حج یا عمرے پر جاؤ تاکہ ہم ایک نئی رودادِ حج و عمرہ کا مطالعہ کر سکیں۔ خود کیوں نہیں لکھتے، لیکن ان سے یہ سوال کبھی کیا نہیں۔ ۲۰۰۸ ء میں عمرے کے لیے گئی۔ اس کے تاثرات ’’ سرحدِ ادراک سے آگے ‘‘ کے عنوان سے رقم کیے کہ قارئینِ ’’دسترس میں آسمان‘‘ کا تقاضا بھی تھا۔ عزیز و اقارب نے پھر تعریفی کلمات سے نوازا۔ جناب مستنصر حسین تارڑ، محترمہ خالدہ حسین، محترمہ شبنم شکیل، محترمہ عذرا اصغر اور چند ایک دیگر اد ب کے معتبر لوگوں نے سراہا۔ پبلشر نے ڈھائی سو کتب اپنے پاس رکھیں۔ باقی معاہدے کی رو سے مجھے خریدنا تھیں۔ ان کے پاس جو کتب تھیں ادارے کے ایک کارکن نے بتایا کہ ابھی ہم کتابیں لگا ہی رہے تھے کہ ایک صاحب آئے،ا نھیں کتاب پسند آئی اور انھوں نے دو سو کتابیں اسی وقت خرید لیں۔ باقی رہیں پچاس کتابیں تو وہ ہم نے پاکستان کے مختلف شہروں کے بک سٹالز پر رکھوا دی تھیں۔ وہ دن اور آج کا دن وہ پچاس کتابیں ختم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ میرے پاس جو کتب تھیں وہ تمام کی تمام تحفے میں دی گئیں اور بدلے میں تعریفی الفاظ سننے کو ملتے رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب کی اشاعت سراسر گھاٹے کا سودا ہے … ادب میں بڑے بڑے نام موجود ہیں، اس قطار میں ہمارا کیا شمار… لکھو صرف اپنے لیے… بہت جی چاہے تو کسی جریدے میں اس کا کوئی باب بھیج دو اور بس … ۲۰۱۲ء میں عمرہ اور دبئی کا سفر کیا تو یہی ارادہ تھا کہ اب ’’ رودادِ سفر ‘‘ بالکل نہیں لکھوں گی۔ چنانچہ نکات وغیرہ بھی قلمبند نہ کیے۔ گھر پہنچی تو عادت سے مجبور ہوکر صرف اور صرف اپنے لیے یادداشتیں محفوظ کرنے کے خیال سے،اس سفر میں دوبارہ جینے کی حرص میں دورانِ سفر بیتے گئے حالات وواقعات، واردات و کیفیات کمپوز کرنا شروع کر دیں، کچھ ابواب برقی ترسیلات کے ذریعے احباب تک پہنچے، انھیں پڑھ کراچھا لگا، لیکن میں کسی کی باتوں میں آنے والی نہ تھی … اب کے کتاب بالکل نہیں شائع ہو گی … اور اچانک جناب عبدالوہاب خان سلیم کا فون آ گیا۔ ’’اب تک تمھاری کتاب کیوں نہیں پہنچی۔ ‘‘

’’ کمپوز تو کر لی ہے پرنٹ نہیں کروائی اس لیے آپ تک نہیں پہنچی۔‘‘

… اور اب یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے تو یہ سارا کمال خان صاحب کا ہے، ان کے دستِ راست جناب تصور حسین جنجوعہ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا کرے۔مجھے تو صرف ا س بات کی خوشی ہے کہ چند ایک قارئین کی رائے یہ ہے۔

’’ آپ کی کتابیں تو صدقہ جاریہ ہیں، انھیں پڑھ کر ہمارے دل میں حج و عمرے کی آرزو نے جنم لیا ہے۔‘‘… یہ احساس زندگی کے رائگاں جانے کے خیال کو زائل کرتا ہے۔

ہاں شکریہ ادا کرنا ضروری ہے، اپنے پیاروں کا، جو ہمہ وقت مجھے کتابوں میں گھرا، لیب ٹاپ پہ کام کرتا دیکھتے ہیں اور میری خوشی میں خوش رہتے ہیں۔ شاہد صاحب کے صائب مشورے ہمیشہ میری رہنمائی کرتے ہیں۔ دانش، آمنہ، رائم،رِوا،سرمد، ماریہ، نوفل، نافع، فارد اور ذوہیب سبھی میری محبتوں کے امین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں اپنے دربار میں اور حضور اکرمﷺ کا احسان ہے کہ وہ اپنے دیار میں حاضر ی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ میں اس دن کی منتظر ہوں کہ جب اس حاضری میں حضوری کی تمام تر کیفیات بھی شامل ہو جائیں۔ دعا ہے کہ اللہ کریم عملِ صالح، کشادہ و طیب رزق اور علمِ نافع سے سر فراز فرمائے۔ آمین

قرۃ العین طاہرہ

اسلام آباد

 

 

 

بہت قریب سے آتی ہے دور کی آواز

 

لبیک ! الھمَ لبیک کا وردانسان کو اپنے رب سے قریب تر کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ احرام پہن کر ہی اس کو اپنی آتی جاتی سانسوں میں شامل کیا جائے، جب موقع ملے… فرصتِ زندگی موقع ہی کب دیتی ہے،لیکن جب کبھی وقت کی تیز ہواؤں میں اڑتی چادر سے لمحوں کے چند تانے بانے ادھیڑنے کا موقع مل جائے۔ لبیک الھمَ لبیک، ایک محبت سے لبریز دل لیکن ناتوانی و ضعف سے لرزیدہ جسم کی پکار، اس بزرگ و برتر ہستی سے رابطے کا احساس جگا دیتی ہے۔ ایک خواہش جو چپکے چپکے پرورش پاتی اور تکمیل کی منتظر رہتی ہے۔ کوئی غیرمحسوس طریقے سے اپنی اور بلاتا رہتا ہے۔ لبیک الھم لبیک…

شاہد نے جون ۲۰۱۰ عمرے کے لیے منتخب کیا لیکن نہ جانے کیوں میں کہہ اٹھی،شاید اس لیے کہ میں اب کے حج پر جانا چاہتی تھی عمرے پر نہیں۔

’’ اگر عمرہ ہی کرنا ہے، تو اچھے موسم میں کریں گے،یہ کیا کہ گرمی کی شدت سے بے حال، حرم پہنچنا بھی کٹھن لگے۔‘‘

بات ٹل گئی اور اچانک ہی سرمد کی منگنی کاسلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی سرمد کا حج کے لیے بلاوا آ گیا۔ وہ کہنے لگا۔ ’’ امی آپ چلیں گی نا۔ ‘‘اب امی اس کی شادی کی تیاری کر لیتی یا حج پر چلی جاتی۔ یوں حج سے آمد کے ٹھیک ایک ماہ بعد سرمد صاحب نے سر پر کلاہ پہنی اور ہمارے ہاں ڈاکٹر ماریہ کا خوبصورت اضافہ ہوا، پھر حج کا موسم آ پہنچا۔ اب کے ماریہ اور سرمد کے بیٹے نوفل کے آنے کی باری تھی، مبارک سلامت کے شور نے فضا مہکا دی۔ مجھے اس دوران مسلسل احساس رہا کہ پچھلے عمرے پر بھی میں نے ایسی ہی بے تکی بات کی تھی جس کی وجہ سے ہم دو سال دیر سے پہنچے اور اب کے بھی میں یہ حماقت کر بیٹھی ہوں جس کے سبب عمرے کا پروگرام آگے ہی آگے جا رہا ہے۔ حج بھی ان شاء اللہ کر ہی لیں گے، اس خواہش کے پیچھے عمرہ کرنے کا موقع کیوں گنوایا جائے۔

 

تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا

 

فروری۲۰۱۲ء میں عمرے کا ارادہ کیا اور پھر وہ روز آ ہی گیا جس کے سبھی منتظر رہتے ہیں۔ ۲۴ فروری صبح چار بجے روانگی تھی اس روانگی سے قبل کی داستان بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں۔ بلاوے کا یقین ہو تو سارے راستے خود بخود کھلتے جاتے ہیں۔ ۷ فروری کو کالج پرنسپل سے اس موضوع پر بات ہوئی۔ درخواست مکمل کر کے پی اے کے حوالے کی، عمرہ کی روانگی سے ایک روز پہلے پرنسپل میڈم ریحانہ شبیر نے بلایا۔ حاضر ہوئی۔ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے آیا ہوا ایک خط میری جانب بڑھایا اور پوچھا۔

’’ کب کی فلائٹ ہے۔ ‘‘ میں نے کہا’’ کل کی‘‘ کہنے لگیں یہ پڑھ لو …لکھا تھا۔

’’ بیرونِ ملک جانے کے لیے درخواست بیس روز پہلے دی جاتی ہے،آپ کی درخواست ہمیں دو روز پہلے ملی ہے، اس پر کارروائی ممکن نہیں۔ پھر آپ نے عدالتی حلف نامہ بھی جمع نہیں کروایا، اس لیے آپ کی درخواست رد کی جاتی ہے۔ ‘‘

اور بھی اس قسم کے کئی اعتراضات تھے، میں نے پرنسپل سے کہا کہ میں نے ۷ فروری کو درخواست دے دی تھی، اب یہ پی اے بادشاہ کی میز پر پڑی رہی تو میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ پرنسپل میڈم ریحانہ کہنے لگیں۔

’’ میں میڈم یاسمین سے بات کرتی ہوں تم خود بھی جا کر انھیں بتا دو کہ درخواست پر بیس دن پہلے کے پرنسپل کے دستخط موجود ہیں۔ ‘‘

میں اسی وقت فیڈرل ڈائریکٹوریٹ گئی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر میڈم یاسمین سے ملی، بہت اچھی طرح پیش آئیں، کہنے لگیں جو تم کہہ رہی ہو اسے ایک کاغذ پر لکھ دو۔ میں نے دو سطروں میں مدعا تحریر کیا۔

’’ کل تمھیں این او سی مل جائے گا۔ بے فکر رہو۔ ‘‘

اور دوسرے دن کس طرح مجھے این او سی ملا۔ یہ الگ داستان ہے۔ عجب اک سلسلہ ہے، اس کے جود و کرم کا۔ صرف ایک بات ہے کہ میں ان رکاوٹوں سے بالکل خوف زدہ نہ ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ سارے دروازے خود بخود کھلتے جا ئیں گے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی خیال نہ آیا کہ راہ کھوٹی ہو جائے گی۔ اللہ کی جانب سے بلاوا ہو تو کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا۔ ہر عمرے اور طواف کے دوران پرنسپل میڈم ریحانہ شبیر، میڈم بی بی یاسمین اور ڈائرکٹر کالجز جناب اختر ملک کے لیے دل سے دعائیں نکلتی رہیں۔ شکریہ اور شکر کے لمحے فراہم کرنا بھی اللہ ہی کی طرف سے انعام ہے۔

 

صرف سرکارﷺ سے محبت ہے

 

اس مرتبہ الھدیٰ ٹریولز میری بات سمجھ نہ سکے میں نے انھیں جمعے کی شام کی ٹکٹیں لینے کے لیے کہا تھا، تاکہ ہفتہ اتوار کی چھٹی بھی سفر میں شامل ہو جائے۔ انھیں جمعہ تو یاد رہا صبح شام کو اس لیے بھول گئے کہ شام کو پرواز جاتی ہی نہ تھی۔ ’’بھئی آپ ہفتے کی صبح کی لے لیتے ‘‘لیکن انھوں نے پوچھے بغیر سیٹ کنفرم کر دی۔ دوسرا کام یہ کیا کہ دوبئی میں پندرہ روز کے بجائے تیرہ روز کا قیام کر دیا۔ اب میرا واویلا کرنا بیکار تھا، ’’اتنی دور جاؤں اور اپنے پیارے بھتیجوں بلال، طلال اور چھوٹی بہن عطیہ کے لیے وہی دس بارہ رو ز‘‘ دل ہی دل میں جھنجلاتی رہی لیکن اچانک ایک روشنی سی ہوئی۔

’’ مجھے مکہ، مدینہ میں دو روز مزید رہنے کو مل جائیں گے۔‘‘

’’مومن وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ ‘‘( سورہ البقرہ۔ آیت ۱۶۵)

’’ اور مومن وہ ہیں جو رسولِ کریمﷺ سے اپنی جان سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ ‘‘( سورہ احزاب، آیت ۶)

تو مجھے اس بات پر پورا اترنا ہے کہ میرا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک حضور پاکﷺ مجھے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں سے زیادہ پیارے نہ ہو جائیں۔

رات ایک بجے ائر پورٹ پہنچے۔ دانش، آمنہ اور رائم الوداع کہنے آئے۔ بہت سہولت سے بورڈنگ کارڈ مل گیا۔ سامان کم تھا، حماقت یہ کی کہ سامان کم ہونے کے باعث اپنے اور شاہد کے کپڑے ضرورت سے زائد رکھ لیے، جس کے سبب بعد میں جدہ اور پھر اسلام آباد واپسی پر پریشانی ہوئی لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اتنا زیادہ وزن ہو جانے کے باوجود ہمیں کوئی مسئلہ نہ ہوا اور عمرہ سے واپسی پر جس متوقع ہنگامہ آرائی کا خوف تھا،اس مرحلے سے بخوبی گزر گئے۔ جیسے ہی بورڈنگ کارڈ ملے،میں نے شاہد سے کہا کہ میں مسجد جا رہی ہوں۔ صلوۃ التسبیح ادا کی اور ابھی مزید دو نفل نماز کا ارادہ باندھ ہی رہی تھی کہ’’ شاہد محمود متوجہ ہوں ‘‘ کی صدا سے ائر پورٹ گونج اٹھا، تیزی سے باہر آئی معلوم ہوا کہ بورڈنگ کارڈ لیتے ہوئے شاہد نے کہا تھا۔ ’’ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمیں کھڑکی والی نشستیں مل جائیں۔ ‘‘اب انھیں یہ بتانے کے لیے بلا یا جا رہا تھا کہ آپ کی نشستیں آپ کی خواہش کے مطابق کر دی گئی ہیں۔

روانگی کا وقت ہوا چاہتا تھا، مسافر قطاروں میں کھڑے تھے۔ ہم بھی ان میں شامل ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں دروازے پر کھڑی فضائی میزبان ہمیں بزبانِ انگریزی مسکراتے لبوں سے صبح بخیر کہتی پائی گئیں۔ میں حیران ہوئی کہ رات میں صبح بخیر کا کیا جواز لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ ہنوز اندھیرے کی سلطنت قائم ہے لیکن صبح کے چار بج چکے ہیں۔ نشستیں کافی دور تھیں، بہر حال ہم پہنچے۔ جہاز نے اڑان بھری اور کچھ ہی دیر بعد سلسلہ طعام شروع ہوا۔ ناشتے میں سبھی لوازمات شامل تھے اور قابلِ طعام تھے۔ جب سے ایوامن کی گولی کھانا شروع کی ہے جہاز کے سفر کا مزا آنے لگا ہے، جی بھر کر کھاتی پیتی ہوں۔ ورنہ کھانا پینا تو دور کی بات۔ دل اتنا خراب ہوتا تھا کہ دوسروں کا سفر بھی بد مزا کر دیتی تھی۔

 

پھر آئے ہم تمھارے شہر میں

 

تین سوا تین گھنٹوں میں ہم ابو ظہبی ایر پورٹ کی حدود کو چھوتے تھے۔ سفر بہت آرام سے کٹا۔ نیند البتہ نہ آئی۔ درود شریف،آیت الکرسی اور لبیک کا زیرِ لب ورد جاری رہا۔ جہاز سے باہر آئے تو آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہو گیا۔ ہمیں کہا گیا کہ یہاں قطار میں کھڑے ہو جا ئیے۔ قطار رینگ رہی تھی ہم بھی شامل ہو گئے۔ ایک صاحب چار سالہ بیٹی اور دو سالہ بیٹے کے ہمراہ کھڑے تھے۔ بیٹی بالکل خاموش تھی لیکن صاحب زادے نے ماما، ماما کی رٹ لگائی ہوئی تھی اور زار و قطار زور زور سے روئے چلا جا رہا تھا۔ باپ کا چہرہ تاثرات سے یکسر خالی،نہ جانے ضبط کے کتنے بندھن باندھے ہوا تھا،دل پر بہت اثر ہوا لیکن سبھی خاموش کھڑے تھے۔ ہر شخص اپنے اندر ایک کہانی سمیٹے ہوئے ہے۔ خدا خدا کر کے ہم اس لکیر پر پہنچے جسے پار کر کے پروانۂ راہداری حاصل کیا جا سکتا تھا، صاحبِ کرسی نے شانِ بے نیازی سے اشارہ کیا کہ پہلے ادھر جاؤ جہاں آنکھ کی تصویر بنائی جائے گی۔ ادھر گئے تو معلوم ہوا کہ یہاں بھی ایک لمبی قطار ہے۔ خیر باری آئی انھوں نے شاہد کی آنکھ کی تصویر کھنچی اور میری بغیر کھینچے ہی کاغذ پر مہر ثبت کر دی۔ اب پھر وہی پہلے والی قطار اور وہی باری کا انتظار، غصہ تو بہت آیا، میں نے کہا اب کے پھر ہم سب سے پیچھے کھڑے ہوں گے۔ اتنے میں سفیدعربی لبادے میں ملبوس انتظامیہ کے کوئی صاحب آ گئے اور ماجرا پوچھنے لگے، انھیں اردو میں ہی بتایا کہ پہلے اتنا وقت ضائع ہوا اب پھر ہم وہیں ہیں جہاں سے چلے تھے۔ انھوں نے ہمیں قطار سے باہر آنے کا اشارہ کیا اور دوسرے ہال میں جہاں اہم لوگوں کے کاوئنٹر بنے تھے وہاں جانے کو کہا،یوں ہم دوسرے ہی لمحے باہر تھے، چار سال پہلے جہاز سے اترتے ہی ہمارے سارے کام ہو گئے تھے اور ہمیں بس تک پہنچنے میں آٹھ دس منٹ سے زیادہ نہ لگے تھے۔ بہر حال سامان وصول کیا اور دبئی لے جانے والی بس کی تلاش میں باہر آ گئے۔ اس مرتبہ بہت سی بسیں کھڑی تھیں ذرا سی جستجو کے بعد ہم مطلوبہ بس میں بیٹھے تھے۔ بیٹھتے ہی ٹھنڈے پانی کی بوتلیں پیش کی گئیں۔ کشادہ سڑکیں، دو رویہ درخت، جا بجا گھاس کے قطعات، پھولوں کے تختے، کھجور،شیشم، بیر کے گھنے، چھدرے درخت، ساری شاہراہ کو جالی کی خوبصورت باڑھ لگا کر جانوروں سے محفوظ کیا گیا ہے۔ جہاں آبادی کے آثار تھے وہاں یہ امر حیران کن تھا کہ تمام عمارتیں جو غالباً چار منزلہ ہوں گی ایک ہی رنگ روپ اور نقشے کی تھیں۔ بس کنڈیکٹر نے شاہد سے کہہ دیا تھا کہ آپ دبئی نہ اتریے، ہم آپ کو اپنے آفس شارجہ لے جائیں گے وہاں سے ٹیکسی کر کے، یا فون کر کے اپنے میزبانوں کو بلا لیجیے گا۔ اسی سوچ میں تھے کہ دبئی آ گیا، بس کی کھڑکی سے مشتاق اور بلال ہمیں اسی کھجور کی چھدری چھاؤں میں کھڑے نظر آئے، جہاں ہم پچھلی مرتبہ ان کا انتظار کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ آدھ گھنٹے سے کھڑے ہیں۔ جلدی سے سامان گاڑیوں میں منتقل کیا، شاہد اور مشتاق ایک گاڑی میں اور دوسری میں میں اور بلال، شارجہ کی جانب چلے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ روز مرہ کی بات ہو، ہم یہیں رہتے ہوں، وہی سڑکیں وہی بلند و بالا عمارتیں فرق صرف اتنا تھا کہ برج خلیفہ کی عمارت جو پچھلی مرتبہ بتایا گیا تھا کہ کئی سالوں سے آخری سات منزلوں پر کام نہ ہونے کی وجہ سے نا مکمل تھی اور اس کے سریے باہر نظر آتے تھے اب نہ صرف مکمل ہو چکی ہے بلکہ دنیا کے مہنگے ترین شاپنگ پلازوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

 

ہر لمحہ اک زندگی تھا

 

گھر پہنچے تو سبھی منتظر تھے۔ اپنوں سے ملنا اور محبتوں کی بارش میں بھیگنا کتنا دلکش تجربہ ہے۔ زندگی کے یہی لمحے آپ کو اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ دوڑتی بھاگتی زندگی سے تھوڑا سا وقت اپنے لیے، اپنوں کے لیے نکالنا بہت ضروری ہے۔ ناشتہ کیا اور فجر کی قضا نماز ادا کی۔ دوپہر کے کھانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ مشتاق نے بچوں سے کہا کہ جمعہ کا وقت ہونے والا ہے ٹھیک ایک بجے تیار ہو جانا۔ میں نے عطیہ سے کہا کیا ہم بھی جمعہ پڑھنے جائیں گے، عطیہ کہنے لگی میں بھی گذشتہ تیرہ برسوں سے ارادہ کر رہی ہوں کہ مسجد فیصل نماز جمعہ پڑھنے جاؤں گی اور اب پختہ ارادہ تھا کہ طاہرہ باجی کو ساتھ لے کر جاؤں گی۔ میں نے کہا پھر دیر کس بات کی۔ ہم دونوں بھی تیار ہو گئے اور کوئی میل بھر کے فاصلے پر مسجدِ فیصل جا پہنچے۔ گاڑیوں کی ایک بہت بڑی تعداد پارکنگ میں موجود تھی۔ کچھ تگ و دو کے بعد ہمیں بھی جگہ مل گئی، ہمیں کہا گیا۔

’’اچھی طرح پہچان لو نماز کے بعد یہیں واپس آنا ہے۔ ‘‘

نماز کے لیے اندر پہنچے، اذان ہوئی۔ چار سنتیں پڑھیں اور پھر عربی زبان میں خطبہ شروع ہوا، کہ خطبہ ہوتا ہی عربی زبان میں ہے۔ یہ خطبہ اگر سمجھ میں آ رہا ہوتا تو اچھی بات تھی، لیکن ہم جو دو چار فیصد عربی سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس میں شمہ بھر سچائی معلوم نہ ہو رہی تھی۔ اپنی تو یہ حالت کہ نہ جانے کتنے دنوں کی تھکن نے آج ہی سر چڑھ کر اپنا آپ دکھانا تھا، نیند جو دن میں ازلی دشمن ہے، جتنے لاڈ اٹھا لو قریب نہیں پھٹکتی، اس وقت اسے مار مار کر بھگا رہے تھے۔ خطبہ زلف یار کی طرح دراز ہوتا جا رہا تھا اور سمٹنے کا نام نہ لیتا تھا۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ ان دیکھے خطیب صاحب کو سامعین کا خیال آ گیا اور نبی اکرمﷺ کے اس حکم پر پیار آیا کہ جمعہ کی نماز میں سورتیں مختصر پڑھائی جائیں۔ اپنی حالت پر توبہ استغفار کی۔ شیطان پر لعنت بھیجی، قدرے سکون سے نماز مکمل کی اور باہر آئے۔ اب اگلا مرحلہ گاڑی ڈھونڈنے کا تھا، مشتاق نے عطیہ کی گلیوں بازاروں کی جان پہچان کا جو نقشہ کھینچ رکھا تھا میں بھی اس میں پورا اترتی تھی لیکن شکر کہ بہت زیادہ نہ بھٹکے اور گاڑی تک پہنچ گئے۔ آتے ہی کھانا کھایا اور سونے کی کوشش میں مصروف ہو گئی لیکن نیند نے آنا تھا نہ آئی، بلال، طلال فرح اور تینوں بچے البتہ آ گئے اور خوب رونق لگی۔

 

ریگِ صحرا ہے چار سو اور میں

 

پچھلی مرتبہ العین کا پروگرام بنتے بنتے رہ گیا تھا، اس لیے اب کے بلال اور طلال نے سب سے پہلا پروگرام وہیں کا رکھا، صبح نو بجے العین جو متحدہ عرب امارات کی خوب صورت ترین ریاست ہے، کے لیے نکلے۔ العین جانے والی شاہراہ پر ابھی روانہ ہی ہوئے تھے کہ صحرا کے کھلے اور روشن نظاروں نے ہمیں خوش آمدید کہا، خود رو قدِ آدم جھاڑیاں، دور اونٹوں کے ریوڑ کسی تصویر کی طرح معلوم ہو رہے تھے۔ گاڑی روکی، صبح کا وقت تھا،ریت میں بہت ہلکی تمازت تھی جو بھلی لگتی تھی، ہم سب بہت دور تک کئی ایک ٹیلوں کو عبور کرنے کے بعد صحرا کی خاک نہیں ریت چھانتے گاڑی کی طرف واپس آئے، ریت کے بھی کتنے رنگ اور کتنے انگ ہوتے ہیں، کتنا حسن و جمال سمیٹے ہوئے ہے اس کا اندازہ ہی نہ تھا۔ سڑک تک پہنچے ہی بلال کا خوشی سے بھر پور نعرہ اس سنسان ریگستان میں گونجا، ہم نے دیکھا کہ فضا میں منڈلاتے جہاز سے یکے بعد دیگرے بیسیوں پیرا ٹوپرز انتہائی مہارت کے ساتھ اتر رہے تھے، نہ جانے انھوں نے کتنی مشق کر رکھی تھی کہ خلا سے زمین پر قدم رکھتے ہوئے لمحہ بھر کے لیے بھی ان کے پاؤں نہ لڑکھڑاتے۔ کافی دیر تک ان کے ماہرانہ انداز کو دیکھتے اور سراہتے رہے۔ بلال بہت خوش تھا کہ کتنے ہی سالوں سے اس شاہراہ سے گزر رہے ہیں لیکن یہ منظر آج ہی دیکھا ہے۔ عرب شیوخ کی ثروت مندی کے ایسے بے شمار مظاہر متحدہ عرب امارات کے چپے چپے پر بکھرے ہوئے ہیں۔

 

اسیرِ منزل رواں دواں ہیں

 

اب ہمارا سفر پھر اپنی منزل کی جانب شروع ہوا۔ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد بلال کہنے لگا۔ گرم پانی کے ابلتے چشموں کے باغات، مبازرہ پارک اور جبلِ حفیت ہم ان شاء اللہ پہنچ ہی جائیں گے، پہلے آپ کو العین کا ہوائی مستقر نہ دکھا لیں۔ پچھلے دنوں ابو کو بھی یہاں لے کر آیا تھا اور ہم سب نے اسلام آباد کو بہت یاد کیا۔ آپ کو ایسے محسوس ہو گا کہ آپ اسلام آباد میں ہی ہیں۔ اب بلال نے گاڑی کا رخ العین ائر پورٹ کی جانب کر دیا۔ شاید ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم گھاس کے کھلے میدانوں اور کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں گھرے مصنوعی جھیل کے ٹھنڈک پہنچاتے اور ہوا کے خوشگوار جھونکوں سے لبریز ان درختوں کو دیکھتے تھے جن کی ماہرانہ تراش کی بنا پر ایک پتہ بھی کہیں سے غیر ارادی طور پر سر نکالتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ گھاس پر ننگے پاؤں چلنے سے آنکھوں میں جو طراوت و تازگی کا احساس جاگا، اس نے مزید ہشاش بشاش کر دیا۔

وہاں سے چلے تو اب ہماری منزل مبازرہ پارک تھا جہاں کے گرم پانی کے چشموں نے دھومیں مچائی ہوئی تھیں، ان گرم چشموں کا جب بھی ذکر ہوا مجھے منگھو پیر کراچی کے گرم پانی کے چشمے یاد آ جاتے جہاں جلدی امراض میں مبتلا لوگ صحت یابی کے لیے جاتے اور گندھک ملے اس پانی میں نہا کر شفا حاصل کرتے، لیکن ساتھ ہی وہاں کے تالابوں میں مقید دیو ہیکل مگر مچھ نگاہوں کے سامنے آ جا تے جو بڑھتی ہوئی تعداد اور جگہ کی قلت کے سبب انتہائی کس مپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ یہی مگر مچھ اگر کسی اور ملک، دبئی میں ہی ہوتے تو ان کی کس طرح دیکھ بھال ہو رہی ہوتی، کس طرح ان کی افزائشِ نسل پر توجہ دی جاتی اور ان کی کھال کی مصنوعات کتنے مہنگے داموں ’’برینڈڈ‘‘ مصنوعات کے طور پر فروخت ہوتیں۔ میں خیالوں میں نہ جانے کہاں پہنچی ہوئی تھی،سڑک پر مناظر تیزی سے نظروں سے پھسلتے جا رہے تھے۔ ان سیکڑوں ہزاروں مناظر میں ایک منظر ایسا ہوتا ہے جو آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ بابل کے معلق باغات تو سنے تھے یہ پھولوں بھری آویزاں ٹوکریاں ہم کتنی تیزی سے پیچھے چھوڑتے جا رہے ہیں، میرا جملہ بھی پورا نہ ہوا تھا کہ بلال نے گاڑی دائیں جانب موڑ لی ’’ بھئی جی بھر کر دیکھ لیں پھولوں بھری باسکٹس۔‘‘دو رویہ پوٹینیا کے رنگا رنگ پھولوں سے سجی ٹوکریاں دیکھ کر ہم نہال ہوئے جا رہے تھے۔ پولیس نے ہمیں بائیں طرف گاڑی پارک کرنے کے لیے کہا، میرا خیال تھا ہم نے پھولوں کے نظارے تو کر لیے ہیں اب یہاں پارک میں وقت ضائع ہو گا۔ ابھی ہمیں اپنی اصل منزل مبازرہ پارک اور جبلِ حفیت بھی پہنچنا ہے۔ گاڑی سے اترتے ہوئے میں نے بلال سے کہا۔ ’’ ٹھیک پندرہ منٹ بعد ہمیں واپس آنا ہے۔ ‘‘

 

خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

 

پارک میں داخل ہوتے ہی بلال اور اس سپاہی کے لیے بھی دل سے دعائیں نکلیں، جس نے ہمیں پارکنگ کے لیے کہا تھا۔ بلال کہتا ہے کہ ہمیں اتنے سال ہو گئے یہاں رہتے ہوئے لیکن ایسا منظر ہم نے بھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پارک میں داخل ہوتے ہی سنگِ مرمر کے کتبے پر کندہ تحریر باغ کا مکمل تعارف کراتی تھی۔ یہ باغ وہاں کے رئیس کی بیگم کے ذوقِ آرائشِ گل کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ کام میں محنت کے ساتھ ساتھ محبت بھی شامل ہو، سخت کوشی کے ساتھ اخلاص بھی موجزن ہو تبھی ایسے شاہکار تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دو ہزار نوسو چھیاسٹھ ہینگنگ باسکٹس کے سبب اس کی شمولیت اہم کامیابی ہے۔ اس باغ کی تصویر کشی لفظوں میں ممکن ہی نہیں۔ دھنک کے سات رنگ ہیں۔ بنیادی رنگ تو شاید تین چار ہی ہیں، یہاں ایک ایک رنگ کے کتنے شیڈز دکھائی دیے شمار نہیں کیے جا سکے۔ یہاں صرف ٹوکریاں ہی نہیں کتنے اور ہی پہلوؤں سے ان پھولوں کی رونمائی کی گئی تھی۔

پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار

اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن

بچپن میں اقبال کا شعر پڑھا کرتے تو ذہن میں سوال اٹھتا کہ صحراؤں میں تو خاک اڑتی ہے یا ریت… پھول کہاں سے آ گئے… اور اب ان ریگستانوں میں پھولوں کو دیکھ کر جن کی کوئی حد ہے نہ شمار،انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ کس کس انداز سے انھیں سجایا سنوارا نہیں گیا۔مری ایوبیہ جائیں بلکہ اکثر شہروں میں شاہراہوں کے کناروں پر رنگ برنگی شالیں لٹکائے پٹھان اس امید پر بیٹھے ہوتے ہیں کہ بیگم صاحبہ کی نظر پڑے تو وہ گاڑی روکنے کا حکم دیں اور ایک آدھ میچنگ شال خرید لیں۔ یہاں ہر رنگ اور ہر شیڈ کی پھولوں کی چادروں نے باغ کی شمالی دیواروں کو ڈھانپا ہوا تھا۔ کہیں قطار اندرقطار جامنی، سفید،ہلکے جامنی، سرخ، پیلے، گلابی پھولوں سے تکون چٹان سجائی گئی ہے لیکن کیا مجال کہ گلابی پھولوں میں کوئی نیلا پیلا پھول اپنی جھلک دکھلا جائے۔

یہ کس حور شمائل کی آمد آمد ہے

کہ غیرِ جلوۂ گل رہگزر میں خاک نہیں

ٹائلوں سے بنے راستے پھولوں کی محرابوں سے ڈھکے ہوئے، مختلف درختوں پر ایک نئے رخ سے انھی پھولوں کی ٹوکریاں سجائی گئی ہیں۔ ایک ایسا کنج بھی موجود ہے جہاں پتھریلا صحن تیار کیا گیا ہے اور اس پر دیو ہیکل تتلیاں پینٹ کی گئی ہیں۔ غرض باغ کیا تھا، ہر کونہ کہتا ہے اگر فطرت کا قرب چاہتے ہو تو میرے کنے آؤ، ہر گوشہ پکارتا تھا زمینی جنت کا نظارہ کرنا ہے تو میری آغوش وا ہے، میں نے بلال سے کہا۔

’’معلوم ہوتا کہ ہمارے نصیب میں العین پیراڈائز پارک میں پوٹینیا پھولوں کی نمائش دیکھنا بھی لکھا ہے،جو چند ایک روز کے لیے ہی ہو گی تو ہم فرح کو بھی لے آتے۔ ‘‘

’’ شکر ہے نہیں لائے، ورنہ اتنی دیر تو بچوں کو گاڑی سے اتارنے، انھیں پرام میں بٹھانے میں ہی لگ جاتی۔ ‘‘

مجھے احساس ہوا کہ ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ پندرہ منٹ میں واپس آئیں گے اب گھنٹا ہونے کو ہے۔ واپسی کا ارادہ کیا۔ تصویر کشی کرتے ہوئے اگر بے دھیانی میں آپ کا پاؤں ٹائلوں سے ہٹ کر گھاس پر پڑ جاتا ہے تو ایک دم ہی کئی سیٹیاں فضا میں گونج کر آپ کو آپ کی غلطی پر پشیمانی کا احساس دلا سکتی ہیں۔ بے شمار وردیوں میں ملبوس محافظ آپ کے ارد گرد گھوم رہے ہیں۔ ایک بیری کے درخت سے غیر ارادی طور پر میں نے ہاتھ بڑھا کر بیر توڑ لیا۔ بلال نے کہا اب دیکھیے سیٹیوں کا شور، لیکن خیر گزری۔

دروازے سے نکلتے ہوئے میں نے باغ کے منتظم سے کہا کہ یہاں آپ کو وزیٹرز بک ضرور رکھنی چاہیے تاکہ ہم جیسے اپنے جذبۂ تحیر کو حرف دے سکیں، اسے میری بات شاید سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ ہمیں دفتر لے جانے کی بات کرتا رہا۔ شاید دفتر میں یہ انتظام ہو، لیکن اب ہمیں دیر ہو رہی تھی۔

ذاکر ایریا سیونی ڈسٹرکٹ ابو ظہبی میں یہ پارک صبح آٹھ بجے سے رات نو بجے تک کھلا رہتا ہے۔ مجھے یہ معلوم کر کے کہ اتوار اور بدھ کے روز خواتین کے لیے مختص ہے، کراچی کا چڑیا گھر یاد آ گیا کہ جہاں بدھ کو صرف خواتین اپنے بارہ سال سے کم عمر بچوں کے ہمراہ آ سکتی تھیں اور اس دن داخلہ ٹکٹ بھی نہیں لیا جاتا تھا، یہاں داخلہ ٹکٹ کسی روز بھی نہیں لیا جاتا۔ پیر،منگل اور جمعرات عام پبلک کے لیے اور جمعہ ہفتہ صرف فیملیز کے لیے مقرر تھا اور ان اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔ باہر نکلے تو پارکنگ کے عقب میں عمارت کے سامنے جو دو درجن ہیوی بائکس کھڑی تھیں اب موجود نہیں تھی۔ بلال نے بتایا کے شاہرہِ العین پر انتہائی تیری سے گزرتی یہ بائیک شاید ہمیں کہیں دکھائی دے جائیں۔ العین جھیل جو ۲۵ کلو میٹر العین کے جنوب میں دبئی ٹرنک روڈ کے نشیب میں واقع ہے، بے حد خوب صورت لیکن انتہائی خطر ناک … اپنے منہ زور پانیوں کے سبب نہیں، بلکہ ان زہریلے حشرات جن کا کا ٹا پانی نہیں مانگتا اور جنگلی جانوروں کے سبب سیاح اس جگہ کا کم کم ہی رخ کرتے ہیں۔ سرخ ریت،خاکی ریت اور نیلا سبز سمندر اور سارے کاسارا آسمان اس جھیل کی خوبصورتی کو جھک جھک کر دیکھتا ہوا سارے کا سارا اسی رنگ میں رنگا ہوا … اور اللہ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہے۔

 

ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود

 

اب ہماری مکمل توجہ مبازرہ پارک کی جانب تھی۔ سٹارز کورٹ آف العین کے سامنے پروں والے تانبے کے بنے گھو ڑے سے بھی کترا کے گزرنا چاہتے ہیں جہاں خوبصورت فواروں کے ذریعے پانی کا رقص بن مول دکھایا جاتا ہے۔ بن مول تو العین مال میں انٹر نیشنل سرکس بھی دعوتِ دِید دیتا ہے لیکن وقت… راستے میں بلال الجاہلی فورٹ، العین قومی عجائب گھر، العین پیلس میوزیم نہ جانے کیا کیا متعارف کراتا گیا۔ مبازرہ پارک پہنچے تو احساس ہوا کہ اگر ہم یہاں نہ آتے تو قدرت کے ایک حسین تحفے سے محروم رہ جاتے۔ کھلی فضا، وسیع سبزہ زار جا بجا ہٹ بنے ہوئے۔ تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل آتش … یہاں پاؤں تھکنے کا احساس نہ تھا۔ ہمیں تو چشموں کے گرم دھومیں مچاتے پانی اپنی طرف بلاتے تھے، ثروت باجی یاد آئیں اگر وہ آج یہاں ہوتیں تو لمحہ بھر میں ہم گرم پانی کی اس آبشار کے نیچے بیٹھے ہوتے۔ پاؤں گیلے کیے۔ بلال اتنی دیر میں پانی میں کرسیاں بچھا چکا تھا۔ وہاں جا کر پانی میں کافی دیر بیٹھے۔ اعصابی تناؤ اور پیروں کی تھکن دور کرنے کے لیے بہت سے لوگ پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے۔ با ربی کیو کے لیے انگیٹھیاں موجود۔ خوبصورت بنچ، میز کرسیاں لگی ہوئیں، پہاڑیاں اور چٹانیں بھی موجود ہیں اگر آپ ہائکنگ کر نا چاہتے ہیں۔ گرد و پیش میں لوگ تکے سیخ کباب،بیگن، پیاز، شملہ مرچ، ٹماٹر اور آلو نہ جانے کیا کیا کوئلوں پر بھون رہے تھے۔ وقت کم ہونے کے سبب ہم کھانا گھر سے ہی لے کر چلے تھے، وہیں گرم پانی میں بیٹھے بیٹھے کھانا کھایا۔ بہترین وضو خانے موجود ہیں، وضو کیا ظہر کی نماز ادا کی۔ کچھ دیر باغ کی روشوں پر چہل قدمی کی۔ بلال، طلال، شاہد اور عرشمان سامنے پہاڑی کا جائزہ لینے چلے گئے۔ میں کچھ دیر تو بڑی سکرین پر چلنے والی تصویروں کو دیکھتی رہی جو روشنی کے سبب بہت مدھم دکھائی دے رہی تھیں، عصر کا وقت ہو رہا تھا، میرے اردگرد بنگالی، انڈونیشی، فلپائنی، ہندوستانی اور عربی دریاں، صفرے بچھائے بال بچوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ کھانے پینے میں مصروف تھے۔

 

کون رکھتا ہے دیارِ شوق پر دستِ صبا

 

نماز سے فارغ ہوئی تھی کہ یہ لوگ بھی آ گئے۔ اب ہمارا رخ جبلِ حفیت کے قدموں میں بچھے مبازرہ پارک سے ہٹ کر جبلِ حفیت کی بلندیوں کی جانب تھا لیکن ہر راستہ اتنا پر سکون، خاموش اور سبزہ زاروں سے لبریز کہ جہاں گھاس کا ایک خشک تنکا یا کسی درخت کا سوکھا پتا یا کوئی شاپر یا چاکلیٹ، چپس کا کوئی ریپر کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ جھاڑیوں سے چکوروں اور بٹیروں کی ٹکریاں کئی مرتبہ نظر آئیں۔ جبلِ حفیت جاتے جاتے بھی دو مقامات پرسمندر کے پانیوں نے رکنے پر مجبور کیا۔ سمندری پرندے کچھ ساحل پر سستا رہے تھے، کچھ نیچی پرواز کے مزے لے رہے تھے، بلال کی طبیعت میں ٹھہراؤ ہے، اسے بالکل جلدی نہیں ہوتی کہ اگر زیادہ وقت یہاں نکل گیا تو اصل مقام پر اتنے مختصر وقت میں کیا مزا آئے گا۔ جبل حفیت کے پر پیچ پہاڑی راستوں پر کئی ایک موڑوں پر گاڑی پارک کرنے کی سہولت موجود ہے۔یہاں رک کر نیچے وادی کا جائزہ لیجیے اور سنگ مر مر پر کندہ ان معلومات سے بہرہ ور ہوئے، جو جبلِ حفیت کے بارے میں آپ کو دی جا رہی ہیں۔ جبلِ حفیت یو اے ای کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے، جس کے سبب العین کو سیاحت میں منفرد مقام حاصل ہے۔ ۲۱ موڑ کاٹنے اور ۵۔۱۱ کلو میٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم جبلِ حفیت کی چوٹی پر بنائے گئے وسیع و عریض پلستر شدہ میدان میں کھڑے تھے، جہاں یقیناً ہیلی کاپٹر باآسانی اتر سکتے ہوں گے۔ بلال حیرت زدہ تھا کہ آج تو جبلِ حفیت بالکل خالی پڑا ہے ورنہ جب بھی یہاں آیا ہوں پارکنگ کی جگہ بھی مشکل سے ملتی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ آج کل امتحانات ہو نے والے ہیں، والدین ا س میں مصروف ہیں کہ بچوں کے امتحانات میں بچے کم اور ان کے ماں باپ زیادہ پریشان اور زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔

جبل حفیت صدیوں پہلے سمندر کا حصہ تھا۔ اب پورا پہاڑ ایک بڑے سے جھانویں کی صورت نظر آتا ہے کہ پانی کے منہ زور تھپیڑوں نے چٹانوں میں جابجا سوراخ کر دیے ہیں۔ جبل حفیت کے چاروں طرف سے یو اے ای کی ریاستوں کا نظارہ کیا گیا۔

ہر زاویے سے تصویر کشی کی گئی۔ سورج ہمارے دیکھتے دیکھتے پہاڑوں کے پیچھے چھپ گیا۔ اب ہمیں مغرب کا انتظار تھا۔ بلال کا کہنا تھا کہ روشنیوں میں ڈوبا ہوا العین نہ دیکھا تو کیا دیکھا۔ سردی میں شدت آتی جا رہی تھی۔ نمازِ مغرب کے بعد تیز ہواؤں کے درمیان کھڑے ہو کر روشنیوں سے لبریز وادیوں کا نظارہ اسلام آباد کے ویو پوائنٹ اور پیر سوہاوا کی یاد تازہ کرتا تھا۔ اب ہمیں ایک طویل سفر طے کرنا تھا، گھر واپسی کا، لیکن بلال طلال ساتھ ہوں توسفر بیزاری نہیں خوشگوار احساس عطا کرتا ہے۔ بلال مسلسل ڈرائیونگ سے گھبراتا ہے نہ تھکتا ہے دونوں کی چہلیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ گھنٹوں کا سفر لمحوں میں گزرتا ہے۔ ہم شارجہ پہنچ چکے ہیں لیکن گاڑی کا رخ اپنے محلے کی بجائے جریف ڈیرے کی طرف ہے کہ جہاں آج مندی کھلانے کا ارادہ ہے۔ مندی کیا ہے۔ چاولوں کے تھال پر فل سائزچکن تکہ اور ساتھ میں پیاز ٹماٹر اور ہری مرچوں کی چٹنی۔ سوپ بھی تھا لیکن میں نے اسے اہمیت نہ دی۔ کھانا آنے تک سبھی اس کمرے میں جو بلال کا پسندیدہ کمرہ تھا،جہاں قالین بچھے ہوئے، گاؤ تکیے اور کشن لگے ہوئے تھے سبھی ایسا آرام دہ کمرہ دیکھتے ہی دراز ہو گئے۔ کھانا بہت عمدہ تھا۔ رات نو بجے یعنی بارہ گھنٹوں بعد گھر پہنچے۔ یقین ہی نہ آتا تھا کہ ایک دن میں ہم نے کیا کیا کچھ نہ دیکھ لیا اور کتابِ زیست کا ایک ورق ان خوبصورت تجربات و مشاہدات سے بھر گیا۔

 

وہ آئیں گھرمیں ہمارے……

 

۲۸ فروری، منگل کے روز عطیہ نے اپنی سہلیوں کو مدعو کیا تھا تا کہ سب سے ایک ہی جگہ ملاقات ہو جائے، وہاں کی تیز رفتار، مصروف اور کبھی کبھی اکتا دینے والی زندگی میں مہمانوں کی آمد و رفت اچھی لگتی ہے اور اس وقت زیادہ اچھی لگتی ہے کہ جب آپ کے گھر کوئی آتا ہے تو وہ پھر آپ کو بھی آنے کا موقع دے، ورنہ کچھ روّیے ایسے بھی دیکھنے میں آ جاتے ہیں کہ جب خود جی چاہے تو کسی عزیز کے گھر ہو آئے۔ بلانے کی زحمت کم ہی کی جاتی ہے کہ بھئی آپ تو مصروف ہیں۔ عطیہ کی سہلیوں میں یہ بات تھی کہ اتنا اصرار کہ انھیں سمجھانا مشکل ہو رہا تھا کہ وقت کم ہے، انشاء اللہ اگلی مرتبہ ضرور آؤں گی، سعدیہ، تہمینہ، عنبرین اور تبسم نہ صرف یہ کہ اپنی مصروف زندگی سے انھوں نے وقت نکالا بلکہ گراں بہا تحائف سے بھی نوازا۔ ان سے مل کر ان کی باتیں سن کر خوشی ہوئی کہ سب یہاں مطمئن زندگی گزار رہی ہیں پاکستان کے لیے دل میں ہوک تو اٹھتی ہے لیکن رزق کی مجبوری بہت بڑی ہے۔

 

شوق کے مرحلے ہیں اور

 

ظہر کی نماز کے بعد کھانا کھاتے ہی کچھ تحفے تحائف خریدنے کے ارادے سے دبئی کی جانب روانہ ہوئے، مجھے اور شاہد کو پچھلی مرتبہ سے ہی دبئی میٹرو ٹرین کی سیر کا اشتیاق تھا، لیکن ۲۰۰۸ء میں وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی، البتہ کام تیز رفتاری سے جاری تھا۔ اس کا افتتاح نویں مہینے یعنی ستمبر کی نوتاریخ ۲۰۰۹ء، نو بج کر نو منٹ نو سیکنڈ پر وہاں کے حکمران محمد بن راشد المکتوم نے کیا اور ۱۰ ستمبر سے اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا، جب مجھے معلوم ہوا تو میں ان سب سے کہتی رہی کہ فوراً جاؤ اور اس کے پہلے سٹیشن سے آخری سٹیشن تک کی سیر کر کے آؤ، کسی زمانے میں پاکستان میں ٹرین کی سوار ی کی کشش ہوتی تھی۔ چھٹیوں میں اس پر سفر کی خواہش کی جاتی تھی، جب سے یہ بلوروں کے ہاتھ لگی ہے، اس نے اس کے آہن کو بلور کی طرح چور چور کر کے رکھ دیا ہے۔ دبئی کی بغیر ڈرایؤر کے آٹو میٹک مکمل ایئر کنڈیشن میٹرو ٹرین دنیا کی تیز رفتار گاڑیوں میں سے ایک ہے۔ تمام سٹیشن بھی ائر کنڈیشن ہیں۔ ہم جو دوپہر کی ڈھلتی لیکن گرم دھوپ سے ایک دم سٹیشن کے خنک ماحول میں آئے تو بہت اچھا لگا۔ خود کار برقی زینے، صفائی کا بہترین انتظام، ہر قسم کی انسانی و مشینی آوازوں سے مبرا ماحول، ٹکٹوں کی عدم دستیابی یا بلیک میں یا طویل قطار میں ہراساں و ترساں مسافر، کوئی منظر بھی دیکھا ہوا نظر نہ آیا، سارا سٹیشن گھوم پھر کر دیکھا اور پروگرام یہی بنا کہ پرسوں رشیدیہ سے بیٹھیں گے اور جبلِ علی تک جائیں گے، تا کہ متحدہ عرب امارات کو جتنا دیکھا جا سکتا ہے، کم وقت میں طائرانہ نگاہ ڈال لی جائے۔

 

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں

 

اب مشتاق عطیہ ہمیں دبئی مال دکھانا چاہتے تھے جو دنیا کا سب سے طویل و عریض شاپنگ سنٹر ہے۔ ڈھائی سو پُر آسائش کمرے، ایک سو بیس، ریستوران اور کیفے، بے شمار انواع و اقسام کی اشیا سے لدی پھندی دکانیں، وسیع کار پارکنگ، دبئی مال میں داخل ہوتے ہی جس حیرت انگیز چیز پر نگاہ پڑتی اور پھر ٹھہر جاتی ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا ایکیوریم ہے۔ تینتیس ہزار سمندری مخلوق جو دس لاکھ لٹر پانی میں لہراتی پھر رہی ہے۔ نیلگوں پانیوں نے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ چھوٹی بڑی مچھلیوں کے رنگوں اور کھال پر بنے مختلف دائروں، قوسوں اور آڑی ترچھی لکیروں نے انھیں قدرت کا ایک شاہکار بنا دیا تھا۔ ایک پتنگے کے سائز سے لے کر ایک بڑی چٹان کے حجم کی یہ مخلوق اپنے فن تیراکی کی نمائش کر رہی ہے۔ خدا کی صناعی کی داد انسان کہاں تک دے سکتا ہے۔ اگر آپ انھیں اور قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں تو ٹکٹ خریدیے اور ایکیوریم کے بالکل ساتھ ساتھ چہل قدمی کر تے ہوئے مچھلیوں کی تیراکی کے پیچ و خم دیکھیے، زیادہ شوق ہو اور جیب اجازت دیتی ہو تو مزید درہموں کا اضافہ کیجیے اور تیراکی کا لباس زیب تن کر کے ماہر غوطہ خوروں کی نگرانی میں اس آبی مخلوق کے ساتھ شریک سفر ہو جائیے۔ ایک آبدوز بھی آپ کی دلدہی کے لیے موجود ہے اگر اس میں سفر کرنا مقصود ہو تو جیب کو مزید ہلکا کیجیے۔ اس چار منزلہ شاپنگ سنٹر، منزلیں تو نہ جانے کتنی ہوں گی ہم چار تک ہی گئے،میں دنیا کی ہر چیز موجود تھی لیکن چاکلیٹس اور ٹافیوں سے سجی سنوری دکانیں بچوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتی تھیں۔

آج رات بلال نے تکوں کی دعوت کی تھی۔ چھوٹی سی گیلری میں کوئلے دہکائے گئے۔ ساتھ ساتھ کمپیوٹر پر تصاویر بھی چڑھائی جا رہی تھیں جو ان دنوں خاص طور سے العین پیراڈائز، مبازرہ اور جبلِ حفیت میں کھینچی تھیں۔ تکے بننے کے بعد دہکتے ہوئے کوئلوں پرچیسنٹ ڈال دیے گئے۔کیا مزے کے تھے۔ حضورﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ ہر چیز پر زکوٰۃ ہے۔ گھر کی زکوٰۃ مہمان داری ہے۔ دراصل زکوٰۃ نام ہے ادائے شکر کا جو کسی نعمت کے حاصل ہونے پر کیا جائے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرے گرد و پیش میں تمام سبھی پیارے مہمان داری سے کبھی نہیں گھبراتے۔ ان کے وسیع رزق کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے۔

 

گزرا ہوں بازار سے گرچہ خریدار نہیں ہوں

 

۲ مارچ جمعہ ریاست ام القوین کی جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کا ارادہ تھا پھر وہاں سمند ر کنارے دوپہر کا کھانا کھانے اور مچھلی کے شکار کا پروگرام بھی تھا۔ ام القوین جانے کے لیے شارجہ کی وسیع و عریض سڑکوں سے ہو تے ہوئے ایک ایسے راستے سے گزرے جہاں گاڑیوں کا کافی رش تھا، معلوم ہوتا تھا کہ آج چھٹی کے دن لوگ خریداری کرنے نکلے ہوئے ہیں۔ذرا آگے گئے تو مچھلی بازار کا تختہ لگا ہوا تھا، میں نے بلال سے کہا۔ گاڑی روکو، یہاں کا نظارہ بھی کرتے چلیں۔ وہ مچھلی بازار اردو کے محاورے کی تکذیب کرتا تھا،کتنا صاف ستھرا تھا اور بو نام کو نہ تھی۔ پانی کا کوئی قطرہ گرتا بھی تھا تو خاکروب اسی لمحے اسے خشک کر دیتے تھے۔ انواع و اقسام کی ہر جسامت کی مچھلیاں، جھینگے، کیکڑے اور سیپیاں برائے فروخت تھیں۔

اس سمندری مخلوق کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی تھیں اور ہم خاک نشینوں کی دسترس سے باہر معلوم ہوتی تھیں لیکن خریدنے والے بھاؤ تاؤ کر کے کوئی نہ کوئی دانہ اٹھا ہی لیتے تھے۔ ہاں سب سے سستی مچھلی پانچ ریال کلو سائمن تھی جس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی ایک انگل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے بنگالی بھائیوں کی مرغوب غذا ہے۔ مچھلی بنانے کے لیے علیحدہ دکان کا انتظام کیا گیا تھا۔ جہاں لوگ اپنی باری کا انتظار خاموشی اور سکون کے ساتھ کرتے تھے، برآمدے میں بنچ لگے تھے آپ تھک جائیں تو آرام سے بیٹھ بھی سکتے ہیں۔ مچھلی بازار کے پچھلی طرف سمندر میں بڑے بڑے جہاز کھڑے تھے۔ یہاں سمندر کا پانی صاف شفاف قطعاً نہیں بلکہ گریس ملا سیاہی مائل تھا، ذرا غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس پانی میں انھی ننھی منی سائمن مچھلیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پانی دکھا ئی نہیں دیتا۔ وہاں ایک خاتون بنسی ڈالے مچھلیوں کا شکار کرتی پائی گئیں۔ اگر کسی طرح وہ اپنا دوپٹہ اس پانی میں ڈال سکتیں تو دو ڈھائی کلو مچھلی تو ایک مرتبہ ہی میں شکار کر لیتیں۔ سمندری پرندوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے ارد گرد اڑ رہی تھی اور سمندر سے اپنی خوراک حاصل کر رہی تھی اور ہم ان پرندوں کو اپنی خوراک بنانے کے خواب دیکھتے تھے، جن کا پورا ہونا ممکن نہ تھا، اس لیے واپس مچھلی بازار آئے جہاں بلال کو مچھلی کے شکار کے لیے جھینگے خریدنے تھے، چھوٹے نہ ملے تو بڑے ہی لے لیے۔ ساتھ ہی مختصر سی سبزی منڈی تھی جہاں تازہ سبزیاں رکھی گئیں تھیں۔ وہاں سے جرجل، سلاد کی ایک نہایت ہی عمدہ اور صحت کے لیے مفید قسم، خریدی اور سفر کا آغاز کیا۔ کارنیش کے ساتھ دو چار کلو میٹر چلیں ہوں گے کہ کچھ لوگ مچھلی کا شکار کھیلتے نظر آئے۔ گاڑی روکی گئی۔ ان کی خیریت دریافت کرنے گئے تو معلوم ہوا کہ ان کا وہی حال ہے کہ مچھلی کا شکار کیا ہے؟ بنسی کے ایک سرے پر کانٹا اور دوسرے پر احمق ہوتا ہے۔ گھنٹوں کی دھوپ میں سر سفید کرنے کا معاوضہ انھیں ایک انگل مچھلی کی صورت میں بھی نہ ملا، چنانچہ بلال طلال نے یہاں نہ رکنے کا فیصلہ کیا کہ ویسے بھی منزل ابھی دور تھی۔

 

کشاں کشاں لیے جاتا ہے ولولہ دل کا

 

اب ہمارا سفر’’ ام القوین ‘‘کی جانب تھا۔ ’’ ام القوین ‘‘ یعنی دو طاقتوں کی ماں، بہت تعریف سنی تھی ریاست کی بھی اور اس مسجد کی بھی کہ جہاں نمازِ جمعہ کی ادائگی کرنا تھی، میری یہ خواہش بھی تھی کہ متحدہ عرب عمارات کی ہر ریاست کی ہر مسجد میں نماز پڑھوں، ظاہر ہے یہ ممکن نہ تھا لیکن جہاں تک رسائی تھی میں نے ہر موقع سے فائدہ اٹھایا۔ میری آرزو ہے کہ پاکستان کے کم از کم تفریحی مقامات یا خریداری مراکز کے قریب بنائی گئی مساجد میں خواتین کے لیے الگ حصہ ضرور مختص ہونا چاہیے۔ راستہ انواع و اقسام کے مناظر پیش کر رہا تھا، کبھی عمارتوں کاسلسلہ شروع ہو جاتا اور کبھی لق و دق صحرا،کہیں کھجوروں کے جھنڈ، کہیں اکیلا بیری یا کیکر کا درخت تنہائی کی آگ اور دوبئی کی تپتی دوپہر میں سلگ رہا ہوتا۔ قلعہ ام القوین عرب امارات کی عظیم الشان رہائش گاہوں اور شاہراہ سے ذرا فاصلے پر قصباتی مکانوں کی قطاریں، جو کسی اور ہی دیو مالائی دنیا کا منظر پیش کرتی تھیں۔ ام القوین میوزیم میں دیگر عجائبات کے علاوہ قابل ذکر و دید،وہ ہتھیار ہیں جو یو اے ای کی تاریخ میں افواج کے استعمال میں رہے ہیں۔ راستے میں بے شمار ہوٹل، مطبخ نظر آتے رہے اور بلال کو دکھاتے رہے، لیکن اس نے کہ کوئی اور جگہ سوچی ہوئی تھی کہ جہاں کھانا کھایا جائے گا، لیکن نماز کا وقت ہونے والا تھا، اس لیے مسجد پہنچے۔ متحدہ عرب امارات ہو یا سعودی عرب کا کوئی شہر، وہاں کی خاص بات یہ ہے کہ مساجد میں عورتوں کے لیے الگ وضو خانے اور نماز کے لیے کمرے موجود ہوتے ہیں اور اتنے پرسکون اور ٹھنڈے کہ عبادت کا مزا آ جا تا ہے اور وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا۔ قرآن شریف موجود ہیں۔ دعاؤں کی کتب بھی لیکن وہ عربی زبان جاننے والوں کے لیے زیادہ کارآمد ہوتی ہیں، ہمیں عربی بھی ان کتب سے پڑھنے میں سہولت ہوتی ہے جو خاص اردو بولنے والوں کے لیے شائع کی گئی ہوں۔ وہاں چلر میں بے شمار پانی کے سر بہ مہر گلاس رکھے ہوئے تھے، گرمی بہت تھی،باہر سے آنے والے پہلے پانی پیتے پھر عبادت کی طرف متوجہ ہوتے۔ بلکہ عبادت کے بعد باہر جانے والوں کے ہاتھوں میں جتنے گلاس سما سکتے، وہ موجود ہوتے۔ ان عبادت گاہوں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہاں بہت سی رنگ برنگی چادریں بھی رکھی ہوئی تھیں، جن کا مصرف اس وقت سمجھ میں آیا کہ جب خواتین اپنے روزمرہ کے کپڑے پہنے اپنے کام / خریداری میں مصروف ہوتی ہیں۔ نماز کا وقت آیا، فٹافٹ مسجد پہنچیں اور اپنے لباس کو عبادت کے مطابق بنانے کے لیے اوپر سے چادر اوڑھ لی یا اسے اپنی کمر کے گرد لپیٹ لیا، آگے چل کر مجھے اس کا تجربہ بھی ہوا۔ ابو ظہبی ائر پورٹ پر مسجد میں جدہ جانے کی فلائیٹ کے انتظار میں بیٹھی تھی کہ شاہد نے بلاوا بھیجا۔ ’’ جلد چلو روانگی کا وقت ہو گیا ہے۔ ‘‘ ان کی بات سن کر بیگ لینے واپس آئی تو میری شال غائب تھی بہت تلاش کیا۔ کمرے کا ایک ایک کونا چھان مارا۔ کہیں دکھائی نہ دی اور دکھائی دی تو کہاں بالکل آنکھوں کے سامنے ایک خاتون رکوع میں گئیں تو دیکھا کہ ان کی کمر کے گرد میری شال لپٹی ہوئی ہے۔

 

سو بار جو سوچا ہے وہی سوچ رہا ہوں

 

بات ہو رہی تھی ام القوین کی مسجد کی۔ اذان کی آواز مسجد میں گونجی، موذن کی آواز میں کیا سوز اور ملائمت تھی، اللہ کی ذات لا شریک کا اعلان اور اس کی دعوت کی طرف بلاوا اور نبی اکرمﷺ کے نبی آخر زماں ہونے کی شہادت، ایمان کو تازہ کرتی گئیں، خطبہ ہمیں طویل اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ مکمل کیا ایک تہائی طور بھی ہم اسے سمجھ نہیں رہے ہوتے۔ میری بہت خواہش ہے کہ عربی اتنی آنا چاہیے کہ ہم تلاوت کریں تو ہمیں پتا ہو کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں، خطبہ سنیں تو ہمیں خطیب کی جانب سے روشن طریق کی جانب سفر کرنے میں آسانی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ہم با جماعت نماز ادا کر رہے ہوں تو اس وقت شرمندگی کے گہرے احساس کی بجائے جو کچھ پڑھا جا رہا ہو، اس کے ایک ایک لفظ سے آگاہ ہو کر اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں۔ خطبہ کے دوران آپ کوئی اور عبادت، نفل، سنت، تسبیح و دعا وغیرہ نہیں کرسکتے۔ آپ کو اپنی پوری توجہ خطبہ کی جانب رکھنا ہوتی ہے۔ کاش اگلی مرتبہ جاؤں تو عربی زبان سے معمولی سی واقفیت ہو جائے تو ان ندامت کے احساسات سے دور ہو سکوں۔ لیکن ہر مرتبہ سوچ کر رہ جاتی ہوں، نہ جانے وہ فرصت کب میسر ہو گی جب عربی زبان سے اتنی واقفیت ہو جائے کہ قرآن پاک سمجھا جا سکے …نماز کی ادائگی کے بعد باہر نکلی تو مجھے کوئی اپنا منتظر نظر نہ آیا، میں دروازے کے قریب ہی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی کہ جہاں بیری کا درخت برائے نام دھوپ سےبچاتا تھا، اتنے میں مردانہ حصے کی طرف سے شعیب مجھے بلانے آ گیا۔ اب ہم گاڑی میں بیٹھے اور کھانے کے لیے شہر کی جانب روانہ ہوئے۔ بلال نے جس ہوٹل کا سوچا تھا کہ پچھلی مرتبہ یہاں کا تندوری چکن بہت اچھا تھا وہی لیں گے، معلوم ہوا کہ وہ ختم ہو چکا ہے۔ اب ہم واپس انھی مطبخوں کی جانب جاتے تھے کہ جو راستے میں دیکھتے آئے تھے۔ کوئی بائیس کلو میٹر واپس آنے کے بعد وہ مطبخ نظر آیا۔

 

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

 

بلال اور اس سے پہلے ہم سب اترے کہ یہاں کے مطبخ کا جائزہ لے لیں کہ بلال کو اپنی جیبوں کے ساتھ ساتھ گاڑی کی تلاشی لیتے ہوئے پایا، معلوم ہوا کہ پرس ندارد، یاد آیا کہ غسل خانے میں وضو کے وقت رکھا تھا اور وہاں سے اٹھانا بھول گیا۔ اب اس بات کو ایک گھنٹا ہو رہا تھا۔ اس نے گاڑی موڑی، بتاتا جا رہا تھا کہ اس میں میرا ڈرایؤنگ لائسنس، دو تین کریڈٹ کارڈ، دفتر کا کارڈ اور کئی ہزار درہم اور نہ جانے کیا کیا اہم کاغذات تھے، میری جان نکلی جا رہی تھی لیکن وہ بالکل مطمئن تھا کہ کہیں نہیں جاتے، مل جائیں گے۔ میں گذشتہ ایک دو سالوں سے کچھ ایسے نقصان اٹھا چکی تھی کہ اب بہت ڈر رہی تھی اور دعا مانگ رہی تھی کہ اسے کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ موبائیل پر بیل اس لیے نہیں دے رہے تھے کہ ممکن ہے کسی کی نظر نہ پڑی ہو اور وہ گھنٹی سن کر اٹھا لے۔ مسجد پہنچے ابھی غسل خانے تک نہیں پہنچے تھے کہ طلال نے بیل دے دی اور فوراً ہی کسی نے فون اٹھا لیا۔ بات ہو ئی تو معلوم ہوا کہ دو مارواڑی اصحاب وہاں موجود تھے، جنھیں غسل خانے سے پرس اور فون ملا، انھوں نے اٹھا لیا کہ کسی غلط ہاتھ میں نہ چلا جائے۔ انھوں نے مسجد کی انتظامیہ کو فون پر اطلاع دی۔ انھوں نے کہا کہ انتظامیہ کے دفتر میں یہ چیزیں جمع کر ا دی جائیں۔ ابھی وہ وہاں جانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ بلال پہنچ گیا۔ بلال نے انھیں انعام دینے کی بہت کوشش کی لیکن ان مارواڑیوں نے جو شکل و حلیہ سے کافی ضرورت مند لگتے تھے، انکار کیا۔ آخر بلال نے زبر دستی ا نھیں ایک معقول رقم پیش کی۔ میں حیران تھی کہ پاکستان کے کیا حالات ہیں اور یہاں اخلاقی و مذہبی اقدار ابھی زندہ ہیں۔ طلال کہتا ہے یہاں اللہ کالا کھ لاکھ شکر ہے کبھی اس قسم کا نقصان نہیں اٹھانا پڑا … طلال کی معصومیت، اتنے بڑے ہو جانے کے باوجود، اتنے ذمہ دارانہ عہدے پر ہونے کے باوجود اسی طرح قائم و دائم ہے۔ وہ اپنا واقعہ سنانے لگا۔

’’ایک دن میں دفتر سے نکلا، پارکنگ سے گاڑی نکال ہی رہا تھا کہ ایک دوست کا فون آ گیا۔ گاڑی سے اتر کر فون سنا، پھر گاڑی میں بیٹھا اور گھر آ گیا، دو گھنٹے بعد لیپ ٹاپ پر کام کرنے کی نیت کی تو وہ مجھے نظر نہ آیا پہلے تو خیال آیا، چھوڑو آج کام نہیں کرتا پھر کر لوں گا، پھر نہ جانے کیا سوجھی کہ نہیں ڈھونڈ ہی لو، اب سارے کمرے دیکھ لیے، غسل خانے دیکھ لیے، نیچے جا کر گاڑی کی سیٹوں کے نیچے بھی جھانک لیا، بیگ کہیں نظر نہ آیا۔ یہی خیال آیا کہ دوست کا فون سننے میں گاڑی سے نیچے اترا تھا۔ وہاں ہی کہیں رکھ آیا ہوں، اب میں دوبارہ شارجہ سے دبئی کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں گاڑی روک کر فون سنا تھا، وہاں کچھ موجود نہ تھا۔ گارڈ سے بات کی، اس نے کہا پہلے یہ بتاؤ، تم ٹھیک تو ہو، کوئی جنوں پریوں کا سایہ تو نہیں تم پر۔ پھر اسے اپنے آفس لے گیا، وہاں وڈیو فلم دکھائی کہ کس طرح گاڑی سے طلال صاحب فون سنتے ہوئے اترے، کس طرح گاڑی کی سامنے والی سیٹ پر پڑا ہوا اپنا بیگ اٹھایا، اسے کاندھے پر لٹکانے کے بجائے سڑک کنارے لگی گرل پر اٹکایا۔ فون بند کیا،گاڑی میں بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ گارڈ کہتا ہے کہ میں نے یہ لاوارث بیگ اٹھایا، افسران کو دیا انھوں نے وڈیو فلم دیکھی اور اس نوجوان کی حرکت پر حیران ہوتے رہے۔ بہرحال، طلال کو بیگ مل گیا اور میں داستان سن کر سوچتی رہی کہ کیا پاکستان میں ایسا ممکن تھا، اول تو کوئی اسے چھوڑتا ہی نہیں یا پھر اسے مشکوک بیگ سمجھ کر بم ڈسپوزل سکواڈ کو بلا نا پڑتا۔ اسی طرح کے کئی واقعات سنائے کہ شاپنگ مال میں پرس بھول آئے یاد آنے پر گئے کہ شاید یہاں نہ رہ گیا ہو اور پرس مل گیا۔

 

وہی انتظار کا موسم

 

اب ہم واپس اسی مطبخ کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے ہمیں بریانی لینا تھی۔ مطبخ میں بیس پچیس،پندرہ بیس کلو بریانی تیار کرنے کے پتیلے موجود تھے لیکن سب کے پیندوں میں لگے چاول پتہ دیتے تھے یہاں کے لوگ کتنے خوش خوراک ہیں، ہمیں مایوسی ہوئی کہ کوئی سو کلو میٹر کے چکروں کے بعد بھی بریانی اپنے نصیب میں نہیں، مطبخ کے مالک نے کہا کہ اگلی دیگیں دم پر ہیں۔ دس منٹ آپ کو انتظار کرنا ہو گا، ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا، آنتیں قل ھو واللہ پڑھ رہی ہوں تو انتظار کا موسم کتنا طویل ہو جاتا ہے… ہم نے ارد گرد کے مناظر دیکھنے چاہے۔ برابر میں ایک ٹائروں کی دکان تھی، سامنے حدِ نگاہ تک صحرا کی دھول تھی یا ایک آدھ گرمی مارا، جھلسا ہوا درخت۔ کچھ ہی دیر میں ہم ایک بڑے تھال میں چاول اس پر مرغ کی بڑی بڑی بوٹیاں فوائل پیپر میں بند کیے پھر ساحل کی جانب جاتے تھے کہ جہاں ہمیں کھانا بھی کھانا تھا اور ساحل کے ساتھ ساتھ چہل قدمی بھی کرنا تھی اور ان فشنگ راڈز کو بھی استعمال کرنا تھا کہ جس کے ایک کنارے پر مچھلی بازار سے خریدے ہوئے جھینگے پرونے تھے اور دوسری طرف ……

خیر ساحل پہنچے، دری ڈالی اور کھانا رکھتے ہی احساس ہوا کہ ہماری آنتیں کب سے اس لمحے کی منتظر تھیں۔ کھانے کے بعد فشنگ راڈز نکلیں اور دو تین گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد بلال، طلال اور شعیب کی عملی کوششوں اور میری دعائیہ جستجو کے بعد چار ’’ پیس ‘‘ ہاتھ بھر طویل ہاتھ لگے۔ یہاں مجاز مرسل یاد کیجیے، جزو بول کر کل مراد لینا، کل بول کر جزو مراد لینا… ہاتھ بھر سے کیا مراد ہے آپ خود تصور کیجیے، گھر آ کر فرائی کیے،اتنی ذائقہ دار مچھلی بہت کم کھائی تھی۔

محنت اور محبت کی فراوانی

 

ہمیں مغرب سے پہلے گھر پہنچنا تھا کیونکہ آج رات حسن کو پہلی ہی کوشش میں ڈرائیونگ لائسنس ملنے کی خوشی میں شارجہ کارنش پر بار بی کیو کا اہتمام تھا۔ باقی اہلِ خانہ دوپہر ہی سے شارجہ کارنش جانے کے لیے ساز و سامان کے ساتھ تیار بیٹھے تھے، چنانچہ ہم نے بھی عصر کی نماز پڑھ کر سامان سمیٹا،اور واپسی کا رخ کیا۔عطیہ، مشتاق، فرح اور بچے دوپہر سے ہی منتظر تھے کہ ہم تین بجے تک واپس آئیں گے اور پھر فوراً ہی شارجہ کارنش چلے جائیں گے تا کہ ہمیں وہاں کچھ وقت گزارنے کا موقع مل جائے۔ ہمیں آتے آتے مغرب کا وقت ہو گیا۔ گاڑیوں میں سامان لادا اور وہاں پہنچے، سارا ساحل مردوں، عورتوں اور بچوں سے بھرا ہوا تھا، زیادہ تر مقامی لوگ تھے جو اپنے اہل خانہ یا دوستوں کے ساتھ بار بی کیو کے لیے آئے ہوئے تھے۔ دریاں، قالین، صفرے، سفری میز کرسیاں، ہر ایک اپنی پسند کے ساز وسامان کے ساتھ موجود تھا۔ کوڑے کے ڈھیر میں دم بدم اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور مجھے الجھن ہوتی تھی کہ متحدہ عرب امارات کی کسی ریاست میں ایک تنکا،ایک شاپر بھی دکھائی نہیں دیتا، یہاں کوڑے کے ڈھیر بہت بد نما معلوم ہو رہے ہیں، عطیہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہاں بھی ورکرز موجود ہیں جو ہر لمحے صفائی پر مامور ہیں لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ لوگ گند پھیلائے ہی جاتے ہیں تو وہ ٹھہر جاتے ہیں، بارہ بجتے ہی وہ نکلیں گے، لوگ تب تک کافی کم ہو جاتے ہیں اور وہ پھر اس پارک کو اتنا صاف ستھرا کر دیں گے کہ احتمال بھی نہ رہے گا کہ کبھی یہاں کوئی کوڑا کرکٹ تھا۔

کارینش پہنچتے ہی عشا کی نماز پڑھی، ہوا میں خنکی بہت تھی۔ مرد حضرات انگیٹھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور خواتین چہل قدمی کے لیے نکل گئیں۔ وہاں ساحل کے کنارے کنارے میلوں چلتے جاؤ بالکل تکان نہیں ہوتی۔ جب واپس ہوئے تو سبھی ہمارے منتظر تھے۔ مشتاق کا بنا بار بی کیو، بے حد لذیذ تھا، یہ اور بات کہ اس بار بی کیو کے پیچھے خاتونِ خانہ کا کتنا کردار تھا۔ ان سب کی مہمان نوازی، خاطر مدارات دیکھ کر مجھے ایک بزرگ کا قول یاد آتا رہا ’’ ایک درہم کا کھانا پکا کر عزیزوں، دوستوں کے سامنے پیش کر نا بیس درہم بطور صدقہ دینے سے بہتر ہے۔ ‘‘ یہاں درہموں کا تو شمار نہیں کہ ہر شے وافر مقدار میں تھی، مجھے اس محنت کا احساس تھا جو اتنی محبت سے کی جا رہی تھی۔ پچھلی مرتبہ رات تین بجے تک ہم وہاں رہے تھے لیکن آج ہمیں جلد واپس جانا تھا،کیونکہ صبح ایک خاص موقع تھا جو ہمیں خوش قسمتی سے ملنے والا تھا۔

 

سلام ! یاسلامہ

 

۳ مارچ۲۰۱۲ء ہفتے کا روز، ایسے دن زندگی میں کم کم آتے ہیں لیکن یاد ہمیشہ رہتے ہیں۔ بلال کے دفتر اسلامک عرب انشورنس کمپنی( سلامہ) کی ایک خوبصورت روایت یہ ہے کہ وہاں سالانہ یوم تجدیدِ ملاقات منایا جاتا ہے جہاں تمام کارکن اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ شرکت کرتے اور ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں ورنہ آج کی مصروف زندگی میں دن بھر ساتھ کام کرنے والے ایک دوسرے کے خاندان سے متعارف ہی نہیں ہو پاتے یوں دنیا سماجی لحاظ سے مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

جب میل ملاقات ہی نہیں ہو گی تو کسی کے دکھوں سکھوں کا کیا احساس۔ بلال کہنے لگا میں نے منتظمین سے معذرت کر لی ہے کہ میں اس مرتبہ میں سلامہ کے یومِ تجدیدِ ملاقات پر حاضر نہ ہو سکوں گا کیونکہ پاکستان سے میرے ماموں آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا تمھارے مہمانوں کو تمھیں اس سے بہتر محظوظ کرنے کا موقع شاید پھر کبھی نہ ملے، ہم آپ سب کو خوش آمدید کہیں گے۔ تو اب ہم اس پکنک پر جانے کی تیاری کرتے تھے جو صبح نو بجے سے شام چھ سات بجے تک جاری و ساری رہنا تھی۔ فرح کے لیے دو جڑواں اور ایک ان سے بڑے بیٹے کی تیاری، اپنی تیاری اور گھر کو بھی دیکھنا، سنبھالنا ایک بڑی ذمہ داری تھی لیکن فرح اب طاق ہو چکی ہے، بغیر گھبرائے سارے کام تیزی سے کر لیتی ہے۔ نو بجنے میں چند منٹ باقی تھے کہ سات افراد پر مشتمل قافلہ کریک پارک کی جانب روانہ ہوا۔ عام دنوں میں دبئی جانے کا خیال ہی ٹریفک کی سست رفتاری کے باعث سوہانِ روح ہوتا ہے لیکن ہفتے کے روز چھٹی کے سبب برائے نام ٹریفک نے توقع کے بالکل برعکس شاید پندرہ بیس منٹوں میں گیٹ نمبر ۱ پر پہنچا دیا۔ شیخ رشید ہسپتال کے سامنے واقع کریک پارک میں ہم گاڑی پارک کرتے تھے اور بلال بے حد خوش تھا کہ اتنی آسانی سے اپنی پسند کی جگہ پارکنگ مل گئی ہے۔ دبئی میں ہر ایک کو پارکنگ کے حصول میں سرگرداں ہی دیکھا ہے، لیکن کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہاں گاڑی چوری ہو جانے کا، اس کے ٹائر کیپ اتارے جانے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔

اسلامک عرب انشورنس کمپنی( سلامہ) کے سربراہان جناب رفیق ہالانی اور جناب فرانسس ڈی میلو کی جانب سے اپنے کارکنان کے لیے ایک انوکھی تقریب اپنے مہمانوں کی منتظر تھی۔

پارک کے گیٹ پر ہی سلامہ کے انتظامی امور کے سربراہ جناب سکندر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے تھے۔ مجھے اس بات کی تھوڑی سی کسک تھی کہ ہم بلال کے اصرار پر، اپنے شوق سے آ تو گئے ہیں، کہیں ہم سے غیر متوقع مہمان والا برتاؤ نہ کیا جائے لیکن پہلے گروہ نے ہی اتنا بھر پور خیر مقدم کیا کہ سب خدشے ہوا میں اڑ گئے۔ سبزہ زار کے اس حصے کی جانب ہماری رہنمائی کی گئی کہ جہاں ناشتے کا انتظام تھا، ہم نے اس میز کو منتخب کیا جہاں جاتی سردیوں کی ہلکی دھوپ جسم و جاں کو تھپکتی اور سکون بخشتی تھی۔ تا حد نظر سبز گھاس کی چادر نظروں کو طراوت بخشتی تھی۔

نو سے دس بجے تک ناشتے کا اہتمام و انتظام کیا گیا تھا۔ ناشتے کے لیے پوریاں، پراٹھے وہیں تلے جا رہے تھے، حلوہ، چنے، آلو کی بھجیا، فرائی انڈے،آملیٹ، روغنی نان، سادہ نان، ڈبل روٹی، مکھن،چیز مارملیڈ، جام، شہد اور بیکری کے انواع و اقسام کے بند اور پیٹیز قسم کی چیزیں جن میں مختلف فلنگز کی گئی تھی۔ آہستہ آہستہ تمام میز کرسیاں مہمانوں سے بھرنے لگیں۔ بلال کے جڑواں بچے سنان اور ریان سبھی کی نظروں کا مرکز تھے۔

’’ہم نے سنا ہوا تو تھا دیکھنے کا موقع آج ہی ملا۔ ‘‘

بلال کے دفتر کی ایک ساتھی فاطمہ کے شوہر ہمارے پاس آ گئے اور پاکستان اور خصوصاََاسلام آباد کو یاد کرنے لگے وہاں کے پہاڑوں، راستوں، درختوں اور پھولوں کی روداد سناتے رہے۔

’’ یہاں اس پارٹی میں کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جو اسلام آباد میں اتنا عرصہ رہا ہو جتنا میں رہا ہوں۔‘‘

’’ جی آپ کا قیام کتنے عرصے رہا۔‘‘

’’ چار سال‘‘

’’ مجھے اسلام آباد میں رہتے چونتیس سال اور شاہد صاحب کو چالیس پینتالیس سال ہو گئے ہیں۔ ‘‘

اچانک انھیں کوئی اہم چہرہ نظر آ گیا اور وہ رخصت ہو گئے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ہم سب ان سبزہ زاروں میں کہ جہاں ایک فالتو تنکا بھی دکھائی نہ دیتا تھا، ٹہلنے لگے۔ سجے سنورے اونٹ اور اس سے زیادہ بنے ٹھنے شتر بان، بڑوں نے اونٹ کی سواری کی۔ عرشمان نے پونی (چھوٹے گھوڑے ) کی سیر کی۔ پھر سائیکل گاڑیاں آ گئی جن پر بار بار بیٹھے اور باغ کے چپے چپے کا جائزہ لیا۔ لیکن معلوم ہوا کہ باغ تو بے انتہا طویل و عریض ہے ہم تو باغ کے ایک حصے میں ہیں۔ مختلف جوسز اور ماکولات لمحہ بہ لمحہ ملتے رہے۔ تمام دن پاپ کارن، سویٹ پاپ کارن، کاٹن کینڈی جسے ہم بچپن میں بڈھی کے بال کہا کرتے اور بہت شوق سے کھایا کرتے تھے، کے سٹال اپنی جانب بلاتے تھے۔ بچے فیس پینٹنگ کر وا کے بے حد خوش تھے اور جا بجا شرارتیں کرتے جوکرز اور والٹ ڈزنی کے روپ بھرے کرداروں سے ملتے اور ان کے ساتھ تصویر کھنچواتے۔ مہندی کے خوبصورت نقش و نگار سے ہاتھوں پیروں کو سنوارنے کا بھی اہتمام تھا۔ منتظر ہاتھوں کو زیادہ دیر نہ انتظار کرنا پڑتا کہ ایک طرف فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی تو دوسری جانب کاریگر ہاتھ اتنی برق رفتاری سے بیل بوٹے ثبت کر رہے تھے کہ کمپیوٹر بھی کیا تیز کام کرتا ہو گا۔

اہم بات یہ تھی کہ سلامہ کے سربراہ جناب رفیق ہالانی تمام مہمانوں کو فرداً فرداً مل رہے تھے،ان کی دلچسپیوں اور مصروفیات کے بارے میں بات کرتے تھے اور ان مہمانوں سے مل کر زیادہ خوش ہو رہے تھے جو اس پکنک سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ آپ کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ معلوم ہوتا کہ آپ اس تقریب کے سب سے اہم مہمان ہیں۔ اب ہم چئیر لفٹوں کی طویل قطار میں جا کھڑے ہوئے۔ ان چیئر لفٹوں کا موازنہ مری ایوبیہ کی ساٹھ سالہ عمر رسیدہ، بوسیدہ، زائد المیعاد چیئر لفٹوں سے نہ کیجیے گا جن کی مرمت پر ایک پیسہ بھی صرف نہیں کیا گیا۔ایک مختصر آرام دہ کمرے کی صورت میں بنائی گئی اس چیئر لفٹ میں بیٹھ کر آپ ان مقامات کافضا ئی جائزہ لے سکتے ہیں جہاں آپ کے قدم پہنچنے سے قاصر رہے ہیں۔

دبئی بلکہ متحدہ عرب امارات کی تمام ریاستوں کی خاص بات یہ ہے کہ کسی جانب نکل جاؤ سمندر اپنی جھلک دکھا جاتا ہے،جھلک تو اپنے وقت کی کمی کے سبب کہہ رہے ہیں، ٹھیک ٹھاک شوریدہ سر خاص طور پر چاندنی راتوں میں بپھرے سمندرکا نظارہ اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کی یاد دلاتا ہے۔ اس وقت نیم گرم دھوپ میں، صاف چمکتے نیلے آسمان تلے ہلکورے لیتی لہروں پرسفید آبی پرندے… کبھی وقت ہو تو اس خوبصورت مخلوق کی زندگی کا مشاہدہ کیجیے، اڑان کے ہی کئی رنگ دکھائی دے جاتے ہیں، بسا اوقات تو محسوس ہوتا ہے کہ پرندہ فضا میں پروں کو سمیٹے ایک ہی مقام پر ساکت ہو گیا ہے اور اسے دیکھتے دیکھتے آپ خود تصویر بن گئے ہیں۔ پھر اس کی غوطہ زنی کی مہارت دیکھیے۔ کبھی تیز رفتار جہاز کی مانند، کبھی پیرا ٹوپرز کی طرح، ننھی مچھلیوں کے شکار کا انداز ملاحظہ کیجیے، ساتھی کے ساتھ گفتگو اور خود کلامی کے مواقع دیکھیے، کبھی کسی مفکر کی طرح سوچ میں گم، کبھی کسی نغمہ سنج کی مانند نوا ریز، بچوں کو چوگا دیتے ہوئے، انڈے سیتے ہوئے … آپ اکتائے بغیر گھنٹوں اس نظارے سے محظوظ ہوسکتے اور خدا کی قدرت کی داد دے سکتے ہیں، ان پرندوں کے ذوقِ پرواز کو سراہ سکتے ہیں کہ تلاشِ رزق میں نو ہزار تین سو بیس میل کا فاصلہ طے کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ مختلف جسامت رکھنے والے سمندری پرندے بے شمار انواع و اقسام رکھتے ہیں، مختلف نام رکھتے ہیں، یہاں موجود پرندوں کو ہم سب سی گلز کہہ کر ہی مخاطب کرتے رہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہاں پرندوں کی حفاظت کا اہتمام اس صورت میں کیا جاتا ہے کہ شکار کی ممانعت ہے اور فیکٹریوں کی آلودگی اور تیل پھینک کر پرندوں اور آبی مخلوقات کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں۔ نہ ہی یہاں سیاحوں کو شاپرز، ریپرز اور کھانے کی اشیا اور پھلوں کے چھلکے پھینکتے دیکھا گیا ہے۔ پرندوں کی دنیا کا شاہین بننے میں کچھ ہی دیر رہتی تھی کہ کھانا لگ جانے کا مژدہ سنایا گیا۔ شاہینی صفات کو پسِ پشت ڈال کر ڈائننگ گارڈن کی طرف رخ کیا۔

صبح سے اب تک مسلسل کچھ نہ کچھ کھا پی رہے تھے۔ بہرحال لنچ بھی ضروری تھا۔ کتنے قسم کے سلاد، رائتے اور سٹاٹرز تھے۔ شمار نہیں، اصل لنچ گرِلڈ جمبو پران تھا اور دیگر کھانوں میں ملائی تکہ، مٹن ربز، ریشمی کباب، چکن کڑاہی، چکن بریانی، مکسڈ ویجیٹیبل، نان اور روٹی تھے۔ ماکولات کا کوئی شمار نہ تھا۔ میں، بلال اور طلال تو جھینگوں ہی سے نبرد آزما رہے۔ شاہد اور فرح کو بریانی اور ربز سے دلچسپی تھی۔ عرشمان، ریان اور سنان کو آدھ گھنٹہ پہلے ہی دیے گئے لنچ باکس کھلا کر فارغ ہو چکے تھے اور اب سکون سے کھانا کھاتے تھے۔ سارے سبزہ زار میں تکے بنانے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ سبھی سب سے بے نیاز اپنے کھانے کی دھن میں تھے لیکن میری نظر اپنے برابر والی میز پر تھی جہاں بیٹھے چند لوگ سبزی کے چند قتلے پلیٹ میں ڈالے سست رفتاری سے شکم پوری کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے ہائے ہم مسلمان گھر میں کیوں پیدا نہ ہوئے، بعد میں بھی ہمیں عقل نہ آئی … یہ آخری دو فقرے میری سوچ ہے۔ میٹھے میں گاجر کا حلوہ، قلفی، چاکلیٹ آئس کریم، فالودہ اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ کھانے کے بعد کھیل اور انعامات کا سلسلہ شروع ہوا رسہ کشی، میوزیکل چیر اور بہت کچھ۔ میں اور شاہد ظہر کی نماز کے لیے بہت ہی بڑے فش ایکیوریم، کہ جہاں ڈولفن مچھلی کے کرتب دکھائے جاتے ہیں، کے عقب میں بنی مسجد چلے گئے۔ نماز بہت سکون سے ادا کی۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس نے اتنی غیر متوقع نعمتوں سے نوازا۔ تمام منتظمین کے لیے دل سے دعائے خیر نکلی۔ مسجد سے واپسی پر ان دیو ہیکل جھولوں پر نگاہ کی کہ جہاں ہمارے بچوں کو آ کر جھولنا اور کودنا تھا جن کے کوپن صبح ہی سے تقسیم کیے جا رہے تھے۔ کھیل تماشے جاری تھے جیتنے والوں کے نعرے فلک شگاف تھے لیکن شام کے پھلتے سائے خنکی میں اضافہ کرتے تھے۔ یوں ہم نے رختِ سفر باندھا اور ایک یادگار دن کتاب زندگی پر نیا باب رقم کر گیا۔

 

حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں

 

اتوار کے روز ساحل سمندر پر وقت گزارنا اس اعتبار سے مہنگا پڑا کہ ٹھنڈے پانی میں تیراکی کے سبب شاہد کو نزلہ زکام نے آ گھیرا،پیر کو عطیہ، مشتاق اور میں خریداری کے مختلف مراکز میں گھومتے رہے کہ آپ ملک سے باہر جائیں تو اپنے پیاروں کے لیے تحفے تو لینے ہی ہوتے ہیں۔ ۶ مارچ منگل کے روز ممزر پارک جانے کا پروگرام کئی دن سے بن چکا تھا لیکن شاہد کے فلو کی وجہ اور کچھ اس خیال سے کہ کل سارا دن سفر میں اور رات عمرہ کرنے میں گزرے گی، اس پروگرام کو اگلی بار کے لیے ملتوی کیا، شعیب ہی کو نہیں ہم سبھی کو وہاں کا پروگرام نہ بن سکنے کا افسوس تھا لیکن، یہ حقیقت ہے کہ ہم خود کو عمرے کے لیے تھکن سے دور اور صحت مند رکھنا چاہتے تھے۔ اب وقت کم رہ گیا تھا، دل میں ان جانا خوف تھا،ایک کسک بھی تھی کہ پہلے عمرہ کر لیتے تو بہتر تھا۔ دنیا داری تو ہو تی ہی رہتی ہے۔ بعد میں دبئی آ جاتے۔ جس مقصد کے لیے گھر سے نکلے ہیں اللہ تعالیٰ، اس سعادت سے سر فراز فرمائے۔ رب کے حضور دعائیں، التجائیں، استغفار، لبیک سبھی کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور سامان کی زیادتی دیکھ دیکھ کر دل دہل رہا ہے۔ شاہد کو پیکنگ کا کام آخری لمحے میں کرنا ہوتا ہے۔ چاہے میں وقت کم رہ جانے کا کتنا بھی شور کرتی رہوں۔

’’ مجھے پتا ہے تمھیں ہر دو منٹ بعد کوئی ضروری چیز یاد آ جائے گی جسے تمھیں سارا سامان کھلوا کر نکالنا ہو گا۔‘‘… بات تو ان کی بھی سچ ہے، اس لیے خاموش ہو جاتی تھی۔

 

اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہِ حجاز کر دے

 

۷ مارچ بروز بدھ، ابو ظہبی سے روانگی کا مرحلہ آ پہنچا۔ طلال، شعیب اور مشتاق ہمیں دبئی، اتحاد آفس چھوڑنے آئے، ہمارے پاس دو بیگ، دو بڑے گتے کے ڈبے اور ہاتھ میں پکڑنے کے لیے وافر مقدار میں سامان تھا، ہم خوفزدہ بچے کی طرح اتحاد آفیسرز کو دیکھ رہے تھے کہ نہ جانے ہمارے لیے کیا حکم صادر ہوتا ہے انھوں نے کمالِ مہربانی سے ہمارے دونوں کرٹن اور ایک بیگ اپنے پاس جمع کر لیا اور انتہائی بے اعتنائی سے بڑا بیگ ہمارے حوالے کر دیا کہ یہ آپ اپنے دستی سامان میں ساتھ لے جا ئیے۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا لیکن اس سوچ سے لمحہ بھر غافل نہ ہوئے کہ سات سات کلو دستی سامان کی اجازت ہے جو ہم پہلے ہی بارہ بارہ کلو اٹھائے ہوئے ہیں، اب چھبیس کلو مزید ہمیں اٹھانا پڑے گا، وزن اٹھانا ہمارے لیے اتنا مسئلہ نہ تھا، اصل معاملہ اتحاد والوں کا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کیا سلو ک کرتے ہیں لیکن ہم یوں مطمئن تھے کہ جیسے سارے مراحل طے ہو گئے ہوں۔ ابھی صبح کے آٹھ بجے تھے معلوم ہوا اگلی بس نو بجے جائے گی، ہم نے اس مختصر سی انتظار گاہ میں انتظار کھینچنے کے بجائے بہتر سمجھا کہ ان سے مسجد کا پتہ پوچھیں اور صلوۃ التسبیح پڑھ لیں۔ پچھلی مرتبہ تو انھوں نے اپنے آفس کا کمرہ کھلوا دیا تھا کہ ہم نماز ادا کر لیں، اب کے انھوں نے پچھلی عمارت کی طرف رہنمائی کی ایک برآمدہ نما کمرہ تھا، کئی صفیں بچھی تھیں۔ سامنے دبیز پردے پڑے ہوئے تھے، ہم دونوں نے وہاں نماز پڑھی۔ شاہد نماز پڑھ کر باہر نکلے اور فوراً ہی واپس آ گئے کہ بس آ چکی ہے اور لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں، ہمارے پہنچتے ہی دروازہ کھلا اور بس کی اگلی نشستیں ہمیں مل گئیں، اگلی نشستوں کی خواہش یوں ہوتی ہے کہ مناظر واضح نظر آتے ہیں اور جی چاہے تو تصویر کشی کرتے جائیے۔ دوبئی سے ابو ظہبی کا علاقہ دیکھا بھالا محسوس ہوتا رہا۔ ابھی بارہ چودہ روز پہلے ہی تو گزرے تھے۔ ابو ظہبی ایر پورٹ پہنچے۔ اس مرتبہ گنبد نما مہندی اور نیلے رنگ سے مزین ہال سے دور تھے، ہمارے ساتھ کئی اور بھی زائر موجود تھے جو برآمدہ نما طویل انتظار گاہوں میں انتظار کرتے تھے۔ آج ہمارے پاس زیادہ وقت نہ تھا۔ ایک بجے جہاز کو روانہ ہونا تھا، ساڑھے بارہ بجے کے بعد،پہلے شاہد اور پھر میں نماز ظہر اور احرام کے نوافل کی ادائگی کے لیے مسجد گئے، ابھی دعا مانگ رہی تھی کہ شاہد کا بلاوا آ گیا، جہاز کی روانگی کا اعلان ہو رہا تھا، ایوا من کی گولی کھائی اور جہاز میں جا بیٹھے، جہاز نے اڑان بھری، کھانے پینے کا سلسلہ شروع ہوا، لبیک کی صدائیں سنائی دیتی رہیں، لبیک الھم البیک… ایک حدیث کے مطابق جب لبیک کی صدا زائر کے ہونٹوں سے بلند ہوتی ہے تو اس کے اطراف و اکناف میں موجود تمام جمادات و نباتات بھی لبیک کی اس صدا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ درود شریف اور مختلف دعائیں کرتے ہوئے میں نے اپنا پسندیدہ چینل لگایا یعنی جہاز اس وقت کہاں سے گزر رہا ہے، کتنا فاصلہ طے کر لیا ہے،کتنا باقی ہے، وقت کو فاصلوں سے ضرب تقسیم دیتے معلوم ہوا کہ جدہ ایر پورٹ پہنچ گئے ہیں، تین بج چکے تھے،ایک طویل مرحلے سے گزر کر باہر لاؤنج میں پہنچے، پچھلے عمرے کی مانند اس مرتبہ کوئی اپنا منتظر نہ تھا لیکن ایک عربی باشندے نے فوراً ہی ہمیں پہچان کر الھدیٰ کے دیگر زائرین کی جانب رہنمائی کر دی تھی پر یہاں ہمیں کسی نے نہ پوچھا، کافی دیر بعد ایک صاحب کو الھدیٰ ٹریولز کا بتایا تو انھوں نے لا ؤنج کے آخری کونے کی جانب اشارہ کیا۔ وہاں پہنچے تو کاؤنٹر پر بیٹھے ایک نو عمر لڑکے نے ہم سے دونوں پاسپورٹ وصول کیے اور اپنے دیگر کاموں میں مشغول ہو گیا، اب جب بھی اس سے پاسپورٹ کے متعلق یا اگلے مرحلے کے بارے میں پوچھتے ہیں وہ سوائے صبر صبر کے کچھ اور نہیں کہتا، کرسیاں سب بھری ہوئی ہیں، کہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ الھدیٰ کے سارے زائرین جب تک اکٹھے نہیں ہو جاتے یہیں کھڑا ہونا ہو گا، میں شاہد کوسامان کے پاس چھوڑ کر مسجد چلی گئی، عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا، وہ ادا کی، الھدیٰ کے ایجنٹ تصویریں ہاتھ میں پکڑے ایک ایک زائر کے قریب جاتے ہیں، نام پکارتے ہیں لیکن مطلوبہ شخص نہیں ملتا، خدا خدا کر کے یہ مرحلہ طے ہوا، اب ہم مکہ کی طرف جاتے تھے، دل میں خوف بھی تھا، خوشی بھی تھی۔پتا نہیں کیوں دل میں یہ ڈر بیٹھا تھا کہ کہیں آخری قدم پر معلوم ہو کہ منزل تو ابھی کوسوں دور ہے، ابھی تو بہت پینڈا باقی ہے، بس کسی طرح اس در تک رسائی ہو جائے، بیت اللہ کو ایک نظر دیکھ لیں۔عمرہ ادا کر لیں، گھر سے نکلنے کا مقصد پورا ہو جائے۔

شاہد نے ڈرائیور سے مغرب کی نماز کے لیے کہا۔ اس نے کہا، کچھ فاصلے پر ایک مسجد آئے گی،وہاں نماز کے لیے رکیں گے، جیسے ہی وین رکی ایک نوجوان معتمر نے غصے سے بولنا شروع کر دیا۔

’’ اس وقت گاڑی روکنے کی کیا ضرورت ہے، پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے، آخر اتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں، یہ بھی عشا کے ساتھ قضا پڑھ لیں گے۔‘‘

ڈرائیور تذبذب کا شکار تھا لیکن گاڑی روک چکا تھا۔ تقریباََسبھی زائر اترے، کافی بڑی مسجد تھی، شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے، کچھ اس بنا پر، کچھ شاید اس وجہ سے کہ مسجد کے احاطے میں تعمیری سامان بھی پھیلا ہوا تھا، پھرخواتین کے لیے در وازہ کھلا ہوا نہ تھا۔ ڈرتے جھجکتے ایک بہت بڑا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ یہیں خواتین نماز ادا کریں گی، نماز پڑھی لیکن اس کشادگی اور سکونِ قلبی کو مفقود پایا جو دبئی کی مساجدیا پچھلی مرتبہ دورانِ سفر مکہ، مدینہ یا جدہ جاتے ہوئے ہر مسجد میں خواتین کے لیے مختص جگہ پر نماز کی ادائگی میں ہوا تھا، کوچ میں بیٹھتے ہی مکہ کے سنگِ میل اور زیادہ توجہ سے دیکھنے شروع کیے لیکن ہر میل کے بعد لگتا تھا کہ سفر مختصر ہونے کی بجائے طویل ہوتا جا رہا ہے۔

 

تیری بے تابی کے صدقے… عجب بے تاب ہے تو

 

مکہ مکرمہ کے نام کے مختلف سائن بورڈ پر نظر آتے ہیں لیکن مکہ نہیں آپا رہا۔ مکہ دنیا کے قدیم ترین شہر سے اس جدید تر شہر… تک کتنے مراحل سے گزرا۔ یہ بھی ایک طویل داستان ہے لیکن یہ بھی کم طویل اور دلچسپ صورت حال نہیں کہ یہ واحد شہر جو عہدِ قدیم سے عصرِ موجود تک کئی ناموں سے مشہور رہا، چنانچہ بکہ، مکہ کے علاوہ البلدہ، البلد، ام لقریٰ،معاد، الوادی، ناستہ، نسّاستہ، الحطامتہ، صلاح، العرش، المقدسہ، العریش، القادس، المقدستہ، القادسیہ کوثی، الحرم، برۃ، المسجد الحرام، المعطشتہ، الرتاج، ام الرحم، ام زحم، ام صح، ام روح، بسق، البیت، العتیق، الراس، المکتان، النابیاتہ، ام الحمتہ، ام کوثی، الباستہ، نَسَاستہ، الناشتہ، طیبتہ، سبرحتہ، السلام، العذراء، نادرۃ، العرش، العروش، الحرمتہ، العروض، الیل، مخرج الصدق، قریتہ الحمس، ام راحم، قریتہ النمل، نقرۃ العراب، البینتہ، فاران … ۱؎

روایت ہے کہ زمین پر سب سے پہلے مکہ نمودار ہوا پھر مدینہ اور اس کے بعد بیت المقدس ظاہر ہوا۔ بیت اللہ شریف کی اساس زمین کے نمودار ہونے اور حضرت آدم کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے رکھی گئی تھی۔ عرشِ الہی اور البیت المعمور کی سیدھ میں پانی پر جو جزیرہ ظاہر ہوا تھا، ملائکہ زمین پر تشریف لائے اور پہلی تعمیر کعبہ کی تکمیل کے بعد اس کے طواف میں مشغول ہو گئے۔ ستر ہزار فرشتے البیت المعمور کے طواف سے فارغ ہو کر کعبۃ اللہ کے طواف کے لیے زمین پر آتے اور ان کے علم میں ہے کہ قیامت تک ان کی دو بارہ باری نہیں آسکتی، ان کے خشوع و خضوع کا کیا عالم ہو گا۔ تسبیح ملائکہ جو دوران طواف ان کے لبوں پر جاری و ساری ہوتی،ابن آدم کے لیے وہی تسبیح منتخب کی گئی۔ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہٰ الا للہ واللہ اکبر……

مکہ مکرمہ سعودی عرب کی جنوبی سمت میں چہار جانب سے پہاڑوں میں گھرامقدس شہر ہے، مکہ مکرمہ کا ہموار نشیبی علاقہ بطحا کہلاتا ہے۔

بکہ اور مکہ کے فرق کی وضاحت بھی کی گئی ہے، بیت اللہ شریف اور اس کے ارد گرد کا علاقہ بکہ اور باقی تمام شہر مکہ ہے۔

مکہ تجھے کسی مبارک نام سے پکاروں، تیری عظمت، فضیلت اور شرف بے مثل و لاثانی ہے لیکن یہ کیا ستم ہے کہ تو دکھائی نہیں دیتا، کتنا عرصہ ہو گیا کہ مکہ کے نام کی تختیاں دکھائی دے رہی ہیں لیکن ہم مکہ یا یوں کہیں کہ اپنی جائے قیام پر پہنچ نہیں پا رہے۔

مکہ میں داخل ہونے کے تین راستے ہیں، معلاۃ، مسفلہ اور شبیکہ، ہم گذشتہ دونوں مرتبہ مسفلہ خلیل میں ہی ٹھہرے تھے اب بھی یہی محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارا قیام مسفلہ میں ہی ہو گا۔ لبیک الھم لبیک… کب بیت اللہ شریف کا جلوہ نظر آئے گا… دنیا کی سب سے بڑی گھڑی نظروں کے سامنے تھی،جو لمحہ بہ لمحہ وقت کو آگے لیے جا رہی تھی لیکن ہمارا سفر کوچ کی رفتار کی سوئی سو پر ہونے کے باوجود چیونٹی کی چال چلتا محسوس ہوتا تھا۔ دنیا کی دوسری طویل ترین عمارت مکہ کلاک ٹاور ۱۹۷۲ فٹ بلند ہے اور دنیا کی سب سے بڑی گھڑی ۱۴۱ فٹ طول و عرض،گھنٹے کی سوئی ۵۶ فٹ اور منٹ کی سوئی۷۲ فٹ لمبی،زائرین کو سولہ میل دور سے ہی گزرتے وقت کو رائگاں نہ جانے کا مشورہ دیتی ہے۔ اسے دیکھتے ہی لبیک کی صداؤں میں جوش پیدا ہو جاتا ہے۔

لبیک الھم لبیک اے اللہ میں حاضر ہوں، اے اللہ میں آ رہی ہوں، تو نے بلاوا بھیجا اور میں چل نکلی۔ سارے سفر میں ایک ہی خدشہ رہا۔ میرا سفر کھوٹا نہ ہو جائے، دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا، کسی طرح میں پہنچ جاؤں، عمرے کے مناسک ادا کر لوں، کعبہ کو جگمگاتا دیکھ کر اپنی آنکھیں روشن کر لوں، اللہ اللہ کر کے شہر مکہ میں داخل ہوئے ہیں، ایک ہوٹل میں کافی زائر اتارے گئے۔ معلوم ہوا ہمارا قیام اگلے ہوٹل میں ہو گا۔ ہوٹل سنابل پہنچے،کچھ پتا نہیں تھا کہ ہمیں یہاں اترنا ہے یا اور آگے جانا ہے، سب مسافر اپنا سامان اٹھا کر سڑک کے پچھلی طرف گم ہو تے جا رہے تھے،شاہد نے مجھے سامان کے ساتھ کھڑا کیا اور خود معلومات کے لیے بلکہ زیادہ صحیح یہ ہو گا کہ ٹرالی کے بندوبست کے لیے انھی زائرین کے ہمراہ چل دیے، میں سڑک پر اپنے بے شمار سامان کے ساتھ کھڑی ہوں، زیادہ تر حاجی پاکستان سے سیدھے آئے تھے اور شاید قیام بھی دس پندرہ دن کا تھا، ان کا سامان ہلکا تھا، اٹھایا اور روانہ ہوئے، گرمی اور گرم بازاری دونوں ساتھ ساتھ تھے۔ پہلا تاثر یہی تھا کہ پچھلی مرتبہ بھی تقریباً انھی دنوں میں ہم آئے تھے تب تو اتنی ہما ہمی نہ تھی، دو ایک ٹیکسی والوں نے مدد کی پیشکش کی،کافی دیر بعد شاہد آئے، ساتھ ایک آدمی تھا اس نے ٹرالی پر سامان لادا اور ہم اپنے مستقر کی جانب روانہ ہوئے، ہوٹل سنابل، ہم محسوس کر چکے تھے کہ بیت اللہ شریف سے کافی دور ہے، ہوٹل کے منتظم عتیق الرحمن کہ جنھوں نے پچھلی مرتبہ اپنے والد کے ساتھ مل کر حق میزبانی ادا کیا تھا۔ اب سارے کاروبار کو خود ہی دیکھ رہے تھے کہ والد صاحب رخصت پر پاکستان گئے ہوئے تھے، ہماری ہر بات کے جواب میں یہی کہتے رہے کہ وہ تمام ہوٹل خالی کر والیے گئے ہیں یا گرائے جا چکے ہیں، اب یہی سب سے قریب ہے، جہاں آپ کی رہائش کا بندو بست کیا گیا ہے،آپ چل کر آرام کریں، کمرے میں آ کرسا مان رکھا، ابھی وضو سے فارغ ہوئے تھے کہ عتیق اور ان کے کارندے البیک کے پیک، پانی، پھل اور مشروبات کے ذخیرے کے ساتھ داخل ہوئے۔

’’ اطمینان سے کھانا کھائیے، تھوڑا آرام کیجیے، پھر عمرے کے لیے جائیے۔ ‘‘ ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ وہ رخصت ہوئے، اس وقت آرام کی کس کو سوجھتی ہے، جلدی جلدی کھانا کھایا اور عمرے کے لیے نکلے، اس مرتبہ خاصا طویل فاصلہ تھا، پچھلی مرتبہ بمشکل پانچ منٹ کا رستہ تھا، اب پندرہ بیس منٹ پر محیط تھا۔ شاہد تسلی دیتے رہے۔

’’بھئی جب ہم پر حج پر آئے تھے تب بھی یہیں تھے بس اتنا فرق ہے کہ پہلے سڑک کے دوسری جانب تھے، بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ ‘‘

تھکن کا احساس فاصلے کو بڑھاتا تھا یا یہ محسوس ہوتا تھا کہ خانۂ خدا کو دیکھنے کی پیاس جتنی بڑھتی ہے،وہ اور دور ہوتا چلا جاتا ہے، آخر خدا خدا کر کے کبوتروں والا چوک آیا تو گلی کوچوں میں شناسائی کا رنگ ابھرا۔ امید بندھی کہ اب دیارِ مقصود قریب تر ہے، تھکے تھکے لبوں پر لبیک کے ترانے نے ایک تازہ جوش اور ولولے کے ساتھ جنم لیا، بھیگتی رات، خاموش اور بے کراں سناٹا، لیکن ایک ہجومِ عاشقاں ہے جو خانہ کعبہ کی جانب رواں ہے، سب اپنے آپ میں مگن تیز تیز قدم اٹھاتے منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عشا کے وقت کو گزرے دو تین گھنٹے ہو رہے ہیں، کسی نماز کا وقت نہیں ہے۔ کچھ ہماری طرح احرام میں ملبوس ہیں۔ کچھ خانۂ خدا میں عبادت کرنے کی نیت رکھتے ہیں اور سب سے افضل عبادت طواف… ہم بابِ عبدالعزیز تک پہنچ رہے ہیں … شاہد باب سلام سے جانا چاہتے ہیں۔ اب ہمیں باب سلام تک کا سفرکرنا ہے۔ ایک ایک قدم ایک ایک میل کے برابر معلوم ہو رہا ہے… اور ہم اب خانۂ کعبہ، مقصود و مطلوب کے سامنے ہیں … پہلی نظر کی دعا… اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار اور مغفرت کی دعا اور اپنے مستجاب الدعا ہونے کی تمنا۔ کاش اللہ میری تمام جائز دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا ہو…

 

آثارِ جلالی و جمالی باہم

 

کعبہ کا حسن دیکھنا ہو تو رات کو دیکھا جائے۔ حج کے موقع پر دعا مانگی تھی کہ آئندہ حج یا عمرے پر پہلی نگاہ رات کے گھپ اندھیرے میں پڑے۔ پھر خود ہی رد کر دی تھی کہ کیا میں صبح پہنچوں تو رات کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھی رہوں گی … اور اب اتفاق سے دونوں عمروں پر رات کا وقت ہی نصیب ہوا، وہ رات جو روشن سے روشن دن کو بھی شرمائے، جہاں خبر کی نہیں نظر کی حکمرانی ہے۔ تحیرِ عشق کی سلطنت ہے۔ جذب و جنوں کی چھاؤنی ہے۔ خانہ کعبہ کو جی بھر کر دیکھنے سے پہلے جی بھر کر دعائیں مانگنی ہیں، لیکن کسی دعا میں ترتیب کا کوئی دخل نہیں۔ سبھی دعائیں ایک دوسری میں مد غم ہو تی چلی جاتی ہیں، لیکن نہیں حقیقت یہ ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون سی دعا پہلے مانگی جائے۔ شاید میں گھر سے تیاری کر کے نہیں آئی تھی، ایک لیکچر کے لیے کتنی تیاری کی جاتی ہے۔ کتنے نکات لکھے جاتے ہیں کہ کہیں لیکچر دیتے ہوئے کوئی اہم نکتہ رہ نہ جائے، تو میں کسی تیاری کے بغیر ہی اللہ کے دوار پہنچی اور اب بوکھلائی بوکھلائی سی ہوں، دعا مانگنے کا سلیقہ تو تمام زندگی نہ آیا، یہاں بھی کم از کم پہلی نظر کے ساتھ تو یہ سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا، کچھ یاد نہیں کیا کیا دعا مانگی۔ صرف یہ یاد ہے میری طلب یہی تھی کہ اے اللہ ! میری جائز دعاؤں کو شرف باریابی بخش۔اپنی محبت والی زندگی عطا کر۔ تیری ذات تک رسائی کی بات نہیں کر رہی کہ مجھ سا گنہگار جو خود آگہی کے پہلے زینے پر ہی تھک کر بیٹھ گیا ہو، اسے اللہ کی معرفت کی طلب جچتی نہیں۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ یا اللہ یا رحمن یا رحیم کا ورد اللہ سے تعلق پیدا کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ جن عزیزوں نے دعاؤں کے کیے کہا تھا وہ سب اللہ کے حضور پیش کر دیں، شاہد طواف کے لیے مطاف میں اترے، میں تھکے تھکے قدموں سے ان کے پیچھے پیچھے چلتی تھی، حجرِ اسود تک پہنچنے تک میں خانۂ کعبہ کو دیکھنے کے لیے آزاد تھی،شبِ روشن میں جمالِ کعبہ اس بزرگ و بر تر ہستی کے وجود کا اعلان کر رہا تھا جس کی محبت میں سرشار حقِ عبودیت کی ادائگی کے لیے لاکھوں فرزندانِ توحید اس کے گرد والہانہ انداز میں خود کلامی کرتے ہوئے دیوانہ وار گھوم رہے تھے، یہ خود کلامی کیا تھی، چپکے چپکے راز و نیاز کی گفتگو میں کیسا رمز تھا جو ہر ایک پر آشکار تھا، سبھی اپنے اپنے انداز میں اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے، اپنے اپنے مسائل اس کی جھولی میں ڈالتے جاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے ان مسائل کو اگر حل ہونا ہے تو اسی مقام پر، طواف مکمل ہوا۔

 

جو اب قبیلہ ہوا پہلے قافلہ ہو گا

 

آٹھواں استلام کرتے ہوئے سعی کے لیے صفا کی جانب بڑھے۔ تقریباً آدھا راستہ طے کر کے صفا پہنچے اور پھر اس ہجوم میں شامل ہو گئے جو حضرت ہاجرہ کی سنت کی پیروی کر رہا تھا، آپ بہت تھکے ہوئے ہوں سعی کرنا مشکل محسوس ہو رہا ہو … لمحہ بھر کے لیے اس بے آب و گیاہ صحرا کو یاد کر لیجیے کہ جہاں اپنی پیاس کو فراموش کیے ایک ماں بے تابی سے اپنے لاڈلے کے لیے پانی کی بوند کے لیے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھٹک رہی ہے، سر پر چلچلاتی دھوپ اور پیروں تلے گرم جھلستی ریت، جانوروں کا خوف، تنہا ئی کا آسیب … لیکن تنہائی کہاں وہاں اللہ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل اللہ کی جانب سے موجود ہیں کہ ننھے اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں کی رگڑ کے ساتھ ان کے پروں کی رگڑ بھی شامل ہے، لیکن ماں اللہ کے اس کرم سے بے خبر تپتی ریت پر برہنہ پا دوڑ رہی ہے … اور یوں آبِ زم زم کا تحفہ رہتی دنیا کے لیے عطا ہوا۔ اسی پانی کے سبب بنو جرہم کے قافلے کے پڑاؤ نے مستقل حیثیت اختیار کر لی۔ اسی قبیلہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی ہوئی اور سلسلہ نسب آگے بڑھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت نے مکہ کو وہ مقام عطا کیا جو روئے زمین پر کسی اور کو حاصل نہیں۔ حضرت ہاجرہ پتتی ریت پر اپنے لختِ جگر کی زندگی بچانے کے لیے دیوانہ وار دوڑ رہی تھیں اور ہم ہیں کہ محفوظ و مامون ٹھنڈے فرش پر خوشگوار ہوا کے جھونکوں میں سرد شیریں آب زم زم بھی دورانِ سعی نوش فرماتے جاتے ہیں … خود بخود ساری تھکن ختم ہو جاتی ہے …ہر چکر کے لیے کوئی ایک دعا یا کلمہ مخصوص کر کے سات چکر پورے کرتی ہوں۔ اللہ تیرا شکر ہے، یہ مرحلہ تو طے ہوا، قینچی سے پور برابر بال کاٹے، عمرہ کی ادائگی مکمل ہوئی شاہد حلق کے لیے مروہ سے باہر نکلے……

میں نمازِ عشا کے لیے مطاف میں پہنچی اور خواتین کے لیے بنائے گئے حصے میں نماز پڑھی، شاہد بھی حلق کروا کے آ گئے تھے، یہی طے پایا کہ ہمیشہ ایک مکمل رات خانہ کعبہ میں رہنے کی تمنا کرتے رہے ہیں لیکن حج پر اور پچھلے عمرے پر، پوری رات نہ رکے تھے، آج عمرے کی ادائگی اور نماز میں ہی دو بج چکے ہیں، تقریباً ایک گھنٹہ تو آنے جانے میں لگے گا اور ساڑھے چار،پانچ بجے پھر فجر کے لیے آنا ہو گا تو بہتر ہے آج ہی اس خوش قسمت لمحے کو کیوں نے تھام لیا جائے۔ نفل، تسبیحات اور دید ارِ کعبہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے پر شوق ہجوم اور دیوانہ وار طواف میں مصروف عاشقان حرم کو تکتے رہے، یا ذوالجلال والاکرام کا وظیفہ وردِ زباں ہو تو آپ کے لیے کرم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ مختلف تسبیحات بغیر کسی ترتیب کے پڑھتی رہی۔کچھ دیر بمشکل جگہ بنا کر سونے کی کوشش بھی کی،لیکن نیند کا پتہ نہ تھا۔

ہزاروں لوگوں کا ہجوم لیکن سکوت و سکون کا وہ عالم کہ ہر ایک اپنے آپ میں گم ہے، چاندنی، نیم وا دریچہ،سکوت… آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے۔ لیکن کسی بے آرامی کا، بیزاری کا تصور تک نہیں، صرف ایک احساس کہ اللہ کا کرم کہ جس نے یہ سعادت بخشی اور لبوں پہ بار بار یہ التجا کہ جو اب تک نہیں آ پائے ان کے بلاوے کی کوئی سبیل پیدا کر۔

تہجد کی اذان نے عبادت کا ایک ولولہ تازہ پیدا کیا۔ مطاف میں ہی صفا کے برآمدے کے باہر لگے نلکوں سے بہت سی خواتین وضو کر رہی تھیں، میں نے بھی تازہ وضو کیا اور تہجد کی نماز ادا کی۔ تسبیح و تحلیل میں کچھ وقت گزرا، فجر کی اذان ہوئی اس اذان،اقامت اور قرات میں جو گونج اور جلال کی کیفیت تھی، اس نے سارے بدن پر لرزہ طاری کر دیا۔جو کیف وسرور فجر کی نماز میں ہے اس کا مقابلہ و موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہوٹل سنابل واپسی ہوئی۔ ناشتے اور کچھ دیر آرام کے بعد ظہر کے لیے خانہ کعبہ گئے اور عشا پڑھ کر واپس ہوئے، شاہد نے کھانسی، فلو کے لیے دوا شروع کی ہوئی تھی، دوسرے روز فجر کے بعد میں خانہ کعبہ میں رکی رہی، شاہد کو دوا کے لیے گھر واپس آنا پڑا، ظہر کا وقت ہو گیا،شاہد نے تو جدہ ایر پورٹ پر ہی سم بدلوا لی تھی۔ میں نے کہا کہ مکہ جا کر نئی سم ڈلواؤں گی اور اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ مجھے فوراً سم ڈلوا لینی چاہیے تھی، خدا خدا کر کے شاہد ملے، سم ڈلوائی، خالہ زاد بہن اختر باجی اور بہنوئی خورشید بھائی بھی عمرے کے لیے ہم سے پانچ دن پہلے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تھے لیکن ہمیں بارہ تیرہ دن دبئی رکنا تھا، ان کے گروپ میں ہماری خالہ جی فہمیدہ اور ان کا بیٹا نوید بھی شامل تھے، خالہ جی اور نوید کی تو جس رات ہم عمرے میں مصروف تھے اسی رات واپسی تھی اور اتفاق سے ہمارے برابر میں ہی ان کا ہوٹل تھا لیکن علم نہ ہونے کی بنا پر انھیں مل نہ سکے جس کا افسوس رہا، اسلام آباد سے فون آیا اور یوں اختر باجی کا موجودہ فون نمبر ہمیں ملا، ان سے عصر کی نماز کے بعد ملاقات کا وقت طے ہوا۔

 

گرمیِ شوقِ نظارہ کا اثر تو دیکھو

 

مغرب کی نماز کے بعد دانش کے دوست طاہر کا جدہ سے فون آیا کہ میں کل عمرے کے لیے مکہ مکرمہ آؤں گا، عمرے کے بعد آپ سے ملاقات ہو گی، جمعے کے لیے گھر سے جلد نکلے ورنہ جگہ ملنے میں بہت مشکل ہوتی ہے، آج فجر کے بعد صرف دو طواف کیے تھے، نماز کے بعد طاہر سے ملاقات ہوئی۔ کھانے کے لیے گھر آئے،کھانے کے بعد مجھے بہت بے چینی ہو رہی تھی کہ اپنے وطن میں ہر جمعے کی نماز کے بعد سورۂ یٰس کا تین مرتبہ ورد خانہ کعبہ یعنی مغرب کی طرف رخ کر کے پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ آج میں مکہ مکرمہ میں موجود ہوں اور کھانے پینے میں وقت ضائع کر رہی ہوں، مجھے محسوس ہوا کہ مرد حضرات کا عصر کے وقت جانے کا ارادہ ہے، جیسے ہی ان کی چائے کی پیالی ختم ہوئی، میں بول پڑی کہ مجھے حرم شریف جانا ہے اور ان کا جواب سنے بغیر نہایت تیزی سے حرم جانے کی تیاری کر لی، چنانچہ فوراً سوئے حرم روانہ ہوئے،جو لمحہ بیت اللہ کے سائے میں نصیب ہو جائے اس سے محترم و مبارک کوئی اور ساعت ہو سکتی ہے؟طاہر مغرب کی نماز کے بعد رخصت ہوئے، اللہ اسے اپنے مقاصد میں کامیاب کرے۔عصر اور مغرب کے دوران خانہ کعبہ کے مختلف مقامات خصوصاً دوسری منزل پر ہر عمر کے بچے قرآن کریم کا درس لیتے نظر آئے،قاری حضرات ایک ایک بچے پر جس طرح محنت کر رہے تھے، طالبِ علم جس لگن اور چاہت سے لہجے، تلفظ، ادائگی اور مخرج پر توجہ دے رہے تھے۔ ان کے ذوق و شوق کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے بیشتر بہت اچھے قاری ثابت ہوں گے۔

 

عبادت اپنی اپنی

 

ہفتہ کو فجر کی نماز کے بعد عمرے پر جانے کا ارادہ کیا، اس سے پہلے اسفار میں ہم عمرہ ظہر کے بعد ہی کرتے رہے تھے، سرمد حج کر کے آیا تو اس نے کہا۔

’’ امی عمرے کاسب سے بہتر وقت نمازِ فجر کے بعد ہے، آپ مسجدِ عائشہ سے احرام باندھ کر حرم پہنچتے ہیں تو رش کافی کم ہو چکا ہوتا ہے۔ موسم بھی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس لیے آپ بھی فجر کے بعد عمرے کے لیے نکلا کریں۔ ‘‘

سو اب ہم عمرے کے لیے نکلتے تھے۔ ایک بس نظر آئی، مسجدِ عائشہ کے بارے میں پوچھا تواس نے ہمیں بٹھا لیا اور بسوں کے اڈے پر پہنچا دیا یوں آٹھ دس منٹ چلنے کے بعد جہاں ہمیں پہنچنا تھا ہم دو منٹ میں پہنچ گئے، وہاں ایک بس تیا رکھڑی تھی۔ پندرہ منٹ میں ہم مسجدِ عائشہ تھے، مسجدِ عائشہ کھلی کھلی فضا کے سبب مجھے بہت پسند ہے، ہمیشہ میری خواہش ہوتی تھی کہ کبھی موقع ملے تو وہاں کے پر سکون ماحول میں کچھ وقت گزاروں لیکن عمرے کی جلدی کی وجہ سے وضو، احرام، نوافل اور تیزی سے بس کی جانب لپکتے تھے، آج ہم صبح سویرے چلے آئے تھے۔ اشراق کا وقت ابھی نہ ہوا تھا۔ چنانچہ ہم غسل، وضو اور احرام سے فارغ ہو کر گرد و پیش کا جائزہ لیتے تھے، اشراق کا وقت ہوا تو نوافل کی ادائگی کے لیے مسجد گئے، پہلا عمرہ حضور پاکﷺ کے نام کا کیا تھا، دوسرے عمرے میں حضور پاکﷺ کے ساتھ ساتھ امی جی، اباجی کا نام بھی شامل کیا، اختر باجی بھائی جان خورشید بھی اس وقت عمرہ کر رہے ہیں۔ مجھے یاد آیا اسلام آباد سے آتے ہوئے میں نے دبئی،عطیہ کو فون کر کے کہا تھا کہ ہم عمرے کے لیے آ رہے ہیں، ممکن ہو تو تم بھی پروگرام بنا لو تو اس نے کہا تھا نہیں بھئی عبادت اپنی اپنی … تو یہ بات ہمیشہ میرے ذہن میں بھی ہوتی ہے،حج عمرے کا گروپ جتنا مختصر ہو عبادت میں اتنی ہی سہولت رہتی ہے، اب بھی اختر باجی برابر کے ہوٹل میں تھیں لیکن ہم حرم میں تھوڑی دیر کے لیے مل لیتے تھے،اس کے بعد طواف یا دیگر عبادات سکون سے اپنے اپنے مقام پر ادا کرتے،آج بھی بہت سکون سے عمرے کی ادائگی ہوئی، ہم نے سعی کے لیے نیچے تہ خانہ کو منتخب کر لیا تھا، سعی کے دوسرے چکر میں ہم تہ خانے میں اتر گئے،ایسے لگتا تھا کہ میرے اور شاہد کے علاوہ سعی کے لیے کوئی اور موجود ہی نہیں جبکہ اوپر کافی ازدحام تھا، پھر تہ خانے میں سعی کرنے سے آپ کم تھکتے ہیں، یہاں آسانی یوں ہے کہ صفا اور مروہ پہنچ کر آپ کو جو چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے، تہ خانے میں زمین کی سطح برابر ہونے کی وجہ سے سانس نہیں پھولتا، عمرے کی تکمیل کے بعد ہم دوسری منزل پر پہنچے کہ اب ہم زیادہ تر دوسری منزل پر ہی ہوتے شاہد مردانے حصے میں چلے جاتے،مجھے گرمی لگتی تھی اس لیے میں برابر میں ہی عورتوں کے حصے میں جانے کے بجائے ایسکلیٹر کے سامنے ہال میں خواتین کے لیے بنے اے۔ سی والے حصے میں ہی رک جایا کرتی تھی، یہاں سبھی اپنے یاد آتے۔ سب اہل خانہ کے لیے نام بنام صحت، سکون اور دین و دنیا میں کامیابی کے لیے دعا کرتی۔ امتحانات کا زمانہ تھا۔ برآمدے میں ایک صاحب اپنے دو بچوں کو جو دوسری اور چوتھی جماعت کے ہوں گے، پڑھاتے نظر آئے باپ بیٹے د نیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کام میں مصروف تھے، مغرب کے بعد والد صاحب بچوں کے ساتھ کھیلتے نظر آئے، بچوں کی تربیت میں ماں باپ کا بچوں کو وقت دینا کتنا اہم ہے لیکن اب یہ باتیں قصۂ پارینہ ہوتی جا رہی ہیں۔

 

شفقت کے سائبان

 

اتوار کے روز، فجر کی نماز کے بعد طواف شروع کیے۔ اللہ کے کرم سے پانچ طواف صبیحہ باجی،جاوید بھائی،سہیل، شکیل،طاہر اور ان کے اہل خانہ کے نام سے اکٹھے کیے، کراچی ثروت باجی اور جاوید بھائی کو فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی، اسلام آباد اشتیاق صاحب، آمنہ، دانش سرمد، ماریہ، فارد اور صبیحہ باجی سے اور فیصل آباد یاسمین بھابھی سے بات ہوئی، عمرے پر آنے سے پہلے کراچی بلقیس آپا سے بات ہوئی تھی، ان سے بات کر کے ان کے لبوں سے امڈتی دعائیں سن کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ا پنی ماں سے بات کر رہی ہوں، ڈاکٹر کشفی صاحب کی ساری محبت ان کی ذات میں سمٹ آئی ہے۔ کہنے لگیں۔

’’ بھائی سے ضرور ملنا، تمھیں احساس ہو گا کہ تم کشفی صاحب ہی کو دیکھ رہی ہو۔ ابو عاکف جدہ میں ہوتے ہیں لیکن مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ان کا آنا جانا ہوتا ہی رہتا ہے۔ ‘‘

یہاں آ کر اپنے ہوٹل والوں سے پاکستان ہاؤس کے فون نمبر پتہ کیے لیکن کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ یہ البتہ بتایا گیا کہ یہاں سے قریب ہی ہے۔ ایک صاحب نے کہا پیدل چلے جائیں۔ دوسرے نے کہا کہ ٹیکسی کر لیں، مکہ پہنچ کر حرم سے لمحہ بھر بھی دور رہنا گراں گزرتا ہے، بس یہی سوچ رہی کہ اگر کامیابی نہ ہوئی تو نہ جانے کتنا وقت اکارت جائے گا، خیال آیا۔ بلقیس آپا کو کراچی فون کر کے نمبر لے لیتی ہوں۔ ان سے نمبر لیا۔ فوراً ہی جناب ابو عاکف سے بات ہو گئی مختصراً اپنا تعارف کرایا، کہنے لگے کل مغرب کے وقت خانہ کعبہ میں ملاقات ہو گی۔

 

اے سنگ اسود و ابراہیم علیہ السلام تیرا مقدر

 

ظہر کے بعد طواف کا ارادہ کیا۔ مجھے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ میں طواف کے دھیان میں حطیم کو نظر انداز نہ کر جاؤں اور وہاں نفل پڑھنے کے مواقع نہ گنواتی رہوں۔ طواف کے دوران میں حطیم میں نہیں جاتی کہ طواف مکمل کر لوں، پھر جاؤں گی اور پھر اگلا طواف شروع کر دیتی اور پھر تین، چار یا پانچ طوافوں کے بعد ہمت نہ رہتی یا اگلی نماز کا وقت قریب ہوتا، حطیم کے نوافل رہ جاتے اور ساتھ ہی پچھتاوا بھی کہ ابھی تک حطیم میں یعنی خانہ کعبہ میں نفل نہیں پڑھ سکی…

حطیم ہی وہ مقام ہے کہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جانے کے بعد حضر ت ہاجرہ نے سر چھپانے کا آسرا کیا۔ اسی جھونپڑی میں حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی بکریاں رہائش پذیر تھیں۔ اسی مقام کو حضرت ہاجرہ کے مدفن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیوی اور بیٹے سے ملنے ملک شام سے وادی فاران آتے رہتے، فاصلوں کی طوالت آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا کہ آپ اپنے براق پر صبح روانہ ہوتے اور تھوڑی دیر میں مکہ پہنچ کر بیوی بچے کی خبر گیری کے بعد دوپہر تک واپس اپنے ملک شام پہنچ جاتے۔ یہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تو بہو نے اجنبی جان کر شکوے شروع کر دیے۔ آپ یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ اسمٰعیل علیہ السلام آئے تو اسے کہہ دینا۔ اپنے گھر کی دہلیز بدل دے۔ بیوی نے اجنبی کا پیغام حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو دیا وہ سب سمجھ گئے۔ دوسری مرتبہ اسی مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے۔ اتفاق سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اب بھی گھر میں موجود نہ تھے۔ آپ کی نئی حرم نے اس اجنبی بزرگ کو بہت عزت سے براق سے اتر نے کو کہا۔ انھوں نے فرمایا اس کی اجازت نہیں ہے۔ اس عفت مآب خاتون نے بہترین کھانے سے تواضع کی، پھر آپ کے گرد آلود بالوں کو دھونے کی خواہش کی، آپ چونکہ براق سے اتر نہیں سکتے تھے، خاتون نے ایک پتھر لا کر رکھا کہ آپ اس پر پاؤں رکھ کر سر آگے کریں تو میں آپ کا سر دھو دوں۔ جب دائیں جانب سے دھو چکیں تو پتھر بائیں جانب لا رکھا کہ آپ اس پر اپنا پاؤں رکھ کر سر آگے کریں تا کہ میں اس طرف سے بھی سر دھو لوں۔ اس پتھر پر آپ کے قدم مبارک کے نشان ثبت ہو گئے یہ پتھر آج بھی مقامِ ابراہیم علیہ السلام پہ نصب ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اسمٰعیل علیہ السلام آئے تو اسے کہنا کہ گھر کی دہلیز بہت با برکت ہے اسے قائم و دائم رکھے۔

مقام ابراہیم علیہ السلام پر نصب اس پتھر کے متعلق دیگر حقائق یوں ہیں کہ اس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی تھی۔ دوران تعمیر وہ پتھر اس قدر لطیف و ملائم ہو گیا تھا کہ آپ کے پاؤں ٹخنوں تک اس میں گڑ گئے تھے، یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی ضرورت کے مطابق اونچا نیچا ہوتا رہتا تھا۔ یہ ان دو پتھروں میں سے ایک ہے جو جنت کے یاقوت ہیں۔ دوسرا حجر اسود ہے۔ حطیم ہی کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مرقد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رکنِ یمانی اور مقامِ ابراہیم علیہ السلام کے درمیان ۹۹ انبیا کی قبور مبارکہ ہیں۔

آج ظہر کے بعد باجی حلیمہ، یونس بھا ئی، عطیہ، صبیحہ باجی، عالی، سمیرا، نزہت، قدسیہ اور کالج کی ساتھیوں کے لیے طواف اور دعا کرنے کے بعد ہم حطیم میں نوافل کے لیے داخل ہوئے، چودہ نوافل ادا کیے، گرمی بھی بہت تھی پھر دیگر لوگوں کا بھی خیال تھا، حالانکہ بہتر انداز میں نوافل کی ادائیگی کا موقع نصیب ہوا تھا۔

مارچ کی گرمی زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ سوچتی ہوں جون،جولائی،اگست میں کیا حال ہوتا ہو گا۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔’’ جس مسلمان نے مکہ مکرمہ کی گرمی ایک ساعت بھی برداشت کی اللہ رب العزت اسے جہنم کی آگ سے ایک سو سال کی مسافت پر دور فرما دیتے ہیں۔ ‘‘

۱۲ مارچ، طواف کر کے خانہ کعبہ کے برآمدے میں آ بیٹھی، آج طواف کرتے ہوئے ترکی گروہ ساتھ ساتھ رہا۔ اس بہت بڑے گروہ کی خاص بات یہ تھی کہ تمام خواتین کے سکارف ایک ایک پیلے رنگ کے پھول سے مزین تھے۔ مردوں کی ٹوپیوں پر وہی پھول کھلا تھا، انڈونیشیا،ملائیشیا اور ایران کی خواتین کے اکثر گروہ اسی طرح کسی مماثلت کی بنا پر ایک دوسرے کو دور سے پہچان لیتے ہیں۔ اہل پاکستان کے کسی گروپ کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی، بلکہ پاکستانیوں کا گروپ صرف اپنی بیوی یا میاں یا ماں باپ، بہن بھائیوں تک محدود ہوتا یعنی دو چار سے زیادہ افراد کم ہی کسی گروہ میں دیکھنے میں آتے، شاید سب پاکستانی میری طرح سوچتے ہیں کہ جتنا بڑا گروپ ہو گا۔ اتنا ہی وقت زیادہ ضائع ہو گا، ایک فرد آرام کرنا چاہ رہا ہے، ایک طواف، ایک عمرہ، ایک زیارات… غرض جتنے لوگ ہوں گے سب کی الگ الگ بولی ہو گی، لیکن اگر ان کا کوئی معلم ہے( پاکستانی گروہ سے معلم اپنی فیس تو وصول کرتے ہیں، مگر نظر کبھی نہیں آتے ) تو وہ ایسا نظام الاوقات مرتب کر کے دے دیتا ہو گا اسی سبب د یگر ممالک کے گروہ ایک ساتھ ہر عمل کر لیتے ہیں، دیدِ کعبہ کے ساتھ ساتھ تسبیحات اور دعائیں جاری تھیں، احمد سلیم صاحب، حمیرا اشفاق اور میڈم پروین قادر آغا سے اسلام آباد بات ہوئی، یہ وہ لوگ ہیں جن سے بات کر کے آپ خوش ہوتے ہیں، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سبھی ایسے لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنی محبتوں سے نوازتے رہتے ہیں۔

 

سفرِ طائف کی خواہش…

 

عصر اور مغرب سے پہلے ایک ایک طواف اور کیا، مغرب کے بعد ابو عاکف صاحب کا فون آیا لیکن میرے تہ خانے میں ہو نے کے سبب بات صحیح طریقے سے نہ ہو سکی، باہر آ کر بات ہوئی تو طے پایا کہ عشا کے بعد باب فہد کے چورانوے نمبر گیٹ پر ملاقات ہو گی، عشا کے بعد باہر آئے تو میں ہر شخص میں کشفی صاحب کی شبیہ تلاش کرنے لگی، اس تلاش میں گیٹ سے دور نکل آئی، ایک صاحب پر مجھے یقین ہو گیا کہ یہی ابو عاکف ہو سکتے ہیں، شکر ہے کہ انھیں مخاطب کرنے سے پہلے جناب ابو عاکف کو فون کر لیا کہ دیکھتی ہوں یہ صاحب فون اٹھاتے ہیں کہ نہیں، فون اٹھایا گیا لیکن کسی اور نے۔ کہا گیا۔ میں گیٹ ۹۴ کے بالکل ساتھ کھڑا ہوں۔ واپس پلٹے تو ابو عاکف کو موجود پایا،نہ جانے کیوں مجھے کشفی صاحب سے بالکل ملتے ہوئے نہ لگے، آواز بھی ان جیسی نہ تھی، بیگم ابو عاکف اور ان کی مہمان بھی ہمراہ تھیں۔ کہنے لگے۔

’’کوئی مشکل۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے، گاڑی کی ضرورت ہو تو بتائیے، مدینہ کس دن جانا ہے۔ ہماری گاڑیاں مدینہ جاتی رہتی ہیں، آپ بہت آرام سے چلے جائیں گے۔ ‘‘

ان کی باتوں سے حوصلہ ہوا اور ایک دیرینہ خواہش نے سر اٹھایا۔

’’ مدینہ تو ہم ان کے ساتھ چلے جائیں گے جنھوں نے ہمارا سفر ترتیب دیا ہے، آپ یہ بتائیے کہ کیا ہم طائف جا سکتے ہیں۔ اس کا انتظام ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’ طائف‘‘

ابو عاکف سوچ میں پڑ گئے۔

’’ دراصل آپ کا ویزہ جدہ،مکہ اور مدینہ کا ہے، طائف اس میں شامل نہیں، پھر طائف آپ جو تصور لے کر جانا چاہ رہے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہی مکانات اور سڑکیں جو آپ یہاں دیکھ رہے ہیں۔ طائف کی گھاٹی آپ کو کہیں دکھائی نہ دے گی، ایک قدیم مسجد البتہ وہاں موجود ہے، اس کے بارے میں بھی مستند روایات نہیں ملتیں کہ کس زمانے میں تعمیر ہوئی، باغ وغیرہ تو کچھ ہیں لیکن موسم اتنا خوشگوار نہیں کہ آپ محسوس کریں کہ کسی سرد علاقے میں آ گئے ہیں … میں آپ کو گاڑی دے تو دوں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی نمبر پلیٹ دیکھ کر کہیں پڑتال نہیں ہو گی لیکن اگر ایسا ہو گیا تو میرے لیے، آپ کے لیے اور پاکستان کے لیے اچھا نہ ہو گا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ اس ارادے سے باز رہیں، لیکن اگر آپ جانا ہی چاہتے ہیں تو مجھے پاسپورٹ اور آٹھ دس دن کا وقت دیں، میں سعودی حکومت سے درخواست کر کے آپ کے لیے طائف کا ویزہ لگوا لیتا ہوں۔ ‘‘

شاہد نے شکریہ ادا کیا کہ نہیں اتنا تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں نے کہا کہ پچھلی مرتبہ کسویٰ کعبہ اور میوزیم ہم دیکھ نہ پائے تھے، اب بھی وہاں جانے کی نیت ہے۔ کہنے لگے۔

’’ کسویٰ کعبہ تو عام لوگوں کے لیے نہیں کھلتا۔ میوزیم آپ جب جانا چاہیں، بتا دیں میں گاڑی بھجوا دوں گا، آپ ایسا کریں کہ تین دن پہلے بتا دیں میں کسویٰ کعبہ اور میوزیم کے لیے ان اداروں سے اجازت لے لوں گا کہ پاکستان سے خصوصی مہمان آ رہے ہیں۔ اجازت نامہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا وہ بہت عزت کے ساتھ آپ کو ایک ایک چیز کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے سارے مقامات دکھا دیں گے۔‘‘

ابو عاکف اور بیگم ابو عاکف سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ دو تین روز میں ہمارا مدینہ منورہ جانے کا ارادہ ہے، واپسی پر آپ سے بات ہو گی اور جب مدینہ سے واپسی پر ان سے بات ہوئی، تو مجھے احساس ہوا کہ جناب ابو عاکف شکل و شباہت میں کشفی صاحب سے ملتے ہوئے نہیں لگے تھے، لیکن اخلاق و عادات اور گفتگو میں بالکل انھی جیسے تھے۔ بات مختصر کریں گے، دو ٹوک کریں گے لیکن جو کام ان کے اختیار میں ہو گا اس سے گریز نہیں کریں گے۔ حکومتِ پاکستان کو ایسے ہی کارکنوں کی ضرورت ہے جو گفتار کے نہیں کردار کے غازی ہوں۔

 

دل طالبِ نظارہ ہے… محرومِ نظر آنکھ

 

اگلے روز زیارتوں پر جانے کا ارادہ تھا، مجھے نہ جانے کیوں یہ خیال آتا رہا کہ وہی زیارتیں ہیں، پہلے بھی دو مر تبہ بہت تفصیلی انداز میں انھیں دیکھ چکے ہیں۔ یہ ہمیں کسی نئی جگہ کیوں نہیں لے جاتے لیکن معلوم ہوا کہ انھی مقامات پر جائیں گے جو ان کے معمولات میں شامل ہیں، اس سے ایک قدم بھی آگے پیچھے نہ ہوں گے … غارِ ثور، جنت المعلیٰ، مسجدِ جن، میدانِ عرفات، مسجدِ خیف، منیٰ، مزدلفہ، جبلِ نور، غارِ حرا، مسجد بلال وغیرہ لیکن بہت سی قریب اور کچھ دور زیارتیں، جو ہر دفعہ اسلام آباد سے نیت کر کے آتے ہیں وہ مقامی رہنما میسر نہ ہونے کے سبب رہ جاتی ہیں، مجھے پتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کا مکان کس گلی میں تھا کہ اتفاق سے حج اور دونوں مرتبہ عمروں کے دوران ہمارا قیام مسفلہ خلیل میں ہی رہا،یہ مبارک مکان زقاق صواغین نامی گلی میں تھا۔ اب اس کی جگہ مسجد بنا دی گئی ہے، ہم اس مسجد میں کچھ لمحے سانس لے کر اس زمانۂ نبوی کو محسوس کرنے کی سعی کر سکتے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حرم پاک جاتے ہوئے تیزی سے اس گلی کو دیکھ کر گزر جاتے۔ مسفلہ کا آغاز اسی مکان سے ہوتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اب وہ دو پتھر کہاں ہوں گے، جن میں سے ایک نے آپ کو سلام کیا تھا اور دوسرے کو آپ تکیے کے طور پر استعمال کرتے تھے، یہیں حضرت عائشہ ؓ کی پیدائش ہوئی،یہی وہ مکان تھا کہ جہاں سے آپ ہجرت کے لیے تشریف لے گئے تھے، حضرت اسما ء نے ذات النطاقین کا لقب پایا تھا کہ انھوں نے آپ کا توشہ باندھنے کے لیے کوئی کپڑا یا رسی نہ ملنے پر اپنے تہبند کے دو ٹکڑے کر کے استعمال کیا تھا۔

حضرت علی کا مکان بھی تو یہیں کہیں قریب ہی ہو گا، کہا جاتا ہے مولدِ نبویﷺ سے چوتھا مکان ان کا تھا، اب کہاں ہے وہ مکان؟ کہاں ہے وہ محلہ سوق الفیل؟کیا اس کے کوئی آثار کچھ باقیات محفوظ کی گئی ہیں ؟ پھر میری نگاہیں اس مقام کی بھی متلاشی ہیں کہ جسے ام المومنین کا مکان کہا جاتا ہے کہ جہاں آپﷺ کا قیام رہا۔ جہاں حضرت فاطمہ ؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت زینبؓ اور حضرت سید قاسمؓ ؓ کی پیدائش ہوئی، جہاں جبریلِ امین اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر حاضر ہوتے تھے، جہاں سے آپ غارِ حرا تشریف لے جاتے تھے اور نبوت کا بار اٹھائے آپ اسی مکان میں داخل ہوئے تھے۔ مجھے یہ مکان ضرور دیکھنا ہے، لیکن مجھے بتایا جا رہا ہے کہ حرم کی توسیع میں بہت کچھ ڈھانا پڑ گیا ہے، حرم کی توسیع میں یا … پھر مسجد جعرانہ بھی کبھی نہ دیکھ سکے صرف اس بنا پر کہ یہ حرمِ پاک سے نسبتاً دور ہے، مسجدِ عائشہ سے عمرے کا احرام تو ہمیشہ ہی باندھتے رہے ہیں لیکن مسجدِ جعرانہ کبھی نہیں گئے تو زیارات کروانے والے ہمیں وہاں ہی لے جائیں۔ جعرانہ کے کنویں کا پانی کہا جاتا ہے کہ بہت صحت بخش ہے، گردوں کی بیماری کے لیے خصوصی طور پر باعثِ شفا ہے، پھر منیٰ جاتے ہوئے مسجدِ خیف تو ہم دیکھ لیتے ہیں لیکن مسجدِ عقبیٰ، غارِ مرسلات اور مسجد الکوثر کی نشان دہی نہیں کی جاتی، شاہد کہتے ہیں حج کے موقع پر میں نے تمھیں مسجد الکوثر دکھائی تھی لیکن مجھے بالکل یاد نہیں۔ میں اسے نہ صرف دیکھنا چاہتی تھی بلکہ یہاں کچھ وقت گزارنا چاہتی تھی۔ سورہ الکوثر قرآن پاک کی سب سے مختصر سورۃ، مجھے یہ سورۃ بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ جو ستر ماؤں سے زیادہ شفیق اور مہربان ہے، اپنے ایک غمزدہ بندے کو، اپنے محبوب کو کتنے محبت بھرے انداز میں تسلی دے رہا ہے، اے محمدﷺ تو غم نہ کر۔ جو تجھے بے اولاد ہونے کا، تیرے نام لیوا کے نہ ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں، تو دیکھے گا کہ وہ سب نیست و نابود ہو جائیں گے۔ ان کا نام و نشان باقی نہ رہے گا اور تو، تیرا ذکر قیامت تک بلکہ اس کے بعد بھی باقی رہے گا، تمام نبیوں میں افضل اس نبی کی شان ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر شفقت بھرے انداز میں زخمی دل پر مرہم لگا رہا ہے۔

جنتِ معلیٰ سے بس گزرتی ہے تو کہہ دیتے ہیں۔

’’ بیٹھے بیٹھے ہی فاتحہ پڑھ لیں، یہ سڑک کے دونوں طرف جنتِ معلیٰ ہے۔‘‘

جتنی بے نیازی سے وہ کہہ دیتے ہیں … کیا ہم اتنی ہی بے نیازی سے وہاں سے گزر سکتے ہیں … جہاں ام المومنین حضرت خدیجہؓ آرام فرما ہیں، یہاں حضورﷺ کے اجداد کی قبور ہیں، یہ شمال کی جانب ایک مختصر سا احاطہ ہے، بڑے احاطے میں بہت سے صحابہ کرام کی قبریں ہیں … یہی وہ مقدس مدفن ہے کہ جہاں سے روز محشر ستر ہزار انسان اٹھائے جائیں گے اور انھیں بغیر کسی پرسش کے جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان میں سے ہر فرد ستر ستر ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ جن کے چہرے مہ کامل کی مانند دمکتے ہوں گے۔

مانا،مقامِ بدر تو دور ہے وہاں تو الگ سے ہی پروگرام بنا کر جایا جاسکتا ہے، لیکن دوسرے مقامات تو یہ ہمیں دکھا سکتے ہیں، اب انھیں اپنی مرضی کرنی ہے۔ دیکھے ہوئے مقامات ہی دیکھنے ہیں تو جا نا کیا ضروری ہے۔

خیال آیا کہ ہم روز سوتے ہیں جاگتے ہیں، وہی کھانا پینا، وہی روز کے معمولات لیکن ہر روز دوسرے سے مختلف تجربات لیے ہوتا ہے، دیکھے ہوئے ہر منظر کے پیچھے ایک نئی کہانی ہو سکتی ہے، کوئی نیا کردار لمحہ بھر کی ملاقات میں کوئی نیا سبق، زندگی گزارنے کا نیا ڈھنگ دے سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر ان مقامات کی دید کے ثواب سے کیوں محروم رہا جائے کہ جنھیں حضور پاکﷺ کی ذات مبارکہ سے نسبت رہی ہے۔ جس مٹی کو آپ کے قدمین شریفین چومنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے ہم بھی کیوں نہ ایک مرتبہ اور اس مٹی کو چھو آئیں، نمازِ فجر کے بعد زیارات کا وقت طے ہوا، نماز پڑھ کر آئے تو انتظامیہ نے اجازت دی کہ آپ جلدی سے ناشتہ کر لیں۔ ایک گرم دن میں ہم زیارات کے لیے جاتے تھے۔ اے سی بس میں بیٹھ کر بھی گرمی کی شکایت، زیارات کے سفر کی ابتدا دوسرے ہوٹل سے سواریاں اٹھانے سے ہوئی، میدانِ عرفات میں جبلِ رحمت کہ جہاں آپ نے حجۃ الوداع کا خطبہ دیا، ہمیں چلتی بس سے ہی زیارت کروانے کی کوشش کی گئی لیکن جب سبھی نے اترنے کی خواہش کی تو بس روکی گئی۔ میں اندازے لگاتی رہی کہ حج کے موقع پر ہم سارا دن کس طرف ٹھہرے ہوں گے۔ نیم کے درخت اور بلند ہو چکے تھے۔ عرفات کے میدان میں زائرین کی آمد و رفت جاری تھی لیکن جو عشق،جوش،ولولہ، خوف، ارتکاز،ذکر و اذکار اور دعاؤں کا زور، روز عرفات ہوتا ہے وہ بہت کم تھا۔ یہ خوشی اور اطمینان سب کو تھا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ان مقامات کو چھونے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے جو ہمارے دین حنیف کے اہم ستون ہیں۔ جمرات پہنچے،یہی وہ مقامات ہیں کہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی عزیز ترین شے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا۔

’’ یہ حکم تین رات تک مسلسل خواب میں ہوتا رہا۔ پہلی بار اشارہ ۸ ذی الحجہ کی رات کو ہوا۔ صبح اٹھے تو آپ مترددد تھے۔ آیا یہ خواب من جانب اللہ ہے یا شیطانی وسوسہ۔ اسی نسبت سے اس دن کا نام یوم الترویہ پڑا۔ دوسری رات خواب میں وہی حکم دہرایا گیا تو آپ نے پہچان لیا کہ یہ حکمِ ربی ہے اسی وجہ سے اس کا نام یومِ عرفہ مشہور ہوا۔ پھر تیسری رات بھی اسی قسم کا خواب دیکھا۔ چنانچہ صبح عزم بالجزم کر لیا کہ لختِ جگر کو ذبح کرنا ہے۔ اسی بنا پر اس کا نام یوم النحر ہوا۔‘‘ ۲؎

جبلِ نور کہ جسے غارِ حرا کو آغوش میں لینے کا اعزاز حاصل ہے، جبلِ ثور کہ جہاں مدینہ جاتے ہوئے آپ نے تین روز قیام کیا، پچھلی مرتبہ عمرے پر آئے تھے تو غار حرا اور غارِ ثور پر جانے کا ارادہ بھی تھا جو اللہ کے فضل و کرم سے پورا ہوا،اس مرتبہ نیچے سے ہی دیکھ کر یادیں تازہ کرتے رہے، لوگ ان مقاماتِ مقدسہ کی تصاویر خریدتے رہے۔

گائیڈ نے دو ڈھائی گھنٹوں میں تمام زیارات سے نبٹا دیا، نمازِ ظہر کے لیے حرم پہنچے، نماز کے بعد دو طواف کیے، ہمارا زیادہ وقت دوسری منزل میں گزرتا ہے، نماز پڑھنے کے لیے نیچے خواتین کے حصوں میں جگہ نہیں ملتی اور اگر نماز پڑھنا چاہو تو شرطیاں دھکیلتے دھکیلتے کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں، صلوٰۃ تسبیح اور نوافل وتسبیحات میں مصروف رہی۔

 

ایک عمرہ، ایک طواف اور

 

۱۴ مارچ، جمعرات کو ایک اور عمرے کے لیے بعد نمازِ فجرمسجدِ عائشہ پہنچے، اپنے سکوت و سکون کے باعث مسجد عائشہ مجھے بہت پسند ہے۔ ہم اشراق کے وقت سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ ہوا میں خنکی تھی۔ ہوٹل میں چائے پینے والوں کی لمبی قطار تھی کافی اور چائے کے گرم گرم کاغذی گلاس تھامے، کیک پیس لیے اس رش سے باہر نکلے اور کھلی فضا میں پتھریلے فرش پر بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ اس سے پہلے یہی کیا کرتے تھے کہ گھر سے ہی کوئی پھل بسکٹ لے آتے اور بس میں بیٹھ کر کھا لیتے،یوں عمرے کی ادائگی کے لیے بدن میں کچھ توانائی آ جاتی۔ اشراق کی نماز کے بعد احرام کے نوافل ادا کیے اور حرم پہنچے، اختر باجی اور بھائی خورشید کی روانگی کے دن قریب آتے جا رہے ہیں۔ جانے سے پہلے سبھی کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک عمرہ اور، ایک طواف اور کر لے، آج وہ بھی عمرہ کر رہے ہیں۔

 

ہے تیرے آستاں کے سوا، آستاں کوئی

 

حرم شریف پہنچتے،کبھی شاہد کہتے آگے آ جاؤ یا اگلے برآمدے میں چل کر بیٹھتے ہیں تو میں چلا اٹھتی ’’ آپ کو پتا نہیں۔ میری ٹانگیں اتنی دکھ رہی ہیں کہ میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتی، مجھ میں ہلنے کی بھی سکت نہیں ہے میں کہیں نہیں آ جا رہی، مجھے یہیں رہنے دیں۔ ‘‘ اور مزے کی بات یہ کہ میں جو بہ مشکل ٹیڑھی میڑھی چال چلتی حرم تک پہنچتی تھی اور اپنے مقام پر پہنچ کر ہلنا بھی نہیں چاہتی تھی، شاہد دوسرے ہی لمحے طواف کے لیے کہتے۔ بلکہ وہ نہ بھی کہتے، مجھے خیال آ جاتا کہ طواف کرنا ہے، تو میں فوراً اٹھ کھڑی ہوتی، میں آج تک حیران ہوں کہ اسی لمحے درد ہوا ہو جاتا، میں اوپر کی منزل کا طویل برآمدہ طے کر کے ایسکلیٹر سے حجر اسود کے سامنے اترتی اور شاہد صاحب پوچھتے ہاں بھئی چار طوافوں کی اکھٹی نیت کر لیں اور میں سر ہلا دیتی، مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ درد کہاں غائب ہو جاتا تھا۔ اللہ نے کرم کیا اکٹھے پانچ پانچ طواف بھی کیے۔ کیا مجال ہے جو کبھی ٹانگوں میں درد یا قدم اٹھانا مشکل معلوم ہوا ہو، میں اسے اللہ کا کرم ہی کہہ سکتی ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ میں میرا دل طواف میں بہت لگتا ہے، میرا بس چلتا تو میں فرض نمازوں سے بچا ہوا ہر لمحہ طواف میں گزارتی،نماز ظہر کے بعد تین طواف کیے۔

طواف کے پہلے شوط میں عموما ً پہلا کلمہ، دوسرے میں دوسرا، تیسرے میں تیسرا، چوتھے میں چوتھا، پانچویں میں استغفار، چھٹے میں آیت الکرسی اور ساتویں میں درود پاک پڑھا کرتی لیکن اکثر دعائیں یا ترتیب بدل بھی دیتی۔ طواف میں سبھی پیارے یاد رہتے، ان کے نام طواف معنون کرتی جاتی اور دعا کرتی رہتی کہ اللہ ان سب کو، ہم سب کو بار بار یہاں آنے کی توفیق عطا فرما۔شاہد کو زکام اور فلو نے پھر ستانا شروع کر دیا ہے۔ آج پھر سپٹران انٹی بائیو ٹک کا کورس شروع کیا، وہ کافی تکلیف میں ہیں۔ میں ظہر کی نماز کے لیے انھیں ہوٹل میں چھوڑ کر خود حرم پاک میں آ گئی ہوں۔ نماز کے بعد شاہد کا فون آیا کہ کہاں ہو؟ میں نے مقام بتا دیا انھوں نے بتایا کہ وہ باہر گھڑی کے پاس ہیں۔ میں ان کا انتظار کرنے لگی نہ جانے کتنی تسبیحات کے بعد وہ نہ پہنچے تو فون کیا معلوم ہوا وہ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ طبعیت خاصی خراب تھی لیکن آرام کرنے کے بجائے نماز پڑھنے حرم پاک چلے آئے۔ بڑی مشکل سے واپسی کے لیے آمادہ کیا۔ ہوٹل پہنچے عتیق کو علم ہوا تو تیمار داری کے لیے حاضر ہو گئے۔

 

آج سجدوں کی انتہا کر دوں

 

آج جمعہ ہے، جمعے کے روز قرب و جوار میں رہنے والے سبھی لوگوں کی خواہش حرمِ پاک میں نماز کی ادائگی کی ہوتی ہے عمرے کے احرام میں ملبوس خلقت طواف اور سعی میں مصروف ہے۔ سعودی عرب میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں میں پکنک یا سیر و تفریح کا کوئی تصور نہیں۔ انھیں دو گھڑی فرصت ملتی ہے تو عمرے کے لیے حرم پاک کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں، آج رات اختر باجی اور بھائی جان خورشید ایک ماہ کے بعد اپنے وطن روانہ ہو رہے ہیں، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دونوں نے صحت و تندرستی کے ساتھ تمام مناسک ادا کیے اور قلوبِ مطمئنہ کے ساتھ آئندہ حاضری کی تمنا لیے رخصت ہو رہے ہیں۔ فرض نماز،ہو یا سنت و نوافل، اس مرتبہ حفیظ ہوشیار پوری کے اس شعر نے مکمل طور پر اپنے حصار میں لیے رکھا، کاش اس شعر کی تاثیر سے ہی میرے سجدوں، میری عبادت میں کچھ ارتکاز، کچھ قبولیت کی نوید شامل ہو جائے۔سجدہ بندگی کی معراج ہے۔ اے اللہ میرے سجدے قبول کر لے میری سانس ٹوٹنے سے پہلے۔

ہر سجدے کو طول دے رہا ہوں

یہ سجدۂ آخری ہو جیسے

ہفتے کے روز مدینہ جانے کا ارادہ تھا، میں نے شاہد سے کہا کہ سارا سامان تیار ہے، یہ دو بڑے کرٹن اور ایک بیگ آپ عتیق کے پاس رکھوا دیں، مدینے میں ان کی ضرورت نہیں ہو گی تو انھیں یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ دل میں یہ ڈر بھی تھا کہ اختر باجی کہہ رہی تھیں کہ ان کے ہوٹل والوں نے کہا تھا کہ سا را سامان لے کر جائیں، ہمیں یہ کمرے کسی اور کو دینے ہیں، جمعے کی شام عتیق سے بات ہوئی۔

’’ شاہد بھائی …آپ فکر ہی نہ کریں میں ابھی کسی ورکر کو بلا کر آپ کا سامان نچلی منزل میں رکھوا دیتا ہوں۔ ‘‘ پچھلی مرتبہ بھی ہم اپنا سامان ان ہی باپ بیٹے کی تحویل میں دے کر ہلکے پھلکے مدینہ روانہ ہوئے تھے، الھدیٰ کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ آپ اپنا کوئی مسئلہ ان کے سامنے رکھیں، حتیٰ ا لمقدور اس کے حل کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

طیبہ کا سفر حقِ محبت کا سفر ہے

 

صبح سات بجے تیار رہنے کا حکم ملا، شاہد نے سامان اٹھایا اور نیچے ہال میں جانے لگے میں نے کہا۔ سات بجے کا کہا ہے لیکن سب کے اکٹھے ہوتے آٹھ بلکہ نو بج جاتے ہیں۔ آپ نیچے چلیں میں صلوٰۃ التسبیح پڑھ کر آ جاؤں گی، سو شاہد صاحب کے جاتے ہی میں نے نماز کی نیت کی، نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ ابو الکلام آ گیا کہ بسیں تیار ہیں، اب میں نے جلدی سے اپنا پرس اٹھایا اور کمرہ لاک کیے بغیر نیچے چلی آئی اور ہال میں دیگر لوگوں کے ساتھ بس کے انتظار میں بیٹھ گئی، کافی دیر بعد بس کے آنے کی نوید سنائی گئی، ہم بس میں پہنچے۔ اس مرتبہ بھی اگلی نشستیں ملیں، کوئی گھنٹہ بھر بعد بس کے چلنے کے آثار نظر آئے۔ مجھے یاد آیا میرا پیلا کپڑے کا بنا ہوا سمارٹ سا تھیلا موجود نہیں ہے، ا ب میں شاہد سے بار بار کہہ رہی ہوں میرا وہ بیگ لا دیں اور وہ کہہ رہے ہیں اب گاڑی چلنے والی ہے میں نہیں جا سکتا، ابو الکلام سے کہا لیکن وہ مسافروں کو بٹھانے میں مصروف تھا، اس نے وعدہ کر لیا کہ اگر کوئی تھیلا ملا تو وہ اسے سنبھال لے گا، سوا نو بجے بس روانہ ہوئی، سیاہ فام خاموش طبع ڈرائیور اپنے فن میں ماہر تھا۔ اس کی مہارت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ پوری رفتار سے بس چلاتے ہوئے سٹیرنگ کے ساتھ بنے سوراخ میں چائے کے گلاس کو بھی رکھے ہوئے تھا اور وقفے وقفے سے چسکیاں لیتا جاتا تھا، بایاں ہاتھ سٹیرنگ پر اور دائیں ہاتھ میں دعاؤں کی کتاب جو وہ انتہائی روانی سے قدرے بلند آواز سے پڑھتا تھا، چائے کی طلب ہوتی تو سٹیرنگ کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیتا، یہی روّیہ اس وقت اپناتا جب اسے موبائیل پر کسی سے بات کرنا پڑ جاتی، اب اس کی نگاہیں سڑک پر زیادہ ہیں یا کتاب پر یا چائے کے گلاس پر۔ اس کی زیادہ توجہ ڈرائیونگ پر ہے یا موبائیل پر… کچھ کہا نہیں جا سکتا، راہِ مدینہ کی سنگلاخ رنگ بدلتی چٹانیں، کبھی سیاہی مائل، کبھی بھوری، کبھی جھلسی ہوئی، کبھی سرخ، کبھی خاکی، کبھی پتھریلی، کبھی ریتلی اور کبھی بھر بھری…

بہت سے مقامات پر یوں محسوس ہوتا تھا کہ چھوٹے بڑے پتھروں کی بارش ہوئی ہے، ابابیلوں نے ابرہہ پر کنکریاں برسائی تھیں، یہ موٹے موٹے پتھر بھی برسائے گئے لگتے ہیں، لیکن ان کا تاریخ کے کسی واقعے میں کوئی ذکر نہیں … کہیں کہیں کھجور کے اور ایک دو مقامات پر کیلے کے درختوں کے جھنڈ بھی نگاہوں کے سامنے برق رفتاری سے گزرے، بہت تیز رفتاری سے سب مناظر کو پیچھے چھوڑتے ہم دیارِ نبیﷺ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لبیک کی جگہ سب درود شریف کے ورد میں مصروف ہیں، راستے میں مدینہ سے کچھ فاصلے پر کچھ دیر قیام کیا۔ نماز اور کھانے کے بعد پھر روانہ ہوئے، مکہ سے مدینہ تک ۴۱۸ کلو میٹر کا فاصلہ تمام ہونے کو ہے بقیہ سفر اس آس میں گزر رہا ہے کہ اب مینار نظر آئے کہ آئے، جتنی جلدمسجدِ نبوی و روضۂ رسول پر حاضری دینا چاہتے ہیں، اتنے ہی راستے طویل ہوتے جا رہے ہیں، ہم نہ جانے کب سے مدینے کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں، یہ بھی ایک اعزاز ہے لیکن اس وقت حضور کے آستانے پر حاضری دینے کی لگن ہے،آخر خدا خدا کر کے ایک سڑک پر بس رکی معلوم ہوا کہ اندر گلی میں جہاں اپنا سامان خود اٹھا کر جا نا ہو گا۔ دار الساعتی نامی ہوٹل میں ہمارا قیام ہو گا، سارے زائر بولتے، چیختے چلاتے وہاں پہنچے،ہوٹل مسجد نبوی سے دور تو تھا ہی اس کے علاوہ چار کمروں کے ساتھ ایک غسل خانہ۔ پھر کمروں کی حالت بھی نہ گفتہ بہ، سبھی چلانے لگے کہ پیسے ہم سے اے کیٹگری کے لیے ہیں اور رہائش یہاں … ہر گز قبول نہیں۔ ایک ایک کر کے سبھی زائر موبائیل پر جس جس سے بات کر سکتے تھے بات کر کے اپنا غصہ منتقل کر رہے تھے، ہمارا سارا زور عتیق پر ہی تھا اسے مسئلہ بتایا، اس نے کہا میں وہاں طیب صاحب سے بات کر لیتا ہوں، وہ آپ کا بہتر انتظام کر دیں گے۔ ہمارے ہاتھ طیب صاحب نہیں آرہے تھے، ہم۳۵۔۲ پر مدینہ پہنچے تھے،اور اب عصر کی اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی، سارے مسافر اپنا اپنا ساما ن اٹھا کر بہتر ہوٹل جا چکے تھے۔

 

اک میں کہ شوقِ دید کی دنیا لیے ہوئے

 

میں اور شاہد ایک ایک کا منہ دیکھ رہے ہیں، عصر کی جماعت کے نکلنے کا کتنا افسوس ہوا، بیان نہیں کیا جاسکتا، حاضری کے لیے جتنی جلد پہنچنے کی تمنا تھی، اتنی ہی دیر ہوتی جاتی تھی۔ اس مرتبہ تو بس سے بھی سبز گنبد دکھائی نہ دیا۔ طیب صاحب کے انتظار میں ایک ایک لمحے کے زیاں کا ملال نا قابلِ تلافی تھا، آخر وہی کارندہ جو تمام ہوٹل کی ایکولینس کا شور مچاتا،باقی زائرین کو دوسرے بہتر ہوٹلوں میں بھجوا چکا تھا اب ہماری طرف متوجہ ہوا اور اب ہم اپنا سامان خود اٹھائے اس کے پیچھے چلتے تھے، اس نے کئی ایک گلیوں سے گزار کر ہمیں جس فندق کے سامنے لا کھڑا کیا وہ دارِ ابو خالد تھا۔ جہاں پچھلی مرتبہ ہمارا قیام تھا، ہمیں تو کسی اس سے بھی بہتر قیام گاہ کی آس دلائی گئی تھی،لیکن اب ہمیں سوائے اس کے کچھ اور نہیں سوجھ رہا تھا کہ ہم اپنے سامان کو کہیں رکھیں اور عصر کی نماز با جماعت نہ سہی انفرادی طور پر ہی مسجدِنبویﷺ میں ادا کر لیں، یہاں ہمیں کمرہ نمبر ۴۱۱ دیا گیا پچھلی مرتبہ کمرہ نمبر ۲۱۱ تھا، جلد از جلد سامان رکھا۔ نہائے اور مسجدِنبویﷺ کی جانب دوڑے، وہی راستے،مسجد ابو ذر غفاری ہمارے پیچھے تھی۔ ذرا ہی آگے بڑھے تو مدینہ الکریم کی شیشیوں سے تعمیر شدہ عمارت نظر آئی، تیز تیز قدموں سے سڑک پار کی، اب ایک بہت اہم چھوٹی سی پیاری سی مسجد دکھائی دی، مسجد امام مالک، اس وقت اسے بھی آنکھ بھر کر دیکھنے کی فرصت نہ تھی اور ہمارے قدموں سے پہلے ہمارے دل احاطہ مسجدِ نبویؐ میں پہنچے، بابِ عثمان، وہی دروازے جہاں سے پچھلی مرتبہ داخل ہوتے تھے، صرف ایک کمی تب بھی محسوس کی اور اب بھی کہ یہاں سے گنبدِ خضریٰ نظر نہ آتا تھا، تحیۃ المسجد کے نوافل ادا کیے۔ نمازِ عصر کے بعد تسبیح و تہلیل میں مصروف رہی۔ مدیحہ، خالد،عائشہ،ایمان،عریشہ، حمیرا، نجم الحسن،عثمان، فیضان، فرح،بلا ل، عرش مان، ریان،سنان، طلال، صبا، عمائر اور فہد سبھی بچوں کی دین و دنیا میں کامیابی کے لیے دعا کرتی رہی۔

د رود و سلام پڑھتی ادھر ادھر کا جائزہ لیتی رہی، مغرب سے پہلے اپنے مقام پر واپس ہوئی مسجد میں اس کشادگی کا احساس اب بھی نہ ہوا جو حج کی مرتبہ ہوا تھا۔ اب اتنے لکڑی کے پارٹیشنز بنا دیے گئے ہیں کہ خواتین خود کو جکڑا ہوا محسوس کرتی ہیں۔

مجھے اپنے اس خیال پر ندامت محسوس ہوئی۔ حرم کعبہ کے بعد دنیا کی عظیم ترین اور وسیع ترین مسجد اور مجھے کشادگی کی بجائے تنگی کا احساس ہو رہا ہے۔ اس مسجد کا تصور کیا جائے جو کچی دیواروں، کھجور کے ستونوں اور کھجور کے پتوں پر استوار کی گئی تھی، کیچڑ سے بچنے کے لیے فرش پرسنگ ریزے بچھائے گئے تھے۔ جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی اور ان متقی اور مخلص لوگوں کی محنتوں اور محبتوں کا عجب سلسلہ کہ آج ہم اس عظیم الشان مسجد میں عبادت کے لیے موجود ہیں، حضورﷺ کی مدینہ ہجرت اور ابو ایوب انصاری کے ہاں قیام اور اس مسجد کا تاریخی تسلسل دیکھنا ہو تو بات ساڑھے چودہ سو سال نہیں، اس سے بھی کہیں پیچھے چلی جائے گی۔

 

تم ماہِ شبِ چار دہم ہو میرے گھر کے

 

مدینہ منورہ آمد پر آپ کی اونٹنی قصویٰ حضرت ابو ایوب انصای ؓ کے مکان پر ر کی تھی۔ آپﷺ نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے ہاں قیام فرمایا۔

اس گھر کی تاریخی حیثیت و اہمیت صرف اتنی ہی نہیں کہ آپﷺ مدینہ آمد پر اس مکان میں رہائش پذیر ہوئے بلکہ اس مکان کی اصل اہمیت تو اس سے کہیں زیادہ ہے افتخار احمد حافظ قادری اپنی کتاب ’’د یا رحبیب ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ اس مبارک گھر کی تعمیر شاہِ یمن تبان اسعد کلیکرب نے آپ کی ولادت پاک سے ایک ہزار سال قبل اس وقت کرائی تھی کہ جب کسی مہم کے سلسلے میں ان کا گزر اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ منورہ سے ہوا تھا، مدینہ میں قیام کے بعد جب روانہ ہونے کا وقت آیا تو چار سو علما کی جماعت نے جو ان کے ہمراہ تھی، بصد احترام مدینہ میں قیام کی اجازت چاہی، بادشاہ نے سبب دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہماری مذہبی کتب میں جس نبی کا ذکر ہے،جو محمدﷺ اور احمدﷺ کے نام نامی سے پہچانا جائے گا، یہ نبی صادق اسی مقدس شہر میں ہجرت کرے گا اور یہیں ان کا قیام ہو گا، ہم اس مقام پر اس لیے رہنا چاہتے ہیں کہ شاید وہ زمانہ یہی ہو، شاید ہم ان سے ملاقات کی سعادت حاصل کر پائیں، ان پر ایمان لا کر ہم دین و دنیا میں سرخرو ہو سکیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا زمانہ ہمیں نصیب نہ ہو لیکن ہماری نسل در نسل میں سے ہی کسی کو ان کا زمانہ پا جانے کا شرف حاصل ہو جائے اور وہ ان پر ایمان لے آئے تو ہم جانیں گے کہ ہماری عاقبت سنور گئی۔ بادشاہ جو مبہوت ہو کر یہ تمام واقعہ سن رہا تھا اور اپنے علما کے علم و فضل کا معترف بھی تھا، اس نے فی الفور یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھی یہیں رہ کر اس نبی صادق کا انتظار کرے گا۔ بادشاہ کے حکم سے چار سو مکانات کی تعمیر کا حکم دیا گیا، چار سو کنیزوں سے ان علما کا نکاح کیا گیا اور گزارے کے لیے خطیر رقم بھی عنایت کی گئی۔ بادشاہ نے حضور پاکﷺ کی خدمت میں ایک خط تحریر کیا اسے سونے سے سر بمہر کیا اور اپنے سب سے اہم عالم کے سپرد کیا کہ اس خط کو حضور پاکﷺ کی خدمت میں پیش کیا جائے اور اگر وہ ان کا زمانہ نہیں پاتا تو نسل در نسل وصیت کر جائے کہ جس کو بھی وہ مبارک عہد دیکھنا نصیب ہو وہ حضور اکرم کی خدمت میں یہ خط ضرور پیش کرے۔ خط کا مضمون کچھ یوں تھا۔

اے اللہ کے رسولﷺ میں آپﷺ پر آپﷺ کی کتاب پر ایمان لایا۔ میں نے آپﷺ کا دینِ بر حق قبو ل کیا۔ اگر مجھے آپﷺ کی زیارت نصیب ہو جائے تو یہ میری انتہائی خوش قسمتی ہو گی۔ اگر مجھے زیارت نصیب نہ ہو سکی تو آپﷺ روزِ حشر میری شفاعت ضرور فرمائیں اگر میری زندگی نے وفا کی اور میں نے آپﷺ کا عہد مبارک پا لیا تو میں آپﷺ کا وزیر بنوں گا اور تلوار لے کر آپﷺ کے دشمنوں سے مقابلہ کروں گا۔

شاہِ یمن کے انتقال کے کوئی ایک ہزار سال بعد آپﷺ اس دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔چالیس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں ترپن سال کی عمر میں اہلِ مکہ کے روّیے سے دلبرداشتہ ہو کر اس شہرِ مقدس کا رخ کرتے ہیں جو آپ کے لیے مقدر کر دیا گیا تھا، آپ کی آمد پر اہلِ مدینہ بے حد خوش ہیں لیکن سوچ میں پڑ جاتے ہیں اور مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قبیلہ انصار کی ایک نہایت ذکی و فہیم اور معزز شخصیت ابو لیلیٰ کو وہ تاریخی اور نہایت اہم خط دیا جاتا ہے۔ وہ اس خط کو اپنے ساز و سامان میں نہایت احتیاط سے چھپا کر رکھتے ہیں، جب ابو لیلیٰ آپ کی خدمت اقدس میں پہنچتے ہیں۔ آپﷺ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں۔تم ابو لیلیٰ ہو، وہ اثبات میں جواب دیتے ہیں، آپﷺ فرماتے ہیں تمھارے پاس میری ایک امانت ہے، میں شاہِ یمن کے خط کا منتظر ہوں۔ ابو لیلیٰ یہ ماجرا دیکھ کر حیران رہ جا تے ہیں، بے ساختہ ان کے منہ سے نکلتا ہے کہ آپ جادو گر تو نہیں، آپﷺ مسکراتے ہیں، نہیں میں محمد رسول اللہ ہوں۔ ابو لیلیٰ اپنے سامان میں چھپایا ہوا خط نکال کر آپﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ آپ حضرت ابو بکر صدیق ؓسے خط پڑھواتے ہیں اور ابو لیلیٰ کو نہایت عزت و تکریم سے خوش آمدید کہتے ہیں۔

تو حضرت ابو ایوب انصاری کا مکان کوئی عام گھر نہ تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری اسی عظیم عالم کی اولاد میں سے تھے،اس مکان کو ایک ہزار سال پہلے شاہ یمن نے آپﷺ کے لیے تعمیر کرایا تھا اور حضرت ابو ایوب انصاری اور ان کے آباء و اجداد صدیوں سے اس کی حفاظت پر معمور تھے۔ یہ وہ گھر ہے کہ جہاں حضرت جبرائیل اکثر و پیشتر وحی لایا کرتے تھے، جہاں قرآن پاک کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا۔

آپﷺ کی ہجرت مدینہ کے وقت اس مکان کے سامنے ایک قطعہ زمین دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا، آپﷺ نے وہ خرید لیا اور درخت کاٹ کر زمین ہموار کی گئی۔ مسجد کی بنیاد آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔صحابہ کرام ؓ کے ساتھ آپ نے تعمیر کا کام جاری رکھا۔ شمال کی جانب قبلہ کا رخ تھا۔ ۲ ہجری میں اس کا رخ تحویلِ قبلہ کا حکم آتے ہی کعبۃ اللہ کی طرف کر دیا گیا۔ دس سال تک آپﷺ نے اس کچی مسجدمیں امامت کرائی۔ فتح خیبر کے بعد حضورﷺ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر توسیع کرائی۔ بعد ازاں حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ، ولید بن عبدالملک،مہدی العباسی، سلطان اشرف قائت بائی، سلطان عبدالمجید عثمانی، شاہ الملک السعود، شاہ فہد بن عبدالعزیز، شاہ خالد بن عبدالعزیز، شاہ فہد اور ۲۰۰۵ ء سے اب تک شاہ عبداللہ حرمین شریفین کے توسیعی منصوبوں میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ مسجد نبوی کے گرد و پیش کی عمارتیں، ہوٹل، شاپنگ پلازہ اور بہت کچھ گرایا جاچکا ہے اور صحن مسجدِنبوی میں زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی سہولت کے پیش نظر توسیع کی جا رہی ہے۔

عشاء کی نماز کے بعداسی پاکستانی ریستوران میں گئے جہاں سے پچھلی مرتبہ کھانا کھایا کرتے تھے، ایک پلیٹ چکن،تین روٹیاں لیکن اب کے سلاد کی جگہ رائتہ کی کٹوریاں دی گئیں۔ کھانا لے کر دارِ ابو خالد آئے، شہر نبیﷺ کی میزبانی نے جی خوش کر دیا،مکہ مکرمہ کے مقابلے میں کھانا زیادہ بھی تھا، ذائقہ بھی بہت اچھا تھا اور قیمت میں بھی کم تھا،آخر نبی آخر الزماںﷺ نے ہم ہی لوگوں کے لیے دعا کی تھی۔

’’ اے اللہ ہمارے شہر میں ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما، بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام علیہ السلام تیرے معزز بندے، خلیل اور نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انھوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا فرمائی تھی، جبکہ میں تجھ سے مدینہ کے لیے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے مانند مزید بھی۔‘‘

اہل عرب کھانے پینے کے صرف شوقین ہی نہیں جدت پسند بھی ہیں۔ گوشت مرغوب غذا ہے۔ شاید اس لیے کہ ان کے پرکھوں نے شکار کے گوشت اور کھجور ہی کو اپنی خوراک کا لازمی جزو جانا تھا کہ یہاں اناج پیدا ہی نہ ہوتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نیک خصال بہو جب پہلی مرتبہ اپنے سسر سے ملتی ہیں اور ایک اجنبی مہمان کی تواضع گوشت اور کھجور سے کرتی ہیں، ساتھ معذرت خواہ ہوتی ہیں کہ یہاں اناج دستیاب نہیں، تو عہدِ قدیم سے ہی مچھلی اور گوشت ان کی مرغوب غذا رہی ہے۔ مکہ اور مدینہ کے ہوٹل انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرے پڑے ہیں، ہاں یہ فرق ہو چکا ہے کہ اونٹ، دنبے، بکرے اور گائے کے گوشت پر بوائلر مرغی نے فوقیت حاصل کر لی ہے اور سیخوں میں پروئی دہکتی آگ پر سلگتی سالم مرغی ہو یا تکہ کی صورت میں فروخت ہو رہی ہو، رش کا عالم دیدنی ہوتا ہے۔ عبد الحلیم شرر کے ناول مشرقی تمدن کا آخری نمونہ میں لکھنؤ میں کھانوں کی انواع و اقسام اور ماہرینِ فن کا تذکرے کے بیان میں قاری کے منہ سے کئی مرتبہ ناقابلِ یقین، حیرت انگیز کے الفاظ ادا ہوتے ہیں ذرا عرب امراء کی ضیافتوں کا احوال سنیے۔

’’… مولانا احمد علی لاہوری نور اللہ مرقدہ کا بیان ہے کہ ہمیں ایک مرتبہ شاہی دعوت میں شرکت کا موقع ملا، جس میں سیکڑوں آدمی مدعو تھے، کھانے کا انتظام ایک بہت بڑے ہال میں کیا گیا۔ جب لوگ اندر جانے لگے تو ہال کے وسط میں ایک اونٹ بیٹھا ہوا نظر آیا۔ تعجب ہوا کہ شاہی مہمان خانہ میں اونٹ کا کیا سروکار ؟ لیکن چند ہی لمحوں میں شاہی خدام چھریاں لے کر اس پر حملہ آور ہوئے اور اس کا پیٹ چیر کر ایک بکرا نکالا۔ بکرے کے پیٹ سے مرغ اور مرغ کے پیٹ سے تیتر نکالا اور یہ تمام چیزیں بڑی عمدگی سے روسٹ کی ہوئی تھیں۔ ‘‘ ۳ ؎

 

کہاں ہم اور کہاں یہ سر زمیں ہے

 

میں جو صبح بس میں بیٹھتے ہی شاہد سے کہہ رہی تھی کہ مدینہ ابھی کتنا دور ہے لیکن دل ایک سکون اور تسلی کی سی کیفیت میں آتا جا رہا ہے، جیسے ہم اپنے گھر جا رہے ہوں، ہم د نیا داری کے جھمیلوں میں گھرے ہوئے لوگ،جو دین کی صرف طلب رکھتے ہیں اس کے حصول کے لیے کوشاں نہیں ہوتے اور آج کا کام کل پر ڈالتے جاتے ہیں، شاید یہی بات کہ ہم تمنا تو رکھتے ہیں، نیت تو کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کر پاتے،اللہ کی بار گہ میں یہ دعا قبولیت کی منازل طے کر لے، ہم اس کے احکامات کی تکمیل کی صرف خواہش ہی نہ کریں اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ ندامت سے لبریز دلوں پر اپنے جود و سخا اور لطف و کرم کی بارش برساتا ہے۔ انھیں اپنے گھر اور اپنے محبوب کے در کا بلاوا بھیجتا ہے۔

مدینہ کی دوسری صبح اذان فجر کی آواز ابھی ہم ہوٹل میں ہی تھے کہ سنائی دی، یہ ایک سرد صبح تھی، سوئٹر اور شال کی موجودگی جسم کو سکون پہنچاتی تھی، مجھے بہت ڈر تھا کہ ہم سنت ادا نہیں کر سکیں گے اور جماعت کھڑی ہو جائے گی لیکن شاہد نے کہا کہ مسجد پہنچتے ہی سنتیں پڑھ لینا اس کے بعد بے شک اندر جگہ تلاش کر لینا، میں نے ایسے ہی کیا۔ ٹھنڈے صحن میں سنتیں پڑھیں اور فرض نماز کے لیے اندر داخل ہو گئی۔ کافی آگے جا کر جگہ ملی، ایسے لگتا تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے، شرطیاں آگے اور آگے کی جانب دھکیلے جا رہی تھیں اور وہاں کافی جگہ تھی، نماز کے بعد قرآن شریف کی تلاش شروع ہوئی۔ مسجدِ نبوی کے دس روزہ قیام میں معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک بڑا مر حلہ ہے، آپ جس قرآن پاک کو اٹھاتے ہیں وہ اہلِ عرب کے لیے ہے، ہندوستانیوں، پاکستانیوں کے لیے اعراب والے قرآنِ پاک آپ کی قسمت ہو گی تو ملیں گے ورنہ جتنا وقت آپ تلاوت کرنا چاہتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کی تلاش میں نکل جاتا ہے، اگر کوئی پاکستانی، ہندوستانی خاتون اس کی تلاوت کرتی نظر آتی ہیں تو آپ آس نہ لگائیں، کیونکہ ابھی انھوں نے اور اس کے بعد ان کی کسی ساتھی کو تلاوت کرنی ہے، اس کلامِ پاک کی تلاش میں مسجدِ نبوی کے اندر باہر کافی پھری، ایک خاتون کے ہاتھ میں دیکھ کر پوچھا ’’ یہ آپ نے کہاں سے لیا‘‘

’’ وہ سامنے ریک سے‘‘

’’اچھا میں بھی وہاں جا کر تلاش کرتی ہوں ‘‘

’’نہیں آپ کو نہیں ملے گا، میں تو کل رات وہاں قرآن پاک کی قطار کے پیچھے چھپا کر گئی تھی اس لیے مجھے مل گیا ہے۔ ‘‘

معلوم ہوا کہ’’ اردو والے ‘‘قرآن اول تو نسبتاً کم آتے ہیں دوسرے پاکستانی، ہندوستانی انھیں یہاں رہنے نہیں دیتے، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

صحن میں زائرین کو دھوپ کی شدت سے بچانے کے لیے چھتریاں تانی گئی ہیں جو بند ہوں تو چنبیلی کی نازک کلیوں کی طرح لگتی ہیں اور کھلی ہوں تو پھول بن کر ایک نہایت ہی خوب صورت منظر پیش کرتی ہیں لیکن اس وقت ان کا کھلا ہونا بہت کھل رہا تھا کہ گنبدِ خضریٰ ان کی اوٹ میں چلا گیا تھا، کافی احاطہ طے کرنے کے بعد اس جگہ پہنچے کہ جہاں سے منظر کھلا کھلا نظر آتا تھا اور سامنے ہی گنبد خضریٰ نظر آیا …

 

مکیں کو بھی آخر مکاں کھینچتا ہے

 

شاہد فاتحہ کے لیے جنت البقیع جانے کے لیے متعین مقام پر آئے تو ان کے کاندھوں پر گرم چادر نہ تھی۔ میں نے پوچھا ’’چادر کہاں گئی۔‘‘

’’ میں درود و سلام اور نوافل کی نیت سے ریاض الجنۃ کی طرف جا رہا تھا کہ ایک شخص نے پیچھے سے چادر کھینچی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو چادر کو مزید کھینچتے ہوئے کہنے لگا، ہدیہ… ہدیہ، اہلِ مدینہ، ہمسایۂ رسول،مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہوں، ابھی تو میں مدینہ آیا ہوں، سردی بھی بہت ہے، طبعیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے اسے اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک ہفتے بعد دے دوں گا اور قدم بڑھا یا، ابھی قدم زمین پر شاید رکھا بھی نہ تھا کہ نہایت سرعت سے یہ خیال ذہن میں آیا کہ ہفتے بعد میں اسے کہاں ڈھونڈوں گا، مسجد نبوی میں کیا گیا سوال … رد کر دوں۔ میں نے اسی لمحے چادر اتاری اور اس کے حوالے کی۔ ‘‘

اب ہم جنت البقیع کی سیڑھیوں پر پہنچ چکے تھے۔ شاہد کو تو جانے کی اجازت مل گئی نسا ممنوع کی آوازیں میرا رستہ روکتی تھیں، ایرانی خواتین کو پہلے تو جانے دیتے تھے اب کیا ہوا کہ ایک خوبصورت،تند رست و توانا لیکن عمر کی کافی بہاریں دیکھی خاتون ہاتھ میں دانہ لیے آزردہ کھڑی ہیں اور بزبانِ فارسی رودادِ غم کہتی ہیں کہ میں جنت البقیع میں کبوتروں کو دانہ ڈالنا چاہتی ہوں، مجھے جانے نہیں دے رہے، اسلام نے عورتوں کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے لیکن حرم پاک ہو یا مسجدِ نبوی، شرطوں کا سلوک خواتین کے ساتھ بہت کھلتا ہے، جنت البقیع ابتدا میں مسجد نبوی سے چند سو گز کے فاصلے پر ہو گا لیکن اب مسجد کے صحن میں ہی معلوم ہوتا تھا، دنیا کے اس عظیم ترین قبرستان میں جتنے خزینے مدفون ہیں۔ آج ساری دنیا کے مسلمانوں کی صفات مجتمع ہو جائیں تو بھی وہاں موجود ایک شخصیت کے برابر درجہ نہ حاصل کر پائیں گے، جنت البقیع کیا ہے ایک سپاٹ میدان جہاں چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ کر قبور کی نشان دہی کی گئی ہے ہے لیکن اس بات کا شعوری اہتمام کیا گیا ہے کہ زائرین کے علم میں نہ آسکے کہ کون سے مقام پر کون سی برگزیدہ ہستی آرا م فرما ہے، مختلف تاریخی کتب سے استفادے کے بعد اپنے اکابرین کی قبور کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے جو ضروری نہیں کہ درست ہی ہو، حدودِ اولیہ بقیع کے قریب حضرت عثمان غنیؓ آسودۂ خاک ہیں، حضرت امہات المومنین حضرت خدیجہؓ اور حضرت میمونہ ؓکے علاوہ تمام امہات المومنین حضرت سودہ،ؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت زینبؓ بنت خزیمہ ام المساکین،حضرت امِ سلمیٰؓ، حضرت زینب ؓ بنت حجش،ؓ حضرت جویریہؓ، حضرت امِ حبیبہؓ، حضرت صفیہ ؓبنت حیّ ابن اخطب یہ تمام ازواجِ مطہرات موجودہ جنت البقیع کے تقریباً درمیان اور ان سے کچھ فاصلے پر سید نا ابراہیم علیہ السلام، حضور پاک کے صاحبزادے، ان کے برابر میں حضرت امام نافع اور ان کے پہلو میں حضرت امام ابو مالک ؓ کی قبور ہیں۔ قریب ہی حضرت امام حسن، امام زین العابدین، حضرت امام باقر اور امام جعفر آسودۂ خاک ہیں۔ شارع اباذر کی طرف انتہائی دائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرا اور ان سے کچھ فاصلے پر اوپر کی جانب حضرت عباس،ؓ شارع اباذر کی بائیں جانب حضرت زینب ؓ، حضرت ام کلثومؓ، اور حضرت رقیہ حضورِ پاکﷺ کی صاحب زادیاں آرام فرما ہیں۔ شمالی حصے کی انتہائی جانب دیوار فعلی بقیع کی جانب حضرت ابو سعید خذری، حضرت فاطمہ بنتِ اسد ( والدہ حضرت علی) اور کچھ فاصلے پر حضرت بی بی حلیمہ سعدیہ آسودۂ خاک ہیں اور پھر ایک احاطہ ہے کہ جہاں کہا جاتا ہے کہ شہدائے احد مدفون ہیں۔

 

حیرتِ قریۂ امکاں

 

اور یہاں سے ایک نئی صورتِ حال سامنے آتی ہے، مجھے میرے اہلِ خانہ نے منع کیا کہ میں اس واقعہ کا تذکرہ نہ کروں کیونکہ یہ بات اگر حقیقت ہوتی تو تاریخ کی مستند کتابوں میں اس کا حوالہ ہوتا ……

۲۵، اپریل ۲۰۱۲ء جمعرات کا روز ایک عام دن نہ تھا، یہ دن خاص اس اعتبار سے ہوا کہ جناب نعیم الدین شیخ سے ملاقات تو حفیظ ہوشیارپوری کے سلسلے میں طے تھی، بے شک مجھے پنجاب یونی ورسٹی سے ۱۹۹۹ء میں ’’ حفیظ ہوشیار پوری،بیسویں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھنے پر ڈاکٹریٹ کی سند مل چکی ہے لیکن تحقیق کا عمل رکتا نہیں ہے، مقالے کی اشاعتِ ثانی کے لیے حفیظ کی شخصیت اور فن کے ان گوشوں کی متلاشی تھی جن تک میری رسائی نہ ہو سکی تھی، میں اسی سلسلے میں پروفیسر نائرہ قدیر کے گھر موجود تھی کہ جہاں میں حفیظ کے ماموں زاد بھائی شیخ نعیم الدین سے حفیظ کے بچپن، لڑکپن، تعلیم اور ملازمت کے ابتدائی دور کے بارے میں بات کر رہی تھی، لیکن نائرہ قدیر بار بار انھیں کہتی رہیں کہ چاچا جی کچھ اپنے بارے میں بھی بتائیں۔ مجھے بھی کہتی رہیں کہ چچا جان کی اپنی شخصیت بھی بہت قد آور ہے۔ نائرہ کے اصرار پر میں نے پوچھ لیا کہ آپ کی کیا مشغولیت ہے … اور پھر مجھے احساس ہوا کہ وقت کی تنگ دامانی کا گلہ شاید ایسے ہی موقعوں پر کیا جاتا ہے۔ جناب نعیم الدین شیخ کا مختصر تعارف حفیظ ہوشیار پوری کے ماموں زاد بھائی ہیں یہ تو مجھے معلوم تھا۔ آرٹی ٹیکٹ ہیں، ۱۹۷۰ء میں آرٹیٹکٹ کی ڈگری لے کر باہر چلے گئے۔ برطانیہ سے آرٹیٹیکچر اور اربن پلاننگ میں دو ماسٹرز کیے۔ یو این ڈی پی میں بھی کام کیا۔ اس وقت ریٹائر ڈ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

دورانِ ملازمت ان کے حصے میں ایک طویل عرصہ ایسا بھی آیا کہ جس کی تمنا ہر دل میں جاگتی ہے لیکن کسی کسی کی بختِ رسا ہی کامیابی کے زینے طے کرتی منزل تک پہنچتی ہے۔ مختصر یہ کہ ملازمت کا بڑا حصہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین شریفین کی تعمیرات … صفحۂ قرطاس سے معجز نما تعمیرات تک سب میں دیگر خوش نصیبوں کے ساتھ ساتھ نعیم صاحب بھی شریک رہے ہیں۔ یہ وہاں کی تعمیرات کے معیار کو جانچنے کے ایک کلیدی عہدے پر فائز تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ میری انتہائی خوش نصیبی ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کی ایک ایک اینٹ، ایک ایک پتھر،پر میں نے ہر ہر مرحلے پر ہاتھ پھیرا ہے۔ پلستر ہونے کے بعد، سفیدی ہونے کے بعد ہر مرحلے کے معیاری ہونے کا یقین نہ ہو جاتا، تب تک کارکنان کو میں اگلا کام شروع کرنے کی اجازت نہ دے سکتا تھا۔ اس زمانے میں میرے ہاتھ چھلے رہتے تھے کیونکہ تمام کام دستانے پہنے بغیر کرنا ہوتا تھا۔ وہاں بن لادن کمپنی فنِ تعمیرات میں اولیت رکھتی ہے۔ خانہ کعبہ و مسجدِ نبوی کی تعمیرات کی ذمہ داری انھی کے سپرد ہے۔ ان کے پاس خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کی ہر ہر مرحلے کی، تمام توسیعات کے نقشے محفوظ ہیں۔ اگر وہ یہ تمام کام نیٹ پر لے آئیں تو آپ جیسے شائقین کو بہت سے سوالوں کے جواب حاصل ہو جائیں۔ وہاں کراچی کی اے سی ای کمپنی نے بہت اچھا کام کیا لیکن ۱۹۸۰ ء کے بعد بن لادن نے ہی تمام تر ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نعیم صاحب کے کہا کہ مکہ مدینہ کا چپہ چپہ تاریخی ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ یہاں تاریخ کو محفوظ کرنے کی طرف سے مکمل بے اعتنائی برتی جا رہی ہے اور ہر صدی ہر عہد میں وہ آنکھیں بند ہوتی جا رہی ہیں جو کسی نہ کسی تاریخی آثار کی امین تھیں۔ اولین دور میں مدینہ کے آٹھ دروازے تھے۔ اب تو پورا مدینہ مسجدِ نبوی میں سما گیا ہے، لیکن آج بھی تمام اہم سڑکوں کے نام انہی دروازوں پر رکھے گئے ہیں۔ جب میری تقرری مدینہ شریف میں ہوئی تو مجھے وہاں کے ناظم نے کہا کہ نعیم کسی کی بات نہ سننا، مسجد نبوی کا وہ علاقہ جو اس کے قرب و جوار میں ہے، وہاں پاکستانی اور ہندوستانی ہوٹل سارا دن اونچی آواز میں کیسٹس لگائے رکھتے ہیں، ہرے کرشنا ہرے رام اور انھیں کچھ احساس نہیں ہوتا، جبکہ ہم مسجدِ نبوی میں تعمیری کام کر بھی رہے ہوتے ہیں تو اس بات کا یقین کر لیتے ہیں کہ شور نہ ہو اور اگر آواز نا گزیر ہو تو شہر سے باہر کارخانے لگائے گئے ہیں وہاں سے کام کر کے لاتے ہیں اور نصب کر دیتے ہیں اور اب سے نہیں چودہ سو سال سے یہی طریقہ ہے۔ چنانچہ ان ہوٹلوں کو مسمار کرنے کا کام، آپ بھی دیکھ رہی ہیں کہ ہمہ وقت ہوتا ہی رہتا ہے کیونکہ مسجد میں توسیع وقت کا تقاضا ہے پھر آپ کو یاد ہو گا حضور پاکﷺ نے فرمایا کہ اگر میری مسجد کو بڑھاتے بڑھاتے صنعا تک لے جاؤ تب بھی وہ میری ہی مسجد رہے گی۔ منصوبہ یہی ہے کہ مدینہ دو پہاڑوں کے درمیان پھول کی طرح کھلے۔

 

عجب اک سلسلہ ہے

 

مدینہ کے شمال میں تین چار کلو میٹر کے فاصلے پر احد پہاڑ ہے، جو شرقاً غرباً چار پانچ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے، لال رنگ کے اس پہاڑ کو جنت کا پہاڑ کہا جاتا ہے، احد حضورﷺ سے محبت رکھتا تھا، اس سے بہت سے معجزے بھی منسوب ہیں۔ نعیم صاحب کہتے ہیں، سن ۷۳۔۷۴ کی بات ہے، مدینہ میں بہت تیز بارش ہوئی،بارش کا یہ سلسلہ آٹھ دس دن تک لگاتار چلتا رہا، سیلاب کی شدت نے بہت تباہی پھیلائی۔ گاؤں کے گاؤں بہہ گئے، برسوں کی بنا ہوئی جائدادیں لمحوں میں ملیا میٹ ہو گئیں۔ لوگوں نے اذانیں دینا شروع کر دی۔ گڑگڑا کر دعائیں مانگی گئیں۔ مدینہ کے درمیان سے دو برساتی نالے نکلتے ہیں۔ آگے جا کر ان کی شکل انگریزی زبان کے حرفِ تہجی وائی سے ملتی ہے۔ ایک برساتی نالہ طائف سے نکلتا ہے لیکن مدینہ کے ہوائی مستقر کے باہر ایک جھیل ہے جب یہ بھر جاتی ہے تو برساتی نالے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دو سرا برساتی نالہ مقامی ہے۔ یہ تقریباً وہی جگہ ہے کہ جہاں احد کے شہدا مدفون ہیں۔ جبل الروما، چھوٹی پہاڑی، جہاں حضور پاکﷺ نے تیر اندازوں کو متعین کیا تھا اور انھیں جگہ نہ چھوڑنے کی سختی سے ہدایت کی تھی، تیر اندازوں نے اپنی فتح ہوتے دیکھی تو نیچے اتر کر مالِ غنیمت سمیٹنے لگے، کفار کے سپہ سالار خالد بن ولید نے موقع غنیمت جانا اور پلٹ کر بھرپور حملہ کر دیا، بہتر جلیل القدر صحابۂ کرام نے جامِ شہادت نوش کیا۔ حضور پاکﷺ اور تمام مسلمان اس غیر متوقع صورتِ حال سے بہت رنجیدہ ہوئے۔ شہدا کو وہیں جہاں وہ شہید ہوئے تھے، سپردِ خاک کیا گیا۔ تو ذکر ہو رہا تھا اس بارش کا جو اس واقعہ کے چودہ سو سال بعد ہوئی۔ لگتا تھا یہ سیلاب سارے مدینہ کو ہی بہا کر لے جائے گا۔ بارش رکی تو مدینہ کے چند لوگ شہرِ مدینہ کے باہر سے گزر رہے تھے کہ جہاں برساتی نالوں کا پانی آ کر گرا کرتا تھا، پانی اتر چکا تھا اور وہاں ایک ناقابلِ یقین منظر دکھائی دیتا تھا۔ کفن سمیت شہدا ء جن کے کفنوں پر تازہ خون مہکتا تھا وہاں پڑے تھے، یہ منظر دیکھ کر فوراً علما اور سرکاری عمائدین حرمین شریفین کو اطلاع کی گئی۔ وہ کتابیں لے کر فی الفور پہنچے اور ان کتب کی مدد سے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے شہدائے احد کے چہرے پہچانے جو اسی طرح ترو تازہ تھے جیسے یہ ابھی کا واقعہ ہو، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان شہدا نے آنکھیں بھی ملائیں تھیں اور پھر بند کر لیں۔ ان شہدا کو پھر احد لے جانے کی بجائے جنت البقیع میں دفن کیا گیا اور وہاں آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ ایک جگہ سفید رنگ سے تختہ پر ’’ شہداء ‘‘ کا لفظ رقم ہے۔ پہلا جمعہ آیا تو مسجدِ نبوی کے خطیب صاحب نے اسی موضوع کو قرآنی آیات کے حوالے سے بیان کیا کہ شہید زندہ ہوتے ہیں، انھیں مردہ مت کہو وہ زندگی رکھتے ہیں لیکن تمھیں اس کا شعور نہیں ہے۔

شاہد صاحب اس واقعے پر یقین کرنے کو تیار نہیں، اگر ایسا کچھ ہوا بھی ہے تو یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ شہدائے احد ہی ہیں، اگر ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو لازمی تاریخ میں اس کا ذکر ہوتا، اسی وقت دانش، سرمد،فارد ا ور شاہد نے نیٹ کھول کر تمام معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں، لیکن ایسا کوئی واقعہ نہ ملا۔ مجھے منع کیا گیا کہ ا یسی کوئی بات ہے یا نہیں ہے تم اسے شامل نہیں کرو گی، میں بضد تھی کہ واقعہ سنانے والی شخصیت کوئی معمولی نہیں ہے، پھر ان کی اجازت سے ان کے نام کے حوالے سے میں لکھ رہی ہوں، جو کتب میری دسترس میں تھیں انھیں بھی دیکھتی رہی، لیکن میں اس بات پر بھی قائم رہی کہ میں نے کہیں لفظ الشہداء لکھا ہوا دیکھا ہے، بڑے سے تختے پر سفید چاک سے، یہ یاد نہیں کہ یہ لفظ کہاں دیکھا ہے، کیا پتا میں نے بس میں بیٹھے ہوئے جب جنت البقیع کی جانب سے گزرے ہوں، وہاں دیکھا ہو، لیکن شاہد اور سرمد کو جنت البقیع میں اس طرح کے کسی بورڈ کی موجودگی یاد نہیں آ رہی۔ کتب کا مطالعہ جاری رہا۔

ڈاکٹر نگار کا سفر نامہ ’’دشتِ امکاں ‘‘ کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ کیا تو شاہد کی توجہ میں نے اس پیرا گراف کی جانب مبذول کرائی۔

’’ اس جنگ میں جو ستر صحابہ شہید ہوئے تھے، ان میں حضرت حمزہ بھی شامل تھے۔ جو سید الشہدا ( شہیدوں کے سرد ار)کہلاتے ہیں۔ رسول اللہ شہدائے احد کی زیارت کو ہر سال تشریف لے جایا کرتے تھے، پہلے حضرت حمزہؓ کو وادی قناۃ کے جنوب میں دفن کیا گیا تھا لیکن سیلابوں میں قبر کو بار بار نقصان پہنچا تو تقریباً تین سو سال بعد خلافتِ عباسیہ میں لاش کو موجودہ مقام پر منتقل کیا گیا، جو وادی قناۃ کے شمال میں کسی قدر بلند زمین پر واقع ہے، کہا جاتا ہے کہ منتقلی کے وقت لاش بالکل ترو تازہ تھی۔ ‘‘ ۴؎

شاہد نے کہا ’’ایک تو یہ ۱۹۷۰ و کی بات نہیں، صدیوں پہلے کی بات ہے، دوسرے لاش کو جنت البقیع میں دفنانے کا ذکر نہیں ہے۔‘‘

میں کوشش کر رہی ہوں کہ حقیقت کا علم حاصل کر سکوں۔ اسی سلسلے میں جناب عبد العبود کی کتاب تاریخِ مدینہ منورہ پڑھی صفحہ ۱۶۳ پر وہ رقم طراز ہیں۔

’’ شہدائے احد کی تدفین کے ۴۶ سال بعد ایک مرتبہ سیلاب کی وجہ سے سیدنا عمرو بن الجموع اور سیدنا عبدا للہ بن عمر کی قبریں کھل گئی تھیں۔ یہ دونوں انصاری غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے ان کے وجود اسی طرح ترو تازہ پائے گئے گویا کہ کل دفن ہوئے تھے۔ دونوں میں سے ایک نے ہاتھ زخم پر رکھا ہوا تھا اور اسی حالت میں دفن کر دیا گیا تھا۔ پس جب ان کا ہاتھ اس زخم سے ہٹایا تو چھوڑتے ہی فوراً زخم پر حسبِ سابق آ گیا۔‘‘

مجھے دیگر اصحاب کبار کی قبور کے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات ملتی رہیں لیکن مذکورہ شہدا ء کے بارے میں کوئی علم نہ ہو سکا۔

حضورﷺ کی پیدائش سے پہلے کی اس لحدِ مبارکہ کا مختصر ذکر سنیے۔

’’ آپ ( حضورﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ)کی قبرِ مبارک مدینہ منورہ میں ہی چودہ سو سال سے مرجع خلائق بنی رہی۔ جب سعودی حکومت نے مسجدِ نبوی شریف کے توسیعی پروگرام کے باعث آپ کی قبر اکھاڑی تو میت بالکل تر و تازہ اور صحیح سالم تھی آپ کی قبر کے قریب ہی دو صحابہ رضی اللہ عنھما کی قبریں بھی تھیں اور ان کی میتیں بھی بالکل محفوظ نکلیں۔ ان میتوں کو جنت البقیع میں سپردِ خاک کیا گیا۔ جنوری ۱۹۷۸ء میں پاکستانی اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔‘‘۵؎

لیکن یہ بات بھی اس سے نسبت نہیں رکھتی، یہ سیلاب کے سبب نہیں بلکہ مسجدِ نبوی میں توسیع کی بنا پر قبر کشائی کی گئی۔ اللہ کی حکمتوں کا سلسلہ انسانی فہم و ادراک سے بالا ہے۔ وہ جو اللہ کی راہ میں جاں سے گزرتے ہیں وہ زندہ ہیں، کھاتے پیتے ہیں۔ وہ اس دنیائے فانی کے نہیں کسی اور ہی دنیا کے باسی ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کوئی اور ہے۔ خود کو بہت سمجھاتی ہوں۔

حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو

لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی میری تلاش کا عمل جاری ہے شاید میں کسی دن حقیقت پا لوں کیونکہ یہ ماضی قریب کی بات ہے، اگر ایسا واقعہ ہوا ہے تو اس کے ابھی کئی چشم دید گواہ موجود ہوں گے،جو اس بات کی تائید یا تردید کریں گے، میں منتظر ہوں۔

 

شہرِ جبال

 

اسی نشست میں میرے اس سوال کے جواب میں کہ مکہ سے مدینہ کے سفر کے دوران پہاڑیوں کے رنگ اور ساخت تبدیل ہوتی رہتی ہے، اتنے انواع و اقسام کے پہاڑ ہیں کہ حیرت ہوتی ہے،حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ کی فرمائش پر جب کوہِ طور پر اللہ نے اپنی تجلی ڈالی تو وہ تاب نہ لاتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، تین ٹکڑے مکہ میں اور تین مدینہ میں جا گرے۔ مکہ میں جبلِ حرا، جبلِ ثبیر اور جبلِ ثور وجود میں آئے اور مدینہ میں جبلِ احد، جبلِ ورقان اور جبلِ رضوی۔ پاکستان میں بھی بے شمار اقسام کے پہاڑ موجود ہیں لیکن جو تنوع یہاں ہے وہ وہاں نہیں ہے۔

شیخ نعیم الدین صاحب کہنے لگے جبلِ ورقان مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے راستے میں ہے جبلِ رضوی ینبع میں اور جبلِ ثبیراور جبلِ ثور منیٰ میں ہیں۔ جبلِ حرا بیت الحرام سے کوئی ۴کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور غارِ حرا کے سبب زیادہ متبرک و مقدس جانا جاتا ہے۔

مدینہ کے شمال میں جبلِ احد، سرخ رنگ کا جنت کا پہاڑ، جنوب میں جبلِ عیر، کالے رنگ کا، جسے دوزخ کا پہاڑ کہتے ہیں۔ حضور پاک نے فرمایا۔’’ جبل احد ہمیں محبوب رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر ہے، جبکہ عیر بھی ایک پہاڑ ہے جو ہم سے دشمنی کرتا ہے اور ہم اسے دشمن سمجھتے ہیں، وہ جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر ہے۔ ‘‘

مشرق میں جبل الضباء ہے اور مغرب کی جانب جبل الجمعہ، یہ چاروں پہاڑ حدودِ دینیا کی وضاحت کرتے ہیں۔ جبل الجمعہ کے نیچے بے حد خوب صورت اور اہم مدینہ یونی ورسٹی ہے، جبلِ الجمعہ کے اوپر کی سطح بالکل ہموار ہے۔ یہ بہت اونچا ہے اور حدودِ دینیا سے باہر ہے۔ جبل سلع، جنگِ خندق کے سبب شہرت رکھتا ہے۔ یہاں ہی تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پانچ مساجد بنی ہوئی تھیں جنھیں مساجد خمسہ کہا جاتا ہے۔

’’ ہاں ۲۰۰۱ء میں حج کے موقع پر ہم نے یہاں نوافل ادا کیے تھے۔ لیکن ۲۰۰۸ء کے عمرے میں انھیں نہ دیکھ سکے۔ ان کی جگہ ایک نئی مسجد بنائی جا رہی تھی، ۲۰۱۲ء میں ایک بڑی مسجد تعمیر ہو چکی ہے، لیکن ہمیں اس میں نفل پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔ نہ جانے کیا بات ہے، جو جذبہ، جو محبت، ایک ایسا احساس جو ان مساجد، مسجدِفتح، حضرت سلیمان فارسی حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت فاطمہ … بے شک وہاں خاک اڑ رہی تھی، سیڑھیاں شکستہ،جائے نماز بوسیدہ تھے، نفل کی ادائگی میں جسم و جاں کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا، وہ اس عظیم الشان مسجد کے قرب میں مفقود تھا۔ ‘‘

’’ ہاں ایسا ہوتا ہے، ہمیں جو محبت اپنے آثار سے ہے، اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ آپ نے دیکھا ہو گا جبلِ سلع کے دامن میں سیاہ رنگ کا ایک قدرے چھوٹا پہاڑ ہے، جہاں حضورِ پاکﷺ کا خیمہ نصب تھا۔ جہاں سے آپﷺ تمام امور کی نگرانی فرمایا کرتے تھے، وہاں مسجدِ ذباب تعمیر کی گئی تھی، وہاں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔

شاہ فہد کی خواہش تھی کہ وہ مدینہ کے کسی بلند پہاڑ پر اپنا محل بنائیں تا کہ مدینہ شہر ا ن کی نگاہوں کے سامنے رہے۔ انھوں نے جبلِ احد کی تجویز پیش کی، علما نے اس کے تقدس کے پیشِ نظر اس تجویز کو رد کر دیا کہ جنت کے پہاڑ پر آپ کا محل دیکھ کر سب نا خوش ہوں گے۔ جبل عیر کے متعلق کہا گیا یہ دوزخ کا پہاڑ ہے، اس لیے یہاں بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ جبل ا لضباء حدودِ دینیا میں شامل ہے، شاہ فہد کا خیال تھا کہ ان سے ملاقات کے لیے غیر مسلم سربراہان اور وفود بھی آتے ہیں اس لیے اسے بھی مناسب خیال نہ کیا گیا۔ اب رہ گیا جبلِ الجمعہ، تو اس کی بلند ہموار سطح پر شاہ کے محل کی تعمیر شروع ہوئی۔ ظاہر ہے زرِ کثیر صرف کر کے ایک نہایت خوبصورت محل تیار کیا گیا جہاں شاہ فہد ایک ماہ قیام کیا کرتے تھے۔ رامپ کی شکل میں سڑک تیار کی گئی ہے،ایک طرف مدینہ یونی ورسٹی ہے اور دوسری طرف مدینہ کے شمال مغرب میں تبوک روڈ پر شاہ فہد پرنٹنگ پریس، دنیا کا سب سے بڑا پریس جہاں صرف قرآن کی طباعت ہوتی ہے اور ہر قوم کے لیے ان کی آسانی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قرآن طبع کیے جاتے ہیں، اہلِ عجم کے لیے رموزو اوقاف، زیر،زبر، پیش کے بغیر قرآن کی قرات ممکن نہیں ان سب امور کا خیال پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ ۶۸ بڑی زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ لاکھوں قرآنِ پاک، خود کار نظام کے تحت چھاپے جاتے ہیں۔ اردو کے علاوہ پاکستان کی علاقائی زبانوں پشتو، براہوی، سندھی اور بلوچی زبان کے تراجم والے قرآن پاک بڑی تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ بہترین کاغذ پر دس ملین سالانہ کی تعداد میں چھپنے والے یہ تمام نسخے ہدیتاً تقسیم ہوتے ہیں اور حرمین شریفین کے علاوہ مختلف مساجد میں رکھے جاتے ہیں۔ مسجد نبوی کے امام بابا حذیفی اس پریس کے ناظمِ اعلیٰ ہیں۔ بہترین قاری حضرات آڈیو کیسٹ تیار کرانے میں دن رات منہمک رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کنگ فہد گارڈن قابل دید تفریحی مقام ہے اسی طرح شاہراہ ہجرہ پر لونا پارک جو تین مربع میل سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے، اہل شہر اور باہر سے آنے والوں کے لیے اچھی تفریح گاہ ہے۔

اب اس پہاڑ یعنی جبل الجمعہ کی تاریخی اہمیت سنو۔ قیامت کے نزدیک جب دنیا میں مسلمان بہت کم رہ جائیں گے اور جو ہوں گے وہ زیادہ تر مدینہ میں ہوں گے، دجال ظاہر ہو گا اور اس کا قیام اس پہاڑ پر ہو گا۔ حکمِ خداوندی کے سبب وہ حدودِ دینیا میں داخل نہ ہو سکے گا، مکہ اور مدینہ کے علاوہ اس کی رسائی ہر شہر تک ہو گی، ملائکہ ان دونوں مقدس شہروں کی حفاظت کریں گے۔ وہ اپنی دولت کا لالچ دے کر مسلمانوں کو ورغلائے گا اور مسلمان پیسے کے لالچ میں اس کی طرف کھنچتے چلے جائیں گے۔ حدیثِ قدسی ہے۔ ’’ ہر وہ آدمی جس کا ایمان خالص نہیں ہو گا وہ مدینہ سے نکل جائے گا اور صرف مخلص مومن ہی باقی رہ جائیں گے، جن پر دجال مسلط نہیں ہوسکے گا۔‘‘

تو جناب شاہ فہد خادِ م حرمین شریفین غیر ارادی طور پر وہاں محل بنا بیٹھے ہیں جہاں دجال کو آ کر ٹھہرنا ہے۔

 

محبت کی زبان

 

روزانہ النساء بدون اطفال کے برآمدے سے گزر کر ہال میں پہنچتی لیکن آگے جانے کی بجائے سب سے آخری صفوں میں سے کسی تنہا جگہ کا انتخاب کر لیتی، کبھی فوراً ہی اور کبھی گھنٹوں میں وہ جگہ پر ہو جاتی، آج بھی میں لکڑی کے پارٹیشن کے ساتھ پچھلی صفوں کی جانب گئی لیکن وہاں مجھ سے پہلے ہی ایک گروپ بیٹھا ہوا تھا، چالیس سال سے لے کر پچاسی سال کی سات مصری خواتین کا یہ گروہ بہت ہی زندہ دل، تھا، محبت اور شفقت ان کے چہرے سے ٹپکتی تھی ان کی باتیں جو سمجھ میں نہ آتی تھیں خلوص کی خوشبو سے لبریز تھیں، آپس میں باتیں بھی کرتی تھیں، چہلیں بھی کرتی تھیں اور پھر یاد آ جاتا تھا کہ کس مقام پر ہیں، درود پاک کا ورد شروع کر دیتی تھیں، جو خاتون سب سے بزرگ تھیں انھوں نے کسی نعتیہ مثنوی کا آغاز کر دیا میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ مثنوی کی صنف تو ترکی،فارسی اور اردو شاعری میں رائج ہے یہ کوئی اور صنف ہو گی لیکن ہر دو مصرعوں کے بعد اگلا شعر کسی اور قافیہ میں ہوتا۔ اس سے مجھے محسوس ہوا کہ مثنوی یا مثنوی نما کوئی نظم پڑھ رہی ہیں اور دیگر خواتین مو ء دب سن رہی ہیں کسی کسی شعر پر ان کا ساتھ بھی دینے لگتیں، نظم کی طوالت انھیں تھکانے کے بجائے ایک نئے جوش و ولولہ سے ہمکنار کر رہی ہے، مجھے خالہ جی بے طرح یاد آئیں، وہ بھی اتنی ہی عمر یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ پکی روٹی،خالق باری، بوستانِ سعدی،بابا فرید، شاہ حسین، محمدی بیگم کی نعتیہ و حمدیہ شاعری،کلام اقبال۔ گھنٹوں کے حساب سے بغیر تھکے اور بغیر بھولے پڑھا کرتی تھیں، دادا جی صدر شعبہ فارسی، جی سی یونی ورسٹی، خان صاحب قاضی فضل حق، لاہور سے حاجی والہ، گجرات جاتے تو اپنے نام آئے ہوئے رسالے ساتھ لے جاتے پھر پنجابی دربار اور تہذیب نسواں گاؤں میں ان بچیوں کے نام لگوائے ہوئے تھے اور خالہ جی کے ذہن کا کیا کہنا کہ چار چھ سال سے لے کر اپنی جوانی بلکہ بڑھاپے تک جو بھی پڑھا حفظ ہو گیا اور اپنی زندگی کے آخری ماہ تک روز نئی سی نئی نعتیں، حمدیہ اشعار جو ان سے پہلے کبھی نہیں سنے تھے، وہ ان کی زبان پر گھنٹوں جاری رہتے۔ جیسے انھیں اپنے بہت بچپن کی باتیں یاد آتی جا رہی تھیں اور نئی باتیں کبھی کبھی ذہن سے محو ہو جاتی تھیں، ایک اور بات جو مجھے مشترک محسوس ہوئی اور حیرت انگیز بھی کہ ان خواتین کا لہجہ اور لحن مجھے پنجابی ز بان کے بہت قریب محسوس ہوا۔ وہ عربی زبان میں نعتیہ اشعار پڑھ رہی تھیں لیکن ایسے لگتا تھا کہ پنجابی زبان میں ادائگی کی جا رہی ہو، لسانیات کے آٹھ بڑے خاندان ہیں پہلا خاندان سامی کہلاتا ہے، جس میں آشوری، عبرانی، عربی و چند حبشی بولیاں شامل ہیں، جبکہ ہند ایرانی،آریائی زبان سے ہمارے برصغیر کی کئی زبانوں، جن میں ہندی، سنسکرت، فارسی، اردو اور پنجابی بھی شامل ہیں نے جنم لیا ہے، مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان زبانوں کا آپس میں کیا تعلق ہے، اگر ذرا فاصلے سے سنا جاتا تو یہی لگتا کہ کوئی پنجابی زبان میں نغمہ سرا ہے۔ ان میں تعلق کی کھوج تو کوئی ماہرِ لسانیات ہی لگا سکتا ہے، مجھے خیال آیا اکثر اسما سنسکرت سے عربی میں آئے ہیں۔ مصالحہ جات و خوشبویات کے نام مثلاً مشک، کافور، زنجبیل، صندل اور نارجیل وغیرہ، تو کہیں نہ کہیں دور پار کی زبانیں بھی لفظ ہو یا لہجہ، آمد و رفت کے سبب ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت بی بی حاجرہ کو فلسطین سے مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں تنہا چھوڑ گئے اس وقت وہ عبرانی زبان بولتے تھے۔ قبیلہ جرہم کی آمد اور پھر رہائش کے سبب باہمی اختلاط نے انھیں عربی زبان میں بھی رواں کر دیا۔ آپ کا لہجہ وہی تھا جو ڈھائی ہزار سال بعد قرآنِ پاک کا لحن قرار پایا۔… تو عربی زبان سے ہر مسلمان کے لیے خواہ وہ کسی خاندانِ السنہ سے تعلق رکھتا ہو، لا تعلق نہیں رہ سکتا۔

 

شجرِ محمدی کے پرُ بہار برگ و بار

 

بات ہو رہی تھی ان سادہ لوح سات خواتین کے گروہ کی جو تالیوں کے ساتھ بغیر کسی اتار چڑھاؤ کے بہت خلوص اور شیفتگی کے ساتھ مصروفِ ثنا تھا اور اسے باعثِ برکت جانتا تھا، جو تھوڑا بہت سمجھ میں آیا تو ان اشعار میں حضورﷺ کی صورت و سیرت کے علاوہ روضۂ رسولﷺ کا بھی ذکر تھا،ان کی نعت گوئی سے متاثر ہو کر میں ان کے پاس جا بیٹھی، انھوں نے بہت پیار سے خوش آمدید کہا، ان کے پاس بیٹھ کر نعتیں سنیں تو بہت اچھا لگا،امینہ، ہردیا، احسن، مدیحہ اور خانم کا والہانہ اندازمیں رسولِ پاک پر درود و سلام بھیجنا، بھلایا نہیں جاسکتا۔ اب ان کی ٹوکریاں کھلنے لگیں۔ کسی کی ٹوکری پھلوں سے بھری تھی۔ کسی کے پاس قسم قسم کی کھجوریں تھیں۔ ایک ٹوکری سے روزہ شکن کیک برآمد ہوا لیکن ظاہر ہے روزہ اتنا کچا نہ تھا، سبھی کچھ انھوں نے میرے سامنے ڈھیر کیا لیکن انھیں بتانا پڑا کہ روزہ ہے، جی تو چاہا کہ کہہ دوں میری پلیٹ بنا کر الگ کر دیں، افطار کے وقت کھا لیں گے، لیکن مروت کے مارے کچھ کہہ نہ سکی بہرحال انھوں نے میرے روزہ دار ہونے کو بہت سراہا۔ ظہر کے بعد روضہ رسولﷺ پر جانے کا مژدہ سنایا گیا۔ انتظار اس لیے برا محسوس نہیں ہوتا کہ اتنی دیر درود و سلام پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے، یہ احساس البتہ ہوتا ہے کہ کیا جب تھکن طاری ہونے لگے گی تب باری آئے گی۔ میری بار کیوں اتنی دیر کری، لیکن جب نوید سنائی جاتی کہ اب ہماری باری آنے والی ہے، تب بھی کئی قسطوں کے بعد، کئی مقامات پر پڑاؤ ڈالنے کے بعد، روضۂ رسولﷺ کے سبز قالینوں تک رسائی ہوتی ہے، ان سفید پھولدار قالینوں کی تو بات ہی اور تھی جو حج کے موقع پر ریاض الجنۃ میں بچھے تھے۔ بہر حال سبز قالینوں تک پہنچے، حضور اور ان کے پیارے رفیقوں کی خدمت میں سلام پیش کیا۔

حضورﷺ کا فرمانِ پاک ہے۔ ’’ جس مٹی سے مجھے پیدا کیا گیا ہے اسی مٹی سے ابو بکر ؓ صدیق اور عمر فاروق ؓ کو بھی پیدا کیا گیا اور پھر ہم اسی میں دفن کیے جائیں گے۔‘‘

یقیناً زمین میں اس سے پڑھ کر خزینے کہیں دفن نہیں۔ اسی لیے تو زمین کا یہ گوشہ جنت کا حصہ قرار پایا جو روز قیامت آسمان پر اٹھا لیا جائے گا۔

بھیڑ تو حسبِ معمول بہت تھی لیکن آج نصیب نے یاوری کی۔ حضور پاکﷺ اور ان کے عزیز ساتھیوں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر پر سلام بھیجنے کے بعد ملائکہ پر درود و سلام بھیجنا مستحسن ہے۔ الصلوۃ والسلام و علیک یا سیدنا جبرئیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل علیہ السلام…دل بھر کے نوافل کی ادائگی کا موقع ملا۔ لیکن ایک مقام پر نہیں۔ کبھی کسی ستون کے پاس تو کبھی کسی کونے میں۔ وہاں سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا لیکن نکلنا ہی ہوتا ہے۔ اب میں اسی کونے کی طرف جاتی تھی جو میری ذات کو تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود پناہ دیتا تھا۔

آج ۲۱ مارچ ہے۔ ڈاکٹر سیما اختر کو نوروز کی مبارک دینا میری خواہشات میں سے ایک ہے اور میں مبارک دینا یاد رکھتی ہوں۔ فجر، اشراق، روضۂ رسول پر حاضری کے بعد ہوٹل آتے ہی سب سے پہلا کام انھیں مبارک باد کا فون کیا۔ بہت خوش ہوئیں اور حیران بھی۔ فیڈرل ڈائریکٹریٹ محترمہ بی بی یاسمین کو فون کیا، ان کی جانب سے درود و سلام بھی پیش کرتی رہی تھی، ان سے بات کر کے بہت اچھا لگتا ہے۔ اللہ ان محبت بھرے دلوں کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔

 

کچھ بھی نہ کام آئے وہ کام زندگی کے

 

عرب سے تعلق رکھنے والی سیاہ فام لحیم شحیم خاتون جو صبح سے مسجدِ نبوی کے اسی حصے میں موجود تھیں، عصر کے لگ بھگ وہ اٹھیں اور جب باہر کا ایک چکر لگا کر آئیں تو ان کے ہمراہ کئی لڑکیاں ویلرز پر سامان کے بڑے بڑے تھیلے لیے اندر داخل ہوئیں، انھوں نے سامان ایک طرف رکھا، عصر کی نماز کے بعد ان خاتون نے غالباً پاکستانی زائر خاتون کو اشارہ کیا اور کچھ کہا۔ اب ان عربی خاتون نے سیپارہ زبانی سنانا شروع کیا اور وہ خاتون قرآنِ پاک کھول کر سنتی گئیں، وہ اپنے حفظ کی دہرائی کر رہی تھیں اور بہت کم انھیں لقمہ دینے کی ضرورت پیش آئی۔ مغرب سے ذرا پہلے اس عمل کو موقوف کیا گیا اور اب کھجوروں، برگر، بند، دہی، لسی اور نہ جانے کیا کیا ان تھیلوں سے نکلنا شروع ہوا، اور لوگوں کی ایک بھیڑ ان کے گرد اکٹھا ہونے لگی، اللہ جب کسی کو نوازتا ہے اور کشادہ دل عطا کرتا ہے تو ایسے مناظر سامنے آتے ہیں، وہ خاتون سبھی کو بانٹے جا رہی ہیں اور سامان میں کمی نہیں آ رہی جو وہ کسی سے معذرت کر لیں۔ میں اپنے طرز عمل کا، اپنی عبادتوں کا،اپنی مصروف زندگی کا جائزہ لیتی ہوں، اس زندگی کا، جس کے بارے میں بچوں کو ایک مرتبہ نہیں بے شمار بار کہہ چکی ہوں۔ ’’ میں نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی بیکار نہیں گزارا، حالانکہ یہ میرے اختیار میں تھا۔ میں بھی آرام سے سارا دن لیٹ کر ٹی وی دیکھتی، شاپنگ کرتی اور ٹیلرز کے پھیرے لگاتی رہتی، لیکن میں نے کوئی ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا ہے۔ ‘‘ اس سیاہ فام لیکن روشن چہرے والی خاتون کی حفظ کی دہرائی اور ان کی مدارات دیکھ کر اپنی زندگی کے رائگاں جانے کا افسوس ہونے لگا۔

جیسے جیسے مغرب کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ دسترخوان کی صفیں بچھتی جا رہی ہیں، روزہ کھلوانے والوں میں صرف مقامی ہی شامل نہیں ہیں، دیگر ممالک سے آئے ہوئے زائر بھی ثواب لوٹنا چاہتے ہیں، اذان کی آواز کے ساتھ ہی روزہ دار اور بے روزہ دار سبھی افطار میں شامل ہوئے اور چند منٹوں کے بعد پھر مسجد ایسے صاف ستھری تھی کہ جیسے یہاں سوائے عبادت کے کبھی کوئی اور کام نہ ہوا تھا نماز عشا کے بعد بھی روضہ رسولﷺ پر خواتین کو جانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن انتظار دو گھنٹے بھی کرنا پڑ جاتا ہے، اس لیے خواہش کے باوجود عشا کے بعد نہ رک سکی۔ جمعرات کو روزہ رکھنا حضور کو پسند تھا، روزہ رکھا اور نیت یہی کی کہ دن بھر مسجد میں رہوں گی عشا پڑھ کر ہی واپس آؤں گی۔ آج بھی ریاض الجنۃ میں جی بھر کر نوافل کی ادائگی کی سعادت نصیب ہوئی، میں گھر سے افطاری کے لیے کھجور اور سیب وغیرہ لے گئی تھی۔ آج میں نے اپنے کونے کو چھوڑ کر، کہ وہاں زیادہ ہجوم ہونے لگا تھا۔ ہال کے درمیان ایک ستون کے ساتھ اپنا ٹھکانا بنایا، یہاں ایک پاکستانی ماں بیٹی سے ملاقات ہوئی جو گذشتہ پچیس تیس سالوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں، ماں بیٹی کے رشتے کے لیے پریشان دکھائی دی، بچی سائنٹسٹ ہے اور کسی بڑے ادارے میں ملازم ہے، لڑکی بہت پیاری سی تھی اور ماں کی پریشانی کو حق بجانب سمجھتی تھی، پاکستان میں ہم پلہ رشتہ ملنا مشکل ہو رہا تھا اور انگلستان میں بھی امید کی کوئی کرن دکھائی نہ دیتی تھی، ماں پنجابی بولتی تھی یا انگریزی، لیکن اردو سمجھ لیتی تھی۔ابھی مغرب کا وقت نہ ہوا تھا کہ ایک عربی خاتون افطار کے ساز و سامان کے ساتھ آ کر برابر میں بیٹھ گئیں اور وہی تقسیم کا عمل شروع ہوا، مغرب کا وقت قریب آیا تو میں نے اپنے کھجور اور سیب نکالنے چاہے انھوں نے اتنے پیار سے منع کیا کہ آپ ہمارے ساتھ روزہ کھولیں، اللہ کی طرف سے بہت مزے دار افطار کا انتظام ہو گیا، حالانکہ پکوڑے سموسے موجود نہ تھے، کہ پاکستان میں ان کے بغیر افطار کا تصور ہی محال ہے۔

 

اعتکاف کی آرزو

 

جمعہ کے روز مسجدِ نبوی میں قرب و جوار سے لوگوں کا ازدحام قابلِ دید ہوتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جمعرات کو مغرب اور عشا کے بعد سے ہی صحنِ مسجد کی رونقیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں، یہاں چھٹی منانے کا تصور یہی ہے کہ عمرہ کر لیا جائے یا مسجد نبویﷺ میں نماز اور روضۂ رسول کی زیارت کر لی جائے، یقیناً چھٹی کا اس سے بہتر مصرف کوئی اور نہیں ہو سکتا،لوگ قرب و جوار سے مدینہ کھنچے چلے آتے ہیں، تمام اسلامی شہر تلوار کے زور سے فتح ہوئے اور مدینہ محبت سے مسخر ہوا۔ مسجد نبوی، روضۂ رسولﷺ، جنت کا باغ، ایک نماز ایک ہزار بلکہ پچاس ہزار نمازوں کے برابر، اسلام کا اولین دارالعلوم، اصحابِ صفہ کی قیام گاہ،چالیس نمازوں کی ادائگی پر جہنم کی آگ سے نجات کی نوید، پھر اگر مسجد میں داخلے کے وقت اعتکاف کی نیت کر لی جائے تو اس کا اجر و ثواب بے حساب … اپنا احوال کیا بتاؤں، اسلام آباد سے ابھی روانہ نہیں ہوئی تھی اور اللہ میاں سے وعدہ لے رہی تھی۔ ’’ اے اللہ تو میری حالت جانتا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ میں ہر مرتبہ مسجد میں داخلے کے وقت اعتکاف کی نیت کر نا بھول جاؤں گی تو اس ڈیڑھ ماہ میں میں جتنی مرتبہ بھی تیرے گھر میں داخل ہوں، میری اعتکاف کی نیت قبول فرما۔ ‘‘

 

کیا کچھ نہیں ہے محمدﷺ کے شہر میں

 

اسلام آباد سے شہرِ نبیﷺ میں تین روزے رکھنے کی نیت لے کر آئی تھی،کتنی برکتیں، کتنا اجر و ثواب، کتنے انعامات، لا محدود و بے حساب۔ آج جمعہ کا روزہ رکھا، نمازِ ظہر کے بعد روضۂ رسول پر جانے کا اعلان ہوا، اس مرتبہ بے شک پچھلی دفعہ کی طرح نظم و ضبط دکھائی نہ دیتا تھا لیکن دن میں دو مرتبہ بھی جانے کا اکثر موقع ملتا رہا اور نفل بھی خوب پڑھنے کو ملے، جمعہ کی وجہ سے بھیڑ زیادہ تھی۔ چھ نوافل پڑھ کر باہر آ گئی اور سبز قالین کی آخری حد پر کھڑے ہو کر دیدارِ روضہ پاکﷺ جتنا بھی سفید چادروں کے پیچھے سے نظر آسکتا تھا، کیا۔ درود شریف کا ورد کرتی رہی، پھر باہر آئی … کچھ جی ہی جانتا ہے کس دل سے آئے ہیں۔ سبز قالینوں سے متصل سرخ قالین پر دو ترکی خواتین نوافل پڑھ رہی تھیں میں بھی انھی کے برابر نفل نماز کی نیت کر کے کھڑی ہو گئی، ایک خاتون اپنی ساتھی سے کہنے لگیں کہ حضرت ابا بکر ؓاور حضرت عمر ؓ کے ایصالِ ثواب کے لیے نفل پڑھو، حضرت عمر فارو ق اور حضرت ابو بکر صدیق حضورِ پاک کی پسندیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے ان کی حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ ایک ایک عمل قابلِ تقلید ہے کہ انھوں نے نبی اکرمﷺ کے اتباع کو اپنی زندگی کا مرکز و محور قرار دیا تھا، اسلام آباد میں ترک دوستوں کی دوستی کے سبب ان کی باتوں کا مفہوم سمجھ میں آیا یا اس مقام کا اثر تھا۔

ثانی ء اسلام، و یارِ غار و بدر و قبر حضرت ابو بکر کی صدیقیت کی گواہی تو خود آپﷺ نے دی ہے۔

’’ پیغمبروں کے بعد دنیا کی تاریخ میں یقین کی جو سب سے بڑی مثال ملتی ہے وہ حضرت ابو بکر صدیق کی ہے اور اس یقین و استقامت میں ان کی صدیقیت کا راز پنہاں ہے۔ اہلِ بصیرت کا یہ کہنا بالکل حق ہے کہ ابو بکر پیغمبر نہیں تھے مگر کام انھوں نے پیغمبروں کا سا کیا۔ آج روئے زمین پر جہاں کہیں اسلام کا کوئی رکن ادا ہو رہا ہے۔ کوئی اسلامی شعار بلند ہے اور کہیں دین پر عمل ہو رہا ہے، اس میں حضرت ابو بکر صدیق کا حصہ ہے۔ آج نماز کی ہر رکعت، زکوۃ کے ہر پیسے، روزے کی ہر گھڑی، حج کے ہر رکن کے ثواب میں حضرت ابو بکر صدیق کا حصہ ہے۔ اس لیے کیا اگر زکوۃ کے بارے میں ڈھیل دی جاتی اور فتنہ ارتداد کے ساتھ روا داری برتی جاتی تو نہ نماز رہتی، نہ روزہ نہ حج۔ ‘‘ ۶؎

اسی مقام پر مجھے حضور پاکﷺ کی حدیث یاد آئی کہ اگر میرے بعد کوئی بنی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔کاش کہ امت مسلمہ کو اس دور کے خلفا کے قدموں کی دھول ہی نصیب ہو جاتی تو اس امت کا وہ حشر نہ ہوتا جو آج ہے۔

میں نے ان دونوں بزرگ و برگزیدہ ہستیوں کے ایصالِ ثواب کے لیے ان گنت نوافل پڑھے، جب تک کہ شرطیوں نے وہ جگہ خالی کرنے کا حکم نہ سنایا، آج صبح سے ہی بغیر وجہ کے دانتوں میں شدید تکلیف شروع ہو گئی، روزہ کھولتے ہی بروفن کھائی، اس مرتبہ خاصی دوائیں لے کر چلی تھی، ایوا مین، این سیڈ اور بروفن کام آئیں۔ بلال نے وکس دی تھی، وہ بھی کافی کام آئی۔ اسلام آباد سے شاہد کے لیے سیپٹران لینا بھول گئی تھی دبئی اور پھر مکہ اور مدینہ سے یہ دوا لینا پڑی تو پاکستان یاد آیا۔ شاہد کو کھانسی، زکام اور بخار کے سبب اس کے تین کورس کرنے پڑے، اگر مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں آپ کوئی نیکی کرتے ہیں تو اس کا اجر سات سو گنا بڑھ جاتا ہے، اسی طرح آپ کسی تکلیف کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں تو اس کی جزا بھی کئی گنا ہے۔ میں شاہد کی تکلیف محسوس کرتی ہوں، اس کا مداوا بھی چاہتی ہوں، اسے دور کرنے کے لیے دوا اور دعا کا سہارا بھی لیتی ہوں لیکن مجھے یہ خیال بھی ہے کہ میں وہ عبادت جو نہایت سکون سے کر رہی ہوں، وہ کتنی تکلیف اٹھا کر کر رہے ہیں، انھیں اس کی کتنی جزا ملے گی۔

 

مسجدِ قبا میں نوافل

 

میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہمیں ہر روز نمازِ فجر کی ادائگی کے بعدمسجدِ قبا جانا ہے۔ یہ ارادہ میں اسلام آباد سے کر کے چلی تھی لیکن تین دن تو روزے کی وجہ سے ہمت نہ کی کہ کہیں تھک نہ جائیں، یہ خیال نہ کیا کہ پیدل چلنے کی بجائے سواری لے لیں۔ باقی دن کبھی ٹھنڈ زیادہ ہے تو کبھی شاہد کی طبعیت کا خیال۔ بس یہی شکر ادا کرتی رہی کہ اللہ تعالیٰ نے خیریت سے یہاں تک پہنچا دیا ہے تو اب زیادہ کی حرص نہ کروں … لیکن اب بہت احساس ہو رہا ہے کہ صرف ایک مرتبہ مسجدِ قبا گئے جب ہوٹل والے زیارتوں پر لے کر گئے تھے، ان کے ساتھ مسجدِ قبا کا روز پروگرام اس لیے نہیں بن سکتا تھا کہ وقت بہت ضائع ہوتا تھا۔ ایک ایک فرد کے انتظار میں کتنی کتنی دیر بس میں بیٹھنا پڑتا تھا … اب سوچتی ہوں، کیا ہم روز ٹیکسی پر نہیں آ جا سکتے تھے؟ … صرف تین میل کا فاصلہ تھا، بہر حال جو نصیب میں تھا کیا، یہی کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجدِ نبوی میں گزارا جائے، واضح رہے کہ مسجد قبا جنوب مغرب میں تقریباً تین میل کے فاصلے پر بالائی بستی قبا اور عالیہ کے نام سے مشہور ہے، قبا در حقیقت ایک کنویں کا نام تھا جس کی نسبت سے اس بستی کو قبا کہا جانے لگا، حضورِ پاکﷺ نے یہاں دو نفل نماز کا ثواب عمرے کے برابر قرار دیا ہے۔ کھجوروں اور اناروں کے جھنڈ میں گھری مسجدِ قبا،اپنے باغات کی بنا پر اور زیادہ خوبصورت معلوم ہوتی ہے اس مرتبہ نچلی منزل میں ہی عورتوں کے لیے مخصوص شمالی حصے میں نوافل ادا کیے۔ میں جو ایک ہی مرتبہ میں تیس بتیس نفل پڑھ کر یہ امید رکھتی ہوں کہ پندرہ سولہ عمرے ہو گئے تو یہ میرا حسن ظن ہوتا ہے، حقیقت میں یہ سب ایک ہی عمرہ شمار ہوتے ہیں۔ اس مسجدکے حوالے سے حضور پاکﷺ سے ایک معجزہ بھی منسوب ہے۔

’’مسجدِ قبا کی جنوبی دیوار میں ایک گول سوراخ ہے،جسے طاقِ کشف کہتے ہیں۔ اس طاق کو نجدیوں نے بند کر دیا ہے اس طاق پر مہاجرین کو کھڑا کر کے حضور نے ان کے مکہ کے گھر والوں سے ملاقات کرا دی تھی اور باتیں تک کرا دی تھیں۔ ‘ ‘ ۷؎

 

زیاراتِ مدینہ

 

زیارتوں کا احوال بھی سن لیجیے۔ نمازِ فجر کے بعد زیارتوں کا پروگرام بنا۔ نکلتے نکلتے آٹھ بج گئے۔ وہی زیارتیں کر وائی گئیں جو گذشتہ دو اسفار میں دیکھ چکے تھے، بہت کہا کہ ہمیں میدان احد میں اپنی مرضی سے پھر لینے دیں، کچھ پہاڑوں تک جانے کی اجازت دے دیں لیکن ان کا ایک ہی جواب ممنوع، شرطے جرمانہ کریں گے اگر آپ ذرا بھی آگے پیچھے ہوئے۔ شہدائے احد کے مزارات پر فاتحہ خوانی کی۔ میدان احد تو ایک بازار کا روپ دھار چکا ہے۔ احد کی مسجد تو کہیں پس منظر میں چلی گئی ہے۔ حضورِ پاکﷺ نے فرمایا کہ سب سے پسندیدہ مقام مسجد اور سب سے بری جگہ بازار ہے۔ ہم سب میدان احد میں سجے بازار کے سامنے سے گزرتے تھے لیکن ہماری طرح شاید ہماری بس کے کسی زائر نے کوئی خریداری نہیں کی۔ ایک بات اور بتا دوں، خریداری نہ کرنے کی ایک وجہ اور بھی تھی، ہماری بس میں موجود گائیڈ کی چرب زبانی اور رفتارِ گفتار، ڈپٹی نذیر احمد کے کردار مرزا ظاہر دار بیگ کی یاد دلاتی تھی۔ انھوں نے جبلِ احد پہنچنے سے پہلے ہی تمام زائرین کو خبردار کر دیا تھا کہ یہاں سے کچھ نہ خریدیں، خاص طور سے سرمہ تو بالکل نہ لیں یہ سرمہ آنکھوں کے لیے باعثِ ضرر ہے۔ میرے پاس کوہِ طور کا اصل سرمہ ہے جو حضورِ پاکﷺ استعمال فرمایا کرتے تھے۔ وہ آپ کو اس سفر کے اختتام پر دیا جائے گا، پھر مدینہ منورہ کے تمام تر تاریخی مقامات کی سی ڈی بھی آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ کھجوروں کی خریداری کے لیے آپ کو کھجوروں کے باغات لے جایا جائے گا، اس لیے یہاں خریداری کی ضرورت نہیں ہے اور پھر وہ ہمیں کھجوروں کے باغات بھی لے گئے لیکن باغ میں گھومنے کی اجازت نہ تھی ہم صرف اس مختصر سے مسقف بازار میں جا سکتے تھے جہاں دس پندرہ کھجوروں کی دکانیں تھیں۔ عجوہ، صخرہ، برنی، صیحانی، عنبر، صفاویٰ، شبلی، کرۃ، برحی، حلوۃ، روثانہ، ربیعتہ، بیضی، قعقی، لبرنی، قلمی، مبروم، سخل ( بیدانہ) وغیرہ۔ پچھلی مرتبہ جس فیکٹری میں لے جایا گیا تھا وہاں کے تاجر میزبان زیادہ اور دکاندار کم معلوم ہوتے تھے، بہرحال کچھ اتنا مزا تو نہ آیا لیکن کھجوروں کی خریداری کافی زائرین نے کر لی۔

مختصر یہ کہ مسجدِ قبا، مسجدِ جمعہ، مسجدِ غمامہ، مسجد قبلتین اور مساجد خمسہ کی جگہ تعمیر کی گئی نئی مسجد پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے گئے، ۵ ہجری میں غزوۂ خندق پیش آیا۔ جبلِ سلع کے مقام پر پانچ اور بعض مقامات پر سات تحریر ہے جہاں جہاں حضور پاکﷺ اور ان کے مقربین کے خیمے تھے، نشانی کے لیے مساجد تعمیر کر دی گئی تھیں، حج کے موقع پر ۲۰۰۱ء میں ان پانچ مساجد میں نوافل کی ادائگی کا موقع نصیب ہوا تھا جو مسجد بند تھی اس کی دہلیز پر ہی نوافل پڑھ لیے تھے، ۲۰۰۸ء اور اب کے عمرے میں یہ نصیب نہ ہوسکا۔ سفید بڑی سی مسجد بنا دی گئی ہے،جس کی پارکنگ میں بے شمار گاڑیاں اور بسیں کھڑی ہیں۔ اس مسجد کو دیکھ کر کوئی جذبہ نہ بیدار ہوا جو حج کے موقع چھوٹی چھوٹی زیب و زینت سے دور انتہائی سادہ بلکہ کسی حد تک بے رحمانہ تغافل کی شکار مساجد کو دیکھ کر ہوا تھا۔ بوسیدہ اور دھول میں اٹے جائے نمازوں پر نوافل ادا کر کے ایسے لگا تھا کہ آج دین و دنیا کی لازوال دولت ہاتھ آئی ہے، یہ سعادت آخرت میں باعثِ نجات ہو گی۔

اس سفر زیارت میں جب بھی کہا کہ ہمیں مساجد اندر سے دکھا دی جائیں نوافل ادا کرنے کی مہلت دی جائے تو اکثر مقامات پر یہی جواب ملتا کہ یہ مساجد نماز کے اوقات میں کھلتی ہیں اس وقت بند ہیں۔ شکر ادا کیا کہ مسجد قبا میں نوافل کی ادائگی کی اجازت مل گئی تھی۔ سفر کے اختتام سے پہلے گائڈ نے بسوں میں سرمہ بیچنے والے … کی شکل اختیار کر لی، آواز دے کر طلب کیجیے، کئی زائرین نے سرمہ اور سیڈیز خریدیں۔ میں نے شاہد سے کہا کہ کھجور کے باغات والوں سے بھی اس کا کمیشن طے ہو گا۔ پھربس کے گائیڈ کی حیثیت سے بھی اس کی تنخواہ مقرر ہو گی اور اس کاروبار سے بھی کچھ نفع کما رہا ہو گا۔ اللہ اس کے رزق میں برکت ڈالے، لیکن اس کا بے وقوف بنانے والا انداز کچھ جچ نہیں رہا۔

 

کھجوریں مدینے کی

 

مدینے کی کھجوریں بانٹنا چاہتا ہوں لوگوں میں

مری عمرِ رواں گزرے اسی خدمت گزاری میں

(ریاض چوہدری)

میں اس کھجور کا ذائقہ کبھی نہیں بھول سکتی جو ۲۰۰۱ء میں مسجد قبا کے سامنے کھجوروں کی دکان سے شاہد نے دکان دار کی اجازت سے اٹھائی اور انگل بھر لمبائی کی اس ٹھنڈی میٹھی کھجور کا آدھا حصہ مجھے دیا آدھا منیر صاحب،عابد صاحب اور خود شاہد نے کھایا، میرے حصے میں آنے والی آدھی کھجور کے مزید تین حصے ہوئے، باجی صبیحہ منیر، فریدہ پراچہ اور میں … وہ ذائقہ نہیں بھولتا پچھلے عمرے پر اور اس مرتبہ بھی وہی فریز کھجوریں جنھیں پاکستان میں ڈوکے کہا جاتا ہے، خریدیں اور پرانی یادیں تازہ کیں۔ کہا جاتا ہے کہ قبا کی کھجوریں کبھی خراب نہیں ہوتیں، ان میں کیڑا لگتا ہے نہ یہ گلتی سڑتی ہیں نہ ان کا ذائقہ خراب ہوتا ہے۔

مسجد نبوی ہو یا حرم پاک، کھجور کی انواع و اقسام آپ کو کسی کھجور بازار جانے کی ضرورت نہیں، حرم میں ہی ملتی رہیں گی۔ بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کو کھجور یا کھجور کا حلوہ بیٹھے بیٹھے مل گیا۔ ایک روز خانۂ کعبہ کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ جمعرات کا روز تھا، پیر اور جمعرات کو روزے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ روزہ داروں کے لیے اور جنھوں نے روزہ نہیں بھی رکھا ہوتا ان کے لیے بڑی مقدار میں کھانے پینے کی اشیا لا کر تقسیم کرتے ہیں۔ میں دیکھتی رہی کہ ہر فرد جو بھی آ رہا ہے کھجوروں کے پیکٹ اس کے ہاتھ میں ہیں۔ جی چاہا میں بھی قدم بڑھاؤں اور جا کر کھجوریں وصول کر لوں لیکن نہ جانے کیا ہوا میں نے مناسب نہ جانا اور اپنے مقام سے ہلی نہیں۔ رات عشا کے بعد واپسی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ایک خاتون سفید شاپر میں کوئی تین چار کلو کھجوریں جو مختلف پیکنگ میں تھیں، کچھ کھلی تھیں، کچھ آبِ زمزم والے گلاسوں میں تھیں میرے آگے آگے جا رہی تھی۔ میں نے سوچا جو بڑھ کے تھام لے مینا اسی کا ہے۔ عمرے سے واپسی پر ایک روز سٹاف روم میں مدینہ کی کھجوروں کی بات ہو رہی تھی۔ میڈم ریاض کہنے لگیں میری ایک کزن حج پر گئیں تو وہ آ کر بتا رہی تھیں کہ وہاں تو کھجور خریدنے کی ضرورت ہی نہیں، اتنی کھجوریں تحفے میں ملتی ہیں کہ انہیں ہی اکٹھے کرتے رہیں تو دس بیس کلو تو ہو ہی جاتی ہیں۔ مجھے ان کی بات سن کر وہی خاتون یاد آ گئی اور میں نے انھیں کہا۔

’’ آپ کی کزن بالکل درست کہہ رہی ہیں میں خود اس بات کا مشاہدہ کر کے آ رہی ہوں، اگر انسان چاہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔ ‘‘

کہنے لگیں۔

’’ اور اگر اللہ چاہے تب ہی ایسا ہوسکتا ہے۔ میں تمھیں اپنے بھائی کا قصہ سناتی ہوں۔ وہ بھی میری کزن کی بات کو ذہن نشین کیے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں ایک روز میں خانۂ خدا میں عین حرم کعبہ کے سامنے بیٹھا تھا، مجھے کھجوروں کا خیال آیا میں نے سوچا، باجی تو کہتی تھیں کہ وہاں تودس بیس کلو کھجوریں ہدیہ میں مل جاتی ہیں۔ میرے اللہ میرا کیا نصیب ہے، اتنے دنوں میں مجھے تو کسی نے ایک کھجور بھی نہ دی۔ میں سامنے دیکھ رہا ہوں کہ آدمی دور سے چلتا ہوا آ رہا ہے۔ میرا خیال تھا میرے قریب سے گزر جائے گا لیکن وہ میرے قریب لمحہ بھر رکا، مسکرایا، میری ہتھیلی کھولی اس پر ایک کھجور رکھی اور مسکراتا ہوا چلا گیا۔‘‘

 

یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

 

کالج میں ایک روز بات ہو رہی تھی کہ مسجد نبوی میں دینے کے لیے سوٹ لے کر جاؤں گی کہ وہاں ایک عمل کا ثواب سات سو گنا زیادہ ہے، اب سبھی کو اشتیاق ہوا کہ وہاں تلاش کیسے کیا جائے گا کہ کس کو دینا ہے، تو میں نے بتایا کہ حج کے موقع پر آٹھ دن بعد جس روز ہماری روانگی تھی۔ میں وہ سوٹ جو بطورِ خاص مسجدِ نبوی میں دینے کی نیت سے سلوا کر لے گئی تھی اپنے مختصر سے تھیلے میں ڈالا ہوا تھا، نمازِ عصر پڑھ کر فارغ ہوئے تھے، یہ تو ذہن میں تھا کہ آج سوٹ دینا ہے، کسے دینا ہے یہ ابھی سوچا نہ تھا، میں اور فریدہ صحنِ مسجد میں مکہ کے سفر کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ ایک خاتون تیزی سے میرے پاس آئی اور کہنے لگی۔ وہ سوٹ دے دیں، میں نے تھیلے میں سے سوٹ نکال کر انھیں دے دیا، فریدہ حیران رہ گیئں کہ اسے کیسے پتا چلا کہ آپ کوئی سوٹ دینے کی نیت سے لائی ہیں، وہ ساری خواتین کو چھوڑ کر آپ کے پاس ہی کیوں آئی اور سوٹ ہی کیوں مانگا۔ دوسری مرتبہ عمرے کے موقع پر ایک خادمہ کو دیا، اب بھی اللہ نے چاہا تو کو ئی نہ کوئی مل ہی جائے گا،اب یہ تمام گفتگو ثمینہ رحیم سن رہی تھیں، انھوں نے وعدہ لیا کہ اپنے وزن میں کچھ گنجائش میرے لیے بھی رکھنا۔ دوسرے روز وہ دوگلاس، پلیٹیں اور مگ کے علاوہ ایک مردانہ سوٹ اور بہت سی جیولری لیے ہوئے آئیں کہ میری طرف سے مسجدِ نبوی یا حرم پاک میں کسی کو ہدیہ کر دیں، ایک روز میرے اس کونے میں جہاں میں مسجدِ نبوی میں قیام کیا کرتی تھی ایک فربہ اندام خاتون بھی آ کر فرو کش ہوئیں، انھوں نے نوافل پڑھے اور اس کے بعد درود وسلام پڑھنا شروع کیا پھر حمد و مناجات پر آ گئیں، قرآنی دعائیں بھی شامل تھیں، میں اپنا موازنہ کرنے لگی مجھے تو کوشش کے باوجود کچھ یاد نہیں ہوتا، وہی چند ایک سورتیں اور دعائیں جو بچپن میں یاد کر لی تھیں۔ ان پر ہی گزارا ہو رہا ہے، امی جی کو بھی ہر موقع کی دعا یاد ہوتی تھی۔ خالہ جی نے اپنے بچپن میں نہ جانے کیا کچھ حفظ کیا ہوا تھا،جو وہ سارا سارا دن پڑھتی رہتی تھیں اور دوبارہ اس دعائیہ شعر کی باری نہ آتی تھی۔ یہ خاتون بھی ایسے ہی معلوم ہو رہا کہ اس نے اپنا بچپن انہی دعاؤں، مناجاتوں کے ساتھ گزارا ہے، یادداشت کی بات تو ایک طرف۔ اس کا والہانہ انداز۔ جو کبھی شکر کا، کبھی صبر کا رنگ لیے ہوتا۔ کبھی دعائیں سرخوشی اور مسرت میں ڈھلی معلوم ہوتیں، کبھی شیفتگی اور جذب و عشق کا یہ عالم ہوتا کہ بے خودی میں وہ گھٹنوں کے بل ہاتھ بلند کیے ہوئے کھڑی ہو جاتیں، جب رسول اکرمﷺ کا ذکر کرتیں توایسے معلوم ہوتا کہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے ایک ایک لفظ پر فدا ہو رہی ہوں۔ یہ کوئی لمحہ بھر کا منظر نہ تھا وہ اس وقت تک دعاؤں میں مصروف رہیں، جب تک موذن نے اذان کہہ کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ کرالی، مجھے احساس ہوا کہ ثمینہ نے جو قیمتی انگوٹھیاں مسجد نبوی میں ہدیہ کرنے کے لیے دی ہیں۔ یہ خاتون سب سے زیادہ حق دار ہے، ان سے سلام دعا ہوئی۔ معلوم ہوا چیکوسلواکیہ سے تعلق ہے زیادہ بات اس لیے نہ ہوسکی کہ زبانِ یار من ترکی… ان کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا جو انھوں نے بہت خوشی سے قبول کیا، وہاں ایک روز میں نے ایک خادمہ سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی پاکستانی خاتون بھی تمھارے ساتھیوں میں ہے، کہنے لگی میں خود پاکستانی ہوں۔ انھیں ایک سوٹ ہدیہ کیا، بہت خوش ہوئیں۔ معلوم ہوا بہاول پور سے تعلق ہے، میں نے کہا سال دو سال بعد چکر لگتا ہو گا، کہنے لگیں بیس بائیس سال پہلے ماں باپ یہاں آ گئے تھے اب ہم یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں اور اور اپنی قسمت پر نازاں ہیں۔

 

دعاؤں کے دن ہیں …

 

ایک شام مسجد نبوی نماز مغرب کی ادائگی کے لیے منتظر تھی، دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا۔ اس مقام پر کون کون نہیں یاد آتا۔ اللہ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، میرے وطن کو، امتِ مسلمہ کو … یا اللہ پاک کر دے میرے دل کو نفاق سے اور عمل کو ریا سے… برابر میں ایک خاتون سوئی ہوئی تھیں جنھیں دیکھ کر مجھے اپنی دوست عذرا اصغر یاد آ گئیں ویسا ہی سرخ و سفید رنگ۔ ویسے ہی نقش اور قد و قامت، میرا خیال تھا کہ یہ ضرور ان کی بہن ہوں گی لیکن عذرا آپا نے اپنی بہن کا کبھی ذکر نہ کیا تھا، اذان کی آواز سے وہ خاتون جاگیں۔ اب انھوں نے پانی کی بوتل میں سے چلو بھر پانی لے لے کر وہیں قالین پر بیٹھے بیٹھے وضو کیا اور نماز کے لیے تیا رہو کر بیٹھ گئیں، بات چیت کی شوقین معلوم ہوتی تھیں۔ گفتگو کیا تھی انھوں نے اچھا خاصا میرا انٹرویو لے لیا، جب انھیں معلوم ہوا کہ دو چار چھ کتابیں لکھ چکی ہوں تو مصر ہوئیں کہ ان کتابوں کے نام لکھ دیں کراچی سے خرید لوں گی۔ مجھے معلوم تھا کہ انھوں نے کہاں خریدنا ہیں پھر میں کیوں اپنا وقت ضائع کروں، اتنی دیر میں تو ایک تسبیح پڑھ لیتی، انھوں نے بیٹی کے پرس سے کاغذ پنسل نکالی اور مجھے لکھنے کے لیے کہا، جب میں لکھ چکی تو کہنے لگیں بھئی ہم کیوں خریدیں گے یہ سب کتابیں تو آپ ہمیں تحفے میں بھیجیں گی، اس سے پہلے کہ اب وہ اپنا نام پتہ لکھنے پر مجبور کرتیں۔میں نے جگہ بدلنے میں ہی عافیت جانی۔ عذرا آپا یاد آئیں اور جمیلہ شبنم آپا یاد نہ آئیں، یہ ہو نہیں سکتا۔ دنیا میں آپ سے محبت کرنے والے ایسے دوچار لوگ ہی ہوں تو بھی دنیا رشکِ جنت ہو جائے۔ دونوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کی۔ ویسے بھی وہ ہمیشہ میرے ساتھ ساتھ ہی ہوتی ہیں۔

 

بڑا رتبہ ہے عشاقِ نبیﷺ کا

 

اتوار ۲۵ مارچ روضۂ رسول پر نوافل کی ادائگی کے بعد باہر آئی۔ اس مرتبہ یہ ہوا کہ ہمیں نوافل پڑھنے کے بعد باہر جانے کے لیے کہا جاتا تھا تو میں اپنی جگہ چھوڑ دیتی تھی اور اس راستے پر کہ جہاں سبز قالین بچھے ہوتے اور کسی ستون کے ساتھ لگی ہوئی کوئی خاتون نفل ادا کر رہی ہوتیں، تو میں منتظر ہوتی کہ یہ اٹھیں تو دو چار نوافل میں یہاں ادا کر لوں کہ دو انچ بعد تو ریاض الجنۃ کی مقدس و مبارک زمین ختم ہو جائے گی، خود کو یہ بھی تسلی دیتی کہ ساری مسجد سارا مدینہ مبارک و مقدس ہے، اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس مقام پر تقریباً روز ہی نوافل پڑھنے کا موقع مل جاتا، درود شریف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو جاتی، پھر شرطیوں کی آواز آتی تو خاموشی سے باہر نکل کر سرخ قالینوں کے حصے میں نوافل ادا کرتی یا النساء کے لیے مختص حصے کی جانب بوجھل قدموں کے ساتھ چل پڑتی، میرا ہی نہیں کسی کا بھی دل وہاں سے آنے کو نہ چاہتا تھا، اب میں عورتوں کے حصے کی جانب جا رہی ہوں۔ پارٹیشن کے ساتھ قالین لپٹے ہوئے ہیں۔ ان لپٹے قالینوں پر کچھ خواتین بیٹھی ہوئی ہیں، میں بھی جا کر بیٹھ گئی کہ سبز گنبد سامنے ہو اور درود پاک لبوں پر … ایسا موقع زندگی میں پھر آئے کہ نہ آئے، تو میں وہاں بیٹھ کر درود و سلام کی لڑیاں پرونے لگی، میرے برابر میں بیٹھی خاتون پنجابی زبان میں نعتیں پڑھ رہی تھی، میں سننے لگی تو انھوں نے آواز قدرے بلند کر لی، رفتہ رفتہ ان کے گرد مجمع بڑھنا شروع ہوا، نعت گوئی کس طرح دل کو گداز کرتی ہے، اسے سننے سے دل کیسے موم ہوتا ہے اشک آنکھوں سے کیسے رواں ہوتے ہیں، دل میں حبِ نبوی کی لہریں کس طرح ٹھاٹیں مارنے لگتی ہیں، معمولی سی آواز اور لحن لیکن کس طرح لفظ دل میں اترتے چلے گئے، سماں بندھ گیا، مجھے اپنی سوچ کے غلط ہونے کا احساس شدت سے ہونے لگا۔

کوئی دو سال پہلے حفیظ صاحب کے گھر ایک مشہور پیروں کے خاندان کی بیٹی/ بہو اور بیوی اپنی ساتھیوں کے ہمراہ میلاد شریف پڑھنے کے لیے آئیں، میلاد کے ختم ہونے کے بعد انھوں نے موجود تمام خواتین میں دعوتی رقعے تقسیم کیے اور کہا کہ ہمارے ہاں میلاد میں تشریف لائیے، ہر لفافے میں ان کا تعارفی کارڈ بھی موجود تھا۔ جس میں عمرے پر لے جانے کے متعلق معلومات کے حصول کے لیے مختلف فون نمبر بھی درج تھے اور زبانی بھی وہ اپنی کارکردگی بیان کر رہی تھیں کہ ہر ماہ کتنی زائر خواتین کو عمرے پر لے جایا جاتا ہے۔ رہائش اور کھانوں کی تفصیل وغیرہ وغیرہ، لیکن جب انھوں نے کہا کہ وہاں ہم نعتیہ محفلیں بھی منعقد کراتے ہیں، تو مجھے اچھا نہ لگا۔

’’ درود و سلام پیش کرنے کے بجائے یہ خواتین کو ان مختصر اور قیمتی ساعتوں میں میلاد کے جھمیلوں میں ڈال دیتی ہوں گی۔ بہتر نہیں کہ تمام خواتین مسجدِ نبوی جا کر نوافل، قضا نمازیں، قرآنِ پاک اور درود و سلام پڑھیں۔ نعت کی محفل تو وطن آ کر بھی سجائی جا سکتی ہے۔‘‘

پھر کچھ دنوں بعد ٹی وی پر ایک مستند عالم حج و عمرے کے لیے لے جانے والے سامان کی بابت بتا رہے تھے۔ سامان کی فہرست میں انھوں نے ایک ٹیپ ریکارڈر بھی، نعتیں سننے کے لیے، لکھوایا۔ میں شش و پنج میں پڑ گئی لیکن مسجد نبوی میں دو مقامات ایسے آئے کہ مجھے ان کی باتوں میں وزن معلوم ہونے لگا، ایک تو آج کی محفل… دوسری مرتبہ بھی روضہ رسول جانے کے لیے کئی منزلیں طے کرتے ہوئے اب ہم چھتریوں والے صحن میں پہنچے تھے۔ سامنے سبز گنبد کھلی چھتریوں کی درز سے اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ انتظار کی شدت کوفت میں ڈھلنے لگتی لیکن یہ کہہ کر خود کو سمجھایا جاتا کہ اچھا ہے، درود و سلام کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا جا سکتا ہے، میرے برابر بیٹھی خاتون نے مدھم سی آواز میں شعر پڑھا۔

اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا

جب وقتِ نزع آئے، دیدار عطا کرنا

شعر سن کر میں کانپ اٹھی۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ شعر دوبارہ پڑھیں، انھوں نے ذرا اونچے لہجے میں شعر پڑھا۔ اب جتنی دیر ہم انتظار میں بیٹھے رہے یہی شعر لبوں پر رہا، بے شک ذہن میں یہ بات بھی رہی کہ شاعر کہنا یہ چاہ رہا ہے کہ اے سبز گنبد والے بارگاہِ ایزدی میں میری اس دعا کی منظوری کی سفارش و شفاعت کرنا۔ ریاض الجنۃ میں نوافل سے فراغت کے بعد بھی میں اس شعر کے اثرات سے باہر نہ نکل سکی، جب خواتین کا مقررہ وقت ختم ہو جاتا ہے۔ جس راستے سے ہمیں واپس جانا ہوتا ہے۔ نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو وہاں سے سبز گنبد نظر آتا رہتا ہے،وہاں جتنی دیر موقع مل سکتا ہے ہم کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر درود و سلام پڑھتے رہتے ہیں۔ آج درود کے بجائے یہی شعر وردِ زبان رہا۔ حضور پاکﷺ سے وابستگی کا ایک انوکھا احساس بیدار ہوا۔ محبت کی ایک نئی کرن طلوع ہوئی اور خوشبو کے ایک نرم جھونکے نے اپنے حصار میں لیے رکھا، اب مجھے احساس ہوا کہ بے شک حج یا عمرے پر روانگی سے پہلے میں سرمد،فارد سے کہتی رہتی ہوں کہ نعتیں لگا دیا کرو۔ وہ اپنی مصروفیت میں کبھی لگا دیتے کبھی بھول جاتے، اور میں تو اتنا ٹیکنیکل بندہ ہوں کہ مجھے تو بیس تیس سال گاڑی چلاتے ہو گئے لیکن گاڑی کا ریڈیو۔ ٹیپ۔ سی ڈی پلیر لگانا نہ آیا … تو میں اسلام آباد میں تو خواہش کرتی تھی کہ نعتیں سنوں، لیکن مدینہ میں بالکل نہیں۔ ’’وہاں صرف درود پاکﷺ پڑھا جائے گا۔‘‘

آج مجھے احساس ہوا کہ درود پاک کے لیے ارتکاز کے ساتھ ساتھ دل کا گداز ضروری ہے جس میں ’’ نعت‘‘ کا بہت عمل دخل ہے۔ میں جتنے دن مدینہ رہی مجھے خواہش رہی کہ کوئی اور نعتیہ شعر سنوں، پڑھوں، لیکن ممکن نہ ہوا۔ اس نعت کے جو متفرق مصرعے یاد آئے وہ دنیا کے تمام ادب پر بھاری معلوم ہوئے، اندازہ ہوا کہ ہر تخلیق کی قد ر و قیمت قاری یا سامع کی اپنی ذہنی کیفیت اور گردو پیش کے ماحول سے متعین ہوتی ہے۔

 

تیری گلیوں میں پھروں، کون و مکاں کو دیکھوں

 

میں نے شاہد نے کہہ دیا تھا کہ نمازِ فجر کے بعد آپ گھر چلے جائیں۔ میں ریاض الجنۃ میں نوافل کی ادائگی کے بعد خود واپس آ جاؤں گی، اب میں بابِ عثمان سے باہر نکلی صحن مسجد طے کیا اور فندق دار التقویٰ سے گزر کر بڑی سڑک پرآ گئی نہ جانے کن خیالوں میں تھی کہ دائیں جانب مڑنے کے بائیں مڑ گئی، اب تسبیح پڑھتی جا رہی ہوں اور چلتی جا رہی ہوں نہ جانے کتنا فاصلہ طے کر لیا تو احساس ہوا کہ یہ سامنے جو پہاڑ نظر آ رہے ہیں، پہلے تو راستے میں نظر نہیں آتے تھے، سڑک کے دونوں جانب دیکھا تو سائن بورڈ بھی کچھ اجنبی اجنبی سے دکھائی دیے۔ سوچا کہ چلنا بند کروں اور غور و فکر کرنا شروع کروں۔ کہاں سے چلی تھی کہاں آ گئی میں … پھر سوچا غور و فکر کر کے دماغ کو مزید تکلیف کیا دوں۔ بیس تیس قدم اور چلوں گی تو شرطے اپنی گاڑی میں بیٹھے گپیں مار رہے ہیں۔ ان سے پوچھ لیتی ہوں، وہاں پہنچی۔ شکر ہے مجھے اپنے محلے کی ایک بلند و بالا اور مشہور عمارت کا نام یاد تھا ’’مدینہ ا لکریم‘‘ شرطوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ انھوں نے میری پشت کی جانب دور سڑک کی طرف اشارہ کیا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتے۔ میں انھیں حیران چھوڑ کر تیزی سے مڑی اور تیز تیز قدموں سے واپس ہوئی، کافی چلنے کے بعد مجھے وہ موڑ نظر آ گیا جہاں مسجدِ نبوی سے نکلنے کے بعد ڈیڑھ دو منٹ میں پہنچا جا سکتا تھا، ہوٹل پہنچی۔ شاہد نے کہا آج کچھ دیر ہو گئی۔ میں نے کہا

’’ہاں آج بھی راستہ بھول گئی تھی۔‘‘

اس’’ بھی ‘‘کی کہانی بھی سن لیں دو ایک مرتبہ پہلے بھی ایسا ہوا کہ مجھے اکیلے ہوٹل دارِ ابو خالد آنا پڑا۔ اپنے محلے تک بہت آرام سے پہنچ جاتی تھی بس گلی یاد نہیں رہتی تھی، تو سوچتی کوئی بات نہیں یہ نہیں تو اگلی گلی میں دارِ ابو خالد ہو گا کئی گلیاں گھومنے کے بعد بھی وہ نہ جانے کہاں چلا جاتا، اب میرے لیے آسان طریقہ یہ ہوتا کہ میں کسی طرح دوبارہ بڑی سڑک پر پہنچوں اور پھر نئے سرے سے سوچوں کہ ہم عموماً کون سی گلی سے آیا جایا کرتے تھے، اقبال عظیم کی جذب و عشق میں ڈوبی، قاری وحید ظفر کی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پڑھی ہوئی نعت کانوں میں گونجتی رہتی… ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے … ہم وہاں جا کر واپس نہیں آئیں گے، لوگ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائیں گے۔

 

تو میری ہر سوچ سے آگے

 

میں سوچتی ہوں میں طاعتِ لازمی اور طاعتِ متعدی کے کس درجے پر ہوں۔ طاعتِ لازمی تو یہ ہے کہ نماز، روزہ، حج، ادوار تسبیحات، ذکر اذکار وغیرہ، کہ جس کا اجر و ثواب صرف طاعت کرنے والے کی ذات تک ہی محدود رہتا ہے۔ دو سر ی ا طاعتِ متعدی، جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ میں اپنا تجزیہ کرتی ہوں تو بہت خوفناک نتائج برآمد ہو تے ہیں۔ جب طاعت لازمی میں مصروف ہوتی ہوں تو، دین کے ساتھ ساتھ دنیا بھی ہمراہ چل رہی ہوتی ہے۔ نماز، پڑھی جا رہی ہے لیکن، دھیان، چولھے کی طرف، فون یا دروازے کی گھنٹی کی جانب، بھولی بسری باتوں یادوں میں گم۔ یہ کیوں نہیں ہوتا کہ ہم اس مفہوم کو جان لیں کہ دین بھی ضروری، دنیاوی فرائض کی ادا ئگی بھی لازمی تو جب ہم دین کی طرف متوجہ ہوں، نماز، تلاوت، ذکر اذکار میں دن بھر میں ڈیڑھ دو گھنٹے کے لیے مصروف ہوں تو صرف اور صرف ایک جانب توجہ مرتکز رکھیں۔ ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے کہ جب دنیا کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں تو شرمندگی محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں جب اللہ کے نزدیک جاتے ہیں تو دنیا کی لازمی مصروفیات دماغ پر قبضہ کیے ہوتی ہیں۔

’’ ایسی نماز جو سمجھ کر نہ پڑھی جائے اور جس کو ادا کرتے ہوئے دل اور زبان میں مطابقت نہ ہو محض دکھلاوا ہے۔ ‘‘ یا اللہ دین و دنیا ساتھ ساتھ لیکن، توفیق دے کہ جس طرف متوجہ ہوں پوری دیانت داری سے کام کریں … دل کسی اور طرف دستِ دعا اور طرف… اس کیفیت سے وہی خالق و مالک نکال سکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ جو دلوں کا حال جانتا ہے۔

 

تو ربِ نطق و حرف ہے، مجھے بولنا سکھا

 

مسجد نبوی میں خواتین کے لیے نمازِ اشراق، نماز ظہر اور عشا کے بعد ریاض الجنۃ جانے کے لیے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، میں نماز فجر کے بعد کبھی آرام کی نیت سے ہوٹل چلی جاتی اور کبھی وہیں مسجد میں ایک سیپارہ پڑھتی اتنے میں اشراق کا وقت ہو جاتا نفل پڑھ رہی ہوتی تو، منتظمہ خاتون کی آواز بلند ہوتی کہ ریاض الجنۃ جانے کا وقت ہو گیا ہے تمام ہندوستانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی بہنیں اس کونے میں جمع ہو جائیں۔ میں وہیں کسی کونے میں نماز پڑھ رہی ہوتی، ان کا وعظ شروع ہو تا اور میں صلوۃ التسبیح کی نیت کر لیتی کیونکہ مجھے علم تھا کہ میری نماز تو بیس پچیس منٹ میں ختم ہو جائے گی ریاض الجنۃ جانے کی باری گھنٹا بھر سے پہلے نہیں آسکتی، میں نماز ختم کر لیتی، خاتون کی تقریر زور شور سے جاری ہوتی، شرک، بدعت کے الفاظ سے لبریز اس تقریر میں بار بار ایک بات کی تکرار ہوتی، مجھے پتا ہے میری بہت سی بہنیں آپ کو منع کرتی ہوں گی کہ میری باتیں نہ سنو یہ وہابن ہے وہابن … پھر حضرت داتا گنج بخش ہوں یا کوئی اور ولی اللہ، بے تکلف نام لے کر ان کے پیرو کاروں کے شرکیہ اور بدعتوں سے لبریز اعمال کا جائزہ لیا جاتا، محفلِ میلاد اور قرآن خوانی بھی ان کے مسلک میں بدعت تھی، وضو کے مسائل بتاتیں تو کہتیں مسح تو وضو میں شامل نہ تھا۔ نماز کا طریقہ ایک ہی ہے یہ عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ انداز بعد کی دریافتیں ہیں … ایک بات پر بہت زور دیا کرتیں ’’ مجھے بتایا جائے کہ سورۂ یٰسین پڑھنے کا کہاں حکم ہے، آپ صبح اٹھتی ہیں تو سورۂ یٰسین پڑھتی ہیں، شام کو پڑھتی ہیں اور تصور کرتی ہیں کہ اس کی تلاوت جنت کے حصول کا ذریعہ ہے، عذابِ قبر اور حشر کے حساب کتاب سے نجات کا باعث ہے، پھر عالمِ نزع میں آپ اس کا پڑھنا واجب سمجھتے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ یہ سب کہاں لکھا ہے، بدعتوں کو رواج دینا ہم نے اپنا شعار بنا لیا ہے، حضورﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کی وفات پر سورہ یٰسین پڑھی، کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں۔ حضورﷺ کی صاحبزادیاں اور صاحب زادے ان کے سامنے دنیا سے رخصت ہوئے انھوں نے تو کبھی سورہ یٰسین کی تلاوت نہ فرمائی۔ سورۂ بقرہ کی تلاوت کیا کیجیے۔ اس کی تاکید آئی ہے۔‘‘ وہ معلمہ اتنی شدت سے سورہ یٰسین کو ایک عمومی سورہ ثابت کرنے پر تلی ہوتیں کہ خوف آنے لگتا،بلکہ لگتا کہ ہم سورۃ یٰسین پڑھ کر نعوذ باللہ وقت ضائع کرتے رہے ہیں، لیکن کسی میں جرات نہ تھی کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالتا۔

لیکن میں سوچے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ اس سورۃ کو قرآن کا دل کہا گیا ہے۔ حفظ و امان میں رہنے کے لیے صبح و شام اس کی تلاوت کے لیے کہا گیا ہے، پھر احمد داؤد، و النسائی سے روایت ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے کہ جو شخص اس سورۃ کی تلاوت خاص اللہ کی رضا اور آخرت میں بھلائی کی نیت سے پڑھتا ہے اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، اس کو اپنے مردوں پر پڑھنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس مرنے والے کے قریب اس کی تلاوت کی جائے اس پر نزع کی سختی کم ہو جاتی ہے۔ اس سورۃ کو کئی خوبصورت اور مبارک اسما سے یاد کیا گیا ہے۔ آپﷺ نے اسے عظیمہ، معمہ یعنی دنیا و آخرت کی خیر و برکت میں اضافہ کرنے والی، قیامت کے روز شفاعت کرنے والی، مدافعہ یعنی بلاؤں کو دفع کرنے والی اور قاضیہ یعنی حاجات کو تکمیل بخشنے والی حضرت عبد اللہ بن زبیر بن عوام نے فرمایا کہ جو شخص اس سورۃ کے وسیلے سے اپنی حاجت پیش کرے اللہ اسے پوری فرماتا ہے، یعنی پانچ منٹ میں ہم جس سورۃ کی تلاوت کر لیتے ہیں، ہمیں دین و دنیا میں وہ کس قدر آسانیاں فراہم کرتی ہے۔ میں دل ہی دل میں ان کی تردید کرتی رہتی اور خود کو سرزنش کرتی رہتی کہ مجھے پنج سورہ لے کر آنا چاہیے تھا۔ جب بھی موقع ملتا تلاوت کرتی رہتی۔

پھر وہ سوال پوچھنے کی بھی بہت شائق تھیں، ’’ اوابین کی نماز کسے کہتے ہیں ؟‘‘ دو چار خواتین ہاتھ اٹھ کر جواب دیتیں۔

’’مغرب کے بعد جو چھ نوافل پڑھے جاتے ہیں انھیں اوابین کہتے ہیں۔‘‘خواتین کی لاعلمی پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہتیں۔

’’اوابین چاشت کی نماز کو کہتے ہیں جو دوپہر کو زوالِ آفتاب سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ حضورﷺ نے ہمیشہ اوابین کہا، انھوں نے کبھی چاشت نہ کہا۔‘‘ جی چاہتا کہہ دوں کہ وہ چاشت کہہ بھی نہ سکتے تھے کیونکہ عربی زبان میں ’’چ ‘‘نہیں ہوتا، لیکن ان کی باتیں خاموش بیٹھ کر سنتی رہتی اور اپنا دھیان درودِ پاک کی جانب لگانے کی کوشش کرتی رہتی۔

بہت سی باتیں ایسی ہوتیں کہ جی چاہتا، ان پر اپنی رائے دی جائے لیکن اس خاتون کے سامنے زبان کھولنا ممکن نہیں تھا،مجھے بہت احساس ہوتا ہے کہ میری زندگی میں بہت سے مقامات ایسے آئے ہیں کہ جہاں مجھے بولنا چاہیے تھا لیکن بہت سے سخن ہائے گفتنی فسادِ خو فِ خلق سے ناگفتنی رہ گئے پھر بھی میری دعا ہمیشہ یہی رہی کہ یا اللہ مجھے گفتگو کا سلیقہ دے۔

ظہر کی نماز کے بعد اسی طرح گروہ اکٹھے ہوتے۔ تین چار مقامات اس گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے وقفے میں بدلے جاتے یہاں تک کہ ہم روضہ رسول کے بالکل سامنے پہنچ جاتے دھوپ میں بیٹھے ہیں لیکن ابھی باری نہیں آئی۔ وعظ البتہ جاری ہے، میں عشا کے بعد گھر آ جاتی تھی لیکن سنا ہے کہ عموماً باری گیارہ بارہ بجے تک ہی آتی تھی۔

 

کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

 

عصر کی نماز کے بعد ارادہ کیا کہ گنبدِ خضریٰ کو ایک مرتبہ پھر دیکھ آؤں۔ کل مدینہ چھوڑنا ہے، پھر نہ جانے کب موقع ملتا ہے، کب بلاوا آتا ہے۔ یہ سوچنا نہیں چاہتی تھی کہ بلاوا آتا بھی ہے یا نہیں۔ کشفی صاحب یاد آئے جو کہا کرتے تھے کوئی ایسا سبب بن جائے کہ مدینہ میں ہی رہ جاؤں۔ پروین شاکر کو ہم نے کتنی جلد رخصت کر دیا، ہم کسی خواہش کی تکمیل پر قادر نہیں ہیں۔

میں تو تا عمر ترے شہر میں رکنا چاہوں

کوئی آ کر میرا اسبابِ سفر تو کھولے

مجھے بھی صبح ایک غیر معین مدت تک کے لیے رخصت ہونا ہے۔ میں رک نہیں سکتی۔ وقت کو بھی پہیے لگے ہوئے ہیں۔مجھے اپنی ایک ساتھی استاد فرح منیر یاد آتی ہے، جسے تین سال تک مدینہ کے پاکستان سکول میں تدریسی خدمات کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس نے یہ خوش خبری سب سے پہلے مجھے سنائی تھی میں کتنا خوش ہوئی تھی اور میں نے ا س کا بہت حوصلہ بڑھایا تھا۔ کبھی میرا بھی کوئی ایسا سلسلہ بن سکتا۔ ا نسان کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی۔ خود کو سمجھاتی ہوں، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اس نے بار بار بلاوا بھیجا۔ آئندہ بھی صحت و تندرستی کے ساتھ انشا اللہ بلائے گا۔ اب اس خواہش نے سر اٹھایا ایک مرتبہ کوشش تو کر لوں کیا پتا، جنت البقیع میں صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین واکابرین کی قبور پر فاتحہ کی سعادت ہی مل جائے۔ ورنہ شرطوں کی ایک ہی رٹ ہوتی ہے، نسا ممنوع … نسا ممنوع۔ میں بابِ عثمان کے دروازہ نمبر ۲۵ سے نکلی تھی، چلتے چلتے جنت البقیع کی سیڑھیوں تک پہنچ گئی لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، میرے خدا کوئی حد بھی ہے نارسائی کی… میں چند لمحے ان برگزیدہ ہستیوں، ان پاک روحوں کے درمیان سانس نہیں لے سکتی، اس خاک پر نگاہ نہیں کرسکتی جسے ان سب کو اپنی گود میں سمیٹنے کا شرف حاصل ہے۔ میں جانتی ہوں یہ میرا منصب نہیں ہے لیکن فاتحہ تو گنہگار سے گنہگار بھی پڑھ سکتا ہے۔ میں نے نیچے ہی کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی اور گنبدِ خضریٰ کو قریب سے دیکھنے کی خواہش میں درود شریف کا ورد کرتی آگے بڑھتی گئی۔ صحنِ مسجد میں تنی چھتریوں نے گنبد کو نگاہوں سے اوجھل کر رکھا تھا،اللہ اللہ کر کے بابِ جبریل طے کیا،گنبدِ خضریٰ پر نگاہ پڑی، تو جی چاہا کہ اس منظر کو اپنے دل و نگاہ میں ہی نہیں کیمرے میں بھی مقید کر لوں تاکہ جب جی چاہے دیکھ سکوں میں نے ہر ہر قدم پر تصاویر لینا شروع کیں۔ سامنے سورج ڈوبتا جا رہا تھا۔ صحنِ مسجد سے سورج کے لمحہ بہ لمحہ غروب ہونے کا نظارہ بھی ایک نئی چھب لیے ہوئے تھا۔ سبز گنبد کے ساتھ سفید نورانی گنبد آسمان کی وسیع و عریض بے کرانیوں میں دنیا کا خوبصورت ترین منظر پیش کر رہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر کے بعد ایک قبر کی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے محفوظ رکھی گئی ہے یہ سفید گنبد اس کی علامت ہے۔

 

سبز گنبد کی سلامی پر ہے نازاں آفتاب

 

شفاف نیلے آسمان پر کہیں کہیں سفید روئی کے گالوں کی مانند بادل جن کے کناروں پرسونے سے مینا کاری کی گئی تھی، گہرے زرد ہوتے سورج اور سنہری روشنی میں نہائے سبز گنبد اور اس کے پہلو میں سفید نفیس گنبد کو دیکھ کر خالقِ رنگ و بو کی قدرت دل پر مزید نقش ہو رہی تھی، اس کی صناعی کی داد ہم کیا د ے سکتے ہیں۔ لیکن وہ منظر میری آنکھوں میں ٹھہر گیا ہے۔ پاکستان واپس آئی تو ایک تحفہ منتظر تھا۔ ڈاکٹر ابو الخیر کشفی کے سعادت مند اور ذہین شاگرد، ڈاکٹر داؤد عثمانی نے کشفی صاحب کی نعت کے موضوع پر تحریروں کو یکجا کر کے ’’نعت شناسی ‘‘ کے عنوان کے تحت شائع کیا اور اس کا ایک نسخہ مجھے بھی عطا کیا۔ دورانِ مطالعہ ایک نکتہ ایسا بھی سامنے آیا کہ یادوں کا خزینہ کھل گیا۔ کشفی صاحب کے پیشِ نظر قمر وارثی کا نعتیہ مجموعہ ہے۔

’’ کہف الوریٰ ‘‘ کے مسودے کو میں نے کھولا تو یہ شعر سامنے آیا۔

اپنی منزل روز کر لیتا ہے آساں آفتاب

سبز گنبد کی سلامی پر ہے نازاں آفتاب

مجھے یقین ہے کہ قمر وارثی صاحب یہ شعر مجھے اپنے پھوپھی زاد بھائی محمد طلحہ جنید ی کی خدمت میں نذر کرنے کی اجازت دے دیں گے۔ غالباً ۱۹۸۵ء کی بات ہے کہ عمرے کے بعد ( ہم اکثر عمرہ انہیں کے ساتھ کرتے ہیں ) ہم طلحہ سلمہ ٗ کے ساتھ مدینہ شریف گئے۔ رمضان کا مہینہ تھا اور اس وقت تک حرم کا درمیانی صحن دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ درمیان میں سنہری جالیوں والے کٹہرے تھے اور وہاں بیٹھنے والے اور بیٹھنے والیاں گنبدِ خضریٰ کے نور سے آنکھوں کو منور کرتے تھے۔ طلحہ نے پہلے ہی دن کہا، بھائی جان اور بھابی عصر کی نماز کے بعد اسی صحن میں بیٹھا کیجیے تا کہ آپ گواہی دے سکیں کہ سورج گنبدِ خضریٰ کو کس طرح سلامی دینے کے بعد اپنے مستقر کا رخ کرتا ہے اور اس شام کے بعد سے آج تک سلامی کی گواہی میری قسمت میں ہے۔ ‘‘ ۸؎

میں نے سلامی دیتے سورج اور سبز دمکتے گنبد اور ساتھ ہی روشن سفید گنبد کی ان گنت تصاویر اتاریں۔ مغرب کی اذان نے مجھے متوجہ کیا کہ میں اب بھی اپنے مقام یعنی بابَ عثمان کے ۲۵ نمبر دروازے سے بہت دور ہوں۔ میری یہ خواہش بھی پوری ہوئی کہ میں مسجدِ نبوی کو چہار جانب سے دیکھوں۔ میں نے قریبی دروازے کے باہر موجود خاتون کارکن سے پوچھا کہ کیا میں یہاں سے داخل ہو کر اندر اندر سے بابِ عثمان تک پہنچ سکوں گی، انھوں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا کہ نماز یہیں ادا کر لیں بعد میں بابِ عثمان پر چلی جائیں، میں نے یہی کیا۔ اس روز میرا دل ایک انوکھی خوشی سے سرشار تھا، میں نے مسجد نبوی کے چہار جانب پھیلے آسمان اور زمین کو ہی نہ دیکھا تھا بلکہ مسجدِ نبوی نے ارض و سما کو جو عزت و احترام بخشا تھا، اسے بھی محسوس کیا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد دارِ ابو خالد آ گئے۔

مدینہ میں ہونا کیسا لگتا ہے؟ بہت اچھا… لیکن جب آخری روز ہو تو مدینہ سے رخصت ہونا کیسا لگتا ہے، اس کا جواب سبھی کو معلوم ہے۔ فجر کے بعد درود شریف پڑھتی رہی۔ پھر اس مقام پر آ کر درود شریف پڑھنا نصیب ہو گا یا نہیں۔ آقا کے محبوب شہر میں سانس لینے کا موقع ملے گا یا نہیں۔میری ادھوری تمناؤں کی تکمیل ہو گی یا نہیں۔ کسی سوال کے جواب میں کوئی شک شبہ، تشکیک، تذبذب نہیں، ہر سوال کا جواب اثبات میں ہے، کیوں نہیں انشاء اللہ بلاوا آئے گا، میں آؤں گی، ضرور آؤں گی، بچوں کے ساتھ، خصوصاً رائم تو ضرور ساتھ ہو گا۔ ابھی وہ بولنا بھی نہیں سیکھا تھا تب بھی اللہ تعالیٰ کے گھر سے اس کی انسیت قابلِ دید تھی اور اب جب وہ ماشاء اللہ پانچ برس کا ہو گیا ہے ہر نماز کے بعد اس کی دعا یہی ہوتی ہے۔ ’’ اے اللہ مجھے بابا کو، مامامی کو، ماما کو پاپا کو،نانا کو نانو کو… اپنے گھر بلانا‘‘ اس مرتبہ میں شرمندہ ہو تی رہی کہ رائم کی دعاؤں کے نتیجے میں ہمارا بلاوا آیا ہے اور اسے ہی ہم نہیں لے جا رہے … اللہ ہم سب کا بلاوا بھیج۔ آج ظہر کے بعد روانگی ہے، جتنا وقت مسجد میں گزارا جا سکتا ہے، اسے غنیمت جانتے ہوئے، ایک ایک لمحے کو صدیوں پر محیط کر دے کی دعا مانگتے ہوئے،روضہ رسولﷺ پر آخری حاضری کی نیت سے اردو بولنے والی بہنوں کے گروہ میں جا بیٹھی۔ آج انتظار کی گھڑیاں زیادہ طویل ہیں۔ مجھے تو آج پہلے جانے دیں میں تو رخصت ہو رہی ہوں۔ ان سب کی باری تو بار بار آتی رہے گی۔ مجھے ان ستونوں کی، ان جالیوں کی، ان محراب و منبر کی جو مجھے دکھائی بھی نہیں دیتے، ان اصحاب صفہ کے چبوترے کی، جہاں سے علم کا منبع جاری ہوا، کے قریب جانے کی آرزو ہے۔ اسلام میں مرد و عورت کو یکساں حقوق دیے، اس کی توقیر و تعظیم کی تلقین کی لیکن حرم کعبہ و حرم نبویﷺ میں آ کر مردوں پر رشک آتا ہے۔ ذہن انھی خیالات کے حصار میں اور ہونٹوں پر درود شریف، اندر جانے کی اجازت ملی۔ مجمع کیسے بے قابو ہوتا ہے، اس کا نظارہ یہیں کیا جا سکتا ہے۔ محبت حدود و قیود کو نہیں مانتی۔ کچھ یاد نہیں کتنے نوافل ادا کیے۔ کیا کیا دعا مانگی، عزرائیل صور پھونکیں گے اور دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی۔ ابھی شرطیوں کا آوازہ بلند ہو گا۔ وقت کے ختم ہونے کا بار بار اعلان سماعت پر ہتھوڑے کی طرح برسے گا۔ جنت سے نکلنا ہو گا، وہ جنت جس کی نوید میرے آقا نے دی تھی۔ اللہ نے اس مقام پر یہ سوچ ذہن میں ڈال کر بہت حوصلہ بخشا کہ مجھے ایک بار اور بلکہ بار بار یہاں آنا ہے، صحت و تندرستی کے ساتھ آنا ہے اور وہ سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ جو ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے اسے رہنما بنانا ہے۔ وہ دعا جو حرم پاک میں بھی اور دیارِ نبیﷺ میں سرِ فہرست رہی آج بھی لبوں پر ہے، مجھے آئندہ حاضری کا موقع دے تو میں اس قابل ہو جاؤں کہ امام حرمین شریفین جو تلاوت فرمائیں میں اسے سمجھ سکوں۔ میرے نبیﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے کسی دشمن کو بھی کبھی تکلیف نہیں پہنچی۔ میں اس کی ایک گنہگار امتی ہوں، عزت کی زندگی اور عزت کی موت کے علاوہ اگر میں کچھ اپنی ذات کے لیے مانگتی ہوں تو یہ التجا ہے کہ میری ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ دعاؤں اور درود کے لامتناہی سلسلے کے ساتھ ایک ایک قدم سبز قالینوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ حضور کتنے پیار سے تشفی دیتے ہیں۔ تم ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی درود و سلام پڑھو گی، تمھارا درود و سلام مجھ تک پہنچتا رہے گا۔

 

گم کردہ راہ

 

ظہر کی نماز کے فوراً بعد ہمیں تیار رہنے کا حکم دیا گیا تھا، نماز کی ادائگی کے ساتھ ہی دارِ ابو خالد پہنچے۔ نکلتے نکلتے حسبِ توقع دیر ہوتی گئی، اس افرا تفری میں کھانے کو جی نہ تھا اس لیے ہم نے نان روسٹ مرغی اور سلاد ساتھ رکھ لیا۔ مدینے کا سلاد جرجل، بند گوبھی اور پیاز کے دو تین ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جرجل تو مجھے اتنا پسند ہے کہ اسلام آباد آنے کے بعد ایک بڑی کیاری اس کے لیے وقف کر دی ہے۔ مشروب کی بوتل دکان پر ہی بھول آئے میرا خیال تھا کہ اب کہاں ملے گی لیکن جاتے جاتے سوچا کہ پوچھ ہی لیتے ہیں۔ دکاندار نے کہنے سے پہلے ہی پیش کر دی، بس چلی۔ تمام زائر احرام کے لیے مسجدِ ذوالحلیفہ،بیر علی پہنچے، جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں نو کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ بس سے اترے شاہد مسجد کے مردانے حصے کی طرف جانے لگے تو مجھے کہا کہ اچھی طرح بس اور جگہ پہچان لو۔ نفل پڑھنے کے بعد سیدھے یہیں آ جانا۔ آج انھوں نے کچھ زیادہ تاکید کی تھی۔ آج راستہ بھولنا یقینی تھا، پتا نہیں کتنا چلنے کے بعد غسل خانوں کا سراغ ملا، پھر نماز کے لیے عورتوں کے لیے مختص جگہ کی تلاش ہوئی، اپنی بس کی خواتین نہ جانے کہاں چلی گئی تھیں۔ نماز کے لیے جگہ بڑی مشکل سے ملی، پھر وہاں سے نکلی تو سوچا کہ طویل راستے کے بجائے ادھر سے ہی باہر نکل جاتی ہوں، اللہ کا شکر ہے کہ باہر پہنچ گئی اب بس بھی نظر آ گئی، میرے دائیں اور بائیں جانب سیڑھیاں ہیں اور میں ایک طویل برآمدے میں کھڑی ہوں ایک سرے پر سیڑھیاں دو ہاتھ کے فاصلے پر اور دوسری دو تین سو گز کے فاصلے پر۔ میں نے دور والی سیڑھیوں کا انتخاب کیا۔ سیڑھیاں اتر رہی تھی تو سامنے شاہد کھڑے نظر آئے کہنے لگے، سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اتنی دور سے کیوں اتریں؟

میں نے کہا ’’ آپ ہی نے تو کہا تھا انھی قدموں واپس آنا تو میں اسی راستے سے آ رہی ہوں، کہنے لگے پھر اتنی دیر کیوں کی؟ اس لیے کہ اندرجا کر میں بھٹک گئی تھی گم کردہ راہ کو منزل تلاش کرنے میں کچھ دیر تو لگتی ہے۔ اب لوگ نمازِ عصر کے لیے مصر ہیں کہ اذان ہونے والی ہے۔ با جماعت نماز پڑھ کر چلیں گے، ڈرائیور راضی نہیں ہو رہا۔ بہت دیر سے باری باری زائر آتے رہے شاید وہ بھی اندر جا کر بھٹک گئے تھے یا نماز عصر پڑھ کر نکلنا چاہتے تھے، کچھ فاصلے کے بعد بس روکی گئی، نماز عصر ادا کی گئی۔ لبیک کے ترانے سے بچھڑے نامعلوم کتنی صدیاں ہو گئی تھیں۔ اب سبھی کے ہونٹوں پر یہی کلمہ تھا اور کتنا اچھا لگ رہا تھا، مکے تک کا سفر طویل ہوتا جا رہا تھا مغرب کی نماز بھی راستے میں پڑھی گئی، سفر پھر جاری ہوا۔ آخر خدا خدا کر کے دنیا کی سب سے بڑی گھڑی دکھائی دی کچھ امید بندھی کہ منزل قریب ہے لیکن نہیں ابھی بہت دور ہے، شہر مکہ کی طویل سڑکوں کا لامتناہی سلسلہ اور دوڑتی بھاگتی نئے سے نئے ماڈل کی گاڑیاں لیکن اس وقت صرف ایک احساس۔ ہمیں مکہ پہنچنا ہے۔ آج ہی عمرہ کرنا ہے اللہ ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے،لبیک کا ورد جاری ہے۔ میں حاضر ہوں میرے اللہ میں حاضر ہوں۔

 

مجھے دشت قبول مرے سائیں

 

’’ میدانِ کبیر، اکٹھا کرنے والا گھر، جمع کرنے والی مجلس اور اللہ کا حرم، مکہ معظمہ میں صاف فضا موجود ہے اس میں لوگوں کو کلام کر نے کی مجال نہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو تو اپنا گھر بہت زیادہ بہنے والی نہر کے پاس بناتا، جس کی وادی میں باغ ہوتے، اگر اللہ چاہتا تو ملکِ شام میں سایہ دار نہروں اور اونچے ٹیلوں اور نیچے جھکی ہوئی ٹہنیوں کے درمیان اپنے گھر کا انتخاب کرتا اگر اللہ چاہتا تو گذشتہ زمانے کے بڑے جابر بادشاہوں کی ناک اور ان کے سروں پر اپنے گھروں کو بلند کرتا …‘‘۹؎

تو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی بنیاد وہاں رکھی کہ جہاں سبزہ مفقود، آب و دانہ ناموجود، درخت ناپید، موسم سخت گرم، باد صر صر کی فراوانی، تپتی ریت کی حکمرانی… لیکن اللہ کے گھر کی برکتیں دیکھیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے صدقے، وہاں کی منفی خصوصیات پر چہار جانب سے نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے۔ ہر مسلمان کی دعا ہے کہ وہ اس دشت کا مکین ہو جائے، اس انبوہ کثیر کا حصہ ہو جائے۔

عتیق بھائی سے موبائل پر بات ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ بس سے نہ اتریں، باقی مسافروں کو بس اتار کر آپ کو واپس لے کر آئے گی آپ بس میں بیٹھے رہیں، میرا بندہ پہنچ رہا ہے آپ اس کا انتظار کریں، نہ جانے کتنے چکر کاٹ کر ہم ہوٹل پہنچے۔ میں بس سے اترنے سے انکاری ہوں لیکن شاہد بس ڈرائیور کے کہنے پر اتر گئے،سامان بھی اتر وا لیا گیا، شاہد مجھے کہہ رہے ہیں کہ آ کر یہ ہوٹل دیکھ لو ہم نے اس ہوٹل کے لیے ادائگی کی ہوئی ہے، صرف دور ہونے کی وجہ سے ہم نے ہوٹل سنابل قبول کیا ہے کہ وہ قدرے نزدیک ہے، ہوٹل واقعی بہت شاندار تھا، لاؤ نج بھی بہت وسیع تھا،لیکن دور تھا، اس لیے میں اور شاہد اسے رہائش کے نقطۂ نگاہ سے مناسب خیال نہ کرتے تھے۔اللہ اللہ کر کے ہوٹل سنابل کے کاؤنٹر پر پہنچے۔ میزبان نے کمرے کی چابی دی اور ہم نے خدا کا شکر ادا کیا، کمرے میں پہنچے تو عتیق آ گئے حسب معمول انھوں نے بہترین کھانے کا اہتمام کیا اور میرا وہ خوب صورت تھیلا اور شال بھی میرے حوالے کی جس کے لیے میں پریشان تھی کہ حج عمرے کے دوران ہم ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیا کرتے تھے کہ ہماری کوئی چیز کبھی گم نہیں ہوئی، حتیٰ کہ چپل تک نہیں کھوئی،تو اس مرتبہ اپنی ہی غلطی کے سبب میں اپنی عزیز چیزوں سے محروم ہو رہی تھی، شال امی جی کی تھی جو ان کی وفات کے بعد میں نے لے لی تھی، عتیق کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے میرے اس قیمتی اثاثے کی حفاظت کی، بے شک حفاظت کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔

 

کروڑوں خوشبوئیں رقصاں ہیں …

 

میں آج عمرے سے پہلے کچھ دیر آرام کرنا چاہتی تھی، گیارہ تو بج گئے ہیں طواف سعی نماز عشا کی ادائیگی تک دو تین بج جائیں گے، دو گھنٹے بعد فجر کا وقت ہو جائے گا، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم دو گھنٹے آرام کر لیں اور پھر عمرے کے لیے نکلیں تاکہ فجر کی اذان تک عمرہ مکمل کر لیں اور فجر پڑھ کر واپس آ جائیں، لیکن شاہد کا خیال تھا کہ پہلے عمرہ مکمل کرنا ہے پھر کوئی اور بات، میری بھی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے شروع کیا ہوا کام مکمل ہو پھر آرام کا سوچا جائے لیکن آج میں تھکی ہوئی زیادہ تھی جو نہ چاہتے ہوے بھی منہ سے نکل گیا تھا… اور اب میں یہ بات سبھی سے کہتی ہوں۔بے تابی اپنی جگہ، لیکن گھنٹا آدھ گھنٹا آرام کرنے کے بعد عمرے کے لیے نکلیں تو آپ زیادہ سہولت سے اور سکون سے عمرہ کر سکیں گے، ذوق و شوق پر تھکن غالب نہیں آنی چاہیے۔ تمام مناسک پورے جوش و جذبے کے ساتھ ادا ہوں تو تسلی ہوتی ہے۔ اب ہم عمرے کے لیے مسجد حرام کی طرف جاتے تھے۔ مکہ کی مخصوص خوشبو نے استقبال کیا۔ جسم و جاں میں تازگی کا احساس بیدار ہوا۔ حرم پاک پہنچے۔ عشا کی نماز موخر کی۔ پہلے طواف و سعی کی اور پھر عمرے کے نوافل کی ادائگی کے بعد نمازِ عشا شروع کی۔ مطاف میں نماز کا مزا ہی کچھ اور ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، تین بجے جب ہم گھر واپس آئے تو آدھے راستے کے بعد شاہد کہنے لگے کہ میں حلق کروا کر آؤں گا، تم ہوٹل چلی جاؤ… میں بڑے اطمینان سے کچھ روشن سڑکوں کچھ اندھیری گلیوں سے ہوتی ہوئی ہوٹل سنابل تک چلی آئی، کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے کہ کوئی خاتون آدھی رات کو اس طرح اکیلی کہیں جانے کا سوچ بھی سکے۔… اسلام بہت شدت پسند مذہب ہے، ہاتھ کاٹنے کی سزا … اف کتنا ظالمانہ فیصلہ … ہمارے ہاں روٹی چرانے پر جیل بھیجا جاتا ہے اور پوری قوم کی دولت لوٹنے پر اعلیٰ ترین عہدہ آپ کو خوش آمدید کہتا ہے، بس یہی کچھ سوچتی ہوٹل پہنچی۔ مکہ اور دیگر شہروں میں یہی تو فرق ہے کہ اس کے امن کی دعا نبیوں نے کی ہے۔ اس کی فضاؤں میں سکون رچا بسا ہے۔ اس کی فضیلت سب سے بڑھ کر ہے۔ مدینہ اور مکہ کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں اپنی جگہ اہم ترین… مکہ کی فضیلت مکان کے سبب، مدینہ کی عظمت مکین کے باعث۔ حضورِ پاکﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے علم نہیں کہ مکہ کے سوا روئے زمین پر کوئی مقام ایسا ہو گا جس میں نیکیاں سو گنا بڑھ جاتی ہوں اور نماز کی ایک رکعت کے بدلے سو رکعات کا اجر ملتا ہو اور خانۂ کعبہ کے صرف دیدار سے ایک سال کی عبادت کا ثواب نصیب ہوتا ہو اور ایک درہم صدقہ کرنے پر ایک ہزار درہم کا بدلہ ملتا ہو۔

اگلے روز عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد ہوٹل روانہ ہوئے۔ شاہد کہنے لگے پہلے کرنسی تبدیل کروا لیتے ہیں۔ صحنِ حرم ہی میں رائل ہوٹل، ابراج البیت المشہور کلاک ٹاور کی طرف رخ کیا۔ میں اس وقت ایک قدم بھی فالتو چلنا نہیں چاہتی تھی،لیکن اس شاپنگ پلازہ اور ہوٹل کا ہر منظر دیدنی تھا۔ ابتدائی منزلیں مسجدا لحرام کے لیے وقف ہیں۔ ٹی وی پر کبھی کبھار کیمرہ یہاں با جماعت نماز ادا کرنے والوں کو بھی دکھا دیتا ہے۔ یہاں دس ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اگلی بیس منزلوں میں ایک لاکھ مہمان ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ یہاں ایک ہزار گاڑیاں پارک کی جا سکتی ہیں۔

۲۰۰۱ ء میں جب حج کے لیے آئے تھے تو یہاں ایک پہاڑی تھی جہاں اجیاد قلعہ موجود تھا۔ ۲۰۰۲ء میں نئے منصوبے کے تحت اسے گرانے کا کام شروع ہوا۔ ۲۰۰۴ ء میں تعمیری کام کا آغاز ہوا اور جب ۲۰۰۸ء میں ہم عمرے کے لیے آئے تھے تو بہت تیزی سے کام جاری تھا اب ۲۰۱۲ء میں ہم اسے مکمل تیار حالت میں دیکھتے تھے۔ اس پنج ستارہ ہوٹل کی قرب حرم کی بنا پر اتنی اہمیت ہے کہ یہاں سال بھر پہلے سے ہی عمرے اور حج کی بکنگ مکمل ہو جاتی ہے۔ شاپنگ پلازہ کے علاوہ خواص کے لیے کانفرنس سنٹر اور عوام و خواص کے لیے اسلامی میوزیم کا بھی اہتمام ہے۔ اگر الجیاد روڈ پر موجود مکہ میوزیم جانے کا وقت نہ مل سکے تو یہاں بھی قدیم آثار کی زیارت ہو سکتی ہے۔ مکہ کلاک ٹاور میں گھڑیوں کی دکانیں متوجہ کرتی ہیں۔ کھانے پینے کی بات ہویا زیورات کی، چمڑے کی مصنوعات ہوں یا خوشبویات، ہر شے دستیاب ہے۔ خوشبو تو ویسے بھی عرب خواتین و حضرات کی کمزوری ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پوری دنیا میں ان سے بہتر خوشبو کوئی اور نہیں بنا سکتا۔ قدیم زمانے سے ہی ہند، سندھ، روم و ایران یہیں سے عطریات و خوشبویات برآمد کی جاتی تھیں۔

ایسا اہل عرب کیوں محسوس نہ کریں، کائنات میں خوشبو کا منبع یہی مقام ہے۔یہیں اس ذاتِ پاک کا ورود ہوا کہ جس کا وجود رنگ و خوشبو کا استعارہ قرار پایا۔

میرے غربت کدے میں جب رسول اللہﷺ آتے تھے

کبھی وہ گفتگو کرتے

کبھی وہ نیند کی وادی کو سرفراز بھی کرتے

پسینہ جسمِ اطہر پر چمکتا تھا

میں ان قطروں کو شیشی میں رکھ کر

کسی خوشبو میں حل کرتی

پسینے سے وہ خوشبو یوں بدل جاتی

کہ جیسے خاکِ جنت کے

گل و ریحان کی خوشبو

اسی شیشی کو اپنا گھر بنا لیتی

( حضرت ام سلیم ؓ کی روایت           ابو الخیر کشفی)

حضرت انس سے روایت ہے کہ اگر آپﷺ کسی سے مصافحہ فرماتے تو تمام دن اس کا ہاتھ مہکتا رہتا، کسی بچے کے سر پر دستِ شفقت دھرتے تو وہ بچہ تمام بچوں میں الگ سے پہچانا جاتا، جس گلی سے گزرتے، راستے معطر ہو جاتے۔

میرے ہاتھوں اور ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں

میں نے اسم محمد لکھا بہت اور چوما بہت                      ( سلیم کوثر)

دل تو بہت چاہتا تھا کہ کسی قدر تفصیل سے اس شاندار ہوٹل کو دیکھوں، لیکن یہی خیال رہا کہ اگر ہمت ہوتی تو کچھ وقت اور حرم پاک میں گزار لیتی۔

 

تیری آواز مکے اور مدینے

 

مکہ اور مدینے کی اذان اور تلاوت میں دونوں میں وہی فرق ہے جو جمال و جلال میں ہے، مکہ سراسر جلال، مدینہ جمال ہی جمال، بیت اللہ شریف میں اذان ہو یا نماز میں قرات، مؤذن اور امامِ کعبہ کی آواز میں کیا رعب و تمکنت، کیا جاہ و جلال کیا شان و شوکت، ترو تازگی، توانائی اور جذبہ پا یا جاتا ہے۔ مدینہ پہنچ کر پہلی ہی اذان سنی تو واضح فرق محسوس ہوا۔ بہت دھیمی بہت مو ء دب آوا ز میں اذان سنائی دی اور قرات بھی بہت مدھم لہجے میں کی جا رہی تھی۔

شہر نبیﷺ میں آواز بلند کر نے کاحکم نہیں ہے، مسجدِ نبویﷺ کے آداب میں دھیمے لہجے میں گفتگو شامل ہے۔ مکہ مکرمہ میں جب قاری عبد الرحمن عبد العزیزالسیدس کی کسی نماز میں قرات نصیب ہو جائے تو بہت کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی مقتدی ان کی آواز کے زیر و بم، ان کے لب و لہجہ آواز کے اتار چڑھاؤ سے بہت کچھ جان لیتا ہے، قیامت کا ذکر ہو، یوم حساب کے معاملات ہوں، ظالموں، بے انصافوں کے لیے جہنم کی وعید ہو اللہ کی حقانیت و وحدانیت کا ذکر ہو، مجبو ر و بے بس مخلوق کی خطاؤں سے در گزر کا بیان ہو، اہلِ ایمان کے لیے جنت کی نوید ہو … ان کی قرات کس طرح لرزہ بر اندام کرتی ہے، کس طرح رونگٹے کھڑے کرتی ہے، کیسی پیار سے تھپکتی ہے، تسلی دیتی ہے۔ اس کا اندازہ بیان سے نہیں، انھیں سننے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہماری خوش نصیبی کہ ہمیں کئی مرتبہ ان کی اقتدأ میں نماز کا موقع ملا۔

 

زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں

 

حرمِ پاک میں ہر نماز کے بعد دو چار، چھ آٹھ جنازے پہنچتے ہیں، جن کی نمازِ جنازہ فرض نماز کے فوراً بعد ادا کی جاتی ہے، مجھے ایک خلش بے تاب رکھتی تھی کہ اسلام آباد میں مباشر ٹی وی دیکھتے ہوئے کبھی نماز جنازہ کا پتہ نہیں چلتا، لائیو دکھا رہے ہوتے ہیں لیکن جنازے لاتے لے جاتے کبھی نظر نہیں آئے، ایک روز میں فرض نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد گیلری کی جانب لپکی، تو میں نے دیکھا کہ حطیم کی سیدھ میں لیکن مطاف کے بالکل کنارے پر جہاں سے سعی کے لیے صفا کی طرف جاتے ہیں، وہاں یکے بعد دیگرے کئی جنازے لائے گئے اور ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، دو چار رو ز بعد ہم طواف کے بعد اوپر کی منزل میں جانے کے لیے مطاف سے باہر نکل کر صفا کی طرف سے گزرے تو وہاں کئی جنازے رکھے نظر آئے، جن کی نماز جنازہ فرض نماز کے بعد ادا کی جانی چاہیے تھی۔ خوش قسمت ہیں جنھیں اس شہر کی مٹی نصیب ہوئی جو میرے حضور کو بہت پسند تھا، کبھی یہ سب زندگی سے کتنے بھر پور ہوں گے لیکن جب موت نے دستک دی تو اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور توانائیوں کے باوجود زندگی پلٹ کر نہیں آسکتی کہ یہی مقام اس کی بے بسی کا ہے۔ ایک روز شاہد کہنے لگے کہ تمھیں پتہ ہے آج کتنے جنازے تھے میں نے ایسے ہی اندازاً کہہ دیا۔ پندرہ،تو کہنے لگے ہاں میں نے گنے تھے پندرہ ہی تھے۔

نماز جنازہ کی ادائگی میں عرب، مصر، ترکی، انڈونیشیا و ملائشیا وغیرہ کی خواتین بہت پابند دیکھی گئی ہیں، اس مرتبہ میرا ارادہ تھا کہ میں بھی نماز جنازہ پڑھا کروں گی، اب جب بھی نماز جنازہ کا اعلان ہوتا میں نماز کے لیے کھڑی ہو جاتی، نماز میں وقفے وقفے سے چار تکبیریں کہی جاتیں اور پھر دائیں طرف سلام پھیر دیا جاتا، یہ سب عمل میں کرتی رہتی لیکن دل ہی دل میں شرمندہ ہوتی رہتی کہ اس دوران میں بجائے کوئی دعا وغیرہ پڑھنے کے خاموش کھڑی رہتی اور پیچھے اس امام کے، پیروی کرتی رہتی۔ روز سوچتی کہ آج ضرور شاہد سے پوچھوں گی یا کسی نماز کی کتاب میں دیکھوں گی کہ نماز جنازہ میں کیا کیا پڑھا جاتا ہے اور روز بھول جاتی، ایک روز مجھے ’’ قرآن پاک کے آخری تین پاروں کی تفصیل،’’ مسلمانوں کے لیے اہم احکام و مسائل‘‘ ملی۔ مجھے یہ کتاب بہت اچھی لگی، تفسیر سے قطع نظر جن اہم مسائل پر گفتگو کی گئی ان کا جاننا بھی بے حد ضروری ہے، مجھے خوشی اس امر کی ہوئی کہ مجھے میرے سوال کا جواب بھی مل گیا، پہلی تکبیر کے بعد اعوذو باللہ…بسم اللہ…اور پھر سورہ فاتحہ( مجھے بعد میں شاہد نے بتایا ہمارے ہاں ثناء پڑھی جاتی ہے) دوسری تکبیر کے بعد درود ابراہیم علیہ السلام تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعا اور چوتھی تکبیر کے بعد ذرا دیر خاموش رہ کر سلام پھیر دینا، دعا عربی میں ہے لیکن میں اس کا اردو ترجمہ / مفہوم ادا کرتی رہی۔ کتنی جامع دعا ہے۔

’’ اے اللہ بخش دے اسے اور در گزر فرما اس سے اور اچھی کر مہمان نوازی اس کی اور فراغ کر دے اس کی قبر کو اور دھو دے اسے ( اس کے گناہوں کو) پانی برف اور اولوں کے ساتھ اور صاف کر دے اسے گناہوں سے جیسے تو نے صاف کر دیا ہے سفید کپڑے کو میل کچیل سے اور بدلے میں دے اسے گھر زیادہ بہتر اس گھر سے اور گھر والے زیادہ بہتر اس گھرسے اور رفیقِ حیات زیادہ بہتر اس کے رفیقِ حیات سے اور اسے جنت میں داخل فرما اسے قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے بچا لے ‘‘( مسلم)

اس کا علم ہونے کے بعد بہت خشوع و خضوع کے ساتھ میں اس نماز میں شریک ہوتی اور دل مطمئن ہوتا، ایک روز دو نوجوان لڑکیاں بات کر رہی تھیں کہ اس نماز کے لیے ہم کھڑے تو ہو جاتے ہیں لیکن پتا نہیں ہوتا کہ ہمیں پڑھنا کیا ہے، مجھے محسوس ہوا کہ یہ بھی میری طرح مشکل میں گرفتار ہیں، میں نے انھیں بتا دیا کہ کیا پڑھنا ہے تو وہ بہت مطمئن ہوئیں۔

موت پر صبر کے لیے کہا جاتا ہے، ’’یہ ایک شیوۂ فرسودہ ابنائے روزگار ہے۔‘‘ لیکن صبر کے بنا چارہ بھی نہیں ہے۔ پھر بے صبری و واویلا کے سبب نصیب میں اس اجر سے محرومی لکھ دی جاتی ہے جو صبر کے عوض عطا کیا جانا تھا۔ حضور پاکﷺ کے وہ خط کیسے بھلایا جا سکتا ہے کہ جو انھوں نے حضرت معاذ بن جبل کو ان کے بیٹے کی وفات پر لکھا ( لکھوایا) تھا۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ خط اللہ کے رسول محمدﷺ کی طرف سے معاذ بن جبل کے نام ہے۔ میں اللہ کا شکر اور اس کی حمد و تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے۔ تم بھی اللہ کا شکر اور اس کی تعریف کرو۔

اما بعد، اللہ تعالیٰ اجرِ عظیم اور صبر دے، اور ہمیں اور تمھیں شکر کی توفیق بخشے، ہماری اپنی جانیں اور مال اور بال بچے یہ سب اللہ کی خوشگوار نعمتیں ہیں اور یہ ہمارے پاس اللہ کی رکھی ہوئی امانتیں ہیں۔ جب تک یہ تمھارے پاس رہیں، مسرت اور خوشی تمھیں ملے گی اور ان کے چلے جانے کے بعد اللہ اجرِ عظیم سے نوازے۔ تمھارے لیے خدا کی رحمت اور انعام اور ہدایت ہو اگر اجرِ آخرت کی نیت سے صبر کیا۔ پس تم صبر کرو اور دیکھو تمھاری بے قراری اور بے صبری تمھیں اجر سے محروم نہ کر دے ورنہ پچھتاؤ گے اور اس بات کا یقین کرو کہ بے صبری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر نہیں آسکتا اور نہ غم دور ہو سکتا ہے اور جو حادثہ واقع ہوا ہے اسے تو ہونا ہی تھا۔

والسلام ‘‘

یہ تسلی و تشفی بھرا انداز، کتنے پیار سے صبر کی تلقین، کتنی شفقت سے اجر عظیم کی نوید… زخمی دل پر کتنی ملائمت سے دستِ مسیحائی دھرتے ہیں۔

مسجد نبوی میں بھی ہر نماز کے بعد ان خوش نصیبوں کے جسدِ خاکی نمازِ جنازہ کے لیے لائے جاتے ہیں جنھیں مدینے کی فضاؤں میں آخری سانس لینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ قرب و جواز سے بھی جنازے لائے جاتے ہیں۔ موت کی تمنا حرام ہے سوائے مدینۃ النبی کے۔ لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ یہاں خواتین کے لیے مختص مقامات پر کبھی علم نہ ہو پایا کہ نماز جنازہ ادا ہو رہی ہے، یوں مسجدِ نبوی میں ہم خواتین اس اجر سے محروم رہیں۔

 

مراجعت کا سفر

 

مدینہ سے ہی فون پر جناب ابو عاکف کو اپنا پروگرام بتا دیا تھا کہ پیر کو مدینہ سے روانہ ہوں گے منگل کو حرمِ پاک میں ہی دن گزارنا چاہیں گے، بدھ کے لیے آپ کسویٰ کعبہ اور میوزیم دکھانے کا بندوبست کروا دیں تو بہتر ہو گا، مجھے احساس تھا کہ شاہد کو اپنی تاریخ اور تاریخی آثار سے کتنی دلچسپی ہے اور یہ مقام تو ایسا تھا کہ میں خود بھی ماضی کی کائنات کے اسرار کھولنا چاہتی تھی۔ اس لمحے انسان کے احساسات کیا ہو سکتے ہیں جب اسے معلوم ہو کہ وہ ان اشیا کو دیکھے گا جو حضور پاکﷺ کے زیرِ استعمال رہی ہیں، وہ تاریخ کے زینوں پر قدم دھرتا، خانہ کعبہ سے وابستہ ہر دور کی چیزیں اپنے سامنے پائے گا۔ منگل کوا بو عاکف صاحب کا فون آیا۔

’’ آپ صبح ساڑھے آٹھ بجے تیار رہیں، گاڑی پہنچ جائے گی، کوشش کریں کہ دیر نہ ہو، تاکہ آپ ظہر کی نماز حرم میں ادا کرسکیں۔ ‘‘

فجر کی نماز پڑھتے ہی ہم گھر آ گئے تھوڑا آرام کیا اور ناشتے کے بعد عبدالحلیم کا فون آ گیا کہ میں نیچے کھڑا ہوں۔ پاکستان ہاؤس کی گاڑی دیکھ کربہت خوشی ہوئی، گاڑی میں پاکستان ہاؤ س کے دو افسران محمد عارف صاحب اور عمران صاحب موجود تھے، دونوں کو یہاں ذمہ داریاں سنبھالے ڈیڑھ دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہوا، دونوں ہی اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ تین سال کے لیے نقل مکانی کر کے یہاں آ گئے ہیں ابھی رہائش، بچوں کی تعلیم کا مسئلہ حل نہیں ہوا، سب سے بڑی دشواری زبان کی ہے، کتنی بھی درسی عربی سیکھ کر آئیں یہاں جواب دے جاتی ہے۔

شاہد نے مکہ کے پہاڑوں پر بنے کچے پکے گھروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ مکہ کے قدیم باشندوں کے محلے ہیں تو عمران صاحب نے بتایا کہ یہ گھر پرانے ضرور ہیں لیکن اتنے پرانے نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ یہ دراصل بنگلہ دیشی اور انڈینز نے مکہ کی بلدیہ کو کچھ دے دلا کر اپنے مکانات تعمیر کر لیے ہیں، جو زیادہ طاقت ور ہیں انھوں نے ویسے ہی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے، لینڈ مافیا یہاں بہت فعال ہے، آج تو شکر ہے کہ ایک مقامی عبدالحلیم ہمارے ساتھ ہیں جو عربی زبان میں اپنا مدعا کہہ کر ہمیں کسویٰ کعبہ کی اچھی طرح سیر کروا سکیں گے ورنہ بہت مشکل ہو جاتی، انھی باتوں میں آدھ گھنٹے کا فاصلہ طے کر کے ہم کسویٰ کعبہ پہنچ گئے۔ اب ہم دروازہ کھولنے کے لیے کہہ رہے ہیں اور دربان نفی میں سر ہلا رہے ہیں، آخر عبدالحلیم ہی کام آیا، معلوم ہوا کہ وہ رقعہ مانگ رہے ہیں، جس کے بل بوتے پر ہم کسویٰ کعبہ کا دیدار کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں، رقعہ عبد الحلیم کے پاس تھا نہ عمران صاحب و عارف صاحب کے پاس۔ بھول ہو تو ایسی ہو، خیر پاکستان ہاؤس فون کیا گیا، اندر کسویٰ کعبہ کے منتظمین سے بات کی گئی، معلوم ہوا کہ ان کے پاس اس بات کی اطلاع موجود ہے کہ آج پاکستان سے کچھ اہم افراد زیارت کے لیے آ رہے ہیں اور اس کا اجازت نامہ وہ پاکستان ہاؤس کو روانہ کر چکے ہیں، لیکن خیر کوئی بات نہیں آپ انھیں آنے دیں، ابھی ہم اس پر فضا مقام کا جائزہ لے ہی رہے تھے، خوبصورت باغ کی تراش خراش کو سرا رہے تھے کہ ان کے افسر مہمان داری آ پہنچے اور بہت عزت و محبت سے ہمیں لے کر اندر چلے۔

 

کسویٰ کعبہ

 

انتہائی صاف ستھرے اور پاکیزہ ماحول میں، جہاں ایک ہال نما کمرے میں غلافِ کعبہ کی تیاری مختلف مراحل میں تھی۔ ایک ایک فریم پر تین چار افراد بیٹھے ہوئے آر کی مدد سے آیاتِ قرآنی سونے اور چاندی کے دھاگوں سے کاڑھ رہے تھے، خانہ کعبہ کے اندرونی غلاف کا نمونہ بھی ایک چھ فٹ کے کھلے کمرے کی صورت میں دکھایا گیا ہے، میرا خیال تھا کہ اندرونِ کعبہ سفید رنگ کا کپڑا استعمال ہو گا، لیکن یہ ہرے رنگ کا تھا۔

محمد عبدالمعبود ’’تاریخِ مکہ مکرمہ ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ غلافِ کعبہ ہر سال تبدیل کیا جاتا ہے، بارش، ہوا،گرد و غبار اور شدید دھوپ کی وجہ سے غلاف کمزور ہو جاتا ہے، رنگ بھی ماند پڑ سکتا ہے لیکن اندرونی غلاف کو بدلنے کی نوبت کم کم ہی آتی ہے۔ سلاطین عثمانیہ نے البتہ ہر سال اندرونی و بیرونی غلاف تبدیل کروائے۔ مصنف مختلف ادوار میں اندرونی غلافِ کعبہ کی تبدیلی کی تاریخ بیان کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ اندر والا اکثر غلاف سرخ رنگ کا ہی چڑھایا جاتا رہا اس وقت بھی سرخ رنگ کا غلاف موجود ہے جو غالباً ملک عبد العزیز کا ہی ہے۔ اب پچاس ساٹھ سال بعد ہمیں جس اندرونی غلافِ کعبہ کی زیارت کر وائی جا رہی ہے وہ نیلگوں سبزی مائل ہے۔ یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس رنگ کا اندرونی غلاف کب سے ڈالا جا رہا ہے۔

منتظم نے کہا کہ آپ یہاں اس کے اندر جا سکتے ہیں۔ یادگار کے طور پر تصویر بھی کھنچ سکتے ہیں، منتظم بہت خوبی سے عربی میں غلافِ کعبہ کی تیاری کے متعلق لیکچر دے رہے تھے جنھیں عبدالحلیم ترجمہ کر کے بتاتے جاتے تھے، پھر میری خواہش پر انھوں نے ایک مختصر کتابچہ ( بروشر) بھی عنایت کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ چونکہ عربی میں ہے اس لیے ہمارے کس کام آئے گا، لیکن ہمیں اپنے کالج کی صدر شعبۂ عربی محترمہ عمرانہ خضر اور ان کے ساتھی اساتذہ پر بہت مان ہے اور انھوں نے ہمارے اس نیک گمان کو کبھی گزند نہیں پہنچائی۔

قبل اور بعد از اسلام کعبہ شریف ایک بلند اور مقدس مقام کا حامل رہا ہے، یہ زمینِ مشارق و مغارب میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا قبلہ اور تمام عالم کا دل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کے غلاف کو بھی مقدس و محترم مانا جاتا ہے زمانۂ قدیم سے ہی بادشاہ، سلاطین اور امرا ء اس کی تیاری کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وہ پہلا شخص جس نے زمانہ جہالت میں کعبہ معظمہ پر غلاف چڑھایا قدیم یمنی بادشاہ کرب اسعد الحمیرۃ تھا۔آمد اسلا م پر آپﷺ نے اس پر غلاف چڑھایا۔آنحضرت کے بعد خلفائے راشدین اور بعد کے زمانوں کے مسلمان حکمرانوں نے رسول اللہ سے روحانی تسلی و تشفی پانے کی خاطر، آپ کے اتباع کی نیت سے عصرِ موجود تک غلافِ کعبہ چڑھانے کی روایت برقرار رکھی۔ غلافِ کعبہ کی تفصیل و تاریخ جو اردو اور عربی کی اس موضوع پر کتب میں موجود ہے کچھ اس طرح سے ہے مکہ معظمہ میں اللہ تعالیٰ کے اس مبارک گھر کی تعمیر اور پھر غلاف کا اہتمام و انصرام حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کیا۔ آمدِ اسلام سے قبل یمن کے بادشاہ ابو کرب اسعد نے خواب دیکھا کہ وہ کعبہ پر غلاف چڑھا رہا ہے، خواب کی تکرار نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا، چنانچہ اس نے خانہ کعبہ پر قیمتی کپڑے کا غلاف چڑھایا، ان کے بعد خالد بن جعفر بن کلاب نے پہلی مرتبہ دیباج کا غلاف چڑھایا، تمام قبائل اس مقدس فریضے میں شامل ہونا چاہتے تھے، چنانچہ ساری لاگت تمام قبائل میں تقسیم کی گئی، حضور اکرمﷺ کی دادی عباس بن عبد المطلب کی والدہ نے بھی غلافِ کعبہ کی تبدیلی کے تمام اخراجات خود اٹھائے اور اعلانِ نبوت سے ۵ برس پیشتر خانہ کعبہ کی از سرِ نو تعمیر کے بعد حضور اکرمﷺ نے بھی غلاف کا اہتمام کیا۔ فتح مکہ کے بعد کعبہ کو بتوں سے پاک کیا گیا تو یمن کے تیار کردہ سیاہ غلاف سے خانۂ خدا کو سجایا سنوارا گیا، بعد ازاں دس محرم کو تبدیل غلاف کعبہ کی رسم ادا کی جاتی رہی پھر حج کے موقع پر غلاف تبدیل کرنے کا شعار اپنایا گیا جو اب تک جاری ہے، ابتدا میں ایک غلاف کے اوپر دوسرا چڑھایا جاتا تھا، لیکن اس طرح خانہ کعبہ غلافوں سے اٹ جاتا، پھر یہ طریقہ رائج ہوا کہ پرانا غلاف اتار دیا جاتا اور نئے غلاف کو آویزاں کرنے سے پہلے غسل کعبہ کی رسم ادا کی جاتی۔ حضرت عمر پرانا غلاف اتار کر دفنا دیا کرتے تھے پھر پرانا غلاف حاجیوں میں تقسیم کیا جانے لگا جو اسے دھوپ سے بچنے کے لیے سروں پر رکھ لیا کرتے۔ پھر اس کی عزت و تکریم کا بھی خیال ہوتا۔ اسے زمین پر رکھنے سے گریز کیا جاتا، حضرت عثمان نے سال میں دو مرتبہ غلافِ کعبہ چڑھانے کی ابتدا کی۔ بعد ازاں غلافِ کعبہ مصر سے تیار ہو کر آتا رہا۔ ۱۹۲۷ء میں شاہ عبد العزیز کی خواہش پر وزیرِ مال عبد اللہ سلیمان الحمدان اور شہزادہ فیصل نے غلافِ کعبہ کی مکہ معظمہ میں تیاری کے لیے ایک فیکٹری کے قیام کی منظوری دی، یوں دار الکسوہ کا وہ ادارہ وجود میں آیا کہ جس پر دنیا کے تمام کارخانے بلاشبہ رشک کرتے ہیں۔ ۱۵۰۰ میٹر مربع پر محیط یہ محل چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں تیار کیا گیا۔

’’… محل تیار ہو جانے کے بعد ملک عبدالعزیز آل سعود نے غلاف حزام اور ستارہ کعبہ کے متعلقہ اوزار اور بننے کا سامان اور کاریگر ہندوستان سے منگوانے کا فیصلہ کیا اور یہ کام ہندوستان کے ایک نامور عالم مولانا محمد اسماعیل علیہ السلام غزنوی کے سپرد کیا، جو ہندوستان سے چالیس کاریگر اور ان کے خاندان کے بیس افراد، ۱۲ کپڑے بننے کی مشینیں اور اوزار، ریشم اور دیگر ضروریات کی چیزیں لے کر ابتدا رجب ۱۳۴۶ھ میں مکہ شریف پہنچ گئے۔جنھوں نے غلافِ کعبہ اور ستارہ کعبہ، حزام وغیرہ بالکل مصری غلاف کے مطابق بے حد مضبوط اور خوبصورت اواخر ۱۳۴۶ھ میں تیار کر دیا۔ ‘‘ ۱۰؎

غلافِ کعبہ کے متعلق عمومی معلومات کچھ اس طرح سے ہیں۔

٭        کعبہ شریف کے لیے پہلا غلاف مملکتِ سعودی عرب میں مکہ مکرمہ میں شاہ عبد العزیز کے عہد میں ۱۳۴۶ھ میں تیار کیا گیا۔

٭        شاہ فہد بن عبد العزیز کے عہد میں کعبہ شریف کا اندرونی( داخلی) پردہ ۱۴۰۳ھ اوربعد ازاں ۱۴۱۷ھ میں تبدیل کیا گیا۔

٭        غلاف میں مستعمل ریشم کی مقدار تقریباً چھ سو ستر کلو گرام ہے۔

٭        غلافِ کعبہ کا طول تقریباً چودہ میٹر ہے۔

٭        دو رکنوں کی جہت سے غلاف کے کپڑے کا عرض ۷۸،۱۰ میٹر ہے۔

٭       الملتزم کی جانب سے غلافِ کعبہ کے عرض کا ماپ ۵۰،۱۳ میٹرہے۔

٭        الہجرۃ کی جہت سے کپڑے کے عرض کا ماپ ۵۰،۱۲ میٹر ہے۔

٭        بابِ ابراہیم علیہ السلام کی جہت سے غلاف کے کپڑے کے عرض کا ماپ ۱۳۰۰ میٹر ہے۔

٭       کعبہ شریف کا غلاف ہر ہجری سال میں نو ذی الحجہ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔

٭        ذی الحجہ کے آغاز میں ایک سالانہ اجتماع/ محفل جلسے کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں غلافِ کعبہ کو دربان / خادمِ کعبہ کے سپرد کیا جاتا ہے۔

وہاں موجود منتظم نے فیکٹری کے مختلف شعبہ جات دکھائے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے

المصبغہ: ( رنگائی گھر)

یہ شعبہ خام ریشم کے دھاگوں / تاروں کے ساتھ چپکے ہوئے مادہ کو جسے سرسین کہا جاتا ہے،کے زائل کرنے کے امور کا نگران ہے۔ یہ کام گرم حوضوں اور مقررہ فیصد کے تناسب سے مخلوط و موزوں خاص کیمیاوی مواد کے ذریعے کیا جاتا ہے، تا کہ مطلوبہ رنگ کے درجے کی وصولی کو یقینی بنایا جاسکے، اس کے علاوہ کعبہ شریف کے خاص قسم کے سوتی استر کی دھلائی کا کام بھی انجام دیا جاتا ہے۔

المغتبر:( لیبارٹری)

اس شعبے میں غلافِ کعبہ کے مطلوبہ قیاسی نمونے سے مطابقت کو یقینی بنانے کی خاطر مختلف نوعیت کے ٹیسٹ / تجربات مثلاً ریشم، سوت اور غلاف کے کپڑے کے دھاگوں / تاروں کو باہم رگڑ، کھچاؤ اور قوتِ مدافعت کو جانچنے کے لیے مختلف نوعیت کے ٹیسٹ / تجربات کیے جاتے ہیں۔ نت نئی تحقیق بھی اس شعبے کی اضافی خوبی ہے۔

السنیج:( بنائی)

کعبہ شریف کے غلاف کی بنائی کا طریقہ دستی روایتی طریقہ کارسے بہت ترقی کر گیا ہے، جو دھاگوں کو چرخیوں / پھر کیوں سے کھول کر مطلوبہ رنگائی کی سہولت کی خاطر انھیں لچھوں میں تبدیل کرنے اور پھر دوبارہ ہاتھوں سے چرخیوں پر لپیٹنے سے عبارت تھا تا کہ انھیں زر تار آیاتِ قرآنیہ سے مزین کپڑے کے اندرونی حصوں میں استعمال کیا جا سکے۔ اب اس کام کے لیے جدید، ترقی یافتہ آلات و مشینوں کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ ایک قیاسی مدت میں غلافِ کعبہ کی بنائی کے عمل میں ایک میٹر میں بلوں ( گندھانی) کی تعداد ۹۹۸۶ ہے، غلافِ کعبہ کی پیٹی کے سادہ کپڑے میں خاص قسم کے بلوں کی تعداد ۱۰۲۵۰ ہے، ان تمام امور کو جلد نتیجہ خیز بنانے، مقدار، نوعیت اور شکل کے اعتبار سے عمدگی کی خاطر جدید آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس کی بنا پر وقت اور محنت میں خاطر خواہ بچت ہوئی ہے۔

الطباعتہ:(چھپائی)

اس شعبے کا کام سیاہ کپڑے کے تانے بانے کو کسنا اور اس کی سلائی مکمل کرنا ہے جس پر سلک سکرین کے استعمال کے ذریعے سفید اور زرد روشنائی کے ذریعے آیاتِ قرآنی کی چھپائی مکمل کی جاتی ہے، اس کے علاوہ علامات و نقوش کی چھپائی بھی کی جاتی ہے، اس کام کے لیے کمپیوٹر اور پرنٹر کی مدد لی جاتی ہے۔

التطریز:( کشیدہ کاری)

شعبہ حزام ( غلافِ کعبہ کی پٹی تیار کرنے والا شعبہ) اس کے ذمے سیاہ کپڑے پر چھپے تمام حروف و آیاتِ قرآنیہ پر سونے اور چاندی سے نقش و نگار ابھارنے کا کام ہے۔ چاندی اور طلائی تاروں کے استعمال سے ٹانکوں اور بھرائی کا عمل کیا جاتا ہے۔ کعبہ شریف کے غلاف پر موجود منقش قطعات میں قنادیل والے ۱۲ عدد، سورۂ اخلاص والے ۴ عدد کعبہ شریف کی پٹی کے نیچے مختلف حجم کے ۶قطعے شامل ہیں، اس کے علاوہ کعبہ شریف کا بیرونی پردہ اور خادمِ حرمین شریفین کی طرف سے قطعہ بھی شامل ہے۔

خیاطہ الکسوۃ:( غلافِ کعبہ شریف کی سلائی)

مختلف قطعہ جات بنانے اور ان کے نقش و نگار مکمل ہونے کے بعد اس کی قطع و برید، سلائی اور باہم جوڑنے کا کام ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے مخصوص سلائی مشین استعمال کی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بٹن۔ کاج۔ پٹی کے منقش اور اس کے نیچے کے قطعات اور کعبہ شریف کے چاروں کونوں میں ہر کونے کی خاص قنادیل ثبت کرنے کا بھی اہتمام ہوتا ہے، ان کے علاوہ کعبہ شریف کے دروازے کا پردہ بھی تیار کیا جاتا ہے تاکہ غلافِ کعبہ شریف کی خارجی صورت کی تکمیل ہو، یوں غلافِ کعبہ لا تعداد مراحل سے گزرنے کے بعد ہم زائرین کی نگاہوں کے سامنے آتا ہے۔

مملکت سعودیہ اور اربابِ اختیار کی شدید خواہش کے پیشِ نظر جزیرہ عرب کے موحد اور اس کی ترقی کے علمبردار شاہ عبد العزیز عبد الرحمن نے ماہ محرم ۱۳۴۶ھ میں مکہ مکرمہ میں غلافِ کعبہ کی صنعت کے لیے عمارت قائم کرنے کا فرمان جاری کیا، چنانچہ پہلا غلافِ کعبہ انھی کے عہد میں بنایا گیا، غلافِ کعبہ بنانے کی سعادت ان کے بعد بھی جاری رہی۔ ان کے نیکوکار فرزندان اس مبارک روش پر عمل پیرا رہے، خادمِ حرمین شریفین فہد بن عبد العزیز جس وقت وزراء کونسل کے نائب صدر اور وزیرِ داخلہ تھے۔ انھوں نے ۷ ربیع الاول ۱۳۹۷ھ میں ’’ام الجود‘‘ کے مقام پر غلافِ کعبہ کی صنعت کاری کے لیے ایک فیکٹری کا سنگِ بنیاد رکھا اور اس کا افتتاح انھی کے مبارک ہاتھوں ہوا۔ اب بھی غلافِ کعبہ شریف کے معیار کو بہتر بنانے اور اس سلسلے میں جدید آلات کے استعمال اور ان آلات کو برتنے کے اہل کارکنوں کی تربیت کے انتظامات ہمہ وقت جاری و ساری ہیں۔ اس فیکٹری میں صرف سعودی باشندے کام کرتے ہیں، دو کروڑ سے زیادہ مالیت کے اس غلاف کی تیاری کے مد میں اٹھنے والے تمام اخراجات سعودی فرما رواں خود ادا کرتے ہیں، یہ فیکٹری سال میں صرف دو غلاف تیار کرتی ہے، ایک سیاہ غلاف جو ہم سب کی نگاہوں کا مرکز ہے دوسرا اندرونی دیواروں پر ڈالنے کے لیے سبز غلاف جسے مکمل طور پر سبز بھی نہیں کہا جا سکتا، نہ ہی اس میں نیلے رنگ کی آمیزش کہی جا سکتی ہے، اس رنگ کو صرف دیکھا جا سکتا ہے بتایا نہیں جا سکتا،جس پر بنائی میں ہی نقش و نگار ثبت ہوتے ہیں۔

کسویٰ کعبہ تفصیل سے دیکھنے کے بعد باہر نکلے۔ اب ہمارا رخ میوزیم کی جانب ہے لیکن یہ کیا… عبدالحلیم نے گاڑی واپس موڑ لی، ہماری یاد دہانی پر کہ ابھی ہمیں میوزیم بھی جانا ہے عمران صاحب اور عارف صاحب نے کہا کہ میوزیم مغرب سے عشا تک کھلتا ہے اس وقت تو بند ہوتا ہے، بہت کہا کہ جناب ابو عاکف نے دونوں مقامات کے لیے اجازت نامے لے لیے ہیں لیکن ان کی ایک ہی بات کہ وہ اس وقت کھلا ہی نہیں ہوتا تو جانے کا کیا فائدہ … خیر عبدالحلیم سے گزارش کی کہ شام کے وقت ایک مرتبہ اور تکلیف کرے اور ہمیں میوزیم لے جائے۔ اس نے بخوشی بات مان لی طے پایا کہ عصر کی نماز کے فوراً بعد ہم اپنے ہوٹل واپس آ جائیں گے، عبدالحلیم ہمیں میوزیم لے جائے گا۔ شام کو عبدالحلیم آیا تو کہنے لگا، جب میں نے جا کر بتایا کہ ہم میوزیم دیکھے بغیر آ گئے ہیں کیونکہ وہ تو شام کو کھلتا ہے تو مجھے ان صاحب نے جنھوں نے اجازت نامہ کے حصول کے لیے خط و کتابت کی تھی، بتایا کہ اجازت نامہ آپ دفتر ہی چھوڑ گئے اور دیگر دو اصحاب آپ کے ساتھ گئے ان کے علم میں بھی شاید یہ بات نہ تھی، جنا ب ابو عاکف نے درخواست کی تھی کہ پاکستان سے دو اہم مہمان ان مقامات کی زیارت کرنا چاہتے ہیں تو انھوں نے خصوصی طور پر صبح کے لیے میوزیم کھولنے کا اہتمام کیا اور آپ انھیں بغیر دکھائے واپس لے آئے ہیں۔ صبح کے وقت ان کے نمائندے ایک ایک یادگار کا مکمل تعارف تفصیل سے پیش کرتے،وہ لوگ انتظار کر رہے ہوں گے اب ہمیں انھیں مطلع کرنا ہو گا کہ ہمارے مہمان شام کوپہنچیں گے۔ شام کو اور لوگ بھی ہوں گے وہ لوگ سکون سے ایک ایک چیز نہ دیکھ پائیں گے……‘‘ عبد الحلیم افسوس کرتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا پورا علم۔ ادھورے علم سے بہتر ہوتا ہے، جب ہم میوزیم پہنچے تو مغرب کی اذان ہو رہی تھی،میوزیم کے برابر میں ہی ایک خوبصورت مسجد تھی، خواتین و حضرات گاڑیوں سے اترتے اندر جا رہے تھے، شاہد نے مجھے اشارہ کیا کہ ان عورتوں کے پیچھے پیچھے چلی جاؤ۔ عورتوں کے حصے تک پہنچے ہی تھے کہ اقامت شروع ہو گئی، نماز کے بعد الجود کے علاقے میں قائم میوزیم پہنچے۔

عربی و انگریزی زبان میں بہت خوب صورتی سے عمارت کا تعارف کرایا گیا ہے،

"Exhibition of the two holy mosque architecture”

عبدالحلیم نے کہا کہ میں باہر ہی انتظار کروں گا ہم اسے ایک گھنٹے کا وقت دے کر اندر آئے، ایک انتہائی دلکش روشنیوں میں نہائی عمارت میں داخل ہوئے تو پہلی نظر میں یوں لگا کہ جیسے کسی آرٹ گیلری میں آ گئے ہوں، دیواروں پر ابتدائے اسلام سے لے کر اب تک کی حرمین شریفین کی تصاویر، قرآنِ پاک کے مختلف عہدوں میں مختلف خطوں میں لکھے گئے مختلف حجم کے نمونے، قدیم مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے اہم مقامات۔ مساجد، کوچہ و بازا ر اور گلیاں، وہ جنھیں میرے نبیﷺ کے قدم چومنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی، جہاں صحابہ کرام ؓ ہر لمحہ آپ کی جنبشِ لب کے منتظر رہتے، جہاں ازدواج مطاہرات رہتی دنیا تک عورتوں کے لیے ایک مثال قائم کر گئیں، جہاں خلفائے راشدین وہ نظامِ حکومت مرتب کر گئے کہ اگر اس پر عمل کیا جاتا تو آج مسلمان عالمی برادری میں اس کسمپرسی، مظلومی اور بے نامی بلکہ رسوائی کی زندگی نہ بسر کر رہے ہوتے، میوزیم میں عہد نبوی کے ہر اس آثار کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ممکن تھا، حضور پاکﷺ کا مستعمل مشکیزہ،جحر اسود کے دو شکستہ حلقے، غلافِ کعبہ۔ خاص طور پر دروازے، دروازے کے منقش پردے، پیالے، صراحیاں، ڈول حتیٰ کہ زم زم کے کنویں کا حلقہ بھی محفوظ کیا گیا ہے، پھر اس عہد میں جو گھڑیاں استعمال ہوتی تھیں کہ جن کا حجم اتنا تھا کہ شاید ایک آدمی اسے اٹھا بھی نہ سکتا ہو۔ مقامِ ابراہیم علیہ السلام کا اولین نمونہ، خانہ کعبہ تک پہنچانے والی مختلف ادوار کی لکڑی کی سیڑھیاں۔ پھر خانہ کعبہ کے دروازے کی کلید دیکھ کر وہ سارے ان دیکھے مناظر دیکھی بھالی تاریخ کی مانند آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔

’’ ابن سعد نے طبقات میں عثمان بن ابی طلحہ سے روایت کی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم دور جاہلیت میں کعبہ شریف کا دروازہ پیر اور جمعرات کو کھولا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ تشریف لائے۔ آپ خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے جانا چاہتے تھے۔ آپ کے ہمراہ کچھ اور لوگ بھی تھے۔میں نے آپﷺ پر سختی کی اور آپﷺ کو تکلیف دی۔ آپ نے میرے ساتھ تحمل کا برتاؤ کیا۔ پھر آپ نے فرمایا، اے عثمان شاید تو جلد ہی اس چابی کو میرے ہاتھ میں دیکھے گا۔۔ پھر میں جسے چاہوں گا، دوں گا۔ میں نے کہا تو پھر قریش ذلیل و خوار ہوں گے اور ہلاک و برباد ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس وقت با عزت اور با وقار زندگی بسر کریں گے۔ پھر آپﷺ کعبہ شریف کے اندر جا گزیں ہوئے کہ مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن یہ معاملہ ایسے ہی ہو گا جیسے آپ نے ذکر کیا ہے۔

جب فتح مکہ کا دن ہوا تو آپ نے فرمایا اے عثمان چابی لاؤ۔ میں نے آپﷺ کے حوالے کر دی۔ پھر آپ نے مجھے واپس دے دی اور فرمایا اسے سنبھالو یہ ہمیشہ تمھارے پاس رہے گی اور تمھاری وراثت ہو گی ……… ہمارے موجودہ ز مانہ میں چا بی شیبہ بن عثمان بن طلحہ کی اولاد کے پاس ہے… آل شیبہ کی نسل آج تک کعبہ شریف کی دربان ہے۔‘‘ ۱۱؎

خانہ کعبہ کے لکڑی کے اور مختلف دھاتوں کے بنے مختلف ادوار کے دروازے کہ ہر ہر شے کی پوری تاریخ ساتھ ساتھ رقم کی گئی ہے، جو کمی رہ گئی اسے تصویروں کے ذریعے پورا کیا گیا ہے، پھر مسجد نبوی اور حرمِ کعبہ کے مستقبل میں توسیعی منصوبوں کو بہت خوب صورت ماڈلز کی صورت میں سمجھایا گیا ہے، شاہد بہت دنوں سے حرمین شریفین کے مستقبل کے منصوبوں کی تفصیل جاننے کے خواہش مند تھے۔ انھوں نے جو یہ انتہائی خوب صورت اور تفصیلی ماڈل دیکھے تو وہ سب کچھ بھول کر ایک ایک زا ویے سے نہ صرف ان کا معائنہ کرنے لگے بلکہ تصاویر کشی میں بھی مصروف ہو گئے، وہ تمام ہوٹل جنھیں بنے ابھی سال دو سال بھی نہ ہوئے تھے، ہم عمرے پر یا زیارتوں پر جاتے ہوئے انھیں گرائے جانے کے مناظر اکثر دیکھا کرتے پھر خانہ کعبہ کی توسیعی عمارات پر تیز رفتاری سے کام ہوتے دیکھتے اور حیران ہوتے رہتے،اب وہ ماڈل کے سامنے کھڑے ہو کر خود سمجھنے کی کوشش میں مجھے سمجھائے جا رہے تھے۔ یہ دیکھو بابِ فہد کی جانب سے یہاں تک توسیع ہو چکی ہے اتنی باقی ہے، یہ باب…… اور میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ دیکھنا چاہتی تھی لیکن جب ہم ایک کمرے سے گزر کر دوسرے میں پہنچے وہاں کی زیارات کرنے کے بعد خیال تھا کہ ہم تیسرے کمرے میں کچھ اور زیارتیں کرنے کے لیے داخل ہوں گے لیکن وہاں کی انتظامیہ نے ہمارے لیے باہر کا دروازہ کھول دیا، نہیں بھئی ابھی تو ہمیں پورا میوزیم دیکھنا ہے معلوم ہوا کہ پورا میوزیم یہی ہے، میں جو کچھ اس عجائب خانہ کے متعلق مطالعہ کر کے چلی تھی۔ مجھے لگا کہ میں نے تو ابھی اس کا دسواں حصہ بھی نہیں دیکھا، شاہد سے بھی میں کہتی رہی کہ بھئی میوزیم کئی ہالوں پر مشتمل ہے جس میں قرآن ہال بھی موجود ہے۔ ہمیں یہ دوسری منزل پر کیوں نہیں جانے دیتے، معلوم ہوا کہ بس میوزیم اتنا ہی ہے جوآپ نے دیکھ لیا ہے، باہر آئے تو عبدالحلیم کو اپنا منتظر پایا، اسے معلوم تھا کہ ہمیں عشا ء سے پہلے حر م پہنچانا ہے۔ مکہ میوزیم کے ساتھ ہی پانچ منزلہ رابطہ عالمِ اسلامی کا دفتر ہے۔ مسلمان ممالک کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان کے حل کی متلاشی یہ جماعت ساٹھ جید علما پر مشتمل ہے۔ مولانا مودودی کی قابلیت کا عالم عرب معترف رہا ہے، وہ بھی اس کے ایک معتبر رکن تھے۔اس دفتر میں کئی شعبے ہیں جن میں سیکڑوں کارکن مصروفِ کار ہیں۔

عبد الحلیم راستے میں گزرتی عمارات اور شاہراہوں کے متعلق معلومات فراہم کرتا رہا۔ میں نے شاہد سے کہا کہ عبدالحلیم اتنی اچھی اردو بولتا ہے کہ مقامی معلوم نہیں ہوتا۔ اس کا لہجہ اس کی ان اردو حروفِ تہجی کی ادائگی جو عربی میں مستعمل نہیں ہیں۔ کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ اردو اس نے پاکستانیوں، ہندوستانیوں کی صحبت میں سیکھی ہو گی یہ تو مادری زبان کی مانند بولتا ہے، عبدالحلیم اپنے متعلق حروفِ ستائش سن کر خاموش نہ رہ سکا کہنے لگا، میرا تعلق سندھ سے ہے۔ والد عرب آئے تو کچھ عرصے بعد میں بھی آ گیا، اب تو سالوں ہو گئے ہیں، پاکستان جانا ہوتا رہتا ہے، لیکن یہاں رہ کر عربی اچھی بولنا سیکھ گیا ہوں تو اکثر انجان لوگ مجھے مقامی جانتے ہیں۔ عمران صاحب اور عارف صاحب کو ابھی آئے زیادہ روز نہیں ہوئے وہ بھی میری عربی بول چال اور لباس کی وجہ سے مجھے مقامی سمجھتے ہیں۔

 

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں

 

جب بھی حج و عمرہ سے واپسی ہوتی ہے شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ نہ کچھ ایسا رہ جاتا ہے جسے اللہ کے گھر حاضری اور دیار نبیﷺ میں حضوری کا بہانہ بنایا جا سکتا ہے۔اب کے بھی چند ایک خواہشات تشنہ رہ گئیں ایک تو مسجد قبا روز نہ سہی ہر دوسرے روز جانا چاہتی تھی وہ نہ ہو سکا، دوسرے جناب ابو عاکف سے دارِ مدینہ میوزیم دیکھنے کی خواہش کا اظہار نہ کر سکی ورنہ وہ اس کا بھی انتظام کر دیتے، دار مدینہ کیا ہے اس کی تفصیل ’’ اللہ، کعبہ اور بندہ‘‘ میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے رقم کی ہے۔ اس میوزیم میں حضور پاکِ کی زندگی کے تمام ادوار خصوصاً ہجرت مدینہ کے تما م راستے اور دورانِ ہجرت پیش آنے والے واقعات کو نقشوں کی مدد سے بہت تفصیل سے سمجھایا گیا ہے۔ پھر مسجد نبوی کی ابتدائی حالت سے لے کر موجودہ صورت تک جو توسیع ہوتی رہی اسے مختلف نمونوں کی مدد سے دکھایا گیا ہے۔ اس دور کے لیمپ، چراغ، برتن، چمڑے کی اشیا اور ملبوسات بھی محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہاں رکھے گئے سکے اور نوٹ روپے کی گرتی ہوئی صورت حال کا نوحہ سناتے ہیں۔ اس عجائب گھر میں قوم عاد و ثمود کی وادی المدائن صالح کی نایاب قد آدم تصاویر بھی ہیں۔۱۲ ؎

وادی المد ائن، جسے دیکھنے کی خواہش ہے لیکن اس کے لیے پاکستان سے ہی بندو بست کر کے، ویزے وغیرہ کا انتظام کر کے جانا چاہیے۔ ایک اور خواہش جو تشنہ رہ گئی، وادی جن دیکھنے کی،پچھلے عمرے سے واپس آئے تھے تو بچوں نے پوچھا کہ وادی جن گئے تھے؟ ہم نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ مسجد جن مکہ تو گئے تھے لیکن یہ وادی جن کیا ہے۔ بچوں نے نیٹ کے ذریعے بہت کچھ دکھانے اور سمجھانے کی کو شش کی۔ اب کے عمرے پر ارادہ تھا کہ اس انوکھے تجربے میں ضرور شریک ہوں گے لیکن ایک تو وہاں جا کر حرمِ نبوی سے دور رہنا نہیں چاہتے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ مدینہ میں آپ کا کوئی واقف، کوئی دوست موجود ہو جو ان تاریخی مقامات تک آپ کی رہنمائی کرے۔ زیارتوں پر لے جانے والے انھی گنے چنے چند تاریخی مقامات یا مساجد تک لے جاتے ہیں جو ان کے مقرر کردہ روٹ میں شامل ہیں، اس سے ہٹ کر وہ بالکل نہ آپ کو لے کر جائیں گے نہ آپ کی رہنمائی کریں گے کہ آپ کسی نہ کسی طرح خود ہی کوشش کر لیں، تو اس مرتبہ خواہش کے باوجود وادیِ جن نہ جا پائے۔ یہ وہی وادی ہے کہ جہاں محیر القول واقعات کا رونما ہونا معمول کی بات ہے، گاڑی کا خود بخود چلنا، بے شک آپ گاڑی سے چابی نکال لیں، وہ تیزی سے چلتی چلی جائے گی، پانی کو گرائیں تو وہ نیچے کی طرف آتا ہے کہ کشش ثقل کا اصول ہی یہی ہے لیکن یہاں تمام اصول و ضوابط تمام قانون و قاعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ مدینہ سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر انتہائی ہیبت ناک پتھریلے، نوکیلے، کالے مٹیالے پہاڑوں کے سلسلے کے نیچے بچھے میدان کو وادیِ البیضاء جو و ادی جن کے نام سے مشہور ہے۔ دور سے آنے والوں کے لیے ایک حیرت کدہ اور مقامیوں کے لیے تفریحی مقام ہے جہاں وہ تعطیل کا دن ہنگامہ پرور انداز میں گزارتے اور نت نئے تجربے کرتے ہیں۔ ۱۳ ؎

 

معصوم پرندے

 

کبوتروں والے چوک سے گزرتے، سیاہ فام عورتیں ہر گزرنے والے کا دامن یا آستینیں کھینچ کر اپنی جانب متوجہ کرتیں۔ ’’ دانہ لے لو، دانہ لے لو‘‘، حج کے موقع پر دانے لے کر ڈالے تھے لیکن پھر ان گندم فروش عورتوں کی حرکات سے دل کچھ ایسا بیزار ہوا کہ ان سے بچ کر گزرنا شروع کر دیا تھا، پچھلے عمرے میں بھی گریزاں رہی۔پاکستان آ کر اپنے عزیزوں سے کئی ایک واقعات ایسے سنے کہ کبوتروں کو دانا ڈالنے کے سبب اللہ کی برکت سے لاینحل مسائل حل ہوئے اور اس ربِ کریم نے لا علاج بیماریوں سے شفا عطا فرمائی مجھے احساس ہوا کہ اللہ مجھے مواقع فراہم کرتا رہا اور میں نے اس معصوم مخلوق کے لیے کبھی نہ سوچا، چنانچہ اب میں گزرتے ہوئے دانہ خرید لیتی اور کبوتروں کو ڈال دیتی۔

کبوتروں کی پیغام رسانی شعری موضوعات میں شامل رہی ہے لیکن یہ کوئی ماورائی یا مافوق الفطرت عمل نہیں تھا حقیقتاً اس معصوم پرندے نے اعلیٰ حکومتی و سیاسی و فوجی قیادتوں کی معاونت کی ہے۔ ’’تاریخِ مکہ المکرمہ‘‘ میں ڈاک کے نظم و نسق میں ان کبوتروں کو خچر گھوڑے اور گدھوں پر فوقیت دی گئی ہے۔

’’… جنگ اور بعض دوسرے اہم مواقع میں جہاں خط جلدی پہنچانا مقصود ہوتا تو یہ خدمت خاص قسم کے سدھائے ہوئے کبوتروں سے لی جاتی۔ ان کی اڑان بہت تیز ہوتی تھی۔ ایک دن میں تقریباً ۴۰،۵۰ کلو میٹر مسافت طے کرتے تھے… کبوتروں کے اس قابلِ قدر وصف کی بنا پر ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی تھی، جو سونے کی سات سو اشرفیوں سے لے کر ایک ہزار اشرفی تک ہوتی تھی۔ اس طرح ان کے دو انڈوں کی قیمت بیس اشرفیاں تھیں۔ یہ کبوتر پیدائشی طور پر سیکھے ہوئے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے خاص قسم کے آدمی مقرر تھے۔ ‘‘ ۱۴؎

وہاں روزانہ یہ منظر دیکھنے میں آتا کہ جہاں لوگ کبوتروں کو دانہ ڈال رہے ہوتے،وہیں بہت سی خواتین اور کبھی کبھی مرد بھی بیٹھے ہوئے بکھرے دانوں میں سے کچھ تلاش کر رہے ہوتے ایک روز میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں تو کہنے لگے گندم کے دانوں میں کوئی کوئی دانہ جو کا بھی نکل آتا ہے ہم جو کے دانے تلاش کر رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ جو کے یہ دانے اگر بے اولاد خواتین کھا لیں تو اللہ اپنا فضل کرتا ہے، اپنے اپنے عقیدے کی بات ہے کسی کو رد کرنے کی جرات نہیں تھی، خاموشی سے آگے بڑھ گئی۔

 

در پہ بیدار ہے دربان، بڑی مشکل ہے

 

میں جو ساری زندگی’’ سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے ‘‘پر عمل پیرا رہی ہوں اور جب کبھی اس لکیر سے باہر نکلنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کی اتنی بری طرح پسپا ہوئی کہ آئندہ کے لیے توبہ ہی کر لی لیکن اس دن مجھے نہ جانے کیا ہوا … قصہ یوں ہے کہ دبئی سے رخصت ہوتے ہوئے آخری لمحوں میں گھر پر سامان تولا گیا تو وہ چھبیس کلو زیادہ نکلا۔ حل یہ تجویز ہوا کہ دستی سامان میں کچھ اور شامل کر لیا جائے لیکن دستی سامان … وہ تو پہلے ہی سات کی بجائے بارہ پندرہ کلو کی حدود سے تجاوز کر رہا تھا، میں نے شاہد سے کہا کہ میں ان گتے کے بڑے بڑے ڈبوں کو کھولتی ہوں اور کچھ سامان نکال دیتی ہوں، شاہد نے مجھے منع کیا کہ رہنے دو اللہ مالک ہے … لیکن میرے ذہن میں نہ جانے کیا آئی کہ ان کے نماز کے لیے مسجد جاتے ہی ڈبے کھولے اور ان میں سے کیا نکالا۔ اپنی کتابیں دسترس میں آسمان،سرحدِ ادراک سے آگے، چالیس کے عدد کی کرشمہ سازیاں، بے زبانی زباں نہ ہو جائے،حفیظ ہوشیار پوری۔ خیال آیا کہ اس سے ڈیڑھ دو کلو وزن کم ہو جائے گا،تو کیا فرق پڑے گا، لیکن میں اتنی دیر میں ڈبے دوبارہ بند کر چکی تھی، شاہد بھی نماز پڑھ کر آ گئے تھے، انھیں بتایا کہ میں نے یہ کتابیں نکال دی ہیں۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ کیا فرق پڑ جائے گا، اب مجھے افسوس ہو رہا ہے لیکن بار بار کھولنا بند کرنا ممکن نہیں، عطیہ کہنے لگی۔

’’فکر نہ کریں میں یہ کتابیں اپنی سہلیوں کو دوں گی وہ بہت خوش ہوں گی۔ ‘‘

پرواز کا وقت قریب آتا جا رہا تھا۔ سبھی افسردہ تھے، اس افسردگی میں یہ احساس بھی شامل تھا کہ سامان زیادہ ہو نے کے سبب ہمارے میز بان تحائف کے انبار سے ہمیں جتنا وہ چاہتے تھے، اتنا لاد نہ سکے یہ خوشی البتہ تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے گھر جا رہے ہیں۔ سبھی دعاؤں کے لیے کہہ رہے تھے اور میری نگاہیں عطیہ کی الماری کے اس خانے پر مرکوز تھیں کہ جہاں میں نے اپنی کتابیں رکھی تھیں، گھر سے نکلتے نکلتے میں ایک دم پلٹی اور ہاتھ بڑھا کر بغیر دیکھے دو تین کتابیں اٹھا لیں۔ ہر سال عزیز و اقارب حج و عمرے پر جاتے ہیں تو بتاتے ہیں۔ ’’ ہم آپ کی کتابیں لے گئے تھے۔ بہت مدد ملی۔‘‘

… مجھے خوشی ہوتی کہ میں نہ سہی میری کتابیں وہاں سے ہو آئی ہیں … اب میں جا رہی ہوں تو اپنی ہی کتب وزن کے خیال سے چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ میرے دستی سامان میں رتی برابر جگہ نہ تھی لیکن میں نے کسی نہ کسی طرح ان کی جگہ بنا لی…… اور عازمِ سفر ہوئے۔ دس دن مکہ میں رہے، دس دن مدینہ میں رہے اب آخری دس دن پھر مکہ میں قیام تھا اور لمحے مٹھی میں ریت کی مانند پھسلتے جا رہے تھے، مدینہ سے واپسی پر میرا ارادہ تھا کہ تین عمرے ہو جا ئیں گے ایک عمرہ تو مدینہ سے آتے ہی ہو گیا تھا۔ دوسرا دو روز بعد کیا تیسرے عمرے کے لیے شاہد نے کہا کہ روانگی سے دو ایک روز پہلے کر لیں گے۔ یکم اپریل، اہل مغرب کے لیے جیسا بھی دن ہو میرے لیے یاد گار ہے… میں ہر روز میز پر پڑی اپنی کتابوں پر نگاہ ڈالتی اور سوچتی۔ یہاں نہ میں نے انھیں کھول کر دیکھا نہ مجھے کوئی ایسا نظر آیا کہ جسے میں تحفے میں ہی دے دیتی۔ شاہد سے میں نے کہا کہ ہر مرتبہ ہم مولدِ نبیﷺ جاتے ہیں باہر سے دیکھ کر آ جاتے ہیں کبھی ہمیں یہ در کھلا ہوا نہ ملا، آپ مولدِ نبویﷺ کا پتہ تو کریں کس وقت کھلتا ہے، دوسر ے دن شاہد نے بتایا کہ میں معلوم کر آیا ہوں۔ ظہر تک کھلا ہوتا ہے، اگلے دن میں نے فجر کے لیے جاتے ہوئے اپنے بیگ میں سرحدِ ادراک سے آگے اور چالیس کے عدد کی کرشمہ سازیاں … ڈالنی چاہیں تو شاہد کہنے لگے اتنی صبح تھوڑی کھلتا ہے، واپس رکھو … دن میں لے جائیں گے، میں نے کتابیں واپس رکھ دیں۔ نمارِ فجر کے بعد ایک طواف کیا، نوافل ادا کیے۔ گھر آتے آتے دس بج گئے، ناشتے کے بعد تھوڑی دیر آرام کی غرض سے لیٹے، جب اٹھے تو پونے بارہ ہو رہے تھے، انتہائی تیزی سے اپنا تھیلا تیار کرنا شروع کیا، کتابیں ڈالنے لگی تو شاہد کہنے لگے ’’اب دیر ہو گئی ہے، کتابیں رہنے دو، کل لے جائیں گے۔‘‘ میں ایک دم چڑ گئی ’’ صبح کہتے ہیں دوپہر کو لے جائیں گے۔ اب کہہ رہے ہیں کل، میں ابھی لے کر جاؤں گی۔‘‘

اب ہم تیزی سے باہر نکلے بیس منٹ کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے کیا۔ حرم پہنچے تو اذانیں شروع ہو گئیں۔ شاہد کہنے لگے، کل عمرے کے لیے آنا ہی ہے مروہ سے نکلیں گے تو سامنے ہی مولدِ نبیﷺ ہے، آرام سے دے آئیں گے، میں نے کہا کہ نہیں مجھے ابھی جانا ہے، بابِ عبدالعزیز سے مولدِ نبیﷺ تک خاصا فاصلہ ہے، شاہد نے دیکھا کہ یہ کسی طور نہیں مان رہی تو انھوں نے مطاف کے درمیان سے کم فاصلے والا راستہ اختیار کیا، طواف کرتے لوگوں کے ازدحام سے نکل کر ہم بابِ مروہ پہنچے۔ وہاں سے متحرک زینوں سے اوپر چڑھے اب صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ نماز کے لیے حرم کی جانب آ رہے ہیں اور ہم مخالف سمت میں دوڑتے چلے جا رہے ہیں، شاہد برابر مجھے سمجھا رہے ہیں … اب نماز کا وقت ہو نے والا ہے۔ اب کوئی فائدہ نہیں، اور میں کہتی جا رہی ہوں مجھے بھی پتا ہے، اس وقت مکہ کے دکان دار جان بچانے والی دوا بھی نہیں دیتے کہ نماز کے بعد دیں گے لیکن آپ مجھے نہ روکیں۔ دھتکاری ہی جاؤں گی نا، ایک دفعہ مجھے پہنچ لینے دیں، میں دوڑتے دوڑتے یہ باتیں کہتی جاتی ہوں شاہد میرے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ دور سے نظر آنے والا مکتبہ میرے سامنے ہے، بڑے بڑے سفید لکڑی کے دروازے آج میں نے پہلی مرتبہ وا دیکھے ہیں، دو چار لوگ باہر کھڑے تصویر کشی میں مصروف ہیں، لیکن مجھے صرف کھلا دروازہ نظر آ رہا ہے، جسے سرخ رنگ کے بلاکس کی رکاوٹیں کھڑی کر کے اس بات کی اطلاع دی گئی ہے کہ مکتبہ بند ہے، میں اڑ کر وہاں پہنچ گئی ہوں اور اب ان رکاوٹوں کے پاس کھڑی ہو کر شیشے کے دروازے سے اندر بیٹھے مکتبہ کے ناظم کو اشارہ کرتی ہوں … مجھے اندر آنا ہے، مجھے اندر آنا ہے۔ میر ا رواں رواں چیخ رہا ہے، اندر موجود شرطے تیزی سے باہر آ کر مجھے پیچھے جانے کے لیے کہتے ہیں، شاہد بھی پہنچ گئے ہیں انھوں نے میرے پیچھے کھڑے ہو کر ا شارے سے ان ناظم صاحب سے ایک منٹ کے لیے بات سننے کی اجازت چاہی، وہ صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کر ہماری طرف آنے لگے اور شرطوں کو کہا کہ انھیں اندر آنے دو۔ انھوں نے شیشے کا در وازہ کھول دیا، سرخ نرم دبیز قالین ان دو تین سیڑھیوں پر بھی پڑا ہوا تھا جن سے اتر کر ہمیں مکتبہ میں داخل ہونا تھا۔ ابھی میں نے دروازے سے قدم اندر رکھا ہی تھا کہ دو تین شرطے آ موجود ہوئے… نسا ممنوع …نساممنوع۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں اور تیزی سے بیگ سے کتابیں نکال کر شاہد کے حوالے کیں، خود باہر آ کر ان سیڑھیوں پر بیٹھنے لگی تو پھر وہیں شرطے سر پر آ کھڑے ہوئے …

’’ نسا ممنوع نسا ممنوع۔ باہر باہر … ‘‘

میں نے کہاکہ کوئی بات نہیں میں باہر چلی جاتی ہوں، میں نے اور میری کتابوں نے تو لمحہ بھر ہی سہی مولدِ رسولﷺ میں سانس لے لیا، یہی بہت ہے۔

ان کے سنگِ آستاں تک آ گئے

ہم زمیں سے آسماں تک آ گئے

اتنے میں شاہد ناظم صاحب سے بات کر چکے تھے کہ ہم یہ کتابیں مکتبۂ مولد نبیﷺ میں رکھوانا چاہتے ہیں اور ان کتابوں کی مصنف باہر کھڑی ہیں۔ ناظم صاحب کہنے لگے۔

’’کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ان کتابوں پر ہمیں لکھ کر دے دیں کہ یہ کتابیں ہمارے نام معنون کر رہی ہیں۔‘‘

شاہد نے کہا۔’’ کیوں نہیں ‘‘

… اب اگلا منظر کہ وہی شرطے جو میرے دروازے کے قریب کھڑے ہونے پر مجھ سے نالاں تھے۔ الفاظ کے چابک سے باہر اور باہر دھکیل رہے تھے اب مجھے اندر لے کر جا رہے ہیں، ناظم صاحب نے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا۔ کتابیں میرے سامنے رکھیں اور میں نے ان پر… ’’مکتبۂ مولدِ نبیﷺ کے باذوق اور با ادب قارئین کی نذرَ‘‘… لکھ کر اپنے دستخط کیے اور کتابیں ان کے حوالے کیں۔ کچھ تعارفی کلمات ادا ہوئے۔چند ایک باتیں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بارے میں ہوئیں، وہ چند ساعتیں جو مجھے اس کمرے میں نصیب ہوئیں یقیناً میری زندگی کا حاصل ہیں، کتابوں سے بھری الماریاں۔ لمبی لمبی میزیں اور ان کے گرد کرسیاں۔ اس ایک لمحے کے منظر میں مجھے صرف ایک بزرگ مطالعے میں مصروف نظر آئے، ہم نے رخصت چاہی، نماز کا وقت بالکل قریب تھا، اب پھر دوڑ شروع ہوئی لیکن یہ اطمینان تھا کہ جماعت شروع ہو گئی تو ہم کہیں بھی نماز کے لیے کھڑے ہو جائیں گے لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ ہم صفا مروہ سے گزر کر مطاف سے ہو تے ہوئے بابِ عبد العزیز کے اسی مقام پرپہنچ چکے تھے کہ جہاں روز نماز پڑھا کرتے تھے، اللہ اکبر کی صدا نے قیام کی اطلاع دی۔ نماز ادا کی رکوع، سجدے اور قعدہ،جسم نے ہر رکن پورا کیا لیکن روح تمام وقت سجدۂ شکر کی ادائگی میں محو رہی۔ وہ مکتبہ جو میں نے گذشتہ دو اسفار میں کبھی کھلا نہ دیکھا، جہاں ’’النساء ممنوع ‘‘ کی صدائیں گونجتی تھیں، میں آج کتنی عزت کے ساتھ بلا ئی گئی۔ میں جو کچھ بھی نہیں ہوں، لیکن اللہ اپنے کمزور و ناتواں اور عصیاں سے لبریز بندوں کو بھی اپنے کرم سے نوازتا ہے۔ شاہد کہنے لگے۔

’’ بس یہ لمحہ کلک کر گیا، یہ ہاتھ سے پھسل جاتا تو ہم یہاں کبھی پہنچ نہ پاتے۔ ‘‘

اللہ پاک نے میری کتنی آرزوئیں پوری کی ہیں، ان کی حد ہے نہ شمار۔ یہ آرزو سب سے بڑی تھی جو آج باریاب ہوئی۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔ دربان بیدار ہو یا خفتہ، مہربان ہو یا نا مہر بان، اللہ نے اذنِ باریابی نصیب میں لکھا ہو تو کوئی رکاوٹ راستہ نہیں روک سکتی۔

ہوش کس کو ہے نیاز و ناز میں

ہم مکیں تک یا مکاں تک آ گئے

( یو سف ظفر)

مولدِ نبیﷺ جو آپﷺ کے والد کی ملکیت تھا ہجرتِ مدینہ کے وقت آپ نے اپنے چچا زاد بھائی عقیل بن ابی طالب کو عطیہ کر دیا تھا۔ وقت نے کئی کروٹیں بدلیں۔ مکین بھی بدلتے رہے۔ ۱۷۱ھ میں خلیفہ ہارون الرشید کی والدہ خیزران نے اسے خرید کر مسجد کی شکل دے دی۔ ایک طویل عرصے کے بعد اسے پھر مکان میں تبدیل کر دیا گیا۔ ۱۳۴۳ھ میں اس مکان کے منہدم ہو جانے کے بعد از سر نو تعمیر کیا گیا۔ الشیخ بن یوسف القطان نے ۱۳۷۰ھ میں اس کی تعمیر کا آغاز اس نیت سے کیا تھا کہ یہاں ایک شاندار لائبریری قائم کی جائے گی۔ ان کی خواہش پوری ہوئی۔ بے حد خوبصورت، پر سکون اور دینِ اسلام سے متعلق مختلف زبانوں کی اہم کتب سے مزین اس لائبریری کو وہ شرف حاصل ہے جو کسی اور مقام کو نہیں۔

دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں پھر مقام مکہ مکرمہ کا ہو بیت اللہ سامنے ہو تو دعا کیسے رد ہو سکتی ہے۔ ہاں دیر سویر ہونے پر ہم شور مچانے لگتے ہیں۔ دعا کی قبولیت کے بھی کئی درجے ہیں۔ دعا من و عن قبول کر لی جاتی ہے۔ یہ بھول کر کہ ہم لاعلم ہیں اس عمل سے کہ جس کے لیے اتنی شدت سے دعا کر رہے ہیں، وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بہتر شے سے نواز دیتا ہے۔ تیسرا سب سے بڑا درجہ یہ ہے کہ ہماری دعا محفوظ کر لی جاتی ہے اور ہمیں دوسری زندگی میں اس کا اجر ملتا ہے۔ دعا کی قبولیت کے لیے دلِ گداختہ ہونا، جائز ہونا شرطِ اولیٰ ہے اور اگر مقامات کی بات کی جائے تو مکہ مکرمہ میں پندرہ ایسے مقامات بتائے گئے ہیں کہ جہاں دعا قبول ہوتی ہے کعبہ شریف کے اندر، ملتزم کے پاس، وقوفِ عرفات، وقوفِ مزدلفہ، حجرِ اسود کے قریب، وقتِ طواف، دورانِ سعی، صفا اور مروہ پر، زمزم کے پاس، مقامِ ابراہیم علیہ السلام پر، میزاب اور تینوں جمرات پر دعا کے قبول ہونے کی نوید دی گئی ہے۔

ثروت باجی اور جاوید بھائی نے خاص طور پر بلاوے کی دعا کے لیے بصد اصرار کہا تھا۔ مجھے ا ن کے لیے ریاض ا لجنۃ میں، دعا کر نے کا موقع ملا، بلاوا ان کا پہلے بھی آ چکا تھا، دس بارہ برس پہلے وہ اس دیا رِ مقدس سے ہو آئے تھے لیکن کیسے، کن حالات میں، بلاوا ہو تو راستے کے سارے خارِ ببول، پھول ہو جاتے ہیں۔ ان کی رودادِ حج مختصرا ً جاوید بھائی کے الفاظ میں ہی نہ سنا دوں۔

 

میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں

 

’’ جب مجھے میرے ادارے کی جانب سے ترکی جانے کی پیش کش ہوئی تو میں نے اسے بلا تامل قبول کر لیا۔ سیر و سفر کے شوق میں ہم نے تیاری شروع کر دی۔ کراچی کا موسم انتہائی گرم ہوتا ہے اور سردی آتی بھی ہے تو صرف اپنا تعارف کرانے کے لیے … اور ابھی تعارف مکمل بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ رخصت ہو جاتی ہے۔ ہم گرم کپڑوں اور ضروری سامان کی خریداری میں مصروف تھے … میرے اندر ایک خواہش بہت شدت سے جڑ پکڑتی جا رہی تھی … میں ترکی جاؤں اور وہاں نہ جاؤں جہاں جانے کے لیے میری روح کب سے تڑپ رہی ہے۔

میں نے اس خواہش کا اظہار کسی سے نہ کیا۔ صرف وہی جانتا تھا جو دل کے نہاں خانوں میں چھپی ہر بات کا گواہ ہے اور ہر درد کا مداوا اور ہر آرزو کی تکمیل کرنے والا ہے … ترکی سے واپسی پر مجھے حج کرنا ہے …

ترکی میں قیام کا دو سالہ عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا اور اب وہ وقت آ گیا تھا کہ جب مجھے وطن واپسی کے لیے رخت سفر باندھنا تھا،بڑے بیٹے بلال کو کہ اس کی تعلیم میں کہیں رکاوٹ نہ آئے، اس خدشے کے تحت ایک سال پہلے کراچی بھیج چکا تھا، چھوٹے دونوں بیٹے طلال اور فہد میرے ہمراہ تھے، مئی میں مجھے ترکی چھوڑنا تھا، حج جون کے مہینے میں تھا، میں نے اپنے ادارے کے سربراہ سے خواہش ظاہر کی کہ میں جون میں ہونے والے اہم سمینار میں شرکت کر نا چاہتا ہوں۔ میری درخواست مان لی گئی، یوں مجھے ایک ماہ قیام کی بخوشی اجازت مل گئی، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی میرے ادارے کے سربراہ اور میرے ساتھی چاہتے تھے کہ میں اپنی مدت قیام میں ایک دو سال کی توسیع کروا لوں لیکن مجھے میرے وطن کی خوشبو کھینچتی تھی، وہ حیران تھے کہ جو آتا ہے وہ جانا نہیں چاہتا اور شاہد جاوید اتنی سہولتوں کے باوجود کیوں رکنا نہیں چاہتا …

یہ تمام کام اپریل میں ہوا تھا۔ مئی میں، میں نے اپنی اور اہلیہ کی نشست کی بکنگ ۱۳ جون کے لیے کراچی براستہ جدہ مخصوص کروائی اور دونوں بیٹوں طلال اور فہد کے لیے استنبول سے کراچی بذریعہ ایمرٹس نشستیں مخصوص کروائیں۔ جون کی پانچ تا سات تاریخ، بہت زبر دست سمینار ہوا۔ ۱۲ جون کو میں اور ثروت بچوں کو چھوڑنے ایر پورٹ گئے تا کہ انھیں اپنی نگرانی میں کراچی کے لیے روانہ کرسکیں پھر بچوں کے پاس سامان بھی ممکنہ حد سے زیادہ تھا، اپنا اور ثروت کا پاسپورٹ اور ٹکٹ بھی لے لیا کہ ائرپورٹ کے اندر جانے میں آسانی ہو گی۔

جب ہم بچوں کی بورڈنگ کا انتظام کر رہے تھے، میں نے دیکھا کہ حاجیوں کی ایک قطارپُر جوش تمتماتے چہروں کے ساتھ احرام کے مقدس لبادے میں ملبوس زیرِ لب اور کبھی کبھی بلند آواز سے لبیک الھم لبیک کے روح پرور کلمات دہراتی اور اپنے کاغذات چیک کراتی گزر رہی ہے۔ عازمینِ حج کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر،ان کا جذبہ دیکھ کر میں ایک انوکھے احساس سے سرشار ہوا۔

’’ کل میں اور ثروت بھی اس جگہ کھڑے ہوں گے۔‘‘

یہ تصور شوق و وارفتگی کے عالم کو بڑھاتا تھا۔مجھے نہیں معلوم، کس جذبے کے تحت میرے قدم خود بخود حج کا ؤنٹر کی طرف اٹھتے گئے، میری جیب میں سعودیہ ایر لائنز کے کل کے ٹکٹ موجود تھے، میں نے اس کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑے کارکنوں کو بتایا کہ کل میں بھی اسی جگہ اسی لائن میں احرام پہنے کاغذات چیک کروا رہا ہوں گا تا کہ جدہ کے سفر کی اجازت حاصل کر سکوں۔ میری بات سن کر ان کے چہروں پر کچھ عجیب سے تاثرات آئے، میں نے توجہ نہ دی، وہ کہنے لگے۔

’’ اپنا ٹکٹ اور پاسپورٹ دکھائیں۔‘‘

میں نے بڑے شوق سے دونوں چیزیں ان کے حوالے کیں، انھوں نے کہا کہ وہ ان دو افراد کے منتظر تھے، جنھوں نے استنبول سے جدہ جانا تھا اور واپس استنبول نہیں آنا تھا۔ اس سال ’’حج اکبر‘‘ کا اعلان ہو چکا ہے، فلائٹ شیڈول میں کچھ تبدیلی ہو چکی ہے اور آج کی فلائٹ استنبول سے حاجیوں کو لے جانے والی آخری فلائٹ ہے جس کی روانگی میں ڈیڑھ گھنٹا باقی ہے جو آپ کسی صورت پکڑ نہ سکیں گے

یہ سنتے ہی میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میں نے ٹکٹوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے اس شیڈول پر اپنا سفر ترتیب دیا ہے۔ جو صورت حال آپ فرما رہے ہیں، یہ میرے لیے نا قابل قبول ہے۔ مجھے حج کے لیے بہر صورت جانا ہے۔

مزید غور و خوض کے بعد انہوں نے کہا، البتہ ایک ٹرکش فلائٹ جدہ جا رہی ہے جس میں صرف ایک ہی سیٹ باقی ہے، ہاں برسر کی ایک سیٹ ہم آپ کو دے سکتے ہیں اس لیے جتنی جلد ممکن ہو ٹیکسی پکڑیں، سامان لے کر اسی ٹیکسی پر واپس ایر پورٹ پہنچیں۔ ہم کو شش کریں گے کہ آپ کو اس فلائٹ سے جدہ بھیجوا سکیں۔

’’ ہمیں یہ فلائٹ پکڑنی ہے۔‘‘

جسم کا رواں رواں اور ساری فضا اسی بازگشت سے گونج رہی تھی۔ ہم بچوں کو بھول چکے تھے۔ انتہائی برق رفتاری سے گھر پہنچے سامان تو پیک کر ہی چکے تھے کہ کل ہمیں جدہ کے لیے روانہ ہونا ہے، لیکن گھر سمیٹنا باقی تھا۔کچھ سامان، کچھ تحفے دوستوں کو دینے تھے، لیکن اب کسی چیز کا ہوش نہ تھا، وقت کو پر لگے ہوئے تھے اور ہم نے اپنے قدموں کو پہیے بنا لیا تھا۔ ائر پورٹ پہنچے۔ جہاز کی روانگی کا اعلان ہو رہا تھا۔ ہم نے اپنا ٹکٹ پاسپورٹ، کاؤنٹر پر موجود لڑکی کو دکھایا لیکن اسے جانے کی جلدی تھی اور وہ مہربان جنھوں نے مدد کا وعدہ کیا تھا، سعودی ائر لائنز کے کار کن ؎

… جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے …

کوئی ہمدرد موجود نہ تھا۔ ہم خالی ہاتھ گھر واپس آ گئے۔

کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہ رات ہم نے کیسے گزاری ہو گی۔ اگلی صبح میں اس بروکر کے پاس گیا جس نے ہماری بکنگ کی تھی، اس نے معذرت کی کہ چونکہ ہمارا پتہ اس کے پاس موجود نہ تھا اس لیے وہ ہمیں اطلاع نہ دے سکا۔ اس نے مشورہ دیا کہ آپ سعودیہ کونسلیٹ جائیں شاید بات بن جائے، میں الٹے قدموں سعودی کونسلیٹ پہنچا اور وہاں موجود آفیسر کو رودادِ غم کہہ سنائی۔

’’ جب میرے پاس ٹکٹ اور ویزے موجود ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج سعودی ائر لائنز والے مجھے حج کے لیے جدہ لے جانے پر آمادہ نہیں۔‘‘

سعودی ائر لائنز بات کی گئی۔ان کا ایک ہی جواب تھا کہ اُس فلائٹ کے بعد کسی حاجی کو لے گئے تو انھیں ۲۵۰۰۰ ریال جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔

شواہد اور روّیے بتاتے تھے کہ ہم حج پر نہ جا سکیں گے … ؎

قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند

دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا

’’ حج اکبر‘‘ ہم اپنی خوش نصیبی پر کتنے نازاں تھے، ہمارے تمام کاغذات، تمام تیاریاں مکمل تھیں ہم ذہنی طور پر تیار تھے، ہم روحانی طور پر ان مقاماتِ مقدسہ سے تعلق قائم کر چکے تھے، لبیک کا ورد ہمارے جذبوں کے لیے مہمیز کا کام دیتا تھا، مگر اب … یہ کیا ہو گیا، ایسا نہیں ہونا چاہیے… نا امیدی کفر ہے، اللہ مسبب الاسباب ہے، لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، ہر طرف اندھیرا تھا …میں سعودی کونسلیٹ جنرل کے دفتر میں تھا اور راستے کے لیے لڑ رہا تھا۔

مجھے نہیں معلوم کب میری آنکھوں سے آنسوؤں کا دھارا بہ نکلا، کب میری گریہ و زاری میں شدت پیدا ہوئی … یہ دوسری مرتبہ ہوا تھا کہ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہ نکلے تھے، پہلی مرتبہ، استنبول میں صحابیِِِِ رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر میری ایسی ہی کیفیت ہوئی تھی جب میں نے آپﷺ کے نقشِ قدم چھوئے تھے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے مجھے ایسا محسوس ہوا تھا کہ میں نے ان کے نقشِ قدم نہیں چھوئے، کسی زندہ ہستی کے پاؤں چھوئے ہیں …

بے اختیار آنسو جو میری آنکھوں سے رواں ہوئے تھے شانِ کریمی کو شاید وہ پسند آ گئے، سعودی کونسلیٹ جنرل مجھے کہنے لگے۔

’’ میں آپ کو ٹیلی فون نمبرز د یتا ہوں آپ سعودیہ ائر لائنز کے آفس جا کر موجود سربراہ سے کہیں کہ وہ مجھ سے سے ان نمبرز پر فوری رابطہ کریں۔‘‘

میں نے ٹیکسی پکڑی اور ائر لائن کے دفتر جا پہنچا۔ اور ان کے سربراہ سے کہا کہ وہ فوری طور پر ان نمبروں پر سعودی کونسلیٹ جنرل سے رابطہ کریں، انھوں نے میری بات مان لی۔ اسی وقت فون ملایا، کافی دیر بعد لائن ملی،میں ا نھیں بات کرتے دیکھتا تھا، ہمہ تن گوش تھا اور سر براہ کے منہ سے ایک ہی لفظ بار بار ادا ہوتا تھا … ’’ لا لا‘‘ نہیں نہیں … اور یہ نہیں نہیں کی تکرار میرے دل کی دھڑکن روکتی تھی، میں سانس لینا بھی بھول گیا تھا۔آخر کار اس نے فون بند کیا اور میری طرف متوجہ ہوا، میں اس وقت پتھر تھا یا موم مجھے کچھ معلوم نہیں۔ اس نے کہا

’’ویل مسٹر جاوید‘‘

ویل کا لفظ سن کر محسوس ہوا کہ جسم میں جان لو ٹ آئی ہے، وہ کہنے لگا۔

’’ ہم سوچتے ہیں کہ آپ کو حج کے لیے کیسے بھجوایا جائے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ پاکستان کونسلیٹ چلے جائیں وہاں سے ایک خط لے آئیں کہ آپ ان کے ملازم ہیں اور آفیشل ٹرپ پر جدہ جا رہے ہیں۔‘‘

میں نے ان کی بات سنی اور اسی لمحے پاکستان کونسلیٹ روانہ ہو گیا۔ وہاں سے میں نے وہ خط حاصل کیا، کیسے کیا، وہ الگ داستان ہے اور سیدھا سعودی کونسلیٹ پہنچا، کاؤنٹر پر موجود صاحب نے خط دیکھنے کے بعد مجھے دو تصویریں اور ویزے دینے کے لیے کہا جو میرے پاس موجود نہ تھیں میں نے اسے ویزا فیس دی اور کہا کہ جب میں آپ کے پاس حج ویزا لینے آیاتھا تو تصاویر دے دی تھیں وہ آپ کے پاس پہلے سے موجود ہیں …بالآخر میرا وزٹ ویزا فکس ہوا۔

میں ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچا، ہماری فلائٹ کا وقت ڈھائی بجے تھا، اس وقت دفتر کے ساتھی میرے گھر پر منتظر تھے کہ میں کیا خبر لے کر آتا ہوں، سبھی دعا گو تھے کہ ہمیں حج فلائٹ مل جائے۔ کتنی تیزی سے ہم نے سامان اٹھایا۔ انھوں نے کس کس طرح ہماری مدد کی،کب ہمیں گاڑی میں بٹھایا، کب ائر پورٹ پہنچے۔ہوش اس وقت آیا جب وہ ہمیں گلے لگاتے ہوئے رخصت کر رہے تھے۔ یہ ان کی محبتوں کا حساب لگانے کا وقت نہ تھا۔

ائر پورٹ پہنچتے ہی میں نے غسل کیا، جہاز کی روانگی کا وقت ہو چکا تھا۔ جہاز میں سب سے آخر میں داخل ہو نے والے ہم دو ہی تھے، ہم نے جہاز میں بیٹھ کر احرام کے اور دیگر نوافل ادا کیے۔ نوافل سے فارغ ہوا تو یہی احساس دل و جاں کو حصار میں لیے ہوا تھا کہ بلاوا ہو تو کیسے کام ہو جاتا ہے، یہ بگڑا ہوا کام نا ممکن تھا جو خدائے کریم کی کریمی سے ممکن ہوا۔

صبح سے مجھے کسی چیز کا ہو ش نہ تھا بس یہ خیال آتا تھا کہ حج کا بلاوا معصیت سے بھرے بندوں کے لیے نہیں، وہاں جانے کے لیے ظاہر وباطن پاک صاف ہوناچاہیے۔ یہ رکاوٹیں مجھے میری کوتاہیاں یاد دلاتی تھیں اور اب جہاز میں بیٹھ کر احساس ہو رہا ہے کہ ابرِ رحمت تو گنہگار و پرہیز گار سب پر یکساں برستا ہے … اللہ بڑا ہے، اللہ بڑا ہے …

لبیک الھم لبیک کے ساتھ ساتھ اس کی شان قدرت پر یقین اور پختہ ہو تا جا رہا ہے۔ سب کچھ صحیح ہو گیا تھا پھر بھی کبھی کبھی یہ سوچ کر دل دہل جاتا تھا کہ اگر میں ۱۲ تاریخ کو ائر پورٹ پر بات نہ کرتا اور ۱۳ تاریخ کو ائر پورٹ حج پرواز کے لیے آتا تو یہ ممکن نہ تھا کیونکہ حج ویزا والے اس آخری فلائٹ کے بعد نہیں جا سکتے تھے یہ تو سارا قدرت کا بندوبست تھا کہ جس نے انتہائی برق رفتاری سے سارے کام کروائے ہمیں وزٹ ویزا ملا اور ہم حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔

جہاز پر میری برابر کی نشست پر ایک عربی صاحب بیٹھے تھے انھیں پاسپورٹ دکھایا اور پوچھا کہ یہ عربی میں کیا لکھا ہے، کہنے لگے ’’ اس پر لکھا ہے کہ یہ پاکستانی کونسلیٹ سے منسلک ہیں اور آفیشل کام سے جدہ جا رہے ہیں اس لیے حج کے سیزن میں انھیں وزٹ ویزا جاری کیا گیا ہے۔ ‘‘ اللہ اکبر اللہ اکبر

کچھ دیر بعد جب طبیعت ذرا سنبھلی تو گرد و پیش نگاہ کی،ثروت کو یاد آیا کہ ایک چھوٹا سا کپڑے کا ہینڈ بیگ جس میں اس کا تمام زیور تھا، اس نے ہینڈ کیری کے نقطۂ نظر سے الگ رکھا تھا کہ وہ جہاز میں ساتھ ہی لے جائے گی، وہ موجود نہیں ہے، میں نے اسے تسلی دی کہ اب اس کے متعلق بالکل نہ سوچو، ہم اللہ کے گھر جا رہے ہیں، اگر کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑے تو سودا مہنگا نہیں … لبیک اللھم لبیک … ہم اس کے در پر جا رہے ہیں، جس کے نور کے ایک ذرے کا پھیلاؤ یہ کائنات، یہ ارض و سما ہے۔ ہم اس سفر کے مسافر ہیں جو ہمیں درِ حبیب تک لے جاتا ہے۔ جہاں زادِ راہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ضرورت ہے تو صرف اس کی نظرِ کرم کی۔

میں جانتا تھا کہ زیور کو عورت کی کمزوری کچھ یوں ہی نہیں کہا گیا، اس کا عمر بھر کا اثاثہ، اس کی یادوں کا خزینہ یہی ہے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ بالکل مطمئن ہو چکی ہے۔ اس کی انگلیوں میں تسبیح کے دانے گردش کرتے تھے اور اس کے لبوں پر تسبیحات تھیں۔

ہمارا جہاز سر زمینِ حجاز کی طرف محوِ پرواز تھا اور میرا دل اس سے پہلے درِ مقدس پر دستک دیتا تھا۔ کبھی مجھے محسوس ہوتا میں مطاف میں ہوں، کبھی لگتا حطیم میں نوافل ادا کر رہا ہوں، سو تے جاگتے کے اس سفر کا اختتام ائر ہوسٹس کے اس اعلان کے ساتھ ہوا کہ ہم جدہ ائر پورٹ پر اترنے والے ہیں، جہاز سے اترے۔ فضا میں رچی بسی محبت نے خوش آمدید کہا، ایک طویل مرحلے سے گزر کر ہم سامان کے حصول کے لیے پہنچے، ہمارا سامان آیا۔اس سامان میں کپڑے کا ایک ننھا منا سا ہینڈ بیگ بھی اپنی جھلک د کھاتا تھا۔ وہی ہینڈبیگ جس میں ثروت کا تمام زیور موجود تھا … اللہ اکبر اللہ اکبر…

ہم اتنی افرا تفری میں نکلے تھے کہ ہمیں کچھ ہوش نہ تھا کہ ہم نے کون سی چیز کہاں پیک کی ہے،اب مرحلہ تھا جدہ میں قیام کا۔ جدہ میں ہمارا مختصر قیام اس دوست کے گھر متوقع تھا،جس نے ہمارے ساتھ فریضۂ حج کی ادائیگی کرنا تھی … اس کا پتہ؟… اس کا پتہ کہاں رکھا تھا۔ جلدی جلدی سارا سامان کھول کر چھان مارا، پتہ ملنا تھا نہ ملا۔

خیر کوئی بات نہیں، اپنے کزن قاضی آفتاب بھی تو جدہ ائر پورٹ پر ہی ہوتے ہیں ان سے مل لیتے ہیں، ان سے ملنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا، وہ تو ڈیوٹی آف کر کے گھر جا چکے ہیں۔ ان کے گھر کا پتہ… پھر ایک سوالیہ نشان ہمارے سامنے تھا، ہم دیارِ غیر میں نہ تھے اپنے ہی گھر میں تھے، قاضی صاحب نہ ملے تو کیا ہو گا، کوئی بات نہیں، جس نے ہمیں بلایا ہے وہی انتظام بھی کرے گا۔ ہم کسی بھی خوف سے آزاد تھے۔

ڈیوٹی پر موجود صاحب نے کہا کہ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو آپ کی مدد کر سکتا ہے، چند لمحوں بعد ہم اس شخص کی گاڑی میں تھے جو ہمیں قاضی صاحب تک لے جا تی تھی۔

آدھ گھنٹے سے بھی کم عرصے میں ہم اپنے کزن کے آرام دہ گھر میں بیٹھے تھے …اللہ اکبر اللہ اکبر … اللہ نے حجِ اکبر کی دعوت دی تھی اور ہم اس دعوت پر لبیک کہتے تھے۔

ہم ترکی سے چلے تھے، حج سے متعلق کو ئی کتاب کوئی کتابچہ ہمارے پاس نہ تھا اور ہم عمرہ و حج کرنے چلے آئے تھے اور ہمیں اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ ابھی طواف کا پہلا ہی چکر مکمل کیا تھا کہ قدموں سے کوئی چیز ٹکرائی۔نگاہ نیچے کی تو کسی زائر کے ہاتھ سے کتابِ حج نیچے گر چکی تھی اور اسے اٹھانا مشکل لگا ہو گا یا بے دھیانی میں گری ہو گی، میں نے لپک کر اسے اٹھایا، اسے چوما،دل سے لگایا، …اللہ اکبر اللہ اکبر … تمام حج میں اس نے ہماری قدم قدم پر مدد کی۔

حج کے اختتام پر عزیزوں کے لیے کچھ تحائف لینے کی نیت سے بازار گئے۔ نہ جانے کس دکان پر بھول آئے یا شاید خانۂ کعبہ میں ہی کسی مقام پر رہ گئی۔ گھر آئے تو پریشان ہوئے کہ ہماری کتاب نہ جانے کہاں گئی، مہر بانوں نے تسلی دی کہ وہ یہیں کی کتاب تھی یہیں رہ گئی، کسی اور کی رہنمائی کے لیے۔

خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبوی میں، میدانِ عرفات میں اور منیٰ کے خیموں میں کیا کیا مشاہدات اور تجربات ہوئے ذوقِ حضوری اور شوقِ حاضری نے کیا کیا کرشمے دکھائے اس کا تذکرہ ایک الگ باب کا متقاضی ہے۔‘‘

 

عمر کا بہترین حصہ ہے

 

۲اپریل کی صبح نمازِ فجر کی ادائیگی کے فوراً بعد عمرے کے لیے روانہ ہوئے۔ سپیکٹو بسوں کے اڈے پر جانے کے لیے اب ہمیں حرم کے اس توسیعی علاقے کو عبور کرنا ہے،جہاں شب و روز تعمیری کام ہو رہا ہے، لیکن کیا مجال کہ کہیں تعمیری سامان عبادت کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا ہو۔ باہر صحنِ مسجد کے آخری حصے میں ایک خادم، اپنے دس گیارہ ساتھیوں کی جماعت کی امامت کروا رہا تھا۔ پچھلے دنوں شاہد کی نیلی وردی میں ملبوس ایک خادم سے بات ہوئی کہ آپ کو یہاں عبادت کا خوب موقع ملتا ہو گا تو اس نے کہا کہ ہمیں صرف فرض نماز کی ادائگی کی اجازت ہے، اور میں دیکھ رہی تھی کہ اس گروہ نے تو فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا نہیں کی، نہ جانے ان کی ذمہ داری کون سی ہے۔

خانہ کعبہ میں شاہد کی ملاقات پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک خادم سے ہوئی۔ اس سے بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا، ہر عصر کی نماز کے بعد وہ ان سے ضرور ملاقات کرتا، اس کا بہت اصرار تھا کہ ہم اس کے ساتھ ایک وقت کا کھانا کھائیں۔ لیکن ہم اسے تکلیف دینا نہیں چاہتے تھے، شاہد کہتے ہیں کہ اب اس نے یہ کام شروع کر لیا کہ کسی دن دو چار کھجوریں، کبھی قہوے کا گلاس، کبھی زم زم لیے میرے پاس آ بیٹھتا۔۔ بہت اچھا انسان تھا، اللہ اس کے سارے مسئلے حل کرے۔

لبیک کا ورد کرتے ہم سات منٹوں میں سپیکٹو پہنچ گئے اور بس نے ہمیں پندرہ منٹوں میں مسجدِ عائشہ پہنچا دیا۔ ابھی اشراق کا وقت نہ ہوا تھا۔ کچھ دیر مسجدِ عائشہ کی پر کیف سہانی فضا میں سانس لینے کا موقع مل گیا، لیکن اتنا وقت نہ تھا کہ ہم مسجدِ عائشہ کے گرد و نواح کا علاقہ گھوم پھر کر دیکھ لیتے، جس کی مجھے بہت تمنا ہے۔ کچھ مساجد، ایسی ہوتی ہیں جن سے آپ دلی وابستگی محسوس کرتے ہیں حرم کعبہ اور مسجدِ نبویﷺ میں سجدہ ریز ہونے کے لیے تو ہرشخص بے تاب ہے ان کے علاوہ، مجھے مسجدِ قبا اور مسجدِ عائشہ ہمیشہ ہی بہت اپنائیت کا احساس بخشتی معلوم ہو تیں۔ ہر مرتبہ اس نیت سے جاتی کہ مجھے کچھ وقت یہاں کے گلی کوچوں یا قریبی محلے میں گزارنے کا موقع مل جائے اور ہر دفعہ مسجد میں احرام کی نیت کے نوافل ادا کرتے ہی بس کی جانب لپکتے، ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ شاہد مسجد سے دیر سے باہر نکلے اور میں سیڑھیوں پر ان کے انتظار میں کھڑی ہوں۔ اس وقت بہت جی چاہتا کہ یہاں بیکار کھڑے ہونے کے بجائے ارد گرد کا چکر ہی لگا آؤں لیکن کبھی ہمت نہ کی۔

اشراق کی نماز اور احرام کے نوافل کی ادائگی کے بعد حرم کی جانب روانہ ہوئے، ابھی حرم سے کچھ فاصلے پر تھے کہ شاہد نے متوجہ کیا کہ جاتے ہوئے ہم جس دس پندرہ منزلہ ہوٹل کو دیکھ رہے تھے کہ اس کے گرد سنگل باندھے جا رہے ہیں اور اسے گرانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور میں نے کہا تھا کہ ہماری واپسی تک وہ یہ کام کر چکے ہوں گے تو دیکھ لو ہوٹل موجود نہیں۔ بڑے بڑے پائپوں کے ذریعے پانی کے چھڑکاؤ کے باعث دھول مٹی کا ایک ذرہ بھی فضا میں نہ تھا، ملبے کا ایک ٹکڑا، اینٹ کا ایک حصہ بھی اس حفاظتی باڑھ سے باہر نہ گرا تھا، حاجیوں کی سہولت کے پیشِ نظر حرم کعبہ کی توسیع کے سلسلے میں، درجنوں نئے قائم شدہ ہوٹل گرائے جا رہے ہیں۔ ۲۰۲۰ء تک خانہ کعبہ کا صحن پورے مکہ پر مشتمل ہو گا، حجاج اور دیگر نمازی اپنے ہوٹل سے صحنِ مسجد میں اتریں گے اور نماز ادا کر لیں گے، البتہ طواف اور سعی کے لیے انھیں خاصا فاصلہ طے کر کے اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچنا ہو گا۔ ہم مطاف میں پہنچے تو پیشتر نمازی طواف کر کے جا چکے تھے بہت آسانی سے طواف کیا اور سعی و حلق اور نوافل کی ادائگی کے بعد کچھ دیر آرام کی غرض سے ہوٹل آ گئے۔ پاکستان ہاؤس کے کتب خانے کے لیے’’ سرحدِ ادراک سے آگے ‘‘ بھجوائی، ہر چند عرفان صاحب نے کہا کہ یہاں کتب خانہ نام کی کوئی شے نہیں ہے، میں نے کہا کہ ابتدا تو ہو جائے گی۔ نمازِ ظہر کے لیے حرم پاک گئے۔ اب ہمارے پاس وقت بہت کم ہے کل آخری دن ہو گا، طواف، طواف اور بس طواف … خانہ کعبہ میں موجود ہوں اور صرف طواف کرتی رہوں، میری یہی خواہش ہو تی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جو وقت طواف میں گزرا میری زندگی کا بہترین وقت تھا۔ حالانکہ کعبہ کی دید بھی ثواب کا اتھاہ سمندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یا اللہ میری عبادت قبول کر، یا اللہ میری نماز میں ارتکاز کی دعا قبول کر۔ میں کثرت سے آیت الکرسی پڑھتی ہوں۔ یا اللہ میری، میری اولاد کی، میرے مال کی اور میری عبادت کی حفاظت فرما، اسے شیطان کے شر سے محفوظ فرما۔ حاسدوں کے شر سے محفوظ فرما۔ یا اللہ مجھے زیادہ سے زیادہ اپنے ناموں کے وسیلے سے دعا مانگنے کی توفیق عطا کر۔ ’’ یا ذوا لجلال والاکرام ‘‘ حضرت علی نے فرمایا کہ دعا کے بعد ’’یا ذوا لجلال والاکرام‘‘ پڑھنا چاہیے۔ یہ قبولیت دعا کے لیے سند ہے۔ اس کا مطلب صاحبِ جلال اور کرم والا۔ ’’ اگر کوئی شخص ناجائز پریشان کرتا ہے تو اس کے لیے اللہ کا جلال ہے اور دعا مانگنے والے کے لیے اکرام ہے۔ ‘‘ یا اللہ مجھے اپنے شکر گزار بندوں میں شامل کر،مجھے علم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے شکر گزار بندے بہت قلیل تعداد میں ہیں۔ مفتی احمد یار خاں نعیمی، پارہ دوم، تفسیر نعیمی صفحہ ۷۰ پر……… تحریر کرتے ہیں

’’ شکر بھی رب کی بڑی نعمت ہے، اس کے چند درجے ہیں۔ ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر نعمت کو اپنے رب کی طرف سے جانے، اس سے بڑھ کر یہ کہ ہر نعمت پر رب کی تعریف کرے، اس سے بڑھ کر یہ کہ ہر نعمت کو عبادت میں صرف کرے اور یہ شکر کا اعلیٰ مقام ہے۔ کسی نے ابو حازم سے پوچھا کہ آنکھ کا شکر کیا ہے تو فرمایا کہ بھلائی دیکھ کر ظاہر کرو اور برائی دیکھ کر چھپا لو، اسی طرح کان کا شکر یہ ہے کہ اچھی بات سن کر یاد کر لو اور بری بات بھول جاؤ۔ ‘‘۱۵؎

ہم شکر گزار بندے بننے کی خواہش تو بہت شدت کے ساتھ کر تے ہیں لیکن کسی کی خوبی کو نظر انداز کرنے اور خامی کو پھیلانے میں، اچھی باتوں کو بھول جانے میں اور بری باتوں کو دہرانے کی لذت سے بالکل محروم رہنا نہیں چاہتے۔ ہم بار بار اس حدیث کودہراتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا جو اپنے محسنوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ مجھے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول بھی اکثر یاد آتا ہے کہ ان کے شر سے بچو، جن پر تم نے احسان کیا ہے۔بات بہت گہری ہے، میں بھی تجربے اور مشاہدے سے ہی سمجھ سکی ہوں۔ بات ہو رہی تھی شکر کی، ڈاکٹر سید علی انور اپنے مقالے شکر … ایک عظیم عبادتِ الہی میں شیخ نیاز احمد مدیر اردو جامع انسائیکلو پیڑیا کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں۔

’’ ارکانِ اسلام کی طرح عبادتِ قلبی بھی پانچ ہیں۔ تقویٰ، اخلاص، توکل، صبر اور شکر انسان کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے اتنی نعمتیں عطا کی ہیں کہ وہ ان کے شکر سے عہدہ برا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل زبان اور تمام اعضا ء کو منعمِ حقیقی کے شکر کے لیے وقف کر دے۔ ‘‘۱۶؎

 

یہ کس یقین کا عالم میرے گمان میں ہے

 

۳ اپریل، آج مکہ مکرمہ میں ہمارا آخری دن ہے۔ سامان کی پیکنگ ساتھ ساتھ ہو رہی ہے۔ کوشش یہی رہی کہ کچھ نہ خریدا جائے کہ پہلے ہی وزن بہت ہو گیا ہے۔ آپ اللہ کے پسندیدہ شہر آئیں اور وہاں سے کچھ نہ خریدیں، یہ ممکن نہیں کہ آپ اس شہر سے جو بھی خریدتے ہیں، اپنی ذات پر یا کسی دوسرے کے لیے ایک ریال بھی صرف کرتے ہیں تو اس کا بھی اجر، آپ کے نامہ اعمال میں درج کیا جاتا ہے۔ وہاں کے تاجروں کی روزی روٹی کا سلسلہ اسی سے چل رہا ہے۔ پھر آپ کو اپنے پیارے بھی وہاں یاد آتے ہیں جن کے لیے دعاؤں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے اور تحائف کی خریداری بھی ایک لازمی شق ہے۔جس میں آپ کا وقت یوں برباد نہیں ہوتا کہ نماز سے واپسی پر ہر شے آپ کے سامنے ہے۔ منٹوں میں آپ ڈھیر سارے تحائف لے سکتے ہیں، تو نہ نہ کرتے سامان زیادہ ہوتا گیا۔ اللہ مالک ہے۔

ظہر سے مغرب تک سات طواف ہی کر سکے۔ ہر طواف طوافِ وداع کی نیت سے کیا۔

میری بہت خواہش ہوتی ہے کہ فرض نماز تو حرمِ پاک میں ہی، لیکن نفل نماز، مختلف مساجد میں ادا کروں لیکن حرم پاک کی قربت سے دوری …یہ بھی گوارا نہیں ہوتی۔ وہاں ایک ایک لمحہ قیمتی معلوم ہوتا ہے۔ کاش کہ وقت ضائع کیے بغیر، پلک جھپکتے میں، میں ان مساجد تک رسائی حاصل کر لوں، ایک نظر انھیں دیکھ لوں، دو نفل ادا کر لوں، جن کے بارے میں تحقیقی مرکز مدینہ کی کھوج یہ بتاتی ہے کہ ۴۳ ایسی مساجد ہیں کہ جن میں حضورِ پاکﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے۔ یعنی مسجدِ السقیا، مسجدِ بنی حرام، مسجدِ ذباب، مسجدِ الفضیح، مسجدِ بنو قریظء، مسجدِ بنی ظفر، مسجدِ السبق، مسجدِ سجدہ، مسجدِ ابی کعب، مسجد مشربہ امِ ابراہیم علیہ السلام بن رسول اللہ، مسجدِ اجابہ،، مسجدِ بنی حارثہ، مسجد بنی ساعدہ، مسجدِ شیخین، مسجدِ الشجرہ، مسجدِ بنی وائل اسی طرح مکہ مکرمہ میں مسجدِ جن، مسجدِ ابو قبیس، مسجدِ الشرہ، مسجدِ العقبیٰ، مسجدِ الرایہ، مسجدِ جعرانہ، منحر النبی( جہاں سورہ الکوثر نازل ہوئی تھی) مسجدِ الکبش (جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مینڈھا ذبح کیا تھا) مسجدِ خوھاویہ، مسجدِ البیعت، مسجدِ انشقاق القمر،(آپﷺ کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوا تھا)۔دیگر معروف مساجد اس کے علاوہ ہیں، مسجدِ غمامہ، مسجدِ بلال، مسجدِ قبا، مسجدِ قبلتین، مسجدِ جمعہ،وغیرہ میں سوچتی ہوں کہ ہمیں تو شاید چار فیصد مساجد میں بھی نفل ادا کرنے کا موقع نہیں ملا …اب تو رختِ سفر باندھ لیا ہے، وقتِ رخصت آن پہنچا ہے۔ اگلی مرتبہ سہی … یہ میری عادت ہے کہ کوئی نہ کوئی خواہش، کوئی نہ کوئی کام اس سفر میں ادھورا چھوڑ آتی ہوں، اگلی مرتبہ کی حرص میں …فارد،سرمد، دانش، نافع،نوفل، رائم،روا، آمنہ اور ماریہ بھی اگر اس اگلی مرتبہ کے سفر میں ساتھ ہوں تو اللہ کا کتنا کرم ہو گا۔

 

خدا چاہے تو یہ نعمت ملے بارِ دگر بھی

 

ہوٹل والوں نے کہہ رکھا تھا کہ نمازِ مغرب کے بعد آ جائیں بسیں تیار ہوں گی۔ ہمیں اندازہ تھا کہ بس نکلتے نکلتے بھی کافی وقت لگا دیتی ہے۔ انھیں کہہ دیا کہ جب کوسٹریا بس پہنچ جائے تو ہمیں فون کر دیں ہم آخری لمحات بھی حرمِ پاک میں گزارنا چاہتے تھے، خاص طور سے عشا کی نماز بھی یہیں ادا کرنا چاہتے تھے، کسے علم ہے کہ یہ خانہ کعبہ میں ہماری آخری نماز ہو، کیا پتا پھر ہمیں موقع ملے یا نہ ملے، لیکن نہ جانے کیا بات ہے ان تمام خدشات کے باوجود مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ ہم ان شا اللہ، ان شاء اللہ یہاں دوبارہ آئیں گے۔ صحت و تندرستی کے ساتھ اور عبادت میں جو کسر رہ گئی ہے، پوری کرنے کے لیے اللہ پھر بلائے گا۔ دس عمرے کی نیت سے آئی تھی، پورے دس نہیں کرسکی۔ پھر میری حج کی خواہش بھی تو نا تمام ہے۔ پہلے حج پر میں نے آئندہ حج کے لیے دعا مانگی تھی، ان شا اللہ، اگلا بلاوا حج کا ہو گا۔ خود سے باتیں کرتی جاتی تھی اور دعا کرتی جاتی تھی۔ کچھ ملال اور بہت کچھ ملامت کا احساس فزوں ہوتا جا رہا تھا۔ ملال جدائی کا، سیکڑوں میل کا سفر طے کر کے جس دوار پہنچے، اللہ نے بہترین میزبانی کی۔ اب اس سے ایک نا معلوم عرصے کے لیے جدا ہونا ہے اور ملامت اپنی حالت پر کہ اللہ کا کتنا کرم ہے کہ وہ مجھ جیسے بے کس و مجبور اور گنہگار انسان کو اپنے در پر بلاتا ہے۔ بار بار بلاتا ہے لیکن کیا یہاں آ کر بھی ہم اس کے احکامات پر عمل تو دور کی بات، اس کے کرم کا،انعام کا، محبت کا، رحم کا حق ادا کر سکے ہیں یا نہیں۔ مجھے اپنے ہر سوال کا جواب نفی میں مل رہا ہے اور میں الٹے قدموں واپس ہوتے ہوئے اللہ سے پھر وعدہ لے رہی ہوں۔ اگلی مرتبہ اپنے در پہ بلانا، میں پوری تیاری سے آؤں گی، میں قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ بھی سمجھنے کی کوشش کروں گی۔ میں تمام عبادات پوری توجہ اور ارتکاز کے ساتھ کروں گی۔ میرے ذوق و شوق اور وارفتگی میں بھی ان شا اللہ اضافہ ہو گا۔، بس اس مرتبہ تو جیسی بھی ٹوٹی پھوٹی عبادت کی ہے، اسے قبول کر لے اور آئندہ کے لیے بہترین عبادت کی توفیق بخش۔ میری غلطیوں سے در گزر کر اور مجھے میری طلب سے زیادہ عطا کر۔

ایمان کے پانچ قلعے ہیں، یقین، اخلاص، ترک ریا، فرائض اور سنتوں کی ادائگی۔ ہم میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے یہ تمام قلعے فتح کیے ہیں، میں تو بالکل بھی نہیں۔ میں جانتی ہوں ذکرِ الہی کے لیے کم کھانا، کم بولنا، کم سونا اور لوگوں سے کم ملنا لازم ہے، یا اللہ تو مجھے اس کی تو فیق عطا فرما۔ یا اللہ مجھے اس بات سے بہت خوف آتا ہے کہ میرے نبی پاکﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے میری امت کے امرا سیر و تفریح کے لیے، علما ریا کاری کے لیے اور فقرا گداگری کے لیے میری مسجد میں آیا کریں گے۔ یا اللہ مجھے نہیں معلوم کہ میرا شمار کن میں ہو تا ہے، تو مجھے اپنے نبیﷺ کے ایک کمزور امتی کی حیثیت سے بُلا اور اس امتی کو اس بات کا یقین ہو کہ اس کا نامۂ اعمال تمام تر کوتاہیوں اور کجیوں کے باوجود تیرے کرم کے سبب، داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ یا اللہ عزت کی زندگی اور عزت کی موت نصیب فرمانا۔ حشر کے دن مجھے میرے حضورﷺ کی شفاعت نصیب فرمانا۔ آپﷺ روزِ حساب سب سے پہلے قبرِ مبارک سے باہر تشریف لائیں گے۔ سب سے پہلے آپ کے لیے جنت کا در وازہ وا ہو گا۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا میں پہلا شخص ہوں گا جس سے قبروں کے شق ہونے کا آغاز ہو گا اور میں پہلا   شفاعت کرنے والا ہوں گا اور میں وہ پہلا ہوں گا، جس کی شفاعت قبول ہو گی۔روز حشر کا جو نقشہ ہمارے ذہن میں جا گزیں ہے اس میں عام انسان سے قطع نظر تمام انبیائے کرام بھی ’’نفسی نفسی‘‘کے اضطراب میں مبتلا، جبکہ رسول اللہﷺ  ’’امتی امتی ‘‘کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہو گا تو لوگوں میں بے انتہا اضطراب ہو گا اور ازدحام ہی ازدحام ہو گا پس یہ لوگ یا ان کے نمائندے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اپنے رب سے ہماری شفاعت کر دیجیے حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے یہ میرے بس کا کام نہیں ہے، تم لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ اللہ کے خلیل ہیں پس یہ لوگ شفاعت کا سوال لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے۔ وہ فرمائیں گے یہ کام میرے بس میں نہیں، تم موسی ٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ کلیم اللہ ہیں، وہ اپنی غرض لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ کار شفاعت میرے اختیار سے باہر ہے۔ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں، یہ لوگ درخواستِ شفاعت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ یہ میرا مقام و مرتبہ نہیں، تم محمدﷺ کی خدمت میں جاؤ۔

پھر وہ لوگ میرے پاس آئیں گے اور درخواستِ شفاعت کریں گے اور میں کہوں گا ہاں یہ میرا کام ہے،  پس اپنے رب کے پاس حاضری کی اجازت طلب کروں گا اور مجھے اجازت عطا کی جائے گی اس وقت اللہ تعالیٰ خصوصی حمدیہ کلمات میری طرف الہام فرمائیں گے،جن سے میں اس وقت واقف نہیں، میں اس وقت انھیں الہامی محامد اور کلمات ثنا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا اور اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے محمدﷺ سر اٹھاؤ اور جو کچھ کہنا ہے، کہو، تمھاری سنی جائے گی، اور جو کچھ مانگنا ہے مانگو عطا کیا جائے گا اور جو شفاعت کرنا چاہو کرو تمھاری سفارش مانی جائے گی۔ میں سجدے سے سر اٹھا کر کہوں گا اے میرے رب، ’’امتی امتی ‘‘اسے بخش دیجیے۔ پس مجھ سے فرمایا جائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں گندم یا جو کے دانے برابر بھی ایمان ہو اس کو نکال لو،  پس میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا۔ پھر میں بارگاہ رب العزت کی طرف لوٹوں گا اور انھیں الہامی کلماتِ حمد سے اس کی ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا کہ اے محمدﷺ سر اٹھاؤ جو کچھ کہنا ہے کہو، تمھاری بات سنی جائے گی اور جو کچھ مانگنا ہے مانگو تمھیں دیا جائے گا اور جو سفارش کرنی ہو کرو تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں پھر عرض کروں گا اے میرے رب،  ’’امتی امتی ‘‘اسے بخش دیجیے۔تو فرمایا جائے گا جاؤ اور جن کے دلوں میں، ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو، ان کو بھی اضطراب و عذاب سے نکال لو، میں جاؤں گا اورایسا ہی کروں گا۔

پھر میں رب کی طرف لوٹوں گا اور انھیں الہامی کلماتِ حمد سے اس کی ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا کہ اے محمدﷺ سر اٹھاؤ جو کچھ کہنا ہے کہو، تمھاری بات سنی جائے گی اور جو کچھ مانگنا ہے مانگو تمھیں دیا جائے گا، اور جو سفارش کرنی ہو کرو تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں پھر عرض کروں گا اے میرے رب،  ’’امتی امتی ‘‘ میری امت کو بخش دیجیے۔تو فرمایا جائے گا جاؤ اور جن کے دلوں میں، رائی کے برابر بھی ایمان ہو، ان کو بھی اضطراب و عذاب سے نکال لو، میں جاؤں گا اورایسا ہی کروں گا۔

اس ارشاد ربانی کے بعد میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا، اس کے بعد چوتھی بار اپنے رب کے حضور لوٹ کر آؤں گا اور اس کے عطا کردہ الہامی کلمات حمد کے ذریعے اس کی حمد ادا کروں گا۔ اور سجدے میں گر جاؤں گا اور مجھ سے فرمایا جائے گا کہ اے محمدﷺ  اپنا سر سجدے سے اٹھاؤ جو کچھ کہنا ہے کہو، تمھاری بات سنی جائے گی اور جو کچھ مانگنا ہے مانگو تمھیں دیا جائے گا، اور جو سفارش کرنی ہو کرو تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں پھر عرض کروں گا اے میرے رب، مجھے ان سب کے حق میں شفاعت کی اجازت دیجیے جنھوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے محمدﷺ یہ تمھارا کام نہیں لیکن مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اپنی کبریائی کی قسم میں ان سب کو جہنم سے نکال دوں گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو۔ ۱۷ ؎

اے اللہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا کر، یا اللہ خاتمہ الایمان کر، قبر کے عذاب سے بچا، آخرت کے سفر کی تیاری کی توفیق عطا فرما اے اللہ جانکنی اور موت کے مراحل کو آسان فرما، عذابِ قبر اور قبر کی تاریکیوں سے پناہ عطا کر، ہمیں دجال کے فتنے، قیامت کی گرمی اور دو زخ کی آگ سے محفوظ فرما، جھوٹ غیبت اور حسد سے محفوظ فرما، رزق حلال عطا فرما، اے اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق فرما، ہمیں اپنے اور اپنے حبیب کے سامنے شرمندگی سے بچاکہ آپﷺ جس امت کے لیے رو رو کر بخشش کی دعا مانگ رہے ہوں اسے ان کا پاک اور سچا امتی بنا، یہ امت سراسر رعایتی نمبروں سے پاس ہونے والی نہ ہو، کچھ تو اس کے نامہ اعمال میں درج ہو کہ میرے نبیﷺ کواحساسِ ندامت نہ ہو کہ وہ کس قوم کی شفاعت کر رہے جو ان کی تعلیمات کو یکسر بھلا چکی ہے۔

دعاؤں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری تھا   کاش ہر لمحہ ایک برس کو محیط ہو جائے،لیکن وقت نے کب کسی کا کہا مانا ہے۔آرزو تھی کہ ابو الکلام کا فون عشا ء کی نماز کے بعد آئے اور اللہ کا شکر ہے ایسا ہی ہوا، ہمیں ایک اور نماز حرم پاک میں ادا کرنے کی مہلت مل گئی۔ نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ ہمیں واپسی کا حکم نامہ آ گیا۔ شاہد اپنے اسی خادم دوست سے مل کر آنا چاہتے تھے لیکن اس سے ملاقات بھی نہ ہو سکی۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ جب عصر کی نماز کے لیے نکلے تھے تو شاہد آدھے راستے سے ہی واپس ہو گئے

’’ تم حرم پہنچو، میں سامان نیچے لابی میں رکھوا کر آتا ہوں، میں جماعت کھڑی ہونے تک پہنچ جاؤں گا۔‘‘

میں کہتی رہی کہ آ کر یہ کام کر لیں گے، لیکن شاہد واپس ہو گئے۔ اب ہمیں یہ اطمینان تھا کہ اگر ہم چند منٹ دیر سے بھی پہنچتے ہیں تو سامان تو بس میں رکھا جا چکا ہو گا۔ برق رفتاری سے ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ کوسٹر ہمارا انتظار کر کے دوسر ے ہوٹل سے مسافروں کو لینے چلی گئی ہے۔

اب ہمیں سڑک کنارے کھڑے ہونا تھا، میں نے بھوک کے بڑھتے ہوئے احساس میں انتظار کے لمحات کو غنیمت جانا اور سامنے مطعم طیبہ میں چلی گئی۔ دو چکن تکے، سلاد اور نان لیے میں پلٹی تو کوسٹر آ چکی تھی۔ ہمارے لیے تو گنجائش بنا دی گئی لیکن جب علم ہوا کہ ابھی تیسرے ہوٹل سے بھی مسافروں کو اٹھانا ہے تو سبھی نے شور مچا دیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں جدہ ائر پورٹ پہنچے۔ سامان بہت زیادہ تھا، لیکن خیریت گذری، سامان جمع کرا کر کچھ مطمئن ہوئے۔ پچھلی مرتبہ کا تجربہ یاد تھا کہ وقتِ پرواز دو مسافروں کی ڈھونڈیا مچی ہوئی تھی اور میں آرام سے مسجد میں نماز پڑھ رہی تھی۔ شاہد نے کہا کہ اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جدہ پہنچ کر آرام سے کھانا کھایا۔ مسجد جا کر کچھ عبادت کی، کچھ آرام کیا۔ نمازِ فجر کے بعد ابو ظہبی کی پرواز تیار تھی۔ دو گھنٹوں میں ابو ظہبی کے جانے پہچانے ائر پورٹ پر اترے۔ اس مرتبہ بھی ہم اس سبز اور نیلے رنگ کے گنبد سے دور تھے کہ جہاں ابو ظہبی ائر پورٹ کا مکمل تعارف ہو جاتا تھا۔ ایک ماہ پہلے جس جگہ سے احرام باندھ کر رخصت ہوئے تھے اب اسی مقام پر بیٹھ کر اپنے گھر جانے کا انتظار کرتے تھے۔

 

اک اور سفر کے لیے لوٹ آؤ سفر سے

 

ہمارے پاس دستی سامان بھی کم نہ تھا۔ جسے ٹرالی میں ڈال کر اپنے ساتھ مسجد لے گئی جہاں ہمیں چودہ گھنٹے گزارنے تھے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو میں اور شاہد اپنے اپنے کوپن لیے ریسٹورنٹ چلے گئے جہاں انتہائی روکھے شخص نے روکھے ابلے ہوئے چاولوں پر مچھلی کا شوربہ ڈال کر پلیٹ ہمارے ہاتھ میں تھما دی۔ اسے کہا کہ ہمیں یہ نہیں، دوسرا کھانا دو، شوکیس میں کئی کھانے سجا رکھے تھے، جواب ملا کہ یہ آپ کے لیے نہیں ہیں، کہا کچھ مقدار ہی بڑھا دو، کہنے لگا اتنا ہی ملے گا۔ ہم اللہ کے گھر کی میزبانی سے بہت خوش تھے اور شاید عادت ہو گئی تھی کہ یہاں بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو گا، لیکن اس غیر متوقع رویہ نے بد مزا کر دیا۔ اس پر بد مزہ کھانا مستزاد۔خیر کھانے کے بعد اپنے اپنے مقام پر واپس چلے گئے۔ مسجد میں ایک نیا اضافہ ہو چکا تھا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ لمحوں کی ملاقات میں ہمیشہ یاد رہ جانے کی صفت رکھتے ہیں۔ ساؤتھ افریقہ سے آنے والی یہ نوجوان لڑکی، نعیمہ کہہ لیجیے۔ آہستہ آہستہ کھلتی چلی گئی۔ بظاہر مطمئن نظر آنے والے بھی اپنے اندر کتنے طوفان چھپائے ہوتے ہیں۔ ایک بات جو بہت بچپن سے سنتی آئی تھی،اس کے معنی اب کھلے۔ ’’ بچیوں سے نہیں ان کی قسمت سے خوف آتا ہے۔ ‘‘اتنی پیاری بچی، والد نے دوست کے کہنے پر شادی اس کے کسی دوست کے بیٹے سے کر دی۔ سارا خاندان جنوبی افریقہ میں مقیم تھا، وہاں جو کچھ اس کے ساتھ ہوا۔ بقول نعیمہ کے، ’’میں نے کوئی بات بھی اپنی ماں کو نہیں بتائی تھی۔ لیکن انھیں پتا چل گیا، انھوں نے بہت کوشش کی کہ نباہ ہو جائے لیکن جب کوئی صورت نظر نہ آئی تو انھوں نے مجھے خلع کے لیے کہا، میں نے ان کی نہ مانی اور ایک مرتبہ پھر کوشش کی کہ کسی طرح میرا گھر برباد نہ ہو، میرے سسرال والوں کا رویہ کچھ تبدیل ہو جائے، اللہ میرے شوہر کے دل میں میرے لیے رتی بھر عزت، ہمدردی ڈال دے لیکن میں شدید کوشش کے باوجود کامیاب نہ ہو سکی۔ اب میں واپس لاہور جا رہی ہوں۔ جا کر اپنی پڑھائی کا سلسلہ جوڑوں گی۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتی ہوں۔ بے شک ماں باپ کتنا خیال کرنے والے ہوں، مجھے اچھا نہیں لگے گا،میں ان کے مسائل میں اضافہ کروں۔ ‘‘

اس معصوم لڑکی کے لیے اب تک دل سے دعا نکلتی ہے۔ اللہ اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اس کے لیے کوئی بہترین سبب بنا دے۔

شام ہوئی تو میں نے کہا کہ ۲۰۰۸ء میں جب ہم عمرے کے لیے آئے تھے تو سبز نیلے گنبد والے علاقے میں ہمارا قیام و طعام تھا اب آتے ہوئے بھی اور جاتے ہوئے بھی ہم اس سے اتنی دور یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پروگرام بنا کہ ہم اندر اندر راہداریوں سے ہوتے ہوئے وہاں جا نکلتے ہیں۔ گھومتے پھرتے یادیں تازہ کرتے رہے۔ واپسی پر تذکرہ کیا کہ دوپہر میں کھانے پر ہمارے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا تھا، نعیمہ کہنے لگی۔ بھئی میں نے تو دوپہر میں بہت مزے کا پزا لیا تھا، رات میں کے ایف سی کا بر گر کھانے کا پرو گرام ہے۔ ضروری تو نہیں ہے کہ آپ کسی ایک رسٹورنٹ سے کھانا لیں، میں نے سب پتا کر لیا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد ہم کے ایف سی ریسٹورنٹ چلے گئے، کنگ سائز برگر، سلاد، چپس اور پیسپی کے ہمراہ ہم نے دعوت اڑائی۔ ہماری پرواز دس بجے اور اس کی گیا رہ بجے تھی، دعاؤں کے ساتھ اس سے رخصت ہوئے۔ آدھی رات کو اسلام آباد پہنچے، فارد،سرمد، دانش، نوفل، رائم، آمنہ اور ماریہ ہمیں لینے آئے ہوئے تھے۔ ہم ایک اور سفر کے لیے سفر سے لوٹ آئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔       عبد المعبود، محمد، تاریخِ مکۃ المکرمہ، لاہور، مکتبۂ رحمانیہ، ۲۰۰۷ء، ص۲۶

۲۔      امام فخر الدین رازی، تفسیرِ کبیر، جلد ۷ ص ۴۹

۳۔       محمد عبد المعبود،عبد المعبود، محمد، تاریخِ مکۃ المکرمہ، لاہور، مکتبۂ رحمانیہ، سنہ ندارد،۲۰۰۷ء، ص ۴۰۶

۴۔       ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، ’’دشتِ امکاں ‘‘کراچی، قرطاس، ۲۰۰۳ء،ص۸۱

۵۔       عبد المعبود، محمد، تاریخِ مکۃ المکرمہ، لاہور، مکتبۂ رحمانیہ،۲۰۰۷ء، ص ۱۸۲

۶۔       ابو الحسن ندوی،ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، ’’نعت شناسی ‘‘ مرتب:ڈاکٹر داؤد عثمانی، کراچی،نعت ریسرچ سنٹر،۲۰۱۱ء۱۹۶۔۱۹۷

۷۔       مفتی احمد یار خاں نعیمی، پارہ دوم، تفسیر نعیمی صفحہ ۷۰

۸۔       ڈاکٹر ابو الخیر کشفی،۲۰۱۱ء ’’نعت شناسی ‘‘ مرتب:ڈاکٹر داؤد عثمانی، کراچی، نعت ریسرچ سنٹر،۲۰۱۱ء، ص ۱۱۵

۹۔        علامہ الحاج عباس کرارہ مصری، ترجمہ الفلاح بی اے، تاریخِ حرمین شریفین، سن ندارد، لاہور مکتبۂ رحمانیہ،ص ۱۹

۱۰۔       جاویدجمال ڈسکوی،میرے حضور کے دیس میں، کراچی، جنگ پبلشرز،۱۹۹۰ء،ص ۲۷

۱۱۔      عبد المعبود، محمد، تاریخِ مکۃ المکرمہ،، لاہور، مکتبۂ رحمانیہ،۲۰۰۷ء،ص۱۵۷

۱۲۔      عباس کرارہ مصری،علامہ الحاج، ترجمہ الفلاح بی اے، تاریخِ حرمین شریفین، لاہور مکتبۂ رحمانیہ،سن ندارد،ص۱۲۳۔۱۲۴

۱۳۔     ڈاکٹر آصف محمود جاہ، اللہ کعبہ اور بندہ،لاہور، علم و عرفان پبلشرز،۲۰۱۳ء

۱۴۔     ڈاکٹر آصف محمود جاہ، اللہ کعبہ اور بندہ،لاہور، علم و عرفان پبلشرز،۲۰۱۳ء

۱۵۔     عبد المعبود، محمد، تاریخِ مکۃ المکرمہ، لاہور، مکتبۂ رحمانیہ،۲۰۰۷ء،ص۳۸۵

۱۶۔      احمد یار خاں نعیمی، پارہ دوم، تفسیر نعیمی صفحہ ۷۰

۱۷۔    ڈاکٹر سید علی انور ’’شکر … ایک عظیم عبادتِ الہی‘‘ مشمولہ دریافت، شمارہ ۴،اسلام آباد،نمل،ص۶۴۳

۱۸۔     ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، ’’نعت شناسی ‘‘ مرتب:ڈاکٹر داؤد عثمانی، کراچی، نعت ریسرچ سنٹر،۲۰۱۱ء، ص۲۶۔۲۹

 

کتابیات

 

٭       ڈاکٹر آصف محمود جاہ،ڈاکٹر، اللہ کعبہ اور بندہ،لاہور، علم و عرفان پبلشرز،۲۰۱۳ء

٭       ابو الخیر کشفی،ڈاکٹر، ’’نعت شناسی ‘‘ مرتب:ڈاکٹر داؤد عثمانی، کراچی، نعت ریسرچ سنٹر،۲۰۱۱ء

٭        احمد یار خاں نعیمی، پارہ دوم، تفسیر نعیمی، لاہور، مکتبۂ اسلامیہ

٭       امام فخر الدین رازی، تفسیرِ کبیر، جلد ۷

٭       افتخار احمد قادری حافظ، دیارِ حبیب۔جون۲۰۰۱ء

٭       ڈسکوی، جاوید جمال،میرے حضور کے دیس میں، لاہور، جنگ پبلیشرز، ۱۹۹۰

٭       خان ایچ بی۔ کراچی سے گنبد خضرا تک، کراچی، الحمد ا کادمی، ۱۹۸۶

٭       عباس کرارہ مصری،علامہ الحاج، ترجمہ الفلاح بی اے، تاریخِ حرمین شریفین، لاہور مکتبۂ رحمانیہ،سن ندارد

٭       عبد المعبود، محمد، تاریخِ مکۃ المکرمہ، لاہور، مکتبۂ رحمانیہ، ۲۰۰۷ء

٭        شورش کاشمیری، شب جائے کہ من بودم، لاہور، مکتبۂ چٹان، بار سوم، ۱۹۸۸

٭       طبری، علامہ جریر، تاریخ طبری، جلد اول، کراچی،نفیس اکیڈمی مارچ ۱۹۶۷ ء

٭       معراج الاسلام، محمد، کعبۃ اللہ اور اس کا حج، لاہور، گنبد خضریٰ پبلی کیشنز۔ س ن

٭        نگارسجاد ظہیر،ڈاکٹر، ’’دشتِ امکاں ‘‘کراچی، قرطاس۲۰۰۳ء

٭       سید علی انور،ڈاکٹر ’’شکر … ایک عظیم عبادتِ الہی‘‘ مشمولہ دریافت، شمارہ ۴،اسلام آباد،نمل

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید