FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

پاکستانی ادب کے معمار

 

 

جمیل الدین عالی :شخصیت و فن

 

 

                بیگم رعنا اقبال

 

 

 

 

پیش نامہ

 

 

اکادمی ادبیات پاکستان نے 1990ء میں پاکستانی زبانوں کے ممتاز تخلیق کاروں کے بارے میں ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے عنوان سے ایک اشاعتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ معماران ادب کے احوال و آثار کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے یہ کتابی سلسلہ بہت مفید خدمات انجام دے رہا ہے اکادمی، پاکستان کی تمام زبانوں کے نامور ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں اور نقادوں کے بارے میں کتابیں شائع کر رہی ہے۔

نام ور شاعر، ممتاز سفر نامہ نگار اور منفرد کالم نگار جمیل الدین عالی اردو ادب کا بے حد معتبر نام ہے۔ انہوں نے غزل اور نظم گوئی کے میدان میں مسلسل لکھا اور بہت جم کر لکھا۔ ان کا طویل نظم کا تجربہ بھی عصری شعری منظر نامے میں بہت منفرد اور نمایاں تر مقام کا حامل رہے گا۔ عالی صاحب دو ہے اور گیت نگاری کے میدان میں جداگانہ اسلوب کے حامل ایسے شاعر ہیں جنہیں الگ شناخت کیا جا سکتا ہے۔ عالی صاحب کے لکھے ہوئے قومی نغمے پاکستان کے باسیوں میں حب وطن کا لازوال جذبہ پیدا کرتے رہے ہیں اور عوامی مقبولیت کے اس مقام پر ہیں جہاں لوک ادب کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔ ان حوالوں سے پاکستان کی آئندہ نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گی۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے نئی نسلوں کو مشاہیر ادب کے کارناموں سے آگاہ کرنے کے لیے پاکستانی ادب کے معمار سلسلے کے تحت جمیل الدین عالی شخصیت اور فن کے موضوع پر کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔

محترمہ رعنا اقبال صاحبہ نے اکادمی ادبیات پاکستان کی درخواست پر ’’جمیل الدین عالی: شخصیت اور فن‘‘ لکھ کر اردو ادب کی بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کا اشاعتی منصوبہ ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی پسند کیا جائے گا۔

افتخار عارف

٭٭٭

 

 

 

 

پیش لفظ

 

سب سے پہلے تو میں اکادمی ادبیات پاکستان اور مشفق و محترم جناب افتخار عارف کی ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے جناب ڈاکٹر جمیل الدین عالی (ہلال امتیاز) کی حیات اور فن پر ایک مختصر کتاب لکھنے کا موقع فراہم کیا۔ دراصل یہ اکادمی کا بڑا وقیع سلسلہ ہے اس سلسلے کا عنوان ہے ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ یہ نام بھی اس کے تمام مقاصد ظاہر کرتا ہے۔

مگر اس میں بھی شک نہیں کہ عالی صاحب پر لکھنا ایک بڑا مسئلہ تھا، وہ یک رخ آدمی نہیں ہیں صرف شاعر یا صرف نثر نگار ہوتے تو مقررہ محدودات میں ان پر لکھنے کی کاوش کسی حد تک اطمینان بخش بھی ثابت ہوتی۔ مگر وہ ایک ہمہ صفتی شخصیت اور قلم کار ہیں ان کی وجہ شہرت بھی ایک نہیں، وہ ایک رضا کار سماجی اور ادبی کارکن بھی ہیں جس نے بڑی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ ایسی شخصیات کی حیات اور فن دونوں پر ایک بڑا کتابی سلسلہ ہی جواز تحقیق و تحریر بن سکتا ہے۔

اپنے ممدوحین کے لیے خاصا مبالغہ بھی جائز ہوتا ہے اور عالی صاحب یقیناً میرے ممدوح بھی ہیں لیکن جیسا کہ قارئین خود ملاحظہ کریں گے میں نے ان کے لیے کہیں بھی مبالغہ نہیں کیا، نہ میں نے ان کو سب سے بڑا ادیب لکھا نہ سب سے بڑا شاعر، نہ کوئی عظیم ترین شخصیت، جب کہ ان پر بعض خاصے موقر لکھنے والوں نے اس سے بھی زیادہ مدح سرائی کی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان میں سے کسی مقام کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ مقام تو بالآخر اچھے پڑھنے والے اور نقاد خود متعین کر دیتے ہیں، لیکن میں نے قلم کو روک کر لکھا ہے تاکہ پڑھنے والوں کے لیے بہتر سے بہتر گنجائشیں موجود ہوں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ میں انہیں واضح طور پر ایک منفرد مجموعہ اوصاف سمجھتی ہوں۔ ایک منفرد شخصیت جس نے بہ یک وقت کئی نازک اور بڑے امتحانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں جن کی حیثیت دائمی ہے۔

سچ یہ ہے کہ میں ان کے بہت سے اہم کارناموں کا مکمل احاطہ نہ کر سکی، کیوں کہ مقررہ ضخامت کا مسئلہ ہر وقت پیش نظر رہتا تھا۔ (گو کہ میں اس حد سے تجاوز کر گئی ہوں) مثلاً ’’غیر تخلیقی‘‘ معاملات میں انہوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ، انجمن ترقی اردو اور اردو یونیورسٹی کے لیے خالصتاً رضا کارانہ طور پر کام کیا ہے اور 1962ء سے کیے جا رہے ہیں۔ ان کی تفصیلات ان کی مشکلات سامنے آ کر دل ہلا دیتی ہیں۔ یہ تین ادارے ہی ان کی مستقل مزاجی، دور اندیشی اور وطن، علم اور قومی زبان اردو سے انتہائی گہرے کمٹ منٹ کے آئینہ دار ہیں۔ دو ادارے جن کی زندگی بابائے اردو کے بعد خطرے میں پڑ گئی تھی۔ عالی صاحب نے نہ صرف انہیں بچایا بلکہ انہیں اتنا مضبوط کیا اور ترقی کی ایسی راہوں پر ڈال دیا کہ جہاں تک مستقبل نظر آتا ہے، ان اداروں کی روز بڑھتی اور پھیلتی کارکردگی صاف اپنی جھلکیاں دکھاتی رہتی ہے۔

ان کے بعض کارناموں نے ایک اور طرح بھی اپنی مسلسل جگہ بنا رکھی ہے۔ پاکستان میں سب زبانوں کے ادبی انعامات پہلی بار انہوں نے قائم کیے تھے جن کا انتظام و انصرام فاؤنڈر اداروں کے ذریعے پاکستان رائٹرز گلڈ کرتا تھا۔ عالی صاحب کے گلڈ چھوڑنے کے بعد (1970) آج تقریباً گلڈ ختم ہو چکا ہے لیکن خوش قسمتی سے ان انعامات کو اکادمی ادبیات پاکستان نے اپنا لیا اور یوں وہ مستقل ہو گئے ہیں۔ انعامی رقومات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے (گو ابھی مزید گنجائش موجود ہے) 1963ء میں لاہور میں گلڈ کی عمارت کے لیے جو زمین محکمہ مہاجرین سے خریدی گئی وہ چار لاکھ سے بھی کم پڑی تھی آج وہ چودہ کنال زمین ایک ارب روپے سے زیادہ مالیت کی ہے اور گلڈ ٹرسٹ کا دفتر اب تک اس میں واقع ہے۔ افسوس اس کے متولیان نے ابھی تک اس کا درست استعمال نہیں کیا لیکن مجھے یقین ہے کہ ادیب برادری کے لیے ایک اتنا بڑا غیر سرکاری اثاثہ کبھی تو ان کے کام آئے گا۔ اسے حاصل کرنے اور اسے ٹرسٹ بنانے کا سہرا عالی جی کے ہی سر جاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے خیر جاریہ کہلائے گا۔

اسی طرح ان وظیفوں کے اجراء کا معاملہ ہے جو نادار، بیمار اور مرحوم ادیبوں کے لیے پاکستان میں پہلی بار عالی جی نے جاری کرائے تھے۔ یہ بڑے درد انگیز معاملات ہوتے تھے اور ہوتے ہیں عالی صاحب پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اس طرف مستقل ایک بامعنی توجہ رکھی۔ لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ گلڈ کے غیر فعال ہونے کے بعد اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام یہ کام جاری ہے۔

ادب میں دوہے کو ہی لیجئے، یہ صنف تقریباً مر چکی تھی لیکن عالی صاحب نے دوہے کو اس طرح اٹھایا کہ وہ اب چاروں طرف پھیل چکا ہے، خصوصاً ہندوستان میں دوہے کے بہت سے شعراء پیدا ہو گئے ہیں اور وہ عالی جی کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ پاکستان میں دوہے کہنے والوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں پرتو روہیلہ، الیاس عشقی، عادل فقیر اور ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

عالی جی ایک ایسی ادارہ ساز شخصیت بھی بن چکے ہیں جن کے بنائے ہوئے اداروں نے ان کے عملاً بے تعلق ہو جانے کے باوجود استقلال کی جڑ پکڑ لی ہے اور ایک خوشنما مستقبل کی طرف جا رہے ہیں۔ ایسی نظری اور عملی شخصیت پر کام کرنا ویسے بھی بڑا دشوار ہوتا ہے اور اسے محدود ضخامت میں تحریر کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔۔ میں نے دونوں شعبوں میں اپنی سی کوشش تو کی ہے۔ آگے قارئین محترم جانیں۔

بیگم رعنا اقبال

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی نامہ

 

نام: نواب زادہ مرزا جمیل الدین احمد خان، تخلص: عالی، پیدائش:20جنوری 1925ء، دہلی والد کا نام: ہز ہائی نس نواب سر امید الدین المعروف بہ فرخ مرزا تخلص، فرخی (گو باقاعدہ شاعر نہ تھے) والی ریاست لوہارو (مرزا اسد اللہ خاں غالب کا تحریر کردہ خط ’’دادا اور دلدادہ‘‘ انہی کے نام ہے) جنوری 1937ء میں وفات ہوئی۔ والدہ محترمہ، سیدہ جمیلہ بیگم، دادا: نواب علاؤ الدین احمد خاں علائی، شاگرد غالب، نانا: سید ناصر وحید بن سید ناصر وزیر سجادہ نشین حضرت خواجہ میر درد، والدہ نواب صاحب کی چوتھی بیگم تھیں انہوں نے اکتوبر1992ء میں وفات پائی۔ عالی صاحب کے بعد ایک بھائی جمالی پیدا ہوئے جو صغر سنی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ دونوں بہنیں حیات ہیں۔

شادی: اپنی پسند سے 30 ستمبر1944ء میں طیبہ بانو بنت صاحبزادہ مرزا صمصام الدین فیروز سے کی۔ مرزا صمصام الدین کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے جب کہ طیبہ بانو کی والدہ نوابزادی انور زمانی بیگم بنت نواب اسحاق خاں ہمشیرہ نواب محمد اسماعیل خاں (مسلم لیگ) مصطفی خاں شیفتہ کی پوتی تھیں۔ عالی صاحب کی اولادوں میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو سب صاحب اولاد ہیں۔

تعلیم: پرائمری گھریلو کیوں کہ لوہارو میں کوئی معقول اسکول نہ تھا۔ میٹرک اینگلو عربک ہائی اسکول۔ دریا گنج دہلی 1940ء بی اے اینگلو عربک کالج دہلی 1944ء ایم اے اکنامکس دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا جو مکمل نہ ہو سکا۔ یونیسکو فیلو شپ۔ دس ماہ یورپ، امریکا اور برما1961ء تین مہینے ہارورڈ انٹرنیشنل سیمینار ہارورڈ ڈائریکٹر نوبیل انعام یافتہ پروفیسر ہنری کیسنجر 1962ء ایل ایل بی 1976ء جامعہ کراچی، ڈپلو کارپوریٹ پلاننگ، انٹرنیشنل ایجوکیشن اینڈ انڈسٹریل انسٹی ٹیوٹ جنیوا1978ء

ملازمتیں: شعبہ ٹرانسپورٹ بطور اسسٹنٹ1945ء حکومت ہند، یہ ملازمت بوجودہ چند ماہ ہی چل سکی۔ اسسٹنٹ وزارت تجارت 1947ء حکومت پاکستان۔ سی ایس ایس1951ء کے بعد پاکستان ٹیکسیشن سروس میں بحیثیت انکم ٹیکس افسر تعیناتی 1952ء۔ افسر بکار خاص (ڈیپوٹیشن پر) ایوان صدر1959ء سے 63تک۔ نامزد کاپی رائٹ رجسٹرار۔ وزارت تعلیم 1963ء سے 1964ء ۔ سیکرٹری نیشنل پریس ٹرسٹ (ڈیپوٹیشن پر) 1964ء سے1966ء این پی ٹی اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ1966ء نائب صدر نیشنل بینک آف پاکستان (انکم ٹیکس)1967ء تا 1971ء سینئر نائب صدر (انکم ٹیکس) نیشنل بینک 1972ء بتدریج ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے کارپوریٹ پلاننگ ٹریژری ڈیولپمنٹ، پی آر سیکشن میں سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ اور رکن ایگزیکٹو بورڈ پھر ڈیپوٹیشن پر پاکستان بینکنگ کونسل میں کارپوریٹ پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ ایڈوائزری سے ریٹائرمنٹ1988ء میں تین سالانہ توسیعات کے بعد۔

سیاست: عالی جی نے 7مارچ1977ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر حلقہ 191 سے انتخاب میں حصہ لیا۔ بیالیس ہزار ووٹ حاصل کیے لیکن متحدہ قومی محاذ کی جانب سے جماعت اسلامی کے سید منور حسن کے مقابلے میں ناکام رہے۔ مارچ1997ء میں ایم کیو ایم کے رکن ہوئے بغیر اس کے حمایت یافتہ امیدوار کی حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوئے اور سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے سائنس و تعلیم کے متفقہ طور پر چیئرمین مقرر کئے گئے۔ 12 اکتوبر1999ء کو سینیٹ معطل ہو جانے سے یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔

خدمات: ہر سال دیے جانے والے نجی شعبہ کے مندرجہ ذیل پانچ اردو، بنگلہ قومی ادبی انعامات کے بانی اور سیکرٹری 1965ء تا 1970ء ان کے ضوابط آپ نے خود ترتیب دیے اہم ترین یہ کہ آپ خود تا عمر ان میں سے کسی بھی انعام کے حق دار نہیں ہو سکیں گے۔

الف۔ آدم جی ادبی انعام

1960ء تخلیقی ادب

ب۔ داؤد ادبی انعام

1963ء تحقیق، تنقید، تاریخ

ج۔ نیشنل بینک ادبی انعام

1964ء سائنس ، معیشت

د۔ یونائیٹڈ بینک ادبی انعام

1965ء بچوں کا تخلیقی ادب

ہ۔ حبیب بینک ادبی انعام

1966ء پاکستانی زبانوں کے ادب سے بین اللسانی تراجم

ممبر نیشنل بک کونسل1961ء تا1974ء۔ 1983ء۔ 1988ء

ممبر کاپی رائٹ بورڈ1968ء تا 1971ء

اعزازی سیکرٹری و ایڈمنسٹریٹر اردو آرٹس، لا اور سائنس کالج کراچی 1962ء تا 1973ء

ممبر گورننگ باڈی نیشنل لینگویج اتھارٹی1983ء

ممبر جی ایچ کیو میوزک کمیٹی1983ء

اعزازی سیکرٹری پاکستان رائٹرز گلڈ1959ء تا 1967ء

منتخب اعزازی سیکرٹری جنرل پاکستان رائٹرز گلڈ1967ء تا1970ء

رکن منتظمہ انجمن ترقی اردو پاکستان 1959ء تا1962ء معتمد اعزازی 1963ء تا حال

بانی رکن اعزازی مرکزی سائنس اردو بورڈ لاہور1962ء تا1983ء

رکن اور اعزازی صدر نشین اردو لغت بورڈ کراچی 1998ء تا2001ء

رکن کاپی رائیٹ ٹریبونل حکومت پاکستان1968ء تا1972ء

رکن نیشنل فاؤنڈیشن آف پاکستان اسلام آباد1973ء تا1975ء

رکن مجلس نظما مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد1981ء تا1983ء

بانی و صدر ادیب سہارنپوری مرحوم ٹرسٹ، کراچی 1964ء

بانی و صدر نظر حیدر آبادی مرحوم ٹرسٹ واہ کینٹ1966ء

بانی و رکن سلیم احمد ٹرسٹ کراچی 1983ء

بانی و رکن افکار ٹرسٹ کراچی 1985ء

رکن مجلس ادارت ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1962ء تا حال

مدیر ماہنامہ ’’ہم قلم‘‘ کراچی 1961ء تا1966ء

رکن مجلس ادارت سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء

صدر اردو لغت بورڈ کراچی 1998ء

وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر عطاء الرحمن کی مدد سے اردو کالج کو اردو یونیورسٹی میں تبدیل کیا اور پہلے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ 2002ء

اے آر وائی گولڈ دبئی سے دس ہزار امریکی ڈالر کا سالانہ ادبی انعام کا اجرائ2001ء

تصانیف: غزلیں دوہے گیت1957, 1959, 1973, 1984, 1985, 1992

جیوے جیوے پاکستان،1974, 1976, 1980, 1982, 1983, 1990, 1994

لا حاصل1974, 1988ء دوہے لاہور، اگست2003ء

نئی کرن، کراچی 1989ء، شنگھائی کی عورتیں،1972ء ، ایشین ڈراما1976ء

دنیا مرے آگے، 1985, 1986ء دعا کر چلے (جلد دوم) 1993ء

وفا کر چلے، 2000ء حرفے چند (جلد اول)1988ء حرفے چند (جلد دوم)1993ء

حرفے چند (جلد سوم)1997ء حرفے چند (جلد چہارم)1999ء

اصطلاحات بینک کاری 19991ء اے مرے دشت سخن، 1995ء

مختصر لغت اقتصادیات2000ء، دوہے2003ء، بس اک گوشہ بساط2005ء، اور آتس لینڈ2004ء مہر و ماہ وطن2006ء کار گاہ وطن2006ء، بارگاہ وطن2006ء، انسان2007ء

زیر طبع و ترتیب: رقعہ رقعہ، آدھی ڈائری، سطور آوارہ

انگریزی کتاب دو جلدوں پر مشتمل ’’National Synthesis‘‘ زیر اشاعت

عالی جی پر لکھے گئے چند مقالے اور تصانیف: جمیل الدین عالی فن اور شخصیت، مرتبہ ایم حبیب خاں، معاون انجمن تری اردو ہند دہلی 1988ء

جمیل الدین عالی کی نثر نگاری، پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، اسلام آباد1993ء

جمیل الدین عالی بحیثیت شاعر، رب نواز مونس، ملتان1986ء

جمیل الدین عالی کی تحریروں میں پاکستانیت، مہر النساء عزیز، جامعہ کراچی2002ء

’’ارمغان عالی‘‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مشفق خواجہ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، امجد اسلام امجد1988ء

سہ ماہی ’’دنیائے ادب‘‘ کراچی کا عالی نمبر، رعنا اقبال، اوج کمال 2001ء جمیل الدین عالی شخصیت اور فکر و فن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ڈاکٹر فہمیدہ عتیق2003ء (پی ایچ ڈی)

اعزازات: غیر سرکاری کینیڈین اردو اکادمی ایوارڈ ٹورنٹو1990ء سنت کبیر ایوارڈ دہلی 1989ء

صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی 1991ء نشان سپاس بیس روٹری کلبوں سے 1991ء۔ ہلال امتیاز حکومت پاکستان1998ء

کمال فن ایوارڈ اکادمی ادبیات پاکستان2007ء ، نشان سپاس دسمبر2007ء (پاک امریکن نیشنل الائنس) ڈی لٹ جامعہ کراچی 1991ء ڈی لٹ دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ برائے ہائر ایجوکیشن کمیشن2008ء

بیرون ممالک سفر: ایران، روس، عراق، امریکا، کینیڈا، سوئیڈن، ڈنمارک، ناروے، جاپان، یورپی ممالک، مشرق وسطیٰ، چین، یوگوسلاویہ، مشرقی برلن، اٹلی، چیکو سلواکیہ، بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، آئس لینڈ۔

٭٭٭

 

 

 

حالات زندگی

 

والی الور راجہ بختاور کے ہاں دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ احمد بخش خاں بھی ملازم تھے لیکن اس شخص کی خصوصیت کیا تھی یہ بہت دیر میں کھلا۔ ان دنوں الور والوں کی بھرت پور سے کافی ٹھنا ٹھنی تھی جو پرانی رنجش کا نتیجہ تھی۔ دونوں ریاستیں ایک دوسرے سے متصل تھیں۔ اچانک انگریزوں اور بھرت پور والوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ احمد بخش خاں نے جب یہ دیکھا تو خاموش نہ بیٹھ سکے اور سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر ریاست الور کی دوستی ثابت کرنے کے لیے انگریزوں کی مدد کو پہنچ گئے۔ لڑائی کے دوران جب زخمی سپہ سالار گھوڑے کی پیٹھ سے گرنے لگا تو احمد بخش نے نہ صرف اسے گرنے سے بچایا بلکہ بہ حفاظت خیمہ تک بھی پہنچایا۔ چنانچہ سپہ سالار نے وصیت کی کہ احمد بخش کو اس کی بہادری کا صلہ ضرور دیا جائے۔ چنانچہ کامیابی کے جشن کے موقع پر گورنر جنرل لارڈ لیک نے احمد بخش کو بہت سی جاگیریں عطا کیں اور مہاراجا الور نے اپنی طرف سے پرگنہ لوہار احمد بخش خاں کو عطا کیا دربار دہلی سے فخر الدولہ دلاور الملک اور رستم جنگ کی سندیں بھی عطا کی گئیں۔

نواب احمد بخش کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے امین الدین خاں اور پھر پوتے علاؤ الدین احمد خاں علائی والی لوہار ورہے پھر علائی کے بیٹے سر امیر الدین خان لوہارو کے وارث ہوئے۔ یوں تو سر امیر الدین ماشاء اللہ کثیر العیال تھے اور خصوصاً ان کے فرزندگان اپنے اپنے وقت کی نامور اور نمایاں شخصیات میں شامل رہے لیکن سر امیر الدین کی چوتھی بیگم سے جنم لینے والے نواب زادہ مرزا جمیل الدین خاں عالی صحیح معنوں میں اپنے بزرگوں کے بزرگ غالب کی نمائندگی کرنے میں کامیاب رہے۔

مرزا جمیل الدین عالی 20 جنوری 1925ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے خاندان کا تعلق ایک طرف مرزا غالب (سببی رشتہ) سے ہے اور دوسری طرف وہ اپنی والدہ جمیلہ بیگم کے حوالے سے خواجہ میر درد سے نسبت رکھتے ہیں۔ عالی صاحب کی عمر اس وقت صرف بارہ سال تھی جب ان کے والد سر امیر الدین خاں وفات پا گئے۔ ان کی والدہ اپنے بیٹے کی تعلیم کی وجہ سے زیادہ تر دہلی ہی میں رہا کرتی تھیں کیوں کہ لوہارو میں رعایا کے لیے ایک عام مدرسہ کے علاوہ کوئی اچھا سکول نہ تھا۔ عالی جی کسی پرائمری مدرسے میں نہیں گئے بلکہ باقاعدہ طور پر ٹیوٹر سے پڑھتے رہے اور پھر اینگلو عربک ہائی اسکول دریا گنج دہلی میں پانچویں جماعت میں داخلہ لیا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کے ذاتی ذرائع آمدنی بھی حکومت ہند کے عام احکامات تخفیف کی زد میں آ گئے اور دوسری طرف سوتیلے رشتہ داروں کی عدم توجہی کے باعث کئی مروجہ مراعات سے بھی محروم ہو گئے۔ اکثر و بیشتر ان کی والدہ کو اپنے زیورات فروخت کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی۔ عالی صاحب کی تربیت کا سارا بوجھ ان کے ماموں سید ناصر مجید پر آن پڑا تھا جو خود زیادہ تعلیم یافتہ تو نہ تھے لیکن بھانجے سے محبت بہت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ والد کے نہ ہونے سے کسی طرح سے محرومی کا شکار نہ ہوں۔ ادھر عالی صاحب اپنے ماموں کا احترام کرنے کے باوجود اپنے معاملات میں دخل اندازی برداشت نہ کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ عالی صاحب کے یوں تو تین بھائی تھے لیکن ان سے بڑے اور ان سے چھوٹے زیادہ عرصے زندہ نہ رہ سکے اور یوں عالی صاحب اپنی والدہ اور بہنوں کے انتہائی لاڈلے تھے۔ لہٰذا طبیعت میں شوریدہ سری کا عنصر پیدا ہو جانا فطری بات تھی اور اسی لیے اسکول اور کالج کی تعلیم کے زمانے میں عالی صاحب ایک تیز مزاج فقرہ باز اور نصابی تعلیم سے جی چرانے والے لڑکے تھے لیکن خوش شکل، خوش پوش اور چنچل نوجوان کی حیثیت سے ہم عمروں میں مقبول بھی بہت تھے۔ کالج میں علی سردار جعفری اور اختر الایمان ان کے سینئر ساتھی تھے وہ زمانہ عالی جی کی نوجوانی کا زمانہ تھا اور ان کا ذہن بہت تیزی سے تبدیل بھی ہو رہا تھا۔ اس حوالے سے عالی صاحب کے ایک عزیز دوست محمد عمر کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے ساتھ رہ کر اپنے عزیزوں کی نسبت روشن خیال اور حمید ہاشمی اور ان کے بھائی انیس ہاشمی عالی سے لٹریچر بھی تقسیم کروایا کرتے تھے کیونکہ نواب زادہ ہونے کی وجہ سے ان پر کسی کو شبہ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘ عالی صاحب نے ایک طرف تو کالج میں اختر الایمان سے ’’مرغ زریں‘‘ کا خطاب پایا وہ بھی اپنی مغلیہ طرز کی چوگوشیہ ٹوپی کی بدولت جو پھر انہوں نے کبھی نہیں پہنی تو دوسری طرف اپنی کلاس کے ایک لڑکے محمد اطہر سے ان کا عشق بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ اس عشق کی دلچسپ بات یہ تھی کہ محمد اطہر سے صرف عالی صاحب ہی عشق نہیں فرماتے تھے بلکہ عالی جی کے قریبی دوست محمد عمر بھی اطہر کے عاشق تھے اور جب عمر اطہر کو اپنی سائیکل پر بٹھا کر گھر چھوڑنے جاتے تو عالی صاحب غصہ سے لال پیلے ہوتے رہتے۔ لیکن ان تینوں کی مثالی دوستی ہمیشہ قائم رہی اور جب اطہر کا انتقال (عالی صاحب کی گود میں) ہوا تو عالی صاحب بہت روئے ان کی اس محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ کا انتساب اطہر کے نام کیا ہے۔ محمد اطہر تیسری جماعت سے ایم اے تک فرسٹ کلاس فرسٹ رہے شاید عالی صاحب کے ان سے متاثر ہونے کا یہ بھی سبب تھا۔

عالی جی نے اپنی پسند کی شادی کی، بیگم طیبہ عالی عمر میں عالی صاحب سے سات برس بڑی اور رشتہ میں ان کی بھتیجی تھیں لیکن ان کی نظر انتخاب جب انہی پر جا ٹھہری تو وہ اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔ یہ بھی ایک حیران کن بات ہے کہ آج بھی عالی صاحب طرح سے اپنی بیگم سے محبت بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں بلکہ شاید گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں آئی۔ عالی جی ایک حوصلہ مند اور فیصلوں پر قائم رہنے والے انسان ہیں وہ آج جس منصب پر فائز ہیں وہ ان کی ذاتی محنت، لگن اور جہد مسلسل کا نتیجہ ہے۔ زندگی کی جدوجہد اور بڑھتی ہوئی مصروفیات نے ان کی دوستیوں اور حلقہ احباب کو بھی بہت متاثر کیا اور جب وہ پہلے جتنا وقت دینے کے قابل نہ رہے تو تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوتی گئی۔ آج بھی یہ صورت حال قائم ہے لیکن ایک بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ عالی صاحب کو ماشاء اللہ ایک طویل اور بھرپور زندگی گزارنے کے باوجود دوست اور دشمن کی شناخت نہ آ سکی وہ ایک آدمی سے پچاس مرتبہ نقصان اٹھاتے ہیں لیکن پھر اس کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے دوران ملازمت ہمیشہ بے انتہا ذمہ داری کا مظاہرہ کیا لیکن کسی افسر سے کبھی دبے نہیں ہمیشہ صاف گوئی سے کام لیا اور اصولوں کا سودا نہیں کیا اور یہ بات اکثر افسران کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ چنانچہ انہیں بھی بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور نتیجے میں کبھی پکی ملازمت سے استعفیٰ دیا تو کبھی نیشنل پریس ٹرسٹ چھوڑنا پڑا۔ لیکن وہ ایک محنتی اور انتھک انسان ہیں۔ بہ یک وقت نوکری، رائٹرز گلڈ، انجمن ترقی اردو، اردو کالج اور پھر اردو یونیورسٹی اور سونے پر سہاگہ ادبی اور صحافتی ذمہ داریاں خصوصاً ’’جنگ‘‘ کا ہفتہ وار کالم جس کے لیے وہ درجنوں کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی گھریلو زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی قابل رشک ہے اور وہ اس لیے کہ عالی صاحب نہ صرف گھر کو بلکہ خاندان والوں کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ تمام معاملات پر ان کی گہری نظر رہتی ہے اور وہ گھریلو و خاندانی امور پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ بڑے ہونے کے ناطے سب کیلئے شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ پاکستان آئے تو اپنی خوش دامن اور دو بیٹوں کو شادی تک اور خوش دامن کو ہمیشہ ساتھ رکھا۔ اسی طرح اپنی والدہ سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آکری بار جب وہ بیمار ہوئیں اور اسپتال میں داخل ہوئیں تو تمام تر سہولیات کے باوجود عالی جی ان کے ساتھ مستقل ہسپتال میں رہے۔ ان کا بستر اور ان کی کتابیں بھی وہیں پہنچا دی گئی تھیں۔ والدہ کی ایک آواز پر وہ جس طرح دوڑتے تھے میں اس کی چشم دید گواہ ہوں اور یہ سلسلہ ایک دو ماہ نہیں پورے ڈیڑھ سال جاری رہا۔ رات دن کی محنت مسلسل بے آرامی اور والدہ کی مسلسل گرتی ہوئی صحت نے عالی صاحب کے دل و دماغ کو بہت نقصان پہنچایا اور یوں انہیں دل کے دورے کے باعث امراض قلب کے وارڈ میں جا کر لیٹنا پڑا۔ چھ ہفتے کے بعد جب ہسپتال سے گھر پہنچے تو والدہ کو گھر میں پایا۔ عالی صاحب کے گھر واپس آنے کے چند ماہ بعد 12 اکتوبر1992ء کو عالی صاحب کی والدہ بہ عارضہ قلب اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتنا بڑا قلم کار جوہر کسی کے دکھ اور سکھ پر قلم اٹھاتا ہے اپنی والدہ کے لیے آج تک ایک لفظ نہ لکھ سکا۔ وہ اپنے سامنے اپنی والدہ کا مرحومہ کی حیثیت سے ذکر بھی پسند نہیں کرتے۔ کوئی بہانہ نکال کر بات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ ان کی بیگم کہتی ہیں یہ اب تک وہ صدمہ برداشت نہیں کر پائے۔ انہیں زندہ ہی سمجھتے ہیں۔

عالی صاحب نے عربک کالج دہلی 1944ء میں تیسرے درجے میں بی اے کیا۔

ایم اے اکنامکس میں داخلہ لیا تھا مگر اسی سال 30 ستمبر کو وہ طیبہ بانو کو اپنی دلہن بنا کر لے آئے اور مشترکہ خاندانی رہائش چھوڑ دی جس کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا۔ پھر وہ ملازمت کے حصول میں سرگرداں ہو گئے یہ زمانہ جنگ عظیم دوم کے آخری مراحل کا تھا اور دنیا بھر میں بے روزگاری اپنے عروج پر تھی لیکن عالی جی کی مسلسل بھاگ دوڑ رائیگاں نہ گئی اور انہیں دہلی میں حکومت ہند کے محکمہ نقل و حمل (ٹرانسپورٹ) میں اسسٹنٹ کی ملازمت مل گئی لیکن یہ زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی کیوں کہ عالی جی نے مسلم لیگ کے عوامی احتجاج کے موقع پر غصے میں آ کر اس وقت کے وائسرائے گل لاج کے سامنے اپنا استعفیٰ رکھ دیا تھا۔ چند مہینے گزر گئے۔ ان دنوں فوج کا محکمہ تعلقات عامہ بہت فعال تھا اور اس کے سربراہ بریگیڈئیر ڈیس منڈینگ تھے۔ ابن سعید جو عالی صاحب کے ہم جماعت اور دوست تھے انہوں نے عالی جی کو مشورہ دیا کہ وہ بریگیڈئیر صاحب سے ملیں اور مدعا بیان کریں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر غیر رسمی طور پر وہاں بلا لیے گئے اور کمیشنڈ افسروں کی طرح معمول کے فرائض انجام دینے لگے یہ سلسلہ جون 1945ء تک چلتا رہا۔ 1946ء میں آل انڈیا ریڈیو کے لیے تحریری امتحان دیا۔ کامیاب بھی ہوئے لیکن انٹرویو میں پاس نہ ہو سکے۔ چنانچہ تلاش معاش کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا اور بالآخر یکم فروری 1947ء کو وزارت تجارت میں بحیثیت اسسٹنٹ تقرری کا خط عالی صاحب کو مل گیا۔ 9 فروری 1947ء کو ان کے گھر خدا کی رحمت ان کی بیٹی حمیرا کی شکل میں نازل ہوئی اور 12 فروری 1947ء کو عالی جی نے اسسٹنٹ وزارت تجارت حکومت ہند کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ 3 جون 1947ء کو قیام پاکستان کا اعلان ہو گیا تو قائد اعظم نے مسلمان سرکاری ملازمین سے اپیل کی کہ وہ عارضی یا مستقل طور پر پاکستانOPTکر لیں۔ چنانچہ عالی صاحب نے مستقل OPTکیا اور 11 اگست1947ء کو ایک نوکر کو لے کر پاکستان روانہ ہو گئے بیگم اور چھ ماہ کی بچی حمیرا ان کے ساتھ تھیں۔ ٹرین میں موجود تمام گورنمنٹ ملازمین کے لیے کراچی میں مختلف جگہوں پر کوارٹرز کا انتظام تھا جہاں ان کو عارضی قیام کرنا تھا۔ عالی صاحب کے لیے جیکب لائن میں کوارٹر موجود تھا وہ اس میں شفٹ ہو گئے لیکن رہنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بہت زیادہ خستہ حال اور ناقابل رہائش ہے۔ چنانچہ وہ تیسرے ہی روز ایبی سینیا لائن کے کوارٹر میں چلے گئے۔ کچھ عرصے میں دہلی فسادات کے بعد عالی صاحب کی والدہ اور دونوں بہنیں بھی پاکستان آ گئیں اور اسی چھوٹے سے کوارٹر میں پناہ گزیں ہو گئیں۔

1947ء میں عالی جی نے بہتر ملازمت کی ایک اور کوشش کی O.T.S. Army کا کریش پروگرام تھا جو فوج میں فوری بھرتی اور تربیت کے لیے تھا۔ تحریری ٹیسٹ تو پاس کر لیا لیکن میڈیکل میں فلیٹ فیٹ(Flat Feet)کے باعث رہ گئے اور معاشی ضروریات کو پورا کرنے کا یہ ایک اور موقع ہاتھ سے نکل گیا۔و ہ زمانہ انتہائی عسرت کا زمانہ تھا، عالی جی 138 روپے کماتے تھے اور ان کے گھر فسادات کے مارے ہوئے تیس چالیس نفوس رہائش پذیر تھے اور والدہ، خوش دامن اور بیوی سب کے زیورات بک گئے تھے۔ بیشتر اوقات سب کو ایک وقت فاقہ کرنا پڑتا تھا عالی صاحب نے روزنامہ مسلمان میں بھی کام شروع کر دیا۔ رات کی ڈیوٹی ہوتی اور صرف پچاس روپے معاوضہ ملتا تھا۔ پھر اخبار کی مالیاتی کمزوری کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی برقرار نہ رہ سکتا۔ 1949ء میں سی ایس ایس کا امتحان پہلی بار ہوا اور جب رزلٹ آیا تو ان کے بہت سے دوستوں کے نام موجود تھے چنانچہ انہوں نے بھی کمر ہمت باندھی اور اگلے سال 1950ء کے امتحان میں بیٹھ گئے۔ مگر نہ تو تیاری کے لیے کتابیں حاصل کر سکے تھے نہ دفتر سے مطلوبہ چھٹی ملی تھی چنانچہ فیل ہو گئے۔ مگر ہمت نہ ہاری (اور سخت ترین حالات میں ہمت نہ ہارنا ہی ان کے اوصاف میں غالباً سب سے بڑا وصف ہے) سارے سال دفتر میں اور چند خاندانوں میں انتہائی تکلیف دہ مذاق بھی اڑتا رہا اور حسب سابق تیاری کے لیے ایک ہفتے کی بھی چھٹی نہ ملی بلکہ افسروں نے درخواست نہایت توہین آمیز مذاق کے ساتھ مسترد کر دی مگر انہوں نے 1951ء کا امتحان دیا اور کامیاب ہو گئے۔ وہ کامیابی ان کی عملی زندگی میں ایک بڑا موڑ ثابت ہوئی۔

افسر کے طور پر محکمہ انکم ٹیکس میں تعیناتی ہو گئی اور زندگی کچھ پر سکون ہو گئی۔ 1959ء میں ڈیپوٹیشن پر ایوان صدر پہنچے یہ وہ زمانہ تھا جب عالی جی اعزازی طور پر رائٹرز گلڈ سے وابستہ ہو چکے تھے۔ ان کے دل میں بہت دن سے یہ خیال رہتا تھا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوشش کی جائے اس سلسلے میں عالی جی کے علاوہ قرۃ العین حیدر، غلام عباس، ابن الحسن، ابن سعید اور عباس احمد عباسی، قدرت اللہ شہاب سے ملے اور وہاں یہ بات طے پائی کہ ابتدا پاکستان کے ادیبوں کا کنونشن بلا کر کی جائے۔ چنانچہ ساری تیاریاں مکمل کی گئیں اور 29 تا31 جنوری 1959ء کو کل پاکستان رائٹرز کنونشن کراچی میں منعقد ہوا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے کنونشن کی صدارت کی اور اردو کے نفاذ پر زور دیا۔ عالی جی اکتوبر1959ء سے ڈیپوٹیشن پر ایوان صدر میں خدمات انجام دینے لگے۔ بابائے اردو کی وفات 1961ء کے بعد 1962ء میں انجمن کے اعزازی معتمد نامزد ہوئے۔ لہٰذا انہوں نے اخبارات اور اعلیٰ سطح کے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرحوم مولوی عبدالحق کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کی پوری کوشش کی اور کامیاب بھی رہے۔ اولین اور نمایاں ترین خواب تھا اقامتی اردو یونیورسٹی کا قیام 2002ء جو اردو فنون کالج اور اردو سائنس کالج کی شکل میں موجود تھا لیکن اب وہ ماشاء اللہ وفاقی جامعہ اردو کی شکل میں موجود ہیں جس کا ایک کیمپس اسلام آباد میں بھی موجود ہے۔ اردو یونیورسٹی کی تشکیل و تعمیر ایک علیحدہ رزمیہ ہے۔ (اس پر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی کتاب چھپ چکی ہے) بہرحال وہ ایک انقلاب انگیز واقعہ ہے۔

عالی صاحب کی فطرت میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ بے انتہا موجود ہے۔ اپنی پہلی باقاعدہ اور اچھی ملازمت یعنی انکم ٹیکس کی ملازمت کے دوران محکمہ کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگے رہے اور ایک طرف ایک بڑی بستیPECHS کے قیام میں فعال رہے تو دوسری طرف گارڈن روڈ پر سرکاری ملازمین کے لیے مکانات تیار کرائے اور ان میں سے آٹھ کوارٹرز اپنے محکمے کے لیے مخصوص کرائے یہ تو صرف چند جھلکیاں تھیں جو یہاں پیش کی گئیں۔ سینکڑوں لوگوں کو ملازمتوں پر رکھوانا، ہزاروں کی خاموشی سے مدد کر دینا، بیمار ادیبوں، شاعروں کا اچھے سے اچھا علاج کروانا یہ بھی عالی صاحب کے ’’فرائض‘‘ میں شامل رہا ہے۔ (ادب اور ادیبوں کی خدمات کا ذکر تفصیلی طور پر علیحدہ باب میں ملاحظہ فرمائیے) اکتوبر1963ء میں ڈیپوٹیشن پر وزارت تعلیم میں آ گئے اور یہاں ان کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ ترمیم شدہ کاپی رائٹ کا محکمہ قائم کریں۔ وہیں سے عالی صاحب کو نیشنل پریس ٹرسٹ میں بطور سیکرٹری ٹرانسفر کر دیا گیا یہ اپریل 1964ء کی بات ہے۔ 1965ء میں اچانک ان کا ڈیپوٹیشن ختم کر دیا گیا اور تقرر انکم ٹیکس کی لاہور کمشنری میں کر دیا۔ چنانچہ عالی صاحب نے خفا ہو کر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اختر حسین صاحب نے انہیں این پی ٹی میں کنٹریکٹ پر رکھ لیا لیکن یہ بات حکومت کو پسند نہ آئی ٹرسٹ کا صدر دفتر راولپنڈی منتقل کر دیا گیا اور اختر حسین کی جگہ میجر جنرل ضیاء الدین کو تعینات کر دیا گیا جو اپریل 1965ء میں وفات پا گئے۔ ان کی جگہ اس وقت کے وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین چیئرمین مقرر ہوئے۔ بعد میں اے کے سومار کے حصے میں یہ سعادت آئی۔ اپریل1966ء میں صدر ایوب کے ایما پر عالی صاحب سے بھی استعفیٰ طلب کر لیا گیا۔

1967ء میں نیشنل بینک میں انکم ٹیکس ایڈوائزر منتخب ہو گئے۔ پھر وہاں بہت سے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد ڈیولپمنٹ ایڈوائزر کا عہدہ سنبھالا۔ 1975ء میں ترقی پا کر سینئر وائس پریذیڈنٹ بنا دیے گئے۔ مارچ1977ء میں پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور ناکام رہے، جولائی 1977ء میں مارشل لاء لگا اور اس کے فوری بعد اکتوبر1977ء میں مارشل لا ریگولیشن نمبر25 کی رو سے اور کئی لوگوں کے ساتھ عالی جی کی بھی نوکری ختم ہو گئی۔ فروری 1978ء میں صدر غلام اسحاق خاں نے استثنیٰ دلوایا تو نوکری اور انجمن کی معتمدی دونوں بحال ہو گئیں اور اسی سال ایگزیکیٹو وائس پریذیڈنٹ بھی ہو گئے۔ 1984ء میں بینکنگ کونسل کی ایک اسامی پر رکن ایگزیکٹو بورڈ کے عہدے پر ترقی حاصل کی اور کونسل میں ایڈوائزر کارپوریٹ پلاننگ ڈیولپمنٹ اینڈ پبلسٹی تعینات کر دیے گئے جو کہ 84ء میں سینئر ایگزیکٹو وی پی بھی ہو گئے تھے۔ 1988ء میں جب ڈاکٹر محبوب الحق دوسری بار وزارت خزانہ و اقتصادی امور اور سی بی آر کا چیف ایڈوائزر اور افسر رابطہ بھی بنا دیا اور یوں عالی صاحب ’’گریڈ ایم ون‘‘ یافتہ ہو گئے۔ ملازمت کا یہ سلسلہ 31 اکتوبر1988ء تک جاری رہا جب انہوں نے مزید توسیع ملازمت سے معذرت کر کے ریٹائرمنٹ لے لیا۔ 1997ء میں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن ہوئے بغیر ان کی خواہش پر پاکستان سینیٹ کے رکن منتخب ہو گئے اور سینیٹ میں جا کر متفقہ طور پر اس کی مجلس قائمہ برائے تعلیم و سائنس کے بلا مقابلہ صدر نشین منتخب ہوئے۔ وہاں بہت کچھ اصلاحات کرائیں۔ بے شمار علمی، ادبی کارنامے انجام دیے اور 12 اکتوبر1999ء کو اسمبلیاں اور سینیٹ تحلیل ہو جانے کے باعث یہ سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی تحریر کیا ہے کہ مولوی عبدالحق کی وفات کے بعد عالی صاحب ان کے ادھورے خوابوں کی تکمیل کو اپنی زندگی کا مقصد بنا بیٹھے تھے۔ چنانچہ جب ملازمتوں سے فراغت نصیب ہوئی تو وہ واپس اپنے اصل مقصد کی جانب آ گئے اور پہلا کام جو شروع کیا وہ اردو کالجوں کو اردو یونیورسٹی میں تبدیل کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی دن رات کی محنت، لگن اور حکمت عملی بہت کام آئی اور چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن ڈاکٹر عطاء الرحمن کو (اللہ انہیں عمر خضر عطا فرمائے) اللہ نے یہ توفیق دی کہ انہوں نے عالی صاحب کی کاوشوں کو رائیگاں نہ جانے دیا اور بابائے اردو کا خواب 13 نومبر2002ء کو وفاقی جامعہ اردو کی شکل میں ہمارے سامنے آ گیا۔ عالی صاحب اس کی سینیٹ کے پہلے ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے اور جامعہ کے استحکام اور ترقی کے لیے بڑی دیانت داری کے ساتھ (اپنی میقات مکمل ہونے تک) کام کرتے رہے اب ان کا باقاعدہ یا باضابطہ اردو یونیورسٹی میں کوئی عہدہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ جامعہ سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے اور اپنی پوری زندگی کے تجربوں سے کشید کیا ہوا نسخہ کیمیا ان لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں جو ادارے کی بھلائی کے لیے اب بھی کوشاں ہیں۔ اب بھی انجمن ترقی اردو پاکستان کے معتمد اعزازی ہیں جس کا ذکر آگے آئے گا۔ لیکن مندرجہ بالا تمام جدوجہد نامہ کو نظر میں رکھتے ہوئے جب ان کی گھریلو زندگی کی طرف توجہ ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ گھریلو سطح پر بھی ایک نہایت کامیاب شخصیت کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ ایک ذمہ دار محبت کرنے والے شوہر اور ایک شفیق باپ کی تمام خصوصیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ تمام گھریلو امور اور خاندانی معاملات پر نہ صرف نظر رکھنا بلکہ ان کے لیے مشورے اور ان کے مسائل کے حل بھی نکالنا بھی عالی صاحب کی طبیعت میں شامل ہے۔ عالی صاحب تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے والد محترم ہیں اور ان کے یہ پانچوں بچے اپنے اپنے طور پر ماشاء اللہ خوش حال ہیں بھرپور اور پر سکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن یہ امر مصدقہ ہے کہ ان کی یہ زندگی بھی عالی صاحب کی تمام تر توجہ اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ ایک عام آدمی بھی اگر نوکری کے علاوہ کتاب اور قلم سے رشتہ جوڑتا ہے تو وہ گھریلو معاملات اور مسائل سے چشم پوشی کرتا ہے کجا یہ کہ جمیل الدین عالی جیسے متنوع انسان جن کی شخصیت کے کئی پہلو، فن کے کئی پہلو اور ملازمتوں کے بھی کئی کئی پہلو ہیں۔ وہ تمام تر سخت زندگی اور تمام تر سہولیات زندگی کے باجوود کبھی بھی نہ اپنی والدہ نہ اپنی بیگم اور نہ ہی کبھی اپنے بچوں سے غافل ہوئے۔ میرے نزدیک یہ بات قابل تقلید ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جمیل الدین عالی کی ادبی خدمات

 

 

جمیل الدین عالی کی ادبی خدمات کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے اپنی ساری عمر ہی ادب اور زبان کی خدمت میں گزاری ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ان کا شجرۂ نسب محض پس منظر یہ حوالے سے گزشتہ صفحات میں پیش کیا جا چکا ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ عالی جی کی رگوں میں دوڑنے والا خون اپنے اندر متنوع جذبات، کیفیات اور سیماب صفتی رکھتا ہے اور ایسے انسان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے قلم کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے اور پھر وہ قلم کو سہارا بنا کر میدان عمل میں کود پڑتا ہے اور پھر یہ منہ زور گھوڑا جدھر بھی آپ کو لے جائے۔ عالی صاحب کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا ہے آپ عالی صاحب کے بچپن اور نوجوانی کو سامنے رکھیے وہ لاڈلے شاہزادے کی طرح پالے گئے نسلوں سے شاعری ہوتی آ رہی تھی چنانچہ ان کے مزاج اور تربیت نے انہیں بہت جلد شاعر بنا دیا گو اس ننھے شاعر نے اصلاح لینا بھی پسند نہ کیا (وہاں بھی مزاج ہی آڑے آیا تھا) لیکن شاعری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور خود کو شاعر منوا کر ہی دم لیا۔ چوری چوری شعر کہنے کا جو مزہ ہوتا ہے عالی جی اس سے پورا پورا لطف اندوز ہو رہے تھے اور اپنے ہم عمروں میں اس طرح کی محفلیں جما کر خود کو شاعر ثابت کرنے میں پوری طرح کوشاں تھے۔ ابتداء اس کی 1939ء میں ہوئی عالی جی اس وقت میٹرک کے طالب علم تھے اور محفل مشاعرہ میں شریک ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے اور یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے رات کو کتنی دیر باہر رہنا پڑے گا، اس پر کبھی غور نہیں فرماتے تھے۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کے مصداق ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ان کے بڑے بھائی (سوتیلے تھے لیکن سرپرستی فرماتے تھے) مرزا اعتزاز الدین خاں جہلم سے دہلی تشریف لائے جب وہ گھر پہنچے تو رات کے بارہ بج چکے تھے اور حضرت عالی بارہ دری خواجہ میر درد میں مشاعرہ سماعت فرما رہے تھے صبح بڑے بھائی کے دربار میں پیشی آئی اور آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ ’’اگر شاعر بننا ہی ہے تو شریفوں کی طرح بنا جائے اور چچا سائل کی شاگردی اختیار کی جائے۔‘‘ یہاں تک کہ مٹھائی وغیرہ کا بھی انتظام کر دیا کہ ساتھ لے کر جانا تاکہ باقاعدہ شاگرد ہونے کی تمام رسمیں نبھائی جا سکیں اگلے روز بڑے بھائی کے حکم پر آپ بہت اہتمام کے ساتھ تیار ہو کر مع اپنی ایک عدد غزل وہاں پہنچے اور چچا جان نے تمام حالات و واقعات جان کر فرمایا ’’ہاں تو مرزا صاحب غزل ارشاد ہو‘‘ تو عالی صاحب نے مطلع پیش کیا:

تیری دوری کے سبب دل بھی خفا ہوتا ہے

مدتوں کا مرا ساتھی یہ جدا ہوتا ہے

چچا سائل نے فرمایا’’بیٹا میں زبان پہلے دیکھتا ہوں تم اسے یوں کر دو‘‘

جو کلیجے کا تھا ساتھی وہ جدا ہوتا ہے

عالی صاحب نے فرمایا، ’’ہم تو نہیں بدلتے‘‘ واہ واہ سبحان اللہ ملاحظہ فرمایا آپ نے پہلی بار کسی کے شاگرد ہونے گئے تھے اور یہ گل کھلایا آپ اگر اس حوالے سے مزید تفصیل جاننے کے خواہش مند ہوں تو آپ خود جمیل الدین عالی کا تحریر کردہ خاکہ ’’سراج الدین خاں سائل‘‘ مطبوعہ ’’بس اک گوشہ بساط‘‘ صفحہ نمبر23 ملاحظہ فرمائیے مجھے تو عالی صاحب کے مزاج اور شاعری کی ابتداء سے آپ کو روشناس کرانا مقصود تھا۔ عالی جی کی شاعری کا سفر تو شروع ہو گیا مگر وہ کسی کے باقاعدہ شاگرد نہ بن سکے۔ اس کے باوجود یہ امر حقیقت ہے کہ شاعری میں انہوں نے جو نام کمایا وہ اپنی مثال آپ ہے اور ادب کے حوالے سے جو خدمات انجام دیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

1939ء میں انہوں نے شعر گوئی کا سلسلہ اس وقت شروع کیا جب وہ نویں کلاس کے طالب علم تھے۔ اس کے بعد جب اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا اور پوری طرح سے کالج کے ماحول میں ڈھل گئے تو بزم ادب کی طرف توجہ دی اور طلبہ کی جانب سے بزم ادب کے صدر منتخب ہوئے اور جب تک کالج میں رہے1944ء مسلسل فروغ ادب کے لیے کام کرتے رہے۔ پاکستان آنے کے بعد کراچی میں ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ سے منسلک ہوئے اور تین مرتبہ اس کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ کی بنیاد میرا جی نے 1936ء میں لاہور میں رکھی تھی اور یہ ایک غیر رسمی ادبی تنظیم تھی جو فروغ ادب کے لیے ممکنہ کاوشیں کر رہی تھی۔ اور اس کے زیر اہتمام ہر اتوار کی شام وائی ایم سی اے میں ایک منفرد نشست منعقد کی جاتی تھی جس میں پندرہ بیس افراد پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ اس نشست کی انفرادیت یہ تھی کہ اس میں ایک منظوم اور ایک نثر یہ تحریر پیش کی جاتی تھی اور اس پر کھل کر بحث ہوتی رسمی داد اور واہ واہ پر کام نہیں چلتا تھا۔ کراچی میں یہ حلقہ پندرہ سولہ سال فعال رہا عالی جی اس سے منسلک رہے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کا اظہار کرتے رہے۔

پھر بابائے اردو مولوی عبدالحق سے عالی صاحب کا ایک تعلق بن گیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے اپنی ہفتہ وار تنقیدی نشستیں بھی شروع کر دیں تھیں۔ عالی جی ان میں بھی شریک ہونے لگے اور اس وقت تک شریک ہوتے رہے جب تک (غالباً1953ء تک) مرکزی حکومت نے انجمن کو سیاسی پارٹی قرار نہیں دے دیا۔ (کمیونسٹ پارٹی تو پہلے سے ہی خلاف قانون تھی) سرکاری ملازمت کے ضوابط کے مطابق کوئی سرکاری ملازم کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ اس قانون کے نتیجے میں تمام سرکاری ملازم ادیبوں بشمول جمیل الدین عالی نے اس کے جلسوں میں شرکت کرنا ترک کر دیا۔ کچھ مدت بعد وہ مجلس بھی ختم ہو گئی (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے بنے بھائی (مصنف پروفیسر عتیق احمد) تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ 1939ء میں انجمن کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس میں عالی جی نے بھی شرکت کی گویا انجمن سے ان کا رشتہ وہیں جڑ گیا تھا پھر جب انجمن کا دفتر کراچی منتقل ہوا تو وہاں ابن انشا کا کافی آنا جانا ہو گیا بلکہ ایک طرح سے وہ بابا کا کافی ہاتھ بٹاتے اور عالی صاحب، ابن انشاء کے دوست ہونے کے باعث کبھی کبھار ان کے ساتھ انجمن چلے جاتے تھے۔ یوں آہستہ آہستہ ان کی بھی وابستگی انجمن سے بڑھتی گئی اور جب انجمن پر برا وقت آیا جس کا احوال بابائے اردو نے ’’انجمن کا المیہ‘‘ نامی کتاب میں خود پیش کیا ہے اور یہ بات1956ء کی ہے اس وقت بھی ابن انشا عالی صاحب کو بابائے اردو کے پاس لے کر گئے۔

عالی صاحب اس وقت محکمہ انکم ٹیکس میں افسر تھے اور انجمن کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی بھرپور صلاحیت اور طاقت رکھتے تھے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے تمام مسائل اور اس وقت پیش آنے والے واقعات عالی صاحب کے گوش گزار کر دیے۔ ان باتوں کا عالی صاحب کے دل پر گہرا اثر ہوا اور انہوں نے مولوی صاحب کو اطمینان دلاتے ہوئے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور پھر جلد ہی معاملات بہتر ہونے لگے ۔ اسی دوران31 جنوری 1959ء کو رائٹرز گلڈ کا قیام بھی عمل میں آیا جس کی افتتاحی تقریب کی صدارت بھی بابائے اردو سے ہی کرائی گئی۔ مختصر یہ کہ عالی جی بھی بابائے اردو کے گرویدہ ہو چکے تھے قدر مشترک وہی اردو زبان اور ادب سے محبت تھی۔ ان ساری باتوں کے باوجود عالی جی انجمن کے معاملات میں زیادہ دخل اندازی کرنے یا معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے بس عبدالحق صاحب سے عقیدت کی بناء پر ان کے پاس گاہے گاہے چلے جاتے تھے۔ لیکن بابا کی مردم شناس نظروں نے ہیرے کی قدر پہچان لی تھی چنانچہ عالی صاحب کو انجمن کی منتظمہ میں شامل کر لیا گیا جس کے باعث وہ انجمن کی جانب سے قائم کردہ اردو آرٹس سائنس اور لاء کالج کے معتمد اعزازی بھی رہے اور آگے چل کر انہوں نے بابا کے خواب کو عملی شکل دی (اس کی تفصیل آپ اسی باب میں آگے چل کر ملاحظہ کریں گے) انجمن میں باقاعدہ شامل ہو کر عالی صاحب نے اس کے انتظام و انصرام میں عملی حصہ لیا اور کتب خانہ خاص کی ترتیب و آرائش تک خود کھڑے ہو کر کروائی۔ بابائے اردو کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق وہ انجمن کے سیکرٹری نامزد ہوئے اور یوں اردو کالجوں کی بھی تمام تر ذمہ داری عالی جی کے کاندھوں پر آ گئی۔ انجمن کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے عالی صاحب نے دن رات محنت کی۔ مالی معاملات پر بھی نظر رکھی اور تمام تر وہ اقدامات کیے جو اردو زبان و ادب کی ترقی اور فروغ کا باعث بن سکتے تھے اور بابا کی قائم کردہ انجمن ترقی اردو کے منشور اور اس کے مقصد کو پورا کرتے تھے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ انجمن کا قیام 1903ء میں عمل میں آیا تھا اور بابا کے انتقال کے وقت انجمن کی عمر تقریباً اٹھاون سال تھی اور اس دوران تین سو کتابیں انجمن کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھیں بیشتر کے مقدمے بھی مولوی صاحب نے ہی تحریر کیے تھے۔ 1961ء کے بعد انتظام عالی صاحب نے سنبھالا اور آج تک تقریباً ساڑھے تین سو کتب شائع کی ہیں اور عالی جی نے مشفق خواجہ مرحوم کے اصرار پر بابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اکثر کتابوں کے مقدمے خود تحریر کیے۔ گو کہ یہ ایک بہت مشکل کام تھا کہ مولوی صاحب جیسے انشا پرداز کی تحریر اور اس کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوا جائے لیکن عالی جی نے بہت محنت اور لگن کے ساتھ یہ مقدمات تحریر کیے ہیں جو منتظمہ کے فیصلے پر بعد میں چار جلدوں میں کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔ انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام مختلف ادبی شخصیات کے اعزاز میں تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں اور سیمینارز بھی ہوتے ہیں اس کے علاوہ ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ کا پابندی سے اجراء بھی انجمن کی بہترین کارکردگی کی علامت ہے قومی زبان میں ہر ماہ بہت معلومات، تخلیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے ہیں خاص طور پر دنیا بھر کے ادب سے ترجمہ اس پرچے کی انفرادیت ہے۔ البتہ انجمن کا سہ ماہی جریدہ ’’اردو‘‘ باقاعدگی سے شائع نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ 1921ء سے جاری ہونے والا یہ جریدہ اعلیٰ معیار کے مضامین کی اشاعت کرنے والے جریدے کی حیثیت سے ایک شناخت رکھتا ہے لیکن اب برسوں سے انتظامیہ کی پوری کوشش کے باوجود اس معیار کے مضامین موصول نہیں ہو رہے اس لیے باقاعدہ اشاعت ممکن نہیں ہو رہی ہے۔ قومی زبان ’’نئے خزانے‘‘ کے عنوان سے دنیا بھر میں اردو میں شائع ہونے والی کتب، رسائل و جرائد کی فہرست بھی شائع ہوتی ہے۔ عالی صاحب کے دور میں انجمن سے شائع ہونے والی کتابوں میں بابائے اردو کی وہ دو لغات بھی شامل ہیں جو ہندوستان میں چھپنے کے بعد پاکستان میں نہیں چھپ سکی تھیں لیکن عالی جی نے مزید اضافے کے ساتھ اہتمام سے انہیں شائع کیا۔ اس وقت بھی وہ انگریزی اردو لغت کو پندرہ ہزار الفاظ کے اضافے کے ساتھ شائع کرانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ دیگر تین سو بیس کے قریب شائع ہونے والی کتابیں اپنے اپنے اعلیٰ معیار اور بہترین تخلیقی و تعمیری مواد کے باعث صدیوں تک استفادے کا باعث ہوں گی۔ ان میں بہت سے پی ایچ ڈی کے مقالے بھی شامل ہیں۔ اللہ کرے عالی صاحب تا دیر اسی طرح متحرک اور فعال رہ کر انجمن کی خدمت کرتے رہیں۔ بات ہو رہی ہے عالی صاحب کی ادبی خدمات کی۔ میرے خیال میں تو انہوں نے ادب سے زیادہ ادیبوں کی خدمت پر ساری زندگی ہی زور دیا ہے اور اکثر ان کی گفتگو سے بھی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ صرف گاری کی حیثیت سے زیادہ مطمئن نہیں لگتے بلکہ اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ کہاں کسی کے کام آ سکتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بہرحال ہم بات آگے بڑھاتے ہیں۔

1958ء میں عالی صاحب ان آٹھ ادیبوں میں شامل تھے جنہوں نے کراچی میں پاکستان رائٹرز کنونشن بلایا اور اس میں پورے پاکستان سے ادیبوں کو مدعو کیا گیا جن میں بیالیس مشرقی پاکستان سے آئے تھے اور ان سب کے سفر اور سہ روزہ قیام و طعام کے اخراجات چندے کی رقم سے پورے کیے گئے جو اہل کراچی سے لیا گیا تھا (یہ تمام تفصیلات آپ کو ماہ نامہ ’’ہم قلم‘‘ کے سالگرہ نمبر1961ء سے مل سکتی ہیں) اسی کنونشن کی ایک قرار داد کے ذریعے رائٹرز گلڈ بھی وجود میں آیا اور اس کی شاخیں تمام صوبوں میں قائم کی گئیں جب کہ صدر مقام کراچی ہی تھا گلڈ کے قیام کا اصل مقصد کسی ایسی ادبی انجمن کا قیام عمل میں لانا تھا جو اہل قلم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر سکے، کچھ ادبی کام ہو سکیں اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں مل بیٹھ کر کچھ سوچا جا سکے۔ کیوں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ختم ہو جانے کے بعد ایسی کسی تنظیم یا انجمن کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ گلڈ نے نہ صرف مسلسل اہم ادبی جلسوں کا انعقاد کیا بلکہ معذور اور مستحق ادیبوں کے لیے ماہانہ وظائف بھی جاری کیے اور وفات پا جانے والوں کے مستحق متعلقین کے لیے یکمشت نقد خدمات اور پھر ایک خاص مدت تک ماہانہ وظائف جاری کرائے۔ یہ فرض اب اکادمی ادبیات پاکستان بہت خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہے کیوں کہ گلڈ عملاً ختم ہو چکا ہے اور اب صرف اکادمی گلڈ کے ضوابط اور تاریخ کی روشنی میں یہ اہم کام انجام دے رہی ہے۔ عالی صاحب نے 31 جنوری 1959ء کو گلڈ کے قیام کے فوری بعد ہی نجی شعبے سے اردو اور بنگلہ نیز دوسری پاکستانی زبانوں میں ادبی انعامات کا سلسلہ شروع کیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پورے پاکستان میں کوئی بھی مستقل ادبی انعام قائم نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا عالی صاحب نے 1960ء میں پہلا انعام ’’ادبی فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے قائم کرنا چاہا اور یہ نقد انعام تھا جو بیس ہزار روپے مالیت کا ہوتا۔ پھر یہ ’’داؤد ادبی انعام‘‘ اور ’’آدم جی ادبی انعام‘‘ تخلیقی ادب اور تاریخ پاکستان کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں کے لیے جاری کیے گئے ۔ 1963ء میں اسی رقم کا ایک انعام جو بچوں کے ادب کے لیے مخصوص تھا یونائیٹڈ بینک کی جانب سے مقرر کروایا۔ 1964ء میں اسی رقم کا انعام بہترین معیشتی ادب کے لیے نیشنل بینک سے جاری کروایا۔ 1965ء میں حبیب بینک کی جانب سے بین اللسانی ترجموں کے لیے مبلغ بیس ہزار روپے کا نقد انعام جاری کروایا۔ اس کے ساتھ ساتھ خود بھی گلڈ سے 6 ستمبر ادبی انعام کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ علاقائی زبانوں کے ادب پر پانچ پانچ ہزار کے چار انعامات کا اجراء بھی گلڈ کی جانب سے ہوا۔ ان انعامات کے اجراء سے بہتر سے بہتر ادب تخلیق ہوتے رہے اور ذخیرۂ ادب میں بہترین اور مسلسل اضافہ ہونے کے امکانات وسیع تر ہوتے گئے۔ یہ انعامات اولین چار برس تک تو خود صدر مملکت نے اپنے ہاتھوں سے عنایت فرمائے اور بعد میں چیف جسٹس سپریم کورٹ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے ہاتھوں کراچی، لاہور اور ڈھاکہ کے بڑے بڑے جلسوں میں تقسیم ہوتے رہے۔ یہاں یہ بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ عالی صاحب ان سب کے بانی سیکرٹری تھے اور انہوں نے ہی تمام ضوابط مقرر کیے تھے جن کی رو سے وہ خود ان تمام انعامات سے مبرا تھے۔ ان کے اس طریقہ کار سے ان کی سیر چشمی اور دوسروں کی با عزت معاونت کا احساس ہوتا ہے۔ اپنے دور معتمدی میں انہوں نے لاہور میں ایک بڑا قطعہ زمین (نمبر1منٹگمری روڈ بالمقابل صوبائی اسمبلی لاہور) محکمہ مہاجرین سے بہت سستی قیمت پر خریدا تھا۔ ظاہر ہے اتنی بڑی زمین کی قیمت کم ہی سہی لیکن ایک ساتھ اور فوراً ادا کرنا تو یقیناً ناممکن تھا۔ اس کی ادائیگی کے لیے آپ عالی صاحب کی حکمت عملی ملاحظہ فرمائیے وہ قطعہ زمین بائیس کنال کا تھا عالی جی نے مقررہ ضوابط کے تحت چالیس برس کے کرائے کے برابر اس کی قیمت تین لاکھ اسی ہزار روپے دے کر (نیشنل بینک سے قرض لے کر) خرید لیا اس کے فوراً بعد اس بائیس کنال زمین میں سے آٹھ کنال زمین چار لاکھ روپے میں فروخت کر کے رقم کی ادائیگی کر دی اور بقیہ چودہ کنال زمین گلڈ کا دفتر قائم کرنے کے لیے رکھ لی۔ جس وقت زمین خریدی گئی تھی وہاں ایک چھوٹی سی کوٹھی بھی موجود تھی جس میں اس وقت گلڈ کا ٹرسٹ قائم کر دیا گیا تھا اور وہ آج تک قائم ہے بس افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عالی صاحب کے بہت بعد میں منتخب ہونے والے محمد طفیل صاحب (ایڈیٹر’’نقوش‘‘ ) کے صاحبزادے جاوید طفیل بہ طور ٹرسٹی وہاں قابض ہیں لیکن اس زمین پر آج تک نہ تو کوئی تعمیر ہو سکی ہے اور نہ ہی ٹرسٹ کے مطابق کام ہو سکتے ہیں لیکن بہرحال ٹرسٹ قائم ہے اور آج لاہور میں زمین کے نرخوں کے مطابق اس چودہ کنال زمین کی قیمت سو کروڑ سے بھی زیادہ کی ہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام بیس کے قریب کتابوں کی اشاعت بھی ہوئی۔ ان میں اردو زبان کے علاوہ بنگلہ زبان کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ 1970ء میں عالی صاحب کی معتمدی کا دور شاندار طریقے سے اختتام پذیر ہوا اور انہوں نے باقاعدہ الیکشن کرا کے رخصتی حاصل کر لی۔ حالانکہ وہ اگلی میقات کے لیے انتخاب لڑنے کا حق رکھتے تھے۔ عالی صاحب کی جگہ بنگلہ ادیب محبوب جمال زاہدی منتخب ہو کر آ گئے۔ جب کہ گلڈ کے پہلے سیکرٹری جنرل قدرت اللہ شہاب اور ایگزیکٹو سیکرٹری جمیل الدین عالی تھے اور انتخاب دونوں صوبوں سے ہی ہوتا تھا۔ عالی صاحب نے اپنے دور معتمدی میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہاں سے ان کی رخصت کے ایک سال بعد ہی ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور پھر مغربی پاکستان میں بھی رائٹرز گلڈ کی جاریہ شان اور کام جاری نہ رہ سکے۔ برائے نام انتخابات تو آج بھی ہوتے ہیں لیکن کوئی قابل ذکر کام اب دیکھنے میں نہیں آتا وہ تو اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس وقت عالی صاحب نے لاہور میں خریدی گئی زمین کے لیے ٹرسٹ قائم کر دیا تھا سو زمین قائم ہے اور اس کی قیمت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے عالی صاحب 1970ء تک گلڈ کے ٹرسٹی بھی رہے اور قابضین کے معاملات و مسائل بھگتاتے رہے 1983ء میں جی ایچ کیو میوزک کمیٹی کے انتظامی ممبر بنائے گئے جہاں دوسرے امور کی ادائیگی کے علاوہ عالی صاحب کے بہت سے قومی نغمے بھی لیے گئے اور اس میوزک کمیٹی کے وہ آج بھی رکن ہیں۔ 1983ء ہی میں انہیں حکومت پاکستان کے بنائے ہوئے ادارے مقتدرہ قومی زبان میں بھی لے لیا گیا۔ عالی صاحب نے بڑی محنت کر کے حکومت سے یہ طے کرایا تھا کہ نفاذ اردو کے لیے یہ سرکاری ادارہ تشکیل دیا جائے جسے لغت کبیر مکمل کرنے کا حق حاصل ہو اس وقت تک یہ کام انجمن شروع کرا چکی تھی مگر اس کے پاس وسائل بھرپور نہیں تھے اور وہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے کسی ترجمے، اصطلاحی تحریر، تفسیر کو سرکاری طور پر نافذ کرنے کی مجاز نہ تھی۔ پالیسی سطح پر یہ ادارہ سرکاری سطح پر نفاذ اردو کے لیے وجود میں لایا گیا تھا عالی صاحب نے وہاں اعزازی طور پر تین سال بہت محنت سے کام کیا۔ اسی سال وہ لاہور میں نو تشکیل شدہ اردو سائنس بورڈ کے دو برس کے لیے رکن بھی رہے اور یہاں سے کئی سو سائنسی ترجموں کی اشاعت اور نگرانی میں معاونت کی۔

1983ء میں انہیں ایک میقات کے لیے حکومت کے اردو ڈکشنری (لغت کبیر) بورڈ کا رکن بھی منتخب کیا گیا جہاں انہوں نے اردو الفاظ کی اس ڈکشنری پر کام کیا جو آکسفورڈ ڈکشنری بورڈ کی سطح پر بنائی گئی ہے۔ 1998ء سے 2001ء تک عالی صاحب اس بورڈ کے اعزازی صدر نشین بھی رہے اور بورڈ کی انیسویں جلد انہی کے دور میں شائع ہوئی۔ عالی صاحب نے 1962ء میں گلڈ کی قرار داد کے مطابق کاپی رائٹ ایکٹ میں چند ترامیم کرانی چاہی تھیں جو سب تو نہ ہو سکیں صرف صدر ایوب کے ایک ہنگامی قانون کے ذریعے قانون میں دو ترمیمیں کر دی گئیں مگر پھر چند برسوں بعد ایک مرتبہ پھر وزارت تعلیم نے کاپی رائٹ نظر ثانی کمیٹی کا کنوینر مقرر کر دیا جن میں کاپی رائٹ سے متعلق تمام نجی سرکاری اداروں کے رکن موجود تھے۔ اس کمیٹی کی سفارشات ان کی موجودگی میں گورنمنٹ سے منظور ہوئیں اور نتیجے میں 1991ء میں پارلیمنٹ کے ذریعے سے متعلقہ اداروں میں چند ترامیم کر دی گئیں۔ جنہوں نے مصنفوں کے حقوق کو زیادہ محفوظ کر دیا مثلاً یہ کہ پہلے کوئی ناشر کسی مصنف سے دائمی حقوق خرید سکتا تھا اس ترمیم کی رو سے اگر کوئی ادیب یا تخلیق کار اپنے کاپی رائٹ عملی طور پر لکھ بھی دے تو وہ دس برس سے زیادہ مدت کے بعد ساقط ہو جاتا ہے اور کاپی رائٹ تخلیق کار کے پاس منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ کاپی رائٹ کے سلسلے میں عالی صاحب کی سب سے بڑی خدمت کہی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن قائم ہوئی تو عالی صاحب اس کے اعزازی ڈائریکٹر منتخب ہوئے اور تین برس مسلسل خدمات انجام دیں۔ انفرادی شخصیت طور پر انجام دی گئی ادبی خدمات میں بھی عالی صاحب کسی طور پیچھے نہیں رہے خصوصاً مرحوم اہل قلم مثلاً ادیب سہارنپوری، نظر حیدر آبادی، سبط علی صبا، سلیم احمد اور جمیلہ ہاشمی کے انتقال پر ٹرسٹ بنایا اور اپنی پہل کاری سے اس کے صدر بھی رہے اور متعلقین کو ضروری مالیاتی امداد بھی دلواتے رہے۔ صہبا لکھنوی کے انتقال کے بعد ان کی بیگم کی اجازت سے انتظامی طور پر ’’افکار‘‘ چلانے کی ذمہ داری لی۔ ڈاکٹر حنیف فوق کو مدیر اعزازی مقرر کیا اور صہبا مرحوم کی صاحبزادی کو خازن و منتظم اور خود اس کے نگراں رہے ممکنہ کوششیں اشتہارات حاصل کرنے کے لیے کیں۔ اہل قلم سے بھی مکمل تعاون دلوایا اور تمام تر وہ ترقیاتی کام انجام دینے کی کوششیں کیں جس سے صہبا صاحب کی انتھک محنت کے نتیجے میں جاری ہونے والا یہ پرچہ زندہ رہ سکے لیکن اس ساری جدوجہد کے باوجود دو برس سے زیادہ اسے زندہ نہ رکھ سکے۔ کیوں کہ مبینہ طور پر خانوادہ صہبا لکھنوی اور ڈاکٹر حنیف فوق میں کچھ اختلافات پیدا ہو گئے اور یوں یہ پرچہ بند ہو گیا۔

رائٹرز گلڈ کے قیام کے فوراً بعد ہی اس کا مشہور اور معروف ماہ نامہ ’’ہم قلم‘‘ اپنی ادارت میں شروع کیا تھا جو ان کے گلڈ سے الگ ہو جانے کے بعد بھی جاری رہا اور عالی صاحب بساط بھر اس کا ساتھ دیتے رہے اس جریدے نے بڑے اعلیٰ معیار کے تخلیقی و تنقیدی مضامین اپنے پڑھنے والوں کے لیے پیش کیے۔ 2001ء میں اے آر وائی گولڈ کی جانب سے حاجی عبدالرزاق یعقوب سے اپنے ذاتی تعلقات کا فائدہ اٹھایا۔ (دبئی) دس ہزار ڈالر سالانہ فی ادیب انعام قائم کروانے میں عالی جی ہی کا ہاتھ ہے۔ یہ انعام غیر افسانوی نثری ادب پر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال تک یہ انعام صرف ستر سال سے زائد عمر کے اہل قلم کو دیا جاتا تھا لیکن اب امید ہو چلی ہے کہ اگلے سال سے ضوابط میں کچھ ترمیم ہو جائے گی جیسا کہ ابتدا میں بیان کیا گیا تھا کہ انجمن سے وابستگی کے ساتھ ہی بابائے اردو کے قائم کردہ اردو کالج کی ذمہ داری بھی عالی صاحب نے سنبھال لی تھی اور بابا کے خواب کو اپنا خواب تصور کر کے دن اور رات نہایت لگن اور محنت کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کی۔ کالجوں کو ترقی دینے ان کے لیے زمین حاصل کرنے اور پھر انہیں2003ء میں یونیورسٹی بنانے تک عالی صاحب کی کاوشیں نمایاں ہیں۔ یونیورسٹی کے قیام کے بعد عالی جی کو تین برس کے لیے ڈپٹی چانسلر منتخب کیا گیا اور اس دوران انہوں نے اردو یونیورسٹی کی مکمل تشکیل کی اور یونیورسٹی کی مالی حالت کو بہترین بنایا یہاں تک کہ وہ خود کفیل ہو گئی ۔ عالی صاحب کے دور منصبی میں اس کا بجٹ بائیس کروڑ روپے تک پہنچ گیا تھا۔ گو کہ عہدے کے لحاظ سے ان کی مدت2005ء میں ختم ہو گئی مگر اس کے بعد بھی وہ ہر طرح یونیورسٹی کی خدمت کو حاضر رہتے ہیں۔ عالی جی نے خود کو ہمیشہ ’’گلڈ کی ماں‘‘ کہا بعد میں وہ جامعہ اردو کی ماں بھی ثابت ہوئے۔

یونیورسٹی کی تشکیل میں سب سے مشکل مرحلہ تو مرکزی حکومت کی رضا مندی حاصل کرنا تھا اور دوسرا مرحلہ اس کے لیے مناسب جگہ حاصل کرنا تھا۔ 1964ء میں انہوں نے تیس لاکھ روپے (قرض) نیشنل بینک سے منظور کرائے اور گلشن اقبال میں بیس ایکڑ زمین صرف ایک لاکھ روپے بیعانہ دے کر حاصل کی۔ پھر صدر ایوب خاں سے اسی زمین پر سائنس کالج کا سنگ بنیاد رکھوایا اور کالج کی تعمیر شروع کرا دی جب تک وہ اس کے مہتمم رہے قیمت بڑھتی ہی رہی اور کام آگے بڑھتا رہا بعد میں یہ پوری قیمت1974ء میں تعلیم کے قومیائے جانے کے بعد وفاقی انتظامیہ کو ادا کی۔ آج اس پہلی وفاقی جامعہ اردو کے تین کیمپس کام کر رہے ہیں یعنی سائنس کیمپس گلشن اقبال، فنون کیمپس بابائے اردو روڈ اور سائنس کیمپس اسلام آباد، طلبہ کی کل تعداد تقریباً دس ہزار ہے جب کہ فنون کیمپس میں تین ہزار سے زائد طلبہ علیحدہ ہیں۔ کل اساتذہ چار سو کے لگ بھگ ہیں۔ اردو یونیورسٹی کے قیام کی کوششیں بابائے اردو نے بیسویں صدی کے آغاز سے شروع کر دی تھیں۔ 1922ء میں دہلی کالج کے ساتھ ہی دہلی اردو یونیورسٹی قائم کی جس میں انہوں نے چند ماہ کام بھی کیا تھا لیکن اسے حکومت کا شرف قبولیت حاصل نہ ہو سکا تھا اس لیے ناچار اسے بند کرنا پڑا تھا۔ اصلاً تو یہ سرسید احمد خاں کا خواب تھا جو بابا کو وراثت میں ملا تھا اور جس کی تعمیر 2003ء میں جمیل الدین عالی اور متعلقہ وزیر تعلیم ڈاکٹر عطاء الرحمن کے ہاتھوں دیکھنا نصیب ہوئی۔ (اردو یونیورسٹی تاریخ اور تحقیق، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں)

وفاقی اردو یونیورسٹی میں قانون کے مطابق تمام علوم کے پڑھائے جانے کی زبان اردو ہے اور خصوصاً سائنسی مضامین کے لیے ایک دار الترجمہ بھی قائم کیا گیا ہے جو ترجمے بھی کراتا ہے اور اردو میں طبع زاد کتابیں بھی اردو میں شائع کرتا ہے جب کہ یونیورسٹی میں پہلے سے بھی طبع زاد کتابیں اور تراجم زیر استعمال ہیں۔ اس شعبہ کی ترقی اور نمایاں کارکردگی میں عالی صاحب نے بڑا اہم کردار ادا کیا وہ تین سال تک اس شعبہ کے نگراں بھی رہے۔

اردو کالجوں کے تجربے کو یونیسکو نے اپنے تفصیلی معائنے کے بعد کامیاب قرار دیا تھا اب کراچی یونیورسٹی کے کچھ شعبوں میں بھی اردو میں درس و تدریس کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اس کا دائرہ کار بتدریج پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سمیت کئی دوسری جامعات نے بھی اب یہی روش اختیار شروع کر دی ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ پورے پاکستان کی تمام جامعات میں اردو میں تدریس کا عمل شروع ہو جائے گا جب کہ ضرورت کے مطابق انگریزی کی تعلیم تدریس میں لازمی ہی رہے گی۔

مندرجہ بالا حقائق کے علاوہ جب ہم ان کی نثری اور نظمی تخلیقات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان تخلیقات نے بھی اردو ادب کی بڑی خدمت کی ہے۔ اگلے ابواب میں ہم حسب ضابطہ ان کی ہر تصنیف پر تفصیلی گفتگو کریں گے جس سے قارئین کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ عالی جی نہ صرف عملی طور پر بلکہ قلمی طور پر بھی کس محنت اور لگن کے ساتھ اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

جمیل الدین عالی کی تصانیف

 

جمیل الدین عالی کا نام اردو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ بحیثیت ایک متنوع قلم کار تو انہوں نے خود کو منوایا ہی ہے بلکہ بعض اصناف میں تو وہ خدمات انجام دی ہیں کہ مرتی ہوئی صنف پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں ’’دوہا‘‘ خود گواہی دے گا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ادبی خدمات اور علمی خدمات بھی اس طور انجام دی ہیں کہ اپنا نام آنے والی صدیوں میں بھی محسن اردو کے طور پر درج کروا لیا ہے اور ان کی یہ خدمت انہیں ساری دنیا میں شہرت دلوا چکی ہے۔ میرا اشارہ وفاقی جامعہ اردو کی جانب ہے لیکن یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔

عالی صاحب1925ء میں پیدا ہوئے اور 1939ء میں انہوں نے شعر گوئی کا آغاز کیا یعنی چودہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنا رشتہ قلم سے جوڑ لیا تھا جو بحمد للہ آج تک قائم ہے 1939ء سے آج 2008ء تک 69سال ہو گئے اور عالی صاحب ہیں کہ لکھے جا رہے ہیں اللہ انہیں تا دیر سلامت رکھے۔ اس طویل عرصے میں عالی صاحب کی دو درجن سے زائد تصنیفات منظر عام پر آئیں اور ابھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں چھپنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عالی صاحب نے جتنی چھوٹی عمر میں لکھنا شروع کر دیا تھا مجموعہ شائع کرانے میں اتنی ہی دیر کی 1939ء سے لکھتے لکھتے 1957ء تک آ گئے اور پہلا شعری مجموعہ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ شائع ہوا اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس شعری مجموعے میں عالی صاحب نے صرف غزلیں، دوہے اور گیت ہی شامل کیے تھے۔ اس پہلے شعری مجموعے کو وہ شہرت نصیب ہوئی جو ہر کسی کا مقدر نہیں ہوتی یعنی 1957ء سے 1992ء تک اس کے چھ ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ جو ان کے قومی اور ملی گیتوں پر مشتمل ہے ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ کے نام سے پہلی بار 1974ء میں شائع ہوا اور 1994ء تک اس کے سات ایڈیشن شائع ہوئے۔ تیسرا شعری مجموعہ ’’لاحاصل‘‘ کے نام سے 1974ء میں پہلی بار منظر عام پر آیا اور 1988ء تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس شعری مجموعے میں غزلیں اور نظمیں دونوں شامل تھیں اور اس کتاب کو بے انتہا پذیرائی حاصل ہوئی۔

ان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ کرنے والی صنف ’’دوہا‘‘ ہے اب یہ کہنا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ عالی جی نے دوہے کو زندہ رکھا یا دوہے نے عالی جی کو، مجھے تو یہ دونوں لازم و ملزوم لگتے ہیں۔ عالی جی کے انہی دوہوں کا مجموعہ ’’دوہے‘‘ کے نام سے مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے 1984ء میں شائع کیا پھر دوبارہ علی گڑھ سے 1989ء میں شائع ہوا۔ پاکستان میں یہ مجموعہ اضافے کے ساتھ 2003ء میں شائع ہوا۔

ایک اور نثری مجموعہ ’’نئی کرن‘‘ کے نام سے کراچی سے 1959ء میں شائع ہوا۔ عالی صاحب کا ایک اور خوبصورت مجموعہ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ کے نام سے 1995ء میں شائع ہوا جب کہ یہی شعری مجموعہ 1996ء میں ہندوستان سے شائع ہوا۔

شاعری میں ایک شاہ کار جو عالی صاحب نے تخلیق کیا ہے وہ ’’انسان‘‘ ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا کیوں کہ دنیا’’انسان‘‘ کے دم سے ہی قائم ہے۔ عالی صاحب نے اپنے ’’انسان‘‘ کی تخلیق1950ء کے عشرے سے شروع کی اور 2007ء میں یہ کتابی شکل میں منصہ شہود پر آیا۔ یہ طویل نظمیہ 7800سطروں پر مشتمل ہے اور اس میں ادب کے ساتھ ساتھ فلسفہ، اخلاقیات، جمالیات، نفسیات، سائنس، تاریخ اور مذاہب عالم جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ابھی ’’انسان‘‘ کے تقریباً تین ہزار مصرعے اشاعت کے انتظار میں ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ ابھی ’’انسان‘‘ مکمل نہیں ہوا۔ میرے خیال میں انسان کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کی تخلیق ہوتی رہے گی وہ ارتقا کے عمل سے گزرتا رہے گا لیکن تکمیل کے مراحل سے نہیں۔ بہرحال ’’انسان‘‘ عالی صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ہے جو انہوں نے اردو شاعری میں انجام دیا ۔

اب آتے ہیں عالی صاحب کی نثر کی جانب، شاعری کی طرح نثر میں بھی عالی نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے خاکے بھی لکھے اور مضامین بھی، مقدمے بھی اور اظہاریے بھی۔ سفر نامے بھی وہ لکھے جو واقعی سفر کرنے کے بعد لکھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چند اہم کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ نثر کے حوالے سے عالی صاحب کی سب سے پہلی کتاب ’’شنگھائی کی عورتیں‘‘ منصہ شہود پر آئی۔ 1972ء میں کراچی سے ہی شائع ہوئی۔ یہ دراصل سوئیڈش ڈراما نگار تورے زیتر ہولم کا تحریر کردہ ایک ڈراما تھا جسے عالی صاحب نے روزنامہ ’’امن‘‘ کے مدیر جناب افضل صدیقی مرحوم کے تعاون سے ترجمہ کیا ۔ اس کے علاوہ نوبل انعام یافتہ سوئیڈش مصنف پروفیسر ڈاکٹر گنار مردال کی ایک معرکۃ الآرا تخلیق ’’ایشین ڈراما‘‘ کا ترجمہ عالی صاحب نے ابن انشا اور نیشنل بینک کے چند دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر کیا اور یہ کتابی شکل میں1975ء میں منظر عام پر آئی۔ ’’اصطلاحات بینکاری‘‘ کا بھی ترجمہ عالی صاحب نے پروفیسر محمد احمد سبزواری کے ساتھ مل کر کیا جو 1994ء میں اشاعت پذیر ہوئی اور اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ اسی طرح عالی صاحب نے پروفیسر فرید الحسن نقوی کے اشتراک سے ایک اور عمدہ کتاب کا ترجمہ کیا جو ’’لغت منتخب جدید اقتصادی اصطلاحات‘‘ کے نام سے 2001ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔

تقریباً45سال ہو گئے، عالی صاحب کو ’’اظہاریہ‘‘ لکھتے ہوئے ان اظہاریوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کیوں کہ یہ صرف ایک کالم نہیں ہیں بلکہ یہ تو ایک مکمل تاریخ ہے پاکستان کی جس میں ’’پاکستانیت‘‘ کے علاوہ معیشت، معاشرت، سیاست، تاریخ، ادب اور صحافت جیسے موضوعات قلم بند ہونے کے علاوہ مستقبلیات اور دنیا کے بھر کے اہم واقعات اور اہم ترین کتابوں کے حوالے ملتے ہیں۔ چنانچہ ان اظہاریوں میں نصف صدی کی معلومات اور وہ بھی زندگی کے ہر شعبے سے متعلق موجود ہوتی ہیں۔ ان اظہاریوں کے انتخاب ’’صدا کر چلے، دعا کر چلے ‘‘ اور’’وفا کر چلے‘‘ کے نام سے جولائی 2002ء تک دو ایڈیشن میں شائع ہو چکے ہیں اور اب ایک بار پھر منظر عام پر آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہی اظہاریوں کا ایک اور تازہ ترین لیکن کڑا انتخاب کتابی شکل میں منظر عام پر آیا ہے جن کے نام ’’کارگاہ وطن‘‘ بارگاہ وطن اور ’’مہر و ماہ وطن‘‘ ہیں اور یہ 2006ء میں اشاعت پذیر ہوئی ہیں اور ان کے مواد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے وقت میں ان کی افادیت بڑھتی جائے گی۔ تاحال 1976ء

قلم کے اس طویل سفر میں عالی صاحب نے سفر نامے بھی لکھے جو ابتداء میں تو اخبارات ہی میں شائع ہوئے لیکن بعد میں وہ کتابی شکل میں بھی منظر عام پر آئے۔ ان میں ’’دنیا مرے آگے‘‘ اور’’تماشا مرے آگے‘‘ کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جب کہ ان کا منفرد سفر نامہ ’’آئس لینڈ‘‘ پہلی بار دسمبر2002ء میں شائع ہوا۔ انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتابوں کے مقدمے بابائے اردو کی وفات کے بعد عالی جی نے ہی تحریر کیے اور اب ان کی تعداد بھی اتنی ہو چکی ہے کہ وہ کتابی شکل میں چار جلدوں میں نذر قارئین کیے گئے۔ چنانچہ ’’حرفے چند‘‘ اول 1988ء میں ’’حرفے چند‘‘ جلد دوم 1993ء ’’حرفے چند‘‘ جلد سوم1997ء میں اور ’’حرفے چند‘‘ جلد چہارم1999ء میں منصہ شہود پر آئیں۔ ’’حرفے چند‘‘ عالی صاحب کے تحریر کردہ تین سو سے زائد مقدمات میں سے کڑا انتخاب ہے جو کتابی شکل میں منظر عام پر لایا گیا۔ اس کے علاوہ ایک بالکل مختلف کتاب (عالی صاحب کے اسلوب کو مد نظر رکھتے ہوئے) بھی منظر عام پر آئی جس کا نام ’’بس اک گوشہ بساط‘‘ ہے یہ 2005ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اس لحاظ سے عالی جی کی ایک منفرد کتاب کہی جا سکتی ہے کہ کتاب میں شامل عالی صاحب کے تحریر کردہ خاکے بہت محنت اور بڑی پارکھی نظر کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ خصوصاً نواب مرزا سراج الدین سائل دہلوی، اختر الایمان، مخدوم طالب المولیٰ، ممتاز حسن اور نور الحسن جعفری پر لکھے گئے یہ خاکے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی یہ کتاب بذات خود ایک گلدستہ ہے کہ جس میں عالی صاحب نے مشاہیر ادب کی ذات اور ان کے فن کے حوالے سے جس طرح قاری کو آگاہی دی ہے وہ انہی کا کمال ہے۔ ان خاکوں میں خود عالی صاحب کی شخصیت جھلکتی ہے۔

مذکورہ بالا مطبوعات کا ذکر نہایت مختصر طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ ان سے متعلق تفصیلی اظہار رائے علیحدہ باب میں کیا جائے گا۔ یہاں صرف یہ باور کرانا مقصد تھا کہ عالی جی کی تمام تصنیفات ایک نظر میں ہمارے سامنے آ جائیں۔ یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ چند کتابیں جو اشاعت کے مراحل میں ہیں وہ بھی اپنے موضوعات اور اپنے مواد کے اعتبار سے بہت منفرد اور اہم ہیں۔ ان میں رقعہ رقعہ، آدھی ڈائری، سطور آوارہ، عالی جی کے مصاحبے، نازش پشیمانی، وفا کر چلے (تیسرا ایڈیشن) شامل ہیں۔ ان کتابوں کے ناموں سے ہی ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ عالی جی کی ایک انگریزی کتاب بھی بالکل تیار ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کا نام National Synthesisہے۔ یہ تمام کتب تو انشاء اللہ بہت جلد منظر عام پر آ جائیں گی لیکن اس کے باوجود عالی صاحب کی غیر مطبوعہ تحریریں اتنی بڑی تعداد اور مقدار میں موجود ہیں کہ مزید بہت سی کتابیں شائع ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عالی صاحب کو صحت اور عافیت کے ساتھ سلامت رکھے تاکہ وہ یہ کام بھی اپنے ہاتھوں سے انجام دے سکیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مطبوعہ کتب اور فکر و فن پر کام کی تفصیل

 

جمیل الدین عالی نے 1939ء میں قلم کے سفر کا آغاز کیا ابتدا شعر و شاعری سے کی۔ غزل ان کا پہلا پڑاؤ تھا یہ بھی اختصاص انہیں حاصل ہے کہ غزل میں بھی انہیں وہ شہرت حاصل ہوئی جو اکثر لکھنے والوں کو کم کم ہی حاصل ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ان کاپہلا شعری مجموعہ ’’غزلیں دوہے گیت‘‘ 1957ء میں شائع ہو کر قاری کے ہاتھوں میں پہنچا تو اسے بے پناہ شہرت حاصل ہوئی جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پہلے مجموعے کے 1992ء تک چھ ایڈیشن شائع ہوئے گو کہ ان کی شہرت میں مشاعروں نے بھی بڑا کردار ادا کیا تھا اور وہ اپنی خوبصورت آواز اور ترنم کے باعث مشاعروں پر چھا جانے کے فن سے واقف تھے اور مشاعروں کے سامعین ان سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے لیکن اچھے شاعر کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف سامعین میں بلکہ قارئین میں بھی مقبول ہو جائے۔ چنانچہ عالی صاحب کے ساتھ یہی ہوا اور ان کے پہلے شعری مجموعے کے چھ ایڈیشن شائع ہوئے ’’غزلیں دوہے گیت‘‘ میں عالی صاحب کے ابتدائی زمانے کی غزلیں دوہے اور گیت شامل ہیں۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ پہلی بار1974ء میں شائع ہوا اور جیسا کہ اس کے نام سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہ قومی اور ملی گیتوں پر مبنی ہے اور یہ نغمے مختلف ادوار اور مواقع پر ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہو کر مقبولیت عام اور خاص حاصل کر چکے تھے خصوصاً 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لکھے جانے والے نغموں نے تو عالی جی کو شہرت دوام بخشی۔ چنانچہ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ کے اب تک کل سات ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور آج بھی موجودہ نوجوان نسل اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان نغموں کو فخریہ پیش کرتی ہے۔

عالی جی کا تیسرا مجموعہ جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ پہلی بار1974ء میں منظر عام پر آیا اور اس کے بعد دو ایڈیشن بالترتیب1984ء اور1988ء میں منظر عام پر آئے۔

عالی جی کو شہرت دوام دلانے والی صنف ’’دوہا‘‘ ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ عالی صاحب نے پاکستان میں ’’دوہے‘‘ کو زندہ کیا اس کے بارے میں ناقدین کی آرا آپ ایک الگ باب میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔’’دوہے‘‘ سب سے پہلے مکتبہ جامعہ نئی دلی نے 1984ء میں شائع کیا اس کے بعد علی گڑھ سے 1989ء میں منظر عام پر آیا۔ پاکستان میں اس کی پہلی اشاعت اگست2003ء میں لاہور سے ہوئی اور اس مجموعے میں عالی جی کے تمام دوہوں کے علاوہ دوہوں پر جن معتبر اور مستند اہل قلم نے اپنے خیالات کا اظہار مختلف ادوار میں کیا تھا۔ ان کے اقتباسات بھی پیش کیے گئے ہیں۔

عالی صاحب کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل تیسرا شعری مجموعہ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ 1995ء میں لاہور سے منظر عام پر آیا۔ اس کا ایک ایڈیشن ہندوستان سے 1996ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں عالی صاحب کی کئی معرکۃ الآرا نظمیں ’’چھپکلی کا دماغ‘‘ ، گھنگھرو، تہجی او طویل نظمیہ انسان کا کچھ حصہ شامل ہے۔ جب کہ اس میں آپ کو عالی صاحب کے کچھ منتخب دوہے بھی پڑھنے کو ملیں گے۔ اس کی ایک اور خصوصیت اس کا ’’انتساب‘‘ ہے جو عالی صاحب نے اپنی ’’تین محبتوں‘‘ کے نام کیا ہے۔ ان ’’محبتوں‘‘ کے نام کیا ہیں اس کے لیے آپ ملاحظہ فرمائیے، عالی جی کا تیسری شعری مجموعہ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ تا دم تحریر عالی صاحب کا آخری شعری مجموعہ ’’انسان‘‘ ہے جو ایک طویل نظمیہ ہے اور 7800مصرعوں پر مشتمل ہے۔ ’’انسان‘‘ عالی صاحب کے پورے اٹھاون سال کی محنت کا ثمر ہے اور اردو ادب کی تاریخ میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ عالی صاحب صرف شعری میدان کے ہی شہسوار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے نثر کا میدان بھی مار رکھا ہے، لیکن ذرا مختلف انداز میں وہ اس طرح کہ وہ افسانہ نگار یا ناول نگار تو نہیں ہیں، انہوں نے سفر نامے، مقدمے اور اظہاریے اتنی بڑی تعداد میں لکھے ہیں جو اپنی جگہ خود ایک تاریخ ہیں۔ خاکے اور تراجم اس کے علاوہ ہیں۔

اس سے بیشتر خاکوں پر مشتمل ان کی ایک کتاب ’’بس اک گوشہ بساط‘‘ کے نام سے 2005ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔ جس کا انتساب بھی بڑا موثر ہے اور پڑھنے والے کو لمحہ فکریہ عطا کرتا ہے۔ انتساب ایک سورج جیسے آدمی ممتاز حسن کے نام جس کے پاکستانی ثقافت و ادب کے کئی شعبوں پر خاموش اور بڑے احسانات صدیوں عامل و موثر رہیں گے۔’’بس اک گوشہ بساط‘‘ میں کل ستائیس شخصیات کے حوالے سے عالی جی کے تحریر کردہ مضامین شامل ہیں جن میں سراج الدین خاں، سائل، سورج جیسا آدمی اور اختر الایمان پر لکھی گئی تحریریں خاصے کی چیزیں ہیں اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ عالی صاحب نہ صرف فن خاکہ نگاری میں ماہر ہیں بلکہ وہ ایک خاص نظر اور لکھنے کا ایک خاص انداز بھی رکھتے ہیں گو کہ انہوں نے اس تسلسل کو برقرار نہ رکھا لیکن اگر رکھتے تو ایک مستند اور مقبول خاکہ نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل کرنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مذکورہ کتاب میں کل چودہ مضامین شامل کیے گئے ہیں جو مختلف عنوانات رکھتے ہیں اور مختلف ادوار میں اخبار و جرائد کی زینت بنتے رہے۔ ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے دس مقدمات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں جو اردو ادب سے متعلق مختلف کتابوں پر عالی صاحب نے تحریر کیے۔ چار فلیپ بھی اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں ’’بس اک گوشہ بساط‘‘ پر محترم ادیب سہیل کے الفاظ میں مختصر ترین تبصرہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’عالی صاحب کی فکر و دانش دوسرے مشاہیر ادب کی ذات و کائنات کو سمجھنے میں معاون ہوتی ہے۔‘‘

’’حرفے چند‘‘ عالی صاحب کے تحریر کردہ ان مقدموں کے مجموعے ہیں جو بابائے اردو کی وفات کے بعد انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب کے لیے عالی صاحب نے تحریر کیے۔ عالی صاحب کے تحریر کردہ حرفے چند چار جلدوں میں شائع ہوئے ’’حرفے چند‘‘ اول 1988ء میں ’’حرفے چند‘‘ دوم1993ء میں ’’حرفے چند‘‘ سوم1997ء اور ’’حرفے چند‘‘ چہارم1999ء میں منصہ شہود پر آئیں۔ ’’حرفے چند‘‘ کی چاروں جلدوں میں کل 166 مقدمات شامل کیے گئے جو ان کے کل مقدمات میں سے کڑا انتخاب ہیں۔ ’’اظہاریے‘‘ لکھنے کا سلسلہ عالی صاحب نے مئی 1963ء میں شروع کیا تھا۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہر اتوار کو شائع ہونے والا عالی جی کا یہ اظہاریہ اپنے اندر مختلف موضوعات پنہاں رکھتا ہے اور سیاست پر سب سے کم لیکن پاکستان اور پاکستانیات کے حوالے سے تمام تر موضوعات کو اس میں سمویا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مستقبلیات عالی صاحب کا خصوصی موضوع ہے آج کم و بیش 45سال ہو گئے عالی جی کو مسلسل یہ اظہاریے لکھتے ہوئے ان کے ان اظہاریوں کا ایک کڑا انتخاب ’’صدا کر چلے، دعا کر چلے ‘‘ اور’’وفا کر چلے‘‘ کے نام سے دو دو ایڈیشن میں ہو چکے ہیں یہ آخری بار2002ء میں منظر عام پر آئے اور اب ایک بار پھر نئے ایڈیشنوں کی تیاری ہو رہی ہے ۔ ’’صدا کر چلے‘‘ ، ’’دعا کر چلے‘‘ اور’’وفا کر چلے‘‘ کے بعد1965ء سے 1988ء تک لکھے گئے ان اظہاریوں کا انتخاب ’’کار گاہ وطن‘‘ کے نام سے 1989ء سے 1992ء تک شائع ہونے والے اظہاریوں کا انتخاب ’’بارگاہ وطن‘‘ کے نام سے 1997ء سے 2002ء تک شائع ہونے والے اظہاریوں کا انتخاب ’’مہر و ماہ وطن‘‘ کے نام سے کراچی سے 2006ء میں شائع ہوا جن میں کل 327اظہاریے شامل ہیں۔

روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں عالی صاحب نے ان مخصوص اظہاریوں کے علاوہ سفر نامے لکھنے کا بھی سلسلہ جاری رکھا اور یہ قسط وار شائع ہونے والے سفر نامے اپنی تمام تر دلچسپیوں کے ساتھ قارئین کے ذوق کی تسکین کرتے رہے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں1963ء سے 1966ء تک شائع ہونے والے یہ سفر نامے کتابی شکل میں منظر عام پر آئے تو ان کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہوا۔ کیوں کہ عالی صاحب کے سفر نامے ’’واقعی سفر نامے‘‘ تھے ’’دنیا مرے آگے‘‘ ’’تماشا مرے آگے‘‘ کے دو دو ایڈیشن اب تک قارئین کے ذوق کی تسکین کر چکے ہیں۔ 1985ء اور1986ء میں ان کی اشاعت تو ممکن ہوئی۔ ان کا تیسرا اور سب سے منفرد سفر نامہ ’’آئس لینڈ‘‘ 2003ء میں منظر عام پر آیا اور یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ اردو میں یہ سفر نامہ ’’آئس لینڈ‘‘ واحد ہے کسی اور مصنف کی توجہ ابھی اس طرف نہیں ہو سکی ہے۔’’شنگھائی کی عورتیں‘‘ 1972ء میں کراچی سے شائع ہوئی اور یہ سوئیڈش ڈراما نگار تورے زیتر ہولم کا تحریر کردہ ڈرامے کا اردو ترجمہ ہے جو عالی صاحب نے افضل صدیقی کے اشتراک سے کیا۔ اسی طرح پروفیسر گنار مردال کی ایک معرکہ آرا تخلیق ’’ایشین ڈرامہ‘‘ کا ترجمہ عالی صاحب نے ابن انشا مرحوم کے تعاون سے کیا جو کتابی شکل میں 1975ء میں شائع ہوا۔

عالی صاحب کا تعلق معاشیات اور معیشت سے بہت خاص رہا ہے ان کے اظہاریوں سے بھی اس کا اظہار ہوتا رہا ہے وہ بینک کی ملازمت بھی کرتے رہے۔ چنانچہ انہوں نے اس پہلو کو مد نظر رکھ کر بھی کچھ کام کرنے کی کوشش کی اور پروفیسر محمد احمد سبزواری کے تعاون سے ایک کتاب ’’اصطلاحات بینکاری‘‘ کے نام سے ترجمہ کی جو 1994ء میں شائع ہوئی اور اب تک اس کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر فرید الحسن نقوی کے تعاون سے عالی صاحب نے ایک اور کار آمد کتاب ترجمہ کی جو ’’لغت منتخب جدید اقتصادی اصطلاحات‘‘ کے نام سے 2001ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔

اس کے علاوہ ان کی زیر طباعت کتابوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو مشاہیر کے خطوط، عالی جی کے اپنے خطوط، ان کے انٹرویو اور خود نوشت کے علاوہ کچھ یادداشتوں پر مبنی ہیں۔ عالی جی کی صحت کے ساتھ طویل عمر کی دعا آپ بھی کیجئے اور ہم بھی کرتے ہیں تاکہ وہ یہ سرمایہ اپنے ہاتھوں سے اپنے پڑھنے والوں کو کتابی شکل میں سونپ سکیں۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ عالی صاحب گزشتہ 65 برس سے ادب اور ادیبوں کی خدمت کر رہے ہیں اور ایک دنیا ان کے کارناموں سے واقف ہے۔ عالی صاحب کے فن اور شخصیت کے حوالے سے بے شمار مقالے اور تصنیفات سامنے آ چکی ہیں۔ ان پر مضامین لکھنے کا باقاعدہ آغاز ان کے پہلے شعری مجموعے ’’غزلیں دوہے گیت‘‘ سے ہی ہو گیا تھا اور اس کا پیش لفظ حسن عسکری جیسے معتبر اور مستند نقاد نے تحریر کیا تھا۔ عالی صاحب پراب تک جو مقالے اور تصنیفات شائع ہو چکی ہیں ان میں سب پہلے جناب رب نواز مونس نے ایک مقالہ تحریر کیا تھا جو ملتان سے 1986ء میں شائع ہوا۔ مقالے کا عنوان تھا ’’جمیل الدین عالی بحیثیت شاعر‘‘ مونس صاحب نے اپنے مقالے میں عالی صاحب کی شاعری کا تفصیلی جائزہ لیا تھا اور ان کی ہر صنف سے متعلق تفصیلی اظہار خیال کیا۔

’’جمیل الدین عالی فن اور شخصیت‘‘ یہ کتاب ایم حبیب خاں معاون انجمن ترقی اردو ہند نے مرتب کی اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے اس کتاب میں عالی صاحب کی شخصیت اور ان کے فن پر تحریر کردہ مختلف مضامین اس کتاب میں شامل کیے گئے ’’جمیل الدین عالی فن اور شخصیت‘‘ نومبر1988ء میں علمی مجلس دلی نے شائع کی۔ اس کا انتساب مالک رام اور مشفق خواجہ کے نام کیا گیا۔ کتاب کل 375صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں پچیس مضامین شامل ہیں جس میں گیارہ ان کی شخصیت و شاعری کے حوالے سے تحریر کیے گئے ہیں۔ بقیہ میں سفر نامے اور عالی صاحب کے انٹرویوز شامل ہیں۔ حرفے آغاز خود مرتب یعنی حبیب خاں صاحب کا تحریر کردہ ہے۔

’’جمیل الدین عالی کی نثر نگاری‘‘ کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ہیں اور یہ کتاب اکتوبر1993ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔ یہ مختلف12ابواب پر مشتمل کتاب ہے جس کا حرفے چند ڈاکٹر معین الرحمن نے تحریر کیا اور ’’عرض تمنا‘‘ کے عنوان سے مصنف ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی ایک تحریر شامل ہے۔ 152صفحات پر مشتمل اس کتاب کا انتساب ڈاکٹر محمد احسان الحق کے نام ہے۔ اس میں عالی صاحب کے سوانحی خاکے کے علاوہ تمام مضامین ان کی شخصیت اور ان کی نثر نگاری کے حوالے سے تحریر کیے گئے ہیں، جن میں ’’عالی کی سفر نامہ نگاری‘‘ ،’’اظہاریہ‘‘ ،’’مقدمہ نگاری‘‘،نثر نگاری کی دوسری جہتیں اور عالی جیسے مضامین شامل ہیں۔ چند تحریریں عالی صاحب کی دیگر تحریروں پر روشنی ڈالتی ہیں۔

’’ارمغان عالی‘‘ اگست1998ء میں مرتب کی گئی ایک ضخیم کتاب ہے جس کے مرتبین میں ادب سے منسلک بڑی نامی گرامی شخصیات شامل ہیں۔ جناب افتخار احمد عدنی، جناب ڈاکٹر فرمان فتح پوری، جناب مشفق خواجہ، جناب ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور جناب امجد اسلام امجد کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں منصہ شہود پر آنے والی یہ ضخیم کتاب لاہور سے بہت اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس کی ضخامت کل 586صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’ارمغان عالی‘‘ کو سات مختلف ابواب میں مختلف عنوانات کے ذریعے تقسیم کیا گیا ہے۔ عالی صاحب کی شخصیت پر لکھے تیئس مضامین اور ان کی مختلف تحریروں اور فن کے پہلوؤں پر چھبیس مضامین شامل کتاب ہیں۔ ایک علیحدہ باب میں عالی جی کی نثر و نظم کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ اس طرح بہتر مختلف تحریریں بہ یک وقت پڑھنے والوں کو ’’ارمغان عالی‘‘ میں فراہم کر دی گئی ہیں۔

’’جمیل الدین عالی کی تحریروں میں پاکستانیت‘‘ عالی صاحب پر یہ مقالہ پاکستان اسٹڈی سینٹر کراچی میں لکھا گیا۔ اس مقالے کو ڈاکٹر مہر النساء عزیز نے ڈاکٹر جعفر احمد کی زیر نگرانی تحریر کیا۔ پیش لفظ میں ڈاکٹر جعفر احمد نے بھی عالی صاحب کی تحریروں میں پاکستانیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک سو چوراسی صفحات پر مشتمل اس مقالے میں عالی صاحب کی تمام تحریروں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جس میں چند عنوانات آپ کی دلچسپی کے لیے یہاں درج کیے جا رہے ہیں۔ ’’اردو میں قومی و ملی شعر و ادب کے محرکات خصوصی مطالعہ 1857ء سے 1947ء تک‘‘ پاکستانیت کیا ہے؟ ’’جمیل الدین عالی کی نثری تحریروں میں پاکستانیت‘‘ عالی کی شاعری میں پاکستانیت وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ مہر النساء عزیز کا عالی صاحب سے انٹرویو پاکستانیت کے حوالے سے بھی شامل ہے۔

’’عالی نمبر‘‘ یہ یادگار ضخیم نمبر کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے مدیر رعنا اقبال اور اوج کمال تھے۔ ساڑھے گیارہ سو صفحات پر مشتمل یہ ’’عالی نمبر‘‘ اپنی نوعیت کا واحد نمبر ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں عالی جی کی شخصیت کے ہر پہلو اور فکر و فن کے ہر پہلو پر تفصیلی مضامین شائع کیے گئے اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے اردو داں خواتین حضرات سے موصول ہونے والے مضامین کو جگہ دی گئی۔ تقریباً تیس مختلف ابواب میں تقریباً ڈھائی سو مختلف تحریریں شامل ہیں۔ اس نمبر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ’’گلڈ‘‘ کے تحت شائع ہونے والے ماہ نامہ ’’ہم قلم‘‘ کراچی 1961ء کے پورے شمارے کا مکمل عکس شائع کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گلڈ کے حوالے سے کرشن چند اور احمد ندیم قاسمی کے خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’عالی نمبر‘‘ میں عالی جی کی تقریباً پوری زندگی (2001ء تک) میں ان پر کیا جانے والا کام موجود ہے۔ عالی نمبر اپنی ضخامت اور مواد کے اعتبار سے اب تک شائع ہونے والے تمام نمبروں میں بے انتہا نمایاں ہے۔

’’جمیل الدین عالی شخصیت اور فکر و فن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ یقیناً آپ نے اس کے موضوع سے ہی اندازہ کر لیا ہو گا کہ یہ عالی صاحب پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو ڈاکٹر فہمیدہ عتیق نے جامعہ کراچی سے ڈاکٹر ظفر اقبال کی نگرانی میں مکمل کیا۔ 2002ء میں مکمل ہونے والے اس مقالے میں ڈاکٹر فہمیدہ عتیق نے بہت محنت اور خلوق کے ساتھ عالی صاحب کی زندگی، ان کی شخصیت اور ان کے فن کے تمام پہلوؤں کا جائزہ اور تجزیہ پیش کیا ہے۔

عالی صاحب کی اردو زبان و ادب سے محبت اور اس کے لیے ادا کی جانے والی خدمات یقیناً تعداد اور معیار کے لحاظ سے بے شمار و بے تحاشا ہیں۔ ان کا قرض ادا کرنا یقیناً آسان بات نہیں ہے لیکن بہرحال یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ ابھی اس دنیا میں عالی صاحب سے محبت کرنے والے ان کی خدمات کو سراہنے والے اور ان کے فن کی قدر کرنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اوپر جن کتابوں کی تفصیل پیش کی گئی وہ تو وہ تحریری ثبوت ہیں جو عالی صاحب کی قدر شناسی اجاگر کرتے ہیں لیکن ان کے اعزاز میں بہت بڑی محفلیں ان کے منائے جانے والے جشن اور ان کو ملکی و غیر ملکی سطح پر پیش کئے گئے ایوارڈ، اعزازات اور نقد انعامات بھی اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ عالی صاحب ایک مختلف، منفرد اور متنوع قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور اور فعال محسن اردو کی حیثیت سے پوری اردو دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

تصانیف کے حوالے سے تنقیدی جائزہ

 

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ عالی جی اپنی مختلف النوع جہات (شاعرانہ اور دانشورانہ) کے باعث مشاہیر کی فہرست میں نمایاں ترین شخصیت ہیں۔ یہ باب ان کی تصانیف کے حوالے سے تنقیدی جائزے کا ہے اور میری انتہائی کوشش ہو گی کہ میں ان کی تمام تر تصنیفات کا (مختصر ہی سہی) جائزہ لے سکوں۔ اس سلسلے میں پہلے ان کی نثری اصناف کا اور پھر شعری تصانیف کا جائزہ پیش خدمت ہے۔

شروع کے ابواب میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ شاعر، ادیب، اظہاریہ نویس کی حیثیت سے مقبول و مشہور عالی صاحب کچھ کتابوں کے مترجم اور شریک مترجم بھی ہیں۔ ایسی کتابوں کی تعداد چار ہے جن میں ’’شنگھائی کی عورتیں‘‘ 1973ء میں ’’ایشین ڈرامہ‘‘ 1975ء میں’’اصطلاحات بینکاری‘‘ 1994ء میں’’اردو لغت منتخب جدیدی اقتصادی اصطلاحات‘‘ 2001ء میں اشاعت پذیر ہوئیں۔

اول الذکر کتاب ’’شنگھائی کی عورتیں‘‘ کے مصنف سوئیڈش ڈراما نگار تورے زیتر ہولم تھے۔ ان سے عالی صاحب کی ملاقات چین میں ہوئی تھی، پھر انہیں عالی صاحب نے پاکستان بھی بلا کر رکھا۔ مذکورہ ناول ’’تورے‘‘ نے اچھے شنگھائی اور برے شنگھائی کو دائرے میں لے کر لکھا تھا یہ ناول ڈرامائی تشکیل کے بعد اسٹیج بھی ہوا تھا۔ عالی صاحب نے جب اس کے بارے میں لوگوں سے بات کی تو انہوں نے محسوس کیا کہ اس کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ عالی صاحب نے ’’امن‘‘ کے مدیر جناب افضل صدیقی کی معاونت حاصل کی اور اس کا ترجمہ کیا جو 1973ء میں منظر عام پر آیا اور بہت مقبول ہوا۔

’’ایشین ڈرامہ‘‘ نوبل انعام یافتہ سوئیڈش مصنف پروفیسر ڈاکٹر گنار مردال کی سہ جلدی عظیم تالیف ہے جس کی یک جلدی تلخیصSeth S. King نے کی تھی۔ اس کا اردو ترجمہ عالی صاحب کی نگرانی میں نیشنل بینک کے اکنامک ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میں ہوا اور ترجمہ کرنے میں ابن انشا نے عالی صاحب کی معاونت کی۔ یوں بھی ابن انشا عالی جی کے بہت قریبی دوست اور ساتھی تھے۔ یہ کتاب بہت پہلے منظر عام پر آ جاتی، لیکن اس وقت وسائل نہ ہونے کے سبب کتاب کی اشاعت کے امکانات معدوم تھے۔ لیکن پھر عالی صاحب کی کوششوں سے نیشنل بینک کے محکمہ تحقیق نے اسے بہت اہتمام سے شائع کیا۔ 480صفحات پر مشتمل یہ ایک تحقیقی کتاب ہے جو مولف پروفیسر گنار مردال نے ہندوستان میں بیٹھ کر مکمل کی۔ واضح رہے کہ مردال صاحب اکثر و بیشتر پاکستان آتے رہتے تھے اور نوبیل انعام یافتہ ہو گئے تھے عالی جی نے ان سے دوستی کے بل پر ترجمہ اور اشاعت کے حقوق حاصل کیے۔ ’’ایشین ڈراما‘‘ دراصل ایشیائی قوموں کے افلاس کا جائزہ ہے اس کا دیباچہ مشہور ماہر مالیات و معیشت اور ٹوینٹیتھ سنچری فنڈ کے ڈائریکٹر ایم جے روزانٹ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب1975ء میں منظر عام پر آئی، منصف نے دوستی میں کوئی رائلٹی قبول نہیں کی۔

جیسا کہ عالی صاحب کے اظہاریوں میں بھی یہ بات بہت نمایاں ہے کہ وہ معیشت اور معاشیات سے ایک خاص رغبت رکھتے ہیں اور عملی زندگی میں بھی وہ ایسے ہی اداروں میں کام کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا وہاں کے مسائل سے بھی کماحقہ وہ واقف ہیں۔ ’’اصطلاحات بینکاری‘‘ ترجمے کی ایک ایسی کتاب ہے جو عالی صاحب نے پروفیسر محمد احمد سبزواری کی معاونت سے تیار کی، دیکھا جائے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہے جو عالی جی نے انجام دیا۔ جیسا کہ اس کے نام سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے جس میں معمولی انگریزی جاننے والے بینک افسران اور بینکوں کے کسٹمرز کو تفہیم و اظہار معاملات میں بڑی آسانیاں فراہم کر دی گئی ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی جو اردو میں شائع ہوئی اور میرے خیال میں عالی جی نے ’’اصطلاحات بینکاری‘‘ شائع کر کے ایک پنتھ کٹی کاج کی ذمہ داری ادا کی ہے یعنی ایک طرف اردو سے اپنی محبت کا عملی اظہار دوسری طرف مشکل اصطلاحات کو آسان کر دکھانا۔ یہ کتاب پاکستانی بینکاری کے معاملات کو آسان اور عام فہم بنانے میں بڑی ممد و معاون ثابت ہوئی ہے۔ یہ کتاب انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام شائع ہو کر منظر عام پر آئی۔ معیشت اور بینکاری سے ہی متعلق ایک اور کتاب ’’لغت منتخب جدید اقتصادی اصطلاحات تشریح و تاریخ‘‘ ہے۔ یہ ایک ایسی لغت ہے جس میں ڈھائی ہزار معاشی اور اقتصادی اصطلاحات کو اردو کا جامہ پہنایا گیا ہے جو بقول جناب افتخار عارف ’’ان کی تعریف، توضیح، تشریح اور علمی تاریخ کو بھی وضاحت کے ساتھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ اس لغت کو ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘

اس لغت کا مقدمہ پروفیسر محمد احمد سبزواری نے لکھا ہے جو خود ایک ماہر معاشیات ہیں اور اس سے قبل ’’اصطلاحات بینکاری‘‘ میں عالی صاحب کی معاونت فرما چکے ہیں۔ عالی صاحب نے نیشنل بینک کے صدر اور نہایت قابل انسان جناب جمیل نشتر کی مدد سے اپنے شعبہ جات کے دائرہ کار میں ایک شعبہ تحقیق (معیشت و مالیات) قائم کروایا تھا اور ’’ایشین ڈرامہ‘‘ اس کی پہلی اشاعت تھی۔

اس لغت کے ترجمے میں عالی صاحب کی معاونت انگریزی کے ایک استاد پروفیسر فرید الحسن نقوی صاحب نے کی تھی جو اب کینیڈا میں متوطن ہیں۔ 407صفحات پر مشتمل یہ لغت’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کے زیر انتظام بہت اہتمام سے شائع ہوئی۔ یہ لغت نہ صرف بینکوں اور مالیاتی اداروں کے لیے اہم ہے بلکہ اس سے یونیورسٹی سطح کے طلبہ بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔

عالی صاحب کی ترجمہ کردہ کتابوں پر میں نے تفصیلاً دانستہ نہیں لکھا، کیوں کہ ترجمہ یا شرکت ترجمہ عالی صاحب کی بنیادی شناخت نہیں ہے لیکن چونکہ یہ کتابیں عالی صاحب کی علمی و ادبی کاوشوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس لیے میں نے انہیں ’’صرف فہرست کتب‘‘ میں شامل ضرور رکھا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

عالی کی نثریات۔۔۔۔ اسٹائل اور پیغام

 

جمیل الدین بنیادی طور پر نثر کے آدمی نہیں تھے (میں تو اب بھی نہیں سمجھتی) لیکن کم از کم مقدار میں ان کی نثریات (طویل نظمیہ ’’انسان‘‘ کو چھوڑ کر) جملہ منظومات یعنی غزل نظم دوہے اور گیت سے بہت زیادہ ہیں اور بہت متنوع ہیں۔ ان کی ابتداء بھی 1963ء میں ہوئی یعنی غزل سرائی سے تقریباً بیس برس بعد۔ یوں تو انہوں نے بقول خود ان کے کہ کالج کے زمانے میں بھی ایک رپور تاژ لکھا تھا جو کالج کے میگزین ’’کارواں‘‘ میں چھپا تھا لیکن افسوس بار بار دہلی کالج کو لکھنے کے باوجود اس کی نقل تک دستیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بعد پاکستان آ کر انہوں نے اختر الایمان پر دو خاکے اور نواب سائل دہلوی پر ایک خاکہ لکھا جن کی پاک و ہند میں بڑی پذیرائی ہوئی خصوصاً سائل دہلوی کے خاکے کو تو بہت ہی پسند کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق پاک و ہند میں مختلف اخبار و جرائد میں بار بار شائع ہوتا رہتا ہے۔

بابائے اردو کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق عالی صاحب کو انجمن کا معتمد اعزازی مقرر کیا گیا تو انہوں نے سارے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کیے۔ بابائے اردو اپنی زندگی میں انجمن کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب کے مقدمات ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے لکھا کرتے تھے۔ عالی صاحب نے مشفق خواجہ مرحوم کے اصرار پر مولوی صاحب کی اتباع میں یہ کام بھی شروع کر دیا جو آج تقریباً تین سو مقدمات تک جا پہنچا ہے۔ان مقدمات کا ایک انتخاب چار جلدوں میں انجمن نے ہی شائع کیا۔ ان مقدمات میں بہت سی اہم باتیں مشفق خواجہ صاحب کو بھی بے حد پسند آئیں جو انہوں نے ’’حرفے چند‘‘ (کتابی شکل) کے پیش لفظوں میں لکھی ہیں ان کا ذکر تفصیلاً آگے آئے گا۔

مئی1963ء میں اردو دنیا کے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے مالک و مدیر میر خلیل الرحمن کے اصرار پر انہوں نے ’’جنگ‘‘ کے ایک ہفتہ وار کالم شروع کیا جس کا عنوان ’’دنیا مرے آگے‘‘ طے پایا۔ یہ دراصل ان کا عالمی سفر نامہ تھا جو ہفتہ وار قسط میں شائع ہوتا تھا اور جس کے ساتھ خود ادارہ ’’جنگ‘‘ ممالک و افراد متعلقہ کی تصویریں بھی لگایا کرتا تھا یہ سلسلہ 1966ء تک جاری رہا کیوں کہ حکومت پاکستان کو اس کے کچھ ابواب سخت ناپسند ہوئے۔ عالی جی پر کالم لکھنا لازم تھا لیکن وہ سرکاری (نیم) ملازم بھی تھے اور خود ادارہ ’’جنگ‘‘ بھی حکومت سے ٹکر نہیں لینا چاہتا تھا چنانچہ یہ سلسلہ ناتمام ہی رہ گیا۔ اس کے باوجود کہ عالی صاحب نیشنل پریس ٹرسٹ میں تنخواہ دار معتمد کی حیثیت سے کام کرتے تھے حکومت کی مسلسل مداخلت برداشت نہ کر سکے اور ٹرسٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس سے پہلے بھی جب وہ ٹرسٹ میں ایک طرح حکومت کی مرضی کے خلاف منتخب ہو کر بطور معتمد کام کر رہے تھے اور محکمہ انکم ٹیکس میں اپنا ڈیپوٹیشن بھی برقرار رکھا تھا انہیں ایک روز وزارت مالیات میں اچانک محکمہ انکم ٹیکس میں واپس جانے یعنی ڈیپوٹیشن منسوخ کرنے کا حکم دیا گیا جب کہ اس معاملے میں نہ تو خود عالی صاحب سے اور نہ ہی ان کے صدر سابق گورنر پنجاب اختر حسین صاحب سے کوئی مشورہ لیا گیا جسے اختر حسین صاحب نے اپنی توہین سمجھا اور عالی صاحب سے کہا کہ بے شک آپ مقابلے کا امتحان پاس کر کے انکم ٹیکس میں آئے تھے اور یہاں ڈیپوٹیشن پر ہیں میں آپ کے مستقبل کی خاطر آپ کو روکنا نہیں چاہوں گا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ آپ جوان العمر ہیں اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو استعفیٰ دے دیتا روٹی رزق کا تو مالک اللہ ہے۔ حکومت میں آپ کے جو دشمن ہیں انہوں نے آپ کی ہی نہیں میری بھی بے عزتی کی ہے چنانچہ عالی صاحب نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور استعفیٰ دے دیا اور وہ خلاف روایت فوراً منظور بھی ہو گیا۔ پھر اختر حسین صاحب نے اپنی منتظمہ کی منظوری سے عالی صاحب کو تین برس کے لیے کانٹریکٹ پر ملازم رکھ لیا۔ حکومت کو یہ بات بری لگی اس نے وفاقی وزیر غلام فاروق کے ذریعے (جو ٹرسٹ کے ڈائریکٹر بھی تھے) اختر حسین صاحب کو بھی استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ ان کی جگہ ریٹائرڈ میجر جنرل ضیاء الدین مقرر کر دیے گئے جو پی آئی اے کی پہلی پرواز میں ٹرسٹ کے نمائندے کے طور پر قاہرہ گئے اور ’’قاہرہ کے ہوائی حادثے‘‘ کا شکار ہو گئے۔ ان کے بعد اے کے سومار کا تقرر کیا گیا وہ صرف میٹرک پاس تھے لیکن اچھے مزاج کے کامیاب تجارتی ایگزیکٹو تھے۔ وہ عالی صاحب کو ان کی گوناگوں اہلیت کے باعث ٹرسٹ میں رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اس وقت تک ٹرسٹ میں تیرہ اخبار آ چکے تھے جن کے دفاتر مشرقی و مغربی پاکستان میں تھے لیکن ان میں مرکزی حکومت کے طاقتور افسران سے مقابلے کی ہمت نہ تھی اور اختر حسین صاحب جیسی عظیم شخصیت کا ’’احوال‘‘ بھی ان کے سامنے تھا۔ ایک طرف حکومت کا اصرار جاری تھا کہ کسی طرح عالی صاحب کو یہاں سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا جائے دوسری طرف عالی صاحب اپنی بات پر قائم رہے کہ مجھے چارج شیٹ کر کے برطرف کیا جائے تاکہ میں اس کا جواب لکھوں اور عوام کے سامنے لا سکوں۔ سومار صاحب نے کہا یہ میں نہیں کروں گا۔ پھر گورنر مغربی پاکستان کالا باغ کے ایک معتمد کا فون عالی صاحب کے پاس آیا (نواب صاحب اپنی شدتوں کے حوالے سے کافی مشہور تھے) کہ ہمارے پاس چارج شیٹ والی کوئی بات ہی نہیں تو ہم کیا چارج شیٹ دیں لیکن آپ کو ہمیں ہٹانا تو ہے چنانچہ ایسے میں ہماری مجبوری ہو گی کہ میں ڈی آئی جی کراچی کے ذریعے آپ کی کار میں کوئی غیر قانونی چیز رکھ کے برآمد کرا لوں یا کسی طریقے سے کوئی آبرو باختہ خاتون آپ کے پیچھے لگ جائے۔ ’’نواب کالا باغ ذاتی طور پر بہت اچھے آدمی تھے لیکن حکم حاکم بجا لانے کی خاطر کچھ بھی کر سکتے تھے ان کے معتمد کی اس بات سے عالی صاحب کو بڑا خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے ٹرسٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ سات ماہ بے روزگار رہے پھر نیشنل بینک میں ٹیکسیشن ایڈوائزر کی جگہ وائس پریذیڈنٹ کی حیثیت سے فائز ہو گئے۔‘‘

یہ تفصیل بتانا اس لیے ضروری تھا کہ آپ کو یہ اندازہ ہو سکے (خصوصاً نئی نسل کو) عالی جی جیسا اصول پرست اور سچا قلم کار پر خار راہوں پر لمبے سفر کے باوجود اپنا مشن جاری رکھتا ہے اور آخر منزل کو پا لیتا ہے (یہ سب سچ لکھنے کی سزا ہی تو تھی)

خیر آمدم بر سر مطلب ہم عالی جی کی نثر کو مجموعی طور پر تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ’’سفر نامے‘‘ حرفے چند (انجمن کی کتابوں پر مقدمات)’’اظہاریے‘‘ (جنگ کے کالم) ان کے علاوہ ایک خاص کتاب جو ’’بس اک گوشہ بساط‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی۔ ان کے کالموں (جن کو انہوں نے اظہاریوں کا نام دیا ہے) سے انتخاب پر مشتمل چھ کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں ’’صدا کر چلے‘‘ ،’’دعا کر چلے‘‘ ،’’وفا کر چلے‘‘ ،’’کارگاہ وطن‘‘ ،’’بارگاہ وطن‘‘ اور مہر و ماہ وطن شامل ہیں ’’مہر و ماہ وطن‘‘ ہمدرد فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اشاعت پذیر ہوئی۔ باقی مختلف اشاعتی اداروں نے شائع کی ہیں عالی جی کے سفر نامے کتابوں کے لحاظ سے تین ہیں جن کے نام دنیا مرے آگے، تماشہ مرے آگے اور آئس لینڈ ہیں۔ دنیا مرے آگے اور تماشا مرے آگے میں بہت سے مشرقی اور مغربی ممالک کے سفر نامے ہیں جب کہ ’’آئس لینڈ‘‘ صرف ایک ملک ’’آئس لینڈ‘‘ کے بارے میں ہے اور یہ ان کے صرف سہ روزہ قیام کی کہانی ہے۔ میری معلومات کے مطابق آئس لینڈ پر پوری پاکستانی اور شمالی ہند کی کسی زبان میں کوئی سفر نامہ نہیں لکھا گیا۔ انجمن ترقی اردو سے وابستگی کے بعد انجمن کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتابوں پر ان کے لکھے گئے مقدمات کی تعداد تین سو کے لگ بھگ ہے لیکن ان کا انتخاب چار جلدوں میں خود انجمن نے شائع کیا ’’حرفے چند‘‘ کے ہی نام سے۔

تو یہ ہے عالی جی کی کل نثری کائنات جس کے کل ملا کر تقریباً ساڑھے سات ہزار(7500) صفحات بنتے ہیں۔ مجھے اپنی کتاب کی ضخامت کے بڑھ جانے کا احتمال قدم قدم پر ہو رہا ہے اس لیے میں یہاں بھی گریز سے کام لیتے ہوئے ان کی ہر ایک نثری کتاب پر علیحدہ تبصرہ یا تجزیہ نہیں پیش کروں گی لیکن مندرجہ بالا تقسیم کے مطابق ہر گروپ پر مختصر گفتگو ضرور کرنا چاہوں گی۔

 

                ’’بس اک گوشہ بساط‘‘

 

عالی صاحب کے تحریر کردہ خاکوں اور دیگر مضامین پر مشتمل ہے اور یہ تمام تحریریں ابتدا سے لے کر 2002ء تک لکھی گئی ہیں۔ کتاب میں کل ستائیس خاکے چودہ مضامین دس حرفے چند جو انجمن سے شائع ہونے والی حرفے چند کی چاروں جلدوں میں موجود نہیں ہیں اور چار فلیپ شامل ہیں۔

عسکری صاحب کے الفاظ سر آنکھوں پر کہ عالی کی شاعری ان کی شخصیت کا مکمل اظہار ہے لیکن میری ذاتی رائے میں عالی صاحب کی نثر بھی ان کی شخصیت اور ان کے مزاج کا مکمل اظہار ہے جو ان کی ہر تحریر سے ظاہر ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ بس اک گوشہ بساط میں ان کے تحریر کردہ خاکوں میں۔

بظاہر تو یہ خاکے ہیں یا خاکے نما تحریریں ہیں لیکن مطالعہ شروع کرنے کے ساتھ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا ہم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ قاری ایک بالکل دوسری دنیا میں سفر کرنے لگتا ہے۔ شخصیت کے ساتھ اطراف کی منظر کشی ایسی ہی موثر ہے آپ سائل دہلوی کا خاکہ پڑھیں اس میں آپ کو سائل صاحب کے ساتھ اس وقت کی دلی کا احوال بھی معلوم ہو جائے گا۔ اعلیٰ ترین منظر کشی کے علاوہ اپنے خاکوں اور مضامین کو عنوانات عالی صاحب نے جس طرح عطا کیے ہیں وہ بھی قابل توجہ ہے جس طرح نام شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح آپ عنوان سے تحریر کے بارے میں بھی ایک تاثر قائم کر سکتے ہیں۔ عنوان کی معنویت آپ کو مضمون کی طرف مائل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر غالب کے حوالے سے جو تحریر ہے اس کا عنوان ہے ’’فرشتوں کا لکھا‘‘ جب کہ ممتاز حسن کے خاکے کو انہوں نے ’’سورج جیسا آدمی‘‘ کا عنوان دیا ہے جس سے ممتاز صاحب کے روشن کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔ جب کہ میر خلیل الرحمن سے اپنی دلی وابستگی اور جذباتی لگاؤ کے باعث ان کے حوالے سے لکھی گئی تحریروں کو ’’گنج گراں مایہ‘‘ اور’’آنکھیں انہیں تلاش کرتی ہیں‘‘ کے عنوان دیے۔

’’بس اک گوشہ بساط‘‘ میں کل چھپن تحریریں شامل ہیں اور ان تمام تحریروں سے بس ایک ہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ نثر میں بھی عالی جی کا اپنا ایک اسلوب ہے اور انہوں نے دوران تحریر اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ وہ جس شخصیت پر بھی قلم اٹھائیں اس کے روشن پہلوؤں کو ہی احاطہ تحریر میں لائیں۔ یہ بذات خود ایک مثبت طرز فکر ہے اور میں نے تو عالی صاحب کو کتابوں کی رونمائی کے دوران بھی یہ کہتے سنا ہے کہ ’’صاحب کتاب تقریب میں دولہا کی مانند ہوتا ہے اور دولہا کی صرف تعریف ہی کی جانی چاہیے۔‘‘ میرے خیال میں یہ بھی عالی صاحب کی شخصیت کا ہی ایک پہلو ہے جو ان کی تحریروں میں بھی نمایاں ہے۔

’’بس اک گوشہ بساط‘‘ میں حرفے چند خود عالی صاحب ہی کا لکھا ہوا ہے جب کہ بساط بھر کے عنوان سے محترم ادیب سہیل کی ایک تحریر بھی شامل کتاب ہے جس میں عالی صاحب کے فن کے حوالے سے مدلل گفتگو ہے۔ ’’بس اک گوشہ بساط‘‘ کا انتساب عالی صاحب نے جناب ممتاز حسن کے نام کیا ہے جب کہ کتاب کے فلیپ پر غلام اسحاق خاں، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، قاضی حسین احمد، سلیم احمد، مشفق خواجہ، پروفیسر مختار الدین احمد (علی گڑھ) ، ڈاکٹر انور سدید اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی تحریریں درج ہیں جن میں عالی صاحب کے فن کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ پانچ سو پچیس صفحات پر مبنی ’’بس اک گوشہ بساط‘‘ عالی صاحب کی نثری تحریروں میں ایک منفرد اضافہ کرتی ہے۔

 

                ’’اظہاریے‘‘

 

دراصل عالی صاحب کے تحریر کردہ وہ کالم ہیں جو گزشتہ پنتالیس سال سے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہو رہے ہیں اور اظہاریہ کا لفظ عالی صاحب کالم کے بجائے استعمال کرتے ہیں (اور بالکل صحیح کرتے ہیں) اظہاریوں کا یہ سلسلہ انہوں نے 13 مئی 1963ء سے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہفتہ وار ہی شروع کیا تھا۔ دراصل یہ ان کا سفر نامہ تھا اور اس کا عنوان ’’دنیا مرے آگے‘‘ ہوا کرتا تھا یہ سلسلہ 1966ء تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہا لیکن پھر حکومت کے دباؤ میں آ کر اس سلسلے کو بند کرنا پڑا۔ بعد میں یہ قسط وار سفر نامے کتابی شکل میں دو جلدوں میں ’’دنیا مرے آگے‘‘ اور’’تماشا مرے آگے‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئے اس کی تفصیل آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے۔ اسی دوران وہ مستعفی ہو کر سات ماہ بے روزگار بھی رہے اور کئی دوسری پریشانیوں کا شکار بھی ہوئے۔ اس کا مختصر احوال آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں۔ اس پریشانی کے دوران وہ تلاش معاش میں لندن بھی گئے اور ان کے عزیز اور نہایت قریبی دوست میر خلیل الرحمن کی مدد سے انہیں ایک بہت اچھا روزگار مل بھی گیا تھا لیکن اس طرح تو انہیں پہلے بھی کئی بار چھوٹی بڑی سفارتوں کی پیشکشیں ہوتی رہی تھیں لیکن وہ انہیں رد کرتے آئے تھے کیوں کہ وہ اپنی بیمار اور ضعیف والدہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ عالی صاحب نے ایک بار پھر کراچی واپسی کا ارادہ کیا اور والدہ کے پاس پاکستان آ گئے۔ اسی دوران نیشنل بینک میں ٹیکسیشن ایڈوائزر کی آسامی خالی ہو چکی تھی جس کا عہدہ نائب صدر(V.P) کا تھا اس کا اشتہار اخبار میں شائع ہوا تو عالی صاحب نے بھی درخواست دے دی۔ اس وقت کی معروف اور قابل شخصیت ممتاز حسن صاحب نیشنل بینک کے مینجنگ ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے ہی انٹرویو بورڈ کی صدارت کی تھی، عالی جی اس منصب کے لیے منتخب کر لیے گئے۔ بعد میں ممتاز حسن صاحب کے جانے کے بعد دوسری منتظمہ کے دور میں عالی صاحب کو مزید ترقی ملی اور وہ پہلے سینئر نائب صدر اور پھر بطور ایگزیکٹو وی پی ٹیکسیشن کے ساتھ ساتھ بینک کے ترقیاتی کام بھی انجام دیتے رہے اور آخر میں سلسلہ ملازمت کی آخری حد یعنی سینئر ایگزیکٹو وی پی تک جا پہنچے جس کے بعد حکومت پاکستان نے انہیں بورڈ آف ڈائریکٹرز کارکن بھی منتخب کیا وہ ملازمت میں تین توسیعات لینے کے بعد دسمبر1988ء میں ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد کوئی ملازمت نہیں کی۔

نیشنل بینک کا تیئس سالہ دور ملازمت ان کی نثری تحریروں کے لیے بھی خاصا مددگار بلکہ شاندار ثابت ہوا کیونکہ وہاں جاتے ہی انہوں نے ایک شعبہ ’’معیشتی تحقیق‘‘ بھی قائم کر لیا تھا اور بینک کی چھوٹی سی لائبریری کو نئی ترتیب سے ایک بڑے کتب خانے میں بدل دیا، وہاں زیادہ تر کتابیں شعبہ مالیات و معاشیات سے ہی متعلق تھیں جن سے وہ اپنے کالموں میں خوب مدد لیتے تھے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ عالی صاحب کے انہی کالموں سے اردو صحافت میں باقاعدہ معیشتی اور مالیاتی کالم نویسی کا آغاز ہوا کیوں کہ اس سے قبل اردو اخباروں میں باقاعدہ طور پر کوئی سنجیدہ یا مالیاتی اور معیشتی مواد پر کالم نہیں لکھے جاتے تھے۔ عالی صاحب نے اپنے عام سفری کالموں کے علاوہ صرف اس رجحان کو فروغ دینے کے لیے ایک دوسرا ہفتہ وار کالم ’’معیشت کی جھلکیاں‘‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کیا جو دو برس تک باقاعدگی سے جاری رہا پھر بینک میں اپنے بہت سخت فرائض منصبی اور مسلسل ملکی و غیر ملکی سفر کی وجہ سے وہ اس کو برقرار نہ رکھ سکے اور اپنے ایک ہی عالم ’’نقار خانے میں‘‘ پر گزارا کرتے رہے جو آج بھی جاری ہے انہی کالموں (اظہاریوں) کے چھ خاصے ضخیم مجموعے اس وقت میرے سامنے ہیں جو ان اظہاریوں سے انتخاب ہیں۔ میں ان تمام مجموعوں کے نام گزشتہ صفحات میں لکھ چکی ہوں اور یہاں ان سب پر ایک مجموعی سا تبصرہ پیش خدمت ہے۔

صدا کر چلے، عالی جی کا پہلا اور دعا کر چلے دوسرا مجموعہ ہے جب کہ تیسرا مجموعہ وفا کر چلے کے نام سے منظر عام پر آیا۔ یہ تینوں مجموعے ابتدا کے اظہاریوں سمیت1984ء تک لکھے گئے اظہاریوں کا احاطہ کرتے ہیں اور کئی کئی بار شائع ہوئے۔ تینوں مجموعوں کی صرف متنی ضخامت دو ہزار صفحات سے زائد ہے اور کتاب کے آخر میں مکمل اشاریے بھی درج ہیں۔ ’’صدا کر چلے‘‘ اور’’دعا کر چلے‘‘ مکتبہ اسلوب کراچی اور ’’وفا کر چلے‘‘ جنگ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہیں۔ ان تینوں مجموعوں میں دو سو سینتالیس عنوانات کے تحت لکھے گئے کالم موجود ہیں۔ اس کے کافی عرصے کے بعد ایک بار پھر عالی جی کے اظہاریوں کے تین مجموعے منظر عام پر آئے جن میں ’’کارگاہ وطن‘‘ میں1985ء سے1988ء تک شائع ہوئے اظہاریوں کا انتخاب ایک سو تیئس عنوانات پر مشتمل ہے اس کے علاوہ چند اہم سیاسی مشاہیر کی تحریروں سے اقتباسات اور ان کے سابق فاضل معاون مصباح العثمان صاحب کا مرتب کردہ تفصیلی اشاریہ بھی شامل ہے جس میں سو عنوانات کے تحت لکھے اظہاریے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی بڑی پارٹیوں کے صدور اور وزرائے اعظم کے مختصر تبصرے اور پیغامات بھی شامل کتاب ہیں۔ ’’مہر و ماہ وطن‘‘ 1997ء سے 2002ء تک کے اظہاریوں کے انتخاب پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں مجموعے جنوری 2006ء میں شائع ہوئے۔ ’’مہر و ماہ وطن‘‘ ایک سو دو عنوانات کے تحت لکھے گئے اظہاریوں پر مشتمل ہے اس کے علاوہ چند اہم سیاسی مشاہیر کی آرا بھی کتاب میں شامل ہیں۔ یہ سیاسی مشاہیر وہ ہیں جنہوں نے عالی صاحب کیا عزاز میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک بڑی اور یادگار تقریب (17نومبر1995ء) میں اپنے پیغامات بھیجے تھے جن میں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو، سینیٹ کے چیئرمین جناب وسیم سجاد، میاں نواز شریف، الطاف حسین، فضل الرحمن، عمران خان، ایس ایم ظفر، مخدوم امین فہیم اور پروفیسر غفور احمد شامل ہیں۔ یہ تمام پیغامات ’’عالی نمبر‘‘ (خاص نمبر2001ء ) میں میں نے محفوظ کر دیے ہیں۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ چھ کتابیں ان کے اظہاریوں کے انتخاب پر مشتمل ہیں جن کی کل ضخامت تقریباً ساڑھے چار ہزار صفحات ہے۔ ان کتابوں کے مطالعے کے وقت مجھے محسوس ہوا کہ انتخاب کا معیار ایک نہیں اور جب ان کی فہرست پر نگاہ گئی تو عنوانات بھی ایک دوسرے سے مختلف محسوس نہیں ہوئے اور کہنے کو تو یہ عنوانات سینکڑوں ہیں لیکن مجموعی طور پر ان سب کی تھیم یا اصل بنیاد ایک ہی ہے۔ یعنی تحریک پاکستان کی حمایت، تحفظ پاکستان پر سوچ بچار اور ترغیب ترقی پاکستان اور اس کی ترقی کی سمتوں کے راستوں کی نشان دہی، بہت سے سماجی اور معاشرتی اور حکومتی اداروں پر بے لاگ گفتگو اور تبصرہ بھی جس کی وجہ سے انہیں متعلقہ طبقوں اور حکومتی شعبوں کی خاموشی مگر موثر دشمنی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن انہوں نے ہار نہ مانی اور اپنا مشن جاری رکھا۔

عالی جی نے بعض عنوانات پر وقفوں وقفوں سے بار ہا لکھا ہے، مثلاً جہیز کا مسئلہ جو کہ معاشرے میں کسی ناسور کی طرح موجود ہے جس کے اثرات اور نتائج ہمیشہ افسوس ناک بلکہ خوف ناک ہی ہیں اور اس سلسلے میں لوگوں کا شعور بیدار کرنے کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے تو عالی صاحب نے اس پر کئی بار قلم اٹھایا ہے۔

’’صدا کر چلے‘‘ میں بعض عنوانات کو اظہاریوں سے منتخب کر کے ایک مستقل جگہ دی گئی ہے اور ان پر عالی صاحب کے مختلف ادوار کے افکار کو تاریخ وار جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کے بعض اشارے بھی بڑے باریک ہوتے ہیں۔ جو محنت کا پتا دیتے ہیں لیکن اس سارے کام کا کریڈٹ ان کے کبھی کبھی کام آنے والے دوستوں اور مداحوں کو جاتا ہے۔ یہ کسی باقاعدہ نظام کا نتیجہ نہ تھے کیوں کہ عالی صاحب کے پاس اس کام کے لیے وقت نہیں تھا اور نہ کوئی مستقل ذاتی معاون (ذاتی اسٹاف وہ رکھ ہی کہاں سکتے تھے) عالی صاحب کی ان چھ کتابوں میں چند باتیں مختلف بھی ہیں۔ یعنی انداز بیان کی جدت و انفرادیت، بات کہنے میں بے خوفی، اہم واقعات اور حالات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ثبوتوں کے حوالے، معیشت اور مالیات پر گفتگو کرتے وقت ٹھوس اعداد و شمار کے مستند حوالے اور آپ جانتے ہیں کہ ایسا شاید اب بھی کہیں کوئی باقاعدہ کالم نویس نہیں کیا کرتا۔

عالی صاحب دراصل ریسرچ کے آدمی ہیں انہوں نے بار بار صرف رسمی طور پر نہیں بلکہ بڑے سخت الفاظ میں حقوق نسواں کے حوالے سے مسائل اٹھائے ہیں۔ وہ ہمیشہ روشن خیالی کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں اور بار بار قوم کو غیرت دلائی ہے کہ وہ ترک قدامت کے ساتھ ملک کو نئی زندگی سے آشنا کریں۔ ان کا ایک تعصب بھی ہر جگہ جھلکتا نظر آتا ہے اور وہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کے تیز رفتار فروغ میں ان کا سخت بیانی موقف، اس حوالے سے وہ مغربی معاشرے میں ٹیکنالوجی کے تیز رفتار فروغ سے پیدا شدہ ’’اخلاقی فروغ‘‘ سے بھی خوب واقف رہتے ہیں اور پاکستان میں ٹیکنالوجی کا ’’ایسا فروغ‘‘ نہیں چاہتے جو مغرب جیسے عیوب پیدا کرے لیکن وہ پورے توازن کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انتہائی تیز رفتار پھیلاؤ کی ترویج بڑی شدت سے کرتے ہیں۔ مشفق خواجہ مرحوم نے ان کے اس مزاج پر بڑی داد و تحسین کی ہے۔ میں ان کی تحریر سے مختصراقتباس پیش کر رہی ہوں۔

’’عالی صاحب کی کالم نویسی کا دوسرا اہم موضوع فروغ دانش ہے۔ آج ساری دنیا میں علم کے فروغ کا غلغلہ ہے، خود ہمارے ہاں بھی اس کا چرچا کم نہیں لیکن یہ سوال ضرور سامنے آتا ہے کہ کیا ہم نے اپنی قومی دانش میں کچھ اضافہ کیا ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ عالی صاحب کو اس افسوس ناک صورت حال کا پورا علم اور پورا احساس ہے اس لیے ان کی کالم نگاری کا ایک مقصد اس صورت حال کے خلاف ایک موثر احتجاج ہے۔ ان کی کالم نگاری کی ایک بڑی خوبی جرأت اظہار ہے۔ آج کے دور مصلحت کوش میں بیشتر لکھنے والے آزادانہ اظہار خیال سے گریز کرتے ہیں۔ ملکی مسائل ہوں یا معاشرتی اور ثقافتی معاملات، علمی دید و دریافت ہو یا ادبی تنقید سچی باتیں کم سننے میں آتی ہیں۔ اظہار خیال تکلفات کی چھاؤں میں ہوتا ہے۔ یہ صورت حال ایک بڑے خطرے کی نشان دہی کرتی ہے۔ عالی صاحب اس صورت حال کے خلاف مسلسل جہاد کر رہے ہیں۔ انہیں سچی بات برملا کہنے میں طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ لگی لپٹی رکھنا، اعتذار کا انداز اختیار کرنا ان کا شیوہ نہیں۔ وہ شمشیر برہنہ ہیں جس کی کاٹ اپنے پرائے کا لحاظ نہیں کرتی۔ اسی وجہ سے ان کا یہ حال ہے کہ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش۔ بہرحال کوئی نہ کوئی تو سچ بولنے والا ہونا چاہیے۔‘‘

مشفق خواجہ کے اس اظہار رائے سے عالی صاحب کے کالموں کی مکمل طور پر وضاحت ہو جاتی ہے۔ عالی صاحب کے اکثر موضوعات (اظہاریوں میں) وہی ہیں جو کم و بیش قومی اور ملی نغموں کے ہیں۔ یعنی پاکستان، پاکستانیت، تعلیم، صحت، معاشرت، معیشت، اردو زبان، ادب اور ادیب، درد مندی، یک جہتی، استحصال اور ایک خاص موضوع مستقبلیات جس پر عالی صاحب نے ہمیشہ توجہ دی ہے اور بہت تسلسل کے ساتھ اس پر لکھا ہے۔

اب میں انجمن کی شائع کردہ ان کتابوں کا ذکر کروں گی جو عالی صاحب کے تحریر کردہ وہ مقدمات ہیں جو انہوں نے 1961ء میں بابائے اردو کی وفات کے بعد سے انجمن کے زیر اہتمام شائع کردہ کتابوں پر لکھے تھے۔ یہ سلسلہ 1962ء سے شروع ہوا تھا اور آج تک تقریباً ساڑھے تین سو کتابوں کے مقدمات عالی صاحب لکھ چکے ہیں۔ انہی مقدمات کا انتخاب خود انجمن ترقی اردو نے ’’حرفے چند‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں شائع کیا۔ ان میں سے تین جلدوں کے مقدمات مرحوم مشفق خواجہ نے ہی تحریر کیے تھے۔ ان تمام مقدمات کی تمام تفصیلات تو میں نہیں بیان کر سکوں گی (وہی کتاب کی ضخامت کا ڈر) لیکن ان کتب کے مضامین اور دیگر ضروری تفصیلات بیان کرنا مناسب سمجھتی ہوں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ کتنے متنوع ہیں اور ان کتب پر کچھ لکھنا کتنی محنت اور مطالعاتی پس منظر طلب کرتا ہے۔ خصوصاً اس صورت میں کہ جب اس سے قبل بابائے اردو مولوی عبدالحق یہ فرض انجام دے رہے ہوں۔

’’حرفے چند‘‘ جلد اول1988ء میں شائع ہوئی اور اس میں کل ایک سو چار کتب کے مقدمے شامل ہیں۔ پانچ سو بائیس صفحات پر مشتمل اس پہلی جلد کا مقدمہ یا پیش لفظ محترم مشفق خواجہ نے لکھا تھا، میں اس کی چند سطریں اس خیال سے پیش کر رہی ہوں کہ جو خوبیاں انہوں نے عالی صاحب کے ان کے ایک سو چار مقدموں کے حوالے سے بیان کی ہیں تقریباً وہی سب کی سب باقی کتابوں میں بھی ان کی تحریروں کا حصہ ہیں۔

’’جمیل الدین عالی انجمن ترقی اردو میں مولوی صاحب کے جانشین اور ان کی قائم کردہ علمی و ادبی روایات کے امین ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ادب کی تاریخ کو بنتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور تاریخ کو بنانے میں نمایاں اور مثبت کردار بھی ادا کیا ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ وہ خود پاکستانی ادب کی تاریخ کا ایک حصہ ہیں ۔ عالی صاحب بنیادی طور پر شاعر ہیں اس وجہ سے ان کے طرز احساس میں شاعرانہ لطافت و نزاکت کو زیادہ دخل ہے۔ نثر نگار کی حیثیت سے عالی صاحب جن مختلف حیثیتوں سے نظر آتے ہیں وہاں بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کیے ہیں وہ ہمارے دور کے سب سے بڑے اور قابل ذکر دیباچہ نگار ہیں۔مولوی عبدالحق کے بعد علمی دیباچہ نگاری کی روایت انہی کی وجہ سے تابندہ ہوئی ہے۔ زیر نظر مجموعہ عالی صاحب کی علمی و ادبی شخصیت کا ایسا موثر اظہار ہے جس کے بارے میں اب تک سنجیدگی سے غور نہیں ہوا۔ اس مجموعے کی اشاعت سے ادب عالی کا ایک بالکل نیا اور بھرپور پہلو سامنے آیا ہے۔ انجمن کی مطبوعات اہم اور وقیع ہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے ان کتابوں پر لکھے گئے ’’حرفے چند‘‘ بھی اہمیت رکھتے ہیں، کیوں کہ عالی صاحب نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ہر کتاب کے دیبا چے میں اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تاکہ پڑھنے والے کی رہنمائی ہو۔ مولوی عبدالحق نے دیباچہ نگاری کی پرانی روایت کو توڑا اور مقدمہ نگاری کی ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈالی جو ذہانت اور حق و انصاف پر مبنی تھی، عالی صاحب اسی روایت کے امین ہیں۔‘‘

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ’’حرفے چند‘‘ جلد اول میں کل ایک سو چار کتب کے مقدمے شامل ہیں یہ تمام مقدمے 1962ء سے 1988ء تک لکھے گئے مقدمات کا انتخاب ہیں جس میں مختلف موضوعات کی کتابیں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کتب اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ وہ ساتویں اور آٹھویں بار اشاعت پذیر ہوئی ہیں اور زبان و ادب کے لحاظ سے بھی منفرد اور نمایاں ہیں، مثلاً سب رس ’’خطبات عبدالحق‘‘ مقالات گارساں دتاسی وغیرہ اس کے علاوہ حرفے چند جلد اول میں پی ایچ ڈی کے کچھ مقالے بھی شامل ہیں۔

’’حرفے چند‘‘ جلد دوم میں1974ء سے 1992ء تک شائع ہونے والی کتب کے مقدمے یکجا کیے گئے ہیں۔ کل 297 صفحات پر مشتمل یہ کتاب انجمن کے زیر اہتمام 1993ء میں شائع ہوئی اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کا مقدمہ بھی مشفق خواجہ مرحوم نے ہی لکھا تھا اور اس کا اقتباس اوپر دیا جا چکا ہے۔ اس کتاب میں چند بہت اہم کتابوں پر مقدمات شامل ہیں۔ ان میں ’’فرہنگ اصطلاحات بینکاری‘‘ ، اردو قومی یک جہتی اور پاکستان، البیرونی اور مضامین غلام ربانی شامل ہیں۔ ان تمام کتابوں کے مقدمے پڑھ کر ان کی محنت اور قربانی کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خاصی مصروف زندگی، نوکری اور خاندانی و سماجی روابط برقرار رکھتے ہوئے کس طرح انجمن کی ان کتابوں کو پڑھنے اور ان پر لکھنے کے لیے وقت نکال لیتے تھے، جن میں بیشتر تحقیقی ضروریات سے جڑی ہوئی ہیں۔ کسی بھی باب پر کوئی بھی کیسی ہی رائے دے سکتا ہے لیکن علمی کتابوں پر کوئی بھی شاعر یا نثر نگار اپنے اور ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا جب تک ان کے موضوعات کو بہت غور سے پڑھا نہ ہو اور ان کا علمی، سماجی اور شماریاتی پس منظر خاصی تقابلی دنیا میں اس کے شعور اور تحت الشعور میں رچا ہوا نہ ہو۔ عالی صاحب نے جس طرح بابائے اردو کا اتباع کیا ہے وہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ عالی صاحب کو سلامت رکھے، کیوں کہ اب یہ کہنا مشکل نہیں رہا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ علم و ادب اور عالم و ادیبوں کی عملی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔

’’حرفے چند‘‘ جلد سوم میں کل اٹھارہ مقدمے شامل ہیں، جو1996ء تک شائع ہونے والی انجمن کی کتب پر عالی جی نے لکھے۔ 1997ء میں شائع ہونے والی اس کتاب پر لکھے گئے دو مقدمے شامل ہیں جن میں ایک صدر انجمن ترقی جناب آفتاب احمد خاں کا تحریر کردہ اور دوسرا مشفق خواجہ مرحوم کا تحریر کردہ جلد دوم کا مقدمہ دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ 231صفحات پر مشتمل یہ کتاب اردو ادب کی اہم ترین کتابوں کے مقدمات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جب کہ چند کتابیں ایسی ہیں جن کی اشاعت چھٹی بار انجمن کے زیر اہتمام ہوئی ہے۔ اس جلد میں بھی پی ایچ ڈی کے مقالے شامل ہیں۔ مذکورہ کتاب کے عنوانات اور ان کا تنوع آپ ملاحظہ فرمائیں، اس سے ہی آپ کو کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا، اس جلد میں کچھ عصر جدید کے اہل قلم کی کتابیں بھی شامل ہیں، جن کے مطالعے سے آپ کو اردو ادب میں تبدیلی کے رحجانات کا بھی خصوصیت سے اندازہ ہو گا۔ اس کتاب کا مقدمہ آفتاب احمد خاں صاحب نے تحریر کیا ہے، یہاں چند جملے ان کی تحریر سے اقتباس کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔

’’جمیل الدین عالی اب صرف ایک نام نہیں، علامت ہے، وہ ایک معروف بینکار، منفرد کالم نگار، دلچسپ سفر نامہ نگار، غزلوں، دوہوں اور گیتوں کے ذریعے دلوں پر حکمرانی کرنے والے شاعر سے کہیں مختلف اور بہت اہم ایک مقدمہ نگار بھی ہیں جو انہوں نے انجمن ترقی اردو سے شائع ہونے والی کتابوں پر لکھے ہیں۔ اس بات سے بھی سب بہ خوبی واقف ہیں کہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق جیسے دیو قامت انشا پرداز کی روایت پر استقامت سے چلتے رہنا ہی ایک چیلنج تھا جب کہ بلاشبہ عالی نے اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ عالی نے جن کتابوں پر حرفے چند تحریر کیے ہیں ان کو پڑھ کر کتاب کی اصل روح کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے مندرجات میں کہاں کہاں، کیسے کیسے مسائل زیر بحث لائے گئے ہیں اور عالمی تناظر میں ان ادبی مباحث کا کیا مقام ہے۔ حرفے چند لکھتے ہوئے جمیل الدین عالی کی جانفشانی، محنت اور وسیع النظری کا قائل ہونا ہی پڑتا ہے۔‘‘

’’حرفے چند‘‘ جلد چہارم انجمن کے زیر اہتمام2006ء میں شائع ہوئی اور اس کتاب میں1998ء سے 2006ء تک شائع ہونے والی کتابوں کے حرفے چند یکجا کیے گئے ہیں۔ اس حرفے چند کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی تحریر کردہ دو کتابیں ’’سرسید احمد خاں حالات و افکار‘‘ اور’’انجمن ترقی اردو کا المیہ‘‘ جیسی کتابیں بھی شامل ہیں۔’’انجمن ترقی اردو کا المیہ‘‘ بابائے اردو کے قلم سے نکلی ہوئی وہ دستاویز ہے جسے پڑھ کر دل لرز جاتا ہے اور یہ احساس بھی شدت سے ہوتا ہے کہ بابا جیسی عظیم شخصیت کی عظیم قربانیوں کا جب یہ صلہ ہماری قوم کے بہت معتبر اور پڑھے لکھے حضرات نے دیا تو عام آدمی کا اس معاشرے میں کیا مقام ہو گا۔ جلد چہارم میں رالف رسل کی لکھی ہوئی کتاب ’’اردو ادب کی جستجو‘‘ بھی شامل ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ انجمن کے دیرینہ کارکن اور ’’قومی زبان‘‘ کے سابق ایڈیٹر جناب ادیب سہیل نے تحریر کیا ہے ان کی تحریر سے چند جملے درج ذیل ہیں:

’’عالی صاحب کے ’’حرفے چند‘‘ ان دیباچوں میں سے نہیں ہیں جو مارے باندھے لکھے جاتے ہیں یا لکھنا پڑتا ہے۔ عالی صاحب کے تمام حرفے چند ادبی Involvement کے نتیجے میں اور فکری دیانت داری سے رقم کیے گئے ہیں۔ ان کا مزاج تخلیقی ہے وہ سرا سر تخلیقی فن کار ہیں۔ ان کا وژن وسیع تر ہے۔ عالی جی کے ہاں لکھت پڑھت میں دو آنکھوں اور دونوں رخوں کی کار فرمائیاں ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کی معلومات وارتسامات کے لحاظ سے اپ ٹو ڈیٹ ہوتی ہیں۔ عالی جی کے لکھے ہوئے دیباچے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنے اہم و ادق موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کے مطالعے سے عالی جی کے اشتیاق اور طلب علم حرف چند کے مضامین پر رنگا رنگ سیاق و سباق اور ان پر گرفت و دسترس کا پتا چلتا ہے۔‘‘

’’حرفے چند‘‘ جلد چہارم2006ء میں چھپی تھی جس میں چونتیس کتابوں پر گفتگو ہے اور یہ گفتگو قاری کو 2006ء تک لے آتی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ انجمن ترقی اردو بابائے اردو کی رخصت کے بعد بھی پوری فعالیت کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس کتاب میں ایک بہت اہم اور بڑی کتاب کا ترجمہ بھی شامل ہے جو صفحہ نمبر161 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب سابق گورنر اسٹیٹ بینک جناب عشرت حسین نے پاکستانی معیشت کے بارے میں ایک تنقیدی جائزے کے طور پر لکھی تھی۔ اس میں عالی صاحب نے بعض نہایت اہم معیشتی (انگریزی) کتابوں کے حوالے بھی دیے ہیں اور یہ انکشاف بھی کیا ہے (یہ بات بیشتر اردو داں نہیں جانتے ) کہ سرسید نے 1844 ء میں علوم و فنون کے اردو ترجمے کے لیے ایک سوسائٹی بھی بنائی تھی اور ریاست بھوپال میں اردو کو ریاستی (دفتری) زبان قرار دیئے جانے کا ذکر بھی کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ عدالتی کارروائی بھی اردو میں ہوتی تھی۔ نیز انہوں نے حیدر آباد کی عظیم الشان اصطلاح سازی کا ذکر بھی کیا اور حیدر آباد کے دار الترجمہ کے قیام کے بارے میں بھی بتایا۔ یہ سب باتیں رفتہ رفتہ ہم اردو والے بھولتے جا رہے ہیں۔ عالی صاحب کا یہ مقدمہ اصطلاحات اور ترجموں پر نہایت مفید تاریخ بھی بن گیا ہے۔ اسی مقدمے میں بابائے اردو کی مشہور مگر درد ناک کتاب کا بھی ذکر ہے جس کا نام ’’انجمن کا المیہ‘‘ ہے۔ اپنے اس مقدمے میں عالی صاحب نے ایک دلچسپ سوال پیش کیا ہے۔ ’’آج تک کوئی اس بات کا تجزیہ نہیں کر سکا کہ بظاہر پڑھے لکھے لوگ، خاصے سینئر لوگ بھی ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہیں جو مولوی صاحب کے ساتھ روا رکھی گئیں خواہ معتوب مولوی صاحب کی حیثیت کا نہ ہو لیکن آج بھی با اعلان کی جاتی ہیں کیا یہ انسانی شیطنت کے روپ ہیں! جی نہیں مانتا۔‘‘

انجمن کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ان تمام کتب کے لیے لکھے جانے والے مقدمات تو کتابی شکل میں منظر عام پر آ گئے۔ لیکن اس کے علاوہ 1926ء سے عالی صاحب انجمن کے معتقد کی حیثیت سے اب تک انجمن کے ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ میں بے شمار اداریے لکھ چکے ہیں لیکن ان اداریوں میں ان کا نام نہیں ہوتا اور وہ ادارے کی جانب سے ہوتے ہیں اس لیے میں انہیں عالی جی کی تخلیقات میں شامل نہیں کروں گی۔

 

                ’’سفر نامے‘‘

 

عالی صاحب کی نثریات کا جب بھی ذکر آئے گا ان کے سفر ناموں کو نمایاں مقام حاصل ہو گا۔ کتابی شکل میں تو یہ سفر نامے تین ہی کہلائیں گے یعنی ’’دنیا مرے آگے‘‘ ،’’تماشہ مرے آگے‘‘ اور تیسرا اور اب تک آخری’’آئس لینڈ‘‘

’’دنیا مرے آگے‘‘ اور’’تماشا مرے آگے‘‘ میں بہت سے مشرقی اور مغربی ممالک کے سفر نامے ہیں جن کی ضخامت803صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’تماشا مرے آگے‘‘ پر دوران تحریر و اشاعت ہی حکومت کی بن لکھی پابندی لگ گئی تھی اور یہ امریکا تک پہنچ کر رک گیا تھا۔ مشرق بعید کے ممالک مثلاً جاپان اور چین اس میں شامل نہ ہو سکے تھے (روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں قسط وار شائع ہونے کے دوران) عالی صاحب عادتاً یا ارادتاً جس ملک کا دورہ کرتے ہیں اس میں بعض مناظر و معاملات سے پاکستان کا مقابلہ ضرور کرتے ہیں اور اس مقابلے میں پاکستانی حکومتوں پر ان کی نا اہلی کے باعث سخت چوٹیں بھی کر جاتے ہیں اور پاکستانی معاشرے کی بد عنوانیوں پرسخت اعتراضات بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ دونوں کتابیں مئی 1963ء سے 1966ء تک روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہفتہ وار چھپتی رہی تھیں۔ ان سے پہلے کوئی باقاعدہ سفر نامہ نگار کم از کم اخباری سطح پر نمودار نہیں ہوا تھا۔ صرف ایک بہت مختصر سی کتاب بعنوان ’’سفر نامہ لندن‘‘ (اس وقت کے ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان راولپنڈی) ضرور منظر عام پر آئی تھی چونکہ عالی صاحب اخباری سطح پر تو 1963ء سے سفر نامہ لکھ رہے تھے اور یہ سلسلہ1966ء تک جاری رہا تھا (سلسلہ منقطع ہونے کی تفصیل پہلے لکھی جا چکی ہے) لیکن ان کی یہ دونوں کتابیں 1975ء میں منظر عام پر آئیں جب کہ ’’سفر نامہ لندن‘‘ مختصر ہی سہی لیکن عالی صاحب سے بہت پہلے منظر عام پر آئی اس لیے میں تاریخی تجزیہ کا منصب مدنظر رکھتے ہوئے ’’سفر نامہ لندن‘‘ کو ہی پاکستان میں اردو کا پہلا سفر نامہ قرار دوں گی۔ عالی صاحب کے یہ دونوں سفر نامے جو ہمارے ادب میں اچانک ایک بڑی لہر کی مانند چھا گئے، دو لحاظ سے بہت ممتاز ہیں۔ ایک تو ’’بڑا کٹیلا انداز بیان‘‘ اور دوسرے’’بہت سی ٹھوس معلومات کا سمندر‘‘ جو عام سفر ناموں میں مفقود ہوتے ہیں۔ جب یہ کتابیں منظر عام پر آئیں تو عام رائے یہ تھی کہ ’’عالی صاحب غیر ممالک کی انسائیکلو پیڈیا لکھ رہے ہیں۔‘‘ ان دونوں سفر ناموں کے تین ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا انتساب عالی صاحب نے اپنی ’’گھر والی‘‘ یعنی’’محترمہ طیبہ بانو‘‘ کے نام کیا ایک دوہے کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ صرف اس اشارے سے آپ اس دوہے کو بھی پہچان گئے ہوں گے۔

’’عرض ناشر‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر’’دنیا مرے آگے‘‘ میں شامل ہے لیکن اس کے علاوہ ایک بہت دلچسپ تحریر’’عالی مرے آگے‘‘ کے عنوان سے اس میں شامل ہے جو ان کے بہت عزیز اور قریبی دوست بلکہ دست راست بلکہ ہم راز جناب ابن انشا کی تحریر کردہ ہے لیکن وہ تحریر اتنی مربوط اور اتنی دلچسپ ہے کہ اس سے اقتباس پر گزارا نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس کے لیے ملاحظہ فرمائیں ’’دنیا مرے آگے‘‘ کا صفحہ نمبر13’’دنیا مرے آگے‘‘ میں ایران، عراق، لبنان، مصر، دہلی، روس، فرانس اور برطانیہ کے عنوانات اور پھر ذیلی عنوانات کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ ان کے ذیلی عنوانات سے ہی آپ کو ان کے طرز تحریر کا اندازہ ہو جائے گا۔ جب کہ ’’تماشا مرے آگے‘‘ میں جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، پیرس، سوئٹزرلینڈ اور امریکا کے عنوانات کے تحت ذیلی عنوانات دے کر آنکھوں دیکھا حال بلکہ ’’احوال‘‘ تحریر کیا گیا جس میں وہ دونوں خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا یعنی ’’بڑا کٹیلا انداز بیان‘‘ اور’’بہت سی ٹھوس معلومات کا سمندر‘‘ یہ دونوں کتابیں شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز نے زیور طبع سے آراستہ کی ہیں۔

 

’’آئس لینڈ‘‘

 

346صفحات پر مبنی یہ سفر نامہ صرف ایک ملک یعنی ’’آئس لینڈ‘‘ کے بارے میں ہے اور یہ ان کے آئس لینڈ میں صرف تین روزہ قیام کی کہانی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ میری معلومات کے مطابق آئس لینڈ پر پورے پاکستان اور شمالی ہند کی کسی زبان میں کوئی سفر نامہ نہیں لکھا گیا۔ ’’آئس لینڈ‘‘ ایک عجیب و غریب کتاب ہے۔ بقول مصنف یہ سفر نامہ بھی ہے اور صریر نامہ بھی۔ دسمبر2001ء میں شائع ہونے والے اس سفر نامہ کا ایک ڈیلکس ایڈیشن بھی شائع ہو چکا ہے جب کہ بھارت میں بھی ایک ایڈیشن دیونا گری میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ انتیس ابواب پر مشتمل ایک حیرت انگیز کتاب ہے۔ اس سفر نامے سے آئس لینڈ کے متعلق وہ بیش بہا معلومات حاصل ہوتی ہیں جو کسی دوسرے طریقے سے ممکن نہیں تھیں۔ ایک اتنا مختصر سا اور تا حال کم معروف ملک کن معنوں میں منفرد اور انتہائی حیرت انگیز، ارضی خصوصیات کا حامل ہے۔ مصنف کے کہنے کے مطابق ’’مسلسل تبدیلیوں اور تضادات کی زمین، قدرت کی ارضیاتی تجربہ گاہ، جدید ترین مزاج رکھنے والے خوش نما چہروں کی آماجگاہ، ادب، قومی زبان، دوستی اور وطن سے منفرد انداز کی محبت رکھنے کا نمونہ ہے یہ سر زمین۔‘‘ آئس لینڈ کا سفر عالی صاحب نے 1978ء میں کیا اور اس کا ایک حصہ پندرہ روزہ ’’ملت‘‘ راولپنڈی میں شائع بھی ہوا تھا (1981) پھر ’’ملت‘‘ کچھ مسائل کا شکار ہو کر بند ہو گیا تو یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ ’’آئس لینڈ‘‘ کے ساتھ ایک اور واقعہ یہ ہوا کہ اس کے کئی سو صفحات جن میں بڑی تعداد کتابت شدہ تھی۔ کراچی میں1983ء کی شدید بارشوں سے بری طرح متاثر ہوئے اور اس کے علاوہ کئی دوسرے ممالک جن میں چین، جاپان اور سوئیڈن کے سفر نامے بھی شامل تھے تباہ ہو گئے۔ عالی صاحب کی بڑی یادگار اور نادر تصاویر، سینکڑوں خطوط اور اہم دستاویزات بھی ان طوفانی بارشوں کی نذر ہو گئیں۔ اس حادثے نے عالی صاحب کے ذہن پر برا اثر ڈالا (وہ کہتے ہیں ’’میرا دل ٹوٹ گیا تھا‘‘ ) پھر وہ حسب عادت اور بہت سی دوسری سمتوں میں مصروف ہو گئے اور دوبارہ ادھر توجہ نہ دی۔ ’’آئس لینڈ‘‘ کے مقدمہ نگار کے بقول ’’خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اکتوبر1999ء میں پارلیمان معطل ہو گئی جس کے وہ منتخب رکن کی حیثیت سے دو برس تک کام کرتے رہے۔ پھر انجائنا کے مریض ہوئے۔ اب انہیں دوسرا دورۂ قلب ہوا جس نے انہیں کافی متاثر کیا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کافی خالی وقت تخلیقی کام کے لیے مل گیا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے پھر سے ’’آئس لینڈ‘‘ نکالا اور خراب شدہ مسودے پر از سر نو کام شروع کیا اور یوں ہمارے سامنے خوب صورت ’’آئس لینڈ‘‘ کتابی شکل میں تیار کر کے رکھ دیا۔ بقول ناقدین یہ سفر نامہ اردو سفر نامہ نگاری کی بعض بالکل نئی جہتیں ہمارے سامنے لا رہا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالی صاحب کو ’’صحت کے ساتھ عمر مزید‘‘ عطا فرمائے تاکہ وہ یوں ہی ادب اور ادیبوں کی خدمت کرتے رہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

عالی جی کی شاعری

 

                دوہے

 

گو کہ شعری اصناف کا جائزہ پیش کرتے وقت بھی یہ دقت پیش آ رہی ہے کہ عالی صاحب کی کون سی تصنیف کو سامنے رکھ کر بات شروع کی جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تقدم زمانی کے لحاظ سے تو غزلوں کا ذکر پہلے ہونا چاہیے چونکہ عالی صاحب کی شاعری میں غزل کا نمبر سب سے پہلے آتا ہے اور خصوصاً عالی جی کی غزل میں تو ارتقا بھی قابل ذکر ہے اور ان کے یہاں معنی کی وسعتیں اور گہرائیاں بھی بہت پھیلتی رہیں۔ لیکن بوجوہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ میں ان کے دوہے کا ذکر پہلے کروں۔ اس لیے کہ یہ ایک قدیم صنف ہوتے ہوئے بھی عملاً صدیوں خاموش پڑے رہے اور بیسویں صدی کے اواخر میں عالی جی کے ہی ہاتھوں دوہا ایک دم بہت اہم ہو گیا۔ کبھی کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوہے کی صنف نے صدیوں کی خاموشی اختیار ہی اس لیے کی کہ کوئی جمیل الدین عالی نام کا شاعر آئے گا اور ہمیں نئی پوشاک پہنا کر سجا سنوار کر عوام کے سپرد کرے گا۔ یوں تو عالی صاحب نے اپنے شعری مجموعے مشترکہ طور پر ہی شائع کیے یعنی اس میں غزلیں، نظمیں، گیت اور دوہے ایک ساتھ شامل ہوتے تھے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ انہیں یہ احساس شدت سے ہوتا چلا گیا کہ اب وہ اور دوہا لازم و ملزوم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ احساس انہیں مشاعروں میں سامعین کی فرمائشوں نے دلایا۔ دوسرے یہ کہ جب شعری مجموعے ناقدین کے ہاتھوں میں پہنچتے تھے تو ان کے اظہار خیال میں ’’دوہے‘‘ کو ایک علیحدہ مقام حاصل ہوتا تھا۔ میری رائے میں تو ’’دوہا‘‘ عالی جی کے مزاج سے بہت زیادہ ہم آہنگ ہے اور عالی جی جتنی زیادہ شدت اور بھرپور طریقے سے اپنی بات دوہے کے ذریعے پہنچاتے ہیں وہ بھی اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ خیر تو میں ذکر کر رہی تھی کہ جب عالی جی کو دوہوں کے حوالے سے اپنی نمایاں شہرت اور منفرد حیثیت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے دوہوں کا ایک علیحدہ مجموعہ شائع کرنے کی طرف توجہ دی اور یوں 2003ء میں ’’دوہے‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ منظر عام پر آ گیا۔ اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ابتداء سے لے کر 2003ء تک کے تمام دوہے شامل ہیں۔ دوسری طرف جن عظیم نقادوں نے عالی جی کے دوہوں کے بارے میں جو اظہار خیال کیا تھا اس سے بھی اقتباسات شامل کیے گئے۔ یہ نام واقعی بڑے تھے۔

پروفیسر حسن عسکری نے ان کے پہلے شعری مجموعے ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ (مطبوعہ 1957ء) کا مقدمہ لکھا تھا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ بعنوان ’’دل والے کی بھاشا‘‘ مالک رام بعنوان ’’عالی روشن مستقبل کا شاعر‘‘ قرۃ العین حیدر ’’جشن عالی ابوظبی1989ء کا افتتاحیہ خطبہ‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بعنوان ’’جمیل الدین عالی ایک منفرد شعری آہنگ کا شاعر‘‘ ڈاکٹر سید قدرت نقوی ’’دوہا تاریخی جائزہ اور عالی‘‘ ڈاکٹر خلیق انجم اردو کا بانکا اور سجیلا شاعر دوہوں کی روشنی میں پروفیسر ڈاکٹر اسلوب احمد انصاری حرفے چند ڈاکٹر فرمان فتح پوری جمیل الدین عالی اور اردو دوہا نگاری ڈاکٹر سمیع اللہ اشرفی بعنوان عالی کے دوہے عروضی اعتبار سے ڈاکٹر رویندر کمار بھرمر اردو دوہے کی پرمپر اور عالی کے دوہے ڈاکٹر حنیف فوق جمیل الدین عالی کے دوہوں کا پس منظر پروفیسر راجندر سنگھ ورما دوہے ڈاکٹر شارب ردولوی عالی اور دوہے ڈاکٹر صابر آفاقی عالی جی کا دوہا جمال پانی پتی اردو کا پہلا دوہا نگار ڈاکٹر مظفر حنفی اردو میں دوہے ڈاکٹر ضیاء الدین انصاری دوہے کی روایت اور عالی ادیب سہیل پاکستان میں اردو دوہے کا ارتقا اور ان کے علاوہ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون اور الیاس عشقی جو خود بھی بڑے دوہا نگار ہیں انہوں نے گیارہ دوہے لکھ کر عالی جی کو خراج تحسین پیش کیا۔

مندرجہ بالا تحریروں کو میں نے اقتباسات کہا ہے کیوں کہ وہ اقتباسات ہی ہیں ورنہ جس مقدار میں وہ لکھے گئے ہیں ان کو اگر ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک خاصی ضخیم کتاب منظر عام پر آ سکتی ہے۔ ان مضامین میں فاضل مصنفین نے اپنے اپنے انداز سے نہ صرف عالی جی کے دوہوں کے بے شمار اوصاف گنوائے ہیں بلکہ کسی کسی نے دوہوں کی پوری تاریخ بیان کر دی ہے۔ خصوصاً قدرت نقوی نے گویا صرف تاریخ دوہا پر ایک بھرپور کتابچہ لکھ دیا ہے۔

اس پس منظر میں مجھے اپنی کم علمی کا شدید احساس ہے کہ ’’دوہے‘‘ کے حوالے سے میرا یہاں کچھ کہنا پھر بھی جس طرح چھوٹے سے چھوٹے آدمی کے من میں اپنی کوئی چھوٹی سی بات ٹکی ہی رہتی ہے اور وہ اسے کہہ دینا چاہتا ہے بالکل اسی طرح بڑے بڑے زعما اور فضلا کے نہایت بلیغ اور معلومات افزا ارشادات کے درمیان اپنے من کی بات بھی کہہ دینا چاہتی ہوں۔ دوہے کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس صنف نے تعطل کا ایک بڑا دور دیکھا ہے جو میرے خیال میں شاید فارسی کے بڑھتے ہوئے غلبہ کے باعث پیدا ہوا اور پھر دو ڈھائی صدیوں کے بعد اچانک ایک طرح سے دوہے کا احیا ہونا وہ بھی ایک ہندی نہ جاننے والے نوجوان غزل گو شاعر مرزا جمیل الدین عالی کے ہاتھوں۔ جیسا کہ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ دوہا امیر خسرو سے منسوب ہے۔

گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس

چل بھئی خسرو گھر اپنے سانجھ بھئی چوند دیس

ایک فولادی ستون کی طرح یہ دوہا ہر شعر پسند ذہن میں خواہ وہ اردو کا ہو یا ہندی کا آج تک گڑا ہوا ہے جو حضرت امیر خسرو نے اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ نظام الدین چشتی کے وصال کے بعد کہا تھا جو پہلے دلی والوں کے ذہن نشین ہوا اور پھر پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔ یہیں سے ایک طرح دوہے کی بحر متعین ہو گئی۔ یعنی ہر مصرعے میں ماتراؤں کے بعد (بسرام)۔۔۔ (وقفہ) اور دو مصرعوں کی پابندی اس طرح کہ مضمون پورا بیان ہو جائے اور کوئی تشنگی باقی نہ رہ جائے۔

دراصل وہ دور دور سلطنت تھا سرکاری درباری زبان ترکی تھی اور کچھ فارسی آمیز تھے اس وقت کے مسلمان فاتحین ترکی آمیز تھے وہ صرف فارسی نہیں بلوتے تھے لیکن امیر خسروؒ کا یہ دوہا پڑھنے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس وقت کے مسلمان کتنی اچھی ہندی جاننے لگتے تھے اور کیوں نہ جانتے حکومتیں اپنی جگہ تھیں لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ ہندوستان بھر میں روزمرہ کی ہندی اور ہندوستانی کلچر اس وقت بھی نمایاں نظر آتا تھا اور حضرت امیر خسرو کے متعلق تو مشہور ہے کہ ان کے نانا بدایوں کے متوطن نو مسلم تھے حضرت امیر خسرو پر تو یقیناً اپنے ننھیال کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔

ہمارے ادب کا یہ بھی المیہ ہے کہ ایک طرف تو ریسرچ کا رجحان بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ وسائل بھی میسر نہیں آتے جو تحقیقی کاموں میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ میری بہت شدید خواہش تھی کہ اس دور کے دوسرے کچھ مشہور اور کم مشہور دوہا نویسوں کا حال احوال بیان کر سکوں لیکن کتابیں دستیاب نہ ہونے کے باعث میں یہ کام حسب خواہش انجام نہیں دے سکتی ہوں۔ خیر جو مصدقہ پہلو سامنے آ سکے ان کے حوالے سے ضرور بات کروں گی۔ امیر خسرو کے زمانے سے دوہا مقبول عام رہا اور کافی دن تک رہا یہاں تک کہ امیر خسرو کے تقریباً دو سال بعد تک ہمیں ایک بڑا دوہا نگار عبدالرحیم خان خاناں کی شکل میں ملتا ہے۔ جو بہرام خاں کا بیٹا، اکبر کا پالا اور جہانگیر کا سپہ سالار تھا عبدالرحیم خان خاناں کا تخلص رحمن تھا۔ اس کا ایک دوہا ملاحظہ فرمائیے:

امی ہلاہل مد بھرے شوئت شیام رتنار

جئیت مرت جھک جھک پرت چتوت ایک بار

لیکن یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ اس وقت تک درباری شاعری پر اور درباری شاعری کی وجہ سے کم از کم شہروں کی حد تک شاعری پر فارسی کا قبضہ ہو گیا تھا اور ہندی ایک بول چال کی زبان کے طور پر زیادہ استعمال ہوتی تھی۔ ہم اس دور کے اٹھارویں صدی تک ہندوستان کی شاعری میں دوہے کا زور نہیں دیکھتے ہیں اور اس کے بعد اچانک مہاراج جے پور کے دور میں ایک ہندی شاعر مشہور ہوتا ہے۔ بہاری سے قبل لیکن کبیر کے کچھ بعد میرا بائی (مہارانی) نے ہندی شاعری میں نام ضرور کمایا اور ان میں دوہے بھی شامل تھے۔ بہاری نے اور بھی بہت کچھ یقیناً لکھا ہو گا مگر اس کی ایک کتاب ’’ست سئی‘‘ کو بڑی شہرت اور اہمیت حاصل ہوئی اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ ’’سات سودوہوں‘‘ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب نے بہاری کو بہت شہرت دی اور دوہے کو بھی، مگر اتفاق یا افسوس کہا جائے کہ دوہے ان کے بعد بھی پنپ نہیں پائے، اس کی وجہ میری ناچیز رائے میں یہ ہے کہ وہ دوہے تمام متداول بحور سے مختلف تھے اور اس کا ایک سبب یہ نکلتا ہے کہ ہندی کے دوہے اپنے بسرام (وقفہ) کی وجہ سے تیز یا پاپولر رو میں نہیں لائے جا سکتے اور یوں انہیں گانا ممکن نہیں تھا اس کے برخلاف عالی جی کے دوہوں اور عالی جی کی شہرت میں میرے نزدیک ایک یہ عنصر کار فرما ہے کہ ان کے دوہے نہ صرف یہ کہ خود عالی جی بڑے لحن کے ساتھ گاتے ہیں بلکہ ان کا مفہوم بھی ایک عام آدمی کی سمجھ میں آ جاتا ہے اور ایک عام آدمی کو بہرحال آسانیاں ہی درکار ہوتی ہیں یہ میرا احساساتی خیال ہے اور میں یہ ضروری نہیں سمجھتی کہ ہر پڑھنے والا اس سے متفق ہو یہاں پھر وہی بات دہرانا پڑے گی کہ اس دور سے متعلق نہ اتنی تحقیق ہو سکی اور نہ ہی کتابیں میسر ہیں کہ اس ضمن میں کوئی بات جم کر کی جا سکے اور اسی لیے اب تک کی کہانی میں، میں نے کئی مشاہیر اور دوہا نویسوں کا ذکر نہیں کیا کہ ان کے بارے میں تفصیلی مواد مجھے میسر نہیں آ سکا ورنہ سور داس جی اور تلسی داس جنہوں نے رامائن جیسی عظیم اور مقدس کتاب کی تالیف و ترتیب میں حصہ لیا۔ ان کے اجداد اور دیگر دفتر کے دفتر تو بہت ملتے ہیں۔

بہاری کی ست سئی کے بعد ہمیں دوہے میں کوئی چونکانے والی آواز نہیں ملتی اور یہ سلسلہ دور تک چلا جاتا ہے اور ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد 1951ء میں لاہور سے ڈاکٹر خواجہ دل محمد ایم اے کی کتاب ’’پریت کی ریت‘‘ شائع ہوئی جو دوہوں پر مشتمل تھی۔ مگر اول تو اس میں بھی ہندی کی متداول بحر ہی استعمال ہوئی تھیں دوم وہ بہت ٹھیٹھ ہندی میں نہ ہونے کے باوجود عام ہندی پڑھنے والے کے لیے کوئی دلچسپی کا سامان نہیں رکھتی تھیں ڈاکٹر خواجہ دل محمد کا پیشہ تو پنجاب یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانا تھا لیکن وہ ہندی ا ور فلسفہ کے ماہر تھے۔ انہوں نے کئی اہم کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہوئے تھے لیکن ان سب کے باوجود ’’پریت کی ریت‘‘ مختلف وجوہ کی بنا پر لوگوں کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی۔ اس دوران یہ ہوا کہ دلی کا ایک نوجوان شاعر جو غزل میں امتیاز حاصل کر رہا تھا بیمار ہو کر دہلی کے قریب یوپی کے ایک ضلع ’’بلند شہر‘‘ میں پہنچا۔ جہاں اسے اس کے سگے چچا زاد بھائی صاحبزادہ صمصام الدین فیروز نے علاج اور آرام کے لیے بلایا تھا۔ عالی کو بلند شہر اور اس کا دیہاتی اطراف بہت پسند آیا اور وہ وہاں کے بازاروں میں بہت شوق سے آنے جانے لگا۔ ان بازاروں کی ایک علیحدہ رونق اور ایک مختلف ثقافت تھی دوسری طرف وہاں صبح شام دیہاتی زبان میں فی البدیہہ شعری مقابلے بھی ہوتے تھے۔ بہت تیز آوازوں میں ایک مصرع ادھر سے آتا تھا تو لازم تھا کہ فوراً ہی اس کا جواب دوسرے مصرعے میں ادھر سے آئے ورنہ وہ شکست خوردہ تصور کیا جائے گا۔ عالی کو بھی یہ رسم بہت اچھی لگی اگرچہ وہ کسی حد تک اپنی ریاست لوہارو میں بھی یہ سب دیکھتا آیا تھا مگر وہاں کی زبان ہریانوی، راجستھانی اور پنجابی ہوا کرتی تھی اور وہ اس کی سمجھ میں بالکل نہیں آتی تھی۔ اس لیے وہ اس سے بالکل نہ متاثر ہو سکا جب کہ یہاں بلند شہر والی زبان جس میں اردو کا اثر صاف محسوس ہوتا تھا اس نوجوان کی سمجھ میں زیادہ بہتر طریقے سے آ جاتی تھی اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ تفریح طبع کے طور پر عالی نے منتظمین کی اجازت سے خود بھی اس میں حصہ لینا شروع کر دیا اور جس دھن میں وہ پڑھا کرتا وہ ایک اونچی اور پھیلی ہوئی دھن تھی اور یہ انداز خود عالی کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی پسند آیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا پھر اسی دوران اسے اپنی بھتیجی (چچا زاد بھائی کی بیٹی) طیبہ بانو سے دلچسپی پیدا ہو گئی اور مزید دلچسپ بات یہ کہ وہ بھتیجی اپنے چچا سے سات سال بڑی بھی تھی اور یہ دلچسپی پلک جھپکتے میں وہ شکل اختیار کر گئی جسے وہ آج بھی محبت نہیں کہتے لیکن ظاہر ہے کہ وہ محبت ہی تھی۔ عالی نے اس وقت بی اے کا امتحان دیا تھا اور رزلٹ کا انتظار شدت سے تھا کیونکہ مستقبل کا انحصار ہی اس پر تھا۔ ریاست کی آمدنی تھی تو لیکن اتنی نہ تھی کہ اپنا گھر بنا کر والدہ اور بیوی کے ساتھ آرام سے رہ سکیں پھر بھی اس نے ہمت کر کے اپنی تجویز طیبہ بانو کے سامنے پیش کر دی اور طیبہ نے اپنے والد کے سامنے، اس وقت اس خاندان میں ضروری تھا کہ شادی کے لیے والی ریاست لوہارو کی توثیق حاصل کی جائے دوسری صورت میں جو خاصے خطیر الاؤنسز بنام اخراجات شاہی ریاست کی طرف سے مقرر تھے ان کا ملنا خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ اب عالی کے ساتھ قصہ کچھ یوں تھا کہ اس وقت والی ریاست جمیل الدین عالی کے سب سے بڑے بھائی کے صاحبزادے نواب امین الدین خان ثانی تھے لیکن ان کی شادی عالی کے دوسرے سوتیلے بھائی مرزا اعتزاز الدین کی صاحبزادی سے ہو چکی تھی اور پہلی ولادت لڑکی کی ہوئی جب کہ وہ توقع ولی عہد کی کیے ہوئے تھے چنانچہ اس وجہ سے ان دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ نواب صاحب تک جب جمیل الدین عالی نے اپنی شادی کی بات رکھی تو انہوں نے اسے مشروط طور پر منظور فرمایا وہ اس طرح کہ عالی سے کہا کہ آپ میرے سسر یعنی اپنے بڑے بھائی کو شادی میں نہ بلائیں تو میں خود آپ کی بارات بلند شہر لے جانے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن یہ بات عالی صاحب کی والدہ کو قبول نہیں ہوئی اور انہوں نے کہا کہ میرے بیوہ ہو جانے کے بعد میری ساری سوتیلی اولاد مجھ سے وہی مودبانہ اور محبتانہ سلوک رکھے ہوئے جو تمہارے باپ کے زمانے میں ہوتا تھا تو اس موقع پر میں انہیں نہیں چھوڑ سکتی۔ یہ موقف سن کر نواب صاحب نے جو فیصلہ کیا اس کے مطابق وہ بارات لے کر گئے اور نہ ہی عالی جی کے حق کے مطابق شادی کے اخراجات ملے اور نہ ہی وہ پارچہ جات جو عالی صاحب کے لیے مختص تھے۔ اب قابل توجہ بات شروع ہوتی ہے کہ ان پارچہ جات میں ایک بڑی قیمتی چو گوشی ٹوپی اور ایک قیمتی طرہ اور ایک بہت نمایاں اور مہنگی کلغی خاص طور پر شامل تھی جس سے یقیناً دولہا میاں کی شان دوبالا ہو جاتی۔ جب بوجوہ عالی جی کو ان تمام چیزوں سے محروم کر دیا گیا تو شاید وہ موقع عالی جی کے لیے بہت زیادہ اہم تھا اور اس وقت جو احساس انہیں بہت شدت سے ہوا ہو گا وہ ان کے اس پہلے دوہے سے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:

نا مرے سر کوئی طرہ کلغی نا کھیسے میں چھدام

ساتھ میں ہے اک ناری سا نوری اور اللہ کا نام

یہ واقعہ اس قدر تفصیل سے سنانے کا مقصد یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں یہ مناسب سمجھتی تھی کہ عالی صاحب غزلیں اور نظمیں تو 1939ء سے کہہ ہی رہے تھے لیکن وہ دوہے کی طرف کب اور کیسے آئے۔ ان کی زندگی کا پہلا دوہا بھی میں نے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا خیر عالی جی کی شادی ہو گئی وہ تمام شاہی نعمتوں سے بھی محروم کر دیے گئے، یہاں تک کہ الاؤنسز بند ہو جانے کی وجہ سے وہ کافی عرصہ معاشی مسائل میں بھی مبتلا رہے لیکن اب دوہے کے سفر کا آغاز ہو چکا تھا اور عالی جی یہ بات محسوس کر چکے تھے کہ ان کی توقع سے زیادہ عزت افزائی بھی ہو رہی ہے۔ ان کے دوہوں کی بازگشت کافی دور تک سنائی دے رہی تھی اور اس موقع پر میرا جی نے ایک خاص نصیحت کی وہ یہ کہ تم ہندی مت پڑھنا ورنہ اس کی لفظیات تم پر قبضہ کر لیں گی اور یہ دوہے پھر مکس دوہے نہیں رہیں گے (میرا جی اس وقت دلی میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے) عالی جی نے ان کی نصیحت پر (میرے خیال میں) پورا پورا عمل کیا اور ہندی سے نابلد ہی رہے۔ بہرحال عالی جی جو غزل میں اچھی شہرت حاصل کر چکے تھے مگر دوہوں کے نئے پن اور اپنی انتہائی خوش گلوئی (خوش شکلی اور خوش لباسی کے علاوہ) نے انہیں دو آتشہ کر دیا اور مشاعروں کی کامیابیاں ان کا مقدر بنتی چلی گئیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اس کا اثر ان کی غزل پر کچھ اچھا نہیں پڑا۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر باقاعدہ مباحثہ کیا جا سکتا ہے۔

عالی جی کی ابتدائی دوہے خاصی حد تک خود سوانحی (آٹو بائیو گرافیکل) کہے جا سکتے ہیں جو سننے والے کو ان سے ہمدردی پر آمادہ رکھتے ہیں۔ کچھ دوہے مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں:

کیا جانے یہ پریت کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے

عالی جیسے مہا کوئی بھی بابو جی کہلائے

 

بابو گیری کرتے ہو گئے عالی کو دو سال

مرجھایا وہ پھول سا چہرہ بھورے پڑ گئے بال

 

دھیرے دھیرے کمر کی سختی کرسی نے لی چاٹ

چپکے چپکے من کی سختی افسر نے دی کاٹ

 

اے بھین یہ بابو گیری کیا کیا کھیل کھلائے

یوں تنخواہ کی راہ تکیں کہ سجنی یاد آئے

لیکن ان کے ہاں جمال پرستی کے حوالے سے اور بڑے بے ساختہ طریقے سے بار بار نئی نئی باتیں سامنے آئی ہیں جنہوں نے ان کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیے۔ کتاب کی ضخامت کے پیش نظر صرف چند مثالوں پر اکتفا کروں گی:

کہو چندرما آج کدھر سے آئے ہو جوت بڑھائے

میں جانوں کہیں رستے میں مری ناری کو دیکھ آئے

 

کدھر ہیں وہ متوارے نیناں کدھر ہیں وہ رتنار

نس نس کھنچے ہے من کی جیسے مدرا کرے اتار

 

ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے

جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اڑ جائے

 

روپ بھرا مرے سپنوں نے یا آیا میرا میت

آج کی چاندنی ایسی جس کی کرن کرن سنگیت

 

چال پہ تری گج جھومیں اور نیناں مرگ رجھائے

پر گوری وہ روپ ہی کیا جو اپنے کام نہ آئے

 

گھنی گھنی یہ پلکیں تری یہ گرماتا روپ

تو ہی بتا او نار میں تجھ کو چھاؤں کہوں یا دھوپ

 

عالی اب کے کٹھن پڑا ہولی کا تہوار

ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار

 

میں نے کہا کبھی سپنوں میں بھی شکل نہ مجھ کو دکھائی

اس نے کہا بھلا مجھ بن تجھ کو نیند ہی کیسے آئی

ایک اور صنف جو عالی کے دوہوں سے خاص طور پر نکلی یا اس سے پہلے شاید اتنی عام نہ تھی وہ سروں سے ہم رشتگی ہے سنگیت سے پیار ہے۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیے کہ سر اور سرگم سے عالی جی نے جو رشتہ جوڑا ہے وہ کیسا دل پذیر ہے۔ انہوں نے پڑھنے والوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ عالی کے دوہوں کی لفظیات ان کی پیش کردہ بلکہ وضع کردہ اصطلاحوں پر غور ضرور کریں۔ سنگیت اور سر سے عالی جی کا کیا رشتہ ہے آپ ان چند دوہوں سے بھی محسوس کر سکتے ہیں:

چھنن چھنن خود باجے مجیرا آپ مر لیا گائے

ہائے یہ کیا سنگیت ہے جو بن گائک ابھرا جائے

 

مجھ میں کچھ سر کھوئے ہوئے ہیں وہی لگائیں آگ

نا یہ پہاڑی نا بھٹیالی یہ ہے دوہا راگ

 

سر اور شبد اور دھیان کی اگنی شعلے جن کے لاکھ

خسرو پر جو جلیں پتنگے عالی ان کی راکھ

 

چھم چھم چھم چھم برسیں کرنیں پون پکھا وج تھاپ

تم ہی کہو اب ایسے سمے میں کیا پن اور کیا پاپ

دوسری طرف زندگی کے بارے میں اس سے زیادہ بہتر انداز میں بات نہیں کی جا سکتی:

ایک ہی دھن یوں تھرائی ہے سوتے دکھ گئے جاگ

ایک ہی لے یوں لہرائی ہے جیسے ناچیں ناگ

 

دھندلی دھندلی کہر کے پیچھے کرنوں کی جھنکار

اتھلا جل اور گہری کائی ناچیں ہار سنگھار

 

ایک ایک تال کھرچ لے من کو اک اک سر پر پیاس

اک اک مر کی بدن جلائے جیسے آگ پہ گھاس

 

گت میں چندن باس کا جھونکا توڑ میں کندن روپ

نیچے سر میں چھاؤں بھری ہے اونچے سر میں دھوپ

 

سات سروں کے سات ستارے سات ہی جن کے رنگ

سب جھلکیں اک سرگم میں پر اپنے اپنے ڈھنگ

 

جا کوئی کہہ دے عالی سے بس گائے جی بہلائے

جو سنگیت کا بھید کریدے خود بے سر ہو جائے

اب ایک اور پہلو جو دوہا نگاروں میں صرف عالی جی کے یہاں نظر آئے گا جو ان کی جدت یا بدعت کہی جاتی ہے وہ ہے کسی مضمون پر مسلسل دوہے کہنا، مثلاً انہوں نے الجیریا بانی کے عنوان سے مسلسل دوہے کہے ہیں اور آگے جا کر تو وہ اس سے بھی بڑھ گئے اور پاکستان کے دیہات اور وہاں کے حالات پر مسلسل اٹھارہ برس تک دوہے کہے۔ اس کی بھی مثالیں ملاحظہ فرمائیے ان سے آپ کو وہاں کی ثقافت، طرز زندگی اور رہن سہن کا اندازہ ہو گا نیز یہ کہ وہاں کیسے کیسے مسائل اور مصائب موجود ہیں:

آلہا او دل گانے والے پیادے سے کترائیں

ہل کا بوجھ اٹھانے والے ڈنڈے سے دب جائیں

 

بھوکی آنکھ سے بیٹا دیکھے خالی پیٹ ہو باپ

ساوتری ماں بیٹی لاج سے روز کرائے پاپ

 

کھیت کٹا تو لے گئے ٹھاکر، منشی، ساہوکار

گھر پہنچے تو بھوکی بہو اک برچھی سی دے مار

 

اے بھین اس دھرتی ماں کی کوکھ میں سب کا ناج

اے بھین اس دھرتی ماں پر ایک کرے کیوں راج

 

اے بھین ترا جھلسا چہرہ ان کے رنگ بڑھائے

اے بھین تری اپنی عورت دوجے کے گھر جائے

 

کس کس ماں کی کوکھ جلے کس کس دلہن کا سہاگ

ایک پرانی چنگاری سے کب تک جلے گی آگ

دوہوں میں تو یوں بھی فلسفیانہ مضامین شامل ہونے کی روایت رہی ہے جس کی بہت نمایاں مثالیں کبیر داس اور میرا بائی کے یہاں موجود ہیں۔ عالی جی کے یہاں بھی ایسے بہت سے کاٹ دار دوہے موجود ہیں جن کو پڑھ اور سن کر کلیجہ جل کر رہ جاتا ہے۔

جنتا راج بھی راجہ جیسا اصل سمجھ نہ پائے

جو آنکھوں کی سوئیاں نکالے وہی رانی بن جائے

 

سینے کھولیں رگ رگ چھیڑیں لاکھوں ماہر وید

من کیا کہوے اور کیوں کہوے کھلتا نہیں یہ بھید

 

تم مجبور نہ تھے اچھا تھی جیون دکھ میں اٹھاؤں

یہ اچھا بھی تو ہو سکتی تھی جگ میں ہی نہ آؤں

 

اپنی مرضی بنا عالی یوں جیون بن میں آئے

جیسے کوئی جگنو ابھر کر بن چمکے بجھ جائے

 

قلم کو دیکھو جب مرے دل میں اس کی شکایت آئی

تڑخ کے بولا ہم نہ لکھیں گے اس کی کوئی برائی

 

ہاں یہ کہانی ہوئی پرانی مری جوانی جائے

اتنے دن تو جیوں کہ گوری تجھ پہ جوانی آئے

مندرجہ بالا دوہے تو صرف چند مثالیں ہیں لیکن عالی صاحب نے بڑی تعداد میں دوہے لکھے ہیں اور ہندوستان پاکستان میں ان کو پڑھنے والے اور پسند کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن جتنے اہل نظر نقادوں کے نام میں نے مضمون کے آغاز میں پیش کیے اب ان سب کی متفقہ رائے بلکہ متفقہ فیصلہ میں آپ کے لیے پیش کرنا چاہتی ہوں۔ تمام تر تجزیوں اور تقابلی مطالعات کے بعد ان کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ ’’آج ہندوستان پاکستان میں عالی سے بڑا دوہا نگار کوئی نہیں ہے۔‘‘

                ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘

 

عالی صاحب کی قومی اور ملی شاعری کا ایک مختصر سا مجموعہ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ کے نام سے 1974ء میں شائع ہوا۔ مختصر میں نے اس لیے کہا کہ ضخامت کے لحاظ سے یہ کتاب ان کی دوسری کتابوں کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پاکستان میں ان کا سب سے زیادہ مقبول کلام ہے بلکہ بعض چیزیں تو دوہوں سے بھی زیادہ مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ قومی یک جہتی اور حب الوطنی کے جذبوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عالی جی نے اپنے بہت سال ان ملی نغموں پر صرف کیے ہیں اور ان کی یہ شعوری کوشش رہی ہے کہ ملکی یک جہتی اور حب الوطنی کا جذبہ آنے والی نسلوں میں بھی پیدا کیا جا سکے۔

ان کا ایک گیت تو مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ گیا اور بالاتفاق پاکستانی قومی ترانے کے بعد اسی کا نام لیا جاتا ہے اور قومی نغمے کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے وہ ہے ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ اس گیت کے متعلق اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں ہے کہ ہر پاکستانی گھر میں متعارف ہے اور اکثر پوری کلاس کی کلاس اور مجمع کا مجمع اسے اس کی معروف دھن میں ہی گاتا ہے اور علامہ اقبال کے قومی کلام کی طرح یہ بھی بے شمار گھروں میں ایک ثقافتی لازمہ بن چکا ہے۔ اس بات پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے کہ پچھلے ساٹھ برسوں میں اتنا خوبصورت نغمہ نہیں لکھا گیا۔ بیرونی ممالک میں تو یہ قومی ترانے کی طرح تقریب کے آغاز یا اختتام پر لازمی گایا جاتا ہے۔ اس نغمے سے متعلق ایک واقعہ بھی میں ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتی ہوں کہ ایک مرتبہ 14 اگست کے پروگرام کے دوران اسلام آباد میں شدید بارش شروع ہو گئی اور شرکا منتشر ہونے لگے تو اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے دلی جذبے اور جوش کے ساتھ یہ نغمہ گانا شروع کیا دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں کہ منتشر مجمع ایک لمحے میں یکجا ہو کر محترمہ کے ساتھ اسی جوش سے یہ نغمہ گا رہا تھا لیکن یہ بھی بتاتی چلوں کہ اس سے قبل ان کا ایک اور نغمہ لازوال شہرت حاصل کر چکا ہے جسے ریڈیو سے ایک دن میں پانچ بار تو ہم نے خود بھی سنا ہے اور وہ ہے ’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ یہ نغمہ عالی نے 1965ء میں ہندوستان پاکستان کی جنگ کے دوران لکھا تھا اور اسے مادام نور جہاں نے اپنی خوبصورت آواز میں امر کر دیا۔

عالی صاحب کی تمام قومی یا ملی شاعری صرف فوجی شاعری پر مشتمل نہیں ہے بلکہ ان کے ان نغموں میں ایک ملک کی شان اور آن بھی نظر آتی ہے۔ وہ جذبہ محبت اور خلوص چمکتا نظر آتا ہے جو عالی صاحب پاکستان کے حوالے سے اپنے دل میں رکھتے ہیں اور اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔

دین زمین سمندر دریا صحرا کوہستان

سب کے لیے سب کچھ ہے اس میں یہ ہے پاکستان

یا

یہ وطن میرا وطن ایمان والوں کا وطن

ایک خاص مسئلہ پر عالی صاحب نے نہایت پر اثر انداز میں لوگوں کو پاکستان کا مطلب اور اس کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی گو کہ یہ ایک بہت نازک وقت تھا لیکن عالی صاحب نے اپنے قلم سے تلوار کا کام لیا اور کہا’’پاکستان کو سمجھو لوگو پاکستان خدا کا ہے‘‘ اسی طرح اور بھی کئی گیت ایسے ہیں جو اپنے معانی و مطالب کی بنیاد پر لوگوں میں مقبول ہوئے اور انہیں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔

میری نظر میں عالی صاحب مذہبی آدمی اور مذہبی شاعر بالکل نہیں ہیں لیکن آپ اسے اتفاق کہیں یا ان کی خوش قسمتی کہیں کہ پاکستان کی مذہبی شاعری میں انہی کی ایک نظم (کلاسیکل لکھنے والے بزرگوں کے بعد) سب سے زیادہ مقبول اور خوبصورت مانی جاتی ہے اور ان گنت مواقع پر سنائی اور جہاں ممکن ہو گائی جاتی ہے۔ آپ کے بھی یقیناً ذہن میں ہو گی۔

ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں

ہم مصطفویؐ مصطفویؐ مصطفویؐ ہیں

دین ہمارا دین مکمل استعمار ہے باطل ارزل

خیر ہے جدوجہد مسلسل

عند اللہ عند اللہ اللہ

اکبر اللہ اکبر

اس کی تفصیل یا یوں کہیے کہ شان نزول بھی میں آپ کو بتاتی چلوں کہ 1974ء میں جب وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی کوشش سے اسلامی سربراہی کانفرنس کا دوسرا اجلاس لاہور میں منعقد ہونا قرار پایا (پہلا رباط میں ہوا تھا) تو منتظمین نے یہ طے کیا کہ اس موقع پر کانفرنس کا ایک نغمہ بھی تیار ہونا چاہیے اس سلسلے میں بھٹو صاحب نے عربی اور فارسی سے واقف کچھ اردو دانوں کی ایک کمیٹی بنا دی جس کا کام یہ تھا کہ کانفرنس میں شریک تمام ممالک اپنی اپنی زبانوں میں نغمے تیار کر کے یہاں بھیجیں تاکہ ان کو ریکارڈ کر کے عام کر دیا جائے۔ لیکن بوجوہ پاکستانی نغمے کا انتخاب نہ ہو سکا اور جب کسی متفقہ فیصلہ تک نہ پہنچا جا سکا اور کانفرنس قریب آنے لگی تو بھٹو صاحب نے عالی جی کو بلوایا اور ان سے فرمائش کی کہ وہ اس کام کو پورا کریں۔ چنانچہ عالی صاحب نے نہ صرف یہ نغمہ لکھا بلکہ اس کی دھن بھی خود بنائی (جس کا انہیں ہمیشہ سے شوق رہا ہے بلکہ انہوں نے اکثر نغموں کی دھنیں ترتیب دی ہیں لیکن بحیثیت موسیقار اپنا نام کبھی ریکارڈ پر آنے نہیں دیا) یہ نغمہ کمیٹی میں پیش ہوا اور منظور ہو گیا اسے مہدی ظہیر نے گایا اور ریکارڈ پر موسیقار سہیل رعنا کا نام درج ہے۔

جمیل الدین عالی نے اپنی شدت احساس کے تحت کچھ کلام خاص واقعات سے متعلق بھی لکھا ہے جنہیں آپ ’’برننگ ایشوز‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ ان کا ایسا کلام تو جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتا تھا اور آج بھی وہ کتابوں میں (بلکہ کئی اور زبانوں میں ترجمہ کر کے) محفوظ ہے۔ مثلاً جب 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور نوے ہزار فوجی بھارت میں قید ہو کر رہ گئے جس کا ہر پاکستانی کو دلی صدمہ تھا۔ عالی صاحب نے ان سب کی بھی عکاسی کی جب انہوں نے یہ نغمہ لکھا:

اے دیس کی ہواؤ

سرحد کے پار جاؤ

اور ان کو چھو کے آؤ

یہ نغمہ ہر حساس شخص کی سماعتوں سے ہوتا ہوا اس کے دل تک پہنچ جاتا تھا اور اس کی تصویر آنکھوں کے راستے ٹپکتی نظر آتی تھی۔ گھروں میں ریڈیو پر یہ نغمہ دن میں پانچ چھ بار سنا جاتا اور آنسوؤں کا نذرانہ اپنے فوجی بھائیوں کو پیش کیا جاتا اور پھر جب حالات بدلے اور قیدیوں کی واپسی طے ہو گئی تو عالی صاحب نے ایک بار پھر اسی طرز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا:

اے دیس کی ہواؤ

خوشبو میں بس کے جاؤ

اور ان کو لے کے آؤ

یوں عالی صاحب کا یہ نغمہ بھی عام آدمی کے جذبات کا عکاس بن گیا اور اسے طربیہ نغمے کے طور پر گایا جانے لگا۔ اسی طرح پاک بحریہ پر بھی ان کا ایک نغمہ بہت مشہور ہوا اور اسے مارچ پاسٹ میں شامل کیا گیا دیگر افواج نے بھی جیوے پاکستان کے کچھ بند اپنے مارچ پاسٹ میں شامل کر رکھے ہیں۔ یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ عالی صاحب کے تمام نغموں کی دھنیں مشہور موسیقار سہیل رعنا کے علاوہ نیاز احمد نے بنائی ہیں۔ جب عالی صاحب کے قومی نغموں پر بات آتی ہے تو عالی صاحب کی شاعری اور ان دو عظیم موسیقاروں کی تخلیق کردہ دھنیں لازم و ملزوم ہی سمجھی جاتی ہیں۔ دراصل عالی صاحب کے تمام ملی نغموں میں جو مضامین پیش کیے گئے ہیں وہ پاکستان کی صفات کو بڑے ٹھوس طریقے سے سننے والوں اور پڑھنے والوں کے دلوں میں اتارتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچوں کے حوالے سے لکھا گیا ایک نغمہ جو پچاس برس سے زائد عرصے سے اسی طرح مقبول ہے اور موقع محل کے لحاظ سے اسکولوں میں، فلموں میں اور اب تو اشتہارات میں بھی اس کا استعمال کیا جانے لگا۔ آپ نے بھی سنا ہو گا خصوصاً اس وقت جب آپ بچے ہوں گے:

میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے

یہ علم کی ہیں جو روشنیاں میں ہر گھر میں لے جاؤں گا

تعلیم کا پرچم لہرا کر میں سرسید بن جاؤں گا

کیا فائدہ جو میں عمر گزاروں گھر میں اپنے پڑے پڑے

میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے

عالی صاحب کے حوالے سے اس امر پر دو رائیں نہیں ہیں کہ وہ پچھلے پینتالیس برسوں سے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہفتہ وار کالم لکھ رہے ہیں جن میں سیاست پر کم اور پاکستانی معیشت، مالیات اور سماجیات پر بڑا بیش قیمت مواد فراہم کرتے رہے ہیں۔ اسی بیش قیمت مواد میں سے بہت کچھ شعری جمالیات کے ساتھ قومی نغموں میں بھی پیش کر دیا ہے، بحیثیت مجموعی ان قومی نغموں میں پاکستانی فکر کو کبھی بھی رجائی سطح سے نیچے نہیں گرنے دیا اگر آپ قومی یک جہتی کے حوالے سے ان کے نغموں پر نظر ڈالیں تو یہ احساس ہو گا کہ ان کی دلی خواہش اور کاوش یہ ہے کہ تمام پاکستانی مل جل کر رہیں اور ہر پاکستانی کی زبان پر وطن عزیز کا ہی ترانہ ہو:

یہ پاک سر زمین ہے یہ پاک سر زمین ہے

ہاں مجھ کو یقین ہے یہ پاک سر زمین ہے

دوسری طرف جب پاکستان چین دوستی کے ترانے کی ضرورت پیش آئی تو یوں گویا ہوئے:

پاک چین کے عوام مرحبا، انقلاب کے پیام مرحبا

پاچن یویی و ان سوئے، پاک چین دوستی زندہ باد

جمیل الدین عالی کے قومی نغمات کے حوالے سے میں یہ تو نہیں کہتی کہ ’’عالی کے قومی نغمات کا کسی اور شاعر کے نغمات سے موازنہ یا مقابلہ اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی دوسرے شاعر نے نہ تو وہ دکھ جھیلا کہ جو پاکستان کی تشکیل کے سلسلے میں عالی نے جھیلا اور نہ ہی دوسرا کوئی شاعر پاکستان کی محبت اور اس وطن کی خدمت میں اتنا شرابور نظر آتا ہے جیسا کہ عالی ہیں‘‘ (مقالہ برائے پی ایچ ڈی) لیکن میں اس حوالے سے اتنا ضرور کہوں گی اور پورے یقین کے ساتھ کہ پاکستان کے دوسرے قومی شعراء کی بڑی اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن ’’قومیات‘‘ میں مسلسل قبولیت کی وجہ سے آج عالی صاحب پاکستان کے مقبول ترین شاعر ہیں۔

 

                ’’انسان‘‘

دنیا کی ہر زبان میں لکھے جانے والے ادب کی ہر صنف میں وقت کے ساتھ کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ترامیم اور نئے تجربے ہوتے رہے ہیں۔ یہ دراصل اس زبان اور اس صنف کے ارتقاء کی دلیل ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ کچھ نئے تجربے وقت کی گرد میں دب گئے لیکن کچھ تاریخ کا حصہ بن گئے اور مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ کوئی شاعر اپنی روز مرہ ہلکی پھلکی شاعری کرتے کرتے اچانک کوئی ایسی چیز تخلیق کر گیا کہ جو تاریخ ادب کا حصہ بن کر شاعر کو امر کر گئی۔ ہمارے اردو ادب میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں اور میں موجود عہد سے بھی بہت سے نام گنا سکتی ہوں لیکن فی الوقت اپنے موضوع کے علاوہ کسی اور بحث میں پڑنا نہیں چاہتی بلکہ براہ راست عالی صاحب پر ہی گفتگو جاری رکھوں گی۔

عالی صاحب نے اپنی شاعری کے آغاز سے اب تک مختلف اصناف شعر میں طبع آزمائی کی (نظم، غزل، دوہا اور گیت) اور کمال کی شہرت حاصل کی۔ نہ صرف سننے کی حد تک بلکہ پڑھنے کی حد تک بھی لیکن اپنی سیماب صفتی کے باعث وہ ان تمام ذرائع اظہار سے پوری طرح مطمئن نہ تھے (وہی ایک خاص جملہ کہ کچھ ایسا کر جاؤں کہ مجھے میرے بعد یاد رکھا جائے۔ بہ قول سولن کہ آپ کے مرنے کے دس سال بعد آپ کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے) چنانچہ انہوں نے اپنے تخلیقی عمل کو ایک بڑے تجربے سے گزارا جس کا انہیں شاید یہ یقین بھی نہ ہو گا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ میرا اشارہ ان کے آج کے شاہکار اور لازوال کارنامہ شاعری ’’انسان‘‘ کی طرف ہے۔ یوں تو ان کے اس شاہکار کا آغاز1950ء میں ہوا تھا لیکن دوران تحریر بڑے طویل وقفے بھی آئے۔ (وجہ عالی صاحب کی مختلف النوع مصروفیات، مصائب، محاربے اور منتشر ہمہ صنفیت) بلکہ کئی مواقع پر تو یوں محسوس ہوا کہ بس یہاں ’’انسان‘‘ ختم لیکن جب تک دنیا قائم ہے انسان ارتقائی عمل سے گزرتا رہے گا سو ایسا ہی ہوا۔ یہ جو کتابی شکل میں انسان آپ کے سامنے ہے اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ ’’انسان‘‘ مکمل ہو گیا (عالی صاحب کا بھی خیال عدم تکمیل کے حق میں لگتا ہے) یوں بھی جو کتاب آپ کے سامنے ہے اس میں سے ’’بوجوہ‘‘ تین ہزار مصرعے ابھی الگ باندھ کے رکھ چھوڑے ہیں اور سات ہزار آٹھ سو مصرعوں پر مشتمل انسان بلا شبہ اردو شاعری میں ایک کارنامہ ہے جس میں عالی جی نے ادب، اخلاقیات، جمالیات، تاریخ، سائنس، فلسفہ، نفسیات اور مذاہب عالم جیسے موضوعات کمال مہارت کے ساتھ پیش کیے ہیں ان کے اس شاہکار پر یوں تو وقتاً فوقتاً بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے کیوں کہ ’’انسان‘‘ کے کچھ حصے مختلف رسائل، جرائد اور خود ان کے شعری مجموعوں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اب ’’انسان‘‘ کتابی شکل میں آیا تو ہمیں بڑے مشاہیر ادب کی تحریریں تقابل کو ملیں۔ میری ناچیز رائے میں یہ طویل نظمیہ پوری اردو شاعری میں ایک نمایاں اضافہ ہے۔ خصوصاً عالی صاحب کے قلم سے کہ مجھ سے بہتر آپ ان کے مزاج، ان کی مصروفیات اور ذمہ داریوں سے واقف ہیں۔ عالی صاحب کا یہ ’’انسان‘‘ ان کے بقول ان کا آخری شعری مجموعہ ہے (خدا نہ کرے) لیکن یہ ایک طرح سے ان کی نظمیہ شاعری کی ابتدا بھی ہے جس میں مختلف ادوار اور رنگ بدلتے رہے ہیں۔ یہ کل بتیس ابواب پر مشتمل ہے جو مختلف عنوانات سے سجائے گئے ہیں۔

’’انسان‘‘ کی کہانی عجیب سی لیکن کافی مختصر ہے اس کا اہم کردار ایک نوجوان۔۔۔ جمالی۔۔۔ اپنی محبوبہ کے مر جانے پر المیہ کلام شروع کر دیتا ہے (دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی محبوبہ پورے نظمیہ میں کہیں نہیں آتی کیوں کہ وہ مر چکی ہے لیکن پہلے باب میں تھوڑی دیر کے لیے ہیولہ بن کر آتی ہے) جو بہت جلد موت و حیات و کائنات کے مطابق سوالات میں بدل جاتا ہے۔ جیسا کہ خود عالی صاحب نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے کہ نہ وہ کہانی طے کر سکے نہ تسلسل کے ساتھ لکھ سکے۔ اس کی ابتدا کے وقت ان کی عمر تقریباً چوبیس سال تھی لیکن اس کے پہلے باب سے ہی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے گہری سوچ کے شائق اور عادی ہیں۔ ہوا یہ کہ وہ اپنی نوکری سے متعلق ٹریڈ یونین ازم اور نو عمری میں شادی کی وجہ سے اور بعد ہجرت جو کچھ بھی چند برس تک مہاجروں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ پیش آتا رہا ان کے سبب اس ارتکاز کے اہل ہی نہ رہے جو بڑی تخلیقات کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ پھر کچھ ہی عرصے میں اپنے دوہوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اپنی کم عمری کی شہرت کے باعث غزل تک سے دور ہو گئے۔ ان کی زندگی کبھی یک سمتی نہیں رہی وہ بہ یک وقت بیسیوں باتوں میں دلچسپی لیتے اور مصروف رہے ہیں (عملی طور پر بھی) حالانکہ یقیناً شاعری ہر وقت ان کے اندر رہتی ہو گی کیونکہ میں یہ جانتی ہوں کہ آخری تجزیے میں ان کا مزاج ہی شاعرانہ ہے۔

صرف شاعری پر ارتکاز نہ کرنے میں ان کے مزاج کو بڑا دخل ہے کہ وہ کبھی بھی یک سوئی سے کوئی ایک کام شاید ہی کرتے ہوں مگر ان کی ہمہ سمتی نے جس کے ساتھ انہوں نے اپنے تجربے اور مشاہدے کی ایک ایسی دولت جمع کر دی ہے جسے میں ایک طرح ان کا حاصل عمل قرار دیتی ہوں اس نظمیہ پر بدلتے ہوئے آگے بڑھتے اور ہزاروں عجائب سے معمور وقت کا بھی بہت اثر ہوا جس نے چند چند برسوں کے وقفوں کے بعد ان سے اس نظمیہ کے لیے شعر کہلوائے۔ وہ بڑی چھوٹی نظموں کی صورت میں بھی آتے رہے جن میں اکثر کا بظاہر نظمیہ کے کسی بنیادی خیال سے کوئی راست تعلق نظر نہیں آتا مگر دو تین بار روانی سے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی کی چھوٹی بڑی کڑیاں ہیں۔ فارم کے لحاظ سے انسان مختلف نظموں اور بحروں میں بٹا ہوا ایک آبشار ہے، میں سمجھتی ہوں کہ اتنی زیادہ فکری اور بحری ورائٹی کا کوئی ایک ہی مجموعہ اردو ادب میں کم کم ملے گا لیکن سچ یہ ہے کہ فارم بہ ذات خود کوئی بڑی بات نہیں دیکھنا یہ ہے کہ لکھنے والے نے لکھا کیا ہے۔ اب جونہی یہ دیکھنے پر آئیں کہ لکھنے والے نے کیا لکھا ہے تو اس کے بیان میں مجھ جیسا ایک عام قاری اول اول تو سخت عجز بیان کا شکار ہو جاتا ہے کیوں کہ اس میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور بعض حصوں میں نہایت اختصار کے ساتھ اتنا کچھ کہا گیا ہے کہ اسی کا بیان بڑے بڑے افق کھول دیتا ہے۔

عالی جی سے پہلے بھی طویل نظموں کے مصنفین تعداد میں زیادہ نہ سہی لیکن معیار کے لحاظ سے بہت اعلیٰ گزرے ہیں۔ وہ جوش صاحب ہوں علی اختر حیدر آبادی ہوں یا علی سردار جعفری اور اختر الایمان ہوں اور بھی یقیناً ہوں گے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام بڑے شعرا ہیں۔ جوش اور علی سردار جعفری کی نظمیں تو خاصی طویل بھی ہیں وہ بہ طور خاص قابل ذکر ہیں اور ان کے اندر بے شمار مسائل حیات زیر غور آئے ہیں۔ حیات، کائنات، وجود، انسان، خدا اور ان کے باہمی روابط کسی نہ کسی انداز سے زیر حوالہ یا زیر گفتگو آئے ہیں اور ذہن کو دور دور لے جاتے ہیں (خاکم بدہن تسلی بخش جواب کہیں نہیں ملتا) ہر سوال کا جواب بلکہ بہت سے سوالوں کا جواب تو عالی صاحب بھی تلاش نہ کر سکے (ایسا شاید کبھی ہو بھی نہیں سکے گا) اور انہوں نے کہیں بالواسطہ اور کہیں بلا واسطہ انسان کے انسانی متضاد مثبت و منفی تعمیری اور تخریبی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ جن کے نقوش اور عمل رد عمل نے انسان کو آج اس ارتقائی حالت پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ ہے۔ بصد ادب یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ مجھے اس کا سبب جوش صاحب اور علی سردار جعفری کے مقابلے میں عالی جی کی فکری گہرائی اور وسعت مطالعہ محسوس ہوتا ہے۔ علی سردار جعفری کی نظم ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ کا موضوع، زبان و بیان سب انسانی نقطہ نظر سے بہت قابل قدر ہے لیکن آپس میں گڈ مڈ نظر آتا ہے اور عالی صاحب کی جیسی فکریات سے تو اس کا بہت کم واسطہ ہے۔

آج سے تقریباً تین سال قبل ایک ا ور طویل نظم نے بھی منظر عام پر آ کر ادب کی دنیا میں ہلچل مچائی تھی اور وہ تھی ’’آئینہ در آئینہ‘‘ جو حمایت علی شاعر صاحب کی منظوم خود نوشت سوانح حیات ہے۔ یہ ایک بڑا باکمال فن پارہ ہے اور اس میں پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کے سامان بھی موجود ہیں لیکن چونکہ یہ ’’خود نوشت سوانح حیات‘‘ ہے اس لیے اس کے موضوعات اور فکریات مختلف ہیں۔

بات یہ ہے کہ عالی جی کا نظمیہ حرف و لفظ کے لحاظ سے سادہ لگے تو لگے لیکن وہ ایسا ہے نہیں بلکہ بہت ہی فکر انگیز اور بہت ہی پرکار ہے جو پڑھنے والے کو خاصی گہرائی کے ساتھ سوچے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھنے دیتا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جوش صاحب کی نظم پوری شائع نہیں ہو سکی ورنہ ان کا اصل متن سامنے آ جاتا لیکن جتنا کچھ بھی شائع ہو چکا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے انتہائی بلند و بانگ ڈکشن کے باعث کہ جس سے ڈر کر بعض اوقات بڑی اہمیت رکھنے والے معانی بھی سہم کر ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اردو ادب میں اس عنوان سے اپنی اولیت قائم کر چکے ہیں بلکہ مجھے تو یہ امید بھی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایک دن کسی محقق کی محنت سے یہ ادھوری کتاب شائع ہو کر منظر عام پر آ جائے گی اور نہ صرف اردو دانوں بلکہ پورے اردو ادب کو سرشار کر دے گی۔

علی سردار جعفری کی نظم اپنے فوری مقاصد پورے کر چکی ہے۔ یہ آزادی کے فوراً بعد یا اس کے قریب قریب ہندوستان میں ابھرتی ہوئی کمیونسٹ اور آزادی پسند قوتوں کی ہمت افزائی کے لیے لکھی گئی تھی۔ اس کی نوعیت خاص سیاسی تھی اور اس نے اپنا کام پورا کیا مگر اس کے بعد کیا ہوا وہ بھی ایک مکمل سیاسی کہانی ہے جسے میں اس وقت چھیڑنا نہیں چاہتی۔ لیکن اگر مقابلہ کیا جائے تو پاکستان کو اس کے برابر نمبر نہیں ملیں گے خیر یہ سیاسی مسائل ہیں۔

’’انسان‘‘ کی زبان ابتدا ڈرامائی پھر استعاراتی ہے اس کی کہانی کل پانچ کرداروں پر مشتمل ہے جو کبھی خود کلامی اور کبھی باہمی مکالمے کے ذریعے آگے بڑھتی ہے بعض مقامات اور چند ہیولوں کے مکالمے سو سے زائد مصرعوں پر جاتے ہیں اور پچاسیوں سوالات و جوابات کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ بنیادی طور پر آج دنیا تکوین آدم سے متعلق دو نظریات سے جڑی ہوئی ہے ایک نظریہ مذہبی صحیفوں اور آسمانی کہی جانے والی دستاویزات سے وابستہ ہے جن کی رو سے انسان کو ابتدا سے ہی یہی شکل و صورت عطا ہوئی ہے جس میں وہ آج موجود ہے مذہب کے حوالے سے ہی اسے احسن الخلق اور اسفل السافلین کے لقب دیے گئے تکوین آدم کا دوسرا رخ ارتقائیوں نے بہ صدارت جرمن اسکالر ڈارون پیش کیا وہ یہ کہ انسان جیسا آج ہے وہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا بلکہ لاکھوں برسوں میں ارتقا کی مختلف منزلوں سے گزرا ہے اور اس نے کئی جانوروں کی صورتیں بھی اختیار کی ہیں یہاں تک کہ اس نے بندر کی صورت بھی اختیار کی جو انسان بننے سے پہلے کی منزل کہی جا سکتی ہے۔ اس نظریے کے حامل لوگ خدا کو نہیں مانتے حالانکہ میری ناچیز رائے میں ایک محتاط ارتقائی نظریہ حدود خداوندی کی نفی نہیں کرتا۔ خود عالی جی نے کہہ رکھا ہے:

اگر اب بھی تحقیق و تفتیش کا سلسلہ ہے

تو پھر ارتقا آپ ہی کہہ رہا ہے

کہ اس کا بھی مخزن خدا ہے

خدا ارتقا ہے

اور اس سے سوا ہے

اور اس سے سوا کیا ہے

وہ

وہ خدا ہے

برسبیل تذکرہ عرض کرتی چلوں کہ پورا نظریہ ارتقا خالصتاً ڈارون سے غلط منسوب کیا جاتا ہے ڈارون مغربی اسکالر تھا اور تا حال یہ ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ اس کا مشرقی ادبیات سے بھی کوئی خاص تعلق تھا۔ اس کا نظریہ اس کی جینئس (جی نی اس) کے ساتھ ساتھ اس کے ایک پنج سالہ سمندری سفر کے مشاہدوں اور تجربوں کا مرہون منت ہے اس کے بعد اس نے بیٹھ کر اپنے علم اور مشاہدات کی روشنی میں خوب غور و فکر کیا اور ا س نتیجے پر پہنچا لیکن شاید اسے یہ نہیں معلوم ہو گا کہ اس سے بہت پہلے پیدا ہو کر وفات پا جانے والے ایک شاعر بیدل عظیم آبادی نے یہ شعر کہا تھا:

ہیچ شکی بے ہیولی قابل صورت نہ شد

آدمی ہم پیش ازاں کا دم شدہ بوزینہ بود

یہ بات یہاں اس لیے زیر گفتگو آ گئی کہ میں نے انسان پر کام کرنے کے دوران عالی صاحب کا ’’اصلی مذہب‘‘ جاننا ضروری سمجھا کیوں کہ انسان کے کئی مقامات پر ان کے سوالات دہریت پر بھی سوچ بچار کی دعوت دیتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے انہیں کلمہ گو پایا (وہ کئی عمرے اور 1974ء میں حج بھی کر چکے ہیں جو کسی کے مجبور کرنے پر نہیں کیے جا سکتے) ’’انسان‘‘ کی ابتدا میں ہی انہوں نے دنیا کے تمام بانیان مذاہب کی خدمت میں علیحدہ علیحدہ اظہار عقیدت بھی کیا ہے اور اعلیٰ ناموں کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ بھی لکھا ہے اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور نظم جو قوت الاسلامیہ لاہور 1974ء میں اختیار کی گئی تھی اور آج بھی مقبول و معروف ہے۔ اسلام سے ان کی ایمانی دل بستگی کا زندہ ثبوت ہے۔ ’’ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفویؐ مصطفویؐ مصطفویؐ ہیں‘‘ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ میں خاصی تحقیق کے بعد انہیں ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے علاوہ کچھ اور نہیں کہہ سکتی۔ ’’انسان‘‘ میں بھی انہوں نے کسی عنوان وجود خداوندی کا انکار نہیں کیا ایک اتنے اہم اور پھیلے ہوئے شاعر کے متعلق اس کے عقائد کے متعلق کچھ نہ کچھ جان لینا میرے لیے بہت ضروری تھا کیوں کہ ہر مصنف کی تحریر میں خواہ وہ شاعر ہو یا نثر نگار اس کے عقائد پرت در پرت آتے رہتے ہیں۔

دراصل عالی جی ایک مسلسل سوچنے والے آدمی ہیں اور میں نے دیکھا کہ ان کی یہ مسلل سوچ ’’اختیاری نہیں بلکہ ان کی مجبوری ہے‘‘ اور ایک مسلسل سوچ کا آدمی نہ تو حیات اور کائنات نہ زندگی نہ خدا اور نہ بندے کے بارے میں اس تسلسل کا راستہ بند کر سکتا ہے۔

سب اچھے اور بڑے شعرا میں ’’انسان‘‘ کا مستقبل روشن بتایا جاتا ہے گو اس امید میں بنیادی عنصر سیاسی رجائیت ہے۔ یہ عالی صاحب کے یہاں بھی ہے لیکن اس سے کہیں آگے جا کر ان کا ایک حیرت انگیز یقین نہایت پختہ ایمان بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا ایک مسحور کن گمان بھی کھلے انداز میں ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ انسان سب کو مسخر کر لے گا۔ ان کے کردار ایک دوسرے پر اس عمل کی تلقین بھی کرتے ہیں اور امید تو صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ انسان سب پر غالب ہو گا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ نظمیہ کے بالکل آخری باب کے اواخر میں ان کی نظم ’’تہجی‘‘ میں یہ مصرعے بھی آتے ہیں۔

مجھے تو چند صدیاں دے ہی دے جن میں مجھے جتنے بھی حرف و لفظ آ جائیں

انہی سے ایک زباں، تعبیر ہو کون و مکاں اپنی بنانی ہے۔۔۔

یہ صدیاں تو الف بے ہیں

اس کا مقام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں کہ مجھ کو (انسان کو) بہت کم وقت ملا ہے اور جو ملا ہے وہ ’’تہجی‘‘ یعنی ابتدا کے برابر ہے۔ اس لیے اتنا وقت ملنا چاہیے کہ وہ حیات و کائنات اور اپنے فرائض کو سمجھ سکے (یہ ایک عجیب و غریب نظم ہے بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ’’اس موضوع پر اردو میں ایسی کوئی دوسری نظم نہیں‘‘ )اس دعا کے جواب میں کہیں سے درج ذیل مصرعے آتے ہیں:

تمہیں چھ سات سو صدیاں بھی مل جائیں تو کیا ہو گا

یہی کچھ ماجرا ہو گا

یہی ہے نا کہ جواب ہے ذرا اس سے سوا ہو گا

مگر گزری ہوئی سب منزلیں خود ہی بتاتی ہیں

اگر مڑ جاؤ اور پھر آؤ تو اک اک راہ کے ہر ذرے پر لکھا دکھاتی ہیں

کہ جتنے مرحلے طے کرتے جاؤ سامنے اک مرحلہ ہو گا

جیسا کہ عرض کیا نظمیہ میں حیات و کائنات سے متعلق تقریباً سبھی نئے پرانے استعارے استعمال کیے گئے۔ کائنات اور حیات، وقت، بندہ، خالق، ذات و صفات، وجدان و عقل، قدیم و حاضر، اختیار و جنگ، قضا و جبر اور سزا و جزا وغیرہ مگر اس طرح کہ وہ خود کسی بحث میں کہیں نہیں پھنستے کیوں کہ وہ ان مباحث کے معاملے میں اپنے قابل تعریف علم و فکر کے باعث پورے پورے روشن ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے چند وہ سوالات بھی اٹھائے یا ایجاد کیے ہیں جو اردو ادب کی تاریخ میں تو کہیں نظر نہیں آتے یا شاید باید کہیں ہوں۔

مثلاً یہ کہ انسان کی تیسری آنکھ بھی ہونی چاہیے۔ کیوں کہ یہ انسان کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے پیچھے بھی دیکھ سکے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے کروڑ دو کروڑ برس کا ارتقائی عمل انسان کی تیسری آنکھ بھی پیدا کر دے۔ پھر ایک اور بات اور وہ یہ کہ انسانی فضلے کے موجودہ طریقہ اخراج پر انہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ان کے خیال میں کسی اشرف المخلوقات کا چوبیس گھنٹے میں ایک بار ہی سہی اس طریقہ اخراج میں مبتلا ہونا کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اس اخراج کا کوئی اور طریقہ ہونا چاہیے تھا بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ذرا تصور کیجئے کہ ایک اعلیٰ درجے کی حسینہ کو اس عمل سے گزرتے ہوئے۔ بہ ظاہر یہ ایک بیہودہ مگر کیسا عجیب خیال ہے۔

عالی جی اس بات پر بھی متعجب ہیں کہ انسانوں کی تشکیل بے شمار جانوروں کی تشکیل کی طرح ہی لگتی ہے۔ وہی ایک ناک، دو آنکھیں، دو کان۔ یہ سب کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟ ایک خاصا خطرناک سوال جو انہوں نے اٹھایا آپ بھی ملاحظہ کیجئے انہی کے الفاظ ہیں:

یہ کوئی ارتقا کا فارمولا ہے

یہ خدا کی کوئی ادائے اتفاقی ہے کہ دانستہ یہ پیچیدہ تحیر خیز منصوبہ ہے

یہ کیا ہے

سبھی میں، چند استثنا علاوہ سیکس کا بھی ایک ہی جیسا طریقہ ہے

یہ کیا ہے

نظام جسم انساں کا جو اتنا مشکل اور حیرت فزا ہے

لیکن آسانی سے چلتا ہے

سچ ہے گو کئی بیماریاں سرطان جیسی بے سبب کس طرح آتی ہیں

ہزاروں سال سے انسان میں جسمانی کوئی تبدیلی کوئی ارتقا محسوس اور ظاہر نہیں ہوتا

کوئی بندر کوئی گوریلا نامعلوم برسوں میں

کہیں انسان بنتا دیکھا جاتا تو کوئی ریکارڈ کر دیتا

مگر شاید ہوا ہی کچھ نہیں

تو کیا اب ارتقا بھی رک گیا ہے یا کہ اس کی سمت اور رفتار بدل گئی اور کم ہو گئی

اگر یوں ہے تو پھر اس کا سبب کیا ہے

میری آساں سوالی پر نہ جانا

خود بھی اس پر غور فرمانا

کہ انساں تو برابر احتیاطوں کو بڑی شدت سے بھی محسوس کرتا ہے

اصول ارتقا کی رو سے ان کو پورا ہونا چاہیے گو رفتہ رفتہ

مگر چھوڑو

عالی صاحب نے ایک پرانے معاملے ’’آزادی نسواں‘‘ کے حوالے سے دو خواتین کے مکالمے پر پورا ایک باب لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’’ایک طویل میدان جنگ‘‘ اور یہ باب ’’انسان‘‘ میں صفحہ نمبر379سے شروع ہو کر صفحہ نمبر398پر مکمل ہوتا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اب تک مرد نے عورت کو صرف جنس، گھر چلانے اور بچے پالنے والی ایک ماتحت شخصیت ہی گردانا ہے جو وقت کے دباؤ کے تحت یہی سب کرنے پر مجبور ہے۔ عالی صاحب کے علاوہ اردو کے بیشتر ادیبوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور چند ناول ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اہل قلم نے جب بھی عورت کے بارے میں گفتگو کی راست یا بالواسطہ اشارے کنایے میں ہی گفتگو کی شاعری میں تو صدیوں محبوبہ کو بھی مذکر بنا کر ہی مخاطب کیا جاتا رہا (فارسی میں تذکیر و تانیث نہیں)’’انسان‘‘ کے متذکرہ باب میں دو عورتوں کی تمام تر گفتگو پوری تہذیب اور آنے والے وقت کے حوالے سے بڑی ہی فکر انگیز ہے۔ عالی صاحب نے ’’ذہنولوجی‘‘ کی اصطلاح وضع کی اور اسے ٹیکنالوجی سے ملا کر حال و مستقبل کے بارے میں بڑے خوب صورت امکانات کی طرف رغبت دلائی ہے۔ انہوں نے کچھ سائنسی معاملات کو بھی چھیڑا ہے جن پر اگر ہمارے دوسرا شعراء اور علما کام کریں تو بڑا قیمتی ذخیرہ تیار ہو سکتا ہے، مثلاً یہ:

میں اس پر بھی پریشان ہو کہ یہ جو اینٹی میٹر ہے تو کیوں کیا کام کرتا ہے

ہمارے علم میں رہ کر ہمارے کام آخر کیوں نہیں آتا

مجھے یہ جستجو بھی ہے کہ یہ کوسمک شعاعیں کون سے مخزن سے آتی ہیں

اور انسانوں پہ بالآخر اثر انداز ہوتی ہیں تو وہ کیسے

کہو کہ اس طرح سے سوچنا اور جاننا ہم سب کا حق ہے یا نہیں ہے

کہو کہ شاعروں افسانے والوں تبصروں کے شائقوں میں اس کو بھی آمیز کرنا اب ضروری ہو گیا ہے یا نہیں

جو بحر اضطراب ذہن سے بچنے پر دخت زندگی یعنی تمنا جاگتے سوتے ستاتی ہے

ہمارے جسم کی اور نفسیاتی پرورش اور زندگی کس کس فضائی

اور خلائی عنصر معلوم و نامعلوم سے کس کس طرح بنتی بگڑتی ہے۔

ان کی فکریات میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا بھی اعتراف کر لیتے ہیں، مثلاً سائنس دانوں کی دریافت کی ہوئی ’’چار قوتوں‘‘ میں سے وہ کشش’’فورس‘‘ کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کہ وہ کیا ہے اور نہیں جان سکے۔ لیکن اس کو بیان کس طرح کیا ہے یہ اصل بات ہے۔ آپ اگر واقف ہونا چاہتے ہیں تو ’’انسان‘‘ کے آخری صفحے کا مطالعہ ضرور کریں۔

سائنس نے ان کے ذہن میں خاصی جگہ بنائی ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ اس لحاظ سے سائنسداں بالکل نہیں کہے جا سکتے کیوں کہ دوران تعلیم انہوں نے بحیثیت مضمون سائنس کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا لیکن پھر بھی کبھی کبھی انہیں سائنس کے بعض موضوعات سے گہری فکری دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔(ملاحظہ فرمائیے ’’انسان‘‘ صفحہ نمبر510)دراصل یہ سب ان کی فکر مسلسل اور علمیات پسندی کے شاخسانے ہیں، بقول خود ان کے۔۔۔۔

وہ یہ کہ مجھ کو بغیر پوچھے وجود تو دے دیا خدا نے

مگر اسے میں کبھی تو مانوں کبھی نہ مانوں تو یوں سمجھ لو کہ ارتقا نے

وجود کو بڑھنے اور دانش بڑھانے کی بھی صلاحیت دی

مگر جو دانش سوال کرتی ہے اس کے اکثر جواب اب تک ملے نہیں ہیں

مجھے نہیں علم آخرش مجھ پہ قرض و فرض حیات کیا ہے

سوائے مذہب وہاں بھی ہیں بے شمار مسلک بمعہ تصوف

کوئی تو بتلائے بات کیا ہے

’’انسان‘‘ پڑھتے پڑھتے مجھے یہ حیرت ہوئی کہ انہوں نے اپنے آپ پر کم عنوانات کے تحت الزام لگاتے ہوئے یہ الزام بھی لگا دیا کہ انسان میں انہوں نے ’’زنخوں‘‘ کا ذکر نہیں کیا (ملاحظہ کیجئے ’’انسان‘‘ صفحہ نمبر496)

ایک پورا باب ’’حسد‘‘ پر ہے۔ دراصل یہ ایک نظم ہے جو خود کلامی کی شکل میں پیش کر دی گئی ہے اس میں انسانی فطرت کے بے شمار پہلوؤں پر عالی صاحب کی گہری نظر کا اظہار ہے۔ ایک تھیوری ایسی پیش کی ہے جو بڑی سے بڑی تخلیقات میں نظر نہیں آتی وہ یہ کہ اب تک تاریخ عالم میں عورت کو کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ ’’لام بندی‘‘ کے عنوان کے تحت چند سطریں ملاحظہ فرمائیے:

مجموعی حیثیت سے عورت نے ساری صدیاں

بے انقلاب رہ کر یونہی گزار دی ہیں

بس اپنے دائروں میں با صد ہزار شکل

تہذیبوں کی نمو میں

کچھ ان کی الجھی سلجھی

زلفیں سنوار دی ہیں

اس کا علاج دو خواتین کے ایک طویل مکالمے میں عالمی سطح پر باہمی روابط سے جواب پہلے سے آسان تر ہو گئے ہیں۔ ایک نئی تحریک نسواں تجویز کرتے ہوئے جو اپنے مردوں کو (باپ، بیٹا، شوہر اور بھائی) جنگ کے خلاف کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ’’انسان‘‘ کا ایک نسوانی کردار معینہ اپنی دوست حسینہ کو اس کی محبت بھلا دینے کا مشورہ دیتی ہے تاکہ وہ بھی اس خلاف جنگ تحریک میں بھرپور حصہ لے سکے۔ یہ موضوع ’’انسان‘‘ میں دو ابواب یعنی باب نمبر20اور نمبر21 پر مشتمل ہے۔ جن کے عنوانات بالترتیب ’’لام بندی‘‘ اور’’ایک طویل میدان جنگ‘‘ ہیں۔ ایک اور سماجی عنوان کی عجیب سی بات انہوں نے خالصتاً انسان پر معترضانہ انداز میں کہی ہے۔ گو کہ کہنے والا کردار اصلاً ایک منفی کردار ہے آپ اگر تفصیل دیکھنا چاہیں تو ملاحظہ فرمائیں صفحہ نمبر361یہاں میں چند مصرعے درج کر رہی ہوں تاکہ آپ موضوع سے واقف ہو سکیں۔

اور بالجبر سے تو ہمیشہ ہی تخلیق ممکن نہ کرتے

کہ جبر ایک بنیادی حق کا بھی قائل ہے

اور ہر طرح سے بے اثر کر دیے جانے کا مستحق

اور یہ ہوتی ان جینیاتی قوانین میں لازمی

ایک شق جو بطون مظالم کو کر دیتی شق

مثلاً جو بھی مجبور کی جائے اس کا تو بیضہ ہی وقت عمل ذہن میں جبر پر

کیمیائی تعامل سے نطفے کو کر دیتا فق

ملاحظہ فرمایا آپ نے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس وقت کسی عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا جائے تو اس کے بدن کے متعلقہ حصوں میں فوراً ایسی کیمیائی تبدیلیاں آ جانی چاہئیں جو مرد کے نطقے کو مسترد کر سکیں۔ کیا یہ ایک سوچنے اور غور کرنے کا موضوع نہیں ہے۔ معلوم نہیں دنیائے طب اور دنیا میں رائے قائم کرانے والے کبھی اس بات کو زیر غور لائیں گے یا نہیں؟ قبول کریں گے یا نہیں اور اس امکان پر کچھ کام کریں گے تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے کچھ اقدامات کیے جا سکیں۔ یوں بھی دنیا میں رفتہ رفتہ مانع حمل دوائیں اور دیگر طریقے متعارف تو کرائے ہی جا رہے ہیں۔ یعنی ’’نا مطلوب ‘‘ یا غیر ضروری پیدائشوں پر کام ہو ہی رہا ہے۔

مجھے اندازہ ہے کہ میں ابھی تک ’’انسان‘‘ کے ساتھ انصاف نہیں کر سکی ہوں اور یہ بھی سچ ہے کہ یہ کوئی آسان کام بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ ’’انسان‘‘ میں صرف آفاقی، مابعد الطبیعیاتی، نفسیاتی اور وہ مسائل ہی نہیں ہیں جن کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے بلکہ بہ ظاہر بہت معمولی لیکن بباطن نہایت ظالمانہ سماجی مسائل کی طرف بھی اشارے کیے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آج دنیا میں اسی کروڑ آدمی بھوکے مرتے ہیں تو کیوں مرتے ہیں۔ یہ بجائے خود ایک عظیم بحث ہے۔ بہرحال عالی صاحب دنیا سے فاقے کی لعنت ختم ہو جانے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

میں تو اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ’’انسان‘‘ دراصل ایک ایسی کتاب ہے جسے سرسری طور پر پڑھنا ادب، ادبی جمالیات اور فکریات کے ساتھ بڑی زیادتی ہے اسے ’’پڑھنا‘‘ ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ اپنے گوناگوں اور نئے پرانے سوالات اور بعض پیچیدہ مباحث کے سبب یہ پورے طور پر اگلے کم از کم پانچ برس میں کہیں جا کر پڑھی جا سکے گی اور پھر زیر گفتگو (صحیح معنوں میں) آ سکے گی۔ ترجمے تو اس کے یقیناً ہونے ہی ہیں اور پھر اس کے اصل مقام کا تعین ہو سکے گا۔ ’’انسان‘‘ میں عالی صاحب نے بہت زیادہ تو نہیں لیکن کئی جگہ بحری تجربے بھی کیے ہیں لیکن فن عروض کے حوالے سے یہاں بات نہیں کرنا چاہتی بلکہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی کیوں کہ میں نے ’’انسان‘‘ کو ٹیکنیکل انداز سے دیکھا ہے نہ اس پر اس طرح بات کرنے کا حق رکھتی ہوں لیکن اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ جہاں جہاں یہ بحری تجربے ہوئے ہیں انہیں با آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی بات کو غلط یا درست صرف وہی قرار دے سکتا ہے جو فن عروض میں مہارت رکھتا ہو۔ عالی صاحب کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تعلیم پرورش اور تربیت دہلی میں ہوئی تھی اور ایک بڑے مستند اہل زبان خاندان (لوہارو) سے ان کا تعلق ہے۔تقریباً پینسٹھ برس سے وہ مسلسل لکھ رہے ہیں، متنوع لکھ رہے ہیں اور میرے علم کے مطابق کسی نے آج تک ان کی کسی تحریر میں صرفی یا نحوی غلطی کی نشان دہی نہیں کی۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ ان کی کسی ایسی غلطی کی نشان دہی کرنا بہ ذات خود اپنی جگہ بڑے دل گردے کا کام ہے۔

آخر میں ’’انسان‘‘ میں شامل ایک حیرت انگیز نظم ’’چھپکلی کا دماغ‘‘ کے حوالے سے چند جملے ملاحظہ کر لیجئے۔ ’’چھپکلی کا دماغ‘‘ میں عالی صاحب نے ماہرین طب کی اصطلاحات سے سند لیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اسے ’’ریپٹائلین کامپلیکس‘‘ (Reptilian Complex) کہتے ہیں (یہ شاید انسان کے دماغ کے سب سے نچلے حصے میں موجود ہے یہ اربوں برس پہلے گزرنے والے گوشت خور ظالم درندوں کی یادگار ہے) اور یہ جارحیت و سفلی مرکبات کا ایک جال ہے جس میں ظلم و بربریت اور جبر پلتے ہیں۔ عالی صاحب نے نہایت تفصیل سے اس کے نقصانات کی طرف توجہ دلائی ہے اس کے لیے آپ ’’انسان‘‘ کے صفحہ نمبر339اور 340کا ضرور مطالعہ کیجئے۔ میں صرف چند سطریں پیش کرتی ہوں جس سے آپ کو اس میں ارتقا کی کہانی کے ساتھ ساتھ اس کا مستقبل اور مستقبل کی خواہشات کے حوالے سے عالی صاحب کی وضاحت سے واقفیت ہو جائے گی۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ نظم جب بھی فرائد میں شائع ہوئی، آرٹ کے سنجیدہ طبقے نے بڑی سنجیدہ بحثیں منعقد کیں اور یہ نظم زیر گفتگو آتی رہی۔ آپ یہ مصرعے ملاحظہ فرمائیں:

خدا رحیم ہے وہ کیوں یہ چاہے گا اے جان

کہ تا ابد رہے انسان سے اس طرح منسلک شیطان

کہ اس پہ حاوی کبھی بھی نہ ہو سکے ایمان

وہ کیوں یہ چاہے گا آخر میں بھی ضرور گنہ گار چند بندے ہوں

جو بعد مرگ جہنم رسید کندے ہوں

اور آخر میں عالی صاحب کا یہ رنگ بھی ملاحظہ کیجئے:

بہت سے ایسے ہیں حضرت مسائل تفہیم

کہ جن میں ہے کبھی تخصیص اور کبھی تعمیم

ادراک علاج سبھی کا دعا خدا سے ہے

دراصل اپنا سبھی ماجرا خدا سے ہے

ہم التجا تو کریں گے کہ ختم ہو شیطان

وجود سے ہی بری اس کے ہو سکے انسان

اگر کرے گا تو یہ اس کی مہربانی ہے

نہیں تو پھر بھی ہمیں زندگی نبھانی ہے

’’انسان‘‘ کے حوالے سے مختصراً میں نے اپنے خیال کا اظہار کیا ہے لیکن پھر بھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ آپ خود جب انسان کا مطالعہ فرمائیں گے تو یقیناً آپ مجھ سے بہتر رائے قائم کریں گے۔ بہرحال اب تک تو یہ پوری تاریخ اردو میں ایک حیرت افزا اور فکر انگیز، بالکل نیا اضافہ لگ رہا ہے۔

 

                عالی جی کے تین شعری مجموعے

 

1۔ غزلیں دوہے گیت                  (شعری مجموعہ مطبوعہ10مئی 1957ء کراچی)

2۔ لا حاصل                    (شعری مجموعہ مطبوعہ ستمبر1974ء کراچی)

3۔ اے مرے دشت سخن            (شعری مجموعہ 1995ء)

 

آ کہیں تو ہو گی ملاقات اے چمن آرا

کہ میں بھی ہوں تری خوشبو کی طرح آوارا

 

یوں تو نہ رہ سکوں گا میں اے نگہ غلط خرام

یا کوئی منزل سکوں یا کوئی راہ بے مقام

 

مری نوائے محبت کبھی نہ پست نہ تیز

بس اک رچی ہوئی کیفیت الم انگیز

اور بات جب مطلعوں سے نکل کر شعر پر آ جائے تو صرف ایک شعر پیش کرتی ہوں جو ہندوستان اور پاکستان ہی نہیں تمام اردو دنیا میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے:

کچھ نہ تھا یاد بجز کار محبت اک عمر

وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے

عالی صاحب بظاہر ایک رجائی (المیاتی نہیں) شاعر لگتے ہیں لیکن ان کو غور سے اور بہت تفصیل کے ساتھ پڑھنے کے بعد یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ تمام تر سرشاریوں کے باوجود ان کے اندر دو بنیادی غم پرورش پا رہے ہیں جن کی بالکل کھلی کھلی وضاحت ان کے اشعار میں اور اب کچھ کرداروں کی زبان سے ان کی تا حال آخری کتاب ’’انسان‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ ان دو بنیادی غموں میں ایک تو وہی ہے جسے انہوں نے ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ میں ’’نشتر وجود‘‘ کے نام سے پکارا تھا اور دوسرا یہ کہ ’’مجھے پیدا کرنے سے پہلے مجھ سے مشورہ کیوں نہیں کیا‘‘ ۔۔۔۔ ’’نشتر وجود‘‘ کے حوالے سے میں کیا عرض کروں کہ یہ کس ذہین رسا انسان کو نہیں ہوتا اور دوسری بات پر اپنی رائے دیے بغیر دو جملے آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں۔ عالی جی کے گھر میں ہی ایک نشست میں ایک بہت بڑے دانشور نے ان سے پوچھا،’’کیا آپ کی پیدائش سے پہلے آپ سے مشورہ کیا جا سکتا تھا؟‘‘ عالی صاحب بولے’’یہ بات مذہبی کتابوں کی رو سے تو نہیں لیکن میری اپنی جستجو سے تھی ‘‘ آگے جو بحث ہوئی وہ طوالت مانگتی ہے۔ میں یہ دو افکار ہی ان کی شاعری میں بنیادی محسوس کرتی ہوں اس لیے میں نے یہاں بیان کر دیے۔

اس کے علاوہ ایک اور چیز جو میں نے ان کی شاعری خصوصاً غزل میں محسوس کی وہ یہ کہ وہ اپنی غزل میں روایتی عاشق نظر آئے بلکہ اکثر اوقات وہ خود محبوب نظر آتے ہیں ویسے تو ہر تخلیق کار اندر سے خوب صورت ہی ہوتا ہے لیکن عالی صاحب کے متعلق تو ان کے سب جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ اپنی نوجوانی، جوانی کے علاوہ اب بھی (بڑھاپا نہیں کہوں گی کہ وہ ان پر سجتا نہیں) بہت خوب صورت، اسمارٹ اور ہینڈ سم کہلاتے ہیں اور ان کی شخصیت دور سے ہی متاثر کن ہے۔ لیکن ان سب باتوں پر چھایا ہوا ایک فقرہ جو محمد حسن عسکری کا تحریر کردہ (جو عالی صاحب کی کتاب کا دیباچہ ہے) کہ ’’انہوں نے اپنی مرزائی (مغلوں کی) شان ہر جگہ برقرار رکھی ہے‘‘ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ عسکری صاحب کا یہ جملہ عالی صاحب کی زندگی ان کی شخصیت اور فن کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔ اس عمر میں وہ غالب سے زیادہ متاثر معلوم ہوتے ہیں ان کی ابتدائی غزلوں میں سے ایک کا مقطع پیش خدمت ہے۔

حیف عالی بھی اس کی غزل پر لکھیں

وہ جو غالب بھی تھا اور معتقد میر بھی تھا

بقول ڈاکٹر سید عبداللہ ’’عالی کی غزل میں ایک گونہ اضطراب ہے جو غالب کا خاصہ ہے۔‘‘ سابق شیخ الجامعہ علی گڑھ یونیورسٹی اور صدر انجمن ترقی ہند ڈاکٹر سید حامد نے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’بلند شہر کا ایک مشاعرہ ایک گلدستہ بعنوان قوس و قزح میں محفوظ کر دیا گیا تھا۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔ اس میں غالب کی زمین میں ایک غزل عالی کی بھی تھی غالب کی طرح یہ تھی، آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے ‘‘ علی گڑھ میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نظر سے وہ گلدستہ گزرا تھا تو انہوں نے بھی عالی کی غزل کو سراہا گویا اٹھارہ سال کی عمر میں بھی عالی اچھی غزل کہہ رہے تھے۔ منفرد اور ممتاز قلم کار جناب احمد ندیم قاسمی نے بھی جمیل الدین عالی کے حوالے سے چند سطریں ایسی لکھ دی ہیں جنہیں کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ وہ لکھتے ہیں:

’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ اور پھر’’لاحاصل‘‘ میں عالی کا کلام یوں روشن ہو گیا ہے جیسے اس کے عقب میں آفتاب یا مہتاب طلوع ہو رہا ہے لازوال اور کھرا عشق کرنے کے لیے اپنی مکمل تہذیب کرنی پڑتی ہے اور عالی اپنی تہذیب کے ان مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزر آئے ہیں۔ ان کے عشق میں جو وارفتگی، سپردگی اور سچائی ہے وہ دور جدید کی شاعری میں قریب قریب ناپید ہے اور ان کی کیفیات کی تخلیق عشق کی اس ہمہ گیری کے بغیر ناممکن ہے جسے اگر میں عشق کی الوہیت قرار دے دوں تو مجھے معاف کیجئے گا۔

عالی جی کی غزلوں میں عجیب عجیب رنگ ملتے ہیں، مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہوں:

اب جو یہ اعتراض ہے اتنے برس میں کیا کیا

تیرے بغیر صبح و شام اپنے کہاں تھے صبح و شام

 

ادا نہیں ہے یہ ہے زندگی ان آنکھوں میں

بہت حسین بہت مضطرب بہت غم ناک

 

ترے نثار مرے فن کی یوں نہ کر توصیف

مرے یہ نقد و جواہر ترے خس و خاشاک

غزل میں ان کے طرز احساس کا یہ نیا پن ایک وقت میں بہت معروف ہوا اور اس کی انفرادیت آج بھی قائم ہے:

عمر بھر با آسانی بار غم اٹھانے سے

ان پہ اعتبار آیا خود کو آزمانے سے

 

چھلک سکا ہے نہ اب تک جو اشک نیم شبی

اسی میں ہیں ترے سب خندہ ہائے زیر لبی

 

سخن میں تمکنت و ضبط شوق کے احکام

مگر نظر میں وہی شوخی و خطا طلبی

 

کوئی نہیں کہ ہو اس دشت میں مرا دمساز

ہر ایک سمت سے آتی ہے اپنی ہی آواز

 

خزاں میں منظر گل درد ناک ہے لیکن

یہیں سے ہے مری روداد شوق کا آغاز

 

عالی تیری یاد رہے اک مدت تک دیوانوں میں

ایسے وحشی کم دیکھے جو رہ نہ سکے ویرانوں میں

 

ہم مٹ گئے اس فطرت آشفتہ کی خاطر

حالانکہ وہ غارت گر جاں کچھ بھی نہیں ہے

 

دل والوں کو دل والوں سے ہے حرف و حکایت

ظاہر میں محبت کا نشاں کچھ بھی نہیں ہے

 

کیا کیا رہی نشاط نظارہ اور آج کل

یہ بھی خبر نہیں وہ ملے تھے کہاں مجھے

 

اب تک مجھے نہ کوئی مرا راز دان ملا

جو بھی ملا اسیر زمان و مکان ملا

غزلیں، دوہے، گیت کے مقدمہ نگار اور آج بھی دنیائے ترقیم میں اپنا ایک بہت ہی بلند اور خاص مقام رکھنے والے پروفیسر محمد حسن عسکری نے ان کی غزل کے لیے کہا ہے کہ ’’جذبات کا بے لاگ طریقے سے اظہار کرنے کی بدولت ان کے کلام میں ایک ایسی سادگی اور معصومیت آ گئی ہے جن کی آرزو ہر شاعر کو ہونی چاہیے اور اس معصومیت کا راز یہی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے کسی گوشے کو نہ تو زندگی میں غیر آسودہ رکھتے ہیں نہ شاعری میں اور اپنی شخصیت کو اس کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کر لیتے ہیں۔ الم ہو یا نشاط، کامیابی ہو یا محرومی، کسی چیز کے بیان میں ان کی آواز ڈر سے کپکپاتی نہیں وہ ہمیشہ جم کر بولتے ہیں۔ جذبات کا خوف عالی میں نام کو نہیں۔ میرے خیال میں یہ ان کی سب سے بڑی خوبی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس قوت کے بل پر وہ اگر چاہیں تو اس سے بہتر شاعری تخلیق کر سکتے ہیں۔ ان کے انداز بیان میں جو نفاست، شگفتگی اور بانکپن ہے اس میں فارسی ترکیبوں کے علاوہ بہت بڑا دخل ان کے مزاج کی صحت مندی کا بھی ہے۔

عالی کا شاعری بے حاصلی کا رونا جھینکنا نہیں۔ ان کے غم میں بھی جوانی کا نکھار ہے۔ عالی کا نشاط ہی نہیں بلکہ الم بھی ایک لہک رکھتا ہے۔ جذب و قرار کا ایسا امتزاج عالی کی عمر کے شاعروں میں ذرا کم ہی ملے گا۔‘‘

علی گڑھ کے پروفیسر ڈاکٹر مسعود حسین خاں صاحب نے تو گویا ایک طریقے سے اس عہد کے بارے میں فیصلہ ہی کر دیا۔ فرماتے ہیں ’’تقسیم ہند کے بعد یہ انداز و آواز کسی دوسرے غزل گو کے ہاں نہیں ملتی۔ عالی کا اسلوب ان کا اپنا ہے۔‘‘

’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ میں145دوہے بھی شامل ہیں۔ ان کے تمام شعری مجموعوں میں مختلف ادوار میں کہے گئے دوہوں سے انتخاب موجود ہے جو بعد میں ’’دو ہے‘‘ کے نام سے ہی اگست 2003ء میں شائع ہوا۔ اس کا ایک ایڈیشن دیونا گری رسم الخط میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ دوہے پر ایک علیحدہ باب مختص کیا گیا ہے۔ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ میں کل تیرہ13گیت شامل ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ عالی جی نے ان کے بعد اور رومانوی گیت نہیں لکھے، میری سمجھ میں اس کی ایک وجہ یہ آتی ہے کہ ان کے گیتوں کا رخ قومی گیتوں کی طرف ہو گیا تھا جو اس وقت ملک اور قوم کی ضرورت تھے۔ اس وقت عالی جی کے لکھے ہوئے کچھ قومی نغمات نے تو ملک میں دھوم مچا دی تھی مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ آپ کی سماعتوں میں بھی وہ نغمے محفوظ ہوں گے، مثلاً ’’اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں۔‘‘ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ یا پھر اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر پیش کیا جانے والا یادگار نغمہ ’’ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں‘‘ عالی صاحب کے قومی اور ملی نغموں کے شعری مجموعے ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ پر بھی تفصیلی اظہار خیال علیحدہ باب میں موجود ہے۔ اس کتاب کے گیتوں میں روایت کے خلاف ہندی کی آمیزش زیادہ نہیں ہے ایک لحاظ سے انہیں اردو گیت ہی کہا جائے گا مگر یہ میری بالکل ذاتی رائے ہے۔ ان کے لکھے ہوئے اکثر گیت اپنی ابتدا سے آج تک مقبول ہیں اور پڑھنے اور سننے والے دونوں اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ عالی صاحب کے اکثر گیت ریڈیو اور ٹی وی سے بھی نشر ہوتے ہیں۔ ان کا ایک گیت مجھے توبہ یک وقت گیت اور نظم دونوں ہی لگتا ہے اور آج لکھے جانے کے پچاس برس بعد بھی ہر بڑے مشاعرے میں عالی صاحب سے وہ گیت/نظم سنانے کی فرمائش کی جاتی ہے۔

وہ گیت یہ ہے۔۔۔۔ ’’آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں‘‘ ۔۔۔۔ یہ تسلسل مقبولیت ہمارے معاشرے میں بھی حیرت ناک اور پر مسرت حقیقت اور روایت ہے۔

ایک اور بہت مقبول گیت ’’خود لکھوں یا کوئی اور لکھے۔ سب گیت مرے‘‘ بھی ہے اس کے علاوہ ’’چھن چھنن چھنن‘‘ کو بھی آپ نہیں بھولے ہوں گے اور بھی بہت سے گیت ہیں جو مشاعروں میں عالی جی اپنے مخصوص ترنم سے سناتے ہیں اور جب وہ ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہوتے ہیں تو سامعین کا دل موہ لیتے ہیں ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ میں ایک منظوم کہانی بھی موجود ہے اور اس کی نحو تمام کی تمام نثر یہ ہے اور اس کہانی کے منظوم ہونے کا پتا اس وقت چلتا ہے جب کہانی کے اختتام پر آپ ایک سطر ملاحظہ فرماتے ہیں’’یہ پوری کہانی فعولن فعولن فعولن میں لکھی گئی ہے۔۔۔۔‘‘ اس کے بعد عالی صاحب نے ایسی کوئی نظم یا نثر علیحدہ سے نہیں لکھی یہ 1952ء کی بات ہے لیکن اب پچپن برس بعد2007ء میں جب ان کا طویل نظمیہ ’’انسان‘‘ پہلی بار چھپ کر سامنے آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس تجربے کو مسلسل دہراتے رہے ہیں اور نثر کی طرح نظم لکھنا یا نظم کی طرح نثر لکھنے کا وصف عالی صاحب میں رچا ہوا ہے۔ اتفاق کہ اب تک کسی اور شاعر نے یہ طرز سخن نہیں اپنایا۔ یہاں اس بات کا بھی افسوس ہے کہ عالی صاحب نے گیت بڑی تعداد میں نہیں کہے۔ ’’لاحاصل‘‘ عالی صاحب کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ کے سولہ برس بعد اشاعت پذیر ہوا ہے۔ یہ ایک سو بانوے صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں تخلیقات کی ترتیب زمانی ہے۔ ’’لاحاصل‘‘ اور’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ کے یوں تو کئی کئی ایڈیشن آتے رہے لیکن پہلے شعری مجموعہ کے سولہ برس بعد اس مجموعے کی اشاعت نے کئی سوال بھی پیدا کیے ہیں۔ سب سے بڑا یہ کہ کیا عالی صاحب سے کچھ چھن گیا تھا جس کا تخلیقی دباؤ ان سے مسلسل ان کے انداز کی غزل نہ کہلوا سکا یا کچھ مل گیا تھا کہ انہیں پچھلی رفتار سے غزل کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ ہمارے خیال میں اس کا ایک جواز خود اس غزل مسلسل کے آخری شعر میں موجود ہے۔پوری غزل آپ ’’لاحاصل‘‘ کے صفحہ نمبر51پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ میں صرف آخری شعر درج کر رہی ہوں۔ یہ غزل عالی صاحب نے 1962ء میں کہی تھی:

پھر یہ دیکھا لڑکے بالے ہنستے تھے اور عالی جی

فردیں لکھتے مسلیں پڑھتے بیٹھے گلڈ چلاتے تھے

ہوا یہ تھا کہ 1959ء میں انہوں نے ایک کل پاکستان رائٹرز کنونشن اپنے سات احباب کی مدد سے بلایا اس کمیٹی کے سربراہ قدرت اللہ شہاب تھے۔ اس کنونشن میں قومی کے علاوہ تمام پاکستانی علاقائی زبانوں کے 212 اہل قلم نے شرکت کی تھی۔ کنونشن نے اپنے آخری اجلاس میں پاکستان رائٹرز گلڈ کو جنم دیا جس کے عالی جی پہلے بنیادی کارکن مقرر ہوئے۔ گلڈ کا قیام اور بہت تیزی سے اس کا فعال ہونا یہ ایک بڑا کام تھا۔ گلڈ کے تحت ملک کی تمام زبانوں کے ادیبوں کا آپس میں تعارف ہوا بلکہ ان میں گہری دوستی اور تعلق قائم ہوا۔ ملک کی تمام زبانوں کے ادب سے آشنائی ہوئی پھر اس میں ٹریڈ یونین ٹائپ کی کارروائیاں شروع ہو گئیں، پھر اس کا زوال اور زوال کے اسباب یہ سب ایک دلچسپ لیکن غم ناک کہانی ہے۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ اور دوسری مصروفیات مثلاً انجمن ترقی اردو اور مشاعرے وغیرہ میں اتنے مصروف ہو گئے کہ جو ارتکاز غزل مانگتی ہے وہ عالی صاحب تسلسل کے ساتھ برقرار نہ رکھ سکے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ایک بات ضرور ماننا پڑے گی کہ انہوں نے اپنی غزل کے انداز اور معیار کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ’’لا حاصل‘‘ میں ان کی تمام غزلیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، مثلاً کچھ پیش کرتی ہوں:

وہ کیا ہے کعبہ دل میں ڈھونڈنے جس کو

کبھی صنم، کبھی انساں، کبھی خدا آیا

 

چلا تھا سیر کو اپنا بھی شاہزادہ دل

کہ راستے میں وہی باغ پر فضا آیا

 

یہ عشق میر نہیں زندگی ہے غالب کی

کہ ایک دل میں رہا اور دوسرا آیا

اسی طرح غزل کا ایک ذو معنی شعر بھی ملاحظہ ہو:

کتنے فلک اس اختر گم گشتہ کو ڈھونڈوں

تھوڑی سی مدد دل کے خلا کیوں نہیں دیتے

’’لاحاصل‘‘ میں راگ ’’ایمن‘‘ پر دو نہایت خوب صورت گیت شامل ہیں۔ آپ خود ملاحظہ کریں کہ دونوں کے نقطے نقطے میں راگ ایمن سمویا ہوا ہے۔ یہ دونوں گیت آپ ’’لاحاصل‘‘ کے صفحہ نمبر123اور صفحہ نمبر189پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

تین نظمیں بحرانیات کے عنوان سے شامل مجموعہ ہیں جو دوسرے مارشل لاء سے پہلے کے دور کی پاکستانی ماحولیات بتاتی ہیں۔ ’’لاحاصل‘‘ میں ایک بہت خوبصورت نغمہ ’’تال روپک‘‘ ہے۔ مختصر سی جھلک آپ کو پورا گیت پڑھنے پر مجبور کر دے گی۔’’تال روپک‘‘ صفحہ نمبر141پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

مستقبل میں جھانک کے دیکھو کیا کیا امکاں رقصاں ہیں

کیا کیا خواب ہوئے ہیں پورے کیا کیا ارماں رقصاں ہیں

جھنانن جھنن جھنانن جھنن

جھنانن جھنن جھنانن جھنن

نئے ساز ہیں نئے گیت ہیں نئے میت ہیں نئی انجمن

جھنانن جھنن جھنانن جھنن

جھنانن جھنن جھنانن جھنن

یہ غنائیہ پاکستانی مستقبلیات پر ایک خوب صورت رجائی رنگ بھی پیش کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عالی صاحب فن موسیقی سے بھی خاصے واقف ہیں بس اس کا اقرار نہیں کرتے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا (خصوصاً ایمن کے حوالے سے) کہ ان کے گیتوں میں فن موسیقی سے خاص واقفیت ظاہر ہوتی ہے۔ایمن ہی کا ایک بند اور ملاحظہ ہو:

خود ٹھاٹھ ہے خود ہی سرگم ہے

جھن جھنن جھنن، جھن جھنن جھنن

تنہا تنہا، پھیلا پھیلا

دھندلا دھندلا روشن روشن

خود چندا ہے خود ہالا ہے

یہ ساز نہیں

آواز نہیں

یہ من وینا ا جھالا ہے

اس کا ہر روپ نرالا ہے

دھا، دھن دھن دھا، دھا دھن دھن دھا

کوئی بندش کوئی تال کہے

سب گائک درپن میں الجھے

کوئی اندر کا بھی حال کہے

کیوں پردے میں من مالا ہے

’’لاحاصل‘‘ میں شامل کی گئی خصوصاً آخری غزلیں تو بالکل کھل کر کسی طویل مختصر عشقیہ المیہ کی کہانی سناتی ہیں۔ جتنی بار پڑھیں روح میں ان کی تاثیر اترتی جاتی ہے۔ جھلکیاں پیش خدمت ہیں:

اگلی ہی گلی میں رہتا ہے اور ملنے تک نہیں آتا ہے

کہتا ہے تکلف کیا کرنا ہم تم میں تو پیار کا ناتا ہے

 

کہتا ہے تمہارا دوش نہ تھا کچھ ہم کو بھی اپنا ہوش نہ تھا

پھر ہنستا ہے پھر روتا ہے پھر چپ ہو کر رہ جاتا ہے

 

اے بچو! اے ہنسنے والو تاریخ محبت پڑھ ڈالو

دل والوں کے دل پر قید نہیں ہر عمر میں ٹھوکر کھاتا ہے

 

یہ عشق کی گلیاں جن میں ہم کس کس عالم میں آئے گئے

کہتی ہیں کہ حضرت اب کیسے تم آج یہاں کیوں پائے گئے

 

اک شرط ہے یاں خوشبوئے وفا یاد آئے تو کرنا یاد ذرا

جب تم پہ بھروسا تھا گل کا کیا مہکے کیا مہکائے گئے

 

ہے یہ وہی لوح باب جنوں لکھا ہے نہ پوچھو کیا اور کیوں

تم لائے کلید جذب دروں اور سب منظر دکھلائے گئے

 

اک تخت روان شعر آیا کچھ شاہ سخن نے فرمایا

پھر تاج ترنم پہنایا اور غزلوں میں تلوائے گئے

’’لا حاصل‘‘ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے اور اس کے تین ایڈیشن وقتاً فوقتاً شائع ہوئے مقدار کے لحاظ سے یہ پہلے شعری مجموعے ’’غزلیں دوہے گیت‘‘ سے کم ہے لیکن اس کی غزلوں اور نظموں کا مجموعی اثر یا شعری معیار کسی طرح بھی پہلے مجموعے سے کم نہیں۔ اس مجموعے کی خاص چیز ’’پاکستان کتھا‘‘ ہے جو پہلے مارشل لاء کے ایک دور کی بڑی دکھ بھری اور فکر انگیز کہانی ہے ’’پاکستان کتھا‘‘ مسلسل دوہوں پر مشتمل ہے اور مسلسل دوہے کہنا روایت نہیں ہے مگر یہ عالی صاحب کی ہمت تھی کہ انہوں نے اسے مکمل کر دکھایا۔ صفحہ نمبر34سے صفحہ نمبر41تک یہ مسلسل دوہے آپ عالی صاحب کے دوسرے شعری مجموعے ’’لاحاصل‘‘ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

عالی صاحب کا تیسرا مجموعہ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ فروری1995ء میں پہلی بار شائع ہوا بعد میں اس کے اور ایڈیشن بھی شائع ہوئے۔ غزلوں دوہوں نظموں اور ’’انسان‘‘ کے کچھ حصے پر مشتمل یہ شعری مجموعہ عالی جی کی شاعری کا وہی معیار برقرار رکھے ہوئے ہے جو ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ اور’’لاحاصل‘‘ میں انہوں نے قائم کیا تھا اور مقبول ہوئے تھے سلیم احمد مرحوم کے بقول ’’عالی اپنی زندگی کے متنوع تجربات کی کثرت کے اعتبار سے اپنے وقت کے تمام شاعروں سے بڑھا ہوا ہے۔ اس کی زندگی کثیر الجہات اور کثیر الواردات ہے اس نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور بے شمار روح فرسا اور جاں گداز مرحلوں سے گزرا اور اچھے برے پست و بلند ہر طرح کے تجربات سے دو چار ہوا ہے۔ وہ صرف احساس ہی کا آدمی نہیں ذہن کا آدمی بھی ہے۔ وہ محسوس کرنے کے ساتھ سوچنا بھی جانتا ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے اس نے مختلف اسالیب آزمائے ہیں۔‘‘

عالی صاحب کا یہ تیسرا مجموعہ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ اس قول کی صداقت کا ایک اچھا نمونہ ہے، مثلاً ’’۔۔۔ آشوب‘‘ کے عنوان سے ایک عجیب و غریب بلند آہنگ خوب صورت نظم نظر آتی ہے۔

دل دیوانہ من

کہہ نہ افسانہ من

اکیلی یہ نظم جس کے بعض مصرعے بہت مختصر ہیں اور بعض پچیس پچیس لفظوں تک جاتے ہیں۔ اس وقت کے 1994ء اور شاید آج کے بھی پاکستان و ہندوستان کی ایک خاصی پھیلی ہوئی اور سچی تصویر ہے۔ اس مجموعے کا دوسرا دلچسپ عنصر ایک طویل غزل ہے جو کتاب میں صفحہ نمبر72 پر درج ہے:

گزر گیا ہے جو وقت اس میں جا کے دیکھتے ہیں

طرح قبول غزل آزما کے دیکھتے ہیں

یہ طویل غزل باون(52)اشعار پر مشتمل ہے۔ اس غزل کی کہانی یوں ہے کہ 1994ء میں ابوظہبی میں انہیں اس کی طرح دی گئی اور انہوں نے اسی نشست میں سب کے سامنے یہ تمام شعر کہہ کر غزل نذر سامعین کر دی۔

مذکورہ مجموعے میں عالی صاحب نے اپنے کچھ ہم عصر اہل قلم کو خراج تحسین بھی پیش کیا ہے، مثلاً مشفق خواجہ کے لیے ’’نذر مشفق خواجہ‘‘ اور’’حبیب جالب‘‘ اس کے علاوہ ’’نذر بابائے اردو مولوی عبدالحق‘‘ میں آپ کو عالی جی کی عقیدت جو انہیں بابا صاحب سے تھی اور ہے وہ بھی دیکھنے کو ملے گی۔

’’جے جے ونتی‘‘ کے عنوان سے ایک گیت ہے جو جے جے ونتی کے استاد فیاض خاں مرحوم کی نذر کیا ہے۔ یہ ایک بڑا موثر گیت ہے جس میں حسب عادت عالی صاحب جے جے ونتی کے خصائص لفظوں میں بھی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ گیت آپ مکمل پڑھیں گے تو ہی صحیح مضمون میں لطف اندوز ہو سکیں گے۔ (صفحہ نمبر55دیکھیے)

’’اے مرے دشت سخن‘‘ میں عالی صاحب کے طویل نظمیہ ’’انسان‘‘ کا ایک باب ’’حسد‘‘ بھی شامل ہے (صفحہ نمبر170دیکھیے) میں نے ’’انسان‘‘ پر علیحدہ باب میں گفتگو کی ہے۔ اس لیے اس پر یہاں کچھ کہنا زیادہ مناسب نہیں ہو گا۔ ایک ڈرامائی قسم کی نظم نما گیت ’’نذر امیر خسرو‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ اس گیت میں ایک خاص لطف پایا جاتا ہے جو قوالی میں آ کر دل و دماغ میں چھا جاتا ہے۔ یہ بتاتی چلوں کہ یہ گیت عالی صاحب نے امیر خسرو کے مزار پر حاضری کے دوران لکھا تھا۔ پنجاب میں ایک فقرہ گھر گھر رائج ہے۔ ’’مری سن کہ نہ سن‘‘ اور یہ صوفی بزرگ حضرت میاں موج سے منسوب ہے جو حضرت فخر الدین نظامی کے مرید تھے جن کا سلسلہ دہلی اور پنجاب تک پھیلا ہوا ہے۔ عالی صاحب نے اس جملہ کو ٹیپ بنا کر یہ گیت لکھا ہے ’’نذر امیر خسرو‘‘ آپ کتاب کے صفحہ نمبر52اور نمبر53پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

’’اے مرے دشت سخن‘‘ کی ترتیب بھی زمانی ہے۔ اس کتاب کی تخلیقات میں بھی آپ کو تنوع ملے گا۔ شاید یہ ایک بڑی پیاس کے بہت سے رخ ہیں۔ خود عالی صاحب کے بقول ’’سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو‘‘ کتاب میں ایک رلا دینے والی نظم ’’گھنگھرو‘‘ بھی موجود ہے جو ایک طرح سے عظمت اللہ خاں کے اتباع میں آپ بیتی کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ ایک علامتی نظم ’’گولر کے بھنگے‘‘ آدمی کو گولر کا بھنگا قرار دیتی ہے۔ اس کتاب میں عالی صاحب کی خاص پیچیدہ، نہایت خوبصورت، فکریہ اور طویل نظم ’’تہجی‘‘ بھی شامل ہے جو ان کے حالیہ شعری مجموعہ ’’انسان‘‘ کا آخری باب بن گئی ہے۔

میں نے اس مجموعے کی غزلوں پر تفصیلی تجزیہ دانستہ نہیں پیش کیا، کیوں کہ یہ تو ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ وہ غزل کے ایک مقبول شاعر رہے ہیں اور تینوں شعری مجموعوں کی غزلوں کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن مجھے اپنی اس کتاب کی محدودات کا بھی خیال رکھنا ہے، دوسری بات یہ کہ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ سے لے کر ’’اے مرے دشت سخن‘‘ تک بنیادی طور پر عالی صاحب کی غزلوں کا رنگ بھی نہیں تبدیل ہوا ہے ورنہ ان کی تبدیلیوں کی تہہ میں بھی جایا جا سکتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ناقدین کی آرا

 

ذیل میں جمیل الدین عالی کے حوالے سے کچھ تحریریں پیش کی جا رہی ہیں جس سے قارئین یہ اندازہ کر سکیں گے کہ عالی صاحب نے اب تک جو کچھ لکھا کیا وہ ’’لا حاصل‘‘ تھا یا وہ ’’دشت سخن‘‘ میں مانند غزال نظر آتے ہیں۔ مجھ سے بہتر میرے قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ عالی صاحب ایک ہمہ جہت قلم کار ہیں میں انہی معنوں میں انہیں قلم کار کہتی ہوں کہ ادب کی کسی ایک صنف سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ نثر و نظم کی ہر صنف پر انہوں نے طبع آزمائی کی ہے اور معیار و مقدار دونوں نمایاں رہے۔

اردو دنیا کے قارئین میں عالی جی کی محبوبیت کا جو عالم ہے وہ میں نے بہت کم شخصیات میں دیکھا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ کہ وہ حیرت انگیز طور پر کئی جہات میں ایک تخلیق کار، صاحب اظہار اور ثقافتی کارکن رہے ہیں۔ اس وقت میری پہلی ترجیح ان کی ادبی جہت کو مشاہیر نقادوں کی زبانی اجاگر کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی عرض کرتی چلوں کہ بقول حمایت علی شاعر ’’میرے خیال میں جتنے مقالات اور مضامین جمیل الدین عالی پر لکھے گئے اتنے کسی پر نہیں لکھے گئے۔ یہی ان کی ادبی خدمات کی دلیل ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ عالی صاحب کے فکر و فن اور ان کی شخصیت کے حوالے سے جتنی تحریریں مجھے میسر آئیں ان کا انتخاب پیش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

قبلہ حکیم محمد سعید شہید کی آخری تحریر بھی عالی صاحب کے حوالے سے ہے جو انہوں نے 8 اکتوبر کو میری درخواست پر لکھی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب میں عالی نمبر مرتب کر رہی تھی۔ حکیم صاحب لکھتے ہیں۔

’’انسان نے بہ حیثیت مجموعی اپنے نہایت درجہ طاقت ور دماغ کا صرف دس فیصد کام میں لانے پر قدرت حاصل کی ہے اور انسان نے اس دس فیصد طاقت کی مدد سے اس دماغ کی ما لہ و ما علیہ نقل کر کے کمپیوٹر کا ایسا نظام مرتب کیا ہے جس نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ تو ایک فیکلٹی کا حال ہے۔ ایسی متعدد فیکلٹیاں دماغ میں موجود ہیں۔ بات یہ ہوئی کہ عالی صاحب نے اپنے دماغ کو سوا دس فیصد استعمال کرنے پر قدرت حاصل کر لی ہے؟ یا شاید یہ ہے کہ دس فیصد کو پوری صحت کے ساتھ استعمال کرنے کی اہلیت پیدا کرنی ہے۔ صورت کوئی بھی ہو، یہ طے ہے کہ انہوں نے اپنے دماغ اور اس کی ذہانت کو صحت کے ساتھ اور صلاحیت کے ساتھ استعمال فرمایا ہے۔ وہ بہ یک وقت بلند مرتبہ نثر نگار ہیں، عظیم المرتبہ شاعر ہیں دوہوں کے بادشاہ ہیں ثقافت کے امین ہیں، سیاست میں متین ہیں، شعر و ادب کی دنیا سے باہر بھی علمی کارنامے انجام دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ایسے انسانوں کو تاریخ نے ذہین و فطین افراد میں شمار کیا ہے۔ یعنی جینئس ایسے لوگ لازماً خود دار ہوتے ہیں اور عزت نفس ان کو عزیز از جان ہوا کرتی ہے۔‘‘

جمیل الدین عالی نے شعر گوئی کا آغاز لڑکپن میں کیا تھا اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا اور یوں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ کے نام سے 1957ء میں منظر عام پر آیا۔ دوسرا مجموعہ ’’لا حاصل‘‘ کے نام سے 1974ء میں شائع ہوا اور 1994ء تک یعنی بیس سال کے دوران اس کے چار ایڈیشن شائع ہوئے۔ تیسرا شعری مجموعہ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ 1995ء میں شائع ہوا اور اب دسمبر2007ء میں ’’انسان‘‘ طویل نظمیہ شائع ہوا۔ قومی نظموں پر مشتمل مجموعہ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ اس کے علاوہ ہے۔ اسی طرح دوہوں کا مجموعہ ’’دوہے‘‘ بھی ان سے علاوہ ہے۔ ان تمام مجموعوں کے حوالے سے تقریباً تمام مستند نقادوں اور ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ یہاں میں ان تحریروں سے اقتباسات پیش کروں گی۔

ڈاکٹر سید عبداللہ کی تحریر عالی جی کے حوالے سے اس وقت شائع ہوئی جب عالی جی ایک جوان العمر شاعر تھے اور ان کا پہلا مجموعہ نیا نیا چھپا تھا۔ ڈاکٹر عبداللہ کے مضمون کا عنوان تھا ’’دل والے کی بھاشا‘‘ لیکن اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ دل والے کا خطاب ڈاکٹر صاحب نے عالی جی کو نہیں دیا تھا بلکہ عالی جی نے خود اس کا اظہار اپنے ایک دوہے میں کیا تھا اور یوں وہ ’’دلی والے ‘‘ کے ساتھ ’’دل والے‘‘ مشہور ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ نے اپنے مضمون میں عالی جی غزل اور دوہے کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔ غزل سے متعلق ڈاکٹر صاحب کا صرف ایک فقرہ ملاحظہ فرمائیے۔ ’’عالی کی غزل میں محبت کا عنصر اپنے عہد کی محبت کا اندازہ رکھتا ہے جس میں بلبل کے لیے ہر گل کا طواف اور پروانے کے لیے ہر شمع پر جاں سوزی کا دعویٰ لازم ہے۔‘‘ مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک عجیب و غریب اور خوب صورت فیصلہ بھی دیا وہ عرض ہے۔ ’’وہ جو کچھ لکھ چکے ہیں کیا وہ کم ہے۔ اہل درد کے لیے تو ان کا ایک دوہا بھی کافی ہے اور کلام عالی میں تو بہت سے دوہے اور اشعار ہیں جن پر اردو کا کوئی ٹالسٹائی یا دوستا یا فسکی اگر کوئی کہانی مرتب کرنا چاہے تو اس کی گنجائش بہر طور موجود ہے کیوں کہ اس کی غزل ہو یا دوہا اور گیت، جو کچھ اس نے لکھا ہے دل کی بھاشا میں لکھا ہے۔ ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ڈاکٹر عبداللہ جیسے کہنہ مشق اہل قلم اور صائب الرائے شخصیت عالی صاحب کی تحریر کو کس کسوٹی پر پرکھنے کے بعد یہ فیصلہ دیتے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن عسکری مرحوم اردو تنقید کا ایک پورا مکتبہ فرمانے جانے ہیں۔ عالی جی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے پہلے شعری مجموعے ’’غزلیں دوہے گیت‘‘ کا دیباچہ پروفیسر محمد حسن عسکری نے تحریر کیا تھا اور لکھنے والے آج بھی اس دیباچے سے اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ حسن عسکری نے نوجوان عالی کا بہت خوب صورت تجزیہ پیش کیا تھا میں یہاں کچھ سطریں پیش کر رہی ہوں۔‘‘

’’عالی کی شاعری بے حاصلی کا رونا جھینکنا نہیں ہے ان کے غم میں بھی جوانی کا نکھار ہے۔ عالی کا نشاط ہی نہیں غم بھی ایک لہک رکھتا ہے جذب و قرار کا ایسا امتزاج عالی کی عمر کی شاعروں میں ذرا کم ہی ملے گا۔‘‘ عسکری مرحوم کے مقدمے کا اختتام اس فقرے پر ہوتا ہے۔ عالی نئی نسل کے ان دو ڈھائی شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی شاعری سے مجھے آج بھی دلچسپی ہے اور جن کی نشوونما کا میں بغور مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ عسکری صاحب کے دور میں اس وقت کی نسل میں دوسرے شاعر ناصر کاظمی تھے لیکن آدھے کون تھے اس کے بارے میں قیاس آرائیاں چلتی رہتی ہیں۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ڈھائی شاعر صرف عسکری صاحب زمانے میں ہی زیر بحث نہیں رہے بلکہ گزشتہ دو صدیوں سے بھی پہلے یہ سلسلہ میر تقی میر کے زمانے میں شروع ہوا۔ مولانا محمد حسین آزاد نے ’’آب حیات‘‘ میں کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے۔’’میر تقی میر نے اول تو اپنے عہد کے صرف دو شاعروں کو تسلیم کیا تھا یعنی ایک خود بدولت دوسرے مرزا رفیع سودا پھر ان سے حضرت خواجہ میر درد کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا’’چلو آدھے وہ بھی سہی‘‘ کاش عسکری صاحب میر صاحب کی تقلید میں ہی کوئی نام بتا دیتے۔محترمہ قرۃ العین حیدر ابھی حال ہی میں اس دار فانی سے کوچ کر گئیں ان کا نام ناول نگار کی حیثیت سے آسمان ادب پر درخشندہ ستارے کی طرح روشن ہے۔ عالی صاحب سے ان کے مراسم کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ جب وہ پاکستان میں تھیں تو عالی صاحب اور دیگر اہل قلم حضرات کے ساتھ مل کر وہ ادب اور ادیبوں کی خدمت میں بے حد فعال رہی ہیں۔ 1989ء میں ابوظہبی میں منعقد ہونے والے جشن عالی میں عینی آپا نے عالی صاحب کے دوہے کے حوالے سے ایک بڑا خوب صورت مضمون پڑھا تھا جو ’’ارمغان عالی‘‘ اور’’عالی نمبر‘‘ دونوں میں شامل ہے۔ یہاں میں مختصر اقتباس پیش کرتی ہوں۔‘‘

’’جمیل الدین عالی کی مقبولیت نے (دوہے کے ذریعے) اردو کی ترویج میں اضافہ کیا ہے۔ عالی جی کے دوہے کامیاب تجربوں میں شامل ہیں۔‘‘ اسی مضمون میں ایک جگہ اردو ہندی الفاظ کی آمیزش کے حوالے سے عینی آپا نے لکھا ہے کہ۔۔۔۔’’میرے نزدیک رگھوپتی سہائے فراق کی روپ والی رباعیاں موضوع اور الفاظ کے لحاظ سے رباعی کے فارم سے لگا نہیں کھاتیں اور محض ایک ادبی کوشش ثابت ہوتی ہیں۔ حالانکہ ان کا ذخیرۂ الفاظ وسیع تر ہے۔۔۔۔‘‘

ڈاکٹر مالک رام نے اس موقف کی تائید میں جا بجا عالی جی کے دوہوں، غزلوں، گیتوں اور نظموں سے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ ’’جمیل الدین عالی فن اور شخصیت (مرتبہ ایم حبیب خان) میں ڈاکٹر مالک نے ’’عالی روشن مستقبل کا شاعر‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ میں اس مضمون سے صرف دو سطریں یہاں درج کر رہی ہوں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ڈاکٹر مالک عالی جی کی شاعری کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’عالی غزل، گیت اور دوہے کے شاعر کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں۔ انہوں نے ان اصناف میں اتنا کچھ کہا ہے جو شاید کمیت کے لحاظ سے معتدبہ نہ کہا جائے لیکن کیفیت کے لحاظ سے کئی بسیار گو شعرا کے عظیم دیوانوں پر بھاری ہے۔۔۔۔‘‘ احمد ندیم قاسمی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے ادیب، شاعر، دانشور اور صحافی کی حیثیت سے ان کا مقام متعین کرنے میں زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ ہمہ جہت شخصیت متنوع کام۔ مقدار بھی معیار بھی، ایسی عہد ساز شخصیات کم ہی نصیب ہوتی ہیں اور یقیناً آنے والا وقت اور مورخ انہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کر پائے گا۔ اب آپ یہ ملاحظہ فرمائیے کہ جب احمد ندیم قاسمی جیسے قلم کار عالی جی پر قلم اٹھاتے ہیں تو قرطاس پر کیسے پھول بکھیرتے ہیں۔ جناب قاسمی کا ایک مضمون 1989ء میں ’’جنگ‘‘ لاہور میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت تک عالی صاحب کا تیسرا مجموعہ کلام ’’اے مرے دشت سخن‘‘ منظر عام پر نہیں آیا۔ قاسمی صاحب کی یہ تحریر ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ اور ’’لا حاصل‘‘ کے حوالے سے ہے (عالی نمبر میں بھی اس تحریر کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے) ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ اور پھر ’’لاحاصل‘‘ میں عالی کا کلام یوں روشن ہو گیا جیسے اس کے عقب میں آفتاب یا ماہتاب طلوع ہو رہا ہے۔ لازوال اور گہرا عشق کرنے کے لیے اپنی تہذیب کرنی پڑتی ہے اور عالی اپنی تہذیب کے ان مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزر آئے ہیں۔ ان کے عشق میں جو وارفتگی، سپردگی اور سچائی ہے وہ دور جدید کی شاعری میں قریب قریب ناپید ہے۔ عالی کی شاعری ایسی شاعری ہے جس کے گہرے مطالعے کے بعد انسان اپنے اندر کچھ چمکتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ غزل ہو یا گیت یا دوہا۔ عالی کا لہجہ بظاہر لا ابالیانہ مگر دراصل درویشانہ ہے۔ بالکل بھگتوں کا سا اور بھگت بھی ایسے جسے حقائق حیات کا بھرپور شعور بھی حاصل ہو۔ بصورت دیگر وہ اس طرح کا سچا اور اونچا اور حقیقت کی خوشبو سے لدا ہوا شعر کیسے کہہ سکتا تھا۔‘‘

کچھ نہ تھا یاد، بجز کار محبت اک عمر

وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے

علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی کے سابق صدر پروفیسر اسلوب احمد انصاری ایک نہایت معیاری ششماہی جریدہ ’’نقد و نظر‘‘ کے نام سے شائع کرتے ہیں۔ بحیثیت نقاد (خصوصاً اقبالیات کے حوالے) بہت ہی اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ عالی صاحب کے شعری مجموعوں کے حوالے سے اور خصوصاً ’’انسان‘‘ کے مطبوعہ ابواب کے حوالے سے ان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا وہ کہتے ہیں۔ ’’جمیل الدین عالی نڈر، بیدار مغز، دور رس اور گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ ایک قد آور اور منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔ غزل کے علاوہ دوہوں میں عالی کو جو مقام حاصل ہے وہ شاید کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔ یہ قیاس کرنا صحیح نہ ہو گا کہ عالی صرف حسن و عشق کے نازک رشتوں کی ہی نغمہ سرائی کرتے رہے بلکہ ان کا ذہن سائنس سے متعلق مضامین کے لیے ایک شاہراہ عام رہا ہے۔ ان کے تیسرے مجموعہ کلام ’’اے مرے دشت سخن‘‘ میں ان کی کئی ایسی نظمیں موجود ہیں، مثلاً ’’چھپکلی کا دماغ‘‘ جس میں بالواسطہ طور پر قانون ارتقاء پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک کارنامہ ان کی طویل نظم ’’انسان‘‘ ہے یہ ایک ایسی نظم ہے جس کے لیے انہیں کوئی نمونہ ادب میں دستیاب نہیں تھا۔ انہوں نے اس نظم میں جمالی، اسرار، حسینہ، بوڑھا اور نسوانی آواز جیسے کرداروں کے ذریعے کائنات کے ان مسائل سے بحث کی ہے جن سے آج کے دور میں انسان کسی طرح آنکھ نہیں چرا سکتا۔‘‘ عصر حاضر کے بہت محترم محقق اور نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے مختلف اوقات میں عالی صاحب پر دو مرتبہ بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ خصوصاً عالی جی کی دوہا نگاری پر ایک مضمون میں نے عالی نمبر میں شامل کیا تھا اس سے اقتباس پیش کرتی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے دوہوں کی بحر پر ایک جامع تاریخی تجزیہ پیش کرتے ہوئے بڑی خوب صورت بات کہی ہے:’’اس سے انکار نہیں کہ عالی کے دوہوں کی بھاشا واقعی ان کے دل کی آواز ہے۔ اپنے رنگ میں سب سے الگ پھر بھی عالی کی بھاشا اور ان کی بات کو سمجھنے والے ایک دو نہیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ بلاشبہ دو دور حاضر کے چند گنے چنے شعرا میں سے ایک ہیں اور دوہے کے حوالے سے تو ان کا نام ممتاز ترین ہونے کے ساتھ ایک ایسی انفرادی مثال ہے جو اردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ آگے چل کر ڈاکٹر فرمان لکھتے ہیں کہ ’’عالی کا اسلوب فکر و فن قاری کو ایسے انبساط ذہنی اور نشاط روح سے ہمکنار کرتا ہے کہ وہ داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ’’ایک سادہ سی تقریب ‘‘ صرف عالی کی تقریب نہیں ہے اور نہ اس کا ہیولا محض تخیلاتی ہے بلکہ اس کا ایک ایک مصرع فکر کے رشتے سے جڑا ہوا ہے اور یہ رشتہ فکر دنیا کے سارے اہل قلم، سارے اہل نظر، سارے اہل کمال اور سارے تخلیقی فن کاروں کی جبلی خواہش اور شعوری آرزو مندی سے ہم رشتہ ہے۔ عالی کی نظم ’’تہجی‘‘ پر غور کریں تو کہنا پڑتا ہے کہ ارتقائے تہذیب انسانی کا وہ شعور جس نے قرۃ العین حیدر سے جنوبی ایشیا سے وابستہ تاریخ و تہذیب کے زیر اثر آگ کا دریا لکھوایا اور جس نے انسانی زندگی کے سارے نشیب و فراز کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی کوشش میں آخر آخر خود ناول نگار کو تاریخ کے شکنجوں میں جکڑ لیا اور یہ ناول نگار اپنے قاری کو زندگی کے ایک دھندلے، مبہم، پیچیدہ اور منفی تصور سے زیادہ کچھ اور نہ دے سکا ۔ وہی تاریخی کرب و شعور جمیل الدین عالی کی اس نظم کا محور ہے لیکن اس نظم کا خالق تاریخ کے کثیف و عمیق غار میں پناہ گزیں ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ اپی غیر معمولی قوت متخیلہ کی مدد سے فکر و فن کی لطیف و جمیل سطح پر کامیابی کے ساتھ ابھر آیا ہے۔ اس سلسلے میں دو سو مصرعوں کی نظم ’’تہجی کے صرف آخری چند اور سادہ سادہ مصرعے دیکھئے جب کہ اولین حصوں میں ان کی لفظیات ایک سحر کی طرح دل پر چھا جاتی ہیں اور ان کے اس مجموعے کا ایک وقتی تاثر یہ ہے کہ وہ تسخیر کائنات کے قائل ہیں۔‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اردو ادب کے ایک عظیم نقاد مانے جاتے ہیں جب کہ وہ خود کو عاشق اردو کہتے ہیں وہ اردو ادب کے ایک مستند اور جدیدیت پر بہ ذات خود ایک مکتب فکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے عالی صاحب کی تخلیقات کے حوالے سے دو بہت تفصیلی مضامین خاص طور پر تحریر کیے ہیں جن میں سے ایک مضمون ’’ارمغان عالی ‘‘ میں شائع ہو چکا ہے اور دوسرے کو عالی نمبر کے لیے ایڈٹ کرنے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔ ’’ارمغان عالی‘‘ میں ڈاکٹر نارنگ کے مضمون کا عنوان ہے ’’جمیل الدین عالی اور آٹھویں سر کی جستجو‘‘ اس میں ساری گفتگو صاحب کے اس شعر کے حوالے سے ہے۔۔۔۔

ایک عجیب راگ ہے ایک عجیب گفتگو

سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو

مضمون میں نظم ’’تہجی‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر نارنگ نے جو رائے دی ہے وہ یہ ہے ’’اس موضوع پر اس وضع کی دوسری نظم اردو میں نہیں ملے گی۔‘‘ طویل نظم’’انسان‘‘ کے شائع شدہ ابواب کے حوالے سے ڈاکٹر نارنگ کا یہ جملہ خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ ’’اردو نظم میں سائنسی فکر اور خرد افروزی کی بنا ڈالنے کو یہ پیمانے ہی بہت ہیں۔ شاعری اس سے زیادہ کی متحمل ہو بھی نہیں سکتی ۔ عالی کا رول ماڈل جو بھی رہا ہو انہوں نے شعر کی وادی میں اپنی راہ سینے کے بل طے کی ہے اور اپنی ڈگر الگ بنائی ہے۔ دوہا نگاری کو اردو میں اس طرح رچا بسا دینا کہ وہ اردو کی صنف ہو جائے عالی کا ایسا تاریخی کارنامہ ہے جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتالیکن انہوں نے بہت نبھایا ہے اور اب نظم میں سائنسی فکر کی جہت کھول کر ایسا معنی خیز تخلیقی تجزیہ کیا ہے جس کے آئندہ امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعری میں جو کچھ ہوتا ہے اندر کی آگ سے ہوتا ہے۔ عالی کا کہنا ہے کہ ’’سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو‘‘ آٹھویں سر کی جستجو گویا ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل ہے اور یہی سچی شاعری کا مطلب ہے جس کا عزم عالی نے کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی استاد الاساتذہ گزرے ہیں اور اردو تنقید میں اب بھی ایک خاص مقام کے حامل ہیں۔ انہوں نے عالی صاحب کے پہلے مجموعے کو جدید شاعری میں ایک نئی آواز قرار دیا تھا۔ ان کے دوہوں کو انہوں نے ایک فنی دریافت کہا تھا اور غزلوں کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے ’’عالی نے غزلوں میں اعلیٰ درجے کی عشقیہ شاعری کی ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری کا منبع ایک نیا جذبہ ہے۔ نئی نسل کے ایک ایسے فرد کا احساس اور جذبہ جس کی زندگی میں حجابات نہیں ہیں۔ عالی کی عشقیہ شاعری میں صداقت اور خلوص کا احساس ہوتا ہے وہ براہ راست بات کرتے ہیں۔ جو کچھ ان کی نگاہیں دیکھتی ہیں، جو کچھ وہ محسوس کرتے ہیں اور جو کچھ ان پر گزرتی ہے اس کی ساری تفصیل وہ اپنی غزلوں میں پیش کر دیتے ہیں۔ دراصل عالی عشق سے زیادہ زندگی کے شاعر ہیں۔‘‘ پروفیسر نظیر صدیقی اردو کے بڑے نقادوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے لکھا بھی بہت ہے ان کی ایک انگریزی کتاب ’’اقبال اور رادھا کشن‘‘ بہت مشہور ہوئی اور ہندو پاک کے علاوہ انگلستان میں بھی زیر گفتگو رہی۔

اردو تنقید میں ایک بڑا محترم نام نظیر صدیقی کا ہے کراچی آنے کے بعد کچھ وقت انہوں نے اردو کالج میں بھی گزارا اور مجھے ان کو دیکھنے، سننے اور ان سے کچھ سیکھنے کا موقع میسر آیا۔ عالی صاحب پر نظیر صدیقی کا تحریر کردہ ایک مضمون1961ء میں شائع ہوا تھا جو انہوں نے اپنی پہلی کتاب ’’تاثرات و تعصبات‘‘ میں بھی شامل کیا تھا۔ اس مضمون کا آغاز ہی ایک ایسے فقرے سے ہوتا ہے جو بعد میں نہ صرف عالی صاحب پر لکھنے والے بلکہ معاصر شاعری پر لکھنے والے بے شمار مقالہ نگار نقل کرتے رہے۔ نظیر صدیقی صاحب لکھتے ہیں:’’تقسیم ہند کے بعد فیض کے علاوہ جو شاعر اردو شاعروں کی نئی نسل پر اثر انداز ہوا ہے وہ عالی ہیں‘‘ ’’فیض ہی کی طرح وہ شعرا اور سامعین دونوں میں یکساں طور پر مشہور ہیں۔ پاکستان سے ہندوستان تک نئی نسل کے متعدد شعرا ان کی تقلید کرتے ہیں۔ عالی کا پہلا مجموعہ کلام ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ تقریباً بتیس سال کی عمر میں1958ء میں شائع ہوا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اگر ایک طرف ان کی شاعری داغ دہلوی اور ان کی شاعری کے روایتی اثرات سے محفوظ رہی تو دوسری طرف حسرت موہانی گروپ کے شعرا بھی اس پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ یہاں تک کہ عالی کی شاعری میں یگانہ اور فراق کی آوازوں کی باز گشت بھی سنائی نہیں دیتی۔ اسی طرح ان کی شاعری پر نہ تو ترقی پسندی کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں نہ حلقہ ارباب ذوق کی طرف داریاں۔ وہ حسرت موہانی گروپ کے شاعروں میں کسی حد تک جگر سے متاثر ہوئے ہوں تو ہوئے ہوں مگر ان پر یگانہ اور فراق کے اثرات کی نشاندہی بھی مشکل ہے۔ خاندانی اعتبار سے ان کی شاعری کا شجرہ نسب درد اور غالب تک جاتا ہے مگر ان کی شاعری رسمی تصوف سے بالکل بیگانہ رہی۔‘‘ اس باب کی ابتدا میں نے حمایت علی شاعر کے ایک جملے سے کی تھی اور میں مناسب سمجھتی ہوں کہ ان کی رائے کچھ تفصیل کے ساتھ یہاں بیان کروں۔ حمایت صاحب لکھتے ہیں: ’’عالی غزل کے بھی اچھے شاعر ہیں اور دوہوں کے بھی شاعری میں انہوں نے صرف غزل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گیت اور نغمے بھی لکھے منظوم کہانی اور غنائیہ بھی لکھا منظوم ڈراما بھی لکھ رہے ہیں اور نثر بھی لکھتے ہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت آدمی ہیں انہوں نے ہر صنف میں اپنا ہنر دکھایا ہے لیکن نظم کو صرف چھو کر ہٹ جاتے رہے۔ اس کے باوجود ان کی نظمیں ان کی فکری ارتفاع کی غماز ہیں بالخصوص ان کی طویل نظم ’’تہجی‘‘ لیکن ایک اہم نظم جو ڈرامے کے فارم میں لکھی جا رہی ہے ’’انسان‘‘ ہے۔ اگر عالی صاحب کا یہ منظوم ڈراما مکمل ہو جائے تو ادب کی تاریخ میں ایک کارنامہ ہو جائے اور اردو شاعری کی ایک نادر مثال اور حفیظ جالندھری نے جو شعر اپنے بارے میں کہا ہے وہ عالی صاحب کا بھی ترجمان ہو جائے گا۔‘‘

تشکیل و تکمیل ادب میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے

نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں

صنف شعر میں عالی صاحب کا جو بھی مقام ہے اس کا تعین نقاد حضرات اور وقت یقیناً کریں گے میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ اگر عالی صاحب کی شہرت کے حوالے سے بات کی جائے تو اس میں عالی جی کے دوہوں کو سرفہرست رکھنا ہو گا۔ عالی جی کے دوہے اور پھر ان کا پڑھنے کا انداز، جس نے ان کو ایک منفرد شناخت دی۔ ان کی دیگر اصناف شعر کی طرح ان کے دوہوں (سر سی چھند، عالی چال) کے حوالے سے بھی خاصا لکھا گیا اور اس حوالے سے متضاد تحریریں سامنے آئیں جن میں مختلف نکات اٹھائے گئے اور علمی و ادبی مباحث کے دروازے وا ہوئے۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ عالی صاحب نے اتنی بڑی تعداد میں دوہے کہہ کر نہ صرف مقدار اور معیار کا ریکارڈ قائم کیا بلکہ ادب کے سنجیدہ قاری اور ناقد دونوں کو سوچنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سمیع اللہ اشرفی عالی جی کے دوہوں کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’جدید اردو شاعری میں جمیل الدین عالی کے دوہے کافی مقبول ہیں۔ عالی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندی دوہے کے وزن و آہنگ سے الگ ہٹ کر اردو دوہے میں ایک نئے وزن و آہنگ کو استعمال کیا ہے۔ دراصل یہ وزن و آہنگ سر سی چھند کا ہے۔ سر سی چھند کے ہر ایک مصرع میں بھی ستائیس ماترائیں ہوتی ہیں اور درمیان میں سولہ ماتراؤں کے بعد وقفہ لازمی ہے لیکن دوہے میں بیت کی طرح ہر مصرعے کے آخر میں ہی وقفہ ہوتا ہے۔ عالی نے اپنے دوہوں میں جس وزن و آہنگ اور ماتراؤں کی ترتیب سے کام لیا ہے ہند میں اس کی مثال صرف ملک محمد جائسی کے یہاں ہی ملتی ہے۔ دوسری طرف عالی نے اپنے دوہوں میں جس آزادی سے کام لیا ہے اس کو بے راہ روی پر ہرگز محمول نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے دوہے مخصوص وزن و آہنگ کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے ہیں جن کی مثالیں اردو اور ہندی کی قدیم شاعری میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ جامعہ کراچی میں شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر فوق نے ‘‘ جمیل الدین عالی کے دوہوں کا تہذیبی پس منظر سے ایک مقالہ تحریر کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’دوہا ہندی کی مقبول صنف سخن ہے لیکن جمیل الدین عالی کے دوہے تہذیبوں کے امتزاجات کے جس رخ کو پیش کرتے ہیں اس نے ہندی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے بھی اسے اردو ہی کی ایک صنف بنا دیا ہے اور یوں ہمارے شعری سرمایہ اظہار میں اضافہ کیا ہے۔ ہندی شاعری سے مسلمانوں کے استفادے اور خون ان کی ہندی شعر گوئی کی روایت کچھ نئی نہیں ہے۔ عالی کے دوہے ہندی کی آمیزش، تہذیبی اختلاط کی تاریخی روایت اور اس کی شعوری کوشش کے آئینہ دار ہوتے ہوئے بھی وہ مزاج رکھتے ہیں جو اسے وسط ایشیا کے تہذیبی تصورات سے منسلک رکھتا ہے لیکن ایک نئے پس منظر میں برصغیر کی سماجی و تہذیبی زندگی سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ ان دوہوں کی فضا تہذیبی امتزاج کا سراغ دیتے ہوئے بھی الگ خصوصیات رکھتی ہے۔ عالی نے اپنے دوہوں کے لیے اردو کا وہ روپ چنا ہے جس میں کشادہ دلی ملتی ہے اور تہذیبی امتزاج نمایاں عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالی کے دوہوں میں جو رومانی داخلیت ملتی ہے اس نے حسن کی رنگین کیفیتوں اور چاہت کے رسیلے جذبوں سے مل کر متعدد جمالیاتی پیکر سجائے ہیں لیکن وہ خارجی حقیقت کی اس سنگینی کو بھی محسوس کرتے ہیں جو تاریخ کی صدیوں پر محیط رہی ہے اور انسان کے بہتر مستقبل کے یقین کے باوجود وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ:

کیسے کیسے دیے جلے پھر وہی رہا اندھیر

بڑے بڑے وہی ڈوری پکڑے چھوٹوں کے وہی پھیر

ان کی شاعرانہ سوچ میں رومان و حقیقت کی پیوستگی نئے جلوے تراشتی ہے۔ یہ جلوے زندگی کا رنگ نکھارتے اور ذات کے وسیلے سے خارج ذات کے ابعاد ہمارے سامنے لاتے ہیں۔عالی کے دوہوں میں عصری احساس کی لہر تو برابر ابھرتی ہے لیکن ان کے ایسے دوہے بھی ہیں جن میں مشاہدہ و روایت کی یکجائی سے حسن کی دید و شنید کا رنگ چمکا ہے۔ انہوں نے ہندی تشبیہات سے کام لیا ہے لیکن بعض جگہ اپنے مزاج کی مرزائی شوخی سے بیان کے نئے گوشے بھی نکالے ہیں۔ غرض یہ کہ جمیل الدین عالی نے دوہے کی تجدید اور مقبولیت کا کام تو انجام دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت کے نئے امکانات بھی پیش کیے ہیں۔‘‘

خواجہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے منسلک ڈاکٹر عرش صدیقی نے جو استاد تو انگریزی کے ہیں مگر عالی جی کے بعد عادل فقیر کے نام سے سینکڑوں دوہے لکھے ہیں۔ عالی کے دوہوں کے حوالے سے ایک تفصیلی مقالہ لکھا تھا جس کے اقتباسات میں نے ’’عالی نمبر‘‘ میں شامل کیے تھے اس کی چند سطریں میں ذیل میں درج کر رہی ہوں۔ ڈاکٹر عرش کے مقالے کا عنوان تھا ’’پاکستان میں اردو دوہے کا ارتقا‘‘ وہ لکھتے ہیں:

’’میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں اردو دوہے کی تخلیق کی تحریک عالی کے ساتھ ہوتی ہے اور عالی کے بغیر پاکستان میں اردو دوہے کا کوئی تصور ہی قائم نہیں ہو سکتا۔ یہی نہیں خود دوہے کی صنف اور اس کی تاریخ اور اس کے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں بھی تمام یا بیشتر مضامین عالی کے دوہوں کی مقبولیت کے بعد لکھے گئے۔ پاکستان میں اردو دوہے کی مقبولیت اور رفتار تخلیق میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تمام کرشمہ جمیل الدین عالی کی بے مثال کامیابی کا ثمر ہے۔ خواجہ دل محمد کی ’’پریت کی ریت‘‘ کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ صرف دوہوں پر مشتمل ہمارے ہاں پہلا مجموعہ پر تو روہیلہ کا ’’رین اجیارا‘‘ کے نام سے آیا اور خواجہ دل محمد شاید وقت کی تہوں میں دب جاتے اگر جمیل الدین عالی کے دوہوں سے الگ کوئی شے ثابت کرنے کے لیے ان کا حوالہ نہ دینا پڑتا۔ جمیل الدین عالی نے جہاں دوہے کے روایتی مضامین کا احاطہ کیا وہاں عصری اور جدید عوامی اور سیاسی اور معاشرتی موضوعات کو بھی سامنے رکھا اور یوں انہوں نے دوہوں کے موضوعات میں ایک ہمہ گیر انقلاب پیدا کر دیا اور جذبات کی ہر سطح پر ان کی عکاسی بھی کی۔ انہوں نے ذاتی، عصری، سیاسی اور معاشرتی موضوعات کو دوہے کی سائیکی اس کی ابدی روح کے ساتھ منسلک کر دیا اور موضوعات کی اس وسعت کو روایت کا درجہ بھی عطا کیا اور عالی کے بعد آنے والے سبھی شاعروں نے اس روایت کو مستحکم کیا۔‘‘ فاضل نقاد جمال پانی پتی عالی صاحب اور مرحوم سلیم ا حمد دونوں کے بہت قریب رہے ہیں اور یقیناً عالی صاحب کے ساتھ انہوں نے بڑا وقت گزارا۔ نہ صرف یہ کہ وہ عالی صاحب سے بہت اچھی طرح واقف ہو گئے بلکہ ان کی تخلیقات کا بھی بہترین تجزیہ پیش کرتے رہے۔ عالی صاحب کے حوالے سے انہوں نے بہت لکھا۔ ان کی نظموں کے حوالے سے بھی اور غزلوں کے حوالے سے بھی لیکن ایک طویل تحریر ’’کویتا کا بن باس‘‘ کے عنوان سے انہوں نے لکھی جو عالی جی کے دوہوں کے حوالے سے ہے اس سے کچھ اقتباس آپ یہاں ملاحظہ فرمائیے:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عالی کی شہرت اور مقبولیت زیادہ تر اس کے دوہوں کی مرہون منت ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دوہے کی شاعری کو اردو میں رائج کرنے اور فروغ دینے کا کریڈٹ بھی عالی ہی کو جاتا ہے لیکن اس بات پر ممکن ہے یہ اعتراض کیا جائے کہ عالی سے پہلے بعض کوششیں اردو میں دوہے لکھنے کی ہو چکی تھیں لہٰذا اس باب میں عالی کو اولیت کا درجہ نہیں دینا ہے لیکن یہ اعتراض دراصل ایک ایسے مغالطہ پر مبنی رہے گا جو ہندی کے دوہوں، عالی کے دوہوں اور ان دونوں کے درمیان جو کوششیں اردو میں دوہے لکھنے کی ہوئیں ان تینوں میں کوئی فرق نہ کرنے کی بنا پر پیدا ہوتا ہے اور جو اسی مغالطہ کی بنا پر عالی کے دوہوں کو بھی اردو میں ہندی دوہے کی روایت ہی کا ایک تسلسل جانتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ عالی کے دوہوں کو کوئی تعلق ہندی دوہے کی روایت سے نہیں، اس لیے کہ اس نے اپنے پیشروؤں کی طرح ہندی دوہوں کو اردو میں منتقل کرنے یا ہندی روایت کی قلم اردو میں لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے اس کی کاوشوں کا رخ ایک بالکل جداگانہ سمت میں رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ دوہے کو اردو میں ایک بالکل ہی نئی شکل میں رائج کرنے میں کامیاب ہوا ہے یعنی اس نے ہندی دوہے کی روایت سے ہٹ کر اردو میں ایک بالکل مختلف اور نئے انداز کے دوہوں کی روایت قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کے برعکس عالی سے پہلے جن لوگوں نے اردو میں دوہے لکھے انہوں نے بالعموم ہندی روایت ہی کا تتبع کرتے ہوئے دوہے کو ہندی ادب سے اٹھا کر جوں کا توں اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ ان دوہوں اور ہندی دوہوں میں سوائے زبان کے فرق اور کوئی خاص فرق نہیں ہے وہی اکھڑی اکھڑی سی بحر جو ہندی میں ہر مصرع میں وقفے بسرام کے ساتھ دوہے کے لیے مخصوص ہے اور جو اپنے اکھڑے اکھڑے پن کے ساتھ اردو کے شعری مزاج سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور خیالات و احساسات کی وجہ روایت جس کا سلسلہ ہندی میں سور داس اور کبیر داس سے ملتا ہے۔ شعرا نے اکثر و بیشتر ان کا تتبع اپنے دوہوں میں کیا نتیجہ ظاہر ہے یہ دوہا اردو میں نہ چل سکا۔ اس کے برعکس عالی کے دوہوں میں دوہے کے نام اور دو مصرعی ہیئت کے سوا مشکل ہی سے کوئی چیز ایسی لگے گی جسے ہندی روایت سے منسوب کیا جا سکے۔ رہا اس کا نام اور ہیئت تو ان دونوں چیزوں پر ہندی کا کوئی اجارہ نہیں کہ یہ دونوں چیزیں تو ہماری بعض علاقائی زبانوں میں بھی جوں کی توں موجود ہیں۔ چنانچہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ عالی کے دوہے اور ہندی دوہے میں ایک بنیادی اور جوہری فرق ہے۔‘‘ اپنے مقالے میں آگے چل کر جمال صاحب لکھتے ہیں۔

’’جو نمایاں کامیابی عالی کو دوہے میں حاصل ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر دوہے کی شاعری عالی کے بعد بھی اردو میں چلتی رہی تو جس طرح ہمارے ہاں نئی نظم کی ایک خاص شکل میراجی اور راشد وغیرہ کے نام سے منسوب ہے کم و بیش اسی طرح عالی کا نام بھی دوہے کے ساتھ مگر اس فرق کے ساتھ کہ راشد اور میرا جی وغیرہ نے نئی شاعری کی جس قسم کا آغاز اردو میں کیا معاشرے میں اس شاعری کو نا مقبول شاعری کہتے ہیں۔ اس کے برعکس دوہوں کی جو شاعری عالی سے لے کر پرتو روہیلہ تک ہمارے ہاں مسلسل فروغ پا رہی ہے۔ معاشرے میں اس کی مقبولیت کے امکانات تو کھلے ہوئے ہیں مگر ان معنوں میں کبھی بھی نا مقبول نہیں ہو سکتی جن معنوں میں سلیم احمد نے نئی شاعری کی مذکورہ قسم کو نا مقبول کہا ہے۔‘‘ بات چونکہ کہ عالی جی کے دوہوں کے حوالے سے ہو رہی ہے اس لیے یہاں ایک اور بہت اہم تحریر کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔ ادیب سہیل جو ادب کی دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں شاعر، مترجم اور محقق کی حیثیت سے ان کا کام اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ’’قومی زبان‘‘ انجمن ترقی اردو کے ایڈیٹر کی حیثیت سے انہوں نے برسوں کام کیا ہے اور ہزاروں پرچے اپنے پڑھنے والوں کی نذر کیے۔ انہوں نے ایک مضمون ’’دوہے اور عالی جی کے دوہے ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا جو کئی اہم ادبی جرائد میں شائع ہوا بعد میں اس مضمون کو میں نے عالی نمبر میں بھی شامل کیا۔ آپ اس تحقیقی مضمون سے اقتباس ملاحظہ کیجئے ’’عالی جی نے قیام پاکستان کے بعد دوہے لکھنے کی ابتدا کی۔ (یہ سہو ہے عالی جی نے دوہے 1944ء میں اپنی شادی کے حوالے سے ہی لکھنا شروع کیے تھے جو چھپتے بھی رہے تھے۔) یہ ایسا وقت تھا کہ زبان ایک نئی تشکیل کے مرحلے میں آ گئی تھی اور ایسا ہونا وقت کی ضرورت بھی تھی ایسے میں اگر عالی جی چاہتے بھی تو کبیر داس کی زبان میں دوہے نہیں کہہ سکتے تھے ایک طرف صدیوں کا زمانی بعد تھا دوسری طرف نئی مملکت میں زبان کی نئی تشکیل کا سوال۔ چنانچہ انہیں بہرحال ایک ایسی زبان وضع کرنی تھی جو لچک دار اور دوہے کے لیے متحمل ہو جس کا دروازہ ہر زبان کے لفظ و رنگ پر کھلا ہو، جدھر سے جہاں سے بھی قابل قبول رنگ اس میں داخل ہونا چاہے اسے بازیاب کرے۔ اس کے ساتھ ہی Mainstreamسے بھی اپنے رشتے کا احترام قائم رکھے۔ عالی صاحب ہر چند کہ دہلوی ہیں زبان کے معاملے میں اردوئے معلیٰ سے قربت رکھتے ہیں قلعہ معلائی ہیں، کرخنداری نہیں ان کا مزاج کسی حال میں صرف دہلوی نہیں۔ ان کے شعر و نغمہ میں سارا برصغیر بولتا ہے اس سے آگے نکل کر عالمی انداز نظر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ سارے جہاں کا درد اپنانے کا عمل ہے اور جب کوئی سارے جہاں کا درد دل میں بسا لے تو پھر اس کے ہاں ایک طرح کی ہمہ گیریت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی لیے دوہے کے چاہنے والوں میں ایک طرف بابا فرید الدین گنج شکرؒ، امیر خسروؒ اور عبدالرحیم خان خاناںؒ اور دوسری طرف تلسی داس، کبیر داس، بہاری اور میرا بائی جیسی شخصیات موجود ہیں۔ قاری کے لیے عالی جی کے دوہے میں نئے پن کو محسوس کرنے کی ا یک وجہ بھی ہے کہ دوہے گائے جانے والی شے ہے لہٰذا ایسا دوہا نگار جو موسیقی سے مس رکھتا ہو اس کے دوہے ’’چیزے دیگر‘‘ کے زمرے میں آئیں گے۔ عالی جی کے بعض دوہوں میں غزل مسلسل کا اندازہ بھی دیکھنے میں آتا ہے ان کے دوہے میں قارئین کو جو ہزار شیوگی کا احساس ہوتا ہے وہ ان کی جہانیاں جہاں گشت فطرت کی عطا کردہ ہے۔ اس جہاں گشتی میں عالی جی کے گل گشتیوں کو بھی شامل کر لیجئے جن کے دائرے درون خانہ سے برون خانہ تک پھیلے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عالی جی کے دوہوں میں دو آتشہ کا لطف پیدا ہو گیا۔ دو رنگوں کے اتصال نے ان کے دوہوں کو محض واقعہ نگاری نہیں بننے دیا۔ ایک ا ور رخ جو عالی جی کے دوہوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوا وہ یہ کہ دوہے کے لیے قلندرانہ سرشت درکار ہے۔ عالی جی کا دوہے کی طرف ڈھلکنا لپکنا، اچک کر اس کا دامن تھام لینا اور پھر ہمیشہ کے لیے اسے اپنا لینا اس امر پر دال ہے کہ عالی جی کی سرشت میں کہیں کوئی رمتا جوگی والا مزاج جسے قلندری بھی کہہ سکتے ہیں چھپ کر بیٹھا ہے جب موقع ملتا ہے شعر میں ورود کرتا ہے جس سے ان کے نظریہ حیات کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔ عالی جی کا کارنامہ یہ ہے کہ ’’دلدادگان دوہا‘‘ کی امنگوں کو ایک قیادت فراہم کی اور جب عالی جی نے ساٹھ باسٹھ برس قبل اس راہ میں قدم بڑھایا تو رفتہ رفتہ ایک کارواں اس جانب چل پڑا۔ دوہے کے میدان میں عالی جی کی خدمات ایک عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔ فیض احمد فیض نے غزل کو ایک نئی کروٹ عطا کی۔ عالی جی نے دوہے کی پرانی بوتل کو نیا مشروب مہیا کیا کہ بوتل ہی کے نیا ہونے کا گمان ہونے لگا۔‘‘ عالی صاحب کے دوہوں کے حوالے سے ڈاکٹر شارب ردولوی اپنے ایک مضمون ’’عالی اور اردو دوہے‘‘ میں لکھتے ہیں۔۔۔۔’’عالی کے دوہوں کے کئی رنگ ہیں جو قوس و قزح کی طرح نمایاں اور الگ الگ بھی ہیں اور پیوست بھی ان میں شررنگار رس بھی ہے اور زندگی کے گھمبیر مسائل بھی اس کی تلخیاں اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور محرومیاں بھی کہیں یہ بہت واضح طور پر الگ الگ نظر آتے ہیں اور کہیں ایک دوسرے میں پیوست کہ انہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عالی نے دوہوں کی مصنوعی روایت اور آہنگ کو برقرار رکھا ہے۔ ان کے دوہوں کی ایک خصوصیت ان کی اشاریت ہے جو دوہوں کی معنوی سطح کو وسیع تر کر دیتی ہے اور اس میں تہہ داریوں کے امکانات پیدا کر دیتی ہے۔ دوسری طرف ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ایک طرف تو دوہوں کی روایتی فضا ہوتی ہے جو دوہے کو کیفیت عطا کرتی ہے، دوسری طرف اسی روایتی فضا کے پیچھے ایسی معنویت پوشیدہ ہوتی ہے جس سے اس کی حدیں عصری واقعات اور محسوسات سے مل جاتی ہیں۔ ’’مچھلی بچ کر جائے کہاں جب جل ہی سارا جل ‘‘ یا ’’کڑیاں لاکھ ہیں رنگ برنگی ایک مگر زنجیر میں‘‘ ہماری زندگی کی کتنی سچائیوں اور سانحوں کی تصویر نظر آتی ہے یہ دوہے اپنی اسی گہرائی اور گیرائی کی وجہ سے زندگی کے سر دو گرم میں کتنی ہی جگہ یاد آتے ہیں۔‘‘

جامعہ پنجاب پٹیالہ سے منسلک پروفیسر راجندر سنگھ ورما سوز ’’دوہے‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں، ’’عالی صاحب کے دوہوں کی فضا نکہت و نور اور متانت و نفاست سے معمور ہے ان کی با وقار اور چٹیلی شخصیت کی جھلک ہر دوہے میں جھلکتی ہے۔ ان کے دوہوں میں بلا کی تاثیر ہے کیوں کہ یہ ان کے دل کے پاتال سے نکلی ہوئی آواز ہے اور اس کی پرورش انہوں نے اپنے خلوص کے تازہ خون سے کی ہے۔ ان دوہوں کا بے ساختہ پن اور رسیلا پن انہیں لوک گیتوں کے دیار میں لا کھڑا کرتا ہے۔ عالی صاحب کے اس شعری فیصلے کی جڑیں ہندی ادب اور ہندی کی گنگا جمنی کلچر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تب ہی تو وہ اپنے دوہوں کو ایک وسیع معنی پہنا سکے ہیں انہیں اس بات کی داد ملنی چاہیے کہ انہوں نے دور کی کوڑی لانے کی بات کی ہے نہ منہ لٹکا کر زندگی کی لغویت کا ماتم کیا ہے۔ ہمارے دور کے گہرے سے گہرے المیے کا ذکر کرتے وقت بھی وہ ناصحانہ انداز اختیار نہیں کرتے بلکہ ایک غمگسار کے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ جمال پرست عالی کو زندگی کے ہر گوشے میں حسن کی تلاش رہتی ہے۔ لیکن انسانی حسن انہیں خاص طور پر رجھاتا ہے اور وہ حسن کا اور واردات محبت کا بیان ایسے حسیاتی انداز میں کرتے ہیں کہ دوہوں کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

گھنی گھنی پلکیں تیری یہ گرماتا روپ

تو ہی بتا او نار میں تجھ کو چھاؤں کہوں یا دھوپ

لیکن یہ عالی کے دوہوں کا صرف ایک رنگ ہے دوسرا اور گہرا رنگ زندگی کے حقائق کی حسیاتی ترجمانی ہے۔ ذاتی واردات سے لے کر آفاقی تجربات تک سب کا حقیقت پسندانہ اور فن کارانہ بیان کیا ہے۔ کبیر کی طرح دو ٹوک بات کہنا اور بلا جھجک کھری کھری سنانا عالی کا شیوہ ہے۔ اس میں کچھ مبالغہ نہیں کہ عالی دوہے کی نئی روایت کے امین ہیں۔ دوہے میں نئی جہات اور نئے آفاق کی تلاش کرنے والے اس ممتاز شاعر کو اردو کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہو گیا ہے۔ ’’دوہے، ایک شعری دستاویز ہے جو فن کی سطح پر ان کی نئی پہچان بھی کرواتی ہے اور اردو شاعری کی ایک اہم جہت کا پتا بھی دیتی ہے۔۔۔۔‘‘

مندرجہ بالا اقتباسات جو عالی جی کے ’’دوہے‘‘ کے حوالے سے تھے ان میں آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ عالی صاحب کی اس کاوش کو کس کس طرح سراہا گیا ہے ان کی خدمات کا جو دوہے کے حوالے سے انہوں نے کی ہیں بہترین الفاظ اور انداز میں اعتراف کیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک اور شبہ کی گنجائش واقعی نہیں ہے کہ آج عالی جی دوہے کے ایک سب سے بڑے شاعر ہیں اور یہ کہنا بھی بے محل نہ ہو گا کہ پاکستان میں دوہے کو زندہ رکھنے والے صرف اور صرف عالی جی ہیں ان تمام باتوں کے باوجود میں ایک ایسی تحریر سے بھی اقتباس پیش کر رہی ہوں جو نہ صرف عالی صاحب کے دوہوں کی بلکہ مذکورہ تمام تحریروں کی بھی نفی کرتی ہے۔ یہ تحریر ’’دیا کبیر اروئے‘‘ کے عنوان سے ہے اور محمد یوسف پاپا کے قلم سے لکھی گئی ہے میں نے دیانتداری سے کام لیتے ہوئے اس مضمون کو ’’عالی نمبر‘‘ میں بھی شائع کیا تھا اور یہاں بھی لکھ رہی ہوں۔ محمد یوسف پاپا کا اظہار خیال آپ بھی ملاحظہ فرمائیے ’’جمیل الدین عالی کی ادبی حیثیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ہندو پاک کے مانے ہوئے ادیب اور شاعر ہیں حسن عسکری نے دوہوں کی بہت تعریف لکھی ہے اس سے متاثر ہو کر میں دوہوں کی طرف بڑھا۔ احتیاط سے ورق الٹے پہلا دوہا پڑھا جس سے سانس نیچے کا نیچے اور اوپر کا اوپر چڑھا میں نے آنکھیں ملیں اور دوبارہ پڑھا بہر طور غور کیا اور سوچا کہ کیا یہ دوہا ہے؟ جہاں تک میری اپنی علمی استعداد کا تعلق ہے وہاں تک وہ دوہا نہیں تھا چونکہ میں برابر سنتا آیا ہوں کہ عالی بہت عمدہ دوہے کہتے ہیں پاکستان، ہندوستان، امریکا اور انگلینڈ وغیرہ میں ان کے دوہوں کی دھوم ہے ان کے یہ اشعار دوہوں کے ہی نام سے موسوم ہیں اسی لیے مجھے بہت بڑا دھچکا لگا۔ تجسس اور استعجاب کے تحت پوری کتاب پڑھ ڈالی ہر نام نہاد دوہے کی یہی کیفیت تھی۔ مجھے ایک بھی شعر ایسا نہیں ملا جسے میں یا کوئی اور جانکار دوہا کہہ سکے، ان کو متفرق اشعار یا مطلعے کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال دوہے کے علاوہ آپ انہیں جو چاہیں کہیں۔۔۔۔ اب میرا ذہن اس طرح متوجہ ہے کہ وہ پہلا شخص کون تھا جس نے عالی کے ان اشعار کو دوہے کہا۔ مجھے عالی سے کچھ نہیں لینا ہے بلکہ اسے دیکھنا ہے جس نے ان مطلعوں کو دوہے کہا ہے اور کوشش کر کے ہر ادیب اور شاعر سے کہلوایا ہے اور اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ اب لوگ انہیں دوہے ہی سمجھ رہے ہیں۔ اتنی بڑی ادبی بے ایمانی کتنی بڑی بے ادبی ہے۔ یقیناً اس پہلے آدمی کی کوئی نہ کوئی غرض ضرور شامل رہی ہو گی جس کے تحت اس نے ان مطلعوں کو دوہے کہا اور بنا دیا لیکن مجھے ان مستند ادبی ہستیوں پر رونا آتا ہے جو ان مطلعوں کو دوہا کہہ رہی ہیں یا خاموش ہیں یہ کیسے لوگ ہیں جو کبھی صلاح الدین پرویز کی ہر لائن کو شیکسپیئر کی تخلیقات سے بہتر بناتے ہیں پھر کوئی ایک کھٹکا سا ہٹ جاتا ہے۔ قلب روشن ہو جاتا ہے تاریکی چھٹ جاتی ہے۔ دل کی دنیا بدل جاتی ہے اب صلاح الدین پرویز کی ہر چیز پر تارکول پتا ہوا نظر آتا ہے لیکن ابھی تک جمیل الدین عالی کا مطلع ’’دوہا‘‘ ہی نظر آ رہا ہے دیکھئے کس وقت کھٹکا ہٹے اور دانش وروں کا قلب روشن ہو۔‘‘ اس ضمن میں اتنا بتاتی چلوں کہ یہ مضمون مدیر ’’نیرنگ خیال‘‘ راولپنڈی کو نئی دہلی سے صاحب مضمون کے خط پر جناب مظفر حنفی کی مختصر تحریر کے ساتھ موصول ہوا تھا۔ یہ ایک مضحکہ خیز مضمون تھا مگر مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد عالی صاحب نے پاپا کو شکریے کا خط بھی لکھا اور اپنے تمام دوہوں کی ’’اصلاح‘‘ کی درخواست کی تھی (پاپا صاحب نے کچھ دوہوں کی ’’اصلاح‘‘ کے ساتھ یہ مضمون شائع کروایا تھا) لیکن عالی صاحب جواب سے محروم ہی رہے اور پھر جب وہ دہلی گئے تو انجمن ترقی اردو ہند کے جناب حبیب خاں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ذریعے پاپا صاحب کو یاد دہانی بھی کرائی لیکن وہ نتیجہ خیز نہیں ثابت ہو سکی۔۔۔۔دوہے کے حوالے سے یہ سوال وقتاً فوقتاً ہی رہا ہے کہ عالی صاحب کے دوہے ہندی کے دوہا چھند کی مخصوص بحر کے وزن و آہنگ پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ مختلف اہل قلم نے ان پر اظہار خیال کیا ہے اور انہیں مختلف نام دینے کی کوشش کی ہے لیکن عالی جی اپنی من ندی کے طوفان کو ناموں کا پابند کرنے کے قائل نہیں اور میں یہ بات کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی کہ عالی جی کے دوہے ’’صنف دوہا‘‘ کو زندہ رکھیں گے۔ ڈاکٹر عرش صدیقی (دوہوں میں عادل فقیر) نے ان کی بحر کو عالی چال کا لقب دیا ہے اور اکثر دوہا نگار اسی بحر میں دوہے کہہ رہے ہیں اور اب میں اپنے پڑھنے والوں کی توجہ عالی صاحب کی نظموں کی طرف دلانا چاہتی ہوں۔ان کی اکثر نظموں پر صاحبان علم و فن نے خوب خوب اظہار خیال کیا ہے۔ میں ان کی صرف تین نظموں کے بارے میں اہل قلم کے تاثرات بیان کروں گی۔ البتہ ’’انسان‘‘ کے حوالے سے تفصیلی گفتگو اسی باب میں لیکن علیحدہ ہو گی۔ جو نظمیں میں نے منتخب کی ہیں ان میں ’’چھپکلی کا دماغ، تہجی‘‘ اور’’گھنگھرو‘‘ شامل ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں وہ نظمیں بھی یہاں پیش کروں لیکن ضخامت میں اضافہ کا خدشہ ہے البتہ یہ کوشش ضرور کروں گی کہ کتاب کے آخر میں اگر گنجائش نکل آئے تو آپ کے مطالعے کے لیے نظمیں شامل کر دوں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا نام اردو ادب اور تنقید کے میدان میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ان کی ادبی خدمات بھی بڑی نمایاں ہیں۔ دبستان سرگودھا دراصل دبستان وزیر آغا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے عالی جی کی نظم نگاری کے حوالے سے کافی کچھ لکھا ہے۔میں یہاں ان کے ایک مضمون ’’چھپکلی کا دماغ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ سے مختصر اقتباس پیش کر رہی ہوں۔ ’’اس نظم کے متعدد پرت ہیں نظم کا محرک بربریت، غارت گری اور دہشت کا وہ منظر نامہ ہے جو خود آدمی کا پیدا کردہ ہے اس نظم کا شاعر اگر طبقاتی نشیب و فراز اور استحصال کی روایت کو تما م برائیوں کا منبع اور مخرج قرار دیتا تو نظم اپنے پیغام کی ترسیل کے بعد خود بخود ختم ہو جاتی مگر اس نظم کا شاعر صورت حال کو اتنا سادہ اور سطحی نہیں سمجھتا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے سامنے ایک پھوڑا ہے جس کی جڑیں جسم کے اندر بہت دور تک اتری ہوئی ہیں۔ لہٰذا وہ مرض کو اس کی تہوں تک نشان زد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اتفاق سے شاعر نے علم الحیات کا بھی مطالعہ کر رکھا ہے اور اسے علم ہے کہ آدمی کے دماغ کے اندر کہیں ایک Reptileبھی رہتا ہے جو مجسم درندگی ہے بربریت ہے۔ اس کے لیے اس نے ’’چھپکلی‘‘ کا نام تجویز کیا ہے۔ علم الحیات سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ آدمی کا دماغ دراصل تین دماغوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں قدیم ترین دماغ مزاج اور وضع کے اعتبار سے Reptilianہے۔ انسان کی جملہ جبلتیں اپنی ننگی صورت میں اس دماغ کے اندر ہی آباد ہیں اطباء اسے Reptilian Complexکہتے ہیں یہ دماغ بھوک، شہوت اور غلبہ پانے کی اندھی خواہشوں کے تحت اچھے اور برے، نیک اور بد، گناہ اور ثواب سے قطعاً لاتعلق ہے۔ اس کا واحد مقصد اپنی بقا ہے جس کے لیے وہ کوئی بھی طریق اختیار کر سکتا ہے۔ ارتقا کی دوڑ میں اگلا مقام اس وقت آیا جب ریپٹائل دماغ کی سطح پر mammalianدماغ اگ آیا۔ جس دماغ کا امتیازی وصف گہری لکیریں یا تجربات کی کھائیاں بنانا تھا۔ نفسیات نے انہیں آر کی ٹائپ کہا ہے۔ یہ وہ ساختیں یا خاکے ہیں جنہیں متخیلہ بھرتا ہے۔ بچہ جننے اور دودھ پلانے والے جانوروں کے حوالے سے یہ دماغ مامتا، شفقت اور خواب کاری کا مسکن ہے بعد ازاں اس کے دائیں دماغ کے اندر ایک اور دماغ پیدا ہوا جسے بایاں دماغ کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ ریشنل (Rational) تھا منطق اس کا ہتھیار اور تجزیہ اس کا تفاعل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی دماغ کے اندر یہ تینوں دماغ بہ یک وقت موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے پہلا دماغ مجسم بربریت اور تیسرا یعنی بایاں دماغ مجسم معروضیت، درمیان میں کہیں مہا بھارت کا وہ میدان جنگ ہے جہاں بربریت اور شفقت ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہیں۔ یہیں خیر اور شر، گناہ اور ثواب اچھے اور برے میں تصادم ہوتا ہے۔ زیر غور نظم کے شاعر کو اس آویزش کا شعور حاصل ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس تصادم میں بربریت کا پلہ ہمیشہ بھاری رہا ہے۔ تاہم ساتھ ہی اسے یہ بھی معلوم ہے کہ بائیں دماغ نے نہ صرف سیل (Cell) کے اندر جھانک لیا ہے بلکہ اس نے Reptileکو دماغ کی تہہ میں بیٹھا ہوا بھی دیکھ لیا ہے، چنانچہ وہ سوچتا ہے کہ (ٹیکنولوجی کی مدد سے) آج نہیں تو کل آدمی اندر کے اس ریپٹائل کا قلع قمع کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔ ستیزہ کاری ختم ہو گی اور آدمی کو انسان کا لقب مل جائے گا۔ اس سوچ کے آگے ہی اس نظم کا شاعر اللہ کی رحمت کا حوالہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ یقیناً یہ نہیں چاہے گا کہ شیطان مال کار انسان پر حاوی ہو جائے۔‘‘

(واضح رہے کہ یہ نظم ڈاکٹر وزیر آغا کو شاعر کا نام بتائے بغیر تبصرے کے لیے بھیجی گئی تھی۔)

جمیل الدین عالی کی ایک اور شاہکار نظم ’’تہجی‘‘ کے حوالے سے پروفیسر نظیر صدیقی نے کچھ اس طرح اظہار خیال کیا ہے۔۔۔۔ وہ لکھتے ہیں:’’اے میرے دشت سخن‘‘ میں ’’تہجی‘‘ کے عنوان سے بارہ صفحے کی ایک آزاد نظم ہے۔ اس میں عالی نے کائنات کے ارتقا کو ماہ و سال کے حساب سے کروڑوں برس پرانا عمل قرار دینے کے باوجود اسے ابتدائی مرحلہ قرار دیا ہے یعنی ابھی تک جو صدیاں گزر چکی ہیں۔ وہ الف بے کی صدیاں تھیں اس دوران میں کائنات کو سمجھنے کی ہر کوشش دراصل اپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش رہی ہے اس کوشش میں اظہار و ادراک کی نارسائیاں انسان کے لیے حد درجہ پریشان کن رہی ہیں۔ دنیا کے عظیم ترین دماغوں کی کاوشوں کے باوجود بہت کچھ سمجھنے کے لیے باقی رہ گیا ہے۔ انسان ابھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اتنی کہکشائیں کس طرح بنتی رہی ہیں اور ان کی گردشوں کا راز کیا ہے۔ انسان کے پاس زمانے کے طول و عرض کو ناپنے کے لیے جو پیمانے ہیں وہ اتنے محدود کیوں ہیں۔ ہم انسان زیادہ سے زیادہ ساعتوں سے لے کر صدیوں تک کا اندازہ لگا پاتے ہیں ابھی تک انسان کے دائرہ علم و ادراک میں جو کچھ نہیں آیا ہے اس کے لیے وہ بے تاب اور پریشان رہتا ہے۔ عالی نے انسان کے لیے دنیا کو آشوب گاہ جستجو قرار دیا ہے اور خود انسان کو ’’ہوس کار تمنا‘‘ کہا ہے اس طرح کی تخلیقی ترکیبیں ان کی نظم ’’تہجی‘‘ میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ ترکیب سازی نہ صرف یہ کہ ایک تخلیقی عمل ہے بلکہ شاعر کی Defining Power کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عالی نے ایک بڑے موضوع سے پنجہ آزمائی کی کوشش کی ہے ایک سائنسی اور فلسفیانہ موضوع کے لیے ایک شاعرانہ زبان تخلیق کرنے کی ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔۔۔

پروفیسر سحر انصاری کا نام عصر حاضر میں کسی تعارف کا محتاج نہیں اور ان کا نام شامل کیے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ ان کا تفصیلی اظہار خیال میں ’’انسان‘‘ کے باب میں پیش کروں گی۔ یہاں عالی صاحب کی ایک اور اہم نظم ’’گھنگھرو‘‘ کے حوالے سے مختصر اقتباس پیش کر رہی ہوں ملاحظہ فرمائیے: ’’جمالیات، نفسیات، ذاتی تجربے اور دل گداختہ کی تپش کو شاعرانہ کیمیا گری کے ذریعے یکجا کرنا ممکن ہو تو ’’گھنگھرو‘‘ جیسی نظم معرض تخلیق میں آ سکتی ہے۔ مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ جب بھی میں نے یہ نظم پڑھی ہے اشکبار ہو گیا ہوں۔ ایک نشست میں عالی جی کا کلام پڑھا جا رہا تھا میں پڑھ رہا تھا اور میرے دوست رسول احمد کلیمی سن رہے تھے ’’گھنگھرو‘‘ پڑھتے وقت ہم دونوں پر رقت طاری ہو گئی۔ عالی جی نے میرا خیال ہے کہ ہجرت، تقسیم ملک کے بعد رونما ہونے والے المیوں سے متعلق ساری تحریروں کو اس نظم کے ذریعے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس میں ایک ذاتی سانحے پر مبنی المیہ نظم کیا گیا ہے لیکن اس کی جمالیاتی فضا اور پھر جبر و قدر کے ہاتھوں ہونے والی فضا پذیری پڑھنے والے کے دل و دماغ پر گہرا تاثر قائم کرتی ہے اور یہ نظم ایک لمحاتی تجربے سے بلند ہو کر آفاقی سطح اختیار کر لیتی ہے۔ اس نظم پر صداقت کے لیے شیلے کے یہ الفاظ ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں کہ ’’ہمارے انتہائی الم انگیز نغمات ہی شیریں ترین نغمات ہوتے ہیں‘‘ اور اب کچھ اظہار خیال ’’انسان‘‘ کے حوالے سے بھی ضروری ہے۔ ’’انسان‘‘ عالی صاحب کا وہ طویل نظمیہ ہے جو اب شائع ہونے کے بعد اٹھہتر سو سطروں پر مشتمل ہے اور اس کثیر الجہات موضوع کے تحت اس میں ادب، فلسفہ، نفسیات، اخلاقیات، جمالیات، تاریخ، سائنس اور مذہب عالم جیسے مضامین باندھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پڑھنے والوں کو تکنیک اور اسلوب کے بھی نت نئے تجربات جا بہ جا نظر آئیں گے۔ 1950ء میں شروع ہونے والے انسان کا سفر ہے۔ 2007ء میں پہنچ کر کتابی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے یقیناً یہ بھی نامکمل ہو گا (عالی جی بھی یہی کہتے ہیں) لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ’’انسان‘‘ کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہ باب چونکہ ناقدین کے اظہار خیال کے لیے مختص ہے لہٰذا اس میں ذاتی اظہار خیال مناسب نہیں ہے اس لیے یہاں میں چند مستند اہل قلم کی آراء سے اقتباس پیش کر رہی ہوں لیکن اس ضمن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ ’’انسان‘‘ کے مختلف ابواب گاہے گاہے شائع ہوتے رہے ہیں اور اس پر بھی لکھا جاتا رہا ہے اس لیے ابتدا میں وہیں سے کروں گی لیکن ’’انسان‘‘ جب کتابی شکل میں ہمارے سامنے آیا تو اس پر ہمارے عہد کے معتبر اہل قلم نے جو کچھ لکھا وہ میں خصوصیت کے ساتھ پیش کرنا چاہوں گی۔ اب اقتباسات ملاحظہ فرمائیے: ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں’’جدید اردو شاعری میں اگر عالی کی اس نظم سے مماثل جدید و طویل نظمیں تلاش کی جائیں تو صرف گنتی کی نظمیں نکلیں گی۔ اس سلسلے میں یوں تو جوش کی نظم ’’حرف آخر‘‘ علی اختر حیدر آبادی کی نظم ’’قول فیصل‘‘ سردار جعفری کی نظم ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ اور اختر الایمان کی نظم‘‘ ’’سب رنگ‘‘ وغیرہ کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان میں قابل توجہ صرف جوش اور سردار جعفری کی نظمیں ہیں۔ اس لیے کہ یہ نظمیں بھی خاصی طویل ہیں اور اپنے اندر بہت سے مسائل حیات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ زندگی، کائنات، انسان، خدا اور ان کے باہمی رشتے کیا ہیں؟ اس نوع کے بعض سوالات کسی نہ کسی نہج سے ان نظموں میں زیر بحث آئے ہیں لیکن یہاں بھی عالی کا انداز فکر اور ان کی شاعری کا ڈکشن جوش یا سردار جعفری سے ذرہ برابر متاثر نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ عالی نے اپنی نظم میں فطرت اسانی کے ان سارے متضاد و متناقص، مثبت و منفی، خوف ناک و مہلک اور تعمیری و تخریبی پہلوؤں کو ذہن میں رکھا ہے جن کے عمل اور رد عمل کے نتیجے میں آج کا انسان اپنی موجودہ منزل تک پہنچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عالی کی سوچ کی رینج جوش اور سردار کی بہ نسبت بہت دور رس ہے اور اس کا سبب عالی کے فکر و مطالعہ کی گہرائی اور وسعت ہے۔ یقیناً اس نظم میں بعض بہت نازک اور سخت مقامات آئے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے رہرو راہ محبت کا بچ کر نکلنا مشکل ہو گا لیکن عالی کی تخلیقی صلاحیت لسانی جمالیاتی ہمت عالی اور وسعت مطالعہ نہیں نہایت خوش اسلوبی سے اس دشوار گزار مرحلے سے نکال کر لے گئی۔ خصوصاً لائق تحسین یہ امر ہے کہ تخیل و تفکر کی اس صبر آزما طویل مسافت میں کسی ایک جگہ بھی نہ تو ان کے قدم ڈگمگائے نہ ان پر واماندگی طاری ہوئی اور نہ قنوطیت و واقعیت ہی کو انہوں نے اپنے قریب آنے دیا۔ ہر چند کہ جبر و اختیار کے مسئلے کو انہوں نے بار بار چھیڑا ہے اور قضا و قدر کو کئی جگہ موضوع سخن بنایا ہے لیکن عقیدے کی جبریت ان کے فکر آزاد اور توسن اختیار کو ایک جگہ بھی بے اثر نہیں بنا سکی اور منقولات کی ہر بحث میں ہر مقام پر ان کا معقولاتی ذہن غالب رہا ہے بلکہ فرد کی اہمیت اور اس کے علم فکر کی برتری کے اظہار کے باب میں تو وہ واضح طور پر کہیں کہیں معتزلائی فکر کے بہت اور اس کے علم فکر کی برتری کے اظہار کے باب میں تو وہ واضح طور پر کہیں کہیںمعتزلائی فکر کے بہت قریب ہو گئے ہیں لیکن معتزلائی فکر کے قریب رہتے ہوئے وہ اپنے جمال پر ستانہ مزاج اور طبعی نرم خوئی کی وجہ سے شاید ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے چنانچہ انہوں نے عقلیت پسندی میں معتزلائی علما کے فکر کا وہ راستہ اختیار کیا ہے جو درمیانی یا اوسط الامور کا راستہ کہلاتا ہے۔ عالی اپنے عہد کے ایک نہایت معتبر و منفرد شاعر صاحب مطالعہ و با شعور دانش ور ہر دل عزیز نغمہ نویس گیت نگار اور موقر و معتبر اظہاریہ نویس کی حیثیت سے ابھرتے چلے گئے اور آخر کار فکر و فن کے ایسے بلند منصب پر فائز ہو گئے کہ پوری پاکستانی قوم اور پوری اردو دنیا کے لیے قابل احترام و لائق تقلید و مثال بن گئے۔‘‘

’’انسان‘‘ کے حوالے سے پروفیسر فتح محمد ملک نے بھی تفصیلی اظہار خیال کیا ہے اور ان کا یہ فکر انگیز مضمون ’’پیش لفظ‘‘ کے طور پر ’’انسان‘‘ (کتابی شکل) میں موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیے : ’’جمیل الدین عالی کے طویل منفرد اور نادر و نایاب سلسلہ منظومات بعنوان ’’انسان‘‘ نے عصری شاعری کو ایک سرا سر نیا اور عظیم الشان نشان منزل عطا کیا ہے علامہ اقبال کے بعد اردو شاعری فلسفہ و سائنس کے اٹھائے ہوئے نت نئے سوالات سے تخلیقی شغف کا چلن بھول بیٹھی تھی بارے اب جمیل الدین عالی کی طویل نظمیہ ’’انسان‘‘ نے ہماری شاعری کی اس عظیم الشان روایت کو از سر نو تازہ کر دیا ہے۔ یہ نظمیہ جدید اردو شاعری میں اپنی مثال آپ ہے یہ نظمیہ ان کی تخلیقی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے یہ صرف عالی ہی نہیں بلکہ اقبال کے بعد کی پوری اردو شاعری میں ایک نئے موڑ کی حیثیت رکھتا ہے جمیل الدین عالی نے زیر نظر سلسلہ منظومات میں تمثیل نگاری کے فن سے خوب استفادہ کیا ہے منظر نگاری اور فضا پسندی، مکالماتی آہنگ اور مثالی کرداروں کی کش مکش کے پس منظر میں ہنگامی اور دوامی سوالات پر تخلیقی غور و فکر سے اس طویل نظم کا تار و پود بنا گیا ہے۔

ادبی زوال اور تخلیقی انحطاط کے اس دور میں جمیل الدین عالی کا یہ طویل سلسلہ منظومات ایک عہد آفریں کارنامہ ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہماری ادبی دنیا میں پیروی مغرب کا جو چلن عام ہو گیا تھا اس کے زیر اثر مسلمانوں کی شعری روایت سے ہمارے شاعروں کا رشتہ کٹ کر رہ گیا تھا اس زمانے میں اس عظیم شعری روایت کے سب سے بڑے ترجمان اقبال تھے، جنہوں نے عہد حاضر کی سائنسی اور فکری ارتقا کی روشنی میں اس روایت کو نیا رنگ و آہنگ بخشا تھا۔ مسلمانوں کے اس جدید تر رنگ سخن سے شعوری انحراف کی شاعری نے ہمیں چند اچھے شاعر تو ضرور دیے مگر کوئی بڑا شاعر نہ دے سکی۔ جمیل الدین عالی کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہماری شاعری کو اس تخلیقی بحران سے نکلنے کا راستہ دکھایا ہے اس طرح انہوں نے ہماری شاعری کا رشتہ پھر سے مسلمانوں کی اس عظیم شعری روایت سے جوڑ دیا جس کی ترجمانی تجدید اور احیا کا حق اقبال نے بے مثال شان و شوکت کے ساتھ ادا کیا ہے۔ عالی نے شعوری طور پر ہماری اقبال سے منحرف شعری روایت کو پھر سے اقبال کے اثبات کا چلن سکھایا ہے چنانچہ ان کی شاعری ان کی اس تمنا کی صورت گر بن گئی۔‘‘

آگے جانا ہے تو رہوار بدلنے ہوں گے

ہم کو معیاروں کے معیار بدلنے ہوں گے

جمیل الدین عالی کی تخلیقی شخصیت یک رخی نہیں، ہشت پہلو ہے ہر چند اس یگانہ روزگار شخصیت کا ہر رخ منفرد اور ممتاز ہے تاہم ’’انسان‘‘ کے عنوان سے زیر نظر سلسلہ منظومات عصری ادب کا ایک یادگار کارنامہ ہے یہ نظم انسانی ارتقا کی سرگزشت بھی ہے اور انسان کے شاندار مستقبل کا خواب نامہ بھی:

تفکر کے سائے میں چلتے رہو اور کرتے رہو بس

محبت، اطاعت، عبادت

’’انسان‘‘ کا ابتدائیہ ہمارے نہایت مشہور و محترم شہزاد احمد نے لکھا ہے۔ یہاں اس کا بھی مختصر اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔ شہزاد احمد نے جس طرح اس طویل نظمیہ کا تجزیہ پیش کیا ہے اس سے یقیناً قارئین کو ’’انسان‘‘ کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔ شہزاد احمد لکھتے ہیں:

’’میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اردو میں کوئی ایسی نظم موجود ہے جس نے عہد بہ عہد اٹھنے والے سوالوں کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال کبھی مرتا ہی نہیں اور ممکن ہے یہ بھی درست ہو کہ جواب خواہ کیسا ہی منطقی کیوں نہ ہوتا دیر زندہ نہیں رہ سکتا زندگی جو کچھ بھی ہے جیسی بھی ہے وہ سوالوں کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ عام طور پر جمیل الدین عالی کو مشاعرہ لوٹنے والا شاعر سمجھا جاتا ہے مگر ان کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ’’انسان‘‘ کو پڑھتے ہوئے مجھے کئی روز ہو گئے۔ اس طویل نظمیہ میں عالی صاحب نے انسان کی زمینی زندگی پر بہت کچھ کہا ہے اس کی کمزوریوں اور خامیوں کا بھی ذکر کیا ہے اس کی عظمت بھی بیان کی ہے لیکن کہیں کوئی فیصلہ نہیں دیا شاید وہ چیف جسٹس کی پوزیشن اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ ایک سیدھے سادے انسان کی طرح زندگی کو دیکھنے کے خواہش مند ہیں مگر زندگی اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کا سرا تلاش ہی نہیں کیا جا سکتا شاید اس کا کوئی ایک سرا ہے بھی نہیں۔ جدید تر تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انسانی دماغ محض دونوں نصف کروں پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس عمارت کے بہت سے ستون ہیں جو ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے باوجود بے حد خود مختصر ہیں۔ عالی صاحب کی نظمیہ بھی ایسی ہی ہے اس کے مختلف عمارتی ستون ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں اور ایک دوسرے سے لاتعلق بھی ہیں۔ یہ فعلیاتی طور پر بھی دماغ کی تصویر کا ایک عکس ہے یعنی معنوی طور پر بھی انسانی دماغ کی صورت گری کو دہرایا گیا ہے۔ جہاں تک اس نظمیے کے عروضی معاملات کا تعلق ہے ان کا بھی تفصیلی مطالعہ ہونا چاہیے مگر میں اس کا اہل نہیں ہوں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اس میں بحور کے بھی بہت سے تجربات موجود ہیں اگر ان کے ہر باب کو کینٹو(Canto) کہہ لیا جائے تو ایک ہی کینٹو میں ضرورت کے مطابق کئی کئی بار بحور تبدیل کی گئی ہیں۔ یہ اس نظم کا حسن بھی ہے اور مجھ جیسے قاری کے لیے دشواری بھی ہے کیوں کہ بار بار مجھے ان مصرعوں کو پڑھنا پڑا ہے تب جا کر ان کی غنائیت کا اندازہ ہوا اگر عالی صاحب کی اس استطاعت سے میں واقف نہ ہوتا تو ممکن ہے اس قدر سعی نہ کرتا ’’انسان‘‘ کے عنوان سے جو کتاب لکھی گئی ہے اس میں جس قدر تنوع موضوعات میں ہے اسی قدر رنگا رنگی ان کے کرافٹ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ کتاب اس وقت تک لکھی ہی نہیں جا سکتی جب تک بیان پر قدرت حاصل نہ ہو اس طرح کے موضوعات پر ہاتھ ڈالنا کارے دارد ہے۔ یہ کتاب کم و بیش نصف صدی میں لکھی گئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس کتاب کا محاکمہ نہیں کر سکتا۔ اسے پڑھتے ہوئے میرا سابقہ کئی جہانوں سے پڑتا ہے جو کبیر و صغیر دونوں طرح کے ہیں۔ اس کتاب پر میری گفتگو حرف آخر نہیں ہے حرف آغاز ہے۔۔۔۔‘‘ ’’جمیل الدین عالی کی نظم نگاری‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ایک بہت تفصیلی مقالہ تحریر کیا جو ’’انسان‘‘ میں شامل تو کیا گیا ہے لیکن مکمل نہیں ہے۔ میں اس مقالے سے ’’انسان‘‘ سے متعلق تحریر کا اقتباس پیش کر رہی ہوں۔

شاید’’انسان‘‘ اردو کے طویل ترین نظمیوں میں ہے جو اکتیس ابواب پر مشتمل ہے۔ عالی صاحب نے اسے گزشتہ پانچ دہائیوں میں وقفے وقفے سے لکھا ہے۔ اردو کا کوئی دوسرا تسلسل معلومات نہ اتنا متنوع ہے نہ کسی شاعر نے ایک ہی نظمیے کے ساتھ اپنی عمر کا اتنا طویل عرصہ بسر کیا ہے۔ انگریزی میں اس کی صرف ایک مثال ازرا پونڈ کی ’’دی کینٹوز‘‘ ہے جسے اس نے 1915ء سے لکھنا شروع کیا اور جو وہ ساری عمر1973ء تک لکھتا رہا نظمیہ ’’انسان‘‘ جن بنیادی سوالات پر استوار ہوا ہے۔ انہیں بیسویں صدی کی جدید حسیت میں منقلب کر کے پیش کیا گیا ہے۔ تاہم نشان خاطر رہے کہ جدید حسیت جسے عالی صاحب سادہ بیانی سے تعبیر کرتے ہیں مجرد اور قائم بالذات نہیں ہے یہ اپنا اظہار تخلیق کار کے ذریعے کرتی ہے اس لیے عالی صاحب کے یہاں اس کا اظہار مخصوص و منفرد انداز میں ہوا ہے اور جدید حسیت کی انفرادیت ’’فروی‘‘ ہوتی ہے ’’نوعی‘‘ نہیں۔ یہاں سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر نظمیہ ’’انسان‘‘ متعدد سوالات کا علم بردار ہے تو کوئی ایسی چیز ضرور ہو گی جو ان تمام سوالات کو باہم دگر مربوط کرتی ہو گی ؟ وہ کیا ہے اور کیوں کر مربوط کرتی ہے؟ اس چیز کی عدم موجودگی میں نظمیہ سوالات کے محض عذر کو پیش کرے گا۔ یہ چیز انسان ہے اور ربط گری کا عمل منطقی کم اور Thematicزیادہ ہے۔ انسان اس نظمیے کا نطق بھی ہے اور منطق بھی۔ انسان تمام سوالات کی قوت تشکیل بھی ہے اور تمام سوالات کا مظہر بھی۔ غور کیجئے انسان کا ہونا ہی تمام سوالات کا باعث نہیں ہے؟ یہ انسان ہی ہے جو سوالات قائم کر سکتا ہے ان کے لیے پریشان ہو سکتا اور جواب کے کرب اور لاجوابی کے بحران سے گزر سکتا اور گزرتا ہے۔ ہر چند اس میں ایک حد تک انسان کی نوعی نرگسیت موجود ہے جس کی طرف اشارات اس نظم میں موجود ہیں مگر کم از کم انسانی علم میں یہ بات موجود نہیں کہ کوئی دوسری مخلوق بھی سوالات اور ان کا جوکھم اٹھاتی ہے۔ اس نظمیے کی قدر اور مرتبے کا تعین تو وقت کرے گا جب اس کی تمام سطحیں روشن اور تمام گوشے منکشف ہوں گے۔ راقم تو بس چند بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کر سکا ہے۔ یہ ایک ’’میگا نظمیہ‘‘ ہے جو اپنی تعبیر و تحسین کے لیے ان قارئین اور ناقدین کے التفات کا منتظر ہے جو انسانی تاریخ، کلچر، مذہب، سائنس، ادب کا وسیع مطالعہ اور اس سے پیدا ہونے والا وژن رکھتے ہیں اور جنہیں انسان کے وجودی اور ثقافتی سوالات سے گہری باطنی دلچسپی ہے۔ وہ شاعری کو وقتی مسرت (جو دراصل تفریح ہے) کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے بنیادی انسانی سوالات سے متعلق بصیرت مہیا کرنے کا وسیلہ خیال کرتے ہوں۔

پروفیسر سحر انصاری نے انسان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے لیکن ان کی ایک خصوصی تحریر ’’انسان‘‘ ایک مطالعہ (انتظاریہ) کے عنوان سے انسان کے آخری صفحات میں موجود ہے۔ اس سے میں کچھ اقتباس (نسبتاً تفصیلی) پیش کرتی ہوں۔ سحر انصاری صاحب لکھتے ہیں:’’انسان ایک وسیع ترین موضوع ہے اس کی تخلیق کے بعد اس کی فطرت(Nature)اور اس کی تہذیب (Culture)کو تاریخ کے تناظر میں جمالیاتی شرائط کی تکمیل کے ساتھ پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جدید اردو شاعری کو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور شاعری کی دیگر اصناف کی آبیاری کے ساتھ ساتھ جمیل الدین عالی نے ایک نئے معیار اور نئی وضع کی طویل نظم دور حاضر کی نذر کی ہے۔ عالی جی کی یہ طویل نظم چند بنیادی کرداروں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے جو مختلف مکاتیب فکر سے بھی گفتگو کرتے ہیں اور گاہے گاہے بالکل نئی بھی۔ عالی جی نے اپنے نظمیے کا آغاز تکوین کائنات، تخلیق آدم اور پھر مذاہب اور ان کے داعیان سے کیا ہے۔ انسانی ارتقا میں وہ ڈارون جیسے سائنس دانوں اور عبدالقادر بیدل جیسے منکر شاعروں کا ذکر بھی کر جاتے ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں جب کوئی بڑا کام کیا جاتا ہے تو موضوع اسلوب اور فنی لوازم کے ساتھ تعصب سے بڑا مسئلہ زبان یا پیرایہ اظہار کا ہوتا ہے۔ ہر زبان کے ادب میں ہر زمانہ ایک لسانی ہیئت کا پابند نظر آتا ہے۔ پھر کوئی بڑا تخلیقی ذہن پرانے لسانی سانچوں کو توڑ کر نئے سانچوں کو وضع کرتا ہے۔ جیسا کہ امیر خسرو، قلی قطب شاہ، ولی دکنی، میر تقی میر، مرزا رفیع سودا، آتش و ناسخ، انیس و دبیر اور غالب و مومن اور حالی اور اقبال نے کیا ۔ بیسویں صدی میں اقبال نے ’’ناقہ بے زمام‘‘ کو قطار میں لانے کی کوشش کی اور شاعری کا ایک دانش ورانہ معیار قائم کیا۔ اقبال کی فکر سے اختلاف ہو یا اتفاق ان کی شاعرانہ اور تاریخی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بیسویں صدی کے عالمی معیار تک بہت کم ادیب و شاعر پہنچتے ہیں لیکن اقبال کی اہمیت کے بارے میں دورائے نہیں ہو سکتیں۔

جمیل الدین عالی کے سامنے یہ منظر نامہ رہا۔ انہوں نے اس دانش کو سمیٹنے کے بعد نئے موضوعات اور فکر و نظر کے لیے سرچشموں کی طرف توجہ دی ’’انسان ‘‘ میں ان کا تخلیقی رویہ بالکل مختلف انداز میں نمایاں ہوا ہے۔ انہوں نے ذرے سے لے کر آفتاب تک کے Range میں انسان کو دیکھا اور پیش کیا ہے۔ انسان ان کے یہاں Becoming Being کی منازل طے کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے انسان کو پہلی بار نیچر اور کلچر کے متوازی تناظر میں دیکھا اور حیاتیاتی سطح پر نطفے، بیضے اور انسان کے سماجی اور اخلاقی نظام کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ ایک نیا رخ ہے جس پر اس سے پہلے ہمارے شعرا کو سوچنے اور لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ عالی صاحب نے ’’انسان‘‘ پچاس کی دہائی میں لکھنا شروع کیا تھا اور وہ طویل طویل وقفوں سے شائع بھی ہوتا رہا۔ ابتدائی زمانے کی اس شاعری میں بھی رومانی عنصر غالب تھا۔ رومانیت یقیناً شاعری کی قوت بھی ہے اور اسے دل کش بھی بنا دیتی ہے لیکن بڑی شاعری کے لیے ٹی ایس ایلیٹ کی اصطلاح میں شاعر کو اپنے ’’نجی ذہن‘‘ سے آگے نکلنا ہوتا ہے۔ جمیل الدین عالی نے اس حقیقت کو پا لیا، چنانچہ انہوں نے انسانی ارتقا اور تاریخی شعور کے سفر میں سماجیات، معاشیات اور نفسیات کے علاوہ مستقبلیات، تکوین کائنات، وقف اور کائنات کے سائنسی نظریات پہ توجہ دی۔ نیوٹن، آئن اسٹائن اور اب ہاکنگ کے کائناتی تصورات کا مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام، وزیر تعلیم ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ایٹمی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے بڑے سائنس دانوں سے ذاتی مراسم کی بنا پر سائنس کے مختلف افکار و نظریات پر تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ اس طرح وہ اپنے ’’نجی ذہن‘‘ سے آگے نکل گئے اور ایک کامک ویو سے قریب تر پہنچ کر اپنے نظمیے کے کینوس کو وسیع تر کر دیا۔ وقت کی مختلف تاریخA Brief History of Timeکے مصنف اسٹیفن ہاکنگ کا انہوں نے خاصا اثر قبول کیا، بلیک ہول، کہکشاؤں کی تشکیل اور تخریب وقت کا کائناتی اور ارضی تصور اور سب سے بڑھ کر سنگولیریٹی (Singularity)کا غیر معمولی نظریہ جس سے عالی جی پر کبھی دہشت بھی طاری ہو جاتی ہے اور کبھی وہ اس کائنات گیر معمے کو حل کرنے اور انسان کی بے بسی پر ملول و افسردہ بھی ہو جاتے ہیں۔

عالی جی کی انفرادیت کے کئی زاویے اس طویل نظمیہ میں موجود ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کی بنیاد روایتی تصوف، تاریخی کرداروں، اساطیر یا داستانوں کے عناصر پر نہیں رکھی ہے یقیناً یہ زیادہ مشکل کام تھا۔ متذکرہ عناصر کی اپنی روایات اور پس منظر سے عام قاری واقف ہوتے ہیں اور ان کے توسط سے کوئی تخلیقی اظہار نسبتاً آسان اور قابل قبول ہو جاتا ہے۔ عالی جی نے ایک طرح کا Riskلیا اور اپنے نظمیے کی بنیاد غیر داستانی، غیر اسطوری اور سیکولر رکھی ہے اور وہ اپنے تخلیقی اظہار تو ان کے قدم ڈگمگائے نہ ان پر دمیں کامیاب رہے ہیں۔ جمیل الدین عالی کا یہ طویل نظمیہ شاہکار سے کم نہیں۔ سنجیدہ اور دانش پسند اذہان جو ادب کی دنیا میں فرسودہ نگاری سے بیزار ہو چکے ہیں۔ اس نظمیہ کو تازہ کاری کی اعلیٰ مثال کے طور پر قبول کریں گے۔ عالی جی اسے منظوم ڈراما بنانا چاہتے تھے۔ اب نہ یہ منظوم ڈراما ہے نہ منظوم ناول یا منظوم داستان۔ موضوعات اسلوب نگارش اور فکر و فراست کے ایک عظیم اندرونی پیچیدہ عمل سے اس نظمیے کو جو شکل دی ہے اسے ہیئت بے ہیئت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ عالی صاحب اس نظمیے کے بارے میں خود بھی کڑی تنقیدی روش اختیار کرتے رہے ہیں اس کی اشاعت اور عدم اشاعت کے بارے میں تذبذب کا شکار رہے ہیں۔ پچھلے دنوں جب وہ بیمار پڑے اور میں مزاج پرسی کو گیا تو میرے ایک سوال پر عالی جی نے کہا کہ اتنا کچھ لکھ دیا لیکن یہ نظمیہ مکمل نہیں ہو رہا ہے میں نے عرض کیا کہ جب انسان اب تک مکمل نہیں ہو سکا تو یہ نظم کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟ اس رائے میں حقیقت کا رنگ اس طرح نمایاں ہوا کہ نظمیہ ’’انسان‘‘ پردۂ خفا سے نقاب الٹ کر موجودات کی دنیا میں آ گیا۔‘‘

جمیل الدین عالی کے قومی نغموں سے پہلے قومی/ملی نظمیں تو ایک باقاعدہ ذیلی صنف نظم کے طور پر موجود ہیں مگر قومی نغموں کا چلن نہیں تھا جو ان سے شروع ہوا۔ قومی نغمہ نگاری کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ذیل میں پروفیسر محسن احسان کی ایک تحریر سے اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔ ’’جمیل الدین عالی کی نغمہ نگاری‘‘ کے عنوان سے جناب محسن احسان لکھتے ہیں:

’’قیام پاکستان اور اس کے بعد بھی ہمارے شعرا کی ایک بڑی تعداد ملت کی بیداری نئے ملک کی بنیادوں کی استواری اور قومی شعور کی پختہ کاری کے لیے تگ و دو میں مصروف رہی۔ جمیل الدین عالی بھی انہیں شعرا کی فہرست میں ایک اہم مقام پر فائز ہیں۔ انہوں نے قومی نغمے لکھ کر نہ صرف 1965ء کی جنگ پر قوم کے رگ و پے میں نئے خون کو دوڑایا بلکہ یہ احساس پیدا کر دیا کہ اس ملک کی شناخت اور ہماری قومی پہچان اس کے بغیر کہیں نہیں۔ عالی کے نغمے ستمبر کی جنگ میں نہ صرف فوجیوں کے دلوں میں جذبہ جنگ کو بیدار کرتے رہے بلکہ پوری ملت کو یکجہتی کا احساس دلاتے رہے۔ عالی جی کے قومی نغموں کا مجموعہ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ اس بات کی بھرپور غمازی کرتا ہے کہ عالی کو اپنے دیس، اس کی مٹی اور اس کی دھوپ چھاؤں سے کتنا پیار ہے۔ اس نے علاقائی دھنوں میں اردو گیت لکھے اور قومی زبان میں قومی نظموں سے سماعتوں کو سکون بخشا۔ یہ نغمے آج بھی ٹی وی یا ریڈیو پر جب سنائے جاتے ہیں تو دلوں میں ایک ولولہ پیدا ہو جاتا ہے اور روحوں میں تازگی بھر جاتی ہے۔ وہ چاہے نور جہاں کی آواز میں گایا ہوا نغمہ ہو (اے وطن کے سجیلے جوانو، میرے نغمے تمہارے لیے) یا فریدہ خانم کی سریلی آواز میں گایا ہوا مشہور یہ نغمہ (اب یہ انداز انجمن ہو گا، ہر زباں پر وطن وطن ہو گا) سننے والوں کے لیے فردوس گوش ہیں۔ ’’ہم مصطفویؐ مصطفویؐ مصطفویؐ ہیں‘‘ یہ نغمہ ہمارے اسلامی فکر اور جذبہ جہاد کو ابھارتا ہے اور ’’سورج وطن ہمارا‘‘ میں عالی کی نفسیات ایک نئے رنگ اور نئے اسلوب کے ساتھ دلوں کو برماتی ہے۔ یہ نغمے ادب کی کلاسیکی روایت سے ہم آہنگ ہیں اور ان میں تہہ در تہہ بات کہنے کا لطف پنہاں ہے۔ عالی بہ حیثیت قومی نغمہ نگار بھی زندہ رہے گا۔ اس کے دوہے، گیت اور غزلیں تو اردو شاعری کا بیش قیمت اثاثہ ہیں ہی اس کے علاوہ کالم نگاری اور قومی موضوعات پر خیال آرائی بھی اسے ادب میں تا دیر زندہ رکھے گی۔‘‘

روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور نے اپنی 7دسمبر1988ء کی ایک تحریر میں عالی کی قومی نغمہ نگاری کے حوالے سے لکھا کہ ’’جمیل الدین عالی قومی نغموں کے معاملے میں ایک رجحان ساز شخصیت ثابت ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے ہمارے یہاں قومی شاعری کا غالب حصہ نظموں پر مشتمل تھا۔ یہ بھی تھا کہ ہمارے ریڈیو پر تفریحاتی سلسلوں کے موسیقی کے پروگرام یا تو فلمی گانوں پر مشتمل ہوتے تھے یا چند شعرا کی غزلوں گیتوں پر، ٹی وی کے آٹے آتے موسیقی فلمی گانوں سے آگے جا کر ہمارے شعراء کے کلام پر مشتمل ہونے لگی تھی۔ کیوں کہ ٹی وی نے فلمی گانے نہیں اپنائے فلمی گانے صرف ریڈیو پر ہی رواں رہے۔ گو ریڈیو نے بھی شعرا کے غیر فلمی گیت اور غزلیں بھی نشر کیں لیکن ابھی قومی نغموں نے اپنا مقام نہیں بنایا تھا جب جمیل الدین عالی کے نغمے مقبول ہونے لگے تو ٹی وی موجود نہیں تھا مگر اس دوران میں عالی کے نغموں نے عمدہ دھنوں اور اچھی آوازوں کی مدد سے ایک نیا رجحان قائم کر لیا تھا اور وہ گراموفون ریکارڈوں کے ذریعے عوام تک پہنچ گئے تھے۔ پھر ٹی وی نشریات کئی مراکز میں شروع ہوئیں تو یہ رجحان قائم ہو چکا تھا۔ خود عالی سب سے زیادہ لکھ رہے تھے اس اثنا میں دوسرے شعراء نے بھی قومی نغمہ نگاری کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کی اور ہمارے میڈیا نے انہیں بہتر سے بہتر موسیقی میں ڈھال کر مشہور و مقبول کر دیا۔ اب ملی نغمہ ریڈیو اور ٹی وی کا جزو لازم بن گیا ہے۔ کوئی چینل ایسا نہیں ہے جو یہ نغمے نشر نہ کرتا ہو۔ جمیل الدین عالی نے علاقائی دھنوں میں بطور خاص نغمے لکھے جنہیں علن فقیر، معشوق سلطان، فیض بلوچ اور عابدہ پروین نے اپنی آواز سے سجایا، اس کے علاوہ 1973ء میں پاکستان کے جنگی قیدیوں کے حوالے سے بھی نغمے لکھے۔ جنہوں نے لاکھوں خاندانوں کو متاثر کیا۔ دیکھا گیا کہ دیہات اور قصبوں میں دیواروں اور عمارتوں پر ان نغموں کے اقتباس بڑے جلی لفظوں میں پینٹ کر دیے گئے۔ جلسوں میں بھی گائے جاتے تھے اور ہزاروں لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے۔ جب قیدیوں کی واپسی ہوئی انہوں نے اسی انداز اور بحر میں تہنیتی نغمہ لکھا۔و ہ بھی جب تک قیدی آتے رہے ریڈیو اور لاہور کی پاک ہند سرحد پر بجتا رہتا اور دل گرماتا تھا دونوں نغموں کے ابتدائی بول بھی ایک جیسے تھے:

1۔ اے دیس کی ہواؤ

سرحد کے پار جاؤ

اور ان کو چھو کے آؤ

2۔اے دیس کی ہواؤ

سرحد کے پار جاؤ

اور ان کو لے کے آؤ

ملک و قوم پر جب بھی کوئی وقت پڑا عالی جی نے اپنا شعری کردار ضرور ادا کیا۔‘‘

گیت نگاری

عالی جی کی گیت نگاری کے حوالے سے محترمہ بیگم بسم اللہ نیاز نے ایک بہت تفصیلی (تحقیقی زیادہ) مضمون تحریر کیا ہے۔( یہ ایک ایم فل کا مقالہ تھا) یہاں اس سے اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:’’جمیل الدین عالی گیتوں کے رسیا‘‘ کے عنوان سے بیگم بسم اللہ نیاز لکھتی ہیں:

’’عالی نے اپنی پہلی تصنیف‘‘ غزلیں، دوہے، گیت میں تینوں کو الگ الگ کر دیا ہے اور گیت والے حصے میں پہلا گیت ہے ’’آنکھیں دیکھی رہ جاتی ہیں‘‘ یہ گیت گیت کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ عالی کے اس گیت کا موضوع ہے انسان کا کردار عمل۔ اعتقاد نظریاتی تبدیلیاں خواہ اخلاقی ہوں یا سیاسی، انفرادی ہوں یا اجتماعی، جس مسئلے پر اس گیت میں اظہار خیال کیا گیا ہے وہ نہ غزل میں سما سکتا تھا، نہ دوہے میں نہ اردو کی کسی مروجہ صنف میں، پڑھنے والا محسوس کر سکتا ہے کہ یہ گیت ہے اس لیے کہ اس کے پڑھنے میں خود بخود موسیقیت در آتی ہے پھر وہ خصوصیت جو اسے گیت کے معیار پر پورا اتارتی ہے اس کی زبان ہے روز مرہ کی زبان سوائے ایک فارسی کے لفظ ’’منسوب‘‘ کے اور دوسرے ٹھیٹھ ہندی کے لفظ ’’آدرش‘‘ کے پورا کا پورا گیت، گیت کی اپنی زبان میں گونجتا ہوا سنائی دیتا ہے جو اردو بھی ہے ہندی بھی۔ اسلوب بھی گیتوں کا ہے اور عروض کے اعتبار سے بھی یہ ایک گیت کا سانچہ ہے۔ گو عالی نے جرأت رندانہ سے کام لے کر اپنے دوہوں اور گیتوں کے عروض کے متعلق یہ کہہ کر کہ ’’اپنا چھندا لگ ہے جس کا نام ہے عالی چال‘‘ ایک نام تجویز کر دیا ہے چونکہ اس گیت میں زندگی ایک تلخ حقیقت یعنی غیر متوقع تبدیلی کا بیان ہے اس لیے اس گیت میں مسرت ذاتی، اس کا ہلکا پن اور گیت کی کھنکھناہٹ مفقود ہیں لیکن اس کے بعد عالی کا دوسرا گیت ’’چھن چھنن چھنن‘‘ اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔ یہ گیت محبت کے تانے بانے سے بنا گیا ہے اور زبان بھی کچھ نئی سی استعمال کی گئی ہے جو ہندی یا بھاشا کے مقبول اور جانے پہچانے الفاظ پر یا ان الفاظ پر جو گیت کے لیے مخصوص طور پر قابل فہم ہیں مشتمل ہے۔ اس سب کو ملا کر گیتوں کی ایک خاص زبان وضع ہونی شروع ہو گئی ہے۔ اس گیت کی زبان غالباً اس کا احساس ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری یا اپنے گیتوں کے لیے اسی قسم کی ایک نئی زبان وضع کی ہے۔ گیت اگر صحیح معنوں میں گیت ہے تو زبان اس کا ساتھ دے گی بھی۔

عالی کا ایک اور گیت جو ایک نئی نویلی دلہن کے جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہے اور گیتوں کی تعریف پر پورا اترا ہے۔ا س میں داخلیت اور موسیقیت بھی ہے اور متناسب اور سڈول عروضی سانچہ بھی ہے اور موضوع عوامی زندگی کی واردات میں سے ایک جذبہ ہے جذبہ میں حقیقت اور اصلیت ہے سماجی اور اجتماعی مزاج کی عکاسی ملتی ہے۔ عظمت اللہ خاں کی طرح عالی بھی عورت کی مظلومیت سے متاثر ہیں۔ عالی کے گیتوں میں بھی عورت ہی جھانکتی نظر آتی ہے اسی کے متعلق حسن و عشق، جذبات نگاری و سراپا نگاری کے موضوعات ہیں۔ ان کے یہاں حسن و عشق پست نہیں بلکہ بلند ہے۔ گیت میں بھاشا کے رس بھرے نرم نرم الفاظ ہیں۔ ان کے عشق میں ایک رکھ رکھاؤ اور سلیقہ مندی نظر آتی ہے، عشق اور عشق کے انداز بیان کی نیرنگیاں جگہ جگہ ملتی ہیں۔ عالی کے دل میں غم جاناں بھی ہے اور غم روزگار بھی غم دوراں بھی ہے اور غم اظہار بھی۔ انہیں اس کی فکر مارے ڈالتی ہے کہ آخر ہر کوئی کیوں ان کے محبوب کے گھر سے معتوب جاتا ہے انداز بیان کا یہی تنوع عالی کو دوسرے گیت نویسوں سے ممیز کرتا ہے۔ عالی کو اس کا احساس بھی ہے کہ ان کا انداز بیان یہاں عشق کی جانی پہچانی اور محبوب ڈگر سے ہٹ جاتا ہے اور اسی احساس کو وہ اپنے گیتوں میں پیش بھی کر دیتے ہیں۔

عالی کے دل میں بھی سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے والے انسان کی طرح ارمانوں اور خوابوں کی ایک دنیا آباد ہو گی اور تھی بھی کیوں کہ انہوں نے اپنے اشعار میں اور گیتوں میں جا بجا اس طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک خاص گیت کی طرف اشارہ کرتی چلوں کہ وہ بہت اہم ہے۔ یہ گیت انہوں نے 1949ء میں لکھا تھا اس وقت جب وہ پاکستان کے بننے پر ہندوستان کو الوداع کر چکے تھے یہ الوداعی سلام ان کے ذہن اور ان کی شاعری کی ارتقائی منازل میں سے ایک منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالی کا یہ سلام وطن کی شان میں ایک پر مغز اور پر معنی قصیدہ بھی ہے اور وطن کے ساتھ والہانہ محبت میں ڈوبی ہوئی ایک غزل بھی۔ اس وقت غزل کو درمیان میں لانے سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کی شخصیت اور شاعری کی خاکستر میں وطن اور وطن سے محبت کی چنگاری بھی موجود تھی جو سلگتی رہی اور آہستہ آہستہ سلگتی رہی۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ گیتوں کی تعداد نسبتاً کم ہے معلوم ہوتا ہے پہلی کتاب کی اشاعت کے بعد دوہے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت عالی کے تحت الشعور پر اس طرح اثر انداز ہوئی کہ انہوں نے دوہے زیادہ کہنے شروع کر دیے اور اپنی بہت سی وہ باتیں بھی کہہ دیں جو گیتوں کا مضمون ہوتیں تو زیادہ بہتر لگتیں مگر مجموعی طور پر عالی کے گیت پاکستان میں گیت نگاری کے حوالے سے بھی رجحان ساز ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے بعد بڑے اچھے گیت نگاروں کی ایک صف ابھری جس نے بعض بے مثال گیت تصنیف کیے اور اب نئے نئے گیت نگار اپنا سکہ جما رہے ہیں۔

عبدالعزیز ساحر نے اپنی کتاب ’’عالی اور اظہاریہ نگاری کی روایت‘‘ کے عنوان سے عالی صاحب کے کالموں پر اظہار خیال کیا ہے :’’عالی کی نثر نگاری کا آغاز خاکہ نویسی سے ہوا ان کا ایک دوسرا امتیاز ان کا سفر نامہ ہے۔ یہ 1963ء سے روزنامہ جنگ کے سنڈے ایڈیشن میں چھپنا شروع ہوا اور 1966ء تک مسلسل چھپتا رہا بعد میں انہیں یہ سلسلہ ختم کرنا پڑا اور پھر 1967ء میں دوبارہ ’’جنگ‘‘ میں سلسلہ شروع ہوا جس کو خود عالی صاحب نے اظہار یہ کا نام دیا۔ عالی کے اظہاریوں کو ان کی موضوعاتی ہمہ جہتی، موضوعاتی ہمہ گیری اور اظہار کی توانائی کا جتنا خوب صورت تال میل عالی کے ہاں ہوا ہے اس کی کوئی دوسری مثال آسانی سے تلاش کرنا ممکن نہیں عالی صاحب کی کالم نگاری اردو میں ایک بڑا مقام رکھتی ہے ان کی اظہاریہ نگاری جب اپنے فکری پس منظر میں انفرادی طرز احساس سے نکھر کر معروضیت سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو اس میں غیر شخصی تجربے کی بازگشت نے حسن معنی کے وہ منظر تخلیق کیے ہیں جو شعور انسانی کو دائمی قدروں سے ملا دیتے ہیں۔ اس سے موضوعات تنوع کی معنوی ہمہ جہتی کا وہ تناظر سامنے آتا ہے جو زندگی کے جمالیاتی پہلوؤں کا رجحان ساز منظر نامہ ہے۔ فکر عالی کا یہ داخلی رچاؤ اس لاشعور کی بازیافت ہے جو تخلیقی رنگارنگی سے اظہار کی راہ پاتا ہے، کیوں کہ ڈاکٹر انور سدید کے بقول ’’جمیل الدین عالی کے موضوعات علمی اور ادبی مدار میں گردش کرتے ہیں۔ انسانیت کے انحطاط، قدروں کی شکستگی اور ذوق مطالعہ کے زوال نے ان کے ہاں احساس ملال پیدا کیا اور یہ احساس ہی ان کے طنزیہ لہجے کا نقیب ہے۔‘‘

عالی کی اظہاریہ نگاری اپنے لہجے کی محسوساتی پہچان رکھتی ہے کیوں کہ جب وہ اپنے مخصوص انداز سے عصر حاضر کے مسائل کی تصویر کشی کرتے ہیں تو فکری سطح پر ان کا شخصی رابطہ اجتماعیت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ان کے ہم عصر کالم نویسوں کو پڑھتے ہوئے عموماً جس تہذیبی اور تاریخی شعور کی عدم موجودگی کا احساس ہوتا ہے وہ ان کے اظہاریوں میں ماضی سے دل کشا واقعات کی اوٹ سے جھانکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ عالی کے اظہاریوں کا تجزیاتی مطالعہ عصری حسیات کے فکری کینوس پر ماضی اور مستقبل کی احساساتی گمبھیرتا کا شعوری رشتہ ہے۔ کالموں سے انتخاب پر مشتمل کتابوں ’’صدا کر چلے‘‘ دعا کر چلے ‘‘ اور ’’وفا کر چلے‘‘ کی معنوی ہمہ جہتی کا تکنیکی پھیلاؤ ان کے تصور انسان کی روحانی تعبیر سے منکشف ہوتا ہے تمدن کی تاریخی وحدت انسانی شعور کے اس امتیازی پہلو کا امتزاجی حوالہ بن جاتی ہے جو مستقبل کی پیش بندی کا فکری رابطہ ہی نہیں داخلی تجربہ بھی ہے۔ اس سے تخلیقی قوتوں میں رجائی پہلو کی نمو پذیری کا عمل اپنی تہذیبی فضا سے مل کر اس فکری ہم آہنگی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے جس سے ’’مستقبلیات‘‘ جیسے معنی خیز امکان کا اپنے تہذیبی باطن میں سفر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ عالی کا اظہار یہ اپنے متنوع موضوعات کی تخلیقی وحدت کا علامتی وجود نامہ ہے۔ صداقت کی تلاش کا معنوی سفر جن ادیبوں کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی لوگوں کے ہاں جذبے کی وہ شدت نہیں ملتی جو اس کار خیر کے لیے ضروری ہے۔ جذبے کی صداقت، روحانی واردات کے وجدانی کیف و کم کا آفاقی پہلو ہے جس سے معروضی رنگ کا تہذیبی پس منظر اپنے فکری تناظر میں ابھر کر آتا ہے جدید دور کی تاریخی سطح پر تخلیقی بازیافت ان عوامل سے روشناس ہوتی ہے جو شعور ذات کے بنیادی عناصر کا جدلیاتی رشتہ ہیں۔ اظہار یہ چونکہ شخصیت کے جذباتی اظہار کا ایسا بیانیہ ہے جو وقت کی لمحاتی گردش کو حقیقت کی نمو پذیری سے گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس سے فکر انسانی کے جو موضوعی استعارے اپنے باطنی مفاہیم کا تمثیلی تجزیہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح کا ارتقائی زاویہ تخلیقی، فنی ریاضت اور اثباتیت فکر کا تقاضا کرتا ہے جو اپنے مثبت اور معنوی مناظر کا طلسماتی نگار خانہ ہے۔ عالی اس حوالے سے اپنے اظہاریے کو مرکز امید سے زرخیز پاتے ہیں جو اپنے ہم عصروں میں ان کی علمی اور ادبی پہچان بھی ہے اور انفرادیت کا باعث بھی۔ اظہاریوں سے انتخاب پر مشتمل متذکرہ بالا تین کتابیں اردو میں شاید اپنی نوعیت یعنی کالموں (یا ان سے انتخاب پر) مشتمل پہلی کتابیں ہیں۔ انہیں بڑی پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔ آخری جلد کا دور 2002ء کے آخر پر ختم ہوتا ہے۔ 2002ء تا 2007ء کے دور کا انتخاب ہو رہا ہے۔ جس کی اشاعت انشاء اللہ 2008ء کے اندر اندر متوقع ہے۔

’’کچھ سفر ناموں کے حوالے سے‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر تحسین فراقی نے عالی جی کی سفر نامہ نگاری کے حوالے سے قلم اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ ایک بہت تفصیلی مضمون تھا جسے میں نے ’’عالی نمبر‘‘ کے لیے ایڈٹ کیا تھا۔ ذیل میں اس مضمون سے کچھ اقتباس پیش کر رہی ہوں۔ ’’عالی ایران، عراق، لبنان، مصر، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، امریکا اور آئس لینڈ گھومے پھرے ہیں اور ان بلاد و ممالک کی زندہ اور جیتی جاگتی تصویریں بناتے چلے گئے تھے۔ دیار غیر میں انہوں نے پاکستانی تشخص کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان سفر ناموں سے عالی صاحب کی اٹوٹ مذہب پرستی، انسان دوستی عالمی دلچسپی نفسیات شناسی، نکتہ آفرینی اور حب الوطنی آئینہ ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ عالی نے ہر مقام اور وہاں کے باسیوں کو محبتانہ اور تنقیدی نظروں سے دیکھا پرکھا ہے ہر ملک کے باشندوں سے برابری کی سطح پر مکالمہ کیا ہے اور جہاں جہاں بھی ناہمواری اور منافقت دیکھی ہے اس کا پردہ چاک کیا ہے اور تو اور ایک سچے ادیب کی طرح خود پر بھی جا بجا قہقہہ لگایا ہے۔ ان کے سفر ناموں میں تاریخی معلومات بھی ہیں اور مناسب تاریخی شعور بھی ان کے سفر نامے اصل میں بڑے بے تکلف بیانیے ہیں جن میں کچھ اپچ پیچ نہیں ان سفر ناموں سے ان کی جو شخصیت ابھر کر سامنے آئی ہے وہ ایک دلچسپ متحرک، شوخ، شریر، بذلہ سنج، کھلنڈرے، بے باک، تعلیم یافتہ، روشن دماغ اور درد دل رکھنے والے سامراج دشمن، انسان دوست اور محب وطن پاکستانی کی شخصیت ہے جس میں احساس کمتری نام کو نہیں پایا جاتا اور جو ہر جگہ اپنے قومی تشخص اور ذاتی وقار کے لیے لڑ سکتا ہے، جھک نہیں سکتا۔۔۔ عالی نے ہر مقام پر ہر منزل پر حقائق اور مناظر کا معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے اور وہ بہت کم سنگ بستہ تعصبات کا شکار ہوتے ہیں جہاں وہ آہنی پردے والی دنیا کی منافقتوں کا پردہ چاک کرتے ہیں وہاں اس نام نہاد آزاد دنیا کی لنگڑی آزادی کا بھی مذاق اڑاتے ہیں، لکھتے ہیں اور بے لاگ لکھتے ہیں اور ان کا طنز بڑی خاموشی سے وار کرتا ہے۔ یوں تو ہمارے بیشتر سفر نامہ نگار برطانیہ اور دیگر ممالک گئے ہیں بلکہ اردو سفر نامہ نگاری کا تو آغاز ہی ’’عجائبات فرنگ‘‘ سے ہوا (انیسویں صدی میں) لیکن بہت کم ایسے سفر نامے لکھے گئے جن سے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ کسی پاکستانی نے لکھے ہیں۔ عالی کے تمام سفر ناموں سے جگہ جگہ پاکستانیت اور اسلامی طرز احساس پھوٹا پڑتا ہے۔ کمبل پوش سلیمانی انگلستان کو دیکھتا ہے تو یا مظہر العجائب کہے بغیر نہیں رہ سکتا احتشام حسین انگلستان جاتے ہیں تو انہیں ان کا اشتراکی نقطہ نگاہ جگہ جگہ معروضی انداز میں سوچنے سے روکتا ہے۔ عالی جی ہر دیار ولایت میں ایک روشن دماغ مبصر اور ایک وسیع القلب سیاح کی حیثیت سے گئے ہیں وہ کسی سیاسی پارٹی لائن اور کسی نظریہ حیات کے غلام بن کر نہیں گئے۔

روس میں ہمارے کئی ادیب گئے ہیں، بیگم اختر ریاض الدین گئی ہیں اصفہانی گئے اور خود عالی صاحب گئے لیکن ان میں سے کسی نے انصاف اور توازن سے انحراف نہیں کیا جو دیکھا بیان کیا معروضی اور ناطرفدارانہ انداز میں شاید اس لیے انہیں روس کی اقلیم ’’ارض جنت‘‘ نظر نہ آئی جیسے کہ عبداللہ ملک کو روس کا گوشہ گوشہ بہشت و فردوس اور وہاں کے لوگ حور و غلمان دکھائی دیے ملک صاحب نے ’’ارض جنت‘‘ لکھا ہی تھا روس کے اشتراکی نظام کے بارے میں ’’غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے کے سلسلے میں سوان کے خیال میں اسلامی نظریہ حیات کا ایک دور تھا جو لد گیا ’’آج سوشلزم کا دور ہے‘‘ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے ساٹھ برس سے دیس دیس کے شاعروں، موسیقاروں، مصوروں اور ادیبوں نے سویت روس کے انقلاب کے گن گائے ہیں۔ صاحبو! پاکستان میں روس کے گن گانے اور ایک Fossillized نظام کی تعریف و توصیف میں راگ درباری چھیڑنے کا کاروبار ملک صاحب اور ان کی قبیل کے دانشوروں نے سنبھال رکھا تھا سو برا ہو عالی صاحب کے تعصب کا کہ آنجہانی لینن نہ انہیں ’’مینارہ نور‘‘ نظر آتے ہیں نہ ’’امیدوں کے مرکز‘‘ نہ ’’مجبور و مقہور انسانوں کے لیے شمع رشد و ہدایت‘‘ روس میں ان کا گائیڈ لوگور و بیف لاکھ سر پٹکے کہ کسی طرح عالی اشتراکی طرز حیات کی ’’ہمہ گیری‘‘ کے قائل ہو جائیں لیکن عالی صاحب انہیں پٹھے پر ہاتھ نہ رکھنے دیتے۔ بہرحال عالی صاحب نے جہاں اس جلد اور متحجر طرز حکومت کے نقائص پر گفتگو کی ہے وہاں اس کی کئی خوبیوں سے بھی صرف نظر نہیں کیا بے شک یہ خوبیاں سرا سر مادی ہی کیوں نہ ہوں مگر ساتھ ہی اس پروپیگنڈا اور ہمہ گیر دماغ کی قلعی بھی کھولی ہے جس کے نتیجے میں روس کے ادیب علی سردار جعفری جیسے تیسرے درجے کے شاعر کو جس کے یہاں گولیاں سیسے کی زبان سے بات کرتی ہیں اور رالفل فولاد کے ہونٹوں سے کلام کرتی ہے اردو کا جدید عظیم ترین شاعر مانتے ہیں۔ یہ بے لاگ نگاری عالی جی کے تینوں سفر ناموں میں جاری و ساری نظر آتی ہے۔ اتفاق سے میں نے عالی صاحب کو یہ سطریں سنا دی تھیں انہوں نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا مگر چونکہ وہ آزادی اظہار کے قائل ہیں اس لیے مجھے ان سطروں کو حذف کرنے کے لیے نہیں کہا۔ (رعنا)‘‘

عالی صاحب نے اپنے ان سفر ناموں میں کہیں کہیں فلیش بیک کا بھی مہارت سے استعمال کیا ہے، چونکہ اہرام مصر کو دیکھتے ہوئے انہیں فرعون ہی کی یاد نہیں آتی توحید پرست اختاتون کی یاد بھی آتی ہے۔ عراق کی سیر کرتے ہوئے وہ اپنے متخیلہ اور تاریخی شعور کو کام میں لاتے ہوئے مورخ طبری کے ساتھ بھی چند لمحے گزارتے ہیں۔ اٹلی جاتے ہیں تو جہاں وہ فونتے ناوی ترے دی اور سینٹ پیٹرز کا گرجا دیکھتے ہیں وہیں اس شہر مدفون کو بھی یاد کرتے ہیں جو کبھی ہمکتا، ہمہماتا، سانس لیتا اور سستاتا پوپی آئی تھا لیکن جواب وہی منظر پیش کرتا ہے جو ایوان مدائن، باب عشتار اور بابل کے کھنڈرات پیش کرتے ہیں۔ یوں ان مظاہرہ کا حال ہی نہیں ماضی بھی سانس لینے لگتا ہے۔ آئس لینڈ کا سفر کرتے ہوئے جس کے بعد انہوں نے اردو میں آئس لینڈ کا پہلا سفر نامہ لکھا وہ خارج کے مظاہر کو دیکھتے ہوئے اپنے شعور کی رو میں بہنے لگتے ہیں اور یوں ماضی کی یاد آفرینی سے کہیں کہیں گہرا گداز پیدا کرتے ہیں۔ یوں ان کے مرحوم نوجوان دوست ارشد مختار، محمد اطہر نعیم پرویز اور اس کی بیوی اس سفر نامے میں نہ بھولنے والے کرداروں میں شامل نظر آتے ہیں۔ ویسے اس سفر نامے کا ایک زندہ کردار خود وہ گرم عظیم چشمہ ہے جسے باشندگان برفستان ’’گریٹ گیزر‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بہرحال ان سفر ناموں میں امنگوں، آرزوؤں اور حسرتوں اور نارسائیوں کے درمیان بنتے بگڑتے اور سنورتے سسکتے کرداروں کو زندہ کر کے عالی نے کمال فن کا ثبوت دیا ہے۔ آئس لینڈ میں ان گڑھوں کو دیکھتے ہوئے جن میں نیم سرخ پگھلے ہوئے پتھروں کا لوا بھدر بھدر ابل رہا تھا عالی پر خوف اور دہشت کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور انہی چند لمحوں میں ان کی تمام زندگی ان کی آنکھوں میں گھوم جاتی ہے انہیں اپنے پہلے عمرے کے دوران حطیم (خانہ کعبہ) کا وہ منظر یاد آتا ہے جب وہ اس کے نیم دائرے میں دیوار کعبہ سے لپٹ کر رو رہے تھے کہ حطیم میں دیوار تنہا مل گئی تھی اور گئی رات کا وقت تھا۔ عالی کے ان سفر ناموں میں کم و بیش ہر قابل ذکر مقام اور منظر مل جاتا ہے لیکن اٹلی کا سفر نامہ اس وقت تک نامکمل رہتا ہے جب تک عہد قبل مسیح کے اس کو لوسیم کی مفصل تخیلی تصویر نہ دکھائی جائے اور ان تلوار بازوں کی تفصیل نہ مہیا کی جائے جن کی باز آفرینی میں محمود نظامی نے قلم توڑ دیا تھا بہرحال غنیمت ہے کہ عالی نے ویٹی کن سٹی دکھا دی ساحل قدیمی نے دکھا دیا سینٹ پیٹرز کا گرجا دکھا دیا۔ فورو رمانو کی جھلک دکھا دی اور یہ بتا دیا کہ ایک زمانہ تھا کہ انگلستان روم کا سیاسی شاگرد کہلاتا تھا عالی صاحب کے ان آٹھ ساڑھے آٹھ سو صفحات پر پھیلے ہوئے سفر ناموں میں یقیناً چار چھ باتیں ایسی بھی مل جائیں گی جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مثلاً جدید ایرانی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں انہیں بلبل کی وہ صدائیں اور سنبل و نسرین اور گلاب و نرگس کی وہ خوشبو دکھائی نہیں دیتی جو کلاسیکی ایرانی غزل کا خاصا تھا۔ میرا خیال ہے کہ عالی صاحب کو جدید ایرانی شاعر میں شاید ابو القاسم ہوتی کی ’’ادبیات سرخ‘‘ ہی نظر آتی ہے۔ اگر وہ صرف آتش اصفہانی کا کلیات ہی دیکھ لیں تو انہیں جدید ایرانی غزل میں کلاسک کا جوہر نظر آ جائے گا۔ یا پھر تین جلدوں میں کچھ سال قبل شائع ہونے والا جدید ایرانی غزل کا انتخاب ’’دولیت شاعر‘‘ دیکھ لیا جائے۔ روس کے ذکر میں ایک جگہ زاروں کے عہد اور انقلاب روس کے بعد اشتراکی نظام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جہاں زاروں کے عہد اور انقلاب روس کے بعد اشتراکی نظام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جہاں زاروں کے عہد میں روس کے لوگوں کی طبعی عمر تیس سال رہ گئی تھی دو ماہ بعد انقلاب چونسٹھ سال کی اوسط تک پہنچ گئی صاف لگتا ہے کہ خلاف معمول عالی روسی پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے ہیں۔ عالی کو جان گنتھر کے سفر نامہ روس کے اکثر مشمولات کے غلط ہونے کا احساس بھی ہے اور تعجب اس بات پر بھی ہے کہ وہ اس سے استفادہ بھی کرتے چلے گئے ہیں سفر عراق کے دوران ایک جگہ جب وہ چاہ بابل دیکھتے ہیں تو ہاروت اور ماروت کا ذکر بھی کرتے ہیں اور ان فرشتگان خدا کے گمراہ ہو جانے کا اور نتیجہ بابل مستقلاً نظر بند کیے جانے کا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہاروت اور ماروت واقعی فرشتے تھے جیسا کہ ایک عام خیال ہے؟ اگر ایسا ہے توان کی گمراہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ وہ تو وہی کرتے ہیں جس کا حکم انہیں ان کے رب کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ بہر نوع عالی کے سفر ناموں میں مناظر اور مظاہر ہی نہیں ان کے ہمکتے بولتے رہنے والے افراد اور ان افراد کے باطن میں کروٹیں لینے والے احساسات جذبات، داعیات اور میلانات بھی ہیں ان کی امنگیں اور امیدیں بھی ہیں ان کی نارسائیاں اور کامرانیاں بھی ہیں ان کے افکار و خیالات بھی ہیں۔ ان کے میلے، ٹھیلے، کھیل تماشے، رزم بزم، داد و دہش، صنعت و حرفت، مکر و سیاست، فکر و فرہنگ، تعلیم و تعلم، بلندی و پستی، عروج و زوال اور خمار و خمول کی جانب کافی کامیاب اشارے بھی ہیں۔ ان سے خود صاحب سیاحت کی شخصیت کی پرتیں بھی کھلتی ہیں۔

البرٹو مورا ویا نے ناول کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ ایک اعلیٰ درجے کی آپ بیتی ہوتا ہے یہ بات کسی حد تک سفر نامے پر بھی صادق آتی ہے اور عالی کے یہ سفر نامے آپ بیتی ہی نہیں جگ بیتی بھی ہیں۔ یہ تخیلاتی سفر نامے نہیں ہیں علمی سفر نامے ہیں جس میں عالی صاحب کی وطن دوستی، انسان شناسی، یاد آفرینی، نکتہ آرائی اور حکایت طرازی کے تیور خوبی سے اجاگر ہوتے ہیں۔ عورت عالی کے سفر ناموں میں بھی آئی ہے لیکن آپ خود یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ عطاء الحق قاسمی، مستنصر حسین تارڑ اور اختر ممونکا کے سفر ناموں سے کسی حد تک مختلف ہے۔ یوں عالی کو بھی آئس لینڈ کے سفر نامے تک پہنچتے پہنچتے احساس ہو چکا تھا ’’آج کل اردو سفر نامہ ایڈورٹائزنگ کی طرح ہے عورت کے بغیر نہیں چلتا۔‘‘ لیکن کیا عالی بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو عرفی کی طرح دھڑلے سے یہ کہتے پھرتے ہیں:

منم کہ طاعت بت لازم سرشت من است

اگر بکعبہ عبادت کنم کشت من است

واضح رہے کہ عالمی سفر نامے ’’دنیا مرے آگے‘‘ اور ’’تماشا مرے آگے‘‘ ان کے 1961ء تک کے سفروں پر مشتمل ہیں وہ بھی اس لحاظ سے نامکمل کہ وہ امریکا کا احوال چھپوا رہے تھے کہ سفر نامے کی (’’جنگ ‘‘ میں) اشاعت بند کروا دی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے بے شمار لمبے لمبے سفر کیے ہیں۔ یورپ کے نئے ملک اور بہت سی نئی امریکی ریاستیں دیکھی ہیں جاپان دیکھا تین مرتبہ چین اور تین مرتبہ روس دیکھے مگر ان کے سفر نامے دوسری مصروفیتوں کے سبب نہ لکھے جا سکے۔ ’’آئس لینڈ‘‘ 1978ء میں گئے تھے۔ اس کا سفر نامہ (جو بیچ بیچ میں جزواً چھپتا بھی رہا) اسی نام سے 2004ء میں چھپا ہے اور گو اس وقت آئس لینڈ دنیا کا دوسرا چھوٹا ملک تھا جس کی آبادی بھی سوا دو لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ یہ کتاب چار سو صفحے سے اوپر جاتی ہے۔

عبدالعزیز ساحر ’’عالی کی سفر نامہ نگاری، فکر اور فنی جائزہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’قیام پاکستان کے بعد اردو سفر نامے کا جو نیا رجحان سامنے آیا اس میں عالی کا سفر نامہ فکر و فن کی صورت گری کا وہ نقش اولین ہے جو روایت سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی جدت خیالات اور ندرت اظہار کا آئینہ دار ہے۔ عالی نے کم و بیش ساری دنیا کا سفر کیا۔ ایران، لبنان، مصر، دہلی، روس، فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، پیرس، سوئٹزرلینڈ اور امریکا کے سفر نامے ان کی دو کتابوں ’’دنیا مرے آگے‘‘ اور ’’تماشا مرے آگے‘‘ میں شامل ہیں۔ ان کے مطالعے سے فکری عمل اور رد عمل کی دنیا وسیع ہو جاتی ہے۔ عالی صاحب کے اس سفر نامے کی دونوں جلدوں میں عبارت آرائی میں ترسیل و اظہار کی کوئی پابندی نظر نہیں آتی ان میں دونوں مناصب کی آمیزش ہو جاتی ہے اور طرز سے زیادہ واقعہ نگاری مفقود ٹھہرتی ہے جو فکر اور ماحول دونوں کی عکاس ہے۔ یہ سفر نامے اپنے سادہ اور شگفتہ اسلوب کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئے، ان کی مقبولیت کا اندازہ ناشر کے اس قول سے ہوتا ہے۔ ’’سلہٹ اور چاٹگام تک اردو پڑھنے والے بھی اچھے خاصے مجمع لگاتے اور پڑھوا کر سنتے تھے۔‘‘ عالی نے ان کے علاوہ بھی کئی دوسرے ملکوں کے سفر نامے لکھے ہیں ’’آئس لینڈ میں چند روز‘‘ آئس لینڈ کے بارے میں ان کا سفر نامہ اردو زبان میں پہلا سفر نامہ ہے۔ اس لیے مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ شمالی یورپ کا بلکہ بحر شمالی یہ سرد ملک ہم اہل پاکستان کے لیے اتنا دور دراز معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق عام آدمیوں کی معلومات بہت کم ہیں اگرچہ آج کل سفر نامے لکھنے کا فیشن عام ہو رہا ہے لیکن اکثر سفر نامے جانے پہچانے ملکوں کے بارے میں لکھے جا رہے ہیں۔ آئس لینڈ کے برفستان کو اب تک کسی نے نہ چھوا تھا۔ عالی صاحب نے یہ کمی پوری کر دی اس لیے یہ سفر نامہ خاصے کی چیز ہے۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ آئس لینڈ میں ہر وقت برف نہیں جمی رہتی۔ عالی صاحب نے چین کا سفر نامہ بھی لکھا تھا لیکن وہ 1983ء میں بارشوں کی نذر ہو گیا البتہ ان کے نوٹس محفوظ ہیں۔ یہ روزنامچہ کی صورت میں انگریزی اور اردو ہر دو زبانوں میں لکھے گئے ہیں شاید سفر نامہ ہو جائے عالی ایک نظریاتی آدمی ہیں وہ اپنے نظریات موقع بے موقع دوسروں پر ٹھونستے نہیں لیکن ان کا برمحل اور برملا اظہار ضرور کر دیتے ہیں۔ انہیں ملت اسلامیہ کی سیاست سے بطور خاص دلچسپی ہے کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر وہ اقوام متحدہ پر کڑی تنقید کرتے ہیں، انہیں اپنے ملک سے بے پناہ محبت ہے اس کا اظہار ہر صفحے پر ہوتا ہے۔ پر دیس میں وطن کی یاد خوشبو کا ہیولا بن کر ان کا حصار کیے رکھتی ہے ان کا وجدان انہیں خود نگری اور خود نگہداری کی گرفت سے باہر نہیں جانے دیتا۔ وطن ان کے ہاں ماں کی محبت کا استعارہ ہے اور ماں کی محبت جو بڑھتی ہے تو کائنات اس میں سما جاتی ہے۔ ان کی تحریر سے اس کا یوں اظہار ہوتا ہے جیسے بہار کے موسم میں گلاب سے کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ نثر و نظم ہر دو میدانوں میں ان کی اس عقیدت کا اظہار ملتا ہے۔ یہ ان کے ایمان کا جز ہے۔ پاکستان کا فروغ ان کا ہدف بھی ہے اور مشن بھی۔ دلی میں شب بھر کے قیام کے دوران ان پر جو گزرتی ہے اس کا عکس ’’ایک رات میں‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جب1947ء کے واقعات ان کے شعور کے پردہ پر ابھرتے ہیں تو سینکڑوں بے گناہوں کی تڑپتی لاشیں منظر کو سوگوار کر دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں میر و غالب کی وہ دلی چند ثانیوں کے لیے ابھر آتی ہے جو عالم میں انتخاب تھی اور جس کے کوچے اوراق مصور نظر آتے تھے لیکن اس سانحے کے بعد وہی دلی ان کے لیے کسی خوش کن منظر کا پیش نامہ نہیں بن پاتی وہ اس سر زمین سے نفرت تو نہیں کرتے لیکن اپنے دل میں اس کے لیے دل بستگی کا کوئی سامان بھی نہیں پاتے وہ سکھ اور ہندو کے معاملے میں متعصب نہیں وہ سچائی اور صداقت کے پجاری ہیں لیکن ظلم جہاں بھی ہو اور جس رنگ میں بھی ہو وہ اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی مذہب کو برا نہیں کہا، سفر نامے کے اس زریں دور میں عالی کا سفر نامہ ایک خاص سمت اور جہت کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے سفر نامہ کو نہ تو افسانوی رنگ دیا اور نہ ہی اسے خشک معلومات کا مجموعہ بنانے کی سعی کی۔‘‘ انہوں نے سفر نامے کو سفر نامہ ہی رہنے دیا۔ البتہ بقول ڈاکٹر انور سدید ’’سفر نامے میں غزل کی شعوری روایت کو شامل کرنے کی کوشش کی۔‘‘ جس سے انہوں نے خارج اور باطن کے باہمی امتزاج سے مشاہدے کے کینوس پر وہ منظر ابھارے جو تلاش ذات کے سلسلے میں ان کے ممد ہوتے ہیں سفر نامے کی بنت میں ماضی اور مستقبل کے ارتکاز سے لمحہ موجود کی شناخت ان کا خاص وصف ہے۔ انہوں نے تہذیبی پس منظر میں زندگی کی موضوعی اور معروضی ہر دو حوالوں سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس طرح ان کے ہاں مشاہدے کی بو قلمونی سے اجتماعی اور یاد ماضی کی بازیافت سے انفرادی پہلو سامنے آیا ہے۔ ان کا مشرقی پن اپنی روایات سے منحرف نہیں ہوتا وہ تاریخی شعور کی بدولت انسان شناسی کا شعور پا لیتے ہیں جس سے ان کے ہاں خبر اور نظر میں توازن پیدا ہو جاتا ہے جو ان کے سفر نامے کی متنوع فضا کی تخلیق کرتا ہے۔ ان کے سفر ناموں میں تازگی اور رعنائی کا تاثر ملتا ہے جس سے اثر آفرینی کے منظر تخلیق ہوتے جاتے ہیں وہ جمالیاتی مناظر سے حظ اٹھاتے ہیں ان کی تصویر کشی کرتے اور وہ جذباتی کیفیات سے کیف گیر ہو جاتے ہیں۔ خاص کر جب وہ حضرت امام حسینؓ کے روضہ اطہر پر حاضری دیتے ہیں تو ان کے جذب و کیف میں ایک سرمدی تاثر کا گمان گزرتا ہے۔ ایسے وجدانی لمحات میں وہ زمان و مکان کو نئی معنویت سے آشنا کرتے ہیں اور لطافت فکر کے دھاروں کو نئی سمت میں رواں دواں رکھتے ہیں ان کے مناظر بہت جاندار اور متحرک ہیں۔ وہ کسی بھی ملک کے بارے میں پہلے سے مفروضات قائم نہیں کرتے اور نہ ہی پہلے سے بنائے گئے خاکوں میں رنگ آمیزی کرتے ہیں۔ ان کی حس ادراک اس قدر تیز ہے کہ وہ کسی منظر سے بھی چشم پوشی نہیں کرتی۔ ان کی تحریر معلومات سے پر ہوتی ہے اس میں تاریخ کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے اور جغرافیائی حوالے بھی آتے ہیں لیکن وہ کسی بھی جگہ اپنے قاری کو ناگواری یا بے قراری کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ سینکڑوں اشعار اور مصرعے ان کی نوک قلم پر ہوتے ہیں جو موقع و محل کی مناسبت سے تحریر میں جگہ پاتے ہیں۔ ان کے ہاں تخلیقی عمل کی تیز رو لہر خارجی داخلیت سے ملا کر شیر و شکر کر دیتی ہے۔ کہیں بھی معیار میں کمی نہیں آتی۔ ربط و ضبط کا خاص اہتمام موجود ہے لیکن اس میں بناوٹ اور تصنع کا عمل دخل نہیں ۔ ایک ندی ہے جو رواں دواں ہے اس کا پھیلاؤ میدانوں پر محیط ہے۔ اس میں ایک قدرتی ٹھہراؤ پایا جاتا ہے۔ کوہسار کے دامن میں بہتی ندی کا سا شعور نہیں۔

عالی صاحب کی شناخت ان کی شاعری ہی ہے۔ انہوں نے غزلیں، نظمیں، دوہے، گیت وای اور بے شمار قومی نغمے تحریر کیے ہیں۔ ذیل میں ان کے شعری مجموعوں کے حوالے سے اظہار خیال کرنے والے مشاہیر اہل قلم کے مضامین سے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اس سے قبل یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ ’’انسان‘‘ کے علاوہ عالی صاحب کے شعری مجموعے منظر عام پر آئے جن میں غزلیں، نظمیں، دوہے اور نغمے وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام10مئی 1957ء کو مکتبہ نیا دور کراچی نے ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ میں اکہتر غزلیں، ایک سو چوالیس دوہے، تیرہ گیت اور نثر کی نحو میں ایک منظوم کہانی شامل ہے۔ جس کا عنوان ’’مغموم آنکھیں‘‘ ہے۔ اس ایڈیشن کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1957ء کے بعد اس کے پانچ ایڈیشن مزید شائع ہوئے (یعنی 1973, 1984, 1985, 1992,اور1998ء میں اس کی اشاعت ہوئی) اس کے بعد1974ء میں ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’لا حاصل‘‘ لارک پبلشرز کراچی سے شائع ہوا پھر اس کے مزید دو ایڈیشن بالترتیب 1984ء اور1988ء میں شائع ہوئے۔ تیسرا مجموعہ کلام مارچ1993ء میں ’’اے مرے دشت سخن‘‘ کے نام سے لاہور سے شائع ہوا۔ ان تینوں شعری مجموعوں پر عہد حاضر کے تمام معتبر لکھنے والوں نے اظہار خیال کیا ہے۔ جب کہ سب سے پہلے شعری مجموعے پر بہت سینئر اہل قلم کے تجزیے اور تبصرے بھی موجود ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان سب کو مختصراً ہی سہی لیکن شامل ضرور کیا جا سکے ۔ ’’انسان‘‘ سات ہزار آٹھ سو مصرعوں پر مشتمل نظمیہ حال ہی میں آیا اور زیر تبصرہ ہے۔ عالی صاحب کے سب سے پہلے مجموعے ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ کے حوالے سے الطاف گوہر نے ایک مضمون تحریر کیا تھا جو نیا دور کراچی 1957ء (شمارہ11,12) میں شائع ہوا تھا۔ ذیل میں اس مضمون سے اقتباس پیش خدمت ہے۔

’’آزادی کے بعد جن نوجوان شعرا نے اردو شاعری میں کوئی اہمیت حاصل کی ہے۔ وہ اب ایسے ہیں جن کا تعلق غزل کی روایت سے ہے۔ وہ نام جو آپ کے ذہن میں ابھریں گے وہ ناصر کاظمی اور جمیل الدین عالی کے ہیں۔ ناصر کاظمی کا مجموعہ ’’برگ نے‘‘ آپ کی نظر سے گزر چکا ہے اور عالی صاحب کا کلام ابھی چند روز ہوئے کتابی صورت میں شائع ہوا ہے۔ کتاب کا نام ہے ’’غزلیں ، دوہے، گیت‘‘ اس تفصیلی نام میں وہ پوری کہانی شامل نہیں ہے۔ جو انہوں نے ساری کی ساری فعولن فعولن فعولن میں لکھی ہے اور کتاب کے چودہ صفحوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کتاب کا ذکر میں نے ادب اور جمود کی بحث سے گریز کی خاطر نہیں بلکہ اسی بحث کی وضاحت کے خیال سے کیا ہے، عالی بہت دنوں سے شعر کہہ رہے ہیں لیکن انہیں آزادی کے بعد کے نوجوان شعرا کے صف میں رکھا جائے گا۔ آزادی سے پہلے میں انہیں ایک مقرر کی حیثیت سے جانتا تھا۔ یہی مقرر جو کالجوںو الجوں کے مباحثوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی تقریروں سے مجھے کبھی یہ گمان نہ گزرا تھا کہ انہیں فطرت نے کئی ایسے جذبات بھی عطا کیے ہیں جو جمالیاتی تحقیق کے طلب گار ہوں گے۔ مگر ہوا یہ کہ وہ جنہیں اپنی گفتار پہ ناز تھا وہ محفلوں کی زینت بنے یا کتابوں پر ریویو کرنے لگے اور عالی ادب و شعر کے ہو گئے۔ حیرت ہے کہ عالی خود اب تک یہی سمجھتے ہیں کہ وہ شاعر تو یوں ہی تفریح کے طور پر ہیں اور ان کا اصل جوہر خطابت ہے۔ اسی لیے عسکری صاحب نے دیباچے میں ایک جگہ کہا ہے کہ عالی صاحب نے اپنی شاعری کو خود ایسی وقعت کبھی نہیں دی جس کے زور سے شاعر کے کلام میں ارتکاز پیدا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ عالی فطرتاً منکسر المزاج واقع ہوئے ہیں اور اپنی اس خوبی کو کثرت گفتار سے چھپاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی حساس طبیعت اپنے جذبے اور اس کے اظہار کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے ہچکچاتی ہے اس لیے کہ جذبہ اتنا گہرا اور ذاتی ہوتا ہے کہ محفل میں اس کی تعریف کرنا بے حیائی معلوم ہوتی ہے۔‘‘

’’عالی صاحب کی شعری شخصیت بہت محکم اور روایت سے وابستہ ہے۔ ان کے شعر میں ایک گہر ا درد اور حقیقت سے قرب ہے اور دیکھنے میں وہ ایک لا ابالی سے نوجوان معلوم ہوتے ہیں جن کا شیوہ ہی سخن طرازی اور دل آزاری ہو۔ عالی کی غزل میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ ان کی غزل اردو کی روایت میں رچی ہوتی ہے اور اس روایت میں اس نے اپنے لیے ایک صحیح تدریسی مقام پیدا کر لیا ہے یہ بہت بڑی بات ہے اس لیے کہ ایسے دور میں جب روایت سے منافرت ادب کا لازمی جزو بن چکی ہو اس سے منسلک رہنا اور اپنے جذبے کے کسی پہلو کو قربان کیے بغیر اور شگفتہ اور منفرد طریق اظہار نکال لینا ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ ناصر کاظمی نے غزل میں پرانے اشعار کو ایک رنگ دیا مگر اس کی شہرت کا باعث ایک حد تک وہ (مہاجرانہ) اپیل بھی تھی جو آشیاں اور کاروں لٹ جانے کے ذکر میں شامل رہتی ہے۔ عالی صاحب نے خالص غزل کہی ہے روایت پہ قابو پا کر اور جذبہ کے مطالبوں کو پورا کرتے ہوئے یہ غزل کہ:

کہیں تو ہو گی ملاقات اے چمن آرا

کہ میں بھی ہوں تیری خوشبو کی آوارا

ایسی نہیں کہ جس کو کوئی بغاوت پسند روایتی کہہ کر نظر انداز کر سکے۔ عالی کے دوہے ان کی انفرادیت کا نقش لیے ہوئے ہیں۔ ان کی غزلوں، دوہوں اور گیتوں میں ایک گہری موسیقی ہے جس کی گونج ذہن پر چھا جاتی ہے ۔ گزشتہ دس سال سے اردو شعر کی جتنی کتابیں چھپی ہیں ان میں عالی کی اس کتاب کا مقام بہت اونچا اور اہم ہے۔‘‘

جناب یونس احمر نے عالی جی کے اس پہلے شعری مجموعے کے حوالے سے روزنامہ ’’مارننگ نیوز کراچی‘‘ میں ایک تبصرہ لکھا تھا۔ میں یہاں اس کے کچھ حصے کا اردو ترجمہ پیش کر رہی ہوں۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:’’عالی ایک باشعور فرد اور ہر بات کی تہہ میں اتر جانے والا آدمی ہے۔ اس نے ہمیشہ ذہانت کی روشنی میں بلند سے بلند تر پرواز کی ہے۔ اس کی شاعری ایک ایسے پر شکوہ صورتی حسن اور ترنم روح کا ذریعہ اظہار ہے جو کم از کم زبان کی حد تک اس کے ہم عصر شاعروں کے ہاں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ اس کی غزلیں، دوہے، گیت سب ایک ہی ذہن کی تخلیق ہوتے ہوئے بھی مختلف رنگ و روپ کے حامل ہیں۔ تاہم ان سب کی تہہ میں عشق و محبت کی ایک ہی لہر اپنی نرمی، گرمی اور روشنی کے ساتھ ایک قدر مشترک کے طور پر رواں دواں ہے۔ اس کے اشعار میں تلوار کی سی کاٹ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار حساس دلوں میں اتر کر رہ جاتے ہیں اور سننے والوں کو تڑپا دیتے ہیں۔ یہ وصف اس کے دوہوں میں بطور خاص پایا جاتا ہے جو اس کے بھرپور احساس جمال کے آئینہ دار اور اس کے دل کی درد مندی کے غماز ہیں۔ اس کا ہر دوہا اس کے نا آسودہ جذبات، احساسات کے بطن سے ابھرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان احساسات کو وہ شخص بھی محسوس کرے جسے وہ اپنے تصور کے آئینہ میں دیکھتا اور یادوں میں سنوارتا اور سجاتا ہے۔ عالی کے دوہوں کی نرمی گداز اور غنائیت کوئی جسیم الدین احمد کے ان گیتوں کی یاد دلاتی ہے جو اس نے دیہاتی زندگی سے متعلق لکھے۔ جسیم الدین بھی عالی ہی کی طرح حساس دل و دماغ کا آدمی ہے۔ اپنے اکثر گیتوں میں وہ اپنے دل کی تمام تر حساسیت کے ساتھ اپنے محبوب کی تعریف کرتا ہے۔ میں نے عالی کے دوہوں اور جسیم الدین کے گیتوں کا بغور مطالعہ کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کے پیچھے جذبات و احساسات کی ایک ہی لے کار فرما ہے اور دونوں کی زبان کا خمیر بھی ایک ہی چاشنی سے اٹھا ہے۔ وہ چاشنی جو زندگی اور محبت کی عظمت اور شوکت کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ عالی ایک بے قرار اور مضطرب روح کا نام ہے جسے کسی بھی صورت قرار حاصل نہیں ہوتا۔ حسن اور محبت کی کشش اسے ہمیشہ اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ اپنے ارد گرد اسے ہر چیز حسن و جمال اور لطافت و معصومیت کے ہالے میں رقصاں نظر آتی ہے۔ اس کے جذبات شدید اور پر معنی ہیں۔ اس کے دوہوں میں فطری نغموں کی مترنم روانی ہے جن خیالات و تصورات کا اظہار وہ اپنے دوہوں میں کرتا ہے وہ باہم مربوط ہیں اور شوق و طلب کی جو لہریں اس کے دل سے اٹھتی ہیں وہ انتہائی بے ساختہ ہیں اور تمام شکستہ دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ دوہوں کی طرح اس کی غزلوں میں بھی ہمیں زیادہ تر عالی کا چہرہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس کی اپنی سرگزشت اس یاس آمیز جنسیت کی مظہر ہے جس نے عالی کو اردو غزل میں ایک منفرد مقام عطا کیا ہے تو کیا ہم اس کی شاعری کو خواہ وہ دوہوں اور غزلوں سے عبارت ہو یا گیتوں سے، رومانیت اور غم کی شاعری سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جذبات کا وہ تند و تیز تموج جسے اس کی شاعری کا امتیازی وصف قرار دیا جا سکتا ہے اس کی گہری حساسیت کی پیداوار ہے وہ زندگی کے سخت اور سنگین حقائق سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور ننگے بھوکے لوگوں کو موت کا شکار ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے ہمیشہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسا با شعور اور صاحب ادراک شاعر ہے جو دنیا کے چکا چوند کر دینے والے مناظر کے فریب میں نہیں آ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان کے دکھ درد اور مصائب و الم ہمیشہ اس کی شاعری کے لیے تخلیقی تحریک کا باعث ہوتے ہیں۔ عالی کے مجموعوں کے تین تین ایڈیشن شائع ہوتے ہیں اس بات سے عالی کی مقبولیت کے علاوہ اس حقیقت کا پتا چلتا ہے کہ لوگ اس کی شاعری کو کس حد تک پسند کرتے ہیں۔ یہ مجموعہ اردو شاعری کے چند نمائندہ مجموعوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اردو شاعری کو اسلوب و بیان کی نئی نئی راہیں سمجھائی ہیں اور سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس مجموعے کے ذریعے اردو شاعری ایک ایسی نئی آواز سے متعارف ہوئی جس نے ہم عصر شاعروں کے علاوہ عام پڑھنے والوں کی توجہ کو بھی فوری طور پر اپنی جانب مبذول کر لیا اور جس کا Impactدنیائے ادب میں ہمیشہ محسوس کیا جائے گا۔

اس مجموعے کا سب سے نمایاں اور امتیازی وصف یہ ہے کہ ایک انتہائی با شعور ذہن اور ایک انتہائی حساس دل کی تخلیق ہے۔ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ اردو شاعری کی ان تینوں اصناف میں سے ہر ایک میں اس مجموعے کے ذریعے ایک نئے رجحان نئے اسلوب اور نئی حسیت کا اظہار ہوا ہے۔ یہ بات قطعی یقینی ہے کہ شاعری میں اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘ جمیل الدین عالی کے دوسرے شعری مجموعے ’’لاحاصل‘‘ کے حوالے سے پروفیسر جمیل ملک نے ’’لاحاصل سے حاصل تک‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ ذیل میں اس مضمون سے اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ ’’جمیل الدین عالی کے پہلے مجموعے کلام ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ اور دوسرے شعری مجموعے ’’لاحاصل‘‘ میں شاعر کی کم وبیش چالیس سالہ شعری ذہانت کا کشٹ ملتا ہے۔ اسی دورانیے میں اور اس کے بعد بھی وہ مسلسل قومی و ملی نغمے اور ترانے تخلیق کرتا رہا ہے جو کتابی شکل میں ’’لاحاصل‘‘ کے بعد ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ کے نام سے معروف و مقبول ہو چکی ہے۔ حال ہی میں عالی کا ایک اور شعری مجموعے ’’اے مرے دشت سخن‘‘ کے نام سے طلوع ہوا ہے۔ جہاں وہ ماضی کی منزلیں طے کرتا ہوا نقطہ حال تک آ پہنچا ہے اور چاروں طرف اپنی تخلیقی روشنیاں پھیلا رہا ہے۔‘‘

’’اے مرے دشت سخن‘‘ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں غزلوں، دوہوں اور گیتوں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر تعداد میں نظمیں بھی شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی بڑی شاعری بڑی فکر کے بغیر تخلیق نہیں ہو سکتی۔ غالب اور اقبال کی واضح مثالیں ہیں جمیل الدین عالی نے بھی ’’اے مرے دشت سخن‘‘ میں بیسویں صدی تک کے انفرادیت اور اجتماعی فکری رویوں اور سائنسی انکشافات کو مشعل راہ بنا کر اپنے فکر و فن میں اسے جذبے سے ہم آہنگ کر کے فکر و آگہی کا ایک منفرد و مختلف اسلوبی پیرایہ اظہار اور فکری انداز نظر کا ایک تخلیقی سانچہ مرتب کرنے کی بلیغ کوشش کی ہے جس کی چھوٹ آنے والی صدیوں کی فکر و آگہی میں ضم ہو کر اپنا ایک الگ مقام بناتی ہوئی بھی دکھائی دیتی ہے۔عالی نے آج تک کسی سکہ بند مکتبہ فکر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔ اسے ترقی پسند یا رجعت پسند جو کچھ بھی کہا جائے اپنی برسوں کی فنی ریاضت سے اس نے یہ بات بہرحال منوا لی ہے کہ وہ ایک منفرد اور ممتاز اور عالی مرتبت شاعر ضرور ہے۔ موسیقی، شاعری اور سرسنگیت سے اسے عشق ہے۔ فنون لطیفہ سے یہی عشق اس کے کار لا حاصل کو حاصل حیات بناتا چلا گیا ہے۔ غزل میں وہ صبر کا معترف بھی ہے اور غالب کا طرف دار بھی اس کی غزل کا مزاج کلاسیکیت ہی سے عبارت ہے۔ جمیل الدین عالی کو غزل میں عالی اور دوہے میں عالی جی کہلوانا بہت پسند ہے کہ یہی عالی جی دوہے میں بڑی اپنائیت، بے تکلفی، بے ساختگی اور خوبصورتی کے ساتھ یوں اپنے آپ سے بھی اور دوسروں سے بھی ہم کلام ہوتے ہیں کہ اس دھرتی کے بے شمار کردار نظروں کے سامنے سے یکے بعد دیگرے گزرتے اور بڑے موثر اور دل پذیر انداز میں اپنی اپنی داستان رمز و کنایے۶ میں کہتے چلے جاتے ہیں عالی جی نے شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں گھوم کر دوہوں کے یہ صدف ریزے اکٹھے کیے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناقدانہ انداز نظر کے حوالے سے ان دوہوں میں خود کو بھی پہچانا ہے اور مروجہ نظام اقدار کی قلعی بھی کھولی ہے۔ کسی سکہ بند مکتب فکر کی انگلی پکڑ کر اس کے پیچھے پیچھے چلنے کے بجائے عالی جی نے ایک بنجارے کی طرح گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ وہ بنگلہ دیش کی بات بھی کرتا ہے، پاکستان کتھا بھی کہتا ہے (جو ایک شدید طنزیہ بھی ہے) اور الجیریا بانی بھی سناتا ہے۔ وہ افسر شاہی کے چہرے سے بھی نقاب اٹھاتا ہے اور ہاری اور مزدور استحصال پر بھی گھلتا ہے۔ عالی نے اپنی غزلوں، دوہوں، گیتوں اور لاحاصل اور حاصل حیات تک کے سفر میں اپنے مخصوص ذہنی اور شعری رویوں سے حسن خیر اور صداقت کی ازلی و ابدی تثلیث ہی کو جزو فن بنایا ہے اور لا حاصل سے ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ تک جمیل الدین عالی کا فکری اور فنی سفر دراصل اس کے حاصل حیات ہی کا سفر ہے اور عالی کی بقائے فن اور اس کے زندہ خوابوں کی ساری تعبیریں پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل ہی سے مربوط و وابستہ ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

کالم

 

جیسا کہ عالی کے قارئین اس بات سے بہت اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں کہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں چھپنے والے کالم کتابی صورت میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ ایسے ہی کالموں سے ایک انتخاب ’’صدا کر چلے‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ جس میں1967ء سے 1977ء تک چھپنے والے کالموں سے منتخب شدہ کالم اکٹھا کیے گئے تھے ’’صدا کر چلے‘‘ کے حوالے سے بھی مختلف اہل قلم حضرات نے خوب خوب اظہار خیال کیا۔ محسن احسان صاحب اردو ادب کی ایک جانی مانی شخصیت ہیں انہوں نے ’’صدا کر چلے‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا اس سے ایک مختصر اقتباس آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ پروفیسر محسن احسان لکھتے ہیں:’’اردو میں ایسی کتابوں کی بڑی کمی ہے جن میں اجتماعی اہمیت، معاشرتی تنقید، قومی ضروریات، ملکی مفادات اور فکری تقاضوں سے متعلق موضوعات پر سنجیدگی عمق اور خالص پاکستانی نقطہ نظر سے بحث کی گئی ہو۔ ان مباحث میں اگرچہ عالی کا انداز بیان بہت عالمانہ نہیں ہے۔ پھر بھی وہ اعداد و شمار سے لیس تاریخی حقائق سے آگاہ عالمی سیاست کے مصلحت بینوں سے باخبر وطن کی محبت سے سرشار ہر مسئلے کو اس کے حقیقی تناظر میں پیش کرتے ہیں اور اس کا حل بھی سجھاتے ہیں۔ پاکستان کے روشن مستقبل پر ایمان محکم جہیز کی لعنت کے خلاف جہاد مسلسل، صوبائی اور لسانی عصبیت کا سائنسی تجزیہ قرآنی اقتصادیات کے واضح تقاضے پاکستانی قومیت کے عرفان و ایقان یہ ان صفحات کا جز بھی ہے اور ہدیہ خوانی بھی یہ ان کے مقطع کا بند بھی ہے اور سخن گسترانہ بات بھی ان کا مطالعہ ہم پاکستانیوں کے لیے ایک خوش گوار تجربہ بھی ہے اور فریضہ بھی۔‘‘

محمود ریاض ’’صدا کر چلے‘‘ کے ناشر ہیں اور اسی حیثیت میں انہوں نے ایک بہت تفصیلی مضمون ’’عرض ناشر‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ اقتباس پیش خدمت ہے:

’’بلا تکلف یہ کتاب کم از کم پاکستان کی اردو دنیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد مجموعہ افکار ہے۔ ایک مشہور شاعر کے افکار جو نثری صورت میں مسلسل اس کی اور عصری حسیات کی ترجمانی ایک خاص اسٹائل سے کرتے رہے ہیں۔ یہ انتخاب 1967ء سے 1977ء تک کا ہے۔ دوسری جلد ’’دعا کر چلے‘‘ کے نام سے بہت جلد منظر عام پر آ جائے گی۔ جمیل الدین عالی باقاعدہ یعنی پیشہ ور صحافی یا سکہ بند مقالہ نگا ر نہیں کاش وہ ہوتے لیکن اتفاق سے ان کا پیشہ سرکاری اور نیم سرکاری ملازمت اور ان کی شہرت ان کی غزلوں، دوہوں، گیتوں سے ہوئی تھی۔ بطور خاص وہ اردو میں دوہے کی نشاۃ ثانیہ لانے والے ہیں، لیکن ان کے شعری ادب پر تنقید ہمارا موضوع نہیں۔ ہم ان کے تحریری اور علمی سفر کا خاکہ پیش کر رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں شامل مضامین باقاعدہ مقالے تو نہیں ہیں کالموں میں سے بھی انتخاب ہیں کالم کی صحافتی اور دوسری محدودات کی وجہ سے جن کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ۔ ان میں روایتی علمی زبان بھی کم استعمال ہوئی ہے جو فکری مقالوں کا خاصہ ہوتی ہے۔ مصنف کے بہت سے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عام فہم اور بقول خود ’’چالو‘‘ زبان میں اپنے افکار کو قارئین کی زیادہ سے زیادہ تعداد تک پہنچانا چاہتا ہے تاکہ بالآخر اسے نہ کوئی کوئی مختصر سا حلقہ ہی ایسا مل جائے جو اس کی بحثوں پر سنجیدگی سے غور کر سکے۔ کاش یہ کالم پورے کے پورے شائع ہو سکتے، کیونکہ عالی صاحب کا اپنا ایک انداز اظہار ہوتا ہے وہ شروع کچھ دلچسپ فقروں سے کرتے ہیں اور ایک خاص اسٹائل سے گھوم کر مطلب پر آ جاتے ہیں ۔ بہ یک وقت کئی موضوعات بھی لے لیتے ہیں بہت سی باتیں ہلکے پھلکے انداز سے ملا جلا کر کہہ جاتے ہیں انگریزی، اردو، فارسی، کلاسک اور عصری ادب کے شعر بھی نقل کرتے ہیں، بہت کچھ ہوتا ہے لیکن فی الحال اس کتاب میں صرف موضوعاتی انتخاب پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ منتخب کالم بھی پورے کے پورے نہیں لیے گئے انتخاب بھی مصنف نے خود نہیں کیا۔ انہیں حسب معمول اس کی فرصت نہیں انہوں نے اپنی بے شمار دوسری تحریروں کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے اور یہ بھی عرض کر دیا جائے کہ یہ انتخاب ہم نے بھی نہیں کیا برسوں سے اس انتخاب کی کتابت بھی ہو چکی تھی مگر عالی صاحب نہ انتخاب سے مطمئن تھے اور نہ کتابت سے، لیکن ہم نے دیکھا تو محسوس کیا کہ موضوعات کے لحاظ سے نہ تو انتخاب بہت تشنہ ہے نہ کتابت خراب ہے بہت کمال کی نہیں تو بری بھی نہیں۔ عالی صاحب کسی خاص علم میں تخصیص کے حامل یا دعوے دار نہیں بعض اوقات اپنے بارے میں ان کا حد سے بڑھا ہوا انکسار قاری کے لیے پریشان کن بھی ثابت ہوتا ہے لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ پچھلے پندرہ بیس برس سے ان کا مطالعہ بہت وسیع ہو چکا ہے وہ مشرقی اور مغربی تاریخ فلسفے، عمرانیات، اقتصادیات اور کلاسیک پر کافی عبور رکھتے ہیں ان کے ذیلی عناصر تحریر، مطالعے، مشاہدے اور تجربے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں مثلاً چند برس سے انہیں ’’مستقبلیات‘‘ کے مضمون سے خاص شغف ہے جس کی کچھ تربیت انہوں نے 1978ء میں جنیوا میں لی تھی اور بعد میں اسے اپنا مضمون مطالعہ بنا لیا ’’مستقبلیات‘‘ کا باقاعدہ مضمون آج بھی پاکستان میں ایک بالکل اجنبی موضوع فکر سمجھا جاتا ہے یعنی اس پر تحریریں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ موضوعاتی تنوع ان کے ہاں بہت جھلکتا ہے مگر ان کی تقریباً تمام تحریروں پر ایک مضمون حاوی ہے جو ہر موضوع ہر عنوان سے جھلکتا ہے اور وہ ہے پاکستانیت۔ وہ اپنی تحریروں میں اکثر محدودات اور مجبوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں یہ کچھ تو وہ ضوابط ہیں جو سرکاری اور نیم سرکاری ملازموں پر آزادی اظہار کے معاملے میں برطانوی دور استعمار کی یادگار ہیں۔ اس کے علاوہ محدودات بھی جو کبھی راست سنسر کبھی تخویف کبھی تہدید کبھی معاشرے کے بعض طاقتور منقبت زدہ عناصر کے ذریعے پچھلے پچیس سال میں تقریباً تمام مارشل لائی دور میں سبھی لکھنے والوں پر چھائی رہی ہیں کچھ محدودات وہ جبریہ احتیاطیں ہیں جو ایک اتنے بڑے حلقہ قارئین کی حساسیت اور مختلف عقائد کے رد عمل کا ناگزیر نتیجہ ہوتی ہیں۔ پھر بھی وہ اشاروں اشاروں میں بہت سی باتیں کہہ جاتے ہیں اور بعض اشارے قیامت کے ہوتے ہیں، ہاں تمام احترام عقائد اور احتیاطوں کے باوجود وہ دو اہم بنیادی موقفوں یعنی پاکستانیت اور خرد افروزوں کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ انہوں نے چند مسائل پر گفتگو کی ہے ’’کامیابی کا مفہوم‘‘ اس میں انہوں نے کامیابی کے رائج الوقت تصورات پر سخت حملے کیے ہیں ’’ثقافتی دیوار چین‘‘ اس میں انہوں نے زوال مشرقی پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں پاکستانی تشخیص پر نہایت ہی فکر انگیز تجزیے پیش کیے ہیں ’’مفاد پیوستہ‘‘ پاکستانیت کے بعد ان کا غالباً سب سے زیادہ مرغوب موضوع ہے جس میں ان کی قوت، تجزیہ اور سماجی علم کے مظاہر ایک حیرت انگیز نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صوبائیت کے خلاف کالموں کے ساتھ غالباً یہی وہ کالم ہیں جن کی وجہ سے انہیں ایک اچھے خاصے کیرئیر میں بار بار سخت نقصانات سے دو چار ہونا پڑا لیکن وہ جب بھی ان موضوعات پر لکھتے ہیں کسی سمجھوتے کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ وہ شاید واحد غیر سیاسی کالم نویس ہیں جو ایسے موضوعات پر بے جگری سے لکھتے رہتے ہیں۔

’’پاکستانی قومیت‘‘ ان کا سب سے مرغوب موضوع ہے۔ ہم نے ہر کالم کے آخر میں اس کی تاریخ اشاعت دی ہے قاری کو پتا چلے گا کہ وہ رہ رہ کر اس موضوع کی طرف آتے ہیں اور نہ صرف بڑی درد مندی بلکہ پوری تجزیاتی قوت سے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ صوبائیت پرستوں کے لیے یہ مضامین ایک مستقل چیلنج اور پاکستانیت پرستوں کے لیے مسلسل غذائے روح ہیں۔ ’’پاکستانیت‘‘ پر لکھے جانا ان کا ایک مستقل جہاد ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ابھی ہمیں ایسے جہاد کی ضرورت ہے۔ ’’جہیز‘‘ کے موضوع پر عالی صاحب کے کالم نہ صرف تجزیاتی بلکہ عملی میدان کے لیے مشاورتی بھی ہیں جب یہ مضامین چھپے تھے کم از کم کراچی کے کئی کالجوں اور محلوں میں باقاعدہ اینٹی جہیز کمیٹیاں بن کر سرگرم عمل ہو گئی تھیں۔ اس وقت کی اسمبلی کو جہیز پر تحدید و تعزیر کا قانون بھی بنانا پڑا تھا لیکن افسوس کہ وہ مسئلہ اب بھی موجود ہے جب کہ ان کالموں سے ابھی تک فکری اور عملی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے اور وہ ہماری سماجی تاریخ کا ایک دلدوز ریکارڈ تو ہیں ہی عالی صاحب کو پاکستان کے مستقبل میں بڑے عظیم روشن امکانات نظر آتے ہیں اور وہ بڑی تحقیق اور محنت کے ساتھ انہیں اجاگر کرتے ہیں۔ یہ محض جذباتی حب الوطنی کے راگ نہیں ٹھوس اعداد و شمار اور واضح اقتصادی امکانات کا معاملہ ہے یہ ان کا ایک مستقل موضوع ہے اس کا کسی مخصوص حکومت کے ’’کارناموں‘‘ یا کوتاہیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ کسی حکومت کی پالیسیوں، کارناموں یا کوششوں پر نہیں اپنے ملک پاکستان کی بنیادی قوتوں اور امکانات پر لکھتے ہیں اور ساتھ ہی موجود پس ماندگی اور اس کے اسباب کی طرف واضح اشارے کرتے ہیں۔ عالی جی کی توجہ پاکستان کی سر زمین اور عوام کی اہلیتوں اور امکانات کے معروضی تجزیے اور ان سے خوش امیدی پر مرکوز رہتی ہے ان کے جمع کردہ حقائق اور دلائل سے تمام موجودہ مصائب کے باوجود پاکستانیوں کا دل بڑھتا ہے۔ یہ محض چند ابواب کی طرف اشارے تھے ہم اس کتاب پر باقاعدہ نقد و تبصرہ کے اہل نہیں بس یہ بتا سکتے ہیں کہ عالی کے کالم تفریحی مشقیں یا پیشہ ورانہ ادائے فرض نہیں بلکہ ان کے سوچے سمجھے فکری جہاد کا حصہ ہیں جو انہوں نے اپنی سرکاری محدودات کے باوجود پچھلے پچیس چھبیس برس سے جاری رکھا ہے۔ انہوں نے صوبائیت کے خلاف جم کر لکھا ہے ناجائز طبقاتی امتیازات اور استحصالی اقدار کے خلاف لکھا ہے انہیں دو بار اعلیٰ عہدوں سے ہاتھ دھونے پڑے تو ایسے ہی اظہار خیالات کی وجہ سے، وہ کالموں میں تفریحی یا محض معلومات نہیں بلکہ صاف ترغیبی Committed نثر کے آدمی ہیں اور اس کا اقرار با اعلان کرتے ہیں ان کی تحریروں میں عامیت نہیں مگر عوامیت ہے اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ زیادہ تر عام آدمی کو خطاب کر رہے ہیں جب کہ خواص کی توجہ بھی ادھر لا رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کی پذیرائی بڑے پیمانے پر ہو گی قومی سوچ رکھنے والے اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے طبقہ واریت خلاف مکاتیب فکر اس سے مزید قوت حاصل کریں گے اور یہ نہ صرف ہماری نسل کے لیے ایک مسلسل ریکارڈ مہیا کرے گی بلکہ نئی نسلیں بھی دیکھ سکیں گی کہ گویا پاکستان بڑے بڑے سخت اور دانش کش ادوار سے گزرا مگر لکھنے والوں نے کسی نہ کسی طرح خرد افروزی کی شمع جلائے رکھی۔ جمیل الدین عالی پاکستانیت اور خرد افروزی کے ایک بہت نمایاں مشعل بردار ہیں آج پاکستان اور بیرون پاکستان، پاکستانی حلقوں میں ان کی ادبی مقبولیت انتہائی بلندیوں کو چھو چکی ہے۔ یہ ان پر اللہ کا بڑا کرم ہے کہ انہیں پاکستانی عوام کی پرانی اور نئی دونوں نسلوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ جب سے ان کے دوہے دیوناگری رسم الخط میں بھی شائع ہو گئے تو ہندی حلقوں میں بھی ان کی شہرت پہنچ گئی ہندوستان کے اردو حلقوں میں اپنے دوہوں، غزلوں اور ادبی خدمات کے سبب پہلے سے بھی نہ صرف بہت مقبول ہیں بلکہ چند برس سے جب ادھر جاتے ہیں وہاں کا انگریزی پریس بھی ان کی ہمہ گیر شخصیت اور شہرت کی وجہ سے انہیں ان کے تنازعات کے باوجود بڑی اہمیت دیتا ہے۔‘‘

’’دعا کر چلے ‘‘ جمیل الدین عالی کے کالموں کے انتخاب کی دوسری جلد ہے اس کے ناشر بھی محترم محمود ریاض ہی تھے اور انہوں نے ’’صدا کر چلے‘‘ کی طرح ’’دعا کر چلے‘‘ کے حوالے سے بھی اظہار خیال فرمایا تھا۔ یہ ایک اہم دستاویز اس لحاظ سے ہے کہ اخباری کالم (عالی صاحب کی زبان میں اظہاریے) ہونے کے باوجود یہ تخلیقی تحریر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالی صاحب بنیادی طور پر تخلیق کار ہی ہیں چاہے نظم ہو یا نثر۔ چنانچہ ان اظہاریوں کو بھی انہوں نے کبھی اخبار میں حاضری لگوانے کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ اپنے لوگوں کو اپنے عوام کو کچھ نہ کچھ بتانے کی، سمجھانے کی، آگاہی دینے کی ہی کوشش کی ہے یہاں میں ذاتی طور پر اس حوالے سے کوئی رائے نہیں دینا چاہتی بلکہ ’’دعا کر چلے‘‘ کے ناشر محمود ریاض صاحب کی تفصیلی تحریر سے کچھ اقتباس ضرور پیش کرنا چاہوں گی تاکہ قارئین کو آگاہی ہو سکے کہ عالی صاحب کے اب سے بیس بائیس سال قبل کے لکھے ہوئے کالموں کا کیا انداز تھا۔ محمود ریاض لکھتے ہیں:

’’پچھلے چالیس سال میں پاکستان کے جن اردو لکھنے والوں نے شاعری کے ساتھ نثریات (سفر ناموں، دیباچوں اور کالموں) میں بھی خصوصیت اور بہت شہرت حاصل کی ہے جمیل الدین عالی ان میں نہایت نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا اسٹائل منفرد اور موضوعات متنوع بعض اوقات ان کا اسٹائل ہی کئی کئی موضوعات پر بڑے چبھتے ہوئے اور فکر انگیز انداز میں گفتگو کر جاتا ہے۔ ’’دعا کر چلے‘‘ ایک علیحدہ مجموعہ افکار بھی ہے اور ایک سلسلہ کتب کی دوسری قسط بھی۔ جمیل الدین عالی غالباً ہمارے واحد ادیب ہیں جن کا خطاب ان اظہاریوں کے ذریعے عام قاری سے ہوتا ہے انہوں نے نامقبولیت کا خطرہ مول لے کر بھی بلا تکلف بار بار ’’خشک‘‘ اقتصادی اعداد و شمار سے کام لیا یہاں تک کہ ان کی یہ روش بہت سے اظہار یہ نویسوں کے لیے ایک رجحان ساز آسانی بن گئی اب روزناموں میں اقتصادیات اور عمرانیات جیسے موضوعات محض ماہرین کے خشک زبان مقالوں تک محدود نہیں رہے اور عالی کی اس جرأت نامقبولیت نے عام قاری کو غیر ماہرانہ مضامین کے ذریعے بھی اعداد و شمار کی ضرورت اور اہمیت کا عادی کر دیا۔ ’’دعا کر چلے‘‘ کا پہلا باب ’’منظر پاکستان‘‘ مستند اعداد و شمار کے حوالے سے دس برس پہلے بعض ایسے نادر حقائق اور مطالعے بھی پیش کر چکا ہے جو اس وقت تک بہت سے ماہرین اقتصادیات نہ صرف اردو بلکہ انگریزی میں بھی سامنے نہیں لائے تھے۔ یہ باب بطور خاص مستقبل پاکستان سے بڑی امیدیں قائم کرنے کا ایک بڑا مدلل واضح اور مضبوط نہ کہ محض رومانوی جذباتی جواز تھا اور ہے اس کا بغور مطالعہ پاکستانیوں کے لیے اپنے آپ پر اعتماد، روشنی فکر اور جرأت عمل کے بڑے بڑے دروازے کھولتا ہے اتنے برس پہلے وہ ثابت کرتے رہے کہ ان کی معاشی خوش حالی پر تحقیق، ٹھوس مطالعے اور سائنٹیفک تجزیے کا نتیجہ ہے اور آج عالمی بینک کی رپورٹیں شہادت دے رہی ہیں کہ اپنے عوام کی محنت اور وسائل امکانات کی وجہ سے پاکستان اپنے تمام تر مسائل کے باوجود پورے جنوبی ایشیا میں بہت ہی تیز رفتار معاشی ترقی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ عالی نے 1967ء سے ہی وقت کی نبض دیکھ کر بار بار یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ اگر پاکستانی قومیت کی بجائے ’’صوبائی قومیتوں‘‘ پر زور دیا گیا اور حق و انصاف کے معاملے میں علاقائیت برتی گئی تو ایک دن کوئی چھٹی(اب پانچویں) قومیت بھی اپنا وجود منوانے کے لیے کھڑی ہو جائے گی اور پھر اس رجحان کی کوئی حد نہیں رہے گی۔ 1987ء میں صوبہ سندھ کا حال سب کے سامنے ہے اب بھی وقت ہے کہ عالی اور ان جیسے دوسرے لکھنے والوں کی تنبیہات پر مناسب پیش بندیاں کی جائیں۔ بعض حلقوں میں مصنف کے ان اظہاریوں پر اور ’’صدا کر چلے‘‘ شائع ہونے کے بعد خصوصاً ایک بات کہی گئی ہے یہ کہ موضوع کوئی ہو ان کی تان عموماً پاکستان پر ہی ٹوٹتی ہے۔ ایسی کتاب کو دوسرے ملکوں کی اردو دنیا میں کہاں رکھا جائے گا۔ ہم چاہیں گے کہ کسی نہ کسی دن اس کا جواب خود وہ اردو دنیا دے ساتھ ہی یہ امر بھی مدنظر رہے کہ بہت سے مسائل جن پر عالی نے لکھا ہے تیسری دنیا بطور خاص ہندوستانی معاشرے کے مشترکہ مسائل ہیں۔ خلیج اور سعودی عرب کے علاوہ جہاں پاک و ہند کی اردوداں آبادی خاصی تعداد میں اور مخلوط ہے ہندوستان مشرقی افریقہ، برطانیہ اور شمالی امریکا کے اردو دانوں کے لیے پاکستان ایک بہت ہی اہم اور مستقل موضوع مطالعہ ہے۔ ہندوستانیوں کے لیے ان کے افکار کا سفر یوں بھی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جو ہندوستانی آج بھی تقسیم ہند کے خلاف ہیں وہ عالی کے افکار میں تبدیلیوں کے باوجود ان کا پاکستانیت پر جمے رہنا یقیناً نا پسند کریں گے جس کی پرواہ خود عالی کے بقول ان کو ان ہندوستانی حلقوں میں اپنی شاعرانہ مقبولیت کی قیمت پر بھی نہیں رہتی مگر اتنا جاننا خود ان ہندوستانی حلقوں کے لیے مفید ہو گا کہ عالی کا موقف پاکستانیت کیا ہے اور وہ اس کے ذریعے پاک و ہند تعلقات میں بہتری کی کتنی مخلصانہ خواہش رکھتے ہیں۔ پچھلی جلد 1967ء تا1977ء محدود رکھی گئی تھی اور اس میں موضوعاتی انتخاب مرتب کیا گیا تھا پھر بھی اس دور کے ایک سو اسی صفحے باقی بچے اس لیے زیر نظر جلد اس دور کے اظہاریوں تک محدود نہیں رہی بلکہ 1978ء کا سال بھی شامل کرنا پڑا چند اظہاریے بطور نمونہ1979ء کے بھی ہیں یہ بھی ملحوظ رہے کہ وسط 1977ء سے 1985ء تک مارشل لا نافذ رہا ہے اور اس دوران میں ایسے سال بھی گزرے ہیں جب روزناموں میں چھپنے والی تمام تحریریں بھی پیشگی سنسر سے گزرتی تھیں اور مصنف ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازم تھا (ہے) ایک ایسے شخص پر ایسے حالات میں پابندی سے ہر ہفتے اظہاریہ لکھنا (جب کہ یہ اس کا پیشہ بھی نہ ہو) اور اس طرح کہ قاری کی دلچسپی برقرار رہے تاکہ اس کا پیغام کسی نہ کسی طرح اس کے ذہن میں جاگزیں بھی ہو جائے کیسا کٹھن مرحلہ ہو گا۔ جمیل الدین عالی مسلسل لکھے جا رہے ہیں اللہ ان کی عمر اور ان کی تحریر کی عمر دراز کرے وہ حیرت انگیز طور پر ایک ایسے مستقل مزاج اظہاریہ نویس ثابت ہوئے ہیں جو آسان زبان میں مشکل سے مشکل افکار عام کر کے اپنے قاری کو آہستہ آہستہ گہری سنجیدہ فکر کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ فکر پاکستانیت اور پاکستانیت کے راستے پوری انسانیت کی کیا خدمت کرے گی۔ اس کا جواب وقت دے نہ دے یہ پورا عمل ہی ایک عظیم کار خیر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔‘‘

انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام اب تک بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور عالی جی انجمن کے معتمد اعزازی ہونے کی حیثیت سے 1962ء سے انجمن سے منسلک ہیں۔ (انہیں بابائے اردو نے اپنی حیات میں ہی اپنی نئی منتظمہ میں شامل کر لیا تھا) انجمن کے لیے کی گئی ان کی کوششیں اور کاوشیں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انجمن کے لیے یہ بھی ایک اعزاز ہے کہ وہاں سے شائع ہونے والی کتابوں کے مقدمے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بعد جمیل الدین عالی نے ہی لکھے اور بڑی تعداد میں لکھے جو کئی جلدوں میں کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔’’حرفے چند‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں آنے والے ان مقدموں کا مقدمہ (جلد اول) جناب مشفق خواجہ مرحوم نے لکھا۔ مشفق خواجہ صاحب خود بھی انجمن ترقی اردو سے وابستہ تھے اور بابائے اردو کی حیات سے ہی وہ انجمن میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور یہ وہ دور تھا کہ جب انجمن کا بگڑتا مستقبل بابائے اردو کو پریشان کر رہا تھا۔ 1961ء میں جب حالات کچھ بدلے اور ایک سرکاری حکم کے تحت انجمن کی پچھلی انتظامیہ کو تبدیل کیا گیا تو اس میں دو نئی شخصیات سامنے آئیں جن میں ایک جمیل الدین عالی اور دوسرے بابائے اردو کے سابق شاگرد ڈاکٹر ریاض الحسن نئی انتظامیہ انجمن اور کالجوں کے حالات و مالیات ٹھیک کر ہی رہی تھی کہ (اگست1961ء میں) بابائے اردو کا انتقال ہو گیا انجمن کے لیے نیا صدارتی قانون بنا اور سابق گورنر مغربی پاکستان اختر حسین صاحب ہلال پاکستان انجمن کے صدر مقرر ہوئے اور جمیل الدین عالی بابائے اردو کی وصیت کی تعمیل میں معتمد اعزازی (1962)جو وہ آج تک ہیں یہیں سے مشفق خواجہ اور عالی صاحب کے تعلقات کی ابتدا ہوتی ہے۔ ابتدا میں مشفق خواجہ صاحب نے ان دونوں ’’عہدے داران‘‘ کے بارے میں جو رائے قائم کی بقول خود ان کے آگے جا کر وہ نہ رہی اور ان دونوں حضرات نے نہ صرف انجمن بلکہ بابائے اردو کو بھی زندہ رکھا۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ انجمن کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب کے مقدمے پہلے بابائے اردو اور پھر عالی صاحب نے تحریر کیے۔ ’’حرفے چند‘‘ کے نام سے ان کے مقدموں پر مشتمل کتابیں چار جلدوں میں شائع ہوئی ہیں اور ان کتابوں کا ابتدائی مقدمہ مشفق خواجہ نے لکھا۔ ذیل میں ’’حرفے چند‘‘ کی پہلی جلد کے مقدمے سے مختصر اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔ا ٓپ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ایک ہم عصر اپنے دوسرے ہم عصر کے بارے میں کس طرح اظہار خیال کرتا ہے۔ مشفق خواجہ لکھتے ہیں:

’’بابائے اردو مولوی عبدالحق کو اردو کا سب سے بڑا ’’مقدمہ باز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایسی غلط بات نہیں مولوی صاحب نے کتابوں پر سیر حاصل، پر مغز اور محققانہ مقدمے لکھنے کی جس روایت کا آغاز کیا تھا اس کے سب سے بڑے عامل بھی وہ خود ہی تھے مولوی صاحب کے بعض مقدمے اردو ادب میں یادگار حیثیت رکھتے ہیں۔ جمیل الدین عالی انجمن ترقی اردو میں مولوی صاحب کے جانشین اور ان کی قائم کردہ علمی، ادبی روایات کے امین ہیں ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستانی ادیبوں کی تنظیم اور فلاح میں صرف ہوا ہے انہوں نے پاکستان میں ادب کی تاریخ کو بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ ادب ادبی تحریکوں اور ادیبوں سے عالی صاحب کے ذاتی تعلق کی دو سطحیں ہے پہلی سطح تحقیقی ہے جو شاعری سفر نامہ نگاری کالم نویسی اور دیگر تحریروں کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔ دوسری طرف انہوں نے پاکستانی ملت کو متعدد ایسے قومی نغمے عطا کیے ہیں جو ہمارے قومی شعور کی علامت بن گئے ہیں۔ جدید عہد میں دوہے لکھنے کی روایت انہیں کی مرہون منت ہے۔ نثر نگار کی حیثیت سے عالی صاحب جن مختلف جہتوں میں نظر آتے ہیں وہاں بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کیے ہیں انہوں نے کئی اچھے شخصی خاکے لکھے ہیں انہوں نے اردو میں سفر نگاری کی روایت کو از سر نو زندہ کیا انہوں نے سفر نامے کو سفر نامہ ہی رہنے دیا ہے افسانہ و افسوں نہیں بنایا اسے ایک معنی خیز اور فکر انگیز صنف بنا دیا ہے عالی صاحب پاکستان کے ان چند کالم نویسوں میں سے ہیں جنہوں نے ربع صدی سے زیادہ عرصے سے اس دشت کی سیاحی اختیار کر رکھی ہے۔ ان کی کالم نویسی کا ایک اہم موضوع فروغ دانش ہوتا ہے وہ اپنے عہد کی ایک ممتاز اور قد آور ادبی شخصیت ہیں نظم اور نثر دونوں میں ان کا سکہ چلتا ہے مگر یہ ان کی ادبی شخصیت کا صرف ایک رخ ہے، دوسرا رخ ان کی وہ سعی مسلسل ہے جو انہوں نے پاکستان میں ادب کے فروغ اور ادیبوں کی تنظیم کے سلسلے میں انجام دی ہے۔ وہ پاکستان رائٹرز گلڈ کے بانیوں میں سے ہیں۔ گزشتہ پچیس سال سے وہ انجمن کے معتمد اعزازی ہیں انہوں نے یہ خدمت بڑی ذمہ داری، انہماک اور توجہ سے انجام دی ہے۔ انجمن سے اسی وابستگی کی بنا پر عالی صاحب نے اپنے دور معتمدی میں مطبوعات انجمن پر دیباچے لکھنے کی روایت کو بھی پوری طرح برقرار رکھا۔ حرفے چند انہی دیباچوں کا مجموعہ ہے ان دیباچوں میں اردو ادب کی ربع صدی کی تاریخ بڑے سلیقے اور اہتمام سے بیان ہوئی ہے انجمن کی مطبوعات میں ادب کی تاریخیں، تحقیقی مقالے، ادبی تنقید، مخطوطات کی توضیحی فہرستیں، حوالے کی کتابیں، دکنیات، قدیم متنوں، لغات، فلسفیانہ افکار و مسائل، ثقافتی وید و دریافت، علاقائی ادب سب کچھ شامل ہے۔ ’’حرفے چند‘‘ کے مشمولات انہیں مباحث کے حوالے سے قلم بند ہوئے ہیں اور ان تمام موضوعات کی وضاحت کرتے ہیں۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ دیباچہ نگار کسی تصنیف و تالیف کے بارے میں مختصر طور پر اظہار خیال کر کے دیباچہ نگاری کو بھی ایک فن کی حیثیت دے دی تھی اردو دیباچے لکھنے میں وہ اتنی ہی محنت کرتے تھے جتنی علمی و تحقیقی مقالوں پر یہی وجہ ہے کہ ان کے دیباچے یادگار حیثیت رکھتے ہیں عالی صاحب نے اس سلسلے میں مولوی صاحب کی پیروی کی ہے لیکن یہ پیروی تخلیقی انداز کی ہے وہ ہر متعلقہ کتاب کا معروضی انداز میں تجزیہ کرتے ہیں اور اپنے خیالات و افکار کو شرح و بسط کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ عالی صاحب زندگی اور ادب دونوں کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتے ہیں یہ نقطہ نظر ان کی عام تحریروں کی طرح ان کے دیباچوں میں بھی پوری طرح کار فرما نظر آتا ہے۔ عالی صاحب قدیم و جدید کا وہ سنگم ہیں جہاں سے ادب اور زندگی دونوں کی معنویت اور ہمہ گیری کا ایک نیا احساس ابھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے کسی قدیم متن کی بازیافت پر وہ اس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے کوئی تخلیق کار اپنی نئی تخلیق پر۔ بہت سی ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عالی صاحب رسمی دیباچہ نگار نہیں ہیں وہ جس کتاب پر دیباچہ لکھتے ہیں اس کے مطالب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔‘‘

تین سو سے زائد کتابیں پڑھنا اور ان کے دیباچے لکھنا بذات خود، خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور دیباچے بھی وہ نہیں جو بر بنائے تعلقات یا سطحی اور سرسری انداز میں لکھے گئے ہوں بلکہ ہر دیباچہ ایک علمی شان رکھتا ہے۔ عالی صاحب کا حب وطن فروغ علم و دانش کا جذبہ اردو زبان و ادب کو ترقی دینے کی آرزو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق مختلف علوم و فنون سے استفادہ کرنے کی خواہش قومی یک جہتی کی نشوونما کے لیے سعی و کاوش ’’حرفے چند‘‘ میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ عالی صاحب ہمارے دور کے سب سے اہم اور قابل ذکر دیباچہ نگار ہیں۔ مولوی عبدالحق کے بعد علمی دیباچہ نگار کی روایت انہیں کی وجہ سے تابندہ ہوتی ہے۔ حرفے چند عالی صاحب کی علمی و ادبی شخصیت کا ایسا موثر اظہار ہے جس کے بارے میں اب تک سنجیدگی سے غور نہیں ہوا۔ عالی جی اگرچہ بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن ان کی نثر شاعرانہ انداز کی حامل نہیں ہے۔ شاعر عام طور پر نثر لکھتے ہیں تو شعر کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کرتے حالانکہ نثر کا مقصد توضیح و تشریح، تحلیل اور تجزیہ ہے۔ عالی صاحب کی نثر میں یہ سارے عناصر پائے جاتے ہیں۔ ان کا نثری اسلوب سلیس رواں دواں اور تشریحی انداز کا حامل ہے۔ بات کو سمجھنا سمجھانا خیال کو پوری طرح واضح کرنا، موثر اور دل نشیں پیرایہ اختیار کرنا عالی صاحب کی نثر ان عناصر سے مملو ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی نثر پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا لکھنے والا ایک واضح، مضبوط اور مستحکم شخصیت کا حامل ہے۔ تحریر شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے عالی صاحب اپنی تحریروں میں وہی نظر آتے ہیں جو وہ ہیں حق گو، حق پسند، بے خوف بے رہا۔

قارئین مذکورہ بالا تحریر ’’حرفے چند‘‘ جلد اول کے حوالے سے جناب مشفق خواجہ کے اظہار خیال سے اقتباس تھا۔ حرفے چند دراصل تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے (چوتھی جلد مشفق خواجہ کے انتقال کے بعد شائع ہوئی) لہٰذا مناسب ہو گا کہ حرفے چند کی بقیہ دو جلدوں سے متعلق ان کے اظہار خیال سے مختصر اقتباس پیش کر دیا جائے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ انجمن کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب کے مقدموں پر مشتمل تین جلدوں کے مقدمے ہمارے عہد کے ایک منفرد نقاد محقق اور مترجم جناب مشفق خواجہ نے ہی تحریر کیے اس سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم عصر ایک دوسرے کی تحریروں کے حوالے سے کیا احساسات رکھتے ہیں اور کس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ مشفق خواجہ صاحب نے حرفے چند کی تینوں جلدوں پر جس طرح قلم اٹھایا ہے اور عالی صاحب کی مقدمہ نگاری کا تجزیہ کیا ہے وہ بھی توجہ کا طالب ہے کیوں کہ مشفق خواجہ، عالی صاحب کی جن خوبیوں کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں کم و بیش وہ خود بھی انہی خوبیوں سے لبریز تھے اور نہ تو ہر کتاب پر لکھتے ہیں نہ ہر کسی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ مشفق خواجہ صاحب لکھتے ہیں:’’انجمن ترقی اردو اپنی مطبوعات کے سلسلے میں بڑی حد تک محتاط اور کسی قدر روایت پسند بلکہ یوں کہیے کہ قدامت پسند ہے اس کی کتابیں شائع ہو کر طاق نسیاں کی زینت نہیں بنتیں، کم فروخت ہوتی ہیں لیکن خریداروں کی چشم عنایت سے محروم نہیں رہتیں۔ اس صورت حال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انجمن کی مطبوعات اہم اور وقیع ہوتی ہیں اسی مناسبت سے ان کتابوں پر لکھے گئے ’’حرفے چند‘‘ بھی اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ عالی صاحب نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ہر کتاب کے دیباچے میں اس کے تمام پہلوؤں کا دل جمعی سے اور تاریخی دیانت کے ساتھ جائزہ لیا جائے تاکہ پڑھنے والے کی رہنمائی بھی ہو اور کتاب روایتی قسم کے دیباچے سے گراں بار بھی نہ ہو۔ عالی صاحب چونکہ بذات خود ادب کی تمام تحریکوں کے محض ناظر تماشائی نہیں بلکہ ان میں سرتا سر ڈوبے ہوئے ہیں اس وجہ سے وہ جو کچھ لکھتے ہیں شرح و تفصیل کا حق ادا کرتے ہیں۔ یوں تو اس مجموعے کے سارے مضامین قابل قدر اور قابل ذکر ہیں لیکن اس مختصر تحریر میں ان سب کے بارے میں کچھ عرض کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا میں چند اہم تر مضامین کا جو ذیل کی کتابوں پر لکھے گئے ہیں ذکر کروں گا:

1۔ ’’فرہنگ اصطلاحات بینکاری‘‘ 2۔ ’’اردو قومی یک جہتی اور پاکستان‘‘

3۔ ’’البیرونی‘‘ 4۔ ’’مضامین غلام ربانی‘‘

’’فرہنگ اصطلاحات بینکاری‘‘ کی ترتیب و اشاعت انجمن کا ایک بہت بڑا کام ہے اس میں بینکاری کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبوں، صنعتوں، تجارت کی اصطلاحوں کا بڑا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔ عالی صاحب نے اس کتاب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا ’’حرفے چند‘‘ بڑے اہتمام اور تحقیق کے ساتھ لکھا ہے۔ یہ حرفے چند اپنی عمیق معنویت، فکر انگیزی اور بعض راز ہائے درون پردہ کے انکشاف کی وجہ سے ایک یادگار تحریر بن گیا ہے۔ عالی صاحب نے اپنی ذاتی معلومات کی روشنی میں اردو بنگلہ آویزش کی روداد بڑے واشگاف انداز سے بیان کی ہے۔ اس آویزش کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا مگر عالی صاحب نے بہت سے ایسے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جن سے عام پاکستانی قارئین کی اکثریت ناواقف ہے۔ یہ ایک ایسے آدمی کا بیان ہے جس نے ان واقعات کو صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ وہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ ان میں الجھا بھی رہا ہے۔(ایک مدت ان کا پیشہ بھی بینکاری رہا ہے) پھر اردو انگریزی کا مسئلہ ہے۔ عالی صاحب نے اردو انگریزی تنازعے اور انگریزی کی بالادستی برقرار رکھنے کی مہم میں نوکر شاہی کے کردار کو پوری تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قومی زبان کے نفاذ میں تاخیر نے احساس محرومی کی ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے جس نے پوری قوم پر بد دلی اور افسردگی طاری کر رکھی ہے۔ عالی صاحب نے اس صورت حال کی بڑی جرأت سے اور بہت بر محل نشان دہی کی ہے۔‘‘

’’اردو قومی یک جہتی اور پاکستان‘‘ کا ’’حرفے چند‘‘ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں بھی عالی صاحب نے بڑی تفصیل سے پاکستان میں اردو اور اردو کے نفاذ کے مسئلے کا جائزہ لیا ہے۔ یہ ایک ہمہ جہتی معروضی جائزہ ہے جسے ہر اس شخص کو ضرور پڑھنا چاہیے جسے اردو زبان سے دلچسپی ہے۔ اردو زبان کے تحفظ، فروغ اور سلامتی کو تحریک پاکستان کے منشور میں نمایاں حیثیت حاصل تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد تحریکی منشور کے تمام مقاصد کو جس بے دردی اور شقاوت سے نظر انداز کیا گیا ہے وہ قومی تاریخ کا ایک دل دوز المیہ ہے قومیں اپنے ثقافتی سرمایہ پر فخر کرتی ہیں اسے تحفظ دینے اور محفوظ رکھنے میں بہترین کوششوں اور صلاحیتوں سے کام لیتی ہیں مگر پاکستانی قوم تا حال۔۔۔

عالی صاحب بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ قدرت نے انہیں ایک شاعر کا دل اور دماغ عطا کیا ہے۔ مگر وہ نثر بھی بہت اچھی لکھتے ہیں ایسی نثر جو ترسیل اور ابلاغ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ ہر چند کہ انہوں نے اپنے آپ کو اخباری کالموں اور سفر ناموں تک محدود کر لیا ہے تاہم ان کے مزاج میں کسی حد تک تحقیق کا عنصر بھی موجود ہے اور اس کا بھرپور اظہار کتاب ’’البیرونی‘‘ کے ’’حرف چند‘‘ میں ہوا ہے۔ عالی صاحب کی یہ تحریر ایک طرح سید حسن برنی کی تالیف کا تکمہ ہے جو انہوں نے البیرونی کے بارے میں ستر برس پہلے لکھی تھی انہوں نے تقریباً تمام تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ ’’حرف چند‘‘ لکھا ہے جو ان کی محنت اور موضوع سے لگن کی بہترین مثال ہے۔

’’مضامین غلام ربانی‘‘ کا حرفے چند بھی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے ذاتی تحقیق سے لبریز لیکن ہلکا پھلکا اور عالی صاحب کے مخصوص طرز نگارش اور نقطہ نظر کا ترجمان ایک دلی والے نے دوسرے دلی والے کی ثنا خوانی نہیں کی بلکہ ایک صاحب نظر نے ایک صاحب کمال کے فن قوت تحریر، ژرف نگاری اور علمی لگن کی منصفانہ داد دی۔

میں نے مختصر طور پر اس کتاب میں شامل چند مضامین کا تذکرہ کیا ہے لیکن مجھے احساس ہے کہ اس مجموعے میں شامل تمام مضامین بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ ایک ادیب کے قلم سے نکلے ہیں جس نے گزشتہ نصف صدی کی تمام علمی ادبی، سیاسی اور ثقافتی تحریکوں کو وجود میں آتے اور فروغ پاتے ہوئے دیکھا ہے وہ ان میں اکثر سے ذاتی طور پر وابستہ رہا ہے۔ا س کا ایک مخصوص نقطہ نظر ہے اسے اپنے ثقافتی ورثے اپنے تہذیبی سرمائے اور اپنی قومی روایات سے عشق ہے۔ مولوی عبدالحق نے مقدمہ نگاری کی ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈالی جو ذہانت اور حق و انصاف پر مبنی تھی عالی صاحب اسی روایت کے امین ہیں۔

 

 

 

عالی صاحب کی شاعری

 

 

عالی صاحب کو اگر بحیثیت شاعر دیکھا جائے تو بھی ان کی ایک علیحدہ شناخت اس لحاظ سے ہے کہ شعری اصناف میں نظم غزل کے علاوہ اگر انہوں نے کسی صنف کو اہمیت دی تو وہ دوہا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اگر پاکستان میں اردو دوہے کو کوئی پہچانتا ہے تو اس کی وجہ صرف عالی صاحب ہیں عالی صاحب کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں (دوہے کے علاوہ) جن میں ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ ’’لاحاصل‘‘ اور ’’اے مرے دشت سخن‘‘ شامل ہیں۔ یوں تو اب ’’انسان‘‘ بھی کتابی شکل میں آ چکا ہے اور عالی صاحب کو اس عہد کا منفرد شاعر بنا چکا ہے لیکن مذکورہ تینوں شعری مجموعے بھی عالی صاحب کی شناخت اور پہچان میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ ان کے دوسرے مجموعوں سے الگ اور منفرد ہے۔ اس کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالی صاحب نے فکری اعتبار سے نئی منزلیں طے کی ہیں اور وہ اپنے حاضرین کے علاوہ خود سے بھی کہیں آگے بڑھے ہیں۔ عالی صاحب کی ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے اگر انہیں عہد ساز شخصیت قرار دیا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا۔

گزشتہ ابواب میں عالی صاحب کی تمام مطبوعات کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ اظہار خیال پیش کیا گیا ہے اب کچھ اقتباسات ان تحریروں سے پیش کیے جا رہے ہیں جو ان کی مجموعی شاعری کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔ عالی صاحب کے ایک بہت قریبی دوست اور بہت جانی پہچانی شخصیت جناب آفتاب احمد خاں (غالب فیم) نے عالی صاحب کے حوالے سے ایک مضمون روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ میں تحریر کیا تھا اس کا مختصر اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔ا ٓفتاب صاحب لکھتے ہیں: ’’جمیل الدین عالی کا شمار پاکستان کے ان دانش وروں میں ہے جو عظمتوں کی پہچان بن گئے ہیں۔ ان کی شخصیت کے حیران کن حد تک ہمہ جہت پہلو ہیں ایک انتہائی بلند مقام رکھنے والے شاعر کے علاوہ وہ اپنے آپ کو ایک بہترین ناقد، اظہاریہ نویس اور مختلف المزاج قاریوں کے حلقوں کے درمیان ایک ثالث بلکہ ایک پل کے طور پر منوا چکے ہیں ’’اے مرے دشت سخن‘‘ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے ان کے دوسرے مجموعے ’’لا حاصل‘‘ کے چھپنے کے دس سال بعد منظر عام پر جلوہ افروز ہوا ہے اس مجموعے میں ایک بار پھر عالی نے اپنے آپ کو دوہے کا عظیم ترین شاعر ثابت کر دکھایا ہے دوہوں کے اس ذخیرہ میں عالی کی وسعت علم ان کا بے پناہ گہرا مشاہدہ اور زندگی پر ان کی عمیق نظر ایک ا یک مصرع سے عیاں ہے۔ دوہوں کے علاوہ اس شعری مجموعے میں غزلیں اور چند اہم نظمیں بھی شامل ہیں۔ ایک طویل عرصے تک روایتی غزل، عشق، مے، باطنیت، تصوف اور عرفان کے دائروں سے نہ نکل پائی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ زندگی کے پہلو در پہلو وسعتوں کا مکمل احاطہ نہیں کرتی۔ غالب نے غزل میں زندگی کے بہت سے نئے رخوں سے پردہ اٹھایا اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب کے بعد غزل نے نہ صرف وسعت پائی بلکہ نئی بلندیوں کو چھوا۔ عالی بھی غزل کو زندگی کی گوناگوں جہتوں سے روشناس کراتے ہیں۔ در حقیقت غزل میں عالی کا طرز کلام دل کی گہرائیوں کو چھوتا محسوس ہوتا ہے۔ غزل کے مانے ہوئے اساتذہ کی طرح عالی بھی اس مخصوص صنف میں اپنے جذبات کا اظہار اتنے مختلف پیرایوں میں کرنے کے باوجود قاری کو ایک مرکز کی طرف لاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ شک اور یقین کی گوناگوں کیفیات، قسمت کے لگائے ہوئے زخم اور اپنے اعتماد کے مظاہرے، تخلیق کائنات کے معاملے میں انسانی وجود کی کم مائیگی اور پھر بھی عزائم یہ سب گتھیاں، عالی کی غزلوں اور نظموں میں سلجھتی نظر آتی ہیں۔ آخر میں مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ کتاب اردو کی جدید شاعری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ہمیں اپنے عہد کے ایک انتہائی پسندیدہ شاعر کی کیفیات سے روشناس کراتی ہے۔ ایسا شاعر جو معتقد انسانیت میں کہیں انسان پرست بھی ہے اور جس کے مداحوں کی تعداد اور دوستوں کا حلقہ دونوں ہی بہت وسیع ہیں۔‘‘

معروف ترقی پسند نقاد پروفیسر عتیق احمد نے عالی صاحب کی شاعری کے حوالے سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ اس کا عنوان تھا ’’سائنٹفک فکر کا شاعر۔۔۔۔ عالی‘‘ اس مضمون میں عتیق صاحب نے عالی صاحب کی شاعری کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا اور اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر عتیق احمد کا انداز تحریر موجودہ عہد کے نقادان فن سے بہت مختلف اور منفرد تھا یہاں آپ ان کے منفرد طرز تحریر سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ عالی صاحب کے بارے میں وہ کیا رائے رکھتے تھے اس سے بھی آگاہی حاصل کریں گے۔ملاحظہ فرمائیے پروفیسر عتیق احمد کے مضمون ’’سائنٹفک فکر کا شاعر۔۔۔ عالی‘‘ سے اقتباس:

’’عالی کی شاعری کے بارے میں ان کے تازہ مجموعہ کلام ’’اے مرے دشت سخن‘‘ کے حوالے سے بات شروع کی جائے تو سب سے پہلے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف عالی کے اپنے پہلے شعری مجموعوں سے بلکہ گزشتہ بیس پچیس برسوں میں سامنے آنے والے دوسرے مجموعوں سے اپنی انفرادیت کچھ الگ ہی قائم کرتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں عالی کا لب و لہجہ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عالی نے اپنے مخصوص لہجہ کو ترک کر دیا ہے بلکہ اپنے اس ہی لہجے میں ایسی قوت اور کشش پیدا کی ہے جو ایک نئی سمت ان کے مطالعے میں اضافہ کرتی ہے۔ اگر مخصوص حوالوں سے اس اجمال کی قدرے تفصیلی نشان دہی کی جائے تو ہمیں ان کی دو نظموں کو بالخصوص حوالہ بنانا چاہیے جس میں سے ایک انسان ہے۔ گو کہ یہ ابھی نامکمل ہے لیکن اگر اس کا عالی کے اپنے دیے ہوئے بڑے با وقار عنوان ’’آشوب گاہ جستجو‘‘ کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے تو بلاشبہ یہ ہمارے عہد کا ایسا رواں اور مستقبل کی جھلکیاں پیش کرتا ہوا منظر نامہ بن جاتا ہے کہ اس میں آج لکھی ہوئی اور مستقل میں لکھی جانے والی تاریخ آئینہ ہو جاتی ہے۔ عالی کی شاعری میں جذبہ ا ور تعقل کا رشتہ بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے زیر نظر مجموعہ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ سے پہلے کی شاعری بھی اس سے خالی نہیں لیکن اس مجموعے میں وہ اپنی پہلے کی شاعری سے بہت آگے کا سفر طے کیے ہوئے ملتے ہیں ۔ عالی کی یہ پیش رفت مواد، موضوع اور اظہار کے نئے سلیقہ کی بھی ہے اور ساتھ ہی رنگ و آہنگ کی بھی اس کے پہلے مجموعہ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ کی فضا کو اردو شاعری کی روایت سے گہری اور ’’لاحاصل‘‘ کے فکری عنصر پر نظر رکھی جائے تو ’’اے مرے دشت سخن‘‘ کی تفہیم اور عالی کے ارتقائی سفر کے کیف و کم کو سمجھنے نیز اس مجموعے میں فکر و نظر سے لے کر زبان و بیان تک کے ارتقا کو بہ آسانی گرفت میں لیا جا سکتا ہے۔ عالی ہمارے ان چند شعرا میں سے ہیں جنہوں نے عہد حاضر کے علوم و فنون کی جدید تر صورت حال سے ہمیشہ اپنے آپ کو قریب رکھا ہے۔ انہوں نے نت نئی سائنسی ایجادات اور نئے سائنسی انکشافات کے معاشروں پر اثر اندازی کے مربوط اور غیر مربوط عمل کو بڑی توجہ اور ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ بھی کیا ہے اور مشاہدہ بھی اس لیے کہ کسی نہ کسی طور پر وہ مغربی ممالک کے مستقل سیاح رہتے ہیں اور ان کی یہ سیاحی راہ کی سائنسی اور معاشرتی علوم کی پیش رفت اور ان کے سماجی اور سیاسی اثرات سے انہیں باخبر رکھتی ہے۔‘‘

عالی کے یہاں آدمی کو درجہ انسانیت پر فائز ہو جانے کی آرزو محض جذباتی نہیں بلکہ وہ اس کو ایک باقاعدہ ارتقائی عمل کی صورت میں دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ عالی کی شاعری میں جا بجا فکر کے ساتھ عمل اور کوشش کی آمیزش نے ان کے کلام کو ’’برائے شعر گفتن‘‘ کی حدود میں محصور ہو جانے سے بچایا ہے۔ ان کا یہ لب و لہجہ کوئی قائم بالذات سے یا محض شاعرانہ لب و لہجہ نہیں بلکہ یہ انفرادیت ان کے علم اور آگہی ریاضت سے بھی اتنا ہی وابستہ ہے جتنا کہ ہمارے یہاں اسے خدا داد مانا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہاں شاعری میں وجدان کی نفی مقصود نہیں ہے بلکہ اس وجدان کو ریاضت کے ذریعے بلندی کمال تک پہنچانے کی سعی و کاوش سے مراد ہے۔ اس زاویہ سے دیکھیے تو عالی کی شاعری میں علم و خبر کی تازہ کاری بھی ان کے شاعرانہ کمال کی ہم پلہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اپنے عہد میں عالمی طور پر سائنسی ٹیکنالوجیکل اور فکری سطح پر ہونے والی ہر بڑی اور چھوٹی تبدیلی سے عالی اپنے آپ کو صرف مکمل طور پرUp to Dateرکھتے ہیں بلکہ اس علم و خبر کو اپنی شعری تخلیقات کے ذریعے تخلیقی ادب کی جمالیاتی حسن و نزاکت کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اردو شاعری کو بڑی جانفشانی کے ساتھ دوسری زبانوں اور بالخصوص انگریزی زبان کو یورپین شاعری یعنی عالمی شاعری کی صنف میں مقام بنانے کی خاموش جدوجہد کا اہم فریضہ بھی ادا کرتے رہتے ہیں ۔ عالی کی تمام شاعرانہ صفات ایک مسلمہ حقیقت اور اپنی جگہ ایک بھاری پتھر لیکن ان کی جس خواہش اور کامیاب کوشش کی طرف ابھی ابھی میں نے اشارہ کیا ہے اگر صرف اس ہی کی طرف عالی کے تمام قارئین متوجہ ہو کر ان کی اہمیت کا اندازہ اور اعتراف کھلے دل اور کھلی زبان سے کر لیں تو ہماری شاعری میں پہلے سے موجود اس روایت میں عالی کے اضافوں اور نئے پن کا از خود تعین ہوتا چلا جائے اور یہ عنصر ہماری شاعری کو دی جانے والی نئی جہات میں مزید کشادگی لائے گا۔۔۔ انتظار حسین کا نام اردو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ عالی صاحب کے پرانے دوستوں میں سے ہیں لیکن دوستی اپنی جگہ ہے اور تخلیقات پر اظہار خیال اپنی جگہ۔ عالی صاحب جب سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تو انتظار صاحب نے تفصیلی اظہار خیال فرمایا تھا جو میں نے ’’عالی نمبر‘‘ میں شامل کیا تھا۔ یہاں اقتباس پیش خدمت ہے۔

جناب انتظار حسین، عالی صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’جمیل الدین عالی اپنے سینیٹر ہونے سے مطمئن نہیں وہ بہرحال ایک شاعر ہیں جو اپنی پرسوز آواز سے مشاعروں میں فلک شگاف تحسین و آفرین ملک کے اندر اور ملک سے باہر حاصل کرتے ہیں۔ وہ ایک زمانے سے بحیثیت شاعر مشہور و مقبول ہیں۔ وہ کس طرح اپنی شاعری کو اس نو حاصل کردہ سیاسی مقام کی بھینٹ چڑھا سکتے ہیں جو دوسری تمام تقرریوں کی طرح اپنا ایک خاص جوکھم رکھتا ہے۔ اس لیے عالی جی صرف سینیٹر رہ کر مطمئن نہیں ہو سکے جیسے ماضی میں وہ صرف شاعر رہنے پر اکتفا نہ کر سکے۔ انہوں نے ادب میں اپنے مقام کو برقرار رکھنے کے لیے تگ و دو کی ہے لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے اندر کا شاعر پس منظر کی جانب مراجعت کر رہا ہے اور ایک مختلف عالی ایک نمایاں سوشل فرد کی حیثیت سے نمود کر رہا ہے جو انٹلکچوئل صلاحیت سے آراستہ اور بین الاقوامی شہرت کے سائنس داں، ماہرین معاشیات اور سیاسی شخصیات سے مراسلت کے ذریعے رابطے میں ہے۔ عالی اس بات سے خوش ہیں کہ ان کے قومی ترانے زبان زد خلائق ہیں پھر بھی ایک طرح کی بے چینی ان کے اندر موجود ہے۔ وہ قومی نغمہ نگار سے بھی آگے کچھ ہونے کی خواہش رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ ان کے پاس کچھ ایسے منصوبے ہیں جن کی ترسیل قوم تک ہو جائے تو ان کے مسائل کے حل میں یہ مدد ہو سکتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے اندر پرورش پانے والے قومی جذبات کی نکاسی کے لیے نثر نگاری کا راستہ تلاش کیا چنانچہ کالم نگاری ان کی اسی خواہش کی تکمیل ہے ان کے اس شعور نے کہ ان کی تحریر بلندی خیال اور قومی ہیئت کی حامل ہے نے ہی کالم کا نام ’’اظہاریہ‘‘ رکھوایا تاکہ یہ بھی ہو کہ ان کا ’’اظہاریہ‘‘ اخبارات میں شائع ہونے والے دوسرے کالموں کے مقابلے میں ’’چیزے دیگر‘‘ سمجھا جائے۔ دراصل عالی ایک بے چین روح کے مالک ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے اندر ایسے متضاد جذبوں کی پرداخت کی ہے جو برابر ایک دوسرے کے معاون نہیں ہوتے۔ا ن کے اندر تھوڑے سے ایدھی، تھوڑے سے حکیم الامت علامہ اقبال اور تھوڑے سے سیاسی رہنما موجود ہیں وہ اس طرح کی ہر خواہش کے آگے اپنی شاعری کو قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں طرفہ یہ ہے کہ وہ اس کے لیے تیار نہیں کہ شاعری کے ذریعے جو نام اور شہرت کمائی ہے اسے تج دیں۔ وہ اپنے معاصرین سے ناخوش ہیں جو رائٹرز گلڈ کے قیام سے تا حال ان پر بہتان تراشتے رہتے ہیں ان کے معاصرین جب انہیں ادبی سرگرمیوں کی بجائے کسی اور جگہ سرگرم دیکھتے ہیں تو یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ وہ اب شاعری کے کام کے نہیں رہے چونکہ وہ سینیٹر ہیں اس لیے شاعر نہ کہو۔ معاصرین کا یہ رویہ انہیں بہت دکھی کرتا ہے ان تمام بہتان تراشی کا مسکت جواب ان کے پاس یہ ہے کہ وہ ایک طویل نظم ’’انسان‘‘ لکھنے کے آرزو مند ہیں ان کو اس بات کی امید ہے کہ جب یہ نظم مکمل ہو جائے گی تو یہ اردو نظم میں قیمتی اضافہ ہو گا۔

عالی کو اس بات کی داد ملنا چاہیے کہ بے شمار غیر ادبی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہوئے بھی ان کے ہاں شاعر بہرحال زندہ ہے جس نے انہیں یہ ہمت عطا کی ہے کہ وہ اپنی ادبی پوزیشن کا تحفظ کر سکیں اور اس بات کا بہ بانگ دہل اعادہ کر سکیں کہ وہ بحیثیت شاعر زندہ ہیں۔ اس احساس نے انہیں پاکستانی سیاست کے غار میں مکمل طور پر غرقاب ہونے سے بچائے رکھا ہے۔‘‘

مجھے یہ کتاب ختم کرتے ہوئے شرمندگی اور خوشی دونوں کا شدید احساس ہو رہا ہے شرمندگی اس لیے کہ میں اتنی بڑی اور ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ اس کی شان کے مطابق انصاف نہ کر پائی ابھی عالی صاحب ان جیسے سینکڑوں صفحات کے مستحق ہیں۔ خوشی اس لیے کہ اکادمی ادبیات پاکستان نے مجھے ان پر لکھنے کا موقع فراہم کیا اور میں کچھ نہ کچھ لکھ سکی دراصل جیسا کہ میں نے دیباچے میں کہا ہے وہ ایک بڑے ہی نہیں ایک بڑے پیچیدہ قلم کار بھی ہیں جن کی شخصیت بھی ایک رخی نہیں، بلکہ بہت سی جہتوں میں پھیلی اور بٹی ہوئی ہے اور کمال یہ کہ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ایک دوسرے سے غیر متعلق اور جدا نہیں ہو سکتے۔

ان کی وجہ شہرت بھی ایک نہیں بلکہ کئی ہیں۔ ایک نہایت گہرائیوں میں جانے والا بہ ظاہر سادہ گو غزل گو، تین سو برس بعد دوہے کا احیا کرنے والا اور اب بھی پاک و ہند کا سب سے بڑا دوہا نگار اور طویل نظمیہ ’’انسان‘‘ کے ذریعے اردو شاعری کو یقینی طور پر نیا رخ دینے والا شاعر۔ ساتھ ہی نثریات میں پاکستان بھر میں سب سے زیادہ علمی و ادبی کتابوں پر دیباچے لکھنے والا مقدمہ نگار اور پینتالیس برس سے مسلسل ہفتہ وار کالموں کی صورت میں ہزار ہا قومی اور بین الاقوامی معاملات پر کالم لکھنے والا اپنے بقول اظہاریہ نویس، بعض اوقات مجھے خود یقین نہیں آتا کہ اتنی موافق و متضاد صفات کا کوئی آدمی ہمارے آج کے معاشرے میں بھی ہو سکتا ہے لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ بحمد اللہ وہ آدمی ہمارے پاس جمیل الدین عالی کی شکل میں موجود ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کتابیات اور حواشی

 

 

1۔ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ شعری مجموعہ10مئی 1957ء، کراچی

2۔ ’’لاحاصل‘‘ شعری مجموعہ ، ستمبر1974ء، کراچی

3۔ ’’اے مرے دشت سخن‘‘ شعری مجموعہ، مارچ1995ء ، کراچی

4۔ ’’صدا کر چلے‘‘ کالموں کا انتخاب 1995ء، 1986ء ، لاہور

5۔ ’’دعا کر چلے‘‘ کالموں کا انتخاب1987ء،1993ء، کراچی

6۔ ’’وفا کر چلے‘‘ کالموں کا انتخاب2000ء ، کراچی

7۔ ’’دنیا مرے آگے‘‘ سفر نامہ 1975ء،1984ء ، کراچی

8۔ ’’تماشا مرے آگے‘‘ سفر نامہ 1975ء، 1984ء، کراچی

9۔ ’’حرفے چند‘‘ مقدمے 1988, 93, 96ء، کراچی

10۔ ’’آئس لینڈ‘‘ سفر نامہ2003ء، کراچی

11۔ ’’جمیل الدین عالی ایک شاعر‘‘ مقالہ، رب نواز مونس، ملتان

12۔ ’’جمیل الدین عالی فن و شخصیت‘‘ کتاب، مرتبہ ایم حبیب خان، انجمن ترقی ہند، دہلی، بھارت

13۔ ’’جمیل الدین عالی کی نثر نگاری‘‘ کتاب، عبدالعزیز ساحر

14۔ ’’جمیل الدین عالی کی تحریروں میں پاکستانیت‘‘ مقالہ، مہر النساء عزیز، کراچی

15۔ ’’عالی فن اور شخصیت‘‘ مجلہ دبئی، جشن عالی کے موقع پر

16۔’’ارمغان عالی‘‘ 1998ء لاہور، کراچی

17۔’’عالی نمبر‘‘ رعنا اقبال،2001ء کراچی

18۔ ’’تحقیقی مقالہ‘‘ فہمیدہ عتیق،2003ء ، جامعہ کراچی

19۔’’دوہے‘‘ جمیل الدین عالی2003ء، کراچی

20۔’’کارگاہ وطن‘‘ جمیل الدین عالی، 2006ء ، کراچی

21۔’’بارگاہ وطن‘‘ جمیل الدین عالی،2006ء، کراچی

22۔ ’’مہر و ماہ وطن‘‘ جمیل الدین عالی2006ء ، کراچی

23۔ ’’بس اک گوشہ بساط‘‘ جمیل الدین عالی،2005ء، کراچی

24۔’’انسان‘‘ جمیل الدین عالی،2007ء، کراچی

25۔ ’’عالی جی سے کچھ باتیں‘‘ انٹرویو، رعنا اقبال،2005ء کراچی

26۔’’میرے عالی جی‘‘ مقالہ، رعنا اقبال، 2004ء، کراچی

27۔ ماہ نامہ ’’چہار سو‘‘ راولپنڈی، نومبر، دسمبر2005ء، راولپنڈی

28 ۔ ’’شہاب نامہ‘‘ قدرت اللہ شہاب، ص721

29۔ ’’یہ مرد سادہ ہے خاکستر شرار انگیز‘‘ مقالہ، رعنا اقبال، عالی نمبر2001ء

30۔ ’’تاثرات اور تعصبات‘‘ نظیر صدیقی، اسلام آباد

31۔’’اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت‘‘ ڈاکٹر عنوان چشتی، ص201

32۔ ’’میں اور مرد مومن‘‘ (مضمون) جمیل الدین عالی، شعور، حیدر آباد، شمارہ 3,4

33۔ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ (طبع پنجم) جمیل الدین عالی (لاہور) 1999ء

34۔ ’’اردو یونیورسٹی تاریخ و تحقیق‘‘ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں،2005ء، کراچی

35۔ ’’دوہا ہزاری‘‘ ڈاکٹر الیاس چشتی، حیدر آباد، سندھ،2003ء

36۔ ’’من موج‘‘ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون، لاہور2001ء

37۔ ’’عالی جی سے انٹرویو‘‘ گلزار جاوید ، دوہے، لاہور، اگست2003ء

38۔ ماہ نامہ ’’چہار سو‘‘ شمارہ 38, 39 نومبر، دسمبر1995ء ، راولپنڈی

39۔ ’’دوہے کی پرمپرا‘‘ ڈاکٹر رویندر کمار بھرمر، دوہے، لاہور2003ء

40۔ ’’بنے بھائی‘‘ پروفیسر عتیق احمد،1990ء ، کراچی

٭٭٭

ماخذ: اقبال سائبر لائبریری

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100030.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید