فہرست مضامین
۱۷، رانڈے روڈ
ہندی ناول
رویندر کالیا، ترجمہ: عامر صدیقی
یہاں ناول کے صرف تین باب دیے گئے ہیں۔ مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
رویندر کالیا کا تعارف
پیدائش: ۱۱ نومبر، ۱۹۳۸ ء جالندھر، پنجاب
کچھ اہم تخلیقات:
کہانی مجموعے، نو سال چھوٹی پتن، کالا رجسٹر،غریبی ہٹاؤ، بانکے لال، گلی کوچے، وغیرہ،
ناول۔ خدا صحیح سلامت ہے، سترہ رانڈے روڈ، اے بی سی ڈی، وغیرہ۔
مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
انتقال، ۹ جنوری ۲۰۱۶ ء، ممبئی
باب اول: مہمان کردار نمبر ایک: سُدرشن پرشارتھی
ذرا کہہ دو سانوریا سے آیا کرے
اس کا نام سُدرشن پُرشارتھی تھا، اسٹیشن ڈائریکٹر بھٹناگر اس کا نام آنے پر اسے سُدرشن پناہ گزین کہتا تھا۔ بھٹناگر روز گیارہ بجے میٹنگ بلاتا تھا، لیکن سُدرشن گیارہ بجے سو کر اٹھتا تھا، لہٰذا روز بھٹناگر صاحب کی بہت سی شکایات وہ کسی نہ کسی شعر سے نمٹا دیتا تھا۔ بھٹناگر صاحب کو سندر کانڈ زبانی یاد تھا۔ وہ رام چرت مانس کی کسی چوپائی سے کسی بھی بات کا جواب دے سکتے تھے، مگر وہ میٹنگ میں ضابطے کی زبان سے ہی کام لینا پسند کرتے تھے۔ کسی دفتری کار روائی میں پرشارتھی، کسی شعر کا حوالہ دے دیتا تو بھٹناگر صاحب لال روشنائی سے دائرہ بنا دیتے، ’’آپ کو کئی بار کہا گیا ہے کہ دفتر میں دفتری زبان ہی استعمال کریں۔‘‘ پرشارتھی اس کا جواب بھی کسی پھڑکتے شعر سے دیتا۔
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں، کافر نہیں ہوں میں
یہ اس دور کا ذکر ہے جب تفریح کی دنیا پر ریڈیو کا غلبہ تھا۔ ریڈیو کے نیوزکاسٹر اور اناؤنسر نوجوان نسل کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔ پرکاش چودھری سامعین کی پسند کا گانا سنانے سے پہلے گیت میں ہی ایک دو مصرعے کچھ اس انداز میں شامل کرتے کہ سامعین پر ان کی آواز کا سحر طاری ہو جاتا۔ شام کو جب پرکاش چودھری اور سُدرشن پرشارتھی، سول لائنز کیلئے نکلتے تو لڑکیاں کنکھیوں سے چودھری صاحب کو دیکھنا نہ بھولتیں۔ کچھ لڑکے تو شام کو چودھری صاحب کے دیدار کا شرف حاصل کرنے سول لائنز آتے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنسی میں بار بار فیل ہونے والا، شہر کے سب سے بڑے ٹمبر مرچنٹ کا بیٹا بلراج مہندر باپ کے گلّے سے مٹھی بھر نوٹ نکال لاتا اور خوشی خوشی پرکاش اور پرشارتھی کے بلوں کی ادائیگیاں کرتا پھرتا۔ اس کی نظر میں راج کپور، دیو آنند اور دلیپ کمار کے بعد پرکاش چودھری کا ہی مقام تھا، جبکہ پرکاش چودھری کے ریڈیو اسٹیشن کی آواز چہیڑو کے پل کے پار بھی نہ جاتی ہو گی۔ وہ پرکاش چودھری کا فین تھا، مگر اس پر حکم پرشارتھی چلاتا، سگریٹ منگواؤ، ویفرز منگواؤ، چودھری صاحب ایک بیئر اور پئیں گے۔
چودھری اور پرشارتھی کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے کا بلاواسطہ کریڈٹ سنگیت کی پروڈیوسر نیلما ادھیر کو جاتا تھا۔ نیلما ادھیر ایک سال خوردہ کنواری تھی۔ کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ وہ ایک نیشنل پارٹی کے صدر کی چہیتی تھی اور ان کی سفارش سے ہی اس عہدے پر پہنچی تھی، جبکہ اسے نہ تو موسیقی کی سمجھ تھی اور نہ ہی صوتی نشریات کا کوئی تجربہ۔ جب وہ پہلے دن دفتر میں آئی تھی، پرشارتھی نے اسے دیکھ کر اُس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر سوہن اوستھی سے کہا تھا، ’’کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت حسین تھی۔‘‘
سوہن اوستھی، پرشارتھی کو پھکّڑ مزاج سمجھتے تھے اور کبھی اس پر سختی سے دفتر کے قوانین لاگو نہ کرتے۔ وہ اس کے کام سے مطمئن تھے۔ پرشارتھی کو ایسا ہی کام دیا جاتا تھا، جو دوسرے لوگوں کے بس کا نہیں ہوتا تھا یا جو کام بہت فوری نوعیت کا ہوتا تھا۔ جس فیچر کو دوسرے اسکرپٹ رائٹرز دو ہفتوں میں تیار کرتے، پرشارتھی دو گھنٹے میں کر دیتا۔ موضوع اس کی دلچسپی کا نہ ہوتا تو وہ انکار بھی کر دیتا۔ اوستھی جی اس کا برا نہیں مانتے تھے۔ لوگوں کی رائے تھی کہ اوستھی سر نے پرشارتھی کو سر چڑھا رکھا ہے، جبکہ اوستھی کی رائے تھی کہ پرشارتھی کو اسپوکن ورڈ کا پروڈیوسر ہونا چاہئے، اور وہ اسکرپٹ رائٹر کے عہدے پر سڑ رہا ہے۔ اوستھی صاحب فرصت میں ہوتے تو پرشارتھی کو بلا لیتے اور اس سے اساتذہ کے اشعار سنتے۔
پرشارتھی کے پاس غضب کی یادداشت تھی اور یہ کہنا بھی زیادہ غلط نہ ہو گا کہ وہ غالب، میر، ذوق اور مومن کا چلتا پھرتا دیوان تھا۔ کبھی کسی غزل کے شاعر کو لے کر الجھ جاتا تو فوراً پرشارتھی کو طلب کیا جاتا۔ پرشارتھی نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا تھا اور کس طرح ہاسٹل میں رہتے رہتے وہ شاعری کی دنیا میں آ گیا، کوئی نہیں جانتا۔ وہ ہاسٹل میں تھا تو مہینے میں بمشکل دو بار شیو بنواتا۔ باتھ روم میں بھیڑ جما رہتی تو وہ نہانا ملتوی کر دیتا۔ وہ اپنے پس منظر کے بارے میں خاموش رہتا۔ کسی کو نہیں معلوم تھا، وہ کس ضلع کا ہے اور اس کا باپ کیا کرتا ہے۔ کسی نے اسے تنگ دست نہ دیکھا تھا اور نہ ہی وہ فضول خرچی کرتا۔ چھوٹے اسکول سے ایم اے تک وہ دوسرے درجے میں پاس ہوا تھا۔ وہ فائنل میں تھا، جب ریڈیو سے اس کی غزلیں نشر ہونے لگیں اور کچھ غزلیں تو ریڈیو کے فرمائشی پروگراموں میں بار بار نشر ہوتیں۔ واقعی وہ پرکاش چودھری کی پسندیدہ غزلیں تھیں۔ چودھری گاہے بگاہے انہیں نشر کرتا رہتا۔ اس سلسلے میں دونوں کی دوستی ہو گئی اور چودھری کے کوششوں سے ہی اسے اسکرپٹ رائٹر کی نوکری مل گئی، جبکہ نہ تو پرشارتھی نے کبھی کام کرنے میں دلچسپی دکھائی تھی اور نہ ہی شاید اسے اس کی ضرورت تھی۔ کام کرنا اس کی فطرت میں ہی نہیں تھا۔ وہ اپنے کیریئر سے بھی ہمیشہ بے پرواہ رہتا تھا۔ اس کے ساتھ کے کئی لڑکے کمپٹیشن میں بیٹھ کر اونچے اونچے عہدوں پر پہنچ گئے، مگر ایک پرشارتھی تھا کہ اس نے کبھی کسی عہدے کیلئے درخواست ہی نہیں دی تھی۔ اس کی غزلوں سے لگتا تھا کہ کسی دوشیزہ نے اس کے دل پر گہرے زخم کئے ہیں۔ اس کے بارے میں اس کی غزلوں سے ہی جانکاری حاصل کی جا سکتی تھی۔
اسٹیشن ڈائریکٹر سوہن اوستھی کا تبادلہ ہو گیا تو پرشارتھی کیلئے اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کرنا محال ہو گیا۔ نئے اسٹیشن ڈائریکٹر بھٹناگر کھانٹی، نوکر شاہی ذہنیت کے تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر اسے ڈانٹ دیتے۔ اس کا ا سکرپٹ پلٹتے ہوئے ان کی انگلی میں آل پن گڑ گئی تو انہوں نے اسے طلب کر کے ڈانٹ پلائی، ’’جس اسکرپٹ رائٹر کو اسکرپٹ اسٹیپل کرنے کی تمیز نہ ہو، وہ اسکرپٹ کیا خاک لکھے گا!‘‘ پرشارتھی اس وقت پان چبا رہا تھا، اس نے کسی طرح پان گال کی طرف دھکیلتے ہوئے جواب دیا، ‘ حضور تب تو ہر دفتری بہترین اسکرپٹ رائٹر ہو سکتا ہے۔‘‘
بھٹناگر صاحب کو اس چالو نوعیت کے جواب کی توقع نہ تھی۔ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا، مگر وہ ایک تلخ گھونٹ پی کر رہ گئے۔ انہوں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ وہ اب اس بدتمیز اسکرپٹ رائٹر کو روم سے تو کیا، اس اسٹیشن سے ہی نکال باہر کریں گے۔ وہ آئے دن اس کے اسکرپٹ میں میں میخ نکالنے لگے۔ نیلما ادھیر جو اپنے شعبے کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتی تھی، اس کی وہ میٹنگ میں بھر بھر کر تعریف کرتے۔ بعد میں پتہ چلا کہ نیلما ادھیر نے اپنی نا اہلی چھپانے کیلئے بھٹناگر صاحب کی نوجوانی میں لکھی ہوئی کچھ پرانی شاعری کو ریاست کے مشہور گلوکار سُدرشن مجیٹھیا سے گوا دیا تھا۔ شاعری میں جا بجا خامیاں تھیں، جسے اس نے پرشارتھی سے بغیر یہ بتائے درست کروا لیا تھا کہ یہ بھٹناگر صاحب کے لکھے گیت ہیں۔ پرشارتھی نے ان میں نئی جان ڈال دی۔ ایک گیت تو اتنا مقبول ہو گیا کہ اس کوبار بار نشر کی فرمائشیں آنے لگیں۔ اس گیت کو پرشارتھی نے ایک لحاظ سے نئے سرے سے ہی لکھ دیا تھا۔ اسے جب پتہ چلا کہ وہ گیت بھٹناگر صاحب کے نام سے نشر ہو رہا ہے تو اس نے نیلما ادھیر کو اتنا ڈانٹا کہ وہ رونے لگی۔ روتے روتے وہ بھٹناگر صاحب کے کمرے میں گھس گئی اور بھٹناگر صاحب کے کمرے کے باہر سرخ بلب جلنے لگا، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس وقت نہایت مصروف ہیں اور کسی سے نہیں ملیں گے۔ بھٹناگر صاحب اس روز اتنے مصروف ہو گئے کہ پانچ بجے تک لال بتی جلتی رہی۔
پانچ بجے کام نپٹا کر بھٹناگر صاحب گھر کیلئے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے کہ ڈی ڈی جی کا فون آ گیا کہ ملک کی ممتاز ٹھمری اور غزل گلو کارہ بیگم زہرہ ریڈیو کے چاراسٹیشنوں پر لائیو پروگرام پیش کریں گی اور ان چار اسٹیشنوں میں ایک ان کا اسٹیشن بھی ہے۔ بھٹناگر صاحب کو بتایا گیا کہ زہرہ بائی بہت موڈی قسم کی آرٹسٹ ہیں اور ان کے پروگرام کی کامیابی کے لئے ابھی سے لگنا ہو گا۔ ڈی ڈی جی نے ریڈیو کمپلیکس کے اوپن ائیر ہال میں پروگرام منعقد کرنے کی تجویز پیش کی اور انہیں آگاہ کیا کہ وہ اپنا ساؤنڈ سسٹم بالکل چست درست رکھیں، کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔
فون ریسیور رکھتے ہوئے بھٹناگر صاحب نے نیلما سے کہا، ’’آپ کے امتحان کی گھڑی آ گئی ہے۔ تمام تر انتظام کی ذمہ داری آپ کے اوپر رہے گی۔ بیگم زہرہ، منتری جی کی منہ چڑھی ہیں، ان کے استقبال میں کوئی کوتاہی نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
نیلما ادھیر سر تھام کر بیٹھ گئیں، ’’میں تو ٹھمری اور غزل کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں رکھتی۔‘‘
’’گھبرائیے نہیں، ابھی وقت ہے۔ آپ مارکیٹ سے بیگم زہرہ کے تمام ’’ایل پی ریکارڈز‘‘ منگوا لیجئے۔ ان پر دو ایک کتابیں بھی دستیاب ہوں گی، وہ بھی پڑھ لیں۔ دوسرے وہ پروگرام کرنے آ رہی ہیں، آپ کا انٹرویو لینے نہیں۔‘‘
’’تم نہیں جانتے، یہ گلوکارائیں کتنے نخرے کرتی ہیں! بھٹناگر صاحب کسی اور کو اس پروگرام کی ذمہ داری سونپ دیجئے۔‘‘
” کس کو سونپ دیں؟شعبہ تو آپ کا ہے۔‘‘
’’تو سمجھ لیجئے، آج سے میری نیند حرام۔‘‘
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے! نیند حرام کرنے میں تو خود آپ ماہر ہیں۔‘‘ بھٹناگر صاحب نے کہا اور بہت ہی شوخ نظروں سے نیلما کی طرف دیکھا، جیسے انہوں نے کوئی بہت ’’بریلیئنٹ کمنٹ‘‘ کر دیا ہو اور اب اس کی داد چاہتے ہوں۔
’’سنگیت کے بارے میں وہ پناہ گزین بچہ اچھی جانکاری رکھتا ہے۔ اس کی مدد لو۔ وہ خود بھی غزلیں کہتا ہے۔ آئے دن مشاعروں میں حصہ لیتا رہتا ہے۔ اخبار والوں نے اسے کچھ زیادہ ہی سر چڑھا رکھا ہے۔ جب دیکھو اس کی تصاویر شائع ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ بھٹناگر صاحب نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’پرشارتھی سے تو میں خوف کھاتی ہوں۔ جانے اسے کیا کامپلیکس ہے کہ کسی بھی لڑکی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا۔‘‘
’’کچھ لوگ اسی طرح اپنی مردانگی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ بھٹناگر نے کہا۔
’’آپ اسے حکم دیجئے کہ وہ اس پروگرام میں دلچسپی لے۔ ایک کمیٹی بنا دیجئے، سنگیت کی پروڈیوسر جس کی کنوینر ہو۔ پرشارتھی کو بھی کمیٹی میں نامزد کر دیجیے۔‘‘ نیلما نے ایک راستہ دکھایا۔
’’وہ اس جال میں پھنسنے والا نہیں۔‘‘ بھٹناگر صاحب نے کہا، ’’کہہ دے گا کہ میں نے ایک اسکرپٹ رائٹر ہوں، اسکرپٹ کا کام ہو تو بتائیں۔ پیار سے بات کرو گی تو وہ ضرور مدد کرے گا۔ لگتا ہے تم نے کبھی اس پر اپنا جادو نہیں چلایا۔‘‘
’’بھٹناگر صاحب آپ تو مذاق کر رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں مذاق نہیں کر رہا، آپ آزمائیں تو۔‘‘
نیلما نے اپنے کمرے میں جا کر چپراسی سے کہا کہ وہ پتہ کرے، اس وقت پرشارتھی صاحب کہاں ہیں۔
’’باہر کسی چائے کے ڈھابے میں بیٹھے ہوں گے۔‘‘ چپراسی نے کہا، ’’وہ دو ہی جگہ ملتے ہیں، دن میں ڈھابے پر اور شام کو ہولی میں۔‘‘
’’یہ مذاق کا وقت نہیں ہے۔ مجھے ان سے ضروری کام ہے۔ جاؤ، جا کر معلوم کرو۔‘‘
چپراسی نے لوٹ کر بتایا کہ یہ اتفاق کی بات ہے کہ پرشارتھی صاحب اس وقت اپنی سیٹ پر بیٹھے کچھ لکھ رہے ہیں۔
نیلما ادھیر اٹھی اور جا کر پرشارتھی کو آداب بجا لائی۔
پرشارتھی نے سگریٹ کا ایک لمبا کش کھینچا اور آداب کہہ کر دوبارہ میز پر جھک گیا۔
’’پرشارتھی صاحب، مجھے آپ سے ہی کام تھا۔‘‘
’’فرمائیے۔‘‘
’’بیٹھنے کو نہیں کہیں گے؟‘‘
’’تشریف رکھیں۔‘‘ پرشارتھی نے پوچھا، ’’میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’خدمت کرنے تو میں خود حاضر ہوئی ہوں۔ آپ تو جانتے ہیں بیگم زہرہ ہمارے نشریاتی مرکز پر آ رہی ہیں۔‘‘
’’نہیں، مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں۔‘‘ پرشارتھی اس خبر سے بہت خوش ہوا، اور بولا، ’’یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔ نہ صرف مرکز کے لئے، بلکہ اس شہر کے لئے بھی۔‘‘
’’کہنے کو میں سنگیت کی پروڈیوسر ہوں، مگر شاعری میں صفر ہوں۔ میں آج تک یہ نہیں سمجھ پائی کہ ٹھمری اور دادرا میں کیا فرق ہوتا ہے۔‘‘
پرشارتھی نے نیلما سے پوچھا، ’’یہ بتائیے کہ ’رس کے بھرے تورے نین سانوریا‘ ٹھمری کے بول ہیں یا دادرا کے؟‘‘
نیلما کے اندر جتنا بھی شہد تھا، اس نے نینوں میں انڈیلتے ہوئے پرشارتھی پر نچھاور کیا اور گنگنانے لگی، ’’رس کے بھرے تورے نین سانوریا۔‘‘
’’واہ واہ، آپ کی زبان میں تو غضب کی مٹھاس ہے۔ جب شاعری اور سنگیت کا سنگم ہو جائے تو سمجھئے ٹھمری کیلئے مثالی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ٹھمری میں لفظ تو ہوتے ہیں، سنگیت کا حسن بھی ہوتا ہے۔‘‘
’’کچھ اور بتائیے ٹھمری کے بارے میں۔‘‘
’’ٹھمری عموماً درمیانی تان میں گائی جاتی ہے۔ دیپ چندی تال چودہ ماترا کی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ سولہ ماترا میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ بنیادی طور یہ جھپ تال پر مبنی ہوتی ہے۔ رس پردھان ہوتی ہے۔ درمیانی تان میں گاتے گاتے آخر میں اٹھان ہوتی ہے۔‘‘
’’آج سے آپ میرے استاد۔ مگر بیگم تو دادرا بھی گاتی ہیں۔‘‘
’’دادرا چھ ماترا کی تال پر مبنی ہوتا ہے۔ الفاظ کئی طرح کی انداز سے ادا کئے جاتے ہیں جیسے۔
ذرا کہہ دو سانوریا سے آیا کرے
اے جی آیا کرے من بھایا کرے۔‘‘
نیلما ادھیر سچ مچ ادھیر(پریشان) ہو گئی، ’’آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے! یہ آرٹسٹ لوگ بہت سر پھرے ہوتے ہیں اور ان کی رسائی دور دور تک ہوتی ہے۔ میں اس جھنجھٹ سے دور ہی رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
پرشارتھی صاحب سیٹ سے اٹھ کر ڈھابے کی طرف چل دیے اور نیلما واپس بھٹناگر صاحب کے کمرے میں۔ وہ سر تھام کر ان کے سامنے بیٹھ گئی۔
’’ایسے جی چھوٹا کرو گی تو اور مشکلات پیش آئیں گی۔ گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں، تمہارے ساتھ رہوں گا۔ اس دوران لائبریری سے سنگیت اور غزلیات پر کچھ کتابیں ایشو کرا لو۔ اب تک بیگم پر بھی کوئی نہ کوئی کتاب آ چکی ہو گی۔ لائبریری میں نہ ہو تو خریدوا لو۔ میرے ہوتے ہوئے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’کتابیں تو منگوا لوں گی مگر انہیں پڑھے کون؟ میں تو افسانہ تک نہیں پڑھ پاتی، سنگیت پر کیسے پڑھوں گی؟‘‘
’’تم کیا چاہتی ہو میری جان، وہی ہو گا۔‘‘ بھٹناگر صاحب آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ ’’میری جان‘‘ کا استعمال بھی انہوں نے ’’ہیلو ٹیسٹنگ‘‘ کیلئے کیا تھا۔ نیلما نے اس لفظ پر اعتراض نہیں کیا۔ دل ہی دل میں بھٹناگر صاحب بہت خوش ہوئے۔ ان کے ہاتھ نیلما کو چھونے کیلئے مچلنے لگے۔ مگر وہ جلد بازی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
’’بیگم ایک روز پہلے کیوں آ رہی ہیں؟‘‘ نیلما نے اپنی پریشانی بتائی، ’’کون ان کے نخرے اٹھائے گا اور جی حضوریاں کرے گا! سنتے ہیں ریڈیو بھوپال کے پروڈیوسر کو تو انہوں نے بھری محفل میں ذلیل کر دیا تھا۔‘‘
’’تمہیں معلوم نہیں، ان کا آٹوگراف لینے کیلئے کیا بچے کیا بوڑھے سبھی پریشان رہتے ہیں اور ایک تم ہو کہ ان کی صحبت کے موقعے کو ٹھکرانا چاہتی ہو۔ تم تو نادان ہو۔‘‘
جرات بٹور کر بھٹناگر صاحب نے نیلما کے گال تھپتھپا دیے، جیسے ایک مرحلہ اور کراس کر لیا۔ انہوں نے گھنٹی بجا کر چپراسی کو طلب کیا اور پرشارتھی کو بلا نے کا حکم دیا۔ چپراسی نے دفتر کا کونا کونا چھان مارا، مگر پرشارتھی صاحب کہیں سے برآمد نہ ہوئے۔ بھٹناگر صاحب نے اسی وقت فون پر اسپوکن ورڈ کے پروڈیوسر کو ڈانٹ پلا دی کہ انہوں نے اسکرپٹ رائیٹروں کو کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ پرشارتھی دکھائی دے تو اسے فوراً ان کے کیبن میں بھیجیں۔
پرشارتھی کمرے میں داخل ہوا تو وہ پان چبا رہا تھا۔ پان چبانے سے بے انتہا چڑ تھی، مگر اس نے دفتری اوقات میں چودھری کے ساتھ بیئر پی لی تھی اور اب بیئر کی بدبو چھپانے کے لئے اس نے چودھری کے ایک فین کے اصرار پر پان کا بیڑا منہ میں رکھ لیا تھا۔ اسے پان کھانے کی مشق تھی نہ ہی شعور، لہٰذا جیب کے پاس پان کا دھبا لگ چکا تھا۔ حسبِ معمول اس کے کرتے کے بٹن بھی کھلے تھے۔ اسے اس نہایت غیر دفتری انداز میں دیکھ کر بھٹناگر صاحب نے اس کے سلام کے جواب میں بے حد تلخی سے کہا، ’’پہلے آپ کرتے کے بٹن بند کیجیے اور بات کرنے سے بیشتر پان باہر تھوک آئیے، مجھے پچکاریاں سخت ناپسند ہے۔‘‘
پان تھوک آنے کے بعد پرشارتھی، اسٹیشن ڈائریکٹر سے مخاطب ہوا، ’’آپ نے آج کا ’’دیواکر‘‘ دیکھا؟‘‘
’’کیا آج پھر کچھ چھپا ہے؟‘‘
نیلما نے گھبراہٹ میں پوچھا، ’’کیا چھپا ہے؟‘‘
’’یہی کہ ریڈیو کے اس نشریاتی مرکز کو ’’’غزلوں کا گلدستہ‘‘ نامی پروگرام بند کر دینا چاہئے۔ گزشتہ ہفتے استادوں کے کلام پروگرام میں تلفظ کی بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ اور میر کی غزل داغ کے نام سے نشر ہو گئی۔‘‘
بھٹناگر صاحب کا پارہ ایک دم نیچے آ گیا۔ انہیں کچھ لوگوں نے بتا رکھا تھا کہ ’’دیواکر‘‘ میں پرشارتھی ہی قلمی نام سے ریڈیو پر کالم لکھتا ہے۔ انہوں نے بہت کوشش کی تھی، مگر آج تک کوئی شخص اس کا ثبوت نہیں پیش کر پایا۔ بہت ضبط کرتے ہوئے بھی ان کے منہ سے نکل گیا، ’’لوگوں کا خیال ہے کہ دیواکر میں آپ ہی قلمی نام سے کالم لکھتے ہیں۔‘‘
پرشارتھی نے قہقہہ لگایا اور بغیر کسی دعوت کے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے کہا، ’’بھٹناگر صاحب، وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ آپ ہی بتائیں، جب میں اپنے پروگرام تک نہیں سنتا تو دوسروں کے پروگرام کیونکر سنوں گا! اس ریویو میں تو عورتوں کے پروگرام کی بھی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ جانے کس پکوان میں آپ کی میزبان نے ادرک ملوا دیا، جبکہ ادرک سے اس کا ذائقہ تلخ ہو جاتا ہے۔‘‘
’’مجھے تو اس سازش کے پیچھے آپ کا ہی ہاتھ نظر آتا ہے۔‘‘
’’سازش تو وہ کر سکتا ہے جس کا پروگرام ہو۔ سنگیت کی پروڈیوسر آپ کے سامنے بیٹھی ہیں۔ امورِ خانہ داری کے پروگرام سشما جی دیکھتی ہیں۔ ایسے میں میرے لئے سازش کرنے کی گنجائش ہی کہاں بچتی ہے؟‘‘
’’دیواکر میں آپ کے پروگرام کی کبھی برائی نہیں چھپتی۔‘‘
’’حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ۔‘‘
’’پرشارتھی صاحب آپ ناراض نہ ہوں، آپ کو کسی دوسرے کام سے بلایا گیا تھا۔‘‘ نیلما نے کہا۔
’’بندہ حاضر ہے۔‘‘
’’آپ کو معلوم ہو گا، بیگم صاحبہ اس نشریاتی مرکز کے اوپن ایئر میں پہلی بار اپنا پروگرام پیش کریں گی۔‘‘
’’زہے نصیب۔ ان کے نیاز حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔‘‘
’’یہی سوچ کر آپ کو بلوایا تھا کہ آپ ان کی اہمیت سے واقف ہیں اور ان کی استقبالیہ کمیٹی میں شامل ہوں گے۔‘‘ بھٹناگر صاحب نے کہا اور دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ پروگرام کے بعد اس مغرور شاعر کو سبق ضرور سکھائیں گے۔ انہیں علم تھا کہ پرشارتھی دن میں بھی ایک آدھ پیگ چڑھائے رہتا ہے، کسی دن طبی معائنہ کروا کے اس بلا سے نجات پا لیں گے۔
’’میں بیگم صاحبہ کی عزت کرتا ہوں، مگر ان کی استقبالیہ کمیٹی میں شامل ہونے میں میری کوئی دلچسپی نہیں۔ کمیٹی میں بڑے لوگ رکھیں، میں تو خود کو اس قابل نہیں سمجھتا۔‘‘
’’آپ جا سکتے ہیں۔‘‘ بھٹناگر صاحب نے کہا اور اس کے باہر قدم رکھتے ہی نیلما سے کہا، ’’ہی تھنکس ٹو مچ ابو ہم سیلف۔‘‘
’’سر، دیواکر منگوائیں۔ کوئی میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ ہر ہفتے کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا چھپ جاتا ہے۔ یہ لوگ ڈی ڈی جی کے پاس اس کے تراشے بھی بھیجتے ہوں گے۔‘‘
بھٹناگر صاحب نے ’’دیواکر‘‘ کیلئے لائبریری میں فون ملایا۔
نیلما نے کسی طرح بھٹناگر صاحب کو تیار کیا کہ وہ پرشارتھی کو کیسے بھی بہلا پھسلا کر اس پروگرام میں شامل کروا دیں۔ بیگم صاحبہ خفا ہو گئیں تو ہم لوگوں پر آفت آ سکتی ہے، سنتے ہیں بیگم کے کیلیکر صاحب سے بہت گھریلو قسم کے تعلقات ہیں۔ کیلیکر صاحب منتری تھے اور سنگیت میں ان کی گہری دلچسپی تھی۔ ملک کے تمام ہی سنگیت سے تعلق رکھنے والوں، موسیقاروں، فنکاروں اور کلاسیکل، نیم کلاسیکل اور دیگر گلوکاروں، گلوکاراؤں سے ان کی دوستی تھی۔ زیادہ تر موسیقاروں کو انہوں نے کسی نہ کسی شکل میں ریڈیو سے منسلک کر دیا تھا۔
بھٹناگر صاحب نے چودھری کو بلایا اور پرشارتھی کو ریڈیو کے نمائندے کی حیثیت سے بیگم صاحبہ کی آؤ بھگت کرنے کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے راضی کرنے کی درخواست کی۔ چودھری صاحب کو آج تک کسی اسٹیشن ڈائریکٹر نے اپنے کمرے میں بلا کر کوئی کام نہیں سونپا تھا، اس نے پرشارتھی کی جانب سے ہاں بھر دی اور کہا کہ صاحب بے فکر ہو جائیں، وہ پرشارتھی کو محاذ پر لگا دے گا۔ چودھری کیلئے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اس نے پرشارتھی سے کہا کہ اس کی زندگی میں اس سے اچھا موقع نہ آئے گا۔ ملک کی سب سے زیادہ مقبول غزل گلو کارہ سے روابط بڑھانے کا اس سے سنہری موقع اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہم دونوں مل کر بیگم صاحبہ کو ایسامتاثر کر دیں گے کہ بیگم صاحبہ زندگی بھر یاد رکھیں گی۔
چودھری نے جو کہا، وہ کر دکھایا۔ صبح ناشتے کے وقت پرشارتھی سے کچھ غزلیں سنانے کی درخواست کی اور بیگم سے کہا، ’’بیگم صاحبہ میں اس نشریاتی مرکز کا ایک ادنیٰ سا اناؤنسر ہوں۔ یقین مانئے جب میں شاعری یا سنگیت کا پروگرام پیش کرتا ہوں تو سامعین جھوم جھوم جاتے ہیں۔ جتنے فرمائشی خطوط ہمارے اسٹیشن کو ملتے ہیں اتنے کسی اور اسٹیشن کو نہیں۔ یہاں تک کہ دہلی اسٹیشن کو بھی نہیں۔ مجھے یقین ہے آپ پرشارتھی کو سنیں گی تو ان کی غزلیں پسند کریں گی۔ یہ نہ کہیں شائع کرواتے ہیں نہ ہی مشاعروں میں جاتے ہیں۔ سمجھ لیجیے ایک صوفی شاعر ہیں۔‘‘
بیگم صاحبہ نے بے چینی سے کہا، ’’بھئی ہمیں کیوں محروم رکھے ہو، کوئی عمدہ سی غزل پیش کرو۔ یاد رہے میں صرف ایک غزل سنوں گی۔‘‘
سُدرشن نے بغیر زیادہ سوچ بچار کئے ایک شعر پیش کیا اور بولا، ’’بیگم صاحبہ میں غزل نہیں فقط ایک شعر سناتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔‘‘ اس نے کہا:
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا۔
بیگم ناشتہ کرتے ہوئے میز تھپتھپا کر داد دینے لگیں اور بولیں، ’’قبلہ آپ نے طبیعت خوش کر دی۔ فوراً سے بیشتر پوری غزل ابھی لکھ کر دے دیجیے۔ مجھے پسند آئی تو کسی صحیح موقع پر اس کا استعمال کروں گی۔‘‘
’’بیگم صاحبہ یہ جیب میں کاغذ رکھتے ہیں نہ قلم۔ غزل لکھتے نہیں کہتے ہیں۔ شاگرد لوگ لکھ کر آپس میں بانٹتے رہتے ہیں، مگر آج یہ اپنے ہاتھوں سے پہلی بار آپ کیلئے غزل لکھیں گے۔ میں ابھی کاغذ قلم لا کر دیتا ہوں۔‘‘
جب تک چودھری کاغذ قلم لے کر آتا، بیگم صاحبہ مکمل غزل سن چکی تھیں۔
شام کو سات بجے شہر کے سب سے بڑے پارک کے اوپن ایئر میں بیگم کی غزلوں کا پروگرام منعقد ہوا۔ پورا شہر پارک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لوگوں کا ایسا ہجوم تب دیکھا گیا تھا، جب مہاتما گاندھی اور نہرو جی شہر میں آئے تھے۔ چاروں طرف گرد اڑ رہی تھی۔ کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ شہر میں اتنے زیادہ سنگیت کے دیوانے موجود ہیں۔ اوپن ایئر میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، جب بیگم اسٹیج پر نمودار ہوئیں۔ انہوں نے آتے ہی عوام کوسلام کیا اور بولیں، ’’حاضرین! جس شہر میں سنگیت کے اتنے زیادہ شیدائی ہوں، وہیں کے ایل سہگل کاسنگیت کی دنیا میں جنم ہو سکتا تھا۔ اس شہر کے ہری ولبھ میلے میں کون سا ایسا کلاسیکی گلوکار ہے جو کم از کم ایک بار نہ آیا ہو۔ آج بھی یہ شہر آپ کی ریاست کا ثقافتی دارالحکومت ہے۔ آج بھی یہاں بہت سے گلوکار ملکی پلیٹ فارم پر ظاہر ہونے کیلئے خاموشی سے جد و جہد کر رہے ہوں گے۔ بہت سے شاعر ہوں گے جو فقیر ملنگوں کی طرح شہر کی آب و ہوا سے تخلیقی قوت پا رہے ہوں گے۔ میں اپنے پروگرام کا آغاز آپ کے شہر کے ایک ذہین شاعر جناب سُدرشن پُرشارتھی کے کلام سے کر رہی ہوں۔ آپ جاننا چاہ رہے ہوں گے کہ کون ہے یہ شاعر، مگر ان کے بارے میں آپ کو پروگرام کے ناظم ہی بتائیں گے، میں نہیں۔ میں صرف اس شاعر کو سلام کرتے ہوئے ان کی ایک غزل سے آج کی غزل شام کا آغاز کروں گی۔‘‘ بیگم نے جیسے ہی تان لگائی، گہرا سناٹا چھا گیا۔
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں بر سے گی شراب
اسی ایک مصرعے کی ادائیگی میں بیگم نے ایک منٹ کا وقت لیا اور پھر جب دوسرا مصرعہ جوڑا تو ہجوم میں جیسے طوفان برپا ہو گیا۔ بیگم نے کہا تھا۔
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا۔
تالیاں اتنی بجیں کہ تھمنے کا نام نہ لے رہی تھیں۔ ہجوم داد دے رہا تھا اور بیگم خراماں خراماں چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں۔
پرشارتھی اور چودھری اس سب سے بے نیاز، بار میں بیٹھے اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ انہوں نے بیگم کو شکایت کا موقع دیا یا نہیں۔ دونوں کو یقین تھا کہ بیگم ان کی دیکھ بھال سے مطمئن ہیں۔ پروگرام کے بعد بیگم کا ڈنر شہر کے سب سے بڑے صنعت کار کے یہاں تھا، صبح تک دونوں بے فکر تھے۔ جب تک بار بند ہونے کا وقت نہیں آیا، بلراج ان کی خدمت کرتا رہا۔ وہ آج باپ کے گلّے سے اچھی خاصی رقم اڑا کر لایا تھا۔ چودھری اور پرشارتھی دونوں کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، جب انہوں نے شغل سے رخصت لی۔ بلراج نے اپنی گاڑی میں پہلے چودھری کو اس کے گھر پر اتارا پھر پرشارتھی کو اپنے گھر لے گیا۔
پرشارتھی ابھی سو ہی رہا تھا کہ بلراج شہر کا سب سے مقبول اخبار پڑھ کر مد ہوش ہو گیا۔ پہلے صفحے پر بیگم کی تصویر تھی اور پرشارتھی پر خصوصی مواد۔
جناب پرشارتھی صاحب نے شہر کو نئی شناخت دی۔ تیسرے صفحہ پرشارتھی کی تصاویر سے بھرا پڑا تھا۔ جانے رات بھر میں اخبار نے پرشارتھی کی تصاویر کہاں سے حاصل کر لیں تھیں! زیادہ تر تصاویر میں اس کے ہاتھ میں مے کا پیمانہ تھا۔ جب تک پرشارتھی بیدار ہوتا، وہ شہر کے ہیرو بن چکا تھا۔ دوستوں نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اب شہر کا نام روشن کرنے کے لئے فوراً سے پیشتر ممبئی روانہ ہو جائے۔ بلراج نے تو فرنٹیئر میل میں اس کی سیٹ بھی ریزرو کروا دی اور گزارے کیلئے اس دن کی اپنے باپ کی ساری کمائی پرشارتھی کی نظر کر دی۔
پرشارتھی ایک ایسے شہر میں آ پہنچا، جہاں اس نے اپنے لئے ملازمت کا بندوبست تو کر رکھا تھا، مگر رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا۔ اچانک وہ سُدرشن پُرشارتھی سے سچ مچ سُدرشن پناہ گزین ہو گیا تھا۔
٭٭٭
مہمان کردار نمبر دو: سورن سنگھ، ایڈیٹر ’’چیتنا‘‘
برمنگھم سے آیا میرا دوست
اچانک گورا نے سُدرشن کو فون پر اطلاع دی کہ آپ کے دوست سمپورن اوبرائے نہیں رہے۔ ساتویں دہائی میں ممبئی میں سُدرشن ان کا ’’پے انگ گیسٹ‘‘ تھا۔ گورا، سُدرشن کی عقیدت مند تھیں اور سُدرشن اردو کا ابھرتا ہوا شاعر تھا، جو فلمی دنیا میں گیت کار بننے کے ارادے سے بمبئی آیا اور فی الحال ’’اردو ادب‘‘ نام کے ماہانہ رسالے میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر کام کر رہا تھا۔ اپنے ایک دوست کی سفارش سے سُدرشن کو سمپورن کے یہاں تین سو روپے ماہانہ پر ’’پے انگ گیسٹ‘‘ کی حیثیت سے رہنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہ ساتویں دہائی کے اوائل کے دن تھے، جب سونا سو روپے تولہ تھا اور ممبئی، بمبئی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کچھ لوگ اسے بومبے بھی کہتے تھے۔ ٹیکسی کا کم از کم کرایہ ساٹھ پیسے ہوا کرتا تھا۔ سُدرشن نے کچھ ہی دنوں میں محسوس کر لیا تھا کہ سمپورن کے سلسلے میں ’’پے انگ‘‘ لفظ استعمال کرنا بے کار تھا۔ حساب لگایا جائے تو وہ تین سو سے زیادہ رقم سُدرشن پر خرچ کر دیتا تھا۔
آج سے پچیس سال پہلے سُدرشن اس سے رخصت لے کر دہلی لوٹ آیا تھا۔ ان پچیس برسوں میں اوبرائے نے سال میں چاہے ایک بار ہی سہی مگر رابطہ ضرور رکھا۔ کبھی ’’گریٹنگ کارڈ‘‘ بھیج کر، کبھی فون ملا کر، کبھی اچانک دہلی نمودار ہو کر۔ ابھی کچھ برس پہلے سُدرشن اور اس کی بیوی بمبئی گئے تو اوبرائے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کیلئے کیا کر ڈالے؟ وہ سُدرشن کو اپنی الماریوں کے پاس لے گیا اور اسے قمیض اتارنے پر مجبور کر دیا۔ الماریوں سے ایک نئی قمیض نکال کر سُدرشن کو پہنا دی۔ وہ اس کے جوتے بھی تبدیل کرنا چاہتا تھا، مگر اس کے سبھی جوتے سُدرشن کے پاؤں کے مطابق چھوٹے پڑ رہے تھے۔ اس کے بعد وہ سُدرشن کو اپنے ’’بار‘‘ تک لے گیا۔ دنیا کا کوئی ایسا مشہور برانڈ نہ تھا، جو اس کے ’’بار‘‘ کی زینت نہ بڑھا رہا ہو۔ کوئی پندرہ بیس برس پہلے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ میں اس پر ’’رائٹ اپ‘‘ دیکھ کر سُدرشن چونکا تھا۔ معلوم ہوا، بمبئی کی اشتہاری دنیا کا وہ بے تاج بادشاہ بن چکا ہے۔ ’’اِرما‘‘ کے اشتہار نے ایسا معجزہ کر دکھایا تھا کہ ’’ارِما‘‘ بھارت کے متوسط طبقے کے کپڑے دھونے کا ڈٹرجنٹ بن گیا۔ ’’اِرما‘‘ کی دھنیں گھر گھر میں ریڈیو دور درشن سے بجنے لگیں۔ ’’سِیکو وجردنتی‘‘ کو بھی اس نے چار چاند لگا دیئے تھے۔ وہ جس کسی پروڈکٹ کو چھوتا، وہ سونا بن جاتا۔ سُدرشن جب جب بیوی کے ہمراہ بمبئی گیا، سمپورن نے ہوائی جہاز سے واپسی کا اہتمام کیا۔
سمپورن سے سُدرشن کو سب سے پہلے سورن نے ملوایا تھا۔ سورن ان دنوں پنجابی کے ادبی میگزین ’’چیتنا‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ دہلی میں سُدرشن کی اس سے دوستی ہو گئی تھی۔ وہ اکثر بمبئی جاتا رہتا تھا۔ گلزار، ساگر سرحدی وغیرہ جیسے فلمی لوگوں سے اس کی دوستی تھی۔ سُدرشن کو جب ’’اردو ادب‘‘ میں نوکری ملی توسورن نے یقین دہانی کرائی کہ بمبئی میں وہ اس کی رہائش کا بندوبست کر دے گا۔
یہ طے پایا گیا تھا کہ مقرر تاریخ کو سورن، سُدرشن کو دادَر ریلوے اسٹیشن پر ملے گا۔ سُدرشن نے سن رکھا تھا کہ دادَر کے قلی مسافروں سے حسب منشا وصولی کرتے ہیں۔ دیر تک وہ سورن کا انتظار کرتا رہا۔ سورن پر اسے اتنا یقین تھا کہ اس نے کوئی متبادل انتظام بھی نہ کیا تھا۔ سُدرشن کے صبر کا پیمانہ جب جواب دے گیا تو اس نے قلیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا اور پربھا دیوی کے اس لاج کی طرف جانے کا من بنایا، جہاں ہری ونش تیواری رہتے تھے۔ ہری ونش ان دنوں کسی مشہور فلمی میگزین میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ ٹیکسی والے نے سُدرشن کا خوب استحصال کیا۔ پوری بمبئی کی سیر کراتے ہوئے بتائے گئے ’’لاج‘‘ تک پہنچایا۔ اس وقت تک شام ڈھل چکی تھی۔ لاج پر پہنچ کر پایا کہ ہری ونش ندارد تھا۔ لاج کے مالک نے ہری ونش کا کمرا نہیں کھولا اور سُدرشن کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے رات بھر قیام کے لئے ’’لاج‘‘ کے اسٹور میں کھٹیا ڈلوا دی۔ وہاں گندم کی بوریاں رکھی تھیں، وناسپتی گھی کے کنستر، آلو کے بورے اور نجانے کیا کیا۔
بمبئی آ کر پہلے ہی روز سُدرشن کو ایک ساتھ بہت سارے تجربے ہوئے تھے۔ اس نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ کسی شہر میں اتنے لوگ سما سکتے ہیں۔ وہ جب اپنے دڑبے (لاج) سے پہلی بار صبح کے ناشتے کی تلاش میں نکلا تو لوگوں کا ہجوم دیکھ کر سہم گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی لوگوں کے ہجوم میں شامل ہو گیا۔ بازار میں چلتے ہوئے بہت سے چھوٹے ریستوران دکھائی دیے، جن میں زیادہ تر ایرانی ہوٹل تھے۔ دکانوں کے گیٹ پر ہی کاؤنٹر ٹیبل لگا کر ریستوران کا مالک مسلسل پیسے بٹورتے دکھائی دیتا۔ ایک ایرانی ہوٹل میں وہ گھسا۔ کھانوں کی لمبی فہرست پڑھ کر وہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ اسے ناشتے میں کیا لینا چاہئے۔ اس نے بیٹھتے ہی چائے کا آرڈر دے دیا تاکہ اسے سوچنے کے لئے کچھ وقت مل جائے۔ چائے پی کر وہ فوری طور پر ادائیگی کر کے باہر نکل آیا۔ باہر آ کر وہ دوبارہ ہجوم میں شامل ہو گیا۔ تھوڑی ہی دور پر اسے ایک ’’اُڈپی‘‘ ریستوران دکھائی دیا۔ یہاں کے مینو سے وہ واقف تھا۔ اس نے ایک پلیٹ اڈلی سانبھر کا آرڈر دیا۔ اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ سامنے میز پر اڈلی سانبھر حاضر تھا۔ وہ اسی طرح سے اڈلی سانبھر پر ٹوٹ پڑا، جیسے رات کو مچھر اس پر ٹوٹ پڑے تھے۔ تھکاوٹ، فکر، گھبراہٹ اور تکلیف میں وہ ٹھیک سے سو بھی نہ پایا تھا۔ رات کو مچھر اس کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔
اس کے چہرے، پیر اور ہاتھوں پر مچھر اپنے یادگاری نشان چھوڑ گئے تھے۔ اسٹیشن سے اترتے ہی وہ پہلے قلیوں کی من مانیوں کا شکار ہوا تھا۔ دادر کے قلیوں کی اس نے پہلے ہی بہت شہرت سن رکھی تھی، وہ دیر تک ان کی چھینا جھپٹی سے بچتا رہا اور جب بڑی دیر تک پلیٹ فارم پرسورن دکھائی نہیں دیا تو اس نے ایک قلی کے سامنے آگے ہتھیار ڈال دئے۔ سورن سے اسے ایسی امید نہ تھی کہ اس شہر میں وہ اسے یوں بے سہارا چھوڑ کر غائب ہو جائے گا، جبکہ دہلی سے چلنے سے پہلے وہ فون پر اس گاڑی کی صحیح طریقے سے اطلاع دے چکا تھا۔
سورن، دہلی میں اس کا روم میٹ تھا۔ ان دنوں وہ پنجابی کے ادبی میگزین ’’چیتنا‘‘ کا ایڈیٹر اور ناشر تھا۔ دن بھر وہ اشتہارات کیلئے دوڑتا بھاگتا، شام کو ٹی ہاؤس میں نوجوان مصنفّین اس کے آگے پیچھے دوڑتے۔ میگزین کی کل ملا کر پانچ سو کاپیاں شائع ہوتی تھیں، مگر شام کو ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر وہ اپنے کو اسٹیفن اسپینڈر سے کم نہ سمجھتا تھا۔ مصنف حضرات اس کی کافی کا بل ادا کرنے کے متلاشی رہتے۔ کبھی کبھی جب کوئی تارکین وطن پنجابی مصنف دہلی تشریف لاتا توسورن کی سانسوں میں اسکاچ رچ بس جاتی۔ کچھ دنوں وہ کسی راجکمار جیسا انداز اختیار کر لیتا، لوگ اسے ٹیکسی سے اترتے یا ٹیکسی میں سوار ہوتے دیکھتے۔ انہی دنوں اس نے اپنا پاسپورٹ بھی بنوا لیا تھا اور اکثر ٹی ہاؤس میں اپنے پورٹ فولیوں میں سے کوئی تحریر تلاش کرتے ہوئے اس کا پاسپورٹ لازمی میز پر گر جاتا۔ اس نے اس وقت تک شادی نہیں کی تھی اور پنجابی کی ایک دھاکڑ اور خوبصورت شاعرہ، اکثر اسے لنچ یا ڈنر پر مدعو کرتی۔ ایک دن پتہ چلا کہ وہ شاعرہ اچانک اس کی فہرست سے غائب ہو گئی ہے۔
’’وہ اچھی نظمیں نہیں لکھ سکتی۔‘‘ ایک دن سُدرشن کو اس نے بتایا، ’’وہ پرسنل ہائی جن کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتی۔ ایک دن میں نے اس کی ناک سے ہونٹوں کو چھوتا ہوا ایک بال دیکھا تو مجھے اس سے گھن آ گئی۔‘‘
ان دنوں وہ بیچ بیچ میں بمبئی آتا جاتا رہتا تھا۔ بمبئی میں اس کا ایک دوست تھا، شاد جالندھری۔ وہ اردو غزلیں کہتا تھا اور ان دنوں فلموں میں جد و جہد کر رہا تھا۔ وہ سورن کو کچھ ادب نواز صنعت کاروں سے ’’چیتنا‘‘ کے لیے اشتہارات دلوا دیتا تھا۔ سورن ’’چیتنا‘‘ کی پانچ سو کاپیاں بھی مناسب طریقے سے تقسیم نہ کر پاتا تھا۔ یوں تو پنجاب کے اہم شہروں چنڈی گڑھ، پٹیالہ، امرتسر، لدھیانہ اور جالندھر میں اس کے میگزین کی پچیس پچیس کاپیاں جاتی تھیں، مگر آج تک کسی بھی کتب فروش نے فروخت کا حساب نہیں بھیجا تھا۔ سورن نے بھی کبھی تقاضہ نہیں کیا۔ اس کا ایک فائدہ اسے یہ ضرور ملا کہ جب پنجاب سے کوئی مصنف دہلی آتا تو وہ سورن کو ضرور تلاش کر لیتا۔ اسے بیرون ملک آباد پنجابی تخلیق کاروں کے خطوط ملتے تو وہ حیرت کیا کرتا کہ ان تک اس کے میگزین کی کیسے رسائی رہی ہے! برمنگھم میں آباد پنجابی کے ایک شاعر روندر روی دہلی آئے تو انہوں نے ’’ہوٹل جن پتھ‘‘ میں اسے دعوت کیلئے بلایا۔ وہ اپنے ساتھ سُدرشن کو بھی لے گیا۔ وہاں عمدہ اسکاچ اور باسی نظموں کی پارٹی دیر رات تک چلی تھی۔ جب تک روندر دہلی میں رہا، سورن کو اپنے لئے شام کے کھانے کی فکر نہ کرنی پڑی۔ سورن نے اپنے بہت سے دوستوں کو اپنا یہ جلوہ دکھایا۔
’’میگزین چھاپنے میں آپ کا بہت پیسہ خرچ ہوتا ہو گا؟ کیا آپ کے اخراجات نکل آتے ہے؟‘‘ ایک دن روندر نے پوچھا۔
’’بھرا جی، میگزین نکالنا ایک خسارے کا سودا ہے۔‘‘سورن نے شہیدانہ انداز میں بتایا، ’’باپ دادا سے وراثت میں ملیں زیادہ تر زمینیں اب تک اس کے چکر میں فروخت ہو چکی ہیں۔ زمین فروخت ہونے کا مجھے اتنا غم نہیں ہے جتنا اس بات کا غم ہے کہ پنجابی کے قارئین کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ میں بھی حوصلہ ہار بیٹھوں تو ہمارے ادب کا اور ہماری زبان کیا ہو گا!‘‘
’’ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ اپنی زبان کو بھول کر ہم لوگ بیرون ملک میں خوب پیسہ بٹور رہے ہیں اور آپ جیسے لوگ ہماری زبان کی مشعل کو جلائے رکھنے میں اپنا گھر بار پھونک رہے ہیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہو گا۔ پانچ ہزار کا چیک تو میں ابھی آپ کی نذر کر رہا ہوں۔ برمنگھم پہنچ کر کچھ مزید پیسوں کا بھی انتظام کروں گا۔ سورن جی، آپ اطمینان رکھیں، چیتنا نکلے گا اور نکلتا رہے گا۔ لوٹ کر، میں اپنے دوسرے ساتھیوں سے بھی چندہ بھیجنے کے لیے کہوں گا۔ آپ نے زندگی بھر کی رکنیت کا چندہ پانچ سو روپے رکھا ہے۔ دو سو گاہک تو میں اسی برس بنوا دوں گا۔‘‘
سورن کو لگا، جیسے اس کی لاٹری کھل گئی ہو۔ اس نے اٹھ کر روی کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کی داڑھی کا بوسہ لیتے ہوئے بولا، ’’تہاڈا تعاون مل گیا، ہن مینو کوئی فکر نہیں۔‘‘ اسکاچ کی گرمی اس کی رگوں میں دوڑ رہی تھی، وہ وہیں کمرے میں ہاتھ اٹھا کر بھنگڑا کرنے لگا، بلے بلے۔
پانچ ہزار کا چیک ملتے ہی اس نے روی کے ساتھ بیٹھ کر ’’معاصر پنجابی ادب۔ خصوصی شمارہ‘‘ کے بنیادی خدوخال طے کر ڈالے۔
جلد ہی سُدرشن کو ’’اردو ادب‘‘ میں عہدہ سنبھالنا تھا۔ صبح دفتر پہنچا۔ ساتھیوں کو اپنی حالتِ زار بتائی۔ وہ لوگ کہیں سُدرشن کا انتظام کرتے اس سے قبل ہی دوپہر کو سورن چلا آیا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دادر اسٹیشن کا کونا کونا چھان مارا، مگر سُدرشن اسے نہیں ملا۔ بہرحال، اس نے ایک دن کا وقت مانگا اور رہائش کے بندوبست کی پکی یقین دہانی دے کر چلا گیا۔
٭٭٭
مہمان کردار نمبر تین: ایک حیرت انگیز بھوت نما انسان
بھوت بنگلے میں پہلا دن
سورن شام کو ہی سمپورن کے ساتھ ’’لاج‘‘ پر چلا آیا، جہاں سُدرشن نے عارضی بنیادوں پر ڈیرہ جما رکھا تھا، سمپورن نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور پوچھا، ’’پنجابی بول سکتے ہو؟‘‘
’’لکھ پڑھ بھی سکتا ہوں۔‘‘ سُدرشن نے کہا۔
’’اچھا یہ بتاؤ کہ ’’گنڈتاں میں چک لوں، گھے تیرا پیوچکّو‘‘ کا کیا مطلب ہے؟‘‘
سُدرشن نے کہا، ’’گٹھری تو میں اٹھا لوں گا، گھی تمہارا باپ اٹھائے گا؟‘‘
’’واہ واہ!‘‘ سمپورن بولا، ’’کتھے ہے تیری گٹھری؟‘‘
سُدرشن نے اپنا سامان اٹھایا اور ٹیکسی میں بھرنے لگا۔
’’ٹھیک ہے، کچھ دن ساتھ رہتے ہیں۔ معاملہ جما تو ٹھیک ورنہ یہیں چھوڑ جاؤں گا۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’ویسے میرے گھر کے پاس بھی ایک لاج ہے۔‘‘
سمپورن اور سورن لوگ ٹیکسی میں آئے تھے، سُدرشن کا سامان ٹیکسی میں لاد دیا گیا اور ٹیکسی وَرلی سے ہوتی ہوئی شیوا جی پارک سی فیس پر جا کر رکی۔ وہیں سمندر کے کنارے پہلی منزل پر سمپورن رہتا تھا، نوکر نے سامان اوپر پہنچا دیا۔ سُدرشن اور سمپورن ابھی چائے پی ہی رہے تھے کہ ایک لڑکی چلی آئی۔
’’یہ سپریا ہے اور یہ سُدرشن پناہ گزین، کچھ ایسا ہی نام ہے۔‘‘ سمپورن نے کہا۔
سپریا بگڑ گئی، ’’یہ کیسا انٹروڈکشن ہے؟‘‘ اس نے انگریزی میں کہا۔
’’ٹھیک ہے، اپنے آپ کو ہو جائے گا انٹروڈکشن۔‘‘ سمپورن نے لاپرواہی سے کہا۔
سورن کو کہیں جانا تھا۔ وہ دوسرے دن آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ سمپورن نے سُدرشن کا اٹیچی کیس کھولا، اس کا سامان دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔ اس میں زیادہ تر کتابیں تھیں یا کاغذات۔ ان میں اس کی دلچسپی نہیں تھی۔
اچانک اس کے ہاتھوں میں سُدرشن کا شیونگ کا سامان لگ گیا، ’’اس سے شیو بناتے ہو؟ یہ برش ہے؟ یہ بنیان پہننے ہو اور یہ انڈرئیر؟‘‘ دیکھتے دیکھتے اس نے سُدرشن کا آدھے سے زیادہ سامان کھڑکی کے راستے سمندر میں پھینک دیا۔ شاید پورا اٹیچی کیس ہی باہر پھینک دیتا اگر سپریا نے اسے روکا نہ ہوتا۔ سُدرشن نے دہلی میں بڑے شوق سے ضرورت کا جو سامان خریدا تھا، اس نے پہلی نظر میں خارج کر دیا۔ سُدرشن مجبور اور مایوس سا اسے دیکھتا رہا۔ سُدرشن نے نیچے جھانک کر دیکھا۔ سمندر ’’لوٹائیڈ‘‘ میں تھا اور سامان یوں ہی نیچے پڑا تھا۔ سُدرشن نے سوچا، موقع لگتے ہی اٹھا لے آئے گا۔
سامان پھینکنے کے بعد سمپورن کے چہرے پر چھائی کشیدگی کچھ کم ہوئی اور وہ سوفے پر دھنس گیا۔
’’ایک چائے اور ہو جائے۔‘‘ اس نے کہا۔
سپریا کچن میں گھس گئی۔
سُدرشن نے دیکھا، ایک بڑا ہال تھا۔ ایک طرف دو پلنگ بچھے تھے۔ ان پر دھلی سفید چادریں بچھی تھیں۔ کمرے کے بیچوں بیچ سوفے لگے تھے۔ سمپورن نے چائے پی اور باتھ روم میں گھس گیا۔ وہ نکلا تو سپریا نہانے چلی گئی۔ سپریا نکلی تو سمپورن نے کہا، ’’حضور، آپ بھی نہا لیجئے۔‘‘
سُدرشن نے بھی جم کر غسل کیا۔ سپریا نے سمپورن کا دھلا کرتا پاجامہ پہننے کے لئے دیا۔ سُدرشن انکار نہ کر پایا، جبکہ پاجامہ سُدرشن کو بہت چھوٹا پڑ رہا تھا۔ سُدرشن کا حلیہ دیکھ کر سمپورن زور سے ہنسا اور الماری سے ایک لنگی نکال دی، ’’یہ پہن لو۔ پاجامے میں تو تم کارٹون لگ رہے ہو۔‘‘
سُدرشن نے کسی فرمانبردار بچے کی طرح لنگی پہن لی۔ اس کی ؎ خواہش ہو رہی تھی کہ کسی طرح اس پاگل خانے سے فرار ہو جائے۔ لگ رہا تھا وہ کسی سر پھرے کے چکر میں پڑ گیا ہے۔
شام گھر آئی تھی۔ سمندر دہاڑنے لگا تھا۔ کئی بار سمندر کی لہریں پہلی منزل تک پہنچ جاتیں۔ اگر کھڑکیاں بند ہوتیں تو اس پر سر پٹکتیں۔
سمپورن نے ڈرنکس تیار کیں۔ سُدرشن کے سامنے بھی گلاس سرکا دیا۔ سُدرشن نے سوچا انکار کروں گا تو جانے یہ کیا کہہ دے۔ اس نے ڈر کے مارے کانپتے ہاتھوں سے گلاس اٹھا لیا۔ سُدرشن نے ابھی تک ایک دوسپ ہی لئے تھے کہ سمپورن گلاس ختم کر کے کچن میں گھس گیا۔ سپریا ، پران اور سمپورن، چکن بنانے میں مصروف ہو گئے۔ وہ بیچ بیچ میں آ کر ایک آدھ گھونٹ بھر لیتا۔ تقریباً ایک گھنٹے تک سپریا اور سمپورن کچن میں گھسے رہے۔ بعد میں نوکر کو چپاتی بنانے کا حکم دے کر چلے آئے۔ سمپورن، چکن کے چند ٹکڑے طشتری میں اٹھا لایا تھا۔ اس نے خوب چھک کر پی اور مرغی کھاتے کھاتے سو گیا، سونے سے پہلے اس نے سُدرشن کو ساٹھ پیسے دیئے کہ وہ ٹیکسی میں سپریا کو اس کے گھر پر چھوڑ آئے۔ ان دنوں سپریا ، دَادر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی رہتی تھی اور شیوا جی پارک سے ٹیکسی کا آنے جانے کا کرایہ ساٹھ پیسے بنتا تھا۔ سُدرشن اٹھا اور سمپورن کی مرضی کے مطابق سپریا کو دادَر اس کے گھر پر چھوڑ آیا۔ لوٹ کر دیکھا، سمپورن جاگ رہا تھا اور سوفے پر بیٹھا تھا، ’’ایسے ہی جھپکی لگ گئی تھی۔‘‘ وہ بولا۔
’’تو اب سونے کی تیاری کی جائے؟‘‘ سُدرشن نے کہا۔
’’ضرور ضرور۔‘‘ اچانک وہ زور سے ہنسا، ’’میں تمہیں پہلے بتا دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جس بستر پر تم سونے جا رہے ہو اس پر تین قتل ہو چکے ہیں۔‘‘
سُدرشن گھبرا کر اٹھ بیٹھا، ’’کیا مطلب؟‘‘
’’کیا مطلب، وہی جو میں کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’پھر تو میں اب اس بستر پر سو نہ پاؤں گا۔‘‘
’’تو اس بستر پر چلے آؤ۔‘‘ اس نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’اس بستر پر ہمارے لینڈ لارڈ نے خود کشی کی تھی۔ مدھومتی یہیں پاگل ہوئی تھی۔‘‘ اس نے کہا، ’’شاید یہی وجہ ہے کہ اس مکان کو ’’بھوتیا‘‘ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ تو میری ہمت ہے جو اس بھوتیا مکان میں بغیر خوف کے رہ رہا ہوں۔ کرایہ بھی برائے نام ہے، صرف چونتیس روپے۔ بمبئی میں سات آٹھ سو سے کم پر سی فیسنگ پر ایسی جگہ نہ ملے گی۔‘‘
بات کرتے کرتے سمپورن کو دوبارہ جھپکی آ گئی۔ باہر سمندر دہاڑ رہا تھا۔ کمرے میں ایک ننھا سا نائٹ لیمپ جل رہا تھا۔ سُدرشن کو لگ رہا تھا، کھڑکی سے کود کر ابھی کوئی بھوت نما آدمی آئے گا اور اس کے پیٹ میں چھرا گھونپ دے گا۔ ’’سمپورن۔۔ ۔ سمپورن۔۔ ۔‘‘ اس نے دو تین بار پکارا مگر سمپورن جواب میں خراٹے لیتا رہا۔
سُدرشن کو گایتری منتر اور تھوڑا تھوڑا ہنومان چالیسا یاد تھا، آنکھیں بند کئے وہ کبھی گایتری منتر کا اور کبھی ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرتا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ کل دفتر سے یہاں نہیں لوٹے گا۔ صبح دفتر میں ہری ونش تیواری کو فون کر کے اس سے کہے گا کہ کسی بھی قیمت پر لاج میں اسے جگہ دلوا دے۔ سورن پر بھی بہت غصہ آ رہا تھا، جس نے بھوتوں کے ڈیرے پر اسے بے بس و لاچار چھوڑ دیا تھا۔
صبح نیند کھلی تو سمپورن کرسی پر اکڑوں بیٹھا چائے پی رہا تھا، ’’آؤ بادشاہو چائے پیو، رات کو کیسی نیند آئی؟‘‘
’’رات بھر خود کو کوستا رہا۔‘‘ سُدرشن نے کہا۔
وہ ہنسا، ’’میں برسوں سے اس مکان میں رہ رہا ہوں۔ مجھے کوئی بھوت ووت دکھائی نہیں دیا، آپ کے سامنے صحیح سلامت بیٹھا ہوں۔‘‘
دروازے پر دستک ہوئی۔ جوتے پالش کرنے والا تھا۔ سمپورن نے لکڑی کی الماری کھولی۔ تقریباً پچیس تیس جوڑی جوتے تھے، سب پر پالش ہونے لگی۔
’’تمہارے جوتے بھی پھینکنے کے قابل ہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں نے اس کی وجہ سے جوتے نہیں پھینکے کہ میرے جوتے تمہارے پاؤں میں نہ آئے تو صبح دفتر جانے میں دقت ہو گی۔‘‘
سُدرشن جوتوں کی پالش کا پروگرام دیکھتا رہا۔ سمپورن کے جوتے پالش ہو گئے تو سپریا کے جوتے نکل آئے۔ پتہ چلا، تمام جوتے، روز باقاعدہ پالش ہوتے ہیں اور پالش والے کو کبھی روز، کبھی ہفتہ وار، کبھی ماہانہ اور کبھی سالانہ طور پر معاوضہ دیا جاتا ہے۔
ایک دن پتہ چلا جوتے پالش کرنے والے کا بل دو سو روپے سے اوپر پہنچ چکا ہے۔ آج سے تیس برس پہلے دو سو روپے کی کیا قیمت ہو گی۔ اس کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگر پالش والا دل لگا کر اپنا کام کرتا رہا۔
’’آج ٹرین کا پاس بنوا لینا۔ دادر سے نو تیرہ کی ڈبل فاسٹ گاڑی ملے گی۔ نو ستائس پر وی ٹی، پہنچا دے گی۔ نیچے ساٹھ پیسے میں دادر کے لئے ٹیکسی مل جائے گی۔‘‘ سمپورن، سُدرشن کو دفتر پہنچنے کا طریقہ سمجھانے لگا۔
سُدرشن دل میں ہنسا۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب یہاں کم از کم وہ تو نہ آئے گا۔ کسی وقت آ کر بچا کھچا سامان اٹھا لے گا۔
دفتر پہنچ کر اس نے ساتھیوں کو اپنا رونگٹے کھڑے کر دینے والا تجربہ سنایا۔ ایک کولیگ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اسے اپنے ساتھ گو رے گاؤں لے جائیں گے اور جلد ہی رہائش کا کہیں بندوبست کر دیں گے۔
دن بھر سُدرشن کو رات یاد آتی رہی۔ اپنا پھینکا گیا سامان بھی یاد آ رہا تھا۔ سیفٹی ریزر کی غیر موجودگی میں بغیر شیو بنائے دفتر آنا پڑا تھا۔ دوسرے کا ریزر یا تولیہ وہ استعمال کر بھی نہیں سکتا تھا۔
شام کو جب سب لوگ نیچے اترے تو دیکھا دفتر کے باہر ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ ٹیکسی میں سمپورن اور سپریا بیٹھے تھے۔ سُدرشن کو کاٹو تو لہو نہیں۔ اس نے سوچا، یہ لوگ آج پھر اسے اغوا کر کے لے جائیں گے اور اس بھوتیا بنگلے میں قید کر دیں گے۔
’’سُدرشن۔‘‘ سمپورن نے اسے دیکھتے ہی آواز دی اور ٹیکسی سے باہر نکل آیا۔ شام کے پانچ بجے بھی وہ بالکل فریش لگ رہا تھا۔ جوتے چمچما رہے تھے، قمیض میں ایک بھی شکن نہ تھی۔ سُدرشن نے دیکھا، سپریا ٹیکسی کے اندر بیٹھی تھی، اس کے ہاتھ میں بہت سے پیکٹ تھے، شاید وہ شاپنگ کرتے ہوئے آ رہے تھے۔ سمپورن نے آگے بڑھ کر ٹیکسی کا دروازہ کھولا۔
’’سُدرشن آج میرے ساتھ جائے گا۔‘‘ سُدرشن کے ایک کولیگ نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ میرا مہمان ہے۔ لگتا ہے رات کو ڈر گیا ہے، ایک دو دن میں مانوس ہو جائے گا۔‘‘
سُدرشن نے قربانی کیلئے جاتے ہوئے اس بکرے کی طرح اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا، جسے ابھی سے مرنے کا احساس ہو رہا ہو۔ ایک اور کولیگ نے سُدرشن کا ساتھ دیا اور دوبارہ زور دیا۔
’’آئیے آپ بھی چلئے۔ گھر پہنچ کر فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
ساتھیوں کی گاڑی نہ چھوٹ جائے، یہ سوچ کر سُدرشن نے ان سے رخصت لی اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ سمپورن نے سپریا کے ہاتھ سے پیکٹ لے لیے اور سُدرشن کو دکھانے لگا، ’’آپ کے لئے ایک درجن بنیان، ایک درجن انڈروئیر، ایک جرمنی کا شیونگ سیٹ، یہ جوتے، ایک درجن جرابیں، یہ شرٹ اور پتلون کا کپڑا، وغیرہ وغیرہ۔‘‘
سُدرشن حیران پریشان۔ کوئی ایسی چیز نہ تھی جو سمپورن نے پھینکی ہو اور اسے یاد نہ ہو۔ اسے لگا، سینکڑوں روپے کی یہ چیزیں وہ ’’افورڈ‘‘ ہی نہ کر پائے گا۔ وہ تو شاید سال بھر میں اتنی چیزیں نہ خرید پاتا۔ ہچکچاہٹ ہو رہی تھی کہ کیا کرے۔ گھر پہنچ کر پھر وہی پروگرام شروع ہوا، نہانا دھونا، کوکنگ، کھانا، شراب پینا۔ سُدرشن کو لگ رہا تھا، وہ پوری تنخواہ بھی خرچ کر دے تو بھی اس طرح نہیں رہ سکتا۔ بستر کی چادریں روز تبدیل کی جاتیں، تکیوں پر نئے غلاف چڑھتے۔ اس روز سُدرشن نے ایک پیگ زیادہ پی لیا تاکہ ڈراؤنے خیالات سے چھٹکارا پا سکے۔ جلد ہی سُدرشن کی آنکھ لگ گئی۔ سمندر جیسے لوریاں سنانے لگا۔
اس دوران سُدرشن، سمپورن کے بارے میں زیادہ نہ جان پایا۔ کچھ دنوں میں صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ سمپورن کا دفتر لیمنگٹن روڈ پر ہے۔ سپریا اس کی سکریٹری کم گرل فرینڈ ہے، اس کی رسیپشینسٹ کا نام ماریا ہے۔ وہ پیسے کا دشمن ہے۔ جب سے بمبئی آیا ہے، کبھی ٹرین یا بس میں سوار نہیں ہوا۔ صبح صبح اسے چائے کے کئی کپ چاہئیں اور سورج ڈھلنے کے بعد وہ چائے کا نام نہیں لیتا۔ اس کی اقتصادی حالت کے بارے میں سُدرشن اندازہ نہیں لگا پا رہا تھا، کیونکہ سگریٹ والے کا بل سینکڑوں روپے تھا، دودھ والے کا اس سے بھی زیادہ، راشن والے کا دونوں سے زیادہ۔ وہ گھر سے ٹیکسی میں ہی نکلتا تھا، چاہے سگریٹ والا ہی ٹیکسی کا کرایہ کیوں نہ چکائے۔ اس کی طرز زندگی میں متعدد تضادات دکھائی دے رہے تھے۔ سپریا انگریزی میں بات کر سکتی تھی یا مراٹھی ملی ہندی میں۔ بعد میں سُدرشن کے ساتھ ہوئے رابطے میں وہ رواں دواں ہندی اردو بولنے لگی۔
پہلی تاریخ کو جب سُدرشن پہلی تنخواہ لے کر نیچے اترا تو دیکھا، سمپورن کی ٹیکسی دفتر کے سامنے کھڑی تھی۔
’’کیوں، تنخواہ ملی؟‘‘
’’ہاں، ملی۔‘‘
سمپورن کا چہرہ کھل گیا، ’’آج بہت کڑکی تھی۔‘‘
سُدرشن نے جیب سے لفافہ نکال کر اس کے حوالے کر دیا۔ اس نے ہاتھوں سے وزن کا اندازہ کرتے ہوئے کہا، ’’بہت سے کام ہو جائیں گے۔‘‘
سُدرشن ٹیکسی میں سوار ہو گیا۔ کرافورڈ مارکیٹ کے قریب اس نے ٹیکسی روکی اور دونوں اتر گئے۔ سُدرشن بھی ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ سمپورن چلتے چلتے جیب سے فالتو کاغذ نکال کر پھینک رہا تھا۔ سُدرشن نے ایک پرزہ اٹھایا جو کہ ایک بل تھا، کیش میمو نہیں۔ بل ’’اے ٹو زیڈ‘‘ کا تھا جس کے مالک کا نام تھا، کے سی ملکانی۔ یہ اس سامان کا بل تھا جو سمپورن نے سُدرشن کو پیش کیا تھا- بنیان، انڈرویئر وغیرہ۔ کل رقم محض ایک سو سینتیس روپے، دس فیصد خصوصی ڈسکاؤنٹ۔
سمپورن نے چار چھ چکن، چار پانچ کلو گوشت، مچھلی، پھل، مکھن، جام، گھی، انڈے، چائے کی پتی، اور جو کچھ بھی راشن کا سامان دکھائی دیا، خرید لیا۔ خریداری کچھ اس انداز میں شروع ہوئی کہ دادَر تک پہنچتے پہنچتے دو تہائی رقم خرچ ہو گئی۔ گھر پہنچ کر اس نے ٹیکسی کا کرایہ چکایا، باقی جتنے پیسے بچے، وہ سگریٹ والے کو دیئے اور سیٹی بجاتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا، پیچھے پیچھے سامان اٹھائے ہوئے سُدرشن، سپریا اور نوکر جو ٹیکسی رکنے کی آواز سنتے ہی نیچے اتر آیا تھا۔
حسب معمول سمپورن کچن میں گھس گیا۔ سپریا سامان بھرنے لگی۔ نوکر، تب تک کچن میں نہ جاتا تھا، جب تک گوشت پکتا تھا۔ سُدرشن بھی تب تک شاکا ہاری تھا، سمپورن کی قربت کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ آہستہ آہستہ اسی کے رنگ میں رنگنے لگا۔ دفتر سے لوٹ کر سُدرشن نہا کر سمندر کی طرف نکل جاتا۔ ناریل کا پانی پیتا یا بھیل پوریوں کا مزہ لیتا۔
صبح جب دفتر جانے کا وقت آیا تو سُدرشن نے پایا کہ جیب میں ایک پیسہ نہیں۔ ریل گاڑی کا پاس بھی نہیں بنوایا تھا۔ دفتر بھی وقت پر پہنچنا ضروری تھا، کیونکہ وہاں سخت نظم و ضبط تھا۔ صرف پانچ منٹ کی تاخیر سے آنے کی چھوٹ تھی، اس کے بعد رجسٹر پرسنل سیکشن میں چلا جاتا تھا، وہاں کسی افسر کی موجودگی میں دستخط کرنے پڑتے تھے۔
سُدرشن کو تذبذب کی حالت میں کھڑا دیکھ کر سمپورن نے کہا، ’’لگتا ہے دفتر جانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
سُدرشن مسکرایا۔
سمپورن نے کہا، ’’سامنے الماری میں پچاس روپے رکھے ہیں۔ اٹھاؤ اور پھوٹو۔‘‘
گاڑی چھوٹنے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔ سُدرشن نے پیسے اٹھائے اور بھاگا۔
شام کو سمپورن کہیں سے ’’اسکاچ‘‘ کا ’’جگاڑ‘‘ کر لایا، پتہ چلا پارٹی ہے۔ سُدرشن بھی اس کے ساتھ ساتھ انتظام میں لگ گیا۔ وہ لوگ دوپہر سے کچن میں گھسے تھے۔ پارٹی شروع ہوئی تو دیکھا ایک سے ایک خوبصورت چہرے والی ایئرہوسٹسز، بڑے بڑے صنعتکار، فلمی ہستیاں، منجو مہندرُو اور مسز بہادری، ودیا آہو جا، طرح طرح کے لوگ۔
سمپورن غضب کا میزبان تھا۔ مہمانوں پر سب کچھ نچھاور کر دینے والا۔
ایک واقعہ تو بھلائے نہیں بھولتا۔ ایک دن پارٹی شباب پر تھی کہ اچانک دستک ہوئی۔ سُدرشن نے دروازہ کھول کر دیکھا، راشن کی دکان کا مالک تھا۔ سُدرشن نے اسے بتایا کہ اندر پارٹی چل رہی ہے، صبح آنا، مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ سمپورن نے اچانک محسوس کیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ بھی باہر چلا آیا اور پیٹھ سے دروازہ بند کئے رہا۔ معلوم ہوا، راشن والے کا پانچ سو بقایا ہے اور وہ آج لے کر ہی جائے گا۔ اندر پارٹی میں کئی کروڑ پتی اور باہر یہ وبال۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اس ضدی آدمی سے چھٹکارا پایا جائے۔ آخر جب سمپورن نے دیکھا کہ کوئی دلیل کام نہیں آ رہی تو اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے لالہ کو گدگدی کرنی شروع کی۔ برآمدے میں کھڑکی کے قریب ایک لمبا سا دیوان پڑا رہتا تھا۔ وہ ہنستے ہنستے اس پر لوٹ پوٹ ہو گیا۔ سمپورن تھا کہ اسے مسلسل گدگدائے جا رہا تھا، ’’ابھی پچھلے مہینے ڈھائی سو ملا تھا کہ نہیں، بول۔۔ ۔ بول۔ اب تک کبھی تمہارا بل چیک بھی کیا ہے؟‘‘ ہنستے ہنستے لالہ کسی طرح اپنا پنڈ چھڑا کر بھاگا۔ اندر آ کر سمپورن بالکل نارمل ہو گیا۔ کسی کو احساس ہی نہیں ہو پایا کہ کیسے ایک ہنگامہ ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔
جسمانی مشقتوں میں رہنا سمپورن نے سیکھا ہی نہ تھا۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی وہ کوئی نہ کوئی جگاڑ کر لیتا تھا۔ جب سُدرشن نے اس کے ساتھ رہنا شروع کیا تھا تو اس کا نوکر وہ تھا، جو کبھی مالا سنہا کا نوکر رہا تھا۔ کھانا بنانے میں ماہر، سال بھر اس نے خوب دل لگا کر کام کیا، ایک دن پتہ چلا، وہ دگنی تنخواہ پر دیو آنند کے یہاں چلا گیا ہے۔ ان لوگوں کیلئے عجیب مصیبت کھڑی ہو گئی۔ سمپورن کھانا بنا سکتا تھا، مگر اسے اس کی تیاری سے نفرت تھی، جیسے پیاز کاٹنا، مسالا پیسنا۔ ان دنوں سُدرشن پیاز کاٹتا، سپریا آٹا گوندھتی، رات تک کسی طرح کھانا تیار ہوتا۔
ایک دن سب لوگ کھانے کی تیاری میں لگے تھے کہ کال بیل بجی۔ سمپورن باہر نکلا، لوٹا تو اس کے پیچھے پیچھے پوٹلی اور ایک بکسا اٹھائے ایک بزرگ شخص تھے۔ شکل صورت سے لگ رہا تھا، راجستھان سے آئے ہیں۔ معلوم ہوا کوٹہ سے کسی پودّار صاحب نے مہندر کجریوال کیلئے نوکر بھیجا ہے۔ بزرگ شخص نے جیب سے خط نکال کر دیا اور بولا، ’’پودّار صاحب نے بہت احسان کیا۔‘‘ اور سمپورن نے لاچار سا بن کر جواب دیا، ’’دیکھو کاکا، ہم لوگ کھانا بنانے کیلئے کتنی محنت کر رہے ہیں۔‘‘
کاکا، پیشہ ورانہ باورچی تھے، مگر صرف شاکا ہاری کھانا بنا سکتے تھے۔ نہا کر وہ کام میں لگ گئے اور دیکھتے دیکھتے آدھے گھنٹے میں کھانا پروس دیا۔
’’آدمی کام کا ہے مگر آیا ہے اوپر والے کجریوال کیلئے۔ جب تک نوکر کا انتظام نہیں ہو جاتا، اسے باہر مت جانے دینا۔‘‘ سمپورن نے سپریا سے کہا۔
جس طرح سُدرشن بہت جلد سمپورن سے گھل مل گیا تھا، اسی طرح کاکا جی دیکھتے دیکھتے خاندان کا حصہ ہو گئے۔
کاکا اپنے لئے دیسی گھی کا ڈبہ گاؤں سے لے کر آئے تھے۔ وہ سب لوگوں کے کھانے میں بناسپتی گھی کا استعمال کرتے اور الگ سے دیسی گھی میں اپنا کھانا بناتے۔ سمپورن نے کاکا کے گھر دو سو کا منی آرڈر کر دیا اور دو کلو دیسی گھی، کاکا کو لا دیا۔ کاکا نثار۔ اس طرح ڈیڑھ برس گزر گئے۔
ایک دن اوپر کی منزل پر پانی نہیں چڑھا تو کجریوال کندھے پر تولیہ ڈالے سمپورن کے یہاں نہانے چلے آئے۔ سمپورن نے انہیں چائے وغیرہ بھی پلوائی۔ تبھی کجریوال کی نظر کاکا پر پڑی۔ انہوں نے مارواڑی میں کاکا سے کچھ پوچھا۔ گفتگو شروع ہوتے ہی دو منٹ میں راز کھل گیا کہ کاکا سمپورن کے لئے نہیں، کجریوال کیلئے آئے تھے۔ بعد میں کجریوال صاحب نے کاکا کو کئی لالچ دیئے، مگر وہ سمپورن لوگوں چھوڑ کر جانے کو تیار نہ ہوئے۔
یہ تھیں سمپورن کے بارے میں سُدرشن صاحب کی کچھ یادداشتیں۔ سُدرشن نے اس راز کا بھی پتہ لگا لیا تھا، جہاں سے سمپورن اس کیلئے ڈھیر سارا ہوزری کا سامان لایا تھا۔ اگلا باب اسی کو بے نقاب کرے گا، جس سے سمپورن کی شخصیت کی کچھ مزید پرتیں کھلیں گی۔
٭٭٭
باب دوم : مہمان کردار نمبر چار: کے سی ملکانی
دل کا بادشاہ، جیب کا فقیر
اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا گاڑی دادَر پر کھڑی تھی۔ وہ جب تک گاڑی سے اترنے کا ارادہ کرتا، گاڑی ایک ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ چل دی۔ اس کے ہاتھ پتلون کی جیب تک گئے تو اس نے دیکھا، جیب صحیح سلامت تھی، یعنی کہ ان کی جیب میں نو ٹانک کے کچھ اور گھونٹ محفوظ تھے۔ اس نے بغیر یہ سوچے کہ وہ لوکل میں بیٹھا ہے، بوتل منہ سے لگا لی اور دو چار طویل گھونٹ بھر کر بوتل کھڑکی سے باہر پھینک دی۔ اس کے منہ کا ذائقہ پہلے ہی کسیلا ہو رہا تھا، آخری بار گھونٹ بھرتے ہوئے اس کا منہ جیسے نوشادر کی بو سے بھر گیا۔ اسے خود ہی اپنی سانس سے ایک ناقابل برداشت بو کا شدید احساس ہوا، جیسے وہ کیچڑ میں لوٹ رہا ہو۔ ہر سانس کے ساتھ اسے ابکائی کا احساس ہوتا۔ اس نے کلائی کی گھڑی سے وقت دیکھنے کی کوشش کی، مگر گھڑی کی سوئیوں پر نظر مستحکم نہیں کر پایا۔ اس نے طے کیا کہ اس وقت اسے چائے کی سخت ضرورت ہے۔ شاید چائے کے ایک کپ سے اس کی غنودگی کچھ دور ہو۔ کچھ دیر بعد وہ لڑھکتے پڑھکتے ایک اسٹیشن پر اتر گیا۔ اس نے اندازہ لگایا، وہ شاید گرانٹ روڈ پر کھڑا ہے۔ دور دور تک اسے چائے کا کوئی اسٹال دکھائی نہیں دیا۔ اس کے آس پاس تیزی سے چلتے ہوئے لوگوں کی ہلکی سی بھیڑ تھی۔ وہ بھی اپنے غیر مستحکم قدموں سے لوگوں کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد اسے کچھ یاد نہ رہا۔
اس کی نیند تب ٹوٹی، جب اس نے پایا کوئی اسے بری طرح جھنجھوڑ رہا ہے۔ اس نے دیکھا بڑے بڑے بدصورت دانتوں والا ایک انجان سا شخص اسے کالر سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
’’پئے لا ہے۔‘‘ اس نے پاس کھڑے ایک خوبصورت سندھی سے کہا، جو ہاتھ میں چابیوں کا گچھا گھما رہا تھا۔
’’مار سالے کو۔‘‘ اس نے کہا، ’’اب موالی بھی صاف ستھرے کپڑے پہننے لگے ہیں۔ اس سے پوچھو، یہ اس کے باپ کی دکان ہے، جو یہاں ٹانگیں پھیلا کر سویا ہے۔‘‘
سمپورن نے لیٹے لیٹے ہی اپنی ٹانگ سے اس مریل شخص کو پرے دھکیل دیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی پتلون پر جگہ جگہ مٹی لگی تھی۔ قمیض پر بھی کالک لگی تھی اور گریبان سے پھٹ گئی تھی۔ اپنی حالت دیکھ کر اسے خود ہی بہت برا لگا۔ اسے کچھ یاد نہیں تھا، کہاں کیچڑ لگی اور کیسے قمیض پھٹ گئی۔ اس کی دکان کے پٹرے پر وہ کیسے پہنچ گیا۔ سورن کو کہاں چھوڑا اور وہ اس وقت کہاں جائے گا۔ ہولی کی ہلکی سی یاد باقی تھی۔ اسے صرف اتنا یاد ہے کہ اس نے سورن سے آج کی رات رانڈے روڈ میں گزارنے پر زور دیا تھا، مگر وہ کسی بھی صورت میں اس کے لیے تیار نہیں ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس بھوتیا فلیٹ میں سو کر اپنی ذہنی حالت تباہ نہیں کرنا چاہتا، پہلے ہی وہ بہت سے مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کا ایک دوست دہلی سے ’’اردو ادب‘‘ میں سب ایڈیٹر ہو کر بمبئی آ رہا ہے، اس نے سورن سے بمبئی کی کسی لاج میں اس کا بھی انتظام کرنے کو کہا ہے، اسے سمپورن کے ساتھ کر دے گا۔
سمپورن نے اس سندھی نوجوان سے چابیوں کا گچھا چھین کر ہوا میں اچھال دیا، ’’زیادہ غرور اچھا نہیں ہوتا میری جان، یہ بمبئی ہے، کل یہ دکان میری ہو سکتی ہے اور یہ پٹرا تمہارا۔‘‘
’’طیش میں کیوں آتے ہو سائیں؟‘‘ سمپورن کے تیور دیکھ کر اس کا پارا یکایک نیچے آ گیا تھا، ’’صبح صبح کیوں جھگڑا کرتا ہے۔ آدمی کی پہچان میں، میں نے کبھی غلطی نہیں کی تھی، لگتا ہے آج ہو گئی۔‘‘
سمپورن نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور چلنے کو ہوا۔ سندھی نے اسے روک لیا، ’’اب آپ چائے پی کر ہی جا سکتے ہیں۔‘‘
سمپورن کو چائے کی تجویز بری نہیں لگی، اس نے کہا، ’’اگر جلدی چائے پلوائے تو پی لوں گا۔‘‘
اس نے ایک پرچی پر دو اسپیشل چائے کا آرڈر لکھ کر آدمی کو چائے کے لئے روانہ کر دیا اور خود گلّے کے اوپر لگی جھو لے لال کی مورتی کی پوجا کرنے لگا۔ سمپورن دکان کا جائزہ لینے لگا۔ چھوٹی سی دکان تھی، مگر مال سے کھچاکھچ بھری تھی۔ جرابیں، ٹی شرٹ اور عورتوں کا بہت سا سامان تھا۔ اس نے کھڑے کھڑے کئی ڈبے کھول کر دیکھ لئے۔ اس دوران دکان میں اگر بتی کی خوشبو رچ بس گئی تھی۔ اپنی کرسی جھاڑ پوچھ کر دکان کا مالک کاؤنٹر پر کھڑا ہو گیا تھا۔
سمپورن نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا، ’’بندے کو سمپورن کہتے ہیں، سمپورن اوبرائے۔‘‘
’’ہمارا نام ملکانی، کے سی ملکانی۔‘‘ اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
’’ملکانی صاحب، آپ چائے میں چینی زیادہ پیتے ہیں۔‘‘ سمپورن نے چائے سڑکتے ہوئے کہا، ’’آپ کی عمر میں چینی کیا ن ٹیک کم کر دینی چاہئے۔‘‘
’’ہماری بیوی بھی یہی کہتی ہے۔ وہ تو ابھی سے پھیکی چائے پیتی ہے۔‘‘
’’آپ کی بیوی بڑی سمجھدار ہے۔‘‘
’’سمجھدار ہی نہیں پیسہ کمانے والی بھی ہے۔ ہائی اسکول میں ریاضی پڑھاتی ہے۔ گھر میں کچھ وائٹ منی بھی رہنا چاہئے کہ نہیں؟‘‘
’’بچے کتنے ہیں؟‘‘
’’ایک بیٹی ہے، اسی کے اسکول میں پڑھتی ہے آٹھویں کلاس میں۔ ماں کی طرح وہ بھی ریاضی میں بہت تیز ہے۔‘‘
’’کھانا کون بناتا ہے؟‘‘
’’وہ اور بیٹی مل کر بنا لیتی ہیں۔ کھانے کی کوئی پرابلم نہیں۔ ٹھیک بارہ بجے ڈبا آ جاتا ہے۔ جھولے لال کی مہربانی ہے۔‘‘
سمپورن بیٹھے بیٹھے اپنے جوتے کے فیتے کھولنے لگا، اس نے جوتے اتارے پھر موزے اور ملکانی سے بولا، ’’کوئی بڑھیا سے موزے دکھائیے۔‘‘
ملکانی نے کاؤنٹر پر موزوں کے کئی ڈبے کھلوا دیئے۔ سمپورن نے آف وائٹ کلر کا ایک موزہ نکالا اور پہننے لگا۔ نئے موزے پہن کر اسے سکون محسوس ہوا۔ اس کے اتارے ہوئے موزے مردہ چوہوں کی طرح اس کے پاس پڑے تھے۔
’’اترے ہوئے موزے باہر پھنکوا دیجیے۔‘‘ سمپورن نے ملکانی سے کہا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ کام ملکانی نہیں کرے گا اور اس کے پاس ایک ہی مددگار ہے، جو ابھی کچھ وقت پہلے سمپورن پر برس رہا تھا۔ ملکانی کو اپنے آدمی سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی، اس نے سمپورن کی بات سنتے ہی اپنے پاؤں سے دھکیلتے ہوئے موزے دکان سے باہر کر دیے۔ ملکانی اور سمپورن دونوں اس کا کارنامہ دیکھتے رہے۔ ملکانی کچھ بولے، اس سے پہلے ہی وہ موزوں کو ریلنگ تک لے گیا اور وہاں سے گیند کی طرح اچھال کر ریلنگ کے پار پھینک دیے۔
’’ایک بڑھیا سی ٹی شرٹ بھی دکھائیے۔‘‘ سمپورن نے کہا اور اس سے پہلے کہ ملکانی پیسوں کے لیے فکر مند ہو، اس نے پتلون کی چور جیب سے سو کا نوٹ نکال کر ملکانی کے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ نوٹ دیکھ کر ملکانی کی باچھیں کھل گئیں، اس نے نوٹ کو اپنے ماتھے سے چھوا اور بولا، ’’میرے پاس ٹی شرٹ کا ایک امپورٹیڈ پیس رکھا ہے۔ آپ کو اصل قیمت پر دے دوں گا، صرف پچاس روپے میں، مارکیٹ میں پچھتّر سے کم نہ ملے گا۔‘‘ اس نے کاؤنٹر کے نیچے ہاتھ لے جا کر سلیٹی رنگ کی ایک ٹی شرٹ کاؤنٹر پر پھیلا دی۔ سلیٹی رنگ پر گہرے نیلے رنگ کی دھاریاں تھیں۔ سمپورن نے اسے دونوں ہاتھوں سے پھیلا کر دیکھا اور شرٹ اتارنے لگا۔ شرٹ کے ساتھ ساتھ بنیان بھی اتر گئی۔ سمپورن نے ٹی شرٹ پہن کر آئینے میں دیکھا، ٹی شرٹ اس پر پیاری لگ رہی تھی، مگر اس نے ہر زاویہ سے اس ٹی شرٹ میں اپنا جائزہ لیا اور اتار کر کاؤنٹر پر رکھ دی، ’’مجھے بے شک، اس وقت فارمل یعنی ایگزیکٹو قسم کی بڑھیا کاٹن شرٹ کی ضرورت ہے۔ ٹی شرٹ تو میرے لئے پیک کرا دیجئے، فی الحال کوئی بہت بڑھیا شرٹ دکھائیں۔ ایسی شرٹ کہ بس دیکھتے ہی رہ جائیں۔ ہے کوئی ایسی شرٹ؟‘‘
’’کیوں نہیں ہے سائیں۔ ذرا ایکس پینسِو ہے۔ یہی سو کی رینج میں۔‘‘
’’تو دکھائیں نہ سائیں۔‘‘
’’گودام سے منگوانی پڑے گی۔‘‘
’’تو منگواؤ نہ۔ میں اس وقت تک شیو بنوا کر آتا ہوں۔‘‘ سمپورن نے کہا۔
سڑک پار ہی ہیئرڈریسر تھا۔ سمپورن نے نئی ٹی شرٹ پہنی اور سڑک پر ٹریفک سے بچتے ہوئے گراف سا بناتا ہوا ملکانی کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ملکانی دیکھتا رہ گیا، اسے لگا کہ اس کی بوہنی خراب نہ ہو جائے۔ وہ دکان سے باہر نکل آیا اورہیئرڈریسر کے ہاں سمپورن کی ٹوہ لینے لگا۔ اسے سمپورن دکھائی نہ دیا تو اپنے آدمی کو کھوج خبر کیلئے روانہ کر کے سیڑھی لگا کر خود دوچھتّی پر چڑھ گیا۔ امپورٹیڈ مال وہ یہیں چھپا رکھتا تھا۔ میڈیم سائز کی کچھ قمیضیں چھانٹ کر وہ نیچے لے آیا۔ اس کے آدمی نے خبر دی کہ بندہ داڑھی بنوا رہا ہے تو اس نے سکون کی سانس لی۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کسٹمر کی جیب میں اور پیسہ ہے یا نہیں۔ اس کے دل میں دھک دھک ہو رہی تھی کہ کہیں صبح صبح ادھار نہ مانگ بیٹھے۔ اس دوران کچھ لڑکیاں برا خریدنے آئیں۔ وہ ڈبے کھول کھول کر انہیں نئے سے نئے فیشن کی برا دکھاتا رہا، مگر اس کا دھیان سمپورن پر لگا تھا۔ دونوں لڑکیاں جلدی میں تھیں اور انہوں نے ایک ایک برانڈڈ برا خرید لی۔ پیسے گنتے ہوئے وہ سوچتا رہ گیا کہ ان لڑکیوں کو صبح صبح برا کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟
سمپورن لوٹا تو وہ کافی تازہ دم لگ رہا تھا۔ شیو بنوانے سے اس کی شخصیت میں نکھار آ گیا تھا۔ لگ رہا تھا، جیسے اس دوران وہ نہا بھی آیا ہو۔ ملکانی کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو کچھ دیر پہلے فٹ پاتھ پر سویا ہوا تھا اور جس کے کپڑے کیچڑ سے داغ داغ تھے۔ سمپورن نے دکان میں گھستے ہی ٹی شرٹ اتار دی اور ملکانی کے سامنے پڑی ایک شرٹ سے آل پن نکال کر اس کی تہیں کھولنے لگا۔ آف وائٹ کلر کی شرٹ پر اسی رنگ کی ہلکی دھاریاں تھیں۔ شرٹ جیسے سمپورن کیلئے ہی سلی تھی۔ اس نے شرٹ پہن لی اور آئینے میں دیکھ کر ملکانی سے بولا، ’’کیسی ہے سائیں؟‘‘
’’فسٹ کلاس شرٹ ہے۔ آپ نے بہترین پیس اٹھا لیا۔‘‘
’’اس کی ٹکر کی پتلون بھی دکھا ڈالو۔‘‘
ملکانی نے فیتے سے سمپورن کی کمر کا ناپ لیا اور دوبارہ سیڑھیاں چڑھ گیا۔ دکان میں اس درمیان ایک پارسی خاتون داخل ہوئی۔ ایک چھوٹی سی بچی نے اس کی انگلی تھام رکھی تھی۔ سمپورن نے بچی کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا، ’’ہیلو بے بی۔‘‘ ملکانی جب سیڑھی سے اترا اس وقت وہ عورت بغیر قیمت کم کرائے بچی کیلئے ایک فراک خرید کر پیسے دے رہی تھی۔ ملکانی نے پتلون کے ڈبے سمپورن کے سامنے رکھے اور لپک کر پیسے گلّے میں رکھ لیے۔ تبھی دو گجراتی خواتین داخل ہوئیں۔ وہ ہاؤس کوٹ میں ہی چلی آئی تھیں، شاید ملکانی کی واقف تھیں۔ لگ رہا تھا، اسی عمارت میں رہتی ہیں۔ وہ پیٹی کوٹ دیکھ رہی تھیں۔ سیلزمین انہیں رنگ برنگے پیٹی کوٹ دکھا رہا تھا۔ ملکانی نے ایک ڈبا کھول دیا اور پتلون دکھاتے ہوئے بولا، ’’ایسی پتلون آپ کو کولابا میں بھی نہ ملے گی۔ سپر کومب کاٹن کی ایگزیکٹو پتلون ہے۔ میرے پاس چار انگلش اوورٹون رنگوں میں ہے۔ آپ کی شرٹ کے ساتھ یہ گرے اوورٹون چلے گا۔‘‘
سمپورن نے پتلون اٹھائی اور ٹرائی روم میں گھس گیا۔ پتلون خوبصورت ہی نہیں بہت آرام دہ بھی تھی۔ اس نے شرٹ پتلون کے اندر کی اور باہر نکل آیا۔
’’واہ واہ، آپ تو ان کپڑوں میں ہیرو کے مافک لگ رہے ہیں۔‘‘
’’ہیرو بننے ہی بمبئی آیا ہوں۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’ایک بار ہیرو بن گیا تو تمہارا تمام ادھار چکا دوں گا۔‘‘
ملکانی کا چہرہ اتر گیا، بولا، ’’مگر میں تو ادھار کا دشمن ہوں۔ ایک پائی کا ادھار نہیں دیتا۔‘‘
’’یہ تو بڑی مشکل کی بات ہے۔ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟‘‘
ملکانی نے پیچھے اشارہ کیا، ’’پڑھ لو، میں نے اسی لیے یہ لکھ کر ٹانگ رکھا ہے، کیش اونلی۔‘‘
’’ٹرائی روم میں میری پرانی پتلون رکھی ہے۔ سمجھ لو میں نے ایکسچینج کر لی۔‘‘
’’صبح صبح ہمارا وقت نہ خراب کرو۔‘‘ ملکانی نے ایک کاغذ پر بل بنا کر سمپورن کے حوالے کر دیا۔ کل دو سو انچاس روپے ہوئے تھے۔ سمپورن نے اس کا بل جیب کے حوالے کیا اور بولا، ’’اگر میں ابھی ان کپڑوں میں باہر نکل جاؤں تو کیا کرو گے؟‘‘
’’ایسا اندھیر نہیں ہے بمبئی میں۔ ابھی بھیڑ لگ جائیں گی۔‘‘
’’کیا کرو گے؟ کپڑے اتروا لو گے؟‘‘
’’آپ نے کپڑے خریدے ہیں، ان کا پیسہ دیجئے۔‘‘
’’اگر پیسے نہ ہوں؟‘‘
’’تو میرے کپڑے واپس کیجیے۔‘‘
’’اچھا آپ میرے موزے لوٹائیے۔‘‘ سمپورن نے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ اس نے دیکھا جہاں اس کے آدمی نے جرابوں پھینکے تھے، کوئی اٹھا لے گیا تھا۔ ایک جوتے پالش کرنے والا چھوکرا برش بجاتا ہوا گزر رہا تھا۔ سمپورن نے خاص بمبئیا انداز میں سیٹی بجا کر اسے بلایا اور جوتے پالش کرانے لگا۔ اسٹور میں کچھ اور کسٹمر آ گئے تھے۔ ملکانی کا من ان میں نہیں لگ رہا تھا، اس کی سارا دھیان سمپورن پر مرکوز تھا۔ جوتے پالش ہو گئے تو سمپورن نے ملکانی سے کہا، ’’اسے ایک چونی دے دو۔‘‘
’’میں کیوں دے دوں، جوتے آپ نے پالش کرائے ہیں، آپ دیجئے۔‘‘
’’میرے حساب میں دے دو۔‘‘
’’آپ کا کوئی حساب نہیں ہے میرے پاس۔‘‘
’’کیوں جھوٹ بول رہے ہو؟ ابھی ابھی سو روپے دیے تھے، بھول گئے؟‘‘
ملکانی نے ایک چونی نیچے پھینک دی۔ چھوکرا چونی لے کر چلتا بنا۔
’’ملکانی تمہاری نیت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ سمپورن نے جیب سے بل نکال کر دیکھا، ’’تم نے بل میں سے سو روپے کم نہیں کئے۔‘‘
’’لاؤ کر دیتا ہوں۔‘‘
’’اب پکڑے گئے تو کہہ رہے ہو، لاؤ منہا کر دیتا ہوں۔ اگر میں بھول جاتا تو؟‘‘
’’تم بات بہت کرتا ہے۔ میری دکان میں تو تمہارے جیسا بندہ کبھی نہیں آیا۔‘‘
’’شکر کرو آج آ گیا ہے۔ دیکھ رہے ہو میرے آنے کے بعد تمہاری بکری کتنی بڑھ گئی ہے! کبھی آتے تھے صبح صبح اتنے گاہک، سچ سچ بتاؤ۔‘‘
ملکانی کو اندازہ ہوا، واقعی صبح سے بکری ہو رہی تھی۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا۔
’’میں نہ آتا تو اب تک بیٹھے مکھیاں مارتے۔‘‘
’’اب میرا وقت خراب نہ کرو۔ لاؤ پیسے نکالو۔‘‘
’’پیسے کہاں ہیں میرے پاس۔ یہ سوچ کر صبر کر لو کہ چوری ہو گئی۔‘‘
کیسی باتیں کرتا ہے یہ شخص! ملکانی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مسخرہ پن کر رہا ہے یا سچ بول رہا ہے۔
تبھی ڈبے والا ملکانی کے کاؤنٹر پر کھانے کا ڈبا رکھ گیا۔
’’لو کھانا کھاؤ اور غصہ تھوک دو۔‘‘ سمپورن بولا۔
’’کھانا میں ایک بجے کھاتا ہوں۔‘‘
’’ابھی کیا ٹائم ہوا ہے؟‘‘
’’سامنے گھڑی ہے، دیکھ لو۔‘‘
’’مجھے ٹائم دیکھنا نہیں آتا۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’ٹائم بتانے میں بھی پیسہ خرچ ہوتا ہے کیا؟‘‘
’’دیکھ نہیں رہے، ساڑھے گیارہ بج گئے ہیں۔ ایک ایک گاہک کے ساتھ اتنی مغز ماری کروں گا تو چل اچکا دکان۔‘‘
’’تو دکان چلاؤ۔ ایک اچھی سی ٹائی دکھاؤ اور ایک بیلٹ۔‘‘
ملکانی نے اس کی بات پر غور نہیں کیا اور ایک آدمی کو انڈرویئر دکھانے لگا۔ سمپورن نے سوچا، لوگ آخر صبح صبح کپڑے ہی کیوں خریدتے ہیں، کوئی انڈرویئر خرید رہا ہے، کوئی برا اور کوئی پیٹی کوٹ خرید کر چلی گئی۔ سمپورن کاؤنٹر کے سامنے رکھے لمبے سے اسٹول پر براجمان ہو گیا تھا۔ اسٹول ایسا تھا کہ چاروں طرف گھوم جاتا۔ اس نے بچوں کی طرح بیٹھے بیٹھے ہی ایک بار پاؤں اٹھا کرا سٹول گھما کر دیکھا۔ ملکانی فارغ ہوا تو اس نے کہا، ’’میں نے بیلٹ اور ٹائی دکھانے کو کہا تھا۔‘‘
’’مُوڑی ہے جیب میں؟‘‘ ملکانی نے پوچھا۔ مُوڑی گجراتی لفظ ہے، جس کا مطلب سمپورن جانتا تھا۔ اس نے جیب میں سے آخری سو کا نوٹ نکالا اور ملکانی کے سامنے رکھ دیا۔ ملکانی نوٹ لیتا، اس سے پہلے ہی سمپورن نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، ’’پہلے بیلٹ دکھاؤ۔‘‘
نوٹ دیکھ کر ملکانی کچھ یقین ہوا اور بیلٹ کا ایک چھوٹا سا ڈبا اٹھا لایا۔
’’یہاں کیا ہر چیز ڈبے میں ملتی ہے؟‘‘ سمپورن نے ڈبا کھول کر کمر میں بیلٹ کس لی، ’’اب ذرا ٹائی کا ڈبا بھی دکھاؤ۔‘‘
ٹائیوں کے کئی ڈبے کاؤنٹر پر کھل گئے۔ سمپورن ایک کتھئی رنگ کی ڈیزائن والی ٹائی نکال کر گلے میں باندھنے لگا۔
’’لیجئے بل میں بیلٹ اور ٹائی کے دام بھی شامل کر دیجئے۔‘‘
ملکانی نے پچھتر روپے بل میں شامل کر دیے۔ سمپورن نے اسے سو کا نوٹ دیتے ہوئے کہا، ’’اب اس میں سے دو سو روپے کم کر دیجئے۔‘‘
ملکانی نے بل میں سے دو سو روپے کم کر کے بل سمپورن کو لوٹا دیا۔ سمپورن نے بل جیب کے حوالے کیا اور بولا، ’’اچھا تو میں اب چلتا ہوں۔ بہت جلد بقایا بھجوا دوں گا۔‘‘
’’یہ کیا تماشا کر رہے ہو؟‘‘ ملکانی بولا، ’’اپنا ہی نہیں، میرا وقت بھی برباد کر رہے ہو۔‘‘
’’مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ سمپورن بولا، ’’ڈبا دیکھ کر بتاؤ بھابھی نے کیا بھیجا ہے؟‘‘
’’میں تمہارا کوئی مقروض ہوں کیا؟‘‘
’’میں تو ہوں۔ قرض تو قرض ہے، ایک ہو یا ایک سو۔‘‘
’’تم باتیں بہت بناتے ہو۔‘‘
’’باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ گھر کا کھانا نہیں کھلانا چاہتے تو میں باہر جا کر اُوسل پاؤ کھا آتا ہوں۔‘‘
ملکانی کو لگا، یہ شخص کھسکنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، اس نے کہا، ’’جہاں جانا چاہو جاؤ، مگر میرے پیسے دے کر۔‘‘
’’پیسے تو سب تم نے اینٹھ لیے۔ میری تلاشی لے لو، جتنے پیسے نکلیں وہ تمہارے۔‘‘
’’میں اپنے گاہکوں کی تلاشی نہیں لیتا۔‘‘
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’تم مزید اچھے انسان بن سکتے ہو۔ تھوڑا پڑھا لکھا کرو۔ گھر میں کوئی اخبار منگواتے ہو؟‘‘
ملکانی نے ہاتھ جوڑ دیے، ’’میرا پیچھا چھوڑو بابا اور پیسے چُکا کر اپنا راستہ ناپو۔‘‘
’’آج کا اخبار پڑھا ہے؟‘‘ سمپورن نے کہا، ’’جو آدمی اخبار نہیں پڑھتا، وہ اچھا دکاندار بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
ملکانی کو لگا، یہ شخص اسے نہایت بیوقوف اور ان پڑھ سمجھ رہا ہے۔ اس نے کہا، ’’ٹائمز آف انڈیا پڑھ کر گھر سے نکلتا ہوں۔ اتوار کوایلسٹریٹیڈ ویکلی بھی پڑھتا ہوں۔‘‘
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ایک ہفتہ وار اور پڑھا کرو، تمہارے دماغ کی تمام کھڑکیاں پھٹاک پھٹاک کھلنے لگیں گی۔ تم نے سنا ہی ہو گا، ٹائم ویکلی کا نام۔‘‘
’’سنا ہے، مگر دیکھا نہیں کبھی۔‘‘
’’ابھی دکھاتا ہوں۔‘‘ سمپورن نے اپنے آفس میں فون ملایا۔ وہ دفتر کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ گیارہ بجے تک سپریا یا چپراسی، کوئی نہ کوئی ضرور آ جاتا ہے۔
’’گڈ مارننگ۔ سمپورن ہیئر۔ اگر کوئی پیون آ گیا ہو تو میرا بیگ بھجوا دو، میں پاس ہی گرانٹ روڈ پر ’’اے ٹو زیڈ‘‘ میں بیٹھا ہوں۔ باٹا کے شوروم کے سامنے۔ ہاں ایک بجے تک پہنچ جاؤں گا۔‘‘
فون پر ہوئی گفتگو سن کر ملکانی نے سکون کی سانس لی۔ یہ آدمی موالی نہیں ہے، کوئی دفتر بھی ہے اس کا۔
’’تمہارا دفتر کہاں ہے سائیں! ’’
’’لیمنگٹن روڈ پر۔ وِرمانی ڈسٹری بیوٹرز کو جانتے ہو؟ میرے پڑوس میں ان کا بھی دفتر ہے۔‘‘
’’رمیش ورمانی؟‘‘
’’ہاں ہاں وہی لمبو۔ ’’بے وفا‘‘ کیا چل نکلی، اس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے۔‘‘
’’بہت پیسہ کمایا ہے اس نے۔ اُلہاس نگر میں ایک اور فلیٹ بنوا لیا ہے۔‘‘
’’اس سے بات کرواؤں تمہاری؟‘‘
’’میں اس سے کیا بات کروں گا!‘‘
’’اسی لئے تو کہتا ہوں کہ آدمی کو پڑھنا چاہئے۔ انگریزی تو پڑھ ہی لیتے ہوں گے۔ ایک میگزین چھپتا ہے امریکہ سے ’’ٹائم‘‘۔ ورمانی بھی پڑھتا ہے۔ اس کو پڑھ کر فلموں کے ہٹ ہونے کا فارمولا جان گیا۔ آپ بھی پڑھئے اور دیکھئے آپ کا بزنس کتنا چمک جاتا ہے۔ دنیا بھر کی خبریں اور ان پر تبصرے رہتے ہیں۔ اسے پڑھنا شروع کیجیے تو دیکھئے آپ کی پرسنیلٹی بدل جائے گی۔ آپ وزیر اعظم سے لے کر ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ٹائیکون تک سے بات کر سکیں گے۔ آپ کی زندگی میں ایک زلزلہ آئے گا۔ آپ کی بیوی آپ سے بات کرنے میں گھبرائے گی۔ چاہے کتنی ہی بڑی ٹیچر کیوں نہ ہو!‘‘
جب تک سمپورن کا چپراسی اس کا بیگ لے کر آتا، سمپورن، ملکانی کے ساتھ لنچ ہی نہیں کر چکا تھا بلکہ اسے ’’ٹائم‘‘ کا سالانہ کسٹمر بننے کیلئے بھی راضی کر چکا تھا۔ اس نے چپراسی کو دیکھتے ہی اسے ڈانٹا کہ وہ بیگ لے کر ٹیکسی میں کیوں نہیں آیا! اس کا ایک گھنٹہ برباد کر دیا، ’’سپریا کو کتنی بار سمجھایا ہے کہ میں کچھ منگواؤ تو آدمی کو ٹیکسی میں روانہ کرنا چاہئے۔ محض ساٹھ پیسے بچانے میں میرا اتنا وقت تباہ ہو گیا۔ ابھی کھڑے کھڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو، جاؤ اور میرے پہنچنے سے پہلے تمام لیٹرز ڈسپیچ ہو جانے چاہئیں۔‘‘
وہ چلا گیا تو سمپورن نے سوچا، جلد ہی اسے وردی دلوائے گا۔
سمپورن نے اپنے بیگ کو پٹارے کی طرح کھول دیا اور ایک برس پرانا ٹائم کا شمارہ ملکانی کے سامنے پھیلا دیا۔ جب تک ملکانی اس کے صفحے پلٹتا، اس نے سالانہ چندے کی رسید اس کے ہاتھ میں تھما دی۔
’’کلفٹن پارک اینڈ لی کے نام سے ایک سو پچیس کا چیک بنا دیں۔ چھ ہفتے کا وقت پروسیسنگ میں لگے گا، اس کے بعد میگزین آپ کو ہر ہفتے ملنے لگے گا۔‘‘
سمپورن کی تیاری دیکھ کر ملکانی ہکا بکا رہ گیا۔ کہاں وہ اب تک اس سے رقم کی مانگ کر رہا تھا اور کہاں یہ شخص اسی سے چیک کٹوا رہا ہے۔ اپنی رقم کا مطالبہ کرنے میں وہ ہچکچا رہا تھا۔
’’گھبراؤ ںہیں، ابھی تمہاری ادائیگی بھی کر دوں گا۔‘‘ سمپورن بولا، ’’میں نے تمہاری بوہنی کرائی تھی، تم میری بوہنی کراؤ۔‘‘
بہت مجبوری بھرے انداز سے ملکانی نے سیف سے موٹی سی چیک بک نکالی اور چیک تیار کر دیا۔
’’آپ کے کتنے پیسے ہوئے؟‘‘ سمپورن نے اس کا چیک بیگ میں رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تین سو پچیس کا سامان ہے۔ دو سو آپ نے کیش دے دیے، باقی ایک سو پچیس بچے۔‘‘ اس نے کہا۔
سمپورن نے اپنی چیک بک نکالی اور چیک لکھنے لگا۔
’’چیک نہ لکھیں، کیش ہی دے دیں۔‘‘ ملکانی نے کہا۔
’’کیسی بات کرتے ہو سائیں! ’’سمپورن بولا، ’’جب میں آپ کا چیک قبول کر رہا ہوں تو آپ کیوں نہیں کر سکتے؟ دوسرے ابھی بینک بند ہونے کا وقت بھی ہو گیا ہے۔ آپ کے پاس نقد رقم کی کیا کمی!‘‘
سمپورن نے چیک کاٹا اور اس پر ایک ہفتے بعد کی تاریخ ڈال دی۔ ملکانی کا دھیان اس طرف نہیں گیا، چیک دیکھ کر وہ کپکپا گیا۔ چیک دو سو روپے کا تھا۔
’’زیادہ پیسے کیوں دے رہے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’اس لیے دے رہا ہوں کہ اب بینک بند ہو چکا ہو گا، مجھے ابھی دو بجے ٹاٹا ہاؤس پہنچنا ہے۔ پچھتر روپے آپ نقد دے دیں۔‘‘
’’آپ تو ڈکیتی پر اتر آئے ہیں! ’’اس نے دکھی ہوتے ہوئے کہا۔
’’کیسی ڈکیتی؟ ارے اسٹیٹ بینک کا چیک، کوئی پرزہ نہیں۔ جلدی سے پچھتر روپے دیں تاکہ میں وقت پر پہنچ سکوں۔‘‘
ملکانی دیر تک چیک کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اسے لگ رہا تھا، اس کے ساتھ کوئی دھوکہ ہو گیا ہے۔
’’ہم کو ایسا سودا نہیں چلتا۔‘‘ ملکانی نے کہا، ’’اپنا مال بھی دے دیا، کسٹمر بھی بنا دیا اور اب کیش بھی مانگ رہے ہو۔‘‘
’’اتنی بڑی دکان چلاتے ہو مگر چڑیا کا دل پایا ہے۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’جلدی پیسہ نکالو، مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’کپڑے لے جاؤ پر میں کیش نہیں دوں گا۔‘‘ ملکانی بولا۔
’’کیسی بچوں جیسی بات کرتا ہے تُو ملکانی۔ یہ لے میرا وزیٹنگ کارڈ۔ شام کو چیک کے ساتھ کسی کو بھیج دینا، تمہارا پیسہ لوٹا دوں گا۔ ٹھیک؟‘‘
ملکانی نے وزیٹنگ کارڈ دیکھا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ در اصل، کارڈ بمبئی کی سب سے بڑی اشتہاری ایجنسی ’’الکا‘‘ کے آرٹ سیکشن کے آرٹ ڈائریکٹر ستی سیوک نے ڈیزائن کیا تھا، جو کلفٹن کے گہرے دوست تھا۔ کلفٹن پارک اینڈ لی کی ساری اسٹیشنری ستی سیوک نے ہی ڈیزائن کی تھی۔ سمپورن نے اسی لے آؤٹ اور فونٹ میں، کلفٹن کی جگہ اپنا نام پتہ ڈلوا کر اسی پریس سے اپنے وزیٹنگ کارڈ چھپوا لئے تھے۔ یہ سوچ کر اسے بہت دکھ ہوا کہ پریس کا چھوٹا سا چیک باؤنس ہو چکا ہو گا۔ اگر ابھی وہ ملکانی سے کسی طرح پچھتر روپے جھٹکنے میں کامیاب ہو گیا تو سب سے پہلے پریس کے پچاس سو روپے دے آئے گا۔
کارڈ پر شیوا جی پارک کا پتہ دیکھ کر ملکانی کا رویہ کچھ دوستانہ ہوا، اس نے پوچھا، ’’شیوا جی پارک پر رہتے ہو؟‘‘
’’کیوں کوئی شک ہے؟ سی فیس فلیٹ ہے۔ شام کو چلے آؤ، بہت اچھا ڈنر کراؤں گا۔‘‘ سمپورن نے دعوت دی۔
’’لگتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی ہے اور فقیر کے بھیس میں میرا امتحان لے رہا ہے۔‘‘ ملکانی ساکت سا کھڑا نئے کپڑوں میں لیس سمپورن کو دیکھنے لگا۔ سمپورن کسی پہنچے ہوئے فقیر کی طرح مسکرایا اور مسکراتا رہا، جب تک ملکانی نے سیف سے پچھتر روپے نکال کر اس کے حوالے کر نہ دیے۔
سمپورن نے پیسے جیب میں رکھے اور بولا، ’’ملکانی تو ابھی پکا بزنس میں نہیں۔ تم نے میرا چیک بھی دھیان سے نہیں دیکھا۔ میں نے ایک ہفتے بعد کی تاریخ ڈالی ہے۔‘‘
ملکانی نے چیک نکالا اور پڑھنے لگا۔ اس نے پوچھا، ’’ایسا کیوں کیا تُو نے سائیں؟‘‘
’’بس یوں ہی، تمہارا امتحان لینے کے لئے۔‘‘
’’اچھا کیا آپ نے خود ہی بتا دیا۔ چیک باؤنس ہوتا تو مجھے بہت تکلیف ہوتی۔‘‘
’’تمہارا چیک باؤنس تو نہ ہونے دیتا، چاہے بینک جا کر تاریخ کیوں نہ بدلنی پڑتی۔‘‘ سمپورن نے ہاتھ ہلایا، ’’اب جاتا ہوں۔‘‘
’’پھر آنا سائیں۔‘‘
’’ضرور آؤں گا۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’بھابھی سے کہنا کھانا بہت لذیذ بنا تھا۔‘‘
وہ ہاتھ ملاتا باہر نکل گیا اور ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا۔
٭٭٭
مہمان کردار نمبر پانچ: بمبئی
یہ شہر کس کا ہے؟
سُدرشن نے دفتر سے لوٹ کر وقت گذارنے کے لیے ڈائری لکھنا شروع کی، جس کاتسلسل بمشکل ایک ماہ چلا۔ پھر اس نے ڈائری لکھنا چھوڑ کر اپنی گرل فرینڈ کو خط لکھنے شروع کئے۔ یہاں پیش ہے اس کا ایک عدد نمونہ:
بمبئی، ۴ جنوری
’’۔۔ ۔ بمبئی۔ ایک دوڑ۔ گھڑ دوڑ۔ پانی۔ سمندر۔ چھتریاں۔ اونچی عمارتیں اور بہت نیچی جھگیاں۔ شراب پر پابندی۔ ہر چورا ہے پر شراب۔ بوری بندر پر ایک لڑکی تیزی سے اپنے پریمی کا ہاتھ چوم لیتی ہے اور بھاگ کر ’’دکن کوئین‘‘ میں چڑھ جاتی ہے۔ ٹکٹ چیکر کو ڈبے میں پا کر ایک ساتھ پانچ لڑکے چلتی ٹرین سے پلیٹ فارم پر کود جاتے ہیں۔ ایک آدمی فورٹ ایریا میں سڑک پر پیشاب کرتے ہوئے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ایک آدمی اپنی بیوی کے آفس میں بیوی کو چومتے ہوئے پکڑا جاتا ہے – شادی کے چھ مہینے بعد بھی وہ مکان نہیں ڈھونڈ پائے تھے۔ فٹ پاتھ پر ایک عورت چپاتیاں بنا رہی ہے اور بچے سڑک کے آنگن میں کھیل رہے ہیں۔ اندھیری میں ایک آدمی خود کشی کر لیتا ہے کہ اس سے اور زیادہ ’’کیو‘‘ میں نہیں کھڑا ہوا جاتا۔ پیشاب گھروں کے سامنے کیو لگا ہے۔ گھانس لیٹ لینے والوں کی قطار اتنی لمبی ہو گئی ہے کہ وہاں ٹھیلے والے آ گئے ہیں – بھنی مونگ پھلی، بھیل پوری۔ بٹاٹا وَڑا۔ پانی پوری۔ میرین ڈرائیو کی بنچ پر بوڑھے پارسیوں کی جماعت جیسے جنم جنم سے سمندر کی طرف گھور رہی ہے۔ ایک نوجوان آہستہ سے ایک نوزائیدہ کو سمندر میں بہا دیتا ہے۔ لوگ منہ موڑ لیتے ہیں۔ ایک کمرے کے فلیٹ میں گھر میں سات لوگ رہتے ہیں، جن میں چار عورتیں ہیں۔ وہ چاروں عورتیں باری باری حاملہ ہو جاتی ہیں اور کمرے کی لمبائی چوڑائی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسقاط حمل کے سلسلے میں لڑکیاں ماں سے مشورہ لیتی ہیں اور دس دن کی چھٹی۔
عمارتوں میں کہیں کہیں کبوتر اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں۔ ایک جلوس گزر جاتا ہے۔ چوپاٹی پر کام راج اور شیوا جی پارک میں کرشن مینن، ایک چھوٹے سے ہال میں مدھو لمائے، تاج محل میں پٹیل مسلسل تقریر یں کر رہے ہیں اور گرانٹ روڈ کے چورا ہے پر ایک آدمی مسلسل رو رہا ہے۔ لوگ صبح آندھی کی طرح شہر میں گھستے ہیں اور شام طوفان کی طرح واپس آ جاتے ہیں۔ صبح پانچ بجے فلم دیکھنے والوں کی بھیڑ پریل میں اکٹھی ہو رہی ہے۔ ایک ہی بازار میں ہر چیز کی قیمتیں مختلف ہیں۔ ایک شہر ہے جو دوڑ رہا ہے، ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ رات کو دو بجے گاڑیوں میں جگہ نہیں مل رہی۔ چلتی گاڑی میں کیرتن ہو رہا ہے اور لوگ تاش کھیل رہے ہیں۔ کھڑے کھڑے تاش کھیل رہے ہیں۔ دائیں بائیں سے گاڑیاں گزر رہی ہیں۔ وکٹوریہ ٹرمنس پر وکٹوریہ کو ڈھانپ دیا گیا ہے۔ دفتر کے ساتھیوں کے علاوہ ایک ایرانی، ایک پان والا، ایک کریانے والا میرا نام جانتے ہیں …‘‘
اس بے ہنگم جزائر کی ایک جھلک سُدرشن کے ان خطوط سے بھی مل سکتی ہے، جو وہ شادی سے پہلے اپنی گرل فرینڈ کو لکھا کرتا تھا۔ اور یہ ہے سُدرشن کا بمبئی کا پہلا دن جب وہ بمبئی انٹرویو دینے آیا تھا۔
۲۲ فروری
’’۔۔ ۔ انٹرویو سے نپٹ کر میں سورن کے ساتھ جوہو کی ریت پر لیٹا رہا۔ اندھیرے میں پانی اور آسمان مل گئے تھے اور ہم صرف سمندر کی آواز سنتے رہے۔ ہم بہت تھکے ہوئے تھے، مگر ہم سونا نہیں چاہتے تھے۔ میں تو بالکل نہیں سونا چاہتا تھا، کیونکہ دن مصروفیت میں نکل گیا تھا اور میں صرف مصروفیت میں جی کر سونا نہیں چاہتا، خاص طور پر تب جب جوہو کے مچھر آپ کو پیارے لگنے لگیں۔ یہاں مچھر بہت خوبصورت ہیں، موٹے تازے بھی، مکھیوں کی طرح۔ آپ اڑائیں گے تو پائیں گے کہ مچھر شرابی ہو گئے ہیں اور شرارتی بھی۔ آج گاڑی پکڑنے کی بھرپور کوشش کروں گا اور پرسوں ساڑھے پانچ تک لابوہِیم پہنچنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
۲۰ اپریل
’’۔۔ ۔ میں آج شیوا جی پارک سی فیس کے ایک فلیٹ میں شفٹ ہو گیا ہوں، پے انگ گیسٹ کی حیثیت سے۔ سمندر اتنا ہی پاس ہے جتنی تم میرے پاس ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ شادی کے بعد ہم اس فلیٹ میں نہیں رہ پائیں گے۔ ہم اس کھڑکی پر کھڑے ہو کر سمندر کو ساتھ ساتھ نہیں دیکھ پائیں گے۔ ہم بھوکے رہ لیں گے مگر سمندر سے بہت دور مکان نہیں لیں گے۔۔ ۔‘‘
۲۱ اپریل
’’۔۔ ۔ خط پڑھ کر مجھے لگا میں دہلی میں ہوں، تمہارے پاس، تمہارے چہرے پر سگریٹ کا دھواں پھینکتا ہوا۔ جب جب میں یہاں سے دہلی کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے اپنا وہاں نہ ہونا اچھا لگتا ہے۔ کل دہلی کی تصویریں چھانٹنے کیلئے لائبریری گیا تھا، مجھے دہلی بہت ٹھگنی اور بونی لگی۔ کناٹ پیلس کی اونچائی کتنی کم ہے، یہ آپ بمبئی میں رہ کر ہی جان سکتے ہیں۔ بمبئی میں ادب کی بات کرنے کا موقع بہت کم ملتا ہے، مجھے لگتا ہے یہاں آس پاس کوئی بہت بڑی غزل ہے جسے ابھی دریافت کرنا ہے۔۔ ۔۔ سینٹرل ریلوے کے ایک ہندی افسر سے ملاقات ہوئی۔ ان کے یہاں جانا بھی ہوا۔ ان کی بیوی یہاں لیکچرار ہیں اور چائے بہت اچھی بناتی ہیں۔۔ ۔‘‘
۲۵ مئی
’’۔۔ ۔ آدمی ٹیکسی میں سفر نہ کرے تو بمبئی، دہلی سے زیادہ مہنگی نہیں۔ دادر سے وی ٹی کا فرسٹ کلاس کا پاس گیارہ روپے میں بن جاتا ہے۔ ہمارے گھر سے ٹیکسی میں دادَر ساٹھ پیسے کے فاصلے پر ہے اور فاسٹ ٹرین تیرہ چودہ منٹ میں وی ٹی پر پٹک دیتی ہے
۔۔ ۔۔ کوئی چائے پینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ پانچ بجتے ہی ساتھی لوگ فرار۔ میں اکیلا بھٹکتا رہتا ہوں۔ چرچ گیٹ، میرین ڈرائیو، نریمن پوائنٹ، چوپاٹی یا کسی آرٹ کی نمائش یا فیشن پریڈ میں گھسنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہاں جہانگیر آرٹ گیلری میں ’’کیفے سماوار‘‘ تمہیں پسند آئے گا۔ ایک چھوٹی سی اوپن ائیر گیلری، نگارخانہ۔ پس منظر میں ستار اور سندریاں، کچھ آرٹسٹ یا آرٹ کے مبصرین۔۔ ۔
ہم بہت دور تک ساتھ ساتھ چلیں گے، سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر ناریل پانی پئیں گے۔ میں تم کو اپنی نئی غزلیں سناؤں گا۔‘‘
۳۰ جون
’’۔۔ ۔ سمندر گہرے امپریشنز چھوڑ رہ ہے۔ کئی بار جب آدھی رات کو آنکھ کھلتی ہے تو سمندر ڈراتا ہے۔ لگتا ہے، کسی اکیلے کو سمندر اور تنہا چھوڑ جاتا ہے اور بھرے ہوئے کو اور بھر جاتا ہے۔ کئی بار لگتا ہے یہ سمندر کا نہیں، اپنے اندر کا شور ہے۔ شام کو نہانے کے بعد کئی بار سمندر کی یہی آواز پیاری بھی لگتی ہے، جب سورج کی ٹکیا اچانک سمندر میں کود جاتی ہے اور سمندر کو آسمان سے الگ کر پانا مشکل ہو جاتا ہے اور سمندر ایک پینٹنگ کی طرح لگتا ہے، پرسکون۔۔ ۔۔
۔۔ ۔ میرے میزبان کی ایک مہاراشٹرن گرل فرینڈ ہے، جو صرف شام کو آتی ہے اور کافی بہت اچھی بناتی ہے۔ اس نے زندگی میں کبھی چائے نہیں پی۔ نو بجتے بجتے میرا میزبان اسے اس کے گھر چھوڑ آتا ہے اور پھر وہ دیر تک سو نہیں پاتا۔ رات دیر تک وہ خود کو بہلاتا بہلاتا سو جاتا ہے۔۔ ۔‘‘
۷ اگست
’’۔۔ ۔ ہفتہ۔ دن بھر گھومتا رہا۔ میرین ڈرائیو۔ پتھر۔ گاڑیاں۔ بسیں۔ ٹریس پاسنگ۔ اب کچھ تھکاوٹ اور بٹور لی۔ ورلی میں ایک نئی جگہ ڈھونڈنی ہے کافی پینے کیلئے۔ تمہیں پسند آئے گی۔ لابوہیم سے کھلی، مگر سستی۔ بیرے سرونہیں کرتے، لڑکیاں سرو کرتی ہیں۔ جھاگ ضرورت سے زیادہ سفید، لڑکیوں کے دانتوں کی ہی طرح۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ٹوئسٹ شروع ہو گیا۔ اچانک۔ بمبئی کی برسات کی طرح۔ موسلادھار …
کل اتوار ہے، اور میں ہوں۔ جیسے دونوں آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ دیکھیں کون جیتتا ہے۔ اتوار ہی جیتے گا، میں ہار جاؤں گا۔ ہمیشہ کی طرح۔۔ ۔‘‘
۱۰ ستمبر
’’۔۔ ۔ اکثر سیدھے گھر ہی چلا جاتا ہوں، میرا میزبان (جسے تم گھوسٹ کہتی ہو) آج کل باہر گیا ہوا ہے۔ تمہارا ذکر آتے ہی وہ ’’چائنیز لنچ‘‘ یاد کیا کرتا ہے۔ اکتوبر میں ہمیں تین چھٹیاں ہوں گی، اگر بارش تھمی تو شاید ماتھیران جاؤں۔۔ ۔‘‘
۱۲ ستمبر
’’۔۔ ۔ آج اتوار ہے اور یہ خط برٹرولی سے لکھ رہا ہوں۔ کچھ لکھنا ہو چھٹی کے روز تو یہ کونا پسند آتا ہے۔ مجھے افسوس رہے گا کہ دوپہر کے بعد یہ ریستوران پریمی بگلوں کا ہو جاتا ہے اور وہ بتیاں بجھا دیتے ہیں، پھر یہاں بیٹھنے کا سوال نہیں اٹھتا۔ لکھتا ہوا آدمی تو چغد لگتا ہے۔
یہاں رات کو بلیک آؤٹ بہت بھلا لگتا ہے۔ ساری بمبئی اور سارا سمندر چاندنی میں کسی فلم کا سیٹ لگتا ہے، جیسے ایک بار پوئی میں ہم چاندنی میں نہائے تھے۔ گزشتہ اتوار میں دن بھر گھر میں رہا تھا اور اپنی ’’گھوسٹیس‘‘ کے ساتھ تاش کھیلتا رہا تھا اور شام کو اسی کے ساتھ باندرا چلا گیا تھا۔ پھر جوہو اور آخر میں سانتا کروز، جہاں ہم نے کافی پینی تھی اور جوئیک باکس پر ایک ریکارڈ بار بار سنا تھا، ’’ویئر ڈِڈ اور لوگو؟‘‘ باندرا میں ایک جگہ ’’بینڈ اسٹینڈ‘‘ مجھے بہت پسند آئی۔ ہم آخیر تک گئے، سمندر کو چھوکر لوٹ آئے، جہاں وہ ایک ٹوٹے سے قلعہ کی دیواروں سے پاگلوں کی طرح ٹکرا رہا تھا۔۔ ۔‘‘
اس طرح کے خطوط لکھتے رہنے کے کچھ ہی دنوں بعد سُدرشن کیلئے بمبئی، بمبئی نہ رہی، گھر ہو گئی۔ شام کو گاڑیوں میں دھکے کھاتے ہوئے وہ گھر واپس آتا ہے۔ سامنے کے فلیٹ میں پارسی بڑھیا سگریٹ پیتے ہوئے کھانا بناتی ہے اور بس رکنے اور بس چلنے کی گھنٹیوں کی آوازوں کے درمیان پیٹر رات دیر تک الیکٹرک گٹار بجاتا ہے، ’’آئی وانٹ ٹو ہولڈ یور ہینڈ۔۔ ۔!‘‘یہ شہر میرا نہیں ہے یا میں اس شہر کا نہیں ہوں یا یہ شہر کسی کا نہیں ہے۔
سالوں کی جد و جہد کے بعد سُدرشن نے بمبئی کے غزلوں کی دنیا میں اپنا مخصوص مقام بنا لیا۔ اس جد و جہد میں اس نے اپنی گرل فرینڈ کو کھو دیا یعنی ماں باپ کو ان کی پسند سے شادی کرانے کی اجازت دے دی۔ آج اس کے پاس سب کچھ ہے، اندھیری میں فلیٹ، ڈرائیور، گاڑی، بیوی، گرل فرینڈ، بیٹا، شہرت۔ اس کے ریکارڈز بیسٹ سیلر ہیں اور تیسرے صفحے پر اکثر اس کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔
کامیابی نے اسے یورپ تک پہنچا دیا اور ایک دن وہ وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اب وہ برطانیہ کا شہری تھا اور کبھی کبھار ہی بھارت لوٹتا تھا۔
٭٭٭
بمبئی سے چل کر ممبئی تک
سپریا کو دیکھ کر سُدرشن کو دھکا سا لگا۔ وہ شاید اسے اسی روپ پر دیکھنا چاہتے تھے، جیسا چالیس برس پہلے دیکھا تھا۔ اس کی وہی تصویر اس کے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی۔ دبلی پتلی، چھریری سپریا ۔ چشمہ وہ اکثر آنکھوں پر سے اٹھا کر پیشانی کے اوپر ہیٹ کی طرح پہن لیتی تھی۔ سُدرشن اسے تب سے جانتا تھا جب اس کے پرس میں سوائے رو مال کے کچھ نہیں رہتا تھا۔ کئی بار سپریا کو رانڈے روڈ سے دادر تک پیدل لوٹنا پڑتا تھا۔ اگر اس کے پرس میں ساٹھ پیسے ہوتے تو وہ ٹیکسی میں ہی لوٹتی، ورنہ سُدرشن چھوڑ آتا۔
ممبئی کے لئے روانہ ہونے سے ذرا پہلے سپریا کا فون آیا کہ وہ اسٹیشن سے ٹیکسی لے کر ورلی پہنچ جائے، اس کے دونوں ڈرائیور چھٹی پر ہیں۔ دادر سے ورلی جاتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ چالیس برس بعد بھی دادر کے ٹیکسی ڈرائیوروں کی گھما پھرا کر لے جانے کی عادت نہیں بدلی۔ اس نے یہ بات ٹیکسی ڈرائیور سے بھی کہہ دی۔ سردار جی نے پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور بولے، ’’تسیں پہلاں کیوں نئیں دَسیا۔‘‘ اس نے شارٹ کٹ کے لیے ٹیکسی ایک گلی میں گھسا دی۔ سُدرشن اس گلی کو بھی پہچانتا تھا۔ یہیں نمکو کی ایک دکان ہوا کرتی تھی، جہاں اب کیمسٹ کی دکان تھی۔
دروازہ سپریا کی بیٹی نے کھولا۔ جینز اور ٹاپ پہنے ہوئے تھی۔ لگا کہ جسم کچھ زیادہ ہی نمایاں ہو رہا ہے۔ وہ دروازہ کھول کر سُدرشن کے آگے آگے چل دی۔ ڈرائنگ روم میں سوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے انگریزی میں کہا کہ اس کے سر میں بہت شدید درد ہو رہا ہے، وہ اس کی معذرت قبول کریں۔ اس نے ننھے سے کتے کو، جو اس کے پاؤں کے پاس گود میں آنے کو مچل رہا تھا، بانہوں میں اٹھا لیا اور اپنے کمرے میں گھس گئی۔
اچانک سُدرشن کو بہت تنہائی محسوس ہوئی۔ باورچی خانے میں کوئی ڈش بنائی جا رہی تھی، جس کی مہک باہر تک آ رہی تھی۔ سُدرشن نے اٹھ کر بالکنی کی طرف دیکھا۔ سمندر شانت تھا۔ کچھ لوگ سمندر کے کنارے بنی بنچوں پر ابھی تک بیٹھے تھے۔ کچھ بچے مونگ پھلی فروخت کر رہے تھے۔ اسے یاد آیا، جب اس نے ممبئی چھوڑی تھی، تب بھی بوڑھے پارسی اسی طرح ٹکٹکی لگائے سمندر کو دیکھا کرتے تھے۔ ٹی وی کھلا تھا اور اس پر ایم ٹی وی کا پروگرام چل رہا تھا۔ ننگ دھڑ گ لڑکیاں ناچ رہی تھیں۔ سُدرشن کو جلن محسوس ہوئی، کتنی خوش ہیں یہ لڑکیاں! اسے تو زندگی میں کبھی اتنی خوشی نصیب نہ ہوئی تھی۔ یہ بھی لگا کہ جیسے سپریا کی بیٹی نے ٹی وی میں سے نکل کر دروازہ کھولا ہو اور اب دوبارہ اسی میں سما گئی ہو۔
ایک موٹی سی نوکرانی، جس نے لانگ دار دھوتی پہن رکھی تھی، سُدرشن کے سامنے شیشے کے ٹاپ والی میز پر پانی کا ایک گلاس رکھ گئی۔ سُدرشن کو لگا کہ یہ گھر مکان میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پچھلی دفعہ بیسیوں برس پہلے جب وہ پہلی بار ورلی کے اس نئے گھر میں آیا تھا تو اسے دیکھتے ہی سمپورن اس کی طرف لپکا تھا۔ اسے وہ اسے بار میں لے گیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سُدرشن کی سب سے زیادہ دلچسپی اسی میں ہو سکتی ہے۔ سب سے زیادہ کہنا تو مناسب نہ ہو گا، سب سے پہلی کہا جا سکتا ہے۔ ’’یہ پیو، مست ہو جاؤ گے، تمہارے لئے ہی رکھی ہوئی تھی۔‘‘ اس نے سُدرشن کی رضامندی ملنے سے پہلے ہی سُدرشن کا اور اپنا پیگ بنا لیا اور بولا مبارک! سُدرشن ابھی گلاس ختم بھی نہ کر پایا تھا کہ وہ اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے اپنی الماریوں کی طرف لے گیا۔ ’’جو سوٹ پسند ہو، پہن لو۔‘‘ وہ بولا اور ہینگر اتار کر سوٹ دکھانے لگا۔
’’میری بانہیں اور ٹانگیں بہت لمبی ہیں۔‘‘ سُدرشن نے کہا، ’’امیتابھ بچن کے سائز کا کوئی سوٹ ہو تو دکھاؤ۔‘‘
’’بس وہی نہیں ہے۔‘‘ اس نے باہر سمندر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’’مگر اس کے لئے تم کو کچھ دن اور انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
وہ سُدرشن کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا، ’’یہ ٹی شرٹ تمہارے اوپر بہت کھلے گی۔ اب پہن کر دکھاؤ۔ میرے سیریل میں نصیر الدین شاہ نے پہنی تھی۔‘‘
سُدرشن ٹی شرٹ پہچان گیا۔ اس نے وہ سیریل دیکھا تھا۔
’’پتلون بھی اتار دو، تمہیں برمودا دکھاتا ہوں۔ میں اٹلی سے لایا تھا۔‘‘
’’پتلون مت اترواؤ۔ مجھے ابھی دوسرے لوگوں سے بھی ملنے جانا ہے۔ برمودا پہن کر نہیں جا سکتا۔‘‘
’’آج تم کہیں نہیں جا سکتے۔‘‘ اس نے سپریا کو آواز دی، ’’دیکھو سپریا ، یہ جانے کے لئے کہہ رہا ہے۔‘‘
ہائی ہیل کی سینڈل پہنے سپریا کھٹ کھٹ کرتی چلی آئی، ’’اس کے کہنے سے کیا ہوتا ہے! سمپورن ملا پیایلا کاہی پن نکو، میں آئی سے ملنے جاؤں گی۔ سبھاش چا فون آلا ہوتا، آئی کو بہت تیز بخار ہو رہا ہے۔‘‘
’’ہم تینوں چلتے ہیں۔‘‘ سمپورن نے کہا۔
’’نہیں، سُدرشن تھکا ہو گا۔‘‘
سمپورن نے اس کے ہاتھ میں گلاس تھمایا اور بولا، ’’پی کر ختم کرو۔ پہلا پیگ تو ایک گھونٹ میں پینا چاہئے۔‘‘
اس نے سچ مچ ایک گھونٹ میں گلاس خالی کر دیا تھا۔
آج سمپورن نہیں تھا۔ سامنے دیوار پر اس کی تصویر ٹنگی تھی۔ اسی طرح مسکراتے ہوئے، جیسے ابھی تصویر سے باہر نکل آئے گا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
سُدرشن کے سامنے پانی کا گلاس پڑا تھا، وہ ایسے ہی پڑا رہا۔ نوکرانی نے چائے کا ایک کپ گلاس کے پاس رکھ دیا۔ سپریا ابھی تک دکھائی نہیں دی تھی۔ سپریا کے کئی بار فون کرنے کے بعد وہ چوبیس گھنٹے ٹرین میں بیٹھ کر آیا تھا اور اب وہی غائب تھی۔ اس کی بیٹی بھی بڑی بے رخی اور بیزاری سے سر درد کا بہانہ کر کے وہاں سے ہٹ گئی تھی۔ لگتا ہے، اس کے بارے میں اسے زیادہ جانکاری نہیں تھی۔ وہ اٹھ کر بالکنی میں چلا گیا۔ سمندر کی طرف سے ہوا کا بھرپور ریلا اس کی طرف آیا اور جیسے اسے بھگوتے ہوئے نکل گیا۔ ہوا کی یہ چھپی لہریں تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسے بھگو جاتیں۔ ڈرائنگ روم میں کھانا پکنے کی جو خوشبو آ رہی تھی، وہ بالکنی تک نہیں پہنچ پا رہی تھیں۔ جتنا وہ سمپورن کو جانتا تھا، وہ اس بو کو برداشت ہی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے ضرور کچن میں ایگزاسٹ لگایا ہو گا اور اب اس کے جانے کے بعد لگتا ہے اسے کوئی استعمال نہیں کرتا ہو گا۔ تجسس بھرے انداز میں وہ یہ دیکھنے کیلئے کہ باورچی خانے میں ایگزاسٹ لگا ہے کہ نہیں، باورچی خانے کی طرف بڑھ گیا۔ سپریا کی نوکرانی فرج کھول کر کھڑی تھی اور اس کے ساتھ چپک کر کھڑا نوکر اس کی چولی کا سیف کھول کر نقدی گن رہا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ دونوں ہڑبڑا گئے اور وہ بغیر ایگزاسٹ دیکھے وہاں سے ہٹ گیا اور دوبارہ بالکنی میں آ کر کھڑا ہو گیا۔
’’یہ نارائن ایسے اِچ مجھے پریشان کرتا۔ ماتا جی کو بتائیں گی تو اس کی نوکری چھوٹ جائیں گی۔‘‘
’’بائی تجھے کس نام سے بلاتے؟‘‘
’’لکشمی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’لکشمی ہم چائے الگ الگ پیتا۔ دودھ الگ، چینی الگ، چائے کا پانی الگ۔‘‘
’’ایسا پیلے کائی کو نئیں بولا۔‘‘ مجھے اعتماد میں لے کر وہ فوراً باورچی خانے میں گھس گئی۔
بالکنی میں دونوں سروں پر نائیلون کی ایک رسی بندھی تھی اور اس پر کپڑے سوکھ رہے تھے، زیادہ تر پوشیدہ کپڑے۔ کچھ کپڑے ایک بچے کے تھے۔ سُدرشن نے دیکھا اس کے سر کے اوپر چڈیاں، برا، شمیز وغیرہ سوکھنے کیلئے پھیلائے ہوئے تھے۔ ان کی طرف دیکھنا تو دور، ان کے نیچے بیٹھنا بھی اسے ناگوار گزر رہا تھا۔ وہ وہاں سے ہٹ گیا۔ سمندر بھیگی بلی کی طرح شانت پڑا تھا۔
سُدرشن ڈرائنگ روم میں لوٹ آیا۔ میز پر انگریزی کا اخبار پڑا تھا، ایک دم ان چھوا۔ ابھی تک کسی نے کھولا بھی نہیں تھا۔ سُدرشن نے اخبار کھولا، وہ ایسے کھلا جیسے کلف لگا کپڑا کھلتا ہے۔ وہ شہر کی ثقافتی سرگرمیوں کی معلومات حاصل کرنے کیلئے مقامی اشتہارات پڑھنے لگا۔ یہ جان کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی کہ ایک ساتھ کئی ڈراموں کے اشتہارات تھے۔ ہندی اور زیادہ تر مراٹھی ڈراموں کے۔ ڈراموں کے نام کافی بازاری لگ رہے تھے۔ محسوس ہوا کہ بازار نے ڈرامے پر بھی ہلا بول دیا ہے۔ کمپیوٹر کے کاروبار سے منسلک بہت سے اشتہارات تھے۔ لیمنگٹن روڈ کے آس پاس ہی کہیں کمپیوٹر ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر کی مارکیٹ تھی۔ اسے سمپورن کا پہلا دفتر یاد آ گیا۔
نوکرانی ٹرے میں چائے بنا کر لے آئی۔ اس نے ڈھکن کھول کر بھاپ سے چائے کے فلیور کا جائزہ لیا۔ اس کی من پسند پتی کی چائے تھی۔ وہ جب تک چائے کا پہلا گھونٹ لیتا، سپریا نمودار ہو گئی۔ اسے دیکھ کر سُدرشن کو دھکا سا لگا۔ آنکھوں کے علاوہ وہ مکمل طور پر بدل چکی تھی، آنکھوں کے نیچے بھی گوشت کی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں سی لٹک رہی تھیں۔ بار بار فیشل کرانے سے چہرہ جیسے چھل گیا تھا۔ گال پھول گئے تھے۔ دانت سیدھے ہو گئے تھے جبکہ پہلے ذرا سا اٹھے رہتے تھے۔ شاید یہ نئے دانت تھے اور بہت ہی صفائی سے جبڑے میں بیٹھا دیے گئے تھے۔ شاید اسی عمل میں مسوڑھے کچھ اور نمایاں ہو گئے تھے۔ یعنی پہلے دانت نمایاں رہتے تھے اور اب مسوڑھے۔ بال مہندی رنگ کے تھے مگر جڑوں کے پاس سفید رنگ کی چھوٹی سی جھالر اس بات کی چغلی کھا رہی تھی کہ ایک ہفتے سے بالوں کی ڈائی نہیں ہوئی ہے۔ اس نے سوچا، جس شخص کے دانت بدل جاتے ہیں، اس کی پوری شخصیت ہی بدل جاتی ہے۔ اس کی ہنسی بدل جاتی ہے، چہرے کے انداز بدل جاتے ہیں۔ ایک اجنبیت ان کے درمیان پھیل گئی۔ صرف دانتوں کے بدل جانے سے ایک فاصلہ آ گیا تھا۔ رام جانے، اور کیا کیا تبدیلیاں آئی ہوں گی اس دوران! وہ تو پہلے جھٹکے میں ہی چت ہو گیا۔
سپریا نے بھی سوچا ہو گا کہ وہ نئے ماحول میں اجنبی محسوس کر رہا ہے۔ بولی، ’’یہ کیا ہے؟ سوچا تھا، اتنے برسوں بعد ملو گے تو بہت گرمجوشی سے ملو گے۔ ہم لوگ تو ایسے مل رہے ہیں جیسے روز ہی ملتے ہیں۔‘‘
’’چلو پھر سے ملتے ہیں۔‘‘ سُدرشن نے کہا اور اسے بانہوں میں بھر لیا۔ اس کی بانہوں کا بھی دباؤ محسوس ہوا۔
’’تمہارے بال تو ویسے ہی سیاہ ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’میں نے اتنی رم پی کہ بال اسی میں رنگ گئے۔‘‘
’’سمپورن کے بال بھی تمہاری طرح سیاہ تھے۔ اگدی کھر ام آے۔‘‘
’’وہ میرا ہم پیالہ تھا۔‘‘ سُدرشن نے کہا۔
’’تمہارے آنے کی خبر ملی تو سوچا، پارلر ہو آؤں، پن جاہو دے۔ آج دوپہر کو جاؤں گی۔‘‘
’’اس سے بہتر ہے، کہیں اور چلیں۔‘‘
’’تو کلب چلتے ہیں۔ چلیں۔‘‘
’’کلب میں میری دلچسپی نہیں۔‘‘
’’میری ساری سوشل لائف کلب تک محدود ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے انگریزی میں کہا۔
’’اے تا چنگی گل نئیں۔‘‘ اس نے جان بوجھ کر پنجابی میں کہا۔ سمپورن کے ساتھ رہنے سے وہ پنجابی سیکھ گئی تھی، مگر سمپورن مراٹھی نہ سیکھ پایا تھا۔ مراٹھی کے چند الفاظ اسے بہت پسند تھے، جیسے لوکر۔ سپریا کو تیار ہونے میں دیر لگتی تو وہ اس وقت تک لوکر لوکر کہتا رہتا، جب تک وہ چل نہ دیتی۔ ایک لفظ اسے اور بہت اچھا لگتا- گھانس لیٹ یعنی مٹی کا تیل۔ بٹاٹا کاندا یعنی آلو پیاز تو مہاراشٹر میں رہنے والا ہر شخص سیکھ جاتا ہے، سمپورن بھی سیکھ گیا تھا۔
’’دفتر کب جاتی ہو؟‘‘
’’دوپہر کو تھوڑی دیر کے لئے جاتی ہوں۔ تب تک سمیتا دفتر دیکھتی ہے۔‘‘ سمیتا اس کی بڑی بیٹی کا نام تھا۔
سمیتا کا ذکر آتے ہی وہ دو بڑے بڑے البم اٹھا لائی، ’’یہ سمیتا کی شادی کا البم ہے۔‘‘
البم دیکھنا سُدرشن کو کبھی اچھا نہیں لگتا۔ جب آپ البم دیکھتے ہیں تب تک لوگوں کے چہرے بہت بدل جاتے ہیں۔ ابھی البم کے صفحے پلٹنا اس کی مجبوری ہو گئی تھی۔ وہ البم میں دلچسپی دکھانے کی اداکاری کرتا رہا اور پیچھے سے سپریا کی رننگ کمنٹری چلتی رہی۔ اسے اپنے واقف چہرے بہت کم دکھائی دیے۔ ایسے بہت سے چہرے ضرور نظر آئے جنہیں بڑے اور چھوٹے پردے پر دیکھ چکا تھا۔ فلمی دنیا کی کئی مشہور و معروف شخصیات تھیں۔ اشتہاری دنیا سے وابستہ کئی بڑے نام تھے۔ ابھی بہت سے تصویریں دیکھنا باقی تھیں اور اسے بوریت ہونے لگی تھی۔ البم میں قید ایک سے ایک خوبصورت چہرے بھی اسے نہ باندھ سکے۔ وہ بہت بے دلی سے البم کے صفحے پلٹتا رہا۔ بیچ بیچ میں سپریا نے کئی بار بیٹی کو آواز دی، مگر وہ باہر نہ آئی۔ آخر سپریا خود اٹھ کر اس کے کمرے میں گئی اور لوٹ کر بولی، ’’بچوں نے ہم لوگوں کی جد و جہد نہیں دیکھی۔ انہیں سب کچھ پلیٹ میں سجاسجایا ملا ہے۔ یہ ہماری جد و جہد کے بارے میں کچھ جاننا بھی نہیں چاہتے۔ یاچیں پھار دکھ باٹنے۔‘‘
’’چھوٹی بیٹی کا نام میں بھول رہا ہوں۔‘‘
’’شالنی۔‘‘ اس نے کہا اور کرسی سے پیٹھ ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ بیٹی سے بات کر کے وہ کچھ ٹھنڈی پڑ گئی تھی۔
’’میں چاہتی تھی، جتنے صفحات تم نے لکھے ہیں، وہ ہم سب لوگ ساتھ ساتھ سنیں۔ اسی لئے میں نے شالنی کو بلا رکھا تھا۔ سمیتا بھی دفتر سے سیدھے گھر آئے گی۔ نریش اور سورج کو بھی بلایا تھا، مگر وہ لوگ کہاں آ پائیں گے۔‘‘
’’میں نے یہ سب سنانے نہیں آیا ہوں۔ آپ کا فون نہ ملا ہوتا تو شاید آپ کو خبر بھی نہ لگتی کہ میں سمپورن کو مرکزیت میں رکھ کر ایک ناول لکھ رہا ہوں۔‘‘
سپریا کو فوراً اپنی فکر ہو گئی، ’’تیات ماجھا پن اُلیکھ اسیل۔‘‘
’’تمہارے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔‘‘
’’تم میرے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔‘‘
’’اتنا ہی جانتا ہوں، جتنا دیکھا تھا۔‘‘
اس نے انگلی کا ایک پور دکھاتے ہوئے کہا، ’’بس اتنا ہی۔ کیسے لکھو گے؟‘‘
’’میں سمپورن کی سوانح عمری تو لکھ نہیں رہا۔ جہاں جہاں گیپ نظر آئیں گے تخیل سے بھر لوں گا۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہے کہ میرے ماما اور نانا فریڈم فائٹر تھے؟‘‘
اس نے سر ہلا کر بتایا کہ نہیں۔
’’میرے نانا کا پونے میں پریس تھا جو حکومت نے سیل کر دیا تھا۔‘‘
’’ارے! تو تم فریڈم فائٹر کی نواسی ہو؟‘‘
’’اور کیا؟‘‘ وہ فخر سے پھول گئی، ’’تمہیں تو یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ میں سمپورن سے ملنے سے پہلے ڈراموں میں کام کرتی تھی۔‘‘
’’میرے لئے یہ اطلاع بھی نئی ہے۔‘‘
’’یہ تو میں نے اچھا کیا جو فون کر کے بلا لیا، ورنہ تمہارا ناول غلط ہو جاتا۔ اس میں حقائق سے رو گردانی ہو جاتی۔‘‘
’’ناول میں سب چلتا ہے۔ ناول تاریخ نہیں ہوتا۔ اس میں انسان ایک سایہ بن کر رہ جاتا ہے اور کئی بار سائے انسان بن جاتے ہیں۔‘‘
سُدرشن کی بات اس کے پلے نہیں پڑ رہی تھی، وہ بولی، ’’میرے بارے میں تم وہی سب لکھ ڈالتے جو تم نے دیکھا تھا۔ لوگ میرے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’لوگوں کو معلوم ہی نہ چلے گا کہ میں نے آپ پر لکھا ہے۔ ناول میں آپ کا نام بھی دوسرا ہو گا۔‘‘
’’اس سے کیا، سمجھنے والے سمجھ ہی جاتے ہیں۔‘‘
آخر کار سُدرشن نے ہتھیار ڈال دیے اور فیصلہ کیا کہ اسے ناول شائع ہونے کی اطلاع بھی نہ دے گا۔ اب وہ کچھ بھی سننے کو تیار تھا۔ اس نے جیب سے ایک ڈائری نکالی اور اپنے کام کی چیزیں نوٹ کرنے لگا۔
’’تو کب سے سنانا شروع کرو گے؟ آج شام سے ہی کیا جائے، میرے پاس چیانتی (ایک اطالوی شراب) رکھی ہے۔ چلا بالکنیِت بسُون ایکتییہ (چلو بیٹھ کر بالکنی میں سنتے ہیں)۔‘‘
’’آپ خود پڑھ لیں تو بہتر ہو گا۔‘‘ سُدرشن نے بہانہ کیا، ’’میں کسی کو پڑھ کر نہیں سناتا، میری سانس پھولنے لگتی ہے۔‘‘
’’ہاتھ کا لکھا ہے؟ واقعی۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تب تو مشکل ہو گی۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی، ’’میں دفتر بھیج دیتی ہوں، کمپیوٹر سے ٹائپ ہو جائے گا۔ ویسے میرے دفتر میں بھی ایک اسکرپٹ رائٹر ہے، کاترتک، اس کی آواز بھی بہت اچھی ہے۔ اسے بلا لیں گے۔‘‘
سپریا نے چپراسی کو بلا کرمسودہ سونپ دیا کہ دفتر میں دے آئے اور کاترتک کو فون ملانے لگی۔ کاترتک سے اس نے سُدرشن کا تعارف کچھ اس طرح سے کرایا، جیسے پریم چند کا کوئی اوتار ممبئی آیا ہو اور اسے آج شام سے گؤدان کا پاٹھ شروع کرنا ہو۔
’’آپ یہ سوچ کر سنیے گا کہ اس میں تمام واقعات اور کردار صحیح ہوں گے تو آپ کو بہت مایوسی ہو گی۔ میں نے تخیل سے بھی بہت سی چیزیں بُنی ہیں۔‘‘
’’جہاں جہاں بھول ہو گی میں اصلاح کر دوں گی۔‘‘ وہ بولی۔ اسے ادبی تخلیقی عمل کی بنیادی معلومات بھی نہ تھی۔
’’آپ یہ مان کر سنیں کہ یہ ایک خالص قصہ ہے۔‘‘
’’قصے کو بھی اوتھینٹک بنایا جا سکتا ہے۔ کیوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
اب اسے کون سمجھائے سچائی کا وہم بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔
’’کیوں نہیں؟‘‘ سُدرشن نے کہا، ’’اس کے ساتھ آپ تبھی انصاف کر سکیں گی، اگر یہ مان کر سنیں گی کہ کسی غیر کی کہانی سن رہی ہیں۔‘‘
وہ اداس ہو گئی، ’’تم اس کے لئے ضد کیوں کر رہے ہو؟‘‘
’’تاکہ آپ ٹھیس نہ لگے۔ اس میں آپ کو نہ سمپورن دِکھے گا، نہ آپ خود کہیں نظر آئیں گی۔ کہیں کہیں آپ کی پرچھائیاں ضرور دکھیں گی۔‘‘
’’سچائی لکھنے میں کیا حرج ہے؟‘‘
سُدرشن بہت بد ظن ہو گیا، اس نے کہا، ’’آپ کڑھ مغز ہیں۔‘‘
’’کڑھ مغز کا مطلب کیا ہے۔‘‘
یہ سمپورن کا ہی لفظ تھا۔ وہ عاجز آ کر اسی لفظ کا استعمال کرتا تھا۔ اس کا یہی ایک مطلب اس کی سمجھ میں آتا تھا کہ کڑھ مغز ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کے مغز یعنی دماغ میں کوڑا بھرا ہو۔ وہ سپریا کو تکلیف نہیں پہچانا چاہتا تھا، اس نے کہا، ’’کڑھ مغز اس عورت کو کہتے ہیں جو بہت ضدی ہو۔‘‘
کڑھ مغز کا مطلب سن کر وہ خوش ہو گئی۔ ہو سکتا ہے اسے ضد کا بھی مطلب معلوم نہ ہو۔
’’پہلی اسٹوری سٹنگ آج شام کو کریں گے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’آپ لوگ کریں۔ میں آج شام کو اپنے دوست ساحل سے ملنے جاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ سپریا نے کہا، ’’دو تین سٹنگ میں، میں تمہارا اب تک لکھا پڑھ لوں گی۔‘‘
’’بات چیت آخر میں کریں گے۔‘‘ اس نے کہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ روز اسے وضاحت دینا پڑے۔ ایک دن میں سب نمٹا دے گا۔ ضروری ہوا تو اس کی تجاویز کو قبول کر لے گا۔ جو قبول نہ ہوں گی، ان کے بارے میں بھی بحث میں نہیں پڑے گا۔
تبھی کال بیل بجی۔ معلوم ہوا، مالش والی آئی ہے۔ مالش والی کی آمد سے سپریا کا چہرہ کھل گیا۔ لگا، جیسے اس کا کوئی پریمی کسی لمبے انتظار کے بعد آیا ہو۔ مالش والی کے لباس سے لگتا تھا کہ وہ کوئی کونکن عورت ہے۔ وہ تیر کی طرح سپریا کے کمرے میں گھس گئی۔ سپریا اسے ایک کمرے میں لے گئی۔ گھر کے مرکزی دروازے کے سامنے ہی ایک دروازہ تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے اندر اتنا بڑا کمرہ ہو گا۔ کمرے کے وسط میں ایک ڈبل بیڈ تھا۔ بستر کی بغل میں ایک چھوٹا فرج تھا۔ دائیں طرف لکڑی کی وارڈروب تھی اور لکڑی کی الماریوں کا دیوار پر پھیلا خوبصورت پینل۔ سپریا نے الماریوں کی چابی اسے سونپ دی۔ مالش والی کی وجہ سے وہ جوش سے بھر اٹھی تھی۔ وہ باہر نکل گئی۔ اس کے پیچھے آہستہ آہستہ دروازہ اپنے آپ بند ہونے لگا۔ سُدرشن باتھ روم میں گھس گیا۔ اس کے لئے نیا تولیہ، نیا صابن، نیا شیمپو۔ ہر چیز نئی۔ اسے بری طرح سمپورن کی یاد آئی۔ وہ نئی چیزوں کا دیوانہ تھا۔
دفتر کی کینٹین میں ایک بار جنوبی بھارت سے کاٹن کی رنگین قمیضیں آئی تھیں، کچے رنگوں میں۔ جتنی بار دھلنے کیلئے بالٹی میں ڈالی جاتیں، بالٹی کا پانی رنگین ہو جاتا، جیسے ہولی کے کپڑے دھوتے وقت ہوتا ہے۔ اس کپڑے کی خاصیت تھی کہ دھل کر کپڑے کا شیڈ بدل جاتا تھا۔ سمپورن، سُدرشن سے ملنے دفتر آیا ہوا تھا۔ کپور وہی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ سمپورن کو کپڑا بھا گیا اور جب پتہ چلا کہ نیچے کینٹین میں ایسی قمیضیں دستیاب ہیں تو سُدرشن کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے کینٹین تک لے گیا۔ دس پندرہ ہی بچی تھیں، اس نے سب پیک کرا لیں۔ اس سے بھی اس کی تسلی نہ ہوئی تو اچار، مکھن اور جوس وغیرہ پیک کرانے لگا۔
’’اس کا ادائیگی کون کرے گا؟‘‘ سُدرشن نے پوچھا۔
’’تم کرو گے اور کون کرے گا؟‘‘ اس نے کہا۔
’’میری تو مہینے بھر کی تنخواہ کٹ جائے گی۔‘‘ سُدرشن نے بتایا۔
’’کوئی واندا نہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’کچھ نہ کچھ کیا جائے گا۔‘‘
اس نے جم کر خریداری کی۔ ڈیڑھ درجن قمیضیں، مکھن، چیز، بیڈشیٹس، فروٹ جوس کے لگ بھگ تمام ذائقوں کے ڈبے، ٹومیٹو کیچپ، صابن، چائے کی پتی وغیرہ وغیرہ۔
’’یہاں وسکی شسکی نہیں ملتی؟‘‘
کینٹین کا مالک ہنسنے لگا۔
’’سب پیک کر دو بادشاہو۔‘‘ اس نے کینٹین کے مالک کے کندھے پر دھول جماتے ہوئے کہا، ’’میرا دوست جب اس کمپنی کا بڑا افسر ہو جائے گا تو تمہاری کینٹین میں سامان نظر نہ آئے گا۔‘‘
’’سمپورن اب اگلے ماہ مجھے تنخواہ نہیں ملے گی۔‘‘ سُدرشن پیکٹ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
’’کوئی واندا نہیں، ابھی تو آٹھ تاریخ ہے۔ مجھ پر بھروسہ رکھو۔‘‘ سمپورن نے کہا اور سامان کی تھیلیاں اٹھائے لفٹ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
کوئی ایک گھنٹے بعد ہاؤس کوٹ میں لپٹی سپریا نمودار ہوئی۔ مالش کے بعد وہ بہت فریش نظر آ رہی تھی۔ اس نے سرداروں کی طرح بالوں کی گُٹّی بنا رکھی تھی۔
’’سوچا نہانے سے پہلے آپ کے ساتھ ایک کپ چائے پی لیں۔‘‘
’’آپ کی شادی کے البم کہاں ہیں؟‘‘
’’ماہیت ناہی کُٹھ استِیل؟ مجھے تو یاد بھی نہیں رہا کہ میری شادی کے بھی البم تھے۔‘‘
’’میں نے دیکھے ہوئے ہیں۔ ان میں میری بھی بہت سی فوٹوز تھیں۔‘‘
’’ڈھنڈواتی ہوں۔ تب تو میں بھی دیکھنا چاہوں گی۔‘‘ سپریا بولی، ’’آج تم سے مل کر بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ جیسے یہی کہ جب تم پہلی بار رانڈے روڈ آئے تھے۔‘‘
’’چھٹی کے دن دوپہر کو سمپورن جن پیا کرتا تھا۔ میرے پاس جن رکھی ہے۔ پیو گے؟‘‘
’’اس کی یاد میں پی لیں گے۔‘‘
’’میرا خیال ہے، پہلے فریش ہو لیں۔ پھر جن پیتے ہوئے بیتے ہوئے دنوں کو یاد کریں گے۔‘‘
وہ بولی اور مسکرائی۔ وہ جب جب مسکراتی، سُدرشن کو پرانی سپریا کی ہنسی یاد آ جاتی۔ اس کے تھوڑا آگے کو نکلے ہوئے دانتوں کی تصویر دل میں بیٹھ جاتی۔ سپریا کے تمام بھائی بہنوں کے دانت پرانی سپریا جیسے تھے۔ سمپورن ایک دن سپریا کی چھوٹی بہن جونی کو ڈینٹسٹ کے پاس لے گیا اور اس کے دانتوں کو پھر سے دوبارہ جڑوا دیا۔ سپریا سمجھاتی رہ گئی کہ ایسا مت کرو، لڑکی کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، مگر وہ نہیں مانا۔ اس نے کہا، ان دانتوں کے ساتھ وہ ایئرہوسٹس نہیں بن سکتی۔ بعد میں جونی نے بھی ایئرہوسٹس بن کر دکھا دیا۔
تب تک سپریا نے اس کے لئے کمرہ تیار کروا دیا تھا۔
’’بیٹا، تم اب فریش ہو لو۔ تمہارا کمرہ تیار ہے۔ دوپہر میں لنچ پر ملیں گے۔‘‘
’’بیٹا؟‘‘ سُدرشن نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’محبت میں بیٹا ہی میرے منہ سے نکلتا ہے۔ میں سمپورن کو بھی کبھی کبھی بیٹا کہہ بیٹھتی تھی۔‘‘ وہ بولی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور انہیں آنچل میں چھپا لیا۔ اس کے طور طریقے اور جینے کے انداز بالکل بدل چکے تھے۔ کچھ باتیں سمجھ میں آتی تھیں، کچھ سر کے اوپر سے نکل جاتیں۔
جو کمرہ دیا گیا تھا، وہ کبھی سمپورن کا بیڈروم تھا۔ کھلا ہوادار کمرے۔ بھرپور روشنی۔ سمپورن روشنی کا دیوانہ تھا۔ گھر میں گھستے ہی سب سوئچ آن کر دیتا تھا۔ یہاں تک کہ پنکھا بھی چلنے لگتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سمندر کی طرف کھلنے والی دیوار شیشے کی تھی۔ موٹے پردے گھسیٹ دو تو اندر بہت بنداس قسم کا جھٹپٹا ہو جاتا تھا۔ بہت ہی ذاتی قسم کی ضرورت پر پردے بند ہوتے ہوں گے، ورنہ دونوں کناروں پر سکڑے رہتے۔ ڈبل بیڈ کے ساتھ ہی ایک ریفریجریٹر رکھا تھا۔ کھول کر دیکھا، اس میں منرل واٹر، بیئر، پھل وغیرہ تھے۔ فرج کے اوپر ایک میٹ پر ایک بیئر، جگ اور گلاس کے دو گلاس اوندھے پڑے تھے۔ بستر کے ٹھیک سامنے ایک پورٹیبل ٹی وی تھا اور تکیے پر اس کا ریموٹ۔ فرج کھول کر اس نے پانی پیا اور ایک مٹھائی کے ڈبے کو کھول کر دیکھنا چاہا کہ کون سی ہو گی۔ کاجو برفی تھی، مگرلیس چھوڑ چکی تھی۔ سمپورن دیکھتا تو ابھی اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینک دیتا۔ ہو سکتا ہے سپریا نے بہت دنوں سے فرج ہی نہ کھولا ہو۔ لگتا ہے سمپورن کی موت کے بعد اس نے یہ بیڈروم بھی ترک کر دیا ہے۔
وہ کچھ دیر تک بالکنی میں کھڑا ہو کر سمندر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کا پرانا دوست۔ اس نے بہت وقت اس کے سنگ سنگ گذارا تھا۔ سمندر کے کنارے چلتے چلتے کئی بار دادر سے ماہِم تک جاتا تھا یا اس سے بھی آگے۔ ان دنوں سمندر کے ساحل ایک دم صاف رہتے تھے۔ ریت بھی دھلی دھلی سی لگتی تھی۔ گیلی ریت پر ننگے پاؤں دوڑنا اسے بہت عزیز تھا۔
نہانے کی نیت سے وہ باتھ روم میں گھس گیا۔ گیزر آن تھا۔ باتھ روم میں ٹب تھا، بالٹی نہیں تھی۔ اسے شاور کے نیچے نہانے میں بھی وہ مزہ نہ آتا تھا، جو جسم پر لوٹے سے پانی ڈالنے پر آتا تھا۔ واش بیسن کے سامنے ہر چیز نئی تھی۔ ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش، صابن، شیمپو، تولیہ۔ الیکٹرک شیور بھی جگہ پر پڑا تھا۔ لگتا ہے، سپریا کا خیال تھا کہ وہ خالی ہاتھ ممبئی آئے گا۔ سپریا کو دسہری آم بہت پسند تھے، وہ عمدہ دسہری آموں کی ایک پیٹی لایا تھا، جو اب بھی اس کے سامان کے ساتھ پڑی تھی۔
نہاتے ہوئے اچانک یاد آ گئی رانڈے روڈ کی ایک یادوں میں پھنسی ہوئی شام۔ سمپورن نے شاید قرض لے کر ایک پارٹی دی تھی۔ قرض کی بات اس لئے کہ جب صبح اس نے سمپورن سے کہا کہ ریل کا پاس ختم ہو چکا ہے، تو اسے یاد آ گیا کہ پاس کیلئے بچا کر رکھے پیسوں سے وہ چکن خرید لایا تھا، بولا، ’’کا ہے کو گھبراتا ہے، میں آج تمہیں ٹیکسی میں دفتر چھوڑ دوں گا۔‘‘
’’مجھے ٹھیک دس تک پہنچنا ہوتا ہے۔‘‘
’’آج تم نو پچپن پر پہنچ جاؤ گے۔‘‘
اس وقت آٹھ بج چکے تھے۔ نہ سمپورن باتھ روم گیا تھا، اور نہ وہ۔ دادر سے ڈبل فاسٹ ٹرین نو تریپن پر بوری بندر پٹخ دیتی تھی، مگر ٹیکسی تو کم از کم پون گھنٹے لے گی۔ اس نے تولیہ اٹھایا اور فوراً باتھ روم میں گھس گیا۔ نہا کر جلد ہی نکل آیا تاکہ سمپورن کو تاخیر کا بہانہ نہ ملے۔ اسے تو صرف شرٹ پتلون پہن کر پیروں میں جوتے ٹھوسنے تھے، مگر سمپورن عورتوں کی طرح تیار ہوتا تھا۔ بہت دیر تک وہ الماریاں کھول کر کھڑا رہتا، تب کہیں کپڑوں کا انتخاب ہوتا۔ لباس سے بھی زیادہ وقت اسے جوتوں کے انتخاب میں لگتا۔ اس کے پاس جے للیتا سے کچھ ہی کم جوتے تھے۔
ٹھیک نو بجے تھے، جب سمپورن تیار ہو کر ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا۔ کاکا جی آملیٹ، ٹوسٹ، اورنج جوس بھرا ناشتہ لگا رہے تھے۔ کاکا جی دوڑ دوڑ کر ناشتا لگا رہے تھے، انہیں سُدرشن کے وقت پر پہنچنے کی زیادہ فکر تھی۔ وہ خاموش پریمی قسم کے انسان تھے۔ ہمارا کھانا ریفائن تیل میں بنتا تھا، جبکہ کاکا جی کا دیسی گھی راجستھان سے آتا تھا۔ کاکا جی سُدرشن کے ہمراز بھی تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ کاکا جی دالان سے اٹھ کر آتے تو سمپورن اور سپریا کو ننگ دھڑنگ دیکھ واپس لوٹ جاتے۔ سُدرشن کیلئے بھی یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ صبح اٹھتا تو دونوں کو عریاں دیکھ کر چادر اوڑھا دیتا۔ وہ دفتر سے اتنا تھک کر لوٹتا اور دو پیگ لگا کر ایسی گہری نیند میں سوتا کہ اسے پتہ ہی نہ چلتا کہ پاس کے بستر پر کیا ہو رہا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا تھا کہ سمپورن نے اسے مشورہ دیا کہ وہ خاموشی سے دیوار کی طرف منہ کر کے سو جائے۔ چھٹی کا دن ہوتا تو اچانک اسے سجھاؤ دیتا کہ وہ اس سہانی شام کو کمرے میں کیوں برباد کر رہا ہے، اس وقت سمندر جوار میں ہے وہ سمندر پر بھیل پوری چکھ آئے یا ناریل پانی پی کر مست ہو جائے۔
کاکا جی کبھی کبھار بزرگ والدین کی طرح سُدرشن سے شکایت کرتے کہ یہ لوگ بزرگوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے۔
سمپورن اور سُدرشن خاموشی سے ناشتا کر رہے تھے کہ اونچی ہیل کی سینڈل پہنے کھٹ کھٹ کرتی سپریا چلی آئی۔ وہ بھی سمپورن کی طرح مہک رہی تھی۔ جیسے کسی باغیچے میں ابھی ابھی کوئی خوشبودار پھول کھلا ہو۔
’’ناشتا؟‘‘ سمپورن نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں۔ تمہارے ڈر کے مارے ناشتہ چھوڑ کر چلی آ رہی ہوں۔‘‘
وہ بھی ناشتے میں شامل ہو گئی۔
ناشتے کے بعد وہ تینوں نیچے اترے۔ روڈ پر ہی ٹیکسی کھڑی تھی۔ سپریا ایک مالکن کی طرح ٹیکسی میں گھس گئی اور سمپورن بغل کی پان کی دکان کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے ٹرپل فائیو کا ایک پیکٹ لیا۔ پان والے کو پیسہ دینے کی بجائے اس کا کیش باکس اٹھا کر کھنگالنے لگا۔ اس نے کیش باکس میں صرف ریزگاری رہنے دی اور سب نوٹ گن کر اپنے خالی پرس میں ڈال لیے، ’’صرف ستاون ہیں۔‘‘ پان والا بھی ہکا بکا تھا۔ سمپورن نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور اندر گھس کر دروازہ بند کر لیا۔ ٹیکسی آہستہ آہستہ ورلی کی طرف سرکنے لگی۔ ورلی پہنچ کر اس نے ٹیکسی کا کرایہ ادا کیا اور پانچ پانچ کے تین نوٹ سُدرشن کو تھما دیے، ’’تم آرام سے دفتر جا سکتے ہو۔ اپنا ریلوے پاس بھی بنوا لینا۔‘‘
٭٭٭
باب سوم : یہ زندگی کتنی حسین تھی
سمپورن کو امید نہیں تھی کہ جاتے جاتے مسز کلفٹن اسے اتنا بڑا تحفہ دے جائیں گی۔ برٹش ایئر ویز کے کاؤنٹر پر اس سے رخصت لیتے ہی مسز کلفٹن کو اچانک کچھ یاد آ گیا۔ اس نے چمڑے کا چمچماتا اپنا پرس کھولا اور اس کے اندر جتنی ہندوستانی کرنسی تھی، سب سمپورن کو سونپ دی۔ پرس کی ہر جیب سے نوٹ نکل رہے تھے – سو سو کے، دس دس کے، پانچ پانچ کے۔ اٹھنی، چونی، دونی، آنا، پیسہ، دھیلا سب کچھ اس نے سمپورن کے حوالے کر دیا۔ پرس ٹٹولتے ہوئے دفتر کی چابیاں بھی اس کے ہاتھ لگ گئیں۔ اس نے کچھ دیر تک چابیوں کی طرف دیکھا اور وہ بھی اسے سونپ دیں، ’’دیکھو مین، دفتر کا ایک کمرہ میں نے رکھ لیا تھا، اس کی چابی بھی تم لے لو۔ ٹیبل، چیئر اور ٹیلی فون چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ ڈاٹر ان لاء انڈیا آیا تو اس کو دکھانا۔ کلفٹن کی گریویارڈ کو کبھی نہیں بھولنا۔ ٹوینٹی نائنتھ مارچ کو اس کا ڈیتھ اینیورسری پڑتا ہے۔ امید رکھوں کہ تم اس تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھو گے اور گلدستے لے کر پہنچو گے۔‘‘
سمپورن نے سامان کی ٹرالی چھوڑ کر گرمجوشی سے مسز کلفٹن کا ہاتھ دبایا۔ اس کا یہی معنی نکلتا تھا کہ وہ ہمیشہ اس تاریخ کو یاد رکھے گا۔ مسز کلفٹن کی آنکھیں نم ہو گئیں اور انہوں نے سمپورن کے ہاتھ سے سامان کی ٹرالی لے لی اور بھیڑ میں سیکورٹی چیک کیلئے گم ہو گئیں۔ سمپورن وِجٹرس گیلری کی سیڑھیاں چڑھ گیا۔ وہ جلد از جلد اپنے سرمائے کو گن لینا چاہتا تھا۔ اس نے کاؤنٹر سے ایک کافی کا کپ لیا اور بڑے سے شیشے کے اندر سے ہوائی اڈے کا نظارہ دیکھنے لگا۔ کافی پی کر اس نے سب نوٹ قرینے سے رکھے۔ مسز کلفٹن بہت لاپرواہی سے پیسہ رکھتی تھیں۔ سو کے نوٹوں کے بیچ میں جو تڑا مڑا پانچ کا نوٹ نکل آتا اور پانچ کے نوٹ کے اندر سے سو کا نوٹ۔ کل ۱۳۷۵ روپے تھے۔ تقریباً اتنے ہی روپے اس کے بینک میں بھی تھے۔ مسز کلفٹن اپنی گاڑی بھی فروخت کر گئی تھیں۔ صبح تک گاڑی اس کے پاس تھی۔ نو بجے تک چرچ گیٹ پر گاڑی شویندر کمار کے یہاں پہچانی تھی۔ گاڑی کے بدلے میں شویندر نے مسز کلفٹن کو ہیرے سے جڑی انگوٹھی اور سونے کا ایک ہار ہدیہ کیا تھا۔
سمپورن ہوائی اڈے سے باہر آیا تو دور دور تک سڑکیں جگمگا رہی تھیں۔ اس کے سر کے اوپر سے ایک جہاز ٹمٹماتا ہوا نکل گیا۔ اس نے طیارے کو ہاتھ سے وَیو کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اتنی جلدی مسز کلفٹن کا جہاز نہیں اڑ سکتا۔ اس نے پارکنگ سے گاڑی نکالی اور ورسووا کی طرف چل دیا۔ بہت دنوں سے میری کے یہاں نہیں گیا تھا۔ میری کے یہاں پینے کا مزہ ہی دوسرا تھا۔ آج وہ اسے اپنا جلوہ دکھائے گا۔ پچھلا حساب بھی صاف کر دے گا۔ اس نے ٹھیک میری کی کاٹیج کے سامنے جا کر کار روکی اور ہارن بجایا۔ پیٹر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا، ’’بہوت دن کے بعد تو اِدر کو آیا۔ میری تجھ بہوت یاد کرتی۔‘‘
سمپورن کو معلوم تھا، میری کا اس کے اوپر بیس پچیس روپے کا ادھار تھا۔ میری سوچ رہی ہو گی کہ وہ پیسے کی وجہ سے منہ چھپا رہا ہے، جو کہ اس کی فطرت کے خلاف تھا۔ ادھار کے اوپر مزید ادھار لینا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس نے اس فن میں مہارت حاصل کر لی تھی۔
’’پیٹر، میری بیوقوف ہے اگر ایسا سوچتی ہے۔ میں لفڑوں میں پھنسا تھا، جاؤ، رم بھجواؤ اور میری کو بھیجو۔‘‘ میری اس کا نام سن کر بھاگتی ہوئی سی چلی آئی، ’’کیدر کو رہا اتنے روز؟ میری کو بھول اِچ گیا کیا؟‘‘ سمپورن نے جیب سے سو کا نوٹ نکالا اور میری کی مٹھی میں رکھ کر ہتھیلی بند کر دی، ’’کیسی اِچ ہو میری؟‘‘ تبھی جولی ٹرے میں رم کا گلاس لے آئی۔ جولی بڑی ہو گئی تھی۔ لمبی بھی، چھاتیوں پر فطرت نے صناعی شروع کر دی تھی۔ سمپورن نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا، ’’اسکول جاتی ہو کہ نہیں؟‘‘ میری کے چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ سمپورن نے میری کو دعوت دے ڈالی، ’’آج کا کھانا میری طرف سے۔ پیٹر کو بھیجو میرے پاس۔ اندھیری سے بریانی اور مچھلی منگواؤ۔‘‘ سمپورن نے جیب سے سو کا ایک اور نوٹ نکال کر اس کی مٹھی میں بھینچ دیا۔
’’فلم میں انٹری مل گیا کیا مین؟‘‘ میری بغیر سمپورن کا جواب سنے ’’پیٹر، پیٹر‘‘ پکارتی اندر چلی گئی۔
سمپورن کی میری سے زیادہ پرانی جان پہچان بھی نہیں تھی۔ ایک بار وہ سورن کے ساتھ یہاں آیا تھا، گھریلو ماحول میں پینا اسے بہت اچھا لگا تھا۔ بہت سے لوگ آتے تھے اس کی کاٹیج میں۔ سب کو بس پینے سے مطلب تھا، کبھی کوئی چھیڑخانی نہیں ہوئی۔ سمپورن کی قسمت ہی ایسی تھی کہ خواتین کا اسے بھرپور پیار ملتا تھا۔ شروع شروع میں وہ نو ٹانک پی کر لڑھک گیا تھا، میری رات گئے تک اس کا علاج کرتی رہی تھی، ’’مین، تو نو ٹانک کیلئے نہیچ پیدا ہوا۔ رم پیا کر۔‘‘ رم مہنگی تھی اور سمپورن نے پھر نو ٹانک نہیں چکھی تھی۔ وہ پی کر لڑھکنے کیلئے ممبئی نہیں آیا تھا، یہ زندگی اس کے لیے نہیں تھی۔ اس نے میری سے کہا تھا، کبھی چوتھا پیگ مانگنے پر بھی اسے مت دینا۔ میری اس بات سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ وہ دو پیگ پی کر ہی اٹھ جاتا تھا۔ چلو، نام ہو گیا پینے کا۔ عورتیں کچھ زیادہ ہی پر جوش ہیں، میری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھی۔ سمپورن کو دیکھتے ہی کہتی، ’’مین، ایک دن تو بڑا آدمی بنے گا۔‘‘ اور اس نے اس امید میں سمپورن پر سرمایہ کاری کرنا بھی شروع کر دی تھی۔ سمپورن نے سوچا، مسز کلفٹن تو میری سے بھی بڑی بیوقوف نکلی۔ مسٹر کلفٹن کے فیونرل کا اس نے انتظام کیا کر دیا کہ وہ اس کی مرید ہو گئی۔ گھر دفتر سب بیچ ڈالا۔ اسی کی رائے سے۔ اب جاتے جاتے ایک گاڑی بھی اس کے پاس چھوڑ گئی۔ اب اس کے پاس رات بھر کے لیے کار ہے، مگر گھر کا ٹھکانا نہیں۔ کچھ دنوں میں سورن انگوٹھا دکھا دے گا۔ آج کل اسی کی لاج میں ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ صبح جب وہ ایرانی کے یہاں سے چائے لانے کو کہتا ہے تو سمپورن کا تن بدن جلنے لگتا۔ مگر کوئی چارہ نہیں تھا اس کے پاس۔ سورن بھی دوستی میں ہی یہ لبرٹی لیتا ہے، ورنہ سالے کو پٹک دیتا۔
گھر واپسی سے پہلے سمپورن نے سورن کیلئے بھی رم کی ایک بوتل خرید لی۔ کہنے کو سورن کیلئے، جبکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا زیادہ تر حصہ اسی کے کام آنے والا ہے۔ صبح اسے سورن کے سوٹ کی بھی ضرورت پڑے گی۔ وہ چاہتا تھا، صبح جب شویندر سے ملنے جائے تو اس کی ظاہری حالت کم از کم ایسی رہے کہ وہ شویندر کی توجہ حاصل کر سکے۔ شویندر نے گاڑی کا سودا کیا ہے تو ظاہر ہے آج کل اس کی حالت اچھی ہو گی۔ مسز کلفٹن نے ہی بتایا تھا کہ شویندر کے بمبئی کے صنعت کاروں اور سنے اسٹاروں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔
شویندر محکمہ انکم ٹیکس میں انکم ٹیکس افسر ہو کر بمبئی آیا۔ دیکھنے میں افسر کم، اداکار زیادہ لگتا تھا۔ شروع شروع میں بہت پروڈیوسروں نے اسے فلموں میں لانے کی کوشش بھی کی تھی، مگر شویندر اپنے کام میں مگن تھا۔ انڈس کورٹ والا یہ فلیٹ اس کے ہاتھ ایک فلم فائنانسر نے کوڑیوں کے دام فروخت کیا تھا۔ نوکری کے دوران ہی اسے ریس کی لت لگ گئی تھی اور وہ فرصت میں بمبئی، پونا اور مدراس جا کر گھڑ دوڑ میں حصہ لیتا۔ اس کی دو نمبر کی زیادہ تر کمائی ریس کورس کی نظر ہی ہو جاتی تھی۔ ریس کورس میں پیسے اڑا کر اسے کوئی دکھ بھی نہ ہوتا تھا، جس رفتار سے پیسہ آتا تھا، اسی رفتار سے نکل جاتا تھا۔ اس نے ان دنوں بمبئی میں ایک لفظ سیکھا تھا، کوئی واندا نہیں۔ سچ مچ اسے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ وہ اتوار کو اگر دس ہزار ہارتا تھا تو اگلے ہفتہ تک بیس ہزار جیت لاتا تھا۔ محکمہ انکم ٹیکس کی تاریخ لکھی جائے تو محکمے میں رشوت کا ماحول تشکیل دینے میں شویندر کی خدمات مثالی تصور کی جائیں گی۔ جن دنوں دوسرے افسر رشوت کے نام سے گھبراتے تھے، شویندر سب کے سامنے دھڑ لے سے رشوت لیتا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگوں نے بھی ہمت جمع کرنا شروع کی۔ شویندر رشوت لیتا ضرور تھا، مگر لالچی نہیں تھا۔ وہ رشوت کا استعمال صرف اپنی تفریحات کیلئے کرتا تھا۔
ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس نے گھوڑے خریدنے کا مہنگا شوق پال لیا۔ اتوار کے اتوار وہ گھوڑوں کی خیریت جاننے پونا جانے لگا۔ وہ دن بھر گھوڑوں کے بارے میں ڈھیروں لٹریچر پڑھتا۔ دفتری کام اپنے دھڑّے سے چلتا رہا۔ اس کے پاس کوئی نصف درجن گھوڑے ہو گئے اور ہر گھوڑے کی کئی پیڑھیوں کی تاریخ اس کی انگلیوں پر ہوتی۔ وہ جتنا اپنے گھوڑوں کے بارے میں جانتا تھا، اس سے زیادہ اسے ان کی ولدیت اور نسل کی جانکاری تھی۔ اس کے ڈرائنگ روم میں صرف گھوڑوں کے چینی فن پارے دکھائی دینے لگے۔ کئی بار اسے لگتا وہ کسی گھوڑی کے رحم میں پیدا ہوا ہے۔۔ ۔ ایک دن ان گھوڑوں نے اس کی تقدیر بدل دی۔ وہ روٹین میں کھیل رہا تھا اور اسے امید نہیں تھی کہ ایک دن جیک پوٹ اس کے ہاتھ لگ جائے گا۔ ایک اتوار اس نے پایا وہ اچانک ملینئیر ہو گیا ہے۔ اس نے دفتر سے مہینے بھر کی چھٹی لے لی اور شوبھا نام کی ایک انٹیرئیر ڈیکوریٹر سے پورے فلیٹ کی از سرنو سیٹنگ کرا ڈالی۔ ان دنوں شوبھا بمبئی کی انٹیرئیر ڈیکوریشن کی دنیا کی مہارانی تھی۔ اس نے شویندر کے گھر کی ایسی فنکارانہ انداز میں ڈیکوریشن کر دی کہ فلمی صنعت کی بڑی بڑی شخصیات اسکاگھر دیکھنے آنے لگیں۔ اسی دوران ایک دن اسے پتہ چلا سنے ورلڈ کی مشہور اداکارہ شرمشٹھا ٹیگور اس کا گھر دیکھنے آنے والی ہیں۔ شویندر نے گھر میں ایسی دعوت منعقد کی کہ اس دن اس کا گھر آسمان کی طرح ستاروں سے جھلملانے لگا۔
شویندر نے دفتر سے چھٹی لی تو پھر دوبارہ دفتر جانے کی نوبت نہ آئی۔ وہ فلمی صنعت سے کچھ اس طرح سے جڑتا چلا گیا کہ مہینے بھر کے اندر اس نے اپنی فلم لانچ کر دی، ’’یہ زندگی کتنی حسین ہے‘‘۔ راکیش کھنہ اور شرمشٹھا ٹیگور بخوشی اس فلم میں کام کرنے پر راضی ہو گئے۔ شویندر اپنے تن، من اور دھن سے فلم پروڈیوس کرنے میں لگ گیا۔ ان دنوں شری لال لکشمی لال کے سنگیت کی بہت دھوم تھی۔ وہ دونوں بھی فلم میں سنگیت دینے کو تیار ہو گئے۔ چاروں طرف اس کی فلم کی باتیں ہونے لگی۔ آئے دن اس کے انٹرویو فلمی رسالوں میں شائع ہونے لگے۔ دیر رات تک اس کے گھر میں پارٹیاں چلتیں۔ ان پارٹیوں میں فلمی شخصیات کے ساتھ ساتھ فلم صحافیوں کی بھی بھیڑ رہتی۔ صحافیوں نے اس فلم کیلئے ایسا کریز پیدا کر دیا تھا کہ لگ رہا تھا فلم کی نمائش ہوتے ہی باکس آفس کے تمام ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے۔ فلم کے پریمیئر سے ایک روز پہلے اس نے گھر میں عالیشان دعوت دی تھی۔ ساری رات فلم کے گانے پسِ منظر میں بجتے رہے تھے۔ شرمشٹھا ٹیگور مدراس میں اپنی شوٹنگ چھوڑ کر پارٹی میں شامل ہونے آئی تھیں۔ اس پارٹی میں آر ایس گوہر بھی آیا تھا، وہ مسلسل فلم کے نام کی پیروڈی کرتا رہا، یہ زندگی کتنی حسین تھی۔ وہ ہر بار یہی کہتا کہ، ’’یہ جندگی کتنی حسین تھی’ اور قہقہہ لگاتا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا، وہ ہر پارٹی میں نئی لڑکی کے ساتھ آتا ہے۔ آج بھی اس کے ساتھ نئی لڑکی تھی، آرادھنا۔ وہ شاید کسی فلمی پارٹی میں پہلی بار آئی تھی اور پینے میں مسلسل ہچکچا رہی تھی۔ سلیو لیس بلاؤز بھی شاید اس نے پہلی بار پہنا تھا، وہ بار بار پلو سے اپنی بانہیں ڈھک رہی تھی۔ اس کی خوبصورت بانہوں پر ویکسی نیشن کے دو گہرے نشانات تھے، جو چھوٹے شہر کی متوسط کلاس کی لڑکیوں کا ان دنوں ٹریڈ مارک ہوا کرتے تھے۔ اس داغدار اجالے سے وہ پریشان تھی اور شرمشٹھا کی مرمریں بے داغ بانہیں دیکھ کر وہ مایوس ہو رہی تھی۔
شویندر نے اپنے محکمہ کے کچھ اعلی افسران کو بھی مدعو کر رکھا تھا، جن کی موجودگی میں فلمی شخصیات خود کو بہت غیر محفوظ محسوس کر رہی تھیں۔ فلم کے ہیرو نے انکم ٹیکس کمشنر جگ موہن کو دیکھا تو اس کا موڈ بگڑ گیا۔ گزشتہ ماہ ہی جگ موہن کی قیادت میں اس کے گھر پر انکم ٹیکس والوں کا چھاپہ پڑا تھا اور جگ موہن بہت بدتمیزی سے پیش آیا تھا۔ جگ موہن کی صورت دیکھتے ہی وہ اکھڑ گیا اور بیچ پارٹی میں سے اٹھ کر چلا گیا۔ انڈس کورٹ کی تمام لڑکیاں آٹوگراف لینے کے انتظار میں اندر بیٹھی رہ گئیں۔ اس کے جاتے ہی محفل بے نور ہو گئی۔ شرمشٹھا کے سیکریٹری نے اس کے کان میں کچھ کہا اور وہ بھی گھڑی دیکھتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ شویندر نے بہت کوشش کی کہ وہ تھوڑی دیر کیلئے رک جائے، مگر اس نے کسی کی نہ سنی۔ شویندر کو احساس ہو گیا کہ اس نے انکم ٹیکس حکام کو اس پارٹی میں مدعو کر کے بھاری بھول کی ہے۔ پارٹی اکھڑ گئی تھی اور آدھی رات کو جب پارٹی کو پورے شباب پر ہونا چاہیے تھا، شویندر نے دیکھا کہ وہ انکم ٹیکس دفتر کے کچھ جونیئر افسران کے درمیان بیٹھا ہے۔ اس نے پارٹی کی کمان اپنے پروڈکشن منیجر کو سونپ دی اور اندر جا کر سو گیا۔ تین بجے پریمیئر تھا، وہ کسی طرح دو بجے اٹھا اور لشٹم پشٹم پریمیئر میں شرکت کرنے چلا گیا۔
فلم دو دن میں ہی پٹ گئی۔ بمبئی کے ایک درجن تھیٹر میں فلم ریلیز ہوئی تھی، سب جگہ سناٹا چھایا تھا۔ سبھی صحافیوں نے بھی پینترا بدلا اور فلم کی جم کر دھنائی کی۔ شویندر کو لگا، اس کی اسکاچ کے ساتھ دھوکہ ہو گیا۔ اس نے بہت قیمتی تحائف صحافیوں کو دیئے تھے، مگر کسی نے حقِ نمک ادا نہ کیا۔ پہلی ہی جھونک میں اس کی تینوں گاڑیاں اور چار گھوڑے بک گئے۔
’’کوئی واندا نئیں۔‘‘ دُریسوامی نے شویندر کے حوصلے بلند رکھے، ’’آٹھ پر بھروسہ رکھو۔ اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے۔ سمندر کو دیکھا کرو۔ سیکھا کرو کچھ اس سے۔‘‘
’’دریسوامی، میں واجبات سے عاجز آ چکا ہوں۔ کچھ دنوں میں سڑک پر آ جاؤں گا۔‘‘
’’کوئی واندا نئیں۔‘‘ دریسوامی نے کہا، ’’جون میں ملوں گا تو بتانا۔‘‘
٭٭٭
سمندر کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں اور وہ بھوتیا فلیٹ
جون کی آٹھ تاریخ تھی، جب سمپورن کلفٹن کی کار کی چابی لے کر انڈس کورٹ پہنچا۔ نوکر نے دروازہ کھولا اور اسے لابی میں بیٹھا کر اندر چلا گیا اور کچھ دیر بعد اس کے سامنے دو بسکٹ اور ایک چائے کا کپ رکھ گیا۔ لابی میں تین اخبار اس کے پاؤں کے نیچے پڑے تھے، سمپورن ایک ایک کر کے اخبار پلٹنے لگا۔ صبح صبح جب بھی اخبار اس کے ہاتھ آتا تھا، وہ ضرورتِ رشتہ کے اشتہار دیکھا کرتا تھا نہ کہ نوکری کے، اسے ایک اچھی پے انگ ایکوموڈیشن کی تلاش تھی۔ سمندر سے بہت دور نہ ہو، اسٹیشن پاس ہو تو، دادر سے آگے نہ ہو، اس کے ’’میزبان‘‘ کا زیادہ دخل نہ ہو، جو ہر ماہ کرایہ بڑھانے میں زیادہ دلچسپی نہ رکھتا ہو۔
نوکر پاس ہی جھاڑ پونچھ کر رہا تھا۔ وہ خود کار مشین کی طرح تمام کام کر رہا تھا۔
’’پنا لال جی۔‘‘ سمپورن نے اسے آواز دی۔
’’کون پنا لال؟‘‘
’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
’’بہادر۔‘‘
’’بہادر جی، صاحب کب تک اٹھتے ہیں؟‘‘
’’صاحب اٹھا ہے۔ دریسوامی آیا ہے۔‘‘
دریسوامی کیسا نام ہے، سمپورن نے سوچا، کوئی فلم فائنینسرہو گا۔ اسے معلوم تھا کہ ’’یہ زندگی کتنی حسین ہے‘‘ کے فلاپ ہونے کے جھٹکے سے شویندر ابھی تک نکل نہیں پایا ہے۔ بمبئی میں اس کی تخلیق نو کے زوال کی بہت سی کہانیاں مقبول تھیں۔ سمپورن ایسے آدمی سے ملنا بھی چاہتا تھا بہت دنوں سے اور آج غیر ارادی طور پر اس کے پاس ایسا موقع آ گیا تھا۔
’’پنا لال جی، ایک چائے اور پلائے گا؟‘‘
بہادر نے گھور کر اس کی طرف دیکھا۔ ایک ہاتھ میں جھاڑن پکڑے اور دوسرے سے اس کے سامنے پڑا پیالہ اٹھا کر لے گیا۔ تبھی صاحب لوگوں کی طرح لمبا ہاؤس کوٹ پہنے ایک لمبا چوڑا رعب دار آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ایک ہاتھ میں سگریٹ تھی اور دوسرے ہاتھ سگریٹ کا ڈبا تھا۔ شویندر کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ سمپورن کھڑا ہو گیا۔
’’مسز کلفٹن گئیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’اب تک تو وہ انگلینڈ پہنچ چکی ہوں گی۔‘‘
سمپورن نے اس کی گاڑی کی چابی سونپ دی۔ اس نے چابی لی اور آواز دی، ’’دریسوامی، ایک گاڑی تو لوٹ آئی۔‘‘
دریسوامی ہاتھ میں ایک پوٹلی لئے ہوئے کمرے سے نکلا، ’’کیا بولا تھا ساب، گاڑی آ گیا نہ؟ ابھی تو جون ہے، اگست تک دیکھنا۔‘‘
بہادر چائے کی ٹرے رکھ کر جانے لگا، شویندر نے کرسی پر ہاتھ تھپ تھپاتے ہوئے دریسوامی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بہادر سے بولا، ’’یہ چائے تمہارا باپ بنائے گا؟‘‘
’’نئیں شاب جی، ہم بنائے گا۔‘‘ بہادر نے پہلے ٹی کوزی ہٹا کر ٹی پوٹ میں چینی کی ایک کیوب ڈالا۔ پوٹ سے چائے کی بہت عمدہ اور خاص بھاپ اٹھی۔ سمپورن کو اچھی چائے کی تمیز تھی اور وہ تمیز بھی مسز کلفٹن کی لت سے آئی تھی۔ اکثر وہ چرچ گیٹ پر واقع ٹی سینٹر سے دارجلنگ کی چائے منگوایا کرتی تھیں۔ سمپورن نے وہاں چائے کے دیوانوں کی بھیڑ دیکھی تھی، کوئی دارجلنگ کی چائے نوش فرماتا تھا، کوئی اُوٹی کی یا کشمیر کی۔ کاؤنٹر پر چائے بنانا سکھایا بھی جاتا تھا۔ ایک بار تو اس نے طے کیا تھا کہ کسی چائے کمپنی میں ٹی ٹیسٹر کی نوکری کے لیے کوشش کرے گا۔ کلفٹن میاں بیوی کے ایک رشتہ دار کے کُنّور میں چائے کے باغات تھے اور وہ لوگ اکثر چھٹیاں گزارنے وہیں جایا کرتے تھے۔
’’لیجیے۔ آپ کی تعریف؟‘‘ شویندر، سمپورن سے مخاطب ہوا۔
سمپورن نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا، ’’خاکسار کو سمپورن کہتے ہیں۔ بندے کو مسز کلفٹن کا بھرپور پیار حاصل تھا۔‘‘
’’آپ کا ڈیٹ آف برتھ؟‘‘
’’۲۶ جنوری۔‘‘ سمپورن نے کہا، اس نے سن بتانے کی ضرورت نہ سمجھی۔
’’کا بولا تھا؟‘‘ دریسوامی بولا، ’’ہم چہرہ دیکھتے ہی بتا دیا تھا، آٹھ نمبری ہے۔ آج کل گردش میں ہے۔ مگر بہت اوپر جائے گا، دیکھتے رہ جاؤ گے۔‘‘
سمپورن کو یہ سننا بہت اچھا لگا۔ فی الحال تو اس کے پاس رہنے کا ٹھکانا بھی نہ تھا، سوٹ بھی ادھار کا تھا۔ اس سے رہا نہیں گیا، بولا، ’’فی الحال ایک دوست کا مہمان ہوں۔ وہ لاج میں بستر لے کر رہتا ہے۔ یہ سوٹ بھی اسی کا ہے۔‘‘
شویندر ہو ہو کر کے ہنسا۔ اسے پاک صاف اور شفاف لوگ ہمیشہ متاثر کرتے تھے۔ جب سے اس کی فلم پٹی تھی، تمام دوہرے چہرے والے اور مطلب پرست لوگوں نے پیٹھ پھیر لی تھی۔ دریسوامی اسے بہت دنوں سے خبردار کر رہا تھا، شریمان جی، جھٹکا لگے گا۔
’’دریسوامی، شیوا جی پارک والے اس فلیٹ نے کوئی اور جھٹکا دیا؟‘‘
’’اب کسی کی ہمت نہیں، وہاں رہنے کی۔ جب سے مدھومالتی پاگل ہوئی ہے، چور بھی اس کے فلیٹ کی سیڑھیاں نہیں چڑھتے۔‘‘
’’آج تک میری سمجھ نہیں آیا کہ جاڈیا جیسے وہمی آدمی نے وہ فلیٹ کیوں خریدا؟‘‘
’’جاڈیا کو رکھیل کے واسطے مکان کی تلاش تھی۔ بڑا اچھا سا نام تھا اس کی گرل فرینڈ کا، تبسم۔ کوئی نہیں جانتا، اس نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کیوں کر لی۔ جاڈیا پر بھی فالج گر گیا۔ میں نے اسے بہت پہلے خبردار کیا تھا کہ اس فلیٹ کو کوئی آٹھ نمبری ہی جھیل سکتا ہے۔ صاحب، آپ خرید لو وہ فلیٹ۔‘‘
سمپورن کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ جن حالات میں سورن کے یہاں رہتا تھا، اسے لگا، اس سے کوئی بھی جگہ بہتر ہو گی۔ اور پھر اس کا نمبر بھی تو آٹھ ہی ہے۔
’’نہ بابا نہ، میں تو پہلے ہی بہت کمزور آدمی ہوں۔ بھوت سے تو میں بچپن سے خوف کھاتا ہوں۔‘‘
’’مجھے دلا دیجئے وہ فلیٹ۔‘‘ سمپورن کے منہ سے بیساختہ نکل گیا۔
’’فلیٹ تو مل سکتا ہے، مگر میاں سوچ لو۔ اس بھوتیا فلیٹ کے ساتھ اب تک بہت سی کہانیاں وابستہ ہو چکی ہیں۔ چار چھ تو قتل ہو چکے ہوں گے، کوئی پاگل ہو گیا تو کسی نے خودکشی کر لی۔ سنتے ہیں اس فلیٹ میں ایک انگریز خاتون کی روح کی رہائش ہے۔ اس کی روح جاڈیا کے خواب میں آئی تو اسے فالج گر گیا۔‘‘
’’میری روح اس انگریز خاتون کی روح سے کم پریشان نہیں۔‘‘ سمپورن نے شویندر سے کہا، ’’سوامی جی سے کہیے کوئی اُوپائے کر دیں۔‘‘
’’کیوں سوامی؟‘‘
دریسوامی نے سمپورن کی طرف دیکھا اور بولا، ’’آٹھ نمبری چلے گا۔ دادر کے قبرستان میں ایک چھوٹا سا کام کرنا پڑے گا۔‘‘
سمپورن کو لگا کہ فلیٹ اس کو مل سکتا ہے۔ وہ شویندر کے شانے دبانے لگا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو بھائی؟‘‘ شویندر نے کہا اور سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا، ’’جگہ تو بے مثال ہے۔ ٹھیک سمندر کے کنارے۔ سمندر کے پانی کی بوچھاڑیں کھاتے کھاتے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ چکے ہیں۔ دریسوامی کے ساتھ جا کر پہلے فلیٹ دیکھ آؤ۔‘‘
’’آپ ایک گھنٹے کے لیے گاڑی کی چابی دے دیں تو ابھی دیکھ آتا ہوں۔‘‘ سمپورن نے اس کے کندھے دبانا جاری رکھا۔
’’یہ لو چابیاں۔ دریسوامی، جاؤ ان کا بھی امتحان لے لو۔‘‘
سمپورن نے چابی لی اور دریسوامی اپنا گلے میں لٹکتا تعویذ سنبھالتے ہوئے فوری طور پر اٹھ گیا، ’’چلئے، ابھی چلئے۔‘‘
سمپورن نے دریسوامی کو گاڑی میں بٹھایا اور ورلی سے ہوتا ہوا پربھا دیوی کی طرف چل دیا۔ سمندر کے کنارے کنارے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سمپورن کو لگا کہ اس کی قسمت پر لگا تالا بس کھلنے ہی والا ہے۔
پربھا دیوی سے نکلنے کے بعد دریسوامی نے گاڑی سمندر کی طرف مڑوا دی۔ سامنے سمندر تھا، سمندر سے ذرا پہلے گاڑی روکی۔ دائیں طرف دو قدم بڑھنے پر تھا وہ بھوت بنگلا۔ سمندر کے کنارے ایک اجڑی ہوئی عمارت۔ سیڑھیوں پر جالے لگے تھے اور دھول کی پرت جمی تھی۔ لکڑی کی سیڑھیاں تھیں اور دیواروں پر جیسے زمانے سے پتائی نہیں ہوئی تھی۔ اونچی کرسی پر بنا تھا وہ بھوتیا فلیٹ۔ دروازے پر دھول اور مکڑیوں کی آماجگاہ تھی۔ بیچ دروازے میں ایک پرانا باوا آدم کے زمانے کا تالا لٹک رہا تھا۔ تالے کے ہول میں سفید رنگ کی پرت جمی تھی جیسے کسی مکڑی کا مسکن ہو۔
’’یہ ہے فلیٹ۔‘‘ دریسوامی بولا۔
’’چابی کس کے پاس ہے؟‘‘
’’جاڈیا کے پاس تھی۔ سنتے ہیں، اس پر فالج گرا تو چابی سمندر میں پھنکوا دی۔‘‘
’’کیسے کھلے گا؟‘‘
’’ہتھوڑی سے۔‘‘ دریسوامی بولا، ’’ویسے جاڈیا کو میں جتنا جانتا ہوں وہ چابیاں پھینک نہیں سکتا۔‘‘
’’ہتھوڑی کہاں ملے گی؟‘‘
’’چابی ہی مل سکتی ہے۔‘‘ دریسوامی نے کہا، ’’ہفتے کو طلوع آفتاب کے وقت اندر جانا مناسب ہو گا۔‘‘
فلیٹ میں جھانکنے کی بھی کوئی جگاڑ نہیں تھی۔ نیچے آ کر ان لوگوں نے اوپر دیکھا، سمندر کی طرف چار بڑی بڑی کھڑکیاں کھلتی تھیں۔ سبھی کھڑکیاں بند تھیں۔ چار ہی کھڑکیاں مغرب کی طرف بھی تھیں۔ نیچے کسی کمپنی کا گودام تھا، اس کا دروازہ باہر مرکزی سڑک کی طرف کھلتا تھا۔
طے پایا کہ دریسوامی ہفتے کی صبح طلوع آفتاب کے وقت سمپورن کو یہیں ملے گا۔ اس دوران وہ جاڈیا سے بھی مل لے گا۔ دریسوامی کو کالبا دیوی جانا تھا، سمپورن نے اسے کالبا دیوی پر اتارا۔ دریسوامی گاڑی سے اتر کر بھیڑ میں گھسا ہی تھا، کہ گاڑی بند ہو گئی۔ سمپورن نے بونٹ کھول کر تار وار ہلائے، مگر گاڑی جیسے بے روح ہو گئی تھی۔ گاڑی بیچ سڑک میں کھڑی ہو گئی تھی، آگے پیچھے ٹریفک جام ہونے لگا۔ سمپورن نے گیئر نیوٹرل میں ڈالا اور مدد کے لیے چاروں جانب نگاہ دوڑائی۔ کسی کے پاس فرصت نہ تھی۔ پیچھے کسی مارواڑی کی گاڑی تھی۔ اس کا ڈرائیور اترا اور سمپورن کی کار کے اسٹیئرنگ پر بیٹھ گیا، سمپورن نے پوری طاقت لگا کر دھکیل کر گاڑی کنارے کر دی۔ ڈرائیور نے اپنے لئے جگہ بنا لی تھی اور سمپورن کو پٹرول چیک کرنے کے لیے کہا اور پھُر سے نکل گیا۔ سمپورن نے دیکھا، گاڑی میں واقعی پٹرول نہیں تھا۔ یہ ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس نے گاڑی لاک کی اور ٹیکسی روک کر پٹرول کی تلاش میں نکل گیا۔
سمپورن پٹرول لے کر لوٹا تو دوپہر ڈھل چکی تھی۔ اس نے صبح سے فقط دو کپ چائے پی تھی۔ اب بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اس نے سوچا گاڑی شویندر کے یہاں پہنچا کر ہی کہیں ناشتہ کرے گا۔ سمپورن وہمی اور ضعیف الاعتقاد نہیں تھا، مگر اسے لگ رہا تھا کہ بھوت بنگلے نے کارنامہ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ اس بھوتیا فلیٹ کو محض دیکھنے ہی سے کھانا نہیں ملا تھا، وہاں رہنے پر کیا ہو گا! سمپورن، شویندر کے یہاں پہنچا تو وہ بالکنی میں بیٹھا فکرات میں ڈوبا ہوا تھا۔ چاروں طرف گھوڑوں سے متعلق متفرق مواد اور کتب و رسائل بکھرے ہوئے تھے۔ وہ کسی ریسرچ اسکالر کی طرح کبھی ایک کتاب اٹھاتا کبھی دوسری۔ جب تک وہ مصروف رہا، سمپورن اس کے پاس ہی کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے سمپورن کو دیکھا اور پوچھا، ’’دیکھ آئے فلیٹ، برخوردار؟‘‘
’’جی، باہر سے دیکھ آیا ہوں۔‘‘
’’کیا اب بھی اس میں رہنے کا دم بھر سکتے ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں!‘‘ سمپورن نے کہا، ’’کالج کے دنوں میں، میں کئی بار شرط جیتنے کے لئے آدھی رات کو شمشان میں ٹہل آتا تھا۔ مجھے تو کبھی خوف نہیں لگا۔‘‘
’’دُرے کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
’’اس نے ہفتے کی صبح بلایا ہے۔‘‘
’’بہتر ہے۔ میں نے ابھی جاڈیا سے بات کی تھی۔‘‘ شویندر نے کہا، ’’اس نے بتایا کہ اسے کسی نجومی نے بتایا ہے کہ فلیٹ میں کوئی رہے گا تو بھوت کم سے کم جاڈیا کا پیچھا چھوڑ دیں گے۔‘‘
’’کیا میرے پیچھے پڑ جائیں گے؟‘‘
’’پڑ بھی سکتے ہیں۔‘‘
’’زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ سمپورن نے جیسے اپنے آپ سے پوچھا۔
’’کم از کم یہ تو ہو ہی سکتا ہے کہ تم بھی مدھو مالتی کی طرح پاگل ہو جاؤ۔‘‘
’’میں تو پہلے سے ہی پاگل ہوں۔ پاگل نہ ہوتا تو اپنے باپ کا لمبا چوڑا کاروبار چھوڑ کر بمبئی کیوں چلا آتا!‘‘
’’بہر حال، برخوردار غور کر لو۔ میں نے جاڈیا سے بات کی ہے، پیڈر روڈ پر کیمپ کارنر کے پیچھے رہتا ہے۔ ابھی جا کر مل لو۔‘‘ شویندر نے اپنے پرس سے جاڈیا کا ویزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کے حوالے کر دیا۔ سمپورن کے دل میں آیا، ان سے گاڑی پھر مانگ لے، مگر آج گاڑی نے اسے بہت پریشان کیا تھا، دوسرے گاڑی چھوڑنے دوبارہ چرچ گیٹ آنا پڑے گا۔ اس نے شویندر کا فون نمبر بھی اسی کارڈ کے پیچھے لکھا اور سلام کر کے سیڑھیاں اتر گیا۔
٭٭٭
کیوں آگ سے کھیلنا چاہتے ہو نوجوان
جاڈیا کے بنگلے کے سامنے پہنچ کر اس نے ٹیکسی کو رکنے کے لئے کہا اور چوکیدار سے اپنا وزیٹنگ کارڈ اندر بھجوایا۔ اسی پر اس نے لکھ دیا کیئر آف شویندر کمار۔
چوکیدار اسے اندر لے گیا اور ایک حد سے زیادہ خوبصورت عورت نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ سمپورن فیصلہ نہیں کر پایا کہ یہ جاڈیا کی بیوی ہے یا بیٹی۔ اگر یہ جاڈیا کی بیوی ہے تو جاڈیا بھی ابھی جوان ہو گا۔ اگر بیٹی ہو گی تو جاڈیا لازمی خوبصورت آدمی ہو گا۔ ڈرائنگ روم میں قیمتی کشمیری قالین بچھا تھا اور فرنیچر کی شکل صورت سے ہی اس کے دام کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ کسی ماہر انٹیرئیر ڈیکوریٹر کی چھاپ پورے ماحول میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اندر سے چائے چلی آئی، جبکہ سمپورن بے حد بھوکا تھا۔ اس وقت وہ کسی کھانے کی چیز کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پہلا گھونٹ بھرتے ہی سمپورن نے پیالہ رکھ دیا۔ ایکدم ٹھنڈی چائے تھی، لگ رہا تھا الائچی اور چینی کا جوشاندہ ہے۔ وہ جلد سے جلد یہاں سے رخصت ہو جانا چاہتا تھا۔ شویندر نے ایک جھام اور پھنسا دیا تھا کہ جاڈیا سے جو بات ہو، اس کی خبر جا کر فوراً دینی تھی۔ اس کے بات کرنے کے انداز سے ہی لگ رہا تھا کہ خبر دینے کے لئے اسے دوبارہ چرچ گیٹ جانا اس کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ ٹیکسی والے کی الگ فکر تھی کہ وہ مفت میں انتظار نہیں کر رہا ہو گا۔ بہرحال، آج اس کی جیب میں پیسے تھے۔
کوئی چالیس منٹ کے انتظار کے بعد اسے ایک آدمی پورچ کے راستے بیڈروم میں لے گیا۔ اس نے پردہ ہٹا دیا۔ سمپورن نے دیکھا، دو تین موٹے کشن لگا کر ایک ادھیڑ آدمی بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا، ابھی ابھی اس کی شیو بنائی گئی ہے اور کپڑے بدلے گئے ہیں۔ ایک طرف سے چہرے مسخ سا لگ رہا تھا۔
’’مجھے شویندر کمار نے بھیجا ہے۔‘‘ سمپورن نے کہا۔
اس نے دائیں ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سمپورن کرسی پر بیٹھ گیا۔ بات چیت شروع ہوتی، اس سے پہلے ہی ایک سوٹیڈ بوٹیڈ نوجوان چیک بک اور دوسرے کاغذات لے کر کمرے میں داخل ہوا۔
’’آؤ۔‘‘ جاڈیا نے کہا۔ ’’آؤ‘‘ کہنے میں ہی اس کا چہرہ تھوڑا بگڑ گیا تھا، مگر اس کی بات واضح طور پر سمجھ میں آ گئی۔ اس نوجوان نے جاڈیا کی پشت پر ایک اور تکیہ لگایا، میز پر سے چشمہ اٹھا کر اسے پہنایا، قلم کھول کر ہاتھ میں تھمایا اور کلپ بورڈ میں جڑی ہوئی چیک بک کا ایک ایک پاس پلٹنے لگا۔ جاڈیا بغیر چیک کی طرف دیکھے مشینی طریقے سے دستخط کرتا رہا۔ لگ رہا تھا جیسے پوری چیک بک پر آج ہی دستخط کرنے ہوں گے۔ دستخط ہو گئے تو اس نوجوان نے پین لے کر ڈھکن چڑھایا، چشمہ اتارا، اضافی تکیا ہٹا دیا اور اسے پہلے والی حالت میں لٹا دیا۔
’’دمینتی بین کے دستخط پہلے لیا کرو۔‘‘
’’جی سر۔‘‘ نوجوان نے کہا، ’’دمینتی بین نے ہی آپ کے پاس بھیجا تھا۔‘‘
جاڈیا نے ہاتھ سے اشارہ کیا، پھوٹو یہاں سے۔ وہ ادب سے باہر چلا گیا۔ جاڈیا نے بستر پر رکھی گھنٹی دبائی۔ کچھ دیر میں ایک خادم نازل ہوا۔
’’چائے۔‘‘ جاڈیا نے کہا۔
’’میں چائے نہیں پیتا۔‘‘
’’کیا پیتے ہو؟‘‘
سمپورن نے ہاتھ جوڑ دیئے۔
’’کیوں مرنا چاہتے ہو؟‘‘ جاڈیا بہت جد و جہد کے بعد اتنا ہی کہہ پایا۔
’’سب کو مرنا ہے، سر۔‘‘
جاڈیا نے سر ہلایا جیسے کہہ رہا ہو، ٹھیک بات ہے، سب کو مرنا ہے۔ کچھ دیر سناٹا رہا۔ جاڈیا نے پھر گھنٹی دبائی۔ وہی خادم پھر نازل ہو گیا۔
’’دمینتی۔‘‘ اس نے کہا۔
کوئی پندرہ منٹ کے بعد دمینتی کمرے میں داخل ہوئیں۔ یہ وہی خاتون تھیں، جنہوں نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا تھا۔ وہ کہیں جانے کے لئے تیار ہو کر آئی تھیں۔ وہ پہلے سے بھی جوان اور خوبصورت لگ رہی تھیں۔
’’دادر والا فلیٹ۔ شویندر۔ بتاؤ انہیں۔‘‘
وہ جلدی میں تھیں، پھر بھی انہوں نے کھڑے کھڑے اختصار میں اتنا بتایا کہ اسی فلیٹ نے ان کی یہ کی حالت ہے۔ وہ بھوتیا فلیٹ ہے۔ اس میں کتنے ہی حادثات ہو چکے ہیں۔ قتل، خودکشی، عصمت دری، دیوانگی، مقدمے بازی کے علاوہ اس میں رہنے والوں کا دیوالا تک گڑہی چکا ہے۔
’’دریسوامی؟ خدا بچائے اس۔ بہت خطرناک آدمی ہے۔ وہ تو جیسے ودھاتا کا ایجنٹ ہے۔ پورے کا پورا یم دوت۔ اسی نے ہم لوگوں کو کوڑی کے مول سے یہ فلیٹ دلوایا تھا۔ نتیجہ دیکھ رہے ہیں، میرے شوہر تب سے پلنگ سے لگے ہیں۔ جانے اس نے ان پر کیا جادو کر دیا ہے، وہ کہے گا تو یہ ساری کی ساری پراپرٹی آپ کے نام کر دیں گے۔ اس نے آپ کو بھیجا ہے، آپ خطرہ اٹھا سکتے ہیں تو اس میں رہیے۔‘‘
جاڈیا بیچ بیچ میں بولنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر اس عورت نے اسے بولنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس نے بتایا، ’’للت کو بھی اسی نے بھیجا تھا، اس کا کیا حشر ہوا، آپ نے بھی اخبار میں پڑھا ہو گا۔ اسی نے شویندر کو نوکری چھوڑنے کی رائے دی تھی، اس کی فلم کا کیا حشر ہوا، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ میری مانیں، اس فلیٹ کے چکر میں مت پڑیں، آپ پر بھوت سوار ہو چکا ہو تو جائیے رہ کر دیکھ لیجئے۔ میں منیجر کو فون کر دوں گی، ابھی جا کر لیو اینڈ لائسنس ایگریمنٹ کر لیجیے۔ نو پگڑی، کرایہ بھی فقط پچاس روپے، وہ بھی خیراتی اکاؤنٹ میں ٹرسٹ کے نام۔ چابی منیجر کے پاس ہے، ورلی میں دمینتی کنسٹرکشن کا دفتر آپ نے دیکھا ہو گا، اینی بیسینٹ روڈ پر۔‘‘
سمپورن سمجھ رہا تھا، دمینتی بین جلدی میں ہیں اور کسی طرح اپنی بات ختم کر رخصت لینا چاہتی ہیں۔ جاڈیا نے اس سے بہت مشکل سے مختصراً کچھ کہا اور دمینتی بین نے وہی بات دہرا دی، ’’میں دفتر ہی جا رہی ہوں۔ انہیں اپنے ساتھ ہی لے جاؤں گی۔‘‘
سمپورن کہنا چاہتا تھا کہ اس کی ٹیکسی باہر کھڑی ہے، مگر ایک لحظے کے لیے اس کے دماغ میں یہ بات بھی کوند گئی کہ دمینتی کے ساتھ جانے کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ اسے ٹیکسی والے کے نخرے نہیں برداشت کرنے پڑیں گے۔ ہو سکتا ہے، یہاں تک پہنچنے کا کرایہ بھی نہ دینا پڑے۔ بہت ٹھگا کرتے ہیں یہ ٹیکسی والے، آج اُس کا کرشمہ بھی دیکھ لیں۔ وہ دمینتی بین کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھ تو گیا، مگر اسے راستے بھر ٹیکسی والے کا دھیان آتا رہا۔ اس نے طے کیا کہ ورلی سے لوٹتے ہوئے اگر وہ کھڑا ملا تو اس کا کرایہ چکا دے گا۔
گاڑی میں دمینتی بین نے اسے ڈرائیور کے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس سے بات تک کرنا گوارا نہ سمجھا۔ وہ ان کے پیچھے پیچھے دفتر میں پہنچ گیا، جو گیارہویں منزل پر تھا۔ یہاں پہنچ کر اس نے پایا، وہی نوجوان بہت دھڑ لے سے اپنے کیبن میں فون پر جٹا تھا، جو ابھی کچھ دیر پہلے لگ بھگ دوہرے ہوتے ہوئے جاڈیا سے چیک پر دستخط کروا رہا تھا۔ دمینتی بین کو دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے فون فوراً کاٹ دیا اور دمینتی بین کے سامنے مستعد ہو کر کھڑا ہو گیا۔ دمینتی بین اپنے کیبن میں گھس گئیں اور وہ نوجوان ان کے پیچھے چل دیا۔ کسی نے سمپورن سے بیٹھنے کے لئے بھی نہ کہا۔ کچھ دیر بعد وہ نوجوان کیبن سے باہر آئے اور بولا، ’’ارے آپ کھڑے کیوں ہیں؟ تشریف رکھیں۔‘‘
سمپورن کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’آپ شویندر صاحب کو کب سے جانتے ہیں؟‘‘
بہت ٹیڑھاسوال تھا۔ سمپورن یہ بتا کر اپنا بنا بنایا کھیل ختم نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ آج صبح سے انہیں جانتا ہے۔ اس نے نہایت سادگی سے کہا، ’’ان کا ہمارا تو جنم جنم کا ساتھ ہے۔‘‘ سمپورن کی بات سے وہ نوجوان بہت متاثر ہوا۔ اس نے فوری طور پر شویندر کو فون ملایا اور بتایا کہ ان کا کام آج ہو جائے گا۔
’’کون سا کام؟‘‘ ادھر سے شاید شویندر نے پوچھ لیا۔
’’ارے آپ بھول گیا، وہی دادر والے فلیٹ کا کام۔‘‘ پھر دونوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور بھوت پریتوں کی ستائش کرنے لگے۔ سمپورن کو لگا جیسے وہ لوگ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ کسی کی موت آئی ہو تو وہ کیا کر سکتے ہیں! نوجوان نے شویندر کو انکم ٹیکس کمشنر کارنک صاحب سے ہوئی بات چیت کا خلاصہ دیا اور کال دمینتی بین کے کمرے میں ٹرانسفر کر دی۔
’’فلیٹ کے بارے میں تو آپ اب تک سب کچھ جان ہی چکے ہوں گے، جہاں تک معاہدے کا تعلق ہے، وہ گھنٹے بھر میں تیار ہو جائے گا، آپ اس وقت تک چائے نوش فرمائیں۔ ایگریمنٹ پر شویندر جی کے بھی دستخط ہوں گے۔ آپ ان سے دستخط کروا کر آج ہی دے دیں، کل دمینتی بین بچوں سے ملنے لندن جا رہی ہیں۔ جاڈیا صاحب کا علاج بھی وہیں کے ڈاکٹر کر رہے ہیں، وہ بھی ساتھ جا رہے ہیں۔ آپ معاف کیجئے گا، مجھے پیچھے کے تمام کام سمجھنے ہیں، آپ پاٹل سے باقی سب سمجھ لیں۔ اب وہی آپ کا ایگریمنٹ بنا کر لا رہا ہے۔‘‘
سمپورن کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ جانے صبح کس کا منہ دیکھا تھا کہ اناج کا ایک دانہ بھی پیٹ میں نہیں گیا تھا۔ صبح وہ گھر سے نکلا تھا تو اس کے تصور میں دور دور تک بھی فلیٹ کا خیال نہیں تھا اور اب یہ فلیٹ ایسا چپکا تھا کہ لگ رہا تھا اسے آج ہی ملنا ہے۔ لوگ پگڑی کی رقم لئے فلیٹ کی تلاش میں بے حال رہتے ہیں اور ایک اس کی تقدیر ہے کہ فلیٹ سائے کی طرح اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس نے خود کو ڈرانے کی بھرپور کوشش کی، مگر اس کا حوصلہ اتنا بلند تھا کہ اس نے خدشات پر غور کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔
منیجر کی میز پر امپورٹیڈ سگریٹ کا پیکٹ اور اس کے اوپر ایک خوبصورت لائٹر پڑا تھا۔ وہ الٹ پلٹ کر لائٹر کا جائزہ لیتا رہا اور پھر ایک سگریٹ نکال کر سلگا لی۔ لائٹر نے میوزک کی آواز کے ساتھ سگریٹ سلگا دی۔ سمپورن نے فوراً لائٹر بند کر دیا، جیسے وہ اس کی چوری کی دہائی دے رہا ہو۔ دمینتی بین کے کیبن کے آگے میز پر ایک چپراسی اونگھ رہا تھا۔ سمپورن کو تجسس ہو رہا تھا کہ دمینتی بین اندر کیا کر رہی ہیں۔ ایک پل کیلئے اس کے دماغ میں بہت فحش قسم کے خیالات اٹھے۔ اس طرف اس نے زیادہ تصوراتی گھوڑے بھی نہیں دوڑائے۔ اس کی بلا سے دفتر کا کام کرے یا بھاڑ میں جائے۔ وہ جلد از جلد یہاں سے بھاگنا چاہتا تھا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم روٹی بھاجی ہی کھانے کو مل جائے۔ اس نے برآمدے میں ڈبے والوں کو ڈبے اٹھا کر لے جاتے دیکھا تو اندازہ لگایا، دوپہر کے کھانے کا وقت بھی نکل چکا ہے۔ تبھی ایک چپراسی سمپورن کے پاس آیا اور بولا، ’’پاٹل بابو بلات ہیں۔‘‘
سمپورن اٹھا اور اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ پاٹل کھانے کے بعد پہلی سگریٹ پھونک رہا تھا۔ چہرہ ستا ہوا، ایک ایک ہڈی جیسے اپنا سائز بتا رہی تھی۔ پاٹل نے اوپر سے نیچے تک سمپورن کو کئی بار دیکھا اور اس کے چہرے پر ایسے تیور نمودار ہوئے جیسے قربانی کے بکرے کو دیکھ رہا ہو۔ پوچھا، ’’کیوں بھائی، کیوں اٹھانا چاہتے ہو یہ جوکھم؟‘‘
پاٹل کے چہرے پر خدشات دیکھ سمپورن کو لگا کہ جیسے وہ سچ مچ اپنی موت کے کاغذوں پر دستخط کرنے جا رہا ہے۔ پاٹل سامنے پڑی فائل کے صفحات پلٹنے لگا۔ وہ ایک ایک صفحہ دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے پر مردنی دوڑ رہی تھی، ’’میرا فرض ہے سب کو آگاہ کرنا۔ میں اور کر ہی کیا سکتا ہوں! مدھومالتی کو بھی میں نے بہت سمجھایا تھا، مگر میری کوئی نہیں سنتا۔‘‘ اس نے آنکھ اٹھا کر سمپورن کی طرف دیکھا، ’’آپ بھی نہ سمجھو گے، میں جانتا ہوں۔ بعد میں مجھے دوش نہ دینا۔‘‘
اس نے معاہدے کے کاغذ سمپورن کے سامنے پھیلا دیئے، ’’آپ بھی دستخط کر دیجئے۔ گواہ کے دستخط کروا کر چار بجے تک پہنچا دیں، میں چابی دے دوں گا۔‘‘ سمپورن نے بحث میں پڑنا مناسب نہ سمجھا، بحث میں پڑنے کا مطلب تھا، قتل، خودکشی اور پاگل پنے کی کہانیوں کی تکرار۔ اس نے فائل اٹھائی اور پاٹل سے ہاتھ ملا کر دفتر سے باہر آ گیا۔ وہ شویندر کے دستخط لے کر چار بجے تک فائل لوٹا دینا چاہتا تھا۔ دمینتی بدیس نکل گئی تو معاملہ کئی ماہ کیلئے کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ راستے میں اس نے کہیں رک کر ناشتہ کرنے کے بارے میں سوچا، مگر اس کے پاس وقت نہیں تھا۔ وہ ورلی سے ٹیکسی لے کر سیدھا چرچ گیٹ کی طرف چل دیا۔ اسے فکر ہو رہی تھی کہ کہیں شویندر اب تک گھر سے نہ نکل گئے ہوں۔ انڈس کورٹ کے سامنے ٹیکسی سے اتر کر سیدھا دوڑ کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے شویندر کے فلیٹ تک پہنچا۔ اس نے جلدی میں دو تین بار گھنٹی بجا دی۔
دروازہ شویندر نے ہی کھولا۔ گھنٹی کے اس بے جا استعمال سے وہ اداس نظر آ رہا تھا، مگر سمپورن کو دیکھ کر اسے سکون ہی ملا تھا۔ شاید وہ کسی تقاضے دار کے آنے کے خدشے سے اکھڑ گیا تھا۔ فلم فیل ہو جاتی ہے تو تقاضے دار بہت پریشان کرتے ہیں، وہ اپنے سرمایہ کو لے کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ جب خط کتابت، ٹیلی فون پر وصولی نہیں ہوتی تو دروازہ کھٹکھٹانے لگتے ہیں۔ شویندر کو ایسے لوگوں سے نفرت ہے۔ اسے یقین ہے جو چھوٹی موٹی رقوم بقایا رہ گئی ہیں، وہ انہیں بھی جلد ہی چکا دے گا۔ دو فلیٹ ابھی اس نے بچا کر رکھے ہیں۔ سمپورن، شویندر کے ساتھ ساتھ بالکنی تک چلا آیا۔ بالکنی میں ایک بوڑھی سی عورت مونڈھے پر بیٹھی کسی زنانہ قسم کے میگزین کے صفحات پلٹ رہی تھی۔ اس نے سرسری طور پر سمپورن کی طرف دیکھا اور دوبارہ صفحے پلٹنے لگی۔ سمپورن کو لگا، ہو سکتا ہو شویندر کی ماتا جی ہوں۔ اس نے بہت مودبانہ انداز میں انہیں نمسکار کیا۔
’’ڈولی سنتی ہو، یہی ہے سمپورن جو بھوتیا فلیٹ میں شفٹ ہونے کو بے قرار ہے۔‘‘ شویندر نے سمپورن سے اس کا تعارف کروایا، ’’مائی وائف ڈولی۔‘‘
سمپورن نے ایک بار پھر ہاتھ جوڑ دیے اور ایک نظر پھر اس عورت کی طرف دیکھا۔ وہ پڑھی لکھی خوبصورت خاتون تھی، اب کی بار اسے اتنی عمر رسیدہ بھی نہ لگی۔ چہرے کی جلد میں ابھی بھی کھنچاؤ تھا، بال ضرور سفید ہو گئے تھے۔ اگر بال رنگ لیتی تو عمرسے دس سال چھوٹی لگ سکتی تھی۔ شویندر کے تمام بال سیاہ تھے۔ سمپورن کو لگا کہ شاید وہ کم عمر دِکھنے کے لئے انہیں رنگتا ہے، مگر ایسا نہیں تھا، اس کی کنپٹیوں کے بال سفید ہو رہے تھے۔ کندھے ابھی جھکے نہیں تھے اور وہ تن کر بیٹھتا تھا۔
’’ایگری منٹ لائے ہو؟ لاؤ دو، دستخط کر دوں۔ جاڈیا کے پاؤں قبر میں ہیں، مگر فلیٹ پر قانونی حق نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس کے خیراتی ٹرسٹ کا میں بھی ٹرسٹی ہوں۔‘‘ شویندر نے کاغذوں پر دو ایک جگہ اپنے دستخط گھسیٹ دیے۔
’’جاڈیا آج رات کی فلائٹ سے ولایت چلا جائے گا۔ وہ جہاز میں بیٹھنے سے پہلے فلیٹ کسی کو سونپ دینا چاہتا ہے۔‘‘ شویندر نے بتایا، ’’ضروری نہیں آپ بھی وہاں رہو ہی۔ اس سے چابی لے لو۔ سوچ سمجھ لو، دریسوامی سے رائے لے لو، ورنہ جاڈیا لوٹ آئے تو چابی لوٹا دو۔ ویسے دریسوامی کہہ رہا تھا جاڈیا جلد نہ لوٹے گا۔‘‘
سمپورن نے کاغذ لے لیے اور کھڑا ہو گیا، ’’آپ کا بہت شکرگزار ہوں۔ آپ نے بغیر جان پہچان کے بھی میرے لئے اتنی زحمت اٹھائی۔‘‘
’’نیور مائینڈ۔‘‘ شویندر نے کہا، ’’کیپ میٹنگ۔‘‘
’’تھینک یو سر۔‘‘ اتنا کہہ کر سمپورن باہر نکل آیا اور سیدھا ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا، فلیٹ کی چابی لینے کے بعد ہی اب وہ کچھ کھائے گا۔ چار بج رہے تھے، اسے ورلی پہنچنے کی جلدی تھی۔ دمینتی کنسٹرکشن کے دفتر پہنچ کر اس نے جانا کہ ہال میں میٹنگ چل رہی تھی۔ سبھی کرسیاں خالی تھیں۔ شاید بیرونِ ملک جانے سے پہلے دمینتی بین تمام ملازمین کے ساتھ میٹنگ کر رہی تھیں۔ اندر ناشتے کا بندوبست تھا اور نمکین اور مٹھائیوں کی طشتریاں لے کر چپراسی لوگ بڑی تیاری سے ہال میں جا رہے تھے۔ سمپورن کو صبح دمینتی بین کے کمرے کے آگے بیٹھا چپراسی نظر آیا تو اس نے عاجزانہ لہجے میں کہا، ’’پاٹل بابو نے چار بجے بلایا تھا۔ یہ چٹ ان تک پہنچا دو۔‘‘ سمپورن نے ایک چٹ پر ’’سمپورن، کیئر آف شویندر کمار‘‘ لکھ کر چٹ اسے تھما دی اور باہر چپراسی کے اسٹول پر ہی بیٹھ گیا۔ کوئی دس منٹ بعد وہ چپراسی لوٹا اور اس نے اطلاع دی کہ آپ پاٹل بابو کے کیبن میں انتظار کریں۔ سمپورن نے ’’او شٹ‘‘ کہا اور پاٹل بابو کے کیبن میں گھس گیا۔ پاٹل بابو کا کیبن ٹھنڈا تھا۔ اندر پہنچ کر اسے خیال آیا کہ کیوں نہ ناشتہ ہی کر لیا جائے! اس نے کیبن سے باہر جھانک کر دیکھا، اندر کافی جا رہی تھی۔ اس نے ایک سیٹی بجا کر ایک چپراسی کو بلایا اور کافی کا ایک کپ اٹھا لیا، ’’کچھ کھانے کے لئے بھی دے جاؤ۔‘‘ اس نے دھڑ لے سے کہا اور کیبن میں آ کر بیٹھ گیا۔ اسے امید تھی، چپراسی ابھی ناشتے کی پلیٹ لے کر حاضر ہو گا، مگر وہ آدھے گھنٹے تک نہیں آیا۔ کیبن میں سگریٹ کا بھی کوئی پیکٹ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ نیچے جا کر ناشتا کرنے یا سگریٹ پینے کا خطرہ بھی نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ اسے خطرہ تھا کہ کہیں اس دوران پاٹل آ کر نکل نہ جائے۔ اسے کچھ اور نہ سوجھا تو سامنے فون دیکھ کر سورن کو فون ملایا۔
’’میں سمپورن بول رہا ہوں سورن۔ صبح سے میرے ساتھ عجیب حادثے ہو رہے ہیں۔ مسز کلفٹن اپنے دفتر کا کمرہ گفٹ کر گئی ہیں اور امید ہے گھنٹے بھر میں سی فیس پر ایک فلیٹ بھی مل جائے گا۔‘‘
’’کیا بک رہے ہو؟‘‘
’’ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ تم دفتر میں انتظار کرو، میں فرصت پاتے ہی ملوں گا۔ آج ہی فلیٹ کا پزیشن ملنے کی بات ہے۔‘‘
’’لگتا ہے تمہارا دماغ چل نکلا ہے۔‘‘
’’شٹ اپ۔ میرا انتظار کرنا، ورنہ پچھتاؤ گے۔‘‘
٭٭٭
اینٹ کے نیچے ملی چابی کی لاش
سمپورن کا ایک دوست مرچنٹ نیوی میں بھی تھا، چنّی۔ وہ بھی آج کل چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ وہ نو مہینے شپ پر رہتا تھا (اس کی بیوی ریکھا کو سمپورن نے گزشتہ دنوں ایک نوجوان کے ساتھ جوہو پر سوئمنگ کاسٹیوم میں دیکھا تھا۔ ریکھا نے بھی اسے دیکھ لیا تھا اور اگلے روز دوپہر کے کھانے پر بلایا تھا۔ سمپورن لنچ پر گیا تو اس نے کھانا کھاتے کھاتے اچانک سمپورن کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس سے قسم لی تھی کہ وہ چنّی سے اس کا ذکر نہ کرے گا۔) چنّی نے بھی سمپورن کو اپنی محبوباؤں کے بیسیوں قصے سناچکا تھا۔ دنیا میں ہر جگہ اس کی لڑکیوں پھیلی ہوئی تھیں۔ سمپورن اس کی بات سن کر ہر بار اس سے کہتا تھا، ’’سالے، تمہیں ایک دن ایڈز ہو جائے گا۔‘‘
چنّی کو یقین تھا کہ دنیا میں ایڈز نام کی کوئی بیماری ہی نہیں ہے، یہ سب ادویہ ساز کمپنیوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ گزشتہ دنوں لاج میں اس کا فون آیا تھا، مگر سمپورن اس سے رابطہ ہی نہ کر پایا۔ اس نے جیب سے اپنی ٹیلی فون ڈائری نکالی اور چنّی کو فون ملایا۔
ریکھا نے فون اٹھایا، ’’ریکھا چنّی۔‘‘
’’ہیلو ریکھا۔ سمپورن بول رہا ہوں۔ تمہارا شپنگ میگنٹ کہاں ہے؟‘‘
’’ہائے سمپورن۔‘‘ چنّی کی آواز تھی۔
’’کیا رپورٹ ہے؟‘‘
’’کا ہے کی؟‘‘
’’وہی، ایچ آئی وی کا کیا حال ہے؟‘‘
’’ہٹ۔‘‘ چنّی نے کہا، ’’شام کو چلے آؤ۔ تمہارے لئے وائیٹ رَم لایا ہوں۔‘‘
’’چکن وغیرہ کھلاؤ تو آؤں۔‘‘
’’تم بھی کیا یاد کرو گے! کالی مرچ کا مرغا کھلاؤں گا۔ رومالی روٹی لیتے آنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، انتظار کرنا۔ صبح سے منہ میں اناج کا ایک دانہ نہیں گیا۔‘‘ سمپورن نے پوچھا، ’’چنا کیسی ہے؟‘‘
’’مزے میں ہے۔‘‘ چنّی بولا۔
چنّی کی بیٹی کا نام تھا، سنا۔ پڑوس کے بچے کو اس کو چنا کہتے تھے۔ اس کے بعد سے اس کا نام ہی چنا پڑ گیا تھا۔
سمپورن نے رسیور رکھا اور فوری طور پر اپنے نئے آفس کا فون ملانے لگا، یہ دیکھنے کیلئے کہ گھنٹی جا رہی ہے یا نہیں۔ گھنٹی جا رہی تھی۔ وہ کاغذ قلم اٹھا کر اپنے وزیٹنگ کارڈ کا خاکہ تیار کرنے لگا۔ بمبئی میں کتنے لوگ ہوں گے جن کے پاس ٹیلی فون نمبر اور سی فیس پر فلیٹ ہے۔ سمپورن کو معلوم تھا کہ مسز کلفٹن جو کیبن چھوڑ گئی ہیں، اس میں تین چار کرسیاں اور ایک میز سے زیادہ سامان نہیں آ سکتا۔ وہ اسی کیبن میں بیٹھتی تھیں۔ ایک طرح سے یہ ’’کلفٹن پارک اینڈ لی‘‘ کے ریسیپشن کا کونا تھا۔ برسوں سے مسز کلفٹن نے اپنے شوہر کیلئے ریسیپشنٹ کا کام کیا تھا۔
بمبئی میں غیر ملکی میگزینوں کی درآمد کا ان کا لمبا چوڑا کاروبار تھا۔ وہ لوگ دنیا کے سبھی میگزینوں کے اکلوتے ڈسٹری بیوٹر تھے۔ سمپورن نے بمشکل ایک برس تک ان کے یہاں بطور اسسٹنٹ منیجر کام کیا تھا۔ بمبئی میں فرم کے بیسیوں نمائندے تھے، سمپورن ہی انہیں مانیٹر کرتا تھا۔ بہت سے لوگ کمیشن کے بل پر اپنا کام چلا رہے تھے۔ ہر نمائندہ دن بھر میں پندرہ بیس کسٹمر بنا لیتا تھا۔ چیک کیش ہوتے ہی انہیں کمیشن دے دیا جاتا تھا۔ سمپورن کے پاس یہی ایک کام تھا۔ گزشتہ ایک برس سے مسٹر اینڈمسزکلفٹن بس مارکیٹ سے اپنا پیسہ نکال رہے تھے۔ آہستہ آہستہ کاروبار کو سمیٹ رہے تھے۔ مسٹر کلفٹن کی موت کے بعد مسز کلفٹن کی اس کام میں، اس شہر میں، یہاں تک کہ اس دفتر میں بھی کوئی دلچسپی نہ رہ گئی تھی۔ وہ اپنے بچوں کے پاس انگلینڈ واپس جانا چاہتی تھیں۔ اب ’’کلفٹن پارک اینڈ لی‘‘ کا وجود ہی ختم ہو گیا تھا۔ سمپورن نے طے کیا، وہ اپنے چھوٹے سے کیبن سے اس فرم کو دوبارہ کھڑا کر کے دکھائے گا۔ اس دوران ان تمام رسالوں کی سول ایجنسی دوسرے لوگوں نے لے لی تھی۔ سمپورن کا ان سے بھی تعارف تھا۔
پاٹل کا انتظار کرتے کرتے اس نے طے کیا کہ شروع میں وہ کسی ڈسٹری بیوٹر کا سب ایجنٹ بن جائے گا۔ لیکن یہ بعد کی باتیں تھیں۔ فی الحال وہ پاٹل کے انتظار میں تھا۔ اسے لگ رہا تھا، آج کا دن اس کی زندگی کا اہم ترین دن ثابت ہو گا۔ یہ طے ہوتے ہی کہ رات کے بڑھیا ڈنر کا بھی انتظام ہو گیا ہے، وہ اپنی فاقہ کشی بھی بھول گیا۔ اس وقت اسے سگریٹ کی طلب ہو رہی تھی، وہ باہر نکل کر جائزہ لینے لگا۔ میٹنگ شاید ختم ہو گئی تھی، حال میں اکا دکا لوگ نظر آ رہے تھے۔ ایک باوردی چپراسی پاس سے نکلا تو اس نے اسے روکا، ’’کہیں سگریٹ ملے گا؟‘‘
’’ملے گا۔‘‘ اس نے کہا۔
سمپورن نے جیب سے دس کا نوٹ نکال کر دیا، چپراسی نے اپنے تھیلے سے گولڈ فلیک کا ایک پیکٹ نکال پر سمپورن کو دے دیا۔ سمپورن نے جلدی سے پیکٹ کھولا اور ایک سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبا لی۔ چپراسی نے بڑی چابکدستی سے گھانس لیٹ سے چلنے والے ایک نہایت بد شکل لائٹر سے اس کی سگریٹ سلگا دی۔ سگریٹ کے دھوئیں کے ساتھ ساتھ اس کے نتھنوں میں مٹی کے تیل کا ایک بھبھکا بھی چلا گیا۔ سمپورن وہاں سے فوری طور پر ہٹ گیا۔ وہ کرسی پر جا بیٹھا اور لمبے لمبے کش لگانے لگا۔
اس کے سامنے اب ایک نئی مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا، اسے بہت تیز پیشاب لگا تھا۔ وہ ادھر ادھر ٹوائلٹ کیلئے بھٹکنے لگا اور کچھ سمجھ میں نہ آیا تو کارتک کے کیبن میں گھس گیا۔ وہاں بھی کوئی ٹوائلٹ نہ تھا۔ اس نے ایم ڈی کے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ کمرہ خالی تھا۔ کمرے میں قالین، ایک بڑی میز اور کوئی نصف درجن فونوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا، مگر داہنی طرف ایک دروازہ نظر آ رہا تھا۔ وہ تیز رفتار سے اندر موجود ٹوائلٹ میں گھس گیا۔ ٹوائلٹ صاف ستھرا تھا۔ وہ جی بھر کر ہلکا ہو لیا۔ واش بیسن پر نیا تولیہ لٹکا تھا اور صابن کی ایک چپٹی سی ٹکیہ پڑی تھی۔ اس نے جلدی جلدی صابن سے منہ دھویا اور تولیے سے رگڑ کر صاف کیا۔ ٹوائلٹ کے بائیں طرف والی دیوار میں ایک خوبصورت چھوٹی سی الماری جڑی تھی، جاتے جاتے اس نے اس کے اندر بھی جھانک کر دیکھ لیا۔ وہاں عورتوں کے کاسمیٹک کا سامان تھا۔ اوپری خانے میں سینیٹری ٹاولز کے دو تین پیک رکھے تھے، ان کے ساتھ ہی کنڈوم کا ایک ڈبا رکھا تھا۔ اس نے چار چھ رنگ برنگے کنڈوم اپنی جیب میں ٹھوس لیے کہ رات کو چنّی کو دے گا۔ ٹوائلٹ سے وہ جلدی سے باہر نکلا اور سیدھے پاٹل کے کیبن میں گھس گیا۔ پاٹل کو اپنی میز پر چیزیں سمیٹتے دیکھ کر اس کو بہت تسلی ملی۔ وہ سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ پاٹل نے معاہدہ کے کاغذات اس کے سامنے پھیلا دیئے، ’’پانچ سو روپے ایڈوانس جمع کر دیں۔‘‘
سمپورن نے جیب سے پانچ سو روپے نکال کر پاٹل کو سونپ دیئے۔ پاٹل نے سیف میں روپے رکھے اور بولا، ’’اب آپ کو میرے ساتھ چلنا ہو گا، چابی ریسیوکرنے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’شیوا جی پارک۔‘‘ پاٹل نے کہا، ’’معاہدے پر چابی ریسیو کرنی ہو گی۔‘‘
’’میں کل صبح آپ سے مل لوں گا۔ اب آپ کو بھی گھر جانا پڑے گا۔‘‘
’’نہیں یہ کام آج ہی ہونا ہے۔ صاحب کا جہاز اڑنے سے پہلے چابی آپ کو سونپ دینی ہے۔‘‘
’’جیسی مرضی۔‘‘ سمپورن نے کہا۔
’’آپ بیٹھیں۔ میں اس وقت تک اپنا کام سمیٹ لوں۔‘‘
دفتر سے نکلتے نکلتے پاٹل نے چھ بجا دیئے۔ دفتر سے نکلنے سے پہلے پاٹل نے ٹیکسی اسٹینڈ پر فون کر ٹیکسی بلا لی تھی۔ وہ لوگ لفٹ سے باہر نکلے تو ٹیکسی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ پاٹل نے اپنا چپراسی بلایا اور اسے پورٹ فولیو اور بہت سی فائلیں تھما دیں۔ چپراسی نے آگے بڑھ کر ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور فائلیں تھام کر اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پاٹل اور سمپورن پیچھے بیٹھ گئے۔ ٹیکسی پربھا دیوی سے ہوتے ہوئے شیوا جی پارک کی جانب بڑھ گئی۔ اس وقت دفتر چھوٹنے کا وقت تھا، سڑک پر گاڑیوں کی تعداد اچانک بڑھ گئی تھی اور ہر گاڑی دوسری کے پیچھے رینگ رہی تھی۔
’’ایک منٹ گاڑی رو کئے گا۔‘‘ سمپورن نے سامنے سورن کا دفتر دیکھا تو خیال آیا۔
ڈرائیور نے سڑک کے بائیں طرف گاڑی روک دی۔ سمپورن بجلی کی رفتار سے گاڑی سے کود کر سورن کے دفتر کی جانب لپکا۔ سورن نیچے دفتر کے باہر کھڑا سمپورن کا ہی انتظار کر رہا تھا۔ سڑک پار کرنے سے پہلے ہی اس کی نظر سورن پر پڑ گئی۔ اس نے دور سے ہاتھ ہلایا۔ سورن کی متلاشی نگاہیں سرچ لائٹ کی طرح چاروں طرف گھوم رہی تھیں۔ سمپورن کو دیکھتے ہی وہ سڑک پار کرنے کیلئے جد و جہد کرنے لگا۔ اس وقت سڑک پار کرنا بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ سمپورن نے اسے سڑک پار کرتے دیکھا تو آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا تاکہ پاٹل بابو اسے غائب دیکھ کر کہیں اکھڑ نہ جائیں۔ سورن ٹیکسی کی اگلی سیٹ پر چپراسی کے ساتھ چپک کر بیٹھ گیا تو سمپورن نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ٹیکسی رانڈے روڈ سی فیس کی طرف مڑی تو سورن دیکھتا رہ گیا۔ پاٹل نے سمندر کے کنارے گاڑی روک دی اور ٹیکسی سے باہر نکل آیا۔
’’تم یہیں بیٹھو۔‘‘ سمپورن نے سورن سے کہا اور پاٹل کے ساتھ ساتھ چل دیا۔
’’آپ آگ سے کیوں کھیلنا چاہتے ہیں؟‘‘ اچانک پاٹل بڑبڑایا اور وہ چھتری کا سہارا لے کر ایک عمارت کے سامنے کھڑا ہو گیا، ’’تمہارے جیسے نوجوان کو چابی سونپتے ہوئے اپن کا دل کانپ رہا ہے۔‘‘
سمپورن نے دیکھا، ارد گرد کا ماحول نارمل تھا۔ پان کی دکان پر بھیڑ تھی۔ لوگ سمندر کے کنارے ٹہل رہے تھے۔ کونے میں ایرانی کی دکان پر گہما گہمی تھی، پاس ہی بھیل پوری کے ٹھیلے پر رنگ برنگی رونق تھی۔ برابر سے ایک بچہ کوکا کولا کی خالی بوتلیں تھامے نکلا تو سمپورن نے اسے دس کا ایک نوٹ تھمایا اور بولا، ’’لپک کے چار بوتل لا۔‘‘
’’کیا فیصلہ ہے آپ کا؟‘‘
’’اب تو اوکھلی میں سر دے چکا ہوں۔‘‘ سمپورن بولا، ’’آپ کی فکر کی میں قدر کرتا ہوں، ورنہ بمبئی میں کون کس کی فکر کرتا ہے!‘‘
’’سڑک پار کرتے ہی دادَر کا شمشان ہے۔‘‘ پاٹل نے اشارے سے بتایا۔
’’وہ سامنے مندر بھی تو ہے۔‘‘ سمپورن بولا۔ ایک پل کیلئے اسے لگا کہ کیا بھوت فلیٹ کے اندر ہی رہتا ہے، باہر نہیں آتا؟ باہر آتا ہے، تو عین بھوت بنگلے کے اغل بغل میں زندگی اتنی نارمل کیوں ہے!
’’چلئے چابی دلوا دوں۔‘‘
’’ایک کوک پی لیجیے۔‘‘ سمپورن نے لڑکے کو آتے دیکھا تو دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے پہلے اپنا کندھا چھوا اور پھر ٹیکسی کی طرف اشارہ کیا۔ لڑکا دو بوتلیں تھما کر ٹیکسی کی طرف بڑھ گیا۔ سمپورن نے اسٹرا نکال کر پھینک دی اور بوتل منہ سے لگا لی۔ اسے لگا، وہ بھوکا ہی نہیں پیاسا بھی ہے۔ اس نے ایک لمبا گھونٹ بھر کر ڈکار لی اور دوسرے تیسرے گھونٹ میں بوتل خالی کر دی۔ پاٹل بابو اسٹرا کی مدد سے آہستہ آہستہ بوتل پی رہے تھے۔
سمپورن چابی حاصل کرنے کے لیے جذباتی ہو رہا تھا۔ پاٹل نے بوتل ختم کی تو اس نے چٹکی بجا کر لڑکے کو بلا کر خالی بوتلیں اس کے حوالے کر دیں۔
پاٹل چھڑی کی طرح چھتری کو ٹیکتا ہوا سامنے کی عمارت کے نیچے کے فلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا، ’’یہی ہے وہ فلیٹ۔ سمندر کی طرف سے اسی فلیٹ کا راستہ ہے۔ باقی عمارت کی انٹری مرکزی سڑک کی جانب سے ہے۔‘‘
فلیٹ کی بنیاد ایسی تھی کہ مرکزی دروازے تک پہنچنے کیلئے چار چھ سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔ پاٹل دو تین سیڑھی چڑھ کر رک گیا اور پھر اس نے سمپورن سے کہا، ’’وہ اینٹ جو اکھڑی دکھائی دے رہی ہے، اسے ہٹاؤ۔‘‘
سیڑھیوں میں اندھیرا تھا۔ سمپورن نے لائٹر جلا کر دیوار کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ اکھڑی اینٹ دکھائی دی، سمپورن کی انگلیاں لائٹر کا شعلہ جلانے لگیں۔ پاٹل نے فوری طور جیب سے ایک ننھی سی ٹارچ نکالی، وہ ٹارچ کم کی رنگ تھی۔ پاٹل نے دیوار پر روشنی کا ایک دائرے بنایا۔ دیوار پر جالے ہی جالے تھے۔ ایک اینٹ دیوار سے اکھڑی ہوئی تھی، اس کے اوپر چھپکلی چپکی تھی۔ پاٹل نے چھتری کی نوک سے چھپکلی کو مارا تو اس کی دم الگ ہو کر نیچے گر پڑی، سمپورن کے پاؤں کے پاس۔ پاٹل نے دو تین بار اینٹوں کے ارد گرد ٹھک ٹھک کی تو چھپکلی بڑی بے دلی اور لا پروائی سے وہاں سے آہستہ آہستہ سرک کر تھوڑی دور جا کر ٹھہر گئی۔
’’اینٹ نکال لو۔‘‘ پاٹل نے کہا۔
دیوار اتنی گندی تھی کہ سمپورن کی خواہش نہیں ہو رہی تھی، اسے چھونے کی۔ لگ رہا تھا، برسوں سے کوئی سیڑھیوں پر نہیں چڑھا۔ سمپورن نے دل سخت کر کے اس اینٹ کو الگ کرنا چاہا، مگر وہ اکھڑ کر جیسے دوبارہ دیوار پر جم چکی تھی۔ پاٹل نے چھتری کی نوک سے ہی اسے نیچے سے ہلایا تو وہ نکلنے لگی۔ سمپورن نے اینٹ نکال لی اور دیکھا، اینٹوں کے نیچے ایک چابی لاش کی طرح پڑی تھی، کالی اور بھدی سی چابی۔ سمپورن نے چابی اٹھا کر اینٹ دوبارہ وہیں ٹھونس دی۔
پاٹل نے سکون کی سانس لی۔ نیچے آ کر اس ایگریمنٹ پر سمپورن سے لکھوا لیا کہ فلیٹ نمبر۔ ۱۷، رانڈے روڈ کی چابی وصول کی۔ کام ختم ہوتے ہی پاٹل کی وہاں ایک بھی لمحہ رکنے کی خواہش نہ تھی۔
’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘ سمپورن نے پوچھا۔
’’ماہم۔‘‘ پاٹل نے کہا۔
’’یہی ٹیکسی آپ کو ماہم چھوڑ آئے گی، میں یہیں انتظار کروں گا۔‘‘ سمپورن نے سوچا، اسی بہانے پاٹل کی کچھ آمدنی ہو جائے گی۔ ٹیکسی کا کرایہ وہ دفتر میں ضرور دکھائے گا۔ پاٹل نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیئے اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔
’’بھاپے۔‘‘ سمپورن نے سورن کو بانہوں میں بھر لیا، ’’یہ دیکھو فلیٹ کی چابی۔‘‘
’’چلو، اندر جا کر دیکھیں۔‘‘ سورن کو بیتابی ہو رہی تھی۔
’’ابھی باہر سے دیکھ کر صبر کر لو۔‘‘ سمپورن نے کہا۔
سورن نے سر اٹھا کر دیکھا، چار بڑی بڑی بڑی کھڑکیاں سمندر کی طرف کھلتی تھیں۔ زمین سے کوئی دس فٹ اوپر۔ ارد گرد اندھیرا تھا، کچھ نہ دکھائی دیا۔ پاس ہی ایک بڑا خوبصورت مندر تھا۔ مندر میں تھوڑی چہل پہل تھی اور اس کی بتیاں سمندر میں تیر رہی تھیں۔
’’سالے تمہاری تو لاٹری کھل گئی ہے۔ ذرا تفصیل سے بتاؤ کہ یہ فلیٹ تم نے کیسے ہتھیایا!‘‘
سمپورن سارا قصہ بتا گیا، مگر فلیٹ کے بھوتیا ہونے کی بات گول کر گیا۔
’’چلو اوپر جا کر دیکھ آئیں۔‘‘ سورن نے کہا۔
’’کل صبح طلوع آفتاب پر داخل ہوں گا۔‘‘ سمپورن نے بتایا۔
’’تو آج جشن ہو جائے۔‘‘
’’آج چنّی مرغ مسلّم کی پارٹی دے رہا ہے، ابھی ٹیکسی آتی ہو گی۔ کولابا چلتے ہیں۔‘‘
’’تم تو آج ٹیکسی سے نیچے بات ہی نہیں کر رہے۔‘‘
’’اب تم مجھے ہمیشہ ٹیکسی میں ہی پاؤ گے۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’اگلے ہفتے آفس بھی کھول رہا ہوں۔ لیمنگٹن روڈ پر۔‘‘
’’واہ بیٹے!‘‘
ان دونوں نے سگریٹ سلگائی اور سمندر کی طرف دیکھنے لگے۔ سمندر اس وقت جوار میں تھا۔ ایک رفتار کے ساتھ جھاگ دار پانی کنارے پر آتا اور کچھ دیر تک ما تھا پٹک کر لوٹ جاتا۔ دونوں کی سمندر میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ سمپورن بہت تفصیل سے آج کے دن کی تفصیلات سورن کو سنانا چاہتا تھا، مگر صبح سے وہ کچھ اس طرح مصروف رہا تھا کہ اب تک نڈھال ہو چکا تھا۔ ایک بار اس کے جی میں آیا کہ سامنے ایرانی کے یہاں جا کر ایک آدھ آملیٹ کھا لے، مگر وہ اپنا ڈنر ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ کچھ طے کر پاتا، اس سے پہلے ہی ٹیکسی لوٹ آئی۔ اس نے دروازہ کھولا اور اس میں گھس گیا۔ دائیں جانب سے دروازہ کھول کر سورن بھی اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
’’کولابا۔‘‘ سمپورن نے کہا۔
ٹیکسی واپس بمبئی کی طرف دوڑنے لگی۔ زیادہ تر ٹریفک مخالف سمت میں چل رہا تھا یعنی تمام گاڑیاں جیسے دن بھر مزدوری کر کے واپس لوٹ رہی تھیں۔
’’تم قسمت میں یقین رکھتے ہیں؟‘‘ سمپورن نے سورن سے پوچھا۔
’’قوتِ بازو پر زیادہ یقین کرتا ہوں۔‘‘ سورن بولا۔
’’تم چوتیا ہو۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’تم قوتِ بازو پر یقین کرتے رہ جاؤ گے۔ بہت سے لوگ قوتِ بازو پر یقین کرتے کرتے مر جاتے ہیں اور تمہاری طرح کسی لاج کے گھٹن بھرے ماحول میں زندگی ضائع کر دیتے ہیں۔‘‘
’’تم آج بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔‘‘
’’در اصل میں بہک گیا ہوں۔ اسکاچ پیو گے تو تم بھی بہک جاؤ گے۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’چنّی بڑھیا سے بڑھیا اسکاچ لایا ہو گا۔‘‘
’’لیکن وہ بہت بور کرتا ہے۔‘‘
’’خاطر داری تو کرتا ہے۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’تم کو شاید معلوم نہیں، ہر بھلا آدمی بور کرتا ہے۔‘‘
’’تمہارا چنّی تو اذیت ناک ہے۔‘‘
’’وہ کتنا بھی اذیت ناک ہو، اس کی بیوی تو خوبصورت ہے۔‘‘
’’میں نے اسے غور سے نہیں دیکھا۔‘‘
’’آج دیکھ لینا۔‘‘ سمپورن نے کہا، ’’وہ بہت اچھی کک ہے۔ اس کے ہاتھ کا بن اچکن نہیں کھایا تو۔۔ ۔‘‘
’’انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ گے۔‘‘ سورن نے اس کا جملہ مکمل کیا۔
٭٭٭
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
مکمل ناول ڈاؤن لوڈ کریں