FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ہندستان 1857ء کے بعد

                   علی احمد فاطمی

 (قومی فروغ اردو کونسل، ہند کی شائع کردہ کتاب ” عبد الحلیم شرر بحیثیت ناول نگار‘ کا پہلا باب)

 

 

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ 1857ء کے انقلابی ہنگامے جس کو انگریز مورخین محض غدر کے نام سے پکارتے ہیں، ہندستانیوں کی سیاسی، سماجی اور ادبی ارتقا میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہنگامہ تھا جو انگریز حکومت کے خلاف دبے دبے ابھرا اور دیکھتے دیکھتے ایک آگ برسا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس آگ کی لپیٹ میں خود انقلابی آ گئے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس آگ کا ردِّ عمل جن کے خلاف بغاوت کی گئی تھی، ان پر کچھ نہ ہوا ہو۔ ردِّ عمل ہوا اور ایک ایسا ردِّ عمل جس نے بیج تو 1857ء میں بویا لیکن پھل اس کو 1947ء میں ملے۔ ڈاکٹر خلیق احمد نظامی 1857ء کا تاریخی روزنامچہ کے مقدمے میں فرماتے ہیں :

1857ء ہندستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدیم اور جدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں سے ماضی کے نقوش پڑھے جا سکتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

خلیق احمد نظامی کے قول کے مطابق غدر قدامت اور جدیدیت کے درمیان ایک کڑی ہے۔ ہم اس وقت غدر کے ماضی سے درگذر کر کے اس کے مستقبل کی طرف رخ کرتے ہیں، جہاں ناکامی تو تھی لیکن اس ناکامی کی تہہ میں ایک دبی ہوئی بغاوت نے دوبارہ کیسے کیسے روپ اختیار کیے اور ایک نیم بیدار ہندستان کس انداز سے ہچکولے لیتا ہوا رفتہ رفتہ اپنے پورے تجربات کے ساتھ ایک بار پھر دریائے بغاوت میں کود پڑا۔ 1857ء کی بغاوت جو ہندستان کی تاریخ میں ایک عہد آفریں واقعہ ہے، ایک تاریخی دور کا خاتمہ کرتی ہے اور ایک نئے دور کا آغاز بھی۔ بقول پی۔ سی۔ جوشی:

جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے بغاوت ناکام ہوئی لیکن ہندستان کو وہ تجربہ حاصل ہواجس سے وہ نئے خیالات کے ساتھ نئی بنیادوں پر جدید ہندستانی قومی تحریک تعمیر کرنے کے قابل ہو گئے اور 1857ء کے اسباق بے بہا ثابت ہوئے۔ فریقوں نے 1857ء کے تجربے سے سبق حاصل کیے اور بعد میں ان سے استفادہ کیا۔ انگریز فاتح تھے، انھوں نے جلد اقدامات کیے۔ ہم مفتوح تھے، ہم نے زیادہ وقت لیا۔

بغاوت تیزی سے اٹھی اور تھوڑے ہی عرصے میں دب گئی۔ لیکن اس کے اثرات بہت دنوں تک قائم رہے۔ فاتح اور مفتوح دونوں کو مکمل ہوش آ چکا تھا۔ فاتح کو یہ احساس ہوا کہ کس کو اپنے ساتھ لے کر اور کس کونہ لے کر حکومت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ مفتوح کے خیالات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی۔ بعض ہمت ہار گئے اور اپنے فائدے و نقصان کے تحت اپنے آپ کو انگریزی حکومت کے سپرد کر دیا۔ لیکن اس بغاوت سے بہت سے لوگوں کو بڑے تلخ تجربات بھی ہوئے، انھیں ہوش آچکا تھا اب وہ اور منظم طور پراپنے شکست خوردہ احساسات کو جگانے کی کوشش کر رہے تھے جس کا لازمی نتیجہ تھا کہ فاتحین کے خلاف بغاوت کا جذبہ جاگ اٹھے۔ انگریزی حکومت نے جس کے اقتدار کو اب سو سال  ہو رہے تھے اس نے ہندستانیوں اور یہاں کی بٹی ہوئی ریاستوں اور ان کی کمزوریوں کو شدّت سے پہچان لیا تھا۔ یہاں بسنے والی قوم اور فرقے جو اپنا الگ ایک مزاج اور اپنی الگ ایک تہذیب رکھتے تھے۔ ان کی خوبیوں اور خرابیوں کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ بغاوت کے بعد اس نے اپنے آئین میں بڑی تبدیلیاں کیں۔ اس نے تمام اہل ریاست کے قانون میں نرمی پیدا کی اور ان کو اپنے بس میں کرنا شروع کر دیا۔ ایک انگریز مورخ پی۔ ای۔ رابرٹس(P.E.Roberts)کا خیال ہے:

"چونکہ والیانِ ریاست نے بغاوت کے سیلاب کو روک کر نمایاں خدمات انجام دی تھیں اس لیے ریاستوں کو فصیل کے طور پر قائم رکھنا اسی وقت سے برطانوی سلطنت کا اصول رہا ہے۔ "

 اور حقیقت تو یہ ہے کہ اعلیٰ طبقے اور ریاست والے بنیادی طور پراس عظیم الشان غدر کے سخت خلاف تھے اور دراصل ان کی مخالفت ہی بغاوت کی ناکامی کی ایک اہم وجہ بھی تھی کیونکہ باغیوں نے لوٹ مار میں اہل ریاست اور تجار کو بھی نہیں بخشا تھا۔ اور بقول ٹی۔ آر۔ ہومز:

"وہ تمام لوگ جنھیں نقصان اٹھاناپڑاسپاہیوں کوکوستے تھے۔ "

سرسید نے بھی ایک جگہ کہا ہے کہ:

"باغی اکثر وہ تھے جو قلّاش اور محکوم تھے۔ حکمراں طبقے سے ان کا تعلق نہیں تھا۔ "

ان اقوال کے ذریعہ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اعلیٰ طبقے کے لوگ بغاوت کی ناکامی سے زیادہ بغاوت کی کامیابی سے خائف تھے۔ موجودہ انگریزی حکومت نے ان کے ساتھ اپنے رویہّ میں مزید تبدیلی کی اور ان سب کی دل جوئی کی جانے لگی۔ ان کی تمام جائدادیں بحال ہو گئیں۔ بعض کو تو پہلے سے زیادہ حقوق بخش دئے گئے اور ان کو پورے طور پر قابو میں کر لیا گیا۔ بنگال، پنجاب، یو۔ پی۔، وغیرہ تقریباً سب جگہ یہ ہی کیفیت نظر آنے لگی۔ زمیندار زیادہ انگریزوں کے وفادار ہوتے۔ تجار، دوکاندار سب اپنی خوش حالی، اپنی عزت اور سکون کا دارومدار پرامن حکومت پرسمجھتے تھے اور اسی بنا پر وہ بغاوت کے خلاف تھے۔ ان کے خیال میں ان کواس بغاوت سے ملی ہوئی پریشانی سے چھٹکارا انگریز ہی دے سکتے تھے۔ لہٰذا وہ ہر قیمت پر انگریزی حکومت کے حامی ہو گئے۔ بغاوت کے خاتمہ کے بعد جب ملکہ وکٹوریہ ہندستان کی ملکہ بنیں تو انھوں نے دوراندیشی اور باریک بینی کے ساتھ یہ اعلان کیا:

"ہم ہندستان کے والیانِ ریاست کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان تمام معاہد و ں اور اقرار ناموں کو قبول کرتے ہیں اور خلوص نیت کے ساتھ ان کے پابند ہوں گے جوان کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیے یا اس کے حکم سے کیے گئے۔ ہم ان کی طرف سے بھی اس طرح عمل پیرا ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم دیسی حکمرانوں کے حقوق، وقار اور عزت کا اسی طرح پاس رکھیں گے جیسے یہ ہمارے اپنے ہیں۔ "

یہ ایک چال تھی جس کا تمام اہل ریاست نے استقبال کیا اور تمام ہندستانی زمیندار اور ساہوکاراس سلسلے میں متحد ہو گئے اور انگریز کی ہر پالیسی کے آگے سرخم کرتے چلے گئے اور خود حکومت بھی یہ سوچتی رہی۔ بقول گبسن:

"جن کے سبب سے ہندستانیوں کے اعلیٰ طبقے ہم سے منھ موڑ لیں تو ہمارے لیے مستقل طور پر حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ "

لہٰذا ملکہ کے اعلان نامہ میں یہ بھی شامل تھا:

"جو زمینیں ہندستانیوں کو اپنے آباء و اجداد سے ورثہ میں ملی ہیں ان کے ساتھ ان کی وابستگی کے جذبے سے ہم آگاہ ہیں اس کاپاس رکھتے ہیں اور ہم زمینوں سے متعلق ان کے تمام حقوق کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس طرح کے قانون وضع کرتے ہیں اور نافذ کرتے ہیں کہ ہندستان کے قدیم حقوق اور رسم و رواج کامناسب احترام کیا جائے گا۔ "

ان تمام حالات کے اثرات دور تک پہنچے اور پورے ہندستان میں برطانوی حکومت کی بدیہی پالیسی ہو گئی کہ عوام کے مقابلے میں جاگیرداروں زمینداروں اور رجعت پسندوں کی ہمدردی حاصل کی جائے، بلکہ اکثر توایسا ہوتا تھا کہ جب بھی عوام میں مخالفت کی لہر اٹھتی تو دونوں وقتی طور پر متحد ہو جاتے تھے۔ حالانکہ یہ اتحاد محض رسمی ہوتا۔ بعد میں پھر دونوں ایک دوسرے کو شبہہ کی نظروں سے دیکھنے لگتے۔ یہ والیانِ ریاست بے انتہا بزدل ہوتے تھے۔ ان کی ریاستوں میں بدنظمی اور بے ایمانی کا دور دورہ ہوتا تھاجس میں انگریزی حکومت کا بھی ہاتھ ہوتا۔ بقول رجنی پام دت:

"اب ان دیسی رجواڑوں کے جاگیرداروں کے ظلم وستم کی نہ صرف برطانوی حکومت پشت پناہی کرنے لگی بلکہ اس میں برطانوی حکومت کے اس طرز عمل سے اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ "

اس میں شک نہیں کہ غدر کے بعد انگریزی طرز حکومت میں بڑا فرق آ گیا۔ تمام سماجی اصلاحوں کے کام ٹھپ ہو گئے۔ پوری طاقت، رجعت پسندی اور روایات کو برقرار رکھنے پر صرف کی جانے لگی۔ ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی جانے لگی۔ نچلے طبقے کے عوام کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا۔ لیکن غدر نے متوسط اور نچلے طبقے کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ نتیجہ کے طور پرہندستان کے ترقی پسند عناصر جاگنے لگے اور برطانوی حکومت کے خلاف کش مکش شروع ہو گئی۔ حد سے زیادہ بڑھتا ہوا برطانوی حکومت کا جال اور ان کی لوٹ کھسوٹ کاسب سے زیادہ اثر کسانوں پر پڑا۔ بقول دت:

"برطانوی سرمایہ داروں کے ہندستان میں جال بچھانے اور ان کی لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ یہ تھا کہ کسانوں کا افلاس اور تباہ حالی انیسویں صدی کے نصف آخر میں بڑھ کر نہایت خطرناک شکل اختیار کر رہی تھی اس وجہ سے عام بے چینی پھیل رہی تھی۔ "

برطانوی حکومت رجعت پسندوں کو اپنے حق میں لانے میں مصلحت رکھتی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس کواس اعلیٰ طبقے سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی۔ وہ تو بقول جواہر لال نہرو:

"دیسی ریاستوں کو برقرار رکھنا ہندستان کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے کے ارادے سے تھا۔ "

لیکن انگریزی حکومت کے ذہن سے یہ نکل گیا تھا کہ بجائے رخنہ ڈالنے کے وہ عوام کے دل میں نفرت کا بیج بو رہے ہیں اور انھیں جگا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اعلیٰ طبقہ خواب خرگوش میں تھا لیکن عوام کو ہوش آ چکا تھا۔ اس کی آواز اٹھی جو تنہا انگریزی حکومت کے خلاف تھی۔

ملکہ نے اپنے تمام نئے قوانین میں صرف اس بات کا لحاظ رکھا کہ اعلیٰ طبقے کے مراعات کا خیال رکھا جائے گا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہندستان جیسے وسیع ملک میں ایسا طبقہ انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا۔ اصل تعداد تو عوام کی، مزدوروں کی، کسانوں کی تھی۔ اور یہ طبقہ ہی نمائندہ حیثیت کا مالک تھا، ان کو ترک کر کے تو کچھ نہیں سوچا جاسکتا تھا۔ لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ اسی طبقے کو ایک سرے سے بھلا دیا گیا۔ بقول پی۔ سی۔ جوشی:

"گذشتہ راصلواۃ آئندہ را احتیاط کی آڑ میں اودھ کے دو تہائی تعلقہ داروں کو غداری کے انعام کے طور پر پہلے سے زیادہ موافق شرائط پر اپنی زمینیں واپس مل گئیں۔ اس کے برعکس ہم نے دیکھا کہ باقی کسان کے ساتھ کس بے دردی کاسلوک رکھا گیا۔ زمینداروں پر خاص لطف و عنایت اور کسانوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا 1857ء کے بعد حکومت کی مسلّمہ پالیسی بن گئی۔ "

یہ ایک زبردست بھول تھی جس سے انگریزی حکومت غافل تھی اور اس غفلت کا نتیجہ جلد ہی ایک قومی تحریک کی شکل میں سامنے آ گیا۔ مزدوروں اور کسانوں کا طبقہ اب سنبھل چکا تھا۔ اسے انگریزی حکومت کی حقیقت کا پتہ چل چکا تھا۔ اسی درمیان میں پڑنے والے قحط اور دیگر وجوہات نے اور آنکھیں کھول دیں۔ ا ن سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس طبقے کا زمینداروں پرسے اعتماد اُٹھ گیا اور ان سے اتحاد کا رشتہ توڑ دیا اور پورے جوش و خروش کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہونے لگا جواب برطانوی حکومت کے خلاف اپنا محاذ تیار کر رہی تھی۔ اپنے آپ کو مضبوط کر رہی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تحریک کو مضبوط کرنے میں خود برطانوی حکومت کاہی بڑا ہاتھ تھا۔

حکومت صاف طور پر ہر معاملے میں فرق کرتی۔ اچھی نوکریوں سے متوسط طبقہ کو محروم رکھنا، ہندومسلم اختلافات، گورے کالے کا بھید، نسلی امتیازات کے جراثیم عوام کے درمیان حکومتِ وقت نے پھیلانے کی کوشش کی۔ بقول پی۔ سی۔ جوشی:

"شدید نسلی امتیاز تمام ملازمتوں میں سرایت کیے ہوئے تھا۔ اور نسل پرستی انیسویں صدی میں سرزمین مشرق میں برطانوی حکومت کی امتیازی خصوصیت تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر چہ ہندستانی کھلے مقابلے کے امتحان کے ذریعے انڈین سول سروس میں بھرتی ہوسکتے تھے۔ لیکن خاص درجوں سے اوپر کے عہدوں پر فائز ہونے کا حق حاصل نہ تھا۔ اپنے زمانے کے ممتاز ترین ہندستانی حاکم آر۔ سی۔ دت کواستعفیٰ پیش کرنا پڑا، کیونکہ نسلی امتیاز کی بنا پر انھیں کمشنر کے عہدے پر مامور نہ کیا گیا۔ "

یہ زہرہندستانی سماج میں پھیلتا گیا۔ برطانوی حکومت کے رحم میں ظلم تھا۔ اس کی نرمی میں ایک نفرت جھلکتی تھی۔ ان ساری چیزوں نے ہندستانی عوام کے دلوں پر بڑا کام کیا۔ ایک روشن طبقہ دھیرے دھیرے ابھرتا رہا۔ کلکتہ اس کا مرکز تھا۔ یہیں کے نوجوان پہلی بار کھل کر سامنے آئے اور تحریک کو مضبوط کرتے رہے۔ یہ تحریک کیا تھی، کیسے چلی اور کس طرح سے کامیابی کے منازل طے کرتی اپنی منزل تک جا پہنچی۔ یہ بحث طولانی ہے، یہاں پراس کا موقع نہیں۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ برطانوی حکومت تمام خودغرض چالاکی پر مبنی تھی اور اس طرح کی حکومت کا پنپنا ناممکن تھا۔ اس خود غرضی اور چالاکی نے ہندستانی عوام کے بیدار ہونے میں بڑا کام کیا۔ جس طبقے کو انگریز ہنسی میں اڑاتے رہے وہی ان کادردسربن گیا۔ وہی روشن خیال طبقہ آگے بڑھا اور قومی تحریک میں اس نے نمایاں رول ادا کیا بقول کارل مارکس:

"ایک نیا طبقہ وجود میں آ رہا ہے جو حکومت کی ضروریات کو پورا کرنے کا اہل ہے اور یورپی سائنس سے بخوبی آشنا ہے۔ "

غرض کہ غدر کے بعد انگریزوں کی پالیسی چالاکی اور ذلیل ترین مقاصد پر مبنی تھی اور یہی انقلاب کا باعث بنی۔ کیونکہ ہندستانیوں کواحساس ہو چکا تھا۔ بقول مارکس:

"سماج میں بوئے ہوئے بیجوں کا پھل ہندستانی اس وقت تک نہ پائیں گے جب تک وہ خود اتنے طاقتور نہیں ہو جاتے کہ برطانوی غلامی کا جوا اُتار پھینکیں "

ادبی حیثیت سے:

1857ء کا ہنگامہ ایک حادثہ کے طور پرسرعت سے اُٹھا اور دب گیا۔ لیکن اپنے آپ میں ایک ایساتاریخی موڑ چھوڑ گیا کہ ہندستان کی کوئی تاریخ اس حادثہ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حادثہ محض اتفاقی نہ تھا بلکہ اس کے پس پردہ فکرو سیاست کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس حادثہ کا تعلق براہ راست سماجی و سیاسی تھا، لیکن اس کی اہمیت زندگی کے ہر گوشے پر اثر انداز ہوئی۔ زبان و ادب بھی اس کے اثرات سے بچ نہ سکے۔ زبان و ادب کا رشتہ سیاست اور سماج سے بڑا گہرا ہوتا ہے۔ کوئی بھی ادب اپنے سماج سے متاثر ہوئے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ہر عہد کا ادب اپنے وقت کے سماجی اتار چڑھاؤ سے ہر حالت میں کسی نہ کسی شکل میں منسلک رہتا ہے۔ پھر یہ عظیم ہنگامہ ذہن و خیال کے لپیٹ میں کیوں نہ آتا۔ بقول محمدحسن:

1857ء کی لڑائی فکر و خیال کے طویل سلسلے کی ایک کڑی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور چونکہ ادب بھی خیال اور جذبہ کاہی نام ہے اس لیے اس عہد کے فکری تانے بانے کو اس لڑائی نے جس طرح متاثر کیا تھا وہ ادبی مورخ کے لیے بھی دلچسپی کا موضوع ہے۔

اس قول کے مطابق اس حادثے کا اثر ادب پر پڑنا لازمی تھا۔ اب یہ تلاش کرنے کے لیے کہ اس کے اثرات اردو ادب پرکس حد تک اور کس انداز سے رونما ہوئے اس وقت کے ادب کی طرف مڑنا پڑے گا۔ اس ہنگامے کے وقت پوراہندستان اس میں شامل نہ تھا۔ کچھ ہی خطے اہم تھے، جواس عظیم کھیل میں اپنا رول ادا کر رہے تھے۔ اور یہ خطہ شمالی ہندسے تعلق رکھتا ہے۔

غدر سے پہلے اردو ادب کا اور اردودانوں کا ایک دوسراہی ماحول تھا۔ شاعروں اور ادیبوں کے سرپرست عام طور پر امراء و روساء ہوا کرتے تھے۔ سماج میں نرمی، شیرینی اور آسودگی تھی۔ اسی لیے اس وقت کے ادب میں بھی ہمیں یہی عناصر ملتے ہیں۔ پھر جب سے انگریز حاکم ہوئے رفتہ رفتہ ظلم و جبر کا دور دورہ ہونے لگا۔ اس کے جواب میں بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔ ساراشیرازہ بکھر گیا۔ ہر شے میں ایک انقلاب آ گیا۔ بقول پروفیسر احتشام حسین:

بغاوت رونما ہوئی۔ پیہم غیر معین۔ غیر منظم۔ لیکن شدید قومی جذبے کی سلگتی ہوئی آگ بھڑک اٹھی۔ چھوٹے بڑے بہت سے دربار جو شاعروں کے سرپرست تھے برباد ہو چکے تھے۔ اودھ کو جو فن تہذیب کا بڑا مرکز تھا 1856ء میں انگریزوں نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ دہلی میں مغل حکومت صرف نام کی رہ گئی۔ ایک نئی سلطنت وجود میں آ گئی جس کی جڑیں سرزمین ہند میں نہ تھیں اور جو ہندستانی تمدن سے بیگانہ تھی۔

یہ تضاد، یہ انتشار، پورے ہندستانی سماج میں پھیلتا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ظلم کا شکنجہ کستی چلی گئی۔ امتیازات بڑھنے لگے۔ دہلی اجڑ چکی تھی۔ لکھنوی تہذیب انگریزوں کے پیروں تلے روندی جاچکی تھی۔ ایسی حالت میں ادب کیسے بچ سکتا تھا۔ وہ بھی لپیٹ میں آیا۔ ادیب بھی پریشانی اور خستہ حالی کے بھنور میں پھنسے اور یہی خستہ حالی افسردگی ہمیں اس وقت کے ادب میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

مرزا اسداللہ خاں غالب اس دور کے ادبی اور تمدنی روایات کے بہترین پیکر سمجھے جاتے ہیں اور جو بعض مقامات میں انگریزی پالیسی کے معترف بھی تھے۔ لیکن جب بغاوت امڈی تو یہ بھی اس میں پسے بغیر نہ رہ سکے اور اس کے نمایاں اثرات ان کے خطوط اور ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً اردوئے معلی و عود ہندی(خطوط کے مجموعے) میں اس وقت کے حالات کی صحیح تصویر نظر آتی ہے۔ محمد حسین آزاد کے والد مولانا محمد باقر کو گولی سے ہلاک کر دیا گیا۔ مشہور شاعر امام بخش صہبائی کو ان کے دو بیٹوں سمیت گولی سے اڑا دیا گیا۔ مصطفیٰ خاں شیفتہ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس عہد کے مشہور و معروف عالم مولانا فضل حق کو جلا وطن کر کے انڈمان بھیج دیا گیا، جہاں ان کا بعد میں انتقال ہو گیا۔ منیر شکوہ آبادی کی نظموں میں اس وقت کے حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ان کو گرفتار کر کے اُن پر مقدمہ چلا یا گیا۔ ان سب کی تخلیقات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک ایک شعر میں اس عہد کی تصویر نظر آئے گی۔ افسرد گی کا یہ مزاج اس وقت کی پوری شاعری میں سما گیا تھا۔ غزل نے ایک الگ روپ اختیار کر لیا۔ اشارے و کنایے کی زبانیں تیز ہو چلیں۔ امیر مینائی کے شعر کے مطابق:

بہادر شاہ ظفر آخری تاجدار مغلیہ حکومت جو شاعر بھی تھے، ان کی لَے میں کس قدر آہ و درد ہے۔ ظالموں نے ان کے ساتھ بڑا ظلم کیا۔ اُن کی ایک غزل سے آنسو ٹپکتے ہیں :

واجد علی شاہ اختر جو اپنی عملی و ادبی صلاحیتوں کے لیے مشہور تھے اور ایک خاص مزاج، نفاست، لطافت کے مالک تھے، اپنی تباہ حالی کا بیان اپنی مثنوی "حزن اختر” میں بڑے درد کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی بعض غزلیں بھی سوزوگداز سے پُر ہیں۔ شیفتہ اپنے زمانہ کے مشہور شاعر تھے۔ ان کے یہ دو شعر کس قدر دلی درد اور تڑپ کا اظہار کرتے ہیں :

اردو شاعری کے یہ چند موتی جواس آگ کی لپیٹ سے بچ سکے اس دور کی خستہ حالی، پریشانی اور مصیبتوں کے مظہر ہیں۔ ورنہ زیادہ تر سرمایہ تو برباد ہو گیا اور محفوظ نہ رہ سکا۔ پھر بھی جو تصانیف ہمیں مل جاتی ہیں وہ ذیل ہیں :

خطوط غالب، داستان غدر، مصنف ظہیر دہلوی، تاریخ سرکشی بجنور اور اسباب بغاوت ہند از سرسید، تاریخ ہند از ذکاء اللہ، روزنامچہ غدر۔ مترجمہ نذیر احمد، فغان دہلی۔ آغا ہجو شرف، واجد علی شاہ، منیر شکوہ آبادی، بہادر شاہ ظفر، غالب، شیفتہ وغیرہ کی نظمیں جو دوران بغاوت لکھی گئی تھیں اہم ہیں۔

یہ سچ ہے کہ بغاوت اچانک اٹھی اور دب گئی۔ ہنگامے ہوئے اور سردپڑ گئے۔ لیکن بغاوت کے بعد جو اہمیت تسلیم اور اس کی باریکیوں، نزاکتوں اور دور سے نظر آنے والے فائدوں کو پڑھا اور سمجھا گیا۔ 1857ء میں اس کی اصلی شکل نہ سمجھی جا سکی تھی۔ وہ تو بس ہندستان کی بدنصیبی، لاپروائی، اپنی کمزوری اور انگریزوں کی طاقت کی علامت سمجھی گئی۔ بقول احتشام حسین:

"بیشتر حالتوں میں اسے قہر الہٰی، فریبِ تقدیر، آسمان کی چشمِ بد، انقلابِ زمانہ اور اعمالِ بدکی سزاتصور کیا گیا۔”

ابتدا میں بغاوت کا صحیح تصور ذہن میں نہ تھا لیکن جب بغاوت سردپڑی تب ہندستانی عوام کا ذہن جاگا۔ دل و دماغ میں بیداری آئی۔ اپنے آپ کو پہچاننے کی سمجھ آئی اور جب ان سب کے باوجود انگریزوں کے ظلم و زیادتی میں کسی طرح کی کمی نہ آئی توساری بیداریاں متحد ہو گئیں اور اپنے آپ کو ایک سنجیدہ اور روشن راہ پر گامزن کر دیا۔ ذہن جاگا۔ فکر نے کروٹ لی۔ خیالات روشن ہوئے۔ اور ان سب کے نتائج غدر کے بعد رفتہ رفتہ نمایاں طور پر نظر آنے لگتے ہیں۔ ادب میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ہنگامے سے ذرا پہلے اور ہنگامے کے وقت جوافسردگی، بے بسی، تاریکی اور ویرانی ادب میں ملتی ہے، بغاوت کے بعد اس میں بھی تبدیلی آنے لگتی ہے۔ ظ۔ انصاری کا خیال بالکل درست ہے:

1857ء کے ہنگامے سے اس کے پہلے اور اس کے بعد کے احساس پس ماندگی اور شکست مکمل کے جو منفی اثرات اردو ادب میں نظر آتے ہیں، وہ تصویر کا ایک دردناک رخ ہے۔ لیکن دوسرا رُخ اس قدر تابناک بھی ہے۔ اس تاریخی واقعہ کی جدلیات (DIALECTIES)کا سراغ ملتا ہے۔ جب ہم شعرا اور ادیبوں کی تباہ حالی، عام لوگوں کے احساس، بے بسی، ادبی مرکزوں کی سراسیمگی، کلیات، دیوانوں اور تصنیفوں کی تلخی، بے باک اہل قلم کی زبان بندی، قتل، پھانسی اور کالے پانی کی سزاؤں کے ساتھ ادب کے سرپرستوں کی پریشان زندگی کے ان گھپ اندھیروں میں نئے تصورات، عقلیت پسندی، نئی آگاہی اور نئے قومی ذہن کی بیداری کو اونچے ہوتے دیکھتے ہیں۔ یہ لوآہستہ آہستہ اونچی ہوتی ہے اور اس کی روشنی اس خونی افق سے پھیلی ہے جس میں ہمارے بڑے بڑے روشن ستارے ڈوب گئے۔

یہ تھے اس موت کی آڑ میں جھانکتی ہوئی زندگی کے آثار۔ کفن کی سفیدی میں پوشیدہ نظر آنے والی روشنی۔ ظلم کی آواز میں گونجتی مخالفت کی لہر۔ نیا شعور، نیا ذہن، نیاسماج ابھر رہا تھا، اس کانپتے ہوئے دور میں جب انگریز حکومت اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھی۔ ہندستانی عوام، ہندستانی سماج، نئے جذبات، نئے احساسات کے ساتھ ایک نئی اٹھکھیلیاں دکھا رہا تھا۔ افسردگی تازگی کا روپ لینے لگی۔ احساس پسپائی کی شدّت میں کسی حد تک کمی آ چکی تھی۔ ماضی مستقبل کے لیے تڑپ رہا تھا۔ ان سب کا براہ راست اثر ادب پر پڑا۔ 1857ء کے بعد اردو ادب میں ایک نئی فکر، ایک نئے جوش، ایک نئی تبدیلی، ایک نئی تحریر کا آغاز ہونے لگا۔ بقول احتشام حسین:

اس کے بعد ادب کے بیشتر حصے سے ایک مختلف رنگ نمایاں ہے۔ اس کے بعد کے شاعروں اور ادیبوں کو نئے اندازِ فکر کے راہی قرار دیا جا سکتا ہے، جنھوں نے ادب کو قوم کے ارتقا میں ایک تعمیری عمل تصور کیا۔ ان کے خیال میں ادب ایک کا کام لوگوں میں نیا شعور پیدا کرنا بھی ہے۔ ان میں اہم ترین شخصیتوں کے نام یہ ہیں : سرسیداحمدخاں، خواجہ الطاف حسین حالی، مولانا محمد حسین آزاد، ڈاکٹر نذیر احمد، مولانا شبلی، مولانا ذکاء اللہ، چراغ علی، محسن الملک اور وقار الملک۔ ان سب کا عقیدہ یہ تھا کہ ادب زندگی کے مطابق بھی ہو اور اس کے لیے فائدہ مند بھی۔

غدرسے پہلے اور غدر کے بعد، ادب میں یہ فرق تھا اور یہ فرق غدر نے ہی پیدا کیا۔ اسی بنا پر 1857ء کی جدوجہد تنہا ہماری سیاسی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ ہمارے ذہن، تمدن اور ادبی ارتقا میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

1857ء کے بعد کا ماحول ڈگمگا رہا تھا۔ ادب میں ایک عجیب سی بے چینی نظر آ رہی تھی۔ قدامت اور جدیدیت ایک دوسرے کو نوچ کھسوٹ رہی تھی۔ اچھے اور برے دونوں عناصر مل جل کر ایک نیا خمیر بنا رہے تھے۔ دربارسے رشتہ ٹوٹ کرسماج سے جڑ نے لگا تھا۔ اپنے ذہن اور اپنے بازوؤں پراعتماد کیا جانے لگا۔ شکست کے بعد اس حقیقت سے انکار کی گنجائش قطعی نہ رہ گئی کہ نئے خیالات اور نئے حالات کو آنے سے اب کوئی روک نہیں سکتا ہے۔ ماضی کی عظمت سے انکار نہیں، لیکن تنہا اس کو گلے لگا کر جینا اب مشکل ہے۔ یہ احساس رفتہ رفتہ سماج میں اثر کرنے لگا۔ اسی لیے ادبی تحریروں میں فرق آیا۔ ادیبوں نے سوچاکہ حال تو تباہ ہو گیا اب مستقبل ہاتھ سے نہ جانے پائے اور مستقبل کوسنوارنے کے لیے روشن ماضی ہی کاسہارالیا جاسکتا ہے۔ اسی خیال کے تحت ہم کو غدر کی اہمیت کوتسلیم کرنے میں شاید ہچک نہ ہو کہ اسی وجہ سے ادب میں ایک خوشگوار انقلاب آیا۔ اور یہ حادثہ ہی ادب کی تاریخ میں ایک دور کا خاتمہ کرتا ہے تودوسرے سنبھلے ہوئے دور کا آغاز بھی۔ فراق گورکھپوری کا یہ خیال کہ:

ہندستان کا1857ء کا غدر دودھاری تلوار تھا، جس نے دونوں طرف سے وار کیا اور جو تخریبی کے ساتھ ساتھ تعمیری اور تخلیقی بھی تھا۔

دربارسے شاعری کا رشتہ ٹوٹا تو اردو شاعری کا دامن نئے ہندستان سے آراستہ ہونے لگا۔ اب شاعری کی باگ ڈور متوسط طبقے کے ہاتھ آ گئی، نئے نظام کے زیرسایہ پلنے لگی۔ نئے بکھرے ہوئے شاداب جھرنوں کے سوتے شاعری میں پھوٹنے لگے۔ سرسید، حالی، شبلی، نذیر احمد، ذکاء اللہ یہ سب الگ الگ مزاج، الگ الگ ذہن، لے کر ایک نئی فکر کے ساتھ ادب میں داخل ہوئے۔ ان سب میں سے کسی کا تعلق دربار سے دور دراز تک نہ تھا۔ ان میں سے کوئی بھی دربار کے کسی طور طریقہ سے واقف نہ تھے۔ ان لوگوں نے آگے چل کر کیا کیا گل افشانیاں کیں اس کا تذکرہ آگے تفصیل سے آئے گا۔ یہاں پر صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ غدر سے قبل جوداستانوں کا رواج تھا وہ ایک دم سے سلیس اور معنی خیز نثر میں تبدیل ہو گیا۔ بقول محمد حسن:

داستانوں میں ہرداستان کا تاج شہزادوں اور بادشاہوں کے سر سے اتر کرمتوسط طبقے کے گھرانوں کے حصے میں دے دیا گیا۔ اس نئی ادبی فضا نے کون سے رخ اختیار کیے، یہ جدید اردو ادب کا محبوب موضوع رہا ہے۔ اس فضا کا نقطۂ آغاز 1857ء ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔

مثنویوں کا دور ختم ہوا۔ کیوں کہ اس کے مزاج کی اب فضا باقی نہ رہی۔ دربار اجڑ گئے تو قصیدے کا زوال آ گیا۔ پہلے ایک ایک شعر پر نواب اشرفیاں برسادیتے تھے۔ اب خود نواب ہی مال وزر کوترستے تھے۔ نیا دور آیا تو مشغولیات بڑھیں۔ داستانیں مٹنے لگیں۔ فرد کے بجائے اب پوری جماعت سے تعلق ہونے لگا۔ ادیب سنبھلے اور اپنے قلم کو فضولیات سے ہٹا کر زندگی کی حقیقتوں کی طرف موڑ دیا۔ نیا دور اپنے ساتھ سائنس لایا۔ مغربی رجحانات لایا ابس ایسے ہی ماحول میں اردو ادب کے چند علم بردار سامنے آئے جنھوں نے اس فرسودہ ادب میں نئے خیالات، نئے احساسات، اپنے قلم کے ذریعے دیے۔ سرسید کی بدولت فلسفیانہ، اخلاقی و مذہبی خیالات آئے۔ حالی نے مقدمہ اور مسدس لکھ کر ایک زبردست اضافہ کیا۔ نذیر احمد نے اردو ناول کا تعارف کرایا۔ شبلی نے تاریخ کے ذریعہ ایک نئی و زندہ نثر سے ادب کوروشناس کرایا۔

غرض کہ ادب میں نئے خیالات کی بھرمار ہو گئی۔ جس کے اثرات دور دراز تک پھیلنے لگے اور آج تک اردو کا پورا سرمایہ ان ہی خیالات کے ارد گرد ناچ رہا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے یہ جدوجہد محض سیاسی بیداری کی ہی حامل نہیں بلکہ ہماری ذہنی، فکر ی اور ادبی تاریخ میں بھی ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ سرسید، حالی، شبلی، نذیر احمد، ذکاء اللہ، محسن الملک ان سب نے اس کی کوکھ سے جنم لیا۔ جنھوں نے آگے چل کر اردو ادب میں ایسی واضح تبدیلیاں کیں کہ اردو ادب ان کے احسانوں سے کبھی سرنہ اٹھا سکے گا۔

 

اودھ اور جنگِ آزادی

غدر کی آگ ہندستان میں اس انداز سے پھیلی کہ وہ خطّے جو اپنی خوشحالی اور عیش پرستی کے لیے دور دور تک مشہور تھے، وہ بھی اس کی لپیٹ سے بچ نہ سکے۔ غدر کے لپکتے ہوئے شعلوں نے ان کی تمام خوبصورتی، رنگینی اور بے فکری کوجھلس کر رکھ دیا اور ساتھ ہی ساتھ تاریخ کا ایک سنہرادور دیکھتے دیکھتے راکھ ہو گیا۔ اودھ کا خطّہ بھی ان انگریزوں کی نوچ کھسوٹ سے بچ نہ سکا۔ ہنگامہ ہوا، ایک تاریخ ساز ہنگامہ۔ جس نے ایک منظم اور خوبصورت سلطنت کو تباہ کر کے درہم برہم کر دیا اور ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ 1857ء کے غدر کے وقت لکھنؤ کیسے تباہ ہوا اس کے لیے اس دور کو دیکھنا پڑے گا۔ جہاں تقریباً سو سال سے چلی آ رہی منظم حکومت اپنا دم توڑ رہی ہے۔ با ذوق اور شان و شوکت والا بادشاہ اپنی مجبوری اور لاچاری پرآنسو بہا رہا ہے اور عوام اپنے ہر دل عزیز بادشاہ کے غموں کو دیکھ کر تڑپ رہے ہیں۔ 1848ء سے 1856ء تک اودھ کی حکومت واجد علی شاہ کے زیر سایہ چلی جو انھوں نے اپنے والد امجد علی شاہ سے حاصل کی تھی۔ انگریزوں کی ہندستان میں دخل اندازی اگرچہ ایک طویل عرصہ قبل شروع ہو چکی تھی لیکن واجد علی شاہ اپنے وقت کا پورا با اختیار بادشاہ تھا۔ 1815ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور حکومت اودھ کے درمیان صلح نامہ ہوا۔ جس میں اودھ کا نواب تسلیم کر لیا گیا۔ 1814ء سے 1827ء تک غازی الدین حیدر نے پوری بادشاہ کی زندگی گذاری تھی۔ اس کے بعد نصیرالدین حیدر آئے۔ یہ اگرچہ بعض کمزوریوں کے مالک تھے، لیکن پوری شان و شوکت سے دس سال حکومت کر کے 1837ء میں انتقال کر گئے۔ اس کے بعد نصیرالدین ولد محمد علی تخت پر بیٹھے، جنھوں نے صرف پانچ سال حکومت کی۔ اور 1842ء میں امجد علی شاہ گدّی نشین ہوئے۔ یہ واجد علی شاہ کے والد تھے۔ انھوں نے کم عمر پائی اور ایک مرض میں مبتلا ہو کر 1847ء میں انتقال کیا۔

واجد علی شاہ اس سلطنت کے آخری بادشاہ تھے۔ آبا و اجداد سے چلی آئی طبیعت کی رنگینی، عیش پسندی ان کے اندر خاص طور پر پورے زور شور کے ساتھ سمٹ آئی تھی۔ بادشاہت کی سیاسی ہوشیاریوں کو بالائے طاق رکھ کر روز بروز عیش و عشرت میں ڈوبنے لگے۔ اور بقول ڈاکٹر سیدمحمد عقیل:

اِدھر بادشاہ اور وزراء عیش و عشرت میں ڈوب رہے تھے اور اُدھر انگریزوں کا سیاسی پنجہ نواب شاہی کا گلا گھونٹنے کے لیے اور سخت ہوتا جار ہا تھا۔ بادشاہ، بیگم، وزراء اور روشن الدولہ، اعتماد الدولہ، معتمد الدولہ جیسے اہلِ دول کے درمیان مصالحت اور جنگ کرانا بھی انگریزو ں کے ہاتھ میں تھا۔ بادشاہ ایک بات کو پسند کرتا مگر وہ پسندیدہ کام اس لیے عمل میں نہیں لایا جا سکتا تھا کہ صاحب ریزیڈنٹ کی رضامندی اس بات کی نہ تھی۔

ان جملوں سے انگریزوں کی بڑھتی ہوئی اور بادشاہ کی گھٹتی ہوئی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود بادشاہ کو پورے طور پر ہوش نہ تھا۔ وقت انتہائی ہوش مندی کا تھا کیونکہ رفتہ رفتہ انگریز غالب آ رہے تھے۔ بادشاہ کی عیش پسندی اور آرام طلبی کے اثرات عوام تک پہنچ رہے تھے۔ عورتوں کی قدرو منزلت تواس قدر بڑھ گئی تھی کہ ہر وقت دربار میں عورتوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ عورتیں اپنے شوہروں کو طلاق دے کر بادشاہ کی بیوی بننا چاہتی تھیں۔ نجم الغنی لکھتے ہیں :

بادشاہی محلات میں صاحب مرتبہ اور دولت مند عورتوں کا ایک فرقہ تھا جن کے رشک وحسرت میں اکثر ارباب خاص جلتے تھے۔۔۔ دو دو سو تین تین سو روپئے ماہوار تنخواہ دی جاتی تھی۔ ان کالباس نہایت پر تکلف بیش قیمت ہوتا۔ ایک ایک دوپٹہ چار چار ہزار روپئے میں تیار ہوتا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس تکلف کی پوشاک اور نفاست کا زیور نصیرالدین حیدر کے محلات میں عورتوں کے پاس تھا شاید نورجہاں اور زیب النساء کو بھی نصیب نہ ہوا ہو۔

واجد علی شاہ نے یہ عیش پسندی اور عاشقانہ مزاج ورثہ میں پایا تھا۔ اس کے آثار بچپن سے ہی نمایاں طور پر نظر آنے لگے تھے۔ اپنی کتاب تاریخ پری خانہ جوفارسی میں ہے اور جس کا ترجمہ مرزا فدا علی خنجر نے اردو میں محل خانۂ شاہی کے نام سے کیا ہے۔ ان کے حالات سے بخوبی واقفیت ہوتی ہے۔ اپنے بچپنے کے عاشقانہ واقعات رقم کرنے کے بعد ایک جگہ لکھتے ہیں :

"جب میراسن ا گیارہ برس کا ہوا تومیں ہرحسین عورت سے محبّتانہ چھیڑ چھاڑ کرتا اور ان کی دل ستاں اداؤں سے محظوظ ہوتا۔ اسی زمانے میں ایک عورت نبّو صاحبہ نامی جو میری والدہ ماجدہ صاحبہ کے یہاں مغلانی کے عہد ے پر معین و ممتاز تھیں اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا اور اس کے وصال خیال محال دل و دماغ میں گونجا کرتے۔ لیکن یہ عورت شوہر دار تھی۔۔۔۔ مجھے حکمت عملی سے خوش کر کے ٹال دیتی تھی۔ "

اسی طرح سے یہ پوری کتاب عاشقانہ واقعات سے بھری ہے جس کو پڑھنے سے واجد علی شاہ کی پوری شخصیت واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے۔ جس کا بچپنا ایسا گذرا ہو جب عین شباب کے ایّام میں چھبیس سال کی عمر میں حکومت سنبھالی تو یہ ساری حرکتیں پورے طور پر کھل کھیلنے لگیں۔ بقول ڈاکٹر سیدمحمد عقیل:

"جوان ہونے پر جب زمامِ سلطنت ہاتھ میں آئی تو بزمہائے عشرت آراستہ ہوئیں۔ پری پیکروں اور دھاڑیوں کا مجمع گرد و پیش ہوا۔ رقص وسرود کی نظمیں نتھو، گھمن، چھجو، نائب علی وغیرہ نے سجائیں۔ رات دن یہی شغل جاری رہنے لگا۔ جب گرد و پیش ایسی محفلیں سجیں، جس پر پری پیکروں کی تانیں، رنگ نور کی بوچھاریں پڑنے لگیں تو رنگیلے پیا کی رنگین طبیعت کو ایک ترنگ سوجھی۔ ایک مکان اور آراستہ کیا گیا جس میں طرح طرح کی حسین و طرحدار عورتیں اکٹھا کی گئیں۔ اس مکان کا نام پری خانہ رکھا گیا۔”

ان سب سے الگ ہٹ کر کبوتر بازی اور بٹیر بازی میں ڈوبے ہوئے بادشاہ کواس بات کی خبر کہاں کہ انگریز کیسی کیسی سیاسی چالیں چل رہا ہے۔ کرنل سیلمن کی رپورٹ شاید اسی وجہ سے بدل گئی تھی۔ ایک طرف یہ عیش پسندی، دوسری جانب انگریزوں کا بڑھتا ہوا غلبہ۔ واجد علی شاہ کے ان مائل بہ زوال رنگین حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے عہد میں انگریزوں کا زور بڑھ گیا تھا۔ ہر طرف سے انگریزوں کی قوتیں بڑھتی چلی جا رہی تھیں اور اندرونی حکومتیں اپنے پچھلے انداز سے عیش و عشرت میں مبتلا تھیں تنہا اودھ کا خطہ ہی نہیں بلکہ پوراہندستان کمزور ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تمام حکومتیں خانوں میں بٹی ہوئی تھیں۔ مولانا عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں :

"اصل یہ ہے کہ اس عہد میں ادھر اہل ہند کی غفلت اور جہالت کا پیمانہ چھلکنے کے قریب پہنچ گیا تھا اور ادھر دولت برطانیہ کی قوت اور برٹش عافیت اندیشی۔ جفا کشی اپنی کوششوں اور اپنی اعلیٰ تہذیب و شائستگی کا شہر ہ پانے کی روز بروز مستحق ثابت ہوتی جاتی تھی۔ غیر ممکن تھا کہ دانائی فرنگ کی ذہانت و طباعی خوش تدبیری و با ضابطگی، ہند ستانی کی جہالت اور خود فراموشی پرفتح نہ پاتی۔ زمانے نے ساری دنیا میں تمدن کا نیا رنگ اختیار کیا تھا اور پکار پکار کر ہر ایک قوم سے کہہ رہا تھا کہ جواس مذاق میں میرا ساتھ نہ دے گا وہ مٹ جائے گا۔ زمانے کے اس ڈھنڈورے کی آواز ہندو ستان میں کسی نے نہ سنی اور سب مٹ گئے۔

شر ر کا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ کسی نے بھی دوراندیشی اور مصلحت بینی سے کام نہ لیا۔ دور سے نظر آنے والے انقلاب پر ذرا بھی کان نہ دھرا۔ واجد علی شاہ کی حکومت کے دس سال جتنی خوش اسلوبی، خوش گوار اور بے فکری سے گذرے، اتنا ہی اس نے انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو مضبوط کر دیا۔ اب ان کی نگاہیں اپنے تمام عہد ناموں سے کترا کر اودھ کی طرف بڑھنے لگی تھیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس صداقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اچانک انگریز حکام کی اودھ پر توجہ وہاں کے بادشاہ اور عوام کی عیش پرستی اور بدنظمی کی وجہ سے بھی ہوئی۔ جب کرنل سیلمن نے ملک اودھ میں دورہ کیا(1850ء ) اور جو تاثر لے کر گیا وہ بہت اچھے نہ تھے۔ اگرچہ وہ ملک اور اس کے حاکموں کے بہت زیادہ خلاف بھی نہ تھا لیکن وہاں کی واپسی کے بعد جو بیان دیا وہ کچھ اس طرح کا تھا:

اودھ کے تخت سلطنت کو میں دل سے قائم رکھنا چاہتا ہوں، مگر پچاس برس کے تجربے سے یہ امر یقین کے مرتبہ کو پہنچ گیا کہ بادشاہ اودھ سے کوئی امید نہیں ہوسکتی کہ معموریِ بلاد اور آسودگئی عباد میں کوشش کرے گا اور رعایا کو ظلم وجفاسے بچائے گا۔ اور کوئی انتظام خلق کے آرام کے لیے کرے گا۔

سیلمن کے بیانات پر متعدد بار شبہ کا اظہار کیا گیا ہے اور خود میجر برڈ نے جو ڈپٹی رزیڈنٹ تھے، انھوں نے سیلمن کے بیانات کی تردید کی ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اودھ ان حالات میں حکومت کی استقامت کا ثبوت نہ تھا، جس سے واجد علی شاہ کا دور گذر رہا تھا۔ اگر چہ اس امرسے سوفیصدی یقین نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کی روشنی میں جھلکتے ہوئے اس وقت کے ماحول کی تساہلی اور عیش پرستی کے آثار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کرنل سیلمن کے بعد کرنل اوٹرم 1854ء میں اودھ کی نگرانی کے لیے متعین کیے گئے۔ لیکن افسوس انھوں نے بھی اودھ سے متعلق جو رپورٹیں ڈلہوزی کودیں اس میں بھی اودھ کی حالت قابل افسوس دکھائی۔ اگرچہ ڈلہوزی اودھ کے خطہ سے دلچسپی رکھتا تھا لیکن اودھ کے الحاق کے موافق نہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ابتداسے اب تک شاہانِ اودھ کمپنی کے حامی اور فرماں بردار رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو 1801ء میں شاہان اودھ اور کمپنی کے درمیان صلح نامہ ہوا تھا، اس کی خلاف ورزی ہو گی۔ لہٰذا اس نے خط لکھا کہ:

"حسان مندی اور انصاف  کا تقاضا یہ ہے کہ ہم رعایا کی آسودگی اور بہتری کے لیے بادشاہ کی علو مرتبگی اور عالی منصبی میں جس قدر ممکن ہو منزل کم کریں۔ ملک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی بغیر اس کے بھی ہوسکتی ہے کہ ملک اودھ سرکارکمپنی کے ملک کا ایک صوبہ بنایا جائے اور تخت شاہی بالکل الٹ دیا جائے۔ اس لیے میری رائے نہیں ہے کہ ملک اودھ سرکارکمپنی کے ملک کا ایک صوبہ بنایا جائے، بلکہ جس قدر بادشاہ کے قبضہ میں ہے وہ اس کے بدستور بادشاہ بنے رہیں۔”

لیکن ڈلہوزی کی اس رائے سے اختلاف کیا گیا۔ جنرل لو جو پہلے لکھنؤ کے رزیڈنٹ بھی رہ چکے تھے اور سرجان گرنٹ نے بھی کہا کہ ملک اودھ میں بد انتظامی اتنی شدت سے پھیل رہی ہے۔ جب تک اس کا الحاق نہ ہو گا رعایا کو آرام نہ ملے گا۔ کیا واقعی یہ حقیقت ہے یا صرف چالیں تھیں۔ ایسے موقع پر رئیس احمد جعفری کی چند تحریریں رقم کر دینا مناسب ہو گا۔ وہ لکھتے ہیں :

"لارڈ ڈلہوزی کی رائے کورٹ آف ڈائریکٹرس نے اس لیے نہیں مانی کہ اودھ کی بدنظمی کا بغیر اس کے سدّباب نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ بدنظمی جس کا اتنا چرچا کیا گیا ہے، صرف ذہن و دماغ اور صفحۂ قرطاس پرتھی۔ ورنہ خارج میں اس کا کہیں وجود نہ تھا۔ انگریزوں کے دورِ حکومت میں اودھ کو جن مصائب کاسامنا کرنا پڑا، انھیں دیکھ کربلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ عہد واجد علی شاہ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں۔ "

آخر کار فیصلہ ہو گیا کہ اودھ کی سلطنت ختم کر دی جائے اور یہ ذمہ داری جنرل اوٹرم کوسونپی گئی کہ وہ بادشاہ کو اطلاع دے کر عہد نامے پردستخط لے۔ 4؍فروری 1856ء کواوٹرم صاحب واجد علی شاہ کے محل میں گئے اور واجد علی شاہ کو گورنرجنرل کا خط دیا۔ واجد علی شاہ نے خط کو پڑھنے کے بعد جو جواب دیا، ذکاء اللہ صاحب لکھتے ہیں :

"بادشاہ نے نہایت غم زدہ ہو کر غصے سے کہا کہ عہد نامہ صرف برابر والوں میں ہوتا ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ میں اس پردستخط کروں۔ برٹش کو اختیار ہے کہ میرے ساتھ اور میرے ملک کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ مجھے انگلینڈ جانے کی اجازت ملے کہ اس کے تخت کے آگے اپنے دکھ کا درماں چاہوں۔ بادشاہ کوکسی بات نے اپنے ارادہ سے بازنہ رکھا اور عہد نامے پراس نے دستخط نہیں کیے۔

اس موقع پر واجد علی شاہ کی والدہ محترمہ بھی موجود تھیں۔ انھوں نے بھی اوٹرم سے اپیل کی۔ لیکن ان سب باتوں کا ذرا بھی اثر نہ ہوا۔ الغرض جب واجد علی شاہ نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تواسی وقت ملک اودھ کے ضبط ہونے کا اعلان کر دیا گیا اور 13؍فروری 1856ء کو اودھ کا الحاق ہو گیا۔ بادشاہ کو 15 لاکھ روپیہ سالانہ وظیفہ مقر ر کیا گیا کہ بادشاہ شہر میں آرام سے رہیں لیکن اختیارات محدود کیے جاتے ہیں۔

یہ خبر اُڑتے ہی سارے شہر میں سناٹاچھا گیا۔ شاہی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ بادشاہ لاچار و مجبور ہو گیا۔ بادشاہ سے رعایا بن گیا۔ اس کی ساری شان و شوکت ختم ہو گئی۔ پابندیاں لگ گئیں۔ پروفیسر جی۔ ڈی۔ بھٹناگر لکھتے ہیں :

"His majesty who was now on the verge of tears recapipulated the fan-ours which this ancestors had received at the hands of the British government.”

واجد علی شاہ جس کے یہ تاریخی دس سال ہمیشہ مورخین کے دل و دماغ کو کھنگالتے رہیں گے، جس نے یہ دس سال خوبصورتی، عیش و آرام، بے فکری، محفلیں سجانے، رنگ رلیاں منانے اور اسی طرح کی دوسری مصروفیات سے اودھ کی تاریخ مرتب کی تھی جس کے آگے پیچھے سینکڑوں خوبصورت کنیزیں، دلچسپ ماحول، رومان انگیز فضا منڈلاتی رہتی۔ جس کے ایک اشارے پر پورا اودھ کا خطہ ہل جایا کرتا۔ جس کی سالانہ آمدنی دو کروڑ سے بھی زیادہ تھی۔ آج وہ اپنی مجبوری اور انگریزوں کی زبردستی کا شکار ہو گیا۔ انگریزوں نے اپنا جال بچھایا اور اسے اپنی قید میں لے لیا۔ اس کی آمدنی گھٹ کر صرف پندرہ لاکھ روپیہ سالانہ ہو گئی۔ جس پر بہت سی پابندیاں لگ گئیں۔ جو آج دوسرے کا مطیع و فرماں بردار ہو گیا۔ وہاں کے عوام جو اپنے بادشاہ کو پلکوں پر بیٹھاتے تھے، فرنگی بیڑیوں میں دیکھ کر غم سے نڈھال ہو گئے۔ اپنی مجبور اور خاموش آنکھوں میں آنسولیکن لبوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ دماغ میں گرمی ہے لیکن ہاتھ میں بیڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ شاہی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ لوگ خاموش رہے۔ بادشاہ پر ظلم ہوا۔ رعایا چُپ رہی۔ کوئی بتائے یہ کس کا قصور ہے۔ یا صرف عیّاری ہے حکومت پر قابض ہونے کی ایک گندی چال۔ وقت سب سے بڑا عادل ہے، جس نے بادشاہ کی نرمی و کمزوری سے یہ نتائج برآمد کیے اور انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت میں سیاست کا ایک نیا باب کھولا اور ایک درس دیا۔ بادشاہ کو اپنی غفلت و کوتاہی کی سزاملی لیکن جتنا بڑا گناہ اس سے کئی گنی بڑی سزا۔ عزت، آبرو کے پرخچے اُڑ گئے۔ آن و بان کی دھجیاں اڑ گئیں۔ سب رنجیدہ، سب کے دل پژمردہ۔ پروفیسر جی۔ ڈی۔ بھٹناگر لکھتے ہیں :

"Poor and rich, young and old all were bewailing for the king and dropped tears from the eyes.”

ایسی بے بسی اور لاچاری کے ماحول میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس ظلم وستم کی فریاد انگلینڈ جا کر ملکہ وکٹوریہ سے کریں گے اور اپنی حکومت واپس لے لیں گے۔ اور یہ فیصلہ کر کے انھوں نے قصد سفر کیا۔ سب سے پہلے کلکتہ کی طرف ارادہ کیا، اور3؍مارچ856 1ء کہرام، شور، آہ و فغاں، آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے ماحول، مضطرب وسراسیمہ عزیز و اقارب سے رخصت ہو کر اشکوں کا تار باندھتے ہوئے لکھنؤ سے رخصت ہوئے۔ لکھنؤ ویران ہو گیا۔ عیش و عشرت رخصت ہوئی۔ خوشی ومسرت روٹھ گئی۔

 کانپورسے الہ آباد ہوتے ہوئے بنارس پہنچے۔ مہاراجہ بنارس نے ان کا پُر جوش استقبال کیا اور بادشاہ کی گاڑی کے ساتھ پیدل چلتے رہے۔ ان ایام میں سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ پھول جیسے ماحول میں رہنے والے بادشاہ کا بدن گرمی کے تھپیڑوں میں جھلس رہا تھا۔ تقریباً دو ہفتہ بنارس میں رہنے کے بعد کلکتہ کی جانب روانہ ہوئے۔ پانی کا جہاز خوف وہراس سے ڈگمگاتا ہوا 13؍ مئی 1857ء کو کلکتہ پہنچا اور جب وہاں انگلینڈ کا قصد کیا تو اطباء نے بحری سفر کو مضر قرار دیا۔ لہٰذا بادشاہ خود کلکتہ میں ٹھہر گئے، لیکن اپنی والدہ اور اپنے بھائی سکندر حشمت کو اپنی جگہ پر انگلینڈ بھیج دیا۔ بادشاہ کے اچانک ہٹ جانے اور حالات میں ایسی تبدیلیاں آ جانے سے اودھ کے عوام میں سکتہ ساطاری ہو گیا۔ سراسرانگریزوں کے مظالم دیکھے۔ صلح نامہ کو رد ہوتے ہوئے دیکھا۔ بادشاہ کے آنسودیکھے۔ اس کی کمزوری اور بے بسی دیکھی اور اپنے اندر ابلتے ہوئے جذبات کو بھی پڑھا۔ سیکڑوں امراء اور والیانِ مملکت بے کار ہو گئے۔ جس کو حکومت سے وابستگی تھی وہ بے روز گا رہو گئے۔ اگر کوئی روزگار سے بھی تھا  تو ظلم وسختی کاسراسر شکار، ہزاروں خاندان بھوک اور آگ کی لپیٹ میں داخل ہوتے چلے جا رہے تھے۔ بھوک، بے روزگاری، بے اطمینانی، پریشانی، جھنجھلاہٹ کا دور دورہ ہونے لگا اور ان سب کے امتزاج سے پیدا ہونے والی نفرت، غصہ اور دشمنی کی ایک تیزلہرسرعت سے عوام کے دل و دماغ میں بستی چلی جا رہی تھی۔ مخالفت کی بو اٹھ رہی تھی۔ بغاوت کی لہر جاگ رہی تھی۔ کچھ کر دکھانے کا جذبہ بیدار ہو رہا تھا۔ بازوؤں کی طاقت پھڑک رہی تھی۔ انگریزوں سے نفرت اور ان کوشکست دینے کے لیے لوگ بیتاب ہوتے جا رہے تھے۔ واجد علی شاہ اب نہیں رہے۔ ہر دل عزیز بادشاہ اب درمیان میں موجود نہیں۔ لکھنؤ اُجڑ گیا۔ ویرانی طاری ہو گئی۔ رئیس احمد جعفری لکھتے ہیں :

"واجد علی شاہ اختر۔ اختر نگر(لکھنؤ) سے سدھارگئے۔ اور ان کے جاتے ہی سارے شہر کا نقشہ بدل گیا۔

نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ درکی صورت

نہ اب شاہی چوب دار نظر آتے ہیں، نہ دربار شاہی کا طمطراق اور جاہ و جلال۔ نہ وہ شاہی دبدبہ ہے نہ طنطنہ۔ شہر میں اب انگریزوں کا راج ہے اور وہ اپنی میموں کے ساتھ بگھیوں پر اڑتے پھرتے ہیں۔ شاہی محلات و قصور، جہاں زندگی اپنی پوری رعنائی کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی تھی، اب ویران سنسان پڑے ہیں۔ مکان کے دروازے بند اور مکیں نہ دارد۔ "

ایسے ماحول میں سرجیمس اوٹرم جس کے ہاتھوں سے اودھ کا الحاق ہوا تھا، وہ واپس چلا گیا۔ اور گورلی جیکسن چیف کمشنر ہوکے آیا۔ یہ کمشنر بہت سخت اور ظالم تھا۔ اسے اہل لکھنؤ سے ذرا بھی دلچسپی و ہمدردی نہ تھی۔ اس نے آتے ہی شاہی فوج کو بر طرف کر دیا، جس کی وجہ سے سیکڑوں فوجی یکایک بیکار ہو گئے۔ تمام تعلقہ داروں اور زمینداروں پرسختی کی گئی۔ ان سب حرکتوں سے نفرت، بے اعتمادی اور بڑھتی گئی۔ بادشاہ کے جانے کے بعد ان کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ جیکسن کے ظلم گلی گلی پہنچنے لگے۔ اگرچہ وہ بعد میں بلا لیا گیا لیکن وہ اپنی ذات سے اہل لکھنؤ کی روح میں نفرت اور بدلہ لینے کا جذبہ پھونک گیا۔

ابھی لکھنؤ ایسے ہی گرم ماحول سے گذر رہا تھا کہ اچانک میرٹھ میں نئے کارتوس کے خلاف فوج نے بغاوت کر دی۔ دراصل جو فضا لکھنؤ میں تھی، تقریباً ویسی ہی شکل پورے شمال میں ہو چکی تھی۔ میرٹھ میں ایک کارتوس جس کی ساخت اس انداز کی تھی، جس میں چربی کی آمیزش تھی۔ جس سے ہندو اور مسلم دونوں کو اپنے اپنے مذاہب خطرے میں نظر آنے لگے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ لیکن ابتدا میں انگریز حاکموں نے اس کی اہمیت نہ سمجھی اور بعد میں زوروزبردستی سے کام لینے لگے۔ نتیجہ کے طور پر اس کے خلاف 10؍ مئی 1857ء کوہندستانی فوجوں نے غم و غصہ کی حالت میں اس کے استعمال سے انکار کر دیا۔ ان فوجیوں کو اس مخالفت کے لیے سخت سزائیں ملیں۔ لیکن پہلا موقع ملتے ہی ان باغی فوجیوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور آزاد ہو گئے۔ بہت سے قیدی فوجیوں کو آزاد کر دیا اور ڈھونڈ  ڈھونڈ کر انگریز حکام کو قتل کرنے لگے۔ میرٹھ اور دہلی میں ہنگامہ مچ گیا۔ دو روز کے اندر میرٹھ اور دہلی فوجیوں کے قبضہ میں آ گیا۔ اکثر برطانوی افسران تہِ تیغ ہوئے۔ اور اسی زمانے میں بہادر شاہ ظفر گدّی پر بیٹھائے گئے۔

ایسے میں اگرچہ باغیوں سے کئی غلطیاں ہوئیں۔ جو بعد میں ان کی شکست کا باعث بنیں۔ اگر چہ اس کا یہاں دہرانامناسب نہیں، لیکن انھیں غلطیوں نے انگریزوں کو پھر سے سنبھلنے کا موقع دے دیا۔ لیکن اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان دونوں مقامات کے ان حادثات سے بغاوت کی لہرسارے ملک میں دوڑ گئی اور شعلے بھڑک اٹھے۔ اور رفتہ رفتہ اس کی لپٹیں دہلی اور میرٹھ سے نکل کر دوسرے علاقوں تک پہونچیں۔ بقول نورالحسن ہاشمی:

"اس اثناء میں جنگِ آزادی کے شعلے ملک کے طول و عرض میں بھڑک اٹھے۔ یعنی اودھ، روہیلکھنڈ اور وسط ہند کے کئی علاقوں میں سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ 29؍ مئی اور 5؍جون کے درمیان نصیر آباد (راجپوتانہ) نیمچ(گوالیاریاست) بریلی، لکھنؤ، بنارس اور کانپور ہر جگہ کی فوجوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ "

بغاوت پورے طور پر لکھنؤ میں جذب ہو گئی۔ یہاں اس کو فضا ہموار ملی۔ اچانک یہاں کے مجاہدین نے پورے شہر میں ہنگامہ برپا کر دیا اور سب سے پہلے انگریزوں کا محاصرہ کر لیا اور یکم جولائی سے لے کر16؍نومبر تک محاصرہ جاری رہا۔ اس درمیان انگریزوں نے بہت کوشش کی محاصرہ کو توڑنے کی لیکن وہ ناکام رہے۔ کانپور میں بھی مجاہدوں نے انگریزوں کو گھیر لیا۔ ان دونوں جگہوں پر مجاہدین اور انگریز و ں کے درمیان گھمسان لڑائیاں ہوئیں۔ سارے انگریز بھاگ بھاگ کر بیلی گارڈ کی عمارت میں چھپ رہے اور کچھ حکام مچھی بھون میں مقیم رہے۔ ایسے موقع پر فوجیوں نے بیلی گارڈ کو چاروں جانب سے گھیر لیا۔ دونوں جانب سے گولے باری ہوتی رہی۔ اس درمیان دوسری باغی فوج بھی دوسرے شہروں سے آتی رہی۔ خوب جم کر لڑائی ہوئی۔ نتیجہ میں فوری طور پر انگریزوں کازبردست نقصان ہوا۔ بقول تصدق حسین:

"دولتِ انگلشیہ کاسارانظام مکڑی کے جالے کی طرح درہم برہم ہو گیا۔ پولیس والے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ عہد شاہی کی اختری و نادری پلٹنیں بھی سرکشو ں میں شریک ہو گئیں اور شہر میں بدنظمی اور ہڑبونگ ہو گئی۔”

مچھی بھون میں انگریزوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ فوجوں نے سب سے پہلے اسی پر نظر کی۔ کئی حملے کیے لیکن ناکام رہے۔ جب انگریزوں نے محسوس کیا کہ اب مچھی بھون کا محفوظ رہنا ناممکن ساہے، تو انھوں نے اس عمارت کو توپوں سے اڑا دیا۔ مصنف قیصر التواریخ اس کے بارے میں لکھتے ہیں :

"جب مچھی بھون کی سرنگ میں آگ لگا دی گئی توسارے شہر میں زلزلہ سا آ گیا۔ ہر شخص سوتے میں چونک پڑا۔ گھروں کے چراغ بجھ گئے۔ خود قلعہ کے احاطہ میں جتنے قدیم مکانات تھے سوائے مرزا خورم بخت کی کوٹھی کے سب منہدم ہو گئے۔ گودام میں جتنا ذخیرہ ترو خشک جمع کیا تھاسب برباد ہو گیا۔”

سب سے پہلے امجد علی شاہ کے بیٹے اور واجد علی شاہ کے سوتیلے بھائی مرزا رضا علی دارالسطوت کو گدّی پر بٹھانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے اس وقت کے خوں ریز ماحول اور فتح کی جانب انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدم کو دیکھ لیا اور گدّی پر بیٹھنے سے معذرت کر لی۔ اس کے بعد دو ایک لوگوں کی طرف اور دھیان گیا۔ فوراً برجیس قدر کے بارے میں سوچا گیا۔ لیکن ان کی کم عمری ان کے آڑے آنے لگی۔ لیکن ان کی والدہ بیگم حضرت محل جو اپنی فراست و عقل مندی کے لیے مشہور تھیں، اگرچہ وہ بھی اس وقت اس جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتی تھیں، لیکن دباؤ پڑنے پر مجبور ہو گئیں۔ غرض کہ منظوری کے بعد 5؍جولائی 1857ء کو شام چھ بجے برجیس قدر مسندِ جلوس نواب سعادت علی خاں پر بیٹھے۔ شیخ تصدق حسین لکھتے ہیں :

"غرض شہاب الدین خاں اور سید احمد برکات رسال دار نے اٹھ کر منڈیل مرزا برجیس قدر کے سرپر رکھ دی اور مبارک باد دی۔ دوسرے افسروں نے حسب دستور اپنی اپنی شمشیریں بطور نذر پیش کی۔ جہاں گیر بخش صوبہ دار توپ خانہ فیض آباد میں اسی وقت توپ سے اکیس سلامیاں سرکیں، محل سرامیں نذر و نیاز ہوئی۔ شہر میں دھوم مچ گئی کہ مرزا برجیس قدر اودھ کے حکمراں قرار پا گئے۔”

یہ تو دربار میں ہو رہا تھا۔ لیکن اس کے بالکل برعکس شہر کا ماحول دوسرا تھا۔ وہاں قتل و خون تھا، دربار میں گہماگہمی تھی، شادیانے بج رہے تھے۔ تودوسری جانب عالم باغ میں لاش پر لاش گر رہی تھی۔ بیلی گارڈ پر حملے ہو رہے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ باغی فوجوں نے بڑی ہمت اور شجاعت کا ثبوت دیا۔ لیکن وہ غیر منظم تھے۔ بیچ بیچ میں انھوں نے اپنے اوقات کو ضائع بھی کیا۔ سب سے بڑی بد قسمتی تواس وقت رہی جب 11؍جون کو کرنل نیل نے الہ آباد کے قلعہ کو مجاہدین سے چھین لیا اور پھر الہ آباد کوہی اپنا اصل مقام بنا کر لکھنؤ اور کانپور میں مدد بھیجنی شروع کر دی۔ چنانچہ کرنل نیل جو ایک بوڑھا اور تجربہ کار کرنل تھا، ایک زبردست فوج لے کر لکھنؤ کی طرف مڑا۔ گھماسان لڑائی ہوئی۔ اس درمیان اسے یہ بھی اطلاع مل گئی کہ کانپور بھی محصورین کے قبضہ سے باہر آ چکا ہے، اس سے ان کی ہمت دوبارہ لوٹ آئی۔ کئی پے در پے حملے کیے۔ بے پناہ ظلم کیا۔ خون کے دریا بہہ گئے۔ لیکن ان کے مقابلے میں باقی فوجی سرپرکفن باندھ کر نکلے تھے۔ وہ لکھنؤ کے تمام گلی کوچوں سے واقف تھے اور انگریزوں کے ساتھ یہ ایک زبردست دشواری تھی اور مجاہدین نے ان کی اسی کمزوری سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھایا اور قدم قدم پر تمام انگریز فوجی افسران کو فتح کے قریب آنے نہ دیا۔ لیکن اب انگریزوں کو کمک پہونچنے لگی تھی۔ اب وہ براہ راست انگلستان سے مدد لے رہے تھے۔ چنانچہ دو ماہرافسرجنرل کالسن کیمبل اور ہیلٹو مدد کے لیے بھیجے گئے۔ وہ اپنے ساتھ پنجاب کے سکھ اور بھوٹان کے پہاڑی بھی لائے اور خیال یہ ہے کہ ان ہی لوگوں نے زیادہ ظلم و جبر کا کھیل کھیلا۔ ہر طرف لوٹ مار مچ گئی۔ بربادی و تاراجی کا دور دورہ ہو گیا۔ ہر شخص لوٹ رہا تھا۔ ایک وجہ اور ایسے ہی موقع پر پیدا ہو گئی۔ لوگ حضرت محل کی شرافت اور نیک نیتی کی تعریف ضرور کرتے لیکن اس کا کیا اثر ہوتا کہ وہ عورت تھیں۔ ہر شخص اس وقت غرض کا بندہ ہو چلا تھا۔ ہر باغی اسی وہم میں مبتلا تھا کہ تنہا اسی کا کارنامہ ہے۔ کوئی کسی کی نہیں سنتا تھا۔ ایسے میں احمد اللہ نام کے ایک شاہ صاحب جو فیض آباد سے تعلق رکھتے تھے، اپنی بہادری اور شجاعت سے کئی معرکہ جیت چکے تھے، ان کا اپنا الگ انداز تھا۔ اپنے طور پروہ حکومت کے بارے میں کچھ اور سوچ رہے تھے۔ برجیس قدر کو وہ بچہ اور بیگم حضرت محل کو ایک نادان عورت سمجھتے تھے۔ اپنا ایک الگ دربار قائم کر رہے تھے۔ لہٰذا یہ سیاسی عدم اتحاد، شیعہ وسنّی کا اختلاف، سردارکی کمزور ی، لوٹ مار کے ماحول نے فوجیوں کو کمزور سے کمزور کر دیا۔ جب انگریزی فوج غالب ہوتی ہوئی قیصر باغ میں داخل ہوئی تو ایک قیامت مچ گئی۔ اسی وقت اتفاق سے باغیوں کا ایک سردار بھی کئی ہزار فوج کے ساتھ قیصر باغ میں داخل ہوا۔ دونوں میں مڈبھیڑ ہوئی۔ سخت گھماسان لڑائی، کہ قیصر باغ کے در و دیوار خون میں رنگ گئے۔ سڑ کیں لال ہو گئیں۔ کونے کونے میں لاشوں کا انبار ہو گیا۔ نتیجہ میں باغیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ قیصر باغ پر قبضہ ہو گیا۔ لکھنؤ پر مزید مصائب کے بادل چھا گئے۔ اور وہ سلطنت جس کو باغیوں نے جلدی جلدی میں قائم کی تھی ایک لمحہ میں مٹ کر رہ گئی۔ بے پناہ گولہ باری ہوئی کہ ہوش اُڑ گئے۔ جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا ہے، اسے قیامت صغریٰ کا نام دیا ہے۔ وہ آج بھی اس کو یاد کر کے کانپ جاتے ہیں۔ خواجہ غلام حیدر صفیر، آئین اختری میں اس کی کتنی اچھی تصویر کھینچی ہے۔ لکھتے ہیں :

جب پورا 1857ء اسی چپقلش میں گذر گیا اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا اور لکھنؤ پر برابر قبضہ باغیوں کا رہا، تو 1857ء میں انگریزوں نے کچھ فوج لندن سے بلوائی۔ بہت سی نیپال سے مل گئی۔ کچھ پنجاب سے آئی۔ کانپور سے عالم باغ تک فوج ہی فوج تھی۔ اس فوج نے پہلے تو تمام بستیوں کو تباہ و برباد کیا۔ بے گناہوں کو لوٹا۔ صفی پور، میاں گنج، موہان کو برباد کیا۔ گھر لوٹے، زراعت پامال ہوئی۔ برجیس قدر کی فوج بے شمار تھی، مگر افسران فوج سرکار انگریزی سے ساز باز رکھتے تھے۔ اختری اور نادری فوج بہت لڑی، مگر کمک نہ پہنچنے سے انگریزی فوج چار باغ تک پہنچ گئی۔ اب افسران فوج نے تجویز کیا، تمام شہر کو گھیر لو اور رعایا کو ایک طرف بھاگنے کاراستہ دے دو۔ فوجیں ہر طرف بھیجی گئیں۔ تلنگے اتنی کثیر فوج کو دیکھ کر حیران ہو گئے، ان کو کہیں مدد نہ ملی۔ آخر کار بھاگنے لگے۔ ہر طرف لوگ تہہ تیغ کیے جاتے تھے۔ دریائے خون جاری ہو گیا۔ تمام شہر میں لاش پر لاش پڑی ہوئی تھی۔ بہت سی رعایا بے خطا قتل ہوئی۔ فوج نے سب گھر لوٹ لیے۔ بھاگنے کا راستہ نہ ملتا تھا۔ گوروں کی فوج قیصر باغ کے اندر داخل ہو گئی۔ اب تلاطم برپا ہو گیا۔ آسمان سے لہو برسنے لگا۔ دوپہر تک عام لوگ تلواروں سے موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ قیصر باغ قتل گاہ بنا ہوا تھا۔ جب سپاہی مقتل کے باہر نکلے تو مال و زر  پر ٹوٹ پڑے۔ محل خانہ شاہی کی عورتیں بدحواس تھیں۔ تمام شہر میں ماتم برپا تھا۔ چھوٹے چھوٹے بچے، پردہ نشیں عورتیں، بڈھے، ضعیف، بیمار کمزور سب منھ اٹھائے بھاگ رہے تھے۔ وہ عصمت مآب بیبیاں جن کا رواں بھی کبھی فرشتوں نے نہ دیکھا تھا، بے نقاب و بے چادر گرتی پڑتی بھاگ رہی تھیں۔ بہت سی بیبیوں کے پیارے شوہر چھوٹ گئے۔ مرد و زن سب غم میں مبتلا تھے۔ گدا و غنی سب ایک حال میں تھے۔ شہزادیاں راستے میں تھک تھک کر گر پڑیں۔ وہ دن روز محشر سے کم نہ تھا۔ آبرو کا غم۔ جان کا غم۔ دولت کا غم۔ اولاد کا غم۔ غرض کہ رات بھرمیں لوگ شہر سے باہر ہو گئے۔ سکھ، فرنگی، نیپالی ہر گھر کا اسباب کھود کھود کر نکال رہے تھے اور جو مالک مکان اپنی بے گناہی پربھروسہ کر کے بھاگا نہ تھا، اسے باغی قرار دے کر قتل کر ڈالا۔ غرض کہ شہر میں ہر جگہ قتل و لوٹ کی گرم بازاری تھی۔

انگریزی فوج ہر طرف غالب آ گئی۔ مرزابرجیس قدر اور بیگم حضرت محل اپنی جان بچا کر 31؍ دسمبر1857 کو نیپال کی سرحد میں چلی گئیں اور بعد میں وہیں سکونت اختیار کر لی۔ بیگم حضرت محل نے ایک طویل عرصہ کے قیام کے بعد 1879ء میں وفات پائی۔ ان کے انتقال کے بعد مرزا برجیس قدر کا قصور معاف کر دیا گیا اور وہ کلکتہ چلے گئے، جہاں بعد میں ان کی موت 15؍ اگست 1893ء کوہو گئی۔

لکھنؤ کا ماحول بدل گیا اور یکم نومبر 1857ء میں ہندستان کی پوری حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سے نکل کر انگلینڈ کی حکومت کے ہاتھوں آ گئی۔ لارڈ کینن جواس وقت تک لکھنؤ کا گورنر جنرل تھا، وہی ہندستان کا پہلا وائسرائے بنایا گیا۔

یہاں پر مناسب ہے کہ واجد علی شاہ کا بھی تذکرہ کیا جائے جواس قیامت خیز ہنگاموں سے قبل ذلت اور رسوائی اٹھا کے کلکتہ میں مقیم تھے۔ یہ اُن کے حق میں بہتر ہی ثابت ہوا۔ ورنہ جو انجام برجیس قدر، بیگم حضرت محل یا بادشاہ ظفر کا ہوا، اُن کا بھی ہوتا۔ بقول شرر :

 غنیمت ہوا یہ کہئے کہ قسمت اچھی تھی کہ واجد علی شاہ لکھنؤ سے جا چکے تھے۔ ورنہ وہی خواہ مخواہ بادشاہ بنائے جاتے۔ ان کا حشر ظفر شاہ سے بدتر ہوتا اور اودھ کے پریشان بدبختوں کو ذرا پنپنے کے لیے مٹیا برج دربار کا جو رعایتی سہارامل گیا تھا، یہ بھی نصیب نہ ہوتا۔

کلکتہ میں واجد علی شاہ کے پہنچنے کے بعد وہاں کے حکام نے ان کی خاصی مدد کی۔ اس وجہ سے کہ بادشاہ کا رویہّ ابتداسے نرم اور صلح آمیز تھا۔ لکھنؤ کے ہنگاموں کے اثرات کلکتہ پہنچے لیکن بادشاہ کی ذات نے اسے ابھرنے نہ دیا۔ لندن میں ملکہ معظمہ کے زیر سایہ واجد علی شاہ کے بارے میں سوچا جا رہا تھا۔ نصیرالدین خاں جو بادشاہ کے مختار بن کر لندن گئے ہوئے تھے، جب لکھنؤ کا ہنگامہ ختم ہو گیا تو انھوں نے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ لیکن سیاست نے کچھ ایسی چال چلی کہ خاں صاحب کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی۔ وہ مصاحبین جو بادشاہ کے ساتھ تھے، انھوں نے سازش کی اور سوچنے لگے کہ اگر خاں صاحب مقدمہ جیت گئے توہم سب بیکار ہو جائیں گے۔ لہٰذا سب نے بادشاہ کو بہکانا شروع کر دیا اور بادشاہ کو خاں صاحب کے خلاف کر دیا۔ نتیجہ کے طور پر بادشاہ نے خاں صاحب کی مختاری اور ان کے مقدمے کا خیال نہ رکھتے ہوئے اس وظیفہ پر صبر و شکر کیا، جو ایک عرصہ سے ان کو دیا جانے والا تھا، لیکن بادشاہ انکار کرتے جا رہے تھے۔ جب اِس منظوری کی خبرانگلستان میں بادشاہ کے اعزّاء کو ملی تو وہ حیران رہ گئے۔ لیکن اب ان کا مقدمہ خارج ہو چکا تھا۔ بادشاہ کو مٹیا برج میں رہنے کے لیے جگہ دی گئی، اور سالا نہ وظیفہ مقر ر کر دیا گیا۔ سب حیران کہ یہ کیا ہو گیا۔ آخر میں خاں صاحب نے پھر کوشش کی، لیکن سب بیکار ثابت ہوئی۔

بادشاہ مٹیا برج میں رہنے لگے۔ رنگ رلیوں، خوشحالیوں کا دور پھر آ گیا۔ بادشاہ نے ایک خاص قسم کی عیش پرست طبیعت پائی تھی۔ جگہ مناسب ملی، فضا ہموار پائی۔ کئی سال کے وظیفے کی رقم ایک ساتھ ہاتھ میں آئی۔ بس کیا تھا ایک بار پھر خوشی کا دور آ گیا۔ مٹیا برج کے رنگین ماحول کا تذکرہ شرر  نے تفصیلی طور پر اپنی کتاب "گذشتہ لکھنؤ ” میں کیا ہے، جو شرر  کی ابتدائی زندگی سے متعلق بہت اہم ہے، جو آگے پیش کیا جائے گا۔ یہاں پر شرر کے اس اقتباس پر خاتمہ کیا جا رہا ہے:

"حقیقت حال یہ ہے کہ بادشاہ کے قیام سے کلکتہ کے پڑوس میں ایک دوسرا لکھنؤ آباد ہو گیا۔ اصلی لکھنؤ مٹ گیا تھا اور اس کی منتخب صحبت مٹیا برج میں چلی گئی تھی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں لکھنؤ لکھنؤ نہیں رہا تھا۔ مٹیا برج لکھنؤ تھا۔ یہی چہل پہل تھی۔ یہی زبان تھی۔ یہی شاعری تھی۔ یہی صحبتیں اور بذلہ سنجیاں تھیں۔ یہیں علماء و اتقیاء تھے۔ یہیں کے امراء رؤسا تھے اور یہیں کے عوام تھے۔ کسی کو نظر بھی نہ آتا تھا کہ ہم ہنگامے میں ہیں۔ یہی پتنگ بازیاں تھیں۔ یہی مرغ بازیاں تھیں۔ یہی بٹیر بازیاں تھیں۔ یہی افیونی تھے۔۔ یہی داستان گوئی تھی۔ یہی تعزیہ داری تھی۔ یہی مرثیہ خوانی نوحہ خوانی تھی۔ یہی امام باڑے تھے اور یہی کربلا تھا۔

اسی رنگ میں مٹیا برج کا ماحول گذرتا رہا کہ 1887ء میں واجد علی شاہ کا انتقال ہو گیا۔

 

شاہ ولی اللہ اور ان کی تحریک

اس تحریک کی ابتدا غدر سے کافی قبل ہوتی ہے۔ فروری 1707ء میں اور نگ زیب کے انتقال کے بعد سے ہی مغلیہ سلطنت کا زوال ہونے لگتا ہے۔ ملک کا شیرازہ بکھر نے لگتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر تخریبی عناصرسر اٹھانے لگتے ہیں۔ یورپ کی سفید فام طاقتیں جن کو اور رنگ زیب کے آبا و اجداد نے مہربانیوں اور عنایتوں سے نوازا تھا، جن کو شاہ جہاں نے اپنے غیض و غضب کا شکار بھی بنایا تھا، اب ان کو تجارت کی آزادی مل چکی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ تجارت کے ساتھ اب ان کا عمل دخل ملک کے سیاسی معاملات میں بھی ہونے لگا۔ صوبوں کے گورنر خودمختار ہونے لگے۔ مرہٹوں کی طاقت روزبروز بڑھنے لگی۔ دہلی کے شمال میں روہیلوں کی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ مغرب میں جاٹوں نے اپنے اثرات کو پھیلائے سب کے سب آپس میں لڑتے مرتے رہتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔ ایسے حالات میں 1739ء میں نادر شاہ کا حملہ ہواجس نے دہلی میں قتل و خون کا بازار گرم کر دیا۔ اس کے بعد 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے اور دو ماہ تک اس قدر لوٹ مار مچائی کہ اس کے آگے نادر شاہ کے حملے بھی بھلا دئے گئے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے دس سال بعد 1757ء میں بنارس کی مشہور لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد کئی حملے احمد شاہ ابدالی کے اور ہوئے۔ جس نے دن بدن مرکز کی حکومت کو اور کمزور کر دیا۔ دربار لُٹا۔ خزانے لوٹے گئے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے پچاس سال کی میعاد میں متعدد بادشاہ تخت پر بٹھائے گئے اور اتارے گئے۔ ملک کے ان سیاسی حالات نے اقتصادی اور معاشی حالات پر بہت اثر ڈالا۔ ہندستان ہچکولے کھانے لگا۔ چند ہی برسوں میں اس کی حالت اک دم سے گر گئی۔ مذہب کی اہمیت گھٹتی چلی گئی۔ مذہبی اعتبار سے جب قوم اپنی پستی و زوال کے انتہا پر پہنچ جاتی ہے، تو اس کے سنبھالنے کے لیے خدا ایک قوم پرور شخصیت اس زمین پر اتارتا ہے۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کے خیال کے مطابق:

"جب حالات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں تو سنّت الہٰی کے مطابق کسی مصلح کا ظہور ہوتا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ کی ذات روشنی کی اس کرن کی طرح تھی جو انتہائی تاریکی میں نمودار ہوئی ہو۔”

شاہ ولی اللہ صاحب ٹھیک اسی دور کے پیداوار تھے۔ (1762ء۔ 1702ء ) انھوں نے یہ تمام زوال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن کو اُجڑتے دیکھا، قوم کو بکھرتے دیکھا، مذہبی انتشار دیکھا اور مذہب کے دشمنوں کا بڑھتا ہوا اقتدار بھی دیکھا۔ خدا نے ایک درد مند دل اور سنجیدگی سے سوچنے والا دماغ دے رکھا تھا۔ بس اٹھ کھڑے ہوئے اور قوم کے مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اخلاقی اصلاح کاسنجیدگی سے منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندستان کی قوموں میں مذہب سے متعلق سچاجذبہ اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ جب کہ مذہبی جذبہ ہی انسان کوانسان بناتا ہے۔ اور یہی جذبہ اپنے ملک اور قوم کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اقتصادی اور معاشی توازن بخشنے میں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے۔ اور مذہبی جذبہ جبھی ختم ہوتا ہے جب اس کے ماننے والے معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہوں گے۔ شاہ صاحب نے مسلمانوں کو مذہبی اور اقتصادی اعتبار سے پستے دیکھا، جس کے سو فیصدی ذمہ دار انگریز تھے۔ لہٰذا سات سمندر پارسے آئی ہوئی اس غیر ملکی حکومت کو شاہ صاحب سخت ناپسند کرتے تھے۔ انگریزوں نے سب سے زیادہ اثر مسلم تجاّ ر پر ہی ڈالا۔ شاہ صاحب کواس طبقہ کی تباہی کا سخت افسوس تھا کیونکہ معیشت کا انحصار اسی طبقہ پر ہوتا ہے۔

اسی درمیان آپ نے 1728ء میں حجاز کاسفر فرمایا۔ وہاں دوسال قیام کے بعد یورپ اور ایشیا میں رہ کر تفصیلی معلومات حاصل کیں وہاں کے حالات کو پڑھا۔ غور کیا۔ تمام عرب ممالک میں مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہاں سے واپسی پر آپ ایک نیا ذہن، نئی بیداری اور نئے خیالات لے کر آئے۔ مولانا محمد میاں لکھتے ہیں :

"اس سفرحجاز میں آپ کے ضمیر کی آواز نے یہ فیصلہ بھی سنایاکہ اپنی تباہیوں اور بربادیوں کا واحد علاج "فلک کل نظام” ہے۔ یعنی ایسا ہمہ گیر اور مکمل انقلاب جو سماج کے معاشی، سیاسی، اقتصادی غرض ہر ایک ڈھانچے کو بدل ڈالے۔ کیونکہ اس وقت کا ہر ایک نظام اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے، شہنشاہیت کا پروردہ ہے اور وہ امراض جو شہنشاہیت کے ساتھ لازم ہوتے ہیں، ہر ایک نظام میں سرایت کر چکے ہیں۔ بس کوئی اصلاح اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ہر ایک نظام کہنہ کو منہدم کر کے اس کی جگہ نظام نو تعمیر کیا جائے۔”

واپس آتے ہی انھوں نے اقتصادی اور سیاسی اصول مرتب کیے، جس کا اظہار عوامی طبقہ پر تھا۔ ان لوگوں کے حق میں تھا جو محنت کرتے ہیں۔ پسینہ بہاتے ہیں۔ اس حکومت اور اس سماج کی بے حد برائی کی جو مزدوروں اور کاشتکاروں پر بھاری ٹیکس لگائے، انھوں نے اسے قوم کا دشمن قرار دیا۔ علمی اصلاح کے لیے قرآن عظیم کی حکمت عملی کواس کا معجزہ ثابت کرنے کا عنوان بنایا اور دولت کے تمام اخلاقی اور عملی مقاصد کا مرجع اور مدار اقتصادی عدم توازن کو قرار دیا۔

شاہ صاحب کے یہ خیالات تیزی سے پھیلے اور رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ شاہ صاحب نے سماجی اصلاحات میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک صوفی تھے۔ ان کے تمام خیالات میں تصوف کارفرما نظر آئے گا۔ لیکن یہ تصوف ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ بقول ظہیر احمد صدیقی:

"شاہ ولی اللہ کا رجحان عام طور سے تصوف کی طرف تھا، مگر وہ اس تصوف سے جس کو اقبال نے مسلک گو سفندی سے تعبیر کیا ہے، کوسوں دور تھے۔ ان کے نزدیک علم و عمل کے صحیح امتزاج کا نام تصوف ہے۔ وہ نفیِ خودی کے سخت مخالف تھے۔ ان کی تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جہاں انھوں نے صوفیہ کی قابلِ اعتراض باتوں کو دیکھا ان پر معترض ہیں۔”

انگریزوں کے خلاف جب یہ آوازیں تیزی سے اٹھیں تو انگریزوں نے اسے وہابی تحریک کا نام دے کر بدنام کرنے کی کوشش کی۔ (وہابی تحریک کا نام دے کر کس طرح سے بدنام کرنے کی چال انگریزوں کی تھی اس کا ذکر آگے آئے گا) لیکن یہ تحریک ایک انقلاب آمیز جذبات لے کر بلند ہوئی۔ بادشاہ کی طاقت اگرچہ کمزور تھی لیکن دوسو سالہ دبدبے کے اثرات ابھی تک تھے۔ صوبوں کے گورنر خودمختار ہو گئے تھے۔ مرہٹے بغاوت کر رہے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی فتح کی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایسے حالات میں شاہ صاحب نے اپنی آواز اٹھائی۔ نوابوں، تمام صاحبانِ اقتدار کی مذمت کی۔ اور تیز آندھی میں انقلاب کا ایک چراغ روشن کرنے کی کوشش کی۔ بقول مولانا محمد میاں صاحب:

"اٹھارہویں صدی عیسوی کے ہندستان میں ملک کل نظام یعنی مکمل اور ہمہ گیر انقلاب کا نصب العین ایک چراغ تھا جو شہنشاہیت، شاہ پرستی اور اجارہ داری کی طوفان انگیز آندھیوں میں روشن کیا گیا تھا۔”

1762ء میں شاہ ولی اللہ کا انتقال ہو گیا۔ لیکن وہ اپنی ذات والا صفات سے ہندستان میں ایک تحریک کی بنیاد ڈال گئے۔ مولانا عبیداللہ سندھی، جو شاہ ولی اللہ کے پیرو تھے، انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقتاً شاہ صاحب نے ایک مجاہدانہ زندگی گذاری۔ قوم کی اصلاح کے سلسلے میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی، جوان کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے آگے جاری رکھی۔ شاہ ولی اللہ کے بعد یہ ذمہ داری ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز صاحب نے سنبھالی۔ شاہ عبدالعزیز کے ذمہ داری سنبھالتے سنبھالتے ملک کے حالات اور بدل چکے تھے۔

مغل شا ہنشاہیت کا تخت جاٹوں، مرہٹوں اور سکھوں کے بیچ میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ خود دربار کے لوگ آپس میں خون بہا رہے تھے۔ اسی درمیان 1756ء کو عالمگیر دوم کا قتل کر دیا گیا۔ انگریزی اقتدار اور تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ انگریزی حکومت کے دشمنوں کے حسرت ناک انجام ہو رہے تھے۔

مسلمانوں کی تمام طاقتیں انگریزوں کے آگے سرجھکاچکی تھیں۔ حکومت اور مذہب دونوں پر انگریزوں کا دور دورہ ہو گیا۔ 1765ء میں جب پٹنہ اور بکسر میں بھی انگریزوں کو کامیابی مل گئی تب دہلی پر قبضہ کرنا زیادہ مشکل کام نہ تھا اور رفتہ رفتہ انگریز اپنا جال بچھاتے ہوئے 1802ء میں دہلی پر قابض ہو گئے۔ ایسے نازک حالات میں جیسے جیسے ملک کے سیاسی حالات خراب ہوتے گئے اور قوم کی حالت بدسے بدتر ہوتی گئی۔ اس تحریک کے خیالات میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ رفتہ رفتہ اس کا رجحان سیاست کی طرف زیادہ ہونے لگا۔ مسلمانوں کے ساتھ اتنی زبردستیاں دیکھنے کے بعد شاہ عبدالعزیز صاحب نے جہاد کا اعلان کر دیا۔ اور یہ فتویٰ دے دیا کہ مسلمان اس انگریزی حکومت میں اپنے فرائض بھی انجام نہیں دے سکتے، اس لیے ان کے خلاف جہاد کرنا مذہبی فریضہ ہے۔ بقول خواجہ احمد فاروقی:

"چنانچہ 1803ء میں شاہ عبدالعزیز نے یہ فتویٰ دیا کہ پورا برطانوی ہند دار الحرب ہے اور ان انگریزوں سے لڑنا ہمارا فرض ہے۔ اسی کے بعد جہادی تحریک کا رخ کلّیتہً انگریزوں کے خلاف ہو گیا اور 1850ء سے 1862ء تک انگریزوں نے بیس دفعہ ساٹھ ہزار لشکریوں کی مدد سے جہادیوں کا مقابلہ کیا لیکن یہ تحریک کچلی نہیں جا سکی۔”

اس فتوے کے تحت عام مسلمانوں کے لیے راستہ کھل گیا۔ وہ مسلمان جو بڑھتے ہوئے انگریزی اقتدار سے سخت پریشان تھے دھڑادھڑ اس تحریک میں شامل ہونے لگے اور جنگجو طبقہ بھی اس تحریک میں شامل ہو گیا۔ اب مسلمان انگریزوں کے خلاف جنگ میں شامل ہونے لگے۔ شاہ عبدالعزیز اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں کہ انھوں نے شاہ ولی اللہ کے خیالات کو جو محدود طبقے میں گونج رہے تھے، ان کووسعت دی۔ عبیداللہ سندھی کا خیال ہے:

"امام ولی اللہ نے دہلی کے اعلیٰ طبقے کو اپنے علوم سے متعارف کرایا تھا، مگر امام عبدالعزیز نے قوم کے متوسط طبقے کو بیدار کر کے عوام کواس حقیقت سے آشنا کر دیا کہ یہی قومی حکومت کی تاسیس ہے۔ بہ فضلہٖ تعالیٰ امام عبد العزیز اپنے مشن میں کامیاب رہے، جس سے وہ سراج الہند کہلائے۔۔ ( آگے لکھتے ہیں )۔۔۔ اگر امام عبد العزیز اپنے والد ماجد امام ولی اللہ کی حکمت اور ان کی فقہ و تصوف وفلسفہ اور سیاست کے مخصوص طریقے متوسط طبقے تک نہ پہنچاتے تو آج امام ولی اللہ کو صحیح طور پر پہچاننے والا مشکل سے دستیاب ہوسکتا۔ اس طرح ہندستانی مسلمان اس نعمت سے محروم رہ جاتے۔”

یہ دور مسلمانوں کی طاقت آزمائی کا نازک ترین دور تھا۔ ایسے میں شاہ عبدالعزیز خاموش نہیں رہے، اپنے خاص مرید اور معتقد سید احمد کو فوج میں بھرتی کروایا اور جنگ میں عملی کار نامہ انجام دینے کی شکل مسلمانوں کے سامنے رکھی۔ سید احمد جنھوں نے شاہ عبدالعزیز کے بعد اس تحریک کی ذمہ داری سنبھالی، نہ تو مولوی بن سکے اور نہ روحانی کمالات پر اقتدار حاصل کرسکے، بلکہ ایک اچھے سپاہی بن گئے۔ یہ دور 1818ء کاہے۔ جب ہندستان کی تمام چھوٹی چھوٹی طاقتیں انگریزوں کے آگے سرجھکاچکی تھیں، صرف یہ تحریک ہی ایسی تھی جو ابھی شاہ ولی اللہ کے اصولوں پر چلتے ہوئے انگریزوں کے خلاف سراٹھائے ہوئے تھی۔ سید احمد صاحب نے جلد ہی ایک گروپ بنایا اور اپنے دو خاص ساتھیوں کے ذریعے اس تحریک کو باقاعدہ عوامی تحریک میں بدل دیا۔ مولانا محمد اسمٰعیل بڑے پوتے تھے۔ لیکن سید صاحب اس گروپ کے رہنما بنے۔ کیونکہ اس وقت سیاسی مسائل زیادہ اہم تھے انھیں سے ٹکرانا تھاجس کے لیے سید صاحب ہی سب سے زیادہ مناسب تھے۔

 پورے طور پر انقلاب تو جب ہی آسکتا ہے جب اس کا رہنما عالم فاضل ہی نہ ہو، بلکہ سماجی لیڈر بھی ہو اور جنگ بھی کرسکتاہو۔ اور یہ ساری خصوصیات سیداحمد میں تھیں۔ ایک طرف مسلمانوں کی شکستہ حالت اور دوسری جانب ولی اللّٰہی تحریک کا اپنا ایک مزاج اور معیار تھا۔ سید احمد نے ایک گروپ تیار کیا اور ایک مقصد کے تحت یہ گروپ نکل پڑا۔

 اس گروپ نے سماجی اصلاحات کیے۔ ہندومسلم میں بھائی چار گی بڑھائی۔ جفا کشی، ضبط و اتحاد کاسبق پڑھایا۔ یہ گروپ جدھر نکل جاتا نوجوان اس میں شامل ہوتے جاتے اور بزرگ ہر طرح کی مدد کرتے۔ رفتہ رفتہ یہ گروپ سارے ہندستان بھر میں ایک بار قبولیت کی بلندی پر پہنچ گیا۔ اسی درمیان سید صاحب مع گروپ کے حج کو روانہ ہوئے۔ وہاں سے واپسی کے بعد ان کے دل و دماغ میں اور روشنی آ گئی۔ ڈاکٹر ہنٹر لکھتے ہیں :

"پہلے جو چیز خواب و خیال میں تھی اب ان کی روشنی بھی نظر آنے لگی۔ جس میں انھوں نے اپنے آپ کوہندستان کے ہر ضلع میں اسلامی جھنڈا گاڑتے اور صلیب کو انگریزوں کی لاشوں کے نیچے دفن کرتے ہوئے دیکھا۔”

نتیجہ یہ ہوا کہ اب سید صاحب کا ذہن پورے طور پر بدل چکا تھا۔ تحریک کا مقصد بالکل بدل چکا تھا۔ ان کے دماغ میں انگریزوں کے خلاف نفرت جاگ اٹھی۔ اب انھوں نے اپنے گروپ کو فوجی تربیت دینی شروع کی اور جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ پنجاب، راجستھان اور نہ جانے کہاں کہاں ہوتے ہوئے حیدرآباد سندھ سے شکار پور پہنچے۔ اس درمیان غازیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ سامان جنگ بڑھتے رہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ سید صاحب کی مخالفت بھی بڑھتی رہی۔ ایک طرف سکھ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زیر سایہ پنپ رہے تھے۔ دوسری جانب انگریزوں کا رویہ بدلنے لگا تھا۔

سید صاحب کی یہ تحریک حقیقتاً انگریزوں کے خلاف ایک زبردست کوشش تھی۔ سیدصاحب نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ اہل ہندوؤں سے کسی قسم کا ٹکراؤ نہ رہے۔ اس سلسلے میں سید صاحب نے بعض عملی قدم بھی اٹھائے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اس تحریک کو تمام آلائشوں سے پاک کر کے اس کی جڑیں عوام تک پہنچائیں۔  آگے چل کراس تحریک نے غدر میں بھی حصہ لیا۔ نتیجہ کے طور پران کے بعض اکابر علمی کو پھانسی کی سزا ہو گئی۔

مجاہدوں نے جہاد میں بڑھ بڑھ کر حصہ لیا۔ پش اور کی طرف رُخ کیا، اس کو فتح کر کے بہت آگے بڑھ گئے۔ حاکم پش اور نے ان لوگوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شکست ہوئی اور بھاری نقصان ہوا۔ کشمیر کو مرکز بنانے کے لیے بالاکوٹ مقام پر پھر سے فوج آراستہ کی گئی۔ دشمنوں سے جم کر مقابلہ ہوا۔ یہ مقابلہ سکھوں سے تھا۔ اتفاق سے یہاں پر کچھ لوگ غداری کر گئے اور مئی 1830ء میں شیرسنگھ سے سید صاحب کا مقابلہ ہوا۔ سید صاحب کے رفقاء قربانیاں دینے لگے۔ لیکن آخر میں سید صاحب اور شاہ اسمٰعیل صاحب یہیں انتقال کر گئے۔ ان دونوں کا انتقال تحریک کے لیے زبردست حادثہ تھا۔ ان دونوں کی تحریک سے بڑی قربانیاں وابستہ ہیں۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں :

"سید احمد بریلوی(وفات1831ء ) کے زمانے میں یہ تحریک اپنے نقطۂ عروج پر پہونچ گئی۔ شاہ ولی اللہ نے نظریات میں ضرور تبدیلی کی تھی۔ شاہ عبدالعزیز نے اس کو عمل کاراستہ دکھلایا۔ سید احمد بریلوی نے اس کو عوامی تحریک اور جہادی تحریک میں بدل دیا۔”

آج مسلمانوں میں جو بیداری نظر آتی ہے، اس میں اس تحریک نے بہت بڑا رول ادا کیا۔ ہنٹر جیسا متعصب آدمی اس کے بارے میں لکھتا ہے:

"یہ شر انگیزی اس حد تک پھیل چکی ہے کہ ہمارے لیے اس بات کا معلوم کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ اصلاح شروع کی جائے تو کہاں سے۔ ہر ایک ضلع کا مرکز خاندانوں میں بے اطمینانی پھیلاتا اور ان کے خلاف صرف وہی لوگ شہادت دے سکتے ہیں جوان کے مرید ہوں۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ اپنے سردار سے غداری کے بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں۔”

یہ سچ ہے کہ سید صاحب کے انتقال کے بعد تحریک کمزور پڑ گئی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مذہبی اور سماجی معاملات میں مسلمانوں پر جو جمود طاری ہو گیا تھا، ایک طرف لگاؤ پیدا ہو گیا تھا، اس اعتبار سے خاصے اصلاحی کارنامے ہوئے۔ وہ اسلامی احکام جو منسوخ ہو چکے تھے، پھر سے رائج ہوئے۔ سب سے اہم کام جو اس تحریک کے ذریعہ ہوا وہ بقول ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی:

"سب سے زیادہ مہتم بالشان کارنامہ قوم میں عملی روح کا احیاء ہے، جس سے ایک طرف ملت کو اپنی خودی کا احساس ہوا اور دوسری طرف تصوف کے اس نام نہاد تصور پر زبردست ضرب پڑی جس نے آداب گو سفندی سکھادئے تھے۔”

اس انقلابی تحریک میں بعض کمزوریاں بھی تھیں۔ اس تحریک نے مسلمانوں کے ذہن میں گھسے ہوئے روایتی انداز کو توڑنا چاہا۔ لیکن بعض معاملات میں وہ خود ایک روایتی انداز اختیار کرتی چلی گئی۔ اصلاح پسندی عقل پسندی اس کا اصل مقصد تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت بدلتا رہا راسخ الاعتقادی کی وجہ سے عقل ڈانوا ڈول ہوتی گئی اور ہندو مخالفت کی وجہ سے تمام ابھرنے والی نئی قوتوں سے انکارکرناخوداس کے لیے رکاوٹ بن گیا۔ لیکن ان سب کے باوجود اس تحریک نے ایسے کش مکش کے ماحول میں جس جرأت، بے باکی اور آزادی کا ثبوت دیا ہے، اس سے پہلے ایسی مثال نظر نہیں آتی۔ اصلاحی کارناموں کے سلسلے میں دو جملے پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کے دل کش ہیں :

"جب نئی ضرورتوں کی صبح نمودار ہوئی تورات کا غازہ ڈھل گیا اور نرگسی آنکھوں کا سرمہ بہہ نکلا۔ تکلفات کے اس طلسم کو توڑنے میں وہابی تحریک کازبردست ہاتھ ہے۔”

اس تحریک کے دب جانے کے بعد بھی بعض دیگر علمائے دین کا مذہبی جذبہ وقتی طور پر ٹھنڈا  پڑ جانے کے باوجود آہستہ آہستہ سلگتا رہا۔ سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں میں حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی و مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی خاص قابل ذکر ہیں جو اس تحریک کو زندہ رکھنے میں پیش پیش رہے۔

 جب 1857ء کاغدر خاموش شکل اختیار کر گیا، ہر طرف خاموشی طاری ہو گئی تو ایسے ماحول میں ان علماء نے صورت حال کا جائزہ لیا اور چاروں طرف پھیل گئے حاجی امداد اللہ صاحب چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ چلے گئے۔ دوسراگروہ مولانامحمدقاسم نانوتوی کا تھا۔ اس نے اس مدرسہ کو زندگی بخشی جو دہلی میں غدر کے ہنگامے کے بعد بند ہو گیا تھا۔ لیکن اب اس کو دیوبند ضلع سہارنپور میں منتقل کر دیا۔ بعد میں اس مدرسہ نے خاصی شہرت حاصل کی۔ نتیجہ کے طور پر مولانا محمدقاسم نانوتوی نے اس چراغ کو بجھنے نہیں دیا۔ جس کو شاہ ولی اللہ نے جلا بخشی تھی۔ ڈاکٹر سیدعابد حسین لکھتے ہیں :

"اسی طرح دارالعلوم دیوبند جس نے شاہ ولی اللہ صاحب کے سیاسی انقلاب کے تخیل اور ایک حد تک ان کے مذہبی اصلاح کے تصورسے فیضان حاصل کیا تھا، انگریزی حکومت اور جدید مغربی تہذیب کی مخالفت کاجومسلمان علماء اور عوام کے دل میں بسی ہوئی تھی ایک مضبوط گڈھ بن گیا۔ اور اسی نمونے کے متعدد مدارس آس پاس کے اضلاع میں قائم ہو گئے۔”

یہاں پر اس امر کی وضاحت بھی لازمی ہے کہ اس تحریک کو وہابی تحریک کا نام دے کر انگریزو ں نے کس طرح بدنام کرنا چاہا تھا اور ولی اللّٰہی تحریک سے اس تحریک کا کتنا تعلق ہے۔ جس عہد میں شاہ ولی اللہ (1702ء۔ 1762ء ) ہندستان کے مسلمانوں میں بیداری کی روح پھونک رہے تھے۔ عین اُسی زمانے میں عرب کے مشہور شہر ریاض کے نجد مقام میں محمد بن عبدالوہاب نامی ایک عالم بھی کچھ اسی طرح کے اصلاحی کارنامہ انجام دینے کی غرض سے تھے۔ اس وقت نجد کی حالت سیاسی اعتبار سے ٹھیک نہ تھی۔ اتفاق سے وہاں کا ایک امیر محمد بن سعود ان کا مرید اور بعد میں اس تحریک کا ایک اہم رُکن بن گیا۔ وہاب نجدی جو پیغام لے کر اٹھے تھے اس کے لیے شیرازہ بندی ضروری تھی۔ لیکن وہ سیاسی حالات میں سدھارتوکچھ نہ کرسکے اور بلکہ اپنی ذات سے ایک بحران پیدا کر دیا۔ امیر کاساتھ تھا، جس کی وجہ سے دولت ساتھ تھی۔ وہاب نجدی کے بے شمار شاگرد اب امیر کے ساتھ ہو گئے تھے۔ اور ان کی نگاہیں ریاستوں پر پڑنے لگی تھیں۔ اس درمیان ابن سعود کا انتقال ہو گیا۔ اس کے وارث نے بھی اسی رویہّ کو اختیار کر کے ظلم و جبر کو فروغ دیا۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب کا بھی انتقال ہو گیا۔ مولانا محمد میاں لکھتے ہیں :

"تقریباً نوے سال کی عمر پا کر 1792ء میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نے عالم آخرت کا رُخ کیا۔ لیکن دعوت و تبلیغ کے پچاس سال میں شیخ کا مسلک حکومت آل سعود کا مسلک بن چکا تھا اور حکومت آل سعود اور”مسلک عبد الوہاب”  ایک ہی روح کے دو نام اور ایک ہی طاقت کے دو روپ ہو گئے تھے۔”

ابن سعود کے وارثوں نے اپنے دائرہ سلطنت کو آگے بڑھایا اور عرب ممالک کو جیتنا شروع کر دیا، جس کے نتیجہ میں ہر طرف لڑائیاں ہونے لگیں اور تمام مقدس مقامات کی بے حرمتی ہونے لگی۔ نتیجہ کے طور پر تمام دنیا میں یہ تحریک بدنام ہو گئی اور مولانا عبد الوہاب کے نام سے نفرت ہو گئی۔

 اس تحریک نے ابھی دم نہیں توڑا کہ ہندستان سے شاہ ولی اللہ صاحب عرب تشریف لے گئے اور بعض مقامات پر تو وہاب نجدی سے تبادلۂ خیال بھی ہوا۔ بعد میں سید احمد شہید بھی گئے۔ یہ اس وقت گئے جب وہاں تحریک بری طرح بدنام ہو چکی تھی۔ ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب "ہمارے ہندستانی مسلمان” میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ سید صاحب وہابی تحریک کی توڑ پھوڑ سے متاثر ہوئے اور ہندستان آتے ہی وہی رویّہ اختیار کیا۔ اگرچہ یہ بالکل غلط ہے۔

ہندستان میں انگریزوں نے وہابی تحریک کی بدنامی سے فائدہ اٹھایا اور ولی اللّٰہی تحریک کو ادبی تحریک کا ایک جُز قرار دے کراس کا نام بدنام کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلمان مشتعل ہو جائیں، اور ایک نہ ہوسکیں۔ حالانکہ ان دونوں تحریکوں میں ایک دوسرے سے بہت کم ہم آہنگی تھی۔ ان دونوں سربرا ہو ں کے ذہنوں میں کافی فرق تھا۔ ایک خاص قوم کے سنوارنے کی نیت لے کر اٹھا تھا، دوسرے کی نیت میں کھوٹ تھا۔

ولی اللہی تحریک نے سب سے پہلے اصلاحی اقدامات اٹھائے۔ لیکن وہابی تحریک نے فوراً قتل و خون شروع کر دیا۔ انگریزوں نے ایسے موقع سے فائدہ اٹھا یا اور تمام ایسے عناصر جو حکومتِ وقت کے خلاف تھے، ان کو وہابی تحریک کا نام دے کراس تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اسی لیے بعض لوگ اس کو وہابی تحریک ہی کہنے لگے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بعض مذہبی حالات میں کچھ ہم آہنگی بھی آتی ہے۔ سیدعابدحسین لکھتے ہیں :

"دراصل یہ الگ تحریک تھی جس نے شیخ محمد بن عبدالوہاب سے نہیں، بلکہ ان کے ہندستانی ہم عصر شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان سے فیضان حاصل کیا تھا۔ چونکہ دونوں تحریکوں کے درمیان مذہب میں شدید احتیاط پسندی اور ریاست میں انقلاب پسندی مشترک تھی اور دونو ں نے کبھی کبھی سیاسی جدوجہد کے میدان میں مل کر کام کیا، اس لیے سطحی نظر سے دیکھنے والوں کو دھوکا ہو گیا کہ دونوں ایک ہیں۔”

یہاں عابدحسین صاحب کے اس جملہ سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن بحث طویل ہو جائے گی۔ جس کا یہاں مقام نہیں، پھر بھی یہ بات ضرور غور طلب ہے کہ کچھ عناصر ضرور ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ مثلاً سادگی سے زندگی گذارنا، اصلاحی کاموں میں دونوں کا انداز تفکر، ایک ساتھ مذہبی معاملات میں دونوں کے خیالات جا بجا ٹکرا جاتے ہیں۔ بس اتنی ہی ہم آہنگی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں بانیوں میں زمین وآسمان کا فرق تھا۔ ولی اللہ صاحب ایک انقلابی صوفی اور فلاسفر تھے، لیکن وہاب نجدی کی شخصیت محض ایک لیڈر کی سی تھی۔ مزاج کے اعتبار سے شاہ صاحب نہایت شاداب اور نرم شخصیت کے مالک تھے، لیکن انھوں نے روکھی طبیعت پائی تھی۔ شاہ صاحب مسلمانوں سے پیار، راہ راست پر لانے، ان کو حق دلانے کاسچا جذبہ رکھتے تھے، لیکن وہاب نجدی میں یہ کیفیت نہ تھی۔ اور شایداسی وجہ سے ان کی تحریک نے جلد ہی دم توڑ دیا اور بری طرح سے بدنام ہو گئی، جس کے خاصے اثرات ولی اللہی تحریک پر پڑے۔ یہاں تک کہ وہ اسی نام سے مشہور بھی ہو گئی۔

 

سرسیداحمد خاں اور ان کے کارنامے

مسلمانوں کے سوادنیا میں شاید ہی کوئی ایسی قوم گذری ہو جس کے نصیب میں عروج و زوال کی اتنی کروٹیں آئی ہوں، لیکن اس نے اپنی اہمیت وسیاست کسی نہ کسی شکل میں قائم رکھی۔ اس حقیقت حال میں تاریخ کے کیسے کیسے حقائق اور تقدیر انساں کی کتنی بصیرتیں پوشیدہ ہیں۔

پروفیسر رشید احمد صدیقی کے اس قول میں کسی قدر صداقت نظر آتی ہے۔ حقیقتاً مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے توکیسے کیسے نشیب و فراز، پستی و بلندی، مد و جزر کے واقعات ملیں گے۔ جا بجا قسمت بنتی اور بگڑتی ملے گی۔ لیکن اس قوم کے ساتھ قدرت کی کچھ ایسی رحمت شامل حال رہی کہ حادثات اور انقلابات میں کچھ ایسے تاثرات اور کچھ ایسے نقوش بھی ملیں گے جس نے اس قوم کی ساکھ کو قائم رکھا۔ 1857ء کا غدر ہندستان کے مسلمانوں کے لیے قیامتِ صغریٰ سے کم نہ تھا۔ اسی وجہ سے کہ اس انقلاب میں ناکامی کے بعد انگریزوں کا ظلم اور تشدد اور بڑھ گیا۔ اس کے زیادہ تر شکار مسلمان ہی رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اور بغاوت میں مسلمانوں نے بدلہ لینے کے لیے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ شکست کے بعد انگریزاسے نظرانداز کیسے کرسکتے تھے۔ چنانچہ یہی ہوا کہ 1857ء کی ناکام جد و جہد کے بعد انگریز نے اس مخالفت کا بھرپور بدلہ لیا۔ تمام رہنماؤں کو تلاش کر کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دہشت اور مظالم کا دور پھر آ جاتا ہے۔ مسلمانوں میں جملہ طور پر مایوسی اور افسردگی چھا جاتی ہے۔ قومی شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ مولانا عبدالحق ایک جگہ لکھتے ہیں :

"انگریزی حکومت میں سب سے زیادہ خسارے میں مسلمان رہے۔ 1857ء کے بعد تو ان پر تباہی و بربادی اور مصائب و آلام کاآسمان ٹوٹ پڑا۔۔۔۔ انگریز ان کو 1857ء کی شورش کا بانی، اپنا دشمن اور اپنی حکومت کا غدّار سمجھتا تھا اور ان کو مٹا دینے پرتلا ہوا تھا۔”

مسلمانوں کی حالت ابتر ہوتی چلی گئی۔ سیاسی طور پر تومسلمان کچلے ہی جا رہے تھے۔ ان کی اقتصادی حالت بھی بدسے بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ جاگیریں اور زمینداریاں ضبط ہو چکی تھیں۔ جو کچھ رہ گئی تھیں وہ بھی عیش پسندی کا شکار ہوتی جا رہی تھیں۔ ہندوؤں کے مقابلہ میں ان کی حالت اور ابتر تھی۔ انھوں نے دوراندیشی سے کام لیا تھا اور اپنے آپ کو نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ برعکس اس کے مسلمان انگریزی طرز اصول پر انگریزی زبان پڑھنا گناہ سمجھتے تھے۔ بقول ڈاکٹر اعجاز حسین:

"مسلمانوں نے انگریزوں سے اس قدر تنفّر کا عملی اظہار کیا کہ مجموعی حیثیت سے ان کی آوردہ زبان انگریزی پڑھنا بھی حرام نہیں تو مکروہ ضرور سمجھتے رہے۔ بہت کم لوگوں نے اپنے بچوں کو ابتدائی عہد حکومت میں انگریزی زبان پڑھنے کی اجازت دی۔ نتیجہ یہ تھا کہ وہ ملازمت و جدید معلومات سے محروم رہے۔”

مسلمان نہ جانے کس خواب خرگوش میں ڈوبے تھے۔ شاید وہ سوچتے تھے ایک دن ایساضرور آئے گا جب پھر اسلامی حکومت قائم ہو گی اور مسلمان پھر ایک بار صاحب تخت و تاج ہوں گے۔ لہٰذا وہ انگریزی حکومت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور حکومت چھیننے کے خیالات ان کے دل و دماغ میں بسے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر اعجاز حسین نے اس سے متعلق بڑی دلچسپ بات اٹھائی ہے وہ لکھتے ہیں :

"مسلمان سمجھتے تھے کہ سلطنت ان کے ہاتھوں سے ابھی ابھی گئی ہے۔ وہ مراعات خصوصی کے حق دار ہیں۔ پھرسلطنت چھیننے والوں سے نفرت کا جذبہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ انگریز کو دشمن سمجھ کر ہر بات سے اختلاف کرتے تھے۔ اپنے علوم و بزرگانِ سلف کے کارناموں کی عظمت سے اتنے مرعوب اور متاثر تھے کہ یہ سوچنا ان کے لیے مشکل تھا کہ علوم و کارناموں پر کوئی اضافہ بھی ممکن ہے۔ ان کے نزدیک جو راستے مسلمان اور درویشوں نے بتا دئے ہیں وہ ہر عہد کے لیے کافی ہیں۔ گویا گم شدہ عظمت ان کے لیے اسم اعظم ہے، جس کی بدولت ان کے زمانے کی نیرنگیوں اور انکشاف کی طلسمی دنیا میں بغیر کاوش کے راستہ مل جائے گا۔”

مسلمانوں کی یہ حالت اور اس پر چالاک و ہوشیار انگریزوں کی حکومت، جتنی سختی ممکن تھی ہوئی۔ مسلمانوں پر ہر طرح سے کاری ضربیں لگائی گئیں۔ انگریزوں کے دل و دماغ میں تلخی سماگئی تھی۔ ایسے حالات میں مسلمان کیسی کش مکش سے گذرے اس کا اندازہ مشکل ہے۔ سیاسی طاقت ختم ہو گئی۔ جاگیرداری جاتی رہی۔ عہد ے، اقتدار، روز گارسب چھن گیا۔ نتیجہ کے طور پر اقتصادی بدحالی بڑھنے لگی۔ دوسری طرف ایک مسلۂ ان کے سامنے اور تھا، مسلمان کبھی بھی ایسے حالات سے دوچار نہ ہوئے تھے۔ حاکمانہ رعب تو ختم ہو چکا تھا، لیکن اتنی جلدی محکوم بن جائیں گے یہ انھیں گوارا نہ تھا۔ یہ کش مکش، یہ الجھن، یہ اتار چڑھاؤ شاید ہی مسلمانوں کی تاریخ میں آیا ہو، جیسا کہ 1857ء کے بعد کے مسلمان دوچار ہو رہے تھے۔

 اس اندھیرے اور انتہائی پستی و تاریکی کے ماحول میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ایک شخص ایسا بھی منظر عام پر آیا جواس ماحول کی باریکیوں اور گرتی ہوئی تہذیب کی کمزوریوں کی نبض پکڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ جس کو اپنی قوم سے، اپنے مذہب سے سچی، پاک وصاف محبت تھی۔ اس عظیم شخص کا نام سرسید احمد خاں تھا۔ سرسید ایسے تاریک ماحول اور گھٹن میں روشنی، ترقی، حرکت و عمل کا پیغام لے کر اُٹھے۔ اپنی قوم کو راہ راست پر لانے اور بدلتی ہوئی زندگی سے ہمکنار کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ ایسے پیچیدہ ماحول میں یہ کام کتنا مشکل تھا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن سرسید اپنے سینے میں ایک دردمند دل اور سنجیدگی سے سوچنے کی صلاحیت رکھتے۔ پورے عزم واستقلال کے ساتھ اس آگ بھرے دریا میں کو د پڑے اور اپنی ساری حیات اس کمزور کھیل پر داؤں لگا بیٹھے۔

 سرسید کی تاریخ پیدائش 17؍اکتوبر 1817ء ہے۔ 1857ء کے غدر کے وقت ان کی عمر چالیس سال کی تھی۔ غدر کے سارے اتار چڑھاؤ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ مسلمانوں کو ذلیل ہوتے دیکھا۔ ان کی تباہی اور بربادی کے ایسے شرمناک منظر دیکھے کہ اُن کا دل رو اُٹھا۔ پہلے تو وہ مایوسی کا شکار ہو چلے تھے۔ لیکن ان کے بیدار ذہن نے ان کے ضمیر کو للکارا۔ وہ مردانہ وار آگے بڑھے۔ سب سے پہلے انھوں نے اس وقت کے مسلمانوں کے ذہن اور مزاج کو پڑھا۔ ان کی کمزوریوں کو اچھی طرح سے سمجھا۔ زمانے کی بدامنی اور بدنظمی کا مشاہدہ کیا۔ بقول پروفیسر احتشام حسین:

"غدر نے جس طرح رہی سہی آن بھی ختم کر دی تھی۔ اسی نے ان کے قلب کو بے حد متاثر کیا۔ اور ان میں جو عملی صلاحیتیں سورہی تھیں وہ جاگ اٹھیں۔ وہ اس وقت کے مسلمان رہنماؤں میں سب سے زیادہ جری، با عمل، جلد فیصلہ کرنے والے ذکی الفہم، پر جوش، حوصلہ مند، دردمند، دور بیں اور عقل پرست تھے۔”

سرسید کو یہ احساس ہو گیا کہ مسلمانوں میں نئی روشنی اور نئے طریقے کی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں رہے کہ وہ انگریزوں کی نظر میں چڑھ سکیں اور ہندوؤں کے دوش بدوش کام کرسکیں۔ بنگالیوں کا ایک بڑا گروہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس قابل ہو گیا تھا کہ وہ انگریزوں کی باتوں کوسمجھ سکے اور ان کی باتوں کا معقول جواب دے سکے۔ اوراسی وجہ سے اس گروہ کے لیے انگریزی اسکولوں کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ لیکن مسلمانوں تک یہ لہر ابھی تک نہ پہنچی تھی۔ ان کے ذہن میں مذہبی تعصبات بھرے ہوئے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ انگریزی تعلیم لا مذہبیت اور گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ سرسید نے اس بدحالی اور کم عملی کا بھرپور مشاہدہ کیا اور اس کی باریکیوں پر غائر نظر ڈالی تومسلمانوں کے اس انتشار اور زوال نے ان کے قلب پرمبے انتہا اثر ڈالا۔ غدرجیسے نازک اور سیاسی موقع پر انھوں نے اپنا رسالہ "اسباب بغاوت ہند” لکھا۔ اس میں غدر کے اسباب اور اس میں رونما ہونے والے تمام حادثات میں مسلمانوں کا کیا رول رہا، اس پر خاصی توجہ دی۔ پروفیسر احتشام حسین کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ "یہ رسالہ ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی زندگی میں داخل ہونے کی پہلی کوشش تھی اور بھر پور تھی۔”  انھوں نے اپنے اس رسالہ میں ثابت کر دیا کہ انگریزوں نے کسی اسٹیج پرہندستانیوں پربھروسہ نہیں کیا۔

سرسید نے اس بات کا بغور مطالعہ کیا کہ سیاسی مفاہمت کی تکمیل کے لیے مذہبی ٹکراؤ دور کرنا لازمی ہے۔ اسی وجہ سے ابتداء ً ان کی یہی کوشش رہی کہ انگریزوں اور ہندستانیوں سے ذہنی مفاہمت ہو جائے۔ اور اس کا علاج صرف تعلیم جدید ہے، جس سے اس وقت کے مسلمان کوسوں دور ہوتے چلے جا رہے تھے۔ ساری پژ مردگی، مایوسی اور ذلت تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے تھی اور اس تعلیم کی کمی کی وجہ سے دنیا کے دیگر تمام حالات سے بے خبر رہتے تھے۔ ترقی کی راہ میں جہالت دیوار بنی ہوئی تھی۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان اس جہالت کو، انگریزوں سے نفرت کرنے کو، گلے سے لگائے ہوئے تھے اور ان کی تہذیب و اخلاق، اطوار و عادات سے سخت نفرت کرتے تھے۔ انھیں منحوس اور نجس قرار دیتے تھے۔ اسی لیے انگریزی تعلیم اور ان کے رہن سہن سے بے انتہا متنفر تھے۔ ایسے تعصب کو توڑنا اور اعتقاد پر ٹھیس لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔

 اس خام خیالی اور غلط اندازِ فکر کو ختم کرنے کے لیے سرسید کو مذہبی میدان میں اترنا پڑا اور اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جدید تعلیم، سائنس، انگریزی اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے سے مذہب پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ اس خیال کو ثابت کرنے کے لیے ان کو دو طرفہ لڑائی لڑنی پڑی۔ ایک طرف مسلمانوں سے ٹکر لینی پڑی، کہ دنیا کو چھوڑنے سے دین  چلا جاتا ہے، لیکن دین چھوڑنے سے دنیا نہیں جاتی۔ اور اس طرح کی اور بہت سی باتیں لکھیں، جس کی وجہ سے باضابطہ طور پر انھیں مذہبی مسائل میں دخل دینا پڑا اور یہی دخل بعد میں تفسیرِ قرآن اور ان کے بے شمار مضامین لکھنے کا باعث ہوا۔ دوسرا ٹکراؤ انھیں انگریزوں سے لینا پڑا۔ ان کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھانی پڑی کہ مسلمان ان کے دشمن نہیں، ان کے ہمدرد ہیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کاسلوک برتا جائے۔ مولانا عبدالحق ایک جگہ لکھتے ہیں :

"وہ صرف یہی نہیں چاہتے تھے کہ انگریزوں کے دل سے بد ظنی دور ہو جائے، بلکہ ان کی بڑی خواہش تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف بھی کیا جائے۔ ان کے واجب حقوق دئے جائیں اور گورنمنٹ ان کے تعلیمی اور تہذیبی امور میں جائز امداد دے اور انگریزوں اور مسلمانوں میں باہم دوستانہ تعلقات ہوں۔”

سرسید تعلیم کے ذریعہ عظمت رفتہ کوواپس لانا چاہتے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ گورنمنٹ ہمارے ساتھ چاہے جتنی زیادتی کرے، لیکن اگر ہمارا دل و دماغ تعلیم سے روشن ہے تو ہمیں اپنے حقوق حاصل کرنے کی طاقت مل جائے گی۔ ایک تقریر میں سرسید کہتے ہیں :

"اگر گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک ہم کو نہیں دئے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہے تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔”

سرسید نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان اپنے مذہب، اپنے وقار، اپنی تہذیب کی حفاظت اب جدید تعلیم حاصل کر کے ہی کرسکتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے مسلمان دوڑ کر مغربی علوم پر قبضہ کر لیں اور ان کو اپنا لیں۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے علم ہی ایک ایسی دولت ہے جو جہاں بھی ملے، جس طرح سے ملے اس کو اپناتے چلیں۔ مغربی تعلیم کی طرف سرسید کا اس انداز سے جھکاؤ ان کے عہد کے دیگر علماء کو مشکوک کر دیتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر ان کے اوپر اعتراضات کے شدید حملے ہونے لگتے ہیں۔ لیکن سرسید اپنے علم اور محنت و لگن کی ڈھال سے ان حملوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ حالی نے لکھا ہے:

"اس نے جب دیکھا کہ انگریزی تعلیم سے کسی طرح مسلمانوں کو مفر نہیں تو اپنی عمر کا ایک تہائی حصہ اسلام کو انگریزی تعلیم کے مضر نتائج سے بچانے میں صرف کیا۔”

حالانکہ سرسید بے انتہا مذہبی اور دینی جذبہ رکھنے والے شخص تھے۔ ان کی اسلام سے محبت اور ایمان پر اعتقاد کی اس سے اچھی مثال شاید نہ مل سکے کہ جب سرولیم میور کی کتاب "لائف آف محمد” شائع ہوئی توسرسید احمد خاں کو جوش آ گیا اور خاص طور سے اس کتاب کا جواب دینے کے لیے وہ انگلینڈ گئے اور نواب محسن الملک کو ایک خط لکھتے ہیں :

"ان دنوں ذرا قدرے دل کو شورش ہے۔ ولیم میور صاحب کی کتاب کو میں دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل کو جلایا اور اس کی نا انصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہو گیا اور مصمم ارادہ کیا کہ آں حضرت صلعم کی سیرت میں جیسا کہ پہلے سے ارادہ تھا، کتاب لکھ دی جائے۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہو جائے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں توبلاسے۔”

اوراس کے جواب میں "خطبات احمدیہ” لندن میں 1870ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آئی تو عیسائی دانشوران حیرت میں پڑ گئے۔ ایک عیسائی دانشور ایورنڈ ہوپر نے کہا تھا:

"ہمارے نزدیک جو کام سید احمد خاں نے اسلام کی حمایت میں کیا ہے کہ وہ آج تک کسی مسلمان سے بن نہیں آیا۔”

سرسید کی شخصیت جامع اور پرکشش تھی۔ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ ہم کو زندگی کے ہر شعبہ پر توجہ دینی چاہئے۔ لیکن سب سے بڑا اہم اور مقصدی کام تہذیبی ہے۔ اس سلسلے میں اگر چہ چھوٹے موٹے کام انھوں نے انجام دیئے۔ لیکن دو کارنامے کبھی بھلائے نہ جا سکیں گے۔ پہلاسائنٹفک سوسائٹی کا قیام اور دوسرا ایم۔ اے۔ او کالج کی بنیاد، جو آگے چل کر علی گڈھ یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گیا۔

 سرسید کا خیال تھا کہ کسی قسم کی ترقی چاہے وہ سماجی، تعلیمی یاسیاسی ہو، اس کی اصلاح اور ترقی کی تمام کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک عوام کا ذہن بیدار نہ ہو اور اس کو بیدار کرنے کے لیے ایک منظم جدوجہد نہ کی جائے۔ ان کا قول تھا کہ صرف نئے خیال کی روشنی سے ہی تنگ نظری اور توہم پرستی کا کہرا چھٹ سکتا ہے۔ اسی خیال کے پیشِ نظر 1863ء میں ایک تحریر بعنوان "التماس بخدمت ساکنانِ ہندستان د رباب تعلیم اہل ہند”  شائع کی، جس کا نچوڑ تھا کہ ہندستان میں علم کے پھیلانے اور ترقی دینے کے لیے ایک مجلس مقرر کرنی چاہئے، جو اپنے قدیم مصنفوں کی عمدہ کتابیں اور انگریزی کی مفید کتابیں اردو میں ترجمہ کرا کے چھاپے۔ یہ تھی اصل بنیاد سائنٹیفک سوسائٹی کی۔

9؍جنوری 1864ء غازی پور میں اس کی داغ بیل پڑی۔ سرسید اس زمانے میں غازی پور میں ملازم تھے۔ اپنے گھرپراس جلسے کا انعقاد کیا۔ ہر طرح کے مباحثے رہے۔ مباحثوں میں شرکت کرنے والوں میں یوروپین اور دیسی اصحاب کا خاص مجمع تھا۔ اس سوسائٹی کی بنیاد اگرچہ غازی پور میں پڑی لیکن، جب 1864ء میں سرسید علی گڈھ آ گئے تو سوسائٹی علی گڈھ منتقل ہو گئی۔

ہندستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی سوسائٹی تھی، جس کا مقصد اول یہ تھا کہ سائنسی اور انگریزی علوم کی اشاعت اس وقت تک نہیں ہوسکتی، جب تک کہ اس فن سے متعلق کتابیں دیسی زبان میں ترجمہ نہ کی جائیں۔ مولانا حالیؔ نے سوسائٹی کے مقصد کواس انداز میں بیان کیا ہے:

"اردو میں ترجمہ کرا کر مغربی لٹریچر اور مغربی علوم کا مذاق اہل وطن میں پیدا کیا جائے، علمی مضامین پر لکچر دئے جائیں۔ رعایا کے خیالات، گورنمنٹ کے اصول، حکمراں، رعایا پر اخبار کے ذریعہ ظاہر کیے جائیں جو اردو انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوا کریں ہندو، مسلمان اور انگریز تینوں قوموں کے ممبر اس میں شامل کیے جائیں اور اس میں قومی مغایرت اور مذہبی تعصبات اور جو جھجک ہندستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کی طرف سے ہے اس کوآہستہ آہستہ کم کیا جائے۔ ابتدا ہی میں 129ممبر ہو گئے جس میں ہندو مسلمان انگریز سب شامل تھے۔”

اور یہ حقیقت ہے کہ اس سوسائٹی نے بڑے خوشگوار اثرات گورنمنٹ اور رعایا پر ڈالے۔ اس نے مغربی علوم اور افکار سے ہندستانیوں کی جہالت، تاریکی اور بیگانگی کو دور کیا اور ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا جس میں رہنے والا ہر ہندستانی سائنس اور دیگر انگریزی تعلیمات کوسمجھنے اور عملی تجزیہ کرنے کے لیے مجبور ہو گیا۔ سرسید کی جو تعلیمی مہم تھی وہ اس سوسائٹی کے ذریعہ کامیابی کی راہ پر گامزن ہو گئی۔ اس کے اثرات دور دور تک پہنچنے لگے۔ راجہ جے کرشن داس نے 6؍جون 1864ء کی ایک تقریر میں کہا تھا:

"یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک کوئی سہل طریقہ علوم و فنون مروجہ یورپ کے حاصل ہونے کاسمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن اب جو یہ تدبیر یعنی تقرر سائنٹیفک سوسائٹی کا سید احمد خاں صاحب نے اپنی عالی ہمتی سے محض اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیے کیا ہے، یہ نہایت عمدہ تدبیر ہے۔ اس میں صرف تھوڑاساصرف کرنے سے آپ کو اور اپنی اولاد کو اور اپنے جمیع ہم وطنوں کو نہایت عمدہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔”

مولانا عبدالحق صاحب نے اپنی کتاب "مطالعہ سرسید احمد خاں” سوسائٹی کے اور مقصد کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے:

"(1)ان علوم و فنون کی کتابوں کا جن کو انگریزی زبان میں، یورپ کی کسی اور زبان میں ہونے کے سبب ہندستانی نہیں سمجھ سکتے۔ ایسی زبانوں کا ترجمہ کرنا جو ہندستانیو ں کو عام استعمال میں ہوں۔

(2)جب کبھی سوسائٹی مناسب سمجھے تو کوئی ایسا اخبار یا گزٹ یا روز نامچہ یا میگزین وغیرہ چھاپ کر مشتہر کرنا جس سے ہندستانیو ں کی فہم وفراست کی ترقی مقصود ہو۔

(3) ایشیاء کے قدیم مصنفین کی کم یاب اور نفیس کتابوں کو تلاش کر کر بہم پہنچانا اور چھا پنا۔”

یہ تھے وہ مقاصد جس کے تحت اس سو سائٹی کی تکمیل ہوئی۔ سرسید دل و جان سے اس سوسائٹی کی خدمت کرتے تھے۔ نہایت اعلیٰ پیمانے پراس کی تنظیم کی تھی۔ ہر مہینہ متعدد جلسے ہوتے تھے۔ مضامین پر مباحثے ہوتے تھے۔ مضامین خاص طور پرایسے ہوتے تھے جن سے معلومات میں اضافہ ہوسکے۔ ایک پورا گروہ سوسائٹی سے تعلق رکھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ مولانا حالی لکھتے ہیں :

"سرسید نے قطع نظر اپنی ذاتی کوشش اور محنت کے، جس پر فی الحقیقت سوسائٹی کا دارو مدار تھا اور علاوہ ڈونیشن اور سالانہ چندہ کے طرح طرح سے سوسائٹی کو فائدہ پہنچایا۔ اپنا ذاتی پریس جو انھوں نے آٹھ ہزار روپیہ خرچ کر کے بین الکلام کے چھاپنے کو خریدا تھا اور سو سائٹی کی تمام روئدادیں اور تمام انگریزی اور اردو کاغذات ابتدا سے اسی پریس میں چھپتے تھے۔ جب بین الکلام کی چھپائی موقوف ہو گئی تو کل سامان پریس کا ایک عام جلسہ میں سوسائٹی کو مفت دے دیا۔”

یہ تھی لگن اور قوم کی خدمت کرنے کی سچی دھن۔ اپنے قوم کی بھلائی میں سرسید نے کیسے کیسے عملی کارنامے انجام دیئے۔ یہ سب ان کو راہ راست پر لانے کی سچی جدوجہد ہے۔ نئے تقاضے، نئی روشنی سے آگاہ کرنے کی مردانہ کوشش۔ ایک جگہ خودسرسید ایک تقریر میں فرماتے ہیں :

"جب میں اپنے پیارے ہم وطنوں کے حال پر نظر کرتا، میں دیکھتا ہوں کہ وہ گذشتہ حالات سے اس قدر ناواقف ہیں کہ آئندہ رستہ چلنے کو ان کے پاس کچھ بھی روشنی نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کل کیا تھا اور آج کیا ہے اور اس سبب سے کچھ نتیجہ نکال نہیں سکتے کہ کل کیا ہو گا۔ وہ نہیں جانتے کہ دنیا میں جو بہت چھوٹی چھوٹی قومیں تھیں، انھوں نے کیوں کر ترقی پائی اور کس طرح وہ ایک بڑے ثمر دار اور سایہ دار  درخت کے مانند ہو گئیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جو بڑی بڑی قومیں ایک بڑے میوہ دار درخت کے مانند پھل پھول رہی تھیں وہ کیونکر مرجھا کرسوکھ گئیں۔”

اوراسی ضرورت کی تکمیل کی وجہ سے سوسائٹی قائم ہوئی کہ ہر قوم جس طرح اپنے حال اور مستقبل سے آشنا ہو کر آگے بڑھتی ہے، مسلمان بھی آگے بڑھیں۔

30؍مارچ 1866ء سے سرسید نے اس سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک اخبار نکالا جو، علی گڈھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ اخبار ہفتہ وار تھا۔ بعد میں پھر ہفتہ میں دو بار نکلنے لگا۔ اس کے اڈیٹر خود سرسید تھے۔ اس میں اخلاقی، علمی اور سیاسی مضامین شائع ہوتے تھے۔ انگریزی اخباروں کے عمدہ اور معیاری مضامین ترجمہ ہو کر شائع کیے جاتے تھے۔ سماجی نقطۂ نظر سے اس اخبار نے بڑی اہمیت حاصل کر لی۔ اس پرچہ کے جاری ہو جانے سے حقیقتاً ہندستانی عوام میں زبردست تبدیلیاں محسوس کی جانے لگیں اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی معاملات سے آگاہی بھی ہونے لگی۔ ایک خاص وصف بقول مولانا عبدالحق:

"اس اخبار کا یہ کام تھا کہ اس نے اپنے طرز تحریر میں برخلاف اپنے تمام  ہم عصروں کے کبھی کسی قوم یا فرقے یاکسی خاص شخص کی دل آزاری روا نہیں رکھی۔ اس نے اپنے گاہکوں کو خوش کرنے کے لیے جو ہمیشہ نوک جھونک اور چھیڑ چھاڑ سے خوش ہوتے ہیں، سنجیدگی اور قناعت کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔”

تمام مذہبی جھگڑوں سے یہ اخبار ہمیشہ الگ رہا اور کبھی دخل بھی دیا تو جھگڑوں کو مٹانے اور صلح کرانے کے لیے۔ سرسید کی دوراندیشی تھی کہ اس کوسوسائٹی کی شکل دی۔ ورنہ اس دور میں جدید خیالات کی روشنی میں اشاعت اور سائنس کا ذوق پیدا کرنا بہت بڑ اکام تھا۔ دہلی کالج کے بعد یہ دوسرا ادارہ تھاجس نے مختلف زبانوں کی کتابوں کے ترجمے اردو زبان میں کیے۔

 

ایم۔ اے۔ او۔ کالج

سرسید کادوسرا اہم کارنامہ ایم۔ اے۔ اُو۔ کالج کا قیام ہے۔ سرسید کے خیال میں قوم کو اعلیٰ مرتبہ بخشنے کا واحد علاج صرف تعلیم تھا۔ اسی کے خیال تحت سرسید نے ایک کالج قائم کرنے کا خاکہ اپنے ذہن میں بنایا۔ سرسید کے بیٹے سید محمود نے باقاعدہ اس کے اصول و ضوابط تیار کیے۔ اور 1875ء میں یہ مدرسہ کی شکل میں علی گڈھ میں قائم کیا گیا، جس کا نام مدرسۃ العلوم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج رکھا گیا۔ اس کالج کو کھولنے سے قبل سرسید اپنا معرکہ آرا اخبار ” تہذیب الاخلاق” نکالتے تھے۔ لیکن اس کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد انھوں نے اپنے اس محبوب اخبار کو بند کر دینے کا اعلان کر دیا اور نوکری سے پنشن لے کر مستقل طور پر علی گڈھ میں آ کر بس گئے۔ اگرچہ "تہذیب الاخلاق” نے دم توڑنے کے بعد پھر سانس لینے کی کوشش کی، لیکن سرسید کی دلچسپی اس کالج کی طرف ہو جانے کی وجہ سے اس اخبار کو حیات نہ مل سکی۔ دوسرے کام بھی بے توجہی سے ہونے لگے۔ اس کی وجہ صرف یہ کالج تھی۔ ڈاکٹر سیدعابدحسین لکھتے ہیں :

"غرض اصلاح و تجدید کی جو تحریک سرسید احمد خاں نے بائبل کی تفسیر لکھ کر”سائنٹیفک سوسائٹی” قائم کر کے اور "تہذیب الاخلاق” نکال کر کم و بیش بارہ برس سے شروع کر رکھی تھی اور جس نے مسلمانوں کے ایک سمجھدار طبقے کے ذہن میں ہل چل پیدا کر دی تھی، ان کے پنشن لے کر علی گڈھ میں قیام کرنے کے بعد کچھ ٹھنڈی سی پڑ گئی۔ اس کی وجہ صرف اتنی نہیں تھی کہ اب اس تحریک کوسرسید صاحب کے وقت اور توجہ کا بہت تھوڑا حصہ نصیب ہوتا تھا، بلکہ یہ بھی تھی کہ ان ذی اقتدار مسلمانوں خصوصاً بڑے زمینداروں کی خاطر جن کی مددسے انھوں نے ایم۔ اے۔ او۔ کالج قائم کیا تھا۔”

یہی ایم۔ اے۔ او۔ کالج آگے چل کرمسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گیا۔ سرسید نے اس کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

(1)پہلا مدرسہ انگریزی کاہو گا۔ اس میں بالکل انگریزی پڑھائی جائے گی اور تمام علوم و فنون جوسب کچھ اس میں تعلیم ہو گی۔ سب انگریزی ہو گی۔

(2)دوسرا مدرسہ ایسا ہو گا جس میں تمام علوم و فنون بہ زبان اردو پڑھائے جائیں گے۔ اور جو کچھ اس میں تعلیم ہو گی سب اردو میں ہو گی۔

(3)عربی وفارسی کامدرسہ جن میں ان انگریزی اور اردومدرسوں کے فارغ التحصیل طلبہ کو جنھوں نے علوم و فنون پڑھ لینے کے بعد عربی فارسی کے لٹریچر و علوم میں کمال حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہو گا تو ان کی پڑھائی فارسی، عربی میں اعلیٰ درجہ تک کی اس مدرسہ میں ہو گی۔

نتیجہ کے طور پریہ کالج اپنے انھیں مقاصد کو پورا کرتا ہوا 1920ء میں مسلم یونیورسٹی کے اسٹیج پر پہنچ گیا لیکن ڈاکٹر عابد حسین کے خیال کے مطابق یہ کالج آگے بڑھ کر سرسید کے منشاء کو پورا نہیں کرتا۔ اس وجہ سے کہ سرسید احمد خاں اپنے اس کالج سے چار قسم کے تعلیم یافتہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔

(الف) وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم حاصل کر کے سرکاری عہدے اور عزتیں پائیں۔

(ب) وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم حاصل کر کے مغربی علوم کو اردو میں منتقل کریں۔

(ج)وہ جو اردو تعلیم پا کر لیاقت کامل حاصل کریں۔ جس کا معیار انگلستان کے کالجوں کے برابر ہوتا ان کو ہر وقت اور ہر عمل پر اپنے علم کی ترقی کا موقع ہو۔

(د)وہ جو عربی فارسی میں کمال حاصل کریں، تاکہ مسلمانوں کے قدیم مذہبی اور تہذیبی سرمایہ کو موجودہ انسانوں تک پہونچا سکیں۔

لیکن ان میں سے دو نکات دوسرا(ب) اور چوتھا(د) مقصد سرسید خاص طور پر پورا کرنا چاہتے تھے اور اس میں بھی دوسرامقصد سب سے اہم تھا۔ لیکن ایک پیچیدگی یہ تھی کہ جن سے معاشی امداد حاصل کر کے اس کالج کوچلا رہے تھے، ان حضرت کودلچسپی صرف پہلے مقصد سے تھی۔ یعنی تنہا انگریزی تعلیم حاصل کر اچھی نوکری اور عزت حاصل کرسکیں۔ نتیجہ کے طور پر ابتداسے ہی اس مقصد پر زیادہ زور دیا گیا اور کالج ان سے عطیہ لے کر آگے بڑھتا رہا۔ ایک ہی طبقہ زیادہ تر تعلیم حاصل کرنے لگا اور سرسید کے دوسرے مقاصد تقریباً بے تعلق سے ہو گئے، عربی فارسی اور مذہبی افکار تواس کالج کے ذریعہ مسلمانوں کے کسی طبقہ میں مقبول نہ ہوسکے۔ لیکن پھر بھی مجموعی اعتبار سے اس کالج نے قوم کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔

سرسید کی اس تحریک نے رفتہ رفتہ زور پکڑ ہی لیا اور اس کے آگے آنے والی تمام دوسری تحریکیں اپنے آپ فنا ہوتی گئیں۔

ایم۔ اے۔ اُو۔ کالج اپنی بعض دیگر خصوصیات کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ کالج باہمی تعصبات سے بالکل پاک تھا۔ کالج کے قیام کے بعد سب سے پہلا ایڈریس مہاراجہ سرمہندر سنگھ فرماں روائے پٹیالہ کی خدمات میں تھا۔ جب ان کی خدمات میں سرسید نے اپنے کالج کا ایجنڈا رکھا تو جواب میں مہاراجہ نے کہا:

"اس سوسائٹی کا یہ مقصد ہے کہ اہل ہند خواہ کسی ملت و مشرب کے ہوں ان کو فائدہ پہونچے اور مدرسۃ العلوم کی تدبیر میں اس سے بھی عمدہ اصول کو ملحوظ رکھا گیا ہے، جس میں تعلیم اور علوم عقلیہ کی بلا اختلاف ملت و مذہب یکساں ہو۔ میری دانست میں آپ بانیوں کی یہ دانش مندا نہ تدبیر بالتخصیص نہایت عمدہ ہے۔”

اس کے علاوہ دیگر مہاراجوں کے ایڈریس وغیرہ میں بھی اس بات کا اعلان ملتا ہے کہ کالج کی بنیاد باہمی رواداری اور ترقی کے اصولوں پر ہے۔ کالج نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے۔ ماحول بھی خوشگوار ملا۔ لوگوں کے دل و دماغ میں اس کے صحیح اور سچے اصول بسنے لگے۔ جناب ہارون خاں شروانی لکھتے ہیں : "یہ وہ زمانہ تھا کہ فرقہ واریت کا ڈنک ہندستان کے جسم میں پیوست نہیں ہوا تھا۔ اور اب جوسیداحمد خاں نے علی گڈھ کالج بنایا تو اس کی بنیاد میں بے تعصبی کی سیمنٹ کی پچکاریاں لگا کر ایک ایسی عمارت کھڑی کی جس کا ثانی ہندستان میں ملنا دشوار ہے۔”

اور یہ حقیقت ہے کہ سرسید نے واقعی اس کالج کو تعصب اور تنگ نظری سے بہت دور رکھا۔ ان کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ آپس کی دوری اور ناسمجھی ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم ہو جائے۔ ابتدا ہی سے اس کالج کے اصول اور مقاصد اس انداز سے بنائے جس میں ہندستان کے مختلف مذاہب، قومیں بلا جھجھک آسانی سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ اتنی آزادی اور کھلے ذہن سے سوچنا سرسید کے علاوہ کسی دوسرے کے یہاں مشکل سے نظر آتا ہے۔ علی گڈھ کالج کے متعلق انھوں نے اپنی پالیسی بے حد ایمان دارانہ اور آزادانہ رکھی۔ ہاں یہ بات اہم اور سچ ہے کہ اصل مقصد مسلمانوں کو ضرورت کے مطابق تعلیم کی طرف موڑنا تھا، لیکن وہ ہندو اور مسلم کو قریب بھی لانا چاہتے تھے۔ اس پالیسی کا ایک جگہ تفصیل سے ذکر کرتے ہیں :

"مجھ کوافسوس ہو گا اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ یہ کالج ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز ظاہر کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا ہے۔ خاص سبب جواس کالج کے قائم کرنے کا ہوا یہ تھا کہ جب میں یقین کرتا ہوں آپ واقف ہیں کہ مسلمان روزبروز زیادہ تر ذلیل اور محتاج ہوتے جاتے ہیں۔ ان کے مذہبی تعصبات نے ان کو اس تعلیم سے فائدہ اٹھانے سے باز رکھا تھاجوسرکاری کالجوں اور مدرسوں میں مہیا کی گئی تھیں اور اسی وجہ سے یہ امر ضروری خیال کیا گیا کہ ان کے واسطے کوئی خاص انتظام کیا جائے۔ میں اس بات سے خوش ہوں کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں دونوں بھائی ایک ہی سی تعلیم پاتے ہیں۔ بلا کسی قید کے اس شخص سے بھی متعلق ہیں جو اپنے تئیں ہند بیان کرتا ہے۔ کالج سے تمام حقوق جواس شخص سے متعلق ہیں جو اپنے تئیں مسلمان کہلاتا ہے، ہندوؤں او ر مسلمانوں کے درمیان ذرا بھی امتیاز نہیں۔”

غیرمسلم طالب علموں کے لیے ہی اس میں جگہ نہ تھی بلکہ اسٹاف میں بھی ہندو نظر آتے ہیں۔ جاد و چند چکرورتی اور پنڈت شیو شنکر کے نام سب سے اہم ہیں۔ چکرورتی صاحب سید صاحب کے خاص دوستوں اور بزرگوں میں سے تھے۔

 اب اس امر پر قدرے غور کرنا ہے کہ حقیقتاً سر سید کا جو مقصد تھا اس کالج کو قائم کرنے کا، اس میں ان کو کہاں تک کامیابی مل سکی۔ اور اس نے مسلمانوں کے سیاسی، معاشی، مذہبی زندگی کوکس انداز سے متاثر کیا۔ پروفیسر احتشام حسین کا خیال ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سرسید کے ہی آئینہ میں اس تحریک کو دیکھنا زیادہ مفید ہو گا اور شاید اسی وجہ سے انھوں نے تحریک سے بحث اٹھائی ہے تو پہلے سرسید کے کارناموں پر سرسری نظر ڈالی ہے۔ پروفیسراحتشام حسین کا تحریک کے بارے میں اس نقطۂ نظرسے سوچنا بڑی حد تک مناسب اور درست ہے۔ ویسے توسرسید کی پوری زندگی عملی کارناموں سے لبریز ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی سوسائیٹیاں قائم کر چکے تھے۔ مدرسوں کی بنیاد ڈال چکے تھے۔ چونکہ وہ بدلتی ہوئی فضا کا اندازہ لگانا بخوبی جانتے تھے اس وجہ سے جس کام میں انھیں قوم کی بھلائی کے عناصر زیادہ نظر آنے لگتے تھے ادھر وہ مڑ جاتے تھے اور شایداسی وجہ سے "تہذیب الاخلاق "جیسے نامور اور کامیاب رسالے کو نظرانداز کر کے اس کالج کی طرف گھوم گئے۔ شاید وقت کا تقاضا ہی کچھ ایسا تھا۔

 نئے علوم کو حاصل کرنے کے لیے، مذہبی تنگ نظری کو دور کرنے کے لیے، مسلمانوں کومایوسی کے جہنم سے نکالنے کے لیے حقیقتاً اس کالج نے بہت بڑا رول ادا کیا اور عوام کی بیداری کووسیع کیا۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں :

"علی گڈھ کالج محض ایک علامت تھا اس نئی زندگی میں داخل ہونے کی جو اپنا در کھولے ہوئے اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس دروازے کے اندر مختلف قسم کے کا رواں داخل ہو رہے تھے۔ کچھ یوں ہی آنکھ بند کیے ہوئے۔ کچھ گرد و پیش کا اندازہ لگاتے ہوئے۔ سرسیدجس کارواں کو لیے آگے بڑھ رہے تھے اس میں مختلف قسم کے لوگ تھے، لیکن بہم طور پر سبھوں کے دل میں یہ خواہش تھی کہ وقت نے راہ میں جو رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں انھیں عبور کر کے اپنی مادی اور روحانی زندگی کو بہتر بنایا جائے۔ یہی جستجو اور آگے بڑھنے کی یہی کوشش ہے جسے علی گڈھ تحریک کہا جاتا ہے۔ اس میں فتح مندی کے سنگ میل بھی ہیں اور ناروا سمجھوتے بھی۔”

اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں اس تحریک کا حاصل مقصد ہندومسلم اتحاد اور مسلمانوں میں تعلیم جدید عام کرنا تھا۔ کیونکہ انگریزی حکومت نے غدر کے بعد اپنی برتری حاصل رکھنے کے لیے دونوں قوموں کے اتحاد میں ٹھیس لگانے کی پیہم مہم جاری رکھی تھی۔ انگریزوں کو یہ خدشہ ہر وقت رہتا تھا کہ ان دونوں میں کہیں اتحاد نہ قائم ہو جائے۔

 1856ء میں گورنر جنرل لارڈ کیننگ نے جب اپنا عہد ہ سنبھالاتواس وقت یہ کہا  "میں اپنے عہد حکومت میں امن چاہتا ہوں، لیکن میں اس بات کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتاکہ کہیں ایسانہ ہوہندستان کے افق پرجوبظاہرپرسکون اور خاموش نظر آتا ہے بادل کا ایک چھوٹا ساٹکڑا ابھر آئے۔ شاید یہ ٹکڑا آدمی کی ہتھیلی سے بڑا نہ ہو، لیکن بڑھتا ہی جائے۔ یہاں تک کہ یکایک طوفان کی طرح پھٹ پڑے، اور ہمیں برباد کرنے کی دھمکی دینے لگے۔” اور اسی خیال کے تحت سرسید نے اپنے اس کالج میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کو ایک مقام دیا اور انھیں ایک دلھن کی دو خوبصورت رسیلی آنکھوں سے تشبیہ دی۔

جیوں جیوں وقت گزرتا رہا حالات کروٹ لیتے رہے۔ قومی تحریک نے جڑ پکڑی۔ انڈین کانگریس کی بنیاد پڑی، وہ بھی انگریزوں کے ذریعہ۔ اور جلد ہی وہ بھی ایک ادارے کی شکل اختیار کر گئی اور دوہی سال کے اندر اس کے جلسے ہونے لگے۔ پوری کامیابی اور کامرانی کے ساتھ کانگریس کے اس ادارہ کا یہاں تذکرہ محض اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ اس کا اثر براہ راست علی گڈھ تحریک پر پڑتا ہے۔ ابتدا میں سرسید خاموش رہے۔ لیکن رفتہ رفتہ سرسید کے سوچنے کا طریقہ بدلتا گیا اور وہ اس ادارہ سے دور رہنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر میں مخالفت بھی کی اور مسلمانوں کو اس میں حصہ لینے سے روکا بھی۔ دراصل انگریزی تعلیم کو حاصل کرنے میں سرسید اتنی بری طرح سے پیچھے لگ گئے کہ انھوں نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو یہ یقین دلانا شروع کر دیا کہ صرف انگریز ہی مسلمانوں کے دوست ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس جن اصولوں پر یقین کرتی تھی سرسید اس کے بالکل مخالف انداز سے سوچتے تھے۔ مسلمانوں سے متعلق ان کا ایک الگ تصور تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان آٹا اور دال نہیں بیچ سکتے۔ صرف تعلیم ہی ان کے کام آئے گی۔ اس دو تین سال کے عرصہ میں ایک کش مکش دیکھنے کو ملتی ہے، خصوصاً سرسید کے مزاج میں زیادہ۔ انگریزوں کے پیچھے بعض مرتبہ تو وہ آنکھ بند کر کے بھاگنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڈھ تحریک ابتدا میں جن اصولوں کولے کر چلی تھی وہ محدود ہوتے گئے۔ بقول پروفیسراحتشام حسین:

"علی گڈھ تحریک اس طرح آہستہ آہستہ تضاد کا شکار ہوتی گئی اور سرسید کے غیر معمولی ذہن نے اپنی کمان سے ترقی کے تیر نکال کر رجعت پسندی کے تیر لگا لیے۔ جس سے خود ان کی تحریک زخمی ہو گئی۔”

یہ نتیجہ حالات کے تیزی سے کروٹ بدلنے پر برآمد ہوا۔ لیکن اس کے باوجود تحریک کی عظمت سے انکار قطعی نہیں ہوسکتا۔ اس تحریک نے ایسے حالات میں مسلمانوں کو سہارا دیا ہے، جب وہ بے بسی اور مایوسی کے دوراہے پر کھڑے تھے۔ اس نے ہندستان کے مسلمانوں کا صرف ساتھ ہی نہیں دیا، بلکہ ایسے چنگل سے نکالا ہے جس میں وہ بری طرح سے جکڑے ہوئے تھے۔ بقول پروفیسر احتشام حسین:

"انیسویں صدی کے وسط میں جب مسلمان کئی راستوں کے مقام استیصال پر پہونچ کر راستہ ڈھونڈ نے کی ہمت کھو چکے تھے۔ نہ پیچھے پلٹ سکتے تھے، نہ آگے بڑھنے کی جرأت تھی۔ اسی وقت علی گڈھ تحریک نے انھیں آگے بڑھنا سکھایا، لیکن پوری طرح یہ نہ بتا سکی کہ کون ساراستہ کدھر جاتا ہے۔”

٭٭٭

٭٭٭

ماخذ:

http://urducouncil.nic.in/ebooks/AbdulAleemSharar.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید