ہزار سال کے قدیم ترین وثائق
قرآن کی روشنی میں
مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی
تمام دینی نوشتے جو خالق کی طرف منسوب تھے ان سب کو "اساطیر الاوّلین”( بڑھیوں کی کہانیاں) یا میتھالوجی ٹھہرا کر بصدِ بے باکی و گستاخی یورپ نے علم کی جدید الحادی نشاء ة میں اس دعوے کی بدبو سے سارے عالم کو متعفن بنا رکھا تھا کہ مذہب اور دین کے سلسلے میں بنی آدم کا ابتدائی دین شرک تھا، سمجھایا جاتا تھا کہ کم عقلی کی وجہ سے ہر ایسی چیز جس سے ہیبت و دہشت کے آثار پیدا ہوتے تھے یا جنہیں دیکھ کر لوگ اچنبھے میں مبتلا ہو جاتے تھے
فطرت کے ان ہی مناظر کے سامنے آدم کی نا تراشیدہ عقل نے سر جھکا دیا۔بجلی، بادل، سورج، چاند، سانپ، ہاتھی، سانڈ وغیرہ چیزوں کی پوجا کے متعلق ہر بڑی چھوٹی کتاب خواہ کسی فن اور علم میں لکھی گئی ہو اپنی اس لحافی [یہ ایک شخصی اصطلاح ہے مطلب یہ ہے کہ ماضی کے ایسے حوادث و واقعات جن کے متعلق صحیح مواد ہمارے پاس نہ ہو۔ جہل کا اقرار و اعتراف بھی صحیح علمی طریقہ ان امور کے متعلق ہوسکتا ہے مگر وسوسہ کی سرشت سے مجبور ہو کر بعض لوگ کچھ نہ کچھ رائے ان کے متعلق قائم کر لینا ضروری سمجھتے ہیں ورنہ اپنی ذہنی کھجلاہٹ سے سکون کی کوئی صورت ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔آسان راستہ اس سلسلے میں بھی ہے کہ ” لحاف اوڑھ کر پلنگ پر دراز ہو جائے ”اور وسواسی تُک بندیوں سے کام لے کر کوئی رائے قائم کر لے۔ ماضی ہی نہیں بلکہ مستقبل کے متعلق بھی نتائج اور آراء جن کا چرچا عوام میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ تحلیل و تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر لحافیاتی مقدمات ہی سے ان نتائج و آراء کے استنباط میں کام لیا گیا ہے۔] توجیہ کے تذکرے کو مغربی و مستغرب مصنفین نے ایک قسم کا پیشہ بنا لیا تھا اور شاید کچھ لوگ اب تک بنائے ہوئے ہیں۔
باور کرایا جاتا تھا کہ مشرک انسان عقلی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اپنے معبودوں کو بھی بدلتا چلا گیا تآنکہ آخری نقطہ جہاں تک پرانی دنیا کی عقل پہنچ سکی تھی "خدائے واحد ” کا تخیّل تھا، حاصل یہی ہوا کہ توحید عہدِ قدیم کے عقلی ارتقاء کا نتیجہ ہے اور اب جدید دور میں انسانی عقل ترقی کے جس زینے پر پہنچ چکی ہے اس نے اس ” ایک خدا” کی ضرورت کے خیال کو بھی ختم کر دیا۔ اس آخری حاصل کو سطروں میں تو جگہ نہیں دی جاتی تھی لیکن جو طریقہ بیان اس مسئلہ میں اختیار کیا گیا تھا اور جس معصومانہ سادگی اور خالص علمی لب و لہجہ میں شرک کے پیٹ سے توحید کو نکالنے کی کوشش کی جاتی تھی اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر آدمی کا ذہن ” انکارِ خدا” کے نقطہ پر پھسل کر خود پہنچ جائے گویا بجائے ” سطور” کے دل کی بات ” بین السطور” میں بڑے احتیاط کے ساتھ کھپانے والے کھپا دیا کرتے تھے۔ انیسویں صدی کے عام ادبیات میں اس عجیب و غریب مسئلہ کو کچھ ایسے شاطرانہ طریقہ سے سان دیا گیا تھا کہ بڑے بڑے دینداروں، مذہب کے علمبرداروں تک کو بھی اسٹیج ہی نہیں بلکہ ممبروں سے بھی دیکھا جاتا تھا کہ "دین کی تشریح ” اسی راہ سے کر رہے ہیں حیرت ہوتی تھی کہ آدم و حوّا کا قصہ جو کم از کم سامی مذاہب کا ایک عام مشترک قصّہ تھا اس قصے میں انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ السّلام کا سامی مذاہب کی تمام کتابوں میں جن خصوصیتوں کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے ان کو مانتے ہوئے لوگوں کے دل میں یہ بات کیسے جاتی تھی کہ ہمارے باپ دادوں نے شرک سے شروع کر کے توحید کو اپنا دین بنایا ہے جس آدم اور حوّا کے حالات سے ہمیں آسمانی کتابوں میں روشناس کرایا گیا ہے وہ اتنے گئے گزرے نہیں معلوم ہوتے کہ سانپ، بچھو، آگ اور پانی۔ بجلی اور بادل جیسی چیزوں کو پوجتے ہوں۔
بہر حال یہ قصہ تو بڑا طویل ہے بلکہ اب تو ایک حد تک پارینہ بھی ہو چکا ہے، خود یورپ کے علمی طبقوں میں اس ” لحافی نظریہ "کا کافی مضحکہ اڑایا جا چکا ہے حال ہی کی ایک مطبوعہ کتاب “The Bible come Alive” [یہ کتاب سر چارلس مارسٹن ( ١٨٦٧ء -١٩٤٦ء ) کی تصنیف ہے۔ پہلی مرتبہ ١٩٣٧ء میں شائع ہوئی۔ (ادارہ الواقعة)] میں مسٹر مارسٹن نے اس لغو دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہ توحید کا عقیدہ شرک سے پیدا ہوا ہے قدیم اقوام کی تاریخ کے مستند عالم مسٹر لانگڈن کے حوالے سے ان کے یہ فقرے نقل کیے ہیں کہ
"مذہب کی تاریخ کی یہ غلط تعبیر ہے کہ شرک ادنیٰ قسم کی تہذیب سے تعلق رکھتا ہے۔”
بلکہ اس کے بَر خلاف واقعہ یہ ہے کہ
"نسلِ انسانی کی قدیم ترین مذہب کی تاریخ توحید سے آخری درجہ تک کے شرک اور بد روحوں کے اعتقاد کی طرف ایک تیز رو پرواز ہے۔”
لانگڈن نے مختلف مشرکانہ تمدن و تہذیب کا حوالہ دیتے ہوئے آخر میں لکھا ہے کہ
” درحقیقت شرک بہترین قسم کی تہذیب اور تمدن کی پیداوار ہے۔”
ان کا خیال ہے کہ شرک سے توحید نہیں پیدا ہوئی بلکہ
"توحید ہی سے شرک نے جنم لیا اور توحیدہی کی اسی شرح و توجیہ سے شرک پیدا ہوا جو غلط طریقہ پر کی گئی۔”]دیکھو کتاب مذکور : ١٥٢[
دور کیوں جائیے خود مسلمانوں کی تاریخ ہی لانگڈن بے چارے کے دعوے کی تصدیق کے لیے کافی ہے وہ سارے شِرکی کاروبار جن کا رواج مختلف شکلوں میں مسلمانوں میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہا کیا یہ سب کچھ اسی زمانے کی یادگار نہیں ہے جب تمدن و تہذیب کی آخری ارتقائی مینار پر چڑھ کر مسلمان دنیا کی ساری قوموں کے مقابلہ میں سر بلند ہوچکے تھے۔
بہر حال اس وقت اس خاص مسئلہ پر بحث کرنے کے لیے میں نے قلم نہیں اٹھایا ہے یہ تو ایک تمہیدی گفتگو تھی اس مختصر سے مضمون میں جس چیز کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔وہ چند دلچسپ قدیم تاریخی وثائق ہیں، جن کا عنوان میں ذکر کیا گیا ہے۔
مصری تمدن و تہذیب کہیے یا فرعونی ہیکڑی اسی سے اپنے شجرہ نسب کو ملاتے ہوئے یورپ کے عام مورخین اگرچہ مصر ہی کو تہذیب کا قدیم گہوارہ قرار دیتے ہیں لیکن بائبل ہی نہیں بلکہ قرآن نے بھی جس ترتیب کے ساتھ پیغمبروں کا اور ان قوموں کا ذکر کیا ہے جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے اس ترتیب کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو انسانیت کی تاریخ کا وہ دور جس کی تعبیر د ہرست نظر ٓی تشکیل: اعجاز عبیدز عبیدجنیلی تمدن سے ہم کرسکتے ہیں یعنی دجلہ و فرات کے درمیانی عِلاقے سے شروع ہو کر عرب کے جنوب میں عادی تمدن، اور شمال کے ثمودی تمدن ان کے سوا اسی کے آس پاس کے علاقوں سے گزرتے ہوئے بالآخرش قدیم عہد کا اختتام دریائے نیل کے کنارے اس طوفانی جوش و خروش پر ہوا جسے فراعنہ کے اہرامی تمدن کا نام دیا جا سکتا ہے دجلہ اور نیل کے درمیان کا یہی علاقہ انسانی کمالات کی نشو و نما اور ان کے آثارو نتائج کے ظہور کی آماجگاہ زمانۂ دراز تک بنا رہا ہے اگرچہ قوموں پر پیرانہ سالی کا جو شوق اس زمانہ میں عموماً مسلّط ہے ہر قوم یہی چاہتی ہے کہ دنیا کی قوموں میں ماننے والے اسی کو سب سے زیادہ بوڑھی قوم مان لیں۔ یہ اور بات ہے لیکن جن حقائق و واقعات تک تاریخ کی رَسائی اب تک ممکن ہوسکی ہے ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے اور جس خطے میں بھی تہذیبی اور تمدنی ترقیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان سب کا زمانہ اسی قدیم دنیا کے بعد ہے۔
بہر حال اور کچھ مانا جائے یا نہ مانا جائے۔لیکن مصریوں کے تمدن کی غیر معمولی قدامت کا انکار نہیں کیا جا سکتا یہی ایک ایسی سرزمین ہے کہ چارچار پانچ پانچ ہزار کے تحریری وثائق اس کے پیٹ سے آج بھی برآمد ہو رہے ہیں، یورپ کے اہلِ علم کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے ان قدیم تاریخی وثیقوں کے پڑھنے کو ممکن بنا دیا ہے. [”ممکن بنا دیا ہے ”یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ” ہیرو غلیفی ” یا”ہیرو طبقی”حروف پڑھنے کا جو طریقہ مغربی فاضلوں نے نکال لیا ہے اب اس کے متعلق تو شک و شبہ کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے لیکن پڑھ لینے کے بعد نتائج جو ان سے پیدا کیے جاتے ہیں ان نتائج کے متعلق بے محابا ایمان لانے کی بدعات ہم مشرقیوں میں جو پھیل گئی ہے ضرورت ہے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے مگر یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ان حروف کے پڑھنے کا سلیقہ ہم خود اپنے اندر پیدا کر لیں ورنہ اندھی تقلید پر ہمارا جہل خود ہمیں مجبور کرتا رہے گا لوگوں کا یہ خیال کہ اس قسم کے پُرانے حروف کا پڑھنا کوئی جدید اقدام ہے صحیح نہیں ہے۔”فتوحات مکیہ ”میں شیخ ابن عربی نے اہرام کی بعض عبارتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پڑھنے والوں نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے دفینہ طلبی کا خبط جیسا کہ ابنِ خلدون نے مقدمہ میں لکھا ہے مصریوں پر زمانے سے مسلّط ہے کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ اس خبط میں ان حروف کے پڑھنے سے ان کو باز رکھا ہو گا اور میں تو سمجھتا ہوں کہ گو یورپ بھی بظاہر علم کے نام سے اس کام کو کرتا ہے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ پرانے دفائن و خزائن کی کوشش کو ان کی ان کوششوں میں دخل نہیں ہے.]
حال میں مصر کے ایک قبطی فاضل ” انطون زکری ” (انطون زکری مصر کے قبطی فاضل تھے۔ انہیں قدیم مصر کے آثار پر عبور حاصل تھا۔ اس موضوع پر ان کی کتابیں ” النیل فی عہد الفراعنة ”اور ” مفتاح اللغة المصریة القدیمة و مبادی اللغتین القبطیة و العبریة ” سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس فاضل جلیل اور ماہرِ آثار قدیمہ کا انتقال ١٩٥٠ء میں ہوائی جہاز کے فضائی حادثے میں ہوا۔ الاعلام : ٢/٢٨( ادارہ الواقعة)) نے ان ہی پرانے تاریخی وثیقوں میں سے چند خاص وثائق کا یورپین زبان کے ترجموں کی مدد سے عربی میں بھی ترجمہ شائع کیا ہے، مصری حکومت کے "متحف ” یعنی میوزیم سے مترجم کا چونکہ تعلق ہے اس لیے اہم چیزوں تک رسائی ان کے لیے آسان تھی، اس کتاب میں مصر کے پرانے تراشیدہ مجسموں کی بھی بہت تصویریں شریک ہیں قدیم مصری تمدن کے سمجھنے کے لیے یہ کتاب مفید معلومات پر مشتمل ہے۔
میری خاص دلچسپی کی چیزاس کتاب میں ان تاریخی وثیقوں کے بعض خاص فقرے اور مشتملات ہیں، ان ہی کو اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں۔
یہ مصر کے پرانے کاغذ جسے ” اوراقِ بردیہ [انگریزی میں ”پے پر ”کاغذ کو اسی لیے کہتے ہیں کہ مصر کے ” اوراقِ بردیہ ” ایک خاص قسم کے پودے کے گودے سے بنائے جاتے تھے۔ جس کا نام پائپرس تھا۔]”کہتے ہیں اسی میں لکھے ہوئے وثائق مختلف اوقات میں لوگوں کو ملے ہیں جن میں پہلا وثیقہ تو وہ ہے، جو بردی کے کاغذ کے اٹھارہ صفحات پر لکھا ہوا ہے قدیم فرعونی شہر طیبہ جسے آج کل الاقصر کہتے ہیں اس کے قریب ایک مقبرے میں کسی مصری کسان کو یہ اوراق اس وقت ملے جب وہ اس مقبرے کی زمین کھود رہا تھا۔آثارِ قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے ایک فرانسیسی فاضل نے ١٨٤٧ء میں ان اوراق کو شائع کیا اس فرانسیسی فاضل کانام ( Priused Avene ) پریس داوون تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ سرخ اور سیاہ روشنائی سے یہ مصری مخطوطہ لکھا ہوا تھا، مصر کے دو پرانے حکیم جن میں ایک کانام قاق منا اور دوسرے کانام فتاح حتب تھا ان ہی دونوں کے وہ فقرے بنائے ہوئے ہیں جو ان اوراق میں درج تھے۔ مصری تاریخ کے محققین نے حساب کرکے اندازہ لگایا ہے کہ کم از کم پانچ ہزار سال قبلِ مسیح کی یہ کتاب ہے اسی لیے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کتب خانوں میں جتنی کتابیں اس وقت پائی جاتی ہیں ان میں سب سے قدیم ترین کتاب یہی مصری مخطوطہ قرار پا سکتا ہے۔ اس مخطوطہ کا قدیم مصری زبان سے یورپ کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا شابس( Chabas ) اور ویری (Virey) نے فرانسیسی زبان میں لوتھ( Loth ) نے لاطینی میں جرمنی میں بروکش پاشا نے اور انگریزی میں گن ( Gunn ) نے اس کو منتقل کیا۔
دوسرا مخطوطہ اسی سلسلہ کا وہ ہے جس کا زمانہ تین ہزار تین سو سال قبل مسیح متعین کیا گیا ہے یہ بھی الاقصر(طیبہ)ہی کے کھنڈوں کے پاس اس مقام میں ملا جسے دیر سجری کہتے ہیں،یہ مصر کے ایک کاہن آنی نامی کی طرف منسوب ہے، کہتے ہیں کہ اپنے شاگرد خون سو حتب نامی کو خطاب کر کے حکیم آنی نے یہ نصیحتیں کی تھیں کہ اس مخطوط کا ترجمہ بھی فرانسیسی زبان میں شاباس نے اور دی روجیہ نے،جرمنی میں ارمن نے، انگریزی میں پروفیسر ماس برو نے کیا ہے۔
تیسرا مخطوطہ آمِنْ بِتْ مِنْ کَانَ خِتْ کی طرف منسوب ہے، کہتے ہیں کہ قدیم مصر کا زبردست ادیب تھا، تین ہزار سال قبلِ مسیح سمجھا جاتا ہے کہ یہ مصری تصنیف مرتب ہوئی، مسٹر بڈگ ( Budge ) نے انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔
بردی کے اوراق پر ایک اور مخطوطہ بھی مصری آثار کے محققین کو ملا ہے لیکن صحیح تخمینہ اس عہد کا نہ ہوسکا، تاہم قدامت میں اس کے بھی شبہ نہیں ہے، دیموطبقی حروف سے مختلف مغربی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔
انطون زکری کے عربی تراجم سے مصر کے ان قدیم مخطوطات کے بعض فقروں کا ترجمہ میں یہاں درج کرتا ہوں، پہلے ان کو پڑھ لیجیے۔
(١) سیدھی راہ چلو، نہ ہو کہ تم پر اللہ کا غصہ ٹوٹ پڑے۔
(٢) جھگڑے میں ہٹ دھرمی سے پرہیز کیجیو، ورنہ خدا کی سزا کے مستحق بن جاؤ گے۔
(٣) لوگوں کے دلوں میں دہشت نہ ڈالو، ورنہ خدا اپنے انتقام کی لاٹھی سے تمہیں پیٹے گا۔
(٤) ظلم اور زیادتی کے ذریعہ سے جس دولت کو کما کر تم جینا چاہتے ہو اور اسی کے بل بوتے پر اگر امیر بننے کی تم کوشش کرو گے، تو خدا تمہاری نعمت تم سے چھین لے گا اور تم کو کنگال بے نوا بنا چھوڑے گا۔
(٥) خدا جسے چاہتا ہے آبرو اور عزت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے رسوا اور ذلیل کرتا ہے کیونکہ اسی کے ہاتھ سارے امور کی کنجیاں ہیں، خدا کے ارادے کا مقابلہ بے سود اور لاحاصل ہے۔
(٦) اگر تم دانش مند آدمی ہوتو چاہیے کہ اپنے بیٹے کی پرورش اس ڈھنگ سے کرو جس سے خدا خوش ہو۔
(٧) خلقت کا سارا کاروبار اس خدا کے ہاتھ میں ہے جو اپنی مخلوق کو چاہتا ہے۔
(٨) پستی کے بعد جب بلندی تمہیں میسر آئے، اور محتاجی کے بعد سرمایہ ہاتھ لگے تو جن لوگوں کے حقوق تمہارے مال میں ہیں ان کو محروم کر کے اس سرمایہ کو جمع کرنے کی کوشش نہ کیجیو، کیونکہ اللہ کی نعمتوں کے تم امین ہو اور امین کا فرض ہے کہ جو امانت اسے سونپی جائے اسے ادا کرے۔
(٩) دینی قاعدے ( شرائع ) اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا بدترین سزا سے دوچار ہو گا۔
(١٠) زانی کا مال صرف برباد ہونے کے لیے ہے، ہر زانی خدا کے اور لوگوں کے غصہ کا شکار ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ شریعت کا مخالف ہے اور فطرت کے قوانین کا بھی۔
(١١) خدا سے نزدیکی چاہتے ہو تو اعمال و کردار میں چاہیے کہ خدا کے لیے اپنے آپ کو مخلص بنالو بندگی واقعی تمہاری سچی ہے اس کو جانچتے رہو تب خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو جائے گی، اور اپنی چشمِ عنایت سے تم کو وہ دیکھنے لگے گا کیونکہ خدا کی بندگی میں جو سستی سے کام لیتے ہیں ان ہی کو وہ چھوڑ دیتا ہے۔
(١٢) تیرا پروردگار جن باتوں سے ناراض ہوتا ہو، ان کو لے کر اس کے سامنے نہ جا اور اس کی بادشاہت کے بھیدوں کے ٹٹول میں نہ پڑاکر کیونکہ عقلی پرواز کے حدود سے وہ باہر ہیں چاہیے کہ اللہ کی وصیتوں اور فرمانوں کو اچھی طرح یاد رکھا کرو۔وہ ان ہی کو اونچا کرتا ہے جو اس کی برتری کا اقرار کرتے ہیں۔
(١٣) تہواروں کے دن خدا کے گھر میں شور و غل نہ مچاؤ اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر مخلص دل اور پست آواز کے ساتھ دعا کیا کرو، دعا کے قبول ہونے کی توقع ایسی صورت میں زیادہ ہوتی ہے۔
(١٤) تم سے جب کوئی مشورہ چاہے تو کتبِ منزّلہ ( یعنی خدا کی اُتاری ہوئی کتابوں ) کے مطابق اس کو مشورہ دیا کرو۔
(١٥) جھوٹی تہمت جس پر جوڑی جائے اس کو چاہیے کہ اس ظلم کو خدا کے سامنے پیش کر دے سچی بات کے ظاہر کرنے اور جھوٹ کے مٹانے کا خدا ضامن ہے۔
(١٦) سب سے بڑا آدمی وہی ہے جو حق اور سچائی کی راہوں پر گامزن ہے اور سیدھی راہ ( صراطِ مستقیم ) پر چلا جا رہا ہے۔
(١٧) پاپی آدمی دوسری زندگی میں آگ ( دوزخ ) سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔
(١٨) انصاف کے حدود اٹل ہیں بدل نہیں سکتے۔
(١٩) قناعت کامیاب زندگی کی واحد ضمانت ہے اور ہر قسم کی بھلائیوں اور نیکیوں کا سرچشمہ بھی وہی ہے۔
(٢٠) زندگی کی لذّتوں کا وہ کھو بیٹھے گا جو اپنے آپ کو دنیا کے مشکلات ہی میں الجھا کر سارا وقت ان ہی کے نذر کر رہا ہے۔
(٢١) نیکیوں اور خدا کی حمد وستائش اور اس کے آگے سجدہ ریزیوں ہی سے دلوں کے پاک کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔
(٢٢) استوار اور محکم بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کو چاہیے کہ کھڑی کرو، اور کسی بلند مقصد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھو اسی طریقہ سے پیری کی اس منزل تک پہنچ سکتے ہو جو تعریف کی مستحق ہو، اور آخرت ( دوسری زندگی ) میں بھی کسی جگہ کے بنالینے میں اسی طریقہ سے تم کامیاب ہوسکتے ہو ( یاد رکھو ) کہ ابرار اور نیک لوگوں کو موت کی کشمکش اور اس کی سکرات پریشان نہیں کرسکتی۔
(٢٣) لوگوں کی برائیوں کے ذکر سے اپنی زبان کو پاک رکھنے کی کوشش کرو ( یاد رکھو ) کہ ساری برائیوں کی جڑ زبان ہی ہے بات کرنے میں اس کا لحاظ رکھا کرو کہ زبان سے اچھی باتیں نکلیں اور بری باتوں سے بچتے رہو کیونکہ قیامت کے دن ہر وہ بات جو تمہاری زبان سے نکلی ہے تم اس سے پوچھے جاؤ گے۔
(٢٤) اپنے والدین کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کرتے رہنا، اور ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان باتوں کو اختیار کرنا چاہیے جو ان کے لیے بھلی ہوں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک نفع پہنچانے والے کاموں میں سب سے اچھا کام ہے اس کے قبول ہونے کی امید کرنی چاہیے، تم والدین کے ساتھ اچھا سلوک جب کرو گے تو تمہاری اولاد بھی یہی برتاؤ تمہارے ساتھ کرے گی۔
(٢٥) ماں کو خدا نے تمہارے لیے مسخر فرما دیا، پیٹ میں رکھنے اور جننے، دودھ پلانے میں تین سال تک وہ ہر طرح کی سختیوں کو برداشت کرتی ہے اور کتنا دکھ جھیل جھیل کر تمہیں پالتی ہے، تمہاری گندگیوں سے اسے گھن نہیں آتی اور تمہارے پوسنے پالنے کی محنتوں سے وہ کبھی نہیں تھکتی ایک دن کے لیے بھی نہیں چاہتی کہ بجائے اپنے کسی دوسرے کے سپرد تمہیں کر دے، تمہارے استاد کی خدمت کرتی ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک صرف اس لیے کرتی ہے تاکہ تمہاری تعلیم کی طرف پوری توجہ کریں۔ پس اب جب تم خود صاحبِ اولاد بن چکے ہو، چاہیے کہ ان بچوں کے ساتھ وہی برتاؤ کرو جیسے تمہاری ماں نے تمہارے ساتھ کیا تھا، ( دیکھو!) ایسا نہ ہوکہ تمہاری ماں تم سے بگڑ بیٹھے، نہ ہو کہ خدا کے سامنے ہاتھ اٹھا کر تمہارے لیے وہ بددعا کرے، ماں کی بددعا سنی جاتی ہے اور قبول ہو جاتی ہے۔
(٢٦) نشے باز کے گھر میں قدم نہ رکھنا خواہ اس کی وجہ سے عزت اور بلندی ہی کی تمہیں توقع کیوں نہ ہو۔
(٢٧) شراب خانوں کے گرد کبھی نہ پھٹکنا شراب خوری کے برے انجام سے بچنے کی یہی ایک صورت ہے، شرابی سے ایسی غلطیاں صادر ہوتی ہیں جن پر ہوش میں آنے کے بعد وہ خود پچھتاتا ہے، شرابی لوگوں کی نگاہوں میں ہمیشہ ذلیل و خوار رہتا ہے خود اس کے ساتھی جو اس کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں اور اس کی برائیوں میں اس کے ساجھی اور شریک رہتے ہیں ان کی نظروں میں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
(٢٨) دوسرے کے مال کا چرانے والا کیا نہیں ڈرتا کہ اللہ اسی وقت اس کی جان کو چھین لے اور اس کے مال و منال کو تتر بتر کر دے اس کے گھر بار کو اجاڑ کر رکھ دے۔
(٢٩) امیر آدمی جب کسی غریب کو ذلیل کرتا ہے تو ( یاد رکھو کہ اس امیر کو ) خدا بھی رسوا کرے گا اس دنیا میں بھی، اور آگ کا عذاب آخرت میں بھی اس کو چکھائے گا۔
(٣٠) بد کردار سے بچتے رہنا کیونکہ بد کردار آدمی بے وقوف بھی ہوتا ہے اور خدا اور عام لوگ دشمنی کی نظر سے اس کو دیکھتے ہیں۔
(٣١) خدا کی پاکی بیان کرتا رہ اور شیطان سے اکڑا رہ۔
(٣٢) کاروبار یا جائیداد وغیرہ میں جو تیرے شریک ہوں ان کو حساب و کتاب میں دھوکے نہ دیا کرو اگر ایسا کرو گے، تو خدا تم سے غصّہ ہو جائے گا اور لوگوں میں تمہاری بددیانتی، بے وفائی کی شہرت ہو گی۔
(٣٣) جو کچھ تمہارے دل میں ہو دھوکہ دینے کے لیے لوگوں کے سامنے اس کے برعکس اپنے آپ کو پیش نہ کیا کرو اپنے ظاہر کو باطن کے مطابق رکھنے کی کوشش کرو ( یاد رکھو کہ ) جھوٹ بولنے والے مکار دھوکہ باز کو خدا غصّہ اور غضب کی نظر سے دیکھتا ہے۔
(٣٤) حلال ذریعہ سے حاصل کیا ہوا ایک حبّہ حرام کے ہزار سے کہیں بہتر ہے۔
(٣٥) مال کی محبت میں سراسیمگی فضول ہے کیونکہ روزی تو بنٹی ہوئی ہے اور ہر شخص کو وہی ملتا ہے جو اس کا حصّہ ہے۔
(٣٦) مال اندوزی ہی کو اپنا سب سے بڑا مقصود اور اپنی کوشش کا محور نہ بنا کیونکہ خدا جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
(٣٧) ایسا امیر جو محتاج کو پیٹ بھر کھانا کھلاتا ہے خدا کو خوش کرتا ہے کیونکہ امیر کو خدا نے اپنی نعمتوں کا صرف امین بنایا ہے۔
(٣٨) غریب آدمی کو جو دیتا ہے وہ خدا کو دے رہا ہے۔
(٣٩) نیک آدمی اپنی آخرت ( مرنے کے بعد کی زندگی ) کو یاد کرتا رہتا ہے۔
(٤٠) بہشت ان ہی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو غریب آدمی کے لیے قربانیاں کرتا ہے۔
(٤١) ہر اس راستے سے دور رہنا جو شیطان سے تم کو نزدیک کرتا ہو۔
(٤٢) جو باتیں نا جائز اور حرام ہیں ان کا ارادہ بھی نہ کیجیو کیونکہ دوسرے عالم میں اپنے حصے کو تم کھو دو گے۔
(٤٣) کامیابی اور سعادت و اقبال صرف یہ نہیں ہے کہ آدمی جسم کو پالتا رہے نلکہ حقیقی اقبال مندی یہ ہے کہ روح کو اس کی خوراک پہنچائی جائے۔
(٤٤) سرمایہ اکٹھا کرنے کی دھن میں نہ لگو، تم کیا جانتے ہو کہ انجام کن شکلوں میں تمہارے سامنے آنے والا ہے ( یاد رکھو !) کہ عنقریب اس سرمایہ کو چھوڑ کر تم چل دو گے اور دوسرے اس سے چین کریں گے۔
(٤٥) بدکار لوگوں سے نہ بات چیت کرنی چاہیے اور نہ کسی قسم کا کوئی کاروبار۔
(٤٦) دیکھو! لوگوں کو قریب میں مبتلا نہ کیا کرو ورنہ تم کو بھی لوگ دھوکے دیں گے۔
(٤٧) گھر میں فحش اور بری باتیں زبان پر نہ لایا کرو، یاد رکھو کہ تمہارے گھر والے تمہاری پیروی کریں گے، غیبت یعنی پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو۔
(٤٨) اپنے ہمسائے کی عورت کو ارادةً نہ گھورو، جو ایسا کرتا ہے وہ ایک قسم کا بھیڑیا ہے۔
(٤٩) کسی کو دکھ نہ دو، خواہ ساری دنیا ہی تمہیں کیوں نہ مل رہی ہو۔
(٥٠) غریب آدمی کو مالی مدد سے محروم نہ رکھو مرنے کے بعد اسی کی وجہ سے تم رحم کے مستحق ہو گے۔
بردی یا پائپرس پودے کے گودے کے کاغذ کے ان قدیم مخطوطات سے صرف پچاس فقروں کا انتخاب ترجمہ کے لیے میں نے کیا، کوشش کی گئی ہے کہ سادہ لفظوں میں ہر فقرے کا لفظی ترجمہ پیش کر دیا جائے انطون زکری نے ہر اس موقعہ پر جہاں آپ کو ” خدا ” کا لفظ مرے ترجمے میں ملے گا ” اللہ "کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جہاں تک مرا خیال ہے ” اللہ ” کا یہ لفظ کسی ” قدیم مصری ” لفظ کا ترجمہ ہے جس کا مفہوم وہی ہے جو عربی زبان کے لفظ ” اللہ ” سے سمجھا جاتا ہے۔
کچھ بھی ہو یہ پچاس فقرے ہیں جن کی تاریخ آج سے پانچ ہزار سے سات ہزار برس تک پہنچتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ گہری بات سوچنے کی یہ ہے کہ خدا اور خدا کی نازل کی ہوئی کتابوں، نیکی اور بدی، مرنے کے بعد ان کے نتائج کا ظہور بہ شکل بہشت و دوزخ اور وہ ساری باتیں جن کا ذکر ان فقروں میں کیا گیا ہے ان کے تذکرے میں جو بے ساختہ پن پایا جاتا ہے اور بیان میں ایسا لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے کہ گویا سننے والے موروثی طور پر ان باتوں کو مانتے چلے آرہے ہیں ہر ایک کی جانی بوجھی باتیں ہیں۔ اس حیثیت سے اگر غور کیا جائے اور سوچا جائے کہ کتنی طویل تربیت کے بعد عوام میں اس قسم کی ذہنیت پیدا ہوسکتی ہے تو میں خیال کرتا ہوں کہ ان مصری عقائد کے متعلق ماننا پڑے گا کہ ان کی عمر مذکورہ بالا مدت سے بھی کہیں زیادہ طویل ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے یہ سوال اٹھا کر یعنی
أَ فَلَمْ یَدَّبَّرُوْا الْقَوْلَ اَمْ جَاءَ ھُمْ مَا لَمْ یَأْتِ اٰبَائَھُمُ الْاَوَّلِیْنَ (المؤمنون )
” کیا بات وہ سوچتے نہیں یا ان کے پاس کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے پہلے باپ دادوں کے پاس نہیں آئی تھی۔”
جواب میں کبھی اس راز کا افشا کرتا ہے مثلاً فرمایا گیا ہے :
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَھُمُ الْقَوْلُ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ (القصص)
”ہم ان کے لیے بات کو جوڑتے چلے آئے تاکہ وہ چونکتے رہیں۔”
اسی بنیاد پر قرآنی تعلیمات کو بجائے کسی ” جدید نظام حیات ” کے بار بار دہرا دہرا کر کبھی :
اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی (الاعلیٰ)
”یقینا یہی بغیر کسی شک و شبہ کے پچھلی کتابوں میں بھی ہے۔”
کبھی:
وَ اِنَّہ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
”اور یقیناً وہ ( یعنی قرآن ) قطعاً پہلوں کی کتابوں میں تھا۔”
وغیرہ الفاظ سے اسی حقیقت کو وہ ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ یہ نسلِ انسانی کی زندگی کا پرانا اور قدیم ترین دستور ہے یہی آئینِ حیات تھا جو نوح (علیہ السلام ) کو بھی عطا ہوا تھا اور ابراہیم (علیہ السلام ) کو بھی موسیٰ (علیہ السلام ) کوبھی اور عیسیٰ (علیہ السلام ) کو بھی بلکہ سارے ” النبیوں ” کو اب پڑھیے قرآن میں آپ کو یہ چیز ملتی چلی جائے گی سورة الانعام میں اس نے پیغمبروں کی طویل فہرست دے کر اور یہ بتاتے ہوئے کہ اس فہرست میں جن لوگوں کا نام لیا گیا ہے وہ ہوں یا جو ان سے پہلے گزرے یا ان کے بعد آئے،ان میں نسلی تعلق ہو، یا نبوت و رسالت کی اخوت کا رشتہ ہو، الغرض سارے جہاں کے پیغمبروں کو خدا کی طرف سے جو راہ نمائی اور ہدایت عطا ہوئی تھی اسی کی طرف اشارہ کر کے خود صاحبِ قرآن محمد رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا ہے :
اُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ ( الانعام)
”یہی وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے راہ نمائی کی پس چاہیے کہ ان ہی کی راہ نمائیوں کی تم بھی پیروی کرو۔”
ظاہر ہے جس امت کے پیغمبر ہی سے یہ مطالبہ کیا گیا ہو وہی امت اس کے سوا اور کیا سمجھ سکتی ہے اور یہی اس کو سمجھایا بھی گیا ہے کہ قرآن کی شکل میں جس دین کا دستور اس کو عطا کیا گیا ہے یہ کوئی نیان دین اور جدید مذہب یا انوکھا دھرم نہیں ہے بلکہ وہی قدیم موروثی دین ہے جس کی تعلیم جو آدم کی اولاد کو زمین کے اس کرے پر آباد ہونے کے ساتھ ہی مسلسل ملتی رہی ہے، اسی طرح ملتی رہی ہے جیسے ہوا، پانی، روشنی وغیرہ جیسی چیزیں ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے قدرت ہی کی طرف سے مہیا کی گئی تھیں جن کا دوسری جاندار ہستیوں کے ساتھ انسان بھی محتاج تھا، مشہور قرآنی آیت
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَام (آلِ عمران)
”قطعاً وہ الدین (یعنی آئینی زندگی) جو اللہ کے حضور سے ملا وہ ”الا سلام” ہے۔”
اس میں بھی قطعاً کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ پہلے آدمی کے جینے کا دستور خدا کے حضور سے کسی اور شکل میں ملا تھا اور اب بجائے اس کے کوئی نیا دین الاسلام کے نام سے لوگوں کو دیا جا رہا ہے بلکہ صاف اور واضح مطلب اس کا یہی ہے اور یہی ہونا بھی چاہئے کہ ” لاسلام ” ہی وہ دین ہے جو خدا کے حضور سے عطا کیا گیا اور ا سی دین کی پابندی کا مطالبہ ہر زمانے میں ان لوگوں سے کیا گیا جو انسان بن کر دنیا میں آئے۔المسلم با عام ہندی محاورے کی رو سے مسلمان آ دم کی اولاد کے ان ہی افراد کا نام ہے جنہوں نے اپنے اسی موروثی، قدیم دین ” الا سلام ” کے پا لینے میں کامیابی حاصل کی ہے اسی طرح ہر وہ شخص جو اس زمین پر آدمی بن کر پیدا ہونے کے با وجود اس ”قدرتی آئین ”مطابق زندگی بسر کرنے سے بھڑک رہا ہے یقین ہے کہ در حقیقت اپنے آباؤ اجداد کے صحیح دین اور دھرم سے وہ بھڑک رہا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ بھڑکنے کی وجہ اپنے نزدیک یہی ٹھہرائے ہوئے ہے کہ اسلام کو قبول کر کے اپنے باپ دادوں کے قدیم دین یا دھرم سے وہ دور ہو جائے گا۔ یا للعجب
آخر مصر ہی کے باشندوں کو دیکھیے ہزارہا سال کے پرانے وثائق کے جو چند فقرے آپ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں ان کا پڑھنے والا اس کے سوا اور کیا سمجھ سکتا ہے کہ مصر والے آج سے ہزار ہا سال پیشتر بجنسہ ان ہی باتوں کو مانتے تھے جن کی قرآن تعلیم دے رہا ہے نہ صرف اصولی اور اساسی چیزیں جن کا مبدء اور معاد یا بالفاظِ دیگر خدا اور آخرت، وحی، نیکی و بدی کے قوانین سے تعلق ہے بلکہ ایسی باتیں مثلاً مسکرات ( نشہ پیدا کرنے والی چیزیں ) آپ دیکھ رہے ہیں کہ مصر کے اہلِ علم و فضل اپنی قوم کو ان کے استعمال سے کیا ٹھیک اسی لب و لہجہ میں روک رہے تھے، جس طرز و انداز میں آج مسلمانوں کے مولوی اور صوبائی یا علماء مشائخ منع کرتے ہیں عورتوں کے متعلق یورپ کی تہذیب جدید نے تو یہ پھلانا شروع کیا ہے کہ پیدا ہی کی گئی ہیں وہ اس کے لیے کہ مرد کو جس حد تک ان کو گھو رنے کا موقع مل سکتا ہو محرم اور غیر محرم کی تمیز کے بغیر ان کو گھورتا ہی چلا جائے انسانیت کی تکمیل ہی اسی پر موقوف ہے کہ مردو ں کا کوئی مجمع ان کی کوئی مجلس وجود انسانی کے اس نازک ترین حصے کی جلوہ آرائیوں سے خالی نہ ہو مگر مصر عہد قدیم میں مغرب کی تہذیب جدید کے اسی کامل انسان کو آپ دیکھ چکے کی بجائے آدمی کے بھیڑ یا ٹھہریا جا تا تھا۔
بہر حال بردی کے یہ کاغذ اتفاقاً مل گئے ہیں اور ان میں سے بھی صرف چند ضروری فقروں کا میں نے تر جمہ کیا ہے، ورنہ مصر یو ں کے قدیم دین کے سا رے وثائق اگر مل جاتے تو کون کہہ سکتا ہے کہ قرآنی تعلیمات کے جزئیات تک ان میں نہیں مل سکتے تھے بلکہ جو کچھ مل چکا ہے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں بھی صراحتہً نہ سہی اشارةً بہت سی چیزیں کم از کم مجھے ایسی دینی ہیں کہ نسل انسانی کے دین کی تاز ہ ترین قرآنی شکل میں اور مصر کے ا س قدیم ترین دین میں فرق کرنا مشکل معلوم ہو تا ہے میرا تو خیال ہے جن پچاس فقروں کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے اگر شروع ہی میں ان کے متعلق یہ بتا نہ دیا جاتا کہ مصر کے پرانے کھنڈروں سے پانچ چھ ہزار سال پیشتر جو کاغذات بر آمد ہوئے ہیں ان ہی سے یہ فقرے نقل کئے گئے ہیں تو میں یقین کرتا ہوں کہ پڑھنے والے شا ید یہی سمجھتے ہیں کہ شیخ سعدی یا ملا حسین واعظ کا شقی یا عطار و سنائی وغیرہ مسلمانوں کے بعض بزرگوں کی کتابوں سے چیزیں نقل کی گئی ہیں اب امتحان لے کر دیکھئے یہ بتائے بغیر کہ ان کی اصل کیا ہے کسی کو سنائیے اور پوچھئے کہ یہ کس کا کلام ہو سکتا ہے ؟ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ سننے کے ساتھ کہنے والے بھی کہیں گے مسلمانوں کے عالم یا صوفی کے اقوال ہیں یہی نہیں بلکہ عہد فراعنہ کی مصری تاریخ سے معلوم ہوتا کہ آج سے ہزار سال پیشتر ان کے دین کی وہی نوعیت تھی جس کا پتہ مذکورہ بالا فقروں کے مضامین سے چلتا ہے لیکن جوں جوں وہ آگے بڑھتے چلے گئے تو ایک طرف ان کا تعمیری ذوق عام علوم و فنون میں انہماک بھی اسی نسبت سے بڑھتا چلا گیا، طب اور ادویہ کی تحقیق میں اس حد تک وہ پہنچ گئے تھے کہ موت تو ان کے بس کی بات نہ تھی لیکن مرنے کے بعد سڑنے اور گلنے سے لاشوں کو بچا لینے میں وہ کامیاب ہو چکے تھے، پتھر، لکڑی اور مختلف قسم کی دھاتوں سے انسانوں اور حیوانوں کے مورتیوں کے تراشنے میں ان کی چابک و دستیاں آج بھی دنیا کو ششدر بنائے ہوئے ہیں، فوجی قوت میں ترقی کے اس نقطے تک پہنچ چکے تھے کہ اس زمانے میں دنیا کا جو قابل لحاظ حصہ تھا،اس کو وہ فتح کر چکے تھے، انطون زکری نے لکھا ہے :
”کشور کشائی میں ان کا دائرہ اس حد تک وسیع ہو چکا تھا کہ ایک طرف شام و لبنان میں ان کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور دوسری طرف فرات کے مشرقی ساحل تک گھستے ہوئے چلے گئے،شما ل میں فلسطین تک اور جنوب میں سوڈان تک ان کے مقبوضات میں شریک ہو چکا تھا۔”
انطون نے اسی کے بعد لکھا ہے :
” و ھذہ اشھر بلاد العالم التی کانت معروفة فی ذٰلک الزمان۔”(٤٣)
”اس زمانے میں یہی علاقے دنیا کے مشہور مقامات تھے۔”
مگر جہاں یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہی دوسری طر ف بتدریج لڑھکتے لڑھکتے اور ڈھلکتے ہوئے مصر کے بھی باشندے آخر میں زندگی کے جس دینی قالب پر اصرار کرنے گئے ان کی تصویر انطون نے ان الفاظ میں کھینچی ہے یہ لکھنے کے بعد کہ
”فراعنہ کی حکومت کے آخری دور میں اس زمانے تک جب روما نیوں نے مصر کو اپنے امپائر میں شریک کر لیا تھا۔”
یہ حالت ہو گئی تھی کہ
”پرندوں اور مچھلیوں،سانپوں، مگرمچھوں،بلیوں،کتوں اور مینڈھوں تک کو پوج رہے تھے۔”
وہی لکھتے ہیں کہ
”اپنے ان مقدس معبودوں کی تخیط کرتے (یعنی جن دواؤں کی وجہ سے لاش نہیں سڑتی تھی ان ہی کو بھر کر ممی بنا تے تھے )اور بڑے تزک و احتشام سے ان دیوتاؤں کو وہ دفن کرتے تھے۔”(ص ١٥٢)
حیرت ہوتی ہے کہ سحر اور جادو میں ایک طرف انہی مصریوں نے یہ کمال پیدا کیا تھا کہ بعض مورتیاں اس شکل میں برآمد ہوئی ہیں کہ ایک آدمی مگرمچھوں کو پاؤں کے نیچے دبائے ہوئے ہے،اور اپنے دونوں ہاتھوں میں متعدد سانپوں، بچھوؤں،کو بھی پکڑے ہوئے ہے اور ان ہی کے ساتھ دم کے ساتھ شیر کو بھی اٹھائے ہوئے ہے،ہے یہ مورتی مصری میوزیم میں موجود ہے۔
مگر دوسری طرف ان ہی آثار سے جو مصر کے مختلف مقامات سے برآمد ہو رہے ہیں اور چوتھی،پانچویں صدی قبل مسیح کے مورخین مثلاً ہیرو دوئس یونانی،ڈیوڈورس صقلی،پلو ٹارک وغیرہ کی تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی جانوروں کو مصری آخر میں پوجنے لگے تھے۔
عہد فراعنہ میں کہتے ہیں کہ یکے بعد دیگرے تیس خاندانوں کی حکومت مصر میں قائم ہوتی رہی انطون کا بیان ہے کہ
” مصریوں کے دین اور دھرم کی اس عجیب و غریب شکل کی ابتداء چھبیسویں خانوادے سے شروع ہوئی، اور رومی جب مصر پر قابض ہوئے تو ملک ان ہی حیوانی معبودوں اور دوسرے دیوتاؤں کے نیچے پڑا ہوا تھا،حالت یہ ہو گئی کہ جن سانپوں کی پرستش کرتے تھے اگر وہ کاٹتا تو اس کو خوش قسمتی خیال کرتے تھے۔یا جن درندوں کو پوجتے تھے اگر پکڑ لیتا تو بخوشی اس پر راضی ہو جاتے تھے کہ ان کو پھاڑ کر کھا جائے۔”
حیوان پر ستی کے سلسلے میں مصریوں کا ذوق عجیب تھا، مذکورہ بالا حیوانی معبودوں کے ساتھ ساتھ ان کا بڑا زبردست معبود سانڈ تھا جسے وہ ابیس بھی کہتے تھے اور بیل ہی کی شکل کا ایک معبود ہاتور نامی تھا،اور جہاں ایسے بھاری بھرکم بدن والے جانور کو وہ پوجتے تھے،وہیں ایک حقیر کیڑا جسے عربی میں جعل کہتے ہیں،اور مصر کی پرانی زبان میں اس کا نام ”خپر” تھا شکل جس یہ بتائی گئی ہے،یہ کیڑا مصریوں کے اہم معبودوں میں شمار ہوتا تھا،عہد فراعنہ کے پچھلے دور کے مورخین نے بعض دلچسپ لطائف بھی مصریوں کی حیوان پرستی کے سلسلے میں نقل کئے ہیں مثلاً ڈیوڈور صیقلی نے لکھا ہے کہ
”کسی رومی سپاہی نے ایک بلے کو مار ڈالا،مصر والوں نے اس بلے کے قصاص میں اس رومی کو قتل کر دیا۔”
اسی طرح پلو ٹارک نے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ
”مصر کے وسطلانی علاقہ صوبہ سنیو پولیت نامی کے باشندے ایک خاص قسم کی مچھلی کا شکار کر کے اس کو چٹ کر گئے جو صوبہ کسر منیک کے رہنے والے مچھلی کی اس قسم کو پوجا کرتے تھے یہ خبر مچھلی کے پجاریوں کو جب ملی تو انہوں نے سینو پولیت والوں کے نام اعلان جنگ کر دیا بڑی زبردست لڑائی ہوئی آخر اس کنے کے پکڑنے میں کامیاب ہوئے جو سینوپولیت والوں کا معبود تھا انہوں نے مچھلی کے قصاص میں کنے کو ذبح کیا اور انتقام کی آگ بجھائی۔ ”
مصر قدیم کا مورخ اسٹرا یوں بھی ہے اس نے لکھا ہے کہ
”مصر والے گھڑیالوں اور مگرمچھوں کے لیے کھانے کا نظم بڑے تزک و احتشام سے مختلف دریاؤں میں کرتے تھے اور بیش قرار قوم اس پر وہ خرچ کیا کرتے تھے۔”
ہیروڈوئس نے بھی لکھا ہے کہ
”مصری جن جن جانوروں کو پوجا کرتے تھے ان کی لاشوں کو وہ بادشاہوں کے مقبروں میں دفن کیا کرتے تھے اور ان معبود جانوروں کے دفن میں اپنے ماں باپ اور عزیزوں قریبوں سے بھی زیادہ دلچسپی لیتے اور بیش قرار مصارف کا بار اٹھاتے۔”
انطون زکری کا بیان ہے کہ
”حال میں ایک بڑے گہرے خندق سے ہزارہا ہزار بلوں،اور مگرمچھوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جو ممی (حنوط) کی ہوئی تھی۔”
مصر کی تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ تیس خانوادوں کی حکومت عہد فراعنہ میں یکے بعد دیگرے جو قائم ہوتی رہی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کم از کم حضرت مسیح علیہ السلام سے چار ہزار برس پیشتر سے شروع ہو کر نقتانی بوس ثانی پر پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے سمجھا جاتا ہے کہ،تین سو پچاس قبل مسیح میں فراعنہ کے اس دور کا انقراض ہوا،رومی اسی کے بعد مصر پر قابض ہو گئے، جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ سراغ لگانے والے مختلف قرائن اور شہادتوں کی روشنی میں اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ ہزارہا سال تک توحید و آخرت پن اور پاپ یعنی نیکی و بدی، برداثم،بہشت دوزخ مرنے کے بعد دوسری زندگی یہ اور اسی قسم کی وہ ساری باتیں جن کی تعلیم خدا کے پیغمبروں نے دنیا کو دی ہے یہی چیزیں مصریوں کی دینی زندگی کے جوہری حقائق تھے،لیکن مصر کے اسی موحد ملک کے باشندے عروج و ارتقاء کی آخری بلندیوں پر جب پہنچ گئے تو شش و نق اور تاکلوت نامی فرعونوں کے زمانے میں جو اٹھائیسویں خانوادے کے حکمران تھے تخمینہ کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح سے تقریباً ایک ہزار سال سے آگے ان کی حکومت کا عہد متجاوز نہیں ہوتا،اسی زمانے میں خالق عالم کے سا منے سے ان کی پیشانی ہٹی اس کے بعد وہی انجام ان کے سامنے آیا جو خدا نے سامنے سے ہٹ جانے کے بعد ہر قوم کے سامنے لایا ہے یعنی ایک خالق کے سامنے سے جب کبھی کوئی قوم ہٹی ہے تو دیکھا گیا کہ ہر ایک کے سامنے پڑی ہوئی ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ جعل جیسے کیڑے تک معبود بنا لینے پر وہ راضی ہو گئے،وہ کتوں کو بھی پوجنے لگے اور بلوں کو بھی،سانپوں کو بھی اور بچھوں کو بھی۔
اور یہی میں کہنا چاہتا تھا کہ کچھ نہیں تو صرف مصر قدیم کی تاریخ ہی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو نظر آئے گا کہ ابتداء ً ہر قوم و ملت کو خالق عالم کی طرف سے پیغمبروں اور رسولوں نے توحید ہی کی تعلیم دی ہے شرک میں جب کبھی اور جہاں کہیں بھی قومیں مبتلا ہوئی ہیں وہ اپنے ابتدائی دین سے دور ہونے کے بعد ہی ہوئی ہیں اس قسم کی قرآنی آیتیں مثلاً
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتً ( النحل)
”ہم نے ہر امت (قوم)میں اپنے پیغام بر بھیجے (یہ پیغام لے کر )کہ اللہ ہی کو پوجتے رہو،اور الطاغوت (یعنی خدا سے سر کش بنانے والی چیزوں) سے بچتے رہنا۔”
یہ واقعہ ہے کہ ان کا صحیح مطلب دنیا کی قوموں کی تاریخ ہی کے پڑھنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے خود اسی آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :
فَسِیْرُوْا فِیْ الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمَکَذِّبِیْنَ
"پھر چلو پھرو زمین میں اور دیکھو! کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔”
کاش !تفسیر کی تمام کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن کو سمجھنے کے لیے اس قرآنی مشورے کو ہمارے علماء سنتے، سیر فی الارض ہی کی تعمیل کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ زمین کے مختلف حصوں میں جو قومیں گزری ہیں کتابوں میں ان کا مطالعہ کیا جائے اور ان زبانوں کے سیکھنے کی کوشش کی جائے جن سے زمین کی پُرانی امتوں کے حال کے جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔
٭٭٭
یہ مضمون جریدہ “الواقۃ” کراچی کے پہلے شمارہ، -2012 اپریل،- سے ماخوذ ہے۔
مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی کا یہ مضمون ماہنامہ ” برہان ” دہلی کی جولائی و اگست ١٩٤٩ء کی اشاعت میں طباعت پذیر ہوا تھا۔ جناب محمد عامر قمر صاحب نے مولانا گیلانی کے قرآنی مقالات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔ ” الواقعہ” کے مضمون ہذا کی اشاعت موصوف ہی کی توجہ و تشویق سے عمل میں آئی ہے۔ ادارہ ان کا شکر گزار ہے.
٭٭٭
ماخذ:
http://alwaqiamagzine.wordpress.com/category/%D8%B4%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%811/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید