FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ہاتھی کی گمشدگی

 

                   ہاروکی موراکامی

 

انگریزی سے ترجمہ: سید سعید نقوی

 

 

 

 

 

ہاروکی موراکامی 12 جنوری 1942 کو پیدا ہوئے، وہ معاصر جاپانی فکشن نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔ ان کی کہانیوں کے تراجم قریب دنیا کی پچاس زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ اردو میں ان کی یہ کہانی پیش کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ لاڈبروکس کی ویب سائٹ پر جن ادیبوں کے نام بطور متوقع نوبل پرائز ونر کے دیے گئے تھے، ان کا ادب ادبی دنیا کے نوبل اڈیشن2015 کے ذریعے آپ تک پہنچایا جائے۔ حالانکہ اب یہ انعام بیلاروس کی صحافی سوئتلانا الیگزاؤچ کو مل چکا ہے، جنہوں نے یوٹیوپیا، چرنیبول وغیرہ جیسی جگہوں پر جنگ اور ایٹمی پلانٹ کی تباہی کے ہونے والے اثرات کو قریب سے دیکھا اور اپنی کتابوں میں ان عورتوں کے انٹرویوز پیش کیے، جن کی زندگی ریڈیئیشن کے بھیانک اثرات سے کبھی باہر نہیں نکل سکی۔ بہرحال اس موضوع پر ہم جلد ہی اردو ترجمہ آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ ہاروکی موراکامی کی بھی مزید کہانیاں اس ایڈیشن میں آپ کے پڑھنے کے لیے پیش کی جائیں گی، ان کے علاوہ کینیائی ادیب گو گو وا تھیونگ او اور امریکن ادبا فلپ روتھ اور جوئس کیرل اوٹس کی تحریروں کے ترجموں کے ساتھ ان کا بھرپور تعارف آپ کے سامنے پیش کرنے کی ہم کوشش کریں گے۔ امید ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں دوسری چیزوں کے ساتھ یہ نوبل ایڈیشن 2015 بھی آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ سو پڑھیے، پڑھتے رہیے، ایک دوسرے کو نئی نئی باتوں کے بارے میں بتاتے رہیے، غلطیاں کرتے رہیے اور انہیں درست کرتے رہیے۔ اس کہانی کے لیے میں اجمل کمال کا شکرگزار ہوں۔

 

 

 

 

 

 

 

مجھے تو اخبار سے معلوم ہوا کہ ہمارے قصبے کے ہاتھی گھر سے ہاتھی غائب ہو گیا ہے۔ اس دن معمول کے مطابق میری الارم گھڑی نے مجھے 6:13 پر بیدار کر دیا۔ میں نے باورچی خانے میں کافی بنائی، توس سینکا اور ریڈیو لگا کر باورچی خانے کی میز پر اخبار پھیلا لیا، اور توس کھاتے ہوئے اخبار پڑھنے لگا۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اخبار کو شروع سے آخر تک ایک قرینے سے پڑھتے ہیں۔ لہٰذا ہاتھی کی گمشدگی کے مضمون تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔ پہلے صفحے پرایس ڈی آئی کی کہانیاں بکھری تھیں، امریکہ سے تجارتی مخاصمت کی داستان تھی۔ اس کے بعد آئیں قومی خبریں، بین الاقوامی سیاست، معاشیات، مدیر کے نام خطوط، کتابوں پر تبصرے، جائیداد برائے فروخت، کھیل کی خبریں اور سب سے آخر میں مقامی خبریں۔

مقامی خبروں میں ہاتھی کی گمشدگی سب سے نمایاں خبر تھی۔ غیر معمولی طور پر بڑی سرخی نے میری توجہ فوراً اپنی جانب مبذول کر لی: ’’ٹوکیو کے مضافات میں ہاتھی کی گمشدگی‘‘، اور اس کے نیچے نسبتاً چھوٹی چھپائی میں : ’’شہریوں کا بڑھتا ہوا خوف، تحقیقات کا مطالبہ‘‘۔ ایک پولیس والے کی تصویر تھی جو ہاتھی کی خالی جگہ کا معائنہ کر رہا تھا۔ بغیر ہاتھی کے یہ جگہ عجیب سی لگ رہی تھی۔ یہ ضرورت سے زیادہ بڑی، خالی اور کشادہ لگ رہی تھی، جیسے کوئی پژمردہ عفریت جس کے اعضا کو اکھاڑ لیا گیا ہو۔

توس کا بھورا جھاڑتے ہوئے میں نے اس مضمون کی ہر سطر کو غور سے پڑھا۔ ہاتھی کی گمشدگی سب سے پہلے 18 مئی کی دوپہر دو بجے محسوس کی گئی جب اسکول لنچ کمپنی کے لوگ معمول کے مطابق کھانے کا ٹرک لے کر آئے (ہاتھی عموماً مقامی اسکول کے بچوں کا چھوڑا ہوا کھانا ہی کھایا کرتا تھا)۔ زمین پر وہ زنجیر تالے سمیت وہیں موجود تھی جہاں ہاتھی کا پچھلا پاؤں اس میں باندھا جاتا، جیسے ہاتھی اس میں سے پھسل کر نکل گیا ہو۔ صرف ہاتھی ہی غائب نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا مہاوت بھی غائب تھا، جو ابتدا سے ہی ہاتھی کی غذا اور دیکھ بھال پر مامور تھا۔

اخباری اطلاع کے مطابق، ہاتھی اور اس کے مہاوت کو آخری بار ایک دن پہلے (یعنی 17 مئی) کو شام پانچ بجے کے بعد کسی وقت اسکول کے چند طلبا نے دیکھا تھا، جو ہاتھی گھر میں رنگین پنسلوں سے ہاتھی کی تصویر بنا رہے تھے۔ یہ طلبا ہی یقیناً آخری چشم دید گواہ رہے ہوں گے۔ اخبار نے یہ نتیجہ اس لیے اخذ کیا تھا کہ چھ بجے کا سائرن بجتے ہی مہاوت ہاتھی گھر کا در بند کر دیتا تھا۔

طلبا کا مشترکہ بیان تھا کہ انھوں نے ہاتھی یا اس کے مہاوت میں کوئی غیر معمولی بات محسوس نہیں کی تھی۔ ہاتھی احاطے کے وسط میں اپنی مقررہ جگہ پر کھڑا تھا۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنی سونڈ کو لہرا دیتا، یا اپنی جھریوں بھری آنکھوں کو سکیڑ لیتا۔ یہ اتنا بوڑھا ہاتھی تھا کہ اس کی جنبش نقاہت آمیز معلوم ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ جو لوگ اسے پہلی دفعہ دیکھ رہے ہوں، انھیں یہ خوف ہوتا کہ کہیں یہ ہاتھی ڈھیر ہی نہ ہو جائے اور اس کی سانسیں آخری ثابت نہ ہوں۔

ہاتھی کے بڑھاپے کًی وجہ سے ہی ہمارے قصبے نے اسے ایک سال قبل متبنّیٰ کر لیا تھا۔ جب قصبے کے کنارے واقع نجی چڑیا گھر کو مالی دشواریوں کے سبب اپنے دروازے بند کرنے پڑے تو ایک ماہر حیوانات نے ملک کے دوسرے چڑیا گھروں میں باقی سب جانوروں کے لیے متبادل جگہ تلاش کر لی تھی۔ لیکن ہر جگہ ہاتھی خاصی تعداد میں موجود تھے، لہٰذا ان میں سے کوئی بھی اس فیلِ بزرگ کو اپنانے پر تیار نہیں تھا، کہ جسے لگتا تھا کسی وقت بھی دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اپنے ساتھی جانوروں کے چلے جانے کے بعد بھی تقریباً چار ماہ تک یہ ہاتھی بیکار اس روبہ زوال چڑیا گھر میں تنہا دن کاٹتا رہا۔ ویسے بھی اس سے پہلے وہ کون سا ایسا مفید کام کر رہا تھا؟

اس بات سے چڑیا گھر اور قصبہ، دونوں کے لیے مسائل کھڑے ہو گئے۔ چڑیا گھر نے اپنی زمین پہلے ہی ایک سرمایہ دار ٹھیکیدار کو فروخت کر دی تھی، جو اس زمین پر رہائشی فلیٹوں کی ایک بلند عمارت تیار کرنا چاہتا تھا۔ اسے قصبے کی جانب سے اس کا اجازت نامہ بھی مل چکا تھا۔ جتنے دن ہاتھی کا مسئلہ حل نہ ہوتا، ٹھیکیدار کو بلا وجہ زمین پر سود دینا پڑ رہا تھا۔ پھر بھی اس ہاتھی کو مارا تو نہیں جا سکتا تھا۔ اگر یہ کسی مکڑی شکل بندر یا چمگادڑ کا معاملہ ہوتا تو شاید ایسا ہو بھی جاتا۔ لیکن ہاتھی کو مار کے چھپانا تو بہت مشکل تھا۔ اور اگر کبھی بعد میں یہ بات کھل جاتی تو اس کے بہت بھیانک نتائج نکل سکتے تھے۔ لہٰذا متاثرہ جماعتوں نے مل کر اس پر غور کیا، اور اس ہاتھی کا بندوبست کرنے کے لیے ایک فارمولے پر متفق ہو گئے :

۱۔ قصبہ بلا قیمت اس ہاتھی کو متبنّیٰ کرے گا۔

۲۔ ٹھیکیدار بلا کسی معاوضے کے ہاتھی کی رہائش کے لیے جگہ فراہم کرے گا۔

۳۔ چڑیا گھر کے سابق مالکان مہاوت کی تنخواہ کے ذمے دار ہوں گے۔

اس ہاتھی کے مسئلے سے مجھے شروع ہی سے ذاتی طور پر دلچسپی تھی، اور میں نے ہر خبر کو کاٹ کاٹ کر ایک کاپی میں چپکا لیا تھا۔ میں تو قصبہ کونسل کے اس اجلاس میں بھی شریک ہوا تھا جس میں ہاتھی کے مسئلے پر بحث ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس معاملے کی اتنی تفصیلی اور حقیقی رپورٹ دے سکتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ میرا بیان ضرورت سے کچھ زیادہ طویل ہو، لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ سب معاملہ یہاں تحریر کر دوں، کہ ہو سکتا ہے ہاتھی کے مسئلے کو سلجھاتے ہوئے ہاتھی کے غائب ہونے کا کوئی سبب نکل آئے۔

جب میئر نے معاہدے پر مذاکرات مکمل کر لیے، جس کے تحت قصبے کو ہاتھی کا اختیار لینا تھا، تو حزبِ اختلاف کے حلقوں میں اس معاہدے کے خلاف ایک تحریک سر اٹھانے لگی (اس وقت تک میں تو حزبِ اختلاف کے وجود سے بھی ناواقف تھا)۔

ہاتھی کی ذمے داری قصبے کے سر کیوں آ رہی ہے ؟ انھوں نے میئر سے سوال کیا، اور مندرجہ ذیل نکات اٹھائے  (میں ان لمبی فہرستوں کے لیے معذرت خواہ ہوں، مگر ان سے معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہو گی)۔

1۔ ہاتھی کا معاملہ نجی سرمایہ کاری کا مسئلہ ہے، چڑیا گھر اور ٹھیکیدار کے درمیان۔ قصبے کو اس میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔

2۔ غذا اور دیکھ بھال پر بہت خرچ آئے گا۔

3۔ حفاظتی انتظامات کے لیے میئر کا کیا پروگرام ہے ؟

4۔ قصبے کو اپنا ہاتھی رکھنے سے کیا حاصل ہو گا؟

’’ہاتھی کے معاملے میں الجھنے سے پہلے قصبے کے اوپر بہت سی دوسری ذمے داریاں ہیں : نالیوں کی دیکھ بھال، فائر انجن کی خریداری وغیرہ وغیرہ‘‘ حزب اختلاف نے بیان دیا۔ گو انھوں نے اس بات کو علی الاعلان نہیں کہا، لیکن انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ ضرور کیا کہ شاید میئر اور ٹھیکیدار میں کوئی خفیہ معاہدہ طے پایا ہے۔

اس کے جواب میں میئر نے یہ معروضات پیش کیں :

1۔ اگر قصبے نے بلند رہائشی عمارت کی تعمیر کی اجازت دے دی تو ٹیکس کی آمدنی میں اتنا ڈرامائی اضافہ ہو گا کہ اس کے مقابلے میں ہاتھی پالنے کا خرچہ تو ناقابلِ ذکر ہو گا۔ لہٰذا یہ فطری بات ہے کہ قصبہ اس ہاتھی کی دیکھ بھال سنبھال لے۔

2۔ یہ ہاتھی اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ نہ یہ زیادہ کھاتا ہے اور نہ ہی اس سے کسی کو خطرہ لاحق ہے۔

3۔ جب ہاتھی مرے گا تو ٹھیکیدار کی دی ہوئی جگہ قصبے کو منتقل ہو جائے گی۔

4۔ یہ ہاتھی قصبے کا نشان بھی بن سکتا ہے۔

طویل بحث کے بعد طے پایا کہ آخر قصبہ ہی ہاتھی کے دیکھ بھال کی ذمے داری سنبھال لے۔ اس قدیم جمے جمائے رہائشی مضافات میں کافی اہلِ ثروت لوگ رہتے تھے اور قصبے کی مالی حالت بہت مستحکم تھی۔ ایک بے گھر ہاتھی کو متبنّیٰ کرنے کا قدم یقیناً عوام میں مقبول ہو گا۔ لوگ ایک بوڑھا ہاتھی یقیناً نالیوں اور فائر انجن سے زیادہ پسند کریں گے۔

میں خود بھی اس بات کا حامی تھا کہ قصبہ ہاتھی کی دیکھ بھال کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں بلند و بالا رہائشی عمارتوں سے تنگ آ چکا تھا، لہٰذا مجھے یہ خیال پسند آیا کہ ہمارے قصبے کا اپنا ایک ہاتھی ہو۔

کچھ درخت کاٹ کر ایک احاطہ صاف کیا گیا اور ایک ابتدائی اسکول کے پرانے جمنازیم کو اکھاڑ کے وہاں ہاتھی گھر کے لیے منتقل کر دیا گیا۔ وہی شخص جو کئی برس سے مہاوت کی خدمات انجام دے رہا تھا، وہ بھی ہاتھی کے ساتھ ہی اس گھر میں رہے گا۔ بچوں کے کھانے سے بچے کچے بھورے ہاتھی کی غذا کے کام آئیں گے۔ آخرکار ہاتھی کو ایک ٹریلر میں لاد کے اس کے نئے گھر پہنچا دیا گیا کہ جہاں اسے زندگی کے بقایا دن گزارنے تھے۔

میں بھی ہاتھی گھر کی افتتاحی تقریب کے مجمع میں شامل تھا۔ ہاتھی کے قریب کھڑے ہو کر میئر نے ایک تقریر کی(قصبے کی ترقی اور اس کی ثقافتی وراثت پر)۔ اسکول کے ایک بچے نے تمام بچوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک نظم پیش کی ’’ہاتھی صاحب لمبی دراز عمر پائیں۔‘‘ ہاتھی کی تصویر کشی کا بھی مقابلہ ہوا (اس دن کے بعد سے مصوری کی کلاس میں ہاتھی کی تصویر بنانا ایک لازمی عنصر بن گیا)۔ ڈھیلے ڈھالے لباسوں میں ملبوس دو لڑکیوں نے (جن میں سے کوئی بھی خوش شکل نہیں تھی) ہاتھی کو بہت سے کے لیے کھلائے۔ ہاتھی نے یہ سب بے معنی تقریبات بنا کسی جنبش کے برداشت کیں، وہ بس خالی الذہن کھڑا کے لیے چباتا رہا۔ جب ہاتھی نے کے لیے ختم کر لیے تو سب نے تالیاں بجائیں۔

ہاتھی کے دائیں پاؤں میں ایک بھاری اور وزنی فولادی بیڑی پڑی تھی جس سے کوئی تیس فٹ لمبی زنجیر بندھی تھی؛ اس زنجیر کا دوسرا سرا ایک کنکریٹ کے فرش میں گڑا تھا۔ سب کو نظر آ رہا تھا کہ ایک مضبوط لنگر نے اس دیو کو اپنی جگہ قید کر رکھا ہے۔ ہاتھی سو برس بھی اپنی پوری طاقت استعمال کرتا تو اسے توڑ نہیں سکتا تھا۔

مجھے نہیں معلوم کہ وہ زنجیر ہاتھی کو تنگ کر رہی تھی یا نہیں۔ کم از کم لگتا تو یہی تھا کہ وہ اپنے پاؤں کے گرد لپٹی اس بھاری زنجیر سے بے پروا تھا۔ وہ دور خلا میں کسی ان دیکھے نقطے پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔ اس کے کان اورجسم پر موجود چند سفید بال ہوا میں لہراتے رہے۔

مہاوت ایک پستہ قد، دبلا سا آدمی تھا۔ اس کی عمر کا تعین دشوار تھا، وہ یا تو چند برس اوپر ساٹھ یا ستر کی دہائی کے اواخر میں تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو زندگی میں ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد عمر کے آثار سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی، اس کی جلد کا وہی سیاہی مائل شاداب حال رہتا۔ اس کے بل چھوٹے اور سخت تھے، اس کی آنکھیں بھی چھوٹی تھیں۔ اس کے چہرے پر کوئی امتیازی نشان نہیں تھے، لیکن اس کے گول کان دونوں جانب نمایاں رہتے۔

اس کا رویہ غیردوستانہ نہیں تھا۔ اگر کوئی اسے مخاطب کرتا تو وہ صاف لہجے میں جواب دیتا۔ وہ چاہتا تو اس کا رویہ دوستانہ بھی ہو جاتا، لیکن یہ اس کا فطری رویہ نہیں تھا۔ عموماً وہ ایک تنہائی پسند بوڑھا تھا۔ وہ ہاتھی گھر آنے والے بچوں کو پسند کرتا تھا اور کوشش کرتا کہ اس کا رویہ دوستانہ رہے، لیکن بچے اس سے خشک ہی رہتے۔

صرف ہاتھی سے اس کا رویہ ہمیشہ دوستانہ رہتا۔ مہاوت ہاتھی گھر سے منسلک ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔ سارا دن تو وہ ہاتھی کے ساتھ گزار دیتا اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتا۔ وہ گزشتہ دس برس سے ساتھ تھے، اور ان کی ہر حرکت ہر ادا سے یہ دوستی صاف ظاہر تھی۔ جب بھی ہاتھی خالی الذہن کھڑا ہوتا اور مہاوت اسے ہلانا چاہتا، تو وہ محض اس کے پاس جا کھڑا ہوتا۔ اس کے سامنے کے پاؤں کو تھپتھپا کر وہ اس کے کان میں کچھ کہتا تو اپنے بھاری جثے کو ہلا کر ہاتھی مہاوت کی مرضی کے مطابق جگہ بدل لیتا اور اپنی نئی جگہ پر کھڑے ہو کر پھر خلا میں کسی نقطے پر نظر جما دیتا۔

اختتامِ ہفتہ میں ہاتھی گھر جا کر اس سارے اہتمام کا جائزہ لیتا، لیکن میں کبھی بھی ہاتھی اور مہاوت کے درمیان رابطے کی بنیاد کو نہ سمجھ سکا۔

ہو سکتا ہے کہ ہاتھی چند الفاظ سمجھ لیتا ہو ( آخر اتنی عمر تھی اس کی)، یا پھر اس پاؤں کی تھپ تھپی کے انداز میں کوئی پیغام چھپا رہتا ہو۔ یا شاید وہ مہاوت کی سوچ کسی ٹیلی پیتھی سے پڑھ لیتا تھا۔ ایک بار میں نے مہاوت سے پوچھا بھی کہ وہ اپنے احکام کیسے ہاتھی تک پہنچاتا ہے، لیکن وہ بڈھا بس مسکرا کے بولا، ’’ہم دونوں بہت عرصے سے ساتھ ہیں۔‘‘ اس طرح ایک سال گزر گیا۔ اور پھر ایک دن بغیر وارننگ کے ہاتھی غائب ہو گیا۔ ایک دن وہاں تھا اور دوسرے دن غیر موجود۔

میں نے اپنے لیے کافی کا دوسرا مگ بھرا اور شروع سے آخر تک کہانی دوبارہ پڑھی۔ حقیقتاً یہ خبر بہت عجیب سے انداز میں لکھی گئی تھی، جو شاید شرلاک ہومز کو بھی بے چین کر دیتی۔ ’’واٹسن، یہاں دیکھو!‘‘ وہ پنا پائپ جھاڑ کر کہتا۔ ’’بہت دلچسپ مضمون ہے، یقیناً بہت دلچسپ!‘‘ مصنف کی حیرانگی اور گھبراہٹ کی وجہ سے مضمون کچھ عجیب سا ہوا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ حیرانگی اور پریشانی صورتِ احوال کے اچھوتے پن کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ دیکھا جا سکتا تھا کہ رپورٹر نے اس عجیب و غریب صورت حال پر ایک قدرے سنجیدہ مضمون لکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کوشش نے اس کی حیرت اور پریشانی کو ایک لاحاصل انتہا تک پہنچا دیا تھا۔ مثلاً مضمون نگار نے یہ اصطلاح استعمال کی کہ ’’ہاتھی بھاگ گیا‘‘، لیکن آپ پورا مضمون پڑھ لیں، یہ بات صاف ظاہر تھی کہ کسی طرح بھی ہاتھی بھاگا تو نہیں تھا، وہ تو بس ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا۔ رپورٹر کا ذہنی انتشار ان الفاظ سے بھی ظاہر تھا کہ چند ’تفصیلات‘  ابھی ’غیر واضح‘ تھیں۔ لیکن میرے خیال میں یہ ایساواقعہ نہیں تھا کہ جسے ان عام سے الفاظ ’تفصیلات‘ اور ’غیر واضح‘ جیسے لفظوں سے ٹالا جا سکے۔

اول تو ہاتھی کے پاؤں میں پڑی فولادی بیڑیوں کا مسئلہ تھا۔ وہ اپنی جگہ مقفل ملی تھیں۔ اس کی سادہ سی وجہ تو یہ ہوتی کہ مہاوت نے بیڑی کا قفل کھول دیا، اور ہاتھی کا پیر اس میں سے نکال کر دوبارہ قفل لگا دیا، اور ہاتھی کے ساتھ بھاگ گیا۔ اخبار تو اسی مفروضے پر تندہی سے قائم تھا۔ لیکن مہاوت کے پاس تو اس قفل کی چابی تھی ہی نہیں۔ صرف دو چابیاں تھیں جنھیں تحفظ کی خاطر خود تالے میں رکھا جاتا۔ ایک پولیس ہیڈ کوارٹر میں اور دوسری فائر بریگیڈ کے دفتر میں۔ دونوں جگہیں نہ صرف مہاوت کی پہنچ سے باہر تھیں، بلکہ کسی بھی ایسے شخص کی پہنچ سے جو کہ انھیں چرانے کی کوشش کرتا۔ اور فرض کر لیجیے کہ کوئی چابی چرانے میں کامیاب بھی ہو جاتا، تو اسے استعمال کرنے کے بعد چابی واپس رکھنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ دوسری صبح دونوں چابیاں پولیس کے سردفتر اور فائر بریگیڈ کے دفتر میں موجود تھیں۔ اب تو یہی نتیجہ رہ گیا تھا کہ ہاتھی نے کسی طرح اپنا پاؤں اس آہنی حلقۂ زنجیر سے نکال لیا تھا، لیکن ہاتھی کا پاؤں کسی آری سے کاٹے بغیر نکلنا غیر ممکن تھا۔

پھر دوسرا مسئلہ فرار کے راستے کا تھا۔ ہاتھی گھر اور اس کے اطراف کی زمین کو ایک دس فٹ اونچی مضبوط باڑ نے گھیر رکھا تھا۔ قصبہ کونسل میں تحفظ کے مسئلے پر گرما گرم بحث ہوئی تھی، اور آخر میں ایک ایسا نظام وضع کیا گیا تھا جسے ایک بوڑھے ہاتھی کے لیے تو غیر ضروری ہی کہا جا سکتا تھا۔ کنکریٹ کی بنیاد میں لوہے کی مضبوط سلاخیں گاڑی گئی تھیں (اس باڑ کی قیمت ٹھیکیدار نے برداشت کی تھی)۔ باڑ میں صرف ایک ہی داخلی دروازہ تھا، جو اندر سے مقفل ملا تھا۔ اس قلعہ بندی سے ہاتھی کے فرار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

تیسرا مسئلہ ہاتھی کے قدموں کے نشان کا تھا۔ اس ہاتھی گھر کے عقب میں ایک اونچی پہاڑی تھی جسے ہاتھی عبور نہیں کر سکتا تھا۔ تو اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ہاتھی نے کسی طرح اپنا پاؤں آہنی حلقے سے آزاد کرا لیا تھا، اور دس فٹ اونچی باڑ بھی پھلانگ گیا تھا، پھر بھی اسے ہاتھی گھر کے سامنے سے ہی فرار ہونا پڑتا، لیکن اس نرم زمین پر کہیں کوئی ایک نشان بھی نہیں تھا جس پر ہاتھی کے پاؤں کے نشان کا شبہ بھی ہوتا۔ ان حقائق اور حیرانگیوں کی موجودگی میں، اخبار کے مضمون سے صرف ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا تھا: ہاتھی فرار نہیں ہوا تھا بلکہ تحلیل ہو گیا تھا۔

یہ کہنا بیکار ہے کہ نہ اخبار، نہ پولیس اور نہ ہی مرئی علی الاعلان یہ بات تسلیم کرنے پر تیار تھے کہ ہاتھی تحلیل ہو گیا تھا۔ پولیس کی تفتیش جاری تھی۔ اس کے ترجمان کا یہی کہنا تھا کہ ہاتھی کو ’’یا تو لے جایا گیا تھا، یا اسے بہت چالاکی اور منصوبہ بندی سے بھگا دیا گیا تھا۔ چونکہ ایک ہاتھی کو چھپانا بہت دشوار ہے لہٰذا یہ کیس کسی وقت بھی سلجھ سکتا ہے‘‘ ۔ اس تشریح کے ساتھ اس نے یہ بھی بیان کیا کہ پولیس مقامی جنگلات کو شکاری کلب اور خود دفاعی فورس کے نشانہ بازوں کی معیت میں چھاننے کا ارادہ رکھتی ہے۔

میئر نے ایک پریس کانفرنس بلا کر قصبے کے ناکافی پولیس وسائل پر معذرت چاہی۔ ساتھ ہی اس نے اعلان کیا کہ ’’ہمارا ہاتھی کا حفاظتی نظام ملک کے کسی بھی دوسرے چڑیا  گھر سے کم نہیں۔ بلکہ یہ تو عام پنجروں کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط اور ناقابلِ تسخیر ہے۔‘‘ اس نے یہ بھی کہا کہ ’’ یہ ایک خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ سماج دشمن حرکت ہے، اس کی سزا ضرور دی جائے گی۔‘‘

گزشتہ برس کی طرح قصبہ کونسل کی حزبِ اختلاف کے ممبران نے الزامات عائد کیے : ’’ہم میئر کی سیاسی ذمے داریوں کی تحقیق کریں گے۔ قصبے کے عوام کو ہاتھی کے مسئلے کا حل پیش کرنے کے لیے اس نے نج کاری سے ساز باز کی۔‘‘

ایک سینتیس سالہ ماں جو پریشان معلوم ہوتی تھی، اخبار نے اس کا انٹرویو شائع کیا ’’اب میں اپنے بچوں کو باہر کھیلنے کے لیے بھیجنے سے خوفزدہ ہوں‘‘ وہ بولی۔

اخبار نے اپنے مضمون میں ان اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا تھا جو قصبے نے ہاتھی کو متبنّیٰ کرنے سے پہلے اختیار کیے تھے۔ ہاتھی گھر اور اس کے اطراف کا ایک فضائی نقشہ، ہاتھی اور اس کے ساتھ غائب ہو جانے والے مہاوت کا پس منظر بھی شامل تھا۔ یہ مہاوت، نوروبی وتنبی، جس کی عمر 63 برس تھی، اس کا تعلق تانے یاما سے تھا۔ چیبا نامی حکومتی علاقہ۔ وہ چڑیا گھر کے پستیانے (mammals) جانوروں کے حصے میں کئی سال سے تعینات تھا۔ ’’جانوروں کی بابت اپنی تفصیلی معلومات اور محبت آمیز رویوں کے لیے اسے چڑیا گھر کی انتظامیہ کا بھرپور اعتماد حاصل تھا۔‘‘ ہاتھی کوئی بائیس سال قبل مشرقی افریقہ سے بھیجا گیا تھا، لیکن اس کی درست عمر یا اس کی شخصیت کے بارے میں اس سے زیادہ معلوم نہیں تھا۔ اس رپورٹ کے اختتام پر پولیس کی جانب سے ایک اعلان تھا: ’’اگر کسی کے پاس ہاتھی کے بارے میں کوئی معلومات ہے تو وہ سامنے آئے۔‘‘

میں نے کافی کا دوسرا کپ پیتے ہوئے پولیس کی اس درخواست کے بارے میں سوچا، لیکن پھر پولیس کو فون نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک تو یہ کہ جہاں تک ممکن ہو، میں ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتا تھا، اور دوسرے میرا خیال تھا کہ جو میں پولیس کو بتاتا وہ اس پر یقین نہ کرتے۔ ایسے لوگوں سے بات کرنے کا کیا فائدہ جو یہ سمجھنے کو بھی تیار نہیں تھے کہ ہاتھی غائب ہو گیا تھا؟

میں نے شیلف پر سے اپنی اخباری تراشوں والی کاپی اتاری، اس میں اخباری مضمون کاٹ کر چسپاں کیا۔ پھر برتن دھوئے اور دفتر کے لیے نکل گیا۔

میں نے سات بجے کی خبروں میں اس تلاش کی تفصیل دیکھی۔ موٹی نالی والی بندوقیں لیے شکاری، جن میں بیہوش کر دینے والی گولیاں بھری تھیں، خود دفاعی فورس کے جوان، پولیس والے اور فائر مین اطراف کے جنگلات اور پہاڑیوں کے ہر انچ کا جائزہ لے رہے تھے۔ اوپر ہیلی کاپٹر گردش کر رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم ان پہاڑیوں اور جنگلات کا ذکر رہے ہیں جو ٹوکیو کے مضافات میں پائے جاتے ہیں۔ تلاش کرنے کے لیے یہ کوئی بہت بڑا علاقہ نہیں تھا۔ اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں تو یہ کام ایک دن میں ہی نبٹ جاتا۔ اور وہ کسی ننھے، قاتلانہ رویے والے پاگل کو تو ڈھونڈ نہیں رہے تھے، وہ تو ایک بڑے افریقی ہاتھی کی تلاش میں تھے۔ اس قسم کی چیز تو چند ہی جگہوں پر روپوش ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ پھر بھی اسے تلاش نہیں کر سکے۔ پولیس کا سربراہ اسکرین پر نمودار ہوا اور بولا، ’’ہم تلاش جاری رکھیں گے۔‘‘ ٹی وی کے میزبان نے اس طرح اختتام کیا کہ ’’ہاتھی کس نے آزاد کیا تھا؟ کس طرح؟ انھوں نے اسے کہاں چھپا رکھا ہے ؟ ان کے ارادے کیا ہیں ؟ ہر چیز ایک اسرار میں مستور ہے۔‘‘

کئی دن کی تلاش کے باوجود حکام کو ہاتھی کے جائے وقوع کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ میں نے سب اخباری بیانات پڑھے، انھیں کاٹ کر اپنی تراشوں والی کاپی میں چسپاں کیا، اس موضوع پر شائع ہونے والے ادارتی کارٹون بھی۔ یہ البم بہت تیزی سے بھر رہا تھا، اور مجھے ایک اور خریدنا پڑا۔ اپنی تمام ضخامت کے باوجود اس میں ایک بھی نکتہ ایسا نہیں تھا جس کی مجھے تلاش تھی۔ یہ رپورٹیں یا تو بیکار تھیں یا اپنے موضوع سے غیر متعلق: ہاتھی اب تک غائب ہے، تلاش کے ہیڈ کوارٹر میں مایوسی کا غلبہ، غائب ہونے کی پشت پر جرائم پیشہ گروہ کا ہاتھ؟ ایک ہفتے کے اندر اس قسم کے مضامین کی تعداد بھی کم ہونے لگی، اور پھر وہ بالکل ہی بند ہو گئے۔ چند ہفتہ وار رسالے سنسنی خیز کہانیاں چھاپتے رہے۔ ایک نے تو معمول کی خدمات بھی حاصل کر لیں، لیکن ان کی تہلکہ خیز شہ سرخیوں کے پیچھے کوئی حقائق نہیں تھے۔ لگتا تھا کہ لوگ ہاتھی کی گمشدگی کو بھی ’’ناقابلِ حل معاملہ‘‘ کی ٹوکری میں ڈال دیں گے۔ ایک بوڑھے ہاتھی اور ایک بوڑھے مہاوت کے غائب ہو جانے سے معاشرے کی روش پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ زمین اپنی یک رنگی گردش جاری رکھے گی، سیاست دان ناقابلِ بھروسا بیانات جاری کرتے رہیں گے، لوگ ویسے ہی جمائیاں لیتے دفتر جاتے رہیں گے، اور بچے ویسے ہی کالج داخلے امتحان کے لیے پڑھتے رہیں گے۔ روزانہ کی زندگی کے نشیب و فراز میں ایک ہاتھی کے غائب ہو جانے میں دلچسپی ہمیشہ برقرار نہیں رہے گی۔ یوں چند ناقابلِ ذکر مہینے ایسے گزر گئے جیسے کسی کھڑکی کے پاس سے کوئی تھکی ہوئی فوج۔

مجھے جب کچھ فارغ وقت ملتا، میں اس جگہ کی سیر کرتا جہاں وہ ہاتھی اب موجود نہیں تھا۔ لوہے کی سلاخوں کے گرد ایک موٹی زنجیر لپیٹ دی گئی تھی تاکہ لوگوں کو باہر رکھا جا سکے۔ میں اندر جھانک کے دیکھ سکتا تھا کہ ہاتھی گھر کا دروازہ زنجیر ڈال کر مقفل کر دیا گیا تھا، جیسے پولیس ہاتھی کی تلاش میں ناکامی کو اب خالی ہاتھی گھر کی سکیورٹی بڑھا کر چھپانا چاہ رہی ہو۔ یہ جگہ اب ویران تھی۔ لوگوں کے ہجوم کی جگہ اب چھت پر کبوتروں کا غول بیٹھا رہتا۔ اب احاطے کی کوئی دیکھ بھال نہیں کر رہا تھا اور گرمیوں کی دبیز گھاس ایسے سر اٹھا رہی تھی جیسے وہ اسی موقع کے انتظار میں تھی۔ ہاتھی گھر کے دروازے پر لپٹی زنجیر سے مجھے وہ بڑا سانپ یاد آیا جو ایک گہرے جنگل میں کھنڈر ہوتے محل کی حفاظت پر مامور تھا۔ ہاتھی کے بغیر ان چند مختصر مہینوں میں یہ جگہ اداس اور اجاڑ لگنے لگی، جیسے کوئی سیاہ، حبس زدہ بادل چھا گیا ہو۔

 

میں اُس سے ستمبر کے اختتام میں ملا تھا۔ اس دن صبح سے رات تک بارش ہوئی تھی۔ اسی قسم کی نرم پھوار جو سال کے اس حصے میں پڑتی تھی۔ دھیرے دھیرے، زمین سے گرمیوں کی یاد کو دھوتے ہوئے۔ یہ یادیں بارشوں کے نالوں میں بہتیں، دریا کے راستے گہرے پر اسرار سمندر میں بہہ جاتیں۔

ہم نے ایک دوسرے کو اس پارٹی میں دیکھا جو میری کمپنی نے ایک نئی اشتہاری مہم کے آغاز میں دی تھی۔ میں بجلی کے آلات (appliances) بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے عوامی رابطہ سیکشن میں کام کرتا تھا اور اس وقت باورچی خانے میں استعمال ہونے والے آلات کی مشتہری کا ذمے دار تھا۔ یہ آلات عنقریب خزاں میں شادیوں کے موسم اور سرما کے بونس کے دور میں مارکیٹ میں نمودار ہونے والے تھے۔ میری ذمے داری تھی کہ خواتین کے کئی رسالوں میں ان آلات کی نسبت سے مضامین کی چھپائی کا انتظام کروں۔ اس کام میں بہت زیادہ ذہانت درکار نہیں، لیکن یہ خیال رکھنا ضروری تھا کہ ان مضامین پر اشتہار کا شبہ نہ ہو۔ جب رسالے ہمارے لیے ایسے مضامین چھاپتے تو ہم جواب میں ان کے رسالے میں اپنے اشتہار دیتے۔ یہ گویا امدادِ باہمی کا طریقہ تھا۔

نوجوان خواتین کے ایک رسالے کی مدیرہ کی حیثیت سے وہ پارٹی میں مضامین کی تلاش میں آئی تھی۔ اس کی پذیرائی کرنا میری ذمے داری تھی۔ میں اسے وہ رنگین فرج، کافی بنانے کی مشین، مائیکرو ویو اوون اور جوس نکالنے کی مشین دکھاتا رہا جو ایک مشہور اطالوی ڈیزائنر نے ہمارے لیے بنائے تھے۔

’’سب سے اہم چیز تسلسل ہے‘‘ میں نے سمجھایا۔ ’’اگر اپنے ماحول سے ہم آہنگ نہ ہو تو سب سے خوبصورت ڈیزائن کی ہوئی چیز بھی اپنی موت خود مر جائے گی۔ ڈیزائن میں ہم آہنگی، رنگت میں ہم آہنگی اور اس کے کارآمد ہونے میں ہم آہنگی۔ آج کے باورچی خانے میں سب سے اہم یہی بات ہے۔ تحقیق نے ہمیں بتایا ہے کہ آج کی خاتونِ خانہ دن کا بیشتر وقت باورچی خانے میں ہی گزارتی ہے۔ باورچی خانہ ہی اس کے کام کرنے کی جگہ ہے، اس کی اوطاق ہے، اس کی نشست گاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باورچی خانے کو جتنا ممکن ہو دلکش بناتی ہے۔ اس میں سائز سے فرق نہیں پڑتا۔ چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ باورچی خانے کے پیچھے ایک ہی بنیادی سوچ کارفرما ہے، ہم آہنگی۔ ہماری نئی پیشکش کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما ہے، مثلاً اس چولھے کو دیکھیے۔ ..‘‘

اس نے ہامی بھری اور ایک چھوٹی سی نوٹ بک میں اندراجات کرنے لگی۔ لیکن صاف ظاہر تھا کہ اسے ان آلات میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں، نہ ہی میری اس نئے چولھے سے کوئی ذاتی وابستگی تھی۔ ہم دونوں اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔

’’تمھیں باورچی خانوں کے بارے میں بہت معلومات ہیں‘‘ میری بات ختم ہونے پر وہ بولی۔ اس نے باورچی خانے کے لیے جاپانی لفظ ہی استعمال کیا، میرے ’کِٹ چِن‘ کو نظرانداز کر گئی۔

’’میری تو یہی روٹی روزی ہے‘‘ میں ایک دفتری مسکراہٹ سے بولا۔ ’’لیکن اس کے علاوہ میں کھانا پکانا پسند کرتا ہوں۔ کچھ ایسا خاص تو نہیں، لیکن روز اپنا کھانا خود پکاتا ہوں۔‘‘

’’پھر بھی، میں سوچ رہی ہوں کہ کیا واقعی ہم آہنگی باورچی خانے کے لیے اتنی ضروری ہے ؟‘‘

’’ہم کٹ چن کہتے ہیں۔‘‘ میں نے اسے مشورہ دیا۔ ’’ کوئی خاص بات نہیں، بس کمپنی ہمیں انگریزی کا لفظ استعمال کرنے کے لیے کہتی ہے۔‘‘

’’اچھا، معاف کرنا، لیکن پھر بھی میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا واقعی کٹ چن کے لیے ہم آہنگی اتنی ضروری ہے۔ تمھارا کیا خیال ہے ؟‘‘

’’میری ذاتی رائے ؟ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتی جب تک میں یہ نکٹائی نہ اتار دوں۔‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا۔ ’’لیکن آج میں یہ اصول توڑ دیتا ہوں۔ باورچی خانے میں کچھ چیزیں یقیناً ہم آہنگی سے زیادہ ضروری ہیں۔ لیکن وہ چیزیں ایسی نہیں کہ انھیں فروخت کیا جا سکے، اور ہماری اس کاروباری دنیا میں جو چیز فروخت نہیں ہو سکتی اس کا تذکرہ بیکار ہے۔‘‘

‘‘کیا واقعی دنیا ایسی کاروباری جگہ ہے ؟‘‘

میں نے سگریٹ نکال کر اسے سلگا لیا۔

’’معلوم نہیں، یہ الفاظ تو خودبخود نکل پڑے !‘‘ میں بولا۔ ’’لیکن اس سے بات واضح ضرور ہو جاتی ہے، اور کام بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ان الفاظ سے کھیلا جا سکتا ہے۔ نئی ترکیبیں وضع کی جا سکتی ہیں، روحِ کاروبار، یا کاروبار کی روح۔ اگر چیزوں کو اس طرح سے دیکھا جائے تو بہت سی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔‘‘

’’کیا دلچسپ نقطۂ نظر ہے۔‘‘

’’نہیں تو۔ میرے خیال میں تو سب ہی ایسا سوچتے ہیں۔ ارے ہاں، ہمارے پاس بہت اچھی شیمپین ہے، کچھ پینا پسند کرو گی؟‘‘

’’شکریہ، یقیناً۔‘‘

شیمپین کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے بہت سے واقف کار مشترک ہیں۔

تجارتی دنیا میں ہمارا حصہ کوئی ایسا بڑا تالاب تو نہیں تھا۔ لہٰذا اگر آپ چند کنکر پھینکیں تو ایک دو یقیناً کسی مشترک واقف کار سے جا ٹکرائیں گے۔ مزید یہ کہ میری چھوٹی بہن اور وہ دونوں ایک ہی یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ ان سہولیات کی موجودگی میں ہماری گفتگو با آسانی چلتی رہی۔

وہ غیر شادی شدہ تھی، اور میں بھی۔ وہ چھبیس برس کی تھی اور میں اکتیس سال کا۔ وہ کنٹیکٹ لینس لگاتی تھی، میں عینک۔ اس نے میری نکٹائی کی تعریف کی، میں نے اس کی جیکٹ کی۔ ہم نے مکان کے کرایوں کی بات کی، اپنی نوکریوں اور تنخواہوں کے خلاف زہر اُگلا۔ دوسرے الفاظ میں، ہم نے ایک دوسرے کو پسند کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ایک دلکش عورت تھی۔ بہت زیادہ جارح بھی نہیں تھی۔ میں پورے بیس منٹ اس سے وہاں کھڑا بات کرتا رہا، مجھے ایسی کوئی وجہ نہ ملی کہ میں اسے ناپسند کروں۔

پارٹی کے اختتام پر میں نے اسے ہوٹل کے کاک ٹیل لاؤنج میں مدعو کیا، جہاں بیٹھ کر ہم اپنی گفتگو جاری رکھ سکتے تھے۔ لاؤنج کی کشادہ، منظر عیاں کھڑکی سے باہر بے آواز بارش مسلسل گر رہی تھی۔ اس کہر میں شہر کی روشنیاں دھندلے پیغام بھیج رہی تھیں۔ تقریباً خالی کاک ٹیل لاؤنج پر خاموشی کا راج تھا۔ اس نے ایک جمی ہوئی ڈیکویری (Daiquiri) کا آرڈر دیا اور میں نے اس کاچ کا، برف کے ساتھ۔

اپنے مشروب کی چسکیاں لیتے ہم اسی قسم کی گفتگو میں مشغول رہے جو ایک مرد عورت، جو ابھی ملے ہوں اور ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہوں، کسی بار میں کرتے۔ ہم نے کالج کے دنوں کی بات کی، موسیقی میں اپنی پسندیدگی، کھیل اور روزمرہ کے معمولات کا ذکر کیا۔

پھر میں نے اسے ہاتھی کے بارے میں بتایا۔ یہ ذکر کیسے نکلا، یہ تو مجھے یاد نہیں۔ شاید ہم جانوروں کے بارے میں بات کر رہے تھے اور وہاں سے بات نکل آئی۔ یا شاید لاشعوری طور پر مجھے کسی اچھے سامع کی تلاش تھی جس کے سامنے میں ہاتھی کی گمشدگی پر اپنی ذاتی، جدا گانہ رائے گوش گزار سکوں۔ یا پھر ممکن ہے کہ شراب کی وجہ سے میری زبان کھل گئی ہو۔

کچھ بھی ہو، جیسے ہی الفاظ میری زبان سے نکلے، مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس موقع پر اس سے زیادہ غیرمناسب اور کوئی موضوع نہیں ہو سکتا تھا۔ نہیں، مجھے ہاتھی کا ذکر نہیں نکالنا چاہیے تھا۔ یہ موضوع، کیا کہا جائے، بہت مکمل تھا۔ یہ باب بند ہو چکا تھا۔

میں نے چاہا کہ فوراً موضوع بدل دوں، لیکن شومیِ قسمت کہ اس نے دوسرے موضوعات سے زیادہ اس میں دلچسپی دکھائی۔ جب اسے پتا چلا کہ میں نے کئی بار وہ ہاتھی دیکھا تھا تو اس نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ کس قسم کا ہاتھی تھا؟ میرے خیال میں وہ کیسے بھاگ نکلا؟ وہ کیا غذا کھاتا تھا؟ کیا اس سے کمیونٹی کو کوئی خطرہ نہیں تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔

جتنا لوگوں کو اخباروں سے معلوم ہو چکا تھا، میں نے اسے اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا۔ لیکن میرے لہجے سے وہ جان گئی کہ میں کچھ چھپا رہا ہوں۔ میں کبھی ایک کامیاب دروغ گو نہیں رہا۔

وہ ایسے بن گئی جیسے اس نے میرے رویے میں کوئی غیر معمولی بات محسوس نہیں کی۔ ڈیکیوری کے دوسرے جام سے چسکیاں لیتے ہوئے وہ بولی، ’’کیا ہاتھی کی گمشدگی پر تمھیں حیرت نہیں ہوئی تھی؟ ایسے واقعے کے بارے میں تو کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔‘‘

’’شاید نہیں‘‘ میں نے کہا اور میز پر رکھے شیشے کے پیالے میں بل دار بسکٹ (pretzel) کے ڈھیر میں سے ایک اٹھا کر اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا، اور آدھا کھا لیا۔ ویٹر نے ہماری ایش ٹرے ہٹا کر اس کی جگہ کالی ایش ٹرے رکھ دی۔ وہ متوقع نظروں سے میری جانب دیکھ رہی تھی۔ میں نے ایک اور سگریٹ نکال کر سلگا لی۔ میں نے تین سال قبل تمباکو نوشی ترک کر دی تھی؛ لیکن ہاتھی کے غائب ہونے پر دوبارہ شروع کر دی تھی۔

’’شاید نہیں ؟ کیوں ؟ تمھارا مطلب ہے کہ تم ہاتھی کے غائب ہونے کی پیش گوئی کر سکتے تھے ؟‘‘

’’نہیں، یقیناً میں یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا تھا‘‘ میں مسکرا کر بولا۔ ’’ ایک دن ایک ہاتھی اچانک غائب ہو جائے، اس کی تو کوئی سابق مثال نہیں ملتی۔ ایسا ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے ! اس کی کوئی منطقی وجہ نہیں !‘‘

’’لیکن پھر بھی، تمھارا جواب بہت عجیب سا تھا۔ جب میں نے سوال کیا کہ ’اس قسم کی بات کی کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا‘، تو تم نے کہا ’نہیں، شاید نہیں ‘۔ جب کہ زیادہ تر لوگ تو یہ کہتے کہ ’تم ٹھیک کہہ رہی ہو‘، یا یہ کہتے کہ ’واقعی، عجیب سی بات ہے ‘، یا اس قسم کی کوئی اور بات۔ تم سمجھ رہے ہو نا میری بات؟‘‘

میں نے غیریقینی سے سر ہلایا اور ہاتھ بلند کر کے ویٹر کو اشارہ کیا۔ جب تک میں نے اپنی نئی اس کاچ کا انتظار کیا، ایک متوقع سی خاموشی چھائی رہی۔

’’یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی‘‘ وہ نرمی سے بولی۔ ’’چند منٹ پہلے تک تم مجھ سے بالکل نارمل گفتگو کر رہے تھے۔ جب تک کہ ہاتھی کا موضوع نہیں نکلا تھا۔ پھر کچھ عجیب سی بات ہوئی۔ کوئی گڑبڑ ہے۔ کیا یہ ہاتھی کا مسئلہ ہے یا میرے کان دھوکا دے رہے ہیں ؟‘‘

’’تمھارے کان تمھیں دھوکا نہیں دے رہے‘‘ میں نے کہا۔

’’تو پھر یہ تم ہو، مسئلہ تمھارے ساتھ ہے‘‘ وہ بولی۔

میں نے اپنے گلاس میں انگلیاں ڈال کر برف ہلائی۔ مجھے وسکی کے گلاس میں برف کی آواز بہت پسند آتی ہے۔

’’میں اسے مسئلہ تو نہیں کہوں گا۔ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ میں کچھ چھپا نہیں رہا۔ مجھے یقین نہیں کہ میں یہ بات صحیح طرح سے سمجھا سکتا ہوں، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ رہا۔ لیکن تم ٹھیک کہہ رہی ہو، یہ سب بہت عجیب ہے۔‘‘

’’کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘

کوئی مفر ممکن نہیں تھا، مجھے اسے بتانا ہی پڑے گا۔ میں نے وسکی کا ایک بڑا گھونٹ لیا، اور بات شروع کی:

’’بات یہ ہے کہ میں شاید آخری آدمی تھا جس نے اسے غائب ہونے سے پہلے دیکھا تھا۔ سترہ مئی کی شام میں نے اسے سات بجے کے قریب دیکھا اور پھر اٹھارہ کی دوپہر میں اسے گمشدہ پایا گیا۔ کیونکہ شام چھ بجے ہاتھی گھر بند کر دیا جاتا ہے، تو اس درمیان میں اسے کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘

’’میں سمجھی نہیں، اگر ہاتھی گھر چھ بجے بند ہو جاتا ہے تو تم نے اسے سات بجے کے بعد کیسے دیکھا؟‘‘

’’ہاتھی گھر کے عقب میں ایک ڈھلوان ہے۔ ایک بہت سیدھی پہاڑی ہے کسی کی نجی جاگیر پر، وہاں کوئی سڑک نہیں ہے۔ اس پہاڑی کے عقب میں ایک جگہ ہے جہاں سے ہاتھی گھر دیکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں صرف میں ہی اس جگہ سے واقف ہوں۔‘‘

مجھے وہ جگہ اتفاق سے نظر آ گئی تھی۔ ایک دن چہل قدمی کے دوران میں راستہ بھٹک کر اس پہاڑی کی چوٹی تک پہنچ گیا تھا۔ وہاں میں نے زمین کا ایک چھوٹا سا صاف ٹکڑا دیکھا، محض اتنا بڑا کہ ایک آدمی اس پر لیٹ سکے۔ وہاں سے میں نے جھاڑیوں کے درمیان سے جھانکا تو ہاتھی گھر کی چھت نظر آئی۔ اس کی چھت کے کنارے ایک بڑا ساروشندان تھا، جس میں سے ہاتھی گھر کا اندرون صاف نظر آ رہا تھا۔

پھر یہ میری عادت بن گئی کہ اکثر میں اس جگہ سے ہاتھی گھر کے اندر اسے دیکھا کرتا۔ اگر کوئی پوچھتا کہ میں یہ تکلیف کیوں اٹھاتا ہوں، تو میرے پاس کوئی قابلِ قبول جواب نہ ہوتا۔ میں بس ہاتھی کو اس کے فارغ وقت میں دیکھنا پسند کرتا تھا، اس سے زیادہ اور کوئی بات نہ تھی۔ جب تاریکی چھا جاتی تو ظاہر ہے میں گھر کے اندر نہ دیکھ پاتا۔ لیکن اولین شام، جب تک مہاوت ہاتھی کا خیال رکھتا، وہ بتی روشن رکھتا، جس کی وجہ سے میں اندر کا حال دیکھ سکتا۔

جو بات مجھے سب سے دلچسپ لگی وہ ہاتھی اور مہاوت کے مابین پسندیدگی کے جذبات تھے، جس کا وہ دونوں کبھی سب کے سامنے مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ یہ دوستی ان کے ہر عمل سے عیاں تھی۔ لگتا تھا کہ وہ دن بھر اپنے جذبات کو چھپائے رکھتے، کسی کو خبر نہ ہونے دیتے، لیکن شام ہونے کے بعد وہ تنہا ہوتے تو یہ جذبے عود کر آتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب وہ اندر تنہا ہوتے تو کوئی مختلف حرکت کرتے تھے۔ ہاتھی ویسے ہی خالی الذہن کھڑا رہتا، اور مہاوت بھی وہی کام انجام دے رہا ہوتا جس کی اس سے امید تھی۔ بالوں والے برش سے وہ ہاتھی کو رگڑتا، ہاتھی کا گوبر اٹھاتا، اور ہاتھی کی غذا ختم ہونے کے بعد وہ اس جگہ کو صاف کرتا۔ لیکن ان کے درمیان گرمجوشی اور باہمی اعتماد صاف ظاہر تھے۔ جب مہاوت فرش صاف کر رہا ہوتا تو ہاتھی سونڈ ہلا کر اس کی پیٹھ تھپتھپاتا۔ مجھے ہاتھی کی یہ حرکت دیکھنے کا بہت شوق تھا۔

’’کیا تمھیں ہاتھی ہمیشہ سے بہت پسند ہیں ؟‘‘ وہ بولی، ’’میرا مطلب ہے، صرف یہی ہاتھی نہیں۔‘‘

’’ہوں، اگر غور کروں تو ہاتھی واقعی مجھے پسند ہیں‘‘ میں نے کہا۔ ’’ان میں کچھ ایسی بات ہے جو میری لچسپی کو بیدار کرتی ہے۔ میرا خیال ہے ہاتھی مجھے ہمیشہ سے پسند تھے، معلوم نہیں کیوں !‘‘

’’تو اس دن بھی غروب آفتاب کے بعد، میرے خیال میں تم اس پہاڑی پر اکیلے ہاتھی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ مئی کی کیا تاریخ تھی وہ؟‘‘

’’سترہ، سترہ مئی، شام سات بجے۔ دن لمبے ہونے لگے تھے، اور افق پر سرخی مائل رنگت چمک رہی تھی۔ ہاتھی گھر کی روشنیاں جل رہی تھیں۔‘‘

’’اس دن تم نے ہاتھی یا مہاوت میں کوئی غیر معمولی بات دیکھی تھی؟‘‘

’’شاید تھی بھی اور نہیں بھی، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ایسا نہیں کہ کوئی غیر معمولی بات میری آنکھوں کے سامنے صاف ظاہر تھی۔ میں یقیناً ایک بہت مستند گواہ نہیں ہوں۔‘‘

’’پھر بھی، ہوا کیا تھا؟‘‘

میں نے اپنی اس کاچ کا گھونٹ بھرا، جو اب بالکل پانی ہو رہی تھی۔ کھڑکی کے باہر بارش ویسے ہی جاری تھی، نہ کم نہ زیادہ، جیسے منظر نامے کا ایک غیر محرک جز ہو جو کبھی تبدیل نہیں ہو گا۔

’’ایسا کچھ ہوا تو نہیں تھا، ہاتھی اور مہاوت وہی سب کر رہے تھے جو وہ روز کرتے تھے۔ کھانا، صفائی ایک دوسرے سے اپنے مخصوص دوستانہ انداز میں کھیلنا۔ جو وہ کر رہے تھے اس میں مجھے کچھ مختلف نہیں لگا۔ لیکن وہ دونوں مجھے مختلف نظر آئے۔ ان کے درمیان توازن میں کوئی چیز نئی ضرور تھی۔‘‘

’’توازن میں ؟‘‘

’’ان کے جسمانی سائز میں۔ ہاتھی اور مہاوت کے درمیان سائز میں توازن بگڑا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے ان کے درمیان حجم کا فرق سکڑ گیا ہو۔‘‘

وہ ایک لمحے تک اپنی نظریں ڈیکویری کے گلاس پر جمائے رہی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ برف پگھل چکی تھی اور پانی کاک ٹیل میں ایک ننھی سی سمندری لہر کی مانند سر اٹھا رہا تھا۔

’’مطلب، ہاتھی چھوٹا ہو گیا تھا؟‘‘

’’ یا مہاوت بڑا ہو گیا تھا، یا دونوں چیزیں ایک ساتھ بدل گئی تھیں !‘‘

’’اور تم نے پولیس کو یہ سب نہیں بتایا؟‘‘

’’نہیں، بالکل نہیں‘‘ میں نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے وہ میری بات پر بھروسا نہ کرتے۔ اور اگر میں یہ بتاتا کہ ایسے عجیب وقت میں میں پہاڑی کی چوٹی میں ہاتھی کا مشاہدہ کر رہا تھا، وہ یقیناً سب سے پہلے مجھے ہی مشکوک قرار دیتے۔‘‘

’’پھر بھی تمھیں یقین ہے کہ ان کے درمیان سائز کا توازن بدل گیا تھا؟‘‘

’’شاید۔ میں صرف شاید ہی کہہ سکتا ہوں، میرے پاس کوئی ثبوت تو ہے نہیں۔ اور جیسا کہ میں کہتا رہا ہوں، میں انھیں ایک روشندان میں سے دیکھ رہا تھا۔ لیکن میں نے انھیں وہاں پہلے بھی ان گنت بار دیکھا تھا۔ لہٰذا میرے لیے یہ تسلیم کرنا دشوار ہے کہ مجھے ان کے سائز کے مابین فرق جیسی بنیادی شے کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس وقت بھی سوچا تھا کہ کیا میری آنکھیں مجھے دھوکا دے رہی ہیں۔ میں نے آنکھیں میچ کر دوبارہ کھولیں، اپنے سر کو ہلایا جلایا، لیکن ہاتھی کا قد وہی رہا۔ وہ یقیناً سکڑا ہوا لگ رہا تھا، یہاں تک کہ پہلے میں نے سوچا، شاید قصبے والوں نے کوئی نیا چھوٹا ہاتھی خرید لیا ہے۔ لیکن میں نے تو اس بارے میں کوئی خبر نہیں سنی تھی، اور ہاتھیوں کے بارے میں کوئی خبر مجھ سے اوجھل نہیں رہ سکتی تھی۔ اگر یہ کوئی نیا ہاتھی نہیں تھا۔ تو واحد منطقی نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ کسی وجہ سے بوڑھا ہاتھی سکڑ گیا ہے۔ میں نے غور کیا تو اس چھوٹے ہاتھی کی وہی حرکات و سکنات تھیں، بوڑھے ہاتھی والی۔ جب اسے نہلایا جا رہا تھا تو وہ ویسے ہی خوشی سے اپنا دایاں پاؤں زمین پر مارتا، اور اب اپنی کسی قدر سکڑی سونڈ سے اسی طرح مہاوت کی پیٹھ تھپتھپاتا۔

یہ ایک پراسرار منظر تھا۔ اس روشندان سے جھانکتے ہوئے مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ اس ہاتھی گھر میں وقت کسی اور سرد سی رو میں بہہ رہا تھا۔ اپنے اطراف سے علیحدہ۔ مجھے یہ بھی لگا کہ ہاتھی اور مہاوت نے بخوشی اپنے آپ کو اس نئی رو میں چھوڑ دیا تھا، جس نے انھیں مکمل طور پر سمو لیا تھا یا کم از کم انھیں سمونے میں کسی قدر کامیاب ہو گئی تھی۔

سب ملا کر میں نے اس ہاتھی گھر کا کوئی نصف گھنٹہ مشاہدہ کیا تھا۔ معمول سے خاصا پہلے ہی، ساڑھے سات بجے روشنیاں بجھ گئیں۔ اس کے بعد ہر چیز تاریکی میں ڈوب گئی۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا کہ شاید روشنی دوبارہ جل جائے، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ بس وہی آخری بار تھا جب میں نے اس ہاتھی کو دیکھا۔

’’تو گویا تمھارا خیال ہے کہ ہاتھی سکڑ کر اتنا چھوٹا ہو گیا کہ سلاخوں سے گزر گیا، یا سکڑتے سکڑتے بالکل غائب ہو گیا، یہی نا؟‘‘

’’مجھے نہیں معلوم‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں تو بس وہ حقیقت دہرا رہا ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا، میں یہ نہیں سوچ رہا۔ میرے ذہن میں جو تصویر ابھری ہے وہ اتنی مربوط ہے، کہ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اس سے آگے سوچنا ہی میرے لیے دشوار ہے۔‘‘

میں ہاتھی کی گمشدگی کے بارے میں بس یہی کہہ سکتا تھا۔ اور جس بات کا مجھے خوف تھا کہ ہاتھی کی یہ کہانی اتنی مخصوص تھی، اتنی مکمل، کہ ایک نوجوان مرد اور عورت جو ابھی حال ہی میں ملے ہوں، اس پر کیا بات کرتے۔ میری کہانی ختم ہونے کے بعد ہمارے درمیان خاموشی چھا گئی۔ ایک ایسی کہانی جس نے مزید بحث کی گنجائش ہی نہیں رکھی؟ وہ اپنے کاک ٹیل جام کے کناروں پر انگلی دوڑاتی رہی، اور میں گرم دان (coaster) پر لکھی تحریر کو دوبارہ اور سہ بارہ پڑھنے لگا۔ مجھے اس کو ہاتھی کی کہانی نہیں سنانی چاہیے تھی۔ یہ ایسی کہانی نہیں جسے آسانی سے کسی کو سنایا جا سکے۔

’’جب میں چھوٹی تھی تو ہماری بلی غائب ہو گئی تھی‘‘ اس نے ایک طویل خاموشی کے بعد بات شروع کی۔ ’’لیکن پھر ایک بلی کی گمشدگی اور ایک ہاتھی کے غائب ہونے میں بہت فرق ہے۔‘‘

’’ہاں واقعی، کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ان کے قامت کا فرق ہی دیکھو!‘‘

کوئی نصف گھنٹے بعد ہم ہوٹل کے باہر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ رہے تھے۔ اسے اچانک یاد آیا کہ وہ اپنی چھتری کاک ٹیل لاؤنج میں بھول آئی ہے۔ سو میں لفٹ سے اوپر گیا اور چھتری نیچے لا کر اسے دی۔ یہ ایک بڑے ہینڈل والی، شوخ سرخ رنگ کی چھتری تھی۔

’’شکریہ‘‘ وہ بولی۔

’’شب بخیر‘‘ میں نے کہا۔

یہ میری اس سے آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد ہم نے ایک مرتبہ اس کے مضمون کی نسبت کچھ تفصیل کے بارے میں بات کی۔ فون پر گفتگو کے دوران میں نے سنجیدگی سے سوچا کہ اسے کھانے پر مدعو کروں۔ لیکن میں نے ایسا کیا نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہ پڑتا۔

اس غائب ہونے والے ہاتھی کے ساتھ اپنے تجربے کے بعد میں نے کئی بار ایسا ہی محسوس کیا۔ مجھے لگتا کہ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں، لیکن پھر میں ایسا کرنے یا نہ کرنے کے مابین نتائج اخذ کرنے سے معذور ہو جاتا۔ مجھے محسوس ہوتا جیسے میرے اطراف چیزوں نے اپنا توازن کھو دیا ہے، حالانکہ ہو سکتا ہے کہ میرا شعور ہی مجھے دھوکا دے رہا ہو۔ اس ہاتھی کی واردات کے بعد سے میرے اندر کوئی توازن بگڑ گیا تھا، جس سے بیرونی مظاہر مجھے مختلف انداز میں نظر آتے۔ شاید میرے اندر ہی کچھ ہے۔

میں اب بھی اس کاروباری دنیا میں فرج، ٹوسٹر اور کافی مشینیں بیچتا ہوں، اس دنیا کی پس دید یادوں کی بنیاد پر۔ میں جتنا زیادہ عملیاتی بنوں اتنا ہی زیادہ کامیاب فروش کار ہوتا ہوں۔ ہماری مہم ہماری امیدوں سے زیادہ کامیاب رہی۔ میں خود ذاتی طور پر بہت سے لوگوں کو اشیا فروخت کرنے میں کامیاب رہا۔ شاید اس لیے کہ لوگ اس کِٹ چِن میں جسے ہم دنیا کہتے ہیں، ایک خاص توازن کی تلاش میں ہیں۔ ڈیزائن کا توازن، رنگوں کا توازن اور کارکردگی کا توازن۔

اخبارات اب ہاتھی کے متعلق کچھ نہیں چھاپتے۔ لوگ اب شاید بھول بھی چکے ہیں کہ ان کے قصبے میں کوئی ہاتھی بھی تھا۔ ہاتھی گھر میں جو گھاس اگ آئی تھی وہ بھی اب مرجھا گئی ہے، علاقے میں سردی کی آمد آمد ہے۔

ہاتھی اور مہاوت مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں، وہ اب کبھی نہیں لوٹیں گے۔

٭٭٭

بشکریہ: رسالہ آج

http://www.adbiduniya.com/2015/10/hathi-ki-gumshudgi-by-haruki-muakami.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید