FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

کچھ کہانیاں

 

 

                معین الدین جینابڑے

جمع و ترتیب: راغب اختر، اعجاز عبید

 

 

 

کہانی

 

 

مُنّا پلنگ پر اکیلا لیٹا ہوا تھا۔ سردی کے دن تھے۔ اس نے ایک گرم رضائی اوڑھ رکھی تھی۔ کمرے میں نائٹ بلب کی ملگجی روشنی تھی۔ باہر جاڑے کے مارے کتے رو رہے تھے۔ رات کی خاموشی میں ان کی کوں کوں بڑی بھیانک لگ رہی تھی۔ مُنّا کچھ سہما سہما سا تھا۔ اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں کبھی کمرے کی چھت تکتی رہتیں تو کبھی پاپا کی طرف دیکھتیں ۔ میز پر جھکے ٹیبل لیمپ کی روشنی میں پاپا کچھ لکھ رہے تھے۔ میز پر کتابیں اور رسالے بڑی بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔ ان کی یہ بے ترتیبی کمرے کے پر تکلف رکھ رکھاؤ کے بیچ بری طرح کھٹکتی تھی۔ ایش ٹرے میں پڑے ڈھیروں خموش سگریٹ پاپا کا منہ تک رہے تھے۔ اور پاپا دھوئیں کا جال بن کر اپنے خیالات کو منتشر ہونے سے رو ک رہے تھے۔ ان کا قلم بڑی روانی کے ساتھ چل رہا تھا۔ شاید وہ بہت جلد کوئی چیز مکمل کرنا چاہتے تھے۔ سڑک پر گشت کرتے واچ مین کی لاٹھی کی آواز نے منّے کو ایک بار پھر سہمادیا۔ چھت پر سے نظریں ہٹا کر وہ پاپا کی طرف دیکھنے لگا۔

’’پاپا کہانی……!‘‘

’’ہاں منّے…تو لیٹا رہ دیکھ سونا نہیں ۔‘‘

اپنے لمبے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پاپا نے جواب دیا۔ ہنس مکھ اور خوش مزاج پاپا لکھتے وقت بے حد گھمبیر ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے مُنّا کی طرف دیکھا تک نہیں اور لکھنے میں مگن ہو گئے۔ مُنّا نے پوچھا

’’پاپا تم روز ایک کہانی کیسے لکھتے ہو؟‘‘

تو سنتاہے اس لیے لکھ پاتا ہوں ۔‘‘

’’سچ پاپا؟‘‘

جیسے منّے کو پاپا کی بات پر یقین نہ آیا ہو۔ اسے یقین دلاتے ہوئے کہا:

’’اور نہیں تو کیا۔ بالکل سچ۔‘‘

پاپا دوبارہ لکھنے میں مصروف ہو گئے۔ وہ نہیں دیکھ سکے کہ مُنّا کی نیند سے بوجھل آنکھیں چمک اٹھیں اور چہرے پر بشاشت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے دھیرے سے کہا!

’’آپ کتنے اچھے ہیں پاپا۔ میرے لیے روز ایک کہانی لکھتے ہیں ۔‘‘

پاپا اس کا جملہ نہیں سن سکے۔ انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’منّے آواز نہیں کرنا خاموش لیٹے رہو۔‘‘

مُنّا چپ ہو گیا۔ لیکن اس کے ذہن میں پاپا کی آواز گونج رہی تھی۔ ’’تو سنتا ہے اس لیے لکھ پاتا ہوں ۔‘‘

اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی جس کی چمک کو کمرے کی ملگجی روشنی نے اپنے اندر سمولیا۔ اب مُنّا کو نہ کتوں کی کوں کوں سنائی دے رہی تھی اور نہ واچ مین کی لاٹھی کی آواز۔ اپنے چہرے پر فخر و مسرت کی جھلک کے لے وہ سوگیا۔

پاپا بدستور لکھے جا رہے تھے۔ ان پر کہانی مکمل کرنے کی دھن سوار تھی۔ انہیں معلوم بھی نہیں ہوا کہ مُنّا سوچکا ہے۔ معلوم ہوتا بھی کیسے لکھتے وقت وہ کسی کی طرف دیکھتے کہاں ہیں ؟ کہانی مکمل ہوئی اور ایک کے گھنٹے نے رات کی خموشی توڑ دی۔ پلٹ کر مُنّا کی طرف دیکھا۔ وہ سوچکا تھا۔ اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی۔ آج پہلی بارپاپا نے سوتے میں مُنّا کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی۔ وہ مسکراہٹ کہہ رہی تھی۔

’’پاپا آپ کتنے اچھے ہیں میرے لیے روز ایک نئی کہانی لکھتے ہیں ۔‘‘

لیکن پاپا اس کی مسکراہٹ کو نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے سوچا بچے تو نیند میں ہنستے بھی ہیں ۔ ان کے لیے یہ مسکراہٹ بے معنی تھی لیکن بڑی پیاری تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا منہ چوم لیا۔ ٹیبل لیمپ گل کیا اور ساتھ والے پلنگ پر لیٹ گئے۔

مُنّا کے پلنگ سے لگا ہوا یہ پلگ بھی اپنی الگ داستان رکھتا ہے جب تک ممی تھیں ، اس پر وہ سویا کرتی تھیں ، منے کو سلانے کے لیے وہ کہانیاں سنایا کرتی تھیں ۔ الف لیلیٰ کی کہانیاں ، پنچ تتر کی کہانیاں ، راج کمار اور راجکماری کی کہانیاں ، پریوں اور پرستانوں کی کہانیاں …شروع شروع میں یہ کہانیاں منّے کو بے حد دلچسپ معلوم ہوئیں ۔ پریوں کے اڑن کھٹولے کا ذکر آتا تو وہ بھی خیالوں میں کسی آڑن کھٹولے پر بیٹھ کر برفیلے پہاڑوں اور گھنے جنگلوں پر سے گذر جاتا۔ اپنے اڑن کھٹولے کا رخ موڑ کر کبھی سمندر کے اوپرہو جاتا اور کبھی اتنی اونچائی پر چلا جاتا کہ اسے یہ دنیا بالکل چھوٹی نظر آتی ۔ کبھی شرارت سوجھتی تو اڑن کھٹولے میں بیٹھے بیٹھے رمیش کی پتنگ کو کنی ستے کاٹ لیتا ور اسے پھاڑ کر نیچے پھینک دیتا۔ رمیش بھی تو اسے ستایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی مُنّا کے ہاتھ الہٰ دین کا چراغ لگ جاتا اور پلک جھپکتے میں مُنّا اپنے جن کو حکم دے کر ایک عالیشان فلیٹ بنواتا اور ممی کے پرس کو روپیوں سے بھر لیتا۔

لیکن رفتہ رفتہ اسے ان خیالی کہانیوں میں ان گنت خامیاں نظر آنے لگیں ۔ وہ پوچھنے لگا:

’’لیکن ممی اتنے بڑے دیو کو اس نے بوتل میں کیسے بند کر دیا؟‘‘

اور ممی کہتیں :

’’کہانیوں میں سب کچھ ہوتا ہے۔ چل خاموشی سے سن ۔‘‘

مُنّا کہتا:

’’جاؤ میں ایسی کہانیاں نہیں سنتا۔‘‘

اور وہ روٹھ کر سوجاتا۔

ممی کے بعد اس پلنگ پر پاپا سونے لگے اور انہوں نے اس کی تمام ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں اور جب مُنّا نے ان سے پوچھا۔

’’پاپا ممی تو بھگوان کے پاس چلی گئیں ، اب مجھے کہانیاں کون سنائے گا؟‘‘

تو پاپا نے کہا:

’’میں سناؤں گا۔‘‘

’’آپ کیسی کہانیاں سنائیں گے؟‘‘

’’جیسی تمہاری ممی سناتی تھیں ۔‘‘

’’مجھے ان کی کہانیاں اچھی نہیں لگتی تھیں ۔ ان کی کہانیوں میں پریاں ، دیو، راج کمار اور راجکماریاں ہوتی تھیں ۔ پاپا کیا ہم جیسے آدمیوں کی کہانیاں نہیں ہوتیں ؟

’’کیوں نہیں مُنّا ضرور ہوتی ہیں ۔ تو ہم جیسے آدمیوں کی کہانی سننا چاہتا ہے؟‘‘

’’ہاں ، ہاں پاپا…!‘‘

’’اچھا کل سے تجھے روز ایک کہانی سنایا کروں گا۔ آدمیوں کی کہانی۔‘‘

پاپا نے کہنے کو کہہ تو دیا کہ روز ایک کہانی سنایا کریں گے۔ جن ، پری، دیو، راج کمار اور راج کماری کی نہیں ۔ سچ مچ کے آدمیوں کی کہانی۔ ان کا خیال تھا کہ آج تک اپنی لکھی ہوئی کہانیوں میں سے روز ایک کہانی سناتے رہیں تو منّے کی کہانی سننے کی عمر کا یہ آخری دور ختم ہو جائے گا۔ فائیلوں میں پڑی دھول کھاتی یہ کہانیاں کسی کام تو آئیں گی، لیکن دوسرے ہی پل ان پر روشن ہوا کہ گرد کی تہوں کے نیچے دبی فائیلوں میں رکھی ان کہانیوں کے کردار چاہے جن، پری، دے، راجکمار اور راجکماری نہ رہے ہوں ، وہ کہانیاں اسی زمرے میں آتی ہیں ۔ انہوں نے ان کہانیوں میں زندگی کو سیاہ سفید کے خانوں میں بانٹ کر خیرو شر کی آویزش سے ان میں رنگ بھرا ہے۔ اب ان پر روشن ہوا کہ اصل میں زندگی ان دونوں کی آمیزش سے عبارت ہے۔ پہلے کبھی ان میں آویزش رہی ہو گی، اب تو یہ پورا کھیل آمیزش کا ہے!

اس ادراک کہ بعد انہوں نے جو کہانی لکھی اس کا عنوان انہوں نے پہلی کہانی رکھا گویا یہ عنوان رکھ کر وہ اپنی پچھلی تمام تحریروں پر خط تنسیخ پھیر رہے تھے۔ ’’پہلی کہانی‘‘ کی ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔ اب ان پر کہانیاں نازل ہونے لگیں ۔ دیکھتے دیکھتے ان کی کہانیوں کا مجموعہ شائع ہوا اور انہیں انعام و اعزاز بھی ملا، بہت ساری شہرت اور تھوڑی بہت دولت بھی چل کر ان کے گھر آ گئی۔ وہ سمجھ تو رہے تھے پھر بھی حیران تھے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن اس دن تو ان کی سمجھ نے بھی جواب دے دیا جب ایک رات مُنّا نے ان سے کہا:

’’میں آپ کی کہانیاں نہیں سنوں گا۔‘‘

’’کیوں ‘‘؟

’’یہ کہانیاں میری نہیں ہیں ۔‘‘

’’تیری نہیں تو پھر کس کی ہیں !‘‘

’’آج ٹیچر نے کلاس میں ’’پہلی کہانی ‘‘سنائی۔ میری کہانی انہیں کس نے سنائی!‘‘

پاپا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا:

’’میں نے کہانیوں کی کتاب بنا کر بازار میں بیچی ہے۔ ٹیچر نے خرید کر پڑھی ہو گی۔‘‘

’’کیا؟‘‘ مُنّا چیخ اُٹھا ۔

’’آپ نے میری کہانیاں بازار میں بیچ دیں ؟‘‘

اتنا کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس بچے کی طرح جس کے ہاتھ سے کوئی خوبصورت ساکھلونا چھین لیا جائے اور وہ رو رو کر کہہ رہا ہو’’ میرا کھلونا لوٹا دو!‘‘ میرا کھلونا لوٹا دو!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

چاند

 

 

 

رات کا وقت تھا۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی ۔ سرد ہوا کے جھونکے کبھی دروازوں پر دستک دیتے تو کبھی رات کے پہرے داروں کو گُدگُداتے تھے۔ پہرے داروں نے الاؤ روشن کر لیے تھے۔ پورے چاند کی رات تھی اور پوری بستی چاندنی میں لپٹی ہوئی تھی۔ زمین پر ہوا رات کے پہرے داروں کو چھیڑ رہی تھی اور آسمان پر بادل ، چاند کی بُڑھیا کا ناک میں دم کئے ہوئے تھے ۔ بڑھیا بیٹھی سوت کات رہی تھی۔ اس نے اپنے پاس ایک لاٹھی رکھ چھوڑی تھی۔ جب کبھی بادلوں کا جھنڈ مچلتا کودتا اس کی طرف بڑھتا، وہ اسے اپنی لاٹھی سے پرے دھکیل دیتی اور بادل آنِ واحد میں آنکھ سے اوجھل ہو جاتے۔ بادلوں کی شرارتوں سے بڑھیا کا انہماک کبھی متاثر نہیں ہوتا تھا ۔اس کے سکون اور اطمینان میں البتہ خلل ضرور پڑتا تھا۔ بادلوں نے بھی نچلا بیٹھنا نہیں سیکھا تھا۔ بڑھیا انہیں پرے دھکیل دیتی تو وہ ہوا سے اس کی شکایت کرتے۔ جیسے تیسے اس کی خوشامد کر کے اسے اس پر راضی کر لیتے کہ وہ سنسناتی ہوئی، بڑی ہی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھیا کے پاس سے گزر جائے۔ اس سے ہوتا یہ تھا کہ بڑھیا کا آنچل سر سے ڈھلک جاتا اور کچھ کپاس ہوا کے دامن سے لپٹ جاتی اور ہوا یہ کپاس بادلوں میں باٹ کر ہنستی ہنساتی آگے بڑھ جاتی۔ ادھر بڑھیا اپنا آنچل سنبھالنے لگتی تو بادل دور ٹھہر کر تالیاں بجا بجا کر اس کا مذاق اڑاتے کہ دیکھو ذرا دیر کے لیے سہی بڑھیا کا انہماک جاتا رہا۔ بڑھیا جہاں دیدہ تھی … سچ تو یہ ہے کہ اس نے کئی یُگ دیکھے تھے۔ وہ ان سیلانیوں کی شوخیوں اور ساجھے کی شرارتوں کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ ہاں ! کبھی کبھار تبسم کی ایک ہلکی سی لکیر اس کے جھریوں سے بھرے چہرے پر ابھر آتی تھی…یہ لکیر بہت کچھ کہتی تھی لیکن منے کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا…جواب میں وہ بھی مسکرادیتا تھا اور بڑھیا ایک ہاتھ سے اس کاسر سہلاتے ہوئے کہتی:

’’مُنّا جانتا ہے یہ سیلانی روز اس طرح یہاں کیوں آتے ہیں ؟‘‘

’’نہیں دادی!‘‘

’’تو جس لیے آتی ہے اسی وجہ سے یہ بھی یہاں آتے ہیں ؟‘‘

’’میں تو ڈر سے گھبرا کے یہاں آتا ہوں …مجھے گھر میں ڈر لگتا ہے‘‘

’’شاید یہ بھی کسی سے ڈرتے ہوں !‘‘

’’کس سے دادی!‘‘

’’اب میں تجھے یہ کیسے بتاؤں ؟ کل کو تو یہ بھی پوچھے گا کہ میں سوت کیوں کاتتی ہوں ؟‘‘

دادی کی باتیں مُنّا کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں ۔ شاید اسی لیے وہ اسے بہت اچھی لگتی تھیں ۔ یہاں چاند پر تو وہ ابھی کچھ دن ہوئے رہنے آئی ہے ورنہ پہلے تو وہ ممی، پاپا اور مُنّا کے ساتھ نیچے بستی کے گھر میں رہتی تھی۔ وہاں دادی مُنّا کو خوش رکھنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتی تھی۔ کہانیاں سناتی تھی ، لوریاں گاتی تھی، سیر کے لیے سامنے باغ میں لے جاتی تھی اور پہیلیاں بھی پوچھتی تھی۔ دادی کی پہیلیاں بوجھنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ مُنّا تو اکثر ہار ہی جاتا تھا۔ کافی منت سماجت کے بعد دادی کہتی دودھ پی لے تو بتاؤں گی۔ کبھی کہتی کپڑے بدل لے تو بتاؤں گی۔ یہاں چاند پر آنے کے بعد یہ سب تو نہیں رہا لیکن یہاں آ کر دادی پہیلیوں جیسی باتیں کرنے لگی تھی۔ اب یہ گھر تو تھا نہیں کہ مُنّا کسی طرح ان کا مطلب پوچھ کر ہی دم لیتا! اسے دادی نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ضد کرے گا تو میں یہاں سے کہیں دور چلی جاؤں گی۔ پھر تو مجھے کبھی نہیں مل سکے گا۔ مُنّا کے لیے دادی کا یہ ذرا سی دیر کا ساتھ غنیمت تھا… دادی کی باتوں میں پیار تھا…ان کی آواز میں پیار تھا …ان کی آنکھوں میں پیار تھا… ان کے ہاتھوں کے تھر تھرا تے لمس میں پیار تھا…کبھی مُنّا کہتا:

’’دادی تو ساری کی ساری پیار ہے‘‘

اور دادی کہتی:

’’تو پورے کا پورا شیطان ہے‘‘

اس پر دونوں کھِل کھِلا کر ہنس پڑتے اور دادی اسے سینے سے لگا کر اس کا منہ چوم لیتی۔

اس خیال کے آتے ہی مُنّا کے ہونٹوں پر ہنسی پھیل گئی۔ سوت کاتتے ہوئے دادی نے اس کی طرف پیار بھری نظر سے دیکھا اور وہ بھی اس ہنسی میں شامل ہو گئی۔ دادی کی یہی تو خوبی تھی کہ وہ بغیر کہے ’سنے ‘ مُنّا کے دل کی بات جان جاتی تھی… اب پورا چاند دادی اور پوتے کی ہنسی کی کِلکاریوں سے گونجنے لگا۔ آس پاس کے تاروں نے بھی آنکھیں جھپکا جھپکا کر ان کی طرف دیکھا۔ ان کی ہنسی کی بازگشت چاند کی وادی سے نکل کر سارے میں پھیلنے جا رہی تھی… کہ مُنّا کو اس بازگشت کے ساتھ کچھ دھماکوں ، گڑ گڑ اہٹوں ، چیخوں اور چانٹوں کی بھی آوازیں سنائی دینے لگیں …اب وہ ہنس تو رہا تھا لیکن دھیرے دھیرے اس کے چہرے کا رنگ فق ہونے لگا۔ا س نے دادی کی طرف دیکھا… وہ ہنس رہی تھی اور سوت کات رہی تھی… گویا اسے یہ دوسری آوازیں سنائی نہیں دہے رہی تھیں ۔ مُنّا کی حالت غیر تھی۔ اس کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ دھماکے ، گڑ گڑا ہٹیں ، چیخیں اور چانٹے بار بار اس کے کان کے پردوں سے ٹکرا رہے تھے اور ہر بار ان کی آواز تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ ان آوازوں کے سامنے وہ بے بس تھا اور ہنسی تھی کہ روکے سے نہیں رک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا… وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ ہنسی کے آنسو ہیں یا ان آوازوں کے کان کے پردے سے ٹکرانے کے بعد آنکھ سے کوئی سیال مادّہ خارج ہو رہا ہے۔ بہر کیف صورتِ حال یہ تھی کہ اس کے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے اور اس کے کانوں میں پہاڑوں جتنے بڑے ڈھول بج رہے تھے کہ اچانک کسی نے اس کی پیٹھ پر کس کر چابک کا ایک بھر پور وار کیا اور وہ بلبلا اٹھا!

اس کے حواس بجا ہوئے تو اس نے دروازے پر ہوا کی دستک سنی۔ ہوا کی آہٹ پاکر اُس نے آنکھیں کھولیں اور نائٹ بلب کی روشنی میں دیکھا کہ پاپا کے ہاتھ میں چمڑے کا پٹا ہے جسے وہ گھما رہے ہیں ۔ وہ پٹا ہوا میں ناگ کی طرح لہرا رہا ہے۔ اور پاپا پھنکارتے ہوئے ممی کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ وہ ناگ کسی بھی لمحے ممی کو ڈس سکتا ہے۔ وہ ڈسنے کے لیے چھٹپٹا رہا ہے۔ پاپا کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ ممی کو ڈ سے… لیکن ممی نے مُنّا کو اپنے جسم سے چمٹا ئے رکھا ہے۔

ممی رو رہی تھیں وہ مُنّا بلبلا رہا تھا۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ ماجرا کیا ہے؟ وہ چابک کا وار نہیں تھا… وہ تو پٹا تھا جو پاپا نے چلا یاتھا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ کئی وار سہنے کے بعد جب ممی برداشت نہیں کرسکیں تو انہوں نے سوئے ہوئے منے کو اپنے بدن سے ڈھال کے طور پر چمٹا لیا، یہ سوچ کر کہ اب تو یہ جلاد ہاتھ رو ک لے گا۔ جلاد کا ہاتھ رکا ضرور مگر تب تک ایک وار مُنّا کی پیٹھ پر پڑ چکا تھا۔ پاپا نے پھنکارتے ہوئے کہا:

’’بچے کو الگ کر ۔ لٹا دے اسے بستر پر ‘

’’جو چاہے کر لے۔ اسے الگ نہیں کروں گی۔ مارنا ہے تو مار لے‘‘

ممی نے مُنّا کو بھینچتے ہوئے اپنا جملہ پورا کیا۔ پاپا نے ہوا میں زور کا پٹا چلایا۔ زن کی آواز ہوئی۔ آواز کیا ہوئی ہوا سناٹے میں آ گئی۔ پورا کمرہ لرزنے لگا۔ ممی سہم گئیں ۔ مُنّا پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑھنے لگی… مُنّا کسمسا کر خود ہی ممی سے چمٹ گیا… وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی صورت بھی اسے ممی اپنے سے الگ کریں !

کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ وہ ممی سے لپٹ جائے، اسی طرح جس طرح وہ دادی سے لپٹ جاتا تھا… وہ چاہتا تھا کہ دادی کی طرح ممی کو بھی وہ چھیڑ ے، ستائے… ممی اسے کچھ کہیں … کچھ کہیں تاکہ وہ انکار کرسکے اور اس کی نا پر ممی ناراض ہو جائیں … پھر وہ کان پکڑ کر دس مرتبہ اٹھک بیٹھک لگائے… وہ دادی کو بھی تو ایسے ہی منایا کرتا تھا … پھر ممی مان جائیں … اور جب وہ مان جائیں تو وہ دوڑ کر ان سے لپٹ جائے… یہ اور نہ جانے ایسی کتنی باتیں تھیں جو وہ ممی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ممی کے پاس ان چونچلوں کے لیے وقت نہیں تھا۔ ان کے شب و روز کچن، دفتر اور خوابگاہ میں بٹ گئے تھے۔ وہ بھی مجبور تھیں ۔ دن میں صرف چوبیس ہی گھنٹے تو ہوتے ہیں ۔ اگر دن کے پاس کچھ وقت زیادہ ہوتا تو شاید وہ اتنی دیر منّے کے ساتھ بتا سکتیں …لیکن!…نہیں !! دن صرف چوبیس گھنٹوں کا تھا…اور ا س کی تقسیم پہلے سے طے تھی… اٹل تھی …اور وہ مجبور تھیں !!

انہیں اپنی اس مجبوری کا احساس منّے کی آمد سے پہلے ہی سے تھا۔ وہ سوچتی تھیں ، ایک تو زندگی پہلے ہی سے بٹ چکی ہے اور دوسرے ہر لمحہ آنکھوں کے سامنے لہراتا ہو ا یہ ناگ ! کیسے کچھ ممکن ہوسکے گا؟اس سانپ کی پھنکار کے ڈر سے وہ ہر پل ہراساں رہتی تھیں … وقفے وقفے سے وہ سانپ ان کو ڈستا بھی تھا… اس کا زہر ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا… بہت اندر تک ، بہت دور تک پہنچ چکا تھا وہ زہر۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ زہر کہیں قطرہ قطرہ ان کی کوکھ میں نہ جمع ہو جائے…انہیں اندیشہ تھا کہ جب وہ اس ننھی سی نئی جان کو اپنی چھاتی سے لگائیں تو اس کے غوغاں کرتے ہوئے پوپلے منہ میں دودھ کی جگہ زہر… وہ اس خیال ہی سے کانپ جاتی تھیں …

مُنّا درد سے کرا ہ ضرور رہا تھا لیکن اسے یہ سکون یہ تسلی بھی حاصل تھی کہ وہ ممی سے لپٹا ہوا ہے۔ وہ چاہ رہا تھا کہ چاہے جو ہو جائے، چاہے جتنے ناگ پھن پھیلائیں وہ اسی طرح اپنی ممی سے چمٹا رہے ۔ وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے ممی کی پشت کی جانب دیوار پر لگی ہوئی دادی کی تصویر کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر کے لیے اس نے محسوس کیا کہ ممی بھی ساری کی ساری پیار ہے!

منّے کو شانے پر ڈال لینے کے بعد ممی کے کانپتے ہوئے پیر مضبوطی سے زمین پر جم گئے اور ان کی تھر تھراتی ہوئی نظر کو بھی قرار مل گیا۔ انہوں نے ادھر آئینے کی جانب نگاہ کی تو دیکھا کہ شانے سے لگا ہوا مُنّا ٹکٹکی باندھے اپنی دادی کی تصویر کو دیکھا رہا ہے اور اس کی پلکیں بھیگی ہوئی ہیں ۔ ممی بھی اس آئینے کو دیکھنے لگیں اور دھیرے دھیرے ماضی کے دھندلکے سے ابھر کر ایک منظر اس آئینے میں اتر آیا۔ ممی نے دیکھا ان کی ساس ان سے کہہ رہی ہے:

’’بیٹی ! مہنگائی کس زمانے میں نہیں تھی۔ یہ تو ہر جُگ میں ہماری سنگی ہے۔ اسے پہلے گریبی کہتے تھے اب مہنگائی کہتے ہیں … بس نام بد ل دیا ہے! لیکن اس جگ سے اسے جگ تک ونش تو برابر چل رہا ہے نا! ذرا سوچ و نش نہ چلے تو جُگ جُگ سے کیسے بدلے؟‘‘

’’ماں جی ! من تو میرا بھی کرتا ہے، پر…‘‘

’’اری تو پرور کو چھوڑ، میری سن۔ جب یہ رگھو ہوا تھا تو میرے پاس ڈھنگ کی دھوتی بھی ناتھی …پلہ سر پر لیتی تھی تو بھی سر کھلا ہی رہتا تھا… تجھے اب کیا بتاؤں ! اری میں تو چرا چر اکر کھایا کرتی کہ دودھ برابر اتر تا رہے!‘‘

’’پر ماں جی ! اب وقت بدل گیا ہے۔ وہ گاؤں تھا۔ یہ شہر ہے۔ آپ سمجھتی کیوں نہیں ؟‘‘

’’تو مجھے تو مت سمجھا۔ میں جو سمجھارہی ہوں اسے سمجھ۔ ناری جاتی کا ایک دھرم ہوتا ہے اور اسے نبھانا پڑتا ہے۔ تیرا من بھی تو کرتا ہے نا! ایک بات یاد رکھ۔ آدمی کو سدا اپنے من کی کرنا چاہیے۔ رہی بات رگھو کی! تو اس کو چنتا چھوڑ۔ اس کے باپ کو کہاں اکّل تھی جو اس پاجی کے ہوتی ۔ اسے میں دیکھ لوں گی۔‘‘

ممی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے منظر کو دھندلاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں کہ اچانک پاپا کے ہاتھ سے ایک گولہ سا نکلا اور چھناکے، کے ساتھ آئینہ چکنا چور ہو گیا۔

ممی اور مُنّا ان کی طرف دیکھنے لگے۔ مُنّا نے دیکھا کہ پاپا کا چہرہ تمتما رہا ہے۔ آنکھیں لال ہو گئی ہیں ۔ گلے کی رگیں تنی ہوئی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے منہ سے کف نکل رہا ہے۔ انہوں نے پھنکارتے ہوئے کہا:

’’شانتی بچہ گرا دے‘‘

’’میں کہہ چکی ہوں بچہ نہیں گرے گا‘‘

رگھو نے مُنّا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’یہ ناٹک تو نے اس حرامزادے کے وقت بھی کیا تھا۔ پہلے شرافت کے ساتھ راضی ہو جاتی ہے اور بعد میں تجھے ناری دھرم یاد آتا ہے… چھنال سالی اڑی ہوئی ہے کہ لڑکی ہوئی تو کیا جن کر رہوں گی۔‘‘

صبح شانتی نے رگھو کو جگا کر خبر دی کہ مُنّا کا بدن بخار سے پھنک رہا ہے۔ ایک سو چار ڈگری سے کم کیا ہو گا۔ شانتی شیرنی کی طرح اسے گھور رہی تھی اور وہ ندامت کے مارے گردن جھکائے سراپا تقصیر بنا بیٹھا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ رگھو نے سوچا مزدور ہوں گے۔ بلڈنگ کی مرمت ہو رہی تھی۔ آج ان کی بالکنی میں ریلنگ لگانے کا دن تھا۔ رگھو نے موقعے کو غنیمت جانا۔ شانتی کی نظروں کے خنجر اسے چھلنی کیے دے رہے تھے۔ ایک جست میں وہ کمرے اور شانتی کی نظر کے دائرے سے باہر نکل گیا اور اس سے پہلے کہ شانتی دروازے کی طرف بڑھتی اس نے لپک کر دروازہ کھولا۔ دروازہ پر مزدور ہی کھڑے تھے۔ رگھو نے انہیں سمجھایا کہ ہمارا بچہ بیمار ہے۔ ہم آج کام نہیں کرائیں گے۔

’’لیکن صاحب !بالکنی کھلی رہے گی۔ بالک اوپن!‘‘

مزدور کسی طرح آج ہی اس کام سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے۔ رگھو نے بے زاری سے کہا:

’’رہنے دو بھائی۔ تم کیوں فکر کرتے ہو؟‘‘

اس صبح کو ئی دفتر نہیں گیا۔ شانتی بیٹھی پانی کی پٹیاں بدلتی رہی اور بیچ بیچ میں منّے کی پیشانی کو چھوکر بخار کا اندازہ لگاتی رہی۔ رگھو ڈاکٹر کو لینے چلا گیا۔

فیملی ڈاکٹر گھر کی اونچ نیچ سے بخوبی واقف تھا۔ بچے کے معائنے کے بعد اس نے سمجھاتے ہوئے کہا:

’’مرض تو کچھ نہیں ہے۔ بخار اتر جائے گا۔ میں دوا دیتا ہوں ۔ ویسے آپ دونوں سمجھ دار ہیں ۔ پڑھے لکھے ہیں ۔ میں زیادہ کیا کہوں … یہ بتائیے اس کی نیند میں چلنے کی عادت کیسی ہے؟‘‘

’’جی ! وہ برقرار ہے۔ ویسی ہی پہلے جیسی !‘‘

شانتی کے اس جواب پر ڈاکٹر کی پیشانی پر شکن ابھری ۔اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا:

’’یعنی اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہے۔‘‘

بابو رگھو ناتھ ڈاکٹر کے ساتھ باہر گئے اور شانتی دیوی بچہ کے سرہانیبیٹھ کر رونے لگیں ۔

رات پھر گلیوں میں سرد ہوا کے جھونکوں کی گشت شروع ہوئی۔ رات کے پہر ے داروں نے پھر الاؤ روشن کر لیے اور بستی کی کھڑکیاں اور دروازے کھڑ کھڑانے لگے تو چاند کی ایک کرن نے ہولے سے منّے کے کمرے میں قدم رکھا ، اس کی انگلی پکڑی اور چل پڑی۔ مُنّا خوش تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر دادی سے گلے ملے گا اور اسے سب کچھ بتا دے گا…لیکن آج چاند پر دادی نہیں تھی، اس کا چرخہ بھی وہاں نہیں تھا۔ مُنّا کے لیے دادی کے بغیر چاند اور زمین دونوں برابر تھے۔ اس نے دادی کو آواز دی: دادی اماں ! دادی ماں ! دادی! دا!

دادی میں آ گیا ہوں ! میں تم سے ملنے آیا ہوں دادی ۔ دادی تم آؤ تو تمہیں بتاؤں آج کیا ہوا۔ دادی تم نہیں آؤگی تو میں کسے بتاؤں گا؟‘‘

مُنّا پکار پکار کر تھک گیا اور جب مایوس ہو ا تو رونے لگا۔ پورا چاند اس کی ریں ریں میں ڈوب گیا۔ پاس پڑوس کے تاروں نے بھی آنکھیں میچ کر اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ روتے روتے اس کی گھِگھی بندھ گئی… اب اس کی سسکیاں چاند کی وادی سے نکل کر سارے میں پھیلنے جاری تھیں … کہ اچانک کہیں سے دو ہاتھ آئے اور انہوں نے اس کے آنسو پونچھے ۔ مُنّا اس لمس کو پہچان گیا۔ وہ پلٹ کر دادی سے لپٹ گیا اور ہچکیاں لیتے ہوئے پوچھا:

’’دادی تو کہاں چلی گئی تھی، میں کب سے آواز دے رہا ہوں ۔ اور وہ تمہارا چرخہ کیا ہوا؟… دادی میں بتاؤں آج گھر میں کیا ہوا؟‘‘

دادی نے بڑے گھمبیر لہجے میں کہا:

’’ میں جانتی ہوں کیا ہوا ہے۔ تجھے بتانے کی ضرورت نہیں ۔ آج یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے… وہ دیکھ بادلوں کی فوج آ رہی ہے… وہ فوج مجھے لینے آ رہی ہے۔ پہلے وہ مجھے اپنے گھیرے میں لے گی پھر بہت اوپر لے جا کر اس گڑھے میں پھینک دے گی۔‘‘

دادی نے اسے گڑھے کی طرف اشارہ کیا جسے مُنّا آج تک صرف ایک کالا دھبہ سمجھتا آیا تھا اور دادی کے کہنے پر اس کے نزدیک بھی نہیں جاتا تھا۔آج اس نے دادی کی انگلی پکڑ کر گڑھے میں جھانک کر دیکھا۔ گڑھا بہت گہرا تھا۔ بہت اندھیرا تھا اس میں ۔ اس نے گھبرا کر پوچھا:

’’دادی ! پھر میرا کیا ہو گا؟‘‘

’’بادل مجھے اس گڑھے میں پھینک دیں گے۔ پھر ہوا اپنی بڑی بہن کے ساتھ تمہاری طرف بڑھے گی۔ اس کی بہن کا نام آندھی ہے۔ وہ دونوں بہنیں مل کر تمہیں چاند سے نیچے دھکیل دیں گی اور تم زمین پر جاگروگے۔ اس کے بعد میں اس گڑھے سے نہیں نکل سکوں گی اور تم دوبارہ چاند پر نہیں آسکو گے۔‘‘

’’لیکن دادی ہم دونوں مریں گے تو نہیں نا؟‘‘

’’نہیں مُنّا… ہم مریں گے نہیں … ہم دونوں کبھی نہیں مریں گے… ہمیں گرایا جا سکتاہے… گڑھے میں بند کیا جا سکتا ہے… لیکن مارا نہیں جا سکتا… بیٹا ہم امر ہیں !‘‘

’’دادی ! پھر تم اس گڑھے سے کب نکلو گی؟‘‘

’’ایک مرتبہ گڑھے میں پھینک دیئے جانے کے بعد جلدی باہر نہیں نکلا جا سکتا۔ اس کے لیے مجھے تیرے منّے کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘

’’دادی مُنّا تو میں خود ہوں … پھر میرا مُنّا ؟‘‘

دادی اور پوتے کی باتیں جاری تھیں کہ دیکھتے دیکھتے پورے چاند کو بادلوں نے گھیر لیا۔ سمٹتے سمٹتے ان بادلوں نے دادی کو اپنے نرغے میں لے لیا ۔ انہوں نے دادی کو بہت اونچا اوپر اٹھایا اور پھر دھم سے گڑھے میں پھینک دیا۔ دادی نے آواز دی ’’مُنّا!‘‘ مُنّا نے ابھی داہی کہا تھا کہ ہوا نے اس کے پیر اکھاڑ دیئے اور آندھی نے وہ زور کا دھکا دیا کہ وہ چاند سے نیچے گرگیا۔ بہت دیر تک وہ چاند اور زمین کے درمیان جھولتا رہا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر مجھے زمین پر گرنا ہی ہے تو وہ جلدی کیوں نہیں آتی۔ میں کب تک یوں لٹکا رہوں گا؟…اور پھر وہ دھم سے زمین پر گر گیا!

ڈاکٹر بچے کی نبض دیکھ رہا تھا۔ بابو رگھو ناتھ اور شانتی دیوی کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔ ڈاکٹر نے اب کے قدرے سخت لہجے میں کہا:

’’آپ ہی کی وجہ سے یہ راتوں کو نیند میں چلتا ہے… اور کچھ نہیں کم از کم بخار کی حالت میں تواس پر نظر رکھتے جب کہ آپ کی بالکنی کی ریلنگ نہیں ہے۔ وہ تو کہیے کہ زیادہ خون نہیں بہا اور چوٹ بھی جان لیوا نہیں !‘‘

کچھ دیر بعد منّے کو ہوش آ گیا۔ شانتی دیوی اور بابو رگھو ناتھ دونوں اس پر جھک گئے۔ شانتی دیوی نے اسے پچکارتے ہوئے کہا:

’’میر ے چاند! دیکھو ، ممی، پاپا، دونوں تمہارے پاس ہیں ۔‘‘

منّے نے ان کی طرف دیکھا ۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اور اس نے کہا:

’’آپ دونوں مجھے گرانا چاہتے تھے نا! دیکھو میں کتنے اوپر سے گراہوں !!‘‘

دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان کی نظریں جھک گئیں ۔ ان پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ وہ کہنا چاہتے تھے کہ بیٹے ! تم نہیں گرے۔ گرے تو…لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکے۔ شانتی دیوی کے اندر سے ایک ہوک اٹھی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اندر ہی اندر کسی نے ان کی کوکھ پر کس کر ایک مکّا جمایا ہے… اور بابو رگھو ناتھ کے کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں ۔ کمرے کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں حصہ دائیں جانب نظر آنے لگا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے مسامات سے پسینے کی نہریں نکل رہی ہیں اور وہ اس میں گلے گلے ڈوبے ہوئے ہیں ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

نجات

 

 

 

اُس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اِس گاؤں کو چھوڑ دے گا۔ کسی اور گاؤں کی طرف ہجرت کرے گا تاکہ عمر کے اِن آخری دِنوں میں ہی سہی اُسے اُس سوال کا جواب مل جائے جِس کی تلاش اس کے لیے زندگی سے عبارت ہو کر رہ گئی تھی!

اس کے لیے یہ گاؤں پرایا نہیں تھا اور نہ ہی یہاں کے لوگ اب اس کے لیے اجنبی تھے۔ نگر واسیوں کو تو وہ دن آج بھی یاد ہے جس دن اس نے گاؤں میں پہلی مرتبہ قدم رکھا تھا۔ اس کی آمد کی خبر پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ خوشی کا یہ عالم تھا کہ وہ گاؤں کی سرحدیں توڑ کر باہر نکلی جا رہی تھی۔ہر شخص اپنی جگہ مسرورومطمئن تھا۔کسی کے نزدیک سائیں جی کی آمد نگر کے کلیان کی ضامن تھی۔ تو کسی کا دل کہہ رہا تھا کہ سوامی جی کی تپسیہ اور ان کا آشیر واد گاؤں کو سکھ شانتی سے بھر دے گا اور کسی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ شاہ صاحب نے گاؤں کا ذمہ لے لیا!

اس نے گاؤں کا ذمہ لیا ضرور تھا لیکن گاؤں والوں کی بنتی پر نہیں ۔ اسے اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل مقصود تھی ۔ وہ دن اس کی زندگی کا سنہرا دن تھا جب مرشد نے اسے اپنے خاص حجرہ میں بلا کر کہا تھا۔

’’آج تمہاری تربیت پوری ہو گئی ۔ تم نے ریاضت کی تمام منزلیں سرکیں اور ہر امتحان سے کامران گذرے…لیکن ایک آخری امتحان رہ گیا ہے!‘‘

اس نے دست بستہ عرض کیا تھا۔

’’اگر پیرو مرشد فقیر کو اس لائق سمجھیں تو فقیر اس کے لیے تیار ہے۔‘‘

مرشد نے بہت غور سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ کچھ دیر کے لیے انہوں نے آنکھیں موند لی تھیں اور پھر آنکھیں کھول کر گویا ہوئے تھے۔

’’اب تم پر واجب ہے کہ اپنی ذات سے بنی نوع انسان کو فیض پہنچاؤ۔ خدا کی بنائی ہوئی یہ زمین تنگ نہیں ہے۔ اس کے چپے چپے پر اس کا نام لینے والے آباد ہیں ۔ میں تم سے مشرق کی طنابیں مغرب سے ملانے نہیں کہتا اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ شمال کے سِرے کو جنوب سے ملاؤ۔ تمہیں صرف اتنا کرنا ہے کہ اپنی ذات کو انسانوں کے لیے فیض و برکت اور عنایت کا سرچشمہ بناؤ۔‘‘

مرشد نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے عقیدت و احترام کے ساتھ اسے چوما اور چوم کر جامد و ساکت مرشد کے حضور میں کھڑا رہا۔ مرشد نے پوچھا:

’’کچھ تَامّل ہے؟ یا کچھ استفسار؟‘‘

’’اگر پیرو مرشد اجازت دیں تو…‘‘

’’پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو۔ آج کے بعد ہم پھر کبھی نہیں ملیں گے یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔‘‘

’’پیرو مرشد یہ ارشاد فرمائیں کہ فقیر اس حکم کی تکمیل کس طرح کرسکتا ہے؟‘‘

’’تم بھول رہے ہو یہ تمہارا امتحان ہے۔ آخری امتحان ۔ اس کا جواب خود تمہیں ڈھونڈنا ہو گا۔‘‘

اس کے جی نے چاہا کہ مرشد سے پوچھے کہ کیا آپ اس امتحان سے کامیاب گذرے ہیں ! لیکن وہ یہ جسارت نہ کرسکا کیوں کہ ایسا کرنا مرشد کی شان میں گستاخی کے مترادف تھا۔ سُوے ادب کے خیال نے اس کے لبوں پر مہر لگا دی۔ لیکن مرشد آخر مرشد تھے۔ وہ اپنے شاگرد کے باطن اور ظاہر دونوں سے پوری طرح واقف تھے۔ جس لمحے اس کے دل میں یہ خیال آیا اسی پل خیال کی ترسیل ان تک ہو گئی۔ انہوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

’’میں اس قوی امّید کے ساتھ تمہیں رخصت کر رہا ہوں کہ تم باقی زندگی میں اس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈ نکالو گے… یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں نہ جانے کتنے سرگرداں ہیں اور نہ معلوم کتنوں نے تھک ہار کر کمریں کھول لی ہیں … تمہیں آخری سانس تک کوشش کرنی ہو گی‘‘

اس نے آخری بار مرشد کے ہاتھ کو چوم کر عزم کیا کہ وہ اس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈ نکالے گا۔

بہ ظاہر اس نے گاؤں والوں کی بنتی سوئیکار کی تھی لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس کے عزم اور اس کی امید نے اس سے کہا تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں تجھے اس سوال کا جواب ملے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے یہاں اس ٹیلے پر برگد کے نیچے آسن جمایا تھا۔

یہاں بیٹھا وہ ایک ایسے کھیل کا تماشائی تھا جس میں تماشہ گر اور تماشہ بین میں فرق نہیں تھا۔ ذرا الگ ٹیلے پر بیٹھ کر وہ اس فرق کو دیکھ سکتا تھا۔ سمجھ سکتا تھا۔ لیکن وہ جو نیچے تھے ۔ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ اس کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ ان کی عدم واقفیت نے ان کے لیے اس پورے شغل کو ایک بوجھ بنا دیا تھا۔ ایک ایسا بوجھ جو پیدائش کی ساعت ہی سے ان کی پیٹھ پر لدا چلا آ رہا ہے اور وہ چا ہے اَن چاہے اسے لادے پھر رہے ہیں ۔

انہیں اس کا احساس تھا کہ جس مشغلے میں ان کی عمریں صرف ہو رہی ہیں اسے سمجھنے میں ان سے کہیں کوئی کوتاہی ہو رہی ہے لیکن ان میں اتنی اہلیت نہیں تھی کہ وہ خود اس کی نشان دہی کرتے اور اس کا مداوا ڈھونڈ نکالتے۔ ایک طرف ان کے جسم اس بوجھ کو ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہو گئے تھے اور دوسری طرف اس مشغلے کی نوعیت سے عدم واقفیت کے احساس اور اس کی تفہیم میں ان کی جانب سے ہو رہی کوتاہی کے اعتراف نے ان کی روحوں کو بوجھل بنا دیا تھا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ نڈھال جسموں کو بوجھل روحیں بار معلوم ہو رہی تھیں اور جسموں کی قید میں تھکی ہاری روحوں کی سانسیں گھٹ رہی تھیں ۔

ایک پل کے لیے اس کے دل میں یہ خیال آئے بغیر نہیں رہ سکا کہ گاؤں والوں کو اس حالت میں چھوڑ کر جانا مناسب نہیں لیکن اب جب کہ اس کی زندگی کے کچھ ہی دن باقی رہ گئے تھے اور اس نے گاؤں میں ایک لمبی عمر گذاری تھی اسے یہ احساس ہو چلا تھا کہ اس نے غلط جگہ قیام کیا ہے۔یہاں اسے اپنے سوال کا جواب نہیں مل سکتا۔ ویسے گاؤں کے لوگ بہت اچھے تھے۔ ان کے دلوں میں اس کے لیے اب بھی وہی عزت تھی ۔ آج بھی وہ اس کی پہلے جیسی قدر کرتے تھے۔ اس خصوص میں گاؤں میں اس کا پہلا دن اور آج کا دن دونوں برابر تھے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہوا تھا کہ وہ اس گاؤں کی عادت بن گیا تھا!

روز رات کو اپنی گردنوں پر ندامت کا بوجھ لیے شکست خوردہ فوج کے سپاہیوں کی صورت بنائے اس کے سامنے حاضر ہونا گاؤں والوں کا معمول بن گیا تھا۔ ان کا معمول بن گیا تھا کہ روز رات کو پیر وں کے انگوٹھوں سے زمین کریدتے ہوئے اس کی باتیں سنیں اور صبح جب اپنے اپنے گھر وں سے باہر نکلیں تو سب کچھ بھلا کر اپنی سی کرنے لگیں ۔

اب وہ کوئی احمق تو نہیں تھا کہ کسی کی عادت بن جانے کے بعد بھی اپنے دل کو یہ کہہ کر بہلائے کہ اب بھی تو اس لائق ہے کہ تیرے ہاتھ وہ گو ہر لگے جس کی تلاش میں نہ جانے کتنے سرگرداں ہیں اور نہ معلوم کتنوں نے تھک ہار کر کمریں کھول لی ہیں …بہتر یہی ہے کہ یہاں سے کوچ کیا جائے۔

رات کے اندھیرے نے جب اچھّی طرح ہاتھ پیر نکالے اور پوری طرح گاؤں پرچھا گیا تو وہ اپنے آسن سے اٹھا۔ اس نے ایک الوداعی نظر گاؤں پر ڈالی، صدیوں پرانے برگد کا ایک پتہ توڑ کر بطورِ یادگار اپنے ساتھ لیا اور فقیرانہ بے نیازی کے ساتھ قدم اٹھاتا ہوا گاؤں کی سرحد پار کر گیا۔ اس کے گاؤں کی سرحد کے باہر قدم رکھتے ہی آسمان پر زور سے بادل گرجے۔ ان کی گڑ گڑاہٹ سے دھرتی سہم گئی اور سہم کر تھر تھر کانپنے لگی…گاؤں کے کھڑکی دروازے بجنے لگے…گاؤں والوں کی نیندیں اچٹ گئیں اور ان کی ریڑھ کی ہڈی میں نیچے سے اوپر تک ایک سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔ وہ سہمے سہمے، گھبرائے گھبرائے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ اس نے مڑ کر گاؤں کی طرف دیکھا ، ادھر گاؤں والوں کی نظریں آسمان کو تک رہی تھیں ۔ آسمان پر ایک بجلی سی کوندی اور پلک جھپکتے ہی صدیوں پرانا وہ برگد کا پیڑ ڈھیر ہو گیا!

وہ سراپا حیرت بنا سرشٹی کے اس انقلاب کو دیکھ رہا تھا کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور اس کے ہاتھ سے برگد کا وہ آخری پتہ اڑا لے گیا۔ اس نے لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کی کہ اس کے لیے وہ صرف پتا نہیں تھا۔، عمر بھر کی تپسیہ کی یاد گار تھا۔ لیکن وہ اسے پکڑ نہیں سکا اور ہوا کے دوش پر لہراتا ہوا وہ پتہ گاؤں کی سرحد میں جاگرا…اس کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ دوبارہ اس گاؤں میں قدم رکھتا …جسے ایک بار تج دیا اسے سدا کے لیے تج دیا!

گاؤں کی سرحد کے باہر ٹھہر کر اس نے آخری نظر گاؤں پر ڈالی۔ پورا گاؤں بین کر رہا تھا۔ سب روتے چلاتے اس کے ٹیلے کی طرف جا رہے تھے۔ کوئی رو رو کر کہہ رہا تھا۔ سائیں جی نے گاؤں کی بلا اپنے سر لے لی تو کوئی سسکیوں کے بیچ رک رک کر کہہ رہا تھا سوامی جی نے ہم پاپیوں کے لیے اپنی بھینٹ چڑھا دی اور کہیں سے آواز آئی شاہ صاحب نے ہماری جانوں کا صدقہ ادا کیا ۔ غم و اندوہ کی ایک لہر تھی جس نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور وہ لہر اب گاؤں کی سرحدوں کو توڑ کر آگے نکل جانا چاہتی تھی کہ گاؤں والوں کو یاد آیا…جانے والا کہا کرتا تھا ’’غم ہویا خوشی اس کا قد تمہارے قد سے کبھی اونچا نہ ہو‘‘ … انہوں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔ سسکیوں اور ہچکیوں کو روکا اور باری باری انتہائی احترام و عقیدت کے ساتھ آگے بڑھ کر اس راکھ کے ڈھیر میں سے اپنے اپنے حصے کی استھی اٹھانے لگے۔

یہ منظر دیکھ کر اس نے منہ پھیر لیا۔ اس کی نظر اس منظر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اس نے گاؤں کی طرف پیٹھ کی اور ناک کی سیدھ میں چل پڑا…!

٭٭٭

 

 

 

 

 

نجات ۔۲

 

 

وہ نکھری نکھری اور دھُلی دھُلی صبح ، غیر معمولی طور پر خوشگوار تھی۔ اس کی زندگی میں ایسی صبح کبھی نہیں آئی تھی۔ اس تازگی اور فرحت کا احساس اسے آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس صبح نے اس کے رگ و پے میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی تھی اور اس کی روح ایک انجانے نشے سے سرشار، تڑپ کر جسم کی حدوں سے باہر نکلنے کے لیے بے تاب تھی۔ اس نے گاؤں کی سرحد پر ٹھہر ٹھہر کر افق تک نظر دوڑائی ۔ وہ آج پہلی بار طلوع آفتاب کی زردی میں شفق کی سُرخی دیکھ رہا تھا۔

اسے اطمینان ہو گیا کہ یہی اس کی منزل ہے۔ چشم تصور میں اس نے ایک ہنستے کھیلتے، اچھلتے کودتے ، دوڑتے بھاگتے، سمٹتے، شرماتے، کلکاریاں مارتے، غوغاں کرتے گاؤں کی تصویر دیکھی اور سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ایک پر امید قدم گاؤں کی سرحد میں رکھا! وہ قدم بہ قدم گاؤں کی طرف بڑھ رہا تھا اور یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اس کا ہرقدم ایک سناٹے کی طرف بڑھ رہا ہے… ایک گہرا اور مہیب سناٹا جس کے سکوت میں نہ جانے کتنے اسرار پوشیدہ ہیں !! ہر ہر قدم پر اس کا تحیر اور اس کی امید دونوں بڑھ کر آسمان کو چھو لیتے اور اسی کے ساتھ ہر قدم پر وہ سناٹا کچھ اور گہرا کچھ اور پراسرار ہو جاتا۔ اس نے سوچا گاؤں کی سرحد اور بستی کے درمیان کا یہ فاصلہ طے کر لوں تو کسی راہ چلتے کو روک کر پوچھوں کہ بھائی تمہارے گاؤں میں صبح صبح سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے؟ لیکن سرحد سے بستی تک کا یہ فاصلہ اس کے لیے مشرق سے مغرب تک کے فاصلے کے برابر ہو گیا تھا۔ اس کے دیکھتے دیکھتے وہ ذرا سا فاصلہ اس افق سے اس افق تک پھیل گیا اور وہ سوچنے لگا کہ کیا مجھے اس ذرا سے فاصلے کو طے کرنے کے لیے مشرق کی طنابیں کھینچ کر مغرب سے ملانی ہو گی؟ نہیں ! شاید اسی گھڑی کے لیے مرشد نے مجھے آگاہ کیا تھا! مجھے یہ ذرا سا لیکن لامتناہی فاصلہ اپنی ذات کے اندر طے کرنا ہو گا۔

اب جب کہ وقت محدود ہو گیا اور فاصلہ لامتناہی تو اس پر زمان و مکان کے مابین پائے جانے والے ازلی رشتے کی بعض گرہیں کھل گئیں جن کی حیثیت کسی روحانی انکشاف یا تجربے سے کم نہ تھی ! اس نے سوچا اس کے برعکس صورت بھی اتنی ہی دلچسپ اور سود مند ثابت ہوسکتی ہے…وقت بہت پھیل جائے اور فاصلہ سمٹ سمٹا کر اتنا رہ جائے…بس دو ڈھائی گز جتنا !

وہ ایک عزم اور ولولے کے ساتھ قدم بڑھاتا رہا اور افتاں و خیزاں اس نے وہ فاصلہ طے کر لیا۔ طلوع آفتاب کے وقت جس سفر کا آغاز ہوا تھا اس کی تکمیل کی گھڑی آتے آتے سورج نصف النہار پر آ گیا تھا لیکن وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ اس نے ایک عمر صرف کی ہے تب کہیں جا کر یہ فاصلہ طے ہوا ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر گاؤں کی سرحد کی طرف دیکھا… بس دو ڈھائی گز ہی کا تو فاصلہ تھا وہ !!

اس کا بدن پسینے میں شرابور تھا۔ سانس بھی کچھ تیز چل رہی تھی۔ اس نے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور اسے زمین پر جھٹک کر ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کوئی نظر آئے تو اس سے پوچھے کہ بھائی! صبح کی دوپہر ہو گئی لیکن تمہاری بستی کا سناٹا ہے کہ ختم نہیں ہوتا، آخر یہ کیا بات ہے؟ ایسی کون سی افتاد آ پڑی ہے آپ لوگوں پر کہ آپ گھروں سے باہر نہیں نکلتے؟ اس طرح سارا سارا دن گھروں میں گھسے رہو گے تو زندگی کا کاروبار کیسے چلے گا؟ کیا کوئی وجہ خوف ہے کہ مارے ڈر کے آپ لوگ گھروں میں بند رہتے ہیں ؟ یا کوئی ندامت کا احساس، کہ مارے شرم کے آپ لوگوں نے اپنے چہرے چھپا لیے ہیں ؟ جو بھی ہو… اب تم اپنے گھروں سے نکل آؤ… نکل آؤ کہ میں تمہاری نجات کی تدبیر کرسکوں !

اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہیں کوئی آدم زاد نظر نہیں آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ جس پگڈنڈی پر کھڑا ہے وہ کچھ آگے جا کر دائیں جانب مڑ جاتی ہے۔ وہ اس پگڈنڈی پر آگے بڑھتا رہا ۔پگڈنڈی اسے ایک راستے پر لے آئی۔ اس نے پگ ڈنڈی اور راستے کے جوڑ پر ٹھہر کر دور تک نظر دوڑئی، ناک کی سیدھ میں وہ راستہ پوری بستی کو دو حصوں میں کاٹتا ہوا دور تک چلا گیا تھا۔ غالباً بستی کا دوسرا سرا اس راستے کی دوسری طرف تھا۔ راستے پر کچھ دور تک چلنے پر اسے اندازہ ہوا کہ یہ گاؤں کا بڑا راستہ ہے اور بستی سے کئی چھوٹے چھوٹے راستے نکل کر دونوں طرف سے اس راستے سے مل جاتے ہیں ۔ اس نے سوچا ممکن ہے گاؤں میں گلیوں کا ایک جال ہو جو ان چھوٹے چھوٹے راستوں کو آپس میں ملانے کا کام کرتا ہو نیز یہ بھی کہ جس طرح یہ بڑا راستہ شرقاً غرباً گاؤں کو دو حصوں میں بانٹتا ہے اسی طرح ایک بڑا راستہ گاؤں کے شمالی سرے سے نکل کر جنوبی سرے کو جا ملتا ہو اور گاؤں کو مزید دو حصوں میں بانٹتا ہو اور جہاں یہ دو بڑے راستے ملتے ہیں وہ گاؤں کا چو ک ہو!

اس نے دیکھا کہ راستہ بہت صاف ستھرا تھا اور اس کی سطح کا نچ جیسی شفاف تھی۔ اس کی نظر اس راستے پر پھسلتی ہوئی کچھ ہی دور تک گئی تھی کہ ایک سائے سے ٹکرا کر لوٹ آئی۔ اس نے دیکھا وہ ایک آدمی کا سایہ تھا جس کی پیٹھ اس کی طرف تھی۔ سورج نصف النہار سے کافی آگے جا چکا تھا۔ اس نے شکر ادا کیا کہ اتنی دیر بعد سہی آخر کوئی نظر تو آیا۔ آگے بڑھ کر اس نے اس شخص کے کندے پر ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ جیتا جاگتا انسان نہیں پتھر کا تراشیدہ ایک مجسمہ ہے۔ اس نے ایک مرتبہ سائے کی طرف دیکھا اور پھر مجسمے کی طرف۔ صرف سایہ دیکھ کر کوئی بھی دھوکہ کھا سکتا تھا کہ سائے انسان اور مجسمے میں فرق نہیں کرتے!

اس نے بغور اس مجسمے کو دیکھا ور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ مجسمہ، عام مجسموں جیسا نہیں ہے۔ اسے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ پتھر کے اس پیکر میں زندگی کروٹیں لے رہی ہے اور اندر ہی اندر کئی بجلیاں تڑپ رہی ہیں ۔ خود مجسمہ ، اس کے اعضا اور اس کے لب ، حرکت و گفتار کے لیے پر تول رہے ہیں اور اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں کسی کے انتظار میں ہیں ۔ اس نے سوچا اس سے کہیں زیادہ سڈول اور متناسب اعضاء کے مجسمے بنائے جا سکتے ہیں لیکن پتھر کے بت میں زندگی کی تڑپ کو اس سے بہتر صورت میں اجاگر نہیں کیا جا سکتا ۔ بلاشبہ یہ دنیا کا بہترین مجسمہ ہے!!

مجسمے کو پیچھے چھوڑ کر آدمی کی تلاش میں وہ آگے بڑھ گیا۔ کچھ دور جانے کے بعد خود بخود اس کے قدم رک گئے۔ اس نے سوچا دنیا کے بہترین مجسمے کو بالکل قریب سے دیکھنے کے بعد اب اسے کچھ فاصلے سے دیکھنا چاہیے۔ ممکن ہے اسے تراشنے والے فن کار کے فن کا کوئی نیا گوشہ سامنے آئے۔ اس نے پلٹ کر مجسمے کی طرف دیکھا۔ اسے بہت افسوس ہوا کہ ایک شاہ کار کو یوں ہی زمین پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے ایک چبوترہ تو بنا دیا جاتا اور یہ کیا؟ مجسمے کو اس طرح سڑک کے بالکل بیج میں کھڑا کرنے کا مطلب! اس طرح تو یہ سواریوں اور راہ گیروں کے لیے پریشانیاں پیدا کرسکتا ہے!! اس نے ایک مرتبہ پھر مجسمے کو غور سے دیکھا۔ دل ہی دل میں فنکار کے فن کی داد دی اور مڑ کر آگے بڑ ھ گیا۔

ذرا آگے چل کر اس نے دائیں طرف سے آ کر بڑے راستے سے ملنے والے ایک چھوٹے راستے کی طرف گردن گھمائی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پورا راستہ مجسموں سے بھرا پڑا ہے۔ اس نے آدمی کی تلاش میں گردن بائیں جانب سے آ کر ملنے والے چھوٹے راستے کی طرف گھمائی اور دیکھا کہ اس میں بھی جگہ جگہ مجسمے بکھرے ہوئے ہیں ۔ ان مجسموں کے بیچ سے راستہ نکالنا بڑا مشکل کام تھا کیوں کہ اول تو ان کو کسی ترتیب سے نہیں کھڑا کیا گیا تھا اور دوسرے یہ کہ ہر مجسمہ ایک الگ پوز میں ڈھالا گیا تھا۔ کوئی ہوا میں ہاتھ لہرا رہا ہے تو کوئی زمین پر پڑے پتھر کو ٹھوکر مار رہا ہے۔ کسی کے ہاتھ قواعد کے انداز میں پھیلے ہوئے ہیں تو کوئی اکڑوں بیٹھا اپنے گھٹنے کو سہلا رہا ہے۔ کوئی راستے کے ایک طرف سے آتے آتے بیچ میں ٹھہر گیا ہے تو دوسرا اس کے مقابل دوسری طرف سے آ کر جم گیا ہے۔ سٹرک کے ایک کنارے چار مجسمے تھے۔ ان کے ٹھہرنے میں البتہ کچھ ترتیب تلاش کی جا سکتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چار دوست راستے میں مل گئے ہیں اور خوش گپیوں میں مصروف ہیں ۔

اس نے جیسے تیسے ان مجسموں کے بیچ سے راستہ نکالا اور ایک گلی میں مڑ گیا۔ یہاں گلی میں ایک دوڑتے بچے کا مجسمہ تھا اور سامنے گھر کے آنگن میں ایک بوڑھے کا مجسمہ تھا۔ بوڑھا اکڑوں بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں حقے کی نے تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر بوڑھے کے بازو رکھے حقے کو چھو کر دیکھا۔ وہ پتھر کا نہیں تھا لیکن اس کی آگ سرد پڑچکی تھی۔ گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ اس نے اندر جھانکا ۔ وہاں چولہے کے پاس ایک پتھر کی مورت بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی۔ آدھی سبزی وہ کاٹ چکی تھی اور باقی آدھی دوسری طرف رکھی تھی۔ اس کے پتھریلے ہاتھ میں لوہے کی چھری تھی۔ اس نے چھری کی دھار پر ہلکے سے اپنی انگلی پھیری اور اس کی انگلی سے ٹپ ٹپ خون ٹپکنے لگا!

دوسری گلی میں دو ایک بند کھڑکیوں کو ہولے سے کھول کر اس نے اندر جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ میتھن کے مجسموں کو بڑی احتیاط کے ساتھ بستر پر لٹا دیا گیا ہے۔

بستی میں پھیلے گلیوں کے جال کو اس نے پوری طرح چھان مارا۔ ہر طرف اسے پتھر کے مجسمے ہی ملے ۔ اس نے اس بستی میں گھوم کر پتھروں میں تراشیدہ پوری زندگی دیکھی لیکن کہیں اسے آدم زاد نہیں ملا۔ وہ سوچنے لگا انسان کے بغیر زندگی کی یہ نمائش کتنی عجیب معلوم ہوتی ہے اور وہ کون ہے جس نے اس کا اہتمام کیا ہے۔ وہ پراسرار ہستی کہاں ہے جس نے اس بے جان لیکن بولتی ہوئی نمائش کو سجایا ہے اور وہ کون سا راز ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لیے اس بڑے پیمانے پر نمائش کا اہتمام کرنا ضروری ہو گیا! سوچو تو ذہن کام نہیں کرتا اور پوچھیں تو کس سے؟ ان پتھروں سے سر ٹکرانا بے سود ہے!

تھک ہار کر اس نے گاؤں کے چوک کی راہ لی۔ وہاں چوراہے کے بیجوں بیچ ایک چبوترہ بنا تھا۔ بتوں کی اس نگری میں اس نے پہلا چبوترہ دیکھا۔ اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کے حواس کمزور ہو رہے تھے اور اندر ہی اندر اس کی روح اسے کچو کے لگا رہی تھی۔ اس نے چبوترے کی طرف قدم بڑھائے۔ اس کے نزدیک گیا۔ اسے چھو کر دیکھا۔ اپنے ہاتھوں سے اس پر جمی گرد صاف کی اور کچھ دیر سستانے کے لیے اس پر بیٹھ گیا۔

اس کے حواس بیدار ہوئے تو اس کا خیال اپنی انگلی کی طرف گیا۔ اس نے دیکھا کہ اب بھی اس سے بوند بوند خون رِس رہا ہے۔ ان مجسموں نے تو اس کے حواس ہی چھین لیے تھے۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی خون کی بوندوں کو چوس کر زمین پر تھوک دیا اور دیکھتے دیکھتے پورا آسمان لال ہو اُٹھا۔

آسمان پر شفق پھول رہی تھی۔ وہ چبوترے پر کھڑا ہو گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ ایک مرتبہ پھر اس کا روم روم تازگی اور فرحت میں ڈوب گیا ہے ۔اس کے مضمحل اعصاب و اعضا اور کمزور حواس میں زندگی عود کر آئی ہے اور اندر ہی اندر اس کی روح بار بار جسم کی دیوار سے ٹکرا رہی ہے… اس نے سامنے افق پر نظریں جما دیں اور اس کی آنکھوں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ شفق کی سرخی میں طلوع آفتاب کی زردی گھلی ہوئی ہے۔

اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب اس نے دیکھا کہ آسمان پر شفق کے پھوٹنے ہی دھیرے دھیرے ان مجسموں میں جان آنے لگی اور ذرا سی دیر میں گاؤں بھر میں بکھرے ہوئے وہ تمام مجسمے گوشت پوست کے انسان بن گئے اور آنِ واحد میں اس کے اطراف لوگوں کی اچھی خاصی بھیڑ جمع ہو گئی۔

اب وہ اس بستی سے مانوس ہوچلا تھا۔ اسے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس بستی کے لوگ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ پتھر کے ہو جاتے ہیں اور غروب آفتاب سے کچھ پہلے دوبارہ انسان بن جاتے ہیں ۔ ! اس نے دیکھا ہجوم میں سے ایک نوجوان اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس نے نوجوان کو فوراً پہچان لیا ۔ بستی میں داخل ہونے کے بعد اس نے سب سے پہلے اسی کے بت کو دیکھا تھا اور انسان سمجھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ نوجوان نے بڑے ہی نرم لہجے میں انتہائی خلوص و اپنائیت کے ساتھ اس سے کہا:

’’تم ہماری کیفیت سے واقف ہو چکے ہو۔ میں تمہیں یہ بتا کر گاؤں والوں کا اجتماعی فرض ادا کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے گاؤں میں آنے والا ہر مسافر رات کو پتھر کا ہو جاتا ہے اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ جب ہم بت بن جاتے ہیں تو وہ دوبارہ انسان بن کر اپنی راہ لیتا ہے۔ تم ذرا اپنے پیروں کی طرف دیکھو ۔‘‘

اس نے گردن جھکائی اور اپنے پیروں کی طرف دیکھا۔ اس کے پیر کی انگلیوں کے ناخن پتھر کے ہو گئے تھے۔ نوجوان نے اس کے کندھے کو تھپتھپا کر اسے دلاسہ دیا اور کہا ’’یہ ابتدا ہے!‘‘

اب اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا ہجوم کو چیرتے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اپنے ایک ہاتھ میں حقہ سنبھالے ہوئے، دوسرے ہاتھ سے ہجوم کو ہٹاتا ہوا وہ بوڑھا جب اس کے نزدیک آیا تو اس نے دیکھا کہ یہ وہی بوڑھا ہے جس کے حقے کو اس نے چھو کر یہ اطمینان کر لیا تھا کہ حقہ پتھر کا نہیں ہے۔ بوڑھے نے سر سے پیر تک اسے بہت غور سے دیکھا اور حقے کا ایک کش لے کر اس کی طرف نے بڑھا دی۔ اس نے گردن ہلا کر انکار کیا۔ بوڑھے نے حقہ نوجوان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اسے ایک طرف ہٹایا اور ایک مرتبہ پھر باریک نظر سے اس کے پورے پیکر کا جائزہ لیا۔ اس دوران اس کے دونوں بازو اور ناف تک اس کا جسم پتھر کا ہو چکا تھا۔بوڑھے نے اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑ دیں ۔ اور گرجدار آواز میں کہا:

’’تم مسافر نہیں ہوسکتے کیونکہ تم میں وہ تمام نشانیاں پائی جاتی ہیں جو میں نے اپنے پرکھوں سے سنی ہیں …اور اگر تم وہی ہو…‘‘

اس نے بوڑھے کی طرف سے نظریں ہٹا کر اپنے سینے کی طرف دیکھا۔ اب وہ ناف سے اوپر گلے تک پتھر کا ہو گیا تھا۔ بوڑھے نے اپنی بات آگے بڑھائی۔

’’…اگر تم وہی ہو تو کل صبح تم بت سے انسان نہیں بنو گے اور ہمیں اس اذیت سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی…پھر کبھی ہم سورج کی پہلی کرن کے ساتھ بت نہیں بنیں گے… اگر ایسا ہوا تو ہمیشہ کے لیے اس چبوترے پر تمہارا بت نصب رہے گا اور ہماری نسلیں تاقیامت اس کی پوجا کریں گی۔‘‘

اس نے بوڑھے کے آخری الفاظ سنے اور اس کی آنکھیں پتھرا گئیں !

تمام رات بستی والوں نے بڑی بے چینی سے صبح کا انتظار کیا۔ دوسرے دن صبح سورج ضرور طلوع ہوا لیکن اس صبح طلوع آفتاب کی زردی سے شفق کی سرخی نکل گئی تھی۔ اس صبح افق سے جھانک کر سورج نے کیا کھویا اور اس پر کیا بیتی اسے سمجھنے سے گاؤں والے قاصر تھے کہ انہوں نے تو آج پہلی بار اسے نظر بھر کر دیکھا تھا!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

برسو رام دھڑاکے سے

 

 

پچھلے دنوں ہندوستان میں میرے مختصر سے قیام کے دوران اچانک ٹھنڈی رام سے ملاقات ہو گئی۔ برسوں بعد غیر متوقع طور پر جب وہ مجھے ملا تو میں اس سے لپٹ گیا۔ اس نے بھی مجھے بھینچ لیا۔ بڑی دیر تک ہم ایک دوسرے سے گتھے رہے۔ ویسے اگر آپ اس وقت ہم دونوں کو دیکھتے تو یہی کہتے کہ یہ بھرت ملاپ چند لمحوں کا تھا اور آپ کی بات کچھ غلط بھی نہ ہوتی کیوں کہ گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے تو ہم چند سیکنڈ ہی آپس میں لپٹے رہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم دونوں اس وقت ایک دوسرے سے ملنے کی خوشی میں کچھ ایسے پاگل ہو گئے تھے کہ وقت کونا پنے والے اس آلے کی ٹک ٹک ہمارے لیے بے معنی ہو گئی تھی۔

جب ہم الگ ہوئے تو ذرا فاصلے سے ہم نے ایک دوسرے کو نظر بھر کر دیکھا۔ اب اس عمر میں دیکھنے جیسا کیا رہ گیا ہے۔ پھر بھی، میرے بالوں کی سفیدی اس کے بالوں سے جھانک رہی تھی اور اس کی آنکھوں کی نمی میری آنکھوں میں تیر رہی تھی۔ میں نے پہلی بار جانا کہ وقت واقعی بڑا سفاک ہوتا ہے اور پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں ۔

ہم ایک دوسرے کی سننے اور اپنی سنانے کے لیے اندر ہی اندر چھٹپٹا رہے تھے۔ لیکن پہل دونوں میں سے کوئی نہیں کر پا رہا تھا۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ ہمارا رواں رواں بول رہا تھا اور لفظ گونگے ہو گئے تھے… اور جب لفظ گونگے ہو جاتے ہیں تو ہر چیز کو زبان مل جاتی ہے، مسکراہٹ کو بھی… میری مسکراہٹ کے جواب میں ٹھنڈی نے گردن ہلائی اور کہا:

’’ہم لوگ تو سچ مچ ہی بوڑھے ہو گئے رام کا نام لے کے۔‘‘

مجھے شرارت سوجھی ۔ یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ ٹھنڈی مل جائے اور میں اس کے چٹکی نہ لوں ، چاہے وہ پجاس برس بعد کیوں نہ ملا ہو۔ میں نے کہا:’’اپنے ساتھ مجھے کیوں بڈھا کہہ رہا ہے ’بڑھؤ اور تو کوئی آج بوڑھا تھوڑے ہی ہوا ہے، ’تو ، تو پیدائشی بوڑھا ہے۔‘‘

’’تو میں پیدائشی بوڑھا ہوں ، رام کا نام لے کے ۔ اور تو؟‘‘

’’اور میں سدا کا جوان ہوں ، رام کا نام لے کے !‘‘

میرے اس طرح رام کا نا م لینے سے وہ بڑا محظوظ ہوا۔ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ میں نے بھی اسے بھینچ لیا۔ اب ہم دونوں مل کر ہنس رہے تھے اور راستہ چلتی بھیڑ میں سے کچھ راہ گیر ہماری طرف دیکھ کر مسکرارہے تھے…رام کا نام لے کے!

’رام کا نام لے کے ‘بچپن ہی سے ٹھنڈی کا تکیہ کلام رہا ہے کبھی اس کا جملہ اس فقرے سے شروع ہو تا تو کبھی اس پر ختم اور بعض اوقات جملے کے بیچ ہی میں کہیں جب وہ اٹکنے لگتا تو رام کا نام لے کے اسے پورا کر دیتا تھا۔ اس کی یہ عادت پورے گاؤں کے لیے مستقل تفریح کا باعث تھی۔ ہم اسے رام کا نام لے لے کر چڑاتے تھے اور چھیڑ کا مزہ اس وقت دوبالا ہو جاتا جب وہ ہمیں رام ہی کا نام لے کر صلواتیں سناتا۔ اس پر ہم اسے بڑے سخت لہجے میں ٹوکتے کہ ابے رام جی کا نام لے کر گالیاں بکتا ہے اور اس کا جواب اس سے نہ بن پڑتا ۔ وہ جھلا جاتا اور خفت مٹانے کے لیے اور اونچی آواز میں اپنے تکیہ کلام کے سہارے ہمیں بے نقط سنا نے لگتا۔

بعض اوقات چھیڑ چھاڑ میں ہاتھا پائی کی نوبت آ جاتی اور کبھی کبھار بات اس سے بھی آگے بڑھ جاتی جیسے اس شام ہوا تھا جب ٹھنڈی نے رام کا نام لے کے ایک نوکدار پتھر اٹھایا تھا اور نشانہ باندھ کر مجھے لہولہان کر دیا تھا۔ وہ برسات کے دن تھے شام کا وقت تھا ، خوب گھنے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن برس نہیں رہے تھے اور ہم سب کورس میں رام جی کی دہائی رہے تھے۔

برسو رام دھڑاکے سے

بڑھیا مر گئی فاقے سے

مجھے یہ سوال ہر بار پریشان کرتا تھا کہ ہم دہائی تو بڑھیا کے مرنے کی دیتے ہیں لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ رام جی کی دہائی دے رہے ہیں ۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگا کہ اس سوال کا جواب ٹھنڈی کے پاس ہو گا۔ اپنے ساتھیوں سے ذرا الگ ہو کر میں نے ٹھنڈی کو اپنے پاس بلایا تھا اور واقعی بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کے سامنے اپنا سوال رکھا تھا۔ یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس سوال سے ٹھنڈی چڑ جائے گا۔ میرا سوال سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا ۔اس وقت میں ٹھنڈی کو چھیڑنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا لیکن اب ٹھنڈی ، گرمی کھا چکا تھا۔

’’دہائی چاہے جس کی دیتے ہوں ، تم رام کا نام نہ لیا کرو‘‘

’’کیوں نہ لیں ‘‘

ٹھنڈی کے پاس کوئی معقول وجہ نہیں تھی ، ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ لیکن چپ رہنے میں بڑی سبکی ہوتی اس لیے اس نے جو منہ میں آیا سو کہہ دیا۔

’’تو مسلمٹا جو ہے‘‘

’’مسلمان ہیں تو کیا رام جی کا نام نہ لیں !‘‘

’’ہاں نہ لیں !‘‘

’’اور تو جو محرم کی دسویں کے روز نشان کے ساتھ سب سے آگے آگے چلتا ہے!‘‘

’’وہ تو ہم اپنے باپو کے ساتھ چلتے ہیں ‘‘

’’چلتے تو ہو‘‘

’’ہم کوئی آج سے تھوڑے ہی چل رہے ہیں ‘‘

’’ہم بھی کوئی آج سے تھوڑے ہی رام کا نام لے رہے ہیں ۔‘‘

’’جو بھی ہو تم رام کا نام نہ لیا کرو‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’کہہ جو دیا!‘‘

’’یہ کیوں نہیں کہتا کہ تجھے مرچیں لگتی ہیں ، رام کا نام لے کے ‘‘

میرا ارادہ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ، اس وقت ٹھنڈی سے لڑنے جھگڑنے کا ہر گز نہیں تھا لیکن میں خود کو روک نہیں سکا اور میں نے بھی وہی کہہ دیا جو منہ میں آیا۔ اگر یہ آخری جملہ میرے منہ سے نہ نکلتا تو وہ نوکدار پتھر وہیں سامنے زمین پر پڑا رہتا اور میری دائیں آنکھ کے اوپر بھؤں کے بالوں سے جھانکتا ہوا زخم کا جو نشان آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں ، وہ نہ ہوتا… ٹھنڈی کی نظریں اسی نشان پر جمی ہوئی تھیں ۔ اس نے مجرم کی سی کانپتی آواز میں کہا ’’میں سمجھا تھا، ان برسوں میں رام کا نام لے کے یہ دھندلا گیا ہو گا‘‘ میں نے ٹھنڈی کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔وہاں اب بھی نمی تیر رہی تھی اور اس نمی کے پیچھے بہت دور تک اداسیاں بچھی ہوئی تھیں ۔ میں نے نشان پر انگلی پھیرتی ہوئے کہا:

’’ٹھنڈی تیرا دیا ہوا یہ نشان اب میری پہچان بن گیا ہے ، میرے پاسپورٹ اور تمام سرکاری کاغذات میں اس کی وہی اہمیت اور حیثیت ہے جو میرے نام اور ولدیت کی ہے۔ اس کے بغیر نہ میں ، میں ہو ں نہ میری تصویر میری۔ سرکاری کاغذات سے قطع نظر اب تو خود میں بھی اس کے بغیر اپنے ہونے کا تصور نہیں کرسکتا۔ شائد میرے ہونے میں کہیں کچھ کمی رہ گئی تھی جسے اس نشان نے پورا کر دیا ہے۔‘‘

ٹھنڈی نے بجھی بجھی سی آواز میں بہت دھیرے سے کہا:

’’اپنے نشان کو تو سنبھال کے رکھے ہو بھیا پر کبھی ہمارے نشان کی بھی فکر کی ہوتی، رام کا نام لے کے ۔‘‘

میں ٹھنڈی سے کیا کہتا۔ اسے کیسے سمجھاتاکہ جب زمینداروں اور جاگیرداروں کی اولاد کو گاؤں کی زمین بے دخل کر دیتی ہے تو ان پر کیا گذرتی ہے، انہیں کیا کیا سہنا پڑتا ہے اور وہ ان باتوں اور ایسے طعنوں کو سہنے کے لیے کہاں سے جگر لاتے ہیں !

ٹھنڈی مجھے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ بڑا شاندار فلیٹ تھا اس کا ۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اس کی بیوی پر لوک سدھار چکی ہے۔ لڑکے نے شادی کر لی ہے۔ بہو سگھڑ اور خوش اخلاق ہے لیکن ساس سے اس کی نبھ نہ سکی۔ ٹھنڈی نے بیوی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی ۔ یہاں تک کہہ دیا کہ یہ غریب صرف مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے کی گنہگار ہے ورنہ تو اسے رام کا نام لے کے نہ کلمے یاد ہیں نہ قرآن کی آیتیں ۔

اس کی بیوی گنوار تھی لیکن اس نے دنیا دیکھی تھی۔ وہ بس ایک ہی بات کہتی رہی کہ اس لڑکی کے پہننے اوڑھنے اور اٹھنے بیٹھنے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ کس مذہب اور کیسے گھر کی ہے۔ ٹھنڈی نے لاکھ اس سے کہا کہ آج کل کا ڈھنگ ہی یہ ہے۔ ان باتوں کو اب برا نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کی بیوی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ دوسرے چاہے ان باتوں کو برا نہ سمجھتے ہوں ۔ اس کے نزدیک یہی باتیں ادھر می ہونے کے لکشن تھے…ورنہ اتنی بات تو وہ بھی سمجھتی تھی کہ مسلمان ہونا کوئی پاپ نہیں ۔ من مار کر لڑکے کی پسند کو وہ بھی پسند کر لیتی پر مشکل یہ تھی کہ لڑکی ڈھنگ کی مسلمان بھی نہیں تھی اور بڑھاپے میں ادھر میوں کی سنگت کے خیال ہی سے اس کی روح کانپنے لگتی۔

ٹھنڈی نے چائے کے لیے بہو کو آواز دی اور مجھ سے کہا:

’’مسلمان تو خیر بڑی چیز ہوتا ہے رام کا نام لے کے ہم نے مسلمان دیکھے ہیں ۔ اب تو ڈھنگ کا آدمی ہی پیدا نہیں ہوتا!‘‘

ٹھنڈی کی بہو نے آ کر مجھے ہلو کہا اور ذرا توقف کے بعد انکل کا اضافہ بھی کر دیا۔ پھر اس نے خبر دی کہ ڈرائیور ہوٹل گیا ہے۔ ذرا سی دیر میں میرا سامان لے کر آ جائے گا۔ اس نے مجھ سے میرے خورد و نوش کے معمولات دریافت کئے۔ یہ بھی پوچھا کہ گڈ فاربڈ ذیابیطس یا دل کے مرض جیسے کسی عارضے کی وجہ سے پرہیزی کھانا تو نہیں کھاتا۔ میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کے لب و لہجہ اور ناک نقشے نے مجھے میری بیٹی کی یاد دلا دی تھی۔ اب یہ کہنا تو مشکل ہے کہ میری بیٹی اور ٹھنڈی کی بہو میں واقعی بڑی مشابہت تھی یا میرے اندر کسی جذبے نے اپنے طور پر دونوں کو ایک روپ میں ڈھال لیا تھا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ڈھونڈنے سے مجھے دونوں کے چہرے مہرے اور رنگ ڈھنگ میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آ رہا تھا، سوائے اس کے کہ میری بیٹی نے جس بوائے فرینڈ سے شادی کی ہے وہ اتفاق سے مسلمان ہے!

میں نے ٹھنڈی کی بہو سے کہا کہ وہ میرے لیے کوئی خاص زحمت نہ اٹھائے بس اس بات کا خیال رکھے کہ میں ذیابطیس کا مریض ہوں ۔ اس پر اس نے اطمینان کا سانس لیا اور یہ کہتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی کہ ہمارے یہاں ویسے بھی شکر استعمال نہیں کی جاتی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ٹھنڈی کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنے ڈاے بے ٹِک ہونے یا نہ ہونے کے تعلق سے کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھا اور مجھے یہ مناسب نہیں معلوم ہوا کہ میں اسے اس تعلق سے کچھ کہنے پر مجبور کروں ۔ دراصل اپنی بیوی کو یاد کر کے ٹھنڈی بہت جذباتی ہو گیا تھا۔

’’آج جیسے تو اتفاق سے مجھے مل گیا ویسے ہی چار چھ مہینے پہلے مل جاتا تو کتنا اچھا ہوتا!‘‘

’’کیوں !‘‘

’’میں تجھے ارون کی ماں سے ملواتا۔ وہ بیچاری کسی ڈھنگ کے مسلمان سے ملنے کی حسرت اپنے ساتھ لے گئی۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اس کی یہ حسرت پوری ہو جاتی تو رام کا نام لے کے وہ کچھ برس اور جی لیتی‘‘

میں نے خوش طبعی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا:

’’مجھ سے مل کر کسی کی حسرت کیا پوری ہوتی۔ میں تو بڑا بے ڈھب آدمی ہوں ۔ تو یہ بتا تجھے اتنے بڑے شہر میں ایک مسلمان نہیں ملا؟‘‘

’’مل جاتا تو بات ہی کیا تھی!‘‘

’’اور یہ جو تیرے پڑوس کے محلے میں مسجد ہے…؟‘‘

’’مسجد تو ہے، میں وہاں گیا بھی تھا۔ مسجد کے دروازے ہی پر ’’بحکم اراکین مسجد ہٰذا‘‘ رام کا نام لے کے ایک ’’اہم اعلان ‘‘ ٹنگا ہوا دیکھا۔

’’نمازی حضرات کو معلوم ہو کہ اس مسجد کے اراکین ، امام، موذّن اہلسنت جماعت ہیں اور حنفی مسلک پر ہی نماز ادا کی جاتی ہے جو عین قرآن اور حدیث کے مطابق ہے۔ لہٰذا ان حضرات سے ادب کے ساتھ عرض ہے جو لوگ آمین بلند آواز سے کہتے ہیں اور تکبیر سے پہلے یا شروع ہوتے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں ، وہ مسلک حنفی کے خلاف ورزی کر کے فتنہ پیدا نہ کریں ورنہ اس کی ذمہ داری انہی کے سر ہو گی۔‘‘

ٹھنڈی نے مجھے بتایا کہ یہ اعلان پڑھنے کے بعد اندر جانے یا باہر ہی کسی سے بات کرنے کی ہمت وہ نہیں جٹا پایا۔ جہاں مسلک کے فرق سے فتنے اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں وہاں مذہب کا فرق جو نہ کرے وہ کم ہے ! اور پھر ٹھنڈی ڈرا ہوا بھی تھا۔ دسمبر اور اس کے بعد جنوری کے فساد کی ہولناکیاں اس کے حواس پر چھائی ہوئی تھیں … پولس کی مدد بلکہ اس کی سرپرستی میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تھا اور فساد کے بعد ٹھنڈی جیسے بے قصور اور معصوم ہندو مسلمانوں کے محلوں سے گذرنے سے کتراتے تھے۔ بہ حالت مجبوری اگر ان کا وہاں سے گذر ہوتا تو ندامت کے بوجھ سے ان کی گردنیں جھکی ہوئی ہوتی تھیں اور دل میں یہ دھڑکا بھی لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی شہد اگلی میں کھینچ کر کام ہی تمام نہ کر دے۔

ٹھنڈی وہاں سے الٹے پیروں لوٹ آیا۔ اس علاقے میں ذرا فاصلے پر ایک مسجد اور ہے۔ ناکے سے بائیں مڑ کر بیس قدم چلیں تو مارکیٹ کے سامنے کی گلی میں پڑتی ہے۔ عصر اور مغرب کے بیچ کا وقت تھا ۔ عصر کے نمازی جا چکے تھے۔ مغرب کے نمازی ابھی آئے نہیں تھے۔ ٹھنڈی نے باہر ہی سے بغور جائزہ لیا۔ اراکین مسجد کے حق میں دل سے دعا نکلی کہ انہوں نے دروازے پر کوئی بورڈ نہیں ٹانگ رکھا تھا۔ ٹھنڈی نے سر پر رومال باندھا اور رام کا نام لے کر مسجد میں قدم رکھا۔

اندر دائیں جانب کونے میں ایک باریش شخص چند نوجوانوں کو دین کے ارکان یاد کروا رہا تھا۔ لڑکوں سے فارغ ہو کر وہ ٹھنڈی کی طرف متوجہ ہوا ۔ ٹھنڈی کے سلام کا جواب دے کر اس نے مصافحہ کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ٹھنڈی نے اپنا تعارف پیش کیا۔ نام سن کر باریش شخص اس کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے پیش آیا۔ وہیں مسجد کے دائیں کونے میں پنکھے کے نیچے بیٹھ کر دونوں باتیں کرنے لگے۔ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت پر ایک دوسرے کو پُرسہ دیا۔ سماج میں پھیل رہی لا مذہبیت پر تنقید کی۔ جب یہ سب ہو چکا تو ٹھنڈی نے بڑی امید کے ساتھ اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔

ٹھنڈی نے اس سے کہا کہ بھائی ہم نہ مسلمان ہیں ،نہ حسینی برہمن لیکن ہم لوگ حضرت امام حسین کے پشتینی عقیدت مند ہیں ۔ آج عاشورے کا دن ہے۔ میرے گھر میں میٹھا پکا ہے۔ میں کسی دیندار مسلمان کی تلاش میں ہوں کہ اس سے فاتحہ پڑھواؤں ۔ اگر آپ میری مدد کریں تو بڑی مہربانی ہو گی۔

اس شخص نے ٹھنڈی کی مدد نہیں کی۔ فاتحہ کا نام سن کر اس کی گرمجوشی کی جگہ سردمہری نے لے لی۔ ٹھنڈی تاڑ گیا کہ یہ مسجد ان مسلمانوں کی ہے جن کی وجہ سے اب گاؤں میں تعزیے نہیں رکھے جاتے اور نہ ہی محرم کا جلوس نکلتا ہے۔ نشان کی مسجد اب صرف نام ہی کی نشان کی مسجد رہ گئی ہے۔ مسجد کے جس کمرے میں ضریح اور علم رکھے جاتے تھے پچھلے دس برسوں سے اس کے دروازے پر ایک بڑا سا تالا جھول رہا ہے۔ ٹھنڈی کے اس انکشاف نے میرا کلیجہ چھلنی کر دیا کہ چاچا بلائیتی رام پر دل کا دور ہ اور اس دروازے پر تالا دونوں ایک ساتھ پڑے تھے!

ٹھنڈی کے والد بلائیتی رام ولد سالگرام کی گاؤں میں نون مرچ کی دکان تھی۔ دکانداری کے ساتھ تھوڑی بہت ساہوکاری بھی کر لیا کرتے تھے۔ کاروباری حس بہت تیز تھی اور خوش مزاج بھی بہت تھے۔ بدیسی مال کے بائیکاٹ کے دنوں میں وہ اپنے نام کی وجہ سے اچھا خاصہ مذاق بن کر رہ گئے تھے۔ یار دوست تو یار دوست، گاؤں کے بچوں تک نہ انہیں نہیں بخشا تھا۔ پہلے کوئی انہیں چا چا جی بلاتا تو کوئی چاچا بلائیتی رام۔ لیکن اب وہ ہر ایک کے لیے بلائیتی چا چا ہو گئے تھے۔ جب کوئی لونڈا انہیں بلائیتی چا جا بلاتا تو وہ چمک کر جواب دیتے بول دیسی بھتیجے!

اس خیال سے کہ کہیں اس ہنسی مذاق کا اثر ان کی دکانداری پر نہ پڑے ۔چا چا بلائیتی رام نے اپنی دکان پر جس پر پہلے کبھی کسی نے کوئی سائن بورڈ نہیں دیکھا تھا، ایک تختہ ٹانگ دیا اس تختے پر جلی حرفوں میں لکھا تھا ’’خالص اور صرف دیسی مال کی دکان۔ مالک فرزند سالگرام مرحوم‘‘

اب تو فرزند سالگرام مرحوم خود مرحوم ہو چکے ہیں ۔ ہوا یہ کہ سریو کے کنارے مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کی املاک لوٹنے یا جلانے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا۔ بعض جگہوں پر ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں ۔ ایسی کچھ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور کچھ کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے پائیں ۔ نشان کی مسجد کے مینار ایک ایسی ہی ناکام کوشش کے گواہ ہیں ۔

ہجوم نے چا چا بلائیتی رام سے بہت کہا کہ وہ ایک بے گناہ ہندو کی ہتیا کا پاپ اپنے سر لینا نہیں چاہتا لہٰذا وہ اس کے راستے سے ہٹ جائیں لیکن چا چا بلائیتی رام بس یہی کہتے رہے کہ میرے جیتے جی آپ لوگ نشان کی مسجد تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس تکرار میں خاصہ وقت نکل گیا۔ آخر کار مجبور ہو کر ان لوگوں نے چا چا بلائیتی رام کو روندتے ہوئے اپنی راہ بنائی۔

اس دوران مسلمانوں کو اتنا وقت ضرور مل گیا کہ وہ مسجد کے دفاع کے لیے صف آراء ہوسکیں ۔ ان کے مقابلے پر اتر آنے کی دیر تھی کہ ہجوم تتر بتر ہو گیا۔ اب ہجوم کی جگہ پولس نے لے لی۔ تربیت یافتہ پولس جوانوں نے لاٹھی اور بلّم بردار مسلمانوں پر وہ اندھا دھند گولیاں برسائیں کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ نمازیوں کا حوض خون سے بھر گیا اور شام کی شفق مسجد کے درو دیوار سے لپٹ کر رونے لگی!

بچے کھچے مسلمانوں کو پولس نے بلوہ کرنے اور بلائیتی رام ولد سالگرام کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا اور فائل قانونی کارروائی کے لیے آگے بڑھا دی۔ وہ تو کہیے کہ چاچا بلائیتی رام نے دس برس قبل ہی جب ان پر دل کا دورہ پڑا تھا ممبئی سے ٹھنڈی کو بلوا کر وصیت کر دی تھی ورنہ ان کی زندگی کے ساتھ سب کچھ ختم ہو گیا ہوتا۔ ٹھنڈی کو ان کا ایک ایک لفظ آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے کہا تھا:

’’بیٹا!ہم امام حسین کے غم کے امین ہیں ۔ یہ ہمارے پُرکھوں کی وراثت ہے۔ حضرت امام حسین کی عظمت پر مٹھی بھر لوگوں کا اجارہ نہیں ہوسکتا۔ اس غم کو سہارنے کے لیے پہاڑ جتنا بڑا کلیجہ چاہیے۔ ہر کسی کے بس کی یہ بات ہے بھی نہیں ۔ ایسے لوگوں کی حرکت کا کیا برا ماننا جو اس غم کی عظمت کو نہ سمجھ سکے۔ میں آخری سانس تک اپنے دھرم کا پالن کروں گا۔ میرے بعد مجھے یقین ہے تم اپنا پتر دھرم نبھاؤ گے لیکن ایک بات کی تاکید ضرور کرنا چاہوں گا۔ فاتحہ کے لیے کسی دیندار مسلمان ہی کو بلوانا۔ ذرا سا وقفہ دے کر انہوں نے کہا تھا، پریشان کیوں ہوتا ہے ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔‘‘

اس سال بمبئی میں عاشورہ جون کی آخری تاریخ یا جولائی کی پہلی کو پڑا تھا اور اس سے پہلے ۸ دسمبر کے روز ٹھنڈی گاؤں کے شمشان سے پھول چن کر لوٹا تھا۔ وہ یہ سوچ کر حیران رہ گیا کہ ان چھ مہینوں کے عرصے میں اتنا وقت گذر چکا تھا کہ دیندار مسلمان کی تلاش میں اسے خدا یاد آ گیا!

ٹھنڈی کی بیوی بڑی مذہبی عورت تھی۔ اس نے زندگی میں کبھی ٹھا کر جی کو بھوگ لگائے بغیر ایک دانہ منہ میں نہیں رکھا تھا۔ اسے اپنی سیوا اور شردّھا پر بڑا وشواس تھا۔ وہ نیاز کا برتن لیے تمام رات بیٹھی یہی مناتی رہی کہ ایشور چاہے اس کے پران لے لیں پر ایسا کچھ کریں کہ ہم اپنے اجداد کی روحوں کے سامنے شرمسار اور گنہگار ہونے سے بچ جائیں ۔ رات آنکھوں ہی میں کٹ گئی۔ برتن رکھا رہ گیا اور پڑوس کے محلے سے موذّن نے اذان دی!

چا چا بلائیتی رام نے کہا تھا ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے تو پھر ٹھنڈی کو دیندار مسلمان کیوں نہیں ملا؟ اب ٹھنڈی کس سے کہے کہ خدا کسی بھی جگہ مل سکتا ہے کیونکہ وہ ہر جگہ ہے لیکن دیندار مسلمان کا ہر جگہ پایا جانا شرط نہیں ، وہ تو وہیں ملے گا جہاں ہو گا۔ پتا نہیں اتنی بڑی دنیا میں وہ کہاں ہے؟

ٹھنڈی کے نزدیک بمبئی کچھ ایسا برا شہر نہیں لیکن وہاں کے مسلمان کو آسمان پر ڈھونڈنے سے چاند نہیں ملتا اور قمری مہینے کی تاریخیں رام کا نام لے کر بڑھتی جاتی ہیں ۔اس کا کہنا ہے کہ ایسے شہر سے کوئی کیا امید رکھے جو گزشتہ کئی برسوں سے ایک شرعی گواہ فراہم نہ کرسکا۔ کیا شہر میں ایک بھی ایسا شرع کا پابند مسلمان نہیں رہا جس کی بینائی سلامت ہو اور اگر ہے تو کیا وجہ ہے کہ بمبئی کے مسلمانوں کے نزدیک اس کی شہادت قابلِ قبول نہیں !

یہ نہیں کہ ٹھنڈی کے دوستوں میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔ بہت ہیں ۔ سب کے سب بڑی خوبیوں کے مالک ہیں اور تقریباً ہر ایک کے بارے میں وہ یقین ِ کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی زندگی میں عیدین کی نماز ناغہ نہیں کی لیکن مسلمان اور دیندار مسلمان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وہی فرق جو زمین اور آسمان میں ہے…یا  پھر… وہ فرق جو بصارت اور بصیرت میں ہے!

قصّہ مختصر یہ کہ اس عاشورے کے دن بمبئی میں وہ سب کچھ ہوا جو ہر سال ہوتا آیا ہے لیکن ٹھنڈی کے یہاں فاتحہ نہ ہوسکے۔ ٹھنڈی کی بیوی اس صدمے کو جھیل نہیں پائی اور دو چار مہینوں میں وہ غریب پرلوک سدھار گئی۔ ٹھنڈی بھی بجھ سا گیا۔ اس دن کے بعد ٹھنڈی کے گھر میں میٹھا نہیں پکا۔ میں نے ٹھنڈی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہاں کی شکر میں اب مٹھاس باقی نہیں رہی۔ مجھے یاد ہے، ٹھنڈی نے کہا تھا:

’’اب ہماری زندگی میں نہ رس ہے نہ جس، بس جیے جا رہے ہیں ۔ جی بھی کیا رہے ہیں بیٹھے تھوک نگل رہے ہیں ۔ جب شکر ہی سے مٹھاس نکل جائے تو زندگی میں کیا رہ جاتا ہے۔ تو میرا ایک کام کر وہاں مملکتِ خداداد میں اگر شکر جیسی شکر ملتی ہو تو ذرا سی میرے لیے بھیج دینا۔ مرنے کے بعد مجھے اپنے پُرکھوں کی روحوں کا سامنا کرنا ہے!‘‘

ٹھنڈی اپنے پُرکھوں کی روحوں کا جب سامنا کرے گا تب کرے گا۔ میں اس زندگی میں دوبارہ ٹھنڈی کا سامنا کرنے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتا۔ میں پاکستان کا شہری اور کراچی کا باشندہ ضرور ہوں لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں ذیابیطس کا پرانا مریض بھی ہوں ۔ مجھے شکر کا ذائقہ تک یاد نہیں رہا اور دوسرے جس چیز کو شکر قرار دیتے ہیں اسے شکر کے طور پر قبول کرنے میں مجھے تامل ہے یہ شہر جو روزانہ ٹنوں کے حساب سے شکر کھا جاتا ہے اگر واقعی شکر کھاتا رہا تو یوں دن رات زہر نہ اُگلتا ۔

کچھ دن ہوئے ناشتے کی میز پر سب جمع تھے۔ مسجد میں نمازیوں کو گولیوں سے بھون ڈالنے کے واقعے پر بحث ہو رہی تھی۔ میری بیوی، بیٹے، بہو حتیٰ کہ پوتے اور پوتی کے پاس بھی اس واقعے پر کہنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ رات میں نے دو ایک پیگ زیادہ ہی پی لیے تھے۔ کسلمندی سی چھائی ہوئی تھی اس لیے بڑی دیر تک خاموش بیٹھا سب کی سنتا رہا۔ یہاں تک کہ خود مجھے اپنا سکوت اکھرنے لگا۔ ابھی میں بحث میں حصہ لینے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ پتا نہیں کیسے میرے منہ سے نکل گیا’’ آپ لوگ نمازیوں کی شہادت کو رو رہے ہیں اب تو بمبئی میں جو ہو سو کم ہے‘‘ گھر والوں نے مجھے تقریباً پچکارتے ہوئے سمجھایا کہ یہ واقعہ کراچی کا ہے بمبئی کا نہیں اور پھر میں نے اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا’’کیا فرق پڑتا ہے بمبئی میں نہ ہوا کراچی میں ہو گیا۔ یہاں کے بھی تو کئی واقعے یہاں نہ ہو کر وہاں ہو چکے ہیں ۔‘‘

میری اس قسم کی بہکی بہکی باتوں کے گھر والے عادی ہو چکے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح بمبئی والے بمبئی کے اور کراچی والے کراچی کے عادی ہو گئے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

تعبیر

 

 

یوں تو شام جب ہوتی ہے، اکیلے دھرم پور میں نہیں ہوتی اور چوپال بھی ایک دھرم پور ہی میں نہیں ، لیکن شام کے وقت دھرم پور کی چوپال پر جمع لوگوں کے چہروں سے ٹپکتی بشاست اور آنکھوں سے چھلکتا سکون، صاف کہہ دیتا ہے کہ چاہے یہ لوگ منہ سے نہ کہیں ، اندر ہی اندر سب یہی سمجھتے ہیں کہ روز دوپہر ڈھلنے کے بعد اور دن ڈھلنے سے پہلے اگر شام کہیں اترتی ہے تو دھرم پور کی چوپال پر!

پتا نہیں یہ ذکر دھرم پور کی چوپال پر اتری کتنی پرانی شام کا ہے، ٹھیک ٹھیک نہیں کہا جا سکتا۔ کہیں لکھا ہوا تو ہے نہیں کہ بات کتنی پرانی ہے اس لیے ہر شخص اپنی سی کہتا ہے۔ کوئی دو ہزار برس بتاتا ہے تو کوئی ڈھائی ہزار برس۔ ہزار ڈیڑھ ہزار برس بتانے والے بھی مل جاتے ہیں ۔ سب سے کم اگر کسی نے بتایا ہے تو وہ ہے پانچ سو برس۔ اس لیے بلا پس و پیش یہ کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم پانچ سو برس قبل دھرم پور کی چوپال پر ایک شام اتری تھی، جس نے گاؤں والوں کو اچنبھے میں ڈال دیا تھا۔

ہوا یہ کہ دھرم پور کے چودھری دھرم پال اس شام جب چوپال پر آئے تو ان کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے۔ وہ، وہ چودھری دھرم پال نہیں تھے جنہیں گاؤں والے جانتے تھے۔ چودھری دھرم پال تو بڑے لیے دیے رہتے تھے۔ ہر کسی کو منہ نہیں لگاتے تھے۔ روز شام چوپال پر آتے ضرور تھے لیکن کچھ ایسے لاتعلق سے بیٹھے رہتے گویا وہ چوپال پر اوروں کے بیچ نہیں ، ندی کے کنارے اکیلے بیٹھے ہوں ۔ آدمی بڑے ملنسار تھے۔ حفظِ مراتب کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ غصے کے عالم میں بھی کبھی کسی کو سخت سست نہ کہتے۔ بس مسکرا کر رہ جاتے تھے۔ کم گوئی اور کم آمیزی نے انہیں دوسروں کے حق میں بے ضرر بنا دیا تھا۔ یار لوگوں نے انہیں اﷲ والے قسم کے آدمی مشہور کر دیا تھا اور وہ تھے بھی کچھ ویسے ہی۔ نہ کسی کے لینے میں رہتے نہ دینے میں ۔ سدا اپنی موج میں مست۔ اپنی ترنگ سے نکل کر کبھی کچھ کہتے تو ان کے دو ایک دوست تھے جو بات کو پا لیتے ورنہ دوسرے تو سوچتے ہی رہ جاتے کہ انہوں نے کیا کہا۔ مجذوب نہیں تھے لیکن مجذوبوں کی بہت سی باتیں ان کی فطرت میں داخل تھیں ۔ اس قدر بے ضرر اور ملنسار تھے کہ سب ان کی قدر کرتے تھے۔ گاؤں میں بڑی عزت تھی ان کی ۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے بھی ملاقات ہونے پر ان سے بات کرنے اور خیریت پوچھنے میں پہل کرتے اور وہ شیش جھکائے اس سعادت مندی سے جواب دیتے کہ معلوم ہو تا ان کی عمر ساٹھ کی نہیں سولہ کی ہے۔

اُس شام یہ ہوا کہ چوپال پر بیٹھ کر ندی کے کنارے ہونے والے دھرم پال پوری طرح چوپال پر آ گئے تھے۔ اس کی خبر وہاں جمع لوگوں کو اس وقت ہوئی جب اُنہوں نے پہلی مرتبہ دھرم پال کے منہ سے بارہ بٹے چھ سنا۔ یہ بارہ بٹے چھ ایک گالی تھی جو ان دنوں دھرم پور میں خوب چلتی تھی۔ یہ گالی دھرم پور کی اپنی تھی، اور صرف دھرم پور ہی میں چلتی تھی۔ اس لیے گاؤں والے موقع و محل کی مناسبت سے اسی ایک گالی کو ہر بار نئے معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ چونکہ باقی تمام گالیاں پاس پڑوس کے سبھی گاؤں والوں کی زبان کی نوک پر رہتی تھیں اس لیے دھر م پور والوں کے نزدیک وہ گالیاں اب گالیاں نہ رہیں ، گالیوں کی جھوٹن ہو گئی تھیں ۔ دھرم پور میں تو بارہ بٹے چھ چلتی تھی اور بڑی شان سے چلتی تھی۔ دھرم پور میں کسی کو کسی پر پیار آتا تو وہ اس کا بارہ بٹے چھ کر دیتا اور اگرکسی کو کسی پر غصہ آتا تو بھی چار و نا چار بارہ بٹے چھ ہی کرتا!

دھرم پور میں بارہ بٹے چھ کہنے کی حد تک رائج تھا۔ سچ مچ ایسا کبھی کسی نے کیا نہیں ۔ جس فیاضی کے ساتھ گاؤں میں اس کا چلن عام تھا اس رفتار سے اگر واقعی ہر ایک کا بارہ بٹے چھ ہو جاتا تو کشتوں کے پشتے لگ جاتے اور اس شام کی خنک ہوا کے لمس کو ہم تک پہنچانے کے لیے کوئی نہ بچتا۔

چودھری دھرم پال گاؤں میں اکیلے آدمی تھے جس کا کبھی کسی نے بارہ بٹے چھ نہیں کیا تھا اور نہ کبھی کسی کو انہوں نے اس لائق سمجھا تھا جب کبھی اس کا موقع آتا، جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، وہ مسکرا کر رہ جاتے اور سامنے والا اپنے آپ بارہ بٹے چھ ہو جاتا۔ لیکن آج تو عالم ہی دوسرا تھا ۔ مونی بابا، چودھری دھرم پال آج ہر ایک سے بات کر رہے تھے اور باتوں باتوں میں ہر ایک کا بارہ بٹے چھ کئے دے رہے تھے۔ پورا چوپال سانس روکے دم بخود تھا کہ کہاں مجذوب نما چودھری دھرم پال اور کہاں یہ لگاوٹ کی مٹھاس۔ اور تو کسی کی ہمت نہ ہوئی۔ قاضی نورالدین کی بات البتہ دوسری تھی ۔ انہوں نے پوچھا:

’’کیوں چودھری ! آج بہت خوش معلوم ہوتا ہے؟‘‘

چودھری تو ویسے ہی الٹ بانسی میں بات کرنے والا آدمی ! وہ صاف مکر گیا:

’’نہیں بالکل نہیں !‘‘

قاضی نے اسے چھیڑتے ہوئے پوچھا:

’’تو کیا بہت غمگین ہے آج؟‘‘

’’میں کس کا غم کھانے لگا؟ غمگین ہوں سسرے تم سب۔ تم سب کا بارہ بٹے چھ کرنے کو من کرتا ہے!‘‘

’’وہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں چودھری ۔ بھلا بتا تو خوشی کس بات کی ہے؟‘‘

’’کہہ جو دیا کہ کوئی خوشی ووشی نہیں ‘‘

’’چودھری تو مجھ سے نہیں چھپا سکتا۔ تیرا بچپن کا دوست ہوں ۔ چہرہ پڑ ھ لیتا ہوں تیرا‘‘

’’پڑھ لے چہرہ، سر تو مت کھا۔ بے کار کی خوشی مجھ پر لادے جا رہا ہے۔ میں کسی اور کا کروں یا نہ کرو ں تیرا بارہ بٹے چھ ضرور کروں گا۔‘‘

’’کر لینا چودھری لیکن سچ بتا تو خوش نہیں ؟‘‘

’’نہیں !‘‘

’’بالکل نہیں ؟‘‘

’’بالکل نہیں !‘‘

’’تیری پرانی عادت ہے۔ بے بات کی بات کو الجھاتا ہے۔ لیکن تو مجھے الجھا نہ پائے گا۔ آج میں نے تجھے مسجد کے دیے میں تیل ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

’’یہ کونسی نئی بات ہے۔ وہ تو میں روز ہی ڈالتا ہوں ۔‘‘

’’لیکن چودھری آج تو نے تیل نہیں گھی ڈالا ہے۔ تبھی تو کہہ رہا ہوں کہ تو سسرا خوش ضرور ہے!‘‘

مسجد سے دھرم پال کے رشتے کو پورا گاؤں جانتا تھا۔ پورے گاؤں کو معلوم تھا کہ چودھری کی ماں کے یہاں اولاد گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ نہ جیتی تھی۔ وہ غریب بیسیوں ٹونے ٹوٹکے کر چکی تھی لیکن ہر بار یہی ہوا کہ اس نے بچے کو جنم دیا اور اس کی گود بانجھ رہ گئی۔ چھٹی بار جب وہ امید اور دھڑکے کے بیچ ڈولنے لگی تو اس نے منت مانی کہ اب کے یہ جی جائے تو وہ روز سانجھ کے سمئے محلے کی مسجد کے آنگن کو بُہارے گی اور چوکھٹ پر ایک دیا روشن کرے گی۔ ایشور نے چاہا تو وہ دن بھی آئے گا جب وہ بہو بیاہ کر لائے گی۔ اس دن مسجد کی چوکھٹ کے دیے کو اس کا بیٹا اندر لے جا کر محراب میں رکھے گا اور پھر سدا کے لیے اس پوتر استھان کی سیوا کا سمان اس کا ہو جائے گا!

اس دوران دھرم پال کے بیاہ کو چالیس سال تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ ان چالیس برسوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں آیا کہ دھرم پال نے مسجد کے صحن کی جاروب کشی نہ کی ہو اور اندر محراب میں دیا روشن نہ کیا ہو۔ ادھر عصر کی نماز کے لیے صفیں درست ہونے لگتی ہیں اور وہاں دھرم پال اپنا پیلا صافہ باندھے مسجد کے صحن میں داخل ہوتا ہے۔ وضو کے پانی سے منہ ہاتھ دھوتا ہے۔ پیروں کو خوب رگڑ رگڑ کر صاف کرتا ہے۔ جب اسے پوری طرح اطمینان ہو جاتا ہے تو اندر جا کر ساتھ لائی ہوئی تیل کی کٹوری محراب کے دیے میں خالی کرتا ہے اور دیکھتے دیکھتے دیے کی لو نور بن کر مسجد کے درو دیوار سے ٹپکنے لگتی ہے!

دھرم پال الٹے پیروں باہر آتا ہے۔ مسجد کی سیڑھیوں پر اور صحن میں جابجا بکھری ہوئی نمازیوں کی جوتیوں اور چپلوں کو سمیٹ کر سلیقے سے ایک جگہ رکھتا ہے اور صحن صاف کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے شہتوت کے پیڑ کے نیچے رکھے بڑے پتھر پر ٹِک جاتا ہے۔

کچھ دیر میں امام صاحب سلام پھیرتے ہیں ۔ دعا اور مناجات کے بعد ایک ایک کر کے نمازی باہر نکلتے ہیں ۔ اپنی اپنی چپلیں پیروں میں اڑا کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ شہتوت کے پیڑ کے نیچے بیٹھا دھر م پال ہر نمازی کے سلام کا فرداً فرداً جواب دیتا ہے۔ لڑکے بالے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومتے ہیں اور وہ ان پر اپنی دعائیں برساتا ہے۔

قاضی نور الدّین بھی اس کے ساتھ آخری نمازی کے جانے کا انتظار کرتا ہے۔ تمام نمازی جا چکتے ہیں تو امام صاحب باہر نکلتے ہیں ۔ دھرم پال آگے بڑھ کر انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا ہے اور پھر قاضی کے ہمراہ چوپال کا رخ کرتا ہے، جہاں قاضی گاؤں والوں کے ساتھ کچھ وقت گزارتا ہے اور دھرم پال حسبِ معمول خود اپنے ساتھ!

چوپال پر جب دھرم پال اپنے ساتھ گذارنے کا وقت گذار چکتا ہے تو سورج دھیرے دھیرے پچھم کی اور بڑھنے لگتا ہے۔ جیسے جیسے وہ پچھم کی طرف گہرا اترتا ہے، پورب سے ابھرتی اس کی سرخی سرمئی ہونے لگتی ہے۔ اس وقت دھرم پال قاضی کا ہاتھ پکڑ کر محلے کی طرف چل دیتا ہے کہ یہ مغرب کی نماز اور سندھیا کی عبادت کا وقت ہے!

دھرم پال کو بے بات کی بات کو الجھانے کا شوق نہیں تھا۔ یہ اس کی عادت بھی نہیں تھی۔ اصل معاملہ ترنگوں کا تھا۔ وہ الجھ جاتی تھیں ۔ دھرم پال تو خیر اپنے میں مگن رہتا گاؤں والے البتہ پریشان ہو جاتے تھے۔ جب کبھی ایسا ہوتا اور اکثر ایسا ہی ہوتا ، وہ چپ سادھ لیا کرتا تھا۔ اب بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا کہ قاضی نے مسجد کے دیے میں گھی ڈالنے والی بات کہی اور الجھن جاتی رہی۔ چودھری نے اقرار کر لیا کہ آج وہ واقعی بڑا خوش ہے۔ وجہ پوچھنے پر اس نے بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ گاؤں والے پوچھ پوچھ کر ہار گئے لیکن چودھری ٹس سے مس نہ ہوا۔ قاضی ، چودھری کا مزاج شناس تھا۔ اس نے کہا:

’’چودھری وجہ نہیں بتاتا ، نہ بتا لیکن نہ بتانے کا کارن تو بتا؟‘‘

’’بھیا ! کارن بس اتنا ہے کہ ابھی بتانے کا حکم نہیں ہے‘‘

پورا دھرم پور سمجھدار لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ سب کے سب شردّھا اور آستھا والے تھے۔ انہیں اس بات کا پور ا احساس تھا کہ اﷲ والے قسم کے لوگوں سے کچھ باتیں نہیں پوچھی جاتیں ۔ اس لیے گاؤں میں آج تک کسی نے دھرم پال سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کس کے حکم کی بات کرتا ہے۔ ہر بار یہی ہوا کہ جب کبھی دھرم پال نے حکم کی بات کہی سب خاموش ہو گئے ہیں ۔ سبھوں نے من ہی من اسے نمسکار کیا ہے اور اپنی راہ لی ہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک ایک کر کے چوپال خالی ہوتا جا رہا تھا کہ قاضی نور الدّین نے دھیرے سے اس سے پوچھا:

’’چودھری یہ بتا حکم کب کا ہے؟‘‘ چودھری نے اسی لہجے میں جواب دیا:

’’آج رات کا !‘‘

عشاء کی نماز کے بعد قاضی نورالدّین نے رات کے پہلے پہر کے بیتنے کا انتظار کیا۔ چودھری کے یہاں جانے کے لیے جب وہ باہر نکلا ہے تو چاندنی پوری طرح کھیت کر چکی تھی۔ چڑھتے چاند کی آخری تاریخیں تھیں ۔ ایک دُو دھیا چادر رات کی سیاہی پرتان دی گئی تھی اور رات کے اسرار تھے کہ اس چادر سے چھن رہے تھے۔ گاؤں پر چاندنی نہیں پر اسرار خوشگواری برس رہی تھی!

ویسے تو ہر رات خود ایک پہیلی ہوتی ہے اور اس میں کہی جانے والی ہر بات پہیلی بن جاتی ہے۔ لیکن قاضی کا تجربہ یہ رہا ہے کہ خوشگوار پر اسراریت سے بھر پور رات پہیلیوں کی نہیں بستارکی رات ہوتی ہے۔ ایسی ہی راتیں ہوا کرتی ہیں جب بے بات کی بات کو الجھانے والے دھرم پال کی خموشی دھیرے دھیرے لفظوں میں ڈھلنے لگتی ہے اور جب اس کی آوازرس بن کر کانوں میں ٹپکتی ہے تو قاضی نور الدّین سوچنے لگتا ہے کہ اس آدمی پر ضرور کسی ولی کا سایہ ہے یا اس کی کایا میں کسی مہان رشی کی آتما کا باس ہے۔

چودھری اور قاضی دونوں ندی کے کنارے اس اونچے ٹیلے پر بیٹھے تھے جس کی اونچائی ہمیشہ سے باڑھ کے پانی کی لہروں سے بھی اونچی رہی ہے۔ کہتے ہیں صدیوں پہلے کسی سادھو نے دھونی رمانے کے لیے اس ٹیلے کا انتخاب کیا تھا۔ برسوں کی سادھنا کے بعد جب اس کی تپسیا پوری ہوئی اور اس نے مسکراتی نظروں سے اپنے اطراف پھیلی ہوئی سر شٹی کو دیکھا تو اس کے من میں یہ خیال آئے بغیر نہ رہ سکا کہ دور تک پھیلی اس کھلی زمیں پر سب کچھ ہے لیکن جیون پھر بھی ادھورا ہے۔ پر ماتما نے چاہا تو یہاں ایک گاؤں ضرور آباد ہو گا۔ دھرم پور اس انام سادھو کی نش کام اِچھّا کا پہلا پھل ہے۔ دھرم پور والے اس سادھو کی عظمت اور بزرگی کے احترام میں اس ٹیلے کو آج بھی بڑا ٹیلہ کہتے ہیں ۔حالاں کہ گاؤں کے دوسرے حصے میں اس سے کہیں بڑے ٹیلے پائے جاتے ہیں ۔ پرانی پوتھیوں میں گاؤں کا نام آج بھی ٹیلہ دھرم پور لکھا ملتا ہے، اسے بڑے بوڑھے بھولے نہیں ہیں : نئی پیڑھی کی بات البتہ دوسری ہے!

قاضی نے چودھری سے پوچھا:

’’چودھری بول بات کیا ہے؟‘‘

’’بات یہ ہے قاضی کہ مجھے درشن ہوئے ہیں ۔‘‘

’’مبارک ہو چودھری۔ میں جانتا تھا کہ تجھے ایک دن ضرور…‘‘

’’لیکن قاضی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ مجھے… میں نے تو کہہ دیا بھگوان سے کہ میں پاپی آدمی ہوں ۔ مجھ میں ایسا کوئی گن نہیں جس کے برتے پر میں کوئی مہاتماؤں والی بات سوچ سکوں ۔‘‘

’’لیکن چودھری یہ کب کی بات ہے؟ کل رات کی ؟‘‘

’’اور نہیں تو کیا پارسال کی ؟ میں سویا تھا۔ آنکھ لگے کچھ دیر ہوئی ہو گی۔ دیکھتا کیا ہوں کہ سامنے بھگوان کھڑے ہیں ۔‘‘

’’کچھ کہا انہوں نے ؟‘‘

کہہ رہے تھے وہ مجھ سے بڑے خوش ہیں اور کہہ رہے تھے… اب میں کیسے کہوں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے سیوا ویوا کچھ نہیں کی لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ میری سیوا سے وہ بڑے خوش ہیں ۔‘‘

’’سیوا تو تو کر رہا ہے چودھری!‘‘

’’کیسی سیوا قاضی ؟‘‘

’’چالیس برسوں سے دیکھ رہا ہوں کبھی مسجد میں اندھیرا …‘‘

چودھری نے قاضی کی بات کاٹی:

’’قاضی یہ تو نیم دھرم کی بات ہے اس میں سیوا کہاں سے ہو گئی؟‘‘

’’تو باؤلا ہے۔ آگے بول۔‘‘

’’آگے کیا بولوں ۔ بھگوان نے کہا وہ میری کوئی ایک اچھا پوری کریں گے‘‘

’’تو!‘‘

’’تو کیا ۔ میری تو ایک بھی اچھا نہیں ۔ وہ کیسے پوری کرتے‘‘

’’پھر…‘‘

’’پھر مجھے یاد آیا کہ ایک اچھا میرے باپو کی پوری نہ ہوسکی…‘‘

’’وہ مندر والی؟‘‘

’’ہاں !میں بھگوان سے باپو کی اِچھّا کہنے ہی والا تھا کہ وہ بولے تیرے پتا کی اِچھّا تو پوری کر۔ یہاں اس ٹیلے پر میرا مندر بنا۔ قاضی! میں نے چونک کر دیکھا تو میں اس ٹیلے پر کھڑا تھا۔ پلٹ کر بھگوان کی طرف دیکھا تو وہ جا چکے تھے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی‘‘

دھرم پال کے والد چودھری یشپال صرف گاؤں ہی کے نہیں پوری تحصیل کے بڑے زمیندار تھے اور ٹھاٹ دار رئیس تھے۔ زمینداروں والی کوئی لت ان میں نہیں پائی جاتی تھی اس لیے ٹھسے سے زندگی بتانے کے بعد بھی اتنا کچھ چھوڑ گئے کہ ان کی آنے والی سات پشتیں بیٹھی کھاتی رہیں اور پھر بھی ختم نہ ہو۔ خدا ترس انسان تھے۔ پرائی پیڑ کو اپنی جانتے تھے اور اپنی حیثیت اور مرتبے کو پچھلے جنم کے کرموں کا پھل سمجھتے تھے۔ وہ ایک گھنے برگد کی چھاؤں کی طرح دھرم پور پر چھائے ہوئے تھے ۔ دھرم پور کو بھی یہ چھاؤں خوب راس آئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی پہچان بن گئے تھے۔ تحصیل میں جب کبھی جاتے، اپنا نام کبھی نہ لیتے۔ بس اتنا کہتے کہ ہم دھرم پور سے آئے ہیں اور تحصیل میں دھرم پور چودھری یشپال والا دھرم پور کہلاتا تھا۔

مزاج کے بڑے سخت تھے اور اپنی بات کو اپنی آن سمجھ کر نبھاتے تھے۔ اپنے فیصلوں اور نج کے معاملات میں کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتے تھے۔ چودھرائن تک کو یہ آزادی حاصل نہیں تھی۔ ویسے گھر میں چودھرائن کا بڑا مان تھا۔ وہ بڑی نیک اور پارسا بی بی تھیں ۔ ان کے میکے مادھوپور میں بچپن سے ان کی تربیت مذہبی ماحول میں بڑے سلجھے ہوئے ڈھنگ سے ہوئی تھی ۔

مادھو پور والوں کی کرشن بھکتی کا رنگ بڑا گہرا تھا۔ دور دور تک مادھو پور کی جنما شٹمی مشہور تھی۔ جس دھوم سے وہاں کرشن لیلا ہوتی وہ تو بس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ بھگوان کرشن کی جیون گا تھا وہاں کے بچوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ گاؤں کی اور لڑکیوں کی طرح چودھرائن بھی بچپن ہی سے سری کرشن کی پرم بھکت تھیں ۔ فرق یہ تھا کہ دوسری لڑکیوں کی آئیڈیل میرا بائی یا رادھا تھیں تو ان کے آئیڈیل گو سائیں تلسی داس تھے۔ کم عمری ہی میں تلسی داس کے جیون کی ایک گھٹنا ان کے دل پر نقش ہو گئی تھی۔

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ تلسی داس کچھ بھکتوں کے ساتھ بھگوان وشنو کے مندر میں گیے۔ سبھوں نے شیش نو اکر پر نام کیا لیکن تلسی داس جیسے تنے کھڑے تھے ویسے ہی کھڑے رہے۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:

’’پرنام تو میں بھی کرتا لیکن ان کے ہاتھ میں دھنش نہیں ہے۔‘‘

بھکتوں نے کہا:

’’گوسائیں ! یہ پرتیما سوئم بھگوان وشنو کی ہے۔ دھنش تو ان کے اوتاری روپ کا آبھوشن ہے۔‘‘

گو سائیں بولے:

’’جو بھی ہو۔ رام کا بھکت کسی اور کے سامنے جھکنے سے رہا۔ وہ وشنو کے سامنے بھی تبھی جھکے گا جب اس کے ہاتھ میں دھنش ہو گا۔‘‘

بھکتوں نے سمجھایا:

’’گوسائیں ! آپ گیانی ہو کر اپ شبد بول رہے ہیں ۔ جان پڑتا ہے گیان کا بڑا گمان ہے آپ کو!‘‘

گو سائیں پھر بھی اڈگ رہے۔ انہوں نے کہا۔

’’بھکت کو کیسا گمان اور کس کا گمان! میں تو بھکت ماتر ہوں ‘‘

اس پر کسی نے بڑے ہی تیکھے سُور میں کہا:

’’معلوم ہوتا ہے آپ کو اپنی بھکتی ہی کا گمان ہو گیا ہے‘‘

اب کے گو سائیں خاموش رہے۔ گیان اور بھگتی کے گمان میں الجھنے والے بھکتی کی آن کو کیا سمجھتے۔ جتنی گہری پینٹھ ہوتی ہے اتنی گہری بات آدمی سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے ہر بات ہر آدمی کو سمجھائی نہیں جاتی۔

گو سائیں ایک ٹک لگائے بھگوان وِشنو کی مورت کو دیکھتے رہے اور وہ سب پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی گو سائیں کی طرف دیکھتے تو کبھی بھگوان وِشنو کی مورتی کی اور۔ ذرا سی دیر میں ان کو لگا کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔ وہ گو سائیں کو اکیلا اندر چھوڑ کر باہر جانے کے لیے پلٹنے ہی والے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ بھگوان کی مورتی کی جگہ سوئم بھگوان پر کٹ ہوئے ہیں ۔ ان کے ایک ہاتھ میں دھنش بھی تھا اور وہ مسکرا رہے تھے۔ ساکشات بھگوان کو دیکھ کر ان پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی وہ سوچتے ہی رہ گئے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ۔ اتنی دیر میں گو سائیں نے شیش نوا کر پر نام کیا ور آشیر واد دے کر باہر نکل آئے۔

بچپن ہی سے چودھرائن خود کو کرشن کا ویسا ہی بھگت سمجھتی آئی تھیں جیسے گو سائیں تلسی داس بھگوان رام کے تھے۔ اس لیے جب شادی کے دو ایک برس بعد ہی چودھری یشپال نے گاؤں میں وِشنو کے اوتار شری رام چند رجی کا مندر بنانے کا ڈول ڈالا تو چودھرائن سوچنے لگیں کہ سیاپتی کا ایک مندر تو ویسے ہی پہلے سے گاؤں میں ہے کیوں نہ ان سے کہہ کر کرشن بھگوان کا مندر بنوایا جائے۔

چودھرائن نے ایک دن خوب جتن کر کے چودھری کو گھیرا اور باتوں باتوں میں اپنے من کی بات کہہ دی۔ چودھری نے اوں ہاں کر کے بات ٹالنے کی کوشش کی تو چودھرائن بڑے تیہے سے بولیں ۔

’’دیکھو جی مندر سیاپتی کا نہیں برج بہاری کا بنے گا۔ میں کہے دیتی ہوں ۔ ہاں !‘‘

اس پر چودھری آپے سے باہر ہو گئے اور برس پڑے:

’’بے وقوف عورت! اتنی دیر سے سن رہا ہوں ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ سیاپتی کا مندر نہیں بنے گا۔ کیا تیرے کہنے سے میں دوسرا مندر نہ بنواتا جو یہ کہتی ہے کہ برج بہاری ہی کا مندر بنے گا۔‘‘

چودھری کی بات تو ٹھیک تھی۔ چودھرائن یہ بھی کہہ سکتی تھیں کہ ایک مندر برج بہاری کا بھی بنوا دو۔ چودھرائن یوں کہتی تو وہ ایک نہیں دس مندر بنوا دیتے لیکن اب تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب نہ تو سیاپتی کا مندر بنے گا اور نہ ہی مور مکٹ دھار ی برج بہار ی کا!

اس واقعے کے بعد ہی یہ ہوا کہ ان کے یہاں جا پے تو ہوئے لیکن نام کرن کی شبھ گھڑی نہ آسکی۔ چودھرائن نے ہر بار منتیں مانی، ہر بار ٹونے ٹوٹکے کئے لیکن مراد بر نہ آئی۔ برادری میں عورتیں باتیں کرنے لگیں ۔ بڑی بوڑھیوں نے سمجھایا کہ کسی طرح چودھری کو منانا بہت ضروری ہے ۔ اگر دونوں مندر نہ بنے تو کل کا نام آگے نہیں بڑھے گا۔ چودھرائن نے چودھری کے سامنے بڑی عاجزی کی لیکن چودھری آخر چودھری تھے۔ انہیں نہ مانناتھا اور نہ وہ مانے ۔ تھک ہار کر چودھرائن نے سوچا کہ چودھری نہیں مانتے تو نہ مانیں ۔ بھگوان ہی کو کسی طرح راضی کر لیا جائے۔ حالانکہ وہ بھگوان کو راضی کرنے کے سارے جتن کر چکی تھیں ۔ جس جس نے جو کہا انہوں نے وہ کیا تھا۔ اس کے باوجود انہیں یقین تھا کہ بھگوان اتنے کٹھور نہیں ہوسکتے جتنے چودھری ہیں ۔ چونکہ اور سب تو وہ پہلے ہی آزما چکی تھیں اس لیے اب کی بار انہوں نے ایک انوکھی ترکیب سوچی ۔ یہ موقع اس ترکیب کو دہرانے کا نہیں ۔ ہاں ! اتنا کہا جا سکتا ہے کہ چودھرائن نے آخر بھگوان کو راضی کر لیا، جس کا جیتا جاگتا ثبوت چودھری دھرم پال ہے جو آج بڑے ٹیلے پر بیٹھا قاضی نور الدّین کو اپنا خواب سنا رہا ہے۔ ایک ایسا خواب جس پر ہر حقیقت قربان کی جا سکتی ہے!

’’اچھا یہ بتا بھگوان کس روپ میں آئے تھے؟‘‘

’’یعنی؟‘‘

’’یعنی یہ کہ وہ دھنش دھاری روپ میں تھے یا مور مکٹ…

’’تو اوتار کی پوچھ رہا ہے؟‘‘

’’ہاں !‘‘

’’اور میں سوئم بھگوان کی کہہ رہا ہوں ‘‘

’’توسوئم بھگوان آئے تھے؟‘‘

’’اور نہیں تو کیا؟‘‘

’’لیکن کس روپ میں ؟‘‘

’’پھر وہی روپ۔ قاضی تجھے عقل کب آئے گی؟‘‘

’’چودھری میں مورکھ ہوں تبھی تو پوچھ رہا ہوں ۔ یہ بتا بھگوان دکھنے میں کیسے تھے؟‘‘

’’بھگوان جیسے تھے ویسے ہی تھے!‘‘

’’میرا مطلب ہے تو نے اتنے سارے مندر اور اتنی ساری مورتیاں دیکھی ہیں ، بھگوان کس مندر کی مورتی جیسے دِکھ رہے تھے؟‘‘

’’بھگوان بھی کہیں کسی مندر کی مورتی جیسے ہوتے ہیں ۔ مندر کی مورتی ہو گی بھگوان جیسی۔‘‘

’’چل تو ان کا ورنن کر دے۔ آگے ہم سمجھ لیں گے۔‘‘

’’ورنن لے کر کیا کرے گا؟‘‘

’’ارے مورکھ! جب ہم مندر بنائیں گے تو اس میں مورتی تو استھاپت کرنی ہو گی کہ نہیں ۔ تو ورنن نہیں کرے گا تو گاؤں والے کس کی مورتی کو استھا پت کریں گے؟‘‘

اب کہیں جا کر دھرم پال نے قاضی کے سوال کو سمجھا اور اس کی اہمیت اس پر آشکار ہوئی لیکن یہ وہ سوال تھا جس کا جواب دھرم پال کے پاس نہیں تھا۔

’’ورنن والی بات تو بھیا مجھ سے نہیں ہوسکتی۔ سب کچھ پوری طرح صاف نظر آ رہا تھا۔ لیکن پھر بھی سب کچھ دھندلا دھندلا سا تھا۔ بھگوان تھے تو بھگوان تھے۔ اس نظر سے میں تھوڑے ہی دیکھ رہا تھا کہ کل کو تجھے ورنن دینا پڑے گا؟‘‘

دوسرے دن گاؤں بھر میں مندر ہی کا چرچا رہا۔ جس نے بھی سنا ہاتھ کا کام روک دیا۔ ابھی دوپہر بھی نہیں ہوئی تھی کہ گاؤں کا سارا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ گاؤں والے ایسے کسی مندر کا تصور نہیں کرسکتے تھے جس میں کسی دیوتا کی مورتی اِستھا پت نہ کی جا سکے۔ سب فکر مند تھے کہ کہیں دھرم کے نام پر ادھر م تو نہیں ہو رہا ۔ سوال یہ تھا کہ مندر بنایا جائے یا نہیں ۔ ایسے مندر کو بنانے سے کیا فائدہ جس میں کوئی مورتی استھا پت نہ کی جا سکے!

شام کو گرام سبھا بلائی گئی۔ گاؤں کے معتبر و معزز لوگوں میں سے پنچ چنے گئے۔ پنچوں نے پہلے دھرم پال کی بات سنی۔ دھرم پال نے اپنے ڈھنگ سے اپنی بات کہی۔ بیچ بیچ میں قاضی نور الدین کو ترجمانی کے فرائض انجام دینے پڑے۔ ہر بار قاضی کی وضاحت کے بعد پنچ دھرم پال سے پوچھ لیتے کہ کیا اس نے وہی بات کہی تھی جو قاضی نے بیان کی اور دھرم پال ہاں کہہ کر اثبات میں گردن بھی ہلا دیتا تھا۔

پنچوں نے گاؤں والوں سے پوچھا کہ مندر بنانے یا نہ بنانے کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے اور یہ بھی کہ مندر میں مورتی اِستھاپت ہو گی یا نہیں اور اگر ہو گی تو کس کی ؟ اس مسئلے پروہ کیا کہتے ہیں ۔ گاؤ ں والوں نے ایک آواز ہو کر کہا کہ مندر بنے یا نہ بنے اس کا فیصلہ پنچ کریں اور فیصلہ کرتے وقت یہ خیال رہے کہ ادھرم نہ ہو۔ اسی طرح اگر مندر بنتا ہے تو اس میں مورتی اِستھا پت ہو گی یا نہیں ، ہو گی تو کس کی ہو گی یہ فیصلہ بھی پنچ کریں اور یہ خیال ضرور رکھیں کہ ادھر م نہ ہو۔

انہیں یقین تھا کہ بھگوان نہ کرے، اگر ادھر م ہوا تو گاؤں کا بارہ بٹے چھ ہو جائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سکھ شانتی اور سمر دھی کی آسمانی برکتیں گاؤں سے اٹھ جائیں گی۔ وہ جانتے تھے کہ دیوتاؤں کی کرپا اور کرودھ میں انتر بہت کم ہوتا ہے!

پنچوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد دوسرے دن شام تک سبھا بر خواست کر دی۔ دوسرے دن بھی گاؤں کا کاروبار ٹھپ رہا۔ کام میں کسی کا من ہی نہیں لگ رہا تھا۔ سب اسی فکر میں تھے کہ دیکھیں پنچ کیا فیصلہ سناتے ہیں ۔ شام سے پہلے ایک ایک کر کے سب چوپال پر جمع ہو گئے۔ عصر کی نماز کے بعد دھرم پال اور قاضی نورالدّین بھی آ گئے تو باقاعدہ سبھا کی کارروائی شروع ہوئی ۔

پنچوں نے متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دھرم پال کا پورا جیون دھرم کی سیوا میں بیتا ہے۔ ان کی راست گوئی اور نیک چلنی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ہستی کسی بھی گاؤں کے لیے خیرو برکت کا موجب ہوسکتی ہے۔ ان کو جو بشارت ہوئی ہے وہ پورے گاؤں کے لیے روحانی مژدے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس بشارت کا احترام کرتے ہوئے مندر کی تعمیر میں پورے گاؤں کو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ رہی بات مورتی استھا پت کرنے کی تو پنچ اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ بھگوان کے اَنیک روپ ہیں اور ہر روپ بھگوان کا ہے۔ اس لیے یہ غیر اہم بات ہے کہ کس مندر میں کس کی مورتی اِستھاپت کی گئی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھگوان کا ہر روپ کسی خاص صفت کا مظہر ہوتا ہے۔ بھگوان کا وہ روپ جس میں انہوں نے دھرم پال کو درشن دیئے، ایک ایسا روپ ہے جسے آج تک کسی نے مورتی میں نہیں ڈھالا ہے۔ بھگوان ہی جانیں وہ روپ کس صفت کا مظہر ہے۔ خود دھرم پال اس روپ کا ورنن نہیں کر پا رہے ہیں اس لیے ہم مندر بنا کراس کے پٹ کھلے چھوڑ دیں گے تاکہ جب اور جس روپ میں چاہیں بھگوان آئیں اور آ کر آسن کی شوبھا بڑھائیں !

کھلے کواڑ کے مندر کی شہرت اس کی تعمیر کی تکمیل سے قبل ہی دور دور تک پھیل گئی۔ مستریوں اور کاریگروں کا ہاتھ بٹانے کے لیے دھرم پور والے ہی کیا کم تھے کہ پاس پڑوس کے گاؤں والوں نے بھی آ کر اپنی خدمات پیش کیں ۔ سبھوں نے مل کر بڑی عقیدت کے ساتھ مندر بنانے میں دن رات ایک کر دیئے۔ جب مندر بن کر تیار ہوا تو پنچوں کے فیصلے کے مطابق کے اس کے کواڑ کھلے چھوڑ دیئے گئے!

پرسوں کا واقعہ ہونے تک تو یہ کواڑ کھلے ہی تھے اور سو، سوا سو برس پہلے تک یہاں برس کے بارہ مہینے جاترا لگی رہتی تھی۔ ہر جاتری کے من میں بھگوان کے کسی ایک روپ کی مورت بسی ہوتی ہے۔ اس مندر میں اس مورت کے پرتی بھکت کی نشٹھا اور شردّھا کی اپنے آپ پریکشا ہو جاتی تھی۔ ویسے بھگوان خود بھکتوں کی پریکشا لینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ دھرم پور کی چوپال پر جب پنچوں نے اپنا فیصلہ سنایا تو بھگوان کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس مندر میں وہ اپنے سچے بھکتوں کو اس روپ میں سا کشات درشن دیں گے جس کی انہوں نے شردّھا پوروک پوجا ار چنا کی ہو!

اچھے دنوں کا ذکر ہے اس لیے سچے بھکتوں کی کمی نہیں تھی۔ اس مندر میں بھکتوں کی شردّھا، پریکشا کے چھن کو وردان کے چھن سے بدل دیتی تھی۔ جس دیش میں بھگوان کے تینتیس کروڑ روپ پوجے جاتے ہوں وہاں ایک ہی جگہ ہر روپ میں بھگوان کے سا کشات درشن پانے کے وردان نے دھرم پور کو ایک مہان تیر تھ استھان بنا دیا۔ جب تک اچھے دن رہے، ہر پل کسی نہ کسی روپ میں وہاں بھگوان براجے ہوے ہوتے تھے۔

وقت گذرتا رہا۔ دھرم پور کی نئی حیثیت نے اسے بہت جلد ایک مہانگر  بنا دیا۔ اس کے مہانگر بنتے ہی دیس کی تمام اہم منڈیوں سے اس کا سیدھا رابطہ قائم ہو گیا اور پھر ذرا سی دیر میں خود دھرم پور ایک بڑی منڈی میں بدل گیا۔ دھرم پور دن دونی رات چوگنی ترقی کی راہوں پر بڑھتا چلا گیا۔ ایک مہان تیرتھ اِستھان اور دیس کی اہم بیوپاری منڈی کی دوہری حیثیت نے مل کر دھرم پور کے شب و روز ہی بدل دیے۔

دھرم پور اب پہلے والا دھرم پور نہیں رہا۔ بس اس کا نام رہ گیا۔ وہ کیف و سرور برسانے والی شامیں اب یہاں نہیں اترا کرتیں ۔ ہونے کو تو دن بھی ہوتا ہے اور رات بھی آتی ہے لیکن دن دن نہیں معلوم ہوتا ور رات رات نہیں جان پڑتی۔ یہ دونوں اب چاند اور سورج کا معمول بن کر رہ گئے ہیں ۔ دھرم پور کے حصے میں اگر کچھ آیا ہے تو وہ ہے دن کی سیاہی اور رات کی چکا چوند ۔ اندھیرے اجالے کی بازی پلٹ گئی ہے۔ سچی اور سیدھی بات یہ ہے کہ دھرم پور کے بارہ بٹے چھ ہونے کے پورے آثار رونما ہو چکے ہیں ۔

اور تو اور بارہ بٹے چھ بھی دھرم پور سے رخصت ہو چکا ہے۔ یہاں کے لونڈوں ہی کو نہیں بڑوں کو بھی بارہ بٹے چھ کی بجائے ون کا ٹو اور ٹوکا فور کہتے ہوئے سنا گیا ہے۔ اب صرف کہنے پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بلا تکلف پہلے ایک کے دو اور پھر دو کے چار کر گذرتے ہیں ۔ واقعتاً!

اسی لیے تو صورتِ واقعہ یہ ہے کہ دن رات دن رات نہ رہے کچھ اور ہو گئے ہیں ۔ چونکہ یہ بات ہوہی گئی ہے اس لیے اب گھر بازار ہو گئے ہیں اور بازاروں میں گھر بن گئے ہیں ۔ تھانہ ، تھانہ نہ رہا چانڈو خانہ معلوم ہوتا ہے اور چانڈو خانے کے دروازے پر بڑی توندوں والے سپاہی کھڑے جھولا کرتے ہیں ۔ شہر بھی تو شہر معلوم نہیں ہوتا۔ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔ غارت گر دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی ان سے کچھ نہیں کہتا۔

یہ سب دیکھ کر کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ یہ کوئی اور جگہ ہے، دھرم پور نہیں اور یہاں رہنے والے دوسرے ہی لوگ ہیں دھرم پور والے نہیں ۔ لیکن پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ دھرم پور نہیں تو یہاں مسجد کے محراب میں دیا کیوں ٹمٹما رہا ہے اور وہ اس ٹیلے پر بنے بڑے مندر کا کلس بھی تو جگمگا رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب پریکشا کے چھن کو وردان کے چھن سے بدلنے والی وہ بھکتی نہیں رہی!

مندر کے کواڑ ہر گز بند نہ ہوتے لیکن اِسے کیا کیا جائے کہ پرسوں راتوں رات یہاں سری کرشن جی کی مورت پر کٹ ہو گئی۔ صبح ہونے تک جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی۔ جس نے بھی سنا اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ دل مانتا نہیں تھا لیکن آنکھوں دیکھی کو جھٹلا بھی نہیں سکتے تھے۔ پورے شہر پر دہشت اور سراسیمگی چھا گئی۔ سناٹا چھا گیا تھا چاروں طرف ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ آسمان سے ماتم برس رہا ہے۔

پورا شہر مغموم تھا لیکن کرشن منڈلی کے ممبر جشن منا رہے تھے۔ منڈلی کے ادھیکش بابو گووردھن داس کے بنگلے پر مجمع لگا ہوا تھا۔ آپس میں بدھائیاں دی جا رہی تھیں ۔ مٹھائی سے منہ میٹھے ہو رہے تھے اور پٹاخے بھی چھوٹ رہے تھے۔

لوگ باگ اب اس بات کو بھول بھال چکے کہ بابو گوردھن داس گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لیے شروع شروع میں کیا کام کرتے تھے۔ یادداشت پلٹ کر جہاں تک جاتی ہے یہی یاد پڑتا ہے کہ پہلے بھی یہ نیتا تھے اور اب بھی نیتا ہیں ۔ اتنا فرق ضرور ہوا ہے کہ پہلے ان کا شمار چھوٹے موٹے قسم کے نیتاؤں میں ہوتا تھا اور اب ان کی گنتی اہم لیڈروں میں ہوتی ہے۔ ان دنوں دوہی تو نیتا ہیں جن کے مزاج اور موڈ پر دھرم پور کی قسمت کا انحصار ہے۔ ایک بابوجانکی داس اور دوسرے بابو گوردھن داس!

دونو ں کی حریفائی پرانی ہے۔ دونوں ساتھ ہی سیاست کے اکھاڑے میں اتر ے تھے۔ گوردھن اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں ہی مارتے رہ گئے اور جانکی داس نے کچھ ایسا چکر چلایا کہ پہلے بڑے مندر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر اور بعد میں صدر بن گئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ، نگر سیوک کے الیکشن میں ہر بار انہوں نے دوسروں کی ضمانتیں ضبط کروا دی ہیں ۔

گوردھن داس کرشن منڈلی کے زور پر اب کہیں جا کر اس قابل ہوئے تھے کہ ان کی ہار اور جانکی داس کی جیت میں فرق گھٹ گھٹا کر ہزار بار ہ سو ووٹوں کا رہ گیا تھا۔ انہوں نے موقعے کو غنیمت جانا اور جلوس کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ منڈلی کے ممبروں کو ضروری ہدایتیں دے کر دوسرے شہروں کے کرشن بھکتوں سے فون پر رابطہ قائم کیا۔ وہ سب تو جیسے تیار ہی بیٹھے تھے۔ شام ہوتے ہوتے دھرم پور میں جے شری کرشن کے نعرے گونجنے لگے۔ جلوس کی قیادت بابو گوردھن داس کے علاوہ بھلا کون کرسکتا تھا۔

شہر کے گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر اپنی طاقت اور ایکتا کا مظاہرہ کرنے کے بعد جلوس نے مندر کی راہ لی۔ ہزاروں لاکھوں کرشن بھکتوں نے بڑے مندر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اس دوران کرشن منڈلی کے ممبر منچ اور لاؤڈ اسپیکر کا انتظام کرچکے تھے۔ جلوس کے قائد اور پرم کرشن بھکت بابو گوردھن داس نے مجمعے سے خطاب کیا۔

کرشن بھکتوں کو برج بہاری کے اس ادنیٰ سیوک کا پرنام ! آج میں اس پوتر استھان سے اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کو دیش کی صدیوں پرانی پر مپرا پر فخر ہے اور ہم سب اس کے رکھوالے ہیں ۔ اس پر مپرا کی سرکشا کے لیے ہم اپنی جانیں تک قربان کر دیں گے۔ ہمیں زندگی نہیں اپنی دھارمک پر مپرا پیاری ہے۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ صدیوں کا پرانا مندر جو پہلے دن سے ویران پڑا تھا اب سری کرشن کے سوئم بھُو مندر میں بدل گیا ہے۔ بھگوان کے اس فیصلے کو ہم قبول کرتے ہیں اور اس مندر کی سرکشا کی قسم کھاتے ہیں ۔

بھکت جنو! اُچت یہی ہے کہ سری کرشن سوئم بھومندر کا کام کاج اب کرشن منڈلی کو سونپ دیا جائے اس لیے میں بڑے مندر کے ٹرسٹیوں سے وِنمر پرارتھنا کرتا ہوں کہ وہ ٹرسٹ کی ممبر شپ سے الگ ہو جائیں ۔

آپ سب پہلے سے جانتے ہیں کہ کرشن منڈلی سیوکوں کی جماعت ہے۔ اسے ستّا اور شاسن سے کچھ مطلب نہیں ۔ ہم سے جیت کر کوئی ہم سے کچھ چھین نہیں سکتا۔ لیکن اسے نہیں بھولنا چاہیے کہ سری کرشن کے یہ ہزاروں لاکھوں سیوک اپنا سیوا دھرم نبھانے کے لیے جان پر کھیل سکتے ہیں ۔

بھکت جنو! اب ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ آج ہم مندر کے کواڑ بند کر، پرتی کا تمک روپ سے اس کا کام کاج اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں اور پرن کرتے ہیں کہ جب تک مندر کرشن بھکتوں کے حوالے نہیں کیا جاتا ہم اپنا آندولن جاری رکھیں گے!‘‘

گوردھن داس نے بڑی کاری چوٹ کی تھی۔ کوئی دوسرا ہوتا تو کمر کھول کر اکھاڑے سے الگ ہو جاتا ۔ بابو جانکی داس یوں ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ یہ تو وہ جانتے تھے کہ عدالت اور پولس کے پھیر میں پڑنا لاحاصل ہے۔ عدالت کی جیت ہار سے بدتر ہوتی ہے اور جہاں تک پولس کا سوال ہے، کل تک ان کے ساتھ تھی لیکن آج پلڑا گوردھن کی طرف جھکا ہوا ہے۔

بابو جانکی داس منجھے ہوئے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے بڑے مندر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ شہر کے رام بھکتوں کو جمع کیا۔ ایک رام منڈلی بنائی۔ اور خود اس کے ادھیکش بن گئے۔ دوسرے شہروں کے رام بھکتوں سے فون پر رابطہ قائم کیا۔ وہ سب تو جیسے تیار ہی بیٹھے تھے۔ شام ہوتے ہوتے دھرم پور میں جے شری رام کے نعرے گونجنے لگے۔ جلوس کی قیادت بابو جانکی داس کے علاوہ بھلا کون کرسکتا تھا۔

شہر کے گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر رام بھکت اپنی طاقت اور ایکتا کا مظاہر ہ کر چکے تو جلوس نے مندر کی راہ لی۔ ہزاروں لاکھوں رام بھکتوں نے مندر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ رام منڈلی کے ممبر منچ اور لاؤڈ اسپیکر کا انتظام پہلے سے کر چکے تھے۔ جلوس کے قائد اور پرم رام بھکت بابو جانکی داس نے مجمعے سے خطاب کیا۔

’’رام بھکتوں کو سیاپتی کے اس ادنیٰ سیوک کا پرنام !‘‘

آپ سبھی جانتے ہیں کہ رام کے اس داس کو کبھی بھی ستّا کا لوبھ نہیں رہا۔ جب کبھی دھرم اور ستّا کے بیچ چناؤ کی گھڑی آئی ہے میں نے دھرم کو چنا ہے، ستّا کو نہیں ۔ جب کبھی سیوا اور ستّا کے بیچ چناؤ کی گھڑ ی آئی ہے میں نے سیوا کو چنا ہے، ستّا کو ٹھکرایا ہے۔ بڑے مندر کی کرسی کی اور کچھ لوگ ستّا کی لوبھی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ سیوا بھاؤ سے نہیں ۔ آپ کو یہ بتاتے ہوئے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ آج ایک بار پھر میں نے بھکتی اور سیوا کے مارگ کو چنا ہے۔ میں نے مندر کے ٹرسٹ سے استعفیٰ پہلے دیا اور بعد میں جلوس کی قیادت سوئیکار کی۔

بھکت جنو! ہمارے شہر میں جو کچھ ہوا وہ نہیں ہوتا تو اچھا تھا۔ یہ ہمارے دیس کی پرمپرا کے بالکل خلاف ہے۔ یہ ہماری پرمپرا کا گھور اپمان ہے اور ایک ایسی بھول ہے جسے سدھارا نہیں جا سکتا ۔ کواڑ بند کر دینے سے مندر کی مریادا بھنگ ہونے کے کارن مندر کو ملا ہوا ساکشات درشن کا وردان بھی جاتا رہا۔ اب اس کی حیثیت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اب یہ ایک عام مندر ہے۔ ایک ایسا مندر جو اپنے دیوتا کی مورتی کی پرتکشا کر رہا ہے۔ وہ مورتی اور کسی کی نہیں سری رام چند ر جی ہی کی ہوسکتی ہے۔ بھکت جنو! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سرکاری گزٹ میں لکھا ہے کہ چودھری یشپال یہاں رام مندر ہی بنانا چاہتے تھے۔

اس لیے میں تمام رام بھکتوں کی اورسے کرشن منڈلی سے ونمر پرار تھنا کرتا ہوں کہ وہ مندر پر اپنے دعوے سے دست بردار ہو جائے۔ اب یہ کرشن بھکتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر خود اپنے ہاتھوں سے مندر پر لگے تالے کو کھولیں اور اپنی خوشی سے اس کی چابی رام منڈلی کے حوالے کریں ۔ آج ہم پر ن کرتے ہیں کہ جب تک مندر رام بھکتوں کے حوالے نہیں کیا جاتا ہمارا آندولن جاری رہے گا۔ رام بھکتوں کو جو ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں ہیں ، مندر اپنی جان سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر کوئی آزمانا چاہتا ہے تو آزما کر دیکھ لے۔‘‘

مندر تو کرشن بھکتوں کو بھی جان سے زیادہ پیارا تھا۔ ان کے حوصلے بھی یہی کہہ رہے تھے کہ کوئی آزمانا چاہتا ہے تو آزما کر دیکھ لے۔ تعداد میں بھی وہ کسی سے کم نہیں تھے پھر وہ کیوں ہیٹے رہتے۔ انہوں نے اپیل کی کہ رام منڈلی کے بے بنیاد دعوے کی مذمت میں کل شہر کا سارا کاروبار بند رکھا جائے۔

دھرم پور والے خوب سمجھتے تھے کہ مہذب سماج میں حکم یا دھمکی کا دوسرا نام اپیل بھی ہے۔ اس پہلی اپیل ہی سے وہ ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ شہر میں دوسری اپیل گشت کرنے لگی۔ رام منڈلی نے شہریوں سے درخواست کی تھی کہ مندر کی مریادا بھنگ کرنے اور اس پر جبراً قبضہ کرنے جیسی کرشن منڈلی کی مذہب اور سماج دشمن حرکتوں کی مذمت میں پرسوں شہر کا کاروبار بند رکھا جائے۔

شہریوں کی جان ہر طرح آفت میں تھی۔ دو دنوں کا بند دوہر ی قیامت سے کم نہ تھا۔ ایک بند جی جانا آگ کے دریا کو صحیح سلامت پار کرنے کے برابر تھا۔ یہاں تو دو دو بند درپیش تھے۔ ایک میں جی بھی گئے تو دوسرے میں جینا معلوم ۔ ہر پہلو سے غور کرنے کے بعد یہ بات صاف ہو گئی کہ جان و مال کی سلامتی کو کسی طرح یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ نہ کہیں جائے امان تھی نہ کوئی راہِ مفر۔ زمین کے لیے وہ پرائے ہو چکے تھے اور آسمان ان کے لیے بے گانہ تھا۔ انتہا درجے کی بے بسی اور مایوسی کے عالم میں انہیں بے ساختہ خدا کی یاد آئی اور انہوں نے چاہا کہ اس سے دعا کی جائے تو ان پر روشن ہوا کہ وہ دعا کے آداب بھول چکے ہیں !

ان حالات میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ آدھا شہر پہلے دن لٹ کر قلاش اور جل کر راکھ ہوا تو دوسرا آدھا دوسرے دن۔ زندگی ہر طرف سے کھنچ کر قبرستان اور شمشان میں آ رہی تھی اور یہ دونوں پھیلتے چلے جا رہے تھے۔ یہ اتنے پھیلے کہ ان کی حدیں شہر کی حدوں سے جا ملیں ۔ معلوم ہوتا تھا کہ اٹھارہ دنوں کی جنگ یہاں دو دنوں میں لڑی گئی ہے۔ دھرم پور دھرم پور نہیں کروکیشتر کا میدان ہے جہاں ہارنے والے کی ہار تو ہوتی ہے جیتنے والا بھی مات کھاتا ہے اور دونوں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔

بڑا مندر جو کبھی جانکی داس تو کبھی بابو گوردھن داس کی فتح کے نشان کی حیثیت رکھتا تھا آج دونوں کی شکست اور رسوائی کی علامت بن گیا تھا۔ اس کے ہوتے اب وہ شہر میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتے تھے۔ کسی سے آنکھ ملا کر بات نہیں کرسکتے تھے ۔ دونوں اکیلے پڑ گئے تھے اور دونوں چوٹ کھائے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے کی چوٹ سہلانے کی خاطر رات کا پہلا پہر بیتنے کے بعد جب دونوں ندی کنارے ملے ہیں تو سارے میں بن اماوس کے اماوس کا اندھیرا پھیل گیا!

رات کی عملداری میں اندھیرا تو ہوتا ہے۔ اندھیرے کے باوجود کسی وقت دھرم پور کی راتیں نورانی اور رومانی ہوا کرتی تھیں ۔ آج پہلی بار کالی رات نے دھرم پور میں ڈیرہ ڈالا تھا اور اس کی تاریکی کا مقابلہ کرنے کی سکت کسی میں نہ رہی تھی۔ سب بے بس ، لاچار اور بے سُدھ پڑے تھے سوائے اس ایک دیے کی لو کے جو شہر کی پرانی مسجد کے محراب میں رکھا تھا۔

دھرم پور کے مقدر میں لکھی یہ کالی رات ضرور ٹل جاتی لیکن ابھی رات کا دوسرا پہر ختم نہیں ہوا تھا کہ بڑے مندر کے آنگن سے سر سراتے ہوئے دو سایے نکلے اور لپک کر اندھیرے میں گم ہو گئے۔ اندھیرے میں ان کے گم ہوتے ہی ایک زور کا دھماکہ ہوا اور آن واحد میں مندر کی جگہ اس کے ملبے نے لے لی۔

مندر کے ڈھہ جانے کے ساتھ ہی وہ آخری دیا بھی بُجھ گیا جو تنِ تنہا اس رات سے لوہا لے رہا تھا جو صدیوں پر بھاری تھی!

٭٭٭

 

 

 

 

ناستک

 

 

سوامی جی کے چہرے سے جلال ٹپک رہا تھا۔ ان کی شانت لیکن تیز نظریں ، سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے وجود کو چیرتے ہوئے، دور افق پار تک پہنچ جاتی تھیں اور نہ معلوم ماضی و حال کی کتنی صدیوں کا احاطہ کرنے کے بعد لوٹتی تھیں ۔ اسی لیے کسی پر ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ آنکھیں موند لیتے تھے اور کچھ توقف کے بعد لب کشا ہوتے تھے۔ سوامی جی جب کچھ کہنے کے لیے منہہ کھولتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان گنت سمندروں کی گہرائیاں گونج رہی ہیں اور آبشار بن کر ان کے ہونٹوں سے پھوٹ رہی ہیں ۔ حالتِ مراقبہ میں ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی لکیر ابھرتی تھی اور پورے ماحول کو شفق زار کر جاتی تھی… جلال اور جمال کی آمیزش وہ سماں باندھ دیتی تھی کہ عقیدت مندوں کو اس ساعت میں ہری درشن مل جاتے تھے!

ادھر کئی برسوں سے سوامی جی نے بھکتوں کو درشن نہیں دیئے تھے۔ وہ اس سلسلے کو موقوف کر چکے تھے۔ لیکن جن دنوں یہ سلسلہ جاری تھا اس وقت ان کے دروازے پر ایک بھیڑ لگی رہتی تھی۔ مزدور سے لے کر منسٹر تک اور کلرک سے لے کر دولتمندوں تک سب ایک قطار میں کھڑے اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے تھے اور باری آنے پر ، سانس کے ساتھ جی کو جتنے روگ اور آس کے ساتھ جان کو جتنے جنجال لگے ہیں ان کا رونا روتے تھے۔ سوامی جی کا آشیر واد ان کے مردہ دلوں میں جان ڈال دیتا تھا اور وہ ایک مرتبہ پھر سانس کے دھاگے سے آس کا جال بننے لگتے تھے…… بنتے بنتے ہوتا یہ تھا کہ کہیں گِرہ الٹی پڑ جاتی تھی اور اس کی انہیں خبر نہیں ہوتی تھی۔ بنت پوری ہونے پر معلوم ہو تاکہ یہ تو جنجال بن گیا… جال پھر بننے سے رہ گیا… ضرور کہیں الٹی گِرہ پڑی ہو گی۔ وہ پھر سوامی جی کے پاس آتے۔ سوامی جی سمجھ جاتے کہ ماجرا کیا ہے؟ اب کے آنے والا زبان سے کچھ نہ کہتا اور سوامی جی بھی اسے خاموش آشیر واد دے کر لوٹا دیتے۔

یہ تھا وہ سلسلہ جسے کسی وقت سوامی جی نے جاری رکھا تھا…دراصل یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری تھا لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ کب سے جاری تھا۔ بستی والے آپس میں باتیں کرتے تو یہی بات سامنے آتی کہ ان کے پرکھوں کے جو پر کھے تھے، ان کے زمانے سے سوامی جی جن کلیان میں لگے ہوئے ہیں ۔ صحیح بات تو شاید صرف اس ندی کو معلوم ہو جو صدیوں سے بستی والوں کو امرت بانٹ رہی ہے… لیکن بڑوں نے پہلے ہی کہا ہے کہ ندی کے سروت اور سنت کی جڑ کو، کون پا سکا ہے! اس لیے بستی والوں نے سوامی جی کے بارے میں سوچنا ترک کر دیا تھا۔ ان کے نزدیک ایسی سوچ شردّھا میں کھوٹ کا پتہ دیتی تھی… اور ان کی سوامی جی پر اٹوٹ شردّھا تھی!

خود سوامی جی کے جیون میں اس ندی کو بڑا دخل تھا۔ ان کی صبح ندی کے نرمل جل میں اشنان سے ہوتی اور رات کے سمے دھونی کا رمانا اور دھیان کا لگانا سب کچھ اسی کے تٹ پر ہوتا تھا۔

ایسی ہی ایک رات کا واقعہ ہے۔ سوامی جی نے دھونی رمائی تھی اور دھیان لگا کر بیٹھے تھے۔ اماوس کی گھڑی تھی ۔ آدھی سے زیادہ رات بیت چکی تھی، چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ ندی کے پانی کی کل کل اور سنکی ہوئی ہوا کی سر سر، ہر پل فضا کے سکوت اور ماحول کے انجماد کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سوامی جی ان سب سے بے نیاز تھے۔ جل تت اور وایوتت پروہ بہت پہلے وِجے پراپت کر چکے تھے اور ان کے گرو کی کرپا درشٹ نے انہیں سادھنا کی ابتدائی منزل ہی میں ماٹی سے ایک روپ کر دیا تھا…آج اماوس کی اندھیری رات میں سوامی جی اگنی سے ساکشا تکار کی پرتکشا میں تھے۔ برسوں کی سادھنا اور تپسیہ کے بعد وہ اس قابل ہوئے تھے کہ آج کی دھونی رماتے۔ انہوں نے ایک عمر صرف کی تھی اپنے آپ کو اس رات کی خاطر تیار کرنے میں ۔ آدھی سے کچھ ادھر رات ڈھل چکی تھی۔ گہرا اندھیرا کچھ اور گہرا ہو گیا تھا کہ اچانک سوامی جی حالتِ مراقبہ سے عالمِ وجود میں آ گئے۔ ازخود ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے دیکھا کہ ندی کا پانی ٹھہرا ہوا ہے، ہوا تھم گئی ہے اور گردش کے چکر میں گرفتار یہ دھرتی جامد ہو گئی ہے…سوامی جی نے سب کچھ ٹھہرا ہو ادیکھا اور ان پر سرور چھا گیا ۔ وہ جھوم اٹھے کہ آج ان کی تپسیہ سپھل ہو گئی۔ عالم وجد میں انہوں نے بستی پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ پوری بستی نور میں نہائی ہوئی ہے…ان کی آنکھیں خیر ہ ہو گئیں …اب وہ کچھ دیکھ نہیں پا رہے تھے…اندھیرا چھا گیا تھا ان کی آنکھوں میں …پل بھر کے لیے انہوں نے آنکھیں میچ لیں …چند ثانیوں بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ بستی پر دھیرے دھیرے اندھیرے کا سایہ پڑنے لگا ہے…انہوں نے دیکھا کہ اندھیرے کا ایک ہالہ ہے جس نے چاروں طرف سے بستی کو گھیر لیا ہے اور بیچوں بیج وہ روشنی کا ہالہ ہے جس نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا… لمحہ بہ لمحہ اندھیرے کا ہالہ بڑھنے لگا اور روشنی کا ہالہ سمٹنے لگا۔ معلوم ہوتا تھا کہ بڑھتا ہوا ہالہ سمٹتے ہوئے ہالے کو دبوچ لینا چاہتا ہے۔ جس رفتار سے اندھیرے کا ہالہ بڑھ رہا تھا اسی رفتار سے روشنی کا ہالہ سمٹ رہا تھا جس کی وجہ سے ایک دائرہ بن گیا تھا جو دونوں کے درمیان حد فاصل کا کام کر رہا تھا۔ گو وہاں سوامی جی کے علاوہ کوئی اور دیکھنے والا نہیں تھا تاہم دائرے کے سمٹنے کی رفتار دیکھنے والے کو دونوں ہالوں کی کیفیت کا پتہ دے سکتی تھی۔ یہ دائرہ سمٹتا رہا اور ہالے اس کی مطابقت سے پھیلتے اور سکڑتے رہے…سمٹتے سمٹتے وہ دائرہ ایک نقطے پر آ کر رک گیا، گویا اس نے دونوں ہالوں کی حد متعین کر دی!

سوامی جی نے اپنے آپ کو اس روشنی کے ہالے کے مرکز میں پایا۔ گویا وہ محور ہیں اور ہالہ ان کے گرد بنایا گیا ہے۔ انہوں نے پوری طرح گھوم کر دیکھا، انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ہالے کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔ عالم وجد میں انہوں نے ہالے کے مرکز پر خود کو گول گول گھمانا شروع کیا اور گھومتے گھومتے وہ غش کھا کر گر پڑے!

اس واقعے کے تین دن بعد تک سوامی جی نے اپنی کٹیا کا دروازہ نہیں کھولا۔ چوتھے روز وہ باہر آئے ۔ ان کے سیوک چرن داس نے بڑھ کر ان کی چرن دھو لی۔ سوامی جی نے ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کی بھیڑ کو جانے کے لیے کہا۔ ان کے رعب اور جلال کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکا…دیکھتے دیکھتے بھیڑ چھٹ گئی… لیکن وہ ایک شخص اپنی جگہ پر اٹل کھڑا رہا!

پتہ نہیں وہ کس گاوں کا تھا۔ اس بستی کی تلاش میں اُس نے کہاں کہاں کی خاک چھانی تھی، یہ وہی جانتا تھا۔ وہ ننگے پیر تھا۔ س کے سر کے بال کھچڑی کھچڑی تھے۔ ان میں سفیدی کی لکیریں ، ابھر رہی تھیں ۔ اس کی آنکھوں میں سمندروں کی گہرائی تھی اور اس کی ستواں ناک اس کی شخصیت کے وقار کو مزید اعتبار عطا کر رہی تھی۔

اس نے ایک نگاہ غلط انداز سوامی جی پر ڈالی۔ سوامی جی کے چہرے سے اب بھی جلال ٹپک رہا تھا۔ ان کی نظریں اس کے وجود کو چیر کر آگے بڑھ جانا چاہ رہی تھیں ۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی لکیر ابھری… اس لکیر نے جلال میں جمال کی ہلکی سی آمیزش کر دی… ایک بجلی سی چمکی اور تنویر و تقدیس کی فضا پورے ماحول پر چھا گئی تو نو وارد کی یادوں کے خوابیدہ گوشے جاگ اٹھے۔

اسے یاد آیا، یہ وہی صاحب ہیں جو کبھی میرے گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ ہم سب انہیں شاستری جی کہتے تھے۔ شاستری جی جوتش ودیا کے بڑے ماہر تھے۔ سب انہیں تری کال درشی بتاتے تھے۔ جنم پتری بنانے اور دیکھنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ پچاس پچاس کوس کے فاصلے سے لوگ آپ کے پاس جنم پتریاں بنوانے اور دکھانے آتے تھے۔ جہاں تک گاؤں کا سوال تھا کوئی شادی شاستری جی کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہوتی تھی۔ لڑکے اور لڑکی کی جنم پتریاں ملانے کے بعد وہ دونوں کو آشیر واد دیتے تھے۔

اسے یاد آیا کہ وہ ایک مرتبہ پتا جی کے ہمراہ شاستری جی کے یہاں گیا تھا۔ بس پہلی اور آخری مرتبہ! معاملہ وہی شادی کا تھا۔ پتا جی اس کی اور لڑکی کی جنم پتری شاستری جی کو دکھانے لائے تھے۔ شاستری جی نے اس جنم پتری دیکھ کر پتا جی سے کہا تھا:

’’ججمان! آپ جس کی جنم پتری میرے پاس لائے ہیں اس کی مرتیو کو بیس ورش بیت چکے ہیں ۔‘‘

شاستری جی کی وِدّیا اور ان کا گیان شک و شبہ سے بلند تھا۔ پتا جی نے بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ہی کرب کے ساتھ کہا تھا:

’’شاستری جی ، آپ کے کہے مطابق میری ونش ریکھا اسی دن کٹ گئی تھی جس دن میرے گھر پتر جنما تھا‘‘

پتا جی کا ہاتھ اس کے سر پر تھا۔ شاستری جی باپ بیٹے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ایک گاؤں ہی کے تو تھے وہ۔ شاستری جی نے کہا تھا:

’’پنڈت جی! یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ کچھ مہانو بھاو ایسے ہوتے ہیں جن کی اصل کسی کو معلوم نہیں ہوتی…ندی کے سروت کے سمان!‘‘

’’جی شاستری جی!‘‘

’’تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی ونش ریکھا اسی کا رن اس دن کٹ گئی۔ آپ دھنیہ ہیں ور میں …‘‘

’’اور آپ شاستری جی!‘‘

’’میرے دھنیہ ہونے کا سمے ابھی نہیں آیا‘‘

وہ خاموش کھڑا دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ یہ باتیں اس کے لیے بڑی مضحکہ خیز تھیں ۔ جیسے تیسے وہ ان کو برداشت کر رہا تھا۔ اس نے غیر معمولی ضبط سے کام لیا تھا ورنہ ضرور اس کے ہنسی پھوٹ پڑتی۔ بہر صورت چہرے پر سنجیدگی کے آثار بنائے رکھنے میں وہ کامیاب رہا۔ لیکن دھیرے دھیرے یہ احسا س اس کے اندر جڑ پکڑنے لگا کہ بظاہر بے تکی اور تضاد سے بھری ان باتوں کو گیان اور شاستر کی پشت پناہی حاصل ہے بلکہ یہ اور ایسی دوسری باتیں ہی گیان اور شاستر کہلاتی ہیں ۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آج وہ زندہ بھی ہے اور اس کی موت بیس برس قبل واقع ہو چکی ہے۔ وہ حیران تھا کہ اس کی پیدائش کی گھڑی موت کی گھڑی تھی یا موت کی گھڑی پیدائش کی گھڑی۔ ہونے اور نہ ہونے کے اس مسئلے کی فکر نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ آخر کار جھنجھلا کر اس نے ایشور کے ہونے سے انکار کیا اور اطمینان کے ساتھ اپنے ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ناستِک ہو جانے پر پتا جی اسے اس کی مرضی کے خلاف شاستری جی کے پاس لے گئے تھے۔ شاستری جی نے کہا تھا:

’’پنڈت جی !چنتا نہ کریں ۔ ایک دن یہ خود میرے پاس آئے گا اور اس دن…‘‘

وہ وہاں سے پتا جی کا ہاتھ چھڑا کر نکل پڑا تھا۔ پتا جی نے اسے آواز دی تھی۔ رکنے کے لیے کہا تھا اور شاستری جی ان سے کہہ رہے تھے:

’’پنڈت جی! اسے مت روکیے۔ اب یہ کسی کے روکے نہیں رکے گا۔ اس کا اس طرح چلا جانا ہی اچت ہے۔ ایک دن یہ خود میرے پاس آئے گا اور اس دن…‘‘

اس دن سے آج کے دن تک وہ برابر چلتا رہا ہے۔ راستے میں کتنے نگر آئے کتنی بستیاں پڑیں ۔ کتنے لوگ ملے۔ ان میں کتنے تو سادھو تھے، کتنے سنت تھے، کئی جوگی تھے تو کئی جنگم تھے۔ ان میں فقیر بھی تھے اور بیراگی بھی…سب اسے اپنانا چاہتے تھے اور وہ ہر جگہ سے دامن جھٹک کر اٹھ آیا تھا…لیکن آج اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں کی زمین نے اسے پکڑ رکھا ہے۔ وہ قدم اٹھانا چاہتا تھا پراٹھا نہیں پا رہا تھا اوراس کی نظریں سوامی جی کی نظروں کا تعاقب کر رہی تھیں ۔ وہ اس کوشش میں تھیں کہ سوامی جی کی نظروں پر پہرہ بٹھا دیں ۔

اس سے پہلے کبھی وہ ایسی صورتحال سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ اس کے ذہن کے پردے پر یکے بعد دیگرے دو تصویریں ایک تواتر کے ساتھ ابھرنے لگیں … شاستری جی اور سوامی جی… سوامی جی اور شاستری جی…ہوتے ہوتے اس تواتر کی رفتار اتنی تیز ہو گئی کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ غش کھا کر گر پڑا۔

ہوش آنے پر اس نے دیکھا کہ چرن داس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ وہ بوڑھا بچوں کی طرح ناچ رہا ہے اور اُچھل اُچھل کر سوامی جی سے کہہ رہا ہے۔ ’’دیکھئے میرا ببوا آ گیا۔ آ گیا میرا ببوا! آپ کے کہے مطابق ہی ہوا، گھوم پھر کر آخر کو یہ لوٹ آیا، چرن داس نے آگے بڑھ کر اسے لپٹا نا چاہا لیکن اس نے قدرے احتیاط سے خود کو بچایا…ذرا فاصلے پر جا کر اس نے چرن داس نے کہا ’’چھما کیجئے۔ میں آپا کا پتر نہیں ۔ ‘‘ اس کی زبان سے یہ لفظ سنتے ہی چرن داس کے تن سے اس کی روح پرواز کر گئی۔ اس نے چرن داس کی آتما کو اس کے تن سے جدا ہوتے ہوئے دیکھا اور دھیرے سے کہا:

’’چھما کیجئے ۔ میں کسی کا پتر نہیں !‘‘

اب سارے میں سوامی جی کی آواز گونج اٹھی۔

’’آؤ ناستِک! میں تمہاری ہی پرتکشا کر رہا تھا۔‘‘

اس نے تول تول کر قدم اٹھائے ۔ سوامی جی کے مقابل ٹھہر کر ان کی نظروں میں اپنی نظریں گاڑ دیں اور کورے برتن کی طرح کھنکھناتی آواز میں کہا:

’’تم میری پرتکشا نہ جانے کتنے برسوں اور کتنی صدیوں سے کر رہے ہو لیکن اس دوران تم سے یہ نہ ہوا کہ جتنا کھرا ناستک میں ہوں اتنے کھرے آستک تم بنتے…تمہیں یہ ادھیکار نہیں کہ مجھے ناستک کہہ کر پکارو۔‘‘

سوامی جی نے کہا:

’’ہم دونوں کے مارگ الگ تھے۔ ہماری تپسیہ…‘‘

اس نے سوامی جو کو ٹوکتے ہوئے کہا:

’’اب یہ نہ کہئے کہ ہماری تپسیہ بھی الگ تھی…اکیلے آپ کے چھل کو تپسیہ کا پھل سمجھے لینے سے تپسیہ الگ نہیں ہو جاتی‘‘

سوامی جی کی آنکھوں میں وہ اماوس کی رات گھوم گئی۔ انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا:

’’یہ تو مارگ مارگ کا فرق ہے۔ جس مارگ پر میں چلا تھا اس میں پریکشا جیون میں ایک بار ہی ہوتی ہے…اور جیون کے دھارے میں بہتے ہوئے ہم اس ایک پل میں بھول کر جاتے ہیں …تمہارا مارگ ہمارے مارگ سے بہت الگ ہے۔ ناستِک کے جیون کا ہر پل اس کی پریکشا کا پل ہوتا ہے۔ پھل سو روپ وہ جیون بھر سچیت رہتا ہے…بڑا فرق ہے ان دو مارگوں میں ‘‘

اس نے بڑے ہی تیکھے لہجے میں سوال کیا:

’’یہ بتائیے کیا آپ جانتے ہیں کہ جیون میں ایک بار ہونے والی پریکشا کا وہ پل کون سا ہوتا ہے؟‘‘

’’نہیں ! آج تک کسی سادھک نے اس ایک پل کی آہٹ نہیں سنی…وہ تو بس آ جاتا ہے‘‘

اس پر ناستک نے کہا:

’’ا گیانی ہو کر، گیانی کی منود شامیں جینے کا بھرم پالنے کا ساہس سادھک کو شوبھا نہیں دیتا … جب یہ نہیں معلوم کہ وہ ایک پل کون سا ہے تو جیون کے ہر پل کو ’’وہ ایک پل‘‘ سمجھ کر جینا چاہیے…ہے سادھک جان لو کہ ا گیان اندھکار کا جنم داتا ہے اور اندھکار بھید بھاؤ کا !‘‘

سوامی جی کی آنکھوں میں تارے چمکنے لگے۔ انہوں نے بڑی ہی شردّھا کے ساتھ ناستک کو پرنام کیا۔ آگے بڑھ کر اس کے چرن چھوئے اور کہا:

’’آج میں دھنیہ ہو گیا‘‘

اوپر اٹھ کر انہوں نے دیکھا تو وہ جا چکا تھا۔

٭٭‎٭

 

 

 

 

بھُول بھلیاں

 

گلی میں کھیل رہے بچوں کے شور اور از خود ورق الٹنے والے البم کی موسیقی نے آپس میں مل کر بابو کھوجی رام پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دی تھی۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں یادوں کے جگنو چمک رہے تھے۔ ان جگنوؤں کی جلتی بجھتی روشنی میں وہ ٹھہر ٹھہر کر ،ماضی کے اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے کافی دور تک نکل آئے تھے اور اب ان کی عمر اپنے اس پوتے جتنی ہو گئی تھی جو باہر گلی میں اپنے ہم سِنوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔

ساٹھ باسٹھ برس کا فاصلہ جب مٹ گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ گلی کی چہل پہل بدستور قائم تھی۔ آنے جانے والوں کاسلسلہ جاری تھا۔ پھیری والے اور خوانچہ فروش آوازیں لگاتے ہوئے گذر رہے تھے۔ دو ایک کو گلی کی عورتوں نے روک لیا تھا اور ان سے مول تول کر رہی تھیں ۔ ایک بغیر گھنٹی کا سائیکل سوار چلا چلا کر راہ گیروں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ادھر سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی تو دوسروں کے ساتھ سائیکل سوار بھی ایک طرف کو ہو گیا۔ سب کچھ پہلے جیسا تھا۔ بس اتنا فرق ہوا تھا کہ دور دور تک ان کا کوئی ساتھی، کوئی ہمجولی نظر نہیں آ رہا تھا۔ سب چھپ گئے تھے اور انہیں ان چھپے ہوؤں میں سے کسی ایک کو ڈھونڈ کر چھونا تھا۔

اپنے چھپے ہوئے ساتھیوں کو ڈھونڈ نکالنا کھوجی رام کے لیے کوئی بات نہیں تھی۔ جب کبھی اس پر داؤ چڑھتا وہ یوں چٹکیوں میں اسے اتار دیتا۔ بھگوان جانے یہ اس کے نام کی برکت کی وجہ سے تھا یا کھیل کے قاعدوں کی وجہ سے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کھوجی رام پر داؤ چڑھا ہو اور اس نے سو کی گنتی کے اندر اسے اتارا نہ ہو۔ اسی داؤ کو اتارنے میں اس کے ساتھی پسینے پسینے ہو جاتے تھے۔

جب کبھی کھوجی رام کی باری آتی تو لڑکوں کا جی چاہتا کہ کھیل کے قاعدوں میں کچھ ترمیم کی جائے اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو یوں ہو جائے کہ ان کی گلی کچھ پھیل جائے… اتنی پھیل جائے کہ سارا شہر اس کے اندر سماجائے…کھوجی جیسا ڈھونڈنے والا ہو تو اتنی سی گلی میں چھپنا بھی کوئی چھپنا ہوا۔ کھیل کا مزہ تو اسی وقت ہے کہ داؤ اُتارنے والے کو نانی یاد آ جائے!

داؤ اتارنے کے لیے کھوجی چاروں طرف گھوم کر گلی کا جائزہ لے رہا تھا اور اس کے دوست جہاں کہیں بھی چھپے تھے، دم سادھے دل ہی دل میں گنتی گن رہے تھے۔ یہ طے تھا کہ سو کی گنتی تک پہنچتے پہنچتے ان میں سے کسی ایک پر داؤ چڑھ چکا ہو گا۔ ہر لڑکا اپنی خیر منا رہا تھا۔ جھٹپٹے کا وقت تھا۔ اب پکڑے جانے کا مطلب تھا رات کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے پھرا کریں اور دیر سے گھر جانے کی سزا میں پٹائی ہو گی سو وہ الگ!

اکثر یہ ہوتا کہ نوّے پچانوّے کے اندر ہی کھوجی پکار کر کسی کے پکڑے جانے کا اعلان کرتا اور باقی لڑکے اپنی اپنی جگہ سے نکل کر باہر آ جاتے۔ آج یہ ہوا کہ ان میں سے ہر ایک کی گنتی سو تک پہنچ گئی اور وہ باہر نہیں نکل سکے۔ کھوجی نے کسی کے پکڑے جانے کا اعلان ہی نہیں کیا تھا۔

اتنی دیر میں کھوجی داؤ نہ اتار سکے یہ ناممکن ہے۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس نے انہیں   بے وقوف بنایا ہو۔ یہ حرکت تو کچے کھلاڑیوں کی ہے کہ جب ان پر داؤ چڑھے تو سب کے چھپ جانے کا انتظار کریں اور پھر چپ چاپ آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر گھر کی راہ لیں ۔ چھپنے والے، چھپے بیٹھے یہ سوچ کر خوش ہوتے رہیں کہ کوئی انہیں ڈھونڈ رہا ہے اور وہ کسی کو پدا رہے ہیں ۔ یہ تو انہیں بعد میں معلوم ہو گا کہ وہ خود پد گئے ۔

کھوجی ایسا نہیں کرسکتا۔ وہ ایک پکا کھلاڑی ہے اور اس کھیل کے تعلق سے کچھ ایسی ازلی مناسبت ساتھ لے کر آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے، کھیل کے اسرارو رموز از خود اس پر آشکار ہونے کے لیے بے تاب رہتے ہیں ۔ وہ واحد کھلاڑی تھا جسے صرف چھپنے میں نہیں بلکہ ڈھونڈنے میں بھی لطف آتا تھا۔ اس کھیل میں وہ دونوں رول یکساں دلچسپی اور انہماک سے ادا کرتا تھا۔ اس کے لیے آنکھ مچولی کے کھیل میں پدنا اور پدانا بے معنی لفظ تھے۔ ایساکبھی نہیں ہوا کہ اس نے ڈھونڈنے کی باری سے جی چرایا ہو یا یہ کہ چھپنے کی باری کی طرف اس کی رغبت ظاہر ہوئی ہو۔ سب دیکھتے تھے کہ اسے ڈھونڈنے میں بھی وہی مزہ آتا ہے جو دوسروں کو چھپنے میں آتا ہے۔ چھپنے میں اوروں کے ساتھ اسے مزہ آتا تھا تو کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔

یہی وجہ ہے کہ ہر لڑکے کو یہ یقین تھا کہ سب کے چھپ جانے کے بعد چپ چاپ گھر چلے جانے کی حرکت اس سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اسے شرارت سوجھی ہو اور اپنی شرارت میں اس نے پکڑے جانے والے لڑکے کو ساجھی بنا لیا ہو۔ کھوجی نے اسے اس بات پر آمادہ کر لیا ہو کہ دونوں خاموش بیٹھے رہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ڈھونڈے جانے کے شوق میں سب لڑکے کب تک چھپے رہ سکتے ہیں ۔ یہ حرکت کھوجی پہلے بھی دو ایک مرتبہ کر چکا تھا۔

آج ایک مرتبہ پھر ان لڑکوں کو معلوم ہوا کہ جس چھپنے کی باری کی خاطر وہ مرے جاتے ہیں وہ چھپنا کتنا اذیت ناک ہوسکتا ہے۔ وہ جو کچھ دیر پہلے اس خیال سے مسرور تھے کہ کوئی انہیں ڈھونڈ رہا ہے، اب پریشان ہو گئے تھے کہ کوئی انہیں ڈھونڈ کیوں نہیں لیتا؟ ڈھونڈے جانے کا نشہ اتر چکا تھا۔ اتنی دیر تک چھپے رہنے سے ان کی طبیعتیں منغض ہونے لگیں تو انہوں نے اپنی اپنی جگہ سے کسی آڑ، کسی اوٹ سے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش سود مند ثابت نہیں ہوئی تو سب کے سب اوٹ سے نکل کر باہر گلی میں آ گئے۔

باہر گلی میں شام کے دھندلکے کی جگہ رات کی سیاہی اتر آئی تھی۔ میونسپلٹی کا بلب ٹمٹما رہا تھا۔ ساری چہل پہل ماند پڑچکی تھی۔ فضا بوجھل ہو گئی تھی اور راستے پر اداسی بچھی ہوئی تھی… رہا کھوجی تو اس کا دور دور تک پتا نہیں تھا!

کھوجی نے نہ تو اپنے دوستوں کو بے وقوف بنایا تھا اور نہ اس شام اسے شرارت سوجھی تھی۔ داؤ اتارنے کے لیے چاروں طرف گھوم کر جب اس نے گلی کا جائزہ لیا اور ایک اچٹتی ہوئی نظر بڑی سڑک پر ڈالی تو وہاں سے گذرتے ایک آدمی پر اسے اپنے ماما کا گمان ہوا۔ اس کے وہ ماما جو کبھی بمبئی نہیں آئے تھے۔ کھوجی نے دیکھا کہ وہ گلی میں نہیں مڑے بلکہ سیدھا آگے بڑھ گئے۔ لپک کر انہیں روکنے کے خیال سے کھوجی گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر آ گیا…وہ اماں کی اس تاکید کو بھولا نہیں تھا کہ کھیل کود کے دوران کبھی گلی سے باہر قدم نہ نکالے …لیکن اسے اماں کی یہ بات بھی یاد تھی کہ اس بمبئی کی بھیڑ میں بچے تو بچے بڑے بھی کھو جاتے ہیں ۔ پردیس میں ماما کے کھو جانے کا اندیشہ اس کے ذہن پر کچھ ایسا حاوی ہوا کہ اس نے سوچا بھگوان نہ کرے اگر اس بھیڑ میں ماما کھو گئے تو اس کی ذمہ داری اس کے سر ہو گی۔

بڑی سڑک پر آ کر اس نے ماما کو آواز دی لیکن سڑک کے شور میں شائد اس کی آواز ان تک نہیں پہنچی۔ وہ برابر آگے بڑھتے رہے۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تک نہیں ۔ کھوجی نے سوچا ذرا سا تو فاصلہ ہے ابھی دوڑ کر انہیں روک لیتا ہوں ۔ وہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے ان کی طرف بڑھنے لگا۔ لوگوں کو ہٹاتے اور موٹروں سے بچتے بچاتے انہیں جا لینے کی کھوجی کی تمام تر کوشش کے باوجود اس کے اور ماما کے بیچ کا فاصلہ مستقل بڑھتا رہا۔ اس کوشش میں وہ اپنے گھر اور گلی سے بہت دور نکل آیا اور اسے اس بات کا بھی دھیان نہیں رہا کہ وہ بڑی سڑک کو کب کا چھوڑ چکا ہے۔

انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں اس کے ماما کی حیثیت ایک تنکے کی سی تھی۔ وہ تنکا اس سمندر کی پر شور موجوں پر ہچکولے کھا رہا تھا اور کھوجی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اس ڈوبتے ابھرتے تنکے کو دیکھتے دیکھتے ایک پل کے لیے کھوجی کو ایسا لگا کہ وہ خود اس سمندر میں ڈوبا جا رہا ہے۔ دوسرے ہی پل اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی موج آئی اور اس میں وہ تنکا ایسا ڈوبا کہ پھر ابھر نہ سکا!

تنکے کے ڈوبنے نے کھوجی کو اپنے ڈوبنے کے احساس سے نجات دلائی۔ اس نے ٹھہر کر سانس درست کیا۔ خود اپنا جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ پسینہ پسینہ ہو رہا ہے۔ اپنے اطراف نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ وہ شہر کے کسی انجانے چوراہے کے بالکل بیچ میں کھڑا ہے… چشم زدن میں اس پر روشن ہوا کہ وہ کھو گیا ہے!…… تو آخر وہ ڈوب ہی گیا!!

ان دنوں بمبئی میں ٹرا میں چلا کرتی تھیں ۔ سڑک پر ان کے لیے لوہے کی پٹریاں ڈال دی گئی تھیں ۔ اوپر برقی تار جھول رہے تھے جن سے ٹرام جڑی رہتی تھی۔ وہ شائد ٹرام کے وہاں سے گزرنے کاوقت نہیں تھا۔ بسوں ، موٹروں اور سائیکلوں سے البتہ چاروں راستے پٹے پڑے تھے۔ تمام سواریوں کی رفتار میں ایک تال میل تھا۔ پیدل چلنے والوں کی بھیڑ الگ تھی۔ مختلف عمروں کے مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھی وہ بھیڑ۔ اس میں بعضوں کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے۔ وہ سب ان سواریوں سے بے نیاز اپنے اپنے راستے، چلے جا رہے تھے۔ ویسے ہی جیسے وہ سواریاں ، ٹرام کی لوہے کی پٹڑیوں سے بے نیاز فراٹے بھر رہی تھیں ۔ ایسا لگتا تھا کہ ان سبھوں کو بڑے سلیقے کے ساتھ سدھایا گیا ہے۔ کسی کی کسی سے ٹکر نہیں ہو رہی تھی۔ جبکہ ٹکرا جانے کے امکانات قوی تھے۔ سب سہج سبھاؤ سے چلے جا رہے تھے۔ گویا ہر چیز اپنے معمول پر تھی، سوائے اس کے……ہر چیز اپنے محور سے بندھی ہوئی تھی اور اس کی گردش کا راستہ طے تھا۔ سوائے اس کے کہ وہ کھو گیا تھا!

لوگوں کا وہ ہجوم دیکھتے دیکھتے کئی ریلوں میں بٹ جاتا اور کچھ دیر میں الگ الگ سمتوں سے کئی ریلے آ کر پھر سے ہجوم بناتے۔ کبھی کبھی دو ریلے آمنے سامنے ہو جاتے تو وہ آپس میں بڑے عجیب ڈھنگ سے گتھ جاتے۔ ذرا سی دیر میں معلوم ہوتا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو پار کر لیا ہے۔ لیکن وہ تو اپنے محور ہی سے دور جا پڑا ہے وہ بھلا کس کے مقابل ہوسکتا ہے؟

تا دیر مستقل طور پر ڈوبتے ابھرتے تنکے کے تعاقب کی وجہ سے اس کی نظر دھندلا گئی تھی اور یہ منظر اس کے لیے ایک پراسرار کیفیت کا حامل ہو گیا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ایک مہین چادر اس پورے منظر پر تان دی گئی ہے اور اس چادر سے منظر کے اسرار ایک ایک کر کے چھن رہے ہیں …… سچ تو یہ ہے کہ اس کی دنیا ہی بدل گئی تھی…… اور یہ اسی پل بدل گئی تھی جس پل اس پر یہ بات کھلی تھی کہ وہ کھو گیا ہے!

اس ننھی سی عمر میں شعوری طور پر وہ ان باتوں کو کیا سمجھتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس نے خود کو کھو کر جسے پایا تھا اس ایک پل کے لیے اس نے اپنے اندر ایک عجیب اپنا پن محسوس کیا تھا۔ وقت گذرتا رہا لیکن وہ ایک پل کہیں اس کے اندر ٹھہر سا گیا!

کھو جانے کے باوجود وہ طمانیت کے احساس سے بھرا ہوا تھا۔ اسے کھونے کا مطلق غم نہیں تھا لیکن جب اسے اماں کی یاد آئی اور خیال آیا کہ اب وہ انہیں مل نہیں پائے گا تو بے اختیار اس کے آنسو نکل پڑے۔ آنسو پوچھنے کے لیے اس نے ابھی ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ…… گلی سے آ رہی رونے کی آواز اور دادا کی پکار نے ان ہاتھوں کو روک لیا!

بابو کھوجی رام ایک زقند بھر کے دوبارہ وقت کے دھارے سے آملے۔ البم کی چابی آخری ورق پر آ کر ختم ہو گئی تھی۔ اس آخری ورق پر ان کی اپنی تصویر لگی ہوئی تھی۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد الوداعی تقریب کی تصویر تھی وہ۔ اس کے ساتھ ہی صبح کا دیکھا ہوا اخبار رکھا تھا اور سامنے سے ان کا پوتا روتا ہوا آ رہا تھا۔

آج صبح اخبار میں اپنے پوتے کی عمر کے ایک گم شدہ بچے کی تصویر دیکھ کرانہیں یاد آیا تھا کہ ساٹھ برس قبل جب پہلی مرتبہ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا اس دن آج ہی کی تاریخ تھی۔ اپنے حافظے کو جانچنے کے خیال سے وہ بچپن کی اس تصویر کو ڈھونڈ رہے تھے جس کی پشت پر بابوجی نے اس کے نام اور پتے کے ساتھ کھو جانے کی تاریخ لکھ رکھی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ بابوجی اس تصویر کو لیے پولس اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں وہ انہیں روتا ہوا مل گیا تھا…… جیسے اچانک غیر متوقع طور پر وہ کھو گیا تھا ویسے ہی اچانک غیر متوقع طور پر وہ مل بھی گیا تھا!!

اس اتفاق پر سبھی حیران تھے اور اماں تھیں کہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھیں ۔ انہوں نے اسے سینے سے لگا کر چمکارتے ہوئے جب پوچھا کہ بیٹا تو کھو کیسے گیا تھا؟ تو اس نے انہیں بڑی سڑک پر ماما کو دیکھنے اور ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہنے کی تفصیل بتائی تھی۔ اس پر اماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔

’’بیٹا ! میری دادی کہا کرتی تھی کہ دنیا میں ایک صورت کے تین آدمی ہوتے ہیں ۔ یہ دھرتی اتنی وشال ہے کہ ایک صورت کے دو آدمی آپس میں مل نہیں پاتے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک صورت کا ایک ہی آدمی ہوتا ہے…… بیٹا!وہ تیرے ماما نہیں تھے۔ ان کی شکل تیرے ماما سے ملتی ہو گی۔ آئندہ یاد رکھنا کبھی کسی کی صورت دیکھ کر دھوکے میں مت آنا‘‘

اس نے امّاں کی بات گرہ میں باندھ لی تھی لیکن وہ ایک پل جو اس کے اندر کہیں ٹھہر گیا تھا، ہر پل خود کو دہرانے کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ جس کی وجہ سے گھر والے تو گھر والے، گلی محلے والے بھی اس کے تعلق سے پریشان اور فکر مند رہنے لگے تھے۔ سال میں دو ایک مرتبہ یوں ہی اتفاقیہ طور پر کھو جانا ، کھوجی کی زندگی کا معمول بنتا جا رہا تھا۔ وہ تو خیر تھی کہ وہ اتفاقیہ طور پر مل بھی جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرنے لگا اور کھوجی کی عمر بڑھنے لگی ماں باپ کے اندیشوں کی نوعیتیں بھی بدلنے لگیں ۔ اب بابو جی بات بے بات اس پر بگڑنے لگے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے جھلا کر ، اسے ڈپٹ کر پوچھا تھا:

’’تو بار بار کھو کیوں جاتا ہے!‘‘

اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کی خاموشی پر وہ اور بگڑے تھے۔ بگڑ کر انہوں نے دوسرا سوال داغا تھا۔

’’تجھے کیا مل جاتا ہے اس بار بار کے کھو نے میں ؟‘‘

اس کے پاس اِس کا بھی جواب نہیں تھا……وہ بابو جی کو کیسے سمجھاتا کہ کھونا اپنے آپ میں ایک پانا ہے!

اب اس کے چھوٹے بھائی بہن اتنے بڑے ہو گئے تھے کہ اس کی زندگی کے اس معمول سے وہ بھی اپنی بساط بھر واقف ہونے لگے تھے۔ ان کی آپس کی بات چیت اور ہنسی مذاق میں حوالے کے طور پر کبھی کبھار اس کا ذکر بھی آنے لگا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے چھوٹے بھائی نے اپنی دیدی سے پوچھا:

’’دیدی! بمبئی میں اتنی بھیڑ کیوں ہے!‘‘

تو اسے دیدی نے جواب دیا تھا:

’’یہ ساری بھیڑ ہمارے بھیا کے کھونے کے واسطے جٹائی گئی ہے۔‘‘

گھر والوں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود بمبئی کی یہ بھیڑ بار بار بھیا کے کام آنے سے باز نہ آئی تو انہوں نے بھیا کے پیروں ہی میں بیڑی ڈال دی…بڑی دھوم دھام سے اس کا بیاہ کر کے بہو گھر لے آئے کہ اب یہ کھونٹی سے بندھا رہے گا! کم از کم اماں تو یہی سمجھتی تھیں لیکن بابو جی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے۔ ان کی سوچ ذرا الگ تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ آج جب یہ کھو جاتا ہے تو گھوم پھر کر ہمیں مل جاتا ہے۔ کل کو اگر ہم نہ ہوے تو کھونے کے بعد یہ کسے ملے گا؟ کھونے کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے کسی کا ہونا ضروری ہے ۔ کافی غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس ضرورت کو صرف بہو ہی پورا کرسکتی ہے!

کچھ دنوں کے بعد باتوں باتوں میں امّاں نے بہو کے سامنے اس کے کھونے کے معمول کاذکر کر دیا۔ ابھی اس غریب کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں چھٹی تھی کہ اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ ڈاکٹر نے خواب آور گولیاں تجویز کی۔ اب یہ ہونے لگا کہ رات میں وقت بے وقت وہ ہڑ بڑا کر نیند سے جاگ اٹھتی اور اندھیرے ہی میں ساتھ والے بسترکو ٹٹول کر دیکھ لیتی کہ وہ کھو تو نہیں گیا۔

اس کی بیوی نہیں جانتی تھی کہ وہ یوں راتوں کو پراسرار طور پر غائب نہیں ہوتا۔ وہ تو بڑے ہی فطری انداز میں سہج سبھاو سے کھوتا آیاہے…لیکن وہ یہ بات اپنی بیوی کو کیسے سمجھاتا!

کچھ دنوں میں اس کی بیوی اس بات کو خود ہی سمجھ گئی ۔ ویسے بھی وہ بڑی سمجھدار عورت تھی اپنی گرہستی جمانے میں اس نے جس سلیقے اور اسے چلانے میں جس سگھڑاپے کا مظاہرہ کیا تھا وہ اسی کا حصہ تھا۔ اس کے اس سلیقے کو دیکھ کر کھوجی کے ماں باپ نہال ہو گئے تھے۔ اس نے آ کر گھر کی کایا ہی پلٹ دی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پانچ برسوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ کھوجی کا معمول پرانی بات ہو کر رہ گیا ہے…… لیکن ایک دن بہو اپنی ساس سے کہہ رہی تھی ’’ماں جی! جیسا آپ بتاتی ہیں وہ کھونا تو پھر بھی ٹھیک تھا۔ کھو گئے… پھر مل گئے ۔ لیکن اب تو انہوں نے کھونے کا ڈھنگ ہی بدل دیا ہے‘‘

بوڑھی ماں لرز کر رہ گئی تھی۔

’’وہ کیسے بیٹی؟‘‘

’’کیا بتاؤں ماں جی! اب تو یہ آٹھوں پہر کھوئے کھوئے رہتے ہیں ۔‘‘

اماں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا تھا اور بہو کی طرف ترحم آمیز نظروں سے دیکھ کر، مجرم کی طرح پلکیں جھکالی تھیں !

اماں کے خیال نے بابو کھوجی رام کو بچپن کی وہ بات یاد دلا دی جسے انہوں نے کبھی گرہ میں باندھ لیا تھا۔ ان کی نظریں سامنے پڑے البم کے آخری ورق پر جمی ہوئی تھیں ۔ وہ سوچنے لگے اگر دنیا میں ایک شکل کے تین آدمی ہوتے ہیں تو اس صورت کے بھی ہوں گے۔ یہ کیوں کر ہوا کہ انہوں نے اماں کی بات کو گرہ میں باندھ کر بھلا دیا۔ کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ جبکہ زندگی میں چار چھ مرتبہ خود ان کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ کسی اجنبی سے ان کا تعارف ہوا اور اس نے چھوٹتے ہی یہ بتایا کہ ان کی صورت اجنبی کے کسی دوست یا عزیز سے ہو بہو ملتی ہے۔

وہ حیران تھے کہ جدید ایجادات کی وجہ سے یہ دنیا سمٹ سمٹا کر بہت چھوٹی ہو گئی ہے لیکن پھر بھی یہ ا تنی بڑی ہے کہ ایک شکل کے دو آدمی آپس میں مل نہیں پاتے۔ ایسا آدمی مل جاتا ہے جو الگ الگ جگہوں پر ، الگ الگ وقتوں میں دونوں سے مل چکاہو لیکن ایک وقت ایک جگہ ، دو ایک جیسے آدمی نہیں مل پاتے، کیا وجہ ہے کہ اتفاقیہ طور پر ہی سہی وہ کبھی آمنے سامنے نہیں ہوتے۔ اس اتفاق کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے قدرت نے نہ جانے کیا اہتمام کیا ہے اور پتا نہیں ایسا کرنے میں اس کا کون سا راز پوشیدہ ہے…ورنہ یہ کیوں کر ہوا کہ وہ زندگی بھر کھوتے آئے ہیں لیکن یہ نہ ہوا کہ کسی بار اتفاق ہی سے اپنے کسی ہم شکل سے ٹکرا جاتے!

باہر گلی میں بچے اب بھی آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ کھیل میں ان کا پوتا بھی شریک تھا ۔ بچے اس سے بے نیاز تھے کہ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ بابو کھوجی رام کو البتہ یہ احساس ضرور ہوا کہ وہ کھوئے بیٹھے رہے اور ان کے معمول میں فرق آ گیا۔ یہ وقت تو شام کی سیر کا ہے۔ اس وقت انہیں کارپوریشن کے گارڈن کی بینچ پر ہونا چاہیے تھا۔ ان کے بچپن میں یہ گارڈن نہیں تھا۔ اس جگہ کھلی زمین پڑی تھی۔ جس پرسنتے تھے کہ مداری اپنا بندر نچاتا ہے۔ جگہ ویسے دور نہیں تھی۔ گلی سے نکل کر بایاں موڑ مڑ کر بڑی سڑک پر بیس بائیس قدم چلنے جتنا فاصلہ تھا۔ اس وقت تو عمر وہ تھی کہ اس فاصلے کو تین چا ر چھلانگوں میں طے کر لیتے لیکن اماں نے تاکید جو کر رکھی تھی کہ کبھی گلی سے باہر قدم نہ رکھنا، آج اس فاصلے کو طے کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ دس پندرہ منٹ بینچ پر سستانے کے بعد جب وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی ہڈیاں کڑ کڑا کر رہ جاتی ہیں ۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس عمر میں جسم کے لیے اتنی ورزش ضروری ہے ورنہ تو وہ دہلیز سے باہر قدم نہ نکالتے۔ دیر ہی سے سہی معمول کو پورا کرنے کی خاطر بابو کھوجی رام نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں میں چھڑی سنبھالی، ناک پر عینک کو جمایا اور باہر گلی میں نکل آئے، وہ بڑی سڑک کی طرف بڑھ رہے تھے کہ پیچھے سے ان کے پوتے نہ آواز دی:

’’دادا جی آج آپ دوسری بار سیر پر جار ہے ہیں ۔‘‘

’’دوسری بار کیا مطلب؟‘‘

کچھ دیر پہلے تو آپ گئے تھے۔‘‘

’’کب؟‘‘

’’جب میں داؤ اتا رہا تھا۔‘‘

’’کہاں گیا تھا میں ؟‘‘

’’آپ گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر ادھر مڑ گئے تھے۔ ‘‘

پوتے نے دائیں موڑ کی طرف ہاتھدکھا کر کہا۔

’’لیکن میں تو روز بائیں طرف مڑتا ہوں ۔ گارڈن کی طرف!‘‘

’’میں نے دیکھا آج آپ اس طرف مڑ رہے تھے۔‘‘

اس نے پھر دائیں جانب اشارہ کیا۔

’’کیا اب بھی تم پر داؤ چڑھا ہے؟‘‘

’’نہیں ۔ اب میرے چھپنے کی باری ہے۔‘‘

چھپنے کی خوشی میں لڑکے نے مسکرا کر پلکیں جھپکائیں ، بابو کھوجی رام نے پوتے کو سمجھاتے ہوئے کہا:

’’دیکھو! باری چاہے چھپنے کی ہوا یا داؤ اتارنے کی، سب کچھ بھول کر اسے اتارنے میں من لگانا چاہیے۔‘‘

’’داؤ چڑھ جائے تو سبھی اتارتے ہیں لیکن چھپنے کی باری کیسے اتاری جاتی ہے۔‘‘

’’ڈھونڈ کر‘‘

’’اور ڈھونڈنے کی باری……!‘‘

’’چھپ کر……‘‘

پتا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں ‘‘

’’سوچو مت، جاؤ چھپ جاؤ تمہارے سب دوست چھپ چکے ہیں ۔‘‘

گلی اب بھی وہی تھی جو ساٹھ ، باسٹھ برس پہلے ہوا کرتی تھی۔ آنے جانے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ پھیر ی والے اور خوانچہ فروش آوازیں لگاتے ہوئے گذر رہے تھے۔ راہ گیروں اور سائیکلوں کی آر جار میں اسکوٹریں اور موٹریں بھی شامل ہو گئیں تھیں ۔ آنکھ مچولی کا کھیل اب بھی کھیلا جا رہا تھا۔ سب لڑکے چھپ چکے تھے اور ڈھونڈنے والے کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کسے ڈھونڈ نکالے گا۔

بابو کھوجی رام آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے وہاں تک آ گئے جہاں گلی دائیں بائیں مڑ کر بڑی سٹرک سے مل جاتی ہے۔ پیچھے مڑ کر انہوں نے ایک بھر پور نظر ڈالی، پھر پلٹ کر پہلے دائیں اور پھر بائیں جانب دیکھا۔ بڑی سڑک اب نام ہی کی بڑی رہ گئی تھی۔ باوجود اس کے کہ ان برسوں میں کارپوریشن نے دو ایک مرتبہ سٹرک کے کنارے بنی غیر قانونی تعمیرات کو توڑ کر اسے چوڑا بھی کیا تھا، وہ کچھ سمٹی سکڑی سی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے سرے البتہ اب بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ جہاں تک نظر نے ساتھ دیا پہلے کی طرح اب بھی یہی نظر آیا کہ بس سٹرک چلی جا رہی ہے۔ دائیں طرف بھی سٹرک ہی سڑک تھی اور بائیں طرف بھی سڑک ہی سڑک…!

بابوجی کھوجی رام نے جب چھڑی پر اپنی گرفت مضبوط کی اور دایاں موڑ مڑ گئے تو پیچھے گلی میں شام کے دھندلکے کی جگہ رات کی سیاہی اتر آئی اور کارپوریشن کے کھمبے سے ٹنگا ٹیوب ٹمٹمانے لگا!!

٭٭٭

 

 

 

 

گیت گھاٹ اور گِرجا گھر

 

 

 

اس نے سب سے سن رکھا تھا کہ وہ بڑی خوبصورت ہے ۔ اس کی خوبصورتی بے مثال ہے۔ پوری بستی میں اُس کے حسن کا جواب نہیں ۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پاتی تھی کہ سب کہہ کیا رہے ہیں ۔ وہ سوچتی تھی میں حسین کو کیونکر ہو گئی؟ اور بھی تو لڑکیاں ہیں ۔ ان کے بھی تو سب کچھ ویسا ہی ہے۔ جیسے میرا…آنکھ…ناک…کان…بال… سر سے پیر تک وہ خود کو اپنی ہم سنوں جیسی سمجھتی تھی۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اُن میں سے بھی کبھی کوئی آ کر چپکے سے اس کے کان میں کہہ جاتی’’ تو بڑی سندر ہے ری!‘‘ ابھی کل کی بات ہے دائیں طرف کی ٹیکڑی پر رہنے والی اس کی سہیلی نے کہا تھا۔ ’’ہائے ! کیا آنکھیں پائی ہیں تو نے!‘‘ اور یہ غریب کچھ سمجھ نہیں پائی تھی… بس آنکھیں جھپکا کر رہ گئی تھی۔ ایک اور دن تھا جب اس بائیں طرف کی ٹیکڑی پر رہنے والی سہیلی نے بڑے پیار سے اس کے گال سہلاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ہونٹ تو ہمارے بھی ہیں … لیکن تیرے ہونٹ اور تیرا منہ، کچھ اور ہی بات ہے !‘‘ وہ ایک مرتبہ پھر کچھ سمجھ نہیں سکی تھی۔ بس منہ بنا کر رہ گئی تھی۔

اور یہ تو ابھی کچھ دیر پہلے کی بات ہے۔ اُس کی سب سے پیاری سہیلی نے کہا تھا۔ ’’کچھ ہے تیری آواز میں … ہائے! کیا آواز دی ہے دینے والے نے !‘‘ اس نے کہا تو کچھ نہیں بس کل کھلا کر ہنس پڑی تھی۔ اُس کے ہونٹوں سے پھوٹ کر وہ ہنسی سا منے والی ٹیکڑی سے ٹکرا کر لوٹ آئی۔ اور پھر سامنے والی ٹیکڑی کی طرف چلی گئی… وہاں سے ایک مرتبہ پھر لوٹ کر اس کی طرف آئی… اس نے اپنی انگلیوں پر گننا شروع کیا۔ پہلی انگلی … دوسری انگلی… تیسری انگلی… ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں ہو گئیں ۔اور دوسرے ہاتھ کی دو اور۔ اس نے ساتوں انگلیاں اپنی سہیلی کو دکھائیں اور وہ بس دیکھتی رہ گئی… ان مخروطی انگلیوں سے چھنتے ہوئے گلابی رنگ کو کچھ دیر نہارنے کے بعد اس نے اپنی آنکھیں ان پر رکھ دیں اور اس گلابی لمس کو آنکھوں میں موند کر وہاں سے چلی گئی۔

مونا کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اسے تو اب ایسی باتیں معمول معلوم ہوتی تھیں ۔ اس نے گردن کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا اور اس واقعہ کو بھی بھلا دیا اس کی آنکھیں اب ریوڑ کو تلاش کرنے لگیں ۔ اس نے دیکھا کہ وہ ندی کی طرف جا رہا ہے۔ مونا نے اپنی لکڑی اٹھائی اور اسے ہوا میں گھماتی ہوئی اچھلتی کودتی ریوڑ ے جا ملی۔ اس کے ریوڑ میں کچھ بھیڑیں تھیں اور کچھ بکریاں ۔ ریوڑ کے ساتھ اس نے بھی ندی کے پانی سے اپنی پیاس بجھائی اور وہیں گھاٹ پر پانی میں پیر لٹکائے بیٹھی رہی ۔

مونا کو یہ گھاٹ بہت بھاتا تھا۔ وہ بچپن سے یہاں آ کر پہروں بیٹھا کرتی۔ ندی کے مچلتے پانی اور شانت نیلے آسمان سے اس کی پرانی دوستی تھی۔ کبھی اسے محسوس ہوتا کہ ندی آسمان سے کچھ کہنا چاہتی ہے ۔ اوراس کا پانی اچھل اچھل کر آسمان تک وہ بات پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے…تو کبھی وہ سوچتی نہیں ! آسمان ندی سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اسی لیے تو اتنی اوپر سے ندی کی طرف جھکا ہوا ہے۔ بیٹھے بیٹھے اپنے اس خیال پر اسے خود ہی ہنسی آ جاتی۔ وہ سوچتی میں بھی کتنی بے وقوف ہوں ۔ ندی اور آسمان تو آپس میں اشارے کر رہے ہیں ۔ ان کی باتیں ایک دسرے تک پہنچانے کا کام تو ہوا کرتی ہے۔ ہوا کو جب معلوم ہوتا کہ ندی اور آسمان کے ساتھ وہ بھی مونا کو عزیز ہے تو وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی اور پھر مونا کی زلفیں بکھر کر کچھ اور سنور جاتیں ۔

سال میں ایک مرتبہ جب ندی کے کنارے میلہ لگتا تھا تو سب سے زیادہ رونق اسی گھاٹ پر ہوتی تھی۔ گرجا گھر سے نکل کر پوری بستی کے لوگ اس گھاٹ پر آتے اور سب مل کر ایک گیت گاتے تھے۔ پانی کے دیوتا کو خوش کرنے کا یہ گیت وہ نہ جانے کتنی نسلوں سے گاتے چلے آئے تھے۔ انہوں نے صرف گیت کے بول ہی نہیں اس کی دھن بھی اپنی ہر نسل کو وراثت و امانت کے طور پر سونپی تھی۔ پوری بستی کے لوگ ایک ساتھ خاص دھن میں جب گیت گاتے تھے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ عورت، مرد، جوان، بوڑھے اور بچے سب کی آواز ایک ہو کر جب بلندہوتی تو ہوا میں وہ ارتعاش پیدا ہوتا کہ پوری فضا گونجنے لگتی۔ اور مونا کو اس گونج کی باز گشت کی ترنگیں اپنے اندر سے اٹھتی ہوئی محسوس ہوتیں ۔ اسی کے ساتھ اس کی روح بھی مرتعش ہو جاتی اور وہ ایک ایسے عالم اضطراب سے دو چار ہوتی جس میں سکون اور طمانیت بھی شامل ہوتی تھی۔ پرکھوں کا صدیوں پر انا ورثہ ہوتا ہی کچھ ایسا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اس گیت کا مطلب نہیں جانتا تھا کہ گیت کی زبان ان کے لیے مردہ ہو چکی تھی۔ اب وہ ایک ایسی زبان بولتے تھے جسے ان کے پرکھوں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا۔

مونا جب بھی گھاٹ پر آتی، اسی سوچ میں ڈوب جاتی کہ آخر ہمارے پرکھوں نے اس گیت میں کیا بات کہی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ پوری بستی میں صرف دو ہستیاں ایسی ہیں جو پرکھوں کی زبان جانتی ہیں ۔ ایک تواس کے باپو اور دوسرے گر جا گھر کے پادری ۔ باپو تو خیر بستی کے مکھیا تھے۔ چرچ کے پادری نے بڑی تحقیق اور جستجو کے بعد اس زبان کی تفہیم کے مرحلے طے کئے تھے۔ باپو نے سب بستی والوں کے سامنے یہ بات کہی تھی اور اعلان کیا تھا کہ فادر ہمارے پرکھوں کی زبان سے پوری طرح واقف ہیں ۔ مونا کے لیے اتنی ہمت جٹا پانا ناممکن تھا کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے گیت کا مطلب پوچھے۔ ایسا نہیں کہ وہ ان دونوں سے خائف رہا کرتی تھی۔ بلکہ اندر ہی سے وہ خود کو آمادہ نہیں کر پاتی تھی۔ ادھر کچھ دنوں سے تو یہ اس کا مشغلہ ہی ہو گیا تھا کہ گھاٹ پر بیٹھی پانی سے کھیلتی رہے اور سوچتی رہے کہ گیت کے معنی کیا ہیں … شاید وہ الفاظ سے معنی تک کا سفر اکیلے ہی طے کرنا چاہتی تھی۔

بیٹھے بیٹھے اس نے چلّو بھر پانی آسمان کی طرف اچھال دیا۔ آسمان پر شفق پھول رہی تھی۔ ریوڑ نے گھر کی راہ لی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا وہ کچھ زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ اس نے اپنی لکڑی اٹھائی اور ریوڑ کے پیچھے چل دی۔ لکڑی کو ہوا میں گھماتے ہوئے وہ گھر میں داخل ہوئی۔ اور آتے ہی باپو سے شکایت کی ۔

’’باپو ! آج پھر یہ سب ندی پر گئی تھیں ۔ اسی گھاٹ پر۔‘‘

باپو نے اس کی طرف دیکھا۔

’’اور تو!؟‘‘

’’میں تو ان کے ساتھ ساتھ تھی۔‘‘

باپو کے پیشانی پر بل پڑگئے۔

’’تجھے کئی بار منع کیا ہے… ریوڑ کو کسی اور گھاٹ پر کیوں نہیں لے جاتی… لڑکی تو کسی دن…‘‘

اس نے بڑے پیار سے ’’باپو‘‘ کہا اور باپو خاموش ہو گئے۔

باپو خاموش تو ہو گئے لیکن ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ اس لڑکی پر ڈانٹ بے اثر ہے، تو اسے سمجھانا بے سود۔ ایسی لڑکی کو کون سمجھائے جو ریوڑ ہانکنے کے بجائے خود اس کے ساتھ ہو لیتی ہو۔ وہ تو کہئیے کہ یہ بے زبان جانور روز شام سیدھے گھر چلے آتے ہیں ۔ ورنہ یہ لڑکی تو گھر بھی نہ لوٹے۔ بڑے بوڑھوں نے صحیح کہا ہے کہ لڑکی کو ڈانٹ ڈپٹ کررکھنا چاہیے۔ اور پھر یہ تو بستی کے مکھیا کی لڑکی ہے۔ انہیں مونا کی نافرمانی پر غصہ آ رہا تھا۔ اور اپنی   بے بسی پر وہ جھلا رہے تھے۔ ان کے حواس پر غصہ اور جھلاہٹ حاوی ہونے لگے تو ان کے قدم خود بخود گر جا گھر کی طرف اٹھ گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے اعتراف کیا۔

’’اے مقدس باپ! میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکا، میں نے ضبط سے کام نہیں لیا، اور غصہ میر ے حواس پر حاوی ہونے لگا۔ میں نے کچھ دیر کے لیے تیرے خیال کو دل سے نکال دیاور بے بسی مجھ پر چھانے لگی…لیکن اے مقدس باپ مونا میری اکلوتی بیٹی ہے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ وہ کبھی اس گھاٹ پر جائے۔ اے ماضی، حال اور مستقبل کے جاننے والے میں تجھے ماضی کا واسطہ دیتا ہوں …میں تجھ سے مونا کی زندگی مانگتا ہوں۔‘‘

اعتراف کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے اعصاب ہلکے ہو گئے ہیں ۔ غصہ اور جھلاہٹ سے نجات پانے کے بعد انہوں نے طبیعت میں ایک انشراح محسوس کیا اور انہیں خود اپنے اس خیال پر ہنسی آ گئی کہ ندی کے اس گھاٹ پر کسی دن مونا کا پیر پھسلے گا اور وہ… انہوں نے دل ہی دل میں مقدس باپ کا شکر ادا کیا کہ ان کا وہم ماضی کی جس روایت پر ٹکا ہوا ہے وہ اب نہ صرف مردہ روایت بن گئی ہے بلکہ شاید ہی اب کوئی اس سے واقف بھی ہو۔

بستی کا مکھیا ہونے کی وجہ سے باپو فادر سے خاصے قریب تھے۔ باپو کو ایک طرف بستی والوں کی سرداری نصیب تھی تو دوسری طرف فادر کا اعتماد حاصل تھا۔ جس کی وجہ سے ہے وہ چرچ اور بستی کے بیچ ایک اہم پل کی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ اپنی اس اہمیت اور حیثیت کو وہ خوب سمجھتے تھے اور اسے نبھاتے بھی بڑی خوبی کے ساتھ۔ باپو کے فادر سے دوستانہ مراسم قائم ہو گئے تھے۔ کبھی فادر باپو کے گھر آ جاتے تو کبھی آدمی بھیج کر باپو کو اپنے یہاں بلوا لیتے… اور پھر دونو ں میں کافی دیر تک باتیں ہوتیں ۔ اب کے ملاقات میں دورانِ گفتگو فادر نے کہا۔

’’میرے ایک دوست برسوں سے ورجن میری کی شبیہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں … میرے خیال سے بیس ایک سال تو ہو ہی گئے ہوں گے… لیکن ابھی تک وہ کامیاب نہیں ہوئے۔‘‘

’’وجہ کیا ہے فادر؟ مدر میری کی تو کئی شبیہیں موجود ہیں ۔‘‘

’’ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ اس شبیہ کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں وہ جذبات نہیں ابھرتے اور وہ عقیدت نہیں جاگتی جو ورجن میری کی ذات سے وابستہ ہے۔‘‘

’’یعنی؟‘‘

’’یعنی یہ کہ مروّجہ شبیہ کو بار بار دیکھتے رہنے سے جو جذبات ہمارے اندر جڑ پکڑ چکے ہیں انہیں ہم نے ورجن میری، کی ذات سے وابستہ کر دیا ہے۔ اصلاً جس عقیدت اور جن جذبات کو جگا نا ہمارا مقصد ہے وہ تو الگ ہی رہے۔‘‘

باپو گو مگو میں پڑ گئے۔ فادر نے ان کی مشکل آسان کر دی۔

’’مکھیا جی! اگر آپ میری رائے پوچھیں تو میں اس خیال سے متفق ہوں ۔‘‘

باپو نے کہا:

’’فادر تو پھر آپ کے دوست کو چاہئے کہ وہ مدر میری کی ایک نئی شبیہ ضرور بنائیں ۔ چاہے بیس برس اور لگ جائیں ۔‘‘

فادر نے کہا:

’’ وہ بات نہیں ہے مکھیا جی! میرے دوست کا کہنا ہے کہ بے پناہ نسوانی حسن اور معصومیت کے نورانی امتزاج کی حامل دوشیزہ کو دیکھے بغیر ورجن میری کی شبیہ نہیں بنائی جا سکتی‘‘

باپو نے حیرت کے ساتھ سوال کیا:

’’تو کیا ان بیس برسوں میں ان کی یہ فنی شرط یا ضرورت پوری نہیں ہوئی؟‘‘

فادر نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور کہا:

’’مکھیا جی! یہ صرف ایک فنی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ روحانی تقاضا بھی ہے اور اس دوہری شرط کو ہماری مونا پورا کرسکتی ہے۔‘‘

باپو نے عقید تاً اپنا سر جھکا لیا۔ اور مسرت کی فراوانی سے ان کا چہرہ دمکنے لگا۔

فادر نے آگے کہا:

’’میں نے انہیں خط لکھا ہے۔ آج کل میں وہ یہاں آ جائیں گے۔ مکھیا جی! مقدس باپ آپ پر بہت مہر بان ہے اور آپ کی بیٹی پر بھی۔‘‘

باپو نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا

’’فادر وہ آپ ہی کی بیٹی ہے۔‘‘

اس شام باپو بہت خوش تھے۔ دل ہی دل میں انہوں نے ہزاروں مرتبہ مقدس باپ کا شکر ادا کیا۔ وہ سوچ رہے تھے بستی میں ان کے لیے کتنے بڑے اعزاز کی بات ہو گی۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر تشکر آمیز نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان پر شفق پھول رہی تھی۔ ریوڑ کے گلے کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا۔ ان کی مونا جھومتی جھامتی لکڑی کو ہوا میں گھماتی ہوئی ریوڑ کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ اس نے دور ہی سے آواز دی۔ ’’باپو!‘‘ اور وہ نہال ہو گئے۔ انہوں نے اونچی آواز میں بڑے پیار سے اسے پکارا:

’’میری‘‘!’’میری !!‘‘ انہوں نے آواز دی۔ اور سوچا یہ میں کیا کہہ گیا؟ مقدس باپ شاید اسے غلطی یا گستاخی نہ سمجھیں ۔ لیکن مونا کیا کہے گی… مونا نے کچھ نہیں کہا۔ اس نے سوچا شاید اور باتوں کی طرح یہ بھی معمول بن جائے۔

اس رات کافی دیر تک باپو کو نیند نہیں آئی۔ انہوں نے سوئی ہوئی مونا کی طرف دیکھا۔ نیند میں اس کا معصوم چہرہ کچھ اور معصوم نظر آ رہا تھا۔ پورے چاند کی رات تھی۔ چاند بھی چھت میں سے جھانک کر اسے دیکھ رہا تھا۔ مونا کے چہرے کے گرد نور کا ایک ہالہ بن گیا تھا۔ رات بہت ڈھل چکی تھی ۔ پوری بستی خاموشی کی چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ اور ندی کے پانی کا شور اس سکوت کو توڑ رہا تھا۔ باپو نے آنکھیں موند لیں اور کروٹ بدلی۔

ان کی بندآنکھوں میں نور کا ہالہ تھا۔ اور کانوں میں ندی کے پانی کا شور گونج رہا تھا… دھیرے دھرے ندی کا شورایک گیت کی لے میں ڈھلنے لگا…یہ وہی گیت تھا۔ جسے وہ صدیوں سے ندی کے کنارے اس گھاٹ پر ٹھہر کر گاتے آئے تھے… لے تیز سے تیز تر ہونے لگی… اور پھر وہ دھن میں بدل گئی… باپو نے محسوس کیا کہ پوری بستی گھاٹ پر اکٹھی ہوئی ہے۔ سب ایک آواز ہو کر وہی گیت گارہے ہیں … گیت کی دھن پوری بستی میں لہرا رہی ہے… ندی کی موجوں کی طرح اور وہ بستی کے مکھیا پڑے سو رہے ہیں ۔ وہ بہت خجل ہوئے… وہ دوڑنے لگے… اور ہانپتے کانپتے گھاٹ پر پہنچے۔

گھاٹ خالی پڑا تھا۔ انہوں نے بستی کی طرف مڑ کر دیکھا سب سوئے پڑے تھے۔ گھاٹ کے پتھر پر بیٹھ کر انہوں نے اپنی سانسیں درست کیں … وہ سوچنے لگے… پر کھوں کے گیت نے انہیں اس طرح کیوں آواز دی۔ اور کیوں انہیں یہاں گھاٹ پر لے آیا… اس گھاٹ پر جس کا خیال آتے ہی ان کی روح کانپ جاتی ہے… انہوں نے مقدس باپ کو یاد کیا۔ اور سینے پر صلیب کا نشان بنایا… وہ سوچنے لگے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی انہیں پرکھوں کی یاد آتی ہے وہ مقدس باپ کو یاد کرتے ہیں ۔ اور جب بھی ان کے کانوں میں پرکھوں کے گیت کی دھن بجنے لگتی ہے وہ اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنا لیتے ہیں اور یہ گھاٹ… وہ جتنا اس سے بھاگنا چاہتے ہیں اتنا ہی یہ ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے…اور  مونا …… اس نے آج تک ان کی ہر بات مانی ہے۔ لیکن لاکھ منع کرنے پر بھی وہ اس گھاٹ پر آتی ضرور ہے۔

باپو کو اپنے بزرگوں کی بیان کردہ سینہ بہ سینہ چلی آ رہی صدیوں پرانی وہ روایت یاد آئی۔ جس میں پہلی مرتبہ بستی میں پادریوں کی آمد کا ذکر ہے۔ پادریوں کو یہ بستی بہت بھائی تھی۔ لیکن پادری اس گیت اوراس کے ساتھ جڑی ہوئی رسم کے سخت مخالف تھے۔ بستی والے اور سب کچھ تو چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ لیکن اس گیت اور اس رسم کو ترک کرنے پر وہ رضا مند نہیں تھے۔ آخر کار وہ اس پر راضی ہوئے کہ رسم ترک کر دیں گے۔ لیکن ان سے ان کے پرکھوں کا گیت نہیں چھینا جائے گا۔ پادریوں نے اس پر رضا مندی ظاہر کی۔ اور یہ طے پایا کہ سال میں ایک مرتبہ پوری بستی صبح سویرے گرجا گھر میں جمع ہو گی۔ وہاں فادر کی رہنمائی میں مقدس باپ کی اجازت لی جائے گی۔ اور پھر سب گھاٹ پر جمع ہو کر ایک آواز میں پرکھوں کا گیت گائیں گے۔ اس موقع پر ندی کے کنارے چرچ کی جانب سے میلے کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ باپو اس سوچ میں گم، بت بنے، گھاٹ کے پتھر پر بیٹھے تھے کہ زور کی ہوا چلی ہوا کے جھکڑ نے ایک پتھر کو لڑھکا یا اور وہ گھاٹ سے پھسل کر پانی میں جا گرا۔ اس آواز نے دوبارہ باپو کو اس ماحول کا جزو بنا دیا۔ انہوں نے چاروں طرف دیکھا۔ آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں ۔ پو پھٹنے والی تھی۔ پانی میں جھانکا۔ پتھر ڈوب چکا تھا۔ اور روشنی نہ تھی کہ وہ ان دائروں کو دیکھتے جنہیں پتھر پانی کی سطح پر چھوڑ گیا تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر مقدس باپ کو یاد کیا۔ اور گھر کی طرف چل پڑے۔

بوڑھے فنکار نے فادر اور باپو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:

’’میں جس انس پی ریشن کے لیے پچھلے بیس برسوں سے تڑپ رہا تھا، آج مجھے اس لڑکی کے روپ میں آپ دونوں نے عطا کیا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ مقدس باپ آپ کو اس نیک عمل کا صِلہ ضرور دے گا۔‘‘

بوڑھے فنکار نے دوسرے ہی دن سے کینوس پر کام شروع کر دیا۔ وہ پہروں آنکھیں موند کر مراقبے کی حالت میں کھڑا رہتا اور پھر آنکھیں کھول کر برش سے کینوس پر ایک خط لگاتا… اس کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر طویل عرصہ کے لیے حالت مراقبہ میں چلا جاتا۔ اس کے لیے اس کا فن عبادت کا درجہ رکھتا تھا۔ وہ ایک عجیب روحانی سرمستی کے عالم میں کھویا ہوا تھا ۔ اور وہ اس تسکین کی آہٹ بھی سن رہا تھا جو کسی فنکار کو اپنا شاہکار مکمل کرنے پر حاصل ہوتی ہے۔ مونا روز صبح دو ڈھائی گھنٹے اس کے سامنے بیٹھ کر آ جاتی۔ لیکن وہ اپنا تمام دن کینوس کے سامنے ٹھہر کر کاٹتا تھا۔

ایک صبح مونا گر جا گھر سے لوٹ رہی تھی۔ بوڑھے فنکار کے سامنے بیٹھے بیٹھے اس کا بدن اکڑ گیا تھا۔ چلتے چلتے اس نے ایک انگڑائی لی اور چم سے بجلی چمکی ۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان بالکل صاف تھا، دور دور تک بارش کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ اس نے سوچا مقدس باپ کی مرضی وہ چاہیں جس وقت بجلی چمکائیں ۔ اس نے ایک انگڑائی اور لی اور ایک مرتبہ پھر بجلی چمکی… وہ حیران تھی… یہ بجلی اور میری انگڑائی… یہ میری انگڑائی اور بجلی… کیا کچھ رشتہ ہے دونوں میں ۔ دل نے کہا یہ سب مقدس مریم کے سایہ کی برکت ہے۔ اس نے ایک انگڑائی اور لی… اور ایک مرتبہ پھر بجلی چمکی پھر تو یہ ہوا کہ وہ انگڑائیاں لیتی رہی اور بجلیاں چمکتی رہیں … ایک دو تین چار انگڑائیاں اور چار بجلیاں … پانچ چھ سات آٹھ انگڑائیاں اور آٹھ بجلیاں ۔ نہ جانے اس نے کتنی انگڑائیاں لیں اور نہ معلوم کتنی بجلیاں چمکیں ۔ اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ جھوم اٹھی۔ اس کے پیر تھرکنے لگے۔ اس کے پیر تھرکتے رہے اور وہ جھومتی رہی… جھوم جھوم کر وہ نڈھال ہو گئی… اس کا بدن ٹوٹنے لگا… اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور وہ چکرا کر گر پڑی!

جب اسے ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ ندی کے گھاٹ پر لیٹی ہوئی ہے۔ اور ایک اجنبی اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارہا ہے۔اس نے اجنبی کو غور سے دیکھا… اور وہ دیکھتی ہی رہی ! اس کے جی نے چاہا کہ اس کی سہیلیاں اس کے بارے میں جو بھی کہتی آئی ہیں وہ سب کچھ… بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ وہ اس اجنبی سے اس کے بارے میں کہے۔ اجنبی کے ہونٹ …اس کے گال… اس کے بال… اور …اس کی آنکھیں … اس کی آنکھوں میں چاند جیسی چمک تھی۔ اور ندی جیسی گہرائی… اس نے چاہا کہ اس گہرائی میں ڈوب جائے…… بس ڈوبتی چلی جائے اس گہرائی میں … ایسی ڈوبے کے پھر نہ ابھر سکے۔

زندگی میں پہلی بار مونا کے دل کی دھڑکن کچھ دیر کے لیے رک گئی۔ پہلی بار اس کی پلکیں جھپکنا بھول گئیں ، اور پہلی مرتبہ اس نے چاہا کہ کوئی اسے ہولے سے اس کا نام لے کر پکارے۔ اسی پل اجنبی کے ہونٹ ہلے۔ اور اس نے ہولے سے ’’مونا‘‘ کہا اور مونا تو جیسے مر ہی گئی! مونا نے خواب آلودہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:

’’اجنبی تم نے مجھے مونا کہا؟‘‘

’’میں نے غلط تو نہیں کہا؟‘‘

’’نہیں ، تم نے بہت صحیح کہا۔ ان دنوں میں دھیرے دھیرے مونا سے میری بنتی جا رہی ہوں ۔‘‘

’’میں تمہیں پھر سے مونا بنا سکتاہوں ۔ دیکھو میں ایک فنکار ہوں ……‘‘

وہ رہا میرا کینوس…اور یہ ہے میرا برش…تمہیں صرف۔‘‘

’’ مجھے صرف اتنا کرنا ہو گا کہ یہاں گھاٹ کے پتھر پر تمہارے سامنے روز پہر بھر بیٹھی رہوں ……یہی نا!‘‘

’’ہاں !ہاں !! بالکل یہی!‘‘

’’روز شام ، میرا ریوڑ یہاں آتا ہے۔ تم بھی آ جایا کرو۔‘‘

نوجوان فنکار نے مونا کو بستی کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ دھیرے دھیرے وہ اس کی نظروں سے دور ہوتی چلی گئی…فاصلہ بڑھتا گیا اور وہ چھوٹی ہوتی گئی… جتنا فاصلہ بڑھتا تھا۔ اتنی ہی وہ چھوٹی ہوتی جاتی تھی…ہوتے ہوتے وہ ایک نقطہ کے برابر ہو کر رہ گئی۔ فنکار نے سوچا یہی وہ نقطہ ہے جس نے تخلیق کے رمز اور فن کی گہرائی کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے۔ یہ نقطہ پھیلے تو ایک شاہکار ہے ۔ اور سمٹے تو اسرار ۔

نوجوان کو اس تسکین کے پیروں کی چاپ سنائی دی جو کسی فنکار کو اس کے شاہکار کی تکمیل کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ اس نے اپنے گلے میں لٹکے کیمرے اور فلیش کی طرف دیکھا۔ رول تو کیمرے میں تھا ہی نہیں ۔ اس نے ایک آنکھ میچ کر بٹن دبائی۔ ایک مرتبہ پھر بجلی چمکی لیکن اب وہ نقطہ فضا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ اس نے خالی کینوس پر اپنی نظریں گاڑ دیں ۔ اور دھیرے سے کہا:

’’مونا کا پورٹریٹ صرف مونا کا پورٹریٹ نہیں ہو گا……وہ مونا لیزا کا جواب ہو گا۔‘‘

صبحیں شاموں سے بدلتی رہیں اور شامیں راتوں میں ڈھلتی رہیں ۔ ادھر ورجن میری کی شبیہ تکمیل کی منزلیں طے کرتی رہی اور ادھر مونا لیزا کا جواب بھی مکمل ہوتا رہا۔ اور ایک صبح وہ آئی جس نے دیکھا کہ دونوں فنکاروں نے اپنا اپنا شاہکار مکمل کر لیا ہے۔ اور اس پر پردہ ڈال رکھا ہے۔

فادر نے ایک نظر اس ڈھکے ہوئے کینوس پر ڈالی اور بوڑھے فنکار اور باپو سے مخاطب ہو کر کہا:

’’ہم مقدس باپ کے مشکور ہیں کہ یہ کینوس اب ایک شاہکار میں بدل گیا ہے۔‘‘

احترام و عقیدت کے بوجھ سے بوڑھے فنکار کا سرجھک گیا۔ فادر نے باپو سے کہا:

’’مکھیاجی! اب ہمیں میری میرا مطلب ہے مونا کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے۔‘‘

باپو نے پردے سے ڈھکے ہوئے شاہکار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:

’’ان دنوں میں اسی تعلق سے فکر مند ہوں ۔ سوچتا ہوں کوئی اچھا سا لڑکا…‘‘

فادر نے بڑے ہی نرم لہجے میں کہا:

’’مکھیا جی! اب ہماری مونا صرف مونا نہیں رہی…ورجن میری کی یہ شبیہ ہمارے گرجا گھر میں لگے گی اور اس کی تصویریں دنیا کے تمام گرجا گھر وں میں لگیں گی۔ اب مونا …میرا مطلب ہے ورجن میری کی اس شبیہ کو سب دیکھیں گے۔ بستی والے بھی اور دنیا والے بھی۔ اسے دیکھ کرسب کے دلوں میں مقدس جذبات ابھریں گے اور عقیدت بیدار ہو گی … اور آپ چاہتے ہیں …‘‘

باپو کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ فادر نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے کہا:

’’آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں ؟ کیا مونا میری بچی نہیں ہے۔ میں نے ایک حل سوچا ہے۔‘‘

باپو نے پر امید آواز میں …پوچھا۔

’’کون سا حل فادر ؟‘‘

’’ہم مونا کو تری بھیج دیں گے۔ وہاں وہ نن بنے گی اور مقدس باپ کی مہربانی سے مدر کے درجہ تک ترقی کرے گی‘‘

باپو نے بڑے سخت لہجے میں کہا۔

’’فادر میں مونا کو نن نہیں بننے دوں گا۔‘‘

فادر نے بڑے ہی دھیمے لہجہ میں کہا:

’’مکھیا جی! بیٹی کے معاملے میں باپ کا جذباتی ہو جانا عین فطری بات ہے۔ ذرا ان کے بارے میں سوچئے جو آپ سے پہلے بستی کے مکھیا تھے۔ اور بستی ابھی مقدس باپ کے مہربان سائے سے محروم تھی… ذرا سوچئے مکھیا جی! ان باپوں کے دلوں پر کیا بیتی ہو گی جن کی بیٹی کے جوان ہونے پر ندی کے کنارے جشن منایا جاتا تھا۔ اس گھاٹ پر جل دیوتا کی پوچا ہوتی تھی اور اس جوان لڑکی کا بیاہ جل دیوتا کے ساتھ رچایا جاتا تھا… پھر پوری بستی کے لوگ ، مرد، عورت جوان بوڑھے، بچے سب مل کر ایک گیت گاتے تھے۔ جس میں جل دیوتا کی مدح ہوتی تھی۔ اور اس سے درخواست کی جاتی تھی کہ وہ بستی کے مکھیا کی لڑکی کو قبول کر لے۔ اور بستی پر ہمیشہ کی طرح مہربان رہے اور گیت کے اختتام کے ساتھ ہی اس لڑکی کو جل دیوتا کے حوالے کر دیتے تھے… بہا دیتے تھے اسے ندی میں ۔ مکھیا جی! مقدس باپ زندگی لیتا نہیں ، دیتا ہے۔ شاید اس نے مونا کو ایک نئی زندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

باپو کے کانوں میں پرکھوں کا گیت گونجنے لگا۔ انہوں نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا۔ بجھی ہوئی آنکھوں سے فادر کی طرف دیکھا اور آنکھیں موند کر اپنی رضا مندی ظاہر کی۔

فادر نے بوڑھے فن کار کو اشارہ کیا کہ وہ اپنے شاہکار کو بے نقاب کرے۔ بوڑھے فن کار کا ہاتھ کینوس کی طرف بڑ ھ رہا تھا کہ کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور اس نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ گر جا گھر کی دہلیز پر ایک نوجوان کھڑا تھا۔ نوجوان ایک کینوس کو سنبھالے ہوئے تھا۔ تینوں کو اپنی طرف متوجہ پاکر اس نے قدم آگے بڑھائے۔ ان کے درمیان سے گذرتا ہو وہ وہاں گیا جہاں بوڑھے فنکار کا ڈھکا ہوا شاہکار رکھا تھا۔ ڈھکے ہوئے کینوس کے مقابل اس نے اپناکینواس ایستادہ کیا۔ اس کا کینوس بھی ڈھکا ہوا تھا اور وہ خود ایک سوالیہ نشان بن کر اپنے کینوس سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔

گِرجا گھر میں موت کا سناٹا چھا گیا۔ سوال یہ تھا کہ اس سکوت کو توڑے گا کون؟ باپو… فادر… یا بوڑھا فنکار۔ تینوں آپس میں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ خود نوجوان نے سکوت کو توڑتے ہوئے کہا:

’’آپ نے مونا کو میری بنایا ہے اور میں نے اسے مونا لیزا کا جواب بنایا ہے۔‘‘

مونا لیزا کے نام پر بوڑھے فنکار کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ فادر نے تیوری چڑھائی اور باپو کچھ سمجھ نہیں سکے۔ نوجوان نے کہا:

’’مجھے دھن سوار تھی کہ میں دنیا کے سامنے مونا لیزا کا جواب پیش کروں ۔ ایک ایسا شاہکار بناؤں جسے دیکھ کر دنیا والے مونا لیزا اور اس کی مسکراہٹ کو بھول جائیں ۔ انس پی ریشن کی تلاش میں میں نے دنیا بھر کی خاک چھانی… اب یہ محض اتفاق ہے یا تخلیق کے اسرار میں سے ایک راز کہ مجھے اور اس بزرگ فنکار کو ایک ہی لڑکی نے انسپائر کیا۔‘‘

فادر نے آگے بڑھ کر کہا:

’’نوجوان اب تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

نوجوان نے انتہائی احترام کے ساتھ کہا:

’’فادر میں انصاف چاہتا ہوں ۔‘‘

فادر نے شفقت آمیز لہجہ میں پوچھا:

’’کیسا انصاف میرے بچے۔‘‘

نوجوان نے کہا:

’’مونا کی زندگی کو آپ نے بزرگ فنکار کے فن کے ساتھ جوڑا ہے… میرے فن کو بھی اس کا مستحق سمجھا جائے۔‘‘

باپو کی بجھی ہوئی آنکھوں میں روشنی کی لکیر دوڑ گئی۔ بوڑھا فن کا ر اپنی جگہ سنبھل کر کھڑا ہو گیا اور فادر نے نوجوان کی فہمائش کرتے ہوئے کہا:

’’تم ایک معصوم مورت کو تنویر و تقدیس کے ماحول سے نکال کر زندگی کی آلائشوں سے ناپاک کرنا چاہتے ہو۔‘‘

نوجوان نے کہا:

’’فادر! میں بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ جسے آپ زندگی کہتے ہیں وہ کسی کے لیے موت ہوسکتی ہے۔ کسی کی موت کو آپ زندگی کا نام دے سکتے ہیں … میں تو بس انصاف چاہتا ہوں ۔‘‘

فادر نے بوڑھے فنکار کی طرف دیکھا۔ اس نے نظر کے اشارے سے نوجوان کو داد دی اور فادر اس پر راضی ہو گئے کہ دونوں فنکار اپنے اپنے شاہکار سے پردہ اٹھائیں ۔

بوڑھے فنکار نے اپنے کینوس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور نوجوان نے اپنے کینوس کی طرف۔ پردوں کے کونے دونوں کی انگلیوں میں تھے۔ ایک فادر کے اشارے کی دیر تھی۔ وہ دونوں ہلکا سا جھٹکا دے کر پردہ ہٹانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ اس سے پہلے کہ فادر اشارہ کرتے اور ان دونوں کی انگلیوں کی جنبش اپنے اپنے کینوس کو بے نقاب کرتی، زور کی ہوا چلی اور پردے ان کی انگلیوں سے چھوٹ کر کھڑکی کے راستے باہر آسمان کی طرف اڑنے لگے۔ وہ چاروں کینوس کو بھول کر، مبہوت و متحیر ان اڑتے ہوئے پردوں کو دیکھنے لگے… دیکھتے دیکھتے ہوا کے جھکڑ آندھی میں بدل گئے اور وہ تیز آندھی چلنے لگی کہ گر جا گھر کا گھنٹہ بجنے لگا۔

چاروں گرجا گھر کے باہر کھڑے اس انہونی کو دیکھ رہے تھے۔ اس سے پہلے ایسی آندھی کبھی نہیں چلی کہ گرجا گھر کا گھنٹہ مسلسل بجتا چلاجائے۔ گھنٹے کی ٹن ٹن آندھی کی رفتار کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ پوری بستی گرجا گھر کے سامنے جمع ہوچکی تھی۔ بستی والوں کے نزدیک یہ کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔ وہ کسی آسمانی آفت کے خیال سے سراسیمہ تھے۔ سبھوں نے اپنے اپنے سینے پر صلیب کے نشان بنائے۔ باپو نے بھی اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور ان کے کانوں میں پرکھوں کا گیت گونجنے لگا۔ ان کی نظریں خود بخود ندی کی طرف مڑ گئیں ۔ انہوں نے دیکھا کہ دو لڑکیاں آندھی سے بچتی بچاتی گر جا گھر کی طرف آ رہی ہیں … ان میں سے ایک نے اپنی ہچکیوں کو روکتے ہوئے کہا کہ وہ سب لڑکیاں وہاں گھاٹ پر بیٹھیں چہلیں کر رہی تھیں کہ اچانک مونا کا پیر پھسلا اور وہ پتھر کی طرح لڑھکتی ہوئی……!

باپو روتے پیٹتے گھاٹ کی طرف دوڑے اور بستی والے بھی سب کے سب ان کے ساتھ ہو لیے… فادر گر جا گھر کے آنگن میں ایک بت کی صورت، کھڑے اس بجتے ہوئے گھنٹے کو دیکھتے رہے او ردونوں فنکار اندر کی طرف لپکے۔ بوڑھے نے نوجوان کے کینوس کی طرف دیکھا اور نوجوان نے بوڑھے کے کینوس کی طرف…دونوں ، کینوس بالکل کورے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رِنگ ماسٹر

 

 

اس کے بدن پر لرزہ طاری تھا۔ اس کی کپکپاہٹ اور تھر تھراہٹ کمرے کی فضا میں بھی ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب سے اس پر لرزہ طاری تھا کمرے کی ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔ اس کی نظر بھی کانپ رہی تھی اور اسی لیے اسے پورا کمرہ لڑکھڑاتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور بات ہوئی تھی اور وہ یہ کہ کچھ فاصلے پوری طرح ختم ہو گئے تھے اور کچھ نزدیکیاں بڑی دور ہو گئی تھیں ۔ اُس کے کمرے کی چھت جس کا فرش سے فاصلہ نو دس فٹ تھا یا بالکل اس کے سینے پر آ گئی تھی اور وہ اس کے منوں وزن کے نیچے دب کر رہ گیا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اٹھ نہیں پارہا تھا۔ اتنا بھاری وزن سینے پر لے کر اٹھنا اس کے لیے ناممکن تھا… وہ سرکس میں رنگ ماسٹر رہ چکا تھا، وزن اٹھانے والا پہلوان نہیں لیکن اگر آج اس کی جگہ وہ پہلوان بھی ہوتا تو چیں بول جاتا۔

اس نے اسی کو غنیمت جانا کہ اس کا سینہ، اس کا پلنگ اور اس کا فرش، تینوں اس وزن کے باوجود صحیح سلامت ہیں ۔ وہ لیٹے لیٹے، اس پتھر کی سل کے نیچے دبا، صرف اپنی گردن کو موڑ سکتا تھا اور ہاتھ کو جنبش دے پاتا تھا۔ اس نے بائیں طرف گردن گھمائی۔ پلنگ سے لگی میز پر ٹیلی فون رکھا تھا۔ اس نے چاہا کہ ایک فون کر لے، اور کسی کو نہیں تو ڈاکٹر کو ہی خبر کر دے کہ اس پر کیا بیت رہی ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھایا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ نزدیکی دوری سے بدل گئی ہے اور وہ ٹیلی فون اس کی پہنچ سے بہت دور ہو گیا ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ مزید کوشش فضول ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ کو روک لیا۔ ٹیلی فون کے برابر میز پر ر کھی بدھ کی مورتی کو نظر بھر کر دیکھا اور گردن دوسری جانب موڑ لی۔

وہاں ساتھ والے پلنگ پر اس کی بیوی بیٹھی مالا کا جاپ کر رہی تھی۔ مالا کے دانوں کی چمک اور نائٹ بلب کی مدھم روشنی، دونوں مل کر کمرے پر چھائی ہوئی رات کے اندھیرے کی سیاہی کو مات دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کی نظر ان دانوں پر جم گئی۔ بیوی کی بوڑھی انگلیاں بڑی مشاقی سے انہیں پھیر رہی تھیں اور اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ اس بے وقت کے مالا کے جاپ اور بیوی کے انہماک کو دیکھ کراس کے دل میں یہ خیال آئے بغیر نہیں رہ سکا کہ کہیں کل ڈاکٹر نے اس سے وہ بات تو نہیں کہہ دی جو اکثر مریض سے چھپا کر اس کے عزیزوں کے کان میں کہی جاتی ہے…… اور یہ میری بیوی مالا کے دانے نہ پھیر رہی ہو بلکہ میری بچی کھچی سانسوں کی الٹی گنتی کے عمل میں مصروف ہو اور خود اسے معلوم نہ ہو کہ وہ کیا کر رہی ہے۔

یہ ڈاکٹر بھی عجیب ہوتے ہیں ۔ جس کی خبر ہوتی ہے اسے تو سناتے نہیں اور …! لیکن یہ ڈاکٹر ایسا نہیں کرسکتا۔ یہ بڑا سمجھ دار آدمی ہے ۔ایک کامیاب و تجربہ کار ڈاکٹر ہے اور انتہائی ذہین انسان ہے۔ میرا کیس ہر ڈاکٹر کے لیے معمہ بنا ہوا تھا لیکن اس نے اسے دو ہی ملاقاتوں میں حل کر دیا۔ اسے ڈاکٹر سے اپنی پہلی ملاقات یاد آئی۔ ڈاکٹر نے اس سے پوچھا تھا۔

’’آپ پوجا پاٹ کرتے ہیں ؟‘‘

’’نہیں !‘‘

’’مندر یا کسی ایسی جگہ عبادت کے لیے …‘‘

’’نہیں ڈاکٹر صاحب‘‘

’’آپ بھگوان کو تو مانتے ہیں ؟‘‘

’’ڈاکٹر صاحب اس کا جواب میں نہ تو ہاں میں دے سکتا ہوں اور نہ نا میں … زندگی پوری تمبو میں گذری ہے… اب کیا بتاؤں آپ کو… لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ آپ یہ بتائیے کہ مجھے دورے کیوں پڑتے ہیں ‘‘

ڈاکٹر نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا:

’’یہ سب میں اسی سلسلے میں پوچھ رہا ہوں مسٹر جے چند! کیا آپ جانتے ہیں … ایک چور ہے جو ہم سب کے اندر چھپا بیٹھا ہے… ایک ڈر ہے جس نے ہمارے دلوں میں جگہ بنا لی ہے اور ہم سب اس کے سامنے بے بس ہیں … لیکن اتنے بے بس اور لاچار نہیں جتنے آپ ہو گئے ہیں !‘‘

اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی لکیر ابھری، اس نے پوچھا۔

’’یہ آپ کس ڈر کی بات کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب؟‘‘

کھڑکی کے راستے ہوا کے ایک جھونکے نے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ میز پر رکھے پیپر ویٹ کے نیچے جے چند کا کیس پیپر پھڑ پھڑا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے دھیرے سے کہا:

’’موت کے ڈر کی بات کر رہا ہوں مسٹر جے چند!‘‘

ڈاکٹر کا جواب سن کر اس نے زور کا قہقہہ لگایا تھا۔ گویا ڈاکٹر نے یہ بات کہہ کر ایک ایسی حماقت کی ہو، جس کی اس سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس نے کہا:

’’ڈاکٹر آج میں ایک سرکس کمپنی کا مالک سہی لیکن میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ اصلاً میں ایک رنگ ماسٹر ہوں … میں نے تیس برسوں تک شیروں کو اپنے اشاروں پر نچایا ہے اور آپ مجھ سے ڈر کی بات کرتے ہیں !‘‘

ڈاکٹر نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا:

’’مسٹر جے چند ! مجھے آپ کی کہی ہوئی ہر بات یاد ہے۔ ذرا آپ مجھے یہ بتائیے، پوری دنیا میں ایسے کتنے آدمی ملیں گے، جنہوں نے تیس برسوں تک روز دن میں دو مرتبہ موت کی کھائی پار کی ہو اور دوبارہ زندگی کی وادی میں قدم رکھا ہو!…مسٹر جے چند! موت سے خائف ہر شخص ہے لیکن آپ کا معاملہ ذرا الگ ہے… موت آپ کا Obsessionبن چکی ہے!‘‘ وہ اپنی اس حماقت پر بہت شرمندہ ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے اس نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر ڈاکٹر کا مذاق اڑایا تھا۔ اس نے انتہائی احترام کے ساتھ سوال کیا۔

’’ڈاکٹر صاحب ! آپ پوجا پاٹھ اور بھگوان کی باتیں کیوں پوچھ رہے تھے؟‘‘

ڈاکٹر نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا:

’’جے چند جی ! جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے اسی طرح بڑا ڈر چھوٹے ڈر کو کھا جاتا ہے۔‘‘

’’یعنی؟‘‘

’’یعنی یہ کہ خدا کا خوف انسان کا سب سے بڑا خوف ہے… یہ صدیوں پرانا خوف اتنا بڑا ہے کہ موت کا ڈر اس کے سامنے خود بہ خود اپنی ہستی کھو دیتاہے۔‘‘

وہ اب پوری طرح ڈاکٹر کی ہمہ دانی کا قائل ہو گیا تھا۔ اس نے کہا:

’’ لیکن ڈاکٹر میں نہ تو آستک ہوں اور نہ ناستک……‘‘

’’آپ کے ساتھ یہی مسئلہ ہے کہ چاہے ان چاہے آپ نے صرف آدمی بنے رہنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

’’اس میں برائی کیا ہے ڈاکٹر؟‘‘

’’میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بری بات ہے لیکن جے چند جی یہ بھی تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی اچھی بات ہے۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب! اچھے برے کی چھوڑئیے ستیہ اور استیہ کی کہئے۔‘‘

سچ تو یہ ہے جے چند جی کہ ہمیں یہ کہنا کہ ہم بھگوان کو مانتے ہیں تہذیب نے سکھایا ہے۔ ہماری انا اور جذبۂ عزت نفس کو یہ گوارہ نہیں کہ ہم کھلے بندوں اپنی کمزوری کا اعتراف کریں ۔‘‘

کچھ دیر کے لیے دونوں خاموش رہے۔ دونوں یہ چاہ رہے تھے کہ دوسرا کچھ کہے تو بات آگے بڑھے۔ آخر گہری سوچ کے بعد ڈاکٹر نے بولنا شروع کیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہے۔

’’شاید سر کس کی دنیا ہمارے چہروں سے تہذیب کا نقاب اتارنے کا کام کرتی ہے… لیکن اس کا کام ادھورا رہ جاتا ہے۔ آخر وہ دنیا بھی اس سماج سے جڑی ہوئی ہوتی ہے … میں کہہ نہیں سکتا۔ میرا اندازہ کس حد تک درست ہے؟ آخر میں بھی ایک کمزور انسان ہوں ۔‘‘

جے چند نے محسوس کیا دونوں کے درمیان ڈاکٹر اور مریض کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔ اس نے کہا: ’’کمزور تو میں بھی نکلا ڈاکٹر۔ دنیا والے ایک بڑے ڈر سے خائف ہیں اور میں ایک چھوٹے ڈر سے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ سکون کی نیند سوتے ہیں اور میں ہر رات…‘‘

’’ہر رات جو کیفیت آپ پر طاری ہوتی ہے اور جس اذیت سے آپ گزرتے ہیں ، میرے نزدیک اس تعلق سے دو باتیں مثبت طور پر اہم ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس حالت میں بھی آپ قدرے باحواس ہوتے ہیں اور دوسری آپ کی سانس کی رفتار کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوتی…؟‘‘

اس نے بیوی کی طرف سے گردن موڑ لی اور سوچا بہتر ہے کہ یہ مالا ہی جپتی رہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کی موت کا خوف وہم بن کر دھیرے دھیرے اس کی بیوی کے دل میں گھر کرتا جا رہا ہے اور وہ اس کے جیتے جی بیوگی کی تصویر بنتی جا رہی ہے…… اور کل ڈاکٹر سے ملنے کے بعد شاید وہ اتنی گھبرا گئی…… کہ گھبرا کر اس نے اس بڑے خوف میں پناہ لے لی۔ اب وہ وقت بے وقت مالا جپنے لگی ہے ۔ اس کا آنچل سر سے کبھی ڈھلکتا نہیں ۔ ڈھکا ہوا سر اور جھکی ہوئی گردن لیے ہر پل منہ ہی منہ میں وہ کچھ پڑھتی رہتی ہے۔ ممکن ہے جو خوف پہلے وہم بن کر آیا تھا اب اس نے وہ لبا دہ اتار دیا ہو!

اسے اپنی بیوی پر پیار تو کئی بار آیا تھا لیکن آج پہلی بار اسے اس پر رحم آیا۔ گردن سیدھی رکھ کر اس نے آنکھیں موند لیں ۔ دل نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ یہ ڈاکٹر ایسا نہیں کرسکتا۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی بھی تو وہ اس سے کبھی نہ کہتا اور آج اسے اس قسم کی کوئی بات کہنی ہوتی تو وہ گھوش بابو سے نہ کہتا؟ وہ بھی تو ساتھ تھے۔ کتنے بھلے آدمی ہیں بیچارے گھوش بابو۔ اتنے پڑھے لکھے ہیں لیکن اینٹھ بالکل نہیں ۔ پروفیسری سے ریٹائر ہوئے بیس ایک برس تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ اس عمر میں بھی برابر کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے ہیں ۔ اگر پڑھ نہ رہے ہوں تو سوچ میں گم ہوتے ہیں ۔ کبھی شانت اور نشچنت نہیں بیٹھتے … شاید فلسفے کے پروفیسر کا بڑھاپاایسا ہی ہوتا ہے…… اور ممکن ہے رنگ ماسٹر کا بڑھاپا بھی کچھ میرے ہی جیسے ہوتا ہو!

ایک مرتبہ یہی بات گھوش بابو نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہی تھی۔ اس دن بھی وہ آج کی طرح جے چند کے ساتھ ڈاکٹر کے یہاں آئے تھے۔ وہ ڈاکٹر سے جے چند کی دوسری ملاقات تھی۔ گھوش بابو نے گھر لوٹتے وقت کار میں جے چند کی طرف دیکھ کر سرگوشی کے انداز میں کہا تھا:

’’جے چند جی ! آپ کو موت کا Obsessionہے اور مجھے زِندگی کا‘‘

ان کے اس جملے پر جے چند پل بھر کے لیے چکرا گیا تھا۔ اسے گھوش بابو پر ترس آ گیا تھا کہ یہ شخص جو مجھے اور میری بیوی کو جذباتی سہارا دینے کے لیے ڈاکٹر کے یہاں آتا ہے، کہیں خود مریض تو نہیں بنتا جا رہا! جے چند کی بدلی ہوئی حالت دیکھ کر گھوش بابو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا:

’’جے چند جی! میری عمر فلسفہ پڑھنے اور پڑھانے میں گذری۔ فلسفہ سمجھنے کی دھن اور کلاس روم میں لیکچر دینے کے شغل میں پتا نہیں کب میرے ہاتھوں سے زندگی نکل گئی… بس فلسفہ باقی رہ گیا۔ اب میں پہروں بیٹھا یہی سوچتا ہوں کہ جب زندگی ہی نکل گئی تو اس فلسفے کا میں کیا کروں ؟ اور جب کچھ سجھائی نہیں دیتا تو تھک ہار کر دوبارہ کتابیں دیکھنے لگتا ہوں کہ شاید کہیں میرے سمجھنے ہی میں کوئی غلطی نہ ہوئی ہو…… میں تو جے چند جی چوک گیا!‘‘

’’میری کہیے۔‘‘

’’آپ کے چوکنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ آپ وہ خوش نصیب ہیں جس کا Obsession زندگی نہیں موت ہے۔ فلسفے اور سمجھ کا پھیر موت کے دروازے پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے موت آج تک موت ہی رہی فلسفہ نہیں بنی۔ بنانے کی کوشش آج بھی جاری ہے…لیکن وہ راز کی راز ہی رہی۔‘‘

گھوش بابو کی باتیں جے چند پوری طرح سمجھ نہیں پاتا تھا۔ وہ ہوتی بھی بڑی عجیب تھیں ۔ جے چند کے لیے گھوش بابو ایک دلچسپ آدمی تھے اور گھوش بابو کے لیے جے چند۔ دونوں کے درمیان وقفے وقفے سے ایسی باتیں ہوتی رہتیں کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے کچھ اور دلچسپ ہو جاتے تھے ۔ ان کی شامیں اکثر ساتھ ہی گزرتی تھیں ۔

آج شام بھی دونوں کافی دیر تک ساتھ تھے۔ دراصل آج جے چند کا جنم دن تھا اور گھوش بابو اسے سالگرہ کی مبارکباد دینے آئے تھے اور تحفے کے طور پر بدھ کی وہ مورتی لائے تھے، جسے اس کی بیوی نے میز پر گھڑی کے برابر رکھا ہے۔ جتنی دیر گھوش بابو آج جے چند کے یہاں رکے انہوں نے بدھ کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات نہیں کی۔ جے چند اس موضوع پر کیا بولتا، بیٹھا سنتا رہا۔ کپل وستو کے راج کمار سے تتھا گت بننے تک کی گوتم بدھ کی داستان تو وہ پہلے سے جانتا تھا لیکن آج گھوش بابو اس کے سامنے انہیں واقعات کو کچھ اس طر ح بیان کر رہے تھے کہ وہ واقعات محض کتابی باتیں نہیں رہے بلکہ زندگی کا جیتا جاگتا تجربہ بن کر اس کے شعور اور ادراک کے وسیلے سے اس کی ذات میں بہت اندر تک اترتے چلے گئے اور آخر میں جو کتھا گھوش بابو نے اسے سنائی اس نے تو جے چند کوسراپا حیرت بنادیا۔ اتنی دلچسپ کتھا اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ کتھا سنتے وقت وہ ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوا تھا جس کے اثرات اب بھی اس کے حواس پر چھائے ہوئے تھے۔ ایک ایسی عجیب و غریب کہانی تھی جسے وہ پوری طرح سمجھ نہیں پایا تھا۔ اس کے باوجود اس کے اندر یہ احساس جڑ پکڑتا جا رہا تھا کہ پوری کہانی اس کی سمجھ میں آ گئی ہے اور اسی احساس نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ اس پریشانی کے پیدا کرنے میں کچھ ہاتھ گوش بابو کی تمہید کا بھی تھا جو انہوں نے کتھا سنانے سے پہلے باندھی تھی۔ انہوں نے کہا تھا:

’’جے چند جی! آج آپ کو بدھ کی ایک کتھا سناتا ہوں ۔ یہ کتھا میں کئی پروفیسروں کو سنا چکا ہوں اور کئی پنڈتوں ، مہا پنڈتوں کے کان میں انڈیل چکا ہوں لیکن آج تک یہ کسی کے دل میں نہیں اتری۔ دل تو دور رہا ان کی بدھی ہی میں نہ سما سکی۔ دیکھئے آپ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ آپ کے ساتھ جو بھی ہو یہ طے ہے کہ ہم دوبارہ اس کتھا پر بات نہیں کریں گے۔ تو سنئے!

یہ اس وقت کی بات ہے جب بستیاں سہاگنوں کی مانگ کی طرح آباد ہوا کرتی تھیں ۔ ایسا ان سنیاسیوں کی تپسیہ کے صدقے میں ہونا تھا جو ستیہ کی کھوج میں بستی کو تج کر جنگل کی راہ لیتے تھے۔ وہاں وہ خوب ریاضتیں کرتے تھے۔ خود کو کڑی آزمائشوں سے گزارتے تھے۔ اور جب ان کی ریاضت کی آگ میں تمام آلائشیں جل کر خاک ہو جاتیں تو وہ جنگل سے بستی کی طرف مراجعت کرتے تھے۔

ایسا ہی ایک جنگل تھا جس میں چار تپسوی تپسیہ کر رہے تھے۔ انہیں وہاں تپسیہ کرتے ایک عرصہ بیت گیا۔ اتنا عرصہ بیتا کہ ان کی جوانیاں بڑھاپوں میں ڈھل گئیں ، لیکن وہ آگ روشن نہ ہوئی جس کی تپش وجود کو آلائشوں سے پاک کر دیتی ہے اور وہ کرن ان کے اندر نہ اتری جس کے اترنے سے سب کچھ کندن کی طرح دمکنے لگتا ہے۔ اب ہر گھڑی انہیں یہ دھڑکہ لگا رہتا کہ پتا نہیں کب موت آ جائے اور ہم بستی کی طرف مراجعت کرنے سے رہ جائیں …… ہمیں یوں نا مراد ہی اس جہاں سے کوچ کرنا پڑے۔

آدمی کو جب کوئی دھڑکہ لگ جاتا ہے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ ان چاروں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اب بار بار ان کی تپسیہ کھنڈت ہونے لگی۔ رہ رہ کر یہ خیال بجلی بن کر ان کے حواس پر گرنے لگا کہ انہیں نامراد ہی یہاں سے کوچ کرنا پڑے گا۔ انہیں فکر لاحق ہوئی کہ اس خیال سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔ وہ حیران تھے کہ یہ ایک اکیلا خیال کس طرح دبے پاؤں آ کر ان پر قابض ہو گیا جبکہ وہ دنیا جہان کے خیالوں کو کھدیڑ کر حواس کی حدوں کے باہر کر چکے تھے۔

دھیرے دھیرے نراشا کے اندھیرے ان کو جکڑنے لگے اور ان کا دم گھٹنے لگا۔ کئی دن اس طرح بیتے اور ایک صبح انہوں نے دیکھا کہ وہ اندھیرے انہیں گھیر گھار کر بدحواسی کے کگار پر لے آئے ہیں ۔ کسی بھی لمحے وہ اس اندھی کھائی کے پیٹ میں سما سکتے ہیں ………لیکن اسی پل دور کے ایک جنگل میں دھیان میں بیٹھے تتھا گت، خیال بن کر ان کے ذہنوں کے راستے سے گزر گئے اور وہ چاروں ایک ساتھ پر امید آواز میں چلا اٹھے ’’شاکیہ منی!‘‘

تتھا گت کے خیال نے ایک مرتبہ پھر انہیں آس کی ڈوری کے ٹوٹے ہوئے سرے سے جوڑ دیا اور ذرا سی دیر میں ان پر یہ بھی روشن ہوا کہ ڈوری کا دوسرا سرا تتھا گت ہی سے بندھا ہوا ہے۔ وہ چاروں کھنچے کھنچے تتھا گت کے حضور میں حاضر ہوئے۔ تتھا گت ابھی دھیان ہی میں تھے۔ ان کا چہرہ پورنیما کے چاند کی طرح دمک رہا تھا۔ چاروں ہاتھ جوڑ کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ تتھا گت کے غلافی پپو ٹوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ انہوں نے آنکھیں کھول کر آنے والوں کو دیکھا۔ وہی چار بوڑھے سنیاسی ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ چاروں کے چہروں سے ان کی عمریں ٹپک رہی تھیں ۔ کچھ زیادہ فرق نہیں تھا ان کی عمروں میں ۔ بس اتنا ہی فرق تھا جتنا ایک کے بعد ایک اٹھنے والی سمند رکی چار موجوں میں ہوسکتا ہے۔!

پہلے سنیاسی نے آگے بڑھ کر عاجزی کے ساتھ کہا:

’’میں نے سب جتن کئے اور ناکام رہا۔ آپ اپنی شرن میں لے لیں تو دیا ہو گی۔‘‘

بدھ نے اس کے ہاتھوں میں ایک کشکول تھما یا اور اسے بھکشوؤں کی صف میں کھڑا کر دیا۔

دوسرے سنیاسی نے آگے بڑھ کر پر اعتماد لہجے میں کہا:

’’میں ستیہ کا کھوجی ہو۔ آپ سے راہ پوچھنے آیا ہوں ۔‘‘

تتھا گت نے کہا:

’’سیتہ کے کھوجی کو دنیا اور دھرم دونوں چھوڑنے ہوتے ہیں ۔‘‘

سنیاسی نے ہاتھ جوڑ کر کہا:

’’چھوڑ دیے۔‘‘

تتھا گت نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ واقعی وہ دونوں کو چھوڑ چکا تھا۔

تتھا گت نے اس سے کہا:

’’تو دنیا اور دھرم دونوں چھوڑ چکا ہے۔

بوڑھا بھی بہت ہوا ہے۔

ایسا کر،

اب شمشان چلا جا، اور

جس دن تیری چتا جلے

میرے پاس لوٹ آ

سنیاسی نے تیوری چڑھا کر کہا:

’’میں نے تجھے گیانی جانا تھا، تو تو ٹٹھا کرنے لگا۔ میں جنگل ہی میں بھلا تھا۔ میں وہیں رہ کر کچھ تپسیا اور کر لوں گا۔‘‘

سنیاسی نے یہ کہہ کر جنگل کی راہ لی۔

تیسرے سنیاسی نے آگے بڑھ کر انکساری کے ساتھ کہا:

’’میں ستیہ کی پراپتی کی ابھیلا شا میں جی رہا ہوں ۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے ابھیلاشا چھوٹ جائے اور ستیہ ملے۔‘‘

تتھا گت نے اس سے بھی دنیا اور دھرم چھوڑنے کی بات کہی۔ اس کی بھی آنکھوں میں جھانکا اور اس سے بھی یہی کہا کہ وہ شمشان چلا جائے اور جس دن اس کی چتا جلے وہ لوٹ آئے۔ سنیاسی نے بڑے ادب کے ساتھ کہا:

’’چتا جلنے کے بعد کبھی کوئی لوٹا ہے جو میں لوٹوں گا۔ لوٹنے سے تو رہا لیکن میں جاؤں گا ضرور۔آپ کو گرو جو مانا ہے۔ اب میں باقی دن شمشان میں ہی گزاروں گا۔‘‘

یہ کہہ کر سنیاسی کبھی نہ لوٹنے کے لیے شمشان چلا گیا۔

چوتھے اور آخری سنیاسی نے آگے بڑھ کر کھنکتی ہوئی آواز میں کہا:

دنیا اور دھرم دونوں چھوڑ چکا ہوں

عمر بھی کافی ہو چکی

بغیر کسی پر بوجھ بنے

چاہتا ہوں

کہ

شمشان چلا جاؤں

اور

جس دن میری چتا جلے

آ کر

تمہارے چرن چھوؤں !

تتھا گت نے اسے آشیر باد دیا اور کہا:

جس دن تمہاری چتا جلے

دھیان رہے

اس دن تمہاری

چتا ہی جلے!

آشیر باد پا کر سنیاسی شمشان کی طرف مڑ گیا۔ اس کی آنکھوں میں پورنیما کے چاند کا بسیراتھا اور کانوں میں تتھا گت کے وہ شبد گونج رہے تھے جو انہوں نے آشیر باد دیتے وقت کہے تھے۔

شمشان میں جا کر اس نے ایک اونچے ٹیلے پر آسن جما لیا اور دھیان اوستھا میں بیٹھ گیا۔ جلتی ہوئی چتا کو دیکھنے کی غرض سے اس نے اپنی آنکھیں کھلی ہی رہنے دیں ، لیکن اس دن کے بعد اس کی آنکھوں نے چتا کے شعلوں کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھا۔ اسے کبھی کسی نے پلک جھپکتے نہیں دیکھا اور نہ ہی اسے کسی نے اپنی جگہ سے ہلتے ہوئے دیکھا۔ دھیان اوستھا میں بیٹھے بیٹھے اس نے ہزاروں چتاؤں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ کسی کے منہ سے پانچ ہزار چتاؤں کی بات سنی گئی تو کسی کے منہ سے دس ہزار کی ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی اس طرح سب کچھ تج کر اور پوری طرح وچار مکت ہو کر دھیان اوستھا میں بیٹھتا ہے تو یہ بتانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس نے کتنی چتاؤں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بارے میں تو ٹھیک سے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس اوستھا میں کتنے دنوں تک بیٹھا رہا کیونکہ اس کے دنوں کی گنتی بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے۔

پتا نہیں کتنی بار کے اماوس کے اندھیارے کے بعد پونم کی وہ رات آئی جس کی چاندنی میں سنیاسی نے دیکھا کہ لوگ ایک سجی سجائی ارتھی پر اس کی لاش رکھ کر لائے ہیں ۔ چار آدمیوں نے مل کر اسے چتا کی لکڑیوں پر رکھا اور آنے والوں ہی میں سے کسی نے اسے اگنی سپرش دیا… ذرا سی دیر میں چتا نے آگ پکڑ لی اور دیکھتے دیکھتے اس کے شعلے آسمان کو چھونے لگے۔ ہر چتا کی طرح اس کی چتا بھی جل کر کچھ دیر میں شانت ہو گئی اور جب لپکتے ہوئے شعلوں کی جگہ انگاروں کا ڈھیر رہ گیا تو اس نے اوپر آسمان کی طرف گردن اٹھائی اور دیکھا کہ وہاں پونم کے چاند کی جگہ تتھاگت کا مسکراتا ہوا چہرہ ہے اور اس مسکراہٹ کی کرنیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں ۔

اس نے وہیں اس ٹیلے پر دو زانو ہو کر زمین کو چوما۔ تتھا گت کا آشیر باد لیا اور بستی کی طرف مراجعت کر گیا۔‘‘

گھوش بابو تو کہانی سنا کر چلے گئے لیکن وہ کہانی جے چند کے اندر رچ بس گئی۔ یہ عجیب و غریب کہانی جے چند کے لیے معمہ بنی ہوئی تھی۔ اس نے سوچا کتنا اچھا ہوتا اگر آج بدھ کا زمانہ ہوتا ۔ اگر آج بدھ ہوتے تو میں ان سے جا کر پوچھتا کہ اس کہانی کو بغیر سمجھے میں یہ کیوں محسوس کرتا ہوں کہ اسے سمجھ چکا ہوں ۔

جے چند کے ذہن کے اندھیرے میں بدھ کی مورتی تیرنے لگی، مالا کے دانے چمکنے لگے اور پیپر ویٹ کے نیچے رکھا کیس پیپر پھڑ پھڑانے لگا۔ اسے ڈاکٹر کی باتیں یاد آئیں اور اس نے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے تمام حواس کو سانس کی آمدو رفت کے عمل پر مرتکز کر دیا۔ اس نے گنتی شروع کی ایک ، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات… کسی ایک گنتی پر آ کر اس نے محسوس کیا کہ چھت کی وہ منوں وزنی سل اُسے تھپکیاں دے رہی ہے۔ اور سائیں سائیں کرتی وہ ہوا اسے لوریاں سنارہی ہے۔ اور وہ کچھ جاگا جاگا سا اور کچھ سویا سویا سا پڑا سوچ رہا ہے… کتنا اچھا ہو اگر تمام رات اسی طرح بیت جائے… اس کے دل نے ہولے سے کہا … کتنا اچھا ہو اگر تمام عمر اسی عالم میں گزر جائے… نیم بیدار اور نیم خوابیدہ ! لیکن یہ کیے ممکن ہے… یہ کیسے ممکن ہے کہ آسمان پر چوبیس گھنٹے شفق پھولی رہے۔ یا یہ کہ ہم تمام دن چڑیوں کی وہ چہچہاہٹ سنیں جو پو پھٹتے وقت سنائی دیتی ہے… شاید اسی لیے وہ لمحہ آج تک نہیں آیا جو نیند اور بیداری کے بیچ کے عرصے کو محیط ہو اور پوری رات اس ایک لمحہ میں گذر جائے!

پتھر کی اس منوں وزنی سل کے نیچے لیٹے لیٹے وہ کچھ ایسے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ لوریوں کی لے کے ساتھ ہلکے سروں میں سر کس کے بینڈ کی دھن اس کے کان کے پردوں سے ٹکرانے لگی اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اس دھن میں کھو گیا۔ نیند گویا اسی انتظار میں تھی۔ اس نے آگے بڑھ کراسے اپنی آغوش میں لے لیا اور خواب کی وادی میں لے گئی۔

وہ وادی بڑی حسین اور پر فضا تھی۔ چاروں طرف ہریالی بکھری ہوئی تھی۔ پہاڑ کے دامن میں ایک ندی بہہ رہی تھی اور پہاڑ سے کئی چشمے آ کر اس ندی سے مل رہے تھے۔ بے شمار تناور درخت آسمان کی بلندی کو چھو رہے تھے۔ اور پوری وادی بادلوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس وادی میں سرکس کا ایک بہت بڑا تمبو لگا ہوا تھا۔ اتنا بڑا کہ دنیا کی بڑی سے بڑی سرکس کمپنی کے دس تمبو اس میں سما جائیں ۔ لوگ دور دراز کی مسافت طے کر کے وہاں آرہے تھے۔ ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا تھا وہاں ۔ اس چھوٹی سی وادی میں مرد، عورت، جوان، بوڑھے، بچے سب کے سب بڑے اشتیاق کے ساتھ تمبو کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سب کی آنکھیں کہہ رہی تھیں کہ آج ہم وہ دیکھنے جا رہے ہیں جو اس سے پہلے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو اور سب کی زبانیں کہہ رہی تھیں … رنگ ماسٹر تو ہر سرکس میں ہوتا ہے لیکن اس رنگ ماسٹر کا کمال سب سے نرالا ہے۔ اب جو کچھ سنا ہے وہ ایک مرتبہ آنکھوں سے دیکھ لیں !

جے چند نے سوچا خود میں بھی تو رنگ ماسٹر ہوں ۔ اپنے سرکس میں شیروں کو آنکھ کے اشارے پر اٹھاتا ہوں ، بٹھاتا ہوں ۔ چھوٹے سے اسٹول پر تین تین شیروں کو کھڑا کرتا ہوں اور تو اور جلتے ہوئے آہنی حلقے میں سے انہیں چھلانگ لگانے پر بھی مجبور کرتا ہوں … یہ سب وہ میری آنکھ کے اشارے پر کرتے ہیں ۔ وہ تو میں رعب جمانے کے لیے کبھی کبھی ہوا میں زور کا ہنٹر لہراتا ہوں ورنہ لوگوں کی تشفی نہیں ہوتی۔ ان کے ذہنوں میں رنگ ماسٹر کے ساتھ ہنٹر کا تصور جڑ گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ غیر ضروری طور پر ہی سہی اسے ہوا میں لہرایا جائے!

اب اس سے زیادہ ایک رنگ ماسٹر کیا کرسکتا ہے؟ وہ بھی لوگوں کی اس بھیڑ میں شامل ہو گیا۔ کھڑکی سے ٹکٹ لے کر اندر تمبو میں داخل ہو اور اس کا محیط دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کا اندازہ بالکل صحیح نکلا کہ اچھی سے اچھی سرکس کمپنی کے دس تمبوؤں جتنا اس ایک تمبو کا قطر تھا… سب اپنی اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ بینڈ خاموش ہوا اور اعلان کیا گیا کہ سب سے پہلے رنگ ماسٹر کا آئیٹم دکھایا جائے گا اور یہ بھی کہا گیا کہ ایسا عوام کی پر زور فرمائش پر کیا جا رہا ہے۔ سب اپنی اپنی کرسیوں پر سنبھل کر بیٹھ گئے۔ تمبو کے بیچوں بیچ مدور ڈائس پر سلاخوں کا ایک جنگلہ لایا گیا جو چاروں طرف سے بند تھا اور اس کے ایک طرف دروازہ تھا۔ ایک گاڑی آئی اور گاڑی کا دروازہ جنگلے کے دروازے سے ملادیا گیا۔ ایک ایک کر کے سات شیر جنگلے میں داخل ہوئے۔ جنگلے کا دروازہ باہر سے بند کر دیا گیا۔ سب حیران تھے کہ شیر بھی آ گئے، جنگلے کا دروازہ بھی بند ہوا اور ابھی تک رنگ ماسٹر کا پتہ نہیں … اچانک ایک زور کا دھماکہ ہوا اور لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس کونے میں رکھی ہوئی توپ داغی گئی اور اس میں سے گولے کی طرح نکل کر ایک آدمی سیدھے ان شیروں کے جنگلے میں جا گرا ! اس کے گرتے ہی ساتوں شیر سہم گئے اور لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں ۔ اتنا بڑا تمبو تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے گونجنے لگا۔ کافی دیر تک تالیوں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ رنگ ماسٹر جنگلے کے اندر ہی چاروں طرف گھوم کر ، ہاتھ ہلا ہلا کر ان تالیوں کا جواب دیتا رہا۔ پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں کچھ اس طرح حتمی انداز میں جنبش دی کہ تالیوں کی گڑ گڑاہٹ رک گئی اور وہ کچھ دیر کے لیے ساکت و جامد ایک جگہ کھڑا ہو گیا۔ چند ثانیوں کے توقف کے بعد اس نے ایک مخصوص انداز میں پور ی سکت کے ساتھ ہوا میں ہنٹر لہرایا اور پورے تمبو میں آواز کا ایک کوندا لپک گیا۔

جے چند نے متجسس نگاہوں سے رنگ ماسٹر کے سراپے پر نظر دوڑائی۔ اس کے لباس کی تراش خراش اور رنگوں کی ترتیب کا جائزہ لیا۔ اس کی نظریں رنگ ماسٹر کے ہنٹر پر آ کر رک گئیں … جے چند نے اپنے ہنٹر کو پہچان لیا تھا ایک رنگ ماسٹر سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن اپنے ہنٹر کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ غیر ضروری طور پر ہی سہی وہ اس کی ایک لازمی ضرورت ہوتا ہے!!

اس کے جی نے چاہا کہ آگے بڑ ھ کر اُ س رنگ ماسٹرسے اپنا ہنٹر چھین لے اور کچھ نہیں تو وہیں نشست پر بیٹھے ہوئے چلا کر یہ ا علان کرے کہ وہ جو آواز کاکوندا ابھی کچھ دیر قبل لپکا تھا… وہ کوندا… میرے ہنٹر کا کمال تھا… میرے ہنٹرکا  کمال… اس نے چلانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا… اب کے جے چند نے اپنی پیشانی کو پہچان لیا تھا ! وہی فراخ ماتھا، جلد کی وہی رنگت اور اس پر بکھرے مسامات کے جال میں سے اپنا راستہ بناتی ہوئی وہ لکیریں جو وقتاً فوقتاً شکن بن کر ماتھے پر ابھرتی رہی ہیں اور جن کے تعلق سے جے چند آج تک یہ طے نہیں کر پایا تھا کہ یہ شکنیں لکیروں کا راستہ طے کرتی ہیں یا لکیریں شکنوں کے نشیب و فراز کو متعین کرتی ہیں !!

جے چند کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں اُبھر آئیں ۔ اس نے بڑے ہی سنبھلے ہوئے انداز میں جیب سے رومال نکال کر اپنے ماتھے سے لگایا۔ بوندیں رومال میں جذب ہو گئیں ۔ رومال کو دوبارہ جیب میں رکھ کر جے چند نے اطمینان کا سانس لیا کہ ہر چند اس کا ماتھا اس رنگ ماسٹر کے ماتھے کی جگہ ہے لیکن وہ اپنے ماتھے سے محروم نہیں ہوا ہے۔ دراصل اپنے ماتھے کو چھو کر دیکھنے کا خیال اس کے دل میں اسی وقت آ گیا تھا جب اس نے اسے رنگ ماسٹر کے ماتھے کی جگہ پر دیکھا تھا لیکن ایک نامعلوم سا خوف ہر بار اس کے اٹھتے ہاتھ کو روک لیتا تھا اور جب اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھریں اور اس کے رومال نے انہیں اپنے اندر جذب کر لیا تو اسے اس انجانے خوف سے نجات مل گئی اور اس نے اس گلو خلاصی پر اطمینان کا سانس لیا۔

ابھی اس نے اطمینان کا سانس لیا ہی تھا کہ اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رک گیا… اب کے جے چند نے اپنی ناک کو پہچان لیا تھا! اس کی اپنی ناک اس رنگ ماسٹر کے چہرے پر تھی۔ جے چند کو اطمینان تھا کہ جب اس کی پیشانی اپنی جگہ پر ہے تو ناک بھی یقیناً اپنی جگہ ہی پر ہو گی… لیکن پھر بھی ناک کا معاملہ ٹھہرا۔ اطمینان کر لینے میں کیا مضائقہ ہے؟ اس نے فوراً اپنی ناک ٹٹولی اور اسے اپنے آپ پر ہنسی آ گئی کہ اس کی ناک کو تو اپنی جگہ پر ہونا ہی تھا ، وہاں بھی ہوئی تو کیا ؟ ہوا کرے!

جے چند نے پہلو بدلا اور ذرا سنبھل کر خود کو اپنی نشست پر جمایا۔ اس فاصلے ہی سے سہی اس نے باریک نظر سے رنگ ماسٹر کے پیکر اور خد و خال کا جائزہ لیا، اس کے چہرے بشرے اور ڈیل ڈول اور اس کے ہاڑ کا بغور مشاہدہ کیا تواس پر منکشف ہوا کہ صرف اس کا ہنٹر، پیشانی اور ناک ہی نہیں بلکہ اس کا سب کچھ اس رنگ ماسٹر کے پاس ہے… اس کی آنکھیں ، اس کے کان، اس کا دہن، اس کے گال، اس کا سینہ اور اس کے ہاتھ پیر… یعنی یہ کہ واقعتاً اس کا سب کچھ اس رنگ ماسٹر کے پاس ہے اور وہ خود اپنے کسی عضو بدن سے محروم نہیں ہوا ہے!

جے چند کے لیے ایک بڑی دلچسپ اور انتہائی حیرت افزاء صورتحال پیدا ہو گئی تھی کہ وہ خود تماشہ گر تھا اور تماشائی بھی ! شائقین سے کھچا کھچ بھرے ہوئے دس تمبوؤں جتنے بڑے اس تمبو میں اس کی حیثیت منفرد تھی۔ اب جیسے ہی اس پر اپنی انفرادیت آشکار ہوئی سیدھا سادہ جے چند اس مسئلے سے دوچار ہوا جس سے تقریباً ہر منفرد شخص کو سابقہ پڑتا ہے، وہ یہ کہ جب تک وہ ہستی دوسروں کو اپنی انفرادیت کا قائل نہیں کر لیتی اس وقت تک خود اس کے نزدیک اپنی انفرادیت مشکوک ہوتی ہے۔ جے چند نے اس خیال سے کہ کیوں نہ پہلے ساتھ والی نشست پر بیٹھے شخص کو قائل کر لیا جائے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے مخاطب کرنے کے لیے اس کے کان کے نزدیک منہ لے جاکر دھیرے سے آواز دی ۔

’’بھائی صاحب!‘‘

اس شخص نے جے چند کی طرف دیکھ کر کہا:

’’بھائی جی ! میں خود آپ کو آواز دینے والا تھا۔ ذرا میری طرف دیکھئے اور پھر اس رنگ ماسٹر کی طرف۔ میرا جڑواں بھائی معلوم ہوتا ہے… اجی میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں لیکن یہ تو……‘‘

جے چند کے لیے جو صورت حال انتہائی دلچسپ اور حیرت افزاء تھی وہ اب پریشان کن بن گئی۔ اس نے سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھا۔ دوسری طرف ساتھ والی نشست پر ایک نوجوان عورت بیٹھی تھی۔ اس کی گود میں ایک بچہ بھی تھا۔ جے چند نے اپنی آواز میں خواتین کے لیے مختص احترام کے علاوہ ذرا سی اپنائیت کی چاشنی ملا کر دھیرے سے ’’بہن جی‘‘ ! کہا اور اس کے بچے کے گال پر ہلکے سے چپت لگائی۔ اس عورت نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی نظروں میں بھی اپنائیت تھی لیکن وہ کہہ رہی تھیں تمہیں جو کہنا ہے جلدی کہو، ہمارا مزہ کیوں خراب کر رہے ہو۔ جے چند نے عورت کی نظروں کو بھانپتے ہوئے جلدی سے کہا:

’’بہن جی! اس رنگ ماسٹر کی صورت……‘‘

اور وہ عورت بول پڑی:

’’بھائی صاحب! یہ سرکس ہے یا جادو کا کھیل؟ آپ رنگ ماسٹر کی کہہ رہے ہیں ۔ دیکھتے نہیں ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ مرد، مرد سے عورت بن گیا۔ آپ حیران ہیں ، میں بھی حیران ہوں ۔ ذرا اس رنگ ماسٹرنی کو دیکھیے، غور سے دیکھیے اور اب میری طرف دیکھیے۔ معلوم ہوتا ہے میری جڑواں بہن چلی آئی ہے۔ ویسے وہ یہاں نہیں رہتی۔ اس کا بیاہ امریکہ میں ہوا ہے اور اس کی سسرال ………

بیاہ امریکہ میں ہوا ہے تو سسرال بھی امریکہ میں ہو گی۔ اب اسے کچھ دیر اور کان دیئے جائیں تو یہ اپنی بہن کی سسرال کا شجرہ سنا ڈالے گی۔ جے چند نے روہانسی صورت بنا کر ہاں ہاں کہا اور منہ پھیر کر مجمعے کا جائزہ لینے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خلقت کے اس ہجوم میں ہر شخص ساتھ والے سے یہی بات کہہ رہا ہے، اور سات شیروں کے جنگلے میں بند وہ رنگ ماسٹر وہاں کھڑا مسکرا رہا ہے۔ جے چند حیران تھا کہ رنگ ماسٹری تو عمر بھر میں نے بھی کی لیکن جنگلے کے اندر کبھی مسکرا نہیں سکا!

رنگ ماسٹر نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش رہنے کے لیے کہا اور پورے تمبو میں سناٹا چھا گیا۔ کہیں سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی لیکن اسے بھی اسی لمحہ اس کی ماں نے خاموش کر دیا۔ پورا مجمع سراپا تجسس بنا بیٹھا تھا۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور رنگ ماسٹر کے چہرے پر مسکراہٹ کھلی ہوئی تھی۔ اس نے مائیک اپنے ہاتھ میں لیا اور مجمعے سے مخاطب ہوا:

’’میں آج آپ کو ایسا کھیل دکھانے والا ہوں جسے کوئی بھی رنگ ماسٹر اپنی زندگی میں صرف ایک مرتبہ دکھا سکتا ہے۔ یہ کھیل ہی کچھ ایسا ہے کہ اسے دوسری مرتبہ نہیں کھیلا جا سکتا… اس کھیل کے ساتھ کھلاڑی بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘‘

پورے مجمعے پر موت کی اداسی چھا گئی۔ سب نے ایک آواز ہو کر کہا۔ ہم تمہیں یہ کھیل نہیں کھیلنے دیں گے۔ اس نے کہا:

’’میں آپ کے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں …لیکن مجھے تو یہ کھیل کھیلنا ہے… اس تمبو میں آنے سے پہلے آپ سب اسی کھیل کو دیکھنے کے مشتاق تھے… سراپا اشتیاق بنے ہوئے تھے آپ سب۔‘‘

مجمعے نے ایک مرتبہ پھر ایک آواز ہو کر کہا:

’’لیکن اب ہم سب سراپا التجا بنے ہوئے ہیں ۔ ذرا ہماری طرف دیکھو… ہماری آنکھوں میں جھانکو…ہم دل و جان سے چاہتے ہیں کہ تم یہ کھیل نہ کھیلو…ہم تمہاری ہر خواہش پوری کریں گے… لیکن یہ کھیل نہ کھیلو!‘‘

اس نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش کیا اور آنکھیں موند کر کچھ دیر کے لیے دم سادھے کھڑا رہا۔ سبھوں کے دل میں ہلچل مچا رہی امید و بیم کی لہریں ان کے چہروں پر اپنا اپنا رنگ چھوڑتی جا رہی تھیں ۔ سب بڑی بے چینی سے اس کے منتظر تھے کہ وہ آنکھیں کھولے اور کچھ کہے۔ یہ ذرا سا وقفہ ان کے لیے بہت طول کھینچ گیا تھا… یہ چند ثانیے انہیں اپنی زندگی پر بھاری معلوم ہو رہے تھے… یہ کچھ پل ان کے لیے کئی صدیوں کے برابر ہو گئے تھے… اور ادھر وہ رنگ ماسٹر تھا کہ دم سادھے، آنکھیں موندے سات شیروں کے درمیان بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ اس کا یہ سکوت موت بن کر پورے مجمعے پر چھانے لگا… اور دفعتاً ان سبھوں کی سانس کی رفتار تیز ہو گئی…اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے وہ سب ہانپنے لگے… ہر لمحہ سانس لینا ان کے لیے دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا تھا… پورا تمبو ایک بہت بڑے پھیپھڑے میں بدل گیا…لیکن وہ پھیپھڑا …اب تو سانس لینا ایک اذیت بن گئی… ان کی نبضیں ڈوبنے لگیں … اگر چند لمحے اور یہ صورت حال برقرار رہتی تو وہ دنیا کا سب سے بڑا تمبو ایک بہت بڑے مردہ گھر میں بدل جاتا… لیکن اس سے پہلے ہی اس نے اپنی آنکھیں کھولی۔ ان سبھوں نے دیکھا کہ وہ اب بھی مسکرا رہا ہے۔ اس کے آنکھیں کھولتے ہی ان کی سانسیں درست ہو گئیں اور نبضیں بھی ٹھیک چلنے لگیں ۔ پورے تمبو نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس نے مائیکرو فون پر کہا:

’’آپ کا اصرار ہے تو میں یہ کھیل نہیں کھیلوں گا لیکن میری ایک شرط ہے‘‘

پورا تمبو ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ ان سبھوں نے نظروں ہی نظروں میں اس سے کہا کہ ہمیں تمہاری ہر شرط منظور ہے۔ وہ بہ آواز بلند یہ کہنا چاہتے تھے لیکن ابھی ابھی جس اذیت سے وہ گذرے تھے اس نے کچھ دیر کے لیے ان سب کو گونگا کر دیا تھا۔ وہ منہ کھول تو رہے تھے… …ان کی زبانیں بھی حرکت کر رہی تھیں لیکن ان کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اسی لیے انہوں نے اپنی بات نظر کے وسیلے سے اس تک پہنچائی اور وہ اس تک پہنچی بھی! اس نے اپنی شرط بیان کی۔

’’آپ میں سے کوئی شخص میری مسکراہٹ کے معنی بتائے۔ ہے کوئی جو اس شرط کو پورا کرے؟‘‘

اس نے ’’ ہے کوئی‘‘ کو صلائے عام کے طور پر مجمعے کی طرف اچھالا لیکن اسے جھیلنے کی سکت کسی میں نہیں تھی… اس کی شرط کے سامنے وہ سب بے بس و لاچار تھے لیکن وہ اس شخص کی موت دیکھنے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ تمبو میں آنے سے پہلے کی بات اور تھی… انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ کھیل انہیں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا ہے…

موت کے سائے ان کی آنکھوں کے سامنے سر سرانے لگے۔ فضا میں کافور کی بو پھیل گئی۔ ان سبھوں کی حالت اتنی غیر ہو گئی کہ اگر اس وقت انہیں آئینہ دکھایا جاتا تو وہ خود کو پہچان نہ پاتے لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ سب اس رنگ ماسٹر کو پہچان رہے تھے۔ اس رنگ ماسٹر کو جسے ان کی اس حالت پر مطلق رحم نہیں آ رہا تھا اور اب بھی وہ اسی طرح مسکرا رہا تھا۔

رنگ ماسٹر نے دیکھا کہ لوگوں کی نظریں باہر جانے کاراستہ تلاش کر رہی ہیں اور وہ دبے پاؤں وہاں سے نکل بھاگنا چاہتے ہیں ۔ اس نے وہیں سے حکم دیا کہ باہر جانے کے تمام راستے بند کر دیئے جائیں اور ان کے دیکھتے دیکھتے تمام دروازے فوراً اندر سے مقفل کر دئے گئے!

اب فرار کے تمام راستے بند تھے۔ اس کے سوا چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اسے مرتا ہوا دیکھیں … لیکن … انہوں نے ایسا نہیں کیا… سبھوں نے آنکھیں بند کر لیں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں …اس کے باوجود ان کی آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا اور وہ رو پڑیں … اور اُن کے کانوں نے بہت کچھ سنا اور وہ سن ہو گئے۔ پورا تمبو ہچکیوں اور سسکیوں سے ماتم کدہ بن گیا۔ مرد، عورت، جوان، بوڑھے، بچے سب دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے… اس وشال تمبو میں ہر شخص ماتمی تھا… کون کس کو دلاسہ دیتا… عورتوں نے اپنے آنچل منہ میں ٹھونس لیے لیکن ضبط کی ہر تدبیر بے سود ثابت ہوئی…رہ رہ کر ان کا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا… آنسوؤں کے تار بندھ گئے تھے۔ دنیا کا سب سے بڑا تمبو ایک بہت بڑا ماتم کدہ بن گیا تھا… ایک کہرام مچا ہوا تھا۔

تماشائیوں کے اس مجمعے میں جے چند اکیلا شخص تھا جو زندگی میں کسی وقت رنگ ماسٹر رہ چکا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ نہیں ٹپکا ااور نہ ہی وہ اس کرب و اذیت کا ساجھے دار بن پایا جو اس وقت اس مجمعے کا مقدر بن گیا تھا… سب بھول گئے تھے لیکن جے چند کو یاد تھا کہ اعلان کے مطابق رنگ ماسٹر کا آئیٹم پہلا آئیٹم تھا یعنی ابھی شوجاری ہے۔

وہ منتظر تھا کہ بینڈ کی ماتمی دھن کسی شوخ نغمے کی لے میں ڈھل جائے اور کھیل جاری رہے لیکن اُ س ماتمی دھن کے ساتھ ساتھ اسے دھپ دھپ کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں اور ان سسکیوں کے ساتھ اس کے کانوں میں گھنٹیاں بھی بجنے لگیں ۔ پھر تو یہ ہوا کہ ماتم کدے کا شور پس سماعت رہ گیا ۔اور دھپ دھپ کی آواز اور گھنٹیوں کی ٹن ٹن اس کے کانوں میں گونجنے لگی… اور اس کی آنکھ کھل گئی۔

کوئی مسلسل دروازے کو پیٹے جا رہا تھا اور اسی کے ساتھ کال بیل بھی بجا رہا تھا۔ جے چند کی آنکھ تو کھل گئی تھی لیکن تمبو کے کہرام سے نکل کر اپنے بیڈ روم تک آنے میں اسے کچھ وقت لگا ۔ اس دوران دروازے کا پٹنا اور کال بیل کا بجنا جاری رہا۔ اس کی بیوی بھی جاگ گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بیوی نے سہمی ہوئی آواز میں کہا:

’’کہیں …‘‘

اور اس نے گردن ہلا کر جواب دیا۔

’’ایسا ہی لگتا ہے…‘‘

ادھر آٹھ دنوں میں ان کے دو پڑوسیوں کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ایک ستر برس کا بوڑھا تھا اور ایک چالیس برس کا جوان۔ مرض دونوں کے مہلک تھے اور آخری مرحلے میں پہنچ گئے تھے۔ دونوں کو ان ٹینسیو کئیر یونٹ میں رکھا گیا تھا۔ کسی بھی وقت دونوں میں سے کسی کے بھی تعلق سے ایسی ویسی خبر آسکتی تھی۔ بلڈنگ والے سانس روکے ہر پل اس ان چاہی خبر کے انتظار میں تھے۔

بیوی نے جے چند کی طرف دیکھا۔ اس کی نظریں کہہ رہی تھیں کہ ایسی خبر کے لانے والے کے لیے میں دروازہ کھولنا نہیں چاہتی۔ کیوں نہ آپ ہی آگے بڑھیں …جے چند نے دروازہ کھولا سامنے گھوش بابو کھڑے تھے۔

’’ کیا بات ہے ؟گھوش بابو ! صبح صبح…‘‘

’’کیا بتاؤں جے چند جی ! صبح صبح اپنے ان کا دیہانت ہو گیا۔‘‘

گھوش بابو نام بھولتے تھے ، یہ پوری بلڈنگ جانتی تھی۔ اس قسم کے نازک موقعوں پر ان کی یہ عادت عجیب صورت حال پیدا کر دیتی تھی۔ جے چند سوچنے لگے۔ ان دونوں ہی میں سے کوئی ہے۔ یا… اگر کوئی اور نہیں تو ان دونوں میں سے کون ہے۔ انہوں نے گھوش بابو کا ہاتھ پکڑا۔ انہیں اندر لے آئے۔ صوفے پر بٹھایا ۔ جب تک ان کی بیوی اندر سے پانی لے آئی۔ گھوش بابو اطمینان سے بیٹھ کر پانی پی چکے تو جے چند نے کہا۔

’’اب کہئے!‘‘

گھوش بابو نے بڑی ندامت کے ساتھ کہا:

’’کیا بتاؤں جے چندجی! ……میری یہ عادت ……وہ اپنی بلڈنگ کی تیسری منزل والے… پچھلے دنوں ان کے یہاں لڑکا ہواتھا…… کیا نام رکھا اُس لڑکے کا…‘‘

جے چند سمجھ گئے کہ خبر ان کے کس پڑوسی سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا۔

’’گھوش بابو !یوں کہئے کہ ہمارے موہن بابو نہیں رہے۔ موہن چندر شرما…!‘‘

’’جی ہاں وہی نہیں رہے… موہن بابو… انتم سنسکار کی تیاریاں پوری ہو گئی ہیں … مشکل یہ ہوئی کہ ان کے گھر والے ڈیڈ باڈی کے ساتھ ڈیتھ سرٹی فیکیٹ نہیں لائے۔‘‘

’’اس میں مشکل کیا ہے؟ وہ تو اب بھی مل سکتی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی جاکر…‘‘

’’جے چند جی ! یہی تو مشکل ہے کچھ ایسا ہوا ہے کہ یہ کام میرے ذمے آ گیا ہے… اور میری یہ عادت … کمزوری… کہہ لیجئے اسے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چلیں ۔‘‘

جے چند نے ہامی بھر لی۔ اور چلنے کی تیاری کرنے لگے۔ ابھی تو سو کر اٹھے تھے۔ گھوش بابو سے معذرت چاہی اور باتھ روم چلے گئے۔ ان کی بیوی نے گھوش بابو کو چائے کے لیے پوچھا لیکن انہوں نے انکار کیا ۔ کمرے میں پراسرار سکوت چھایا ہوا تھا۔ گھوش بابو صبح صبح خبر ہی کچھ ایسی لے کر آئے تھے۔ گھوش بابو کو سوجھ نہیں رہا تھا کہ جے چند کے تیار ہونے تک وہ وقت کیسے گذاریں ۔ ابھی صبح کا اخبار بھی نہیں آیا تھا۔ اور مسز جے چند سے بات کریں تو کس موضوع پر ؟ انہوں نے یونہی مسز جے چند کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کہا۔

’’بھائی صاحب ! میں تو اچھی ہوں … آپ اپنی اس عادت کو کچھ کیجئے… چھوڑ کیوں نہیں دیتے اسے۔‘‘

گھوش بابو نے بڑی بے بسی کے ساتھ کہا:

’’بھابی! چھوٹے تو میں آج چھوڑوں !‘‘

گھوش بابو اور جے چند دونوں ہسپتال پہنچے۔ بہت بڑا ہسپتال تھا۔ اپنے پڑوسی کی عیادت کے لیے وہ کئی بار یہاں آچکے تھے۔ انکوائری کا ؤنٹر سے وہ سیدھے اس کلرک کے پاس گئے جس کا کام مریضوں اور مرنے والوں کے عزیزوں کو مختلف قسم کے سرٹی فیکیٹ حوالے کرنا تھا۔ وہ آنے والوں سے دو ایک ضروری باتیں پوچھ کر تیار شدہ سر ٹی فیکیٹوں میں سے متعلقہ سرٹیفیکیٹ نکال کرا ن کے حوالے کرتا، اور ان سے اس کی رسید لکھوا لیتا تھا۔ موہن بابو کے گھر والے موت کی سر ٹی فیکیٹ کی درخواست بڑے ڈاکٹر کو دے آئے تھے۔ اور ڈاکٹر کا دستخط شدہ سر ٹی فیکیٹ اس کلرک کی میز پر کھے فائلوں میں سے ایک فائل میں رکھا تھا۔ جس پر سیاہ فیتہ چڑھا تھا۔

جے چند نے کلرک کو اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ کلرک نے سیاہ فیتے کا فائل اٹھایا۔ جے چند کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ جے چند اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئے اور گھوش بابو ان کے برابر کھڑے ہو گئے۔ کلرک نے سوا ل کیا۔

’’مرنے والے کا نام؟‘‘

اسے جواب ملا۔

’’جے چند ولد ہری چند‘‘

کلرک نے دوسرا سوال کیا۔

’’مرنے والے کی عمر؟‘‘

اُسے جواب ملا۔

’’چونسٹھ سال‘‘

گھوش بابو کو آج تک صرف اپنی یادداشت سے شکایت تھی۔ اب انہیں اپنی سماعت بھی مشکوک معلوم ہونے لگی۔ لیکن انہوں نے بہت جلد خود کو سنبھالا اور بڑے اعتماد کے ساتھ   جے چند کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

’’جے چندجی! یہ صاحب آپ کے بارے میں نہیں پوچھ رہے ہیں ۔ موہن بابو کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ۔ اپنے موہن چند ر شرما۔ عمر چالیس سال‘‘

جے چند کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے گھوش بابو کی طرف ایک بھرپور نظر ڈالی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی لکیر ابھری، انہوں نے گھوش بابو کو اس کرسی پر بٹھایا جس پر کچھ دیر پہلے وہ بیٹھے تھے۔ اور مڑ کر اکیلے ہی گھر کی طرف چل دیئے۔

اس رات جب جے چند اپنے بستر پر لیٹے تو کافی دیر تک انہوں نے انتظار کیا کہ وہ چھت کی منوں وزنی سل اپنی جگہ سے ہٹ کر ان کے سینے پر آ جائے اور وہ پاس رکھا ٹیلی فون دور بہت دور چلا جائے۔ ہوا سائیں سائیں کرنے لگے۔ اور کمرہ لڑ کھڑانے لگے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور جب انہوں نے دیکھا کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے تو انہوں نے چادر اوڑھ لی اور گہری نیند سو گئے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/category/reading/urdu-short-stories-reading/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید