FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

گُل

نا معلوم

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں سمر قند سے ہرات تک کے سارے علاقے پر بادشاہ حسین بائیقرا حکومت کرتا تھا اور مشہور و معروف شاعر اور عالم علی شیر نوائی اس کے وزیر تھے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ بادشاہ اور وزیر دونوں بچپن ہی سے دوستی اور رفاقت کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔ بادشاہ حسین، علی شیر سے ملے اور ان سے باتیں کیے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ ملک و قوم اور تخت و تاج سے متعلق کوئی بھی مسئلہ وزیر علی شیر کے صلاح و مشورہ کے بغیر حل نہیں ہو سکتا تھا۔

ایک دن بادشاہ حسین بائیقرا اپنے درباریوں کے ساتھ شکار کھیلنے گیا۔ وزیر علی شیر کسی بہانے بادشاہ کے ہمراہ جانے سے رہ گئے۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر اکیلے شہر کے ایک دور علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان کی اس تنہائی پسندی کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو یہ کہ انھیں شکار جیسی ظالمانہ تفریح سے نفرت تھی اور دوسرے، وہ ایک انجان حسینہ کے تیرِ نظر کا نشانہ بن چکے تھے۔ آج چالیس دنوں سے اس کی محبت کی آگ ان کے سینے کے اندر برابر جل رہی تھی ۔ وہ اپنا آرام و سکون کھو بیٹھے تھے۔

واقعہ یوں ہوا تھا کہ موسمِ بہار میں ایک دن علی شیر ایک سنسان گلی سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شور سا سن کر ان کی نظریں آپ ہی آپ اوپر اٹھ گئیں۔ اوپر دیوار پر دو کالی غزالی آنکھیں جھانک رہی تھیں۔ حسن و جمال کا یہ عالم تھا کہ چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس کی پرچھائیں معلوم ہوتا تھا۔ اس کے سامنے چاند کا سارا جلوہ ایسا تھا جیسے چاندی کے کسی نئے، چمک دمک والے برتن کے آگے تانبے کا کوئی پرانا سا زنگ آلود برتن پڑا ہوا ہو۔

اس بے مثال جلوۂ حسن کا نظارہ علی شیر پل بھر ہی کر پائے۔ وہ چہرۂ تابناک اس طرح آنکھوں سے اوجھل ہو گیا جیسے وہ پانی کے آئینے میں کسی کا عکس تھا ، جو ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے سے گھبرا کر پلک جھپکتے میں غائب ہو گیا تھا۔

اپنے وفادار نوکروں کے ذریعے علی شیر کو معلوم ہو گیا کہ وہ حسینہ ابو صالح نام کے ایک جلاہے کی بیٹی ہے اور اس کا نام ہے گُل!

خوب سوچ بچار کرنے کے بعد علی شیر نے اس جلاہے کے گھر جانے اور اس سے بات کرنے کا ارادہ کر لیا۔ چناں چہ انھوں نے شکار پر جاتے ہوئے بادشاہ اور درباریوں سے کسی طرح دامن چھڑایا اور شہر کے اس دور افتادہ محلّے کی طرف جہاں اس جلاہے کا گھر تھا، روانہ ہو گئے۔

ابو صالح جلاہے کے گھر پہنچ کر انھوں نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کسی نے پوچھا:

"کون ہے؟”

علی شیر نے جواب دیا: "ایک پردیسی۔”

اندر سے پھر آواز آئی:

"تمھیں کیا چاہیے پر دیسی”

"محترم ابو صالح گھر پر ہیں؟” علی شیر نے پوچھا۔

دروازہ کھلا اور ابو صالح اندر سے نکل آیا۔ وزیر با ثروت کو دیکھ کر بے چارہ جلاہا گھبرا گیا۔ کیوں کہ اس پرانے زمانے میں حکمرانوں کا کسی کے دروازے پر آ دھمکنا کوئی اچھی با ت نہیں ہوتی تھی۔ یہ صرف کسی نہ کسی مصیبت کا باعث ہوتا تھا۔ علی شیر نے بڑی خاکساری سے ہاتھ سینے پر رکھ کر سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ بوکھلائے ہوئے اور کانپتے ہوئے جلاہے نے وزیر کو اندر لے جا کر ادب سے بٹھایا۔ وہ دونوں بڑی دیر تک بیٹھے مزاج پُرسی کرتے رہے۔ کوئی دوسری بات ان کے مُنھ سے نہ نکل سکی۔ بالآخر علی شیر اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر ادب سے سر جھکایا اور بولے:

"جلاہوں کے ماہرِ فن استاد، عزیز و مکرم ابو صالح! مجھ ناچیز کو اجازت دیجیئے کہ میں آپ کا بیٹا بنوں۔”

حیرت سے ابو صالح قوتِ گویائی کھو بیٹھا۔ وہ خواب میں بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ علی شیر نوائی جیسا وزیرِ عالی مرتبت جس کے سہارے تختِ شاہی کھڑا ہے، اس کی بیٹی سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کرے گا، اس کی بیٹی چاہے جتنی بھی خوب صورت ہو۔ خوشی سے اس کا دل بَلیوں اچھل رہا تھا۔ اس نے بڑے ادب سے جھک کر کہا:

"جنابِ عالی! ہم لوگوں کی کیا جانیں اور کیا جسم، سب آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ میرے لیے اس سے زیادہ اور کون سی عزّت اور خوشی کی بات ہو سکتی ہے کہ آپ نے مجھ جیسے نا چیز جلاہے کی بیٹی کی طرف توّجہ فرمائی ہے۔”

"لیکن اس بارے میں خود لڑکی کی کیا رائے ہو گی؟” علی شیر نے پوچھا۔

"ایک بیٹی کا تو یہی فرض ہے کہ اپنے باپ کی بات مانے۔” ابو صالح نے فوراً جواب دیا۔

"پرانے رسم و رواج اور شریعت کے قوانین سے تو میں بخوبی واقف ہوں۔” علی شیر نے کہا، "لیکن ان کے علاوہ دلوں کے بھی اپنے رواج اور قوانین ہوتے ہیں۔ دل کے معاملے میں زبردستی موت سے بھی بُری ہوتی ہے، اگر آپ کی بیٹی راضی نہ ہوئی تو میں سر جھکا کر چپ چاپ چلا جاؤں گا۔”

ابو صالح دوڑتا ہوا زنان خانے میں گیا اور اپنی بیٹی سے بولا:

"بیٹی! تمھاری قسمت کا ستارہ اس طرح چمک اٹھا ہے کہ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ تم محلوں میں جا کر رہو گی۔ خود وزیر علی شیر تمھارے لیے اپنا پیغام لے کر آئے ہیں۔ میں ہاں کر چکا ہوں۔ لیکن خدا کی شان، وہ کہتے ہیں کہ لڑکی بھی راضی ہو جائے۔ تم جلدی ہاں کر دو۔ کہیں وہ اپنا ارادہ نہ بدل دیں۔ ان کے تیور چڑھنے کی دیر ہے کہ ہمارا سارا خاندان ہی مٹ کر رہ جائے گا۔”

گل نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: "اپنے ماں باپ کی بات ماننا میرا فرض ہے۔ آپ ان سے کہہ دیجیئے کہ میری بیٹی آپ کی باندی ہے۔”

بوڑھا جلاہا خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ واپس آ کر علی شیر سے کہا: "میں ہمیشہ سچ کہتا تھا کہ میری بیٹی بڑی سمجھدار ہے۔ اس نے ہاں کر دی ہے۔”

علی شیر نے اسی دن ابو صالح کے گھر باقاعدہ طور پر شادی کا پیغام بھیج دیا۔

شادی کا دن قریب آ گیا تھا۔ علی شیر گل کے باپ کو جہیز کے طور پر دس ہزار اشرفیاں بھی ادا کر چکے تھے، بس شادی کی رسوم کی ادائیگی باقی تھی۔ ایک دن جب علی شیر اپنی محبوبہ کے گھر میں تھے بادشاہ حسین بائیقرا نے اپنے درباریوں سے کہا:

"ہمارے دوست علی شیر آج نہ جانے کیوں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔”

بادشاہ کے چھوٹے وزیر مجید الدین نے بادشاہ کے پاس آ کر کہا:

"آپ اجازت دیں تو عرض کروں آج چالیس دن ہوئے ہیں کہ آپ کی ہدایت کے مطابق ہمارے خفیہ لوگ آپ کے وزیر علی شیر پر برابر نگاہ رکھے چلے آ رہے ہیں۔”

"اور کیا معلوم کیا ہے ہمارے خفیہ لوگوں نے؟” بادشاہ نے پوچھا۔

وزیر مجید الدین نے جواب دیا:

"جہاں پناہ! آپ کی رعایا کے خیالات اور ارادے بلّور کی طرح صاف اور پاک ہونے چاہئیں، لیکن علی شیر آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔

"کیا کہا دھوکہ دے رہے ہیں؟ ان کی یہ جرات؟” بادشاہ نے غصّے میں آ کر کہا۔

"بالکل سچ کہتا ہوں حضور۔” مجید  الدین نے کہا۔ "وہ آپ سے کہتے ہیں کہ روز رات کے وقت تازہ غزلیں کہنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایک خوب صورت لڑکی سے شادی کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جہاں پناہ! انھوں نے ایک عمدہ ہیرے کو جو آپ کے تاج کی زینت بننے کے لائق ہے آپ سے چھپا رکھا ہے۔ اس لڑکی کا نام ہے گُل اور وہ ایک جلاہے ابو صالح کی بیٹی ہے۔”

علی شیر دربار میں آئے تو بادشاہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:

"علی شیر! ہم نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔”

"لڑکی حسین ہے؟” علی شیر نے پوچھا۔ "کیا وہ کسی اچھے خاندان کی لڑکی ہے؟”

"جی ہاں، وہ بڑی حسین ہے اور اس کا باپ بھی ایک شریف آدمی ہے۔” بادشاہ نے جواب دیا۔

"تب تو میری مبارک باد قبول فرمائیے۔” علی شیر نے کہا۔

بادشاہ حسین نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے عیارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا:

"آپ لوگوں نے سنا؟ ہمارے بڑے وزیر ہمارے شادی کرنے کے ارادے کو معقول بتا رہے ہیں۔ اب ہماری خواہش ہے کہ ہمارے دوست اور ہمارے بڑے وزیر ہونے کے ناطے علی شیر لڑکی والوں کے ہاں ہماری طرف سے شادی کا پیغام لے کر جائیں۔”

کسی بات کا شبہ کیے بغیر علی شیر نے جھک کر بادشاہ کی تعظیم کی اور پھر کہا:

"بادشاہ کی طرف سے شادی کا پیغام لے کر جانے سے زیادہ عزت کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی، لیکن کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ مجھے حضور کا پیغام کس کے ہاں پہنچانا ہوگا؟”

"جلاہے ابو صالح کے ہاں۔” بادشاہ نے جواب دیا۔

یہ سن کر علی شیر سناٹے میں آ گئے، لیکن اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے انہوں نے کہا:

"میں حضرت عالی کا یہ حکم بجا لانے سے معذور ہوں۔”

بادشاہ حسین آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے گرج کر کہا:

"اچھا! تو پھر یہ بات سچ ہی معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی بات مجھ سے چھپائے رکھی ہے۔جائیے، جا کر میرا پیغام لڑکی والوں تک پہنچائیے۔ ورنہ مجھ سے رحم و کرم کی امید نہ رکھئیے۔”

علی شیر کی محبت نہایت پکی اور سچی تھی۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انہوں نے پھر بادشاہ کی تعظیم کی اور کہا:

"یہ کتنی غیر فطری بات ہوگی کہ کوئی شخص اپنی منگیتر کے گھر کسی دوسرے شخص کا پیغام لے کر جائے، وہ دوسرا شخص خود بادشاہ سلامت ہی کیوں نہ ہو۔”

بادشاہ حسین نے غصے میں آ کر اسی وقت علی شیر کو سمر قند سے نکال باہر کرنے کے فرمانِ عالی پر مہر لگا دی اور شادی کا پیغام لے جانے کا کام اس نے چھوٹے وزیر مجید الدین کے سپرد کیا۔

دربار سے نکل کر علی شیر اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اسے سرپٹ دوڑاتے ، مصیبت کا پیغام لیے ہوئے ابو صالح کے گھر پہنچے۔ چمن میں چاروں طرف خوشبو بکھیرتے ہوئے پھولوں کے درمیان انہوں نے دکھ کے ساتھ گل کو سارا واقعہ بتایا۔

یہ بری خبر سن کر گل نے انتہائی درد بھرے اور متین لہجے میں کہا:

"میں مر جاؤں گی، لیکن بادشاہ حسین کی بیوی نہ بنوں گی۔”

علی شیر اور گل میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وزیر مجید الدین بادشاہ کی سوغات لیے بلائے نا گہانی بن کر آ دھمکا۔ ابو صالح نے مہمان عالی مرتبت کو کمرے میں لے جا کر ادب سے بٹھا دیا۔ پھر اس کو وہیں چھوڑ کر خود باہر آیا اور گردن جھکا کے علی شیر کی طرف دیکھے بغیر کہا:

"میں نے سوچا تھا کہ وزیر میرا داماد بنے گا، لیکن اب تقدیر کا یہ تقاضا ہے کہ میں بادشاہ کا سسر بنوں۔”

تب گل نے دوبارہ وہی الفاظ ادا کئے جو اس نے ابھی ابھی علی شیر سے کہے تھے:

"میں مر جاؤں گی، لیکن بادشاہ حسین کی بیوی نہ بنوں گی۔”

"بادشاہ تمہارے انکار کو کبھی برداشت نہ کرے گا۔” ابو صالح نے کہا۔ "نہ میں رہوں گا اور نہ ہی میرا خاندان۔ بادشاہ سب کو مٹا کر رکھ دے گا۔”

ابو صالح نے گل کی منتیں کیں کہ ہم پر رحم کرو لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تب لاچار ابو صالح وزیر مجید الدین کے پاس گیا اور اس کے قدموں میں گر کر روتے ہوئے اس سے کہا:

"لڑکی کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں ہیں۔ اس وقت تو اس نے انکار کر دیا ہے۔ لیکن میں آپ کے پاؤں پکڑتا ہوں، آپ از راہِ کرم بادشاہ سلامت سے اس کا ذکر نہ کیجئے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ راضی ہو جائے گی، سمجھ جائے گی کہ وزیر کی بیوی بننے سے بادشاہ کی باندی بننا ہزار گنا بہتر ہے۔”

وزیر مجید الدین چلا گیا، لیکن جواب کے لیے رات عشاء کی نماز کے بعد پھر آنے کو کہہ گیا۔ جاتے ہوئے اونچی آواز میں اس نے یہ بھی کہہ دیا:

"قسم ہے اگر لڑکی نے اپنی مرضی سے ہاں نہ کی تو اس کو بال پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جایا جائے گا۔”

گل کمرے میں چلی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد شربت کے دو پیالے لیے واپس آئی۔ ایک پیالہ علی شیر کو دے کر اس نے کہا:

"جدائی سے موت اچھی ہے، اگر میری قسمت میں بادشاہ کے ہاتھوں کا کھلونا بننا ہی لکھا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ اس پیالے کا شربت مجھے اس ظالم قسمت سے چھٹکارا دلا دے گا۔”

اس سے پہلے کہ علی شیر ہاتھ پکڑ کر اس کو روکتے، اس نے پیالہ خالی کر دیا۔

"اس میں کہیں زہر تو نہیں تھا؟” علی شیر نے گھبرا کر پوچھا۔

گل نے چپ چاپ اثبات میں سر ہلا دیا۔ شربت میں بہت آہستہ آہستہ اثر کرنے والا زہر ملا ہوا تھا۔ علی شیر نے بھی کچھ کہے بغیر اپنا پیالہ خالی کر دیا۔

عشاء کی نماز کے بعد وزیر مجید الدین آموجود ہوا۔ اس ڈر سے کہ کہیں ظالم وزیر اپنی دھمکی پر عمل نہ کر بیٹھے ،گل نے اپنے باپ سے کہا:

"میں راضی ہوں، لیکن میری ایک شرط ہے۔ شادی چالیس دنوں کے بعد ہونا چاہیے۔”

بادشاہ حسین نے حکم دیا کہ شادی کی تیاریاں شروع کی جائیں۔ اس نے ابو صالح کے گھر میں سونے اور جواہرات کا ایک ڈھیر سا لگوا دیا۔ علی شیر کو دیس نکالا دینے کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔

شادی کا دن آ پہنچا۔ جس وقت محل شاہی میں شادی کی دھوم دھام مچی ہوئی تھی ۔ اس وقت گل کا برا حال تھا۔ زہر اپنا اثر کر رہا تھا اور موت کی گھڑی بہت قریب آ گئی تھی۔ اتنے میں بادشاہ حسین کمرے میں آ دھمکا۔ اس نے گل کی طرف دیکھا۔ وہ بے جان پڑی ہوئی تھی۔ بادشاہ اپنا سر جھکائے ہوئے چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گیا۔

کہتے ہیں کہ بادشاہ حسین نے گل کی موت کے بعد علی شیر نوائی کو گلے سے لگا لیا اور اس سے معافی مانگنے لگا۔

دانش مند علی شیر اس کے بعد بھی سلطنت کے بڑے وزیر بنے رہے ۔ پہلے کی طرح اب بھی امورِ سلطنت سے متعلق تمام اہم ترین مسئلے علی شیر کے صلاح و مشورے سے حل ہوتے رہے۔ لیکن لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بادشاہ حسین نے مرتے دم تک اپنے دل میں علی شیر کے لیے عداوت بسائے رکھی، کیوں کہ سبھی جانتے ہیں کہ لوگ اکثر و بیشتر انہی کے دشمن بن جاتے ہیں جن کی انہوں نے خود ہی برائی کی ہو۔ بزدل اور ظالم بادشاہ کو یہ خدشہ بھی رہتا تھا کہ مبادا علی شیر کبھی مجھ سے انتقام لے بیٹھے۔

علی شیر کے دل میں جان سے عزیز گل کے لیے جو محبت تھی اس کو وہ مرتے دم تک نبھاتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ پھر کوئی لڑکی کبھی بھی ان کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکی، چاہے وہ اپنے حسن و رعنائی سے سورج، چاند اور آسمان کے تمام ستاروں کی چمک دمک کر ہی کیوں نہ ماند کرتی رہی ہو۔

نوٹ:
جہیز۔ ازبکستان میں جہیز لڑکے والے لڑکی والوں کو دیتے ہیں
٭٭٭

٭٭٭
ٹائپنگ: ابو کاشان، سید زلفی
پروف ریڈنگ: سید زلفی، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید