FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

گلہائے عقیدت

طالب حسین کوثریؔ

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

 

 

نعتیں

جب قلم سے کچھ بدست کبریا لکھا گیا

لوح پر نام محمد مصطفیٰؐ لکھا گیا

لکھنا لازم تھا سبب تخلیق کائنات کا

الفت خیرالبشر خیر الوریٰؐ  لکھا گیا

جس میں قرآن مجسم کا کیا حق نے نزول

اس مقدس شہر کو ام القریٰ لکھا گیا

جب کسی نے نعت لکھنے کیلئے پکڑا قلم

جا بجا بے ساختہ صلِ علیٰ لکھا گیا

اجلی اجلی کیوں نہ ہوتی زندگانی کی کتاب

جس کے ہر صفحے پہ یا نور خدا لکھا گیا

میں خطاؤں پر ہوا نادم خدا نے کہہ دیا

تیرا حامی شافع روز جزا لکھا گیا

میں نے عشق مصطفیٰؐ میں جب لکھا لفظ فنا

میرے اپنے ہاتھ سے لفظ بقا لکھا گیا

آپ کا خالق علیؑ اک آپ کا بھائی علیؑ

دو علی ہیں جن کی خاطر قل کفیٰ لکھا گیا

معجزہ دیکھو حسین ؑ ابن علی ؑ کے خون کا

کربلا کی خاک کو خاک شفا لکھا گیا

نعت کے الفاظ ملنے پر جبیں جھکتی گئی

کوثریؔ کے نام پھر حسن عطا لکھا گیا

٭٭٭

 

خونِ جگر کے ساتھ جو حسنِ نظر ملے

ذوقِ طبع کو مدح گری کا ہنر ملے

میں نے کہا حضورؐ کہوں معتبر سی نعت

پھر لفظ جس قدر بھی ملے معتبر ملے

اس دل کو دیکھے وادیِ فاران رشک سے

جس میں حضورؐ آپ کی چاہت کا گھر ملے

اس کی نظر میں تختِ سکندر بھی کچھ نہیں

جس کو نبیؐ کی مدح سرائی کا زر ملے

بیشک فلک مزاج تھی دھرتی حجاز کی

’’اس سر زمیں کے ذروں میں شمس و قمر ملے’‘

ان کی زباں میں ہم سے کرے گفتگو خدا

ان کے بیاں میں ہم کو خدا کی خبر ملے

فرشِ زمیں پہ اُنؐ کی حکومت ہے بالیقیں

جنؐ کے نقوشِ پا کے نشاں عرش پر ملے

مدح گری کے واسطے تھوڑا سا چل کے دیکھ

اہلِ سخن کو اُن کی عطا ڈھونڈ کر ملے

اہل سخن کو بہر سکوں گھر تو چاہئے

اچھا ہے گھر کے واسطے مدحت نگر ملے

روشن زمیں ہو ذوق کی فیضانِ نعت سے

اشعار میں تابانیِ خونِ جگر ملے

مدح سرائی کرتا چلوں کارواں کے ساتھ

شہرِ نبیؐ کا مجھ کو سہانا سفر ملے

اُنؐ کی عطا پہ نازاں سوالی ہے کوثریؔ

پہلے خیال خوب ہے اب خوب تر ملے

٭٭٭

 

جب تذکرہ شاہ زمین و زمن چلے

خوشبو درود پڑھتی سر انجمن ملے

خیرالوریٰ کے جشن پر لکھنے لگوں جو نعت

قرطاس پر قلم بھی لئے بانکپن چلے

قرآں میں درج حسن کمالات کی قسم

حسن نبیؐ کا ذکر سخن در سخن چلے

لازم ہے امتی پہ اطاعت حضور کی

کردار میں حضور کا لے کے چلن چلے

ہر سمت جائے کرتی مہک ریزیاں پون

جا کے مدینے پہلے معطر بدن کرے

ان کی عطا پہ ناز سے کہتا ہے کوثریؔ

ان کی عنایتوں سے مرا فکر و فن چلے

٭٭٭

 

خیالِ نعت تھا یا الفتِ سرکار کی بارش

دلِ تاریک روشن کر گئی انوار کی بارش

دلوں کی کھیتیاں سر سبز ہو کر لہلہا اُٹھیں

اثر کرتی گئی جن پر تریؐ گفتار کی بارش

جمی رہتی ہیں جن میں محفلیں ذکرِ پیغمبرؐ کی

برستی ان گھروں پر ہے سدا مہکار کی بارش

عقیدے کی زمیں بنجر نہیں آباد دیکھیں گے

تسلسل سے اگر ہوتی رہی اذکار کی بارش

یہ فیضانِ نظر تھا آپؐ کا اے رحمتِ عالمؐ

مہاجر پر ہوئی جو آپؐ کے انصار کی بارش

وہی دربار خوشبوئے ہدایت سے مہکتے ہیں

ہے جن پر آپ کے خوشبو بھرے دربار کی بارش

ہدایت کا جہاں دستار در دستار سجتا ہے

ہر اک دستار پر ہے آپؐ کی دستار کی بارش

عقیدہ نطقِ مومن سے گھٹا بن کے برستا ہے

کہیں انکار کی بارش کہیں اقرار کی بارش

کریں ہمت عقیدوں کو بچالیں خشک سالی سے

چلو مانگیں ولائے احمدؐ مختار کی بارش

بہ اذنِ ربِ اکبر ہے مرے آقاؐ کی جانب سے

سر محشر شفاعت کے دُرِ شاہوار کی بارش

اے طالب کوثریؔ سینے میں خواہش سانس لیتی ہے

کہ ہو قلب و نظر پر آپؐ کے دیدار کی بارش

٭٭٭

 

شمیم نعت سے جو حالِ دل وجدان جیسا تھا

مرا ہر شعری مجموعہ بھرے گلدان جیسا تھا

رہ عشقِ نبی میں نور سے ہر سانس روشن تھی

وہاں پر ہر پڑاؤ منزلِ عرفان جیسا تھا

کسی زائر سے پوچھا ’’کیسا پایا شہر  آقاؐ کو

جواب آیا کہ منظر خلد کے دالان جیسا تھا

دلوں پر لکھ دیا قرآں ترے حسن تکلم نے

مؤثر کیوں نہ ہو لہجہ ترا رحمن جیسا تھا

زمانے میں نہیں منصف محمد مصطفیٰؐ جیسا

کہاں ایوان ان کے عدل کے ایوان جیسا تھا

تسلسل تھا صدائے مصطفیٰؐ کی گونج کا اس میں

دلِ خاصانِ آقاؐ وادیِ فاران جیسا تھا

جو پوچھا خُلق کے بارے میں ام المومنیں بولیں

کہ خُلقِ رحمۃ للعالمیں ؐ قرآن جیسا تھا

حدیث پاک سے تھی اس لئے الفت صحابہؓ کو

کہ ہر جملہ فروزاں آیتِ فرقان جیسا تھا

کیا ممتاز اس کو نعت گوئی کی سعادت نے

وگرنہ ہر صحابیؓ حضرتِ حسانؓ جیسا تھا

سنا  ’’الفقرُ فخری’‘  جس نے تیرے دہنِ اقدس سے

ترے دربار کا نادار بھی سلطان جیسا تھا

یہ کہہ کر بھی نہ پہنچا منزلِ حسنِ تمنا تک

’’بدن کی رحل پر چہرا کھلے قرآن جیسا تھا’‘

٭٭٭

 

طاہر و اطہر زبان مصطفیٰؐ

ارفع و اعلیٰ بیان مصطفیٰؐ

کھول کر دیکھو کتاب کائنات

یہ ہے ساری داستان مصطفیٰؐ

زندگی کے جمگھٹے میں آج بھی

سب سے اعلیٰ خاندان مصطفیٰؐ

انؐ کے دم سے بس رہی ہے کائنات

ہر جگہ ہے آستان مصطفیٰؐ

ہے قیامت تک ولایت کا وجود

چل رہا ہے کاروان مصطفیٰؐ

وہ کسی ادنیٰ کی بیعت کیوں کرے

جس نے چوسی ہے زبان مصطفیٰؐ

٭٭٭

 

زمانہ منتظر رہتا تھا نورِ اولیں آئے

فرازِ عرش سے اترے سجانے کو زمیں آئے

نظر آتا نہیں خیرالبشر سے اعلیٰ تر کوئی

نکل کر وہم کی دنیا سے جب حسنِ یقیں آئے

زر و لعل و جواہر کی اسے خواہش نہیں رہتی

ولائے مصطفیٰ کا جس کے ہاتھوں میں نگیں آئے

اندھیرے چھٹ گئے نور نبیؐ کے پاک جلووں سے

’’ہوئے کون و مکاں تاباں کہ وہ روشن جبیں آئے’‘

ملے گی منزلِ حسنِ یقیں ہر ایک مومن کو

شفاعت کیلئے جب رحمت للعٰلمیں آئے

ملی اُس در کی چوکھٹ خوش نصیبی ہے مرے مولا

جہاں خدمت گزاری کیلئے روح الامیں آئے

ہے مصروفِ تشکّر کوثریؔ ارضِ عرب اب تک

جسے عظمت دلانے کو شہِ دنیا و دیں آئے

٭٭٭

 

خونِ  جگر کے ساتھ جو حسنِ  نظر ملے

ذوقِ  طبع کو مدح گری کا ہنر ملے

میں نے کہا حضورؐ کہوں معتبر سی نعت

پھر لفظ جس قدر بھی ملے معتبر ملے

اس دل کو دیکھے وادیِ ٔ فاران رشک سے

جس میں حضورؐ آپ کی چاہت کا گھر ملے

اس کی نظر میں تختِ  سکندر بھی کچھ نہیں

جس کو نبیؐ کی مدح سرائی کا زر ملے

بیشک فلک مزاج تھی دھرتی حجاز کی

’’اس سر زمیں کے ذروں میں شمس و قمر ملے‘‘

ان کی زباں میں ہم سے کرے گفتگو خدا

ان کے بیاں میں ہم کو خدا کی خبر ملے

فرشِ  زمیں پہ اُنؐ کی حکومت ہے بالیقیں

جنؐ کے نقوشِ  پا کے نشاں عرش پر ملے

مدح گری کے واسطے تھوڑا سا چل کے دیکھ

اہلِ  سخن کو اُن کی عطا ڈھونڈ کر ملے

اہل سخن کو بہر سکوں گھر تو چاہئے

اچھا ہے گھر کے واسطے مدحت نگر ملے

روشن زمیں ہو ذوق کی فیضانِ  نعت سے

اشعار میں تابانیِ خونِ  جگر ملے

مدح سرائی کرتا چلوں کارواں کے ساتھ

شہرِ  نبیؐ کا مجھ کو سہانا سفر ملے

اُنؐ کی عطا پہ نازاں سوالی ہے کوثریؔ

پہلے خیال خوب ہے اب خوب تر ملے

٭٭٭

 

سلام

خام ہے خامہ جو لفظِ حق نما لکھتا نہیں

سینہ قرطاس پر کرب و بلا لکھتا نہیں

جسم میں بے فیض لگتا ہے مجھے ایسا لہو

لوح دل پر جو غم شاہ ہدیٰ لکھتا نہیں

کیسا ما تھا ہے؟ یہ کہتے تھے حسین ابن علیؑ

جو کہ سجدہ گاہ پر صبر و رضا لکھتا نہیں

مومن آل محمدؐ کا بھی ہے پختہ اصول

بیعتِ فاسق کسی صورت روا لکھتا نہیں

کون سچا کون جھوٹا چاہئے حسن یقیں

وہ منافق ہے جو اب تک فیصلہ لکھتا نہیں

خانہ زہرائؑ سے غیرت کا سبق میں نے لیا

بے حیا کو صاحب شرم و حیا لکھتا نہیں

کوثریؔ کا عدل کے قانون پر ایمان ہے

اس لئے وہ رہزنوں کو رہنما لکھتا نہیں

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

گلہائے عقیدت

طالب حسین کوثریؔ

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

نعتیں

جب قلم سے کچھ بدست کبریا لکھا گیا

لوح پر نام محمد مصطفیٰؐ لکھا گیا

لکھنا لازم تھا سبب تخلیق کائنات کا

الفت خیرالبشر خیر الوریٰؐ  لکھا گیا

جس میں قرآن مجسم کا کیا حق نے نزول

اس مقدس شہر کو ام القریٰ لکھا گیا

جب کسی نے نعت لکھنے کیلئے پکڑا قلم

جا بجا بے ساختہ صلِ علیٰ لکھا گیا

اجلی اجلی کیوں نہ ہوتی زندگانی کی کتاب

جس کے ہر صفحے پہ یا نور خدا لکھا گیا

میں خطاؤں پر ہوا نادم خدا نے کہہ دیا

تیرا حامی شافع روز جزا لکھا گیا

میں نے عشق مصطفیٰؐ میں جب لکھا لفظ فنا

میرے اپنے ہاتھ سے لفظ بقا لکھا گیا

آپ کا خالق علیؑ اک آپ کا بھائی علیؑ

دو علی ہیں جن کی خاطر قل کفیٰ لکھا گیا

معجزہ دیکھو حسین ؑ ابن علی ؑ کے خون کا

کربلا کی خاک کو خاک شفا لکھا گیا

نعت کے الفاظ ملنے پر جبیں جھکتی گئی

کوثریؔ کے نام پھر حسن عطا لکھا گیا

٭٭٭

خونِ جگر کے ساتھ جو حسنِ نظر ملے

ذوقِ طبع کو مدح گری کا ہنر ملے

میں نے کہا حضورؐ کہوں معتبر سی نعت

پھر لفظ جس قدر بھی ملے معتبر ملے

اس دل کو دیکھے وادیِ فاران رشک سے

جس میں حضورؐ آپ کی چاہت کا گھر ملے

اس کی نظر میں تختِ سکندر بھی کچھ نہیں

جس کو نبیؐ کی مدح سرائی کا زر ملے

بیشک فلک مزاج تھی دھرتی حجاز کی

’’اس سر زمیں کے ذروں میں شمس و قمر ملے’‘

ان کی زباں میں ہم سے کرے گفتگو خدا

ان کے بیاں میں ہم کو خدا کی خبر ملے

فرشِ زمیں پہ اُنؐ کی حکومت ہے بالیقیں

جنؐ کے نقوشِ پا کے نشاں عرش پر ملے

مدح گری کے واسطے تھوڑا سا چل کے دیکھ

اہلِ سخن کو اُن کی عطا ڈھونڈ کر ملے

اہل سخن کو بہر سکوں گھر تو چاہئے

اچھا ہے گھر کے واسطے مدحت نگر ملے

روشن زمیں ہو ذوق کی فیضانِ نعت سے

اشعار میں تابانیِ خونِ جگر ملے

مدح سرائی کرتا چلوں کارواں کے ساتھ

شہرِ نبیؐ کا مجھ کو سہانا سفر ملے

اُنؐ کی عطا پہ نازاں سوالی ہے کوثریؔ

پہلے خیال خوب ہے اب خوب تر ملے

٭٭٭

جب تذکرہ شاہ زمین و زمن چلے

خوشبو درود پڑھتی سر انجمن ملے

خیرالوریٰ کے جشن پر لکھنے لگوں جو نعت

قرطاس پر قلم بھی لئے بانکپن چلے

قرآں میں درج حسن کمالات کی قسم

حسن نبیؐ کا ذکر سخن در سخن چلے

لازم ہے امتی پہ اطاعت حضور کی

کردار میں حضور کا لے کے چلن چلے

ہر سمت جائے کرتی مہک ریزیاں پون

جا کے مدینے پہلے معطر بدن کرے

ان کی عطا پہ ناز سے کہتا ہے کوثریؔ

ان کی عنایتوں سے مرا فکر و فن چلے

٭٭٭

خیالِ نعت تھا یا الفتِ سرکار کی بارش

دلِ تاریک روشن کر گئی انوار کی بارش

دلوں کی کھیتیاں سر سبز ہو کر لہلہا اُٹھیں

اثر کرتی گئی جن پر تریؐ گفتار کی بارش

جمی رہتی ہیں جن میں محفلیں ذکرِ پیغمبرؐ کی

برستی ان گھروں پر ہے سدا مہکار کی بارش

عقیدے کی زمیں بنجر نہیں آباد دیکھیں گے

تسلسل سے اگر ہوتی رہی اذکار کی بارش

یہ فیضانِ نظر تھا آپؐ کا اے رحمتِ عالمؐ

مہاجر پر ہوئی جو آپؐ کے انصار کی بارش

وہی دربار خوشبوئے ہدایت سے مہکتے ہیں

ہے جن پر آپ کے خوشبو بھرے دربار کی بارش

ہدایت کا جہاں دستار در دستار سجتا ہے

ہر اک دستار پر ہے آپؐ کی دستار کی بارش

عقیدہ نطقِ مومن سے گھٹا بن کے برستا ہے

کہیں انکار کی بارش کہیں اقرار کی بارش

کریں ہمت عقیدوں کو بچالیں خشک سالی سے

چلو مانگیں ولائے احمدؐ مختار کی بارش

بہ اذنِ ربِ اکبر ہے مرے آقاؐ کی جانب سے

سر محشر شفاعت کے دُرِ شاہوار کی بارش

اے طالب کوثریؔ سینے میں خواہش سانس لیتی ہے

کہ ہو قلب و نظر پر آپؐ کے دیدار کی بارش

٭٭٭

شمیم نعت سے جو حالِ دل وجدان جیسا تھا

مرا ہر شعری مجموعہ بھرے گلدان جیسا تھا

رہ عشقِ نبی میں نور سے ہر سانس روشن تھی

وہاں پر ہر پڑاؤ منزلِ عرفان جیسا تھا

کسی زائر سے پوچھا ’’کیسا پایا شہر  آقاؐ کو

جواب آیا کہ منظر خلد کے دالان جیسا تھا

دلوں پر لکھ دیا قرآں ترے حسن تکلم نے

مؤثر کیوں نہ ہو لہجہ ترا رحمن جیسا تھا

زمانے میں نہیں منصف محمد مصطفیٰؐ جیسا

کہاں ایوان ان کے عدل کے ایوان جیسا تھا

تسلسل تھا صدائے مصطفیٰؐ کی گونج کا اس میں

دلِ خاصانِ آقاؐ وادیِ فاران جیسا تھا

جو پوچھا خُلق کے بارے میں ام المومنیں بولیں

کہ خُلقِ رحمۃ للعالمیں ؐ قرآن جیسا تھا

حدیث پاک سے تھی اس لئے الفت صحابہؓ کو

کہ ہر جملہ فروزاں آیتِ فرقان جیسا تھا

کیا ممتاز اس کو نعت گوئی کی سعادت نے

وگرنہ ہر صحابیؓ حضرتِ حسانؓ جیسا تھا

سنا  ’’الفقرُ فخری’‘  جس نے تیرے دہنِ اقدس سے

ترے دربار کا نادار بھی سلطان جیسا تھا

یہ کہہ کر بھی نہ پہنچا منزلِ حسنِ تمنا تک

’’بدن کی رحل پر چہرا کھلے قرآن جیسا تھا’‘

٭٭٭

طاہر و اطہر زبان مصطفیٰؐ

ارفع و اعلیٰ بیان مصطفیٰؐ

کھول کر دیکھو کتاب کائنات

یہ ہے ساری داستان مصطفیٰؐ

زندگی کے جمگھٹے میں آج بھی

سب سے اعلیٰ خاندان مصطفیٰؐ

انؐ کے دم سے بس رہی ہے کائنات

ہر جگہ ہے آستان مصطفیٰؐ

ہے قیامت تک ولایت کا وجود

چل رہا ہے کاروان مصطفیٰؐ

وہ کسی ادنیٰ کی بیعت کیوں کرے

جس نے چوسی ہے زبان مصطفیٰؐ

٭٭٭

زمانہ منتظر رہتا تھا نورِ اولیں آئے

فرازِ عرش سے اترے سجانے کو زمیں آئے

نظر آتا نہیں خیرالبشر سے اعلیٰ تر کوئی

نکل کر وہم کی دنیا سے جب حسنِ یقیں آئے

زر و لعل و جواہر کی اسے خواہش نہیں رہتی

ولائے مصطفیٰ کا جس کے ہاتھوں میں نگیں آئے

اندھیرے چھٹ گئے نور نبیؐ کے پاک جلووں سے

’’ہوئے کون و مکاں تاباں کہ وہ روشن جبیں آئے’‘

ملے گی منزلِ حسنِ یقیں ہر ایک مومن کو

شفاعت کیلئے جب رحمت للعٰلمیں آئے

ملی اُس در کی چوکھٹ خوش نصیبی ہے مرے مولا

جہاں خدمت گزاری کیلئے روح الامیں آئے

ہے مصروفِ تشکّر کوثریؔ ارضِ عرب اب تک

جسے عظمت دلانے کو شہِ دنیا و دیں آئے

٭٭٭

خونِ  جگر کے ساتھ جو حسنِ  نظر ملے

ذوقِ  طبع کو مدح گری کا ہنر ملے

میں نے کہا حضورؐ کہوں معتبر سی نعت

پھر لفظ جس قدر بھی ملے معتبر ملے

اس دل کو دیکھے وادیِ ٔ فاران رشک سے

جس میں حضورؐ آپ کی چاہت کا گھر ملے

اس کی نظر میں تختِ  سکندر بھی کچھ نہیں

جس کو نبیؐ کی مدح سرائی کا زر ملے

بیشک فلک مزاج تھی دھرتی حجاز کی

’’اس سر زمیں کے ذروں میں شمس و قمر ملے‘‘

ان کی زباں میں ہم سے کرے گفتگو خدا

ان کے بیاں میں ہم کو خدا کی خبر ملے

فرشِ  زمیں پہ اُنؐ کی حکومت ہے بالیقیں

جنؐ کے نقوشِ  پا کے نشاں عرش پر ملے

مدح گری کے واسطے تھوڑا سا چل کے دیکھ

اہلِ  سخن کو اُن کی عطا ڈھونڈ کر ملے

اہل سخن کو بہر سکوں گھر تو چاہئے

اچھا ہے گھر کے واسطے مدحت نگر ملے

روشن زمیں ہو ذوق کی فیضانِ  نعت سے

اشعار میں تابانیِ خونِ  جگر ملے

مدح سرائی کرتا چلوں کارواں کے ساتھ

شہرِ  نبیؐ کا مجھ کو سہانا سفر ملے

اُنؐ کی عطا پہ نازاں سوالی ہے کوثریؔ

پہلے خیال خوب ہے اب خوب تر ملے

٭٭٭

سلام

خام ہے خامہ جو لفظِ حق نما لکھتا نہیں

سینہ قرطاس پر کرب و بلا لکھتا نہیں

جسم میں بے فیض لگتا ہے مجھے ایسا لہو

لوح دل پر جو غم شاہ ہدیٰ لکھتا نہیں

کیسا ما تھا ہے؟ یہ کہتے تھے حسین ابن علیؑ

جو کہ سجدہ گاہ پر صبر و رضا لکھتا نہیں

مومن آل محمدؐ کا بھی ہے پختہ اصول

بیعتِ فاسق کسی صورت روا لکھتا نہیں

کون سچا کون جھوٹا چاہئے حسن یقیں

وہ منافق ہے جو اب تک فیصلہ لکھتا نہیں

خانہ زہرائؑ سے غیرت کا سبق میں نے لیا

بے حیا کو صاحب شرم و حیا لکھتا نہیں

کوثریؔ کا عدل کے قانون پر ایمان ہے

اس لئے وہ رہزنوں کو رہنما لکھتا نہیں

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید