FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

گلہائے حمد و نعت

 

 

                شیخ صدیق ظفرؔ

 

 

 

 

انتساب

 

حضرت قاضی محمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ

(گورنمنٹ عبدالحق اسلامیہ کالج جن سے منسوب ہے )

جنہوں نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ تک میری دست گیری فرمائی

اور

بارگاہِ خداوندی و بارگاہِ نبویؐ سے انعام و اکرام کی بارش جن کے وسیلہ سے ہوئی

اور مرحومین

والدہ محترمہ، والدِ گرامی، بہن بھائیوں، بھتیجوں

اور

بیگم کے نام

 

 

 

 

 

اظہارِ تشکر

 

رب العالمین اور رحمۃ اللعالمینؐ کی بے حد و حساب نوازشات کی بوچھاڑ یوں ہوئی کہ تین مجموعہ ہائے حمد و نعت ’’جمالِ حرف‘‘ (2003) ’’دل مدینہ‘‘ (2008) ’’میرے حبیبِ خداؐ‘‘(2010) کی وسیع بنیادوں پر اشاعت و تقسیم کے بعد رواں سال 2015 میں بیک وقت تین نئے مجموعہ ہائے حمد و نعت

٭     ’’خزینۂ حمد و نعت‘‘ (سات اشعار پر مشتمل حمدیں اور نعتیں )

٭     ’’گنجینۂ حمد و نعت‘‘ (چودہ اَور چودہ سے زیادہ اشعار پر مشتمل حمدیں اور نعتیں )

٭     ’’گلہائے حمد و نعت‘‘ (تین صد حمدیہ اور تین صد نعتیہ قطعات پر مشتمل گلدستہ)

دنیائے حمد و نعت میں شان و شکوہ، جاہ و جلال اور آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں فکرِ سود و زیان و بیش و کم سے ’’ماورا‘‘ خالد شریف صاحب (جن کے ایثار و خلوص کا ذکر کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ) تینوں مجموعہ ہائے حمد و نعت آپ تک پہنچانے کا اہتمام کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں پاکستان بھر میں اور بیرونی ممالک میں بھی کتابوں کے ڈیلر حضرات اپنا مخلصانہ تعاون پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دیں۔ آمین

دورانِ مطالعہ دل گداز اور آنکھ نم ہو تو اُمتِ مسلمہ کی فلاح و کامرانی اور اتحادِ بین الاسلامی کے لیے دُعا کیجیے۔

براہِ کرم مصنف کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے۔

طالبِ دعا

شیخ صدیق ظفر

جلال پور جٹاں (ضلع گجرات)

فون نمبر: 053-3592318

0321-6251220

 

 

 

 

یہ بڑے نصیب کی بات ہے

 

شیخ صدیق ظفرؔ حمد و نعت کے باب میں جس مقام تک آپہنچے ہیں اُسے صرف عطائے آقائے دوجہاںﷺ سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان کا جذبہ، ان کی لگن، ان کی تڑپ شاعری نہیں، شاعری سے کہیں آگے کی چیز ہے۔ زیرِ نظر کتاب ’’گلہائے حمد و نعت‘‘ میں شیخ صاحب نے قطعات کے قالب میں اپنے ما فی الضمیر کو واضح کیا ہے۔ یہ قطعات جتنے رواں ہیں اتنے ہی بامعنی ہیں۔ ان موضوعات پر اتنی کثیر تعداد میں اِس مشّاقی سے قطعات تحریر کرنا شیخ صدیق ظفر ہی کی تخصیص ہے۔ پوری کتاب کے قطعات پڑھتے ہوئے کہیں بھی توارد کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص قسم کی تازگی روح میں اُترتی رہتی ہے اور قلب اس سے سرشار ہوتا رہتا ہے۔ میں چالیس برس سے دنیائے اشاعت اور خارزار شعر میں سرگرداں ہوں، میری معلومات اور دانست کے مطابق یہ معجزہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ کسی شاعر کی حمد و نعت کی تین کتب بیک وقت ایک ہی روز اشاعت پذیر ہوں۔ ربِّ ذوالجلال شیخ صاحب کو عمرِ خضر عطا فرمائے اور اس کارِ ثواب کو دنیا بھر میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ادارہ ماورا کو ان کتب کی اشاعت سے سرفراز ہونے پر انتہائی فخر ہے۔

خالد شریف

ماورا

لاہور

 

 

 

خدا لاریب رب العالمیں ہے

وہی پروردگارِ عالمیں ہے

 

 

 

                حمدیہ قطعات

 

 

خدا کا ذکر، ذکرِ دل کشا ہے

خدا کا ذکر، ذکرِ جانفزا ہے

خدا گر دل میں یاد اپنی بسا دے

خدا کا ہے کرم اُس کی عطا ہے

 

خُدا کی عظمتوں کا ذکر کرنا

خُدا کی قربتوں کا ذکر کرنا

خُدا ڈالے گھروں میں خیر و برکت

خدا کی برکتوں کا ذکر کرنا

 

 

 

خدا کے ذکر سے دل مطمئن ہیں، خدا کے ذکر سے مسرور جاں ہے

خدا کے ذکر سے شیریں دہن ہیں، خدا کے ذکر سے شیریں زباں ہے

خدا کا دل میں جب جب نُور برسا، مری جاں میں تب اِک مہتاب اُترا

ظفرؔ شاداں بہت جانِ حزیں ہے، بہت فرحاں مرا قلبِ تپاں ہے

 

 

خُدا کی یاد سے معمُور دل ہے

سرُور و کیف سے مسرُور دل ہے

خدا نے کی عطا اپنی محبت

بہت ممنون ہے مشکور دل ہے

 

خدایا میں نحیف و ناتواں کمزور انساں ہوں

ترا بھی اور ترے محبوبؐ کا ادنیٰ ثناء خواں ہوں

عطا کر صدقہ اپنی کبریائی اور شانِ مصطفائی کا

بس اِک نگہِ کرم نگہِ محبت کا میں خواہاں ہوں

 

فرشتہ تو نہیں انسان ہوں میں

کلیمِ عشق کا دربان ہوں میں

مرے دِل میں سمایا عشقِ ربی

ظفرؔ عشاق کی پہچان ہوں میں

 

 

مرا خدا رؤف ہے، مرا خدا رحیم ہے

مرا خدا انیس ہے، مرا خدا کریم ہے

مرا خدا غفور ہے، مرا خدا حلیم ہے

مرا خدا عظیم ہے، مرا خدا عظیم ہے

 

مکیں سارے خدا کے حمد گو ہیں، مکاں سارے خدا کے حمد گو ہیں

جہاں سارے خدا کے حمد گو ہیں، زماں سارے خدا کے حمد گو ہیں

سمندر میں خدا کی حمد جاری، فضاؤں میں خدا کی حمد جاری

نہاں سارے خدا کے حمد گو ہیں، عیاں سارے خدا کے حمد گو ہیں

 

خدا موجود ہے عرشِ بریں پر

خدا موجود ہے فرشِ زمیں پر

جہاں جاؤ ظفرؔ پاؤ گے اُس کو

خدا موجود ہر جا ہر کہیں پر

 

خدا کی حمد ہر لحظہ طریقِ عاشقاں ہو گا

ہر اِک رازِ نہاں عشاق پر واضح عیاں ہو گا

یہ انسانوں کی خدمت میں ہمیشہ منہمک ہوں گے

خدائی مہرباں ہو گی، خدا بھی مہرباں ہو گا

 

کرو رب کی عبادت، خدا کا حکم ہے یہ

رسولِ پاکؐ کی مِدحت، خدا کا حکم ہے یہ

کرو انسان کی خدمت، خدا کا حکم ہے یہ

کرو جاری سخاوت، خدا کا حکم ہے یہ

 

نہ لب پر شکوہ و فریاد رکھنا

نہ خوف جور و استبداد رکھنا

دلِ مضطر ظفرؔ یوں شاد رکھنا

سدا دِل میں خدا کی یاد رکھنا

 

 

خدا ہم ورد و مُونس ہے، شفیق و مہرباں ہے

خدا کے نُور سے ماحول، تاباں و فروزاں ہے

مُنور نُور سے اُس کے مکان و لامکاں ہے

جو اُس کی حمد سے غافل ہے، راہ گم کردہ انساں ہے

 

زماں سب حمد میں مصروف ہر دم

خدا کی ذات قائم اور دائم

کرو ذکرِ خدا، ہر آن پیہم

درود و نعت کا بھی وِرد باہم

 

 

کرم کا سائباں سر پر ہے میرے

خدائے اِنس و جاں سر پر ہے میرے

نہیں خائف ظفرؔ حاسد کے شر سے

خدائے مہرباں سر پر ہے میرے

 

 

خدا کا شُکر کرتا ہوں، خدا پر میرا ایماں ہے

مرا ایمان محکم ہی، مرے ہر دُکھ کا درماں ہے

مرا ایمان میری مغفرت، بخشش کا ساماں ہے

خدا کا شکر جو کرتا نہیں، کم ظرف انساں ہے

 

مقام و مرتبہ اللہ کا اللہ اکبر

خدائے پاک کی جود و سخا اللہ اکبر

کرم رب کا، عطائے کبریا اللہ اکبر

خدائی کا یہ پیہم سلسلہ اللہ اکبر

 

اذانوں میں صلوٰتوں میں، خدا پیشِ نظر ہر دم

اندھیری چاند راتوں میں، خدا پیشِ نظر ہر دم

بوقتِ حمد ہر لحظہ، ظفرؔ سجدے میں سررکھنا

حبیبؐ اللہ کی باتوں میں، خدا پیشِ نظر ہر دم

 

 

سرورِ قلب و جاں ہے، ربِ ہست و بُود تُو ہی تُو

ہر اِک ذرے میں، ہر قطرے میں بھی موجود تُو ہی تُو

ملائک اِنس و جاں عابد ہیں، بس معبود تُو ہی تُو

زمانے سجدہ گاہیں، اے خدا مسجُود تُو ہی تُو

 

خدا کی حمد کے اشعار بے خود گنگناتا ہوں

خدا کی یاد میں آنسو بہاتا، مسکراتا ہوں

مَیں جب نُورِ خدا کی ایک ہلکی سی کرن دیکھوں

خوشی کے شادیانے بے خودی میں مَیں بجاتا ہوں

 

خدا کی یاد سے پہلے وضو اشکوں سے کرتا ہوں

مَیں خوشبوئیں لگاتا ہوں، لباس اُجلا پہنتا ہوں

خدا کرتا عطا ہے جب وصال و جذب کی حالت

ظفرؔ مرمر کے جیتا ہوں، کبھی جی جی کے مرتا ہوں

 

 

خطا کاروں کا تُو ستار بھی ہے

گنہگاروں کا تُو غفار بھی ہے

تہی دستوں کا پالن ہار بھی ہے

دلِ بیمار کا دل دار بھی ہے

 

کرے آباد گھر سُنسان میرا

بسادے اب دلِ ویران میرا

سمودے میری جاں میں یاد اپنی

کرے پُورا خدا ارمان میرا

 

خدا اعلیٰ و ارفع، برگزیدہ

خدا کی عظمتیں، دیدہ شنیدہ

بتوفیقِ خدا، لکھا ظفرؔ نے

خدا کی حمد کا، تاباں جریدہ

 

 

خدا کی حمد جس گھر میں بیاں ہو

خدا کا نُور اُس گھر میں عیاں ہو

وہ گھر دار الشفا، دار الاماں ہو

خدا کی عظمتوں کا ترجماں ہو

 

جلالِ کبریا اللہ اکبر

جمالِ مصطفیٰ اللہ اکبر

خدا کے ہم نوا و ہم نشیں ہیں

حبیبِ کبریا اللہ اکبر

 

خدا الطاف فرما، مہرباں ہے

وہ مخلوقات کا روزی رساں ہے

ظفرؔ وہ زندگی بھی، موت بھی دے

وہی دیتا حیاتِ جاوداں ہے

 

 

خدا کی عظمتوں کے ہیں مظاہر سمندر، کوہ و بن، صحرا بیاباں

جمالِ کبریا کے ترجماں ہیں، ہر اِک غنچہ و گل، صحنِ گلستاں

خدا کے نور کا پرتو ہیں، خورشید و مہ و انجم فروزاں

خدائے مہرباں اُمت پہ ہو تیرا کرم، ہر دم فراواں

 

سدا وردِ زباں اللہ اکبر

صدائے جسم و جاں اللہ اکبر

مری نس نس بھی اللہ پکارے

کہے قلبِ تپاں اللہ اکبر

 

خدا کی عظمتوں کے استعارے

فروزاں چاند، تابندہ ستارے

خدا کے نُور سے روشن ظفرؔ ہیں

ہمارے جسم و جاں، دل بھی ہمارے

 

 

خدائے پاک نے ایمان بخشا

شعور و آگہی، عرفان بخشا

ملایا جس نے بندوں کو خدا سے

وہ رہبر حاملِ قران بخشا

 

خدا ہی خالق کون و مکاں ہے

وہ کائنات کی روحِ رواں ہے

خدا موجود ہر جا، جاوداں ہے

جلال اُس کا زمانوں میں عیاں ہے

 

کرے انساں جو انساں سے بھلائی

کرے مظلوم کی مشکل کشائی

ظفرؔ ہو مہرباں اُس پر خدا بھی

ہو اُس پہ مہرباں ساری خدائی

 

 

خدا معبود مخلوقات کا ہے

سبھی طبقاتِ کائنات کا ہے

وہی رہتے ہیں مصروفِ عبادت

کرم جن پر خدا کی ذات کا ہے

 

پہنچ سکتے نہیں رب العلیٰ تک

نہ پہنچیں گر حبیبِ کبریا تک

خدا تک راہبر ہیں، رہنما ہیں

وہ پہنچاتے ہیں انساں کو خدا تک

 

مری مشکل خدایا کر دے آساں

رفو کر دے دریدہ میرا داماں

ظفرؔ کو کر عطا رزقِ فراواں

بنا دے اُس کو ہم دردِ غریباں

 

 

ہے تو عظمت نشاں آقا و مولا

خدائے مہرباں آقا و مولا

خدائے ہر زماں آقا و مولا

خدائے اِنس و جاں آقا و مولا

 

خدائے مہرباں کی ذاتِ باری

نگہبان و محافظ ہے ہماری

خدائی رحمتوں کا سلسلہ ہے

ازل سے تا ابد جاری و ساری

 

سمندر، کوہ و بن، ارض و سما ہیں

ثمر، غنچہ و گل، تازہ ہوا ہیں

کوئی اِن کو ظفرؔ جھٹلائے کیسے

خدا کی نعمتیں بے انتہا ہیں

 

 

خدا سارے زمانوں کا خُدا ہے

خدا سارے جہانوں کا خُدا ہے

خدا محور ہے سارے معبدوں کا

خدا سب آستانوں کا خدا ہے

 

خداوندا ہمیں علم و ہنر دے

خداوندا ہمیں نورِ نظر دے

محبت دے ہمیں خیر البشرؐ کی

رہِ دُشوارِ عشق آسان کر دے

 

سدا دِل میں خدا کی یاد رکھنا

محبت کا جہاں آباد رکھنا

نکالے گا وہی ہر ابتلاء سے

ظفرؔ لب پر نہیں فریاد رکھنا

 

 

کرم فرما خدا کی ذاتِ باری

کرم اُس کا سدا جاری و ساری

کرے ابرِ کرم سے آبیاری

چلائے حبس میں بادِ بہاری

 

بہت ارفع مقامِ زندگانی ہے

بڑا واضح نظامِ زندگانی ہے

فنا فی اللہ ہی واحد راستہ ہے

اگر چاہے دوام زِندگانی ہے

 

خدائے پاک کا مجھ پر کرم ہے

نظر کے سامنے ہر دم حرم ہے

جلالِ کبریا، جاہ و حشم ہے

ظفرؔ کی اشک افشاں چشمِ نم ہے

 

ہمیں دے یا خُدا نُورِ بصیرت بھی بصارت بھی

ہمیں دے علم کی دولت بھی، ایماں کی حرارت بھی

عطا کر دے ہمیں حُسنِ مروت بھی، شرافت بھی

خدایا دے ہمیں محبوبؐ کی اپنے محبت بھی

 

خداوندِ زمین و آسماں تُو

خداوندِ مکان و لامکاں تُو

خداوندِ ملائک، انس و جاں تُو

خداوندِ ہم خستہ دِلاں تُو

 

تو خبیر ہے تو علیم ہے، تُو عظیم ہے تُو عظیم ہے

تُو رؤف ہے تو رحیم ہے، تُو عظیم ہے تُو عظیم ہے

تُو حلیم ہے تو حکیم ہے، تُو عظیم ہے تُو عظیم ہے

تُو ظفرؔ کا ربِ کریم ہے، تُو عظیم ہے تُو عظیم ہے

 

 

تیری عطائیں بے کنار

میری خطائیں بے شمار

ترے کرم کی خواستگار

میری چشمِ اشک بار

 

خدا کی مہرباں ہے ذات لکھوں

خدا کے لطف کی برسات لکھوں

ثناء و حمد کے کلمات لکھوں

حبیبِ کبریا کی بات لکھوں

 

خدا کی ذات کا فضل و کرم ہے

کہ رُخ میرا سدا سوئے حرم ہے

ظفرؔ خانۂ کعبہ محتشم ہے

خمیدہ سر یہاں عرب و عجم ہے

 

 

خدا اعلیٰ و ارفع ہے، خدا عظمت نشاں ہے

وہ خالق ہے، وہ مالک ہے، وہی روزی رساں ہے

سمندر میں وہ پتھر میں بھی پہنچاتا ہے روزی

وہ مخلوقات کا روزی رساں ہے، بے گماں ہے

 

جہاں کے بُتکدوں سے دُور رہنا

خدا کے ذکر میں مسرُور رہنا

سرور و کیف سے معمُور رہنا

ہے یہ عشاق کا دستور رہنا

 

خدا کی ذات پر ہر انس و جاں بھی ناز کرتا ہے

زمیں بھی ناز کرتی، آسماں بھی ناز کرتا ہے

ظفرؔ ساری خدائی بھی خدا پر ناز کرتی ہے

محمدؐ پر خدائے مہرباں بھی ناز کرتا ہے

 

 

خدا کے ذکر سے دل مطمئن ہیں، خدا کے ذکر سے مسرور جاں ہے

خدا میرا ہے معبودِ خلائق، وہ مسجودِ ملائک، اِنس و جاں ہے

خدا ستار بھی غفار بھی ہے، خدا میرا خلیق و مہرباں ہے

خدا ہی چارہ ساز و چارہ گر ہے، خدا کے زیر فرماں ہر جہاں ہے

 

میانِ قعرِ دریا جس نے اللہ کو پُکارا ہے

بھنور نے اُس کو فوراً سطحِ دریا پر اُبھارا ہے

کیا طوفاں نے اُس کے واسطے پیدا کنارہ ہے

لبِ ساحل اُسے لایا کرم کا بہتا دھارا ہے

 

خدا کے فضل سے ہر دم مرا دامن بھرا ہے

میں نخلِ خشک ہوں گرچہ، مرا دل تو ہرا ہے

میں چلتا پھرتا لاشہ ہوں، ظفر طرفہ تماشا ہوں

حبیبِ کبریا کے در پہ، دل میرا دھرا ہے

 

مجھے بحرِ غم سے اُچھال دے

مجھے مشکلوں سے نکال دے

مجھے سیدھی راہ پر ڈال دے

مجھے اپنی چاہ میں ڈھال دے

 

 

محبت خلق سے رب العلیٰ کی

محبت اپنے بندوں سے خدا کی

محبت غیر فانی، جاودانی

ہے اُمت سے حبیبِ کبریا کی

 

خدا مجھ کو شعورِ زندگی دے

مجھے بھرپور ذوقِ بندگی دے

سرِ محشر ظفرؔ کی لاج رکھ لے

نہ پیشِ مصطفیٰؐ شرمندگی دے

 

 

خدا اعظم، عظیم، عظمت نشاں ہے

خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے

خدا حاجت روائے اِنس و جاں ہے

محبت کا جہاں ہے، مہرباں ہے

 

خدا پروردگارِ عالمیں ہے

خدا موجود ہر جا، ہر کہیں ہے

خدا بندے کی شہ رگ سے قریں ہے

خدا عشاق کے دل میں مکیں ہے

 

خدائے پاک رب العالمیںؐ ہیں

محمدؐ رحمۃ اللعالمیںؐ ہیں

خدا داتا ہے اَور قاسم محمدؐ

ظفرؔ دونوں کے در کے خوشہ چیں ہیں

 

 

خدا کے نُور سے روشن زماں ہیں

منور لامکاں، کون و مکاں ہیں

خدا کی حمد کرتے ہیں جہاں سب

مظاہر اُس کی قدرت کے عیاں ہیں

 

ہے یہ حکمت خدائے عزوجل کی

ہے یہ منطق خدائے لم یزل کی

علمداری ہر اِک جا عدل کی ہو

جزا ملتی رہے حُسنِ عمل کی

 

خُدا ہی خالقِ کون و مکاں ہے

خدا تخلیق کارِ ہر زماں ہے

وہ مسجُودِ ملائک، اِنس و جاں ہے

ظفرؔ وہ قبلہ گاہِ عاشقاں ہے

 

 

خدائے مصطفیٰؐ میرا خدا ہے

خدا ہی خالقِ ارض و سما ہے

وہی مختارِ کل، فرمانروا ہے

وہی حاجت روا، مشکل کشا ہے

 

خدائے مہرباں سب کا خدا ہے

خدائے ہر زماں سب کا خدا ہے

خدائے اِنس و جاں سب کا خدا ہے

خدا ہی بے گماں سب کا خدا ہے

 

خدا کے نُور سے روشن جہاں ہیں

درخشندہ سبھی کون و مکاں ہیں

منور نُور سے ہی جسم و جاں ہیں

ظفرؔ عشاق کے قلبِ تپاں ہیں

 

خدا بندے کی شہ رگ سے قریں ہے

خدا ہی دل نواز و دل نشیں ہے

خدا کے نُور سے تن من فروزاں

خدا کے نُور سے روشن جبیں ہے

 

 

خدا میرا زمانوں کا خدا ہے

خدا سارے جہانوں کا خدا ہے

خدا معبود مخلوقات کا ہے

خدا سب آستانوں کا خدا ہے

 

خدا ہی سب کا خالق ہے خدا ہے

خدا ہی سب کا رازق ہے خدا ہے

خدا کے زیر فرماں سب زماں ہیں

ظفرؔ وہ سب کا مالک ہے خدا ہے

 

 

خدا ارفع، عظیم و محتشم ہے

خدا کا سب زمانوں پر کرم ہے

خدا کا نُور برسے قلب و جاں پر

خدا کے فضل سے ہی دم میں دم ہے

 

جو چڑیاں چہچہاتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی

جو حوریں گیت گاتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی

جو موجیں گنگناتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی

جو کرنیں جگمگاتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی

 

خدا کی حمد لکھنا، نعت کہنا

حبیبِ کبریا کی بات کہنا

پذیرائی بھی ہو گی انشاء اللہ

ظفرؔ حمد و ثناء دِن رات کہنا

 

 

خداوندا کرم کا ابر برسا

مرا دل ابرِ رحمت کا ہے ترسا

مرے دل میں بھی ہوں تشریف فرما

ہوا ہے ذکر کرتے ایک عرصہ

 

کہوں حمدِ خدا میں کس زباں سے

حسیں انداز سے، طرزِ بیاں سے

جسے سُن کر خدائی جھوم اُٹھے

میں وہ حُسنِ ادا لاؤں کہاں سے

 

مُنور ہر زماں نور خدا سے

ہے تابندہ جمالِ مصطفیٰؐ سے

ملائک بھی ہیں حمد و نعت سُنتے

ظفرؔ سے عاجز و مسکیں گدا سے

 

حرم کو جانے والو جا کے واں رب کو منالو

نحیف و ناتواں ہمسائے کو بھی تو سنبھالو

جو مُنہ کے بل گرا ہے اُس کو بھی تھامو اُٹھا لو

مرا جاتا ہے جو فاقے سے اُس کو بھی بچا لو

 

طوافِ خانہ کعبہ ترجماں ہے ایک مرکز کا

سفید احرام بھی واضح نشاں ہے ایک مرکز کا

ہیں انساں سب برابرسب مسلماں بھائی بھائی ہیں

یہی پیغام دائم جاوداں ہے ایک مرکز کا

 

 

مسلمانوں کا مرکز گھر خدا کا

ثناء خوانوں کا مرکز گھر خدا کا

ظفرؔ اُمت کی وحدت کا نشاں ہے

سب انسانوں کا مرکز گھر خدا کا

 

رکُوع و سجود و قیام اللہ اللہ

نمازوں کا یہ احترام اللہ اللہ

مسلماں سوئے کعبہ ہیں سربسجدہ

ہے وحدت کا یہ ہی مقام اللہ اللہ

 

 

محبت کا نشاں ہے خانہ کعبہ

متاعِ عاشقاں ہے خانہ کعبہ

یہی منزل ملائک اِنس و جاں کی

فصیلِ جسم و جاں ہے خانہ کعبہ

 

 

خدا کی حمد میری زندگی ہے، خدا کی حمد میری بندگی ہے

خدا کی حمد میں ہر دم مگن ہوں، سرور و کیف ہے وارفتگی ہے

میں مصروفِ ثناء صبح و مسا ہوں، خدا کی حمد سے دِبستگی ہے

ظفرؔ کو یوں کیا سیراب رب نے، رہی باقی نہ کوئی تشنگی ہے

 

 

خدا مونس، شفیق و مہرباں ہے

خدا ربِّ جہاں، عظمت نشاں ہے

خدا موجود ہر انساں کے دل میں

خدا ہی قبلہ گاہِ عاشقاں ہے

 

خدا کے گھر سے گرچہ دُور ہوں میں

خدا کی حمد میں مسرُور ہوں میں

مرے پیشِ نظر ہے خانہ کعبہ

خدا کے فیض سے معمور ہوں میں

 

حرم کے سائے میں سارے مسلماں رُوبرو بیٹھیں

پھریں نہ در بہ در، قریہ بہ قریہ کو بہ کو بیٹھیں

ظفرؔ دل دوز سننے اولیاء کی گفتگو بیٹھیں

اخوت بین الاسلامی کی کرنے جستجو بیٹھیں

 

 

خدا نے نعمتیں بخشی ہیں کیا کیا، خدا نے برکتیں بخشی ہیں کیا کیا

بنا کر آپؐ کو سردارِ اُمت، خدا نے عظمتیں بخشی ہیں کیا کیا

شبِ معراج پاس اپنے بُلا کر، فلک پر خلوتیں بخشی ہیں کیا کیا

مری سرکارؐ کو اپنا بنا کر، خدا نے رفعتیں بخشی ہیں کیا کیا

 

خدا موجود ہر سرِ نہاں میں

خدا موجود ہر منظر عیاں میں

خدا موجود ہر اک روح و جاں میں

خدا موجود ہر قلبِ تپاں میں

 

سبھی آفاق سے وہ ماوراء ہے

سبھی افلاک سے وہ ماوراء ہے

ظفرؔ ڈھونڈھو خدا کو دل میں اپنے

شعور ادراک سے وہ ماوراء ہے

 

 

اگر ہے جستجو رب کی رضا کی

خوشی مقصود ہے رب العلیٰ کی

کرو خالق کی بھی جی بھر عبادت

کرو خدمت بھی مخلوقِ خدا کی

 

جو انسانوں کا ناحق خوں بہائے

جو انسانوں پہ جور و ظلم ڈھائے

ہے ایسا شخص ننگِ آدمیت

خدا کے صبر کو جو آزمائے

 

صدائے کن فکاں پرتو خدا کا

جمالِ دل براں پرتو خدا کا

بہارِ گلستاں پرتو خدا کا

ظفرؔ حُسنِ زماں پرتو خدا کا

 

 

میں عاصی پُر خطا ہوں اور تو ستّار بھی غفار بھی ہے

میں مجرم روسیہ ہوں اور تو ستّار بھی غفار بھی ہے

میرے جرم و سیہ کاری پہ رحمت تیری بھاری ہے

کہ میں سب سے بُرا ہوں اور تو ستّار بھی غفار بھی ہے

 

میں بے نام و نشاں سا اور تو عظمت نشاں مولا

ذرا سی آبجو میں، تو ہے بحر بیکراں مولا

میں اُڑتا زرد پتا، تو مہکتا گلستاں مولا

میں اِک بندۂ عاصی، تو کرم کا سائباں مولا

 

شکستہ دل مسلماں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما

بڑی مشکل میں انساں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما

پسارا ہم نے داماں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما

ظفرؔ گریاں و نالاں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما

 

 

خدا مختارِ کُل، فرمانروا ہے

خدا حاجت روا، عقدہ کشا ہے

خدا بے آسروں کا آسرا ہے

خدا انسانیت کا خیرخواہ ہے

 

کرو آدم کو سجدہ، جب فرشتوں کو یہ فرمایا خدا نے

جبیں میں ضو فشاں نورِ محمدؐ، اُن کو دکھلایا خدا نے

فرشتے گر گئے سجدے میں جب نورِ مبیں دیکھا

زمیں پر ہے مرا نائب یہ سمجھایا خدا نے

 

خدا کا نُور برسے ہر زماں میں ہر جہاں میں

فضاؤں میں، خلاؤں میں، زمین و آسماں میں

دلاسہ دے وہی مغموم دل، قلبِ تپاں کو

گزر اُس کا ظفرؔ اکثر قلوبِ عاشقاں میں

 

 

خدا کے حمد گو کوہ و بیابان و سمندر بھی

قطب ابدال بھی سارے، خدا کے سب پیمبر بھی

تمامی اولیاء بھی اور مجذوب و قلندر بھی

سبھی راہرو مسافر بھی، سپہ سالار رہبر بھی

 

خدا سے ملنا چا ہو، بات یہ دل میں بٹھا لو

پڑے ہیں ٹھوکروں میں جو، اُنہیں بڑھ کر اُٹھا لو

ہیں جو روٹھے ہوئے احباب، تم اُن کو منالو

نہیں کوئی بھی جن کا، اُن کو تم اپنا بنا لو

 

عظیم المرتبت ربّ العلیٰ عظمت نشاں ہے

اُسی کے حکم کا سکہ زمانوں میں رواں ہے

خدا کی حمد سے پہلے سمجھ لے، سوچ لے ناداں

خدا کے ذکر کے قابل ظفرؔ تیری زباں ہے ؟

 

 

جمال خانہ کعبہ دل کشا، جاذب نظر ہے

خدا کے گھر کی رونق روز افزوں بیشتر ہے

خدا کے گھر میں توسیع کی سعی جو کر رہے ہیں

خدا ہی رہنما اُن کا، خدا ہی راہبر ہے

 

خدا کی حمد لازم ہے زباں سے

محبت، عشق سے قلبِ تپاں سے

وفورِ شوق سے، حُسنِ بیاں سے

کرو باتیں خدائے مہرباں سے

 

خدا سارے زمانوں کا ہے خالق

خدا سارے جہانوں کا ہے مالک

خدا بستا ہے ہر انساں کے دل میں

ظفرؔ مجذوب ہو یا کوئی سالک

 

 

خدا دل میں، خدا ہے جسم و جاں میں

ہر اِک گھر میں ہے وہ ہر آشیاں میں

ہر اِک غنچہ و گل، ہر گلستاں میں

خلاؤں میں خدا، کون و مکاں میں

 

خدا سے دِل لگی جب تک نہ ہو گی

خدا سے آگہی تب تک نہ ہو گی

نہ مخلوقِ خدا راضی ہو جب تک

رسائی آپ کی رب تک نہ ہو گی

 

خدا سایہ کُناں ہے بندگی میں

سرور و کیف میری زندگی میں

خدا کی حمد بن جو وقت گزرا

وہ گزرا ہے ظفرؔ شرمندگی میں

 

 

ترے انوار دیکھوں یا خُدا مجھ کو نظر دے

مجھے چشمِ بصیرت دے، مجھے نورِ بصر دے

ترے گھر کی زیارت کی تمنا ہے مرے دل میں

عطا کر عزم و ہمت اور خدارا بال و پر دے

 

جلال کبریا کی مظہر و عکاس ہے ساری خدائی

عیاں ہر ایک ذرے میں ہے شانِ کبریائی

کرو خدمت مریضوں، درد مندوں کی فقیروں کی

یہی منشائے ربی ہے یہی ہے پارسائی

 

خدایا دے مجھے اپنا پتہ، پہچان دے دے

رسائی ہو مری تجھ تک، رہِ آسان دے دے

مجھے جذب و جنون و آگہی، ایقان دے دے

ظفرؔ کو بھی تو اپنی ذات کا عرفان دے دے

 

 

خدائے مہربان نگہِ کرم للّٰہ خدارا

تمہیں ہو بے سہاروں کا بڑا محکم سہارا

تمہیں نے کام ہر اِک بے نواؤں کا سنوارا

نحیفوں پر ترا لطف و کرم ہے آشکارا

 

زمانہ جس کو خالق مانتا ہے

جسے روزی رساں گردانتا ہے

اِرادوں سے ہمارے ہے وہ آگاہ

دِلوں کے بھید بھی وہ جانتا ہے

 

خدایا سب جہانوں پر ترا فضل و کرم ہے

تو اکبر ہے تو ارفع ہے، عظیم و محتشم ہے

خطا کاروں کا تو ستّار ہے، رکھتا بھرم ہے

ظفرؔ یادوں میں تیری منہمک ہے، چشم نم ہے

 

خدا ہی مرکزِ مہر و وفا ہے

خدا ہی صاحبِ جود و سخا ہے

عطا کر دی مجھے اپنی محبت

یہ ہے فضلِ خدا، فیض و عطا ہے

 

خدا کا ذکر کرتے سب جہاں ہیں

زمین و آسماں، کون و مکاں ہیں

ملائک سرخمیدہ، اِنس و جاں ہیں

خدا مشفق ہیں مُونس، مہرباں ہیں

 

 

کرو مخلوق کی خدمت، یہی خالق کا فرماں ہے

مشیت ایزدی ہے یہ، یہی فرمانِ قرآں ہے

کرو خدمت فقیروں کی، دریدہ جن کا داماں ہے

نہ اِنسانوں کے کام آئے، ظفرؔ تو کیسا انساں ہے ؟

 

 

خدا کے حمد گو گلشن چمن ہیں

خدا کے حمد گو سر و سمن ہیں

خدا کے حمد گو صحرا و بن ہیں

خدا کے حمد گو کوہ و دمن ہیں

 

خدا کے حمد گو جنگل بیاباں

خدا کے حمد گو جنات اِنساں

خدا کے حمد گو گریاں و خنداں

خدا کے حمد گو شاداں و فرحاں

 

خدا کی حمد میں رطب اللساں ہیں

مکیں سارے مکان و لامکاں ہیں

ظفرؔ سارے زمانے سرخمیدہ

ادب سے سرنگوں سارے جہاں ہیں

 

 

خداوندِ شفیق و مہرباں تو

خداوندِ ملائک اِنس و جاں تو

خداوندِ زمین و آسماں تو

خداوندِ مکان و لامکاں تو

 

خدا نے کی عطا اپنی محبت

عطا کی برملا اپنی محبت

کرم مجھ پر کیا ربّ العلیٰ نے

ہے دی بے انتہا اپنی محبت

 

خدا ہی دل رُبا و دل نشیں ہے

خدا موجود ہر جا ہر کہیں ہے

ظفرؔ جو بھی جہاں سجدہ کناں ہے

مُنور اُس کا دل روشن جبیں ہے

 

 

خدا واحد، خدا ممتاز و اعظم

خدا اعلیٰ و ارفع سب کا حاکم

خدا کی حمد سب کرتے ہیں ہر دم

خدا کی یاد میں ہر چشم پُر نم

 

خدا توفیق دے حمد و ثناء کی

خدا کی حمد نعتِ مصطفیٰؐ کی

محبت کی خدا نے ابتدا کی

حبیبِ کِبریا پر انتہا کی

 

صدائے کن فکاں اللہ اکبر

بنے سارے جہاں اللہ اکبر

کئے تخلیق رب نے سارے عالم

ظفرؔ کون و مکاں اللہ اکبر

 

 

خدا ہی بے گماں خالق ہے سب کا

خدا ہی داتا و رازق ہے سب کا

خدا کے زیرِ فرماں سب زمانے

خدا ہی مولا و مالک ہے سب کا

 

خدا کے زیرِ فرماں سب جہاں ہیں

سبھی افلاک ہیں سارے زماں ہیں

مکیں سارے، مکان و لامکاں ہیں

حبیب اللہ خدا کے ترجماں ہیں

 

خدا ہے منفرد ممتاز یکتا

خدا اعظم عظیم اعلیٰ و ارفع

خدا داتا، خدا آقا و مولا

خدا حامی و ناصر ہے ظفرؔ کا

 

 

خدا بندے کی شہ رگ سے قریں ہے

خدا انسان کے دل میں مکیں ہے

کرو محسوس رب کو قلب و جاں میں

جہاں رکھ دو جبیں اللہ وہیں ہے

 

نہ مال و زر، نہ تاج و تخت مانگو

نہ شان عالی، نہ عالی بخت مانگو

خدا سے بس خدا و مصطفیٰؐ کی

محبت ہر گھڑی ہر وقت مانگو

 

نہ جاہ و حشم سے نہ کروفر سے

نہ دولت مال سے، نہ سیم و زر سے

شہنشاہوں نہ سلطانوں کے در سے

سکوں پایا ظفرؔ اللہ کے گھر سے

 

 

خدائے مہرباں کو جب پُکارا

مجھے ساحل پہ موجوں نے اُتارا

خدا نے کام سب بگڑے سنوارے

مرا بگڑا مُقدر بھی سنوارا

 

معظم ہے خدا ہی محترم ہے

مکرم ہے خدا ہی محتشم ہے

وہی ستّار بھی غفار بھی ہے

خطا کاروں کا وہ رکھتا بھرم ہے

 

محبت ہو اگر بین الاُمم، ہو بین الاسلامی

محبت ہو اگر بین المذاہب، بین الاقوامی

ظفرؔ انسان آپس میں ملیں مہرو محبت سے

فضائیں امنِ عالم کی رہیں قائم دوامی

 

 

خدا کو میں نے جب رو رو پُکارا

ہوا طوفان میں پیدا کنارا

مِلا اُس دم مجھے غیبی سہارا

مجھے ساحل پہ موجوں نے اُتارا

 

کرم فرمائی رب کی بیشتر ہے

مُقدر کا ستارہ اوج پر ہے

جھُکا ہوں میں خدا کی بارگاہ میں

مرا قلبِ حزیں ہے چشمِ تر ہے

 

خدا تک گر نہ ہو میری رسائی

مرے کس کام کی ساری خدائی

گوارا ہے ظفرؔ ہر بات مجھ کو

نہیں اللہ سے دُوری جُدائی

 

 

نہیں ہے دل رُبا کوئی خدا سا

نہیں عقدہ کشا کوئی خدا سا

بھرے جاتے ہیں سب کے خالی داماں

نہیں حاجت روا کوئی خدا سا

 

جہاں سارے بنائے ہیں خدا نے

زماں سارے بنائے ہیں خدا نے

مکیں سارے بنائے ہیں خدا نے

مکاں سارے بنائے ہیں خدا نے

 

خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے

وہ مخلوقات کا روزی رساں ہے

خدا کی یاد ہے دل میں ظفرؔ کے

خدا کے ذکر میں ہی اُس کی جاں ہے

 

 

نہیں ہے مہرباں کوئی خدا سا

نہیں روزی رساں کوئی خدا سا

وہی اعلیٰ و ارفع محتشم ہے

نہیں عظمت نشاں کوئی خدا سا

 

خدا کا ذکر میری زندگی ہے

خدا کا ذکر میری بندگی ہے

خدا کے ذکر میں دل بستگی ہے

خدا کے ذکر میں وارفتگی ہے

 

خدا کا فیض جاری ہر جہاں میں

فضاؤں میں، زمین و آسماں میں

ہر اک گلشن، چمن، ہر گلستاں میں

ظفرؔ ہر شش جہت، کون و مکاں میں

 

 

سدا وردِ زباں اللہ اکبر

صدائے جسم و جاں اللہ اکبر

مرے دل میں نہاں اللہ اکبر

مرے لب پر عیاں اللہ اکبر

 

خدا مجھ پر بھی وقتِ سعد لائے

مری نس نس میں اللّٰہٗ سمائے

خدا کے ذکر سے ہو قلب جاری

زباں پر بھی خدا کا نام آئے

 

خدا مُونس شفیق و مہرباں ہے

خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے

ظفرؔ عشاق کے ننگے سروں پر

خدا کی رحمتوں کا سائباں ہے

 

 

کہوں میں حمدِ ربّی کس زباں سے

عظیم الفاظ میں لاؤں کہاں سے

خیالوں میں خدا کی حمد لکھوں

کروں پیشِ خدا، سوزِ نہاں سے

 

جھُکے رہنا خدا کی بارگاہ میں

جمال اُس کا رہے ہر دم نگاہ میں

خدا کی یاد سے غافل نہ ہونا

سرِ مقتل ہو یا آرام گاہ میں

 

محبت کی صدا ہے اِسمِ اعظم

مرے لب پر سدا ہے اسمِ اعظم

مرے دل کی ندا ہے اسمِ اعظم

ظفرؔ اسمِ خدا ہے اسمِ اعظم

 

 

خدا کی کبریائی ہے نگہ میں

میں ہر دم ہوں خدا کی بارگہ میں

میں رہتا ہوں ہمیشہ سرخمیدہ

بدل لیتا ہوں ہر جا سجدہ گہ میں

 

جو احکامِ خدا سے بے خبر ہے

اُسے بھولا ہوا اگلا سفر ہے

ابھی سے دوستی کر لو خدا سے

خدا کے پاس جانا لوٹ کر ہے

 

خدا توفیق دے مجھ کو میں حمد و ثناء لکھوں

بطرزِ منفرد لکھوں، بہ انداز جُدا لکھوں

خدا جن پر درُودِ پاک بھیجے میں ظفرؔ اُن کو

حبیبِ کبریا لکھوں کہ محبوبِ خداؐ لکھوں

 

 

خدا کا نام میرے جسم و جاں میں

خدا کا نام ہے میری زباں میں

خدا کا نام ہے روحِ رواں میں

خدا کا نام قلبِ عاشقاں میں

 

عبادت ہو خُدا کی اِس ادا سے

کہ جیسے ہم کلامی ہو خدا سے

کرو اللہ سے اظہارِ محبت

نوازے گا وہ رحمت کی رِدا سے

 

رحیم و مہرباں میرا خدا ہے

کرم کا سائباں میرا خدا ہے

میں تپتی دھوپ میں بھی پرسکوں ہوں

ظفرؔ سایہ کناں میرا خدا ہے

 

 

رسائی خلق کی رب تک نہ ہو گی

محبت آپؐ سے جب تک نہ ہو گی

محبت گر نہ ہو خلقِ خدا سے

خدا سے آگہی تب تک نہ ہو گی

 

تو خبیر ہے تو علیم ہے

تو غفور ہے تو رحیم ہے

تو حلیم ہے تو کریم ہے

تو حکیم ہے تو عظیم ہے

 

خدا ہم درد و مُونس مہرباں ہے

اُسی کا حمد گو سارا جہاں ہے

مرا جذبِ درُوں سوزِ نہاں ہے

ظفرؔ کی روح و جاں، قلبِ تپاں ہے

 

 

خدا آفاق کی روحِ رواں ہے

خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے

خدا مُونس شفیق و مہرباں ہے

خدا دِل کا سکوں آرامِ جاں ہے

 

بصیرت دے، بصارت دے، نظر دے

مرے مولا مجھے اپنی خبر دے

دل و جاں میں تجھے محسوس کر لوں

مری آہوں میں اتنا تو اثر دے

 

خدا واحد خدا سب سے جُدا ہے

خدا معبود ہے، حاجت روا ہے

خدا ہی قائم و دائم سدا ہے

ظفرؔ سے بیکسوں کا آسرا ہے

 

 

خدائے پاک ربّ العالمیں ہے

خدا موجود ہر جا ہر کہیں ہے

خدا بندے کی شہ رگ سے قریں تر

خدا عشاق کے دل میں مکیں ہے

 

تو اپنی رحمتوں کا ابر برسا، خداوندا تو ہم پہ رحم فرما

کوئی ناصر نہ مُونس تیرے جیسا، خداوندا تو ہم پہ رحم فرما

ترے محبوبؐ کی اُمت پریشاں، بھنور طوفان میں غلطاں و پیچاں

ہے ساحل دُور اوجھل ہے کنارا، خداوندا تو ہم پہ رحم فرما

 

خدا خالق ہے مالک محترم ہے

مکرم ہے معظم، محتشم ہے

خدا ستار بھی غفار بھی ہے

ظفرؔ کا وہ سدا رکھتا بھرم ہے

 

 

خدا پروردگارِ عالمیں ہے

خُدا ہر ایک جا مسند نشیں ہے

خدا ہے شش جہت میں جلوہ فرما

خدا عشاق کے دل میں مکیں ہے

 

خدا تیرے دل و جاں میں بسا ہے

ترے کانوں میں بھی رس گھولتا ہے

نمازوں میں خدا کو دیکھ تو بھی

تجھے تیرا خدا تو دیکھتا ہے

 

مرا وردِ زباں اللہ اکبر

سرورِ روح و جاں اللہ اکبر

ظفرؔ اک سانس بھی ایسے نہ لینا

نہ ہو جس میں بیاں اللہ اکبر

 

خدا مشفق ہے مُونس مہرباں ہے

خدا عشاق کے دل میں نہاں ہے

خدا ہر ایک ذرّے میں عیاں ہے

خدا لطف و کرم کا سائباں ہے

 

وہ یکتا منفرد سب سے جُدا ہے، خدائے مصطفیٰؐ میرا خدا ہے

وہی سب ناخداؤں کا خدا ہے، خدائے مصطفیٰؐ میرا خدا ہے

خدا گرتے ہوؤں کو تھامتا ہے، خدا بے آسروں کا آسرا ہے

خدا حاجت روا مشکل کشا ہے، خدائے مصطفیٰؐ میرا خدا ہے

 

خدا سے وصل ہو دل چاہتا ہے

مجھے درپیش مشکل مرحلہ ہے

خدا دِل میں ترے جلوہ نما ہے

ظفرؔ تو کس خدا کو ڈھونڈتا ہے

 

 

خدا کا اعلیٰ ارفع مرتبہ ہے

خدا فرمانروا حاجت روا ہے

خدا ہی قائم و دائم سدا ہے

خدا کا نام ہر سُو گونجتا ہے

 

خدا کا ذکر جس دل میں سمائے

رہیں فضلِ خدا کے اُس پہ سائے

کبھی روئے کبھی وہ مسکرائے

سدا حمدِ خدا کے گیت گائے

 

مسلماں منتشر ہیں دل شکستہ

زبوں حالیِ اُمت روح فرسا

خداوندا مدد فرما خدارا

ظفرؔ مانگے دُعا یہ دست بستہ

 

 

عبادت ہو ادا کچھ اِس ادا سے

کہ جیسے ہم کلامی ہو خدا سے

خدا ہم کو ہر اک شر سے بچائے

ہمیں محفوظ رکھے ہر بلا سے

 

خطائیں تو ہماری معاف فرما کہ تو ستّار بھی غفار بھی ہے

تو اپنی رحمتوں کا ابربرسا، کہ تو ستّار بھی غفار بھی ہے

کوئی تجھ سا سخی داتا نہ دیکھا کہ تو ستّار بھی غفار بھی ہے

بھرم رکھ لے گدائے بے نوا کا، کہ تو ستّار بھی غفار بھی ہے

 

خدا کے ماسوا کوئی نہیں ہے

سہارا، آسرا کوئی نہیں ہے

ہے کیوں مایوس یوں ایسے کہ جیسے

ظفرؔ تیرا خدا کوئی نہیں ہے

 

 

ہر دم تری ہی یاد ہے تیری ہی جستجو

ہر دم مری زباں پہ ہے تیری ہی گفتگو

ہر دم مرے قریب ہے تو میرے چارسُو

ہر دم تخیلات میں تو میرے رُوبرو

 

کبھی کوہ و دمن میں کھوجتا ہے

کبھی دیر و حرم میں ڈھونڈتا ہے

خدا بستا ہے انسانوں کے دل میں

نہ کیوں خانۂ دل میں جھانکتا ہے

 

حضورِ کبریا بیٹھے ہوئے ہیں

بفیضِ مصطفیٰؐ بیٹھے ہوئے ہیں

اُٹھا دست دُعا بیٹھے ہوئے ہیں

ظفرؔ کم تر گدا بیٹھے ہوئے ہیں

 

 

خدا معبود ہے، مسجود ہے، روزی رساں ہے

خدا کے حکم سے ہی گلفشاں ہر گلستاں ہے

خدا کے نور کا پرتو دمکتی کہکشاں ہے

خدا کے نُور پر قرباں مرا دِل جسم و جاں ہے

 

خدا ہی اول و آخر سہارا

خدا ہی حامی و ناصر ہمارا

خدا ہی پیار کی موجِ رواں ہے

خدا لُطف و کرم کا بہتا دھارا

 

حوالہ ہے تو عفو و در گزر کا

ہے تو ہی رہنما ہر بے بصر کا

ترے لطف و کرم سے ہے سُبک سر

ظفرؔ تھا دل گرفتہ دِل شکستہ

 

 

جو مؤنس ہے شفیق و مہرباں ہے، وہی تیرا خدا میرا خدا ہے

جو رحمت کا محبت کا جہاں ہے، وہی تیرا خدا میرا خدا ہے

وہ جو ہے بے سہاروں کا سہارا، جو طوفاں میں کرے پیدا کنارا

وہ جو ننگے سروں پر سائباں ہے، وہی تیرا خدا میرا خدا ہے

 

خدا کا ذکر ذکرِ دل کشا ہے

خدا کا ذکر ذکر جاں فزا ہے

خدا کا ذکر جب نازل ہو دل پر

لرزتا ہے بدن، دل کانپتا ہے

 

خداوندِ جمیعِ مُرسلاں تُو

خداوندِ فقیہاں مُقبلاں تُو

خداوندِ حکیماں عاشقاں تُو

خداوندِ ظفرؔ معجز بیاں تُو

 

 

خدا کا ذکر دل کش ہے دل آراء

مری جاں میرے تن من میں سمایا

رحیم و مؤنس و مشفق خداسا

کوئی ہرگز نہیں ہے تھا نہ ہو گا

 

عجب لُطفِ خدا کا مرحلہ ہے

عجب فیض و عطا کا مرحلہ ہے

مرے قلبِ تپاں مسرُور ہو جا

جمال کبریا کا مرحلہ ہے

 

خدائے پاک کا فیض و عطا جاری و ساری ہے

رسولِؐ پاک کی جود و سخا جاری و ساری ہے

ظفرؔ جس کی ہے منزل خانہ کعبہ گنبدِ خضریٰ

محبت شوق کا وہ مرحلہ جاری و ساری ہے

 

 

خداوندِ خلیق و مہرباں تُو

خداوندِ ہمہ بے چارگاں تُو

خداوندِ غریباں، سائلاں تُو

خداوندِ ہمہ خستہ دِلاں تو

 

یہی ارشاد ہے ربّ العلیٰ کا

یہی مسلک حبیبِ کبریاؐ کا

کرے انسان انساں سے محبت

ہے یہ منشور انساں کی بقا کا

 

خدا نے مجھ کو یہ اعزاز بخشا

مجھے حمد و ثناء کا فرض سونپا

دیارِ عشق میں طرفہ تماشا

ظفرؔ مجذوب پر سایہ خُدا کا

 

 

جو دل ذکرِ خدا سے ہر گھڑی معمُور ہوتا ہے

وہ قلبِ مطمئن ہے ہر گھڑی مسرُور ہوتا ہے

خدا کی یاد ہوتی ہے، خدا سے بات ہوتی ہے

خدا خود سینۂ عُشاق میں مُستور ہوتا ہے

 

خدا سُنتا ہماری التجا ہے

خدا بے پر کو پر کرتا عطا ہے

خدا کب اپنے بندوں سے جُدا ہے

خدا میرا خدا سب کا خُدا ہے

 

خدا کا ذکر دل کش ہے دل آراء

خدا ہم ورد ہے میرا تمہارا

خدائے مہرباں احقر ظفرؔ کو

ذرا سا پیار مل جائے خدارا

 

 

خدا اعظم، خدا سب سے بڑا ہے

خدا قیوم دائم ہے سدا ہے

خدا دیتا مریضوں کو شفا ہے

خدا کا نام ہر سُو گونجتا ہے

 

خدایا تُو مری امداد کر دے

غم و آلام سے آزاد کر دے

مرے ویرانۂ قلبِ حزیں کو

تُو اپنی یاد سے آباد کر دے

 

کوئی پوچھے اگر مجھ سے خُدا تیرا کہاں ہے

میں کہتا ہوں خدا میرا مرے دل میں نہاں ہے

خدا ہے لاشریک، اُس کا ظفرؔ ہم سر نہیں کوئی

خدا لاریب واحد ہے، وہ یکتا بے گماں ہے

 

 

خدا نے کی عطا ماں کی محبت

خوشی اولاد کی والد کی شفقت

عطا کی بھائی بہنوں میں مؤدت

خدا کی دین ہے حُسنِ مروّت

 

زباں پر حمدِ باری ہے، مرے آنسو نہیں تھمتے

خدا کا خوف طاری ہے، مرے آنسو نہیں تھمتے

سرایت کر گیا اسمِ خدا ایسے رگ و پے میں

عبادت میری جاری ہے مرے آنسو نہیں تھمتے

 

تو رؤف ہے تو رحیم ہے، تو عظیم ہے تو عظیم ہے

تو حکیم ہے تو کریم ہے، تو عظیم ہے تو عظیم ہے

لکھے نعت حمد کے درمیاں، لکھے حمد نعت کے درمیاں

یہ ظفرؔ کا ذوقِ سلیم ہے، تو عظیم ہے تو عظیم ہے

 

 

خدا جب عظمت و قدرت دکھائے

سمندر ایک قطرے کو بنائے

خدا محفوظ رکھے حاسدوں سے

خدا اشرار کے شر سے بچائے

 

خدا کی ذات وہ سرِ نہاں ہے

جو موجودات میں واضح عیاں ہے

گزرگاہِ خدا ہے چشم گِریاں

یا پھر عشاق کا قلبِ تپاں ہے

 

مرا غم خوار ہے، میرا خدا ہے

مرا دل دار ہے، میرا خدا ہے

ہے عفو و درگزر جس کا وطیرہ

ظفرؔ سرشار ہے، میرا خدا ہے

 

 

خدا کے عشق میں مسرور رہنا

جمالِ فیض سے مسحُور رہنا

بسا لینا خدا کو قلب و جاں میں

سرُور و کیف سے مخمور رہنا

 

خدا کا گھر درخشاں ضو فشاں ہے

یہ امن و آشتی کا ترجماں ہے

یہی گھر منزلِ انسانیت ہے

یہ اِنسانوں کی وحدت کا نشاں ہے

 

ترا فضل و کرم بے انتہا ہے

ترے جُود و سخا کا غلغلہ ہے

تو قطرے کو بنا ڈالے سمندر

ظفرؔ تیری عطائیں جانتا ہے

 

 

مسلسل ہے وردِ زباں اللہ اللہ

پکاریں سبھی اِنس و جاں اللہ اللہ

پڑھے ہر چمن گلستاں اللہ اللہ

زمیں آسماں کہکشاں اللہ اللہ

 

خدا کی ذات قائم اور دائم

خدا فرمانروا ہم سب کا حاکم

خدا کی نعمتیں بے انتہا ہیں

خدا کا شکر ہم کرتے ہیں کم کم

 

کرم کا مرحلہ پیشِ نظر ہے

جلال کِبریا پیشِ نظر ہے

ظفرؔ پر ہر نوازش ہے خدا کی

خدا کی ہر عطا پیشِ نظر ہے

 

 

زماں سب حمد میں مصروف ہر دم

سماں کیسا بھی ہو، کیسا بھی موسم

خدا کی حمد گونجے ہر جہاں میں

کبھی نہ گونج اِس کی ہو گی مدھم

 

خدا مجھ پر بھی وقتِ سعد لائے

مری نس نس میں اللّٰہٗ سمائے

خدا کے فضل سے ہو قلب جاری

زباں پر بھی خدا کا نام آئے

 

خدا کا مرتبہ واضح عیاں ہے

خدا ہرگز نہیں سرِ نہاں ہے

ظفرؔ یاں سر خمیدہ، دم کشیدہ

یہ بیت اللہ عظمت کا جہاں ہے

 

 

سرورِ قلب و جاں اللہ ہی اللہ

کہاں تو میں کہاں اللہ ہی اللہ

نہاں یادِ خدا ہے دل میں میرے

عیاں وردِ زباں اللہ ہی اللہ

 

خدا کو جب بھی طوفاں میں پُکارا

بھنور نے سطحِ دریا پر اُبھارا

لبِ ساحل خدا لے آیا مجھ کو

کیا منجدھار میں پیدا کنارا

 

خدا کا ذکر جاری ہے، مرے آنسو نہیں تھمتے

عجب سی بیقراری ہے، مرے آنسو نہیں تھمتے

خدا کا ذکر یادِ مصطفیٰؐ باہم ظفر میں نے

دل و جاں میں اُتاری ہے، مرے آنسو نہیں تھمتے

 

 

خدا انساں کی شہ رگ سے قریں ہے

خدا انسان کے دل میں مکیں ہے

خدا موجود ہر جا، ہر کہیں ہے

خدا سا مہرباں کوئی نہیں ہے

 

خدا کی یاد میں آنسو بہاؤ گے نہ جب تک

محبت سے اُسے رو رو مناؤ گے نہ جب تک

عقیدت سے اُسے دل میں بٹھاؤ گے نہ جب تک

تنِ مُردہ ہو رب سے لو لگاؤ گے نہ جب تک

 

خدا نے جس کو سیدھی راہ دکھائی

خدا تک ہو گئی اُس کی رسائی

عطا اُس کو ہوئی مشکل کشائی

ظفرؔ دیکھو تو جُودِ کبریائی

 

 

خدا کے نُور سے روشن زماں ہیں

منور شش جہت، کون و مکاں ہیں

وہ ہر سُو جلوہ فرما ہیں عیاں ہیں

کہا کس نے وہ مستُور و نہاں ہیں

 

خدا رکھے مجھے اپنی اماں میں

نہ ڈالے آزمائش، امتحاں میں

نہ ڈر تشکیک میں، وہم و گماں میں

رہے موجود میرے قلب و جاں میں

 

خدا موجود ہر جا ہر زمن میں

فضاؤں میں سمندر، کوہ و بن میں

خدا موجود خلوت، انجمن میں

ظفرؔ کے قلب و جاں، روح و بدن میں

 

 

خدا کے ہی مکان و لامکاں ہیں

خدا کے ہی ملائک، اِنس و جاں ہیں

خدا کے نُور سے روشن زماں ہیں

خدا کے فیض کے دریا رواں ہیں

 

محبت پیار کا موسم مبارک

جمالِ یار کا موسم مبارک

خدا کا نُور ہرسُو ضو فشاں ہے

جمال انوار کا موسم مبارک

 

خدا کی یاد سینے میں سمائے

تصور میں، خیالوں پر وہ چھائے

نِدائے سرمدی کانوں کو بھائے

ظفرؔ پر بھی خدا وہ وقت لائے

 

 

خدا کی فکر میری زندگی ہے

خدا کا ذکر میری بندگی ہے

مرے غفلت میں جو لمحات گزرے

ہے پچھتاوا مجھے شرمندگی ہے

 

خدا کی یاد میں قریہ بہ قریہ کُو بہ کُو پھرنا

خدا کا ذکر کرنا اور خدا کی جستجُو پھرنا

کرم فرمائے تجھ مسکیں پہ جب ذاتِ خداوندی

خدا کے سائے میں رہنا، خدا کے روبرو پھرنا

 

پُکارا رو کے جب میں نے، جواب آیا صدا کا

بڑا محکم ہے رشتہ، اپنے بندوں سے خدا کا

خدا انسانیت سے اِس قدر جو پیار کرتا ہے

ظفرؔ اعجاز ہے یہ، عشقِ حبیبؐ کِبریا کا

 

 

خدا کے لطف کی بادِ بہاری

ازل سے تا ابد جاری و ساری

وہ بے آب و گیاہ بنجر زمیں کی

کرے ابرِ کرم سے آبیاری

 

خدا سارے زمانوں کا خدا ہے

خدا سارے جہانوں کا خدا ہے

خدا آتا ہے خود مہمان بن کر

خدا سب میزبانوں کا خدا ہے

 

خدا کی یاد ہے میرا وظیفہ

مری اُفتاد ہے میرا وظیفہ

خدا و مصطفیٰؐ کا ذکر باہم

ظفرؔ دِل شاد ہے میرا وظیفہ

 

 

خدا کا لطف ہے مجھ پر کرم ہے

خدا نے ہی مرا رکھا بھرم ہے

خدا کے ذکر سے سانسیں رواں ہیں

خدا کی یاد سے ہی دم میں دم ہے

 

معظم ہے خدا میں کچھ نہیں ہوں

مکرم ہے خدا میں کچھ نہیں ہوں

حقیقت بس خدا باقی فسانے

مُسلّم ہے خدا میں کچھ نہیں ہوں

 

خدا کا ذکر ہے میری زباں پر

میری پرواز ہے کون و مکاں پر

فقیر راہ بیٹھا ہے زمیں پر

تخیل ہے ظفرؔ کا آسماں پر

 

 

خدا میرا معظم، محترم ہے

خدا میرا مکرم، محتشم ہے

خدا کا نام ہی دل میں رقم ہے

خدا کی حمد گو ہی چشمِ نم ہے

 

خدا نے مجھ کو یہ اعزاز بخشا

مجھے سرکارؐ کا درباں بنایا

محبت میرے دل میں اپنی ڈالی

درِ محبوب پر مجھ کو بٹھایا

 

خدا سے آگہی اچھی رہے گی

محبت، دل لگی اچھی رہے گی

خدا معبود ہے عابد ظفرؔ ہے

خدا کی بندگی اچھی رہے گی

 

 

خداوندا مرے دل کو سکوں دے

مجھے سوزِ نہاں، جذبِ درُوں دے

مجھے اپنی طلب، اپنا جنوں دے

حبیب اللہؐ کا عشقِ فزوں دے

 

خدائے ما مدد گارِ غریباں

تہی دستاں، فقیراں کم نصیباں

قلمکاراں، حکیماں و طبیباں

رضا جویاں، ثناء گویاں، خطیباں

 

خدا ہی شکم مادر میں کرے پھُولوں کی افزائش

خدا کے دست قدرت میں ہے انسانوں کی پیدائش

وہی مخلوق کا خالق، وہی روزی رساں سب کا

ظفرؔ عز و شرف بھی دے وہی آرام و آسائش

 

 

خدا کا نام ہے قلب و دہن میں

خدا کا نام میرے تن بدن میں

خدا کا نام ہر ذی روح پکارے

خدا کا نام گونجے ہر زمن میں

 

خداوندا مجھے اچھی خبر دے

درِ محبوبؐ پر مامُور کر دے

میں فوراً چوم کر سر پر سجالوں

مجھے نقشِ کفِ خیر البشرؐ دے

 

خدا نے سب جہاں پیدا کئے محبوبؐ کی خاطر

زمین و آسماں پیدا کیے محبوبؐ کی خاطر

ملائک، اِنس و جاں پیدا کئے محبوبؐ کی خاطر

ظفرؔ سے نعت خواں پیدا کئے محبوبؐ کی خاطر

 

 

خدا سارے جہانوں کا خدا ہے

خدا سارے زمانوں کا خدا ہے

خدا کی ہیں تمامی سجدہ گاہیں

خدا سب آستانوں کا خدا ہے

 

خدا موجود ہے کون و مکاں میں

خدا موجود ہر اک آشیاں میں

خدا موجود ہر اک آستاں میں

خدا موجود ہر قلبِ تپاں میں

 

خدا کی یاد بستی ہے مرے دل میں مری جاں میں

سرور و کیف و مستی ہے مرے دل میں مری جاں میں

ظفرؔ ابرِ کرم سے قلب و جاں سیراب رہتے ہیں

سدا رحمت برستی ہے مرے دل میں مری جاں میں

 

 

خدا آفاق میں، کون و مکاں میں

خلاؤں میں خدا، ہفت آسماں میں

خدا بندے کی شہ رگ سے قریں تر

خدا روح و بدن میں، قلب و جاں میں

 

خدا کی قدرتیں ہر سُو عیاں ہیں

خدا کی عظمتیں ہر سُو عیاں ہیں

خدا کی رفعتیں ہر سُو، عیاں ہیں

خدا کی نعمتیں ہر سُو عیاں ہیں

 

خدا جس شخص کے دل میں مکیں ہے

مُنور اُس کا دِل، روشن جبیں ہے

ظفرؔ جو بے خبر تھا، بے بصر تھا

خدا کے فضل سے اب دُور بیں ہے

 

 

دلوں کے بھید بھی وہ جانتا ہے

اِرادوں کو بھی وہ پہچانتا ہے

خدا اُس کو بھی پہنچاتا ہے روزی

خدا کو جو خدا نہ مانتا ہے

 

خدا اپنوں کا بیگانوں کا رب ہے

خدا فرزانوں، دیوانوں کا رب ہے

خدا داناؤں، نادانوں کا رب ہے

خدا پروانوں، مستانوں کا رب ہے

 

خدا کا نُور ہر سُو ضو فشاں ہے

خدا عشاق کے دل میں نہاں ہے

خدا کی یاد میں مصروف ہر دم

ظفرؔ کا جسم و جاں، قلبِ تپاں ہے

 

 

خدا کو میں سدا دیتا صدا ہوں

خدا کا ہی میں اِک ادنیٰ گدا ہوں

خدا کا ہی دیا میں کھا رہا ہوں

خدا کا شکر میں کرتا ادا ہوں

 

خداوندِ جہاں آقا و مولا

خداوندِ زماں آقا و مولا

خدائے اِنس و جاں آقا و مولا

خدائے بیکساں آقا و مولا

 

وہ دریائے رواں لطف و کرم کا

وہ بحر بے کراں لطف و کرم کا

وہ ہے کوہِ گراں لطف و کرم کا

ظفرؔ وہ ہے جہاں لطف و کرم کا

 

 

خدا کا پیار ستر ماؤں جیسا

مہربانوں، کرم فرماؤں جیسا

بلا کی دھوپ میں ننگے سروں پر

خدا کا پیار ٹھنڈی چھاؤں جیسا

 

خدا موجود ہے کون و مکاں میں

خدا ہے شش جہت ہفت آسماں میں

خدا موجود بزمِ دوستاں میں

خدا موجود قلبِ عاشقاں میں

 

خدایا اِک ترا مسکین بندہ

پریشان و حزیں غمگین بندہ

بسانا تجھ کو چاہے قلب و جاں میں

ظفرؔ سا درخورِ نفرین بندہ

 

 

خدا پروردگارِ عالمیں ہے

خدا عقدہ کشائے عاملیں ہے

خدا ہی رہنمائے کاملیں ہے

خدا ہی پردہ پوشِ مذنبیں ہے

 

خدا ہی اول و آخر سہارا

خدا نے کام ہر بگڑا سنوارا

خدا سب سے مکرم سب سے پیارا

خدا لطف و کرم کا بہتا دھارا

 

خدا کی حمد کے گونجیں ترانے

خدا کے حمد گو سارے زمانے

خدا کے حمد گو عاقل سیانے

ظفرؔ جیسے بھی مجذوب و دوانے

 

 

خدا ہے شش جہت میں ہر زماں میں

خدا دم دم میں ہے روحِ رواں میں

خدا بندے کے قلب و جسم و جاں میں

خدا عشاق کے قلبِ تپاں میں

 

خدا کے ذکر پر مامور دل ہے

خدا کی یاد میں مسرُور دل ہے

مرے افکار میں بھی روشنی ہے

خدا کے نُور سے معمور دل ہے

 

خدا اکبر، معظم ہے بڑا ہے، خدائے مصطفیٰؐ میرا خدا ہے

وہ یکتا، منفرد، ربّ العلیٰ ہے، خدائے مصطفیٰؐ میرا خدا ہے

وہ جس نے پیار احمدؐ سے کیا ہے، خدائے مصطفیٰؐ میرا خدا ہے

درُود اکثر ظفرؔ جو بھیجتا ہے، خدائے مصطفیٰؐ میرا خدا ہے

 

 

خدا کی یاد میں ہے کیف مستی، خدا کی یاد میں آرامِ جاں ہے

بہت مسرُور ہے جانِ حزیں اب بہت ہی مطمئن قلبِ تپاں ہے

خدا کے ذکر سے دل کھِل رہے ہیں، دریدہ چاک داماں سِل رہے ہیں

خدا کے ذکر کا اعجاز ہے یہ، خزاں دیدہ گلستاں گلفشاں ہے

 

محبت کی خدا نے ابتداء کی

محبت کی خدا نے انتہا کی

محبت منفرد، ممتاز یکتا

حبیبِ کبریاؐ سے کبریا کی

 

خدا کی یاد سے یوں دل لگا لو

خدا کو قریۂ جاں میں بسا لو

درُود و نعت اللہ کو سُنا لو

ظفرؔ سویا نصیبہ یوں جگالو

 

 

جلال کِبریا ہر سُو عیاں ہے، بہرِ سُو عظمتوں کی داستاں ہے

خدا کا مرتبہ اللہ اکبر، معظم ہے خدا عظمت نشاں ہے

خدا ہی خالقِ کون و مکاں ہے، وہ مخلوقات کا روزی رساں ہے

خدا محبوب کی اُمت کا حافظ، کرم فرما، نگہباں، پاسباں ہے

 

خدا موجود میری روح و جاں میں

فضاؤں میں، زمین و آسماں میں

خدا گویا مؤذن کی اذاں میں

خدا موجود قلبِ عاشقاں میں

 

رگ و پے میں سمایا اسم ربی

خیالوں پر بھی چھایا اسمِ ربی

مُنور ہیں فضائیں، خوشبوئیں ہیں

ظفرؔ کیا رنگ لایا اسمِ ربی

 

 

خُدا پروردگارِ عالمیں ہے

خدا موجود ہر جا ہر کہیں ہے

جہاں حمدِ خدا، نعتِ نبیؐ ہو

خدا میرا وہاں مسند نشیں ہے

 

خدائے مہرباں امداد فرما

خدائے اِنس و جاں امداد فرما

خدائے بیکساں امداد فرما

خدائے عاجزاں امداد فرما

 

سماں فیضان کا، اللہ کی قدرت

جنم اِنسان کا، اللہ کی قدرت

ظفرؔ بچوں کو دی ماں کی محبت

کرم رحمان کا، اللہ کی قدرت

 

 

خداوندا مجھے توفیق دے حمد و ثناء کی

سعادت حمدِ یزداں کی، ثنائے مصطفیٰؐ کی

مرے مقدُور میں لکھ دے بیاں کرنا عیاں کرنا

بڑائی ربِّ اکبر کی، حبیبِ کبریاؐ کی

 

خدا سا مہرباں تھا ہے نہ ہو گا

سرورِ قلب و جاں تھا ہے نہ ہو گا

خدا سا محتشم، ارفع و اکبر

کوئی عظمت نشاں تھا ہے نہ ہو گا

 

طوافِ کعبہ کی خاطر پیاپے گھومنا اچھا

مقدس حجر اسود کو پیاپے چومنا اچھا

ظفرؔ مخلوق کی خدمت کرو، راضی خدا ہو گا

خدا کا فیض پاکر، شکر کرنا جھومنا اچھا

 

 

خدا کے ذکر پر مامور ہوں میں

نشاط و کیف سے معمور ہوں میں

بحمد للہ بہت مسرُور ہوں میں

ہوں واصل میں، نہیں مہجُور ہوں میں

 

مآلِ ہجر کے فرقت کے مارو

خدا کی یاد میں ہر پل گزارو

دگرگوں حالتِ اُمت سنوارو

خدا کے دین پر جاں اپنی وارو

 

سدا حمد و ثناء جاری و ساری

فضاؤں میں بھی سُن لو حمدِ باری

ظفرؔ یادِ خدا میں وقت گزرے

رہے حمدِ خدا سے اُستواری

 

 

تنِ لاغر اگرچہ مضمحل ہے، خدا کے فضل سے دل تو ہرا ہے

میں متمنی نہیں ہوں مال و زر کا، خدا کے ذکر سے دامن بھرا ہے

کہا کس نے کہ میں بے آسرا ہوں، مجھے لطفِ خدا کا آسرا ہے

کوئی نہ بال بیکا کر سکے گا، محافظ خود مرا، میرا خدا ہے

 

خدا کامل مرا، اکمل خدا ہے

خدا عالی مرا، افضل خدا ہے

میں گھائل ہوں، مرا ساحل خدا ہے

مسافر میں، مری منزل خدا ہے

 

خدا کی یاد میں مسرُور ہوں میں

غم دُنیا سے کوسوں دُور ہوں میں

خطائیں وہ ظفرؔ کی ڈھانپتا ہے

ہے وہ ستار اور مستور ہوں میں

 

 

خدا کا ذکر ہی دل کی صدا ہے

خدا کا ذکر، ذکرِ دِلرُبا ہے

خدا کا ذکر، ذِکر دِلکُشا ہے

خدا کا ذکر، ذکرِ جانفزا ہے

 

خدا موجود ہے قریۂ جاں میں

خدا موجود ہے روحِ رواں میں

خدا موجود جسمِ صادقاں میں

خدا موجود قلبِ عاشقاں میں

 

خدا سے دُور کب تک رہ سکو گے

وبالِ ہجر کب تک سہہ سکو گے

وہ سُنتا ہے دُکھی دل کی صدائیں

ظفرؔ تم گِڑ گڑا کر کہہ سکو گے

 

 

خدا بے آسروں کو خود سنبھالے

خدا گرتے ہوؤں کو خود اُٹھا لے

خدا انساں کو مشکل میں نہ ڈالے

خدا کر دے اندھیروں میں اُجالے

 

خدا کا فیض جاری ہر زماں میں

سمندر کوہ و بن ہر گلستاں میں

ہر اک ذی جان ہر روحِ رواں میں

قلوبِ زاہداں و عاشقاں میں

 

خدایا خلق کو امن و سکوں دے

وفورِ شوق دے، جذبِ درُوں دے

محبت یا خدا بندوں کو اپنی

ظفرؔ کو یا خدا عشقِ فزوں دے

 

 

خدا کی نعمتیں جھُٹلائیں کیسے

خدا کی نعمتیں بتلائیں کیسے

خدا کی نعمتیں بے انتہا ہیں

خدا کی نعمتیں گنوائیں کیسے

 

خدایا رکھ مجھے اپنی اماں میں

قبیلِ عاشقاں، وابستگاں میں

حصارِ مقبلاں، وارفتگاں میں

اُجالا کر مرے قریۂ جاں میں

 

خدا فریاد سُنتا ہے ہماری

خدا کا فیض ہے جاری و ساری

ظفرؔ ہے زندہ و جاوید جس نے

خدا کے نام پر جاں اپنی واری

 

 

وظائف میں ہے تُو اذکار میں تُو

ہے تُو اشعار میں، افکار میں تُو

مساجد میں بھی تُو، دربار میں تُو

چھُپا ہے کوچہ و بازار میں تُو

 

سہارا ہے خدا میرا تمہارا

خدا نے کام ہر بگڑا سنوارا

خدا کو جب بھی طوفاں میں پکارا

بھنور میں ہو گیا پیدا کنارا

 

خدا کو دیکھنا ہو جب، میں دل میں جھانک لیتا ہوں

نظر آتا ہے میرا رب، میں دل میں جھانک لیتا ہوں

ظفرؔ جب مضطرب ہوں تب، میں دل میں جھانک لیتا ہوں

سوئے کعبہ سدھاریں سب، میں دل میں جھانک لیتا ہوں

 

 

کرو گے ماں کو راضی اس طرح راضی خدا ہو گا

کرو انساں کو راضی، اس طرح راضی خدا ہو گا

خدا خالق ہے مخلوقات سے وہ پیار کرتا ہے

کرو ذی جاں کو راضی، اس طرح راضی خدا ہو گا

 

کرم فرما، خدائے کریم ہے تُو

رحم فرما، خدائے رحیم ہے تُو

ترا مسلک ہی عفو و درگزر ہے

کہ ہے ستار تُو اور حلیم ہے تُو

 

خدا جب قُدرتیں اپنی دکھائے

وہ خورشید ایک ذرے کو بنائے

کرم کر دے مریضِ نیم جاں پر

ظفرؔ کے دل کا ایواں بھی سجائے

 

 

محبت کر عطا اپنی خدایا، شعور و آگہی، ایمان دے دے

مرا ایمان محکم ہو خدایا، تیقن دے مجھے ایقان دے دے

میں تیرا نام لے کر جھوم اُٹھوں، بصیرت کر عطا، وجدان دے دے

عطا عشقِ حبیبِ کبریا ہو، سرُور و سرخوشی، عرفان دے دے

 

مجھے الفاظ کی خیرات عطا کر

خدایا شُکر کے جذبات عطا کر

خدارا حمد کہنے کا سلیقہ

پسند آئے تجھے جو بات عطا کر

 

خدا کی حمد کا تاباں جریدہ

بیاں جس میں ہیں اوصافِ حمیدہ

خدا کی بارگاہ میں لے کے آیا

ظفرؔ ہے سرخمیدہ، آبدیدہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

محمدؐ رحمۃ اللعالمیںؐ ہیں

وہی محبوبِؐ ربِّ العالمیں ہیں

 

 

 

 

سینے میں اُنؐ کی تنویر

آنکھوں میں اُنؐ کی تصویر

کیسی جگمگ، کیسی تاباں

میرے خوابوں کی تعبیر

 

درِ سرکارؐ کی عظمت تو دیکھو

سخی دربار کی عظمت تو دیکھو

خُدا داتا ہے قاسم ہیں محمدؐ

انوکھے پیار کی عظمت تو دیکھو

 

درِ سرکارؐ کیا عظمت نشاں ہے

جہاں سجدہ کناں کون و مکاں ہے

جبیں اپنی ظفرؔ اس در پہ رکھ دو

حبیبِ کبریاؐ کا آستاں ہے

 

 

محبت اُنؐ کی چاہت کا مری شیریں ثمر ہے

محبت اُنؐ کی اُمت کے لیے جادو اثر ہے

مری سرکارؐ لے آئے تھے واپس ڈھلتا سورج

مری سرکارؐ کا ہی معجزہ شق القمر ہے

 

مری سرکار ہیں شیریں سُخن معجز بیاں بھی

مری سرکارؐ کے سب معجزے واضح عیاں بھی

کبھی مُٹھی میں کنکر خودبخود ہیں بول اُٹھتے

کبھی منبر کی چوبِ خشک کرتی ہے فغاں بھی

 

تمنا سروری کی ہے نہ حسرت مال و زر کی

نہیں ہے چاہ کوئی جاہ و حشمت، کروفر کی

یہی گریہ و زاری ہے ظفرؔ مسکیں گداگر کی

درِ حضرتؐ پہ مل جائے جگہ اُس کو سگِ در کی

 

 

نگاہِ ملتفت آقاؐ مرے مجھ پر سدا رکھنا

مجھے اپنا ہی خادم اپنے ہی در کا گدا رکھنا

جُدائی روح فرسا اور دُوری جان لیوا ہے

مجھے قدموں میں اپنے ہی مرے آقاؐ بُلا رکھنا

 

ازل سے آپؐ کی نسبت خُدا سے جاودانی ہے

شبِ معراج قربت کی مُودت کی کہانی ہے

ہوا نازل کلامِ کبریا محبوبِ یزداں پر

مری سرکارؐ کا منصب خدا کی ترجمانی ہے

 

 

خدا کا انتخابِ اوّلیں و آخریں آقاؐ

حبیبِ کبریاؐ و رحمۃ اللعالمین آقاؐ

تمہیں شافع محشر ہو شفیع المذنبیں آقاؐ

نہ اُٹھے گی ظفرؔ کی آپؐ کے در سے جبیں آقاؐ

 

 

بہت بے تاب ہوں رنجور ہوں میں

نبیؐ کے آستاں سے دُور ہوں میں

سگِ در کو بُلا لیں در پہ اپنے

سگِ در آپؐ کا مشہور ہوں میں

 

وہی جو رحمۃ اللعالمیں ہیں

وہی محبوبِ ربّ العالمیں ہیں

وہی ہیں ترجمانِ ربِّ اکبر

وہی تو ہم نوا و ہم نشیں ہیں

 

شاہِ بطحا سے پیار مانگے ہے

قلب دیوانہ وار مانگے ہے

آپؐ بن مانگے پیار دیتے ہیں

کیوں ظفرؔ بار بار مانگے ہے

 

 

ذکرِ خیر الانامؐ کرتے ہیں

ہم مُسلسل مدام کرتے ہیں

اپنے عشاق کو حضورؐ اکثر

خواب میں ہم کلام کرتے ہیں

 

مرے دِل میں حضورؐ رہتے ہیں

کون کہتا ہے دُور رہتے ہیں

جو درُود و سلام پڑھتے ہیں

اُنؐ کے دِل نُور نُور رہتے ہیں

 

رنجور تھا میں آپؐ نے مسرُور کیا ہے

دامانِ کرم میں مجھے مستور کیا ہے

سرکارؐ نے بُلوایا ہے صدیق ظفرؔ کو

 

 

دربانیِِ دربار پہ مامُور کیا ہے

نبیؐ کے آستاں سے رب ملا ہے

پیاپے ڈھونڈھنے سے کب ملا ہے

خدا و مصطفیٰؐ کا ذکر باہم

ملا ہے اِسمِ اعظم جب ملا ہے

 

نقشِ پا اُنؐ کا میرے سینے میں

دُور رہ کر بھی ہوں مدینے میں

آپؐ دِل میں نہ گر سمائے ہوں

لُطف کیا خاک ایسے جینے میں

 

محبت کیجئے ربّ العلیٰ سے

محبت کیجے محبوبِؐ خدا سے

ظفرؔ ہے لازم و ملزوم باہم

خدا کا پیار، عشقِ مصطفیٰؐ سے

 

 

وہی اللہ کے پیغام بر ہیں

وہی خلقِ خُدا کے راہبر ہیں

وہی محبوبِ ربّ العالمیں ہیں

وہی خیر الوریٰؐ، خیر البشرؐ ہیں

 

کہاں میں اور کہاں اُنؐ کی ثنائیں

کرم اُنؐ کا ہے یہ اُنؐ کی عطائیں

میں جب بھی نعتیہ اشعار لکھوں

سُنائی دیں مجھے غیبی صدائیں

 

یہ لُطف و کرم اُنؐ کا ہے یہ اُنؐ کی عطا ہے

بن مانگے ہی خیرات سے کشکول بھرا ہے

ہر آن ظفرؔ بھرتی ہیں یاں جھولیاں سب کی

سرکارؐ کا در ہے یہ درِ جودُ و سخا ہے

 

 

نہیں کوئی حبیبِ کبریاؐ سا

کوئی محبوب، محبوبِ خداؐ سا

حسیں آتے رہے، آتے رہیں گے

نہ آئے گا کوئی سرکارؐ جیسا

 

محمدؐ با خدا پیشِ نظر ہیں

حبیبِ کبریاؐ پیشِ نظر ہیں

وہی تو رحمۃ اللعالمیںؐ ہیں

شفاعت کے وہی پیغام بر ہیں

 

شعورِ نعت دیں جذبات دے دیں

مجھے الفاظ کی خیرات دے دیں

ظفرؔ کو بات کرنے کا سلیقہ

لبوں پر آپؐ اپنی بات دے دیں

 

 

نعت کا فیض عام کرتے ہیں

ذکرِ خیر الانامؐ کرتے ہیں

نعت سرکارؐ خود لکھاتے ہیں

ہم تو بس اہتمام کرتے ہیں

 

حبیبِ کبریاؐ سایہ کُناں ہو

تو مجھ سا بے زباں معجز بیاں ہو

میں لکھوں نعت محبوبِؐ خدا کی

تو دُوری میں حضوری کا سماں ہو

 

دل میں سرکارؐ کی محبت ہے

عشق اُنؐ کا ہے اُنؐ کی چاہت ہے

میں ظفرؔ اُنؐ کے در کا درباں ہوں

مری کتنی کمال قسمت ہے

 

 

سرکارؐ کی یادوں کا دریچہ جو کھُلا ہو

دل فرطِ مسرت سے مرا غارِ حرا ہو

ہر لمحہ میں ہر سمت جھلک آپؐ کی دیکھوں

ہو مجھ پہ کرم آپؐ کا مجھ پر یہ عطا ہو

 

اُنؐ کی را ہوں میں کہکشاں دیکھوں

اُنؐ کے قدموں میں آسماں دیکھوں

سب جہانوں میں سب زمانوں میں

عظمتِ مصطفیٰؐ عیاں دیکھوں

 

ہر طرف اُنؐ کا بول بالا ہے

سب زمانوں نے دیکھا بھالا ہے

اِک نگاہِ کرم ظفرؔ پر بھی

آپؐ کا نام لینے والا ہے

 

 

مرے دل کی صدا، حبیبِ خداؐ

روح و جاں کی ندا، حبیبِ خداؐ

مرے ماں باپ بھائی اور بچے

آپؐ ہی پر فِدا حبیبِ خداؐ

 

اُنؐ کو ہر دم دھیان میں رکھنا

خود کو حفظ و امان میں رکھنا

دیکھ کر خواب میں رُخ زیبا

دیدہ و دِل میں جان میں رکھنا

 

نعت سرکارؐ جا بجا کہیے

نعت کے کچھ نہ ماسوا کہیے

تجھ پہ سرکارؐ کا کرم ہے ظفرؔ

یوں سدا کہیے برملا کہیے

 

 

سرکارؐ تہی دست ہوں میں بے سروساماں

لِلہّٰ عطا کیجے مجھے سایۂ داماں

قرآن کی تفہیم کا ادراک نہ ہو گا

جب تک نہ رہے پیشِ نظر صاحبِ قرآں

 

جب بھی ہم اُنؐ کا ذکر کرتے ہیں

پھول کھِلتے ہیں دیپ جلتے ہیں

مرا سرمایہ ہیں وہ آنسو جو

نعت کہتے ہوئے برستے ہیں

 

ہجر کے رنج و غم سہوں آقاؐ

آپؐ کو میں صدائیں دُوں آقاؐ

اِک نئی زندگی ظفرؔ کو ملے

آپؐ کے در پہ گر مروں آقاؐ

 

 

وہ صداقت وہ دیانت آپؐ کی

وہ مقام ارفع وہ عظمت آپؐ کی

ساری دُنیا کے لیے راہِ نجات

ہے اگر تو ہے اطاعت آپؐ کی

 

فرش سے عرش تک اُجالا ہے

آپؐ کی شان سب سے اعلیٰ ہے

آپؐ ممتاز منفرد یکتا

میں نے تاریخ کو کھنگالا ہے

 

ہے مری چشم نم حبیبِؐ خُدا

نعت ہو گی رقم حبیبِؐ خُدا

نعت لکھتے ظفرؔ ہے اشک افشاں

ضو فشاں ہے قلم حبیبِؐ خُدا

 

 

آپؐ کے نُور کی ضیاء کہیے

آپؐ کی نگہِ جانفزا کہیے

قلب تابندہ و مُنور ہو

اُنؐ کی یادوں کو مرحبا کہیے

 

دل و جاں میں قرار آپؐ سے ہے

زندگی میں نکھار آپ سے ہے

مرے دل کے مہکتے گلشن میں

رنگ و بُو، برگ و بار آپؐ سے ہے

 

وہ نزاکت وہ لطافت آپؐ کی

آج بھی روشن ہے سیرت آپؐ کی

تو بڑا ہی خوش مقدر ہے ظفرؔ

ہو مبارک تجھ کو نسبت آپؐ کی

 

 

آپؐ نبیوں کے امام اور آپؐ کے ہم سب غلام

آپؐ کا منشور قرآں، سیرتِ اطہر نظام

خطبۂ حج وِداع مینارۂ نور و ضیاء

روشنی ہی روشنی پھیلا رہا ہے صبح و شام

 

آرزو ہے کہ اُنؐ کا گھر دیکھوں

اُنؐ کی چوکھٹ پہ اپنا سر دیکھوں

موت آ جائے اُس گھڑی مجھ کو

جس گھڑی اور کوئی در دیکھوں

 

رنگ تقدیر کے بدلتے ہیں

دل کے ارمان سب نکلتے ہیں

سر درِ مصطفیٰؐ پہ رکھ کے ظفرؔ

ہم رگِ جاں میں نُور بھرتے ہیں

 

 

ذکر ہم صبح و شام کرتے ہیں

ذکرِ خیر الانامؐ کرتے ہیں

اُنؐ پہ بھیجے دُرود ربِّ کریم

اور ملائک سلام کرتے ہیں

 

ہم پہ نظرِ کرم حبیبِ خداؐ

بے سہارا ہیں ہم حبیبِ خداؐ

آپؐ جب سر پہ ہاتھ رکھتے ہیں

درد جاتا ہے تھم حبیبِ خداؐ

 

آپؐ کا سنگ آستاں دیکھوں

فیض کا بحر بیکراں دیکھوں

وہ جو محبوبِ کبریا ہیں ظفرؔ

اُنؐ کو قرآں کا ترجماں دیکھوں

 

 

اُنؐ کا ہے کرم صبح و مسا دیکھ رہا ہوں

ہر وقت مدینے کی فضا دیکھ رہا ہوں

ہر گام پہ جھکتا ہوں مدینہ کی گلی میں

سرکارؐ کے نقشِ کفِ پا دیکھ رہا ہوں

 

آپؐ کی نعت ہی کہوں آقاؐ

آپؐ کی نعت ہی سُنوں آقاؐ

ایک لمحہ نہ یوں مرا گزرے

آپؐ کی یاد بِن جیوں آقاؐ

 

رحمتوں کی ردا حبیبِ خداؐ

آپؐ کے ہم گدا حبیبِ خداؐ

آپؐ آئیں نظر ظفرؔ ہر سُو

مجھ کو جلوہ نما، حبیبِ خداؐ

 

 

درِ شہ تک رسائی مل گئی ہے

مجھے ساری خُدائی مل گئی ہے

جو پہنچے آپؐ تک اُن کو یقیناً

خدا تک رہنمائی مل گئی ہے

 

جب طبیعت اُداس ہوتی ہے

نعت لکھنے کی آس ہوتی ہے

نعت کے شعر جب میں لکھتا ہوں

روشنی آس پاس ہوتی ہے

 

ہے مجھے عشق حضورؐ آپ سے پیار آپؐ سے ہے

مری نعتوں میں سلاموں میں نکھار آپ سے ہے

ایک ہو جائیں مسلمان سبھی دُنیا کے

مری فریاد ظفرؔ میری پُکار آپؐ سے ہے

 

 

جب بھی ذکرِ رسولؐ ہوتا ہے

رحمتوں کا نزول ہوتا ہے

جب بھی پڑھتا ہوں میں درود و سلام

دِل مرا کھِل کے پھول ہوتا ہے

 

جبیں میری ہے اُنؐ کا نقشِ پا ہے

یہ سجدہ بندگی کی انتہا ہے

مرے سر پر ہے اُنؐ کا دستِ شفقت

کرم اُنؐ کا ہے یہ اُنؐ کی عطا ہے

 

آپؐ ہیں خیر البشر خیر الوریٰ میرے نبیؐ

آپؐ ہیں شمس الضحیٰ بدرالدجیٰ میرے نبیؐ

آپؐ کے فیضان سے زندہ و تابندہ ظفرؔ

دم بہ دم ہر دم پکارے ہے سدا میرے نبیؐ

 

 

آپؐ ہیں صادق و امیں آقاؐ

آپؐ سالارِ مُرسلیں آقاؐ

ہو گیا وہ قریب اللہ کے

جو ہوا آپؐ کے قریں آقاؐ

 

آپؐ جیسا حسیں نہیں کوئی

دلرُبا دل نشیں نہیں کوئی

آپؐ کے ماسوا حبیبِ خداؐ

کوئی ہرگز نہیں، نہیں کوئی

 

مرے پیشِ نظر طیبہ نگر ہے

محبت کا جہاں پیشِ نظر ہے

سفر جس کی ہو منزل شہر آقاؐ

سفر وہ ہی وسیلۂ ظفرؔ ہے

 

 

نبیؐ کے عشق میں مسرُور رہنا

جمال نُور سے معمُور رہنا

کتاب اللہ، سنت مصطفیٰؐ کی

قیامت تک ہے یہ منشور رہنا

 

ذکرِ خیر الانامؐ سُوجھے گا

لمحہ لمحہ، مدام سُوجھے گا

لبِ لرزیدہ، چشمِ اشک افشاں

یوں دُرود و سلام سُوجھے گا

 

درِ سرکارؐ تک رسائی ہو

دل میں یادِ نبیؐ سمائی ہو

ہے دُعائے ظفرؔ کہ ہر لمحہ

ارفع تر شانِ مصطفائی ہو

 

 

محبوبِ خداؐ کون بھلا اُن کے سوا ہے

محبوب مرا کون بھلا اُنؐ کے سوا ہے

ہے سایہ کناں کون بھلا ننگے سروں پر

رحمت کی رِدا کون بھلا اُن کے سوا ہے

 

صاحبِ حُسن و جمال آیا ہوں

میں پریشان حال آیا ہوں

ہیں مجسم عطا مرے آقاؐ

میں مجسم سوال آیا ہوں

 

درِسرکارؐ تک پہنچا ہوں جب سے

سکوں پایا قرار آیا ہے تب سے

خدا کا پیار مانگیں مصطفیٰؐ سے

ظفرؔ عشقِ محمدؐ اپنے رب سے

 

 

مری آنکھوں کا نُور صلِ علیٰ

مری جاں کا سرُور صلِ علیٰ

دل کی بستی میں جلوہ فرما ہیں

مرے آقا حضورؐ صلِ علیٰ

 

آپؐ سے لو لگائے رہتے ہیں

اپنی ہستی مٹائے رہتے ہیں

ایسے عشاق ہیں جو مستی میں

دل مدینہ بنائے رہتے ہیں

 

شاہ بطحا مجھے نظر دے دیں

میں ہوں انجان کچھ خبر دے دیں

کیا عجب یارِ غار کا صدقہ

وہ تجھے آگہی ظفرؔ دے دیں

 

 

آپؐ کا فیض عام ہوتا ہے

عشق پھر ہم کلام ہوتا ہے

پھر سے جاری ہر ایک محفل میں

ذکرِ خیر الانامؐ ہوتا ہے

 

خداوندا مرا دِل شاد رکھنا

مرے دل میں نبیؐ کی یاد رکھنا

عطا کرنا مجھے عشق محمدؐ

محبت کا نگر آباد رکھنا

 

مریض جاں بلب ہو لادوا ہو

درِسرکارؐ پر آئے شفا ہو

وہی تقدیرِ اِنساں امرِ ربیّ

ظفرؔ جو بھی رضائے مصطفیٰؐ ہو

 

 

کہیں تاریخِ عالم میں نہ دیکھا

کوئی محبوب، محبوبِ خُدا سا

بُلایا عرش پر جی بھر کے دیکھا

رُخِ محبوب، چہرہ مصطفیٰؐ کا

 

وہی اللہ کے پیغام بر ہیں

وہی سب رہبروں کے راہبر ہیں

وہی جود و سخا کا اِک سمندر

بنے جن کے گدا گنجِ شکر ہیں

 

وہ خوش قسمت ہیں جن کی آپؐ کے در تک رسائی ہے

خدا کا فضل اُن پر مہرباں ساری خدائی ہے

غلامِ مصطفیٰؐ ہوں میں، گرفتارِ محبت ہوں

ظفرؔ اِس خوبصورت قید پر قرباں رہائی ہے

 

 

محبت کی خدا نے ابتدا کی، محبت آپؐ سے بے انتہا کی

محبت منفرد، ممتاز یکتا، خدائے مصطفیٰؐ سے مصطفیٰؐ کی

خدا نے عرش پر اُنؐ کو بلایا جو ناممکن تھا ممکن کر دکھایا

درود اُنؐ کو سلام اُنؐ کو سُنایا، بڑھائی شان اور عزت عطا کی

 

خاک پائے شفا، سنگِ در مانگنا

دردِ دل مانگنا، چشمِ تر مانگنا

مانگنا عجز سے سوز سے درد سے

دیں گے خیرات خیر البشرؐ مانگنا

 

وہی لاریب محبوبِ خدا ہیں

وہی محبوب میرے، آپ کے ہیں

ظفرؔ حمدِ خدا، نعتِ نبیؐ کے

مضامیں ایک، پیرائے جُدا ہیں

 

 

میں آپؐ کے در کا ہوں گداگر شہِ والا

ہیں آپؐ عطاؤں کے سمندر شہِ والا

دیتے ہیں حیات آپؐ نئی مُردہ دلوں کو

دُکھیاروں کے ہیں آپؐ مبشر شہِ والا

 

محبت جاگزیں دل میں خُدا کی

مؤدت موجزن خیر الوریٰؐ کی

عطاء اللہ کی، عشق محمدؐ

عنایت ہے خدا و مصطفیٰؐ کی

 

یہی ہے عشق و مستی کا قرینہ

رہے پیشِ نظر ہر دم مدینہ

تونگر ہوں نہاں سینے میں میرے

ظفرؔ عشقِ نبیؐ کا ہے خزینہ

 

 

وہی جو رحمۃ اللعالمیںؐ ہیں

وہی محبوبِ رب العالمیںؐ ہیں

وہی جلوہ نما کون و مکاں میں

وہی عشاق کے دل میں مکیں ہیں

 

مرے محبوب محبوبِ خدا ہیں

نبیؐ میرے امام الانبیاء ہیں

سراپا روشنی نورِ مجسم

وہی شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ ہیں

 

محبت میرے دِل میں مصطفیٰؐ کی

مرے سر پر سدا رحمت خدا کی

درِ سرکارؐ کا دربان ہے تُو

ہے خوش بختی ظفرؔ تجھ سے گدا کی

 

 

بڑا احسان ہے مجھ پر خُدا کا

میں درباں ہوں درِ خیر الوریٰؐ کا

غلام اُنؐ کا ہوں میں روزِ ازل سے

اُنہیں کا نام لیوا ہوں سدا کا

 

گریزاں مُجھ سے دردِ لادوا ہے

کہ سر پر دستِ شفقت آپؐ کا ہے

تھی جن کی پشت پر مہرِ نبوت

مرے سینے پہ اُن کا نقشِ پا ہے

 

فکرِ سرکارؐ وجہِ راحت ہے

ذکر سرکارؐ بھی عبادت ہے

وقت گزرے ظفرؔ حضوری میں

یہی عشاق کی ضرورت ہے

 

 

درِ خیر البشرؐ پیشِ نظر ہے

یہیں محبوبِ یزداں جلوہ گر ہے

وہی ہے رحمۃ اللعالمیںؐ جو

محبت امن کا پیغام بر ہے

 

یہ عطائے خدا ہے نعمت ہے

نعت ہر دور کی ضرورت ہے

عشق سرکارؐ میرا سرمایہ

ذکرِ سرکارؐ میری دولت ہے

 

بشر کوئی نہیں خیر البشرؐ سا

غلامِ کم تریں منصب ہے میرا

ظفرؔ درباں بنا کے اپنے در کا

مجھے سرکارؐ نے اعزاز بخشا

 

 

آپؐ ہی خیر البشرؐ ہیں آپؐ ہی نُورمبیں

میرے آقا، میرے مولا، رحمۃ اللعالمیںؐ

حُسنِ صورت، حُسنِ سیرت، حُسنِ کردار و عمل

آپؐ سا کوئی نہیں ہے آپؐ سا کوئی نہیں

 

اُن کی خوشبو دل و نظر کے لیے

نقش پا اُنؐ کا میرے سر کے لیے

اِک جھلک میرے کملی والے کی

روشنی چشمِ بے بصر کے لیے

 

مریضِ عشق کو سرکارؐ کا دیدار ہو جائے

شفا سے بہرہ ور وہ لادوا بیمار ہو جائے

مؤدب سرنگوں ہے جو ظفرؔ سرکارؐ کے در پر

عجب کیا وہ بھی اِک دن صاحبِ اسرار ہو جائے

 

 

شاہِ کونین کی ثناء کرنا

نعت سرکارؐ کی لکھا کرنا

مرا سرمایہ عشقِ احمدؐ ہے

مرے مولا اسے سوا کرنا

 

اِک زمانہ فراق میں گزرا

رُخِ روشن کی اِک جھلک مولا

میرا سویا نصیب جاگ اُٹھا

خواب میں دیکھ کر رُخِ زیبا

 

ہر گھڑی ذکر مصطفیٰؐ کرنا

اُنؐ کی توصیف برملا کرنا

سُن ظفرؔ جانِ بندگی ہے یہی

ذکر سرکارؐ کا کیا کرنا

 

 

حبیبِ کبریا بن کر شہِ ارض و سما آئے

مرے سرکارؐ یکتا منفرد سب سے جُدا آئے

دیا پیغام انسانوں کو توحید و رسالت کا

خدا تک رہنما بن کر وہ محبوبِ خدا آئے

 

واہ کیا شانِ مصطفائی ہے

جس کی مداح کبریائی ہے

عشق اُنؐ کا ہے میرا سرمایہ

باقی جو چیز ہے پرائی ہے

 

آپؐ کے دم سے میری عزت ہے

آپؐ کے در سے میری نسبت ہے

بات کوئی سوائے حمد و نعت

کب ظفرؔ مجھ کو اتنی فرصت ہے

 

 

قلم کار و سُخن ور آپؐ کا ہوں

ثناء خوانِ پیمبر آپؐ کا ہوں

فزوں تر ہو مرا عشقِ محمدؐ

گداگر سب سے کم تر آپؐ کا ہوں

 

مری سرکارؐ ہیں دل کش دل آراء

سبھی عشاق کی آنکھوں کا تارا

نہیں اب ہجر میں ہوتا گزارا

جھلک بس خواب میں ہی اک خدارا

 

پہنچ سکتا نہیں گو آستاں پہ

سدا اسمِ مبارک ہے زباں پہ

کرم اُنؐ کا سدا جاری و ساری

ظفرؔ جیسے نحیف و ناتواں پہ

 

 

نگاہِ لطف آقاؐ غم زدہ رنجور ہوں میں

نحیف و ناتواں ہوں بے کس و مجبور ہوں میں

مرے آقاؐ خدارا کیجے میری دستگیری

رہِ طیبہ کا راہی ہوں مگر معذور ہوں میں

 

مرا محبوب، محبوبِ زماں ہے

وہی تو رونقِ کون و مکاں ہے

جبیں میری ہے اُنؐ کا آستاں ہے

بحمد اللہ حضوری کا سماں ہے

 

جبیں میری ہے اُنؐ کا نقشِ پا ہے

نظر کے سامنے ہر دوسرا ہے

ظفرؔ نقشِ کفِ پا کے تصدق

خدا سے جو بھی مانگا مل گیا ہے

 

 

ہمارے رہنما، رہبر محمدؐ

سراسر نُور کے پیکر محمدؐ

ہیں محبوبِ زماں، محبوبِ یزداں

ہیں بے چاروں کے چارہ گر محمدؐ

 

نہیں اُن سا کوئی کون و مکاں میں

نہیں اُنؐ سا سخی سارے جہاں میں

سخاوت اُنؐ کی ہے جاری و ساری

ہر اِک بستی نگر میں ہر زماں میں

 

درِسرکارؐ کا جو بھی گدا ہو

بھلا کیوں آپؐ کے در سے جُدا ہو

نوازیں آپؐ ہر مسکیں گدا کو

ظفرؔ پر بھی کرم بہرِ خدا ہو

 

 

وہؐ ختم الانبیاء ہیں اور امام الانبیاء بھی ہیں

شفیع المذنبیں ہیں، شافعِ روزِ جزا بھی ہیں

وہؐ ہیں خیر البشرؐ، خیر الوریٰؐ، نُورالہدیٰؐ بھی ہیں

وَہؐ محبوبِ خلائق بھی، وَہؐ محبوبِ خدا بھی ہیں

 

کرم بخشی خدائے مصطفیٰؐ کی

مری فطرت ثنائے مصطفیٰؐ کی

رضا جوئی، رضائے مصطفیٰؐ کی

طلبگاری، عطائے مصطفیٰؐ کی

 

اُنؐ کا ہے کرم صبح و مسا دیکھ رہا ہوں

ہر وقت مدینے کی فضا دیکھ رہا ہوں

اِک ذرۂ ناچیز پہ یہ اُنؐ کا کرم ہے

میں کیا ہوں ظفرؔ اور میں کیا دیکھ رہا ہوں

 

 

میں اِک مسکیں گداگر اُنؐ کے در کا

سہارا ہیں وہ مجھ بے بال و پر کا

گھنا سایہ ہیں میرے ننگے سر کا

میں صدقہ کھا رہا ہوں اُنؐ کے گھر کا

 

جہاں نقشِ قدم واں پر جبیں ہو

عقیدت سے خمیدہ سر وہیں ہو

ملوں چہرے پہ خاکِ پا میں اُنؐ کی

قبیح و بدنما چہرہ حسیں ہو

 

وہ محبوبِ خدا ہیں، با خدا ہیں

حبیبِ کِبریا ہیں، با خدا ہیں

خدا تک رہنما ہیں، با خدا ہیں

ظفرؔ وہ با خدا ہیں، با خدا ہیں

 

خداوندا مجھے سوزِ نہاں، جذب دروں دے دے

مجھے اپنے حبیبِ پاک کا عشقِ فزوں دے دے

درِسرکارؐ پر رکھ کر جبیں، میں اپنی جاں واروں

مجھے حُسنِ بصیرت دے، مجھے ذوقِ جنوں دے دے

 

آپؐ کا سنگِ در جبیں میری

اور کچھ آرزو نہیں میری

آپؐ کے در سے پیار پایا ہے

بات بگڑی بنی یہیں میری

 

ہے اُمت آپؐ کی خوار و زبوں و منتشر آقاؐ

ہجومِ بیکساں خانہ بدوش و در بہ در آقاؐ

مسلماں ایک دوجے کا ظفرؔ یاں خوں بہاتے ہیں

یاں مظلوموں کا دامن خون سے ہے تر بتر آقاؐ

 

 

محبت یا خدا مجھ کو سکھا دے

درِ محبوب کا درباں بنا دے

دلا دے عشق و مستی کے خزانے

درِ سرکارؐ مجھ پر وا کرا دے

 

مرے دل میں جمالِ یار دیکھو

مرے دل میں ہیں یارِ غار دیکھو

مرے دل میں عمرؓ عثمانؓ علیؓ بھی

مرے دل میں مرے سرکارؐ دیکھو

 

مجھے سرکارؐ سے وابستگی دے

مجھے یارب مدینہ کی گلی دے

ظفرؔ کی التجا ہے عاجزانہ

مجھے سرمایۂ عشقِ نبیؐ دے

نبیؐ کا آستاں عظمت نشاں ہے

 

 

نبیؐ کا آستاں دار الاماں ہے

خمیدہ سر یہاں ہر اِنس و جاں ہے

یہی تو قبلہ گاہِ عاشقاں ہے

 

محبت ہے مجھے رب العلیٰ سے

محبت ہے مجھے خیر الوریٰؐ سے

محبت ہے مجھے مشکل کشا سے

محبت ہے مجھے خلقِ خدا سے

 

یہ رُتبہ ہے نبیؐ کے آستاں کا

یہ محور ہے زمین و آسماں کا

یہ مرکز ہے مکان و لامکاں کا

یہ مظہر ہے ظفرؔ باغِ جناں کا

 

 

خدا کی کبریائی ہے جہاں تک

جمالِ مصطفائی ہے وہاں تک

خدا بندے کی شہ رگ سے قریں تر

رسائی آپؐ کی قلبِ تپاں تک

 

محمدؐ آپ کا ہے نامِ نامی

ہے احمدؐ آپ کا اِسمِ گرامی

مؤدت آپؐ کی اُمت سے اپنی

خدا سے آپؐ کی ہے ہم کلامی

 

جبیں میری ہے اُنؐ کا آستاں ہے

سرُور و کیف و مستی کا سماں ہے

ہویدا آج ہرسّرِ نہاں ہے

ظفرؔ ہر رازِ سربستہ عیاں ہے

 

 

خدا تک ہیں جو رہبر رہنما ہیں

وہ احمدؐ ہیں محمد مصطفیٰؐ ہیں

وہی بے آسروں کا آسرا ہے

شہنشاہ بھی اُسی در کے گدا ہیں

 

فرازِ طُور سے غارِ حرا تک

کلیم اللہ سے محبوبِ خدا تک

خدا سے ہم کلامی ہم نشینی

شبِ معراج سے روزِ جزا تک

 

وہی سردارِ جُملہ مُرسلاں ہیں

وہی روحِ روانِ مقبلاں ہیں

وہی حاجت روائے سائلاں ہیں

ظفرؔ وہ قبلہ گاہِ عاشقاں ہیں

 

 

سرِافلاک تھی سرکارؐ کی جب آمد آمد

زمانے سرنگوں تھے اور گزرتا وقت جامد

ثناؤں کی درُودوں کی دما دم گونج ہر سُو

وہاں جلوہ نما تھے با خُدا محمودؐ حامدؐ

 

مرے مولا مجھے دل شاد رکھنا

محبت کا جہاں آباد رکھنا

مرے لب پر سدا اللہ اکبر

مرے دل میں نبیؐ کی یاد رکھنا

 

زمین و آسماں میں دُور تک نہ تھی محبت

خدا نے اوّل آخر آپؐ سے ہی کی محبت

مری سرکارؐ نے اللہ سے جی بھر لی محبت

ظفرؔ عشاق کو پھر بے محابا دی محبت

 

 

درِ سرکارؐ پر جائیں، سکوں پائیں اماں پائیں

دوامی سرخوشی پائیں فلاحِ دوجہاں پائیں

درِ سرکارؐ پر عشاق کو کیا کیا نہیں ملتا

وفورِ عشق و مستی اور سرورِ قلب و جاں پائیں

 

یہ محبوبِ خدا کا آستاں ہے

یہی دار الشفا، دار الاماں ہے

یہی تو قبلہ گاہِ اِنس و جاں ہے

یہی مرکز نگاہِ عاشقاں ہے

 

مری جاں میں سمایا عشقِ محبوبِ خدا ہے

مرا محبوب ہے وہ جو حبیبِ کبریا ہے

ظفرؔ وہ ہی مسیحائے ہمہ مُردہ دِلاں ہے

مریضِ جاں بلب کو بھی وہی دیتا شفا ہے

 

 

کروں ذکر اُنؐ کی عظمت کا، مری اوقات ہی کیا ہے

بھروں دم اُنؐ کی چاہت کا، مری اوقات ہی کیا ہے

کروں دعویٰ محبت کا، مری اوقات ہی کیا ہے

میں اُن سے اپنی نسبت کا، مری اوقات ہی کیا ہے

 

مرے دل میں مری سرکارؐ کی بس یاد بستی ہے

قلوبِ عاشقاں پر آپؐ کی رحمت برستی ہے

زمانے فیض یاب اُنؐ سے، کرم اُنؐ کا جہانوں پر

خدا کی بھی ہے جو ممدوح، مرے آقاؐ کی ہستی ہے

 

سگِ در ہوں درِ سرکارؐ کا مَیں

سگِ در آپؐ کے دربار کا مَیں

سگِ دُنیا ظفرؔ ہرگز نہیں ہوں

سگِ در ہوں خدا کے یارؐ کا مَیں

 

 

کوئی اُنؐ سا نہیں کون و مکاں میں

زمانوں میں، زمین و آسماں میں

وہ محبوب زماں، محبوبِ یزداں

قدم اُنؐ کا قلوبِ عاشقاں میں

 

نہ دولت سے ہے، نہ گھر بار سے ہے

نہ اپنوں سے ہے، نہ اغیار سے ہے

شہنشاہ نہ کسی سردار سے ہے

محبت بس مجھے سرکارؐ سے ہے

 

چلو شہر نبیؐ کی سمت سب عشاق چلتے ہیں

مرے آقاؐ کے قدموں میں جو گرتے ہیں سنبھلتے ہیں

ولی، مجذوب واں پر عشق کے پیکر میں ڈھلتے ہیں

ظفرؔ سے بے سہاروں کے مقدر واں بدلتے ہیں

 

 

مرے اللہ مجھے حُسنِ نظر دے

مرے اللہ مجھے نورِ بصر دے

مری نعتوں میں یا رب وہ اثر دے

جو ہر اک سنگدل کو موم کر دے

 

خدا سے مانگ صدقہ مصطفیٰؐ کا

حبیبِ کبریا، خیر الوریٰ کا

وہ پائے گا جو مانگے گا خُدا سے

وسیلہ گر ہو محبوبِ خدا کا

 

محبت کا نگر آباد رکھنا

سدا دِل میں نبیؐ کی یاد رکھنا

محبت میں جدائی، وصل بھی ہے

ظفرؔ لب پر نہیں فریاد رکھنا

 

 

محبت آپؐ کی ہے قلب و جاں میں

تنِ لاغر میں، جسمِ ناتواں میں

مرے اسلوب و اندازِ بیاں میں

مرے افکار میں، روحِ رواں میں

 

ثنائے کبریا دِن رات لکھوں

میں نعتِ مصطفیٰؐ دِن رات لکھوں

درُود اُنؐ پر سلام اُنؐ پر مَیں بھیجوں

ہیں محبوبِ خدا دِن رات لکھوں

 

ہے عشق اُن کا فزوں تر کیف و مستی رنگ لائی ہے

محبت آپؐ کی میرے رگ و پے میں سمائی ہے

بباطن قرب و یک جائی بظاہر گو جدائی ہے

اُنہیں کے دم سے تابندہ ظفرؔ ساری خدائی ہے

 

 

جو ہو نگہِ کرم بے بال و پر پرواز کر جائے

پئے عشاق روشن اِک نیا انداز کر جائے

شکستہ پر پرندہ بھی درِ سرکارؐ تک پہنچے

محبت میں نئے اِک باب کا آغاز کر جائے

 

شعورِ نعت دیں، جذبات دے دیں

محبت کی مجھے سوغات دے دیں

سدا لکھوں میں حمد و نعت یا رب

زباں پر میری، اپنی بات دے دیں

 

درِسرکارؐ پر ہر دم گھٹا رحمت کی چھائی ہے

یہاں عشاق نے ہر دم جبیں اپنی جھکائی ہے

یہاں عشقِ حبیب کِبریا تقسیم ہوتا ہے

ظفرؔ اُمڈی چلی آتی یہاں ساری خدائی ہے

 

 

محبت آپؐ کے دم سے اُخوت آپؐ کے دم سے

شرافت آپؐ کے دم سے نجابت آپؐ کے دم سے

مُروّت آپؐ کے دم سے مؤدت آپؐ کے دم سے

ہیں دورِ پُرفتِن میں ہم سلامت آپؐ کے دم سے

 

سکون و امن کے حالات دے دیں

مرے لب پر نبیؐ کی بات دے دیں

اُتر جائیں جو ہر اِک سنگدل میں

مجھے وہ دل نشیں کلمات دے دیں

 

ہے مخلوقات پہ احسان اُنؐ کا

ہے جاری ہر گھڑی فیضان اُنؐ کا

بڑا ہی پُر شکوہ یہ مرتبہ ہے

سگِ در ہے ظفرؔ دربان اُنؐ کا

 

 

مری پرواز محبوبِ خُدا کے آستاں تک ہے

مری آواز محبوبِ خُدا کے آستاں تک ہے

مری فریاد سُنتے اور دِلاسہ مجھ کو دیتے ہیں

نیاز و راز محبوبِ خُدا کے آستاں تک ہے

 

کسی کو مال و دولت سے نوازا

کسی کو جاہ و حشمت سے نوازا

مری سرکارؐ کا احساں ہے مُجھ پر

مجھے اپنی محبت سے نوازا

 

درِ سرکارؐ پر جھُکتے سبھی شاہ و گدا ہیں

ہیں محسن آپ انسانوں کے محبوبِ خدا ہیں

حبیب کبریاؐ لاریب ہیں پیہم سدا ہیں

ظفرؔ ننگے سروں پر آپؐ رحمت کی رِدا ہیں

 

 

میں اِک بھُوکا تھا پیاسا تھا مُسافر

گِرا سرکارؐ کے قدموں میں آ کر

مٹائی بھوک آقاؐ نے بجھائی پیاس میری

محبت کی عطا اپنی، بنا ڈالا تونگر

 

اُخوت اور چاہت آپؐ ہی کے دم قدم سے ہے

مروّت اور مؤدت آپؐ ہی کے دم قدم سے ہے

مرے دل میں محبت آپؐ ہی کے دم قدم سے ہے

خدا کے گھر کی حُرمت آپؐ ہی کے دم قدم سے ہے

 

نہیں اُنؐ سا زمین و آسماں میں

نہیں اُنؐ سا کوئی کون و مکاں میں

وہ محبوبِ خُدا و اِنس و جاں ہیں

 

 

نہیں اُنؐ سا ظفرؔ سارے جہاں میں

قسم مجھ کو حبیب کِبریا کی

قسم ہے شافعِ روزِ جزا کی

محبت منفرد، ممتاز یکتا

محبت مصطفیٰؐ سے ہے خدا کی

 

خدا تک رہنما میرے محمدؐ

مرے خیر الوریٰ میرے محمدؐ

خزاؤں میں بہاریں لوٹ آئیں

ہوئے جلوہ نما میرے محمدؐ

 

مرے سرکارؐ ختم المُرسلیںؐ ہیں

وہی تو رہبر دُنیا و دیں ہیں

وہی تو رحمۃ اللعالمیںؐ ہیں

ظفرؔ وہ ربِّ اکبر کے قریں ہیں

 

 

یہ محبوبِ خداؐ کا آستاں ہے

یہاں ہر سو ہجومِ عاشقاں ہے

سلامی کو ملائک آ رہے ہیں

خمیدہ سر یہاں ہر انس و جاں ہے

 

فغانِ خادمِ ناشاد سُن لیں

جفا و جور کی رُوداد سُن لیں

ہے اُمت آپؐ کی کرب و بلا میں

کریں امداد اب فریاد سُن لیں

 

کرم مجھ بندۂ مسکیں پہ آقاؐ

کرم مجھ غم زدہ غمگیں پہ آقاؐ

ظفرؔ پر یک نگاہے لطف گاہے

کرم کم کوش، کوتاہ بیں پہ آقاؐ

 

 

درِ سرکارؐ در فیض و عطا کا

درِ سرکارؐ در جود و سخا کا

درِ سرکارؐ ادب گاہِ محبت

درِ سرکارؐ در خیر الوریٰؐ کا

 

خداوندا مجھے عزمِ سفر دے

مدینہ اُڑ کے پہنچوں بال و پر دے

میں ہوں بے آسرا، بے گھر خدایا

مجھے سرکارؐ کے قدموں میں گھر دے

 

میں حمد و نعت کے اشعار با صدق و صفا لکھوں

میں لکھوں اللہ جل شانہٗ، صل علیٰؐ لکھوں

حبیبِ کبریاؐ اُنؐ کو میں محبوبِ خداؐ لکھوں

ظفرؔ خود کو درِ سرکارؐ کا ادنیٰ گدا لکھوں

 

 

مری سرکارؐ کا یہ آستاں ہے

زمیں کا حُسن ہے، جنت نشاں ہے

یہی مرکز نگاہِ انس و جاں ہے

یہی آماجگاہِ عاشقاں ہے

 

نہیں اُنؐ سا کوئی کون و مکاں میں

فضاؤں میں زمین و آسماں میں

خدائی کے بھی محبوبِ خداؐ بھی

قدم اُنؐ کا قلوبِ عاشقاں میں

 

وہی جو رحمۃ العالمیں ہیں

وہی تو قبلہ گاہِ عارفیں ہیں

وہی مشکل کشائے متقیں ہیں

ظفرؔ وہ رہنمائے سالکیں ہیں

 

 

گُلوں میں رنگ، خوشبو تازگی ہے

دِلوں میں عشق ہے، وارفتگی ہے

مری سرکارؐ کی آمد ہے سُن لو

درُودوں کی فضا میں نغمگی ہے

 

ہے شہرہ آپؐ کا سارے جہاں میں

فضاؤں میں، مکان و لامکاں میں

جبیں میری ہے اُنؐ کے آستاں پہ

مری پرواز ہے ہفت آسماں میں

 

مرے آقاؐ حبیب کِبریا ہیں

وہی لاریب محبوبِ خُدا ہیں

شہنشاہ اُنؐ کے در پہ دستِ بستہ

خمیدہ سر ظفرؔ جیسے گدا ہیں

 

 

وہ محبوبِ خدا و انس و جاں ہیں

وہ مسجودِ ملائک بے گماں ہیں

وہی ہیں وجہِ تخلیقاتِ عالم

وہی فخرِ زماں، کون و مکاں ہیں

 

حبیبِ کبریا میرے محمدؐ

خدا تک رہنما میرے محمدؐ

وہ ہم دردِ غریباں و امیراں

کہیں شاہ و گدا میرے محمدؐ

 

چراغ طُور ہے اُنؐ کی گلی میں

خدا کا نُور ہے اُنؐ کی گلی میں

یہاں کا رنگ، خوشبو جانفزا ہے

ظفرؔ مسرُور ہے اُنؐ کی گلی میں

 

 

جلالِ کبریا ہر سُو عیاں ہے

جمالِ مصطفیٰؐ بھی ضو فشاں ہے

خدا کا گھر ہے مرکز بندگی کا

نبیؐ کا آستاں دار الاماں ہے

 

جمال دید سے مسرُور رکھنا

سرور و کیف سے معمور رکھنا

میں ہوں دامن دریدہ، دل تپیدہ

مجھے دامن میں ہی مستور رکھنا

 

محبت جس کے دل میں موجزن ہے

وہ عاشق سوئے طیبہ گام زن ہے

وہ شیدائی ہے محبوبِ خُدا کا

ظفرؔ ادنیٰ گدائے پنج تن ہے

 

 

دُرود اُنؐ پر سلام اُنؐ پر خدا کا

ہوا نازل کلام اُنؐ پر خدا کا

شفیع المذنبیں، محبوبِ یزداںؐ

سدا فضلِ دوام اُنؐ پر خدا کا

 

چہرۂ اقدس بدرِ مُنیر

پھیل گئی ہرسُو تنویر

اُنؐ کی باتیں پُر تاثیر

اُنؐ کی محبت عالم گیر

 

مجھے عزمِ سفر دے دے خُدایا

مدینہ کی ڈگر دے دے خُدایا

درِ محبوب تک دے دے رسائی

ظفرؔ کو بال و پر دے دے خُدایا

 

 

محبت کی خدا نے ابتداء کی

محبت کی خدا نے انتہا کی

محبت منفرد، ممتاز و یکتا

محبت مصطفیٰؐ سے ہے خدا کی

 

قابلِ رشک مری تقدیر

عشق اُنؐ کا میری جاگیر

دِل میں ذِکر نبیؐ کا ہر دم

لب پر نعرۂ تکبیر

 

وہی خیر البشرؐ خیر الوریٰ ہیں

وہی شمس الضُحیٰؐ، بدالدجیٰؐ ہیں

وہی نُورِ مبیںؐ، نُورالہدیٰؐ ہیں

ظفرؔ وہ ناخدا ہیں، با خدا ہیں

 

 

کرم اُنؐ کا ہے یہ اُن کی عطا ہے

مریضِ جاں بلب، جانبر ہوا ہے

حیاتِ نو جسے چاہیں وہ بخشیں

یہ میرا اور اُنؐ کا معاملہ ہے

 

مدینہ سے پیام آئے گا اِک دن

سندیسہ میرے نام آئے گا اِک دن

نوید دید ہو گی، عید ہو گی

خمیدہ سر غلام آئے گا اِک دن

 

کلیسا سے نہ مندر سے مِلا ہے

نہ مسجد سے نہ منبر سے مِلا ہے

خدا کی ذات کا عرفان مجھ کو

ظفرؔ سرکارؐ کے در سے مِلا ہے

 

 

کرو حمدِ خُدا حکمِ خدا ہے

پڑھو صلِ علیٰ، حکمِ خدا ہے

تواتر سے دَرودِ پاک بھیجو

سلام اُنؐ پر سدا، حکمِ خدا ہے

 

اُسے سرکارؐ نے دیدی شفا ہے

مریض آیا جو در پر لادوا ہے

تہی دامن بھی لوٹا بھر کے دامن

درِ جُود و سخا، فیض و عطا ہے

 

مرے سرکارؐ محبوبِ خدا ہیں

وہی تو مرکزِ مہر و وفا ہیں

خدا بھیجے دُرود اُنؐ پر ہمیشہ

ظفرؔ وہ شافعِ روزِ جزا ہیں

 

 

سینے میں اُنؐ کی تنویر

آنکھوں میں اُنؐ کی تصویر

کیسی فروزاں، کیسی تاباں

میرے خوابوں کی تعبیر

 

درِ سرکارؐ کی عظمت تو دیکھو

سخی دربار کی عظمت تو دیکھو

خُدا داتا ہے، قاسم ہیں محمدؐ

تم اُس مختار کی عظمت تو دیکھو

 

درِ سرکارؐ کیا عظمت نشاں ہے

جہاں سجدہ کناں کون و مکاں ہے

ظفرؔ اپنی جبیں اِس در پہ رکھ دو

حبیبِ کبریا کا آستاں ہے

 

 

وہ محبوبِ خدا ہیں، با خدا ہیں

وہی واللہ حبیبِ کبریاؐ ہیں

امام الانبیاءؐ، ختم الرُسلؐ بھی

وہی خیر البشرؐ، خیر الوریٰؐ ہیں

 

بندۂ عاصی پُر تقصیر

آپؐ کے در کا ایک فقیر

جس کا ہے محکم ایمان

’یک در گیر و محکم گیر‘

 

مری سرکارؐ سے دل بستگی ہے

محبت میں مری وارفتگی ہے

بسا لینا اُنہیںؐ قلب و نظر میں

ظفرؔ یہ منتہائے زندگی ہے

 

 

خواب میں جب حضورؐ ملتے ہیں

تب گریباں کے چاک سِلتے ہیں

خوشبوؤں سے فضا مہکتی ہے

قریۂ جاں میں پھول کھِلتے ہیں

 

نقشِ پا اُنؐ کا سجا ہے مرے در پر دیکھو

لطف و انعام کی بارش مرے گھر پر دیکھو

آؤ اے اہلِ نظر اہلِ بصیرت لوگو

مری سرکارؐ کا سایہ، مرے سر پر دیکھو

 

دِل آپؐ کی چوکھٹ پہ، جبیں آپؐ کے در پر

سرکارؐ کی رحمت کی ردا ہے مرے سر پر

الطاف پیمبر نے زمانوں کو نوازا

دیکھا نہ ظفرؔ کوئی سخی آپؐ سے برتر

 

 

در پہ خیر الانامؐ حاضر ہیں

سب فقیر و غلام حاضر ہیں

سب طلبگار عشقِ احمدؐ کے

تشنہ لب، تشنہ کام حاضر ہیں

 

آپؐ کا ذکر میرے دم دم میں

ہر خوشی میں حضورؐ ہر غم میں

دیکھتا ہوں جمالِ مصطفویؐ

قلبِ مضطر میں، چشم پُر نم میں

 

محبت کیجے محبوبِ خداؐ سے

رسول اللہؐ، حبیبِ کبریاؐ سے

ظفرؔ پڑھ کے درُودوں کے وظائف

مؤدت مانگئے، خیر الوریٰؐ سے

 

 

زمیں کا چپہ چپہ چھان مارا

ملا نہ آپؐ سا محبوبؐ پیارا

اے محبوبِ زماںؐ، محبوبِ یزداںؐ

کرم کی اِک نظر لِلّٰلہ، خدارا

 

محبت آپؐ سے جب تک نہ ہو گی

رسائی خلق کی رب تک نہ ہو گی

نہ جب تک فضلِ محبوبِ خداؐ ہو

خدا سے آگہی تب تک نہ ہو گی

 

عقیدت کیا سہانا رنگ لائی

محبت آپؐ کی دل میں سمائی

ظفر میں ہوں اسیرِ عشقِ احمدؐ

یہ سُن لے، جان لے ساری خدائی

 

 

مدینہ سے بلاوا آ رہا ہے

مرا دل اُڑتا اُڑتا جا رہا ہے

مرا لاشہ یہیں پھرتا رہے گا

مرا دِل اپنی منزل پا رہا ہے

 

عجب لُطفِ خدا کا مرحلہ ہے

عجب فیض و عطا کا مرحلہ ہے

مرے قلبِ تپاں مسرُور ہو جا

جمالِ مصطفیٰؐ کا مرحلہ ہے

 

ترے دل میں سمائے گی محبت رفتہ رفتہ

ترے جذبوں پہ چھائے گی محبت رفتہ رفتہ

تجھے سرکارؐ خود اپنی محبت سے نوازیں گے

ظفرؔ جب رنگ لائے گی محبت رفتہ رفتہ

 

 

میں لکھوں نعت کیا اوقات میری

ہے چھوٹا مُنہ بڑی ہے بات میری

لکھاتے آپؐ خود ہیں نعت اپنی

معاون ہے خدا کی ذات میری

 

درُود و نعت ہے میرا وظیفہ

یہی دِن رات ہے میرا وظیفہ

خدا کی حمد ہے میری عبادت

نبیؐ کی بات ہے میرا وظیفہ

 

مرے افکار میں بھی روشنی ہے

مرے اذکار میں بھی روشنی ہے

زباں پر جب سے ہے ذکرِ محمدؐ

ظفرؔ گھر بار میں بھی روشنی ہے

 

 

مرا محبوب، محبوبِ خدا ہے

وہی شمس الضحیٰؐ، بدرالدجیٰؐ ہے

وہی تو مُحسن اِنسانیت ہے

وہی خیر البشرؐ، خیر الوریٰ ہے

 

میں در تک سربسر جاؤں اگر سرکارؐ بُلوائیں

میں پھر نہ لوٹ کر آؤں اگر سرکارؐ بُلوائیں

مری حرماں نصیبی خوش نصیبی میں بدل جائے

نصیب اپنا میں چمکاؤں اگر سرکارؐ بُلوائیں

 

درُودوں کا سلاموں کا جواب آئے گا اِک دن

مرے معجز کلاموں کا جواب آئے گا اِک دن

خدا کی حمد میں نعتِ نبیؐ میں منہمک رہنا

ظفرؔ کم تر غلاموں کا جواب آئے گا اِک دن

 

 

مری سرکارؐ ہیں خیرِ مجسم، مری سرکارؐ ہی خیر البشرؐ ہیں

مری سرکارؐ ختم المرسلیںؐ ہیں، خدا کے آخری پیغام بر ہیں

مری سرکارؐ کا ارشاد سُن کر بدلتے راستہ شمس و قمر ہیں

مری سرکارؐ جب کر دیں اشارہ، ادب سے بولتے سنگ و شجر ہیں

 

خدا کے آپؐ ہیں محبوب آقاؐ

خدا کو آپؐ ہیں مطلوب آقاؐ

خدا بھیجے درُودوں کے وظائف

محبت دائمی ہے خوب آقاؐ

 

منم پروانۂ شمعِ رسالت

منم دیوانۂ شمعِ رسالت

ظفرؔ من طالبِ دیدار ہستم

منم مستانۂ شمعِ رسالت

 

 

حبیبِ کبریا میرے محمدؐ

ہیں محبوبِ خدا میرے محمدؐ

ازل سے تا ابد ہے اُستواری

احد اللہ ہے، آپ احمدؐ محمدؐ

 

حبیبِ کبریا خیر البشرؐ ہے

اُنہیں کا معجزہ شق القمر ہے

اُنہیں کے آستاں پہ سر ہے میرا

جبیں میری ہے اُنؐ کا سنگِ در ہے

 

جلالِ کبریائی ہے جہاں تک

جمالِ مصطفائی ہے وہاں تک

ہیں رنگ و نُور و نکہت کی فضائیں

ظفرؔ کون و مکاں سے لامکاں تک

 

 

وہ محبوبِ خداؐ ہیں، میں بھی اُن سے پیار کرتا ہوں

حبیبِ کبریاؐ ہیں، میں بھی اُن سے پیار کرتا ہوں

وہ جو خیر الوریٰؐ ہیں، میں بھی اُن سے پیار کرتا ہوں

مرے حاجت روا ہیں، میں بھی اُن سے پیار کرتا ہوں

 

محبت آپؐ سے جب تک نہ ہو گی

رسائی خلق کی رب تک نہ ہو گی

خدا کی ذات کا عرفان و ادراک

شعور و آگہی تب تک نہ ہو گی

 

وہی جو رحمۃ اللعالمیںؐ ہیں

وہی محبوبِ ربّ العالمیںؐ ہیں

وہی چارہ گر بے چارگاں ہیں

ظفرؔ وہ ہی شفیع المذنبیں ہیں

 

 

خدا کے آخری پیغام بر ہیں، محمدؐ رحمۃ اللعالمیں ہیں

وہ رحمت اور محبت سربسر ہیں، محمدؐ رحمۃ اللعالمیں ہیں

وہی خیر الوریٰ، خیر البشر ہیں، محمدؐ رحمۃ اللعالمیں ہیں

جدھر دیکھو مرے آقاؐ اُدھر ہیں، محمدؐ رحمۃ اللعالمیں ہیں

 

جبیں میری ہے اُنؐ کا نقش پا ہے

کرم، جود و سخا کا سلسلہ ہے

مرے پیشِ نظر کون و مکاں ہیں

عجب فیض و عطا کا مرحلہ ہے

 

آپؐ محبوب خلائق بھی ہیں، محبوبِ خداؐ

آپ ہیں محبوبِ دوراں بھی، حبیبِ کبریاؐ

ہے خدا داتا ہمارا، اور قاسم آپؐ ہیں

ہے ظفرؔ سرکارؐ کے دربار کا ادنیٰ گدا

 

 

خدا کی حمد جاری ہر جگہ ہے ہر اک جا نعتِ محبوبِ خداؐ ہے

خدا کی حمد کا شہرہ ہے ہر سُو، بہر سُووردِ نعتِ مصطفیٰؐ ہے

بیاں جس جا ہو شانِ کبریائی، وہیں ذکرِ حبیبِ کبریا ہے

فضاؤں میں مکان و لامکاں میں درُود و حمد کی دلکش صدا ہے

 

جب بھی ہونٹوں پہ اُنؐ کا نام آیا

نعت کا دل نشیں کلام آیا

پھیلی ہر سُو مہک درُودوں کی

آسمانوں سے بھی سلام آیا

 

ہوا نازل خدا کا تا ابد زندہ کلام اُنؐ پر

خدائے پاک خود بھیجے دُرود اُنؐ پر سلام اُنؐ پر

ملائک انس و جان بھیجیں وظائف یہ مدام اُنؐ پر

ہزاروں جاں سے قرباں ہیں، ظفرؔ عاشق تمام اُنؐ پر

 

 

رسول اللہؐ حبیبِ کبریاؐ ہیں

وہی تو قاسمِ نُور و ضیاء ہیں

یہیں جھکتے شہنشہ تاجور ہیں

ولی اللہ اِسی در کے گدا ہیں

 

خدایا دردِ دل مجھ کو سوا دے

مجھے بھی اِذنِ نعتِ مصطفیٰؐ دے

گدا میں بھی ترے محبوب کا ہوں

مجھے بھی عشقِ محبوبِ خدا دے

 

خدا کے آخری پیغام بر ہیں

خدا تک رہنما و رہبر ہیں

کوئی انسان پہنچے گا نہ پہنچا

ظفرؔ سرکارؐ ایسی اوج پر ہیں

 

 

فضا میں تیرتا تختِ نبیؐ، گھر پر مرے چمکا، رُکا یکدم

میں محوِ خواب تھا جاگا اچانک اور جھُکا یکدم

فضائیں نُور سے معمُور تھیں، خوشبوئیں بکھری تھیں

رواں تختِ شہی تھا، اور آگے جا چکا یکدم

 

لے کے اللہ کا نام حاضر ہیں

در پہ خیر الانامؐ حاضر ہیں

تشنہ لب، تشنہ کام حاضر ہیں

سب فقیر و غلام حاضر ہیں

 

وہ محبوبِ خلائق بھی، وہ محبوبِؐ خدا بھی ہیں

سراپا حِلم بھی اور پیکرِ جُود و سخا بھی ہیں

اُسی در سے خدا کی نعمتیں تقسیم ہوتی ہیں

ظفرؔ اُس در کے منگتے شاہ بھی ہیں اور گدا بھی ہیں

 

 

مدینہ کی گلی میں تھا قیام اپنا، مقام اپنا

درُودوں کا سلاموں کا وظیفہ صبح و شام اپنا

کرم فرمایا آقاؐ نے جو اِک شب خواب میں آ کر

سُنانے کی اجازت دی، سُنا مجھ سے کلام اپنا

 

خدا کا آخری پیغام بر خیر الانامؐ آیا

خدا سے ہم نشین و ہم نوا و ہم کلام آیا

زمانے جگمگا اُٹھے وہ جب ماہِ تمام آیا

خدائے پاک نے بھیجا درُود اُن پر سلام آیا

 

وہی محبوبِ دوراں ہیں، وہی محبوبِ یزداں بھی

وہی شمعِ رسالت ضو فشاں، تاباں، درخشاں بھی

نگہِ لطف و کرم آقاؐ، نگاہِ ملتفت آقاؐ

ظفرؔ مجبور ہے، رنجُور ہے، گریاں و نالاں بھی

 

 

مرے وِرد و وظائف ہر گھڑی حمد و ثناء کے ہیں

قصیدے حمدِ ربی اور نعتِ مصطفیٰؐ کے ہیں

خدا کی حمد کے اشعار محبوبِ خدا کے ہیں

خدا کے ذکر کے چرچے، حبیبِ کبریا کے ہیں

 

خدا نے مجھ کو یہ اعزاز بخشا

مجھے آقاؐ کے قدموں میں بٹھایا

غلامی کی سند مجھ کو عطا کی

درِ محبوبؐ کا درباں بنایا

 

مرے گھر میں اُجالا، روشنی ہے

مرے آنگن میں پھیلی چاندنی ہے

ہیں طائر خوش نوا، مسرُرور و بے خود

ظفرؔ نعتِ نبیؐ کی چاشنی ہے

 

 

نہیں رودادِ رنج و غم، مرے لب پر مرے دل میں

نہیں تشویش بیش و کم، مرے لب پر، مرے دل میں

حبیبِ کبریاؐ کی یاد میں مسرُور ہوں ہر دم

درُود و نعت ہے ہر دم، مرے لب پر، مرے دل میں

 

میں جاؤں سربسر در پر، اگر سرکارؐ بُلوائیں

رہوں اِک پل نہ میں گھر پر، اگر سرکارؐ بُلوائیں

مری قسمت سنور جائے، مُقدر بھی بدل جائے

رہوں اُنؐ کا گدا بن کر، اگر سرکارؐ بُلوائیں

 

مرے آقاؐ مجھے بھی بال و پر دے

مدینہ کی طرف اذنِ سفر دے

ظفرؔ واں سر کے بل چلتا رہے گا

مدینہ کی گلی میں اُس کو گھر دے

 

 

یقیناً عاشقوں کو خواب میں سرکارؐ مِلتے ہیں

رفو ہوتے گریباں چاک، دل کے زخم سِلتے ہیں

طلوع ہوتی سحر، اُمید کا سُورج اُبھرتا ہے

بہاریں لوٹ آتی ہیں، چمن میں پھُول کھِلتے ہیں

 

وہی انسانیت کے راہبر ہیں

وہی بے چارگاں کے چارہ گر ہیں

وہی کم تر کو دیتے بیش تر ہیں

وہی رحمت کا عالم سربسر ہیں

 

کرم کی اِک نظر لِلّٰلہ، خدارا

نہیں ہے آپؐ بن کوئی سہارا

محبت آپؐ سے مانگی ظفرؔ نے

تصور آپؐ کا دل میں اُتارا

 

 

مصیبت میں ہمیں یوں چھوڑ دیں سرکارؐ ناممکن

کریں آساں نہ اُمت پر رہِ دشوار ناممکن

قدم رکھیں جہاں اِک بار وہ محبوبؐ اُمت کے

نہ کھِل اُٹھیں وہاں غنچہ و گل صد بار ناممکن

 

ہر گھڑی طائرانِ خوش الحان

میرے کانوں میں کہہ رہے ہیں اذان

حمد اور نعت کر رہے ہیں بیاں

مرے مولا ہے تیری اونچی شان

 

مرے اذکار میں بھی روشنی ہے

مرے افکار میں بھی روشنی ہے

ظفرؔ اسمِ محمدؐ کے تصدق

مرے گھربار میں بھی روشنی ہے

 

 

سدا پھولے پھلے یارب مرے سرکارؐ کا گلشن

جمال و رنگ و نور و خوشبو و مہکار کا گلشن

خدا کی حمد کرتی دل نشیں چہکار کا گلشن

حبیب کِبریا کا، احمدِؐ مختار کا گلشن

 

خداوندا ترے محبوبؐ کا میں بھی گدا ہوں

درُود اُنؐ پر سلام اُنؐ پر ہمیشہ بھیجتا ہوں

اُنہیں چشمِ تصور سے میں ہر سُو دیکھتا ہوں

وفورِ شوق سے گاہ اپنے دل میں جھانکتا ہوں

 

ثنائے کبریا کا بول بالا ہے مرے دل میں

دُرود و نعت کا ہر دم اُجالا ہے مرے دل میں

میں ہر دم سرخمیدہ ہوں، میں ہر دم آب دیدہ ہوں

ظفرؔ ارماں زیارت کا، نرالا ہے مرے دل میں

 

 

اُنہیں شمس الضحیٰؐ لکھنا، اُنہیں بدرالدجیٰؐ لکھنا

اُنہیں خیر الوریٰؐ لکھنا، اُنہیں نُورالہدیٰؐ لکھنا

اُنہیں خیر البشرؐ، اُن کو حبیب کِبریا لکھنا

اُنہیں محبوبِ اُمت، اُن کو محبوبِ خدا لکھنا

 

عطا کرتے ہیں لب پر ہر سوال آنے سے بھی پہلے

عزائم جان لیتے ہیں، خیال آنے سے بھی پہلے

حبیبِ کبریاؐ ہیں آپ اُمت کے محافظ ہیں

حوادث ٹال دیتے ہیں، زوال آنے سے بھی پہلے

 

محبت آپؐ کی میں نے دل و جاں میں بسا لی ہے

دلِ ویراں کے اندر اک نئی دُنیا بنا لی ہے

سرُور و کیف و مستی کی نئی اِک راہ نکالی ہے

ظفرؔ عشق و محبت کی نئی اک طرح ڈالی ہے

 

 

مریضوں میں شفائیں بانٹنے والے مرے آقاؐ

فقیروں میں سخائیں بانٹنے والے مرے آقاؐ

نحیفوں میں رِدائیں بانٹنے والے مرے آقاؐ

زمانوں میں ضیائیں بانٹنے والے مرے آقاؐ

 

مرے احوال پر نظرِ کرم ہو

پریشاں حال پر نظرِ کرم ہو

مرا مال و منال عشقِ نبیؐ ہے

مرے اموال پر نظرِ کرم ہو

 

اللہ کا گھر سجدہ گہہِ خلقِ خدا ہے

سرکارؐ کا گھر دار شفا دارِ سخا ہے

اللہ کا گھر ساری خدائی کا ہے محور

سرکارؐ کی چوکھٹ بھی ظفرؔ قبلہ نما ہے

 

 

محبت دہر میں خیر البشرؐ کی عام کر دے

عطا عشقِ نبیؐ کا سرمدی انعام کر دے

خدایا کر عطا عشاق کو اُلفت نبیؐ کی

سگِ در کا تقرر مولا میرے نام کر دے

 

مرے افکار میں ہیں اُنؐ کے جلوے

مرے اذکار میں ہیں اُنؐ کے جلوے

ضیائیں ضو فشاں نعتِ نبیؐ میں

مرے اشعار میں ہیں اُنؐ کے جلوے

 

سرکارؐ کی چوکھٹ پہ نگوں سر ہے، جھُکا ہے

یہ منزلِ اربابِ وفا، صِدق و صفا ہے

بُجھتی ہے ظفرؔ پیاس یہاں تشنہ لبوں کی

بھرپور یہاں دستِ طلب، دستِ دُعا ہے

 

 

میں اُنؐ کی نعت کہتا ہوں، میں اُنؐ کی نعت سُنتا ہوں

میں اُنؐ کی بات کہتا ہوں، میں اُنؐ کی بات سُنتا ہوں

میں اُنؐ کے زندہ و تابندہ ارشادات سُنتا ہوں

فضا میں آج بھی موجود، فرمودات سُنتا ہوں

 

عطا کرتے فزوں تر، بیشتر ہیں

وہ دیتے مانگنے سے پیشتر ہیں

اُسی در کے گدا، داتا بنے ہیں

اُسی در کے گدا، گنجِ شکر ہیں

 

خُدائی کے بھی، محبوبِ خُداؐ بھی

وہ ہیں خیر الوریٰ، نُورُالہدیٰؐ بھی

وہ ہیں شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ بھی

ظفرؔ بے آسروں کا آسرا بھی

 

 

کبھی نزدیک اُنؐ کے میں، کبھی کچھ دُور ہوتا ہوں

کبھی مسرور و شاداں اور کبھی رنجور ہوتا ہوں

بچا لیتے ہیں مجھ کو ہر بلا، ہر آزمائش سے

میں اُنؐ کے دامنِ الطاف میں مستور ہوتا ہوں

 

اُنہیں کا ہوں صمیم قلب و جاں سے

لپٹتا ہوں میں اُنؐ کے آستاں سے

کرم اُنؐ کا فزوں ہوتا ہے جب بھی

دُعا ملتی ہے مجھ کو میری ماں سے

 

وہی آفاق کے مسند نشیں ہیں

وہی محبوبِ رب العالمیں ہیں

وہی تو رحمۃ اللعالمیں ہیں

ظفرؔ وہ ہی شفیع المذنبیں ہیں

 

 

میں اُنؐ کی بات کہتا ہوں، میں اُنؐ کی بات لکھتا ہوں

میں اُنؐ کی نعت کے وجد آفریں کلمات لکھتا ہوں

شبِ معراج رب سے قرب کے لمحات لکھتا ہوں

عطا ہوتے مجھے دن رات ہیں صدقات لکھتا ہو

 

حبیبِ کبریا ہیں وہؐ، خدا کے ترجماں ہیں وہؐ

وہیؐ ختم الرُسل ہیں اور نبیؐ آخر زماں ہیں وہؐ

وہ محبوبِ خلائق، قبلہ گاہِ عاشقاں ہیں وہ

وہ دلدارِ غریباں، دلکشائے عارفاں ہیں وہ

 

محبت اُنؐ کے دم سے ہے، لطافت اُنؐ کے دم سے ہے

مروّت اُنؐ کے دم سے ہے، شرافت اُنؐ کے دم سے ہے

مؤدت اُنؐ کے دم سے ہے، متانت اُنؐ کے دم سے ہے

ظفرؔ بٹتی زمانوں میں سخاوت اُنؐ کے دم سے ہے

 

 

خدا نے خود اُتارا اپنا تابندہ کلام اُنؐ پر

خدائے پاک خود بھیجے درُود اُنؐ پر سلام اُنؐ پر

دُرودِ پاک جاری ہر زماں، کون و مکاں میں ہے

ملائک اِنس و جاں بھی بھیجتے ہیں صبح و شام اُنؐ پر

 

مری پرواز کب کہتا ہوں میں ہفت آسماں تک ہے

خدا کا شکر، محبوبِ خدا کے آستاں تک ہے

مدینہ کی گلی تک، اُنؐ کے قدموں کے نشاں تک ہے

نبیؐ کے فیض کا صدقہ، مکاں سے لامکاں تک ہے

 

خدا کو دیکھنا چا ہو، مری سرکارؐ کو دیکھو

محبت امنِ عالم کے حسیں شہکار کو دیکھو

ظفر یہ چار اُمت کے درخشندہ ستارے ہیں

عمرؓ، عثمانؓ و حیدرؓ اور یارِ غارؓ کو دیکھو

 

 

جہاں میں ظلمتیں ہر سُو اندھیرا ہی اندھیرا تھا

تھے ہر سُو بت کدے، ہر گھر شیاطین کا بسیرا تھا

ہوئے روشن زمانے، آمدِ مہرِ نبوت سے

منور کر رہا سارے جہاں کو چاند چہرہ تھا

 

میں ادنیٰ آپؐ کا چاکر، سگِ در آپؐ کا ہوں میں

کھڑا ہوں آپؐ کے در پر، سگِ در آپؐ کا ہوں میں

تھیں میرے راستے میں دُوریاں، مجبوریاں حائل

میں پہنچا ہوں یہاں مر کر، سگِ در آپؐ کا ہوں میں

 

مری سرکارؐ آئے ہیں خدا کے ترجماں بن کر

حبیبِ کبریا و رہنمائے اِنس و جاں بن کر

امامِ مُرسلاں بن کر شفیعِ عاصیاں بن کر

ظفرؔ! سالارِ اُمت اور امیرِ کارواں بن کر

 

 

نبیؐ کے آستاں سے دُور تھا میں

بہت بے چین تھا، رنجُور تھا میں

نگاہِ لُطف کا اعجاز دیکھو

جو دیکھا آپؐ نے مسرُور تھا میں

 

خُدا نے مجھ کو یہ اعزاز بخشا

مجھے آقاؐ کے قدموں میں بٹھایا

غلامی کی سند مجھ کو عطا کی

درِ محبوبؐ کا درباں بنایا

 

وہ جس کو خواب میں سرکارؐ کا دیدار ہو جائے

شفا سے بہرہ ور وہ لادوا بیمار ہو جائے

غلامِ کم تریں پر جب کرم سرکارؐ فرمائیں

ظفرؔ سا بے بصیرت، صاحبِ اسرار ہو جائے

 

 

مرے محبوب، محبوبِ خداؐ ہیں

وہی خیر البشر، خیر الوریٰ ہیں

امامِ مُرسلاں و انبیاء ہیں

شفیع المذنبیں روزِ جزا ہیں

 

خدا نے آپؐ کو عرشِ بریں پر آپ بُلوایا

رُخِ محبوبؐ دیکھا، اُنؐ کو اپنا نور دکھلایا

محبت دائمی کیا اور عشقِ جاوداں کیا ہے

حقیقت وصل کی کیا ہے، یہ اِنس و جاں کو سمجھایا

 

 

میں حمد و نعت کا خوگر ہوں، شاعر آپؐ کا ہوں میں

ثناء خوانِ پیمبر ہوں میں، شاعر آپؐ کا ہوں میں

اُنہیں کی بات کہتا ہوں، اُنہیں کی نعت کہتا ہوں

ظفرؔ اُنؐ کا مقرر ہوں میں، شاعر آپؐ کا ہوں میں

 

 

کہاں اُنؐ سا کوئی سارے جہاں میں

کہاں اُنؐ سا زمین و آسماں میں

نہ پاؤ گے مکان و لامکاں میں

نہ آئے گا کسی دورِ زماں میں

 

مرا ایقان مستحکم، مرا ایمان کامل ہے

نگہباں آپؐ ہیں ہر دم، مرا ایمان کامل ہے

بہاریں عالمِ اسلام کی پھر لوٹ آئیں گی

محبت، پیار کا موسم، مرا ایمان کامل ہے

 

لپٹتا ہوں میں اُنؐ کے نقشِ پا سے

مؤدت اُنؐ کی مانگوں میں خدا سے

ظفرؔ چل سر کے بل اُنؐ کی گلی میں

تو نسبت مانگ لے اُنؐ کی خدا سے

 

 

برستے اشک جائیں تھم جو بھیجیں ہم، درُود اُنؐ پر سلام اُنؐ پر

بدل جائیں خوشی میں غم، جو بھیجیں ہم، درُود اُنؐ پر سلام اُنؐ پر

فروزاں تر ہو لو مدھم، جو بھیجیں ہم، درُود اُنؐ پر سلام اُنؐ پر

خدا کا لُطف ہو پیہم، جو بھیجیں ہم، درُود اُنؐ پر سلام اُن پر

 

عطا کر یا الٰہی نعتیہ کلمات اب مجھ کو

پسند آئے جو آقاؐ کو سُجھا وہ بات اب مجھ کو

خدا کی حمد لکھوں، نعتِ محبوبِ خدا لکھوں

سعادت یہ عطا کر دے، خدا کی ذات اب مجھ کو

 

سکوں پائے گی چشمِ نم، مرا وجدان کہتا ہے

سمٹ جائیں گے میرے غم، مرا وجدان کہتا ہے

علم سرکارؐ کی اُمت کا پھر سے اوج پر ہو گا

ظفرؔ اسلام کا پرچم، مرا وجدان کہتا ہے

 

 

خدایا کر عطا عشقِ نبیؐ کی بے بہا دولت

دلآراء، دل نواز و دل رُبا و دل کشا دولت

خزینہ ہے یہی انمول ہے، گنجِ گراں مایہ

نبیؐ کے پیار کی دولت، سراسر دیرپا دولت

 

سدا پائندہ تابندہ درخشاں گنبدِ خضریٰ

جہاں کی ظلمتوں میں ماہِ تاباں گنبدِ خضریٰ

ہے منبع نور کا، شمعِ فروزاں گنبدِ خضریٰ

بہرسُو ضو فشاں و نُور افشاں گنبدِ خضریٰ

 

جمال و نُور ہے تنویر ہے، دل میں مری جاں میں

فروزاں آپؐ کی تصویر ہے، دل میں مری جاں میں

ظفرؔ دیکھا تھا میں نے خواب میں نور  الہدیٰ چہرہ

مقدس خواب کی تعبیر ہے، دل میں مری جاں میں

 

خداوندا مجھے بھی خُو گرِ حمد و ثنا کر دے

مجھے بھی خواستگارِ حُبِ محبوبِ خدا کر دے

ترے محبوبؐ کی خاکِ کفِ پا میں سما جاؤں

مجھے جذبِ درُوں دے دے، مجھے درد آشنا کر دے

 

خدا توفیق دے مجھ کو میں نعتِ مصطفیٰؐ لکھوں

سب انسانوں سے افضل اُنؐ کا برتر مرتبہ لکھوں

وہی تو اپنی اُمت کا ہیں محکم آسرا لکھوں

حبیبِ کبریا اُنؐ کو میں محبوبِ خدا لکھوں

 

بنایا آپؐ کو اللہ نے اپنے دستِ قدرت سے

نوازا عِلم سے مہر و محبت سے مؤدت سے

عطائے حِلم سے حُسنِ مروت سے شرافت سے

ظفرؔ ذوقِ عبادت سے سخاوت سے شجاعت سے

 

 

غلامی کی سند مجھ کو عطا ہو

عطا مجھ کو محبت کی رِدا ہو

امر ہو جاؤں میں گر سر پہ میرے

مری سرکارؐ کا دستِ سخا ہو

 

خداوندا بنا مجھ کو سگِ در آپؐ کے در کا

سگِ آوارہ ہوں میں گھاٹ کا ہوں نہ کسی گھر کا

اُنہیں کے در سے وابستہ رہوں میں تا دمِ آخر

رہے مجھ کو کوئی لالچ، کوئی ڈر خوف نہ کھٹکا

 

مجھے رب نے سُجھایا، وِرد کرنا کلمہ طیبہ کا

مری سوچوں پہ چھایا، وِرد کرنا کلمہ طیبہ کا

دل و جاں میں سمایا، وِرد کرنا کلمہ طیبہ کا

ظفرؔ یوں رنگ لایا، وِرد کرنا کلمہ طیبہ کا

٭٭٭

تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید