فہرست مضامین
- گفتگو
- قتیل شفائی
- جمع و ترتیب : ماروا ضیاء
- حمد
- تو وہ ہے کہ جس نے مجھے توفیقِ ہنر دی
- نیند کے گہرے سمندر میں جہاں غرقاب تھا
- جب اپنے اعتماد کے محور سے ہٹ گیا
- تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا
- اے دوست! تری آنکھ جو نم ہے تو مجھے کیا
- رنگ جدا،آہنگ جدا،مہکار جدا
- جب سے اسیرِ زُلفِ گرہ گیر ہو گیا
- منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا
- کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا
- دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایا نہ تھا
- کیا جانے کس خمار میں کس جوش میں گرا
- زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
- میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اُٹھائے گا
- سہما سہما سا اک سایا مہکی مہکی سی اک چاپ
- زیست کی گرمیِ بیدار بھی لایا سورج
- روشن مرا ضمیر ہے قندیل کی طرح
- سجا کے اپنی ہی آنکھیں ہزار چہروں پر
- تتلیوں کا رنگ ہو یا جھومتے بادل کا رنگ
- چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
- مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم
- یوں آ رہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام
- کھلا ہے جھوٹ کا بازار ، آؤ سچ بولیں
- ایک ہی رنگ رچاؤں سب انسانوں میں
- حجلہ ذات سے تنہا نکلا
- مرحلہ رات کا جب آئے گا
- حسن تھا جو ترے بام و در کا
- سسکیاں لیتی ہوئی غمگین ہواؤ، چُپ رہو
- پھولوں کی اُداسی کو چھپا جاتی ہے خوشبو
- ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
- لہو میں ڈوبا ہوا ملا ہے وفا کا ہر اک اصول تجھ کو
- مجھ میں کم ظرفیِ احساس نہیں ہے یارو
- ٭٭٭
- جانچ پرکھ کر دیکھ چکی تو ہر منہ بولے بھائی کو
- ٭٭٭
- اس دور میں توفیق انا دی گئی مجھ کو
- ٭٭٭
- کیا کچھ ہونے والا ہے ، یہ تم کو نہیں اندازہ
- رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
- غم لگے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
- دشمنی دھوپ کی ہے سایہ دیوار کے ساتھ
- ٭٭٭
- ہر طرف سطوتِ ارژنگ دکھائی دے گی
- ٭٭٭
- ہوئی نہ راہ میں حائل شکستہ پائی مری!
- جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پر کھِلا کرتا ہے
- دنیا کو یہ کمال بھی کر کے دکھائیے
- تو ہمیں جب کبھی یاد آئے
- ٭٭٭
- اتنا سا گلہ ہے مجھے اربابِ حرم سے
- ٭٭٭
- یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
- ٭٭٭
- ان جھیل سی نیلی آنکھوں میں، لہرائے کنول کنول یادوں کے
- ٭٭٭
- ابابیلوں کی یہ پرواز کیا ہے
- ٭٭٭
- منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاوں کے
- ٭٭٭
- ذکرِ حبیب ہے کہیں فکرِ معاش ہے
- ٭٭٭
- کیسے کیسے بھید چھپے ہیں پیار بھرے اقرار کے پیچھے
- تہہ میں جو رہ گئے ، وہ صدف بھی نکالئے
- کچھ روز سے گھِرا ہوا جھوٹے نگوں میں ہے
- ٭٭٭
- تری آنکھوں میں جب کھلتے ہوئے دیکھے کنول میں نے
- ٭٭٭
- مل جل کے برہنہ جسے دنیا نے کیا ہے
- جو بیت گئی اس کی خبر ہے کہ نہیں ہے
- ٭٭٭
- تم مرے پیار کے آخری موڑ پر،ناگہاں کیوں شریکِ سفر ہو گئے
- یہ بات پھر مجھے سُورج بتانے آیا ہے
- ٭٭٭
- شائد مرے بدن کی رُسوائی چاہتا ہے
- ٭٭٭
- مری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لیے
- ترا چہرہ تجھی سے کیوں نہاں ہے
- گاتے ہوئے پیڑوں کی خنک چھاؤں سے آگے نکل آئے
- ٭٭٭
- نہ تولے کبھی مطرب و مے سے دوست
- نئے موسم بڑے بیدرد نکلے
- کیا لیجئے کام چشمِ تر سے
- نہیں دھڑکا مجھے رسوائیوں کا
- ے، یہ سنگدل زمانہ، دیوار چن رہا تھا
- حالات سے خوف کھا رہا ہوں
- Related
- قتیل شفائی
گفتگو
قتیل شفائی
جمع و ترتیب : ماروا ضیاء
حمد
سب حمد و ثنا تیرے لیے ہے مرے مولا
تو وہ ہے کہ جس نے مجھے توفیقِ ہنر دی
قرطاس پہ لفظوں کے دئے تو نے جلائے
پھر تو نے مجھے روشنیِ فکر و نظر دی
میں ذرہ کمتر تھا مگر تیرے کرم نے
اک وسعتِ صحرا مجھے تا حّدِ نظر دی
تخیل پہ اُتری ترے انوار کی شبنم
میں رات کا راہی تھا مجھے تو نے سحر دی
ممنون مرا دیدہِ بینا ہے کہ تو نے
دُنیا کو دیا حسن تو مجھ کو نظر دی
پُہنچایا مجھے تو نے سمندر کی تہوں میں
قلاش کو تو نے خبرِ لعل و گہر دی
نادیدہ جہانوں کے دکھائے مجھے رستے
پھر میری اُڑانوں کو تمنائے سحر دی
تڑپی جو مِرے کھیت کی جھُلسی ہوئی مٹی
اُس کو ترے بادل نے دُعائے گلِ تر دی
صد شُکر کہ تو نے مجھے فنکار سمجھ کر
کلیوں کے چٹکنے سے مجھے اپنی خبر دی
٭٭٭
نیند کے گہرے سمندر میں جہاں غرقاب تھا
ایک میں ساحل پہ تھا، سو ماہیِ بے آب تھا
کیا بتاؤں دوستو! اُن کے خیال آنے کا حال
جھلملاتی جھیل میں لرزاں کوئی مہتاب تھا
اُس نے جھٹکا اپنی بھیگی زلف کو اور اُس کے بعد
دور تک پھیلا ہوا سایوں کا اِک سیلاب تھا
سوچتا رہتا ہوں آنکھیں بند کر کے رات دن
میں نے دیکھا جو کھلی آنکھوں وہ کیسا خواب تھا
عمر گزری ساحلوں پر سیپیاں چنتے ہوئے
جس میں گوہر بھی ہو کوئی، وہ صدف نایاب تھا
دور سے ہوتا رہا جس پر ستارے کا گماں
جب قریب آیا تو وہ بھی کرمکِ شبِ تاب تھا
برسرِ محفل سبھی نے پا لیا اعزازِ جام
ایک دیوانہ ترا نا واقفِ آداب تھا
میری کشتی کے لئے آغوش پھیلائے ہوئے
یا خدا کی ذات تھی یا حلقہ گرداب تھا
خواب کی مانند مجھ کو یاد آتا ہے قتیلؔ
دل کا یہ صحرا کبھی اک قریہ شاداب تھا
٭٭٭
جب اپنے اعتماد کے محور سے ہٹ گیا
میں ریزہ ریزہ ہو کے حریفوں میں بٹ گیا
دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر
میدانِ کارزار کا پانسہ پلٹ دیا
تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی
تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا
درپیش اب نہیں ترا غم کیسے مان لوں
کیسا تھا وہ پہاڑ جو رستے سے ہٹ گیا
اپنے قریب پا کے معطر سی آہٹیں!
میں بارہا سنکتی ہوا سے لپٹ گیا
جو بھی ملا سفر میں کسی پیڑ کے تلے
آسیب بن کے مجھ سے وہ سایا چمٹ گیا
لٹتے ہوئے عوام کے گھر بار دیکھ کر
اے شہریار! تیرا کلیجہ نہ پھٹ گیا
رکھے گا خاک ربط وہ اس کائنات سے
جو ذرّہ اپنی ذات کے اندر سمٹ گیا
چوروں کا احتساب نہ اب تک ہوا قتیلؔ
جو ہاتھ بے قصور تھا وہ ہاتھ کٹ گیا
٭٭٭
تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا
وہ اک ایسا لمس تھا جس میں بدن شامل نہ تھا
ریت کی دلدل ملی مجھ کو سمندر پار بھی
میں وہاں اُترا جہاں ساحل کبھی ساحل نہ تھا
وہ تو اک سازش تھی میرے خون کی میرے خلاف
جس کے سر الزام آیا وہ مرا قاتل نہ تھا
ہم نے کاٹے پیڑ تو سایوں کی یاد آنے لگی
لیکن اب حرفِ ندامت سے بھی کچھ حاصل نہ تھا
سر پہ آ گرتا ہے تکمیل محبت کا پہاڑ
ورنہ اظہار تمنا تو کوئی مشکل نہ تھا
پر لگا کر اُڑ گئے آخر مری نیندوں کے ساتھ
پیار کے وہ خواب جن کا کوئی مستقبل نہ تھا
ان سے مل کر یہ بھی دیکھی شعبدہ بازی قتیلؔ
دھڑکنیں موجود تھیں سینے میں لیکن دل نہ تھا
٭٭٭
اے دوست! تری آنکھ جو نم ہے تو مجھے کیا
میں خوب ہنسوں گا، تجھے غم ہے تو مجھے کیا
کیا میں نے کہا تھا کہ زمانے سے بھلا کر
اب تو بھی سزاوارِ ستم ہے تو مجھے کیا
ہاں لے لے قسم گر مجھےقطرہ بھی ملا ہو
تو شاکی اربابِ کرم ہے تو مجھے کیا
جس در سے ندامت کے سوا کچھ نہیں ملتا
اُس در پہ ترا سر بھی جو خم ہے تو مجھے کیا
میں نے تو پکارا ہے محبت کے اُفق سے
رستے میں ترے سنگِ حرم ہے تو مجھے کیا
بھولا تو نہ ہوگا تجھے سقراط کا انجام
ہاتھوں میں ترے ساغرِ سم ہے تو مجھے کیا
پتھر نہ پڑیں گر سرِبازار تو کہنا
تو معترف حسنِ صنم ہے تو مجھے کیا
میں سرمد و منصور بنا ہوں تری خاطر
یہ بھی تری اُمید سے کم ہے تو مجھے کیا
٭٭٭
رنگ جدا،آہنگ جدا،مہکار جدا
پہلے سے اب لگتا ہے گلزار جدا
نغموں کی تخلیق کا موسم بیت گیا
ٹوٹا ساز تو ہو گیا تار سے تار جدا
بیزاری سے اپنا اپنا جام لیے
بیٹھا ہے محفل میں ہر میخوار جُدا
ملا تھا پہلے دروازے سے دروازہ
لیکن اب دیوار سے ہے دیوار جدا
سوچتا ہے اک شاعر بھی اک تاجر بھی
لیکن سب کی سوچ کا ہے معیار جدا
یارو میں تو نکلا ہوں جاں بیچنے کو
تم کوئی اب سوچو کاروبار جدا
کیا لینا اس گرگٹ جیسی دُنیا سے
آئے رنگ نظر جس کا ہر بار جدا
اپنا تو ہے ظاہر و باطن ایک مگر
یاروں کی گفتار جدا، کردار جدا
مل جاتا ہے موقع خونی لہروں کو
ہاتھوں سے جب ہوتے ہیں پتوار جدا
کس نے دیا ہے سدا کسی کا ساتھ قتیلؔ
ہو جانا ہے سب کو آخر کار جدا
٭٭٭
وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا
ہنستا ہے مجھے دیکھ کے نفرت نہیں کرتا
پکڑا ہی گیا ہوں تو مجھے دار پہ کھینچو!
سچا ہوں مگر اپنی وکالت نہیں کرتا
کیوں بخش دیا مجھ سے گنہ گار کو مولا
منصف تو کسی سے بھی رعایت نہیں کرتا
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا
کس قوم کے دل میں نہیں جذباتِ ابراہیم
کس ملک پر نمرود حکومت نہیں کرتا
دیتے ہیں اجالے مرے سجدوں کی گواہی
میں چھپ کے اندھیرے میں عبادت نہیں کرتا
بھولا نہیں میں آج بھی آدابِ جوانی
میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا
انسان یہ سمجھیں کہ یہاں دفن خُدا ہے
میں ایسے مزاروں کی زیارت نہیں کرتا
دنیا میں قتیل اس سے منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
٭٭٭
جب سے اسیرِ زُلفِ گرہ گیر ہو گیا
میں بے نیازِ حلقۂ زنجیر ہو گیا
اب واعظانِ شہر کے چہرے بھی زرد ہیں
اب دردِ عشق کتنا ہمہ گیر ہو گیا
نورِ جہاں کوئی نہ کوئی یوں تو سب کی تھی
دولت سے ایک شخص جہانگیر ہو گیا
جاتا کہاں بھلا تری محفل کو چھوڑ کر
میں آپ اپنے پاؤں کی زنجیر ہو گیا
مجھ میں رچی ہوئی تری خوشبو تھی اس لیے
بڑھ کر عدو بھی مجھ سے بغلگیر ہو گیا
پھر باندھ لی کسی سے اُمیدِ وفا قتیلؔ
پھر اک محل ہواؤں میں تعمیر ہو گیا
٭٭٭
منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا
وہ اِس لیے کہ راہ کا پتھر بھی میں ہی تھا
شک ہو چلا تھا مجھ کو خود اپنی ہی ذات پر
جھانکا تو اپنے خول کے اندر بھی میں ہی تھا
ہوں گے مرے وجود کے سائے الگ الگ
ورنہ برونِ در بھی، پسِ در بھی میں ہی تھا
آخر مجھے پناہ ملی اپنے آپ میں
رقصاں ہو جس میں روح، وہ پیکر بھی میں ہی تھا
پوچھ ان سے جو روانہ ہوئے کاٹ کر مجھے
راہِ وفا میں شاخِ صنوبر بھی میں ہی تھا
آسودہ کس قدر وہ ہوا مجھ کو اوڑھ کر
کل رات اس کے جسم کی چادر بھی میں ہی تھا
مجھ کو ڈرا رہی تھی زمانے کی ہمسری
دیکھا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا
آئینہ دیکھنے پہ جو نادم ہوا قتیلؔ
ملکِ ضمیر کا وہ سکندر بھی میں ہی تھا
٭٭٭
کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا
یارو تمام شہر تماشائی بن گیا
بن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا
دیکھا جو اس کا دستِ حنائی قریب سے
احساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا
برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہِ شناسائی بن گیا
پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے گوشہ تنہائی بن گیا
تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو پیکرِ دانائی بن گیا
کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماں
وہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
٭٭٭
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایا نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سرخ آہن پر ٹپکتی بُوند ہے اب ہر خوشی
زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا
کیا ملا آخر تجھے، سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دلِ ناداں، تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا
اف یہ سناٹا کہ آہٹ تک نہ ہو جو جس میں مخل
زندگی میں اس قدر ہم نے سکوں پایا نہ تھا
خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم
حال دل کہنے کے قابل کوئی ہمسایا نہ تھا
ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے، اور تو کوئی بھی سرمایا نہ تھا
اب کھلا جھونکوں کے پیچھے چل رہی تھیں آندھیاں
اب جو منظر ہے وہ پہلے تو نظر آیا نہ تھا
وہ پیمبر ہو کہ عاشق، قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا
صرف خوشبو کی کمی تھی موسمِ گل میں قتیلؔ
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
٭٭٭
کیا جانے کس خمار میں کس جوش میں گرا
وہ پھل شجر سے جو مری آغوش میں گِرا
کچھ دائرے سے بن گئے سطحِ خیال پر
جب کوئی پھُول ساغرِ مے نوش میں گرا
باقی رہی نہ پھر وہ سنہری لکیر بھی
تارا جو ٹوٹ کر شبِ خاموش میں گِرا
اُڑتا رہا تو چاند سے یارا نہ تھا مرا
گھائل ہوا تو وادیِ گل پوش میں گِرا
بے آبرو نہ تھی کوئی لغزش مری قتیلؔ
میں جب گرا جہاں بھی گرا ہوش میں گرا
٭٭٭
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہیں ہم تنہا
مل سکا نہ کوئی بھی ہمسفر زمانے میں
کاٹتے رہے برسوں جادۂ الم تنہا
کھیل تو نہیں یارو راستے کی تنہائی
کوئی ہم کو دکھلائے چل کے دو قدم تنہا
دل کو چھیڑتی ہوگی یادِ رفتگاں اکثر
لاکھ جی کو بہلائیں شیخِ محترم تنہا
مسجدیں ترستی ہیں اُس طرف اذانوں کو
اِس طرف شوالوں میں رہ گئے صنم تنہا
اِس بھری خدائی میں وہ بھی آج اکیلے ہیں
خلوتوں میں رہ کر بھی جو رہے تھے کم تنہا
تھی قتیلؔ چاہت میں اُن کی بھی رضا شامل
پھر بھی ہم ہی ٹھہرے ہیں موردِ ستم تنہا
٭٭٭
میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اُٹھائے گا
دنیا بولی سب سے پہلے جو تجھ سے شرمائے گا
پوچھ سکے تو پوچھے کوئی روٹھ کے جانے والوں سے
روشنیوں کو میرے گھر کا رستہ کون بتائے گا
ڈالی ہے اِس خوش فہمی نے عادت مجھ کو سونے کی
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا
لوگو میرے ساتھ چلو تم جو کچھ ہے وہ آگے ہے
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جائے گا
دنیا میں ہنس کر ملنے والے چہرے صاف بتاتے ہیں
ایک بھیانک سپنا مجھ کو ساری رات ڈرائے گا
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو، سر میرا جھک جائے گا
سوکھ گئی جب اُنکی آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیل
تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا
٭٭٭
سہما سہما سا اک سایا مہکی مہکی سی اک چاپ
پچھلی رات مرے آنگن میں آ پہنچے وہ اپنے آپ
ذکر کریں وہ اور کسی کا بیچ میں آئے میرا نام
اِن کے ہونٹوں پر ہے اب تک میرے پیار کی گہری چھاپ
اندھیاروں کی دیواروں کو پھاند کے چاند کہاں پہنچا
جہاں پیا کا آنا مشکل، اور پلک جھپکانا پاپ
بات کریں تو رکھ دیتے ہیں لوگ زباں پر انگارے
جھوٹ ہے میرا کہنا تو پھر سچ خود بول کے دیکھ لیں آپ
اونگھنے والوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر نیند چبھے
پیارے ساتھی اس محفل میں کوئی راگ الاپ
جو بھی دیکھے نفرت سے منہ پھیر کے آگے بڑھ جائے
یہ جیون ہے یا رستے میں پڑا ہوا بالک بِن باپ
گلی گلی آوارہ اب تو مارا مارا پھرے قتیل!
کہتے ہیں اک دیوی کی آنکھوں نے اس کو دیا سراپ
٭٭٭
زیست کی گرمیِ بیدار بھی لایا سورج
کھل گئی آنکھ میری سر پہ جو آیا سورج
پھر شعاعوں نے مرے جسم پہ دستک دی ہے
پھر جگانے مرے احساس کو آیا سورج
کسی دلہن کے جھمکتے ہوئے جھومر کی طرح
رات نے صبح کے ماتھے پہ سجایا سورج
شام کو روٹھ گیا تھا مجھے تڑپانے کو
صبح دم آپ مجھے ڈھونڈنے آیا سورج
کم نہ تھا اس کا یہ احسان کہ جاتے جاتے
کر گیا اور بھی لمبا مرا سایہ سورج
ڈالتے اس پہ کمندیں، وہ کوئی چاند نہ تھا
سو جتن سب نے کئے ہاتھ نہ آیا سورج
خوب واقف تھا وہ انسان کے اندھے پن سے
جس نے بھی دن کے اجالا میں جلایا سورج
لوگ کہتے رہے سورج کو دکھائیں گے چراغ
اور ہی رنگ تھا جب سامنے آیا سورج
شب کو بھی روح کے آنگن میں رہی دھوپ قتیلؔ
چاند تاروں نے بھی آ کر نہ بجھایاسورج
٭٭٭
روشن مرا ضمیر ہے قندیل کی طرح
اُترا ہے کوئی روح میں جبریل کی طرح
کرتا ہوں پیار اپنے خدا سے میں اس لیے
وہ بھی حسین ہے مری تخیل کی طرح
چھٹکی ہوئی ہے شام سے یادوں کی چاندنی
غم جھلملا رہا ہے کسی جھیل کی طرح
شاید مرا مسیحا بھی آواز دے مجھے
پڑھتا ہوں ہر کتاب کو انجیل کی طرح
جب سے ملیں قتیلؔ فضاؤں کی وسعتیں
بے چین اُڑ رہا ہوں ابابیل کی طرح
٭٭٭
سجا کے اپنی ہی آنکھیں ہزار چہروں پر
کیا ہے میں نے سدااعتبار چہروں پر
سحر ہوئی تو مسیں بھیگتی نظر آئیں
پڑی تھی رات کو غم کی پھوار چہروں پر
تجھے بھی ڈر ہے کسی کا تو دُور سےپڑھ لے
لکھی ہوئی ہے دلوں کی پکار چہروں پر
لگی ہے آگ یہ کیسی وفا کے جنگل میں
جلا کے رکھ دئیے کس نے چنار چہروں پر
وفا کی کھوج میں نکلوں تو پاؤں جلتے ہیں
ابھی تو صرف جما ہے غبار چہروں پر
میں تیری بزم میں کس کسکی دشمنی لیتا
لکھا تھا نام ترا بے شمار چہروں پر
مری نظر تو ہے پھر بھی مری نظر یارو
اب آئینوں کو نہیں اعتبار چہروں پر
٭٭٭
تتلیوں کا رنگ ہو یا جھومتے بادل کا رنگ
ہم نے ہر اک رنگ کو جانا ترے آنچل کا رنگ
تیری آنکھوں کی چمک ہے ستاروں کی ضیاء
رات کا ہے گھُپ اندھیرا یا ترے کاجل کا رنگ
دھڑکنوں کے تال پر وہ حال اپنے دل کا ہے
جیسے گوری کے تھرکتے پاؤں میں پائل کا رنگ
پھینکنا تم سوچ کر لفظوں کا یہ کڑوا گلال
پھیل جاتا ہے کبھی صدیوں پہ بھی اک پل کا رنگ
آہ یہ رنگین موسم خون کی برسات کا
چھا رہا ہے عقل پر جذبات کی ہلچل کا رنگ
اب تو شبنم کا ہر اک موتی ہے کنکر کی طرح
ہاں اسی گلشن پہ چھایا تھا کبھی مخمل کا رنگ
پھر رہے ہیں لوگ ہاتھوں میں لیے خنجر کھلے
کوچے کوچے میں اب آتا ہے نظر مقتل کا رنگ
چار جانب جس کی رعنائی کے چرچے ہیں قتیلؔ
جانے کب دیکھیں گے ہم اس آنے والی کل کا رنگ
٭٭٭
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
ایک تو ہی دھنوان ہے گوری ،باقی سب کنگال
ہر آنگن میں سجے نہ تیرے اُجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال
بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ہرنی سی چال
کِتنی سُندر نار ہو کوئی میں آواز نہ دوں
تجھ سا جس کا نام نہیں ہے وہ جی کا جنجال
سامنے تو آئے تو دھڑکیں مل کر لاکھوں دل
اب جانا، دھرتی پر کیسے آتے ہیں بھونچال
بیچ میں رنگ محل ہے تیرا کھائی چاروں اور
ہم سے ملنے کی اب گوری تو ہی راہ نکال!
کر سکتے ہیں چاہ تیری اب سرمد یا منصور
ملے کسی کو دار یہاں اور کھنچے کسی کی کھال
آج کی رات بھی ہے کچھ بھاری لیکن یار قتیل
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جئے ہزاروں سال
٭٭٭
مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم
اک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم
آنسو چھلک چھلک کے ستائیں گے رات بھر
موتی پلک پلک میں پرویا کریں گے ہم
جب دُوریوں کی آگ دلوں کو جلائے گی
جِسموں کو چاندنی میں بھگویا کریں گے ہم
بن کر ہر ایک بزم کا موضوعِ گفتگو
شعروں میں تیرے غم کو سمویا کریں گے ہم
مجبوریوں کے زہر سے کر لیں گے خود کشی
یہ بُزدلی کا جرم بھی گویا کریں گے ہم
دل جل رہا ہے زرد شجر دیکھ دیکھ کر
اب چاہتوں کے بیج نہ بویا کریں گے ہم
گر دے گیا دغا ہمیں طوفان بھی قتیلؔ
ساحل پہ کشتیوں کو ڈبویا کریں گے ہم
٭٭٭
یوں آ رہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام
ہم پڑھ رہے ہوں جیسے چھپا کر کسی کا نام
سنسان یوں تو کب سے ہے کہسارِباز دید
کانوں میں گونجتا ہے برابر کسی کا نام
دی ہم نے اپنی جان تو قاتل بنا کوئی
مشہور اپنے دم سے ہے گھر گھر کسی کا نام
ڈرتے ہیں اِن میں بھی نہ ہو اپنا رقیب کوئی
لیتے ہیں دوستوں سے بھی چھپ کر کسی کا نام
اپنی زبان تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یونہی ستمگر کسی کا نام
ماتم سرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیلؔ
اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام
٭٭٭
کھلا ہے جھوٹ کا بازار ، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار ، آؤ سچ بولیں
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقع اظہار ، آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنامِ عظمتِ کردار ، آؤ سچ بولیں
سنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی مُنصف ہے
پکار کر سرِ بازار، آؤ سچ بولیں
تمام شہر میں کیا ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار ، آؤ سچ بولیں
بجا کہ خوئے وفا ایک بھی حسیں میں نہیں
کہاں کے ہم بھی وفادار، آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار ، آؤ سچ بولیں
چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہرے کے
نظر ہے آئینہ بردار ، آؤ سچ بولیں
قتیل جن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کدھر گئے وہ گنہ گار، آؤ سچ بولیں
٭٭٭
جھمکتے جھومتے موسم کا دھوکا کھا رہا ہوں میں
بہت لہرائے ہیں بادل مگر پیاسا رہا ہوں میں
تنی جب دھوپ کی چادر مرے سر پر تو کیا ہوگا
درختوں کے گھنے سائے میں بھی سنّولا رہا ہوں میں
وہی کچھ کر رہا ہوں جو کیا میرے بزرگوں نے
نئے ذہنوں پہ اپنے تجربے برسا رہا ہوں میں
یہ تہمت خاک تہمت ہے، میرے ہم جرم ہمسایو!
تمہاری عمر میں تم سے کہیں رسوا رہا ہوں میں
خیال آتا ہے بازاروں کی رونق دیکھ کر مجھ کو
بھرے دریا میں تنکا بن کے بہتا جا رہا ہوں میں
ترے آغوش چھُوٹی تو ملی وہ بد دعا مجھ کو
کہ اب اپنی ہی باہوں میں سمٹتا جا رہا ہوں میں
قتیلؔ اب تک ندامت ہے مجھے ترکِ محبت پر
ذراسا جرم کر کے آج بھی پچھتا رہا ہوں میں
٭٭٭
کیا خبر کب نیند آئے دیدہ بے خواب میں
شام سے ہم جل رہے ہیں سایہ مہتاب میں
اب تمہاری یاد سے پڑتے ہیں یوں دل میں بھنور
جیسے کنکر پھینک دے کوئی بھرے تالاب میں
جس گلی میں گھر تمھارا ہے،کرواُس کا خیال
ہم تو ہیں بدنام اپنے حلقۂ احباب میں
اہلِ دل جاتے تھے پہلے صرف مقتل کی طرف
خود کشی بھی اب ہے شامل عشق کے احباب میں
یوں کسی کا پیار آغوشِ ہوس میں جا چھپا
کوئی لاشہ جس طرح لپٹا ہوا کمخواب میں
رحمتِ یزداں سے مانگی ہم نے دو چھینٹوں کی بھیک
وہ ہُوا جل تھل کہ بستی بہہ گئی سیلاب میں
گردشِ دوراں کی زد میں یوں ہے اپنی زندگی
جیسے چکراتی ہو کشتی حلقۂ گرداب میں
وادیِ سربن میں تھیں جو مہربان مجھ پر قتیلؔ
وہ بہاریں ڈھونڈتی ہیں اب مجھے پنجاب میں
٭٭٭
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں
بکھرا پڑا ہے تیرے ہی گھر میں تِرا وجود
بیکار محفلوں میں تجھے ڈھونڈتا ہوں میں
میں خود کشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں
کِس کِس کا نام لاؤں زباں پر کہ تیرے ساتھ
ہر روز ایک شخص نیا دیکھتا ہوں میں
کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سب کچھ ترا ہوں میں
پہنچا جو تیرے در پہ تو محسوس یہ ہوا
لمبی سی ایک قطار میں جیسے کھڑا ہوں میں
لے میرے تجربوں سے سبق، اے مرے رقیب!
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں
جاگا ہوا ضمیر وہ آئینہ ہے قتیل
سونے سے پہلے روز جسے دیکھتا ہوں میں
٭٭٭
فُسردگی کا مداوا کریں تو کیسے کریں
وہ لوگ جو ترے قربِ جمال سے بھی ڈریں
اک ایسی راہ پہ ڈالا ہے تیرے غم نے کہ ہم
کسی بھی شکل کو دیکھیں تو رک کے آہ بھریں
یہ کیا کہ بے سبب آئے قضا جوانی میں
یہ کیوں نہ ہو کہ تمہاری کسی ادا پہ مریں
شبِ الم کے بھی ہوتے ہیں کچھ نہ کچھ آداب
تڑپنے والے سحر تک تو انتظار کریں
ثبوتِ عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں
کچھ ایسے دوست بھی میری نگاہ میں ہیں قتیلؔ
کہ مجھ کو باز رکھیں جس سے، خود اُسی پہ مریں
٭٭٭
یوں تو برکھا نے کئی رنگ بھرے پیڑوں میں
چین ملتا ہے مگر مجھ کو ہرے پیڑوں میں
جگمگاتا نہیں ہونٹوں پہ ترے نام کا چاند
جب تلک شام بسیرا نہ کرے پیڑوں میں
لوگ کہتے ہیں وہاں دفن ہے تہذیب کوئی
وہ جو ٹیلا سا ہے بستی سے پرے پیڑوں میں
ہم وہ قیدی ہیں کہ پالے ہوئے آہو کی طرح
دشت میں پیدا ہوئے اور مرے پیڑوں میں
جھولتی شاخوں پہ دکھلا کے خریدار کو پھل
باغبانوں نے کئے دام کھرے پیڑوں میں
اب تو اُجڑے ہوئے گلشن کا یہ عالم ہے قتیلؔ
اپنی آہٹ سے بھی انسان ڈرے پیڑوں میں
٭٭٭
اگرچہ مجھ کو جُدائی تری گوارا نہیں!
سوائے اس کے مگر اور کوئی چارہ نہیں
خوشی سے کون بھلاتا ہے اپنے پیاروں کو
قصور اس میں زمانے کا ہے تمہارا نہیں
تمہارے ذکر سے یاد آئے کیا گھٹا کے سوا
ہمارے پاس کوئی اور استعارا نہیں
یہ التفات کی بھیک اپنے پاس رہنے دو
ترے فقیر نے دامن کبھی پسارا نہیں
بجا کہ پیار کا حق تجھ کو بھی ہے مجھ کو بھی
کسی کے دل پہ کسی کا مگر اجارا نہیں
مرا تو صرف بھنور تک سفینہ پہنچا ہے
تجھے تو ڈوبنے والوں نے بھی پکارا نہیں
ہر ایک ربط ترے واسطے سے تھا ورنہ
بھرے جہاں میں کوئی آشنا ہمارا نہیں
جو تیری دید نے بخشے وہی ہیں زخم بہت
اب اپنے دل میں کوئی حسرتِ نظارا نہیں
بنا سکوں جسے جھومر تمہارے ماتھے کا
فلک پہ آج بھی ایسا کوئی ستارا نہیں
چلائے جاؤ قتیلؔ اپنا کاروبارِ وفا
جو اس میں جان بھی جائے تو کچھ خسارا نہیں
٭٭٭
تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
کس کو خبر تھی سانولے بادل بن برسے اُڑ جاتے ہیں
ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں
ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رہی ہے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں
غم کے اندھیارے میں تُجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں
تُو پھر تُو ہے، میرا تو سایا بھی میرے ساتھ نہیں
مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ہے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں
ختم ہوا میرا افسانہ ، اب یہ آنسو پونچھ بھی لو
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں
میرے غمگیں ہونے پر احباب ہیں یوں حیران قتیل
جیسے میں پتھر ہوں ، میرے سینے میں جذبات نہیں
٭٭٭
ڈھل گیا چاند، گئی رات، چلو سو جائیں
ہو چکی اُن سے ملاقات،چلو سو جائیں
اب کہاں گونج فضا میں کسی شہنائی کی
لُٹ گئی آس کی بارات،چلو سو جائیں
لوگ اقرار وفا کر کے بھُلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات،چلو سو جائیں
اتنے چھینٹوں سے بھی دھویا نہ گیا داغِ الم
کیا کہے گی ہمیں برسات،چلو سو جائیں
شام ہوتی تو کسی جام سے جی بہلاتے
بند ہے اب تو خرابات،چلو سو جائیں
جو ہے بیدار یہاں اس پہ ہے جینا بھاری
مار ڈالیں گے یہ حالات ،چلو سو جائیں
تم سے کیا کچھ نہ کہا ہم نے سرِشام قتیلؔ
آخرِ شب نہ ملو ہاتھ ،چلو سو جائیں
٭٭٭
کوئی مقامِ سکوں راستے میں آیا نہیں
ہزار پیڑ ہیں لیکن کہیں بھی سایا نہیں
کسے پکارے کوئی آہٹوں کے صحرا میں
یہاں کبھی کوئی چہرہ نظر تو آیا نہیں
بھٹک رہے ہیں ابھی تک مسافرانِ وصال
ترے جمال نے کوئی دیا جلایا نہیں
یہ اور بات، کسی غم کا ہو اثر ورنہ
پئے بغیر کبھی کوئی لڑکھڑایا نہیں
بکھر گیا ہے خلا میں کرن کرن ہو کر
وہ چاند جو کسی پہلو میں جگمگایا نہیں
ترس گئی ہے زمین بادلوں کی صورت کو
کسی ندی نے کوئی گیت گنگنایا نہیں
اُجڑ گیا تھا کِسی زلزلے میں شہر وفا
نہ جانے پھر اسے ہم نے بھی کیوں بسایا نہیں
قتیل کیسے کٹے گی یہ دوپہر غم کی
مرے نصیب میں ان گیسوؤں کا سایا نہیں
٭٭٭
ایک ہی رنگ رچاؤں سب انسانوں میں
دوڑ رہا ہوں دُنیا کی شریانوں میں
نفرت کی تائید نہیں میں کر سکتا
نام مرا بھی لکھ لو نافرمانوں میں
باہر تو ہر سو ہے راج درندوں کا
امن کا ہے ماحول فقط زندانوں میں
پودا پودا پال کے وقت نہ ضائع کر
کاغذ کے کچھ پھول سجا گلدانوں میں
اس بیکار کے جینے سے بیزار ہوں میں
شامل کر لو مجھ کو بھی پروانوں میں
یارو میں تو یوں بھی گالی کھا لوں گا
چھوڑو بھی کیا رکھا ہے یارانوں میں
انسانوں کا خون ہی تم کو پینا ہے
کھوپڑیوں میں پی لو یا پیمانوں میں
رات کی چُپ میں دل کی دھڑکن تیز کرو
کوئی تو آواز پڑے گی کانوں میں
پہلے ہی وہ گورا ہے یہ کالا ہے
اور ہمیں بانٹو گے کتنے خانوں میں
صرف ہوا کی چاپ سنائی دیتی ہے
جذبوں کی یلغار نہیں طوفانوں میں
مجھ کو اپنے دیس کی مٹّی کافی ہے
کیا رکھا ہے نسلوں اور زبانوں میں
آج کے سورج ان کے ذہن پر دستک دے
سوئے ہیں جو ماضی کے افسانوں میں
کب تک دھوکا کھائے اپنی پیاس قتیلؔ
خالی جام کھنکتے ہیں مے خانوں میں
٭٭٭
حجلہ ذات سے تنہا نکلا
میرا غمخوار بھی مجھ سا نکلا
گریہ روکا نہ گیا پلکوں سے
راستہ کاٹ کے دریا نکلا
رات کے بعد سحر بھی آتی
اپنا اِک خواب تو سچّا نکلا
کِتنا ظالم نظر آیا تھا رقیب
وہ بھی مجبورِ تمنا نکلا
نکتہ چیں، یعنی وہی اہلِ نظر
آنکھ رکھتے ہوئے اندھا نکلا
بے زری کھا گئی دل والوں کو
غمِ دل بھی غمِ دُنیا نکلا
دل کی بات اور ہے دیکھا کس نے
جسم کا رنگ تو اُجلا نکلا
در و دیوار تعاقب میں چلے
گھر سے میں جب بھی اکیلا نکلا
روشنی کر گئی مجھ کو تقسیم
جسم سے کب مِرا سایا نکلا
تھا بُہت شہر میں بدنام قتیل
یار، وہ شخص تو اچّھا نکلا
٭٭٭
مرحلہ رات کا جب آئے گا
جسِم سائے کو ترس جائے گا
چل پڑی رسم جو کج فہمی کی
بات پھر کیا کوئی کر پائے گا
سچ سے کترائے اگر لوگ یہاں
لفظ مفہوم سے کترائے گا
اِعتبار اس کا ہمیشہ کرنا
وہ تو جھوٹی بھی قسم کھائے گا
تو نہ ہوگی تو پھر اے شامِ فراق
کون آ کر ہمیں بہلائے گا
ہم اُسے یاد بُہت آئیں گے
جب اُسے بھی کوئی ٹھکرائے گا
دل مرا جیت تو لیجئے پہلے
سر مرا آپ ہی جھُک جائے گا
اب نہ آئے گی نہ جائے گی بہار
پھُول اب کیا کوئی مُرجھائے گا
کائنات اُس کی مری ذات میں ہے
مجھ کو کھو کر وہ کسے پائے گا
نہ رہے جب وہ بھلے دن بھی قتیلؔ
یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
٭٭٭
حسن تھا جو ترے بام و در کا
زرد پتّا ہوں میں اس شجر کا
میں نے سائے کو انسان جانا
کھا گیا مجھ کو دھوکا نظر کا
سب کریں چاند تاروں کی باتیں
کوئی رستہ دکھائے نہ گھر کا
ساتھ دے پیار تو دل سے دل تک
فاصلہ ہے فقط اِک نظر کا
آبسی میرے ویران دل میں
شوق تھا روشنی کو سفر کا
کر گیا کوچ میرے بھی دل سے
جانے راہی تھا وہ کس نگر کا
یہ ہماری محبت کے چرچے
شور وادی میں جیسے گجر کا
اصل ویرانیاں تو ہیں دل میں
کب یہ نقشہ تھا دیوار و در کا
اپنی اپنی عبادت ہے سب کی
اپنا اپنا خدا ہر بشر کا
کِس کو ہے اب قتیلؔ اتنی فرصت
کون ساتھی بنے عمر بھر کا
٭٭٭
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں گر پھول تو جُوڑے میں سجا لے مجھ کو
میں کھُلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو
ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے، مجھ کو
مجھ سے تُو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے ترا، آج ستا لے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیل
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
٭٭٭
سسکیاں لیتی ہوئی غمگین ہواؤ، چُپ رہو
سو رہے ہیں درد، ان کو مت جگاؤ، چُپ رہو
رات کا پتھر نہ پگھلے گا شعاعوں کے بغیر
صبح ہونے تک نہ بولو ہم نواؤ ، چُپ رہو
بند ہیں سب میکدے، ساقی بنے ہیں محتسب
اے گرجتی گونجتی کالی گھٹاؤ ، چُپ رہو
تم کو ہے معلوم آخر کون سا موسم ہے یہ
فصلِ گل آنے تلک اے خوشنواؤ ، چُپ رہو
سوچ کی دیوار سے لگ کر ہیں غم بیٹھے ہوئے
دل میں بھی نغمہ نہ کوئی گنگناؤ ، چُپ رہو
چھٹ گئے حالات کے بادل تو دیکھا جائے گا
وقت سے پہلے اندھیرے میں نہ جاؤ ، چُپ رہو
دیکھ لینا، گھر سے نکلے گا نہ ہمسایہ کوئی!
اے مرے یارو، مرے درد آشناؤ ، چُپ رہو
کیوں شریک غم بناتے ہو کسی کو اے قتیلؔ!
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اُٹھاؤ ، چُپ رہو
٭٭٭
پھولوں کی اُداسی کو چھپا جاتی ہے خوشبو
اُڑتا ہے کوئی رنگ تو چھا جاتی ہے خوشبو
خوشبو کا خمیر اُٹھتا ہے خاکسترِ گل سے
گل ہی سے مگر آنکھ چرا جاتی ہے خوشبو
آتی ہے تو کانٹے بھی دُعا دیتے ہیں اس کو
جاتی ہے تو گلشن کو رُلا جاتی ہے خوشبو
اُکتا نہ گئی ہو کہیں صحرا کے سفر سے
دیکھو تو کِدھر آبلہ پا جاتی ہے خوشبو
مہکے ہوئے ماحول میں جب تُو نہیں ہوتا
اُس وقت مرے جی کو جلا جاتی ہے خوشبو
یوں مجھ میں تیرے لمس کا احساس رچا ہے
اپنے ہی بدن سے تری آ جاتی ہے خوشبو
میں ہوں کِسی مندر میں سلگتا ہوا صندل
جو مجھ کو جلائے اُسے آ جاتی ہے خوشبو
دیکھوں جو قتیلؔ ان سا کوئی حسنِ معطر
جذبات میں کہرام مچا جاتی ہے خوشبو
٭٭٭
ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو
یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
انسان کا اگر قد و قامت نہ بڑھ سکے
تم اِس کو نقصِ آب و ہوا کہہ لیا کرو
اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجات ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو
لے دے کے اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیل
جب دِل جلے تو اُس کو دیا کہہ لیا کرو
٭٭٭
لہو میں ڈوبا ہوا ملا ہے وفا کا ہر اک اصول تجھ کو
میں جانتا ہوں پسند کیوں ہیں گلاب کے سُرخ پھول تجھ کو
گواہ بن کر بتا رہی ہیں یہ سُرخیاں تیری اُنگلیوں کی
سمیٹنے پڑ رہے ہیں خونخوار جنگلوں کے ببول تُجھ کو
تھکی انا کا سفر کہاں تک کہیں تو رُک جا کہیں تو دم لے
بنا دیا ہے مسافتوں نے ترے ہی قدموں کی دھُول تجھ کو
یہ ریزہ ریزہ سی آرزوئیں کبھی تو کر دے مرے حوالے
میں اپنے بکھرے بدن کی مانند دیکھتا ہوں ملول تجھ کو
افق کے اس پار بھی مناسب نہیں ہے آدرش کا تعاقب
کہیں تجھے بے وطن نہ کر دے ترا یہ شوقِ فضول تجھ کو
وہ خط رقیبوں کے ہاتھ آیا لکھا تھا جو میرے نام تُو نے
کہاں کہاں کر چکی ہے رسوا مِری یہ چھوٹی سی بھول تجھ کو
تجھی کو نفرت رہی ہے جن سے وہ جن کی تعمیر صرف تُو ہے
وہ آخرِ شب کے خواب کرنے پڑیں گے آخر قبول تجھ کو
قتیلؔ کتنے ہی لفظ اپنی اساس کا ذائقہ بدل لیں
اگر بتا دوں کبھی میں اپنی غزل کی شانِ نزول تجھ کو
٭٭٭
٭٭٭
مجھ میں کم ظرفیِ احساس نہیں ہے یارو
ورنہ آرام کسے راس نہیں ہے یارو
گر مِلے آبِ بقا بھی تو اکیلا نہ پئیوں
پیاس اب صرف مری پیاس نہیں ہے یارو
مجھ کو جینا ہے تو پھر کیسے رہوں تم سے الگ
زندگی ہے ،کوئی بن باس نہیں ہے یارو
کر چکا نذر وہ آنسو بھی جو میرے تھے کبھی
اب وہ دولت بھی مرے پاس نہیں ہے یارو
دُور تک پڑتے ہیں اب صرف ہواؤں کے بھنور
دُور تک اب کہیں بُو باس نہیں ہے یارو
اس کی تصویر لیے بیٹھا ہے آنکھوں میں قتیلؔ
جس کے ملنے کی کوئی آس نہیں ہے یارو
٭٭٭
جانچ پرکھ کر دیکھ چکی تو ہر منہ بولے بھائی کو
کہنے دے اب کوئی سچی بات قتیلؔ شفائی کو
کر دیا بالکل اپنے جیسا مجھ کو اندھے کیوپڈ نے
اپنی شہرت جان رہا ہوں میں اپنی رسوائی کو
شہرت چاہے کیسی بھی ہو، لوگ توجہ دیتے ہیں
لاکھ حسیں ملتے ہیں اب تک مجھ جیسے ہرجائی کو
گھبرائی کیوں بیٹھی ہے اب غم خواروں کے نرغے میں
لے آئی ہے محفل میں جب تو اپنی تنہائی کو
سب کو سنائے قصے تو نے جس کی دھوکا بازی کے
اس جیسا ہی پائے گی تو اپنے ہر شیدائی کو
سب سے ہنس کر ملنے والی کس نے تجھ کو سمجھا ہے
ناپ رہے ہیں مفت میں لوگ سمندر کی گہرائی کو
پاگل پن تو دیکھو جس دن ڈولی اُٹھنے والی تھی
اپنے ہاتھ سے توڑ دیا اِک دلہن نے شہنائی کو
کیوں اوروں کے نام سے چھپواتا ہے اپنے شعر قتیلؔ
یوں برباد کیا نہیں کرتے اپنی نیک کمائی کو
٭٭٭
اس دور میں توفیق انا دی گئی مجھ کو
کس جرم کی آخر یہ سزا دی گئی مجھ کو
میں نے جو کیا فصلِ بہاراں کا تقاضا
اک پھُول کی تصویر دکھا دی گئی مجھ کو
یہ کون مرے نام کو دُہرا سا رہا ہے
شائد کسی گنبد میں صدا دی گئی مجھ کو
وہ اُن کا ملانا مجھے اک صاحب زر سے
اوقات مری یاد دلا گئی مجھ کو
پہلے تو نوازا گیا عظمتِ غم سے
پھر شہِریتِ ملکِ وفا دی گئی مجھ کو
حیرت ہے کہ اس بار بزرگوں کی طرف سے
تکمیلِ محبت کی دُعا دی گئی مجھ کو
کچھ نام لکھے ہی تھے ابھی میرے قلم نے
کاغذ کی طرح آگ لگا دی گئی مجھ کو
گم ہو گیا مستی میں تڑپنے کا مزا بھی
کیا چیز قتیلؔ آج پلا دی گئی مجھ کو
٭٭٭
کیا کچھ ہونے والا ہے ، یہ تم کو نہیں اندازہ
شہر کے لوگو! کھُلا نہ رکھنا کوئی بھی دروازہ
جس کے ہاتھ میں خنجر ہوگا وہی بنے گا منصف
یوں ہم اپنی فریادوں کا بھگتیں گے خمیازہ
سوسو بار یہاں سب کو مصلوب کیا جائے گا
اِک اِک شخص کا نکلے گا اب سو سو بار جنازہ
پہنائیں گے مُلّا قاضی اسے زنجیریں
جس کے تن پر زخم نظر آئے گا تازہ تازہ
سات سمندر پار کے عاشق پیار کریں گے ان کو
چہروں پر جو ملیں گے تیرے میرے خون کا غازہ
ڈھونڈ نکالو اب کوئی تعبیر سحر سے پہلے!
بکھر نہ جائے کہیں تمہارے خوابوں کا شیرازہ
٭٭٭
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
غم لگے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
دشمنی دھوپ کی ہے سایہ دیوار کے ساتھ
کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں
غمِ ہستی بھی تو شامل ہے غمِ یار کے ساتھ
لفظ چنتا ہوں تو مفہوم بدل جاتا ہے
اک نہ اک خوف بھی ہے جرأتِ اظہار کے ساتھ
دشمنی مجھ سے کیے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری صیاد مگر پیار کے ساتھ
دو گھڑی آؤ مل آئیں کسی غالبؔ سے قتیلؔ
حضرتِ ذوقؔ تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ
٭٭٭
ہر طرف سطوتِ ارژنگ دکھائی دے گی
رنگ برسیں گے زمین دنگ دکھائی دے گی
بارشِ خونِ شہیداں سے وہ آئے گی بہار
ساری دھرتی ہمیں گلرنگ دکھائی دے گی
پربتوں سے نکل آئیں گے تھرکتے پیکر
نغمہ زن خامشیِ سنگ دکھائی دے گی
راز میں رہ نہ سکے گی کوئی اظہار کی لے
اِک نہ اِک صورتِ آہنگ دکھائی دے گی
سوچ کو جرأتِ پرواز تو مل لینے دو
یہ زمین اور ہمیں تنگ دکھائی دے گی
تاج کانٹوں کا سہی، ایک نہ اک دن لیکن
عاشقی زینتِ اورنگ دکھائی دے گی
جب بھی پرکھے گا کوئی پیار کے معیار قتیلؔ
ساری دُنیا مرے پاسنگ دکھائی دے گی
٭٭٭
ہوئی نہ راہ میں حائل شکستہ پائی مری!
قتیلؔ اب بھی ہے اِک شخص تک رسائی مری
اُچھالتے ہیں مرے ذکر سے وہ نام اپنا
پسند ہے مرے یاروں کو ہر برائی مری
گنوا رہا تھا میں کتنے ثواب دُنیا کے
جنابِ عشق نے فرمائی پیشوائی مری
اب اور لوگوں میں جائے وہ غم غلط کرتے
سُنا ہے اس کو گوارا نہیں جدائی مری
ہزار بار جو بدنام کر چکا ہے مجھے
پھر اُس کی کھوج میں نکلی ہے پارسائی مری
بھٹک رہا ہوں میں اِک منزل زیاں کے لیے
کرو گے راہزنو! تم ہی رہنمائی مری
تمام بھید مری زندگی کے کھول دئیے
جو مطربہ نے کسی کو غزل سنائی مری
بس ایک بار شکن پڑ گئی تھی ماتھے پر
منانے مجھ کو جوانی کبھی نہ آئی مری
قتیلؔ شکر کروں، جب بھی مجھ پہ تیر چلے
یہ فیضِ عشق، طبیعت ہے کربلائی مری
٭٭٭
جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پر کھِلا کرتا ہے
وہ مری تنگیِ داماں کا گلہ کرتا ہے
دیر سے آج مرا سر ہے ترے زانو پر
یہ وہ رُتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے
میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفانوں کو
تو مرے دل کے دھڑکنے کا گلا کرتا ہے
رات یوں چاند کو دیکھا ہے ندی میں رقصاں
جیسے جھومر ترے ماتھے پہ ہلا کرتا ہے
جب مری سیج پہ ہوتا ہے بہاروں کا نُزول
صرف اک پھول کواڑوں میں کھلا کرتا ہے
کون کافر تجھے الزامِ تغافل دے گا
جو بھی کرتا ہے محبت سے گلا کرتا ہے
لوگ کہتے ہیں جسے نیل کنول وہ تو قتیل
شب کو اُن جھیل سی آنکھوں میں کھلا کرتا ہے
٭٭٭
دنیا کو یہ کمال بھی کر کے دکھائیے
میری جبیں پہ اپنا مقدّر سجائیے
میں چاندنی میں گوندھ کے لایا ہوں رات کو
اب آپ اس سے کوئی سویرا بنائیے
آئے تھے جس کی دید کو جھونکے بہار کے
میرے بدن میں پھر وہی خوشبو رچائیے
سب نے کئے ہیں مجھ پہ جفاؤں کے تجربے
اِک بار آپ بھی تو مجھے آزمائیے
میں شہر بھر میں ایک ہی ایذا پسند ہوں
گر چاہیے دُعا تو مرا دل دکھائیے
شاید چھپا ہو اس مین کہیں نام آپ کا
دُنیا سے چھُپ کے میری غزل گنگنائیے
بیٹھا ہوں میں ابھی تو غموں کے ہجوم میں
آنا ضرور ہے تو اکیلے میں آئیے
اس رُوپ میں تو آپ کو پہچانتا ہوں میں
چہرے پہ اب نیا کوئی چہرہ سجائیے
ذلّت پہ دشمنی میں اُتر جائے جو قتیلؔ
اُس بد قماش کو نہ کبھی منہ لگائیے
٭٭٭
تو ہمیں جب کبھی یاد آئے
چیت کی چاندنی یاد آئے
بھُولنا چاہا اک آشنا کو
سینکڑوں اجنبی یاد آئے
پیار زنجیرِ جاں بن گیا ہے
درد کی ہر کڑی یاد آئے
دیکھ آئے ہیں سب کوئے قاتل
اب کسے زندگی یاد آئے
کیا ہوئیں جگنوؤں سی وہ آنکھیں
رات برسات کی یاد آئے
ذکر چھیڑے جو کوئی چمن کا
پنکھڑی پنکھڑی یاد آئے
شامِ غربت کا یہ گھپ اندھیرا
شکل وہ چاند سی یاد آئے
جب کروں میں زمانے کا شکوہ
بھول اپنی کوئی یاد آئے
دیکھ کر موسلا دھار بارش
اپنی تشنہ لبی یاد آئے
حق تو بچھڑے ہوؤں کا ہے لیکن
اِک نیا شخص بھی یاد آئے
تھا قتیلؔ آخری دوست اپنا
وہ بھلا آدمی یاد آئے
٭٭٭
اتنا سا گلہ ہے مجھے اربابِ حرم سے
نفرت وہ کئے جاتے ہیں میرے ہی صنم سے
وہ جب سے گیا، شہر میں ہے قحط رقیباں
اس شہر کی رونق تھی اُسی شخص کے دم سے
سچ یہ ہے کہ ہم اُس سے بچھڑ کر بھی جئیں گے
مرتا نہیں دُنیا میں کوئی ہجر کے غم سے
انجام ہے اس پیار کا اک حرف ندامت
آغاز ہوا جس کا ترے قول و قسم سے
لوگ آتے رہے کانچ کا ملبوس پہن کر
افسوس کہ پتھر بھی نہ مارا گیا ہم سے
اللہ ان آنکھوں کو بھی دے ذوقِ سماعت
کاغذ کو بنایا ہے زباں میں نے قلم سے
کی جب سے قتیلؔ اس نے مئے ناب سے توبہ
میخانے کا میخانہ ہے ناراض عدمؔ سے
کچھ دن سے قتیل اس کی مجھے آس لگی ہے
اُترے جو غزل بن کے مرے ذہن میں چھم سے
٭٭٭
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
برنگِ عود ملے گی اسے مری خوشبو
وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جلائے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے
زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے مجھے
وہ میرا دوست ہے سارے جہاںکو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بدگماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
٭٭٭
ان جھیل سی نیلی آنکھوں میں، لہرائے کنول کنول یادوں کے
تو بیتے دنوں میں قید ہے کیوں، یہ کام نہیں آزادوں کے
کس خواب کے پیچھے بھاگی تو، کس نگری میں برباد ہوئی
جو توڑ گئے ہیں دل تیرا، کیا نام تھے ان شہزادوں کے
بے موسم تیرے آنگن میں، برسات کا موسم کیوں آیا
تو ساتھ کہاں سے لے آئی، یہ بادل ساون بھادوں کے
جو ہونا تھا سو ہو بھی چکا، گذری ہوئی کل کو بھول بھی جا
چھٹ جائیں گے آہوں کے بادل، کٹ جائیں گے دن فریادوں کے
تو روشنیوں کی آس لیے، اس بار سمندر پار نہ جا
اپنی ہی تِری اس دھرتی سے، اُبھریں گے چاند مرادوں کے
سو بار قتیلؔ محبت سے، تکتے ہیں در و دیوار ہمیں!
ہم سے ہے نکھار مکانوں کا، ہم پتھر ہیں بنیادوں کے
٭٭٭
ابابیلوں کی یہ پرواز کیا ہے
کہو اس بے کلی کا راز کیا ہے
مچا ہے شور سا ہونٹوں کے پیچھے
یہی چُپ ہے تو پھر آواز کیا ہے
مجھے خوف آ رہا ہے قہقہوں سے
بھلا رونے کا یہ انداز کیا ہے
میں آپ اپنا تعاقب کر رہا ہوں
یہ عالم اے مرے دم ساز کیا ہے
سبھی خاموش ہیں پیاسے بھی رہ کر
تیری محفل کا یہ اعجاز کیا ہے
قتیلؔ اس شہرِ غوغا میں نہ تُو بول
یہاں پیار سے تِری آواز کیا ہے
٭٭٭
منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاوں کے
نیندیں چرا رہے ہیں وہ جھونکے ہواؤں کے
تیری گلی سے چاند زیادہ حسیں نہیں
کہتے سُنے گئے ہیں مسافر خلاؤں کے
پل بھر کو تیری یاد میں دھڑکا تھا دل مرا
اب دُور تھ بھنور سے پڑے ہیں صداؤں کے
دادِ سفر ملی ہے کسے راہِ شوق میں
ہم نے مٹا دئیے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے
جب تک نہ کوئی آس تھی، یہ پیاس بھی نہ تھی
بے چین کر گئے ہمیں سائے گھٹاؤں کے
ہم نے لیا ہے جب بھی کسی راہزن کا نام
چہرے اُتر اُتر گئے کچھ رہنماؤں کے
اُگلے گا آفتاب کچھ ایسی بلا کی دھوپ
رہ جائیں گے زمیں پہ کچھ داغ چھاؤں کے
زندہ تھے جن کی سرد ہواؤں سے ہم قتیل!
اب زیرِ آب ہیں وہ جزیرے وفاؤں کے
٭٭٭
ذکرِ حبیب ہے کہیں فکرِ معاش ہے
سب کو یہاں کسی نہ کسی کی تلاش ہے
ہر دل میں حسرتوں کے ہیں مدفن بنے ہوئے
ہر شخص آپ اپنی امیدوں کی لاش ہے
سب جانتے ہیں پر کوئی پہچانتا نہیں
اس شہر میں ہماری بھی کیا بود و باش ہے
کہتا ہے جھیل سے کسی کنکر کی داستاں
اب تک جو سظح آب پہ اک ارتعاش ہے
احساس کے افق پہ سرِ شام غم قتیلؔ
نکلا ہے کوئی چاند مگر قاش قاش ہے
٭٭٭
کیسے کیسے بھید چھپے ہیں پیار بھرے اقرار کے پیچھے
کوئی پتھر تان رہا ہے شیشے کی دیوار کے پیچھے
دل میں آگ لگا جاتا ہے یہ بن یار، بہار کا موسم
ایک تپش بھی ہوتی ہے اس ٹھنڈی ٹھار پھوار کے پیچھے
سوچ ابھی سے، پھر کیا ہوگا بیت گئی جب رات ملن کی
ایک اداسی رہ جائے گی پائل کی جھنکار کے پیچھے
کون لگائے کھوج کسی کا خود غرضی کے اس جنگل میں
ملتا ہے انسان یہاں پر، لیکن ایک ہزار کے پیچھے
ننگی ہو کر ناچ رہی ہے بھوکی روحوں کی مجبوری
جھانک سکو تو جھانک کے دیکھو جسموں کے انبار کے پیچھے
یہ حاکم بھی دوست ہے میرا، یہ ناصح بھی میرا ہمدم
کتنے ہی غمخوار پڑے ہیں اک تیرے بیمار کے پیچھے
تیرا تو اک دل ٹوٹا ہے یار قتیل اُداس نہ ہو تُو
لوگ تو جان بھی دے دیتے ہیں پیارے اپنے یار کے پیچھے
٭٭٭
تہہ میں جو رہ گئے ، وہ صدف بھی نکالئے
طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالئے
اپنی حدّوں میں رہیے کہ رہ جائے آبرو
اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالئے
خوشبو تو مدتوں کی زمیں دوز ہو چکی
اب صرف پتیوں کو ہوا میں اُچھالیے
صدیوں کا فرق پڑتا ہے لمحوں کے پھیر میں
جو غم ہے آج کا،اُسے کل پر نہ ٹالئے
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پر وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اُٹھا لیے
کہہ دو صلیبِ شب سے کہ اپنی منائے خیر
ہم نے تو پھر چراغ سروں کے جلا لئے
دنیا کی نفرتیں مجھے قلاش کر گئیں
اِک پیار کی نظر مرے کاسے میں ڈالئے
رسوائیوں کا آپ کو آیا ہے اب خیال؟
ہم نے تو اپنے دوست بھی دشمن بنا لئے
ساحل کے انتظار میں چکرا گیا ہوں میں
مجھ کو مری وفا کے بھنور سے نکالئے
محسوس ہو رہا ہے کچھ ایسا مجھے قتیلؔ
نیندوں نے جیسے آج کی شب پر لگا لئے
٭٭٭
کچھ روز سے گھِرا ہوا جھوٹے نگوں میں ہے
اب وہ گہر شناس بھی شامل ٹھگوں میں ہے
دُنیا لُٹا کے دولتِ ایماں سے بھی گیا
شب زندہ دار سویا ہوا رَت جگوں میں ہے
سُقراط کو ملا جو صداقت کے زہر میں
اب وہ نشہ بئیر کے چھلکتے مگوں میں ہے
کہتے رہے ہیں سب جسے جنگل کا بادشاہ
بیٹھا ہوا وہ شیرِ ببر اب سگوں میں ہے
دیکھا ہمیں تو برف بھی لَو دے اُٹھی قتیلؔ
کس نسل کی یہ آگ ہماری رگوں میں ہے
٭٭٭
تری آنکھوں میں جب کھلتے ہوئے دیکھے کنول میں نے
ستاروں کو سنائی دیر تک اپنی غزل میں نے
وہ تیرے جسم سے چھنتی ہوئی کُچھ دِلرُبا کرنیں!
نہ دیکھا تھا کبھی یوں جلوۂ حسنِ ازل میں نے
غموں کی دھوپ جن کے روزنوں سے جھانک سکتی ہے
سجائے تیرے سایوں سے وہ خوابوں کے محل میں نے
نہ ہو گا سو برس کی عمر میں بھی یہ سکوں حاصل
گزارا تجھ سے مل کر جس طرح ایک ایک پل میں نے
خُدارا تو بھی اس دیوانگی کی لاج رکھ لینا
اگر ڈالا تری نیندوں میں تھوڑا سا خلل میں نے
یقیناً تجھ کو چاہیں گے میرے غمخوار بن بن کر
سمجھ رکھا ہے اپنا دوست جن کو آج کل میں نے
قتیلؔ اس بار جانے کب مجھے مصلوب ہونا ہے
ابھی دیکھا نہیں حالات کا ردِّ عمل میں نے
٭٭٭
مل جل کے برہنہ جسے دنیا نے کیا ہے
اُس درد نے اب میرا بدن اوڑھ لیا ہے
میں ریت کے دریا پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
اُس شہر میں پانی تو یزیدوں نے پیا ہے
اے گورکنو! قبر کا دے کر مجھے دھوکا
تم نے تو خلاؤں میں مجھے گاڑ دیا ہے
میں صاحب عزت ہوں مری لاش نہ کھولو
دستار کے پرزوں سے کفن میں نے سِیا ہے
پھیلا ہے تِرا کرب قتیلؔ آدھی صدی پر
حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے
٭٭٭
جو بیت گئی اس کی خبر ہے کہ نہیں ہے
دیکھو مرے تن پر مرا سر ہے کہ نہیں ہے
اس شہرِ ندامت سے جو آئے ہیں پلٹ کر
در پیش نیا ان کو سفر ہے کہ نہیں ہے
یاروں کو بُہت پیار ہے زندانِ وفا سے
لیکن کِسی دیوار میں در ہے کہ نہیں ہے
ملتی ہو ضیا جس کو چراغوں کی لوؤں سے
اس شہر میں ایسا کوئی گھر ہے کہ نہیں ہے
چہرے پہ سجا لایا ہوں میں دل کی صدائیں
دُنیا میں کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں ہے
سورج کی گذر گاہ بنے شاخ نہ جس کی
ایسا کوئی رستے میں شجر ہے کہ نہیں ہے
جذبات کی ٹھنڈک سے ٹھٹھرتے ہوئے لوگو
حالات کے سورج سے مفر ہے کہ نہیں ہے
برسات میں کوئل سی جہاں کوک رہی تھی
آباد وہ خوابوں کا نگر ہے کہ نہیں ہے
ٹوٹی ہوئی مسجد میں کھڑا دیکھ رہا ہوں
محفوظ شوالے کا گجر ہے کہ نہیں ہے
کیوں تیرا گریباں ہے قتیلؔ اب بھی سلامت
کچھ تجھ پہ نئی رُت کا اثر ہے کہ نہیں ہے
٭٭٭
تم مرے پیار کے آخری موڑ پر،ناگہاں کیوں شریکِ سفر ہو گئے
ٹھوکریں کھا کے آتا ہے مجھ کو مزا، تم مرے ساتھ کیوں دربدر ہوگئے
میں تو پہلے ہی منزل سے محروم تھا، راستے ہیں کٹھن،مجھ کو معلوم تھا
غم تو اس بات کا ہے کہ میرے لیے، تم بھی حالات سے بے خبر ہو گئے
آج کی قربتیں کل کی ہیں دوریاں،ساتھ انساں کے ہیں لاکھ مجبوریاں
میں تو شکوہ بھی تم سے نہ کر پاؤں گا، مجھ سے مل کر جدا تم اگر ہو گئے
تلخ لفظوں میں شیرینیاں گھول کر،دل دکھانا مرا تم بھی سچ بول کر
میں تو کروں گا تسلیم اُن کا بھی حق، جو ہوس کار اہل نظر ہو گئے
عمر چاہے ملے مجھ کو سو سال کی،وہ تو ہوگی سزا میرے اعمال کی
حاصلِ زندگی ان کو سمجھوں گا میں،دن تری یاد میں جو بسر ہو گئے
ہنس رہی ہے جلا کر جوانی مِری، خود فریبی کی عادت پُرانی مری
کیا بتاؤں قتیلؔ آج اک بار پھر، جو مسیحا تھے بیدار گر ہو گئے
بند ہے زندگی جبر کے خول میں،کیا جئیں ہم قتیلؔ ایسے ماحول میں
جس قدر چور تھے ان کو دولت ملی،جتنے کم ظرف تھے معتبر ہو گئے
٭٭٭
یہ بات پھر مجھے سُورج بتانے آیا ہے
ازل سے میرے تعاقب میں میرا سایا ہے
بلند ہوتی جا رہی ہیں دیواریں
اسیرِدر ہے وہ،جس نے مجھے بُلایا ہے
میں لازوال تھا مِٹ مِٹ کے پھر اُبھرتا رہا
گنوا گنوا کے مجھے زندگی نے پایا ہے
وہ جس کے نین ہیں گہرے سمندروں جیسے
وہ اپنی ذات میں مجھ کو ڈبونے آیا ہے
ہنسا وہ مجھ پہ تو اُس کا کوئی کمال نہیں
اُسے مرے ہی کسی غم نے گُدگُدایا ہے
قطار ہے مرے پیچھے مگر میں کیا دیکھوں
جو سامنے ہے مِرے،وہ نظر کب آیا ہے
ملی ہے اُس کو بھی شہرت قتیل میری طرح
جب اُس نے لبوں پر مجھے سجایا ہے
٭٭٭
شائد مرے بدن کی رُسوائی چاہتا ہے
دروازہ میرے گھر کا ، بینائی چاہتا ہے
اوقاتِ ضبط اس کو اے چشمِ تر بتا دے
یہ دل سمندروں کی گہرائی چاہتا ہے
شہروں میں وہ گھٹن ہے،اس دور میں کہ انساں
گمنام جنگلوں کی پُروائی چاہتا ہے
کچھ زلزلے سمو کر زنجیر کی کھنک میں
اِک رقصِ والہانہ سودائی چاہتا ہے
کچھ اس لیے بھی اپنے چرچے ہیں شہر بھر میں
اک پارسا ہماری رسوائی چاہتا ہے
ہر شخص کی جبیں پر کرتے ہیں رقص تارے
ہر شخص زندگی کی رعنائی چاہتا ہے
اب چھوڑ ساتھ میرا اے یادِ نوجوانی
اِس عمر کا مسافر تنہائی چاہتا ہے
میں جب قتیلؔ اپنا سب کُچھ لُٹا چُکا ہوں
اب میرا پیار مُجھ سے دانائی چاہتا ہے
٭٭٭
مری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لیے
تِرا وجود ہے لازم مری غزل کے لیے
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں چراغ سے وہ بدن
ترس گئی ہیں نگاہیں کنول کنول کے لئے
ایک ایسا تجربہ مجھ کو ہُوا ہے آج کی رات
بچا کے دھڑکنیں رکھ لیہیں میں نے کل کے لئے
کسی کسی کے نصیبوں میں عشق لکھا ہے
ہر اک دماغ بھلا کب ہے اس خلل کے لئے
ہوئی نہ جرات گفتار تو سبب یہ تھا
ملے نہ لفظ تِرے حُسن بے بدل کے لیے
سدا جئے یہ مرا شہرِ بے مثال، جہاں
ہزار جھونپڑے گرتے ہیں اک محل کے لیے
قتیل زخم سہوں اور مسکراتا رہوں
بنے ہیں دائرے کیا کیا مرے عمل کے لیے
٭٭٭
ترا چہرہ تجھی سے کیوں نہاں ہے
سکندر، تیرا آئینہ کہاں ہے
لگی ہے آگ پانی کی تہوں میں
ہر ایک بادل سمندر کا دھواں ہے
چُھپا بیٹھا ہے صحراؤں میں گلشن
بہاروں کے تعاقب میں خزاں ہے
کرو ثقلِ سماعت کی تلافی!
یہی اب مصرفِ شورِ اذاں ہے
مکمل کر چکا میں فرد عصیاں
خُداوند، ترا اب امتحاں ہے
نہ پُوچھ احسان کس کس کے ہیں مجھ پر
مرے دل میں حسابِ دوستاں ہے
اُداسی دے رہی ہے جس پہ دستک
بھری بستی میں یہ کس کا مکاں ہے
نہ ہوں گے ختم انساں کے مصائب
زمیں کے سر پر جب تک آسماں ہے
قتیلؔ اُس شخص کا ہے نام یارو
جو ماضی کا سجیلا نوجواں ہے
٭٭٭
گاتے ہوئے پیڑوں کی خنک چھاؤں سے آگے نکل آئے
ہم دھوپ میں جلنے کو ترے گاؤں سے آگے نکل آئے
ایسا بھی تو ممکن ہے،ملے بے طلب اِک مژدۂ منزل
ہم اپنی دُعاؤں سے تمناؤں سے آگے نِکل آئے
کہتے ہیں کہ ان جسموں کو اِک روحِ مقدس کی دُعا ہے
وہ جسم کہ جو اپنے تھکے پاؤں سے آگے نکل آئے
تھوڑا سا بھی جن لوگوں کو عرفانِ مذاہب تھا وہ بچ کر
کعبوں سے شوالوں سے کلیساؤں سے آگے نکل آئے
تھے ہم بھی گنہگار پر اک زاہدِ مکار کی ضد میں
بازار میں بکتی ہوئی سلماؤں سے آگے نکل آئے
شہروں کے مکینوں سے ملی جب ہمیں وحشت کی ضمانت
ہم سی کے گریبانوں کو صحراؤں سے آگے نکل آئے
بنتی رہی اک دُنیا قتیل اپنی خریدار مگر ہم
یوسف نہ بنے اور زلیخاوں سے آگے نکل آئے
٭٭٭
نہ تولے کبھی مطرب و مے سے دوست
مجھے تو ہیں پیارے ہر اک شے سے دوست
مری سادگی نے چُنا تھا جنہیں
کبھی ہاتھ آئے نہ پھر ویسے دوست
وہ طاری ہیں مجھ پر نشے کی طرح
نکلتے نہیں ہیں رگ و پے سے دوست
اِنہیں آنسو کا سُنا جلترنگ
بہلتے نہیں بربط و نے سے دوست
مرے ہمدمو! اے مسلسل غمو!
ملیں گے نہ دُنیا میں تم جیسے دوست
نہیں داغِ حرماں،تو اے میرے دل
بتا پھر تجھے چاہیں گے کیسے دوست
قتیل اپنے یونس کی کیا بات ہے
کہاں ایسے بھائی کہاں ایسے دوست
٭٭٭
نئے موسم بڑے بیدرد نکلے
ہرے پیڑوں کے پتے زرد نکلے
دلوں کی برف پہنچی عارضوں تک
یہ انگارے بھی کتنے سرد نکلے
وہ کیا تشخیص کرتے میرے غم کی
معالج خود سراپا درد نکلے
کمی تازہ لہو کی بھی ہو شاید
کئی چہرے تو یوں بھی زرد نکلے
وہ اک عورت کی خاطر لڑ رے ہیں
مِرے احباب پُورے مرد نکلے
بُہت شہرہ تھا جن کی رہبری کا
وہ میرے قافلے کی گرد نکلے
قتیلؔ آزادیاں جن کو نہ بھائیں
انہیں قوموں کے ہم بھی فرد نکلے
٭٭٭
کیا لیجئے کام چشمِ تر سے
پانی تو گزر گیا ہے سر سے
ہر سمت ہیں درد کے جزیرے
دیکھو تو ذرا نکل کے گھر سے
دریاؤں میں پیاس خیمہ زن ہے
ہر موجِ بلا سکوں کو ترسے
اُڑتا نہیں بھاپ بن کے پانی
اے کاش کہیں سے آگ برسے
دیتا ہے گواہی ابرِ رحمت!
ناراض خُدا نہیں بشر سے
آئی تھی کہیں سے زرد آندھی
پھل توڑ کے لے گئی شجر سے
کچھ پاؤں کٹے ہوئے ملے ہیں
گذراہوں میں جس بھی رہگذر سے
کرتی ہے یہ دل جلوں کو پاگل
میں سو گیا چاندنی کے ڈر سے
جانا ہے جو پانیوں کی تہہ تک
پتھر کوئی باندھ لو کمر سے
پانی نے ڈسا قتیلؔ جن کو
پیاسے وہ چلے تھے کس نگر سے
٭٭٭
نہیں دھڑکا مجھے رسوائیوں کا
سفر در پیش ہے تنہائیوں کا
چھُپا بیٹھا ہوں اپنی خاشی میں
گیا موسم وہ بزم آرائیوں کا
یہیں بس جاؤں دل تو چاہتا ہے
مگر یہ شہر ہے ہرجائیوں کا
نہیں مشکل نگاہیں پھیر لینا
بہانہ چاہیے شہنائیوں کا
ذرا دیکھو میرے دل میں اُتر کر
سمندر نام ہے گہرائیوں کا
دکھائے خواب سے کچھ آہٹوں نے
بدن بنتا گیا پرچھائیوں کا
قریب آتے گئے وہ جیسے جیسے
بھرم کھُلتا گیا دانائیوں کا
قتیلؔ آنکھوں میں ہے تصویرِ یُوسف
کرم مجھ پر بھی ہے کچھ بھائیوں کا
ے، یہ سنگدل زمانہ، دیوار چن رہا تھا
میں ضبط کی حدوں میں، تیری خموشیوں کی گفتار سُن رہا تھا
عرض و طلب کا نغمہ، کل رات جب چھیڑا تھا اک سازِ بے صدا پر
تھا محو میں بھی لیکن، سر بیخودی میں تو بھی، ہر بار دھُن رہا تھا
روزِ ازل سے مجھ کو، بت خانہ وفا سے، تھی اِس لئے عقیدت
بِکھرے ہوئے بُتوں سے، میں اپنی عظمتوں کے، شہکار چُن رہا تھا
معلوم تھا یہ کس کو، غم کی سیاہ راتیں، کاٹے نہ کٹ سکیں گی
میں آس پاس اپنے، ہالا تسلیوں کا بیکار بُن رہا تھا
جب پو پھٹی تو بڑھ کر، کچھ نا اُمیدیوں نے مجھ سے قتیل پوچھا
کیا تو ہی ہے جواب تک، موہوم آہٹوں کی جھنکار سن رہا تھا
٭٭٭
حالات سے خوف کھا رہا ہوں
شیشے کے محل بنا رہا ہوں
سینے میں مرے ہے موم کا دل
سورج سے بدن چھپا رہا ہوں
محرومِ نظر ہے جو زمانہ
آئینہ اُسے دکھا رہا ہوں
احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں
کم ظرف بنے گا ہم پیالا
کِس وہم میں مبتلا رہا ہوں
دریائے فرات ہے یہ دنیا
پیاسا ہی پلٹ کے جا رہا ہوں
ہے شہر میں قحط پتھروں کا
جذبات کے زخم کھا رہا ہوں
ممکن ہے جواب دے اُداسی
در اپنا ہی کھٹکھٹا رہا ہوں
آیا نہ قتیل دوست کوئی
سایوں کو گلے لگا رہا ہوں
٭٭٭
ٹائپنگ: ماروا ضیاء
ماخذ:
https://www.facebook.com/Qateel.Shifaii
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
شکریہ سر