FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

گردشِ ایّام

                   ڈاکٹر سلیم خان

 

 

  مسجدِ قرطبہ سے مرکزِ قرطبہ تک

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد امریکی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ گراؤنڈ زیرو پر لبرٹی (آزادی)ٹاور کو تعمیر کر کے امریکی عظمت کو بحال کیا جائے گا۔ نو سال کا طویل عرصہ گذر گیا لیکن اس آزادی کے ٹاور کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ گویا ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے میں امریکی حریت کی لاش کچھ اس طرح دفن ہوئی کہ پھر اسے دوبارہ باہر نکالا نہ جا سکا۔ اس بیچ مسلمانوں نے دبئی میں دنیا کی سب اونچی عمارت برج خلیفہ تعمیر کر کے دکھا دیا کہ تخریب و تعمیر میں کیا فرق ہے ؟

برج خلیفہ سے اونچی عمارت تعمیر کرنے کے منصوبے پر فی الحال سعودی شہزادہ الولید بن طلال کام کر رہا ہے اور امریکہ اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے چین کے قرض تلے دبا جا رہا جو اس نے قومی بانڈ کی شکل میں خرید رکھے ہیں۔ اب اگر الولید جدہ کے بجائے نیویارک میں کنگڈم ٹاور بنانے کا اعلان کر دے تو کیا ہو گا؟تقریباً ۲۷ بلین ڈالر کے اس پراجکٹ کا امریکی عوام اور سیاستدان استقبال کریں گے یا مخالفت کریں گے ؟ اس سوال کا جواب ویسے تو مثبت ہونا چاہیے لیکن حقیقت میں منفی ہو گا۔ جو لوگ گراؤنڈ زیرو سے قریب محض ۱۰۰ ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والی پندرہ منزلہ قرطبہ مرکز کی اس زور و شور سے مخالفت کر رہے ہیں جو بھلا گراؤنڈ زیرو پر ایک مسلمان کا قبضہ کیوں کر برداشت کر سکتے ہیں ؟

ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں بہت سارے لوگوں نے اور سیاستدانوں نے مرکز قرطبہ کی مخالفت کی وہیں صدر اوبامہ اور نیویارک کے گورنر بلومبرگ نے اس پراجکٹ کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے بلکہ کچھ عیسائی حامیوں نے آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر لبرٹی ٹاور میں بھی (جو نہ جانے کب تعمیر ہو گا)کچھ منزلیں خرید کر مسلمان اسلامی مرکز قائم کرنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہونی چاہئیے۔ مرکزِ قرطبہ کی تعمیر اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ امریکی شدت پسند چاہیں نہ چاہیں ایک دن یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو کر رہے گا۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے مسجدِ قرطبہ کے قریب دریائے وادالکبیر کے ساحل پر بیٹھ کر ایک خواب دیکھا اور فرمایا  ؎

آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

اس خواب کی حقیقت تک پہونچنے کے لیے انہوں نے سارے عالم کے سیاسی و ثقافتی صورتحال کا جائزہ لیا۔ جرمنی کی سرزمین سے اٹھنے والی اشتراکی تحریک کو شورشِ اصلاح دین قرار دیا جس نے سارے قدیم نقوش کو مٹانے کی کوشش کی۔ یہود و ہنود کے رہبانوں کی عصمت کے حرفِ  غلط کی طرح مٹنے کا اعتراف کیا۔ فرانسیسی انقلاب کی اتھل پتھل کو بھی پرکھا اور بالآ خر کہنہ پرست روم کی لذتّ تجدید کو بھی کھنگالا۔ نہایت عمیق غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ اب ان سب میں کو ئی دم خم باقی نہیں ہے ان سب کی شام ڈھل چکی ہے۔ اندھیری رات سے قبل حکیم الامت نے نئی صبح کا اندازہ بھی لگا لیا اور فرمایا  ؎

عالمِ نو  ہے  ابھی  پردۂ  تقدیر  میں

میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے

لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب

علامہ اقبال نے فرنگ کے اندیشہ کا اظہار کر کے امت کی فکری مغلوبی پر بڑی حکمت و پرکاری کے ساتھ پردہ ڈال دیا ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت خود ہمارے دانشور بھی اس پیشن گو ئی کو دیوانے کی بڑ قرار دے دیتے تھے۔ اس لیے کہ اس دور میں اس طرح کے حالات کا وقوع پذیر ہونا وہم و گمان سے بالاتر تھا لیکن شاعر کی نگاہ ظاہری اسباب و علل کے بجائے پسِ پردہ حقائق پر تھی۔ مسجدِقرطبہ نامی نظم میں حالات کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعدحکیم الامت ملت اسلامیہ کو دستِ قضا کی شمشیر قرار دیتے ہیں اور اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ  ؎

روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب

رازِ خدائی ہے یہ،  کہہ نہیں سکتی زباں

دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا

گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!

مسجدِ قرطبہ کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے۔ طارق بن زیاد کا قافلۂ سخت جان اسپین کے راستے یوروپ میں داخل ہو گیا اور پھر وہاں پہلی اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ ان ایام میں اسپین کے مسلمان روز بروز ترقی کرتے جا رہے تھے وہاں کے مسلمان علم و حرفت میں پڑوسی ملکوں سے بہت آگے  نکل گئے تھے۔ اس طرح سے کہ دوسرے ان سے حسد کرنے لگے تھے۔ اسپین کے بادشاہ عبدالرحمن نے "قرطبہ” کو دارالسلطنت بنایا۔ اس زمانے میں "قرطبہ” کا شمار خوبصورت اورترقی یافتہ شہروں میں ہوتا تھا۔ وہاں پر بہت سارے کتب خانہ اور مدارس تھے۔

 ایک روز عبدالرحمن کو دنیا کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد بنانے کا خیال آیا۔ قرطبہ میں اس وقت ایک کلیسا تھا جس کو عیسائیوں نے بہت پہلے بت پرستوں سے چھینا تھا۔ عبدالرحمن نے عیسائیوں سے اس کلیسا کو خریدا اور حکم دیا کہ یہاں پر ایک مسجد بنائی جائے۔ یہ مسجد "مسجد قرطبہ” کے نام سے مشہور ہے،  اس کی چوڑائی ایک سو پچاس اور لمبائی دوسو بیس میٹر ہے۔ اس مسجد میں تیرہ سو سے زیادہ ستون تھے یعنی وہ اتنی بڑی مسجد تھی کہ اگر کوئی دور سے اس کو دیکھتا تو اس کی آخری حد کو نہیں دیکھ پاتا تھا۔ اس مسجد کا انتظام و انصرام خاصہ مشکل کام تھا،  اس مسجد میں سو سے زیادہ چراغ جلتے تھے،  اسی طرح مسجد کی صفائی ستھرائی کے کام پر تین سو خادم متعین تھے۔ علامہ اقبال اس کی منظر کشی کچھ یوں کرتے ہیں ؎

تیرا جلال و جمال،  مردِ خدا کی  دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل،  تُو بھی جلیل و جمیل

تیری بِنا پائیدار،  تیرے ستوں بے شمار

شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل

مسجد میں پانی کے لیے پائپ لائن بچھائی گئی تھی،  اس زمانے کے ماہرین نے مٹی کے بنے پائپوں سے چشموں کے پانی کو شہر اور مسجد تک پہنچایا تھا۔ مسجد کے صحن میں بہت خوبصورت فوارے تھے جو شب و روز پانی کو مسجد کے اطراف میں پہنچاتے تھے۔ مسجد کی در و دیوار اور فرش کو بہت خوبصورت اور قیمتی پتھروں سے مزین کیا گیا تھا،  خلاصہ یہ کہ مسجد قرطبہ کی عظمت اور خوبصورتی بے نظیر تھی۔

لیکن افسوس! آج یہ مسجد،  کلیسا میں تبدیل ہو گئی ہے،  کیونکہ عبدالرحمن اور کچھ دوسرے بادشاہوں کے بعد اسپین کے مسلمانوں میں اتحاد ختم ہو گیا اور وہ آپسی انتشار کا شکار ہو گئے۔ عیسائی روز بروز ترقی کرتے گئے اور وہ اس قدر قوی ہو گئے کہ ایک روز انہوں نے مسلمانوں کو وہاں سے باہر نکال دیا اور کچھ کو قتل کر دیا۔ انہوں نے مسجد قرطبہ کو دوبارہ کلیسا میں تبدیل کر دیا،  یہاں تک کہ بہت سے وہ حصے جو بہت خوبصورت تھے ان کو بھی خراب کر دیا،  ان تمام باتوں کے باوجود صدیاں گذ رنے کے بعد جب کوئی وہاں داخل ہوتا ہے تو اس کو احساس ہو جاتا ہے کہ یہاں پر کبھی مسجد تھی۔

مسجد قرطبہ کی دیواروں اور چھت پر جو قرآن مجید کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں وہ آج بھی اسی طرح باقی ہیں۔ پوری دنیا میں اس کو آج بھی مسجد قرطبہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اب اس مسجد کا شمار دنیا کی تاریخی عمارات میں ہوتا ہے کیونکہ یہ اسپین کے مسلمانوں کی عظمت و شوکت کی یادگار ہے۔ بقول اقبال یہی نقشِ  مومن وہ صدا بہار گلشن ہے جو دارِ فانی میں خزاں کے اندیشوں سے محفوظ و مامون ہے وگرنہ ہر شہ کا مقدر بالآخر آغوشِ  فنا ہی ہے  ؎

اول و آخر فنا،  باطن و ظاہر فنا

نقشِ کُہن ہو کہ نَو،  منزلِ آخر فنا

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام

جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

اس سال اپریل کے اوائل میں آسٹریا سے تعلق رکھنے والے ۱۱۸ مسلم سیاحوں پر مشتمل گروپ میں سے ۶ نے مسجدِ قرطبہ میں سیر کے دوران نماز ادا کرنے کی کوشش کی توانہیں کیتھیڈرل میں تعینات سکیورٹی محافظوں نے بزور قوت روکنے کی کوشش کی اور پولیس کو طلب کر لیا گیا۔ ہسپانوی حکام کے مطابق جب مسلمانوں نے نماز کا عمل روکنے سے انکارکر دیا توان سے کہا گیا کہ وہ یا تو کیتھیڈرل کی سیر جاری رکھیں یا پھر وہاں سے نکل جائیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کے طلب کرنے پرآنے والے پولیس اہلکاروں پرسیر کرنے آئے ہوئے مسلمانوں نے دھاوابول دیا،  جس میں دوپولیس اہلکار زخمی ہو گئے اور اس واقعے پردوسیاحوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف اب مقدمہ چلایا جائے گا۔

قرطبہ کے بشپ دمتریو فرنانیڈیزگونازالیز نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ سابق مسجد قرطبہ میں مسلمانوں پر نماز ادا کرنے پر پابندی بدستور برقرار رہنی چاہیے۔ واضح رہے کہ ۱۹۸۰ کے عشرے میں جب ایک موقع پر اس وقت کی اسپینی حکومت نے مسجد قرطبہ کے ایک حصے کو مسلمانوں کے لیے کھولنے پر غور کیا تھا تو رومن کیتھولک چرچ کے سابق روحانی پیشوا پوپ جان پال نے اس کی مخالفت کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اس طرح مسلمانوں کو اسپین میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کے لیے ایک مرکز مل جائے گا اس لیے اس باب کو اب بند ہی رہنے دیا جائے۔

پوپ کی جانب سے اظہار شدہ یہ اندیشہ فی الحال سارے مغرب کو لاحق ہے۔ عیسائی پیشوا جانتے ہیں کہ اشتراکیت کا طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ زر پرست یہود و ہنود دولت پر فریفتہ ہیں انہیں اپنے دین کی اشاعت و تبلیغ میں مطلق دلچسپی نہیں ہے۔ بودھ مت،  آتش پرست اور کنفیوشس کے ماننے والوں میں فی الحال یہ حوصلہ نہیں پایا جاتا کہ مغربی عقائد و نظریات کو چیلنج کریں ایسے میں جس دین سے واقعی خطرہ ہے وہ دینِ حنیف اسلام ہی ہے۔ اسی لیے پوپ یوروپ میں اسلامی مرکز کے قیام کی مخالفت کرتا ہے تو پادری ٹیری جونس امریکہ میں اسلامی مرکز کے قیام کے خلاف ۱۱ ستمبر کے دن قرآن مجید کو جلانے کی دھمکی دیتا ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ گراؤنڈ زیرو سے قریب تعمیر ہونے والے اس مرکز کا نام بھی قرطبہ مرکز ہی ہے۔

اس مرکز کے بانی امام فیصل عبدالرؤف کا کہنا ہے کہ مرکز بنانے کا ایک مقصد مسلمانوں اور دیگر امریکیوں کے درمیان موجود خلیج کو پر کرنا بھی ہے۔ قرطبہ ہاوس کی تعمیر کے خلاف مزاحمت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اِس وقت ایسے مرکز کی سخت ضرورت ہے جو امریکیوں کو اسلام کے بارے میں آگہی دے سکے اور یہ بتا سکے کہ ایک خوشحال اور پرامن امریکہ کی تعمیر میں مسلمان بھی شریکِ کار ہیں۔ اس کے خلاف شدت پسند عیسائی اسے گیارہ ستمبر کو ضائع ہونے والی جانوں کی توہین قرار دے رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ دراصل یہی لوگ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ہیں اور اپنے ظلم پر پردہ ڈالنے کی خاطر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔

قرطبہ ہاوس کے کثیر الثقافتی اور بین الاقوامی مرکز کا نصب العین مسلمانوں اور مغرب کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ اس ضرورت کے پیشِ نظر قرطبہ ہاوس میں مسجد کے ساتھ ساتھ،  لائبریری،  آرٹ سٹوڈیو،  تھٔیٹر،  مراقبے کا کمرہ،  آڈیٹوریم اور سوئمنگ پول تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ یہ مرکز تعلیمی پروگرام اور بچوں کی صحت سے متعلق خدمات،  کھانا پکانا سکھانے کی تربیت کے علاوہ آرٹ کی نمائشیں بھی منعقد کرے گا اور اس میں ایک ریستوران بھی بنایا جائے گا۔ یہ مرکز ایک ایسی عمارت میں قائم کیا جا رہا ہے جو گزشتہ نو سال سے بند تھی اور اس مرکز سے ۱۵۰ افراد کو کل وقتی جبکہ ۵۰۰ لوگوں کو جز وقتی ملازمت ملے گی۔ آج کل جبکہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح ۱۰ فی صد سے تجاوز کر چکی ہے مقامی آبادی کے لیے یہ ایک نعمتِ غیر مرتقبہ ہے اور نیویارک شہر کہ سو سے زیادہ مسجدوں میں ایک حسین اضافہ جہاں بیک وقت ۲۔ ۳ ہزار مسلمان نماز ادا کر سکیں گے۔

اس ثقافتی اور دینی مرکز کی تعمیر کی مخالفت کئی حوالوں سے معنی خیز ہے۔ یہ مزاحمت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نیویارک،  اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں جہاں اسلام کا احترام اور مسلم امریکیوں کی موجودگی کو بظاہر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے اور ان کے تئیں مغربی اقوام کے دلوں میں بغض وعناد کے جذبات پائے جاتے ہیں جبکہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں رہنے بسنے والے مسلمان نہ صرف گیارہ ستمبر کے واقعے میں مرنے والے شامل ہیں بلکہ عراق اور افغانستان کی فوج میں بھی موجود ہیں۔

فلوریڈا چرچ کے پادری ٹیری جونز کی دھمکی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر نو سال کے بعد امریکی شدت پسندوں کو قرآنِ مجید کی بے حرمتی کا خیال کیوں آیا؟ یہ دراصل ان کا بلا واسطہ اعترافِ شکست ہے۔ پہلے تو انہیں یہ زعم تھا کہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر افغانستان میں فتح درج کرا کے اپنی رسوائی پر پردہ ڈال دیں گے لیکن اس محاذ پر بری طرح ناکام ہونے کے بعد پھر میڈیا کے ذریعہ اپنی شکست پر فتح کی ملمع کاری کرنے کی کوشش کی گئی سو وہ بھی بے سود ثابت ہوئی اب وہ لوگ کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں لیکن بے چارے نہیں جانتے کہ اس کوشش سے محض پنجوں کے لہولہان ہونے کے علاوہ کچھ اور ہاتھ نہیں آتا۔ مغرب کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہے اور مختلف انداز میں اس کا اظہار بھی ہو رہا ہے اس کے باوجود امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور اس کے قریب مرکزِ قرطبہ کی تعمیر مندرجہ ذیل شعر کی عملی تعبیر ہے ؎

جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا عالمِ پیر مر رہا ہے

جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا قمار خانہ

مسجدِ قرطبہ اور مرکزِ قرطبہ کا مقصد گو کہ یکساں ہے لیکن ان دونوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جس وقت مسجد تعمیر کی گئی اس وقت مسلمان برسرِاقتدار تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کو روکے۔ اسی طرح جب بابری مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی سر زمینِ ہند پر کوئی مائی کا لال ایسا نہ تھا جو اس پر اعتراض کرے لیکن آج مسلمان ہندو امریکہ ہر دو جگہ بے اقتدار ہیں اور اقلیت میں ہیں۔ عوام اور حکومت دونوں ان کی مخالف ہے اس کے باوجود مسلمانوں کے عزم و استقلال میں کو کمی نہیں آئی۔ اہلِ ایمان جانتے ہیں ہماری دینی تقاضے فراخی و آسانی کے محتاج نہیں ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے موافق حالات میں وہ رخصت کی راہیں تلاش کرتے ہیں اورنا مساعد حالات میں عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی لیے اللّٰہ کی مدد و نصرت ان کے شاملِ حال ہو جاتی اور فتح و کامرانی ان کا مقدر بن جاتی ہے بقول اقبالؒ

یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللّٰہ

٭٭٭

 

تاریخ کا ایک بھولا ہو اسبق

ولیم الڈوس نے سچ کہا تھا کہ ‘تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ انسان تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا’ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ سے جو لوگ برضا و رغبت سبق نہیں سیکھتے تاریخ انہیں بزورِ قوت سبق سکھا دیتی ہے۔ اور ایسا کرنے کے لیے تاریخ بس اپنے آپ کو دوہرا دیتی ہے۔ انسان اپنی ناقص بصیرت سے ماضی قریب کے محدود واقعات پر غائر نگاہ ڈالتا ہے اور اس کا انطباق ساری انسانی تاریخ پر کر دیتا ہے۔ اس کی جسارت اس جرمِ صغیربس نہیں کرتی بلکہ وہ اس غلط فہمی کا شکار بھی ہو جاتا ہے کہ اب قیامت تک حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی حالانکہ خود انسانی تاریخ اس مفروضہ کے خلاف شہادتوں سے اٹی پڑی ہے بقول اقبال  ؎

جو تھا نہیں ہے،  جو ہے نہ ہو گا،  یہی ہے اک حرفِ محرمانہ

قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ

یہ ایک خیالِ خام ہے کہ گلوبلائزیشن کی ابتدا گذشتہ صدی کے اواخر میں ہوئی حالانکہ آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل بابل یعنی موجودہ عراق کے شہر اُر میں جب اللّٰہ رب العزت نے حضرتِ ابراہیمؑ  کو آزمایا اور وہ اس میں پورا اترے تو انہیں سارے عالم کا امام بنا دیا اس کے بعد بابا ابراہیمؑ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا وہ اپنے فرضِ منصبی کو ادا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ عراق سے نکل کر جنوبی ترکی میں حنان نامی مقام پر پہونچے پھر وہاں سے ملکِ شام ہوتے ہوئے فلسطین کا رختِ سفر باندھا اور وہاں کچھ مدت قیام کرنے کے بعد مصر جا پہونچے لیکن پھر واپس آ کر کنعان کو اپنا مرکز بنایا مگر اپنے بڑے بیٹے اسماعیلؑ کو لے جا کر مکہّ مکرمہ میں آباد کیا اور وہاں اس کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کو تعمیر کیا اپنے بھتیجے لوطؑ  کو سدوم کے علاقے میں بسایا اور تینوں تو حید پرست مذاہب کے پیشوا کہلائے لیکن تاریخ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ اُن کے ماننے والے تینوں اہلِ کتاب گروہوں کے اندر امن و امان کی کیفیت کم ہی پائی گئی یروشلم جس کے معنیٰ ‘گہوارۂ امن’ کے ہوتے ہیں اکثر و بیشتر جنگ و جدال میں الجھا رہا الاّ یہ کہ کبھی مسلمانوں نے تو کبھی ایرانیوں نے یہودیوں کو امان فراہم کر دی ورنہ مغرب نے تو عیسائیت کے قبول کرنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس سر زمین کو یہودیوں کے خون سے لالہ زار ہی رکھا۔ یہ ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ اس پر اس دور کے لو گوں کو یقین کرنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہماری دقّت اپنی جگہ اور تاریخ کی شہادت اپنی جگہ۔

موجودہ دور کے صیہونی رہنما یہودیوں پر ہٹلر کے ذریعہ ہونے والے مظالم کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ اپنی سفاکی پر پردہ ڈا ل سکیں لیکن اس میں شک نہیں کہ یہودیوں ساری تاریخ ان پر ہونے والے مظالم سے بھری پڑی ہے فی زمانہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ جرمنی سے اپنی زمینوں اور جانوں کا معاوضہ دولت کی شکل میں وصول کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں اور خود فلسطینیوں کو ان کے اپنے ملک بدر کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں نیز انکے ساتھ وہی قتل و غارتگری کا معاملہ کرتے ہیں جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ ویسے یہودیوں پر ہونے والے مظالم کی ذمہ داری بڑی حد تک خود ان پر آتی ہے۔ ان کا مزاج اور رویہ انہیں گوں ناگوں مسائل میں گرفتار کر دیتا ہے۔

یہودیوں کی نفسیات کا اندازہ لگانے کے لیے حضرت یوسفؑ  کے بھائیوں پر نظر ڈالیں تو ساری بات واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ  جیسے جلیل القدر نبی کے بیٹے ہیں حضرت اسحاقؑ کے پوتے اور حضرت ابراہیمؑ ان کے پردادا ہیں اس کے باوجود بچپن ہی میں خود اپنے بھائی سے حسد اور اس کے بعد اس کے قتل کی سازش خود اپنے والد کو دھوکہ اور کذب بیانی اور تو اور اپنے والد کے بارے میں یہ گمان کہ بڑھاپے میں ان کا دماغ چل گیا ہے۔ ابن الوقتی کا یہ عالم کہ جب حضرت یوسفؑ نے بہانہ بنا کر بن یامن کو روکا تو اپنے بھائی کا دفاع کرنے کہ بجائے فوراً یہ تہمت جڑ دی کہ اس کا بھائی یعنی یوسف بھی چور تھا اور اس قدر نا عاقبت اندیشی کہ اسی پر الزام تراشی کی جا رہی ہے جس کے آگے مدد کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں اور پھر ایک خاص مرحلے میں جا کر یہ لوگ اپنے اسی بھائی کے سامنے بصد احترام سجدہ ریز بھی ہو جاتے ہیں۔ یہودیوں کی اجتماعی داستانِ حیات میں ان تمام صفات و حرکات کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً اور موقع بہ موقع نظر آتا ہے ان کے نت نئے مسائل میں الجھتے رہنے کی یہی بنیادی وجوہات ہیں۔

یہودی نفسیات کا ایک نمائندہ قارون بھی ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ مصر میں فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اس کے باوجود قارون اپنی قوم کے خلاف اس سے جا ملا،  یہ لوگ جہاں کہیں جس حال میں بھی رہے مال کی محبت اور اس پر اترانا ان کا خاصہّ رہا۔ قبطیوں سے لڑائی جھگڑا کر کے حضرت موسیٰؑ  سے قتل کروا دیا آزمائش کی گھڑی میں ان کا ساتھ دینے کے بجائے لعنت ملامت شروع کر دی،  کہنے لگے تمہارے آنے سے قبل بھی ہم مصیبت میں مبتلا تھے اور بعد میں بھی۔ جب دریائے نیل اور فرعون کے لشکر کے درمیان اپنے آپ کو پایا تو وقت کے نبی پر بگڑ گئے اور کہا تم نے تو ہمیں مروا ہی دیا۔ بے یقینی کا یہ عالم کہ دریا کے پھٹنے کا معجزہ اور اس میں فرعون کے غرق ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجودموسیٰؑ سے کہہ دیا ہم کنعانیوں سے نہیں لڑ سکتے جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو۔

 حضرت موسیٰ ؑ کو کوہ طور پر بلایا گیا تو ان کی غیر حاضری میں حضرت ہارونؑ  کے موجودگی میں سامری کے طلائی بچھڑے کی عبادت کرنے لگے۔ سبت کے قانون کی خلاف ورزی،  اللّٰہ کی آیات کو سستے داموں بیچ ڈالنا،  حق و باطل کو خلط ملط کر دینا،  انبیاء کی نہ صرف کردار کشی بلکہ قتل تک کی جرأت کر گذرنا۔ یہ اور اس طرح ک ارویہ ان پر سارے عالم پر حاصل ہونے والی فضیلت کے باوجود ذلّت و مسکنت کا سبب بنتا رہا یہاں تک نبی آخر الزماں ؐ کے انکار نے انہیں اس مقامِ  عالیہ سے ہمیشہ کے لیے معزول کر دیا۔

بنی اسرائیل کو اس سے پہلے اصلاح کے مواقع برابر حاصل ہوتے رہے۔ طالوت کی قیادت میں ان کو تابوتِ سکینہ واپس مل گیا۔ حضرت داودؑ  جالوت کو قتل کرنے کے بعد بادشاہ ہوئے اور انہوں نے فلسطین میں باقاعدہ حکومت قائم کی جسے ان کے فرزندِ رشید حضرت سلیمانؑ نے بامِ عروج تک پہونچایا۔ لیکن اس کے بعد پھر ان کے درمیان اختلاف رونما ہوا اقتدار دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور پھر ایک بار داستانِ الم کا آغاز ہو گیا۔ قرآنِ مجید میں اشارتاً بنی اسرائیل کی جانب سے برپا کیے گئے دو عظیم فسادات کا ذکر اس طور پر ملتا ہے :

پھر ہم نے بنی اسرائیل کو اس بات سے متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں عظیم فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے (الا اسراء ۴)

قرآن حکیم کے اندر تو چند آیات میں مختصر تبصرہ کیا گیا ہے لیکن تورات،  زبور اور انجیل میں اس کی ساری تفصیلات موجود ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان واضح پیشن گوئیوں اور تنبیہات کے باوجود کوئی عبرت حاصل نہیں کی گئی۔ فرعون سے نجات کے بعد ۴۰ سالہ صحرا نوردی کا جب خاتمہ ہوا اور بنی اسرائیل کو فتح سے نوازا گیا توان لوگوں نے اپنی متحدہ حکومت قائم کر کے فلستیوں سمیت دیگر لوگوں کا صفایا کرنے کے بجائے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اپنی چھوٹی چھوٹی قبائلی حکومتیں قائم کر لیں (با لکل اسی طرح جیسی کہ آجکل مسلمانوں کی حالت ہے )نتیجہ یہ ہوا کہ تکمیلِ غلبہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

اس زمانے میں فلسطین کے علاقے میں آباد دیگر قوموں کے حالات بعثت محمدی ؐسے قبل مکہ میں بسنے والے کفار اور مشرکین سے بہت حد تک مماثلت رکھتے تھے۔ بت پرستی اور بداخلاقی کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں بجائے اس کے کہ بنی اسرائیل ان میں دعوت و اصلاح کا کام کرتے خودان سے متاثر ہونے لگے (ایسا ہی کچھ آجکل ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے )اس انتشار و بے راہ روی نے تقریباً ایک ہزار سال تک انہیں مغلوبیت کا شکار رکھا یہاں تک تابوتِ سکینہ بھی ان سے چھن گیا اور پھر انہیں ہوش آیا (مسلمانوں کو بھی بیت ا لمقدس کے ہاتھ سے نکل جانے پر کسی قدر ہوش آیا ہے )بیداری پیدا ہوئی سب لوگ جمع ہو کر نبی سموئیل کے پاس گئے اور انہیں بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی تاکہ اس کی قیادت میں جنگ کی جا سکے۔

 طالوت کی قیادت میں پہلی بار بنی اسرائیل کو۱۰۲۰ق م میں غلبہ نصیب ہوا اس حکومت کو حضرت داودؑ  نے ۱۰۰۴ق م سے ۹۶۵ ق م کے درمیان استحکام عطا کیا اور پھر حضرت سلیمانؑ کا سنہری دور ۹۲۶ ق م تک جاری رہا لیکن افسوس کے حضرت سلیمانؑ  کے نا اہل بیٹوں نے سلطنت کودو حصوں میں تقسیم کر دیا شمالی فلسطین اسرائیل کہلایا اور جنوبی حصہ کو یہودیہ کے نام دیا گیا جس کا دارالخلافہ یروشلم تھا ( یہ حسنِ اتفاق ہے کہ آجکل کا ٹوٹا پھوٹا فلسطین جو کسی قدر صیہونیوں کے تسلط سے آزاد ہے مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان منقسم ہے )۔ تقسیم کے بعد دیگر طاقتوں کو حوصلہ ملا ۷۲۱ ق م میں آشوریوں نے سارگون کی قیادت میں یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ ۵۹۸ ق م میں بابل کے بخت نصر نے یہودیہ پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیا گیا۔ بنی اسرائیل پربے شمار عذاب توڑے گئے اور ان کو تتر بتر کر دیا گیاجس کا ذکر قرآنِ حکیم پہلے فساد کے طور پر کچھ اس طرح کرتا ہے :

پھر جب ان دونوں میں سے پہلی مرتبہ کا وعدہ آپہنچا تو ہم نے تم پر اپنے ایسے بندے مسلّط کر دیئے جو سخت جنگ جُو تھے پھر وہ (تمہاری) تلاش میں (تمہارے ) گھروں تک جا گھسے،  اور (یہ) وعدہ ضرور پورا ہونا ہی تھا (بنی اسرائیل ۵)

بنی اسرائیل کو ملک بدر کیا جا چکا تھا اور وہ اس فتنہ کے خلاف بالکل بے دست و پا تھے کہ مشیتِ ایزدی نے ایک اور احسان کیا ۵۳۹ ق م میں ایرانی بادشاہ خسرو نے بابل کو شکست سے دوچار کر دیا۔ ایرانیوں نے یہودیوں کے ساتھ اسی طرح کا ہمدردانہ سلوک کیا جیسا کہ یوروپ اور امریکہ فی الحال ان کے ساتھ کر رہے ہیں اور اس کی مرہونِ منّت یہ لوگ وطن واپس لوٹے اور اسی زمانے میں ہیکل کی دوبارہ تعمیر عمل میں آئی ۵۲۲ ق م میں ایرانی بادشاہ دارا نے آخری یہودی بادشاہ کے پوتے ردو بابل کو یہودیہ کا گورنر نامزد کر دیا (کاش کہ اسرائیل کو ایران کا یہ احسان آج یاد ہوتا؟ اور وہ احسان فراموش نہ ہوتے )اس امن وسلامتی کے دور کا بھر پور فائدہ حضرت عزیرؑ نے اٹھایا اور بڑے پیمانے پر اصلاح کا کام کیا لیکن اس کے باوجود یہودیہ اور اسرائیلی ریاستوں میں اتحاد قائم نہ ہوسکا اس بیچ سکندر اعظم نے ایران کو ہرا دیا اور یہودی پھر بے یارو مددگار ہو گئے۔

اسرائیل کو چاہئے کہ خود اپنی تاریخ سے سبق لے فی زمانہ اس کی ناؤ یوروپ اور امریکہ کے سہارے تیر رہی یوروپ خود تیزی سے ڈوب رہا ہے اور امریکی جہاز میں بھی بہت بڑا سوراخ ہو چکا ہے ایسے میں جب مغرب کا سورج غروب ہو جائے گا تو پھرسے اسرائیل میں اسی طرح اندھیرا چھا جائے گا جیسا کہ ماضی میں ایران کی شکست کے بعد چھا گیا تھا اور ممکن ہے پھر یہ خانہ بدوش قبیلہ روشنی کی تلاش میں دربدر بھٹکنے پر مجبور ہو جائے۔

 ۱۹۸ ق م میں یونانی بادشاہ اینٹوکس (سوم) نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا ۱۷۵ ق م میں اینٹوکس (چہارم) اقتدار پر فائز ہوا اور اس نے یہودیوں پر مظالم کا بازار گرم کر دیا۔  اس نے یہودی عقائد کے مطابق ہر مذہبی رسم کو ادا کرنے والے کے لیے موت کی سزا تجویز کر دی اور نہ صرف معاشرہ سے یہودیت کی بیخ کنی کی بلکہ ہیکل سلیمانی کے اندر بھی بتوں کو نصب کر دیا اس ظلم و زیادتی کے خلاف حضرت عزیرؑ نے زبردست تحریک چلائی جسے مکابّی بغاوت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال کے بعد پھر ایک بار بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ لوٹ آیا اور یہودیہ،  اسرائیل اور فلسطیہ کے وہ علاقے جو اس سے پہلے کبھی بھی ان کے قبضہ میں نہیں آئے تھے ہاتھ  آ گئے اور ایک عظیم سلطنت قائم ہو گئی جو سچے ّنبی کی قیادت میں غلبہ حق کی خاطر جان و مال کی بازی لگانے کا بہترین انعام تھا۔ قرآن مجید اس صورتحال کو اس طرح بیان فرماتا ہے :

پھر ہم نے ان کے اوپر غلبہ کو تمہارے حق میں پلٹا دیا اور ہم نے اموال و اولاد کے ذریعے تمہاری مدد فرمائی اور ہم نے تمہیں افرادی قوت میں (بھی) بڑھا دیا (بنی اسرائیل ۶)

لیکن یہ کامیابی دیر پا ثابت نہ ہوسکی۶۳ ق م میں خود لادین یہودیوں نے رومی بادشاہ پومپی کو حملے کی دعوت دی اور اس کا تعاون کر کے غلامی کا طوق از خود اپنے گلے میں ڈال لیا (یہودیوں کی اس طرز عمل کو مسلمانوں نے گذشتہ صدی کے اوائل میں دوہرانے کی غلطی کی اور برسوں تک کے لیے ذلت و رسوائی کو اپنے اوپر مسلط کر لیا) بنی اسرائیل کے اس دورِ غلامی میں ہیرود نامی ایک ذہین یہودی قیصر کے زیرِ نگیں گورنر بنا اس نے ایک جانب اپنے دین کے تحفظ و ترویج کا کام کیا اور دوسری جانب قیصر کو بھی خوش رکھنے کی بھر پور کوشش کی (جیسا کہ آجکل ترکی کے حکمراں کر رہے ہیں ملت اور مغرب کے درمیان ایک توازن قائم رکھنے کی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں )۔ ہیرود اعظم ۴۴ سالہ دور۴  ق م میں ختم ہو گیا اور اس کی موت کے بعد پھر ایک بار اس کے بیٹوں نے سلطنت کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ قیصرِ روم آگسٹس نے ۲  ق م میں انہیں برخواست کر کے نے اپنا گورنر مقرر کر دیا انتشار و افتراق کا نتیجہ اس کے سوا کچھ اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

یہی وہ دور تھا جس میں حضرت عیسیٰؑ کو بنی اسرائیل کی جانب مبعوث کیا گیا تھا۔ یہودیوں نے حضرتِ مسیح ؑ کو ماننے کے بجائے ان کی مخالفت شروع کر دی اور عیسیٰؑ اور ان کے حواریوں پرظلم و ستم کرنے میں رومیوں کے ساتھ ہو گئے۔ اسی دور میں حضرت یحییٰؑ کو شہید کرنے کا جرمِ عظیم بھی ان ناعاقبت اندیشوں سے سرزد ہوا۔  ۴۱ عیسوی میں جب قیصر روم نے ہیرود کے پوتے کو سارے علاقے کا گورنر بنا دیاتو وہ یہودیوں کے لیے اصلاحِ ذات کا آخری موقع تھا جسے ان لوگوں نے گنوا دیا اور مسیحؑ  اور ان کے حواریوں کے زبردست دشمن بن گئے۔ اس دوران ایک روز پونتس پلاطس نے پوچھا کہ آج عید کا دن ہے اس لیے ضابطہ کے مطابق ایک موت کے سزا یافتہ شخص کو رہا کرنے کا میں مجاز ہوں بولو یسوع کو چھوڑ دوں یا مشہور زمانہ ڈاکو براّبا کوتو سارے مجمع نے ایک آواز ہو کر براّبا کا نام پکارا۔ گویا حاکم اور عوام دونوں وقت کے نبی کے خلاف متحد ہو گئے جو خود ان کی اپنی اصلاح کے لیے مبعوث کیا گیا تھا۔ اس طرح ان بد بختوں اپنے خلاف اتمامِ حجتّ کا سامان کر دیا اس کے بعد رومیوں سے یہودیوں کے تعلقات بگڑنے لگے اور ۶۴سے ۶۶ عیسوی کے دوران یہودیوں نے دوسری بغاوت کی رومی بادشاہ ٹائٹس نے ۷۰  عیسوی میں اسے بری طرح کچل کر رکھ دیا۔ اس مہم میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار یہودی مارے گئے اور ۶۷ ہزار کوغلام بنا کر بیچ دیا گیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ملتا ہے :

اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنے (ہی) لیے بھلائی کرو گے،  اور اگر تم برائی کرو گے تو اپنی (ہی) جان کے لئے،  پھر جب دوسرے وعدہ کی گھڑی آئی (تو اور ظالموں کو تم پر مسلّط کر دیا) تاکہ (مار مار کر) تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ مسجدِ اقصیٰ میں (اسی طرح) داخل ہوں جیسے اس میں (حملہ آور لوگ) پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور تاکہ جس (مقام) پر غلبہ پائیں اسے تباہ و برباد کر ڈالیں،  (بنی اسرائیل ۷ )

بنی اسرائیل کے حوصلے ابھی پوری طرح پست نہیں ہوئے تھے ۱۳۲ ء میں بر کوشبا تحریک کے تحت یہودیوں نے ایک اور بغاوت کی جسے قیصرہڈریانس نے ناکام بنا دیا اور یہودیوں کو پوری طرح فلسطین سے نکل جانے کا حکم دے دیا یہی زمانہ تھا جب یہودیوں نے حجاز کا رخ کیا اور ان کے مختلف قبائل مدینہ میں آ کر بس گئے۔ اس دوسری سرکشی کے بعد بھی ان کے لیے ایک اور موقع ہنوز باقی تھا وہ جانتے تھے کہ ایک اوررسول کی آمد قریب ہے۔ ان کی اپنی کتابوں میں اس کا ذکر پایا جاتا تھا۔ وہ کس مقام پر مبعوث ہو گا اس کے بھی اشارے موجود تھے۔ اس کی صفات سے بھی وہ پوری طرح واقف کار تھے اب ان کے سامنے دو متبادل موجود تھے ایک تو اس پر ایمان لا کر اپنے سارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا جائے دوسرے اس کا انکار کر کے ہمیشہ کے لیے دنیوی و اخروی خسارے کو گلے لگا لیا جائے۔ ارشادِ ربانی ہے ؎

امید ہے (اس کے بعد) تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا اور اگر تم نے پھر وہی (سرکشی کا طرزِ عمل اختیار) کیا تو ہم بھی وہی (عذاب دوبارہ) کریں گے،  اور ہم نے دوزخ کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا دیا ہے (بنی اسرائیل ۸)

نبی امیّ ﷺ کی بعثت سے قبل جب رومیوں نے ۳۱۳ء میں عیسائیت کو قبول کیا اور وہ قیصر کا دین بن گیا تواس نئی صورتحال نے یہودیوں کو ایک مشکل دوراہے پر کھڑا کر دیا اس لیے کہ کل تک حضرتِ مسیح کے خلاف جو یہودیوں کا دوست تھا اب وہ حضرت عیسیٰؑ  کا پیروکار بن گیا تھا اور وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ ان لوگوں نے ان کے رسول( بلکہ جسے اب وہ نعوذ باللّٰہ خدا کا  بیٹا ماننے لگے تھے )کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ حضرت عیسیٰؑ  کے حوالے سے افراط و تفریط نے ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک مستقل عداوت ڈال دی اس لیے کہ ایک تو انہیں سرے سے نبیؑ  تک ماننے کے لیے تیار نہیں تھا بلکہ ان کی پیدائش کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتا تھا اور دوسرا ان کو فوق البشر خدا کا بیٹا قرار دیتا تھا جو پہلے کے لیے شرک کے درجے میں شمار ہوتا تھا۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کی بہترین عقیدے کا علمبردار دینِ محمدی ہے جو حضرتِ مسیحؑ کو نبی بھی تسلیم کرتا تھا اور ربوبیت میں ان کی حصہ داری کا انکار بھی کرتا ہے ایسے میں چاہئے تو یہ تھا کہ یہ دونوں اس گروہ اس دینِ حنیف کی جانب دوڑ کر آتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سورہ آل عمران میں ارشادِ خداوندی ہے :

تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے،  تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہو،  اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لیے بہتر ہوتا،  ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔

ان دونوں نے اسلام کے خلاف محاذ کھول دیا اور اپنے اپنے انداز میں ریشہ دوانیاں کرنے لگے۔ اللّٰہ رب اّلعزت نے مسلمانوں کو یہودیوں کے طرزِ عمل سے اس طرح آگاہ فرما دیا اور یقین دہانی کر دی کہ یہ لوگ کیا کچھ کر سکیں گے اور کس حالت میں مبتلا رہیں گے :

یہ لوگ ستانے کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے،  اور اگر یہ تم سے جنگ کریں تو تمہارے سامنے پیٹھ پھیر جائیں گے،  پھر ان کی مدد (بھی) نہیں کی جائے گی،  وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں ان پر ذلّت مسلط کر دی گئی ہے سوائے اس کے کہ انہیں کہیں اللّٰہ کے عہد سے یا لوگوں کے عہد سے (پناہ دے دی جائے ) اور وہ اللّٰہ کے غضب کے سزاوار ہوئے ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کی گئی ہے،  یہ اس لیے کہ وہ اللّٰہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے،  کیونکہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور (سرکشی میں ) حد سے بڑھ گئے تھے،  (آل عمران ۱۱۱)

مندرجہ بالا آیت اصل میں بنی اسرائیل کی باقی ماندہ تاریخ پر نہایت جامع تبصرہ ہے جس میں ان کے زوال کی داستان کے ساتھ ساتھ رسوائی کی وجوہات بھی بیان کر دی گئی ہیں۔ اس تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوے بے ساختہ نبی کریمؐ کی وہ حدیث یاد آ جاتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ:

تم بھی آخرکار پچھلی امتوں ہی کی روش پر چل کر رہو گے حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گھسے ہیں تو تم بھی گھسو گے۔ صحابہ نے پوچھا :یا رسول اللّٰہ،  کیا یہودو نصاریٰ مراد ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا اور کون؟

اس داستانِ شکست و ریخت میں گویا امت مسلمہ کے لیے سامانِ عبرت ہے اگر ہم نے بھی جانتے بوجھتے وہی طرز عمل اختیار کر لیا جو اللّٰہ واحد القہار کے غضب کو دعوت دینے والا ہے تو ہمارا انجام بھی کچھ مختلف نہ ہو گا اس لیے کہ ؎

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

٭٭٭

 

وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی

اُمّ المومنین حضرت صفیہؓ کا تعلق ایک مشہور یہودی گھرانے سے تھا۔ آپ کے والد اور چچا دونوں کا شمار بڑے علماء میں ہوتا تھا۔ جب نبی کریم ؐ کی مدینہ آمد ہوئی تو یہ دونوں حضرات ملاقات کے لیے گئے اور دیر تک گفتگو کی واپس آنے کے بعد ان لوگوں کی جو بات چیت حضرت صفیہؓ نے سنی وہ اس طرح ہے :

چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں

والد:خدا کی قسم،  ہاں

چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے ؟

والد: ہاں

چچا: پھر کیا ارادہ ہے ؟

والد: جب تک جان میں جان ہے میں مخالفت کروں گا اور اس کی ایک بات چلنے نہ دوں گا

اس کیفیت کی ترجمانی فرقانِ عظیم میں کچھ یوں کی گئی ہے :

اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے۔ اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟باوجود یکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی،  باوجویکہ وہ اس کی آمد پہلے کافروں کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے،  مگر جب وہ چیز آ گئی جسے وہ پہچان بھی گئے،  تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا پس اللہ کی لعنت ہے ان منکرین پر۔ کیسا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں اور جو ہدایت اللّٰہ نے نازل کی ہے اسے قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللّٰہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو چاہا نواز دیا لہٰذا اب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہو گئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے (بقرہ ۸۹۔ ۹۰)

حضورِ اکرم ؐکی ہجرت کے وقت مدینہ میں یہودیوں کے تین بڑے قبائل موجود تھے۔ ان میں سے دو بنی نضیر اور بنی قریظہ کے اوس سے اور بنی قینقاع کے خزرج سے حلیفانہ تعلقات تھے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ سب سے پہلے یہ اہلِ کتاب قبائل ایمان لاتے لیکن ایسا نہیں ہوا،  جس کی مختلف وجوہات تھیں ان میں سے ایک ان کے اندر پایا جانے والا جذبہ حسد تھا۔ حسد کی اس آگ نے انہیں اس قدر باؤلا کر دیا تھا کہ وہ نہ صرف نبی ؐ سے دشمنی کر رہے تھے بلکہ اللّٰہ کے فیصلے پر اعتراض کر رہے تھے۔  ان کی یہ خام خیالی تھی کہ اللّٰہ رب العزت کو اپنے رسول کا تعین کرنے سے قبل ان احمقوں سے توثیق کروانی چاہئے۔ یہ بے وقوف اس معاملے میں اللّٰہ کے علاوہ حضرتِ جبرئیلؑ سے بھی برگشتہ تھے :

 کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل کا دشمن ہو (اس کو غصے میں مر جانا چاہیئے ) اس نے تو (یہ کتاب) خدا کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے،  اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔ جو شخص خدا کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو ایسے کافروں کا خدا دشمن ہے (بقرہ ۹۷۔ ۹۸ )

اس تمام غم و غصہ کی بنیادی وجہ نسلی تفاخر تھا۔ بیجا خوش گمانیاں انہیں قبولیتِ حق سے روک رہی تھی اسی لیے صاف صاف کہلوا دیا گیا:

کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے تب تو تمہیں چاہئے کہ موت کی آرزو کرو اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی آرزو نہیں کریں گے اس لیے کہ اپنے ہاتھوں سے جو کچھ کما کر انہوں وہاں بھیجا ہے اس کا اقتضا یہی ہے اور خدا ظالموں سے (خوب) واقف ہے (بقرہ ۹۴ )

یہودیوں کو اپنی نسلی تفاوت کا بڑا غرہ تھا،  ساتھ ہی ان کے اندر فرمانبرداری اور وفا شعاری کا فقدان تھا۔ ظاہری دینداری اور اپنے منتخب شدہ ہونے کا خیال ان کے گلے کا ایک ایسا طوق بن گیا تھا جس سے ان کی گردن اکڑی ہوئی تھی اسی غرور نے ان سے ابلیسی نافرمانیاں کروائیں اور ان کو عنداللّٰہ مبغوض ٹھہرایا ان کا حال تو بقول افتخار عارف یہ تھا  ؎

وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آ تی

وہ کیا فلک پہ نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں

یہودیوں کو اپنے بارے میں غلط فہمی اللّٰہ کی اس نعمت کے باعث ہوئی جس سے انہیں سارے عالم پر فضیلت بخشی گئی تھی اور فرعون کے جبر سے نجات کے بعد دوبارہ امامت کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔ فرمانِ خداوندی ہے :

فرعون نے ملک میں سر اُٹھا رکھا تھا اور وہاں کے باشندوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اُن میں سے ایک گروہ کو (یہاں تک) کمزور کر دیا تھا کہ اُن کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا اور اُن کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ بیشک وہ مفسدوں میں تھا۔ اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اُن پر احسان کریں اور اُن کو پیشوا بنائیں اور انہیں (ملک کا) وارث کریں (قصص ۴۔ ۵)

بنی اسرائیل اس بات کو بھول گئے کہ یہ نعمتیں عارضی طور پر اس دنیا میں عطا کی گئی ہیں ان کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اس بات کو بھی بھول گئے کہ اللّٰہ اپنے اس انعام سے محروم کر دینے پر بھی قادر ہے۔ یہود نے اس نعمت کو تو یاد رکھا لیکن اس کے باعث جو ذمہ داریاں وارد ہوتی ہیں ان کو بھول گئے۔ جس طرح آج کل ا مت کا حال ہے۔ ہمیں اپنے اعلیٰ و ارفع منصب کا خیال تو بہت ہے لیکن اپنے فرضِ منصبی سے ہم بھی بنی اسرائیل کی طرح غافل ہیں۔ دورِ حاضر میں امت کے کچھ دانشور یہودیوں کے فلسطین پر دعویٰ کو قرآن مجید کی روشنی میں حق بجانب ٹھہرانے کی جرأت کر جاتے ہیں حالانکہ یہ حضرات بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں جس میں بنی اسرائیل گرفتار ہو گئے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جواس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کے بجائے ان پر اتراتے ہیں،  انبیاء کو جھٹلاتے ہیں اور ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں اپنی نعمتوں سے محروم اور ان کے منصب سے معزول کر دیتا ہے اسی سورہ قصص میں آگے ارشاد ربانی ہے :

اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کر ڈالا جو اپنی (فراخی) معیشت میں اترا رہے تھے۔ سو یہ اُن کے مکانات ہیں جو اُن کے بعد آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم۔ اور اُن کے پیچھے ہم ہی اُن کے وارث ہوئے۔ اور تمہارا پروردگار بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا۔ جب تک اُن کے بڑے شہر میں پیغمبر نہ بھیج دے جو اُن کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اس حالت میں کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں (قصص ۵۸۔ ۵۹)

ظلم کا ارتکاب قوموں کو منصبِ امامت سے محروم کر دیتا ہے اسی لیے جب حضرت ابراہیمؑ کو امامت کی بشارت سنائی گئی اور انہوں نے اپنی اولاد کے سلسلہ میں اللّٰہ رب العزت سے استفسار کیا تو جواب ملا میرا وعدہ ظالموں کے لیے نہیں ہے اس دنیا میں کسی ایک قوم کودوسری قوموں پر جو فضیلت عطا کی جاتی ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے نہ صرف انعام بلکہ ایک آزمائش بھی ہوتی ہے اس نعمت خداوندی کا قیام و دوام امتحان میں کامیابی یا ناکامی پر منحصر ہوتا ہے اس حقیقت کی تصدیق مندرجہ ذیل آیت کرتی ہے :

اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کیے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے بے شک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے (انعام ۱۶۵)

عام طور سے لوگ انعاماتِ خداوندی کو اپنی صلاحیت و محنت سے منسوب کر کے ان کامن مانا استعمال کرنے لگتے ہیں اور اس کے عطا کرنے والے رب ذوالجلال کے مقصد و منشاء سے روگردانی کر بیٹھتے ہیں بنی اسرائیل کی تاریخ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہے کہ انہیں اپنے برگزیدہ ہونے کا تو شدید احساس تھا اور آج بھی ہے لیکن یہ لوگ کفرانِ نعمت کی تمام حدوں سے گذر گئے تھے۔ انبیاء کی فرمانبرداری کرنے کے بجائے ان کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور اس ظلمِ عظیم کی ایک اہم وجہ ان کا نفس پرستی میں مبتلا ہونا تھا:

ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے (لیکن) جب کوئی رسول ان کے پاس ان کی خواہشاتِ نفس کے خلاف کچھ لے کر آیا تو کسی کو انہوں جھٹلا یا اورکسی کو قتل کر دیا اور اپنے تئیں یہ سمجھے کہ کوئی فتنہ رونما نہیں ہو گا اس لیے اندھے اور بہرے بنتے چلے گئے اللّٰہ ان کی یہ سب حرکات دیکھتا رہا ہے (مائدہ ۷۰۔ ۷۱)

بنی اسرائیل کے اس رویہ میں امت مسلمہ کے لیے تازیانہ عبرت ہے ہم آخری رسول کی امت ہیں اس لیے ہمارے درمیان انبیا تو نہیں آئیں گے لیکن ان مصلحین کے ساتھ جنہوں نے انبیاء کے طریقہ پر اصلاح کا کام کیا اور ان تحریکیں ساتھ جو انبیائی مشن کو لے کر اٹھیں،  ہم نے کیسا سلوک کیا؟بالکل بنی اسرائیل کی طرح کسی کا انکار تو کسی کا قتل۔ اگرحقیقتِ حال یہی ہے تو ہمیں بھی اللّٰہ کے غضب سے کون بچا سکتا ہے ؟

اللّٰہ رب العزت کی جانب سے آنے والی پے در پے یاد دہانیوں کے باوجود بنی اسرائیل روگردانی کی روش پر سرگرداں رہے یہاں تک کہ حضرت مریم پر بہتان طرازی کی جرأت کر ڈالی اور حضرتِ عیسیٰؑ کے قتل کی کوشش میں نہ صرف شریک ہو گئے بلکہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس پر فخر جتانے لگے۔ سورہ نساء کی آیت ۱۵۶ تا ۱۵۷ میں اس کا بیان یوں پایا جاتا ہے :

پھر وہ اپنے کفر میں اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا،  اور خود کہا کہ ہم نے مسیح،  عیسیٰ ابن مریم،  رسول اللّٰہ کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ فی الواقع انہوں نہ اس کو قتل کیا اور نہ صلیب چڑھایا،  بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا۔

یہودیوں کو اس رویہ کی سزا دنیا ہی میں رومیوں کے ذریعہ سے بحال کر دی گئی جن رومیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر یہ سب کیا گیا تھا انہوں نے آگے بڑھ کر عیسائیت کو قبول کر لیا اور بنی اسرائیل پھر ایک بار اپنی شامتِ اعمال شکار ہو گئے نیز سرزمینِ مقدس سے ذلیل و پسپا کر کے کھدیڑ دئیے گئے بقول شاعر  ؎

یہ میرے دشمن یونہی تو پسپا نہیں ہوئے ہیں

کوئی تو ہے لے رہا جو انتقام میرا

قیصر نے یہودیوں پرفلسطین کے دروازے بند کر دئیے اس کے باوجود حضورِ اکرم ؐ کے ساتھ ان کے رویہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی حالانکہ مدینہ میں اپنی ریاست قائم کرنے کے بعد محمد ﷺ نے ‘جیو اور جینے دو’ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے یہودی قبائل کے ساتھ حلیفانہ معاہدے کیے تاکہ حضرتِ  ابراہیمؑ کو ماننے والی دونوں قومیں باہم امن وسلامتی سے رہ سکیں لیکن اس خیر سگالی کے جواب میں سازش و عداوت،  بغض و نفرت اور عناد و بغاوت کے علاوہ کچھ اور نہیں آیا۔ مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہر کامیابی سے ان کے دل کی جلن میں اضافہ ہوتا رہا لیکن وہ مسلمانوں کا کچھ بگاڑ نہ سکے ان کی ریشہ دوانیاں ان کے کسی کام نہیں آئیں اس لیے کہ اہل ایمان ان سے متاثر ہوئے بغیر مندرجہ ذیل یقین دہانی کے بھروسے صبر و استقا مت کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے ا ور آخر کار اللّٰہ کی مدد و نصرت سے کامیاب و کامران ہو گئے :

ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں جل مرو اللّٰہ دلوں میں چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللّٰہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللّٰہ اس پر حاوی ہے۔ (آل عمران ۱۲۰)

٭٭٭

 

ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

خزرج عربی زبان میں ‘ٹھنڈی ہوا’ کو کہتے ہیں اور اوس کے معنیٰ ‘عطیہ ’ کے ہوتے ہیں۔ مکہ کے اندر تیراسال تک سختیوں اور صعوبتوں کی کڑی دھوپ برداشت کرنے کے بعد نبی کریم ؐ اور ان کے ساتھیوں کو یثرب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا قدرت کی جانب سے ایک عطیہ کی مانند نصیب ہوا۔ یعنی خزرج اور اوس دونوں قبائل کی مدد و نصرت ایک ساتھ شاملِ حال ہو گئی۔ یہ انصارِ اسلام تھے جنہوں نے اپنی جان نثار کر کے اسلام کو سرخ رو کرنے کی بیعت کی تھی۔ مدینہ کے انصار کی نفسیات کو جاننے کے لیے ہجرت سے قبل داعی اسلام حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ساتھ پیش آنے والے ایک والے ایک واقعہ سے مدد ملتی ہے۔ حضرت مصعبؓ سے کسی ہمدرد نے کہا کہ اگر فلاں سردار اسلام قبول کر لے تو آ پ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔

حضرت مصعبؓ اس کے باغ میں پہونچ گئے اور کھجوروں کے ایک جھنڈ کے نیچے بیٹھ کر خوبصورت لحن کے ساتھ قرآن پڑھنے لگے۔ یہ سن کر چند لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے جب باغ کے مالک اور قبیلے کے سردار کو اس مداخلتِ  بیجا کے بارے میں پتہ چلا تو وہ نیزہ لہراتا ہوا وہاں پہونچ گیا اور گرجدار آواز میں بولا تم میری اجازت کے بغیر میرے باغ میں کیسے داخل ہو گئے،  فوراً یہاں سے چلے جاو ورنہ تمہیں میں اپنے نیزے سے ہلاک کر دوں گا۔

 حضرت مصعبؓ  اس کی جانب دیکھ کر مسکرائے اور بولے آپ بالکل صحیح فرما رہے ہیں مگر آپ ایک بار میری بات سن لیں اگر میری بات بری لگے تو میں یہاں سے فوراً چلا جاؤں گا۔ قبیلہ کے سردار نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑ دیا اور کہا تم نے منصفانہ بات کہی ہے (کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟)حضرت مصعبؓ  نے پھر خوش الحانی کے ساتھ قرآنِ حکیم کی چند آیات کی تلاوت کیں۔ اکھڑ سردار بے حد متاثر ہوا اور پوچھا یہ کیا ہے ؟اور اس کا مطلب و مفہوم کیا ہے ؟حضرت مصعبؓ نے اس کے سامنے اسلام کی دعوت رکھی تو اس نے پوچھا ان اصول و ضوابط کو اپنانے کے لیے تم لوگ کیا کرتے ہو؟ جواب میں اسے بتایا گیا کہ اس کے لیے محمدؐ پر ایمان لانا ہو گا۔

یہ سن کر وہ جوش و خروش کے ساتھ واپس چلا گیا اور اپنے سارے قبیلہ کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب سارے لوگ اکٹھا ہو گئے تواس نے زوردار آواز میں سوال کیامیں کون ہوں ؟سارے لوگوں نے ایک آواز ہو کر جواب دیا آپ ہمارے سردار ہیں سب سے زیادہ عقلمند اور سب سے بڑے بہادر۔ اس نے نیزہ ہوا میں لہرا کر کہا کہ اگر تم لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا تو میں تمہارا سب سے بڑا دشمن ہوں گا سورج ڈھلنے تک سارا قبیلہ مسلمان ہو چکا تھا۔

مدینہ کے ان اہل ایمان کے درمیان تین بڑے یہودی قبائل بھی آباد تھے یہ لوگ اوس اور خزرج سے تقریباً سو سال قبل یثرب میں داخل ہو چکے تھے اور جب یہ یمنی قبائل یثرب آئے تو شروع میں یہودیوں نے انہیں اپنے زیرِ ا ثر رکھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے بعد میں اوس اور خزرج میں باہمی جنگ چھڑ گئی لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ یہودی نہ اٹھا سکے۔  اس لیے کہ ان کے اندر خود عداوتیں پائی جاتی تھیں ایک قبیلہ خزرج تو باقی دو اوس کے ساتھ ہو گیا۔ یہ وہی سرد جنگ کی سی صورتحال تھی جس میں نصرانی ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار تھے مگر مسلمان اس لڑائی سے کوئی نفع نہ حاصل کر سکے بلکہ خود بھی ان دونوں کے ساتھ تقسیم ہو گئے اور دوسرے درجہ کی حلیفانہ حیثیت پر راضی ہو گئے لیکن جب اوس اور خزرج ایمان لے آئے اوراس کی بدولت آپس میں شیر و شکر ہو گئے تو بیچارے یہودی نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے ان لوگوں نے مجبوراً اہل ایمان سے امن کا معاہدہ تو کر لیا لیکن اندر ہی اندر طیش کھاتے رہے۔

مسلمانوں کو اپنے پہلے ہی معرکہ بدر کے فوراً بعد بنی قینقاع کی جانب سے دغا بازی کا سامنا پیش آیا۔ مدینہ کے یہودی دل ہی دل میں مشرکین کی چڑھائی سے خوش تھے انہیں یقین تھا کہ یہ ننھا سا چراغ فوراً بجھ جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکادوسرے قبیلوں نے تو خیر اپنے آپ کو کسی طرح قابو میں رکھا لیکن قینقاع سے یہ نہ ہوسکا جب انہیں تنبیہ کی گئی تو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کے سردار نے چیلنج کر دیا اور کہا ہمیں قریش نہ سمجھنا جو تم سے ہار جائیں گے بلکہ ہم تلوار کے دھنی ہیں۔

حضور اکرمؐ نے ان کی منہ زوری سے صرفِ  نظر کیا لیکن پھر ایک ایسا واقعہ رونما ہو گیا جس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا ایک مسلم خاتون نے ان کی دوکان سے لباس خریدا۔ شرارتاً انہوں اسے اس طرح سے سلا کہ وہ بازار کے بیچ کھل کر گر گیا اس پر یہودی اوباش نوجوان تالیاں بجا کر اس خاتون کاتمسخر اڑانے لگے اس بیچ ایک مسلم نوجوان کا وہاں سے گذر ہوا جس نے ایک یہودی کو قتل کر دیا۔ مسلمانوں نے یہودیوں کی اس غلطی پر سرزنش کی اور ہرجانہ کا مطالبہ کیا جسے ان لوگوں ٹھکرا دیا نوبت جنگ کی آئی لیکن وہ بڑی آسانی سے زیر ہو گئے اس کے باوجود ان کو کوئی جانی نقصان پہونچائے بغیر صرف ملک بدر کرنے پر اکتفا کیا گیا۔

بنو نضیر میں کعب بن اشرف نامی شاعر حضور اکرمؐ کی ہجو کیا کرتا تھا اور مشرکین مکہ سے بھی اس کے تعلقات تھے انہیں کے ایک فرد رافع بن سلمّ نے غطفان اورسولیم کے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر حملہ پر اکسایا معاہدے کی رو سے یہودیوں کے لیے مسلمانوں کو معاوضہ کی رقم ادا کرنی لازم تھی جب نبی کریمؐ اسے وصول کرنے اپنے دس ساتھیوں کے ساتھ ان کے محلے میں پہونچے تو یہودیوں نے بظاہر سب کا خیر مقدم کیا لیکن سازش کر کے دیوار کے اوپرسے ایک پتھر پھینک کر آپؐ کو شہید کرنے کا ناپاک منصوبہ بنا ڈالا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس کی خبر دے دی اور آپؐ قبل از وقت لوٹ آئے اس کے بعد بنو نضیر کو اس غداری کی پاداش میں دس دن کے اندر وہاں سے نکل جانے کا نوٹس دیا گیا لیکن منافقین اور دیگر یہودی قبائل کے بھڑکانے پر وہ نہ نکلے۔

مسلمان فوج نے الٹی میٹم کے ختم ہونے پر چڑھائی کی ان لوگوں نے حضور ؐ کے خیمہ پر تیر برسائے اور ان کے ایک تیر انداز عروہ بن انیس نے خیمہ میں گھس کر شب خون مارنے کا منصوبہ بنا یا لیکن حضرت علیؓ نے اس کا سر قلم کر دیا اور ان کی ایسی ناکہ بندی کہ کوئی کمک ان تک نہیں پہونچ سکی بالآخر انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس بد عہدی کے عوض یہودی قانون کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انکے مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا اور عورتوں بچوں کو غلام بنا لیا جاتا لیکن مسلمانوں نے انہیں اپنا مال و متاع چھوڑ کر نکل جانے کا پر امن راستہ دے دیا۔

جنگ احد کے بعد یہودیوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ ان لوگوں نے سارے مشرک قبائل کو متحد ہو کر مدینہ پر حملہ کرنے پر آمادہ کر لیا۔ جنگ احزاب مسلمانوں کے لیے بہتبڑی آزمائش تھی۔  اس موقع پرمسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لیے خندق کھودنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔  بنو قریظہ اب بھی اہل ایمان کے حلیف تھے اس کے باوجود جنگ کے دوران ان لوگوں نے غداری کی اور اچانک مسلمانوں کے گھر غیر محفوظ ہو گئے ان کے ساتھ ساز باز رکھنے والے منافقین کو بھی میدانِ جنگ سے نکل بھاگنے کا نادر موقع ملا اس لیے جنگ کے فوراً بعد بنو قریظہ کو سخت سزا دے کر مدینہ کے قرب و جوار سے نکال دیا گیا۔

 اس واقعہ کے بعد تینوں یہودی قبائل مدینہ سے تقریباً ۱۰۰ میل دور خیبر کے علاقے میں آباد ہو گئے لیکن وہاں سے بھی ان کی ریشہ دوانیاں کا سلسلہ جاری رہا۔  اس بیچ بنو مصطلق نے بنو خزاعہ کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے تیار کر لیا اور ان کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک ہوئے لیکن یہ اتحاد بھی ناکام و نامراد ہوا۔ اسی طرح بنو نضیر اور قینقاع نے دو جنگجو بدو قبائل بنو بکر اور بنو سعد کو مسلمانوں پر حملہ کے لیے تیار کر لیا اور انہیں سراغ رسانی سے لے کر اسلحہ اور سواریوں تک کے مہیا کرنے کا یقین دلایا لیکن جنگ خیبر میں ان کی یہ کوشش بھی ناکام رہی اس طرح یہودیوں کے سارے منصوبے اور سازشیں ناکام ہوئیں اور جزیرۃ العرب سے ان کی ہوا پوری طرح اکھڑ گئی۔ مسلمانوں کا اقتدار مدینہ سے نکل کر شام کی جانب پھیلتا چلا گیا۔

عیسائیوں سے مسلمانوں کا پہلا سابقہ حاتم طائی کے قبیلے بنی طائی سے پڑا۔ عدی بن طائی جنگ کے بعد بھاگ کھڑا ہوا لیکن بعد میں مدینہ آ کر اسلام قبول کر لیا۔ بازنطینی حکومت کے خلاف مسلم فوجوں نے تبوک تک پہونچ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور نتیجہ میں کئی عیسائی قبائل نے اسلام قبول کر لیا اور کچھ جزیہ دیکر باجگذار بن گئے اس طرح اسلام شام کی سرحدوں میں داخل ہو گیا اس بیچ یمن کا معرکہ پیش آیا جسے مسلمانوں نے اپنی نظریاتی قوت سے فتح کیا۔ یمن پر عیسائی علماء اور یہودی رہبان کا خاصہ اثر تھا حضرت علیؓ کو نبی کریمؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ  کے تعاون کی خاطر روانہ کیا۔ علیؓ نے پہلے عیسائی پادریوں سے مناظرہ کر کے ان سے لوہا لیا اور پھر یہودیوں کے ساتھ طویل مباحثہ چلا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے کئی علماء نے اسلام قبول کیا عوام نے بھی پیروی کی اور تقریباً پورا یمن مشرف بہ اسلام ہو گیا۔

اس دوران ایران پر رومیوں نے فتح حاصل کر لی تھی اور یہودیوں کے برے دن لوٹ آئے  ان کو پھر ایک بار فلسطین سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ بازنطینی حکومت نے اپنی فتح سے حوصلہ پا کرمسلمانوں کے اثرات کو شام سے ختم کرنے کا منصوبہ بنا یا۔  حضرت عمرؓ  کے دورِ خلافت میں یرموک کی جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے عیسائیوں کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کر دیا اس طرح مسلمانوں کا لشکر شام سے ہوتا ہوا فلسطین میں داخل ہو گیا اور یروشلم کو فتح کر لیا۔ یروشلم کے لارڈ بشپ نے شرط رکھی کہ اگر مسلمانوں کا خلیفہ بذاتِ خود آئے تو وہ ان کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا حالانکہ کسی شکست خوردہ رہنما کو اس طرح کی شرائط رکھنے کا حق حاصل نہیں ہوتا اس کے باوجود تالیفِ قلب کی خاطر حضرت عمرؓ نے یروشلم کا سفر کیا اور عیسائیوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی امن و امان کے ساتھ رہنے کی یقین دہانی کرائی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح کا تحفظ مسلمانوں کے ذریعہ یہودیوں کو حاصل ہوا اس کا تصور بھی وہ عیسائیوں کی جانب سے نہیں کر سکتے تھے۔ آج بھی حکومت کے گلیاروں میں اپنے سارے اثرات کے باوجود یوروپ اور امریکہ کے عام معاشرے میں یہودیوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ان کا تشخص ایک بخیل استحصالی سرمایہ دار کا ہے اور عقائد کی سطح پر جو اختلاف ہے وہ اپنی جگہ ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت ۶۴ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان پائی جانے والی قیامت تک کی عداوت کا ذکر پایا جاتا ہے ارشادِ ربانی ہے :

اور ہم نے ان کے اندر باہم عداوت اور بغض قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے

تاریخ شاہد ہے کہ دور وسطیٰ میں جب یوروپ سے یہودیوں کو نکالا جا رہا تھا ترکی کی خلافت عثمانیہ انہیں پناہ دے رہی تھی۔ ۱۲۹۹ ء میں سلطان بن یزید نے ان کا استقبال کیا ۱۳۴۲ ء میں بازنطینی حکومت نے انہیں نکال باہر کیا۱۳۷۶ میں ہنگری نے رومیوں کی پیروی کرتے ہوئے یہودیوں کو نکل جانے کا حکم دیا اٹھارہ سال بعد فرانس نے ۱۳۹۴ ء میں انہیں نکال باہرکیا۔ ۱۴۲۰ء میں سالونیکا اور ویٹکن یعنی اٹلی نے ان کا دیس نکالا کیا اور اسپین سے مسلمانوں کی پسپائی یہودیوں کے لیے مصیبت کا سبب بنی شاہ فردیناند نے یہودیوں پر بے شمار ظلم توڑے۔ صلیبی جنگوں کے دوران بھی جب جب عیسائیوں کو یروشلم پر فتح حاصل ہوئی یہودیوں کی شامت آتی رہی۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی تک جاری رہا۔ ۱۹۴۳ ء میں مسیحی ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اظہر من ا لشمس ہے۔

انیسویں صدی کے اواخر میں خلافتِ  عثمانیہ کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی تھی اس وقت چہار جانب خلافت عثمانیہ کے خلاف خارجی و داخلی شورش کا دور دورہ تھا۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر۱۸۷۶ء میں ۳۴ سالہ عبدالحمید کو اپنے چچا عبدالعزیز کی معزولی اور پھر سیاسی مخالفین کی جانب سے کئے جانے والے قتل کے بعد خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن درمیان میں عبدالعزیز کے بیٹے کو بھی کچھ عرصہ کے لیے خلیفہ بنا کر معزول کر دیا گیا تھا گو یا یہ سیاسی افرا تفری کا زمانہ تھا۔ عبدالحمید کو پہلا چیلنج مدہت پاشا سے تھا جو نہ صرف عوام میں مقبول تھا بلکہ شوریٰ پر خاصہ رسوخ رکھتا تھا اس نے خلیفہ کی مرضی کے خلاف روس سے جنگ چھیڑ دی اور شکست کے لیے خلیفہ وقت کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا بالآخراسے معزول کر دیا گیا اس کے بعد شوریٰ کے سربراہ عونی پاشا نے برطانیہ سے ساز باز کر کے خلافت کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو یونان اور بوسنیا سے ہاتھ دھونا پڑا۔

 ایک طرف خلافت کمزور ہو رہی تھی دوسری جانب یہودی جوسارے یوروپ میں نا پسندیدہ تھے ان کے اپنے وطن کی خاطر راہ ہموار کر رہے تھے۔ نظریاتی طورپر صیہونی تحریک کی بنیاد ۱۸۴۳ء میں ربی الکالی اور کالی شر وغیرہ کی تحریروں سے پڑی لیکن اس کا عملی مظہر ۱۸۹۷ء کے اندر تھیوڈر ہرزل کی قیادت میں سوئزرلینڈ کے شہربیسل میں منعقد ہونے والی پہلی کانگریس کی شکل میں سامنے آیا ۱۹۰۱ء جب خلافت گوناگوں مسائل سے دوچار تھی یہودیوں نے مسلمانوں کے سارے احسانات کو بھلا کر امت کی کمزوری سے فائدہ اٹھا نے کا فیصلہ کیا اور معروف سرمایہ دار مزرے قراسووکو جو ایک بڑے بنک کا مالک بھی تھا دو یہودی رہنماؤں کے ہمراہ خلیفہ سے ملنے کی خاطر روانہ کیا اور وہ لوگ مندرجہ ذیل تجاویز لے کر حاضر ہوئے :

۱۔ عثمانوی ریاست کے تمام قرضہ جات ادا کر دئے جائیں گے

۲۔ بحری بیڑے کو پھر سے آراستہ کر دیا جائے گا

۳۔ خلافت عثمانیہ کی خوشحالی کی خاطرساڑھے تین کروڑ طلائی لیرہ بلاسودی قرض مہیا کیا جائے گا

اس کے بدلے درخواست کی گئی کہ

۱۔ یہودیوں کو جب مرضی ہو یروشلم جانے کی اور جتنا چاہیں رکے رہنے کی اجازت دی جائے

۲۔ یہودیوں کو یروشلم کے قرب و جوار میں اپنی مستقل بستیاں آباد کرنے کی اجازت دی جائے

خلیفہ وقت نے غیر معمولی بصیرت اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوے یہودی وفد سے ملنا تک گوارہ نہیں کیا ور کہلا بھیجا کہ ان غیرشائستہ یہودیوں سے بتلا دیا جائے کہ قرض کا بوجھ کوئی قابلِ شرم بات نہیں ہے۔ قرض تو فرانس پر بھی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا نیز یروشلم خلیفہ دوم حضرت عمرؓ  کے دور میں مملکت اسلامیہ کا حصہ بنا اور میں اس شہر کو یہودیوں کو فروخت کرنے کی شرمناک غلطی کر کے اپنے فرائض منصبی سے غداری کا مرتکب ہو کر عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہونچا سکتا،  یہودی اپنی دولت اپنے پاس رکھیں۔ عثمانی اسلام کے دشمنوں کی دولت سے بنے قلعوں میں اپنی حفاظت کا سامان نہیں کریں گے۔ خلیفہ عبدالحمید نے اس ایمان افروز موقف کے بعدصیہونیوں کے لئے اپنے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیئے۔ آج جن مسلمان مملکتوں نے مغرب کے نہاں خانوں میں پناہ لے رکھی ہے انہیں خلیفہ عبد الحمید کے موقف سے سبق لینا چاہئے۔

اسی سال صیہونیت کے بابا آدم تھیوڈر  ہرزل نے خلیفہ سے ملاقات کی کوشش تو عبدالحمید اس سے بھی ملاقات نہیں کی اور پیغام بھیجا کہ اس سرزمین کا ایک مشتِ خاک بھی دینے کا مجاز میں نہیں ہوں اس لیے کہ وہ میری ذاتی ملکیت نہیں ہے بلکہ ملت اسلامیہ کی میراث ہے۔ امت نے اس زمین کے لیے جہاد کیا اور اپنے لہوسے اس کی آبیاری کی ہے یہودی اپنی دولت اپنے پاس رکھیں جس دن خلافت کا خاتمہ ہو جائے گا تو انہیں ارض فلسطین مفت میں مل جائے گی لیکن جب تک میں زندہ ہوں میں فلسطین کو مملکت اسلامیہ سے الگ کر کے غیروں کے حوالہ کرنے پراپنے آپ کو تلوار سے ہلاک کر نے کو ترجیح دوں گا۔ یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا کہ میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم کے اعضاء کو کاٹنا شروع کر دوں جبکہ ہم ابھی زندہ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جس وقت خلیفہ عبدالحمید یہ کہہ رہے تھے امت بیمار ضرور تھی مگر زندہ تھی فی الحال جو کچھ نظر آتا ہے وہ امت کی ایک نہایت سجی سجائی لاش ہے جسے تابوت میں اس خوبصورتی سے سنوار کر رکھا گیا ہے گو یا اس کے زندہ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ امت کی زندگی اس کے اتحاد میں مضمر تھی اورناتحاد خلافت کی بنیاد پر قائم تھا۔ خلیفہ کا یہ اعلان کہ یہ میری نجی ملکیت نہیں خلافت کو دیگر نظامہائے سیاست مثلاً ملوکیت،  آمریت اور جمہوریت سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس میں حاکم امین ہوتا باقی تمام نظامِ سیاست،  حاکمِ وقت کو مالک بنانے کا کوئی نہ کوئی جواز فراہم کر ہی دیتے ہیں۔

 آج جو نام نہاد مسلم رہنما ڈھٹائی کے ساتھ فلسطین کے اندر ۱۹۷۶ء کی حالت پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں ان کے لیے خلیفہ عبدالحمید کا موقف تازیانہ عبرت ہے۔ یہ اس دور کی حالت جب تیونس،  مصر،  سوڈان اور لیبیا مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ مسلمان عیسائی یوروپ سے بر سرجنگ تھے اور یہودی اپنے صدیوں پرانے تعلقات کو فراموش کر کے بغاوت پر آمادہ تھے اس کے باوجود خلیفہ عبدالحمیداس حقیقت سے واقف تھے کہ مظلوم یہودیوں کو پناہ دینے میں اور یہودی ریاست کے قائم ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ کاش کے بعد کے حکمراں اور آج کے دانشور اس بات کو جانتے بقول شاعر ؎

ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں

کبھی چھپے ہوئے خنجر کبھی کھنچی ہوئی تیغ

سپاہِ ظلم کے اک ایک ڈھب سے واقف ہیں

پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ خلافت عثمانیہ کا اختتام تھا اور اسرائیلی ریاست کی ابتداء تھی۔ یوروپ نے اسرائیل کو قائم کر کے ایک ساتھ کئی مقاصد کو حاصل کیا۔ صدیوں پرانی اپنی یہودی دشمنی پر پردہ ڈال کر خود یہودیوں کے دوست بن گئے اور ان کے برسوں پرانے دوست مسلمانوں کو ان کا دشمن بنا دیا۔ یہودیوں نے اپنی ابن الوقتی کی روایت کے پیش نظر سارے احسانات کو یکسر بھلا دیا اور امریکہ و یوروپ کے آلہ کار بن گئے اور اپنے ازلی دشمنوں کے مفادات کی حفاظت کرنے لگے۔ یوروپ کو اس ریاست کے باعث اپنے درمیان پائی جانے والی اس منحوس قوم سے چھٹکارہ پانے کا موقع بھی ہاتھ آگیا ورنہ یہ سارے یہودی یوروپ میں بیٹھ کر مغرب کے خلاف ریشہ دوانیوں میں منہمک ہوتے۔

 انگریزوں نے مسلمانوں کو ان کا دشمن بنا کر مسلم دنیا میں سے ان کی مسابقت کا جڑ سے خاتمہ کر دیا۔ آج جس طرح مسلم دنیا کی معیشت پر انگریزوں کا قبضہ ہے یہودی سرمایہ داروں کی موجودگی میں یہ مونو پولی ممکن تھی۔ لیکن یہ سارے نقصانات ثانوی حیثیت کے حامل ہیں امت کا سب سے بڑا نقصان تو اس کے اتحاد کا پارہ پارہ ہونا تھا۔ ترکی کا اسرائیل کے ساتھ ہونا اور سعودی عرب کا ترکی کے خلاف ہونا۔ مصر کا اسرائیل کے ساتھ ہونا ایران کا اسرائیل کے خلاف ہونا۔ شام کا اسرائیل کے خلاف ہونا اور اردن کا اس کے ساتھ ہونا حد تو یہ ہے کہ حماس کا اسرائیل کے خلاف تو محمود عباس کا اس کے ساتھ ہونا امت کا سب سے بڑا المیہ ہے لیکن اب ہوا کا رخ بدل رہا۔

 کل تک جو لوگ حماس کو دہشت گرد گردانتے تھے اب وہ بھی حماس کے ساتھ ہو گئے ہیں جس کی دو وجوہات ہیں مغرب حماس کی ہمنوائی اس لیے کر رہا ہے کہ اسرائیل کی دہشت گردی اب بے حد عیاں ہو کر سامنے آچکی اور اس کا انکار ناممکن ہو گیا ہے۔ مسلمان حماس کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف حق پر ہے بلکہ میدانِ جہاد میں برسرِ پیکار بھی ہے۔

یہ ایک ایسی خوشگوار تبدیلی ہے جس کا اندازہ غیر مسلمین تو کجا مسلمانوں کو بھی نہیں تھا کسے خبر تھی کہ جس اسرائیل کو امت میں تفرقہ ڈالنے کی خاطر بنایا گیا ہے وہی ملت کے اتحاد کا سبب بن جائے گا۔ کس کے خواب و خیال میں یہ بات تھی کہ ترکی کے وزیر اعظم طیب اردغان کو سعودی عرب میں اسلام کی خدمت کے لیے فیصل ایوارڈ سے نوازا جائے گا اور کون جانتا تھا کہ ترکی کے ایماء پر غزہ کی حمایت میں سفینہ حریت عرف فریڈم فلوٹیلا کا اہتمام کیا جا ئے گا جس میں نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ ساری دنیا کے حریت پسند افراد شریک ہوں گے۔ اور تو اور کون سوچ سکتا تھا کہ پاکستان کے نہایت کمزور سمجھے جانے والے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس نازک سیاسی صورتحال کے اندر ببانگِ دہل یہ اعلان کر دیں گے کہ پاکستان ایران سے تعلقات کی بابت امریکی پالیسی کے پابند نہیں ہے۔

گردشِ ایام پیچھے کی جانب لوٹ رہا ہے،  بازی پھر ایک بار الٹ رہی۔ اس سال کے لیے استنبول کو عالمی سطح پر یوروپ کا ثقافتی دارالخلافہ قرار دیا گیا ہے اس موقع پر ماہِ  جون میں یونیورسٹی کے اندر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مختلف دانشوروں کے علاوہ وزیر ثقافت نے بھی شرکت کی اور عثمانی دور کے اندر ہونے والی تہذیبی اور ثقافتی کاوشوں کا نہ صرف جائزہ لیا گیا بلکہ انہیں سراہا گیا اس علمی تقریب کے علاوہ ایک عظیم الشان ‘عثمانیہ سمپوزیم’ کا اہتمام اس سال ماہِ اکتوبر میں ہو رہا ہے۔ یہ ہفتہ بھر چلنے والی تقریبات ہیں جس میں ۳۰ اکتوبر کو خاص طور پراس وقت کے یوروپ اور مشرق وسطیٰ کے شاہی خاندانوں کے ساتھ عثمانی خاندان کے افراد کو دنیا بھرسے اکٹھا کیا جائے گا جن کی تعداد ۷۶ ہے۔ یہ لوگ جن کی اکثریت دنیا بھر میں بکھری ہوئی ہے جب ایک ساتھ جمع ہوں گے تو خود ان کے اپنے وطن میں ان کی کیفیت اختر الایمان کی اس نظم کی سی ہو جائے گی ؎

دیارِ غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو

شدید کرب کی گھڑیاں گذار چکنے پر

کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں

کسی ایک ایسی جگہ سے ہو یونہی میرا گذر

جہاں ہجومِ گریزاں میں تم نظر آ جاؤ

اور ایک ایک  کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے

عثمانیوں کو سرزمینِ ترکی پر خراجِ عقیدت یقیناً ایک حیرت انگیز بات ہے جس کا تصور بھی ماضی میں محال تھا لیکن یہ سب حقیقت میں ان لوگوں کی موجودگی میں ہونے جا رہا ہے جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انسانی تاریخ اس طرح کے عجائب سے بھری پڑی ہے انقلابِ زمانہ کی یہ کروٹ یقیناً مغرب کی نیند اڑا دے گی لیکن اگر اس سے اگر ملت خوابِِ غفلت سے بیدار ہو جائے اور اپنے کھوئے ہوئے مقام کا احساس کر لے تو وہ ایک بہت بڑی بات ہو گی۔

اس موقع پر ایک بارپھرفلسطین میں تحریک اسلامی کے رہنما شیخ رائد کی سفینہ حریت فلوٹیلا پر حملے کے بعد ترکی اور صیہونیت کے حوالے سے کی گئی پیش گوئی یاد آتی ہے ایسا لگتا ہے حریت کا یہ سفینہ غزہ کے حصار سے آگے نکل کر فلسطین کی آزادی سے ہوتا ہوا خلافت کے ساحل پر لنگر انداز ہو گا اس لیے کہ عالمِ انسانیت کی حقیقی آزادی کا خواب اس کے بغیر شر مندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ان حسین خوابوں کے پسِ پردہ حکیم الامت علامہ اقبال کے نقرئی الفاظ گونج رہے ہیں  ؎

کتابِ ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے

یہ برگِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر بال و پر پیدا

٭٭٭

 

ظلم بڑھ جائے تو رہتی نہیں قدرت خاموش

’ صیہونیت کی ابتداء ترکی سے ہوئی اور اس کا اختتام بھی وہیں سے ہو گا‘۔ آزادی فلو ٹیلا مہم پر اسرائیلی حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ رائد صلاح نے یہ تاریخی جملہ کہا۔ ویسے تو اس مرتبہ اسرائیل نے اس قدر عظیم حماقت کر ڈالی کہ دشمن تو کجا اس کے ووستوں کو بھی مذّمت کرنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن دیگر دشمنوں میں اور شیخ رائد میں بہت بڑا فرق ہے۔  وہ بذاتِ خود اس مہم میں شریک تھے۔ ان کی جانب نشانہ سادھ کر گولی چلائی گئی تھی لیکن بفضلِ تعالیٰ وہ محفوظ رہے۔ ویسے گولی کا نشانہ بھی ماوی مارارا نامی جہاز (جس پر آنے والی مدد کو فلوٹیلا کا نام دیا گیا تھا) کے کئی رضا کاروں کو بنایا گیا لیکن شیخ صاحب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ فلسطین کے اس حصہ کے رہنے والے ہیں کہ جس پر اسرائیل کا مکمل طور پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ آپ کے پاس اسرائیلی پاسپورٹ ہے اور آپ تحریکِ اسلامی اسرائیل کے شمالی علاقہ میں امیر ہیں۔ اس مہم پر آپ کے ساتھ جنوبی علاقے کے امیر شیخ حماد ابو دابس بھی موجود تھے۔

واپسی کے بعد ان دونوں کو گرفتار کر کے اپنے اپنے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ چار دن کے بعد جب انہیں عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا تو ان کے اپنے شہر ُام الفہم’ میں نعرہ تکبیر کے ساتھ شیخ رائد کا زور داراستقبال کیا گیا۔ رہائی کے بعد اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘ہرزل نے صیہونیت کی ابتداء ترکی میں کی تھی اور اس کام کو جسے وہ ترکی سے شروع کرنا چاہتا تھا اس کا خاتمہ ترکی ہی میں ہو گا،  قزاقی صریح جرم ہے ہمیں اپنی مدافعت کا اور کمزوروں کی مدد کرنے کا حق حاصل ہے۔ شیخ صاحب نے اپنی جرأت مندی سے ان تمام لوگوں کو آئینہ دکھا دیا جو مجبوری کا بہانہ بنا کر اپنی ذمہ داریوں سے منہ چراتے ہیں اور ثابت کر دیا کہ عزت و توقیر کا سر چشمہ دولت و  اقتدار نہیں بلکہ ہمت و جرأت ہے ایک قلندر کی دلیری نے پھر ایک بار بڑے بڑے نام نہاد شہنشاہوں کوشرمسار کر دیا۔

آزادی فلوٹیلا کی مہم میں ویسے تو چھ عدد جہاز شریک تھے جن میں ۷۰۰ سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ چونکہ یہ پیش قدمی ترکی کی ایک فلاحی تنظیم کی جانب سے کی گئی تھی اس لیے اس قافلے میں ۴۰۰ سے زیادہ ترکی باشندے تھے جوتمام ہی جہازوں میں موجود تھے۔ ایسے میں اسرائیلی حکام نے محض ماوی مارمارا نامی جہاز پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور ہیلی کاپٹر کے ذریعہ اس پر اترتے ہی اندھا دھند گولی باری کیوں شروع کر دی؟

ان دونوں سوالات کا کوئی قابلِ اطمینان جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ یہ پتہ نہ ہو کہ ان میں کون سوار تھا؟ گمانِ غالب تو یہی ہے کہ یہودی حملہ آوروں کو جنہیں صدر محمود احمدی نژاد نے ‘جنگلی کتے ’ کہا ہے انہیں دونوں سعید نفوس کو شہید کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا اور اگر وہ اپنے گھناؤنے منصوبے میں کامیاب ہو جاتے تو یہ مشہور کر دیا جاتا کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جو مجاہد اس قافلے میں شریک ہو گئے تھے۔ ان کی پیشگی اطلاع بد نامِ زمانہ موساد کو مل گئی اور آئی ڈی ایف نے انہیں ہلاک کر دیا نیز ان دونوں کے حوالے سے بے شمار جھوٹ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ نشر کر دیا جاتا۔ یہ اس امدادی مہم کو بدنام کرنے کی نہایت گہری سازش تھی جس میں اللّٰہ رب العزت نے اپنے دشمنوں کو ناکام کر دیا ‘مکرو ومکراللّٰہ۔ اللّٰہ خیرالماکرین’

مذکورہ بالا قیاس کے حق میں دو ثبوت تو خود یہودیوں نے پیش کر دئیے ایک طرف جہاں نتن یاہو ‘مدافعت کا حق ہے ’ کی پرانی رٹ لگا رہا تھا اسرائیل کے فوجی ترجمان نے ریڈیو پر اس بات کا اعتراف کر لیا کہ یہ سراغ رسانی کی غلطی تھی۔ اس نے کہا کہ ہمیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ مزاحمت ہو گی۔ وہ ترجمان اس بات کو بھول گیا کہ مدافعت کا حق صرف یہودیوں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی حق ہر انسان کو حاصل ہے نیز اس مہم میں شامل لوگ ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر نہیں بلکہ جان کو ہتھیلی پر رکھ کر آرہے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اسرائیلی فوجی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کی شیخ رائد نے ایک حملہ آور کو بچانے کی کوشش کی لیکن فوجیوں نے اسے ہلاک کر دیا حالانکہ ممکن ہے کسی مجاہد نے اپنے رہنما کو بچانے کی خاطر اپنی جان کا حسین نذرانہ پیش کر دیا ہو۔ اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں مجاہدینِ  اسلام نے اپنے بھائی کا تیر اپنے سینے پرلے لیا اور جامِ شہادت نوش فرما کر مرتبۂ عظیم پر فائز کر دئیے گئے۔ بقول شاعر ؎

یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں

پاکستان سے نشر ہونے والے ‘ آج’ نامی ٹی وی کے التفات حسین نے اطلاع دی کہ چند رضا کاروں کو کنپٹی پرپستول رکھ گولی چلائی گئی۔ ترکی فارنسک رپورٹ کے مطابق ایک شہید کے چہرے پر چھ گولیوں کے نشان پائے گئے اسرائیلی حکومت نے اس فوجی کو قومی اعزاز سے نوازنے کا اعلان کیا جس نے چھ مجاہدین کو شہید کیا تھا اور ایک ترجمان نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ اس قافلے میں القاعدہ کے کچھ لوگ سوار ہو گئے تھے۔ اس پر شیخ رائد کی جانب یہ تصدیق بھی ہو گئی کہ اسرائیلی درندوں نے کسی اورکو ان کے بدلے شہید کر دیا ان تمام باتوں کو جوڑ کر دیکھا جائے تو فلوٹیلا پر صیہونی بربریت کے گوں ناگوں مقاصد میں سے سب سے خطرناک مقصد ظاہر ہو جاتا ہے جو عام طور پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ فلوٹیلا پر حملے کے بعد جس خوف اور وحشت کا مظاہرہ اسرائیل کی جانب سے ہوا اس سے بیک وقت یہودیوں کا جھوٹ اور کمزوری دونوں عیاں ہو کرسامنے آ گئی۔

اس قافلے میں اگر واقعی ان کے دعوے کے مطابق القاعدہ کے لوگ شامل تھے تو اسرائیل کی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج نے ان پر حملہ کیوں نہیں کیا؟ نیزفلوٹیلا کے رضا کاروں کو گرفتار کر کے گونٹے نامو بھیجنے کے بجائے یہودیوں نے رہا کیوں کر دیا؟ بز دلی دیکھیں کہ قیدیوں کو گرفتار کر کے  رکھنے کا بھرپور انتظام کیا گیا اس کے باوجود ان سب تیاریوں کو بالائے طاق رکھ کر رضا کاروں کو فوراً رہا کر دیا گیا حقیقت یہی ہے کہ فلوٹیلا پر حملے کے اپنی اس حماقت کے ایسے شدید بین الاقوامی رد عمل کی توقع یہودیوں کو نہیں تھی۔

ٖفلوٹیلا کی مہم نے ساری دنیا کے سامنے اسرائیل اور امریکہ کو کریہہ چہرہ بے نقاب کر دیا۔ فلوٹیلا پر حملے نے ساری دنیا کے سامنے نہ صرف غزہ کے حالات کو واضح کر دیا بلکہ اقوامِ شرق و غرب کو اسرائیل  کے خلاف متحد ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس بار مذّمت و احتجاج میں عوام کے ساتھ ساتھ حکومتیں بھی شامل ہو گئیں۔ احتجاجی مظاہرے نہ صرف ترکی بلکہ یوروپ کے بیشتر ممالک مثلاًسویڈن،  برطانیہ،  جرمنی،  آسٹریا،  یوکرین،  فرانس،  آئرلینڈ،  یونان،  ڈنمارک،  اسپین،  سوٹزرلینڈ،  پرتگال،  بیلجیم اور مالٹا میں ہوئے۔ ان میں سے بیشتر ممالک کے کئی شہروں میں بیک وقت احتجاج کیا گیا۔

یوروپ کے علاوہ امریکہ،  لاطینی امریکہ،  جنوبی کوریا،  نیوزی لینڈ اور دیگر ایشیائی ممالک بشمول ایران،  شام،  اردن،  عراق،  لبنان،  پاکستان اور ہندوستان میں بھی غم و غصہ کی شدید لہر دیکھی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے ایک سخت قرار داد پاس کر کے آزادانہ تحقیق کا آغاز کیا،  جرمنی نے بھی غیر جانبدار تحقیق کا مطالبہ کیا۔ یونان،  سویڈن،  اسپین اور ڈنمارک نے اسرائیلی سفارتکار کو بلا کر جواب طلب کیا،  ترکی نے تل ابیب سے اپنے سفارتکار کو واپس بلایا اور اسرائیلی سفارتخانے کے اہل خانہ کو واپس بھیجا،  یونان اور ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی مشترکہ فوجی مشقوں کو معطل کر دیا اور نتن یاہو کا امریکی دورہ موقوف کر دیا گیا۔

اس واقعہ سے امریکی منافقت پھر ایک بار کھل کر دنیا کے سامنے آ گئی اور اوبامہ کی ریا کاری کا پردہ فاش ہو گیاجہاں ایک طرف خارجہ سکریٹری ہیلری کلنٹن نے اسرائیل کی مذمت سے گریز کیا وہیں امریکی ترجمان گبز نے نہایت مضحکہ خیز جملہ کہہ کر اپنی اور اپنی قوم کی جگ ہنسائی کا سامان کیا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آخر آپ مذّمت کیوں نہیں کرتے ؟اس نے جواب دیا ’کیا ہمارے مذّمت کرنے سے مرنے والے لوٹ آئیں گے ؟‘  اب کوئی اس احمق سے پوچھے کیا افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے سے ورلڈ ٹریڈ سینر کے مرنے والے لوٹ آئے تھے ؟ اگر نہیں تو امریکی انتظامیہ کیوں اپنے فوجیوں کو وہاں لقمۂ اجل بنوا رہا ہے ؟فی الحال امریکیوں کا دماغ چل گیا ہے اس لیے ان سے کسی عقلمندی کی توقع کرنا ہی بیوقوفی ہے۔ اس کے برعکس سویڈن کے بندرگاہوں پر کام کرنے والے محنت کشوں کی یونین نے دس دنوں تک اسرائیلی جہازوں کو روکنے اور ان پر کام نہ کرنے کا اعلان کیا۔ نکارہ گوا نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو منقطع کر دیا۔

 غزہ کے جیالوں کو حاصل ہونے والی اس زبردست حمایت نے اسرائیل کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور حماس کے وزیر ِ اعظم اسماعیل ہنیہ کی اس پیش گوئی کو سچ ثابت کر دیا کہ فلوٹیلا پہونچے یا نہ پہونچے دونوں صورتوں میں کامیابی ہماری ہی ہے۔ اپنی اس رسوائی کے باوجود فی ا لحال اسرائیلی حکومت امدادی سامان ٹرکوں پر لاد کر غزہ پہونچانے پر مجبور ہے نیز مصر نے اسرائیل کا ہاتھ جھٹک کر یکطرفہ طور پر رفاہ کی سرحد کھول دی ہے باوجود اس کے کہ اخوان کی طاقت سے  حسنی ٰ مبارک اسی طرح خوف زدہ ہے جیسا کہ اسرائیل حماس کی قوت سے اور دونوں ظالم اس بات سے واقف ہیں کہ حماس اور اخوان دو جسم ایک قالب ہیں۔

آزادی فلوٹیلا پر حملے کے پسِ پشت اسرائیل کے دو مقاصد کار فرما تھے اولاً اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگانا اور دوسرے غزہ کے بہی خواہوں کو دہشت زدہ کرنا لیکن صیہونی دہشت گرد ان دونوں مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام رہے۔ ڈبلن نام کے جہاز نے (جو کسی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا) اس حملے کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا اور اس کے پائے استقلال متزلزل نہیں ہوئے بلکہ اس حملے کے فوراً بعد ایک اور امدادی قافلے کا اعلان کیا گیا۔ جس کو ۲۰۰۳ میں غزہ کے اندر مظلوموں کی حمایت میں اپنی جان نچھاور کرنے والی دلیر خاتون راشل کوری سے منسوب کر دیا گیا۔ اس آئر ش جہاز کے مالک اور کماندار ڈیرک گراہم سے جب پوچھا گیا کہ فلوٹیلا پر بزدلانہ حملے کا آپ پر کیا اثر ہوا ہے ؟تو اس نے نہایت ولولہ انگیز جواب دیا’ انہیں اس واقعہ پر تشویش ضرور ہے لیکن اس کے بعد ان کا ارادہ مزید مصمم ہوا ہے اور وہ بہر صورت اپنی مہم جاری رکھیں گے ‘۔ آگے چل کر اس جہاز کو بھی روکا گیا لیکن اس میں شامل رضا کاروں کی با عزت رہائی کے بعد اس میں موجود امدادی سامان کوسڑک کے راستہ غزہ پہونچانے کا بندوبست بھی با دلِ ناخواستہ اسرائیل کو کرنا ہی پڑا۔

آزادی فلوٹیلا نے جن حالات کی نقاب کشائی کی ہے اس کی ابتداء ۲۰۰۶ء میں ہوئی جبکہ ایک نہایت منصفانہ اور صاف و شفاف انتخاب کے ذریعہ حماس نے غزہ کا اقتدار سنبھالا۔ امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے غزہ سے انتخابات کے غیر جانبدار ہونے کی تصدیق کی۔ اس کے باوجود اسلام پسندوں کی یہ کامیابی نام نہاد جمہوریت کے حامیوں کے گلے کی ہڈی بن گئی۔ پہلے ان پرواضح اکثریت کے باوجود مخلوط حکومت بنانے کا دباؤ ڈالا گیا پھر پی ایل او میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ بزورِ قوت تختہ پلٹنے کی مذموم کوشش کی گئی ان دونوں حربوں کی ناکامی کے بعد ظالمانہ محاصرہ مسلط کر دیا گیا۔ گزشتہ سال انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطراسرائیل کی بر سرِ اقتدار جماعت قدیمہ نے حماس کی لیڈر شپ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور تقریباً ۲۰۰۰ معصوموں کو شہید کر دیا۔  اب غزہ کی جانب بھیجی جانے والی انسانی امداد کو لوٹنے کی کوشش کی لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا اپنے ہر منصوبے میں صیہونیوں منہ کی کھانی پڑی۔

حماس مخلوط حکومت کے لیے تیار ہو گئی توپی ایل او کے لیے اپنی شناخت بچانے کا مسئلہ کھڑا ہو گیا،  حماس کے مجاہدین نے پی ایل او کے ناپاک عزائم کا قبل از وقت پتہ لگا کر ہلہّ بول دیا ایسے میں ان کالی بھیڑوں کوغزہ سے مصر و اسرائیل کی جانب فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا،  اقتصادی پابندیوں کے باوجود غزہ کی دلیر عوام نے اپنے رہنماؤں کا ساتھ نہیں چھوڑا،  اندھا دھند بمباری کے باوجود نہ ہی اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو مٹا سکا اور نہ ہی حماس کے قبضہ سے یرغمال فوجی جلاد شالط کو چھڑانے میں کامیاب ہو سکابلکہ ایسی رسوائی ہاتھ آئی کہ قدیمہ پارٹی کو اقتدار بھی گنوانا پڑا۔ اب یہ صورتحال ہے کہ یہود اولمرٹ اپنے اوپر لگے بدعنوانی کے الزامات سے جوجھ رہا ہے۔

 اسرائیلی ناکامیوں کی فہرست میں جدید ترین اضافہ فلوٹیلا پر حملہ ہے۔ اس بزدلانہ حملے پر ہونے والے بین الاقوامی رد عمل کے پیشِ نظر اسرائیل کے حکمراں اپنی روایتی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہوے ہیں بیرونِ دنیا سے علی الرّغم خود اسرائیل کے اندر جو اتھل پتھل جاری ہے اس سے بھی اس مہم کے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی کیبنٹ کے ایک اہم اجلاس میں فلاح و بہبود کے وزیر اسحاق برزوق غزہ کے حوالے سے متبادل طرز عمل پر غور کرنے کی حاضرین کو دعوت دی اس نے اسلحہ کی فراہمی کو روکنے کی اہمیت کا اعتراف کیا لیکن اس کے ساتھ غزہ پر لگے حصار کو ختم کرنے یا اس میں ڈھیل دے کر عوام کی مشکلات کو کم کرنے پر زور دیا۔

وزیر ِ ٹرانسپورٹ اسرائیل کاٹز نے آگے بڑھ کر غزہ سے اسرائیل کے تعلق کی نوعیت پر نظرِ ثانی کی دعوت دی۔ اس کے مطابق غزہ کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات غیر عقلی اور غلط بنیادوں پر استوار کیے گئے ہیں۔ اس کے مطابق ’ہم وہاں موجود نہیں ہیں اس کے باوجود وہاں کے ہر مسئلہ کے لیے ہمیں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس لیے اسرائیل کو غزہ سے تمام تعلقات منقطع کر کے اپنے آپ کو صرف اسلحہ کی اسمگلنگ کی روک تھام تک محدود کر لینا چاہئے ‘۔ یہاں پر ایک قابلِ غور بات یہ ہے کہ فلوٹیلا کے حادثہ والے دن بھی اسرائیل کے اندر غزہ سے قصام راکٹ کا حملہ ہوا یعنی اپنے بلند بانگ دعووں کے باوجوداسرائیلحماس کے راکٹوں کو غزہ پہونچنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔

اس موقع پر وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے غیروں کے سامنے تو کڑا رخ اختیار کیا لیکن اپنوں کے سامنے وہ بھی نرم پڑتا ہوا دکھائی دیا۔ سات اہم وزراء کے ساتھ اپنی میٹنگ میں اس نے نہ صرف طرز عمل پر نظرِ ثانی کی ضرورت پر زور دیا بلکہ مزید سامان کی فراہمی کے علاوہ تمام انسانی امداد کو بلا روک ٹوک پہونچانے کی تجویز رکھی۔  مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اقدام امریکی دباؤ کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہے۔ ٹونی بلئیر کے ساتھ اپنی ملاقات میں بھی اس نے مختلف متبادل پر عمل در آمد کا یقین دلایا اسرائیل کے پارلیمانی اجلاس میں موجود ممبرِ پارلیمان محترمہ حنین زعابی کے فلوٹیلا مہم میں شمولیت پر خوب ہنگامہ ہوا۔ پہلے تو وزیر ِ داخلہ ایلی ایشائی نے ان پر بغاوت کا الزام دھر دیا اور پھر جب وہ اپنا موقف رکھنے کے لیے مائک پر آئیں تو اور رکنِ پارلیمان انستاسیا مشعلی ان کی جانب دوڑیں اور انہیں روکنے کی کوشش کی بالآخر پولس نے مداخلت کی اور مشعلی کو بزور قوت اجلاس سے نکال باہر کر دیا لیکن حنین زعابی نے اپنا موقف نہایت دلیری کے ساتھ سب کے سامنے رکھا۔

اسرائیل کے خودسرحکمرانوں کوایک نہ ایک دن یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ اصل مسئلہ صرف انسانی امدا د کے پہنچانے کا یا حصار کو ختم کرنے کا نہیں ہے یہ سب تو بس ایک ابتداء ہے بنیادی مسئلہ تو ارضِ فلسطین پر صیہونیوں کا غاصبانہ قبضہ ہے اور جب تک وہ ختم نہ ہو گا یہ کشمکش جاری رہے گی۔ فلوٹیلا کی مہم نے امید کا ایک دیا روشن کیا ہے اس کی روشنی ظلم کی اندھیری رات پر یقیناً غالب ہو گی۔ ایسا لگتا ہے کہ آزادی کی مبارک ساعت ہر آن قریب آتی جا رہی ہے ایرانی مجلس (پارلیمان) میں تہذیبی امور کے سربراہ غلام علی حداد نے یہی بات کہی ہے کہ یہ اسرائیل کے خاتمے کی ابتداء ہے ‘  حسنِ اتفاق یہ ہے کہ جس خطہ زمین سے صیہونیوں نے حیات کو دعوت دی تھی ان کی قضا کا پیام اسی رخ سے آ رہا ہے۔

 ترکی کی حکومت نے فی الحال وزیر اعظم نتن یاہو،  وزیر دفاع یہودبراک اور فوجی سربراہ گابی اشکینزی کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں قتل و غارتگری  کا مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ صیہونی پاپ کا گھڑا بھر چکا ہے۔ اس کی قہر سامانی کے دن لد چکے ہیں اور اس پر جلد ہی قدرت کا قہر ٹوٹنے والا ہے بقول ڈاکٹر عاصم واسطی  ؎

توڑنا ہاتھ بڑھا کر ہی نہیں ہے لازم

پک چکا ہو تو ہوا سے بھی ثمر ٹوٹتا ہے

ظلم بڑھ جائے تو رہتی نہیں قدرت خاموش

ہم سمجھتے تو نہیں قہر مگر ٹوٹتا ہے

٭٭٭

 

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

فلوٹیلا کی مہم نے تقریباً ایک صدی کے بعد پھر ایک بار ترکی کو ملت اسلامیہ کی آنکھوں کا تارہ بنا دیا حالانکہ آج بھی ترکی کے ساتھ اسرائیل کے قریبی سفارتی،  تجارتی اور فوجی تعلقات موجود ہیں۔ ترکستان کے ساتھ یہودی عوام اور صیہونی حکومت سے رشتوں کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے پیچھے کارفرما مخصوص سیاسی عوامل ہیں جن کو سمجھے اور پرکھے بغیر ملت ّ کے اندر مستقبل میں آنے والی تبدیلیوں کا قیاس نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔

بہت سارے ایسے مسلم ممالک ہیں جنہوں نے بجا طور پر اسرائیل سے ابھی تک تعلقات کو استوار نہیں کیا ہے لیکن ان کی گہری دوستی اسرائیل کے آقا و مولیٰ امریکہ سے ہے اورساری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ اسرائیل دراصل امریکہ بہادر کی ۵۱ ویں ناجائز ریاست ہے۔ اس ولد الحرام کی پیدائش تو خیر برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ کوششوں سے عمل میں آئی لیکن آگے چل کر اپنے استحصالی مفادات کے پیشِ  نظر امریکہ نے اسے گود لے لیا۔ یہی وجہ ہے کہ فلوٹیلا قافلے میں شہید ہونے والے ترکی نژاد امریکی شہری کے ساتھ تفریق و امتیاز کی ساری حدود کو پھلانگ دیا گیا۔

۱۹ سالہ فرقان دوگان کی پیدائش ریاستِ نیویارک کی شہر ٹرائے میں ہوئی تھی اور اس نوجوان کے چہرے اور سینے پر کل ۶ گولیوں کے نشان پائے گئے تھے اس کے باوجود امریکہ نے اسرائیل کے خلاف کو ئی اقدام تو کجا مذمّت تک کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔ فرقان کے ساتھ یہ سلوک اس لیے نہیں ہوا کہ وہ مسلمان تھا بلکہ اس سے قبل ۲۰۰۳ء میں جب امریکہ کی راشل کوری نام کی عیسائی خاتون کو غزہ کے اندر اسرائیل کے ٹینکوں نے کچل کر مار ڈالا تھا اس وقت بھی اول تو تحقیقات کے بہانے سے اس جرمِ عظیم کی پردہ پوشی کی گئی اور بعد میں اس قتلِ ناحق کو محض حادثہ قرار دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا ابھی حال میں فلوٹیلا پر حملے کے بعد مغربی کنارے اور یروشلم کے درمیان فلسطینیوں کے ساتھ مظاہرہ کرنے والی امریکی طالبہ ایملی ہینو شویکز نے اسرائیلی درندوں کی جانب پھینکے گئے آنسو گیس کنسٹر سے اپنی آنکھیں گنوائیں لیکن امریکی انتظامیہ نے اپنے ہم مذہب شہری پر ہونے والے اس ظلم سے بھی مکمل طور پر صرفِ نظر کیا۔

امریکی زیادتی کی انتہا اس وقت دیکھنے میں آئی جب قصر ابیض کی معمر ترین صحافی ہیلن تھامس کو فلوٹیلا کے معاملے میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کے جرم میں رسوا کر کے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ کے اندر جمہوریت،  آزادیِ اظہار رائے اور صحافت کی آزادی کے بلند بانگ دعووں کی قلعی کھل گئی۔

 ہیلن کی عمر ۸۹ سال ہے وہ جان ایف کینڈی کے زمانے سے صدارتی محل میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں اور کئی کتابوں کی مؤلف بھی ہیں۔  ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں مختلف اعزاز و اکرام سے بھی نوازا جا چکا۔ اس با ضمیر خاتون نے ربیّ آن لائن نامی ویب سائٹ پر فلوٹیلا حملہ پر ایک سوال کے جواب میں لکھا ’وہ (اسرائیلی) وہاں سے نکل کر جہنم میں جائیں۔ یاد رہے ان لوگوں (فلسطینیوں ) کی سرزمین کو غصب کیا گیا ہے۔ یہ پولینڈ یا جرمنی نہیں ہے (مراد وہ علاقے جہاں سے آ کر یہودی ارضِ  فلسطین پر قابض ہو گئے )۔  وہ(یہودی) جہاں چاہیں نکل کر جائیں جرمنی،  پولینڈ یا امریکہ ‘ہیلن کے اس بیان کا زبردست نوٹس لیا گیا انہیں اپنی بات واپس لینے اور اس کی تردید کرنے پر مجبور کیا گیا اور فوراً ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا۔ امریکہ کی اس اسرائیل نوازی کے باوجود اگر کوئی امریکہ کا ہمراز اور باجگذار ہو تو اس کا اسرائیل سے تعلقات نہ رکھنا دل کو بہلانے کی خاطر محض اِک فریب سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔

ترکی یوروپین یونین کی رکنیت کا دعویدار ہے ناٹو کا حلیف ہے اس کے تعلقات نہ صرف یوروپ،  امریکہ بلکہ اسرائیل سے بھی استوار ہیں لیکن دیگر ممالک اور ترکی کے تعلقات میں ایک فرق تو یہ ہے کہ ترکی کے تعلقات ان لوگوں سے بھی خوشگوار ہیں جو امریکہ کی آنکھوں کا کانٹا ہیں مثلاً ایران،  حماس اور شام۔ اس کے علاوہ ترکی آزادانہ طور پر تعلقات استوار کرتا یا توڑتا ہے اس کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا کہ اگر امریکہ طالبان سے خوش ہے تو وہ بھی خوش اور اگر امریکہ ناراض تو وہ بھی ناراض۔ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ اگر امریکہ صدام کی حمایت کر رہا ہے تو وہ بھی کر رہے ہیں اور اگر امریکہ مخالفت کر رہا ہے تو وہ مخاصمت پر تلے ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ترکی امریکہ سے اختلاف کی جرأت بھی کر گذرتا ہے مثلاً ۲۰۰۳ میں عراق پر حملے کے وقت اس نے امریکیوں کو اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا حالانکہ کردستان سے اس کا اپنا مفاد وا بستہ تھا اس کے باوجود اس پر پتھر کے زمانے میں بھیجے جانے کی دھمکی کارگر نہ ہو سکی تھی۔

 ۲۰۰۵ جب امریکہ نے کرد باغیوں کے بہانے سے ترکی میں گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو ترکی حکمرانوں نے عراق میں گھس کر کارروائی کرنے کی دھمکی دے ڈالی جس سے امریکی موقف میں لچک پیدا ہو گئی۔ ۲۰۰۹ ایک مشترکہ فوجی مشق ترکی،  اٹلی،  اسرائیل اور امریکہ کی درمیان اناطولیہ میں ہونی تھی،  ترکی نے اس میں اسرائیل کو شامل ہونے سے منع کر دیا۔ امریکہ نے دباؤ ڈالنے کی غرض سے خود کو الگ کر لیا لیکن اس کا کوئی اثر ترکی پر نہیں ہوا اور اٹلی اور ترکی نے مل کر اس فوجی مشق کو انجام دیا۔

امریکہ نے جب ایران پر ایٹمی پروگرام کا بہانہ بنا کر معاشی پابندی کا منصوبہ بنا یا تو ترکی نے برازیل اور ایران کے درمیان ثالث کے فرائض انجام دیکر ایٹمی ایندھن کے مسئلہ کو امریکہ کی مرضی کے خلاف سلجھا دیا اور حال ہی میں جب اقوامِ  متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر چوتھی بار معاشی پابندی کی قرار داد مغرب کی جانب سے پیش ہوئی تو چین اور روس نے اس کو نرم کرنے پر اکتفا کیا لیکن برازیل اور ترکی نے اس کے خلاف ووٹ دیا نیز چونکہ لبنان کی حکومت میں حزب اللّٰہ موجود ہے بیروت کو بھی انتخاب کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔ ایران نے ترکی کی جانب سے کی جانے والی قرارداد کی مخالفت کو اپنے لیے سعادت قرار دیا اور اٹلی نے ترکی کی مغرب سے دوری کے لیے یوروپ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

اس میں شک نہیں کہ ۱۹۴۹ء میں سب سے پہلے ترکی ہی وہ مسلم ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ۲۰۰۶ میں حماس کی کامیابی کے بعد جبکہ ساری دنیا اسے دہشت گرد قرار دے رہی تھی ترکی نے حماس کے سربراہ خالد مشعل کو ترکی آنے کی دعوت دی اور حماس کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس سے قبل ۱۹۶۷ جنگ کے موقع پر ترکی حکومت نے عربوں کے شانہ بشانہ اسرائیل کی مذمّت کی۔ ۱۹۸۷ میں جب انتفاضہ کا آغاز ہوا تو اس کے خلاف اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے مظالم پر ترکی نے جم کر تنقید کرتے ہوئے فلسطینی حقِ خود مختاری کی حمایت کی۔ ۲۰۰۴ میں شیخ احمد یٰسین کو شہید کیے جانے کی اسرائیلی بہیمت کو ترکی حکومت نے دہشت گردی قرار دیا اور پھٹکار سنائی۔ غزہ کے خلاف اسرائیلی اقدامات کو ترکی نے سرکاری دہشت گردی قرار دیا۔

 ۲۰۰۹ میں غزہ پر اسرائیلی حملے کو ترکی وزیر اعظم رجب طیب اردغان نے انسانیت کے خلاف جرم گردانا اور داووس میں ہونے والے معاشی فورم میں نہ صرف اسرائیلی صدر شیمون پیریس کی تعریف کرنے والوں کو ڈانٹ سنائی بلکہ بھری محفل میں اسے معصوموں کا قاتل ٹھہراتے ہوئے غزہ کو ایک کھلی جیل قرار دیا اور اجلاس کا بائیکاٹ کر کے واپس وطن لوٹ آئے۔  ترکی نے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے ایک موثرعملی اقدام فلوٹیلا مہم کا بھی اہتمام کیا اس سے پہلے اسرائیلی حکومت شام سے گفت و شنید کے دوران ترکی سے ناراض ہو کراس پر جانبداری کا الزام لگا چکی تھی۔

 اس دوران ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل پر ایک سیریل میں اسرائیل کو معصوموں کا قاتل اور انسانی جسم کے اعضاء کا بیوپاری بتلایا گیا۔ ایک اور نجی چینل پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیرئیل ’بھیڑیوں کی واد ی‘ میں اسرائیلی موساد کو ترکی بچوں کا اغوا کار کے طور پر پیش کیا گیا اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ذریعہ یروشلم میں ترکی سفارتخانے کے عملے کو یرغمال بنانے کا منظر بھی دکھلایا گیا جس کی اسرائیل نے اپنی مذمّت کی لیکن اس ناراضگی کا کوئی اثر نشریات پر تو نہیں ہوا ہاں رائے عامہ اس سے ضرور متاثر ہوئی خود اسرائیل تو کجا امریکہ کی مقبولیت کا تناسب ترکی عوام کے اندر محض ۹ فی صد تک سمٹ گیا۔ گذشتہ صدی کے غلامِ اعظم مصطفیٰ کمال اتا ترک اور اس کے حواریوں کی ۷۰سالہ محنت سے مغرب کے حق میں جو فضا استوار ہوئی تھی اس کے اثرات کو انصاف اور ترقی پارٹی نے ۷ سال کے اندر زائل کر دیا اور اس مقصد کے لیے ان لوگوں نے ذرائع ابلاغ کا بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ استعمال کیا۔

اسرائیل اور ترکی کے درمیان پائی جانے والی دوستی کے عوامل جاننے کے لیے پہلی جنگ عظیم اور اس کے بعد پیدا ہونے والے مخصوص سیاسی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ بیسویں صدی کے سیاسی دھارے کو موڑنے میں اس جنگ نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ۱۹۱۴ میں شروع ہونے والی یہ جنگ ۱۹۱۸ میں ختم ہوئی۔ اس کی ابتداء آسٹریا۔ ہنگری کے بادشاہ فردیناند اور اس کی ملکہ صوفیہ کے سربیا جاتے ہوئے حادثہ کا شکار ہونے سے ہوئی۔ جرمنی نے اس کے بعد غیر جانبدار بیلجیم پر حملہ کر دیا نیز برطانیہ،  فرانس،  اٹلی اور روس اس کی مدد کے لیے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ آگے چل کر ۱۹۱۶ میں امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا اور ۱۹۱۷ میں روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد لینن اس جنگ سے کنارہ کش ہو گیا مذکورہ بالا اتحادی قوتوں کے خلاف مرکزی طاقتیں جرمنی،  آسٹریا،  ہنگری اور ترکی بر سرِ جنگ تھے۔ ترکی کو چونکہ روس کی توسیع پسندی سے خطرہ تھا۔ بلقان کا علاقہ اس کے ہاتھ سے جا چکا تھا فرانس نے لیبیا پر قبضہ کر لیا تھا اس لیے مرکزی طاقتوں کے ساتھ اس کا جانا بالکل فطری اور ناگزیرامر ہو گیا تھا۔

اس جنگ میں اتحا دیوں کو حتمی فتح حاصل ہوئی اور مرکزی قوتوں کو پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا۔ برطانیہ اور فرانس نے مالِ غنیمت کے طور پر شکست خوردہ ممالک کو آپس میں تقسیم کرنا شروع کر دیا اور خلافت عثمانیہ کے بھی حصہ بخرے کر کے بندر بانٹ کا ناپاک منصوبہ رو بہ عمل لایا گیا۔ مسلمانوں کے سامنے پہلی بار خود اپنی ہی سر زمین پر غلامی کا پھندہ لہرانے لگا لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ ایک وسیع و عریض مملکت تھی اور اس اتحاد کو دین کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا بقول علامہ اقبال  ؎

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا

بناء ہمارے حصارِِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے

مسلمانوں کی صفوں میں افتراق  وانتشار پیدا کرنے کی خاطر ٹی ای لارنس کی خدمات حاصل کی گئیں جو آگے چل کر لارنس آف عربیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس شخص نے امت کے اندر لسانی اور علاقائی عصبیت کو زور و شور سے فروغ دیا اور عربوں کو ترکوں کا دشمن بنا دیا اس دور کے اسلامی مفکرین کے اندر وطنیت اور قومیت کے خلاف جو غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ مغرب کی اسی سازش کی مذمّت تھی۔ جس نے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے اسلامی دنیا کو بلاواسطہ مغرب کا غلام بنا دیا تھا۔

 امت مسلمہ کی اس دگر گوں صورتحال کواس وقت کی ہندوستانی سیاسی صورتحال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے ہندو رہنما مسلمانوں کو الگ کر کے ان سے چھٹکارہ پانا چاہتے تاکہ بلا روک ٹوک حکومت کر سکیں اور اس سے انگریزوں کا مفاد بھی وابستہ تھا اس لیے ملک بڑی آسانی تقسیم ہو گیا اور ہندو پاک کے درمیان نفرت کی ایک دیوار تعمیر ہو گئی۔ ایسا ہی صورتحال عالمِ اسلام میں تھی۔ عرب جانتے تھے ترکوں کے ساتھ رہتے ہوئے وہ رہنمائی کا منصب نہیں حاصل کرسکتے ہیں اس لیے خلافت عثمانیہ کو رحمت کے بجائے زحمت گردانا گیا اور اس کے خاتمہ پر آزادی  کا جشن منایا گیا۔  اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر عرب حکمراں اور سردار انگریزوں کے شانہ بشانہ خلافت عثمانیہ کے خلاف بر سرِ پیکار نہ ہوتے خلافت کا خاتمہ اس قدر سہل نہ ہوتا۔ ۱۹۱۵ میں گیلی پولی کے محاذ پر پہلی جنگ عظیم کے آغاز ہی میں مسلمانوں نے برطانوی اور فرانسیسی فوج کے دانت کھٹے کر کے اپنا دم خم دکھا دیا تھا۔

مغرب جب ا س نتیجہ پر پہونچا کہ وہ خود تو کسی صورت متحد نہیں ہو سکتا تو اس نے اپنے دشمن کو اپنی طرح منتشر کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کی اورٹی اے لارنس عرف لارنس آف عربیہ کو اس خدمت پر معمور کیا۔ اس جاسوس نے مسلمانوں کو مغلوب کرنے کا طریقہ کار خود اپنی تاریخ سے اخذ کیا۔ ۴۷۶ میں بازنطینی سلطنت کے زوال کا آغاز بھی مشرق و مغرب کے درمیان تقسیم سے ہوا تھا جبکہ مغربی حصہ پر بربر کہلائے جانے والے جرمانک قبائل نے قبضہ کر لیا اور رومی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور مشرق کی بازنطینی سلطنت کو بالآخر ایک ہزار سال بعد ۱۴۵۳ میں عثمانی خلافت نے شکست دے دی۔ لیکن اس بار تاریخ کا پہیہ مخالف سمت میں گھوم رہا تھا مغرب کو عربوں سے نہ اس وقت کوئی خطرہ تھا اور نہ اب ہے لیکن ترکی سے انہیں ضرور اندیشہ تھا۔ مغرب کی  خوش بختی کے  اندرونِ ترکی جنگ کی شکست کا ذمہ دار خلیفۂ وقت کو ٹھہرایا گیا اور اس کا بہانہ بنا کر نوجوان ترکوں نے خلیفہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ اس تحریک کوانگریزوں کی پسِ پردہ حمایت حاصل تھی۔ آگے چل کر اسے آزادی کی تحریک قرار دیا گیا۔

 نوجوان ترکوں کی رہنمائی مصطفیٰ کمال اتاترک کر رہا تھا اور اس کا داہنا ہاتھ جاوید بے تھا جو بعد میں وزیر ِ خزانہ بنا ان دونوں کا تعلق قادیانی ٹائپ کے ایک فرقے ‘ڈوئن میہ ’سے تھا۔ ۱۶۸۶ میں ۳۰۰ یہودیوں نے سالونیکا شہر میں اسلام قبول کیا اور ایک نئے فرقہ کی بنیاد ڈالی جو شبطائی زفی نامی ایک شخص کو اپنا مسیحا اور نبی مانتا تھا۔ یہ لوگ دیگر مسلمانوں کے ساتھ صوم و صلاۃ کی پابندی کرتے اور عام رسوم و رواج میں بھی شامل رہتے لیکن شادی بیاہ کا معاملہ فرقہ سے باہر نہ کرتے آزادی کی جدوجہد کے دوران اتا ترک ایک دیندار شخصیت کے طور پر عوام کے سامنے آیا جو نہ صرف صوم و صلاۃ کا پابند تھا بلکہ مساجد میں تقاریر کرتا اور قرآن مجید کو دستورِ حیات ٹھہراتا اور اس کے مثالی ہونے کی قسمیں کھاتا وہ خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کا بھی عہد بھی دوہراتا تھا۔

 اقتدار پر قابض ہونے کے بعد کمال اتا ترک کی حقیقت عیاں ہو کر سامنے آ گئی اس نے نہ صرف وحی کا انکار کیا بلکہ خدا کا بھی منکر ہو گیا۔ اسلام کو جدید دور میں ناقابلِ عمل قرار دیا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے اعلان کیا کہ نعوذ با اللّٰہ اسلام مر چکا ہے۔ مساجد میں جوتوں کے ساتھ داخلہ پر زور دیا۔ عبادات کے اندر عربی کے بجائے ترکی زبان کے استعمال پر زور دینے لگا۔ مساجد کو جدید بنانے کا بہانہ بنا کر ان میں آلاتِ موسیقی نصب کروائے لفظ اللّٰہ کے بجائے اس کا ترکی متبادل تانری اور اللّٰہ اکبر کی جگہ تانری الودور کے استعمال پر اصرار کرنے لگا۔ خواتین کے حجاب کو ممنوع قرار دے دیا اور مسلم خواتین کے رقص کی مخالفت کرنے والے رکنِ پارلیمان کو قرآن سے دے مارا۔ اپنے مخالفین کو تشدد اور تعذیب کا شکار کرنا اس کی عادتِ ثانیہ بن گیا تھا۔ گویا مغرب کی آنکھوں کا تارہ سورہ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیت کی زندہ تفسیر بن گیا  ؎

‘انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے جس کی بات دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی نیک نیتی پر بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمنِ حق ہوتا ہے۔ جب اسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے کھیتوں کو غارت کرے اور انسانی نسل کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللّٰہ (جسے وہ گواہ ٹھہرا رہا تھا ) فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللّٰہ سے ڈر تو اپنے وقار کا خیال اسے گناہ پر جما دیتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ (سورہ البقرہ ۲۰۳ تا ۲۰۶)

خلاصہ کلام یہ کہ عربوں کے عصبیت اور بغاوت کا شدید رد عمل ترکی کی جانب سے سامنے آیا اور وہ اپنی امت سے کٹ کر اپنے دشمنوں سے جڑ گیا۔ یہ امت کا عظیم ترین المیہ تھا کہ عربوں کی دشمنی میں ترکی نے اسرائیل سے دوستی کر لی۔ امت دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ایک مغرب کا آلۂ کار تھا اور دوسرا اس کا ہمنوا۔ ایک جانب ذلت تو دوسری جانب مسکنت کا دور دورہ تھا۔ مغلوبیت کاسیلاب امت مسلمہ کو اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا ترکی دانشوروں کی لادین آزادی اور عرب حکمرانوں کی نمائشی دینداری نے امّت کا بیڑہ غرق کر دیا چہارسو اندھیرا چھانے لگا۔ جب انسانیت مایوسی کے دہانے پر پہونچ گئی تو رحمتِ خداوندی کو جوش آیا اور ایک ایک  کر کے امید کے ننھّے منّے چراغ روشن ہونے لگے۔

 ایران کے اسلامی انقلاب نے یہ ثابت کر دیا کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جا ئے گا اور اب تو وہ نیوکلیائی ایندھن سے بھی آراستہ ہوچکا ہے۔ افغانی مجاہدین نے پہلے ایک نام نہاد سوپر پاورسوویت یونین کے دانت کھٹے کر دئیے اور اب ساری دنیا کی متحدہ فوج سے لوہا لے رہے ہیں گذشتہ دس سالوں  کے اندر ناٹو کی ناکامی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایسے لوہے کے چنے ہیں جنھیں چبانے کی کوشش کرنے والے خود اپنے جبڑوں کو لہو لہان کر لیتے ہیں۔ عراق کے مجاہدین نے مختصر سے عرصہ میں غاصبین کو اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کر دیا اور اب وہ بے آبرو ہو کر جستہ جستہ اس کوچے سے نکل رہا ہے۔ لبنان کی حزب اللّٰہ نے دنیا کو دکھلا دیا کہ اسرائیل کی ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی فوج کو زیر کرنے کے لیے کسی حکومت کی ضرورت نہیں بلکہ حزبِ  اختلاف میں بیٹھنے والی ایک جماعت کے مٹھی ّ بھر مجاہدین ہی کافی ہیں اورنغزہ کی حماس نے اس دور ظلمت میں شجاعت و شہادت کے وہ چراغ روشن کیے جس نے امت کے سوئے ہوے شیر ترکی کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا۔ ترکی کی چنگھاڑ سے اب پھر ایک بار ایوانِ باطل لرزہ بر اندام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جس طرح گزشتہ صدی کی دوسری دہائی میں اسلام کا سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا تھا اس صدی کی دوسری دہائی پھر ایک بار اس کے طلوع کا سامان کر رہی ہے بقول حکیم الامت علامہ اقبال۔

طلوعِ  صبح روشن ہے  ستاروں کی  تنک تابی

افق سے آفتاب  ابھرا گیا  دورِ گراں خوابی

عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے

شکوہِ ترکمانی،  ذہنِ ہندی،  نطقِ اعرابی

٭٭٭

 

اے ارضِ فلسطین تو نبیوں کی زمیں ہے

برکتوں والی سرزمین ارضِ  فلسطین کے لیے قرآن کریم میں پانچ مرتبہ لفظ ‘ بارکنا’ یعنی ‘ ہم نے برکت نازل فرمائی،  کے الفاظ استعمال ہوے ہیں،  ان الفاظ کو رب کائنات نے شہرقدس کے لیے کس طرح مخصوص کر دیا ملاحظہ فرمائیں :

 جس کے آس پاس ہم نے برکت نازل کی ہے ( الاسراء ۱)

ہم ان ابراہیم کو اور لوط کو نجات دے کراس سرزمین لے گئے جہاں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکت نازل کی ہے (الانبیاء ۷۱)

اور ہم نے ان لوگوں کو جن کو کمزورسمجھا جاتا تھا زمین کے مشرق  و مغرب کے اس حصہ کا وارث بنادیاجس میں ہم نے برکت دی ہے (الاعراف۱۳۷ )

اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوائیں مسخرکر دی جواس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی ہیں جہاں ہم نے برکت نازل کی ہے (الانبیاء ۸۱ )

اور ہم نے ان کے درمیان اور ان گاؤں کے درمیان ظاہری گاؤں بنا دیے جہاں ہم نے برکت نازل کی ہے۔ (سبا ۱۸ )

جلیل القدر انبیاؑ کی اس ارض مقدس کی جانب ہجرت اور بعثت کی وجہ سے اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے اس سرزمین کے لوگوں کو اپنی بیش بہا رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید سچائی ہے کہ یہیں پر انبیاء کی بے شمار تکذیب بھی ہوئی بلکہ ان کو تہہ تیغ کرنے سے بھی یہاں کے لوگ باز نہ آئے۔ ان لوگوں کا ظلم و طغیان اور کذب و کفران جب ساری حدوں کو پار کر گیا تو ربّ کائنات نے بنی اسرائیل کو پیشوائی کے منصب سے معزول کر کے بنی اسماعیل میں سے اپنے آخری پیغمبر محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی نعمتوں کی تکمیل فرما دی۔ اہل ایما ن نے ان برکات و حسنات کا خوب حق ادا کیا۔ خود بھی ان سے بھر پور استفادہ کیا اور عالم انسانیت میں اسے انصاف کے ساتھ لٹا تے رہے۔ ۱۰۹۹ میں یوروپ کے صلیبی حکمرانوں نے فلسطین پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ۶۰ ہزار مسلمانوں کو شہید کر ڈالا لیکن ۱۱۸۷ ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے پھر ایک بار قبلۂ اول کی بازیابی کی اور اسے آزاد کر وا کر امت کو اس کی گم گشتہ عظمت و ناموس لوٹا دی۔

تاریخ نے اس کے بعد ایک اور کروٹ بدلی ۱۹۶۷میں صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں سے چھین لیا اور ظلم و ستم کا ایک نیا باب کھول دیا گویا امت مسلمہ کی عزت و ذلت کے تانے بانے مسجد اقصیٰ کے کھونے اور پانے سے جڑے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ارض فلسطین پر اب بھی غلامی کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ فلسطینی عوام ہنوز دشمنوں کے درمیان گھرے ہوے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی نا قابلِ تردید سچائی ہے کہ دشمن شکست کھا رہا ہے دنیا اس شکست کا مشاہدہ اس لیے نہیں کر پاتی ہے اس لیے کہ ذرائع ابلاغ کی کذب بیانی اسے نگل جاتی ہے لیکن جب رات کی ظلمت کے بطن سے نور کا سورج نمودار ہو جائے گا جھوٹ کے بادل اپنے آپ چھٹ جائیں گے اور ساری دنیا باطل پر حق کی فیصلہ کن فتح کا مشاہدہ کرے گی اور اسے پتہ چل جائے گا ظلم کو اس کائنات میں ثبات نہیں ہے جب حق واضح ہو کر آ جاتا ہے تو اسے مٹنا ہی پڑتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :اور اعلان کر دو کہ ‘‘حق آ گیا اور باطل مٹ گیا،  باطل تو مٹنے ہی والا ہے ‘‘(بنی اسرائیل ۸۱)

غزہ پر بلا وجہ فوج کشی کے نتیجے میں اسرائیل کو لبنان کی جنگ کے بعد ایک اور شکست سے دوچار ہونا پڑا،  کسی بھی جنگ میں فتح و شکست کا فیصلہ اس سے ہونے والی تباہی اور بربادی کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ان مقاصد کے حصول کی روشنی میں کیا جاتا ہے جس کی خاطر جنگ لڑی گئی تھی مثلاً حزب اللّٰہ اور اسرائیل کی جنگ کا آغاز حزب اللّٰہ نے کیا تھا۔ اس کے پیش نظر تین بڑے مقاصد تھے اولاًاسرائیل کے حملہ کا انتظار کرنے کے بجائے اس پر اپنی جانب سے اقدام کرنا تاکہ دشمن دفاعی پوزیشن میں آ جائے۔ ثانیاً اسرائیل کے فوجیوں کو یرغمال بنا کر اپنے قیدیوں کو چھڑانا۔ ثالثاً اس غلط فہمی کا خاتمہ کرنا کہ اسرائیلی فوج ناقابلِ تسخیر ہے۔

مذکورہ بالا تینوں مقاصد کے حصول میں حزب اللہ کامیاب رہی ساری جنگ اسرائیل نے دفاعی حالت میں لڑی وہ اس کیفیت سے آخر تک باہر نکل نہ سکا۔ حزب اللّٰہ نے جنگ کے ختم ہو جانے کے بعد اسرائیلی فوجیوں کی لاش کے عوض کئی قیدیوں کو چھڑایا جن میں ایک ایسا قیدی بھی تھا جس کو ۱۵۰ سال سے زیادہ کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسرائیل کی فوجی قوت کا بھرم اس طرح کھلا کہ دوران جنگ اسے امریکہ کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا اور نئی رسد بھی اس کے کسی کام نہ آئی ایک بے اقتدار تحریک کے رضا کاروں پر قابو پانے کے لیے اسرائیل کو اپنے محفوظ دستوں تک کو طلب کرنا پڑا اور ان فوجیوں کو عورتوں کی طرح روتے ہوئے ساری دنیا نے ٹی وی کے پردے پر دیکھا۔

 اس فتح مبین کا موازنہ اگر اسرائیل کے ذریعہ غزہ پر کیے گئے حملے سے کیا جائے تو بالکل برعکس صورتحال سامنے آتی ہے اسرائیل نے حملہ کیا اور اس کے مقاصد یوں بیان کیے کہ قصام راکٹ کے حملے بند ہوں مصر سے آنے والی سرنگوں کے جال کو نیست و نابود کیا جائے۔ حماس کی قیادت کو مٹا دیا جائے اور یرغمال فوجی کو چھڑا لیا جائے۔ ایک مقصد جسے پوشیدہ رکھا گیا تھا سو یہ تھا کہ اس کے ذریعہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر کے قدیمہ اور لیبر پارٹی کا محاذ انتخاب میں کامیابی حاصل کر لے۔ ان چار اعلان شدہ مقاصد اور پانچویں درپردہ مقصد میں سے کسی ایک میں بھی اسرائیل کو کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ لکڈ کو اقتدار حاصل ہو گیا لیبر پارٹی نے کمال ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنا چولا بدلا اور نئے بر سر اقتدار محاذ میں شامل ہو گئی۔ نہ یرغمال رہا ہوا اور نہ حماس کی قیادت کا بال بیکا ہوا۔ نہ قصام راکٹ کے حملے بند ہوے اور نہ ہی سرنگوں کا نظام درہم برہم ہوا۔ گویا سارے محاذ پر شرمناک شکست کاسامنا ہوا۔

 ان دو جنگوں میں شکستِ فاش کے بعد اسرائیل کے صلاحیتِ وجود پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس مسئلہ پر لوگ بحث کرنے لگے ہیں کہ یہ مصنوعی ریاست کب تک اپنا وجود بر قرار رکھ سکے گی۔ اس معاملہ میں بجائے کسی مسلم تجزیہ نگار کا حوالہ پیش کرنے کہ ایک نوبل انعام یافتہ یہودی ماہر معاشیات کی تقریر اور ایک سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ کا مطالعہ دلچسپی کا سبب ہو سکتا ہے لیکن سب سے اہم بیان خود اسرائیل کے سابق وزیر اعظم یہود اولمرٹ کا ہے جن کے دور اقتدار میں یہ دونوں واقعات رونما ہوئے وہ بذاتِ خود ان ناکامیوں کے چشم دید گواہ ہے اور اس نے اس شکست کی سب سے بڑی قیمت بھی چکائی ہے۔

یہود اولمرٹ کہتا ہے  اسرائیلی قوم جنگ اور قربانیوں سے تھک چکی ہے اس جملہ میں شکست خوردگی اور بیزاری کا کھلا اعتراف ہے ایسی مایوسی کا اظہار اگر محمود عباس کی جانب سے ہوتا تو یہ قابلِ فہم تھا لیکن یہود اولمرٹ کو جس کے پاس بقول ایک غیر مصدقہ رپورٹ کہ ۱۰۰ سے زیادہ ایٹم بم تھے یہ زیب نہیں دیتا۔ ساٹھ کی دہاِئی میں جب اسرائیل شدید معاشی بحران سے دوچار تھا وزیر اعظم گولڈا مائیر کو ممبران پارلیمان نے اسلحہ خریدنے کے بجائے قومی سرمایہ کو معیشت کے فروغ میں استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس خاتون آہن نے اسلحہ کی خرید کو ترجیح دی اور کہا کہ اس فیصلہ کی ترغیب مجھے حضور اکرم ؐ کی سیرت سے ملی جبکہ فاقہ کشی کے دور میں بھی ان کی دیوار سے دو تلواریں لٹکی رہتی تھیں گولڈا مائیر کے فیصلے کا فائدہ اسرائیل نے یوم کوپر کی چھ روزہ جنگ میں دیکھا لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے۔

۱۹۵۰ میں امریکہ سے ہجرت کر کے اسرائیل آنے والے پروفیسر رابرٹ اومن ایک سال قبل یونیورسٹی کے طلبا کو مخاطب کرتے ہو کہتے ہیں یہ امریکہ نہیں ہے اگر ہم اس ارض مقدس کو محض رہائش کا ایک مقام سمجھیں گے تو یہ ملک باقی نہیں رہے گا دوسری قوموں کی طرح کا طرز زندگی اگر ہم نے اختیار کر لیا تو اس ملک کا نام و نشان ۵۰ سال کے اندرمٹ جائے گا۔ رابرٹ کے مطا بق لبنان کی جنگ میں ناکامی کی وجہ قومی سطح پر پائی جانے والی پژمردگی تھی وہ ایک مثال بیان کرتا ہے کوہ پیمائی کے دوران اگر کوئی شخص تھک کر سو جائے تو برفباری اسے اپنے اندر نگل لے گی اور وہ فوت ہو جائے گا اس کے مطابق اسرائیل کو ہر لمحہ چوکناّ اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ رابرٹ کا اپنا لڑکا شلومو لبنان کی جنگ میں مارا گیا تھا اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ اب ہم خود اپنی اور غیروں کی اموات کے بارے میں بہت زیادہ حسّاس ہو گئے ہیں اس کے خیال میں یہ منفی طرزِ عمل ہے اس سے جذبہ ایثار میں کمی واقع ہوتی ہے اس لیے وہ یوم کوپر کی جنگ میں مارے جانے والے ۳۰۰۰ فوجیوں کی قربانی یاد دلاتا ہے آگے چل کر وہ کہتا ہے غزہ سے سے واپسی یہ ایک غلط اقدام اور غیر حکیمانہ حرکت تھی۔

 اسرائیلی صدر پیریز نے بھی ماہ فروری کے اندر امریکہ میں اعتراف کیا انخلاء غزہ ہماری سب سے بڑی غلطی تھی جسے دوبارہ کبھی بھی دوہرایا نہ جائے گا رابرٹ کے مطابق اس قدم سے غلط پیغام نشر ہوا اور لبنان کی جنگ ہوئی گویا اگر غزہ فلسطینیوں کے حوالے نہ کیا جاتا تو حزب اللّٰہ کے حوصلے بلند نہ ہوتے اور لبنان کی جنگ نہ ہوتی حالانکہ ان دونوں باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے غزہ سے نکلنے کے لیے اسرائیل کو انتفاضہ نے مجبور کیا تھا۔ یہ کوئی احسان نہ تھا بلکہ اسرائیل کی ایک مجبوری تھی نیز حزب اللّٰہ نے دس سالوں تک جس جنگ کی تیاری کی تھی اسے کبھی نہ کبھی تو ہونا ہی تھا۔ اس کے باوجود پروفیسر رابرٹ کا بیان اس احساسِ شکست کی چغلی ضرور کھاتا ہے جو اندر ہی اندر قومِ یہود کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اصل میں رابرٹ اور اہل مغرب کی فکر مندی کی اصل وجہ انہوں نے اپنی تقریر کے آخر میں بیان کی وہ کہتے ہیں کہ اگر کل کو حماس مغربی کنارے میں اقتدار حاصل کر لے تو اسرائیل بری طرح غیر محفوظ ہو جائے گا اور دارالخلافہ تل ا بیب قصام راکٹ کی رسائی کے اندر آ جائے گا۔ یہ محض ایک اندیشہ نہیں بلکہ نوشتہ دیوار ہے۔

اسی لیے دنیا بھر کے جمہوریت نواز جو احمدی نژاد کے انتخاب پر تنقید سے نہیں تھکتے کبھی بھولے سے بھی اپنے منظورِ نظر محمود عباس کو صدارتی انتخاب کروانے کا مشورہ نہیں دیتے اور فلسطینی ا تھارٹی کے سربراہی پر ان کے زبردستی قابض رہنے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوتا ہے۔  اپنی تقریر کا خاتمہ میں رابرٹ نہایت حسرت و یاس کے عالم میں کہتا ہے ہمیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے یہ میں تمہیں کیسے سمجھاؤں اس کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ان نوجوان طلبا کو اسرائیل ہی میں رہتے بستے ہیں وہیں رہنے کی پر زور تلقین اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ نئی نسل اب نقل مکانی کے لیے پھر پر تول رہی ہے اور اب اسے روکنا مشکل ہے کل تک جن لوگوں کو اسرائیل آنے روکنا مشکل تھا آج انہیں اسرائیل کے اندر روکنے میں دقت پیش آ رہی ہے اسی کرب کا اظہار رابرٹ کی یہ تقریر کرتی ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوے ایک اور یہودی لکھتا ہے ہم اپنے خاتمہ سے صرف ایک اور فاش غلطی کے فاصلہ پر ہیں قرآن عظیم میں رب کائنات کی جانب سے اس کیفیت کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے کہ ہم نے ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی،  ان کے حوصلے پست کر دئیے اور ان کے قدم اکھڑ گئے۔

ایک وہ زمانہ تھا جب رابرٹ اومن جیسے لوگ نہ صرف امریکہ بلکہ یوروپ اور روس سے نکل کر اس لیے اسرائیل آئے تھے تاکہ نام نہاد سر زمینِ بشارت پر صیہونیت کی بنیاد پر ایک مادر وطن تعمیر کیا جائے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں جس طرح ہند و پاک کی نئی نسل نے آزادی کی جدوجہد کو بھلا دیا ہے قومی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی خوشحالی کو اپنا مطمح نظر بنا لیا ہے اسی طرح کی تبدیلی اسرائیل کے ان ر بھی واقع ہوئی ہے اسرائیل کے اندر بسنے والے ۵۰ لاکھ یہودی فی الحال اپنے پاس امریکی پاسپورٹ بھی رکھتے ہیں لیکن سی آئی اے کی تحقیق کے مطابق آئندہ پندرہ سالوں میں یہ تعداد چار گنا بڑھ جائے گی اور ۲۰ لاکھ یہودی امریکہ کا رخ کریں گے۔ سی آئی اے کا یہ بھی اندازہ ہے کہ اس عرصہ میں وہ ۱۶ لاکھ یہودی جو روس اور مشرقی یوروپ سے ہجرت کر کے اسرائیل آ گئے تھے اپنے آبا و اجدا د کے ملک میں لوٹ جائیں گے ایسے میں دو ریاستوں کا منصوبہ اپنی موت آپ مر جائے گا فلسطینی مہاجرین کی گھر واپسی انہیں سر زمینِ فلسطین کا پھر سے مالک بنا دے گی اور اسرائیل سوویت یونین کی طرح ماضی کی ایک داستانِ پارینہ بن جائے گا۔

سی آئی اے کے اندازوں میں اس لحاظ سے دم ہے کہ سوویت یونین میں سرخ انقلاب اور اطراف کے ممالک میں اشتراکی طرز حکومت سے مایوس ہو کر وہاں بسنے والے عام یہودیوں نے خوشحالی کی آرزو میں اسرائیل کا رخ کیا تھا لیکن اب وہ علاقے پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور یہودیوں کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ان کی نقل و حرکت بنیادی طور پر مادی مفادات کے حصول کی خاطر ہوتی رہی ہے اسی لیے یہ کہیں بھی اپنے قدم جما نہیں پاتے ہمیشہ منتشر رہتے ہیں۔ گذشتہ صدی میں حالات کچھ اس طرح کے بن گئے کہ ان کا مادی مفاد صیہونی ریاست سے وابستہ ہو گیا اور یہ ریاست پھلنے پھولنے لگی علاوہ ازیں اس ریاست سے امریکی مفاد وابستہ ہو گیا جس نے اس کی سرپرستی امدا و و تعاون شروع کر دی لیکن اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور عالمِ انسانیت چہرے پر نمودار ہونے والا یہ ناسور اپنی موت کی جانب گھسٹنے لگا ہے۔

 یہ سب اپنے آپ یونہی نہیں ہو گیا یہ چراغ فلسطینی مجاہدین کی خون سے روشن ہوا ہے جس نے تاریک ترین رات میں بھی بلا کی استقامت کا مظاہرہ کیا اور ایثار و قربانی کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ راہِ خداوندی میں مال و جان کا عظیم نذرانہ کو بلآخر شرفِ قبولیت پا گیا۔ رب ّ کائنات کی رحمت جوش مارنے لگی اور بشارتِ ثانیہ یعنی وہ دوسری چیز جو ہمیں پسند ہے یعنی اللّٰہ کی نصرت اور قریب حاصل ہونے والی فتح کے پورا ہونے کا وقت آگیا وہ صبح جلد ہی نمودار ہوا چاہتی جب مسجد اقصیٰ سے پھر مجاہدین کی اذانیں گونجیں گی اور ساری دنیا سے اس پر لبیک کر نے والے اہل ایمان کو اللّٰہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہ ہو گا وہ بلا خوف و خطر اس دور کی مسجد کو اپنے سجدوں سے سجائیں گے جس میں اپنے حبیب پاک ؐ کو اللّٰہ رب العزت نے معراج کی رات اپنے پاس صدرۃ المنتہیٰ پر بلانے سے قبل انبیاء کی امامت کی غرض سے بلایا تھا۔ مسجد اقصیٰ کی بازیابی پھر ایک بار امت کے غلبہ اور عروج کا پیش خیمہ بنے گی انشا اللّٰہ۔

٭٭٭

 

یہ جنگ ہے جنگِ آزادی

ماہ رمضان المبارک کا جمعتہ الوداع ساری دنیا میں یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز دنیا بھر کے مسلمان اپنے قبلہ اول کو یاد کرتے ہیں اس کی بازیابی کا عزم کرتے ہیں اور اس مقصد کی خاطر جدوجہد کرنے والے جانباز مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ساتھ ہی گذشتہ سال کا جائزہ لیا جاتا ہے اور آئندہ کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تا کہ ہم میں سے ہر کوئی جو کچھ بھی وہ کر سکتا ہے اپنی بساط بھر ذمہ داری کو ادا کرتا ہے لیکن فلسطین کے مسلمانوں کے لیے یہ احتساب و جائزہ کا عمل پہلے جمعہ سے شروع ہو جاتا ہے۔

۱۹۶۷ سے قبل مشرقی یروشلم کا وہ علاقہ جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے حکومتِ اردن کے زیرِ اقتدار تھا لیکن یوم کپر کی جنگ کے بعد اس پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا ویسے اب بھی مسجدِ اقصیٰ کا متوّلی اردن وقف بورڈ ہے اس کے باوجود یہاں پر نماز ادا کرنے کی اجازت مختلف نامعقول اسرائیلی شرائط کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ان شرائط میں سب اہم عمر کی قید ہے۔ اس مسجد میں عبادت کرنے کے لیے ہر مسلم مرد کا ۵۰ سال سے اوپر کا ہونا اور خاتون کی عمر کا ۴۵ سال سے زیادہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ان میں سے ہر ایک کا شادی شدہ ہونا بھی لازمی ہے مذکورہ قیود کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیلی حکومت نے مسجد کے آس پاس کئی نیم فوجی چوکیاں قائم کر رکھی ہیں جن پر نہ صرف زائرین کو پریشان بلکہ ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

مغربی کنارہ میں گو کہ محمود عباس کی اسرائیل نواز لولی لنگڑی حکومت ہے اس کے باوجود اس علاقے سے یروشلم میں داخل ہونے والوں کو روکنے کے لیے ایک نسلی امتیاز کی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ غزہ کو پوری طرح محصور کر کے ایک جیل خانہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور وہاں کے باشندوں کا معاشی مقاطعہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ حماس کا ساتھ چھوڑ کر فتح کے شانہ بشانہ سرتسلیمِ خم کر لیں۔

 ان تمام مشکلات کے باوجود اس سال ۷ رمضان یعنی پہلے جمعہ کو تقریباً ۹۰ ہزار فرزندانِ توحید نے مسجدِ اقصی کے اندر نمازِ جمعہ ادا کی جن لوگوں کو مختلف وجوہات کی بناء پر مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ تصور کریں کہ اگر اس طرح کی صورتحال سے یہودیوں یا عیسائیوں کو دوچار کر دیا جائے تو ان میں سے کتنے لوگ اپنی عبادت گاہ تک پہونچنے کا قصد کریں گے بلکہ اگر اس کے برعکس انہیں تمام سفر کی سہولیات مفت میں مہیا کی جائیں تب بھی کیا وہ اس قدر کثیر تعداد میں شریک ہوں گے ؟ شاید نہیں

ہم خود اپنے آپ سے سوال کر سکتے ہیں کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ ہم آپ کو ایسی دگرگوں صورتحال سے دوچار کر دے تو ہم میں سے عزیمت کی راہ اختیار کرنے والے کتنی تعداد میں ہوں گے اور رخصت پر قناعت کرنے والا کون کون ہو گا؟ مشاہدہ تو یہ بتلاتا ہے کہ نمازِ جمعہ کے بعدمسجد کے باہر ایک منٹ ٹھہر کر میمورنڈم پر دستخط کرنا بھی ہماری طبیعت پر گراں بار ہوتا ہے بوجھل ضمیر کو مطمئن کرنے کی خاطر اسے ایک بے فائدہ کوشش قرار دے کر ہم اپنے آپ کو بہلا لیتے ہیں لیکن ہمارے فلسطینی بھائیوں کی قبلہ اول سے والہانہ عقیدت قابلِ تحسین جس کے باعث یہ مرکز توحید آج بھی محفوظ و مامون ہے ورنہ خدا ناخواستہ بابری مسجد کی طرح نہ جانے اس حرمِ پاک کے ساتھ کیا معاملہ ہو چکا ہوتا؟

 قبلہ اول کی بازیابی کا بالواسطہ تعلق مسئلہ فلسطین سے ہے اس لیے اس باب میں جو کچھ پیش رفت ہو رہی ہے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔ گو کہ مسجد اقصیٰ سے قلبی رشتہ محض فلسطینی ملت تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے مسلمان اس کی بازیابی کی خواہش اپنے سینوں میں رکھتے ہیں اس کے باوجود عالمی حالات کچھ اس طرح سے بنا دئے گئے ہیں کہ فی الحال اس سرزمین پر مقیم فلسطینی حوصلہ مند عوام ہی براہ راست کشمکش کرنے کی حالت میں ہیں۔ بلا واسطہ مدد و تعاون کے مواقع توساری دنیا کے مسلمانوں کو حاصل ہیں اور کسی نہ کسی حد تک اس کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔

اس معاملہ میں فریقِ ثانی غاصب اسرائیل ہے جس کی شکستِ فاش کے بغیر مشرق وسطیٰ میں کوئی پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔ ان دونوں کے علاوہ امریکہ اور یوروپ کی بھی اہمیت ہے جن کے بل بوتے پراسرائیل کا ناپاک وجود قائم ہے،  مسلم ممالک بھی ہیں جن کے درمیان اس معاملہ میں شدید قسم کے اختلافات پائے جاتے ہیں کوئی فتح کے ساتھ ہے تو کوئی حماس کے ساتھ ہے اور کچھ لوگ دونوں کا ساتھ نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک نہایت مہمل اور بے فائدہ کوشش ہے ان بیچاروں کے دل اور دماغ ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں اور جب تک اس جنگ میں کسی ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست نہیں ہو جاتی اسوقت تک ان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ خود بھی نہیں جانتے حالانکہ دورِ حاضر میں قضیہ فلسطین حضرت شعیب علیہ السلام کی اونٹنی کی مثل ہے کہ اس کے تئیں لوگوں کا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملہ میں ملوث سے ہر فریق کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے تاکہ صورتحال واضح ہو کر سامنے آئے۔

فلسطینی مسلمان: ملّتِ اسلامیہ فلسطین فی الحال دو حصوں میں منقسم ہے ویسے اس اختلاف میں بھی برکت ہے۔  ماضی میں یہ سب پی ایل او کے پرچم تلے متحد تھے یہ اس زمانے کی بات ہے جب فتح اسرائیل کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی لیکن آگے چل کر اس نے اسرائیل سے مفاہمت کر لی ایسے میں فلسطین کے وہ غیور مسلمان جو اپنی آزادی کو رہن رکھ کر سہولتوں کی خیرات پر گذارہ کرنا اپنے لیے باعثِ ننگ سمجھتے ہیں حماس قائم کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس سے اتحاد یقیناً پارہ پارہ ہوا لیکن یہ ضروری تھا ورنہ اتحاد و اتفاق تو قائم رہتا لیکن آزادی کی شمع بجھ جاتی اور چہار سو ذلت و رسوائی کا دور دورہ ہو جاتا۔ گذشتہ رمضان سے لے کر اس رمضان تک کے عرصہ میں ان دونوں کا معاملہ اس طرح رہا کہ ایک کو دشمنوں نے ظلم کی دہکتی ہوئی بھٹی میں جھونک دیا اور وہ اس کے لیے گلزار بن گئی اور دوسرے نے اپنے آپ کو سکون و عافیت کی قبر میں ڈال دیا اور موت کی چادر تان کر سو رہے۔

فلسطینی تنظیمِ آزادی: بیس سال کے طویل عرصہ بعد اس سال تنظیم نے اپنے عمومی اجتماع کا اہتمام کیا پہلی مرتبہ یہ اجلاس سر زمینِ فلسطین پر بیت اللحم میں منعقد ہوا۔ حکومتِ اسرائیل نے اس کے لیے نہ صرف اجازت بلکہ تمام سہولیات فراہم کیں۔ صیہونیوں کے اندر فکرو عمل کا یہ عظیم انقلاب کیوں کر بپا ہوا؟ جبکہ گذشتہ انتخاب کے بعد سے سخت گیر لکڈ پارٹی بر سر اقتدار آ گئی ہے اور اسے انتہا پسند اسرائیل ہوم پارٹی کو اپنے محاذ میں شامل کر کے لیبر من کو وزیر خارجہ بنانا پڑا ہے ؟یہ ایسا شخص ہے جو ہر فلسطینی مسلمان کو مقبوضہ علاقوں سے بزورِ قوت نکال باہر کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

دوسری جانب اسی حکومت نے غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے معاشی مقاطعہ اس قدرسخت ہے کہ بین الاقوامی امدادی رسد تک کو روک دیا جاتا ہے نیز آئے دن سرنگ کا بہانہ کر کے بمباری کی جاتی ہے۔ معصوموں کا ناحق خون بہا یا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ ایسی ظالم حکومت اچانک فتح پر مہربان کیوں ہو گئی ہے ؟ اس کا نہایت سہل جواب یہ ہے کہ کہ فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے پر وہی سب کر رہی ہے جو اسرائیل اور اس کے آقا امریکہ و یوروپ چاہتے ہیں۔ یہ لوگ میر جعفر اور میر صادق کا کردار نبھا رہے ہیں مزاحمت کرنے کے بجائے اس کو کچلنے کا ٹھیکہ ان لوگوں نے چند سکوّں کے عوض لے رکھا ہے۔  مغربی کنارے پر حماس کے تقریباً ۲۰۰ حامیوں کو جیل کی سلاخ کے پیچھے ٹھونس دیا گیا ہے۔ امریکی کمانڈر کیتھ ڈیٹن اتھارٹی کے جس حفاظتی دستہ کو حربی تربیت دے رہا ہو وہ اسرائیل سے لڑے گا یا حماس سے محاذ آرائی کرے گا؟ اس سوال کا جواب ہر کوئی جانتا ہے۔

حالیہ کانفرنس میں جس شان  و شوکت کے ساتھ اپنے لئے مخصوص جہاز وں سے اتر کر لمبی لمبی گاڑیوں کے ذریعہ قیمتی لباس زیب تن کیے ہوے فتح رہنما شریک ہوے اسے دیکھ کر کوئی گمان نہ کر سکتا تھا کہ یہ آزادی کی جدوجہد کرنے والی کسی تحریک کا اجلاس ہے۔ آگے کی کارروائی میں بھی اسرائیل کے بجائے حماس کو زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ تنظیمی انتخاب تو ہوا لیکن محمود عباس کو اس مستثنیٰ رکھا گیا اور وہ بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ویسے فلسطینی اتھارٹی میں ان کی مدتّ صدارت ختم ہو چکی اور دوبارہ اگر انتخابات ہوئے تو ان کی کامیابی کے امکانات مفقود ہیں ایسے میں کم ازکم پارٹی کا انتخاب جیت کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کا ایک موقع ان کے ہاتھ آیا تھا لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کا حوصلہ وہ جٹا نہیں پائے۔

 اس کانفرنس میں آزادی کی تمام ظاہری علامتیں مثلاً پرچم،  ترانہ،  وزارت اور اقتدار کی ٹھاٹ باٹ،  تقریریں،  نعرے،  انتخاب،  خوردو نوش،  عیش و عشرت وغیرہ وغیرہ موجود تھے۔ جس چیز کا دور دور تک کہیں پتہ نہ تھا وہ آزادی کی نیلم پری تھی جو نہ صرف غائب تھی بلکہ اس کے حصول کی خواہش و طلب تک موجود نہیں تھی۔ اس کو حاصل کرنے کے عزم و ارادہ کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا گویا یہ کانفرنس ایک معنیٰ میں فلسطینی تنظیمِ آزادی کا تعزیتی جلسہ تھا اب اس سے مسجد اقصیٰ کی بازیابی کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے۔ اس اجتماع کے بعد پی ایل او نے اپنے آپ کو بذات خود فلسطینیوں کی نمائندگی کے منصب سے معزول کر دیا اورحماس کو بلا واسطہ اس رتبۂ بلند پر فائز کر دیا ہے۔

حماس:اس دوران تحریکِ حماس ایک ایسی زبردست آزمائش سے گذری کہ ہر ذی نفس پکار اٹھا اللّٰہ کی مدد کب آئے گی۔ ۲۲ دنوں تک یہود اولمرٹ کی قدیمہ حکومت نے محض انتخابی مفاد کے پیشِ نظر غزہ پر اندھا دھند بمباری کی لیکن حماس کے مضبوط پائے استقلال کو متزلزل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی اس زبردست آزمائش کا غزہ کے باشندوں نے جس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا اس سے ساری دنیا کے مسلمانوں کے ایمان و یقین میں بے شمار اضافہ ہوا ابتلا و آزمائش کی اس بھٹی سے حماس کے جیالے کندن بن کر نکلے۔ قدیمہ اور اولمرٹ نہ صرف حماس کی قیادت کو کوئی بڑا نقصان پہونچانے میں ناکام رہے بلکہ الیکشن میں بھی شکست سے دوچار ہو گئے۔ اب یہود اولمرٹ بدعنوانی کے الزامات میں عدالت کے چکر کاٹ رہا ہے اور ممکن ہے الزامات کے صحیح ثابت ہو جانے پر اسے دس سال قید کی سزا ہو جائے۔

غزہ میں حماس کی کامیابی کا بلا واسطہ اعتراف صدر اوبامہ نے اپنی قاہرہ کی تقریر میں کیا انہوں نے ایک طرف مسئلہ فلسطین پر اپنے اظہار خیال کے دوران پی ایل او کوپوری طرح نظر انداز کر دیا مگر دوسری جانب حماس کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کئی مشورے دے ڈالے گویا اب اوبامہ کے نزدیک حماس کی حیثیت محض ایک نام نہاد دہشت گرد گروہ کی سی نہیں ہے۔ اس خطاب کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی خاطرحماس کوسب سے اہم فریق کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یہ ایسا ہی کہ مسلمان صلح حدیبیہ کے بعد حج کی سعادت کے بغیر لوٹ آئے تھے مگر مسلمانوں نے فریقِ ثانی کی حیثیت سے اپنی نوزائیدہ ریاست کو تسلیم کروا لیا تھا جو مستقبلِ قریب میں حاصل ہونے والی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اسی لیے ربّ کائنات اپنی کتابِ برحق میں اس معاہدہ کو فتح مبین قرار دیتا ہے۔

 اسرائیلی حکومت نے اپنی سفاّکی کے لیے قسام راکٹ کو نوآباد غاصب علاقوں پر داغے جانے اور جلاد شالط نامی یرغمال فوجی کی رہائی کو جواز بنایا تھا لیکن جلاد شالط ہنوز حماس کی قید میں ہے اور اس بارے میں بات چیت اپنے آخری دور میں داخل ہو چکی ہے۔ حما س کا مطالبہ اس کے عوض ایک ہزار معصوم فلسطینیوں کی رہائی کا ہے جو ممکن ہے دو قسطوں میں عمل میں آئے۔ ویسے اس معاملہ میں بھی حماس نے فتح پر ایک خاص امتیاز حاصل کر لیا۔ اپنے قریبی تعلقات کے باوجود محمود عباس پی ایل او کے رہنما مروان بر غوتی کو اسرائیلی جیل سے چھڑوانے میں ناکام رہے لیکن ان کا نام حماس نے اپنی فہرست میں شامل کر کے ایمانی وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ہے اور انشا اللّٰہ مرو ان کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کروانے کی سعادت حماس کا مقدر بنے گی۔

یوروپ اور امریکہ: یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل کا قیام یوروپ اور برطانیہ کی آپسی سانٹھ گانٹھ کا نتیجہ ہے۔ اس کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اپنے پہلے یوروپی دورے کے آغاز میں جب گذشتہ دنوں برطانیہ کی ڈاوننگ اسٹریٹ پر اپنے ہم منصب گورڈن براون سے ملنے کے لیے گئے توان کے خلاف مظاہرہ کرنے والے شدت پسند مسلمان نہیں بلکہ قدامت پرست یہودی تھے انہوں نے اپنے ہاتھوں میں جو پوسٹر اٹھا رکھے تھے ان پر لکھا تھا صیہونیت اور یہودیت ایک دوسرے کی ضد ہیں،  اصلی یہودی رہبان ہمیشہ ہی صیہونیت اور اسرائیلی ریاست کے مخالف رہے ہیں،  فلسطینیوں کو ان کی زمین،  گھر اور املاک واپس کرواوراسرائیل کے جنگی مجرمین کو قرار واقعی سزا دو۔ باریش مذہبی رہنماؤں کے اس مظاہرے نے بنجامن نتن یاہو کے ہوش اڑا دئیے۔ حکومت برطانیہ کی اجازت و سرپرستی کے بغیر ایسا ہر گز ممکن نہیں تھا یہ واقعہ دنیا بھرمیں اسرائیل کی بگڑتی ہوئی ساکھ کا ایک منہ بولتا نمونہ ہے۔

اسرائیل عرصہ دراز سے فلسطینی زمینوں پر غیر قانونی نوآبادیات تعمیر کرتا رہا ہے لیکن آج کل جس طرح کا دباؤ اس معاملہ ے میں اس پر پڑ رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔  فرانس،  جرمنی اور امریکہ ہر کوئی برابر اصرار کئے جا رہے ہیں حالانکہ ابھی تک سب کچھ محض زبانی جمع خرچ تک محدود ہے لیکن پہلے تو یہ بھی نہ ہوتا تھا جارج بش کی اسرائیلی پارلیمان میں ہونے والی تقریر کسے یاد نہیں جس میں انہوں نے اسرائیل کے قیام کو ابراہیمؑ،  موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دی گئی بشارت کا ہم پلہ ٹھہرایا تھا اس بیان کو سننے کے بعد کئی یہودی دانشوروں نے یہاں تک کہا تھا کہ جارج بش اس یہود اولمرٹ سے اچھا یہودی ہے جو ہماری زمین امن کے بدلے دشمنوں کو دینا چاہتا ہے حالانکہ یہ ساری منطق غلط ہے

  یہ ایک حقیقت ہے کہ صدر بارک اوبامہ ابھی تک یہودیوں کی بیجا توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں حالانکہ بارک اوبامہ یہودیوں کی جلسوں میں ان کی اچھی خاصی خوشامد کر چکے ہیں لیکن ان لوگوں کی عادت اس قدر بگاڑ دی گئی ہیں کہ یہ کسی طور مطمئن ہوتے ہی نہیں۔ ان کی حالت اس کتے کی سی ہو گئی ہے جو ہمیشہ زبان لٹکائے رہتا ہے جب اسے ہڈی ڈال دی جائے تب بھی اور جب اسے دھتکار دیا جائے تب بھی۔

 اوبامہ کی قاہرہ تقریر میں نوآبادیات کی تعمیر کے ذکر پر صیہونی خوب چراغ پا ہوئے لیکن مجبوراً وہ اسے زہر مار کر گئے کچھ لوگوں نے لکھا چونکہ اوبامہ سیاہ فام ہے اور امریکہ کے افریقی نژاد باشندے یہودیوں سے ان کے استحصالی برتاؤ کے باعث سخت نفرت کرتے ہیں اس لیے ایسا ہوا،  کچھ کا کہنا ہے کہ اوبامہ کی ماں اسٹینلی ڈنہم چونکہ حقوق نسواں کی تحریک میں پیش پیش تھیں اور ان کو مسلمانوں سے خاص انسیت تھی جس کا ثبوت انہوں نے دو مرتبہ مسلمان سے شادی کر کے دیا نیز بچپن میں اسامہ کو مدرسہ میں تعلیم کی غرض سے بھی روانہ کیا اس لیے وہ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملہ صرف اوبامہ کا نہیں ہے اس معاملہ میں پی ایل او نے بھی کڑا رخ اپناتے ہوئے مذاکرات سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے اور اسے اپنے موقف میں امریکی انتظامیہ کا آشیرواد حاصل ہے۔

صدر بارک اوبامہ نے قاہرہ سے نشر ہونے والی اپنی تقریر کے اختتام میں کہا تھا  بہت سارے آنسو اور بہت سارا خون بہہ چکا اب ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک ایسے دن کے لیے جدوجہد کریں جس میں فلسطینی اور یہودی مائیں اپنے بچوں کی بے خوف و خطر پرورش کرسکیں اور تین مذاہب کا مشترکہ مقامِ مقدس خدائے بزرگ و برتر کے منشا کے مطابق امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے،  یروشلم یہودیوں،  عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے پائیدار امن کی ایسی آماجگاہ بن جائے جہاں اولادِ ابراہیم کی تینوں شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر چین و سکون کے ساتھ زندگی گذار سکیں جیسا کہ اسراء و معراج کے واقعہ میں ذکر ہے جبکہ موسیٰؑ،  عیسیٰؑ  اور محمد ؐ تینوں نے ایک ساتھ مل کر عبادت کی تھی

یہ ایک نہایت حسین خواب ہے لیکن ان خوابوں کی حقیقی تعبیر کے لیے حکیمانہ تدبیر اور مخلصانہ حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں دنیا کی ایک بڑی اکثریت جب اپنے آپ سے یہ سوال کرتی ہے کہ کیا حقیقت کی دنیا میں ایسا ممکن بھی ہے ؟ تو جواب ملتا ہے نہیں۔ ہرگز نہیں لیکن ارض فلسطین کی تاریخ اس سوال کا کچھ اور جواب دیتی ہے وہ کہتی ہے کہ ایسا ہو چکا ہے اس لیے پھر سے ایسا ہوسکتا ہے بشرطیکہ ماضی کی اس فضا کو جس میں یہ ممکن ہو اتھا مستقبل کے سانچے میں ڈھالا جائے

 حضرتِ عیسیٰؑ  کی پیدائش سے قبل ۱۳۷ ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈربن نے یہودیوں کو جلاوطن کر کے یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہودی سردار ہیروڈ نے قیصر روم سے ساز باز کر لی اور اس کا باجگذار بن گیا اور چند انصار کے علاوہ ساری یہودی قوم رومیوں کے ساتھ مل کر حضرت عیسیٰؑ کی ایسی دشمن ہو گئی کہ انہیں صلیب پر چڑھانے کی تیاری میں جٹ گئی۔ رومیوں نے چوتھی صدی عیسوی میں عیسا ئیت کو قبول کر لیا اور اب یہودیوں کے ساتھ ان کی دشمنی نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔

عیسائیوں کی حکومت ۶۳۸ تک قائم رہی اس عرصہ میں اکثر و بیشتر یہودیوں کو یروشلم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی اس لیے کہ عقیدے کے سطح پر ان کے درمیان ایک نہایت بنیادی نوعیت کا اختلاف رونما ہو چکا تھا۔ یہودیوں نے عیسیٰؑ  کو نبی ماننے سے انکار کر دیا تھا اور عیسائیوں نے انہیں خدا کا بیٹا بنا ڈالا تھا گویا دونوں افراط و تفریط کا شکار ہو گئے حضرت عیسی ٰؑ کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں آزمائش بنا دیا اور تاریخ بتاتی ہے کہ قیامت تک یہودیوں اور نصرانیوں کے بیچ ان پر عقیدے کی بابت دشمنی پڑ گئی جبکہ مسلمانوں کی حیثیت امت وسط کی ہے جو نہ عیسیٰؑ  کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور نہ انہیں ربوبیت میں شریک کرتے ہیں اس لحاظ سے وہی ان دونوں کے درمیان عدل و قسط قائم کر سکتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں ہی کہ دور اقتدار میں یروشلم ان تینوں قوموں کے لیے امن کا گہوارہ رہا ہے اور پھر سے بن سکتا ہے۔

 اوبامہ نے معراج کے سفرکا حوالہ دیا اس میں حضور اکرم ؐ نے تمام انبیاء کی امامت کی جو اس بات کی علامت ہے کہ اب امت مسلمہ ہی قیادت و سیادت کی سزاوار ہے اب اگر اس منصبی ذمہ داری سے وہ از خود دست بردار ہو جاتی ہے تواس کا اپنا خسارہ ہو گانیز اگر کوئی دوسری قوم بزور قوت ملتّ کو اس مرتبہ سے معزول کرنے کی کوشش کرے گی تو وہ اس ظلم کی سزا پا کر رہے گی فی زمانہ چونکہ ہم خود اور اغیار دونوں اس غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں اس لیے اپنے پرائے سب کے سب مختلف اقسام کے عذابِ میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ اس مصیبت سے چھٹکارہ بھی مسئلہ فلسطین اورمسجد اقصیٰ کی بازیابی سے جڑا ہوا ہے۔ صدر اوبامہ کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہو گا جب ارض فلسطین پر حق پھر ایک بار غالب ہو گا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت قریب آ لگا ہے بقول شاعر۔

لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں

اک ذرا صبر کے فریاد کے دن تھوڑے ہیں

٭٭٭

 

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار

فتح و شکست،  دن اور رات کی طرح متضاد کیفیات ہیں اس لیے ان کا بیک وقت پایا جانا غیر منطقی معلوم ہوتا ہے مگر جن لوگوں نے شام کے دھندلکے میں ساحل سمندر پر شکست خوردہ سورج کو تاریکی کی لہروں میں ڈوبتے ہوئے دیکھا ہے انہوں نے یقیناً محسوس کیا ہو گا گویا کسی غیر مرئی طاقت نے فتح مندی کے روشن چراغ کی پیشانی پر شکست و ریخت کی جلی عبارت چسپاں کر دی ہے۔ بیت اللحم میں بیس سال کے طویل عرصہ بعد منعقد ہونے والی الفتح کی چھٹی کانفرنس یہی منظر پیش کرتی رہی۔

محمود عباس نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ بیس سال کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا اور اتنے سالوں تک کسی عام اجلاس کا انعقاد نہ کرنا ہماری غلطی تھی لیکن گذشتہ بیس سالوں میں فتح کو کانفرنس کے انعقاد کا خیال کیوں نہیں آیا؟ اور اب آیا بھی تو کیوں آیا؟ یہ بنیادی سوالات بجا طور پر توجہ کے مستحق ہیں اور ان سوالات کا جواب فلسطینی تنظیمِ آزادی کی تاریخ میں دفن ہے۔ فتح کے نام نہاد متفقہ سربراہ محمود عباس نے ۶۰ صفحات پر مشتمل اپنے صدارتی خطبہ میں دو گھنٹہ تک اس داستانِ پارینہ کو ان لوگوں کے سامنے پیش کیا جو اس کے شاہد و معمار ہیں۔ اردوقارئین کی نئی نسل کے لیے بھی اس تاریخ کا خلاصہ یقیناً مفید ہو گا۔ فلسطین کی تحریکِ آزادی کو بیجا طور پر پی ایل او تک محدود کر دیا گیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کے کچھ اور صفحات کو پلٹا جائے۔

فلسطین میں انگریزوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی یہودیوں کو اپنا رسوخ بڑھانے کی اجازت دے دی تھی اور صیہونی دہشت گرد تنظیموں نے برطانوی سامراج کے زیر سایہ اپنے کریہہ مقاصد کو بروئے کار لانا شروع کر دیا تھا۔  ان لوگوں نے بڑے پیمانے پر یوروپ اور روس سے ارض فلسطین کا رخ کیا اور مقامی باشندوں پر شب خون مار کر ان کو کو ہراساں کرنے لگے تا کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس ظلم کے خلاف سب سے پہلے اخوان المسلمون نے آواز اٹھائی۔ ۱۹۳۵ میں حسن البناء شہید نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن البناء کو فلسطین میں تحریک کے قیام کی غرض سے روانہ کیا جنھوں نے برطانوی سامراج اور صیہونیوں کے خلاف اولین عملی جہاد میں حصہ لیا اور سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ ۱۹۴۶ تک اخوان کی ۲۵ شہروں میں شاخیں قائم ہو گئیں اس وقت اخوان کے تقریباً ۲۰۰۰ ہزار ارکان فلسطین میں موجود تھے۔

 ایک بین الاقوامی سازش کے تحت ۱۹۴۸ میں جب اسرائیل کا نا جائز قیام عمل میں آگیا تب بھی سیکڑوں اخوانیوں نے جہاد میں حصہ لے کر جامِ شہادت نوش کیا لیکن افسوس کہ مصر کے نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے اخوان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ جانا اور اس کا ساتھ لینے یا دینے کے بجائے اس کے دشمن بن بیٹھے۔  ۱۹۴۹ میں امام حسن البناء کو قاہرہ میں دن دہاڑے شہید کر دیا گیا اور پھر سیکولر قوم پرست جمال عبدالناصر نے اسلام پسندوں پر وہ مظالم ڈھائے جس کی مثال نہیں ملتی حقیقت تو یہ ہے کہ سب سے پہلے فلسطینی مزاحمت کا گلا گھونٹنے والے یہی ملحد قوم پرست لوگ تھے جنھیں آجکل فلسطینیوں کا محسن اعظم سمجھا جاتا ہے۔

اسلامی تحریک کو پوری طرح کچلنے کے بعد ۱۹۶۴ میں جمال عبدالناصر نے قاہرہ میں عرب کانفرنس منعقد کی اور اس کے بعد فلسطینیوں کی آزادی کی خاطر احمد الشیقری نامی سفارتکار کے ذریعہ پی ایل او قائم کروائی۔ یہ بات صحیح ہے کہ فتح کا اس سے پہلے ارض فلسطین پر کوئی اجلاسِ عام نہیں ہوا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فتح کے قیام کا اعلان مشرقی یروشلم میں ہوا تھا اسوقت وہ علاقہ اردن کے زیرِ اقتدار تھا۔ ۱۹۶۷ میں جمال عبدالناصر کو اسرائیل کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دو چار ہونا پڑا جسے اسلام کی شکست سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ ایک چھوٹے اسلام دشمن کی شکست تھی جو اسلام کے دوسرے بڑے دشمن اسرائیل کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ مکافاتِ عمل نے ایک کانٹا نکالنے کے لیے دوسرے کانٹے کو استعمال کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ مخلص اہل ایمان کو دونوں نے زخمی کیا۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے دیکھتے دیکھتے قبضہ کر لیا۔ جمال عبدالناصر نے اپنوں کو مارا اور غیروں سے مار کھا کر رخصت ہوئے،  اگر اخوانی مجاہد نہ کچلے جاتے تو شاید انہیں ایسی شرمناک شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔

۱۹۶۷ کی عبرتناک شکست کے بعد بڑے پیمانے پر فلسطینی عوام کا خروج عمل میں آیا اور اردن کے مہاجرین کیمپ میں پی ایل او کو پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ گوریلا جنگ کی حکمت عملی اختیار کی گئی۱۹۶۹ میں یاسر عرفات کو چیئر من منتخب کیا گیا۔ اسی سال اردن کے شاہ حسین نے اپنے آقاؤں کے اشارے پرفلسطینیوں کو انتشار کا بہا نہ بنا کر ملک بدر کر دیا۔ یہ دوسرا خروج تھا جو فلسطینیوں کو بشمول فتح بیروت لے آیا۔ یہ فتح تحریک کا دورِ شباب تھا اخوان سے تعلق رکھنے والے کئی نو جوان اس میں شامل ہو چکے تھے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اخوان کی فلسطینی شاخ کو فتح میں ضم ہونے کی دعوت دی گئی۔ اسوقت شہید شیخ یاسین نے فتح پر اسلامی طرز حیات اختیار کرنے کی شرط لگائی جسے ٹھکرا کر فتح نے لامذہبیت [سیکولرزم]پر اصرار کیا اور پھر دونوں اپنے اپنے جدا گانہ راستوں پر گا مزن ہو گئے۔

۱۹۷۴ کے آتے آتے بین الاقوامی برادری نے پی ایل او کو فلسطینیوں کی واحد نمائندہ تسلیم کر لیا اور اقوام متحدہ میں موجود سارے ممبران نے کھڑے ہو کر یاسر عرفات کا زبردست خیر مقدم کیا لیکن اس کے صرف ایک سال بعد بیروت میں اسرائیل کے ایجنٹوں نے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کر دی۔ ۱۹۸۲ میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ پھر ایک بار پی ایل اوکو بیروت سے نکل کر تیونس کا رخ کرنا پڑا۔

تیونس کو روانگی ایک دور کا خاتمہ تھا اس کے بعد فتح نے اسرائیل کے خلاف کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں کی اس لیے کہ اب اس کا رخ غیروں کے بجائے اپنوں کی جانب ہو گیا تھا۱۹۸۳ میں یاسر عرفات تحریک کے اندر اپنے مخالفین کی سرکوبی کی خاطر لبنان میں داخل ہوے اور تین سال اپنے ہی لوگوں سے بر سر پیکار رہے۔ ۱۹۹۱ میں اپنے مجازی آقا سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد۱۹۹۳ میں اوسلو معاہدے پر دستخط کر کے یاسر عرفات بشمول فتح حلقہ بگوش امریکہ ہو گئے۔ ۱۹۸۹ میں ہونے والی پانچویں کانفرنس کے بعد امریکی سامراج کا ساتھ اور مغربی کنارے کا لولا لنگڑا اقتدار بھی ہاتھ آگیاجس نے یاسرعرفات کی انقلابیت کو پوری طرح نگل لیا۔

 ۲۰۰۲میں ایک گھناونی سازش کے تحت اسرائیلی فوج نے یاسرعرفات کا بلا جواز محاصرہ کر لیا اس دوران وہ ایک پر اسرار علالت کا شکار ہوے اور پیرس کے ہسپتال میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اس کے بعد اقتدار کا تاج محمود عباس کے سر پر رکھ دیا گیا جسے وہ مدتِّ عمل کے ختم ہو جانے کے باوجود چھوڑنا نہیں چاہتے ایسے میں بھلا عام اجلاس کی ضرورت کا احساس کسے ہو سکتا تھا؟ دیکھتے دیکھتے اس گہما گہمی میں بیس سال نہ جانے کدھر نکل گئے۔ یہ تو گویا اس سوا ل کا جوا ب ہے کہ گذشتہ بیس سالوں میں یہ اجلاسِ عام کیوں نہیں ہوا؟لیکن دوسرا سوال کہ اب کیوں ہو رہا ہے ؟ اس کے لیے بھی پیچھے مڑ کر دیکھنا ہو گا۔

ارضِ فلسطین کو اسرائیل کے قیام کے بعد دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا ایک پر اردن کی تو دوسرے پر مصر کی حکمرانی تھی۔ لیکن ۱۹۶۷ کی جنگ کے بعد ان دونوں علاقوں کو اسرائیل نے اپنے زیر تسلط لے لیا پی ایل او جس زمانے میں آپسی رنجشوں میں الجھی ہوئی تھی اخوان اس وقت اپنے آپ کو غزہ کی پٹیّ میں منظم کر رہی تھی۔ اس کا تعلیم و تربیت اور عوامی فلاح و بہبود کا نظام خاصہ مؤثر ہو چکا تھا کہ اچانک ۱۹۸۷ کے اندر ایک یہودی ڈرائیور نے چار فلسطینی مزدوروں کو اپنے ٹرک سے کچل ڈالا۔ اخوان نے اس موقع پر مزاحمت کی ابتداء کی جسے پہلی انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس تحریک کو چلانے کی خاطر حماس کو میدان میں اتارا گیا۔ نہتے بچے ّ اپنے ننھے منّے معصوم ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر سڑکوں پر اتر آئے اور اللّٰہ ربّ العزت نے معجزاتی طور پر ان کے آگے اسرائیل کے بھاری بھرکم ٹینکوں کو تنکوں کی مانند بے وزن کر دیا۔

غزہ اور مغربی کنارے سے اسرائیل کا تسلط جزوی طور پر ختم تو ہوا لیکن دونوں علاقوں میں حاصل ہونے والی کامیابی کے درمیان ایک واضح فرق تھا۔ مغربی کنارے پر یہ مراعات دشمن کی جانب سے اچھالی ہوئی خیرات کے طور پر ملی تھی جبکہ غزہ میں اسے اللّٰہ کے نام پر جہاد کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ مغربی کنارے پر پی ایل او مجبور ہو کرآئی تھی اور غزہّ سے اسرائیل مجبور ہو کر بھا گا تھا۔ اس فرق کو نہ سمجھنے والے حماس اور پی ایل او کے تئیں اسرائیلی رویہ کے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ فرق ملت کے مزاج کا شاخسانہ ہے۔

عام مسلمان دین کو پسند کر تا ہے اور غلامی سے نفرت کرتا ہے جب تک اخوان مزاحمت کر رہی تھی وہ اس کے ساتھ تھا لیکن جب اسے اس قدر کچل دیا گیا کہ مزاحمت کی حالت میں نہیں رہی تو ایسے میں عوام نے ایک بے دین مزاحمتی گروہ پی ایل او کو گوارہ کر لیا یہ ایسا ہی ہے جیسے مجبوری میں مرنے سے بچنے کے لیے حرام جانور پر گذارہ کر لیا جائے لیکن اگر اس جانور کا گوشت سڑ جائے و ہ گروہ دشمن سے پنجہ آزمائی کرنے کے بجائے بغلگیر ہو جائے تو عوام اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور ایسے میں اگر اس کے سامنے حلال گوشت آ جائے مثلاً اسلام پسند مزاحمتی گروہ حماس تو وہ اسے لبیک کہتے ہیں۔

فلسطین کے اندر گذشتہ انتخاب میں یہی ہوا فلسطینی عوام نے حماس کو واضح اکثریت سے کامیاب کیا۔ لیکن اپنے آپ کو سیکولر جمہوری کہنے والی فتح نے عوام کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ حماس پر مخلوط حکومت قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا۔ حماس کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی خاطر فتح کے محمد دہلان نے اسرائیل سے ساز باز کر لی لیکن حماس کو اس کے نا پاک عزائم کی بھنک لگ گئی اور ان لوگوں نے باغیوں کو اسلحہ سمیت پکڑ لیا اس کے باوجود ساری دنیا کے جمہوریت پسندلوگ حماس کو برا بھلا کہتے رہے۔ فتح نے مغربی کنارے پر احمد قرعی کی غیر دستوری حکومت قائم کر دی اس کے باوجود ساری دنیا مغربی کنارے میں بیٹھے پٹھووں پر امداد و تعاون کے ڈونگرے برساتی رہی اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود کہ پی ایل او کے رہنما گلے گلے تک بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ عوام کو دی جانے والی مدد ان کے ذاتی کھاتوں میں چلی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ امداد بہم پہونچانے والوں کو غریب عوام سے کوئی ہمدردی نہیں تھی یہ نام نہاد مدد تو دراصل رشوت ہوتی ہے جسے سربراہان کو امداد کے نام پر دیا جاتا ہے تا کہ ان کے ذریعہ سے اپنے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔

پی ایل او کے بزرگ رہنما فاروق قدوّمی نے محمود عباس اور محمد دہلان پر ایریل شیرون کی اس میٹنگ میں شریک ہونے کا الزام لگایا ہے جس میں یاسر عرفات کے قتل کا منصوبہ بنا تھا اور یہ سو ال بھی اٹھایا ہے کہ کیا دنیا کے کسی انقلابی رہنما کے پاس کروڑوں کی دولت ہوسکتی ہے کیا وہ اپنے ذاتی ہوائی جہاز سے کسی کانفرنس میں شریک ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق پی ایل او کی لیڈر شپ نے مزاحمت کے اپنے حق کو سرِ بازار نیلام کر دیا ہے۔ فتح کے وزیر اعظم احمد قرعی جنھوں نے کانفرنس کے آغاز میں یاسر عرفات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کے لیے کہا القدس نامی سمنٹ کمپنی کے مالک ہیں اس کمپنی نے نسلی امتیاز کی متنازعہ دیوار کو تعمیر کرنے کی خاطر حکومت اسرائیل کو سمنٹ فراہم کیا ہے۔

 ایک طرف یہ بد عنوان اقتدار کے بھوکے لوگ ہیں مثلاً خود محمود عباس جو اپنی صدارت کی مدت کار ختم ہو نے باوجود عوام کے درمیان جا کر منتخب ہونے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتے عوام تو درکنار اپنی جماعت کے اندر بھی انتخاب لڑنے سے خوف کھاتے ہیں (محمود عباس کو انتخاب سے قبل ہی متفقہ امیدوار قرار دے کر چیئر من کی کرسی ان کے لئے مختص کر دی گئی ہے ) اور دوسری جانب اپنے مقصد حیات کی خاطر جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے والی حماس کا متبادل۔ اس متبادل کے خوف نے فتح کو بیس سالوں کے بعد اس کانفرنس کا انعقاد کرنے پر مجبور کیا ہے اگر حماس جیسی صالح اور جری قیادت مدِّ مقابل مو جود نہ ہوتی تو یہ کانفرنس شاید ہی منعقد ہوتی۔

ان بنیادی سوالات کے بعد چند فروعی سوالات کی جانب آئیں تو سرِفہرست حماس کے ذریعہ سے مندوبین کے روکنے کا معاملہ ہے میڈیا میں اس بات پر بڑی لے دے رہی کہ ایک طرف اسرائیل ساری دنیا سے آنے والے مندوبین کے لیے چشمِ براہ ہے اور دوسری جانب حماس نے مندوبین کو روکنے کا ناعاقبت اندیش فیصلہ کر کے اتحاد کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ بین السطور یہ بھی کہا گیا کہ حماس کی سیاسی بقاء کو گویا اس اجلاس کے انعقاد سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اس بارے میں ذرائع ابلاغ میں صرف حماس کا اقدام زیرِ بحث رہا وجہ پر گفتگو نہیں ہوئی۔

جہاں تک رکاوٹ کی وجہ کا سوال ہے تو حماس کے رہنما محمد ظہّار نے صاف کہا کہ ہمیں اس کانفرنس کے نتائج کا اندازہ ہے اس لیے کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن یہ سچ ہے کہ حماس نے مندوبین کو بلا شرط شریک ہونے سے روکا ہے اور جو شرط لگائی سو یہ تھی کہ پی ایل او کی جیل میں نظر بند ۲۰۰ معصوم حماس کارکنان کو رہا کیا جائے۔ اب اندازہ لگائیں کہ اگر حماس ان مندوبین کو شریک ہونے سے نہیں روکتی تو کیا ساری دنیا کو یہ پتہ چلتا کہ آزادی اور انصاف کا کھوکھلا نعرہ لگانے والے یہ لوگ اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ کیسا معاملہ روا رکھتے ہیں ؟

حماس کے اس فیصلے نے فتح کی ملمع سازی کو سر بازار بے نقاب کر دیا حماس نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ رفاہ کی چوکی جہاں سے غریب فلسطینی روزی روزگار کے لیے مصر آتے جاتے اور بین الاقوامی امداد بھی آ تی ہے۔ اس پراسرائیل اور مصر کی غیر قانونی بندش ہے اسے کم از کم وقتی طور کھولا جائے۔ کیا یہ کوئی نا جائز مطالبہ ہے ؟کیا اس کے پسِ پردہ کوئی سیاسی مفاد ہے ؟ کیا اسے بلیک میل کہنا درست ہے ؟ یہ سوالات کسی جواب کے محتاج نہیں ہیں۔ حماس کے اس فیصلہ کے باعث رفاہ چوکی کو ایک ہفتہ کے لیے کھولا گیاجسے مذکورہ کانفرنس کا بلا واسط نقد فائدہ کہا جا سکتا ہے اس سہولت کو حاصل کرنے کے لیے حماس کو بین الاقوامی سطح پر بڑی بدنامی مول لینی پڑی لیکن مخلص تحریک کو دشمنوں کی لعنت ملامت کا چنداں خوف نہیں ہوتا اس کے لیے اپنا نصب العین اہم ہوتا ہے۔

 حماس نے اس پابندی پر عمل در آمد میں کس قدر نرمی سے کام لیا اس کا اندازہ اس بات کیا جا سکتا ہے کو غزہّ کے ۵۰۰ میں سے ۳۵۰ مندوب کانفرنس میں موجود تھے بقیہ نے اپنی رائے دہندگی کا استعمال فون کے ذریعہ سے کیا لیکن پی ایل او نے اس کا جواب دورانِ کانفرنس مزید ۱۶ حماس کارکنان کو گرفتار کر کے دیا اس پر ساری دنیا نے چپّی سادھ لی کو ئی کچھ نہ بولا۔

اسرائیل کی رواداری پر گفتگو سے قبل یہ سوچنا ضروری ہے کہ آخر اس مہربانی کی وجہ کیا ہے ؟کل تک جواسرائیل فتح کے تعاقب میں اردن،  لبنان اور صابرہ و شتیلا کے پناہ گزین کیمپوں تک جا پہونچتا تھا آج اس قدر مہربان کیوں ہو گیا؟ کچھ مغرب زدہ دانشور اس کے لیے فلسطین کے تئیں امریکی ہمدردی اور اسرائیل پر اس کے دباؤ ٔ کو ذمہ دارٹھہراتے ہیں اگر ایسا ہے تواس نام نہاد ہمدردی سے غزہّ میں بسنے والے فلسطینی محروم کیوں ہیں ؟ ان کے محاصرے کو ختم کرنے میں امریکی دباؤ کیوں کارگر ثابت نہیں ہوتا؟ اصل بات تو یہ ہے کہ اگر فتح کی قید میں اسرائیل کے دو سو تو درکنار دو فوجی بھی ہوتے تو فتح کو اسرائیل کا اصلی چہرہ نظر آ جاتا۔ پی ایل او کا حال تو یہ ہے اس نے اسرائیل سے اپنے صفِ اول کے رہنما مروان برغوتی تک کو رہا کرنے کا مطالبہ تک نہیں کیا۔ برغوتی چونکہ اپنی مقبولیت کے باعث پا رٹی کے اندر محمود عباس کے سیاسی حریف ہیں شاید اس لیے فتح لیڈرشپ ان کے جیل میں رہنے کو اپنے لئے عافیت سمجھتی ہے۔

فتح کی کانفرنس میں محمود عباس نے جب غزہ اور حماس کا ذکر کیا تو حماس مردہ باد کا نعرہ ضرور بلند ہوا لیکن  اسرائیل مردہ باد کا نعرہ سننے کے لیے کان ترس گئے۔ محمود عباس نے مزاحمت کے بین الاقوامی حق کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس کا استعمال صرف پر امن ذرائع سے ہو گا گویا بندوق اجتماع گاہ کی تصویروں سے باہر نہیں آئے گی۔ اسرائیل کی صیہونی حکومت سے جو لوگ اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ امن کی بولی سمجھ جائے گی اور آزادی کی ور مالا آپ کے گلے میں ڈال دے گی ان سے بڑا احمقوں کی جنت میں رہنے والا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ یہ تو لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے کب مانتے ہیں۔

عربی میں کہاوت ہے کہ جس شئے کو تلوار کے زور سے چھینا گیا ہو اس کا حصول تلوار ہی کے ذریعہ سے ممکن ہے۔ لیکن محمود عباس فی الحال فلسطین کے شاہین صفت نو جوانوں کے بال و پر نظم و ضبط کے نام پر کترنے کی کو شش میں مصروف ہیں۔  انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں ہونے والی ناکامیوں کا بنیادی سبب بد نظمی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے جب آزاد یَٔ فکر پر غلامانہ سوچ مسلط ہو جائے تو ایسے غلاموں کو اپنی کامیابی بھی ناکامی لگنے لگتی ہے اس افسوس ناک صورتحال پر علامہ اقبال کا شعر کیا خوب صادق آتا ہے ؎

جو تھا نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا مزاج

اس کانفرنس کے حوالے سے جس وقت ذرائع ابلاغ اسرائیل کی تعریف و توصیف میں لگا ہوا تھا اسی دوران خود اسرائیل نے ایک ایسی حرکت کر ڈالی جس سے دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو گیا۔ مشرقی یروشلم میں گذشتہ ۵۳ سالوں سے قیام پذیر الغاوی اور الہانوی خاندان کے ۵۳ افراد کو اسرائیلی عدالت کے حکم پر بے خانماں کر دیا گیا اور دیکھتے دیکھتے ۱۹ بچوں سمیت یہ دونوں خاندان سڑک پر آ گئے۔

 ۲۰۰۶ میں اسرائیلی عدالت نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ فلسطینیوں کے ان مکانات پرجنھیں چھوڑ کر جانے کے لیے انہیں مجبور کیا گیا تھا حکومت قبضہ تو کر سکتی ہے لیکن کسی نجی فرد کو فروخت نہیں کر سکتی اس لیے ان مکانوں کی سرکاری فروخت پر روک لگ گئی لیکن اب جن لوگوں کو اسے خریدنے سے روکا گیا تھا انہوں نے وہ املاک فروخت کر دیں اوراسے ایک نجی لین دین کے طور پر عدالت نے جائز تسلیم کر لیا سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز ان کی تھی ہی نہیں اسے بیچنے کا حق ان لوگوں کو کیسے حاصل ہو گیا؟ لیکن یہ منطقی سوال اس وقت رونما ہوتا جب معاملہ دو یہودیوں یا دو فلسطینیوں کے درمیان ہوتا یا پھر اسرائیل کے باہر ہوتا لیکن اسرائیل کے زیرِ اقتدار جب ایک فریق یہودی اور دوسرا فلسطینی ہو تو پھر عدل و انصاف کی بات از خود بے معنیٰ ہو جاتی ہے۔

جس وقت پولس عدالت کے اس غیر منصفانہ فیصلہ پر عمل در آمد کے لئے صبح تڑکے آ دھمکی تو ان گھروں میں بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیموں کے کچھ رضا کار بھی موجود تھے اور ان کی شہادت کا خیال کیے بغیر اسرائیلی انتظامیہ نے خواتین بچوں تک کو زد و کوب کیا اور اور ساری دنیا کے سامنے اپنی رواداری کا ڈنکا بجا دیا۔ اس واقعہ کے بعد اقوام متحدہ کے نمائندے البرٹ سیری نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور اسے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قر ار دیا۔ برطانیہ سمیت امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کو بھی اس کی مذمت پر مجبور ہونا پڑا۔

اتفاق سے جس دن یہ واقعہ رونما ہوا محترمہ ہیلری کلنٹن عمان میں  اردن کے وزیر خارجہ کو اسرائیل کے ساتھ مستقل امن کے لیے راضی کر رہی تھیں اسی دوران اسرائیل نے اپنے عمل سے ظاہر کر دیا کہ اس کے ساتھ امن و امان کی شرائط کیا ہوں گی اور فریق ثانی کو اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔ فتح نے ان شرائط کو قبول کر لیا ہے اور ہر قیمت چکانے پر رضا مندی کا اظہار کر دیا ہے اس لیے صیہونی اس سے خوش ہیں۔  یہ ایسا ہی ہے جیسے فرعون ایک طرف تو بنی اسرائیل کو مظالم کا شکار کرتا تھا اور دوسری طرف انہیں کے ایک فرد قارون کو اپنے مصاحبین میں بھی شامل رکھتا تھا۔ یہودیوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ تاریخ سے الٹا سبق لیتے ہیں۔ کبھی فرعون کے تو کبھی ہٹلر کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں حالانکہ ان دونوں کے عبرتناک انجام سے واقفیت کا ادراک خود یہودیوں سے زیادہ اور کون کر سکتا ہے ؟

جناب محمود عباس نے اپنی صدارتی تقریر میں جو امّید افزا بات کہی سو یہ کہ جس طرح یہ کانفرنس ایک معجزہ تھی اسی طرح ریاست بھی ایک معجزہ ہو گی اس کا ایک مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر معجزے کے انتظار میں بیٹھ رہو۔ جس طرح امریکی کرم فرمائیوں کے نتیجہ میں کانفرنس کا انعقاد ہو گیا اسی طرح اسرائیل کی نوازشوں سے آزاد و خود مختار ریاست بھی عالمِ وجود میں آ جائے گی لیکن وہ بھول گئے کہ آزادی کی بیش بہا نعمت بھیک میں نہیں ملا کرتی اس کے لیے کشمکش نا گزیر ہوتی ہے۔  آزمائشوں کی بھٹی میں تپنا پڑتا ہے تا کہ کھرا اور کھوٹا سونا الگ کر دیا جائے جو اس بھٹی سے نکھر کر باہر آتا ہے اسے اللّٰہ رب العزت زمین میں اپنی خلافت سے نوازتا ہے لیکن جوقوم مظالم کے آگے سینہ سپر ہونے کے بجائے منہ چراتی پھرتی ہے اسے ربِّ کائنات دریائے نیل سے پار ضرور نکال دیتا ہے لیکن غلبہ و اقتدار سے محروم کر کے صحرا نوردی کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔

 ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ جب وقت کا نبی ان سے کہتا ہے ’ اے برادرانِ قوم اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللّٰہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے ‘تو وہی بنی اسرائیل جس نے دریائے نیل کو پھٹتا دیکھا تھا اور اس کے بعد اس میں سے سلامتی کے ساتھ گذر گئے تھے پھر اسی دریا میں ان لوگوں نے فرعون کو غرق ہوتے بھی دیکھا اس کے باوجود جواب دیتے ہیں ’ اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے بس تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں ‘

انہوں اس بزدلی کا مظاہرہ اس لیے کیا کہ وہ سمجھتے تھے ارضِ  فلسطین میں بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں بنی عناق سے وہ اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ کہا ہم ان کے سامنے ٹڈیوں کی مانند ہیں۔ ایمان کی اس کمزوری کے باعث وہ اللّٰہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوئے۔ حکم ہوا’ اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے یہ زمین میں ما رے ما رے پھریں گے ان نافرمانوں کی حالت پر ہر گز ترس نہ کھاؤ ‘یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ رہا جب تک ساری بزدل نسل مر کھپ نہیں گئی اور دوبارہ اہل ایمان نے حضرت موسی ٰ اور ان کے بعد یوشع کی قیادت میں جہاد نہیں کیا پھر اس کے بعد تاریخ نے کروٹ بدلی اور غلبہ و  کامرانی ان کا مقدر بن گئی یہ ارضِ فلسطین کی سچی داستان ہے جسے ربّ کائنات نے اپنی کتاب میں تا قیامت محفوظ کر دیا ہے لیکن اس سے عبرت وہی حاصل کر سکتا ہے جو زنداں سے پرے دیکھنے کی بصیرت اپنے اندر رکھتا ہو بقول مجروح سلطانپوری  ؎

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار

رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں  کی زنجیر نہ دیکھ

٭٭٭

 

حق کے اظہار سے باطل کا سحر ٹوٹتا ہے

 دنیا اور آرائشِ دنیا ’کی حقیقت ہی کیا ہے ؟‘محض ایک کھیل تماشہ اور ظاہری ٹیپ ٹاپ’انسان شاید کھیل کود سے اس قدر تفریح اسی لیے حاصل کرتا ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں اسے دنیا کی حقیقت نظر آتی رہتی ہے۔ اس جہانِ فانی میں مختلف لوگ مختلف کھیل کھیلتے ہیں لیکن ان تمام کھیلوں کے اندر جو کھیل حقیقت سے قریب ترین ہے سو وہ ‘جنگ ’ہے۔ جی ہاں جنگ،  اس کھیل میں کسی نہ کسی حیثیت سے سبھی ملوث ہیں کوئی میدان کے اندر سر گرمِ عمل ہے تو کوئی اسٹینڈ پر تماش بین بنا بیٹھا ہے۔ کوئی ٹیلی ویژن کی کھڑکی سے اس کے اندر جھانک رہا ہے تو کوئی انٹر نیٹ کے ذریعہ رسائی حاصل کر رہا ہے۔ کسی کو اس کے  انتظام و انصرام سے فرصت نہیں تو کسی نے سٹہ بازی میں اپنے آپ کو مصروف کر رکھا ہے۔

ہر نیا دن ہر فرد کے لیے ایک نیا میچ لے کر نمودار ہوتا ہے اور ہر شام ایک بازی سمیٹ کر روانہ ہو جاتی ہے لیکن یہ روز روز کے مقابلے دراصل اس ٹورنامنٹ کا حصہ ہیں جو ایک مدت خاص تک ہر کسی کا مقدر کر دیا گیا ہے۔ ہر شخص ایک خاص لمحہ میں پالے میں اترتا ہے اور اپنے طے شدہ وقت پر ریٹائر ہو کر کھیل سے باہر ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود زندگی کی اس جنگ کے کھیل ہونے کا اعتراف کوئی نہیں کرتا اس لیے کہ اس میں زندگی اور موت ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہوتی ہے لیکن ایسا کون سا انسان جس کے اندر یہ دونوں قوتیں باہم ایک دوسرے کے ساتھ بر سرِ جنگ نہیں ہوتیں ؟ بقول عاصم واسطی  ؎

اک جنگ سی ہوتی ہے مسلسل مرے اندر    لیکن کوئی نیزہ ہے،  نہ تلوار ہے مجھ میں

زندگی ہر لمحہ موت سے لڑتی رہتی اور اسے پچھاڑتی رہتی ہے یہاں تک کہ موت کی فیصلہ کن فتح کا لمحہ آن پہونچتا ہے بالآخر موت کی سیٹی اس کھیل کے خاتمہ کا اعلان کر دیتی ہے۔ نہ کوئی انعام پاتا ہے اور نہ کوئی اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ انسان کفِ افسوس ملتا ہے سوچتا ہے ہائے یہ کیسا مقابلہ تھا کہ جس میں نہ کوئی جیتا اور نہ کوئی ہارا؟لیکن یہ اس کی کوتاہ بینی ہے وہ نہیں جانتا کہ اس کھیل کی ابتدا اور انتہا کی مانند انعام و اکرام کی تقریب کا بھی ایک وقت متعین ہے اور جب وہ وقت آ جائے گا تو کچھ لوگ فاتح قرار دئیے جائیں گے اور شکست کچھ لوگوں کا مقدر بن جائے گی دنیا کی زندگی اور جنگوں کے کھیل میں جو سب سی بڑی مماثلت ہے وہ یہ کہ دونوں کو دوام نصیب نہیں ہوتا وہ عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں اور یہ مقابلہ کبھی بھی برابری پر نہیں چھوٹتا اس میں یقیناً ہر فریق کے حصہ میں ایک ابدی کامیابی یا ناکامی آتی ہی ہے۔

افغانستان کے تناظر میں رونما ہونے والی تازہ ترین صورتحال نیدر لینڈ اور اسپین کے درمیان کھیلے جانے والے فٹ بال فائنل کی بنسبت زیادہ دلچسپ ہے۔ حال ہی میں منعقد ہونے والی حکومتِ امریکہ کی رابطہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس کا افتتاح ڈیموکریٹ سنیٹر جان کیری نے اس مایوس کن مشاہدے کے ساتھ کیا کہ انہیں اندیشہ ہے کہیں ایک مستحکم افغان ریاست کی تعمیر کے سلسلے میں واضح حکمت عملی کا فقدان،  ۲۰۰۱سے اب تک افغانستان میں صرف ہونے والے خون اور سرمایہ کویکسر رائیگاں نہ کر دے۔ کیری نے اعتراف کیا کہ ناٹو کو افغانی فوجیوں کی تربیت،  انتظامی اصلاحات اور معاشی ترقی کے بارے میں جس پیش رفت کی توقع تھی اس میں حوصلہ افزا کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بر عکس انتظامیہ کا دفاع کرتے ہوئے افغانستان کے لیے خصوصی سفارتکار رچرڈ  ہولڈبروک نے کامیابیوں کو گنوانے کے بعد اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کے معاملے میں کسی پیش رفت کی توقع اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ عالمی برادری اور بالخصوص عظیم امریکہ محض فوجیوں کو روانہ کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے اپنی دیگر عہد و پیمان کو پورا نہیں کرتا۔

 اس دلچسپ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اجلاس میں موجود حزبِ اختلاف کے معمر رہنما رچرڈ لوگر نے اعلان کیا کہ افغانستان میں معاشی،  سیاسی اور محفوظ تہذیب کے قیام کا عظیم خواب ہماری قوت اور وسائل سے فروتر ہے۔ اگر ایسا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دس سال قبل خود ان کی اپنی ری پبلکن پارٹی نے افغانستان میں فوج کشی کی حماقت کیوں کی تھی؟ اس وقت ۱۱ستمبر کی خواری سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے غالباً یہ انتظامیہ کی مجبوری تھی جو اب اس کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے نہ اگلی جاتی ہے اور نہ نگلی جاتی ہے جس کی وجہ بقول شاعر یوں ہے   ؎

بیج بے توقیر شاید بوئے تھے  بنیاد  میں اس لیے لٹکی ہوئی ہے اب خزاں دیوار پر

جان کیری نے نہایت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی اختلافی بحث میں پڑنے کے بجائے لوگر سے اتفاق کر لیا اور دونوں رہنما اس نتیجے پر پہونچ گئے کہ ’حریت پسند عوام کے اوپر بندوق کی نوک سے اپنا سیاسی نظام اور اپنے تہذیبی اقدار کو مسلط نہیں کیا جا سکتا‘۔ یہ بے پناہ اہمیت کی حامل ایک عظیم حقیقت کا اعتراف ہے کاش کہ دس سال قبل اس بات کا احساس امریکہ بہادر کو ہو جاتا تو عالمِ انسانیت ایک کثیر جانی و مالی زیاں کاری سے محفوظ رہ جاتی۔ لیکن اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ یہ فطرت کے مکافاتِ عمل کا وہ قانون ہے جس کے اندردنیا کی عظیم طاقتوں کے بننے بگڑنے کا فیصلہ مضمر ہوتا ہے۔

امریکی انتظامیہ کی ایک ناعاقبت اندیشی اور مغربی اقوام کی بلا شرط حمایت نے ایک کمزور اور غیر تہذیب یافتہ سمجھی جانے والی کوہستانی قوم کے ذریعہ جاہ و حشمت کے زعم میں گرفتار مغرب پر ذلت و رسوائی کا کلنک چسپاں کر دیا۔ یہ ایک ایسا خنجر ہے جسے کھیل تماشے کے طورافغانستان کی جانب یہ سوچ کر اچھالا گیا تھا کہ وہاں کے بے ضرر لوگ ہمارا کیا بگاڑ لیں گے ابتدا میں کابل سے طالبان کی بے دخلی نے اس خیالِ غلط کی تصدیق بھی کر دی لیکن وہ بھول گئے کہ ایک عظیم حکمتِ عملی کے تحت قدم پیچھے ہٹائے جا رہے ہیں۔

اس کے بعد ایک خاموشی چھا گئی لوگ یہ سمجھ نہ سکے کہ یہ ایک طوفان کا پیش خیمہ ہے اور پھر اس کے بعد ایک عظیم جہاد کے بال و پر دکھلائی دینے لگے جو اب کونپل سے ایک تناور درخت بن گیا ہے بلکہ مجاہدین کی لہلہاتی کھیتی جسے انہوں نے اپنے لہو سے سینچا ہے اہل ایمان کو کس قدر بھلی معلوم ہو رہی ہے۔ ان کی آنکھوں کو اس سے ٹھنڈک ملتی ہے لیکن منکرین اسے دیکھ کر کڑھتے ہیں مستکبرین کے راتوں کی نیند اور دن کا سکون اس نے غارت کر رکھا ہے لیکن رفتہ رفتہ ان پر حقیقت منکشف ہوتی جا رہی ہے اور وہ بھی اعتراف کی جانب کھسکنے لگے ہیں۔ کیری اور لوگر کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی اس امر کی تصدیق کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا دونوں رہنما حیرت و استعجاب کے ساتھ ایک دوسرے کو یہ شعر سنا رہے ہیں  ؎

عجیب چال اچانک حریف نے چل دی

بساط پر مرا غلبہ تھا،  مات سے پہلے

 اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے جان کیری یوں گویا ہوئے ‘ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس حکمتِ عملی کے سب سے اہم عناصر یعنی ان کوششوں سے،  افغانی عوام کی رضامندی اور ان کا انہیں اپنانا،  ان دونوں پر ہمارا بہت کم اختیار ہے۔ اس موقع پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دس سال کا طویل عرصہ گذرنے کے بعد اچانک یہ حکمت و سمجھداری ان امریکی استعمارکے علمبرداروں میں اچانک کہاں سے آ گئی؟ در اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی مستکبر طاقت کے نشہ میں غرق ہوتا ہے تو اس کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔ گھمنڈ سے اس کی گردن اکڑ جاتی ہے اسے اپنے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا وہ اپنے آپ کو رب اعلیٰ (نعوذ با اللّٰہ)سمجھنے لگتا ہے لیکن جب مظلوموں کی کشمکش رنگ لاتی ہے اوراس کے نتیجہ میں ظالموں اور جابروں کے پیروں تلے کی زمین کھسکنے لگتی ہے تو ان کی عقل ٹھکانے آتی ہے۔ افغانی مجاہدین صد ہزار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سوویت یونین کے بعد امریکہ کے غرور کا سر بھی نیچا کر دکھایا ان مجاہدین کے عزم و حوصلہ کی ترجمانی اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؎

وہ عزم تھا کہ ہٹتی گئی خود رکاوٹیں

وہ عشق تھا کہ راہ کی دیوار،  در بنی

جان کیری نے اجلاس میں ایک فکر انگیز تجویز پیش کی‘ چونکہ اکثر لوگ اب اسے ایک ہاری ہوئی بازی سمجھنے لگے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں کامیابی کی تعریف متعین کی جائے اوراس بات کی واضح نشاندہی کر دی جائے کہ افغانستان کے اندر قابلِ تسلیم ریاست کا معیار اور اس کے حصول کا طریقہ کار کیا ہے ؟اس قدر جانی و مالی نقصان کے بعد اگر کوئی قوم ان بنیادی سوالات کا جواب اپنے پاس نہیں رکھتی تو اس کی ناعاقبت اندیشی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے ؟امریکہ میں عام طور پر اس بارے میں جو ابہام اور کنفیوژن پایا جاتا ہے اس کی بازگشت رچرڈ لوگر کے اعتراف میں دکھائی پڑی۔ انہوں نے جولائی ۲۰۱۱کے اندرافغانستان سے فوجوں کے انخلاء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک نہ صرف صدر کا ٹائم ٹیبل غیر واضح ہے بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ افغانستان کو محفوظ و مامون سمجھنے کی کسوٹی آخر کیا ہو گی؟ جس پر جانچ کر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ فوجوں کی واپسی کا مناسب وقت آن پہونچا ہے۔ انہوں نہایت تاسف بھرے انداز میں اپنی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مُجھے اندیشہ ہے کہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی قابض طاقتیں کوئی خاطر خواہ مقصد حاصل نہیں کر پائیں گی‘ گویا جس رنج کے عالم میں کیری نے غزل کا مطلع پڑھا تھا اسی افسوس کے لہجہ میں لوگر نے مقطع بھی پڑھ دیا،  جمہوری تماشے میں دو مخالف جماعتوں کے اندر اس طرح کی یگانگت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ افغانستان کے موجودہ حالات اور خاص طور پر اس حال میں رونما ہونے والے واقعات ہوں اس لیے کہ بقول خواجہ مسیح الدین ؎

روشنی ہو تو اندھیروں کا اثر ٹوٹتا ہے

حق کے اظہار سے باطل کا سحر ٹوٹتا ہے

افغانستان کے حالات پہلے اس قدر دگر گوں نہیں تھے لیکن جب سے ناٹو نے شمال مشرقی قندھار کی جانب پیش قدمی کا ارادہ کیا دن بدن حالات سنگین ہوتے جا رہے ہیں ابھی تک امریکہ اپنے ۱۰۰۰ ہزار فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کر چکا ہے۔ پیر کو کابل میں جاری کی گئی اپنی تازہ رپورٹ میں ایک غیر سرکاری تنظیم "افغانستان رائٹس مانیٹر ” نے ملک میں تشدد کے واقعات اور شہری ہلاکتوں میں اضافے کے باعث ۲۰۱۰کو افغانستان کے لیے بدترین سال قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق لڑائی اور تشدد کے واقعات میں رواں سال روزانہ چھ عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں جو انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر پچھلے چھ ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے ۱۰۷۴عام شہریوں میں سے ۶۶۱ افراد طالبان کے حملوں میں مارے گئے اس کا مطلب ہے بقیہ ۴۱۳ شہریوں کو ناٹو فوجیوں نے ہلاک کیا،  رواں سال میں اب تک پر تشدد کارروائیوں میں ۱۵۰۰ شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جون میں ۱۲۰۰تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ ۲۰۰۲ سے اب تک کسی ایک مہینے میں ہونے والی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔

 اس سال جون کے مہینے میں ۱۰۲ غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے،  نیٹو افواج کو کسی ایک مہینے میں پچھلے نو سالوں کے دوران پہنچنے والا سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔ افغانستان میں اس وقت امریکی اور نیٹو کے کل ایک لاکھ ۴۰ہزار فوجی تعینات ہیں اور آنے والے ہفتوں میں مزید ۱۰ ہزار فوجیوں کا اضافہ متوقع ہے۔ افغانستان کی نجی تنظیم کے مطابق ملک میں رواں سال کے دوران نہ صرف عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ طالبان کی کارروائیوں میں شدت و وسعت آئی ہے اور بین الاقوامی افواج کی تعداد میں اضافے کے باوجود طالبان پر بظاہر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ اس لیے کہ ان کا حال بقول شاعر یہ ہے ؎

ایک مدت سے ہیں حالتِ جنگ میں

 اپنے ساتھ اپنے حالات کی جنگ ہے

واشنگٹن میں جس روز رابطہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کا اجلاس ہو رہا تھا اس دن بھی نیٹو ترجمان نے تسلیم کیا کہ جنوبی افغانستان میں طالبان کے دو مختلف حملوں میں اس کے آٹھ فوجی ہلاک ہو گئے۔ نیٹو کے ایک بیان میں کہا گیا کہ چار فوجی ایک نصب کردہ خود ساختہ بم پھٹنے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے جب کہ ایک الگ حملے میں مزید ایک فوجی مارا گیا۔ منگل کی رات جنوبی صوبے قندھار میں طالبان نے افغان پولیس کے مرکز پر ایک مربوط حملہ کر کے تین امریکی فوجیوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے پانچ افغان مترجمین کو ہلاک کر دیا تھا۔ طالبان کے ترجمان نے بدھ کو میڈیا کے نمائندوں سے فون پر رابطہ کر کے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور دعویٰ کیا کہ پولس مرکز پرکئے گئے حملے میں ۳ نہیں بلکہ۱۳ غیر ملکی فوجی اور آٹھ افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ جنوبی ضلع ہنگو میں جمعہ کے روز مشتبہ عسکریت پسندوں کے مقامی طور پر تیار کردہ ریمورٹ کنٹرول بم سے پولیس کی ایک گاڑی پر حملہ کیا۔ اس واقعہ میں تین پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے۔

جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ضروری اشیاء خورد و نوش کی رسد میں بھی آئے دن مسائل پیش آتے رہتے ہیں حالانکہ ان کی بحفاظت سپلائی کے لیے نیٹو انتظامیہ کروڑوں ڈالر مقامی سرداروں کو ہرجانہ کے طور پر ادا کرتا ہے اس کے باوجود پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقہ مچھ میں نامعلوم افراد نے جمعہ کی صبح افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے تیل لے جانے والے چار آئل ٹینکروں پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں دو لاکھ لیٹر تیل جل گیا ہے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ یہ آئل ٹینکرز افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے کراچی سے سکھرکے راستے قندھار جا رہے تھے۔ دوسری جانب وڈھ کے علاقے میں بھی نامعلوم افراد نے ایک کنٹینر کو نذر آتش کر دیا،  جس سے افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے لدا ہوا سامان مکمل طور پر جل گیا۔ بلوچستان کے راستے کراچی سے چمن تک کی بین الاقوامی شاہراہ پر روزانہ بیس ہزار سے زیادہ آئل ٹینکر اور  کنٹینرز افغانستان آتے اور جاتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی کلیدی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر کل کو یہ راستے غیر محفوظ ہو جائیں تو اٖفغانستان میں پھنسے ہوئے نیٹو فوجی اوبامہ کے حکم کا انتظار کیے بغیر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوں گے یا بھکمری کا شکار ہو کر جہانِ فانی سے کوچ کر جائیں گے۔

عام طور پر افغانستان میں مارے جانے والے شہریوں کے لیے طالبان کو بلا روک ٹوک ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے اس لیے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر اتحادیوں کا قبضہ ہے لیکن اس کے باوجود گاہے بگاہے نیٹو کے مظالم منظرِ  عام پر آتے رہتے ہیں۔ حال میں نیٹو اور افغان حکام کی تفتیش سے ثابت ہوا ہے کہ صوبہ پکتیا کے ضلع جانی خیل میں چھ شہریوں کی حادثاتی ہلاکت اتحادی افواج کی فائرنگ سے ہوئی ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب ایک روز قبل اتحادی افواج نے اعتراف کیا تھا کہ رواں ہفتہ غلط اطلاعات کی بنا پر کیے جانے والے فضائی حملے میں چھ افغان فوجی طالبان عسکریت پسند ہونے کے شبہ میں مارے گئے اور اس کی افغان حکومت نے مذمت کی تھی۔

حکام کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ جمعرات کو ہونے والی یہ شہری ہلاکتیں اتحادی فوجیوں کا نشانہ چوکنے سے ہوئیں۔ بین الاقوامی افواج کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اس اعتراف کے ساتھ ہلاک شدگان سے اظہار تعزیت بھی کیا گیا ہے۔ ویسے یہ شرمناک بات ہے کہ اس سے قبل افغان وزارت داخلہ نے ان ہلاکتوں کو طالبان کی طرف سے داغے گئے راکٹ کا شاخسانہ قرار دے دیا تھا۔ کرزئی انتظامیہ پر تو یہ شعر صادق آتا ہے  ؎

بین سنتا ہے نہ فریاد و فغاں دیکھتا ہے ظلم،  انصاف کا معیار کہاں دیکھتا ہے

صدر اوباما نے گذشتہ سال دسمبر میں ۳۰ ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجتے ہوئے انخلاء کی تاریخ کا اعلان کر دیا اور کہا ’ان مزید امریکی اور بین الاقوامی فوجیوں کی بدولت ہمارے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ ہم حفظ و امان کی ذمہ داری افغان فورسز کو تیزی سے منتقل کر سکیں اور جولائی ۲۰۱۱ میں اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر سکیں ‘لیکن اس اعلان نے بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کر دیں اس لیے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے ڈیڈ لائن کی اہمیت کم کرنے کوشش کی کیوں کہ انہیں یہ اندیشہ لاحق ہو گیا کہ مبادا انخلاء کی تاریخ کے سبب طالبان اور پاکستانی و افغانی حکام کو غلط تا ثر مل سکتا ہے۔

 ڈیوڈمیکمولن کے مطابق’ممکن ہے اس اعلان کے بعدپاکستانی اور افغان لیڈر مستقبل میں طالبان کے ساتھ ممکنہ مذاکرت کی تیاری میں لگ گئے ہوں اور اسی تاریخ کو بنیاد بنا کر بات چیت کی جا رہی ہو‘ جنرل پیٹریاس نے معاملے کو سنبھالنے کی غرض سے نیا پینترہ بدلہ اور بولے ’جولائی ۲۰۱۱میں اس عمل کا  آغاز ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس تاریخ امریکہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چلا جائے گا‘ گویا امریکیوں نے خود اپنے موقف کے بارے ایک ابہام اور بے یقینی پیدا کر دی جو ان کے اندر پائے جانے والے عدم اعتماد کی غماز ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق انخلاء کے اعلان سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ نیٹو نے بہت تیزی سے افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دینی شروع کر دی ہے تا کہ جب کبھی بین الاقوامی فورسز افغانستان سے جانا شروع کریں،  افغان فورسز ان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہوں۔

افغان کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہولڈ بروک نے مقامی حفاظتی دستوں کی تیاری کے طریقہ کار کو واضح کرتے ہوئے کہا ہم اس کام کے کے لیے مقامی لوگوں کو ہلکے پھلکے اسلحہ سے لیس کر کے انہیں عسکری تربیت فراہم کریں گے،  ہولڈ بروک کا بیان ان کے زمینی حقائق سے نابلد ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ افغانستان کا عام آدمی ہمیشہ سے اسلحہ بردار رہا ہے اور افغان ایک پیدائشی جنگجو قوم ہے۔ سپہ گری ان کا آبائی شعار ہے وہ اس معاملے میں امریکی تربیت کے محتاج ہر گز نہیں ہیں،  لیکن اس حکمتِ عملی بلکہ عملی حماقت کی بہت بڑی قیمت اتحادیوں کو چکانی پڑے گی جس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے جس کے چرچے فی الحال زبان زدِ عام ہیں۔ حکومت ایک افغان فوجی کو تلاش کر رہی ہے جو منگل کے روز تین برطانوی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد فرار ہو گیا تھا۔ اس حملے میں چار برطانوی فوجی زخمی بھی ہوئے تھے اور افغان صدر حامد کرزئی نے نیٹو اور لندن سے معافی مانگتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا یقین دلایا۔

 آٹھ ماہ قبل بھی ایک افغان پولیس اہلکار نے ہلمند میں ایک چوکی پر تعینات پانچ برطانوی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ امریکہ کے بعد افغانستان میں تعینات سب سے زیادہ فوجیوں کا تعلق برطانیہ سے ہے جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے نو ہزار ہے۔ اب جن لوگوں کو یہ احمق اتحادی،  طالبان سے لڑنے کے لیے اسلحہ تقسیم کریں گے ان میں سے کتنے طالبان سے لڑیں گے اور کتنے ان سے جا ملیں گے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

افغان کی سرزمین پر شکست و ریخت سے دوچار اتحادی ممالک فی الحال جنگ کا سب بنیادی سبق بھول گئے ہیں جس کے مطابق ’ہر کسی کو اپنی جنگ آپ ہی لڑنی پڑتی ہے،  کائناتِ ہستی میں کوئی کسی اور کی جنگ نہیں لڑتا کرائے کے فوجیوں سے کاروبار تو ہوتا کارزار نہیں ہوتا‘ جو فوج اس طلائی اصول کو بھول جاتی ہے اسے شکست دینے کے لیے کسی دشمن کی حاجت نہیں ہوتی موت کے خوف سے لرزہ بر اندام وہ دستہ خود اپنی قبر کھود کر اس میں برضا و رغبت صاحبِ فراش ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ جبر ایک حد سے گذرنے کے بعد احساسِ جرم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر اس کے بعد انسان خود اپنے سائے سے ڈرنے لگتا ہے بقول افتخار عارف  ؎

موسمِ جبر کی بنیاد میں پلتا ہوا خوف

 سر فروشوں میں وہی عز مِ جواں دیکھتا ہے

٭٭٭

 

بازارسے آشوب اٹھا لاتے ہیں گھر میں

وادیِ سوات کو جغرافیائی اعتبار سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی سرحدیں چین،  وسط ایشیا اور جنوب ایشیا سے ملتی ہیں لیکن اس علاقے کی حریت و آزادی کی روایت و تاریخ اپنی مثال آپ ہے۔ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل ہندوستان کی جانب آتے ہوئے سکندر اعظم کی فوجوں نے سوات پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن یہاں کے غیور باشندوں نے انہیں مار بھگایا۔ اس کے بعد مغل اعظم اکبر کی بھی شامت اعمال اسے وہاں لے گئی اور شکست و ریخت سے دوچار ہو کر اس کی فوجوں کو لوٹنا پڑا۔

ماضی قریب میں عظیم برطانوی سامراج نے یہاں بسنے والے غیور پختونوں کو غلام بنانے کا خواب دیکھا جو کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ سوویت یونین جب اپنے پیر پھیلاتا ہوا یہاں داخل ہوا تو اسے منہ کی کھانی پڑی اور بالآخر خود اس کے اپنے حصے بخرے ہو گئے۔ ۲۰۰۱ میں ۱۱ ستمبر کا بہانہ بنا کر امریکہ بہادر نے ناٹو کی فوجوں کے ساتھ اپنے ناپاک عزائم کے حصول کی خاطر اس علاقے کی جانب پیش قدمی کی،  افغانستان میں اپنی نوسالہ ناکامی پر پردہ ڈالنے کی خاطر سوات پر میزائل سے حملے تو کئے لیکن اپنی فوجوں کو اس علاقے میں بھیجنے کی جرأت نہ کرسکا۔ مجبوراً اسے پاکستانی افواج کا سہارا لینا پڑا اور فی الحال وہ ایک بلاواسطہ جنگ میں الجھا ہوا ہے جس میں ناکامی و پسپائی اس کا مقدر بننے والی ہے۔

پاکستان کے احمق حکمران امریکہ بہادر کے اشارے پر بڑے زور و شور کے ساتھ یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے لیکن وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جس خطۂ زمین کو اپنا کہہ رہے ہیں اس وادیِ سوات پر اوّلین حق وہاں رہنے والے باشندوں کا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۶۹ تک یہ آزاد صوبہ پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں فاٹا معاہدے کے تحت الحاق عمل میں آیا جس کے معنیٰ یہ نہیں ہوئے کہ سوات کی وادی کو پاکستانی حکمرانوں نے خرید لیا ہو اور وہاں کی عوام ان کی زر خرید غلام ہو گئی ہو۔

 جنرل یحییٰ خان کی اسی طرز فکر کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کو اپنے مشرقی بازو بنگلہ دیش سے ہاتھ دھونا پڑا یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ہندوستان کی شہ پر جب مشرقی پاکستان کے علیٰحدگی پسند عناصر مزاحمت کر رہے تھے اس نازک موقع پر سوات کے جیالوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہ پہلو افسوس ناک ہے کہ اب پاکستانی فوج غیروں کے اشارے پر خود اپنے شہریوں کی دشمن بن گئی ہے۔ حکومتِ وقت طاقت کا بے جا استعمال کرنے کی پرانی روش کو دوہرا رہی ہے۔ لیکن اسے نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستانی فوج کے مظالم کا جواب دینے کی خاطر بنگلہ دیشی باشندوں کا مغربی پاکستان میں داخل ہو کر کوئی تخریبی کارروائی کرنا ناممکن تھا جس کے باعث پاکستان تمام تر مظالم کے باوجود ہر قسم کے رد عمل سے محفوظ رہا۔ لیکن سوات کا معاملہ مختلف ہے،  اس کے اور پاکستان کے اہم شہروں مثلاً پشاور،  راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان صرف سو میل کا فاصلہ ہے۔ یہ آسان سا خطرہ بھی ان حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے جنہوں نے اپنی عقل غیروں کے ہاتھ ڈالروں کے عوض رہن رکھ دی ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ  ؎

ہم بھی ہیں عجب لوگ،  سمجھتے بھی ہیں پھر بھی

بازار سے آشوب اٹھا لاتے ہیں گھر میں

افغانستان کے غیور عوام جنہوں نے سوویت یونین کی غلامی کے خلاف طویل جنگ لڑی تھی،  فی الحال امریکہ کے آمرانہ جبر سے برسرپیکار ہیں۔ اس لیے کہ غلامی غلامی ہوتی ہے،  آقا کے بدل جانے سے اس کی نوعیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ سوات کے لوگوں کا اس جہادِ آزادی میں شامل ہونا اور اپنے بھائیوں کا تعاون کرنا ایک فطری امر ہے۔ اس لیے کہ اس مشکل کی گھڑی میں اپنے ہم مذہب،  ہم زبان اور ہم نسل بھائیوں کی مدد اگر سوات کے پختون نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟ دلیری اور جانبازی جن کی فطرتِ ثانیہ ہے وہ اس موقع پر خاموش تماشائی بنے رہیں یہ کیونکر ممکن ہے ؟ اخوت،  بھائی چارہ،  وفاداری اور جانثاری جیسی عظیم اقدار کے حامل ان سیدھے سادے شاہین صفت لوگوں کے لیے میدان کارزار میں آنے سے اپنے آپ کو روکے رکھنا ناممکن ہے۔ امریکی بمباری اور پاکستانی فوج کشی دونوں مل کر بھی ان حریت پسندوں کے حوصلے پست نہیں کرسکتی۔

خود امریکی جنگی ماہرین کے مطابق طالبان کے پاس مجاہدین کی تعداد صرف دو سے تین ہزار کے درمیان ہے،  لیکن ان پر قابو پانے کے لیے امریکہ نے خود اپنے ۸۳ ہزار اور ناٹو نے مزید ۵۲ ہزار فوجیوں کو افغانستان میں تعینات کیا ہے۔ سر سے پیر تک اسلحہ سے لیس یہ فوجی جب کسی مہم پر نکلتے ہیں تو سر پر ہوائی دستہ کا سایہ ہوتا ہے جو آگے آگے بم برساتا جاتا ہے،  اس کے باوجود گزشتہ ۹ سالوں میں یہ لوگ کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ گزشتہ دنوں ناٹو اور امریکہ کی فوجوں کے سربراہ جنرل ڈیوڈ میک میلن نے مزید تیس ہزار فوج کا مطالبہ کیا،  اوبامہ نے نہ صرف مطالبہ کو مسترد کر دیا بلکہ دوران جنگ جنرل ڈیوڈ کی چھٹی کر دی اور لیفٹیننٹ جنرل اسٹانلی میک کریسٹل کو عراق سے افغانستان روانہ کر دیا۔ جو شخص عراق کے محاذ پر ناکام رہا وہ بھلا افغانستان میں کیا کر لے گا،  یہ اہم سوال ہے ؟

عراق کی مہم پر اسٹانلی کا واحد کارنامہ القاعدہ رہنما ابومصعب زرقاوی کی شہادت بیان کیا جاتا ہے لیکن جنگ میں کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ اس طرح کے اکا دکا واقعات کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ عراق میں امریکہ کی شکست فاش کو خود بارک اوبامہ تسلیم کرتے ہیں اور جلد از جلد وہاں سے نکل بھاگنا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے ویتنام میں اسی طرح کی کارروائیوں میں ۴۰ ہزار ویت کانگ کو ہلاک کیا تھا اس کے باوجود بالآخر اسے ذلیل ہو کر وہاں سے بھاگنا پڑا تھا،  افغانستان میں بھی  اسی قسم کی رسوائی امریکیوں کی منتظر ہے۔

یکطرفہ تماشہ یہ ہے کہ اپنے ۳۶ ہزار فوجیوں کی مدد کے لیے مزید ۵۲ ہزار فوجیوں کو روانہ کرنا تو قابل تحسین ہے۔ دنیا بھر کے ممالک سے مدد طلب کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ پاکستان کو رشوت اور دھمکی کے بل بوتے پر اپنے ساتھ لینا جائز ہے لیکن مدِّ مقابل کے تین ہزار طالبان مجاہدین کی مدد کے لیے سوات کے لوگوں کا آگے آنا قابلِ مذمت عمل ہے اور ایسا کرنے کی سزا انہیں معصوم بچوں اور خواتین پر بمباری کر کے دی جا رہی ہے۔ اس موقع پر چند اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔ امریکی صدر ایک طرف عراق سے انخلا پر زور دیتے ہیں اوردوسری جانب افغانستان کے محاذ کو پھیلا کر پاکستان کی سرحدوں پر لے آتے ہیں،  ایسا کیوں ہے ؟ ایک جنگ مخالف پروفیسر کی حیثیت سے جانے جانے والے بارک اوبامہ کو کس چیز نے جنگی جنون میں مبتلا کر کے وحشی درندہ بنا دیا ہے ؟ بارک اوبامہ کیونکر یورپ کے حلیفوں کے آگے جھولی پسار کر اور پاکستانی سربراہوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر اپنے آپ کو رسوا کر رہے ہیں ؟

کابل میں سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف گراہم فولر جو سی آئی اے کی قومی خفیہ کونسل کے نائب سربراہ بھی تھے نیز مشرق وسطیٰ پر مختلف کتابوں بشمول ’’سیاسی اسلام کا مستقبل‘‘ کے مصنف ہیں حالیہ تنازعہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کسی حل کے بجائے خود ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ بات گزشتہ آٹھ سالوں کے تجربہ نے ثابت کر دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دقیانوسی متشدد اسلام پسندوں پر اعتدال پسندحامیان اسلام ہی غالب آسکتے ہیں اور یہ اعتدال پسند حضرات امریکہ سے برسرجنگ ہیں۔ اس لیے دہشت گرد اور اسلامی شدت پسند ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے ہیں۔ اعتدال پسندوں کی مخالفت میں دونوں کا مشترک مفاد ہے۔ کسی بھی علاقہ پر غیر ملکی غاصبانہ قبضہ نفرت و انتقام کا سبب بنتا ہے۔

فولر کے مطابق امریکہ کی غلط پالیسی کے باعث افغانستان کا مسئلہ پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہو گیا ہے اور اس کا واحد حل امریکہ کا اس علاقے سے انخلاء ہے،  اس کے بغیر حالات پر قابو پانا ناممکن ہے۔ گراہم فولر جیسے غیر جانبدار لوگ تو حقائق کا اعتراف کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بارک اوبامہ اس معاملے میں اپنے پیش رو جارج بش کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ بارک اوباما کے اندر یہ عظیم انقلاب کیوں برپا ہوا؟ تبدیلی کا پیامبر خود کیسے تبدیل ہو گیا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر گہرائی کے ساتھ غور و خوض کیے بغیر عالمی مسائل کی ان گتھیوں کو سلجھایا نہیں جا سکتا۔

امریکی سیاست میں رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور اپنے ساتھ رکھنے کا سب سے آسان نسخہ کسی خیالی دشمن سے عوام کو خوفزدہ کرنا اور اس کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑ کر عوام کا دل بہلانا ہے۔ ایسا کرنے کی خاطر کبھی سوویت یونین،  کبھی ایرانی انقلاب تو کبھی بن لادن یا صدام تو کبھی طالبان کا نام استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس طریقہ کار میں دو مسائل ہیں،  اوّل تو کسی ایک جھوٹ کی بنیاد پر طویل عرصہ تک عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا،  اس لیے کہ جھوٹ کا گھڑا بالآخر پھوٹ جاتا ہے۔ نیز حکومت وقت کے جرائم کو بے نقاب کیے بغیر کسی حزب اختلاف کا انتخاب لڑنا اور اپنی حکومت قائم کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں گزشتہ چند سالوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کچھ یوں بنتی ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والا حملہ بش انتظامیہ کی زبردست ناکامی تھی۔ ایسے میں اگر جارج بش کوئی بڑا ہنگامہ کھڑا نہ کرتے تو ممکن ہے انہیں اپنی مدتِ صدارت کے درمیان ہی میں مستعفی ہو کر جانے پر مجبور کر دیا جاتا۔ اس لیے انہوں نے مذکورہ حملہ کے لیے بلا تحقیق اسامہ بن لادن کو ذمہ دار ٹھہرا دیا اور ان کی حفاظت کرنے والی طالبان حکومت کو ناٹو کی مدد سے معزول کر دیا،  لیکن اسامہ بن لادن کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کے اپنے عزم میں ناکام ہو گئے۔

کسی ناکامی کا کلنک ماتھے پر سجائے  ہوئے امیدوار کا دوبارہ انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہوتا ہے اس لیے عراق کے خلاف عمومی تباہی کے اسلحہ اور طالبان سے صدام کے تعلق کا جھوٹ گھڑا گیا اور عراق پر فوج کشی کر کے صدام حسین کو معزول کر دیا گیا،  لوگ اس تازہ کامیابی کے نشے میں جھوم ہی رہے تھے کہ انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا۔ جارج بش کے مقابلے میں اس مرتبہ جان کیری انتخاب لڑ رہے تھے جو کانگریس کے اندر جنگ کی حمایت میں اپنی رائے دے چکے تھے۔ اب کیری کے لیے فوج کشی کی مخالفت کا جواز باقی نہیں رہ گیا تھا اس لیے وہ جارحیت کے بجائے جارج بش کے طریقۂ کار کی مخالفت کرنے لگے۔ عمومی تباہی کے اسلحہ کے بارے میں کیری کا موقف تبدیل ہوتا رہا کبھی وہ ان کی موجودگی کا اعتراف کرتے کبھی نامکمل ثبوت کا ذکر کرتے۔ جان کیری نے عوامی دباؤ کے پیش نظر عراق سے ناپاک مقاصد میں حتمی کامیابی سے قبل فوجوں کی واپسی کو بھی غلط قرار دے دیا اس طرح عوام نے یہ سمجھ لیا کہ کیری کا ذہن جنگ کے معاملے میں صاف نہیں ہے وہ مسلسل تضاد بیانی کا شکار ہو رہے ہیں حالت جنگ میں ایسے ڈھل مل آدمی پر اعتماد کر کے اس کے ہاتھوں میں اقتدار دینے کے بجائے بہتر ہے ایک پر اعتماد احمق کو برداشت کر لیا جائے۔ اس طرح جارج بش افغانستان اور عراق میں مسلسل ناکامیوں کے باوجود دوسرا  الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔

جارج ڈبلیوبش کی دوسری میقات میں عوام کا دماغ آہستہ آہستہ ٹھکانے آگیا۔ ان کے سامنے عمومی اسلحہ کی موجودگی کے نام پرگھڑا گیا ساراجھوٹ عریاں ہو گیا۔ امریکی عوام کو عراق سے بھاگ نکلنے میں عافیت دکھائی دینے لگی اور ایسے میں بش کے وارث میک کین کی کھل کر مخالفت کرنا بارک اوباما کے لیے آسان ہو گیا۔ بارک اوباما نے ری پبلکن امیدوار کو اقتدار سے ہٹانے کی خاطر عراق سے فوجوں کی واپسی پر زور ضرور دیا،  لیکن وہ جانتے تھے انتخاب میں کامیاب ہو جانے کے بعد رائے عامہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے کسی نہ کسی دشمن کی ضرورت باقی رہے گی اس لیے وہ روز اوّل سے عراق کے بجائے افغانستان کی بات کرتے رہے۔ اگست ۲۰۰۷ میں جبکہ وہ اپنی جماعت کے اندر صدارت کی امیدواری کے محض دعویدار تھے انہوں نے ایک تقریر میں اپنے ان خیالات کا صاف اظہار کیا جو ان کی اپنی ویب سائیٹ پر اب بھی موجود ہے۔

اپنی تقریر میں اوباما کہتے ہیں،  میں عراق جنگ کا مخالف ضرور ہوں لیکن ہر جنگ کی مخالفت نہیں کرتا،  صدارت کو حاصل کرنے کے بعد پہلا کام میں یہ کروں گا کہ عراق کے محاذ جنگ سے باہر نکل کر اپنی جنگ کو افغانستان اور پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی جانب لے جاؤں،  اس وقت جبکہ جارج بش کی زبان مشرف کی تعریف کرتے نہ تھکتی تھی اوبامہ کا پاکستان میں جنگ کرنے کا ارادہ کچھ عجیب سا لگتا تھا۔ اوبامہ اپنے بیان میں نہایت واضح الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ میں صدر بننے کے بعد جس جنگ کو چھیڑوں گا اس میں ہماری کامیابی ناگزیر ہے۔  مستقبل میں ہماری حکمتِ عملی پانچ اجزاء پر مشتمل ہو گی،  اوّل عراق سے باہر آنا اور افغانستان و پاکستان کے محاذ جنگ کی جانب کوچ کرنا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دہشت گردوں اور خطرناک ہتھیاروں کو اپنے قابو میں کرنے کی خاطر قدرت و صلاحیت پیدا کرنا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر حلیفانہ معاہدے کرنا۔ دنیا کے سارے ممالک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے تعاون نہ کرنے پر مجبور کرنا۔ ہماری اپنی اقدار کو پھر سے قائم کرنا اور مادر وطن کو محفوظ تر بنانے کی کوشش کرنا۔

مندرجہ بالا مقاصد کا جواز وہ جارج بش کی ناکامیوں سے فراہم کرتے تھے،  ان کے مطابق جارج بش افغانستان میں القاعدہ کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے،  امریکہ نے اس جدید دشمن پر فتح حاصل کرنے کی خاطر ضروری صلاحیتیں اپنے اندر پیدا نہیں کیں۔ دہشت گردی کو حاصل ہو نے والے امداد و تعاون کو روکنے کے کی خاطر مناسب لائحہ عمل تیار نہیں کیا اور اپنی اقدار کو قائم کرنے اور ملک کو محفوظ تر بنانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ اوبامہ کی ساری انتخابی مہم پر مندرجہ بالا نظریہ غالب رہا اور ان کی انتخابی کامیابی میں اس کا اپنا حصہ رہا ہے۔ اس حکمت عملی نے اوبامہ کو نہ صرف ریپبلکن پارٹی کی مخالفت کا زبردست جواز فراہم کیا بلکہ کامیابی کے بعد بھی رائے عامہ کو اپنے ساتھ رکھنے کی خاطر ایک قدیم خیالی دشمن کو نیا اوتار بنا کر پیش کرنے میں بھی مدد کی۔

انتخابات میں کامیابی کے چار ماہ بعد بارک اوبامہ نے اپنی افغان پالیسی کا اعلان کیا جو اسی تقریر کا ایک عکس ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ہم دہشت گردوں کے سو سے زیادہ اڈوں کو تباہ کریں گے۔ انڈونیشیا تک ان کا پیچھا کریں گے،  ناٹو سے مزید مدد مانگیں گے،  پاکستان کی مدد پر شرائط نافذ کریں گے اور اگر مشرف ہمارے اشارے پر کام نہیں کرتے تو خود اپنی خفیہ معلومات کی بنیاد پر پاکستان میں اقدامات کریں گے۔ جن عزائم کا اظہار تقریباً دو سال قبل بارک اوباما نے کیا تھا ان سب پر دو ماہ کے اندر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ اس لیے کہ سال کے اواخر میں کانگریس کا وسط مدتی انتخاب ہونا ہے۔ جنگ کا جنون کانگریس میں اپنی اکثریت کو باقی رکھنے اور اپنے من مانے ظلم و استحصال کو جاری رکھنے کی خاطر ضروری ہے۔ ماہرین کا خیال یہ ہے کہ اوبامہ ایک سال سے زیادہ اس مسئلہ کو طول نہیں دے سکتے۔ ایسا کرنے سے عوام کے اندر اس کے اثرات زائل ہو جائیں گے۔ گویا کانگریس یعنی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اور۲۰۱۲ میں ہونے والے انتخابات سے قبل اوباما کو کوئی نیا فتنہ ایجاد کرنا ہو گا جس کے سہارے پھر سے اقتدار پر قبضہ کیا جا سکے۔ حقیقت یہی ہے کہ اقتدار کو ایک مرتبہ حاصل کر لینے کے بعد دوسری بار بھی اس کو اپنے قبضہ میں رکھنے کی خاطر دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کا یہ سپوت درندگی کا یہ ننگا ناچ کر رہا ہے اور معصوم لوگوں کا ناحق خون بہا رہا ہے۔

انتخابی مہم کی خاطر حاصل کیے گئے سرمایہ داروں کے قرض سے نجات حاصل کرنا بارک اوباما کی دوسری مجبوری ہے جس نے اس کے اندر جنگ پسند ڈک چینی کی روح پھونک دی ہے۔ ہندوستان جیسے مسکین ملک میں انتخابات پر ہزاروں کروڑوں روپے جھونک دیئے جاتے ہیں تو امریکہ جیسے متمول ملک میں کس قدر رقم خرچ ہوتی ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ہے،  سرمایہ دار حضرات انتخابی امیدواروں پر جیک پاٹ جیتنے کی خاطر رقم لگاتے ہیں اور بعد میں سودسمیت اسے وصول کر لیتے ہیں،  یہ بھی ایک دھندہ ہے جو بڑا گندہ ہے۔ سیاستدان سرمایہ داروں کی رقم کس طرح واپس کرتے ہیں،  یہ اہم سوال ہے ؟ اس کے کئی طریقے ہیں،  ایک تو سرمایہ داروں کو مختلف سہولیات فراہم کرنا،  ان کے استحصال کو تحفظ فراہم کرنا،  انہیں مختلف سرکاری ٹھیکوں سے نوازنا،  نیز سرکاری اخراجات سے رقم چرا کر خود اپنی اور سرمایہ داروں کی جیب بھرنا گویا بدعنوانی کے ذریعے دولت حاصل کرنا اوراسے مل بانٹ کر ہضم کر جانا۔

جارج بش سرمایہ داروں کو پہلے ہی بہت کچھ نواز چکے ہیں نیز امریکی معیشت فی الحال شدید بحران کا شکار ہے ایسے میں کوئی اضافہ بارک اوبامہ کے لیے ممکن نہیں ہے،  سرکاری اخراجات کاجو حصہ ملک کے اندر عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے اس میں سے کسی رقم کا چرانا امریکی انتظامیہ میں ذرا مشکل کام ہے،  لیکن جنگ پر ہونے والے اخراجات،  اسلحہ کی فروخت پر ہونے والی آمدنی،  دہشت گردی کے خلاف چلائی جانے والی مہم،  وہ کام ہیں جن پر خفیہ سرگرمیوں کا پردہ پڑا رہتا ہے اور اس میں خرد برد کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔

یہ محض وہم و گمان کی بنیاد پر کی جانے والی قیاس آرائی نہیں ہے بلکہ عراق کی نام نہاد باز آبادکاری کے نام پر جو امداد کی گئی اس میں ہونے والی بدعنوانی سے ساری دنیا واقف ہے۔ کئی تفتیشی دستاویزات میں ان کی تفصیل درج ہے۔ اوبامہ کے ذریعہ کی جانے والی نام نہاد امداد جن ممالک میں جائے گی ان میں سے ایک افغانستان اور دوسرا پاکستان ہے۔ افغانستان میں امریکی پٹھو حامد کرزئی حکومت کا بدعنوانی کی فہرست میں نیچے سے تیسرا نمبر ہے یعنی ۱۷۸ سب سے زیادہ رشوت خور ممالک میں ۱۷۶ نمبر۔ پاکستان میں فی الحال مسٹر دس فیصد کرسی صدارت پر فائز ہیں اور اوبامہ وزیر اعظم گیلانی سے زیادہ آصف زرداری پر اعتماد کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور افغانستان کو دی جانے والی امداد کا کس قدر حصہ وہاں کی عوام تک پہنچے گا اور کس قدر کرزئی،  زرداری اور اوبامہ کی جیب میں چلا جائے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

بارک اوباما نے آئندہ دس سال کا جو بجٹ تجویز کیا ہے اس میں جنگی اخراجات پر۸ء ۲ ٹریلین ڈالر رکھے گئے ہیں،  جبکہ غیر لازمی اخراجات کی خاطر صرف ۲ ٹریلین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ ۲۰۰۷ میں امریکہ نے فوج پر ۴ء ۱ ٹریلین ڈالر خرچ کیے تھے جو ساری دنیا کے ذریعے کیے جانے والے فوجی خرچ کے برابر ہے۔ ان اعداد و شمار سے امریکہ کے جنگی جنون کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ۲۰۱۰ میں اوبامہ فوجی اخراجات پر ۷۵۵ بلین ڈالر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ جو ضروری اخراجات مثلاً قومی تحفظ،  صحت عامہ،  سود کی ادائیگی اور قومی خسارے کے علاوہ دیگر تمام اخراجات سے کہیں زیادہ ہے۔ دیگر اخراجات میں عوامی فلاح و بہبود کے کام مثلاً تعلیم،  زراعت،  ماحولیات،  مکان کی فراہمی،  قومی باغ،  قومی زمینی اصلاحات،  عدالتی نظام،  سڑک،  مواصلات،  سائنسی و سماجی تحقیق،  پل،  ڈیم،  پانی کی فراہمی و نکاسی اور دیگر سماجی ترقی کے کاموں کا شمار ہوتا ہے۔ اس تقسیم سے نام نہاد فلاحی ریاست کا دم بھرنے والی امریکی حکومت کی تر جیحات کا بھی بھرم کھل جاتا ہے۔

امریکہ فی الحال اپنی تاریخ کے شدید ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے،  وہاں کے عوام اپنے ٹیکس کی رقم میں سے سماجی فلاح و بہبود کے آج سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن انہیں کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر،  منصوبے کی ترجیحات میں ان جائز ضرورتوں سے زیادہ اہمیت دور دراز ممالک میں پھیلے ہوئے خیالی دشمنوں سے جنگ کو دیتے ہیں۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے اوباما نہ صرف ماضی میں حاصل ہونے والا سرمایہ دار وں کا احسان چکا سکیں گے بلکہ آئندہ انتخاب میں بھی ان کے مالی تعاون کو یقینی بنائیں گے۔ اوبامہ نے گزشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر جاری خون خرابے کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا،  صدر مملکت کی حیثیت سے میری اوّلین ذمہ داری امریکی عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے،  ہم افغانستان پر نہ تو قابض ہونے کے لیے اور نہ اس ملک کا مقدر متعین کرنے کی غرض سے وہاں گئے ہیں بلکہ اس مشترکہ دشمن کا قلع قمع کرنا ہمارا ہدف ہے جو اپنی تشدد آمیز انتہا پسندی کے باعث امریکہ،  اس کے حلیفوں،  پاکستان اور افغان عوام کے لیے مصیبت بن گیا ہے۔ لیکن حقیقت اس بیان کے بالکل ہی برعکس ہے۔ درحقیقت امریکی صدر اور انتظامیہ اقتدار کی ہوس میں نہ صرف امریکی بلکہ پاکستان اور افغان عوام کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ ایک طرف پاک افغان سرحد پر معصوموں کا خون بہا رہا ہے،  لاکھوں لوگوں کو بے خانماں کر کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے کے لیے مجبور کر رہا ہے اور دوسری طرف امریکی عوام کے ٹیکس کا روپیہ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے انہیں معاشی بحران میں تنہا چھوڑ کر جنگ کے بہانے سرکاری خزانے کو لوٹ رہا ہے۔

اوبامہ کی اس ناعاقبت اندیش حکمت عملی کے نتیجہ میں معاشی بحران میں مبتلا امریکہ کا وہی حال ہو گا جو ماضی قریب میں سوویت یونین کا ہوا تھا۔ اس کا غرور خود اپنے بوجھ تلے کچل کر دم توڑ دے گا،  ظلم کا یہی انجام ہوتا رہا ہے۔ وہ اپنی ابتدائی مراحل میں مستضعفین کو جزوی نقصان پہنچاتا ہے لیکن بالآخر فیصلہ کن فتح حق کے علمبرداروں کے حصہ میں آتی ہے۔ لبنان سے لے کر افغانستان اور غزہ سے لے کر عراق تک رونما ہونے والے واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں۔ ویسے یہ ایک حسنِ اتفاق ہے کہ ماضی بعید میں سکندر اعظم اور مغل اعظم سے لوہا لینے والے جانباز اور ماضی قریب میں برطانوی سامراج اور سوویت یونین سے پنجہ لڑانے والے مجاہدین فی الحال امریکی تابوت میں آخری کے ل ٹھونکنے میں مصروف ہیں اور پانچویں مرتبہ کسی سپر پاور کے غرور کو مٹانے کا رتبۂ بلند اس علاقے کے لوگوں کا مقدر بننے جا رہا ہے جنہیں نہایت پسماندہ اور غیر تہذیب یافتہ سمجھا جاتا ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر بسنے والے ان جیالے مجاہدین نے اپنے صبر و استقامت کو مدافعت کے حصار سے نکال کر اقدام کے مقام بلند پر فائز کر دیا اور افتخار عارف کے اس شعر کی زندہ تعبیر بن گئے  ؎

تاقیامت کسی ظالم کو نہ ہو جرأت ظلم

صبرکو منزلِ اقدام میں رکھا جائے

٭٭٭

 

تم اس رستے میں کیوں بارود بوئے جا رہے ہو

صدر براک اوبامہ جن دو بڑے نعروں کے ساتھ ایک سال قبل تخت نشین ہوئے تھے ان میں سے ایک تھا عراق سے فوجوں کو واپس بلانا اور دوسرا افغانستان کے اندر فوجی طاقت میں اضافہ کرنا۔ کچھ اور بھی وعدے وعید کی باتیں تھیں مثلاً گونٹے نامو بے کی غیر قانونی جیلوں کو بند کرنا،  مسلم دنیا سے تعلقات کو استوار کرنا،  امریکہ کو معاشی ابتری سے نکالنا،  عوام کو صحت و تعلیم فراہم کرنا اور دیگر قومی فلاح و بہبود کے کام لیکن اب وہ ان سب کو بھول گئے ہیں سوائے افغانستان کے جہاں ۳۷ ہزار مزید فوجیوں کو روانہ کرنے کے عزمِ مصمم پر وہ قائم و دائم ہیں۔ اس لئے کہ افغانستان میں امریکہ کی حالت دگر گوں ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف ان کا دبدبہ ختم ہو چکا ہے نیز ان کی اپنی فوج اور ہمنوا ناٹو ممالک اس جنگ کے مثبت نتائج سے مایوس ہو چکے ہیں۔  ناٹو کے ایک لاکھ۱۳ ہزار نامرد فوجی جن میں ۶۳ ہزار امریکی بھی شامل ہیں محض ۲۵-۳۰ ہزار دلیر مجاہدین کا بال بیکا کرنے میں پوری طرح ناکام رہے ہیں ایسے میں یہ نئے رنگ روٹ بھلا کیا بگاڑ لیں گے۔

یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ساری دنیا کو امن و تحفظ فراہم کرنے کا کھوکھلا دعویٰ کرنے والے خود اپنی حفاظت کی خاطر افغان مجاہدین کو تاوان ادا کرنے پر مجبور ہوتے رہے ہیں دوسری جانب گذشتہ ۶ ماہ کے اندر مجاہدین نے ۶ بڑے حملے دشمنوں کے زیرِ اثر علاقوں میں گھس کر کیے ہیں گویا ہر ماہ ایک حملہ۔ ان حملوں نے دنیا کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی بے بس و بے یارو مدد گار فوج کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ امریکیوں کو نہ صرف میدانِ جنگ میں یکے بعد دیگرے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا ہے بلکہ سراغ رسانی کے میدان میں بھی سی آئی اے کواس وقت منہ کی کھانی پڑی جب حمام البلاوی عرف خراسانی خود امریکیوں کا حربہ استعمال کر کے ان کی تفتیش گاہ میں اسلحہ کے ساتھ داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا اور خود جامِ شہادت نوش کرنے سے قبل دشمن کے ۷ اعلیٰ افسران کو فی نارِ جہنم کر گیا۔

کابل پر گذشتہ ہفتہ ہونے والاحملہ اپنے محل وقوع اور وقت کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ حملہ کسی عمومی نوعیت کے حامل کمزور ہدف پر نہیں کیا گیا تھا بلکہ صدارتی محل جو غیر ملکی حملہ آوروں کی مرکزی کمین گاہ ہے اور اس کے آس پاس واقع وزارتِ انصاف جہاں سے ظلم و زیادتی کی ندیاں بہتی ہیں اور وزارتِ معیشت جو استحصال کا آلہ کار بنی ہوئی ہے پر کیا گیا تھا گویا یہ حملہ توسیع پسند غیر ملکی طاقتوں کے جبر و استحصال کے خلاف ایک موثر ترین احتجاج تھا۔

وقت کا تعین اس طرح سے کیا گیا کہ اسی دن حامد کرزئی اپنی وزارت میں توسیع کرنے والے تھے۔ حامد کرزئی یوں تو انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے بظاہر جمہوری طریقے پر آئین کے مطابق اقتدار سنبھالنے والے صدر ہیں لیکن انہوں نے ہرایا کس کو ہے ؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ پہلی مرتبہ جب انہوں نے انتخاب کروایا تو ساری دنیا نے بشمول امریکی انتظامیہ کے اسے فراڈ قرار دیا۔ امریکہ نے انہیں دوبارہ پولنگ کروانے کا حکم دیا اس لیے کہ وہ پر امید تھا یہ شخص کسی نہ کسی طرح جیت جائے گا لیکن جب دوسری مرتبہ انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ پٹھوکسی طور انتخاب نہیں جیت سکتا تو ان لوگوں نے تمام دھاندلیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نتائج کو تسلیم کر لیا۔ واحد مخالف امیدوار عبداللہ عبداللّٰہ نے دباؤ ڈالنے کی خاطر خود کو احتجاجاً الگ کر لیا اس کے باوجود ایک ایسے مقابلے میں کہاں صرف ایک شخص دوڑ رہا تھا حامد کرزئی کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ افغانی دستور کے مطابق وزراء کا تقرر ممبران پارلیمان کی توثیق کے بغیر نہیں ہو سکتا لیکن کرزئی ایسے لوگوں کو حلف دلوا رہا تھے جن کو پارلیمان کی حمایت حاصل نہیں ہے اس موقع پر ایک غیر دستوری دھاندلی کو بے نقاب کرنے کا یہی نادر موقع تھا۔

۲۸ جنوری کوایک بین الاقوامی کانفرنس لندن میں منعقد ہونے جا رہی ہے جس کا مقصد اس غلط فہمی کو پھیلانا ہے کہ افغانستان میں امن بحال ہو چکا ہے ایک آئینی حکومت نے اقتدار کی کمان سنبھال لی ہے ناٹو کے فوجیوں نے شورش کو ختم کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دے دیا۔ ایسے میں اس حملے نے ثابت کر دیا کہ یہ تمام دعویٰ سراسر جھوٹ ہیں۔ زمینی حقائق کا ان سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ افغانی مجاہد آج بھی اس قدر طاقتور ہیں کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں حملہ کر سکتے ہیں اور کوئی انہیں روک نہیں سکتا۔

مذکورہ بالا حملے کا تعلق امریکی خارجہ سکریٹری رابرٹ گیٹس کے ہندوستانی دورے سے بھی ہے اس لیے کہ جس دن وہ چلے اسی دن حملہ ہوا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گیٹس ہندوستان آنے کہ بجائے اپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کابل جاتے لیکن افغانی مجاہدین نے انہیں عملاً یہ پیغام دے دیا کہ اگر ادھر کا رخ کیا تو خیریت نہیں ہے۔  اور تو اورافغانستان و پاکستان کے لیے براک اوبامہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک جو حملے کے وقت پاکستان میں موجود تھے کابل کے بجائے نئی دہلی کی جانب روا نہ ہو گئے۔

ہندوستان کی جانب امریکہ کی خصوصی نظرِ التفات ہمیں مہنگی پڑ سکتی ہے اس لیے کہ ایسی ہی نظرِ خاص کسی زمانے میں پاکستان اور عراق پر بھی ہوا کرتی تھی آج ان دونوں کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ جو لوگ دوسروں سے عبرت نہیں پکڑتے انہیں زمانے کے الٹ پھیر سامانِ عبرت بنا دیتے ہیں۔ پاکستان کے بعد اب امریکہ ہندوستان کو افغانستان کے معاملے میں ملوث کرنے کے فراق میں ہے۔ اس نے نہ صرف اسلحہ فروخت کر کے ہندوستانی خزانے سے ۳ بلین ڈالر چرا لیے ہیں بلکہ ہندوستان کو افغانستان کی تعمیر نو پر ۳ء ۱ بلین ڈالر خرچ کرنے پر بھی راضی کر لیا ہے۔ ہندوستان اپنے تمام تر بلند و بانگ دعووں کے باوجود ایک غریب ملک ہے۔ یہاں پر اب بھی کروڑوں لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ کسان خودکشی پر مجبور ہوتے ہیں تو عوام بھکمری کا شکار ہوتے ہیں ایسے میں ۶۵۰۰ کروڑ روپیوں کی خطیر رقم کا بہتر استعمال خود اپنے ملک میں ہو سکتا تھا ویسے بھی فی زمانہ تعمیرِ نو کی اصطلاح تخریبِ جدید کے ہم معنیٰ ہو گئی ہے۔ ان کے ذریعہ حکمرانوں کو عوام کی ہمدردیاں نہیں بلکہ غم و غصہ ہاتھ آتا ہے۔

 کابل کے اندر موجود ہندوستانی سفارتخانے پر گزشتہ اکتوبر میں جب حملہ ہوا تو وزیر ِ اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا ہم ہمیشہ ہی افغانیوں کے ساتھ رہے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے ہمیشہ افغانی عوام کے بجائے ان پر مسلط شدہ غیر ملکی کٹھ پتلیوں کا ساتھ دیا ہے۔ روسی حملے کے وقت ہندوستان بابرک کر مال کا حامی تھا اور اب حامد کرزئی کا ہمنوا بنا ہوا ہے ان دونوں سے وہاں کے حریت پسند عوام نفرت کرتے رہے ہیں اور جب وہ ہمیں ان کے ساتھ دیکھتے ہیں تو ہم کو بھی قابلِ نفریں ہی سمجھتے ہیں۔

ہندوستانی حکومت ماضی کی غلطی کو بڑی شان سے دوہرا رہی ہے اپنے گھریلومسائل کو سلجھانے کے بجائے غیروں کے مسائل میں بلاوجہ اپنے آپ کو الجھا رہی ہے ہندوستان کے گاؤں دیہات کی سڑکوں کا حال تو درکنار ممبئی کا سب سے زیادہ مشہور و معروف سمندری پل بھی پچھلے دنوں یکے بعد دیگرے کئی حادثات کے باعث بند کیا گیا کیوں کے تعمیر کا کام ہنوز نامکمل تھا۔ ایسے میں حکومتِ ہند کو چاہئے کہ امریکہ بہادر کی خشنودی حاصل کرنے کی غرض سے افغانستان تک چھلانگ لگانے کے بجائے اپنی عوام کی فلاح و بہبود کی جانب توجہ کرے۔ اس لیے کہ آج نہیں تو کل امریکہ کو افغانستان سے رسوا ہو کر سیکڑوں میل دور بھاگ کر جانا ہی ہو گا لیکن ہمیں تو بہر حال دنیا کے اسی خطّے میں رہنا بسنا ہے اس لیے ہندوستانی حکمرانوں سے ڈاکٹر عاصم واسطی کی زبانی ہم یہی کہیں گے  ؎

تم اس رستے میں کیوں بارود بوئے جا رہے ہو

کسی دن اس طرف سے خود گذرنا پڑ گیا تو

کابل پر ہونے والا یہ حملہ اصلی اور نقلی مجاہدین اور اور انکے طریقہ کار کے فرق کو بھی واضح کرتا ہے کابل حملے کا نشانہ صاف اور مقاصد نہایت واضح تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کسی نامعلوم ویب سائٹ پر نہیں بلکہ ریڈیو پر خود طالبان نے قبول کی اس میں مرنے والوں کی تعداد نہایت مختصر تھی۔ الجزیرہ اور بی بی سی کے موقعہ واردات پر موجود نمائندوں کے مطابق عوام کو حملے سے قبل وہاں سے نکل جانے کے لیے کہہ دیا گیا تھا۔ دو بچے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں یرغمال بنایا گیا ہے بغیر کسی سودے بازی کے رہا کر دئیے گئے۔ باوجود اس کے کہ ناٹو کے بزدل سپاہی اپنے بنکروں میں دبک کر بیٹھے رہے حملہ دو گھنٹے میں ختم ہو گیا۔

افغانی حفاظتی دستوں کا حال یہ تھا کہ ایک کو اپنے افسرسے یہ پوچھتا ہوا پایا گیا کہ میں یہاں رہوں یا ہٹ جاؤں جواب تھا وہیں رہ کر مقابلہ کرو پھر اس کے بعد اس کا ساتھی وہاں موجود صحافی سے کہتا ہے ہم تو مرنے کے لیے یہاں آئے ہیں تم کیوں آئے ہو؟ تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک گھر پر فون کر کے اپنی ماں کو اپنی خیریت بتلاتا ہے اور زندگی معمول پر آ جاتی ہے حملے کا مقصد جس پیغام کو پہونچانا ہوتا ہے وہ پہونچ جاتا ہے۔

 اس کا موازنہ ممبئی حملے سے کریں تو واضح فرق نظر آتا ہے عوامی مقامات کو ہدف بنانا۔ مقصد کا غیر واضح ہونا۔ متضاد بیانات کا نشر ہونا۔ کسی بھی معروف تحریک کی جانب سے ذمہ داری لینے سے انکار کرنا۔ رات بھر مشہورِ زمانہ ممبئی پولس کا دہلی سے آنے والی کمک کا انتظار کرنا۔ دہلی سے آنے کے لیے بے شمار وقت ضائع کرنا۔ ٹیلی ویژن کے پردے پر ۶۰ گھنٹوں تک اس تماشے کا نشر ہونا یہ سب کس بات کی نشاندہی کرتا ہے۔  ایسا لگتا ہے گویا یہ کوئی حملہ نہیں بلکہ کھیل تماشہ ہو اور ایک سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد تحقیقاتی رپورٹ کا منظرِ عام پر آنا،  پھر اس کا چھپایا جانا،  مختلف کتابوں کا شائع ہونا۔ نت نئی سازشوں کا انکشاف مختلف نظریات اور قیاسات کی اندھیری گلیوں میں سر ٹکرانا یہ بتلاتا ہے کہ’ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘  لیکن ایسا کچھ بھی کابل میں نہیں ہوا۔

دور حاضر کا المیہ یہ ہے کہ آجکل ہر اصلی چیز کا نقلی چربہ فوراً تیار ہو کر بازار میں آ جاتا ہے اور دھڑلے ّ سے بکتا ہے بلکہ اصلی مال سے زیادہ کھپت نقلی مال کی ہوتی ہے یہی حال مجاہدین کا بھی ہے۔ ایک تو افغانستان کے جانباز مجاہدین ہیں جو اپنے وطن کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں اوردوسرے تحریک طالبان پاکستان اور اس جیسی دیگر تحریکیں ہے جن کا اصلی طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ٹی ٹی پی کو اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر اور اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے جرائم پیشہ لوگوں کی مدد سے قائم کیا ان کو سرکاری تحفظ عطا فرما کر اسلحہ فراہم کر دیا گیا۔ ان کرائے کے غنڈوں پر مجاہدین کا لیبل لگا کر  مشرف اپنے اشارے پر ان سے جرائم کرواتا رہا تاکہبلواسطہ سیاسی فائدہ بھی ہوتا رہے ساتھ ہی اسلام کا نام بھی بدنام ہوتا رہے۔ یہ بلا واسطہ فائدہ تھا اس لیے کہ مشرف کی امریکہ نوازی کی مخالفت اسلام پسندہی کر رہے تھے۔

 پنجاب میں خالصتان تحریک کو کچلنے کے لیے حکومتِ ہند نے اسی طرح کی پالیسی اختیار کی تھی اور بعد میں جا کر کشمیر میں بھی اس کا تجربہ کیا گیا گزشتہ چند سالوں کے اندر سی بی آئی اور مختلف خفیہ ایجنسیوں نے معصوم مسلم نوجوانوں کو بلاوجہ کے الزامات میں پھنسا نے کے بعد مجاہدین کا نقاب پہنا کر میدان میں اتارا اور اپنے ناپاک عزائم کو بروئے کار لانے میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ ہندوستان و پاکستان میں ان نقلی مجاہدین کے ذریعہ عوا م پر حملے کرائے گئے اور سیاسی فائدہ حاصل کیا گیا۔ کابل کے حملہ کی نوعیت ان جعلی مجاہدین کے ذریعہ کیے جانے والے حملوں سے یکسر مختلف تھی۔

ہندوستان اور امریکہ دو بڑے جمہوری ممالک ہیں یہاں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے بڑے چرچے ہیں اس کے باوجود ان حقائق پرسے پردہ کیوں نہیں اٹھتا؟ یہ ایک اہم سوال ہوسکتا ہے،  سعودی عرب بلا شک و شبہ ان نعمتوں سے محروم ہے اس کے باوجود کابل حملے سے دو روز قبل ریاض سے شائع ہونے والے اخبار عرب نیوز میں شائع ہونے والے ایک خط پر نظر ڈالیں۔ جدہ سے محمد حنیفہ کچھ اس طرح رقمطراز ہیں اس صفحہ پر دہشت گردی سے متعلق مسلمانوں اور غیر مسلمین کے کئی خط شائع ہو چکے ہیں۔ میں بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ویسا ہی مخالف ہوں جیسا کوئی اور ہو سکتا ہے لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ مقبوضہ علاقوں کی عوام کو غاصبین کے خلاف مزاحمت کا حق ان تمام ذرائع اور وسائل کے ساتھ حاصل ہے جنہیں وہ مناسب سمجھتے ہیں۔

میری معلومات کے مطابق امریکیوں نے برطانوی سامراج کے خلاف لڑائی گاندھیائی طریقہ پر نہیں لڑی۔ کیا فرانس کے لوگ نازی قبضہ کے خلاف عدم تشدد کے اصولوں پر کشمکش کر رہے تھے ؟ جی نہیں مقبوضہ سرحدوں میں محصور عراقی،  افغانی اور فلسطینی عوام امریکہ اور اسرائیل کی طرح طاقتور فوج بنا کر ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ انہیں میدانِ جنگ میں آمنے سامنے شکست دے سکتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ جس بات کی توقع کر سکتے ہیں سو یہی کہ غاصبین اور ان کے ہمنواؤں کے لیے جس قدر ممکن ہو مشکل اور تکلیف دہ صورتحال پیدا کر دیں تا کہ غصب شدہ علاقے میں حکومت کرنا ناممکن ہو جائے۔ بیرونی ممالک ان کے طریقہ کار یا اسلحہو نتائج کے حصول پر بحث و تنقید تو کر سکتے ہیں مثلاً اس سے متوقع مقاصد کا حصول ممکن ہوا یا نہیں لیکن اخلاقی سطح پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ طریقہ کار یا ہتھیار جائز تھا یا نہیں تھا؟

مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مزاحمت اور دہشت گردی کے درمیان خلط ملط کرنے کی کامیاب کوششوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے اگر آپ افغانستان میں دو ہزار فٹ کی بلندی سے کسی شادی کی تقریب پر بمباری کریں معصوم لوگوں کو لقمۂ اجل بنائیں اور واپس آ کر فیشن میگزین کے صفحات کی ورق گردانی کریں یا تاش کھیلیں،  گویا کچھ بھی نہیں ہوا تو مغربی ذرائع ابلاغ اور رہنماؤں کے مطابق یہ قومی تعمیر ہے۔ لیکن اگر ایک عراقی یا افغانی اس نام نہاد تعمیرِ نو کی مخالفت اس طریقے کے مطابق کریں جو اس کے قبضۂ قدرت میں ہے اورایسا کرتے ہوئے وہ خود بھی مارا جائے تو وہ دہشت گردی ہے۔ دونوں لوگ قتل کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کو روکا نہیں جا سکتا لیکن یہاں اس نقطہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں سے ایک ابتداء کرتا اور دوسرا رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔

الجیریا کی جنگ نامی فلم میں ایک ایسا منظر ہے جس میں مزاحم رہنما/دہشت گرد بن مہدی ایک پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں کے سوالات کا جواب دے رہا ہوتا ہے ایک سوال کے پوچھے جانے پر کہ کیا خواتین کے بیگ میں بم لے کر جانا بری بات نہیں ہے ؟ بن مہدی جواب دیتا ہے کیا نہتے گاؤں والوں پر ناپام بم برسانا اس سے زیادہ خراب بات نہیں ہے جس کے ذریعہ کہیں زیادہ تباہی پھیلتی ہے بہتر ہوتا کہ ہمارے پاس بھی جہاز ہوتے مجھے بمبار جہاز دے دو اور پھر تم بھی خواتین کا جھولا استعمال کر سکتے ہو۔ ہمیں ایک ایسے عالمی نظام کی ضرورت ہے جس میں بمبار جہاز بم کا جھولا نہ پیدا کریں۔ ایک ایسی دنیا جس میں جہاز سے غریب ممالک کو پھول اور پھل مہیا کیے جائیں نیز جھولے کا استعمال پھل پھول لے جانے کے لیے کیا جائے۔

اس خط کو پڑھنے کے بعد دو سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوئے اول یہ کہ ان خطوط پر ہم لوگ کیوں نہیں سوچتے اور اگر سوچتے اور لکھتے بھی ہیں تو وہ کیوں نہیں چھپتا۔ شاید آزادی و جمہوریت کے ہمارا بلند بانگ دعویٰ بھی ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں کی طرح جعلی ہے۔ جو نمائش سے زیادہ کسی کام نہیں آتے۔ ویسے ہندوستانی سیکولرزم جسے لامذہبیت کے بجائے مذہبی رواداری کے نام سے جانا جاتا ہے کی ہنڈیا خود ہمارے قریبی دوست امریکہ نے بیچ بازار کے پھوڑ دی۔ امریکی دانشوروں کے معروف تھنک ٹینک نے نہ صرف ہندوستان کا نام غیر روادار ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا بلکہ عراق کے بعد ہندوستان کو دوسرے مقام پر رکھا گویا چاندی کے تمغے سے نوازا یہ تو خیر ہندوستان کا معاملہ ہے لیکن اپنے کو دودھ کا دھلا کہلانے والے امریکہ کو کیا ہو گیا؟اس کی عقل پر پردہ کیونکر پڑ گیا ہے ؟ یہ اہم سوال ہے

امریکہ کا حالت فی الحال یہ ہے کہ صدر براک اوبامہ تیزی کے ساتھ اپنے پیش رو جارج ڈبلیو بش کے نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں جس رفتار سے وہ رواں دواں ہیں اسی رفتار سے ان کی مقبولیت کی شرح گرتی جا رہی ہے –۔ جارج بش کی مقبولیت ۱۱ ستمبر کے بعد بامِ عروج پر پہونچی تھی یعنی ۷۶ فی صد جبکہ براک اوبامہ نے اپنے صدارتی سفر کا آغاز ہی اس مقام سے کیا لیکن ۵۰ دنوں کے پورا ہوتے ہوتے ہندسوں نے اپنی جگہ بدل دی اور ۶۷ فی صد تک کھسک گئے ۲۰۰ دنوں کے خاتمے پر ان کی مقبولیت ۴۶ فی صد عوام تک محدود ہو گئی اب تو حال یہ ہے کہ ہیلری کلنٹن ان سے زیادہ مقبول ہو گئی ہیں گویا اس بات کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں کہ آئندہ ممکن ہے ڈیموکریٹ ہی انہیں اپنی پارٹی کا صدارتی امیدوار نہ بنائیں بش نے تو خیر دوسری بار عراق کے بہانے انتخاب جیت لیا تھا لیکن اس کا موقع اوبامہ کو شاید ہی ملے ان کی مقبولیت بھی بش کی مانند اگر ۲۲ فی صد تک پہونچ جاتی ہے تو افغانی جوتے کے ساتھ ان کی روانگی ہو جائے گی۔ صدر براک اوبامہ اتنی جلدی اس عبرتناک صورتحال میں کیوں دوچار ہوئے ؟ اس سوال کا جائزہ ضروری ہے

جارج ڈبلیو بش جس وقت امریکہ کا صدر بنا اس وقت حالات پوری طرح امریکہ کے حق میں سازگار تھے سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر چکا تھا افغانستان میں طالبان کی ہمنوا حکومت قائم ہو گئی تھی جس نے حالات پر قابو حاصل کر لیا تھا۔ اپنے دشمنِ اعظم ایران کی تینوں جانب سے گھیرا بندی مکمل ہو چکی تھی پاکستان میں پرویز مشرف ہر حکم کی تابعداری کے لیے تیار کھڑے تھے اور صدام حسین کو اس قدر کمزور کر دیا گیا تھا کہ پھر ایک بار اس کا ایران کے خلاف استعمال نہایت آسان ہو گیا تھا لیکن بش نے اپنے ذاتی فائدے کی خاطر ہر وہ کام کیا جو قومی مفاد کے خلاف تھا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنی مدت کار تو پوری کر لی مگر عراق میں نہ صرف ذلیل ورسوا ہوا بلکہ وہاں ایک ایران نواز حکومت کو قائم کر گیا۔ پاکستانی عوام کی ساری ہمدردیاں گنوا بیٹھا پرویز مشرف کی قلعی کھلوا دی یہاں تک کہ اسے بے آبرو ہو کر فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا

 افغانستان کو جارج بش کی احمقانہ پالیسی نے امریکہ کے گلے کی ایک ایسی ہڈی بنا دیا جسے نہ اگلا جا سکتا ہے اور نہ نگلا جا سکتا ہے۔ اب افغانی مجاہدین آپریشن حریت و آزادی کے ذریعہ امریکہ کو اس مصیبت سے نجات دلانے کی کو شش میں لگے ہوئے ہیں اور انشاء اللّٰہ جلد ہی انہیں کامیابی نصیب ہو جائے گی لیکن اس جراحت میں امریکہ کی شہ رگ کے کٹنے سے جو خون بہے گا اس کے لیے وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ اوبامہ سے توقع تھی کہ وہ ماضی سے سبق حاصل کر کے اپنی اصلاح کریں گے لیکن انہوں نے بش کا راستہ اختیار کر کے نہ صرف اپنے حامیوں کو بلکہ دنیا بھر کی عوام کو مایوس کر دیا ہے

صدر اوبامہ یہ سب غیر شعوری طور پر کر رہے ہیں یا جانتے بوجھتے ؟ یہ سوال بھی دلچسپی کا سبب ہو سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ مجبوراً ایسا کر رہے ہیں بظا ہر امریکہ کے صدر کو دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور آدمی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے اس لیے کہ امریکہ ایک سرمایہ دارانہ سامراجیت ہے جس نے جمہوریت کی نقاب اوڑھ رکھی ہے وہاں پردے کے سامنے سیاستدان تماشہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ساری دنیا کی عوام بشمول امریکیوں کہ تماش بین بنی ان سے محظوظ ہوتی رہتی ہے۔ لیکن اصل بازی گر پردے کے پیچھے براجمان سرمایہ داروں کی زبردست لابی ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ تو کھلے منڈی یعنی حصص بازار میں کاروبار کرتے ہیں اور کچھ پینٹاگون کی مدد سے اسلحہ کا کالا بازار چلاتے ہیں۔

 سیاستدان جو بڑے طمطراق کے ساتھ آتے ہیں انہیں قابو میں رکھنے کے لیے سرمایہ داروں کے پاس دو مشہور حربے ہوتے ہیں اولاً ذرائع ابلاغ پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اور سیاستدانوں کو نہ صرف مقبولیت بڑھانے کے لیے بلکہ اسے قائم رکھنے کے لیے ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنا پڑتا ہے اسی ہتھیار سے انہیں بلیک میل بھی کیا جاتا ہے دوسرا حربہ ہے ممبرانِ پارلیمان  ( امریکی اصطلاح میں انہیں کانگریس مین کہا جاتا ہے )کی خرید و فروخت ہے۔ اس بات سے ساری دنیا واقف ہے کہ امریکی کانگریس میں مختلف لابی پائی جاتی ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے مفادپرستگروہ اپنے آقاؤں کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں۔

 امریکی صدر کانگریس کے اجلاس میں تجاویز پیش کرنے کے لیے تو یقیناً خودمختار ہے لیکن ان پر عمل در آمد پارلیمانی توثیق پر موقوف ہوتا ہے۔ سرمایہ دار حضرات اپنے زر خرید حامیوں کی مدد سے کسی ایسی تجویز کو منظور ہی نہیں ہونے دیتے جو ان کے مفاد کے خلاف ہو چاہے وہ قومی و بین الاقوامی سطح پر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو اور پھر ان تجاویز کے حق میں یا خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام بھی سیاستدانوں کے نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ کے مالک سرما یہ داروں کے ایماء پر ہوتا ہے۔ امریکہ میں میڈیا پر ہاتھ ڈالنا شجرِ ممنوعہ ہے گویا ان کے آقا اس کا غلط سلط استعمال کرنے کے لیے توپوری طرح آزاد ہیں لیکن اس افترا پردازی یابہتان طرازی کی جانب نگاہِ غلط ڈالنے کی جرأت کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ اس کہانی کی سی صورتحال ہے جس میں دو بھیڑئیے اور ایک بھیڑ مل کر دعوت کا اہتمام کرتے ہیں ان تینوں دوستوں میں گو کہ بھیڑ نہایت ذہین و فتین ہونے کے ساتھ تیز و طرار بھی ہوتی ہے لیکن بالآخر اسی کو بلی کا بکرا بننا پڑتا ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی یہی حقیقت ہے۔

٭٭٭

 

شکست کھائے ہوئے دشمنوں کے گھیرے میں

جارج ڈبلیو بش کو بجا طور پر امریکی تاریخ کا احمق ترین صدر قرار دیا جاتا ہے وہ بیچارہ کم پڑھا لکھا کھلنڈرا قسم کا اوباش نوجوان تھا لیکن قدرت کا کرنا یوں ہوا کہ دھن دولت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی اسے اپنے باپ سے ورثہ میں مل گئی۔ ڈالر کی طاقت اور باپ کے رسوخ نے اسے اپنی ریاست کا گورنر بنا دیا۔ آگے چل کرایک متنازعہ انتخابی نتیجے کی مدد سے وہ صدرِ مملکت بن گیا لیکن ان تمام بیرونی تبدیلیوں کے باوجود اس کا مزاج وہی احمقانہ رہا۔ اس کے بر عکس براک اوبامہ ایک پڑھا لکھا سلجھا ہوا پروفیسرنما شخصیت کا حامل فرد صدر نشین ہوا لیکن اس فرق کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے معاملے میں جارج بش نے اوبامہ سے زیادہ سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا،  بش کو بہت جلد یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ ‘زندہ یا مردہ ’گرفتار کرنے کا خواب اس کی صدارتی میعاد میں تو شرمندۂ تعبیر ہونے سے رہا۔ اور اگر خدانخواستہ حزبِ  اختلاف نے دوبارہ انتخاب کے وقت اسے اچھال دیا تو امریکی عوام اسے فٹ بال کی طرح اچھال کر سیاسی پالے باہر کر دیں گے۔ اس لیے اس نے افغانستان کی جانب سے صرفِ نظر کر کے عراق کا رخ کیا۔

بش کو صدام کے کھوکھلے پن کا اندازہ تھا۔  عراق کے ہنگامے نے افغانستان کو عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ جارج بش نے جان کیری کو ہرا کر بڑے آرام سے الیکشن جیت لیا۔ اپنی دوسری مدت عمل میں اس نے جاتے جاتے عراق سے انخلا کا منصوبہ بنا کر جو مسئلہ پیدا کیا تھا گویا اسے حل کر دیا۔ اب میک کین کے مقابلے جب براک اوبامہ اکھاڑے میں کودے تو ان کی پاس اپنے حریف کی مخالفت کرنے کے لیے عراق کا مسئلہ تھا جو سلجھتا دکھائی دے رہا تھا،  اس لیے اوبامہ نے بڑے زور و شور کے ساتھ افغانستان کا مسئلہ از سرِِ نو اچھالا اور پاکستان کو اس میں ملوث کر دیا۔ انتخابی سیاست میں مسائل نہ ہوں تو گرمی نہیں آتی اور تبدیلی تو ہر گز نہیں آتی اس لیے سیاست دان اکثر مصنوعی قسم کے مسائل ایجاد کر لیتے ہیں یا دریافت کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ براک اوبامہ نے بی جے پی کے رام مندر کی طرح گڑے مردے اکھاڑنے کا راستہ اختیار کیا اور کامیاب ہو گیا،  کاش کے وہ جارج بش سے اس معاملے میں صلاح و مشورہ کرتا کہ اور پتہ لگاتا کہ آخر عمومی تباہی کے اسلحہ کا جھوٹ گھڑنے کی نوبت کیوں آئی اور افغانستان سے عراق کا رخ کرنے کی وجہ کیا تھی اگر براک اوبامہ اپنے حریف کی حکمتِ عملی سے عبرت پکڑتا تو کبھی بھی افغانستان کی جانب پلٹ کر نہ دیکھتا لیکن جب انسان اقتدار کی ہوس کا شکار ہو جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کی عقل ماری جاتی ہے۔

براک اوبامہ کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد کی صورتحال کا جائزہ اس کے عقلی فتور کی چغلی کھاتا ہے۔ امریکی اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۷ میں ۱۱۷،  امریکی فوجی افغانستان میں مارے  گئے۔ ۲۰۰۸ میں براک اوبامہ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران افغانستان کی فوج کشی اضافہ کا عہد کیا اور طرح طرح کی دھمکیاں دیں نتیجہ یہ ہوا کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر ۱۵۵ ہو گئی۔ یہ جارج بش کا آخری سال تھا اب براک اوبامہ نے بڑے طمطراق کے ساتھ اقتدار سنبھالا اور زائد فوجی روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔  ۲۰۰۹ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد دوگنی ہو گئی اور ۳۱۷ پر پہونچ گئی۔ ۲۰۱۰ میں بھی اوبامہ کا جوش ختم نہ ہوا نتیجہ ماہ جون تک ۲۶۰ فوجی مارے جا چکے ہیں ابھی صرف نصف سال مکمل ہوا ہے جون کے مہینے میں ۱۰۲ اتحادی فوجی مارے گئے جن میں ۶۰ امریکی تھے جولائی کے اعداد بھی قریب قریب پہونچ چکے ہیں ابھی مہینہ ختم نہیں ہوا اور قوی امکان ہے کہ اس ماہ کل مرنے والوں اتحادیوں کی تعداد ۲۰۰۰ سے تجاوز کر جائے گی۔

 ایک اور دلچسپ خبر یہ ہے گزشتہ سال ۲۶۵ فوجیوں نے خودکشی کی تھی اس سال ماہ مئی تک ۱۶۳ فوجی خودکشی کر چکے ہیں ویسے وائس آف امریکہ سے نشر ہونے والی ایک خبر کے مطابق خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد مرنے والوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ دورانِ جنگ کوئی ملک اپنے مرنے والوں کی صحیح تعداد نہیں بتاتا بلکہ ہمیشہ کم کر کے بتلاتا ہے اس لیے یہ بات یقینی ہے مرنے والے فوجی اس سے کہیں زیادہ ہیں لیکن بہر حال ان اعداد و شمار سے ٹرینڈ کا اندازہ تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ہوا کس رخ اور کتنی رفتار سے بہہ رہی ہے ؟

ویتنام کی جنگ ۱۰۳ ماہ چلی تھی لیکن افغانستان کی جنگ کایہ ۱۰۴ واں ماہ ہے اس طرح اس جنگ نے ویتنام کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔  اس موقع پرروسی نائب وزیر اعظم سرگی اوانو نے طنزیہ کہا کہ بہت جلد امریکہ افغانستان میں قیام کا ہمارا دس سال کا ریکارڈ بھی توڑ دے گا امریکہ کے سینئر صحافی پیٹ بچنن نے اس موقع پر لکھا کہ جس طرح روس اور برطانیہ افغانستان سے رسوا ہو کر نکالے گئے ہیں وہی انجام امریکہ کا بھی منتظر ہے اس لیے انتظامیہ کو جلد از جلد یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ آخر کس قدر ڈالر اور خون ضائع کرنے کے بعد وہ وہاں سے نکلے گا۔

 اوبامہ کی اپنی پارٹی کے سینئر سنیٹر،  خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ اور سابق صدارتی امیدوار جان کیری ببانگ دہل اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ویتنام اور افغانستان میں بلا کی یکسانیت ہے اور ہمیں ویتنام کی جنگ سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے حالانکہ انہیں کہنا چاہئے امریکیوں کو ویتنام کی شکست سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ اس باب میں اوبامہ کی بنسبت کیری کی رائے اس لیے بھی قابلِ ترجیح ہے کہ کیری نے ویتنام کی جنگ میں حصہ لیا ہے اور اسے قریب سے دیکھا ہے۔ انہوں نے ۴۰ سال قبل امریکی انتظامیہ کے سامنے اپنا شہادتی بیان درج کروایا تھا اور ابھی حال میں انہوں نے ویتنام جنگ کے متعلق خفیہ دستاویزات کو عوام تک پہونچایا ہے۔  اس لیے کہ ان پر پابندی کی میعاد ختم ہو گئی ہے۔ ویسے ویتنام سے تقابل میں نیوز ویک اور نیویارک ٹائمز جیسے مؤقر جریدے بھی اوبامہ کے بجائے کیری کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جنگ کی نفسیات بڑی دلچسپ ہوتی ہے جب کوئی فتح حاصل کرتا ہے تو اپنی فتوحات کو یا د کرتا ہے مثلاً کویت کی ام الحرب میں کامیابی کے بعد امریکی عوام نے اپنی جنگ عظیم کی فتح کو یاد کیا اور جب کوئی شکست سے دوچار ہوتا ہے تو وہ اپنی ناکامیوں میں ڈوب جاتا ہے مثلاً اسی جنگ کے بعد عربوں نے اپنی ۱۹۶۷ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی شکست کو یاد کیا اور مایوس ہو کر بیٹھ رہے بلکہ دشمن فوجوں کے لیے اپنی سر زمین پر فوجی اڈے فراہم کر دئیے حالانکہ یہ سب تحفظ و سلامتی کے پسِ پردہ ہوا گویا تحفظ کی آڑ میں اپنے آپ کو غیر محفوظ بنا نے پر مجبور کر دیئے گئے لیکن ایسا انہیں لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنی شکست کو تسلیم کر لیتے ہیں اور آگے لڑنے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتے۔

 اس کے برعکس جو قومیں ناکا م تو ہوتی ہیں مگر سپر نہیں ڈالتیں وہ بھی اپنی شکست کے بعدشکست ہی کی یاددہانی کرتی ہیں لیکن یہ شکست ان کی اپنی نہیں بلکہ دشمن کی شکست ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ افغانیوں نے اپنی شکست کے بعد ویتنام میں امریکہ کی شکست کو یاد کیا اور اپنی فتح کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا افغانستان،  امریکہ کے لیے بھی سوویت یونین کی طرح قبرستا ن ثابت ہو گا۔ اس وقت امریکی جیت کے نشہ میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ کسی کو ویتنام کی ہار یاد نہیں آ رہی تھی لیکن آج ہر قابلِ ذکر امریکی ویتنام کو یاد کر رہا ہے۔ امریکی دانشور خود اپنا بگڑا ہوا چہرہ ماضی کے شکستہ آئینہ میں دیکھ کر آنسو بہا رہے ہیں یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امریکی حکام اور افواج ہمت ہار چکی ہیں اور دورانِ جنگ جو حوصلہ کھو دیتا ہے اسے آگے چل کر بازی بھی گنوانی پڑتی ہے۔  یہ قانونِ فطرت ہے اس میں کبھی کو تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ میدان بدل جاتا ہے۔ کردار بدل جاتے ہیں لیکن انجام! انجام نہیں بدلتا۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱کو امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کا فیصلہ کیا تھا اس کے بعد سے ہر سال بلا ناغہ ایک بین الاقوامی اعانتی کانفرنس کا انعقاد ہوتا رہا ہے جس میں افغانستان کی تعمیرِ نو کے نام پر جھولی پھیلا کر امریکہ عالمی برا دری سے بھیک مانگتا ہے گزشتہ ہفتہ اس مقصد کے تحت امریکی خارجہ سیکریٹری ہیلری کلنٹن نے کابل کا دورہ کیا۔ ویسے تو اس کانفرنس کے لئے بڑے زبردست حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے سارے کابل میں کرفیو کی سی صورتحال پیدا کر کے اسے قلعہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا اس کے باوجود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بن کی مون کا جہاز کابل کے ہوائی اڈے پرنہ اتر سکا۔ اس لیے کہ ہوائی پٹی پر مجاہدین کے ذریعہ میزائیل داغے جا رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اسپینی نمائندے کے ساتھ کابل سے باہر بگرام کے فوجی اڈے کا رخ کرنا پڑا اور پھر وہ فوجی ہیلی کاپٹر سے کانفرنس میں پہونچے۔

 اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس کرزئی پر عالمی برادری تکیہ کر رہی ہے وہ کس قدر کمزور اور لاغر ہے۔ اس سے قبل لویا جرگہ کا اہتمام حامد کرزئی نے کیا ۱۲۰۰ شرکاء کی حفاظت کے لیے ۱۶۰۰۰ فوجی متعین کیے گئے اور اس میں طالبان کے ساتھ گفت و شنید کا فیصلہ ہوا،  اس کے باوجود اجتماع گاہ کے قرب و جوار تک شیل داغ کر طالبان نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔

مذکورہ بالا افغان کانفرنس میں کتنا چندہ جمع ہوا یہ تو کوئی نہیں جان سکتا ہاں کرزئی کے ذریعہ بلا واسطہ اتنا پتہ چلا ہے کہ اس کا بڑا حصہ حکومتِ  اٖفغانستان کو نہیں ملتا ہے بلکہ بالواسطہ دیگر تنظیموں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے۔  اس لیے اس نے کم از کم ۵۰ فی صد کا مطالبہ کیا اور یہ بھی کہا کہ دو سال کے اندر یہ رقم ملنی چاہئے اس کا مطلب ہے کہ جس رقم کا وعدہ کیا جاتا وہ طویل عرصہ تک نہیں ملتی۔ ویسے پاکستانی حکمرانوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس مدد کا وعدہ امریکہ نے کیا تھا اس کا عشرِ عشیر بھی پورا نہیں کیا یہی حال بلکہ اس سے بد تر صورتحال افغانستان کی ہو گی۔

 جہاں تک افغانستان کی تعمیرِ نو کا سوال ہے اس کے آثار بظاہر نظر نہیں آتے۔ بجلی،  پانی،  سڑک جیسی بنیادی سہولیات سے لوگ محروم ہیں۔ تعلیم اور روزگار کا فقدان ہے حالانکہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے ابھی تک اس کام کے لیے ۶۰ملین ڈالر خرچ کیے ہیں اور دیگر لوگوں سے جو جمع کیا گیا وہ جدا ہے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ رقم گئی کہاں ؟ کابل کی بد عنوان حکومت کا اس میں بڑا حصہ ہے لیکن اس کے علاوہ وہاں  جس طرح کی بد انتظامی پائی جاتی اس کا اندازہ شہر میں ۱۰۰  ملین ڈالر کی لاگت سے بننے والے بجلی گھر کی تعمیر سے لگایا جا سکتا ہے اس کی تکمیل میں ایک سال کی تاخیر کے باعث خرچ بڑھ کر ۳۰۰ ملین ہو گیا اور نتیجے میں بجلی اس قدر مہنگی ہو گئی کہ اس کا کوئی خریدار نہیں ہے صارفین پاکستان سے سستی بجلی حاصل کر نے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس سنگین صورتحال کے باوجود ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اوبامہ وہاں سے ایک سال میں نکل بھاگنا چاہتا ہے اور کرزئی اسے چار سال تک روکنا چاہتا ہے۔ گویا کرزئی غیر ملکیوں سے نجات پر ان کی غلامی کو ترجیح دے رہا ہے اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ جس دن ناٹو کے فوجی جائیں گے ان سے کم از کم ایک دن قبل اس نکھٹو ٹٹو کو جانا پڑے گا۔  اوبامہ کے انخلاء کی تاریخ سے علاقے کا سیاسی محور بدل چکا ہے عوام و خواص دونوں اس بات کو جان چکے ہیں کہ یہ پر دیسی اب زیادہ دنوں کے مہمان نہیں ہیں اور کرزئی کی’ پردیسی پردیسی جانا نہیں ‘کی گہار کوئی سننے والا نہیں ہے۔ لوگوں کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ طالبان کو ختم کرنے والوں کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے۔ اس لیے پسِ پردہ خود کرزئی طالبان سے پینگیں بڑھانے کے فراق میں ہے حالانکہ امریکی انتظامیہ بظا ہر یہ تاثر دینے کی کو شش کر رہا ہے افغانی عوام اور ان کا سربراہ حامد کرزئی انہیں وہاں روکنے پر مصر ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقیقت میں حامد کرزئی افغانی عوام کا نمائندہ ہے ؟ اس سوال کا جواب کوئی فرزانہ تو درکنار دیوانہ بھی ہاں میں نہیں دے سکتا۔

کرزئی کی انتخابی بدعنوانی کا اعتراف خود امریکی مبصرین کر چکے ہیں اس کے باوجود امریکہ اس کی بھر پور حمایت تو کرتا ہے لیکن اس کی ایک نہیں سنتا۔ جنرل مک کرسٹل کی برخواستگی سے قبل کرزئی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن امریکہ نے اسے جوتے کی نوک پر رکھ کر اچھال دیا۔ اس لیے کہ حامد کرزئی اسی سلوک کا مستحق تھا حامد کرزئی تو امریکہ کا طوطا ہے اس کی چونچ پر امریکی ریموٹ کنٹرول کا مکمل قبضہ ہے وہ بیچارہ امریکی روبوٹ کی مانند ہے کہ جب اس سے کہا جاتا ہے کہ ‘مٹھو بیٹا بولو ‘ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر’ تو وہ کہتا ہے ‘دل ابھی بھرا نہیں ’لیکن جب اس سے کہا جائے گا کہ بولو’چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ‘ تو وہ پورا گانا گا کر سنا دے گا’ختم ہوئے دن اس ڈالی کے جس پر ترا بسیرا تھا …  یہ تری جاگیر نہیں تھی چار دنوں کا ڈیرہ تھا‘ اور دور تورہ بورہ کے دامن میں کوئی بنجارہ گا رہا ہو گا’پردیسیوں سے نہ انکھیاں ملانا۔ پردیسیوں کو ہے اک دن جانا‘

حامد کرزئی کی سیاسی مجبوری کو سمجھنا آسان ہے لیکن امریکی حکام کا آخر مسئلہ کیا ہے ؟ یہ اہم سوال ہے۔ امریکہ اپنے مسائل کو حل کرنے میں کیوں ناکام ہو رہا؟ اسے کس لیے عالمی برادری کے سامنے جھولی پھیلا کر بھیک مانگنی پڑ رہی ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مرضِ حقیقی کی تشخیص نہیں کر پا رہا ہے اور اپنی ترجیحات کے تعین میں ناکام ہے امریکی خزانہ فی الحال ۱۳ ٹریلین ڈالر ٖخسارے میں ہے اور ستمبر ۲۰۰۷ سے اس میں ۴۱۲ بلین ڈالر کا ہر دن اضافہ ہو جاتا ہے گویا امریکہ کا ہر شہری فی الحال ۴۲۹۵۱ ڈالر قرض میں دبا ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے جب آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں تب تک وہ ۴۳ ہزار ڈالر کا مقروض ہوچکا ہو اگر صرف ٹیکس دہندگان کا حساب جوڑا جائے تو ان میں سے ہر ایک پر تقریباً ۱یک لاکھ بیس ہزار ڈالر کا بوجھ ہے ماہرین کا خیال ہے کہ اس قرض کی ادائیگی سات پشتوں میں بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود امریکہ نے گزشتہ سالوں میں ۱ یک ٹریلین کی رقم عراق اور افغانستان پر خرچ کر ڈالی گزشتہ ہفتے اوبامہ نے ۳۳ ملین ڈالر کی رقم اس گناہِ بے لذت پر خرچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس خطیر رقم کا بڑا حصہ در اصل بدعنوانی کے ذریعے گھوم کر پھر حکمرانوں کی جیب میں آ جاتا ہے۔

 امریکی بدعنوانی پر جن لو گوں کو یقین نہ آتا ہو انہیں عراق کے حوالے سے اسی ہفتہ شائع ہونے والی کمپٹرولر جنرل کی رپورٹ دیکھنی چاہئے جس کے مطابق عراق میں امریکی محکمہ دفاع کے پاس ۶ء ۲ملین ڈالر کے خرچ کا حساب ہی نہیں ہے امریکی حکام نے ۷۴۸ ملین ڈالر کی رقم بنک میں جمع نہیں کروائی اور اس کا بیجا استعمال کیا۔ ۲۰۰۳ میں عراق پر قبضہ کے وقت اس کے خزانے سے جو ۳ء ۳۴ ملین ڈالر ہتھیا لیے گئے تھے اسے ۲۰۰۷ میں واپس کرنا تھا لیکن ابھی تک واپس نہیں ہوئے۔ ۲۰۰۵ میں چار امریکی افسران کے خلاف ۸ء ۸ ملین ڈالر کی بد عنوانی اور غبن کا الزام خود ان کا آڈیٹر لگا چکا ہے۔ ان تفصیلات کی روشنی میں یہ سمجھنا کو ئی مشکل کام نہیں ہے کہ آخر کیوں امریکہ کی دونوں بڑی پارٹی کے نمائندے جنگ کی حمایت کرتے ہیں۔ اس لیے کہ جنگ ان لوگوں کے لیے سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے جس سے ملک کے عام باشندے غریب سے غریب تر اور سیاستداں و سرمایہ دار امیر سے امیر ترین ہوتے جاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ بظاہر اپنے آپ کو سپر پاور کہنے والا ملک اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔

اگر امریکی عوام اور حکام واقعی اس صورتحال کو بدلنا چاہتے تو انہیں نگاہِ عبرت کے ساتھ شبِ معراج کے ایک واقعے کو اپنی نگاہ میں رکھنا ہو گا دورانِ سفر حضورِ اکرم ؐ نے جہنم کا ایک حیرت انگیز منظر دیکھا جس میں ایک شخص کے پاس لکڑیوں کا بڑا سا گٹھر تھا وہ بوجھ خود اس کی اپنی سکت سے زیادہ تھا لیکن وہ اس کو کم کرنے کے بجائے وہ اس میں اضافہ کیے چلا جاتا تھا آپؐ نے دریافت فرمایا یہ کون ہے ؟تو بتلایا گیا یہ ایسا سربراہ ہے جو اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے قاصر ہے اس کے باوجود ان میں اضافہ کیے چلا جاتا ہے۔ یہ کیفیت امریکی حکمرانوں پر ہو بہوچسپاں ہوتی ہے۔ ان کی بنیادی ذمہ داری اندرونِ ملک حالات کو بہتر بنانا ہے۔

 امریکہ فی الحال اپنی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔ اور وہ اس پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں اس کے باوجود ان لوگوں نے سارے عالم کی فوجداری کا بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیا ہے اورافغانستانٖ میں جہاں اب یہ بوجھ سنبھالا نہیں جا رہا یہ لوگ بے زاری کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ آخر کب تک ہم حالالت کو سنبھالیں گے اب مقامی لوگوں کو آگے بڑھ کر بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانا ہو گا اس بیان کو سننے کے بعد یہ گمان گذرتا ہے گویا افغانیوں نے منت سماجت کر کے امریکہ بہادر کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی اور اب امریکہ کے آگے گڑگڑا کر دہائی دے رہے ہیں کہ خدارا آپ واپس نہ جائیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل ہی بر عکس ہے۔

یہ لوگ تو بن بلائے مہمان کی طرح افغانستان میں جا گھسے۔ وہاں پائی جانے والی بیشتر مشکلات کی واحد وجہ ان درندوں کی اس ملک میں موجودگی ہے ان کے نکلتے ہی وہاں کے حالات اپنے آپ ہی بڑی حد تک قابو میں آ جائیں گے۔ رہا سوال مقامی لوگوں کے انتظامات سنبھالنے کا تو امریکی فوجیوں کی آمد سے قبل وہاں کا انتظام و انصرام مقامی لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ آج بھی شہرِ کابل کے باہر بیشتر افغانی علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے اور ان علاقوں میں امن و سلامتی کی صورتحال خاصی بہتر ہے یہ اور بات ہے کہ ذرائع ابلاغ اس حوالے سے آئے دن نت نیا جھو ٹ گھڑتا رہتا ہے۔ افغانستان اور امریکہ دونوں کی بھلائی ناٹو کے اس سرزمین سے انخلاء سے وابستہ ہے۔ افغانستان کے پاس کھونے کے لیے بہت کچھ نہیں ہے لیکن امریکہ ابھی تک اپنی جیب تو کٹوا ہی چکا ہے بس ناک کٹانا باقی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت بھی دور نہیں ہے۔ انشا اللّٰہ

٭٭٭

 

 حقیقت میں حقیقت کا بیاں بہت مشکل سے ہوتا ہے

صدر اوبامہ نے اپنی چار سالہ میقاتِ صدارت میں سے چار دن مسلمانوں کو بہلانے پھسلانے کے لیے نکالے۔ پہلا دن سعودی عرب میں گزارنے کے بعد وہ دوسرے دن قاہرہ میں وارد ہوئے لیکن تیسرے دن جب وہ جرمنی کے بچنوالڈ میں واقع ہٹلر کے تعذ یری کیمپ کا معائنہ کریں گے اور اس کے بعد یہودیوں کی ہمدردی میں ٹسوے بہائیں گے تو اسے دیکھنے کے بعد قاہرہ میں ہونے والی تقریر کے اثرات بڑی حد تک زائل ہو جائیں گے۔ بچا کھچا اثر چوتھے دن نور منڈی میں امریکی فوجیوں کے قبرستان کی زیارت اور اس پر بیان ہونے والے تاثرات ختم کر دیں گے۔ دوسری جنگ عظیم میں مارے جانے والے نو ہزار تین سو ستاسی امریکی فوجی اس قبرستان میں دفن ہیں۔ گویا چار دن کی یہ کہانی اپنے آپ ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گی بقول شاعر۔

حقیقت میں حقیقت کا بیاں بہت مشکل سے ہوتا ہے

جس آسانی کے چرچے ہیں،  وہ آسانی کہانی ہے

قاہرہ میں اپنی شہرۂ آفاق تقریر کرنے سے قبل بارک اوبامہ نے اپنے دورے کا آغاز سعودی عرب کی دارالخلافہ ریاض سے کیا۔ سعودی عرب کے ملک عبداللّٰہ فی الحال یہودیوں اور عیسائیوں سے تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے نہ صرف پوپ سے ملاقات کی بلکہ اسرائیل کے صدر شیمون پیریز سے بھی جاملے۔ پوپ سے ملاقات تو کھلے عام ہوئی لیکن پیریز کی ملاقات کو صیغۂ راز میں رکھا گیا۔ اقوام متحدہ کی بین المذاہب کانفرنس کے دوران یہ خفیہ ملاقات ہوئی۔ اس راز کو امریکہ کے انڈر سکریٹری ولیم برنس نے فاش کیا۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ کا دورہ شروع کرنے کے لیے سعودی عرب کے انتخاب کی وجہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔

یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ اوبامہ نے فی الحال جس اسامہ بن لادن کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کا تعلق بھی سعودی عرب سے ہی ہے۔ اسامہ بن لادن کے نام سے جو بیان ذرائع ابلاغ میں آیا اس میں کہا گیا کہ’’ اوبامہ پاکستان میں مرنے والے معصوموں اور لاکھوں مہاجرین کو بے خانماں کرنے کا مجرم ہے،  اس نے امریکہ کے خلاف نفرت کا نیا بیج بویا ہے ‘‘۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاض کے بعد اوبامہ نے مصر کا رخ کیا۔ اسامہ بن لادن کے دست راست ڈاکٹر ایمن الظواہری کا تعلق مصر سے ہے۔ ڈاکٹر الظواہری نے کہا کہ اوبامہ کے خونی پیغامات ہمیں مل چکے ہیں اور مل رہے ہیں۔ اوبامہ کی چکنی چپڑی باتیں ان کے ظالمانہ اقدامات پر پردہ نہیں ڈال سکتیں۔ اوبامہ کو مصر پر قابض ظالمانہ اقتدار نے دعوت دی ہے مصر کی عوام ان کا خیر مقدم نہیں کرتی۔

اتفاق سے صدر اوبامہ جس روز ریاض آئے اس دن ایرانی انقلاب کے عظیم رہنما آیت اللّٰہ خمینی برسی تھی اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے آیت اللّٰہ خامنائی نے کہا امریکہ کی پالیسی کے باعث مسلمان اس کے ساتھ تہہ دل سے نفرت کرتے ہیں۔ لوگ اوبامہ کا عمل دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ لچھے دار تقریر سے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ حماس کے نمائندے نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ اس پر اثر تقریر کے باوجود زمینی حقائق میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ حزب اللّٰہ کے نمائندے نے یہی بات کہی،  ہمیں نصیحتوں اور مشوروں کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ لبنان و فلسطین کے معاملے میں امریکی صدر اب بھی اپنے پیش رو بش کے طریقہ پرگامزن ہیں،  صرف ان کا لب و لہجہ مختلف ہے۔

امریکیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی نفسیات سے واقف نہیں ہیں،  وہ نہیں جانتے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،  اس کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم اس کے کرب کو محسوس کرتا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی تکلیف ہندوستان کا مسلمان محسوس کرتا ہے۔ ایران پر ہونے والے مظالم سے مصر کا مسلمان تڑپ اٹھتا ہے۔ لبنان کے درد کا احساس ملیشیا کے مسلمان کو ہے،  پاکستانیوں کی کرب کو عرب کے مسلمان اپنی تکلیف سمجھتے ہیں۔ اوبامہ نے عراق،  ایران اور فلسطین کے بارے میں کچھ گول مول باتیں کہہ کر یہ سوچ لیا کہ اس سے افغانستان میں جاری ظلم چھپ جائے گا،  لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ مسلمان تو نہ صرف اپنوں کا بلکہ غیروں کا دکھ درد بھی محسوس کرنے والی امت ہے۔

صدر بارک اوبامہ کی تقریر میں جہاں ایک طرف بہت سارے حقائق کا اعتراف کیا گیا وہیں کئی معاملات میں تضاد بیانی سے بھی کام لیا گیا،  اس لیے اس زبان زدِ عام تقریر کا پوسٹ مارٹم ضروری ہے۔ بقول شاعر؎

اہل تشہیر و تماشہ کے طلسمات کی خیر

چل پڑے شہر کے سب شعلہ نوا اور طرف

صدر بارک اوبامہ نے نہایت دلفریب سلام کے بعد کلام کیا تو پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ امریکہ اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کی جڑیں موجودہ پالیسی سے پرے تاریخی عوامل میں پائی جاتی ہیں۔ یہ بات غلط ہے گویا صدر  اوبامہ نے اپنے خطاب کا آغاز ہی اس حقیقت پر پردہ پوشی سے کیا  کہ قیام فلسطین سے لے کر ۱۱ ستمبر اور عراق سے لے کر افغانستان تک میں امریکہ کی جانب سے کی جانے والی موجودہ جارحیت کشیدگی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ وہ آگے بولے : اگر ہم اختلافات کی بنیاد پر اپنے تعلقات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ان لوگوں کی مدد ہو گی جو امن کے بجائے نفرت کے بیج بوتے ہیں،  سچ تو یہ ہے کہ اس جرم کا اہم ترین مجرم خود امریکہ ہے۔ اختلاف کے اظہار سے گویا اس کی اپنی مدد ہوتی ہے۔ اسی لیے امریکہ میں تہذیبوں کا ٹکراؤ نامی کتاب لکھی جاتی ہے اور اسے مستقبل میں تعلقات کی استواری کے لیے بنیاد بنایا جاتا ہے۔

بارک اوبامہ نے ایک طرف شکوک و شبہات کے دائرے کو ختم کرنے پر زور دیا،  لیکن آگے چل کر اپنی تقریر کے ذریعہ بے شمار شکوک پیدا کر دیئے۔ اعلیٰ انسانی اقدار کی بنیادپرمسلمانوں سے تعلقات کی استواری پر اصرار کرتے ہوے اعتراف کیا کہ تبدیلی راتوں رات واقع نہیں ہو گی برسوں کا عدم اعتمادکسی ایک تقریر کے باعث ختم نہ ہو گا،  اوبامہ نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ ضرور دیا کہ ’’اللّٰہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہمیشہ سچ بولو‘‘ لیکن افسوس کہ آگے ان کا بیان اس امر کی تائید کرتا ہوا نظر نہیں آیا۔

اوبامہ نے کہا اسلام ہمیشہ امریکہ کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ سب سے پہلے مراکش نے امریکہ کو تسلیم کیا۔ ۱۷۶۹میں امریکہ کے دوسرے صدر جان آدم نے طرابلس میں معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے لکھا: ریاستہائے متحدہ امریکہ کو مسلمانوں کے قانون یا دین سے کسی قسم کا بیر نہیں ہے،  لیکن جب اس احسانمندی کا بدلا چکانے کا موقع امریکی صدر ٹرومین کو ۱۹۵۳ میں حاصل ہوا تو انہوں نے جواب میں احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا؛قیام اسرائیل کے بعد مشرق وسطی سے امریکی سفیر نے صدر کو بتلایا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کے اندر ناراضگی پیدا ہو گی تو ٹرومین کا جواب تھا فی الحال میرے لیے اپنے یہودی حامیوں کی رضا و خوشنودی زیادہ اہم ہے۔ صدر بارک اوبامہ خود جان آدم کے بجائے ٹرومین کی راہوں پر گامزن ہیں،  ان کی حالیہ تقریر اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

جناب اوبامہ کے مطابق وہ عیسائی ہیں،  باوجود اس کے کہ ان کے والد کا تعلق مسلمان خاندان سے تھا لیکن آگے فرماتے ہیں : اسلام کی بنیاد وہ ہونی چاہئے جو کہ اسلام ہے نہ کہ جو اسلام نہیں ہے اور امریکہ کے صدر کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ جہاں کہیں بھی منفی روایتی اسلام نظر آئے وہ اس سے لڑیں۔ گویا امریکی صدر پہلے یہ طے کریں گے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے ؟ اور یہ طے کرنے کے بعد مسلمانوں کو منفی اسلام سے بعض رہنے کی تلقین کرنے پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے خودساختہ منفی اسلام سے برسرپیکار ہو جائیں گے۔ گویا ہر ایسی چیز کو جو امریکی مفاد سے ٹکرائے گی یا اس کے ظالمانہ استحصال کو چیلنج کرے گی اے منفی اسلام قرار دے دیا جائے گا اور اس کے خلاف صلیبی جنگ کا جواز پیدا ہو جائے گا۔  یہ بات کسی جارج بش نے نہیں بلکہ بارک اوبامہ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ اپنے ناپاک ارادوں کے دو ٹوک اظہار کے بعد وہ ان تنازعات کی جانب آتے ہیں جو ان کے اپنے خیال میں کشیدگی کے اصل سبب ہیں۔

بقول اوبامہ ’’اوّلین مسئلہ پر تشدد انتہا پسندی ہے۔ یہ سارے سماج کے لیے شدید خطرہ ہے اور اس کا سختی سے مقابلہ کیا جائے گا۔ تمام مذاہب معصوم لوگوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور امریکیوں کی حفاظت میری اوّلین ذمہ داری ہے۔ ۱۱ ستمبر کو القاعدہ نے تین ہزار معصوم لوگوں کو مار ڈالا اور وہ آگے بھی قتل عام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ حقائق ہیں محض مفروضات نہیں ہیں جن پر بحث کی جائے۔ اوبامہ کے اس بکواس کو اگر بغیر بحث کے تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی آگے بڑھنے سے قبل اوبامہ کو چند سوالات کا جواب دینا ہو گا۔

 ناگا ساکی اور ہیروشیما میں مارے جانے والے لوگ معصوم تھے یا نہیں ؟ ویتنام میں جن کی نسل کشی کی گئی کیا وہ سب مجرم تھے ؟ فلسطین میں شہید ہونے والی خواتین اور بچوں کے بارے میں اوبامہ کا کیا خیال ہے ؟ عراق،  افغانستان اور پاکستان میں جن لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے کیا وہ معصوم نہیں ہیں ؟ چند ہزار لوگوں کی موت کا بدلہ لینے کی خاطر لاکھوں معصوموں کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیا جاتا ہے،  کیا اس رویہ کو تشدد پسند انتہا پسندی میں شمار نہیں کیا جائے گا؟ یا امریکی انتظامیہ کی جانب سے کیا جانے والا یہ ظلم و طغیان محض اس لیے اعتدال و امن پسندی میں شمار ہو گا کیوں کہ اس کا مرتکب امریکہ ہے ؟

اوبامہ نے پاکستانی مہاجرین کو دی جانے وا لی ڈیڑھ بلین سالانہ امداد کا ذکر کیا لیکن سوات کے لوگوں کے گھروں کو اجاڑ کر انہیں امداد کا محتاج بنانے کی ذمہ داری قبول نہیں کی،  اگر وہ پاکستان کو فوجی کارروائی پر مجبور نہ کرتے تو یہ رقم ان کے اپنے ملک میں معاشی بحران سے مقابلہ کرنے کے کام آسکتی تھی۔ تھامس جیفرسن کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا’’ مجھے امید ہے کہ طاقت کے استعمال کے ساتھ ہماری حکمت و دانائی میں اضافہ ہو گا اور ہمیں یہ سبق ملے گا کہ ہم جس قدر طاقت کا استعمال کم کریں گے اسی قدر اس میں اضافہ ہو گا۔ کیا افغانستان میں صدر اوبامہ کا فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا ارادہ اور ناٹو سے بھی ایسا کرنے درخواست جیفرسن کے مشورے کی صریح خلاف ورزی  نہیں ہے۔

صدر اوبامہ نے گوانتاناموبے میں قائم کیے جانے والے قید خانوں اور ان میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا’’ ۱۱ ستمبر کے نتیجہ میں ملک کے اندر غم و غصہ کی جو لہر چلی تھی اس کے رد عمل میں ہم نے اپنی اقدار کے خلاف یہ اقدامات کیے تھے اور اب وہ اس کا ازالہ کر رہے ہیں ‘‘ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غم و غصہ کی بنیاد پررد عمل کا حق صرف امریکیوں کو حاصل ہے ؟ فلسطینی یا افغانی اگر اپنے رد عمل کا اظہار کریں تو وحشیانہ شدت پسندی ہے اور امریکی کریں تو قابل فہم رویہ ہے ؟ کسی اور کے ذریعہ رد عمل کا اظہار ناقابل معافی جرم ہے مگر امریکہ کی جانب سے اس کا سرزد ہونا اور پھر رجوع کرنا احسان عظیم ہے ؟ کیا یہ منطق کسی منصف مزاج انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے ؟

اسرائیل کے بارے میں بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے صدر اوبامہ نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے گہرے تعلقات جگ ظاہر ہیں۔ یہ تعلق ناقابل قطع ہے۔ اس کی بنیاد ثقافتی اور تاریخی رشتوں پر ہے جو یہودیوں کے مادر وطن سے محرومی کے ناقابل انکار المیہ کا اعتراف ہے۔ یہودیوں کا تاریخی المیہ یقیناً ماضی کی حقیقت ہے اور اس کے لیے فلسطین کے مسلمان نہیں بلکہ یورپی عیسائی ذمہ دار ہیں جبکہ اس کی سزا کے طور پر فلسطینی مسلمانوں کو بے وطن کر دیا گیا یہ کہاں کا انصاف ہے۔ ماضی کے مظالم کی بنیاد پر حال کے ظلم کو جائز قرار دیناکس قانون کے مطابق حق بجانب ہے۔

اسرائیل کے من چاہا خون خرابہ کرے،  کیمیائی اسلحہ کا استعمال کرے،  معصوم لوگوں پر بے تحاشہ بمباری کرے،  اس کے باوجود اس سے تعلقات کو بحال رکھنے کی یقین دہانی کرنا عصبیت نہیں تو اور کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ کی ایک ناجائز اولاد ہے جس سے امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے گونا گوں ناجائز مقاصد حاصل کرتا رہتا ہے،  اسی لیے اس کے ہر ظلم پر پردہ ڈالتا ہے،  اس کے خلاف آنے والی ہر تجویز کو اقوام متحدہ میں ویٹو کر دیتا ہے اور عدل و انصاف کے کھوکھلے نعروں سے دنیا کو بے وقوف بناتا ہے۔

فلسطینیوں کی حالت زار بیان کرنے کے بعد صدر اوبامہ نے کہا کہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ فلسطینی عوام کے حالات ناقابل برداشت ہیں۔ امریکہ ان کے جائز مطالبات،  عزت و وقار،  یکساں مواقع اور خود مختار ریاست کی جانب سے پیٹھ نہیں پھیرے گا۔ لیکن اس کے فوراً بعد اوبامہ نے ظالم و مظلوم دونوں کو ہم پلہ کرتے ہوے کہابرسوں سے دونوں یعنی یہودی اور فلسطینی عوام کے جائز مطالبات کے درمیان عدم مفاہمت پائی جاتی ہے۔ گویا اسرائیل کے قیام کی خاطر فلسطینیوں کو اکھاڑ پھینکنا نیز اسرائیل کے خلاف اندرون اور بیرون سرحد مزاحمت کا پایا جانایکساں ہے نیز قیامِ عدل کے بغیر دونوں کا امن و سلامتی کے ساتھ رہنا اسرائیل،  فلسطین اور امریکہ کے مفاد میں ہے۔

مندرجہ بالا مقصد کو حاصل کرنے کی حکمتِ  عملی بیان کرتے ہوئے اوبامہ نے کہا فلسطینیوں کو تشدد سے باز آنا ہو گا۔ تشدد اور قتل و غارتگری کے ذریعہ مزاحمت غلط اور بے نتیجہ عمل ہے۔ تشدد ایک اندھیری گلی ہے،  سوئے ہوئے بچوں پر راکٹ سے حملہ اور خواتین کو بسوں میں بم سے اڑا دینا دلیری کی نشانی نہیں ہے،  اس طرح اخلاقی برتری نہیں حاصل کی جاتی بلکہ اسے گنوایا جاتا ہے۔ حماس کو اب فلسطین کی تعمیر کی جانب توجہ دینی چاہئے۔ فلسطینی انتظامیہ کو اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہئے تاکہ عوام کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس ناصحانہ بیان کو سننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ گویا سارا تشدد صرف فلسطینیوں ہی کی جانب سے ہوتا ہے۔ یہودی بے چارے گاندھی جی کی طرح عدم تشدد کے علمبردار ہیں،  حالانکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے،  یہودیوں نے نہ صرف معصوم لوگوں کو انکے گھروں سے نکل کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا بلکہ صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں پر بھی بمباری کرنے سے باز نہیں آئے نیز غزہ میں کیمیائی ہتھیاروں کی بارش کرنے سے بھی نہیں چوکے اور انتخابی فائدے کی خاطر ۱۴۰۰ فلسطینیوں کو یک لخت شہید کر دیا۔

ماضی قریب کے ان واقعات سے قبل بھی صیہونی مختلف مواقع پر معصوموں  کو ہلاک کرتے رہے ہیں۔ حماس کے رہنماؤں کو چن چن کر شہید کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے،  اور غزہ کو ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ حزب اللّٰہ سے سرحد پر لڑنے کے بجائے بیروت میں جا کر غیر متعلق لوگوں پر بمباری کی گئی۔ ایران سے لے کر مراقش تک موساد کے لوگ معصوموں کو ہلاک کرتے رہتے ہیں اور اسے جائز قرار دیتے ہیں لیکن اوبامہ نے نہ صرف اسرائیل کو اپنے ظالمانہ رویہ سے باز آنے کی تلقین سے صرفِ نظر کیا بلکہ اس کے اعتراف سے بھی گریز کر گئے۔ اس سے اوبامہ کا دوغلاپن ظاہر ہوتا ہے۔

 اپنی حلف برداری سے قبل جب غزہ پراسرائیلی حملہ کی مذمت کا موقع آیا تو اوبامہ یہ کہہ کر کنی کاٹ گئے کہ ایک وقت میں صرف ایک صدر ہوتا ہے لیکن اس کے فوراً بعد ممبئی حملہ پر بولنے سے پہلے وہ اس بات کو بھول گئے اور القاعدہ کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ حماس کو تشدد چھوڑنے کا مشورہ دینے والے اوبامہ پر غلام ابن غلام محمود عباس کے علاوہ کسی فلسطینی کو اعتبار نہیں ہے،  اس لیے کہ اس طرح کے الفاظ کلنٹن اور بش بھی بول چکے ہیں،  لیکن یہ گفتار کے غازی صرف بولتے ہیں کچھ کرتے نہیں ہیں بلکہ اکثر و بیشتر ان کا عمل ان کے قول کے خلاف گواہی دیتا ہے۔

اوبامہ مصر میں یہ تقریر کر رہے تھے یہ علاقہ غزہ کے ایک جانب اور اسرائیل اس کے دوسری جانب واقع ہے۔ یہودی غزہ کو ملنے والی عالمی امداد کو مصر کے راستہ وہاں جانے نہیں دیتے،  وہاں کے لوگوں کو روزگار کے لیے اسرائیلی مقبوضہ علاقوں اور مصر آنے نہیں دیتے۔ ہزاروں ٹن امدادی مال مصر میں ضائع ہو رہا ہے،  کئی امریکی امدادی تنظیموں کے لوگ سرحد پر اندر داخل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر لمبی چوڑی تقریر کرنے کے بجائے اوبامہ غزہ تشریف لے جاتے اس غیر اخلاقی و غیر قانونی محاصرہ کو ختم کرنے کی جانب کوئی ٹھوس اقدام کرتے تو وہ قیام امن کی جانب ایک ٹھوس قدم ہو سکتا تھا۔ حماس کو تشدد کے لیے مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اگر اوبامہ غزہ کی عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے تو بہتر تھا لیکن نمک پاشی کرنے والوں سے یہ توقع بے جا ہے۔

اسرائیل کو انہوں نے صرف نئی بستیاں بسانے سے منع کیا۔ غاصبانہ قبضہ ختم کرنا تو درکنار پرانی بستیوں کو ہٹانے کی درخواست تک نہ کرسکے۔ الٹا حماس سے کہا کہ وہ سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرے۔ اوبامہ نے مسجد اقصیٰ میں معراج کی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام،  حضرت موسیٰؑ  اور حضرت محمد ؐ کا ایک ساتھ عبادت کرنے کا واقعہ یاد دلایا لیکن جس مسجد میں یہ مبارک اجتماع ہوا تھا اسے منہدم کرنے کی یہودی سازش اور اس میں عبادت کرنے سے مسلمانوں کو روکنے کے ظلم عظیم کا معاملہ فراموش کر گئے۔

ایران کے معاملے میں اوبامہ نے بغیر کسی اظہارتاسف کہ یہ تسلیم کیا کہ پچاس کی دہائی میں سرد جنگ کے باعث امریکہ نے وہاں کی منتخب شدہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا گویا کہ اس کا جواز موجود تھا حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حکومت نے اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے پیش نظر برطانوی تیل کمپنی کو قومیا لیا تھا رد عمل کے طور پر اپنے مالی مفاد کی خاطر تختہ الٹ کر ایک ظالم بادشاہ کو ایران پر بزور قوت مسلط کر دیا گیا تھا۔ جس نے لاکھوں معصوموں کا خون بہا کر امریکی مفادات کی حفاظت کی،  اوبامہ کو اس کے مظالم یاد نہیں،  اپنے سفارتخانے کے عملہ کا یرغمال بنایا جانا یاد ہے جو جاسوسی کر رہا تھا اور ایرانی پارلیمان کو دھماکے کے ذریعہ اڑانے کے لیے ذمہ دار تھا۔ ویسے اوبامہ نے ایران کے نیوکلیائی توانائی کو حاصل کرنے کے حق کو تسلیم کیا لیکن ان کے اس دورے سے ایک ہفتہ قبل زاہدان کی مسجد میں ہونے والا دھماکہ نیز تقریر والے دن کیش ایئرلائنز کے تہران جانے والے طیارے میں پایا جانے والا بم امریکی اور اسرائیلی حرکتوں کا شاخسانہ ہے جو ان کی کھوکھلی یقین دہانیوں کو منہ چڑھاتا ہے۔

طرز حکومت کے سلسلے میں اوبامہ نے کہا کہ ہم کسی ایک نظریہ کو نافذ کرنا نہیں چاہتے،  اوبامہ نے اپنا دورہ سعودی عرب سے شروع کیا جہاں ملوکیت ہے اور مصر میں ختم کیا جہاں ۲۸ سالوں سے آمریت کا دور دورہ ہے۔ امریکہ کا نورِ نظر حسنی مبارک اقتدار پر قابض ہے اور اپنے مخالفین پر طرح طرح کے مصائب توڑتا رہتا ہے۔ اس لیے وہ کسی عوامی حکومت کی بات ہی کب کرسکتے تھے ؟ لیکن انہوں نے یہ ضرور کہا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب وہ اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن اقتدار حاصل کر لینے کے بعد دوسروں کے حقوق مارنے لگتے ہیں،  اس دوہرے طرز عمل کا سب سے بڑا ثبوت خود بارک حسین اوبامہ ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران وہ صاف و شفاف حکومت کی بات کرتے رہے اور جارج بش پر حقائق کی پردہ پوشی کا الزام ڈالتے رہے،  لیکن خود انہوں نے گوانتاناموبے میں ہونے والی اذیتوں کی تصویروں کو صیغۂ راز میں رکھنے کا بل پاس کر دیا۔

اس نئے قانون کے مطابق اب امریکی حکومت یہ طے کرے گی کہ دنیا بھرکے لوگ کونسی تصویریں دیکھیں اور کون سے نہ دیکھیں ؟کیا یہی وہ صاف شفاف جمہوریت ہے جس کی بحالی کے لیے وہ اقتدار میں آنے سے قبل دہائی دیا کرتے تھے ؟ اوبامہ کے دورے کے دوران یہ تصویریں ذرائع ابلاغ میں بحث کا موضوع بنی ہوئی تھیں،  مسئلہ تصویروں کو دکھانے یا چھپانے سے زیادہ ان مظالم میں ملوث مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا ہے۔ جس کی کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ ابو غریب کے معاملہ میں کچھ لیپا پوتی کر کے معاملے کو رفع دفع کر دیا گیا اور اب گوانتاناموبے کے معاملے میں یہی ہو رہا ہے۔ کیا ان مظالم کے لیے کسی کو سزا نہیں ملے گی؟ محض اس لیے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے امریکی ہیں ؟ کیا اسی کو عدل و مساوات کہتے ہیں ؟ جس کی نصیحت اوبامہ نے مسلمانوں کو کی ہے ؟

مسلم خواتین کے حجاب کے حق کو انہوں نے تسلیم کیا اور یہ اعتراف بھی کیا کہ مسلم ممالک نے خواتین کواقتدارسے نوازا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ میں پہلی بار خاتون کو اقتدار میں آنے سے روکنے کا سہرہ خود بارک حسین اوبامہ کے سر ہے۔ انہوں نے تعلیم،  سائنس،  ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی کا بھی یقین دلایا لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ تعلیم کے میدان میں امریکہ کی حالت اب رہنمائی کی نہیں رہی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے کسی میدان میں بھی اب وہ اوّل نمبر پر نہیں ہے۔ معاشی طور پر امریکہ قلاش ہو گیا ہے وہاں کے دس فی صد لوگ کھانے کے لیے حکومت کی امداد لینے پر مجبور ہیں۔ جس روز اوبامہ قاہرہ میں تقریر کر رہے تھے امریکہ کی نامور کار بنانے والی کمپنی جنرل موٹرس دیوالیہ ہو رہی تھی،  ایسے میں امریکہ سے کسی مدد کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے۔

صدر اوبامہ نے اپنی تقریر کا اختتام نہایت ہی پر دل پذیر انداز ان مکالموں کے ساتھ کیا کہ ’’جنگ کی ابتدا آسان ہے اور اختتام مشکل ہے ‘‘۔ اس حقیقت کا اندازہ انہیں افغانستان میں ہو جائے گا جہاں انہوں نے نئے سرے سے محاذ کھولا ہے۔ آگے فرماتے ہیں دوسروں پر الزام تراشی آسان ہے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا مشکل ہے۔ اس کی سب سے زیادہ ضرورت خود اوبامہ کو ہے۔ اختلاف کے بجائے اشتراک کی تلاش زیادہ اہم ہے۔ لیکن اگر اس تلاش میں اخلاص کے بجائے مفاد کارفرما ہو تو اشتراک کو اختلاف میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ہمیں آسان راستہ کے بجائے صحیح راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو اوبامہ کو چاہئے تھا کہ سعودی عرب اور مصر کا آسان دورہ کرنے کے بجائے افغانستان،  پاکستان اور شمالی کوریا جاتے جہاں جنگ کا بازار گرم ہے۔ امریکی دھمکی کے باوجود ایٹمی دھماکے ہو رہے ہیں یا کم از کم غزہ چلے جاتے لیکن اوبامہ نے اپنے لئے تن آسانی کو ترجیح دی ہے اور ان کی آخری بات بہترین نصیحت ہے لوگوں کے ساتھ وہ معاملہ کرو جس کی توقع تم خود ان کی جانب سے اپنے لیے کرتے ہو۔ لیکن افسوس کہ اس کلمہ پر اوبامہ کا اپنا عمل ابھی تک نظر نہیں آیا ہے اگر مستقبل میں ایسا ہو جائے تو یہ امن عالم کے لیے ایک عظیم تحفہ ہو گا۔

صدر بارک اوبامہ الفاظ کے بہت بڑے بازیگر ہیں،  اپنے اس فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے سب سے پہلے ہیلری کلنٹن کو ہرا کر ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارت کی دوڑ میں امیدواری حاصل کی اور اس کے بعد میک کین کو شکست فاش دے کر امریکہ کے صدر مملکت بن گئے۔ قاہرہ میں بھی انہوں نے خوب ادا کاری کی اور اپنے ہنر کا جادو چلانے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ سبھی کو خوش کرنے کے زعم میں وہ چند لوگوں کو راضی اور زیادہ کو مایوس و ناراض کر کے اس شعر کے مصدا ق بن گئے ؎

کیسی عجیب بات ہے زعم ہنر کے باوجود

رنگ بکھر گئے تمام نقش کوئی بنا نہیں

٭٭٭

 

جس جھولی میں سو چھید ہوئے

جن ممالک نے ہوش سنبھالتے ہی امریکہ اور یوروپ کے آگے اپنی جھولی پساردی ہو اور جہاں کے عوام و خواص اپنے کشکول میں گرنے والے ہر سکہ کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہوں ان کے لیے انشاء جی کے مندرجہ بالا مصرعہ کا خود امریکہ پرچسپاں ہونا باعث تعجب ہوسکتا ہے لیکن حقیقت واقعہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ اگر یقین نہ آتا ہو تو بنگلہ دیش کو حالیہ طوفان کے بعد حاصل ہونے والی امداد پر نظر ڈالیں۔ اس فہرست میں جہاں برطانیہ کا حصہ پانچ ملین ڈالر ہے وہیں برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم مسلم ریلیف نے آٹھ ملین روانہ کیے ہیں۔ ایک ملک جو کبھی عظیم طاقت ہوا کرتا تھا کا موازنہ ایک گمنام تنظیم سے جسے کوئی نہیں جانتا کیسا لگتا ہے ؟

اسی طرح جہاں سعودی کی حکومت نے ایک سوملین ڈالر کی مدد روانہ کی ہے وہیں امریکہ کی جانب سے آنے والی مدد صرف اور صرف اء ۲ملین ڈالر ہے۔ یہ پچاس گنا کم رقم اس لیے نہیں آئی ہے کہ بنگلہ دیش کا شمار ناپسندیدہ ممالک میں ہوتا ہے بلکہ ایسا اس لیے ایسا ہوا ہے کہ نہ صرف اخلاقی بلکہ معاشی دیوالیہ پن کی جانب رواں د واں  امریکہ کے پاس اب دوسروں کو دینے کے لیے کچھ زیادہ بچا ہی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں د نیا کوسب سے زیادہ دینے والا ملک آج سب سے بڑا قرض خواہ بن گیا ہے اگر یقین نہیں آ تا ہو تو مندرجہ ذیل اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں۔

پندرہ سال قبل امریکی عوام کی انفرادی بچت اوسطاً۶فی صد تھی اور حکومت کاسالانہ خسارہ صرف ۸۴ملین ڈالر تھا ۲۰۰۴ کے آتے آتے یہ بچت ایک فی صد تک پہنچ گئی اور قومی خسارہ بڑھ کر سالا نہ ۴۱۳ ملین ڈالر تک پہنچ گیا لیکن یہ سلسلہ گذشتہ تین سا لوں میں تھما نہیں بلکہ اس میں مزید شدت پیدا ہوئی ۲۰۰۷میں بچت صفر ہو گئی اور قومی بجٹ کا خسارہ بڑھ کر۸۰۰ بلیں ڈالر ہو گیا گویا انحطاط نے انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر پورے ملک کو اپنے شکنجہ میں جکڑ لیا ہے۔

 عوام کے انفرادی اخراجات ان کی آمدنی سے زیادہ ہو چکے ہیں قومی برآمدات کاتناسب درآمدات کے مقابلہ میں کم ہو چکا ہے۔ اس لیے امریکی حکومت کو اپنا کام چلانے کی خاطر ہر روز دو بلین ڈالر سےز یادہ کے سرکاری بانڈز فروخت کرنے پڑتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا قرض ہے جو امریکہ کی حکومت زیادہ تر ایشیائی ممالک مثلاً جاپان اور چین سے لیتی ہے اسی لیے گذشتہ ہفتہ جب چینی قومی بنک کے سربراہ نے ڈالر کے بجائے یورو کی جانب پیش رفت کا شوشہ چھوڑا تو امریکی حصص بازار میں زلزلہ آگیا اور وہ ۲۴۳ پوائنٹ نیچے گر گیا۔ اس گراوٹ کے اثرات بشمول ہندوستان دنیا بھرکے شیئر بازار میں محسوس کیے گئے،  ایسے میں اگر امریکہ نے اپنے روزانہ کے خسارہ کا ہزارواں حصہ بنگلہ دیش طوفان زد گان کی مدد کے لیے بھجوایا اوراس کی مقدار محض۱ء ۲ ملین ڈالر بنی اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔

ساری دنیا میں ڈالرکی دن بد ن گرتی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کے پیچھے بھی یہی وجوہات کارفرما ہیں۔ ۱۹۹۹میں یوروپی یونین نے یورو نامی سکہ جاری کیا اور ۲۰۰۱کے اواخر تک یورو کے مقابلہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا لیکن اس کے بعد پھر معاملہ الٹ گیا۔  جارج بش نے جب سات سال قبل زمام کار سنبھالی تو یورو کی قیمت صرف ۸۴ ء ڈالر کے برابر تھی آج کل یورو ۴ء ۱ کے بھا ؤ سے بک رہا ہے اسی طرح کینیڈ ین ڈالر اپنی تاریخ میں کبھی امریکی ڈالر کے برابر نہ آسکا تھا سات سال قبل اس کی قیمت ۶۵ ء ڈالر کے برابر تھی اب وہ ایک ڈالرسے زیادہ میں بک رہا ہے یہ خام تیل کا بھاؤ جو ۹۰ ڈالر فی بیرل پہونچ چکا ہے سوناکی قیمت جو ۲۶۰ڈالرفی او نس سے ۸۰۰ ڈالر پر پہونچ گئی ہے اس کی وجہ ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہیں بلکہ ڈالر کی قیمت خرید میں غیر معمولی کمی ہے۔

 کسی ایسے ملک سے جو ۱۹۹۴میں پانچ ہزار بلین کا قرض دار ہو چکا تھا اور جس کے خسارہ میں اضافہ کی رفتار اسی طرح سے قائم ہے مزید کیا توقع ہوسکتی ہے ؟ یہی وجہ کہ جے راجر نامی معروف سرمایہ د ار نے اپنی ڈالر کی جائداد بیچ کر اپنے دولت کو چینی کرنسی میں تبدیل کر دیا ہے،  برازیل کی سپر ماڈل گیسلی نے اپنا معاوضہ ڈالر میں لینے سے انکار کرتے ہوئے یورو میں طلب کیا ہے اور جنوبی امریکہ کی ممالک برازیل وینیزویلا،  ایک ویڈور،  بولیویا،  ارجنٹیا اور کولمبیا وغیرہ نے امریکہ کے تحت چلنے والے ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے اپنا رشتہ توڑ کر خود ایک علاقائی ڈیولپمنٹ بنک قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خلیج میں کویت نے جہاں امریکہ کا عراق کے بعد سب سے بڑا فوجی مستقر ہے اپنے دینار کو ڈالر کی مستقل قیمت سے آزاد کر لیا ہے۔  دنیا بھر میں آئے دن وقوع پذیر ہونے والے یہ واقعات معیشت کے میدان جوسر مایہ داری کی بنیاد ہوتی ہے امریکہ کے زوال کا اعلان عام کر رہے ہیں لیکن جن کی آنکھوں پر غلامی کی پٹی بندھی ہوئی ہے وہ نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں،  وہ در حقیقت اندھے ہیں بہرے ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر!

جس طرح انفرادی سطح پر لوگوں کو غریب متوسط اور خوشحال طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے اسی طرح ممالک کوپسماندہ،  ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ایسی اصطلاحات میں با نٹا جاتا ہے۔  اس کی ذریعہ سے ممالک کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے اس لیے کہ مادہ پرستی کے اس پر فتن دور میں معیار حق کو معیشت سے جوڑ د یا گیا ہے۔  غریب آدمی دیوالیہ نہیں ہوتا اس لیے کہ اس کے پا س گنوانے کو کچھ نہیں ہوتا متوسط عوام اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ یہ معاملہ آئے دن ہوتا رہتا ہے اس لیے اس کی خبر نہیں بنتی لیکن امیر کبیر لوگ کم ہوتے ہے اور اگر ان میں سے کوئی دیوالیہ ہو جائے تو ذرائع ابلاغ ان کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔  اخبارات میں خبریں بنتی ہیں ٹیلی ویژن پر مباحث اور تبصرے ہوتے ہیں یہی بات ممالک پر بھی  صادق آتی ہے،  کسی ایسے ملک کا قلاش ہونا جو اپنے آپ کوسپر پاؤر سمجھتا ہو یقیناً ایک بڑی خبر ہے باوجود اس کے کہ آج ساری دنیا اس کی دہشت گردی کا شکار ہے یا اس سے دہشت زدہ ہے۔

قوموں کا عروج و زوال معیشت پر منحصر نہیں ہوتا لیکن معیشت کی کسوٹی پراسے جانچا اور پرکھا ضرور جاتا ہے۔  جس زمانے میں برطانیہ کا یونین جیک ساری دنیا پر لہراتا تھا اوراس کا سورج غروب نہ ہوتا تھا دنیا کا سب سے معتبر سکہ پاؤنڈ اسٹرلنگ تھا۔ برطانیہ کے زوال ساتھ پونڈ کی وہ حیثیت بھی ختم ہو گئی ایسا ہی کچھ ڈالر کے ساتھ ہو رہا ہے یہ دراصل بیماری کے عوامل نہیں بلکہ ظواہر ہیں قوم کا عروج د وسری اقوام کے تقابل سے آنکا جا تا ہے۔ عروج کی ابتداء اخلاقی برتری سے ہوتی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اپنی ابتدائی بربریت کے با وجود پہلی جنگِ عظیم کے وقت یوروپ کے مقابلے امریکہ  اخلاقی طور پر بہتر حا لت میں تھا۔ یوروپی ممالک جہاں باہم دست و گریباں تھے،  وہیں امریکہ ایک متحدہ قوت بن گیا تھا۔ یوروپ نے ترقی پسندی کے نام اخلاقی بے راہ روی کو اپنے لیے طرۂ امتیاز بنا لیا تھا اور وہ امریکی معاشرے کو دقیانوسی قرار دیتا تھا۔

 مذہبی رجحان بھی یوروپ کے مقابلہ امریکہ میں زیادہ تھا اس اخلاقی برتری نے معاشرتی اور معاشی میدانوں میں امریکہ کود وسروں پر برتری دلا دی بالآخر یہی برتری سائنسی،  فوجی اور سیاسی ترقی کا سبب بنی اور اس کے نتیجہ میں ایک نئی عالمی قوت وجود میں آ گئی لیکن پھر اس کے بعد طاقت کے غلط استعمال کا آغاز ہو گیا جس کے نتیجہ میں انحطاط اور زوال رونما ہونے لگا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اخلاق سے لے کرسیاست تک ہر میدان میں امریکہ ہاتھ پیر مار رہا ہے اس کے با وجود اپنے آپ کو زخمی کرنے کے علاوہ کچھ اور حاصل کرنے میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے گویا وہ اس حدیث نبویؐ کی مصداق ہو گیا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ’’ کوئی ظالم ظلم کرتا ہے تو اپنے آپ پر ہی کرتا ہے، ، ۔

امریکہ کے اخلاقی انحطاط کی ایک مثال ابھی گذشتہ دنوں سامنے آئی جب تین لڑکوں نے جن میں سے د و کی عمر٩سال اور ایک کی صرف۸ سال ہے نے ایک گیارہ سالہ لڑکی کو اغوا کر کے اس کی عصمت دری کر ڈالی۔ امریکی انتظامیہ نے جب انہیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیاتواس کے پاس اس جرم کی کوئی سزا نہیں تھی اس لیے کہ قانون وضع کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس قدر ننھے بچے ایسے سنگین جرائم کا ارتکاب بھی کرسکتے ہیں وہ چیز جو کل وہم گمان سے پرے تھی آج حقیقت بن کرسامنے آ گئی۔

معاشرہ میں اصلاح کا جوسب سے مؤثر ذریعہ مذہب ہوتا ہے۔ امریکہ میں ہم جنس شادیوں کو مختلف چرچ جائز قرار دیتے ہیں پادری حضرات نہ صرف خود اس طرح کے نکاح کی توثیق کرتے ہیں بلکہ بات یہاں تک جا پہونچی کہ ایک ایسے پادری کو جس نے علی الاعلان لواطت کا اعتراف کیا بشپ کے درجہ پر فائز کر دیا گیا ہے۔ بل کلنٹن اور مونیکا کا معاملہ ساری دنیا میں بحث کا موضوع بن گیا لیکن خود بل کی بیوی نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا امریکی عوام نے بھی اس کے خلاف کسی شدید رد عمل کا اظہار نہیں کیا آج بھی بل کلنٹن کا شمار امریکہ کے مقبول ترین صدور میں ہوتا ہے بلکہ جارج ڈبلیوبش کی حماقتوں نے بل کلنٹن کی قدر و قیمت میں اضافہ ہی کیا ہے۔

۱۱ستمبر کے بعد جب افغانستا ن پر فوج کشی کا ظالمانہ فیصلہ کیا گیا اس وقت ساری دنیا امریکہ کے ساتھ تھی اقوام متحدہ نے امریکی اقدام کی تائید کی تھی اور ناٹو نے اپنی فوج کے ساتھ جنگ میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن چند سال بعد جب عراق کے معاملہ میں امریکہ نے وہی رویہ اختیار کیا  تو نہ اقوام متحدہ کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور نہ ناٹوکوساتھ لے سکا یہ دراصل بین الاقوامی سیاست میں امریکی بے وزنی کی پہلی بڑی علامت تھی یہ اور بات ہے اس کے با وجود برطانیہ کوساتھ لے کروہ عراق میں داخل ہو گیا لیکن آج حالت یہ ہے کہ امریکہ عراق سے راہ فرار کے بہانے تلاش کر رہا ہے،  برطانیہ گزشتہ ہفتہ بے آبروہو کربھاگ چکاہے۔

امریکہ کے معاشی دیوالیہ پن میں بہت بڑا حصہ اس کی فوجی اخراجات کا ہے دہشت گردی کے نام پر امریکی حکمراں خود اپنے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے دنیا بھر میں اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے ۷۳۷ فوجی تنصیبات قائم کر رکھی ہیں تاکہ امریکہ کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ان تنصیبات پر ہونے والا خرچ امریکہ سے جاتا ہے اور دیگر ممالک میں خرچ ہوتا ہے ان ممالک کے لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں مگر خود امریکہ اس کے نتیجہ میں دیوالیہ ہوتا جا تا ہے جہاں تک تحفظ کا سوال ہے ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں فوج عراق میں موجود ہے اس کے باوجود یہ فوجی اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں فوجی عملہ وہاں سے واپس بھا گنا چاہتا ہے اور پلٹ کر آنا نہیں چاہتا سرکاری ملازمین کوزبردستی عراق بھیجنے کے لیے قا نون بنانے پر غور ہو رہا ہے اس لیے کہ معاشی لالچ کا حربہ نا کا م ہو چکا ہے ایسے میں دور دراز ملکوں کے کیمپوں میں مقید یہ فوجی وہاں بیٹھ کر امریکہ کوکیسے تحفظ مہیا کرسکیں گے ؟ اس سوا ل کا جواب بش یا ڈک چینی کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔

 ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر ان فوجی تنصیبات کو بند کر کے فوجیوں کو واپس امریکہ بلا لیا جائے توہر ریاست کو مزید پندرہ حفاظتی دستہ مہیا ہو جائیں گے فوجی اخراجات میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ وہ دولت جو باہر خرچ ہو رہی ہے وہ ملک کے اندر خرچ ہو گی اس سے نہ صرف حفاظتی صورتحال بہتر ہو گی بلکہ معاشی استحکام بھی حاصل ہو گا لیکن یہ حقائق ان لوگوں کی سمجھ میں کب آسکتے ہیں جواب بھی اپنے آپ کو سپرپا ورسمجھ رہے ہیں جنھیں حاصل ہونے والی اپنی پے در پے شکست بھی خوشنما دکھائی دیتی ہیں جو اپنی ہر غلطی کی ایک نئی توجیہ بیان کرتے ہیں۔ ہر چھوٹے جھوٹ کو چھپانے کے لیے بڑا جھوٹ گھڑتے ہیں اپنی پسپائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے نت نئے مہمات چھیڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کی باتوں کوسن کر انشاء جی کی اس غزل کا مقطع یاد آتا ہے ؎

دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟

٭٭٭

 

قاتل مرا دشمن ہے کہ،  دنیا ہے کہ،  میں ہوں

اکیسویں صدی کا آغاز کچھ اس طرح ہوا گویا  علاوَالدین کے چراغ کا جن اپنے ہاتھ میں طلائی طشتری لیے سرجھکائے با ادب با ملاحظہ اپنے آقا امریکہ بہادر کے آگے سر بستہ کھڑا ہے کہ جیسے ہی سرکار اپنے قصر ابیض سے باہر قدم رنجا فرمائیں ان کے سر پر عالمی استعماریت کا اکلوتا تاج سجا دیا جائے۔ اس لیے کہ سوویت یونین کی نہ صرف تجہیز و تکفین بلکہ چہلم بھی ہو چکا تھا۔  اب اس بد روح کے لوٹ کر آنے کے سارے امکانات مفقود ہو چکے تھے۔  جنوبی امریکہ میں فیڈل کاسٹرو اپنے صحت کی خرابی کے باعث عالمی سطح پر رعب و دبدبہ کھو چکے تھے۔ یوروپ کا سانتا کلاز برطانیہ اپنی درازیِ عمر کے باعث امریکہ کی لاٹھی تھامے گھسٹ رہا تھا۔

 فلسطین میں یاسر عرفات کو مصالحت پر مجبور کر لیا گیا تھا۔ جزیرۃالعرب میں صدام کا خوف دلا کر امریکی فوجی چھاونی کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ صدام کا زور مکمل طور سے ٹوٹ چکا تھا۔ افغانستان میں طالبان کی موافق ترین حکومت قائم ہو چکی تھی۔ پاکستان میں ادنی غلام پرویز مشرف کو اقتدار پر فائز ہونے کا موقع مل گیا تھا۔ ہندو چین اپنی آبادی کے باعث پریشان نظر آتے تھے۔ جاپان تجارت میں غرق تھا۔ سوویت یونین کے زوال نے شمالی کوریا کی ہمت پست کر دی تھی گویا ساری دنیا میں اگر کسی کا ڈنکا بجتا تھا تو وہ بس ریاستہائے متحدہ امریکہ کا تھا بل کلنٹن کے اس دور کی کیا خوب عکاسی امجد اسلام امجد نے کی تھی:

کلنٹن ٹھیک کہتا ہے کہ یہ اس کا زمانہ ہے

 ہمیں تو بل کلنٹن کو  فقط اتنا بتانا ہے

زمانہ اس سے پہلے بھی کئی ہاتھوں سے گزرا ہے

زمانے کو تمہارے ہاتھ سے آگے بھی جا نا ہے

تاریخ کے اس نازک موڑ پر خاموشی کے ساتھ مشیت ایزدی نے جارج ڈبلیو بش جیسے احمق انسان کو امریکہ کے سر پر مسلط کر دیا لوگ اپنی اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللّٰہ رب العزت اپنی۔  امریکی طاغوت دو پہیوں پر سوار تھا اگلا پہیہ فوجی طاقت ہوا کرتا تھا اور پچھلا معیشت کا پہیہ اسے آگے ڈھکیلتا تھا۔ جارج بش کے آٹھ سالہ دور حکومت میں یہ دونوں پہیے پنچر ہو گئے اور استعماریت کی ہوا اکھڑ گئی۔ بش بغدادی جوتا کھا کر چاروں شانہ چت ہو گئے اور ساتھ ہی عالمی شہنشاہیت کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا۔

 اس دوران کوئی ایک بھی محاذ ایسا نہیں بچا کہ جس پر امریکہ کو منہ کی نہیں کھانی پڑی جنوبی امریکہ میں وینیزویلا کے شیرشاویز نے وائٹ ہاوس کی نیند حرام کر دی۔ جارجیا میں روس نے ثابت کر دیا کہ مشرقی یوروپ میں آج بھی امریکہ اسی طرح کمزور و بے بس ہے جیسا کہ کبھی ہوا کرتا تھا۔ یوروپ کے یورو نے امریکی ڈالر کو شکستِ فاش سے دوچار کر دیا اور اب ناٹو کے ممالک امریکی فرمان کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ امریکہ کے زبردست دباؤ کے باوجود کسی ناٹو رکن نے افغانستان میں ایک نیا فوجی روانہ نہیں کیا۔

یاسر عرفات کے وارث محمود عباس رسوائی دلدل میں اس قدر دھنس گئے کہ ان کا ابھرنا ناممکن ہو گیا۔ غزہ میں حماس ایک عظیم چیلنج بن کر ابھری۔ حزب اللّٰہ نے امریکی مداخلت کے باوجود ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے اسرائیل کے دانت کھٹّے کر دئیے۔ سعودی عرب سے امریکی چھاونی کا بستر لپیٹ دیا گیا۔ عراق میں امریکہ کے لیے صدام سے زیادہ خطرناک ایران نواز حکومت قائم ہو گئی۔    ایران کو جوہری شعبہ میں پیشقدمی سے روکنے کی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں بلکہ اس نے اسرائیل تک مار کرنے والے میزائیلوں کا تجربہ کر کے ساری دنیا کو چونکا دی۔

  افغانستان میں زندہ اور مردہ گرفتار کرنا تو درکار زندہ یا مردہ نکل بھاگنے کے امکانات پر تبا دلہ خیال ہونے لگا۔ پاکستان پر مسلط کردہ مشرف ذلیل و خوار ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ہندوستان اور چین دیو قامت معاشی چیلنج بن گئے۔ شمالی کوریا نے یکے بعد دیگرے کئی جوہری دھماکے کر ڈالے جاپان نے اپنے معاشی بحران پر قابو پانا شروع کر دیا لیکن امریکی معاشی بحران ہے کہ دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے اور عوام کی حالت دگرگوں ہوتی جا رہی ہے۔ مختلف شہروں میں مایوسی خودکشی کا کفن اوڑھ کر نمودار ہو رہی ہے گذشتہ آٹھ سالوں میں عالمی منظر نامہ جس طرح سے بدلا ہے اس کا تصور تک محال تھا حالات کی یہ تبدیلی دراصل اللّٰہ خیرالماکرین کی زندہ تفسیر ہے۔

ہند و پاک تعلقات کا معاملہ فی الحال دو نکاتی خطِ مستقیم نہیں رہا بلکہ ایک تیسرے نقطے کے اضافہ نے اسے مثلث بنا دیا ہے۔ اس ہم تم اور وہ کے تکون میں سب اوپر’’ وہ‘‘ یعنی امریکہ بہادر تشریف فرما ہیں۔ ۲۶/۱۱ کے حوالے سے ہند پاک تعلقات کا جائزہ اور مستقبل کا لائحہ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ کہ پہلے مندرجہ بالا عالمی سیاسی پس منظر کا ادراک و اعتراف کیا جائے ورنہ امریکہ کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمی اربابِ حل و عقد کے صحیح اور مناسبِ حال فیصلے میں مانع ہو گی۔

۲۶/۱۱ کے حملہ میں امریکی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اوبامہ نے حلف لینے سے قبل اس حادثہ پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا جبکہ غزہ پر اسرائیلی بمباری نے ممبئی سے دس گنا زیادہ معصوموں کو لقمہ اجل بنایا تھا ساری دنیا کی نگاہیں اس وقت امریکہ کہ نو منتخبہ صدر کی جانب تھیں لیکن وہ مونی بابا بنے غزہ کی بربریت پر چپیّ سادھے رہے۔ ہندوستان کے بارے میں اوبامہ نے وہی جملہ کہا جو امریکہ اپنے بغل بچہ اسرائیل کی سفاکیوں کو حق بجانب ٹھہرانے کی خاطر کہتا رہا ہے ان کا کہنا تھا ’’ہندوستان کو اپنے دفاع کا حق ہے بین السطور میں ہندوستانی حکمرانوں کو اشارہ دیا گیا تھا کہ ہندوستان بھی اسرائیل کی طرح درندگی پر اتر آئے تو اس کارِ شر میں وہ امریکہ کو اپنی پشت پر کھڑا پائے گا۔

 ہندوستان کے حکمرانوں نے اس نازک گھڑی میں عقل کے ناخن لیے اور جنگ جیسی حماقت سے اپنے آپ کو باز رکھا۔ ایوانِ پارلیمان پر حملے کے بعد فوجوں کو سرحدکی جانب آپریشن پریکرما کے نام پر بھیجا گیا تھا اتفاق سے پریکرما کے معنیٰ گردش و طواف کے ہوتے ہیں اور یہ بے سود طواف بی جے پی حکومت کو ممبیا زبان کی مثل کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنہ کی مانند خاصہ مہنگا پڑا تھا۔ اس سے پہلے جب پاکستان مشرف بہ امریکہ ہوا کرتا تھا امریکہ ہندوستان پر حملہ نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا کرتا لیکن اس بار جبکہ ایک جمہوری حکومت پاکستان میں بر سر اقتدار تھی امریکہ اسے ہندوستان کی مدد سے غیر مستحکم کرنے میں جٹ گیا تھا۔

 اس زاویہ سے ۲۶/۱۱ میں امریکی مفاد صاف جھلکتا ہے جو رچرڈ ہیڈلی کی گرفتاری سے قبل تک خارج ازگمان تھا۔ جنگ پر امریکی اصرار محض اشاروں کنایوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سابقہ اسٹیٹ سکریٹری کونڈا لیزا رائس نے پاکستان کا دورہ کر کے چکالہ کے فوجی مستقر میں پاکستانی حکمرانوں سے صاف کہا کہ پاکستان کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں اس لیے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہونچاو ورنہ امریکہ کو مداخلت کے لیے مجبور ہونا پڑے گا اور بین الاقوامی دباؤ کو روکا نہ جا سکے گا۔

اس دوران انتخاب میں شکست خوردہ جان میکائن بھی لاہور پہونچ گئے اور انہوں نے اعلان فرما دیا کہ اس صورتحال میں ہندوستان فضائی حملہ کر کے دہشت گردی کے اڈوں کا ازخود قلع قمع کر سکتا ہے۔ ممبئی کی زبان میں اسے چائے سے گرم کیتلی کہا جاتا ہے۔ وزیر ِ خارجہ پرنب مکرجی نے نہایت سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے پارلیمان میں بیان دیا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ اس مسئلے کاحل تلاش کرے ورنہ معمول کے مطابق تعلقات کا قائم رکھنا ممکن نہ ہو گا۔

پاکستان کے خارجہ سکریٹری سلمان بشیر نے مثبت جواب دیا تمام تر تعاون کا یقین دلایا اور نہ صرف دورے کی پیشکش کی بلکہ نئی دہلی کا دورہ بھی کیا۔ یہ سب کچھ ماہِ دسمبر میں ہوتا رہا ہندوستانی میڈیا نے امریکہ نوازی میں نفرت کے شعلوں کو خوب ہوا دی لیکن حکومت پاکستان نے لشکر اور جیش کے دفاتر چھاپہ مار کر اور ان کے رہنماؤں کو نظر بند کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا۔

۵ جنوری کو نئے وزیر ِ داخلہ پی چدمبرم نے ایک طویل اور دلچسپ انٹرویو دیا وہ بولے چونکہ یہ حملہ نہایت منظم طریقہ پر کیا گیا اس لیے اس بات کا قیاس کیے بغیر کو ئی چارہ کار نہیں ہے کہ حکومت پاکستان کے عناصر اس کی منصوبہ بندی اور تربیت میں شامل ہیں اور جب تک اس قیاس کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آتا ہم اس پر یقین کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ چدمبرم نے اپنی اس احمقا نہ دلیل سے ثابت کر دیا کہ ان کے اور پیش رو شیوراج پاٹل کے درمیان ذہنی سطح پر کوئی تفاوت نہیں ہے۔ اپنے خیال کے قیاس ہونے کا اعتراف انہوں نے خود کیا عرفِ عام میں قیاس پر ثبوت کے بغیر یقین نہیں کیا جاتا لیکن یہ الٹی منطق نہایت مضحکہ خیز ہے کہ اگر اس قیاس کو غلط ثابت کرنے والا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہ آئے تو وہ اسے یقین کے درجہ میں رکھیں گے۔

 خیر اب تو رچرڈ ہیڈلی کی شکل میں ایک ثبوت ایف بی آئی کی جانب سے سامنے آہی گیا ہے جسے آئی ایس آئی پر الزام تراشی کی طرح ٹھکرایا بھی نہیں جا سکتا تو کیا جنابِ چندمبرم اپنے خیالِ خام پر نظرِ ثانی فرمائیں گے شاید نہیں اس لیے کہ انہیں یاد بھی نہ ہو گا کہ دس ماہ قبل انہوں کیا بیان بازی کی تھی۔ ویسے کرنل پروہت کا سمجھوتہ ایک سپریس کے دھماکہ میں ملوث ہونا اگر ان کا ذاتی فعل ہو سکتا ہے تو محض کسی پاکستانی فوجی افسر کے ممبئی حملہ میں ملوث ہونے پر حکومتِ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا؟اس سوال کا جواب چدمبرم کو دینا ہو گا اس لئے کہ انہوں نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ یہ سازش پاکستان کی سر زمین پر رچی گئی اور اگر اسے دوہرایا گیا تو اس کی بھا ری قیمت چکانی ہو گی۔

 فروری میں پاکستان نے ہندوستان کی جانب سے مہیا کردہ معلومات پر تیس سوالات پیش کر دئیے ہندی حکمران اس پر کافی آگ بگولہ ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سوال نہیں اقدام چاہئے۔ پاکستان کا جواب تھا حکومت ہند ابھی تک ایک اجمل قصاب کی فردِ جرم داخلِ عدالت نہ کر سکی تو اتنے کم وقفہ میں پاکستان سے کیونکرکسی اقدام کی توقع ممکن ہے۔ مارچ کے مہینے میں حافظ سعید کا مقدمہ عدالت میں پہونچا اور عدالت نے خاطر خواہ ثبوت کی عدم موجودگی کے باعث انہیں رہا کر دیا۔

 اسی زمانے میں سادھوی پرگیہ اور کرنل پروہت وغیرہ کو ہندوستان کی عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا لیکن ہندوستانی میڈیا اپنوں کو چھوڑ  کر غیروں کے پیچھے پڑ گیا وہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کو ہندوستان کے حوالے کرنے پر زور دینے لگا جو ایک بچکانہ مطالبہ تھا۔ میڈیا اس حقیقت کو بھول گیا کہ حکومتِ ہند کئی سال مولانا مسعود کو اپنے یہاں جیل میں رکھنے کے باوجود ان پر فردِ جرم تیار نہ کر سکی تھی اور آخر کار سابق وزیر ِ خارجہ جسونت سنگھ ان کے ہمراہ کابل گئے اور یرغمال مسافروں کے عوض انہیں رہا کیا گیا تھا۔

 ماہِ جون کے آتے آتے معاملہ کافی سرد ہو چکا تھا ممبئی حملے کے بعد امن مذاکرات کو بند کر دیا گیا تھا۔ تجارتی بات چیت ملتوی کر دی گئی تھی اس کے باوجود وزیر ِ اعظم من موہن نے صدر آصف زرداری سے روس میں ملاقات کی اور اس کے بعد کہا گفتگو کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ دونوں ممالک کی بھلائی اس میں ہے کہ کہ امن مذاکرات کو جاری رکھا جائے لیکن دونوں فریقوں کو یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اس ملاقات نے باہمی اعتماد کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ایک اور ملاقات دونوں ممالک کے وزراء اعظم کے درمیان مصر میں ہوئی اس ملاقات کے مشترکہ اعلامیہ میں بلوچستان کے ذکر پر ہندوستان میں بڑی لے دے ہوئی منموہن سنگھ کی دونوں ہاتھوں سے تالی بجانے کی اولیّن جرأت کو سراہنے کے بجائے اس پر شدید تنقید کی گئی مجبوراً انہیں کہنا پڑا کہ وہ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی پیش رفت سے مطمئن نہیں ہیں۔

ماہ جولائی ۲۶/۱۱ کے حوالے سے خاصہ اہمیت کا حامل تھا اسٹیٹ سکریٹری ہیلری کلنٹن کا ممبئی دورہ اور اس کے دو دن بعد اجمل قصاب کا چونکا دینے والا اعترافِ جرم اس ماہ کی خصوصیت ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تعلق تھا یا نہیں۔ اجمل نے تمام جرائم کا بر ملا اعتراف کیا اور مقدمہ کے بجائے سزا کا مطالبہ کر ڈالا۔ ممبئی کی عدالت میں اس طرح کا واقعہ اس سے پہلے آسٹریلیا سے دہشت گردی کی تربیت کے الزام میں گرفتار فیروز نے کیا تھا۔ چیتا کیمپ کے رہنے والے اس نوجوان کو آگے چل کر عدالت نے رہا کر دیا۔

 اجمل کے بارے میں سر کاری وکیل نکم کا کہنا ہے کہ وہ بہت بڑا اداکار ہے اور اسے باتوں کو گھمانے پھرانے کی تربیت دی گئی ہے۔ اس بیچ ممبئی کے فہیم اور صباح الدین پر الزام لگا کہ انہوں نے نقشے فراہم کئے۔ آج کل ساری دنیا کے اہم شہروں کے نقشہ جات انٹر نیٹ پر مہیا ہیں گوگل پر ملک کے فوجی تنصیبات تک کے حدود و اربعہ موجود ہونے پر کئی سال قبل ہنگامہ ہو چکا ہے۔ تمام پانچ ستارہ ہوٹل والے اپنی اپنی ویب سائٹ پر ہوٹل کا ظاہر و باطن ہر ہر زاویہ سے دکھلاتے ہیں ایسے میں بین الاقوامی تربیت یافتہ دہشت گردوں سے اس بات کی توقع مناسب نہیں معلوم ہوتی کہ وہ باہر کے فرد سے نقشوں کی فراہمی کے معاملے میں مدد حاصل کریں گے۔

اس معاملے میں ایک اور نہایت دلچسپ پہلو اس وقت سامنے آیا جب ایف بی آئی کا ایک ایجنٹ عدالت میں پیش ہوا چونکہ اس حملے میں پانچ امریکی شہری مارے گئے اس لیے امریکہ میں بھی اجمل کے خلاف ایک مقدمہ درج ہے جس کی تفتیش امریکی خفیہ ایجنسی کر رہی ہے۔ تفتیش کرنے والے افسر نے بتایا کہ پاکستان میں جس آئی پی ایڈریس سے ای میل کیے گئے انہیں کسی کھڑک سنگھ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ سرکاری وکیل نے اعتراف کیا کہ حملے سے قبل موصول ہونے والا میل بھی اسی پتہ سے آیا تھا لیکن بغیر کسی ثبوت کہ یہ فتویٰ نکال دیا گیا کہ یہ فرضی نام ہے اصلی آدمی کا پتہ لگا یا جائے۔

 اگر کھڑک سنگھ کا نام جعلی ہے تو اجمل یا ان لوگوں کا نام جن کی نشاندہی اجمل جیسے تربیت یافتہ کذاب نے کی ہے کیونکر صحیح ہو گئے۔ منطق آسان ہے اجمل نے سارے مسلمانوں کے نام بتلائے ہیں اگر ایف بی آئی ایجنٹ بھی کھڑک سنگھ کے بجائے بھڑک خان بتلا دیتا تو کسی تحقیق کی چنداں ضرورت نہ ہوتی وہ اپنے آپ میں ٹھوس ثبوت بن جاتا ویسے جعلی کاغذات کی مدد سے آئی پی حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔

جون کے مہینے میں اسٹیٹ سکریٹری ہیلری کلنٹن نے تاج ہوٹل کا دورہ کیا اور ہندوستانی عوام کے ساتھ اپنی یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا امریکہ اور ہندوستان کا مشترکہ دشمن نفرت و انتہا پسندی کی کوکھ سے تشدد جنم لیتا ہے۔ ہمدردی کے ان کلمات کے بعد متحد ہو کر انتہا پسندی کے خاتمہ پر زور دیا۔ ما ہِ اکتوبر میں سابق صدر بش کو ہندوستان ٹائمز والوں نے لیڈر شپ کانفرنس میں دہلی بلایا۔ بش ڈیمو کریٹ نہیں بلکہ ری پبلکن ہیں اس کے باوجود بش نے بھی تفصیل کے ساتھ وہی بات کہی جو ہیلری کہہ کر گئی تھیں۔ انہوں ۱۱ستمبر اور ۲۶ نومبر کے درمیان پائی جانے والی مشابہت کو یاد کیا۔ بش کی صدارت کا پہلا سال ۱۱ ستمبر سے مزیّن ہے تو آخری سال ۲۶ نومبر سے روشن ہے۔ ان دونوں کے درمیان تاریکی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔

بش نے ۲۶ نومبر کو وضاحت کا لمحہ قرار دیا گویا ہندوستان کے لیے یہ یوم الفرقان کی ما نند ہے۔ جس نے دوست اور دشمن کی پہچان کرا دی بش کے مطابق دہشت گردی کے خلاف ہند وستان اور امریکہ ایک مشترکہ جدوّجہد میں ملوث ہیں۔ بش بڑے جوش میں بولے یہ بنیاد پرستوں سے ایک نظریاتی کشمکش ہے وہ ہماری زندگی اور انسانی حقوق کے ہمارے نظریہ سے نفرت کرتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا کہ جناب بش اپنے نظریاتی حریفوں سے محبت کرتے ہیں یا نفرت کرتے ہیں ؟ اگر بش صاحب نفرت کے جواب میں محبت کی توقع رکھتے ہیں تو ان سے بڑا احمق اس دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ جو شخص دوستوں کو یہ کہہ کر دھمکاتا ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں تو ان کے ساتھ ہیں۔ اس کے منہ سے امن و آشتی کے جملے بھلے نہیں معلوم ہوتے امریکی نظریۂ انسانی حقوق کے نمونے گونٹے نامو،  ابوغریب،  غزہ،  عرا ق،  سوات،  وزیر ستان،  ہیرو شیما اور ناگا ساکی تک پھیلے ہوے ہیں۔ ان سے کو ئی بھی ذی ہوش آدمی محبت نہیں کر سکتا۔

بش نے خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے پر زور دیا۔ انصاف و آزادی کے قیام کو دہشت گردی کے خاتمہ کی بہترین سبیل ٹھہرایا لیکن اگر ایسا ہے تو بش کو جواب دینا پڑے گا کہ پاکستان میں ایمرجنسی نافذ کر کے آزادی کا گلا گھونٹنے والے مشرف جب عدالت کا نظام معطل کر کے انصاف کو پا مال کر رہے تھے۔ اس وقت جارج ڈبلیو بش نے ان کی حمایت دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کی تھی یا فروغ دینے کے لیے ؟ ان سوالات کا جواب دئیے بغیر محض وعظ و نصیحت سے کا م چلنے والا نہیں ہے آج حال یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ نہیں جانتے کہ امریکہ کا قومی دن کون سا ہے ؟ اور خود امریکی نہیں جانتے اس دن کیا ہوا تھا؟ لیکن ۱۱ ستمبر کے بارے میں ہر اپنا پرایا بہت کچھ جانتا ہے۔ یہی جارج ڈبلیو بش کا واحد کارنامہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستانی بھی ۲۶ جنوری کے بجائے ۲۶ نومبر کی یادگار منائیں۔ ویسے ذرائع ابلاغ اس معاملے میں بش کی مدد پر کمر بستہ ہے مگر ان دونوں کی حقیقت کو جاننے کے باوجود عوام کا حال یہ ہے کہ بقول ڈاکٹر عاصم واسطی ؎

مانا کسی ظالم کی حمایت نہیں کرتے

ہم لوگ مگر کھل کے بغاوت نہیں کرتے

جارج بش کے دورے کے آس پاس ہی ایک امریکی شہری رچرڈ ہیڈلی کے اس معاملے میں ملوث ہونے کا انکشاف خود امریکی خفیہ ایجنسی نے کر ڈالا اور اس طرح پاکستان کے خلاف جو کم از کم الزام تھا کہ سازش پاکستان کی سر زمین پر رچی گئی ایک دم سے کمزور ہو گیا اور اس نے کئی نئے سوالات پیدا کر دئیے مثلاً کیا کسی سرزمین پر سازش کے رچے جانے کو حکومت کی سرپرستی و حمایت کا نام دیا جا سکتا ہے ؟اور کیا میک کین کے مطابق اس ملک پر فضائی حملہ کیا جانا چاہئے ؟ کیا ہندوستان رچرڈ ہیڈلی کو مارنے کے لیے ڈرون میزائیل کی مدد لینے میں حق بجانب ہے ؟ لشکر امریکہ میں کیا کر رہی ہے ؟ کیا لشکر کو روکنا امریکی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے ؟ اور اگر وہ بھی اسے روکنے میں کامیاب نہیں سکی تو کیا پاکستانی حکومت سے اس بات کی توقع قابلِ فہم ہے ؟

ہندوستان کی جانب سے ملزمین کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن امریکہ نے ہمارے تفتیش کی خاطر امریکہ کا سفر کرنے والے افسران کو ہیڈلی سے ملاقات تک کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کیا دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ ایسے لڑی جاتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ جس کو چاہیں تفتیش کے لیے سات سمندر پار لے جائیں اور ہم وہاں جا کر بھی ناکام و نا مراد واپس آ جائیں ؟ کیا انصاف و یکجہتی اسی کو کہتے ہیں ؟

رچرڈ ہیڈلی کے واقعہ میں پاکستانی عوام اور حکمرانوں کے لیے نصیحت کا بہت بڑا سامان ہے۔ امریکہ کے ساتھ دور سے دعا سلام تو ٹھیک ہے لیکن اگر دوستی بڑھ کر ازدواجی رشتہ میں بدل جائے تو وہی ہوتا ہے جو ہیڈلی کے معاملے میں پیش آیا۔ ہیڈلی کے والد معروف سفارتکار ہیں اس کے باوجود ان کی بیوی انہیں چھوڑ کر واپس امریکہ چلی گئی وہاں شراب خانہ چلانے لگی اپنے بچے ّ کو پالنے پوسنے کی عمر تک باپ کے پاس چھوڑ دیا لیکن جب وہ سولہ سال کا گبرو جوان ہو گیا تو اسے اپنے ساتھ لے گئی اور نہ صرف اپنے مذہب پر قائم رہی بلکہ بچے ّ کا دین بھی بدل ڈالا۔ اس کی تر بیت ایسے کی کہ پہلے وہ منشیات کا اسمگلر بن گیا اور بعد میں خطرناک دہشت گرد۔ اگر پاکستان اپنی آئندہ نسل کو اس عبرتناک انجام سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے تو اسے امریکہ کے تئیں اپنی قربتوں اور فاصلوں کا صحیح تعین کرنا ہو گا۔ ۲۶/۱۱ کا یہ بھی ایک اہم پیغام ہے

ہندوستان کے نقطۂ نظر سے اس ایک سال کے عرصہ میں سب سے اہم سوال ہیمنت کرکرے کے قاتلوں کے حوالے سے سامنے آیا۔ ابتدا میں تو یہ بتلایا گیا کہ ہیمنت کرکرے اور ان کے ساتھیوں کی جلد بازی اور لاپرواہی ہی ان کی ہلاکت کا سبب بنی ہے گویا اس قتلِ  ناحق کے لیے خود مقتول کو ذمہّ دار ٹھہرا دیا گیا۔ اس موضوع پر کئی کتابیں شائع ہو ئیں تب جا کر مطلع صاف ہونے لگا ہے لیکن ایسا لگتا ہے سرکاری مشنری اب بھی حقائق سے نظریں چرانے کی روش اختیار کیے ہوئے ہے۔ پہلی مرتبہ جب عبدالرحمٰن انتولے نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تو خوب ہنگامہ ہوا لیکن اب کویتا کرکرے خود اپنے شوہر پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کی تردید کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق ہیمنت کرکرے اور ان کے ساتھی ۴۰ منٹ تک پولس دستہ طلب کرتے رہے اور اس کے بعدمایوس ہو کر تنہا جائے واردات کی جانب دوڑے۔ سابق آئی جی حسن غفور نے کئی سینئرافسران پر اپنی ذمہ داریوں کے تئیں کوتاہی کا الزام لگایا ہے۔

ہیمنت کرکرے کی موت کئی تشویش ناک سوالات کو جنم دیتی ہے مثلاً کرکرے بولٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے تھے اس کے باوجود تین گولیاں سینے میں کیسے لگیں ؟ انکے جیکٹ کا غائب ہونا بھی ایک بہت بڑا معمہ ہے۔ کویتا سوال کرتی ہیں جس حکومت نے دہشت گردوں کی لاشوں کی حفاظت پر ۲۲ کروڑ خرچ کیے وہ اپنے پولس افسر کی جیکٹ کو کیوں محفوظ نہ رکھ سکی؟ نیز ان اعلیٰ پولس افسران کی لاشیں سڑک پر دو گھنٹہ تک پڑی رہیں جبکہ پولس دہشت گردوں کی لاشوں کو ہسپتال پہونچانے میں مصروف کار رہی۔ یہ دوہرا رویہّ کیوں اختیار کیا گیا؟ان افسرا ن کے موبائل کا ریکارڈ دینے میں پولس آنا کانی کیوں کر رہی ہے ؟

اسی طرح کے سوالات ۱۱ ستمبر کے بارے میں بھی اٹھائے گئے تھے۔ جن کا اطمینان بخش جواب آٹھ مرتبہ ۱۱ستمبر کے آنے جانے کے بعد بھی نہ مل سکا۔ ۲۶ نومبر بھی آتا جاتا رہے گا لیکن کیا اس حادثہ میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان کو کبھی انصاف مل سکے گا؟ اگر نہیں تو شاید اس طرح کے واقعات کو دوبارہ وقوع پذیر ہونے سے روکنا آسان نہ ہو گا اور ریاستی وزیر داخلہ کو پھر کہنا پڑے گا بڑے بڑے شہروں میں چھوٹے موٹے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے باوجود بھی ان کی وزارت آتی جاتی رہے گی اور ہیمنت کرکرے جیسے فرض شناس افسران کا جسدِ خاکی پکارتا رہے گا

باعث تو مرے قتل کا حالات ہیں میرے

قاتل مرا دشمن ہے کہ دنیا ہے کہ میں ہوں

٭٭٭

 

رچرڈ کولمن ہیڈلی گلے کی ہڈّی بن گیا

کیا آپ نے کوئی ایسا آدمی دیکھا ہے جس کی ایک آنکھ نیلی اور دوسری بھوری ہو؟ اگر نہیں بھی دیکھا تو یہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کی ماں امریکی اور باپ پاکستانی ہو تب تو اس کے امکانات اور زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔ معاملہ صرف آنکھوں تک محدود ہو تب تو کوئی خاص بات نہیں لیکن اگر کسی شخص کے دو نام ہوں،  داوُد سلیم گیلانی اور رچرڈکولمن ہیڈلی تو پیچیدگی بڑھ جاتی ہے۔  اگر اس شخص کی شہریت بھی دوہری ہو مثلاً امریکی اور پاکستانی تو الجھن مزید بڑھ جاتی ہے اس پر اگر وہ بیک وقت سی آئی اے کا ایجنٹ اور لشکر طیبہ کا جنگجو بھی ہو تب تو کہانی کچھ اور ہی مزیدار ہو جاتی ہے فی الحال ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے یہ بات سمجھانے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ داؤد عرف ہیڈلی سی آئی اے اور لشکر کا ڈبل ایجنٹ تھا اور آخری وقت میں سی آئی اے کے ہاتھ سے نکل کر پوری طرح لشکر کی جانب جھک گیا تھا۔ آگے چل کر اس نے ۲۶/۱۱ کے حملے میں اہم کردار ادا کیا جس کا پیشگی علم سی آئی اے کو نہیں تھا۔ اس کہانی پر اعتبار کرنے سے قبل مندرجہ ذیل بنیادی سوالات کا جواب ملنا ضروری ہے :

ابتدائی طور پر ڈیوڈ کس کا ایجنٹ بنا؟

جاسوسی کے کاروبار میں اسے ملوث کرنے کا سہرہ کس کے سر ہے ؟

ثانوی تنظیم میں داخل ہونے کا فیصلہ اس نے خود کیا یا اسے اس کا حکم دیا گیا تھا؟

کیا دونوں تنظیموں کو اس کے ڈبل ایجنٹ ہونے کا پتہ تھا؟ یا یہ معلومات کسی ایک تک محدود تھی؟

وہ پہلی تنظیم میں دوسری کے لیے کام کر رہا تھا یا دوسری میں پہلی کے لئے ؟

درمیانی مرحلہ میں اسے اپنا تشخص بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

کیا یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا؟ یا اس سے ایسا کرنے کے لیے کہا گیا تھا؟

ان دونوں تنظیموں کے درمیان تعلق کیسا تھا؟

 اشتراکِ عمل کا رشتہ تھا یا وہ ایک دوسرے کے خلاف کام کر رہی تھیں ؟

امریکی انتظامیہ رچرڈ کی پشت پنا ہی اور تحفظ کیوں کرتا رہا؟

کیا رچرڈ صرف سی آئی اے اور لشکر کا ڈبل ایجنٹ تھا ؟

یا اسرائیل کی موسد نے بھی اس کی خدمات حاصل کی تھیں ؟

ہندوستانی میڈیا ور انتظامیہ کا کردار کس بات کی غمازی کرتا ہے ؟

رچرڈ ہیڈلی کی گتھی کا سلجھنا کیوں ضروری ہے ؟

داود سلیم گیلانی عرف رچرڈ ہیڈلی پاکستا ن میں پیدا ہوا۔ اس نے ابتدائی تعلیم فوجی پا سکول میں ضرور حاصل کی لیکن چونکہ فوجی پا سکول سرکاری سرپرستی میں چلائے جاتے ہیں اس لیے ان میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ اگر اس بنیاد پر کسی کا دہشت گرد ہونا ثابت ہو جاتا ہے تو پاکستانی فوج کے سارے اہل کار دہشت گرد قرار پاتے ہیں اور وہ دوسرے لوگ بھی جنہوں نے ان پا سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدسپہ گری کے بجائے کوئی اور پیشہ اختیار کیا ہوا ہے۔

 ۱۶ سال کی نو عمری میں امریکی ماں اسے اپنے ساتھ فلا ڈلفیا لے جانے میں کامیاب ہو گئی۔ چونکہ ماں شرا ب خانہ چلاتی تھی ایسے میں بیٹے کو نشیلی اشیاء کے استعمال سے کیونکر روک پاتی اس لیے داود نشہ باز ہو گیا اور آگے چل کراسمگلر بن گیا۔ اس معاملے میں وہ ۱۹۸۸کے اندر پہلی بار گرفتار ہوا۔ اس کے بعد اس نے اپنے دوست جیمس لیسلی لیوس کے ساتھ مل کر نشیلی اشیاء کی اسمگلنگ کا کاروبار   دو بارہ شروع کیا اور دونوں ۱۹۹۷ میں گرفتار ہوئے۔

 جیمس کو ۱۲۰ ما ہ کی سزا ہوئی جسے آگے چل کر ۱۰۰ ماہ میں بدل دیا گیا اور اسے امریکی نژاد عیسائی ہونے کے باوجود سرزمینِ امریکہ میں ۸ سال چار مہینہ جیل کی چکیّ پیسنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن داود پر مسلمان اور پاکستانی پیدائش کے باوجود امریکی عدلیہ اور انتظامیہ بے حد مہربان رہا۔ سب سے پہلے اس کی ضمانت کی مدتّ میں اضافہ ہوا پھر محض ۱۵ ماہ کی جیل اور ۵ سال کی نگرانی کی سزاتجویز کی گئی اور نو ما ہ بعد اسے ۱۹۹۹ میں پاکستان کے سفر کی اجازت دے دی گئی۔  ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱کے بعد جبکہ امریکہ میں ہر مسلمان کو دہشت گرد اور ہر پاکستانی کو القاعدہ کا آدمیسمجھا جانے لگا تھا تو ایسے میں امریکی عدالت نے دسمبر کے مہینے میں داود پر سے اپنی نگرانی ختم کر دی جبکہ ابھی نصف مدت ابھی تھی۔

یہ واقعات امریکی عدلیہ اور انتظامیہ کے طریقہ کار کو بے نقاب کرتے ہیں ؟ عام طور سے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ اس لیے نفاذِ قانون میں کسی قسم کا تفریق و امتیاز نہیں برتا جاتا۔ لیسلی اور داود کے ساتھ جس طرح کا بھید بھاؤ برتا گیا اس سے عدالتوں کی آزادی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے اور جس ملک میں قاضی شہر پابندِ سلاسل ہو وہاں عام لوگوں کی کیا بساط؟ داود پر جو احسانات کے ڈونگرے برسائے گئے اس کی بظاہر وجہ مخبری اور جاسوسی پر رضامندی  کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ اس سے امریکہ کی سرکاری دہشت گردی کے طریقہ کار کا پتہ چلتا جس کے تحت جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کر کے ان کو اپنا اہل کار بنا لیا جاتا ہے اور ان کی مدد سے اپنے ناپاک عزائم کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ویسے آجکل یہ امریکی وائرس سوائن فلو کی طرح ساری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ ہندوستان و پاکستان میں بھی اس امریکی طرزِ عمل کی پیروی زور و شور سے کی جا رہی ہے۔

مندجہ بالا واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ داود نے شروعات امریکہ کے لیے جاسوسی سے کی اور بعد میں وہ لشکر میں شامل ہوا۔ چونکہ داود پہلے ڈی ای اے [منشیات کے روک تھام کا امریکی محکمہ] کے ہتھے چڑھا اور بعد میں سی آئی اے کے چنگل میں پھنس کر اس کا ایجنٹ بن گیا تھا اس لیے لشکر میں داخل ہونے کا فیصلہ اس نے اپنے آپ کیا ہو؟ اور اس فیصلے کی اطلاع سی آئی اے کو نہ ہو؟ان دونوں باتوں کو تسلیم کرنا نا ممکن ہے۔  اگر ایسا کرنے کی جرأت وہ از خود کرتا تو کب کا گرفتار ہو چکا ہوتا اور گونٹے نامو میں چکیّ پیس رہا ہوتا۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ امریکہ نے تو داود کو اپنا ایجنٹ تسلیم کر لیا ہے لیکن لشکر کی جانب سے رچرڈ کے حوالے سے کوئی مثبت و منفی بیا ن منظرِ عام پر نہیں آیا ہے اس لیے لشکر کو اس بات کا علم تھا بھی کہ نہیں کہ رچرڈ سی آئی اے کا ڈبل ایجنٹ ایسی کو ئی شہادت ہنوزسامنے نہیں آئی ہے۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے لشکر نے ممبئی حملے کی ذمہ داری ہنوز قبول نہیں کی ہے اور کسی عدالت نے ان شوا ہد کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے جن کی بنیاد پر اخبارات نت نئی خبریں گھڑتے رہتے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکہ نے اپنے ایجنٹ کے ذریعہ یہ منصوبہ بنایا ہو اور اس پر عمل بجا آوری کے لیے لشکر کا صرف نام استعمال کیا گیا ہو۔  معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ یقین کے ساتھ کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا –

ممبئی حملے کی گتھی کو سلجھانے میں داود کا اچانک رچرڈ بن جانا یقیناً مدد گار ثابت ہوا۔ داود سلیم ۲۰۰۶ ء تک اپنے مسلم نام کے ساتھ کام کرتا رہا اس لیے کہ اس کا دائرہ عمل پاکستان تک محدود تھا اور پاکستا ن آنے جانے کے لیے وہ نام زیادہ مو زوں تھا لیکن۶ ۲۰۰میں داود اپنا تشخص بدل دیتا ہے اور وہ ڈیوڈ کولمن بن جاتا اس کے باوجود اس کا سی آئی اے سے تعلق قائم رہتا ہے۔ اس بات کو خود امریکی خفیہ ایجنسی نے تسلیم کیا ہے ایسے میں یہ سمجھنا کہ اپنی پہچان بدلنے کا فیصلہ اس نے خود کیا ہو ایک نہایت بچکانہ سوچ ہے۔

 بقول امریکی سرکاری ذرائع کے ۲۰۰۶ سے لے کر ۲۰۰۸ تک وہ لشکر کا ڈبل ایجنٹ ہندوستان آتا جاتا رہا لیکن امریکیوں نے اسے ہندوستا نی خفیہ ایجنسیوں سے چھپایا؟ جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک شانہ بشانہ شامل تھے۔ امریکی خفیہ ایجنسی اگر یہ نہیں جانتی تھی کہ ان کا ایجنٹ ہندوستان آ کر کیا کر رہا ہے تو یہ ان کی نا اہلی کی انتہا ہے اور اگر جانتی تھی تو یہ سرا سر دھوکہ دہی اور اعتماد شکنی ہے۔ دراصل یہ سارا معاملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ رچرڈ ہیڈلی کا ۲۶/۱۱ میں ملوث ہونا یقیناً امریکہ کے ایماء پر تھا۔

 امریکہ میں کوئی بھی شخص محض پاسپورٹ پر اپنا نام بدل کر اپنے ماضی سے نجات نہیں حاصل کر سکتا اور اگر وہ منشیات کا اسمگلرا ور حکومت کا ایجنٹ رہا ہو تب تو یہ ناممکن ہے گویا اس نے اپنے آقاؤں کے کہنے پر قلابازی کھائی تھی،  اس لیے کہ اب انہوں نے اپنے اس غلام کو کسی اور مقصد کے لیے ایک الگ انداز میں استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اب ان کا ہدف پشاور کے ساتھ ساتھ ممبئی بھی تھا۔

اپنے ایجنٹ کو لشکر میں شامل کروا کر اس کے ذریعہ سے اپنے مقاصد کی بر آوری کے لائحہ عمل اگر تسلیم کر لیا جائے تو لشکر کے ذریعہ پاکستان اور کشمیر میں ہونے والی سرگرمیوں میں امریکہ کے ملوث ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے نیز اگر لشکر جانتے بوجھتے امریکہ سے تعاون لینے اور دینے کو غلط نہیں سمجھتا تو پھر ان دونوں تنظیموں کو ایک دوسرے کا حریف نہیں بلکہ حلیف سمجھنے کے علاوہ کوئی چارہ ٔکار نہیں باقی نہیں رہتا۔

یہ بات کہی جاتی ہے کہ۲۶/۱۱ کو ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کے دورا ن رچرڈ کراچی میں واقع لشکر کے کنٹرول میں موجود تھا اور حملے کی کمان سنبھالے ہوئے تھا لیکن وہ کمرہ واقعی لشکر کا کنٹرول روم تھا یا سی آئی اے کا؟ اور اگر لشکر و سی آئی اے کا مشترکہ اڈہ تھا تو وہاں  رچرڈ سی آئی اے کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا یا لشکر کے جنگجو کی حیثیت سے ؟ یہ سوال سر ابھا رتا ہے۔

رچرڈ کو اکتوبر ۲۰۰۹ میں پاکستان آتے ہوئے امریکہ میں گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف ابتدا میں جو فردِ جرم داخل کی گئی اس میں صرف ڈنمارک کے حملے کا الزام ہے ممبئی حملے کا ذکر نہیں ہے۔ تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ وہ ممبئی حملے میں بھی ملوث تھا۔ یہ ایسا تضاد ہے جسے سن کر ہنسی آتی ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی کا ماننا ہے کہ ۲۰۰۸اکتوبر سے اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا رہی تھی اور شک کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ اس نے یاہو پر چاٹنگ کے دورا ن کچھ خطرناک باتیں لکھیں یہ اور بڑا مذاق ہے۔ جو لوگ جاسوسی دنیا کی ابجد سے بھی واقف ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہر جاسوس کی نگرانی کی جاتی ہے اور اس کی ہر ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے لیکن رچرڈ ڈنمارک کیوں جا رہا ہے ؟ لشکر کے ساتھ مل کر کیا منصوبہ بندی کر رہا ہے اس کی خبر سی آئی اے کو نہیں ہوئی یہ کس قدر احمقانہ بات ہے ؟

قصرِ ابیض میں من موہن سنگھ کو صدر اوبامہ کا پہلا مہمان بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس پر عام ہندوستانی خوشی سے پھولا نہ سمایا لیکن اس نمائشی دوستی کی حقیقت رچرڈ ہیڈلی کے معاملے نے کھول دی۔ ممبئی حملے کی تفتیش کے لیے ایف بی آئی کے لوگ ممبئی آتے جاتے رہے یہ جگ ظاہر ہے۔ وہ لوگ اپنے ساتھ ایک ماہی گیر خاتو ن کو گواہ کے طور پر امریکہ بھی لے گئے تھے ایسی خبر بھی آئی لیکن ہندوستان کی تفتیش کرنے والی ٹیم کو امریکی عدالت نے رچرڈ سے ملنے کی اجازت تک نہیں دی۔ اسے ہندوستان لانے کا مطالبہ کرنے کی ہمت حکومت ہندنہ دکھلا سکی۔

 اس کہانی کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نے ستمبر ۲۰۰۸میں حکومت ہند کو ممبئی پر حملے سے خبردار کیا تھا اور تمام اہداف بشمول تاج ہوٹل کی نشاندہی بھی کر دی تھی۔  اجمل  قصاب نے بھی ستمبر میں حملے کی منصوبہ بندی کو تسلیم کیا۔ یقیناً یہ اطلاع امریکہ کو رچرڈ نے دی ہو گی اس کے باوجود اکتوبر میں رچرڈ ہندوستان آتا ہے۔ اور تو اور حملے کے بعد وہ فروری میں پاکستان جاتا ہے اور مارچ میں پھر ہندوستان آتا ہے لیکن امریکی اس نقل و حرکت سے ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کو آگاہ نہیں کرتے۔ آخر اس رازداری کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟

 ممبئی دھماکے دونوں ملزمین اجمل اور صباح الدین نے ایف بی آئی ٹیم میں رچرڈ کے مو جود ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ ہندوستانی دورے کے دوران اس کی اجمل اور صباح الدین سے امریکی تفتیشی ٹیم کے ساتھ ملاقات کس بات کا پتہ دیتی ہے ؟ امریکہ کے مطابق اس کے دو افسرا ن آئے تھے لیکن تفتیش کرنے والے چار افراد تھے جن میں ایک کی شباہت بعینہ ہیڈلی کی مانند تھی اور دوسری خاتون تھی جس پر بد سلوکی کا الزام بھی ہے۔ امریکی خواتین کی بدسلوکی ابو غریب جیل میں منظرِ عام پر آچکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ رچرڈ کی ممبئی حملے کے ملزمین تک رسائی کیا امریکی حکومت کی سرپرستی کے بغیر ممکن ہے ؟

میڈیا میں رچرڈ کے طوائفوں سے تعلقات کے چرچے بھی ہیں۔ اسے ایک مہ نوش رنگین مزاج دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔ اس کی محبوبہ کو پچھلے دنوں ممبئی میں قتل کر دیا گیا؟ آخر یہ سب کون اور کیوں کر رہا ہے ؟ اور کیا ایسے کردار کے حامل کسی شخص کا اسلام سے کوئی دور کا واسطہ ہو سکتا ہے ؟ یو ٹیوب پر اسلام نے رچرڈ کو دہشت گرد بنا دیا اس نام سے کئی ویڈیو کلپ پائی جاتی ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام سے دوری اور مغرب پرستی نے داود کو دہشت گرد بنا دیا ہے۔

اس معاملے کا آخری سوال اسرائیل اور موسد سے متعلق ہے۔ اس لیے کہ اگر کوئی شخص ڈبل ایجنٹ ہو سکتا ہے تو ٹرپل ایجنٹ کیوں نہیں ہوسکتا؟ ممبئی حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی دو وجوہات ہیں اولاً ہندوستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان اسلحہ اور حفاظتی اشتراک عمل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اسرائیل کا اقتصادی مفاد اس بات سے وابستہ ہے ہندوستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہو تاکہ اس کا مال اور تکنیک فروخت ہو۔

 ۱۹۹۲میں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات استوار ہوئے یہ حسنِ اتفاق ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اسی سال دسمبر میں ہوئی۔ پہلے سال مشترک کاروبار ۲۰۰ ملین ڈالر کا ہوا جو بڑھ کر اب چار بلین ڈالر تک پہونچ گیا۔ یعنی ۱۷ سالوں میں ۲۰ گنا اضافہ۔ اس دوران دو اسرائیلی وزراء اعظم بشمول بدنامِ زمانہ ایریل شیرون ہندوستان کا دورہ کر چکے ہیں ۲۰۰۸میں ہندوستان نے ۱ بلین ڈالر کا اسلحہ اسرائیل سے خریدا اور ممبئی حملے کے بعد بحری نگرانی کے لیے ۶۰۰ ملین ڈالر کے سودے پر دستخط ہوئے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حملہ آور سمندر سے کیوں آئے تھے ؟

 ۲۰۰۹میں اسرائیل نے روس پر سبقت حاصل کرتے ہوئے ہندوستان کے لیے سب سے بڑا اسلحہ فروش ملک بننے کا اعزاز حاصل کر لیا گویا ہندوستان کے محنت کش عوام عرب ممالک سے محنت کر کے جو دولت وطنِ عزیز روانہ کرتے ہیں اور اس کے خرچ ہونے پر حکومت ہند کو ٹیکس ملتا ہے۔ عوام کے ذریعہ جمع ہونے والے ٹیکس کو ان کی فلاح و بہبود کے بجائے اسرائیل سے اسلحہ خریدنے پر خرچ کیا جاتا ہے۔

ہندوستان میں ایک طرف مہنگائی بڑھتی ہے اور دوسری طرف ہتھیاروں پر خرچ بڑھتا ہے عوام فاقہ کشی سے مرتے ہیں اور سیاستدانوں کے خزانے ان اسلحہ کے سودوں کی رشوت سے چھلکتے ہیں ہندوستان اور اسرائیل بد عنوانی کے معاملے میں پیش پیش ہیں جس طرح بوفورس کی دلالی کا الزام ہندوستانی وزیر ِ اعظم پر تھا ویسا ہی بدعنوانی کا الزام سابق اسرائیلی وزیر ِ اعظم یہود اولمرٹ پر بھی ہے گویا مفاد پرستی نے ان دونوں کو ایک دوسرے کا ہمنوا بنا دیا ہے اور دہشت گردی کے نام پر یہ اپنے اپنے ممالک کے خزانے لوٹ رہے ہیں اور عوام کا ناحق خون بہا رہے ہیں۔

موسد کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہیمنت کرکرے اور ان کے ساتھیوں کے قتل سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ ہندو جاگرن کے خلاف اقدا مات کرنے والے کرکرے سے لشکر کی دشمنی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن کرنل پروہت کے اسرائیل سے قریبی تعلقات تھے اور وہ اسرائیل میں جلا وطن ہندو راشٹر قائم کرنے کی کو شش کر رہا تھا ایسی خبریں اخبارات کی زینت بن چکی ہیں ویسے اگر سی آئی اے لشکر میں اپنا ایجنٹ بھیج کر اس سے کام لے سکتی ہے تو موسد ہندو جاگرن کے ذریعہ اپنے مقاصد کا حصول کیوں نہیں کر سکتی؟

ممبئی حملے سے قبل اس بات کا امکان پیدا ہو گیا تھا کہ ہیمنت کرکرے اس راز کو افشاء کر دیتے اس لیے ممکن ہے ممبئی حملے کا بہانہ بنا کر یا اس سے فائدہ اٹھا کر ایک اور کانٹا نکال دیا گیا ہو۔ ہیمنت کرکرے کی جیکٹ کا غائب ہونا اور اشوک کامٹے کی اہلیہ کا انکشاف کہ انہیں قلابہ بلا کر کاما ہسپتال روانہ کیا گیا اور گولی لگنے کے بعد زخمیوں کو سڑک پر بے یارو  مددگار۴۰ منٹ تک چھوڑ دیا جانا ایک بڑی سازش کی نشاندہی کرتا ہے۔ افسوس کہ حکومت اور ذرائع ابلاغ حقائق سے پردہ اٹھانے کے بجائے داودسلیم کے لشکر کا ایجنٹ ہونے کی گھسی پٹی کہانی سنا سنا کر حقیقت کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں لیکن رچرڈ کی گرفتاری نے کہانی میں نیا ٹوسٹ پیدا کر دیا اور ایسا لگتا ہے کہ اب اس ڈرامے کا پردہ جلد ہی گر جائے گا اور پسِ پردہ پوشیدہ سچ باہر آ جائے گا؟ بقول افتخار عارف۔

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں

نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشہ ختم ہو گا

٭٭٭

 

مسابقت،  مخالفت اور منافقت

اس سال جب سارا ملک یوم آزادی منانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ ملک کا حفاظتی محکمہ احمد ا ٓباد دھماکوں کے ایک ملزم کو جس پر ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کرنے پر پابندی تھی امریکہ کی آزاد فضاؤں میں روانہ کرنے کے انتظامات کرنے میں مصروف تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ ۲۰۰۷کے یوم آزادی کا بہترین اعزاز ملزم ہیووڈ کینتھ کے حصہ میں آیا یہ اور بات ہے کہ ایسا کرنے کے لیے اے ٹی ایس کو دس مسلم نوجوانوں کو بلا قصور گرفتار کر نا پڑا۔

۲۶ جولائی کی شام احمد آباد میں یکے بعد دیگرے کئی بم دھماکے ہوئے لیکن اس سے ۱۵تا۲۰ منٹ قبل ایک ای میل پیغام آئی بی این۔ سی این این کو ملا جس میں انڈین مجاہدین نام کی کسی تنظیم نے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ای میل اس بدنام امریکی چینل کو کیا گیا جس نے گزشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ڈبل کراس کیا تھا۔ پولس کے سائبر جرائم پر نظر رکھنے والے شعبہ نے چند گھنٹوں کے اندر اس آئی پی ایڈریس کا سراغ لگا لیا جہاں سے ای میل کیا گیا تھا۔ پولس کو شبہ تھا کہ یہ سائبر کیفے ہو گا جسے دہشت گردوں نے مبینہ طور پر استعمال کیا ہو گا لیکن انتظامیہ کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب فون کرنے پر سامنے سے ایک امریکی نژاد انگریز نے جواب دیا۔

ہندوستان میں دھماکوں کی طویل تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی غیر ملکی انگریز رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اس لئے پولس کا محکمہ سکتے میں آگیا۔ اگر کوئی مسلمان ہوتا تو تب تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا آئی ایس آئی سے لے کر القاعدہ تک اس کا تعلق جوڑ دیا جاتا۔ اگر آرایس ایس کا کارکن بھی ہوتا تو وقتی طور پر اسے گرفتار کر نے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی اسے میں رہا کر دیا جاتا۔ لیکن گوری چمڑی کا معاملہ مختلف تھا۔ افسوس صد ہزار افسوس کہ آزادی کے ۶۱ سال بعد بھی انگریزوں کی غلامی سے مکمل طور پر یہ ملک آزاد نہیں ہو سکا نیز حالیہ نیوکلیائی معاہدے نے ان زنجیروں کو مزید تنگ کر دیا ہے۔

کینتھ ہیووڈ نے شروع میں اے ٹی ایس پر دھونس جماتے ہوئے امریکی قونصل خانے کو ملوث کرنے کی دھمکی دی لیکن جب پولس نے بتلایا کہ مقدمہ درج ہو چکا ہے اور گرفتاری عمل میں آسکتی ہے تب جا کر اس کے ہوش ٹھکانے آئے۔  اس کے باوجود شروع ہی سے ذرائع ابلاغ میں آئی پی ایڈرس کے چرائے جانے کے امکانات پر یقین کے ساتھ بحث کا آغاز ہو گیا تھا اور ای میل بھیجنے والے کے بجائے آئی پی چرانے والے کی تلاش شروع ہو گئی تھی حالانکہ ابھی یہ طے ہونا باقی تھا کہ آئی پی چرایا بھی گیا ہے یا نہیں۔ اتفاق سے ہیوڈ کے پڑوس کا مکان کسی شیخ صاحب کو ان کی کمپنی نے دیا ہے وہ ابھی رہنے کے لیے بھی نہیں آئے ہیں فرنیچر کا کام چل رہا ہے۔ اس کے باوجود ان پر اور ا ن کے بھانجوں پر شک کیا جانے لگا،  ان قصورسوائے اس کے کچھ اور نہ تھا کہ وہ مسلمانتھے۔

گیارہ اگست کو اے ٹی ایس کے ہیمنت کرکرے صاحب نے اعتراف کیا کہ ماہرین کے مطابق آئی پی کے چرائے جانے کے امکانات مفقود ہیں۔ اس کے بعد ۱۳ اگست کو ہیووڈ کے دماغ کی عکاسی(Brain Mapping)کی گئی اور جھوٹ پتہ لگانے والا(Lie detector)ٹیسٹ بھی کیا گیا۔ اس بیچ ہیووڈ نے پولس پر رشوت مانگنے کا الزام لگا دیا۔ پولس چونکہ مندرجہ بالا تفتیش پر مطمئن نہیں تھی اسی لیے ہیووڈ کے نار کو ٹیسٹ کا فیصلہ کیا گیا نیز الزام کی تفتیش کی خاطر ہیووڈ کو ۱۸اگست کے دن پولستھانے میں حاضر ہونے کے لیے سمّن جاری کیے گئے۔ ملک سے نکلنے پر پابندی کا تحریری نوٹس اسے پہلے ہی دیا جا چکا تھا۔ پریس کانفرنس میں بھی اس امر کی تصدیق ہو چکی تھی۔ نکاسی کی تمام چوکیوں پر اس کی تفصیلات بھی روانہ کر دی گئی تھیں۔ اس سب کے باوجود ۱۶اور۱۷ کے درمیان کی رات میں یہ ملزم ملک کے صدر مقام دہلی سے اپنے سارے خاندان کے ساتھ فرار ہو گیا۔

کینتھ ہیووڈ کا فرار ایک غیر معمولی واقعہ تھا اس لیے کہ کینتھ ہیووڈ مہاراشٹر میں رہتا تھا۔ اس پر مقدمہ احمد آباد میں درج تھا اور وہ دہلی سے بھاگا تھا۔ اس لیے اس گھناؤنی سازش پر پردہ ڈالنے کا کام بھی مہاراشٹر،  گجرات اور اتر پردیش کی اے ٹی ایس نے مل جل کر مشترکہ طور پر کیا۔ سب سے پہلے اعظم گڑھ کے مینا پارہ گاؤں سے ابوالبشر اصلاحی کو ۱۴ اگست کے دن پولس نے گرفتار کر لیا۔ جس کی ایف آئی آر اسی دن درج ہو گئی،  لیکن پولس نے اسے چھپائے رکھا۔ ممکن ہے اس وقت ہیووڈ کے فرار کے سارے انتظامات مکمل نہیں ہوئے ہوں۔ جس دن ہیووڈ ممبئی سے دہلی روانہ ہوا اسی روز پولس نے ابو البشر کو لکھنو کے مولوی گنج سے گرفتار کرنے کا جھوٹا دعویٰ کر دیا۔ سارے ذرائع ابلاغ "اصل سرغنہ” کی گرفتار کا شور مچانے لگے اور اس شور شرابے میں آدھی رات کو اصل ملزم ملک سے فرار ہونے کا موقع عطا کر دیا گیا۔ یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ ملک میں تین سیاسی محاذ ہیں اور ان تین ریاستوں میں ان میں سے ہر ایک کی حکومت ہے یہ تمام لوگ ویسے تو بظاہر ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن ایک غیر ملکی ملزم کو فرار کروانے میں اور معصوم مسلم نوجوانوں کو پھنسانے میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ مرکزی حکومت بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے جس میں لالو اور ملائم دونوں شامل ہیں۔

اس معاملہ میں سب سے دلچسپ کردار نریندر مودی کا ہے جس نے اپنی پولس کی خوب پیٹھ تھپتھپائی۔ وہ پولس جو ایسے نوجوان کو گرفتار کر کے لے آئی  کہ اس جیسے بیشتر معصوم ملزمین کو اس سے قبل ثبوت کی عدم موجودگی کے باعث عدالت نے رہا کر دیا ہے۔ نریندر مودی نے اپنی پولس سے یہ نہیں پوچھا کہ جس ہیووڈ پر احمد آباد میں مقدمہ درج ہے اسے گرفتار کرنے کا حوصلہ یہ دلیر کیوں نہ کر سکے۔ اس کا پاسپورٹ تک یہ لوگ ضبط نہ کر سکے اس پر نگرانی کر کے اسے بھاگنے سے بھی نہیں روک سکے۔ اٹھتے بیٹھتے کانگریس پارٹی کو دہشت گردی کے تئیں نرمی برتنے کا الزام لگانے والے مودی نے کینتھ ہیووڈ کے معاملے میں دہلی کی کانگریس سرکار پر کوئی الزام تراشی نہیں کی۔

 سشماجی جنھوں نے کانگریس پر بنگلور میں دھماکے کروانے کا الزام لگایا تھا وہ بھی خاموش رہیں۔ سنگھ پریوار کے خلاف دہشت گردی کے ثبوت اپنے پاس رکھنے والے دگوجے سنگھ انہیں اپنے سینے میں دبائے سوتے رہے اور جس لکھنو میں انہوں نے ثبوت کا دعویٰ کیا تھا اسی لکھنو کی پولس نے ابو البشر کو گجرات پولس کے حوالے کر دیا۔ ممبئی اے ٹی ایس نے اس کوتاہی کو دہلی کے سر ڈال کر اپنے ہاتھ جھٹک لیے معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔

احمد آباد دھماکوں کے سارے تانے بانے غیر مسلمین کے آس پاس بُنتے ہیں۔ ای میل کو ایک عیسائی کے آئی پی ایڈریس سے بھیجا گیا۔ اس عیسائی کو جس نے اپنا مکان کرائے پر دیا وہ شخص دہلی کا رہنے والا ہندو ہے۔ جس ٹیکنیشین کو ہیووڈ نے اپناپاس ورڈ بتایا تھا وہ بھی اتفاق سے ہندو ہے۔ جن لوگوں کی کاریں چرائی گئیں یا انہوں نے چوری کی شکایت درج کروا کر کاریں فراہم کیں وہ لوگ ہندو ہیں۔ جن اخبارات میں بموں کو لپیٹا گیا وہ مراٹھی اخبارات ہیں۔ ہیووڈ کا وکیل ہیگڈے جو عدالت کے بجائے اخبارات میں اس کی وکالت کرتا پھرتا ہے وہ بھی ہندو ہے۔ ہیووڈ کا ہم درد و بہی خواہ موریشور بھی ہندو ہے جسے یقین ہے کہ وہ جلد لوٹ آئے گا۔ ان سب کے باوجود گرفتار ہونے والے سب کے سب مسلمان ہیں۔

اس معاملہ میں سب سے اہم سوال یہہے کہ آخر دہشت گرد کون ہے ؟ ایک طرف کینتھ ہیووڈ ہے جس نے پانچ لاکھ روپئے ادا کر کے پندرہویں منزلہ عمارت میں مکان کرائے پر لیا اوراپنا سارا ساز و سامان بشمول پیشگی رقم چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا،  اور دوسری جانب اعظم گڑھ کے ایک دیہات کا رہنے والا ابوالبشرہے جس کے مکان کی چھت سے اب بھی پانی رستا ہے۔ عقل کا تھوڑا سا استعمال بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مجرم کون ہو سکتا ہے ؟لیکن  افسوس کے ہمارا ذرائع ابلاغ جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرتا ہے اور اس کے ناظرین ہیں جو عقل سے کام ہی نہیں لیتے۔ سیاستدان اور انتظامیہ صحیح کاموں کے بجائے غلط کاموں کے کرنے میں عقل کا استعمالل خوب اچھی طرح کرتا ہے۔

کینتھ ہیووڈ کے مختلف بیانات پر نظر ڈالی جائے تو اس کی کذب بیانیاں ہو جاتی ہے۔ پہلے پہل یہ خبر آئی کہ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں چیف ایک زیکیٹو یعنی سربراہ ہے جو آئی ٹی یعنی مواصلات کے شعبہ میں کام کرتی ہے۔  بعد میں پتہ چلا یہ تینوں باتیں غلط ہیں کینتھ ایک بوگس کمپنی کا ملازم ہے جس کی تصدیق اے ٹی ایس کے ہیمنت کر کرے صاحب نے کی وہ کمپنی آئی ٹی کے شعبہ میں کام نہیں کرتی کینتھ ہیووڈ چیف ایک زیکیٹو آفیسر نہیں بلکہ ٹرینر ہے۔ کینتھ نے بتلا یا کہ وہ گھر سے کار و بار کرتا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس کا دفتر بھی ہے جو سان پاڑہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت میں ہے جہاں کاروبار نہیں ہوتا بلکہ ہفتہ میں دو مرتبہ عیسائیت کی عبادت ہوتی ہے اور کینتھ وہاں پر پادری کے فرائض انجام دیتا ہے ان کمروں پر عبادت کے وقتی طور پر معطل ہونے کا جو نوٹس لگا ہوا ہے اس پر ہیووڈ کے دستخط موجود ہیں سنا ہے کہ اس خفیہ چرچ کی ایک شاخ دھاراوی میں بھی ہے۔

کینتھ کے بارے میں یہ بھی بتلایا گیا کہ وہ کا ل سینٹر پر کام کرنے والوں کو انگریزی لب و لہجہ کی تربیت دیتا ہے لیکناس کا کوئی طالب علم کسی کے ہتھے نہ چڑھ سکا ہاں ضرور ہوا کہ اس خفیہ چرچ میں عبادت کرنے کے لیے آنے والوں نے دھماکوں کے بعد اپنے موبائل فون ضرور بند کر لئے۔ کینتھ کے بارے میں ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی ہوا کہ وہ ہندوستان آنے سے قبل امریکہ کی فوج یا پولس میں ملازم تھا۔ اس کی کمپنی کیمپ بیل کی سائٹ پر یہ لکھا ہوا ہے کہ وہ اپنے طلباء کو ای میل کا بہتر استعمال سکھلاتی ہے۔ لیکن ای میل کا بہتر استعمال تو ہنوز امریکی فوج کے اس سابق اہلکار کو نہیں آتا۔ اس نے ایک عام ٹیکنیشین کو اپناپاس ورڈ بتلا دیا اور اصرار کرنے پر بھی اسے تبدیل نہیں کیا۔ پولس نے اس کے نیٹ ورک سے فائر وال نکالنے کے لیے یہ دلیل پیش کی کہ اس کا مکان پندرہویں منزل پر ہے۔ ہیووڈ اس کی احمقانہ دلیل پر راضی و مطمئن ہو گیا اور فائر وال نکلوا دی تاکہ اس کو چرایا جا سکے۔ اس بے تحاشہ جھوٹ پر ہمارے میڈیا اور انتظامیہ کا من و عن یقین کر لینا گویا کہ یہ کوئی وحی ہے یا تو مرعوبیت کے سبب سے ہے یا پھر اسے تسلیم کئے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ ’’پیسہ بولتا ہے ‘‘۔

پولس نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا اس بابت بھی ہیووڈ نے متضاد بیانات دئیے کبھی تو کہا کہ اس کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آیا جا رہا ہے اس لئے وہ اپنا دو سال کا کنٹراکٹ پورا ہونے سے قبل واپس نہیں جائے گا۔ ہندوستان ٹائمز پر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میں واپس چلا گیا تو یہ دہشت گردوں کی فتح ہو گی۔ لیکن پھر اپنا پینترا بدل کراس نے پولس پر نشے سے دھت ہو کر رشوت مانگنے کا الزام بھی لگا دیا۔ کاروبار میں لاکھوں کے نقصان کا بہانہ تراشہ اور اب اس کا وکیل کہتا ہے کہ وہ پو لس کے رویہ سے بے زار ہو کر آرام کرنے کی خاطر واپس گیا ہے۔ اس کا دوست موریشور کہتا ہے کہ در اصل ہیووڈ نار کو ٹسٹ سے خوفزدہ تھا اس کے خیال میں سچ بولنے والی دو ااس کے لیے مضر ثابت ہو سکتی تھی۔ اب یہ تو ہیووڈ ہی بتلائے کہ سچ بلوانے والی دو اس کے لیے ضرر رساں تھی یا سچ بولنا اس کے لیے نقصان دہ تھا جس کے خوف سے وہ اپنے وطن بھاگ کھڑا ہوا جہاں اس سے کوئی بھی یہ دریافت نہیں کرے گا کہ سچ کیا ہے اس لئے وہ سب جانتے ہیں۔ کیا یہ بات قابل شرم نہیں ہے کہ صدر بش کو جعلی ای میل بھیجنے کے جرم میں ایک ہندوستانی طالبِ علم امریکہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے حالانکہ اس ای میل سے کوئی نقصان نہیں ہوا اس کے بر عکس ایک دھماکہ خیز ای میل بھیجنے والے مریکی کو ہندوستانی حکومت نے ملک سے فرار ہونے کی سہولیات فراہم کر دیں ؟

کینتھ ہیووڈ نے امریکہ سے ایک اخبار کو ای میل کے ذریعہ مطلع کیا کہ وہ جلد ہی لوٹے گا لیکن شاید اسے نہیں معلوم کہ اس کی کمپنی نے پولس چھاپے کے بعد اپنے اہلکاروں کی فہرست سے اس کا نام خارج کر دیا ہے۔ کیمپ بیل وائٹ کی سائٹ پر اب بھی جو نام مخفف کے طور پر پائے جاتے ہیں ان کاتعارف خاصہ دلچسپ ہے یہ افراد اس کمپنی کی حیدر آباد،  چینئی،  بنگلور،  اور ممبئی کے شاخوں میں کام کرتے ہیں اتفاق سے ان تمام مقامات پر دھماکے ہو چکے ہیں۔ چینئی اور واشی کے دھماکوں میں سنگھ پریوار کے ملوث ہونے کا ثبوت مل چکا ہے۔ بنگلور اور حید ر آباد کے دھماکوں میں مجرم گرفتار نہیں ہوئے اگر پولس سناتن پربھات کی لائن پر کام کرے تو وہ بھی پکڑے جا سکتے ہیں۔ خیر اس کمپنی کا صدر دفتر بنگلور کی جس عمارت میں ہے اس کے بالائی دو منزلوں پر پوٹرس چرچ واقع ہے۔ اس کے دفتر میں کام کرنے والا آسٹریلوی ڈیوڈ کروین کامنی ہی چرچ میں پادری ہے۔ دوسرا ملازم پا سکائٹ گر بوسکا جو پہلے ممبئی میں تھا اس سے پہلے کولاراڈو،  ورجینیا اور لوئزا نامی پوٹرس چرچ کا پادری تھا۔ جو ناتھن یا ہمبرگ بنگلور ہی کے کورا منگل چرچ میں پادری ہے۔ اس نے چرچ کی ویب سائٹ پر پچھلے دنوں بڑے مسرت کے ساتھ لکھا تھا۔ خدا کے فضل سے ہم نے ناگالینڈ میں کئی نو عیسائی افراد کو اپنے ساتھ کر لیا ہے وہ بنگلور میں آئی ٹی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور چرچ میں حاضر ہوتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ناگا لینڈ ایک شورش زدہ ریاست ہے۔

حید ر آباد میں ان کا نمائندہ رچرڈ بھی سابقہ فوجی اور فی الحال اسی چرچ کا پادری ہے۔ کیمپ بیل وائٹ کا چیف ڈان روبانس ۴ اگست کو بائبل کانفرنس میں حاضر ہونے کا بہانہ بنا کر فرار ہو چکا ہے۔ وہاں پر وہ جوزف کیمپ بل کے ساتھ تقریر کرنے والا ہے جو امریکہ میں اس کمپنی کا نہ صرف مینجنگ ڈائرکٹر ہے بلکہ پوٹرس چرچ یا ڈوارمنسٹری کے اعلیٰ ترین پادریوں میں سے ایک ہے۔ کیا یہ تمام چیزیں محض اتفاق ہیں کہ ایک چرچ سے متعلق مختلف پادری اپنا تشخص چھپا کر ایسے شہروں میں بسے ہوئے ہیں جہاں دھماکے ہو رہے ہیں ؟

کینتھ ہیووڈ نے ایک ملاقات میں کہا اپنے مذہب کی تبلیغ کوئی جرم نہیں ہے۔ اور جوائنٹ کمشنر ہیمنت کرکرے نے کہا کہ جعلی کمپنی میں کام کرنے کا مطلب دھماکوں میں ملوث ہونا نہیں ہے۔ یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن تین مختلف ناموں سے جانے والے اس چرچ کے بارے میں جاننے کا اشتیاق یقینا قارئین کے اندر ضرور پید اہوا ہو گا اس لیے مضمون کی طوالت کے باوجود چند باتیں ضبط تحریر میں لانا ضروری ہیں۔ جس چرچ سے یہ سارا گروہ متعلق ہے اس کا ایک نام نیو کریسچن فیلو شپ مشنری ہے اس کے علاوہ اسے وکٹری ڈور چرچ یا پوٹرس ہاؤس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ عیسائیوں کے معروف رومن کیتھولک،  آرتھو ڈوکس یا پروٹٹسنٹ چرچ سے علیٰحدہ یہ ایک انتہا پسند قبیل کا اوانجلک فرقہ ہے،  ویسے تو سارے ہی چرچ تبلیغ و اشاعت میں یقین رکھتے ہیں لیکن اوانجلک چرچ اس معاملے میں جنون کا شکار ہے۔ پوٹرس ہاؤس کا شمار اکثر لوگ انحراف شدہ فرقوں میں کرتے ہیں،  ویسے عیسائیوں کے معتبر ادارے کرسچن ریسرچ سو سائٹی کی تحقیق کے مطابق اگر اسے باقاعدہ ایک فرقہ نہ بھی کہا جائے تب بھی اس کے انحراف سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس چرچ میں فرقہ بندی کی علامات موجود ہیں اور اس پر عمل کرنے والے افراد بھی یقینا پائے جاتے ہیں۔ اس چرچ کے اندر سخت گیری اور انتہا پسندی کے باعث بہت سارے لوگوں نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور "پوٹرس کے بعد کی زندگی ” کے نام سے ان  لوگوں نے اپنی ایک ویب سائٹ بنائی ہے جس پر ان کی مذموم حرکتوں کی تفصیلات پائی جاتی ہیں۔

یہ حسن اتفاق ہے اس ویب سائٹ کو چلانے والے اسٹیو شرونر کے خلاف ایری زونہ میں ایک مقدمہ ۱۹۹۴میں داخل کیا گیا تھا۔ اور اس کا مدعی کوئی اور نہیں کینتھ ہیووڈ ہی تھا۔ عدالت میں جس کذب بیانی سے اس نے کام لیا۔ اسے ویب سائٹ کے صفحات پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایری زونہ صوبے سے اس چرچ کی ابتداء ہوئی اور ایری زونہ ہی کینتھ ہیووڈ کا وطن خاص ہے۔

پوٹرس ہاؤس کو ویمن مائیکل نامی ایک شخص نے قائم کیا اس کی پیدائش ۱۹۳۳میں ہوئی۔ پندرہ سال کی کم عمری میں اس نے فوج میں شمولیت اختیار کر کے کوریا کی جنگ میں شریک ہوا اور وہاں مرمتی شعبہ کا ذمہ دار بن گیا۔ چار سال کی فوجی زندگی میں اسے آفیسر ٹریننگ حاصل کرنے کا موقع ملا جس کے اثرات ساری زندگی اس کی شخصیت پر چھائے رہے۔ ۱۹۵۳میں اس کی ملاقات رقص کے دوران ایلڈا سے ہوئی جو شادی میں بدل گئی۔ ایلڈا ایک بچی کو جنم دے کر دس ماہ بعد انتقال کر گئیں۔ مائیکل بے روزگار ی کے کرب سے گزر رہا تھا۔ کہ ایک اور صدمے نے اسے اچک لیا۔ ایسے میں مایوس مائیکل اور اس کے بھائی جارج کواس کوائر چرچ نے اپنا لیا،  وہ بھی ایک ایوانجلک چرچ ہے جس میں شامل ہونے کے لیے عیسائیوں کو اپنے ایمان کی تجدید کرنی پڑتی ہے اور وہ نومولود عیسائی یعنی (Born again christian )کہلاتے ہیں ایوانجلک عقیدے کے مطابق پیدائشی عیسائی بھی اپنے عقیدہ کی تجدید کیے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

۱۹۵۴تا۱۹۶۰ کے درمیان ویمن مائیکل کو عیسائیت کی دینی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر لائف بائیبل کالج روانہ کر دیا گیا تاکہ روایتی تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے بعد وہ پادری کی ذمہ داری ادا کر سکے۔ لیکن درسگاہ کی نصابی تعلیم کا عجیب و غریب رد عمل ویمن مائیکل پر ہوا۔ اس نے محسوس کیا کہ مدرسہ کی تعلیم رہبانیت سے عاری ہے،  وہاں حرکت عمل یا جذبہ تبلیغ کا یکسر فقدان ہے،  واپس آنے کے بعد ویمن مائیکل اور دیگر علماء اور رہبان کے درمیان شدید اختلافات رونما ہو گئے جس کی تین بنیادیں تھیں عوامی دعوت و تبلیغ پر اس کا شدید اصرار تھا۔ کسی کو پادری بنانے کے لیے وہ روایتی تعلیم کے بجائے مرید یا شاگرد بنا کر پادری کے عہدے پر فائز کرنے کو وہ درست سمجھتا تھا۔ نیز ساری دنیا میں جگہ جگہ مبلغ بھیج کر چرچ قائم کرنے کو وہ لازم قرار دیتا تھا۔ ویمن مائیکل نہایت شعلہ بیان مقرر تھا اس لیے جب وہ پا سکوائر چرچ سے بغاوت کر کے الگ ہوا تو اس کے ساتھ د یگر تقریباً سو چرچ بھی پا سکوائر سے علیحدہ ہو گئے۔

۷۰کی دہائی میں قائم ہونے والے اس چرچ کی ۱۹۸۲تک ۲۵ شاخیں قائم ہو گئیں ۲۰۰۷کی اعداد و شمار کے مطابق ان کے ۱۴۰۰ چرچ دنیا کے سو ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ستر کی دہائی میں ہپیوں کے سیلاب نے امریکی معاشرہ کو ہلا کر رکھ دیا اس دوران ویمن مائیکل نے چرچ کے گنبد ومینار سے اتر کر سڑک پر دعوت و اصلاح کا کام شروع کیا،  وہ قہوہ خانوں اور عام مقامات پر پہنچ کر تبلیغ کرنے لگا۔ اس لیے اس کے چرچ کی خاصی پذیرائی ہوئی پوٹرس ہاؤس میں شامل افراد کی بڑی تعداد ۱۸ – ۳۵ سال کی عمر کے لوگوں کی ہے جو بیشتر عیسائی ہیں۔

ویمن مائیکل جوش و ولولہ کے علاوہ اپنی منفرد پہچان  کے ساتھ نظم و ضبط کی سخت پابندی کا قائل ہے۔ قلب و ذہن کو مسحور کر کے یہ اپنے کارکنان کو عملی دنیا میں سر گرم عمل رکھنے کا فن جانتا ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر لٹریچر سے جو اقتسابات موجود ہیں ان سے اس فرقہ کی شدت پسندی چھلک چھلک جاتی ہے۔ مثلاً یہ لوگ اپنے اجتماعات کو Crusadeیعنی صلیبی جنگوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو جنت کی نو آبادیات کا شہری کہتے ہیں۔ اپنے کارکنان کو خدا کا سپاہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ رومن سامراج اور فوج کا بار بار حوالہ دیا جاتا ہے۔ ساری دنیا کو جنت کی نو آبادیات بنانے کا عزم و حوصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ماضی کے مبلغین کی قربانیوں کا تزک احتشام کے ساتھ بیان  موجود ہے۔ حال میں جن لوگوں نے تبلیغ دین کی خاطر ایثار کیا ان کے ولولہ انگیز واقعات سے یہ مضامین اٹے پڑے ہیں۔

ایک مقام پر وہ کہتا ہے کسی مبلغ نے اپنی ملازمت کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ہندوستان کے ۷۵ کروڑ بت پرست مجھے بلاتے ہیں۔ وہ بجا طور پر مسلمانوں کو اپنے مخاطبین میں شامل نہیں کرتا یہ اس کی حقیقت پسندی ہے۔ ٹیلی ویژن،  ریڈیو اور بلاواسطہ طور پر کی جانے والی مذہبی تبلیغ کا ویمن مائیکل قائل نہیں ہے۔ خدمت خلق کے کام مثلاً طبی امداد،  پا سکول وغیرہ کو وہ ثانوی اہمیت کی حامل شہ کہتا ہے اس کے نزدیک بنیادی کام دعوت و تبلیغ ہے اور مائیکل اس کو سڑک پر اتر کر عوامی سطح پر کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ اس کے مطابق اس کام کے لیے پیدل فوج ضروری ہے۔ اس چرچ کے نزدیک عوام کے لیے مبلغ کا نمونے کے طور پر موجود ہونا لازمی ہے اور ساری دنیا میں چرچ کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ اسی لیے پوٹرس ہاؤس کے خرچ کا بڑا حصّہ غیر ممالک میں صرف ہوتا ہے۔

بائبل کی تعلیمات جن میں سارے عالم کی اقوام کو دعوت دینے پر زور دیا گیا ہے اس فرقہ کے عقیدے کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ عسکریت پسند گروہ اپنے دعویٰ کی دلیل میں عراق کے اندر امریکی فوج کشی کی مثال دینے سے بھی گریز نہیں کرتا وہ کہتا ہے کہ ہم دور دراز مقامات پر رہ کر کام نہیں کرسکتے  اس لئے ہمیں متنازعہ مقام پر پہونچ کر اس کا مقابلہ کرنا ہو گا جیسا کہ امریکی فوجیوں نے عراق میں داخل ہو کر کیا۔ گویا وہ اس ظلم عظیم کو نہ صرف جائز و حق بجانب بلکہ مفید و مناسب بھی سمجھتا ہے۔

کینتھ ہیووڈ کے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے امکانات تو مندرجہ بالا تعارف کی روشنی میں واضح ہو جاتے ہیں لیکن وجوہات پر بھی گفتگو ہونی چاہئے۔ اس کے پسِ پشت ممکنہ اسباب مخالفت اور مسابقت ہیں۔ ویمن اپنی تقاریر میں مخالفت کی امکانات کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کے مطابق یہ دنیا کبھی بھی ہمارے موافق نہیں ہوسکتی اور جس دن ایسا ہو جائے سمجھ لو اس دن ہم نے جنت کی نو آبادیات سے غداری اور بغاوت کر دی اوراپنے آپ کو اس سے خارج کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں عیسائی مشنری کی مخالفت کون کرتا ہے ؟  اڑیسہ سے لے کر گجرات تک کے قبائلی علاقوں میں ہندو و احیاء پرست آئے دن بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے غنڈوں کی مدد سے عیسائی پادریوں اور چرچوں کو اپنے غم و غصّہ کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔  ان کی توجہات کو اپنی جانب سے ہٹا کر دوسری جانب مبذول کرانے میں بم دھماکے نہایت مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دھماکوں کے ہوتے ہی یہ ہندو انتہا پسند عیسائی مشنریز کو بھول کر اسلام اور مسلمانوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جس سے پوٹرس ہاؤس جیسی تحریکیں بلاواسطہ محفوظ ہو جاتی ہیں۔

ان بم دھماکوں میں مسابقت کا زاویہ بھی موجود ہے۔ ہندوستان کے پر امن حالات میں غیر مسلمین کے اسلام کی جانب راغب ہونے کے روشن امکانات ہیں۔ جس کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلے دین فطرت کا آسان اور سہل ہونا پھر اس کی دلپذیری جو بیک وقت ذہن و قلب دونوں کو مسخر کر لیتی ہے۔ مسلمانوں کی کثیر آبادی جن کے ساتھ رہنے اُٹھنے بیٹھنے کا موقع غیر مسلمین کو ملتا رہتا ہے۔ غیر مسلمین کے اندر اسلام کے تئیں تجسس جس کا مظاہرہ مختلف کتب نمائش میں ہوتا رہا ہے۔ جہاں قرآن مجید کے تراجم ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتے ہیں اور غیر مسلمین کی زندگی میں پایا جانے والا زبردست روحانی خلاء بھی انہیں حق کو تلاش کرنے کی طرف آمادہ کرتا ہے۔ ایسے میں عیسائی مشنری کا سب سے بڑا حریف مسلمان اور اسلام قرار پاتے ہیں۔

اس طرح کے دھماکوں میں جب مسلمانوں کے ملوث ہونے کا پروپگنڈا زور پکڑتا ہے تو غیر مسلمین کے دل و دماغ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر سرائیت کر جاتا ہے ان کے دلوں کے دروازے اسلام کے لئے بند ہو جاتے ہیں جو عیسائی مبلغین کے لیے فائدہ کا سودہ ہے۔ نیز مسلمانوں کو اپنی مدافعت میں پھنسا کر خوف و دہشت کا شکار کر کے دعوت تبلیغ سے روکنا بھی نہایت آسان ہے اس لیے بم دھماکوں کی حکمت عملی میں عیسائی مشنریز کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ لیکن اس میں جو مشکل ہے وہ انتظامیہ ہے۔ جس کی ذمہ داری مجرمین کو گرفتار کر کے کیفرِ کردار تک پہونچانا ہے۔

اس تیسری مشکل کا حل کوئی مشکل کام نہیں ہے ہمارے ملک میں بے شمار دیوی دیوتاؤں کی پوجا ارچنا کی جاتی ہے۔ مادہ پرست سرمایہ داری کے چلتے سب سے زیادہ اہمیت لکشمی دیوی کو حاصل ہو جاتی ہے۔ جب پیسہ بولتا ہے تو اس کی ہر کوئی سنتا ہے چاہے حفاظتی محکمہ کے لوگ ہوں،  مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما ہوں یا مختلف چینلس کے صحافی اور سب کے سب منافقت کی زبان بولتے ہیں۔ گویا کہ مخالفت،  مسابقت اور منافقت ان تینوں کا اپوترسنگم،  دھماکے کرواتا ہے معصوموں کو پھنساتا ہے اور مجرموں کو بچاتا ہے۔ عام لوگ دھماکوں میں مارے بھی جاتے ہیں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونسے بھی جاتے ہیں جن کا اس سارے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔  خاص لوگ ان کی آڑ میں اپنے مقاصد کو حاصل کرتے ہیں کینتھ ہیووڈ کی طرح ان کا بال بیکا نہیں ہوتا ہاں ابوالبشرکی گرفتاری عمل میں آ جاتی ہے۔

٭٭٭

 

جس طرف دیکھا نہ تھا اب اس طرف دیکھا تو ہے

بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے دہشت گردی کا مسئلہ ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہو رہا تھا اورکانگریس اس دہشت گردی کی آگ کو بھڑکانے کے بعد معصوم مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے سنگھ پریوار کی پردہ پوشی کر رہی تھی۔ بی جے پی کے خیمہ میں مسلمانوں پر ہونے والے نت نئے مظالم کا جشن بپا تھا کہ اچانک کانگریس پارٹی نے پلٹا کھایا اور اپنے سیاسی مفاد کے پیش نظر ایسی ہندو تنظیموں پر ہاتھ ڈال دیا جن کا تعلق ہندوتوا سے تھا۔ اس نے ایسے لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا جن کا آرایس ایس سے تعلق اظہر من الشمس تھا۔ دیکھتے دیکھتے دیوالی کے سارے چراغ بجھ گئے،  جشن چراغاں کی جگہ صفِ ماتم بچھ گئی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہشت گردی کے معاملہ میں مدافعانہ پوزیشن لینے پرمجبور  ہونا پڑا۔ یشونت سنہاکوکہنا پڑا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جوان دھماکوں میں ملوث ہیں وہ کب کے ہمارا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ان کی حرکات کے لیے ہمیں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ باتیں بی جے پی والوں کو اس وقت سمجھ میں آئیں جب خود ان کے ہم مذہب اورسابقہ ارکان بم دھماکوں کے الزام میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔

حالیہ واقعات کی ابتدا ء سورت کے قریب رہنے والی سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکور کی گرفتاری سے ہوئی جس کا نہ صرف اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے تعلق تھا بلکہ بی جے پی کے مدھیہ پردیش میں رہنے والے رہنماؤں نیز مرکزی لیڈر  شپسے بھی گہرے مراسم ہیں۔ مہاراشٹر کی اے ٹی ایس اسے گرفتار کرنے کے بعد مدھیہ پردیش کے اندور شہر پہونچ گئی اور وہاں سے اس کے دوساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا جن کا تعلق بھی سنگھ پریوار سے ہے۔ اب یہ لوگ پونا پہونچے وہاں انہوں نے دوسابق فوجیوں پر ہاتھ ڈالا جن پر بم بنانے کی تربیت دینے کا الزام ہے۔ یہ تمام گرفتار شدگان بھی آر ایس ایس سے تعلق رکھتے تھے۔

اس بیچ کانپور کے دھماکوں میں ج وبم سازی کے دوران ہوئے تھے اور جن میں مرنے والے بجرنگ دل کے ارکان تھے ان کی تفتیش بھی شروع ہو گئی اور پتہ چلا کہ ان لوگوں نے ممبئی میں فون کر کے اپنے ساتھیوں سے رابطہ قائم کیا تھا۔ آندھرا پردیش کے عادل آباد میں ایک پورے مسلم خاندان کو زندہ نذر آتش کرنے کے الزام میں دو ہندو گرفتار ہوئے نیزاڑیسہ میں راہبہ کی عصمت دری کرنے والے درندوں کو شناخت کرنے میں پیش رفت کی گئی۔ ان تمام مجرمین کا تعلق بھی ظاہر ہے  ہندو فرقہ سے تھا۔ یہ واقعات یکے بعد دیگرے اس طرح رونما ہوتے رہے کہ ذرائع ابلاغ ان سے چشم پوشی نہ کرسکا اور پہلی مرتبہ مسلمانوں کے بجائے سنگھ پریوار کٹہرے میں کھڑا نظر آیا ہے وہ احساس جر م ہندو فرقہ کی جانب منتقل ہو گیا جس میں پوری ملت کو جکڑ دیا گیا تھا۔

ان اقدامات کے باعث امت کے اندر امید کی جو کرن نمودار ہوئی اس کے سبب مایوسی کے بادل چھٹنے لگے۔ میڈیا ہمارے معاشرے پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے اس کا ایک نمونہ بھی ہمارے سامنے آگیا۔ اس بیچ این ڈی ٹی وی پرسابق وزیر اعلیٰ مہاراشٹر اور سابق اسپیکر لوک سبھا منوہر جوشی کا نہایت دلچسپ بیان نشر ہوا انہوں نے فرمایا۔ یہ واقعات مرکزی حکومت کی جانب سے دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کا نتیجہ ہیں۔ عوام کو مجبور ہو کر دہشت گردی کے خلاف ہتھیار اٹھانا پڑا ہے۔ منوہر جوشی نے اپنے اسی بیان میں ایک طرف ملزمین کے دھماکوں میں ملوث ہونے کا بلاواسطہ اعتراف کر لیا نیز ان کے بیان سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ اگر حکومت اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ناکام ہو جائے تو عوام کا ہتھیار اٹھانا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر ان کی اس دلیل کو صحیح مان لیا جائے تو جوشی جی  کی توجہ ان کی اپنی حکومت کے رویہ کی جانب مبذول کروانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

کسی زمانے میں جب وہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے اس وقت حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ شری کرشنا کمیشن نے ممبئی فسادات کے مجرمین کی تحقیقی رپورٹ شائع کی لیکن بدقسمتی سے اس رپورٹ میں جن مجرمین کی نشاندہی کی گئی تھی ان کا تعلق شیوسینا سے تھا۔ منوہر جوشی نے اس رپورٹ کو کوڑے دان میں ڈال دیا۔ حکومت کے اس ناروا رویہ کے خلاف اگر مسلمانوں کی جانب سے کوئی رد عمل ظاہر ہوتا تو کیا جوشی اسے بھی جائز اور حق بجانب قرار دیتے ؟ دوسرا واقعہ اس وقت رونما ہوا جب وہ لوک سبھا کے صدرنشین تھے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہو رہا تھا اوراس میں گجرات کے دل دہلا دینے والے واقعات پر بحث ہو رہی تھی۔ ان واقعات میں حکومت پر نہ صرف چشم پوشی کا الزام تھا بلکہ سرپرستی کے ثبوت پیش کیے جا رہے تھے۔ مرکزی حکومت جس میں وہ اور ان کی پارٹی شامل تھی نریندر مودی نامی درندہ صفت حیوان کی حمایت میں کھڑی ہوئی تھی جو اس ظلم عظیم کا مجرم تھا۔ کیا حکومت کے اس مجرمانہ رویہ کے خلاف بھی کسی رد عمل کی گنجائش وہ تسلیم کرتے ہیں یا کہ ان کے خیال میں رد عمل کا حق صرف ہندوؤں اور ہندو تنظیموں کو حاصل ہے۔ ہندوؤں کا دھماکہ کرنا جائز ہے اور ان کے جرم پر پردہ ڈالنے کی خاطر معصوم لوگوں کی گرفتاری کارِ خیر ہے۔

 منوہر جوشی اور ان کے ہمنواؤں کو چاہئے کہ وہ اپنے بیان کی روشنی میں خود اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ لوگ اب تک کیا کرتے آئے ہیں اور مزید کیا کچھ کر رہے ہیں۔  ویسے ان لوگوں نے یہ سب نہیں بھی کیا تب بھی عوام تو بہرحال ان کو ٹیلی ویژن کے پردے پر دیکھ رہے ہیں۔ ان لوگوں کا گریباں چاک ہو چکا ہے اور ان کے چہرے سے زعفرانی نقاب اتر چکی ہے۔ یہ واقعات خوش آئند ضرور ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کو رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کانگریس انتخابات کے بعد یقیناً ان تمام باتوں کویکسر بھول جائے گی۔ ممکن ہے حسبِ سابق مقدمات کو کمزور کر  دیا جائے اورسارے مجرم رہا ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو ان بدمعاشوں کے حوصلے اور بھی بڑھ جائیں گے۔ گرفتاری کا خوف ان کے دل سے نکل جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملت اس سلسلہ میں خاموش تماشائی بنے رہنے  یاسیاسی جوڑ توڑ میں لگے رہنے کے بجائے عدالتی سطح پر ایسے ٹھوس اقدامات کرے جن سے مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچ سکیں۔

٭٭٭

 

اگنی پریکشا: شکشا یا  دکشا

اسلام پر مغرب زدہ اور زرپرست ذرائع ابلاغ کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس نے مسلمانوں کو دہشت گرد کا ہم معنیٰ قرار دے دیا۔ ان کا حال ممبئی کے جیب کتروں جیسا ہے جو ٹولہ کر بنا اپنے ہاتھ کی صفائی سے عوام کی جیب صاف کرتے ہیں اور جب رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں تو مل جل کر اپنے شکار کو پاکٹ مار ٹھہرا کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ عوام بیچاری اس بات کا پتہ لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی کہ ان میں سے بسمل کون ہے اور شکاری کون ہے ؟ وہ آگے بڑھ کر اس کار خیر میں ہاتھ بٹاتی ہے اور مظلوم پر اپنا ہاتھ صاف کر کے آگے بڑھ جاتی ہے۔ آجکل مسلمانوں کے نام پرسرکاری اور غیر سرکاری دہشت گردی کا کاروبار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ عوام تو کجا خواص کے لیے بھی فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اس لیے کہ پردے کے سامنے پنجہ آزمائی کرنے والوں نے بھی پردے کے پیچھے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رکھا ہے۔

اس مشکوک صورتحال میں چند آسان نسخے تفریق و تمیز میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں مثلاً یہ پتہ لگانے کی کوشش کرنا کہ آخرکار اس گورکھ دھندے کا فائدہ کس کی جیب میں جا رہا ہے ؟یعنی وہ کون ہے جو اس دھینگا مشتی سے مستفید ہو رہا ہے ؟ اس کے علاوہ ان وارداتوں پر کہیں نہ کہیں  مجرم اپنے دستخط ضرور چھوڑتے ہیں انہیں تلاش کر کے بھی دہشت گرد کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاًسورت میں جب بم پیڑوں پر لٹکائے گئے تو ہمارے ایک دوست نے برجستہ کہا یہ حماقت یقیناً مودی کی ہے ہم نے وجہ پوچھی تو اس نے ایک لطیفہ سنا دیا کوئی شخص ایک عورت کے پاس اس کے بچہ کی شکایت لے کر پہنچا اور بولا دیکھو اپنے بچہ کو سمجھاؤاس کے پتھر سے میری آنکھ پھوٹنے سے بال بال بچ گئی۔ یہ سن کر عورت مسکرائی اور بولی آپ پڑوس میں شکایت کریں وہ میرا بیٹا نہیں ہو سکتا۔ اس شخص نے پوچھا کیوں ؟سارا محلہ کہتا ہے کہ تمہارا بیٹا سب سے زیادہ شریر ہے وہ بولی سچ کہتا ہے لیکن اس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا چونکہ آپ کی آنکھ بچ گئی یہ کسی اور کی شرارت ہے۔

اس لطیفے کوسورت کے واقعہ سے جوڑتے ہوئے ہمارا دوست بولا مسلمان دہشت گرد تو ہوسکتا ہے لیکن اس قدر احمق نہیں ہوسکتا کہ ایسا بم پولس تھانے کے سامنے پیڑ کے اوپر باندھ آئے جو پھوٹے بھی نہیں، یہ تو ہندو روایت ہے کہ جنم اشٹمی کے دن ایک اونچے مقام پر دہی کی ہنڈی باندھی جائے اور گاتے بجاتے ایکدوسرے کہ سروں پر چڑھ کر اس تک پہنچا جائے۔ دہی کی ہنڈی سے سر ٹکرا کراسے پھوڑا جائے اور اس کے آس پاس لگے لکشمی دیوی کے پرساد سے اپنی جیب کو بھرا جائے بات نہایت معقول تھی۔ جس کا ایک اور ثبوت گوا کے دھماکوں نے پیش کر دیا تین مقامات پر بم رکھے گئے دو جگہ پھٹے ہی نہیں پولیس کو انہیں بجھانے کے لیے زحمت اٹھانی پڑی ایک مقام پر وہ وقت سے پہلے ہی پھٹ پڑا اور لگانے والوں کو ہی اپنی آگ میں بھسم کر گیا۔

اس بارسناتن پربھات سنستھا نے گوا میں ایک نئے انداز سے دیوالی منانے کا فیصلہ کیا تھا نقلی پٹاخوں اور جعلی بموں سے وہ بیزار ہو چکے تھے کچھ نیا کرنا چاہتے تھے وہ اسبات سے بھی ناراض تھے کہ گوا کے یہ احمق ہندو راون کا پتلہ جلانے کے بجائے اس کے ہم پلہ نرکاسر کی نمائش کا اہتمام کیوں کرتے ہیں ؟حالانکہ ان کا عقیدہ تو یہ ہے کہ کسی زمانے میں انہوں نے اس کو مار ڈالا تھا لیکن شرک کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ دیوی دیوتاؤں کے ساتھ ساتھ دانوؤں اور بھوتوں کی پوجا پاٹ کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔ اپنے سمودایہ{امت} کو اس مہا پاپ سے روکنے کا واحد راستہ سناتن پربھات سنستھا کو یہ سوجھا کہ وہاں جا کر بم دھماکہ کر دیا جائے جہاں نرکاسر کا جشن منایا جاتا ہے اس طریقہ کار میں دوہرا فائدہ ہے ہندوؤں کی اصلاح بھی ہو جاتی اور مسلمانوں بدنام بھی ہو جاتے ہیں۔ ہینگ اور پھٹکری کے بغیر ہی چوکھا رنگ آ جاتا ہے۔

سناتن پربھات والوں کا مقصد اگر صرف ہندوؤں کی اصلاح ہوتا تو وہ ان کو کے درگا مندر کے قریب نیز بیس کلومیٹر دور سنکولے کے مقام پر بم رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ سناتن پربھات کو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں پر بھی وقتاً فوقتاً غصہ آتا رہتا ہے۔ اس سے پہلے یہ لوگ اسبات سے ناراض ہو گئے تھے کہ ایک ہندو نے مراٹھی زبان میں ’می پاچپوتے بولتوئے ‘ نام کا ڈرامہ بنا کر ہندو دیوتاؤں کا مذاق کیوں اڑایا؟اور پھر تھانے و واشی میں اس ناٹک کو کرنے کی اجازت کیو ں دی گئی؟ اور اگر یہ سب ہو بھی گیا تو ان کی مخالفت کرنے کے باوجود لوگ اسے دیکھنے کے لیے کیوں آئے ؟ ایسے میں سب سے کمزور شکار عام شائقین ہیں اس لیے ان کو دہشت زدہ کرنے کے لیے پارکنگ میں دھماکہ کر دیا گیا لیکن یہ کھیل سناتن کو مہنگا پڑا ان کے اس دھرم یدھ نے ایک جانب ناٹک کی مقبولیت میں اضافہ کیا اور دوسری جانب پارکنگ میں لگے کیمروں نے ان کی فلم اتار لی۔

 دیوی دیوتاؤں کے علاوہ اپنے اتہاس اور سنسکرتی {تاریخ و تہذیب}سے بھی انہیں اپار پریم ہے یہ بیچارے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ راجہ مان سنگھ نے اپنا اقتدار بچانے اور اکبر کے نورتنوں میں شامل ہونے کی خاطر اس سے صلح کر لی تھی اور اپنی بہن جودھا بائی کو اکبر اعظم کے نکاح میں دینے پر راضی ہو گیا تھا جب اکبر مان نہ مان میں تیرا مہمان کی مثل مان سنگھ پر حاوی ہو گیا تو وہ اپنا مان سمان نیلام کر کے اکبرکی شرائط پر راضی ہو گیا۔ سناتن والے اس کو اپنا اپمان سمجھتے ہیں اور انہیں اس پر غصہ آتا ہے کہ مہاراشٹر کا رہنے والا ان کا ہم مذہب گواریکر اس موضوع پر فلم کیوں بناتا ہے ؟ وہ فلم ہندو اکثریتی ملک ہندوستان میں کیوں دکھلائی جاتی ہے ؟ اور پھر ہندو عوام اس کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اسے دیکھنے کے لیے کیوں جاتے ہیں ؟ اب ا ن سارے مسائل کا آسان ترین حل یہ ہے کہ تھیٹر میں جا کر دھماکہ کر دیا جائے عوام کے دہشت زدہ ہونے سے فلم فلاپ ہو جائیگی اور دوبارہ کو ئی فلمساز اس طرح کی غلطی نہیں دہرائے گا حالانکہ ہندی فلم ساز اپنی غلطیاں دہرانے کے اس قدر عادی ہیں کہ ان پر اس طرح کے دھماکے کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور فلموں کے شائقین کا یہ حال ہے کہ ’جان جائے پر فلم نہ جائے ‘ اس لیے جودھا اکبر تو ہٹ ہو گئی لیکن سناتن والے بیچارے پٹ گئے ابھی تک ان کے چار ارکان کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے نہ جانے کب تک یہ مقدمہ کچھوے کی رفتار سے چلتا رہیگا اور کب یہ لوگ با عزت بری ہو جائیں گے اس لیے کہ ہمارے دیش کی مہان پرمپرہ یہی ہے یہاں ہندو دہشت گردوں کو شکشا [سزا]کے بجائے دکشا [نذرانہ]سے نوازا جاتا ہے۔

بھارت ماتا کی پراچین سنسکرتی بھید بھاؤ بھید بھاؤ پر مبنی ہے ہمارے دیس میں براہمنوں اور شودروں کے درمیان جس طرح کی تفریق و امتیاز ہوتا رہا ہے اس کی نظیرانسانی تاریخ میں نہیں ملتی کسی مذہب میں اپنے ہی ماننے والوں کو عبادتگاہ میں داخل ہونے پر سولی نہیں دی جاتی۔ کہیں بھی مختلف طبقات کے لیے کنویں اور قبرستان جدا جدا نہیں ہوتے۔ کسی انسان کے گلے میں اس خیال سے لوٹا باندھ دینا کہ وہ زمین پر تھوک کر اسے اپوتر نہ کرسکے اور اس کی پشت پر اس غرض کے لیے جھاڑو باندھ دینا کہ اس کے ناپاک قدموں سے جو مٹی ناپاک ہوئی ہے وہ اسے صاف کرتا ہوا جائے ایسا کہیں بھی نہیں ہوا لیکن ہمارے یہاں یہ عام بات رہی ہے۔

 قانون کا اطلاق ہندوستان میں کبھی بھی تمام لوگوں کے لیے یکساں نہیں رہا۔ شودروں کی ایذا رسانی کو ہمیشہ ہی پونیہ کا کام اور براہمنوں کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنا بھی مہا پاپ سمجھا گیا اس پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے اثرات سے جس پر آج بھی لوگ فخر کرتے ہیں چند سالوں میں چھٹکارہ پانا ناممکن ہے۔ ہندوستان کی دیگر اقوام اس زیادتی پر بڑی حد تک راضی ہو گئی ہیں اس لیے ان کو اس سے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی لیکن چونکہ مسلمان اس کا خوگر نہیں ہوا ہے اس لیے اس کو ہراساں اور پریشان کر کے ظلم وستم سہنے کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ اسلام کامزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ ناممکن امر ہے۔

جبرواستبداد کی ا س مہان پر مپرہ کو نبھانے میں سب سے بڑی مشکل خود ھاسک    اس کے رکشکوں {محافظوں } کو پیش آتی ہے۔  فطرتاً چونکہ یہ لوگ بزدل واقع ہوئے ہیں اس لئے دہشت گردی کی کوشش کرتے ہیں تو ان بیچارے خود مارے دہشت کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے ہر سال دو چار زعفرانی نوجوان بم بناتے ہوے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پہلے ممبئی کے وکرولی میں ایسا حادثہ ہوا پھر ناندیڑ میں ہو گیا اس کے بعد کانپور میں بجرنگی بم بناتے ہوے جل مرے اور اب یہی کچھ گوا میں  دوہرایا گیا۔ سناتن پربھات سنستھا کے نلگونڈہ پاٹل اور یوگیش نائک اسکوٹر پر بم لے کر ج رہے تھے کہ وہ پھٹ پڑا دونوں زخمی ہو گئے اور مرنے سے قبل وہ اپنے ساتھیوں کا نام بتلا کر کیلاش واسی ہوئے۔

وزیرداخلہ روی نائک نے صاف طور پران دھماکوں کا الزام سناتن پربھات پر لگایا اور اسپر پابندی کے امکانات کا بھی اظہار کیا انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ استعمال ہونے والی اسکوٹر کو وزیر مواصلات رام کرشن ڈھولے کر کے بھتیجے نشاد بکھلے سے ابھی حال میں یوگیش نے خریدا تھا۔ یوگیش کا بھائی رمیش بھی سناتن سنستھا کا سرگرم کارکن ہے۔ رام کرشن کی بیوی جیوتی سنستھا کی اہم رہنما ہے بلکہ  سناتن پربھات نامی دہشت گرد جماعت کو اس سے بڑا سیاسی آشیرواد اور کون سا ہوسکتا ہے کہ امسال  جو دیوالی کی نیک خواہشات کا کارڈ بھیجا گیا اس پر دونوں رام کرشن اور اس کی بیوی  کے دستخط ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وزیر مواصلات کا بال بیکا نہیں ہوا۔

اس واقعہ کا موازنہ عبدالرحمن ا نتولے کے ذریعہ ہیمنت کرکرے کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کے مطالبے سے کیا جانا چاہئے جس میں کوئی نا معقول بات نہیں تھی اس کے باوجود نہ صرف بی جے پی نے ہنگامہ کیا بلکہ کانگریس خود انتولے کے خلاف ہو گئی اور انتخابات میں عوام نے بھی انہیں شکست فاش سے دوچار کر کے اپنے غم و غصہ کا برملا اظہار کیا۔ رام کرشن کو وزارت یا پارٹی سے نکالنا تو دور کی بات ہے اس کے استعفی کا مطالبہ بھی ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔

 اس معاملے میں مرنے سے قبل دہشت گردوں کا بیان لینے میں پولس کامیاب ہو گئی۔ اس کی بنیاد پر سناتن پربھات کے دفاتر چھاپے مارے گئے چھاپوں کے درمیان کئی قابل اعتراض دستاویز کے ہاتھ آنے کا اعتراف خود وزیر داخلہ نے کیا۔ یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ دھماکے کے لیے استعمال ہونے والا آتش گیر مادہ ناگپور سے حاصل کیا گیا تھا۔  ناگپور نارنگی کے علاوہ آر ایس ایس کے صدر دفتر کے لیے مشہور ہے اس لیے ضروری تھا کہ سنگھ سے دھماکے کے تعلق کی تحقیق ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا بعد ازاں جب سناتن پر پابندی پر غور و خوض ہونے لگا توسناتن کے ذمہ دار ابتدا میں گھبرا کر   کہہ دیا کہ تنظیم کے چند افراد کے کسی معاملہ میں ملوث ہونے کی سزا پوری اجتماعیت کو نہیں دی جا سکتی۔ یہ ان افراد کا ذاتی فعل تھا اس لئے تحریک اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے معاملہ میں اس منطق کو یکسر بھلا دیا۔ جاتا ہے چند افراد کے اقدام کی بنیاد پر نہ صرف تنظیموں بلکہ پوری قوم کو اور ان کے دین کو موردِ الزام ٹھہرایا دیا جاتا ہے۔

سناتن کا مدافعانہ طرز عمل ایک عارضی مرحلہ تھا آگے چل کر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ سناتن پربھات کے رہنماؤں نے اعلان کر دیا کہ دھماکے کا اور مرنے والوں کا ان کی تحریک سے کو ئی تعلق ہی نہیں تھا یہ ایک ایسا جھوٹ ہے جس کا ثبوت خود سناتن سنستھا نے اپنے ویب سائٹ پر سجا رکھا ہے ان کی ویب سائٹ پر ایک آواز کی ریکارڈنگ  موجود ہے جس میں ایک پولس افسر حادثہ سے ایک روز قبل سناتن کے دفتر میں فون کر کے نلگونڈہ پاٹل کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو آپریٹر یہ پوچھنے کے بجائے کہ وہ کون ہے ؟ کہتی ہے وہ باہر ہے۔ سفر کر رہا ہے۔ اس ریکارڈنگ کو سناتن والوں نے اس خیال سے ویب سائٹ پر رکھا ہے کہ پولس کا ہراساں کیا جانا ثابت کیا جا سکے لیکن بلا واسطہ یہ اس بات کا ثبوت بن گئی ہے کہ دہشت گردوں کا ان سے گہرا تعلق ہے۔

یہ جگ ظاہر حقیقت ہے کہ نلگونڈہ پاٹل عرصہ دراز تک میرج اور سانگلی میں سنا تن کے کام میں سرگرم رہا ہے بلکہ اسی تنظیم کا ہمہ وقتی کام کرنے کی خاطر وہ گوا آیا تھا۔ یہ ضرور ہے کہ میرج فساد کے دوران وہ سانگلی کے علاقہ میں واپس گیا تھا چونکہ سناتن پربھات نے اس فساد کو بھڑکانے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا تھا اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ وہ فساد میں ذاتی طور پر ملوث تھا۔ اس کے تعلقات تھانے پنویل میں دھماکہ کرنے والوں سے بھی تھے جن کے پاس سے نہ صرف پستول بلکہ آتش گیر مادے کا بڑا ذخیرہ پولس نے بر آمد کیا تھا۔ ممبئی پولس اس کی تفتیش کے لیے گوا اور گوا پولس میرج سانگلی و ناگپور جا چکی ہے۔

 اس بیچ ایک اور دلچسپ واقعہ روشنی میں آیا۔ نلگونڈہ پاٹل کے والدین کو پولس نے اطلاع دی کہ وہ گوا  آ کر اپنے بیٹے کی لاش لے جائیں وہ لوگ گوا آئے پولس پوسٹ مارٹم کی کارروائی مکمل نہ ہونے کے باعث انہیں لاش نہ دے سکی اس کے خلاف وہ عدالت میں پہنچ گئے،  بیس ہزار روپئے نقصان بھر پائی کا دعوی ٹھونک دیا اور یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ پولس با عزت طریقے پر ان کے بیٹے کی لاش کو ان کے گاؤں جت تک پہنچائے۔

 ماضی میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جب بے گناہ مسلم نوجوانوں کو پولس نے بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کر لیا اور جب ان کے رشتہ دار عدالت میں پہنچے تو وکیلوں کو ان کی پیروی سے زبردستی روکا گیا یہاں معاملہ ایک ایسے دہشت گرد کا ہے جو خود اپنے خلاف زندہ ثبوت چھوڑ کر مرا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے لیے ج رہا تھا بلکہ وہ ہندوؤں کے چیتھڑے اڑانے کا ارادہ رکھتا تھا اس کے باوجود اس کی لاش کو با عزت طریقے پر اپنے گھر پہنچوانے کا مطالبہ اسبات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں ہندو نوجوان کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

 سناتن سنستھا نے اس کے بعد اپنی گردن چھڑانے کے لیے نیا پینترا بدلتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ دھماکے میں ان کی تنظیم کو ملوث کرنا ایک گھناؤنی کانگریسی سازش ہے جس کو وزیر داخلہ روی نائک عملی جامہ پہنا رہے ہیں بی جے پی کے پریکر سنستھا کی حمایت میں کیل ٹھونک کر آ دھمکے اور دھماکے کی سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کر ڈالا حالانکہ معاملہ اسقدر صاف ہے کہ اس کو کسی تحقیق کا احتیاج نہیں۔ یہ نیا بیان سناتن کے اپنے پرانے موقف کی تردید کرتا ہے لیکن اس کے باوجود گوا میں جرائم کی تفتیش کے کمشنر آتما رام دیشپانڈے نے حیرت انگیز قلابازی کھاتے ہوئے اخبار نویسوں سے کہا کہ ہم نے کبھی بھی ایسا دعویٰ نہیں کیا کہ ا س دھماکے کا اور مرنے والوں کا سناتن سے تعلق ہے۔ سناتن کے خلاف ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

گوا میں اگر بی جے پی کی حکومت ہوتی تو کمشنر صاحب کا یہ بیان سمجھ میں آ جاتا لیکن وہاں تو سیکولر اعظم کانگریس کی سرکار ہے اس کے باوجود کمشنر صاحب وزیر داخلہ کی تردید اور حزب اختلاف کی حمایت کر رہے ہیں کیا یہ سب وزیر اعلٰی مرضی اور اعلیٰ کمان کی توثیق کے بغیر ممکن ہے ؟ شاید نہیں ایسے میں جو مسلمان تین ریاستوں میں کانگریس کی حالیہ انتخابی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں انہیں چاہئے کہ گوا کے واقعات سے عبرت پکڑیں۔ گوا کی اسی کانگریسی حکومت نے گذشتہ سال مسلمانوں کے خلاف جو ظالمانہ رخ اختیار کیا اس کا موازنہ سناتن کے ساتھ کیے جانے والے نرم رویہ سے کریں تاکہ خوش فہمیوں کا ازالہ ہو سکے گا۔

واسکوکے ساحل پر جامعہ اہلسنت اشرفیہ کے زیر اہتمام نیوگی منشن میں اشرف البنات نام کا بچیوں کے لیے ایک مدرسہ چلتا ہے گذشتہ سال دسمبر میں پولس نے اس پر چھاپہ مارا اور اپنے ساتھ ۸۲ طالبات اور ۶ خواتین اساتذہ کو پولس تھانے لے گئی ایسا کیوں کیا گیا؟اس کی تین وجوہات بتلائی گئیں پہلی یہ کہ یہاں کوئی کشمیری مدرس تعلیم دیتے ہیں اور دوسرے انتظامیہ بیرون ریاست آنے والوں کے فارم پر کر کے بروقت نہ دے سکی تیسری وجہ یہ بتلائی گئی کہ گوا میں دہشت گردی کو قابو میں رکھتے ہوئے بیرونی سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ ضروری  اقدامات ہیں۔

 پہلی وجہ کشمیری مدرس کا موجود ہونا ہے۔ جب کشمیری عوام آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اور پاکستان اس کی حمایت کرتا ہے ہم یہ کہتے ہیں کشمیر ہمارے ملک کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن اسی خطے کے باشندوں کے ساتھ ہمارا رویہ بیرون ملک سیاحوں سے زیادہ ابتر ہو تا ہے۔ سیاحوں کی خوشامد میں کشمیری نوجوانوں کو دہشت گرد سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کو جواز بنا کر طالبات کو ہراساں کیا جا تا ہے۔ دوسرا جواز کچھ سرکاری فارمس کا نہیں بھرا جانا تھا اس کے لیے حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ طالبات یا اساتذہ کے بجائے انتظامیہ سے رجوع کرتی اور اگر وہ تعاون نہیں دے رہے تھے تو ان پر کارروائی کی جاتی حالانکہ انتظامیہ کے نائب صدر شیخ سلیمان نے وضاحت کر دی تھی کہ فارمس عید کی چھٹیوں کے باعث بھرے نہیں جا سکے اور یہ الزام لگایا کہ انہیں اس معاملہ کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا گیا۔

 جہاں تک بیرون ریاست لوگوں کے تصدیقی فارم کا سوال ہے سناتن پر بھات کے مرنے والے دونوں ارکان اور دیگر اکثر ممبران مہاراشٹر کے ہیں جب پولس نے ان کے چھاپہ خانے پر چھاپہ مارا تو وہاں کام کرنے والوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا یہ سب لوگ مہاراشٹر کے تھے اور وہیں قیام پذیر تھے لیکن اس تنظیم کے دھماکے میں ملوث ہونے کے باوجود ان کو پولس تھانے لا کر ان سے تفتیش کرنے کی زحمت پولس نے نہیں کی اور تو اورپولس کو یہ بھی پتہ چلا کہ سناتن کے دفتر میں غیر ملکیوں کا بھی خوب آنا جانا ہے اور ان غیر ملکیوں نے اپنے لیے لازمی ’سی‘ فارم کو بھرنے سے گریز کیا ہے۔

 یہ ایک نہایت سنجیدہ اور سنگین معاملہ ہے، وہ پولس جو دہشت گردی کو قابو میں رکھنے کے لیے طالبات کے مدرسہ میں پہنچ جاتی ہے اسے چاہئے کہ پتہ لگائے یہ غیر ملکی آخر سناتن سنستھا کے دفتر میں آتے کیوں ہیں ؟ اور پھر ’سی‘ فارم بھرنے سے کتراتے کیوں ہیں ؟ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس سے پہلے سناتن کے جن کارکنان کو دہشت گردی میں ملوث پایا گیا تھا وہ تنظیم کے پنویل میں واقع صدر دفتر میں رہائش پذیر تھے۔ احمد آباد دھماکوں کے معاملے میں جس شخص کا ای میل استعمال ہوا وہ پنویل کے قریب سان پاڑہ میں رہتا تھا یہ سابق امریکی فوجی ایک غیر قانونی چرچ میں خفیہ طور پر پادری کے فرائض انجام دیتا تھا لیکن اپنی اصل شناخت کو چھپاتا تھا۔

 ہیمنت کرکرے نے اس کی تفتیش کی اس کو جھوٹ پکڑنے والی مشین کے سامنے بٹھایا گیا لیکن حقائق کے باہر آنے سے قبل اس کے لیے فرار کا محفوظ راستہ کھول دیا گیا اور سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیاجس ہیمنت کرکرے نے کینتھ ہیوڈ کی تفتیش کی تھی اسی نے سناتن پر پابندی لگانے کی بات کی تھی لیکن ان کے قتل کے بعد ساری فائلیں بند ہو گئیں۔ ویسے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہیمنت کرکرے کے قاتلوں کا تعلق غیر ملکیوں سے ہے اور ممبئی کے مشہور مراٹھی اخبار مہاراشٹر ٹائمز کی اس خبر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ چشم دید گواہوں کے مطابق ان کے قاتل صاف مراٹھی بول رہے تھے۔

ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ممبئی میں رہنے والے کئی یہودی خاندان برسوں سے یہاں رہتے بستے  ہیں اور اپنے گھر میں مراٹھی زبان بولتے ہیں اگر گوا کی پولس دہشت گردی کو ختم کرنے کے معاملہ میں واقعی سنجیدہ ہی تو اسے معصوم طالبات کو پریشان کرنے کے بجائے یہ پتہ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے سناتن کے غیرملکی مہمان کہاں سے اور کیوں آتے ہیں ؟ورنہ اس کی بڑی بھاری قیمت ساری قوم کو چکانی پڑیگی۔

وزیر اعظم منموہن سنگھ نے گذشتہ ہفتہ ڈیفنس سرویس کے کمانڈرس کے ساتھ ملک کو درپیش سیکورٹی خطرات کا جائزہ لیا اور تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن افسوس کہ جو باتیں کہیں وہ نہایت عامیانہ اور گھسی پٹی نوعیت کی تھیں۔ انہوں ملک کو درپیش سنگین خطرات کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کسی بھی وقت پھر سے ہم پر دہشت گردانہ حملہ ہونے والا ہے۔ پڑوسی ملک کے حالات سنگین ہیں اور وہاں سے القاعدہ کا دہشت گردی کے درآمدکا امکان ہے تو اندرون ملک نکسلیوں کی شورش پسندی بڑھتی ج رہی ہے اور ہمیں ان سے نبٹنے کے لیے ہمیشہ چوکس و تیار رہنا چاہیے۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ خطرات سے بڑا خطرہ ہندوتوا وادیوں کی جانب سے کی جانے والی پیش رفت ہے۔ اس لیے کہ اگر کسی دہشت گردی میں ملک کے اکثریتی طبقہ کو ملوث کر دیا جائے اور غیر ملکی طاقتیں ان کی مدد سے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس پر قابو پانا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوتوا وادی دہشت گردی کی طاقت فی الحال نکسلواد کے مقابلے کم ہے لیکن کیا حکومت ان کی جانب سے آنکھیں موند کر اس میں اضافہ کا انتظار کرتی رہیگی حالانکہ اگر کل کو یہ کینسرجسد قوم میں پھیل جائے تو اس کے اثرات القاعدہ یا نکسلواد سے کہیں زیادہ سنگین ہوں گے اور اسوقت ان پر لگام لگانا نا ممکن ہو جائے گا۔

 جمہوری نظام میں ہر سیاسی پارٹی اکثریت کی خوشامد کے لیے مجبور ہوتی ہے اور ایسے ہر کام سے گریز کرتی ہے جس سے اکثریتی طبقے کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔ ایسے میں اس دہشت گردی کو ایک بلا واسطہ سیاسی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اس کے بڑھنے کا انتظار کرنے کے بجائے۔ اسے ابھی اسی وقت کچل دیا جائے۔ ملک کے وزیر اعظم سے ہمیں بجا طور پر توقع ہے کہ انہیں پتہ ہو گا کہ بین الاقوامی دہشت گرد کس طرح سے کام کرتے ہیں اس کا ایک مظہر گذشتہ ہفتہ ایران کے علاقہ ساسان میں دیکھنے کو ملا جہاں ایرانی انقلابی حفاظتی دستہ کا ایک وفد شیعہ سنی اتحاد کو فروغ دینے کی غرض سے مقامی رہنماؤں سے ملاقات کر رہا تھا کہ جنداللّٰہ نامی تنظیم سے تعلق رکھنے وا لے ایک دہشت گرد نے خود کش حملہ کر دیا جس میں ۱۲ فوجی اور ۳۰ شہری جان بحق ہو گئے۔

جنداللّٰہ کے بارے میں دوسال قبل سنڈے ٹیلیگراف کے اندر یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ اسے امریکہ نے ایران کے اندر سیاسی عدم استحکام برپا کرنے کے لیے قائم کیا ہے۔ اس کا مقصد دہشت گردی اور ایرانی رہنماؤں کا اغوا و قتل ہے امریکی ٹی وی چینل’اے بی سی‘پر بھی اس بات کا اعتراف کیا جا چکا ہے کہ اس تنظیم کو امریکی خفیہ ایجنسی نے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر بنایا ہے اس کے علاوہ ایران کی جیل میں قید جنداللّٰہ کے رہنما عبدالملک ریگی کے بھائی عبدالحمید نے اخبار نویسوں کے سامنے اسبات کوتسلیم کیا کہ خود اس کی موجودگی میں ا ن لوگوں نے سی آئی اے سے ایک لاکھ ڈالر وصول کئے۔ یہ شواہد اس طریقہ کار کا پتہ دیتے ہیں جو بیرونی طاقتیں اختیار کرتی ہیں۔

 ایران میں ان کا مقصد شیعہ سنی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے تو ہندوستان میں ہندو اورمسلم سماج کے درمیان نفرت پیدا کرنا۔ ایران میں وہ جنداللّٰہ کی مدد کر سکتے ہیں تو ہندوستان میں سناتن کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا پیشہ دنیا بھر کو اسلحہ فروخت کر کے اپنی دولت کی ہوس کو مٹانا ہے وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ چہار جانب جنگ و جدال کا ماحول رہے اور ان کاروبار پھلتا پھولتا جائے اپنی معیشت کے فروغ کی خاطر وہ ساری دنیا میں آگ اور خوں کی ہولی کھیلتے رہتے ہیں ممبئی حملے کے بعد ہندوستان نے اپنے دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ کیا اور اسرائیل کا سب سے بڑا خریدار بن گیا گویا کہ سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اور اسرائیل کا ہوا پاکستان کے حصہ میں جسے اصل مجرم قرار دیا جاتا ہے سوائے بدنامی اور سیاسی دباؤ کے اور کچھ بھی نہ آیا۔

 اپنے مال کی کھپت بڑھانے کے لیے دھوم دھڑاکے کرتے رہنا اسلحہ فروشوں کی مجبوری اور ضرورت ہے۔ اس میں ان کا بڑا فائدہ ہے لیکن ہمارے اپنے ملک کی عوام کا سراسر نقصان ہے فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم غیروں کے آلہ کار بنتے ہیں یا خود اپنی فلاح و بہبود کی فکر کرتے ہیں فی الحال ملک ایک اگنی پریکشا سے گذر رہا ہے جس میں ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ان بھگوا چولہ دھارن کرنے والے پاکھنڈی دہشت گردوں کو ہم دکشا سے نوازنے کی پراچین پرمپرہ کو جاری رکھتے ہیں یا انہیں کڑی سے کڑی شکشا دیتے ہیں ؟

٭٭٭

 

بی جے پی کی تریمورتی

ہندو مت اور عیسائیت کے بنیادی عقائد میں تثلیث مشترک ہے۔ یوں تو تثلیث بجائے خود ایک باطل نظریہ ہے اس کے باوجود ہندوؤں کی تثلیث نسبتاً زیادہ معقول معلوم ہوتی ہے۔ ہندو مذہب یہ تسلیم کرتا ہے کہ کائنات چونکہ موجود ہے تو اس لئے اس کے خالق کا وجود نا گزیر ہے۔ اگر یہ بحسن و خوبی چل رہی ہے تو اس کاکارساز بھی لازم ہے اور اس دار فانی کو ایک دن ختم بھی ہو جانا چاہئے۔ لیکن ہندو مت کے بانی اپنی کوتاہ نگاہی کے سبب اس سہل سی حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکے کہ یہ تینوں کام خدائے واحد بڑی آسانی سے کرسکتا ہے اور ایسا کرنا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ  عجیب معمہ ہے کہ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی؟حالانکہ آجکل کئی پروجکٹس بناؤ، چلاؤ اور ہٹاؤ کے اصول پر کام کرتے ہیں جسے بیلڈ آپریٹ اینڈ ٹراسفر  (build, operate & transfer)  کے خوبصورت نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ایک مدت خاص کے بعد کارخانہ کو ہٹانے کی ذمہ داری بھی اسی کمپنی کی ہوتی ہے جس نے اسے بنایا اور چلایا ہوتا ہے۔ افسوس کہ ان لوگوں نے ذات باری تعالیٰ کو اپنی ذاتِ کم مایہ پر قیاس کیا اور اس کی ذات عالی صفات کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا۔

برہما کوان لوگوں نے تخلیق کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا وشنو کے ذمہ اس کائنات کا انتظام و انصرام سونپا اور قیامت برپا کرنے ذمہ داری مہیش کے حوالے کر ڈالی ان لوگوں نے واقعی اللّٰہ کی قدر نہیں پہچانی جیسا کہ اس کا حق تھا۔ تینوں دیوتاؤں کے درمیان تقسیم کار کا ایک ایسافلسفہ گھڑا گیا کہ یہ تینوں نہ تو ایکدوسرے کام پر کوئی اعتراض کرتے ہیں اور نہ کوئی دخل اندازی روا رکھتے ہیں ہر کوئی بلا شرکت غیرے اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ ہندو مذہب کو قصہ کہانیوں کی مدد سے سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے اس لیے ہمیں کوئی کہانی ایسی نہیں ملتی جس میں ان کے درمیان کوئی اختلاف دکھائی دیتا ہو۔ برہما کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کارِ تخلیق کے خاتمہ کے بعد ساری کائنات سے الگ تھلگ عیش و مستی میں مست دکھائی دیتا ہے۔ اس کو اس دنیا میں برپا ہونے والے بحران سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ مہیش کو یہ لوگ بھولا رور کو اسلحہ فروگام لگانانا ننکشنکر بھی کہتے ہیں اس کا اصل کام تو تانڈو رقص کر کے پرلیہ یعنی قیامت برپا کرنا ہے لیکن وہ اپنی حماقتوں سے نت نئے وردان دے کر  دنیا میں قیامت صغریٰ برپا کرتا رہتا ہے ویسے وردان دے کر پریشانیاں پیدا کرنا برہما کا بھی ایک محبوب مشغلہ ہے۔ ان معاملات سے نبٹنے کے لیے وشنو کو نت نئے اوتار لے کر دنیا میں آنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ کائنات کی تدبیر و تحفظ اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔

ہندو عوام اس فرق سے خوب واقف ہیں ملک میں جہاں بے شمار شیو اور وشنو کے مختلف اوتاروں کے مندر ملتے ہیں وہیں برہما کے مندر خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں اس لیے کہ جس دیوتا کا بھکتوں سے سروکار نہ ہو اس سے بھکت کیوں سروکار رکھیں ؟ راجھستان میں کیدارناتھ برہما کا ایک مندر تو ہے لیکن اس کے بھکت کم ہی ہیں۔ اس پس منظر میں اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ ہندتوا وادی بھارتیہ جنتا پارٹی کے برہما وشنو اور مہیش کون ہیں تو آپ کیا جواب دیں گے ؟آپ شاید بہت دور نکل گئے اس لیے آپ کی آسانی کے لیے تین نام دئیے جاتے ہیں آپ جوڑیاں لگائیے۔ اٹل جی، اڈوانی جی اور نریندر مودی، میرا خیال ہے ہندوستانی سیاست کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی اس سوال کا غلط جواب نہیں دے گا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو بڑی آن بان اور شان کے ساتھ گاندھیائی سوشلزم کی بنیاد پر اٹل جی نے بنایا اور اندرا گاندھی کی موت تک چلاتے رہے لیکن راجیو گاندھی کی قیادت میں ہونے والے انتخاب میں پارٹی کا صفایا ہو گیا اندرا جی ہمدردی میں امڑا طوفان بی جے پی کو تمام رہنما ؤں سمیت بہا لے گیا۔ اٹل جی اور اڈوانی جی بھی انتخاب ہار گئے۔ بی جے پی کو صرف دو نشستوں پر کامیابی ملی۔ ہندو مذہب کی دیومالائی کہانیوں میں طوفان نوح کی مثل ایک سیلاب  کا ذکر ملتا ہے جب ساری انسانیت ڈوب گئی تھی اس وقت بھی برہما خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوا مگر وشنو پہلی بار مچھلی کا اوتار لے کر دنیا میں آتا ہے اوروہ ویواسواتا منوکی کشتی کو بچا کر انسانیت کو نیا جیون دان دیتا ہے اس کہانی کی مصداق آزمائش کی نازک گھڑی جب بی جے پی پر آئی تو اڈوانی جی نے آگے بڑھ کر پارٹی کی کمان سنبھالی۔ صدر بننے کے بعد اڈوانی جی وشنو کا تیسرا اوتار بن گئے پرانوں میں وراہہ اوتار کا نام دیا گیا ہے اس اوتار میں وشنو ایک جنگلی خنزیر کا روپ دھار کر نمودار ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی عصبیت کی بنیاد پر نہیں لکھی ج رہی بلکہ کیرالہ کے وراہہ وشنو مندر میں دو دانت والے ایک و حشی سور کو ہرنیاکشہ نامی عفریت کو قتل کرتے ہوے دکھلایا گیا ہے۔ ہرنیاکشہ ویدوں کو لے اڑا تھا جسے واپس لانے کا کام وشنو نے کیا۔

 اڈوانی جی نے سنگھ پریوار کے قدیم صحیفوں کے کھنگال کر ان کے اندر سے ہندوتوا کے نظریہ کی بازیافت کی اور گاندھیائی سوشلز م کا مکھوٹا اتار کر پارٹی کو دوبارہ اپنی حقیقی بنیادوں قائم کر دیا۔ بی جے پی کا اپنا قدیم منفرد تشخص قائم کرنے کے بعد اڈوانی جی وشنو کے چھٹے اوتار کا کردار ادا کرتے ہوے راجیو گاندھی کی بوفورس دلالی کے خلاف چھیڑی گئے وی پی سنگھ کے دھرم یدھ  میں شریک ہو گئے۔ چھٹے اوتار پرشو رام نے بھی ہایاراجہ کی بدعنوانی کے خلاف دھر م ید ھ کر کے اسے قتل کر دیا تھا۔ اڈوانی جی کو اس درمیان یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ اصل مسئلہ ہندوتوا کا نہیں ہے یہ تو بس آرایس ایس کو بہلانے کا کھلونا ہے عوام میں اپنا رسوخ بڑھانے کی خاطر پارٹی کے براہمن بنیا امیج کا بدلنا ضروری ہے۔ اس جانب سنجیدہ کوشش کا آغاز ہوا۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں پسماندہ قیادت کو آگے لایا گیا مثلاً اتر پردیش میں کلیان سنگھ اور ونے کٹیار،  مدھیہ پردیش میں اوما بھارتی، مہاراشٹر میں گوپی ناتھ منڈے  اور گجرات سے نریندر مودی وغیرہ لیکن اس بیچ وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ کر کے اڈوانی کا سارا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ اس زبردست جھٹکے سے نبٹنے کے لیے اڈوانی کے پاس رام کا اوتار دھارن کرنے کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا۔

رام مندر کی تحریک کو عرصہ دراز سے وشو ہندو پریشد والے چلا رہے تھے لیکن بی جے پی نے اسے کبھی بھی قابل اعتناء نہیں سمجھا تھا۔ اس سنکٹ کی گھڑی میں اڈوانی جی نے رام رتھ یاترا نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس یاترا کے ذریعہ وہ نہ صرف عوام کی توجہ منڈل سے ہٹانے میں کامیاب ہوئے بلکہ بڑی صفائی کے ساتھ انہوں نے ملک کی جنتا کے ہاتھ میں کمنڈل بھی پکڑا دیا دیگر پسماندہ ذاتوں کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر انہوں نے نہ صرف وی پی سنگھ سے برگشتہ کیا بلکہ وی پی کی سرکار گرا کر جنتا دل میں پھوٹ ڈال دی۔ وی پی سنگھ اور لالو یادو کو چندر شیکھر اور ملائم سنگھ یادو کے خلاف کھڑا کر دیا۔ رامائن کے اندر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب رام چندر جی نے یہ محسوس کیا کہ محض ہنو مان کی وانر سینا راون کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے تو انہوں نے راون کے چھوٹے بھائی وبھیشن کو اقتدار کا لالچ دیکر راون کا دشمن بنا دیا گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کی مثل وہیں سے ایجاد ہوئی۔ بظاہر کانگریس چندر شیکھر کی حمایت کر رہی تھی لیکن اگر بی جے پی حمایت واپس نہ لیتی اور وی پی سرکار نہ گرتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ ملائم سے پہلے اتر پردیش میں بلا شرکت غیرے کانگریس کی حکمرانی تھی اور ملائم کے بعد پہلی مرتبہ بی جے پی کو اتر پر دیش کا اقتدار حاصل ہوا جس نے مرکز میں زعفرانی اقتدار کی راہ ہموار کی۔ کانگریس کو واضح اکثریت تو حاصل نہ ہوسکی۔ ویسے اس پارلیمانی انتخاب نے پہلی بارکانگریس کے لیے امید کی اک ہلکی سی کرن روشن کی تھی۔ کانگریس قومی سطح پر بی جے پی سے آگے جانے میں کامیاب ہو گئی تھی  لیکن لکھنو کا تخت تب اس سے کوسوں دور تھا اور ہنوز وہ فاصلہ باقی ہے۔

اشومیگھ پر سوار ہو کر اڈوانی جی کا رتھ دہلی کے سنگھاسن کی جانب تیزی سے رواں دواں تھا۔ نرسمھا راؤ کو بابری مسجد کی شہادت میں چوری چھپے شمولیت کی سزا مل چکی تھی وہ انتخاب میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے کوئی ان کی حمایت کے لیے تیار نہیں تھا۔ اڈوانی گویا لنکا دہن کر کے کامیاب و کامران ایودھیا میں داخل ہو چکے تھے لیکن حمایت کرنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کے اعتراض نے اس رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ بابری مسجد کی شہادت میں بلواسطہ شریک ہونا اڈوانی جی کے پیروں کی زنجیر بن گیا۔ اڈوانی نے اس موقع پر شیو کے دوسرے اوتار کورما کی طرح زہر کا پیا لہ اپنے گلے سے اتار تے ہوے اٹل جی کووزیر اعظم کے طور پر قبول کر لیا۔

 اس وقت کی سیاسی صورتحال اور وشنو پوران کی امرت منتھن والی کہانی میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے راوی کہتا ہے ایک وقت ایسابھی آیا کہ د یوتا کمزور ہو گئے اوران کے ہاتھوں سے دانوؤں نے اقتدار چھین لیا ایسے میں دیوتاؤں  نے وشنو سے رجوع کیا۔ وشنو نے انہیں سجھایا کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے امرت درکار ہے جو دودھ کے سمندر کی تہہ میں پوشیدہ ہے اسے باہر نکالنے کے لیے منتھن کرنا پڑے گا اور اس کمزور حالت میں دیو خود اپنی طاقت کے بل بوتے پر یہ نہیں کر سکتے اس لیے انہیں اپنے دشمنوں سے تعاون لینا پڑیگا۔ دیولوک ا س تجویز پرراضی ہو گیا۔ سمندرکو پھینٹنے کے لیے مندرہ پہاڑ کو استعمال کیا گیا واسوکا نامی اژدہے کو اس کے گرد لپیٹ کر ایک جانب سے دیوتاؤں نے اور دوسری جانب سے دانووں نے باری باری سے اسے کھینچنا اور چھوڑنا شروع کر دیا جس سے واسوکا جاگ گیا اور اس نے پھنکار کے اپنا زہر اگل دیا وشنو نے آگے بڑھ کر ہلاہل نامی زہر کو نگل لیا۔ زہر ہلاہل کی اصطلاح وہیں سے آتی ہے۔

 شیو کی گردن زہر کے باعث نیلی پڑگئی اور وہ اس دن سے نیل کنٹھ کہلانے لگے اس کے بعد یوں ہوا کہ مندرہ پہاڑ سمندر کی تہہ میں دھنسنے لگا وشنو پھر کچھوا اوتار بن کر سمندر کی تہہ میں پہنچ گئے اور مندرہ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا۔ کورما اوتار اسی کچھوے سے منصوب ہے۔ منتھن کے دوران کئی قیمتی اشیاء باہر آئیں جوطے شدہ معاہدہ کے مطابق تقسیم ہوتے رہیں لیکن جب بالآخر آب حیات کا چشمہ پھوٹا جس کی خاطر یہ سب کیا گیا تھا تو اسے بھی تقسیم کرنے کا موقع آیا۔ دانووں کے درمیان اس بات پر تنازعہ کھڑا ہو گیا کہ پہلے کون پئے گا(جیسا کہ جنتا پریوار میں ہمیشہ ی پیدا ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ست یگ اور کل یگ میں خاصی مشابہت ہے ) ایسے میں وشنو موہنی نام کی خوبصورت پری  جمال کا روپ دھار کر نمودار ہوا اور دانووں کو دھوکے سے امرت کے بجائے شراب پلا دی۔ اندر کا بیٹا جینت آب حیات کی صراحی لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ دانو اس کا پیچھا کرتے رہے اس نے جن چار شہروں میں پناہ لی وہاں امرت کو پیا بھی اور گرایا بھی انہیں چار شہروں میں کمبھ میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے یہ کمبھ دراصل آب حیات کی صراحی کا نام ہے۔

 بی جے پی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اڈوانی نے خو د کو اپنی پارٹی کو ہر طرح کی آزمائش اور  مصیبت میں ڈال کر اقتدار تک پہنچایا لیکن باہر کے حامیوں نے اعتراض کر دیا اور نتیجہ میں امرت کمبھ رام مندر تحریک سے الگ تھلگ عیش کرنے والے اٹل جی کے حصہ میں آگیا۔ یہ معاملہ تین بار دوہرایا گیا۔ بالآخر اڈوانی جی اپنے پرانے پاپ دھلنے کی خاطر جناح کی قبر تک پہنچ گئے اور وہاں سے اپنے بھیانک چہرے پر ایک خوشنما نقاب چڑھا کر لوٹے۔ وقت کے ساتھ اٹل جی ضعیف ہو چکے تھے انہوں نے سیاست سے سنیاس لے لیا تھا حامی جماعتوں کے لیے اڈوانی جی کسی قدر قابل قبول ہو چکے تھے سارے رکاوٹیں دور ہو چکی تھیں اب صرف انتخاب میں کسی طرح سب سے بڑی پارٹی بن کر آنے کا معمولی سا مسئلہ باقی تھا کہ راج ناتھ اور ارون جیٹلی کے درمیان مہابھارت چھڑگئی۔ ادھر ورون گاندھی کی رگوں میں اپنے باپ سنجے گاندھی کا خون جوش مارنے لگا اور اس نے مسلمانوں کے خلاف دھرم یدھ کا اعلان کر دیا اس سے پہلے کہ اڈوانی اس مصیبت سے نبٹتے نریندر مودی کے حامیوں نے اسے داخلی حریف بنا کر کھڑا کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ورون اور مودی تو کامیاب ہو گئے لیکن اڈوانی کی لٹیا ہمیشہ کے لیے ڈوب گئی۔

اپنے دین کے تحفظ کی خاطر ہندومت کے دانشور حضرات کبھی ظلم  و زیادتی پر تل جاتے ہیں تو کبھی غیر معمولی لچک اور مصالحت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کی اصلاحات کا مقابلہ کرنے کی خاطر ادی شنکر اچاریہ نے زبردست تحریک چلائی ہندوستان کے چار کونوں میں مٹھ قائم کیے شنکراچاریہ کی روایت کو قائم کیا اور بدھ مذہب کو عملاً تڑی پار کر دیا لیکن جب ڈاکٹر امبیڈکر نے اسے قبول کر کے پھر ایک بار بدھ مت کو مقبول کر دیا تو ان لوگوں نے بڑی مکاری سے کام لیتے ہوے شیو کے نویں اوتار بلرام کو ہٹا کر گوتم بدھ کو اس مقام پر فائز کر دیا۔ الیکشن میں ناکامی کے بعد اڈوانی جی کی مایوسی اس بات کا اشارہ کر رہی تھی کہ وہ اب گوتم بدھ کی طرح سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے سنیاس لے لیں گے۔ اڈوانی جی اپنی جماعت سے  یہی توقع رہی ہو گی کہ جس طرح کسی زمانہ میں انہوں نے اٹل جی کو پارٹی میں رسوا کر کے بے وزن کر دیا تھا وہی سلوک اب ان کے ساتھ دوہرایا جائے گا اس لئے از  خود انہوں نے حزب اختلاف کے لیڈرشپ سے استعفیٰ دیدیا۔ اس کے باوجود پارٹی کے اندرونی خلفشار کے اندر ان کے لیے امید کی ایک کرن موجود تھی نیز مودی پر ہونے والی تنقید نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ کسی ایک نام پر اتفاق رائے کا نہ ہونا ان کے لیے نعمت غیر مرتقبہ ثابت ہوا اور نا نا کر کرتے ہوئے وہ پھر ایکبار عملی سیاست میں شیو کا آٹھواں اوتار کرشن بنکر داخل ہو گئے اتفاق سے کرشن ان کا پنا نام بھی ہے۔ مہا بھارت کی رن بھومی کروکشیتر میں کھڑے ہوئے کرشن اوتار کے سامنے ایک نیا چیلنج تھا۔ جنگ کا نقشہ بدلا ہوا تھا۔ رام کا مقابلہ راون یعنی بابر سے تھا لیکن کرشنا کو باہم  خون کے پیاسے بھائیوں کا جھگڑا چکانا تھا۔ اس نازک موقع پر جبکہ ہر کوئی اقتدار کے حصول کی خاطر دھرتراشٹر کی مانند اندھا ہو چکا ہے گیتا کے اشلوکوں کان دھرنے والا کوئی نہیں تھا؟

جن لوگوں نے مہابھارت پڑھی یا دیکھی ہے وہ اس بات سے واقف ہیں کہ میدان جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود پانڈو اور کرشنا نہایت عبرتناک انجام سے دوچار ہوے۔ کورو اور پانڈو کی ماں گندھاری نے میدانِ جنگ میں اپنے بیٹوں کی لاشوں کو دیکھ کر بد دعا دی جس کے اثرات ۳۶ سال بعد ظاہر ہوے۔ پانچوں بھائی اپنی بیوی دروپدی کے ساتھ موکش (نجات)حاصل کرنے کی خاطراقتدارسے دستبردار ہو کر ہمالیہ پربت کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں ایک ایک کر کے چار بھائی اپنے کبر و غرور اور ان کی مشترک زوجہ عدم مساوات کے باعث پل صراط سے نیچے گر گئی گویا یہ پانچوں نجات سے محروم رہ گئے صرف یودھشٹر جس نے جنگ کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی اپنے کتے کے ساتھ موکش حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ کرشنا جنگ کے بعد دوارکا لوٹ گئے جہاں کسی شکاری کا غلطی سے چلنے والا تیر ان کی موت کا سبب بنا لیکن ان کے ساتھ ہی دوارکا نگری بھی غرقاب ہو گئی گویا سب کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی اسی طرح کے دردناک انجام کی جانب تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ آج نہیں تو کل یہ لوگ اپنی پارٹی کے مہیش نریندرمودی کے ہاتھ پارٹی کی کمان سونپنے کے لیے مجبور ہوں گے اور پھر ممکن ہے اس کا تانڈو نرتیہ اس منحوس گروہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ واللّٰہ ا علم بالصواب!

 

بھارتیہ جناح پارٹی کا دھرم سنکٹ

ہندوستان کا ترنگا پرچم اور ہندومت کا عقیدہ تثلیث اپنے اندر کئی طرح کی مماثلت رکھتا ہے ان میں سب سے بنیادی یکسانیت فطرتِ انتشار ہے جس کا سبب ان دونوں کی سرشت میں پایا جانے  والا قدر مشترک شرک ہے۔ عناصر ترکیبی میں موجود انتشار کی صفت مظا ہر وقتاً فوقتاً منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں گذشتہ نصف صدی کے اندر نام نہاد اکھنڈ بھارت تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے پہلے سبز رنگ الگ ہوا اور پاکستان بن گیا پھر پاکستان کے بطن سے سرخ بنگلہ دیش نے جنم لیا ان دونوں ممالک کے پرچم میں ایک پرسرخ سورج ہے تو دوسرے پرسبزہلال، سرخ پرچم والا بنگلہ دیش ملک کے نقشہ پر دائیں جانب ہے جس کے پڑوس میں کمیونسٹوں کا مضبوط قلعہ مغربی بنگال ہے جبکہ سبز ہلال بائیں جانب نریندر مودی کے گجرات کا ہم سایہ ہے۔

 ترنگے کی سفیدی پر کانگریس کا بول بالا ہے جس نے اس کو اپنی جماعت کا پرچم بھی بنا رکھا ہے فرق صرف یہ ہے کہ کانگریس پارٹی اس کے مرکز میں پائے جانے والے اشوک چکر کو وہ اپنے انتخابی نشان سے بدلتی رہتی ہے کسی زمانے میں کانگریسی ترنگے کے اندرکسانوں کو لبھانے کی خاطر بیلوں کی جوڑی ہوا کرتی تھی لیکن چین اور پاکستان کی جنگوں نے جئے کسان کے ساتھ جئے جوان کا اضافہ کر دیا اس کے بعد جب کانگریس پارٹی تقسیم ہوئی تو اس نے بیلوں کو ٹینک سے بدلنے کے بجائے گائے اور بچھڑے سے بدل دیا یہ اندرا گاندھی کا زمانہ تھا اور انہیں قومی سیاست میں گؤ ماتا جیسا تقدس حاصل ہو گیا تھا۔ اندراجی نے سنجے گاندھی کو میدان سیاست میں اتار کر گائے کے ساتھ موجود بچھڑے کا جواز واضح کر دیا۔ آ گے چل کر راجیو گاندھی کا زمانہ آیا اس وقت تک اندرا اور سنجے دونوں چل بسے تھے اس لیے گائے بچھڑا کی جگہ پنجہ گاڑ دیا گیا یہ پرچم فی الحال سونیا گاندھی بلند کیے ہوئے ہے اوراسے جلد ہی اپنے نور چشمی را ہل گاندھی کے ہاتھوں میں سونپنے والی ہیں انہوں نے اپنے آپ کو ایک مثالی ہندوستانی بہو کا نمونہ بنا کر پیش کیا ہے جو اپنے خاندان کی آن بان اور شان کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی ہنستے ہنستے پیش کر دیتی ہے اور اپنی محترم ساس کے سپنوں کو ساکار کرتی ہے۔

کانگریس پارٹی نے پہلے تو آزادی کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا اور پھر تقسیم ہند، قیام پاکستان وبنگلہ دیش میں بھی کلیدی ذمہ داری ادا کی۔ سنگھ پریوار کوافسوس ہے کہ کو وہ اس دوران کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دے سکی۔ اس کی ساری تگ و دو ملک کے اندر بسنے والی ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے پر صرف ہوتی رہی اس احساس جرم کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنتا پارٹی میں شامل ہو کر اقتدار میں آتے ہی پاکستان کو بڑھ چڑھ کر گالیاں دینے والی بی جے پی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کی جانب غیر معمولی پیش رفت کی۔ طویل تعطل کے بعد اٹل جی نے اپنی وزارت خارجہ کے زمانے میں پاکستان سے دوبارہ سفارتی تعلقات قائم کیے اور بعد میں جب متحدہ قومی محاذ کے وزیر اعظم بنے توبس کے ذریعہسرحد کو عبور کیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس شروع کرنے کے بعد کارگل کے ہیرو یا  ولن پرویز مشرف کو ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ ہندوستانی جیل میں محصور لشکر کے رہنما مولانا مسعود اظہر کو قندھار تک بحفاظت پہنچانے کا اہتمام کیا۔

اقتدارسے محروم ہو جانے کے بعد بھی اڈوانی جی نے اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے قائد اعظم جناح کی قبر پر عقیدت کی چادر چڑھائی اور انہیں نہ صرف سچاسیکولر بلکہ عظیم تاریخ ساز شخصیت کے لقب سے نواز آئے۔ جسونت سنگھ نے تقسیم کی ذمہ داری جناح کے بجائے نہرو اور پٹیل پر ڈال دی پارٹی نے انہیں نکال باہر کیا لیکن ابھی اس کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھارتیہ جناح پارٹی بنانے کی سعی کرنے والے سدھیندر کلکرنی جو کسی زمانے میں اشتراکیت کی سرخ بس سے اتر کر زعفرانی رام رتھ میں براجمان ہوئے تھے از  خود باہر کود پڑے اور ممتا کی ریل میں سوار ہو گئے۔ راجناتھ سنگھ کو  جو جسونت سنگھ کو پارٹی سے نکال کر اپنے آپ کو سپر مین سمجھ رہے اچانک ارون شوری نے اٹھا کر اس بری طرح پٹخنی دی کہ وہ بالکل اناتھ نظر آنے لگے۔ ارون شوری نے راج ناتھ کی ایسی توہین و تضحیک کی جیسی کسی بی جے پی رہنما نے کبھی کانگریس کے آدمی کی بھی نہیں کی تھی۔ اس توہین آمیز سلوک کے باوجود پارٹی اس قدر بوکھلا ئی ہوئی تھی کہ اس علی الاعلان بغاوت کے جواب میں ارون شوری کو نکال باہر کرنے کے بجائے محض و جہ بتاؤ نوٹس دینے پر اکتفا کیا گیا،  پارٹی ہائی کمان نے ارون شوری کے خلاف نرم روی کر کے ان کے اس الزام کی تصدیق کر دی کہ بی جے پی ایک کٹی پتنگ ہے جس کی ڈور ٹوٹ چکی ہے اور وہ ہوا کے رخ پر فضا میں ہچکولے کھا رہی ہے۔

 ارون شوری نے اپنے انٹر ویو میں غیر معمولی سیاسی چالبازی دکھائی بی جے پی کو برا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس سے بی جے پی کو اپنے قبضہ میں لے لینے کی گذارش کر ڈالی جو یقیناًسنگھ پریوار کے اعلی ٰرہنماؤں کے دل کی بات ہے۔ شطرنج کی بساط پر اپنی اس شہ کے باعث انہوں نے راج ناتھ کیمپ کو مات دے دی اب دیکھنا یہ ہے کہ آر ایس ایس والے کب بی جے پی لیڈر شپ کو حلال کرنے کے بجائے جھٹکے کے ساتھ سر الگ کرنے کے نادر مشورے پر عمل کرتے ہیں مبصرین کی رائے یہ ہے کہ جسونت سنگھ کو آر ایس ایس کے ایماء پر نکال پھینکا گیا تھا اگر وہ بات صحیح ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اسی آر ایس ایس کا دباؤ ہی ا رون شوری کے لیے سرکشا کووچ یعنی آر پلس سیکیورٹی بنا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے ارون شوری کو سنگھ سے احسانمندی کا بدلہ جلد ہی ختم ہونے والی راجیہ سبھا کی میعاد میں تجدید و توسیع کے طور پر حاصل ہو جائے گا اورسرکاری خزانے سے آئندہ چار سالوں تک عیش و عشرت کا سامان مہیا ہو جائے گا اسی لیے وہ دوبارہ من مٹاؤ کی بولی بولنے لگے ہیں لیکن اگر انہیں دوسری مرتبہ ایوان بالا کی رکنیت  سے محروم کر دیا گیا تو ممکن ہے وہ اپنے پرانے دوست شیکھر گپتا کے ساتھ ایک اور مرتبہ ’واک د ٹاک ‘ نام کے شو میں نظر آئیں گے اور پھر بی جے پی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کی بھی شامت آ جائے گی۔

ہمارے ملک کے وہ تمام صحافی اور دانشور جنھوں نے کانگریس دشمنی میں اپنے قلم کا جادو جگایا اس امید میں بی جے پی سے متعلق ہوئے کہ اقتدار سے بھی لطف اندوز ہو لیا جائے ان کی یہ دوستی ’حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ‘ میں تھی اب بی جے پی کے ذریعہ حصول اقتدار کے امکانات مفقود ہوتے ج رہے ہیں۔ ان چوہوں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ جہاز جلد ہی ڈوبنے والا ہے اس لیے سب سے پہلے یہ باہر کود رہے ہیں تاکہ کل کو سیاست کے بھنور میں ہچکولے کھاتا یہ بدبو دار جہاز ڈوب بھی جائے تب بھی صحافت کا کالا سمندرتو موجود ہی ہے جس میں مختلف سیاسی کشتیاں تیر رہی ہیں۔ برے وقت میں کسی نہ کسی پتوار کو پکڑ کر گذارا ہو جائے گا۔ جسونت سنگھ نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا تھا اگر کسی قوم کے اندر سے سوچنے سمجھنے اور لکھنے پڑھنے کا رجحان ختم ہو جائے تو وہ اس کے مستقبل کو تاریک کرنے کے لیے کافی ہے اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی قابل غور ہے کہ اگر کسی قوم کا لکھنے پڑھنے والا طبقہ ارون شوری اور سدھیندرکلکرنی کی طرح موقع پرست ہو جائے یاکسی ملک میں ایم جے اکبر اور عزیز برنی جیسے معتبر صحافی اڈوانی کی سوانح حیات ’میرا وطن میرا نظریہ‘ کے اردو ترجمہ کی نقاب کشائی کریں، مولانا وحیدالدین خان کے ہمراہ اس تقریب رونمائی میں اظہار خیال کرنے لگیں ملک و ملت کا کیا انجام ہو گا؟

دنیا بھر میں جب بھی زلزلہ آتا ہے اس کے جھٹکے دور دور تک محسوس کیے جاتے ہیں لیکن اس کا مرکز کسی ایک مقام پر ہوتا ہے فی الحال بی جے پی میں جو آتش فشاں لاوہ اگل رہا ہے اس کا مرکزہ راجھستان ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس سارے معاملے میں ’راج‘ کا بول بالا ہے۔ راج استھان میں راج ناتھ کے سامنے راج ماتا کی دختر نیک اختر وسوندھرا راجے خم ٹھونک کر کھڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے ۷۸ میں ۶۸ ارکان کی دہلی میں پریڈ کروا کر ظاہر کر دیا کہ راجستھان میں کس کا سکہ چلتا ہے ؟ مہارانی کا یہ جادو کیسے چلتا ہے اس کو اجاگر کرنے والی داستان دامودر مودی پر انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے چھاپے سے عیاں ہو گئی ہے۔ یہ بدنام زمانہ نریندر مودی نہیں بلکہ وشوہندو پریشد کے رہنما دامودر مودی کا ذکر ہیں جو راجھستان کے اندر وشو ہندو پریشد کے معمر ترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور وی ایچ پی کی جے پور پرانت کے سنگھ چالک بھی ہیں ان کے پاس پولس چھاپے میں دس کروڈ نقد اور تیئیس کروڈ کی غیر منقولہ رقم ہاتھ لگی جس پر انکم ٹیکس ادا کرنے کے لیے وہ راضی ہو گئے ہیں۔ ا س نازک سیاسی ماحول میں خطیر نقد کا پکڑا جانا بہت سارے سوالوں کو جنم دیتا ہے مثلاً یہ رقم کہاں سے آئی؟ کس کے لیے مہیا کی گئی؟ اور کس نے اس کی مخبری کی؟ کوئی بعید نہیں کہ اگر ان سوالات کی منصفانہ تحقیقات کی جائے تو پتہ چلے کہ یہی و ہ مقناطیس ہے جو بی جے پی کے ارکان اسمبلی کووسندھرا راجے سے جوڑے ہوئے ہے اوریہ بھی سراغ ملے کہ مبادہ وسندھرا کو گھیرنے کے لیے خود بی جے پی اعلیٰ کمان نے مخبری کی خوشگوار ذ مہ داری کو ادا کیا ہو؟

رشوت خوری کے معاملہ میں راجھستان کافی بدنام ہو چکا ہے گذشتہ سال جو ارکانِ پارلیمان نے ایوان میں رشوت کی رقم لے کر آئے تھے ان میں ایک کا تعلق راجھستان سے اور دوسرے کا تعلق راجے کے میکہ مورینا سے تھا۔ وادی چنبل کا یہ علاقہ مدھیہ پردیش اور راجستھان کی سرحدپر واقع ہے راجھستان کے اندر بی جے پی کا زوال قابل دید ہے اس لیے کہ کسی زمانے میں یہیں کوٹہ سے اڈوانی جی نے آر ایس ایس کے پرچارک کے طور پر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ بھیروں سنگھ شیخاوت جو آگے چل نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے نے واجپائی کو منع کر دیا تھا کہ پرمود مہاجن کو جے پور سے انتخاب نہ لڑایا جائے اس سے کارکنان کے سنسکار (اخلاق و اطوار)پر منفی اثرات پڑیں گے لیکن یہ سب اگلے وقتوں کی باتیں ہیں اب زمانہ بدل گیا ہے۔ راج ناتھ کو توقع تھی کہ جسونت کا انجام عَلمِ بغاوت بلند کرنے والی وسندھرا راجے سندھیا کو خوف زدہ کرنے کیلئے کافی ہو گا جن کے تین حامی ارکان اسمبلی کو پہلے ہی نکالا جا چکا ہے لیکن ارون شوری کے شور نے اچانک منظر بدل دیا وسندھرا نے محسوس کر لیا کہ راج ناتھ نامی کاغذی شیر کی ہوا نکل چکی ہے اور گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے مہارانی وسندھرا نے فی الحال نہایت سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے اور حامی ارکان اسمبلی کی معطلی کے رد ہونے تک کسی صورت استعفیٰ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں راج ناتھ سنگھ جو اپنے آپ کو پارٹی کا ’ناتھ‘ یعنی مالک سمجھ رہے تھے راج ماتا کی بیٹی کے سامنے پوری طرح بے بس ہو چکے ہیں وہ نہ اپنی بات منوا سکتے اور نہ ان کی بات مان سکتے ہیں۔

 یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ جسونت سنگھ کا تعلق بھی راجھستان سے ہے لیکن گذشتہ انتخاب میں خود انہوں نے گورکھا لینڈ کے مسئلہ پر مغربی بنگال سے انتخاب لڑا اور اپنے بیٹے کو موروثی حلقہ انتخاب بانسواڑہ سے کامیاب کرانے میں ناکام رہے۔ اس وقت پارٹی ہائی کمان نے جان لیا ہے کہ ان  کے اندر کوئی خاص دم خم باقی نہیں بچا ہے وہ کتاب تو لکھ سکتے ہیں لیکن انتخاب نہیں جیت سکتے۔ بی جے پی جیسی سیاسی پارٹی میں فکر و نظر سے زیادہ اہمیت ووٹ اور نوٹ کو حاصل ہو گئی ہے اسی لیے شاید پارٹی کے اندرجسونت سنگھ کے نکالے جانے پر ایک آنسو بھی نہیں بہا۔ اس کے برعکس وسندھرا کا معاملہ مختلف ہے۔ چمبل کی اس رانی نے ریاستی بی جے پی کو اپنے پاس یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے اور بی جے پی راجھستان شاخ ان کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑی ہوئی ہے۔

بی جے پی میں جو کچھ ہو تا دکھائی دے رہا ہے یہ اصل مرض نہیں بلکہ اس کی علامات ہیں۔ مرض کی تشخیص کی جائے تو پتہ چلتا ہے سب سے بڑ امسئلہ تنظیم کے بنیادی ڈھانچے کا ہے ہر تحریک نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اس کے بعد جماعتی نظم اور آخر میں افراد کا نمبر آتا ہے لیکن بی جے پی میں ترتیب الٹ گئی ہے سب سے اوپر افراد یعنی پارٹی کی اعلیٰ کمان ہے اس کے نیچے نظم و ضبط اور سب سے نیچے نظریہ پہنچ گیا ہے۔ قائد اعظم پر ہونے والی ساری بحث نظریاتی و انحطاط کا شاخسانہ ہے۔ اڈوانی نے پاکستان میں جا کر جو کچھ کہا اور جسونت نے جو کچھ لکھا نیز بی جے پی نے جس رد عمل کا اظہار کیا اور نریندرمودی نے کتاب پر پابندی لگا کر جو سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی یہ سب نظریاتی انتشار کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔

ارون شوری کے مطابق بی جے پی کا علاج یہ ہے کہ پہلے تواس کے صدر دفتر کو بمباری کر کے زمین دوز کر دیا جائے اور پھر آر ایس ایس کے ذریعہ اس کی ازسر نو تعمیر کی جائے لیکن اس معاملے میں خود آر ایس ایس کا حال بہت خراب ہے۔ سابق سر سنگھ چالک سدرشن جی نے اندور سے جو سدرشن چکر چلایا وہ تو جسونت سے بھی زیادہ خطرناک تھا وہ بولے محمد علی جنا ح نے لوک مانیہ تلک کے ساتھ کام کیا تھا وہ سچے قوم پرست تھے گاندھی جی کی خلافت تحریک کو دی جانے والی حمایت کی انہوں نے مخالفت کی تھی اور کہا تھا خلافت عثمانیہ کا ہندی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گاندھی جی اس فیصلے سے بد دل ہو کر ۹ سالوں تک جناح برطانیہ میں رہے اور خلافت عثمانیہ کے ختم ہو جانے کے بعد ہی لوٹے، پنڈت نہرو کے لیے مہاتما گاندھی کے پہلو میں نرم گوشہ تھاگاندھی جی نے نہ صرف جناح کے ساتھ امتیازی سلوک کیا بلکہ ان کی توہین بھی کی۔ گاندھی جی اگر چاہتے تو تقسیم کو ٹال سکتے تھے۔ پٹیل کے بارے میں جو کچھ جسونت نے لکھا وہی سب سابق سر سنگھ چالک ایچ وی سیشادری نے ۲۷ سال قبل اپنی کتاب’تقسیم ہند کی الم ناک داستان‘ میں لکھ رکھا ہے اس لیے بی جے پی کے حالیہ فکری خلفشار پر قابو پانا خود سنگھ کے بس کا روگ نہیں ہے۔

 کسی بھی اجتماعی نظم کو مضبوط بنانے والی سب سے اہم شہ عدل ومساوات ہوتی ہے۔  بدقسمتی سے بی جے پی میں اس کا زبردست فقدان پایا ج رہا ہے جس غلطی کے لیے ایک فرد کو اقتدار سے محروم کر دیا جاتا ہے دوسرے کو وہی کچھ کرنے کے باوجود انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ ارون جیٹلی کو تمام تر بد نظمی اور ناکامی کے باوجود راجیہ سبھا کا لیڈر بنا دیا گیا اس کے برعکس ہما چل پردیش کے وزیر اعلی کھنڈوری سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا۔ پارلیمانی انتخاب میں ناکامی کی ذمہ داری سے سب کو سبکدوش کر دیا گیا اور وسندھرا کوریاسی سطح پر ناکام ہونے کے باعث استعفیٰ دینے کے لیے کہا گیا۔ اس طرح کی تفریق و امتیاز جس جماعت کے اندر ہونے لگے بکھرنا اس کا مقدر ہو جاتا ہے۔

اجتماعیت کاتیسرا سنگین مسئلہ فرد کو جماعت پر فوقیت کا حاصل ہو جانا ہے اور اس خرابی کے سب سے بڑے مجرم اور ذمہ دار خود اڈوانی جی ہیں۔ اڈوانی جی کے تئیں جن لوگوں کی وفا داریاں مشکوک ہیں بلکہ جن کو آج بھی اٹل جی کا آدمی سمجھا جاتا ہے موقع ملتے ہی ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ کنارے کیے جانے والے سبھی لوگ اٹل جی کیمپ سے متعلق رہے ہیں جبکہ اٹل جی خود فی الحال عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں اور ان سے کسی قسم کا خطرہ اڈوانی جی کو نہیں ہے۔ ایک اور مسئلہ اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھنے کا ہے یہ روز روشن کی مانند ایک سچ ہے کہ جس کسی نے اڈوانی جی پر تنقید کرنے کی جرأت کی وہ اپنے آپ کورسوائی سے نہیں بچا سکا۔ آخری خرابی کرسی کے حوالے سے اڈوانی جی کی اندر پائی جانے والی حرص و طمع ہے جس نے ارکانِ جماعت کا ان پر سے اعتماد مکمل طور پر خاتم کر دیا ہے۔ سونیا نے ایک بار کہا میں وزیر اعظم نہیں بنوں گی پھر کبھی اس کرسی کی جانب پلٹ کر نہیں دیکھا اس سے لوگوں کا لگا کہ یہ جو کہتی ہیں سو کرتی ہیں۔

 اڈوانی جی جب پاکستان سے لوٹے تو بڑے طمطراق سے اعلان کیا میں اپنا موقف نہیں تبدیل کروں گا چاہے مجھے سیاست سے سنیاس کیوں نہ لینا پڑے لیکن پھر نہ صرف موقف میں کمزوری واقع ہوئی بلکہ استعفیٰ بھی واپس لے لیا گیا اور لوک سبھا کی کرسی بھی نہیں چھوڑسکے گذشتہ پارلیمانی انتخاب کی مہم کے دوران صاف طور پر اعتراف کیا کہ یہ آخری موقع ہے نتائج آ جانے کے بعد ناکامی کی ذمہ داری کو قبو ل کر کے استعفیٰ دیا انہیں توقع تھی کہ اسے قبول نہ کیا جائے گا لیکن سب لوگ جانتے تھے کہ یہ محض ایک ڈرامہ ہے وہ دوبارہ لوک سبھا کے لیڈر بنیں گے اور لوگوں کی ان توقعات پروہ پورا اترے۔ اگر پارٹی لیڈر شپ خوداس طرح کی مثال قائم کرے تو بقیہ لوگوں کا اس کے نقش قدم پر چلنا فطری امر ہے۔ آج کی تاریخ میں اڈوانی جی سے لوگ ڈرتے ضرور ہیں لیکن نہ کوئی ان کا احترام کرتا ہے اور نہ کوئی ان پر اعتماد کرتا ہے۔ محبت کا تو خیر اس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لال کرشن اڈوانی اور ان کے ہمنواؤں کو یاد رکھنا چاہئے کہ خوف و دہشت سے دل ٹوٹتے ہیں اور دولت و شہرت سے دل پھٹتے ہیں انسانی دل تو محبت و شفقت سے جڑتے ہیں اور جب تک کہ دل آپس میں نہیں ملتے کوئی تحریک نہیں چل سکتی۔

ہندو دھرم شاسترکے مطابق نسلی بنیاد پرانسانوں کو چار ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے جسے ورن آشرم کہا جاتا ہے منوشاستر کی مدد سے اس عقیدے کوسناتن دھرم میں راسخ کر دیا گیا۔ اس تفریق و امتیاز کی مذہبی توجیہ اس طرح کی گئی کہ اعلیٰ ذات کے براہمنوں کو برہما نے اپنے منہ سے پیدا کیا اور ادنیٰ ذات کے شودر برہما کے پیروں سے پیدا ہوئے جہاں تک درمیانی طبقہ کے کشتریوں کا تعلق ہے وہ برہما کے بازوؤں اور ویش پیٹ سے پیدا ہوے حالانکہ یہ ایک نہایت ظالمانہ اور احمقانہ تفریق تھی اس کے باوجود عملی دنیا میں اس کی بنیاد پر نہ صرف مختلف طبقوں کا مقام و مرتبہ بلکہ ان کے حدود اربع طے کر دئیے گئے۔ اس نظام معاشرت و سیاست کو خدمت کے حوالہ سے بڑی آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ براہمن کسی کی خدمت نہیں کرتے صرف اپنی خدمت کرواتے تھے شودر کسی سے خدمت نہیں لیتے صرف سیوا دھرم کا پالن کرنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے۔ جبکہ کشتری اور ویش چونکہ درمیان میں تھے اس لیے براہمن کی خدمت کرتے اور شودروں سے خدمت لیتے تھے۔

 دور حاضرکے معروف سیاسی نظام مغربی سیکولر جمہوریت میں یہ تقسیم اس طرح ہے کہ وہ ارباب اقتدار کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کرتا ہے نیز ہر جماعت ورن آشرم کی طرح تین طبقات میں منقسم ہوتی ہے۔ اعلیٰ کمان سب سے اوپر،  پارٹی کارکنان درمیان میں اور عوام الناس سب سے نیچے۔ ہائی کمان سبھی کا استحصال کرتا ہے لیکن اس کا استحصال کوئی نہیں کرتا، پارٹی کے کارکنان کا استحصال ہائی کمان کے ذریعہ ہوتا ہے مگر وہ عوام کا استحصال کرتے ہیں جبکہ بیچاری عوام کو یہ نظامِ سیاست سوائے استحصال کے کچھ اور نہیں دیتا۔ عوام اعلیٰ کمان اور کارکنان دونوں کے استحصال کا شکار ہوتے ہیں انہیں آپس میں ایک دوسرے کے استحصال کا موقع ضرور حاصل ہوتا ہے لیکن ارباب اقتدار یا سیاسی جماعت کے کارکنان ان کے استحصال سے محفوظ ہوتے ہیں۔  اس نظام کی خوبی یہ ہے کہ غلاموں کو آقا کا مجازی لقب عطا کرتا ہے انہیں اسبات کی آزادی سے نوازتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی آقا کا انتخاب خود اپنی مرضی سے کریں عوام الناس کو ایک مقررہ مدت کے بعد ’انتخاب‘ کے نام پر اس کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عوام الناس جس کے شکنجہ میں گرفتار ہوتے ہیں اس سے نجات حاصل کرنے کی خاطر کبھی کسی نئے کو آزماتے ہیں تو کبھی کسی پرانے مردود کو دوبارہ اقتدار سے نواز دیتے ہیں کبھی کبھارایسابھی ہوتا ہے کہ نامعلوم خوف و اندیشہ انہیں اپنی حالت زار پر صبر کرنے کے لیے مجبور کر دیتا ہے اوروہ تبدیلی سے گریز کر جاتے ہیں۔

 بی جے پی کے لیے امید کی اب یہی ایک کرن ہے۔ وہ اپنے خصائص کے بل بوتے پر کبھی بھی اقتدار میں نہیں آسکتی ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وقت کے ساتھ کانگریس کے تئیں عوام کی ناراضگی و بیزار ی میں اس قدر اضافہ ہو جائے کہ کانگریس کو سزا دینے کی خاطر ملک کی عوام بی جے پی کو دوبارہ اقتدار پر میں لے آئے بشر طیکہ اسوقت تک یہ پارٹی بقیدِ حیات ہو اور عوام کے سامنے کوئی دوسرا متبادل موجود نہ ہو اگر وہ وقت بہت جلد آ جائے تو اڈوانی جی کی بھی لا ٹری لگ سکتی ہے لیکن اس کا امکان بہت کم دکھلائی دیتا ہے۔ اسی لیے متحدہ قومی محاذ جس میں کبھی ۲۴جماعتیں ہوا کر تی تھیں اب صرف ۸ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے باہر کی حمایت کو خیر آتی جاتی رہتی ہے لیکن اندرونی خلفشار بی جے پی کے لیے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے ایسا لگتا ہے اب یہ بھارتیہ جھگڑا پارٹی خود آپس ہی میں لڑ مرے گی کسی اور کو اس کے انتم سنسکار کا کشٹ نہیں کرنا پڑے گا۔ تاش کے پتوں کا یہ ہوا محل حالیہ سونامی کے آگے شاید نہ ٹک سکے گا اور یہ شجر خبیثہ اس بار جڑ سے اکھڑ جائے گا۔ بی جے پی فی الحال اپنے وجود کے فیصلہ کن دھرم سنکٹ سے جوجھ رہی ہے چنتن اور منتھن کا سلسلہ جاری ہے اس کے نتیجے میں زہر نکلے گا یا امرت؟ یہ راز وقت کے سینے میں دفن ہے لیکن ایسا ضرور لگتا ہے۔

مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا   کہیں طے پا رہا ہے شہر کا مسمار رہنا

٭٭٭

 

بے انت سوالوں کی زنجیر ہے یہ دنیا

دنیا دار الامتحان ہے لیکن اکثر لوگ اسے دارالجزا سمجھ لیتے ہیں۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہاں اچھا اور برا وقت اچھے یا برے آدمی کے درمیان تفریق نہیں کرتا جو چیز ان دونوں کے درمیان فرق کرتی ہے و ہ ہر دو صورت میں ان کا روّیہ ہوتا ہے۔ اس بات کو ایک نہایت آسان مثال کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اسکول میں شریر اور شریف ہر قسم کے طلباء ہوتے ہیں اور ان میں سے ہرایک کو امتحان سے گذرنا ہوتا ہے۔ امتحانی پر چہ میں مشکل اور آسان سوال دونوں کے لیے ہوتے ہیں ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ محنتی طلباء سے صرف آسان اور بدمعاش طلباء سے مشکل سوالات کیے جائیں بلکہ دونوں کو ہر طرح کے سوال سے آزمایا جاتا ہے اسی کے ساتھ ہر سوال کا صحیح یا غلط جوا ب لکھنا یکساں نتیجہ نکالتا ہے اس سے قطع نظر کہ جوا ب دینے والا طالبعلم کون ہے ؟

امتحانی پرچہ کا عالمِ غیب میں پوشیدہ ہونا اس کی سب سے بڑی ضرورت ہے گو کہ ہر سوال کا جواب کتابِ ہدایت میں موجود ہے اس کے باوجود کوئی نہیں جان سکتا کہ اس کو کن سوالات کا سامنا ہو گا اور ا س کے ساتھ کب کیا حالات پیش آئیں گے اور وہ ان سے کس طرح نبرد آزما ہو گا لیکن جو لوگ ان بنیادی حقائق سے ناواقف ہیں ان کی نظر میں سخت حالات حق کو مشکوک بنا دیتے ہیں اور آسانیاں باطل کو حق بجانب ٹھہرا دیتی ہیں حالانکہ حق و باطل کا معیارِ  حقیقی حالات کی تنگی اور کشادگی نہیں بلکہ ہدایتِ الہی کی اطاعت یا اس سے بغاوت ہے۔

 امتحان دنیا سے گذرنے والے والی دو مشہور و معروف شخصیات لالو پرساد یادو اور نریندر مودی کے حالات زندگی کا مطالعہ مندرجہ بالا اسرارِحیات کو روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیتی ہیں۔ ان دونوں کے درمیان بے شمار چیزیں مختلف ہیں اس کے باوجود کچھ اشتراک بھی ہے مثلا ً دونوں سیاسی سربراہ ہیں دونوں کو داخلی اور خارجی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دونوں انتخابی عمل سے گذرتے ہیں اس لیے انہیں ایک ہی شعبہ یا فیکلٹی میں زیرِ تعلیم دو متضاد طبیعت کے طلباء شمار کر سکتے ہیں جن کا موضوع تو یکساں ہے مگر جامعہ مختلف ہے۔

نریندر مودی پہلی مرتبہ روشنی میں اس وقت آئے جب اڈوانی جی نے رام رتھ یاترا نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس یاترا کا آغاز سومناتھ مندر سے ہوا اور اسے گجرات کے بعد مہاراشٹر میں داخل ہونا تھا۔ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس پارٹی کا رسوخ بہت زیادہ تھا اس لیے اسے کامیاب کرنا ایک مشکل کام تھا جسے انجام دینے کی خاطر نریندر مودی اور پر مود مہاجن جیسے نوجوا نوں کا انتخاب کیا گیا۔ اس کے بعد آگے چل کر ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو اقتدار نصیب ہوا مگر یہ دونوں رہنما ریاستی اقتدار کی سیاست سے دور ہی رہے۔

گجرات میں بی جے پی کو شمال کے سوراشٹر اور جنوب میں سورت سے طاقت حاصل ہوئی۔ سورت کے کانشی رام رانا مرکزی وزیر ہوے اور سوراشٹر کے کیشو بھائی پٹیل کو وزارت اعلیٰ کی کرسی ملی۔ نریندر مودی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ کیشو بھائی مقبول رہنما ضرور تھے لیکن ان کے اندر انتظامی صلاحیت کا فقدان تھا انہیں شنکر سنگھ واگھیلا کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کا سیاسی فائدہ انہیں حاصل ہوا اور وسط مدتی انتخاب میں وہ ہمدردی کی لہر میں پھر کامیاب ہو گئے۔ اس کے باوجود ان کی نا اہلی عوام کو بی جے پی سے بیزار کرتی رہی۔ ان کے اپنے علاقہ بھوج میں آنے والے زلزلہ نے ان کی بد انتظامی کو پوری طرح بے نقاب کر دیا آگے چل کر مختلف میونسپل انتخابات کے نتائج نے یہ بات واضح کر دی کہ ریاست کی عوام ان کی چھٹی کرنے کے لیے انتخابات کا انتظار کر رہی ہے۔

اس وقت بی جے پی کی مرکز میں مخلوط حکومت تھی جسے مستحکم کرنے کے لیے اس انتخاب میں کامیابی بے حد ضروری تھی ایسے میں اڈوانی جی کو مودی کی یاد آئی اور انہوں نے ایک ایسے شخص کو جو ریاستی اسمبلی کا رکن تک نہیں تھا وزیراعلیٰ بنا کر گجرات پر تھوپ دیا نیز  کیشو بھائی پٹیل کو رسوا کر کے گھر بھیج دیا۔ ویسے اگر یہ نا بھی کیا جاتا تب بھی الیکشن کے بعد تو انہیں جانا ہی تھا۔ بی جے پی کی قیادت نے مودی کو میدان میں لا کر ایک جوا کھیلا تھا۔ نریندر مودی تنظیم کا آدمی ہے اچھا مقرر ہے اور حالات سے بھر پور سیاسی فائدہ اٹھانے کا فن جانتا ہے۔ گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس میں لگنے والی آگ اور رام بھکتوں کا اس میں جلنا مودی کے لیے نعمتِ غیر مرتقبہ ثابت ہوا اس نے گودھرا کی آگ میں بی جے پی حکومت کی ساری ناکامیوں کو جلا کر بھسم کر دیا عوام کے اندر انتقام کی آگ بھڑکا کر انہیں خونخوار درندہ بنا دیا اور ظلم و فساد کی ایسی آندھی برپا کی جس کے سامنے سونامی کی تباہ کاری بھی ہیچ معلوم ہوتی تھی۔ اس نے گجرات کی ہندو عوام کو اپنے گناہوں کا ساجھی دار بنا لیا اور خود ان کا بہی خواہ و محافظ بن کر کھڑا ہو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری دنیا میں تو بی جے پی اور مودی کی خوب رسوائی ہوئی مگر گجرات میں وہ انتخاب جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔

کانگریس پارٹی نے ہندو رائے دہندگان کی ناراضگی کا خیال رکھتے ہوئے گجرات کے فساد کا ڈرے سہمے انداز میں فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی لیکن فسادیوں کو بشمول مودی کے سزا دلوانے کی جانب کوئی سنجیدہ پیش قدمی نہیں کی۔ رام مندر کے مسئلہ کو بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں کرسی کی بھینٹ چڑھا دیا اور ترقی و خوشحالی کا نعرہ لگا کرپھرایک بارا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی مودی نے بھی یہی طریقہ کار اپنایا اور کامیاب رہا۔ ا س لیے کہ اس سے مقابلہ کا دم خم رکھنے والے شنکر سنگھ واگھیلا کو کانگریس کی اندرونی چپقلش نے کمزور کر دیا تھا۔ مودی کو گجرات میں ہرانے کے لیے سونیا گاندھی نہیں بلکہ مقامی رہنما کی ضرورت تھی جو اس کا متبادل بن کر سامنے آئے کانگریس اسے پیش کرنے میں ناکام رہی اور مودی دوسری بار کامیاب ہو گیا۔

ترقی و خوشحالی کا ڈھکوسلہ مودی کے لیے خاصہ معاون ثابت ہوا اس نے اب اپنی شبیہ بدلنی شروع کر دی اوراس کوشش میں جس طرح اڈوانی جی نے قائد اعظم جناح کی قبر پران کی تعریف و توصیف کر کے اپنے پریوار کو اپنا دشمن بنا لیا تھا اسی طرح مودی نے احمد آباد میں سیکڑوں غیر قانونی مندروں کو سڑک وسیع کرنے کی خاطر زمین دوز کر دیا۔ نریندر مودی سے ایسی توقع اس کا بڑا سے بڑا دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کانگریس ہکاّ بکاّ کھڑی منہ تک رہی تھی مگر وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل والے ہنومان کے بھکت ضبط نہ کر سکے اور لنگوٹ چڑھا کر اکھاڑے میں کود گئے لیکن اب نہ مودی کو ان کی ضرورت تھی اور نہ پرواہ تھی۔ انقلاب زمانہ نے مودی کو ان کی مجبوری بنا دیا تھا وہ جیسا بھی تھا ان کے لیے کانگریس سے غنیمت تھا اس لیے کہ کانگریس کا اقتدار میں آنا انہیں جیل بھجوانے کا سبب بن سکتا تھا دوسری جانب ٹاٹا کی نانو کار فیکٹری کے گجرات میں آنے کو مودی کی عظیم کامیابی قرار دیا جا رہا تھا ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار اسے مستقبل کا وزیراعظم کہنے لگے تھے زر خرید میڈیا انتخاب سے قبل اس غبارے میں ہوا بھرتا جاتا تھا اور مودی پھولے نہ سماتے تھے۔ پارٹی کے اندر مودی کا قد جیسے جیسے بڑھتا جاتا قومی سطح پر کچھ کر گذرنے کے خواب سجتے جاتے تھے۔ امیدوں اور آشاؤں کے چراغ روشن ہوتے جاتے تھے۔ ایسے میں نریندر مودی کی حالت ایک ایسے شخص کی مانند ہو گئی بقول شاعر  ؎

پانی میں روز بہاتا ہے ایک شخص دئیے امیّدوں کے

اور اگلے دن تک پھر ان کے ہمراہ بھنور میں رہتا ہے

مودی کو بھنور میں گھرنے کا احساس اس وقت ہوا جب وہ اڈوانی جی کی سیاسی ارتھی کو آگ دکھانے کی دوڑ میں سب سے آگے نکل چکا تھا اورانتخابی نتائج کی ایک ننھی سی سوئی نے ساری ہوا پچ سے نکال دی تھی مودی اور اس کے سب سے بڑے دشمن لالو پرشاد دونوں کا دماغ ذرائع ابلاغ نے خراب کیا۔ جب میڈیا ان کا دشمن تھا یہ لوگ سیاسی طور پر بڑے کامیاب تھے لیکن جب میڈیا نے ان دونوں کی تعریف و توصیف شروع کر دی دونوں کا بھٹا بیٹھ گیا کل تک جو لوگ لالو کی آئی آئی ایم اور ہارورڈ میں ہونے والی تقریریں شائع کر رہے تھے آج وہی میڈیا لالو کے کیڑے نکالنے میں لگ گیا تھا اس کی بیجا خوداعتمادی کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اسے احمقوں کی جنت میں رہنے والا بے وقوف رہنما قرار دے رہا تھا مودی کو قومی سطح پربی جے پی کی ناکامی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا اور یہ ثابت کیا ج رہا تھا کہ جہاں بھی وہ انتخابی مہم کے دوران گیا بی جے پی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا نیز جہاں اسے آنے سے منع کیا گیا مثلاً بہار وہاں بی جے پی کی بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔

نریندرمودی کا ستارہ ہنوز گردش سے باہر نہیں آیا ہے۔ گزشتہ دنوں زہریلی شرا ب پی کر مرنے والوں نے اسے ایسے رسوا کیا کہ کبر و غرور کا سارا نشہ ہرن ہو گیا لیکن سپریم کورٹ نے اے ٹی ایس کو احسان جعفری کے معاملہ میں مودی سے تفتیش کی اجازت دے کر اس کے لیے خطرناک صورتحال پیدا کر دی اس سے پہلے جب نروڈا پاٹیہ پرفساد بھڑکانے کے الزام میں مودی کی دست راست مایا کندنانی کو گرفتار کیا گیا تھا تو اسے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا اب شکنجہ مودی گردن پر تنگ ہو رہا ہے۔ بی جے پی کی روایت تو یہی ہے ان لوگوں نے اوما بھارتی کو ٹھکانے لگانے کی خاطر وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش کی حیثیت سے ان کا استعفیٰ لیا اور انہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔

لالو نے اس طرح کی صورتحال میں اپنی بیوی رابڑی دیوی کو سنگھاسن پر براجمان کیا اور خود اس کے چرنوں میں بیٹھ کر حکومت کرنے لگے لیکن بے چاری اوما ایسا نہیں کر سکتی تھی اس لیے کہ وہ مودی کی مانند برہما چاری ہے۔ اور جس تحریک سے انہوں نے بیاہ رچا کر اس پر اپنا تن من نچھاور کیا ہے وہ بدقسمتی سے بے وفا ہرجائی ہے۔ مطلب نکل جانے پر وہ اپنے عاشق کی جان لیوا دشمن بن جاتی ہے اوما بھارتی کا عبرت ناک انجام دنیا کے سامنے ہے استعفیٰ کے بعد اوما بھارتی کی حالت دھوبی کے گدھے جیسی ہو گئی ممکن ہے مودی بھی کل نہ گھر کا رہے نہ گھاٹ کا اس لیے کہ خود اس کے اپنے گھر میں بے شمار دشمن پہلے ہی سے موجود ہیں اور ہر ہر گھاٹ پر اسے موت کے گھاٹ اتارنے والے نہ جانے کب سے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔

مظلوم احسان جعفری کا خون عرصہ دراز کے بعد رنگ لا رہا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی کی پیشانی پر ابھرنے والا کلنک کا یہ ٹیکا اگر اسے تختہ دار تک نہ بھی پہنچا سکا تب بھی اس کی سیاسی زندگی کو ضرور سولی پر لٹکا دے گا۔ اس دارا لامتحان میں مودی اور اوما جیسے لوگوں کی رسیّ کو جب دراز کیا جاتا ہے تو وہ آسمان میں اڑنے لگتے ہیں اور پھر جب وہ تنگ ہونے لگتی ہے تو ان کی ذلت ّ و رسوائی اوروں کے لئے نشانِ عبرت بن جاتی ہے۔ لالو پر ساد یادو ہو یا نریندر مودی انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ بقول امجداسلام امجد  ؎

بے انت سوالوں کی زنجیر ہے یہ دنیا

اس عکس کے سایوں کی تصویر ہے یہ دنیا

٭٭٭

 

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

سپریم کورٹ کے اندر عشرت جہاں معاملہ میں مرکزی حکومت نے آخر کار اپنے سابقہ حلف نامہ کو واپس لے لیا۔ پانچ سالہ طویل پر عزم جدوجہد کی یہ ایک غیر معمولی کامیا بی ہے آجکل کے دشوار گذار حالات میں ایسا کیونکر ممکن ہو سکا اس کا اندازہ لگانے کے لیے ان مراحل کا جائزہ لینا ضروری ہے جن سے گذر کر یہ کارواں اس پڑاؤ تک پہنچا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ منزل مقصود نہیں ہے۔ اس کے باوجود یکے بعد دیگرے حاصل ہونے والی اس چوتھی کامیابی پر لازم ہے کہ اللّٰہ رب العزت کا شکر ادا کیا جائے اور ساتھ ہی اب تک کے پیش رفت پر سرسری نگاہ ڈالی جائے۔ ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے جن کے ذریعہ ظلم و جبر کے خلاف یہ کشمکش جاری و ساری رہی ایسا کرنا تقدیس نعمت کی خاطر بھی ضروری ہے اور رہنمائی و حوصلہ حاصل کرنے کے لیے بھی  مفید ہے۔

کسی برائی کو اگر عام کر دیا جائے تو اس کے خلاف پایا جانے والا فطری اضطراب آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے بدقسمتی سے یہی کچھ انسانی حقوق کے معاملہ میں ہوا ہے۔ جان و مال اور عزت و آبرو ہر شے کی پامالی کواس قدر عمومیت عطا کی گئی کہ ایک طرف عوام اس حوالے سے بے حسی کا شکار ہو گئے اوردوسری جانب سرکاری حلقوں میں اسے معیوب نہیں بلکہ مطلوب سمجھا جانے لگا۔ معصوموں کا قتل کرنے والے پولس افسران کو انعام و اکرام سے نوازا جانے لگا۔ بے گناہوں کے خلاف ظالموں کو سرکاری پشت پناہی حاصل ہو گئی اور اس تلخ حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ کانگریس پارٹی اس میدان میں بی جے پی سے دو قدم آگے ہی رہی۔

آجکل سیاست کی کھیتی کو معصوم عوام کے خون سے سینچا جاتا ہے اور پولس افسران کی ترقی و پذیرائی بے گناہوں کے آ ہ و بکا پر پروان چڑھتی ہے۔ ذرائع ابلاغ قانون کو اپنے قدموں تلے روندنے والے درندوں کو سراہتا ہے۔ انہیں سپر ہیرو قرار دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان پر فلمیں بنتی ہیں۔ سنسر بورڈ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور عوام ان مظالم کو پردہ سیمیں پر دیکھ کران سے کڑھنے کے بجائے تفریح حاصل کرتے ہیں۔ اس غیر فطری مزاج کو پروان چڑھانے سے قبل اس بھیانک ظلم کے لیے ’پولس انکاؤنٹر‘ کی اصطلاح ایجاد کی گئی اور حفاظتی عملہ کو عدالتی اختیارات سے نواز دیا گیا۔ ملزم کو عدالت میں پیش کر کے ثبوت فراہم کرنے کی علت کو ختم کر دیا گیا اور چند مخصوص پولس افسران کو بغیر کسی مقدمہ کے سزائے موت دینے کا مالک و مختار بنا دیا گیا بقول شاعر۔

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

ریاست مہاراشٹر کے اندر نوے کی دہائی میں انکاؤنٹرکافی مقبول ہوئے جواز یہ فراہم کیا گیا کہ ایسا زیرزمین غنڈہ گردی کے خاتمہ کی خاطر کیا ج رہا ہے ۱۹۹۸سے ۲۰۰۰ کے درمیان تین سو لوگ پولس کے ہاتھوں مارے گئے ان میں سے کتنے مجرم تھے اور کتنے بے قصور اس کا فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ آگے چل کر یہ بھی سننے میں آیا کہ کسی ایک گینگ سے سپاری لے کر پولس اس کے مخالفین کا صفایا کر رہی ہے۔ دیا نایک نے ۶۷ انکاونٹر کیے اور اس کے پاس سے ۶۳لاکھ کی غیر مسروقہ املاک بدعنوانی مخالف دستہ نے چھاپہ مار کر برآمد کی آخر یہ دولت کہاں سے آئی؟اس کا جواب کوئی نہ دے سکا اسی زمانے میں آندھرا پردیش میں نکسلوادیوں کے بہانے سے پولس کو اسی قسم کے اختیارات دئیے گئے اور نتیجہ یہ ہوا ۱۹۹۷ ء سے لے کر۲۰۰۷ء تک ۱۸۰۰ لوگوں کو پولس نے ہلاک کیا۔ اس کے خلاف آندھرا میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہت کچھ ہاتھ پیر مارا۔ مجبوراً عدالت نے ہر انکاونٹر کی عدالتی تفتیش کو لازمی قرار دے دیا۔

گجرات میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کی خاطر مودی نے دہشت گردی کے نام پر یہ کھیل شروع کیا اور ونجارہ کی مدد سے ۲۰ لوگوں کا انکاونٹر کروا دیا۔ جن میں ۶ لوگوں کی بے گناہی پر عدالت مہر لگا چکی ہے گویا جہاں مہاراشٹر اور گجرات میں یہ کام بی جے پی اور شیوسینا کی زیر اہتمام ہوا وہیں آندھرا میں اسی کا م کو کانگریس اور تلگو دیسم کی سرپرستی حاصل رہی۔ اس کے علاوہ دہلی، یوپی،  اترا کھنڈ، چھتیس گڈھ، منی پور اور نہ جانے کہاں کہاں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے لیکن جس طرح کی تحریک اور کامیابی خواجہ یونس،  سہراب الدین اور عشرت جہاں کے معاملہ میں ملی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے اس لیے ان کا مطالعہ ضروری تاکہ مستقبل میں خدانخواستہ اس طرح کی صورتحال درپیش ہو تو ہم محض ماتم پر اکتفا کر کے مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے مثبت انداز میں ظلم کا استیصال کر سکیں۔

عشرت جہاں کے معاملے میں کئی لوگوں نے بیش قیمت خدمات پیش کیں لیکن یہاں مثال کے طور پران میں سے دو اہم کردار کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ یہ تحریک گذشتہ سالوں میں کئی اتار چڑھاؤ سے گذری لیکن ان میں سے چارایسے واقعات پر توجہ کی ج رہی ہے جو نشان راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ افراد میں سب سے اول عشرت کی دلیر ماں محترمہ کوثر جہاں ہیں اور دوسرے نمبر پر بے لوث سماجی کارکن عبدالرؤف خان کا نام آتا ہے جن چار واقعات پر گفتگو ہو گی وہ حسب ذیل ہیں :

عشرت کی لاش کو ممبرا لانے کے لیے گجرات جانا،

ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرنا،

ثبوت کی فراہمی کے لیے تگ و دو کرنا اور

ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانا۔

 ا س طرح کے کسی بھی معاملہ میں اولین ذمہ داری خود مظلوم کی ہوتی ہے اگر وہ خود ہمت ہار کر بیٹھ جائے یادہشت زدہ ہو جائے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا عشرت کے پسماندگان میں اس کی غریب اور بیوہ ماں اگر آگے نہیں آتیں تومعاملہ پہلے ہی مرحلے میں ختم ہو جاتا  اور عشرت کے ساتھ یہ مقدمہ بھی مدفون ہو جاتا۔ قاتلوں کو نوازا جاتا اور معصوموں کو دہشت گرد قرار دیکر اس کے توسط سے پوری قوم کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا۔ ویسے کوثر جہاں کو روکنے والے کئی اسباب موجود تھے مثلاً جو ہو گیا سو ہو گیا،  اب عشرت لوٹ کر نہیں آسکتی،  دوسرے بچوں کو کسی نئی مصیبت میں کیوں ڈالا جائے،  ایسے میں جبکہ دو وقت کی روٹی کا مسئلہ درپیش ہے ایک نیا محاذ کیوں کھولا جائے وغیرہ وغیرہ اس طرح کے انگنت اندیشوں کے درمیان انہوں نے اپنے آپ کو گھرا ہوا پایا ہو گا اور پھر بہت سارے نام نہاد ہمدردوں نے بھی کئی بزدلانہ مشورے دئیے ہوں گے لیکن ا ن میں سے کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر وہ آگے بڑھیں۔ یہ ایک نہایت قابل تحسین قدم تھاجس نے یہ درس دیا کہ اللّٰہ پر توکل کر کے آگے بڑھنے والوں کے لیے تمام تر مجبوریاں بے معنیٰ ہوتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں معاشرے کی بھی نہایت اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمارا سماج مختلف خانوں میں منقسم ہو جاتا ہے۔ پڑھے لکھے،  دانشور اور مالدار لوگوں کا طبقہ جنھوں نے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر اپنے آپ کو ملت سے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ وہ لوگ حقیقتِ حال معلوم کرنے کے کے لیے غیروں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا کام ناقص اور غلط اطلاعات کی بنیاد پر مضامین لکھنا، تقریریں کرنا اور ٹی وی مباحث میں حصہ لینا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو کھانے کمانے کے علاوہ کسی سے کوئی سروکار نہیں ان کی دوڑ دھوپ شکم پروری سے شروع ہو کر دنیا پرستی پر ختم ہو جاتی ہے اور وہ ان دو نقطوں کے درمیان کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹتے رہتے ہیں۔  عدل و انصاف سے انہیں اس وقت تک کوئی سروکار نہیں ہوتا جب تک کہ وہ خود ظلم کی چکی میں نہیں پستے اور جب وہ پھنس جاتے ہیں تو ایسے لوگوں کی جانب بے حس سماج کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔

درد مند حضرات بھی ہماری ملت میں پائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی بڑی تعداد مایوسی کا شکار ہے اس لیے وہ اظہار تاسف پر اکتفا کر لیتے ہیں،  چند ایک وقتی طور متحرک ہوتے ہیں زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور بہت جلد تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں یا خوف و دہشت کا شکار ہو کر میدان عمل سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں لیکن سب لوگ ایسے نہیں ہوتے چند جیالے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں شاعر کہتا ہے۔

مگر ایسے ایسے غنی بھی تھے اسی قحط زار دمشق میں

جنھیں کوئے یار عزیز تھا جو کھڑے تھے مقتل عشق میں

ان گئے گذرے حالات میں بھی ملت کا دامن رؤف لالہ جیسے لوگوں سے خالی نہیں ہے جو اپنی کوٹھیوں میں بیٹھ کر اس بات کا انتظار نہیں کرتے کہ کوئی سائل آ کر جہانگیر کا گجر ہلائے تو وہ نورجہاں کی اوٹ میں نمودار ہوں بلکہ وہ لوگ خود دوڑ کر جائے واردات پر پہنچ جاتے ہیں مظلوم کے آنسو پوچھتے ہیں ان کو دلاسہ دیتے ہیں ان کے غم میں شریک ہو کر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر کوئی بدلا بھی نہیں چاہتے۔ اگر اس طرح کا کوئی فرد آگے نہ بڑھے تو کوثر جہاں جیسی خاتون یکہ و تنہا بہت کچھ نہیں کرسکتی۔ داخلی حوصلہ اور بیرونی حمایت کے دو پہیوں پر چل پڑنے والی سواری جب مستقل مزاجی کے ساتھ محو سفر ہوتی ہے تو منزلیں از  خود آگے بڑھ کر ان کے قدم چومتی ہیں اور رب کائنات کی مدد ان راستوں سے آتی ہے جن کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتایہ کوئی خیالی بات نہیں ہے بلکہ عشرت جہاں معاملہ کی تفصیل اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔

عشرت جہاں کے فرضی انکاونٹر کی خبر جب ان کے گھر پہنچی تو پہلا چیلنج لاش کو احمد آباد سے ممبرا لانے کا تھا مہاراشٹرا کی پولس پہلے ہی ان کے گھر کی تلاشی لے چکی تھی اور یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ میڈیا میں جا کر کون کون سی اشیاء یہ کہہ کر پیش کر دے کہ اسے عشرت کے گھر سے بر آمد کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مودی اور ونجارہ کے کچھار میں داخل ہونا بھی ایک جان جوکھم کا کام تھا لیکن یہ لوگ پیچھے نہیں ہٹے جب تک لاش واپس نہیں آئی تھی میڈیا میں ہر کوئی عشرت کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا لیکن جس اعتماد کے ساتھ ان لوگوں نے بے بنیاد الزامات کی تردید کی اس کے چلتے ہوا کا رخ بدلنے لگا۔ سماج وادی پارٹی کے قومی رہنماؤں نے بھی علی الاعلان اسے بہیمانہ قتل قرار دے دیا اور راشٹروادی کانگریس کی مقامی قیادت نے نہ صرف اخلاقی بلکہ مالی تعاون بھی پیش کیا۔

یہ پہلی جزوی کامیابی تھی جو اولین آزمائش کے بعد ہاتھ لگی تھی اس موقع پر جو ساتھ ہوئے وہ کچھ دور ساتھ نبھانے کے بعد ادھر ادھر نکل گئے لیکن حوادث اور بلاؤں سے بے پرواہ یہ قافلہ سخت جاں آگے بڑھا اور اس نے احمد آباد عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ قنوطیت پسندوں نے اس موقع پر بھی اس شعر کی مصداق مایوس کرنے کی کوشش کی۔

میرا قاتل ہی میرا منصف ہے

کیا مرے حق میں فیصلہ دے گا

مقدمہ دوسرا اہم قدم تھا لیکن اس کا محض قائم ہو جانا کافی نہیں ہوتا فیصلہ تو ثبوت کی بنیاد پر ہوتا عام حالات میں یہ پولس کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن اس معاملہ میں پولس ثبوت منظر عام پر لانے کے بجائے ان کی پردہ پوشی کر رہی تھی اس لیے کہ خود اپنے خلاف تو شواہد وہی جمع کرتا ہے جسے خودکشی کرنی ہو۔ اس لیے پولس سے کو ئی توقع نہیں تھی لامحالہ اس قا فلہ کو شواہد کی تلاش میں نکلنا پڑا اور اس طرح یہ لوگ اس رہائشی ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں انکاونٹر سے قبل دو دنوں تک عشرت اور اس کے ساتھی کو غیر قانونی طور پر نظر بند رکھا گیا تھا۔ اس موقع پریہ لوگ ایک نئی آزمائش میں گھر گئے، پولس کے بجائے بجرنگ دل کے غنڈوں نے قیام گاہ پر ہلہ بول دیا حالانکہ بجرنگ دل کا ا س کیس کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن جیسے کہ مثل مشہور ہے چور چور موسیرے بھائی اسی طرح قدم قدم پر زعفرانیوں کی مدد کرنے والی پولس نے اگر ایک آدھ مرتبہ ان لوگوں سے مدد مانگ لی جو معصوم مسلمانوں کو عتاب کا شکار کرنا سب سے بڑا پنیہ سمجھتے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ پولس خود سادہ لباس اور لمبے تلک لگا کر ہر ہر مہا دیو کا نعرہ لگاتے ہوئے آ دھمکی ہو لیکن اس نازک گھڑی میں اللّٰہ رب العزت نے اپنے اذن خاص سے ہوٹل کے مالک کا دل نرم کر دیا وہ ان لوگوں کو عمارت کے عقب میں لے آیا اور بجرنگی بندروں سے بچا کر حفظ و امان سے نکل جانے کا راستہ دکھلا دیا کوئی بڑی سے بڑی حکمت عملی جو کام نہ کر سکتی تھی وہ مشیت نے از خود کر دیا۔

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

مثل مشہور ہے ہمت مرداں مددِ خدا،  جب اپنا سب کچھ داؤں پر لگا کر بندے کوشش کرتے ہیں تو رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے۔ گجرات میں نہ صرف پولس بلکہ عدالت بھی پابند و سلاسل ہے اس حقیقت کو سپریم کورٹ نے بسٹ بیکری کیس میں تسلیم کیا اور مودی کو پھٹکار سنانے کے بعدکیس ممبئی کی عدالت میں منتقل کر دیا لیکن اسی گجرات کے دارالخلافہ میں ہائی کورٹ نے ان ثبوتوں کے لوہا مان لیا اور پولس کی کہانی کو رد کرتے ہوئے،  سچائی کی طہ میں پہنچنے کا کام جوڈیشیل مجسٹریٹ ٹی ایس تمنگ کے حوالے کیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہندوستان کی عدالتی تاریخ کاسنہرا باب ہے۔

ویسے ہر کسی کو اسبات کی توقع ضرور تھی کہ کسی نہ کسی حد تک حقائق پر سے پردہ ضرور اٹھے گا لیکن کسی کے وہم و گمان میں یہ نہیں تھا کہ جناب تمنگ اس معاملہ کو اس طرح سنجیدگی سے لیں گے۔ اپنی منصبی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اس قدر گہرائی میں اتر جائیں گے اور کمال غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیں گے۔

مجسٹریٹ تمنگ جانتے تھے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس میں کس طرح کے خطرات درپیش ہیں اس لیے انہوں نے اپنی ڈھائی سو سے زیادہ صفحات کی رپورٹ کو لکھنے کے لیے کسی سرکاری یا نجی ٹائپسٹ کی مدد تک نہیں لی اگر اس راز داری سے کام نہ لیا جاتا تو یقیناً اس کی بھنک مودی کو لگ جاتی اور پھر اس کے بعد دو ہی باتیں ہوتیں یا تو رپورٹ بدل جاتی رپورٹ لکھنے والا غائب کر دیا جاتا۔ کسی نام نہاد ویب سائٹ سے لشکر طیبہ کے ذریعہ انہیں اغوا ء کیے جانے کی ذمہ داری قبول کروا لی جاتی ذرائع ابلاغ میں ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا اور اس ہنگامہ کے دوران مجسٹریٹ صاحب کو بھی خدا نخواستہ اس انجام سے دوچار کر دیا جاتا جس کا شکار ہیمنت کرکرے کو کیا گیا یہ سب ہو جانے کے بعد مودی ان کے پسماند گان کے آگے روپیوں کی جھولی لے کر مگر مچھ کے آنسو بہانے پہنچ جاتے پھر اس کے بعد تو عشرت کا نام لینا بھی مشکل ہو جاتا لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا آج ساری دنیا کے انصاف پسند لوگ نہایت ادب و احترام کے ساتھ مجسٹریٹ تمنگ کی جانب دیکھتے اور ان کی حفاظت کے لیے دعا گو ہیں۔

جناب تمنگ نے اس رپورٹ کا ایک ایک حرف اپنے خوں جگر میں ڈوبا کر لکھا ہے قتل کی تمام تر تفصیل لکھنے کے بعد وہ اس کا مقصد بیان کرنا بھی نہیں بھولے۔ انہوں نے واضح انداز میں یہ لکھ دیا کہ ان معصوموں کو سردار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بلی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ نریندر مودی پر اس قدر صاف الزام آج تک گجرات کے اندر تو درکنار باہر بھی کسی جج نے نہیں لگایا ہو گا۔ مجسٹریٹ تمنگ کے اس اقدام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن اگر کچھ لوگ اس معاملہ کو اتنی دور تک کھینچ کر نہیں لاتے تو نہ کمیشن بنتا اور نہ یہ انکشافات ہوتے۔ ویسے تحقیق کے لیے عدالت کا تمنگ کو منتخب کرنا اور ان اس بیباکی کے ساتھ اپنے فرض منصبی کو ادا کرنا صرف اور صرف نصرت الٰہی کے سبب ہے جو ثابت قدموں کے لیے مخصوص ہوتی ہے اس تیسری کامیابی کی ترجمانی مندرجہ ذیل شعر کس خوبی سے کرتا ہے۔

جو لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف

قاضی شہر کچھ اس باب میں اظہار کرے

ہندوستانی ذرائع ابلاغ عشرت جہاں کے معاملہ میں کمبھ کرن کی نیند سو رہا تھا لیکن تمنگ رپورٹ کے صور سے وہ اچانک بیدار ہو گیا این ڈی ٹی وی کے مالک ڈاکٹر پرنب رائے نے بذات خود کوثر جہاں سے بات کی اور اس قدر جذباتی ہو گئے کہ ٹی وی کے پردے پر انہیں پہلے کبھی بھی ایسا غم زدہ نہ دیکھا گیا۔ بی جے پی کے ہاتھ سے طوطے اڑ گئے بڑے بول بولنے والا مودی روپوش ساہوگیا۔ کانگریس والے اچھل کود کرنے لگے اس کے جواب میں بی جے پی نے مرکزی حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش کردہ حلف نامہ پیش کر دیا جس میں عشرت جہاں کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ اپنی ڈوبتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے کی خاطر اس تنکے کے سہارے بی جے پی نے ہاتھ پیر مارنے لگی کانگریس اس حلف نامہ کو لے کر تذبذب کا شکار ہو گئی ہندو ووٹوں کی ناراضگی سے بچنے کے لیے بین بین باتیں کرنے لگی

 اس بیچ مرکز ی خفیہ ایجنسی کی جانب سے عشرت کی نگرانی کروانے کی خبر منظر عام پر آئی لیکن مہاراشٹر میں رہنے والوں کی نگرانی کے لیے گجرات پولس کو زحمت دینے کی نئی گتھی میں بی جے پی پھر سے الجھ گئی مودی کے ایماء پر عدالت نے تکنیکی بنیاد پر تمنگ رپورٹ کو پریس کے حوالے کیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے معلق تو کر دیا لیکن اے ٹی ایس کو اسے استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی گویا کہ رپورٹ کے صحیح ہونے کو بلا واسطہ تسلیم کر لیا گیا۔

 ممبئی حملہ کے بعد اے ٹی ایس جس طرح کی کمزوری کا مظاہرہ کر رہا ہے، مالیگاؤں دھماکے کے زعفرانی ملزمین کے ساتھ جس طرح کی نرمی برتی ج رہی اس سے اقلیتوں کے اعتماد کو دھکا لگا ہے اس لیے ہائیکورٹ کے تمنگ رپورٹ کو معلق کرنے اور آگے کی تفتیش سی بی آئی کے ذریعہ کرائے جانے کا مطالبہ لے کر کوثر جہاں اور ان کے ہمنوا سپریم کورٹ پہنچ گئے جس دن مقدمہ دائر ہوا دوسرے دن گوں مگوں میں پڑی ہوئی مرکزی حکومت کو اپنا سابقہ حلف نامہ واپس لینے پر مجبور ہونا پڑایہ چوتھی اور اب تک کی آخری کامیابی ہے جو اس پہلے والی کامیابیوں کی طرح مخصوص آزمائش اور اس کے خلاف سینہ سپر ہو جانے کے نتیجہ میں ہاتھ آئی ہے بقول حکیم الامت علامہ اقبال حق گوئی و بیباکی ہمیشہ ہی اپنا اثر دکھاتی ہے۔

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی

اللّٰہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

اللّٰہ کے شیروں کی یہ جدوجہد ہنوز جاری ہے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس سے کیا ہو گا؟ آگے جو ہو گا سو ہو گا لیکن ابتک جو کچھ ہو چکا ہے وہ بھی قابل صد شکر ہے۔ ساری دنیا کے سامنے کم از کم یہ بات اب صاف ہو کرآچکی ہے کہ اس معاملہ میں حق پر کون ہے اور ناحق کون؟ دہشتگرد کون ہے دہشت گردی کا شکار کون ہوا ہے ؟

اس واقعہ کے بعد ان پولس افسران کے دلوں میں جو اپنے سرداروں کی خوشنودی کے لیے معصوموں کے خوں سے ہولی کھیلتے ہیں اور اپنی ترقی کرواتے ہیں یہ اندیشہ ضرور لاحق ہو گا کہ یہ خطرناک کھیل ہے اگر معاملہ کسی تمنگ کے ہاتھ چلا جائے توسارا مکھوٹا اتر سکتا ہے اور ترقی کے بجائے ونجارہ کی طرح جیل میں چکی پیسنے کی نوبت آسکتی ہے ؟ یہ خوف یقیناً مظالم میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس میں یہ درس بھی پنہاں ہے کہ مایوسی کفر ہے اللّٰہ کا نام لے کر جدوجہد کرنے والوں کو اس دنیا میں بھی کامیابی ملتی ہے۔ سب سے اہم سوال کہ کیا مودی کو سزا ملے گی؟ ہمارا دل کہتا ہے کہ ضرور ملے گی لیکن اگر نہ بھی ملے تب بھی ہم اس کے لیے جوابدہ نہیں ہیں۔ انسان کا کام نتائج سے بے پرواہ ہو کر کوشش کرنا ہے نتائج برپا کرنے والی ذاتِ والا صفات تو کوئی اور ہے اس کی جانب سے ایسے فیصلے صادر ہوتے رہتے ہیں جو ہمارے وہم و گمان سے پرے ہوتے ہیں ساتھ ہی وہ سب سے زیادہ قدردان ہستی ہے۔ رب کائنات اپنے بندوں کی ہر کوشش کو بے پناہ قدر کرتے ہیں بشرطیکہ بندے اپنے آقا کی ویسی ہی قدردانی کریں جیسا کہ اس کا حق ہے۔

٭٭٭

 

شکوۂ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن

اس دارِ فانی میں کسی شہ کو ابدی ثبات نہیں،  نہ تو خوشی دائمی ہے اور نہ غم کو دوام حا صل ہے۔ ویسے جو خوشی غیر متوقع طور پر یونہی راہ چلتے ساتھ ہو لیتی ہے وہ پلک جھپکتے نہ جانے کب داغِ مفارقت دے جاتی ہے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا اور اس کے بچھڑ جانے کا کوئی خاص ملال بھی نہیں ہوتا۔ یہی حال اچانک رونما ہونے والے حادثات اور مشکلات کا ہے کہ آندھی طوفان کی طرح آتے ہیں اور سر سے گذر جاتے ہیں لیکن ایسا زخم جو انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہو وہ آسانی سے نہیں بھرتا اور جاتے جاتے بھی صدیوں کا کرب اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ وہ خوشیاں جن کا بے صبری سے انتظار ہوتا ہے جن کے استقبال کی تیاری کی جاتی ہے جن کے لیے منصوبہ بند کوشش اور جدو جہد کی جاتی ہے جن کے لیے محنت، مشقت اور قربانیوں کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں ان کی بات کچھ اور ہی ہوتی ہے ان کا قیام دائمی نہ سہی دیر پا ضرور ہوتا ہے۔ اس بہار کے پھول عرصہ دراز تک چمنستان کو مہکاتے رہتے ہیں فرحت و انبساط کا ایک ایسا چشمہ رواں ہو جاتا ہے جو آسانی سے خشک نہیں ہوتا۔ تصور کریں اگر عیدالفطر،  رمضان اور اس کے روزوں کے بغیر آ جائے اور عید ا لا ضحی کا دامن سنتِ ابراہیمی کی قربانی سے خالی ہو تو یہ دونوں کس قدر بے رونق ہو جائیں گی؟ دن کا صیام اور راتوں کا قیام،  اللّٰہ کی رحمت،  مغفرت اور جہنم کی آگ سے خلاصی کا پروا نہ واقعی ایسی بیش بہا نعمتیں ہیں جن کا نہ صرف شکر بجا لانا بلکہ ان پر خوشی منانا عین حسبِِ فطرت ہے اور پھر سونے پہ سہاگہ قرآنِ کریم،  عید کا وہ عظیم ترین تحفہ جسے ربِّ کائنات نے نوعِ انسانیت کو ماہِ رمضان میں نوازا اس کا کیا کہنا۔ ارشاد رباّنی ہے۔

ا ے لوگو: تمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے۔ اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ کہو،  یہ اللّٰہ کا فضل ہے اور اس کی مہربانی ہے جو اس نے بھیجی،  اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے،  یہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں (یونس،    ۵۷ تا ۵۸)

معرکہ حیات میں خوشیوں اور غم کا تعلق کچھ پانے اور کھونے سے ہوتا ہے لیکن یہ دلچسپ معاملہ ہے کہ جہاں اپنے اور اپنے دوستوں کے فائدے سے انسان خوش ہوتا ہے وہیں اپنے دشمنوں کے فائدے سے غمگین بھی ہو جاتا ہے اسی طرح جہاں اس کا اپنا نقصان اس کے کے لیے باعثِ رنج و الم ہوتا ہے وہیں دشمنوں کا نقصان اسے مسرور کر دیتا ہے اس سال بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست و ریخت نے ہندی مسلمانوں کو پہلے ہی خوش کر دیا تھا اور پھر جسونت سنگھ کے معاملے نے ان کی خوشیاں دو بالا کر دیں۔ عالم سکرات میں بی جے پی کی ایک ایک ہچکی مسلمانوں کے لیے سوہانِ جان بنتی رہی کسی بھی مظلوم و بے بس اقلیت کا یہ ایک فطری ردِّ عمل ہے جس سے مفر نہیں اورایسے میں جبکہ ملت اپنے زورِ بازو سے دشمن کو ہرانے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں رکھتی،  دوسروں کی جانب سے خیرات میں ملنے والی خوشیوں پر اکتفا کرنا اس کی مجبوری ہے۔ مشیّت ایزدی سے بلا طلب و جہد جو کچھ بھی عطا ہو جاتا ہے اسپر قناعت کر لینے میں وہ عافیت جانتی ہے۔

قرآن مجید میں روم اور ایران کی جنگ پر تبصرہ اور سیرت کی کتابوں میں اس سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ ملتا ہے – مسلمان اپنے عقائد اور حبشہ کے عیسائی فرماں روا نجاشی کے ہمدردانہ رویہ کے باعث رومیوں سے انسیت رکھتے تھے اور مشرکینِ مکہ کی نسبت شرک کے باعث آتش پرست ایرانیوں سے تھی نبوت کے ابتدائی دور میں ہی اسوقت کے معاشرے نے اس فرق کو محسوس کر لیا تھا۔ ایک ایسے دور میں جبکہ ذرائع ابلاغ کا کوئی جدید ذریعہ موجود نہ تھا روم و ایران کی کشمکش کا شہرِ مکہ میں موضوع بحث بن جانا اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ لوگ سیاسی اعتبار سے بے حد بیدار مغز تھے ساتھ ہی دین کے سیاسی اثرات کے بارے میں کس درجہ حساس تھے۔ وہ لوگ ایران و روم کی جنگ کو اپنے دین سے جوڑ کر دیکھتے تھے ا ور ہم واقعہ کربلا جیسے عظیم معرکہ کو جس نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا محض ایک سیاسی سانحہ قرار دے کر دین سے جدا کر دیتے ہیں۔ ہماری سیاسی بے بصیرتی کا یہ عالم ہے خیر۔ مشرکینِ مکہ خوشیاں منا رہے تھے مگر تمام تر ظلم و جور کے باوجود مسلمان غمزدہ تو ضرور تھے لیکن مایوس نہیں تھے۔ ہجرتِ حبشہ کی تیاری ہو رہی تھی ایسے میں ایرانیوں کی رومیوں پر فتح کا حوالہ دے کر ایک کافر حضرتِ ابوبکر صدیقؓ کو عار دلاتا ہے۔ چند اونٹوں کی شرط اس بات پر باندھی جاتی ہے کہ بہت جلد نقشہ پلٹ جائے گا حضور  اکرم ﷺ تک جب بات پہنچتی ہے تو آپ مدتّ کی تو سیع کے ساتھ اونٹوں کی تعداد بڑھانے کا مشورہ دیتے ہیں آگے چل کر حضرت ابوبکرؓ کی جیت ہونی تھی سو وہ ہو گئی،  قرآن مجید نے پیشن گوئی جو کر دی تھی ارشادِ ربانی ہے۔

ا ل م۔ رومی قریب کی سر زمین میں مغلوب ہو گئے ہیں،  اور اپنی اس مغلو بیت کے بعد وہ چند سالوں کے اندر غالب ہو جائیں گے۔ اللّٰہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور وہ دن ہو گا جب اللّٰہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشی منائیں گے،  اللّٰہ مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے، اور وہ زبردست و رحیم ہے [ الروم ۱ ۵ ]

تاریخ شاہد ہے کہ چند سالوں کے اندر قیصر روم نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی سب سے بڑے آتش کدے کو بجھا دیا اور زرتشت کی جنم بھومی پر واقع معبد کو مسما ر کر دیا لیکن جس سال یہ سب ہوا اسی سال مسلمانوں کو اس سے بڑی خوشی حاصل ہوئی یعنی غزوہ بدر میں کامیابی،  ادھر روم فتحیاب ہوا اِدھرمسلمان بھی کامیاب و کامران ہو گئے۔ رومیوں کی فتح پھر بھی امکانی تھی کہ وہ شکست خوردہ سپر پاور تھا لیکن مسلمان مشرکینِ  مکہ کو شکست سے دوچار کریں گے یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا اس لیے دوسری خوشی پہلی سے بڑھ کر تھی اس میں مسلمانوں کی اپنی فہم و فراست،  ان کی اپنی حوصلہ مندی و منصوبہ بندی،  ان کا اپنا ایثار و قربانی اور انکے حصہ میں آنے والی اللّٰہ کی فیصلہ کن مدد و نصرت کا دخل تھا اس معرکۂ حق و باطل میں ان کی حیثیت محض ایک تماشائی کی سی نہیں بلکہ فریقِ اول کی تھی تجارتی قافلہ پر جنگ و جدال کو ترجیح دے کر مسلمان میدان عمل میں اترے تھے اسی لیے ۱۷ رمضان کو ہم یوم الفرقان کے طور پر یاد کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں کہ یہ محض دشمن کی ایک شکست نہیں بلکہ ہماری اپنی فتح کا بھی دن ہے یہ دیرپا خوشی کسی انسان کی نہیں بلکہ فقط رحمن کی مرہونِ منتّ تھی۔

سیرتِ نبوی ؐ کا ایک اور اہم واقعہ صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو کفا ر مکہ نے ہجرت پر مجبور کرنے کے بعد ان پر خانہ کعبہ کے دروازے بند کر دئیے تھے اس معاہدے سے قبل مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان تین جنگیں ہو چکی تھیں اس میں سے ایک میں مسلمانوں کو کا میابی ملی دوسری میں شکست ان کے حصہ میں آئی اور تیسری جنگ میں مکہ کے سارے قبائل نے بشمول یہودیوں کے مدینہ پر متحدہ یلغار کی اور طویل محاصرے کے بعد اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام ہو کر لوٹ گئے گویا معاملہ برابری پر چھوٹ گیا۔ اس مرحلے میں حرمِ کعبہ میں داخلہ پر لگی پابندی کے علی الرغم رسول کریم ﷺ اور انکے جانباز صحابہ عمرہ کا ارادہ فرماتے ہیں راستہ میں انہیں روک دیا جاتا ہے معاہدہ طہ پاتا ہے پابندی اٹھ جاتی ہے مگر اس سال کے بجائے آئندہ سال عمر ہ ادا کرنے کی اجازت حاصل ہو جاتی ہے۔ اہل ایمان اس اجازت پر قناعت نہیں کرتے وہ اپنی طاقت و قوت میں برابر ا ضا فہ کیے چلے جاتے ہیں اس موقع کو مستقبل کی اس بڑی کامیابی کا ذریعہ بناتے ہیں جسے تاریخِ انسانی میں فتح مکہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس لیے کہ مراعات کی حیثیت پانی پر لکھی تحریر کی سی ہوتی ہے ان کے جاری رہنے کا انحصار دینے والے کی مرضی پر ہوتا ہے اور اس پر تکیہ کرنے والوں کے پیر وں تلے کی زمیں کسی بھی وقت کھسک سکتی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد ایک قلیل عرصہ کے اندر جب مسلما ن فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرّمہ میں داخل ہو گئے تو ان کی حیثیت مراعات لینے والی نہ رہی بلکہ دینے والی ہو گئی اسی تکمیلِ نعمت میں دیرپا خوشی کا راز چھپا ہوا ہے قرآنِ عظیم اس کا ذکر یوں کرتا ہے۔

بے شک ہم نے فتح عطا کی تم کو کھلی فتح۔ تاکہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے در گذر فر مائیں اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دیں اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائیں اور تم کو زبردست نصرت بخشیں [ الفتح ۱  ۳ ]

زمانہ حال میں لبنان کی تاریخ اس سلسلے کی عمدہ مثال پیش کرتی ہے فلسطینی مزاحمت کا آغاز فطری طور پر اردن سے ہوا لیکن ۱۹۷۰ میں خانہ جنگی کا بہانہ بنا کرپی ایل او کو ملک بدر کر دیا گیا اور اس طرح فلسطین کی تحریک لبنان پہنچ گئی آئندہ آٹھ سالوں میں اسرائیل سے متصل جنوبی لبنان،  فتحستان بن گیا۔ اس کے خلاف ۱۹۷۸ میں اسرائیل نے پہلی مرتبہ لبنان پر حملہ کیاجس کا مقصد پی ایل او کا خاتمہ تھا لیکن اس کے مجاہدین وہاں سے نکل چکے تھے اس لیے اسرائیل تمام تر تباہی کے باوجود اپنے مقصد حقیقی میں ناکام رہا۔ اس کے بعد اس نے عیسائی جنگجو ؤں کی مدد سے لبنان میں خانہ جنگی برپا کروی اور اس کے ردّ عمل میں حزب اللّٰہ وجود میں آ گئی۔ ۱۹۸۱ میں اسرائیل نے لبنان پر شدید بمباری کی اور ۱۹۸۲ میں دوبارہ جنگ چھیڑ دی ابتک اسرائیل فلسطینوں سے لڑ رہا تھا وقت کے ساتھ عیسائی جنگجو ختم ہو گئے مگر حزب اللّٰہ باقی رہ گئی اس نے اسرائیلی علاقوں پر حملے شروع کر دئیے اس سے نبٹنے کے لیے ۱۹۹۳ اور ۱۹۹۶ میں اسرائیل نے معرکہ احتساب اور تباہی کا پھل نام سے دو جنگیں کیں لیکن آخر کارسن ۲۰۰۰میں حزب اللّٰہ کے حملوں سے تنگ آ کر اسرائیلیوں کو لبنان سے نکل کر بھاگنا پڑا اس تمام عرصہ میں اسرائیل اقدامی پوزیشن میں تھا اور حزب اللّٰہ دفاع کرنے پر مجبور تھی لیکن ۲۰۰۶ کے آتے آتے نقشہ بدل گیا اس بار اقدام حزب اللّٰہ کی جانب سے ہو ا اور ۳۳ دنوں تک چلنے والی جنگ میں اسرائیل کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ کوئی ایسی فتح نہیں ہے جو یو نہی بغیر کسی سعی و جدوجہد کے ٹوٹے ہوئے پھل کی طرح گود میں آ گری بلکہ اس کے لئے مسلسل تیاری کی گئی۔ جان کی بازی لگا کر جہاد کیا گیا تب جا کر اللّٰہ کی نصرت اتری اور فتح کا دروازہ کھلا حزب اللّٰہ کے رہنما اسے ایک درمیانی مرحلہ قرار دیتے ہیں ان کے مطابق فیصلہ کن کامیابی اس وقت حاصل ہو گی جب دنیا کے نقشہ سے اسرائیل کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اس خوشی کو یقیناً سارا عالم اسلام محسوس کر ے گا لیکن کیا جو لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور جو اس کی خاطر اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں یکساں طور پر اس کے حقدار ہوں گے ؟ ارشادِ ربانی ہے۔

وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور جو اللّٰہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں،  دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللّٰہ نے بیٹھنے والوں کی بنسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑھا رکھا ہے اگرچہ ہر ایک کے لیے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے،  مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمت کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ ان کے لیے اللّٰہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں،  اور مغفرت اور رحمت ہے اور اللّٰہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے [ النساء ۹۵ – ۹۶ ]

اس بار رمضان کا پہلا عشرہ ہندی مسلمانوں نے بی جے پی کی مہا بھارت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گذارہ،  لیکن دوسرے عشرے میں انہیں ایک اور خوشخبری نصیب ہوئی، ۶ سال بعد مولانا نصیرالدین کی ضمانت کا سپریم کورٹ میں منظور ہونا نہ صرف ان کے اہل خاندان کے لیے جن کو ۶ سال قبل نہ صرف عید بلکہ ہر خوشی سے محروم کر دیا گیا تھا ایک بہت خوشخبری تھی بلکہ اس خوشی میں ملت کا ہر ہر فرد ان کے ساتھ شریک تھا ویسے تو یہ ایک جزوی کامیابی ہے۔ مولانا کے تین بیٹوں کا اور انکے ساتھ ایسے بے شمار معصوم نوجوانوں کا جن کو بغیر کسی گناہ کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا ہے ہنوز رہا ہونا باقی ہے۔ اکتو بر ۲۰۰۴ میں مولانا کو حیدرآباد سے گرفتار کیا گیا اور ان کے ساتھی مجاہد سلیم کو گجرات پولس نے جائے واقعہ پر شہید کر دیا اس کے بعد مولانا پر نوجوانوں کو اشتعال دلا کر ہرین پنڈیا کے قتل پر اکسانے کا الزام لگا دیا گیاساتھ ہی مودی کے قتل سازش میں ملوث بتلایا گیا یہ کس قدر متضاد الزا مات ہیں جوایکدوسرے کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔

ساری دنیا جانتی ہے ہرین پنڈیا سے مودی کا اختلاف ان کے حلقہ انتخاب کو لے کر ہوا تھا ایسے میں اگر کوئی مودی کا دشمن ہے تو اسے ہرین پنڈیا کا قاتل نہیں بلکہ دوست ہونا چاہئے ہرین پنڈیا کے والد جن کا سنگھ پریوار سے دیرینہ تعلق رہا ہے کھلے عام مودی کو اپنے بیٹے کا قا تل گردانتے ہیں انہوں نے اڈوانی کی موجودگی میں اپنے بیٹے کے تعزیتی جلسہ میں اسٹیج پر آنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ انہیں اپنے بیٹے کے قاتل کے ساتھ بیٹھنا گوارہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود مولانا نصیرالدین پر یہ بے بنیاد الزام جڑ دیا گیا پوٹا عدالت مقدمہ کی سماعت میں ٹا ل مٹول کرتی رہی سرکاری وکیل بدلے جاتے رہے اس لیے کہ کوئی ٹھوس ثبوت تو موجود ہی نہیں تھا۔ دو سال قبل احمد آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تو اس نے بھی مودی کے دبا ؤ میں ضمانت سے دینے انکار کیا مگر پوٹا عدالت کو ۶ ماہ کے اند ر فیصلہ سنانے کی تلقین کی اس عدالتی فیصلے سے بھی روگردانی کی گئی اس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں ۷ ماہ تک گجرات حکومت بہانے بازی کرتی رہی اور ایک بھی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرسکی اس لئے عدالت عالیہ نے حتمی  فیصلہ سنا دیا۔

 سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ ۶سال تو گذر چکے ہیں کیا تم لوگ بغیر مقدمہ چلائے انہیں بلا جرم عمر قید کی سزا دینا چاہتے ہو تو سرکاری وکیل کا کہنا تھا اگر انہیں ضمانت دے دی گئی تو اور لوگ بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں گے اس احمقانہ دلیل پر جج صاحب کو پوچھنا پڑا  تو کیا اس خوف سے عدالت کے دروازے پر قفل لگا دیا جائے ؟ اس معاملہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ گجرات کے فسادات کا بدلہ لینے کی نام نہاد کوشش کرنے والے قید میں ہیں اور اس فساد کو برپا کرنے والے حکومت کے گلیاروں میں آزاد گھوم رہے ہیں اس صورتحال پر سنگ محصور اور سگ آزاد یعنی پتھروں کو زنجیروں میں جکڑ کر کتوں کو آزاد چھوڑ دینے والی فارسی مثل صادق آتی ہے ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ مولانا نصیرالدین پر حیدر آباد کے گنیش مندر میں بم رکھنے کا الزام بھی ہے جس کے ڈانڈے اب ہندو جاگرن سے جا ملے ہیں اور اس الزام میں گرفتار ہونے والی سادھوی اور پروہت تمام تر ثبوت کے باوجود ۹ ماہ کے اندر ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ ایک قدرتی انصاف ہے کہ مولانا نصیر ا لدین تو رہا ہو گئے لیکن ان کو گرفتار کرنے والا نرہری امین جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے اب اس پر سلیم مجاہد کو شہید کرنے کا نیا الزام بھی لگا دیا گیا ہے۔ امیّد ہے وہ جلد ہی اپنے گناہوں کی قرار واقعی سزا پائے گا اور سولی چڑھایا جائے گا نیز تمام بے گناہ قیدی جلد از جلد رہا ہو جائیں گے وہ دن ملت اسلامیہ ہند کے لیے ایک اور عید کا دن ہو گا۔

اس رمضان کی دوسری سوغات عشرت جہاں معاملے میں جسٹس تمنگ کی تحقیقاتی رپورٹ ہے جس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا اب یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ اپنے آقا نریندر مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کو گجرات پولس اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئی اور انہیں ایک جعلی انکا ونٹر میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اتفاق سے اس گناہ کا مرتکب ونجارہ بھی سہراب الدین قتل کے معاملہ میں جیل کی چکی پیس رہا ہے۔ ان حقائق کے سامنے آنے سے سے وقتی طور پر زخموں پر مرہم تو پڑ گیا لیکن یہ زخم اسوقت تک پوری طرح بھر نہیں سکتا جب تک کے ونجارہ کے ساتھ ساتھ اس کے آقا نریندر مودی کو سزا نہ ملے اس لیے کہ ہر ظلم و نا انصافی کا محور کسی نہ کسی طور پر وہی قرار پاتا ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ ایسے بھی سمجھدار لوگ ہیں جو مودی سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں اول تو یہ مودی کی قرار واقعی سزا نہیں ہے اوردوسرے مودی نامی درندے سے جس کی ساری سیاست ظلم اور فریب کے پہیوں پر چلتی ہے اس بات کی توقع کرنا کہ وہ از خود استعفیٰ دے گا احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے۔ مودی تو خیر مودی ہے لیکن عشرت جہاں کے معاملے میں کانگریس کی مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے چہرے مختلف  ضرور ہیں لیکننفسیات  بالکل یکساں ہے۔ دونوں کے جسم الگ الگ ہیں لیکن ان کے اندر جو روح کا ر فرما ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں اپنے سیاسی مفاد کے تحت اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اقلیت کا ناحق خون بہانہ نہ صرف جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں اور دونوں ہی اپنے افسران سے نہ صرف اس طرح کی سفاّکی کے منصوبہ بنواتے ہیں بلکہ جور و ظلم کے بدلے ان کو انعام و اکرام سے نوازتے ہیں جب کبھی یہ پیادے پھنس جاتے ہیں تو ان کو سزا سے بچانے کی بھی بھر پور کوشش کی جاتی ہے اسی لیے ظلم و ستم کی آندھی رکنے کا نام نہیں لیتی ایسے میں جب عیدِ  سعید کا موقع آتا ہے تو اس شعر کی یاد دلاتا ہے

عارض ہیں زخم زخم تو دامن لہو لہو

دیکھی نہ ہو گی دوستو اس بانکپن کی عید

ماہِ  رمضان ایک مہمان کی طرح ہمارے درمیان آتا ہے،  بیش بہا نعمتوں اور برکتوں سے ہمیں مالا مال کرتا ہے اور دیکھتے دیکھتے گذر جاتا ہے لیکن جاتے جاتے دو تحفے ہمارے حوالے کر جاتا ہے ایک عیدِ سعید کی سوغات اور دوسرے قرآنِ عظیم کی برکات۔ ان دونوں کی مثال ایسی ہے جیسے دنیائے بے ثبات اور اخروی ابدی حیات،  ویسے تو یہ دونوں تحائف انمول ہیں لیکن مسرت و جاودانی کے لحاظ سے دونوں میں بڑا فرق ہے۔ انسان فطرتاً جلد باز واقع ہوا ہے اس لیے وہ وقتی اور ادنیٰ دنیا کو اعلیٰ ارفع آخرت پر تر جیح دیتا ہے۔ وہ عید کی قدرو قیمت کا اعتراف تو کرتا ہے لیکن قرآن مجید کی رفعت و عظمت سے غافل ہو جاتا ہے۔ جب تک رمضان المبارک ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے قرآن کریم ہمارے شب و روز میں رچا بسا رہتا ہے۔ صبح اس کی تلاوت سے ہوتی ہے راتیں اس کی سماعت میں گذرتی ہیں اور دن کا ایک ایک لمحہ احکاماتِ قرآنی کی بجا آوری میں صرف ہوتا ہے لیکن عید کا تحفہ پاتے ہی ہم اس میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ آئندہ رمضان تک قرآن کو رخصت پر روانہ کر دیتے ہیں گویا ماہِ رمضان جس نورِ ہدایت کی یاد دہانی کے لیے آیا تھا ہم اس کو اپنی زندگی سے نکال کر اپنے آپ کو ظلمت و گمراہی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ قرآن حکیم کو جز دان میں مقید کر کے ایک سال کے لیے اس امید میں بھول جاتے ہیں کہ پھر سے جب رمضان آئے گا تو دوبارہ اس تابوتِ سکینہ کو کھولا جائے گا۔

 ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ جو گذشتہ سال ہمارے ساتھ تھے اس سال نہیں رہے پھر بھی ہمیں یقین کامل ہوتا کہ ہم ہمیشہ رہیں گے،  جہاں سے یقیناً جانا ہے وہاں کا ایسا اعتبار اور جہاں یقیناً جانا اس سے مکمل غفلت ہمیں اپنے مستقبل سے،  اپنے آپ سے اور اپنے مالکِ حقیقی سے غافل کر دیتی ہے۔ ہم شاداں و فرحاں عید کی دنیاوی مسرتوں میں محو ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ حالات کی تمام تر سنگینی کے باوجود عید کا موقع اپنی جھولی میں خوشیوں کی بے شمار سوغاتیں لے کر نمودار ہوتا ہے اس میں مسرت و انبساط کے ساتھ امید کی حسین کرنیں بھی ہوتی ہیں اس دن اہل ایمان اپنے روزمرہ ّ کے دکھ درد بھلا کر عید گاہ کی جانب جوق در جوق روانہ ہوتے ہیں عید کی پر شکوہ نماز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اسے زا ئد تکبیروں کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے اللّٰہ رب العزت کی کبریائی بڑھ چڑھ کر بیان کی جاتی ہے جیسا کہ اس کا حق ہے لیکن بقول حکیم الامت حضورِ حق میں ہر تکبیر مقبول نہیں ہوتی بلکہ محدود عبادت کے بجائے کامل اطاعت پر یقین رکھنے والوں کی صدائے حر یت جو غلامی کی تمام زنجیروں کو توڑ مسلسل بلند ہوتی رہتی ہیں وہی تکبیر یں حق تعالیٰ شانہ کے جناب میں شرفِ مقبولیت سے نوازی جاتی ہیں فرماتے ہیں ؎

شکوہِ  عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن

قبولِ حق ہیں فقط مردِ حر کی تکبیریں

٭٭٭

 

جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا

غازی آباد کے رہنے والے رنویرسنگھ کی پولس کے ہاتھوں ہلاکت فی الحال بحث کا موضوع بنی ہو ئی ہے۔ گڑھوال علاقے کے انسپکٹر جنرل ایم اے گنپتی کے مطابق اپنے دوساتھیوں کے ساتھ مجرم پیشہ رنویر دہرہ دون کی ایک دھرم شالہ ٹھہرا ہوا تھا۔ موہنی روڈ پر سب انسپکٹرگوپال دت بھٹ نے اس کو تفتیش کی خاطر روکا تو کاغذات شناخت دکھلانے کے بجائے وہ اس پر ٹوٹ پڑا اور گوپال کی پستول چھین کر ساتھیوں سمیت فرار ہو گیا۔ اس کے بعد رائے پور کے جنگل میں پولس پارٹی نے انہیں دھر دبوچا تو ان لوگوں نے پولس پارٹی پر گولی باری شروع کر دی مجبور ہو کر پولس کو جوا ب دینا پڑا۔ رنویر کے ساتھی تو جائے واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ ہلاک ہو گیا۔ گنپتی نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ٹی وی پر پوچھا کہ اگر کوئی پولس پر حملہ کرے تو بھلا اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ کیا اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ؟ جی نہیں ایسی صورتحال میں بھی قانون کے رکھوالوں کو چاہئے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے ملزم کو کمر کے نیچے زخمی کر کے عدالت میں حاضر کریں اور خود سزا دینے کے بجائے عدلیہ سے رجوع کریں۔ اگر گنپتی کے سارے الزامات صحیح ہوں تب بھی دور حاضر میں پولس والوں سے قانون کی پاسداری کی توقع کوئی دیوانہ تو کر سکتا ہے فرزا نہ نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ فی زمانہ محکمہ پولس قانون کو صرف ہاتھ میں لینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اسے قدموں تلے روندنے میں یقین رکھتا ہے

 بدقسمتی سے انسپکٹر جنرل کی جانب سے لگائے گئے سارے الزامات بلا تحقیق غلط معلوم ہوتے ہیں حالانکہ وزیراعلیٰ نے سی بی۔ سی آئی ڈی کے ذریعہ تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اعلیٰ افسران کا تبادلہ کر کے انہیں صدر دفتر سے منسلک کر لیا گیا ہے۔ تیرہ سپاہیوں کو لائن حاضر کر دیا گیا ہے اس لیے کہ رنویر مجرم پیشہ نہیں بلکہ ایم بی اے کا سند یافتہ بیروزگار نوجوان تھا۔ ملازمت کی غرض سے وہ دہرہ دون آیا تھا پولس سب انسپکٹر اس کے حملہ سے زخمی نہیں ہوا بلکہ اس کی لاش پر زخموں کے نشان پائے گئے۔ پولس کو اس کی گولی نہیں لگی بلکہ اس کے جسم سے دس گولیاں برآمد ہوئیں۔ پوسٹ ما رٹم کی رپورٹ کے مطابق گولیاں پیچھے کے حصہ میں نہیں بلکہ سامنے کی طرف ماری گئی تھیں جو فرار کی کہانی کو از  خود جھٹلاتی ہیں۔

ہریانہ کی مختلف رضاکار تنظیمیں اس بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ حزب اختلاف میں بیٹھی کانگریس اور مقتول کے والد نے سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا ہے جسے ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا لیکن وزیر اعلیٰ نے یقین دلایا ہے کہ وہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے اور اگر رنویر کے اہل خانہ جاری تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوئے تووہ دنیا بھر کے جس ادارہ کے ذریعہ تفتیش کا مطالبہ کریں گے تحقیق کروائی جائے گی۔ لیکن کیا ایسا کرنے سے خواجہ یونس کی طرح پولس کی بربریت کا شکار ہونے والا رنویر واپس آ جائے گا؟ یا کم از کم اس قتل کے مجرمین کو سزا ملے گی اوررنویر کے والدین کا دل کسی قدر ٹھنڈا ہو گا؟ امید تو کم ہے لیکن پھر بھی انصاف پسند عوام کی یہ خواہش اور دعا ہے کہ ایسا ہو۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگر اس نو جوان کا نا م رنویرسنگھ کے بجائے تنویر خان ہوتا تو کیا ہوتا؟ کیا کسی افسر کا تبادلہ ہوتا؟ کیا کسی سپاہی کو لائن حاضر کیا جاتا؟ کیا حزب اختلاف سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کرتا؟ کیا وزیراعلیٰ ایسی یقین دہانی کراتے اور کیا ذرائع ابلاغ میں اس قتل کو بے نقاب کیا جاتا؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ اسے لشکر، حزب المجاہدین، آئی ایس آئی اور انڈین مجاہدین جیسی کسی تنظیم کے نام پر کھپا دیا جاتا؟

دہلی کے بٹلہ ہاوس میں گذشتہ سال رونما ہونے والے انکاوَنٹر کو یاد کیجئے۔ مرکز اور دہلی میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی اس کے باوجود کیا ہوا؟ سی بی آئی تحقیقات تو کجا معمولی تفتیش بھی ہوئی؟اپوزیشن نے تو جامعہ کے انتظامیہ کو تک دیش دروہی قرار دے دیا۔ میڈیا نے عابد اور عاطف کا تعلق انڈین مجاہدین سے لے کر لشکرطیبہ تک سے جوڑ دیا۔ ان معصوموں کو نہ صرف خطرناک دہشت گرد قرار دیا گیا بلکہ ملک بھر میں ہونے والے کئی بم دھماکوں کے لیے انہیں ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا اوراس ظلم عظیم کا پردہ فاش کر کے مجرموں کو سزا دلوانے کے بجائے قاتلوں کو سراہا گیا حالانکہ دونوں مقتول جامعہ کے طالب علم تھے اور ان کا قصور سوائے اس کے کچھ اور نہیں تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ انہیں ایک بڑی سازش میں بلی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ وہ ایوان پارلیمان پر حملہ کے چشم دید گواہ موہن چند شرما کا کانٹا نکالنے کی سازش تھی جسے اس خوبی کے ساتھ انجام دیا گیا کہ کسی کی توجہ اس جانب مبذول ہی نہیں ہوئی۔ سارے کرداروں نے اس ڈرامہ میں اپنا متعینہ کردار بخوبی ادا کیا اور ساری دنیا کو بے وقوف بنایا۔ اس گھناؤنی سازش پر جس ڈھٹائی کے ساتھ عمل در آمد کیا گیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پولس نے جائے واردات پر آنے سے قبل حضرت نظام الدین قبرستان میں قبریں تیار کروا دی تھیں۔ ذرائع ابلاغ کو وہاں بلانے سے بھی یہ لوگ نہیں چوکے گویا سب کچھ منصوبہ بند طریقہ پر علی الاعلان کیا گیا لیکن اسی بے جا خوداعتمادی نے سارا راز افشا کر دیا بقول شاعر۔

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

پولس کی کذب بیانی کے مطابق شرما جب کمرے میں داخل ہوے تو دہشت گردوں نے ان پر گولی باری شروع کر دی جواب میں شرما نے گولی چلائی تو انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی ایک کامیاب ہو گیا اور دو ڈھیر ہو گئے لیکن حقائق اس بیان کے خلاف سامنے آئے۔ ایک ماہر انکاوَنٹر اسپیشلسٹ کا بغیر حفاظتی جیکٹ کے معصوم طلباء کے کمرے میں داخل ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں تھے۔ بھاگنے والوں کے سر پر سامنے سے گولی کا لگنا بتلاتا ہے کہ وہ بھاگ نہیں رہے تھے اورپولس جھوٹ بول رہی ہے۔ ہندوستان ٹائمز میں شائع ہو نے والی شرما کے پیٹھ پر لگی گولی کی تصویر نے تمام پوشیدہ حقائق پر سے پردہ اٹھا دیا۔ بٹلہ ہاوَس میں شرما کے پیچھے کون تھا؟ یہ سوال کسی تحقیق کا محتاج نہیں ہے سب سے دلچسپ انکشاف اپنے پیروں پر ساتھیوں کے سہارے چل کر جانے والے شرما کی خون کے بہہ جانے سے موت تھی اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ شرما کے پیٹ میں گولی کا زخم اور گولی ندا رد یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی جدید طرز کی پستول سے گولی نہایت قریب سے ماری گئی۔ عابد اور عاطف کی شہادت کے بعد کون سے دہشت گرد موہن چند شرما کے ساتھ ہولی فیملی ہسپتال تک گئے تھے کیا اس بات کا پتہ لگانا کیاکوئی مشکل کام ہے ؟ لیکن شرما کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی؟ کیا اس راز پر سے کبھی پردہ اٹھے گا کہ شرما کوکس نے اور کیوں قتل  کروایا؟ ان اہم ترین سوالات کا مثبت جواب مشکل ہی نظر آتا ہے اس لیے کہ یہ معاملہ رنویر کی طرح کسی عام شہری کا پولس کے ہاتھوں اتفاقی طورپر ہلاک ہونے کا نہیں ہے بلکہ  ایک پولس افسر کا پولس کے ذریعہ منصوبہ بند قتل کا ہے۔

پون چند شرما کی موت پران کی بیوی سے اظہار تعزیت کرتے ہوے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا آپ کے شوہر جیسے افسران ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ہمارا تحفظ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ کیا عابد اور عاطف سے ہمدردی رکھنے والا کوئی انصاف پسند آدمی وزیراعظم سے اتفاق کرے گا؟سونیا گاندھی اور دو قدم آگے بڑھ کر بولیں انہوں نے دہشت گردوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور ملک کی خاطر اپنی جان عزیز قربان کر دی گویا عابد اور عاطف کو انہوں نے بلا تکلف دہشت گرد قرار دے دیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بشمول صدر محترم اور وزیرداخلہ کے شرما کے قاتلوں کو سزا دلانے کی بات نہیں کہی۔ اور ساری قوم نے تمام ثبوتوں کے باوجود یہ تسلیم کر لیا کہ شرما نے عابد اور عاطف کو نہیں بلکہ ان دونوں شرما کو مار ڈالا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کو جاننے کے لیے مینکا گاندھی کی بات سنیں جو فی الحال اپنے بیٹے ورون گا ندھی کے لیے پریشان ہیں۔ مینکا اس سے پہلے جانوروں کے حقوق کی لڑائی کیلئے مشہور تھیں پہلی با رکسی انسان کے لیے میدان میں آئی ہیں جسے عام لوگ وحشی درندہ سے کم نہیں سمجھتے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے ملک میں سارے موذی جانور پوجے جاتے ہیں اور اس میں تازہ ترین اضافہ ورون ہے۔ مینکا کا الزام ہے کہ ورون کی جان کو خطرہ ہے اور حکومت اس کی جانب سے لاپرواہی برت رہی ہے لیکن یہ خطرہ کیوں رونما ہو گیا اور ورون خود کس کس کے لئے خطرہ بن گیا ہے ؟اس سوال پر اگر وہ غور کریں اور اپنے چشم وچراغ کو اصلاح کی جانب مائل ہوں تو خطرہ اپنے آپ ٹل جائے گا ورنہ سرکاری تحفظ بھی کسی کام نہیں آئے گا۔

ماہ ا پریل میں ایک رضاکار تنظیم نے دہلی ہائیکورٹ میں بٹلہ ہاوَس انکاوَنٹر کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا تو دہلی پولس کے وکیل نے کہا ایسا کرنے سے پولس کا اخلاقی حوصلہ پست ہو گا،  عدالت نے بجا طور پراس دلیل کو ٹھکرا دیا اس لیے کہ ہماری پولس کا اخلاق سے کوئی سروکارباقی نہیں ہے لیکن پھر بھی جو فیصلہ سنایاوہ افسوسناک ہے۔ عدالت کے مطابق حکومت کا عدالتی تحقیقات کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ  دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور اس قتل و غارتگری کے مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جائے بلکہ تحقیقات سے منہ چرانا چونکہ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اس لیے اس کا ہونا ضروری ہے – عدالت نے آگے بڑھ کر تحقیقات کا حکم دینے کے بجائے سرکاری وکیل سے کہا کہ وہ حکومت سے رجوع کرے اور اوپر سے شرط لگا دی کہ اگر بفرض محال تفتیش ہوتی ہے تو اس کا کوئی اور استعمال نہ کیا جائے اسے صرف انسانی حقوق کے کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ  وہ آگے کی کارروائی کرسکے۔ ان بے جا شرائط نے گویا لنگڑے لولے فیصلہ کی رہی سہی جان بھی نکال دی۔ ان تحفظات کے ساتھ تحقیق کب شروع ہو گی؟ اور کب ختم ہو گی؟ اور پھرکیسے پیش ہو گی؟ اس پر کون کارروائی کرے گا؟ اور کیا کرے گا؟یہ سب ہونے تک نہ جانے کتنی صدیاں بیت جائیں گی؟ اور اسوقت تک نہ جانے کتنے رنویرسنگھ کے قاتلوں کو سزا مل چکی ہو گی؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر رنویر اور تنویر کے درمیان کیا جانے والا یہ امتیاز کب اور کیسے ختم ہو گا؟ یا ختم ہو گا بھی نہیں ؟

٭٭٭

 

نظر فریبِ خبر کھا گئی تو کیا ہو گا؟

محترمہ ہیلری کلنٹن فی الحال ہندوستان کے دورے پر ہیں۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کا وزیر اعظم من موہن سنگھ کو دیا جانے والا دعوت نامہ ہماری حکومت کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوے فرمایا کہ ہندی وزیر اعظم بارک اوبامہ کی نئی انتظامیہ کے پہلے سرکاری مہمان ہوں گے اس لیے کہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان جمہوری اقدار مشترک ہیں۔ لیکن امریکہ بہادر کی جانب سے کی جانے والی عزت افزائی کی آڑ میں جو کچھ ہوا وہ زیادہ اہم ہے۔ ویسے گذشتہ دنوں اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے امریکہ کے دورے پر بارک اوبامہ سے ملاقات کی تھی شاید امریکی انتظامیہ اسرائیلی وزیر اعظم کو غیر ملکی مہمان نہیں سمجھتا اور یہ بھی ہو سکتا ہے آگے چل ہندوستان کو بھی یہ سعادت حاصل ہو جائے کہ امریکہ اسے اپنا جزو لاینفک سمجھنے لگے جس طرح ہم کشمیر کو سمجھتے ہیں۔ اس طرح کی شرمناک صورتحال ہمارے بے غیرت سیاستدانوں کی لیے تو قابل قبول ہو سکتی ہے لیکن ملک کے حریت پسند عوام اسے کسی صورت گوارہ نہیں کریں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماہ نومبر میں ہونے والا من موہن سنگھ کا دورہ تو نئے امریکی انتظامیہ کے لیے اولین دورہ نہیں ہو گا لیکن محترمہ کلنٹن کا دورہ اس نئی ہندوستانی حکومت کے قیام کے بعد کسی قابل ذکر سربراہ کا اولین دورہ ضرور ہے۔ امریکہ میں چونکہ صدارتی نظام نافذ ہے اس لیے سکریٹریِ آف اسٹیٹ کی حیثیت صدر کے بعد وزیر اعظم جیسی ہے۔

ہندوستانی پارلیمان نے حلف برداری کے بعد پہلا کام بجٹ بنانے کا کیا اور اپنے دفاعی اخراجات میں غیر معمولی اضافہ کر دیا۔ ادھر بجٹ پاس ہوا ادھر موت کے سوداگر اسلحہ فروشوں کے سر خیل گدھ کی طرح ہندوستان پہنچ گئے۔ ویسے اس معاشی بحران کے دور میں امریکہ کے پاس بیچنے کے لیے اسلحہ کے علاوہ دھرا ہی کیا ہے ؟ماحولیات کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق نہ ہو سکا لیکن ہتھیاروں کی فروخت پر لگی امریکی پابندی یکلخت ختم ہو گئی۔ ہندوستان نے جوہری تنصیبات کی امریکی نگرانی پر رضا مندی کا اظہار کیا اور ہزاروں کروڑ کا سودہ ہو گیا۔ یہ کوئی اچھی خبر نہیں تھی اس لیے اسے دبانے کی خاطر ایک ایسی سنسنی خیز خبر بازار میں آئی کہ لوگ سب کچھ بھول گئے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ خبروں کا بازار بیچ میں کہاں سے کود گیا؟

حقیقت تو یہ ہے کہ فی زمانہ ذرائع ابلاغ ایک کھلی منڈی میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں اصلی نقلی خبریں بنائی جاتی ہیں اور انہیں نت نئی پیکنگ میں سجا سنوار کر من مانے داموں پر فروخت کر دیا جاتا ہے۔ عمومی تباہی کا اصل اسلحہ (Weapons of mass destruction ) تو یہ ہے جس کے خلاف کوئی احتیاطی تدبیر کام نہیں آتی لوگ راضی خوشی زہریلی شراب کے ان پیالوں کو نوش فرماتے ہیں اور اپنی عقل کو خود اپنے ہاتھوں سے ماؤف کرتے ہیں۔ شاید اجمل قصاب نے بھی ایسی ہی کوئی شراب پی لی تھی جو زیرِسماعت مقدمہ کے دوران اچانک بول پڑا حالانکہ ایک روز قبل جب اس کے سرکاری وکیل نے غلطی سے اس کے خلاف پیش ہونے والے گواہ کی حمایت کر دی تو جج صاحب اس حرکت پر اس قدر ناراض ہوے کہ اس خاطی وکیل صاحبہ کو معطل کر کے ایک نیا وکیل مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ بات قصاب کے لیے یقیناً حوصلہ افزا تھی اس کے باوجود اگلے دن قصاب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دوران سماعت ہی اعترافِ جرم کر لیا اور ساری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔

اجمل قصاب جانتا ہے کہا س کے جرم کی سزا کیا ہے ؟ اس کی باوجوداسے فیصلہ کی جلدی کیوں ہے ؟وہ جلد از جلد مرنا کیوں چاہتا ہے ؟ یہ اہم سوالات ہیں جنھوں نے امریکہ ہند معاہدے کو پوری طرح ڈھانپ لیا۔ دونوں حکومتوں کو اس اعتراف کی جیسی ضرورت اس روز تھی ویسی پہلے کبھی بھی نہیں تھی لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اجمل قصاب نے اپنے اعتراف گناہ کے لیے اس شبھ مہورت کا انتخاب کیوں کیا؟اور حکومت کو اس غیر معمولی تعاون سے کیوں نواز دیا؟ اس کا سیدھا جواب لالچ یا خوف  ہے۔ سزا میں تخفیف کا لالچ یا اذیت کا ایسا خوف جس پر انسان موت کو ترجیح دے کسی بھی شخص سے اس طرح کا اعتراف کروا سکتا ہے۔ وجہ جو بھی ہو بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ اجمل قصاب نے حکومت ہند کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا۔

اجمل قصاب جس روز عدالت میں اپنے قصور کا اعتراف کر رہا تھا ایک اور دلچسپ مقدمہ زیر سماعت تھا۔ اجمل تو صرف نام کا قصاب ہے اور اس پر غیروں کو قتل کرنے کا الزام ہے لیکن اس کے برخلاف مکیش اور انل امبانی نامی یہ دونوں سبزی خور بھائی ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں قصائی بنے ہوئے تھے۔ یہ مقدمہ دراصل قصاب سے بھی زیادہ چونکا دینے والا ہے۔ مکیش کی کمپنی آر آئی ایل نے ایک بین الاقوامی ٹنڈر کے ذریعہ سرکاری کمپنی این ٹی پی سی کو ۴ء۲ ڈالر فی Mbtuکے بھاؤ سے گیس بیچنے کا ٹھیکہ لیا جبکہ اس کی لاگت صرف ۸۵ء۰ ڈالرفی Mbtuہے اوپر کے دوسرے اخرا جات کے باوجود اس میں اچھا خاصہ منافع ہے لیکن اب اچانک حکومت نے یہ طے کیا کہ وہ اسے ۲ء۴ڈالر فی Mbtu کے نرخ پر خریدے گی۔ دنیا بھر میں خریدار کی جانب سے بھاؤ میں اضافہ کا یہ پہلا واقعہ ہو گا۔ اس کے باعث غالباً انل امبانی کو بھی اب اپنے بجلی گھر کے لیے ایندھن مہنگا خریدنا پڑے گا اس لیے وہ اپنے بھائی کے خلاف عدالت میں چلا گیا۔

مکیش کے وکیل سالوے کا کہنا ہے کہ یہ اس کے مؤکل اور حکومت کے درمیان کا معاملہ ہے انل کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے لیکن انل کے وکیل رام جیٹھ ملانی کے مطابق یہ سرکاری خزانہ کی عصمت دری ہے۔ اور ایسا کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود وزارتِ پٹرولیم ہے۔ دراصل یہ کچھ اور نہیں بلکہ انتخاب کے قرض کوسرکاری خزانہ کے ذریعہ ادا کرنے کا ایک بلاواسطہ طریقہ ہے۔ لیکن اگر اس کے باعث بجلی کے نرخ میں اضافہ ہوتا ہے تو اسے عوام کے ذریعہ وصول کیا جائے گا۔ عوام کو جمہوریت نے رائے دہندگی کے جس قیمتی حق سے نوازا ہے اس کی کچھ نہ کچھ قیمت تو عوام کو چکانی ہی پڑے گی اور اگر یہ سب بالکل مفت میں حاصل ہو جائے تو اس ناقدری ہو جائے گی اس لیے اس طرح کے بیجا اخرا جات گھوم پھر کر عوام ہی کے سر پر تھوپ دئیے جاتے ہیں۔ جمہوری نظام  میں عوام کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے تو نمائندوں کے بھی مہنگائی بڑھانے کا حق ہوتا ہے اور جمہور کے پاس گرانی سے پیچھا چھڑانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

رام جیٹھ ملانی نے جیسے ہی اپنے بیان میں عصمت دری کا ذکر کیا بے ساختہ اتر پردیش کی مایا وتی اور ریتا بہو گنا کی توتو میں میں ذہن میں کوندنے لگی۔ فی الحال یوپی میں دو خواتین رہنما عصمت دری کی سیاست میں الجھی ہوئی ہیں۔ ریتا کا بیان مایا جیسا ہی تھا لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک پاس ریاستی اقتدار ہے اور دوسری کے سر پر قومی اقتدار کا سایۂ عافیت ہے۔ چونکہ محکمہ پولس ریاستی سرکار کے تحت ہے وہ مایا کی سنتا ہے۔ اس نے ریتا کو گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا اور ریتا کا گھر جلانے والوں کو تحفظ فراہم کیا اس لیے کہ وہ بر سر اقتدار جماعت کے لوگ تھے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں نے پہلی مرتبہ کسی براہمن کے گھر کو پولس کے تحفظ میں جلتا دیکھا۔ اور اس پر یکطرفہ تماشہ یہ ہے کہ مایا وتی نے اس جرم کے ملزم لکھنؤ بی ایس پی کے صدر انتظار علی عابدی کو گرفتار کرنے کے بجائے کارپوریشن کا صدر نشین کر کے وزارت کی سہولتوں سے نواز دیا۔ اس کے جواب میں کانگریسی کب پیچھے رہنے والے تھے ان لوگوں نے ریتا بہو گنا کی ضمانت پر رہائی کے بعد زوردار استقبال کیا اس موقع پر ریتا نے کہا ان کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا عام مجرموں کے ساتھ رکھا گیا اور ان کے ساتھ دہشت گردوں کا سا سلوک کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ عدالت سے درخواست کریں گی کہ ان کا مقدمہ سی بی آئی کو سونپا جائے اس لیے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور ریاستی حکومت پر انہیں اعتبار نہیں ہے۔

کانگریس کی ریتا کو بی ایس پی کی مایا سرکار پر بھروسہ نہیں ہے مگر آندھرا پردیش کی کانگریسی سرکار کو گجرات کی مودی حکومت پر پورا بھروسہ ہے ورنہ وہ ریاض سے آنے والے حافظ شوکت اللّٰہ غوری کو کسی نا معلوم مقام پر لے جا کر تفتیش کرنے کے بعد گجرات پولس کے حوالے نہیں کرتی۔ گجرات پولس نے حافظ صاحب کو اکشر دھام حملہ میں ملوث کر کے عملاً دہشت گرد بنا دیا ہے اور ان کے ساتھ وہ سلوک کر رہی ہے جس کا الزام ریتا نے مایا پر لگایا ہے۔ حافظ شوکت صاحب ریاض کی نہایت معروف اور قابلِ احترام شخصیت ہیں جو عرصۂ دراز سے وہاں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا کوئی دہشت گرد اپنی بیوی بچوں کے ساتھ واپسی کی حماقت کرسکتا ہے ؟ اکشر دھام کا حملہ ۲۰۰۲ میں ہوا پوٹا عدالت نے ۲۰۰۶ میں اس کے لیے ذمہ دار۶ میں سے ۳ کو سزائے موت ۲ کو ۱۰ اور ایک کو ۵ سال کی سزا سنائی جبکہ دو دہشت گرد جائے واردات پر ہلاک ہو گئے۔ ملزمین نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ابھی تک ان کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حکومت گجرات اس دوران گھوڑے بیچ کرسوتی رہی لیکن اب اچانک اسے اکشر دھام حملہ یاد آ گیا۔

 اکشر دھام حملہ کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس حملے کے بعد پہلی مرتبہ ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس میں نریندر مودی کو منہ چھپانے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ گجرات کا شیر جو ممبئی حملہ کے بعد سستی شہرت جٹانے کی خاطر ممبئی پہنچ گیا تھا رات بھر اپنے گھر میں بند رہا جبکہ اکشردھام مندر اس کے گھر سے چند قدموں کے فاصلہ پر تھا۔ زہریلی شراب کے معاملہ میں بھی یہی ہوا لوگ ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے تھے لیکن مودی اپنے بل میں چھپا بیٹھا تھا۔ اطلاعات کی مطابق شراب محمدآباد کے ماروتی مندر میں بنائی گئی تھی۔ گرفتار ہونے والوں میں ونودڈارجی،  اجے ٹھکر،  سنیل اور ہری شنکر کاہر شامل تھے پولس ان ملزمین سے اجمل قصاب کی طرح تفتیش نہیں کر سکتی تھی اس لیے کہ گجرات میں ہونے والا غیر قانونی شراب کا ہزاروں کروڑ کا کاروبار پولس کی مدد اور سیاسی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ سختی کی جائے یا برین پا سکیننگ کی جائے تو جیسے قصاب لشکر کے لوگوں کا نام بتاتا ہے ویسے ہی اعلیٰ سرکاری افسران اور بڑے بڑے سیاستدانوں کے نام باہر آ جائیں گے یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جہاں اکشر دھام حملہ میں ۳۲ لوگوں نے جان گنوائی تھی وہیں زہریلی شراب پی کر ۱۳۶ لوگ لقمۂ اجل ہوے ٔ گویا مؤخر الذکر واقعہ اپنی سنگینی کے اعتبارسے کم از کم چار گنا بڑا ہے۔

اس بیچ کانگریس والوں نے آگے بڑھ کر بی جے پی کے کاؤنسلر اور محمد آباد میونسپلٹی کے صدر رسک پرمار پر اس معاملہ میں ملوث ہونے کا سنگین الزام لگا کراس کی گرفتاری کا مطالبہ شروع کر دیا اور مودی سے استعفیٰ مانگنے لگے ایسے میں مودی کو اکشر دھام کا حملہ یاد نہ آتا اور کیا ہوتا اپنے ہاتھوں سے چھوٹتی اقتدار کی ڈور بچانے کے لیے پھر شروع ہو گیا دہشت گردی کے نام پر کھیلا جانے والا وہی پرانا کھیل جس میں اس مرتبہ حافظ شوکت اللّٰہ غوری کو پھنسایا گیا۔ پہلے ان کے بھائی پر الزام لگا اور پھر خود ان پر بے بنیاد الزامات جڑ دیئے گئے۔ یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے کہ ایک جانب سپریم کورٹ میں مودی کے یارِ غار اورسابق وزیر داخلہ گجرات ہرین پنڈیا کے والد کی درخواست  جس میں مودی سے ہرین قتل کے معاملہ کی تفتیش کا مطالبہ کیا گیا تھا مسترد ہو جاتی ہے  اور دوسری جانب ریتا کو ضمانت مل جاتی ہے۔ اپنی بی ایم ڈبلیو کار سے ۶ معصوموں کو موت کی نیند سلا دینے والے سنجیو نندہ کی پانچ سالہ سزا کو کم کر کے ۲ سال کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف حافظ شوکت اللّٰہ غوری کو ۱۴ دنوں کے ریمانڈ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ کیا عدل اسی کا نام ہے اور انصاف اسی کو کہتے ہیں ؟ آج ملک کا ہر با ضمیر شہری زبانِ حال سے چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہا ہے۔

نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہو گا؟

حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہو گا؟

٭٭٭

 

مفلس کی بیٹی،  قانون

سیاستدان ہندی ہو یا عربی،  بولتا بہت ہے نیز برطانوی ہو یا چینی سوچتا بہت ہی کم ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ عام طور پر اگر وہ ایک لاکھ منٹ بولتا ہے تو صرف دس ہزار منٹ سنتا ہے اور ایک ہزار منٹ پڑھتا ہے سو منٹ لکھتا ہے دس منٹ سوچتا ہے اور ایک منٹ کسی چیز کے سمجھنے پر صرف کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے اپنے خیال میں وہ سب کچھ جانتا سمجھتا ہے اس کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اسے نہیں سمجھ پاتے اس لیے وہ دن رات لوگوں کو اپنی بات سمجھانے کے لیے بولتا رہتا ہے اور اس کے باوجود کوئی نہیں سمجھ پاتا کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی جماعت خوش ہو کر اسے ٹکٹ دے دیتی ہے عام لوگ مختلف قسم کی وجوہات کے باعث اس کے حق میں اپنی رائے دے دیتے ہیں اور اس کا کام ہو جاتا ہے،  ان سیاسی رہنماؤں کے موقع بے موقع گوں ناگوں مسائل پر اپنی ناقص رائے کا اظہارمسائل کو سلجھانے کے بجائے الجھاتا رہتا ہے لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ بیچارے خود الجھ جاتے ہیں مثلاً تین سال قبل قائدِ اعظم پر بیان دیکر اڈوانی جی الجھ گئے تھے لیکن پھر وہ اپنی قلا بازیوں کی مدد سے بچ نکلے اور وزیر اعظم نہسہی اس کے امیدوار ضرور بن گئے۔

جسونت سنگھ اس فن سے واقف نہیں تھے اس لیے تیس سالہ پرانی جماعت سے آناً فاناً دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیے گئے جسونت سنگھ کو سچ بولنے کی سزا ملی اگر انہوں نے تقسیم کی ساری ذمہ داری جناح پر ڈال کر سنگھ پریوار کو ملک کے اتحاد و اتفاق کا علمبردار ٹھہرا دیا ہوتا تو اس کذب عظیم کی خوب پذیرائی ہوتی شملہ میں ان کی کتاب کا اجراء دھوم دھام سے ہوتا۔ پارٹی کے اندر انہیں اہم ذمہ داری سونپ دی جاتی اس لیے کہ کاجل کے کارخانہ میں سیاہی کی ہی قدردانی ہوتی ہے۔ جسونت سنگھ نے سستی شہرت پر عزتّ کو ترجیح دی اور وقار کے ساتھ چل دئے لیکن عارف محمد خان جیسی مکھیوں کو نکالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ وہ از خود ایک غلاظت سے دوسری غلاظت پر بھنبھناتی رہتی ہیں اور حقیر مفادات کے حصول کی خاطر اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹتی رہتی ہیں۔ گذشتہ سال جامعہ میں ہونے والے سانحہ میں عارف خان نے نہ صرف مظلوم طلباء بلکہ وائس چانسلر اور ملت کی ساری تنظیموں کے خلاف دھرم یدھ چھیڑ دیا اب شملہ چنتن بیٹھک سے قبل اپنی جانب توجہ مبذول کرانے کی خاطر پھر ایک بار شریعت کے خلاف ٹائمز آف انڈیا میں مضمون لکھ کریک زوجگی کے قانون سے مسلمانوں کے استثنیٰ کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کر دیا۔

اس مضمون میں انہوں نے نہ صرف مسلم پرسنل لاء پر تنقید کی بلکہ لاء کمیشن کو بھی اس میں مداخلت نہ کرنے کے لیے برا بھلا کہا ویسے جو سلوک عارف محمد خان نے لاء کمیشن کے ساتھ کیا ہے اگر کوئی مسلم تنظیم یا ملی رہنما ایسا کرتا تو وہ عارف محمد خان اور ان کی جانِ عزیز بی جے پی کے نزدیک دیش دروہی قرار پاتا اور اس کے خلاف پارلیمان میں ہنگامہ،  سڑکوں پر شور غل اور عدالت میں مقدمہ تک قائم ہو جاتا۔ عارف محمد خان نے اپنے مضمون میں مولانا مودودی اور طاہر محمود کا حوالہ دیا ہے نیز لاء کمیشن و قرآن و حدیث سے مدد لینے کی کو شش کی۔ جہاں تک مولانا مودودی کا سوال ہے عارف خان نے مولانا کو شریعت و پرسنل لاء کا مخالف قرار دیا کاش کہ لوگ اس دعویٰ کی تصدیق کرنے کے لیے مولانا کی تحریروں کا مطالعہ کریں تو شریعت کی حقانیت ان پر واضح ہو جائے گی۔ عارف خان نے اس خطرے کو ٹالنے کے لیے بڑی چالاکی سے کام لیتے ہوئے یہ بھی لکھا پرسنل لاء پر تنقید کرنے والا کوئی جدید روشن خیال مفکّر نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے بانی ہیں اگر یہ بات درست ہے تو عارف محمد خان جیسے روشن خیال آدمی کو ان کا سہارا لینے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ویسے یہ اچھا ہوا کہ عارف محمد خان نے اس معاملہ میں محض لفاّظی پر اکتفا کیا کوئی ٹھوس حوالہ نہیں دیا ورنہ وہ بھی غلط ہوتا جیسا کہ طاہر محمود اور لاء کمیشن کے معاملے میں ہوا یا پھرسیاق و سباقسے کاٹ کر اس میں سے الٹا مطلب نکالا جاتا جیسا کہ قرآن و حدیث کے ساتھ ہوا۔

 جناب طاہر محمود کا مضمون میں نہیں دیکھ سکا تھا لیکن عارف محمد خان نے توجہ اس جانب مبذول کرائی اس لیے میں ان کا شکر گذار ہوں لیکن جو بات عارف نے ان کے حوالہ سے کہی وہ سارے مضمون وہ موجود ہی نہیں تھی۔ لاء کمیشن کو ایک قابلِ تعریف اقدام پر شکریہ ادا کرنے کے بجائے ڈانٹ پھٹکار یقیناً ناگوار گذری ہو گی لیکن وہ لوگ بھی جانتے ہیں عارف جیسے لوگ  امت کی نمائندگی تو نہیں کرتے ہاں اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر اس قسم کی بکواس کرتے رہتے ہیں۔ قرآنِ مجید کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مسلمانوں کو عارف محمد خان جیسے لوگوں سے خبردار کرتی ہے اور ان کی پیروی سے روکتی جو اللّٰہ رب العزت ّ کی نافرمانی کی دعوت دیتے ہیں جہاں تک حدیث کا تعلق ہے وہ تو سراپاعارف خان جیسے موقع پرستوں کے خلاف شہادت دیتی ہے۔

عارف خان کا مذکورہ مضمون بی جے پی کے قدیم مطالبہ یکساں سول کوڈ کی بلا واسطہ حمایت میں لکھا گیا ہے ان کے مطابق تعدد ازدواج کی مسلم پرسنل لاء میں اجازت اسلام کی روح کے منافی اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی بے وقوف دعویٰ کر دے کہ شیکسپئیرنے انگریزی ڈرامہ کے معیار کو گرا دیا ہے جب کہ اس نے نہ تو شکسپئیر کو پڑھا ہو اور نہ انگریزی ڈرامے کے معیار سے واقف ہو۔ لاء کمیشن سے ان کی ناراضگی یہ ہے کہ اس نے دوسری شادی کی خاطر اسلام قبول کرنے والے ہندوؤں پر پابندی لگانے کی سفارش کی لیکن مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا حالانکہ کچھ عرصہ بی ایس پی کے اندر مایا کے چرنوں میں گذارنے والے عارف خان کے لیے اسے سمجھنا کوئی مشکل کا م نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں کئی انتخابی حلقہ دلتوں کے لیے مختص ہوتے ہیں کبھی کبھار عارف جیسے لوگ الیکشن جیتنے کے لیے جھوٹا سرٹیفکٹ بنا کراس حلقہ سے انتخاب جیت جاتے ہیں اور آگے چل کر عدالت ان کی کامیابی کو کالعدم قرار دے دیتی ہے کوئی احمق یہ نہیں کہتا کہ اگر ایک غیر دلت کا انتخاب مستردہوتا ہے تو دلت کا کیوں نہیں ؟ لیکن عارف یہ کہتے ہیں کہ اگر ہندو کا دوسری شادی کے لیے اسلام قبول کرنا غلط ہے تو مسلمان کا کیوں نہیں ؟جو لوگ قانون کی بجا آوری کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے وہ دستور کے غلط اور صحیح استعمال کا فرق کیونکر جان سکتے ہیں ؟

عارف خان کی کذب بیانی آگے چلتی ہے اور وہ کہتے اس سے ہر مسلم خاندان متاثر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک سے زائد شادی کا رواج ۱۹۷۵ کی سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف ۳ء۴ فی صد مسلمانوں میں تھا معاشی بدحالی کے باعث یقیناً اس میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ہندوؤں میں یہ تناسب اسوقت بھی ۶ء۵ فی صد تھا اور اب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ۱۹۵۵ کے یک زوجگی قانون میں ترمیم کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار شاہد ہیں کہ مسئلہ قانون کا نہیں ہے۔ امریکہ میں بھی اس طرح کا قانون موجود ہے اس کے باوجود اوپرہ ہیمفری (جو معاشرتی مسائل پر مباحث کے لیے معروف ہیں )کے مطابق  امریکی سماج میں تعددّ ازدواج ۶۰ فی صد ہے۔ ان اعداد میں سے اگر مبالغہ نکال بھی دیا جائے تب بھی یہ تعداد ہندوستانی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہو گی۔

 عارف خان صاحب یک زوجگی کی حمایت میں قرآن مجید کی آیات کی من مانی تشریح کے بعد حضرت آدم و حوا علیہ السلام کی مثال دیتے ہیں لیکن اگر اسی دلیل کو لے کر ہندو ۱۹۵۵ کے قانون کو چیلنج کر دیں تو کیا صورت بنے گی؟ ہندو صحیفوں اور دیوتاؤں کی زندگی میں تعدد ازدواج عام بات ہے۔ کرشن کی گوپیوں کو کون نہیں جانتا بلکہ پنڈو تو پاروتی کے معاملہ ایک قد م اور آگے نکل گئے تھے۔ ہندو مذہب کی قدیم اور مقدس تصنیف بودھ گیان میں تعدد ازدواج اور ورن آشرم کے درمیان ایک خاص توازن قائم کیا گیا ہے۔ بودھ گیان کے مطابق براہمن کو چار،  شتری کو تین،  ویش کو دو اور شودر کو صرف ایک شادی کی اجازت دی گئی ہے گویا ہندوستانی دستور نے اس قانون کی رو سے سا رے ہندوؤں کو شودر بنا دیا ہے اس لیے عارف صاحب کو چاہیئے کہ وہ مسلمانوں کا پیچھا چھوڑ کر بی جے پی کو ہندوتوا کی خاطر مذکورہ قانون بنوانے کی تحریک چھیڑ نے کا مشورہ دیں۔ اس سے دھرم پریورتن بھی رکے گا اور بی جے پی جو کسی نئے مدعا کے لیے چھٹپٹا رہی ہے اس کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ وشو ہندو پریشد والے مسلمانوں کی مخالفت کے بجائے اپنے ہم مذہب بھائیوں کا بھی کچھ بھلا کریں گے۔ اس مہم کا فائدہ عام ہندو کو ہو یا نہ ہو بی جے پی کے سابق ممبرانِ پارلیمان دھر میندر اور ہیما مالنی کو ضرور ہو جائے گا جنھیں ۱۹۵۵ کی ترمیم سے بچنے کی خاطر اسلام قبول کرنے کا ڈھونگ رچانا پڑا تھا۔

لاء کمیشن کے معزز رکن طاہر محمود کے مطابق حالیہ دنوں میں وقوع پذیر ہونے والے دو واقعات نے کمیشن کی توجہ نفسِ مسئلہ کی جانب متوجہ کرائی ان میں سے ایک پردیس کا معاملہ تھا دوسرا سودیش کا ایک میں فوجی الجھ گیا تھا دوسرے میں سیاستدان ایک کو کافی شہرت ملی دوسرا اپنی گوناگوں نزاکتوں کے باعث دب کر رہ گیا۔ یہ مثالیں بھی جن میں اسلام کا استعمال غیروں نے محدود پیمانے پر اپنے مفاد کی خاطر کیا تھا اسلامی شریعت کے فیوض و برکات کا منہ بولتا ثبوت ہیں بشرطیکہ کہ نہایت منطقی انداز میں سارے معاملہ کو جانچا اور پرکھا جائے۔ ہوا یہ کہ ایک ہندو فوجی افغانستان میں تعینات تھا جس کی ایک بیوی ہندوستان میں موجود تھی اس نے وہاں ایک افغانی لڑکی سے شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کیا اور واپس اپنے خاندان میں آ کر اسلام سے اور دوسری بیوی سے منہ موڑ لیا۔

یہ یقیناً ایک افسوس ناک واقعہ ہے لیکن ہمیں صرف افسوس کرنے کہ بجائے غور کرنا چاہیے کہ وہ اس کے علاوہ کیا کر سکتا تھا؟ اور اب اس کو کیا کرنا چاہیے ؟ ویسے اگر یہ سوال کھڑا کر دیا جائے کہ اس فوجی کو ان حالات سے کس نے اور کیوں دوچار کیا تھا؟تو بات دور نکل جائے گی خیر بیوی اس جوان کی فطری ضرورت تھی اسے چاہیے تھا کہ اپنی دھرم پتنی کو اپنے پاس بلا لیتا لیکن محاذ جنگ پر بیوی کو بلانا نا ممکن ہے اس صورت میں خود واپس آ جاتا تو نہ صرف کورٹ ما رشل بلکہ بیروزگاری کا اضافی خوف،  آ تو جاتا لیکن خود کیا کھاتا اور بیوی کو کیا کھلاتا،  تیسرا راستہ تھا صبر کر لیتا جو خاصہ کٹھن کام ہے اور اکثر نہیں ہو پاتاچوتھا حل قحبہ گری کے چنگل میں پھنسنا تھا لیکن یوروپ یا نام نہاد ترقی پذیر معاشروں میں عورتوں کو جسم فروشی کے لیے ضرور مجبور کیا جاتا ہے افغانستان جہاں عورتوں کی مظلومیت کے بڑے چرچے ہیں ان کی عصمت سرِ بازار نیلام نہیں ہوتی وہ عزت و قار کے پردے میں ہنوز محفوظ ہیں۔ پانچواں راستہ کسی سے ناجائز تعلق کے قائم کر لینے کا تھا لیکن افغانی خاتون کا ایسا استحصال بھی نا ممکن ہے اگر وہ ایسی کوشش کرتا تواس کی لاش واپس آتی اور قوم اس کی دیش بھکتی کو بلا وجہ سراہتی ایسے میں چھٹا اختیار شوپیان جیسی دست درازی کا تھا افغانستان میں اس کا تصور بھی محال تھا اس لیے اس نے ساتواں طریقہ اختیار کیا اسلام قبول کر کے نکاح کر لیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن حالات میں وہ گرفتار تھا ایسے میں اس کے لیے اور اس کی ازواج کے لیے سب سے بہتر اور محفوظ راستہ کون سا تھا؟ اس بات کا فیصلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہندو قانون کی رو سے دوسرا نکاح کرنے سے قبل اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلی بیوی سے اپنے تعلقات کو منقطع کرتا یعنی اسے طلاق دیتا کیا ایسا کرنے سے اس خاتون پرظلم نہیں ہوتا؟ایسا کرنے کے بعد کیا واپسی پر اس کا اپنی پہلی بیوی اور اپنے بچوں سے ملنا ممکن ہو سکتا تھا؟ اس کی غلطی یہ نہیں ہے کہ اس نے شادی کیوں کی بلکہ یہ ہے کہ اپنی دوسری بیوی کیوں چھوڑ آیا؟ اسے چاہیئے تھا کہ اس کو اپنے پاس بلائے یا اگر وہ نہیں آسکتی ہو تواسے طلاق دیکر اپنے نکاح کی قید سے آزاد کردے تا کہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کرسکے لیکن طلاق کو بھی معیوب بنا دیا گیا ہے گویا یہ خود ساختہ انسانی قوانین نے نہ صرف راستی کے اقدام میں مانع ہو رہے ہیں بلکہ اصلاح کے عمل میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔

دوسرا واقعہ ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ بھجن لال کے بیٹے چندر موہن کا ہے جو نہ صرف قانون ساز ایوان کا رکن بلکہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھا وہ تقریباً آٹھ ماہ سے موہالی کے سیکٹر ۳۲ میں واقع ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل انورادھا بالی گھر میں رہتا رہا اور کسی نے ان قانون کے رکھوالوں پر اعتراض کرنے کی جرأت نہیں کی۔ نا جائز رشتوں کا یہ درخت پھولتا پھلتا رہا جس کے قریب پھٹکنا بھی ممنوع ہے۔ ایک دن اچانک ان لوگوں نے اپنے رشتوں کو جائز بنانے کا فیصلہ کیا دونوں چونکہ ماہرینِ قانون تھے اس لیے انہیں چاند اور فضا بننا پڑا لیکن جلد ہی چاند کو گہن لگ گیا وہ پرانے بادل میں کھو گیا  اور فضا میں اندھیرا چھا گیا ان دونوں نے یقیناً اسلام کا غلط استعمال کیا اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ ان کے رشتوں کو تقدس اسلام ہی نے بخشا اس سے پہلے کی ان کی زندگی ہر طرح سے شرمناک تھی مندرجہ بالا واقعات میں اسلام کے ساتھ اخلاص نہ ہونے کے باعث فائدہ مختصر اور نا پائیدار تھا۔ اسلامی شریعت سے استفادہ کے لیے اخلاص شرط ہے کسی کے پیدائشی مسلمان ہونے یا نہ ہونے سے کو ئی فرق نہیں پڑتا اگر اس پر عمل کرنے والا عارف خان جیسا قانون چور ہو اور مخلص نہ ہو تواس کے لیے قانون کی حیثیت مفلس کی بیٹی جیسی ہو جاتی ہے بقول امجد اسلام امجد

مفلس کی بیٹی،  قانون

چوروں کے ہیں لمبے ہاتھ

بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے دم چھلہ عارف خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ ماضی کے خوابوں میں کھوئے ہوے ہیں جب کوئی جسونت سنگھ انہیں بیدار کر کے حقیقت کی دنیا میں لانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ گھبرا کر اسے پارٹی سے نکال با ہر کرتے ہیں حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ چار شادی اور تین طلاق سے آگے نکل کر دورِ حا ضر کے مسائل پر غور کیا جائے فی الحال شادی کا ادارہ خطرے میں ہے لوگوں نے ناجائز تعلقات کی حدوں کو پھلانگ کر بن بیا ہے بچے پیدا کرنے شروع کر دیئے ہیں خاندانی نظام بکھرنے لگا ہے دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ خاندان ایسے ہیں جن کی دیکھ ریکھ اکیلی ماں کر رہی ہے اور۲۵ لاکھ خاندانوں کی پرورش صرف باپ کے ذمہّ ہے ہندوستان کے اندر عصمت دری کے واقعات کی تعداد میں ۱۹۷۱ کی بنسبت تقریباً ۷۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے اور نہایت شرمناک فعل ہم جنسی کو جائز قرار دینے کے لیے ببانگِ دہل تحریک چل رہی ہے۔ یہ اس دور کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں لیکن عارف خان یا ان کی فرسودہ جماعت بی جے پی سے کوئی احمق ہی توقع کر سکتا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی بیجا مخالفت چھوڑ کر ان کی جانب توجہ کرے گی۔

(اس مضمون کا پس منظر جاننے کے لیے عارف محمد خان کا ۱۹ اگست ۲۰۰۹کو ٹائمز آف انڈیا میں شائع شدہ مضمون کا مطالعہ مفید ہے )

٭٭٭

 

آئین جوانمرداں حق گوئی و بے باکی

رائے عامہ کی اپنی اہمیت ہے جو اسے جھٹلانے کی حماقت کرتے ہیں وہ اس کی بڑی قیمت چکاتے ہیں۔ عوام کی مرضی معلوم کرنے کے مختلف طریقے فی زمانہ رائج ہیں ان میں سے ایک معروف طریقہ انتخابات اور دوسرا استصواب ہے جو گاہے بگاہے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید کا حکم ہے کہ تم فیصلے باہم مشورے سے کیا کرو کا اطلاق اس پربھی ہوتا ہے کہ حکومت کے انتظامی امور کو بہتر طور پر چلانے کے لیے مناسب ترین شخص کے انتخاب کی خاطر یہ طرز عمل اختیار کیا  جائے۔ مغربی ملوکیت و جمہوریت نے بھی اسے اپنایا ہے۔ برطانوی ملوکیت میں ملکہ الزبتھ انتخاب کروا کر حکومت کرنے کا کام پارلیمان اور وزیر اعظم کو سونپ دیتی ہیں اور خود مہارانی بن کر عیش کرتی ہیں جس سے عوام بھی کسی قدر بہل جاتے ہیں۔ انتخابات کے بھی مختلف انداز ہیں مثلاً ہندوستان اور لبنان میں سربراہ مملکت کا انتخاب بلاواسطہ ہوتا ہے لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور اکثریتی جماعت وزیر اعظم کا تعین کرتی ہے لیکن امریکہ اور ایران میں لوگ بلواسطہ صدر کو منتخب کرتے ہیں اور دونوں طریقوں کی یکساں پذیرائی ہوتی ہے۔

عوام کی رائے تو خیر انتخابی عمل سے حاصل کی جاتی ہے۔ رائے عامہ کو حکمرانوں تک اور حکمرانوں کی رائے سے عوام کو روشناس کرانے کی ذمہ داری ویسے تو میڈیا پر ہے لیکن فی الحال ذرائع ابلاغ سے ترسیل وارسال کے بجائے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ میڈیا کوویسے تو اظہار رائے کی آزادی کا سر چشمہ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ چند استثناء کے علاوہمیڈیا فی زمانہ اپنے آقاؤں کا زر خرید غلام ہے۔ اس کا عوام کی رائے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ میڈیا کا کام اپنے سیاسی و معاشی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی حمد و ثنا بیان کرتے رہنا اور ان کے مفاد کی خاطر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے۔ یہ لوگ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ جو امیدوار ان پر روپئے لٹانے سے قاصر رہتے ہیں انہیں کوئی جان ہی نہیں پاتا۔ امریکی انتخاب میں اس بار بارک اوبامہ اور جان میک کین کے علاوہ مزید چار امیدوار تھے جن کا نام تک لوگ نہیں جان پائے۔ ان حضرات کی قابلیت و صلاحیت میں کوئی کمی نہیں تھی بلکہ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ذرائع ابلاغ کا پیٹ بھرنے کے لیے ضروری چندہ جمع کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اگر یقین نہ آتا ہو تو مندرجہ ذیل ٹیبل کو دیکھیں :

امریکی انتخابات میں دولت کا جادو کس طرح سر چڑھ کر بولتا اس کا یہ نمونہ ملاحظہ کرنے کے بعد میڈیا کا کردار اپنے آپ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ یہودیوں کے پاس اگرچہ دولت ہو تو وہ اسے کیوں نہ چندہ کے طور پر امیدواروں پر لگائیں اس لیے کہ اس کو پلٹ کر میڈیا کے ذریعہ انہیں کے جیب میں آنا ہے لیکن اس کے ذریعہ اقتدار پر جو اثر و رسوخ قائم ہو جاتا ہے اس کے دو اضافی فائدے ہیں۔ اول تو اس کے ذریعہ استحصال کی مزید سہولتیں حاصل ہو جاتی ہیں اور دوسرے بدعنوانی کے خلاف تحفظ بھی فراہم ہو جا تا ہے۔ کسی بھی دنیا دار سرمایہ دار کواس سے زیادہ اور کیا چاہیے ؟ میڈیا کا تو شیوہ یہ ہے کہ جس سے پیسہ پائے اس کے گن گائے اور جس سے نہ پائے اسے بھول جائے۔ حق اور باطل کو خلط ملط کر کے مشکوک کر دینے والے ذرائع ابلاغ  کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون کیسا ہے ؟

لبنان میں بھی گذشتہ ماہ انتخابات ہوے اس میں دو محاذوں کے درمیان مقابلہ تھا۔ ایک کی رہنمائی سعد حریری کر رہے تھے جسے مغرب نواز کہا گیا اور دوسرے میں حزب اللّٰہ شامل تھی اس لیے اسے قدامت پرست قرار دے دیا گیا۔ حریری کی نام نہاد مستقبل تحریک کے پاس نہ تومستقبل کا کوئی منصوبہ تھا اور نہ کوئی نظریاتی بنیاد تھی۔ حریری ایک بہت بڑا سرمایہ دار خاندان ہے جو سعودی عرب کے شاہی خاندان سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔  ان کے محاذ میں نہ صرف ترقی پسند اشتراکی جماعت شامل تھی بلکہ طرابلس بلاک کے اشتراکی بھی شامل تھے۔ یہ محاذ کسی نظریہ کے بجائے مفاد کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ اسلام کے بغض میں اشتراکیوں نے حسب معمول سرمایہ داروں کا ساتھ گوارہ کر لیا تھا۔ اسرائیلی حملے کے وقت یہ لوگ یا تو خاموش تماشائی بنے رہے یا محض مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہے تھے۔ چونکہ رفیق حریری قتل کے حوالے سے لگائے گئے سارے بے بنیاد الزامات کو بین الاقوامی عدالت نے مسترد کر دیا تھا اس لیے ان کے پاس منفی پروپگنڈہ اور سیاسی جوڑ توڑ کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا اور انہوں نے یہی کیا۔ عین انتخاب سے قبل مخالف محاذ کے عیسائی صدر کو لالچ دیکر اپنے ساتھ ملا لیا۔

 اس کے مقابلے میں حرکت عمل تھی جس کے محاذ میں حزب اللّٰہ شامل تھی حزب اللّٰہ جدید ترین اسلحہ سے لیس وہ جماعت ہے جس نے حکومت کی امداد کے علی الرغم ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی اسرائیلی فوج کے دانت کھٹے کر دئیے تھے۔ اسرائیل کی داخلی سیاست پر اس شکست کے اس قدر زبردست اثرات  پڑے کہ یہود اولمرٹ کو رسوا ہو کر جانا پڑا اس کی قدیمہ پارٹی کو انتخاب میں منہ کی کھانی پڑی۔ باوجود اس کے لبنان انتخاب کے نتائج حزب اللّٰہ محاذ کے حق میں نہیں آئے۔ حالانکہ اس محاذ نے اپنے مخالفین سے دس فی صد زیادہ ووٹ حاصل کیے یعنی کل گیارہ لاکھ انچاس ہزار میں سے آٹھ لاکھ پندرا ہزار ووٹ اسے ملے اس کے باوجود اس کے منتخب شدہ نمائندوں کی تعداد ۹۶ کے مقابلے صرف ۷۵ ہی رہی۔ اس محاذ میں شریک عرب قومی جماعت کو نو فی صد سے زیادہ ووٹ ملے مگر وہ ایک سیٹ پر بھی کامیابی درج کرا نے میں ناکام رہی۔

بھارت کے صوبہ کرناٹک میں بھی گذشتہ چناؤ میں یہ ہوا تھا کہ کانگریس مجموعی طور پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ہار گئی تھی۔ حزب اللّٰہ نے کل چودہ نشستوں پر انتخاب لڑا تھا اور ان سب پر کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اس نے قومی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کر لیا۔ لیکن کسی نے اس کی رواداری و کشادہ دلی کو نہیں سراہا بلکہ سب کے سب اس کی شکست کی خوشی مناتے رہے اور کہتے رہے کہ لبنان کے عوام نے حزب اللّٰہ کو رد کر دیا حالانکہ حقیقت اس کے خلاف تھی۔ مستقبل محاذ کو صرف ایک تکنیکی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

لبنان میں تو اسلام پسندوں نے رواداری کا ثبوت دیا لیکن ایران میں اس کے برخلاف ہوا۔ انتخابات میں محمود احمدی نژاد نے ترسٹھ فی صد ووٹ حاصل کیے جبکہ تجدد پسند میر حسن موسوی کو چونتیس فی صد پر اکتفا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود موسوی نے نہ صرف دھاندلی کا بے بنیاد الزام لگایا بلکہ اپنے حامیوں کے ساتھ سڑک پر اتر آئے اور تہران کی گلیوں میں فساد برپا کر دیا۔ سرکاری گاڑیاں جلنے لگیں ناحق خون بہنے لگا امریکہ نے ایران میں بد امنی پھیلانے کے لیے جو کثیر رقم صرف کی تھی وہ رنگ لانے لگی ایران کی سپریم کاؤنسل نے تحقیق کرنے کا بلکہ دس فی صد ووٹوں کی پھر سے گنتی کا یقین دلایا لیکن موسوی نہ سپریم کاؤنسل کے بلانے پر آتے ہیں اور نہ غیر قانونی مظاہرے بند کرتے ہیں وہ دوبارہ انتخاب کی اپنی ضد پر اڑے ہوے ہیں۔

 سوال یہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ انتخاب کے باوجودموسوی ہار جائیں گے تو کیا اسے تسلیم کریں گے یا پھر ہنگامہ شروع کر دیں گے اور یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کیا یہ بلیک میلنگ نہیں ہے ؟ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ سارے مغرب کی ہمدردیاں میر حسن کے ساتھ ہیں۔ میر حسن کی حمایت میں آنے والے چند ہزار کو خوب سراہا جاتا ہے اور ان کے ذریعہ کی جانے والی آیت اللّٰہ علی خامنہ آئی کی نافرمانی کی جی بھر کے تعریف و توصیف کی جاتی ہے جبکہ آیت اللّٰہ کا خطبہ سننے کی خاطر بن بلائے جو لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں ان کا کوئی ذکر تک نہیں ہوتا کیا ان کی رائے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی؟میڈیا کا حال یہ ہے کہ وہ کوریا میں ایران کے فٹ بال میچ میں ہونے والے احتجاج کی تصویر شائع کرتا جس میں سارے کے سارے مظاہرین کورین دکھائی دیتے ہیں دو لوگ جن کی ناک چپٹی نہیں ہے وہ بھی حلیہ سے امریکی معلوم ہوتے ہیں اس کے باوجود مگرمچھ کے آنسو جاری ہیں۔ برطانوی حکومت نے ایرانی عوام کے حقوق کی پامالی کا بہانہ بنا کر کروڑوں کی ایرانی املاک کو غصب کر لیا ہے۔ کیا یہ ببانگِ دہل کی جانے والی حق تلفی نہیں ہے ؟

ہندوستان میں ایک مرتبہ ایسا بھی ہو چکا ہے کہ نرسمھا راؤ کی قیادت میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بنکر سامنے آئی لیکن وہ واضح اکثریت حاصل کرنے سے محروم رہی۔ صدر مملکت نے بی جے پی کو حکومت سازی کی دعوت دی۔  اٹل جی کی سرکار تیرہ دنوں میں ٹل گئی۔ اس کے بعد کانگریس کی حمایت سے تیسرے نمبر کی جماعت جنتا دل کے دیوے گوڑہ وزیر اعظم بنے بی جے پی نے بھی انہیں تسلیم کر لیا اورسڑک پر نہیں اتری۔

۲۰۰۲کے امریکی انتخاب میں الگور نے مجموعی طور پر بش سے پانچ لاکھ چالیس ہزار زائد ووٹ حاصل کئے۔ نمائندگی کے لحاظ سے بش کے ساتھ ۲۷۱تو الگورے کے ساتھ ۲۶۶ ممبران تھے۔  امریکی دستور کے لحاظ سے بش کیلئے ۱۷۲ ممبران کی حمایت لازمی تھی جسے حاصل کرنے کی خاطر اس نے فلوریڈا میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وہاں ان کا بھائی جیب گورنر تھا۔ الگور کی شکایت پر فلوریڈا کی عدالت نے دوبارہ ہاتھ سے گنتی کا حکم دیا اس لیے کہ فرق صرف ۲۳۵ ووٹ کا تھا لیکن بش اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے جہاں چار کے مقابلے پانچ ججوں نے فلوریڈا عدالت کے حکم کو مسترد کر دیا وقت کی تنگی کا بہانہ بنایا گیا جو غلط تھا اس لیے کہ کئی ریاستوں کے نتائج ظاہر ہونا باقی تھے اور کافی وقت تھا اس کے باوجود الگورے نے عدالت کے غیر منصفانہ فیصلے کوتسلیم کر لیا اور سڑک پر نہیں اترے دنیا نے انہیں جمہوریت نواز قرار دیا۔

اس کے برعکس موسوی نے نہ صرف عوام کے فیصلے کو ٹھکرایا بلکہ سپریم کاؤنسل کے بلانے پر حاضر ہونے سے انکار کیا اس کے باوجود انہیں ہیرو بنایا جا رہا ہے۔ کیا یہ رویہ مبنی بر انصاف ہے ؟ اور ایسا کرنے والا میڈیا ا ٓزادیِ ظہار رائے کا نقیب ہے ؟ذرائع ابلاغ کے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا کرنے سے خود ان کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔ عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب اس کی سچی بات پر بھی کوئی کان نہیں دھرے گا۔ اس طرح مصنوعی خبروں کی یہ دوکان خود اس کے اپنے بوجھ تلے ڈھ جائے گی۔ لوگ ذرائع ابلاغ سے اشتہار بازی کی نہیں سچائی کی توقع رکھتے ہیں اور جب یہ توقعات خاک میں مل جائیں گی تو یہ تماشہ از خود ختم ہو جائے گا۔ بقول شاعر؎

آئینہ خانۂ تشہیر کی سج دھج پہ نہ جا

سب تماشا ہے تماشے کو دوامی نہ سمجھ

محمود احمدی نژاد کو ذرائع ابلاغ نے ہٹلر ثانی بنا کر پیش کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ایک غریب لوہار کے گھر میں جنم لیا۔ تعلیم کے دوران انہیں ملازمت کرنے پر مجبور ہونا پڑا س کے باوجود انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پہلے ماکوخوئی ریاست کے گورنر اور پھر تہران کے میئر بن گئے۔ اپنی فلاحی اصلاحات کی مقبولیت کے سبب وہ ایران کے صدارتی انتخاب میں کامیاب ہو گئے۔ احمدی نژاد کے دورِ صدارت میں ایران کا جوہری پروگرام بحث کا موضوع بن گیا اور انہیں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے حملہ کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ نژاد کا جواب واضح تھا اگر امریکہ نے حملہ کرنے کی غلطی کی تو عراق میں موجود اس کے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور اگر اسرائیل نے ایران کی تنصیبات پر بری نگاہ ڈالی تو جواباً اسرائیلی جوہری تنصیبات پر میزائیل سے ہلہّ بول دیا جائے گا۔

ایران کے جوہری تنازعہ پر انہوں نے جارج بش کو اقوام متحدہ کے اندر مناظرے کی دعوت دی لیکن امریکی صدراس چیلنج کو قبول کرنے سے منہ چرا گئے۔  اس کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں سارے عالم سے خطاب کیا اور نہ صرف اپنا موقف واضح کیا بلکہ اسلام کی دو ٹوک دعوت پیش کی۔ ۲۰۰۷ میں امریکہ کا دورہ کر کے بھی انہوں نے اپنی منصبی ذمہ داری کو ادا کیا۔ جارج بش کو لکھا جانے والا خط تاریخ اسلامی کا ایسی اہم دستاویز بن گیا ہے جسے مؤرخ کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا لیکن احمدی نژاد کے جس موقف نے انہیں بیک وقت بے حد متنازعہ و مقبول بنا دیا وہ اسرائیل اور ہٹلر کے ذریعہ یہودیوں کے قتل عام پر دیا جانے والا ان کا بیان تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اس قتل عام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اس کی تحقیق کرنے والوں کو بلا وجہ معتوب کیا جاتا ہے اور اس قتل عام کی سزا معصوم فلسطینیوں کو دی جاتی جن کا اس سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

 اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی بات بھی بار بار مغرب میں موضوعِ بحث بنتی رہی لیکن مسلم دنیا میں ان کے بیانات اور سادہ طرزِ زندگی نے انہیں بے حد مقبول بنا دیا۔ اس کے باوجود احمدی نژاد کا دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنا ایک زبردست سیاسی جنگ میں تبدیل کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنے مخالفین سے دوگنا زیادہ ووٹ حاصل کئے اس کے باوجود خلاف توقع تہران کی سڑکوں احتجاج کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔  یہ احمدی نژاد کی پہلی بڑی آزمائش تھی جس میں ساری دنیا کا ذرائع ابلاغ ان کے مخالف امیدواروں اور سابق صدر و وزیر اعظم کی حمایت کر رہا تھا خیر خدا خدا کر کے وہ مرحلہ تمام ہوا لیکن اس کے بعد خود احمدی نژاد نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پیر پر کلہاڑا چلا دیا۔

ایران میں بارہ نائب صدور ہوتے ہیں جن میں پہلے نائب صدر کو دوسروں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ صدر کی غیر موجودگی وہ مجلس یعنی پارلیمان کی صدارت کرتا ہے۔  اس اہم ترین عہدہ پر انہوں نے اپنے سمدھی اسفندیار رحیم مشاعی کو نامزد کر دیا جو ماضی میں وزیر ثقافت اور سیاحت رہ چکے ہیں۔ اسرائیل کی دن رات مخالفت کرنے والے صدر کی جانب سے ایک ایسے شخص کی نامزدگی جو یہودیوں کو پرانا دوست گردانتا ہے اور اسرائیل سے تعلقات کی ہمواری کے امکان کا اظہار کرتا ہے ایک چونکا دینے والا اقدام تھا لطف کی بات یہ ہے کہ جب اس فیصلہ کی مخالفت شروع ہوئی تو احمدی نژاد نے اس سے رجوع کرنے کے بجائے اصرار کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ مشاعی متقی و پرہیزگار آدمی ہے اس کی تعیناتی کی ہزاروں وجوہات ہیں جبکہ اس کو ہٹانے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے بات اس قدر آگے بڑھی کہ آیت اللّٰہ علی خامنہ آئی کو مداخلت کرنی پڑی انہوں تحریر و تقریر دونوں طریقوں سے علی الاعلان مشاعی کو ہٹانے سفارش کی اور مشاعی نے مجبوراً اپنا نام واپس لے لیا اس طرح ایک بڑا تنا زعہ وقتی طورپر ٹل گیا۔

 حالیہ واقعات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ احمدی نژاد کی آزمائش کا سلسلہ اب دلچسپ مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے قائد کے فیصلہ کو برضا و رغبت نہیں بلکہ بحالت مجبوری تسلیم کیا ہے ورنہ وہ دوبارہ اسفندیار رحیم مشاعی کو اپنا مشیر اور صدارتی دفتر کا سربراہ نہیں بناتے۔  اس کے علاوہ اپنے تین مخالف وزراء غلام حسین محسنی،  محمد حسن ہراندی اور محمد جہرومی کو سبکدوش نہیں کرتے۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اس اقدام سے گذشتہ میقات میں بدلے جانے والے وزراء کی تعداد نصف ہو گئی جس کے باعث دستور کی رو سے ان کے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ضروری ہو گیا اور ایسا کرنے سے قبل وہ بذاتِ خود کوئی نیا فیصلہ کرنے کے حق سے محروم ہو گئے۔ صدر احمدی نژاد کے لیے یہ دوسرا تازیانہ قدرت اور تنبیہ تھی اس نئی صورتحال سے بچنے کے لیے انہوں نے دو وزراء کی برخواستگی کو واپس لے لیا مگر اس کے جواب میں محمد حسن نے آگے بڑھ کر اپنا استعفی دے دیا جو احمدی نژاد کی مزید سبکی کا سبب بنا۔

نئی میقات میں حلف برداری سے قبل وہ اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں سے نت نئے مسائل پیدا کر رہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کا زہر اپنے پینے والے پر یکساں طور سے اثر انداز ہوتا ہے اور وہ بش یا موسوی یا نژاد کے درمیان کسی قسم کی تفریق نہیں کرتا،  بلندی کی منزلیں بڑی محنت و مشقت سے طے ہوتی ہیں لیکن جب پیر پھسلتا ہے تو انسان برسوں کا سفر لمحوں میں طے کر لیتا ہے۔ اس طرح کی آزمائش زندگی کے سفر کا جز لاینفک ہے اس سے مفر وہی حاصل کر سکتا جو رہبانیت کی زندگی اختیار کر لے لیکن اس دا رالامتحان میں کامیابی کی راہ پر گامزن رہنے کے لیے انسان کو ہمیشہ چوکناّ رہنا پڑتا ہے ہر قدم سنبھال کر بڑھانا ہوتا ہے نیز اگر کوئی قدم غلط پڑ ہی جائے تو اس کی توجیہ یا اس پر اصرار کرنے کے بجائے فورا ً رجوع کر لینا ہی دانشمندی کا تقاضہ ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں ہونے والی ننھی سی تا خیر رسوائی کا سبب بن جاتی ہے اور اگر یہ طویل ہو جائے تو گمراہی بھی بن سکتی ہے۔

صدر ا حمدی نژا د کا یہ فیصلہ مغرب اور آیت اللّٰہ علی خامنہ آئی دونوں کے لیے بھی ایک بڑی آزمائش بن گیا اہلِ مغرب کی سمجھ میں یہ نہ آتا تھا کہ اس مسئلہ میں کس کا ساتھ دیا جائے اگر احمدی نژاد کی مخالفت کی جائے تو اسراِئیل کی مخالفت ہوتی ہے اور خامنہ آئی کی مخالفت کی جائے تو نژاد کی حمایت ہو جاتی ہے اور یہ دونوں صورتیں نا قابلِ قبول تھیں لیکن آیت اللّٰہ کے لیے یہ ایک نہایت ہی نازک موقع تھا۔ کل تک وہ جس کی حمایت کر رہے تھے آج اس کی مخالفت اس بات کی پرواہ کیے بغیر کرنا کہ اندرونی اور بیرونی دشمن اس کو کس طرح اپنے حق میں استعمال کریں گے آسان کام نہیں تھا عام طور سے ایسے موقع پر انسان عظیم تر مصالح کا بہانہ بنا کر وقتی طور پر حالات سے مصالحت کر لیتا ہے اور اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کو ہمیشہ کے لیے مجروح کر دیتا ہے لیکن آیتا للہ علی خامنہ آئی نے اقبال کے مندرجہ ذیل شعر کی مصداق امتحان کی اس نازک گھڑی میں حسبِ توقع ایک جرأت مندا نہ اور بصیرت افروز فیصلہ کر کے سارے تنازعہ کی بیخ کنی کر دی ساتھ ہی یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ کسی فرد واحد کے نہیں بلکہ حق کے وفادار ہیں ؎

آئین جوانمرداں حق گوئی و بے باکی

اللّٰہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

گفتگو بند نہ ہو بات چلے

ہند پاک مشترکہ اعلامیہ پر پارلیمان کے اندر اور باہر ایک زبردست ہنگامہ برپا ہے۔ حزبِ اختلاف نے پہلے اس مسئلہ کو میڈیا میں اٹھایا پھر اسے پارلیمان میں لے آئے جہاں اس پر اوُٹ پٹانگ بحث ہوئی وزیر ِ خزانہ نے مداخلت کی اور وزیر ِ اعظم نے جواب دیا لیکن اس کے باوجود اطمینان نہیں ہوا تو واک آوٹ کر کے صدارتی محل میں اپنی شکایت لے کر پہنچ گئے،  یہ جانتے بوجھتے کہ یہ ساری حرکتیں بے نتیجہ ثابت ہونے والی ہیں۔ لیکن اس کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ملک کی عوام کو محسوس ہوا کہ یہاں جیسی کچھ بھی ہے ایک حزبِ اختلاف موجود ہے اس بار انتخابی ناکامی کے جھٹکے سے ابھرنے میں بی جے پی کو خاصہ وقت لگا لیکن اب وہ کسی طرح اپنے حواس مجتمع کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور جسمانی طور پر ایک صحتمند اپوزیشن کا کردار ادا کرنے لگی ہے۔ ویسے فکر و نظر کے لحاظ سے اپنی داخلی مجبوریوں کے پیشِ نظر وہ بیچاری صحتمند کردار ادا کرنے سے ہمیشہ قاصر ہی رہے گی۔ گویا اس ہنگامہ کے پسِ پردہ محض لہو گرم رکھنے کی ایک کو شش تھی بقول حکیم الامّت علامہ اقبالـ

پلٹ کر جھپٹنا،  جھپٹ کر پلٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

اس تمہید کے بعد آئیے دیکھیں کہ شرم الشیخ کے اعلامیہ میں حضرتِ شیخ کو شرمندہ کرنے والی آخر کیا بات تھی؟اس اعلامیہ کے اندر بلوچستان کا ذکر آیا تو کیوں آیا؟ وزیر ِ خارجہ ایس ایم کرشنن (جو ابھی تربیت کے مراحل سے گذر رہے ہیں )کے پاس اس سوال کا بچکانہ جواب یہ ہے چونکہ ہمارے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے اس لئے بلوچستان کا ذکر آگیا۔ یہ عجیب و غریب منطق ہے گویا جن مسائل پر کچھ پوشیدہ رکھنا ہو پا سکو اعلامیہ سے پرے رکھا جائے اور بقیہ تمام باتوں کو بلا تکلف اس میں شامل کر دیا جائے۔ ان کی اس کمزور دلیل کو سابق وزیر ِ خارجہ یشونت سنہا خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ بی جے پی ویسے بھی ہمیشہ قحط الرجال کا شکار رہی ہے سابق وزیر اعظم اٹل جی امور خارجہ کی اونچ نیچ سے واقف تھے لیکن وہ اپنی ضعیف العمری کے باعث اس وقت بحث کرنے کی حالت میں نہیں ہیں اور ساتھ ہی لوک سبھا کی رکنیت سے بھی محروم ہیں۔ قندھار کی حماقت جسونت سنگھ کا پیچھا نہیں چھوڑتی اب لے دے کہ یشونت سنہا آتے ہیں جن کو اپنی صاف گوئی کے باعث پہلی صف میں بیٹھنے سے محروم تو کر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی خداداد صلاحیت کے باعث پارٹی کی مجبوری بن گئے ہیں اس لیے ان کو بحث میں حصہ لینے کی خاطر میدان میں اتارا گیا لیکن وہ بھی کوئی ٹھوس اعتراض پیش کرنے میں ناکام رہے بلکہ بے موقع شیوراج پاٹل کا قصہ چھیڑ دیا۔ ساتھ ہی ایس ایم کرشنا کے جلد ہی بن باس پر بھیج دئیے جانے کی پیشن گوئی کر ڈالی اور یہ کہنے سے بھی نہیں چوکے کہ فی الحال وزارتِ خارجہ غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

 اس لایعنی گفتگو میں یشونت سنہا نے بلاواسطہ طور پر بڑی ظرافت کے ساتھ کانگریس کو یہ پیش کش کر دی کہ اس خدمت کے لیے ان کے محفوظ ہاتھ حاضرِ خدمت ہیں۔ فی الحال بی جے پی کے اندر ان کی حالت کو دیکھتے ہوے اگر کانگریس ان کی خدمات طلب کرے تو وہ بصد شوق حاضرِ ہو جائیں گے۔ اپنی ملازمت کے دور میں آئی ایس افسر کی حیثیت سے وہ کانگریس سرکار کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ سنگھی شاکھا میں نیکر پہن کر جانے کی سعادت سے وہ ضرور محروم رہے ہیں لیکن کانگریس کے کلچر سے واقفیت رکھتے ہیں۔ یشونت سنہا نے اپنی تقریر کا خاتمہ ایک سوال پر کیا کہ صدر زرداری اور وزیر اعظم جیلانی کی ملاقات کے درمیان ایسی کون سی تبدیلی واقع ہو گئی کہ بات چیت کا آغاز کر دیا گیا اور ایک ایسے اعلامیہ کی ضرورت پیش آ گئی جس میں بقول اڈوانی پہلی مرتبہ بلوچستان کا ذکر پایا گیا اور اس کے باعث حکومتِ ہند نے گویا اپنی مداخلت کو تسلیم کر لیا۔

وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ان دونوں اعتراضات کا جواب ایک ساتھ دیا وہ بولے تبدیلی پاکستان کی جانب سے دیا جانے والا ممبئی بم دھماکہ سے متعلق ڈو سئیر ہے جس میں پہلی مرتبہ پاکستان نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس حملہ کی سازش پاکستان کی سرزمین پر رچی گئی اور اس میں پاکستانی شہری شامل تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حملہ آوروں کا سرکاری مشنری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب اتنا بڑا اعتراف کوئی مفت میں تو کرے گا نہیں ؟ جب یہ اعتراف پہلی بار ہوا تو وہ بلوچستان بھی پہلی بار آیا۔ دونوں سربراہوں کو اپنی اپنی عوام کو بہلانا تو ضرور ہے۔

پاکستان کے مؤقر اخبار ڈان نے ذمہ داری کے ساتھ یہ خبر دی ہے کہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان اور سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ میں ہندی مداخلت کے ثبوت بھی حکومتِ ہند کو سونپے گئے۔ منموہن نے گھبرا کر اس کا انکار کیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان مصلحتاً خاموش ہے ؟ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسا ہوا ہو۔ اس بحث میں حصہ لیتے ہوے کچھ اور رہنماؤں نے نہایت حماقت خیز بیانات دئیے مثلاً سونیا گاندھی نے ایک طرف وزیر ِاعظم کی بھرپور تائید کی اور دوسری جانب بلوچستان کا ذکر کیے بغیر کہا کہ پاکستان جب تک ٹھوس کارروائی نہیں کرتا تب تک بات چیت نہ کی جائے۔ یہ تو ایسا ہی ہے گویا مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ مذکورہ مشورہ وزیر اعظم کے موقف کے بیّن خلاف ہے اس کے باوجود وہ وزیر اعظم کی حمایت کا دم بھرتی ہیں۔

بی جے پی میں سونیا کی حریفِ اوّل سشما سے یہ حماقت دیکھی نہ گئی تو انہوں نے آگے پیچھے دیکھے بغیر دعویٰ کر دیا کہ وزیر اعظم نے کسی اعتراض کا جواب ہی نہیں دیا حالانکہ ایسا دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو یا تو بیان کے درمیان سو رہا ہو یا بیان کی زبان سے ناواقف ہو یا جان بوجھ کر کذب بیانی پر تلا ہوا ہو یا بیک وقت ان ساری حالتوں میں گرفتار ہو۔ سشما نے آگے بڑھ کر الزام لگایا کہ وزیر اعظم کے بیان سے بی جے پی تو کجا کمیونسٹ اور کانگریس کے بعض ارکان بھی مطمئن نہیں ہیں لیکن ان کے بعد ہی سی پی آئی کے داس گپتا اور راجا نے وزیر اعظم کے بیان کی حمایت کا اعلان کر دیا اور کانگریس کا  کوئی غیر مطمئن فرد سامنے نہیں آیا۔

 اس معاملہ میں سب سے دلچسپ بیان ملائم سنگھ یادو نے دیا۔ ملائم کچھ عرصہ وزیر دفاع رہ چکے ہیں اس لیے ان سے ایسے بیان کی توقع نہیں تھی وہ بولے وزیر اعظم اس اعلامیہ کو مسترد کر دیں کیوں کہ ملک کی عوام ان کے ساتھ ہے اور مضبوط فوج ان کے پاس ہے۔ شاید ملائم نہیں جانتے کہ اب یہ تیر کمان سے نکل چکا ہے اور واپس نہیں آسکتا تجویز مسترد ہوتی ہے اعلامیہ نہیں ہوتا۔ ان کی تقریر سنتے وقت ایسا لگ رہا تھا گویا وہ اپنی پارٹی کے اجلاس میں تقریر کر رہے ہیں اور متحدہ محاذ سے نکل کر چوتھے محاذ میں شامل ہونے کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ وہ اپنی پارٹی کارکنان سے کہہ رہے ہیں دیش ان کے ساتھ ہے پارٹی کیڈر موجود ہے اس لیے معاہدہ توڑ دیا جائے طویل عرصہ اقتدا ر سے دوری کے باعث انسان گھریلو سیاست اور بین الاقوامی معاملات کے درمیان کا فرق بھول جاتا ہے ایسا ہی کچھ ملائم سنگھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ لالو جی خاموش رہے کانگریس نے پہلی صف میں بیٹھنے کے لیے کرسی دیکر ان کی زبان پر تالہ لگا دیا کل تک جو نہایت طاقتور وزیر تھا آج اس کی یہ درگت ان لوگوں کے لیے عبرت کا سامان ہے جو چند نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے جوڑ توڑ کی سیاست کے حسین خوابوں میں مگن رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے جاں نثار اختر نے کیا خوب کہا ہے۔

آنکھوں میں بسا لو گے تو کانٹوں سے چبھیں گے

یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں

بلوچستان کے مسئلہ پر حزبِ اختلاف کا زوردار حملہ،  کانگریس کی مدافعانہ انداز اور ذرائع ابلاغ میں برپا ہونے والی ہنگامہ آرائی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کسی نہایت پاکباز خاتون کے کردار پر اس کے سرپرست نے قصداً یا سہواً کوئی بھاری تہمت لگا دی ہو،  جس سے سارا محلہ کیل کانٹوں سے لیس ہو کر میدان میں اتر آیا اور پھرسر پرست کو اپنی غلطی کا احساس ہوا رتو اسے صفائی پر مجبور ہونا پڑا۔

 اسسوال  پر ٹھنڈے دل سے غور ہونا چاہئے کہ کیا ہم دودھ کے ایسے دھلے ہیں جو بلوچستان کے ذکر سے ہمارا دامنِ عفّت تار تار ہو گیا ہو؟ کیا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم نے کبھی کسی ملک کے داخلی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی؟ کیا مشرقی پاکستان میں اپنی مداخلت پر ہم بحیثیت قوم فخر جتانے میں کوئی عار محسوس کرتے ہیں ؟ ملائم سنگھ نے اپنی حالیہ تقریر میں بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ۱۹۷۱ کی شکست کو بھولا نہیں ہے وہ اگر ہم سے دوستی کر لے تو میں آپ کی گلپوشی کرونگا۔ اٹل جی نے اس مداخلت کے بعد اندرا گاندھی کو درگا ماتا کے خطاب سے نوازا تھا یہ اور بات ہے کہ ایمرجنسی کہ زمانے میں اسی درگا نے کالی ماتا کا روپ دھارن کر لیا تھا۔ اور تو اور سر سنگھ چالک سدرشن جی بھی اندراجی کو اس معاملے میں سراہتے نہیں تھکتے۔

 یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مکتی باہنی آسمان سے تربیت حاصل کر کے نہیں اتری تھی اسے سر زمین ہند پر تیار کرنے کے بعد اسلحہ سے لیس کر کے روانہ کیا گیا تھا۔ مداخلت کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے راجیو گاندھی کے قتل کی تحقیقات کرنے والے جین کمیشن نے سری لنکا میں مداخلت کے دستاویزی ثبوت اور سابق وزراء اعظم اور وزراء اعلیٰ کے حلف نامہ یکجا کر دئیے ہیں اس کمیشن کو حکومتِ ہند نے قائم کیا تھا آٹھ جلدوں پر مشتمل رپورٹ کو پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا اس رپورٹ میں تمل ٹائیگرس کے ملک بھر میں چلنے والے سارے ٹریننگ کیمپوں کی تفصیلات درج ہیں۔ کس کس نے اسے کب کب کتنا سرمایہ مہیا کیا اس کا بھی سارا حساب کتاب اس رپورٹ میں مو جود ہے ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی پایا جاتا ہے ایک مرتبہ اسلحہ کا ایک ذخیرہ تمل ناڈو پولس نے ضبط کر لیا تو اسے واپس لوٹانے کا حکم دینے والی شخصیت موجودہ وزیر داخلہ چدمبرم کی تھی اس وقت ان کے پاس داخلی تحفظ کا قلمدان تھا جس کا استعمال کر کے انہوں نے سری لنکا کے داخلی تحفظ کو غارت کر دیا۔

نیپال جیسے بے ضرر ملک میں ہماری مداخلت کو جاننے کے لیے معروف محقق ڈاکٹر شاستر دت پنت کی ۲۰۰۳میں شائع ہونے والی کتاب نیپال میں را کو چال کھیل(نیپال میں را کی سرگرمیاں ) کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ جس میں سابق راجہ بریندر کا چین کے دورے کے بعد قتل اور اس کی وجوہات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے نیپال کے ماؤ وادیوں کو ہتھیاروں کی سپلائی پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ویسے نیپال ہندوستان سے کچھ اس طرح گھرا ہوا ہے کہ وہاں بیرونِ ملک سے داخل ہونے والی معمولی سی کیل کو بھی بھارت سے ہو کر گذرنا ہوتا ہے۔

سارا عالم اس حقیقت سے واقف ہے کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے طرز پر ۱۹۶۸میں را کا قیام عمل میں آیا یہ ادارہ وزیر اعظم کے زیر نگرانی کام کرتا ہے اس کے لیے جو کروڑوں کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے وہ اسے بھجن کرنے پر خرچ نہیں کرتا۔ ان حقائق سے منہ چرانے کی خاطر اگر ہم اپنی گردن شتر مرغ کی مانند ریت میں چھپا لیں تب بھی دنیا سب کچھ جانتی ہے ہمارے اعتراف یا انکار سے زمینی حقیقت نہیں بدلتی۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ بین الاقوامی سطح پر مدمقابل سے کسی بھی حقیقت کا اعتراف اسوقت تک کروایا نہیں جا سکتا جب تک کہ ہم خود بھی حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے تیّار نہ ہوں یہی وجہ ہے کے ایک طرف جب پاکستان کا اعتراف سامنے آتا ہے تو دوسری جانب سے اعلامیہ میں بلوچستان کا ذکر شامل کرنا پڑ تا ہے اور یہ دونوں باتیں بیک وقت پہلی مرتبہ وقوع پذیر ہوتی ہیں۔

پاکستان لاکھ انکار کرے لیکن پنجاب اور کشمیر کی شورش میں اس کی شمولیت کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے اسی طرح مکتی باہنی اور تمل ٹائیگرس کی تربیت کا انکار بھی ہمارے کام نہیں آسکتاا گر ہم پاکستان کے اندر سے ہونے والی دہشت گردی کے خاتمہ کی خاطر حکومتِ پاکستان کا تعاون چاہتے ہیں تو ہمیں بھی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوے بلوچستان کے معاملہ میں پاکستان کو اعتماد میں لے کر اس کی مدد کرنی ہو گی دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن کے لیے سیاسی بیان بازی اور ہنگامہ آرائی سے زیادہ اہمیت باہمی تعاون و اشتراک کی ہے۔ دونوں ممالک کے عوام اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ قدرت کے عطا کردہ وسائل کو بموں اور میزائلوں کے بجائے بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اور عمومی فلاح و بہبود پر صرف کیا جائے۔ دونوں وزراء اعظم کو چاہئے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر قومی مفاد میں ایک نئے دور کا آغاز کریں مستقبل کے مشترکہ خواب سجائیں بقول ساحرلدھیانوی۔

آؤ کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے

ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی

ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل

 تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بُن سکیں

اس نئی صورتحال کے لیے کچھ سیاسی مبصرین بجا طور پر امریکہ بہادر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں سرد جنگ کے زمانے سے ہند و پاک غیر جانبدار ممالک کی تحریک میں شامل رہے ہیں لیکن وہ ایک بے معنیٰ سی شمولیت تھی ہندوستان گوں نا گوں وجوہات کی بناء پر سوویت یونین کا حلیف تھا اور پاکستان مجبوراً امریکہ کا وفادار تھا۔ ہندوستان کی چین سے دشمنی تھی اور پاکستان اس کاگہرادوست تھا اس صورتحال کے لیے کچھ ٹھوس عوامل ذمہ دار تھے۔ آزادی کے بعد ہندی اور چینی حکمرانوں کے اندر اشتراکیت کی بنیاد پر فکری ہم آہنگی پائی جاتی تھی اس لئے ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا لیکن ۱۹۶۱ کی جنگ میں چین کی بے وفائی نے ہندوستان کو سوویت یونین کا باجگذار بنا دیا جس کے رد عمل نے پاکستان کو امریکہ کا وفادار بنا دیا اور یہ دونوں پڑوسی بین الاقوامی سیاست کی بساط پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہو گئے۔ ہندوستان اور سری لنکا کے تعلقات کے بگاڑ کی وجہ بھی سری لنکا کی امریکہ سے قربت اور ۱۹۷۱ کی جنگ میں پاکستانی ہوائی جہازوں کو ایندھن کی فراہمی کا تعاون بتایا جاتا ہے۔ افغانستان میں روسی فوج کشی کے وقت ہندوستان روس کا حامی تھا اور پاکستان غیرملکی جارحیت کے خلاف لڑنے والوں کا مددگار تھا لیکن افغانی جہاد کی کامیابی نے بین الاقوامی منظرنامہ کو یکسر بدل کر رکھ دیا اشتراکیت کا خواب بکھر گیا۔ سوویت یونین کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا چین نے عملاًسرمایہ داری اختیار کر لی اور بظاہر یک قطبی نظر آنے والی دنیا میں ہندوستان نے امریکی کیمپ میں شمولیت اختیار کر لی۔

 سوویت یونین کی یہ فیصلہ کن شکست ویتنام یا کوریا کی سرزمین پر ہوتی تو اور بات تھی لیکن یہ شکستِ فاش تو افغانستان میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی تھی جو اسلام کے نام پر جہاد کر رہے تھے اس سے پہلے اسلام پسند ایران میں امریکی پٹھو شاہ ایران کو بھگا کر اسلامی انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے یہ نوزائیدہ عوامی انقلاب امریکی و اشتراکی حمایت میں لڑنے والے صدام حسین کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا اور اب میدانِ جنگ میں بھی مسلمانوں کو اللّٰہ رب العزت نے اس دشمن کے مقابلے کامیابی عطا کی جو ویتنام میں امریکہ کو شکست سے دوچار کر چکا تھا۔

 یہ عظیم کامیابی خود ساختہ نئے عالمی نظام کے نام پر اپنا تسلط قائم کرنے کا خواب دیکھنے والے امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گیا۔ سوویت یونین کے خاتمہ نے امریکہ کو مسلمانوں پر انحصار کی مجبوری سے بے نیاز کر دیا اور اس نے مستقبل کے متوقع خطرے سے نبٹنے کی خاطر مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف ایک عالمی محاذ کھول دیا یہ حیرت انگیز اتفاق ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس نام نہاد جنگ میں ہندوستان اور پاکستان امریکہ کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے دباؤ میں ایک دوسرے کے دوست بھی بن گئے لیکن اس دوستی کو سب سے بڑا خطرہ بھی امریکہ ہی سے ہے اس لیے کہ ہند پاک دوستی فی الحال ان دونوں ممالک کی نہیں بلکہ ایک تیسرے ملک کی مجبوری ہے جو ان دونوں کا دشمن ہے

افغانستان میں اپنی شکست کو برطانیہ کی عوام اور اس کے حکمرانوں نے تسلیم کر لیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب خود امریکہ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ وہ ایک ایسی جنگ میں پھنس چکا ہے جہاں اس کی کامیابی ناممکن ہے اس لیے عراق کی طرح وہاں سے بھی نکل بھاگنے میں ہی عافیت ہے موجودہ معاشی بحران امریکہ کی عقل ٹھکانے لگانے کے عمل میں معاون ثابت ہو رہا ہے اس لیے وہ دن دور نہیں جب افغانستان کے حالات بدلیں گے اور امریکہ کی ہند پاک دوستی میں دلچسپی ختم ہو جائے گی بلکہ اسلحہ کی فروخت کے پیش نظر ان کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کی ضرورت پیش آئے گی ویسے آجکل یہ کام نہایت آسان ہے سرحد کی دونوں جانب اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ دوچار دھماکے جنگ کا بگل بجانے کے لیے کافی ہو جاتے ہیں اس قسم کی جنگ دشمنوں کے لیے مفید ہے ا س میں حکمرانوں کو بھی سیاسی و مالی فائدہ ہے لیکن غریب عوام کا اس میں نقصان ہی نقصان ہے اس لیے عوامی فلاح و بہبود کا تقاضہ ہے کہ قیامِ  امن کی خاطر نیک نیتی کے ساتھ بات چیت کے سلسلہ کو جاری رکھا جائے بقول معروف شاعر علی سردار جعفری۔

گفتگو بند نہ ہو

بات سے بات چلے

صبح تک شامِ ملاقات چلے

صبح تک ڈھل کے کوئی حرفِ وفا آئے گا

عشق آئے گا بصد لغزشِ پا آئے گا

چشمِ ابرو کے اشاروں میں محبت ہو گی

نفرت اٹھ جائے گی مہمان مروّت ہو گی

ریزگاروں سے عداوت کے گذر جائیں گے

خون کے دریا سے ہم پار نکل جائیں گے

٭٭٭

 

کشمیر کی برف شعلہ زن ہے

کشمیر جل اٹھا ہے۔ چنار کے شعلے پھر ایک بار آسمان کو چھونے لگے ہیں مرکزی اور ریاستی حکومتیں ان شعلوں کو بجھانے کے بجائے پردہ پوشی میں مصروف ہیں۔ جمعرات اور جمعہ کے دن وادیِ کشمیر کے ۶۰ اخبارات میں سے ایک بھی شائع نہیں ہوا اور تو اور مقامی ٹی وی والوں کو بھی سخت ہدایات فراہم کر دی گئیں کہ کیا دکھلایا جائے اور کیا نہ دکھلایا جائے ؟کیا ہندوستان کے کسی اور علاقے میں یہ ممکن ہے ؟ کیا ایمرجنسی کے دوران بھی اس طرح کے اقدام کی جرأت اندرا گاندھی نے کی تھی؟کیا صرف پتھر پھینکنے والے مظاہرین کے خلاف گولیاں چلانا جائز ہے ؟ کیا اس طرح کے نہتے مظاہرین کو روکنے کے لیے کہیں فوج کا فلیگ مارچ کیا جاتا ہے ؟ کیا کسی شہر میں کرفیو کا نفاذ اس قدر سختی سے کیا جاتا ہے لوگ اپنے علاقے کی جامع مساجد میں نماز جمعہ کے لیے بھی نہ آسکیں اور انہیں چھوٹی مساجد پر اکتفا کرنا پڑے ؟ کیا ان تمام حرکات کے بعد بھی یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کشمیر ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی ہی طرح ایک ریاست ہے ؟ وہاں رہنے اور بسنے والے عوام کو اور لوگوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں ؟ وہ لوگ جمہوریت کی دولت سے مالا مال ہیں اس لیے انہیں علیحدگی پسندی سے بعض آ جانا چاہئے ؟

حکومت کے اس رویہ سے جس میں گذشتہ ایک ماہ کے اندر ۱۵ معصوم نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا (جن کی عمریں ۹سے ۱۷ سال کے درمیان تھیں )کیا کشمیر کے حالات بہتر ہوں گے ؟ کیا عوام کو سڑکوں پر اتر کر اپنے اوپر ہونے والی سفاکی کے خلاف پتھروں سے احتجاج کرنے کے لیے سر حد پار سے کسی مدد کی حاجت یا ضرورت ہے ؟کیا حکومت کے اس دعویٰ میں کو ئی صداقت ہے کہ سرحد پار سے آنے والے چند ہزار روپیوں کے عوض یہ نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں ؟ ان تمام  اور اس جیسے سیکڑوں سوال کا جواب صرف اور صرف نفی میں ہے اس بات سے ارباب اقتدار سے زیادہ کوئی اور واقف نہیں ہے اس کے باوجود صرف اور صرف اپنے سیاسی مفاد ات کے حصول کی خاطر یہ خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے کشمیر میں فی الحال جو کشت و خون کا بازار گرم ہے اس کے لیے سرحد پار کی قوتیں نہیں بلکہ اندرونِ ملک مسائل ذمہ دار ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سطحی شور و شغف کے بجائے ان درپردہ مقاصد کا پتہ لگایا جائے جن کے حصول کی خاطر یہ سب ہو رہا ہے اور ان کا پردہ فاش کیا جائے۔

جمہوری نظامِ حکومت کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اصحابِ اقتدار کو حکومت کے چلے جانے کا خطرہ ہمیشہ ہی لگا رہتا ہے اس لیے جب وہ موجودمسائل کو حل کرنے کی کوشش میں ناکام ہونے لگتے ہیں تو ان کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر نت نئے مسائل پیدا کر نے میں جٹ جاتے ہیں تاکہ اصل مسئلہ سے توجہ ہٹ جائے۔ امریکہ جیسے جمہوری سامراج کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک میں کرتب دکھا کر اپنی عوام کو بہلانے پھسلانے کا کام کرتا ہے اسرائیل غزہ پر بم باری شروع کر دیتا ہے لیکن ہندوستان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے اس لیے ہماری سیاسی جماعتیں آئے دن اندرونِ ملک ہی مختلف مسائل پیدا کر کے عوام کو ان مصنوعی مسائل میں الجھا دیتی ہیں اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالتی ہیں۔ کشمیر کے حالیہ بحران کو علاقائی اور قومی سطح کے سنگین مسائل کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر استعمال کیا جا رہا ہے۔ معصوم لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنے کے بعد خود انہیں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی ڈگڈگی ذرائع ابلا غ کو تھما دی گئی ہے جو دونوں طرف سے بجا ئی جا رہی ہے اور دونوں صورتوں میں حکومت کا بھلا ہو رہا ہے۔ اس خطرناک جال میں حزبِ اختلاف کو بھی جکڑ لیا گیا ہے اور وہ بھی اپنا اصل مدعا بھول کر حکومت کا راگ الاپنے میں لگ گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی بے سروپا رپورٹوں کی دھجیاں اڑا کر اقتدار کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے ان کا سہارہ لے کر پاکستان کے پیچھے پڑ گیا ہے اگر یقین نہ آتا ہو تو بی جے پی کے پرکاش جاوڈیکر کا کشمیر پر بیان دیکھ لیجئے۔

حکومتِ ہند کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کو قابو میں رکھنے کا ہے جو۵ء۱۲ کی شرح سے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی اس کے خلاف ملک گیر کامیاب احتجاج نے نہ صرف تمام مخالف جماعتوں کو متحد کر دیا بلکہ ان کو عوام کا خیر خواہ بنا دیا۔ حکومت نے ایندھن کی قیمتوں کو کم کرنے کے بجائے کشمیر کا ہنگامہ کھڑا کر کے حزب اختلاف کے درمیان اختلاف کی خلیج کھڑی کر دی اور انہیں کسی اور کام میں لگا دیا۔ مہنگائی ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی کسی قدر سنگین مسئلہ قومی سلامتی کا ہے۔ حکومت کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں نے نکسلوادی کشمکش کو ایک بہت بڑی تحریک میں بدل دیا ہے۔ حالانکہ قومی ذرائع ابلاغ اسے دہشت گردی قرار دیتے ہیں وزیر ِ اعظم اسے ملک میں امن و سلامتی کے لیے عظیم ترین خطرہ بتلاتے ہیں اس کے باوجود وہ خود اور ان کے وزیر ِ داخلہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام تو کجا لائحہ عمل تک پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

 ملک میں زمینی سطح پر کام کرنے والے دانشور اور انسانی حقوق کے علمبردار اس تحریک کو دہشت گرد نہیں مانتے۔ ارون دھتی رائے نے ماؤ وادیوں کے ساتھ جنگلوں میں ایک عرصہ گذارنے کے بعد ببانگِ دہل اسے ہندوستان کی روح کی خاطر لڑی جانے والی جدوجہد قرار دیا ہے۔ محترمہ رائے کے مطابق شہروں میں بسنے والے گاندھی وادی اور جنگلوں میں رہنے والے نکسلوادی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اس نظام نے عظیم اکثریت کی قیمت پر مٹھی بھر لوگوں کا فائدہ کیا ہے۔ ہندوستان میں ایک لاکھ ۸۰ ہزار کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جس کی وجہ بے شمار خاندان مصیبتوں میں گرفتار ہو چکے ہیں ترقی و خوشحالی کے تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود خوراک کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔ نکسلوادی تحریک غریبی اور امیری کے درمیان بتدریج بڑھنے والی کھائی کے سبب پیدا ہوئی ہے اور اسے اپنے انداز میں کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

 اس ہفتہ منگل اور بدھ کے دن نکسلوادیوں نے ملک کے پانچ ریاستوں میں بند کا اعلان کیا اپنے اس احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے انہوں نے پیر کے دن نیم فوجی دستوں کے تیس اہلکاروں کو چھتیس گڈھ میں شب خون مار کر ہلاک کر دیا۔ منگل کو ۲۶ پولس والے گولیوں سے بھون دئے گئے اور بند کے آخری دن مغربی بنگال میں چار ارکان کوہلاک کر دیا گیا۔ جنوری ۲۰۰۹ سے لے کر اب تک ۱۵۰۰ سے زیادہ سرکاری اہل کار ماؤوادیوں کے حملے کا شکار ہو چکے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ صرف فوجیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ کبھی کسی بس کو اڑا دیا جاتا ہے توکبھی ٹرین کو پٹری سے اتار دیا جاتا ہے۔ اسی سال ماہِ اپریل ایک حملہ ایسا ہوا جس میں ۷۵ فوجی مارے گئے اس کے باوجود وزیر داخلہ نے فوج کے استعمال کو خارج از امکان قرار دیا اور بات چیت کے دروازے کھلے رکھے۔ نہ اخبارات کو بند کروایا گیا اور نہ فوج کا فلیگ مارچ ہوا جبکہ کشمیر میں گذشتہ ماہ کے اندر ہلاک ہونے والے سب کے سب شہری نیم فوجی دستوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور ان کے پاس نہ نکسلوادیوں کی طرح مشین گن تھی اور نہ بارودی سرنگیں ان کے پاس پتھر تھے جس کا جواب اینٹ سے دینے بجائے گو لیوں سے دیا گیا۔ یہ فرق کیوں ہے ؟ کیا اس کی وجہ صرف مذہب کا فرق ہے ؟ جی نہیں اس کے پیچھے سیاسی سود و زیاں کا اصول کار فرما ہے

ریاست کشمیرمیں مرکزی حکومت کی ساری ظلم و زیادتی کا زیادہ سے زیادہ سیاسی نقصان جو ہو سکتا ہے اس کابھر پور اندازہ وزیر داخلہ چدمبرم کو ہے۔ جموں کشمیر سے کل ۶ ممبران پارلیمان منتخب ہوتے ہیں۔ ان میں سے تین وادی ۲ جموں اور ایک لداخ سے چن کر آتا ہے ویسے بھی وادی سے کانگریسی امیدوار کامیاب نہیں ہوتا لیکن جیتنے والا امیدوار نیشنل کانفرنس کا ہو یا پی ڈی پی کا وہ برے وقت میں کانگریس کا ساتھ ضرور دیتا ہے۔ اس بات کا کانگریس کو پتہ ہے بی جے پی کے خلاف کانگریس کی حمایت کرنے سے امت میں پذیرائی بھی انہیں حاصل ہوتی ہے۔ کشمیر میں کیے جانے والے مظالم جموں کے ہندوؤں کو یقیناً خوش کرتے ہیں اس لئے اس سے بی جے پی کا سیاسی نقصان اور کانگریس کا بلواسطہ فائدہ ہو جاتا ہے۔ لداخ کا تنہا آزاد امیدوار ہمیشہ ہی اقتدار کے ساتھ رہا ہے اس لیے کانگریس اگر اس ہنگامے کے ذریعہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا کوئی سیاسی نقصان نہیں بلکہ قومی اور علاقائی ہر دوسطح پراس کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ معصوم لوگوں کے ناحق خون کی پرواہ جمہوری اقتدار نے نہ کبھی پہلے کی تھی اور نہ کبھی اس سے توقع ہے لیکن نکسلوادیوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے ان کے ا ثرات ملک بھر کے ۶۲۶ میں سے ۲۲۳ ضلعوں میں پائے جاتے ہیں اسی لیے باوجود اس کے کہ مختلف حلقوں کی جانب سے ایل ٹی ٹی ای یا وزیر ستان ٹائپ کی کارروائی کی مانگ کی جا رہی ہے۔ حکومت آپریشن سبز تلاش کے وجود سے انکار کر رہی ہے جس میں ۷۰ ہزار فوجیوں کے استعمال کی خبر گشت کرنے لگی ہے حکومت کو اس بات کا پتہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات اپنی بظاہر کامیابی کے باوجود سیاسی سطح پر مہنگے پڑتے ہیں۔

نکسلوادی تحریک کو کانگریسی وزیر اعلیٰ سدھارتھ شنکر رائے نے مغربی بنگال میں پہلی مرتبہ تیس سال قبل بری طرح کچل دیا تھا اس کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ تین دہائیوں تک انہیں ریاستی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا اور اب جو امکانات روشن ہو رہے ہیں اس کی وجہ کمیونسٹ پارٹی کی نندی گرام میں اسی کانگریسی طرز عمل کی اتباع ہے۔ اس بار بھی عوام کانگریس کے بجائے ممتا کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پنجاب میں علیٰحدگی پسندی کے بعد ایک انتخابی استثنا کے علاوہ ہمیشہ ہی اکالی دل کی حکومت رہی۔ یہی حال کشمیر کا ہے وہاں کانگریس کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر کانگریس نکسلوادی علاقوں میں علی الاعلان کارروائی کرنے کے بجائے اس محاذ پر اپنی ناکامیوں کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹاناچاہتی ہے اور اسی لیے کشمیر میں تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔

اس صورتحال سے قطع نظر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اڑیسہ،  جھارکھنڈ اورچھتیس گڈھ کے جنگلوں سے وہاں کے رہنے والے مقامی باشندوں کو نکالنے کا حتمی فیصلہ اندرونِ حکومت کیا جا چکا ہے اس لیے کہ ان علاقوں میں معدنیات کے خزانے پائے جاتے ہیں اور عوام کی نمائندہ سمجھی جانے والی نام نہاد جمہوری حکومت اس بابت بین الاقوامی سرمایہ داروں کے ساتھ سودے بازی کر چکی ہے۔ یہ سرمایہ دار حکومت کے ساتھ مل کر ان علاقوں کے اصل باشندوں کو اپنی زمین اور اپنے ذریعہ معاش سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے ناپاک مقاصد کو حاصل کرنے کی کو شش ضرور کریں گے اور ایسے میں ماؤ نواز تحریکوں کی مانند جو بھی تحریک ان غریب ترین لوگوں کے بنیادی حقوق کی محافظ بن کر اٹھے گی یہ لوگ اس کا ساتھ دیں گے اس لیے کہ مسئلہ نہ صرف عزت و وقار کے ساتھ زندگی گذارنے کا ہے بلکہ اب تو بقائے حیات پر بھی تلوار لٹک رہی ہے گویا یہ مسئلہ خاصہ پیچیدہ ہو چکا ہے اور اب آسانی سے سلجھنے والا نہیں ہے۔ شہروں میں رہنے بسنے والے اور ٹیلی ویژن کے پروپگنڈہ سے گمراہ ہونے والوں کے لیے اس معاملے کی طہ تک پہنچنا ناممکن ہے لیکن وہ حضرات جنھوں نے جنگلوں میں جا کر ان تحریکات کا بلواسطہ مشاہدہ کیا ان کی تحریریں اس معاملے کو سمجھنے میں کسی قدر مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

ہندوستانی عوام جب ٹیلی ویژن کے پردے پر کشمیری نوجوانوں کو آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو انہیں حیرت ہوتی ہے کہ آخر ان لو گوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ یہ لوگ کیوں پاکستان کے بہکاوے میں آ گئے ہیں اور اس عظیم جمہوریت کی قدرو قیمت کیوں نہیں کرتے جو ہندوستان کے ساتھ الحاق کے باعث ان کے حصہ میں آئی ہے ؟ دراصل اس حیرت و استعجاب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزادی کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے ہم معنیٰ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آزادی کا مطلب آزادی ہی ہے کچھ اور نہیں۔ دوسری بات ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر ہم نے کشمیریوں کو دیا کیا ہے ؟ سب سے پہلے جو چیز ان کے حصہ میں آئی وہ بد عہدی تھی۔ استصواب کا وعدہ ہم نے بین الاقوامی سطح پر ان سے کیا اور پھر مکر گئے۔ اور یہ کہنے لگے کہ وہاں وقوع پذیر ہونے والے انتخابات استصواب کے ہم معنیٰ ہے جو درست نہیں ہے۔ اس کے بعد کشمیر میں انتخابی بد عنوانیوں کی طویل روایت کی داغ بیل سرکاری سر پرستی میں پروان چڑھی۔ عوام کے زبردست بائیکاٹ کے باوجود ہونے والے انتخابات میں چند سو ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں بھر پور پذیرائی کی گئی نیزسیاسی مفادات کے پیشِ نظر بھر پور اکثریت سے کامیاب ہو کر بننے والی حکومت کو من مانے طریقہ پر برخواست کر دیا گیا۔

کشمیر کی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے بجائے وہاں کی مقامی آبادی سے زیادہ فوج روانہ کر کے جمہوریت نہیں بلکہ دہشت کا راج قائم کیا گیا۔ اپنے حقوق کی خاطر لڑنے والے ۶۸۰۰۰لوگوں کا ناحق خون بہایا گیا۔ ایوانِ پارلیمان میں تین ابن الوقتوں کی نمائندگی حاصل ہوتی رہی جنہوں نہ صرف کانگریس اور جنتا بلکہ بی جے پی کی حکومت میں شامل ہونے سے بھی گریز نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حالیہ انتخاب میں برطانیہ کے ہاؤس آف کامنس میں جس کا لفظی ترجمہ لوک سبھا ہے تین کشمیری نژاد امیدوار انتخاب جیت کر پہنچ گئے اور ان کی حالت فاروق عبداللّٰہ سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو ان نازک حالات میں بھی اپنے رائے دہندگان سے بے پرواہ برطانیہ میں اپنی بیوی کے علاج کا بہانہ بنا کر روپوش ہے۔ اربابِ اقتدار تو کجا حزب اختلاف کی جانب سے بھی کشمیریوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ جو کچھ گذشتہ ایک ماہ کے اندر کشمیر میں ہوا ہے اگر کسی اور ریاست میں ہوا ہوتا تو اپوزیشن آسمان سر پر اٹھا لیتا پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو جاتی لیکن اس معاملے میں حزبِ اختلاف بھی وہی گھسا پٹا سرکاری راگ الاپ رہا ہے کہ ان تمام واقعات کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ ذرائع ابلاغ کا رویہ بھی ملاحظہ فرمائیں اگر کسی اور ریاست میں ایسی سنسر شپ لگا دی جائے کہ اخبارات بند ہو جائیں تو سارا ملک اظہارِ رائے کی آزادی کی مظا ہروں میں جٹ جائے لیکن کسی شہر میں کوئی مظاہرہ تو درکنار خیر سگالی کا ایک رسمی بیا ن تک جاری نہیں ہوا؟ اگر کسی ریاست کی عوام کے ساتھ ہمارا اپنا رویہ اس قدر مختلف ہو تو کس بنا پر ہم انہیں اپنا کہہ سکتے ہیں اوران کے نعرۂ حریت پر اعتراض کر سکتے ہیں ؟

کشمیر کے اندر جو لوگ اپنے حقیر سیاسی مفادات کے پیش نظر آگ اور خون سے کھیل رہے ہیں ان کے لیے ماؤ نوازوں کی حیاتِ نو کے اندر بہت بڑا سبق ہے۔ ماضی قریب کی بات ہے جب یہ تحریک بڑی حد تک اپنا اثر و رسوخ گنوا چکی تھی کہ اچانک چار سال قبل الکشن کے زمانے میں چھتیس گڈھ کی ریاستی حکومت نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کی خاطر ‘ سلوہ جودم’ نام کی ایک تحریک شروع کی جس میں بظاہر قبائلی عوام کو نکسلیوں کا قلع قمع کرنے کی خاطر ہتھیاروں سے لیس کیا گیا لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ یہ سرکاری غنڈے تھے جنھیں ہتھیار تقسیم کیے جا رہے تھے تاکہ وہ قبائلیوں کا مخصوص علاقوں سے انخلاء کروائیں اس اقدام کے نتیجہ میں لاکھوں لوگوں کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا سیکڑوں کا قتل اور ہزاروں کی عصمت دری کی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دم توڑتی تحریک کو نئی زندگی مل گئی اور اب وہ نہ صرف ریاستی بلکہ مرکزی حکومت کے لیے وبالِ جان بن چکی ہے یہ انسانی فطرت ہے کہ ظلم کو ایک حد تک بردا شت کیا جاتا ہے لیکن بالآخر اس کے خلاف بغاوت ہوتی ہی ہوتی ہے اور پھر جب ہوا کا رخ بدلتا ہے تو سارا جاہ و جلال بے سود ہو جاتا ہے ساری دنیا میں ظلم و ستم کی تاریخ یہی پیغام دیتی ہے بقول احمد ندیم قاسمی؎

تاریخ پلٹ رہی ہے اوراق،  کشمیر کی برف شعلہ زن ہے

تسلیم کہ ظالموں کے نزدیک،  کشمیر دریدہ پیرہن ہے

٭٭٭

 

قدم قدم پہ دل خوش گماں نے کھائی مات

انتخابی نتائج عام طور پر گمراہ کن ہوتے ہیں،  نتائج کے سطحی جائزے سے پیدا ہونے والی غلط فہمیاں ان لوگوں کو جو انتخابی عمل کو سنجیدگی سے نہیں لیتے (کچھ زندہ باد،  کچھ مردہ باد،  کبھی وقت گزاری کے لیے ووٹ دے دیا تو کبھی سیر تفریح میں مصروف رہے ) کوئی خاص نقصان نہیں پہنچاتے،  لیکن اگر سنجیدہ لوگ بھی اسے سنجیدگی سے لینے لگیں تو ان کو لاحق ہونے والی خوش فہمیاں بڑے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سرسری نظر پر اکتفار کرنے کے بجائے گہرائی کے ساتھ ان وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کی جائے جو ان نتائج کا سبب بنے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست مہاراشٹر کا جائزہ قارئین کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔

مہاراشٹر میں دو قومی جماعتیں اور دو علاقائی پارٹیاں ہیں۔ اتفاق سے ان دونوں میں سے ہر دو کا ایک دوسرے کے ساتھ الحاق ہے۔ کانگریس نے راشٹر وادی اور بی جے پی نے شیوسینا کے ساتھ مل کر محاذ بنا رکھا ہے۔ لیکن ان دو محاذوں کے علاوہ دو جماعتیں ایسی ہیں جن کے قابل ذکر اثرات انتخابات پر پڑے ہیں۔ ویسے راج ٹھاکرے کی ایم این ایس کا ذرائع ابلاغ میں بڑا چرچا ہے لیکن دیہی علاقوں میں خاص طور پر ودربھ اور وسطی مہاراشٹر کے اندربہو جن سماج پارٹی انتخابات پر خاصی اثر انداز ہوئی ہے۔ اتفاق سے ان دونوں کا ایک امیدوار بھی کامیاب نہیں ہوسکا،  لیکن کئی لوگوں کو متوقع کامیابی سے محروم کرنے کا سہرہ ضرور ان کے سر ہے۔ اسی کے ساتھ اس مرتبہ مہاراشٹر سے نہ صرف مسلم نمائندگی کا قلع قمع ہو گیا بلکہ دلتوں کی رہنمائی کا دم بھرنے والی ساری نامور ہستیاں بھی نیست و نابود ہو گئیں۔ کانگریس والے اپنے چار ممبران کے اضافے کا جشن منارہے ہیں لیکن حقیقت برعکس ہے کہ ان کے ووٹ کا تناسب چار فی صد کم ہوا ہے۔ کانگریس کی اندرونی قوت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شردپوار کو مغربی مہاراشٹر کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا تھا لیکن انہیں بھی خود اپنے علاقے میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور نقصان اٹھانا پڑا۔ شیوسینا کی لنکا کواس کے اپنے گھر کا بھیدی ڈھا رہا ہے اور بی جے پی کے سامنے سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر راج ٹھاکرے انہیں شیوسینکوں کے ووٹ حاصل کرنے سے محروم کر دیتا ہے تو کیوں نہ راشٹر وادی سے الحاق کر لیا جائے،  ویسے بھی کانگریسی رہنما آئے دن خود اپنے بل بوتے پر انتخاب لڑنے کی دھمکی دے کر راشٹر وادی کو چھیڑتے ہی رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر راشٹر وادی بی جے پی کے ساتھ الحاق کر لے تو ریاستی سطح پر بہار کی طرح ان کا اقتدار میں آنا ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ صورتحال اوپر اوپر دکھائی دیتی ہے لیکن اگر اندر جھانک کر دیکھیں تو ان سب کی ٹھوس وجوہات بھی سامنے آتی ہیں۔

کسی زمانے میں سارا مہاراشٹر کانگریس کے قبضۂ قدرت میں ہوا کرتا تھا لیکن پھر صورتحال بدلی،  کوکن اور مراٹھواڑہ کے کچھ علاقوں میں کسان مزدور پارٹی،  ممبئی اور قبائلی علاقوں میں کمیونسٹوں نے اپنا رسوخ قائم کیا۔ ری پبلکن جو کانگریس کی حلیف ہوا کرتی تھی تقسیم ہو گئی اور اس کا ایک دھڑا کانگریس کے خلاف ہو گیا۔ آگے چل کر خود کانگریس پارٹی کو شردپوار نے ٹکڑے کر ڈالا۔ اس دوران بی جے پی نے پسماندہ رہنماؤں کی مدد سے مراٹھواڑہ و وسطی مہاراشٹر میں اپنا رسوخ بڑھانا شروع کیا۔ شیوسینا  ممبئی اور کوکن میں اپنے قدم جمانے کے بعد دیگر علاقوں میں بھی پیر پھیلانے لگی۔ کانگریس کے ناراض ڈوبنے والوں کی خاطر شیوسینا تنکے کا سہارا بن گئی۔ اس طرح کانگریس پارٹی خاصی کمزور ہو گئی۔ اسے اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور دوبارہ اقتدار میں آنے کی خاطر شردپوار سے الحاق کرنے پر مجبور ہونا پڑا،  لیکن اس بار کانگریس پارٹی نے محسوس کر لیا کہ محض شردپوار کی حمایت اور سونیا و راہل کا آشیرواد کامیابی حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے،  اس لیے ان لوگوں نے اپنی پرانی چال پھر چلی جس طرح بال ٹھاکرے کا استعمال کمیونسٹوں کے خلاف کیا گیا تھا اسی طرح راج ٹھاکرے کا استعمال شیوسینا کے خلاف کیا گیا۔ راج ٹھاکرے نے بہاریوں کے خلاف مہابھارت چھیڑ دی اور کانگریس پارٹی کرشن کنھیا بنی اس کی پشت پناہی کرتی رہی۔ راج ٹھاکرے کی تمام غنڈہ گردی کو تحفظ فراہم کیا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شمالی ممبئی سے پہلی بار ایک بہاری کو لوک سبھا میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی،  یہ حسن اتفاق ہے کہ سنجے نروپم کسی زمانے میں شیوسینا میں تھے اور ہندی سامنا کے مدیر ہوا کرتے تھے،  لیکن انہوں نے شیوسینا کو چھوڑ کر کانگریس میں جانا پسند کیا۔ راج ٹھاکرے نے شیوسینا سے نکل کر بہاریوں کے خلاف تحریک چلائی۔ عام بہاریوں کو زدو کوب کیا گیا بلکہ قتل تک کی نوبت پہنچی لیکن ایک خاص بہاری کا فائدہ ہی ہو گیا۔

شمالی ممبئی میں سنجے نروپم اور رام نائک کے درمیان صرف ۶ ہزار ووٹوں کا فرق ہے جبکہ ایم این ایس کو حاصل ہونے والے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ سینتالیس ہزار ووٹ ہے۔ ایسے میں کون اس حقیقت کا انکار کرسکتا ہے کہ سنجے نروپم کی جیت کے پیچھے صرف کانگریس کا ہاتھ نہیں بلکہ راج ٹھاکرے کا ساتھ بھی ہے۔ مہاراشٹر نونرمان سنیانے اس بار صرف ۱۱ مقامات سے قسمت آزمائی کی جس میں سے صرف پونامیں اسے ایک لاکھ سے کم ووٹ حاصل ہوئے اور وہ بھی ۶۷ ہزار۔ ممبئی اور اس کے آس پاس کانگریس محاذ کو حاصل ہونے والی کامیابی پر نظر ڈالیں،  شمال مغرب میں فرق چالیس ہزار،  ایم این ایس کے ووٹ ایک لاکھ چوبیس ہزار،  شمال مشرق میں فرق صرف پندرہ ہزار اور ایم این ایس کا ووٹ ایک لاکھ پچانوے ہزار۔ جنوب وسطی میں فرق ۶۷ ہزار اور ایم این ایس کے ووٹ ایک لاکھ آٹھ ہزار،  جنوبی ممبئی میں فرق ایک لاکھ چھبیس ہزار اور ایم این ایس نے ووٹ حاصل کیے ایک لاکھ ۹۵ ہزار،  تھانے میں فرق ۹۴ ہزار اور ایم این ایس کے ووٹ ایک لاکھ ۶۱ ہزار،  بھیونڈی میں فرق ۲۴ ہزار اور ایم این ایس ایک لاکھ ۷ ہزارپونے میں فرق صرف ۶۲ ہزار اور ایم این ایس نے ۶۷ ہزار ووٹ کاٹے۔ اس طرح صرف جنوب وسطی ممبئی کی سیٹ کے بارے میں جہاں سے پر یہ دت ایک لاکھ ۶۷ ہزار ووٹوں سے کامیاب ہوئی ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایم این ایس کو وہاں ایک لاکھ ۸ ہزار ووٹ نہیں بھی حاصل ہوتے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا وہ بہر حال اس حلقہ انتخاب سے کامیاب ہو جاتیں جہاں بال ٹھاکرے کی حویلی ماتوشری واقع ہے۔ ویسے کلیان سے پرانجپے کو صرف ۴۲ ہزار ووٹوں کی کامیابی حاصل ہوئی جبکہ راج ٹھاکرے صرف ایک لاکھ ۲ ہزار ووٹوں تک محدود رہے،  یہاں اگر راج کو مزید پندرہ ہزار ووٹ حاصل ہو جاتے تو ممبئی اور اس کے قرب و جوار سے بی جے پی،  سینا کا مکمل صفایا ہو جاتا۔ لیکن معاملہ صرف شیوسینا کو بالواسطہ ہرانے تک محدود نہیں ہے۔ نپا سک اور جنوبی ممبئی میں راج ٹھاکرے نے اپنے چچا بال ٹھاکرے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں اور شمال مشرقی ممبئی میں شیوسینا کو نونرمان سینا پر صرف ۵۱ ہزار ووٹوں کی بڑھت حاصل رہی۔ ان نتائج کو دیکھنے کے بعد بہت سارے شیوسینک رائے دہندہ گان کا ذہن اب تک بدل چکا ہو گا۔

راج ٹھاکرے نے شہر ی علاقوں میں جو نقصان سینا بھاجپ کو پہنچایا اس کی بھرپائی دیہی علاقوں،  ﴿وسطی مہاراشٹر اور ودربھ ﴾میں کسی نہ کسی حد تک بہو جن سماج پارٹی نے کر دی۔ بلڈانہ میں بھگوا محاذ کو ۲۸ ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی۔ بی ایس پی کو ۸۱ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔ ایوت محل میں یہ فرق ۲۷ ہزار ووٹوں کا تھا لیکن بہو جن سماج پارٹی نے ایک لاکھ ۵۳ ہزار ووٹ حاصل کئے۔ ہنگولی میں سنیابھاجپ ۶۸ ہزار ووٹ سے کامیاب ہوئی۔ لیکن بی ایس پی نے ایک لاکھ ۱۱ ہزار ووٹ حاصل کئے۔ پربھنی میں فرق ۴۶ ہزار ووٹ تھا اور بی ایس پی نے بھی ۴۶ ہزار ووٹ حاصل کئے۔ جالنہ میں ۸ ہزار کا فرق تھا۔ بی ایس پی نے ۳۳ ہزار ووٹ حاصل کئے،  اورنگ آبادمیں ۷۲ ہزار ووٹوں کا فرق تھا اور بی ایس پی نے ۳۳ہزار وو ٹ کا نقصان کانگریس کو نقصان پہنچایا۔ ویسے دو قبائلی علاقوں میں سی پی ایم نے خاطر خواہ ووٹ حاصل کئے۔ ڈنڈوری میں اسے ایک لاکھ ۵ ہزار ووٹ حاصل ہوئے اور وہاں سے بی جے پی کو ۷۳ ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی ملی پال گھر میں گوکہ سی پی ایم نے ۹۱ہزار ووٹ حاصل کئے،  اس کے باوجود بہو جن وکاس اگاڈی کے امیدوار نے ۵۱ ہزار ووٹوں سے اپنی کامیابی درج کروائی۔ ان حلقہ انتخاب کے علاوہ راویر،  وردھا،  رام ٹیک،  ناگپور،  بھنڈارہ،  چمور،  چندر پور،  ناندیڈ،  لاتور اور ممبئی جنوب،  ایسے علاقے ہیں جہاں بہو جن سماج پارٹی نے تیس ہزار سے لے کر ڈیڑھ لاکھ تک ووٹ حاصل کئے،  اس کے باوجود کانگریس محاذ کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی لیکن آگے یہ خطرہ موجودہ ہے۔

مہاراشٹر گو کہ ڈاکٹر امبیڈکرکی جنم بھومی نہیں ہے لیکن کرم بھومی ضرور ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریک کا آغاز یہیں سے کیا۔ ممبئی ہی میں آپ کا قیام رہا اور شیواجی پارک میں آپ کی سمادھی بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر امبیڈ کر نے جس ری پبلکن پارٹی کوقائم کیا تھا اس کی اجارہ داری برسوں تک یہاں کے دلت ووٹوں پر قائم رہی لیکن اس انتخاب نے اس کے مکمل خاتمہ کا اعلان کر دیا۔ فی الحال ری پبلکن پارٹی تین دھڑوں میں تقسیم ہے ایک کا الحاق راشٹر وادی سے ہے دوسرے کا کانگریس اور تیسرے کا کسی سے نہیں ہے لیکن پرکاش امبیڈکر بھاجپ کو اچھوت نہیں مانتے۔ اس بار ان تینوں دھڑوں کے ایک ایک  نمائندے نے انتخاب لڑا اور شیوسینکوں کے ہاتھوں انہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ شرڈی سے سیدھے مقابلے میں شیوسینا نے رام داس اٹھاولے کو ایک لاکھ ۲۲ ہزار ووٹوں سے ہرادیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نپا سک سے ۲ لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی ایم این ایس نے متصل شرڈی میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا اس سے یقیناً اٹھاولے کی ذلت آمیز شکست میں کچھ نہ کچھ کمی واقع ہو جاتی۔ امراوتی سے راجندر گوائی کو کانگریس کی حمایت حاصل تھی وہ ۶۲ ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئے ان کو شکست فاش دینے میں نہ صرف بہو جن سماج پارٹی کو ملنے والے ۴۱ہزار ووٹ بلکہ راجندر جھامٹے نامی آزاد امیدوار کو ملنے والے ۶۴ہزار ووٹوں کا بھی حصہ ہے۔ چونکہ ڈاکٹر راجندر گوائی کے والد کا شردپوار سے جھگڑا ہے اس لیے ہوسکتا ہے پوار کی حمایت ڈاکٹر راجندر جھامٹے کو حاصل رہی ہو۔ اکولہ میں دلت اور مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد بستی ہے۔ وہاں سے پرکاش امبیڈ کر کے مقابلے میں کانگریس کا امیدوار بھی تھا۔ پرکاش امبیڈ کرنے ویسے تو ۲ لاکھ ۳۲ ہزار ووٹ حاصل کیے لیکن اپنے شیوسینک حریف کو ہرانہ سکے جو ۲ لاکھ ۷۸ ہزار ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گیا،  ویسے کانگریس کو صرف ایک لاکھ ۸۲ ہزار ووٹوں پر اکتفا کرنا۔

شرد پوار اپنی انتخابی چال بازیوں کے لیے خاصے مشہور ہیں،  سازش کر کے اپنے حلیفوں اور حریفوں کو ناکام کرنے کے فن سے وہ خوب واقف ہیں،  لیکن اس مرتبہ خود ان کے اپنے محفوظ قلعہ میں دراڑیں پڑتی نظر آئیں۔ کولہا پور میں این سی پی کے باغی امیدوار نے ۵۵ ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کر کے یہ بتلا دیا کہ شردپوار کی جڑیں کمزور ہونے لگی ہیں،  ہاتھ کنگالے میں بھی یہی ہوا،  سوا بھیمان پارٹی سے انتخاب لڑتے ہوئے دیوپا انا نے این سی پی کی سابقہ ایم پی نویدتا کو ۹۶ ہزار ووٹوں سے شکست دے دی۔ سانگلی میں باغی امیدوار کامیاب تو نہیں ہوسکا،  لیکن فرق صرف ۴۰ ہزار ووٹوں کا رہ گیا تھا ایک باغی کا تین لاکھ ۸۷ ہزار کے مقابلے میں ۳ لاکھ ۳۸ ہزار ووٹ حاصل کر لینا پوار کی شکست کے مترادف ہے۔ احمد نگر سے ایک کانگریسی ایم ایل اے نے بغاوت کر کے این سی پی کا مقابلہ کیا اور ایک لاکھ ۳۵ ہزار ووٹ حاصل کر لئے۔ نتیجتاً وہ کامیاب تو نہیں ہوسکا لیکن این سی پی کا امیدوار ۴۲ ہزار ووٹوں کی شرمناک شکست سے دوچار ہو گیا۔ ایسے میں شردیوار کے لیے اگلے صوبائی انتخاب میں کانگریس کے ساتھ سودے بازی کر کے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں دشواری ہو گی جبکہ مرکزی حکومت کا انحصار بھی اب ان پر نہیں رہا ہے۔ ویسے اس امکان  اگر کانگریس نے زیادہ اکڑ دکھائی تو ممکن ہے وہ پھر ایک بار مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بن کر اپنی بیٹی کے لیے راہ ہموار کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ ویسے اگر سونیاراہل کو وزیر اعظم بنانا چاہتی ہیں۔ کرو ناندھی اسٹالن کو وزیر اعلی بنانا چاہتے ہیں تو شرد پوار اپنی دختر نیک اختر سپریہ سولے کو وزیر اعلیٰ بنانے کا خواب تو دیکھ ہی سکتے ہیں۔

مسلمانوں کی حالت زار بھی دلتوں کی سی رہی۔ کانگریس پارٹی اور راشٹر وادی نے رائے گڈھ اور موال حلقہ انتخاب سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا احسان کیا،  موال پونا ضلع میں واقع ہے اور رائے گڈھ خود ضلع ہے یہ حسن اتفاق ہے کہ موال سے متصل پونے میں کانگریس کے کلماڑی الیکشن لڑ رہے تھے تو رائے گڈھ سے متصل تھانے میں این سی پی کے نائک۔ پونے اور تھانے میں کانگریس محاذ کو کامیابی حاصل ہوئی دونوں مقامات پر راج ٹھاکرے کے امیدوار موجود تھے لیکن جس طرح نپا سک کے پاس شرڈی کی جانب سے صرف نظر کر کے اٹھاولے کی لٹیا ڈوبودی گئی اسی طرح کا معاملہ انتولے اور پانسرے کے ساتھ بھی ہوا۔ موال اور رائے گڈھ میں ایم این ایس کا کوئی امیدوار نہیں تھا۔ اعظم  پانسرے شردپوار  اوراجیت پوار کی حمایت کے باوجود ۸۰ ہزار ووٹوں سے ناکام ہوئے حالانکہ مغربی مہاراشٹر پوار صاحب کی اجارہ داری سمجھا جاتا ہے۔ عبدالرحمن انتولے نے ہیمنت کر کر کے کے سلسلہ میں آزادانہ بیان دے کر کانگریسی آقاؤں کو ناراض کر ہی دیا تھا شاید کانگریس ہائی کمان بھی چاہتا تھا کہ ان کا کانٹا اس بار نکل جائے اور وہ بھی عمر کے آخری حصہ میں اڈوانی جی کے ساتھ آرام فرمائیں۔ ویسے خود انتولے صاحب نے اقلیتی وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ایک بیان سے آگے کوئی ٹھوس کام کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی ورنہ وہ بھی شاہ نواز حسین کی طرح کسی مسلم علاقے سے الیکشن لڑتے اور مودی کے بغیر خود اپنے بل بوتے پر کامیاب ہو جاتے۔ انتولے کو نکم نے ایک لاکھ ۴۶ ہزار ووٹوں سے شکست دی جبکہ کسان مزدور پارٹی کے سابقہ ایم پی ٹھاکور صاحب نے صرف۳۶ ہزار ووٹ کاٹے اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید راج ٹھاکرے بھی بیرسٹر صاحب کا کوئی زیادہ بھلا نہ کر پاتے۔ عبدالرحمن انتولے کے ہم عصر مسلم سیاستدان کا نام نہال احمد ہے جو عرصہ دراز تک مالیگاؤں کی نمائندگی اسمبلی میں کرتے رہے ہیں اور مشرف بہ وزارت بھی ہو چکے ہیں اس بیچ مالیگاؤں  کو مہاراشٹر اور قومی سیاست میں خصوصی اہمیت حاصل رہی۔ وہاں ہونے والے دھماکے،  معصوم مسلمانوں کے بعد ہندو تووادیوں کی گرفتاریاں گزشتہ سالوں کے اہم واقعات رہے۔ اسی حلقہ انتخاب میں واقع دھولیہ میں گزشتہ سال زبردست فساد بھی ہوا جس کے باعث مسلمانوں کا اعتبار کانگریس اور راشٹر وادی پارٹی سے مکمل طور پر اٹھ گیا۔ ایسے میں جنتا دل ایس کے ٹکٹ پر جناب نہال احمد نے انتخاب لڑا انہیں صرف ۷۳ ہزار ووٹ حاصل ہوئے جبکہ ایک آزاد امیدوار گوٹے نے بھی ۵۳ ہزار ووٹ حاصل کر لیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی کے امیدوار کو محض ۹۱ ہزار ووٹ سے کامیابی حاصل ہو گئی۔ مذکورہ بالا رہنماؤں کے بعد کی نسل سے تعلق رکھنے والے نہایت تیز و طرار امیدوار جناب ابوعاصم اعظمی نے جو گزشتہ مرتبہ بھیونڈی سے خود اپنی اسمبلی نشست بچانے میں ناکام رہے تھے اس بار ممبئی شمالی وسطی سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس حلقۂ انتخاب میں شمالی ہند کے رہنے والے لوگ بڑی تعداد میں بستے ہیں جن کا تعلق یا دو برادری سے ہے اور پھرمسلمانوں کی بھی اچھی خاصی آبادی ہے،  سماجوادی چونکہ اترپردیش کی پارٹی ہے اور پھر اعظمی صاحب کی ۱۲۰ کروڑ کی املاک سے یہ امید بندھی تھی کہ شاید اس بار جناب ابو عاصم کو مہاراشٹر کے مسلمانوں کی نمائندگی کا شرف حاصل ہو جائے لیکن  افسوس کہ وہ بھی نہ ہوسکا وہ توخیر راج ٹھاکرے کے امیدوار نے اعظمی صاحب سے ۴۰ ہزار زائد  ووٹ حاصل کر لئے اور گروداس کامت کو ۴۰ ہزار ووٹوں سے کامیاب کروادیا ورنہ سینا کو واحد کامیابی دلانے کا سہرہ انہیں کے سر ہوتا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ سینا اور کانگریس کے درمیان کا فرق اور اعظمی اور راج کے درمیان میں پائی جانے والی تفاوت یکساں ہے۔ بھیونڈی میں بھی یہی ہوا ایم این ایس نے سماجوادی کے مقابلے میں ۷۵ ہزار ووٹ زائد حاصل کیے اور کانگریس نے بی جے پی کو صرف ۴۲ ہزار ووٹوں سے ہرایا۔ یہ مسلمانوں کے تین مہار تھی تھے جن میں سے ایک بی جے پی اور ایک شیوسینا کے ہاتھوں خوار ہوا اور تیسرے کے لیے راج ٹھاکرے کافی ہو گیا۔ سب سے بہتر شکست سیاست میں نومولود اعظم پانسرے کے ہاتھ آئی۔ ان چاروں نے مختلف کمزور سہاروں کو تھاما اور مات پر مات کھاتے چلے گئے،  بقول افتخار عارف ؎

قدم قدم پہ دل خوش گماں نے کھائی مات

روش روش نگہ مہرباں کے ہوتے ہوئے

٭٭٭

 

ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گئے ہم

ہندوستان میں انتخاب کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور ایسے میں جبکہ الیکشن آپ کی اپنی ریاست میں ہو رہے ہوں تو کیا کہنے بس یہ سمجھ لیجئے کہ رہا نہیں جاتا اور آپ کے جاننے والے الیکشن لڑ رہے ہوں تو جناب صبر کرنا مشکل ہو جاتا ہے ہر کسی کا جی چاہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ کر گذرے ہم جیسے لوگ جو عملی میدان میں کچھ نہیں کر سکتے اک آدھ مضمون لکھ کر اپنے احساس جرم کو کسی نہ کسی حد تک کم کر دیتے ہیں حالانکہ فی زمانہ انتخابات میں حصہ لینا بذات خودکسی جرم عظیم سے کم نہیں ہے خیر ان تمام وجوہات کے باوجود اس بار مہاراشٹر کے انتخابات میں کوئی دلچسپی پیدا ہوتی ہی نہیں تھی کیونکہ ان انتخابات میں الیکشن کمشنر کے اعلان سے لے کر وزیر اعلی کے تعین تک سب کچھ عین توقعات کے مطابق ہوتا رہا ٹکٹوں کی خریدو فروخت ہو یا اقرباء پروری کا سیلاب،  بغاوتیں ہوں شکایتیں،  بنتے بگڑتے رشتوں کی سوغاتیں ہوں یا موقع پرستی کا ننگا ناچ،  دولت کی ریل پیل ہو یا جرائم پیشہ افراد کا غلغلہ،  ان سب برائیوں کے ہم اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ کسی پر کسی کو حیرت نہیں ہو تی اور پھر چونکہ اس حمام میں سبھی جماعتیں یکساں طور پر عریاں تھیں عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ غلاظت کے اس انبار میں چھوٹی برائی کون سی ہے اور بڑی کون سی؟نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے بھی اپنے رہنماؤں کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اچھائی اور برائی کی قدروں کو پس پشت ڈال کر فائدہ یا نقصان کی بنیا د پر سوچنا شروع کر دیا۔

اس صورتحال میں مجبور عوام کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے اس لیے کہ ان کے پاس کوئی متبادل ہی نہیں تھانہ افراد کا اور نہ نظام کا لیکن جن خواص کے پاس دونوں متبادل موجود ہیں وہ بھی بد قسمتی سے جوڑ توڑ کے بزدلانہ کھیل میں الجھ جاتے ہیں اور اس کے لیے عارضی ضرورت کا جواز فراہم کر دیا جاتا ہے۔

آج کل ملک بھر میں مختلف انتخابات کا سلسلہ سال بھر جاری و ساری رہتا ہے گویا اب یہ موذی مرض ایک مستقل عذاب کی صورت اختیار کر گیا ہے جو سارا سال ذہنوں پر مسلط رہتا ہے اور عوام و خواص کو اپنے دام میں جکڑ کر مفلوج کر دیتا ہے۔ صحافت خبر رسانی سے جداگانہ مشغلہ ہے اسی لیے مدیر خبریں نہیں اداریے لکھتے ہیں اور قاری خبر کے بجائے ’خبر و نظر‘ کو زیادہ ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں لیکن جب سب کچھ حسب توقع ہو رہا ہو اور ہر واقعہ کی وجہ اس کی پیشانی پر لکھی ہوئی ہو تو صحافت کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ صحافی کو لوگ اس وقت تلاش کرتے ہیں جب وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی توجیہ مشکل ہو جائے اس لیے کہ اکثر جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے سو دکھائی نہیں دیتا۔ صحافت کی رسائی منظر سے پرے پس منظر تک ہو جاتی ہے اور جب تجزیہ و تبصرہ میں پوشیدہ اسرار کے پر دے اٹھتے جاتے ہیں تو قاری کو دریافت کا لطف محسوس ہوتا ہے۔ مہاراشٹر کے انتخابات اس پہلو سے نہایت خشک تھے لیکن انتخاب کے بعد شیوسینا پرمکھ بالا صاحب ٹھاکرے نے اپنے اداریہ میں جس غم  و غصہ کا اظہار کیا وہ یقیناً چونکا دینے والا تھا۔ شیوسینا کی یہ اولین ناکامی نہیں ہے بلکہ ۱۹۹۵کے علاوہ ہر بار اسے ناکامی ہی نصیب ہوئی مگر ایسی ناراضگی و بیزاری کا اظہار پہلے کبھی بھی نہیں ہوا۔ انتخابی نتائج کے بعد۲۴ اکتوبر کو شیوسینا کے روزنامہ سامنا میں لکھے جانے والے اداریے کا عنوان تھا ’کیوں اپنی جان گھلائیں ؟بس ہو چکاسو ہو چکا،  مہاراشٹر میں بے ایمانی کبھی بھی برداشت نہیں کی جاتی تو کیا یہ مان لیا جائے کہ ضمیر مر چکا ہے ؟‘یہ سوال اپنے اندر ایک داستان رکھتا ہے۔ اس خواب کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا کرب بیان کرتا ہے جس میں بالا صاحب کو اپنا چشم و چراغ ادھوٹھاکرے مہاراشٹر کے سنگھاسن پر براجمان نظر آتا تھا بقول شاعر ؎

خواب دیرینہ کی رخصت کا سبب پوچھتے ہیں

چلئے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں

 ایسی بات بھی نہیں کہ اس اداریہ کے ذریعہ مرتب ہونے والے اثرات سے یہ سیاسی رہنما ناواقف ہے اس مضمون میں برملا اعتراف موجود ہے کہ’ اس تحریر کے اثرات آپ لوگوں پر جو ہوں گے اس بابت ہمیں کسی قسم کی خوش فہمی نہیں ہے،  حق تو یہ ہے کہ اب ہم پوری طرح بے یقینی کا شکار ہو چکے ہیں نہ عام لوگوں پربھروسہ باقی ہے اور نہ مراٹھی عوام پر،  نہ صرف خود اعتمادی کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ خدا پر سے بھی اعتماد اٹھ چکا ہے ‘ (نعوذبا اللّٰہ)۔ ۴۴ سال طویل سیاسی زندگی کے بعد اپنی عمر کے ۸۴ ویں سال میں ایک شعلہ بیان مقرر،  شرر فشاں قلمکار،  ذہین کارٹونسٹ اور مقبول سیاستدان اس قدر مایوسی کا شکار کیوں ہو گیا؟ یہ ایک عبرت انگیزسوال ہے جس کا جواب غالباً یہی ہے کہ جب خود پسندی اپنی حدوں سے گذر جاتی ہے تو اپنے آپ خودشکستگی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے گویا:

ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گئے ہم

اور اس کے بعد نظر سے گرا دئے گئے ہم

اپنی صحت کے باعث بال ٹھاکرے اس بار ریا ستی انتخاب سے بالکل الگ تھلگ رہے اور صحیح معنوں میں ادھو ٹھاکرے کو پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاا س لحاظ اس انتخاب کی کامیابی یا ناکامی بال ٹھاکرے کی اپنی نہیں بلکہ ادھو ٹھاکرے کی ہے۔ اٹل جی کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ اپنی عمر اور صحت کے باعث عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں اس لیے بی جے پی کی کسی فتح و شکست کے لیے انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاتالیکن افسوس کہ بال ٹھاکرے اس فرق کو تسلیم نہیں کر پا رہے ہیں اور انہوں نے کسی اور کی نام نہاد شکست کو اپنے اوپر بلا وجہ اوڑھ لیا ہے۔ ادھو نے پارٹی کو وراثت میں حاصل ضرور کیا اس کے باوجود وہ بال ٹھاکرے کی بنسبت ایک نوعمر سیاستدان ہیں۔ بال ٹھاکرے کو ان کی عمر میں ۴۲ تو کجا ۴ نشستوں پر بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی جبکہ انہیں بھی اپنے والد اور معروف صحافی ودانشور پربودھن کار ٹھاکرے کا آشیرواد حاصل تھا ایسے میں جب کہ شیوسینا کا سب سے مضبوط قلعہ ممبئی داخلی بغاوت کے باعث ڈھ چکا ہے ۴۲ نشستوں میں کامیاب ہو جانا کوئی بہت بڑی ناکامی بھی نہیں۔

 بی جے پی کسی زمانے میں لوک سبھا کے اندر دو نشستوں تک سمٹ گئی تھی اڈوانی اور اٹل دونوں ہار گئے تھے کانگریس کو محض ۱۱۲ پر اکتفا کرنا پڑا تھا جو اسی طرح کی ناکامی تھی لیکن اس کے باوجود دونوں نے پھرسے اقتدار پر قبضہ کیا یہ حقیقت ہے لیکن بال ٹھاکرے شاید دیوار پر لکھی اس تحریر کو چشم تصور سے دیکھ رہے ہیں جس میں اگلی بار شیوسینا کو مہاراشٹر نونرمان سینا کی طرح ۱۴ اور راج کو ۴۲ نشستوں پر کامیابی حاصل ہو جائے گی اس لیے کہ موقع پرستوں کی نظر میں اب راج ادھو سے زیادہ پر کشش ہو گیا ہے اور جہاں تک وفا داری کا سوال ہے مفادپرستی کی سیاست میں کوئی کسی کا دلدار نہیں ہے۔

مراٹھی عوام نے چونکہ شیوسینا کے حق میں رائے نہیں دی اس لیے انہوں نے مہاراشٹر سے غداری کرتے ہوئے ریاست کی عظمت و رفعت کو پامال کیا یہ سمجھ لینا ایک عظیم غلطی ہے کانگریس کے رانے اور سدا سرونکر نیزراشٹروادی کے بھجبل اور نائک نہ صرف مہاراشٹر کے سپوت بلکہ سابق شیوسینک ہیں۔ راج کی مانسے تو شیوسینا کا جدید ایڈیشن ہے اور اس کے اقدار و نظریات آج بھی قدیم  شیو سینا سے مستعار لئے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ چوہان،  دیشمکھ،  پوار اور پاٹل یہ سب بھی شیوسینک نہ صحیح مہاراشٹر کے باشندے ضرور ہیں اپنے آپ کوبلا وجہ مہاراشٹر کی عزت و عصمت کا واحد ٹھیکیدار خیال کرنا اور اپنے سے کیے جانے والی اختلاف کو ریاست کی عوام سے غداری کا نام دینا ایک ایسی حماقت ہے کہ جو کوئی اس کا ارتکاب کرے گا وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ ویسے ماہم کے سدا سرونکر کی مثال میں ادھو ٹھاکرے کے لیے عبرت کا سامان ہے۔ یہ شخص ساری عمر شیوسینک رہا اس نے عوام کی خدمت کر کے ان کا اعتماد حاصل کیا اس بار جب اسے خطرہ محسوس ہوا کہ اس کا ٹکٹ کٹ جائے گا وہ اپنے حامیوں کے ساتھ بال ٹھاکرے کے گھر آیا اور اپنی قوت کا مظاہرہ بھی کیا لیکن ادھو نے خود اپنے آدمی کے ساتھ چالبازی کی اسے بہکا کر منوہر جوشی کے گھر بھیج دیا اور اس کی جگہ ایک فلمی اداکار کو ٹکٹ دے دیا۔ آخری لمحات میں نارائن رانے اس کی مدد کے لیے آگے آئے اور انہیں کانگریس کا ٹکٹ دلوایا نتیجہ سب کے سامنے ہے در حقیقت سرونکر نے غداری نہیں کی بلکہ سینا کے عہدیداران نے اس کی حق تلفی کی۔ عوام اس کے وفادار رہے اور انہوں نے سینا کوسزا دی ایسے میں مراٹھی رائے دہندگان کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے چاہیے تھا کہ بال ٹھاکرے  ادھو کے گریبان میں جھانک کر دیکھتے اوراس کو آئندہ اس طرح کی غلطی سے روکتے لیکن مراٹھی زبان میں مثل مشہور ہے۔ وناش کالے ویپریت بدھی(تباہی کے دور میں عقل الٹ جاتی ہے )۔

بال ٹھاکرے نے اپنے اداریے میں عوام پر شیوسینا کے احسانات کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا لیکن بھول گئے کہ وہ تمام فلاح و بہبود کے کام جن پر ٹھاکرے کو ناز ہے اسی عوام کے تعاون سے ممکن ہو سکے جن پر آج وہ برس رہے ہیں بال ٹھاکرے کے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں تھی جسے وہ اپنی کوٹھی ماتو شری میں بیٹھ کر گھماتے تھے اور سب کچھ ہو جاتا تھا ان کو نئی نسل سے شکایت ہے کہ وہ سینا کی تاریخ نہیں جانتی لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ انتخابات میں ووٹ کا استعمال ماضی کے احسانات کو چکانے کے لیے نہیں بلکہ مستقبل کو سنوارنے کے لیے کیا جاتا ہے کس بھی جماعت کو اپنا مستقبل سنوارنے کی خاطر ماضی کی کامیابیوں کے بجائے حال کی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبے پر انحصار کرنا چاہئے یہ تو شکست خوردہ بڑھاپے کی علامت ہے کہ انسان کو اپنا ماضی اپنے حال سے زیادہ بھلا لگنے لگے۔ ویسے اس موقع پر حیرت کی بات یہ ہے کہ نئی نسل کے ساتھ ساتھ بالا صاحب ٹھاکرے خود بھی اپنی تاریخ بھول چکے ہیں۔

بال ٹھاکرے نے اپنے اداریہ کی ابتداء ٹائمز آف انڈیا کی شاہ سرخی سے کی ہے جس میں کہا گیا ’ایم این ایس نے کانگریس راج کو ہاتھ دیا‘ گویا کہ راج ٹھاکرے نے کانگریس کا اقتدار بحال کرنے میں مدد کر کے کوئی مہا پاپ کر دیا جب کہ تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ بال ٹھاکرے خود ابتدائی۲۰ سالوں تک لگا تار کانگریس کا ساتھ دیتے اور لیتے رہے۔ ۵۰ سال قبل جب ٹھاکرے نے اپنے ہفت روزہ مارمک کا افتتاح کیا تو اس کے لیے کانگریسی وزیر اعلی یشونت راؤ چوہان کو زحمت دی گئی۔ ۴۴ سال قبل جب شیوسینا قائم کی تو اسٹیج پر پربودھن کار کے ساتھ کانگریسی رہنما رام راؤ ادک مو جود تھے اس کے بعد عرصہ دراز تک ہر سال دسہرہ کے دن ہونے والی پارٹی کی سالگرہ کے جشن میں کانگریسی وزیر اعلی کا آشیرواد حاصل کیا جاتا رہاکانگریسی رہنما بھی بلا جھجک ان عوامی جلسوں میں شریک ہوتے رہے اور ایسا کرنے کو ان دونوں میں سے کسی نے باعث عار نہیں جانا۔

ابتدائی دور میں شیوسینا مراٹھی عوام کے حقوق کی خاطر لڑنے والی ایک غیر سیاسی تنظیم تھی ٹھاکرے الیکشن کو گجکرن کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے تھے اور اڈولف ہٹلر پر فخر جتاتے تھے لیکن آگے چل کر انہیں پتہ چلا کہ خود ہٹلر نے بھی الیکشن کی سیڑھی پر چڑھ کر اقتدار حاصل کیا تھا۔ مغرب کا جمہوری نظام کسی ظالم و جابر آدمی کو اقتدار میں آنے سے نہیں روکتا بلکہ اگر وہ عقل سے کام لے تو اس کی مدد کرتا ہے شیوسینا نے جب انتخاب میں حصہ لینا شروع کیا تو ممبئی میونسپل کارپوریشن کا انتخاب جیتنے کے لیے اسے سات سال انتظار کرنا پڑا اور اس کا پہلا میئر مسلم لیگ کی مدد سے منتخب ہوا۔ اسمبلی انتخاب میں واحد نشست پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے شیوسینا نے ۲۰ سال انتظار کیا اور چھگن بھجبل پہلی بار۱۹۹۹ء میں بھوئی واڑہ سے کامیاب ہوئے۔ وہ تو بھلا ہو عبدالرحمن انتولے کا جو مہاراشٹر کی تاریخ میں اپنا نام رقم کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے شیواجی کی اصلی تلوار بھوانی کو برطانیہ سے واپس لانے کا بیڑہ اٹھایا جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی انتخابی تماشے میں اس ناکامی کے بعد انہوں نے شیواجی کی مصنوعی تلوار شیوسینا کو راضی کرنے کی خاطر ماتوشری کا رخ کیا اور اپنے پرانے دوست کو سمجھایا دیکھو تم الیکشن لڑ کر تو ایک بھی سیٹ نہیں جیت پاتے ایسا کرو انتخاب میں حصہ نہ لو اور اندر ہی اندر ہماری مدد کرو ہم تمہیں اسمبلی کے چور دروازے ودھان پریشد سے اندر داخل ہونے کا موقع فراہم کر دیں گے سودے بازی ہو گئی شیوسینا نے ۱۹۸۰کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا اور انتولے نے اپنے ممبران کی مدد سے تین شیوسینکوں کو ودھان پریشد کی ممبر شپ سے نواز کر اپنا وعدہ پورا کیاجس وقت شیوسینا قائم ہوئی تھی ممبئی میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ حضرات کانگریس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوا کرتے تھے شیو سینا نے ممبئی سے ان کا اسی طرح صفایا کیا جیسا کہ راج ٹھاکرے فی الحال شیوسینا کا کر رہا ہے گویا تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔

بال ٹھاکرے نے زیر بحث اداریہ میں نہایت دردمندانہ انداز میں سوال کیا ہے کہ آخر ان سے ایسی کون سی غلطی سرزدہو گئی جو مراٹھی عوام نے منہ پھیر لیا؟ یہ سوال در اصل خوداحتسابی کا متقاضی ہے جس کی شیوسینا کو فی الحال شدید ضرورت ہے اس اہم سوال پر اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو پتہ چلے گا بال ٹھاکرے جو مہاراشٹرا کی عوام سے غداری کی شکایت کرتے ہیں انہوں نے خود اقتدار حاصل کرنے کی خاطر نہ صرف اپنے اصول و نظریات سے مصالحت کی بلکہ اقتدار میں آنے کے بعدان تمام وعدوں سے مکر گئے جن کے جھانسے میں آ کرریاست کی عوام نے شیوسینا کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا تھا اور تو اور وہ اپنے وفا دار ہمنواؤں کی حق تلفی اور انکے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے آنے والی ہر رسوائی کو برداشت کرتے رہے لیکن اپنے ساتھیوں کی جانب سے کیے جانے والے معمولی سے معمولی اختلاف کو بھی گستاخی قرار دیا۔ جب کسی جماعت کے اندر اپنوں کے تئیں شفقت و محبت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور رہنما اپنے کارکنان کے ساتھ شعوری یا غیر شعوری طور پر زر خرید غلاموں کاسا سلوک کرنے لگتے ہیں تو وہ تحریک اپنے آپ زوال پذیر ہو جاتی ہے ایسا ہی کچھ سینا کے ساتھ بھی ہوا۔

بال ٹھاکرے کے والد پربودھن کار ایک ترقی پذیر خیالات کے حامل انسان تھے ان کی توجہ سماج میں موجود ذات پات کی بنیاد پر پائی جانے والی عدم مساوات کی بیخ کنی پر تھی لیکن شیوسینا علاقائیت کی بنیاد پر بنی ۱۹۶۹میں اس نے ممبئی میں تملوں کے خلاف پہلا فساد کروایا بال ٹھاکرے اور انکے چند ساتھیوں کو پہلی اور آخری بار کانگریس نے گرفتار کیا لیکن اس کے بعد شیوسینا نے علاقائیت کا نظریہ تج کر فرقہ پرستی کا راستہ اختیار کر لیا اور قومی جماعت سے کشمکش کرنے کے بجائے اس کا آلہ کار بن گئی۔ بال ٹھاکرے آج کرونا ندھی اور جے للیتا کی تعریف کرتے ہیں نوین پٹنائک کو کامیاب کرنے کے لیے اڑیسہ کی عوام کو سراہتے ہیں نریندر مودی کی ہندوتوا کا نہیں بلکہ گجراتی عوام کے سر دار کی حیثیت سے توصیف بیان کرتے ہیں اور حیرت کا اظہار کرتے ہیں مراٹھی عوام نے اپنی علاقائی جماعت کو کیوں مسترد کر دیا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تمل جماعتوں نے ریاستی سطح پر کانگریس اور بی جے پی کا ساتھ جونیر پارٹنر کی حیثیت سے ضرور لیا لیکن وہ کبھی بھی ان کے آلہ کار نہیں بنے نیز انہوں کبھی بھی نظریاتی مصالحت نہیں کی پٹنائک ہوں یا نائیڈو،  نتش ہو یا مایا،  چوٹالہ ہوں یا بادل ان لوگوں نے بی جے پی کے ساتھ الحاق ضرور کیا لیکن کبھی بھی ہندوتوا کو گلے نہیں لگایا جبکہ شیوسینا نے بی جے پی زیادہ گہرا زعفرانی رنگ اختیار کر لیا یہ اس کی پہلی غلطی تھی اگر شرد پوار کی آنکھوں میں وزیر اعظم بننے کا خواب نہ ہوتا اور شیوسینا ہندوتوا کا پاکھنڈ نہ کرتی تو کوئی بعید نہیں کہ مہاراشٹر میں بھی تمل ناڈو کی طرح اقتدار انہیں دو علاقائی جماعتوں کے درمیان گردش کرتا رہتا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ اول توبی جے پی،  شیوسینا کے کندھوں پر سوار ہو کر آگے آئی اور اب اس سے آگے نکل گئی یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس نے بالا صاحب کو باؤلا کر دیا ہے دراصل کسی زمانے میں علاقہ واریت کے جس پرچم کوچچا نے اٹھایا تھا آج اسے بھتیجے نے اٹھا رکھا ہے اور مراٹھی نوجوان اسی طرح راج کی پذیرائی کر رہے ہیں جیسے کبھی وہ بال ٹھاکرے کی کیا کرتے تھے۔

ویسے مہاراشٹر کی عوام کو یاد ہے کہ شیوسینا نے انرون کی مخالفت میں اقتدار حاصل کیا اور پھر وہ  حکومت انرون کے ہاتھ سرِ بازار نیلام ہو گئی۔ شیوسینا کے دور اقتدار میں سب زیادہ نقصان مراٹھی عوام کا ہوا اور سب سے زیادہ فائدہ گجراتی سرمایہ داروں کا کیا گیا جب پانچ سال بعد شیوسینا کو عوام نے اقتدار سے محروم کیا تو ارکان اسمبلی کی بد عنوانی کے سبب ریاستی خزانہ کا خسارہ ۱۶ ہزار کروڑ سے بڑھ کر ۳۷ ہزار کروڑ تک پہنچ چکا تھا۔ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کے سینک نمائندے اپنی تجوری بھرنے میں مصروف تھے۔ ممبئی کے فرقہ واعانہ فسادات پر حکومت کی جانب سے قائم کردہ اک دستوری کمیٹی سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ان لوگوں نے جسٹس سری کرشن کو پاگل اور ان کی رپورٹ کو زہر ہلاہل قرار دیا تھا محض اس لیے کہ رپورٹ نے شیو سینکوں کے فساد میں ملوث ہونے کی تصدیق کر دی تھی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے شیوسینا کو کئی مرتبہ ذلیل و خوار کیا گیا مہا راشٹر کے باہر بی جے پی نے کبھی بھی اسے اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا اس لیے سینا نے گجرات،  مدھیہ پردیش،  کرناٹک اور دیگر ریاستوں میں بی جے پی کے خلاف امیدوار کھڑے کیے لیکن بی جے پی نے اس کی مطلق پرواہ نہیں کی۔ مختلف مواقع پر پرمود مہاجن سے لے کر نتن گڈکری تک نے علی الاعلان سینا کو پھٹکار سنائی لیکن سینا اپنی اور مراٹھی عوام کی عزت نفس کو داؤں پر لگا کر اقتدار کی لالچ میں بی جے پی سے چپکی رہی دوسری جانب پارٹی کے اندرسختی اور ترش روی کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ بدستورجاری رہا ۱۹۸۹میں شیوسینا کے اندر پہلی خفیہ بغاوت تھانے میونسپلٹی میں ہوئی اس کے جواب میں نہ صرف سارے کاؤنسلرس کو مستعفی ہونا پڑا بلکہ قلیل عرصہ کے اندر شریدھر کھوپکر کو قتل کر کے شیو سینکوں نے خود اپنے ہاتھوں سے مرتد کو موت کی سزا دے دی۔

۱۹۹۰کا اسمبلی انتخاب شیوسینا نے بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑا اور اسے ۵۲ نیز بی جے پی کو ۴۲ نشستیں حاصل ہوئیں چھگن بھجبل شیوسینا کے واحد رہنما تھے جنھیں ودھان سبھا کاسابقہ تجربہ تھا وہ نہ صرف ممبئی شہر کے نہایت مقبول مئیر رہ چکے تھے بلکہ شیوسینا کو ممبئی و کوکن سے نکال کر مہاراشٹر کے دوسرے علاقوں میں لے جانے کا سہرہ بھی انہیں کے سر تھا ایسے میں حزب اختلاف کی لیڈرشپ ہر لحاظ سے ان کا حق تھا لیکن بال ٹھاکرے نے انہیں اس حق سے محروم کر کے منوہر جوشی کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا بھجبل سمجھ گئے کہ کل کو سینا ان کی کوششوں سے اقتدار میں آ بھی جائے تب بھی وزیر اعلی کی کرسی جوشی کے حصہ میں آئے گی اس لیے سینا پرمکھ کے رویہ سے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے بغاوت کر دی نتیجہ میں اپوزیشن کی لیڈرشپ جوشی کے ہاتھ سے نکل کر گوپی ناتھ منڈے کے پاس چلی گئی بھجبل کو وقتی طور پر روپوش ہونا پڑا۔ ان کے گھر پر شیوسینکوں نے حملہ کر دیا لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ ٹھنڈا ہو گیا آگے چل کر بھجبل نے بال ٹھاکرے کو عدالت میں حاضر کروا کر اپنی رسوائی کا بدلہ لے لیا۔

۱۹۹۵میں جب سینا بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا تو منوہر جوشی کو وزیر اعلی بنایا گیا جو نا اہل ثابت ہوئے اور ۲۰۰۰کے انتخاب سے قبل انہیں ہٹا کر نارائن رانے کو وزیر اعلی کی کرسی سے نوازا گیا وہ بھی سینا بی جے پی کا اقتدار بحال کرنے میں ناکام رہے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بال ٹھاکرے اپنے بیٹے کو پارٹی کا کارگذار صدر بنا دیا ہے تو وہ سمجھ گئے کہ سینا کا اگلا وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے ہو گا ایسے میں انہوں نے بھی بغاوت کر دی لیکن اس بار یہ بغاوت بلا خوف و  خطر علی الا علان ہوئی اور رانے کے حامیوں نے ممبئی کی سڑکوں پر شیوسینکوں کی دن دہاڑے پٹائی کی اس طرح شیوسینا کی جو دہشت ممبئی میں پائی جاتی تھی اس کا خاتمہ ہو گیا سب کو پتہ چل گیا کہ یہ سرکس کا شیر ہے جو رنگ ماسٹر(حکومت اورپولس )کے تحفظ اور اشارے پر کرتب ضرور دکھاتا ہے لیکن جب تنہا باہر میدان میں آتا ہے تو بھیگی بلی بن جاتا ہے۔

شیو سینکوں کا مزاج شخصیت پرستی کا ہے اور ان کے لیے لیڈرشپ کی ذات کے اندر پائی جانے والی کشش خاصی اہمیت کی حامل ہے بال ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کی شخصیت،  صلاحیت اور طریقہ کار میں زبردست مشابہت پائی جاتی ہے دونوں کارٹونسٹ ہیں دونوں مقرر اور قلمکار نیز دونوں کوتنظیم کا اچھا خاصہ تجربہ ہے بال ٹھاکرے نے شیوسینا بنائی تو راج نے ودیارتھی سینا کو قائم کیا۔ ودیارتھی سیناکے کارکنان کی راج سے ویسی ہی یگانگت تھی جیسی شیوسینکوں کی بال ٹھاکرے سے تھی جب وہ لوگ اپنا تعلیمی سفر پورا کر کے شیوسینا میں سر گرم عمل ہو رہے تھے اس وقت ہر کسی کوتوقع تھی کہ اگر بال ٹھاکرے اپنے خاندان میں سے کسی کو اپنا سیاسی وارث بناتے ہیں تو وہ راج ہو گا لیکن بال ٹھاکرے پر اپنے بیٹے کی محبت غالب آ گئی اور انہوں نے ایک کم اہل اور غیر تجربہ کار شخص کے ہاتھوں میں پارٹی کی کمان تھما دی ایسا لگتا ہے کہ وہ پارٹی کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھنے لگے تھے۔ بال ٹھاکرے کے اس تیر نے راج ٹھاکرے کو زخمی کر دیا اور اس نے سینا کے نشان تیر کمان کو اپنے ریل انجن سے روندنے کا ارادہ کر لیا۔ کانگریس کے لیے یہ صورتحال نعمت غیر مرتقبہ سے کم نہیں تھی اس نے انجن میں خوب ایندھن بھرا اور اس کے ذریعہ سے زعفرانی خیمہ میں جی بھر کے تباہی مچائی

بال ٹھاکرے کی دو سب سے بڑی غلطیاں ہندوتوا کی الفت اور اولاد کی بیجا محبت ہے اگر سینا،  بی جے پی کی بیساکھی کے بجائے اپنے بل بوتے پر کھڑی ہوتی اور ادھو کی جگہ راج اس کا لیڈر ہوتا تو شاید سامنا میں یہ اداریہ لکھنے کی نوبت ہر گزنہ آتی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جب اڈوانی شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو انہیں جناح کی یاد ستاتی ہے اور جب بال ٹھاکرے آگ بگولہ ہوتے ہیں تو انہیں اورنگ زیب کے کلمات یاد آتے ہیں سامنا میں افضل خان کی تصویر تو کئی بار چھپی جس میں دھوکہ سے ان کی پیٹھ میں خنجر مارنے کو سراہا گیا لیکن اورنگ زیب کی تصویر نہایت اہتمام کے ساتھ شاید پہلی بار ۲۴ اکتوبر کو سر ورق پر شائع ہوئی اور مراٹھی عوام سے التجاء کی گئی کہ وہ شاہ سرخی میں چھپی مر ہٹوں کے متعلق عا لمگیر کی رائے کو ضرور پڑھیں اور سر دھنیں۔ انتخابی ناکامی کا یقیناً یہا یک خوشگوار پہلو ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔

٭٭٭

 

کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیر آب دیکھ

فیان نامی خطرناک سمندری طوفان مہاراشٹر کے ساحل کی جانب بڑی تیزی سے بڑھ رہا تھا موجیں آسمان کو چھونے کی کو شش میں بیس میٹر اونچی چھلانگ لگا رہی تھیں ہوائیں ۸۰ / ۹۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے خطرناک ارادوں کا اظہار کر رہی تھیں ممبئی شہر میں بسنے والے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی نیند حرام ہو چکی تھی پا سکولوں کو بند کیا جا رہا تھا دفاتر میں چھٹی ہو رہی تھی ساحل پر رہنے والے ۸۰۰ سے زیادہ ماہی گیراس قیامت صغریٰ کے مد مقابل اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ ان کے اہل خانہ اپنے اعزّہ کی بخیر واپسی کی دعائیں کر رہے تھے لیکن عوام کے نو منتخبہ نمائندے اپنے رائے دہندگان کی ان مشکلات سے بے نیاز گھٹیا قسم کی سیاست میں جٹے ہوئے تھے ان کے لیے اہمیت کی بات یہ تھی کہ جناب ابو عاصم اعظمی مراٹھی زبان میں حلف کیوں نہیں لیتے ؟اور اگرہندی میں حلف لیا جاتا ہے تو اسمبلی میں کیسے ہنگامہ برپا کیا جائے ؟ مہاراشٹر نو نرمان سینا اور سماجوادی پر کیونکر سانٹھ گانٹھ کا الزام لگایا جائے ؟روزنامہ سامنا میں بال ٹھاکرے کے اداریہ پر کس طرح کے رد عمل کا اظہار کیا جائے ؟ اور خود ساختہ توہین کا بہانہ بنا کر کیسے ڈرایا دھمکایا جائے ؟ محلوّں اور سڑکوں پر کس طرح فرقہ واریت کا زہر پھیلا کر اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کو بحال کیا جائے ؟گذشتہ ہفتہ مہاراشٹر کے سیاسی افق پر یہی کچھ ہوا ہے اس قدر نازک صورتحال میں عوام کے نمائندوں کی یہ خود غرضی اور بے حسی دیکھ کر فیان نامی سمندری طوفان بھی شرم سے پانی پانی ہو گیا اور منہ موڑ کر دوسری جانب نکل گیا۔

ابو عاصم پر جس وقت حملہ ہوا بیچ بچاؤ کرنے کی ہمتّ کسی میں نہیں ہوئی۔ سماجوادی کے دو مہارتھی بھی آگے آنے جراّت نہ کر سکے مگر کسان مزدور پارٹی کی رہنما میناکشی پاٹل آگے آئیں اور مہاراشٹر کی عزت و قار کا دم بھرنے والی نو نرمان سینا نے ان کے ساتھ بھی بدسلوکی سے گریز نہیں کیا۔ کیا اسی کا نام مہاراشٹر کی تعظیم و تکریم ہے ؟ جس میں خود اپنی ہی ریاست کی ایک خاتون رہنما کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ممبرانِ اسمبلی کی اس بزدلی و بے حیائی سے شرما کر طوفان نے تو اپنا رخ بدل دیا اور غریب و بے کس عوام پر رحم کھا کر کسی اور جانب نکل گیا مگر راج ٹھاکرے کی جماعت مانسے نے اپنی اس حرکت سے ریاست کی پیشانی پر ایسا کلنک لگا دیا جسے مٹانے کی خاطر اگر طوفان واپس بھی آ جاتا تب بھی یہ اس کے بس کی بات نہ ہوتی۔ ابو عاصم اعظمی کے چہرے پر پڑنے والے تھپڑ نے ریاست کی آٹھ کروڑ عوام کو شرمسار کر دیا ہے اور ساری دنیا کے سامنے اس سچ کو اجاگر کر دیا کہ ہندوستان میں جمہوریت ایک تماشہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے یہاں دستور و قانون کی نہیں ڈنڈے کی حکمرانی ہے۔ بیک وقت دو حلقہ ہائے انتخاب سے منتخب ہو کر جانے والے لاکھوں افراد کے نمائندے کو ایوانِ حکومت کے اندر بھی اپنے دستوری حقوق کے استعمال سے روکا جا سکتا ہے اور اپنی قومی زبان میں حلف لینے کے لیے اسے تحفظ کی ضرورت پیش آتی ہے ایسے میں نہتے اور بے ضرر عوام کے بنیادی حقوق کی سڑکوں اور بازاروں میں کیا حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

اس معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے کے لیے ہنگامہ کی اصل وجہ کا پتہ لگانا ضروری ہے۔ کیا مراٹھی میں حلف برداری نہ کرنے کے باعث اس غم و غصہ کا اظہار ہوا؟ جی نہیں اس لیے کہ ابوعاصم کے علاوہ چار لوگوں نے مراٹھی میں حلف نہیں لیا۔ کیا ان کے مسلمان ہونے کے باعث یہ ہوا جی نہیں ان کے علاوہ دو مسلمانوں نے مراٹھی میں حلف برداری نہیں کی تو پھر کیا غیر مراٹھی کا معاملہ تھا تو ایسی بات بھی نہیں رمیش سنگھ ٹھاکر اور امین پٹیل جن کا تعلق گجرات اور اترپردیش سے ہے انہوں نے بھی ہندی میں حلف لیا۔ بی جے پی کے گریش باپٹ نے سنسکرت میں حلف لیاجو قدیم ضرور ہے لیکن قومی زبان نہیں ہے اور با با صدیقی نے غلامی کی نشانی سمجھی جانے والی انگریزی زبان میں حلف لیا اور تو اور حکمراں جماعتوں کے سات ممبران نے وزارت کے نا ملنے پر ناراض ہو کر  احتجاجاً سرے سے حلف ہی نہیں لیا۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ ابو عاصم کے مسلم مسائل میں دلچسپی کے باعث ایسا ہوا ہے تب بھی یہ بات درست نہ ہو گی اس لیے کہ نو نرمان سینا نے ابھی تک فرقہ پرستی کی سیاست نہیں کی ہے اس کا مرکز و محور علاقہ واریت رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کو مسلم نوجوانوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ لے دے کر جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے وہ اترپردیش کی علاقائی جماعت اور شمالی ہند کی زبان (جو اتفاق سے قومی زبان بھی ہے ) کی مخالفت ہے۔ راج ٹھاکرے روزِ اوّل سے اسی بنیاد پر اپنی سیاسی دوکان کو چمکا رہا ہے اور اس حقیقت کا انکار ناممکن ہے کہ اسے بڑے شہروں کی حد کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اپنے اسی علاقائی تشخص کو مضبوط تر کرنے کی خاطر یہ ہنگا مہ آرائی کی گئی جمہوری نظام میں اس قسم کے ہنگاموں کو سیاسی ضرورت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اس طرح کے شور و غل سے پروپگنڈہ کا وقتی فائدہ حاصل کر لیا جاتا ہے آگے چل کر انہیں بھلا دیا جاتا ہے۔ بے غیرت سیاست داں ان باتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے عوام بھی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتی۔

سیاسی مفاد کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس طوفانِ بد تمیزی کا سب سے زیادہ فائدہ راج ٹھاکرے کی مانسے کو ہو گا اس نے اپنی اس غلیظ حرکت سے مراٹھی عوام تک یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ کل تک جس جارحیت کی علمبردار شیوسینا تھی اب اس نظریہ اور طریقہ کار کا پرچم نو نرمان سینا کے ہاتھوں میں ہے اس لیے شیوسینکوں کو چاہئے کہ وہ اپنی وفا داریاں بدل کر راج کی پناہ میں آ جائیں انتخاب کے نتائج نے شیوسینا کے لوگوں میں اپنی غلطی کا جو ہلکا سا احساس پیدا کیا تھا اس ہنگامہ نے اس پر مہر ثبت کر دی ہے اس کے بعد شیو سینا کو بھی مجبوراً جارحانہ رخ اختیار کرنا پڑا ہے لیکن اب وہ مانسے کی نقل نظر آتا ہے ا اور اس کا کریڈٹ بھی گھوم پھر کے راج کے حصہ میں چلا جاتا ہے

ہنگامہ ختم ہونے کے بعد مانسے کے رہنما بالا ناندگاونکر نے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا اور معطل ممبرانِ اسمبلی معافی تلافی کے لیے تیار ہو گئے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ سارا معاملہ منصوبہ بند تھا راج ٹھاکرے نے ۲۸۸ ممبرانِ اسمبلی کو انفرادی طور پر خط لکھ کر مراٹھی زبان ہی میں حلف برداری کی تلقین کر دی تھی یہ اور بات ہے کہ راج کا یہ فرمان غیر دستوری اور آئین کی خلاف ورزی میں تھا اس کے علاوہ اس نے اخباری کانفرنس میں یہ دھمکی بھی دے دی تھی کہ جو لوگ اس فتوے سے روگردانی کریں گے ان کو پتہ چل جائے گا کہ مانسے کے لوگ ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں ؟ابو عاصم نے ہندی میں حلف برداری کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا تھا اس لیے یہ کہنا کہ بے ساختہ طور پر یہ حرکت سرزد ہو گئی ایسا ہی ہے جیسا کہ اڈوانی کہا کرتے تھے بابری مسجد گروانے کا ان کا کو ئی ارادہ نہ تھا عوام اچانک بے قابو ہو گئے یا مودی کا بیان کہ گجرات کا فساد سابرمتی اکسپریس میں مرنے والے رام سیوکوں کی موت پر عوام کا بے اختیار ہو جانا تھا۔ کانگریس نے بھی اندرا گاندھی کی موت کے بعد دہلی میں سکھوں کے قتل عام کی یہی توجیہ پیش کی تھی یہ سب کی سب کذب بیانی ہے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش،  اپنی سزا میں تخفیف کا ایک حیلہ بہانہ۔ ویسے راج کو پتہ ہے کہ وطنِ عزیز میں اس طرح کے جرائم پر کوئی خاص سرزنش نہیں ہو تی،  راجیو ہو یا اڈوانی،  مودی ہو یا بال ٹھاکرے کسی کو سزا نہیں دی جاتی اس کے علاوہ برسر اقتدار کانگریس پارٹی بہرحال مانسے کی احسانمند ہے۔ کانگریس کو مستقبل میں بھی اپنا راج چلانے کے لیے راج ٹھاکرے کی ضرورت ہے اس لیے ان مجرموں کو کسی گزند کے پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے وہ دن دور نہیں جب ان سارے مجرمین کی سزا معاف ہو جائے گی۔

مانسے کی نا تجربہ کاری کے باعث ا س کو خود اپنے ہاتھوں سے سبکی سہنا پڑی مثلاً وہ سمجھ رہے تھے کہ ابو عاصم خوفزدہ ہو جائیں گے ایسا نہیں ہوا۔ ان کو یہ گمان تھا کہ دوسرے ڈر کے مارے اس طرح کی جرأت سے گریز کریں گے وہ بھی نہیں ہوا اور لوگوں نے بھی دیگر زبانوں میں حلف لیا اس کے برخلاف خود مانسے کے باقی ماندہ ممبران خوف کے مارے خاموش تماشائی بنے رہنے پر مجبور ہو گئے۔ کانگریس کی جانب سے چار سال کے لیے معطلی نے سرکس کے اس شیر کو بلّی بنا دیا۔ مانسے والوں نے سوچا ہو گا کہ کانگریس ہر بار کی طرح چند ہنگامہ کرنے والوں کو اس دن کے لیے باہر نکال دے گی اگر ضرورت پیش آئی تو پھر باقی ماندہ کھڑے ہو جائیں گے لیکن چار سال کی معطلی کا جھٹکا اس قدر زور سے لگا کہ سوڑا واٹر کا ابال ایک دم ٹھنڈا ہو گیا۔ گھاٹکوپر سے منتخب ہونے والا رام کدم اس معاملہ میں پیش پیش تھا لیکن اس نے خود راج ٹھاکرے کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اخباری نمائندوں سے ہندی میں خطاب کیا اور مراٹھی زبان کی محبت کا مصنوعی مکھوٹا اپنے ہی ہاتھوں سے نوچ کر پھینک دیا

سماجوادی پارٹی اور ابو عاصم اعظمی کو بھی اس معاملہ نے بڑا سیاسی فائدہ پہنچایا اس کے باعث فیروز آباد میں راج بببّر کے ہاتھوں ملائم کی بہو ڈمپل کو ۸۵۰۰۰ ووٹوں سے ہونے والی شرمناک شکست کی خبر دب گئی اس نشست سے چند ماہ قبل اسی حلقۂ انتخاب سے ملائم کا بیٹا اکھلیش کامیاب ہوا تھا لیکن چونکہ وہ دو مقامات سے جیت گیا تھا اسے ایک نشست کو خالی کرنا پڑا۔ اب سسر اور شوہر کے بعد بہو میں بھی اقتدار کا مز ہ لینے کا چسکا پیدا ہوا سو اسے کھڑا کر دیا گیا اور بازی الٹ گئی اس بار اتر پردیش کے ضمنی انتخاب میں بھی کئی نشستوں پر بی ایس پی نے ملائم کے گڑھ میں سیندھ لگائی وجہ صاف ہے اگر رہنما پارٹی کو اپنے گھر کی باندی سمجھنے لگیں تو کارکنان بھاگ کھڑے ہوتے ہیں یہی کچھ سماجوادی کے ساتھ ہو رہا ہے لیکن مہاراشٹر میں گذشتہ مرتبہ کی شرمناک شکست کے بعد ایک بار پھر سماجوادی کو چار مقامات پر کامیابی حاصل ہوئی ابو عاصم نے پہلی مرتبہ انتخاب میں کامیابی درج کروائی اور پہلے ہی دن ہیرو بن گئے تمام اخبارات میں اور تمام ٹی وی چینلس پر اگر کسی کا چرچا تھا تو وہ ابوعاصم تھے سارے ہندوستان کے ہندی بولنے والے لوگوں کی حمایت اور ہمدردی ان کے شاملِ حال ہو گئی

 ملائم سنگھ اگر اپنے معتمد خاص امر سنگھ کے پاس رہن رکھی ہوئی اپنی عقل واپس لیں تو ابو عاصم کا بہترین استعمال اتر پر دیش میں ہو سکتا ہے مسلمان تیزی کے ساتھ اسے چھوڑ کر کانگریس کی جانب راغب ہو رہے ہیں دیگر لوگوں کو بھی ہندی کے نام پر بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اتر پردیش کے لوگوں کی بڑی تعداد ممبئی میں رہتی ہے ان کے گاؤں میں رہنے والے اہل خانہ کے سامنے ابوعاصم کو پردیس میں ان کی خاطر لڑنے والے مسیحا کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اعظم خان کی کمی کو کسی نہ کسی حد تک ابوعاصم اعظمی پورا کر سکتے ہیں لیکن گو نا گوں وجوہات کی بناء پر ملائم نے ہمیشہ ہی ابو عاصم کو اتر پردیش کی سیاست سے دور رکھا ہوا ہے۔

مہاراشٹر کے مراٹھی داں عوام کو جو پیغام راج نے دیا یہاں کے مسلمانوں تک وہی بات ابو عاصم کے حوالے سے پہنچی ان کو پتہ چل گیا کہ کل کو اگر شیوسینا،  بی جے پی کی جانب سے کوئی شرارت ہوتی ہے تو انہیں کس کی جانب رجوع کرنا چاہئے کون ان کے حقوق کی خاطر لڑنے کا حوصلہ اپنے اندر رکھتا ہے بال ٹھاکرے پر ان کا تبصرہ اور شیو سینا کی جانب سے ان کی مخالفت دونوں کے لیے مفید ہے۔ ابو عاصم کی مقبولیت میں اضافہ شیوسینا کے لیے ویسے ہی فائدہ بخش ہے جیسا کہ راج کی مضبوطی میں کانگریس کا مفاد ہے یہ دلچسپ حسنِ اتفاق ہے کہ ابوعاصم کے سبھی سابق ہمنوا کانگریس کے ساتھ ہیں اور راج ٹھاکرے سینا کا پروردہ ہے ہندوستانی سیاست کی اسی رنگا رنگی نے اسے عوام کے لیے تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ بنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹی وی پر سب سے زیادہ اشتہار کسی دلچسپ ڈرامے کے بجائے خبروں پر ہوتے ہیں عوام کے نزدیک سیاسی اکھاڑہ ڈبلیو ڈبلیو ای(عالمی کشتی کی تفریح) کے مانند ہو گیا ہے جس کی اچھل کود و اٹھا پٹخ کو لوگ وقت گزاری کے لیے دیکھتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں۔

کانگریس اور راشٹروادی کے لیے بھی یہ تنازعہ بے شمار فائدے لے کر آیا راج اور کانگریس کے درمیان کا رشتہ امیر خسرو کے رنگین مصرع تن میرا من پیا کا دونوں ایک ہی رنگ کی مصداق ہے مانسے کے جسم میں کانگریس کی روح کارفرما ہے جو دکھائی نہیں دیتی اور کانگریس کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ عوام کی نظروں سے اوجھل رہے تا کہ اس آسیب کے لیے شیوسینا کے رائے دہندگان کو مسلسل نگلتے رہنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور کانگریس کا راستہ صاف ہوتا چلا جائے اسی لیے کانگریسی رہنما راج سے فاصلہ بنائے رکھنے کا ناٹک کرتے رہتے ہیں اس معاملہ میں حسب اقتدار جماعت نے مانسے پر سخت اقدام کر کے اسے اہم ترین حزب اختلاف بنا دیا اور اصل اپوزیشن کو حاشیہ پر پہنچا دیا۔ اس مسئلہ نے ریاست کی سیاسی بساط کا منظر بدل دیا ہے شیو سینا اور بی جے پی کو مانسے کے خلاف کانگریس کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ یہ کانگریس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

راج ٹھاکرے کا کا نگریس پر دوہرا احسان ہے ایک تو وہ شیوسینا کے ووٹ بنک پر ڈاکہ ڈال رہا ہے دوسرے ہندی بولنے والے لوگ جو سینا سے قریب ہونے لگے تھے ان کے اندر خوف و دہشت پیدا کر کے انہیں کانگریس کی طرف ڈھکیل رہا ہے اس مسئلہ پر مانسے کی مخالفت کر کے کانگریس نے شمالی ہند کے رائے دہندگان کے اندر اپنے رسوخ میں اضافہ کیا ہے ویسے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ نے نفسِ مسئلہ کے بجائے مانسے کے ذریعہ اختیار کیے جانے والے طریقۂ کار کی مخالفت پر زور دیکر اپنے مراٹھی رائے دہندگان کی خوشامد بھی کی ہے۔

بی جے پی گو کہ خود ایک وسطی ہندوستان کی ایک علاقائی جماعت ہے لیکن اسے قومی جماعت ہونے کا غرہّ ہے مشرق میں اسے کوئی نہیں پوچھتا جنوب میں اس کی پہلی حکومت منجدھار میں ہچکولے کھار ہی ہے اڑیسہ اور ہریانہ میں علاقائی جماعتوں کا ساتھ چھوٹ جانے سے اس کی جو درگت ہوئی ہے وہی حال بہار میں بھی ہو سکتا ہے اتر پردیش میں وہ شودروں کی مانند چوتھے نمبر پر پہنچ گئی ہے راجستھان میں اسے خود ان کی اپنی وجئے راجے سندھیا تگنی کا ناچ نچا رہی ہیں ایسے میں گجرات سے لے کر چھتیس گڑھ تک یہ زعفرانی کلنک سمٹ گیا ہے ہندوتوا کا سحر ٹوٹ چکا ہے بی جے پی والے ایک موثر رہنما کے علاوہ کسی ایسے مسئلہ کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جس کی مدد سے عوام کو پھر ایک بار اپنے دام میں پھنسایا جا سکے۔ اسی کو شش میں گذشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے راج ٹھاکرے کے لب و لہجہ میں تقریر کر ڈالی اور بھول گئے کہ بہار کی حکومت میں شامل بی جے پی پر کیا گذرے گی بہار کے وزیر اعلیٰ نتش کمار کی پھٹکار سننے کے بعد ان کے ہوش ٹھکانے آئے یہی مخمصہ مہاراشٹر بی جے پی کا بھی ہے وہ راج کی مخالفت کرے تو ووٹر ناراض ہوتا ہے حمایت کرے تو پارٹنر یعنی سینا ناراض ہو تی ہے بی جے پی کا اصل دھرم سنکٹ یہ ہے کہ آخر وہ کب تک ایک غیر مقبول شریک حیات کے ساتھ نباہ کرے گی اس لیے کہ سیاست کے کاروبار میں وفا داری کا نہیں بلکہ مفاد پرستی کا سکہّ چلتا ہے اب وہ دن دور نہیں جب بی جے پی شیوسینا کو طلاق دیکر مہاراشٹر نو نرمان سینا جیسی نئی نویلی خوبرو دلہن سے بیاہ رچا لے۔

شیوسینا کی حالت سب سے زیادہ دگر گوں ہے مراٹھی زبان میں مثل مشہور ہے کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے یہی کیفیت فی الحال سینا کی ہے ایسے میں جبکہ سارا ملک راج ٹھاکرے کے خلاف ابو عاصم کے ساتھ کھڑا ہواہے شیوسینا کا کہنا ہے کہ کہ ابو عاصم کی رسوائی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں وہ خود ہیں گویا بلاواسطہاگر کسی کی حمایت کرنے پر شیوسینا مجبور ہے تووہ اس کا اوّلین دشمن راج ٹھاکرے ہے ایسے موقع پر جبکہ سبھی نے ساتھ چھوڑ دیا شیوسینا کی حمایت کا حاصل ہو جانا راج کے لیے ایک نعمت غیر مرتقبہ سے کم نہیں ہے الیکشن میں ناکامی کے صدمے سے شیو سینا ابھی ابھر بھی نہ پائی تھی کہ یہ افتاد ٹوٹ پڑی در حقیقت سینا اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی انہیں یقین تھا کہ راج کے فرمان کے باوجود ابو عاصم اپنا حلف تھوڑا بہت شور شرابہ کے درمیان ہندی ہی میں لیں گے اور اگلے دن سامنا اخبار میں راج کے کھوکھلی دھمکی کا مذاق اڑایا جائے گا اور عوام کے سامنے خود کو اصلی اور اس کو جعلی مسیحا کے طور پر پیش کیا جائے گا لیکن مانسے جوشِ جنون میں کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گئی اور سارے ذرائع ابلاغ پر چھا گئی اب شروع ہوا غلطیوں کا لا متناہی سلسلہ جو ہنوز جاری ہے۔

سب سے پہلے تو سامنا کے اداریہ میں اسے مراٹھی فکسنگ کہا گیا گویا کہ یہ راج اور ابو عاصم کے درمیان ایک نورا کشتی تھی اس بات پر سیاست کی ابجد سے واقف احمق ترین انسان بھی یقین نہیں کر سکتا دوسری غلطی یہ تھی کہ دعویٰ کیا گیا اگر ابوعاصم شیوسینکوں کے ہتھے چڑھتے تو ان کی تندوری بنا ڈالتے سوال یہ ہے کہ ۴۲ سینا کے ممبران اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے تھے جبکہ مانسے ۱۴ لوگوں نے انہیں پہلے ہی جھٹکے میں بڑی آسانی کے ساتھ اکھاڑے سے با ہر اچھال دیا تیسری غلطی یہ تھی کہ سامنا نے دیگر لوگوں کی تصویریں شائع کر دی جنھوں نے مراٹھی میں حلف نہیں لیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مانسے ناکام ہو گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شیوسینا بھی مراٹھی میں حلف برداری کو لازمی سمجھتی ہے تواس نے بعد والوں کو روکنے کے لیے کیا کیا؟

 اب بات آگے بڑھی اور اخبار نویسوں نے ابو عاصم سے سوال کر ڈالا کہ سامنا کے اداریہ کے بارے میں ان کا ردّ عمل کیا ہے اس کے جواب میں ابو عاصم بہت کچھ بول گئے سب سے پہلے تو انہوں نے اسے بال ٹھاکرے کی عمر سے منسوب کر دیا اور کہا کہ بڑھاپے کہ باعث وہ بچوں کا سا برتاؤ کر نے لگے ہیں اور پھر بال ٹھاکرے کے پرانے اداریہ کا حوالہ دیکر یہ کہہ گئے کہ وہ مراٹھی عوام سے اس قدر نالاں ہیں کہ یہاں مرنا بھی انہیں گوارہ نہیں ہے گویا ہندی مراٹھی کے تنازعہ کو ابو عاصم نے ایک فرد کے رویہ تک محدود کر کے خود اپنا موقف کو کمزور کر دیا اس کے خلاف شیوسینکوں کو آگ بگولہ ہونا ہی تھا انہوں نے ابو عاصم کی گاڑی کو روک لیا بقول سینکوں کہ ابو عاصم نے کہا کہ وہ بال ٹھا کرے کی عزت کرتے ہیں انہوں نے کوئی تضحیک آمیز بات نہیں کہی معاملہ ختم ہو گیا لیکن عقل کی ماری اس جماعت کو بعد میں احساس ہوا کہ کم از کم اس معاملہ میں مزید ہنگامہ آرائی ضروری تھی اور اب یہ لوگ ایوان کے اندر اور اور باہر سڑکوں پر ابو عاصم کے خلاف زہر افشانی کرنے میں لگے ہوئے ہیں عوام در اصل اب اس معاملہ کی طوالت سے بیزار ہو چکے اب اسمیں کوئی رس باقی نہیں ہے اس کے باوجود شیو سینک اسے چبائے جا رہی ہے جہاں تک توہین و تضحیک کا سوال ہے بالا صاحب کی امتیازی شان یہی تو ہے ہندو دیوی دیوتاؤں سے لے کر گاندھی جی تک اور سابق وزیر اعظم مرارجی سے لے کر شردپوار تک کون ہے جو ان کے نشانے پر نہیں رہا؟ جو دوسروں کا مذاق اڑانے کو غلط نہیں سمجھتا اسے چاہیے کہ اپنا دل کشا دہ رکھے۔

 شیو سینا نے جن بنیادی مسا ئل پر انتخاب لڑا تھا اگر انہیں کی جانب توجہ دے تو شاید یہ اس کے اپنے اور عوام کے حق میں بہتر ہو گا اگر سینا اپنے رہنما کی نام نہاد توہین کہ بجائے محترمہ میناکشی پاٹل کی توہین کا مسئلہ اٹھا تی اور اس کو لے کر سڑکوں پر اترتی تو وہ نہ صرف مانسے سے اس کا مراٹھی وقار کا مدعا چھین لینے میں کامیاب ہو جاتی بلکہ اپنے اولین حریف کو گھیرنے کا بھی اسے بہترین موقع حاصل ہو جاتا ایسے میں ہو سکتا ہے لوگ اس معاملے کو پارٹی سیاست سے زیادہ اہمیت دیتے لیکن اس بے بصیرت جماعت سے شاید ایسی توقع کرنا فضول ہے۔ شیوسینا اس معاملہ کو فرقہ واریت کی جانب لے جا رہی ہے جو سیاسی اعتبار سے اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ چونکہ فی الحال کانگریس کا اس مسئلہ میں کو ئی سیاسی مفاد نہیں ہے اس لئے ہو سکتا ہے کانگریس اس سے سختی کے ساتھ نبٹنے کی کو شش کرے ایسے میں شیو سینا کے بزدل سینک پولس کے عتاب سے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر مانسے کی جانب لپکیں گے اور سینا کے کیمپ میں وقت سے پہلے سنّاٹا چھا جائے گا۔

لوک سبھا کے سابق صدر نشین سومناتھ چٹرجی نے اس معاملہ کو ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ گردانا ہے اس کا امکان ہے بھی اور نہیں بھی۔ کسی زمانے میں علاقہ واریت کی ابتداء نظریاتی سطح پر کچھ مخلص افراد کی جانب سے ہوئی تھی اس لیے وہ ایک سنگین خطرہ تھا تمل ناڈو،  پنجاب،  شمال مشرقی ہند اور کشمیر ان ریاستوں میں شمار کیے جاتے ہیں جہاں علاقا ئیت کی بنیاد پر علیحدگی پسندرحجان پیدا ہوا اور ملک کے اتحاد و سالمیت کو اس سے خطرہ لاحق ہو گیا لیکن اب علاقہ واریت محض ایک اقتدار کے حصول کا ذریعہ بن گیا ہے اور اس کی باگ ڈور موقع پرست سیاستدانوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے اس لیے ایسے بے وزن لوگوں کے باعث کسی سنگین اندیشہ کی توقع مناسب نہیں معلوم ہوتی لیکن اگر خطرہ ہے تو ان بیرونی طاقتوں سے جو ہمارے ملک میں بد امنی پیدا کرنا چاہتی ہیں یہ محض مفروضہ نہیں ہے گذشتہ دنوں گوا کے دھماکہ میں ملوث سناتن کے دفتر میں فرانسیسی شہریوں کا پایا جانا اور ابھی حال میں امریکی شہری ڈیوڈ کولمن ہیڈلی کے ذریعہ ملک کے پانچ شہروں میں دھماکہ کرنے کی سازش کا طشت از بام ہونا ان معاملات کو پاکستان کی سرحدوں سے نکال کر امریکا اور یوروپ تک لے جاتا ہے۔ انگریزوں کے معاملے میں حکومت ہند کا رویہ بھی خاصہ نرم نظر آتا ہے پاکستان سے دہشت گردوں کی واپسی پر ہم خوب اصرار کرتے ہیں اور حملے کی دھمکی تک دے ڈالتے ہیں لیکن اگر یہی سازش امریکہ کی سر زمین پر ہوتی ہے تو اس کو حکومت سے الگ کر کے فرد کا معاملہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم خود اپنے شہری کو امریکی خفیہ ایجنسی کے حوالے کر دیتے ہیں جو اسے وہاں لے جا کر تحقیق و تفتیش کے بعد واپس لوٹاتے ہیں لیکن ہمارے غم خوارِ عزیز امریکہ کا رویہّ بالکل مختلف ہے ہیڈلی کو ہندوستان لانا تو کجا وہ ہمارے افسران کو امریکہ میں اس سے ملاقات تک اجازت نہیں دیتا اور بیچارے پولس افسران کو ناکام و  نامراد لوٹ کر واپس اپنے گھر آنا پڑتا ہے ایسے میں اگر کوئی علاقائی جماعت بیرونی ہاتھوں میں بک جائے تو معاملہ بگڑ سکتا ہے اس لیے کہ ضمیر فروش طوائف کو خریدار سے زیادہ دلچسپی قیمت میں ہوتی ہے جہاں ملک و قوم سے وفاداری کا تعلق ہے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موقع پرست اور مفاد پرست کبھی بھی کسی کا وفادار نہیں ہوسکتا۔ برمی زبان میں فیان ایک نہایت زہریلے جنگلی پھل کا نام ہے فیان نامی سیلاب مہاراشٹر کے قریب آیا اور گذر گیا لیکن اپنے گولڈن جوبلی سال میں یہ ریاست جس سیاسی طوفان میں گھر گئی ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے اس منجدھار سے لوگ کب اور کیسے نجات حاصل کریں گے یہ نہ کو ئی جانتا ہے اور نہ جاننا چاہتا ہے ہر کوئی اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی فکر میں جٹا ہوا ہے یہ زہریلا پھل اپنے ساتھ کتنے معصوموں کو نگل جائے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اس لیے کہ بقول شاعر۔

موجۂ سرکش کناروں سے چھلک جائے تو پھر

کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیرِ آب دیکھ

‎٭٭٭

 

اپنے اپنے حصہ کی سب شکست کھاتے ہیں

سیاست شطرنج کی طرح کھیلا جانے والا انفرادی کھیل نہیں ہے جسے دو کھلاڑی آمنے سامنے بیٹھ کر کھیلتے ہوں اور نہ ہی یہ فٹ بال جیسا کھیل ہے جو دو ٹیموں کے درمیان ایک دوسرے کے مد ّمقابل کھیلا جاتا ہے۔ سیاست میں ٹیمیں بھی کھیلتی ہیں اور افراد بھی کھیلتے ہیں لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہا اس میں کھلاڑی نہ صرف مخالف ٹیم کے خلاف گول داغتے ہیں بلکہ خود اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ٹانگ مار کر زخمی کرنے سے بھی نہیں کتراتے دراصل موجودہ سیکولر جمہوری سیاست کے اس کھیل کا بنیادی اصول ابن الوقتی اور ضابطہ اخلاق خود غرضی ہے اگر یقین نہ آتا ہو تو مہاراشٹر کی حالیہ سیاسی اتھل پتھل پر نارائن رانے اور سمتا ٹھاکرے کے حوالے سے ایک نظر ڈالئے سب کچھ واضح ہو جائے گا۔

سمتا اور رانے کے درمیان ایک مماثلت تو یہ ہے کہ ان دونوں کا تعلق شیوسینا سے تھا اور اب کانگریس سے ہے لیکن ایک مشترک تاریخ اور بھی ہے۔ ۱۹۹۹ شیو سینا کی ریاستی حکومت کا آخری سال تھا کہ اچانک وزیر اعلیٰ منوہر جوشی کے خلاف چہ میگو ئیاں تیز ہو گئیں منوہر جوشی عرصہ دراز سے بال ٹھاکرے کے دستِ راست تھے اس کے باوجود ان کے دن گنے جانے لگے اس  تبدیلی کی مختلف وجوہات سیاسی مبصرین نے بیان کیں۔ کسی نے کہا منوہر جوشی کا نرم رویہ شیوسینا کے شایانِ شان نہیں ہے اس لیے وہ دوبارہ پارٹی کو اقتدار میں نہ لا سکیں گے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ ایک براہمن کو پہلی مرتبہ ریاست کا وزیر ِ اعلیٰ بنانے کی جو غلطی بالا صاحب ٹھاکرے سے ہوئی تھی اس کا انہیں احساس ہو گیا ہے مہا راشٹر میں مراٹھا یا دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والا شخص ہی وزیر اعلیٰ کی کرسی کا حقدار سمجھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن پسِ پردہ ایک اور معاملہ بھی تھا۔ اسوقت شیوسینا کے سربراہ کی دستِ راست ان کی بہو سمتا ٹھاکرے ہوا کرتی تھیں جن کے بارے میں بالا صاحب کا کہنا تھا کہ وہ نہایت ذہین طالب علم ہے،  اس کا مشاہدہ بہت خوب ہے اور وہ ایک دلیر خاتون ہے۔ وہ لہروں کے خلاف تیر چکی ہے اور وہ زندگی کی تمام مشکلات کا بڑی بہادری سے مقابلہ کر چکی ہے۔ خود سمتا نے اپنے بارے میں کہا تھا ‘میں صاحب اور لوگوں کے درمیان پُل کا کام کرتی ہوں اس لیے کہ وہ  درازیِ عمر کے باعث تمام ملنے کے خواہشمند حضرات سے ملاقات نہیں کرسکتے ’’

نارائن رانے اس زمانے میں وزیر ِ محصول اور جنگلات ہوا کرتے تھے انہوں نے وزیر اعلیٰ بننے کے لیے اس پُل کا انتخاب کیا اور سمتا ٹھاکرے کو ان کے نجی ٹرسٹ مکتی فاؤنڈیشن کے توسط سے اندھیری کے ترقی پذیر علاقے میں ۵۰ کروڑ کی لاگت والی زمین ہدیہ کر دی۔ دس سال قبل جس زمین کی قیمت ۵۰ کروڑ تھی اس کا آج کیا بھاؤ ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس زمین کو حکومت نے سرکاری بازار کے لیے مختص کر رکھا تھا لیکن وزیر ِ محصول نے اسے سرکاری پابندی سے مکتی دلا کرسمتا کے چرنوں میں ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ اقتدار کی دیوی پرسنّ(خوش) ہو گئی اور نارائن رانے کی سیاسی دوکان چمک اٹھی وہ ریاست کے وزیر ِ اعلیٰ بن گئے سمتا نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھامیں تو صرف بالا صاحب کے ساتھ تبادلہ خیال کرتی ہوں آخری فیصلہ وہی کرتے ہیں کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں جو عوامی فلاح و بہبود نیز جماعتی مفاد کے خلاف کا م کرتے ہیں ان کے بارے میں صاحب کو آگاہ کرنے میں کو ئی حرج نہیں ہے۔ منوہر جوشی آج بھی سینا اور ٹھاکرے کے وفادار ہیں رانے ا ور سمتا سینا کو خیر باد کر چکے ہیں وقت نے ثابت کر دیا کہ جماعتی مفاد میں اور اس کے خلاف کون کام کر رہا تھا لیکن ہماری سیاست کا یہ ایک عام دستور ہے اس لیے کسی کو اس پر حیرت نہیں ہوتی۔ آج سمتا کہتی ہیں کہ مجھے پارٹی میں حاشیہ پر پہنچا دیا گیا میرا دم گھٹتا ہے اور گھٹ گھٹ کر مرنے سے اچھا ہے کہ کانگریس کے دروازے پر دستک دی جائے گویا کہ ٹھاکرے صاحب کا پُل ٹوٹ گیا تو سونیا کے ساتھ نیا پُل بنا لیا ؎

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور صحیح

تو نہیں اور سہی،  اور نہیں اور سہی

جب تک انسان اقتدار سے محروم ہوتا ہے کرسی کے بغیر اس کا گذارہ بڑے آرام سے ہو جاتا ہے لیکن اقتدار کا چسکا زبان سے ایک بار لگ جاتا ہے تو اس کی محرومی کے بعد کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ زندگی ایک عذابِ جان محسوس ہونے لگتی ہے سمتا ٹھاکرے اور نارائن رانے کا بنیادی مسئلہ یہی ہے اور دونوں اسے کانگریس کے ذریعہ حل کرنا چاہتے ہیں۔

آج سمتا کی جو حالت ہے کل انہیں حالات سے مینکا گاندھی بھی گذر چکی ہیں۔ ان دونوں کا سیاست سے کوئی خاندانی تعلق نہیں تھا لیکن شادی کے بعد وہ ایک سیاسی پریوار میں آ گئیں دونوں جگہ موروثیت بنام جمہوریت کا بول بالا تھا دونوں کی حیثیت بڑی بہو کی تھی دونوں کے شوہر حادثاتی موت کا شکار ہوئے اور پھر سسرال والوں کی نظرِ عنایت چھوٹے بیٹے کی جانب ہو گئی نتیجہ کے طور پر ان دونوں کے حصہ میں محرومی آئی اور پھر دونوں بہوؤں نے اپنے خاندان سے بغاوت کی اور اپنی سیاسی امنگوں کی بر آوری کی خاطر مخالفین سے جا ملیں۔ پنجاب کی رہنے والی ایک سکھ خاتون جو فوجی خاندان سے کانگریس میں آئی تھی بی جے پی میں چلی گئی اور مہاراشٹر کی رہنے والی ایک ہندو ریشپنسٹ جس کا ہندوتوا وادی شیو سینا سے تعلق تھا کانگریس کی حلقہ بگوش ہو گئیں تمام تر اختلافات کے باوجود ان دونوں کے رویہ میں پائی جانے والی یکسا نیت کی اصل وجہ مشترک سیاسی اقدارو نظریات اور ان کے تحت پروان چڑھنے والا منفرد تربیت و تزکیہ ہے جو سارے اختلافات کو مٹا کر ہر ایک کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے ہر کسی کے اندر اقتدار کی ایسی ہوس پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے آگے تمام اخلاقی حدود و قیود بے معنی ٰ ہو جاتے ہیں رشتہ داریوں اور وفاداریوں کی کوئی اہمیت و وقعت باقی نہیں رہتی۔ اپنے سسر سے شکایت کرنے والی سمتا بھول جاتی ہے کہ آج وہ جس سے اپنی نام نہاد توہین کا بدلہ لے رہی ہے کل اسی خسر نے اپنے بیٹے اورسمتا کے شوہر جئے دیو کے کسی اور کی جانب متوجہ ہو کراسے چھوڑ جانے پر اپنی بہو اور پوتے کو نہ صرف اپنی پناہ میں رکھا بلکہ اقتدا ر کی شطرنج پر اسے وزیر کے اختیارات سے نواز دیا جو جیسی چاہتا چال چلتا تھا اور اس کا کوئی بال بیکا نہ کرسکتا تھا لیکن ابن الوقتی کی سیاست میں احسانمندی کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ مینکا گا ندھی،  سمتا ٹھاکرے اور نارائن رانے ان تینوں کے ستارے فی الحال گردش میں ہیں۔

شیوسینا کو۲۰۰۴کے ریاستی انتخاب سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں خود کانگریس نے انتخاب سے قبل ولاس راؤ کی جگہ سشل کمار شندے کو بٹھا کر اپنی کمزوری کا اعتراف کر لیا تھا اس کے باوجود سینا ناکام رہی اور شرد پوار کی راشٹر وادی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ نارائن رانے کو توقع تھی کہ بالا صاحب ٹھا کرے اس ناکامی کے باعث ادھوٹھا کرے سے پارٹی کی کمان چھین کر ان کے حوالے کر دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور رانے کو پتہ چل گیا کہ اگرچہ مستقبل میں کبھی سینا اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جا تی ہے تب بھی وزیر اعلیٰ کی کرسی پروہ نہیں بلکہ ادھو راؤ ٹھاکرے براجمان ہوں گے۔ شیوسینا کو خیرباد کہنا اب رانے کی سیاسی مجبوری بن گئی تھی جو کسی نہ کسی صورت دوبارہ وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ اس وقت ان کے سامنے دو متبادل تھے راشٹر وادی اور کانگریس پارٹی۔ شیوسینا میں رانے کا مراٹھا ہونا خاصہ اہمیت کا حامل تھا مگرراشٹر وادی پارٹی مراٹھا ذات کے رہنماؤں سے اٹی پڑی تھی نیز اس میں چھگن بھجبل جیساوزارتِ اعلیٰ کا طاقتور دعویدار موجود تھا لیکن کانگریس کے اندر قحط الرجال کا ماحول تھا۔ کانگریس پارٹی ولاس راؤ جیسے نا اہل شخص کو محض اس کے مراٹھا ہونے کے سبب وزیر اعلیٰ بنانے پر مجبور ہو گئی تھی اور اس نے کم سیٹوں کے باوجود راشٹروادی کودوسرے نمبر پر ڈھکیل کر اپنی برتری منوا لی تھی۔ اس لیے نارائن رانے نے ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخاب سے قبل بغاوت کر دی تا کہ نہ صرف شیوسینا کو ممبئی کی کارپوریشن سے محروم کر دیا جائے بلکہ کانگریس میں اپنا سکہّ چلا دیا جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ممبئی میونسپلٹی کے بلدیاتی انتخابات میں شیوسینا بی جے پی اتّحاد نے راج اوررانے کی بغاوت کے باوجود کامیابی حاصل کر لی نارائن رانے کا منصوبہ دھرا رہ گیا۔ ان کے لیے یہ پہلا جھٹکا تھا جس پر سینا سے زیادہ خوشی ولاس راؤ کو ہوئی تھی جنھوں نے راشٹروادی کے ساتھ الحاق کی ہر کو شش کو ناکام بنا کر اس کو بلا وجہ اپنا حریف بنا لیا تھا تاکہ اپنے داخلی حریف رانے کوپسپا کر دیا جائے بلا سے اس کے باعث ممبئی میونسپل کارپوریشن سینا کے حوالے کرنی پڑ جائے۔

نارائن رانے نے ۲۰۰۸میں جب یکے بعد دیگرے ولاس راؤ پر حملوں کا آغاز کر دیا تو وزیر ِ اعلیٰ نے نہایت دلچسپ تبصرہ کیا وہ بولے کانگریس پارٹی کے اندر نارائن رانے کی حالت نئی نویلی بہو کی سی ہے جس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ آخر کرے توکیا کرے ؟ رانے نے وزیر ِ اعلیٰ پر نہ صرف نا اہلی اور بدعنوانی کے سنگین الزامات لگائے بلکہ یہ بھی کہہ گئے کہ وہ ریاست کو بیس سال پیچھے لے گئے ہیں لیکن ہائی کمان نے ان کی ایک نہیں سنی اس کے بعد ۲۶/۱۱ کا موقع آیا اور وزیر ِ اعلیٰ کو اپنے نائب سمیت جانا پڑا نارائن پھر ایک بار سرگرم ہو گئے لیکن اس مرتبہ پھر ان کے حصہ میں ناکامی ہی آئی اشوک چوہان کے وزیر ِ اعلیٰ بننے پر وہ خوب برہم ہوئے اور سونیا پر تنقید کے باعث پارٹی سے معطلّ کیے گئے۔ انہوں نے اپنے خلاف ولاس راؤ کی سازش کا الزام ٹھونک دیا بعد میں کانگریس نے انہیں دوبارہ بحال کر کے وزیر صنعت بنا دیا ایک سال بعدریاستی انتخاب کا انعقاد ہوا کانگریس نے زبردست کامیابی درج کروائی تو پھر ایک بار انہوں نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اس مرتبہ وہ اپنے قدیم دشمن ولاس راؤ کے ساتھ مل کر اشوک چوہان کی مخالفت کر رہے تھے لیکن دونوں کو پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اشوک چوہان کو دو بارہ ہائی کمان نے ریاست کا کماندار بنا دیا،  نارائن رانے کب چین سے بیٹھنے والے تھے انہیں تو سر پر تاج پہننے کی بے حد جلدی تھی ڈاکٹر عاصم واسطی یہ شعر انکے مزاج کا ترجمان بن گیا تھا  ؎

کوشش میں اک عجیب سی عجلت کا دخل ہے

میں بیج بو رہا تھا کہ خواہش ثمر بنی

ممبئی میونسپل کارپوریشن میں حالیہ مئیر کے انتخاب میں ایک معجزہ کر کے شیو سینا کو پٹخنی دینے کا اعلان رانے نے کر ڈالا ویسے یہ کو ئی نا ممکن چیلنج بھی نہیں تھا سینا اور اس کے حامیوں کے پاس فی الحال ۱۱۵ کارپوریٹر ہیں تو مخالفین کی تعداد ۱۱۰ ہے لیکن اگر سینا کے حامیوں سے ارون گاؤلی اور آزاد کو خرید کر الگ کر لیا جائے تو سینا کے پاس ۱۱۰ کی تعداد رہ جاتی ہے الیکشن سے پہلے نارائن رانے کے بیٹے نے ارون گاؤلی سے ملاقات کر کے اپنے ارادوں کا اظہار کر دیا تھاا سکے علاوہ شیوسینا کی دو خواتین ممبران جودل سے راج ٹھاکرے کے ساتھ ہیں روپوش ہو چکی تھیں ان کی بغاوت کا چرچاسر عام تھا لیکن بالآخر کوئی چمتکار نہیں ہوا قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آٹھولے جیسے سینا مخالف نے ارون گاؤلی سمیت سینا کی حمایت کر ڈالی دونوں روپوش باغی خواتین نے بھی ضد چھوڑ دی اور راج کے پانچ نیز ابو عاصم کے سات ممبران نے رائے نہ دینے کا فیصلہ کر دیا یہ در اصل اپنے آپ میں ایک چمتکار تھا جس میں راج اور ابو عاصم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کانگریس کے خلاف کھڑے تھے اور بلاواسطہ شیو سینا کی مدد کر رہے تھے اور اس چمتکار کو کرنے کا سہرہ یقیناً اشوک چوہان کے سر تھا جنہوں نے نارائن رانے کے خلاف شیو سینا کو ایک اور مرتبہ ۲۴ ہزار کروڑ بجٹ والی ممبئی میونسپلٹی کا بے تاج بادشاہ بنا دیا تھا۔ اس فتح پر ادھو ٹھاکرے نے رانے پر طنز کسا۔ ہر کوئی بکاؤ نہیں ہوتا۔ حالانکہ خرید و فروخت تو بہر حال ہوئی تھی۔

نارائن رانے کی عاجلانہ طبیعت پھر نہیں مانی اور انہوں نے ممبئی میں پانی کی کٹوتی کے خلاف میونسپل کارپوریشن پر احتجاجی جلوس کا اعلان کر دیا یہ مظا ہرہ کانگریس کی جانب سے نہیں بلکہ ان کی نجی تنظیم سوابھیمان کے ذریعہ تھا مظا ہرین جب کارپوریشن کے صدر دروازے پر پہنچے تو پولس ان پر ٹوٹ پڑی اور بے رحمانہ لاٹھی چارج میں بوڑھوں اور خواتین تک کو نہیں بخشا گیا اس میں کئی لوگوں کے سر پھوٹے اور سوابھیمان کے صوبائی رابطہ سکریٹری ویرل ڈھولکیا جان بحق ہو گئے اس سے قبل راج ٹھاکرے اور شیوسینا والوں کے کئی مظاہروں میں مجمع قابو سے باہر ہو گیا لیکن ممبئی پولس نے ان کے ساتھ یہ رویہ کبھی بھی نہیں اختیار کیا اور تو اور وزیر ِ داخلہ پاٹل نے اس معاملے میں پولس کو کلین چٹ دے دی اور ویرل کی موت پر اظہارِ افسوس کو بھی ضروری نہیں سمجھا بلکہ اس کی موت کی وجہ کو تحقیق طلب بتلا کر مدد کے اعلان سے بھی گریز کر گئے ان سیاست دانوں کی آپسی رنجش کے شکار ویرل کی موت پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎

ہم اپنے باغ کے پھولوں کو نوچ ڈالتے ہیں

جب اختلاف کوئی باغباں سے ہوتا ہے

نارائن رانے جب سے کانگریس میں آئے ہیں وہ ایک طرف عوام میں کامیابی درج کرواتے ہوئے اپنے مخالفین شیو سینا و بی جے پی کو شکست و ریخت سے دوچار کرتے جاتے ہیں مگر دوسری جانب اپنے ہم جماعت کانگریسیوں سے مات کھا جاتے ہیں ایسے میں ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ وہ اس فتح وشکست کو دل پر نہ لیں بلکہ سیاست کے کھیل کو ایک کھلاڑی کی اسپرٹ سے کھیلیں اس لیے کہ بقول ڈاکٹر ثروت زہرہ(ترمیم کی معذرت کے ساتھ)۔

اپنے اپنے حصہ ّ کی سب شکست کھاتے ہیں

جیت جانے والے سے یوں خفا نہیں ہوتے

 

مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

انتخابات کے نتائج سے حاصل ہونے والی خوشیوں کا سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ ہندوستان کا ہر امن پسند شہری شادمان ہے گویا سارے مسائل کا حل یکلخت ہو گیا ہو۔ مسلمانوں کے خوشی دوہری ہے۔ انہیں کانگریس کے اقتدار میں آنے سے زیادہ مسرت بی جے پی کی شکست فاش سے حاصل ہوئی ہے۔ اڈوانی جی کی محرومی نے ان کا دل باغ باغ کر دیا ہے۔ اس ناکامی کیلئے نریندر مودی اور ورون گاندھی کو جب مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے تو ان کی باچھیں کھل اٹھتی ہیں۔ بی جے پی کی آپسی سر پھٹول،  جسونت سنگھ کی ناراضگی،  سدھیندو کلکرنی کا تجزیہ اورسنگھ پریوارکی جھنجھلاہٹ جب سامن ے آتی ہے تو وہ بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن کیا یہی سب کچھ ہے ؟اگر ایسا ہے تو ہم اس شعر کی مصداق ہیں  ؎

نرغۂ ظلم میں دکھ سہتی رہی خلقت شہر        اہل دنیا نے کیے جشن بپا اور طرف

جشن کے دوران ایک قابل ذکر خبر عثمان آباد سے آئی جہاں این سی پی کے نو منتخب رکن پارلیمان ڈاکٹر پدم سنگھ پاٹل کو پولس نے اپنے بھانجے پون راجے نمبالکر اور ڈرائیور صمد خان کے دوہرے قتل کے الزام میں گرفتار کر کے پنویل کی عدالت میں پیش کر دیا۔ پون راجے کو تین سال قبل کالمبولی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنے ماموں ڈاکٹر پدم سنگھ پاٹل کے خلاف الکشن لڑنے کی جرأت کی اور صرف ۴۸۴ ووٹوں سے ہارے تھے۔ آگے چل کر انہوں نے تیرنا تعلیمی ادارے اور شکر کارخانے میں ہونے والی بد عنوانی کا پردہ فاش کیا اور کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے نتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر پدم سنگھ پاٹل نے پون راجے کا کانٹا نکالنے کے لیے ۳۰ لاکھ روپے کی سپاری دے دی۔ ابتداء میں غالباً شرد پوار سے رشتہ داری کے باعث راشٹروادی پارٹی حمایت میں رہی لیکن جلد ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور ڈاکٹر پدم سنگھ پاٹل کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے خارج کر دیا گیا۔ چونکہ ڈاکٹر پدم سنگھ پاٹل تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے ہیں اس لیے ان کے دماغ کی پا سکریننگ ہونے والی ہے۔ اس کے بعد کیا گل کھلیں گے خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

پون راجے قتل کیس میں سب سے زیادہ مشکوک کردار خود پولس کا دکھائی دیتا ہے۔ تانا جی پاٹل نامی شخص نے نارکو ٹسٹ کے دوران ڈاکٹر پدم سنگھ پاٹل اور راجیو بابا پر قتل کی سازش رچنے کا اوراس پر عمل درآمد کرنے کے ا حکامات صادر کرنے کا الزام لگایا۔ پولس نے راجیو بابا کو پوری طرح بھلا دیا حالانکہ اس کی گرفتاری اس کیس کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاناجی کے اعتراف کے مطابق اسے وکیملہوترہ کو اس قتل کے لیے راضی کرنے کی خاطر ۱۵ ہزار روپے دئے گئے تھا۔ اس معاملہ میں گرفتار ایک اور ملزم پارس مل جین کے بارے میں بتلایا جاتا ہے کہ وہ سابقہ ایس پی کا مخبر ہوا کرتا تھا ان حقائق نے معاملے کو مزید الجھا دیا ہے۔ عدالت میں پولس کی تضاد بیانی بھی شبہات کو جنم دیتی ہے۔ پولس بیان کے مطابق قتل والے دن وکی تھانے جیل میں تھا۔ تفتیش سے پتہ چلا یہ بات غلط ہے وکیملہوترہ کو قتل سے تین دن قبل ایک مقدمہ کی خاطر ممبئی لایا گیا تھا۔ قتل کے دن اس کی واپسی پولس کی گاڑی کے بجائے تیز رفتار جپسی سے ہوئی سوال یہ ہے کہ پولس نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کیوں کی؟ اور وکی ممبئی سے تھانہ جاتے ہوے کالمبولی کیوں اور کیسے پہنچ گیا؟عدالت نے وکی کے ہمراہ جانے والے عملہ اور قتل کے دن راجے کے موبائل فون کی تفصیلات طلب کیں جو پولس مہیا نہ کر سکی اس کے باعث عدالت نے تفتیش کو ناقص قرار دیا۔ اس طرح کے معاملات میں پولس کا ملوث ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سہراب الدین معاملہ میں ایس آئی ٹی کا سربراہ ونجارا جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔ لیکن اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ مودی کے گجرات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے مہاراشٹر میں تو کانگریس کی حکومت تھی اور راشٹروادی کی آرآرپاٹل وزیر داخلہ ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف حقائق کو چھپایا بلکہ ملزمین کو تحفظ فراہم کیا۔

ریاست مہاراشٹر میں وقوع پذیر ہونے والے اس شرمناک واقعہ پر حزب اختلاف ہنگامہ کھڑا کر سکتا تھا لیکن اس بیچ بی جے پی کے ریاستی سربراہ نتن گڈکری ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ ۲۰ مئی کو ان کی گاڑی سے یوگیتا ٹھاکرے نامی ۷سالہ بچی کی لاش برآمد ہوئی۔ اس بارے میں یوگیتا کے ماں باپ ومل اور اشوک ٹھاکرے کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی کو عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ چونکہ مقامی پولس مقدمہ تک درج کرنے کے لیے تیار نہیں تھی ان لوگوں نے سی بی آئی تحقیق کا مطالبہ کر دیا جس سے نتن گڈکری گھبرا گئے اور بلا تحقیق بیان بازی شروع کر دی۔ لڑکی کی موت دم گھٹنے سے ہی ہوئی ہے۔ وہ دل کی مریضہ تھی۔ اسے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ اس کی حمایت کرنے والا سماجی کارکن انگلے پیشہ ور مجرم ہے وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرنتن گڈکری معصوم ہیں تو اس قدربوکھلاہٹ چہ معنی دارد۔ تحقیق ہونے دی جائے اپنے آپ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن ان کی بے چینی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔

اس معاملہ میں بھی پولس کا رویہ نہایت جانبدارانہ ہے۔ حادثہ کے وقت نتن گڈکری ممبئی میں ضرور تھے لیکن جب وہ واپس آئے توپولس کو چاہئے تھاکہ گاڑی کے مالک کی حیثیت سے اسی رات ان کا بیان لیا جاتا ان کی اہلیہ رام ٹیک میں تھیں لیکن دو بیٹے نکھل اور سارنگ گھر میں تھے ان سے پوچھ تاچھ کی جاتی لیکن جس پولس نے لاش کا پنچ نامہ تک نہیں کیا اس سے یہ توقع فضول معلوم ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سنگین حادثہ کے بعد گاڑی کوضبط کر لیا جاتا لیکن اسے ایئرپورٹ روانہ کر دیا گیا حالانکہ گڈکری کی ایک اور ہونڈا گاڑی بھی ہے اور وہ ٹیکسی سے بھی گھرآسکتے تھے لیکن پولس کا رویہ تویوں تھا گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ گھرکا کام کر کے اپنا گذارہ کرنے وا لی غریب ویمل کی بیٹی یوگیتاکی جان بھلا کس اہمیت کی حامل ہے ؟ اگر خدانخواستہ و ہ کسی بارسوخ آدمی کی بیٹی ہوتی تب بھی کیا ان سب کا یہی رویہ ہوتا؟

 پولس نے بڑے وثوق سے اخباری کانفرنس میں کہہ دیا یہ محض حادثہ ہے۔ کیا ۷سال کی بچی کا چند گھنٹوں کے اندر گاڑی میں بند ہو جانے سے دم گھٹ سکتا ہے ؟ کیا یہ گاڑی ائیرٹائٹ ہے ؟ کیا محکمۂ پولس ساری دنیا کو اپنی طرح بالکل ہی بے وقوف سمجھتا ہے ؟ ناگپور کی ممبئی بنچ نے پولس کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا پولس بلاوجہ کی بیان بازی کرنے کے بجائے تفتیش پر توجہ دے۔ پولس نے اپنے شروع کے بیان میں کہا تھا لاش پر زخموں کا کوئی نشان نہیں پایا گیا لیکن بعد میں یہ تسلیم کیا کہ یوگیتا کے چہرے اور ران پر زخم تھے اس کے ناک سے خون بہہ رہا تھا منہ کھلا ہوا تھا اور اندرونی لباس پر خون کے دھبے بھی تھے۔ پہلے پہل اس معاملہ کو محض ایک حادثہ قرار دینے والی پولس نے عدالت کے دباؤ میں آ کر مجبوراً کسی نا معلوم فرد کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا۔

عدالت نے چابی کے معاملے کی بھی کرید کی جس سے معاملہ مزید الجھ گیا۔ عدالت نے پوچھا گاڑی لاک کیوں نہیں کی گئی؟جواب تھاتالہ خراب تھا اگر ایسا تھا وہ بند کیسے ہو گئی؟جواب تھا چائلڈ لاک لگ گیا اور چابی سنتری کے پاس تھی۔ جب عدالت نے استفسار کیا کہ گاڑی کی دوسری چابی بھی تو ہو تی ہے وہ کہاں تھی؟اس سوال کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ بار بار فورینسک رپورٹ کے حوالے سے عصمت دری نہیں ہوئی ہے یہ بات دوہرائی جاتی رہی لیکن یہ معاملہ صرف عصمت دری کا نہیں قتل کا ہے اسے پولس بھول گئی۔ سارے شواہد گواہی دے رہے ہیں کہ مقامی انتظامیہ نتن گڈکری کی جانب جھکا ہوا ہے یا بکا ہوا ہے۔ اس لیے معاملے کی سی بی آئی انکوائری ضروری ہے جس سے نتن گڈکری گھبرا رہے ہیں اس لیے کہ پدم سنگھ کا حشر ان کے سامنے ہے۔

کانگریس اور بی جے پی کے مقابلے کمیونسٹ اپنے آپ کو بڑا پارسا ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بدعنوانی کا کوئی الزام آج تک ان کے کسی رہنما پر نہیں لگا لیکن اب یہ بھی دعوائے فردا ہوا ہو گیا۔ فی الحال کیرالا میں سی پی ایم کے سربراہ وجین۳۰۰ کروڑ روپئے کی رشوت کے الزام میں الجھے ہوے ہیں لیکن اس سارے معاملہ میں پارٹی کے رویہ نے برسوں کی بنی بنائی ساکھ کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ۱۹۹۹ میں پی وجین وزیر بجلی ہوا کرتے تھے اور اس وقت کینڈا کی لیولین نامی کمپنی کو تین پن بجلی کارخانوں کے درستگی کا ٹھیکہ دیا گیا تھا جس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی سامنے آئی۔ فی الحال سی بی آئی اس کی تحقیقات کر رہی ہے اس سلسلے میں اس نے وجین کو تفتیش کے دائرے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ چونکہ کیرالہ میں کمیونسٹ محاذ کی حکومت ہے اس نے خود اپنی پولس کی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوے فیصلہ کیا کہ وجین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اس لیے ان سے تفتیش نہ کی جائے۔

ریاستی گورنر نے اس سفارش کو ٹھکرا دیا اور فرد جرم داخل کرنے کی اجازت دے دی۔ گورنر کے اس فیصلہ کو سی پی ایم نے جمہوریت کا قتل اور مرکزی حکومت کی سازش قرار دیا حالانکہ ریاستی حکومت کے فیصلہ کو بھی سیاسی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وجین بے قصور ہیں تو سی پی ایم تفتیش سے کیوں خوف کھاتی ہے ؟وجین کے معاملے میں سی پی ایم کے لوگوں نے راج بھون کے سامنے مظاہرہ کیا گورنر کا پتلا جلایا۔ گور نر کو فون پر جان سے مارنے کی دھمکی موصول ہوئی۔ ہڑتال کا اعلان کیا گیا لیکن یہ پتہ چلنے پر کہ اس پر پابندی ہے مظاہرے کوسیاہ دن میں تبدیل کر دیا گیا۔ توڑ پھوڑ،  راستہ روکو،  سرکاری گاڑیاں نذر آتش وغیرہ سب کچھ ہوا جو ہڑتال میں ہوتا ہے لیکن ہڑتال نہیں ہوئی سرکار اپنی ہے پھر خوف کس بات کا؟ لیکن اب بات اور آگے بڑھ گئی ہے خود اپنے ہی وزیر اعلیٰ اچھوت آنند کو پارٹی میں اچھوت بنا دیا گیا ہے اس کے خلاف پوسٹر لگ رہے ہیں۔ استعفیٰ مانگا جا رہا ہے۔ وجین کے حامی وزراء استعفیٰ کی دھمکی دے رہے ہیں اور یہ سب تماشہ ایک بدعنوان سیاستدان کو بچانے کی خاطر ہو رہا ہے کیا یہ شرمناک بات نہیں ہے ؟

قتل و غارتگری کے معاملے میں بھی اگر دیکھا جائے تو کمیونسٹ کسی سے کم نہیں ہیں۔ تپاسی ملک معاملہ میں گذشتہ سال سی پی ایم رہنما سرحد دتا اور ان کے د ست راست دیبو ملک کو عمر قید کی سزا ہو چکی ہے ۱۸سالہ تپاسی کی قصور یہ تھا کہ اس نے ٹاٹا کی نانو فیکٹری کے خلاف اپنے حق کی خاطر غریب کسانوں کو احتجاج کرنے کی دعوت دی تھی اس بیچاری کونہ صرف اغواء کیا گیا،  عصمت دری کی گئی اور جلا کر اد ھ جلی لاش کو کارخانہ کے احاطہ میں دفن کر دیا گیا جہاں چار ہزار پولس والے تعینات تھے۔ اس بے ضمیر دستہ میں سے کوئی ایک سپاہی بھی مظلومہ کی مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔ اس طرح وہ سب خاموش تماشائی بنے سرخ پرچم تلے سرمایہ داروں کی مفاد کی خاطر انجام دئیے جانے والے ظلم عظیم میں حصہ دار بن گئے لیکن سی پی ایم نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ اس گھناؤنی حرکت کے بعد بھی بولپور حلقہ انتخاب سے رام چندر ڈوم کوپارلیمان کے لیے نامزد کیاگیا جس پر بندھو مسرا نامی کانگریسی کارکن کے قتل کا الزام ہے مقامی عدالت سے تو اس نے اپنے آپ کو بری کروا لیا لیکن ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرتے ہوے دوبارہ مقدمہ کی سماعت کی آغاز کیا ہے۔

 لطف کی بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا لوگوں کی پارٹی نے زور و شور سے حمایت جاری رکھی اور عوام جسے جمہوری نظام میں نعوذ باللّٰہ مختار کل معبود کا درجہ حاصل ہے اس نے بھی پانچ لاکھ انتیس ہزار ووٹ دے کر ایک لاکھ ستائیس ہزار ووٹوں کے فرق سے ڈوم کو کامیابی سے ہمکنار کیا ویسے یہ شرف کانگریس کو حاصل ہے کہ گذشتہ انتخاب میں سب سے زیادہ اور سنگین قسم کے ۱۶ مقدمات میں ملوث  ملزم پوربندر سے اس کا امیدوار وٹھل بھائی رڈادیہ تھا اسے بھی عوام نے مایوس نہیں کیا اور تین لاکھ انتیس ہزار ووٹسے نواز کر کامیاب کیا۔ ۲۰۰۹ میں کامیاب ہونے والے ۵۴۳ممبران پارلیمان میں سے ۱۵۳کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں ان میں فطری طور پر بی جے پی سر فہرست ہے جس کے ۴۲ ملزم ہیں لیکن کانگریس بھی ۴۱داغدار ممبران کے ساتھ نہایت قریب ہے۔ تیسرے اور چوتھے محاذ نے بھی اپنا حصہ بٹاتے ہوئے ۷۰ ایسے ارکان کو ملک کا مقدر سنوارنے کے لیے روانہ کیا ہے۔ بی جے پی کے ۱۹ اور کانگریس کے ۱۲پر قتل و ڈاکہ زنی جیسے سنگین الزامات ہیں۔ ملزم ممبران کی تعداد میں اس بار۲۰ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ اضافہ دولت کی ریل پیل کے مقابلے میں بہت کم ہے گذشتہ پارلیمان میں کروڑ پتی حضرات صرف۱۵۴ تھے لیکن اس بار یہ تعداد ۳۰۰ تک پہنچ گئی ہے گویا ۱۰۰ فی صد کا اضافہ۔ جمہوریت کا ایک احسان عظیم یہ بھی ہے کہ اس نے عوام کو نہ صحیح تو کم از کم ان کے نمائندوں کو خوشحال ضرور بنا دیا ہے اور عدالت میں بھی انہیں بڑی حد تک تحفظ  فراہم کر دیا جاتا ہے۔

قومی سیاست میں موجود سیاسی جماعتوں کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ درمیانی،  دایاں اور بایاں محاذ لیکن جب انہیں قریب سے دیکھا جائے تو پا سکول کے زمانے کا ایک تجربہ یاد آتا ہے۔ طبیعات کی تجربہ گاہ میں ایک چرخی ہوا کرتی تھی جس پر قوس قزح کے سات رنگ ہوتے تھے جب اسے زور سے گھمایا جاتا تو سب رنگ ایک دوسرے میں مل کر یک رنگ ہو جاتے اور جب چرخی رکتی تو پھر وہ پہلے کی طرح جدا جدا ہو جاتے۔ ہماری سیاست کا یہی حال ہے اقتدار سے محروم ہر کسی کا جدا گانہ رنگ ہوتا ہے لیکن اقتدار کا حصول اگرچہ پوری طرح اس فرق کو نہیں بھی مٹاتا ہے تو کم ضرور کر دیتا ہے۔ ایک اور تجربہ مثلث نما منشور کا ہوتا تھا جس میں سے گزرنے والے روشنی کی شعاع وقتی طور پر سات رنگوں میں تقسیم ہو جاتی تھی لیکن منشور کے ہٹتے ہی پھرقوس قزح غائب اور سارے رنگ ایک دوسرے میں رل مل جاتے تھے۔ ہمارے انتخابات کا یہی حال ہے کہ عارضی طور پر ہر ایک کا جداگانہ تشخص قائم ہو جاتا ہے لیکن اس کیفیت کو دوام حاصل نہیں ہوتا اس لیے کہ فرق صرف ظاہرداری کی حد تک ہے باطن سب کا یکساں ہی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے اندرون میں پائی جانے والی نظریاتی روح نکل چکی ہے اب ان کی حالت بے جا ن لاشوں کی سی ہے جس میں بدعنوانی کے کیڑے پڑے ہوے ہیں اور ان سے جرائم کا تعفن اٹھ رہا ہے۔ ہندوستان کے سیاسی نظام کا اصل مسئلہ کم سے کم بدبو دار لاش پر راضی ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس کے اندر پھر سے روح پھونکنے کا ہے۔

یہ بھی صحیح ہے کہ صالح زندگی کے لیے محض جسم اور روح کا امتزاج کافی نہیں ہوتا روح کے اندر تقویٰ بھی ضروری  ہوتا ہے لیکن بے روح لاش میں تقویٰ پنپ نہیں سکتا یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ مردہ سیاسی ڈھانچہ میں روح پھونکنا اگرچہ کہ مشکل ہے پھر بھی ہمیں یہ کام کرنا پڑے گا اس لیے کہ یہ ہمارا فرض منصبی ہے۔ ورنہ ان لاشوں کو ڈھوتے ڈھوتے ہم خود ایک چلتی پھرتی لاش بن جائیں گے۔ ہمارے جسم مفلوج ہو جائیں گے ہماری روح مفقود ہو جائے گی اور ہمارا تقویٰ بے سودہو جائے گا۔ بقول شاعرِ مشرق اقبال ؒ ؎

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے         قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

٭٭٭

 

خاص بجٹ پر عام بحث

وزیر خزانہ پرنب مکرجی کی جانب سے پیش کیا جانے والا موجودہ بجٹ عام آدمی کا ہے یا نہیں ؟ اسپر ماہرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ بجٹ بلواسطہ خاص آدمی کو فائدہ پہنچاتا ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ بلاواسطہ اس میں عام آدمی کا فائدہ پوشیدہ ہے۔ گویا کہ خاص کا بھلا تو نمایاں ہے اور عام کا فائدہ سات پردوں کے اندر نہاں ہے۔ بجٹ کی منطق یہ ہے کہ اگر خاص لوگوں کے سامنے ان کی ضرورت سے زیادہ روٹیاں ڈال دی جائیں تو وہ انہیں یقیناً ادھر ادھر پھینکیں گے اور یہ پھینکی جانے والی روٹیاں عام لوگوں کے سامنے گریں گی جس سے وہ بھی لامحالہ مستفید ہوں گے۔ ویسے یہ ساری بحث بے معنیٰ ہے دراصل ہر بجٹ خاص آدمی کا ہوتا جسے ایک خاص آدمی اپنے خاص الخاص کرم فرماؤں کا احسان چکانے کی خاطر مرتب کرتا ہے عام لوگوں کو تو بس بہلایا پھسلایا جاتا ہے۔

جمہوری نظام میں نوازش و کرم کی ضرورتیں یکساں نہیں رہتیں بلکہ شیئر بازار کی طرح یہ تیزی اور مندی کے ادوار سے گذرتی رہتی ہیں۔ انتخاب سے قبل عام آدمی کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے عام آدمی کا خاص بجٹ پیش کیا جاتا ہے اور انتخاب کے بعد وہ بیچارہ بے قیمت ہو جاتا ہے تو پھر خاص لوگوں کے لئے خاص بجٹ کی ضرورت پیش آتی ہے یہ چونکہ انتخاب کے بعد کا بجٹ ہے اس لئے توقع کے عین مطابق سرمایہ داروں کا خصوصی بجٹ ہے۔ عام اور خاص میں یہ فرق کیوں پایا جاتا ہے ؟ اسے بھی باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ عام رائے دہندگان جلد باز اور سطح بین ہوتا ہے اس لیے اس کی تھوڑی بہت فہمائش انتخاب سے قبل کر دی جاتی ہے لیکن شاطر سرمایہ کار روپیہ لگا کر انتظار کرتا ہے اور وقت آنے پر خوب جی بھر کے منافع کماتا ہے۔

بجٹ دراصل خوبصورت مور کی مانند ہوتا ہے عام لوگ اس کا سر اس پر سجی کلغی اور رنگ برنگے پر دیکھتے اور اور اس کے پر فریب رقص سے دل بہلاتے ہیں خاص لوگوں کی نظر شاطر شکاری کی طرح اس کے پیر پر ہوتی ہے اس لیے کہ اس کے پیش نظر مور کو دام میں پھنسا کر بازار میں فروخت کرنا اور منافع کمانا ہوتا ہے اس لئے عام آدمی بجٹ کو غزل کی طرح مطلع سے پڑھنا شروع کرتا ہے لیکن سرمایہ دار پہلے مقطع پڑھتا ہے یعنی آمدنی اور خرچ پر نگاہ ڈالتا ہے وہ جانتا ہے سرکارکی آمدنی اس کا خرچ ہے اس لیے اسے کیسے بچایا جائے اور حکومت کا خرچ اس کا فائدہ ہے اس لیے اس سے کس طرح استفادہ کیا جائے اس کی منصوبہ بندی شروع کر دیتا ہے لیکن اس با ر پرنب مکرجی کی کرم فرمائی ملاحظہ فر مائیں سب سے پہلے تو انہوں نے زبردست خسارے والا بجٹ پیش کر کے سرمایہ داروں کو باغ باغ کر دیاخسارے کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے کے بجائے بازار سے قرض لینے کا فیصلہ کیا اور بڑے پیمانے پر کرنسی چھاپنے کا اعلان کیا مواصلات کے ذرائع پر خرچ اور اسلحہ کی خرید پر زور دیا ان اقدامات کے ا ثرات کا جائزہ لینے سے قبل چند اور نوا زشیں بھی دیکھتے چلیں مثلاً سرچارج کا خاتمہ اس سہولت کا حال یہ ہے کہ جتنی زیادہ آمدنی اتنی زیادہ بچت ایسا پہلے تو نہیں ہوتا تھا بلکہ کم آمدنی والوں کو زیادہ سہولت فراہم کی جاتی تھی اسی طرح مہنگی گاڑیوں کے ٹیکس میں کمی یہ منطق بھی الٹی معلوم ہوتی ہے جبکہ کپڑے کی مصنوعات پرٹیکس کی شرح چار سے دوگنا کر کے آٹھ پر پہنچا دی گئی ہیں گویا غریبوں کو بے لباس کر کے امیروں کو گاڑیاں مہیا کرائی جا رہی ہیں اس سب کے باوجود کچھ لوگ اسے غریب پرور بجٹ کہہ کر اس کی تعریف و توصیف کر رہے ہیں اور وزیر خزانہ اس تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوے اسے ترقی پذیر بجٹ قرار دے رہے ہیں حالانکہ اس کی حیثیت ایک پر فریب ڈرا مہ سے زیادہ کچھ نہیں جسے تفریح طبع کی خاطر ٹیلی ویژن پر نشر کیا جا رہا ہے۔

بجٹ کے نشیب و فراز میں آمدنی اور خرچ کے درمیان پایا جانے والا پہاڑ منافع اور ان کے بیچ پائی جانے والی کھائی خسارہ کہلاتی ہے بجٹ کے خسارے کی ایک وجہ تو وہ بیجا سہولیات ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا اس کے علاوہ دوسری اہم وجہ اخرا جات میں بے شمار اضافہ ہے۔ جس خرچ کے بڑے چرچے ہیں وہ شہروں کی تجدید نو اور بڑی شاہراہوں کی تعمیر ہے۔ وزیر خزا نہ کے مطابق یہ انتخابی وعدوں کی بجا آوری کا حصہ ہے اس سے عام لوگوں کو روزگار ملے گا لیکن یہ ٹھیکے جن سرمایہ داروں کو ملیں گے ان کے منافع کی بات کوئی نہیں کرتا اور اس میں سیاستدانوں کو ملنے والی رشوت پسِ چلمن بیٹھی ہے۔ یہ بظاہر فلاح  وبہبود پر خرچ ہے اس کے علاوہ دفاعی اخرا جات میں بے پناہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ممبئی حملہ کا بہانہ بنایا جا رہا جو یکسر بے بنیاد ہے۔ فی الحال پاکستان خود امریکہ کے اشارے پر نام نہاد شدت پسندوں سے برسرپیکار ہے اس کے پاس ہندوستان کے ساتھ نیا محاذ کھولنے کی نہ فرصت ہے اور نہ ضرورت۔ آصف زرداری علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو ہندوستان سے کوئی خطرہ نہیں ہے ایسے میں دفاعی خرچ میں اضافہ چہ معنی دارد؟ اس کے علاوہ ہتھیاروں کی فہرست میں ۱۰بلین مالیت کے لڑاکا جیٹ طیارے بھی شامل ہیں جن کا استعمال دہشت گردی کے خلاف کیسے کیا جا سکتا ہے یہ سمجھانے کے لیے امریکی سکریٹری رابرٹ گیٹس گذشتہ دنوں ہندوستان آئے تھے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت یہ جہاز اسرائیل کے بجائے امریکہ سے خریدے گویا امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اس سودے پر مسابقت ہے اب دیکھنا ہے کہ کون زیادہ رشوت دینے میں کامیاب ہوتا ہے ؟

دفاع کی مد میں گزشتہ سال صرف گیارہ فیصد کا اضافہ کیا گیا تھا اس سال اسے چھتیس فیصد تک پہنچا دیا گیا ۱۹۸۷-۱۹۸۸ کے بعد یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ ایک دلچسپ حسن اتفاق یہ ہے کہ گذشتہ مرتبہ جب کانگریس پارٹی کو زبردست اکثریت کے ساتھ عوام نے کامیاب کیا اور مسٹر کلین کی حیثیت سے جانے والے راجیو گاندھی کو اقتدار سونپا تو انہوں نے دفاعی خرچ میں زبردست اضافہ کیا اور سونیا گاندھی کے مقرب کوتروچی کی مدد سے متنازعہ بوفورس سودہ عمل میں آیا۔ اس بار پھر عرصہ دراز کے بعد قوم نے کانگریس پارٹی پر بڑی مشکل سے اعتماد کیا ہے صاف ستھرے سمجھے جانے والے منموہن سنگھ وزیر اعظم ہیں اور ان کے پیچھے سونیا جی موجود ہیں،  اس وقت راجیو گاندھی کو ۱۹۸۹ میں منعقد ہونے والے انتخاب میں خرچ کرنے کے لیے روپیہ درکا ر تھا اس بار منموہن کو قرض چکانے کے لیے سرمایہ چاہئے۔ پچھلے سال سرکار بچانے کے لیے ایک ہزار کروڑ اور اس سال انتخاب جیتنے کے لیے جو ہزاروں کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے اسے لوٹانے کے لیے دفاعی سودوں سے حاصل ہونے والی رشوت سب سے زیادہ محفوظ اور کارگر ذریعہ ہے۔ دفاعی سودوں میں بدعنوانی کا یہ عالم ہے کارگل جنگ میں مرنے والے فوجیوں کے تابوت میں بھی کمیشن کی کیلیں ٹھکی ہوئی پائی گئی تھیں فی الحال ملک کی مختلف عدالتوں میں فوجی سودوں کی بد عنوانی کے اڑتیس مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

خسارہ کی توقع سبھی کو تھی مگر یہ کل قومی پیداوار کے ۸ء۶ فی صد تک پہنچ جائے گی ایسا گمان کسی کو نہیں تھا۔ خسارے کی بھرپائی کے لیے پرنب مکرجی نے جو طریقہ کا ر اختیار کیا گیا وہ مزید حیران کن ہے۔ سرمایہ داروں کا قیاس تھا کہ تقریباً ۲۵۰ بلیں روپیوں کی سرکاری املاک فروخت کے لیے بازار میں لائی جائیں گی اور وہ اسے اونے پونے داموں میں خریدیں گے اسی امید میں شیئر بازار بجٹ کی صبح ۱۵۰ پوائنٹ چڑھا لیکن جب وزیر خزانہ نج کاری کے معاملہ میں ۱۲ بلین روپیوں سے آگے نہیں بڑھے تو حصص بازار میں مایوسی چھا ام لوگوں کو روزگا گئی شام تک سنسیکس۸۷۹ پوائنٹ نیچے آگیا اور اب اس کے سنبھلنے کی امیدوں پر اوس پڑتی جا رہی ہے۔ خسارے کو پورا کرنے کے لیے اپنی مال و متاع فروخت کرنے کے علاوہ جو اور متبادل باقی بچتا ہے وہ قرض اٹھانے کا یا کرنسی نوٹ چھاپنے کا ہے حکومت نے ان دونوں کو ترجیح دی۔ ویسے اس غیر روایتی حکمتِ عملی میں بھی سرمایہ داروں کے لیے بے شمار محاسن ہیں۔ فی الحال بنکوں کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ تو ہے قرض خواہ نہیں ہے ایسے میں سود کی شرح کم کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہَ کار نہیں تھا ا ب حکومت جھولی پسار کر کھڑی گئی اس سے سود کی شرح میں اضافہ ہو گا جس سے سرمایہ دار تو فائدہ اٹھائیں گے مگر غریب مہنگائی اور سود کے دوہرے وار کا نشانہ بنیں گے۔

خزانے میں ۲۰۰۰ ہزار کروڑ تو قرض سے آ گئے باقی۲۰۰۰ ہزار کروڑ کے نوٹ چھاپے جائیں گے ایسا کرنے سے ڈالر کے مقابلے روپیہ کمزور  ہو گا۔ اس کی ابتدا بجٹ کے دن سے ہو گئی جبکہ ڈالر کے بالمقابل روپیہ ۵۶ پیسہ نیچے گرا اور اب یہ سلسلہ جاری رہے گا الا یہ کہ ڈالر خود نہ ڈوب جائے۔ اس سے برآمدات کے ذریعہ ہونے والی آمدنی میں اضافہ ہو گا سو ہو رہا ہے یہ بھی مہنگائی میں اضافہ کا سبب بنے گا اور عوام کو پریشان کرے گا لیکن فی الحال بیچارے عام آدمی کی فکر کسے ہے ؟ وہ تو اقتداراستحصال کنندگان کے حوالے کر کے خود ایک مجبورِ محض بن چکا ہے۔ اس کے پاس ظلم و نا انصافی کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے کے علاوہ اور کیا دھرا ہے ؟ا ب آئندہ چارسال تک مہنگائی اور غریبی کو بڑھایا جائے گا اور پھر پانچویں سال مہنگائی بھگاؤ اور غریبی ہٹاؤ کا نعرہ لگا کر انتخاب لڑا جائے گا۔

٭٭٭

 

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

اس سال جشنِ آزادی کے موقع پر وزیر اعظم منموہن سنگھ نے لال قلعہ سے ساری دنیا کو یہ جتلا دیا کہ رقص زنجیر پہن کر کیسے کیا جاتا ہے ؟ ان کا پہلا ہی جملہ نہا یت معنیٰ خیز تھا فرمایا میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں جو لگا تار چھٹی بار آپ لوگوں سے ۱۵ اگست کے مقدس موقع پر خطاب کر رہا ہوں۔ کوئی ایسا شخص جو اپنی قابلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر محنت و مشقت کر کے کسی مقامِ بلند پر پہنچا ہو وہ اس لب و لہجہ میں گفتگو نہیں کرتا۔ یہ تو سراسر جذبہ احسان مندی سے سرشار فقرہ ہے اور اگر یہ شکرانۂ نعمت خدائے بزرگ و بر تر کے لیے ہوتا تو کیا خوب تھا لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ اشارہ کس طرف تھا۔ این ڈی ٹی وی کے مزاحیہ فیچر گستاخی معاف میں اسے صاف طور پر دکھلا دیا گیا وزیر اعظم کی کٹھ پتلی ڈفلی پر جشن آزادی کی پیروڈی میرے دیش کی دھرتی گاتی ہے اور آخر میں جیسے ہی منموہن کہتے ہیں اس دھرتی پہ جس نے جنم لیا اس نے ہی اس پد(عہدہ) کو پایا۔ یہاں جنتا کا سیوک کوئی نہیں،  ہے جس پر ماں اپکار تیراتو پردہ پر اچانک سونیا نمودار ہو جاتی ہیں اور ان کے سامنے وزیر اعظم بونے نظر آنے لگتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طنزیہ کارٹون کو وزیر اعظم کی تقریر کے چند منٹ بعد نشر کیا گیا۔

 وزیر اعظم کا اپنے پیش رو وزراء اعظم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوے ۱۳ میں سے صرف ۳ یعنی پنڈت نہرو،  اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے نقش قدم پر چلنے کا عزم بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے گزشتہ۶۳ سالوں میں ہندوستان نے کل ۱۴ وزیر اعظم دیکھے ان میں چندر شیکھر ایک ایسے وزیر اعظم تھے جو بڑے ارمانوں سے اس کرسی پر براجمان ہوئے لیکن یو م آزادی کا جھنڈا لہرانے کی سعادت سے محروم رہے۔ چرن سنگھ،  وی پی سنگھ،  دیوے گوڑا اور اندر کمار گجرال کو یہ موقع صرف ایک بار ملالال بہادر شاستری اور مرارجی دیسائی نے دو مرتبہ لال قلعہ پر پرچم کشائی کی راجیو گاندھی اور نرسمھا راؤ نے پانچ پانچ مرتبہ یہ کارنامہ انجام دیا اور چھٹی بار موقع پانے والے اٹل جی کے علاوہ منموہن سنگھ ہی ہیں اگر آئندہ سال تک یہ دورِ خوش بختی جاری رہا تو ہوسکتا ہے اٹل جی کا ریکارڈ ٹوٹ جائے ان کے علاوہ دو وزراء اعظم ایسے گذرے ہیں جن سے اپنے تقابل کی جراَت ہندوستانی سیاستدان نہیں کرتے بلکہ اگر پنڈت جی سے مشابہ قرار ئیے جانے پرہی خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ پنڈت جی نے لگا تار ۱۷ مرتبہ لال قلعہ سے ترنگا لہرایا اور ان کے بعد اندرا جی کی باری آئی تو انہوں نے دو قسطوں میں ۱۶ مرتبہ لال قلعہ کو فتح کیا۔

منمو ہن سنگھ کسی پارٹی کے نہیں بلکہ پوری قوم کے سربراہ ہیں پھر بھی دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ۸ وزرائے اعظم سے صرفِ نظر کا سیاسی جواز موجود تھا لیکن جئے جوان جئے کسان کا نعرہ لگانے والے لال بہادر کو بھلا دینا افسوس ناک طرز عمل تھا۔ شاستری جی کے علاوہ منموہن کو اپنے محسنِ عظیم نرسمھا راؤ کو بھی یاد کرنا چاہئے تھا جنھوں نے وزیر خزانہ کے طور پر قوم کوان سے متعارف کرایا ورنہ دنیاے ٔ سیاست میں انہیں کون جانتا تھا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ معیشت کے بکھیڑوں سے نکال کر جس سیاسی اکھاڑے میں نرسمھا راؤ منموہن کو لے آئے تھے وہاں احسان مندی نام کی کوئی شہ ٔپائی ہی نہیں جاتی یہاں تو بیٹا باپ کا احسان نہیں مانتا،  بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جس دن سیاست سے احسان فراموشی ختم ہو جائے گی اس لفظ کو حرفِ غلط کی طرح لغت سے مٹا دیا جائے گا،  سونیا کی خوشنودی کے پیشِ نظر منموہن نے اپنے محسن کو بھلا دیا۔

نر سمھا راؤ کا تعلق بھی اگر نہرو خاندان سے ہوتا تو ایسا کرنے کی گستاخی منموہن کبھی نہ کرتے وہ تو خیر سونیا یا راہل گاندھی کابلواسطہ ذکر نہیں آیا لیکن اختتامی کلمات میں اس جانب لطیف اشارہ ضرور تھا فرمایا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل پر پورا اعتماد ہے وہ ہمارا مستقبل ہے ہمیں یقین ہے کہ وہ ملک کو عظمت و رفعت عطا کرے گی اس لیے ہم سب ایک سنہرے مستقبل کا عزم کریں اور قوم کی تعمیر کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں۔ سیاسی زبان میں ان ذو معنی ٰ جملوں کو ہر کوئی سمجھتا ہے اس بار جشنِ آزادی کا آغاز اقبال کے ترانہ ہندی سارے جہاں سے اچھا کی بے الفا ظ دھن سے ہوا اور اختتام ٹیگور کے راشٹر گیت جن گن من کی گھن گرج کے ساتھ ہوا۔ اس ترتیب نے خاموش لبوں سے یہ بات سمجھا دی کہ اس سیکولر ملک میں انقلاب زندہ باد کے نعرے کو سمپورن کرانتی کس طرح نگل چکی ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر نے قوم کے حریت پسندوں کے سامنے آدا بِ غلامی کے رموز وا سرا ر بھی نہاں کر دئیے بقول شاعر ؎

تو کہ نا واقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی

 رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

وزیر اعظم منموہن سنگھ کے بارے میں کچھ لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کو آپ راؤ صاحب کی اپنی پسند نہیں تھے بلکہ امریکہ کی سفارش پر ہندوستان کی معیشت کو گلوبلائز کرنے کی خاطر ورلڈ بنک سے تشریف لائے تھے اس لئے وہ امریکہ بہادر کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اپنے خطاب میں بھی انہوں نے دیگر ممالک سے تعلقات کی بہتری کے باب میں سب سے پہلے یو ایس اے کا ذکر کیا لیکن چند گھنٹوں کے اندر اس دعویٰ کی حقیقت خود امریکہ نے کھول دی شاہ رخ خان کو نیو آرک ہوائی اڈے پر روکے جانے کی خبر آندھی طوفان کی طرح آئی اور اس نے وزیر اعظم کی تقریر کو ثانوی درجہ میں ڈال دیا آج کل میڈیا سب سے بڑا کھلا بازار بنا ہوا ہے جہاں خبریں نہ صرف بکتی ہیں بلکہ بنتی بھی ہیں ذرائع ابلاغ میں شاہ رخ کا نقارہ اس زور و شور سے بجنے لگا کہ یوم آزادی کا خطاب ایک طوطی کی آواز بنکر رہ گیا۔

شاہ رخ خان کو اور اس کے مسلمان اسسٹنٹ کو روک دیا گیا لیکن ہندو اسسٹنٹ کو چھوڑ دیا گیا یہ حسنِ اتفاق ہے اس کی اگلی فلم کا نام مائی نیم اِز خان ہے ایسے میں تشہیر کا بہترین موقع اس کے ہاتھ لگ گیاجس کا بھر پور فائدہ اٹھایا گیا تمام چینلس بلکہ اخباروں کے صفحہ اول سے منموہن غائب اور شاہ رخ حاضر ہو گیا اس کے لیے سفارتخانے کی مداخلت،  ممبر پارلیمان کی سفارش،  فلمی لوگوں کی حمایت اور بالآخر وزیر نشر  و اشاعت امبیکا سونی کا نہایت دلچسپ بیان۔ انہوں شاہ رخ کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی مذمّت کرنے کہ بعد یہ اعتراف کیا کہ اسی طرح کا معاملہ خود ان کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے اس رسوائی کہ بعد وہ خاموش کیوں بیٹھی رہیں ؟ انہوں اس معاملہ کو حکومت اور میڈیا میں کیوں نہیں اٹھایا؟ا اور اپنی تفتیش کروانے سے انکار کر کے واپس کیوں نہ لوٹ آئیں ؟

 آج وہ کہہ رہی ہیں کہ اگر امریکہ نے اپنا رویہّ نہیں بدلا تو ہمیں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا نہ امریکا اپنا رویہ بدلے گا اور نہ ہم اسے منہ توڑ جواب دیں گے۔ وہ جانتا ہے ہم لوگ سیاسی طور پر ضرور آزاد ہو چکے ہیں لیکن ذہنی غلامی کی زنجیریں ابھی نہیں ٹوٹی ہیں اور شاید کبھی نہ ٹو ٹیں اس لیے کہ ہم اس طوق کو اپنے گلے کا ہار سمجھتے ہیں ورنہ یہ نہ ہوتا کہ ہندوستان کے وزیر دفاع اور متحدہ قومی محاذ کے صدر جارج فرنانڈیس جو امریکیوں کے ہم مذہب بھی ہیں اپنے آپ کو برضا  و رغبت تفتیش کے لیے پیش کر دیتے۔ شاہ رخ نے جس طرح سفارت خانہ سے رابطہ کیا وہ بھی کرسکتے تھے اگر امریکی انتظامیہ اپنے رویہ پر اڑ جاتا تو واپس لوٹ آتے۔ وہ وہاں اسلحہ کے گاہک بن کر گئے تھے اگر واپس آنے کی دھمکی دیتے تووہاں کے سرمایہ دار اپنی حکومت پر ضرور  دباؤ ڈالتے امریکی سرمایہ دار انہ نظام میں اسلحہ فروش سب سے زیادہ طاقتور ہیں اگر ان کا دباؤ کام نہ آتا تو وہ جارج کے پیچھے دہلی تک دوڑے چلے آتے اور پھر کسی امبیکا سونی کو خوار نہ ہونا پڑتا لیکن وہ نہ صرف جامہ تلاشی پر راضی ہو گئے بلکہ کمیشن کے لالچ میں جامہ سے باہر ہو گئے۔ شاہ رخ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد بہت سارے لوگوں نے اعتراف کیا کہ یہ تو ایک معمولی سی بات ایسا ان کے ساتھ کئی بار ہو چکا ہے۔ امریکی حکام بھی حیران ہیں کہ شاہ رخ اس کو اتنا طول کیوں دے رہا ہے کیا وہ اپنے آپ کو وزیر دفاع سے زیادہ اہم سمجھتا ہے ؟

شاہ رخ اپنے آپ کو جو بھی سمجھتا ہو لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمارا میڈیا یقیناً شاہ رخ کو بہت کچھ سمجھتا ہے اب اس کی وجہ شاہ رخ کی شہرت ہے،  دولت ہے یا دونوں یہ کہنا مشکل ہے ورنہ خود ہندوستان کی سر زمین پر سابق صدرِ  جمہوریہ اور مردِ میزائیل کہلانے والے عبدالکلام کو انٹر کونٹی نینٹل ائیر لائنز کے ملازم ہوائی جہاز کے دروازے پر روک کر تلاشی نہ لیتے اور ان کے جوتے نہ اترواتے لیکن افسوس کہ ان پر جوتے برسانے کے بجائے ڈاکٹر صاحب نے خواری کو مسکرا کر برداشت کر لیا۔ اپریل سے جولائی تک چپیّ سادھے رہے اس کے بعد جب یہ خبر میڈیا میں آئی بھی تو اڑی اڑی سی اور دیکھتے دیکھتے غائب بھی ہو گئی اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا ہوا بازی کے وزیر پرفل پٹیل نے تحقیقات کا اعلان کیا پہلے ائیر لائنز والوں نے ڈھٹائی دکھائی اس کے بعد ایک بے جان سی معذرت کر دی اور سارا معاملہ ٹا ئیں ٹائیں فش ہو گیا۔ شاہ رخ کے معاملہ میں جو ہلچل مچی اس کا عشر عشیرہنگامہ بھی نہیں ہوا،  امریکہ نے حال ہی میں ہندوستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جہاں مذہبی رواداری کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اب امریکہ بہادر سے کون پوچھے کہ شاہ رخ اور اس کے مسلمان اسسٹنٹ کو روکنا اور ہندو اسسٹنٹ کو چھوڑ دینا کیا مذہبی رواداری ہے ؟ ہندوستان کی مذہبی تفریق اپنے آپ میں حقیقت ہے اس کے باوجود امریکہ کا یہ گستاخانہ رویہ اچھے تعلقات کے تقاضوں کی نفی کرتا ہے اس لیے کہ امریکی انتظامیہ اپنے دوستوں کے عیوب پرنہ صرف پردہ ڈالنے کا بلکہ ان کو خوشنما بنا کر پیش کرنے کا قائل ہے بدقسمتی سے یوم آزادی کے دن زیرِ بحث آنے والا یہ واقعہ ہماری آزادی اور وقار پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

داخلی سطح پر منموہن نے بڑی دلیری کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ کسی پسماندہ طبقہ کی امداد کو اس کی خوشا مد نہیں سمجھتے اشارہ مسلمانوں کی جانب تھا یہ اچھی بات ہے اس کے بعد انہوں نے وظیفوں میں اضافہ کی بات کہی یہ اور بھی زیادہ اچھی بات ہے لیکن اس کے باوجود ملت میں اب یہ احساس دن بدن بڑھ رہا ہے کہ سچر کمیٹی اور رنگناتھ کمیٹی کی سفارشات پر جس قدر بحث و مباحثہ ہوتا ہے اس قدر عمل در آمد نہیں ہوتا اب یہ ایک ایسا سیاسی افیون ہو گیا ہے جس کا نشہ وقت کے ساتھ اترتا جا رہا ہو۔ سرکاری وظائف اکثر بلا استعمال سرکاری خزانے میں پڑے رہتے ہیں یا پھر درمیان میں غائب ہو جاتے ہیں،  مسئلہ معاشی کم اور سیاسی و سماجی زیادہ ہے۔ پسماندگی کی بنیادی وجہ امتیازی سلوک ہے جسے ختم کیے بغیر زخموں پر مرہم لگانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا بلکہ اب توسماجی تفریق کے ساتھ ساتھ عدالتی امتیاز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بٹلہ ہاوس انکاونٹر کے معاملہ میں حقوقِ انسانی کمیشن نے حقائق کا انکاونٹر کر کے زندگی کے بنیادی حق کو اپنے قدموں تلے روند دیا اور یہ سب کانگریسی حکومتوں کے زیر نگرانی ہوا۔ اتر پر دیش میں علماء کاؤنسل کے اجلاس میں جانے والوں پر بی جے پی کے رکنِ پارلیمان نے گولی باری کی اور ریاستی و مرکزی حکومت خاموش تما شائی بنی رہی۔ ممبئی بلاسٹ کے ملزمین کو سزائے موت سنا دی گئی اور مالیگاؤں و پربھنی کا بم بلاسٹ کرنے والوں کو ضمانت مل گئی یہ کس کی خوشامد ہو رہی ہے ؟ اور اس کی قیمت کون چکا رہا ہے ؟ اس سوال کا جواب آزاد ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مانگ رہی ہے کیا ہر سال ہمیں وظیفوں کا لالی پاپ دیکر بہلایا جاتا رہے گا یا کوئی ایسا ٹھوس اقدام بھی کیا جائے گا جومسلمانوں کو وظائف کی محتاجی سے بے نیاز کر دے ؟

کشمیر کے معاملے میں وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ گزشتہ دو انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ وہاں علیٰحدگی پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے لیکن فی الحال کشمیر کا سلگتا ہو مسئلہ شوپیان کی عصمت دری ہے اگر حفاظتی دستہ عوام کی عصمتوں پر ڈاکہ ڈالنے لگے تو کیا کسی خطۂ زمین پر پائیدار امن کی امیّد کرنا حقیقت پسندی ہے ؟ شمال مشرقی ریاستوں کے بارے میں بھی انہوں نے فرمایا کہ کوہیما اور امپھال ہم سے دور ہیں لیکن ذہن سے محو نہیں ہیں انہوں نے معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے ریلوے لائن کی بات کہی لیکن حال ہی میں کوہیما کے اندر ایک دل دہلا دینے والا واقعہ رونما ہوا وہاں دن دہاڑے منی پور پولس کمانڈوز نے ایک حاملہ خاتون کو بھرے بازار میں گولیوں سے بھون دیا اور ۲۷ سالہ نوجوان سنجیت سنگھ کا جعلی انکاؤ نٹر کر دیا تہلکہ کے ہاتھ اس سارے معاملہ کی ویڈیو فلم لگ گئی جسے ٹی وی پر ساری دنیا نے دیکھا اس فلم کی بنیاد پر مجرمین کی شناخت کوئی مشکل کام نہیں ہے اگر جشن آزادی سے قبل ان درندوں کو یونیفارم سمیت پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تو وہ اقدام شمال مشرقی ہند میں امن کے قیام میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتا عوام الفا ظ سے نہیں اقدام سے مطمئن ہوتے ہیں۔

 منموہن سنگھ نے اعتراف کیا کہ ملک میں دہشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ نکسل واد ہے انہوں اس معاملے میں دو باتیں کہیں ایک تو یہ کہ بندوق کی نال کے آگے ہم نہیں جھکیں گے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان اسباب علل کا پتہ لگایا جائے گا جن کے باعث اس طرح کے نظریات پنپتے ہیں یہ سرکاری طرزفکر میں خوش آئند تبدیلی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا؟ نکسلوادی تحریک نے سوائن فلو کی طرح ملک کی بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کے شکار نکسلوادی خود اور غریب عوام ہیں اسی لیے متا ثرہ بستیوں میں انتظامیہ کے خلاف اکثر وہ دونوں ساتھ ساتھ دکھلائی دیتے ہیں ظلم و استحصال کا یہ واِئرس سرکاری خنزیروں کے ذریعہ پھیلا ہے اور جب تک اس مہلک جراثیم کی بیخ کنی نہیں ہو تی کوئی ٹیکہ اس وباء کو روک نہیں پائے گا اس سال چھتیس گڑھ میں نکسلیوں نے یوم آزادی کی تقریبات کے بائیکاٹ کا ا علان کیا لیکن ریاستی حکومت عوامی مواصلات کو معمول کے مطابق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جبکہ ایسا کوئی خطرہ دہلی میں نہیں تھا اس کے باوجود لال قلعہ کے علاقے کو فوجی چھاونی میں تبدیل کر دیا گیا اور ہوائی اڈہ سات گھنٹوں کے لیے بند کر دیا گیا کیا یہ تفریق اس بات کی چغلی نہیں کرتی کہ سارے شہریوں کے تحفظ کو یکساں اہمیت نہیں دی جاتی؟

 دہشت گردی کے حوالے سے اس یوم آزادی کے دن ایک اور دلچسپ واقعہ رونما ہوا پاکستان کی جیل میں سربجیت سنگھ نام کا ایک شخص عرصہ دراز سے مقید ہے جس پر بم دھما کے کرنے کا الزام وہاں کی عدالت میں ثابت ہو چکا ہے ا ب آخری امیّد صدارتی معافی ہے جس کے لیے ملک کے ایک ہزار نامور دانشوروں نے اس کی درخواستِ  معافی پر دستخط کیے ہیں جسے صدر آصف زرداری کے حوالے کیا گیا تصور کریں کل ہماری عدالت میں اجمل قصاب کے خلاف الزا مات ثابت ہو جائیں اور اسے پھانسی کی سزا سنا دی جائے اس کے بعد پاکستان کے دانشور اسی طرح معافی نامہ پر دستخط کر کے بھیجیں تو اس کے جواب میں ہماری حکومت،  حزب  اختلاف،  ذرائع ابلاغ اور عوام کا رد عمل کیا ہو گا؟

تعلیم کے میدان میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ یہ اعلان ہوا کہ پارلیمان نے ہر بچہ کے لیے تعلیم کا حق تسلیم کر لیا ہے یہ بہت بڑا احسان ہے جو ایوانِ پارلیمان نے قوم کے بچوں پر کیا ہے لیکن یہ تسلیم و رضا کا نہیں فراہمی کا معاملہ ہے۔ تعلیم کا شعبہ بڑی تیزی سے نجی ہاتھوں میں جا رہا ہے تعلیم دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے نجی اور سرکاری مدرسوں کے درمیان معیار کا تفاوت بڑھ رہا ہے نیز غربت میں اضافہ کے باعث والدین کی مجبوریوں میں بھی اضافہ رہا ہے ایسے میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اس بارے میں دو باتیں بتلائی گئیں ایک اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے لیے پانچ لاکھ طلباء کو وظیفہ اور قرض کی فراہمی کی جائے گی یہ ایک واضح اور اچھا فیصلہ ہے لیکن آئندہ تین سالوں میں ناخواندگی کی شرح کو نصف کر نے کا اعلان نہایت بودا معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس سے نہ تو یہ پتہ چلتا ہے کہ فی الحال ناخواندگی کی شرح کیا ہے اور نہ اس جانب کوئی نشاندہی ہوتی ہے کہ حکومت اس ہدف کو کیسے حاصل کرے گی؟

تعلیم کے علاوہ صحت کے شعبہ میں غریبوں کے لیے بیمہ کی اس کیم مایوس کن ہے غریبوں کا یہ حق ہے کہ انہیں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جائے بیمہ دراصل سرمایہ دارانہ استحصال کا ایک بہت بڑا فریب ہے جس میں ملک کی غریب عوام کو پھنسانا ظلم ہے۔ بچیوں کی مادرِ  رحم میں شناخت کے بعد حمل ساقط کر کے قتل کر دیا جاتا ہے اس پر وزیر اعظم نے افسوس ظاہر کیا لیکن کیا اس ظلمِ عظیم کو روکنے کے لیے اظہارِ تاسف کافی ہے ؟ خواتین کے ریزرویشن کا بل جلد ہی پاس ہو گا یہ سنتے سنتے عوام کے کان پک گئے ہیں پنچایت کی سطح پر انہوں نے ۵۰ فی صد ریزرویشن پر زور دیا خواتین کو گزشتہ کئی سالوں سے سیاسی اور معاشی طور پر طاقتور بنانے کی کوشش ہو رہی لیکن اس کے خاطر خواہ اثرات نہ ہی دیہات میں مرتب ہو رہے ہیں اور نہ شہروں میں نظر آتے ہیں۔ آئے دنا تر پردیش سے جہاں ایک خاتون وزیر اعلیٰ ہے اور دہلی سے جہاں دوسری خاتون وزیر اعلیٰ ہے خواتین پر مظالم،  قتل،  اور عصمت دری کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں دہلی میں گزشتہ دنوں ایک آئی پی او میں ملازمت کرنے والی خوشحال اور تعلیم یافتہ خاتون کی عصمت دری اس کے پڑھے لکھے سپروائزر نے کی۔ دونوں ساتھ میں نائٹ کلب گئے شراب کے ساتھ منشیات کا استعمال کیا گیا اور بالآخر عصمت دری ہوئی اس پورے معاملہ کو عصمت دری سے الگ کر کے دیکھنا مناسب نہیں ہے ؟ مسئلہ کو گہرائی سے سمجھے بغیر اوپری لیپا پوتی اس کا حل نہیں ہے

وزیر اعظم کے خطاب میں سب سے مضحکہ خیز ا علان فرقہ وارانہ فسادات کے انسداد کی خاطر قانون بنانے کا تھا اس سے ایسا محسوس ہوا گویا فرقہ وارانہ فسادات قانون کی عدم موجودگی کے باعث ہوتے ہیں یہ بچکانہ بات ہے فسادات تو قوانین کی پامالی،  ان کے نفاذ میں کوتاہی،  فسادیوں کی پشت پناہی،  اور انہیں سزا سے محفوظ رکھنے کے باعث ہوتے ہیں موجودہ قوانین کا اگر ایمانداری نفاذ ہو جائے توفسادات رک جائیں گے ورنہ قانون بنتا رہے گا فساد ہوتا رہے گا بی جے پی اس نئے قانون کو مسلمانوں کی خوشامد بتلا کر اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرے گی اور کانگریس اس کا احسان جتا کر اپنا ووٹ بنک بڑھائے گی لیکن فسادات کی صحت پر اسا ٹھا پٹخ کا کوئیا ثر نہیں پڑے گا

یہ ہمارے ملک کی خوش قسمتی ہے کہ عالمی معاشی بحران کے دوران ملک کو ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسا ما ہرمعاشیات وزیر اعظم میسّر ہے لیکن ان کے خطاب اس خاص میدان میں بھی کسی ندرت یا جدتّ سے خالی پایا گیا ترقی کی شرح ۹ فیصد سے کم ہو کر۷ء۶ تک آ جائے گی اس کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے صنعتکاروں اور بیوپاریوں سے درد مندانہ اپیل کی لیکن کوئی ایسی پا سکیم نہ پیش کر سکے جس سے ان کا اعتماد بحال ہو اور سرمایہ کاری کا رجحان بڑھے،  کسانوں کو مزید قرض دینے یا ادائیگی میں رعایت دینے کی خاطر کسی کا ماہر ہونا ضروری نہیں ہے ایک اور سبز انقلاب کا نعرہ ہر کوئی لگا سکتا ہے وہ کس طرح سے برپا ہو گا یہ جاننے کی توقع کسانوں نے منموہن سے لگائی تھی لیکن مانسون کی طرح وزیر اعظم نے بھی انہیں ما یوس کیا۔ ۴ کروڑ لوگوں کو سال میں ۱۰۰ دن کا م دینے کارنامہ بیان کرتے ہوے وہ بھول گئے کہ یہ ۴ کروڑ لوگ اس سال دو تہائی سے زیادہ عرصہ بیکار رہے انہوں نے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لیے رعایتی داموں پر اناج فراہم کرنے کی بات کی راشن کارڈ کا یہ نظام تو غالباً انگریزوں کی غلامی کے زمانے سے جاری ہے ان کا یہ کہنا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کوئی فاقہ کش نہ ہو بلواسطہ اعتراف ہے ملک سے ابھی بھکمری کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔ دنیا کا سپر پاور بننے والے ملک کے لیے یہ با تیں قابلِ ندامت ہیں۔

بقول وزیر اعظم ملک میں اناج کا معقول ذخیرہ ہے بجلی پیدا کرنے کے لیے سو کروڑ تو بحریہ کے لیے پن ُڈوبی بنانے کی خاطر سالانہ دو ہزار کروڑ کا بجٹ ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں ۲۱ کروڑ ۴۰ لاکھ لوگ ناقص غذا ئیت کا شکار ہیں یہ تعداد بر اعظم افریقہ کی کل آبادی سے زیادہ ہے ملک میں ۵ء۷ کروڑ بچے کم وزن ہیں جو دنیا بھر کے کم وزن بچوں کی ایک تہائی تعداد ہے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس شعبہ میں کام کرنے والی تنظیم نو دانیہ کی ڈاکٹر شوبھا کے مطابق منموہن سنگھ کے دورِ اقتدا ر ۲۰۰۳ سے ۲۰۰۸ کے دوران یہ تعداد کسی علاقہ میں ۵۰ تو کسی میں ۱۰۰ فی صد بڑھی ہے گویا دوگنی تک ہو گئی چھوٹے کسانوں کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں اور بڑے کھیتوں کی پشت پناہی کی جا رہی جبکہ شوبھا کہتی ہیں اگر چھوٹا کسان بھوکا سوتا ہے تو ہندوستان بھوکا سوتا ہے۔

سب سے زیادہ سنگین مسئلہ مہنگائی کا ہے معاشی بحران کے باعث دنیا بھر میں اشیاء کی قیمتیں گر رہی ہیں مگر ہمارے ملک میں اضافہ ہو رہا۔ پہلے اس کے لیے ایندھن کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا لیکن گزشتہ سال جب کچا تیل ایک چو تھائی یعنی ۱۴۰ سے گر کر ۳۵ ڈالر فی بیرل پر پہنچ گیا تھا ہمارے ملک میں مہنگا ئی کی شرحِ  اضافہ ساڑھے ۱۲ فی صد پرپہنچ گئی تھی اس لوٹ کھسوٹ کی اجازت کیوں دی گئی؟ اور اس کا فائدہ کس کو ملا؟ آج کل مہنگائی کی شرح میں بظاہر کمی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ ایک فریب ہے ہمارے ملک میں مہنگائی کو جانچنے کے لیے آج بھی ساری دنیا میں متروک شدہ طریقہ رائج ہے جو تھوک بازار کی قیمتوں پر انحصار کرتا ہے جبکہ دنیا بھر میں خودرہ بازار میں بکنے والی قیمت سے پیمائش ہوتی ہے جو حقیقت سے قریب تر ہے نیز کل ۴۳۵ اشیاء کی قیمت کا اوسط لیا جاتا ہے جس میں سے صرف ۱۸ فی صد اشیائے خورد و نوش ہیں ایسے میں ضروری اشیاء زندگی کی قیمتوں میں اضافہ چھپ جاتا ہے آجکل یہی ہو رہا ہے سرکاری اعداد و شمار مہنگائی میں کمی بتلا رہے اس لیے کہ سامان تعیش کی قیمتیں گھٹ رہی ہیں امیروں کی بچت ہو رہی ہے لیکن اناج،  سبزی،  ترکاری اور شکر کی قیمت میں بے شمار اضافہ ہو رہا ایک اندازے کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے اندرسبزی اور دالوں کی قیمت دوگنا ہو گئی ہیں شکر کی قیمت میں ۴۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے ممبئی کا سبزی فروش ہانڈے کہتا ہے کہ وہ خود اپنے بچوں کو سبزی نہیں کھلا سکتا اور گاہک شوبھا ودوالے کے مطابق اسے اپنی ضرورت بھر سبزی خریدنے کے لیے دوگنی قیمت چکانی پڑتی ہے عام آدمی کے بجٹ نے عام آدمی کو سولی پر لٹکا دیا ہے وزیر اعظم کے مطابق یہ کساد بازاری اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے باعث ہو رہا ہے جو مصنوعی تنگی پیدا کر کے عوام کا استحصال کر رہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے ؟ وزیر اعظم نے اس کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر ڈال دی اور خود تلقین پر اکتفاکر گئے کیا یہ رویہ مبنی بر انصاف ہے ؟

 اس سال این ڈی ٹی وی پر یوم آزادی کے موقع ایک پروگرام نشر کیاجس میں دکھلایا گیا کہ رام گڈھ نامی ایک گاؤں میں بیٹوں نے اپنی بوڑھی ماں بدھیا دیوی کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ تو جواب آیا پاگل ہو گئی ہے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ایسا کرنے سے وہ ٹھیک ہو جائے گی؟ تو بیٹا جواب دیتا ہے نہیں مگر کیا کریں ؟علاج کروانے کے لیے روپیہ نہیں ہے انتظامیہ کو دلچسپی نہیں ہے اس غمناک واقعہ کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا بھارت کو رام راجیہ بنانے کا خواب دیکھنے والے گاندھی جی کا سپنا پوری طرح بکھر چکا ہے رام راجیہ کا نعرہ لگانے والی بی جے پی خود بکھر چکی ہے اور سارا ملک رام گڈھ میں تبدیل ہو رہا ہے جہاں بھارت ماتا کے بیٹوں نے خود اپنی ماں کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے یہ خود ساختہ غلامی کی زنجیریں کب ٹوٹیں گی؟ کیسے ٹوٹیں گی؟ انہیں کون توڑ ے گا؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب ہمیں وزیر اعظم کے خطاب میں نہیں ملے گا،  ہمیں خود ان کا جواب تلاش کرنا ہو گا اور جب تک امت مسلمہ ان سوالات کا حقیقی جوا ب تلاش کر کے اپنی جدوجہد کا آغاز نہیں کرتی اسوقت تک وطنِ عزیز میں آزادیِ نو کا سورج طلوع نہیں ہو گا ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ سارے عالم کی طرح اس ملک کا تابناک مستقبل بھی دینِ حنیف کے قیام سے وابستہ ہے۔

٭٭٭

 

نمودِ خواب کی باتیں،  شکستِ  خواب کا ذکر

راہل گاندھی کے وزیر اعظم بننے کا راستہ صاف ہو گیا۔ ملک کے رائے ہندگان نے متحدہ ترقی پسند محاذ کے حق میں اپنا ووٹ دے کراس بات کا اشارہ دے دیا کہ نہرو‘گاندھی خاندان کی سلطنت کا متبادل فی الحال ہندوستان میں موجود نہیں ہے۔ راہل گاندھی کے لیے سب سے بڑی خوشخبری اترپردیش سے آئی ہے جہاں کانگریس پارٹی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو پسِ پشت ڈال دیا۔ کانگریس پارٹی اس کا سارا کریڈٹ راہل سونیاکودینے کے بعد پھر ایک بار من موہن سنگھ کے بیمار ہونے کا انتظار کرے گی اور اگلی مرتبہ جیسے ہی من موہن سنگھ کی طبیعت ناسازہو گی راہل گاندھی کووزیراعظم کی کرسی پربٹھا کر ملک کا کارسازبنادیاجائے گا۔

اس سے پہلے جب بھی انتخابات میں سیکولر ووٹ بٹتے تھے بی جے پی کا فائدہ ہوتا تھا اس بار نہ صرف تیسرا بلکہ چوتھا محاذ بھی موجود تھا اس کے باوجود بی جے پی کامیاب کیوں نہیں ہوسکی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ کانگریس کے اقتدار میں ہونے کا نقصان اسے کیوں نہیں ہوا؟ یہ دوسرا اہم سوال ہے۔ دراصل ان دوسوالوں کے پیچھے انتخابی نتائج کے زیر زمین وجوہات دفن ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متحدہ قومی محاذ کو ایک نہایت ہی مہین تفاوت کے ساتھ شکست ہوئی تھی۔ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سیٹوں کی تعداد کا نہایت معمولی سا فرق تھا۔ کمیونسٹوں نے حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں کانگریس کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ دوسرے موقع پرست بھی اقتدار کی گنگا میں ڈبکی لگانے کی خاطر ترقی پسند محاذ میں شامل ہو گئے اور چار سالوں تک ان لوگوں نے مل جل کر دونوں ہاتھ سے قومی خزانے کو لوٹا۔ پانچویں سال کی ابتداء میں سب سے پہلے ترقی پسندمحاذکے بیرونی حامی دائیں محاذ کے اندر بے چینی پیدا ہوئی۔ ان لوگوں کے لیے کانگریس کے ساتھ پانچ سال پورے کرنا اور پھر انتخاب کے دوران کانگریس کی مخالفت کر کے اپنے حامیوں کوکانگریس کے نرغے میں جانے سے روکے رکھنا ایک مشکل مسئلہ بن کر کھڑا ہو گیا۔ دائیں محاذ نے اپنی انتخابی مجبوری کے پیش نظر کانگریس سے دامن چھڑانے کا فیصلہ کیا اور جوہری معاہدے کا بہانہ بنا کراپنی حمایت واپس لے لی۔ حالیہ انتخابات کا پہلا مرحلہ جوہری معاہدے پر عدم اعتماد تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے سوچاکہ اگر اس مرحلے میں حکومت گر جاتی ہے تو انتخاب میں اس کے پاس عدم استحکام کا مدعا آ جائے گا اس لیے سرخ و زعفرانی پرچم ایک ساتھ لہراتے نظر آئے۔

 من موہن سنگھ نے اپنے آپ کو دھن موہن سنگھ ثابت کرتے ہوئے روپیوں کے بل بوتے پر سارے مخالفین کو چت کر دیا اور رشوت کے سہارے حکومت کو گرنے سے بچایا لیکن عوام نے دیکھا کہ اس بار رشوت دینے والی پارٹی کانگریس ضرور ہے لیکن رشوت لینے والے بی جے پی اور چوتھے محاذ کے لوگ ہیں۔ اس طرح بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام الٹا حزب اختلاف پر لگ گیا اور کانگریس ایک مستحکم حکمران کے طور پر سامنے آ گئی۔ بائیں محاذ نے گزشتہ پانچ سالوں میں امریکی استعمار کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ امریکہ ‘ عراق اورفلسطین کے مسئلہ پر یہ لوگ کافی شور و غل کرتے رہے اور مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کی لیکن دہشت گردی کے نام پر کانگریس کے ذریعہ بے گناہ مسلمانوں کی اذیت رسانی کا جو لامتناہی سلسلہ جاری تھا اس پر یہ لوگ زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکے۔

 اس دوران کانگریس پارٹی نے سچرکمیٹی کی رپورٹ جاری کروا دی۔ اس رپورٹ نے مسلمانوں کو اس حد تک مطمئن کیا کہ من موہن سنگھ نے کم ازکم ان کی حالت زار کوتسلیم تو کیا ہے لیکن دوسری طرف اس نے بائیں محاذ کے نفاق کو بالکل عریاں کر دیا۔ مسلمانوں کی حالت سرخ بنگال میں زعفرانی گجرات سے زیادہ ابتر پائی گئی اس حقیقت نے کمیونسٹوں کے پاکھنڈی چہرے کو بالکل بے نقاب کر دیا۔ امریکی استعماریت کی گلا پھاڑ پھاڑ کر مخالفت کرنے والوں نے نندی گرام میں غریبوں کے ساتھ جوسلوک کیا اس سے سوویت یونین میں ہونے والے مظالم کی یاد تازہ ہو گئی۔ اور اس طر ح بائیں محاذ نے کیرالا اور مغربی بنگال میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر غریب عوام کا اعتماد بھی کھو دیا جس کا سیدھا فائدہ کانگریس کو ہوا۔

 کانگریس نے سچرکمیٹی کے بعد بھارتیہ جنتاپارٹی کو دفاعی پوزیشن میں لانے کی خاطر آئی ٹی ایس کے ذریعہ مالیگاؤں کیس اور پھر مختلف دھماکوں میں ہندواحیاءپرستوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ کانگریس کے اس حملے سے سنگھ پریوار کی چولیں ہل گئیں اوراس کے ہاتھ سے طوطے اڑ گئے لیکن ممبئی میں تاج ‘ٹرائی ڈینٹ اورسی ایس ٹی اسٹیشن پر ہونے والے دہشت گرد انہ حملہ نے ہوا کا رخ بدل دیا۔ اس حملے کے بعد بی جے پی نے سستی شہرت کے ہتھ کنڈے استعمال کرتے ہوئے اور نریندرمودی کو میدان میں اتارا لیکن وہ داؤں نہیں چلا۔ کانگریس نے حملہ کا رخ پاکستان کی جانب موڑ کر پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیارکیاجس سے بی جے پی کو عوام کے اندر خوف پیدا کر کے انہیں اپنی جانب راغب کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس حملے کا کوئی خاطرخواہ سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکی ہاں یہ ضرور ہوا کہ کانگریس کو اس کے بعدسنگھ پریوار کے خلاف ہونے والی تحقیقات کا دروازہ بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس لیے کہ ایسا کرنا اب رائے عامہ کو متنفر کرنے کے مترادف بن گیا تھا۔

اس بار انتخابی مہم میں بی جے پی کو بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب اس کے دو حامی بیجو جنتا دل اور تلگو دیسم پالا بدل کر دائیں بازو کے تیسرے محاذ میں شامل ہو گئے گویا تیسرے محاذ کے بننے سے فائدہ اٹھانے والی بی جے پی کو اس بار براہِ راست نقصان اٹھا نا پڑا۔ اس محاذ کے بن جانے سے جے للیتا کی وہ مجبوری بھی ختم ہو گئی جو انہیں لامحالہ بی جے پی کے ساتھ لے آتی تھی۔ ان کے تیسر ے محاذ میں چلے جانے سے بی جے پی کا ایک بلاواسطہ نقصان ہو گیا۔ مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے شمالی ہند کے لوگوں کی مخالفت کر کے اپنی مقبولیت میں اچھا خاصہ اضافہ کر لیا اور بی جے پی کی حلیف جماعت شیو سینا کے قلعہ میں سیندھ لگائی۔ اس طرح ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی دوسروں کی بیساکھی کے سہارے چلتی تھی ان کے گھٹنوں پر آ گئی اور کانگریس کا بھلا ہو گیا۔

انتخابات جیسے جیسے قریب ہوتے جا رہے تھے کانگریسی حلیفوں کی لالچ میں اضافہ ہو رہا تھا وہ بجا طور پر کانگریس کو کمزور سے کمزور تر کر کے اپنے رسوخ میں اضافہ کرنا چاہتے تھے لیکن کانگریس پارٹی نے ان کے نازو نخرے اٹھانے کے بجائے خود اپنے بل بوتے میدان مارنے کا خطرہ مول لیا۔ شمالی ہندوستان کی حد تک یہ کانگریس کا اہم ترین فیصلہ تھا ویسے مہاراشٹر،  مغربی بنگال،  تمل ناڈو اور کیرالہ میں  اس نے دیگر جماعتوں کے ساتھ اپنا الحاق جاری رکھا لیکن گنگا کی وادی جب خود اپنی قوت کو منظم کرنا شروع کیا تو ملائم سنگھ یادو پریشان ہو گئے۔ مایا وتی چونکہ تیسرے محاذ میں پہلے ہی سے براجمان تھیں اس لیے ان کے لیے تیسرے محاذ کے دروازے بند تھے۔ دراصل اعتماد کے ووٹ میں سماجوادی کے رویہ سے دائیں بازو والوں کا ان پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا تھا۔ اس بیچ لالو پرساداور رام ولاس پاسوان کو بھی کانگریس نے دھتکا ر دیا اس طرح ان تمام کانگریس پارٹی کے راندۂ درگاہ لوگوں نے مل کر اپنا چوتھا محاذ بنا لیا۔ چوتھے محاذ کا حال بڑا عجیب تھا کہ وہ بیک وقت ترقی پسند محاذ کا حامی بھی تھا اور اس کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کا مخالف بھی تھا۔ اس دوغلے پن نے عوام کی نظر میں انہیں مشکوک کر دیا اور لوگوں نے ان کے توسط سے کانگریس کی حمایت کرنے کے بجائے براہ راست کانگریس کا پرچم اٹھانے کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔

اس بار ایک طرف تو گجرات،  مدھیہ پر دیش،  چھتیس گڑھ،  بہار اور جھارکنڈ میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعت جنتا دل یو کو کامیابی ملی وہیں دہلی،  راجھستان،  ہریانہ اوراترپردیش میں اس کا صفایہ ہو گیا۔ دراصل کانگریس کے زوال پذیر ہونے کا بنیادی سبب شمالی ہندوستان سے اس کی ساکھ کا خاتمہ تھا لیکن حالیہ کامیابیوں سے نہ صرف کانگریس کا دیگر جماعتوں پر انحصار کم ہوا بلکہ اس کے اپنے اندر خود اعتمادی میں قابلِ قدر اضافہ ہوا اگر انتخاب کے بعد نتیش کمار کانگریس سے ہاتھ ملا لیتے ہیں تو یہ بی جے پی کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔ ویسے بھی آئندہ انتخاب تک کانگریس بہار کی دوسری سب سے بڑی جماعت بن ہی جائے گی۔ اگر نتیش کمار بیجو پٹنائک کی طرح اپناد امن جھٹک لیتے ہیں توان کا سیدھا مقابلہ کانگریس سے ہو گا۔ یہ چیز نتیش کے راستے کی رکاوٹ ضرور ہو گی لیکن اس کے باوجود لالو اور بی جے پی حاشیہ پر پہنچا دے گی۔

اس انتخاب سے قبل کانگریس نے دو بڑی غلطیاں کیں جو کہ اسے مہنگی پڑ سکتی تھیں۔ اس نے دہلی فساد کے ملزمین کو رہا کروایا اور بوفورس کے کتروچی کو عدالت سے بری کروا لیا لیکن چونکہ ہر جماعت سے وابستہ سیاستدانوں کی جانب سے کروڑوں کی املاک کے اظہار نے بدعنوانی ہماری سیاست کا جزو لاینفک ثابت کر ہی دیا تھا اس لیے کتروچی کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔ سکھوں کے معاملے میں کانگریس نے اصرار کے بجائے رجوع کا فیصلہ کرتے ہوئے بدنامِ زمانہ سجن کمار اور راجیش پائلٹ کا نام اپنے امیدواروں کی فہرست سے خارج کر دیا۔ من موہن سنگھ کو سکھوں کے لیے ان کے اپنے آدمی کے طور پر پیش کیا گیا اور انتخابی نتائج اس بات کے غماز ہیں کا نگریس کی یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا سب سے بڑا نقصان ارو ن جیٹلی اور راج ناتھ سنگھ کی خانہ جنگی نے کیا۔ ارون جیٹلی نے اپنے آپ کو اڈوانی جی کا اصلی وارث ثابت کرنے کی کوشش میں راج ناتھ کے ساتھ ساتھ بی جے پی کا بھی یو پی میں بیڑہ غرق کر دیا۔ ماضی میں اسی طرح کی خود غرضی کا مظاہرہ نرسمھا راو نے کیا تھا جس کی بڑی بھا ری قیمت کانگریس کو چکانی پڑی۔ اس بار بنگال اور کیرالہ کے علاوہ سبھی ریاستوں کے رائے دہندگان نے ریاستی حکومت کے کام کو سراہتے ہوئے اس کے حق میں اپنی پسند کی توثیق کی اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے کانگریس،  بی جے پی،  جنتادل یو اور بیجو جنتا دل سب کا برابر خیال کیا۔ قومی سطح پر بھی یہی رجحان سامنے آیا عوام نے ترقی پسند محاذ کو واضح اکثریت سے نواز کر عالمی معاشی بحران کے اس نازک دور میں ملک کو سیاسی بحران کا شکار ہونے سے بچا لیا۔ شاید عوام کو یہ اندیشہ لاحق ہو گیا تھا کہ سیاسی عدم استحکام معاشی صورتحال کی مزید ابتری کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو اس کی سنگینی کا احساس ہو نہ ہو لیکن عوام کو ضرور اس کا خیال ہے اب ان کے اندر ایک قسم کی پختگی آئی ہے اور وہ اپنی فلاح و بہبود کے لیے دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے لگے ہیں۔

ہمارے ملک میں ہونے والے ہر قومی انتخاب کوئی نہ کوئی مدعا چھایا رہتا ہے اور وہی اس کا تشخص بن جاتا ہے مثلاً غریبی ہٹاؤ،  بنگلہ دیش،  ایمرجنسی،  گولڈن ٹمپل،  بوفورس،  بابری مسجد،  اور کارگل وغیرہ۔ اس بار کوئی ایسا سلگتا ہوا سوال لوگوں کے سامنے نہیں تھا اس لیے جوتوں نے اسے یادگار بنا دیا۔ وزیر اعظم،  وزیر داخلہ اور حزب اختلاف کے رہنما سبھی کو اس سے نوازا گیا اور سبھی نشانے جارج بش کی مانند خطا ہوئے۔ کسی سیاستدان کی جسمانی ایذا رسانی تو نہیں ہوئی لیکن اڈوانی جی کا دیرینہ سپنا اور پرکاش کرات کا نومولود خواب دونوں بیک وقت چکنا چور ہو گئے۔ اب یہ دونوں دوبارہ وزیر اعظم بننے کا خیال شاید اپنے دل سے نکال دیں گے۔ ساتھ ہی مایا وتی اور شرد پوار بھی ایسا کرنے سے گریز کریں گے اس لیے کہ راہل گاندھی کے خوابوں کی تعبیر کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اپنے آپ کو مایوسی کے کرب بچانے کے لیے جاں نثار اختر کا ایک شعر ہم ان بزرگ سیاسی رہنماؤں کی نذر کریں گے

اسی سبب سے ہیں شاید عذاب جتنے ہیں

جھٹک کے پھینک دو پلکوں پہ خواب جتنے ہیں

٭٭٭

 

جمہوریت :دیواستبداد کی خوشنما قبا

امریکہ میں پہلے صدر جمہوریہ جارج واشنگٹن نے ۱۷۸۹ میں حلف لیا اورسولہویں صدر ابراہم لنکن نے ۱۸۶۳ میں انسانی غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ حقیقت اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے کافی ہے کہ آزادی اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں اس لیے کہ جارج واشنگٹن سے لے کرجیمس  بکنن تک پندرہ صدورنے جو جمہوری طریقے پر منتخب ہو کر حکومت کرتے رہے ملک سے غلامی کا خاتمہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔ دو سال بعد ابراہم لنکن کو قتل کر دیا گیا اور ان کے تعارف میں وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا آخری جملہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ با وقار قیامِ امن کے امکانات کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ یہ جملہ اس بات کا غماز ہے کہ جمہوریت اور امن وامان کے درمیان بھی کوئی خاص تعلق نہیں ہے اس لیے کہ ابراہم لنکن کے بعد بھی امریکی جمہوریت بقیدِ حیات تھی اور آج بھی دنیا بھر میں ہونے والی قتل و غارت گری کے باوجود پھل پھول رہی ہے بلکہ ساری دنیا کی سب سے قدیم اور مثالی جمہوریت ہونے کا شرف اسی کو حاصل ہے۔ کسی بھی جمہوریت نواز نے آج تک امریکہ کے اس مقامِ بلند کو چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کی اس لیے جمہوریت قائم و دائم ہے باوجود اس کے کہ امن کے قیام کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ ۱۸۶۳ میں اندرونِ ملک ہونے والی زبردست خانہ جنگی کے بعد گیٹسبرگ کے قبرستان میں ابراہم لنکن نے اپنے تاریخی خطاب میں کہا تھا کہ ہم اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ مرنے والوں نے بلاوجہ موت کو گلے نہیں لگایا۔ اور یہ کہ اس سے ملکِ خداداد میں آزادی کا نیا جنم ہو گا اور لوگوں کی حکومت،  لوگوں کے لیے اور لوگوں کے ذریعہ اب کبھی کرۂ ارض سے فنا نہیں ہو گی۔

ابراہم لنکن کے خطاب کا یہ فقرہ آگے چل کر جمہوریت کی تعریف بن گیا اردو میں جب اس کا ترجمہ کیا گیا تو لوگوں کے بجائے عوام کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے بڑی غلط فہمی پیدا ہو گئی۔ انگریزی میں عوام کو پبلک اور لوگوں کو پیوپل کہا جاتا ہے اور ابراہم لنکن نے پبلک کے بجائے پیوپل کا لفظ استعمال کیا تھا۔ اردو داں حضرات نے اس ناقص ترجمے کے باعث یہ سمجھ لیا کہ یہ سارے عوام کی حکومت،  سارے عوام کے لیے اور سارے عوام کے ذریعہ ہے حالانکہ ابراہم لنکن نے آل (all) لفظ استعمال نہیں کیا تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ نظامِ جمہوریت میں سارے کا اطلاق صرف آخری فقرے پر ہوتا ہے اس لیے کہ سارے عوام کو رائے دہندگی کا حق حاصل ہوتا ہے وگرنہ یہ حکو مت نہ توسارے لوگوں کی ہوتی ہے اور نہ سارے لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔

جمہوری نظام عوام کو اولاً دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک تو حاکم اور دوسرے محکوم۔ اس کے بعد حکمرانوں کو مزید دو حصوں میں تقسیم کرتا ایک با اقتدار (حزبِ  اقتدار) اور دوسرے بے اقتدار(حزبِ اختلاف)۔ محکوم بھی دو حصوں میں تقسیم کر دئیے جاتے ہیں ایک خاص لوگ (دولتمند اور طاقتور) اور دوسرے عام لوگ(کمزور اور غریب)۔ اب اس تفریق کو سامنے رکھ کر دوبارہ جمہوریت کی تعریف کو دیکھا جائے تو بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ جمہوریت میں حکومت تو سب سے اول طبقہ میں شامل لوگوں کی ہوتی ہے اور یہ حکومت دوسرے طبقہ کے یعنی خاص لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خاص لوگوں کے مفادات کا خاص خیال رکھتی ہے لیکن یہ قائم ضرور تیسرے طبقہ یعنی عام لوگوں کی رائے (ووٹ)سے برپا ہوتی ہے جبکہ یہ تیسرا طبقہ نہ صرف اقتدار سے محروم ہوتا ہے بلکہ اس کا کوئی پرسانِ حال بھی نہیں ہو تا ہے۔ ہاں  یہ ضرور ہے کہ اس طرز حکومت میں حاکم کی کوتاہیوں کے لیے محکوم کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے اور اس فرض کی ادائیگی حزبِ اختلاف طبقہ بلاواسطہ کرتا ہے۔ وہ عوام سے یہ کہتا ہے کہ دیکھو تم نے ہمیں اقتدار سے محروم رکھا اور ہمارے مخالفین کو اقتدار سے نوازا اب اپنے کیے کا مزہ چکھو اور اگر اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہو تو آئندہ انتخاب میں ہمیں اقتدار پر فائز کر دو جب عوام ان کی بات مان کر ایسا کرتے ہیں تو اس کے بعد کردار بدل جاتے ہیں۔ اس تبدیلی کے باعث اقتدار سے محروم ہونے والے پھر عوام کو احساسِ جرم کا شکار کر کے اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے میں لگ جاتے ہیں اس طرح اقتدار کے حریصوں کا پیٹ پھول پھول کر پھٹ جاتا ہے لیکن عوام کے اندر پائی جانے والی فاقہ کشی کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کا عملی مظہر دنیا کی وسیع ترین جمہوریت ہندوستان ہے

آزادی کے تقریباً ڈھائی سال کے بعد یعنی ۲۶ جنوری۱۹۵۰ کو ہندوستان کا جمہوری نظام قائم ہوا۔ اب یہ جمہوریت اپنی عمر کے ساٹھویں سال میں داخل ہو رہی ہے یعنی سَٹھیا رہی ہے۔ جمہوریت کا بچپن ہمارے ملک میں نہایت ہی تابناک تھا۔ پنڈت نہرو کو بچے پیار سے چاچا نہرو کہہ کر پکارتے تھے اور ان کا جنم دن یوم اطفال کے طور پر بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ پنڈت جی نے بڑے ناز و اندام سے جمہوریت کی پرورش کی لیکن جانے سے قبل وہ اپنی پیاری بیٹی پریہ درشنی اندرا گاندھی کو کانگریس پارٹی کا سربراہ بنا کر رخصت ہو گئے۔ گو کہ پنڈت جی کے بعد لال بہادر شاستری کو ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا لیکن پارٹی کے لوگ گونگی گڑیا کے لیے پارٹی کی صدارت کا مطلب خوب جانتے تھے۔ شاستری جی کی موت کے بعد پہلی فرصت میں اندرا گاندھی کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ گویا جمہوریت پر شباب کیا آیا کہ وہ وراثت کے سائے میں آ گئی۔

اندرا جی کے باغیانہ تیور اپنے والد کی مرضی کے خلاف فیروز گاندھی سے شادی کے وقت ظاہر ہو چکے تھے لیکن آگے چل کر ہندوستانی جمہوریت کو بھی اندرا جی نے ایمرجنسی لگا کر اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔ جمہوریت کی دیوانی جوانی کا یہ روپ اندرا جی کو راس نہیں آیا۔ راج نرائن نے انہیں ذاتی طور پر اور جنتا پارٹی نے کانگریس کو قومی سطح پر شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ کانگریس کے تیس سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ جے پرکاش نارائن نے اسے تکمیلِ انقلاب کا نام دیا۔ جنتا پارٹی کے اندر نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے او باہمی اعتماد کا فقدان تھا اس لیے وہ جلد ہی منتشر ہو گئی۔ کانگریس دوبارہ اقتدار آ گئی۔ اس طرح جمہوریت نے اپنی عمر کے چالیس سال مکمل کر لئے اور جب پختگی کی دہلیز پر پہنچی تو اندرا گاندھی کا قتل ہو گیا۔ مہاتما گاندھی کے بعد یہ دوسرا بڑاسیاسی قتل تھا۔ ایک آزادی کے بعد دوسرا س کے پونر جنم کے بعد۔

اندرا جی کی موت کے بعد کانگریس نے بلا تکلف راجیو گاندھی کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور سونپ دی حالانکہ وہ سیاست کی دنیا میں بالکل نا تجربہ کار تھے اور کانگریس پارٹی کہنہ مشق رہنماؤں سے اٹی پڑی تھی لیکن اس کے باوجود نظام وراثت نے نظام جمہوریت کو پوری طرح نگل لیا تھا۔ اپنی ماں کی موت کے سبب حاصل ہونے والی ہمدردی کی زبردست لہر نے راجیو گاندھی کو اپنے نانا سے بڑی انتخابی کامیابی سے نوازا۔ راجیو گاندھی نوجوان تھے صاف ستھری شخصیت کے مالک تھے انہوں نے قوم کی اکیسویں صدی میں لے جانے کا خواب دکھلایا لیکن بوفورس کے سودے میں دلالی نے سارے سپنے چکنا چور کر دیئے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب لوگ رشوت خوری کو معیوب سمجھتے تھے۔ آج جبکہ رشوت ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے ان باتوں کو سوچ کر ہنسی آتی ہے۔

جمہوریت اپنی پانچویں دہائی میں وشوا ناتھ پرتاب سنگھ کی انگلی پکڑ کر داخل ہوئی جنہوں نے بوفورس کی توپ سے کانگریسی قلعہ کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ پنڈت جی کے بعد پہلی مرتبہ ایک سلجھا ہوا رہنما ملک کو ملا تھا جو اونچی اقدار اور اچھے نظریات کی باتیں کرتا تھا۔ غریبوں اور پسماندہ طبقات کے آنسو پونچھنا چاہتا تھا۔ اقلیتوں کی غم گساری کرتا تھا لیکن ان سب کے باوجود ایک تلخ حقیقت یہ تھی کہ وی پی سنگھ کا جنتا دل پارلیمان میں اکثریت سے محروم تھا۔ جمہوریت میں قوت کا سرچشمہ چونکہ اکثریت سے پھوٹتا ہے اس لیے وہ ایک مضبوط نہیں بلکہ مجبور حکومت کے سربراہ تھے۔ انکے اقتدار کا جسد غیروں کا محتاج تھا۔ ان کی حکومت کا انحصار جن دو جماعتوں پر تھا وہ دونوں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کی دشمن تھیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور کمیونسٹ محاذ محض کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے کی خاطر وی پی سنگھ کی حمایت کرنے پر مجبور تھے۔ گویا سہارا لینے والے اور سہارا دینے والے سب کے سب مجبور تھے اور اس مجبوری نے نظریاتی اختلاف کو سولی پر لٹکا دیا تھا۔

بدعنوانی کے خلاف کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے کی غرض سے ایک غیر فطری اتحاد وجود میں آیا جو ڈھائی سال میں پارہ پارہ ہو گیا لیکن اس سیاسی اٹھا پٹخ نے ہندوستانی جمہوریت کو سر سے پیر تک ابن الوقتی کے رنگ میں رنگ دیا۔ اپنے حریف کو اقتدار سے محروم رکھنے کی خاطر منفی سیاست کا آغاز ہو گیا۔ اقلیت و اکثریت کے اصول و ضوابط سے کھلواڑ ہونے لگا۔ ابن الوقتی اور موقع پرستی نے جمہوریت کو اغوا کر کے یرغمال بنا لیا اور جمہوری نظام کچھ اس طرح کے بانجھ پن کا شکار ہوا کہ وہ دوبارہ قومی سطح پر اس ملک کو واضح اکثریت والی مستحکم حکومت نہیں دے سکا۔ عدم استحکام کی کوکھ سے بدعنوانی اور رشوت ستانی کا ایک ایسا زبردست سیلاب آیا کہ اس کے آگے بوفورس کا سودا تنکے کی مانند اڑ کر غائب ہو گیا۔

اس عدم استحکام کے دور میں کانگریس کو ۱۹۸۹ کے اندر سب سے زیادہ ۱۹۷ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ نظریاتی اعتبار سے جنتا دل،  دیگر علاقائی جماعتیں اور کمیونسٹ پارٹی کانگریس سے قریب تر تھیں لیکن یہ غیر فسطائی جماعتیں ایک دوسرے خلاف صف آرا ہو گئیں اور ان میں سے ایک دھڑے نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار میں بلا واسطہ شریک کر لیا جبکہ اسے صرف ۸۵ نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ آج کل ہر کوئی بی جے پی کو فسطائی پارٹی کہتا لیکن قومی سطح پر اس کے رہنماؤں کا تعارف جنتا پارٹی نے کروایا اور اس کی سیاسی طاقت کا لوہا جنتا دل نے منوایا- بی جے پی نے اس موقع کا بہترین استعمال کیا۔ مرکزی حکومت کو جی بھرکے بلیک میل کیا رام رتھ یاترا نکالی اور منڈل کمیشن کے خلاف تحریک کی حمایت کرتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ کو خوب وسعت دی۔ جنتا دل کی عمارت اپنے پیش روجنتاپارٹی کی مانند داخلی اختلافات کے سبب ڈھیر ہو گئی۔ کانگریس پارٹی نے اپنا چرن سنگھ والا آزمودہ چورن کو دوبارہ  آزمایا اور چندرشیکھر کے ہوسِ اقتدار کو شہ دی اور پھر مات بھی دیدی۔ قومی محاذ اپنے ۲۰۱ ممبران اور کمیونسٹوں کے ۴۵ ارکانِ پارلیمان کی حمایت کے باوجود اقتدار سے محروم ہو گیا۔

۱۹۹۱ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں کمیونسٹوں کی تعداد ۴۵ سے ۴۹ پر پہنچی۔ علاقائی جماعتیں ۵۸ سے ۵۵ یعنی ان دونوں کی مجموعی صورتحال تقریبا ً وہی رہی لیکن جنتا دل ۱۴۳ سے سمٹ کے ۵۹ پر جا پہنچا جس فائدہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کو ہوا۔ ان دونوں  جماعتوں نے اپنی قوت میں ۳۵ کا اضافہ کیا اور کانگریس کی تعداد ۲۳۲ تو بی جے پی ۱۲۰تک پہنچ گئی۔ کانگریس ایک بار پھرسب سے بڑ ی جماعت ضرور تھی لیکن پھر بھی اکثریت سے محروم تھی۔ نرسمہا راؤ نے کسی بڑی جماعت کے ساتھ مل کر محاذ بنانے کے بجائے ننھی منی جماعتوں کی وفاداریوں کو دولت کے بل بوتے پر خرید کر حکومت کرنے کی حکمتِ  عملی اختیار کی۔ جھار کھنڈ مکتی مورچہ کی رشوت،  چندرا سوامی کی سوداگری اور ہرشد مہتا کا بیگ اسی دور کی یادگار ہیں۔

ہندوستانی جمہوریت کا وہ تاریک ترین دور تھا۔ نرسمہا راؤ ایک نا اہل اور بے یار و مددگار وزیر اعظم کے طور پر کرسی سے جونک کی مانند چپکے ہوئے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے ظلم عظیم میں وہ بلا واسطہ شریک ہوئے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ تعمیر نو کا وعدہ کیا اور صاف مکر گئے۔ نرسمہا راؤ نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر شمالی ہند میں خود اپنی ہی پارٹی کو کمزور کیا تاکہ ان کے حریف این ڈی تیواری اور ارجن سنگھ کمزور ہو جائیں۔ اس خود غرضی کی بھاری قیمت کانگریس پارٹی اور خود انہوں نے چکائی۔ ۱۹۹۴ کے انتخابات میں کانگریس پارٹی نے ۹۲نشستیں گنوائیں اور اس کی تعداد ۱۴۰ تک سمٹ کر رہ گئی۔ کانگریس پارٹی کی اس بربادی کا فائدہ بی جے پی اور علاقائی جماعتوں کو ہوا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ۱۲۰ سے ۱۶۱ پر پہنچ گئی۔ علاقائی جماعتوں کو مجموعی طور پر۱۸۶ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی کمیونسٹ محاذ بدستور ۴۴ پرتھا۔

دستوری لحاظ سے صدر جمہوریہ کو سب سے بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے بی جے پی کو دعوت دینی پڑی۔ اٹل جی کی ۱۳ دنوں والی سرکار اعتماد کا ووٹ نہ حاصل کر سکنے کے باعث گر گئی اور وہ بے آبرو ہو کر ووٹوں کی گنتی سے قبل بھاگ کھڑے ہوئے۔ کانگریس نے ۴۶ نشستوں والے جنتا دل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ وشواناتھ پرتاپ سنگھ نے اپنے آپ کو رسوائی سے بچانے کی خاطر وزارت عظمیٰ کا عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جیوتی باسو کو ان کی پارٹی نے رسوائی سے بچایا لیکن بذاتِ خود ان کو ہمیشہ ہی وزیر اعظم نہ بن پانے کا افسوس رہا۔ یہ ایک قومی المیہ ہی تھا کہ دیو ے گوڑا جیسے شخص کو ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا جن کا نام ارکانِ پارلیمان کی فہرست میں آخری مقام پر تھا۔ دیوے گوڑا کی کھوکھلی حکومت بیساکھیوں کی مدد سے کھڑی ہوئی تھی۔ دیو ے گوڑا داخلی انتشار پر قابو نہ پپا سکے اور لالو پرسادیادو نے ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلی مرتبہ راجیہ سبھا سے آنے والے ایک غیر منتخب رکنِ پارلیمان اندرکمار گجرال کے ہاتھوں میں قوم کی زمام کار چلی گئی۔ ۱۹۹۸ کے آتے آتے کانگریس کی اندر خود اعتمادی آ گئی علاقائی جماعتوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور گجرال حکومت گر گئی۔

۱۹۹۸انتخابات کے نتائج حسب توقع تھے۔ بی جے پی نے اپنی قوت میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ۱۸۲ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ علاقائی جماعتوں کی کل تعداد ۱۴۰ سے ۱۵۶تک پہنچ گئی۔ کمیونسٹوں نے ۴ نشستیں گنوا کر ۴۰پر اکتفا کیا اور کانگریس کو بھی صرف ایک کا نقصان ہوا لیکن جنتا دل پوری طرح نیست و نابود ہو گیا۔ اس کے پاس صرف ۶ نشستیں رہ گئیں۔ کسی اقتدار کی مالک جماعت کا انتخاب میں یہ حشر ناقابلِ تصور ہے اور عوام کی شدید بیزاری کا مظہر ہے۔ ایسے میں علاقائی جماعتوں کا اعتماد اور اتحاد دونوں پارہ پارہ ہو گیا۔ قومی محاذ کے صدر چندرا بابونائیڈو نے بی جے پی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ دوہری رکنیت کے مسئلہ پر جنتا پارٹی کو توڑنے والے جارج فرنانڈیس بی جے پی کی زیر قیادت بننے والی حکومت میں وزیر دفاع بن گئے اور ہندوتوا کا دفاع کرنے لگے۔ گویا اپنی عمر کے پچاسویں سال میں ہندوستانی جمہوریت پر ایک فسطائی گروہ قابض ہو گیا۔

جے للیتا نے اٹل جی کی حمایت اس لیے کی تھی کہ اپنے اوپر چلنے والے بدعنوانی کے مقدمات کا خاتمہ ہو لیکن اٹل جی ایسا کرنے میں ناکام رہے اور اپنی اکثریت گنوا بیٹھے۔ ۱۹۹۹ کے انتخابات پھرسے بھارتیہ جنتا پارٹی نے نیوکلیائی دھماکہ اور کارگل کی مدد سے جیت لیے گو کہ بی جے پی کی تعداد ۱۸۲ پر منجمد تھی کمیونسٹوں نے صرف دو نشستیں گنوائی تھیں لیکن کانگریس ۲۱ نشستیں گنوا کر ۱۱۴پر پہنچ گئی تھی۔ علاقائی جماعتوں نے اپنی تعداد کو ۱۵۶ سے ۱۷۴ تک پہنچا دیا تھا اور ان کی بڑی تعداد بی جے پی کے ساتھ ہو گئی تھی۔ کانگریس کا چیلنج ختم ہو جانے کی بدولت بڑے آرام سے بی جے پی نے حکومت کی۔ گجرات کے دل دہلا دینے والے فسادات کے باوجود موقع پرست علاقائی جماعتیں بی جے پی کی حمایت میں کھڑی رہیں اور اسے اعتماد کے ووٹ سے سرفراز کیا۔ اس صورتحال میں پرمود مہاجن کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار ہو گئے اور انہوں نے قبل از وقت الیکشن کا اعلان کروا دیا۔

چمکتا دمکتا ہندوستان کے نعرہ پر۲۰۰۴میں ہونے والے انتخابات بھارتیہ جنتا پارٹی کی قسمت چمکانے میں ناکام رہے۔ اتر پردیش میں اسے بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ مجموعی طور پر وہ صرف ۱۳۸ نشستیں حاصل کر پائی۔ اس نقصان کا سب سے بڑا فائدہ کانگریس اور علاقائی جماعتوں کو ہوا۔ کانگریس ۳۰اضافی نشستیں حاصل کر کے ۱۴۵ پر پہنچ گئی اور کمیونسٹ محاذ نے ۱۶ ممبران کا اضافہ کر کے اپنے آپ کو ۵۳ پر پہنچایا۔ علاقائی جماعتوں کی کل تعداد بھی ۱۷۹ تک پہنچ گئی تھی۔ اس بار محض ۱۴۵نشستوں کے باوجود کانگریس کو حکومت سازی کی دعوت ملی۔ جو علاقائی جماعتیں بی جے پی کی ساتھ نہیں تھیں وہ سب کانگریس کی حمایت میں دوڑ پڑیں۔ کچھ بی جے پی کے حامیوں نے بھی پالا بدلا۔ کمیونسٹوں نے بیرونی حمایت پیش کی اور ایک نہایت کمزور شخص کو جس نے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی انتخاب لڑنا ضروری نہیں سمجھا ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ شیوراج پاٹل جیسے شخص کو جو انتخاب ہار چکا تھا وزیر داخلہ بننے کا موقع مل گیا۔ وزیر خارجہ پرنب مکھرجی بھی راجیہ سبھا کے چور دروازہ سے داخل ہونے والوں میں سے تھے۔ گویا کہ تمام اہم عہدے ان لوگوں کی مٹھی میں چلے گئی جنہیں عوام نے منتخب نہیں کیا تھا۔ عوامی جمہوریت کا یہ عظیم ترین مذاق تھا۔ ساری حکومت سونیا گاندھی کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح ناچتی تھی جن پر کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔

۲۰۰۹کے انتخابات جب قریب آئے تو کمیونسٹوں نے نیوکلیائی معاہدہ کا بہانہ بنا کر دامن جھٹک لیا لیکن سماج وادی پارٹی اور دولت کے بل بوتے پر من موہن سنگھ حکومت نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔ ایوان پارلیمان میں رشوت کی رقم کو ساری دنیا نے اپنے آنکھوں سے دیکھا لیکن اس کے باوجود سب خاموش تماشائی بنے رہے۔ جب ہندوستانی جمہوریت ابن الوقتی اور رشوت ستانی کے بامِ عروج پر پہنچ گئی تو اس وقت ۲۰۰۹ کے انتخابات کی مہا بھارت کا بگل بج گیا اور شروع ہو گیا دنیا کا عظیم ترین رنگا رنگ جمہوری تماشا۔

٭٭٭

 

مجبور ہیں ہم مجبور ہو تم مجبور یہ دنیا ساری ہے

قومی سیاست کا یہ حسن اتفاق ہے کہ پہلے تیس سال بلا شرکت غیرے کانگریس پارٹی برسر اقتدار رہی۔ اس کی بعد دس سال دو پارٹیوں نے حکومت کی اور اس کے بعد بیس سالوں میں چھ مرتبہ انتخابات ہوئے ان چھ انتخابات میں دو دو بار کانگریس،  بی جے پی اور علاقائی جماعتوں کے اتحاد (تیسرے محاذ)کو حکومت سازی کا موقع ملا۔ کمیونسٹوں نے تین مرتبہ حکومت سے باہر رہتے ہوئے حمایت کا اعلان کیا اور دو مرتبہ ان کے رکن کو ایوان کی صدارت یعنی اسپیکر بننے کا موقع ملا۔ اس دوران تیسرے محاذ کی موقع پرستی کھل کر سامنے آئی۔ ان لوگوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے کبھی بی جے پی کے کمل کو گلے سے لگایا تو کبھی کانگریس کے ہاتھ کا ساتھ لیا۔ ان میں سے کچھ یعنی پاسوان اور عمر عبداللّٰہ بی جے پی اور کانگریس دونوں کی حکومتوں میں بے حیائی کے ساتھ شامل رہے۔ مایا،  جیا اور ممتا نے اپنی وفاداریوں کی تبدیلی کو کبھی بھی معیوب نہیں سمجھا بلکہ بے دھڑک تعلقات بناتی اور بگاڑتی رہیں۔ کچھ ہمیشہ بی جے پی کے حامی اور کچھ ہمیشہ کانگریس کی حمایت میں رہے لیکن آئندہ بھی وہ اپنے اس رویہ پر قائم رہیں گے یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی اس لیے کہ ابن الوقتی اب ہندوستانی سیاست میں عیب نہیں بلکہ بہت بڑی خوبی بن گئی ہے۔ آج کے سیاستداں اپنی موقع پرستی کو سیاسی مجبوری کا نام دیتے ہیں۔

جمہوریت اور آزادی کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے لیکن گذشتہ بیس سالوں کے انتخابات کا جائزہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اس جمہوری نظام میں عوام تو کجا جماعتیں اور انکے رہنما بھی جبر واستبداد کی زنجیروں میں سر سے پیر تک جکڑے ہوئے ہیں۔ کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے کی مجبوری میں کبھی بی جے پی کو کمیونسٹوں کے شانہ بشانہ جنتا دل کی حمایت میں کھڑا ہونا پڑتا ہے تو کبھی بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی خاطرسرخ انقلاب کے علمبرداروں کو کانگریس کی حمایت کرنی پڑتی ہے۔ اپنی سیاسی ضرورتیں انہیں ایسے وقت موقع پر کانگریس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے پر مجبور کر دیتی ہیں جب بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے امکانات روشن ہو تے ہیں۔ فسطائیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والوں نے بی جے پی کی راہ ہموار کرنے میں اس بارکوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ خوش قسمتی سے سماج وادی پارٹی نے اپنا کندھا لگا کر حکومت کو گرنے سے بچا لیا۔ کمیونسٹ پارٹی نے محض اپنے انتخابی مفاد کے پیش نظر اتنا بڑا خطرہ مول لیا تھا۔ کانگریس اور بی جے پی نے ایک دوسرے کو اقتدار سے دور رکھنے کی مجبوری کی خاطر جنتا دل کی حمایت کی جب کہ وہ سب سے بڑی پارٹی نہیں تھی۔ علاقائی جماعتوں نے کانگریس اور بی جے پی دونوں کی حمایت کو فرقہ پرستی کی مخالفت یا مستحکم حکومت کے قیام کی مجبوری کا نام دیا حالانکہ ان سب کی مجبوری صرف اور صرف اپنا سیاسی رسوخ بڑھانا اور اقتدار سے استفادہ کرنا تھا۔

جس ہمہ گیر مجبوری نے ملک کو جمہوریت کے نام پر جکڑ لیا ہے اس کا مشاہدہ انتخابی مہم میں صاف نظر آتا ہے۔ پہلے تو ملک میں صرف دو محاذ پائے جاتے تھے لیکن جیسے ہی انتخابات قریب آئے ایک تیسرا محاذ قائم ہو گیا جس میں زیادہ تر ایسی علاقائی جماعتیں شامل ہیں جو کبھی بی جے پی کے ساتھ تھیں لیکن اس کے باوجود بی جے پی کی کٹر مخالف کمیونسٹ پارٹی اس محاذ میں پیش پیش ہو گئی۔ کیا کمیونسٹ پارٹی اسقدر بھولی ہے کہ ان لوگوں کی خصلت اور کردار کو نہیں جانتی۔ یہ ایسے موقع پرست ہیں کہ بی جے پی کے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے کی صورت میں سیدھے اس کی گود میں جا بیٹھیں گے اور تیسرے محاذ کو ٹھینگا دکھلا دیں گے۔ کمیونسٹ یقیناً اس حقیقت سے واقف ہیں اس کے باوجود انتخابات سے قبل کانگریس کی مخالفت کرنا اور اور انتخابات کے بعد بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنے خاطر کانگریس کی حمایت کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔

ترقی پسند محاذ میں شامل علاقائی جماعتوں نے حکومت میں شامل ہو کر اقتدار سے بھر پور استفادہ کیا لیکن انتخاب سے قبل کانگریس کے آگے اس قدر کم ٹکڑے ڈالے کہ کانگریس نے اسے چاٹنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ میں دوستانہ مقابلہ آرائی شروع ہو گئی۔ اب گویا ایک چوتھا محاذ قائم ہو گیا جو انتخاب کے بعد تو منموہن سنگھ کی حمایت کا دم بھرتا ہے لیکن انتخابات کے دوران منموہن سنگھ کی مخالفت پر کمر کسے ہوئے ہے۔ یہ ان علاقائی جماعتوں کی مجبوری ہے جس کا برملا اعتراف ملائم سنگھ یادو نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کانگریس کو ہماری ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب وہ کمزور ہوتی ہے۔ ایسا۲۰۰۴ میں ان کے ساتھ ہو چکا ہے جب کمیونسٹ کانگریس کے ساتھ تھے سونیا نے امر سنگھ کو دھتکار دیا تھا لیکن جب کمیونسٹوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو سماج وادی پارٹی کانگریس کے گلے کا ہار بن گئی۔ اس لیے کانگریس کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا ترقی پسند محاذ میں شامل علاقائی جماعتوں کی مجبوری ہے اور بی جے پی کو بے قوت کر کے اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا قومی محاذ میں شامل علاقائی جماعتوں کی مجبوری ہے۔ اس مجبوری نے ماضی کے دوستوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے اور یہی مجبوری انتخابی نتائج کے بعد دشمنوں کو دوست بنا دے گی ہے۔ گویا دوستی اور دشمنی کا انحصار ابن الوقتی اور مفاد پرستی پر ہے۔ یہ لوگ انتخاب سے قبل ایک دوسری کی جڑ کاٹتے ہیں اور بعد میں امر بیل کی طرح اقتدار کے تنے سے چمٹ جاتے ہیں۔ ایسے میں فیض احمد فیض کا شعر یاد آتا ہے  ؎

مجبور  ہیں  مجبور  ہو تم  مجبور یہ  دنیا  ساری  ہے            اس دور میں جینے کی قیمت یا دارورسن یا خواری ہے

سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں کی مجبوریاں بھی کم نہیں ہیں۔ راج ناتھ سنگھ کھلی بغاوت کے باوجود ارون جیٹلی پرکسی کارروائی کی ہمت نہیں رکھتے یہ ان کی مجبوری ہے۔ لیکن ان سے بڑی مجبوری متحدہ قومی محاذ کے سربراہ اور سابق وزیر دفاع جارج فرنانڈیس کی ہے۔ ایک طرف تو بی جے پی آنجہانی پرمود مہاجن کی بیٹی پونم مہاجن کو آنجہانی سنیل دت کی بیٹی پریہ دت کے خلاف الیکشن کا ٹکٹ دیتی ہے جن کے خلاف شیو سینا کے سابق ممبر پارلیمان مدھوکر سرپوتدار کی دختر نیک اختر راج ٹھاکرے کی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہی ہیں لیکن پونم مہاجن بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسی ٹکٹ کو ٹھوکر مار دیتی ہے۔ دوسری جانب سابق وزیر محنت،  وزیر ریلوے،  وزیر دفاع نیز متحدہ قومی محاذ (جو اقتدا ر کو حاصل کرنے کے خواب بن رہی ہے ) کے سربراہ جارج فرنانڈیس کو خود ان کی جماعت جنتا دل (متحدہ) نے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ بی جے پی کی یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ نتیش کمار پر دباؤ ڈالے اس لیے کہ وہ مجبور ہے اور جارج فرنانڈیس ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے مظفر نگر حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑنے پر مجبور ہیں۔ کیا اس سے بڑی مجبوری بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ سابق وزیر ریلوے بلا ٹکٹ الیکشن لڑے ؟

عوام کے نمائندوں کی اگرچہ کہ یہ گت جمہوریت نے بنا ڈالی ہے تو بیچارے عوام کس قماش میں ہیں۔ عوام اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ انتخاب لڑنے والے اکثر  و بیشتر خود اپنے اندر پائی جانے والی کسی صلاحیت کی بنیاد پر الیکشن نہیں لڑتے – صالحیت کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ جمہوریت نے لامذہبیت (سیکولرزم) کے نام اس کا گلا پیدا ہوتے ہی گھونٹ دیا تھا۔ پارلیمان کے ہر سیشن کو چلانے کی خاطر ۲۲ ہزار روپئے فی منٹ خرچ ہوتا ہے اس کے باوجود عوام کا ایک نمائندہ ایسا بھی ہے جس نے ایک دن بھی پارلیمان کے عام اجلاس میں شرکت کی زحمت گوارا نہیں کی۔ دس فیصدی سے کم حاضری والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ایک طرف ملک میں کسان خودکشی کر رہے ہیں اور نوجوان بے روزگار ہو رہے ہیں دوسری طرف ان کے نمائندے لکھ پتی اور کروڑ پتی بن رہے ہیں۔ راہل گاندھی کی املاک میں گذشتہ چار سالوں کے اندر دس گنا اضافہ ہوا اور وہ ۵۵ لاکھ سے دو کروڑ چالیس لاکھ کے مالک بن گئے حالانکہ ان کے پاس کوئی وزارت کا قلمدان تک نہیں تھا۔

۴جنوری کے ٹائمز آف انڈیا میں شہر ممبئی سے انتخاب لڑنے والے مختلف امیدواروں کی املاک کی تفصیل شائع ہوئی جن میں سر فہرست ابو عاصم اعظمی کا نام تھا۔ ان کے پاس ۱۲۴ کروڑ کا سرمایہ موجود ہے۔ دیگر کئی کروڑ پتی امیدواروں کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے جن میں شمالی ممبئی کے بی جے پی کے امیدوار رام نائک بھی ہیں۔ نائک صاحب کو گذشتہ مرتبہ گووندا کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا گویا پانچ برسوں میں ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ تو کجا پارلیمان کی رکنیت بھی نہیں تھی اس کے باوجود اس عرصہ میں ان کی املاک ۸۴ لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ چھیایس لاکھ تک پہنچ گئی – گویا تین گنا کا اضافہ۔ انہیں کے حلقہ انتخاب میں نشا پاٹلی والا نامی خاتون رہتی ہے جس کے تین بچے ہیں اور شوہر چھ ماہ پہلے اسے چھوڑ کر جا چکا ہے۔ نشا دھو بی تالاب کے کسی گھر میں کام کرتی ہے نیز پارسی پنچایت سے اپنے بچوں کی پرورش کے لیے مدد طلب کر رہی ہے۔ چونکہ وہ خود پارسی نہیں ہے اس لیے پنچایت کے لوگ گذشتہ چھ ماہ سے اسے شوہر کے ثبوت کا نام پر دھکے کھلا رہے ہیں۔ ۲فروری کی صبح نشا اپنے تینوں بچوں کو گھر میں بند کر کے کام پر چلی گئی اور سب سے بڑی بیٹی فرزین کو چھوٹے بھائی ارزان اور یزدان کی خدمت پر مامور کر دیا۔ شام کو جب واپس لوٹی تو فرزین کی حالت بگڑ چکی تھی وہ اسے لے کر سرکاری دواخانہ پہنچ گئی جہاں فرزین نے دم توڑ دیا۔ فرزین کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر انیل کمار یادو نے بتلایا کہ فاقہ کی وجہ سے بچی کی موت واقع ہوئی۔ اس کے پیٹ میں اناج کا ایک دانہ بھی نہیں تھا۔ ٹائمز میں کروڑ پتی امیدوار اور ٹائمز ہی کے ممبئی میں عوام کی حالت زار کا یہ دل دہلا دینے واقعہ جمہوریت کو آئینہ دکھاتا ہے

سیاسی رہنماؤں میں سے اکثر و بیشتر نے غلط راستوں سے دولت جمع کر رکھی ہے۔ اس کالے دھن کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کی خاطر انتخاب لڑنا ان کی مجبوری ہے۔ ساتھ ہی کئی امیدواروں پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں ایسے میں پولیس اور عدالت پر اثر انداز ہونے کی خاطر جمہوریت ان کی مجبوری ہے لیکن عوام تو بیچارے یہ جانتے بوجھتے بھی کہ یہ لکھ پتی کروڑ پتی ان کی خدمت کیونکر کر سکتے ہیں ان کو اپنے لوٹ مار کے کاروبار سے کب فرصت ملے گی کہ وہ عوام کے مسائل کی طرف توجہ دے سکیں۔ یہ لوگ عوام کی خاطر اپنے مفادات کو کبھی داؤں پر نہیں لگائیں گے ان سے ظلم و استحصال کے علاوہ کسی اور شئے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود انہیں کو منتخب کرنے پر مجبور ہیں اس لیے کہ جمہوریت انہیں بُروں میں سے کم برے پر اکتفا کرنے کی اجازت تو دیتی ہے لیکن اچھے تک پہنچنے نہیں دیتی۔ یہ اور بات ہے کہ کم بُرا جب کامیاب ہو جاتا ہے تو جمہوریت اسے اپنے آپ زیادہ برا  بنا دیتی ہے۔ عوام کو دشمن نما دشمن کا خوف دلا کر دوست نما دشمن کی حمایت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ دارورسن کا ڈر دکھا کر ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ آنے والا دور پانچ حصوں میں منقسم ہو گا۔ رحمت و نبوت کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی اور پھر بد اطوار ملوکیت چھا جائے گی جس کا خاتمہ جبر کی حکومت پر ہو گا۔ فی زمانہ پھیلی ہوئی ہمہ گیر مجبوری جس نے سارے انسانوں کو اوپر تلے سے اپنے پنجوں میں جکڑ لیا اسی نظام جبر کے باعث ہے جس کا خوشنما نام جمہوریت ہے۔ لوگ اسے باعث رحمت سمجھ کر اپنے سینوں سے لگائے ہوئے ہیں نتیجہ کے طور پر ان کی مجبوریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ حدیث آگے چل کر ایک اور دور کی بشارت دیتی ہے جسے خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا نام دیا گیا ہے اور اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ نبی ﷺ کی سنت کے طریقے پر عمل پیرا ہو گی اور اسلام زمین میں قدم جمائے گا۔ اس طرز حکومت سے آسمان والے خوش ہوں گے اور زمین والے بھی۔ آسمان دل کھول کر اپنی نعمتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی۔ یہ نبی برحق ؐ کی پیشن گوئی ہے اس لیے سچ ہو کر رہے گی۔ لیکن وہ خوشحالی کا دور اس عالمِ جبر یعنی جمہوریت کے بعد ہی آئے گا۔ اس لئے امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ کسی باطل نظام کو بچانے یاسنوارنے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کے بجائے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کی جدوجہد کرے۔ یہی نظامِ عدل ساری انسانیت کو جبرکے نظام سے نجات دلائے گا اور انہیں قدرت کے بیش بہا خزانوں سے نہ صرف اس دنیا میں مالامال کر دے گا بلکہ اس کارِ خیر میں شریک ہونے والے اپنی آخرت بھی سنوارنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب اس بات کا فیصلہ ہم سب کو فرداً فرداً کرنا ہو گا کہ ہم کن لوگوں شمار کئے جاتے ہیں کامیاب ہونے والوں میں یا ناکام ہونے والوں میں ؟ہمارے اس فیصلے سے قطع نظر یہ بات یقینی ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جس کی نشاندہی مذکورہ حدیث میں کی گئی ہے اور پھر؎

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے

٭٭٭

 

گردشِ ایام

( میرے قلمی سفر کی سب سے زیادہ دلچسپ اور حوصلہ افزا خط و کتابت)

انسان کو احسن التقویم پر پیدا کر کے اللّٰہ تعالیٰ نے اس میں کچھ کمزوریاں بھی ودیعت کر دیں جو اسے اپنے بندہ و غلام ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہیں اور انا ربکم الاعلی ٰ کے جھوٹے دعوی ٰ کی تردید کرتی ہیں۔ یہ کمزوریاں انسان کو اپنی اصلاح و تکمیل کی جانب بھی متوجہ و مائل رکھتی ہیں اورا ن کے چلتے بنی نوع آدم تمام عمر ارتقاء و ترقی کی راہوں پر گامزن رہتا ہے۔ ہر انسان کی کمزوریاں اس کی اپنی ضرورت کے مطابق ہوتی ہیں جس کا علم اس کے خالق و مالک کے سوا خود فردِ بشر کو بھی نہیں ہوتا۔ میری اپنی بے شمار کمزوریوں میں سے ایک یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو رد عمل کے اظہار سے روک نہیں پاتا حالانکہ مجھے اس اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ اکثر و بیشتر میرے اوٹ پٹانگ جوابات اصلاح کے بجائے مزید خرابی کا سبب بنتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ حسین ذوالقرنین صاحب کی خط کتابت کے بعد بھی ہوا۔ بجائے اس کے کہ ابتدائی مضمون بعنوان ‘‘ابتدائیہ ’’ میں مذکور گفت و شنید پر میں مطمئن ہو کر بیٹھ رہتا۔ بات کو آگے بڑھانے سے میں اپنے آپ کو باز نہ رکھ سکا۔ فاضل قاری  کے اعتراض سے جاری ہونے والا سلسلہ حاضر خدمت ہے۔ چونکہ یہ خط کتابت حسین ذولقرنین صاحب کے واسطے ہو رہی تھی اس لئے اس کے بالواسطہ مخاطب حسین بھائی ہیں اور بلا واسطہ خطاب قاری صاحب سے ہے۔

اعتراض

میں نہیں جانتا کہ آخر(اس مضمون کا) پیغام کیا ہے ؟یہ شخص سبھی کو کوستا ہے لیکن کوئی را ہ نہیں دکھلاتا۔ حیرت تو اس پر ہے کہ آپ اس کو پھیلا رہے ہیں۔ اس کی روشنی میں مسلمانوں کی کانگریس کو حمایت یا ۱۹۷۵میں جنتا دل کی مدد بھی ان کی مجبوری تھی۔ اس لیے اس سے بھی صرفِ نظر کرنا چاہئے تھا یا اس پر بھی تنقید کی جانی چاہئے۔ مجبوری ابوجہل کی بھی تھی جب اس نے کہا تھا کہ محمدؐ صادق ہیں لیکن… ابوسفیان بھی جس نے قریش کا سردار ہونے کے باوجود قصر روم میں حق بات کہی … جب تک کہ وہ رسول اکرم کے آگے سرنگوں نہیں ہو گیا۔ اور مجبوری انبیائے کرام کے علاوہ تقریباً ہر کسی کے ساتھ ہے۔ حضرت علیؓ کے ساتھ ان کی خلافت کے دوران بھی مجبوری تھی جبکہ مسلمان خلافتِ راشدہ کی موجودگی میں باہم بر سرِ پیکار ہو گئے تھے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اسے سمجھیں اور اس بارے میں سنجیدہ ہوں نیز ان تمام مجبوریوں کے باوجود بہترین لائحہ عمل تیار کریں۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اس اعتراض کا نہایت مختصر و مؤثر جواب خود حسین بھائی نے یہ دیا کہ :

میرا اس مضمون کو بھیجنا لازمی طور پر اس بات کا غماز نہیں ہے کہ میں اس میں درج ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن اس کے آخری پیراگراف میں ایک پیغام ضرور ہے جو قابلِ توجہ ہے۔ موجودہ صورتحال میں کسی ایک مقام پر کسی ایک وقت میں کوئی ایک مخصوص طریقۂ کار بعنیہ الہامی تعلیمات کے مصداق ہونے کا دعویٰ کر کے تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے خلافت و ملوکیت کے مصنف نے صحابۂ کرام اور بعد کے حا لات کا ناقدانہ جائزہ لیا تھا۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس کتاب نے اپنے زمانے میں بھونچال پیدا کر دیا تھا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ ضروری تھا اوراس نے ہمیں صرف ایک مخصوص نقطۂ نظر سے چیزوں دیکھنے سے احتراز کرنے کا درس دیا ہے۔

میں ہندوستانی سیاست کا ماہر تو نہیں لیکن اس کے باوجود مکمل طور پر بے لوث اور سنجیدہ قیادت کا فقدان محسوس کرتا ہوں۔ ایک ایسی مؤثر قیادت کا جو اپنے ذاتی مفاد پر قومی ایجنڈا کو مقدم رکھتی ہو۔ اس باب میں یقیناْپر امید رہنے کی گنجائش بہت کم ہے۔ ممکن ہے یہ میری کم علمی کے سبب ہو۔ مجھے انتخابی سیاست کے میدان میں اپنی توا نائیوں کا استعمال سے بہت زیادہ امید افزاء محسوس نہیں ہوتا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

 میرا جواب حسبِ ذیل تھا :

محترم حسین بھائی

آپ کے دوستوں تک مضمون پہنچانے کے لیے میں آپ کا مشکور و ممنون ہوں۔ میں اس نامعلوم قاری کا بھی کا شکر گذار ہوں جس نے ایک ایسے ناقص مضمون کو پڑھنے کی زحمت گوارہ کی جس میں بقول ان کے سبھی کو تنقید و تنقیص کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کا مزید احسان یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس تحریر پر رد عمل کے اظہار پر اپنا قیمتی وقت صرف کیا۔ میں ان کی سنجیدگی اور صبر و تحمل کی قدر کرتا ہوں۔

جہاں تک اس اعتراض پر میرے جواب کا تعلق ہے اس میں دو بنیادی سوالات با الترتیب  کیا؟ اور کیوں ؟ پر گفتگو ہو گی۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اول تو میں اپنے فہم کے مطابق رد عمل کیا ہے اس کا خلاصہ پیش کروں گا؟ اس لیے کہ ممکن ہے میں نے ان کا مدعا سمجھنے میں غلطی کی ہو؟ ثانیاً میں اس اعتراض کے پسِ پشت وجوہات پر گفتگو کروں گا۔ مجھے اس موقع پر ایک اور اعتراف کر لینا چاہئے کہ یہ میرا اندازہ ہے جو صد فی صد غلط ہو سکتا ہے۔

 میرے خیال میں فاضل قاری کو پریشانی اس بات سے ہے ان کے مطابق میں نے سبھی کو مجبور قرار دے دیا ہے۔ مجھے ان سے توقع تو یہ تھی کہ وہ اپنے دلائل سے یہ ثابت کر دیں گے کہ جنھیں مجبور گردانا گیا ہے وہ سب یا ان میں کچھ درحقیقت مجبور نہیں ہیں۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ انہوں نے میری فہرست میں ایسے لوگوں کا اضافہ کر دیا جن کا ذکر میں نہیں کر سکا تھا اور پھر یہ فرمایا کہ حضور اکرم ؐ کے علاوہ سارے ہی لوگ مجبور تھے۔ میں اگر بات کو آگے بڑھانے کے لیے ان سے اتفاق بھی کر لوں تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟حل یہی ہے کہ اپنی مجبوری سے پیچھا چھڑانے کرنے کے لیے اس شخصیت کا پیش کردہ نظام کو اپنایا جائے جو بذاتِ خود مجبور نہیں ہو یا جو مجبوری سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہو۔ بلا شبہ سیاست کے میدان میں رسول اکرم ؐ کا قائم کردہ نظام جمہوریت نہیں بلکہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ  ہے۔ ا س طرح گویا قاری اور میں نہ صرف مرض کی تشخیص بلکہ اس کے علاج پر بھی ایک دوسرے سے اتفا ق کرتے ہیں۔

انہوں نے حضور اکرم ؐ کے دوستوں اور دشمنوں کا حوالہ دے کر میرے لیے مزید آسانیاں فراہم کر دیں۔ ان کی آسان سی منطقی یہ ہے کہ مجبور کو بالآخر غیر مجبور کے آگے مغلوب ہونا ہی پڑتا ہے۔ اس کا ثبوت ہے دشمنانِ رسولؐ کا اپنی تمام تر قوت و حشمت کے باوجودشکست سے دوچار ہونا۔ حضرتِ علی ؓ اور ان کے ہمنوا جن کا تذکرہ فاضل قاری نے کیا ہے بھی اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اگرچہ کہ اس دورِ پرفتن میں اتحاد واتفاق کا فقدان تھا اور امت آپسی جنگ و جدال کا شکا ر تھی اس کے باوجود انہوں نے خلافت کے مسئلہ پر کوئی مصالحت نہیں کی اور اس کے علی الرغم کسی نظام کی جانب نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا بلکہ تمام تر مشکلات کے باوجود اسے قائم و دائم رکھنے کی بھرپور سعی و جدوجہد کرتے رہے۔ گویا یہ مثال بھی ہمیں یہی ترغیب دیتی ہے کہ امت کی دگر گوں حالت کا بہانہ بنا کر نظامِ  خلافت کے بجائے اس کے کسی متبادل کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے موجودہ نظام جاہلیت یعنی جمہوریت کے بالمقابل خلافت کو اس کا متبادل بنا کر پیش کر نا چاہئے۔

تبصرے کا دوسرا حصہ ان وجوہات کی تلاش پر مشتمل ہے جو اس طرح کے اعتراض کا سبب ہوسکتے ہیں۔ ایک قابلِ غور سوال یہ ہے کہ فکری و نظری سطح پر اتفاقِ رائے کہ باوجود آخر انسان حقائق سے نظریں ملا کر کیوں پریشان ہو جاتا ہے ؟ میرا خیال ہے اس سوال کا نہایت مؤثر اور مختصر جواب تو جناب حسین ذوالقرنین نے اپنے خط میں دے دیا… اس نے ہمیں صرف ایک مخصوص نقطۂ نظر سے چیزوں کو دیکھنے سے گریز کرنے کا درس دیا ہے مختلف مجددین کرام بشمول مولانا مودودیؒ نے لوگوں کے ذہن کھولنے کی کامیاب کوشش کی لیکن انسانی دماغ کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ وقت کے ساتھ پھر سے ایک مختصر سے خول میں بند ہو جاتا ہے اور لوگ اس سے پرے سوچنا بند کر دیتے ہیں۔

میرے اس مضمون کو لکھنے کی بنیادی وجہ موجودہ مجبوریوں کی سرحدوں سے باہر نکل کر غور و فکر کے امکانات تلاش کرنے کی تھی۔ اعتراض بھی اس ضرورت کی موجودگی کا غماز ہے۔ اگر ہماری سوچ ان زنجیروں کے حصار میں مقید نہ ہو تو میرے نزدیک اس طرح کے مضامین کے لکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ ذہنی مرعوبیت کا پہلا ثبوت ’’تمام لوگوں کو کوسنا‘‘ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کی آخری شہادت ’’تو اب بہترین لائحۂ عمل کیا ہے ‘‘؟ والے سوال سے ملتی ہے۔ اول تو میرا مضمون تمام لوگوں پر تنقید نہیں کرتا بلکہ صرف مغربی جمہوریت کے حامی واحد گروہ کو مخاطب کرتا ہے جو مختلف ظاہری اختلافات کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار ہمیں یہ غلط فہمی بھی لاحق ہو جاتی ہے کہ ان کے علاوہ نہ کوئی اور موجود ہے اور نہ ان کا کوئی متبادل ہے گویا یہی کل کائنات ہے۔ یہ دورِ حاضر کاسب سے بڑا فتنہ ہے۔

 جمہورت نوازوں کے علاوہ جودوسرے گروہ موجود ہیں ان کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس آسیب کے بالمقابل نہیں کے برابر ہیں لیکن اگر ایساہے بھی تو اس صورتحال میں کیا کیا جائے ؟کیا حق پرست افراد ہتھیار ڈال کر اس فتنہ پرور نظریہ کے لیے نرم چارہ بن جائیں ؟جبکہ اس میں کسی شک شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ ظالمانہ نظام ہے،  اس لئے اس کو للکارہ جانا چاہئے ؟ہمارے پاس فی الحال دوہی متبادل موجود ہیں یا تو اس کے آگے سپر ڈال دی جائے یا اس کے خلاف جدو جہد کر کے اسے بدل دیا جائے۔ انتخاب کا اختیار ہمیں ہے لیکن مؤخر الذکر فیصلہ کرنے کے لیے بے انتہا عزم و حوصلہ درکار ہے۔ موجودہ نظامِ جبر نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ایسا کرنے والوں کو مختلف بہانوں سے معتوب بھی کر تا ہے لیکن اس کی یہ حرکت خود اس کے ضعف کی علامت ہے اور اس کمزوری میں اضافے کا سبب بنے گی۔ ان حرکات سے اس کا ظالمانہ چہرہ عوام کے سامنے آ جائے گا؟ اور اس نظام کے ناقص اقدار و کھوکھلے وعدوں کی قلعی از خود اس کے اپنے اقدامات کے باعث کھل جائے گی۔ کوئی یہ دلیل بھی پیش کر سکتا ہے کہ اس سے ابتلاء و آزمائش میں اضافہ ہو گا۔ مگر آزمائشوں کا سلسلہ تویوں بھی جاری و ساری ہے۔ اس سے تو صرف یہ ہو گا کہ اس کی شدت میں اضافہ ہو جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ زہر دھیما ہو یا تیز انجام کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں مگر دوسرے متبادل میں بہر حال کامیابی کی امید ضرور موجود ہے جبکہ پہلے میں یہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اس بابت یہ بھی کہا جا سکتا ہے چونکہ کامیابی کے امکانات معدوم ہیں اس لئے دوسرا متبادل ایک لاحاصل کوشش ہے ؟ لیکن اگر یہ اندیشہ صحیح ہو تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہمارے اس اہم ترین انتخاب کی بنیاد دنیوی کامیابی یا ناکامی کے ا مکان پر ہونی چاہئے یا اللّٰہ کے نزدیک اس کے حق یا باطل ہونے پر؟ اگر باطل کی راہ حق کے بالمقابل سہل تر ہو جائے تو کیا وہ اسے اختیار کرنے کا جواز نکل آتا ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں کسی مفتی کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہر مسلمان اس کا جواب جانتا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اسلام پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔ لیکن انسانی تاریخ اس حقیقت پر بھی شاہد ہے کہ طاقتور لوگوں پر اللّٰہ کے اذن سے کمزوروں نے غلبہ حاصل کیا ہے۔ ویسے ہمارے فاضل قاری نے حضور اکرم ؐ کے حوالے سے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے۔

 اصل میں ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم وہی پڑھنا چاہتے جو کہ ہماری اپنی خواہشات سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہمیں بار بار اس بات پر اصرار اچھا لگتا ہے کہ بی جے پی فسطائی جماعت ہے حالانکہ یہ اظہر من الشمس حقیقت کسی بحث کی محتاج نہیں ہے۔ ہم اس کی جانب سے متوقع خطرات کا مطالعہ خوب خوب کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ بالکل واضح ہیں۔ ہم اس بات کی توقع بار بار کرتے ہیں کہ ہمیں یہ بتلایا جائے کہ اگر غیر فسطائی ووٹوں کی تقسیم نہ ہو تو انہیں شکست سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ اس تسلیم شدہ حقیقت کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ غیر فسطائی طاقتیں اپنی مفاد پرستی اور ابن الوقتی کے باعث کبھی بھی متحد نہیں ہو سکتیں۔ ہم بار بار یہ پڑھنا چاہتے ہیں کہ بی جے پی اقتدار میں نہیں آ رہی حالانکہ یہ نہ صرف انتخابی اندازوں سے واضح ہے بلکہ سشما سوراج نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ بی جے پی تو کجا متحدہ قومی محاذ بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکتا۔ ہم اس افیون کے نشے میں مست رہنا چاہتے ہیں اور اس کے آگے جانا نہیں چاہتے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ( فسطائی طاقتوں کواقتدار سے محروم رکھنا ہی) امت کے سارے مسائل کا واحد حل ہے ؟ یا اس سے کسی طور پر عالم انسانیت کی فلاح و بہبود وابستہ ہے ؟ہم اس سوالات پر گفتگو کرنا نہیں چاہتے۔

اگر کوئی مجھ جیسا سر پھرا ان کے جواب میں یہ کہتا ہے کہ یہ افیون ہماری سیاسی زندگی کے موذی امراض کا علاج نہیں ہے۔ یہ صرف دردکے احساس کو کم کر کے مصنوعی صحتمندی عطا کرتا ہے۔ ہمیں شکر میں لپٹی ہوئی یہ گولی نہیں بلکہایک ایساا نسخہ درکار ہے جو اگرچہ کہ کڑوا کیوں نہ ہو لیکن اس سے پورے نظام کی اصلاح ہو سکے تاکہ معاشرے میں خوشحالی آئے اور انصاف کا بول بالا ہو۔ تو ہم لوگ پریشان ہو جاتے ہیں اور تبدیلی کی راہ میں مزاحم بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں جو کچھ بھی حاصل ہے ہم انہیں عظیم تر کامیابیوں کی خاطر دواؤں پر لگانا نہیں چاہتے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس بابت خوف و    ا ندیشہ کے بجائے اعتماد و توکل درکار ہے۔ جس سے ہم رسول اکرم ؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر سعی و جدوجہد کر سکیں۔ ہمیں اللّٰہ رب العزت سے مدد و نصرت کا طالب ہونا چاہئے کیونکہ اللّٰہ کا وعدہ انبیا ء اور ان کے تابعین سے دنیا میں غلبہ ا ور آخرت میں کامیابی کا ہے۔ ہم ان لوگوں پر تو اعتبار کرتے ہیں جن کا شعار وعدہ خلافی رہا ہے لیکن اس پر اعتماد نہیں کرتے جو اپنے وعدے کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرتا صرف اس لیے کہ ہم اسے اپنی نگاہ سے اپنے سامنے نہیں دیکھتے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اس راہ میں انفرادی فلاح کا دارومدار ہماری کوششوں کے بار آور ہونے پر نہیں ہے اسی کے ساتھ اجتماعی کامیابی کے بھی امکانات روشن موجود ہیں اس حقیقت پر قرآنِ حکیم کی شہادت حسبِ ذیل ہے :

کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِنہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ ان سے زیادہ طاقت ور تھے اور ان سے زیادہ زبردست آثار زمین میں چھوڑ گئے ہیں۔ مگر اللّٰہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا اور اُن کو اللّٰہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا (سورہ المومن ۲۱)

یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اِس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے،  ( المومن ۵۱)۔

میں اپنے فاضل قاری کا پھر سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ان نکات کو واضح کرنے کا موقع عطا کیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

(قاری صاحب کا جواب)

ڈیئر  حسین بھائی

        السلام علیکم

میرا خیال ہے اب آپ ڈاکٹر سلیم خان کے ترجمان بن گئے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ وہ بہترین ای میل جو کبھی مجھے آپ کے ذریعہ سے ملا کرتے تھے اب نئی دنیا اور قدیم بلٹز کے مماثل مضامین میں بدل گئے ہیں جو مسلم عوام کی تسکین طلب کا سامان تو ہوتے ہیں مگر ان میں رہنمائی بہت کم ہوتی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ کے مقام و مرتبے کو یہ مضامین زیب نہیں دیتے۔ بہر حال آپ مجھے یہ میل نہ روانہ کریں۔ یہ رجعت پسندانہ تصورات ہیں۔ ان مضامین میں پائی جانے والی ما یوسی و بیزاری سے غم و غصہ جنم لیتا ہے۔ تحریک آزادی کے دوران بھی مولانا مودودی کی تحریریں ہر قسم کی رجعت پسندی سے بالکل پاک بے حد مثبت اور اسلامی ہوا کرتی تھیں۔ انہیں خطوط پر دعوت کے مولانا محمد مسلم بھی گامزن رہے اور اب بھی دعوت بڑی حد تک مثبت ہے۔ اگر کسی کو یہ بتایا جائے کہ یہ مضامین ایک رکنِ جماعت کے ہیں تو اسے تعجب ہو گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان مضامین کی ترویج کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مسلم ملت میں ان کی کافی مانگ ہے۔ لیکن کیا یہی ہمارا مقصد ہے۔ کیوں نہ اس موضوع پر اختلاف کے ہونے پر اتفاق کر لیا جائے۔ میں نے اور ہمارے خیر خواہان نے سوچا ان مضامین سے متعلق جو کچھ میں اور دیگر رفقائے جماعت سوچتے ہیں اس سے آپ کو آ گاہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

حسین ذوالقرنین صاحب کا جواب:

        وعلیکم السلام

طویل میل لکھنے کا شکریہ۔ میں آپ کی خواہش کا احترام کروں گا اور آ ئندہ ڈاکٹر سلیم کی کوئی تحریر نہیں بھیجوں گا۔ ترجمان ہونا تو درکنار میں ان سے کئی مواقع پر اختلاف کرتا رہا ہوں اور جب بھی مجھے ان کے خیالات سے اتفاق نہ ہو گا میں ایسا کرتا رہوں گا۔ میں انہیں اپنے خیالات کو بدلنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا الا ّیہ کہ وہ خود میرے نقطہ نظر سے متفق ہو جائیں۔

مجھے بجٹ پر ان کا یہ مضمون تین چار روز قبل موصول ہوا لیکن اس کو میں نے کل ہی پڑھا اس لیے کہ میں امریکی (مغربی) نظام حکومت کی جعلسازی،  استحصال اور چند بڑے سرمایہ داروں (کارپوریشنس) کے مفادات کی بجا آوری پر لکھی ایک ایسے شخص کی کتاب پڑھنے میں مصروف تھا جو اس نظام کا حصہ ہے۔ ہندوستان کے انتخابی نتائج یا بجٹ پر تبصرہ کرنا میری دلچسپی کا موضوع نہیں ہے اور میں ان پر وقت ضائع نہیں کرتا۔

میں نے آپ کا میل ملنے تک ۱۰ جولائی کے دعوت کا اداریہ نہیں پڑھا تھا تا کہ ڈاکٹر سلیم خان کے مضمون کا دعوت کے اداریہسے موازنہ کر سکوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس اداریہ کے لکھے جانے کی غرض و غایت نہ سمجھ سکا جبکہ اس میں کسی ٹھوس بنیاد پرکو ئی جائزہ نہیں پیش کیا گیا۔ نہ مثبت اور نہ ہی منفی۔ آپ نے مولانا مودودی اور محمد مسلم صاحب کا حوالہ دیا ہے۔ میں پسند کروں گا اگر آپ ان کی تحریروں میں سے ایسے حوالوں کی نشاندہی فرمائیں جس میں انہوں نے اپنے وقت کی سیاسی رویوں اور واقعات کا تنقیدی جائزہ نہ لیا ہو۔

آج کے دعوت میں ہندوستان کے سیاسی عمل میں جماعت کی شمولیت پر ڈاکٹر نوشاد علی کا مضمون شائع ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں انہیں اپنے خیالات کو منطق اور دلیل کی بنیاد پر پیش کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بانیِ جماعت کے قائم کردہ روایت کے خطوط پر اس بحث کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔

                                        محمد حسین ذوالقرنین

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

ڈیئر حسین بھائی

        السلام علیکم

آپ غالباً میرے بارے میں اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں کہ میں تنقید کا مخالف ہوں حالانکہ مولانا مودودی کی خطبات کی ابتدا تنقید ہی سے ہوتی ہے۔ ایسا کوئی موقع نہیں آیاجب جماعت نے اپنے آپ کو تنقیدسے دور رکھا۔ انبیائے کرام ہمیشہ ہی اپنے معاشرے پر تنقید کرتے رہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا صدرالدین اصلاحی کی کتاب معرکہ اسلام و جاہلیت کی بنیاد بدء الاسلام غریبا  پر ہے۔ مولانا مودودی روداد میں کہتے ہیں کہ انہیں اپنے کارکنان کے معاشرے میں تنقید کا نشانہ بننے پر اور وہ اپنے سماج میں اکیلے پڑ جانے پر اطمینان ہوتا ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ قومی نقطہ نظر کو اسلامی فکر پر غالب نہیں ہونا چاہئے۔ ہندوستان میں پائی جانے والی خاص فرقہ وارانہ صورتحال کے پیشِ نظر جماعت ان دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھتی ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں گو کہ ہم نے اسلامی فکر کی اچھی ترجمانی کی ہے لیکن ہم مسلمانوں کے مسائل کو بنات والا اور اویسی جیسے لوگوں کی مانند پرزور طریقے پر پیش کرنے والے اہل قلم نہ پیدا کرسکے۔ آپ کا دعوت کے اداریہ کو منتخب کر کے اس کو ڈاکٹر سلیم کے مضمون سے کمتر ثابت کرنا حیرت انگیز ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان کے دسیوں مضامین پڑھنے کے بعد بھی کیا مجھے کوئی اسلامی رہنمائی کبھی حاصل ہوئی ہے ؟اور کیا دعوت کے دس شمارے پڑھنے کے بعد میری وہی کیفیت ہوتی ہے ؟

میں جانتا ہوں کہ آپ میرے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کریں گے اس لیے کہ میں جانتا ہوں آپ پوری امت کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ مولانا مودودی کے وقت کی جماعت اور ان کی فکر کے باقیات بھی بدء الاسلام غریبا کی توجیہ مسلم امت کی قومیت کے طور پر کرتے رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے ڈاکٹر سلیم کے بارہا دوہرائی جانے والی فکر کی حمایت میں مولانا محمد مسلم صاحب کی مثال بھی دی ہے۔ نہایت آزمائش کے حالات میں جب کہ میں نوجوان تھا وہ مولانا محمد مسلم صاحب کا اسلوب تھا جو مجھے بڑی امید اورزبردست حوصلہ عطا کرتا تھا۔ ان کی تحریروں میں تنقیدو جائزہ دونوں موجود ہوتا لیکن اس کا نتیجہ وہ نہ نکلتا جیسا کہ ڈاکٹر جاوید نے کہا سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی کوئی کرن نہ ہو۔ اگر مجھے ڈاکٹر سلیم کے دس میں سے کوئی ایک بھی ایسا مضمون مل جاتا جس میں سچے اسلام کو پیش کیا گیا ہوتا تو یقین کریں میں آپ کو یہ خط نہیں لکھتا۔

اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا ان کی مخالفت کی جانی چاہئے ؟ تو میرا جواب نہیں میں ہو گا۔ کیا میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جماعت کو ان کے خیالات کی مخالفت کرنی چاہئے تو میرا جواب آگے بڑھ کر یہ ہو گا کہ جماعت کوحمایت کرنا چاہئے اس لیے کہ ہم میں سے بہت کم لوگ عوام کو ان کے اپنے لہجے میں مخاطب کر سکتے ہیں لیکن میں یہ گمان کرتا تھا کہ آپ اس تاریک دور میں اسلام کو بہت ہی اعلیٰ سطح سے پیش کرنے کا رحجان رکھتے ہیں۔ میں آپ کے خیالات کو پہلے بھی پڑھ چکا ہوں اور آپ کی جانب سے ارسال کردہ ان غیر مسلمین کے مضامین بھی دیکھ چکا ہوں جو معلومات سے پر اور امید افزا ہوا کرتے تھے۔

آج کی دنیا میں ای میل ابلاغ کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ لوگ اپنے مخاطبین سے یقیناً متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ قومیت سے بھرے مضامین کی تعریف میں ۹۹ خطوط وصول کرتے ہیں تو آپ کو ایک خط اس کے خلاف بھی موصول ہونا چاہئے۔ مدیر حضرات اس سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اب جبکہ میں آپ پر کافی تنقید کر چکا ہوں،  میں اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتا چلوں کہ متوازی ذرائع ابلاغ کی جو ذمہ داری آپ ادا کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ میں نے اسی ضمن میں آپ کو لکھا تھا۔ سلام کی خدمت میں اللّٰہ تعالیٰ آپ کی مددو نصرت فرمائے

                                                خیر اندیش

 ( پہلے خط کا میرا جواب میں اس لیے کہ دوسرا خط اس وقت تک مجھے موصول نہیں ہوا تھا )

ڈیئرحسین بھائی

        السلام علیکم

اعتراض روانہ کرنے کا شکریہ۔ رد عمل کے جواب میں میرا رد عمل ایک عمل ہے گویا۔ میں نے ہر اعتراض کا ذکر کر کے جواب دینے کی کوشش کی ہے اسے آپ برائے کرم قاری کو روانہ فرما دیں۔

میرا خیال ہے اب آپ ڈاکٹر سلیم خان کے ترجمان بن گئے ہیں۔

خیر (البر)کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا فرض ہے نہ کے برے (اثم و عدوان کے )کاموں میں۔ ایسا کرنے پر ایک مسلمان کسی کا ترجمان نہیں بن جاتا بلکہ اللّٰہ کے تئیں اپنی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ اب کچھ سیاہ و سفید معاملات ہیں جن میں خیر و شر کا واضح تعین قرآن و حدیث میں ملتا ہے۔ اس لیے ان کی بابت بحث و مباحثہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن کچھ متشابہات ہیں مثلاً یہ مثبت ہے یا نہیں یا یہ رجعت پسندی ہے یا نہیں ؟دو افراد کے اندر ان سوالات میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ ایسے میں طرزِ عمل کیا ہو؟دونوں کو اس بات کی آزادی ہو گی کہ وہ اپنی اپنی سوچ کے مطابق آگے بڑھیں۔ نہ آپ اپنے قاری پر زور زبردستی کر سکتے ہیں اور نہ وہ آپ پر۔

مجھے حیرت ہے کہ میں وہ بہترین ای میل جو کبھی مجھے آپ کے ذریعہ سے ملا کرتے تھے اب نئی دنیا اور قدیم بلٹز کی طرح کے مضامین میں تبدل ہو گئے ہیں جو مسلم عوام کی تسکینِ طلب کا سامان تو ہوتے ہیں مگر ان میں رہنمائی بہت کم ہوتی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ کے مقام و مرتبے کو یہ مضامین زیب نہیں دیتے۔

 میرے نزدیک یہ جذباتی بلیک میل کا ایک حربہ ہے جس میں کوئی دم نہیں۔ ہرکسی کو یہ کہنے کا حق ضرور ہے کہ مضمون میں جو رہنمائی کی گئی ہے اس سے میں اتفاق نہیں کرتا بلکہ وہ آگے بڑھ کے یہ ثابت بھی کر سکتا ہے کہ جو راہ سجھائی گئی ہے وہ نقصان دہ ہے ایسا کرنے پر معترض کے صحتمندانہ مباحثہ کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن کسی ایسی شے کے وجود سے انکار کر دینا جو موجود تو ہو لیکن قابلِ تسلیم نہ ہو مبنی بر انصاف رویہ نہیں ہے۔ میں ہر شعبہ سے آنے والے خیالات کا بشمول نئی دنیا اور قدیم بلٹز کے بلا تفریق احترام کرنے کا قائل ہوں۔ میں لوگوں کو نام لے کر رسوا کرنے میں یقین نہیں کرتا۔

بہر حال آپ مجھے یہ میل نہ روانہ کریں۔

یہ ناروا داری اور نخوت کا اظہار ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں اس کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔ ویسے چہرے میں کیا رکھا ہے کہ اس کا خالق بھی وہی ہستی جس نے سب کو وجود بخشا۔ بہت سارے اچھے مضامین کے ساتھ اگر کوئی ایک آدھ خراب مضمون بھی روانہ کر دے تو اسے یہ جاننے کے لیے دلچسپی سے پڑھا جا سکتا ہے کہ ہمارے پالے کے اس پار لوگ کیا سوچتے ہیں یا اسے باآسانی نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ چند سیکنڈس کی بات ہے۔ اگر میرے مضامین سے ان کو اس قدر غصہ اور بے چینی ہوتی ہے تو ان کے کمزور دل کے لیے بہتر یہی کہ وہ دعوت کے مثبت مضامین پر اکتفا کریں لیکن ان کی بدقسمتی سے بفضلِ تعالیٰ دعوت نے بھی میرے چند مضامین کو شائع کر دیا ہے۔ اس لیے اب ان کی نئی ذمہ داری ہے کہ اسے (دعوت کو)میرا ترجمان بننے سے روکیں۔

یہ رجعت پسندانہ تصورات ہیں۔ ان مضامین میں پائی جانے والی ما یوسی وبیزاری سے غم وغصہ جنم لیتا ہے۔ تحریک آزادی کے دوران بھی مولانا مودودی کی تحریریں ہر قسم کی رجعت پسندی سے بالکل پاک بے حد مثبت اور اسلامی ہوا کرتی تھیں۔ انہیں خطوط پر دعوت کے مولانا محمد مسلم بھی گامزن رہے اور اب بھی دعوت بڑی حد تک مثبت ہے۔

ہمارے قاری نے اپنی عقیدت کے باعث مولانا مودودی کو رجعت پسندکہنے سے گریز کیا ہے جبکہ مخالفین انقلاب ایسا نہیں کرتے۔ میرے خیال میں مولانا مودودی کا مدافعت کے بجائے اقدامی طرز فکران کا عظیم جہاد تھا جوان کے یقین محکم کا نتیجہ تھا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مولانا محمد علی جوہر کے ایماء پر مولانا مودودی نے الجہاد فی الاسلام اسلام دشمنوں کے اعتراضات کے جواب میں لکھی اور پردہ میں خواتین کا اسلام میں مقام کم صفحات پر بیان ہوا ہے جبکہ دیگر مذاہب میں ان کی حیثیت بیان کرنے کے لیے زیادہ صفحات مختص کیے گئے ہیں جو وقت کی اہم ترین ضرورت تھی اور اگر ایسا کرنے پر انہیں مولانا وحیدالدین خاں صاحب جیسے لوگ رجعت پسند کہتے ہیں تو غلط کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے لوگ بالآخر سنگھ پریوار کی گود میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہر دانشمند کے لیے اس نشانی میں بہت بڑا سبق ہے۔ میں اپنی موقف کو علامہ اقبال کے دو اشعار پر ختم کروں گا جن پر بھی رجعت پسندی کا لیبل لگایا جا سکتا ہے۔

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے

حق تجھے میری طرح صاحب،  اسرار کرے

ہے وہی اپنے زمانے کا امامِ برحق

جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک خدا بیزار نظام ہے اور اس سے کسی بھی خدا پرست فرد کا بیزار ہونا عین حسبِِ فطرت ہے۔

اگر کسی کو یہ بتایا جائے کہ یہ مضامین ایک رکنِ جماعت کے ہیں تو اسے تعجب ہو گا۔

اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو اس جملے میں ’اسے ‘بمعنیٰ ’مجھے ‘ہے۔ دستورِجماعت کے مطابق رکن کی یہ کسوٹی نہیں ہے اس لیے جس کسی کو حیرت ہوتی ہے اسے چاہئے کہ دستور جماعت کا پھر سے مطالعہ کرے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنے قاری کی مانند ایک پرہیزگار اور معیاری رکن نہیں ہوں اور بہت ہی نچلی سطح پر بیٹھا ہوا ہوں اس کے باوجود ان صالح افراد کی صحبت کو اپنے لیے باعثِ سعادت جانتا ہوں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ان مضامین کی ترویج کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مسلم ملت میں ان کی کافی طلب موجود ہے۔

شکریہ۔ جزاک اللّٰہ خیر الجزا

لیکن کیا یہی ہمارا مقصد ہے۔ کیوں نہ اس موضوع پر اختلاف کے ہونے پر اتفاق کر لیا جائے۔ میں نے اور ہمارے خیر خواہان نے سوچا ان کہ ان مضامین سے متعلق جو کچھ میں اور دیگر رفقائے جماعت سوچتے ہیں اس سے آپ کو آ گاہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

عزیز قاری،  میں آپ کی آخری تجویز کا احترام کرتا ہوں لیکن آپ کی رائے کے مطابق اتفاق یا اختلاف کے حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل،  ہمیں نا صرف ان لوگوں سے گفتگو کرنی چاہئے جن سے ہم اتفاق کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں سے بھی جن سے ہمیں اختلاف ہے۔ جن باتوں پر مکمل اتفاق رائے ہو ان سے مباحثہ بے معنی ٰ ہے اتفاقِ رائے تو حرکت و عمل کا مطالبہ کرتا ہے مگر اختلاف گفت و شنید کے ذریعہ تصفیہ کا متقاضی ہوتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے خیالات کو گہرائی کے ساتھ جاننا چاہئے اور اپنے محسوسات کا تبادلہ کرتے رہنا چاہئے۔

اگر میرے مضامین کسی فکری عمل کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مقصد کی نصف باریابی ہے۔ آپ نے جن سوالات کو اٹھا یا ہے ان میں سے ہر ایک وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارا مقصد کیا ہے ؟ رجعت پسندی یا جذباتیت کسے کہتے ہیں ؟اور ان اصطلاحات کا اطلاق کن نظریات پر ہوتا ہے اور کن پر نہیں ہوتا؟عصرِ حاضر میں کس چیز کی مانگ ہے اور کیوں ہے ؟ ہم ان سوالات پر بلا تکلف اور آزادانہ مباحثے کے بعد اختلاف یا اتفاق کر سکتے ہیں۔ ویسے جب تک کہ ہمارا اتفاق ’اقامتِ دین کے ذریعہ رضائے الٰہی کے حصول‘پر ہے اس وقت تک ان فروعی اختلافات سے چنداں فرق نہیں پڑتا۔

ایسا لگتا ہے آپ دعوت کا مطالعہ پابندی کے ساتھ کرتے ہیں ساتھ ہی حسین بھائی اور ان جیسے دیگر حضرات کے مضامین بھی پڑھتے رہتے ہیں لیکن مجھے بتلائیے کہ ماضی میں کب آپ ان لال جھنڈیوں کو بلند کیا تھا؟ اس سے پہلے آپ کب کسی پر اس قدر برسے تھے ؟

علامہ اقبال کی ایک منفی دعا ان کی مثبت دعاؤں سے زیادہ مشہور ہوئی  ؎

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

اس حوالے سے اگر میرے مضامین طوفان کا کام کرتے ہیں اور اس پرسکون ملت میں کوئی اضطراب کا سبب بنتے ہیں تو میں اسے اپنی سعادت سمجھوں گا اور اس کے لیے اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا

میں آپ کا اور ان رفقائے جماعت کا بھی شکر گذار ہوں جو میرے مضامین پڑھتے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں رفقائے جماعت کا ترجمان بن کر ان کے اور میرے درمیان پل کا کام کرنے کیلئے بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جیسا کہ حسین بھائی ہیں جو نہ صرف پل بلکہ پردہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کب تک یہ چلمن ہمارے درمیان حائل رہے گی اور کب ہم ایک دوسرے سے براہِ راست تبادلہ خیال کرسکیں گے۔ کیا میں آپ سے ایک مؤدبانہ گذارش کر سکتا ہوں کہ آپ براہِ راست مجھ پر غصہ اتاریں اور اسے پوری میلنگ لسٹ کے ساتھ شیٔر کریں۔ جناب حسین بھائی ایک صحتمند مباحثے کا آغاز فرمائیں۔ میں حسین بھائی سے استدعا کروں گا کہ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو وہ آپ کی شناخت ظاہر کیے بغیر یا اس کا اظہار کر کے آپ کے خیالات دوسرے قارئین تک بھی پہنچائیں۔ ایسا کرنے سے جو اہم سوالات آپ نے اٹھائے ہیں ان کے تیز اور بہتر تصفیہ میں مدد ملے گی۔

میں آپ کے خیالات کا احترام کرتا ہوں یہ میرے اندر جذبۂ عمل پیدا کرتے ہیں اور مجھے مزید محنت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اس طرح کی تحریروں کی ضرورت اب پہلے سے زیاد ہ ہے۔ جزاک اللّٰہ خیرالجزا۔

اس توقع کے ساتھ کہ آپ اس رجعت پسندی کوبھی اپنے مطالعہ میں شامل رکھیں گے اور اپنی مضمون نہ بھیجنے کی درخواست سے رجوع فرمائیں گے میں اجازت چاہتا ہوں امید ہے کہ یہ ہمارا آخری تبادلۂ خیال نہیں ثابت ہو گا،  ان شاءاللّٰہ

                                        والسلام

                                        آپ کا (جذباتی )بھائی

                                                سلیم

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

ڈیئر برادر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب

        السلام علیکم

میں نے آپ کی شناخت کے بغیر آپ کا تبصرہ (اول قسط)ڈاکٹر سلیم خان کو روانہ کر دیا تھا تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کی تحریروں کے بارے ہمارے قافلے کے کچھ قاری حضرات کیا کہتے ہیں۔ برائے کرم اس میل کے تحت آپ کے پہلے اعتراض کا ڈاکٹر سلیم خان کی جانب سے موصول شدہ جواب دیکھیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان کے نقطۂ نظر سے اتفاق کریں یا نہ کریں یا پھر براہِ راست ان کو مخاطب کریں۔ کسی ایسے معاملے میں جس کا تعلق حلال و حرام سے نہ ہو اختلاف کا ہونا صحتمندی کی علامت ہے اور اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے۔ کیا ہمارے بزرگوں کا اس بات پر اختلاف نہیں تھا کہ انتخابی عمل میں شریک ہونا اسلامی نقطۂ نظر سے جائز نہیں ہے اور دوسرے اس سے اختلاف کرتے تھے ؟ جیسا بھی آپ مناسب سمجھیں فیصلہ آپ کا ہے۔

                                        والسلام

                                        محمد حسین ذوالقرنین

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

ڈیئر حسین بھائی

        السلام علیکم

ڈاکٹر سلیم خان کا جواب ارسال کرنے کا شکریہ۔ میں ان کے سادہ اور حد درجہ روادار جواب سے متاثر ہوا ہوں اور مطمئن ہوں کہ ان کا طرزِ فکر مولانا مودودی کی تحریروں کے مطابق ہے۔ میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ میں خود اس عقلی اور منطقی اندازسے انحراف کرتا تھا جس کا استعمال وہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر آپ کو لکھے جانے والے میرے خطوط نئی دنیا کے اسلوب پر تھے۔

اب میں کم از کم یہ کرسکتا ہوں کہ میں ان کے مضامین کو رہنمائی کی نیت سے پڑھوں۔ اس لیے میں اپنی پرانی خواہش سے رجوع کرتا ہوں اور آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ آپ پہلے کی مانند ڈاکٹر سلیم خان کے مضامین کو بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ان شاء اللّٰہ میں انہیں مختلف زاویے سے پڑھوں گا اور پسند کروں گا۔ اللّٰہ تعالیٰ ڈاکٹر سلیم خان اور آپ کو،  مجھے سیدھا راستہ بتلانے کے لیے اجرِ عظیم سے نوازے

                                        نیک خواہشات

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

تعظیم و تکریم

ڈیئر حسین بھائی

        السلام علیکم

جواب حیرت انگیز ہے۔ اپنی انا کو زیر کر لینا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ یہ شیطان کا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا استعمال وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے کرتا ہے۔ میں اپنے قاری کی کشادہ دلی کی ساتھ کی گئی پذیرائی کا احترام کرتا ہوں اور ان کو ایسا کرنے کے لیے مبارکباد دیتا ہوں اس لیے کہ مجھ جیسے کمزور انسان کے لیے یہ کام بہت ہی مشکل ہو سکتا تھا۔ یہ اخلاص کی اس قلبی کیفیت کی علامت ہے جو حقائق کو بلا تحفظ تسلیم کر لیتی ہے۔ میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی اس صفت میں مزید اضافہ فرمائے اس لیے کہ کسی بھی مومن کا سب سے قیمتی اثاثہ یہی اخلاصِ نیت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی اس سے متصف فرمائے۔

                                والسلام

                                                سلیم خان

٭٭٭

تشکر:مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی ،  تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید