فہرست مضامین
- کچھ اردو شعراء
- 1۔امام احمد رضا خان
- 2۔اسداللہ خان غالب
- 3۔احمد فراز
- 4۔ابن انشاء
- 5۔احمد ندیم قاسمی
- 6۔اختر شیرانی
- 7۔پروین شاکر
- 8۔جوش ملیح آبادی
- 9۔جگر مراد آبادی
- 10۔حبیب جالب
- 11۔حفیظ جالندھری
- 12۔حفیظ تائب
- 13۔خواجہ حیدر علی آتش
- 14۔خواجہ الطاف حسین حالی
- 15۔خواجہ میر درد
- 16۔ساغر صدیقی
- 17۔ساحر لدھیانوی
- 18۔شکیب جلالی
- 19۔فیض احمد فیض
- 20۔میر تقی میر
- 21۔مرزاداغ دہلوی
- 22۔محمد ابراہیم ذوق
- 23۔مومن خان مومن
- 24۔منیر نیازی
- 25۔محسن بھوپالی
- 26۔مجید امجد
- 27۔ناصر کاظمی
- 28۔ن م راشد
- 29۔ولی دکنی
کچھ اردو شعراء
مرتبہ نسیم عباس نسیمی
1۔امام احمد رضا خان
پیدائش
احمد رضا خان 1272ھ -1865 میں پیدا ہوے ۔امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزارہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہے ۔ برصغیر پاک و ہند میں اہلسنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتے ہیں۔
دینی علوم کی تکمیل گھر پر اپنے والد مولوی نقی علی خان سے کی۔ دو مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے ۔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون پر کئی کتابیں اور رسائل تصنیف و تالیف کیے ۔ قرآن کا اردو ترجمہ بھی کیا جو کنز الایمان کے نام سے مشہور ہے ۔ علوم ریاضی و جفر میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بہت سی نعتیں اور سلام لکھے ہیں۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ بعض جگہ ان کتابوں کی تعداد چودہ سو ہے ۔
بچپن
مولانا نے چار برس کی ننھی عمر میں قرآن مجید ناظرہ کیا اور چھ سال کی عمر میں منبر پر مجمع کے سامنے میلاد شریف پڑھا۔ اردو فارسی اور عربی پڑھنے کے بعد مولانا نے اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان سے عربی زبان میں دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تیرہ برس دس مہینے کی عمر میں ایک عالم دین ہو گئے ۔ 14 شعبان 1286ھ مطابق 19 نومبر 1869ء میں مولانا کو عالم دین کی سند دی گئی اور اسی دن والد نے مولانا کے علمی کمال اور پختگی کو دیکھ کر فتویٰ نویسی کی خدمت ان کے سپرد کی۔ جسے مولانا نے 1340ھ مطابق 1921ء اپنی وفات کے وقت تک جاری رکھا۔
بسم اللہ خوانی
مولانا کی بسم اللہ خوانی کی رسم کے موقع پر ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ آپ کے استاد محترم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی نے حسب دستور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے بعد الف ب ت ث ج وغیرہ حروف تہجی مولانا کو پڑھانا شروع کیا۔ استاد کے بتانے کے مطابق مولانا پڑھتے گئے جب لام الف کی نوبت آئی۔ استادنے فرمایا کہو لام الیف تو مولانا خاموش ہو گئے اور لام الیف نہیں پڑھا۔ استادنے دوبارہ کہا۔ میاں صاحبزادے کہو لام الیف مولانا نے کہا یہ دونو حرف تو میں پڑھ چکا ہوں۔ الیف بھی پڑھا اور لام بھی پڑھ چکا ہوں۔ اب دوبارہ کیوں پڑھا یا جا رہا ہے ؟ محفل بسم اللہ خوانی میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان قدس سرہ کے دادا جان مولانا شاہ رضا علی خان موجود تھے فرمایا بیٹا استاد کا کہا مانو۔ جو کہتے ہیں پڑھو۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان قدس سرہ نے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے لام الف پڑھا لیکن جد امجد کے چہرہ کی طرف مستفسرانہ نگاہ ڈالی۔ جد امجد مولانا شاہ رضا علی خان نے بھانپ لیا کہ گویا یہ ننھا بچہ کہہ رہا ہے کہ آج کے سبق میں تو حُرُف مفردہ کا بیان ہے پھر ان کے درمیان ایک مرکب لفظ کیسے آ گیا۔ اگرچہ بچے کی ننھی عمر کے اعتبار سے لام کے ساتھ الف ملا نے کی وجہ بیان کرنا قبل از وقت بات تھی، اس وقت بچہ کی عمر تو ضرور ننھی ہے مگر اس کا ادراک و شعور بفضلہ تعالیٰ ننھا نہیں اس لئے آپ نے مولانا سے فرمایا بیٹا شروع میں سب سے پہلا حرف جو تم نے پڑھا ہے وہ حقیقت میں ہمزہ ہے الف نہیں اور اب لام کے ساتھ جو حرف ملا کر تم پڑھ رہے ہو وہ الف ہے لیکن چونکہ الف ہمیشہ ساکن رہتا ہے اور تنہا ساکن حرف کو کسی طرح پڑھا نہیں جا سکتا اس لئے لام کے ساتھ الف کو ملا کر اس کا بھی تلفظ کر دیا گیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر یہی مقصود تھا کہ الف کا تلفظ کرایا جائے ۔ تو اسے کسی بھی حرف کے ساتھ ملا سکتے تھے مسلاً ب یا جیم یا دال کے ساتھ بھی ملا کر الف کا تلفظ کریا جا سکتا تھا لیکن ان سارے حروف کو چھوڑ کر لام کے ساتھ الف ملا کر اس کی ادائیگی کرائی گئی۔ ایسا کیوں ہو؟ لام سے الف کا خاص رشتہ کیا ہے ؟ مولانا کا یہ سوال سن کر جد امجد نے جوشِ محبت میں آپ کو گلے لگا لیا اور دل سے دعائیں پھر فرمایا بیٹا لام اور الف کے درمیان صورۃً اور سیرۃً بڑا گہرا تعلق ہے ۔ لکھنے میں دونوں کی صورت اور شکل ایک دوسرے کی طرح ہے دیکھو لا اور سیرۃً یوں تعلق ہے کہ لام کا قلب center الف ہے اور الف کا قلب centerلا ہے یعنی ل ا م کے بیچ میں الف اور ا ل ف کے بیچ میں لام ہے گویا
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
یعنی اے مرشد تجھ میں فنا ہو کر میں تو ہوا تو میں ہوا میں جسم بنا اور تو روح ہوا تاکہ کوئی شخص اس کے بعد یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں تو اور ہے ۔ ظاہری نگاہ میں تو حضرت جد امجد مولانا شاہ رضا علی خان قدس سرہ نے اس الف لام کے مرکب لا نے کی وجہ بیان فرمائی مگر باتوں ہی باتوں میں اسرار و حقائق، رموز و اشارات کے دریافت و ادراک کی صلاحیت اعلیٰ حضرت کے قلب و دماغ میں بچپن ہی سے پیدا فرما دی جس کا اثر بعد میں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اعلیٰ حضرت اگر شریعت میں سید نا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدم بقدم ہیں تو طریقت میں سرکار غوث الاعظم کے نائب اکرم ہیں۔
سلسلہ تعلیم
رسم بسم اللہ خوانی کے بعد اعلیٰ حضرت کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہو گیا آپ نے اپنی چار برس کی ننھی سی عمر میں حب کہ عموماً دو سرے بچے اس عمر میں اپنے وجود سے بھی بے خبر رہتے ہیں قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔ چھ سال کی عمر میں ماہ مبارک ربیع الاول شریف کی تقریب میں منبر پر رونق افروز ہوکر بھت بڑے مجمع کی موجودگی میں ذکر میلاد شریف پڑھا۔ اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد حضرت مرزا غلام قادر بیگ الیہالرحمہ سے میزان منشعب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی پھر آپ نے اپنے والج ماجد تاج العلماء سند المحققین حضرت مولانا نقی علی خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مندرجئہ ذیل اکیس علوم پڑھے ۔ علم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، جدل مہذب، علم العقائد و الکلام جو مذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا، علم نجوم علم صرف علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم تکحیہ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف مین 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869 ء کو آپ فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے ۔ اسی دن مسلئہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا۔ جواب بالکل صحیح تھا۔ والد ماجد نے ذہن نقاد و طبع و قاد دیکھ کر اسی وقت سے فتوی نویسی کی جلیل الشان خدمت آپ کے سپرد کر دی۔ آپ نے تعلیم و طریقت حضرت مرشد برحق استاذ العارفین مولانا سید آل رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل کی۔ مرشد برحق کے وصال کے بعد بعض تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر وغیرہ استاذالسالکین حضرت مولانا سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل فرمایا۔ شرح چغمینی کا بعض حصہ حضرت مولانا عبد العلی رامپوری علیہ الرحمہ سے پڑھا پھر آپ نے کسی استاذ سے بغیر پڑھے محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے ، قراءت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگارثم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یانی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائرچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مولانا کے اساتذہ کی فہرست تو بہت مختصر ہے لیکن مولانا نے بہت سے فنون میں کتابیں لکھیں حضرت مولانا ملک العلماء سید ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ نے 1327ھ مطابق 1909ء میں مولانا کی تصانیف کی ایک فہرست بنام المجمل المعدعتالیفات المجدد مرتب فرمائی اور آخر میں ایک جدول پیش کی جس میں ان سبھی علوم و فنون کا نام ہے جن میں 1327ء تک مولانا کتابیں تصنیف کیں۔
معلمین
ان حضرات کے اسماء جن سے امام احمد رضا نے اکتساب علم و فیض حاصل فرمایا
مرزا غلام قادر بیگ بریلوی م 1301ھ 1883ء
والد ماجد مولانا محمد نقی علی خان بریلوی م 1297ھ 1880ء
مولانا عبد العلی خان رامپوری م 1303ھ 1885ء تلمیذ علامہ فضل حق خیرآبادی م 1278ھ 1861ع
شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی م 1324 ھ 1906ء مولانا نور احمد بدایونی م 1301ھ
شاہ آل رسول مارہروی م 1297ھ 1879ء تلمیذ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی م 1239ھ۔
امام شافعیہ شیخ حسین صالح م1306ھ 1884ء
مفتی حنفیہ شیخ عبد الرحمٰن سراج م 1301ھ 1883ء
مفتی شافعیہ شیخ احمد بن زین دحلان م 1299ھ 1881ء قاضی القضاۃ حرم محترم۔
بیعت و خلافت
فاضل بریلوی 1294 ھ،1877 ء میں اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ حضرت شاہ آل رسول رحمۃ اللہ علیہ (م 1692ھ 1878 ء ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہو کر اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے -فاضل بریلوی رحمۃ اللہ نے اپنے دیوان میں اپنے مرشد طریقت کی شان میں ایک منقبت لکھی جس کا مطلع ہے
خوشا دے کہ دہندش دلائے آل رسول
خوشا مرے کہ کنندش فدائے آل رسول
فاضل بریلوی کو جن سلاسل و طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی۔ اس کی تفصیل خود موصوف نے اس طرح لکھی-قادریہ برکاتیہ جدیدہ , قادریہ آبائیہ قدیمہ , قادرہ رزاقیہ , قادریہ منوریہ , چشتیہ نظامیہ قدیمہ , قادرہ اہدلیہ ,چشتیہ محبوبیہ جدیدہ , سہروردیہ فضیلہ , نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ , نقشبندیہ علائیہ علویہ , بدیعیہ , علویہ منامیہ وغیرہا- مندرجہ بالا سلاسل میں اجازت کے علاوہ فاضل بریلوی کو مصافحات اربعہ کی سندات بھی ملیں جس کی تفصیل اعلیٰ حضرت نے اس طرح بیان فرمائی- مصا حفۃ الحسنیہ ,مصاحفۃ العمریہ , مصاحفۃ،الخضریہ , مصافحۃ المنانیہ- ان مصافحات و اجازت کے علاوہ مختلف اذکار اشغال و اعمال وغیرہ کی بھی آپ کو اجازت حاصل تھی جیسے خواص القرآن اسماء الٰہیہ،دلائل الخیرات حصن حصین،حزب البحر،صزب النصر،حرز الامیرین،حرزالیمانی دعاءمغنی،دعا حیدری،دعا عزارائیلی،دعا سریانی،قصیدہ غوثیہ،قصیدہ بردہ وغیرہ وغیرہ-
حج و زیارت
ذی الحجہ 1294ھ مطابق دسمبر 1877ء میں پہلی بار مولانا نے حج کیا پھر ربیع الاول 1324ھ مطابق اپریل 1906ء میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں رہ کر بارگاہ رسالت کی زیارت کرتے رہے ۔ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے بڑے بڑے علماء آپ کے علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھ کر آپ کے نورانی ہاتھوں پر مرید ہوئے اور آپ کو استاد و پیشوا مانا۔
اشاعت اسلام
مولانا نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنی ساری زندگی اسلام کے خدمت اور سنیت کی اشاعت میں صرف فرمائی اور تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں جن میں فتوی رضویہ بہت ہی ضخیم کتاب ہے ۔ مولانا نے قرآن مجید کا صحیح ترجمہ اردو میں تحریر فرمایا جس کو عالم اسلام کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن کہتی ہے
رد وہابیت
آپ کے زمانے میں نیچریوں، مکار صوفیوں، غیر مقلد وہابیوں، دیوبندی وہابیوں، قادیانیوں نے اسلام و سنیت کے خلاف دھوکے کا جال بچھا کر بھولے بھالے مسلمانوں میں خوب گمراہی پھیلا رکھی تھی۔ آپ نے دین و شریعت کی حمایت میں ان سب گمراہ گروہوں سے چومکھیا لڑائی لڑ کر سب کے دانت کھٹے کر دئے اور حق و باطل کو خوب واضح کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔آپ کے فتاوے اور کتابوں کےززریعہ اللہ تعالیٰ نے ہزاروں بہکے مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائی۔ بہت سے وہ علماء جو گمراہی کے سیلاب میں بہتے جا رہے تھے آپ کی رہنمائی سے انہوں نے حق قبول کیا اور سیدھی راہ پر ہو گئے ۔ جب وہابیوں، دیوبندیوں نے سرکار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے شان میں گستاخی اور توہین کتابوں میں لکھ کر شائع کی۔ اور مسلمانوں کو بگاڑنا شروع کیا تو آپ نے اظل پہاڑ کی طرح جم کر سرکار محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کا پرچم لہرایا اور مسلمانوں کو سرکار کی محبت و تعظیم کا سبق دیا اور گستاخ ملاؤں کو لوہے کے چنے چبوا دئے ۔
تصانیف
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کم و بیش مختلف عنوانات پر کم و بیش ایک ہزار کتابیں لکھیں ہیں۔ یوں تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 1286ھ سے 1340ھ تک لاکھوں فتوے لکھے ۔ لیکن افسوس کہ سب کو نقل نہ کیا جا سکا، جو نقل کر لیئے گئے تھے ان کا نام "العطا یا النبویہ فی الفتاوی رضویہ” رکھا گیا۔ فتاویٰ رضویہ جدید کی 30 جلدیں ہیں جن کے کل صفحات 21656، کل سوالات و جوابات 6847 اور کل رسائل 206 ہیں۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے ۔ حوالہ: فتاویٰ رضویہ جدید، ج 30، ص 10، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور۔قرآن و حدیث، فقہ منطق اور کلام وغیرہ میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وسعت نظری کا اندازہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاوے کے مطالعے سے ہی ہو سکتا ہے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چند دیگر کتب کے نام درج ذیل ہیں۔ "سبحٰنُ السُّبوح عن عیب کذب مقبوع” سچے خدا پر جھوٹ کا بہتان باندھنے والوں کے رد میں یہ رسالہ تحریر فرمایا جس نے مخالفین کے دم توڑ دیئے اور قلم نچوڑ دیئے ۔نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان اس کتاب میں آپ نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکن ثابت کیا ہے ۔ اور سانسدانوں کے اس نظریئے کا کہ زمین گردش کرتی ہے رد فرمایا ہے ۔علاوہ ازیں یہ کتابیں تحریر فرمائیں، المعتمد المستند، تجلی الیقین، الکوکبتہ، اتشھائبہ سل، اکسیوف، الہندیہ، حیات الاموات وغیرہ۔
حدائق بخشش
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعتیہ کلام کی کتاب حدائق بخشش نے اردو کہ مسلمانو، مومنو اور صوفیوں کی زبان بنا دی ہے ۔
مصطفیٰ جانِ رحمت پے لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
بہت مشہور ہے
کنز الایمان ترجمہ قرآن شریف
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو کہ اردو کے موجودہ تراجم میں سب پر فائق ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ترجمہ کا نام "کنز الایمان” ہے ۔ جس پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے حاشیہ لکھا ہے
وصال یار
25 صفر المظفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعہ مبارک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ عین اذان کے وقت ادھر موذن نے حی الفلاح کہا اور ادھر امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزار پر انوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے ۔ حوالہ: سوانح امام احمد رضا، ص 391،
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزار پر انوار بریلی شریف محلہ سوداگران میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے
اعلیٰ حضرت پر پی ایچ ڈی
آپ کی زندگی، دینی خدمات، مکتوبات و تصانیف پر اکثر اسکالروں نے پی ایچ ڈی کی ہے
ڈاکٹر حسن رضا خان،پٹنہ یونیورسٹی، انڈیا، 1979 عنوان : فقیہ اسلام۔
ڈاکٹر مسز اوشا سانیال، کولمبیا یونیورسٹی، نیو یارک، 1990 عنوان: Devotional Islam and Politics in British India (Ahmad Raza Khan Barelivi and his Movement 1870-1920)
ڈاکٹر سید جمال الدین، ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی، ساگر، ایم پی، 1992 عنوان : اعلیٰ حضرت محمد امام احمد رضا خان اور ان کی نعت گوئی۔
ڈاکٹر محمد امام الدین جوہر شفیع آبادی، بہار یونیورسٹی، مظفر پور، انڈیا، 1992عنوان: حضرت رضا بریلوی بحیثیت شاعرِ نعت
ڈاکٹر طیب رضا، ہندو یونیورسٹی، بنارس، انڈیا، 1993عنوان: امام احمد رضا خان حیات و کارنامے ۔
ڈاکٹر مجید اللہ قادری، جامعہ کراچی، پاکستان، 1993، عنوان: کنز الایمان اور دیگر معروف اردو تراجم کا تقابلی جائزہ۔
ڈاکٹر حافظ الباری صدیقی، سندھ یونیورسٹی، جامشورو، پاکستان، 1993، عنوان: امام احمد رضا بریلوی کے حالات افکار اور اصلاحی کارنامے (سندھی)۔
ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، بریلی، انڈیا، 1994، عنوان: اردو نعت گوئی اور فاضل بریلوی۔
ڈاکٹر سراج احمد بستوی، کانپور یونیورسٹی، انڈیا، 1995، عنوان: مولانا احمد رضا خان بریلوی کی نعتیہ شاعری۔
ڈاکٹر مولانا امجد رضا قادری، ویر کنور سنگھ یونیورسٹی، آرہ، بہار، انڈیا1998، عنوان: امام احمد رضا کی فکری تنقیدیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد انور خان، سندھ یونیورسٹی، جامشورو، پاکستان، 1998، عنوان: مولانا احمد رضا بریلوی کی فقہی خدمات۔
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری، میسور یونیورسٹی، انڈیا، 2002، عنوان: امام احمد رضا کا تصورِ عشق۔
ڈاکٹر رضا الرحمٰن حاکف سنبھلی، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، بریلی، انڈیا، 2003، عنوان: روہیل کھنڈ کے نثری ارتقا میں مولانا امام احمد رضا خان کا حصہ۔
ڈاکٹر غلام غوث قادری، رانچی یونیورسٹی، انڈیا، 2003، عنوان: امام احمد رضا کی انشاء پردازی
مسز ڈاکٹر تنظیم الفردوس، جامعہ کراچی، پاکستان2004، عنوان: مولانا احمد رضا خان کی نعتیہ شاعری کا تاریخی اور ادبی جائزہ۔
ڈاکٹر سید شاہد علی نورانی، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، پاکستان، 2004، عنوان: الشیخ احمد رضا شاعر اربیا مع تدوین دیوانہ العربی۔
ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی، بی آر امبیڑکر یونیورسٹی، مظفر پور، انڈیا، 2004، عنوان: امام احمد رضا اور ان کے مکتوبات۔
حوالہ
سوانح امام احمد رضا، ص 391، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۔
الملفوظ، حصہ اول، ص 3، مشتاق بک کارنر مرکز اولیاء لاہور۔
حیاتِ اعلی حضرت، ج1، ص 58، مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی۔
فتاویٰ رضویہ جدید، ج 30، ص 10، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور۔
حدائق بخشش، رضا اکیڈمی، ممبئی، الہند۔
حیاتِ اعلیٰ حضرت, جلد الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ،۱۳۱۲ھ، مطبع اہلسنت بریلی و رضا اکیڈمی ممبئی (ستروجہ سے امام وہابیہ دہلوی پر لزوم کفر
فتافی الحرمین برجف ندوۃالمین ۱۳۱۷ھ، (عربی)، مطبح گلزار حسینی ومکتبہ ایایشیق استنبول (ندوۃ العلماء والوں کے عقائد اور ان پر فتاوئ حرمین
^ الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیۃ ۱۳۲۳ھ(عربی)، مطبح اہلسنت و جماعت بریلی، (الدولۃ والمکیہ پر مصنف کا مبسوط حاشیہ فرقئہ نیچریہ کارد۔ یہ کتاب اعلی حضرت نے مکہ مکرمہ میں اس وقت لکھا جب آپ سے علم غیب رسول کے بارے میں سوال کیا گیا بغیر کسی کتاب کی مدد کے زبانی طور پر یہ کتاب چند گھنٹوں میں تحریر ہوئی اور اس پر علمائے حرمین شریفین یعنی علمائے مکہ و مدینہ نے تصدیقات رقم کیں، یہ کتاب اردو ترجمہ کے ساتھ بھی متعدد بار طبع ہوئی ہے ۔
سوانح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مرتبہ بدر الدین احمد قادری، ناشر قادری مشن بریلی شریف
سوانح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مرتبہ بدر الدین احمد قادری، ناشر قادری مشن بریلی شریف
امام احمد رضا کی فقہی بصیرت مرتبہ محمد یٰس اختر مصباحی، ناشر رضوی کتاب گھر دھلی
الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیۃ 1323ھ(عربی)، مطبح اہلسنت وجاعت بریلی، (الدولۃ والمکیہ پر مصنف کا مبسوط حاشیہ فرقئہ نیچریہ کا رد۔ یہ کتاب اعلیحضرت نے مکہ مکرمہ میں اس وقت لکھا جب آپ سے علم غیب رسول کے بارے میں سوال کیا گیا بغیر کسی کتاب کی مدد کے زبانی طور پر یہ کتاب چند گھنٹوں میں تحریر ہوئی اور اس پر علمائے حرمیں شریفین یعنی علمائے مکہ و مدینہ نے تصدیقات رقم کیں، یہ کتاب اردو ترجمہ کے ساتھ بھی متعدد بار تبع ہوئی ہے ۔
الاجازۃ الرضویہ لمجبل مکۃ البہۃ، 1323ھ (عربی) مکتبہ قادریہ لوہاری گیٹ لاہور (اجازت نامے جو اعلیٰ حضرت نے علمائے مکہ کو دئیے
الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ ولمدینۃ، 1324 ھ (عربی) مکتبہ قادریہ لوہاری گیٹ لاہور و رضا اکیڈمی ممبئی وغیرہ جس میں علمائے مکہ و مدینہ کی عطا کردہ اجازتیں ہیں، مرتبہ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خلیف اکبر اعلیٰ حضرت علیہما الرحمہ
Historic Judgment of Session Judge, Fyzabad,UP, India 30۔04۔1949۔
حفظ الایمان، تقویت الایمان، براہین قاطعہ، صراط المستقیم وغیرہ
العطا یا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ، مطبح اہلسنت وجاعت بریلی و رضا اکیڈمی ممبئی و کتبخانہ سمنانی میرٹھ و سنی دار الاشاعت مبارکپور و لائلپور
امام احمد رضا اور حرکتِ زمین از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبع ادارہ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی
سوانح امام احمد رضا، ص 373، مکتبہ نوریہ، رضویہ سکھر
٭٭٭
2۔اسداللہ خان غالب
مرزا غالب(1797-1869)اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے ۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے ۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً ً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے ۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے ۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراء بیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔
غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تا دم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا
غم ہستی کو اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
1261 ایک یادگار مشاعرہ میں شرکت کی
اس مشاعرے میں ان شعراء نے اپنا کلام سنایا:- 1۔ مرزا فخرو رمز 2۔ شیخ محمد ابراہیم ذوق۔3 مرزا اسداللہ خاں غالب۔4 حکیم مومن خاں مومن 5۔ حافظ عبدالرحمٰن احسان 6۔ صدرالدین آزردہ 7۔ نواب مرزا خاں داغ دہلوی 8۔ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ۔9 مرزا قادر بخش صابر۔10 امام بخش صہبائی۔11 سید ظہیر الدین حسین خاں ظہیر 12۔ حکیم آغا خاں عیش دہلوی 13۔مرزا رحیم الدین حیا 14۔ زین العابدین خاں عارف – غالب کے بھانجے 15۔ مرزا غلام نصیرالدین قناعت 16 نواب ضیاء الدین احمد خاں نیر، رخشاں 17۔ مرزا پیارے رفعت 18۔نواب علاءالدین خاں علائی 19۔مرزا کریم الدین رسا 20۔مرزا قربان علی بیگ سالک21۔ مرزا رحیم الدین ایجاد22۔ عباس علی خاں بیتاب23۔ مرزا فخرالدین حشمت 24۔ بال مکند حضور 25۔ غلام محی الدین اشکی 26 قاضی نجم الدین برق 27 مرزا منجھلے فسوں 2 میر صاحب 29 مرزا جمعیت شاہ ماہر 30 جارج پیس شور 31محمد عسکری نالاں 32الگزنر ہیڈلے آزاد 33 میر شجاعت علی تسلی 34 محمد حسین تائب 35 غلام رسول شوق 36 میر حسین تسکین 37 خواجہ غلام حسین بیدل38 منشی محمد علی تشنہ 39 محمد حسین بسمل 40 میر بہادر علی حزیں 41 محمد حسین بسمل (42) مرزا حاجی بیگ شہرت (43) باقر علی جعفری (44) محمد عبدالعزیز عزیز (45) نوازش حسین خاں تنویر (46) حکیم سکھا نند رقم (47) خواجہ معین الدین یکتا (4 حکیم سید محمد تعشق تعشق (49) شیخ نیاز احمد جوش (50) محمود جان اوج (51) میر حسین تجلی – میرتقی میر کے پوتے (52) محمد جعفر تابش (53) مرزا کامل بیگ کامل (54) تمکین (55) عبدالعلی قلق (56) میاں عاشق عاشق (57) غلام احمد تصویر (5 عبدالقادر بیدل (59) اوج (60) مرزا علی بیگ نازنین
غالب کی خط و کتابت
ان شعراء و ادباء سے 1847ء سے 1869ء کے درمیان غالب کی خط و کتابت ہوتی رہی، مرزا ہرگوپال تفتہ 2 منشی نبی بخش حقیر، منشی جواہر سنگھ جواہر، محمد زکریا خاں زکی، منشی عبداللطیف، عبدالحق، سعدالدین خاں شفق، قاضی عبدالجلیل جنون، سید بدرالدین احمد کاشف المعروف بہ فقیر، نواب یوسف مرزا، شاہ عالم، سید غلام حسنین قدر بلگرامی، یوسف علی خاں ناظم، حکیم غلام غوث، نجف خاں بابو ہرگوبند سہائے نشاط، میر مہدی مجروح، مرزا شہاب الدین، احمد ثاقب، چودھری عبدالغفور سرور، نواب زین الدین خاں بہادر عرف کلن میاں، علاءالدین خاں علائی، مرزا حاتم علی مہر، منشی شیو نرائن آرام، میر افضل علی عرف میرن صاحب، غلام غوث خاں بے خبر، مہاراجہ سردار سنگھ والی بیکانیر، محمد نعیم آزاد صاحب، عالم مارہروی، نواب حسین مرزا، ذوالفقارالدین حیدر خاں، میاں داد خاں سیاح، احمد حسن قنوجی، منشی محمد ابراہیم خلیل، منشی سخاوت حسین، قاضی عبدالرحمٰن تحسین، حکیم سید احمد حسن مودودی، عباس رفعت، قاضی محمد نورالدین حسین فائق، مفتی محمد عباس، نواب ضیاءالدین احمد خاں نیر، رخشاں،منشی نولکشور، میر سرفراز حسین، مرزا عباس بیگ، محمود مرزا، منشی حبیب اللہ ذکا، نواب میر غلام باہا خاں، مردان علی خاں رعنا، میر بندہ علی خاں عرف مرزا امیر، نواب امین الدین احمد خاں، مرزا قربان علی بیگ خاں سالک، منشی سیل چند، عبدالرزاق شاکر، حکیم غلام مرتضیٰ خاں، سید سجاد مرزا، سید فرزند احمد صفیر بلگرامی، میر ولات علی خاں، نواب کلب علی خاں، ماسٹر پیارے لال آشوب، حکیم غلام رضا خاں، حکیم ظہیرالدین خاں، مرزا شمشاد علی بیگ رضوان، ضیاءالدین احمد خاں ضیاء، محمد محسن صدرالصدور، نواب میر ابراہیم علی خاں وفا، مولوی نغمان احمد، سید محمد عباس علی خاں بیتاب، فرقانی میرٹھی، محمد حسین خاں، شہزادہ بشیرالدین توفیق، مولانا احمد حسین مینا مرزا پوری، مرزا باقر علی خاں کامل، شاہ فرزند علی صوفی منیری، منشی ہیرا چند،بہاری لال مشتاق، مظہر علی،شیخ لطیف احمد بلگرامی (75) میر سرفراز حسیب (76) تفضل حسین خاں (77) خلیفہ احمد علی،احمد رامپوری (7 مرزا رحیم بیگ (79) عزیز صفی پوری (80) یوسف علی خاں عزیز (81) منشی غلام بسمل اللہ (82) مرزا امیرالدین خاں فرخ مرزا (83) مولوی کرامت علی (84) حکیم محب علی (85) میر احمد حسین میکش (86) منشی کیول رام ہوشیار (87) منشی ہیرا سنگھ (8 مولوی عبدالغفور خاں نساخ (89) منشی سید اسمٰعیل منیر شکوہ آبادی
مرزا اسداللہ خاں غالب کے شاگرد
(1) آرام، منشی شیو نرائن (2) آذر، نواب ذوالفقار علی خاں (3) آشوب، رائے بہادر ماسٹر پیارے لال (4) آگاہ، نواب سید محمد رضا دہلوی معروف بہ احمد مرزا (5) احسن، حکیم مظہر حسن خاں رامپوری (6) اخگر، فتح یاب خاں رامپوری (7) ادیب، مولوی سیف الحق دہلوی ( اسمٰعیل، مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی (9) انور، سید شجاع الدین عرف اُمراؤ مرزا دہلوی (10) غلام، منشی غلام اللہ (11) بیتاب، عباس علی خاں (12) بیدل، حبیب الرحمٰن (13) بے صبر، لالہ بالمکند سکندرآبادی (14) پیرجی، قمر الدین دہلوی (15) تپش، مولوی سید مدد علی (16) تفتہ، منشی ہرگو پال (17) توفیق، محمد بشیرالدین (1 ثاقب، نواب شہاب الدین احمد خاں (19) جنون، قاضی عبدالجمیل (20) جوہر، حکیم معشوق علی خاں شاہجانپوری (21) جوہر، جواہر سنگھ دہلوی (22) حالہ، خواجہ الطاف حسین (23) حباب، پنڈت اُمراؤ سنگھ لاھوری (24) حزیں، میر بہادر علی دہلوی (25) حقیر، منشی نبی بخش (26) خضر، مرزا خضر سلطان (27) خورشید، خورشید احمد (2 ذکاء، مولوی حبیب اللہ خاں (29) رابط، دربھگہ (30) راضی، بہاری لال جی اکبرآبادی (31) رسوا، شیخ عبدالحمید غازی پوری (32) رضوان، مرزا شمشاد علی بیف (33) رضوان، نواب رضوان علی خاں (34) رعنا، نواب مُراد علی خاں (35) رنج، حکیم محمد فصیح الدین میرٹھی (36) رنجور، نواب علی بخش خاں (37) روشن، دیوان روشن لال دہلوی (3 ذکی، حافظ سید محمد ذکریا خاں دہلوی (39) سالک، مرزا قربان علی بیگ (40) سجاد، نواب سید سجاد مرزا دہلوی (41) سخن، خواجہ محمد فخرالدین حسین دہلوی (42) سرور، چودھری عبدالغفور مارہروی (43) سروش، عبدالوہاب خاں رامپوری (44) سوزاں، حبیب الدین احمد سہارنپوری (45) سیاح، میاں داد خاں اورنگ آبادی (46) شاداں، مرزا حسن علی خاں دہلوی (47) شائق، خواجہ فیض الدین عرف خواجہ حیدر خاں، ڈھاکہ (4 شوخی، نادر شاہ خاں رامپوری (49) شاکر، مولوی عبدالرزاق اکبرآبادی (50) عالم، شاہ عالم مارہروی (51) شفق، نواب سعدالدین احمد خاں (52) شیفتہ، نواب محمد مصطفیٰ خان دہلوی (53) صوفی منیری، شاہ جلیل الرحمٰن حسین عرف شاہ فرزند علی (54) صوفی، حکیم محمد علی نجیب آبادی (55) صفیر، سید فرزند احمد بلگرامی (56) صادق، عزیز،محمد عزیز الدین دہلوی (57) طرار، میرزا سرفراز حسین (5 ظفر، سراج الدین بہادر شاہ ثانی (59) ظہیر، لالہ پیارے لال (60) طالب، مرزا سعیدالدین احمد خاں دہلوی (61) عارف، نواب زین العابدین خاں دہلوی (62) عاشق، محمد عاشق حسین خاں اکبرآبادی (63) عاشق، ماسٹر شنکر دیال اکبرآبادی (64) عاشق، منشی محمد اقبال حسین دہلوی (65) عاقل، محمد رضا علی خاں رامپوری (66) عالم، شاہ عالم (67) عالم، میر عالم علی خاں (6 عزیز، مرزا یوسف علی خاں (69) علائی، نواب علاءالدین خاں (70) فنا، حکیم میر احمد حسن (71) قدر، سید غلام حسین بلگرامی (72) سالک، کاشف، سید بدرالدین احمد دہلوی (73) کامل، مرزا باقر علی خاں دہلوی (74) کرامت، سید شاہ کرامت حسین ہمدانی گیاوی (75) محو، نواب غلام حسین خاں دہلوی (76) مجروح، میر مہدی دہلوی (77) مداح، سوزاں،شیخ محمد صادق (7 مشتاق، منشی بہاری لال دہلوی (79) مفتوں، پنڈت لچھمی نرائن (80) مقصود، سید مقصود عالم رضوی (81) منشی، منشی سیل چند دہلوی (82) مونس، پنڈت شیوجی رام (83) میکش، میر احمد حسین دہلوی (84) میکش، میر ارشاد احمد دہلوی (85) ناظم، نواب ناظم علی خاں رامپوری (86) نامی، منشی شیو دیبی دیال (87) نشاط، ہرگوبند سہائے ماتھر (8 نیئر، نواب ضیاءالدین خاں دہلوی (89) وفا، نواب ابراہیم علی خاں (90) ولی، مولوی امو خاں دہلوی (91) ہشیار، کیول رام (92) رمزر، مرزا فخروالدین معروف بہ میرزا فخرو
تصانیفِ غالب
درفش کاویانی ()،لاھور، مطبوعات یادگار غالب،پنجاب یونیورسٹی، 1969ء، 294 ص ()
فالنامہ (1876ء-8 صفحات)دہلی
دعائی صباح ()،لکھنؤ،مطبع نولکشور، ت ن،26 ص (فارسی مثنوی)
غالب نے یہ مثنوی اپنے بھانجے میرزا عباس بیگ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر۔لکھنؤ کی فرمائش پر لکھی
سبد باغِ دودر (کتابت 7 جولائی 1870ء میں مکمل ہوئی) (فارسی تصانیف)
مخطوطات:- (1)قلمی نسخہ پروفیسر سید وزیر حسن عابدی،صدر شعبہ فارسی و عربی دہلی یونیورسٹی
قاطع برہان ()،لکھنؤ،مطبع نولکشور، 1862ء، 97 ص (فارسی تصانیف)
دستنبو ()،مطبع مفید خلائق، نومبر 1858ء،88 ص (فارسی تصانیف) ناشر، 1865ء (1871ء-) ناشر، 1871ء ()
تیغِ تیز () اکمل المطابع، 1867ء (اُردو تصانیف)
مہر نیم وز () فخرالمطابع، 1271 ھ، 116 ص (فارسی تصانیف)
غالب نامہ () مطبع محمدی۔دہلی، 16 اگست 1865ء (اُردو تصانیف)
پنچ آہنگ () مطبع سلطانی، 4 اگست 1849ء، (فارسی تصانیف)،دہلی،مطبع داراسلام، اپریل 1853ء
مخطوطات:- (1) ہارڈنگ لائبری۔دہلی (2) رضا لائبریری۔رامپور
دیوانِ اُردو() سیّدالمطابع، اکتوبر 1841ء، 108 ص (شاعری)
(مئی 1847ء- 1159 اشعار) مطبع دادالسلام۔دہلی (29 جولائی 1861ء-88 صفحات 1796 اشعار) مطبع احمدی۔دہلی () (جون 1862ء-104 صفحات 11796اشعار) مطبع نظامی۔کانپور(1863ء- – 146صفحات) مطبع مفید خلائق۔آگرہ (1873ء -103 صفحات) نولکشور پریس۔لکھنؤ(1877ء -103 صفحات) نولکشور پریس۔لکھنؤ (1882ء – 72 صفحات) مطبع میسور پریس۔دہلی (1883ء – 103 صفحات) نولکشور۔لکھنؤ (1887ء -84 صفحات) مطبع نامی۔لکھنؤ (1887ء – ) مطبع منشی نولکشور۔کانپور (1901ء -72 صفحات) مطبع نامی۔لکھنؤ (1903ء – 104 صفحات) مطبع منشی نولکشور (1905ء – 103 صفحات) مطبع مفید عام پریس۔لاہور (1912ء – 104 صفحات) مطبع مفید عام پریس۔لاہور (1914ء -120 صفحات) مطبع مجیدی۔کانپور (1914ء – 116 صفحات) مطبع نامی۔لکھنؤ (1914ء – 104صفحات) مطبع منشی نولکشور (1919ء – 122 صفحات) مطبع مفید پریس۔لاہور (1919ء – 353 صفحات) مطبع گلزارِ محمدی اسٹیم پریس۔لاہور (دیوانِ غالب -نسخۂ حمیدیہ 1921ء – 145+342 صفحات) مطبع مفیر عام اسٹیم پریس۔آگرہ (دیوانِ غالب – نسخۂ حمیدیہ 1921ء – 24+ 342 صفحات)
قادرنامہ (1864ء-) (اُردو تصانیف)
مخطوطات:- (1) رضا لائبریری۔ رامپور
اُردوے معلٰے (Urdu i Mualla) اکمل المطابع، 6 مارچ 1869ء، صفحات (خطوط – اُردو تصانیف)
اُردوے معلیٰ (6 مارچ 1869ء-)اکمل المطابع(11 فروری 1891ء-) اکمل المطابع (اپریل 1899ء-56 صفحات)مطبع مجتبائی۔دہلی (1927ء ) ناشر، (رام نرائن لعل بُک سیلر۔الہ آباد، 1952ء، صفحات 438 + 94 ()
عودِ ہندی (27 اکتوبر 1868ء-)مطبع مجتبائی۔میرٹھ (خطوط – اُردو تصانیف)
نادرات غالب (1949ء-) (اُردو تصانیف)
نکاتِ غالب و رقعاتِ غالب (فروری 1867ء-)
سبد چین (اگست 1867ء-)مطبع محمدی (اپریل 1938ء–807 اشعار)مکتبہ جامعہ لمٹیڈ۔دہلی (فارسی تصانیف)
کلیاتِ نظمِ فارسی (1845ء-506 صفحات 6672 اشعار)مطبع داداسلام۔دہلی (1863ء- 10424 اشعار)مطبع نولکشور۔ (فارسی تصانیف)
٭٭٭
3۔احمد فراز
احمد فراز (4 جنوری 1931 – 25 اگست 2008)
تخلص فراز کمیونسٹ
پیشہ اردو شاعر, لیکچرر
قومیت پاکستانی
نژادیت پشتون سید
شہریت پاکستانی
تعلیم ایم اے اردو, ایم اے فارسی
مادر علمی پشاور ماڈل سکول
جامعہ پشاور
لکھائی دور 1950 – 2008
صِنف اردو غزل
موضوعات عشق , تحریک مزاحمت
ادبی تحریک پروگریسو رائٹرز موومنٹ/ڈیموکریٹک موومنٹ
نمایاں اعزاز(ات) ہلال امتیاز
ستارہ امتیاز
نگار ایوارڈ
اولاد 3 بیٹے : سعدی, شبلی اور سرمد فراز
اہل و عیال سید محمد شاہ برق (والد)
سید مسعود کوثر (بھائی)
احمد فراز میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لئے فیچر لکھنے شروع کیے ۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ” تنہا تنہا” شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ ” درد آشوب "چھپا جس کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے ” آدم جی ادبی ایوارڈ ” عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہیں 1976 ء میں اکا دکی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبورا ً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔
آپ 2006 ء تک ” نیشنل بک فاؤنڈیشن "کے سربراہ رہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں "نیشنل بک فاؤنڈیشن ” کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ احمد فراز نے 1988 ء میں ” آدم جی ادبی ایوارڈ ” اور 1990ء میں ” اباسین ایوارڈ ” حاصل کیا۔ 1988 ء مین انہیں بھارت میں ” فراق گورکھ پوری ایوارڈ ” سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا، جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں "ٹاٹا ایوارڈ ” ملا۔
انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے ۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے ۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع ” احمد فراز کی غزل ” ہے ۔ بہاولپور میں بھی ” احمد فراز۔فن اور شخصیت ” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔ ان کی شاعری کے انگریزی،فرانسیسی،ہندی،یوگوسلاوی،روسی،جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں۔
احمد فراز جنہوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ انہوں نے ضیاء الحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انہیں ملٹری حکومت نے حراست میں لیے جس کے بعد احمد فراز کو خود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنا پڑی۔
سنہ دو ہزار چار میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انہیں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔
٭٭٭
4۔ابن انشاء
ادیب
پیدائشی نام: شیر محمد خان
تخلص: انشاء
ولادت :15 جون، 1927ء
وفات: 11 جنوری، 1978ء
اصناف ادب :
شاعری
نثر
ذیلی اصناف غزل، نظم
مزاح
معروف تصانیف: اردو کی آخری کتاب
چلتے ہو تو چین کو چلیے
شاعر، مزاح نگار، اصلی نام شیر محمد خان تھا اور تخلص انشاء۔ آپ 15 جون 1927 کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ 1946ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ ٹوکیو بک ڈوپلمنٹ پروگریم کے وائس چیرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگریم ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے ۔ روزنامہ جنگ کراچی، اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکے فکاہیہ کالم لکھتے تھے ۔ دو شعری مجموعے ، چاند نگر 1900ء اور اس بستی کے کوچے میں 1976ء شائع ہو چکے ہیں۔ 1960ء میں چینی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ (چینی نظمیں ) شائع ہوا۔ یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا۔ جن کا احوال اپنے سفر ناموں چلتے ہو چین چلو، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے ، اور ابن بطوطہ کے تعاقب میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔ اس کے علاوہ اردو کی آخری کتاب، اور خمار گندم ان کے فکاہیہ کالموں کے مجموعے ہیں۔ آپ کا انتقال 11 جنوری 1978 کو ہوا۔
٭٭٭
5۔احمد ندیم قاسمی
پیدائشی نام احمد شاہ
قلمی نام عنقا
تخلص ندیم
ولادت 20 نومبر 1916ء خوشاب
ابتدا لاہور، پاکستان
وفات 10 جولائی 2006ء لاہور
اصناف ادب شاعری، افسانہ
ذیلی اصناف غزل، نظم
ادبی تحریک ترقی پسند
تصنیف اول :پہلی نظم 1931 میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر
احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء) پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے ۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے ۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے کچھ اوپر کتابیں تصنیف کیں۔
احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء) پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے ۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے ۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے کچھ اوپر کتابیں لکھیں۔
ابتدائی حالات
احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے ۔ اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔
تعلیم
آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم اپنی عبادت، زہد تقویٰ کی وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے ندیم کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1920 میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے ۔ وہاں مذہبی، عملی، اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔1921-25 میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930-31 میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931 صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہو گئے جہاں سے 1935ء میں بی۔ اے ۔ کیا۔
حالات زندگی
قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رند بلانوش تھے لیکن ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کی طبیعت میں لا ابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اختر شیرانی کی شاعری اور شخصیت سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخر تک رہا۔
انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’’پھول‘‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لی۔ ’’پھول‘‘ بچوں کا رسالہ تھا۔ اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔ [1]
ملازمت
1936 میں ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور 1937تک یہیں کام کرتے رہے ۔ 1939-41 کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی۔
1939ء میں محکمہ آبکاری میں ملازم ہو گئے ۔ 1942 میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے ۔ تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی 1943ء میں (ادب لطیف) کے ایڈیٹر مقرر ہوئے 1945-48 میں ریڈیو پشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے تقسیم کے بعد ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے ۔ [2]
دور عروج
قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور اور ’’زمیندار‘‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ [3]
صحافتی سرگرمیاں
1941-45 میں ہفت روزہ ’پھول‘
’تہذیبِ نسواں ‘ 1943-45
ماہنامہ ادبِ لطیف
1947-48 میں ماہنامہ سویرا (چار شماروں )
1950 میں ماہنامہ ’’سحر‘‘ لاہور (ایک شمارہ)
1953-59 میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کی ادارت
1964 سے ماہنامہ ’’فنون‘‘ کی ادارت
1952 میں روزنامہ ’امروز‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ لکھتے رہے
روزنامہ ’امروز‘ لاہور اخبار کے ایڈیٹر بن جانے پر کالم ’’پنج دریا‘‘ بھی لکھتے رہے ۔
1959 میں امروز سے الگ ہونے پر روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ میں ’’موج در موج‘‘ اور ’پنج دریا‘ کے نام سے فکاہیہ کالم نویسی۔
1964-70 میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کی شروعات کی مگر پنج دریا کے بجائے نام ’’عنقا‘‘ رکھ لیا۔
1970 کے دوران روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی میں کالم ’’لاہور۔۔۔ لاہور ہے ۔‘‘
پھر جنگ کو چھوڑ کر روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی میں فکاہیہ کالم ’’موج در موج‘‘ اور ہفتہ وار کالم ’’لاہوریات‘‘ پیش کرتے رہے ۔
اپریل 1972 میں دوبارہ امروز میں وہی کالم لکھنے لگے ۔
1964 سے امروز لاہور میں ادبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر ہر ہفتے مضامین لکھتے رہے ۔
ہاجرہ مسرور سے مل کر (نقوش) کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے ۔ حرف و حکایت والا کالم عنقا کے قلمی نام سے لکھتے رہے ہیں۔
(فنون) ادبی پرچہ ان کے زیر نگرانی نکل رہا تھا۔
بے شمار کتب لیکن اور ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ افسانے اور غزل کے حوالے بہت شہرت حاصل کی۔
ادبی کارہائے نمایاں
پہلا شعر: 1926-27 میں پہلا شعر کہا۔ پہلی مطبوعہ تخلیقات:پہلی نظم 1931 میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر کہی جو روز نامہ ’سیاست‘ لاہور میں چھپی۔ پہلا شعری مجموعہ 1942 میں اردو اکیڈمی لاہور سے اور پہلا افسانوی مجموعہ 1939 میں شائع ہوا۔
انجمن ترقی پسند
1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد قاسمی صاحب نے اس انجمن سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے لیکن آگے چل کر جب انجمن نظریاتی تشدد پسندی کا شکار ہوئی تو قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
مطبوعات
افسانوی مجموعے
چوپال (دارالاشاعت پنجاب لاہور 1939)
بگولے (مکتبہ اردو لاہور 1941)
طلوع و غروب (مکتبہ اردو، لاہور، 1942)
گرداب (ادارہ اشاعت اردوحیدرآباد دکن1943)
سیلاب (ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد دکن 1943)
آنچل(ادارہ فروغ اردو، لاہور 1944)
آبلے (ادارہ فروغِ اردو لاہور 1946)
آس پاس (مکتبہ فسانہ خواں، لاہور 1948)
در و دیوار (مکتبہ اردو،لاہور1948)
سناٹا (نیا ادارہ لاہور 1952)
بازارِ حیات (ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1959)
برگِ حنا (ناشرین، لاہور 1959)
سیلاب و گرداب(مکتبہ کارواں، لاہور 1961)
گھر سے گھر تک (راول کتاب گھر،راولپنڈی1963
کپاس کا پھول (مکتبہ فنون، لاہور 1973)
نیلا پتھر (غالب پبلشرز، لاہور 1980)
کوہ پیما (اساطیر، لاہور۔ 1995)
شاعری
دھڑکنیں (قطعات، اردو اکیڈمی۔ لاہور) 1942
رِم جھم (قطعات و رباعیات، ادارہ فروغِ اردو۔ لاہور 1944
جلال و جمال (شاعری۔ نیا ادارہ، لاہور 1946)
شعلۂ گُل (قومی دارا لاشاعت لاہور 1953)
دشتِ وفا (کتاب نما، لاہور 1963)
محیط(التحریر، لاہور 1976)
دوام (مطبوعات لاہور 1979)
لوح و خاک (اساطیر لاہور 1988)
تحقیق و تنقید
تہذیب و فن (پاکستان فاؤنڈیشن لاہور 1975)
ادب اور تعلیم کے رشتے (التحریر، لاہور 1974)
علامہ محمد اقبال
ترتیب و ترجمہ
انگڑائیاں (مرد افسانہ نگاروں کا انتخاب، ادارہ اشاعت اردو حیدرآباد دکن 1944)
نقوشِ لطیف (خواتین افسانہ نگاروں کا انتخاب،ادارہ اشاعتِ اردو حیدرآباد دکن 1944)
پاکستان کی لوک کہانیاں (از میریلن سرچ،ترجمہ، شیخ علی اینڈ سنز لاہور)
کیسر کیاری (مضامین، ڈرامے ، تراجم، مکتبہ شعرو ادب، لاہور 1944
منٹو کے خطوط بنام احمد ندیم قاسمی (ترتیب، کتاب نما،لاہور 1966
نذیر حمید احمد خاں (ترتیب، مجلس ترقی ادب، لاہور 1977) میرے ہم سفر
بچوں کا ادب
تین ناٹک (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944
دوستوں کی کہانیاں (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944
نئی نویلی کہانیاں (پنجاب بک ایجنسی،لاہور 1944)
قاسمی سے متعلق کتابیں اور خصوصی نمبر
ندیم کی شاعری اور شخصیت (تحقیق) جمیل ملک۔
احمد ندیم قاسمی کے بہترین افسانے ، مرتبہ مظفر علی سید
ندیم نامہ مرتب محمد طفیل، بشیر موجد مجلسِ ارباب فن، لاہور 1974
مٹی کا سمندر مرتب ضیا ساجد مکتبہ القریش لاہور 1991
احمد ندیم قاسمی۔۔۔ایک لیجنڈ از شکیل الرحمٰن۔اساطیر لاہور
ندیم نمبر مرتب صہبا لکھنوی ماہنامہ افکار کراچی 1976
احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن مرتب : نند کشور و کرم۔عالمی اردو ادب دہلی۔1996۔
ہندی میں ’’اردو کہانی کار احمد ندیم قاسمی‘‘ مرتب نند کشور وکرم اندر پرستھ پرکاشن دہلی۔
اس کے علاوہ انگریزی، روسی، چینی،جاپانی، ہندی، پنجابی، بنگلہ، سندھی، گجراتی مراٹھی اور فارسی وغیرہ متعدد زبانوں میں کہانیوں اور شاعری کے تراجم۔
اعزازات و انعامات
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے دشتِ وفا (شاعری۔1963)
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے محیط (شاعری۔ 1976)
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے دوام (شاعری۔ 1979)
پرائیڈ آف پرفارمنس حکومتِ پاکستان کا اعلیٰ سول اعزاز (1968)
ستارۂ امتیاز حکومتِ پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز (1980)
عالمی فروغِ اردو ادب، دوحہ قطر۔
وفات
احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصر علالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریبا 90ً برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے بعد لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہو گیا۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
٭٭٭
6۔اختر شیرانی
پیدائش: 1905
وفات: 1948
اردو شاعر، محمد داود خان نام ٹونک (راجپوتانہ) میں پیدا ہوئے ۔ تمام عمر لاہور میں گزری۔ والد پروفیسر محمود شیرانی اورینٹل کالج لاہور میں فارسی کے استاد تھے ۔ اختر کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ منشی فاضل کا امتحان پاس کیا لیکن والد کی کوشش کے باوجود کوئی اور امتحان پاس نہ کر سکے اور شعر و شاعری کو مستقل مشغلہ بنا لیا۔ ہمایوں اور سہیلی کی ادارت کے بعد رسالہ انقلاب پھر خیالستان نکالا اور پھر رومان جاری کیا۔ شاہکار کی ادارت بھی کی۔ اردو شاعری میں اختر پہلا رومانی شاعر ہے جس نے اپنی شاعری میں عورت سے خطاب کیا۔ عالم جوانی میں ہی اختر کو شراب نوشی کی لت پڑ چکی تھی، جو آخر کار جان لیو ثابت ہوئی۔ لاہور میں انتقال ہوا اور میانی صاحب میں دفن ہوئے ۔
٭٭٭
7۔پروین شاکر
پیدائش 24 نومبر 1952
کراچی, سندھ, پاکستان
وفات 26 دسمبر 1994 (عمر 42 سال)
اسلام آباد, پاکستان
پیشہ :اردو شاعر
قومیت :پاکستانی
نژادیت :اردو
تعلیم ایم اے انگریزی ادب، بینک ایڈمنسٹریشن; پی ایچ ڈی
صِنف غزل آزاد نظم
نمایاں کام :خوشبو
نمایاں اعزاز(ات) :صدارتی تمغہ حسن کارکردگی[1]
آدم جی اعزاز
زوج: سید نصیر علی
اولاد: سید مراد علی
پروین شاکر پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہو پاتی ہے ۔
ابتدائی حالات
24 نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے ۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے ۔آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں بچپن میں پروین کو کئی شعراء کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔
حالات زندگی
سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔
ادبی خدمات
شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔
تخلیقات
ان کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے ۔
خوشبو (1976ء)،
صد برگ (1980ء)،
خود کلامی (1990ء)،
انکار (1990ء)
ماہ تمام (1994ء)
تاثرات
پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار ہے جو درد کائنات بن جاتا ہے اسی لیے انہیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔۔ حالانکہ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں میں کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں، لیکن ان کے یہاں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی ہم عصر دوسری شاعرات کے یہاں نظر نہیں آتی۔ اُن کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔ اُن کے پہلے مجموعے خوشبو میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہار ہے اور اس وقت پروین شاکر اسی منزل میں تھیں۔ زندگی کے سنگلاخ راستوں کا احساس تو بعد میں ہوا جس کا اظہار ان کی بعد کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے ۔ ماں کے جذبات شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل ان سبھی کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے ۔
وفات
26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ لواحقین میں ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے ۔
٭٭٭
8۔جوش ملیح آبادی
جوش ملیح آبادی (پیدائش: ۵ دسمبر ۱۸۹۸ء، وفات: ۲۲ فروری ۱۹۸۳ء) پورا نام شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی اردو ادب کے نامور اور قادر الکلام شاعر تھے ۔ آپ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ابتدائی حالات
آپ ۵ دسمبر ۱۸۹۸ء کو اترپردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے ۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دار الترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ 22 فروری 1982ء کو آپ کا انتقال ہوا۔
تصانیف
آپ کثیر التصانیف شاعر و مصنف تھے ۔ آپ کے شعری مجموعوں اور تصانیف میں مندرجہ ذیل نام اہم ہیں۔
روح ادب
آوازہ حق
شاعر کی راتیں
جوش کے سو شعر
نقش و نگار
شعلہ و شبنم
پیغمبر اسلام
فکر و نشاط
جنوں و حکمت
حرف و حکایت
حسین اور انقلاب
آیات و نغمات
عرش و فرش، رامش و رنگ
سنبل و سلاسل
سیف و سبو
سرور و خروش
سموم و سبا
طلوع فکر
موجد و مفکر
قطرہ قلزم
نوادر جوش
الہام و افکار
نجوم و جواہر
جوش کے مرثیے
عروس ادب (حصہ اول و دوم)
عرفانیات جوش
محراب و مضراب
دیوان جوش
نثری مجموعے
مقالات جوش
اوراق زریں
جذبات فطرت
اشارات
مقالات جوش
مکالمات جوش
یادوں کی بارات (خود نوشت سوانح)
٭٭٭
9۔جگر مراد آبادی
آپ کا تخلص ’’جگر مرادآبادی‘‘ تھا۔ بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر مراد آباد میں پیدا ہوئے ۔ اردو کے مشہور شاعر گذرے ہیں۔ آپ ٦ اپریل ١٨٩٨ کو مرادآباد میں پیدا ہوے ۔آپ بیسویں صدی کے اردو کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں۔آپ کو سب سے زیادہ نظموں کو جمع کرنے پر ایوارڈ ملا۔آپ کم عمر میں ہی اپنے والد سے محروم ہو گئے اور آپ کا بچپن آسان نہیں تھا۔آپ نے مدرسے سے اردو اور فارسی سیکھی۔شروع میں آپ کے شاعری کے استاد رسا رامپوری تھے ۔آپ غزل لکھنے کے ایک سکول سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ کا ٩ ستمبر ١٩٦٠ کو انتقال ہو گیا۔گونڈا میں ایک رہائشی کالونی کا نام آپ کے نام پر ‘جگر گنج ‘ رکھا گیا ہے ۔وہاں ایک سکول بھی آپ کے نام پر جگر میموریل انٹر کالج رکھا گیا ہے ۔
٭٭٭
10۔حبیب جالب
مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب ایک شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ آمریت کے خلاف اور غیر جمہوری حکومتوں کے بارے ایک سنگ میل بھی ہیں جن کے بارے میں ہم سب کو پڑھنا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ حبیب جالب نے کس طرح خلوص اور بہادری سے عوام کے جمہوری، سماجی، سیاسی حقوق کی پاسداری کی اور خلوص اور بہادری سے سامراجی قوتوں اور ان کے دلال سیاستدانوں کا مقابلہ کیا اور ہر دور میں عتاب کا نشانہ بنے ۔
سوانح
ابتدائی حالات
اردو شاعر حبیب جالب1928ء میں دسوہہ ضلع ہوشیار پور ’’بھارتی پنجاب‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ اینگلو عربک ہائی سکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی، روزنامہ جنگ اور پھر لائلپور ٹیکسٹائل مل سے روزگار کے سلسلے میں منسلک ہوئے ۔
حالات زندگی
پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957میں شائع کیا،مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالآخر لاہور میں مستقل آباد ہو گئے اور ان کا یہ شعر ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
آزادی کے بعد کراچی آ گئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بیایا۔ 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی۔
سیاسی حالات زندگی
ایوب خان اور یحیی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھلیں۔ جالب کو 1960 کے عشرے میں جیل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے کچھ اشعار لکھے ”سرِمقتل” کے عنوان سے جو حکومتِ وقت نے ضبط کر لیئے لیکن انہوں نے لکھنا نہیں چھوڑا۔ جالب نے 1960 اور 1970 کے عشروں بہت خوبصورت شاعری کی جس میں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔
نومبر 1997 میں جب اس وقت کے حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالب کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔
کارہائے نمایاں
1958 میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا،1962میں اسی ایوبی آمریت نے نام نہاد دستور پیش کیا جس پر جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگا دی۔
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا [3] 1970کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا اور اس کے جواب میں ان پر گولیاں برسائیں اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کر رہا تھااس وقت یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہے رہے تھے ،
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
1974 میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسند اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کر دیا،اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی:
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا،لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں تو کہا :
ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
تخلیقات
صراط مستقیم
ذکر بہتے خوں کا
گنبدِ بیدار
کلیات حبیب جالب
اس شہرِ خرابی میں
گوشے میں قفس کے
حرفِ حق
حرفِ سرِ دار
احادِ ستم
فلمی کام
انہیں مشہور پاکستانی فلم زرقا میں ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ‘ لکھنے پر شہرت حاصل ہوئی۔
تاثرات
ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہتے تھے ۔ حبیب جالب کی سیاسی شاعری آج بھی عام آدمی کو ظلم کے خلاف بے باک آواز اٹھانے کا سبق دیتی ہے ۔ حبیب جالب کی پوری زندگی فقیری میں گذری۔ [6]
اپنی زندگی میں حکومتی مخالفتوں کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت کا بھی ایک جم غفیر ان کے ساتھ تھا۔ جن میں ہر شعبۂ زندگی کے لوگ شامل تھے ۔ جن سے آپ کسی نہ کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر انہوں نے ایک معمولی سا فائدہ نہ اپنی ذات کے لیے اٹھایا اور نہ اپنے اہل خانہ کو کچھ حاصل کرنے دیا۔ ان کے بچے معمولی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے جوان ہوئے ۔
اعزازات
ان کو نگار فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ 2006ء سے ان کے نام سے حبیب جالب امن ایوارڈ کا اجراء کیا گیا۔
آخری ایام
ان کا انتقال 12 مارچ 1993ء کو ہوا۔
مزید برائے مطالعہ
حبیب جالب امن ایوارڈ
بیرونی روابط
دیوان عام از کالم نگار سعید پرویز "جالب جالب کہتے ہیں ”
کلیات حبیب جالب
"جالب جالب ” مصنفہ از مجاہد بریلوی
حوالہ جات
^ الطاف غفار (21مارچ2013)، "[عوامی شاعر جناب حبیب جالب کی یاد میں ]”
^ "[حبیب جالب]”، MyPakistan`s، 20 ستمبر 2005
^ "[میں نہیں مانتا : حبیب جالب]”
^ الطاف غفار (Mar 21,2013)، "[عوامی شاعر جناب حبیب جالب کی یاد میں ]”، بزم اردو
^ "[انقلابی شاعر حبیب جالب کی 20 ویں برسی]”، Deutsche Welle، 12۔03۔2013
^ کرنل (ر) اکرام اللہ (26 مارچ 2013)، "[حبیب جالب کے اہل خانہ کی حالتِ زار]”، نوائے وقت گروپ
٭٭٭
11۔حفیظ جالندھری
تخلص: ابوالاثر
پیدائش :14 جنوری 1900
جالندھر, پنجاب, برطانوی تسلط ہندوستان
وفات: 21 دسمبر 1982 (عمر 82 سال)
لاہور, پنجاب, پاکستان
پیشہ :اردو شاعر
قومیت :پاکستانی
صِنف :غزل
موضوعات حُب الوطنی, فلسفہ
ادبی تحریک تحریک پاکستان
نمایاں کام: قومی ترانہ کا خالق
شاہنامہ اسلام
نمایاں اعزازات:تمغۂ حسنِ کارکردگی
ہلال امتیاز
زوج : زینت بیگم
خورشید بیگم
اہل و عیال :شمس الدین (والد)
ابو الاثر حفیظ جالندھری۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر اور نثرنگار تھے ۔آپ 14 جنوری 1900 کو پیدا ہوے ۔آپ کا قلمی نام ابو الاثر تھا۔ پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے ۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے ۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنا لی۔21 دسمبر 1982 کو آپ وفات پا گئے۔اس وقت آپ کی عمر 82 سال تھی۔
٭٭٭
12۔حفیظ تائب
تعارف
مشہور نعت گو شاعر، مجدد نعت حفیظ تائب 14 فروری 1931 کو پشاور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا آبائی وطن احمد نگر ضلع گوجرانوالا ہے ۔ آپ کا اصل نام عبدالحفیظ ہے ۔1974 میں آپ نے جامعہ پنجاب سے ایم اے پنجابی کیا اور 1976 تا 1993 پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج میں تدریس کرتے رہے ۔ ان کا شمار پاکستان میں نعت گوئی کو فروغ دینے والے بانی شعراء میں ہوتا ہے ۔ انہیں نعت کے ایک اعلیٰ پایہ کے محقق اور تنقید نگار کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔ فروغ نعت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا اس کے علاوہ انہیں نقوش ایوارڈ، آدم جی ایوارڈ، ہمدرد فاؤنڈیشن ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈ دیے گئے ۔وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی میں بھی بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے ۔ کینسر کی عارضے کی وجہ سے لاہور میں انتقال ہوا۔
تصانیف
آپ کی تصنیف کردہ کتب کی فہرست
صلو علیہ و آلہ، اردو مجموعہ نعت
صلو علیہ وآلہ 1978 میں شائع ہوئی اور اس کو آدم جی ادبی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اس کا تجزیہ ڈاکٹر سید عبداللہ، مقدمہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں اور فلیپ احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وحید قریشی، مولانا محمد بخش مسلم، سید نذیر نیازی، میرزا ادیب، حافظ محمد افضل فقیر، حافظ مظہر الدین مظہر اور حافظ لدھیانوی نے لکھا ہے ۔
سک متراں دی، پنجابی مجموعہ نعت
سک متراں دی، 1978 میں شائع ہوئی اور اسے پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ دیا گیا۔
وسلموا تسلیما، پنجابی مجموعہ نعت
وسلموا تسلیما 1990 میں طبع ہوئی اور اس کتاب کو تصنیف کرنے پر وزارت مذہبی امور پاکستان کی طرف حفیظ تائب کو صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔
وہی یسیں وہی طہ، اردو مجموعہ نعت
مناقب، اردو مجموعہ منقبت
لیکھ، (پنجابی حمد، نعت،غزل اور گیت پر مشتمل)
کوثریہ، اردو مجموعہ نعت
نسیب، اردو مجموعہ غزل
تعبیر، اردو قومی و ملی منظومات
تحقیق و تدوین و تنقید
٭٭٭
13۔خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے ۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے ۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کر کے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی۔
بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنو چلے آئے ۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے ۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے ۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے ۔ لکھنو میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مصحفی کے شاگرد ہو گئے ۔ تقریباً انتیس سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنو پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ءمیں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔
٭٭٭
14۔خواجہ الطاف حسین حالی
خواجہ الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزو بخش تھا – ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ بڑے بھائی امداد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 17 برس کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی۔ اب انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے ۔
1856ء میں حصار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہو گئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے ۔ 3-4 سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفیٰ خان شیفتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ نواب صاحب کی صحبت سے مولانا حالی کی شاعری چمک اٹھی۔ تقریباَ 8 سال مستفید ہوتے رہے ۔ پھر دلی آ کر مرزا غالب کے شاگرد ہوئے ۔ غالب کی وفات پر حالی لاہور چلے آئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی۔ لاہور میں محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی یوں شعر و شاعری کی خدمت کی اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالی۔
4 سال لاہور میں رہنے کے بعد دلی چلے گئے اور اینگلو عربک کالج میں معلم ہو گئے ۔ وہاں سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے ۔ اسی دوران میں مسدس، مدوجزر اسلام لکھی۔
ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پانی پت میں سکونت اختیار کی۔ 1904ء میں شمس العلماء کا خطاب ملا 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی۔
سرسید جس تحریک کے علمبردار تھے حالی اسی کے نقیب تھے ۔ سرسید نے اردو نثر کو جو وقار اور اعلیٰ تنقید کے جوہر عطا کئے تھے ۔ حالی کے مرصع قلم نے انہیں چمکایا۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے اردو ادب کو صحیح ادبی رنگ سے آشنا کیا بلکہ آنے والے ادیبوں کے لیے ادبی تنقید، سوانح نگاری، انشا پردازی اور وقتی مسائل پر بے تکان اظہار خیال کرنے کے بہترین نمونے یادگار چھوڑے ۔
تصانیف
تریاق مسموم
طبقات الارض
مسدس حالی
حیات سعدی
حیات جاوید
یادگار غالب
مقدمہ شعر و شاعری
حب الوطن
برکھا رت
تصانیف مولانا الطاف حسین حالی
منطق پر رسالہ لکھا۔ جو ۱۸۵۴ میں تلف ہوا
طباق الارض کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا جو کہ مبادی جیولوجی پر تھا
اصولِ فارسی
مذہبیات
مولود شریف
تریاق مسموم: پادری عماد الدین کے لیے جواب تھا
رسالہ خیر المواعظ
شواہد الہام
اخلاقیات
مجالس النساء: لاہور میں لکھی، طالبات کے لیے ، جو ۴۰۰ روپے انعام کی حقدار سرکار کی جانب سے قرار پائی اور برسوں نصاب میں شامل رہی۔
سوانح
سوانحِ حکیم ناصر خسرو
حیات سعدی
تذکرۂ رحمانیہ: مولانا عبد الرحمن کی وفات پر چھپی
یادگار غالب: اس کتاب نے غالب کو آب حیات کے مقابل اصل مقام سے روشناس کروایا
حیات جاوید
مضامین و انشاء
مضامینِ حالی
مقالاتِ حالی
مکاتیبِ حالی
تنقید
مقدمۂ شعرو شاعری
دیوانِ حالی
مجموعۂ نظمِ حالی
ضمیمہ اردو کلیاتِ حالی
انتخاب کلامِ داغ: حالی نے اس پر کام شروع کیا مگر مکمل نہ کرسکے جس کی تکمیل بعد میں سجاد حسین اور محمد اسماعیل پانی پتی نے کی۔
٭٭٭
15۔خواجہ میر درد
درد کا نام سید خواجہ میر اور درد تخلص تھا با پ کا نام خواجہ محمد ناصر تھا جو فارسی کے اچھے شاعر تھے اور عندلیب تخلص کرتے تھے ۔خواجہ میر درد دہلی میں 1721ءمیں پیدا ہوئے اور ظاہری و باطنی کمالات اور جملہ علوم اپنے والد سے حاصل کیے ۔ درویشانہ تعلیم نے روحانیت کو جلا دی اور تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے ۔ آغاز جوانی میں سپاہی پیشہ تھے ۔ پھر دنیا ترک کی اور والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے ۔درد نے شاعری اور تصوف ورثہ میں پائے ۔ ذاتی تقدس، خود داری، ریاضت و عبادت کی وجہ سے امیر غریب بادشاہ فقیر سب ان کی عزت کرتے تھے
وہ ایک با عمل صوفی تھے اور دولت و ثروت کو ٹھکرا کر درویش گوشہ نشین ہو گئے تھے ۔ ان کے زمانے میں دلی ہنگاموں کا مرکز تھی چنانچہ وہاں کے باشندے معاشی بدحالی، بے قدری اور زبوں حالی سے مجبور ہو کر دہلی سے نکل رہے تھے لیکن درد کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور وہ دہلی میں مقیم رہے ۔ درد نے 1785ءمیں وفات پائی اور وہی تکیہ جہاں تمام عمر بسر کی تھی مدفن قرار پایا۔ درد کو بچپن ہی سے تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ متعدد تصانیف لکھیں جو فارسی میں ہیں۔ نظم میں ایک دیوان فارسی اور ایک دیوان اردو میں ہے ۔
٭٭٭
16۔ساغر صدیقی
(ماخوذ: مقدمہ دیوان ساغر، از ڈاکٹر مالک رام، ایم۔ اے ، پی۔ ایچ ڈی)
ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھا:
میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں ”
اس قول میں صرف ایک معمولی غلطی کے سوا اور سب سچ ہے ۔
اصل خاندان ان کا انبالے سے تھا اور وہ پیدا بھی انبالے میں ہوئے ۔ سال 1964ء کا تھا۔ گھر میں ہر طرف افلاس اور نکبت کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں تعلیم کا کیا سوال! محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے ، انہیں کے پاس جانے آنے لگے ۔ جو کچھ پڑھا انہیں سے اس کے بعد شاید ورنیکلر مڈل کے کچھ درجے بھی پاس کر لیے ہوں۔ ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آ کر [[امرتسر] کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک دوکاندار کے وہاں ملازم ہو گئے جو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بھی یہ کام سیکھ لیا۔ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دوکان کے کسی گوشے میں پڑے رہتے ۔ لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اتنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے ۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے ۔
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے ۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا” (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے ۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔
قدرتاً اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں اس کی مانگ بڑھ گئی۔ اب اس نے کنگھیاں بنانے کا کام چھوڑ دیا اور بعض سرپرست احباب کی مدد سے اپنا علم اور صلاحیت بڑھانے کی کوشش کی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ اسے اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ گھر والے بے شک ناراض تھے کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ لیکن اسے ان کی کیا پروا تھی، اس نے گھر آنا جانا ہی چھوڑ دیا۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرتناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے ۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساحر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے ۔
1947ء سے 1952 تک ساغر کی زندگی کا زرّیں دور کہا جا سکتا ہے ۔ وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہو گیا، بلکہ بعض جریدے تو اسی کی ادارت میں شائع ہوتے رہے ۔ لیکن اس کے بعد شامت اعمال سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ کہیں کا نہ رہا اور اخیر میں صحیح معنوں میں مرقّع عبرت بن گیا۔
1952ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے ۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے ۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔
اس زمانے میں وہ انارکلی لاہور میں ایک دوست کے والد (جو پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے ) مطب کی اوپر کی منزل میں رہتے تھے ۔ اسی کمرے میں ان کے ساتھ ایک دوست بھی مقیم تھے (اب نام کیا لکھوں ) ان صاحب کو ہر طرح کے نشوں کی عادت تھی۔ ہوتی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ ان کی صحبت میں ساغر بھی رفتہ رفتہ اولا بھنگ اور شراب اور ان سے گزر کر افبون اور چرس کے عادی ہو گئے ۔ اگر کوئی راہ راست سے بھٹک جائے اور توفیق ایزدی اس کی دستگیری نہ کرے ، تو پھر اس کا تحت الثری سے ادھر کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔
یہی ساغر کے ساتھ ہوا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر ان کے ساتھ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے ، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے ۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے ، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے ۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت "بے خود” رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور بالکل آوارہ ہو گیا۔ نوبت بایں رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک ہی میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پانو۔۔۔۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دوکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا۔
اب اس کی یہ عادت ہو گئی کہ کہیں کوئی اچھے وقتوں کا دوست مل جاتا تو اس سے ایک چونی طلب کرتا۔ اس کی یہ چونی مانگنے کی عادت سب کو معلوم تھی چنانچہ بار بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے اسے سامنے سے آتے دیکھا اور فورا جیب سے چونّی نکال کر ہاتھ میں لے لی۔ پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد مصافحہ کرتے وقت چونی ساغر کے ہاتھ میں چھوڑ دی۔ وہ باغ باغ ہو جاتا۔ یوں شام تک جو دس بیس روپے جمع ہو جاتے ، وہ اس دن کے چرس اور مارفیا کے کام آتے ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ چنانچہ 19 جولائی 1974ء صبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
انّا للہ وانّا الیہ راجعون
یزدانی جالندھری نے قطعۃ تاریخ وفات کہی:
ساغر نے رخت زیست جہاں سے اٹھا لیا
افسردہ اس کے غم میں ہیں یاران انجمن
وہ شہریار شعر، وہ درویش بے ریا
نظمیں تھیں جس کی مظہر معراج فکر و فن
نعتوں میں جس کی جذبۃ حبّ رسول تھا
غزلوں میں جس کی حسن و جوانی کا بانکپن
یزدانی حزیں نے لب جام رکھ کے ہاتھ
تاریخ رحلت اس کی کہی "ساغر سخن”
اس نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی، ہر صنف سخن میں خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے وہ خود تو اسے کیا چھپواتا، ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور اسے معاوضے میں ایک حبّہ تک نہ دیا۔ چھ مجموعے اس کی زندگی میں لاہور سے چھپے ۔ غم بہار، زہر آرزو (1946ء)، لوح جنوں (]1971ء)، اور سبز گنبد اور شب آ گئی (1972ء) یقین ہے کہ اگر کوشش کی جائے تو ایک اور مجموعے کا مواد بآسانی مہیّا ہو سکتا ہے ۔ ساغر کا کلام بہت جاندار ہے اور زندہ رہنے کا مستحق۔
جی چاہتا ہے کہ یہاں اس کی زندگی کا ایک واقعہ قلم بند کر دوں، جس سے مشہور یونانی فلسفی دیو جانس کلبی کی روایت تازہ ہوتی ہے :
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب (ف: اپریل 1974ء) بر سر اقتدار آ گئے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے ۔ حرف غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے ۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے ۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے ، اس میں ایک مصرع تھا؛
کیا ہے صبر جو ہم نے ، ہمیں ایوب ملا
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا! پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آ گیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے ۔ پوچھ گچھ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام ذرا زیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے ۔ ساغر نے کہا:
بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کر کے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر” یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے ۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے زیادہ ہے ۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:
ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
ساغر صدیقی بقلم خود
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے اور اپنی راہ چلا گیا:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
شاید کہ تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
٭٭٭
17۔ساحر لدھیانوی
ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر۔8 مارچ 1921 کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ خالصہ سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کر دیا۔ امرتا پریتم کے عشق میں کالج سے نکالے گئے اور لاہور آ گئے ۔ یہاں ترقی پسند نظریات کی بدولت قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں ان کے وارنٹ جاری ہوئے جس کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے ۔
ہندوستان آمد
ہندوستان میں وہ سیدھے بمبئی میں وارد ہوئے ۔ ان کا قول مشہور ہے کہ بمبئی کو میری ضرورت ہے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے بھانپ لیا تھا کہ فلم ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے اپنی بات عوام تک جس قوت اور شدت سے پہنچائی جا سکتی ہے ، وہ کسی اور میڈیم میں ممکن نہیں ہے ۔ چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساحر ایک مشن کے تحت بمبئی گئے اگرچہ1949ء میں ان کی پہلی فلم "آزادی کی راہ پر” قابلِ اعتنا نہ ٹھہری، لیکن موسیقار سچن دیو برمن کے ساتھ 1950ء میں فلم "نوجوان” میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو ایسی مقبولیت نصیب ہوئی کہ آپ آج بھی آل انڈیا ریڈیو سے انھیں سن سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک گانے "ٹھنڈی ہوائیں ” کی دھن تو ایسی ہٹ ہوئی کہ عرصے تک اس کی نقل ہوتی رہی۔
فلمی گیت
پہلے تو موسیقار روشن نے 1954ء میں فلم "چاندنی چوک” میں اس دھن پر ہاتھ صاف کیا، پھر اس سے تسلی نہ ہوئی تو 1960ء میں "ممتا” فلم میں اسی طرز میں ایک اور گانا بنا ڈالا۔ جب دوسروں کا یہ حال ہو تو بیٹا کسی سے کیوں پیچھے رہتا، چناں چہ آر ڈی برمن نے 1970ء میں "ٹھنڈی ہوائیں ” سے استفادہ کرتے ہوئے ایک اور گانا بنا ڈالا۔ فلم نوجوان کے بعد ایس ڈی برمن اور ساحر کی شراکت پکی ہو گئی اور اس جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا جو آج بھی یادگار ہے ۔ ان فلموں میں "بازی”، "جال”،”ٹیکسی ڈرائیور”، "ہاؤس نمبر 44″،”منیم جی” اور "پیاسا” وغیرہ شامل ہیں۔ ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی اور ان دونوں نے "چترلیکھا”، "بہو بیگم”، "دل ہی تو ہے "، "برسات کی رات”، "تاج محل”، "بابر”اور "بھیگی رات” جیسی فلموں میں جادو جگایا۔ روشن اور ایس ڈی برمن کے علاوہ ساحر نے او پی نیر، این دتا، خیام، روی، مدن موہن، جے دیو اور کئی دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے ۔
ترقی پسند سوچ
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ، ساحر کے علاوہ بھی کئی اچھے شاعروں نے فلمی دنیا میں اپنے فن کا جادو جگایا، لیکن ساحر کے علاوہ کسی اور کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہی ہے جو ان کی ادبی شاعری کی مقبولیت کی ہے ، یعنی شاعری عوامی لیکن ادبی تقاضوں کی مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔ایک زمانے میں اردو ادب میں بڑی لیکن ترقی پسندشاعر اس بات کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ شاعری کے ذریعے معاشرے میں انقلاب بپا کرنا چاہتے تھے ۔ ترقی پسند شعرا کی جوق در جوق فلمی دنیا سے وابستگی ان کی عوام تک پہنچنے کی اسی خواہش کی آئینہ دار تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ساحر فلمی دنیا میں اپنی آئیڈیالوجی ساتھ لے کر آئے ، اور دوسرے ترقی پسندنغمہ نگاروں کے مقابلے میں انھیں اپنی آئیڈیالوجی کو عوام تک پہنچانے کے مواقع بھی زیادہ ملے ، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انھوں نے جن فلم سازوں کے ساتھ زیادہ کام کیا وہ خود ترقی پسندانہ خیالات کے مالک تھے ۔ اس سلسلے میں گرودت، بی آر چوپڑا اور یش راج چوپڑا کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ میں صرف ایک مثال دوں گا۔
مقبول شاعر
ساحر کتنے با اثر فلمی شاعر تھے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کم از کم دو ایسی انتہائی مشہور فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ ان میں گرودت کی پیاسا اور یش راج کی کبھی کبھی شامل ہیں۔ پیاسا کے گانے تو درجہ اول کی شاعری کے زمرے میں آتے ہیں :
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
اور یہ گانا جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
اسی طرح کبھی کبھی میں "کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے ” کے علاوہ "میں پل دو پل کا شاعر ہوں ” ایسے گانے ہیں جو صرف ساحر ہی لکھ سکتے تھے ۔ظاہر ہے کہ کسی اور فلمی شاعر کو یہ چھوٹ نہیں ملی کہ وہ اپنے حالاتِ زندگی پر مبنی نغمے لکھے ۔
بی گریڈ موسیقار
بعد میں انھوں نے کئی بی گریڈ موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، جن میں خیام کے علاوہ روی، این دتا اور جے دیو شامل ہیں۔ اور ان درجہ دوم کے موسیقاروں کے ساتھ بھی ساحر نے کئی لافانی نغمے تخلیق کیے ، جیسے روی کے ساتھ "ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی”، "نیلے گگن کے تلے "، "چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو”وغیرہ، این دتا کے ساتھ "میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی”، "میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں ” اور "دامن میں داغ لگا بیٹھے "، وغیرہ اور جے دیو کے ساتھ "ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں "،”میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا”، "رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی” وغیرہ شامل ہیں۔
مجروح شکیل بدایونی اور ساحر
ساحر اور مجروح سلطان پوری کا نام اکثر ساتھ ساتھ لیا جاتا ہے ، لیکن میرے خیال سے دونوں شعرا کا پس منظر ایک جیسا ہونے کے باوجود ساحر مجروح سے کہیں بہتر فلمی شاعر تھے ۔ مجروح کی فلمی نغمہ نگاری اکثر کھوکھلی نظر آتی ہے ، وہ شاعری کے ادبی پہلو سے مکمل انصاف نہیں کر پاتے ۔ جو کام ساحر بہت سہولت سے کر گزرتے ہیں، وہاں اکثر اکثر مجروح کی سانس قدم اکھڑنے لگتی ہے ۔ مجروح کی فلمی بولوں کی ایک نمایاں بات یہ ہے کہ وہ سننے میں بہت بھلے لگتے ہیں لیکن جوں ہی کاغذ پر لکھے جائیں، ان میں عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر ساحر کی فلمی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نک سک سے درست اور عام طور پر ادبی لحاظ سے بے عیب ہوتی ہے ۔ حتیٰ کہ کاغذ پر لکھنے کے معیار پر بھی پورا اترتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور فلمی گیت نگار کے گیتوں کے اتنے ایڈیشن نہیں چھپے جتنے ساحر کے "گاتا جائے بنجارا” اور "گیت گاتا چل” کے ۔
ایک اور فلمی شاعر شکیل بدایونی ہیں جن کا نام ساحر کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔ لیکن دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ شکیل کے ہاں بعض جگہ عروض کی غلطیاں بھی نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر وہ لفظ "نہ” کو بر وزنِ "نا” بھی باندھ جاتے ہیں، جو عروض کے اعتبار سے غلط ہے ۔ اس کے علاوہ شکیل کے ہاں زبان و بیان کی کوئی تازگی نظر نہیں آتی، وہی لگی بندھی تشبیہات، پامال استعارات اور استعمال شدہ ترکیبوں کی بھرمار شکیل کا خاصہ ہے ۔
ساحر لدھیانوی پر لکھے گئے مقالات
مقالات پی ایچ ڈی
== ساحر لدھیانوی: حیات اور شاعری، ڈاکٹر ضیاء الدین نگران ڈاکٹر محمد مطیع الرحمٰن، للت نرائن متھلا یونیورسٹی۔ دربھنگا، 1989ء
== ساحر لدھیانوی: حیات اور شاعری، ڈاکٹر آنسہ پروین نگران ڈاکٹر افغان اللہ خاَں۔ دین دیال اپادھیاے یونیورسٹی۔ گورکھپور، 1999ء
== ساحر لدھیانوی اور معاصر شعراء – ایک جائزہ، ڈاکٹر عبدالرؤف شاد نگران ڈاکٹر یونس غازی، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی۔ میرٹھ، 2003ء
مقالات ایم فل
== ساحر: شخص اور شاعر، انور ظہیر نگران ڈاکٹر اسلم پرویزجواہرلعل نہرو یونیورسٹی۔ دہلی، 1988ء
کِتابیات
== تنہائیاں، ساحر لدھیانوی،لاہور، جہانگیر سنز بُک سیلرز
== سرخ ستارہ، قومی دارالاشاعت، ت ن، ص 39
== تلخیاں،ساحر لدھیانوی،لاہور، مکتبہ دستور، 1958ء
== مضامین، محمد علی صدیقی،کراچی، ادارۂ عصرِنو،1991ء، ص 237
== سُرورِ رفتہ، امیر چند بہار، پٹنہ، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1998ء، ص 257
== نکہتِ اُردو، پروفیسر درخشاں کاشف، کراچی، قمر کتاب گھر،2004ء، ص 255
== جامعات میں اُردو تحقیق، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، اسلام آباد، ہائر ایجوکیشن کمیشن،2008ء، ص 156
کِتابیات (ساحر شناسی)
== ساحر: شخص اور شاعر، ناز صدیقی،دہلی، سٹار پبلی کیشنز، 1978ء، 191 ص
== ساحر اور اُس کی شاعری، پرکاش پنڈت، دہلی، سٹار پبلی کیشنز، 140 ص
== ساحر لدھیانوی: ایک مطالعہ، مخمور سعیدی
٭٭٭
18۔شکیب جلالی
اصل نام۔ سید حسن رضوی۔ یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے ۔ لیکن والدہ کی حادثاتی موت نے سید حسن رضوی کے ذہن پر کچھ ایسا اثر ڈالا کہ وہ شکیب جلالی بن گئے ۔ انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی جو لو دیتی تھی جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔ شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور آ گئے یہاں سے انہوں نے ایک رسالہ ” جاوید “ نکالا۔ لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ پھر ” پاکستان” نام کے سرکاری رسالے سے وابستہ ہوئے ۔ مغربی پاکستان چھوڑ کر کسی اور اخبار سے وابستہ ہو گئے ۔
خودکشی
تعلقاتِ عامہ کے محکمے میں بھی انہیں ایک ذمہ دارانہ ملازمت مل گئی۔ لیکن وہ ان سب چیزوں سے مطمئن نہیں تھے ۔ ان کی شاعری ویسے ہی شعلہ فشانی کرتی رہی اور پھر احساسات کی اس تپش کے آگے انہوں نے سپر ڈال دی اور محض 32 سال کی عمر میں سرگودھا اسٹیشن کے پاس ایک ریل کے سامنے کود کر خودکشی کر لی اور اس طرح شعلوں سے لہلہاتے ہوئے ایک شاعر کا خاتمہ ہو گیا۔ موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا:
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہیں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
نمونہ کلام
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈھنے نکلے
میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ہو جائے
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہر ا بھرا بدن اپنا درخت جیسا تھا
٭٭٭
19۔فیض احمد فیض
فیض احمد فیض کا نام شعر و ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کا 99 واں یوم پیدائش ہفتہ 13 فروری کو ہے ۔
اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک فیض احمد فیض غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر تھے ۔ میر غالب اور اقبال کے بعد جو دادوتحسین اور مقبولیت ان کے حصے میں آئی وہ شاید ہی کسی کے نصیب میں آئی ہو۔ فیض ایک لازوال شاعر ہی نہیں بلکہ ان کی نثر بھی باکمال اور منفرد اسلوب کی حامل ہے ۔
فیض نے شاعری شروع کی تواس وقت بہت سے قد آور شعراء موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔ جگر مراد آبادی، فراق گورکھپوری اور جوش ملیح آبادی کے سامنے کسی کا چراغ نہ جلتا تھا۔ لیکن فیض کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہریاراں سروادیِِ سینا، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔
فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے ۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا۔اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔
وہ 13 فروری انیس سو گیارہ کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز کمیونسٹ رہے ۔
فیض احمد فیض نے 1930 میں لبنانی شہری ایلس سے شادی کی۔ وہ بھی شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض کی شاعری اور شخصیت سے متاثر تھیں۔
فیض نے 1935میں ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی پھر 1942 میں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1943 میں میجر اور پھر1944 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گئے ۔ 1947 میں انھوں نے فوج سے استعفی دے دیا اور 1959ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں سیکریٹری تعینات ہوئے پھر 1962 تک وہیں کام کیا۔ اس کے علاوہ ادبی رسالہ ادب لطیف کے مدیر اور اس کے بعد روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے مدیر اعلیٰ رہے۔
9 مارچ1951 کو فیض احمد فیض راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے ۔انھوں نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں گزارے ۔ دو اپریل 1955 کو انہیں رہا کر دیا گیا۔
کلاسیکی شعراء کی گہری چھاپ ان کے ہاں نظر آتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی کی تند و تیز آندھی میں بھی ان کی شاعری کا معیار برقرار رہا۔ ایک کامیاب اور نشیب و فراز سے بھر پور زندگی گزارنے کے بعد فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو انتقال کر گئے ۔
٭٭٭
20۔میر تقی میر
میر تقی میر اردو کے نہایت بلند پایا شاعر ہیں۔ میر کے تخلص میں ہی ان کی شاعری کی قدر و قیمت پرتو موجود ہے ۔ میر تقی میر بلا شبہ اردو غزل کے میرِ کارواں ہیں۔
انہوں نے اردو کی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل میدانِ غزل ہے ۔ ان کی غزل کی سب سے بڑی خوبی سوزوگداز اور تاثیر ہے ۔ان کے کلام کی ایک اور خصوصیت ان کے کلام کی سادگی اور زبان و بیان کی اصلاح ہے ۔ جس کی بدولت اردو شاعری کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی۔میر کی غزلیں جذباتی زندگی اور تمدنی احوال کی ترجمان ہیں۔ان کی شاعری کا اعتراف نہ صرف ان کے معاصرین نے کیا بلکہ بعد میں آنے والے تمام اہم شاعروں نے ان کو خراجِتحسین پیش کیا۔۔
خاندانی پس منظر
میر تقی میر کے اسلاف ارض حجاز سے وارد ہندوستان ہوئے ان کے پر دادا نے اکبرآباد میں بود و باش اختیار کی اور یہیں میر بھی پیدا ہوئے ا نکی پر ورش دلی میں انجام پائی۔ان کے والد میر متقی۔ درویش کامل تھے اور گریہ و استغراق اور کیف مجذوبی میں گم رہتے تھے ان کے بچپن کے اتالیق سید امان اللہ تھے جبکہ والد اور اتالیق دونوں زیادہ دیر نہ جیئے میر کے سوتیلے بھائی نے ان کی جائداد پر قبضہ کر لیا اور ان کے اپنے ماموں سراج الدّین آرزو کی بد سلوکی سے طبیعت جنونی ہو گئی۔
میر کے سید ہونے کے سلسلہ میں کچھ لوگوں نے تامل کیا ہے لیکن محمد حسین آزاد صاحب نے انہیں کے کلام سے استناد کرتے ہوئے انہیں سید تسلیم کیا ہے اور اس باب کو یہیں پر ختم کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں ”پھر بھی اتنا کہنا واجب سمجھتا ہوں کہ ان کی مسکینی، غربت،صبر و قناعت، تقوی، طہارت،محضر بن کے اداء شہادت کرتے ہیں کہ سیادت میں شبہ نہ کرنا چاہیے ورنہ زمانے کا کیا ہے کس کس کو کیا نہیں کہا ہے اگر وہ سید نہیں ہوتے تو خود کیوں کہتے
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
کچھ لوگ میر صاحب کے بارے میں قطعی نظریہ رکھتے ہیں کہ وہ پاگل پن کا شکار تھے اسی کے مقابل کچھ لوگ اسے میر کی حساس طبیعت سے جوڑ کر دیکھتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ جس ماحول میں میر نے زندگی گزاری ہے اس ماحول میں جو کوئی بھی ہوتا اس قدر مصائب کی تاب نہ لا کر اسی کیفیت کا شکار ہو جاتا جو میر پر طاری تھی مع ذالک کچھ ادیبوں کا خیال ہے کہ”میر بے حد نازک طبع اور غیور تھے چنانچہ بد دماغ اور مردم بے زار مشہور ہو گئے اس دور کے انتشار اور بد نظمی نے میر کو متاثر کیا اور ایک دائمی غم ان کے دل پر محیط ہو گیا میر کی شاعری ان کی داخلی واردات اور اس پریشان حال دور کی سماجی صورت کا آئینہ ہے ، وہ زمانے کو بچشم نم دیکھا کئے اور دل کی زبان سے حالات زمانہ رقم کرتے گئے ”۔ میر کی جنونی کیفیت کے مختلف ابعاد پر طبی اور نفسیاتی نقطہ ہائے نظر سے انٹر نیٹ پر میر فن اور پاگل پن قابل دید ہے ۔اگر بد دماغی کو پاگل پن کے زمرے میں رکھا جائے تو محمد حسین آزاد صاحب کے مطابق یہ ماننا ہی پڑے گا کہ وہ پاگل پن کا شکار تھے ”اپنی بد دماغی کے سایہ میں دنیا و اہل دنیا سے بیزار گھر میں بیٹھے رہتے تھے اس کا اعتراف خود میر کو بھی تھا کہ زمانہ ان کو بد دماغ سمجھتا ہے
حالات کی ستم ظریفی
میر کے دماغی خلل کو ان کے فنکارانہ شعور سے تعبیر کیا جائے یا اسے خاندانی پس منظر سے جوڑا جائے لیکن میر کے اوپر گزرنے والی کیفیات کے تعلق کو زمانے کی ستم ظریفیوں سے لا تعلق نہیں رکھا جا سکتا ہے ۔
میر جیسے حساس طبیعت کے مالک انسان کے لئے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھنے کے لئے کیا کم ہے کہ وہ اپنے باپ کے انتقال کے وقت اتنے مجبور تھے کہ انہیں سپرد خاک کرنے کے لئے ان کے پاس دفن کفن کا انتظام نہ تھا بقول علی سردار جعفری”جب ان کے باپ کا انتقال ہوا تو وہ تین سو روپئے کے مقروض تھے اور انہوں نے اپنے ترکہ میں چند سو کتابوں کے سوا کچھ نہیں چھوڑا ان کی کتابوں پر میر کے سوتیلے بھائی نے قبضہ کر لیا اور میر نے باپ کے ایک مرید کی بھیجی ہوئی پانسو روپئے کی ہنڈی لے کر قرض ادا کر کے لاش دفن کی
بعد از وفات والد
میر کے اوپر ان کے والد کی وفات کے بعد کیا گزری اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اس زمانے میں تفصیلی حالات کا جائزہ ذرا مشکل ہے گرچہ خود میر کے قلم سے بکھرے ہوئے درد میں ڈوبے حروف کافی حد تک اس کرب کے بیان گر ہیں جو میر پر بعد وفات طاری تھا ”درویش نے آنکھیں موندیں تو سارا عالم میری نظر میں تاریک ہو گیا بڑا حادثہ رونما ہوا آسمان مجھ پر آٹھ آٹھ آنسو روتا تھا صبر و شکیب جاتا راہا درو دیوار سے سر پھوڑتا تھا خاک پر لوٹتا تھا بڑا ہنگامہ بپا ہوا گویا قیامت نمو دار ہو گئی میرے بڑے بھائی نے طوطا چشمی اختیار کر لی”
سوتیلے بھائی کا سلوک
اپنے والد کی وفات کے بعد کچھ عرصہ میر دہلی جا کر اپنے سوتیلے ماموں سراج الدین علی خان آرزو کے یہاں ٹھہرے لیکن حالات کچھ ہی دن سازگار رہے اور ان کے بھائی کے ماموں کے نام زہر بھرے خط نے ان کی زندگی میں زہر بھر دیا۔میر لکھتے ہیں ”میرے بھائی کا خط ماموں کے نام پہونچا کہ میر محمد تفتیش روزگار ہے اس کی تربیت ہرگز نہیں کرنا چاہیئے ۔ آرزو پکے دنیا دار تھے اپنے بھانجے کی عداوت دیکھ کر میرا کا برا چاہنے لگے اگر سامنے پڑتا تو پھٹکارنے لگتے اور بچ بچ کر رہتا تو اول فول بکتے ہر وقت ان کی نگاہ میری نگرانی میں رہتی اور میرے ساتھ دشمنوں کا سا برتاؤ رکھتے میرا دکھا ہوا دل اور بھی زخمی ہو گیا اور میں پاگل ہو گیا
دلّی کی ویرانی
جس قدر میر کے حالات کی ابتری نے انہیں رلایا اس قدر زمانہ نے بھی دل میر کی کیاری میں بے شمار زخموں کے پھول کھلائے میر کا اپنے والد کی وفات کے بعد جس قدر بے یاورو بے یار ہونا کرب ناک ہے اسی قدر دہلی کا تاراج ہونا بھی جس قدر میر کو ان کی ذاتی محرومیوں نے رلایا اتنا ہی دہلی کی ویرانی نے بھی خود لکھتے ہیں ”ہر قدم پہ رویا اور عبرت حاصل کی جب آگے بڑھا تو حیران ہوا مکان پہچان میں نہ آوے درو دیوار نظر نہ آئے عمارت کی بنیادیں نظر نہ آئیں رہنے والوں کی کوئی خبر نہ ملی ”(١٨)ہلی پر تاخت و تاز کو عبرت کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
شہاں کے کحل جواہر تھی خاک پا جن کی آنکھوں میں
انہیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
یہ شعر اس تاریخی پس منظر کا حامل ہے کہ جس میں جمیل جالبی کے بقول” ١٧٥٣ میں صفدر جنگ کی حمایت سے مرہٹوں نے پھر دلی کو تاراج کیا اور عماد الملک نے احمد شاہ کو قید کر کے ١٧٥٤ میں آنکھوں میں سلائیاں پھرا کر اندھا کر دیا۔
دلی جس کا ذکر بار بار ان کی (میر)شاعری میں آتا ہے صرف کسی شہر کا نام نہیں ہے بلکہ ایک عظیم مرتی ہوئی تہذیب کی روح کا اشارہ ہے ” دلی کی ویرانی نے میر کو اس قدر افسردہ کیا کہ جب ایک معاشرے میں عجیب و غریب حلیہ لئے پہونچے اور لوگوں نے وطن دریافت کیا تو جب شمع ان کے سامنے آئی تو فی البدیہہ فرمایا :
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساتھیوں
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
خصائل و فطرت
جہاں میر کی زندگی کا وہ حصہ اپنے اندر عبرتیں لئے ہوے ہے جس کا تعلق حالات اور زمانے سے ہے وہیں خود میر کے ذاتی خصائل اور ان کی فطری جبلت بھی اہل ذوق کے مطالعہ کے لئے بے سود نہیں ہے
١۔ خود داری و قناعت
میر کی شخصیت میں جو چیز ہر انسان کو ان کی شخصیت کا گرویدہ بنا دیتی ہے وہ ان کی خود داری اور قناعت پسندی ہے خود داری کا تو خیر ذکر ہی کیا لیکن قناعت کا عالم یہ ہے کہ بقول محمد حسین آزاد صاحب ”قناعت اور غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ اطاعت تو در کنار نوکری کے نام کو بھی برداشت نہ رکھتے تھے نتیجہ یہ کہ فاقے کیا کرتے اور دکھ بھرتے تھے ”(٢٠)
خوددار اس قدر تھے کہ اپنے عصری تقاضوں کے بر خلاف کبھی انعام و اکرام کے لالچ میں کسی بڑے سے بڑے نواب یا بادشاہ کے لئے ٢ حرف بھی نہ کہے چاہے کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے اور امراء و اشراف کی خوشامد کو سخت ناپسند کرتے تھے قطعی طور پر ان کی مدح سرائی سے گریز کرتے تھے حتی ان کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعزازی اور تشویقی تحائف و انعامات سے بھی بیزار رہتے اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے ”کہ وہ ہونگے بادشاہ اپنے دیار کے ہم اپنے من کے بادشاہ ہیں یہ ان کی عدم خوشامد اور شاہان وقت کی مدح سرائی سے گریز کا ہی خاصہ ہے امراء کی تعریف میں اکثر شعراء کا کلام مل جائے گا لیکن میر کہیں نظر نہیں آئیں گے چنانچہ محمد حسین آزاد امراء کی تعریف میں قصائد نہ کہنے کا سبب ان کے توکل اور ان کی قناعت پسندانہ زندگی کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں ”امراء کی تعریف نہ کرنے کا یہ بھی سبب تھا کہ توکل اور قناعت انہیں بندوں کی خوشامد کی اجازت نہ دیتے تھے ”
مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمن نہیں
میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں
ان کے لئے محمد حسین آزاد کی یہ تعبیر بہت مناسب معلوم ہوتی ہے ”یہ سمجھ لو کہ قسام ازل نے ان کے دسترخوان سے مدح و قدح کے ٢ پیالے اٹھا کر سودا کے یہاں دھر دئے تھے ”(٢٢)
ان کی یہ سوچ تھی کہ بادشاہ اپنے ملک کا حاکم ہے تو ہم اپنے ملک کے بادشاہ ہیں تو بھلا کیوں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں یا کیوں کسی کا عطیہ قبول کریں بلا وجہ کچھ لینے کو اپنے لئے عار سمجھتے تھے اور اپنی فقیری کو اپنا سر مایہ چنانچہ محمد حسین آزاد صاحب نے تحریر کیا ہے ”اکثر صاحبان عالیشان جب لکھنو جاتے تو میر صاحب کو ملاقات کے لئے بلاتے مگر یہ پہلو تہی کرتے اور کہتے مجھ سے جو کوئی ملتا ہے تو یا مجھ فقیر کے خاندان کے خیال سے یا میرے کلام کے سبب صاحب لوگوں کو خاندان سے غرض نہیں میرا کلام سمجھتے نہیں البتہ کچھ انعام ضرور دیں گے ایسی ملاقات سے ذلت کے سوا کیا حاصل”(٢٣) ان کی یہی سوچ تھی جس نے انہیں فقر کے بعد بھی بادشاہ بنائے رکھا کیونکہ وہ اپنے آپ کو کسی بادشاہ سے کم نہ سمجھتے تھے سو کسی کے سامنے دست دراز کرنا تو کجا دینے والے کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرتے کہ وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ وہ کون سی دولت اس شخص کے پاس ہے جس پر تکیہ کرتے ہوئے ہمیں بھی خاطر میں نہیں لا رہا یہ سچ ہے میر اپنے من اور اپنے دل کے بادشاہ تھے تبھی تو بڑوں بڑوں کو خاطرمیں نہیں لاتے چنانچہ ”ایک دن نواب(سعادت علی خان) کی سواری جا رہی تھی یہ تحسین کی مسجد پر سر راہ بیٹھے تھے سواری سامنے آئی سب اٹھ کھڑے ہوئے میر صاحب اسی طرح بیٹھے رہے سید انشاء خواص میں تھے نواب نے پوچھا انشاء یہ کون شخص ہے جس کی تمکنت نے اسے اٹھنے بھی نہ دیا عرض کی جناب عالی یہ وہی گدائے متکبر ہے جس کا ذکر حضور میں اکثر آیا کرتا ہے (گزارے کا وہ عالم اور مزاج کا یہ عالم ) سعادت علی خان نے آکر خلعت بحالی کی اور ایک ہزار روپیہ دعوت کا بھجوایا جب چوبدار لے کر گیا میر صاحب نے واپس کر دیا اور کہا مسجد میں بھجوائیے یہ گناہگار اتنا محتاج نہیں ہے ۔سعادت علی خان جواب سن کر متعجب ہوئے مصاحبوں نے سمجھایا غرض نواب کے حکم سے سید انشاء خلعت لے کر گئے اور اپنی طرز پر سمجھایا کہ نہ اپنے حال پر بلکہ عیال پرر حم کیجئے اور بادشاہ وقت کا ہدیہ قبول فرمائیں میر صاحب نے کہا صاحب وہ اپنے ملک کے بادشاہہیں میں اپنے ملک کا بادشاہ ہوں ”(٢٤)
بیباک انداز گفتگو اور ٢ ٹوک لہجہ
میر لگی لپٹی کہنے کے عادی نہیں تھے وہ ٢ اور ٢ چار کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جو بات ہوتی بغیر کمی و کسر کے سامنے اور بلا جھجھک و تکلف کہہ ڈالتے تھے اور اس قدر برجستہ اور صریح انداز اپناتے کے سامنے والا اگر غلطی پر ہے تو پانی پانی ہو جائے ۔محمد حسین آزاد صاحب نے اس بے دھڑک اور برجستہ انداز گفتگو کے کچھ نمونے پیش کئے ہیں ملاحظہ ہوں ؛
ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے نواب کی سواری سامنے آئی دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے میر صاحب آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا ہے کبھی تشریف بھی نہیں لاتے میر صاحب نے کہا بازار میں باتیں کرنا ادب شرفاء نہیں ہے یہ کیا گفتگو کا موقع ہے (٢٥)
لکھنو کے چند عمائد ین و اراکین جمع ہو کر ایک دن آئے کہ میر سے ملاقات کریں اور اشعار سنیں میر صاحب تشریف لائے مزاج پرسی وغیرہ کے بعد انہوں نے فرمائش اشعار کی میر صاحب نے اول تو کچھ ٹالا پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے اگر چہ ناگوار ہو ا مگر بنظر آداب و اخلاق ان لوگوں نے گراں خاطر ہو کر کہا کہ حضرت !انوری اور خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں آپ کا ارشاد کیوں نہیں سمجھیں گے ؟ میر نے کہا یہ درست ہے مگر ان کی شرحیں، مصطلاحات اور فرہنگیں موجود ہیں اور میرے کلام کے لئے فقط محاورہ اہل اردو ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اور اس سے آپ محروم ہیں یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا : عشق برے ہی خیال پڑا ہے چین گیا آرام گیا۔
دل کا جانا ٹھیر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
میر قمر الدین دلی میں ایک شاعر گزرے ہیں علوم رسمی کی قابلیت سے عمائد دربار شاہی میں تھے وہ میر صاحب کے زمانے میں مبتدی تھے شعر کا بہت شوق تھا اصلاح کے لئے اردو کی غزل لے گئے میر صاحب نے وطن پوچھا انہوں نے سونی پت علاقہ پانی پت بتلایا آپ نے فرمایا سید صاحب اردوئے معلی خاص دلی کی زبان ہے آپ ا سمیں تکلف نہ کیجئے اپنی فارسی وارسی میں کہہ لیا کیجئے ( ٢٧)
سعادت یار خان رنگیں نواب طہماسب بیگ خان قلعدار شاہی کے بیٹے تھے ١٤،١٥ برس کی عمر تھی شان و شوکت سے گئے اور غزل اصلاح کے لئے پیش کی سن کر کہا صاحب زادے آپ خود امیر ہیں اور امیر زادے ہیں نیزہ بازی،تیر اندازی کثرت سے کیجئے شہ سواری کی مشق فرمائیے شاعری دل خراشی و جگر سوزی کا نام ہے آپ سکے در پئے نہ ہوں انہوں نے بہت اصرار کیا تو فرمایا کہ آپ کی طبیعت اس فن کے مناسب نہیں یہ آپ کو نہیں آنے کا خوامخواہ میری اور اپنی اوقات ضائع کرنی کیا ضرور ہے (٢٨)
میر کی زندگی میں اس طرح کے ڈھیروں نمونے مل جائیں گے کہ جن سے میر کی حساس طبیعت کے ساتھ ساتھ ان کی ظرافت طبع لہجہ کی شفافیت،زبان کی شائستگی اور صداقت،اور ان کی روحی بالیدگی کا پتہ چلتا ہے ۔
میر کی زندگی میں بکھرے ہوئے درد اور جراحتوں کا اندازہ خود ان کے اشعار سے بھی کیا جا سکتا ہے ان کی گہری نظر اور آفاقی سوچ کا آج بھی کوئی ثانی نہیں
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کربلا کے سجدہ آخر کو یوں نے بہت سے شعرا نے نظم کیا ہے لیکن میر تقی میر نے جو کچھ اپنے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے وہی میر کی حساس طبیعت اور لہجہ کی انفرادیت کے لئے کافی ہے ۔
زیر شمشیر ستم میر تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
جب تک دنیا میں احساس باقی ہے میر کا نام افق ہستی پر اپنی روشنی بکھیرتا رہے گا۔ یقیناً میر جیسا تڑپتا ہوا احساس ہی اتنے برجستہ انداز میں کہہ سکتا ہے
مرگ مجنوں سے عقل گم ہے مری
کیا دوانے نے موت پائی ہے
لحظے لمحوں میں لمحے سالوں میں سال صدیوں میں بدل جائیں گے لیکن میر کی درد میں ڈوبی آواز ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا عمر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
حوالے و حواشی
نیا دور جولائی اگست ٢٠٠٢ص١٦
ڈاکٹر انور سدید،اردو ادب کی مختصر تاریخ ص١٣٠
مرزا علی لطف،گلشن ہند ص٢٠٩
ڈاکٹر انور سدید،تاریخ اردو ادب ص١٣٠
محمد حسین آزاد،آب حیات ص ١٩٥
ڈاکٹر انور سدید،اردو ادب کی مختصر تاریخ ص ١٣١
محمد حسین آزاد،آب حیات ص١٨١، کتابی دنیا نئی دہلی
آج کل شمارہ ١٢ ص ٥
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص ١٧٣،
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص ١٨١، کتابی دنیا نئی دہلی
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص ١٧٥، کتابی دنیا نئی دہلی
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص ١٧٦، کتابی دنیا نئی دہلی
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص ٢٠١
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص ١٨٤، کتابی دنیا نئی دہلی
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص ١٩٧
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص١٨٣، کتابی دنیا، نئی دہلی
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص١٨٢، کتابی دنیا، نئی دہلی
محمد حسین آزاد، آب حیات، ص١٨٣، کتابی دنیا، نئی دہلی
٭٭٭
21۔مرزاداغ دہلوی
پورا نام نواب مرزا خاں اور تخلص داغ تھا۔ 25مئی 1831ءکودہلی میں پیدا ہوئے ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے ۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقیناً بہت بڑا حصہ ہے ۔
غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پذیر رہے ۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انہیں "حجاب” سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے ۔ مثنوی فریادِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے ۔
نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کا رخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے ۔ 1905ءمیں فالج کی وجہ سے حیدر آباد میں وفات پائی۔ داغ کو جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے ۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعروں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔
٭٭٭
22۔محمد ابراہیم ذوق
شیخ محمد ابراہیم ذوق (1789 – 1854) ایک اردو شاعر تھے ۔ ذوق ان کا تخلص تھا۔
ابتدائی زندگی
دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے ۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے ۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے ۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے ۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے ۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے ۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہر درخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔
کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔
٭٭٭
23۔مومن خان مومن
مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اور حکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن1801ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے ۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم، اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے ۔
دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے ۔ امراء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔
مومن کی جنسی توانائی کا اظہار عملی زندگی سے ہی نہیں بلکہ کلام سے بھی ہوتا ہے ۔ دبستان لکھنو کے شعراء کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعراء کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے ۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے ۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے ۔
ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا
یہ وہی انداز ہے جس نے داغ دہلوی کے پاس جا کر رنڈی بازی کی صورت اختیار کر لی۔ اگر خالص جنس نگاری کے لحاظ سے دیکھیں تو مومن غالب سے بڑھ جاتے ہیں۔صرف اشعار کی تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ شدت اور وارفتگی میں بھی غالب کے ہاں بعض اوقات جنس کو مزاح وغیرہ سے کیمو فلاج کرنے کا رجحان ملتا ہے ۔ لیکن مومن کا انداز کسی حقیقت نگار کا ہے ۔ البتہ رشک میں دونوں کا یکساں حال ہے ۔ یہی نہیں بلکہ مومن نے آواز سے اپنی خصوصی جنسی دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح بعض ملبوسات اور زیورات سے وابستہ جنسی تلازمات بھی ابھارے گئے ہیں اور ایسی غزلوں کی بھی کمی نہیں جن میں واضح طور پر ایسے اشارات کیے کہ کسی مخصوص ہستی کی جھلک دیکھنے پربھی اتنا اندازہ لگانا دشوار نہیں رہتا کہ خطاب صنف مخالف سے ہے اور لاجنس شاعری کے اس دور میں یہ بہت بڑی بات ہے ۔
٭٭٭
24۔منیر نیازی
پیدائشی نام منیر
تخلص منیر
ولادت 1927ء ہوشیار پور مشرقی پنجاب
ابتدا ساہی وال، پاکستان
وفات 26 دسمبر 2006ء لاہور
اصناف ادب شاعری
ذیلی اصناف غزل، نظم
ادبی تحریک ترقی پسند
تعداد تصانیف 18
تصنیف اول بے وفا کا شہر
تصنیف آخر کلیات منیر (مجموعہ)
معروف تصانیف بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے ، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے ، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر
ابتدائی دور
اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر اور ادیب۔ ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے ۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آ گئے ۔
طرز شاعری
منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔
اردو کے معروف ادیب اشفاق احمد نے منیر نیازی کی ایک کتاب میں ان پر مضمون میں لکھا ہے کہ منیر نیازی کا ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ آہستہ آہستہ ذہن کے پردے سے ٹکراتا ہے اور اس کی لہروں کی گونج سے قوت سامعہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے ۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے ، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے ، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔
٭٭٭
25۔محسن بھوپالی
پیدائش:1932
انتقال: 17 جنوری 2007ء بروز بدھ
اردو کے نامور شاعر۔بھوپال میں پیدا ہوئے ۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کر کے لاڑکانہ منتقل ہو گیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہو گئے ۔
محسن بھوپالی پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور سندھ حکومت میں ایگزیکیٹو انجینئر کے عہدے سے 1991 میں ریٹائر ہوئے ۔لیکن ان کی وجہ شہرت بحرحال شاعری ہی رہی۔ دس کتابوں کے خالق تھے ۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’شکست شب‘ انیس سو اکسٹھ میں منظر عام پر آیا۔ جس کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ ’گرد مسافت‘ شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ’جستہ جستہ‘، ’نظمانے ‘ اور ’ماجرہ‘ ان کے قابل ذکر مجموعے ہیں۔
انیس سو پچاس کے عشرے میں انہیں اس وقت شہرت ملی جب تحریک پاکستان کے رہنما عبد الرب نشتر نے ایک جلسے میں ان کا یہ شعر پڑھ کر سنایا:
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
یہ شعر زبان زد عام ہو گیا اور محاورے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے ۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔
اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
ہوس کا نام عشق ہے ، طلب خودی کا نام ہے
ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے ۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے
1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے ۔کراچی میں نمونیا کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔
٭٭٭
26۔مجید امجد
جدید اردو نظم میں کے ایک اہم ترین شاعر۔ جنہوں نے اپنی شاعری سے اردو نظم کو نیا آہنگ بخشا
حالات زندگی
29 جون 1914 کو جھنگ میں پیدا ہوئے ۔ 1930 میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی اے کیا۔ 1939 تک جھنگ کے ہفت روزہ اخبار عروج کے مدیر رہے ۔ 1944 انسپکٹر سول سپلائر مقرر ہوئے ۔ ترقی پاکر اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بنے ۔ ملازمت کا زیادہ عرصہ منٹگمری موجودہ ساہیوال میں گزار۔ جہاں سے وہ 29 جون 1972ء کو ریٹائر ہوئے ۔
ازدواجی زندگی
1939 میں خالہ کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ جو گورنمنٹ سکول جھنگ میں استانی تھیں۔ دونوں کے مزاج میں اختلاف تھا۔ وہ اولاد سے محروم رہے ۔
آخری ایام
انتہائی عسرت اور تنگی میں گزارے ۔ وفات سے ایک ماہ پہلے تک انہیں پینشن نہ مل سکی۔ نوبت تقریباً فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ آخر اسی کیفیت میں گیارہ مئی 1974ء کے روز اپنے کوارٹر واقع فرید ٹاون ساہیوال میں مردہ پائے گئے ۔ تدفین آبائی وطن جھنگ میں ہوئی
شاعری
مجید امجد کے بارے میں خواجہ محمد زکریا لکھتے ہیں : مجید امجد اردو نظم کے ایک انتہائی اہم اور منفرد لہجے کے شاعر ہیں ان کا کلام معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بے مثال ہے ۔ جتنا تنوع ان کے ہاں پایا جاتا ہے وہ اردو کے کسی جدید شاعر میں موجود نہیں۔ ان کی تقریباً ہر نظم مختلف موضوع اور مختلف ہیئت میں تخلیق ہوئی ہے ۔ ان کے کلام میں زبردست آورد پائی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود جذباتی گہرائی جتنی ان کے ہاں ملتی ہے ، وہ عصر حاضر میں کسی اور کے ہاں نایاب ہے ۔ انہیں ادبی حلقوں نے مسلسل نظر انداز کیا لیکن انہوں نے کبھی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
نمونہ کلام
اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا
مگر ہائے ظالم زمانے کی رسمیں
ہیں کڑواہٹیں جن کی امرت کی رس میں
نہیں مرے بس میں نہیں مرے بس میں
مری عمر بیتی چلی جا رہی ہے
دو گھڑیوں کی چھاؤں ڈھلی جا رہی ہے
ذرا سی یہ بتی جلی جا رہی ہے
جونہی چاہتی ہے مری روح مدہوش
کہ لائے ذرا لب پہ فریاد پر جوش
اجل آ کے کہتی ہے خاموش! خاموش
تصانیف
پہلا شعری مجموعہ شب رفتہ کے نام سے ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔’’ شب رفتہ کے بعد‘‘ ان کا دوسرا مجموعہ تھا جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کلیات مجید امجد کے نام سے ان کا تمام کلام مرتب کیا ہے۔
٭٭٭
27۔ناصر کاظمی
(۱۹۲۵ – ۱۹۷۲) ناصر رضا کاظمی انبالہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے ۔ ۱۹۴۷ میں تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے ۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا تھا۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ ناصر کاظمی، حفیظ ہوشیارپوری (۱۹۱۲ تا ۱۹۷۳) کے شاگردوں میں تھے ۔
ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے ۔ پہلا مجموعہ ”برگ نے ” (اشاعت اول ۱۹۵۵) ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ اس میں ۱۹۴۶ – ۱۹۴۷ تک کا کلام شامل ہے ۔ دوسرے دو مجموعے ”دیوان” (اشاعت اول ۱۹۷۲) اور ”پہلی بارش” (اشاعت اول ۱۹۷۵) ان کی وفات کے بعد سامنے آئے ۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں اور دراصل یہی وہ کلام ہے جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے ۔ تیسرے مجموعہ ”پہلی بارش” کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام غزلیں ایک ہی زمین میں ہیں۔
ناصر کاظمی کی وفات کے بعد ان کی مزید تین کتابیں منظر عام پر آئیں۔ پہلی ”سُر کی چھایا” ایک طویل نظم ہے جسے خود شاعر نے کتھا کہا ہے ۔ دوسرے ”نشاط خواب” جس میں ریڈیو کے لیے کہی گئی نظمیں شامل ہیں۔ تیسرے کتاب نثر کی ہے ”خشک چشمے کے کنارے ” (اشاعت اول ۱۹۸۲) جس میں ناصر کاظمی کے مضامین شامل ہیں۔ انھوں نے تین ادبی رسائل ”اوراق نو”، ”خیال” اور ”ہمایوں ” جو لاہور سے شائع ہوتے تھے ، ان کی ادارت بھی کی۔
٭٭٭
28۔ن م راشد
اردو نظم کے عظیم شاعر۔ اصل نام راجا نذر محمد راشد 1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر رہے ، اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے رہے ۔
پہلا مجموعہ کلام
اردو شاعری کو روایتی تنگنائے سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا ن م راشد اور میرا جی کے سر جاتا ہے ۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے ۔ ماورا سے اردو شاعری میں انقلاب بپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے ، لیکن راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔
فیض اور راشد
ن م راشد کا تقابل اکثر فیض احمد فیض کے ساتھ کیا جاتا ہے ، لیکن صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف فیض کے موضوعات محدود ہیں بلکہ ان کی فکر کا دائرہ بھی راشد کے مقابلے پر تنگ ہے ۔ ساقی فاروقی بیان کرتے ہیں کہ فیض نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ راشد کی طرح نظمیں نہیں لکھ سکتے کیوں کہ راشد کا ذہن ان سے کہیں بڑا ہے ۔
فن
ن م راشد اور میرا جی سے پہلے اردو نظم سیدھی لکیر پر چلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف، پھر تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے ، جنھیں ایک لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے : واقعات کے بارے میں نظمیں، موسم کے بارے میں نظمیں، میلوں ٹھیلوں کا احوال، یا حبِ وطن یا اسی قسم کے دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا جاتا تھا۔
راشد اور میرا جی نے جو نظمیں لکھیں وہ ایک طرف تو ردیف و قافیہ کی جکڑبندیوں سے ماورا ہیں، تو دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی، علامتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں، اور ان کی نظمیں قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔
فکر
ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابد تاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پر حتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اور تیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے ۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے ۔
جدید انسان
راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے ۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے ۔ راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔
مجموعے
راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے ، ماورا، ایران میں اجنبی، اور لا =انسان، جب کہ گمان کا ممکن ان کی موت کے بعد شائع ہوئی تھی۔
انتقال
راشد کا انتقال 9 اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔ ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود تھے ، راشد کی انگریز بیگم شیلا اور ساقی فاروقی جب کچھ لوگ عبداللہ حسین کا ذکر بھی کرتے ہیں۔۔ ساقی لکھتے ہیں کہ شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کے جسم کو نذرِ آتش کروا دیا اور اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ نہیں پائے ۔ ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے ، اس باعث انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کے بجائے اپنے لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر، چتا جلانے کی وصیت خود کی تھی۔ ان کے دوسرے بھائی بھی آخری عمر میں ہندو دھرم قبول کر چکے تھے ۔
٭٭٭
29۔ولی دکنی
ولی کے نام اور وطن کے بارے میں اختلاف ہے ۔ اہل گجرات اسے گجرات کا باشندہ ثابت کرتے ہیں اور اہل دکن کی تحقیق کے مطابق اس کا وطن اورنگ آباد دکن تھا۔ ولی کے اشعار سے دکنی ہونا ثابت ہے ۔ ولی اللہ ولی، سلطان عبداللہ قلی، قطب شاہوں کے آٹھویں فرماں روا کے عہد میں 1668ءمیں اورنگ آ باد میں پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد حصول علم کے لیے احمد آباد آ گئے ۔ جو اس زمانے میں علم و فن کا مرکز تھا۔ وہاں حضرت شاہ وجیہہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں داخل ہو گئے ۔ ولی کی عمر کا بیشتر حصہ احمد آباد میں گزرا۔ اس شہر کے فراق میں انہوں نے ایک پر درد قطعہ بھی لکھا۔ ولی نے گجرات، سورت اور دہلی کا سفر بھی کیا۔ اس کے متعلق اشارے ان کے کلام میں موجود ہیں۔
دہلی میں ولی کی سعد اللہ گلشن سے ملاقات ہوئی۔ تو وہ ان کا کلام دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشورہ دیا کہ ان تمام مضامین کو جو فارسی میں بیکار پڑے ہیں۔ ریختہ کی زبان میں کام میں لانا چاہیے ، تاہم یہ بات متنازعہ ہے اور اردو نقاد اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال ہے (کتاب: اردو کا ابتدائی زمانہ) کہ محض دہلی والوں کی امپیریل ازم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اردو کے اولین تذکرہ نگار میر تقی میر اور قائم چاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ کوئی خارجی آ کے دہلی میں اردو غزل کا آغاز کرے ۔ اس لیے سعداللہ گلشن والا واقعہ ایجاد کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اصل میں الٹا دہلی والوں نے (یعنی سعداللہ گلشن نے ) ولی کو شاعری سکھائی تھی۔
٭٭٭
تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
بہت عمدہ
بہت عمدہ تخلیقی کاوش۔۔