FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

کونپلیں سنہری ہیں

غزلیں

               شائستہ مفتی

 

 

اک دروازہ کھلتا ہے پریوں   جیسے     گاؤں   میں

راہ میں مدھ بن پڑتا ہے اونچے چیڑ کی، چھاؤں میں

وہ پگڈنڈی جس پر لیلیٰ اب تک رستہ دیکھتی ہے

اب تک سرسوں پھول رہی ہے اُن رنگین فضاؤں میں

بوڑھے برگد پر اب تک آسیب  بسیرا   کرتا  ہے

جھولے سونے سونے ہیں ساون کی مست فضاؤں

تیرے میرے دل کی کہانی دنیا میں مشہور رہی

رانجھا ہیر کے قصے سنتے آئے رقص کتھاؤں میں

وہ بچپن جو اب تک دل میں چھپ چھپ کر مسکا تا ہے

سوچتے ہیں چھوڑ آئیں اس کو دور دراز خلاؤں میں

٭٭٭

 

چھو کر ہوا پتا ترے اشکوں کا دے گئی

دل کا قرار   چین نگاہوں کا لے گئی

بے خواب میری نیند کہ جس طرح شب ڈھلے

اک شمع دل کا درد اکیلے سہے گئی

موزوں ہوا نہ کوئی بھی دل میں خیالِ شوق

دل میں جو آرزو کی چتا تھی جلے گئی

ساحل پہ جس قدر بھی گھروندے تھے بہہ گئے

دیوار جو وفاؤں کی ضامن تھی ڈھے گئی

منظر بدل بدل کے مجھے دے گیا سراب

 دل کا یقین قیمتی شے تھی وہ شے گئی

تاثیر غم بھلا نے کی کھو دی شراب نے

 جوں ہی ہمارے ہاتھ سے چھو کر یہ مے گئی

٭٭٭

 

چاند کا جھومر رات کے ماتھے سجتا ہے

روپ کا دریا دھیرے دھیرے چڑھتا ہے

شبنم اوڑھ کے رات بھی پیاسی رہتی ہے

دل کا آنگن آج بھی سونا رہتا ہے

بادل گھر گھر آئے کسی انگنائی پر

سنتے ہیں ہم میگھ ملہار برستا ہے

دیوانی نے آج سنگھار رچایا ہے

آنکھیں بوجھل ہیں انداز بہکتا ہے

وقت نے کیسا جبر کیا انسانوں پر

چپ چپ آنکھ سے درد کا دریا بہتا ہے

رات تمھاری یاد کی خوشبو پھیلی

ساراٌ گلشن سجتا اور مہکتا ہے

٭٭٭

 

رنگ برسے ہیں تری یاد کے برساتوں میں

معجزے ہونے لگے زیست کے سناٹوں میں

ایک چاہت کی تمنا تھی سو پوری نہ ہوئی

دل بہل جائے گا شاید تری ان باتوں میں

تم سے ملنا ہی جدائی کی گھڑی ہے شاید

کتنے بے کیف سے موسم ہیں ملاقاتوں میں

تجھ سے مانگا ہی نہیں ہم نے وفاؤں کا صلہ

ہاتھ پھیلائے ہوئے چپ ہیں مناجاتوں میں

٭٭٭

 

مضطر تری یادوں میں دیوانہ رہا اکثر

انجانا رہا اکثر، بیگانہ رہا اکثر

سائل کی صدائیں تھیں یا دوست کوئی اپنا

شب بھر تری آہٹ کا افسانہ رہا اکثر

ہم پر بھی نظر اُٹّھے ہم سے بھی   ّتکلم ہو

خالی تری محفل میں پیمانہ رہا اکثر

شاید تری آنکھوں میں اشکوں کا چراغاں ہے

گم صم تری ہستی میں پروانہ رہا اکثر

کس درجہ محبت سے ہر جا کو سنوارا تھا

محرومِ  ّتمنا ہی ویرانہ رہا اکثر

اِس دل کے سمندر میں ہر سیپ میں موتی ہے

چاہت کا مری اتنا نذرانہ رہا اکثر

٭٭٭

 

 اُن سے ملنے کا ارادہ ہے قضا سے پہلے

اُن سے ملنے کا ارادہ ہے قضا سے پہلے

اِس حوالے سے ہی شاید اُسے پہچان سکوں

خود کو پہچان لوں گر اپنے خدا سے پہلے

زرد موسم کی تھی تمثیل مری آنکھوں میں

رنگ کچھ اور بھی گزرے ہیں خلا سے پہلے

وقت معدوم ہے اور دہر کے انداز جدا

کچھ بھی ممکن ہے مقدر میں قضا سے پہلے

تیری محفل کی طرف لوٹ کے جاؤں کیسے

پوچھ تو لوں دلِ آشفتہ ادا سے پہلے

کیسے اس خواب کو ٹوٹا ہوا دیکھے گی سحر

شوق کے دیپ بجھا دوں میں جفا سے پہلے

٭٭٭

 

اک قصۂ پارینہ دھندلا سا ہے آئینہ

گنجینۂ گوہر ہے یادوں سے بھرا سینہ

کیوں آنکھ چراتے ہیں ملتے ہیں جو محفل میں

اک وقت میں اپنے تھے یہ ہمدمِ دیرینہ

بہتا ہوا پانی بھی تھم جائے جنبش سے

چھیڑو نہ کوئی نغمہ خاموش ہے سازینہ

اک کن کی صداؤں میں مدہوش غمِ ہستی

ہم رقص مہ و انجم چھلکے ہیں مے و مینا

آنکھوں میں لئے وحشت ساحل سے اُلجھتے ہیں

طوفانوں کی چا ہت میں مرنا بھی ہے اب جینا

اک قصۂ پارینہ ہے دھند کے رستے میں

تا حدِ نظر دیکھوں تخلیق کا آئینہ

٭٭٭

 

پانی پہ سفر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

تنہائی میں گھر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

اک خواب کا قیدی ہے ، ہو سیب کا گھر جیسے

قطرے کو گوہر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

طوفان کی چاہت تھی اس دشت ِ خراباں میں

ہر لہر کو سر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

ہیرے کا جگر اس کا ، تھا پھول سا دل اپنا

اس دل پہ اثر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

زنجیر تھی پیروں میں ، ہر خواب پہ پہرے تھے

پھر اپنی خبر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

معصوم سی خواہش تھی ، اک پیار کا گھر اپنا

احوال ۔۔ دیگر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

٭٭٭

 

مجھ کو چھوتا ہے خدا نرم ہواؤں کی طرح

ساتھ دھڑکن کے تعلق ہے وفاؤں کی طرح

روز کرنوں سے منور مرے دروازے پر

مجھ کو روشن نظر آتا ہے فضاؤں کی طرح

سرد موسم میں مری روح کی تنہائی میں

ساتھ رہتا ہے مرے ساتھ وفاؤں کی طرح

جو بھٹک جاؤں کبھی دشت کی حیرانی میں

راستہ دیتا ہے جنگل کی نداؤں کی طرح

ان خلاؤں کے حزیں خواب سے ڈر جاؤں اگر

لوریاں دیتا راتوں میں دعاؤں کی طرح

بوڑھے برگد کی طرح ہے مرا چھپر چھاؤں

میری ہر بات سمجھتا ہے وہ ماؤں کی طرح

٭٭٭

 

میرے ہاتھوں میں کچھ گلاب تو ہیں

جو نہ ممکن رہے وہ خواب تو ہیں

رنگ بکھرے ہیں چار سو میرے

ریگ زاروں میں کچھ سراب تو ہیں

تیری  چاہت کی آرزو نہ سہی

مہ ترے سایۂ عتاب تو ہیں

لفظ ڈھلنے لگے ہیں معنی میں

زندگی سے ملے جواب تو ہیں

روشنی سی رہی درختوں پر

جنگلوں پر رہے شباب تو ہیں

رات کے منظرِ خموشی میں

چھڑ گئے نغمۂ رباب تو ہیں

اس زمانے کی کیا حقیقت ہے

ساحلِ وقت پر حباب تو ہیں

٭٭٭

 

تارِ دل اک رباب ہو جائے

سرد پانی شراب ہو جائے

تجھ کو لکھنا بھی اک سزا ٹھہرے

تو جو اک آفتاب ہو جائے

تیر سی چبھ رہی ہے چشمِ کرم

جسم و جاں انقلاب ہو جائے

دوستی ہے کہ دشمنی جانم

آج آؤ حساب ہو جائے

کس عقیدت سے چوٹ کھائی ہے

زخمِ دل اک گلاب ہو جائے

میرے رستے میں آج صحرا ہیں

نیند آنکھوں میں خواب ہو جائے

بے محبت سی زندگی کے لیے

بارِ خاطر شباب ہو جائے

اس قدر بھیڑ میں ہو کیوں تنہا؟

تو جو آئے جواب ہو جائے

٭٭٭

 

اس رفاقت کے سلسلے  ہوتے

درمیاں گر نا فاصلے ہوتے

سوچتے ہیں یہ جانِ جاں اکثر

زخم دل کے اگر سلے ہوتے

کیسی ہوتی یہ کائنات اگر

تم سے ہم،ہم سے تم ملے ہوتے

عشق محکوم نا رہا ہوتا

دل کو لاحق نا مرحلے ہوتے

پھول ہوتے یہ دل کے سب ارماں

دھوپ میں ہم نہ گر جلے ہوتے

اٌس نے پھر ہاتھ ہم سےمانگ لیا

ٹوٹ جانے کے حوصلے ہوتے

بات دل کی نہ کہہ سکے اُن سے

جنبشِ دل پے لب ہلے ہوتے

٭٭٭

 

ایک موسم ہے تری یاد کا کھو جانے دے

دھوپ کے پاؤں تھکے ہیں ذرا سو جانے ے

ترکِ الفت سے کیا میں نے سفر کا آغاز

راستے دشت میں کھو جائیں تو کھو جانے دے

جھیل میں عکس وہی ہے جو نظر آتا ہے

آنکھ پُر نم ہو سرِ بزم تو ہو جانے دے

شام لے آئی ہے پھر شہر کے کوچوں سے پرے

دل کی ویرانیاں وحشت میں سمو جانے دے

دور اندیش ہے دیوانگی دل کی جانم

نام رسوا ہو ترے ساتھ تو ہو جانے دے

رات نے ہجر کی تمہید لکھی ہے دل پر

چہرۂ خواب کو اشکوں میں ڈبو جانے دے

٭٭٭

 

ڈھونڈیئے جائے اماں کہ شہر اب ویران ہے

قربتوں میں فاصلوں کا اک نیا امکان ہے

بستیوں نے ڈال رکھے ہیں سکوتِ سائباں

اپنے غم میں رونے والی آنکھ بھی انجان ہے

ہم سمجھتے تھے کہ ہے کارِ جہاں سرسبز تر

چہرہءگل شبنمی اشکوں کی اک مسکان ہے

خواہشوں کے سارے موسم تشنگی میں کٹ گئے

آج پھر دستک سی ہوتی ہے،کوئی مہمان ہے؟

ہم نے پہچانا نہیں شاید یہی ہے اپنا گھر

راستہ دیکھا خزاں نے جس کا وہ دالان ہے

قیدِ تنہائی تجھے رسوانہیں ہونے دیا

مسکرا کر کہہ دیا،یہ رشتۂ پیمان ہے

٭٭٭

 

زندگی مختصر کہانی ہے

یہ جہاں اِک جہانِ فانی ہے

شاخ پر ایک پل ہی شاد رہے

برگِ گل کی یہی کہانی ہے

صرف اِک سوچ ہی کا پتھر ہے

جھیل کا ارتعاش ثانی ہے

تم جسے لکھ رہے ہو برسوں سے

قصّۂ مرگ جاودانی ہے

پھوٹتی کونپلیں سنہری ہیں

اِک یہی رنگ ہی جوانی ہے

لفظ معنی گنوا چکے ہیں سبھی

خالی آنکھوں میں صرف پانی ہے

موت بھی چھو سکی نہ لمحوں کو

یہ امر داستاں پرانی ہے

٭٭٭

 

شام آ پہنچی ہے جنگل میں سفر باقی ہے

شبِ آشفتہ ترے غم کی سحر باقی ہے

کوئی شکوہ نہ شکایت ہے مگر آنکھوں میں

برہمی ہے کہ کوئی تیرِ نظر باقی ہے

کوئی جنبش نہ ہوئی رات کے ایوانوں میں

کون کہتا ہے کہ نالے میں اثر باقی ہے

حادثہ یہ بھی گزرنا تھا ہمارے دل پر

سب کا احوال سنا اپنی خبر باقی ہے

کون مقتل کی طرف شوقِ سفر کر بیٹھا

دل میں سودا یہ سمایا ہے کہ سر باقی ہے

وقت مرہم کی طرح آیا ہے تنہائی میں

اے مرے دوست ترا زخمِ جگر باقی ہے

٭٭٭

 

دیا جلے نہ جلے رات تو  بِتانا ہے

نگاہِ شوق کو ظلمت کے پار جانا ہے

سراغ لائے گی اِک دن ہوا بہاروں کا

کہ موسموں کا تغیر ترا ٹھکانا ہے

گزار دیں کئی صدیاں فراق میں تیرے

یہ زندگی تو فقط نام کا فسانہ ہے

تری خموش نگاہیں کلام کرتی ہیں

اِسی نظر کا گرفتار اِک زمانہ ہے

نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے ٹھہرے گا

خلا نورد تخیل کا کیا ٹھکانا ہے

٭٭٭

 

آنکھ میں نیند کے موسم کے امیں ہوتے ہیں

خواب تیرے مری آنکھوں میں مکیں ہوتے ہیں

جب کوئی بام پہ آتا ہے سرِ شام اُدھر

سارے منظر ترے کوچے کے حسیں ہوتے ہیں

جو بچھڑ جاتے ہیں اِس وقت کے سناٹے میں

گوشۂ ذہن میں پیہم وہ کہیں ہوتے ہیں

کیا کہیں تجھ سے کوئی تشنہ لبی کا احوال

جس جگہ پاؤں دھریں خارِ زمیں ہوتے ہیں

اپنے الفاظ کی وقعت کو گنوا بیٹھوں گی

تیرے اثبات کے لہجے میں نہیں ہوتے ہیں

جب کسی خواب کی جنبش ہوئی ویرانے میں

یاس کے سائے مرے دل میں مکیں ہوتے ہیں

٭٭٭

 

اس بڑے شہر کی سرحد سے ذرا دور کہیں

کچے آنگن میں روایات کے گل کھلتے ہیں

میری دہلیز کے بوسیدہ کواڑوں سے ابھی

عہدِ رفتہ کے مدھر ساز و سخن بجتے ہیں

سوچ کی اَدھ کھلی کونپل کی خدا خیر کرے

آگ جنگل میں بھڑکتی ہے چمن دہکتے ہیں

لے کے آنکھوں میں تری یاد کے جگنو اکثر

اشک دریاؤں کے پانی میں دیے جلتے ہیں

موجۂ دہر سے احساس بچا کر ہم نے

وقت کے سیل میں تنکوں پہ شجر رکھتے ہیں

شہر کا شہر چلا آیا بجھانے کے لیے

آس اُمید کے جنگل میں دیے جلتے ہیں

کتنا معصوم ہے الفاظ کے لہجے کا طلسم

لب جو گویا ہوں تو احساس کے در کھلتے ہیں

٭٭٭

 

بے کل رات کی راہی تجھ سے دل کی بات کہی جائے

کہی سنی باتوں میں شاید تنہا رات سہی جائے

خواب جو دیکھوں خوابوں میں پھر تصویروں میں رنگ بھروں

میرے چہرے پر تیری تصویر جو صاف پڑھی جائے

برکھا رُت میں دیوانی پروا کی بات سنے گا کون

من موجی بیگانی ندیا آپ ہی آپ بہی جائے

ہم نے تجھ سے ساری باتیں کہہ ڈالیں جو کہنا تھیں

جیون بپتا کہہ ڈالی اک دل کی بات رہی جائے

برہا رُت کی ٹھنڈی ٹھنڈی آگ میں تنہا تنہا دل

تیری یاد سے رخشاں ہو کر بوجھل شام تہی جائے

٭٭٭

 

پھر کھلے ہیں مرے احساس کے سونے بن میں

جھلملاتی ہوئی یادوں کے مہکتے گلشن

ان ہواؤں نے بڑے دکھ سے بتایا ہے مجھے

میرے ہاتھوں میں کھنکتے نہیں سکھ کے کنگن

میری آنکھوں میں مہکتے نہیں خوابوں کے گلاب

دل کے آنگن سے گریزاں ہے بہاروں کا چلن

پھر بھی اِس دل میں برستی ہے خیالوں کی گھٹا

کتنا پیارا ہے بہاروں کا خزاں سے بندھن

لفظ کھلتے ہیں گلابوں کی مہک، رنگ لیے

موسمِ درد سے مہکا ہے خزاؤں کا چمن

اور کچھ دُور چلو توڑ دو زنجیرِ انا

ہم کو برباد کیے دیتا ہے رسموں کا گہن

٭٭٭

 

ساحل کی ہوا پوچھنے نکلی ہے سحر سے

شاعر ہے کہ وحشی ہے جو گزرا ہے اِدھر سے

گزرے ہیں ترے بعد بھی کچھ لوگ نگر سے

لیکن تری خوش بو نہ گئی راہ گزر سے

بستی میں ترے نام کا چرچا بھی بہت تھا

کچھ ہم بھی تھے مجبور دلِ سادہ نظر سے

ہے کون دریچے میں سرِ شام سے مضطر

ہے کون پریشان یہاں پچھلے پہر سے

سنتے ہیں کہ آنکھوں میں کئی رنگ ہیں پنہاں

رنگین ہوا عکس مرا زخمِ جگر سے

معدوم ہوئے جاتے ہیں چاہت کے فسانے

نکلے ہیں جو اِس بار ترے شیش نگر سے

٭٭٭

 

شام اپنے لیے پھول زخموں کا تحفہ سجانے لگی

دل جلی شام آنچل میں سج کر دکھوں کے فسانے لگی

کون کہتا ہے کہ راہِ الفت وفاؤں کی ہے رہ گزر

ہم نے جب  بھی وفاؤں کے سپنے بنے تلخیِ روز و شب دل جلانے لگی

روشنی کے مسافر کبھی ہم بھی تھے، پیار ہم کو بھی تھا زندگی سے مگر

سوگئے خواب آنکھوں میں تھک کر کہیں شب کی محرومیاں راس آنے لگی

ہاں ترے وصف سے اے زمانے ہمیں کوئی امید تو اب نہیں ہے مگر

اِن اندھیروں کے جنگل میں بے نام سی روشنی کی کرن جھلملانے لگی

کتنی آہستگی سے لٹا قافلہ اہلِ دل کو ابھی تک خبر ہی نہیں

کون جانے بہاروں کے سائے میں بھی روزنوں سے خزاں مسکرانے لگی

ناصحا تیری ہر بات مانے ہے دل، اپنی آزردگی کو مگر کیا کریں

جب بھی ہم سے ملی جھوم کر چاندنی دل میں یادوں کی شمعیں جلانے لگی

جب بھی تنہائیوں کا اجالا کیا جب بھی سوچا کیے بے خودی کا سبب

اشک لفظوں میں ڈھل کر غزل بن گئے دل کی تنہائیاں گنگنانے لگی

٭٭٭

 

بیت چکا تنہائی کا موسم اب لوگوں میں رہا کرو

بھینی بھینی رات کی رانی مہکے تو خوش ہوا کرو

اُودے کالے بادل جب بھی جھوم کے رم جھم برسیں گے

اپنے بچپن کی یادوں کو اوڑھ کے سپنے بنا کرو

میں آنکھوں کو بند کیے ہوں تم بھی آنکھیں مت کھولو

سپنوں کے جس موسم میں رہتے ہیں ہم تم رہا کرو

جس انگور کی چھاؤں میں خوش حال زمانے گزرے ہیں

اس کی خاطر آتے جاتے کچھ لمحوں کو رُکا کرو

بستی بستی گھوم چکے ہو، سیلانی گھر لوٹ چلو

اپنی دنیا اِک گھر آنگن، اِس آنگن میں بسا کرو

٭٭٭

 

زخمِ دل سی کے مسکرانا  کیا

زندہ رہنے کا ہے بہانہ کیا

پاس تھا درد جب تھی تنہائی

بزمِ انجم میں جی جلانا کیا

بیتے موسم کہاں تلاش کریں

بھولی راہوں میں دکھ اٹھانا کیا

یوں نہ برسے تھے ٹوٹ کر بادل

جل گیا کوئی آشیانہ کیا

سازِ دل ٹوٹ کر بکھر بھی گیا

گیت ساون کا گنگنانا کیا

جانے کیا کھو دیا کہ یاد نہیں

کھو دیا کیا، ہے اور پانا کیا

رات ٹھہری ہے بام پر ساقی

دیپ اشکوں کے جھلملانا کیا

٭٭٭

 

اپنے اشکوں سے نکھر کر جگمگا اٹھتی ہے رات

دل کی ویرانی میں اکثر مسکرا اٹھتی ہے رات

بے سبب ہے کیوں اُداسی چھیڑیے نغمہ کوئی

حالِ دل، حالِ چمن پر گنگنا اٹھتی ہے رات

شہر کی خاموشیاں معنی نہیں رکھتیں کوئی

ایک محفل دل کی ہے سو چہچہا اٹھتی ہے رات

دُور صحراؤں میں ساتھی گیت گاتے ہیں مرے

اور میرے ساتھ رقصاں گیت گا اٹھتی ہے رات

جھوم کر آتی ہے میرے پاس یادوں کی مہک

اور آنکھوں کی چمک سے جھلملا اٹھتی ہے رات

٭٭٭

 

دل جلانے کا فائدہ ہوتا

کاش جینے کا آسرا ہوتا

روشنی دُور ہو گئی تھی اگر

دل اندھیرے میں جل اُٹھا ہوتا

کوئی گاتا ہے غم کے گیت مگر

سننے والوں میں حوصلہ ہوتا

زندگی خواب بن گئی ہوتی

اور کوئی اپنا ہم نوا ہوتا

سایے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں

کوئی پھر ساتھ ساتھ کیا ہوتا

اے بہاروں کی نرم ٹھنڈی ہوا

کاش تو نے مجھے چھوا ہوتا

٭٭٭

 

سوچ کے سمندر میں بے شمار دھارے ہیں

بے قرار موجوں کے ہر نفس کنارے ہیں

آنکھ موند لیتے ہیں جب بھی نیند آ جائے

تختۂ ندامت پر ہم نے خواب ہارے ہیں

زخم زخم پھولوں پر خون ہے اُمنگوں کا

قرض جو نہ واجب تھے جان پر اُتارے ہیں

شورشِ زمانہ بھی تھم گئی ہے اِک پل کو

سامنے تلاطم کے پرسکوں نظارے ہیں

کون سچ کی راہوں میں شمع دل جلائے گا

روشنی کے منبر پر تیرگی کے مارے ہیں

٭٭٭

 

وجد میں ہے تنہائی ذوقِ دل پکار آئے

ہجر کی اکیلی شب کاش بار بار آئے

خواب ہیں اُڑانوں کے دور آسمانوں میں

تند باد و باراں پر دل کو اعتبار آئے

زار زرد رستوں پر شور ہے اُداسی کا

صبح کی کرن لے کر موسمِ بہار آئے

وقت کے تغافل سے زندگی کے صحرا میں

ہر نفسِ ارادو پر بارِ انتظار آئے

دوش پر ہواؤں کے اک چراغ روشن ہے

کون جانے کسی پل میں کوئی جاں نثار آئے

٭٭٭

 

وہ ایک لمحۂ رنگین کی ادا ٹھہرے

مرے ہی خواب مرے درد کی صدا ٹھہرے

کھلے تھے درد کے صحرا چلی تھی بادِ بہار

یہ موسموں کے تغیر بھی سانحہ ٹھہرے

مسافتیں ہیں مسلسل نہ تھک کے سو جانا

کہ کون جانے کہاں دل کا قافلہ ٹھہرے

فریب ہے کہ نظر کو دکھائی کچھ نہ دیا

ہر اِک ستم دلِ وحشی کو آسرا ٹھہرے

کسی خیال کی شبنم ہے چھپ کے روتی ہے

ہزار شکوے نگاہوں میں بے نوا ٹھہرے

٭٭٭

 

صدا دیتا ہوا غم بے صدا ہے

کسی آواز کا جادو جگا ہے

سمندر کی ہوا بے چین سی ہے

گھروندا آس کا کوئی بنا ہے

نہیں چاہت ہمیں منزل کی لیکن

سفر میں زندگی کو تج دیا ہے

بہت آساں نہیں لہجے وفا کے

کہ نفرت میں چھپا حرفِ دعا ہے

حقیقت کے کڑے موسم میں اکثر

تصور کا کنول دل میں کھلا ہے

٭٭٭

 

وہی ہے خواب کا رشتہ بہار کا رشتہ

تمھارا میرا فقط انتظار کا رشتہ

وہ ایک رشتۂ انجان دل کے پاس رہا

گئی رُتوں سے رہا اعتبار کا رشتہ

کرن کرن جو اُسے ڈھونڈتی رہی ہر سو

نکھر گیا دلِ محزوں سے پیار کا رشتہ

ہوا نے آ کے سنایا جو درد کا احوال

شکستہ ہونے لگا اختیار کا رشتہ

مہک گلاب کی پھیلی ہے چار سو اپنے

بہت حسیں ہے خزاں سے بہار کا رشتہ

تمام عمر کی پونجی ہے اُس کے ہاتھوں میں

ہے راہزن سے مرا اعتبار کا رشتہ

٭٭٭

 

خموش آنکھوں کی مسکراہٹ دلوں کو تسخیر کر گئی ہے

نہ جانے کیا ماجرا ہوا ہے ہوا کو زنجیر کر گئی ہے

مسافتوں کے طویل دکھ ہیں ذرا مفصل نہ پوچھیے کچھ

گلاب موسم کی سرخ لالی لہو کی تصویر کر گئی ہے

اجاڑ دی تھی غموں کی بستی بھلا دیا تھا غمِ زمانہ

خوشا وہ موسم وہ بھیگی شامیں دکھوں کی تدبیر کر گئی ہے

اُداسیوں کی کڑی رُتوں میں خموش رہنا بھی اِک ہنر ہے

میں اِس ہنر کو سمیٹ رکھوں یہ اپنی تقدیر کر گئی ہے

ذرا خزاؤں پہ بھی نظر ہو بہار موسم تو ہر طرف ہے

کہ بن کہے ہی خزاں کی تلخی ہماری تفسیر کر گئی ہے

یہ گنگناتی ہوئی فضائیں یہ زندگی کی اُداس راہیں

مہکتے لمحوں کی چاہتوں کو دکھوں سے تعبیر کر گئی ہے

بھلا دو اے دوست تلخ موسم، نئے زمانے میں دل لگاؤ

وہ ایک روٹھی اداس رُت تھی جو اپنی تعمیر کر گئی ہے

٭٭٭

 

اندھیری رات میں اشکوں سے جھلملائے غزل

میں چپ رہوں تو وہی بات گنگنائے غزل

سراپا نور بنا ہے یہ چاندنی کا سفر

انھی فضاؤں میں دھیرے سے مسکرائے غزل

میں زندگی کی سحر ڈھونڈنے چلی ہوں مگر

شکستہ روح لیے ساتھ ساتھ آئے غزل

ترے خیال کا پرتو، مرے خیال کی آنچ

ہزار رنگ لیے شام گنگنائے غزل

بچھڑ نہ جائیں کہیں راستے منازل کے

چراغ بن کے اندھیرے میں جگمگائے غزل

بہت عزیز ہیں مجھ کو بہار کے موسم

بہار آئے تو غم کے دیے جلائے غزل

چلو اے دوست بہت دیر ہو گئی اب تو

کھڑی ہے کب سے درِ شب پہ سر جھکائے غزل

٭٭٭

 

تم مرے سامنے ہنسا نہ کرو

یوں بہاروں کا ماجرا نہ کہو

اپنی روشن سجیلی آنکھوں سے

اَن کہے رازِ دل ربا نہ کہو

جانے کیوں بجلیاں سی گرتی ہیں

شام کو عرضِ مدعا نہ کہو

بے حقیقت سی زندگی کے لیے

اِس قدر تلخ فلسفہ نہ کہو

اُن کی محفل میں پھر لیے چلیے

اے مرے دل یہ بارہا نہ کہو

سامنے عکس ہے فرشتوں کا

تم ہمیں یوں تو بد دعا نہ کہو

٭٭٭

 

اِک دروازہ کھلتا ہے پریوں جیسے گاؤں میں

راہ میں مدھ بن پڑتا ہے اونچے چیڑ کی چھاؤں میں

وہ پگڈنڈی  جس پر لیلیٰ اب تک رستہ دیکھتی ہے

اب تک سرسوں پھول رہی ہے اُن رنگین فضاؤں میں

بوڑھے برگد پر اب تک آسیب بسیرا کرتا ہے

جھولے سونے سونے ہیں ساون کی مست ہواؤں میں

تیرے میرے دل کی کہانی دنیا میں مشہور رہی

رانجھا ہیر کے قصے سنتے آئے رقص کتھاؤں میں

وہ بچپن جو اب تک دل میں چھپ چھپ کر مسکاتا ہے

سوچتے ہیں چھوڑ آئیں اس کو دور دراز خلاؤں میں

٭٭٭

 

اِک اُس کے ہونے سے دنیا حسین لگتی ہے

اُداس شام سحر کی امین لگتی ہے

بسیط بحر میں ڈوبے ہوئے سفینے کو

قضا کے ہاتھ ابد کی زمین لگتی ہے

بجھائیے نہ یہ مشعل بہت اندھیرا ہے

تمھاری چاہ سے روشن جبین لگتی ہے

خریدنا ہے نئی زندگی کا ہر پرتو!

فسردہ روح دلوں کی مکین لگتی ہے

عدم کے پار مجھے ڈھونڈنا ہے ہونے کو

حیات و موت کی چلمن مہین لگتی ہے

مجھے خبر نہ ہوئی کب یہ کونپلیں پھوٹیں

بہار بن میں بلا کی ذہین لگتی ہے

٭٭٭

 

زہرِ قاتل ہی منگا دے کوئی

کچھ تو ہستی کو عطا دے کوئی

باغ میں کھلتی ہوئی کلیوں کو

ایک بے نام دعا دے کوئی

محوِ غفلت ہوں تیری دنیا میں

بے ارادہ ہی جگا دے کوئی

ہم سے مجرم کو وفاداری کی

یوں سرِ عام سزا دے کوئی

دل نہ گرمی سے پگھل جائے کہیں

شوق کے دیپ بجھا دے کوئی

بے اماں دشت میں پھرتا ہے کوئی

راستہ گھر کا دکھا دے کوئی

٭٭٭

 

تم مجھے بھول کے خوش باش نظر آتے ہو

پھول چاہت کے گراتے ہو جدھر جاتے ہو

یہ بھی اچھا ہے تخیل نے بنائے ہوں سفر

کوئی پوچھے نہ کدھر آئے کدھر جاتے ہو

برف پگھلی ہے پہاڑوں پہ گلابی موسم

دیپ یادوں کے بجھاتے ہو جلا جاتے ہو

میں نے چپ چاپ ہی باندھا ہے سفر کا سامان

تم بھلا پوچھتے کیوں ہو کہ کہاں جاتے ہو

جی سے جانا ہے ہر اک سانس کا آنا جانا

میرے خالق مری ہر سانس کو سلجھاتے ہو

میں نے آواز سنی ہے تری ویرانے میں

تم مجھے بھول کے کیوں چھوڑ نہیں جاتے ہو

٭٭٭

 

اے مرے دل یہ ترے در پہ جو دستک سی ہے

مجھ کو لگتا ہے ہواؤں نے محبت کی ہے

میں نے تنہا ہی سنبھالا ہے خزانے کو ترے

زندگی تجھ سے ہر اک رنگ میں الفت کی ہے

راز اب راز نہیں کوئی تری محفل میں

بن پیے بھی ترے لہجے میں جو لرزش سی ہے

لوٹ جاتے ہیں سبھی اپنے گھروندوں کی طرف

دلِ ویراں نے سرِ شام یہ حجت کی ہے

یوں تپش  مجھ کو جلائے ہے رُلائے ہے مگر

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتی ہے

کہر سا پھیلتا جاتا ہے مری صبحوں میں

ہاتھ جلتے ہیں جو تاروں کی طلب ہوتی ہے

٭٭٭

 

نیا ساز چھیڑ اور نئی بات کر

دلوں کے مسیحا تو اے جادوگر

محبت  تفاوت سے ہٹ کر ذرا

بنائیں گے مل کر نئی رہ گزر

مرے سر پہ چادر تو ہے میرے دوست

میں ہوں اپنے آنگن میں ہی در بدر

نئے دور کے خواب اور راستے

مری دھڑکنوں کو کریں تیز تر

گہر کوئی پلتا ہے گہرائی میں

کیا جس نے لہروں کو زیر و زبر

ہمی تیری محفل میں شامل نہیں

وہی رونقیں ہیں وہی بام و در

وہ دیوانہ اٹھ کر کہاں کھو گیا

اُسے ڈھونڈتے ہیں یہ شام و سحر

٭٭٭

 

وہ خواب زندگی کی سحر کا بھلا لگا

دھوکا ہے خواب پھر بھی یہ دھوکا بھلا لگا

گہنا گیا تھا چاند، ستارے اُداس تھے

اِس تیرگی میں دھوپ کا سایہ بھلا لگا

اِک تیری جستجو ہے کہ گم ہوگئے چراغ

تنہا اُداس راہ پہ چلنا بھلا لگا

اِس شہرِ آرزو میں تو موسم نہیں کوئی

اِس شہرِ دل میں درد کا کانٹا بھلا لگا

جذبے ہی تھے بکھر بھی گئے ہیں تو کیا ہوا

شیشے کی کرچیوں کا بکھرنا بھلا لگا

ہونے لگا ہے غم پہ خوشی کا گمان سا

اندھی شبوں میں صبح کا دھڑکا بھلا لگا

٭٭٭

 

پھول لگتے ہیں کبھی آہ و فغاں کرتے ہیں

حرف آئینہ ہیں ہر راز عیاں کرتے ہیں

ایسے بدلے ہیں زمانے میں وفا کے تیور

دل بھی ٹکڑے ہو تو احساس کہاں کرتے ہیں

کتنے موسم ہیں کہ چپ چاپ گزر جاتے ہیں

جانے کس طور سے ہم عمرِ رواں کرتے ہیں

جب نہیں کوئی بھی امیدِ وفا دنیا سے

جانے کیا سوچ کے ہم جاں کا زیاں کرتے ہیں

پھر سناتی ہے ہوا نغمۂ پرسوز کہ ہم

موسمِ یاد کی ہر رُت کو جواں کرتے ہیں

٭٭٭

ماخذ:

http://urduyouthforum.org/shayari/shayari-Shaista-Mufti-Farrukh-4.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید