FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

چند بے تکی کہانیاں

               صدیق عالم

ابتدائیہ

    ہم ایک بنی بنائی دنیا میں داخل نہیں ہوتے۔ جس طرح ایک weaver birdاپنا گھونسلا بناتی ہے اسی طرح کوکھ سے باہر آتے ہی ہم اپنی آواز سے اپنی دنیا کو بنانا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہم اس آواز کے ذریعے ایک ایسی کائنات سے کنیکٹ ہونے کی کوشش کرتے ہیں جس کا سرے سے کوئی وجود ہے ہی نہیں ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ اپنے لفظوں کے ذریعے بنتی ہوئی اس دنیا کو سمجھنے اور جینے کے لیے ہمارے پاس واحد وسیلہ یہی ہمارے الفاظ ہیں ۔ تو اس طرح لفظوں کا ایک گورکھ دھندا شروع ہو جاتا ہے اور ہم اپنا راستہ کھو بیٹھتے ہیں ۔ مگر اس گورکھ دھندے سے باہر نکلنے کے لیے الفاظ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہوتا۔اس طرح ہم ایک بتدریج پھیلتے ہوئے گورکھ دھندے کے بیچوں بیچ کھڑے حیران و پریشان اس شخص کو پکارنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمیں اس گورکھ دھندے سے باہر نکلنے کا راستہ بتاسکے گا۔ اس طرح مکالمے اہم ہو اٹھتے ہیں ، مکالمے جو ایک اندھے آدمی کی ٹٹولنے کی لکڑی بھی ہے اور اس تاریک کائنات میں اس کی آواز بھی۔ وہ رد عمل کے طور پر کچھ آوازیں سن تو رہا ہے مگر انھیں سمجھنے کے لیے اسے خود اپنے لفظوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، دوسرے معنوں میں وہ ان آوازوں میں وہی کچھ پاتا ہے جو اس کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ مگر اسے اس کا بھی احساس ہے کہ اپنی اس کوشش میں وہ الفاظ کے اس گورکھ دھندے کو اور بھی پھیلاتا جا رہا ہے جس کے سبب وہ اس سے کبھی باہر آ نہیں پائے گا۔مگر ایک دلدل میں پھنسے ہوئے انسان کی طرح اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں کہ وہ اس دلدل سے نکلنے کی جد و جہد میں دھیرے دھیرے اس کے اندر چلا جائے کیونکہ ایسا کوئی آنے والا نہیں جو اسے اس دلدل سے نکال سکے۔ اس طرح وہ اس گورکھ دھندے کے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہو جانے پر مجبور ہے۔ ہم الفاظ کے اسی گورکھ دھندے میں جینے والے لوگ ہیں ۔

    وہ جو چپ ہو گئے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے ہار مان لی ۔ وہ جو بول رہے ہیں ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے سب کچھ جان لیا ہے۔انھیں اس کا علم ہے کہ آخر ایک دن یا تو وہ شعوری طور پر یا پھر لاشعوری طور پر چپ ہو جائیں گے ، یا پھر اس کا جسم کسی مکالمے کے لائق نہیں رہے گا۔ اکثر ہمارا بہت سارا عمل قطعی طور پر میکانیکی ہوتا ہے جیسے پلکیں جھپکنا،جیسے دورانِ خون کا چلنا، جیسے جینا۔ جس کسی نے ایک موجود دنیا کی بات کہی ہے وہ ایک اندھا آدمی ہے جو لکڑی کے سہارے اپنے ارد گرد کی دنیا کو ٹٹول رہا ہے۔ اسے ایسی کسی چیز کی تلاش ہے جو اس کی لکڑی کو روک کر اسے اس کے اکیلے پن سے نجات دے سکے۔مگر بہت جلد اسے اس بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ خود جس زمین پر کھڑا ہے اس کا وجود ہے ہی نہیں ، ظاہر ہے اس کی لکڑی کو روکنے کے لئے اس پرکسی اسٹرکچر کی موجودگی ناممکن ہے۔ تو جب ایسی کسی چیز کا وجود نہیں جو آپ کو روک سکے، تو آپ اگلا قد م کیسے اٹھا سکتے ہیں ؟ اس طرح دوسرے آدمی کی احمقانہ تلاش جاری رہتی ہے۔ دوسرا آدمی، جو ایک متھ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔یا زیادہ سے زیادہ اس کا ڈپلیکیٹ ہے۔ اور تیسرا آدمی، وہ اس ڈپلیکیٹ کی کاربن کاپی ہے۔ چوتھا آدمی اس کاربن کاپی کی زیراکس ہے۔پانچواں آدمی، اس زیراکس کی عکسی تصویر ہے، چھٹا آدمی اس عکسی تصویر کی اسکیچ کاپی ہے۔ اس طرح وہ سینکڑوں ، ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں ، اربوں لوگ، جو ہمیں نظر آتے ہیں ، یا وہ سینکڑوں ، ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں اربوں لوگ جو ہم سے پہلے گذر گئے، یا وہ سینکڑوں ، ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں اربوں لوگ جو ہمارے بعد دنیا میں آئیں گے، وہ دراصل ہم ہی ہیں ، یا ہمارا ڈپلیکیٹ، یا کاربن کاپی، یا زیراکس کاپی، یا عکسی تصویر یا پینٹنگ یا اسکیچ وغیرہ وغیرہ۔ وہ کوئی دوسرا نہیں ہے، بالکل بھی نہیں ہے، کیونکہ۔۔۔دوسرا آدمی تو ایک متھ ہے۔

    یہ پانچ افسانے اسی تنہا انسان کے تگ و دو اور پاگل پن کی داستان ہیں ۔ وہ کسی قوس قزح کی تلاش میں نہیں ہے، نہ کوئی مابعد الطبیعاتی قضیے سلجھانا چاہتا ہے۔ وہ حقیقت کو کوئی ٹھوس شکل بھی دینا نہیں چاہتا۔ وہ تو صرف اس اتنی بڑی، بے کراں کائنات میں آواز لگا کر یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہاں کوئی ہے؟

٭٭٭

 

ماں میں اور چند بے تکے واقعات

 

               (1)

رشتے کا کھوٹا سکہ

جمعرات کی صبح میرے دروازے پر ایک دستک ہوئی۔

یہ میری ماں تھی۔

"سنو۔۔۔” انھوں نے کہا۔ "یا تو تم یہ فیصلہ کر لو کہ یہ زندگی پورے طور پر تمھاری اپنی ہے یا پھر ہمیں بھی اس میں تھوڑی سی جگہ دو۔”

میری ماں ہر ماں کی طرح بچوں سے اپنی مانگیں رکھتی ہے۔ مگر شاید میرا معاملہ تھوڑا سا الگ ہے۔ مجھے اپنے گھر سے زیادہ ان دونوں بوسیدہ دریچوں سے پیار ہے جن سے میں باری باری دور تک پھیلے ہوئے اپنے شہر کی طرف دیکھتا رہتا ہوں ۔ان کھڑکیوں سے سامنے کی ایک گلی، اس کے نکڑ پر کھلتا ہوا ایک ٹوٹا پھوٹا راستہ اور شہر کے قدیم علاقے کے کچے پکے مکانات کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں نظر آتی ہیں ،مثلاً آسمان، پتنگ، پرندے اور انسان۔ اور اگر آپ چاہیں تو اس میں اور بھی بہت ساری چیزیں حسب ضرورت شامل کر سکتے ہیں اور میں ان سب کا اتنا عادی ہو چکا ہوں کہ اکثر مجھے نہ کالج کی کتابوں کا ہوش رہتا ہے نہ گھر کے لوگوں کے لیے وقت ملتا ہے۔

"آخر تم چاہتے کیا ہو؟” میری ماں نے میری خاموشی سے اکتا کر کہا۔ وہ اپنی بھاری بھرکم کمر پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی جیسے آج وہ جواب لیے بغیر ٹلنے والی نہیں ۔ میں ان کی اکلوتی اولاد نہیں ہوں جس نے کسی حد تک میرا مسئلہ کم کر دیا ہے ورنہ میں ان کی توجہ کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ دیتا۔ میری ماں ایک روایتی ماں کی طرح ہر کسی کے لیے کچھ نہ کچھ ہے، مثال کے طور پر وہ میرے مستقبل کی امین ہے، وہ چاہتی ہے کہ میں صحیح راستے پر چل کر اپنی منزل پالوں جب کہ میں شروع سے ہی اس سے منکر تھا کہ انسان کی کوئی منزل بھی ہوتی ہے۔ کیا ساری زندگی ہم سرابوں کے پیچھے نہیں بھاگتے؟

"تم اس طرح میری طرف کیا دیکھ رہے ہو؟ میں تمہاری ماں ہوں ۔ یا تم یہ بھی بھول چکے ہو؟”

"کیا یہ جتانا ضروری ہے؟” میں کھڑکی کی طرف پشت کیے کھڑا تھا جیسے اپنی دنیا کو ان کی عقابی نظروں سے بچانا چاہتا ہوں ۔”کیا آدمی اپنے طور پر ان چیزوں کو سوچنے سمجھنے کا حق بھی نہیں رکھتا؟”

"ارے تم کیا کہہ رہے ہو۔”میری ماں اچنبھے کے ساتھ میری طرف تاک رہی تھی۔ پھر اسے ہمیشہ کی طرح یاد آیا کہ شاید ان سب باتوں کے لیے یہ وقت صحیح نہ تھا۔ تو اس نے اپنا ہاتھ، جس پر چاندی کا ایک بھاری کڑا پڑا ہوا تھا کمر سے ہٹا لیا اور واپس چلی گئی اس بلّی کی طرح، جو نعمت خانے میں دبے پاؤں داخل ہو تو گئی ہو مگر دودھ پینے سے محروم رہ گئی ہو۔

"تم نہ صرف یہ کہ ایک برے انسان ہو۔۔۔” میں نے خود سے کہا۔”۔۔۔بلکہ اس لائق نہ تھے کہ اس گھر میں تو کیا کسی کے گھر میں پیدا ہوتے۔ ارے تم سے تو یہ تک نہیں ہوتا کہ صرف دل رکھنے کے لیے محبت کے دو بول کہہ ڈالو۔”

میں نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ میں ساری عمر (چاہے اس کی معیاد کچھ بھی رہی ہو) یہی کوشش کرتا آیا ہوں اور اکثر روایت کے دو بول بول کر چھٹکارا پانے میں کامیاب بھی رہا ہوں ، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اسی دوران یہ دونوں دریچے میرے لیے زیادہ بڑے ، زیادہ اہم ہوتے گئے اور الفاظ میرے لیے سکڑتے چلے گئے جیسے وہ سوکھی برف کے ٹکڑے ہوں ، جو روز بروز پگھل کر ہوا میں تحلیل ہوتے جا رہے ہوں ۔ یہ جو میں لفظوں کے معاملے میں دن بدن مفلس ہوتا جا رہا ہوں ، کیا اس صورت حال کے لیے ذمہ دار بھی میں ہی ہوں ؟

اور یہ چند دنوں پہلے کی بات ہے۔۔۔

٭٭٭

 

               (2)

جانور کی گردن کشی کا مسئلہ

میں نے اپنے شہر میں ایک میونسپل پارک کے عقبی راستے پر ایک ایسے بجلی کے کھمبے کی دریافت کی ہے جہاں ہندو بوچڑ بکریاں کاٹنے آتے ہیں ۔ یہ پارک کافی سرسبز و شاداب تھا ، چار بجے صرف دو گھنٹے کے لیے شہریوں کے لیے کھلتا تھا اور اپنے گل بوٹوں کے علاوہ لوہے کے کھمبے پر نصب ایک چوبی پیلیکن کے لیے زیادہ مشہور تھا۔ بوچڑ بکری کا سر بجلی کے کھمبے سے کس کر باندھ دیتے (یہ بکریاں تمام کی تمام لاغر اور نیم جان ہوتیں )۔ ایک آدمی جو گرمی ہو یا سردی اپنے سر پر بلا ناغہ خون سے داغدار ایک انگوچھا باندھے رہتا، بکری کو دونوں پچھلی ٹانگوں سے کھینچ کر کھڑا ہو جاتا اور جب کہ آدمی اور کھمبے کے بیچ معلق بکری اپنی رقیق آنکھوں سے کسی بھی چیز کی طرف نہ تاکتے ہوئے خلا میں اپنی سامنے کی دونوں دبلی پتلی ٹانگوں کو ہلانے کی کوشش کر رہی ہوتی، دوسرا شخص ایک بھاری بھرکم کٹاری نما چھرے کے دستے کو جو کپڑے لپیٹ کر کافی دبیز کر لیا گیا تھا، اپنی دونوں مٹھیوں سے تھام کر اس کی گردن پر ایک بھر پور وار کرتا۔ زیادہ تر ایک ہی جھٹکے میں بکری کا سر دھڑ سے الگ ہو کر کھمبے سے لٹک جاتاجس کا نچلا حصہ خون کے متواتر انجماد سے سیاہ ہو رہا تھا۔ سر سے جدا ہو کر بکری کا دھڑ زمین پر جا گرتا جس کی پچھلی دونوں ٹانگوں کو دوسرا آدمی اپنے دنوں ہاتھوں سے کسی احمق کی طرح تھامے کھڑا رہتا۔ مگر ایک بار میں نے دیکھا کہ وار کرنے والے کو کم از کم پانچ یا چھ بار کوشش کرنی پڑی تب جا کر جانور کا سر دھڑ سے الگ ہو پایا۔ شاید یہ جانور کچھ زیادہ چالاک تھا اور اس نے اپنی گردن اینٹھ لی تھی جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ زیادہ تر ہماری چالاکیاں کسی بڑی بیوقوفی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں ۔

بعد میں ، میں نے اس پارک سے تھوڑا الگ ہٹ کر ایک چھتنار پیڑ کے سائے میں کھڑے ہو کر، جس کے نیچے عورتوں کی ماہواری کی گیلی اور سوکھی پٹیاں بکھری ہوئی تھیں ، اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی کہ جانوروں کے معاملے میں کون زیادہ رحم دل ہے؛ ہندو، جو ڈاکٹر گلوٹن کی طرح یہ کام کرنا چاہتے ہیں ، یا مسلم جو چھرے سے جانور کا نرخرا چاک کرتے ہیں ۔ مجھے پورا یقین تھا کہ اس معاملے میں اگر سوال کیا جائے تو ذبح کرنے کے طریقے کو سائنسی نقطۂ نظر سے جائز ٹھہرانے میں ڈاکٹر ذاکر نائک ثبوتوں کا ایک پہاڑ کھڑا کر دیں گے اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ جانوروں کے معاملے میں مسلمانوں کا طریقہ زیادہ سائنسی، قابل رحم اور حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔

بعد میں ، میں نے دو کتوں کو اس کھمبا کے نیچے خون چاٹتے دیکھا۔ مجھے دیوار کی چوٹی پر نصب ریلنگ پر کچھ کوے بھی بیٹھے نظر آئے جن میں سے ایک آدھ زمین پر اتر کر کتوں سے فاصلہ قائم رکھتے ہوئے دھول پر جمی ہوئی خون کی پپڑیوں کو چونچ سے اٹھا رہے تھے ۔ اور تب میری نظر کھمبے کے نیچے کی زمین پر پڑی جو آس پاس کے مقابلے کچھ زیادہ سیاہ تھی۔

جانے کیوں اس واقعے کے بعد میں اس شہر کا نئے سرے سے جائزہ لینے پر مجبور ہو گیا اور مجھ پراس بات کا انکشاف ہوا کہ اس میں ایسے سینکڑوں گلی کوچے،،ہزاروں دیواریں اور چھتیں ، بے شمار ایسی جگہیں تھیں جہاں اس طرح کی مخدوش سیاہی بالکل صاف دیکھی جا سکتی تھی، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ سارا شہر دہشت گردوں سے بھرا پڑا ہے۔

اور اس رات روٹی کے ساتھ سالن کے طور پر بھر پیٹ بیف (Beef)کھا کر میں نے آنگن میں اس نوعیت کا پہلا قے کیا،ا گرچہ اس واقعے کے ساتھ میرے سبزی خور ہونے کی کوئی شروعات نہیں ہوئی تھی۔

اور یہ ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔۔۔

٭٭٭

 

               (3)

یک پستان لڑکی

میں اپنے شہر کے پیریڈ گراؤنڈ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کھڑا تھا۔میدان کے ایک سرے پر قومی جھنڈا لہرانے کا چبوترا تھا، جس پر سارا سال آس پاس کے محلوں کے غریب بچے آ کر دست کیا کرتے ۔ یہ چبوترا یوں تو سال بھر اسی بہت ہی ضروری کام کے لیے مخصوص تھا ،مگر ہر 26 جنوری اور 15 اگست کے موقع پر اس کی مرمت اور صفائی کر دی جاتی ،کیوں کہ اس پر کھڑے ہو کر عزت مآب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ملٹری بینڈ کی دھن پر مارچ کرتے پولس اور پارا ملٹری فورس کے سیلوٹ لیا کرتے۔ ہم دونوں اس مہکتے چبوترے کی طرف تاک رہے تھے جہاں ہم نے پہلی بار ایک بے انتہا خوبصورت لڑکی کو دیکھا جس کا بایاں پستان غائب تھا۔

اور میں نے اپنے دوست سے جو کسی وجہ سے میرے ساتھ ہو لیا تھا، کہا۔

"کیا یہ ممکن ہے؟”

"کیوں نہ خود اس سے پوچھ لیں ۔”

اور ہم دونوں اس کے پیچھے ہو لیے۔ مگر اس کے قریب پہنچ کر پتہ چلا کہ اس کا پستان پوری طرح غائب بھی نہ تھا۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ٹیوشن سے لوٹ رہی تھی اور راستہ بچانے کے لیے انھوں نے پیریڈ گراؤنڈ کا انتخاب کیا تھا۔

"کیا سچ مچ تمہارا ایسا کوئی ارادہ ہے؟” میرے دوست نے کنکھیوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔لڑکیوں کے قریب پہنچ کر اس کی ہمت پست ہو گئی تھی ،کیوں کہ اب اس کے پیر دھیمے پڑ رہے تھے۔

"کیا؟”ہم لوگ پیریڈ گراؤنڈ سے باہر آ گئے تھے اور تارکول کی سڑک پر چل رہے تھے۔

"یہ پوچھنے کا کہ ایسا کیوں ہے۔”

"کیا کیوں ہے؟”

"یار تم کمال کے آدمی ہو۔ بات خود سے شروع کرتے ہو اور خود اس سے الگ ہو جاتے ہو۔”

"کیا اس کے پیچھے آنے کی رائے میری تھی؟”

"میری تھی۔ مگر تم نے حامی تو بھری تھی۔”

"کیا میں نے لکھ کر دیا تھا؟”

"تم نے زبانی کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ پھر ہم ساتھ ساتھ اس کے پیچھے کیوں چل پڑے؟”

"یہ تم خود سے پوچھو۔”

اور جب کہ ہم دونوں اس بحث میں مصروف تھے، وہ لڑکی اپنی سہیلیوں سے کٹ کر سڑک کے کنارے، جہاں پیڑوں کے سائے ترچھے گر رہے تھے،اور پانی کا ایک بڑا سا سیاہ پائپ کسی لحیم شحیم سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا چلا گیا تھا، ایک جگہ کھڑی ہو گئی اور ہماری طرف تاکنے لگی۔ صاف ظاہر تھا وہ ہماری منتظر تھی۔

"نہیں ۔” میرے دوست نے میرا کندھا تھام کر مجھے روک لیا۔ "تم اس کے نزدیک بالکل نہیں جاؤ گے۔ یہ یک پستان لڑکی تمھیں پولس کے حوالے کر دے گی۔”

اپنا کندھا جھٹک کر آزاد کرتے ہوئے میں لڑکی کی طرف بڑھ گیا اور اس کے قریب پہنچتے ہی ہم دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ مجھے پتہ نہیں میرے دوست کا کیا بنا۔ میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ پھر میں نے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔

"تم دونوں ہم لڑکیوں کا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟” لڑکی نے چلتے چلتے بنگالی میں دریافت کیا۔

"ہم دونوں ؟” میں نے اپنی چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔

"وہ جو تمہارا کندھا تھام کر تمھیں روک رہا تھا اور جانے کہاں چلا گیا۔”

"کہاں جائے گا۔ اسی سیارے پر کہیں بھٹک رہا ہوگا۔”

"تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔”

"تم بے انتہا خوبصورت ہو۔” شاید میرے پاس بات کو ٹالنے کا اس سے بہتر بہانہ اور کوئی دوسرا نہ تھا۔

"یہ میری بات کا جواب نہیں ہوا ۔ اور یہ میں اتنی بار سن چکی ہوں کہ اب اس کا میرے اوپر کوئی اثر نہیں ہوتا۔”

"تم اتنی خوبصورت کیوں ہو؟”میں نہ چاہتے ہوئے بھی دزدیدہ نظروں سے اس کے پستان کی طرف تاک رہا تھا۔ کیا وہ ان کے بے ڈھنگے پن سے واقف تھی؟

"یہ سوال ٹھیک ہے اور مجھے اس کا جواب دینا اچھا لگتا اگر اس کا کوئی جواب ہوتا۔” شاید وہ میری نظروں کا اثر تھا کہ وہ لا شعوری طور پر کتاب اور کاپی کے پیچھے اپنے غائب پستان کو ڈھانپنے پر مجبور ہو گئی ۔ "تم نے میری بات کا جواب اب بھی نہیں دیا ہے۔”

"کیا تمہاری کبھی کوئی سرجری ہوئی تھی؟”

"تم نے ٹھیک اندازہ لگایا۔”لڑکی بولی۔ "اب تم لوگوں کا تعاقب میری سمجھ میں آگیا۔”

"برا لگا؟”

"نہیں ۔ اور مجھے کیوں برا لگے گا۔” وہ مسکرائی۔ "برا تو انھیں لگتا ہوگا جو اسے پہلی بار دیکھتے ہوں گے۔ اس دنیا میں ہر کوئی اپنی اپنی حس کے ساتھ زندہ ہے۔ میرے لیے تو یہ روز کا معمول ہے۔ ایک طرح سے میں اس کے ساتھ جیناسیکھ گئی ہوں ۔” اور میں نے دیکھا اس نے اپنی کتاب اور کاپی زیر بحث حصّے سے ہٹا لی تھی۔

"تم واقعی ایک بہادر لڑکی ہو۔” میں اپنی جگہ ٹھہر کر اس کی طرف تاک رہا تھا۔ میرے رکنے کے سبب اسے بھی رک جانا پڑا تھا۔”تم ٹیگور کو پڑھتی ہو؟”میں نے اس کی کتاب کی طرف اشارا کیا جس پر رویندر ناتھ کی جوانی کی تصویر بنی تھی۔

"بالکل۔ میں کوَی ٹھاکر کے گیتوں کی اچھی سنگر ہوں ۔ محلوں کے ہر طرح کے فنکشن میں میرا بلاوا آتا ہے۔میرا بھائی ریڈیو پر طبلہ بجاتا ہے۔”

"اور میں سمجھ رہا تھا کہ ٹیگور اب صرف ایک میوزیم کی یا ڈرائنگ روم میں سجانے کی چیز بن کر رہ گئے ہیں ۔”

"یہ بھی صحیح ہے۔” وہ بولی۔ "کیا ہم آگے بھی ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں ؟”

"نہیں ۔” میں نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ "شاید میرا سفر یہیں پر ختم ہوتا ہے۔”

اور میں مڑ کر مخالف سمت چل پڑا۔ میں سنسان سڑک پر درختوں کے جھلملاتے سائے میں کچھ ہی دور چل پایا تھا کہ کسی نے میری پیٹھ پر دھول جمائی۔ یہ میرا دوست تھا جو ایک دوسرے راستے سے ہوتا ہوا میرے ساتھ آ ملا تھا۔

"تم نے پتہ چلا لیا؟”

"کیا؟”

"کہ اس کا ایک پستان غائب کیوں ہے؟”

"وہ پوری طرح غائب بھی نہیں ہے۔ اور کبھی تم غسل خانے میں کپڑے اتار کر دیکھنا، تمہیں اپنا ایک فوطہ دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا نظر آئے گا،کیوں کہ قدرت نے اسے ایسا ہی بنایا ہے۔” میں نے جواب دیا۔ "تب تم یہ سوال خود سے کر سکتے ہو کہ یہ چھوٹا کیوں ہے؟”

جانے کیوں اس دن سے میری آنکھوں نے ہر چیز کو تولنا شروع کر دیا اور میں نے دیکھا کچھ لوگوں کی ایک ٹانگ دوسری سے چھوٹی، کسی کی ایک آنکھ دوسری سے بڑی، کسی کے دونوں کان دو جسامت کے تھے۔ یہی نہیں کسی کا ایک کندھا دوسرے سے زیادہ اونچا ہے، ایک بھوؤں دوسرے پر سوالیہ نشان بناتا ہے، دو گھٹنوں پر الگ قسم کی ہڈیاں لگی ہیں ، دونوں نتھنے مقابلتاً چھوٹے بڑے ہیں ، دونوں کولھے لباس پر الگ قسم کے خطوط ڈالتے ہیں ۔ غرض، میں جدھر بھی دیکھ رہا تھا ، جو بھی دیکھ رہا تھا، سب ایک دوسرے کی یکسانیت کا جھوٹا سوانگ بھرتے نظر آرہے تھے۔ یہ کائنات، اس کا ہر فرد، ہر مذہب، ہر فرقہ، ہر سسٹم اپنے اندر کے ان تضادات سے بھرا پڑا تھا۔

اور یہ ابھی چند مہینے پہلے کی بات ہے۔۔۔

٭٭٭

 

               (4)

کوے شہر کے اصلی باشندے ہیں

ایک دن ایک کوے نے اپنی توجہ میری طرف کھینچ لی۔ یوں سارے کوے ایک جیسے نظر آتے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ ایک کوے کو ایک بار دیکھ کر دوسری بار آپ اسے پہچان لیں مگر اس کوے کی ایک خاص پہچان تھی۔ اس کی نچلی چونچ آدھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ میری کھڑکی کے باہر ایک کیبل ٹی۔وی کے تار پر بیٹھا ڈول رہا تھا اور اپنی ٹوٹی چونچ کے سبب بڑا ہی مضحکہ خیز نظر آ رہا تھا۔ وہ زیادہ دیر اس جگہ رکا بھی نہیں ۔ میرے دل نے کہا، اس کے اس عیب کے سبب دوسری بار شاید میں اسے پہچان جاؤں گا۔

اور یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ایک طرح سے میری دوری کوؤں کے ساتھ کم کر دی۔

اور میں نے دیکھا ان کوؤں کے نیچے بسا ہوا اپنا یہ شہر ، جس میں ان دنوں اونچی اونچی عمارتیں بننے لگی تھیں ، جس کے ایک کنارے ایک سپاٹ دریا بہتا تھا، جس کے پانی پر ایک تھرمل پراجیکٹ کی راکھ کی سفیدی چمکتی تھی، جس کی سڑکیں زیادہ تر تنگ تھیں اور گلی کوچوں میں نالوں کے ناسور تھے۔ جہاں دھوپ تیز تھی اور ٹھنڈ سے دانت کانپتے تھے۔ دراصل اس شہر پر کوؤں کی حکمرانی تھی اور میں ایک ایسا دو پایہ تھا جو اپنی دم کی غیر موجودگی پر اترایا ہوا محض اپنے ہونے کی بنیاد پر اپنے لمبے چوڑے فلسفیانہ دعوے پیش کر رہا تھا جب کہ میں اس قابل بھی نہ تھا کہ خود اپنے سائے سے نجات حاصل کر سکوں ۔

میں اس واقعے کو کسی کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا تھا، اور کوئی نہیں تو اپنی ماں کے ساتھ جسے ناول پڑھنے کا جنون تھا اور ان دنوں وہ داستان امیر حمزہ کی ورق گردانی میں مصروف تھی۔ اس کے ایک کردار عمرو عیار کا نہ صرف میں دیوانہ تھا بلکہ اس کتاب کی بھونڈی تصویروں کے سبب یہ مجھے کافی پسند تھی۔

میری ماں کے کمرے میں پلنگ کے سرہانے کمرے کی واحد کھڑکی تھی جس پر ایک دبیز پردا جانے کب سے پڑا ہوا دھول کھا رہا تھا۔ اس کمرے میں جو بھی روشنی آتی وہ دروازے سے آتی، جو سیدھے آنگن میں کھلتا تھا جہاں ایک ہینڈ پمپ کے نیچے دھونے کے لیے برتن ہمیشہ جمع رہتے، جنھیں صاف کرنے کے لیے پاس پڑوس کی بلیاں جھنڈ بنا کر نمودار ہوتیں ۔ اس وقت کمرے کے دروازے پر کوئی پردا نہ تھا۔ اس کا چوبی پیلمٹ اپنی کیلوں کے ساتھ ایک دن اچانک فرش پر آگرا تھا جس کے بعد اس کا پردا اتار کر پیلمٹ کونے میں کھڑا کر دیا گیا تھا جس پر جمی دھول کی تہ میں کسی نے انگلی سے لکیر کھینچ کر ایک راکشش کا سر بنا نے کی کوشش کی تھی۔ ماں نے اپنی کتاب سے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔

"تمھیں بھوک لگی ہے؟”

مجھے یاد آیا،آج صبح سے میں نے کچھ کھایا نہیں تھا۔ لیکن اس وقت میری بھوک سے زیادہ اہم معاملہ میرے سامنے در پیش تھا۔

"ہم اس شہر میں کیسے آئے؟” میں نے اچانک دریافت کیا۔

"اگر تمھارا مطلب تمھارے دادا جان سے ہے، تو وہ ٹرین میں نوکری کے دوران مختلف شہروں کا چکر لگاتے ہوئے یہاں آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ انھوں نے یہاں اپنا مکان بنا لیا۔” پھر ماں نے اپنی بات روک کر پوچھا۔ "لیکن اچانک یہ سوال تمھارے ذہن میں کیوں آیا؟”

"کوؤں کے سبب۔” میں نے جواب دیا۔ "مجھے لگتا ہے یہ ہم سے پہلے سے اس جگہ موجود ہیں ، اور ہم انسانوں کے بعد بھی موجود رہیں گے۔یہ اس شہر کے اصلی باشندے ہیں ۔ ہم محض Trespassers ہیں ۔ اچھا ماں تم اتنی کتابیں کیوں پڑھتی ہو؟”

"یہ مجھے اچھی لگتی ہیں ۔ یہ میر ے بچپن کی عادت ہے۔”

"تم عینک کے ساتھ بالکل بھی اچھی نہیں لگتیں ۔”

"اوکے۔”انھوں نے عینک کو ناک سے نیچے اتار لیا اور خوش دلی کے ساتھ اپنی بڑی بڑی ننگی آنکھوں سے میری طرف تاکنے لگی۔ انھیں عینک اتارے ابھی چند سکنڈ بھی نہ ہوئے ہوں گے مگر ان کی آنکھوں میں ایک رقیق مادہ بننے لگا تھا ۔ عینک نے ان کی ناک کے پل کے دونوں طرف بدنما دھبے بنا ڈالے تھے۔ "اب میں کیسی لگ رہی ہوں ؟”

"اور بھی بری۔” میں نے کندھے اچکا کر کہا۔ مجھے پتہ تھا ہمیشہ کی طرح ہمارے درمیان ایک بہت ہی تناؤ بھری خامشی حائل ہو جانے والی ہے۔”ابا ہفتوں غائب رہتے ہیں اور تم ایک جانور کی زندگی جی رہی ہو۔”

"شٹ اپ! اپنے باپ کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کرتے۔”

میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھا کیا۔

اور ماں ایک ٹک میری طرف تاکتے تاکتے ہنس پڑی۔ انھوں نے کتاب تکیے پر رکھ کر اپنی ٹانگیں پلنگ سے نیچے کیں ، پیر سلیپر کے اندر ڈالے اور کہا۔ "چلو ، تمہارا کھانا گرم کر دیتی ہوں ۔”

میں نے محسوس کیا، میری بھوک غائب ہو چکی تھی۔

"اب مجھے بھوک نہیں ہے۔” میں پلٹ کر آنگن میں چلا آیا، جہاں ہینڈ پمپ پر ایک کوا بیٹھا اپنے پنجوں کے بیچ ایک ناقابل شناخت چیز تھامے اس پر اپنی چونچ آزما رہا تھا۔

اس کوئے کی چونچ سالم تھی۔

اور یہ کچھ برس پہلے کی بات ہے کہ۔۔۔

٭٭٭

 

               (5)

خوشی کا فلسفہ

اور یہ صدیوں پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا، اماں نے بستر پر پڑے پڑے میری چھوٹی بہن کو کہانی سنانا شروع کی۔

"ان کہانیوں میں بادشاہ ہمیشہ صدیوں پہلے یا بہت دنوں پہلے کیوں ہوا کرتے ہیں جب کہ یہ جانور آج بھی پائے جاتے ہیں ۔ خود یہ کہانیاں بہت دنوں پہلے کیوں پیش آتی ہیں ؟” میں نے دخل اندازی کی۔ میں اس کمرے میں ان دنوں اپنی بہن کے ساتھ سوتا تھا۔ مجھے یہ دبلی پتلی دق زدہ لڑکی پسند تھی جسے گدگدی بالکل نہیں ہوتی تھی۔ا گرچہ اسے مرنے میں ابھی کئی سال باقی تھے مگر جانے کیوں ہمیں اس کا احساس ہو نے لگا تھا کہ وہ زیادہ دنوں تک زندہ رہنے والی نہیں ۔

"انسان کے آج میں کوئی خوشیاں نہیں ہوتیں ۔” ماں بولی۔ "اس لیے اسے ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ہمیشہ بہت پیچھے جانا پڑتا ہے، ایک ایسے ماضی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ماضی ہمارے ذہن کی دریافت ہے جسے ہم سجا سنوار کر رکھتے ہیں تاکہ ہم اس کی کوئی کہانی یا گیت بنا سکیں ۔ہم لوگ ایک جھوٹی دنیا میں جینے کے عادی ہیں ۔”

"کیوں ؟”

"اس سے ہمیں آسانی ہوتی ہے۔ وہاں ہمیں کسی بھی چیز کو پانے کے لیے زیادہ انتظار یا محنت نہیں کرنی پڑتی۔”

"ماں آگے۔۔۔” دق زدہ لڑکی نے کہا اور جب کہ ماں اسے کہانی سنا رہی تھی، میں سوچ رہا تھا واقعی تصور ہماری کتنی بڑی پناہ گاہ ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو ہم سب پاگل ہو جاتے۔

اور دوسرے دن اس کھمبے کے سامنے کھڑے ہو کر جہاں بکریوں کی بلی دی جاتی تھی، میں نے دور سر سبز کھیتوں میں اگے ہوئے نئے نویلے گھروں کی طرف دیکھا جو افق تک پھیلے ہوئے تھے اور میں نے فتویٰ صادر کیا کہ ان ہی میں سے کہیں پر اس چھوٹے پستان والی لڑکی کا گھر ہونا چاہیے۔ اور ایک ایسے آسمان کے نیچے جہاں اڑتے ہوئے تمام کووں کی چونچ سالم تھی، میں نے اپنے غیر موجود دوست سے کہا۔

"تم مجھے سن رہے ہو؟”

"ہاں ۔”

"یہ ہمارا شہر کتنا خوبصورت ہے۔”

"کیوں کہ تم اسے پہلے بار دوسروں کی بجائے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ تم چاہو تو اسے اور بھی خوبصورت بنا سکتے ہے۔”

"تمھیں اس کوے کا علم ہے جس کی نچلی چونچ ٹوٹی ہوئی ہے۔”

"کون سا کوا؟ تمھاری خوبصورت دنیا میں ایسے کسی بدصورت کوے کا وجود نہیں ہو سکتا؟”

” تمھیں پتہ ہے وہ چھوٹے پستان والی لڑکی کہاں رہتی ہے؟”

"تم جہاں بھی چاہو اسے پا سکتے ہو بلکہ تم دیکھو گے تمہاری خاطر اس کے دونوں پستان ایک جسامت کے ہو گئے ہیں ۔”

"تمھارا مطلب ہے اس کے سلسلے میں ، میں اپنی مرضی کا مالک ہوں ۔”

"بالکل!”

"اور وہ دریا جو ہمارے شہر کے کنارے بہتا ہے۔”

"تمھیں شاید اس کا علم نہ ہو۔ وہ ایک ہی دریا ہے جو دنیا کے ہر ملک میں ہر شہر میں بہتا ہے۔ اور چونکہ اب تم اپنی آنکھوں سے اس دنیا کو دیکھنے لگے ہو تو تم دیکھ سکتے ہو اس کا پانی کثیف نہیں رہا، صاف ہو چکا ہے۔ اس میں کشتیاں چل رہی ہیں اور اس کے دونوں کناروں پر ناشپاتی اور سفیدے کے پیڑ اگے ہوئے ہیں ۔”

"تم واقعی میرے سچے دوست ہو۔”

"شکریہ! آخر کار تم نے مجھے پہچان لیا۔ مگر میرے خدا کتنا وقت لیا تم نے۔”

"تو وقت آگیا ہے کہ آزادی کے چبوترے پر بیٹھ کر ہم بگل کے بجنے کا انتظار کریں ۔”

"یہ بگل تو کب کا بج چکا۔ اب تو آزادی کا رنگ بھی اترنے لگا ہے۔”

اور میں نے اپنی دھندلی آنکھوں سے دیکھا، واقعی ہمارا آج دھند میں ڈوبا ہوا ، سیاہ اور داغدار ہے جس میں میری دق زدہ بہن اپنی قبر کے آس پاس جی رہی ہے اور میری ماں اسے خوبصورت بنانے کے لیے ماضی کی بازیافت میں مصروف ہے، جس کی طرف وہ ہمیں گھسیٹ کر لے جانا چاہتی ہے، اور وہ واقعی ایک ایسی دنیا ہے جہاں کوئی خونی کھمبا نہیں ، کوئی چھوٹے پستان والی لڑکی نہیں ،کوئی ٹوٹی چونچ والا کوا نہیں ۔دنیا کے ہر شہر کی طرح اس شہر کے کنارے بہنے والا دریا بالکل صاف ہے، اس میں کوئی کثافت نہیں اور اس کے دونوں کنارے ناشپاتی اور سفیدے کے پیڑ اگے ہوئے ہیں ۔

صرف اس شہر میں میری عمر کا ایک لڑکا ہے جسے اپنی عمر اور ماحول کے مطابق جینے سے انکار ہے۔

٭٭٭

 

میرا آخری دوست میں اور چند ۔۔۔

               (۱)

ایک سبزی خور کا گوشت خور بننے کا واقعہ

کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہا ہوں کہ دھیرے دھیرے میرے دوست کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ لیکن میں اس کے لیے ذمہ دار نہیں ، میں یہ بھی نہیں کہتا۔ مجھے اس کا احساس ہے کہ حالات کے دباؤ میں آ کر میں نے اپنے آپ کو تھوڑا سا بدلنے پر مجبور پایا ہے۔

نور گل ، میرا آخری دوست، جو اب بھی میرے ساتھ چپکا ہوا ہے اور میں نے جسے پہلی بار چلچلاتی دھوپ میں ایک پارک کے اندر مالی سے ہاتھا پائی کرتے دیکھا تھا، اس کا بھی یہی کہنا ہے کہ میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے لیے ذمہ دار میں ہی ہوں ۔

’’اول یہ کہ تم اپنے بالوں پر دھیان نہیں دیتے۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔ ’’وہ ہر وقت اتنے بکھرے ہوتے ہیں کہ تم ہمیشہ پریشان دکھائی دیتے ہو اور یاد رکھو آج کی دنیا میں لوگوں کی خود کی اپنی پریشانیاں اتنی ہیں کہ وہ دوسروں کی پریشانیوں کا حصہ دار بننے کے روادار نہیں ہیں ۔‘‘

’’ایسا نہیں ہے۔ میری پریشانی کی کیا جہ ہو سکتی ہے؟ دراصل یہ اس موسم کا، اس کی گرم ہوا کا اثر ہے۔‘‘ میں نے عذر پیش کیا۔ ’’مجھے چاہیے کہ میں آئینہ اور کنگھی ہمیشہ اپنے ساتھ ر کھا کروں ۔‘‘

’’بالکل!‘‘ نور گل نے تائید میں سر ہلایا۔ ’’اور یہ بھی ہے کہ تھوڑا مسکرایا کر و یار۔ تم مسکرا تو لیتے ہو مگر اس مسکراہٹ کو زیادہ دیر تک چہرے پر رکھ نہیں پاتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ یہ مسکراہٹ اتنی جلد کیسے گر جاتی ہے۔ آخر معاملہ کیا ہے؟‘‘

’’اسی کا تو رونا ہے۔‘‘ میں نے ارغوانی آسمان کی طرف دیکھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے سارے چیل کوے کسی سازش کے تحت ایک ساتھ غائب ہو گئے ہوں ۔ ’’شاید یہ راز اب وہاں پر جا کر ہی کھلے۔‘‘

’’تم میرے دوست ہو اور تمھارے کھلے پن کی وجہ سے میں تمہاری قدر کرتا ہوں ۔‘‘ نور گل نے اپنا سمجھدار ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے پرندوں سے خالی آسمان کی طرف دیکھا۔ ’’مگر یہ تو حد ہے ۔ تم اس طرح کی بے تکی باتیں کر کیسے لیتے ہو، تمہاری پریشانیاں کیا ہیں ؟ تمہیں ایک ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہئے۔‘‘

’’تم ایسے کسی ڈاکٹر کو جانتے ہو؟‘‘

’’ایک شخص ہے جو اپنے مطب میں بیٹھا مکھیاں مارا کرتا تھا، اب پیٹ چلانے کے لیے لوگوں کو ہومیوپیتھی کی دوائیں دیا کرتا ہے جس کی ڈگری اس نے حال ہی میں حاصل کی ہے۔‘‘

’’کیا اس ملک میں لوگوں کی ساری نفسیاتی الجھنیں دور ہو چکی ہیں ؟‘‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا۔’’ویسے ایک سائکو پیتھ کو ہومیو پیتھ میں بدلتے دیکھنا اچھا تجربہ رہے گا۔‘‘

’’تو تم اپنے نفسیاتی علاج کے لیے تیار ہو؟‘‘

’’میرے بال تو پھر بھی بکھرے ہی رہیں گے۔‘‘ میرا جواب تھا۔ ’’اور میری فوری طور پر اتر جانے والی مسکراہٹ ، اس کا کیا کروں ؟‘‘

’’تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔‘‘

میں نے اثبات میں سر ہلا تو دیا مگر دوسرے ہی پل مجھے احساس ہوا کہ میرا یہ قدم بجائے خود، کسی بڑی نفسیاتی الجھن کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ مگر اب کیا کیا جا سکتا تھا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ دوسرے دن چکنی فائر برکس پر بچھی لوہے کی پٹریوں پر ٹرام کے پہیے ڈگمگا رہے تھے، جب ہم دونوں اس سنسان گلی نما سڑک پر اترے جہاں پر ہر مہینے ایک آدھ خون ہو جایا کرتا تھا۔

’’دن کے وقت اس سے محفوظ جگہ اس سیارے پر تمھیں دوسری نہیں ملے گی۔‘‘نور گل نے میری ہمت بڑھائی۔

’’تم اس کی سند دے رہے ہو؟‘‘

’’بالکل۔‘‘ نور گل کا سر فخر سے بلند تھا۔ ’’میں اس علاقے کو اپنی ہتھیلی کی لکیروں کی طرح پہچانتا ہوں ۔ میں اس جگہ کو ان دنوں سے جانتا ہوں جب افیم خور یہاں بھیڑ لگاتے تھے۔اس جگہ کی ویرانی انھیں کھینچ لاتی تھی۔تم اس افیم کے سنہرے دور کے بعد پیدا ہوئے۔ ‘‘

’’واقعی، تم تو چھپے رستم نکلے۔ اور میں سمجھ رہا تھا تم دیہات سے آئی ہوئی چڑیا ہو جس کی آنکھیں ابھی ٹھیک طرح سے کھلی نہ ہوں ۔‘‘

’’دیہات کا نام مت لو۔‘‘ نور گل چلتے چلتے ٹھہر گیاجیسے میری بات سے اسے تکلیف پہنچی ہو۔ ’’میں نے بڑی مشکل سے اس سے پیچھا چھڑا یا ہے۔ ‘‘

’’اور تمھارے لوگ۔ وہ تمہیں یاد نہیں آتے۔‘‘

’’میں ان پر مٹی ڈال چکا ہوں ۔‘‘وہ پھر سے چلنے لگا۔ ’’اگر مجھے چننے کا حق ہوتا تو میں کبھی دیہات میں جنم نہ لیتا۔‘‘

’’شاید ہم اپنی منزل پر آ گئے ہیں ۔‘‘ میں نے اس کھپریل کے چھپر کی طرف اشارہ کیا جس کے نیچے برآمدے پر ایک ڈاکٹر کی تختی لٹک رہی تھی۔ مطب کا نیلے رنگ کا لکڑی کا دروازہ بند تھا جب کہ تختی پر لکھا ہوا وقت بتا رہا تھا کہ یہ وقت ڈاکٹر کے آنے سے آدھے گھنٹے بعد کا ہے۔

’’وہ جلد آ جائے گا۔ میں نے موبائل پر اس سے رابطہ کر لیا تھا۔ دیر سے آنا ڈاکٹروں کی ایک تجارتی مصلحت ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ‘‘نور گل نے کہا۔ ’’اسی درمیان کیوں نہ ہم سامنے کے ہوٹل میں ایک انڈا رول کھالیں ۔‘‘

’’اور ایک وقت تھا کہ میں پوری طرح سبزی خور تھا۔‘‘نور گل نے ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے رول پر منھ مارتے ہوئے بتایا جو بنگلہ اخبار میں لپٹا ہوا تھا۔ بار بار گیلے کپڑے سے صاف کیے جانے کے سبب میز کے سن مائیکا (Sunmica)کی چمک ماند پڑ گئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے اس سے کسی آدمی کا ہیولا ابھر آیا ہو۔ پلاسٹک کے کٹوروں میں پڑی ہوئی ہری مرچیاں خود پلاسٹک کی لگ رہی تھیں ۔ میں نور گل کی آنکھوں کے اندر تاکنے لگا۔ نور گل، میں سوچ رہا تھا،میرے آخری دوست نور گل، دیہات سے ہار کر تمھیں اس شہر میں آئے ایک دہائی بھی نہ گذری ہوگی مگر تم نے تو پورے شہر کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔’’تم سبزی خور کیسے بنے؟ کوئی ماں کے پیٹ سے سبزی خور یا گوشت خور بن کر پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

’’وہی تو بتا رہا ہوں ۔‘‘۔ میں بالکل چھوٹا تھا جب اپنے گاؤں کے باہر کھیت کی منڈیر پر چلتے چلتے میں نے ایک دن ایک گدھ کو دیکھا جو ایک حاملہ گائے کا پیٹ چاک کر رہا تھا۔ وہ منظر میں آج بھی بھلا نہیں پاتا۔‘‘

’’اور تم دوبارہ گوشت خور کیسے بنے؟‘‘

’’بہت جلد مجھے پتہ چل گیا کہ محض کھانے کی عادت کی بنیاد پر تم انسان کا کردار طے نہیں کر سکتے، اسے اچھا یا برا نہیں کہہ سکتے۔ اور یہ دنیا ہپو کریٹس(Hypocrites) سے بھری پڑی ہے جن میں میرا بھی شمار ہوتا ہے۔‘‘

اس کے بعد ہم نے بہت کم گفتگو کی۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گفتگو کے سارے جواز بغیر کسی کوشش کے از خود ختم ہو جاتے ہیں ۔ شاید وہ ایسا ہی کوئی لمحہ تھا جس سے ابھر کر ہم ہوٹل کے داخلے سے باہر آئے۔

سائکو پیتھ گنجا اور عینک پوش تھا۔ اس کی ناک طوطے کی چونچ کی طرح نوکیلی مگر دہری تھی۔ اس نے غلیظ پردوں سے دونوں قد آدم سے کچھ چھوٹے دریچوں کو ڈھک رکھا تھا۔ اس تاریک کمرے میں مجھے جوتوں سمیت ایک اونچی مستطیل میز پر سلا دیا گیا۔ اب میرے اوپر کھپریل کے سوراخوں میں دھوپ کی کنیاں چمک رہی تھیں جن پر مکڑیوں کے جالے کسی آسیب کے بال کی طرح نظر آ رہے تھے ۔ میں سوچ رہا تھا، شاید اب میں لیٹے لیٹے اوپر اٹھ کر ہوا میں معلق ہو جاؤں گا۔سائکو پیتھ میرے سامنے ایک اونچی اسٹول پر بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ اس کے دانت اتنے سفید تھے کہ نقلی لگ رہے تھے۔ شاید وہ نقلی ہی تھے۔

’’ہاں اب ہم اپنی بات شروع کر سکتے ہیں ۔‘‘

’’میں کہاں سے شروع کروں ؟‘‘

’’کہیں سے بھی۔ ایسا کوئی واقعہ جس کے بعد تمھیں لگا ہو کہ زمین اور آسمان کے بیچ کی تمام چیزیں اپنی اہمیت کھو چکی ہوں اور تمہارا مسکرانا کسی جوکر یا فلم اسٹار یا سیاست دان یا ماڈل کے مسکرانے کی طرح نقلی ہو اور تمھاری گفتگو بغیر سر پیر کی بحث کی طرح لمبی کھینچتی چلی جا رہی ہو۔‘‘

٭٭٭

 

               (۲)

ایک چوہیا اور اس کے بچوں کا قتلِ عام

۱۹۶۰ کے اپریل میں جب سورج ہمیشہ کی طرح بے رحم تھا میں نے اس سے اکتا کر ایک بڑے توند والی چوہیا کا پیچھا کیا اور لوہے کے راڈ سے اس کا پیٹ کچل ڈالا۔

ایسا نہیں تھا کہ یہ مجھ سے پہلی بار ہوا تھا۔ مگر وہ چوہیا حاملہ تھی اور میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا، اس کے پیٹ کے پھٹے ہوئے حصے سے ان گنت چھوٹے چھوٹے چوہے اندر کی رطوبت کے ساتھ بہہ بہہ کر باہر آ رہے تھے جن میں کئی کلبلا بھی رہے تھے۔ ان بچوں کی آنکھیں ابھی بنی نہیں تھیں ، کیوں کہ وہ وقت سے پہلے ہی دنیا میں آ گئے تھے۔ مجھ سے ان کا مرنا دیکھا نہیں گیا۔ میں نے تنکے کے جھاڑو کی مدد سے اس ماں چوہیا کو اس کے اجنمے بچوں کے ساتھ جن میں اب بھی کچھ پیٹ کے اندر تھے اور میری اس کوشش کے سبب پھسل پھسل کر باہر آ رہے تھے، کارڈ بورڈ کے ایک ٹکڑے پر جمع کیا اور انھیں باہر لے جا کر کھلے نالے کے اندر پھینک دیا۔ میں پلٹ کر دو چار قدم ہی چل پایا تھا جب میں نے چیل اور کووں کو اس نالے کے اندر اترتے دیکھا۔

’’اور اس کے بعد کیا ہوا؟ کیا تم اپنی معمول کی زندگی جیتے رہے؟‘‘ سائکو پیتھ کی آنکھیں اس کی عینک کے غلیظ شیشوں کے اندر سے جھانک رہی تھیں ۔

’’یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔‘‘ میں نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور ان دنوں کو یاد کرنے کی کوشش کی۔’’بظاہر میں نے روز کی طرح باقی کا وقت گذارا، اپنے منہ اور مقعد کا روایتی استعمال کیا، کتابیں پڑھیں ، رسمی طور پر ایک آدمی سے ہاتھ ملایا۔ مجھے یاد ہے میں نے اس رات سنیما ہال میں ایک فلم بھی دیکھی جس نے میرے اندر گد گدی پیدا کی۔ مگر وہ چوہے کے چھوٹے چھوٹے ریشم کی طرح لجلجے جسموں والے مردہ، نیم مردہ، تقریباً زندہ بچے، اپنی آنکھوں سے محروم میرے آس پاس رینگتے رہے۔ میں دیر رات تک انھیں اپنے بستر پر محسوس کرتا رہا۔ انھیں اٹھا اٹھا کر باہر پھینکنے کی کوشش میں وہ بار بار ریشم کی طرح میری انگلیوں سے پھسل رہے تھے۔‘‘

’’اور اس کے بعد بھی تم نے کئی چوہے مارے؟‘‘

’’ظاہر ہے کئی بار۔‘‘

’’کوئی حاملہ چوہیا؟‘‘

’’وہ آخری تھی۔ یا شاید کوئی حاملہ بھی رہی ہو۔ اس کی تصدیق آسان نہ تھی۔‘‘

سائکو پیتھ اپنے اونچے اسٹول پر چپ چاپ بیٹھا تھا۔ پھر اس نے اپنی دونوں ہاتھوں کی کہنیاں میز کے کنارے رکھ کر اپنا نیچے کا جبڑا لٹکا لیا۔’’ اس واقعے سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ اور پھر اس وقت تمھاری عمر بھی کم تھی۔ کوئی ایسا واقعہ جسے تم کسی کو بتانے سے گریز کرو گے۔‘‘

’’کیا آپ کوئی پادری ہو یا یہ عیسائیوں کی طرح کوئی کنفیشن روم ہے؟‘‘

’’نہیں ، نہیں ۔ مگر ایک ڈاکٹر سے تم کچھ چھپا نہیں سکتے۔ اس معاملے میں وہ ایک پادری سے بھی برا انسان ہوتا ہے۔‘‘

’’ان دنوں میں ہائر سکنڈری کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا جب میں نے ایک آٹھ سالہ بچی کی شرمگاہ کو چھونے کی کوشش کی۔‘‘

٭٭٭

 

               (۳)

ایک سائکو پیتھ کا زوال

سیمل گڑھ میں وہ ہمارے آخری سال تھے۔ میرے اباکے ریٹائرمنٹ کو صرف دو سال رہ گئے تھے اور ہم جو شہر سے کبھی کبھار اس اجاڑ سے ریلوے اسٹیشن کے کوارٹر میں ماں کے ساتھ جایا کرتے، حیرت سے اس بغیر بنیان والے، چرکٹ جنیو دھاری کی طرف تاکا کرتے جو اس دریا کا مالک تھا، جو ہمارے کوارٹر کی پشت پر بہتا تھا۔ دریا میں پانی سے زیادہ کوڑا کر کرکٹ جمع تھے جن کے بیچ انسان، بیل گاڑیاں اور کشتیاں چلتی تھیں ۔ دریا کا مالک میرے والد کو جانتا تھا جس سے ہمیں بھی بلندی کا ا حساس ہوتا۔ وہ دن بھر گھاٹ پر کھڑا مال ڈھونے والی کشتیوں ، ریت اٹھانے والی بیل گاڑیوں ، ٹریکٹر اور ٹرکوں سے پیسے وصولتا۔ کچھ فاصلے پر شمشان گھاٹ تھا جہاں مردہ جلانے والوں کو اسی سے لکڑیاں خریدنی پڑتیں اور منڈن کرنے والا حجام اس کا اپنا آدمی تھا جو اس کا مخبر بھی تھا۔ اس نے دریا کنارے کو رام اوتار کا ایک مندر بھی بنا رکھا تھا جس سے اس کو اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی۔ اسے میرے باپ کے مسلمان ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ ہم لوگوں کے تیوہاروں کے موقع پر وہ شیرنی خرید کر ابا سے فاتحہ پڑھوانے ہمارے گھر آتا۔اسے اس کائنات کے تمام دیوی دیو تاؤں ، تمام خداؤں ، تمام ان دیکھے آقاؤں میں یقین تھا۔ وہ ان تمام لوگوں سے خائف رہا کرتا اور ان کی خوشنودگی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرتا۔

اس کی بیوی کو مرے بیس برس ہو گئے تھے جب اس نے ایک جڑواں بچی کو گود لیا جس میں ایک گونگی ثابت ہوئی۔ اس بار ہم ایک ہفتہ کے لیے وہاں پہنچے تو میری زندگی کا سب سے اہم واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ ایک دو پہر میں لکڑی کے ننگے تختہ پوش پر گہری نیند سو رہا تھا، جب مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے سارے جسم میں لطف اور مٹھاس کی ایک لہر دوڑ گئی ہو۔یہ ایک ایسا ذائقہ تھا جسے انسان ساری زندگی میں صرف ایک بار محسوس کرتا ہے اور پھر تمام زندگی اس کی تلاش میں اسے دہراتے رہنے کے باوجود کبھی اس پہلی بار کی شدت اور لطف تک پہنچ نہیں پاتا۔ تو میں اس لطف کی معراج پر تھا جب اچانک میری آنکھیں کھل گئیں اور میں نے دیکھا میری ہاف پینٹ کے اندر دونوں ران گیلے ہو رہے تھے۔

وہ میرا پہلا نائٹ فال (Nightfall) تھا جو دن دھاڑے پیش آیا۔

اور وہ میری مشت زنی کی شروعات بھی تھی۔

’’اور وہ آٹھ سالہ بچی۔‘‘ اندھیرے میں سائکوپیتھ کی آواز کانپتی ہوئی ابھری جیسے اسے اپنے کسی خدشے کے سچ ہونے کا امکان نظر آ رہا ہو۔

’’وہ ان دونوں میں ایک تھی۔ میں نہیں بتا سکتا کون۔‘‘

میں نے آنکھیں کھول کرسائکو پیتھ کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے اسٹول پر بیٹھا کافی بوڑھا نظر آ رہا تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آنکھیں گیلی ہو گئی تھیں ۔ اس کی انگلیاں لرز رہی تھیں ۔ میں میز پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ بحیثیت ایک سائکو پیتھ کے وہ ناکام کیوں تھا؟

’’اور کوئی سوال؟‘‘

’’نہیں نہیں ، تم اتنی آسانی سے یہ بات نہیں کہہ سکتے۔‘‘ سائکو پیتھ نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا۔ ’’یہ اتنا آسان نہیں ہے۔‘‘

’’کیا آپ مجھے پولس کو دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ؟‘‘

’’میں تمھارے واقعے کو بھلانا چاہتا ہوں ۔‘‘ اس نے جواب دیا’’مگر تم میری مدد نہیں کر نا چاہتے، تم ایک جھوٹا واقعہ بیان کرنے پر تلے ہوئے ہو۔ تم مجھے توڑنا چاہتے ہو۔ یہ تمہاری پرانی عادت ہے۔ ہے نا؟‘‘

’’مجھے آپ کا رویہ ایک سائکو پیتھ سے زیادہ ایک مولوی کا لگ رہا ہے۔‘‘ میں نے کندھے بلا کر کہا۔ ’’جب ایک ڈاکٹر کسی جنسی مرض کا علاج کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس علاج تک محدود رکھتا ہے، جب کہ آپ کسی روحانی یا اخلاقی نقطۂ نظر سے میرے واقعے کو دیکھ رہے ہیں ، ایک سائکو پیتھ کی طرح نہیں ۔ ‘‘

’’میں نہیں جانتا۔‘‘ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا، مگر اس کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔ وہ لاشعوری طور پر اپنے ہاتھ مل رہا تھا۔ ’’میں تمھیں ہومیوپیتھی کی کچھ خوراک دے رہا ہوں ۔‘‘

’’کیا آپ کے ساتھ میرا یہ پہلا اور آخری سیشن ہے۔‘‘

’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘

’’اور یہ دوا کس لیے۔‘‘

’’میری تشفی کے لیے۔‘‘

میں جب باہر آیا تو پلاسٹک کی پرانی گندی کرسیوں پر کئی مریض بیٹھے ہوئے تھے، جب کہ نور گل لکڑی کے واحد بینچ پر اکیلا بیٹھا پرانے مرجھائے ہوئے رسالوں کے اوراق پلٹتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ مگر میرے پیچھے پیچھے سائکو پیتھ کو نمودار ہوتے دیکھ کر اس کی مسکراہٹ بجھ گئی۔

’’اتنی جلد وہ اس قدر کیسے بدل گیا۔ کتنا بوڑھا لگ رہا تھا۔‘‘ واپسی پر اس نے حیرت اور شبہ کے ساتھ دوا کی چھوٹی سیشی کی طرف دیکھا جسے میں انگلیوں کے بیچ تھام رکھا تھا۔ ’’تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟‘‘

’’میں نے اپنی لا علمی میں اس کے فوطوں پر جوتے رکھ دیے تھے۔‘‘

’’مذاق نہیں ۔‘‘

’’میں نے اس پر سچ کا استعمال کیا۔‘‘

’’کیسا سچ؟‘‘

’’یہ صرف ایک ڈاکٹر کے لیے ہے۔‘‘

’’پھر میں نہیں پوچھوں گا۔‘‘

اس واقعے کے ایک ہفتے کے بعد میں نے نور گل کو دیکھا۔ وہ اپنے گھر کے باہر ایک ہائڈرنٹ پر ٹیپ کے نیچے پانی کی دھار میں سر ڈالے جھکا ہوا تھا۔

’’یہ شہر مجھے پاگل کر دے گا۔‘‘ اس نے ترچھی آنکھوں سے میری طرف تاکتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے اپنے سر کو قابو میں رکھنے میں کتنی مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے تمھیں کیا معلوم۔‘‘

’’تم اس سائکو پیتھ سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟‘‘

’’وہ سائکو پیتھ؟‘‘ میری طرف تاکتے ہوئے اس کی آنکھیں بڑی بڑی ہو گئیں ۔ ’’ارے ہاں ، مجھے یاد آیا۔ تم اخبار نہیں پڑھتے۔ پرسوں اس نے اپنی پانچوں بچیوں کو زہر دینے کی کوشش کی تھی۔ وہ تو پڑوسیوں کا بھلا ہو جن کی کوششوں سے وہ ساری بچا لی گئیں ۔‘‘

’’اور وہ سائکو پیتھ۔‘‘

’’وہ جیل کے پاگل خانے میں بند ہے۔‘‘

٭٭٭

 

               (۴)

شیشہ گلی کا اڈونچر

ان دنوں شہر میں ایک افواہ بری طرح گشت کر رہی ہے۔ کبھی ایک آدمی تھا جس کے شیشے کی دکان تھی مگر اسے اس گلی میں جانا اچھا لگتا جس میں شیشوں کی دکانیں نہ ہوں ۔ وہ دکان کا مالک ہوتے ہوئے بھی نوکر کی طرح تنخواہ پاتا۔ یہ اس کے باپ کا آزمودہ نسخہ تھا جس کے ذریعے وہ اپنے بچوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا کرتا۔

پھر ایک دن ایسا آیا جب اس شخص نے اپنی دکان کے تمام شیشے چکنا چو ر کر ڈالے۔ وہ رات رات بھر آوارہ گردی کرنے لگا، اس کی بیوی کسی دوسرے کے ساتھ بھاگ گئی اور اس کے دونوں بچوں کو رشتے دار اٹھا لے گئے۔ آخر کار اس کا باپ جو چوبیسوں گھنٹے نشے میں ڈوبا رہتا اس سے تنگ آ گیا ۔ اس نے اسے اس کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا۔ مگر اسے صرف تین سوال کی اجازت تھی۔ اس شخص نے کئی ہفتے سوچ بچار کیے اور آخر کار اپنے باپ کے حضور پیش ہو کر درج ذیل تین سوال پیش کیے:

(الف) میرا پیدا ہونا کس کے لیے ضروری تھا؟

(ب) اتنی بڑی کائنات میں میرے نہ ہونے سے کیا فرق پڑ جاتا؟

(ج) کیا یہ ضروری ہے کہ انسان بوتل کی طرح ہمیشہ اپنے پیندے کی طرف گندا ہونے پر مجبور ہو؟

افواہ یہ ہے کہ اس کے باپ کے پاس ان تینوں بے تکے سوالوں کا کوئی تشفی بخش جواب نہ تھا۔ وہ دیر تک اپنے لڑکے کی طرف دیکھا کیا ۔ بوڑھے نے شراب نوشی ترک کی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک خانقاہ میں پناہ لی۔

اس افواہ کی تصدیق کے لیے میں نے نور گل کو صلاح دی کہ ہم دونوں اس گلی میں جائیں جہاں بشمول دوسری دکانوں کے وہ شیشے کی دکان تھی۔

’’اگر تم سچ تک پہنچ جاؤ گے تو پھر افواہ کی قیمت کیا رہ جائے گی؟‘‘ نور گل نے رائے دی۔ ’’اس عمل سے باز آؤ۔‘‘

’’اگر وہ واقعی ہے تو میں اس آدمی سے ملنا چاہوں گا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں اس سے جاننا چاہوں گا کہ کیا وہ سچ مچ ان سوالوں سے پریشان تھا یاوہ بوڑھے سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا تھا؟‘‘

’’پھر تو تمھیں اس آدمی کی تلاش ہونی چاہیے۔‘‘

’’’’میرا دل کہتا ہے وہ اپنی دکان کے آس پاس ہی کہیں پر موجود ہوگا۔‘‘

میرا اندازہ صحیح تھا۔ ہم جب اس گلی میں پہنچے جس میں شیشوں کی دو رویہ دکانیں تھیں تو لوگوں کی بھیڑ میں چلتے چلتے ہمیں ایسا لگ رہا تھا جیسے اس آدمی کی مہک چاروں طرف ہوا میں بسی ہوئی ہو۔ ہم نے ایک دکاندار سے اس دکان کا پتہ پوچھا تو ہمیں یک گونہ حیرت کا سامنا کرنا پڑا ،کیوں کہ وہاں ہر شیشے کی دکان کی خود کی اپنی کہانی تھی۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ چونکہ لوگ اس خاص شیشے کی دکان کی تلاش میں آنے لگے تھے، ہر دکان کو اپنی کہانی خود بنانی پڑی۔ ہمیں اس واقعے کو اتنے سارے جھوٹے واقعات میں ضم ہوتے دیکھ کر کافی افسوس ہوا، بلکہ نور گل کی آنکھوں سے توآنسو نکل آئے۔

’’مجھے پتہ نہ تھا تم اتنے جذباتی انسان ہو۔‘‘ میں نے اسے رومال پیش کرتے ہوئے کہا۔ اس وقت چونکہ سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا، گلی کی دکانوں کے باہر رکھے تمام شیشے چمک اٹھے تھے اور ہمیں ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم روشنیوں کے کولاژ میں تیر رہے ہوں ۔

’’میں جذباتی نہیں ہوں ۔‘‘ اس نے اپنا رومال نکالتے ہوئے کہا۔ ’’مگر جانے کیوں اس آدمی کے خط و خال میرے سامنے ابھرنے لگے ہیں ۔ وہ کیسا بد نصیب انسان ہوگا جس کی نوکری چلی گئی ہو، جس کی بیوی بھاگ گئی ہو، جس کے بچے رشتے دار اٹھا لے گئے ہوں اور جس کے باپ کو ایک خانقاہ میں پناہ لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہ آیا ہو۔‘‘

’’ایسے ہی مفرور لوگوں سے ہی یہ دنیا آباد ہے۔‘‘ میں نے اپنی عالمانہ رائے دی۔ ’’فرق صرف یہ ہے کہ ان میں سے ننانوے فیصد لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے اور چپ چاپ انپی غلامانہ ذہنیت کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں۔‘‘

اس گلی میں ہم دیر تک گھومتے رہے۔ ہمیں کئی بند دکانیں نظر آئیں ۔ ہم نے ایک ہٹے کٹے ہجڑے کو دیکھا جس نے کافی بھاری بھرکم میک اپ کر رکھا تھا، سونے چاندی کے زیورات سے لدا ہوا تھا اور ایک قدیم طرز کا قد آدم آئینہ خرید رہا تھا۔ ہم نے ایک کتے کو دیکھا جو ایک ٹوٹا ہوا شیشہ چاٹ رہا تھا، ایک ٹریفک سرجنٹ جس کے دونوں کولھے کافی بھاری بھرکم تھے جیسے وہ تمام سرجنٹوں کی نمائندگی کر رہا ہو۔ ہمیں مرے ہوئے کپڑوں کے کیپ پہنے ہوئے دو جاپانی بھی نظر آئے جو منحنی کیمروں سے ہر اس چیز کی تصویریں لے رہے تھے جو ہمیں بالکل ہی معمولی لگ رہی تھیں ۔ غرض ہم جدھر بھی نظریں دوڑا رہے تھے یہ گلی متنوع لوگوں کی آماجگاہ نظر آ رہی تھی، صرف اس بد نصیب انسان کا دور دور تک پتہ نہ تھا جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے۔

’’شاید وہ واقعی افواہ ہو۔‘‘ نور گل نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہم خوامخواہ بے وقوف بنائے گئے۔‘‘

’’لگتا ہے تم اپنے آنسوؤں کے لیے شرمندہ ہو۔‘‘

’’بالکل بھی نہیں ۔‘‘ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا تھا۔ ’’جب جب جو کچھ ہوتا ہے اسے اس وقت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اور ضروری نہیں کہ ہم اپنے ہر عمل کے لیے کسی دوسرے کے سامنے جواب دہ ہوں ۔اور میرے آنسو، تم ان کے بارے میں کتنا جانتے ہو۔‘‘

اس کے بعد بھی میں اکیلا اس گلی میں کئی بار گیا۔ مگر جانے کیوں اس دن کی طرح دکان کے باہر رکھے شیشوں پر سورج پھر اس طرح روشن نہیں ہوا۔

’’آہ!‘‘ میں نے اس گلی سے آخری بار باہر جاتے ہوئے سوچا۔ ’’کسی بھی چیز کا اسرار زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہتا۔ جلد یا دیر ہر چیز کی قلعی اتر جاتی ہے۔‘‘

٭٭٭

 

               (۵)

گناہ اور ثواب کا محاکمہ

میں اور نور گل سمندر کے کنارے ریت پر ٹہل رہے تھے جب نور گل نے کہا۔

’’اپنے شہر سے سینکڑوں میل دور اتنی گرمی میں اس بے کیف ساحل پر جس کے سارے سیاح غلط ہیں ، ہم لوگ کیا کر رہے ہیں ؟‘‘

’’ایک شہر کی گندگی کو کھاڑی کے پانی میں ضم ہوتے دیکھ رہے ہیں ۔‘‘میں نے آسمان کی طرف دیکھا جو کسی وجہ سے اس دن ٹھیک سے بن نہیں پایا تھا۔

’’ہمیں چاہیے تھا کہ کسی صنف نازک کو ساتھ لے لیتے۔‘‘ اس نے اپنی تیوری پر بل چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے چھٹی کا کباڑا کر دیا۔ سمندر میری جنسی خواہشات کو تیز کر دیتا ہے۔‘‘

’’ اسے تم پورے معنوں میں سمندر بھی نہیں کہہ سکتے۔ یوں بھی جہاں تک مجھے معلوم ہے تم غیر شادی شدہ ہو اور تمہاری ایسی کوئی دوست نہیں جو تمھارے ساتھ اس طرح کی عیاشی کے لیے تیار ہو۔‘‘

’’تم کیا سمجھتے ہو، صرف تم ہی ایک برے انسان ہو؟‘‘نور گل نے دوبارہ تیوری چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’اس آسمان کے نیچے اور بھی لوگ ہیں جو جہنم جانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو تیس مار خاں مت سمجھو۔‘‘

’’کیا جہنم جانا اتنا آسان ہے۔‘‘ میں نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ میرے بال دھوپ میں تپ کر سخت ہو گئے تھے۔ ’’اس سے مجھے اپنے چچا کی یاد آ گئی جنھوں نے اپنے کالج کے دنوں کا ایک واقعہ سنایا تھا۔‘‘

’’اس چھتری کے نیچے بیٹھ کر ناریل پانی پیتے ہیں اور تمھاری بکواس سنتے ہیں ۔‘‘

تا حد نظر تک پھیلا ہوا پشتہ ایک خاص شکل کے پتھروں کا بنا ہوا تھا جن کے نیچے جہاں سے ریت شروع ہوتی تھی کئی پیراسول زمین میں گڑے تھے۔دھوپ میں ان کا رنگ زائل ہو چکا تھا۔ ان کے نیچے پلاسٹک کی رنگین کرسیاں اور میزیں لگی تھیں ۔ اس گرمی میں ساحل ویران پڑا تھا۔ ہم نے ناریل پانی اور پیپسی منگوائے۔یہ وہ وقت تھا جب سمندر کنارے سے کافی دور چلا گیا تھا۔

’’تم اپنے چچا کے کالج کے دنوں کا کوئی واقعہ سنانے والے تھے۔‘‘نور گل نے اسٹرا سے ناریل پانی اپنے حلق کے اندر کھینچتے ہوئے کہا۔

’’وہ تم نے جہنم کا ذکر کیا تھا تو مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا۔ ان دنوں وہ علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے۔ ایک دن کالج کے کینٹین میں وہ کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے جب اچانک جنت اور جہنم کا تذکرہ چل نکلا۔ تم تو جانتے ہو علی گڑھ میں بھانت بھانت کے جانور بستے ہیں ۔ حد درجہ بنیاد پرست، جو ساری دنیا پر اسلام کا غلبہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس اتنی بڑی کائنات میں اپنی تنہائی پر آنسو بہانے والے ہارڈ کور ناستک، یا پھر تمھارے اور میری طرح کچھ نہ سوچنے والے گدھے، مگر جب مسلمان ایک جگہ جمع ہو جائیں تو وہ کیا کریں اگر وہ مسلمان ہونے کی بھر پور نمائش نہ کریں ۔ بلکہ اس معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے سے بھلا انھیں کوئی روک سکتا ہے۔ تو یوں ہوا کہ چچا کے کسی دوست نے کہا کہ اب جب کہ ان لوگوں کی بھر پور جوانی کا دور ہے تو کیوں نہ ہر فرد اب تک کی زندگی میں کیے گئے گناہ اور ثواب کا حساب کر لے۔سبھوں نے کاغذ لیے، ان میں گناہ اور ثواب کے کالم بنائے گئے، ہر طرح کے گناہ اور ثواب کا ایک خاص نمبر طے کیا گیا۔پہلے گناہوں کی فہرست تیار کی گئی۔ سن شعور سے کینٹین کے اس لمحے تک سبھوں نے اپنی اپنی یاد داشت کے کونے کھنگال کر گناہوں کی فہرست تیار کی تو  وہ لاکھوں تک پہنچ گئے۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ صاف ظاہر تھا کہ انھیں جہنم سے کوئی بھی بچا نہیں سکتا تھا۔ وہ لوگ مایوس سے بیٹھے تھے کہ کسی نے رائے دی، چونکہ مایوسی کفر ہے کیوں نہ اپنے ثوابوں کے کالم بھی بھر لیے جائیں ۔ تو سب نے فرداً فرداً یہ کام شروع کیا اور چونکہ گناہ کے مقابلے ثواب خاص خاص موقعوں پر (مثلاً شب قدر کی رات وغیرہ وغیرہ) سو گنا ہزار گنا زیادہ ہو جاتے ہیں تو ان کے ثواب دیکھتے دیکھتے کروڑوں تک پہنچ گئے اور سب کے سب اچھل پڑے۔ انھیں پورا یقین ہو گیا کہ انھیں جنت جانے سے کوئی روک نہیں سکتا، کہ خدا نے سارا معاملہ ہی اس طرح بنایا ہے کہ اہل ایمان سیدھے جنت جانے پر مجبور ہو جائیں ۔‘‘

’’پھر ان لوگوں نے کیا کیا؟‘‘

’’انھوں نے بھینس کے کباب کھائے اورسیدھے سنیما ہال کا رخ کیا۔‘‘ میں ہنسا۔ ’’شاید ان دنوں جوانوں کے لیے گناہ کا ارتکاب کچھ انھیں چیزوں تک محدود تھا۔‘‘

’’تمھارے چچا نے جھوٹ کہا ہوگا۔ ‘‘نور گل خود بھی ہنسا۔ ’’انھوں نے کسی بار کا رخ کیا ہوگا یا کسی طوائف کے کوٹھے کی طرف گئے ہوں گے۔‘‘

’’میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’مگر میں صرف وہی بات کہہ سکتا ہوں جو میں نے ان سے سنی ہے۔ اور پھر مجھے اپنے چچا کے رتبے کا خیال بھی تو رکھنا ہے۔‘‘

’’اچھا تم مجھے ایک بات بتاؤ۔‘‘ نور گل میری آنکھوں کے اندر تاک رہا تھا۔ ’’اس دن سائکو پیتھ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا تھا؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں ۔‘‘ میں نے آنکھیں ہٹاتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے اپنے ایک گناہ کے بارے میں اسے بتایا تھا۔ تم جاننا چاہو گے۔‘‘

’’نہیں ، کبھی نہیں ۔‘‘ نور گل نے سر جھکا کر کہا۔ ’’میرے اپنے گناہ کیا کم ہیں کہ تمھارے ڈھوتا پھروں ۔‘‘

’’دراصل یہ اپنا جسم…‘‘ میں نے گلاس سے پیپسی کا ایک لمبا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ اپنا جسم، یہ خار و خس سے بنا اپنا جسم، یہ نا مراد جسم، اگر تم اس کی آواز سنتے ہو تو جہنم جاتے ہو، نہیں سنتے تو یہ تمھاری زندگی کو جہنم بنا دیتا ہے۔‘‘

’’تم نے ٹھیک کہا۔ ‘‘نور گل کی آنکھوں میں پھر سے آنسو ابل آئے ۔ ’’ہم ساری زندگی ایک دلدل میں جینے پر مجبور ہیں ۔اب میری سمجھ میں آیا کہ وہ شیشہ گر کا واقعہ غلط تھا۔‘‘

تھوڑی دیر بعد اس اتنے بڑے سمندر میں ہمیں ایک واحد کشتی دکھائی دی جسے بھاری بھرکم موجوں سے گذر کر کنارے تک پہنچنے میں عرصہ لگ گیا۔ کشتی بالکل کنارے آ گئی، جب کہ وہ اب بھی ہم لوگوں سے کچھ دور تھی،تو مچھیرے گھٹنوں تک گہرے پانی میں کود کر گیلی ریت پر اسے ڈھکیلنے لگے۔ کچھ اسے سامنے کی طرف سے پکڑ کر کھینچ رہے تھے، اس کا رخ ساحل کی طرف کر رہے تھے۔ کشتی کے استقبال کے لیے کچھ مرگھلے کتے اپنے بھوکے جبڑوں اور اتنے ہی مرگھلے بچے اپنے المونیم کے کٹوروں کے ساتھ ساحل پر جمع ہو گئے تھے۔

’’یہاں ہمارا آنا بالکل بیکار گیا۔‘‘ نور گل نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور ناریل کو سمندر کی طرف اچھال دیا۔

’’ہمارا نہ آنا بھی بیکار ہی جاتا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

٭٭٭

 

دریا میں اور چند بے تکے واقعات

               (۱)

عرفان و آگہی کا سرمہ

دریا میں پانی اب اس وقت بہتا ہے جب باندھ سے چھوڑا جاتا ہے۔ باقی وقتوں میں ریت سے ابھری ہوئی چٹانوں کے درمیان اس میں پانی اتنا ہی بچتا ہے کہ ریت اور مویشی اپنی پیاس بجھا سکیں ۔ اس دریا کے کنارے ایک اونچی چٹان پر ایک پرانا مزار استادہ تھا جس کے کھلے زینے پر جس کا کاروبار اب پھر سے شروع ہو چکا ہے، دو کبوتر ایک دوسرے سے چونچ لگائے دنیا کے خلاف سازش کرتے نظر آتے ہیں ۔ میرے ساتھ ہمیشہ یہ ہوا ہے جب بھی میں اپنی سائیکل پر سوار اس مزار پر وارد ہوا ہوں ۔

اس مزار میں میرا آنا کسی عقیدے کے تحت نہیں بلکہ اس کے مجاور شیخ حمزہ سے ملنا ہے، جو دس سال قبل تک کھساری کے کھیتوں میں بھینسیں چرایا کرتا تھا۔ پھر ایک دن اسے ایک کالے کمبل والے فقیر نے اپنے ساتھ کیا اور دنیا کو تسخیر کرنے نکل کھڑا ہوا۔ حمزہ پانچ سال تک شہر سے غائب رہا، نمودار ہوا تو کئی کرشموں کا مالک تھا اور ایک خاص سرمے کا موجدجس کے بعد لگانے والے کی آنکھیں عرفان و آگہی کی دنیا پر کھل جاتی تھیں ۔ واپسی پر سب سے بڑا کارنامہ اس نے یہ انجام دیا کہ اس اجڑے مزار کی ، جسے لوگ بھول چکے تھے، از سر نو دریافت کی۔

’’تم اس سے زیادہ دھوکہ اور دنیا کو نہیں دے سکتے۔‘‘میں نے اس کے بڑھائے ہوئے چلم کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے کہا۔ ’’پھر بھی تم بہت سارے لوگوں سے اچھے ہو۔‘‘

’’کن معنوں میں ؟‘‘ حمزہ نے اپنی کم گھنی، کم لانبی، نقلی مہندی سے سرخ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جس کے اندر اس کی کیلوں مہاسوں سے ڈھکی ہوئی جلد صاف دیکھی جا سکتی تھی۔

’’مثال کے طور پر تمھارے کرشمے بے ضرر ہیں ۔‘‘

’’میں اب کرشمے نہیں دکھاتا۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’اور وہ بے ضرر قطعی نہیں ۔‘‘

’’اور تمھارا سرمہ واقعی انسان کو عرفان و آگہی کی دنیا میں لے جاتا ہے۔‘‘

’’تمھیں یقین ہے؟ تم نے تو کبھی ان سرموں کو وقعت نہ دی۔‘‘

’’میں نے ان لوگوں کا جائزہ لیا ہے جو یہ سرمہ لگاتے ہیں ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اور میں نے ایک بڑی بی کو دیکھا ہے جو اس سرمہ کے سبب اپنے مسی جیسے سیاہ دانتوں سے جو اب دو ہی بچے تھے، بڑے ہی پراسرار ڈھنگ سے مسکرا رہی تھی۔‘‘

’’واقعی!‘‘ حمز ہ نے اپنی چندیا سے پسینہ کے قطرے صاف کیے۔ اس کے حلقوم نے اوپر سے نیچے اور پھر نیچے سے اوپر اٹھ کر اس کے زندہ رہنے کا ثبوت پیش کیا۔ اور میں نے سوچا جہاں تک میرا تعلق ہے، حمزہ کا میں نے آج سیر حاصل تجزیہ کر لیا ہے۔ میں نے اس سے اجازت لی، ڈھلان پر سائیکل کو بغیر پیڈل مارے چلا کر دریا کے کنارے تک لایا اور ایک چٹان پر اپنا پیر ٹکا کر ان بیل گاڑیوں اور سائیکلوں کی طرف تاکنے لگا جو چٹانوں کے بیچ ریت اور پتھروں پر راستہ بنا تے ہوئے چوری کے کوئلوں کے ساتھ ایک ٹیڑھی میڑھی قطار میں دریا پار کر رہے تھے۔

دور کی کسی مسجد میں عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ جب میں مزار واپس لوٹا، اس کی مسجد میں نماز کی تیاری ہو رہی تھی۔لوگ مصلوں پر کھڑے ہونے لگے تھے۔ شیخ حمزہ خود اس مسجد میں امامت کرتا تھا۔ مجھے یاد آیا، میں ایک ایسا مسلمان تھا جو کبھی کبھار نماز بھی پڑھ لیا کرتا تھا۔ تو میں نے حوض پر وضو کیا، جس میں مچھلیاں اپنے چھوڑے ہوئے فضلوں کے بیچ تیر رہی تھیں ، اور نماز کے لیے پلاسٹک کی چٹائی پر کھڑا ہو گیا۔

’’آپ اسے سر پر باندھ لو۔‘‘ میری بغل میں کھڑے شخص نے، جو خود مسجد کی پلاسٹک کی کٹورے نما ٹوپی سر پر رکھے کھڑا تھا ، اپنی جیب سے رومال نکال کر میری طرف بڑھا تے ہوئے کہا جس سے سستے عطر کی تیز بو آ رہی تھی۔ گرچہ ایک رومال میری جیب کے اندر تھا مگر میں نے سر پر وہ رومال باندھ کر عطر کی بو کی چھتری کے نیچے نماز ادا کی۔ میں سائیکل پر واپس لوٹ رہا تھا جب مجھے رومال کا خیال آیا جسے میں اپنی جیب میں ڈال کر بھول گیا تھا۔ میں مزار سے کافی دور نکل آیا تھا اور ایک پٹرول پمپ کے سامنے ، جہاں سڑک پر لاریوں کے کھڑے رہنے کے سبب جگہ جگہ گڈھے پڑ گئے تھے اور موبل(تیل) کے دھبے گڈھوں میں جمے پانیوں میں قوس قزح کی طرح چمک رہے تھے، تذبذب کے عالم میں رکا ہوا تھا، جب ایک ٹرالر اپنے کنٹینر کے ساتھ سڑک کو دہلاتے ہوئے گذری۔اس کے بے شمار پہیے کافی دھول چھوڑ رہے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسا زمین اپنی پوری گولائی کے ساتھ میرے پیروں کے نیچے ہل رہی ہو۔ دھول سے بچنے کے لیے سانس روک کر میں نے دیکھا، میرے سامنے ایک بطخوں سے ڈھکا تالاب تھا جس کی دوسری طرف ڈھلان میں سبز کھیتوں کے بیچ اینٹ کی ایک چمنی قرمزی آسمان میں دھواں انڈیل رہی تھی۔

میں تھوڑی دیر تک رومال کو انگلیوں کے بیچ رکھ کر مسلتا رہا۔

واپس لوٹا تو وہ شخص دکھائی نہ دیا، یا ہو سکتا ہے ہم دونوں ایک دوسرے کا چہرہ بھول گئے ہوں ۔

’’ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ حمزہ نے تیزی سے تاریک پڑتے ہوئے آسمان کی طرف اشارہ کیا جو اب پرانے تانبے کی طرح دھندلا ہو گیا تھا۔ ’’وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وہ ہر پل چیزوں کو گڈ مڈ کرتا رہتا ہے۔‘‘

’’نیکی اور بدی کو بھی؟‘‘

’’ہر چیز کو، ہر چیز کو۔‘‘

’’پھر روز حشر ایمان والے کیسے پہچانے جائیں گے؟‘‘

’’یہ اس خدا پر منحصر ہے۔‘‘ حمزہ نے تیزی سے غائب ہوتے ہوئے آسمان میں تاروں کی تلاش شروع کر دی تھی۔’’وہ چاہے جس کا انتخاب کرے، جس کا نہ کرے۔ بہت مشکل ہے سمجھنا نیکی کیا ہے، بدی کیا ہے۔ بہت مشکل ہے سمجھنا کہ تم کیا ہو۔ بہت آسان ہے سمجھنا کہ تم نے وفاداری کی۔ بہت مشکل ہے سمجھنا کہ کیا واقعی تم وفادار تھے؟‘‘

جس تاریک آسمان کے نیچے پیدائشی چرواہا اور نو دریافت شدہ شیخ حمزہ کو میں چھوڑ آیا ہوں ، مجھے یقین ہے وہ تاروں سے منور ہو چکا ہوگا ۔ا گرچہ میرے سر پر پیچھے کی طرف پھسلتا ہوا آسمان وہی تھا مگر میرے غیر حاضر دوستو، یقین کیجیے، میرے خیالات بالکل تاریک تھے۔

بالکل تاریک جیسے اس پر کبھی کوئی تارا روشن نہ ہوا ہو۔

٭٭٭

 

               (۲)

اوندھی کشتیاں اور ایک لڑکی کا غیر اخلاقانہ تعاقب

ڈیم کی روشنیوں سے دور دریا کے کنارے بہت ساری کشتیاں ٹیڑھی یا اوندھی پڑی ہیں ۔ دن کے وقت ڈیم یہاں سے دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت کشتیوں پر لڑکے لڑکیاں کھیلنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ ان کشتیوں پر کبھی کبھی کچھ حیرت انگیز طور پر رنگین چڑیاں بھی بیٹھی دکھائی دیتی ہیں ۔ جانے یہ کہاں سے آتی ہیں ۔ یہ کسی بھی موسم میں نظر آتی ہیں ۔ میں یہ چڑیاں اسی جگہ دیکھتا ہوں ۔ میرے شہر میں تو صرف کوے ہیں یا چیل یا ایک آدھ باز یا کبوتر اور زیادہ تر گوریا کے غول۔ مگر مجھے شبہ ہے کہ ایک بار میں نے کسی کشتی کی نوک پر ایک English Robinکو بیٹھے دیکھا تھا جس کے سینے پر گہرا سرخ نشان تھا اور مجھے یاد آیا کہ کہیں پر میں شاید پڑھ چکا ہوں کہ یہ چڑیاں کافی دلیر ہوتی ہیں ۔ مگر مجھے اس کا اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ مجھے ان کی دلیری آزمانے کا کبھی کوئی موقع نہیں ملا۔

اور ان ہی کشتیوں میں سے ایک پر ایک دن میں نے ایک لڑکی کو بیٹھے پایا۔ وہ شاید کالج سے واپس لوٹی تھی۔ اس نے اپنی سائیکل کنارے برگد کے ایک پیڑ سے ٹکا کر اس طرح کھڑی کی تھی کہ وہ اس پر نظر رکھ سکے۔

وہ بالکل معمولی شکل و شباہت کی مالکن تھی، مگر جانے کیوں اسے دیکھتے ہی میرے اندر کے سوئے ہوے چشمے بیدار ہو گئے۔ میں اس کی توجہ پانے کے لیے بے چین ہو اٹھا۔میں نے اپنی سائیکل اس کی سائیکل سے ٹکا کر کھڑی کر دی اور اس سے الگ ہٹ کر تماشہ دیکھنے لگا۔

’’اے…‘‘ وہ لڑکی اپنا ہاتھ ہلا ہلا کر مجھ سے سائیکل کو وہاں سے ہٹانے کے لیے کہہ رہی تھی اور جب اس نے دیکھ لیا کہ اس کی باتوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو کتاب اور کاپیاں اٹھا کر کشتیوں کی نوکوں پر چلتے ہوئے کنارے آئی، میری طرف غصے سے دیکھا اور میری سائیکل کو اپنی سائیکل سے الگ کرنے لگی۔ اسے بیک وقت دونوں سائیکلوں کو سنبھالنے میں کافی دقت پیش آ رہی تھی۔ میں دور کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔ بہت مشکل سے اس نے اپنی سائیکل باہر نکالی اور میری سائیکل کو تقریباً گراتے ہوئے پیڑ کی جڑ سے ٹکا کر کھڑی کر دی۔ اس نے کیریر پر کلپ کے سہارے اپنی کتاب اور کاپیاں دبائیں اور دریا کے کنارے سڑک پر ڈگمگاتے ہوئے چل پڑی۔ اس کا دو پٹہ ہوا میں لہرا رہا تھا۔

میں اپنی سائیکل کی طرف دلچسپی سے تاک رہا تھا ۔درخت کا تنا اسے سنبھال نہ سکا اور وہ پھسل کر زمین پر جا گری ۔ نیچے دریا سنسان پڑا تھا۔ کشتیوں پر نہ چڑیاں تھیں نہ لڑکے۔ بہت دیر بعد میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور سائیکل پر بیٹھ کر لڑکی کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔

میں بہت دور تک گیا، مگر وہ مجھے کہیں دکھائی نہ پڑی۔ شاید مجھے بہت دیر ہو گئی تھی۔ دھوپ کافی تیز تھی۔ میں نے ایک ڈھابے میں چائے پی اور تب مجھے کچھ فاصلے پر کولیری کے کچھ کوارٹر دکھائی دیے جن کے باہر کئی موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں ۔چند ادھیڑ عمر کے لوگ فولڈنگ چئر پر بیٹھے ایک پھل کی پیٹی پر تاش کے پتے کھیل رہے تھے۔

میرے دل نے کہا وہ لڑکی ان ہی میں کسی کوارٹر کے اندر گئی ہوگی، گرچہ اس کی سائیکل باہر کھلے میں یا کہیں کسی پھاٹک یا برآمدے پر دکھائی نہیں پڑ رہی تھی۔

’’کچھ چاہیے؟‘‘ ایک شخص نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔

’’ابھی ابھی ایک لڑکی سائیکل پر اس طرف آئی ہے۔‘‘

وہ لوگ کھیل روک کر میرے پاس آ گئے۔

’’وہ تمھیں جانتی ہے؟‘‘

’’ابھی تھوڑی دیر پہلے ہم ایک ساتھ تھے۔‘‘

’’کیا نام ہے اس کا؟‘‘

’’میں اس کا نام نہیں جانتا۔ ہم آج ہی ملے ہیں ۔‘‘میں نے جھوٹ کہا۔

ان لوگوں نے آپس میں نظروں کا تبادلہ کیا۔

’’کیا نام ہے تمھارا؟‘‘

میں نے نام بتانا ضروری نہیں سمجھا۔

’’جاؤ، جاؤ، یہاں کوئی لڑی وڑکی سائیکل نہیں چلاتی۔’’ ایک شخص نے کندھے اچکا کر کہا۔ میں سائیکل کو واپس موڑ رہا تھا کہ کسی نے کہا ’’لفنگا!‘‘

’’کس نے لفنگا کہا؟‘‘میں نے پلٹ کر دریافت کیا۔

’’میں نے۔‘‘ ایک پستہ قد آدمی سینہ تان کر میری طرف بڑھ رہا تھا جب اس کے ساتھی نے اسے روک دیا۔

’’میں لفنگا ہوں ؟‘‘

’’تم لڑکی کا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟‘‘

’’وہ مجھے اچھی لگی تھی۔ کیا یہ کوئی بری بات ہے؟ اگر میں لفنگا ہوتا تو اسے اکیلے میں چھیڑتا یا میں اسے اکیلے پانے کا انتظار کرتا۔ اب بھی کہیے گا میں لفنگا ہوں ۔میرا دل صاف ہے، اسی لیے میں آپ لوگوں کے پاس چلا آیا۔‘‘

’’تم چاہتے کیا ہو؟‘‘

’’میں صرف اس لڑکی سے ملنا چاہتا ہوں ۔‘‘

’’یقین کرو یہاں ایسی کوئی لڑکی نہیں ہے۔‘‘سمجھ دار آدمی نے کہا۔

’’تو شاید وہ پیچھے رہ گئی ہوگی یا آگے نکل گئی ہوگی۔ ایک ہی راستہ ہے جو دریا کے کنارے دونوں طرف جاتا ہے۔ معاف کرنا میں نے آپ لوگوں کا کھیل خراب کیا۔ میرا دل صاف ہے۔‘‘

وہ چاروں اسی طرح بے حس و حرکت اپنی جگہ کھڑے میری طرف تاک رہے تھے اور میں سائیکل پر سوار ہو کر سڑک کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے یقین ہو گیا تھا، وہ ان ہی کوارٹروں میں سے کسی ایک میں رہتی ہوگی۔ ایسے حالات میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ شاید اس میں ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں ۔ وہ یقیناً شریف لوگ تھے۔ وہ میری دھلائی بھی کر سکتے تھے۔ لڑکی کا معاملہ ہمارے ملک میں ایک بہت نازک معاملہ ہوتا ہے۔ آپ اسے چھوتے بھی نہیں اور اس کے سینکڑوں خود ساختہ پہرے دار چمگادڑوں کی طرح آ کر آپ سے چپک جاتے ہیں ،جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ موقع ملنے پر یہی لوگ اس لڑکی کی عزت تار تار کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔

اس جگہ مجھے دریا کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔اس طرف دریا کہیں کہیں واقعی بہہ رہا ہے۔ میرے سامنے تارکول کی تنگ سڑک سنسان پڑی ہے۔ گرم ہوا جھاڑیوں کے اندر سر سرا رہی ہے۔ میرے دا ہنی طرف ڈھلان میں چٹان کا ایک سفید ٹکڑا دھوپ میں تپ کر ہیرے کی طرح دمک اٹھا ہے۔

’’لعنت ہے تم پر۔‘‘ میں اپنے آپ سے کہتا ہوں ۔ ’’آخر تم اس لڑکی سے چاہتے کیا تھے؟‘‘

اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ ہمارے بہت سارے سوالوں کا جواب ہمارے پاس نہیں ہوتا مگر کیا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کے جواب نہیں ہوتے؟

ایک سہ راہے پر دو بسیں کھڑی دریا پار سے آتے مسافروں کا انتظار کر رہی تھیں ۔ ان میں سے ایک کی کھڑکی والی سیٹ پر ایک بہت ہی پر کشش لڑکی بیٹھی میری طرف تاک رہی تھی۔ اس نے اپنی خوبصورتی سے بس کے اس گوشے کو روشن کر رکھا تھا۔ میں نے اس سے آنکھیں ملائیں مگر اپنے اندر کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی۔ شاید اس کے اندر کوئی ایسی بات نہ تھی کہ وہ میرے اندر کسی تبدیلی کا سبب بنتی۔

میں تیز تیز پیڈل مارتے ہوئے آگے بڑھ گیا ، ادھر جہاں ڈیم موجود ہوتے ہوئے بھی دن کی تیز روشنی میں نظر نہیں آتا تھا۔

٭٭٭

 

               (۳)

ایک اجڑے ہوئے باغ کا صحیح مصرف

یہ غلامی کے آخری دنوں کی بات ہے کہ ایک جرمن انجینیر ہوا کرتا تھا۔ وہ اسٹیل کے کارخانے کا، جو اب بند پڑا ہے اور جس کی دونوں چمنیوں پر چیلوں نے اپنے گھونسلے بنا رکھے ہیں ،آخری غیر ملکی منیجر تھا۔اس نے دریا سے ایک نہر کاٹ کر اس سے سینکڑوں شاخیں نکالیں ، ان کے ارد گرد باغ کی روشیں قائم کیں ، جگہ جگہ پیڑ پودے لگوائے اور اس طرح ایک خوبصورت باغ کی تشکیل کی۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ غلامی کے آخری دنوں کی بات ہے۔ اب ملک آزاد ہو چکا ہے، یہ باغ اجڑ چکا ہے۔ اس پر جگہ جگہ بنے سمینٹ کے کمانی پْل ڈھ چکے ہیں ۔ فلک بوس درختوں پر جنگلی لتوں نے قبضہ جما لیا ہے، اور یوں توکنکریٹ کی بنی عورتیں جو روشوں کے کنارے متناسب دوری پر کنکریٹ کے مٹکے اپنی کمر پر تھامے آج بھی کھڑی ہیں مگر ان مٹکوں سے پینے کا پانی باہر نہیں آتا۔ان میں سے بہت سوں کے ہاتھ ، سر یا پستان ٹوٹ چکے ہیں ، بلکہ ایک تو صرف ایک ٹانگ کے سہارے مٹکا کمر پر تھامے کھڑی ہے۔

’’حکومت کو چاہیے کہ یہ باغ کسی پرائیوٹ کمپنی کی تحویل میں دے دے۔‘‘ بینچ پر میری بغل میں بیٹھے ہوئے بوڑھے نے مجھ سے کہا جس کے چہرے پر برص کے کافی نمایاں دھبے تھے۔ وہ کوئی پنشن یافتہ سرکاری افسر ہے یا شایدوہ اس بند کارخانے میں کام کر چکا ہو۔

’’اس سے کیا ہوگا؟‘‘ میں نے کہا۔

’’یہ اجڑا ہوا باغ پھر سے سدھر جائے گا۔‘‘

’’اس سے کیا ہوگا؟‘‘

’’لوگ باگ یہاں آئیں گے۔ یہ کتنا ویران پڑا رہتا ہے۔‘‘

’’کیا یہ ویرانی آپ کو پسند نہیں ؟ ‘‘

’’میں تمھاری عمر کا تھا جب اس باغ کی تشکیل دی گئی۔ ‘‘ بوڑھے نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم سوچ بھی نہیں سکتے ان دنوں یہ کتنا خوبصورت تھا۔‘‘

’’میرے لیے تو یہ آج بھی خوبصورت ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ویران اور پوری طرح فطرت کے قبضے میں ۔ ہم انسانوں کو اور کیا چاہیے۔ ملک آزاد ہو جانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم غیر ملکی آقاؤں کے ذریعے زبردستی لادی گئی صفائی اور تنظیم کے قصیدے پڑھیں ۔ ہم اپنی نو آبادیاتی غلامانہ ذہنیت سے کب باز آئیں گے؟‘‘

’’جانے تم کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ بوڑھے نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’میں تو ایک سیدھی سادی بات کر رہا تھا۔‘‘

یہ سچ ہے کہ وہ سیدھی سادی بات کر رہا تھا، مگر کیا یہ ممکن ہے کہ زندگی بھی اتنی ہی سیدھی سادی ہو جتنی ہم اسے سمجھتے ہیں ۔ میں بینچ پر اکیلا بیٹھا تھا، مگر بہت جلد مجھ پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ جگہ میرے لیے صحیح نہیں ہے، یہاں سے دریا نظر نہیں آتا۔ تو میں دریا کی تلاش میں باغ کے مغربی گوشے کی طرف چل پڑا جہاں زمین نیچی ہونے لگی تھی اور باغ کی چہار دیواری کی جھلک مجھے نظر آ رہی تھی۔ میں دیکھتا ہوں جرمن انجینیر کی کھودی گئی نہریں کہیں کہیں کنویں سے بھی زیادہ گہری ہیں تو کہیں کہیں یہ بالکل پایاب ہو کر زمین سے لگی بہہ رہی ہے جن کے پیندوں کی کائی سے ڈھکی چٹانیں صاف نظر آ رہی ہیں ۔ کوئی کوئی پیڑ کسی گڈھے میں اتنا نیچے اگا ہوا ہے کہ اس کی بالائی شاخوں کو ہم اوپر سے دیکھ سکتے ہیں اور کسی کسی پیڑ کے نیچے چلتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے ہم زمانہ قدیم کے اساطیری بونے ہوں ۔ میرے پیروں کے نیچے سوکھے پتے چرمرا رہے ہیں ، میرے سامنے سے گلہریاں اور گرگٹ زمین پر گرے ہوئے پتوں میں ہلچل مچاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہی ہیں ، ان ہی کے اندر غائب ہو رہی ہیں ۔ ایک گلہری ایک قدرے صاف جگہ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہو کرسر موڑ کر میری طرف دیکھتی ہے۔ مجھے اس کا چہرہ جانا پہچانا لگتا ہے۔ مجھے اس سے دلچسپی نہیں ہوتی۔

دریا کے کنارے دیوار سے لگے پیڑ کافی گھنے ہو گئے ہیں ، جھاڑیوں کے بیچ کہیں کہیں راستہ اچانک غائب ہو گیا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ ادھر لوگ کم آتے ہیں ۔میں واپس لوٹنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے جھاڑیوں کے اندر ایک آہٹ سنائی دیتی ہے۔ میں رک کر کان کھڑے کر لیتا ہوں اور پھر جھاڑیوں سے کپڑوں کو بچاتے ہوئے آگے بڑھنے لگتا ہوں ۔ آواز بتدریج تیز ہوتی جا رہی ہے۔ میں آخری جھاڑی کی خار دار ٹہنی کو ہٹا کر دیکھتا ہوں ، ایک مرد ایک لڑکی کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے مباشرت میں مصروف ہے۔ یہ مرد کے کراہنے اور غرانے کی آواز تھی جو میرے کانوں میں آ گئی تھی۔ میں لڑکی کو دیکھ نہیں پاتا، صرف اس کی دونوں ٹانگیں دیکھ پاتا ہوں جو آسمان کی طرف اٹھی ہوئی ہیں ۔ مرد کے گنبد نما کولھے ان کے بیچ ہل رہے ہیں ۔اس کی ڈھیلی جرابیں اس کی ٹخنوں پر جمع ہیں ، اس نے جوتے نہیں اتارے ہیں ۔ میں حیران ہو کر دیکھتا ہوں لڑکی کی ننگی ایڑیاں بالکل سفید ہیں ۔ میں سانسیں روکے کھڑا ہوں ۔ مجھے شدید ندامت کا احساس ہو تا ہے۔ یہ میں نے اچھا نہیں کیا ہے۔ آواز پیدا کیے بغیر میں خار دار ٹہنی کو چھوڑنے کی کوشش کرتا ہوں ، مگر اس کے کانٹے میری انگلیوں میں اتر جاتے ہیں ۔مجھے لگتا ہے میں اپنی چیخ دبانے میں کامیاب ہوں ، مگر…

’’کون ہے؟‘‘ میں پہلی بار لڑکی کے سر کو دیکھتا ہوں جسے اوپر اٹھا کر وہ ادھر ادھر تاک رہی ہے۔

’’پولس!‘‘ مرد اس کی ٹانگوں کے بیچ سے کود کر باہر آتا ہے اور پتلون کو کمر پر کھینچتے ہوئے ادھر ادھر تاک رہا ہے۔ لڑکی نے ساڑی کو گھٹنوں سے نیچے کھینچ لی ہے اور اٹھ کر بیٹھ گئی ہے۔ اس نے بلاؤز نیچے کھینچ کر اپنے ننگے پستان کو ڈھک لیا ہے۔ مرد زپ لگا کر بھاگتا ہوا جھاڑیوں کے درمیان غائب ہو جاتا ہے۔ لڑکی سر اپنے داہنے کندھے پر رکھ کر ہنس رہی ہے۔ پھر وہ میری جھاڑی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

’’تم وہاں چھپ کر کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

میں جھاڑی کے پیچھے سے باہر نکل آتا ہوں ۔ قریب پہنچ کر دیکھتا ہوں ، اس کی سلیپر اور ہینڈ بیگ ترتیب سے اس کے سامنے رکھی ہیں ۔ وہ میری طرف دیکھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔

’’تم نے تو اسے بالکل ڈرا دیا۔‘‘ وہ کہتی ہے۔ مجھ سے نظریں ہٹا کر وہ اپنے بالوں سے سوکھے پتے الگ کر رہی ہے۔وہ اپنی بیگ سے ایک کنگھی اور کچھ ہئر پن نکالتی ہے۔ ’’بیچارا کنڈوم پہنے ہی بھاگ نکلا۔‘‘

’’تو تم پیشہ کرتی ہو؟‘‘

’’یہ میرا علاقہ ہے۔‘‘ وہ مجھ سے لا پرواہ اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔ اس نے پن اپنے دانتوں سے پکڑ رکھے ہیں ۔

’’پڑھی لکھی لگتی ہو۔ تمہیں ڈر نہیں لگتا؟‘‘

’’کس بات کا ڈر؟‘‘

’’یہاں پولس آتی ہوگی۔‘‘

’’کبھی نہیں ۔‘‘

’’کیوں ۔ کیا پولس اپنا کام نہیں کرتی؟‘‘

’’تم اتنی تفتیش کیوں کر رہے ہو؟ سی آئی ڈی کے آدمی ہو، یا سماج کے نوک پلک درست کرنے والے لٹھیت؟‘‘

’’بالکل نہیں ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں دو ٹانگوں پر کھڑا ایک زمین زاد ہوں جسے کسی دوسرے سیارے کا پتہ معلوم نہیں ۔‘‘

’’Interesting!۔‘‘ اس نے کنگھی ہینڈ بیگ کے اندر ڈال کر اس کا مقناطیسی کلچ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’عجیب دنیا ہے یہ۔ خوامخواہ دوسروں کا مزہ خراب کر دیا۔ تم واپس بھی لوٹ سکتے تھے۔‘‘

’’ایسا منظر بار بار ہاتھ نہیں آتا۔‘‘

’’کیا؟ تمہیں شرم آنی چاہیے۔‘‘

’’تم نے ہی تو اسے ڈرا دیا۔ میں تو اپنی جگہ خاموش کھڑا تھا۔‘‘

’’ایسا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ اپنے سلیپر کے اندر پیر ڈال کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’کچھ لوگ تو اتنا لمبا کھینچتے ہیں کہ مت پوچھو۔‘‘

’’وہ اپنے پیسے کا معاوضہ چاہتے ہیں ۔‘‘

’’اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں اس کی جورو کی طرح اسے برداشت کروں ۔‘‘ وہ بولی۔ ہم دونوں وہاں سے ساتھ ساتھ باہر نکلے تھے۔ اسے گھنی جھاڑیوں کے بیچ ایک آسان راستے کا پتہ تھا۔ کچھ آگے جا کر میں رک گیا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے سر موڑ کر میری طرف دیکھا۔ ’’میرے ساتھ نظر نہیں آنا چاہتے؟‘‘

’’مجھے دریا دیکھنا ہے۔ میں دیوار کی طرف جا رہا ہوں ۔‘‘

’’دریا میں کیا ہے، پتھر، بالو، شہروں کے کوڑا کرکٹ، جانوروں کے مردے یا مردار خور۔‘‘

’’اور پانی۔‘‘

’’کبھی اس دریا میں پانی ہوا کرتا تھا۔‘‘ وہ مجھے چھوڑ کر آگے بڑھنے لگی۔’’اب اس پر اوپر کی طرف اتنے سارے ڈیم بن چکے ہیں کہ یہ ریگستان بن چکا ہے۔ تمہیں دریا دیکھنا ہے تو، برسات کا نظار کرو۔‘‘

وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ چہار دیواری کے دوسری طرف واقعی ایک ریگستان تھا، خس و خاشاک سے ڈھکا ہواجس میں ریت پر ایک آدھ جگہ مردوں کے جلائے جانے کے سیاہ نشان نظر آ رہے تھے۔ اس کا بچا کھچا پانی اوپر کی طرف یہ باغ اپنی انگنت نہروں کے ذریعے پی جاتا ہوگا۔ میں مایوس ہو کر واپس اپنے بینچ پر لوٹا، اس پر پڑے ہوئے پتے صاف کیے اور لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں ۔

سورج ڈوب رہا تھا جب میں باغ سے باہر آیا۔ پھاٹک کے باہر ٹکٹ گھر کے سامنے سائیکل کا لاک کھول کر میں اس کی کاٹھی پر بیٹھ رہا تھا کہ مجھے وہ لڑکی دکھائی دی۔

’’تم ادھر ہی جا رہے ہونا؟‘‘ اس نے اپنی انگلی سے مغرب کی طرف اشارہ کیا ۔

’’ہاں ۔‘‘ میں نے جھوٹ کہا۔ ’’تمہارا کام ختم ہو گیا؟‘‘

’’آج کا دن اچھا گذرا۔‘‘ وہ ہنسی۔ ’’مجھے لفٹ دو گے؟تم نے میرے ساتھ جو کیا ہے اس کے بعد یہ تمھارا فرض بنتا ہے۔‘‘

’’کیوں نہیں ۔ میں ہر حال میں تمہاری خدمت کے لیے حاضر ہوں ۔‘‘

وہ اچک کر میری سائیکل کے پائپ پر بیٹھ گئی۔ وہ ہلکے پھلکے بدن کی مالکن تھی اور اب جب کہ اس کا بدن میرے بدن کو چھو رہا تھا وہ کافی کمسن لگ رہی تھی۔ اس طرف سڑک دھیرے دھیرے اوپر کی طرف اٹھی جا رہی تھی ۔اگرچہ اس کا وزن کچھ خاص نہ تھا مگر چڑھائی کے سبب مجھے پیڈل پر کافی محنت کرنی پڑ رہی تھی جو مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ اور جب کہ میں ایک جگہ بہت زیادہ اونچائی دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ سائیکل سے اتر جاؤں ، اس نے ایک پگڈنڈی کی طرف اشارہ کیا۔

’’تھینک یو!‘‘ وہ کود کر سائیکل سے اتر گئی۔’’یہاں سے آدھا کیلو میٹر دور ایک بند کولیری ہے۔ وہیں میرا گھر ہے۔‘‘

’’شام اتر رہی ہے۔ تمھیں کھیتوں کے بیچ اکیلے جاتے ڈر نہیں لگے گا۔‘‘

’’کس بات کا ڈر؟ میری پیدائش اسی کولیری میں ہوئی ہے۔ بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ میں نے ان کھیتوں میں ان گنت سانپوں کو مارا ہے۔‘‘

’’میں سانپوں کی بات نہیں کرتا۔تم لڑکی ہو، بالکل اکیلی ۔شام اتر چکی ہے۔ اس وقت لوگ کل کارخانوں ، شراب خانوں سے واپس لوٹ رہے ہوں گے۔‘‘

’’کل کارخانے بند پڑے ہیں ۔ شراب پینے کے لیے لوگوں کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ اور پھر مجھے اس ڈر کے ساتھ جینے کی عادت ہے۔ مرد اب میرے لیے ٹن کے کھلونے کی طرح ہیں جنھیں جب چاہے میں اپنی انگلیوں سے چپٹا کر سکتی ہوں ۔‘‘وہ پرس ہلاتے ہوئے ڈھلان میں اتر جاتی ہے جہاں ایک گڈھے کے پاس پانی کے ایک بڑے سیاہ پائپ کے کنارے پگڈنڈی شروع ہوتی ہے ۔ میں نے سائیکل کی گھنٹی بجا کر اس کی توجہ اپنی طرف کھینچنا چاہی۔

’’سن رہی ہو؟‘‘

کیا ہے؟‘‘ اس نے سر موڑے بغیر مجھ سے پوچھا۔

’’مجھے گڈ بائی نہیں کہو گی؟‘‘

اس نے سر ہلا کر انکار کر دیا اور پگڈنڈی پر چلتے ہوئے کھیتوں میں اتر کر شام کے دھندلکے میں غائب ہو گئی۔

٭٭٭

 

               (۴)

دریا کتنا دریا

میں نے دریا پر دور تک نظر ڈالی اور سوچا یہ دریا ایسا نہیں کہ اسے یوں ہی مرنے دیا جائے۔ مگر اس کے دونوں کنارے بچھی ہوئی کوئلے کی کانیں اندر اندر اس کا آدھے سے زیادہ پانی پی جاتی ہوں گی۔ باقی پانی پر کل کارخانے اور تھرمل پروجیکٹ کے ٹاکسک ویسٹ کا قبضہ ہے۔ جو تھوڑا بہت صاف پانی بچتا ہے ، اور وہ بالکل صاف بھی نہیں ، وہ انسانوں اور جانوروں کے نہانے اور کپڑے دھونے کے کام آتا ہے۔ اس دریا کے کنارے لوگوں کو ننگا ہونے میں کوئی جھجک نہیں ہوتی اور اس کے پانی میں ٹخنوں تک غرق کھڑی عورتیں اپنے ننگے پستانوں پر سستے صابن مسلتی رہتی ہیں ۔ دست کرتے لوگوں کی شرم گاہیں تو یہاں ایک عام نظارا ہے۔ اگر ہماری تہذیب ایک آئینہ ہے تو یہ دریا اس کا عقبی حصہ ہے، گھن اور دیمک زدہ لکڑیوں اور مکڑی کے جالوں سے ڈھکے ہوئے کاغذوں والا حصہ۔

اور اگر اس شہر میں یہ میرا آخری سال بلکہ آخری ہفتہ تھا تو اس کے لیے ذمہ دار میں ہی تھا۔ دراصل میں نے اس دریا کے حوالے سے اپنی زندگی کو جاننے کی کوشش میں اپنی ان ساری کمزوریوں کا پتہ چلا لیا تھا جنھیں میں سالوں سال ان دیکھی کرتا آرہا تھا۔ ہاں اس دریا میں ، اپنی سائیکل کے سامنے کے پہیے کو پانی کے اندر ڈالے ہوئے، میں اس وقت یہی سوچ رہا تھا، اگر یہ دریا نہ ہوتا تو مجھے اس ریگستان کا پتہ کیسے چلتا جو میرے اندر دور تک موجود تھا۔

برسات کے کچھ ہفتوں کو چھوڑ کر، باقی سارا سال تم بہتے بہتے ریت میں کھو جاتے ہو اور تمھیں کوئی سمندر نصیب نہیں ہوتا اور یہ بالکل عام انسانوں کا سا معاملہ ہے۔ ہم ساری زندگی پانی کی طرح ریت پر بہتے رہتے ہیں اور اس دریا کی طرح ہمیں برسات کے کچھ گیلے لمحے بھی نصیب ہوتے ہیں ۔ مگر بات یہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔ ہمیں کبھی سمندر نصیب نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ ہم چند سراب بنا کر جینے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

اور میں نے دریا پار جانے کی سوچی ، وہاں جہاں دھوپ سے جلی ہوئی مٹی، بند کارخانوں کے زنگ خوردہ ڈھانچے، تپتا ہوا آسمان اور چند خود سر پودوں اور جھاڑیوں کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا اور یہ وہ جنگل تھے جن کے اندر گرگٹ، گلہریاں ، سانپ اور پرندے نیم مردہ پڑے پڑے سورج کے ڈوبنے کا انتظار کیا کرتے۔

دریا میں پانی کہیں کہیں غیر متوقع طور پر گہرا تھا، کہیں بالکل پایاب، کہیں دریا سوکھ کر ایک ریگستان میں بدل گیا تھا جسے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ اس پر کھجور کے پیڑ کیوں اگے ہوئے نہیں تھے جو کہ ایک آدھ جگہ واقعی اگے ہوئے تھے۔ یہاں اسے پیدل یا سائیکل یا بیل گاڑی پر پار کرنا اتنا ہی آسان تھا جتنا کہ مشکل۔ مگر انسان، اسے تو بہر حال کہیں نہ کہیں پہنچنا ہی پڑتا ہے، کبھی کسی خاص مقصد کے لیے اور کبھی بلا مقصد جو اپنے آپ میں کسی بڑے مقصد سے کم نہیں ہوتا۔

میں دریا کے بالکل وسط میں سائیکل کا ہنڈل بار تھامے تپتی ریت پر کھڑا تھا۔ گرم ہوا میرے بالوں کو کسی ایک سمت رہنے نہیں دے رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا اتنی دور آ کر واپس لوٹ جانا اگر کوئی دانش مندی کا کام نہیں توہ یہاں سے آگے جانا کم بیوقوفی نہیں ہوگی۔ میں اس مخمصے میں تھا جب قدرت کو مجھ پر ترس آ گیا۔ ایک آواز آئی اور میری سائیکل کا پچھلا پہیہ ریت پر بیٹھ گیا۔

سخت گرمی صرف انسانوں کے لیے ہی نا قابل برداشت نہیں ہوتی۔

میں دیر تک چلچلاتی دھوپ میں ایک بیوقوف کی طرح کھڑا دونوں کناروں کی طرف تاکتے ہوئے ان کے فاصلوں کو ناپتا رہا جب مجھے دوسری طرف سے ایک بیل گاڑی آتی نظر آئی۔ چوری کے کوئلوں سے لدی یہ بیل گاڑی ایک کچھوے کی طرح رینگ رہی تھی۔اس پر اپنی سائیکل چڑھا کر میں گاڑی با ن کے پیچھے بیٹھ گیاجو اپنی دونوں ٹانگیں اس کے ڈانڈوں کے دونوں طرف لٹکائے بیٹھا بیلوں کو ہانک رہا تھا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے مجھے گاڑی بان کی بیڑی کی تیز مہک آ رہی تھی۔

’’آپ اس پار جا سکتے تھے۔ کوئی نہ کوئی سواری مل جاتی۔ وہاں سائکل کی مرمت کی دکان بھی ہے۔‘‘

’’اور واپسی پر پھر ٹیوب بیٹھ جاتی تو۔ میری سائکل دیکھ ہی رہے ہو۔ میں اس پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔‘‘

’’سو تو ہے۔ یہ سائیکل کتنی پرانی ہے۔ اب تو اتنی مضبوط سائیکل نظر نہیں آتی۔‘‘

بیل گاڑی کے پہیے اب پانی میں اتر چکے تھے۔ گاڑی بان نے بیڑی کا آخری حصہ مٹیالے پانی پر پھینک دیا جہاں وہ کسی ان دیکھی بھنور کی لپیٹ میں آ کر چکر کاٹنے لگا۔ گاڑی کے پہیے مٹی میں بار بار دھنس رہے تھے اور گاڑی بان کو بیلوں پر لگاتار چابک برسانا پڑ رہا تھا۔ زیادہ تر بیل مار کھا کر پہیے نکال لیتے۔ مگر کبھی کبھی یہ ان کے بس سے باہر ہوتی۔ اس وقت گاڑی بان کود کر پانی میں اتر جاتا اور اپنے ہاتھوں سے پانی میں غرق پہیے کو تھام کر باہر لاتا۔ ایک بار تو مجھے ایسا لگا جیسے بیل گاڑی اب پانی سے کبھی باہر نہیں آئے گی مگر وہ باہر آ گئی۔ پانی کے بعد ایک بار پھر سوکھی ریت کا ایک بے آب و گیاہ سلسلہ تھا۔ چند اوبڑ کھابڑ چٹانوں سے بچنے کے لیے بیل گاڑی کو کافی گھوم گھوم کر اپنا راستہ نکالنا پڑتا۔ پانی کی ایک آخری، قدرے گہری پٹی تھی جس کے دوسری طرف چٹانوں پر دھوبی کسی اسپتال کے سبز کپڑے سکھا رہے تھے۔مگر یہاں پانی کے اندر کی زمین بالکل ہموار تھی جس سے گذرنے میں گاڑی کو زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔

’’تم کب سے یہ کام کر رہے ہو؟‘‘ میں نے خاموشی توڑی کیونکہ اب پانی کے اندر بیل گاڑی کوئی آواز پیدا کیے بغیر کسی ناؤ کی طرح چل رہی تھی۔

’’مجھے یاد نہیں ۔‘‘ گاڑی بان نے کہا۔ اس نے ایک اور بیڑی سلگا لی تھی۔ ’’میں بہت چھوٹا تھا اور اپنے باپ کے ساتھ اس گاڑی پر بیٹھا کرتا۔‘‘

’’یہ دنیا کچھ زیادہ نہیں بدلی ہے۔‘‘ میں نے دبے ہونٹوں سے کہا۔ شاید اس نے میری بات سن لی تھی۔

’’بہت کچھ بدل گیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے، اب بیل گاڑی کے پہیے لکڑی کی بجائے لوہے کے آنے لگے ہیں ۔‘‘

’’مگر آج بھی تم چوری کے کوئلے کا کاروبار کرتے ہو۔‘‘

’’آپ نے شاید ان غیر قانونی کھدائی کرنے والوں کو نہیں دیکھا ہے۔‘‘اس نے جواب دیا۔ ’’وہ زمین کے اندر کئی کئی میل تک جا کر کوئلہ کاٹ کر لاتے ہیں ۔‘‘

’’مرتے بھی ہوں گے۔‘‘

’’آئے روز زمینیں دھنستی رہتی ہیں ۔‘‘

’’یہ دنیا کچھ زیادہ نہیں بدلی ہے۔‘‘ میں نے بڑ بڑاتے ہوئے کہا۔ ’’ایک آدھ لوہے کے پہیے کچھ ثابت نہیں کرتے۔‘‘

کنارے پہنچ کر میں نے سائیکل کی ٹیوب مرمت کروائی۔ آخری بار دریا کی طرف دیکھا۔ اس پار غیر قانونی کھدائی میں مصروف لوگوں کے بارے میں سوچا۔ اپنی المناک موت کے باوجود وہ قانون کے مجرم ہیں ۔ وہ اس موت کے حقدار ہیں جو زمین کے دھنس جانے کے سبب انھیں نصیب ہوتی ہے۔ اور ہم جو زمیں کی سطح کے اوپر گناہ کرتے ہیں ، ہمارا حساب روز حشر ہوگا۔ تب تک یہ دریا بہتا رہے گا، اپنے خس و خاشاک، اپنی گندگی اپنی خوبصورتی، اپنی بھوک اپنی پیاس کے ساتھ اسی طرح اپنے دونوں کناروں کو کھاتا رہے گا۔ اس کے کنارے اذانیں گونجتی رہیں گی، سنکھ بجتے رہیں گے، لوگ دست کرتے رہیں گے، اس کی جھاڑیوں میں جنسی خواہشات کی تکمیل ہوتی رہے گی او رمیں سائیکل پر سوار خالی ہاتھ گھر کی طرف جاتا رہوں گا، کیونکہ اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں آتا۔

٭٭٭

 

شہر میں اور چند بے تکے واقعات

               (۱)

فاختے کا گھونسلا

مجھے اپنے شہر کے راستوں پر بلا وجہ چلنے کی بیماری ہے۔ یہ دھول بھرے راستے، جہاں جگہ جگہ نالوں کی سڑاندھ ہے، کچھ اتنی اچھی حالت میں بھی نہیں کہ ان پر چلنے کا لطف اٹھایا جائے۔ مگر جب آپ ایک ہی عادت کو بار بار دہراتے ہیں تو اس میں ایک قسم کا لطف پیدا ہو جاتا ہے۔ معمولی سے معمولی چیزیں بھی ایک نیا رنگ اختیار کر لیتی ہیں اور آپ کو ان میں وہ ساری باتیں نظر آنے لگتی ہیں جو دسروں کو دکھائی نہیں دیتیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اب میرے شہر کے راستے میرے لیے دوسری اہمیت کے حامل ہو چکے ہیں ، ایک ایسی اہمیت جسے لفظوں کی شکل دینا تقریباً ناممکن ہے۔

ایسے ہی ایک دن چلتے ہوئے میں نے نبی حسن کو دیکھا۔ وہ ایک پرانی عمارت کی بیرونی دیوار پر سیڑھی ٹکائے اس کے ڈرین پائپ کی مرمت کر رہا تھا جس پر موسم در موسم کائی سوکھ کر اس کی پپڑیاں جم گئی تھیں ۔ مجھے یہ عجیب لگا کیونکہ وہ کبھی کوئی مستری یا پلمبر نہیں رہا تھا۔ اس نے لنن کی پتلون پر ایک تنگ ٹی شرٹ چڑھا رکھی تھی جس کے سبب اس کا بھاری بھرکم سینہ عورتوں کے پستان کی طرح ابھر آیا تھا۔ وہ اپنی دبیز دو ماسکی عینک کے سبب تقریباً چار آنکھوں والا نظر آ رہا تھا۔ اس نے کام روک کر میری طرف دیکھا، اپنا کام بند کر دیا اور سیڑھی سے نیچے اتر آیا۔ اب اس کا ایک ہاتھ میرے کندھے پر تھا اور دوسرا کمر پر اور وہ کسی بھری بھرکم سولخوردہ عورت کی طرح کھڑا میری طرف تاکتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔

’’شہر کی کیا خبر ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’اور صبح سے کتنی دھول پھانک چکے؟ کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں ؟’’

’’مجھے پتہ نہیں تھا کہ تم یہ کام بھی کر لیتے ہو۔’’ میں نے اس کے ہاتھ کو ہٹانے کے لیے اپنے کندھے میں کسمساہٹ پیدا کی، مگر اس کی گرفت پہلے سے کچھ زیادہ مضبوط ہو گئی جیسے اسے مجھے چھوڑنا پسند نہ ہو۔ ’’اچھا تو اپنا کام کرو اور مجھے جانے دو، دھول پھانکنے کے لیے جیسا کہ تم نے ابھی کہا ہے۔‘‘

’’ارے نہیں ، رکو تو، اور تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو۔ میں کوئی پائپ مستری نہیں ۔ دراصل وہاں ایک فاختے کا گھونسلا ہے جہاں پائپ کے ٹیڑھا ہو جانے کے سبب فاختہ کے انڈے کبھی بھی زمین پر گر سکتے ہیں ۔ میں نے گھونسلے کو سیدھا کر دیا ہے اور انڈے بھی ترتیب سے سجا دیے ہیں ۔ اپنے غائب دماغ دوست ہمدانی کے لیے، جس کا یہ گھر ہوتے ہوئے بھی، جس کا زیادہ وقت شراب خانے میں گذر تا ہے۔ اور تم تو جانتے ہو میں یاروں کا یار ہوں ۔‘‘

’’اور تم سمجھتے ہو فاختہ اب اس گھونسلے پر اترے گی، اس کا استعمال کرے گی؟‘‘ میں ڈرین پائپ کے عین وسطی حصے سے نکلے ہوئے تنکوں کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں سے ایک چھوٹا سا بیضوی گھونسلا جھانک رہا تھا۔’’اب ان انڈوں سے کبھی بچے برآمد نہیں ہوں گے۔تمھیں انھیں ہاتھ نہیں لگانا چاہیے تھا۔‘‘

’’تمھیں یقین ہے۔‘‘ نبی حسن کی دہری آنکھوں میں تردد نظر آ رہا تھا۔ ’’میں نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا۔ تمھیں چڑیوں کی نفسیات کا علم ہے۔ پھر تو بہت برا ہوا۔ کیا میرے کرنے کے لیے کچھ ہے؟‘‘

’’اس گھونسلے سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔‘‘ میں نے کہا۔’’ہو سکتا ہے فاختہ کو انڈوں پر تمھاری انگلیوں کا نشان نظر نہ آئے اور انڈوں کی قسمت جاگ اٹھے۔‘‘

’’کون جانے۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے سے ہٹا لیا۔ ’’تم نے مجھے عجیب وسوسے میں ڈال دیا۔‘‘

’’جانے بھی دو۔‘‘ میں نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہا۔مجھے محسوس ہوا، میں نے خوامخواہ اس کے معاملے میں ناک بہت اندر تک ڈال دی ہے۔ ’’میں نے توسرسری طور پر یہ بات کہہ دی تھی۔ یہ صرف میرا اندازہ ہے۔ بھلا فاختہ کی عادتوں کے بارے میں مجھے کیا پتہ۔‘‘

’’نہیں نہیں ، تم شاید ٹھیک کہہ رہے ہو۔ تمہاری بات میں دم ہے۔ ‘‘اس نے دیوار کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ وہ سیڑھی اٹھا کر عمارت کے پھاٹک سے اندر جا رہا تھا تو اس کے کندھے جھکے ہوئے تھے اور اس کے قدم ایک مفتوح انسان کی طرح زمین پر دھیرے دھیرے گر رہے تھے۔

٭٭٭

 

               (۲)

کدم کے پھول اور دن بدن موٹی ہوتی ہوئی لڑکی

لوٹتے مونسون کے سبب شہر میں اچانک بارش ہو گئی ہے۔یہ جاڑے کی شروعات ہے۔ بارش نے زیادہ تر پیڑوں سے پتے گرا دیے ہیں اور چوراہے پر کھڑے پتھر کی مورتیوں کو اچھی طرح سے دھو ڈالا ہے، اگرچہ ان میں سے چند مورتیوں پر چڑیوں کی بیٹ کی ضدی لکیریں اب بھی قائم ہیں ۔

میں اس بارش کے لیے تیار نہ تھا۔ میں ایک جگہ کھڑا سڑک سے گذرتے لوگوں کا جائزہ لے رہا تھا جو سردی کے اچانک بڑھ جانے کے سبب اپنے آپ میں سکڑے ہوئے چل رہے تھے جیسے تھوڑی سی ڈھیل دینے پر وہ تنکوں کی طرح بکھر جائیں گے جب میری نظر ہمارے محلے کی ایک اینگلو انڈین لڑکی میری لوئی کی طرف گئی ۔ میری لوئی، جس نے اچانک موٹی ہونا شروع کر دیا تھا، جس کے سبب نہ صرف یہ کہ اس کی ایک الگ شناخت بن گئی تھی بلکہ وہ کافی مشہور بھی ہو گئی تھی۔وہ ایک سرخ میکنتتوش پہنے کسی تل چٹے کی طرح نظر آ رہی تھی اور زمین پر گرے ہوئے کدم کے گیند نما پھولوں کو پلاسٹک کی ایک سبز تھیلی کے اندر جمع کر رہی تھی۔

’’میری لوئی۔‘‘ میں نے اس کے سامنے رک کر کہا۔ ’’تم ان پھولوں کا کیا کرو گی؟ نہ یہ صحیح خوشبو دیتے ہیں نہ یہ کھائے جاتے ہیں ۔‘‘

’’تمھیں تو پتہ ہے، ہمارا کنبہ چینیوں کی طرح بڑا ہے جنھیں گننے کے لیے تمھارے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کم پڑ جائیں ۔تو میرے گھر میں ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔‘‘ میری لوئی نے کہا۔ ’’وہ ان کے ساتھ کھیلنا پسند کریں گے۔‘‘

’’اور اگر انھوں نے انھیں کھانا شروع کر دیا تو؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ان پھولوں کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بلکہ یہ تو پھول سے زیادہ پھل نظر آتے ہیں جو ہو سکتا ہے کچھ خاص قسم کے ککرمتوں کی طرح زہریلے ہوں ۔‘‘

’’تمھیں یقین ہے؟‘‘

’’مجھے پورا یقین تو نہیں …‘‘میں نے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ ’’مگر میں یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ بے ضرر ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے، بکریاں تک انھیں سونگھ کر چھوڑ دیتی ہیں ۔‘‘

ایک پل کے لیے وہ چپ چاپ کھڑی رہی جیسے کسی نے اسے جادو کی چھڑی سے چھو کر موم کی مورتی میں بدل دیا ہو۔ پھر اس نے اپنا ایک ہاتھ تھیلی کے اندر ڈالا اور ایک پھول برآمد کیا جس کی برش نما گلابی سطح کافی خوبصورت نظر آ رہی تھی۔ یہ پھول واقعی قدرت کا ایک انوکھا شاہکار تھا۔

’’کیا اتنی خوبصورت چیز زہریلی ہو سکتی ہے۔‘‘ اس نے شک بھری نظروں سے میری آنکھوں کے اندر جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے مجھے عجیب مخمصے میں ڈال دیا ہے اور تمھیں کسی بات کا یقین بھی نہیں ہے۔‘‘

اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں نے ایک ایسے معاملے میں ٹانگ اڑائی ہے جس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ۔

’’ویسے بچوں کو اسے دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔‘‘ میں نے کندھے ہلا کر کہا۔ ’’صرف ان پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ اسے کھیلنے کی چیز سمجھیں نہ کہ کھانے کی۔‘‘

’’عجیب آدمی ہو تم۔‘‘ میری لوئی کی آنکھوں میں عورتوں والا غصہ جھلک رہا تھا۔ ’’انھیں زہریلا بھی کہہ رہے ہو اور بچوں کو دینے کی ہدایت بھی کر رہے ہوجب کہ تم جانتے ہو اتنے سارے بچوں پربیک وقت نظر رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔‘‘

اس کی تمتمائی ہوئی آنکھوں کی طرف تاکتے ہوئے مجھے اس کے بھاری بھرکم بدن کااحساس ہوا جس سے ایک عجیب طرح کا اسرار جھلک رہا تھا اور میں خوفزدہ ہو گیا۔

’’میرا مطلب ہے…‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں تو صرف اپنا اندیشہ ظاہر کر رہا تھا۔ یہ پھل واقعی زہریلا ہے یا نہیں اس کا علم مجھے بھی نہیں ہے۔‘‘

’’اور ابھی تھوڑی دیر پہلے تم اسے پھول کہہ رہے تھے۔‘‘

’’میرا خیال ہے اسے پھل بھی کہا جا سکتا ہے اور پھول بھی۔‘‘

’’تم مجھے بیوقوف بنا رہے ہو نا؟‘‘ اس نے پلاسٹک کی تھیلی کو الٹ کر خالی کرتے ہوئے کہا۔ ’’جب سے مجھے تھائروئڈ (Thairoyed) کی بیماری ہوئی ہے لوگ مجھے بیوقوف سمجھنے لگے ہیں ۔ کیا میں بیوقوف نظر آتی ہوں ۔ کیا میں اپنے گھر کے بچوں کو نہیں جانتی۔‘‘

میری لوئی کے جانے کے بعد میں دیر تک زمین پر گرے ہوئے کدم کے ان پھولوں کی طرف تاکتا رہا جو اس نے تھیلی سے انڈیلے تھے۔ میں نے سر اٹھا کر سڑک پار دیکھا جہاں کثیر منزلہ مکانوں کے اوپر بنفشی بادلوں کی دھاریاں چمک رہی تھیں جیسے کسی نے آسمان پر رنگین چاک سے لکیریں کھینچ دی ہوں ۔بارش تو تھم چکی تھی مگر کچھ نیم سیاہ بادل اب بھی آسمان کے ایک کونے پر بے حس و حرکت موجود تھے جیسے وہاں ٹھہر کر اس گیلے اور ویران شہر کا جائزہ لے رہے ہوں ۔

کدم کے پھولوں کو اپنے جوتے کی نوک سے ادھر ادھر کرتے ہوئے مجھے ان بچوں کے لیے افسوس ہونے لگا جو ان پھولوں سے کھیل سکتے تھے اور میری وجہ سے ان سے محروم کر دیے گئے تھے۔

٭٭٭

 

               (۳)

ہجڑا ابراہیم پوار کی زندگی کا ایک دن

لوہے کے پرانے کھمبوں کے مقابلے کنکریٹ کے یہ بدنما کھمبے سارے شہر کو بدنما بناتے ہیں ۔ ان پر لگے کارپوریشن کے ٹیوب لائٹ زیادہ تر جلنے سے انکار کر دیتے ہیں جو ایک طرح سے اچھا ہے، کیونکہ اس سے آس پاس کی بد رنگ دنیا پر پردا پڑا رہتا ہے۔ میری یہ منطق ابراھیم پوار کو نہیں بھاتی جو اچھا خاصا مرد تھا مگر ہجڑے کا سوانگ بھر کر ٹرینوں اور بسوں میں داخل ہو کر یا زیبرا کراسنگ پر ڈرا دھمکا کر لوگوں سے بھیک کے پیسے وصولتا تھا۔

’’دن کے وقت تو سب کچھ دکھتا ہے۔‘‘ ابراھیم پوار نے سانپ نما چوٹی اپنے نقلی پستانوں کے بیچ گراتے ہوئے کہا۔ ’’پھر ان کھمبوں کو کوسنے سے فائدہ۔ یہ کتنا چھپاتے ہوں گے۔‘‘

’’یہ دن تو خود ہی بد صورت ہوتے ہیں ۔‘‘ میں نے ضد کی۔ ہم دونوں ایک بس اسٹاپ کے ریلنگ پر اپنی اپنی طرف کے پائپوں کو تھامے بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’دن کے وقت ہر چیز پر اتنی زیادہ روشنی پڑتی ہے کہ وہ چیز غائب ہو جاتی ہے، صرف روشنی رہ جاتی ہے۔ ہم صرف دن کی روشنی دیکھتے ہیں ۔‘‘

’’اگلی بار تم کہو گے ہم لوگ دن کے وقت ہوتے ہی نہیں ۔‘‘

’’ہم کسی بھی وقت کیا کچھ ہوتے ہیں ؟ اچھا بتاؤ کیا ہو تم؟‘‘

’’میں ایک پورا مرد ہوں ۔ میری دو ٹانگیں ہیں ، دو ہاتھ ہیں ، ایک سر ہے۔‘‘

’’یہ تو دو ٹانگیں ہیں ، ہاتھ ہیں ، سر ہیں ۔ تم ان میں کہاں ہو؟‘‘

’’عجیب آدمی ہو تم۔ یہ ہیں تب نا میں ہوں ۔’’

’’تمھارے پاس تو نقلی پستان بھی ہیں ۔ تو کیا ان کے سبب تم عورت بن گئے ہو۔ تمھاری ماہواری شروع ہوگئی ہے؟‘‘

سامنے سڑک پر ایک ڈھڈر بس آ کر رکی۔ اس کے کنڈکٹر نے جو دروازے پر لٹکا ہوا تھا سڑک کے کنارے اتر کر اپنی پوری طاقت لگا کر ناک صاف کی جو کسی بگل کی طرح بج اٹھی۔ کئی مسافر اترے، کئی چڑھے۔ کچھ لوگوں نے دلچسپی سے ابراھیم کو دیکھا۔

’’دیکھتا کیا ہے بے؟‘‘ابراھیم پوار نے ہاتھ بجا کر انھیں خبردار کیا۔ ’’اپنے گھر میں ماں بہن نہیں ہے کیا؟‘‘

’’جب عورت بنی ہو تو عورت کی آواز نکالا کرو۔‘‘ میں نے کہا۔

’’سالے لگتے تو سارے مہذب ہیں مگر ڈرا دو تو پتلون تک اتار دیتے ہیں ۔ ‘‘ ابراھیم پوار بولتا رہا ’’ اور آگے یوں ہے کہ ایک دن میں نے ایک سڑیل بڈھے کو دیکھا جو اپنی کار کے اندر بیٹھا للچائی ہوئی نظروں سے میری طرف تاک رہا تھا۔‘‘

’’شاید اسے تمھاری ضرورت تھی۔‘‘

’’مجھے پتہ ہے۔ طرح طرح کی دوا کی ایجاد نے بڈھوں تک کو خراب کر دیا ہے۔‘‘

ابراھیم پوار بینچ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی انگیا کی کناری پکڑ کر نقلی پستان کا رخ سامنے کی طرف کیا۔

’’اے ابراھیم۔‘‘ میں نے کہا۔

’’ہاں ، تو میں سن رہی ہوں نا؟‘‘

’’تم اپنی زندگی سے خوش ہو؟‘‘

’’کس مادر چود کو زندگی سے خوش ہونا ہے۔‘‘ ابراھیم پوار ہنسا۔ ’’مگر اتنے بڑے بدن کو قبر تک تو لے جانے کا ہے نا باپ۔ اتنی بیماریاں ، اسے کھلا پلا کر تندرست تو رکھنا ہے نا۔ اور یہ پیٹ،یہ سالی گندی پیٹ، بھائی جان اس پیٹ کا کیا کریں ؟‘‘

’’میرا مطلب ہے تم نے جو پیشہ اختیار کر رکھا ہے، اس سے ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’تم اتنے ہٹے کٹے ہو۔ تم بہت سارے کام کر سکتے تھے۔ اور تو اور تم شادی کر سکتے تھے، بچوں کے باپ بن سکتے تھے۔ وہ تمھارے کام آتے۔ تمھیں جینے کا ایک مقصد مل جاتا، جیسا کہ لاکھوں لوگوں کو مل جاتا ہے ورنہ جانے وہ کیا کرتے۔‘‘

’’عورتوں سے مجھے گھن آتی ہے۔ انھیں دیکھتے ہی مجھے ان کی ماہواری کا خیال آ جاتا ہے۔‘‘

’’جو ثابت کر تا ہے کہ تمھیں ایک عورت کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ میں ہنسا۔ اور جب وہ سڑک پر اتر کر کمر ہلاتے ہوئے، سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے ٹیکسیوں کی طرف بڑھ رہا تھا جو اس سے خوفزدہ جلدی جلدی اپنے شیشے اٹھا رہی تھیں ، میں نے چلا کر کہا۔ ’’ابراھیم پوار، مجھے خدا حافظ تو کہو۔‘‘

’’اللہ حافظ کہو!‘‘ ابراھیم پوار نے مڑے بغیر مجھ سے کھلے عام پیچھا چھڑاتے ہوئے کہا۔

یہ ابراھیم پوار کے ساتھ میری آخری ملاقات نہیں تھی۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے، مجھے اپنے شہر میں بلا وجہ چلنے کی بیماری ہے۔ ظاہر ہے اگر کوئی ابراھیم پوار نہ بھی ہوتا تو بھی میں اس کی تخلیق کر لیتا۔

٭٭٭

 

               (۴)

چار رنگی ہوئی رنڈیاں اور ایک دیو داس

ہمارے شہر میں رنڈیوں کے کئی محلے آباد ہیں ، جہاں پولس کے عملے کافی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ امن و امان قائم رکھتے ہیں اور اس کے عوض اپنے حصے کا ہفتہ دیانت داری کے ساتھ وصولتے ہیں ۔یہ ایسے ہی ایک محلے کی داستان ہے جس میں ایک دن میں چار رنگی ہوئی رنڈیوں کے نرغے میں آ گیا۔

’’کیوں یہاں بلا وجہ گھومتا پھرتا ہے بے؟‘‘ لانبے قد کی رنڈی نے، جس کے ابرو کٹاری کی طرح اوپر کو اٹھے ہوئے تھے اور جو ایک سگریٹ اس طرح پھونک رہی تھی جیسے وہ کوئی اسٹیم انجن ہو، تیوری پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔وہ ان چاروں میں ہوتے ہوئے بھی ان سے الگ تھلگ لگ رہی تھی جیسے وہ پورے معاملے سے بیزار ہو۔’’موفت کا مزا لیتا ہے سیانا۔‘‘

’’ریا، گھسیٹ لے سالے کو۔‘‘

’’لے، سموچا گھسیٹ لے۔‘‘ میں نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے کہا ۔ مگر مجھے جلد پتہ چل گیا کہ میں نے خوامخواہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالا ہے، کیوں کہ اب دو سخت زنانی ہاتھوں کی گرفت میرے کالر پر ہونے کے سبب مجھے اپنے پیروں پر کھڑے رہنے میں دقت آ رہی تھی۔ ’’میری اماں ، اپنی جیب میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ۔ کاہے اپنا وقت کھوٹا کرتی ہے۔‘‘

’’تو پھر تیری خالہ کا گھر ہے کہ ہر ہفتے آیا کرتا ہے؟‘‘ چوتھی رنڈی نے زمین پر تھوکتے ہوئے کہا،جس کے دانتوں کے برس (Braces)چمک اٹھے تھے۔’’چل اس سے ہست منتھن کرواتے ہیں ۔‘‘

’’کیوں چلے گا؟‘‘ لانبی رنڈی نے دوستانہ انداز اپناتے ہوئے کہا۔

’’اِدھر ادھر پھینکوں گا تو اماں ڈانٹے گی نہیں ؟‘‘ میں نے کالر ٹھیک کرتے ہوئے کہا، کیوں کہ میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ عین اس وقت ایک ادھیڑ عمر کا، کھچڑی داڑھی والا شخص دکھائی دیا جس نے ایک نفیس مفلر اپنی گردن سے لپیٹ رکھا تھا اور کافی رعونت کے ساتھ مٹھی میں سگریٹ تھامے، اس کے جلتے ہوئے سرے کو آسمان کے رخ کھڑا کر کے پھونک رہا تھا۔ وہ نشے میں دھت دکھائی دے رہا تھا۔

’’اے دیو داس!‘‘ تیسری رنڈی نے اسے پکارا۔ پوڈر سے لپا ہوا اس رنڈی کا چہرا خنزیر کی طرح نوکیلا تھا اور ٹائٹ جینز کے سبب اس کے کولھے کافی بڑے اور بھدے نظر آ رہے تھے۔ ’’تیری پھول جان تو گئی گاؤں ۔‘‘

’’سالا، یہاں آنے کا سو لفڑا۔‘‘ دیو داس غرایا۔ ’’اوپر سے جب دیکھو گاؤں ۔ کوئی مجھے بتائے گا کیا رکھا ہے گاؤں میں ؟‘‘ یکایک اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے مل گئیں ۔ ’’کیا رکھا ہے گاؤں میں ؟‘‘ اس نے مجھ سے دریافت کیا۔

’’کیا رکھا ہے گاؤں میں ؟‘‘ میں نے مڑ کر اس کا سوال چڑھی ہوئی بھووؤں والی رنڈی کے سامنے انڈیل دیا جو ایک نیا سگریٹ نکال کر پچھلے سگریٹ سے سلگا رہی تھی۔’’اسی سے پوچھو نا۔ سیانا کو سب معلوم ہے۔‘‘ اس نے دیوار پر تھوکتے ہوئے کہا جس کے اوپر مستطیل نما کھڑکی سے اندر دیسی شراب خانے کا شور سنائی دے رہا تھا۔

’’پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔‘‘ دیوداس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر دھوئیں کا چھلا بنایا جس میں لگ رہا تھا وہ کافی ماہر تھا کیونکہ چھلا نہ صرف دبیز تھا بلکہ دیر تک قائم رہا۔ ’’میں بتاتا ہوں ۔ ایک دن ایک گاؤں میں ایک بوڑھا مر گیا تو لوگوں نے سوچا جلاون کی لکڑیاں کہاں سے لائیں ۔‘‘

’’اچھا، اس کے گاؤں میں پہلے تو جینے کا کوئی سادھن ہی نہ تھا۔ اور اب چتا کی لکڑیوں کا کال بھی پڑ گیا۔‘‘

’’ٹوکو مت، کہانی خراب ہو جاتی ہے۔ یہ پھول جان کی عادت تم نے کہاں سے لگا لی؟ تو تین مسٹنڈے جنگل بھیجے گئے، جہاں تین چڑیلوں کی حکمرانی تھی۔بھوکی پیاسی چڑیلیں جو زندگی بھر مردوں کو ترستی رہی تھیں ۔ جانتی ہو، تینوں چڑیلوں نے مسٹنڈوں کا کیاکیا۔ ان کنواریوں نے انھیں سوکھے ٹھنٹھ میں بدل دیا۔ تب سے گاؤں میں لکڑی کا کال جاتا رہا۔ اب لوگ جتنا جی چاہیں مریں ۔ اب یہ نہ پوچھو کہ چڑیلوں نے کیسے انھیں سوکھی لکڑیوں میں بدل دیا۔‘‘

’’یہ تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے۔‘‘ میں نے مداخلت کی کیونکہ ان کے درمیان میری عدم موجودگی کا مجھے احساس ہونے لگا تھا۔ ’’ان تینوں ڈائنوں نے جوان عورتوں کا روپ دھار کر مسٹنڈوں کو نچوڑ لیا ہوگا،سفید یا سرخ ایک بھی قطرہ بدن میں نہیں چھوڑا ہوگا۔‘‘

’’بالکل ٹھیک۔‘‘ دیوداس نے پہلی بار میری طرف غور سے دیکھا۔ ’’اور یہ پھول جان گاؤں نہیں جاتی، اس جنگل کی چڑیل ہے سالی جو میرا خون چوستی رہتی ہے۔ دیکھو، دیکھو، میں دھیرے دھیرے لکڑی میں بدلتا جا رہا ہوں ۔‘‘

اور اس نے جھک کر اپنی پتلون کا پائنچہ اوپر گھٹنوں تک اٹھا دیا۔ واقعی اس کی ایک ٹانگ لکڑی کی تھی ۔ اور جب کہ رنڈیاں جھک جھک کر اس کی لکڑی کی ٹانگ کو چھو رہی تھیں ، کھلکھلا کر ہنس رہی تھیں ۔ میں نے سوچا ، کمال ہے، یہاں جاننے کے لیے اتنا کچھ ہے، اور میں تھا کہ بیکار شہر میں مارا مارا پھر رہا تھا۔

تو میں اس جگہ کھڑا اس نقلی ٹانگ والے دیو داس کا انتظار کرتا رہا جسے ایک رنڈی کھینچ کر ایک کوٹھی کے اندر لے گئی تھی۔ دیو داس نے باہر نکلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔

’’تم نے میری کہانی سنی؟‘‘ اس نے میری طرف تاکتے ہوئے کہا۔ شاید اندر اس نے تھوڑی سی اور چڑھا لی تھی۔

’’ہاں اور تمہاری لکڑی کی ٹانگ بھی دیکھی۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’مگر تم بہت جلد باہر آ گئے۔‘‘

’’سالی کسی میں پھول جان والی بات نہیں ۔‘‘

’’کچھ دیوداس پارو جیسا معاملہ ہے۔‘‘ اب ہم دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔

’’بالکل بھی نہیں ۔‘‘ اس نے جواب دیا۔’’ میں گھر کی کھونٹی سے بندھا ہوا کوئی بیل نہیں کہ ساری زندگی ایک ہی عورت کے ساتھ لپٹا رہوں ۔ میں ایک آزاد دنیا کا انسان ہوں اور ایک آزاد آدمی کی طرح ہر چھ ماہ پر اپنی رنڈی بدل لیا کرتا ہوں ۔ صرف اس بار تھوڑی سی غلطی ہو گئی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جب یہاں آئیں تو اپنے جذبات گھر پر رکھ کر آیا کریں ۔‘‘

’’تم کب سے یہاں آ رہے ہو؟‘‘

’’جب میں نے پہلی بار یہاں چھاپہ مارا۔‘‘

’’ تو تم پولس میں ہو۔‘‘

’’تھا، تمھیں اس چھاپے کے بارے میں تجسس نہیں ؟‘‘

’’لگتا ہے کہانی سنانا تمہیں پسند ہے۔‘‘

’’یہ کہانی نہیں ۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’میں ٹریننگ لے کر نیا نیا سب انسپکٹر کے عہدے پر تھانے آیا تھا جب میں نے اپنے سپرئیر(Superior) کے کہنے پر جو اچانک کسی وجہ سے مجھے بہت پسند کرنے لگا تھا، اس جگہ چھاپہ مارا۔ ان دنوں بنگلہ دیش کی کمسن لڑکیاں بڑی بھاری تعداد میں اسمگل کر کے یہاں لائی جا رہی تھیں ۔ اب بھی لائی جاتی ہیں ، اس سے بھی بڑی تعداد میں لائی جاتی ہیں ، مگر اب دھندا کافی منظم ہو چکا ہے ، اس میں تینوں P ، یعنی پولس، پمپ(pimp) اور پولیٹیشین (Politician)کی بھاگی داری بالکل صاف کر دی گئی ہے۔ تو اس چھاپے میں بہت سارے لوگ پکڑے گئے جن میں خود ہمارے تھانے کا ایک حوالدار بھی تھا جو چڈی پہنے ایک چارپائی کے نیچے چھپا ہوا تھا۔‘‘

’’چڈی کیوں ؟‘‘

’’وہ جلد بازی میں اتنا ہی پہن پایا تھا۔ آگے سنو، جب ہم پکڑے گئے ،لوگوں کے ساتھ تھانہ لوٹے تو بڑے بابو انگریزی پی کر اوپر کی کوٹھری میں خراٹے لے رہے تھے۔ شور و غل سن کر وہ اپنی توند پر شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے لکڑی کی سیڑھی سے نیچے اترے تو ان کی بانچھیں کھلی ہوئی تھیں ۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔’’مجھے پتہ تھا، مجھے پتہ تھا ، میرے بیٹے…‘‘ اس نے میرا چہرہ چومتے ہوئے کہا۔ ’’تم جیسے لڑکے اس دیس کے مستقبل ہو۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے سر…‘‘ میں نے حوالدار کو اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’مگر پہلے اپنے دیس کا ورتمان تو دیکھیے۔‘‘

اور بڑے بابو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

’’پھر حوالدار کا تم لوگوں نے کیا کیا؟‘‘

’’کرنا کیا تھا۔ سارے حوالدار اور کانسٹبل میرا ہاتھ جوڑنے لگے، بلکہ ان کی یونین کے لوگ بھی آ گئے۔ یہ یونین والے بڑے چوتیا قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، کام چوروں کے دلال ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی کام چور ہوتے ہیں سالے۔ زبان سے زیادہ تو ان کی آنکھیں بولتی ہیں ۔ان کے دباؤ میں آ کر خود افسروں نے مجھ سے رحم کی اپیل کی۔ مجبوراً فہرست سے اس کا نام کاٹنا پڑا۔ پھر میں نے پولس کی وہ نوکری چھوڑ دی۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’مجھے اس سے اچھی نوکری مل گئی تھی جس میں اوپر کا پیسہ زیادہ تھا، بدنامی کم تھی اور رات کو چین سے آدمی اپنی جورو کے ساتھ سو سکتا تھا۔‘‘

’’مگر تمہاری تو جورو ہے نہیں ۔‘‘

’’میں اس تجربے سے گذر چکا ہوں ۔‘‘

’’اور یہ لکڑی کی ٹانگ؟‘‘

’’اس کی بھی ایک کہانی ہے۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’لیکن کیا تمھیں ایک ہی دن میں سب کچھ چاہیے۔‘‘

اور وہ ٹرام کی پٹریوں کو پھلانگتا ہوا دوسری طرف چلا گیا۔

’’تم مجھے گڈ بائی نہیں کہو گے؟‘‘ میں نے پیچھے سے چلا کر کہا۔

’’گڈ بائی، گڈ بائی۔‘‘ اس نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا اور ایک آٹو رکشا کو روک کر اس کے اندر بیٹھ گیا۔

***

میں ایک خوش نصیب آدمی ہوں ۔ میرا شہر دن بدن پھیلتا جا رہا ہے، بلکہ اب تو کسی اونچی عمارت کی چھت پر کھڑے ہو کر اسے دریا سے گذر کر افق کو چھوتے دیکھا جا سکتاہے۔ اور ایسے ہی ایک دن میں نے ایک فقیر کو دیکھا جو اپنے لیے ایک نقلی داڑھی سینے میں مصروف تھا۔ اور میں نے ایک باز کو دیکھا جو ایک اونچی عمارت کے کارنس سے نیچے اتر رہا تھا۔ ہم تینوں کی آنکھیں ملیں اور مجھے لگا، ہم تینوں کے پاس اس شہر کے خفیہ دروازے کی کنجی ہے اور میں نے فقیر سے کہا۔

’’تم نقلی داڑھی کے بغیر بھی مسکین لگتے ہو۔‘‘

’’ایک فقیر چمٹا، کشکول اور داڑھی کے بغیر کیا ہے؟‘‘

’’کیا ہے؟‘‘

اس نے سر او پر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔

’’ایک شہر جس کی کوئی کہانی نہیں !‘‘

٭٭٭

ماخذ:

http://esbaatpublications.com/esbaatmag/2013/03/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید