FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

چشمِ بَد دُور

اور دوسرے افسانے

 

 

                راجندر سنگھ بیدی

 

 

 

 

 

چشمِ بَد دُور

 

 

یہ واقعہ بھی سنیچر ہی کے روز ہوا۔

تم کہو گے کہ تمھارے ساتھ سب واقعات سنیچر ہی کو کیوں ہوتے ہیں؟ تو بولو میں کیا جواب دوں ۔ یہی کہہ سکتا ہوں نا، کہ ہفتہ کے باقی دِنوں میں تو میں واقعات کو ہوتا ہوں…

بات سیدھی ہے، باقر بھائی۔ سنیچر کے دن میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے ایک دن پہلے کوئی چھٹّی نہیں ہوتی (ہاں، سال میں ایک دن ہوتی ہے۔ البتہ گڈ فرائی ڈے والے دن، لیکن چند لوگوں کی بدقسمتی سے بعض اوقات گڈ فرائی ڈے بھی اتوار کو آ پڑتا ہے اور ان کی تعطیل ماری جاتی ہے!) لیکن سنیچر کے روز کوئی ایسی قباحت نہیں ہوتی۔ ایسی سکّہ بند چھٹی آتی ہے کہ آدمی سب کی چھٹّی بُلا کے رکھ دیتا ہے۔ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ سنیچر سے ایک دن پہلے اُسے جمعہ کی نماز پڑھنی پڑی تھی۔ نماز تو خیر فرض ہے، اتوار کو بھی۔ لیکن تم سچ بتاؤ، باقر بھائی۔ اپنی سلمیٰ کی قسم کھاؤ۔ کیا اتوار کو تمھاری نمازیں قضا نہیں ہوتیں!

یہ سب باتیں تم سے میں اوپن اس لیے کہہ رہا ہوں، کہ تو دَہریا ہے، اگرچہ سید زادہ ہے۔ میں نے سب مذہبوں میں دیکھا ہے کہ جو لوگ بانیِ مذہب کی براہِ راست یا چَپ اولاد ہوتے ہیں، وہی مذہب اور اُس کے قوانین کو کم مانتے ہیں۔ ایک دن تم ہی کہہ رہے تھے نا؟— گئے تھے روزے بخشوانے، اُلٹی نماز گلے پڑی، کہا نہیں تھا تم نے؟ دیکھ— اب جھوٹ مت بول، مت کُفر تول…

سنیچر کی صبح کو البتہ کائنات کے نمبر دو (پیسے نہیں) ستارے، جسے تم زُحل اور ہم ہندو لوگ سنیچر کہتے ہیں، کو تھوڑا رشوت دینی پڑتی ہے، اور بس۔ اور وہ رشوت بھی آج کل کی رشوت کے مقابلے میں کیا ہے؟ اس سے سو گنا زیادہ تو دہلی کے ایکا ایکی کے سفر میں ریلوے کا کنڈکٹر گارڈ لے جاتا ہے۔ پولس کی تو بات ہی چھوڑو۔ تمھارا حادثہ ہوا، چوٹ بھی لگی، گاڑی بھی ٹوٹی اور جب تھانے میں رَپٹ دینے کے لیے گئے ، تو محرّر یا ڈیوٹی افسر کیا ’’سیاں دھیرے سے، سیّاں چُپکے سے‘‘ کے انداز میں دراز آپ کے سامنے کھول دیتا ہے۔

سنیچر کے دن رشوت صرف اتنی ہے کہ بس مندر جاؤ ،جس کے بغل میں ایک دُکان ہو گی، ہمیشہ ہو گی، جہاں سے تیل، ناریل، ہار وغیرہ مل جائیں گے۔ وہاں سے سرسوں کے تیل کی ایک پلی خریدو۔ سرسوں کا نہ ملے تو کھوپرے ہی کا چلے گا، جو پچیس پیسے میں مل جائے گا۔ تیل ڈالنے کے لیے لوہے کی کٹوری تیل والا خود ہی دے گا اور اُس کے لیے کوئی الگ دام نہیں لے گا، کیوں کہ مُورتی پہ چڑھاوا ہو جانے کے بعد وہ کٹوری اپنے آپ تیل والے کے پاس چلی آئے گی، مع تیل کے۔ اگر تیل والا اور پانڈے جی آپس میں ملے ہوئے ہیں اور پتّی رکھے بیٹھے ہیں، تو ہمیں اس سے کیا ؟ ہم تو انجلی کر چکے ہیں۔ تیل والا شروع ہی میں جو آپ کو چند بوندیں کم دے گا۔ اسے ہی کٹوری کا کرایہ سمجھو۔ مندر میں ایک دن میں ہزاروں لوگ آتے ہیں تو ایک ایک بوند کر کے کَے بودیں ہوئیں؟ تم ایک بوند کو کم سمجھتے ہو؟ اگر وہ کم ہوتی تو شیخ سعدی کبھی نہ کہتے۔ اے کہ تو یک قطرۂ آبی…

تو، لوہے کی کٹوری میں تیل، تیل میں چند دانے ماش کے اور ایک پیسا تانبے کا۔ پہلے تو یہی ہوتا تھا، لیکن آج کل تو تانبا رہا ہے نہ پیسا۔ پیسے کی جگہ پانچ دس پیسے نے لے لی ہے اور تانبے کی جگہ نِکل نے، جو کسی نہ کسی طرح سے تمھاری جیب سے نکل ہی آئے گا۔ یہ سب لے کے چلو، کیونکہ دیوتا لوگ بھی موقع شناس اور معاملہ فہم ہو گئے ہیں اور حالات کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا سیکھ گئے ہیں۔ وہ اُنھیں بھی گریہ پیشانی سے قبول کر لیں گے۔

بات یہ ہے، باقر—سنیچر کا تعلق ہر کالی چیز سے ہوتا ہے، جس کا دان واجب ہے۔ مثلاً لوہا، ماش، کالا کپڑا، چھتری، نمبر دو کا پیسا، تمھارا دل، فلم ، لیکن دان کے سلسلے میں تم لوہے کی کٹوری میں تیل تک ہی رہو۔ بہت وہ نہ اُڑو۔ ہاں جو کام پچیس پیسے میں ہو جائے، اُس کے لیے لاکھوں کا کیا سوچنا؟ تیل کی پلی میں اپنا منھ دیکھتے ہوئے مندر کو دہاؤ اور جاتے میں صرف تیل ہی میں دیکھو تمھیں اس میں اپنا چہرہ اپنے باپ کا دکھائی دے گا، جس میں کوئی شرم کی بات نہیں۔ ٹھاکر دوار پہنچو تو جوتا اُتار دو ۔ اُتار لو میں نے کب کہا ہے! آخر دہریے ہونا؟جوتا مندر سے باہر بیٹھی ہوئی عورت کی تحویل میں دے دو۔ یہ بہت ضروری ہے۔ تم عورت کو جانتے ہی ہونا۔ اگر تم جوتا اُس کے ہاتھ میں نہیں دو گے تو وہ خود لے لے گی، جوتے کے بعد مندر میں جاؤ اور باہر کا سب بھول جاؤ۔ مورتی کے سامنے سر نہوڑاؤ تو کسی عورت کا خیال دل میں نہ لاؤ، چاہے وہ اپنی ماں ہی کیوں نہ ہو۔ پھر کوئی جاپ، کسی اسمِ اعظم کا ورد کرو۔ اگر یاد نہیں تو نہ سہی۔ کوئی ایسی بات دل میں دہراؤ، جس میں کم سے کم وزن یا ترنم تو ہو۔ ایک بات تمھیں بتا دوں کہ سب دیوی دیوتا، پیر پیغمبر گد یعنی نثر کے بہت خلاف ہیں۔ اس لیے کچھ بھی یاد نہ آئے تو یہی کہتے جاؤ۔ لالہ موسیٰ چھ چھ پیسے، لالہ موسیٰ چھ چھ پیسے… یہ تمھیں ریل گاڑی کی آواز معلوم ہوتی ہے نا؟ ریل گاڑی ہمیشہ وہی کہتی ہے، جو تم کہتے ہو۔ ایسے ہی بھگوان بھی وہی کہتا ہے جو تم کہتے ہو۔ اُس کے کوش یا لغت میں ہر بات کا ایک ہی مطلب ہے—ہمہ اوست… لالہ موسیٰ نہیں پڑھ سکتے تو دیوی کی پرکرما ہی کرو—وہ سالا— رتن سنگھ کہتا ہے، پرکرما سے میں تھک جاتا ہوں۔ ابے— تھیئے، خارپشت کی اولاد، تو جو دن میں بیس چکّر اُس رانڈ مالا کے کاٹتا ہے تو کیا تین بھگوان کے گرد نہیں کاٹ سکتا؟

مندر سے باہر آؤ گے تو پہلا بَردان سنیچر کا یہ ملے گا کہ اوپر تمھارے اینگل سے تمھیں جوتی رکھنے والی کے دودھ دکھائی دیں گے، جن میں کوئی دودھ نہیں ہو گا۔ دوسرا یہ کہ چاہے تمھاری جیب میں پیسا بھی نہ ہو، مگر بے شمار بچّے تمھیں گھیر لیں گے— اور پکاریں گے، سیٹھ، او سیٹھ… بس دنیا میں جس کو عورت اور پیسا مل گئے، اُسے اور کیا چاہیے۔

معاف کرنا باقر بھیّا، میں بات ذرا لمبی اور گھُما پھرا کے کرتا ہوں۔پروموشن رک جانے سے میرا دماغ گھوم گیا نا۔ تمھارا جب اور جہاں جی چاہے، ٹوک دینا۔ جن تنتر میں آدمی کو یہی تو حق ہے کہ جھوٹ کو وہ چاہے نہ روکے، مگر سچ کو ضرور ٹوکے…

بات میں سنیچر کی کر رہا تھا۔ لیکن فی زمانہ ایک بات اور دوسری میں ربط رکھنا بڑا کٹھن ہو گیا ہے۔ ہمارے سب شاعر اور ادیب اِس کے گواہ ہیں، پر وہ بھی کیا کریں۔ مہنگائی بھی تو کتنی بڑھ گئی؟ قدروں میں اتھل پتھل ہو گیا۔ ربط تو گیا ہی تھا، ساتھ ضبط بھی گیا۔ معلوم ہوتا ہے سمے نے ریسرپن کا ٹیکہ لگا دیا اور دماغ کا وہ حصہ ہی ماؤف ہو گیا جو بتاتا ہے کہ پہلے آپ یہ بات کر رہے تھے اور اب یہ کر رہے ہیں۔ انگریزی محاورے میں گفتگو کا تاگہ کچھ یوں ٹوٹتا ہے کہ جڑتا ہی نہیں۔ جوڑ میں تو صاف گانٹھ دکھائی دیتی ہے۔ اب تو زندگی تصوّر کے سائبیریا میں، کسی لیبر کیمپ میں گزارو۔ پھر کھانا پینا۔ اب اس بناسپتی کو کھا کر کوئی کسی بدکار یا سرکار سے کیا لڑے گا، جو بازار میں ملتا ہی نہیں؟ چھوڑو سب——

یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے

کیسا رہا شعر؟ میں نے اسے ایک ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا پڑھا تھا! دراصل شعر اپنے آپ میں اچھا ہوتا ہے نہ بُرا۔ اُس کا برمحل استعمال ہی اصلی بات ہے۔ یہ گُر میں نے مولانا آزاد کے دیوان ’’غبار خاطر‘‘ سے سیکھا ہے، باقر بھیّا!

تم نے اُس دن کہا تھا نا کہ رہنے والے ہو تم کیرل کے، نام ہے تمھارا رامن، پھر اتنی اچھی اُردو تمھیں کیسے آتی ہے؟ بات یہ ہے کہ تعلیم میں نے عثمانیہ میں پائی۔ وہ تو میری ماں کے مر جانے اور آخر باپ کے ڈر جانے سے بند ہو گئی۔ لیکن پارٹی مین ڈیٹ پہ میں نے اُردو اور ایک حد تک فارسی میں خاصی بُدشد حاصل کر لی۔ کہیں پُور ا پڑھ جاتا، باقر میاں، تو میں بھی آج کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہوتا اور لڑکے لڑکیوں کا گھیراؤ کرتا۔ اب میں بالکل عوام میں سے ہو کر رہ گیا ہوں، جو مجھے آم کی جمع معلوم ہوتے ہیں۔ یوں مجھے عوامی انداز ہی کے شعر اچھے لگتے ہیں۔ غالب اور میر کی شاعری بالکل پسند نہیں۔ ہاں، کون دماغی کسرت کرے؟

ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق

اب تم ہی انصاف کرو کہ اگر ہم ہندستانی آدھی درجن اضافتوں کے متحمل ہو سکتے ہیں تو پھر سرکار کے خلاف ہمیں کیا وہ ہے؟ اور سنو—شیون میں شب کے ٹوٹی ہے زنجیر، میر صاحب بولو—

میں تو اسے عوامی بنانے اور لطف اُٹھانے کے سلسلے میں میر صاحب کی جگہ میم صاحب پڑھ لیتا ہوں۔ اب بتاؤ ، میر کے کلام میں معنی پیدا ہوئے یا نہیں؟ عثمانیہ میں جب ہم غالب کا شعر پڑھتے تھے   ؎

دہن اُس کا جو نہ معلوم ہوا

کھُل گئی ہیچمدانی میری

تو بہت حیران اور پریشان ہوتے تھے کہ دہن اُس کا نہ معلوم ہوا، پھر اُن کی ہیچمدانی کیوں کھل گئی؟

تم ہی بتاؤ۔ اچھی بھلی روز مرہ میں فارسی ہیچمدانی کو گھُسیڑنا کہاں کی شاعری ہے؟ ہاں، اگر تم دھوتی پہ کوٹ اور نکٹائی پہننا چاہتے ہو تو تمھاری مرضی۔ میں سنیچر کی بات سے ذرا پَرے ہٹ گیا ہوں، لیکن آ رہا ہوں، اس کی طرف— یہ چشمہ میرا دیکھ رہے ہو نا؟ اس میں ڈبل کنویکس کے شیشے لگے ہیں۔ عام آدمی ان میں سے دیکھے تو چیونٹی بھی اسے ہاتھی لگے گی ۔ شاید اسی لیے میں روسی کونسلیٹ میں کام کرتا ہوں۔ کیوں کہ روسیوں کو ہر چیز اپنے اصل سے سو گُنا بڑی معلوم ہوتی ہے۔ عوام، دنیا بھر کے عوام کے لیے اُنھوں نے بہت کچھ کیا ہے۔ لیکن عوام کی اتنی گردان کی ہے کہ وہ خواص ہو گئے ہیں۔ تم دیکھنا اگلے پچاس برس کے اندر جو انقلاب آئے گا، وہ خواص ہی کا ہو گا۔ جس کی نیو سب انقلابیوں کی ماں فرانس میں سارتر اور ساربون کے طلبہ نے رکھ بھی دی ہے…

میری یہ باتیں کونسلیٹ میں نہ کہنا اور نہ یہ بتانا کہ میں سنیچر ، راہو اور کیتو کی باتیں کرتا ہوں۔ نہیں میری چھٹّی ہو جائے گی، دھرم سے۔ روسیوں کا یہ ہے نا، کہ وہ کہتے نہیں، کرتے ہیں!

رُوسی محنتی بہت ہیں۔ اُن کے دفتر میں جو کام کرتا ہے، اُس کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم ہندستانیوں میں خون ہے ہی نہیں، ہے تو اُن کے گروپ کا نہیں، شاید اُن کو پتا چل گیا ہے کہ ہر ہندستانی فطرتاً کام چور واقع ہوا ہے۔ اُس کا بس چلے، بے کار میں پگار ملے تو کبھی کام نہ کرے۔ مغرب میں ہر آدمی کی تمنا ،کہ وہ زندگی کے آخری سانس تک مصروف رہے۔ لیکن ہندستانی یہی سوچتا رہتا ہے کہ کب وہ ریٹائر ہو گا اور کام کے جھنجھٹ سے چھوٹے گا۔ بات وہ پانچ سال بعد کی کر رہا ہے۔ لیکن ٹانگیں ابھی سے پسارنا شروع کر دیتا ہے۔ مجھ سے پوچھو تو میں بتاؤں۔ ہندستانی دراصل کام ملنے سے پہلے ہی ریٹائر ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہاں کی آب و ہوا نہیں، بلکہ اُس کے کرم و عمل کا وہ فلسفہ ہے، جس پہ ضرورت سے زیادہ ہی زور دینے سے وہ بے عمل ہو گیا۔

نہ تھیسس کر بلند اتنا کہ ——ہر تقریر سے پہلے، اینٹی تھیسس تمھیں آ لے … ایک بات ہے، باقر بھائی کہ انسان آخر انسان ہے۔ روس اور امریکہ تو کیا، چاہے وہ ہندستان ہی کا کیوں نہ ہو۔ اسٹیک اور شاشلیک کی جگہ اِڈلی دوسا، مونگ کی دال، مُرغ مسلّم یا کڑاہ پرشاد ہی کیوں نہ کھاتا ہو، مگر زندگی کی ہر اچھی چیز اُسے بھی اچھی لگتی ہے— سنیچر کو مندر سے لوٹنے کے بعد میں نے انڈین ایکسپریس میں پڑھا کہ لِٹل ہٹ ریستوران میں آج مریانا ناچ رہی ہے۔ مریانا ناچتے وقت اپنے بدن پر کہیں صرف انجیر کا پتہ پہنتی ہے۔ ہاں بھائی، لوگ اِسے بھی پہننا ہی کہتے ہیں، پھر سامنے اپنے دودھ پہ وہ مسمریزم کے دو نقطے سے پینٹ کر لیتی ہے۔ حالاں کہ ہماری عورتیں تو کپاس کا کھیت کا کھیت اپنے بدن پر اُگا لیتی ہیں۔

میرے ایک دوست، ارے، تم ہی تو تھے، باقر، جس نے بتایا تھا کہ مریانا کا رنگ گورا ہے نہ کالا۔ بس عشق والا ہے۔ اُس کا باپ لبنانی ہے اور ماں عراقی اور یہ سب کچھ مل کر لوگوں کو مراقی بنا دیتا ہے۔ وہ زیتون کے تیل کی مالش سے اپنے بدن کو اتنا لچک دار بنا لیتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے، اُوپر کے حصّے کا نیچے سے کوئی تعلق ہی نہیں، جیسے ہماری ٹرالی بسیں ہوتی ہیں نا ،جس میں ٹرالی پر ڈرائیور ہوتا ہے اور پیچھے سواریاں اور ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر اُلٹ جاتی ہیں۔ مریانا کو دیکھنے والے بھی تو ایسے ہی اُلٹتے، زخمی ہوتے، مر جاتے ہیں… میں نے تمھیں کہا تھا نا کہ عورت کے بارے میں ہر مرد کا ایک فیٹش — خبط ہوتا ہے، چنانچہ میرا خبط اُس کی کمر ہے۔ اور تم جانو باقر بھائی، دنیا کے سب فساد عورت کی کمر سے شروع ہوتے ہیں!

تو سنیچر کی ایک شام کو میں نے ولادی میر، اپنے فوری اُوپر کے افسر سے دو گھنٹے کی چھٹی مانگی، لیکن اُس نے اتنے رُباب سے ’’نیئت‘‘ (نہیں) کہا کہ مجھے اس کی نیّت پر شک پیدا ہو گیا۔ ایسی قطعیت صرف روسی ہی کے لہجے میں ہو سکتی ہے۔ اُس کے ساتھ والے میز پر ولادی میروارناف کافوری افسر نکولائی کرپاٹکن بیٹھا تھا۔ اب روسی دفتروں میں ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنے فوری افسر کے اوپر کے فوری افسر سے بات نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں نے اپنی درخواست کو ولادی میروارناف ہی کے سامنے دہرایا، بیوی کی بیماری کا بہانہ بنایا۔ لیکن وہ جواب میں بولا۔ نہیں، گھنٹہ بھی نہیں۔ مجھے زیادہ بُرا اس لیے نہیں لگا کہ میں جانتا تھا، اس کی ہندی میری روسی سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ اس لیے گھونٹ کا خون پی کر رہ گیا۔ یعنی کہ چُپ ہو گیا۔ چُپ تو ہم پہلے ہی رہتے تھے، مگر اب اور بھی چُپ ہو گئے۔یہ اور بھی چُپ، کیا ہوتا ہے۔ یہ تم نہ جان سکو گے میری جان، کیونکہ تم دفتر کے بیابان میں کبھی کھوئے ہی نہیں… عام طور پر دفتر سے چھ بجے چھٹی ہو جاتی ہے۔ ابھی پورے دس منٹ باقی تھے کہ میں نے انوائسیس سمیٹنا شروع کر دیں اور ولادی میر کی طرف اس لیے نہیں دیکھا کہ وہ ضرور میری طرف دیکھ رہا ہو گا۔ میرے دماغ میں مریانا کے بارے میں اپنے آپ ایک نظم پل رہی تھی۔ مریانا، او مریانا، تیرے لیے آج۔ مر جانا… کیسی ہے؟ ارے نہیں باقر بھیّا۔ کہاں پشکن اور کہاں میں؟ لیکن یہ تم نے ٹھیک کہا تھا کہ میری نظم پشکن کی 1831 میں کہی گئی نظم،جب تو میری بانہوں میں ہوتی ہے، سے ملتی ہوئی ضرور معلوم دیتی ہے۔ انیسویں صدی کے شروع اور اس کے آخر تک اُردو کا ادیب تو یہی لکھا کرتا تھا۔ جب تو میری بانہوں میں ہوتا ہے! کچھ بھی ہو، مگر میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری یہ نظم ایک دم ’ تباہ زاد‘ ہے، اس میں کوئی سرقہ نہیں۔ شعر میں اگر تم مجھے جوشؔ سے ملاؤ تو مجھے بُرا نہیں لگے گا، البتہ کیوں کہ میں بھی آخر اُنہی کے وزن کا تخلص فرماتا ہوں۔ ہوش! جیسے تیسے بھی میں نے وہ دس منٹ گزارے ۔پھر روسی فراخ دل بھی ہوتا ہے۔ کیا بتاؤں، باقر، دس منٹ کے بعد مجال ہے جو ولادی میر نے ایک نظر بھی میری طرف پھینکی ہو۔ یا نکولائی کرپاٹکن نے ولادی میروار ناف کی طرف!

کچھ دیر میں مَیں بس پکڑ کر لِٹل ہَٹ میں پہنچ گیا۔

لِٹل ہَٹ۔ دراصل ایک بڑے ہوٹل کا حصّہ ہے۔ اس کا نام ہی لِٹل ہے، ورنہ اچھی خاصی جگہ ہے اُس میں۔ چیزوں کی وسعت کو آخر پیمانے ہی سے تو نہیں ناپا جاتا۔ ہمارے سامنے اور بھی بہت کچھ ہے۔ دیکھو نا اتنی بڑی کائنات اور پھر اس میں ماں کی گود۔ میکرو کازم میں مائیکروکازم بمبئی شہر کی رونق بڑی ہے، یا سلمیٰ کی بانہوں کا سکوت؟ نصیبن کا برقع بڑا ہے یا مریانا کا انجیر کا پتّہ؟ اگر مالکوں نے دیواروں کو خاص رنگ کا اثر دے رکھا تھا، یا اُن پہ ایسے ہی تجریدی چہرے ٹانک رکھے تھے، تو محض لوگوں کو بھرمانے کے لیے۔ بعض وقت بدصورتی ارادے سے بھی پیدا کرنی چاہیے تاکہ دوسروں کو اپنا آپ خوبصورت لگے۔ آج کا آرٹ یہی سب تو کرتا ہے۔

لِٹل ہَٹ ، ہر عمر، ہر نوع کے لوگوں سے پٹا پڑا تھا۔ اس کی وجہ صرف مریانا کا ناچ، اُس کے بدن کا لوچ اور خوبصورتی ہی نہیں تھی، بلکہ وہ خلا بھی جسے پاٹنے کی خواہش شادی کے تیسرے چوتھے سال ہی مرد اور عورت میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یا پھر زندگی کی سادہ سی حقیقت، کہ کچھ گھوڑے دوڑتے ہی اُس وقت ہیں، جب ساتھ والے دوڑیں۔

کونے میں مجھے ایک سیٹ نظر آئی، جس کے ایک طرف کوئی دُبلا پتلا منحنی سا آدمی بیٹھا تھا۔ وہ شکل سے لائبریرین معلوم ہوتا تھا… کمال کی بات ہے نا، باقر بھائی، تعارف پر وہ سچ مچ ہی یونائٹیڈاسٹیٹس انفارمیشن سروس کا اسسٹنٹ لائبریرین نکل آیا۔ تم کہو گے کہ لائبریرین کی کوئی خاص شکل ہوتی ہے؟ تو میں کہوں گا، ہاں۔ اُس کے چہرے ہی پہ کارڈ انڈکس ہوتا ہے۔ جیسے ہر شاعر کی ناک میں تھوڑی رطوبت اور منھ میں زیادہ لعاب ہوتا ہے۔ پھر لائبریرین کی آنکھیں یوں گھومتی ہیں، جیسے صفحے اُلٹ رہی ہوں۔ مریانا کی بات چھوڑو۔ اُس کی کمر تو صفیں اُلٹتی ہے…

اس اندازے میں کبھی کبھی غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ مثلاً ہر امریکن شروع میں بے حد ذہین نظر آتا ہے۔ مگر ’’جیسے ہی دُم اٹھاؤ، مادہ‘‘ والی بات۔ اُسے ڈی سی آٹھ ہوائی جہاز کے سب کل پُرزے معلوم ہوں گے، لیکن اپنے غسل خانے کی ٹونٹی، جس کی چوڑیاں گھس گئی ہیں، اُسے کیسے بند کرنا ہے وہ نہیں جان سکتا۔

یہ تم نے دیکھا ہی ہے نا کہ اکثر ملک سے آدمی پہچانا جاتا ہے اور آدمی سے ملک۔ یہ صرف ہندستان ہے۔ کشمیر سے لے کر راس کماری تک پھیلا ہوا ہندستان۔ ہر رنگ، ہر نقش کا مالک، جس کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ مگر جیسے ہی وہ منھ کھولتا ہے تو آدمی سر پیٹ لیتا ہے۔ دَھت! یہ تو وہی ہے!

اس اسسٹینٹ لائبریرین نے اپنی انگریزی میں بہت امریکی غنغنہ پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن ہندی کہیں نہ کہیں سے اپنا منھ باہر نکال ہی لیتی ہے، بلکہ اس عمل میں ایک عجیب دوغلی سی چیز پیدا ہو گئی۔ ہندستانی غنغنہ!

اُس نے جو بش شرٹ پہن رکھی تھی اس پہ لیکس، پلیکس کے فحش جملے چھپے ہوئے تھے۔ دھندلی سی پورنو تصویروں کے اوپر در ،پھر ان سب کو ایک بجلی رنگ کی وسیع و عریض نکٹائی نے ایک حد تک چھپا رکھا تھا۔ نیچے بیل بوٹم کے اُس نے جیسے ارادے سے پھونسڑے نکال رکھے تھے۔ چہرے پہ دونوں طرف پشکن کی طرح کی بڑی بڑی قلموں کے گپھے… گویا وہ عام آدمی اور ہپّی کے بیچ پیوند معلوم ہوتا تھا۔ وہ … کوئی کتاب ہونے کی بجائے اُس کا سر ورق تھا!

یہ تم تھے؟ نہیں نہیں، تمھاری ہی طرح کا کوئی اور تھا، جس نے شادی کرنے کے لیے امریکہ سے ایک لڑکی ہپّی فیراگولو (جس کے آبا و اجداد اٹلی سے جا کر امریکہ میں آباد ہو گئے تھے) آئی تھی۔ خیر فیرا کو کرو فائر اور گولو کو مارو گولی، لیکن ایک بات اس نے آج کے ہندستانی نوجوانوں کے بارے میں بڑے پتے کی کہی تھی ۔ یہ … امریکنوں سے بھی کچھ زیادہ ہی امریکن ہیں۔ کیا مزے کی عورت تھی، باقر، ایسی عورت جو مرد سے ملے بِنا ہی اس سے کئی بار مل چکنے کا عالم پیدا کر لیتی تھی۔ آج کی دنیا میں سب سچ ہے، میرے بھائی۔ کل پڑھا نہیں کہ مرغ کو تکلیف دیے بغیر ہی لوگ مرغی سے انڈے پیدا کرنے لگے ہیں… میں پھر بہک گیا اور تم بھی مجھے نہیں ٹوکتے ۔تم بھی ذہنی طور پر وہ ہو … وہ … اب ہنستے کیوں ہو؟ پکڑے گئے نا؟ تم بھی اُس لڑکی کی طرح سے ہو، جس کے غسل خانے کا دروازہ غلطی سے کھلا رہ جاتا ہے، جی، غلطی سے!

وہ ہپّی فیرا گولو … سیدھے مرغی سے انڈے… ہم مرد کی جمع، مردودوں کا کیا ہو گا، باقر بھیّا؟

ارے ہاں، میں بھول ہی گیا۔ یہ عورتوں کا سال ہے، اقوام متحدہ کے مطابق۔ عورتوں کو تم جانتے ہی ہو۔ کیسے وہ اپنی کمزوری کا افسانہ مشہور کر دیتی ہیں اور کمزوری کو بھول ہی جاتی ہیں۔ سال ختم ہونے دو ، اگر عورت سالی نے اسے صدی پہ نہ پھیلا دیا تو مجھے باپ کا نہ کہنا۔

میں مرد شوونسٹ نہیں۔ اگر صدیوں سے مرد نے اسے روندا ہے تو اب وہ اُسے روندے، مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ تو چپکے سے سامنے پڑی رہتی ہے، جیسے روندے جانے کی منتظر… خیر وہ اُسے روندے یا یہ اُسے روندے، بات ایک ہی ہے۔ عوام اور خواص کے جدل کی طرح … مگر، غضب خدا کا عورت جو حقّہ بھی نہیں پیتی، حقوق مانگتی ہے!

ضروری بات تو بیچ ہی میں رہ گئی۔ پہلے سنیچر کاندھے پر چڑھ بیٹھا تھا، اب حیف کہ عورت سر پر سوار ہو گئی ہے… ضروری بات یہ ہے کہ وہ اپنا لائبریرین دوست بھی چشمہ لگاتا تھا۔ مجھ میں اور اس میں فرق یہ تھا کہ اس کے چشمے میں ڈبل کان کیو کے شیشے لگے تھے، جیسے میرے میں ڈبل کنویکس کے۔ عام، صحت مند نظر والا اگر ڈبل کان کیو میں سے دیکھے باقر بھائی، تو اسے ہاتھی بھی چیونٹی دکھائی دے گا۔ جیسے میرے میں سے چیونٹی بھی ہاتھی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکنوں کو دنیا کے سب لوگ کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔

میں ویت نام اور مائی لائی کی بات نہیں کرتا، کیوں کہ جدیدیے مجھ پہ دزدیدہ ترقی پسند ہونے کا الزام لگا دیں گے۔ لیکن باقی دنیا ہی کا دیکھو۔ لیبیا اور اسرائیل میں انھوں نے کیا غدر مچایا ہے۔ ملکوں کو کیسے کیسے ہتھیار دے کر لڑوایا اور خود نفع کمایا ہے۔ شاید اس لیے کہ ان ملکوں کے اپنے ہتھیار کُند یا متروک ہو چکے ہیں۔ کوریا میں 80 فیصد جو لیکوریا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پھر آیندے یا چلی کا حشر دیکھا ہی ہے نا تم نے؟ ارے وہ شیخ چلی دوسر ا تھا…

جیسے میں اپنے ڈبل کنویکس کی وجہ سے روسی کونسلیٹ میں ہوں، وہ ڈبل کان کیو کی وجہ سے امریکی انفارمیشن سروس میں تھا۔ لیکن قدرت بھی ہم ہندستانیوں سے عجیب عجیب طرح سے بدلے لیتی ہے۔ اُس نے اچھی بھلی اسکاچ چھوڑ کر کنیڈا کی سی گرام کا آرڈر دے دیا، صرف اس لیے کہ وہ امریکا کا پڑوسی ہے۔ میں روسی، ڈرنے والا تھوڑے ہی تھا!میں نے بھی وودکا کی حکم کے طریقے سے فرمایش کی، جیسے روسی کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ وودکا روس کی نہیں، یہیں آس پاس کہیں کیرالہ میں کشید کی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ہم دونوں میں کشیدگی پیدا ہونے لگی۔ ابھی ہمارے احساسات نے کوئی واضح شکل اختیار ہی نہیں کی تھی کہ بیچ میدان کے کود کے آ گئی — مریانا!

گوانی آرکسٹرا میں سے جھانجھے والے نے زور زور سے جھانجھے بجائے۔ پردے کے پیچھے سے بڑے کھرج والی پال رابسنی آواز آئی— مر … یا… نے…!

مجھے نہیں معلوم تھا کہ مریانا کو مریانے بھی کہہ سکتے ہیں، یا کہتے ہیں۔ میرے اندر جو نظم پیدا ہو رہی تھی، ایکا ایکی بدنظمی کا شکار ہو گئی۔ سب قافیے غلط ہو گئے میرے۔ ہوش اُڑ گئے!

پھر گوانی آرکسٹرا— اور مریانا کا ناچ۔

چھک چھک ۔ چھکا چھک۔

دھک دھک، دھکا دھک… ہے اے اے اے اے ے ے ے ے !— اور کمر!

یہ سب نیگرواسپری چوال تھا اور نہ ہپّی ہریسنی میوزک۔ کوئی دوغلی چیز تھی، جو اب ہندستانی کے بجائے افریقی طنطنہ ہو گئی تھی۔ اصلی چھٹی تو ہوئی، جب مریانے نے کمر، ناف سے آواز نکال کر گانا شروع کیا—تم میرے لیے کیا لائے ہو؟

آرگل کی جُرابیں لائے ہو—اچھا کیا، اچھا کیا۔

تم میرے لیے کیا لائے ہو؟

موزنبیقی موتیوں کی مالا لائے ہو—اچھا کیا، اچھا کیا

موں مارت کا عطر لائے ہو— اچھا کیا ، اچھا کیا

میں تو تمھارے لیے کچھ نہیں لائی، جان!… میرے پاس تو ایک دل ہے، جو صرف تمھارے لیے ہی دھڑکتا ہے… اور پھر —

اچھا کیا، اچھا کیا…

ارے باقر میاں ، مرد بڑا اُلّو کا پٹھّا ہے … وہ جانتا بھی ہے کہ ہال میں اس ایسے سینکڑوں دوسرے—تیے بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ یہی سمجھتا ہے اور سمجھنا چاہتا ہے کہ وہ جو بھی کہہ رہی ہے، مجھی سے کہہ رہی ہے۔ لِٹل ہَٹ، میں لڑکیاں بھی تھیں، مگر ان کا مت پوچھو۔وہ یا تو مریانا کی نظروں سے مردوں کو دیکھ رہی ہوں گی اور یا پھر سیدھے اُس کے’لباس‘ کو۔حقیقت باقر بھائی ،جلیبی کی طرح سے سیدھی ہے۔ مرد سب سے زیادہ کیا پسند کرتا ہے؟—عورت! عورت سب سے زیادہ کیا پسند کرتی ہے— شاپنگ!

اس سلسلے میں تم تیار ہو، باقر، چونکہ یہ عورتوں کا سال ہے۔ ہمارا تمھارا سب کچھ بک جانے والا ہے۔ ڈیمانڈ اتنا بڑھ جائے گا کہ سپلائی بند ہو جائے گی!

ایک بات اور بھی ہے۔ آزاد ہو کر شاید یہ عورتیں ہماری عزت کرنے لگیں۔ ہم عورتوں کی جتنی عزت کرتے ہیں، یہ خو د عورتیں بھی نہیں جانتیں… تم ہی بتاؤ ہم نے کبھی کسی کو باپ بھائی کی گالی دی ہے؟

کیا بتاؤں ، دوست؟ مریانا کے ناچ گانے سے ’لِٹل ہٹ‘ کے رجنی گندھا اور ڈاھلیا تو ایک طرف، کیکٹس بھی مہکنے لگے تھے… دیکھو، اب تم شرارت مت کرو۔ خدا گواہ ہے کہ کیکٹس کے سلسلے میں میرا اشارہ قطعاً سردار جی لوگوں کی طرف نہیں ہے۔ ایسا کرو گے تو مجھے پٹوا دو گے، مروا دو گے… اگر میں ان کی بات کرتا تو کہتا کیکٹس بھی لہکنے لگے تھے، چہکنے لگے تھے۔ بہت وہ کرتا تو کہتا—بہکنے لگے تھے۔ مہکنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟

کچھ دیر بعد مریانا اپنا لباس—انجیر کا پتّا بدلنے کے لیے اندر چلی گئی تھی اور میں ہوش میں آنے کے بجائے جوش میں آچکا تھا۔ قافیے میرے سامنے یوں کھل گئے جیسے میرا ذہن نور اللغات ہے۔ لیکن بدقسمتی سے میرا اُس اسسٹنٹ بلکہ اسسٹنٹ لائبریرین سے جھگڑا ہو گیا۔ بات یوں ہوئی کہ میں پہاڑی کی دھُن پر دھیرے دھیرے گانے لگا۔ پھر دماغ ہی تو ہے نا۔ میرا خیال اُس عظیم مغنّی سہگل کی طرف چلا گیا اور میں نے اُس کارڈانڈکس سے پوچھا— آپ کو یاد ہے، سہگل کب مرا تھا؟ جانتے ہو کیا جواب دیا اُس نے؟ بولا—ابھی ابھی، میرے سامنے ہی تو مرا ہے… میری سینس آف ہیومر کو تو تم جانتے ہی ہو، کتنی تیز ہے۔ روسیوں کی طرح سے۔ میں اُسی وقت سمجھ گیا!

یہ امریکی سالے—واٹرگیٹ والے۔ اپنا اسلحہ دوسرے ملکوں میں بھیج کر انھیں لڑواتے ہیں۔ خود منافع کھاتے ہیں۔ ہم روسی بھی بھیجتے ہیں، لیکن اُن کے ہتھیاروں کو بے کار کرنے، دنیا میں امن لانے کے لیے۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں اُن کے ہتھیار اُنہی پہ استعمال کروں۔ مجھے امریکی مارک ٹوئین یاد آ گیا۔ میں نے خالص روسی دبدبے سے اپنے مزاح کی حِس کو تھوڑا ڈل کر کے اُس سے پوچھا۔ آپ جانتے ہیں، ایک لائبریرین اور گدھے میں کیا فرق ہے؟ ہو سکتا تھا، اس آناً فاناً کے سوال سے سیدھے ہی لڑائی شروع ہو جاتی، لیکن وہ میرے تن و توش، تخلص ہوش، روسی جوش کو دیکھ کر تھوڑا ڈر گیا اور ل…لکنت سے بولا۔ مجھے نہیں معلوم!

میں نے کہا، مجھے بھی نہیں معلوم…

اور اپنے اس لطیفے پہ میں خود ہی اتنا ہنسا کہ آس پاس کے لوگ بھی ہنسنے لگے۔ وہ مقولہ ٹھیک ہی تو ہے کہ ہنسو تو دنیا تمھارے ساتھ ہنسے گی، روؤ تو —پھر بھی وہ ہنسے گی!

چونکہ اس کو پتا چل چکا تھا کہ میں روسی کونسلیٹ میں کام کرتا ہوں، اس لیے اس نے سیدھے ہی روسیوں کی بُرائی شروع کر دی۔ مجھے بڑا تاؤ آیا، باقر بھائی… کوئی تمھاری تائی کو بھی گالی دے، یہ جانتے ہوئے کہ تم میرے جگری دوست ہو، تو بتاؤ وہ گالی تمھیں لگے گی یا مجھے!

میں نے چشمہ اُتار کر میز پر پٹخ دیا اور ’’سی آئی اے‘‘ کو گالی دی۔

وہ کے جی بی کو بیچ میں لے آیا اور میرے چشمے کا جواب اپنے چشمے سے دیا۔

میں نے خالص پرولتاری انداز سے جوتا اُتار کر میز پر مارا، جیسے خرشچوف نے اقوم متحدہ کے جلسے میں مارا تھا۔ اس سے دونوں چشمے میز پر یوں اُچھلے جیسے وہ مُرغ ہیں اور آپس میں لڑ رہے ہیں…

میں نے روزن برگ کے مار دیے جانے کی بات کی۔ میرا بس چلتا تو فیض کی نظم اُس کے منھ پہ دے مارتا… وہ سالا سکھاروف اور سولہٹزنسن پہ چلا آیا اور اُس کی گلاگ آر کی پیلیسگو سے حوالے دینے لگا… اُس موٹے تازے کتّے کی بات کرنے لگا، جو فرانس میں اس لیے چلا آیا تھا کہ اُس کے اپنے ملک میں روس میں کھانے کو تو بہت دیتے ہیں، مگر بھونکنے نہیں دیتے—

میں نے اسٹووروں کی خلیج کا قصّہ چھیڑ دیا (سنا ہے خاص نام کا ترجمہ نہیں کرتے) اُس نے چیکوسلواکیہ سے زنا بالجبر کی بات کی (تو کیا عام کا ترجمہ کرتے ہیں؟) میں نے مافیا، کارٹل ، پورنو، بِلو فلموں — سب کو بیچ میں گھسیٹ لیا اور خوب ہی اس کی بے عزّتی کی۔

اب ہماری آوازیں اونچی ہو کر اِردگرد کی سب آوازیں کو بونا کیے دے رہی تھیں۔ ارے ارے ۔ اے یو ، لِسن، … سب بے کار ہو گیا تھا… یہ کیا مچھلی منڈی ہے؟… ایسے میں یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کہ برابر کی میز پہ بیٹھی ہوئی لڑکی اپنی جملہ محبت کو ہونٹوں تک لائے اور پوچھ سکے۔ کب ملو گے، جان، کہاں ملو گے؟

معلوم ہو رہا تھا کہ ہماری وجہ سے وہ کبھی، کہیں بھی نہیں مل سکتے۔

’’تم بات کرتے ہو یینکی‘‘ میں نے چلاّ کر کہا، جس کی تہذیب ہی جمعہ جمعہ چارسو سال پُرانی ہے۔ جو کبھی مہیش یوگی کا سہارا لیتا ہے اور کبھی پر بھو پاد کی دُم سونگھتا ہے… ہرے رام، ہرے کرشن کے بچّے؟‘‘

’’تو کیومِس کے نطفے…‘‘

اور ہم دونوں بیک وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور گرج گرج کر باتیں کرنے لگے ’’تم ہندستانی جاہل ہوتے ہو، بدتمیز ہوتے ہو‘‘ اُس نے کہا۔ دروازہ کھٹکھٹائے بغیر تو کمرے میں چلے آتے ہو۔‘‘

میں نے اسی پائیدار آواز میں کہا: ’’ہندستانی ہو گا تیرا باپ۔ تو جب اس دنیا میں آیا، کوئی دروازہ کھٹکھٹایا۔ اب تک ہم دونوں مکمل طور پر روسی اور امریکن ہو چکے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہیں ہاٹ لائن پر سے آواز آ رہی ہے۔ رو کو، روکو۔ لیکن ہم دونوں اس بات کے لیے تیار تھے کہ بٹن دبائیں اور دونوں ملکوں کے آئی سی بی ایم چھوڑ کر نیویارک اور ماسکو کو تو تباہ کر دیں۔ اسلام آباد اور دہلی کا پھر دیکھا جائے گا…

پہلے میز اُلٹی۔ پھر کرسیاں گریں۔ اُن کے بیچ میں سے ہوتا ہوا لِٹل ہٹ کا منیجر ہم تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ عورتوں کے سال والی ایک عورت بے ہوش ہو گئی، سالی۔ کچھ لوگ موقع کا فائدہ اُٹھا کر باہر بھاگ گئے اور بِل ادا کرنے کے عذاب سے چھوٹے۔ یہی نہیں کچھ لوگ دہشت کے عالم میں اندر گھس آئے۔ مریانا ونگ میں آدھی اندر، آدھی باہر دکھائی دے رہی تھی۔ چشموں کی غیر موجودگی میں صرف اتنا ہی دکھائی دے رہا تھا کہ وہ کالا گاؤن پہنے ہوئے ہے۔ اس سالے اسسٹنٹ نے مجھے ٹائی سے پکڑ رکھا تھا، مگر اس کے ہاتھ صاف کانپتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے اُس کی بش شرٹ کے کالر کو اتنے زور سے مروڑا کہ اُس کا گلا گھُٹ گیا۔ اُس کی آنکھیں باہر چلی آئی تھیں۔ باہر تو زبان بھی چلی آئی تھی، مگر تھوڑی سی…

اب جس زبان سے وہ گالی دے رہا تھا، وہ کسی ملک کی نہ تھی۔ یہ وہی آواز تھی، جو زبان کی ایجاد سے صدیوں پہلے انسان غاروں میں بولا کرتا تھا… یا ہو سکتا ہے وہ کوئی فری میسنری ہو، کوئی اسپرانٹو۔ نہیں، اب مجھے یاد آتا ہے وہ۔ کُو کُو کُو کُو کلاں تھی!

پھر ہندستانی فلم کی طرح سے جانے کہاں سے گلدان اس کے ہاتھ میں آ گیا اور اُس نے میرے سر پہ دے مارا۔ اگر ہمارے فلم ساز امریکی فلموں کی نقل نہ کرتے تو وہ کبھی ایسا نہ کرتا۔ میں چکرا گیا۔ جبھی ایک چیخ سی آئی۔ ’’گیٹ آؤٹ، ول یُو وو وو … ‘‘ اور ہال کے ایک طرف کی بتیّاں بجھ گئیں۔ اسپاٹ لائٹ ہمیں پر تھی، جیسے کہ تھیٹر میں مرکزی کرداروں پر ہوتی ہے۔

’’دیکھا نہیں‘‘ اُس نے پاس آتے، پورا بازو باہر کے دروازے کی طرف پھیلاتے ہوئے کہا ’’رائٹز آف ایڈمیشن ریزروڈ‘‘ پاس کے کسی ستم ظریف نے اُس تحریر کی طرف دیکھا جو دروازے کے باہر لکھی ہوئی تھی اور اس طرف سے اُلٹی پڑھی جا رہی تھی۔ اُسے پہلے حرف ڈی دکھائی دیا، ریزروڈکا اور وہ بولا— ڈی فار ڈیول، ای فار ایول … لیکن منیجر کڑکا’’آپ باہر نکلتے ہیں یا میں پولس کو بلواؤں؟‘‘

اب سچّی بات ہے، باقر بھائی ، روسی ہونے کے باوجود میں تھوڑا ڈر گیا۔ ہاں اس جانبداری سے مجھے لینن پرائز تو کیا نہرو ایوارڈ بھی نہیں ملنے والا تھا۔ پولس کی دھمکی دیتے ہی منیجر بَیروں کی مدد سے خود ہی پولس ہو گیا۔ ہم نے میز کے نیچے ہاتھ مار کر چشمے ٹٹولے، اُٹھائے اور لڑتے بھڑتے باہر کی طرف لُڑھکے۔ وہ امریکی مجھ سے پہلے نکل گیا تھا، ورنہ میں تو اُس کے ساتویں بیڑے کا بحیرۂ عرب، بحر الہند تک پیچھا کرتا۔ حالاں کہ ہال کی بجھی ہوئی بتّیوں کے بحیرۂ اسود سے یہ سب کتنا بڑا فاصلہ تھا!

لِٹل ہَٹ کے باہر آیا تو کوئی دھندلی سی سفید چیز جیسے اُڑتی ہوئی دکھائی دی۔ غالباً وہ اُس امریکی پلّے کی گاڑی ہو گی۔ میں نے صرف آواز سنی۔

’’جلدی، شوفر، جلدی…‘‘

اپنے سسٹم سے بدلہ نہ نکال سکنے کی وجہ سے، میں ابھی تک ہانپ رہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا، ایسے ہی مجھ سے کوئی تکرار شروع کر دے تو میں اُسے بتاؤں، جیسے اندر کی جارحیّت کو خارج کرنے کے لیے لوگ ریت کی بوریاں ٹانگ کر اُس پہ مُکّے مارتے ہیں۔ خواب میں بھیڑیے کے منھ میں ہاتھ ڈال کر اُسے پھاڑ کر ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی میں… مگر کوئی ماں کا لال سامنے نہ آیا اور میں اندازے سے بس اسٹینڈ کی طرف مُڑا۔ چشمہ لگایا تو سامنے ایک چابی لگی کھلونا بس، مجھے اسٹینڈ کی طرف آتی ہوئی دکھائی دی… ارے!؟

باقر بھائی… ہمارے چشمے بدل گئے تھے۔ اس جھگڑے فضیحتے میں وہ میرا چشمہ لے گیا تھا اور اس کا میرے ہاتھ میں آ گیا۔ فریم قریب قریب ایک ہی سے تھے، یا ہمیں ایسے لگ رہے تھے۔

اُس وقت گیارہ بجے تھے رات کے، جو میں نے یونیورسٹی کے گھڑیال میں کانوں سے دیکھے اور آنکھوں سے سُنے…

میرا پہلا تجربہ بس کا تھا۔ اُس چشمے کے ساتھ۔

کچھ بھی نہ دکھائی دینے سے کچھ دکھائی دیناتو اچھا ہی تھا۔ چنانچہ میں نے وہ چشمہ پہنے رکھا، لیکن جب میں بس میں بیٹھنے کے لیے آگے بڑھا تو یوں لگا جیسے اتنے تنگ دروازے سے میں اندر کیسے جاؤں گا؟ لیکن اپنے بدن کو سکیڑ کر میں نے ڈیک پر قدم رکھا ہی تھا تو دیکھا کہ کوئی بچّہ بس پر چڑھنے کی کوشش کر رہا ہے، چنانچہ میں نے اپنا پانُو پیچھے ہٹا لیا۔ ایسے ہی بچّے نے بھی کیا۔ شاید وہ میری بزرگی کا احترام کر رہا تھا۔ میں نے پھر قدم بڑھایا تو اس بچّے نے بھی ساتھ بڑھا دیا اور میں نے پھر کھینچ لیا۔ جبھی بس کنڈکٹر کی آواز آئی۔ ’’صاحب ، دا رو پِیے لا کیا؟‘‘… اور اُس نے میرا بازو پکڑ کر مجھے بس کے اندر گھسیٹ لیا اور سیٹ پر جا بیٹھایا۔ جب مجھے پتا چلا کہ وہ پانْو بچّے کا نہیں، میرا اپنا ہی تھا!

بس کنڈکٹر کی آواز آئی۔ ’’دیکو… کوئی لفڑا نہیں کرنے کا آں؟‘‘وہ اب تک مجھے پیے ہوئے سمجھتا تھا۔ میں نے کہا ’’میں نے پی نہیں، کنڈکٹر، تھوڑی سی پی ہے۔ مگر میری نظر کمزور ہے۔‘‘

’’تو پِر چشمہ کا ہے کو رکھا؟‘‘ وہ بولا۔

اب میں کہاں اتنی لمبی راون کہانی دُہراتا۔ میں نے صرف اتنا کہا ’’ورلی ناکا آ جائے تو مجھے اُتار دینا…‘‘

’’ہو‘‘ اُس نے کہا۔ پیسے لیے، ٹکٹ دیا اور دوسری سواریوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔

سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے اپنا چشمہ اُتار لیا— دیکھو، میں پھر اُسے اپنا ہی کہے جا رہا ہوں۔ عادت نہیں چھوٹتی نا، اس کے بغیر جیسے مجھے ہمیشہ لگتا تھا، آج بھی ویسے ہی لگا کہ بس کھڑی ہے اور سڑک کی روشنیاں اپنے گرد بے شمار کرنیں اور ہالے لیے نصف دائرے میں گھوم رہی ہیں۔ اور بڑے بڑے دھبّے ، نیلے پیلے، اُودے کالے، جو نظر آتے ہیں، نئی اور پُرانی بلڈنگیں ہیں۔

پھر اضطرار، محض اضطرار کی وجہ سے میں نے پھر چشمہ پہن لیا۔ میرے ساتھ کی سیٹ پر ایک بڑی پیاری دُلاری سی بچّی بیٹھی ہوئی تھی۔ جب مجھ میں پیار اُمڈتا ہے نا، باقر بھائی، تو میں اُس کی باڑھ کو روک ہی نہیں سکتا۔ میں ہم آغوشی بھی ریچھ کی طرح سے کرتا ہوں… میں کسی روسی سے کم ہوں؟…

میں اُس بچّی کے گالوں پر چٹکی لینے ہی والا تھا کہ فوراً مجھے کچھ یاد آ گیا اور میں نے اپنا امڈا ہوا پیار، اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ ٹھیک ہی کیا میں نے، کیونکہ اگلے اسٹاپ پہ جب بس رُکی اور بچّی اُترنے کے لیے اُٹھی تو میں نے اپنا چشمہ اُتار کر دیکھا۔ جو خاکہ میرے پاس سے گزرا وہ ایک جوان بھرپور عورت کا تھا۔ اُس کا سامنا ! معلوم ہوتا تھا جیسے اپنے آپ سے ایک فٹ آگے چل رہا ہے۔ میں اپنی اضطراری عقل سے بچا، باقر بھائی، نہیں تو اس رات میں پِٹ گیا تھا۔

مزے سے بیٹھا میں یاد کے منھ میں اُس خوبانی کو پَپول ہی رہا تھا کہ بس کنڈکٹر کی آواز آئی — ’’ارے ارے … مشٹیک ہو گیا، سالا‘‘ وہ کہہ رہا تھا… ’’ورلی ناکا تو تین اسٹاپ اُدھر رہ گیا۔ اب ہم پربھادیوی کے بیچ ہوتا۔‘‘

’’کنڈکٹر‘‘؟ میں غصّے سے اتنا ہی کہہ سکا۔

’’اُترو، اُترو…لوکر… وہ بولا، وہ سامنے اسٹاپ ہوتا الٹا بس کا۔ چیکر آ گیا تو جیاستی پیسا دینے کو پڑیں گا…‘‘

جیسے کنڈکٹر نے میرا ہاتھ پکڑ کر بس پہ بٹھایا تھا، ایسے ہی پکڑ کر نکال بھی دیا۔ بس چل دینے کے بعد مجھے گالی یاد آئی۔ ایسا ہوتا ہے نا باقر بھائی؟

میں گھر کیسے پہنچا، یہ میں ہی جانتا ہوں۔ اپنے گھر کے بجائے دوسرے گھر میں غلطی سے گھُس جانے کی جو خوشی ہوتی ہے، مجھے تو وہ بھی نہ ہوئی۔ گھر پہنچ کر پانْو کو آنکھیں بنا کر سیڑھیاں چڑھا۔ جس دروازے کو میں اپنا سمجھا تھا ، وہ اپنا ہی نکل آیا۔ اندر داخل ہوتے ہی میں سیدھے کرسی پہ جا بیٹھا۔ تم تو جانتے ہو، اندھے کو بھی اپنے گھر کے سب موڑ توڑ کا پتا ہوتا ہے۔ بیوی کو بات بتائی تو اُس نے اس امریکن کو بہت گالیاں دیں۔ لیکن مجھے یوں لگا جیسے تصور میں اسے پھولوں کی چھڑی سے مار رہی ہے، کیونکہ عورت کی گالی میں وہ بات کہاں ہوتی ہے جو مرد کی گالی میں ہوتی ہے۔

اُس رات اور تو کچھ نہیں ہوا، باقر بھائی۔ میں نے عادت سے مجبور پھر چشمہ آنکھ پر رکھ لیا۔ جیسے ہی مُڑ کے دیکھا تو ایک بڑی پیاری، دُلاری سی گُڑیا عورت باہر جاتے، اندر آتے دکھائی دی ۔ ہے بھگوان! وہ میری ہی بیوی تھی؟ تم تو جانتے ہونا، باقر بھائی، للتا ایک عام روسی عورت کی طرح سے موٹی تازی ہے، اس کی کمر کمرہ ہے، لیکن اب… یہ سالے امریکی کیا پلک جھپکتے میں ستّر مِلی میٹر سے آٹھ مِلی میٹر کا پرنٹ بنا لیتے ہیں!میں نے بانہہ پسار کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ جانے کب سے پیار کے لیے ترسی ہوئی، اس نے ذرا بھی مزاحمت نہیں کی۔ وہ مزاحمت بھی، جو عورتیں بہت دیر تک پیار نہ کیے جانے کے غصے میں کرتی ہیں۔ شاید اُس نے سوچا کہ انکار کیا تو یہ موقع بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ یہی نہیں۔ الٹا شاید عورتوں کا سال منانے کے سلسلے میں اُس نے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا اور دھیرے دھیرے… اُسے معلوم ہونے لگا کہ کوئی چیز اُس کے پیار کے راستے میں آ رہی ہے اور جلدی ہی اُسے پتا چل گیا۔ وہ بولی— ’’تم چشمہ کیوں نہیں اُتارتے؟‘‘میں نے ایک دم اُس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک دیا— ’’خبردار!‘‘

اتوار کے دن ساؤتھ بمبئی بند ہوتا ہے، مگر نارتھ ۔ دادر، باندرہ کا علاقہ کھُلا رہتا ہے۔ آدمی چاہے تو ارجنٹ آرڈر دے کر دوسرا چشمہ بنوا سکتا ہے، لیکن انسان کو اتنی سادہ سی حقیقت بھی کون سمجھائے کہ چشمے تک پہنچنے کے لیے بھی تو چشمہ چاہیے، یا سورداس کے آشرم کا کوئی کرمچاری۔ اور پھر کون اتنے خرچ کا متحمل ہو؟ ہمیں ڈالروں کے حساب سے تنخواہ تھوڑے ملتی ہے؟

میرا اتوار جیسے گزرا، اُس سے تو شُکّر ، جمعہ ہی ہزار درجے اچھا تھا۔ وہی تمھاری بات کہ گئے تھے روزے بخشوانے، اُلٹی نماز گلے پڑی۔ اور پھر آپ سے دہریے، سنیچر اور اُس کے کوپ کو بھی نہیں مانتے، کوئی مانے بھی تو اُس کا کیریکٹر شیٹ خراب کر دیتے ہیں، جس سے ترقی رُک جاتی ہے…

آدھا دن تو میرا یہی بات سوچنے میں گزر گیا کہ اُس کارڈ انڈکس کا دن کیسے گزرا ہو گا؟ انڈکس کی نوب ڈھونڈنے کے لیے بھی تو چشمے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور اگر وہ نوب اُسے ہُڈسن کار کا وِھیل معلوم ہونے لگے، تو وہ اپنا ہاتھ کھینچ لے گا۔ جانے اسے کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ اُس کے پاس اسپیئر چشمہ ہو، کیونکہ وہ امیر آدمی ہے۔ مگر اگلے روز پتا چلا کہ اُس کے پاس اسپیئر تھا لیکن چند ہی دن پہلے اُس ہاتھی کے انڈے نے، اپنا ہی پانو اپنے اسپیئر پہ رکھ دیا اور وہ کرنچ ہو گیا۔

دوسرا وہ بنوا نہ سکتا تھا، کیونکہ اُس کا آپٹیشین بھی ساؤتھ بمبئی ہی میں تھا۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ غلطی کا پتا چلتے ہی وہ لِٹل ہٹ، پہ لوٹ کے آیا کہ شاید مجھے میری غلطی کا پتا چل چکا ہے۔ اگر دو غلطیاں مل کر ایک ٹھیک نہیں ہو سکتیں، تو ایک غلطی دوسرے کے ساتھ تبادلے میں تو ٹھیک ہو سکتی ہے۔ میں نے تو خیر اِس لیے بھی پروانہ کی، کیونکہ اس چشمے میں مجھے اپنی غلطی بہت چھوٹی معلوم ہو رہی تھی اور میں چاہتا تھا اسے پتا چلے کہ اُس کی غلطی کتنی بڑی ہے۔

منیجر سے مِنّت کر کے مبادا کے انداز میں اُس نے لِٹل ہَٹ میں جھانکا، وہاں سب کچھ عظیم الشان تھا، لیکن میں نہیں تھا۔ اگر میں ہوتا تو اسے انسان کی انا کی طرح سے جِن دکھائی دیتا اور وہ بے ہوش ہو کر گر جاتا۔ لِٹل ہَٹ میں سے مریانا کی آواز، صرف آواز آ رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا، جیسے وہ گا رہی ہے—

تم میرا چشمہ لے آؤ ہو، اچھا کیا، اچھا کیا……

اندر اُس کارڈ انڈکس ، اس کمپیوٹر کو کچھ گلابی ، کچھ گِرے دھبّے سے دکھائی دیے اور پھر ایک کالا دھبّا جو مسلسل ہِل رہا تھا۔ اُس نے بھی اضطرار میں چشمہ لگایا تو ایک دَم الٹا بھاگ نکلا، کیونکہ وہاں لِٹل ہَٹ میں، وہ کوئی بھینس لے آئے تھے اور وہ ناچ بھی رہی تھی!

تھی وہ مریانا… میرے چشمے کا مہربانا!

اپنے خوف، اپنی جھلاّہٹ میں اسی مبادا کے انداز میں وہ اپنے آپٹیشین کا پڑیا کی دُکان کے سامنے سے بھی گزر گیا کہ شاید دُکان کی چِنک میں سے کوئی روشنی کی کرن نظر آ جائے۔ لیکن کاپڑیا کی دُکان اور بھی بند دکھائی دے رہی تھی۔ ایک تو اس لیے کہ وہ واقعی بند تھی، دوسرے اس لیے کہ وہ اُسے دکھائی نہ دے رہی تھی۔ اور جب اُس نے میرے چشمے کو پہن کر دیکھا…

اس مسلسل حماقت سے اسے یوں لگا کہ وہ ایسا گلی ور ہے جو جنّات کے ملک میں پہنچ گیا ہے۔ جہاں سب لوگ مل کر اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ڈرا سہما ہوا وہ امریکی ہندستانی گھر پہنچا۔ شوفر اور گاڑی کی وجہ سے گھر پہنچنے میں اسے کوئی زیادہ دقّت نہ ہوئی۔ ہوئی بھی تو صرف اتنی کہ وی ٹی کا اسٹیشن ، کارپوریشن کی عمارت سب پومپیائی کے زلزلے میں اُسے اپنے آپ پر گرتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ گھر کے بلند شہری دروازے کے اندر پہنچ کر، جب اُس نے سیڑھی پر قدم رکھا تو لڑکھڑا کر گِرا کیونکہ جسے وہ تیسری سیڑھی سمجھا تھا، وہ ابھی پہلی ہی تھی۔ اُسے چوٹ بھی آئی مگر کوئی زیادہ نہیں۔

گھر کے اندر پہنچا تو اُسے ایک گدھا چھلانگیں مارتا ہوا دکھائی دیا۔ اُسے بہت تاؤ آیا۔ کیونکہ وہ سمجھ ہی نہ سکا کہ گدھا بھی پالتو جانوروں میں سے ہو سکتا ہے۔ آخر اُس کی بیٹی جولی آئی اور اُس نے بتایا کہ بیک یارڈ میں جو دھوبی رہتے ہیں نا، پپّا۔ انھوں نے مجھے خرگوش دیا ہے!

میں نے تو اُس رات بیوی سے پیار کیا تھا نا باقر بھائی، لیکن اُس کارڈ انڈکس اور کمپیوٹر کی اپنی بیوی سے لڑائی ہو گئی۔ اِس لیے کہ بیوی اُسے اپنی طرف آتا ہوا وجینتا ٹینک دکھائی دینے لگی تھی۔ اور جب اُس سے بچنے کے لیے اُس نے دروازے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اس کا سر پھٹ گیا، کیونکہ جسے اُس نے دروازہ سمجھا وہ دراصل کھڑکی تھی۔

سوموار کی صبح جب میں نو ساڑھے نو بجے، اپنے اندازے کے مطابق لِٹل ہَٹ کے باہر پہنچا تو وہ چوہا میرا انتظار کر رہا تھا، اپنی بچّہ گاڑی میں… میں امن کے انداز میں آگے بڑھا۔ وہ جنگ کے خوف سے پیچھے ہٹ گیا، لیکن تھوڑی دیر میں سمجھ کے اوپر آ جانے سے ہم دونوں نے چشمے اُتارے اور دو بھوتوں کی طرح سے ایک دوسرے پر بڑھے، بغیر کچھ کہے سُنے چشمے بدلے،— اب ہم دونوں ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ معاف کیجیے، کے سے جملے دُہرا رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا، میرا قصور ہے۔ میں کہہ رہا تھا نہیں، میری حماقت … پھر اس نے بتایا کہ کل چشمے کے بغیر اس پہ کیا بیتی۔ کچھ دیر کے بعد مجھے ایسا لگنے لگا کہ وہ میں تھا… یا شاید میں وہ …

میں نے جلدی سے کہا — ’’یااللہ‘‘ اور کان لپیٹ کر چل دیا۔

٭٭٭

 

 

 

بولو

 

’’بولو‘‘   انسپکٹر گپتے نے عاجز ہو کر کہا۔

اس کی آواز اب باز گشت ہو کر رہ گئی تھی، بلکہ ٹھیٹ رلائی۔ جب اس نے ملزم سے پوچھا ’’ک،کون تھا اس قتل کے پیچھے؟‘‘

ملزم ونائی (ونائیک) بدستور خاموش تھا۔

گپتے اور اس کے ساتھی اجگاؤ نکر وغیرہ نے ونائی پر تیسری ڈگری کے سب گُر استعمال کیے تھے، اور اب وہ ڈر گئے تھے کہ کہیں مار کے نشان ملزم کے بدن پر رہ گئے، تو وہ خود دھر لیے جائیں گے۔ ریمانڈ کے چودہ دنوں میں سے صرف تین دن باقی تھے، جب کہ اُنھیں ونائی کو چارج شیٹ کے ساتھ میٹروپالیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا تھا، جو خود شکل ہی سے قاتل معلوم ہوتا تھا۔ قتل کے پیچھے سازش کا ثبوت فراہم کرنے کے سلسلے میں گپتے اور اجگاؤنکر کی ہر تفتیش اندھی کالی راہوں سے ٹکرا کر خاک و خون اُڑاتی، روتی ، چلاتی، ونائی ہی پر لَوٹ لوٹ آتی تھی۔

پیلا چوکی کا یہ پولس اسٹیشن راجدھانی کے معمار لیوفٹسن نے نہیں، کسی مقامی ہوَنّق نے بنایا تھا اور اس بات کا خیال رکھا تھا کہ کہیں ہوا کا رُخ حوالات کی طرف نہ ہو۔ فضا میں رطوبت اس کی سیلن کا باعث ہے۔ پھر اور باتیں—تادیب، تھرڈ ڈگری وغیرہ۔ اب تک ان دیواروں پر ہیبت کے نقشے بن چکے تھے۔ انسان کے اندر کا ڈر باہر آ کر دیواروں پر مصوّر ہو گیا تھا۔ ان تجریدی تصویروں کے سامنے چینی، جاپانی ڈریگن، تبتّی مہاکال، افریقی بیہولا وغیرہ کچھ بھی نہ تھے۔ چھت پر جو شکلیں بنی ہوئی تھیں، انھیں دیکھ کر تو کوئی معصوم سے معصوم بھی چِلاّ اٹھتا—

’’گلّو کو میں نے مارا ہے، حسن توبہ کا قتل میں نے کیا ہے۔ توبہ‘‘…

کرسی جس پر گپتے بیٹھا ہوا تھا، اس کا ایک بازو غائب تھا اور جہاں اجگاؤنکر براجمان تھے، اس کے دونوں… وہ دونوں بازو، دایاں اور بایاں، یا تو ونائی پر استعمال ہوئے تھے اور یا پھر ملکی سیاست میں حصہ لینے چلے گئے تھے۔ اوپر ہزار واٹ کا ہنڈہ اور ایسی کچھ اور چیزیں جمہور کی طرح نَو تھیں۔

حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے حبس باہر جھانک رہا تھا، جہاں ہال میں ڈیوٹی آفیسر تین چار غنڈوں کا بیان لے رہا تھا۔ وہ عادی مجرم ایک عجیب قسم کی بے نیازی سے بیٹھے پورے انسانی جُرم سے منکر ہو رہے تھے۔ گویا وارداتیں انھوں نے نہیں، ہمزادوں نے کی ہیں۔ ایک تو بار بار اپنا ہاتھ ران پر مارتا تھا، جیسے پہلوان لوگ اکھاڑے میں اترنے سے پہلے چیلنج کے انداز میں مارتے ہیں۔ کوئی ننگا ہو اور اپنی برہنگی کا احساس رکھے تو ہر آتا جاتا اسے دیکھتا ہے، لیکن اگر وہ اپنی اس صورت پر شرمائے نہ لجائے، اُلٹا ڈھٹائی سے دوسروں کو دیکھتا جائے تو سب کی نظر نیچی ہو جاتی ہے۔ کانسٹبل ، میٹروپالیٹن بمبئی کے نیلے بھوت، ہتھکڑیوں کے پس منظر میں بیکار، صرف حکم کے منتظر تھے۔ ان کا بس چلتا تو ہر شہری کے ہاتھوں میں وہ لوہے کا زیور پہنا دیتے۔ محرّر کا قلم جسے ہر وقت خارش رہتی تھی، دوات میں ڈوب رہا تھا اور وہ خود بے کار بیٹھا جماہیاں لے رہا تھا اور ایف، آئی، آر کا رجسٹر ان سب لوگوں کے کرم خوردہ مسوڑھوں اور جبڑوں کی طرح سے کھُلا سامنے میز پر پڑا تھا۔

باہر بارش ہو رہی تھی۔ بے کار کی کِن مِن کِن مِن……

یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ بغیر کسی وجہ، کسی سازش کے ونائی ایک خوبصورت نوجوان عورت کا قتل کر دے؟ ایشے (یشو وہا) کے گلے میں منگل سُوتر، ناک میں پھُلّی، بانہوں میں چوڑیاں جوں کی توں موجود تھیں۔ کارونر کی رپورٹ میں جبر تو ایک طرف کسی جھپٹ کا بھی اندراج نہ تھا۔ کوئی نئی یا پُرانی دشمنی بھی ثابت نہ ہو سکتی تھی، کیونکہ ایشے وڈالہ کے نمک والے، بیرک نما کوارٹروں میں اپنے شوہر نارائن اور دو بچوں کے ساتھ رہتی تھی، جب کہ ونائی اس سے فرسنگ پر ے— ورلی کے کولی واڑے میں، جہاں بومِل مچھلی کی بو چوبیس گھنٹے انسان کے جسم و ذہن کا احاطہ کیے، اس کے پور پور میں بس جاتی… ونائی کی محبوبہ شکود ڈالے کے پاس رہتی تھی البتہ — انیٹوپ ہِل کے نیچے، ہاربر برانچ کی ریلوے لائن کے بازو میں، جہاں بے شمار جھونپڑیاں برسات اور تڑاکے کے میل جول سے جیسے اپنے آپ اُگ آئی تھیں۔ مگر اس کا ایشے سے کیا تعلق؟

ایشے اور اس کا میاں برہمن تھے۔ شکو اور اس کے ماں باپ کولی، جو ڈاکٹر امبیڈکر کی شہ پر بدھ ہو گئے تھے۔ اس پر بھی نہایت ہی لاپذیر ہندو سماج، انھیں عزت سے بلانے کی بجائے بدھو کہتا تھا۔ موقع پڑتے ہی ان کی جھونپڑیاں تک جلا ڈالتا۔ انھیں جسمانی اور روحانی عذاب پہنچاتا۔ گویا بدھ ہو جانے پر بھی یہ لوگ اَچھوت کے اَچھوت ہی رہے۔ حالاں کہ تاریخ کے دھندلے ادوار میں انہی کولی، ماہی گیر لوگوں کی ایک حسینہ مگس گندھا نے پانڈوؤں کے باپ سے شادی کی تھی اور آج جن لوگوں کے سامنے ہمیں سر جھکانا پڑتا ہے، ان کی ماں بنی تھی… پھر نارائن کا رقیب بھی نہ تھا کوئی۔ البتہ الزام ہی لگانا، قانون کو پدانا ہو، تو ہر آدمی اس مرد کا رقیب ہوتا ہے، جس کی عورت ایشے ہو!

ایشے معمول کی طرح گنپتی وسرجن کے لیے مرد عورتوں کے ساتھ سیوڑی والے ساگر کی طرف گئی تھی۔ بھوکے، ننگے لوگ… پیٹ میں پاپڑی نہیں، تن پہ چتھڑا نہیں۔ مگر جا رہے ہیں۔ ناچ اور گا رہے ہیں، چاہے سوکھا ہو چاہے برسات، وہ خود نہیں، بیوڑہ اُنھیں گھسیٹے لیے جا رہا تھا شاید۔ اور یا پھر مذہبی جوش، جو بیچ میں جنون ہو ہو اُٹھتا تھا۔ جب وہ کسی کی بھی بے عزتی کر دیتے۔ اندر کی کسی جلن سے کاروں کے شیشے توڑ دیتے اور کسی کی مجال نہ تھی انھیں کچھ کہنے کی۔ کیسے کہتے۔ کیونکہ پوری قوم، قومیت تھی ان کے پیچھے تھی اور شوسینا۔… جیسے محرم میں تعزیہ نکالنے والوں کے پیچھے پوری شیعہ قوم نہیں ہوتی؟ آٹھ بازوؤں والی دُرگا کے پیچھے بنگالی نہیں ہوتے؟ چاہے وہ گھاس ہوں یا نکسل باڑی؟ ایسے ہی جیسے بیوڑہ بنانے اور بیچنے والوں کے پیچھے انڈر ورلڈ ہوتی ہے، مافیا ہوتا ہے، ایک معمولی سے ٹریفک کانسٹبل کے پیچھے پوری سرکار ہوتی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ونائی کے پیچھے صرف ونائی ہو؟

ایک، بے آڑ ، غیر مامون جذبے تلے گنپتی وسرجن والے مورتی لے جاتے، ناچتے گاتے ہوئے جا رہے تھے— گنپتی بابا مُوریا، پڑچے ورشی لَو کر آ۔ یعنی کہ اگلے برس جلدی آ۔ مگر یہ پرارتھنا تو پچھلے اور اس سے پچھلے برس میں بھی کی تھی ان لوگوں نے، پھر سمپتی دینے والے گنپتی بابا نے کیا دیا تھا انھیں؟کِس کِس کے گھر بھر دیے تھے؟ اُلٹا اس کی لمبی سونڈ اور پھیلی ہوئی توند کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے سب کے حصے کا وہ خود ہی کھا گیا ہے۔ ایرانی ہوٹل والے راشٹر پتی کی سفارش سے ایک پاو دیتے تھے۔ شکر بازار سے یونہی غائب ہو گئی تھی۔ گھاسلیٹ کے لیے میل میل، ڈیڑھ ڈیڑھ میل کے کیو لگتے تھے۔ اس کی نایابی کی وجہ سے گھروں میں چولھے جلنے بند ہو گئے تھے۔ کوئی زمانہ تھا عورت سونے کی کوئی چیز یا اچھی سی ساری دیے جانے پر اپنا سب کچھ دے بیٹھتی تھی، لیکن اب وہ گھاسلیٹ کے چھوٹے سے ٹِن پر چلی آئی تھی…

گنپتی بابا مُوریا، کے وِرد سے یہ لوگ تھک جاتے تو کسی زٹل قافیے پر چلے آتے، جو پوری زندگی ہو گیا تھا۔ پاؤڈر والے دُودھ کی بالائی مار گئی! اور پھر ’مار گئی‘ کی مناسبت سے وہ اس کی   بے شمار گندی گردانیں کرتے ہوئے چلتے۔ بھیگی ہوئی چھوکریوں کے نمایاں پچھواڑوں کی چُٹکیاں لیتے، اپنے اور ان کے اگاڑے مشتعل کرتے… ایشے بھی ان کے ساتھ تھی۔ اس کا بدن جو ایک ہی مرد کے مسلسل مماس سے سو گیا تھا، جاگ جاگ اُٹھتا۔ اسے گمان بھی نہ تھا کہ پڑچے برس تو ایک طرف، پڑچے پل ہی میں ونائی کا رامپوری چاقو اس کے آر پار ہو گا اور یہ انوکھا مماس اسے کہاں سے کہاں پہنچا دے گا ،اور اس غریب کا اپنا وسرجن پانی کی بجائے آگ میں ہو گا۔ ساگر میں کا بڑوا نل کہتا ہے، آگ پانی سے بھی بڑی ہے۔ کیا معلوم؟

بائیس چوبیس کی ہو گی ایشے ۔ یعنی اس عمر کی جس میں کہ ہر عورت اپنے وجود ہی سے کہتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ میں ہوں۔ مغربی گھاٹ کی پیداوار ہونے کی وجہ سے سب ناریل اور ان میں کا سارا کھوپڑا اس کے بدن کو بنانے میں لگ گیا تھا۔ پھر کیا کیا گولائیاں، بالائیاں چلی آتی تھیں اس پر۔ اوپر کچھ ولندیزیوں، عربوں کا خون مل گیا تھا، جو بھارت کے پچھمی ساحل پر تجارت کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان کے کارن نہ صرف ایشے کا رنگ سُرخ و سپید تھا، جلد ریشمیں، بلکہ آنکھیں بھی عرب ساگر کی طرح سے زمردّیں ہو گئی تھیں۔ پوسٹ مارٹم کے بعد جب نارائن کو اس کی لاش ملی، تو وہ اسے اپنے نمک والے کوارٹروں میں لے آیا۔ سب تماشائیوں کو ہنکال کر اس نے ایشے کو ایک کمرے میں بند کر لیا اور قریب ڈیڑھ دو گھنٹے اس کے ساتھ اکیلا رہا۔ جب دروازہ کھلا تو لوگوں نے دیکھا۔ ایشے دُلھناپے کا کاشٹا لگائے پڑی ہے، اُس کی ناک میں پھُلّی کی بجائے کھڑا ہے، پانْو کی انگلیوں میں بچھوا …

کتنا پیار کرتا تھا نارائن اس سے۔ شادی کے بعد ایک بار جب ایشے مائیکے گئی تو کسی نے پوچھا— کَے دن رہ گئے بہو کے آنے میں؟ نارائن نے ترنت جواب دیا — بیس دن اور اکیس راتیں!

جب نارائن مسکرا بھی نہ رہا تھا—

——اب ایشے کی ارتھی نکلی تو وہ رو بھی نہ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے آنسو کہاں چلے گئے تھے، یہ کیا معلوم ۔ ابھی اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سب اڑوس پڑوس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ اپنے سُرخ کاشٹے، کفن میں ایشے اور بھی گوری چٹی لگ رہی تھی۔ وہ ایک ایسی نیند سو رہی تھی، جو شبِ زفاف میں دلہن چار چھ بار نکل جانے کے بعد سوتی ہے۔

ارتھی اُٹھ جانے کے بعد اس کے بچّے — ناتھو اور سبھا بار بار پوچھتے تھے—

’’آئی کُٹے؟ (ماں کہاں ہے؟) اور ایک راشٹر بھاشی جواب دیتا، آئی تو گئی…ایسی معمولی سی ترکیب وضع کر لینے سے اس کی لسانی شہوت تسکین کو پہنچ جاتی۔

صرف دو دن رہ گئے تھے ریمانڈ میں، جب کہ انسپکٹر گپتے نے ونائی کی تفتیش کا آخری پتھر مارا۔ ونائی اپنی جگہ سے ہل گیا۔ اس کے ہونٹ تھوڑا بھنچ کر فوراً ہی معمول کے ہو گئے۔ ایک ٹھنڈے غصّے میں جانے وہ کیا کچھ پی گیا۔ گرم غصّے میں آنکھیں لال ہو جاتی ہیں اور شریانوں کی گانٹھیں، ان میں سُرخ دھبّے ، خون کا دباؤ ایکا ایکی بڑھ جانے سے تنفس گھوڑ چال ہو جاتا ہے۔ نتھنے پھولنے لگتے ہیں،ہونٹوں پہ کف چلی آتی ہے، بدن کی رگیں اور پٹھے تن جاتے ہیں، کوئی نئے اور ممکن وار اپنے اوپر لینے کے لیے۔ مگر وہ — ونائی، رنگ کا کالا، بدن کا کھردرا ، جات کا کولی، جیسے گوشت پوست سے نہیں، کسی عقیدے کی فولاد سے بنا تھا۔ جسمانی یا روحانی مار کا اس پر کوئی اثر ہی نہ تھا۔ اس سارے سلسلے میں یا تو وہ آگے کی بہت سی صدیاں گن گیا تھا اور یا پیچھے کی۔ وہ دلت پنتھروں کے ساتھ فلرٹ کرتا تھا اور کبھی کبھی شیوسینا کے رسالے ’’مارمِک‘‘ میں کسی دوسرے نام سے لکھتا بھی تھا۔ اس وقت وہ تخفیف کے انداز میں کھڑا تھا، جیسے کوئی بھگت سنگھ دیس کی آزادی کے لیے پھانسی لگنے جا رہا ہو —الٹا اس کی آنکھیں کچھ اور سپیدی پکڑ گئی تھیں، کفن کی تہوں میں چھپی ہوئی نیلاہٹ اُمڈ آئی تھی، جن میں ساگر ڈوب رہے تھے، اپنے اندر پوری لوکائی کا وسرجن لیے ہوئے۔ اس کا غصّہ اوپر اور اوپر، لاشعور کی تہوں میں جا چھپا تھا، جہاں ساری خدائی ملتی ہے اور وہ — غصّہ، کسی ایک فرد کا ہو کر رہ جانے کی بجائے پورے اجتماع کا ہو جاتا ہے…

باہر آج بھی بارش ہو رہی تھی اور انسان کے نفس، اس کی سائیکی کا بیڑا غرق کر رہی تھی۔ کہاں تو پورے جولائی اور اگست کے مہینے خالی گئے تھے اور کہاں اب ستمبر کے آخر میں یوں لگ رہا تھا، جیسے ورن دیوتا بیئر کے کیگ کے کیگ پی کے دنیا کو اپنی چھوٹی حاجت کا شکار بنارہا ہے۔ خریف کی فصل تباہ ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا فارسی نہ جاننے کی وجہ سے ربیع اور خریف کے معنی نہ سمجھتا تھا۔ فصلوں میں اسے کوئی تمیز نہ رہی تھی۔ وہ تھوڑا ہبرو، تھوڑی سنسکرت اور عربی میں شُد بُد رکھتا تھا اور بس۔ معلوم ہوتا تھا کہ اسے ایک ہی زبان آتی ہے، جس کا نام ہے— آہ!

جب سرکار کے میٹ ڈیپارٹمنٹ کے لوگ، خدا کے نمائندے بنے، ایک بلیٹن شائع کر دیتے۔ خلیج بنگال میں ایک ٹرف، ایک کونڈا پیدا ہو گیا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ٹائی فون بن کر اڑیسہ کے بے شمار گانووں کو تباہ کرتا ہوا ذہن کینل کے ضلع کی طرف نکل جائے۔ (جہاں کھاد کا کارخانہ ہے) اور یا پھر مدھیہ پردیش سے مراٹھ واڑ، بمبئی کی طرف چلا جائے۔ کچھ علاقوں کو تو وہ باڑھ سے برباد کرگیا، اور کینول میں سوکھا بو گیا اور لوگوں کو اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے چھوڑ گیا کہ ان کے لیے بھوکا مرنا اچھا ہو گا، یا ڈوب کر جان دینا؟ چاروں طرف ہاؤ ہو کا نقارہ بج رہا تھا— بے زبان ، بے سُر ، بے تال۔

— اور ونائی چپ تھا۔ چُپ، صابر جابر کے سامنے تن جائے تو بڑے بڑوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔ سازش کی تفتیش کے سلسلے میں گپتے اتنا تنگ آ گیا تھا، کہ اس کا جی چاہتا تھا کہ پیٹی اور پتلون اتار کر ونائی کے سامنے لیٹ جائے… اسے ریمانڈ کے پہلے چند دن یاد آ رہے تھے، جب اس نے ونائی سے پوچھا تھا—

’’تم نے ایشے کو کیوں مارا؟‘‘

ونائی نے یونہی سا سر ہلا دیا۔ جس کا مطلب تھا، ایسے ہی۔

’’اس لیے کہ وہ اونچی جات والی تھی؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’امیر عورت تھی؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’خوب صورت اور جوان تھی؟‘‘

’’نہیں، نہیں، نہیں‘‘ ونائی نے قدرے برافروختگی سے کہا۔ ’’شکوُ اس سے کہیں زیادہ سندر، کہیں زیادہ جوان ہے۔‘‘

’’شکو؟‘‘ گپتے نے اپنی کرسی پر سے اُٹھتے ہوئے کہا ’’وہ کالی کلوٹی کولی چھوکری ،جو آٹھ آٹھ آنے میں—‘‘

اس سے پہلے کہ گپتے اپنی بات پوری کرتا، ونائی ایک دم اُچھل کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’باسٹرڈ!… تمھاری بہن سے اس کا ریٹ زیادہ ہے…‘‘

یہ وقت تھا ، جب کہ گپتے نے ونائی کو پہلا اور بھرپور تھپڑ مارا۔ اس کی انگلیاں اس نوعمر مگر سرکش لڑکے کے گالوں میں کھُب گئیں، وہ ہل نہ سکتا تھا کیونکہ حولدار اور کانسٹیبل لوگ مضبوطی سے اسے پکڑے ہوئے تھے۔ ونائی پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، نہ ہی انگلیوں کے نشان آئے؟

گپتے نے اپنے سینیر اجگاؤنکر کی طرف دیکھا۔ ونائی بولتا چلا گیا— ’’دنیا کے نائینٹی نائن پرسینٹ لوگ اگر ایک ٹکے میں بکتے ہیں، تو تم آدھے میں…وہ سب دلت جاتی کے ہیں۔رنگ کے کالے، پر صحت والے…‘‘

جبھی گپتے نے کرسی کا بازو کھینچا اور پے درپے ونائی پر برسانا، اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ کچھ دیر کے بعد ونائی لڑکھڑایا اور پھر ان سب کے سامنے ڈھیر ہو گیا اور یوں اس تفتیش کا پہلا سیشن ختم ہوا۔

رات مرہم پٹی ہو جانے کی وجہ سے ونائی ہوش میں آ چکا تھا ۔ پوری رات وہ سیلے فرش پر پڑا رہا۔ کپڑے پھٹ جانے کی وجہ سے وہ کچھ ڈھکا، کچھ ننگا، مغربی گھاٹ کا کوڑیالا کوبرا معلوم ہو رہا تھا۔ سامنے فرش پر رات کی دو سوکھی روٹیاں پڑی تھیں جو اب تک پاپڑ ہو گئی تھیں۔ دال کے کٹورے میں سماروع قسم کی ایک سفید سی جھِلّی چلی آئی تھی۔ اور جب وہ ختم ہوئے تو ونائی کو کاٹنے لگے۔ چیونٹوں نے جب دیکھا کہ اسے کاٹنے سے وہ خود ہی مرنے لگے ہیں، تو بھاگ کر چینوٹیالہ میں دبک گئے۔

انسپکٹر لوگ آئے۔ ان کے چہروں کی رگیں اور پٹھے کچھ ارادوں سے تنے ہوئے تھے۔

’’ونائی‘‘ اجگاؤ نکر نے پکارا۔

ونائی اٹھا، گرا، پھر اٹھا اور اپنا کوبرئی پھن تان کر اجگاؤنکر کو درست کرنے لگا— ’’ونائیک را ؤ… ونائیک راؤ…‘‘

’’اوکے… اوکے‘‘ اجگاؤ نکر نے اپنے بید کو بغل میں اڑستے ہوئے کہا— ’’مسٹر ونائیک راؤ…‘‘

"That’s Right” ونائی نے کہا۔ اس کے چہرے پر اب نفرت کا ایک احساس تھا، بازو کے ایک جھٹکے سے اس نے گردن پر رات کا لگا ہوا پسینہ اور میل پونچھا اور اجگاؤ نکر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔

اجگاؤ نکر نے پوچھا —’تم ہوٹل نیرج کے پروپرائٹر کو جانتے ہو؟‘‘

’’نہیں‘‘ ونائی نے جواب دیا ’’ہاں ایک بار کھانا کھایا تھا اُدھر۔‘‘

تم جانتے ہو، جوزف پریرا، اس کا پروپرائٹر ، ٹاؤن کونسلر کُلکڑنی اور وڈالے کے کچھ بنیٹوں کے ساتھ مل کر کاجو اور فینی بیچتا ہے۔ گو ا سے میرہ منگواتا ہے، فارن سے سکاچ؟‘‘

’’یہ میں نہیں جانتا—مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس کا دھندا تم مادر— کو ہفتہ کھلائے بغیر دو دن بھی نہیں چل سکتا…‘‘

اجگاؤ نکر تلملا کر رہ گیا۔ بات سچی مگر یوں دو ٹوک تو کمشنر نے بھی نہیں کی تھی۔ اس نے دائیں ہاتھ سے ماتھے پر کا پسینہ پونچھا اور پھر گپتے کی طرف اشارہ کیا ،کیونکہ یہ کیس دراصل اُسی کا بے بی تھا۔ یہ ایسے ہی تھا، جیسے کورٹ میں استغاثہ جب اپنی جرح ختم کر لیتا ہے، تو وکیل صفائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا ہے — ’’یُور کیس ‘‘…

گپتے نے کہا ’’راؤ صحیب … آپ کے نالج میں ہے، جوزف پریرا ایشے پر آنکھ رکھتا تھا؟‘‘

’’آنکھ رکھتا تھا کہ ٹانگ رکھتا تھا… ‘‘ ونائی نے جواب دیا ’’کون، کسے، کتنے دھکے لگاتا ہے… میں کیا اس کا اکاونٹ رکھتا ہوں۔‘‘

’’تمھیں پتا ہے پریرا اور علاقے کے دادا اکرم نے دادر اور پریل کے کراس روڈ پر، جہاں مہابیر جی کا مندر ہے، ایشے کو چھاتی سے پکڑ لیا تھا؟‘‘

’’ہوں۔‘‘

’’پھر شور مچ جانے پر پریرا بھاگ گیا، مگر اکرم پکڑا گیا۔ لوگوں نے اسے مارا؟‘‘

ونائی نے اس بات پر سر ہلایا اور بولا ’’اس لیے مارا کہ سالوں میں خود ہمت نہیں تھی چھاتیاں پکڑنے کی۔‘‘

ونائی ہنس رہا تھا۔

’’اس سے پریرا کی بے عزتی ہوئی‘‘ گپتے نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ایشے کا دھندہ چوپٹ ہو گیا۔‘‘

’’تب؟‘‘

گپتے نے آواز کو بلند کیا ’’تب، بدلہ لینے کے لیے اس نے ایک اجیر، ایک ہائرلنگ رکھا؟‘‘

’’ہوں۔‘‘

’’اور وہ — تم تھے … تُم …تُم …‘‘

اس سے پہلے کہ ونائی جواب دیتا۔ اجگاؤ نکر نے گویا چھت ہی پھاڑ دی۔ کَے روپوں میں فیصلہ ہوا؟… بولو…؟

’’بولو‘‘ گپتے اس کے ساتھ ہی گرجا۔

ونائی خاموش رہا۔ انسان ہمیشہ اس لیے خاموش نہیں رہتا کہ وہ مجرم ہے… وہ تھک بھی جاتا ہے۔

یہ وہ وقت تھا، جب آدمی اس قدر بھائیں بھائیں کرتے ہوئے خاموشی کے سامنے نہ صرف بے بس ہو جاتا ہے، بلکہ کانپنے لگتا ہے۔ نامرادی میں، غصّے میں۔ جبھی دوسری کرسی کے بازو ونائی پر ٹوٹ ٹوٹ گئے۔ وہ پھر بے ہوش ہو گیا۔ اب وہ مفتوح فاتح تھا۔ اس کی ناک ہی سے نہیں، کان سے بھی خون بہنے لگا تھا۔ جو دماغ سے جریان کی علامت ہے۔ گپتے اور اجگاؤ نکر دونوں کی چھٹی ہو گئی…

’’ڈھو کے‘‘ گپتے نے گھبرائی ہوئی آواز میں حوالدار سے کہا ’’بھاگو… ناکے پر جاؤ اور برف لاؤ۔‘‘

حوالدار ڈھوکے نے ’’ہو‘‘ کہا اور سیلوٹ کے تکلف میں پڑے بغیر باہر کی طرف لپکا۔ پیچھے سے گپتے نے تائیدی آواز دی۔

’’پوری سِل لانا۔‘‘

…دو روز بعد تیسرا سیشن ہوا۔ ونائی بچ گیا۔ جب کہ گپتے، اجگاؤ نکر اور کچھ کانسٹبل مل کر ونائی کے پھسل کر گرنے اور گر کر زخمی ہو کر مر جانے کا پنچ نامہ تیار کرنے کی فکر میں تھے۔ تیسرے دن ڈاکٹر آئی. آئی . گلاٹی کی مدد سے انھوں نے ونائی کی زبردستی فیڈنگ کی۔ طاقت کے انجکشن دیے ، تاکہ اسے تندرست بنائیں اور پھر ماریں۔

یہ دیکھ کر کہ اس وقت اذیت دینا ٹھیک نہیں ہے، گپتے اور اجگاؤنکر نے پینترا بدلا۔ ونائی کے پاس آتے ہوئے اجگاؤنکر نے کہا۔

’’وِنے…‘‘

ونائی چوکنا ہو گیا۔

’’تم میرے بھائی ہو۔‘‘

’’ہوں۔‘‘

’’تمھارا گانو اڑوت اجگاؤں ہی کے پاس ہے۔‘‘

’’ہوں۔‘‘

اس سے پہلے کہ اجگاؤ نکر اپنا ہاتھ کسی مصنوعی میلان سے ونائی کے کندھے پر رکھتا، ونائی نے پوری قوت سے یوں جھٹک دیا کہ وہ اجگاؤ نکر کی پیٹھ سے جا لگا اور اسے موچ آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ گپتے، حوالدار ڈھوکے اور دوسرے کانسٹبل حیران تھے کہ اتنا سب کچھ ہو جانے، پہروں بھوکا رہنے کے باوجود اس چھوکرے میں اتنی طاقت کہاں سے چلی آئی؟

’’میں تمھاری مار سہہ سکتا ہوں‘‘ ونائی بولا ’’پیار نہیں۔‘‘

صاف دکھائی دیتا تھا کہ ونائی کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ رہے ہیں اور کتنی محنت، کتنی مشقت سے وہ انھیں کہیں اوپر بھیج رہا ہے۔ مگر چونکہ آنسو اور جذبہ ہم زلف ہوتے ہیں، اس نے کسی رشتے کا لحاظ کرتے ہوئے کہا ’’میں نے جو بولا ہے، سچ بولا ہے۔‘‘

’’سچ کہتے ہو‘‘ گپتے نے نرمی سے کہا ’’اس گھات کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ نہیں؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

اور پھر ونائی اپنے آپ شروع ہو گیا، جیسے کوئی صفائی یا تزکیہ چاہتا ہو ’’میں اسے جاتی، مت بھید کے لیے مارتا تو بدلہ لینے کی بات ہوتی، پیسے کے لیے مارتا تو چوری بیری، لوٹ مار کی۔ شریر کے لیے مارتا تو ریپ کی…‘‘

’’ہوں… ہوں … ‘‘ گپتے اور اجگاؤ نکر نے ایک ساتھ کہا اور ٹوٹی کرسیاں آگے سرکالیں۔ وہ یک رُکنی الفاظ صرف ونائی ہی کا ٹھیکہ نہ تھے۔

’’میں نے ایشے کو اس لیے مارا ’’ونائی نے گروَ سے کہا ’’گنپتی وسرجن کے پورے کراؤڈ میں وہی تھی، جس کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ جو بہت خوب صورت لگ رہی تھی، اور انوسینٹ۔‘‘

پھر تھوڑی دیر کے لیے وہ رُک گیا۔ جیسے وہ رُکا تھا، ویسے ہی شروع بھی ہو گیا ’’میں کسی ایسے کو قتل کرنا چاہتا تھا، جو ایک دم معصوم ہو، دیوی ہو، دیوتا ہو…‘‘

گپتے اور اجگاؤ نکر کے چہروں پر ابتری پھیل گئی۔ اب جو انھوں نے کہا، وہ الفاظ کی   مشت زنی تھی — ’’تمھیں پتا تھا، ایشے کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ناتھو ، سلبھا؟‘‘

’’—اور صرف ایک پتی‘‘ ونائی نے جیسے پورے عمرانی نظام پر چوٹ کی۔

کچھ دیر خاموشی حکومت کرتی رہی۔

’’تم دلِت پینتھر ہو؟‘‘ آخر اجگاؤ نکر نے اس سکوت کو توڑا، قانون شکنی کی۔ ونائی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ سوال کو جواب کے قابل نہ سمجھتا تھا۔

’’کرانتی کار؟‘ گپتے نے تضحیک کے انداز میں کہا ’’بلیک پینتھر؟ چے گوارا کے پیرو؟ الفتح…‘‘

’’میں ان سب کا باپ ہوں‘‘ ونائی ایک دم ایکسائٹ ہوتے ہوئے کہا ’’میں نے ایک بے قصور کو مارا ہے۔‘‘ اور پھر اسی دم بولا ’’ان کا باپ اور تمھارا پوھنا (داماد)۔‘‘

گپتے اُچھل گیا، مگر اجگاؤنکر نے اپنی مضبوط بانہوں سے اسے دبا دیا اور بولا۔

’’جانتے ہو تمھارے جُرم کی سزا موت ہے؟‘‘

ونائی نے سر ہلایا ’’اسی لیے تو یہ سب میں کیا ہے… تم مجھے مارنا چاہتے ہو اور میں مرنا چاہتا ہوں۔ بولو، جیت دونوں میں کس کی ہوئی؟… بکواس یہ ہے کہ اب تم میرے ساتھ کچھ اور لوگوں کو بھی مارنا چاہتے ہو۔ جیسے ایک آدمی کے مارنے سے تمھارے قانون کی کھُجلی دور نہیں ہوتی۔‘‘

اور یہاں سے ونائی کا ٹھنڈا غصّہ ایک واضح شکل اختیار کر گیا، کیونکہ اس کا چہرہ بے رنگ تھا، کسی قسم کے تاثر سے عاری، جب کہ گپتے نے کہا — ’’مرو گے تو پتا چلے گا ، مرنا کیا ہوتا ہے؟‘‘

"What a Donkey?” ونائی نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ گپتے اور اجگاؤنکر نے اوپر سے ہزار واٹ کے ہنڈے کی روشنی ونائی پر پھینکنا شروع کر دی اور بھی بہت سی چیزیں تھیں پوھنے کی خاطر کے لیے۔

دنیا کے کسی نہ کسی حصّے پر ہر سال، ہر وقت برف پڑتی ہے۔ ابھی وہ پگھل بھی نہیں پاتی کہ اس پر اور برف پڑ جاتی ہے اور وقت کو منجمد اور قوسل بنا دیتی ہے۔

ونائی کی دنیا کا نقطۂ انجماد اسی دن سے بسیط ہونا شروع ہو گیا تھا، جب کہ وہ کولی ماں باپ کے گھر پیدا ہو گیا۔ وہ ساڑھے چار سال کا تھا جب کہ اس کا باپ، رتنا کولی، ریڈ سگنل کے باوجود اپنی ناؤ لے کر سمندر میں ٹھل گیا۔ اسی شام چاند اور نیپچو نے مل کر نہ جانے کیا سازش کی کہ رتنا کو اپنے آغوش میں کھینچ لیا۔ وہی مچھلیاں جنھیں رتنا کولی کھانا، پکانا اور بیچنا چاہتا تھا، مل کر اسے ہی کھاپکا اور بیچ گئیں۔ ماں ایک سپیرے کے ساتھ بھاگ گئی اور کچھ برسوں کے بعد ونائی کے لیے تین بہنیں اور دو بھائی لے کر لوٹ آئی۔ ونائی اسکائش آرفینج میں پڑھا، جو نام ہی کا آر فینج — اناتھ آلیہ ہے ، مگر اس میں صرف ناتھ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ ونائی اگر وہاں پڑھا تو یہ فادرکرخانیس کی مہربانی تھی۔

وہ نقطہ اسی سال سمٹنا شروع ہو گیا، جب کہ لوگوں نے گنپتی کی مورتی گھر میں استھاپت کی اور پھل پھول اس کی سیوا میں بھینٹ کرنے لگے۔ اس دن ونائی اینٹوپ ہل کے دامن میں شکو سے آخری بار ملا۔

شکو ہاتھ میں گولڈ فلیک کا ایک پرانا ٹین تھامے کھڑی تھی اور بے حد پریشان نظر آ رہی تھی۔ اس کی زلفیں وہم کی طرح سے لمبی، آنکھیں گمان کی طرح سے دھندلی اور بدن یقین کی طرح سے سخت تھا۔ گویا اینٹوپ ہل کے ادھر آبنوس سے بنی ایک اپسرا تھی اور اُدھر فولاد سے بنی اپسرا— ٹرامبے کاری ایکٹر۔ یہ میں ری ایکٹر کی مناسبت سے کہہ رہا ہوں کہ شکو کا پورا بدن ایک بریتا تھا، جس کی کنی کنی یورینیم تھی اور نس نس کو بالٹ۔ وہ معدنیات کی ایک کان تھی، جسے کسی نے ابھی تک پراسپیکٹ نہیں کیا تھا۔ وہ دھاتوں کا خزانہ، اسے ایک ہی دھات چاہیے تھی اور وہ بھی صرف ونائی سے … اسے نشچے ہو گیا تھا کہ یہی وہ مرد ہے جس کی وجہ سے اپنا آپ کم پڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

جب شکو نے بتایا کہ وہ اور اس کے ماں باپ رات سے بھوکے ہیں، کیونکہ گھاسلیٹ کے نہ ہونے سے چولھا نہیں جلا ، تو ونائی نے اپنے اسی یک رُکنی انداز سے کہا —— ’’ہوں۔‘‘

’’ہوں کیا؟‘‘ شکو نے ادا سے پوچھا، جس کے جواب میں ونائی نے پھر وہی ’’ہوں‘‘ دُہرا دی، جو آواز پہلی ’’ہوں‘‘ سے مدھم تھی، کیونکہ وہ سمجھ سے تعلق رکھتی تھی۔

جبھی، اسے قدوائی روڈ پر ماٹنگا سائین کی طرف جاتا ہوا ایسوکمپنی کا ایک ٹینکر دکھائی دیا، جس میں گھاسلیٹ تھا۔ پیچھے اس کی ٹونٹی سے مٹی کا تیل قطرہ بہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔

ونائی نے شکو کے ہاتھ سے گولڈ فلیک کا ٹین جھپٹ لیا اور ٹینکر کے پیچھے دوڑا۔ سامنے ایک ٹرک کے آہستہ ہو جانے سے ٹینکر کی رفتار بھی کم ہو گئی تھی۔ ونائی اُچک کر اس کے پیچھے لٹک گیا۔ ایک ہاتھ سے اس نے سیڑھی تھامی اور دوسرے ٹین کی ٹونٹی کے نیچے کر لیا ۔ وہ چاہتا تو پھرکی گھما کر ایک ہی سیکنڈ میں وہ چھوٹا سا ٹین بھر لیتا ، مگر اس نے سوچا وہ صرف وہی تیل لے گا، جو گِر کر سڑک پر ضائع ہو رہا ہے…

شکو، کلیجے پر ہاتھ رکھے کھڑی دور سے اسے دیکھ رہی تھی۔

سِگنل موافق نہ ہونے سے ٹینکر تھوڑا ناکے پر رُکا اور پھر جھٹکے کے ساتھ دائیں طرف مڑکر سائن ماٹنگا روڈ پر ہولیا۔ ریل کا پُل پار کرتے ہی ونائی کا ٹین بھرنے لگا۔ جبھی راشن کی دُکان پر گھاسلیٹ کے لیے لمبے کیو میں لگے ہوئے لوگوں نے دیکھا اور شور مچا دیا—— ’’چور چور…‘‘ ونائی کا ہاتھ سلپ ہو گیا اور وہ نیچے سڑک پر گر گیا۔ ٹینکر رُکا۔ لوگ لپکے اور ونائی کو پکڑ کر اُسے مارنا شروع کر دیا۔ ٹینکر کا ڈرائیور اس کا کنڈکٹر ساتھی اسے گھسیٹتے ہوئے پاس ہی کے پولس اسٹیشن کی طرف لے جانے لگے۔ ونائی کو صرف ایک ہی چوٹ آئی تھی اور وہ یہ کہ ٹین کے ساتھ گھاسلیٹ بھی نیچے گر گیا تھا۔

ونائی نے نہیں، مگر جانے کس نے شکو کا نام لے دیا۔ اس دن بہت گرمی تھی کیونکہ بادل تنے تھے، مگر چھینٹا نہیں پڑ رہا تھا۔ جبھی پولس کا ایک آفیسر جیپ لیے انیٹوپ ہل کی جھونپڑی میں پہنچ گیا— ’تفتیش‘ کے لیے، اس نے شکو اور اس کے ماں باپ کو بتایا کہ ونائی حوالات میں ہے۔ اس پر چوری ، ڈاکے—’ہائی وے رابری‘ کے دوش لگے ہیں۔ شکو ایک تو پہلے ہی بھوکی تھی۔ اس پر ونائی کے پکڑے جانے کی بات سن کر وہ کانپنے لگی۔

’’اسے مارا تو نہیں؟‘‘ وہ بولی۔

آفیسر نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسے پیاس لگی تھی۔ اس کی وجہ گرمی تھی یا شکو، یہ نہیں معلوم۔ لیکن جب شکو نے گھڑے سے پانی نکال کر اسے دیا، تو اس نے لینے ، پینے سے انکار کر دیا۔ شکو نے سوچا کوئی بات نہیں… اونچی جات کا ہو گا۔ آفیسر نے بتایا، ونائی، گھر آسکے گا، جب کوئی اس کا ضامن بنے گا۔

شکو نے چھاتی پر ہاتھ رکھا اور بولی ’’جامن میں بنوں۔

’’تم؟‘‘ شکو کے باپ نے کہا — ’’تمھارے…‘‘‘

جب تک شکو غلیل کے گُلّے کی طرح سے باہر چھوٹ گئی تھی۔ آفیسر اٹھا اور شکو کے باپ کو دلاسا دیتے ہوئے بولا ’’گھبراؤ نہیں کاکا، شخصی — پرسنل ضمانت بھی ہو سکتی ہے…‘‘

اور وہ باہر کھڑی جیپ کی طرف چل دیا۔

بوڑھے نے وتسلا، شکو کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں شک تھے۔ مگر وتسلا بائی بولی۔ کوئی بات نہیں، جانتی نہ ہوتی تو آ جائے گی۔ شکو…‘‘

ونائی حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے ڈیوٹی آفیسر کو دیکھ کر چلاّ رہا تھا۔

’’میں نے کوئی چوری نہیں کی، انسپکٹر … کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا۔ ٹینکر سے گھاسلیٹ ٹپک رہا تھا، سڑک پر گِر کر ویسٹ ہو رہا تھا‘‘…

ڈیوٹی آفیسر بنیے کی طرح کسی امیر گاہک کی طرف متوجہ تھا۔

پولس آفیسر کی جیپ پہلے آ گئی، جس سے اُتر کر وہ پولس اسٹیشن کے پیچھے چلا گیا۔ جہاں راستہ کوارٹروں کی طرف جاتا تھا۔ ونائی نے شکو کو دُور سے آتے دیکھا۔ وہ بھاگ رہی تھی اور اس کی گھنگھور زلفیں ، پیچھے کی طرف اُڑ رہی تھیں، کہیں برسنے جا رہی تھیں۔ اگلے ہی پل میں وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

آدھ پون گھنٹے کے بعد ایک کانسٹبل نے حوالات کا دروازہ کھولا اور کہا ’’ونائیک راؤ… باہر۔‘‘

ونائی جو اس ارتقا کے لیے تیار ہی نہ تھا، بولا— ’’کیا مطلب؟… کیوں، کیسے؟‘‘

باہر آیا تو اس نے شکو بائی کو ڈیوٹی روم میں نہ پایا۔

’’میری ضمانت کس نے دی ہے؟… کس نے بیل آؤٹ کیا ہے مجھے؟ … اس نے ڈیوٹی آفیسر سے پوچھا، جس نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔

ونائی نے دیکھا شکو پولس اسٹیشن کے احاطے سے باہر جا رہی ہے، اور وہ اپنی نہیں کسی اور ہی کی چال چل رہی ہے…

اس سے پہلے کہ وہ باہر لپکتا، ڈیوٹی آفیسر نے اسے روکا اور ایک کاغذ سامنے رکھتے ہوئے کہا — ’’ہئی کرو… 3ـ؍اکتوبر کو باندرا کورٹ میں حاجر ہونا مانگتا ، سمجھا؟‘‘

ونائی نے جلدی سے کاغذ پر دستخط کیے، اس کی نقل ہاتھ میں چُرر مُرر کی اور پھر باہر کی طرف بھاگا۔ سڑک سے اُدھر ٹریفک سگنل کے سامنے ہی ونائی نے شکو کو آ لیا۔

’’شکو‘‘ ونائی نے کہا…

شکو کچھ نہ بولی۔ وہ رو رہی تھی اور نہ ہنس رہی تھی۔ وہ اس عالم میں تھی جس میں انسان دیکھتا ایک چیز ہے اور سوچتا دوسری، اور سوال کرنے والے کی طرف مُڑ کر صرف اتنا سا کہتا ہے۔ ایں؟

ونائی نے شکو کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا— ’’کیا ہوا شکو؟‘‘

’’کچھ نہیں‘‘ شکو نے جواب دیا۔

ونائی اس کے پیچھے ہولیا، اور کچھ نہیں تو ٹریفک سے اسے بچانے کے لیے۔ سِگنل کے پاس پہنچ کر ایک بار ونائی نے مڑکر پیچھے پولس اسٹیشن کی طرف دیکھا، جس کی دیواریں ٹھوس کنکریٹ سے بنی تھیں۔

سِگنل کے دوسری طرف سڑک پر رُکی ٹریفک ابھی راستہ نہ دے رہے تھی۔ وہ دونوں پیراپٹ پر کھڑے تھے۔ جب کہ ونائی نے پھر پوچھا— ’’شکو! بول تو سہی کیا ہوا؟‘‘

شکو نے ایک فریادی نظر سے ونائی کی طرف دیکھا۔

’’تم نے میری ضمانت دی ہے؟‘‘ ونائی نے پوچھا۔

’’—‘‘

’’کیسے دی ہے؟ تمھارے پاس…‘‘

شکو نے حقارت کی نظر سے ونائی کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہیں زبان سے زیادہ ناطق تھیں جو کہہ رہی تھیں—مرد کی جات کتّے کی ہے… وہ اگر اپنی زبان کو شرمندۂ الفاظ کرتی تو ونائی کہتا—کتّے کی نہیں، بھیڑیے کی۔ مگر وہ وہی بے گانی چال چلتی ہوئی سڑک پار کر گئی اور قدوائی روڈ کی پٹری پر ہولی۔ ونائی نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑا اور جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا اور بولا— ’’شکو۔‘‘

شکو پلٹ کر اُلٹ کر ونائی سے آلگی۔ یوں معلوم ہوا جیسے وہ اس کی چھاتی پر اپنا سر رکھ کر اپنا دُکھ رولے گی، سکھ بولے گی۔ مگر نہیں، شکونے اپنا ہاتھ چھُڑا لیا۔ اسے ونائی سے نفرت تھی، اپنے آپ سے نفرت تھی… وہ چل دی!

ونائی بھوچکا کھڑا رہ گیا اور شکو کو جاتے دیکھنے لگا، جس نے اپنے کاشٹے کا پلّو منھ میں ٹھونس لیا تھا اور جا رہی تھی۔ سامنے بائیںہاتھ پر ہاسٹل ، ہاربر برانچ کی ریلوے لائنیں اور انیٹوپ ہِل کی جھونپڑیاں نظر آ رہی تھیں۔

ونائی سب جان گیا تھا، سب سمجھ گیا تھا وہ کتنا کہنا چاہتا تھا، شکو تم نردوش ہو کنواری ہو… انہی حالات میں سبزی بیچنے والی شانتا کو اس کے پتی نے گھر سے نکال دیا تھا اور آج وہ فارس روڈ کی جنگو بائی کے قحبہ خانے میں رہتی ، دھندا کرتی ہے۔ روز رات چھ سات مرد اسے روندتے دَلتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ اس سے کم ہوں تو نہ وہ میڈم ، نہ د لال کے پیسے دے سکتی ہے اور اسے پھیری والے کی سوکھی روٹی اور مرچ کھانی پڑتی ہے۔ لیکن وہ کنواری ہے، کیونکہ نہ اسے اپنے گاہکوں سے محبت ہے، نہ اپنے پتی سے تھی…

ونائی کا خیال تھا، شکو آخر اسے بُلائے گی، لوٹ کر آئے گی۔ مگر نہیں۔ وہ تو اپنے آپ کو اب ونائی کے قابل نہ سمجھتے ہوئے جاچکی تھی۔ ونائی نے آخری بار اسے اپنی نظروں کی سرحد پر دیکھا اور چِلاّ اُٹھا— ’’میں 3؍اکتوبر نہیں آنے دوں گا… میں تین اکتوبر نہیں آنے دوں گا…‘‘

اور اسی عالم میں وہ بھاگتا ہوا ماٹنگا کی بھاری ٹریفک میں کہیں گم ہو گیا…(تھا)

٭٭٭

 

 

 

 

بِلّی کا بچّہ

 

 

کچھ نہیں۔ کوئی کام نہیں تھا، ایسے ہی چھٹپٹا کے باہر نکل گیا تھا۔

سر حد پر لڑائی کے کارن سب کاروبار سُست ہو گئے تھے۔ زندگی میں جس ارتعاش کو ہم ڈھونڈا کرتے ہیں، وہ لڑنے کے لیے محاذ پہ چلا گیا تھا اور جو بچ رہا تھا،روزانہ اخباروں میں سمٹ آیا تھا۔ بار بار پڑھنے جانے کے باوجود آدھ پون گھنٹے میں ختم ہو جاتے تھے۔

… نوعمری میں ایسا ہوتا تھا۔ ایک مبہم سے احساس کے ساتھ باہر نکل جاتے تھے— آج کچھ ہونے والا ہے!… ہوتا ہواتا جب بھی کچھ نہ تھا، چنانچہ آج بھی کچھ نہ ہوا، سواے اس واقعے کے جس کے بارے میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا…

میرے ساتھ بے کاروں کی پوری کی پوری پلاٹون تھی، جیسے کوئی فوجی دستہ دشمن کی نقل و حرکت بھانپنے کے لیے نکل جاتا ہے، اسی طرح ہم بھی نکل جاتے تھے اور اس اسٹوڈیو سے اُس اسٹوڈیو تک گھومتے رہنے کے بعد شام کو برٹورنی پہنچ جاتے، جہاں تلے ہوئے نمکین کاجو کے ساتھ چائے یا کافی کی ایک آدھ پیالی پی لیتے اور پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے—کون بل دینے کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے؟ تھوڑی دیر کے بعد، اپنی جیب کی بجائے ہم ایک دوسرے کی جیب میں ہاتھ ڈالنے لگتے، جو ہوتے ہوتے گریبان تک پہنچ جاتے، آخر بل کون دیتا؟— میں! بے کاری کا احساس جس کی ہڈیوں تک میں بس گیا تھا—باپ رے!

کوئی بے کاری سی بے کاری تھی؟

رات کو دیکھ کے دن یاد آیا

اس پہ برٹوری کی ہیریٹ کو تھینک یو بھی مجھے ہی کہنا پڑتا—

پھر کلیان، رشی اور ہمارا عیسائی دوست، جسے ہم ’’جیگوار‘‘ کہا کرتے تھے، شکار کے لیے نکل جاتے، جسے وہ سیر و سیاحت کہتے۔ یہ ماں کے مار کو پولوچین تھوڑے ہی جاتے؟ بس میرین ڈرائیو پہ پہنچ کر دو، دو سو گرام گنڈیریاں چوستے، کچھ چھلکے بولے وارڈ پہ پھینکتے اور کچھ سمندر میں اور لہروں کے ساتھ انھیں واپس آتے ہوئے دیکھتے۔ یعنی ان کی ہر چیز کچھ دُور جا کر واپس آتی ہوئی دکھائی دیتی۔ پھر وہسکی کی بھولی بسری یاد میں یہ لوگ گیلی اور نمکین مونگ پھلی کھاتے۔ آخر بدمزہ ہو کر نریمان پوائنٹ پہ سولہ مِلی میٹر کی پروپیگنڈا فلم دیکھنے لگتے ، جس کو حکومت کسی اندیشے میں مفت دکھاتی۔ پھر گھبرا کر گھر لوٹ آتے، جہاں ان کی بیویاں ان سے دن بھر کی کار گزاری لفظ بہ لفظ سننے پہ اصرار کرتیں اور ان کے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سمجھتیں۔ ایک حبس کے احساس کے ساتھ ان کا جی پھر باہر بھاگ جانے کو چاہنے لگتا۔

درحقیقت ہم سب کا گھر باہر ہو رہا تھا اور باہر گھر —جب شہر کی طرف جاتے تو یوں معلوم ہوتا جیسے گھر لوٹ رہے ہیں، اور گھر لوٹتے تو یوں لگتا جیسے باہر نکال دیے گئے۔ اس ’باہر‘ کی کھلی ہوا میں بیوی کے پھپھوندی لگ جاتی۔ ہاتھ لگاؤ تو ہاتھ پہ چلی آتی، جس سے گھبرا کر ہم اسے ’گھر‘ چلنے کا مشورہ دیتے لیکن وہ صاف جواب دے جاتی—گھر میں خرچ ہوتا ہے۔ ہم یہیں ’’باہر‘‘ اچھے ہیں۔

آج ہم پیرسین ڈیری جانے کے لیے نکلے تھے۔ اگر آپ بمبئی کے جغرافیے سے واقف نہ ہوں تو میں آپ کو بتادوں—پیرسین ڈیری ایک ریستوران ہے جو بمبئی کی میک موہن لائن پہ واقع ہے۔ یعنی شہر کی سرحد وہاں ختم ہو جاتی ہے اور سمندر شروع ہوتا ہے۔ ڈیری کا لفظ تھوڑا مغالطے میں ڈالتا ہے، کیونکہ وہاں گاے بھینس نہیں ہوتیں، صرف کچھ موٹی عورتیں ہوتی ہیں، جن کے اسکرٹ اور ساریاں سمندر سے آنے والی تیز ہوا، اُڑاتی رہتی ہے اور جنھیں سنبھالے ہوئے ان کا معنوی حُسن اور بڑھ جاتا ہے اور عشق کے مار کو پولو موہوم امیدیں لیے سامنے بیٹھ کر سیو سیو پیا کرتے ہیں،جو سیب کے رس سے بنتا ہے اور جس کے لیبل پہ صاف لکھا ہے—اس میں شراب نہیں ہے!… کولا سے گھبرا کر لوگ سیو سیو پیتے ہیں اور سیو سیو سے وحشت ہوتی ہے، تو کولا پہ لوٹ آتے ہیں، جیسے پڑھے لکھے لوگ پالیٹکس سے گھبرا جاتے ہیں تو سیکس پہ چلے آتے ہیں اور جب سیکس سے وحشت ہونے لگتی ہے تو پھر پالٹیکس پہ لوٹ آتے ہیں اور جب دونوں بے کار ہو جائیں، تو جیوک باکس میں ایک چوَنی ڈال کر اپنے مطلب کا ریکارڈ سننے لگتے ہیں۔

اپنا اپنا پیار کا سپنا

—آخر باہر چل دیتے ہیں—

کلیان کے پاس ایک پھٹیچرسی گاڑی تھی، جس کی بیٹری ایک ادھیڑ عمر کی عورت کی طرح بات بات پہ ناراض ہو جاتی تھی اور بعض وقت تو کوئی بات بھی نہ ہوتی تھی اور یہ ڈاؤن!… ایک عجیب طرح کی کلائی میکٹرک دور آیا تھا۔ اُس پہ حیض ویض سب ختم ہو چکا تھا۔ اور وہ بے حد چڑچڑی ہو رہی تھی۔ سب کے سامنے اسے سڑک پہ دھکیلتے ہوئے ہم عجیب سے لگتے تھے۔ اس وقت وہ سب کمینے جنھوں نے ہماری طرف دیکھ کر کبھی سر بھی نہ ہلایا تھا، فوراً پہچان جاتے اور آواز دیتے— ’’ہیلو شرماجی…‘‘ اور میں جواب میں ان سے وہی سلوک کرتا جو پھٹیچرگاڑی سے پہلے وہ مجھ سے کرتے۔ ایسی خالی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتا کہ انھیں واقعی میں کوئی اور دکھائی دینے لگتا۔ اور وہ اس قدر گھبرا جاتے کہ پھر مجھے بھی وہ کوئی اور دکھائی دینے لگتے۔

ہم ابھی دادر ونسٹ روڈ پر سے گزر رہے تھے، جب کہ مجھے یاد آیا پروڈیوسر ڈھولکیا نے سویرے ایک لڑکے کی معرفت مجھے بلوا بھیجا تھا۔ امید ایکا ایکی ، ہائیڈروجن بم کے ککرموتے کی طرح میرے حواس پہ چھا گئی۔ جذبات اور خیالات کا ایک دوسرے پہ سلسلہ وار عمل اور ردّ عمل ہونے لگا۔ جبھی میں نے زور سے آواز دی ’’روکو کلیانی، گاڑی روکو۔‘‘

کلیانی نے حیران ہو کر میری ہنکار کو سُنا۔

رشی ہانپتے ہوئے بولا’’تو سمجھتا ہے پہلے چل رہی ہے؟‘‘

داس نے سر ہلا دیا۔ وہ دم لینے کا کوئی بھی بہانہ چاہتا تھا، اس لیے پرے چل کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ مُردے کی طرح مطمئن نظر آ رہا تھا۔

میں نے اپنے لہجے میں اور منّت پیدا کی— ’’یار میں بھول ہی گیا… ڈھولکیا نے بلوایا ہے… شاید۔‘‘

’’وہ سب ہنڈل مارتا ہے‘‘ کلیان نے سر کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا— ’’ہم اس کی پکچر کا فوٹوگرافی کیا—ایک دم انگلش!…پھر کیا ہوا؟‘‘

میں نے کلیان کو تسلی دیتے ہوئے کہا ’’سالا اس کا اپنا فوکس خراب ہے۔‘‘

ڈھولکیا ایک آنکھ سے کانا تھا۔

آپ تو جانتے ہیں۔ بے کار لوگ جتنی جلدی ناراض ہوتے ہیں، اس سے جلدی خوش بھی ہو جاتے ہیں۔ ہنستے ہوئے اس نے گاڑی کا وہیل دادر روڈ کی طرف گھما دیا۔ کچھ دیر میں ہم اسٹوڈیو کے سامنے تھے۔ کلیان نے باقیوں کو روک لیا اور مجھے اندر جانے کے لیے کہا۔ خود بونٹ اٹھا کر وہ گاڑی میں یوں دھنس گیا کہ باہر صرف دو ٹانگیں دکھائی دینے لگیں۔ معلوم ہوتا تھا کوئی بچہّ اُلٹا پیدا ہو رہا ہے۔

میں چاہتا بھی نہ تھا، جیگوار، رشی ، داس اور کلیان میں سے کوئی میرے ساتھ اسٹوڈیو میں چلے۔ بعض وقت کسی کی ایسی بات بھی ماننا پڑ جاتی ہے جو آدمی ہر کسی کے سامنے نہیں مان سکتا۔ ادھر جب ہر کسی کی پکچر بیٹھ رہی تھی، ڈھولکیا صاحب کی چل نکلی، اور اس نے جوبلی منائی۔ اب اسے قابل لوگوں کی ضرورت تھی۔ میں قابل نہ سہی لیکن اوسط درجہ کا آرٹسٹ ضرور تھا… نہیں نہیں، مجھے میرے اسی انکسار نے مارا ہے، جو اس شو بزنس میں نہیں چلتا۔ خود اپنا ڈھول پیٹنا پڑتا ہے۔ آخر میرے مقابلے کا کریکٹر ایکٹر اور تھا کون؟ جرنلسٹ پاگل تو نہیں تھے جنھوں نے تصویر’’ مہا ملن‘‘ میں ایوارڈ مجھے دلوایا تھا۔ غالباً اسی بات سے مرعوب ہو کر ڈھولکیا نے مجھے بلوایا تھا۔ چونکہ وہ خود ڈھولکیا تھے، اس لیے ہر بات میں اپنا ڈھول پیٹنے کے ساتھ بیچ میں کہیں میرا بھی پیٹ ڈالا ہو گا۔

اسٹوڈیو میں پہنچا تو ڈھولکیا صاحب سامنے بیٹھے ہوئے مل گئے۔ وہ اس وقت ایک ایکسٹرا لڑکی کا اس کے سپلائر کے ساتھ جھگڑا چکا رہے تھے۔ مجھے آتا دیکھ کر لڑکی ایک طرف ہٹ کے کھڑی ہو گئی۔ ڈھولکیا صاحب ایسے ہی چوکنّے ہو گئے۔ ایک خواہ مخواہ کا تناؤ پیدا ہو گیا۔ ایک تیز سی نظر سے سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کسی پنچ شیل پہ دستخط ہو گئے اور کومل وہاں سے سٹک گئی۔

ڈھولکیا صاحب مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ اور میں ان کی باتوں کے بین السطور، اپنا مطلب ڈھونڈنے لگا۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ بین السطور تو سب دکھائی دینے لگا، سطور گم ہو گئیں۔ آخر پتا چلا ڈھولکیا صاحب نے مجھے کلّو کی وادی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے بلوایا ہے، جہاں وہ آؤٹ ڈور کے لیے جا رہے تھے۔

’’کلّو کی وادی بہت خوب صورت ہے‘‘ میں نے کہا ’’کلّو‘‘ میں ناشپاتیاں ہوتی ہیں اور سیب ہوتے ہیں۔‘‘

’’اور کیا ہوتا ہے؟‘‘ ڈھولکیا صاحب نے پوچھا۔

’’اور…؟ میں نے کچھ سوتے ہوئے کہا ’’کلّو میں سیب اور ناشپاتیاں ہوتی ہیں۔‘‘

—میں دراصل بھول گیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ کلّو گئے مجھے پندرہ بیس برس ہو گئے تھے، بلکہ اس لیے کہ اس وقت دماغ پہ زور دینے کی کوئی وجہ نظر نہ آتی تھی۔ مجھے ڈھولکیا صاحب سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ روئے زمین کے کسی آدمی سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ اس پہ بھی میں کہہ رہا تھا اور ’’کلو میں پتھریلی زمین ہوتی ہے، جس میں کہیں سے ہریالی پھوٹ نکلتی ہے۔‘‘

ڈھولکیا کو میری ہریالی سے دلچسپی نہ تھی۔

میں نے انھیں بتایا ’’وہاں لُگڑی —چاولوں کی شراب ہوتی ہے، جسے پی کر مرد اور عورتیں باہر —بازار میں نکل آتے ہیں۔‘‘

’’پھر ؟… پھر کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’پھر مرد — عورت کے گلے میں بانہہ ڈال کر جھومنے لگتا ہے۔ ساتھ اس کے گلے میں پڑے ہوئے چنبیلی کے ہار جھومنے لگتے ہیں۔ اور وہ بڑے عاشقانہ انداز سے اس کی نشیلی آنکھوں میں اپنی نشیلی آنکھیں ڈالتا ہوا کہتا ہے— ’’تو میری جوئی—مطلب، بیوی۔‘‘

’’مطلب —کسی عورت کے گلے میں بانہہ ڈال کر؟‘‘

’’اجی نہیں‘‘ میں نے کہا ’’اپنی بیوی کے …‘‘

’’او—‘‘اور ڈھولکیا صاحب کچھ مایوس سے نظر آنے لگے۔ عام فلمی کہانی نے ان کے مذاق کو چوپٹ کر دیا تھا اور وہ ناتمام غیرمنتج زندگی کے عادی نہ رہے تھے۔ میں نے کہا۔ ’’کلّو کی لڑکیاں بے حد خوب صورت ہوتی ہیں۔ ڈھولکیا صاحب… ایک سگریٹ ایک سیٹی ان کے لیے بہت ہوتے ہیں‘‘ اور پھر سوچتے ہوئے بولا ’’یہ جب کی بات ہے، اب تو شاید پورے کارٹن کی ضرورت پڑے یا دس کے نوٹ—‘‘

ڈھولکیا صاحب نے سر ہلا دیا۔ میں سمجھ گیا، فلم میں یا لو لاکھ روپیا بھی کچھ نہیں ہوتا اور یا پھر ایک کھوٹا پیسا بھی بہت بڑی دولت ہوتا ہے۔ ڈھولکیا چونکہ تین تصویریں بنارہے تھے، اس لیے خرچ، ان کی بچت ہو گیا تھا۔ بولے ’’ہم کلّو میں دسہرے کا سین لیں گے…وہاں کی سو لڑکیوں کے ساتھ … لوکل ٹیلنٹ!‘‘ اور پھر انھوں نے وہ آنکھ ماری جو پہلے ہی مری ہوئی تھی۔

تھوڑی دیر میں، میں اسٹوڈیو کے کمپاؤنڈ میں آ چکا تھا۔ اوپر دیکھا تو سر پہ آسمان ہی نہ تھا۔ کمپاؤنڈ میں ایک فوارہ تھا جس میں کبھی پانی نہ آیا تھا اور اس کے کارن اِرد گِرد کی باڑ خشک ہو چکی تھی اور ہریالی کے بغیر اسٹوڈیو کا پورا منظر ایک کھنڈر ہو چکا تھا۔ کچھ دُور جا کر میرے پیر جیسے اپنے آپ رُک گئے اور میں لوٹ آیا۔ ڈھولکیا صاحب کے پاس پہنچتے ہوئے میں نے کہا —   ’’وہ — آزادی سے پہلے کی بات تھی ڈھولکیا صاحب! کہیں کوئی کام دلوائیے۔ کوئی چار چھ سین کا رول۔‘‘

’’میرے پاس کچھ نہیں ہے‘‘ ڈھولکیا بولے ’’بیسیوں بار تمھیں بتا چکا ہوں۔‘‘

’’کچھ تو بچا ہو گا‘‘ میں نے یوں ہی امید کا دھوکا پیدا کرتے ہوئے کہا ’’کچھ میرے حصے، میری تقدیر کا۔ آپ تو اَن داتا ہیں۔ رائٹر سے کہہ کے ایک آدھ رول بڑھوا دیجیے۔‘‘

ڈھولکیا صاحب نے میری طرف یوں دیکھا جیسے کوئی بہت بُری چیز کی طرف دیکھتا ہے اور سر ہلا دیا۔ اب وہ مجھے دھندلے دھندلے سے نظر آ رہے تھے۔ جب بھی میں بولتا گیا ’’ہمارا کوئی رول نہیں؟…کہیں بھی—ہمارا کوئی رول نہیں؟‘‘

ڈھولکیا صاحب نے ایک غیریقینی انداز سے میری طرف دیکھا، اور پھر منھ پرے کر لیا۔ ان کا نچلا ہونٹ جو پان کی پیک سے سُرخ اور سیاہ ہو چکا تھا، لٹکا ہوا تھا اور وہ چھوٹے سے ترمورتی نظر آ رہے تھے۔ اس وقت تو وہ تیسرا چہرہ تھے، جس پہ قہر کے جذبات ہوتے ہیں۔ ایسے میں شیو، جس کی طرف دیکھتے ہیں وہ فنا و برباد ہو جاتا ہے… میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، کوئی قریب نہ تھا۔ چنانچہ میں نے ان کے پیر پکڑ لیے اور بولا ’’آپ جو بھی کہیں گے میں کروں گا ڈھولکیا صاحب… میں سچ کہتا ہوں، میرے بیوی بچّے بھوکوں مر رہے ہیں—میں مر رہا ہوں۔‘‘

اس پہ ڈھولکیا صاحب ہنس دیے۔ ’’مر جاؤ‘‘ وہ بولے ’’دنیا میں سینکڑوں لوگ روز مرتے ہیں، ایک تم مر گئے تو کیا ہو گا۔‘‘

’’میں مر گیا تو… ‘‘ میں نے اپنے آپ کو سوچتے ہوئے پایا…’’کچھ نہیں ہو گا۔‘‘

جب تک کومل واپس آ چکی تھی، اور ڈھولکیا صاحب اس کا جھگڑا چکانے کے لیے اندر چلے گئے۔

میں باہر چلا آیا اور سوچنے لگا، ترمورتی کا ایک چہرہ وہ بھی تو ہے جس میں شیو بھگوان ، پوری کائنات پہ مسکراتے ہیں۔ جب پودے کھِل اُٹھتے ہیں اور ان کے کاندھوں پہ چھوٹے چھوٹے، یوں ہی ہوائیں دامن میں دونوں جہان کی دولت لیے اٹکھیلیاں کرتی ہوئی چلتی ہیں۔ اور ان کے کاندھوں پہ چھوٹے چھوٹے بادلوں کی مٹکیاں ہوتی ہیں، جن میں صحت کی شراب ہوتی ہے، جسے راستے میں آنے والے ہر چھوٹے بڑے کو پلاتی ہوئی وہ گزرتی جاتی ہیں اور اس وقت… یہ کس کا کہنا ہے، میں مر جاؤں گا تو کیا ہو گا؟ … میں بتاتا ہوں کیا ہو گا۔ میری بیوی جو میری وجہ سے کسی کے سامنے سر نہیں جھُکاتی، پناہ کے لیے میرے بھائی کے پاس چلی جائے گی۔ اس کے گلے میں رسّی ہو گی اور منھ میں گھاس…اور میری چھوٹی بھابی اس سے وہ سلوک کرے گی جو کوئی کھاج ماری کُتیا سے کرتا ہے۔ میں خود اپنی بیوی سے بدسلوکی کرتا ہوں۔ بہت غصّہ آئے تو کچھ کھینچ مارتا ہوں— میں جانور ہوں، لیکن— میں اسے خود ماروں گا۔ کاٹ ڈالوں گا، مگر کسی دوسرے کو اس کی طرف آنکھ بھی نہ اُٹھانے دوں گا… اور میرے بچّے —ڈالی، چنوں… ان کو بدن سے لگاتا ہوں تو میرا اپنا شریر گدرا جاتا ہے… معلوم ہوتا ہے، وہ گوشت ہی گوشت ہے، ہڈی اس میں نام کو نہیں… وہ مر جائیں گے گوشت بھی نہیں رہے گا، ہڈی بھی نہیں رہے گی… نہیں میں مر جاؤں گا تو یہ سب میری آنکھوں کے سامنے تو نہ ہو گا۔

پندرہ بیس گز کے فاصلے میں آدمی کتنا سوچ سکتا ہے، آپ کو اس کا اندازہ نہیں۔ میں نے سب پُرانے درشن شاستر اور آج کل کے نئے فلسفے سوچ ڈالے تھے ۔ میں نے جیل کی دیواریں سوچ ڈالی تھیں، محلوں کے کنگرے سوچ ڈالے تھے۔ کسی نے گنگا میں ایک ڈبکی لگاتے ہوئے پوری زندگی جی ڈالی تھی، تو میں نے بھی اتنے عرصے میں ایک نہیں کئی زندگیاں جی لی تھیں۔ ایسی زندگیاں جن میں آدمی مرتا نہیں، صرف شکل بدل لیتا ہے… پھر یہ موت سے ڈر کیسا تھا؟ میری بیوی … بچّے… کسی دوسری شکل میں ان کی بھی شکل دوسری ہو گی!… نہیں، میں انھیں انہی شکلوں میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ مادّۂ حیات اپنی اَن گنت جمع تفریق میں کتنا ہی اپنے آپ کو دُہرائے، کتنا ہی سر کو کیوں نہ پٹکے، ایسی پیاری شکلیں پھر نہ بنا سکے گا۔ نہ ایسی ہنسی دیکھنے میں آئے گی نہ ایسی خوشی اور نہ ایسا رونا…آخر رونا اور پھر رونے والے کو پچکارنے ، دِلاسا دینے میں بھی تو ایک مزا ہے… لیکن… کیا آدمی اتنا ہی کٹھور ہو گیا ہے؟— کہیں کوئی مر جائے، اسے پروا نہیں کیونکہ اس کا حلوہ مانڈا، اس کے بوٹی کباب، شراب اور عورت بنے ہیں۔ میرے دو بچّے ہیں۔ ڈالی بڑی لڑکی ہے تین سال کی اور چنوں سال سوا سال کا ہے—بیٹا… پنگورے میں پڑا، اونی سوئٹر میں پھنسا ہوا، وہ بالکل ایک بلّی کا بچّہ معلوم ہوتا ہے۔ میری بیوی اسے ڈالی سے زیادہ پیار کرتی ہے، اس لیے کہ وہ مقابل کی جنس کا ہے—نرجو میری نسل کو آگے چلائے گا۔ یہ ٹھیک ہے۔ مگر میری نسل—ایک بے کار، بے ہودہ آدمی کی نسل… چنوں کو پیار کرتی ہوئی وہ آدھی پاگل ہو جاتی ہے۔ اسے نہلا دھُلا کر لاتی ہے اور ایک نرم سے تولیے سے اس کا بدن پونچھتی ہے۔ وہ ہنستا روتا، مچلتا ہے اور میری بیوی اسے گدگدی کرتی ہے۔ ایسا کرنے میں اس کے اپنے گدگدی ہونے لگتی ہے۔ میں جو دیکھتا ہوں اس کی بھی گدگدی ہونے لگتی ہے۔ جیسے میری بیوی کی انگلیاں چنوں کے بدن پہ نہیں، میرے بدن پہ ناچ رہی ہیں۔

تھوڑی ہی دیر میں ہم کیڈل روڈ پہ جا رہے تھے۔ جو لوگ بمبئی کے جغرافیے سے واقف ہیں، جانتے ہیں دادر سے پیرسین ڈیری جانے کے لیے نکلیں، تو کیڈل روڈ راستے پہ نہیں پڑتی۔ ایسے لوگوں کو میں بتا دوں، اگر کسی مرد کا نام کلیان ہواور اس کی بیوی کا نام راجی… اور درشن نام کی کوئی لڑکی راستے میں آ پڑے، تو پھر کیڈل روڈ بھی پڑسکتی ہے۔ درشن کلیان کی ’وہ‘ تھی، اگرچہ کلیان بے کار تھا، پانچ بچّوں کا باپ تھا۔ اس کی گاڑی کھٹارہ تھی، اس پہ بھی درشن کلیان کے لیے— ’’یہ سب کچھ اور جنت بھی‘‘ کا رتبہ رکھتی تھی اور ہم کلیان کو ہمیشہ اس بے راہ روی پہ ڈانٹا کرتے تھے۔ لیکن اس دن مجھے پتا چلا—سب ٹھیک ہے… اگر وہ سب ٹھیک ہے تو یہ بھی ٹھیک ہے… کلیان ڈھولکیا کی طرح کا نہ تو ہول سیلر تھا اور نہ کسی کی مصیبت سے فائدہ اٹھانے والا … درشن تو ایسے ہی تھی، جیسے راہ جاتے کسی کے گھر میں لگے جھاڑ سے رات کی رانی کی خوشبو آ جائے… انسان کہاں تک اپنی ناک بند کر کے چل سکتا ہے؟… وہ یہ سب کرنا چاہتا ہے اور پھر بیٹھ کر رونا، پچھتانا بھی… اگر وہ روئے پچھتائے نہیں، تو ہمارے مندر، ہماری مسجدیں اور گرجے کہاں جائیں؟ کہاں جائیں اسکولوں کے ماسٹر اور قوموں کے راہنما؟… بڑی بڑی نصیحتیں، لمبے چوڑے بھاشن اور گنجلک فلسفے؟… لیکن ہم ابھی درشن کے فلیٹ پہ پہنچے ہی کہاں تھے۔ سامنے کسی حادثے کی وجہ سے ٹریفک رُک گئی تھی…

جہاں سے ٹریفک رُکنا شروع ہوئی تھی۔ وہاں کچھ دو منزلہ بسیں کھڑی تھیں۔ آخری بس کے پیچھے کچھ کاریں ، وین اور ٹھیلے وغیرہ تھے جن میں سے لوگ لپک لپک کر موقع واردات پہ پہنچ رہے تھے۔ کچھ لوگ گاڑیوں میں بیٹھے پاں پاں ٹاں ٹاں کر رہے تھے اور کچھ لوگ اِدھر اُدھر ہو کر نکل جانا چاہتے تھے، لیکن ایک گٹھی ہوئی لائن میں پھنس چکے تھے۔اگر کوئی نکلتا بھی تو مخالف سمت سے آتی ہوئی گاڑیاں اسے جگہ نہ دیتیں۔

کیا ہوا؟ کون ماں کا لال تھا، جو آج بیچ سڑک کے پڑا تھا؟ آج کس کی پیاری کا انتظار صدیوں پہ پھیل گیا تھا؟… میرا دل ڈوبنے لگا۔

ہم تینوں چاروں، گاڑی سے نکل کر لپکے۔ ڈھولکیا کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ایک تم مر گئے تو کیا ہو گا؟… کیا واقعی، کچھ نہ ہو گا؟ یہ جو چل بسا ہے اس کے مرنے پہ بھی کچھ نہ ہو گا؟ شاید انسان اتنا ہی سنگ دل ہو گیا ہے… جب ہی اس نے ایک دوسرے کو تہس نہس کرنے کے لیے اس قدر خوفناک ہتھیار ایجاد کر لیے ہیں۔ ایسی سنگ دِلی اور بے رحمی کے بغیر جن کا استعمال ہی ممکن نہ تھا… کیا اس بدقسمت کے لیے کوئی نہیں مرے گا؟… کوئی اپنا خون نہیں بہائے گا؟… انسان کے لیے کوئی امید نہیں…

جب تک ہم موقع پہ پہنچ چکے تھے… لوگ ہنس رہے تھے —یہ کیسے لوگ تھے؟

پھر کچھ اور قہقہے پڑے اور کسی کے پیچھے کی طرف بھاگنے کی آواز آئی۔جیگوار ہم سب سے لمبا تھا۔ بھیڑ کے پیچھے کھڑے ہو کر اُس نے ایڑیاں اُٹھائیں اور سڑک پہ دیکھا۔ اُف! صورت کیسی مسخ ہو چکی ہو گی، بس کے ساتھ ٹکرانے سے چیتھڑے اُڑ چکے ہوں گے اور خون— جبھی جیگوار لوٹا تو وہ بھی ہنس رہا تھا۔ میں بھاگ کر بس کی لینڈنگ پہ جا کھڑا ہو، جہاں سے میں نے دیکھا—

وہ نظارہ میں زندگی بھر نہ بھولوں گا، جس کے دیکھنے کے بعد لوگوں کی زبان پہ قہقہے تھے اور میرے گلے میں آنسو، جن کے بھنور میں ڈھولکیا اور اس کی قماش کے سب لوگ ڈوب گئے تھے اور جن سے انسان کی معصیت دھُل گئی تھی— ایک بِلّی کا بچّہ بائیں حصّہ پہ تقریباً سڑک کے بیچ بیٹھا ہوا تھا اور بس کے ڈرائیور کنڈکٹر اور دوسرے لوگ اسے ہٹانے، بھگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن وہ اپنی جگہ پہ گل محمد ہو رہا تھا!

وہ بے حد خوب صورت تھا — بِلّی کا بچّہ!… مشکل سے دو مہینے کا ہو گا۔ اس کا رنگ سفید تھا، جس پہ کہیں کہیں شربتی سے چھینٹے دکھائی دیتے تھے۔ آنکھوں پہ دو گہرے نارنجی سے داغ تھے جن میں سے اس کی پیلی، چمکتی ہوئی آنکھیں اور بھی پیلی چمکیلی دکھائی دے رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کوئی عورت کچھ بُنتی ہوئی ادھر سے نکلی ہے اور اُس کے پرس یا ٹوکری میں سے اُون کا گولا سڑک پہ گِر گیا ہے…

ایک طرف اوٹو ایکسپریس تھی، قریباً بارہ فٹ اونچی اور دوسری طرف وہ تھا، بلّی کا بچّہ ! جو اپنے بے بضاعت وجود کے باعث مقابلے میں اور بھی بے بضاعت ہو گیا تھا۔ کنڈکٹر اسے بچانے ، سڑک پر سے ہٹانے کے لیے بڑھا تو وہ اسی پہ جھپٹ پڑا۔ اس بظاہر بے ضرر، اُون کے گولے میں نہ جانے کہاں سے تیز نوکیلے پنجے نکل آئے ہیں، جنھوں نے کنڈکٹر کے ہاتھ پہ خراشیں پیدا کر دیں اور ان میں سے خون کے باریک سے قطرے اُمڈنے لگے۔ اس پہ بھی کنڈکٹر خفا نہیں، اُلٹا ہنس رہا تھا۔

’’ہے نا سالا‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’اسی کی جان بچانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں، اور یہی نہیں جانتا۔‘‘

’’کتنا ناشکرا ہے‘‘ ایک عورت نے کہا۔

اور وہ بدستور کھڑا ابھی تک کنڈکٹر کو گھور رہا تھا اور غرّانے کی نقل اُتار رہا تھا۔ جیسے کوئی چیلنج دے رہا ہو — ’’بیٹا پھر تو آؤ!‘‘ اور جب کنڈکٹر نے ہمت نہ کی، تو وہ پھر تھوڑا پیچھے ہٹ کر وہیں بیٹھ گیا، اور گلاب کی پتّی سی زبان نکال کر اپنی پیٹھ چاٹنے لگا۔

ڈرائیور نے کچھ بیزاری کے لہجے میں کنڈکٹر سے کہا ’’کتنے لیٹ ہو گئے یار—‘‘ گویا اس خوبصورت حادثے میں بچارے کنڈکٹر کا قصور تھا۔

بس کے بازو میں ایک ٹھیلے والا تھا، جس کے ٹھیلے پہ تیزاب کی بڑی بڑی بوتلیں پڑی تھیں۔ گویا ایک طرح کا بارود تھا، جو ذرا سی ٹھوکر لگنے پر پھٹ سکتا ہے۔ وہ اپنی گھبراہٹ میں پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ بلّی کے بچے کے پاس پہنچتے ہوئے ٹھیلے والے نے دو ہاتھ اس کی طرف جوڑ دیے اور بولا۔

’’اب اُٹھ جا میرے باپ… بہت ہو گئی۔‘‘

اسے آگے بڑھتے دیکھ کر بلّی کا بچّہ پھر تننے لگا۔ بھیّا ذرا ڈر کر پیچھے ہٹا، تو بلّی کے بچّے نے ایک نہایت ہی لطیف مترنم سی آواز نکالی—

’’میں آؤں۔‘‘

اس پہ سب ہنس پڑے اور بس کا ڈرائیور بولا ’’ہاں حضور— آپ آئیے۔‘‘

جب تک کچھ اور ٹریفک پیچھے رُک گئی تھی اور ڈرائیور لوگ ہارن بجا رہے تھے۔

ایک مرسی ڈیز سے کوئی خوب رو نوجوان نکلا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا منظر پہ چلا آیا۔ پہلے تو وہ بلّی کے بچّے کی طرف دیکھ کر ٹھٹکا۔ پھر اس نے سب کو پیچھے دھکیل کر ایک ٹھڈے سے قصّہ ہی پاک کر دینا چاہا۔ جبھی لوگ لپکے۔ ’’ہے ہے، ہے ہے‘‘کی آواز بلند ہوئی اور وہ خوش پوش نوجوان اپنے جامہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکا— ’’کیا بکواس ہے وہ بولا، گیارہ بجے میرا جہاز اُڑ جاتا ہے۔‘‘

لوگ اس کی طرف یوں دیکھ رہے تھے، جیسے اس کی روح بھی اُڑ جائے تو پروا نہیں۔ نوجوان نے غصّے سے ہاتھ اپنی پتلون میں ٹھونس لیے اور پسپا ہو گیا۔ پھر اپنی اعصاب زدگی میں آگے —— اور مجبور و مقہور لوٹ گیا، بکتا جھکتا ہوا ——‘‘ یہ اسی ملک میں ہو سکتا ہے… ایک بلّی کا بچّہ اتنے بڑے شہر کی ٹریفک روک سکتا ہے۔‘‘

ایک نے مسخری کی— ’’پولس کو بلوائیے صاحب۔‘‘

نوجوان نے زور سے پیر زمین پر مارا اور بولا ’’میں ابھی ٹیلی فون کرتا ہوں— فائر برگیڈ والوں کو۔‘‘

اور سب ایک آواز میں ہنس دیے۔ جب ہی مجمع میں سے آوازیں آئیں ’’گیا گیا‘‘۔

کسی کو خیال بھی نہ تھا، اس بات کا گمان بھی نہ تھا کہ اتنے بڑے مسئلے کا حل یوں ایک پل میں ہو جائے گا۔ بلّی کا بچّہ جیسے اپنے آپ کسی اندرونی ترغیب سے اُٹھا۔ بیچ میں سے کمر اوپر اُٹھائی، دُم تانی جس کے سرے پہ شربتی رنگ کا ایک بڑا سا گپھا تھا۔ پھر اگلے پنجے آگے رکھے، پچھلے پیچھے، اکڑا ،گلابی سا منھ کھول کر جمائی لی۔ ارد گرد کے پورے منظر کو کچھ تعلق اور کچھ بے تعلقی سے دیکھا اور ایک نہایت ہی سُست رفتار میں سڑک کے دائیں طرف چل دیا۔

’’گیا نرسی بھگوان—‘‘ بس کے ڈرائیور نے کہا۔

’’گیا… گیا…‘‘ سب نے تالی بجائی اور ہنستے ، کلکاریاں مارتے ہوئے اپنی اپنی گاڑی کی طرف لپکے۔ گاڑی کو راستے سے ہٹانے، ہَوا ہو جانے کے لیے۔ لیکن وہ —بلّی کا بچّہ ، بڑی تمکنت سے چلتا ہوا، اب دائیں طرف تقریباً سڑک کے بیچ پھر دھرنا مارکر بیٹھ گیا۔ اب مخالف سمت کی ٹریفک رُکنا شروع ہوئی۔ بائیں طرف سے نکل جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔

کوئی اس فضول سی زندگی کو روندتا ہوا نکلنا بھی چاہتا ،تو لوگ اسے روک دیتے اور وہ اپنے سامنے بے شمار زندگیوں کی ایک چٹّان سی کھڑی پاتا، جن کے ہونٹوں پہ کف بھی ہوتا اور ہنسی بھی۔ پھر وہی منظر دُہرایا جانے لگا۔

عجیب نادر شاہی تھی—بلّی کے بچّے کی، اور عجیب تخت طاؤس تھا اس کا۔

بیٹھنا ہی تھا تو کہیں اور بیٹھتا… اتنی جگہ تھی اس کے لیے ۔

شاید بلّی کے بچّے کا مطلب تھا، دھرتی کے اس حصّے پہ تمھارا حق ہے، تو میرا بھی ہے…

—میں اس پہ کھیلوں گا اور وہ کھیلنے لگا۔ وہ تھوڑی سی جست بھرتا، اور کچھ خیالی چوہے پکڑ کر پھر وہیں آبیٹھتا، اور سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا—تم تو دن رات اس پہ چلتے ہو۔ آج میں آبیٹھا ہوں تو آفت آ گئی۔

تم تو بڑی بڑی مشینوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہو۔ میں چلتا ہوں تو آواز بھی نہیں ہوتی۔ شور روکنے کے لیے پیروں میں گدّے باندھ رکھے ہیں اور یہ ناخن تو صرف بچاؤ کے لیے ہیں۔ ایک رول تمھارا ہے، ایک میرا!

معاملہ مذاق کی حد سے بڑھا جا رہا تھا۔ جب ہی بھیڑ کے بیچ سے کسی بچّی کی آواز آئی۔ ’’میرا سومو۔‘‘… اب جھلاّنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ ہو سکتا تھا کوئی اتنا امیر ہو گیا ہو، کہ اسے عام آدمی کے خیالات، بلّی کے بچّے کے جذبات کی ذرا بھی پروا نہ ہو، اس لیے جیگوار نے لپک کر بلّی کے بچّے کو کمر سے اُٹھا لیا۔ بجلی کی پھرتی کے ساتھ بڑے بڑے ناخن کسی نہ دکھائی دینے والی سے لپکے اور اگلے ہی لمحے جیگوار کی قمیص میں گڑے ہوئے تھے۔ لیکن جیگوار نے آمدورفت کے لیے سڑک خالی کر دی تھی اور گاڑیاں چلنے لگی تھیں۔

اب جیگوار فٹ پاتھ پہ کھڑا بلّی کے بچّے کے سر پہ ہاتھ پھیر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس جانور کے پنجے جیسے اپنے آپ اندر چلے گئے۔ خرخر کی آواز سی اس کے پورے بدن میں سنسنانے لگی۔

جب کلیان نے اپنی کھٹارہ گاڑی کا اسٹارٹر گھمایا تو بلّی کا بچّہ سامنے اپنی گلاب کی پتّی سی زبان سے پشت کو صاف کر رہا تھا۔ جبھی ایک جھٹکے کے ساتھ بچّے نے سر اٹھایا۔ ایک جست لی اور نیچے آ رہا۔ اسے کوئی بو آ گئی تھی — مُنّی پڑوس کی ایک لڑکی مٹی کی ٹھلیا میں دودھ لے آئی تھی۔ جس میں مُنھ ڈال کر بلّی کا بچّہ پُسر پُسر دودھ پی رہا تھا۔

سچ! اگر پورے شہر کا ٹریفک رُک سکتا ہے تو … تو…

٭٭٭

 

 

 

مہارانی کا تحفہ

 

 

                (1)

 

اویر پور کو راجا شو سے ہمت نے فتح کر لیا تھا۔ مگر اصلی فتح اُس کی رانی، رمتا کی تھی، جس نے لوگوں کے دِلوں کو مسخر کر لیا تھا۔وہ رعایا کے کسی ایک فرد کی خاطر اپنی جان تک سے گزر جانا جانتی تھی۔ پہاڑی لوگ، جن کے دل میں بغاوت کی خفیف سی جنبش کے وقت اُن کی جنم بھومی— پہاڑوں [کے] نا قابلِ گزر نشیب و فراز، جنگل اور غار ماں کی گود کی مانند کھلے رہتے تھے، اب بغاوت کا خیال ہی دل میں کیوں لاتے کہ اُن کے لیے ایک اور ماں کی گود کھلی تھی — رمتا اُن کی مصیبت و تنگ حالی کو خود دیکھا اور سُنا کرتی۔

شام کے وقت سورج کی آخری شعاعیں قلعے [کی] محرابوں سے چھن کر مشرق کی طرف یوں پڑ رہی تھیں، جیسے پہاڑ کی چوٹی سے سنہری پانی چوکور سی دھاروں میں گر رہا ہو۔ بریلے کے اونچے پہاڑی درخت ، چٹانوں کے پیچھے سے ایڑیاں اُٹھا کر، قلعے سے بلندی کا گلہ کرتے ہوئے، سورج کی موت کے راگ کو مکمّل خاموشی سے سُن رہے تھے۔ مہارانی رمتا نے جھروکے کے پیچھے سے سر اُٹھا کر محرابوں کو دیکھا۔ سنہری پانی کے آخری قطرے نظر آ رہے تھے اور چشمے سے اُمڈتی ہوئی سنہری دھاریں بھی اب مختصر ہوتی جاتی تھیں۔ مگر راج پروہت کا جلوس ابھی تک قلعے کے جھروکے کے نیچے نہیں پہنچا تھا۔

…بالآخر جلوس پہنچ ہی گیا۔ طلب و مسرّت سے دیوانے لوگ ، گھنٹیوں کو یوں کوٹ رہے تھے جیسے کوئی نحیف بوڑھا، تقاضائے عمر کی وجہ سے کسی ذاتی دشمن سے بدلہ لینے کے تخیّل میں ہاتھ کی ہتھیلی پر، دانت پیستے ہوئے، زور زور سے مُکّے مارتا ہے، یا جس طرح سمندر کی غضب ناک لہریں چٹانوں سے سر پھوڑ کر ایک دل کو بٹھا دینے والی آواز نکالتی ہیں —— گانْو کی مالن کی چاندی تھی۔ لوگ پیسے دے کر بھی پھول بھکاریوں کی مانند مانگ رہے تھے—— راج پروہت سے اُنھیں دِلی عقیدت تھی۔ راج پروہت کے والدین نے اُسے روحانی تعلیم دلانے کے لیے بچپن ہی سے ہمالیہ کے دامن میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں بھیج دیا تھا —— اُسی جگہ پر جہاں برسوں سے اب تک رِشی، پرانایام کے ذریعے سانس چڑھائے پڑے ہیں۔ صرف اُن کے بدن کی ہڈّیوں کے ڈھانچے میں، ایک نہایت باریک چمڑے کے نیچے، دل کی ایک خفیف سی حرکت اِس بات کا یقین دلا رہی ہے کہ اِن پنجروں میں کسی مخصوص موقعے پر روح اپنے پاک احساس کے ساتھ عود کر آئے گی۔

راج پروہت، بیس برس کی کڑی تپسیّا کے بعد، تیس برس کی عمر میں واپس لوٹ رہے تھے۔ اُن کے بشرے پر روحانی تجلّی عیاں تھی۔ آنکھیں شباب کی آمد آمد کی وجہ سے سرخ تھیں— مہارانی رمتا نے نہایت غور سے راج پروہت کو دیکھا۔ مہاراجا اور مہا رانی دونوں نے پروہت جی کو نمسکار کی اور جلوس آہستہ آہستہ گزر گیا۔

رمتا جھروکے سے اُٹھی اور حسب معمول چاند کی چاندنی میں شہر کا نظارہ کرنے کے لیے قلعے [کی] محرابوں کے پیچھے کی طرف بڑھی۔ چاند نے رات کی سیاہ چادر پر اپنی چاندنی پگھلا کر بچھا دی تھی۔ جس جگہ رانی رمتا کھڑی تھی، وہاں پاس ہی ایک دیوان خانہ ہونے کی وجہ سے چاند کی روشنی نہ پہنچی تھی اور اِسی لیے اندھیرے میں جاتی ہوئی رمتا کی توجّہ دیوان خانے کی روشن قندیلوں نے اپنی طرف کھینچ لی۔ رمتا اُس طرف بڑھی۔ باندیاں مورچھل لینے کے لیے دوڑیں—رانی کو دل پر ایک بوجھ سا معلوم ہوا۔ اتفاق سے درباری گویّا بھی دیوان خانے میں بیٹھا تھا۔ اُس کی طرف دیکھ کر مہارانی نے مسکراتے ہوئے کہا:

’’چندیر ! گاؤ گے نہیں کیا؟‘‘

’’گاؤں گا—مہارانی جی! کیا گاؤں؟‘‘

’’یہ تمھیں معلوم ہو۔کچھ سمے کے متعلق [مطابق؟]گاؤ‘‘۔

چندیر نے جھک کر دیکھا۔ پاس کھڑی رمتا کی آنکھوں میں اُسے کچھ بے چینی کی لہر سی معلوم ہوئی۔ اُس نے چاہا کہ اِن ہی بے چینی کی لہروں کو اُٹھا کر وہ اپنا راگ، اپنے ہنر کے مطابق شروع کرے اور اسی بے چینی کو بے چین تر بناتا ہوا، سکوت کی مملکت میں داخل ہو کر، مہارانی سے ایسا خراج وصول کرے کہ دولت جس کے پانووں میں لوٹتی ہو۔ اور اُس نے سمے کے مطابق گانا شروع کیا۔ اُس کے راگ نے پہلے آہستہ آہستہ دل کو ہزاروں خیالوں کی طرف سے ہٹا کر یک سو راغب کر دیا۔ پہلے اُس نے گایا —— ’’چاند چمک رہا ہے بادشاہ کے محل پر۔ غریب کی جھونپڑی پر۔ شیر کے غار پر ——وادیوں پر، جنگلوں، پہاڑوں اور میدانوں میں—‘‘ اور مہارانی کا دل اِس تصوّر سے زیادہ بے چین ہو گیا۔ چندیر نے ستار کی آواز کو قدرے بلند کرتے ہوئے کہا— ’’اور کھوپڑی کے ایک ٹکڑے پر، جو زمین کی اونچ نیچ یا بارش کی ریزش سے زمین سے باہر آ گئی ہے اور — ’’مہارانی کا دل پہلے سے بھی زیادہ بے چین ہو گیا۔

چندیر نے اِس بات کو دیکھا۔ اچھی طرح دیکھا اور زیادہ سنجیدگی سے گایا—

’’دھرم گڑھ کا مہارانا —ظالم اور عیّاش رانا، جس کی جلتے وقت شمشان میں کھوپڑی چٹخی نہ تھی بلکہ ثابت رہ گئی تھی اور کسی کے توجہ نہ دینے کی وجہ سے زمین پر پڑی رہ گئی۔ شاید کسی نے دیکھ کر زمین میں دبا دی۔ اُس کے اوپر کی زمین پر گھاس اُگ آئی۔ جسے گائیں اور بھینسیں چرنے لگیں— ایک دن آیا۔ جب کہ اسی طرح چاند اپنی چاندنی کو یکساں طور پر بانٹ رہا تھا کہ کسان کی ہل کی نوک نے کھوپڑی کو باہر نکال دیا اور کسان نے پانو کی ٹھوکر سے کھوپڑی ایک طرف پھینک دی!‘‘

چندیر نے ستار کی آواز کو قدرے اونچا کرتے ہوئے کہا— ’’اے انسان! تیرا آغاز کیا ہے اور انجام کیا۔ زندگی کی اصلیت کیا ہے اور ہل کی نوک جس [نے] کھوپڑی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا، اپنی خاموشی کی بولی میں گانے لگی۔’’جیو ریا بِن ساجن کس کام‘‘ —اور مہارانی رمتا کی آنکھوں سے چندیر کو آنسو ٹپکتے ہوئے دکھائی دیے۔ چندیر نے ایک تڑپ اور جلن کے ساتھ اپنی ناچتی ہوئی انگلیوں کو سِتار پر سے اُٹھا لیا۔ آہ! گانے کے تخیّل رُبا شور کے بعد کی خاموشی کا لطف بھی کم دل افروز نہیں ہوتا۔

مہارانی نے گلے سے ایک قیمتی ہار اُتارا اور کہا — ’’چندیر ! تمھارے راگ کی ایک بہت کم قیمت ادا کر رہی ہوں‘‘۔ اور چندیر نے زائد سنجیدگی سے کہا:

’’ہاں—پوجیہ مہارانی جی —ہار کی، میرے راگ کے مقابلے میں، کچھ وقعت نہیں، لیکن سچ پوچھو، مہارانی ! میں، ہار اور دولت نہیں چاہتا۔ میرے راگ کی سب سے بڑی قیمت وہ آپ کے دو آنسو ہیں ،جو آپ کے خیال میں بے قیمت ہو کر فرش پر گِر گئے ہیں—!‘‘

مہارانی نے سنجیدہ مسکراہٹ سے کہا ’’کل مونگے کا دن ہے چندیر ! بیل دیو کے ماتھے پر سیندور لگ جانے کے بعد اور راج پروہت کو کھانا کھلا کر پھر اسی جگہ آنا۔ چاندنی رات ہو گی۔

 

                (2)

 

سورج دھام (مندر) کے گرد ننگے پانو چکّر کاٹنے کی وجہ سے راج پروہت جی کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ وہ جنگل کی خاموشیوں سے آئے تھے۔ اُن کے کان صرف گنگا کے دل کش راگ، جو ہمیشہ گائے جانے کے باوجود ویسی ہی مٹھاس اور دل کشی رکھتا ہے، سننے کے عادی تھی۔ مندر میں آئے ہوئے لڑکے اور لڑکیوں کا شور، ڈھولک اور باجے کی آوازیں، اُن کے، مادّی شور سے نا آشنا، کانوں کو پریشان کرنے لگیں۔ پربھو راج پروہت، ماتھے پر ایک خفیف سا تیور ڈالتے ہوئے، اپنی بھاری بھرکم کھڑانووں کو ایک کونے میں رکھ کر، بیل دیو کے پاس آ بیٹھے۔ اُن کے ہاتھوں میں سیندور تھا۔ پجاری کے اشارے پر اُنھوں نے، شیو جی مہاراج کے بُت کے پاس دھرے ہوئے، سنگِ مرمر کے بیل کے ماتھے پر ٹیکا لگایا اور تمام طرف سے مونگ برسنے لگا۔

’’ٹھہریے ٹھہریے! مہارانی جی آتی ہیں۔ اُنھیں بھی مونگ ڈالنا ہے‘‘۔ چندیر جی نے جو پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، آہستہ سے کہا۔ دور سے مہارانی رمتا، سفید اور سادہ کپڑوں میں ملبوس، آنکھوں کے لیے چندن کی سی ٹھنڈک لیے موسم سرما کے بادل کی طرح آہستہ آہستہ آ رہی تھی۔ دور سے اُس کے گلابی پانو زمین پر یوں پڑتے تھے جس طرح رحمتِ ایزدی گناہ گاروں پر نازل ہوتی ہے۔ چندیر کے من مندر کے دروازے کھُل گئے۔ اُس کے دل کی دیوی آہستہ آہستہ بڑھی آ رہی تھی۔

تیتری کے پروں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز آنے لگی، جو بعد میں جھانجروں کی موسیقی میں گُم ہو گئی۔ چندیر نے اپنے ستارے چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ جھانجروں کی موسیقی ، چندیر کے ستار پر اُس کی انگلیوں کے ناچ کے ساتھ ساتھ رقص کر رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ موسیقی اور رقص کے اس وصال کی مثال آئندہ دنیا میں پھر کبھی نہ مل سکے گی۔

جس طرح تالاب کے پُرسکون پانی میں کنکر پھینک دیے جانے پر پانی اپنے عظیم سکون کو کھو دیتا ہے، اُسی طرح اس نئی قسم کی موسیقی نے راج پروہت کے پُرسکون دماغ میں پریشانی سی پیدا کر دی۔ مونگ ڈالتے ڈالتے ہاتھ رُک گیا۔ جھکتے وقت کمر اور گردن کے گرد لپٹا ہوا کپڑا گر پڑا۔ اُنھوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کپڑے کو گردن کے گرد لپیٹ لیا۔ چندیر نے دیکھا کہ راج پروہت کا منھ کان [کانوں؟] تک سرخ ہو گیا۔ تھالی میں موتیا، کرنے اور گلاب کے پھولوں کے ساتھ دھوپ اور دیپک [دیا] پڑے تھے۔ جھانجروں کی موسیقی میں کھو کر راج پروہت نے کچھ کرنے کے پھول بیل دیو کی پیٹھ پر مسل دیے اور چندیر نے محسوس کیا— کہ اِس حرکت کی چنداں ضرورت نہ تھی۔

——اور جھانجروں کی آواز خاموشی کے پُر لطف راگ میں ختم ہو گئی۔ راج پروہت جی نے محسوس کیا کہ وہ اپنے فرض سے اچھی طرح سبک دوش نہیں ہو رہے۔ اُنھوں نے دل میں کہا ’’صرف روحانی تعلیم سے انسان کی ازلی بھوک نہیں مٹ سکتی۔ دنیا میں رہ کر، اُس سے سیر ہو کر، روحانی بلندیوں کو طے کرنا، صحیح معنوں میں اپنے فرائض کا انجام دینا ہے‘‘۔

دیپک کی چاندنی کو شیوجی مہاراج کے بُت کے پاس سے آرتی کے طور پر گھمانے کے بعد پروہت جی نے تھالی رکھ دی۔ مونگ سب طرف سے برسنے لگا۔ پردے کے پیچھے سے مونگ کی خفیف سی بارش ہوئی ،جس کو پروہت جی نے سہواً راستے میں آ کر روک لیا اور ذرا پیچھے کو ہٹتے ہوئے بولے—

’’بھارت سُپتری —اپنی پرجا کے لیے جان تک نچھاور کر دینے والی مہالکشمی—نمسکار کرتا ہوں۔ آگے آئیے اور ہاتھوں میں سیندور لیجیے‘‘۔

حُسن اور حیا کا ایک مرمریں بُت پردے کے پیچھے سے نکلا۔ دو بڑ ی بڑی، مست، شرابی نیم وا آنکھوں نے پروہت جی کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ گلاب کا غنچہ چٹکا اور مہارانی جی نے کچھ کہا —آہستگی سے، یقین سے اور بھروسے سے— مگر پروہت جی نے کچھ نہ سمجھا۔ ایک لمحے بعد مہارانی جی نے آنکھیں نیچی کر لیں۔

مادّیت کی اِس زبردست قوّت سے اُنھوں نے ابھی زور نہ آزمایا تھا کہ مہارانی جی، پروہت جی کے قریب تر آ گئیں۔ جھانجروں کا راگ ایک دفعہ پھر چھڑ گیا۔

راج پروہت نے دل میں یہی اندازہ لگایا—کہ رمتا ایک عورت ہے۔ گلابی پانووں والی، جس کے حسین پانووں سے جھانجروں کا راگ بادل کی مانند آسمان کی طرف اُٹھ رہا ہے۔ اُس کی دو آنکھیں——شرابی ، مست، نیم وا … جن سے ہر طرف پریم کی پھوار پڑ رہی ہو۔

یہ اندازہ غلط تھا۔ راج پروہت کے خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ دیوی تھی اور وہ کسی ایک فرد کی خاطر اپنی جان سے بھی گزر جانا جانتی تھی۔ وہ محض ایک عورت نہ تھی۔

مہارانی نے عقیدت کے طور پر پروہت جی کے قدموں میں پڑے ہوئے سیندور کا ٹیکا ماتھے پر لگایا اور پھول بیل دیو کے بدن پر گرائے۔ ایک دفعہ پھر چاروں طرف سے مونگ برسنے لگا۔ لوگوں نے کہا۔ ’’ماتا رمتا کی جے‘‘۔

یہ سچ تھا کہ وہ ایک نہایت خوب صورت نوجوان عورت ہونے کے علاوہ —ماتا…بھی تھی!

مہارانی جی نے اپنی نیم وا آنکھوں کو ایک دفعہ پھر اوپر اُٹھایا—اُن میں سے دو آنسو— ڈھلی ہوئی عقیدت، پگھلائے ہوئے پریم کے دو قطرے نیچے آگرے۔

چندیر نے نہایت آہستہ سے گایا:

’’وہ خاموشی کا سماں—جس پر تکلّم ہزار جان سے فدا ہو!

وہ آنکھیں، جن میں پریم کے پیازی آنسو، گلاب کے رنگ کو شرمائیں!

وہ حیا، جو سو ناز و ادا کو پالے—!

وہ موسیقی، جو ویرانۂ دل میں کھو جائے—

سب مل کر، ہاں سب مل کر، مونگے کا دن مناتے ہیں…‘‘

ایک دفعہ پھر ایک جلن کے ساتھ چندیر نے اپنی انگلیوں کو ستار سے علاحدہ کیا۔ پربھو راج پروہت نے اپنے جھکے ہوئے سر کو اُٹھایا—ذرا دائیں طرف منھ پھیر کر پروہت جی نے پجاری جی کو سنکھ بجانے کا اشارہ کیا—سنکھ پورنے کے بعد سب رخصت ہوئے۔

 

                (3)

 

صبح کے وقت پربھو راج پروہت شاہی باغ میں گھوم رہے تھے——اُن کے چہرے سے افسردگی ٹپک رہی تھی۔ اُن کے چہرے کی افسردگی کو دیکھ فضا میں بھی افسردگی پیدا ہو گئی تھی۔ ہمیشہ شرابِ مسرّت میں مدہوش چہرے نے اپنے خط و خال کو ایک شاہانہ رعب داب کی صورت دینی مناسب سمجھی۔ اُنھوں نے اپنے جسم کے تمام عناصر کو ایک عمیق نظر سے دیکھا اور اُن کے دماغ نے فیصلہ کیا کہ وہ خوب صورت ہیں اور اُن کے اعضا سانچے میں ڈھلے ہیں۔

مادّیت اور روحانیت کی کشمکش میں وہ گھبرا گئے۔ خلافِ عادت افسردگی کو جھنجھوڑ کر دور کر دینے کی کوشش میں اُنھوں نے اپنے دل سے کہا:

’’آج باغ کی کلی کلی کیوں خاموش ہو گئی ہے۔ غنچے صبح کی راج کماری کے استقبال کے لیے خندہ پیشانی سے پیش کیوں نہیں آ رہے ۔ پانی کی اُڑتی ہوئی پھوار میں دھنک پیدا کیوں نہیں ہوئی۔ کیا پپیہے کو پی مل گیا ہے کہ وہ ’’پی کہاں‘‘ کی رٹ نہیں لگاتا؟‘‘

چندیر نے آہستہ اور سلجھے ہوئے الفاظ میں پوچھا:

’’پربھو —— آپ خاموش کیوں ہیں؟‘‘

’’کیوں کہ سب سرشٹی خاموش ہے‘‘۔

’’سرشٹی آپ کی خاموشی کی وجہ سے خاموش ہے۔ ورنہ پھول بھی مسکرا رہے ہیں اور دھنک…‘‘

’’نہیں چندیر بھیّا، ایسا نہیں ہے‘‘۔

’’نہیں پربھو۔ اِس نظر سے دیکھیے—کہ آپ کا پیا کہاں بستا ہے، جہاں وہ بسے گا، وہاں… وہ جگہ …‘‘

راج پروہت جی نے بات کاٹ دی اور گیان کے اِس اشارے کو سمجھتے ہوئے بولے—

’’ہاں سچ ہے—چندیر ! میری خاموشی کی وجہ اور ہے—!‘‘

’’کیا ہے پھر؟ چندیر نے پھولوں کی تھالی سنبھالتے ہوئے کہا۔

راج پروہت نے کچھ تامّل کے بعد کہا:

’’چندیر—تم یہ کسی کو بتاؤ گے نہیں نا—وعدہ کرو—‘‘

’’وعدہ کیا— پِتا!میں کسی کو نہیں بتاؤں گا—اگر آپ کی یہی اچھّا ہے‘‘۔

راج پروہت جی نے چاروں طرف دیکھا اور جس طرح ہوا کے زور سے چلنے سے چھوٹے چھوٹے پودے لہراتے ہیں اور ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہیں، اُسی طرح لرزتے ہوئے اُنھوں نے چندیر سے کہہ دیا—

’’چندیر —میرا تپ ادھورا رہ گیا۔‘‘

چندیر جی دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ جس طرح گاتے ہوئے اُس کا قلب یک سوئی اختیار کرجاتا تھا ،اُسی طرح کی یک سوئی سے آنکھوں کو پروہت جی کے چہرے پر گاڑتے ہوئے چندیر نے پوچھا:

’’ادھورا— تپ ادھورا—وہ کیسے؟‘‘

پروہت جی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا:

’’وہ تخیل—وہ پوجنا جس نے مجھ کو —جسے اپنی شانتی پر ناز تھا، اس طرح اَشانت کر دیا، جس طرح بادِ خزاں سوکھے ہوئے پتّوں کو دور تک بکھیرنے کے لیے لے جاتی ہے… اور پھر بتاؤ—چندیر بھیّا! میں کیسے بتاؤں؟‘‘

فوّارے کے پیچھے سے پجاری جی آ نکلے—اور کہنے لگے ’’پربھو چلیے مندر میں—لوگ اکٹّھے ہو رہے ہیں۔ سب آپ کے درشنوں کو بے تاب ہیں—‘‘

راج پروہت جی آہستہ سے مندر کی طرف چلنے لگے۔ پھولوں کی تھالی کے ساتھ چندیر بھی پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ چندیر کو افسوس ہوا کہ راج پروہت جی افسردہ خاطر ہیں۔ اس سے زیادہ وہ اُس بات کو جاننے کے لیے بے چین تھا کہ راج پروہت جی کا تپ کیسے ادھورا رہ گیا ہے۔ کندن کی طرح دمکنے والا چہرہ کیا اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اُن کا تپ مکمل ہے۔ باقی آدمیوں سے ذرا پیچھے ہٹتے ہوئے، راج پروہت جی نے چندیر سے کہا:

’’کاش ! دنیا کو چھوڑنے سے پہلے میں دنیا سے سیر ہو لیتا ،تاکہ اِچھّا کبھی پیدا ہی نہ ہوتی‘‘۔

’’کیسی اِچھّا؟‘‘چندیر نے آہستگی سے پوچھا۔

پروہت جی، چندیر کی بات کا جواب نہ دیتے ہوئے بولے ’’یہ تو تم جانتے ہو چندیری—مہارانی رمتا— ہر ایک فرد کی خاطر اپنی جان تک سے بھی گزر جانا جانتی ہیں‘‘۔

’’جی ہاں—اِس میں ذرا بھی شک نہیں‘‘۔

’’—اور کسی کو بھی اپنے دروازے سے خالی نہیں لوٹاتیں‘‘۔

’’نہیں—بالکل نہیں—وہ ہر ایک کی منو کامنا پوری کرتی ہیں—‘‘

پروہت جی چپ ہو گئے۔ انھوں نے اپنی رفتار ذرا دھیمی کر دی۔ پجاری جی بہت آگے نکل چکے تھے۔ نہایت چپکے سے پروہت جی نے چندیر کے کان میں کہا— ’’آہ چندیر مونگے کے دن کو رمتا کی دو بڑی بڑی آنکھوں نے مجھے موہت کر لیا ہے۔ میں اُس کے دروازے پر پریم کی بھینٹ…‘‘

چندیر کے ہاتھ سے تھالی گِر پڑی۔ پھول بکھر گئے۔ پجاری اور اُس کے ساتھی بھاگے بھاگے آئے اور پھول زمین پر سے اُٹھانے لگے۔ کیوں کہ وہ عقیدت کے پھول مہارانی نے اپنے ہاتھ سے پروس کر بھیجے تھے— مہارانی نے—جو اُن کی ماتا بھی تھی—!

پربھو راج پروہت کے دو آنسو زمین پر گرے۔ جن پر کسی کی نظر نہ پڑی۔

 

                (4)

 

ویسی ہی چاندنی رات تھی۔ پکھیرو درختوں پر اپنے گھونسلوں میں اپنے پروں کے نیچے اپنے بچّوں کو لیے سو رہے تھے۔ بہار کی ہوا آہستہ آہستہ چل کر آم کی خوشبو ، کوئل کے دماغ میں پہنچا رہی تھی اور وہ اپنی نیند سے بیدار ہو کر کبھی کبھار کو‘ کو‘ کی ایک آواز لگا کر پھر سو جاتی—

چندیر جی، مہارانی جی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ۔ رمتا کو معلوم نہ تھا۔ اُس نے مُڑ کر دیکھا اور متحیّر ہو کر کہا:

’’چندیر! — تم‘‘۔

’’ہاں—ماتا جی‘‘۔

’’آج کی چاندنی رات، پرسوں کی چاندنی رات سے بھی زیادہ خوب صورت ہے— آج قدرت گا رہی ہے‘‘۔

’’ہاں—مہارانی جی‘‘۔

’’سدا بہاری کوئل—— تم نہ گاؤ گے کیا—— تمھاری سِتار کہاں ہے۔ دیکھو کوئل تمھیں اُکسا رہی ہے‘‘۔

’’ماتا، میں گانے نہیں آیا— میں گناہ کرنے آیا ہوں‘‘۔

رانی رمتا ایک قدم پیچھے ہٹ گئیں اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چندیر کی طرف دیکھنے لگیں۔

’’حیران کیوں ہو گئی ہو ماتا— مجھے راج پروہت جی نے بھیجا ہے—سندیسا دے کر‘‘۔

’’راج پروہت جی نے— سندیسا دے کر؟‘‘

’’جی ہاں‘‘۔

’’کیا سندیسا ہے؟‘‘

’’وہ کہتے تھے۔ مہارانی۔ تم کسی کے بھلے کی خاطر اپنی جان تک بھی قربان کرنا جانتی ہو‘‘۔

’’مجھ میں یہ طاقت کہاں——‘‘

’’پھر بھی—‘‘

’’اچھا تو پھر ‘‘۔

’’پھر ماتا— اُنھوں نے کہا تھا کہ مونگے کے دن تمھاری دو بڑی بڑی آنکھوں نے مجھے موہت کر لیا ہے —‘‘ اور چندیر کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے۔ مہارانی نے کچھ افسردہ اور کچھ مسکراتے ہوئے کہا:

’’چندیری بھائی —اس میں تمھارا گناہ کیا ہے‘‘۔

’’یہی قصور ہے نا ماتا ——کہ اپنے بچن کے بس ہو کر، اپنی ماتا کو ایک ایسا سندیسا دے رہا ہوں… اپرادھی ہوں‘‘۔

’’چندیری—گھبراؤ نہیں— ایشور نے پروہت جی کو آزمائش میں ڈالا ہے۔ اگر میں اُن کے پریم کا جواب پریم میں نہ دے سکی، تو اُن کا تپ نا مکمل رہ جائے گا۔ وہ سب منزلیں طے کر چکے ہیں۔ صرف ایک ہی سبق کی ضرورت ہے— میں اُن کے بھلے کے لیے سب کچھ کروں گی—!‘‘

’’ماتا —آپ کا پتی برت دھرم نشٹ ہو جائے گا‘‘۔

’’میں ہندی اِستر ی ہوں‘‘۔

چندیر کے آنسو واپس آنکھوں میں گم ہو گئے۔ کسی اُمید اور آس میں گھِر چکنے کے بعد جوش کو دباتے ہوئے چندیر نے کہا:

’’ماتا —تیری سدا ہی جے!‘‘

 

                (5)

 

یہ اگلی شب کا ذکر ہے۔ راج پروہت مسہری پر لیٹے تھے۔ چاند کی چاندنی دریچے سے گزر کر راج پروہت جی کی مسہری پر پڑ رہی تھی۔ زرد رنگ کی جھالر سنہری دکھائی دیتی تھی — اور معلوم ہوتا تھا جیسے پربھو راج پروہت— گزشتہ واقعات پر غور کر رہے ہوں۔

راج پروہت نرم نرم گدگدی مسہر ی پر نہایت اضطراب کی حالت میں کروٹ پر کروٹ لے رہے تھے۔ مسہری کے پاس پڑی کھڑانووں کے نزدیک بیٹھے ہوئے چندیر نے کہا:

’’تو پربھو—آپ کا تپ مکمل ہو جائے گا۔‘‘

’’کیا سچ مچ؟‘‘

——اور راج پروہت مسہری پر سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ زیادہ توجہ دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا:

’’اور کچھ بتاؤ—میرے چندیر— میرے جلے دل پر چندن کا پانی چھڑک دو —‘‘

’’ہاں تو — اُنھوں نے کہا تھا — اپنے منھ سے کہ میں پریم کا جواب پریم میں دوں گی— اور کہا تھا کہ اُن کا تپ ادھورا نہیں رہنا چاہیے‘‘۔

’’یعنی — یعنی — وہ بھی مجھ سے پریم کرتی ہیں …مجھے بہشت کی رسائی سے زیادہ سُکھ ملا۔ چندیر — آخر !‘‘

چندیر کے ماتھے پر شکن پڑ گئے۔ گھبراہٹ سے اُس نے کہا ’’اور میں نے دیکھا کہ اُن کی ساڑی تربتر ہو رہی تھی۔ جیسے کسی نے گھڑوں پانی اُنڈیل دیا ہو‘‘۔

’’آنسوؤں سے — میرے لیے وہ …‘‘

’’ … ‘‘

’’کیا یہ سچ ہے یا ایک خواب ہے؟‘‘ اور پربھو راج پروہت دریچے میں جا کھڑے ہوئے۔ چاند کی چاندنی نے ہر ایک چیز کو اپنی روپہری [روپہلی] اور آرام دینے والی گود میں لے لیا تھا اور ہوا پنکھا کر کے خاموشی کی لوریاں دے رہی تھی۔

’’— اور پربھو— انھوں نے بھی پریم سندیسا دیا — وہ کہتی تھیں کہ’’ یہ ایک ناچیز شے ہے جو آپ کے متبرک قدموں کی بھینٹ کی جا رہی ہے۔‘‘ اور چندیر نے تھال راج پروہت جی کے آگے کر دی — تھالی پر ایک ڈھکنا تھا جو شاید کسی رکابی کو ڈھک رہا تھا اور اُس کے گرد پھول بکھر رہے تھے اور دھو‘پ ، مدّھم مدّھم جل رہا تھا اور اپنی خوش بو‘ کو چاروں طرف بکھیر رہا تھا۔

’’تم نے دیکھا — یہ کیا ہے چندیری —؟‘‘ راج پروہت نے حریصانہ انداز سے تھالی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’نہیں پربھو— مجھے ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔‘‘

اور جس طرح ایک چاندنی رات کو چندیر نے ستار پر سے ایک جلن کے ساتھ اپنی انگلیوں کو اُٹھا لیا تھا اور مہارانی کے بے چین آنکھوں [نے] دو قیمتی موتی — آنسو، تحفے میں چندیر کو دیے تھے، اُسی طرح ایک جلن اور تڑپ کے ساتھ راج پروہت جی نے دریچے کو چھوڑا، تاکہ کوئی موتی— کوئی نایاب تحفہ مہارانی رمتا کی طرف سے بھیجا ہوا پاکر اُس کا پوجن کیا کریں—

—اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے راج پروہت جی نے ڈھکنا اُٹھایا اور تھال کو ایک قندیل کے نیچے لے گئے— ایک چیخ سنائی دی۔ چندیر کے ہاتھ سے پھر ایک دفعہ تھال گِر پڑا۔ راج پروہت نے زور سے کہا:

’’آہ! آج برسوں کی تپسیّا مکمّل ہوئی ہے۔‘‘ اور کپڑے پھاڑ کر باہر نکل گئے۔ چندیری— ماتا رمتا کے پجاری —بے ہوش ہو گئے۔

چمکتے ہوئے بلّوریں فرش پر بہت سے پھول بکھرے ہوئے تھے، جن پر قندیل کی روشنی اور چاند کی چاندنی مل کر پڑ رہی تھیں اور اُن پھولوں کے درمیان پڑی تھیں — دو موٹی موٹی — بے رونق آنکھیں!!!

[سال نامہ ’’ادبی دُنیا‘‘ لاہور۔ دسمبر 1937 ]

٭٭٭

 

 

 

خود غرض

 

 

                (1)

 

آخر مویشی، جن کی بدولت تین برس پیشتر جیا اور جیون جاٹ اور اُن کے حواریوں میں تصادم ہوا، بے سمجھ جانور ہی تھے نا۔ اگر عقل ہوتی تو کیوں کسی کے کھیت میں گھُس کر اُگتی ہوئی مکئی کی ہری بھری کونپلوں کو منھ مارتے۔ تلوں کے خشک پودوں کو اگر لتاڑ کر زمین پر بکھیر بھی دیا تھا ،تو جیا اور جیون دونوں کو چاہیے تھا کہ آرام سے بیٹھ کر ایک دوسرے کو تنبیہ کرتے۔ یا چار بھائیوں کے رو بہ رو اپنا معاملہ نپٹا لیتے اور اگر ممکن ہوتا تو جائز ہرجانہ طلب کرتے۔ نہ یہ کہ لٹھ لے کر ایک دوسرے کا سر پھوڑ دیتے اور پھر عدالتوں میں ناکوں چنے چبا کر سیکڑوں روپئے وکیلوں اور پولس والوں کی جیب میں داخل کر کے انجام کار راضی نامہ کر لیتے۔ لوگوں کی ایسی غلطیوں اور سماج کی چند تباہ کن رسوم کا ازالہ کرنے کے لیے رُہل گانو کے ایک بزرگ نے پنچایت بنا ڈالی۔ لوگوں نے اعزاز کے طور پر اُسی بزرگ کو پنچایت کا صدر چُنا۔

رُہل گانو میں ایک لالہ میّا داس ہی ایسے فرد تھے جن کی آنکھوں میں پنچایت خار کی مانند کھٹکتی تھی۔ وہ طبیعت کے نہایت خودغرض واقع ہوئے تھے۔ گانو میں ان کی دو دُکانیں تھیں۔ ایک آٹے دال کی اور دوسری کپڑے کی، جن سے اُنھیں باقی دُکان داروں کے مقابلے میں زیادہ آمدنی ہو جاتی تھی۔ پہلے وہ گانو کے چودھری تھے اور روپئے پیسے کے زور پر من مانی کارروائیاں کرتے تھے، مگر اب پنچایت کی وجہ سے اُن کا کچھ بس نہ چلتا تھا۔ پنچایت کے احکام مانے بغیر گزارا بھی نہ تھا، کیوں کہ اگر اُس کے فیصلے کے خلاف وہ ایک لفظ بھی کہتے، تو اُن کا روز گار خراب ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ ادھر اگر گانو والے اُن سے عدم تعاون کر دیتے تو وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جاتے۔ ہزاروں روپئے کی جائداد کو چھوڑ کر اس گانو سے چلے جانے کا خیال بھی وہ دل میں کیسے لاتے؟ پنچایت کا ایک ایک رکن اُن کی خود غرضی سے آگاہ تھا۔ یہاں تک کہ اگر بھولے سے وہ کسی کے بھلے کی بات بھی کرتے، تو لوگ مشکوک انداز سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور دل میں کہتے کہ اس بات میں کوئی نہ کوئی ایسا راز ضرور ہے، جس سے لالہ میّا داس کو کوئی ذاتی فائدہ پہنچے گا۔ جب لالہ میّا داس نے سیدھی انگلیوں گھی نکلتے نہ دیکھا تو پنچایت میں سے چند ایک آدمیوں کو روپئے سے خریدنے کی کوشش کی۔مگر یہ سودا اُنھیں مہنگا پڑا۔ بہت اصرار کے بعد جن چند اشخاص نے اُن کا حواری بننا قبول کیا، وہ پیسا ختم ہوتے ہی لالہ میّاداس کے گھر پہنچتے اور روپیا مانگتے۔ نفی میں جواب ملنے پر لالہ میّاداس کو دھمکی دیتے کہ وہ پنچایت میں اُس کی ہر بات کی مخالفت کریں گے۔ اور اگر پھر بھی لالہ میّاداس نظرِ التفات نہ کرتے، تو ہر اچھّی بری بات میں اُن لوگوں کی طرف سے پنچایت میں اُن کی کھلّم کھُلاّ مخالفت ہونے لگتی۔

لالہ میّا داس کے ایک لڑکی تھی اور ایک لڑکا۔ لڑکے کی عمر کوئی اِکّیس برس اور لڑکی کی سولہ برس تھی۔ لڑکا پاس ہی کے بڑے شہر میں نہر کے محکمے میں نوکر تھا۔ پوہ ماگھ کے اُن دنوں، جب کہ سورج ، دھن راس کو کاٹ کر، مکر راس میں داخل ہوتا ہے، یعنی تِل سنکرانت کے دن، جب کہ   سجی دھجی عورتیں تِل بانٹ رہی تھیں اور آپس میں گاجر، مٹر، امرود، بیر اور گنّے کا تبادلہ کر رہی تھیں اور سوئے ہوئے جذبات میں زندگی پھونک دینے والے تبسّم سے مسکراتی ہوئی ایک دوسری سے کہہ رہی تھیں ’’میٹھا میٹھا کھاؤ اور میٹھا میٹھا بولو‘‘۔ اور اُس دن کے بعد جب کہ دن تِل برابر ہر روز بڑھ کر آہستہ آہستہ چولھا سماج کی حاضری میں کمی پیدا کر رہا تھا، منورما—لالہ میّاداس کی لڑکی—سترھویں برس میں قدم رکھ رہی تھی اور یہ غم کہ لڑکی اِس قدر جوان ہو رہی ہے اور اس کے لیے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل سکا، لالہ میّا داس کی بیوی کو کھائے جا رہا تھا۔ سنکرانت کے اُن دنوں میں منورما کی ماں کی ادھوری خوشی کا اُس کی نیم جان آواز سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ ایک دن گھر کی دہلیز پھاندتے ہوئے لالہ میّاداس کا ما تھا ٹھنکا۔

’’منورما کی ماں ‘‘ لالہ میّاداس نے کہا ’’آج کیا بات ہے ، بتّی کو دِیاسلائی تو دکھا دو‘‘۔

’’دِیا بتّی جائے بھاڑ میں‘‘ منورما کی ماں نے بھپرتے ہوئے کہا ’’مجھے دِیے بتّی کا ہوش ہے کیا ۔ مجھے تو اِس چھوکری کے غم نے کھا لیا ہے۔ پنچایت ماننے سے رہی، تو کیا اُسے بٹھا چھوڑیں گے‘‘۔

’’دیکھو—اگر اتنی ہی جلدی تھی، تو پھر دتّو سے کیوں نہ نسبت کرنے دی۔ یہ قرار پایا تھا نا کہ منورما کو کسی بڑے گھرانے میں دیا جائے اور پنچایت میں اِس بات کا چرچا کیا جائے کہ بیاہ شادیوں میں جہیز دینا فضول ہے، اِس سے سینکڑوں گھر برباد ہو چکے ہیں اور اگر کسی کو ضرور کچھ دینا ہی ہو، تو تحفے تحائف کے طور پر دیا جائے۔ مگر ایسی حالت میں بھی اُن اشیاء کی قیمت دو سو سے زیادہ نہ ہو — یہی ایک طریقہ ہے جس سے امیرانہ وضع داری کے ساتھ تھوڑے سے خرچ میں گزارا کرسکتے ہیں۔ برات کو روٹی اچھّی کھلا دی، جہیز میں کچھ نہ دیا اور اپنا روپیا بچا لیا … مگر بکرم اور بلاقی شاہ، شیشر اور گردھاری سب اِس کے خلاف ہیں۔ وہ اعلانیہ طور پر کہتے ہیں کہ منورما کا بیاہ درپیش ہے اور اسی لیے یہ تگ و دو ہو رہی ہے‘‘۔

’’تو کیا رامے اور بانشی اور اُن کے پِٹھّوؤں نے تمھارا ساتھ نہ دیا… اُنھیں پیسے کاہے کو دیے…‘‘

’’انھوں نے بُہتیرا شور غوغا کیا، مگر وہ ہیں آٹے میں نمک برابر—میں نے پردھان سے کہہ دیا ہے کہ میری ہر بات میں بلاوجہ مخالفت کی جار ہی ہے‘‘۔

’’مگر پردھان کس کروٹ ہے—‘‘

’’وہ کہتا تھا کہ باہر سے آئی ہوئی براتیں یہ بات گوارا نہ کرسکیں گی۔ تِس پر میں نے جواب دیا کہ جب وہ سمجھیں گے کہ یہاں کی پنچایت کا یہی دستور ہے، تو پھر وہ ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتے ،اور اگر وہ اس کے خلاف احتجاج کریں تو ہم دوسرے گانووں کی لڑکیاں لینی چھوڑ دیں گے اور اُن ہی چند ایک نزدیک کے گانووں میں، جہاں رُہل کی پنچایت کا دبدبہ ہے، اپنے ناطے کر لیں گے…‘‘

’’پھر کیا بولا وہ بُڑھؤ— ڈھانٹ—‘‘

’’سنو تو — میں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے گرام میں کئی ، پیسے ٹکے سے اچھّے ہیں اور کئی قصبوں کے لوگ اپنی لڑکیاں ہمیں مِنّت سے دینے کو تیار ہیں— بات تو یہ ہے کہ پنچایت مضبوط ہو اور گرام باسیوں میں ایکا ہو ایکا—‘‘

’’پھر کوئی تانا بانا بُنا کہ یوں ہی…‘‘

’’رام پہ بھروسا رکھو نا—کل شام کے آٹھ بجے اِس بات کے متعلق بحث ہے— میں نے ایک آدھ پِٹھّو اور تیار کیا ہے‘‘۔

 

                (2)

 

پنچایت ، ماروتی مندر کے بغل میں ایک بڑے کمرے میں بیٹھی۔ منورما کی ماں بھی، درشن کے بہانے چند ایک عورتوں کو ساتھی بنا کر اُس کھڑکی میں، جو مندر سے پنچایت والے کمرے میں کھلتی تھی، آ بیٹھی۔

پردھان جی خاموشی سے سب کی باتوں کو سُن رہے تھے۔ لالہ میّا داس کا حواری بانشی مل کچھ پڑھا لکھا تھا اور سُلجھے الفاظ میں گفتگو کرسکتا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ۔:

’’جہیز کی رسم بہت پراچین اور سناتن ہو چکی ہے۔ آج جب کہ بھارت ورش کی حالت بہت ابتر ہے اور اوسط آمدنی فی کس دو پیسے ہے، تو پُتری دھن کہاں سے تیار کیا جائے۔ پراچین سمے میں جب کہ بھارت ورش سونے کی چڑیا تھا، ہر ایک آدمی کو توفیق تھی کہ وہ پُتری دھن زیادہ سے زیادہ دے۔ میں نے کئی ایک گھرانے دیکھے ہیں جہاں پُتری دھن کے سوال نے غریب ماتا پِتا اور کنبے کو بہت دُکھی کیا۔ یہاں تک کہ کئی کنّیاؤں نے اپنے ماں باپ کی بُری حالت کو دیکھ کر اور سماج کے اِس سخت تکلیف دہ قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے، اپنے کپڑوں پر تیل چھڑک لیا اور لوگوں کے دیکھتے دیکھتے جل مریں، یاد ریا میں کود کر جان دے دی ،یا چھت پر سے چھلانگ لگا کر پران تیاگ دیے۔ لوگوں نے اُن کی لاش پر آنسو بہا کر سماج کو خوب کوسا۔ مگر سماج کو آلائشوں سے پاک کرنے کی جرأت نہ کی۔ بنگال میں، جہاں یہ رسم زیادہ عام ہے، وہاں لوگوں نے اخباروں میں اِس کے خلاف آواز بھی اُٹھائی، مگر بڑی توند لے کر سماج مندر کا رقبہ گھیرنے والے سرمایہ دار کب کسی کی سنتے ہیں— اُن کی بلا سے کوئی جل مرے… کوئی ساگر میں کود کر پران تیاگ دے…‘‘

بانشی مل کے گلے میں رقّت (جو اُس نے کمال عیّاری سے پیدا کر لی تھی) سے رُکاوٹ پیدا ہو گئی اور وہ آگے بولنے سے معذور ہو گئے۔ لالہ میّا داس نے اِس ہوش رُبا تقریر کے بعد ایک ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے کہا:

’’آہ!— ہندو سماج ۔ تیرا ایشور ہی سہائی ہے‘‘۔ انھوں نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا ۔ منورما کی ماں کے چہرے پر اُنھیں خوشی اور شانتی کی لہر دکھائی دی۔ شاید وہ سمجھ رہی تھی کہ میدان آج اُس کے خاوند کا ہی ہے۔

رامے نے دیکھا کہ بانشی کا گلا رقّت سے رُک جانے کی وجہ سے سامعین پر بہت گہرا اثر پڑا تھا۔ موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس نے بانشی کی بات کو جاری رکھا—

’’یہی نہیں بلکہ کئی والدین نے بھی ناک کی خاطر اپنے آپ پر منوں بوجھ ڈالا، جس کے نیچے دب کر وہ زندگی بھر ٹھنڈی سانسیں لیتے رہے اور اپنے بیوی بچّوں کو ہمیشہ کے لیے       ننگ و ناموس سے عاری کر گئے۔ ایک لمحے کی واہ وا کے لیے ہمیشہ کے لیے اپنی عزت اور آبرو برباد کر دی— پیسے کی کمی اور جہیز کی زیادتی کے نا اہل ہوتے ہوئے لوگوں نے مدّت تک اپنی کنّیاؤں کو کنوارا بٹھا چھوڑا، جس کا نتیجہ ہوا کہ کثرت سے اغوا کی وارداتیں ہونے لگیں اور اُن پاپی اتّیاچاری ناک کے ٹھیکے داروں کی ناک اپنی کنّیاؤں کی وجہ سے ایسی کٹی ،کہ پھر اُنھوں نے نکٹا چہرہ کسی کے سامنے نہ کیا اور یا خودکشی کر لی یا جنگل کا رُخ کیا—‘‘

’’مگر—‘‘ مخالف پارٹی کے ایک رکن نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے کہا— ’’میں اپنے محترم بھائیوں کی اِن باتوں کو صحیح مانتا ہوں کہ اِس غریبی کی حالت میں ہم بڑی پنچ کا جہیز نہیں دے سکتے۔ مگر اِس رسم کا تیاگ سارے دیش میں مجموعی طور پر ہو تو بہتر ہے۔ آپ سوچیں تو، کہ اگر ہم کسی کو جہیز نہ دیں تو باہر کے دیہات یا قصبے یا شہر کا کوئی آدمی کس لیے ہماری لڑکیاں لے گا۔ اُسے ہماری پنچایت کی پروا ہی کیا ہے۔ پنچایت کی سب سے بڑی سزا حُقّہ پانی بند کر دینا اور انجامِ کار پنچایت کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والے آدمی سے عدمِ تعاون کر کے اُسے گانو چھوڑ دینے پر مجبور کر دینا ہی ہے نا۔ مگر دوسرے گانووں کے آدمیوں کو اِس بات کی کیا پروا ہے۔ کل لالہ میّا داس اور بانشی مل نے کہا تھا کہ اگر باہر کے آدمی اِس بات کو گوارا نہیں کرتے تو اُن سے رشتے نہ کیے جائیں اور پڑوس کے دو چار گانووں میں رشتے ناتے دیکھ لیے جائیں۔ کتنی غلط بات کہی ——پردھان صاحب کی ہی مثال لو۔ ایشور نے انھیں اچھّا دھن وان بنایا ہے۔ کل ہی اِنھوں نے اپنی امبو کا بیاہ کیا، تو اُس پڑھی لکھی سوشیل کنّیا کے لیے تلاش اور تجسّس کا دائرہ نہایت تنگ ہونے کی وجہ سے کوئی مناسب وَر مل ہی نہیں سکتا۔ ایسا وَر ،جو کہ برسرِ کار ہونے کے علاوہ گھربار سے بھی اچھّا ہو — یہ سب کچھ تب ہی ہو سکتا ہے کہ سارے ملک میں مجموعی حالت ایک ہی ہو—‘‘ ’’بالکل ٹھیک کہا لالہ گردھاری لال نے‘‘ ایک شخص نے کہا۔ ’’اور پھر آپ حساب لگا کر دیکھیں کہ ہمارے پڑوس کے گانووں میں جو اس پنچایت کے دبدبے میں ہیں، لڑکیاں زیادہ ہیں اور لڑکے بہت تھوڑے——اور جو تھوڑے سے ہیں وہ بھی آوارہ اور شُہدے۔ ہر ایک ماتا پِتا کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے اپنی کنّیا کے لیے اچھا وَر ملے۔ کوئی جان بوجھ کر اپنے جگر کے ٹکڑے کو آگ میں پھینکنا نہیں چاہتا ،مگر موجودہ حالات کی وجہ سے اور تلاش کا دائرہ نہایت محدود ہونے کی وجہ سے، یہ جب ہی ممکن ہے کہ یہ بات مجموعی طور پر ہر جگہ ہو‘‘۔

حُقّے کی نال کو پرے کرتے ہوئے اور منھ پر سے اپنی سفید اور بڑی بڑی مونچھوں کو ہٹاتے ہوئے پردھان نے کہا:

’’لالہ گردھاری لال اور روپ چند نے جو باتیں کہی ہیں، وہ زیادہ وزن رکھتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جہیز کی رسم مذموم ہے مگر جب تلک ملک کا بیشتر حصّہ اِس رسم کو خیرباد نہیں کہتا، ہمارے گانو میں اس کا ترک ہونا محال ہے——‘‘

لالہ میّاداس نے جواب دیا ’’مگر جب کبھی یہ رسم چھوڑی جائے گی تو پہلے اِس کے ترک کرنے والے چند افرادہی ہوں گے۔ کیوں نہ رُہل کے باسی مثال قائم کریں۔‘‘

اِس کے بعد چند سیکنڈ تک خاموشی رہی۔ کچھ سوچ کے بعد پردھان نے لالہ میّاداس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

’’لالہ میّاداس ——امید ہے کہ آپ اِس گستاخی کو معاف کریں گے— یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ آپ سب کچھ فلاح کے لیے نہیں، بلکہ خود غرضی کے لیے کر رہے ہیں—— آپ اِس بارے میں اپنی پوزیشن کیوں نہیں صاف کر دیتے۔‘‘

لالہ میّاداس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ اِس سے پیشتر کسی نے اعلانیہ طور پر اُنھیں خود غرض کہنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ اغلب تھا کہ زیادہ شرمندگی کی وجہ سے وہ کچھ اناپ شناپ پر اُتر آتے۔ مگر اُن کے سرکردہ حواری نے صورتِ حالات کو قابو میں لے لیا اور بات کو ٹالنے کی غرض سے بولا—

’’پردھان جی! مجھے افسوس ہے کہ لالہ میّاداس پر اِس طرح ذاتی حملہ ہوتا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ یہ بات اُنھیں اُس وقت سوجھی، جب وہ اپنی کنّیا کی شادی کی فکر میں تھے— یہ سب کچھ منورما کے لیے نہیں ہو رہا۔ یہ سب ہماری تمھاری بیٹیوں کے لیے ہے۔ اُن کو ایشور نے بہت کچھ دھن دیا ہے۔ وہ نہایت آسانی سے لڑکی کے جہیز میں ڈیڑھ دو ہزار روپیا خرچ کرسکتے ہیں…‘‘

لالہ میّا داس کو گویا سہارا ہی تو مل گیا۔ اگرچہ اِس بات نے اُن کی پوزیشن کو زیادہ خراب کر دیا، کیوں کہ یہ حقیقت تھی کہ وہ روپیا بچانا چاہتے تھے اور اسی لیے وہ یہ ڈھونگ رچا رہے تھے، مگر موقع محل دیکھ کر اُنھوں نے لالہ بانشی مل کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا:

’’اِس بات میں ذرّہ بھی شک نہیں—میرے پاس ایشور کا دیا اتنا ہے کہ تین پشتوں تک ختم نہیں ہو سکتا۔ ایک لڑکی کے جہیز میں دو اڑھائی ہزار خرچ کرنے سے میں گھبراتا نہیں‘‘۔

لالہ میّاداس کے دوسرے حواری رامے نے کہا ’’ہاں— ہاں، توفیق والے نے تو کر لیا، ہم کیا کریں گے۔ پنچایت کو ہماری فکر بھی لازم ہے۔ کل میری بھتیجی بیاہی جانے والی ہے‘‘۔

پنچایت کے اِس اِکٹھ میں ایک اور شخص بھی تھا، جو اب تک چپ بیٹھا تھا۔ نام تو اُس کا بشیشر دیال تھا، مگر لوگ اُسے ’’منھ پھٹ‘‘ کہا کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ وہ ہر اچھّی بُری بات چھوٹے یا بڑے کے سامنے بلا تکلّف کہہ دیتا۔ حسبِ عادت اُس نے کہا:

’’اِس بات کا مزا تب ہے [کہ] میّا داس منورما کا بیاہ کر لیں، تو پھر اِس گرام میں جہیز نہ دینے کا رواج بنایا جائے۔ اس سے یہ پتا چلے گا کہ وہ سب کچھ خودغرضی کی وجہ سے نہیں کر رہے‘‘۔

’’بے شک …مجھے منظور ہے——‘‘ لالہ میّاداس کو کہنا پڑا۔ اوپر کھڑکی میں منورما کی ماں کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ ایسی حالت میں لالہ میّا داس نے منظور تو کر لیا مگر گھر پہنچے تو وہ خجل سے تھے اور بہت تکان زدہ دکھائی دیتے تھے۔ منورما کی ماں نے اُن کے چہرے کا مطالعہ کرتے ہوئے کہا:

’’ہائیں —آپ روتے کیوں ہیں؟‘‘

’’میر ا بانشی اور رامے وغیرہ پر پیسا لگایا ہوا بھی یوں ہی گیا…‘‘ میّاداس نے پھوٹتے ہوئے کہا۔

’’مگر میں تو کہوں گی— اُنھوں نے کوشش بہت کی— اِس میں کسی کا کیا قصور۔ ہماری قسمت…‘‘

 

                (3)

 

منورما کا جہیز ، چھت پر سجایا گیا تھا۔ لالہ میّا داس، پردھان کو جہیز دکھا رہا تھا اور پردھان یہ محسوس کر رہا تھا کہ میّا داس ہر چیز کی قیمت اُس کی اصلی اور ممکن قیمت سے دوگنی کے لگ بھگ بتاتا ہے۔ مگر تھالی میں نقد ایک ہزار روپیا دھرا تھا۔ تھالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور لالہ میّاداس سے علاحدہ ہو کر، اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا:

’’اب تو تمھیں میّاداس کے متعلق شک نہیں رہا…؟‘‘

’’آپ دیکھیں تو سہی ’’منھ پھٹ نے کہا‘‘ میّاداس دو اڑھائی ہزار بتاتا تھا، مگر یہ سارا جہیز، بھینس سمیت پندرہ سو سے زیادہ کا نہیں، میّاداس نے جو کچھ بھی کیا ہے، دکھاوے کو کیا ہے۔ تھال میں اس نے ایک ہزار کی رقم رکھ دی ہے تاکہ اسے کسی کے منھ پر جھوٹا نہ ہونا پڑے۔ چار سوٹ ہوتے کیا ہیں اور دوسرے کپڑے، کناری وغیرہ سے مجھے تو پُرانے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔

پردھان نے کہا ’’ارے بھائی ! پندرہ سو اور دو ہزار میں کون سا زمین آسمان کا فرق ہے‘‘۔

’’یہ سب کچھ اُنھیں مجبور کر کے کروایا گیا ہے۔ ورنہ وہ اتنا بھی نہ کرتے—اِس سے اُن کی قربانی اور بے غرضی عیاں نہ ہو گی۔ میں لالہ میّا داس کو کئی بار پرکھ چکا ہوں۔ وہ نہایت خودغرض آدمی ہیں… میں ایک بات آپ کو بتاؤں، اگر آپ کسی سے ذکر نہ کریں تو —‘‘

’’ہاں کہو—میں کسی سے نہیں کہوں گا—‘‘ پردھان نے اپنا کان، منھ پھٹ کے پاس لاتے ہوئے کہا:

’’بانشی مل اور رامے، دونوں کو اُس رات لالہ میّاداس نے پچاس پچاس روپئے دیے تھے کہ وہ اِس بات کی کوشش کریں کہ جہیز کی رسم اُڑا دی جائے، تاکہ اُس کی رقم بچ جائے— اور یہی وجہ تھی کہ بانشی اور رامے اُس دن بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہے تھے، ورنہ آپ خود ہی سوچیے کہ بانشی اور رامے دونوں کے گھر لڑکیاں ہیں ہی نہیں، بلکہ بانشی کے گھر چار لڑکے اور رامے کے ہاں دو لڑکے ہیں۔ ایک بھتیجی ہے جو کہ جوان ہے۔ لیکن اُس کا بھائی زندہ ہے۔ جو ہو گا کرے گا۔ اِس لیے قاعدے کے مطابق اُنھیں اِس بات کے خلاف ہونا چاہیے تھا یا حق میں——بانشی کا سب سے بڑا چھوکرا بارہ برس کا ہے اور رامے کا آٹھ برس کا… اُنھوں نے سوچا ہو گا کہ چلو اب تو پچاس پچاس کھرے کرو۔ بعد میں دس بارہ برس کے بعد جب لڑکے شادی کے قابل ہو جائیں گے، یہ جہیز کو بند کرنے والا رواج خود بہ خود بند ہو جائے گا‘‘۔

’’مگر اِس بات کا ثبوت—؟‘‘

’’ثبوت یہی کہ لالہ میّاداس اپنے بیٹے کرشن گوپال کی شادی کے وقت اپنا روّیہ بدل ڈالے گا اور آپ دیکھیں گے کہ بانشی مل اور رامے وغیرہ بھی اس کے ساتھ اپنا روّیہ بدلیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہم نے غلطی کی تھی۔ دراصل جہیز کی رسم مجموعی طور پر ترک ہونی چاہیے—یہ بھی کہیں گے کہ انسان کی عقل ہی ہے نا—غلطی ہو سکتی ہے—اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہو گا کہ لالہ میّاداس خواہش کریں گے کہ کرشن گوپال، جو کہ بر سرِ روزگار ہے کسی بڑے گھر میں بیاہا جائے اور بہت جہیز اُس کے ہاں شادی میں آئے—‘‘

پردھان نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا ’’یہ بات ہے!‘‘

اور منھ پھٹ نے برابر کی آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا ’’جی ہاں‘‘۔

’’تو میں دیکھوں گا کہ کس طرح پنچایت کو لالہ میّاداس ایسے خود غرض آدمی، پیسے سے خریدتے ہیں اور کس طرح وہ اور بانشی اور رامے سے، ضمیر فروش آدمی سماج میں آرام سے سانس لیتے ہیں—‘‘

 

                (4)

 

لالہ میّا داس کی ہدایت کے مطابق بانشی اور رامے پنچایت کے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ماروتی مندر میں پہنچے ہوئے تھے۔ لالہ میّاداس کہہ رہے تھے:

’’پنچایت کے سب آدمی، جہیز رکھنے کے حق میں ہیں۔ اب میں اِس رسم کے اُڑانے پر چنداں زور نہیں دوں گا۔ کیوں کہ میں نے منورما کے بیاہ میں کافی سے زیادہ پیسا خرچ کیا ہے، اس لیے میری بھی خواہش ہے کہ میں بھی جتنا جہیز مل سکے منظور کر لوں—میرے لڑکے کرشن گوپال کو رام بھُج دت ریٹائرڈ منصف کی چھوٹی لڑکی کا رشتہ ملتا ہے—جہیز کافی ملے گا۔ اگر اِس بات کا ذکر چھڑے تو تم بھی خاموش رہنا۔‘‘

بانشی نے کہا ’’مگر یوں ہماری پوزیشن خراب ہوتی ہے۔ وہ کہیں گے، کل یہ اِس رسم کے خلاف تھے۔ آج حق میں ہو گئے ہیں ،بلکہ اگر وہ تجویز پیش بھی کریں کہ جہیز کی رسم بند ہونی چاہیے تو آپ کو فوراً منظور کر لینی چاہیے کیوں کہ اِس طرح نہ صرف آپ کی پوزیشن برقرار رہے گی، بلکہ اُن کا الزام کہ آپ خودغرض ہیں، غلط ثابت ہو گا۔‘‘

’’مگر میں کہہ دوں گا کہ میں غلطی پر تھا۔ بیاہ بغیر جہیز، شوبھان نہیں ہو سکتا۔ یہ میں نے اپنی لڑکی کے بیاہ پر اندازہ لگایا ہے۔ وہ اِس بات کی تہ تک کب پہنچ سکیں گے کہ یہ میں اس لیے کر رہا ہوں کہ کرشن گوپال کی شادی میں کافی سے زیادہ جہیز آئے…‘‘

’’میں یہ بھی کہوں گا کہ جہیز نہ دینے سے نہ صرف سسرال میں لڑکی کی عزّت کم ہوتی ہے بلکہ ——‘‘

رامے نے کہا ’’مگر وہ شخص [لوگ؟] جنھوں نے یہ اندازہ لگا لیا کہ جہیز کی رسم اُڑانے کی تیاّریاں محض منورما کے بیاہ کی خاطر ہو رہی ہیں، وہ یہ بھی تاڑ جائیں گے کہ اب سب کچھ کرشن گوپال کے بیاہ کا پیش خیمہ ہے۔ کڑوا کڑوا تھو — میٹھا میٹھا ہپ!‘‘

’’اُن کے دل میں خواہ خیال تک بھی نہ آئے—چور کی داڑھی میں تنکا— پہلے تم نے میرے پیسے گنوائے ہیں۔ اُن کا حق تو ادا کرو کہ اگر وہ کہیں کہ جہیز کی رسم اُڑ جائے تو تم اُس کی مخالفت کرنا‘‘۔

بانشی نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’رام رام ——وہ کہیں گے، یہ کس قماش کے آدمی ہیں‘‘۔

رامے بولا ’’شاید وہ یہ بھی اندازہ لگا جائیں [کہ؟] یہ کسی مخصوص وجہ سے اِس بات میں حصّہ لے رہے ہیں‘‘۔

بانشی اور رامے نے یک زبان ہو کر کہا ’’ہم نہیں ماننے کے… اب ہم کسی صورت میں جہیز کے حق میں نہیں ہو سکتے‘‘۔

پردھان جی نے پنچایت کے کمرے میں داخل ہوتے ہی، روپئے کی خفیف سی کھنکار [کھنک؟] سُنی… اُن کا ما تھا ٹھنکا——تینوں کو ایسے موقعے پر یک جا ہوتے دیکھ کر وہ کچھ سمجھ گئے۔ مگر انھوں نے یوں ظاہر کیا ،جیسے کچھ جانتے ہی نہیں اور اُن کے ساتھ خوش گپیّوں میں مصروف ہو گئے۔

پنچایت لگتے ہی پردھان جی نے جہیز بند کر دینے کا تذکرہ چھیڑا:

’’اب کہ لالہ میّاداس نے منورما کے بیاہ سے آپ کے شکوک رفع کر دیے ہیں۔ اُمید ہے آپ جہیز بند کر دینے کے حق میں ہوں گے۔‘‘

لالہ میّاداس نے بڑے لمبے چوڑے طریقے سے بتایا کہ وہ اُن کی غلطی تھی اور وہ منورما کے بیاہ کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بیاہ میں جہیز نہایت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر کنّیا کی سسرال میں عزت نہیں ہو گی— —‘‘ اور اِس بات کی بانشی نے تائید کی۔

رامے کہنے لگا ’’لالہ گردھاری لال نے درست کہا تھا کہ رسم مجموعی طور پر بند ہو تب ہی اچھّا ہے… میرے خیال میں…‘‘

’’نہیں نہیں—— ایسا نہیں ہو سکتا ’’منھ پھٹ نے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’اب یہ سب باتیں کرشن گوپال کے بیاہ کی خاطر ہو رہی ہیں۔‘‘

—— اور پنچایت کے سب آدمی میّاداس کے خلاف بولنے لگے۔ حُقّے کی نال پرے کرتے ہوئے اور اپنی سفید مونچھوں کو سنوارتے ہوئے پردھان نے پوچھا:

’’کیا کرشن کی شادی کا انتظام ہو گیا ہے؟‘‘

میّاداس نے جواب دیا ’’ابھی نہیں‘‘۔

’’کیوں نہیں ——‘‘منھ پھٹ نے کہا ’’رام بھُج دت کون شخص ہے— اُس دن کشمیری ٹوکری میں شگن نہیں تھا کیا؟‘‘

لالہ میّاداس کچھ کھسیانے سے ہو گئے۔ اُن سے کوئی جواب نہ بن آیا۔ پردھان جی نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا:

’’لالہ میّا داس نے لڑکی کی شادی کے وقت جہیز کے خلاف ہو کر اور کرشن کی شادی پر اُس کے حق میں ہو کر اپنی خود غرضی کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ ہمارے پاس اِس بات کا بھی کافی ثبوت ہے کہ انھوں نے پنچایت کے چند افراد ——بانشی، رامے ، نرائن وغیرہ کو پیسے سے خریدنے کی کوشش کی ہے اور پنچایت کی تاریخ میں ایسی بددیانتی کی مثال نہیں ملتی…‘‘

’’جھوٹ—سفید جھوٹ—‘‘ بانشی نے تڑپتے ہوئے کہا ’’اِس بات کا ثبوت؟‘‘

’’اِس بات کا ثبوت وہ باتیں ہیں جو ابھی پنچایت لگنے سے چند منٹ پیشتر تم کر رہے تھے اور جو اِن کانوں نے خود سُنی ہیں۔ اگر اِس سے زیادہ ثبوت چاہتے ہو، تو مجھے اپنی جیبیں ٹٹولنے کی اجازت دو…‘‘

بانشی نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا’’…مگر یہ بیس روپئے میں نے میّاداس سے اُدھار لیے ہیں—‘‘

’’اونہہ‘‘—پردھان جی نے کہا ’’رامے نے بھی اِتنے ہی روپئے میّاداس سے قرض لیے ہیں اور تم سود خوار، جو جاٹوں کو سیکڑوں روپیا قرضہ دیتے ہو،میّاداس سے بیس روپئے کی حقیر رقم کیوں لینے گئے تھے — ٹھیک … عذرِ گناہ بد تر از گناہ —‘‘

لالہ میّا داس ، بانشی رام، رامے شاہ، نارائن مل اور اُن کے حواریوں نے شرم سے اپنی گردنیں جھکا لیں۔ حاضرین پانچ منٹ کے قریب خاموش رہے۔ اِس اثنا میں پردھان جی نے کاغذ پر کچھ لکھا۔ اُن لوگوں کے سوا سب نے وہ تحریر پڑھی اور اُس سے اتفاق کیا۔ تحریر تھا۔ ’’لالہ میّاداس سے مکمل عدم تعاون کیا جائے تا آں کہ اُن کے کرم اور اُچّار سے اُن کے شُدھ ہونے کا پتا چلے اور لالہ بانشی مل ، رامے شاہ، نارائن اور اُن کے ساتھیوں کو دو سال کے عرصے تک رائے دینے کے حق سے محروم رکھا جائے— جہیز کی رسم فی الحال جاری رہے‘‘۔

چند ماہ بعد لوگوں نے دیکھا کہ میّاداس اپنے کاروبار کو تباہ و برباد ہوتا دیکھ کر رُہل گانو چھوڑ رہا تھا۔ اُڑتی اُڑتی یہ خبر بھی پردھان کے کانوں میں پہنچی کہ رام بھُج دت نے اپنی لڑکی کا رشتہ لالہ میّاداس کے لڑکے سے اِس بنا پر توڑ لیا ہے کہ اِن لوگوں کی برادری میں نہیں بنتی۔

[’’ادبی دنیا‘‘ لاہور۔ فروری 1938]

٭٭٭

 

 

 

جہلم اور تارو

 

 

ڈھوک عبد الاحد کے پچھم کی طرف کھاڑی کی جانب سے آنے والی بھیگی ہوئی ہواؤں کی عین زد میں چند ٹوٹے پھوٹے مکان تھے۔ سماج کے غریب طبقے کے لوگوں کو اس جگہ اکٹھا کر کے ،اِن کے علاقے کو ٹھٹّی کا نام دے دیا تھا۔ ٹھٹّی کے باسی اپنی محنت کشی اور مصائب سے پُر زندگی کے باوجود خوش اور مطمئن رہتے تھے۔ آئے دِن اِن کے ہاں کوئی نہ کوئی تقریب ہوتی۔ وگرنہ بھوت نکالنے کے لیے تھالیوں کے کوٹے جانے کی آواز اور دف کی چوٹ تو اکثر سنائی دیتی۔ یہاں ایک ایسی مخلوق بستی تھی جو دنیا کی چوٹیں سہتی ہوئی بھی مُڑ مُڑ کر دنیا کو دعائے خیر دیتی ہے۔ کام اِس کا ہے ایک اَنتھک خدمت گزاری۔ شاعر کی مانند اپنے محنت کش کام سے، جس کا نعم البدل کبھی بھی کوئی ادا نہیں کرسکا— وہ ایک دلی شغف رکھتی ہے۔ اس کی آنکھیں تو کھلی ہوتی ہیں، لیکن شکایت کے لب بند۔ یہ لوگ پیتے ہیں، لیکن غم کو غلط کرنے کے لیے نہیں اور عموماً غیر قانونی طور پر کماد میں چھپ کر کشید کرتے ہیں۔ پکڑے جاتے ہیں۔ قید ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی ایسا کرنے سے چوکتے نہیں۔

کبھی کبھی بیساکھی یا رنگ پور کا میلہ [کے مِیلے] میں یہ لوگ پھُنمیاں، بھنگڑا، جھُمّر، لُڈّی اور اِس قسم کے مستانہ دیہاتی ناچ ناچتے ہوئے، الغوزے بجاتے ہوئے، ایک ہاتھ کو کان پر رکھ لیتے ہیں اور گلے کی رگوں کو پورے زور سے پھُلاتے ہوئے گاتے ہیں۔

لاٹ مُلکھ دامور مورنسی1 جے خوشیاں2 وچ آ جاوے

بتّی چک3 تے صوبے سارے میرے ناں لوا جاوے

رشتے داراں4 آ پنیاں نوں بانْہوں پھڑکے تار دیاں

ٹھیکہ دار5 بشن سنگھ نوں پھاہے لا کے مار دیاں

اس وقت متمدّن انسان، جو کہ اپنی مہذّب لیکن دُکھوں سے بھری ہوئی زندگی سے فرار ہو کر اپنی اسی محروم الارث اولاد کے پاس آ کر کھڑا ہوتا ہے، وہ حیرت سے چند لمحات کے لیے انگلیاں منھ میں ڈال کر سوچتا ہے۔ کیا ہم لوگوں نے اِنھیں اپنی میراث سے محروم کر دیا ہے یا اِن لوگوں نے ہمیں اپنی میراث سے!

پھُوس کی اِن جھونپڑیوں اور خستہ حالت کچّے مکانوں میں دو پکّی اینٹ کے مکان نمایاں نظر آتے تھے۔ ایک مکان داروغہ قدرت اللہ کا تھا۔ جب لوگوں کو اِن سے [پر؟] بہت پیار آتا ، تو وہ ناچنے کی بجائے داروغہ میں الف کے تکلّف کو برطرف کرتے ہوئے بے تحاشا دروغا جی، دروغاجی پکارنے لگتے۔ دروغا کے لفظ سے یوں سمجھائی دیتا ،جیسے صرف و نحو کے کسی اناڑی طالب علم نے اسمِ تصغیر کی مشق کرتے ہوئے کھاٹ سے کھٹولا ، ٹٹو سے ٹٹوا، مرد سے مردُوا اور دروغ سے دروغا بنا لیا تھا ۔ جدّت تو بہت تھی، لیکن فقط اتنی سی کسر تھی کہ اسمِ تصغیر کی رو سے اگر دروغا کا کوئی مفہوم نکل سکتا تھا تو وہ چھوٹے جھوٹے کا تھا۔ حالاں کہ وہ ایک عظیم الشان جھوٹے تھے۔ ان میں سے بعض اس قدر معصوم تھے کہ وہ دروغ کا مطلب نہیں سمجھتے تھے۔ اِس میں طرفین کو فائدہ تھا… دراصل قدرت اللہ کو یہ نام اللہ کی قدرت نے ودیعت کیا تھا۔ زبان کر کے مکر جانا، رشوت ستانی کے لیے باپو کی بیکری کی روٹی میں خواہ مخواہ نقص بینی کرنا، اُن کا خاص مشغلہ تھا… اور داڑھی اُن کی بالکل شرعی تھی!

داروغہ جی کے مکان کی بغل میں ایک لمبا چوڑا احاطہ تھا۔ اس کے اندر ایک بڑا وسیع مرغی خانہ تھا، جس میں ولایتی قسم کے مرغ بھی تھے اور بڑی رقم صرف کر کے کھاڑی کے اُس پار سے منگوائے گئے تھے۔ اِس مرغی خانے کے مالک ڈھوک کے بڑے شاہ (بینکر) دیوان مُنّی ڈبّی تھے۔ ان کا اصلی نام تو دیوان چند اور پھر دیوان چند شاہ تھا، لیکن بعد میں یہ دیوان مُنّی ڈبّی کے نام سے ہی مشہور ہو گئے۔ مُنّی ڈبّی کا مطلب ہے پون پڑوپی1 ۔ روایت ہے کہ جب دیوان چند شاہ صاحب ابھی سود کھانے والے شاہ نہیں ہوئے تھے، یعنی فقط دیوان چند بلکہ دیوانے اور او دیوانے ہوتے تھے، تو ان کی روز مرّہ کی ضروریات اور چھوٹے موٹے کپڑے کی بھی دُکان تھی۔ جب گرد نواح کے گانووں سے عورتیں اجناس لے کر اُس کے عوض میں چیزیں خریدنے آتیں، تو خواہ وہ سیر ہی جنس لاتیں، دیوان مُنّی ڈبّی اُسے اتنے فنی کمال سے تولتے کہ وہ پاؤ پڑوپی ہی ثابت ہوتیں (جس میں عورتیں مستثنیات ہیں) اس لیے بدصورت عورتوں نے اسے یہ خوب صورت نام دے دیا تھا۔ قصبے میں دو تین بیکریوں کے کھُل جانے سے انڈوں کی بِکری ہونے لگی تھی اور اب تو انڈوں کا نکاس اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ نہ صرف بابو وغیرہ ہی وہاں سے انڈے خریدتے، بلکہ کھاڑی کے دوسری طرف شہر کو بھی بھیجے جاتے تھے۔

پکّی اینٹ کا سب سے اونچا مکان نبی بخش کا تھا، جو کہ اُس نے اپنی چہیتی جہلم کے اصرار پر بنوایا تھا۔ نبی کی عمر چوّن پچپن برس کے قریب تھی۔ وہ اُن کشتیوں کا واحد مالک تھا جن میں مال و اسباب اور مسافروں کو کھاڑی کے اِس کنارے سے دوسرے کنارے اور دوسرے کنارے سے اِس کنارے تک لانے اور لے جانے کا اُسے سرکاری طور پر ٹھیکا ملا ہوا تھا۔ ہر سال نبی بخش بوڑد کے ممبروں کو کھِلا پلا کر اپنا کام بنا لیا کرتا۔ دوسرے کنارے کے بابو لوگ اِس کشتی کو ’’فیری‘‘ کہتے تھے۔ اور یہ نام نہ صرف نبی بخش کو بلکہ سب گانْو والوں کو حفظ ہو گیا تھا۔ وہ اُسے کشتی کے بجائے فیری ہی کہنے لگے تھے۔

… تو وہ مکان نبی بخش نے جہلم کے لیے بنوایا۔ اوپر چوبارے پر جہلم کے بیٹھنے کے لیے ایک خوب صورت دریچہ بھی بنوا دیا۔ اور دریچے کے پاس ایک کالی ہانڈی لٹکا دی۔

جہلم نبی بخش کی چوتھی بیوی تھی۔ اِس سے پہلے اُس کی تین بیویاں مر چکی تھیں۔ باپو کا خیال تھا کہ نبی بخش منگلیک تھا۔ تیسری بیوی کے فوت ہونے تک نبی بخش اس بات کو نہ مانا۔ لیکن اس کے بعد اُس نے سوچا کہ ہندو عورتیں بھی تو پیروں کے مزار پر جا کر اولاد کے لیے اپنی چوٹی کے بال باندھ آتی ہیں۔ منّتیں مانتی ہیں، اِس لیے اُس نے چپ چاپ اوپائے کروا لیا۔ چونکہ فیری سے اچھّی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی، اس لیے چوتھی بیوی کی تلاش میں اُسے کوئی بھی دقّت پیش نہ آئی۔ جہلم کے ماچھی (ماہی گیر) والدین نے ایک سو پندرہ روپئے آٹھ آنے نقد یک مشت اور سال بھر فیری پر مُفت مچھلیاں پکڑنے کے عوض اپنی منجھلی بیٹی کو نبی بخش کے ہاتھ بیچ دیا۔ نبی بخش کو یہ سودا مہنگا پڑا۔ اب شادی کو چار سال ہو گئے تھے اور ابھی تک جہلم کا باپ اُسی کی فیری میں مچھلیاں پکڑتا۔ اُسی کی کمائی میں ہاتھ بٹاتا۔ اور جہلم ،جس کی عمر بیس اِکیس سال سے زیادہ نہ تھی اور جو شکل سے اُس کی پوتی دکھائی دیتی تھی،اُس سے نفرت کرتی تھی اور بڑی حسرت سے نو عمر چھوکروں کو دیکھا کرتی۔ خاص طور پر تارُو کو۔ لوگ اِس بات پر حیران تھے کہ چار برس کے گزر جانے پر بھی جہلم زندہ تھی۔ وہ اوپائے کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ تارُو کے گھر میں بھی، جب اِس ضمن میں بات ہوتی، تو باپو بڑے زور سے مُکاّ گھما کر کہتا ’’اوجی میں سمجھتا ہوں جہلم خود بھی تو منگلیک ہے نا۔ اور جو سانپ کو سانپ لڑے[ڈسے؟] تو بِس کس کو چڑھے؟۔‘‘

جہلم ایک چھوٹے سے قد کی، پتلی سی خوب صورت عورت تھی۔ بچپن میں باپ کے ساتھ کھاڑی کی دھوپ دیکھنے سے اُس کا رنگ پکّا ہو گیا تھا۔ اُس کے ہونٹوں میں موٹائی کی جھلک تھی اور اُن پر چھوٹی چھوٹی لکیریں عمداً [کذا] پڑی ہوئی تھیں، جس طرح جونک کی پشت پر ہوتی ہیں اور   حسبِ ضرورت سمٹ سکتی ہیں یا پھیل جاتی ہیں۔وہ لب گیلے ہوتے تھے تو اچھّے دکھائی دیتے تھے اور جب سوکھے ہوتے تو پھر… پھر اور بھی اچھّے دکھائی دیتے۔ ایک قسم کی غنودگی سے پٹی ہوئی آنکھوں اور گھنے ابروؤں کے بالوں نے خود ہی اپنے تیر اور ترکش کو چھپا لیا تھا۔ آنکھوں میں دراصل ایک ہمیشہ شبابی، شرابی کیفیت تھی جو پل بھر میں اضطرابی ہو جاتی، اور آنکھیں بہت تیزی سے پپوٹوں میں حرکت کرنے لگتیں۔ گویا کسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش کر رہی ہوں۔ جہلم کے بال بھورے تھے اور روکھے۔ ان میں سے وہ ایک لٹ علاحدہ کر کے عمداً منھ پر ڈال لیتی تھی۔

بچپن میں وہ بہت سیدھی سادی تھی۔ لیکن زمانے نے اُسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ اب وہ اپنے شباب کے ساتھ کی گئی بے انصافی کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ تارو کو جہلم کی نگاہوں نے پالا ہے۔ گویا تارو نے ماں کا دودھ تو پیا ہی نہیں۔ اس لیے لوگ تارو کو زبانی پیار کرتے، لیکن دل سے کوستے تھے۔ تارو کے متعلق اُن کا خیال محض ایک حسین تخیل تھا،کیوں کہ تارو جہلم سے نفرت کرتا تھا۔ تارو1 میں جنسی جذبہ سنِ بلوغ سے بہت پہلے بیدار ہو چکا تھا۔ وہ پتلی، نازک اندام عورتوں کی بجائے قدرے موٹی اور گدرائے ہوئے جسم کی عورتوں کو پسند کرتا تھا۔ وہ گوشت کا قائل تھا۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ نوخیز اور کنواری لڑکیوں پر ، درمیانی عمر کی شادی شدہ عورتوں کو ترجیح دیتا۔ سامنے سے آتی ہوئی عورت اُسے کبھی بھی متاثر نہیں کرتی تھی۔ وہ عموماً عورتوں کو پشت کی جانب سے دیکھنا پسند کرتا۔ وہ اکثر سب سے لمبی گلی کے موڑ پر کھڑا ہو کر جاتی ہوئی عورت کے نشو و نما پائے ہوئے کولھوں کو اُس کی رفتار کے ساتھ ہلتے ہوئے دیکھتا اور اُس وقت تک دیکھتا رہتا ،جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتی۔ اس کے بعد تارو کو دل کی دھک دھک کی آواز سنائی دیتی، یا منھ کو گیلا کرنے کے لیے پانی کے ایک گھونٹ کی ضرورت محسوس ہوتی۔ تارو جہلم کو محض اِس لیے ناپسند کرتا تھا کہ وہ پتلی تھی اور عمر کی چھوٹی اور پیٹھ کی طرف سے تو وہ ایک کم سِن بچّی دکھائی دیتی تھی۔

البتّہ جہلم، تارو کو کھلاتی بہت تھی۔ وہ مُنّی ڈبّی کے، یعنی اُس کی مرغیوں کے انڈے چُرا لاتی اور گھی میں بھون دیتی۔ جب تارو سارا دن بیکری میں جان مارنے کے بعد تھک ٹوٹ کر چُور، اُس راستے سے گھر جاتا ،تو اُسے بلا کر کھلا دیتی۔باوجود نفرت کے تارو ،جہلم کے ہاں کیوں جاتا، اِس کی وجہ تارو کا بچپن تھی۔ وہ کھانے کے معاملے میں کمزور واقع ہوا تھا۔ جب کبھی اُسے کھانے کا خیال آتا، تو وہ نفرت اور نتیجہ دونوں کی پروا نہ کرتا۔ جہلم اُس کے بچپن سے واقف تھی اور اُسے اپنے فن کے متعلق ضرورت سے زیادہ خوش فہمی تھی۔

اُس دن تارو ،باپو کی دھمکی کی وجہ سے اُس راستے سے نہ گزرا۔ جہلم اپنی چارپائی پر پڑی پہلو بدلتی رہی، حتّی کہ بہت اندھیرا ہو گیا۔ اور ہر روز شام کو کھاڑی کی جانب سے آنے والی بھیگی ہوئی ہوائیں دروازوں سے ٹکرانے لگیں۔ روشن دان کے ایک چھوٹے سے خانے میں کوئی جانور اس طور پر مر گیا تھا کہ اُس میں سے گزرتی ہوئی ہوا سیٹی بجاتی تھی اور یہی نبی بخش کے آنے کا الارم ہوتا تھا۔

تھوڑی دیر میں دروازہ پٹ سے کھُلا اور نبی بخش اندر داخل ہوا۔ اُس نے پینس کی چادر کو اُتار، کنڈے دیوار کے ساتھ رکھے اور آتش دان کے قریب کھڑا ہو کر جہلم کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد آگے بڑھا اور اُس کے کندھے کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔

’’سو رہی ہے نبّو؟1 ‘‘

جہلم سو نہیں رہی تھی، لیکن سونے کے انداز سے پہلو بدلتے اور جمائی لیتے ہوئے بولی۔

’’ہاں، ہاں۔‘‘

نبی بخش نے پیار سے اُس کے جسم پر ہاتھ پھیرا۔ اور پُچکارتے ہوئے بولا ’’مجھے بھوک لگ رہی ہے، لیکن تم سو رہی ہو، میں خود ہی کھانا نکال لوں گا‘‘ اور پھر خود ہی معترض ہوتے ہوئے کہنے لگا ’’اوہ ! میں کتنا تنگ کرتا ہوں نبّو کو…‘‘

نبی بخش کی آواز میں پدرانہ شفقت تھی۔ اس سے جہلم محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ گو وہ خاوند کے طور پر اُس سے نفرت کرتی تھی، لیکن باپ کے طور پر اُس پر فدا تھی۔ اِس وقت وہ محبت بھری نگاہ سے بوڑھے کی سب حرکتوں کو دیکھتی رہی۔ نبی بخش آتش دان کے قریب کھڑا ہو گیا اور چھینکے پر روٹیاں ٹٹولنے لگا۔ کچھ دیر بعد اُس نے دو تازی اور دو باسی روٹیاں نکالیں۔ بٹھل میں سے پیاز اور نمک لیا۔ پھر اُس کی نظر ٹوکری کے قریب رکابی میں بھُنے ہوئے انڈوں پر جا پڑی۔ نبی بخش نے اس میں سے کچھ منھ میں ڈال لیے۔ جہلم نے منع نہیں کیا۔ اب تارو تو آئے گا نہیں۔ بوڑھے نے سوچا، کتنی محبت سے انڈے بنائے ہیں میری بنّو نے میرے لیے۔ اس کے بعد اُس نے دوسرا چمچہ منھ میں ڈالا۔ وہ اتنا لذیذ تھا کہ وہ پھر اپنی نبّو کو پیار کرنے کے لیے مجبور ہو گیا۔ اور جب وہ جہلم کو پیار کر رہا تھا ، تو جہلم کا جی چاہا کہ وہ مچل جائے۔ بچّوں کی طرح کوئی ضد کرے۔ یہی کہہ دے۔ اکیلے اکیلے کھا رہے ہونا۔ پوچھا تک نہیں۔ پھر نبی تیسرا چمچہ اُس کے منھ میں ڈالے گا۔ پھر پانچواں پھر ساتواں… اور آملیٹ سی ختم ہو جائے گی۔ پھر تارو نہ ہو گا تو کیا ہو گا؟

کھاڑی کی طرف سے آنے والی ہوا دروازوں کو بہ دستور تھپ تھپا رہی تھی۔ دروازے پر ایک ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ جہلم جانتی تھی۔ اس کا کیا مطلب ہے— تارو! اُس نے گھبرا کر آتش دان کے قریب خالی پڑی ہوئی رکابی کو دیکھا۔ اور اُس کے ہونٹ سوکھنے لگے۔ یہ بہت اچھی بات تھی… اور بوڑھا اِس وقت سونے کے لیے اپنے گرم و نرم بسترے میں داخل ہو چکا تھا۔ جہلم ایک مصنوعی انگڑائی لے کر اٹھی اور نبی بخش کے بستر پر جھکتے ہوئے بولی۔

’’سوجاؤ۔ سو رہے ہونا۔ جگانا مت مجھے… اوئی اللہ، صبح سے سر میں درد ہو رہا ہے— کچھ آنکھ لگ جائے تو …‘‘

نبی بخش نے پھر اُسی لہجہ میں کہا۔

’’میں کیوں جگانے لگا اپنی نبّو کو۔‘‘

’’میں دیا بجھا دوں نا۔‘‘

’’ہاں بجھا دو —لوٹا رکھ دیا سرہانے؟‘‘

’’رکھ دیا۔‘‘

جہلم نے دِیے کو ایک ہاتھ مارا اور تاریکی چاروں کونوں میں پھیلی گئی۔ اُس نے دِیا سلائی کو ہاتھ میں لیا۔ آہستہ سے دروازہ کھولا۔ باہر نکلی۔ باہر سے ہی دروازے کی زنجیر چڑھا دی۔ اب اُس کے قریب تارو کھڑا تھا۔ جہلم نے کئی دفعہ اُسے رات کو آنے کے لیے کہا تھا۔ دن کو لوگ دیکھ لیتے ہیں۔ لیکن تارو لاکھ ذہین تھا ،پھر بھی بچّہ تھا۔ وہ جانتی تھی آج اِتنی رات گئے اُس کے یہاں آنے کا کیا مطلب ہے۔ جہلم کی رگوں میں خون دوڑنے لگا۔ تارو شروع سے بے اعتنا رہا تھا۔ آج خود بخود ہی چلا آیا۔

تارو نے اندھیرے میں جہلم کے ہاتھوں کو پکڑا۔ ہاتھوں میں دیا سلائی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ معاً جہلم کا خیال رکابی کی طرف چلا گیا۔ اِس سے پہلے جو اُس کی زبان کو تالا لگ گیا تھا۔ اُس کی کُنجی مل گئی۔ وہ بولی ۔

آج تمھاری چیز بڈّھے نے کھا لی ہے۔ تارو!‘‘

’’میں آج کھانے نہیں آیا۔‘‘

جہلم کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُس نے محسوس کیا، تارو کے ہاتھ اُس کی نسبت بہت ٹھنڈے تھے۔ اور تارو پر کچھ اضطراب اور بے دلی کی سی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔ جہلم بولی۔

’’بہت تھک گئے ہو آج؟‘‘

’’نہیں ، یوں تو آج دوپہر سے کوئی کام نہیں۔‘‘

’’تو کیا ہے پھر؟‘‘

’’لکھمی نے پکوڑیاں لینے بھیجا ہے—— جلدی ہے مجھے نبّو۔‘‘

جہلم کو اِس نام سے سخت نفرت پیدا ہوئی۔ لیکن وہ خاموش رہی۔ اُس کا دل بُجھ سا گیا۔ تو آخر تارو اپنی بھابی کے کسی کام پر آیا ہے لیکن … شاید اُسے اپنے آنے کی کوئی وجہ تو بیان کرنی ہے ہی نا۔۔ وہ پُر شِکوہ انداز سے بولی۔

’’لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں۔‘‘

’’کس بات کا؟‘‘

’’یہی، ملنے کا… عورتیں کہتی میں تو تارو سے بہت رات گئے ملتی ہے۔‘‘

تارو اِس کنائے کو سمجھ کر کانپ اُٹھا، اور بولا ’’مجھے جانا ہے۔ ایک بات پوچھتا ہوں تم سے۔‘‘

جہلم نے جی ہی جی میں ایک کاہش سی محسوس کرتے ہوئے کہا ’’کہو۔‘‘

تارو بولا ’’میں پوچھتا ہوں——وہ لج لجے بالوں والا خوب صورت کالا کُتّا، جس کی تم اُس روز اتنی تعریف کر رہی تھیں کسی کا ہے؟‘‘

——————

 

ڈھوک عبد الاحد، دوسرا کنارہ اور بیکری

ڈھوک کے ٹیلے پر چڑھنے سے پشت کی جانب ایک پورا اور مدوّر منظر کھل جاتا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے قدرت نے جادو کی چھڑی سے تین چھوٹے چھوٹے خوب صورت گانووں کی تخلیق کر دی ہو، یا ایک بڑا گھڑیال اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچّے پانی سے نکل کر دھوپ تاپنے کے لیے کنارے کی خوب صورت اور چمکیلی ریت پر لیٹ گئے ہوں۔ ڈھوک عبد الاحد کا قصبہ، کھنگواڑی اور بٹّی نور بیگ کے گانو ایک دوسرے سے تھوڑے فاصلے پر واقع ، سرسبز و شاداب درختوں میں گھرے ہوئے باغِ عدن کے حسین ما بقی، ایک بے ربط سی مساوی الثاقین مثلّث کے کونے بنتے ہیں۔ کھاڑی کے جوار بھاٹے کے عین زد میں واقع، لیکن حیرت انگیز طور پر بچی ہوئی کھنگواڑی اور بٹّی کی جھونپڑیاں ٹیلے پر سے بالشتیوں کے محلوں کا دھوکا دیتی ہیں۔ اِن گانووں کا فاصلے کی قربت ہی کی وجہ سے تعلق نہیں، بلکہ اگر ڈھوک میں پیدا ہونے والی ناجو، کھنگواڑی کے کسی جاٹ کی بیوی ہو جاتی، تو ڈھوک کا کوئی گوجر، کھنگواڑی کی مہذان کا بہنوئی بن بیٹھتا ہے۔ اور اس طرح ہر روز ڈھوک، کھنگواڑی اور بٹّی کے کسانوں کی بہو بیٹیاں تحصیل کے آوے کے نیم پختہ برتنوں میں چھلکتی ہوئی چھاچھ لیے، سر پر برتنوں کا وزن درست کرتی ہوئی، ایک دم میکے سے سسرال اور سسرال سے میکے چلی جاتی ہیں۔ باجرے کے کسی کھیت کے کنارے اُن کا ملاپ ہو جاتا ہے پھر وہ آپس میں بڑے لطیف ٹھٹھّے کرتی ہیں۔ کبھی کبھی اپنے کسی باہمی رشتے دار کی کم ظرفی کا طول و طویل قصّہ چھیڑ کر ایک دوسرے کو طعنے دیتی ہیں۔ وہ گاجر سے لڑتی ہیں اور مولی سے مان جاتی ہیں۔

پھر ایک طرف سے ’’ہٹ ہٹ‘‘ کی آواز آتی ہے۔

—لکھا سنگھ اور اس کا بھائی شیرو ہل چلا رہے ہیں۔

’’ہٹ ہٹ!‘‘

لکھا سنگھ نے اپنے لج لجے پَلّو کو ایک بڑی سی گانٹھ دے کر کمر کے پیچھے کس لیا ہے۔ اگرچہ پنجاب کے دیہاتی پیمانے کے مطابق، سورج سوا نیزے پر اُتر آیا ہے، لیکن لکھا سنگھ قریب ہی اُگے ہوئے شیشم کی جاں بخش اوٹ کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ وہ دھوپ میں ننگا کھڑا ہل کی ہتھّی پر اپنی بساط سے زیادہ زور ڈالتا ہے، تاکہ پھال دور تک زمیں دوز ہوتی چلی جائے۔ سورج کی گرمی سے اُس کی آنکھوں کے ڈورے پھول جاتے ہیں۔ پنڈلیوں اور بازوؤں پر رگیں اُبھر آتی ہیں۔ چہرے کے آڑے ترچھے خطوط میں سے پسینہ بہہ بہہ کر داڑھی میں بڑے بڑے قطروں کی صورت میں اَٹکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پھر وہی ’’ہٹ ہٹ‘‘ کی آواز دُہرائی جاتی ہے، اور بیلوں کی مریل سی جوڑی مُڑ کر زمین پر پڑتی ہوئی مستطیلوں کے اندر ایک اور کا اضافہ کر دیتی ہے— اور لکھاسنگھ کی محنت کا اجر شہری لے جاتے ہیں۔ اور وہاں سے مانچسٹر اور برمنگھم والے۔ لکھّا اور اُس کے بچّوں کے پیٹ توے کے مانند پشت سے لگ رہے ہیں۔ خدا معلوم اِس پر بھی وہ کیوں خوش ہیں اور غیر جوں جوں ان کی محنت کے اجر کو لیتے ہیں، اُن کی ہوس رانی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ جب تلک لکھّا کے گندم کے تمام خوشے کا نگیاری1 میں تبدیل نہیں ہو جاتے، یا جب تک اُس کے کھیت کے گندم کے ایک خوشے میں پچّیس تیس بالیاں اور اُن بالیوں میں ایک تندرست دانہ بھی اُن کے لیے بچ رہتا ہے، وہ شکایت نہیں کرتا۔ البّتہ جب کبھی لگان ملبہ2 کا ذکر آتا ہے تو وہ ببراکالی3 کی طرح خوف ناک بن جاتا ہے۔ پھر اُسے گورو کے باغ کا مورچا یاد آتا ہے، جس میں اُس نے ایک سو چار لاٹھیاں کھائی تھیں اور تب کہیں گرا تھا۔ اُس کی ہمت پر بیٹی صاحب بھی عش عش کر اُٹھا تھا اور اسپتال کی تمام نرسیں اُس کے قد آور جسم کو باری باری دیکھنے آئی تھیں۔ اس وقت لکھا سنگھ آٹھ دس گالیاں سناتا ہے۔ نصف ملکی خادموں کو اور نصف سرکار کو اور اس کے اعضا حرکتِ عمل کے لیے پھڑکنے لگتے ہیں۔ آخر اس کا جوش اُداسی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ ہَل کی ہتھّی چھوڑ کر شیشم کی جاں بخش اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے۔ اپنے بکھرے ہوئے کیشوں میں سے جوئیں نکال کر مارتا ہے اور پھر ناچار وارثؔ کا سہارا لیتا ہے۔

چھالے 4 پئے نے ہتھ تے پیر پھُٹے

سانوں داہی دا کم نہ آؤندا ای

راتیں دُکھاں دے نال نہ نیند پیندی

دن روونے نال دہاوندا ای

کھاڑی کے اِس کنارے، ڈھوک کے اِس ٹیلے کے اوپر کھڑے ہونے سے کھاڑی کا دوسرا کنارہ بہت دور ایک دھُندمیں لپٹا ہوا نظر آتا تھا۔ دوسرے کنارے پر اور اُس سے پرے کیا ہے، یہ دیہات کے بہت سے لوگ نہیں جانتے تھے۔ وہ لکھا ، شیرا اور اس کے بہت سے بھائیوں کی طرح محنت کشی کے باوجود اپنا اجر نہ پاکر اپنی اِس حالت کو کبھی کانگریس کے ستیہ گرہ اور کبھی سرکار کی سخت گیری پر محمول کرتے اور دونوں کو بے تحاشا گالیاں دیتے اور ایسا کرنے میں اُنھیں مساوات کا خاص خیال رہتا۔ آخر میں وارثؔ ہی پر قناعت ہوتی۔ بہت ہوتا تو ’’قادر یار‘‘ بھی ہو جاتا۔ کھاڑی کے آسمان پر وہی پرند دکھائی دیتے جن کے پروں کے کھلنے کے لیے اِس بے ربط مثلّث پر کا آسمان ناکافی تھا۔ کنارے پر وہی یا چک (دان لیوا) منڈلاتے، جن کے دامن کی وسعتوں کے لیے ادھر کا دان تھوڑا تھا۔

سندر ، سوہن اور تارو، دوسرے کنارے کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور نہ ہی انھیں جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ یہی گانو ان کی کل کائنات تھی۔ بیکری کا کام اتنا زیادہ تھا کہ اُس پر سے ایک پل بھر کی فرصت نہ ملتی تھی۔ البتہ باپو بیکری کی روٹیوں اور بسکٹوں کے سلسلے میں کئی مرتبہ دوسرے کنارے پر گئے تھے اور اکثر اُس پار کے بہت سے واقعات تینوں بھائیوں، بہنوں اور اس کی ماں کو سنایا کرتے تھے۔ بنتو کو کچھ سمجھ نہ آتی اور امّاں فقط ایک تسکین کا سانس لیتی، جس کا مطلب ہوتا ’’میں تو خوش ہوں کہ طوفان کے باوجود تم اس نامراد کھاڑی سے صحیح سلامت واپس آ گئے۔‘‘ تینوں بھائیوں کا تخیّل بیدار ہو جاتا، اور بسا اوقات جب وہ بیکری کے دوزخ نما چولھے میں سے اپنی آخری ڈبل روٹی نکالتے تو فوراً کھاڑی کے کنارے پر جا کھڑے ہوتے، اور مستفسرانہ نگاہوں سے فیری میں سے اترنے والے مال و اسباب، مسافروں کے رنگ روپ، چال ڈھال اور وضع قطع کا معائنہ کرتے۔

ٹیلے پر سے اُس پار، حدِّ نگاہ سے ورے، انھیں صرف ایک نقرئی سی لکیر سورج کی شعاعوں میں چمکتی ہوئی نظر آتی جو کہ دن ڈھلے پر دھُند کے ایک کثیف سے پردے کے پیچھے غائب ہو جاتی۔ شاید وہ لکیر پانی کی ایک ندی تھی، جو کہ ڈھوک عبد الاحد کے شمال میں میلوں دور کھاڑی سے علاحدہ ہو کر دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ بہہ رہی تھی۔

دوسرا کنارہ ہمیشہ پُر اسرار ہوتا ہے، اور اِس لیے انسان کا مطمحِ نظر ۔ انسان ہمیشہ پہنچ سے باہر چیز کا مشتاق ہے۔ اِس کی زندگی کے بہت سے رومان کا فلسفہ بھی یہی ہے۔ زندگی کے دوسرے کنارے پر کیا ہے؟ یہ زید جانتا ہے نہ بکر ——راستے میں موت حائل ہے…… ڈھوک عبد الاحد کے ٹیلے پر کھڑے ہو کر دھُندلے دکھائی دینے والے دوسرے کنارے پر کیا تھا؟ یہ اُن تینوں بھائیوں میں سے ایک بھی نہ جانتا تھا — راستے میں موت کی سی ذخّار کھاڑی حائل تھی۔

—————

 

دوپہر ، ایک بجے کا عالم——

باپو اور تینوں بھائی بیکری میں کام کر رہے تھے۔ تنّور کی تیز جوالا سے اُن کے بدن پھُنک رہے تھے۔ آنکھوں میں ڈورے اُبھر آئے تھے اور بدن پر رگوں کا جال دکھائی دینے لگا تھا۔ باپو ابھی ابھی فیئر1 سے راکھ سمیٹ کر ایک کونے میں ڈال آیا تھا۔ اگرچہ تنّور صرف چھے پترّوں2 ہی کا تھا، تاہم کچھ اِس ڈھب سے بنایا گیا تھا کہ ضرورت سے زیادہ لکڑیاں سماجائیں اور ایندھن کا خرچ زیادہ ہونے کے علاوہ راکھ بھی زیادہ بنتی تھی، اور اُسے سمیٹتے ہوئے بھیروں کی طرح کا کالا سروپ ہو جاتا۔ اسی وجہ سے تارو فیئر کے پاس تک نہیں پھٹکتا تھا۔ اور نہ ہی وہ دُکان کو صاف کرنے کا غلیظ کام کرتا۔ تارو کے دونوں بھائی، بھابی لکھمی ، بہن برّ [کذا]، تارو کی اِس شوقین مزاجی سے بہت جلتے تھے، لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ ہاں بہت ہوا تو ان سب نے مِل جُل کر تارو کو ’’لاٹ‘‘ کا خطاب دے دیا۔

باپو کے انداز کے مطابق راکھ سمیٹنا ایک بڑی مہم تھی جو اُس نے سر کر ڈالی۔ اب وہ کسی نہ کسی بہانے سے اُسے جتانا چاہتا تھا۔ اگر تینوں بھائیوں میں سے ایک بھی باپو کی محنت کا اعتراف کر لیتا ،تو اُسے بولنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن سب اپنے اپنے خیالات اور اپنے اپنے کاموں میں مستغرق تھے۔ اچانک سندر بولا۔

’’باپو!‘‘

باپو جو گھوما تو ایک دم چکّر کاٹ گیا۔ بولا ’’کیا ہوا؟‘‘

سندر نے پیشانی پر سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا ’’میں تو ناحق ڈرتا تھا، ننھّے کے چولے پر پچاس سے اوپر ایک نہیں کھلنے کا۔‘‘

گھر میں ننّھے پنجو کو چولا (قمیص) پہنوانے کی رسم ادا ہونے والی تھی۔ باپو یوں تو سناتن تھا اور رسوم و رواج کا دل دادہ۔ پھر پوتوں کو تو دادا لوگ بیٹوں سے سِوا چاہتے ہیں۔ مول سے بیاج پیارا ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت باپو بے ڈر ہو رہا تھا۔ ہانپتے ہوئے بولا ’’کچھ کِیا بھی ہے… تم لوگوں نے صبح سے، یا …یا حرام کھانے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ میں پوچھتا ہوں یہاں پنجو سے دلار ہو رہا ہے۔ یا…۔‘‘

سندر ڈرتے ڈرتے بولا ’’تو چولا ڈالنے کی رسم——‘‘

’’ادا ہو گی اور اُس کا پاجامہ اُتارنے کی بھی…!‘‘

سندر چپ ہو گیا۔ اُس وقت تارو کے ہاتھ میں آ کرہ کانپ رہا تھا۔ پتّر پر چھے سانچے رکھے تھے اور اُس پر میدے کی ٹکیاں۔ یہ وزن اُس نازک بدن کے لیے زیادہ تھا۔ اُسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے باپو بولا۔

’’یہ کام ہو رہا ہے، حرام کار ؟‘‘

نتیجہ برعکس ہوا۔ تارو کے ہاتھ زیادہ کانپنے لگے۔ اور آ کرہ سنبھالنے کی کوشش میں زمین کے ساتھ جا لگے۔ سوہن جو اُس وقت انڈوں کے چھلکے اِکٹّھے کر رہا تھا، بولا۔

’’کام کیوں کرے گا۔ لاٹ جو ٹھہرا۔‘‘

یہ باپو کی جلن پر تیل تھا۔ اُس وقت تارو نے انصاف طلب نگاہوں سے ایک ہی وقت میں باپو اور سوہن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’وزن بہت ہے، دیکھتے نہیں پتّر بھی ٹیڑھے ہو گئے ہیں۔‘‘

باپو نے غصّے سے اُچھلتے ہوئے کہا۔

’’تو روٹی نہیں کھاتا… جہلم کے انڈے اور گھی بھی حرام کر رہا ہے، مسلمان کی اولاد!‘‘

’’میں نے کب انڈے کھائے ہیں اُس کے، بہکا دیا تم لوگوں کو کسی نے۔‘‘

’’تو اور کل رات تم اپنی ماں کے پاس گئے تھے؟‘‘

’’کب؟‘‘

’’جب لکھمی نے باہر بھیجا تھا۔‘‘

تارو کی نظروں میں بیکری کی آگ کھولنے لگی۔ اُس نے چپکے سے مان لیا۔ بولا، ’’ہاں گیا تھا، باپو۔‘‘

’’میں نے تمھیں پرسوں منع نہیں کیا تھا، سور کے بچّے۔‘‘

تارو نے سہمے [سہمتے؟] ہوئے جواب دیا۔ ’’منع کیا تھا…۔‘‘

——لیکن باپو نے قریب ہی پانی میں بھگوئی ہوئی بیت کی چھڑی اُٹھا لی۔ تارو کا دم رُک گیا۔ وہ ہٹ کر دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ جسم کمان کی طرح دُہرا ہونے لگا۔ شانے سکڑ گئے۔

سامنے باپو غُرّا رہا تھا۔ اس کا کالا رنگ اور بھی سیاہ ہو گیا تھا۔ جسم پر بال تن گئے تھے۔ تارو بولا۔

’’لیکن، لیکن میں تو زلفُو (کُتّا) کے متعلق پوچھنے گیا تھا، یہ تو بری بات نہیں باپو… وہاں سے کچھ کھایا ہو تو گائے کا خون پیا ہو۔‘‘

بیت بے تحاشا تارو کے جسم کے ساتھ پیوست ہونے لگا۔ تارو راکھ میں پڑا تڑپ رہا تھا۔ اُس کے کپڑے غلیظ ہو گئے تھے، اور منھ سیاہ ہو چکا تھا۔ سر کے چمکتے ہوئے بالوں میں دھول پڑ گئی تھی۔ تارو کے خَنّے ٹھیک کرنے کے لیے ایک بیت کافی تھا۔ یا شاید دو۔ اِس پر سندر اور سوہن بھی خوش تھے۔ لیکن جب باپو نے اُسے تقریباً ادھ موا ہی کر دیا تو دونوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ لیکن اُن میں سے کسی کو بھی چھُڑانے کی ہمت نہ پڑی۔

اب وہ دونوں، تینوں، دل سے رو رہے تھے۔ وہ تارو کے ہر کام میں حصّہ نہ لینے کے خلاف تو بہت تھے، لیکن اِس کا کیا علاج کہ اُن کے تحت الشعور میں ایک جذبہ تھا ،جس کے تحت وہ تارو کو اُسی طرح اُجلے اُجلے کپڑے پہنے، بال بنائے ، اور کنھیّا بنا ہوا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ اُسے لاٹ دیکھنا ہی پسند کرتے تھے…۔

[سال نامہ ’’ساقی‘‘ دہلی۔ جنوری 1941]

٭٭٭

 

 

 

ناگفتہ

 

ڈوگرا حوالدار نے ٹیونک کو کانوں تک کھینچ لیا، بندوق نیچی کی اور خالی لبادے کے بٹن کو کاج میں پھنساتے ہوئے بولا۔

’’اب تم میں سے کون بولے گا۔ آگے؟‘‘

آدھی درجن کے قریب باڑھ کی سی آوازیں آئیں— ’’ہام‘‘— یعنی ہم!

رنگ پور گانو کے جنوب کی طرف، جہاں بیس ایک کے قریب ٹوٹے ہوئے مچان کھڑے تھے، دور تک فارم کی کپاس اپنے سفید سفید دانت نکالے منھ چڑا رہی تھی۔ وہ بھی علاقے کی عام جوان اور بوڑھی عورتوں کی طرح تھی — بھرتی والوں سے سخت متنفّر۔ اُس کے سبز زرد پتّوں پر کہیں کہیں بنولے ، بڑے بڑے آنسوؤں کی صورت ڈھلک رہے تھے۔

رنگ پور جرنیلی سڑک پر واقع تھا۔ دور سے مسجد کے مینار اور سکھّوں کے گوردوارے کے [کا؟] نشان صاحب ، بادلوں کی بھوری سفیدی کے خلاف زرد زرد اور لہراتا ہوا نظر آنے لگا تھا۔ گویا گانو کے ارتقا میں عبادت گاہیں رہائش گاہوں سے پہلے وجود میں آ گئی تھیں۔ لیکن جتھے والے خوش تھے۔ مسلمان مسجد میں سے اور سکھ گوردوارے سے مفت لقمے اُڑا کر روزانہ بھتّا بچا سکتے تھے اور پھر ہمیشہ کی طرح آوارہ مرغیاں بھی چُرائی جا سکتی تھیں۔ کچھ دور جانے پر رنگ پور کے واگی بھی دکھائی دیے۔ وہ ڈھوروں کو کھیتوں میں سے ہٹا کر جرنیلی پر پھینکنا چاہتے تھے، لیکن ڈھوروں کا ایک چوتھائی، بغلی حصّے میں اڑا ہوا تھا اور اپنی کھال میں مست جگالی کر رہا تھا۔ اُن کے منھ سے بڑے بڑے بتاشے پانی میں گر کر پھیل رہے تھے——ہو ہو ، تیرے مریں مالک ، ہو ہو… واگی دور سے آواز دیتے۔ پھر تہمد کو اوپر اُٹھاتے لیکن کھائی کے ٹھنڈے پانی میں داخل ہونے کی ہمّت نہ پڑتی۔ اس پر آج پہاڑ کی طرف سے کٹار کے پھل کی طرح تیکھی اور کاٹ دینے والی ہوا چل رہی تھی اور جتھے کے آدمیوں کو گرم کپڑوں میں لہُو کی گراں ترین شراب کا مزہ آ رہا تھا۔

سپاہی پرومن سنگھ نے ایک میندھ پر کھڑے ہو کر پیچھے کی طرف دیکھا اور بولا۔

’’کوئی اتاپتا نہیں بھرتی افسر کا۔‘‘

’’وہیں تحصیل میں مچل گیا ہو گا، بہن کا… ’’حوالدار بولا۔

حیاتے نے خرگیں میں سے ایک پھولا ہوا، دیسی سنگترہ نکالا اور اُس کا چھلکا ہوا میں اچھالتے ہوئے بولا۔

’’دھول بھی نہیں ہے آج، وگرنہ بھرتی افسر کی کار، اور پتہ نہ چلے۔‘‘

ایک عجیب انداز سے ککیاتے، ہمیاتے، کلکاریاں مارتے جھتے والے، رنگ پور کی طرف بڑھے۔ رنگ پور کا نمبردار لچھّو بھی ساتھ ہی تھا۔ ضلع سے براہِ راست اس کے نام پروانہ آیا تھا۔ ایک سو چار آدمی اُس نے پچھلی جنگ میں دیے تھے، جن کی جاں بازی اور شہادت کا پتھّر کسی شہر کے عجائب گھر میں پڑا تھا۔ تیس پینتیس کے قریب اِس لڑائی میں جا چکے تھے اور بہت سے نوجوان ابھی گانو ہی میں دکھائی دے رہے تھے۔ لچھّو سب کے حالات سے واقف تھا۔ مثلاً یہ کہ ماڑی والوں سے لفٹنٹی کے لیے دو پڑھے لکھے، پلے ہوئے جوانوں کی توقّع تھی۔ اِس کے علاوہ لچھّو اور بہت سے کام کرتا تھا۔ مثلاً اُس نے بٹیر پال رکھے تھے۔ جب وہ اُن بٹیروں کو جنگ کے لیے آمادہ کرنا چاہتا تو اُنھیں کئی کئی دن تک بھوکا رکھتا۔ اُن کی کنگنی بند کر دیتا اور خشم گیں ہو کر ہر اپنے اور پرائے سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے۔

مدرسے کے قریب پہنچتے ہی حوالدار نے سپاہی پرومن سنگھ کو سرس کی ایک بڑی سی چھتری کے نیچے خیمہ گاڑ دینے کا حکم دیا۔ رنگ پور کی ٹھٹھّی کے باسیوں نے نمبردار کے ہلکے سے اشارے پر جاروب کی بجائے کندھوں پر پڑی ہوئی گاڑھے یا گمٹی کی چادروں سے ہی زمین صاف کرنی شروع کر دی۔ سبز خون والے سفید سفید کیڑے اور بھکھڑے کے سے چھوٹے چھوٹے کانٹے، جو کہ جابہ جا بکھرے ہوئے تھے، ایک طرف ہٹا دیے گئے۔ جب سب کچھ ہو چکا تو بینڈ ماسٹر کی چھڑی کی طرح پتلی مگر سخت، حوالدار کی لمبی سی انگلی اُٹھی اور ’ہام‘‘ گانے لگے۔

باہر کھڑے رنگروٹ بھرتی ہو جا اوئے

ایتھے تے پاناں ایں ٹٹیاں جتیاں

ایتھے تے پاناں ایں ٹٹیاں جتیاں

جانوروں نے رسّے تُڑائے، کوّے اُڑے، کتّے بھونکے اور کچھ دیر بعد رنگ پور نے سب کچھ کھایا پیا اُگل دیا۔ منڈیروں پر اور نیچے ، بچّے ہی بچّے اور عورتیں ہی عورتیں دکھائی دینے لگیں۔ کچھ عورتیں اپنے ننّھوں کو لیے سڑک کے دو رویہ جا کھڑی ہوئیں۔ گانو کے جاٹ ہاتھوں میں درانتی یا دوسانگھے لیے اپنی کھوکھلی بے شغل، غیر مقبوضہ نگاہوں سے حوالدار اور اُن کے شامیانے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر ایک مُبہم جذبے کے ساتھ اُن کا خون حرکت کرنے لگا۔ بھرتی کے خیال نے اُنھیں متاثر نہیں کیا تھا، بلکہ جہاں بھی چار آدمی جمع ہوتے، وہیں اُن کا لہو جوش مارنے لگتا اور بساکھی کے موسمی بھنگڑے، جھُمریا لڈّی اُنھیں یاد آ جاتے۔ اور ایک ہاتھ کانوں پر رکھ، دوسرا آسمان کی طرف اُٹھا—— او آئی وساکھی آئی۔ اور گئی وساکھی گئی، کا بے مطلب گانا گا کر اودھم مچانے لگتے۔

جتھے والے بولے۔

ایتھے تے پاناں، ایں ٹٹیاں جتیاں

اوتھے ملن کے بوٹ بھرتی ہو جا اوئے

مجمع میں سے ایک آدمی آگے بڑھا۔ اُس کے اندر کوئی فطری سوال زبان پر آنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ اُس نے جھینپی ہوئی نگاہوں سے بندوقوں کی طرف دیکھا۔ پھر اُس کا منھ زور سے سُرخ ہوا، پھر سُرخ سے زرد اور وہ بِنا کچھ کہے واپس چلا گیا۔ اُس نے چھوٹی سی خودکشی کر لی… اور جتھے کے بڑے بڑے وزنی بوٹوں کا سیاہ پالش دمک رہا تھا۔ مولا سنگھ اور جہورا (ظہوردین) ایسے زاویے پر کھڑے تھے کہ سورج کی شعاعیں پالش کے آئینوں میں سے منعکس ہو کر اُن کی آنکھوں میں پہنچ رہی تھیں۔اگرچہ سورج تھوڑی دیر کے بعد پھر بادلوں کے پیچھے چھُپ جاتا۔ ظہورے نے یوں ہی اپنے گامے شاہی جوتوں کی طرف دیکھا۔ وہ کبھی کے پُرانے ہو چکے تھے۔ اور پھر آج لوبیا کے کھیت میں سے باہر آئے تھے اور اُن پر اب مٹّی کا بے دمک پالش اپنی کُند شعاعیں جہورے کے ذہن میں منعکس کرتے ہوئے اُسے ناقابلِ عبور افریقی دلدل بنا رہا تھا۔ ہجوم کے وسط میں کنویں کی جگت کے سہارے اچار جن رِخو بھی اپنے بچّے کو لیے کھڑی تھی۔ اُس نے دل ہی دل میں اپنے اچارج کو وہ سیاہ بوٹ بھی پہنا دیے، اگرچہ وہ اپنی کمر میں اُن کی ایک بھی ٹھوکر برداشت نہ کرسکی۔ اِن سب باتوں کے ہوتے ہوئے بوٹوں سے کوئی منکر نہیں تھا اور جتھے والوں نے جاری رکھا۔

ایتھے تے پاناں، ایں دگدیاں لیراں

اوتھے ملن کے سوٹ بھرتی ہو جا اوئے

ایتھے تے پاناں، ایں گاجر مو‘لی

اوتھے ملن کے فروٹ بھرتی ہو جا اوئے

آسمان پر بادل لپٹ گئے تھے اور سورج ہوا کی کٹاری کو کُند کر رہا تھا۔دیہاتی اپنے نیم برہنہ جسموں کو ڈھانپتے ہوئے جتھے والوں کے کپڑوں اور ان کی خرگینوں میں کھانے پینے کے سامان کی طرف دیکھ رہے تھے اور ایک مُبہم سی خواب آلودہ رال کے گھونٹ بھر رہے تھے۔ پہاڑ کی طرف سے دھول کی ایک کہر سی اُٹھی اور آناً فاناً میں رنگ پور کے آسمان پر چھانے لگی۔ مجمع کے چند آدمیوں نے اوپر کی طرف نگاہ کی ،لیکن کچھ نہ سمجھتے ہوئے پھر حوالدار کی ٹیونک اور سپاہیوں کی برانڈیوں کی طرف دیکھنے لگے۔ گانو کا واحد سفیدا ایک ننّھے سے شیشم کے ساتھ سرگوشی کے لیے جھُکا ۔ سپاہی پرومن سنگھ نے حیاتے سے کہا ’’بھرتی افسر آ رہا ہے شاید‘‘——اور حیاتے نے پرومن سنگھ کی بات کو پوری طرح نہ سنتے ہوئے بھی سر ہلا دیا اور رہٹ کی سی بھدّی آواز میں گانے لگا۔

ایتھے تے مِلدا ای دا تری رنبا

اوتھے ملے گی بندوق بھرتی ہو جا اوئے

اس سے پہلے شاید دیہاتیوں کو پیٹ اور جسمانی سُکھ کا ہی خیال تھا۔ اب بندوق نے ان کے ذہن میں ایک سنجیدگی اور نصرت کی دنیا پیدا کر دی تھی۔ بنتا سنگھ نے اِس شش ماہی میں چار دفعہ موگے کا منھ بند کر دیا تھا۔ اور مولا سنگھ اُسے جان سے مارسکتا تھا۔ جہورا اپنی بیوی کے عاشق سے بدلہ لے سکتا تھا۔ بچپن میں کوّوں کے گھونسلے گرانے، بیر بہوٹیوں کا تیل نکالنے اور مکوڑوں کا اچار ڈالنے کا جذبہ اِس عمر میں اپنے ہم جنسوں کو مار ڈالنے کے جنون تک پہنچ گیا تھا۔

کچھ دیر گلا پھاڑنے کے بعد سب ٹھنڈے ہو گئے۔ حوالدار نے لچھّو کو کچھ بولنے کا اشارہ کیا۔ اب لچھّو بھلا کہاں کا مُقرّر تھا۔ اُس نے اناپ شناپ کہی۔ دراصل اُس نے بھرتی گیت کے مفہوم کو دُہرایا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ وہاں دنیا کی ہر نعمت میسّر آتی ہے۔ لیکن لچھّو کوئی بہت احمق نہیں تھا جو محض اِن باتوں کو دُہرا دینے پر اکتفا کرتا۔ اس نے مدرسے کا احاطہ کرنے والی تھوہڑ کے قریب کھڑی بڑھیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا— ’’اور پوچھو جیو نے کی بے بے سے، کیا اِسے ہر مہینے دس روپئے کا نیلا منی آرڈر نہیں آتا؟‘‘ جیونے کی ماں کے دل میں ایک اُبال سا اُٹھا۔ اس نے زور سے کچھ کہنا چاہا لیکن صرف —— ’’اغ …اغ…‘‘ کہہ کر اپنا گلا ملنے لگی۔ اُس کے گلے میں بلغم پھنس گیا تھا…

عورتوں اور مردوں کے ذہن میں روپوں کی سفیدی اور منی آرڈر کی نیلاہٹ خلط ملط ہونے لگی۔ ان کے کانوں میں بھرتی کے گیت اور ’’اغ ، اغ‘‘ گتھّم گتھّا ہونے لگے۔ آسمان کی آندھی اور زیادہ گہری ہو گئی تھی۔ اس کے بعد کھڑپ کھڑپ، کھڑپ کھڑپ کی سی آوازیں آنے لگیں، جیسے بہت سے پانو ایک ساتھ اُٹھ کر زمین پر پڑ رہے ہوں۔ سپاہی حیاتے نے کنویں کی جگت پر چڑھ کر مغرب کی طرف دیکھا۔ جرنیلی سڑک پر دور تک کچھ نظر نہ آتا تھا۔ بھرتی افسر کی موٹر ہوتی تو کبھی کی رنگ پور پہنچ جاتی۔ دور سڑک پر ایک نقطہ سا تھا جو کہ بسیط ہو رہا تھا۔

ڈوگرا حوالدار نے رجسٹر کھولا اور ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اندراج کے لیے بیٹھ گیا۔ لیکن دور سے باجے کی آواز نے لوگوں کو اپنی طرف متوجّہ کر لیا۔ جرنیلی پر پچھم کا نقطہ اچھا خاصا مستطیل ہو گیا تھا۔ کچھ دیر بعد لوگوں کو سامنے کے چار آدمی دکھائی دیے۔ اُن کے پیچھے کچھ اور آدمی تھے۔ پندرہ بیس منٹ میں ایک پلٹن کی پلٹن نظر آنے لگی۔ اور سب لوگ کھڑے ہو کر اُس کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔

لیفٹ رائٹ لیفٹ… لیفٹ رائٹ لیفٹ… کی آوازیں آنے لگیں۔ ایک ہلکی سی دھول رنگ پور پر چھا چکی تھی۔ سپاہی گانو والوں کی طرف دیکھتے ہوئے جرنیلی پر سے گزرنے لگے۔ اُس کے بعد خچرّ اور چھوٹی چھوٹی گاڑیاں آئیں۔ درمیان میں کہیں ایک بڑا سا اُستر، ایک بڑے وزنی چھکڑے کو کھینچ رہا تھا۔ اُن گاڑیوں اور چھکڑوں میں شاید راشن تھا۔ چھکڑے کے پیچھے دو اڑھائی فرلانگ تک اور سپاہی تھے جن کے پانو عین ایک ساتھ اُٹھتے تھے۔ اُن کی چھاتیوں پر تمغے اور کندھوں پر نشان تھے۔ کہیں دھات کے بنے ہوئے ستارے اور تاج تھے… لیفٹ رائٹ لیفٹ… فوج چلتی گئی۔ نہ صرف قدم بلکہ سپاہیوں کے بازو بھی ایک ہی ساتھ اُٹھ رہے تھے۔ سورج نکلنے پر ہوا اور بھی خشم گیں ہو گئی تھی۔ جوہڑوں کا کف اُن کے کناروں پر اکٹھا ہو رہا تھا۔ لیکن انسان کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو کوئی آندھی، جھکّڑ یا بگولا روکنے کا اہل نہیں تھا۔ پلٹن کے آدمی کسی دور علاقے کے دکھائی دیتے تھے۔ ان کا رنگ سیاہ تھا اور قد ٹھگنا۔ [وہ] دکن میں کہیں بھرتی ہوئے تھے۔ عراق میں دو برس رکھ کر اُنھیں پنجاب میں تبدیل کیا گیا تھا۔ اور اب اُنھیں کبھی پشاور، کبھی سیال کوٹ، کبھی لاہور یا جہلم بھیج دیا جاتا اور وہ ہمیشہ کبھی گاڑی میں اور کبھی پیدل کسی نامعلوم جگہ کی طرف پا بہ سفر رہتے۔

پلٹن کا آخری حصّہ رنگ پور سے گزر رہا تھا۔ آخری چند قطاروں میں سے ایک سپاہی نے اپنے ساتھی کے ساتھ سرگوشی کی اور اپنے جمعدار کی نگاہ سے بچتے ہوئے باہر نکل آیا۔ وہ دُبلا پتلا، بکھنڈی[شکھنڈی؟] سا آدمی تھا۔ اُس کے جسم کے کنگرے منہدم ہو رہے تھے۔ اُس کی بینائی کمزور تھی۔ چہرے پر موسم کے اثرات شدّت سے نمایاں تھے۔ عمر کے لحاظ سے نہ وہ جوان تھا اور نہ بوڑھا۔ قطار سے باہر نکل کر اُس نے اپنی چندھی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپا اور کنویں کی منڈیر کی طرف دیکھا ،جہاں اچارجن رِخو اپنا بچّہ لیے کھڑی تھی۔ رِخو کے قریب پہنچ کر سپاہی بولا:

’’امّا! کیا تم مجھے اپنا للّا دے سکو گی؟‘‘

رِخو گھبرائی، اُس نے اپنے چاروں طرف دیکھا۔

’’صرف ایک منٹ کے لیے امّا!‘‘سپاہی نے گڑ گڑا کر کہا ’’صرف ایک پل کے لیے۔‘‘

عورت نے کنور مچھلی کی طرح نرم اور گداز بچّہ سپاہی کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں دے دیا۔ سپاہی نے ایک پل کے لیے بچّے کو اچھّی طرح سے گھورا۔ اُس کی معتدل حرارت کو محسوس کیا۔ اُسے بے تحاشا چوما، چھاتی سے بھینچا، رویا اور گرتا پڑتا سپاہیوں میں شامل ہونے کے لیے دوڑنے لگا۔

[’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور۔ اپریل 1942]

٭٭٭

 

 

 

مثبت اور منفی

 

 

کنواں کھُد گیا تو شعیب صاحب کے عملے کے سب اردلی اور مزدور اکٹھّے ہو گئے اور سب نے مل کر ایک لٹکا اَلاپنا شروع کر دیا — ’’سر کاٹ کنویں پہ ڈال دیا…‘‘

ابھی تک ان لوگوں کے دماغ پر کُنواں سوار تھا۔ ریت اور اینٹ کے ملبے کے نیچے زندہ دفن ہو جانے کے ایک غیرشعوری خیال نے ان کی طبیعتوں پر ایک گراں بوجھ، ایک اوس سی ڈال دی تھی، اور یہ کیفیت اس روہتکی لٹکے کے سُر سے بہ خوبی ظاہر تھی۔ گیت میں آوازیں اچھّی تھیں، تال درست تھی۔ سبھی کچھ تھا لیکن مشترکہ گانے کا خلوص اور اُس کی مخصوص گرم جوشی نہ تھی، اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پاتال سے آوازیں آ رہی ہیں۔ لیکن جوں ہی شعیب کا بڑا اردلی شمس، دوسرے بند پر پہنچا تو سب کے سر ہلنے لگے اور آواز بلند ہوئی—

’’تیرا ماریا نہیں جینے کا، لوٹ لیا لٹکن سے ہو…‘‘

آئے ہائے، لوٹ لیا لٹکن سے… اور سب کے سب سینہ پیٹتے ہوئے شور مچانے لگے۔ گویا ایک بار پھر تصدیق ہوئی کہ موت اور عورت اپنے اپنے منفی اور مثبت طریقے پر ایک ہی سے ہوش رُبا ہوتے ہیں۔ شعیب اپنے بنگلے میں، ساٹن کے ایک بدیسی دِوان پر بیٹھے ہوئے، شمس، راماسیٹی اور ان کے ساتھیوں کو چٹکی بجاتے، ناچتے گاتے دیکھ رہے تھے اور اُن کا جی چاہتا تھا کہ وہ خود بھی دوڑ کر ان میں شامل ہو جائیں اور اونچی آواز سے گائیں— ’’لوٹ لیا لٹکن سے، ہائے…‘‘

شعیب نے اپنے کمرے کے قالین پر ناچنا شروع کر دیا۔ لیکن ایک دو منٹ کی کوشش کے باوجود اُن کے دل کو کسی طرح کا اطمینان، کسی قسم کی خوشی نہ ہوئی۔ اُنھوں نے پھر کھڑکی میں سے جھانکا تو لٹکے کے ساتھ ناچ کے لیے انھیں وہی، ریت کی قدرتی فلالین سی، تیسرے چاند کی مٹ میلی روشنی میں بِچھی ہوئی زیادہ اچھی دکھائی دی۔ وہ یہ بھول گئے کہ وہ ہندستان کی سب سے بڑی سروس کے ایک رکن ہیں اور دہلی میں ایک بڑے عہدے پر فائز… جس طرح سوت پر سے کلابتون کے چمکتے ہوئے تاروں کے اُترتے ہی سوت سیدھا ہو جاتا ہے، اس طرح لٹکے کے دو بول سن کر، شعیب میں کوئی پندار، کوئی چھل بل نہ رہا ،لیکن جب اُنھوں نے آگے بڑھنے کے لیے قدم بڑھایا، تو گویا آپ سے آپ اُن کے قدم زمین میں گڑ گئے—

اس طبقاتی کش مکش کو شعیب ہمیشہ شدّت سے محسوس کیا کرتے تھے۔ نوکروں، چپراسیوں، قلیوں اور اِس قسم کے لوگوں کے ساتھ براہِ راست تعلّق کو وہ اپنا نجی معاملہ سمجھتے۔ لیکن اُن کی یہ پُر آمدنی نوکری اُنھیں ہمیشہ ایک اچھا منتظم، ایک بہتر حاکم بننا پہلے، اور انسان ہونا بعد میں سکھاتی تھی۔دوسرے بند کو سُن کر جب وہ آگے بڑھے تو اُن کی آنکھوں کے سامنے حکومت کے نائب معتمد کی چِٹھی آ گئی، جو انھیں چند ہی دن ہوئے موصول ہوئی تھی——اور جس میں لکھا تھا—— ’’آپ آستین چڑھائے، تکیہ نجیب شاہ میں، جہاں کھُلی بیئر ملتی ہے، ایک ایسی حالت میں دیکھے گئے جس سے حکومت (جس کے آپ ایک رکن ہیں) کے وقار کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے…۔‘‘

’’وقار کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے‘‘——شعیب نے لفظوں کو بگاڑتے ہوئے کہا اور اپنی نظریں پھر اردلیوں اور مزدوروں کی طرف لگا دیں۔ شعیب کو راما سیٹی اور شمس کے ساتھ مل کر، چھنک چھنک چھنکوارے، یار میوہ کی قدر گھٹا دی، کالی سی اس جامن نے، گا کر بڑا مزا آتا تھا۔ اس آخری گیت میں کتنا ترنّم تھا، کتنی سادگی تھی اور کتنے معانی تھے—یہ کالی سی جامن جو سامنے آئی تو سب میوے کی قدر کم ہو گئی اور یہ مختصر سا مضمون اب تک بدصورتی پر لکھے گئے تمام مضامین پر حاوی تھا۔ اور پھر اس گیت کے دوسرے بول، پس منظر میں پچھلی بڑی جنگ، ایک مشاہدہ لیے ہوئے تھے۔ روہتک کے ضلع میں کوئی دیپ چند براہمن رہتا تھا۔ نہایت اچھا گاتا ، سوانگ بھرتا اور نقلوں سے لوگوں کو خوش کر کے دارو کے لیے پیسے اینٹھتا، اسے دیکھ کر عوام کی طبّاعی نے شعر کی تخلیق کر لی تھی——

میوے کی قدر گھٹا دی، کالی سی اُس جامن نے

بھجنا کی قدر گھٹا دی، دیپ چند باہمن نے

یعنی بھجنوں کی وقعت اس لیے کم ہو گئی کہ دیپ چند براہمن نے خدا کے نام کو اپنے نفس پر ارزاں کر دیا تھا اور اِس سیدھے سادے شعر میں کتنی گویائی، کتنی تاریخ تھی۔ دونوں مصرعوں کا آپس میں کوئی تعلق نہ تھا، لیکن اس کے معنی کس سے چھُپے رہتے تھے۔ کلب کے JAZZ اِس سیدھے سادے نغمے سے کتنے مختلف تھے اور شعیب کو اُن لوگوں پر ہنسی آتی جو اِن مغربی گیتوں کو نہ سمجھتے ہوئے بھی اِن پر بے تحاشا داد دیتے تھے۔ جو آرٹ گیلریوں میں گھوم کرونسنسٹ وین گاف ، بنگال اسکول آف آرٹ اور ان سے متعلق چند اُلٹی سیدھی ہانک کر اپنی ہیچ مدانی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے، جو کرناٹک کی موسیقی کا پنجاب کے ڈھولک کے گیتوں اور کتھا کلی کا فاکس ٹراٹ کے ساتھ تذکرہ کرتے… لوگوں کے ساتھ براہِ راست تعلق کے سلسلے میں شعیب کے سب فلسفے کا انحصار اس کالی جامن والے شعر پر تھا۔ یعنی وہ اگر ایسے آزاد منش نہ ہوتے، تو زندگی بھر ایسے شعر سے محروم رہ جاتے—

شعیب کی اپنی زندگی پر تنقید بستر کی چائے سے شروع ہوتی تھی۔ ان کی انانیت پسند بیوی نے — ایک بڑی رقم خرچ کر کے ایک نہایت خوب صورت سیٹ خریدا تھا۔ اس کی لمبوتری سی چینک میں چائے، مخمل کی ایک خوب صورت ٹی کوزی میں ڈھانپتی ہوئی ملتی تھی اور شمس کمرِ زرّیں باندھے، جھک جھک کر آداب بجا لاتا ہوا، اُسے تپائی پر رکھ کر، ایک نہایت پُر ملائمت لہجے میں ’’سرکار سرکار… ‘‘ کہتے ہوئے چلا جاتا۔ بڑے صاحب ڈبل بیڈ کے ایک حصّے میں سے سر اُٹھاتے ہوئے دو چار جمائیاں لیتے۔ کمرے کے ارد گرد کی عمر خیامی کیفیت دیکھ کر جی چاہتا کہ پئیں اور [سوجائیںاور ابد تک پیتے پلاتے اور سوتے رہیں؟] اس کے بعد دوسرا نوکر اردل کے لیے آتا تو ہوا خوری ہوتی۔ کبھی کبھی گھوڑے پر سواری ہو جاتی۔ سیر سے واپسی پر بچّے کانونٹ جانے کے لیے تیار ملتے۔ اُن کی تعلیم شروع سے انگریزی ہوتی اور اُنھیں اپنی تہذیب ، اپنے آداب و اخلاق سے بالکل بے بہرہ رکھا جاتا۔ وہ گھر کے اندر باہر، انگریزی لوریاں، انگریزی گیت دُہراتے رہتے۔ یہ سب کچھ انھیں کانونٹ میں رٹایا جاتا تھا۔ پھر بیگم چاہتی کہ وہ انھیں ممّی اور ابّا کو ڈیڈی کہہ کر پکاریں—

کچھ دیر بعد بیرا طشتری میں ملاقاتی کارڈ رکھ کر لاتا۔ کبھی ملنے کی فرصت ہوتی اور کبھی فِلُو یعنی زکام کا بہانہ ہو جاتا۔ جب ملاقاتی کو کمرے میں بُلایا جاتا تو وہ کسی مبہم خوف سے کانپ رہا ہوتا۔ وہ مشکل سے بات پوری کرپاتا۔ شعیب اس کے چہرے کے گرگٹ اور اُس کے طرز تخاطب کو بڑے غور سے دیکھتے اور سر ہلاتے جاتے۔ اگر یہ ملاقات چند معزز شہریوں کی طرف سے ہوتی، تو شعیب جبراً اپنے چہرے پر ایک مسکراہٹ بھی لے آتے۔ انھیں ہمیشہ یقین ہوتا کہ اگلی صبح اخباروں میں ضرور لکھا ہو گا ——شعیب صاحب ڈیپوٹیشن کے سب آدمیوں کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے ملے۔ جب اُن میں سے کچھ ، بات کرتے ہوئے ہکلاتے تو شعیب سوچتے کیا یہ اتنا بھی نہیں جانتے، کہ سب انسان بنیادی طور پر ایک سے ہوتے ہیں۔ عورت کے بارے میں جتنے وہ کمزور ہیں، اس سے زیادہ ہم ہیں۔ کبھی کبھی ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ پاسبانِ عقل، دل کو تنہا چھوڑ دے اور ہم رذیل بازاریوں کی طرح فحش باتیں کریں۔ اولاد کو گلے لگانے سے مجھے اتنی ہی فرحت حاصل ہوتی ہے جتنی کسی عام انسان کو۔ ننھّی زیبو کے مرنے پر میں بھی اتنا ہی رویا تھا، جتنا ہرکھو مالی اپنے بچّے کے تلف ہو جانے پر ——فرق صرف اتنا ہی ہے کہ اُس نے کھلے بندوں ڈھائیں [دہاڑیں] ماری تھیں، لیکن اِدھر وہی وضع داری دامن گیر تھی اور میں نے روتے ہوئے اپنے کمرے کے تمام کواڑ مقفّل کر لیے تھے ——پھر لوگ مجھے کیوں ہوّا سمجھتے ہیں؟ مجھ سے کیوں خائف ہیں؟

اس کے بعد دفتر کی باری آتی۔ کچہری میں آنے والا بڑے سے بڑا وکیل اور معزز سے معزز شہری، اپنی تقریروں میں القاب و آداب کا خیال رکھتا۔ عموماً خطاب کے شروع میں جناب اور آخر میں بھی جناب ہوتا۔ کبھی اس لفظ میں جیم کی تکرار بھلے چنگے انسان کے دماغ کو آسمان پر چڑھا دیتی۔ سارا دن ڈانٹ ڈپٹ ، جنگ کے لیے رئیسوں سے کورے، دستخط شدہ چیک لینے اور اُن رئیسوں کے لیے ایم، بی، ای، وغیرہ کی سفارشیں کرنے میں گزر جاتا۔ جب روپئے کی فراہمی ایک لاکھ سے بڑھ جاتی تو ایک دربار کا انعقاد ہوتا۔ اور گورنر صاحب یا کمشنر صاحب سے اپنی تعریف کروائی جاتی۔

شام کے وقت ٹینس، سینما، یا کلب سے مطلب، یا ٹیل کوٹ اور کاک ٹیل سے واسطہ ہوتا، اور ایسی عورتوں سے ملاقاتیں ہوتیں، جنھوں نے اپنے چہرے کو غازے سے بھرا ہوتا۔   مسز شعیب، خود بہت خوب صورت تھیں لیکن اُن کی نگاہِ التفات حاصل کرنے کے لیے بھی ٹِشو کی ساری یا جوشن کا نذرانہ ہوتا۔ مسز شعیب نے اپنی پیشانی کے اوپر بالوں پر ببری بنا رکھی تھی۔ یعنی اوپر کے بالوں کو کٹوا کر خوب صورتی کے لیے چھوٹا کر لیا تھا۔ یہ حرکت شعیب کو سخت ناپسند تھی، لیکن آداب و اخلاق اس کی زباں بندی کیے ہوئے تھے۔ پھر بیگم شعیب چہرے پر افشاں چُنتی تھی اور یہ کلابتون اس عورت [ کے سو‘ت] پر ہمیشہ موجود رہتا اور سینماہال یا تھیٹر کے کلوک روم کی روشنی میں اس کا چہرہ اس قدر چمکتا کہ لوگوں کی نظروں سے بچنا مشکل ہو جاتا۔

یہ تقریباً سارے دن کا پروگرام تھا، جس سے شعیب اُکتا گئے تھے۔ ان کی دوسری شخصیت ان کے اصل پر ہمیشہ حاوی رہتی اور اس لیے ان کی نسیں تنی رہتیں۔ یہ سب باتیں تو ہوتیں لیکن ایک بات جو انھیں بالکل راس نہ آتی، وہ دنیائے تکلفّات تھی۔ یعنی اگر بیگم شعیب چائے کی پیالی ہاتھ میں دیں تو جھک کر اُن کا شکریہ ادا کیا جائے۔ جو وہ ان کے پہننے کے لیے سلیپر سرکائیں، تو بھی اُن کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اور جب وہ ایک معمولی سا تحفہ بیگم کی نذر کریں، تو وہ اپنی ممنونیت کا اظہار کریں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا تھا کہ کانونٹ میں تعلیم پائی ہوئی بیگم شعیب اِن سب باتوں کو پسند کرتی تھیں اور ان کے پُرتکلف تعلّقات سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ دونوں کا ایک دوسرے پر کوئی حق نہیں ہے اور اگر ان میں سے کوئی [دوسرے پر لطف]کرتا ہے تو یہ اُس کی ذرّہ نوازی ہے—

شعیب یہ سب باتیں سوچ رہے تھے کہ ’’کالی سی اُس جامن نے‘‘ کی آواز ہَوا کے کندھوں پر تیرتی ہوئی کھڑکی تک آئی۔ شاید شمس، بڑے صاحب کی اِس گیت کے لیے کمزوری سے واقف تھا۔ شعیب کے دماغ پر پھر ایک دفعہ نائب معتمد کے الفاظ— وقار کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے—گھوم گئے ،لیکن شعیب نے چھی چھی کہہ کر اور اپنے سر کو ایک جھٹکا دے کر اس خیال سے نجات حاصل کی۔ انھوں نے اپنی پرانی چپلی کو پہنا۔ زربفت کے خوابی گون کو اُتارا۔ قمیص کی آستینیں چڑھائیں۔ بالوں میں ہاتھ ڈال کر اُنھیں بے ترتیب کیا اور لٹکے میں حصّہ لینے کے لیے باہر نکل گئے۔

شمس، راماسیٹی، بانکے اور اُن کے سب ساتھی بڑے اطمینان سے گا رہے تھے۔ شعیب اُن کے قریب پہنچ کر ٹھٹک گئے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے پہنچنے کا کیا نتیجہ ہو گا۔ بانکے کی لُگائی اگرچہ جامن کی طرح کالی تھی، لیکن اُس کے نقش بہت تیکھے تھے۔ اس کا جسم گداز تھا—— اس لیے بانکے کو گیت میں سب سے زیادہ رس آ رہا تھا اور وہ ان سب سے زیادہ شوریدہ سر ہو رہا تھا۔ شمس اور راما سیٹی بھی اس کی کیفیت سے واقف تھے اور وہ کبھی کبھی اندھیرے میں ہاتھ اُٹھا کر بانکے کی کمر میں ٹھینگا دیتے۔ جب شعیب قریب پہنچے، تو لٹکا دو آوازوں سے چار ،چار سے ایک اور پھر آناً فاناً بند ہو گیا اور سب گھبرا کر کھڑے ہو گئے—

شعیب نے تین چار مرتبہ کہا — ’’گاؤ، گاؤ نا— گاتے کیوں نہیں؟‘‘

شمس نے اپنے بڑے سے عمامے کو سنبھالتے اور اندر باہر سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا — ’’ہی ہی، بڑی سرکار! ہم کیا گائیں گے— کیا ہم بہت شور مچا رہے تھے سرکار؟‘‘

’’نہیں تو‘‘ شعیب بولے اور انھیں ملگجی چاندنی میں شمس، راما سیٹی اور بانکے کے کانپتے ہوئے جسم دکھائی دینے لگے۔ شعیب نے پھر اُنھیں بیٹھنے اور لٹکا گانے کے لیے اصرار کیا۔ پھر سب یک زبان ہو کر بولے— — ’’اجی سرکار ہم کیا گائیں گے؟‘‘ اور پھر ایک خاموشی سی چھا گئی۔ یوں معلوم ہونے لگا، جیسے قبرستان میں گورکن اور جنازہ بردار کھڑے ہیں۔ شعیب ذرا تحکّمانہ انداز میں بولے— ’’میں کہتا ہوں شمس ، گاؤ—۔‘‘

شمس نے اندھیرے میں راما سیٹی کی طرف دیکھا اور بانکے نے شمس کی کمر میں ٹھینگا دیتے ہوئے کہا ’’گاؤ، بڑی سرکار کا جو حکم ہے۔‘‘ دراصل شعیب اِس حکم پر بہت شرمندہ ہوئے۔ گیت حکم کے مطابق نہیں گائے جاتے۔ وہ کسی اندرونی تحریک پر اپنے آپ باہر آ جاتے ہیں۔ سوتے پھوٹتے ہیں، جاری نہیں کیے جاتے۔ اب جو اِن سب لوگوں نے مل کر گایا تو پہلے لٹکے اور اِس میں وہی فرق تھا ،جو چشمے کے پانی اور شہر کے ٹیوب ویل سے نکلنے والے پانی میں ہوتا ہے!

شعیب اُن کے درمیان بیٹھنے کے لیے بڑھے۔ پھر سب نے گیت بند کر دیا اور بولے —ہے ہے— بڑی سرکار! اس ریت پر بیٹھیں گے؟ یہ نہ ہو گا سرکار! ہم آپ کے گُلام کس کھاطر ہیں اور شمس کوٹھی کی طرف جھولا کرسی لینے کے لیے دوڑا۔ شعیب چاہتے تھے کہ وہ اِن لوگوں کے درمیان، ان ہی کی طرح ریت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھیں اور گائیں۔ لیکن اب وہ ان لوگوں کو کیسے سمجھائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے بے تحاشا جھپکتی آنکھوں سے دماغ تک پہنچنا ناممکن تھا۔ شعیب چاہتے تو شمس کو ڈانٹ کر مونڈھا یا جھولا کرسی لانے سے روک دیتے، لیکن وہ قضا و قدر کی اس حسین و جمیل سزا پر قانع رہے۔ جھولا کرسی کا ریت پر کوئی فائدہ نہ تھا۔ شعیب کی ان لوگوں کے درمیان بیٹھ کر لٹکا گانے کی خواہش پوری نہ ہوئی۔ ان لوگوں نے شعیب کو ایک امتیازی درجہ دے کر اپنے حلقۂ انبساط سے باہر کر دیا۔ شعیب کو اتنی رونق میں اپنی تنہائی کا احساس ہونے لگا۔ سب نے مل کر لٹکے کا مُرغ نکو بانگ ذبح کیا، اور شعیب جلدی سے سلیپر پہن کر چلے آئے۔

شعیب بہت رات تک نہ سوئے۔ راماسیٹی کے ٹھینگوں سے انھیں پتہ چلا کہ بانکے کی بہو ’’جامن‘‘ کے ساتھ کوئی دل چسپ حکایت وابستہ ہے۔ اُنھوں نے ایک دفعہ پھر ان لوگوں کے قریب آنے کی کوشش کی۔ صبح بستر کی چائے کے بعد ہوا خوری ملتوی ہوئی۔ ملاقاتی کارڈ واپس کیے گئے اور بانکے کو بُلایا گیا۔

بانکے ہانپتا کانپتا آیا۔ اُس نے ابرو کے اشارے سے شمس کو پوچھا ’’کیوں میاں خیریت تو ہے؟‘‘ شمس نے زیریں لب لٹکا کر اور ہاتھ چھوڑ کر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ بانکے نے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا— ’’بابا! افسر کی اگاڑی—‘‘ اور شمس نے بانکے کے ساتھ مل کر فقرہ مکمّل کیا— ’’گھوڑے کی پچھاڑی نہیں آنا چاہیے—ہاں!‘‘

شعیب نے یہ بات سُنی اور دل میں بانکے کے ساتھ نہایت خوش خلقی سے پیش آنے کا فیصلہ کیا۔ بانکے نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اپنے بھاری بھرکم جوتے پا انداز کے قریب اُتار دیے اور آپ بھی اُن جوتوں کے قریب بیٹھ گیا۔ کچھ اِس طرح کہ اُس کے گھٹنے کلیجے سے لگے ہوئے تھے اور ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ شعیب نے مسکراتے ہوئے کہا— ’’ارے رہنے دو یار بانکے! لے آؤ جوتے اِدھر ہی — آؤ—۔‘‘

بانکے نے حیران ہوتے ہوئے اپنی ڈیڑھ آنکھ سے بڑے صاحب کی طرف دیکھا اور وہیں [سے]فرشی سلام کرتے ہوئے بولا۔’’نہیں سرکار! ہم لوگوں کی جگہ یہی ہے——آپ کے جوتوں میں۔‘‘

شعیب نے بانکے کو بازو سے پکڑ کر ایک صوفے میں دھکیل دیا۔ بانکے اِس تمام واقعے کو نہایت پُراسرار سمجھتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر شعیب ہی بولے— ’’وہ رات کا لٹکا بہت اچھا رہا، بانکے—‘‘

’’جی ہاں ہاں—بڑی سرکار—کون سا لٹکا؟‘‘

’’وہی۔‘‘

’’لوٹ لیا لٹکن سے…؟‘‘

’’نہیں —وہ کالی سی اُس جامن نے…‘‘

بانکے کے چہرے پر تین چار رنگ آئے اور گئے۔ اُسے شک ہو گیا کہ بڑے صاحب جامنیا میں دل چسپی لینے لگے ہیں اور نہیں تو جامنیا کے اغوا کا قصّہ پھر سے چھڑنے والا ہے۔ دونوں صورتوں میں جواب ایک ہی تھا۔ بانکے گڑ گڑاتے ہوئے بولا— ’’سرکار ہم گریب آدمی ٹھہرے…۔‘‘

شعیب نے بانکے کو ہر طرح کا اطمینان دلایا۔ لیکن وہ بڑے صاحب کا ’’مُدّا‘‘ نہ سمجھ سکا۔ بانکے نے بہت دنیا دیکھی تھی۔ وہ اپنے حلقے میں بڑا لطیفہ گو آدمی گنا جاتا تھا۔ اور شعیب اس سے آزادی لے کر چند باتیں کرنا چاہتے تھے— اُن کی خواہش تھی کہ بانکے خود ہی بات شروع کرے اور پھر اُس پر رائے زنی ہو۔ لطیفے ہوں۔ لیکن کتنی بھی لمبی بات شروع کی جائے، وہ ایک مختصر سے جواب پر ختم ہو جاتی تھی—

اس کے بعد بانکے نے اجازت طلب کی۔ شعیب صاحب نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ بات چیت کو جاری رکھنے کے لیے کوئی نیا مضمون نہیں تھا۔ شعیب صاحب بولے۔ ’’اچھا بانکے تو جاؤ…۔‘‘

بانکے تسکین کا سانس لیتے ہوئے باہر آیا۔ شعیب کے ماتھے پر انفعال کے چند قطرے نمودار ہوئے۔ انھوں نے پھر سے اپنے آپ کو تنہا پایا اور غصّے میں بولے —— ’’یہ لوگ کسی قیمت پر بھی اپنے حلقے میں ہمیں داخل نہیں ہونے دیتے——ان کی بھی اپنی ہی ایک منفی انانیت ہے—‘‘

لیکن ایک سوال رینگتا ہوا اُن کے ذہن میں آیا— ’’اُس منفی انانیت کا ذمّے دار کون ہے؟‘‘

[’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور۔ اپریل، مئی 1943]

٭٭٭

 

 

 

 

نوٗرا

 

 

ابھی میں نے اپنے کمرے میں قدم رکھا ہی تھا کہ اوپر تلے تین آوازیں سنائی دیں—

’’آج پھر پلیتھن گیر دیا، اُلّو کہیں کے!… ارے چولھا ہی سلگا لیا ہوتا… اور نہیں تو بھوسی ہی نکال لی ہوتی!—‘‘ اور تینوں آوازیں ایک ہی آدمی کے مُنھ سے نکلی ہوئی معلوم دیتی تھیں،جن کا جواب خاموشی کے سوا اور کچھ بھی سنائی نہ دیا۔ سننے والا یا تو کہنے والے کا دبیل تھا اور نہیں تو وہ کہنے والے کو بالکل جاہل سمجھتا تھا۔ تیسری وجہ خاموشی کی کوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔     بہ ہر حال، میں یہ بات محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ سننے والا ایک فاش غلطی کر رہا ہے۔ خاموشی اور شرافت کی فی زمانہ قدر ہی کیا ہے، سواے اِس کے کہ اُس کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جائے۔

یہ آوازیں درمیانی کوٹھری سے آ رہی تھیں۔ زمین اور پہلی چھت کے درمیان ایندھن اور فروعات رکھنے کی جو جگہ تھی، وہاں میں نے لکڑی کے پشتوں اور چند ٹوٹے ہوئے کواڑوں کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا تھا۔ واللہ اعلم وہ پتھر اور کواڑ ہی بولنے لگے تھے۔ اُن دنوں میں کسی خاص مقصد کے پیشِ نظر ، پریوں کی کہانیاں پڑھ رہا تھا۔ اور پھر آپ جانتے ہیں کہ دیو، پری کے قہقہے [قصّے] پڑھنے کے بعد کیا کیا دنیا ے ممکنات ہے، جو آپ کے سامنے کھلتی ہی چلی جاتی ہے—

پہلی چھت پر ہم کالج کے چند چھوکرے اکٹھّے رہتے تھے۔ باقی کے کم بخت یا تو گرینڈ کیبرے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور یا پھر بین الصوبائی میچ دیکھنے گئے ہوں گے۔ اس وقت اُن میں سے وہاں ایک بھی نہیں تھا۔ میں نے ہمّت جمع کی اور قدم آگے بڑھایا۔ روشنی واقعی درمیانی کوٹھری سے آ رہی تھی۔ ایک عارضی سا دِیا جرمن سلور کی ایک کٹوری میں سرسوں کا تیل اور بتّی ڈال اور اُسے اُکڑوں رکھ کر جلا دیا گیا تھا، جس میں سے ایک کالی لاٹ اُٹھ کر اوپر کی دیو داری تختی کو سیاہ کر رہی تھی۔ کالے کالے پھول تختی کے ساتھ چمٹ رہے تھے اور کچھ دیر کے بعد کٹوری کے اندر یا بتّی پر گرتے، بتّی مدھم ہو کر ٹمٹمانے لگتی، لیکن پھول پھر بتّی کا حصّہ ہو کر جلنے لگتے—قریب ایک شخص چارپائی پر لیٹا ہوا، ایک میلے کچیلے چیتھڑے لپیٹے پیچوان کے کش پر کش لگا رہا تھا۔ بڑا پسند تھا اُسے اپنا پیچوان— ــ ع

ہم کو اپنی گُڑ گڑی اور پیچواں پر ناز ہے

خدا کی قسم!—یہ تو اپنا نوٗراا ہی ہے۔ میں نے ایک لمبی سی ’’اوہو‘‘ کے بعد کہا۔ اور اُس کے ساتھ جُمّاں تھا، نورے کا سایہ، اُس کے وجود کا نتیجۂ صریح ، جس کی مونچھیں متواتر تیل لگانے اور کھینچنے سے اور بڑی ہو گئی تھیں۔ اُس کے غبغب اور چاہِ زنخداں والے سیاہ چہرے پر ایک عجیب لعنت سی برس رہی تھی جسے خوبانی اور آلو بخارے کے پیچوان سے نکالے ہوئے سستے بدبو دار اور بے حد چکنے تیل نے اور بھی چمکا دیا تھا۔ اور اس کے سامنے نورا بیٹھا تھا کھلے کھلے ہاتھوں پانو ، چار چار سیڑھیاں پھلانگنے والا خوب رو ، اور ڈرپوک جو چند ایک لقمے زہر مار کر رہا تھا۔

جُمّاں ایک پیرِ تسمہ پا تھا جو ہر وقت نورے کی گردن پر سوار رہتا۔ مثلاً اُٹھاؤ چولھا سُلگائے تو نورا، آٹے میں سے بھوسی نکالے تو نورا، برتن مانجھے تو وہی اور جَو کھنگالے تو وہی——میاں جمّاں بچھی بچھائی پر آ ٹپکتے اور پکّی پکائی کھاتے تو وہ بھی گویا نورے پر احسان کرتے۔ میں اور میرا ساتھی اسنین ان کی قبر تک سے واقف تھے۔ اس سے پہلے یہ برادر تعلیم الفرقان والوں کے پیچھے رہتے تھے، جہاں ایک سفلہ بنگالن ہمیشہ اوپر سے گوبھی کے ڈنٹر ، پیاز کے چھلکے، پھلیاں یا بچا کھُچا بھات ان کی منڈیا پر پھینک دیتی تھی اور یہ ہمیشہ موٹی موٹی گالیاں دیا کرتے تھے۔ وہاں بھی نورا ویسے ہی جمّاں کا دبیل تھا۔

آخر ایسا کیوں تھا ! یہ اسنین اور میرے دوسرے ساتھی کئی بار سوچتے۔ لیکن ہمیں آخر دم تک پتہ نہ چل سکا۔ البتہ نورے کی فطرت کا مطالعہ کرتے وقت ہم اکثر حظ اٹھایا کرتے۔ نورا سخت جذباتی تھا۔ اس کے جذبات کا خزینہ، کانوں اور آنکھوں کے اس قدر قریب تھا کہ اِدھر کانوں سے بات سُنی اور اُدھر ساون بھادوں کی جھڑی ہے کہ لگ رہی ہے چھم چھم چھما چھم اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، تا وقتے کہ زمین میں کوڑیاں نہ دبائی جائیں، یا کوٹھے کی منڈیر پر چیتھڑوں کا بُڈھا نہ کھڑا کیا جائے۔ بس اس کے جذبات کے خزینے کو ذرا چھیڑنے کی ضرورت تھی۔ یا پھر اس کے ماضی کی راکھ میں چند اور کوئلے تھے، جنھیں وہ اکثر موقع بے موقع اتھلتا پھتلتا رہتا اور جنھیں سرد کرنے کے لیے وہ آنسوؤں کا سیلاب بہا دیتا۔ ہمیں اس لم دھڑنگے چھے فٹ لمبے منڈھیا میں ہمیشہ کمر کمان کر کے چلنے والے انسان کو رُلا کر ہمیں مزا آتا تھا—

میں تین چار سیڑھیاں اُتر کر عین نیم چھتّے کے مقابل کھڑا ہو گیا اور کہا—

’’ابے نورے!‘‘

میاں جمّاں اُٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا—تعظیماً !اور اپنے پیچوان کی نَے کو چارپائی کے نیچے پھنسا دیا۔ نورے نے روٹی کا لقمہ سالن ہی میں رہنے دیا اور ہاتھ ماتھے پر لے جاتے ہوئے بولا ’’بابو جی ! ساہ سلام!‘‘ (صاحب سلام)

’’سلام‘‘ ! میں نے جواب دیتے ہوئے کہا ’’ارے یار تم لوگ بالکل چوروں کی طرح یہاں آ ٹپکے۔‘‘

’’اور کیا دف تھوڑے ہی بجاتے!‘‘جمّاں نے خلاف توقع مسکراتے ہوئے کہا۔ دراصل ہونٹوں، بلکہ مونچھوں کا یہ خوش گوار پھیلاؤ اور ماتھے کی ناگوار شکن مل جُل کر ظاہر کرتے تھے کہ اس کی مسکراہٹ میں مسکراہٹ کم اور رشوت زیادہ ہے، تاکہ میں اُس کے اجڈ سے جواب کا بُرا نہ مانوں۔

’’شاید میں تمھاری کچھ مدد کر دیتا‘‘ میں نے کہا اور درمیانی کوٹھری کے چاروں ابرو سوالیہ نشان بن کر مجھے گھورنے لگے۔ میں نے اُن شرمندۂ نطق سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’مثلاً میں چودھری کو کہہ کر یہاں سپیدی ہی کروا دیتا اور نہیں تو کرائے ہی میں کچھ رعایت ہو جاتی۔‘‘

اب یہ بات واقعی قابلِ غور تھی۔ جمّاں اور نورا سوچنے لگے۔ سادہ لوح نورا اپنے چہرے سے واقعی ممنون نظر آ رہا تھا ،لیکن جمّاں ابھی تک دل میں کہہ رہا تھا— ’’یہ امیر لوگ ،کتنے چالاک ہوتے ہیں یہ ’’مجھے بھی بتا دیا ہوتا‘‘ کا انداز اُسی وقت اختیار کرتے ہیں، جب کسی کی بیل اپنے آپ منڈھے چڑھ جاتی ہے—

حقیقت یہ ہے کہ اسنین تو اِن لوگوں کا یہاں آنا کبھی بھی برداشت نہ کرتا۔ وہ فلسفے کا طالب علم تھا۔ دماغ کا خبطی تھا۔ بالوں میں تیل کم لگاتا، جس کی وجہ سے بال ہمیشہ سیاہ گوش کے کانٹوں کی طرح کھڑے کے کھڑے رہتے اور دوسرے کو اتفاقاً چھو جانے سے اُسے سزا دیتے، کچھ اُن کے خش خشے اور گھونگریالے پن سے پتہ چلتا کہ ملکۂ سبا کی نسل سے ہیں۔ وہ فلسفے کا طالب علم ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے مجسّم شور ہوتے اور اپنے لیے مجسّم سکون مانگتے۔ اسنین کو بھلا جمّاں اور نورا کا یہاں آنا کیسے بھاتا۔ لیکن وہ خاموش محض اِس خیال سے ہو رہا کہ شاید جمّاں اور نورا میرے کوئی عزیز ہیں۔

اکثر نیچے سے گالیوں کی آوازیں، پیچوان کی گڑ گڑاہٹ ، موٹے پیٹ کے خرّاٹے اور کھنکار کی [آواز؟] سنائی دیتی اور اسنین اپنے سلو جزم گنگناتا ہوا پکار اُٹھتا ’’ وہ نورے کو پڑ رہی ہیں بے بھاؤ کی‘‘ اور پھر وہی ’’سلّوجزم‘‘— کچھ دیر کے بعد —ارے بچاؤ یار، خدا کی قسم مار ڈالے گا بے چارے کو وہ مونچھل۔ لیکن افسانہ نگار داؤد اور وہمی رفیق کو مجھ سے اس بات میں اتفاق تھا کہ ان لوگوں کے یہاں آنے سے ہماری زندگی میں رومان کی جگہ مسئلۂ حیات نے لے لی تھی۔ داؤد سوچتا تھا کہ جنھیں مار پڑتی ہے وہ ہمیشہ مار کھانے لائق ہوتے ہیں۔ اسنین اور داؤد اِس بات پر جھگڑنے لگتے— اور میری حالت اس جنگ میں ایسی ہوتی ، جیسے دو بڑے ملکوں کی جنگ میں کسی غیر جانب دار یا بفر (BUFFER) ریاست کی ہو سکتی ہے۔

ایک بات پر ہم چاروں متفق تھے کہ ماں باپ سے دور، نظم ونسق سے کوسوں پرے، رات کے ایک ایک بجے جب ہم گلیاں جھانکتے، ہانپتے کانپتے، اپنے مکان کی طرف آتے، تو ہماری سیڑھیاں اُن لوگوں کی وجہ سے آخری تنکا ثابت نہ ہوتیں۔ درمیانی کوٹھری کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوتا اور دِیے کی روشنی نورِ ہدایت کی طرح ہمیں ہمارے ازلی گھر کی راہ دکھاتی، جہاں ہمیشہ دنیائے بازار کے دھول دھپّے، گالی گلوچ، سردی اور گرمی کے خلاف دوستوں کی محبت ، والدہ کے پیار سے بھرا ہوا خط ، لحاف اور بجلی کا پنکھا میّسر آتے ہیں۔ جمّاں اور نورا خدا جانے کوئی مُغ بچیّ تھے جو ساری رات آتش پرستی کرتے تھے۔ لیکن کچھ بھی ہو، ہمیں رات کو سیڑھیوں میں دِیے کی روشنی چاہیے تھی اور اِس سلسلے میں ہم مُغ پرستی تک کے لیے تیار تھے اور خلاف اس کے نو کروڑ صلواتیں اُس چودھری کو سناتے جو ہمیں سیڑھیوں میں ایک بجلی کا ہنڈا تک لگوا نہیں دیتا تھا۔ خدا جانے میرے کہنے پر چودھری ، جمّاں اور نورے کی درمیانی کوٹھری میں سپیدی اور کرائے میں تخفیف کیسے کر دیتا۔

ایک دن میں اور اسنین رات کے دو بجے گھر لوٹے۔ اُن دِنوں شہر میں ایک صنعتی نمائش آئی ہوئی تھی۔ بس اُس کی کارنیوال میں ہم ’’تیرو تفنگ‘‘ کا ایک کھیل کھیلتے رہے۔ گھر لوٹے تو نہ صرف نیم چھتے کا دِیا جل رہا تھا، بلکہ مُغ بچے جاگ بھی رہے تھے۔ جرمن سلور کی کٹوری کے عین اوپر دیوداری تختی پر ایک سیاہ سیٹلگ ٹائپ یعنی شولنگ سا نیچے کی طرف اُمڈ رہا تھا— —اور نورا، جمّاں کی ٹانگ دبا رہا تھا—— اسنین کے [اندر؟] ایک اشتراکی بھی تھا اور آپ جانتے ہیں کہ اشتراکی خواہ وہ عملی ہو یا کرسی نشین، دبیل ہونے یا لفظ ’’ایکسپلائیٹیشن‘‘ سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔ ’’تیرا زہر بند ہو جائے گا‘‘ اسنین نے آنکھیں نکالتے ہوئے زیرِ لب کہا۔ ’’سارا دن بے چارہ روڑی کوٹتے کوٹتے تھک گیا ہو گا، پھر گھر کا دھندا کیا ہے، اور اب ہے کہ رات کے دو بجے تک اُس کے پانو داب رہا ہے۔‘‘

شاید اسنین بول پڑتا، لیکن جمّاں نے اُس کے کانوں میں ایک خوش خبری ٹھونس کر بات آئی گئی کر دی۔ اور وہ خوش خبری یہ تھی کہ ڈاکیا اسنین کا منی آرڈر لے کر آیا تھا، اگرچہ اُسے نہ پاکر لوٹ گیا ۔ اسنین پیسوں کے متعلق سوچنے لگا — اشتراکی کوبھی کسی دبیل کے بچانے سے جو تسکین ہوتی ہے ،اُس سے کہیں زیادہ باعثِ راحت اُسے گھر سے آیا ہوا منی آرڈر ہوتا ہے۔

’’کتنے کا تھا‘‘ اسنین نے اس اُمید پر سوال کیا کہ شاید مُغبچوں میں سے کسی کو پتا ہو، دراصل ہم دونوں کو اُمید نہ تھی کہ مالیت کے متعلق یہ لوگ جانتے ہوں گے۔ لیکن ’’پچاس کا ہے… اور میر پور خیر سے آیا ہے ’’نورے نے قدرے اونچی آواز سے کہا۔ ’’واہ رے نورے!‘‘ ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنس دیے ’’ارے بڑا بدمعاش ہے   تو‘     تو۔‘‘

اس کے بعد ہم رات کے سنّاٹے میں چیختے جوتوں سے شور مچاتے ہوئے اوپر چلے گئے۔ کمرے کا دروازہ رفیق اور داؤد نے کھولا تھا۔ اندر گھستے ہوئے اسنین کے دماغ میں پھر نورے اور اُس کے پانو دابنے کی تصویر گھوم گئی۔ اُس نے اپنی گزی کی قمیص کابٹن کھولا اور اُسی گزی کی ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کہا —— ’’میرے بس کی بات ہو، تو جمّاں کو اِسی مکان کی کنگنی پر کھڑا کرکے نیچے دھکاّ دے دوں۔ اور صبح سب سے پہلے اِس کی موت پر آنسو بہاتے ہوئے زندگی کی صحیح تصویر پیش کر دوں، ہے نا؟ اور دیکھو کم بخت نورے کو مالیت کس طرح یاد ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ پیسے کہاں سے آئے تھے۔‘‘

میں نے کہا ’’کون جانے، اُسے یہ بھی پتا ہو کہ کہاں پیسے رکھے جاتے ہیں۔‘‘

اسنین نے اپنے سیاہ گوش سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’ارے یار سچ مچ — کہیں ہم پر بھی ہاتھ صاف نہ کر جائیں۔‘‘ اس کے بعد میں داؤد کے بستر میں گھُس گیا۔ میری چارپائی کی پائینتی ٹوٹ گئی تھی اور چارپائی اچھا خاصا کنواں بن گئی تھی۔ صبح اُٹھتے ہی بے تحاشا گالیوں اور مار دھاڑ کی آواز سنائی دی اور پھر وہی —— ’’ارے تو نے اِتنی کنکی ضائع کر دی ہے، کھچڑی کے لیے تو اِتنے سے چاول ہی کافی تھے— ابے او کتّے کے بچّے ——‘‘

اسنین بولا۔ ’’بھئی اب مجھ سے نہیں رہا جاتا۔‘‘ داؤد کا نظریہ بہ دستور، رجعت پسندانہ تھا—— جو مار کھانے کے لائق ہوتے ہیں، اُنھیں مار ہی پڑنی چاہیے۔ لیکن آج وہ بھی میرے اور اسنین کے ساتھ متفق ہو رہا تھا کہ بے چارے کے ساتھ صریحاً زیادتی ہو رہی ہے۔ داؤد نے ایک افسانے کو میز پر رکھا اور دوسرا افسانہ چھیڑ دیا۔

’’ارے تو بُلاؤ تو اُس نورے کو۔‘‘ اُس نے مجھے تحکّمانہ انداز میں کہا—

لحاف کا اندرونی حصّہ باہر کی برفانی سردی کے مقابلے میں کم تکلیف دہ تھا، لیکن اِس تحکّمانہ انداز اور نورے کے پِس جانے کے خیال نے اُس میں وہ گرمی پیدا کر دی کہ میں لحاف کو پھینکے بغیر رہ نہ سکا اور میں نے نورے کو بلایا۔ نورا منھ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ لیکن داؤد کے سامنے آ کر وہ یوں کھڑا ہو گیا ،جیسے اردلی اپنے صاحب کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔

داؤد نے بات شروع کی— ’’ابے نورے تمھارے کتنے ہاتھ ہیں؟‘‘ داؤد ہمیشہ ایسی بات سے سلسلۂ گفتگو شروع کرتا تھا جس میں حیرت کا عنصر موجود ہو۔ نورا اِس سوال پر قدرے حیران ہوا۔ اُس نے ایک لمحے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا، جیسے کتّا زمین پر بیٹھنے سے پہلے اُسے سونگھ لیتا ہے اور پھر وجدانی طور پر ایک موافق ماحول کی بو‘ پاکر بولا۔ ’’دو!‘‘

’’جمّاں کے کتنے کان ہیں؟‘‘

’’دو!‘‘

’’تمھاری کتنی آنکھیں ہیں؟‘‘

’’دو!‘‘

’’اور جمّاں کی؟‘‘

’’دو!‘‘

’’تم کیا کماتے ہو؟‘‘

’’یہی بیس ساڑھے بیس روپئے کے قریب بنا لیتا ہوں مہینے میں!‘‘

’’اور جمّاں کیا بناتا ہے؟‘‘

’’سولہ سترہ روپئے۔‘‘

’’تو بھاگ جاؤ یہاں سے احمق کہیں کے ۔ تمھاری قسمت میں یہی لکھا ہے کہ مار کھاتے رہو۔ راستے میں پڑے ہوئے پتھّروں کی طرح راہ گیروں کی ٹھوکریں کھاؤ—— جاؤ——!‘‘

نورے نے چادر کو اپنے گرد لپیٹا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے چلا گیا۔ اسنین نے اور میں نے داؤد کی طرف دیکھتے ہوئے ایک بلند اور ناشائستہ سا قہقہہ لگایا— اسنین بولا ’’داؤد تم بھی عجیب آدمی ہو۔ باتیں کرنے میں بھی تمھارے اپنے افسانے کا [ہی؟] انداز ہے۔ ایک نفسیاتی اختتام پر آ کر بس کر دیا۔ ارے نورے کے سے آدمی کو ہیمرِنگ چاہیے——ہیمرِنگ — سمجھے؟— عوام ہیمرِنگ چاہتے ہیں۔ بات اُن پر واضح اور دُہرا دُہرا کر ٹھونسنی چاہیے۔ اُن کی نفسیات یہی ہے کہ زیادہ نفسیات سے کام نہ لیا جائے۔ صاف کہو بھئی، اِس طرح کے ہاتھ، کان اور کمائی ہوتے ہوئے بھی جُمّاں سے کیوں دب رہے ہو—؟‘‘

اس پر ایک اور فرمائشی قہقہہ پڑا۔ رفیق ہنستے ہوئے اس مُرغے کی طرح اُچھلا جس کی گردن ایک ہی ضرب میں بدن سے الگ کر دی گئی ہو۔ ہم نے پھر نورے کو بُلایا۔ اور جمّاں کے خلاف اُس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ نورے میں ایک حیرت انگیز تبدیلی واقع ہو گئی۔ اُس کے جسم کے پٹھّے پھڑکنے لگے۔ چادر میں سے اُس نے اپنے لمبے لمبے بازو نکال لیے اور جمّاں کے ساتھ لڑائی کا تصوّر ذہن میں لاتے ہوئے بولا —— ’’سچ مچ اُس نے مجھے نامرد سمجھ رکھا ہے۔ ایک دفعہ وہ چکری دوں کہ …‘‘ اور آج نورے پر حقیقت کا انکشاف ہونے لگا اور وہ جان سکا کہ اُسے مار پڑ رہی ہے۔ اُس کے منھ کے ایک طرف کف کی ایک نفرت انگیز مگر متبرّک ، تخریبی مگر تعمیری سی تحریر دکھائی دینے لگی۔ اسنین نے بالکل لینن کا سا کام کیا۔ ایک آدمی کے ذہنِ لاشعور میں یہ احساس بھر دیا کہ اُسے دبایا جا رہا ہے۔

نورے کے جانے کے بعد رفیق ہمیشہ کی طرح پوچھنے لگا ’’تمھارا کیا خیال ہے، پھُنسی تو نمودار نہیں ہو گی؟ ڈاکٹر پالی نے کہا تھا کہ تین ہفتے سے چھے ہفتے تک میعاد ہوتی ہے۔ اور اب چوتھا ہفتہ جا رہا ہے اور کوئی نشان نہیں۔ اور میں کل کی نسبت آج کمزور دکھائی نہیں دیتا کیا؟‘‘ میں نے رفیق کو یقین دلاتے ہوئے کہا—— ’’بھئی پھُنسی نہیں ہو گی۔‘‘ لیکن وہ کہنے لگا ’’تم صرف میرا جی رکھنے کے لیے کہہ رہے ہو— خدا کی قسم کھاؤ—‘‘ میں نے تنگ آ کر ہمدردی سے عاری اتنی اونچی اور تضحیکی آواز میں قسم کھائی کہ رفیق نے مغموم و مایوس ہو کر اُس کا ذکر بند کر دیا— لیکن صرف اُسی دن کے لیے۔

بڑے مزے کی بات ہوئی۔ نورا یہاں تو سیخ پا ہوا ،لیکن جُمّاں کے پاس گیا تو بولا — ’’دیکھو بھیّا! یہ بابو لوگ مجھے تمھارے خلاف اُکساتے ہیں۔ کہتے ہیں تم اُس کے دبیل ہو۔ اب بھلا میں کہاں ہوں تمھارا دبیل ——؟‘‘ اور بہ دستور اُٹھاؤ چولھا صبح کی ٹاپوں [کذا] کے لیے سلگانے لگا۔

داؤد کہنے لگا’’اِس میں سارا قصور لینن یا اسنین کا ہے۔ اگر میرا افسانوی طریقہ برتا ہوتا تو بات پھر لوٹ کر اُس کے ذہن میں آتی، چوٹیں لگاتی اور بس جاتی۔ اور جہاں [کذا] جُمّاں کا نام لینے کی بھی ضرورت نہ ہوتی— یہ فرق تھا لینن اور گورکی میں— اسنین اور داؤد میں۔‘‘ رفیق نے یاس آلودہ نگاہیں اوپر اُٹھائیں اور موضوع کو ٹانگ سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹتے ہوئے بولا ’’تہذیب حاضر، جسم اور روح کی بیماریاں پیدا کرنا جانتی ہے۔ اِس کے پاس پھٹکار ہے لیکن علاج اور تشفّی نہیں۔ مریض کے دوسرے سوال کا جواب دینے کا صبر اور حوصلہ بھی نہیں۔ اور یہ آئینہ کہاں تک مددگار ہے۔ دیکھو مجھے اِس میں اپنا رنگ زرد دکھائی دیتا ہے۔ میں اِسے توڑ ڈالوں گا‘‘— اور ’’نیوراس تھینک‘‘ [NEUR-AS-THENIC] 1 رفیق نے آئینے کو باہر پھینک کر اُس کے ٹکڑے کر دیے۔

اب ہم جُمّاں سے جھینپنے لگے۔ لیکن جُمّاں—— ’’بیٹا باہر تو نکل‘‘ کے انداز کی سی باتیں کرنے لگا۔ ہم نے بھی دنٹر پیلے، مالش کی، موگدر اُٹھا کر پٹھّوں کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کہا—— لے نکلتے ہیں، کر لے جو کرنا ہے۔ اور جمّاں مرعوب ہو گیا۔ نورے کے متعلق ہم نے سوچا ، نورا جائے جہنّم میں ۔ ہمیں اُس سے کیا غرض؟ داؤد کا نقطۂ نگاہ درست ہے، بلکہ اُسے جتنی پڑیں تھوڑی ہیں—!

ہمیں نورے کی اِس بیماری سے متعلق ابھی تک حیرت تھی۔ لیکن ہم نے احساس کمتری کاسا رُسوائے عام نام دے کر کمال بے صبری اور بے حوصلگی سے اپنے ذہن کو فارغ کر دیا—— ایکا ایکی ایک دن جُمّاں، نورے کو اپنی دوستی اور رفاقت کے قابل نہ سمجھ کر علاحدہ ہو گیا۔ اُس وقت نورے نے جمّاں کی منّتیں کیں، آنسو بہائے، لیکن جمّاں تھا کہ برابر کہے جا رہا تھا ’’تم اس قابل نہیں ہو کہ تمھارے ساتھ کوئی رہے۔‘‘

داؤد چیخا، اسنین نے نفسیات کی ایک کتاب جلائی اور ہم دونوں نے مل کر ایک بے ربط اور بے سُری آواز میں قومی [گانا؟] ’’یا رب سلامت رہے ہمیشہ فرماں روا ہمارا‘‘ گایا۔ گانے کے بعد رفیق نے کہا کہ دیکھو بھئی سستی ہی جان چھوٹتی ہے۔ مگر نورا ہے کہ مانتا ہی نہیں—— ابے نورے——پھر آہستہ آواز اور دانت پیس کر— ابے نورے — اور نورا ہے کہ صدیوں سے غلام چلے آنے والوں کی طرح ،غلامی ہی میں نجات سمجھنے لگا ہے۔ اپنے پانو کی بیڑی کو ہی اپنا زیور سمجھتا ہے۔

جُمّاں چلا گیا اور ایک شخص فر و کا (فاروق) نے جمّاں کی جگہ لے لی۔ وائے قسمت ! اب نورا فروٗکے کا غلام تھا۔ لیکن تعجب کی بات تھی کہ ایک دن نورے نے احتجاج کیا۔ بات یوں ہوئی کہ فروٗکے نے کسی بات سے دُکھی ہو کر نورے سے کہا — ’’جا تیرا خانہ خراب ہو۔‘‘

نورے کو کچھ یاد آ گیا۔ آنسو تھے کہ بے تحاشا اُمڈ رہے تھے۔ ایک بات کا اضافہ ہوا۔ روتے روتے گھگھی بندھ گئی۔ نورا بار بار یہی کہتا تھا کہ تو نے مجھے مار لیا ہوتا، پیٹ لیا ہوتا، لیکن یہ الفاظ مجھ سے نہ کہے ہوتے۔ فروکے نے نورے کو دِلاسا دیا ۔ لیکن نورا تھا کہ برابر روئے جا رہا تھا۔ ہائے تو نے مجھے یہ نہ کہا ہوتا۔

اُسے منانے کے لیے فروکا گھر بیٹھ رہا۔ اور گیرج شاپ، جہاں وہ کام کیا کرتا تھا، نہ گیا۔ ہم نے بھی کالج سے چھُٹّی کی اور نورے کو کریدنے لگے۔ جب نورا بولنے کے قابل ہوا تو کہنے لگا— ’’چھوٹے ہوتے میرے ماں باپ مر گئے۔ بھائی نے پالا پوسا اور جوان کیا۔‘‘

اور نورا پھر رونے لگا۔ اُس کی آنکھیں درمیانی کمرے کے ایک پُشتے پر جمی ہوئی تھیں لیکن گردشِ ایّام پیچھے کی طرف دوڑ گئی تھی اور نورا تصوّر میں اپنے بھائی کے پاس کھڑا تھا۔ کچھ دیر کے بعد خود ہی نورے نے بات ختم کرنے کی اُکساہٹ محسوس کی اور بولا ’’مجھے مرغے پالنے کا بہت شوق تھا ، تو بڑے بھیّا نے مرغ مہیّا کیے۔ میں انڈا بوسکی کی چھانٹ دار قمیص پسند کرتا تھا، تو اُس نے بہت سی ایسی قمیصیں سِلا دیں۔ گھر میں بھاوج کو زیادہ باجرے کی روٹی پکانے کا حکم ہوتا تھا کیوں کہ وہی روٹی مجھے پسند تھی۔ لیکن میں اُس کے پاس نہ رہا اور بھاگ گیا۔ ایک آٹے کی مشین پر چھے ماہ گزار کر لوٹ آیا۔ پھر بھاگا، پھر لوٹ آیا۔ اور آخر میں نے بھائی کو اِس حالت میں چھوڑا جب کہ اُس پر فالج گرا تھا۔ اُس نے تنگ آ کر مجھے بد دعا دی جو کہ آج مجھے یاد آ رہی ہے۔ اُس نے کہا نوری!— وہ مجھے ہمیشہ لاڈ سے نوری ہی کہا کرتا تھا—— یہاں کچھ دیر کے لیے رکنے کے بعد فوراً بولا، اُس نے کہا ’’نوری ! تو زندگی میں کسی کا سگا نہیں بنا، جا تیرا سگا بھی کوئی نہیں بنے گا۔‘‘

اُس کے بعد کچھ دیر خاموشی رہی، جس کے بعد نورے نے کہا ’’وہ دن اور آج کا دن میرا تو کوئی سگا نہیں بنتا اور آج فروکا کہہ رہا ہے ’’جا تیرا خانہ خراب ہو!‘‘— میں اپنے دوست کے لیے کیا نہیں کرتا۔ کمینے سے کمینہ کام بھی کرتا ہوں اور جب میرا کوئی دوست مجھے چھوڑتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ یہ سب بھیّا بلاقی کی بد دُعا کا اثر ہے—!‘‘

رفیق ، داؤد ، اسنین اور میں، چاروں نے یہ بات سُنی اور دم بہ خود ہو کر رہ گئے۔ ’’اِسے نورا کہتے ہیں‘‘ داؤد بولا۔ اسنین نے گہری سوچ سے سر اُٹھایا اور بولا۔

’’اپنی دِق سے مرتی ہوئی ماں کی میں نے خدمت کی۔ اور مرنے سے پہلے اُس نے کہا۔ ’’جا بچّہ ! تو زندگی میں بڑا سُکھ پائے گا۔‘‘ اور اسنین ، نورے ہی کے انداز میں بولا ’’—وہ دن اور آج کا دن ،جب کوئی پُرمسرّت لمحہ میری زندگی میں آتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میری ماں کی دُعائے خیر کا اثر ہے—!‘‘

رفیق بولا’’لوگوں کو منھ سے بات نکالتے ہوئے کچھ سوچ لینا چاہیے، تم نہیں جانتے مجھ جیسے نیوراس تھینک، کے لیے ایک معمولی سا فقرہ کیا معنی رکھتا ہے —‘‘اُس وقت داؤد اور میں خاموش تھے— شاید ہم بھی اپنی [کذا] ماضی کی راکھ میں چند کوئلوں کو اُتھل پتھل رہے تھے۔

[’’افکار‘‘ کراچی ۔ خاص نمبر۔ مئی و جون 1951]

٭٭٭

 

 

 

پہاڑی کوّا

 

مجھے وہ دن یاد ہے۔ جلسے کا وہ منظر آج بھی میرے سامنے ہے، کیوں کہ وہ میری زندگی سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے۔ آج تک مجھ پہ اُس کی چھاپ ہے… اور وہ تیسری اور سب سے بڑی وجہ بن گیا تھا میرے پہاڑی کوّا بن جانے کی۔

موری دروازے اور اُس پلاٹ کے درمیان جہاں جلسہ ہونے والا تھا، ایک چھوٹی سی نہر تھی۔ ایک طرف پہلوان امام بخش اور حمیدے کا اکھاڑا تھا۔ اکھاڑا چاروں طرف بڑ کے بڑے بڑے درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ نہر کے کنارے شیشم، پھلا ہی اور املی کے پیڑ تھے، جو نیچے پلاٹ پر جھانکا کرتے تھے۔ پھلاہی پر سوکھی پھلیاں لٹک رہی تھیں۔ پت جھڑ شروع ہو چکی تھی۔ املی کے چھوٹے چھوٹے اور خشک پتّے لرزتے کانپتے ہوئے گر رہے تھے اور نیچے کھڑے ہوئے لوگوں پر یوں پڑ رہے تھے جیسے ہماری گھٹیا تصویروں میں شہیدوں پر آسمان سے پھول برستے دکھائی دیتے ہیں۔

کچھ لوگ پہنچ چکے تھے اور کچھ آ رہے تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ کر کھڑے تھے۔سب کے چہروں پر تناؤ تھا۔ نگاہوں سے نفرت کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ اور شام کے ہر لحظہ بڑھتے ہوئے اندھیرے میں پلاٹ کی گہری سبز گھاس سیاہ دکھائی دے رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا ایک کالی چادر بچھی ہے اور پھر چھدرے چھدرے کھڑے لوگ ایک ٹکڑی سے دوسری ٹکڑی میں آتے جاتے، سیاہ نظر آتی ہوئی گھاس کے پس منظر میں، یوں نظر آ رہے تھے ، جیسے جلتے توے پر چنگاریاں ناچتی ہیں۔

ایسے جلسوں کے لیے موری دروازے کے باہر کا میدان بہترین جگہ تھی۔ موری اور شاہ عالمی سے ہندو اور بھائی ٹکسالی دروازے تک سے مسلمان چلے آتے اور درمیان میں مل جاتے۔ کیوں کہ یہی ایک سیاسی پلیٹ فارم تھا جہاں یہ مل سکتے تھے۔ اِسی سال میں ہندو مسلم فساد ہو کے ہٹا تھا، مگر یوں معلوم ہوتا تھا کہ لوگ اب تھک ہار گئے ہیں اور آپس میں ملنا چاہتے ہیں۔ محبت اور پیار سے رہنا چاہتے ہیں۔ اکھاڑے کے جھاڑوں کے سامنے ترنگا لہرا رہا تھا، اپنے پہلو میں چرخے کو لیے، اور جب وہ لہراتا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا چرخا چل رہا ہے۔

ڈایس پر ایک معمولی سی میز اور اس پر گاڑھے کی ایک سودیشی چادر بچھی تھی۔ اُس پر سوت کی انٹیاں رکھی تھیں۔ سودیشی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے، لوگوں کو دکھانے کے لیے کہ آج کمبوواڑے، پیپل دیٹہرے ، سیّد مٹھا اور منشی نہال چند لاہوری کی حویلی کی عورتوں نے مل کر ایک ہی دن میں ڈیڑھ من سوت کات ڈالا ہے۔ چرخا سَنگھ کا مقامی صدر کسی بی بی ہرنام کور کو انعام بھی دے رہا تھا۔ یہ سب کچھ دکھانے کا ایک اور بھی مقصد تھا کہ اِس جدّ و جہد میں عورتیں بھی ساتھ ہیں، تاکہ اور عورتیں ساتھ آئیں۔ دس آدمی کسی تحریک میں آتے ہیں تو مشکل سے ایک عورت کو لاپاتے ہیں۔ لیکن اگر ایک عورت آتی ہے تو اُس کے ساتھ سارا کنبہ چلا آتا ہے… تو باہر ڈایس پر سوٹ کی انٹیوں کے پیچھے ترنگے کے نیچے والنٹیروں نے گانا شروع کر دیا تھا ——سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے!

ایک نہایت گاڑھے دھُویں کی طرح گانے کی آواز اُٹھی اور مجمع پر چھا گئی۔ وہ لوگ جو گولندازوں کی مانند موہوم توپوں کے پیچھے کھڑے تھے ،اِس گانے کو گولا باری کا ایک آرڈر سمجھ کر اپنی اپنی پوسٹ پر آ گئے۔ اپنے آپ اُنھوں نے ایک شیرازہ بندی کر لی۔ دائیں طرف عورتوں کے لیے جگہ چھوڑ کر، سامنے اور بائیں طرف بیٹھ گئے۔ باقی کے اُن کے پیچھے اُنھیں گھیرے میں لیے کھڑے رہے۔ درمیان میں کچھ خالی جگہ پڑی تھی اور وہاں لکڑیوں کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔لوگ ابھی نہیں جانتے تھے اُن لکڑیوں کا کیا مصرف ہے۔ گانے کی آواز پھر آئی…دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے… اور اچھی خاصی خلقت جمع ہو گئی۔ سامنے سرکلر روڈ کے مکانوں کی چھتوں پر بھی عورتیں اور مرد دکھائی دینے لگے۔ کچھ لوگ درختوں پر چڑھ کر بیٹھے تھے اور نیچے سے یوں نظر آ رہے تھے جیسے آڑو لگے ہیں۔

پیچھے، سب سے پیچھے، فرنگی سے تنخواہ لینے والی پولس کھڑی تھی اور مونچھوں پر تاو دے رہی تھی۔ اُس پر بھی نوجوان سرفروشی کی باتیں کر رہے تھے۔ یہی نہیں کبھی کبھی فرصت پاکر وہ انقلاب کا نعرہ بھی لگا دیتے تھے۔ اور مجمعے کے درمیان بلا وردی خفیہ پولس کا سپاہی اپنی ڈائری میں لکھ لیتا۔ انقلاب کا نعرہ تین بار۔

لوگ باتیں کر رہے تھے۔ سائمن کمیشن کی باتیں۔ لاجپت راے کی باتیں… میونے والی مدراس کانگریس کی باتیں۔ گاندھی جی کا مضمون … کیا کانگریس کے ہونے والے جنرل سکریٹری سبھاش اور نہرو مکمل آزادی کا پرستاؤ پیش بھی کرسکیں گے؟ بھئی ہم تو کہتے ہیں گاندھی کی مانو، وہی لنگوٹی والا بابا جانتا ہے ملک کی اِس وقت کیا دِشا ہے؟… لوگ زیادہ مانگیں، جب بھی اتنا ملے گا۔

جتنے منھ اُتنی ہی باتیں۔ جتنے منھ اُن سے زیادہ باتیں… باتیں… باتیں اور باتیں… اور پھر خاموشی——پردھان سنہر بابو آ گئے تھے۔ جلسہ شروع ہوا۔ لوگوں نے ڈر کے مارے بڑی جوشیلی تقریریں کیں۔ ایک نے کہا۔ ہم ایک بھی انگریز کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ بلا وردی سپاہی نے حیرت سے اُس آدمی کی طرف دیکھا جو آگ اور شعلوں سے کھیل رہا تھا۔ لیکن ابھی اُس نے اپنی ڈائری میں کچھ بھی نہ لکھا تھا کہ مقرر اور پردھان دونوں چوکنّے ہو گئے۔ تقریر کرنے والے نے اُسی فقرے کو بڑی صفائی کے ساتھ معتدل کر دیا۔ ’’اِس کا مطلب یہ نہیں‘‘ اُس نے کہا ’’ہم اِ ن کو مار ڈالیں گے… ہم اِن کے ملک سے آنے والے مال کا بائی کاٹ کریں گے۔ کیوں کہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے انگریز کا یہاں زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا… پردھان سنہر بابو نے تسکین کا سانس لیا اور بڑی بے پروائی سے اوپر دیکھا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ خفیہ پولس کے سپاہی نے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے ڈائری میں کچھ گھسیٹ ڈالا۔ لوگوں کے رونگٹے، جو پہلا فقرہ سننے کے بعد کھڑے ہو گئے تھے، بیٹھ گئے… لیکن ایک بار ہمیں پھر سنسنی کا احساس ہوا۔ جب چائے کمپنی کے سامنے بے کاروں پر لاٹھی چارج کی قرارداد ہمارے سامنے آئی۔ یوں معلوم ہوا ساراملک اور ساری قوم ہم سے ہمدردی کر رہی ہے۔ جب ہی پتا چلا اِکّیس آدمی زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔ دو میؤ اسپتال میں پڑے ہیں اور ایک گھر میں موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہا ہے۔ ہم نے سوچا، ہم بھی اُن اِکّیس آدمیوں میں سے ہو سکتے تھے۔ اُن تینوں میں سے ہو سکتے تھے… وہ ایک ہو سکتے تھے جو … شاید … لیکن اُس وقت پردھان سنہر بابو بولنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اُنھوں نے انگریزی راج کی مخالفت کی۔ سودیشی کا پرچار کیا ——اِن سوت کی انٹیوں سے گولے بنائے جائیں گے، اُن گولوں سے گورے اُڑائے جائیں گے—

لوگوں پر اثر پڑا۔ گولوں کا تذکرہ تو تھا۔ چاہے وہ سوت ہی کے گولے تھے۔ سوت میں وہ طاقت ہے جو بارود میں نہیں۔ نرہری ہنسا ۔ مجھے بڑا تاؤ آیا۔ میں نے کہا تو کیوں ہنستا ہے؟

اُس نے کہا، ہنستا اِس لیے ہوں کہ رو نہیں سکتا۔

کیا مطلب؟

کیا بتاؤں یار، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ سوت کے گولوں سے انگریز کو کیسے بھگا دیں گے؟ میں نے کہا تو مہاتما گاندھی سے بھی زیادہ جانتا ہے۔ اِس پر نرہری چُپ ہو رہا۔

مجمع میں غم و غصّے کی ایک لہر پھیل گئی۔ ایک جذبہ پیدا ہو گیا۔ میں نے اپنے آپ کو ڈایس کے قریب پایا۔ میں بلند آواز سے پردھان کو کہہ رہا تھا، مجھے بھی بولنے دیجیے… اور دوسرے ہی لمحے میں اسٹیج پر تھا… میں تقریر کر رہا تھا… الفاظ جانے کہاں سے اُمڈے چلے آ رہے تھے۔ شاید یہ اُن لاٹھیوں کا اثر تھا، جو چاروں طرف ہوا میں برس رہی تھیں… یا وہ روٹیاں تھیں جو ہماری گرفت میں نہیں آ رہی تھیں… دوستو! میں نے کہا۔ اب سرفروشی کے دن آ گئے۔ اب پیچھے ہٹنا کام نہیں مردوں کا۔ دیش بھر میں آگ لگی ہے۔ کیا آپ اِسے جلتا دیکھ کر ایک طرف ہو بیٹھیں گے؟ آپ سے تو پنچھی اچھّے ہیں۔ دو پنچھی ایک پیڑ پر رہتے تھے۔ کہیں اُس پیڑ کو آگ لگ گئی تو وہ وہیں بیٹھے رہے۔ کسی نے کہا —— اے پنچھیو تم اُڑ کیوں نہیں جاتے؟ تو اُنھوں نے جواب دیا —— پھل کھائے اِس بِرکش کے، گندے کیتے پات۔ اب تو ہمارا دھرم ہے جل مریں اِس ساتھ۔

اِس کے بعد تالیاں اور شور۔ اور نعرے… اور جب میں نے لوگوں کو بتایا، میں بھی   بے کاروں کے اُس مجمعے میں تھا جس پر لاٹھیاں پڑی تھیں، تو لوگوں نے چلاّنا شروع کیا ۔ سرب دیال زندہ باد ! میرا نام پوچھا جا رہا تھا۔ کانوں میں بتایا جا رہا تھا اور پھر پکارا جا رہا تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے، اِسے لاٹھی نہیں پڑی۔ دولت رام نے کہا۔ پڑی ہے … والنٹیر سوچ رہے تھے ، کاش اِسے ایک پڑی ہوتی، جو سامنے دکھائی دیتی پھر دیکھتے لوگوں کا جوش —

ایک طرف سے آگ لپکی ۔ درمیان میں دیودار کی جو لکڑیاں اور چیلیاں پڑی تھیں، دھڑادھڑ جلنے لگیں اور لوگ اپنے بدیشی کپڑے اُتار اُتار کر اُن میں پھینکنے لگے۔ ایک آدمی نے مِل کا بُنا ہوا کُرتا اُتار کر کمر میں باندھا اور بدیشی ملک کے پاجامے کو ڈایس پر پھینک دیا۔ سنہر بابو نے ایک بازو سے اُسے پکڑ لیا اور بولے۔

اِزار بند تو نکال لو ظالم—سودیشی ہے۔

جلنے دو اِسے بھی… یہ بھی اس کے ساتھ رہا ہے۔ اُس آدمی نے کہا۔

بھیڑ میں سے کسی نے اُس آدمی کو بھی آگ کی طرف دھکیل دیا۔ تو بھی جا سالے! تو بھی تو یہ پہنتا رہا ہے… پھر اُس آدمی کا پیچھے مُڑ کر دیکھنا… اندھیرے میں جیسے دو بلّے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہوں اور غراّ رہے ہوں۔ پھر دھکم پیل ۔ بیچ بچاو… گالیاں… شاباش… ہنسی گلہریوں کی سی ہنسی۔ سرِ راہ گھٹیا ٹائر پھٹ جانے کی طرح ہنسی… قہقہے… جو سب بندے ماترم کے نعروں میں ڈوب گئے۔ لوگ اس وقت کی تو کیا، جدِّ امجد کے وقت کی مخالفتیں بھول گئے۔ میرے سینے میں کوئی عزم کھول رہا تھا۔ آج صبح ہی سے اِس پاگل دل میں کوئی تخمیر ہو رہی تھی اور جو چیز دماغ تک آئی، وہ سہ آتشہ تھی۔ چہار آتشہ … میں نے کہا بھائیو! میں آج خدا اور گاندھی کو حاضر جان کر عہد کرتا ہوں، جب تک میرا ملک آزاد نہ ہو گا میں کالے کپڑے پہنوں گا——

بس پھر کیا تھا ۔ لوگوں نے مجھے لپک لیا۔ مجھ سے ہاتھ ملانے لگے۔ میرے کوٹ کا دامن چومنے لگے اور پھر مجھے اُٹھا کر کندھوں پر اُچھالنے لگے۔ میں نے دیکھا۔ میں لیڈر بن گیا تھا۔

گھر پہنچا تو دولت نے کہا — دیکھا؟

میں نے سوچا اور کہا — ارے ہاں!… گویا یہ بیج دولت رام ہی نے بویا تھا۔ اِسی نے یہ شوشہ چھیڑ دیا تھا کہ اپنا نام پہاڑی کوّا رکھ لے۔ لیڈر بن جائے گا۔ میں نے صرف اپنا نام ہی نہ بدلا، لمبا کالا کوٹ ، کالا پائجامہ، کالی قمیص اور کالی ٹوپی پہنی۔ میں سچ مچ کا پہاڑی کوّا بن گیا۔

اور وہ کالے کپڑے مجھے بے حد پسند تھے۔ اُن سے میں نے ایک امتیازی شان حاصل کر لی تھی۔ جب میں اپنے لمبے کالے کوٹ کو پہاڑی کوّے کے پروں کی طرح پھڑپھڑاتا ہوا گلیوں اور بازاروں سے گزرتا ، تو لوگ عقیدت کے ایک جذبے کے ساتھ میری طرف دیکھتے اور میں فخر کے ایک جذبے کے ساتھ سر اُٹھائے پھرتا۔ اُن کالے کپڑوں نے مجھے ایک عجیب ذمّے داری کا احساس سونپ دیا تھا۔ اب میں جہاں جاتا یہی دیکھا کرتا تھا۔ میں کہاں کھڑا ہوں، کیا کر رہا ہوں… کیا میری حرکتیں ملک اور قوم کے شایاں، ہیں یا نہیں؟ بِلّو، اب مجھ سے ڈرنے لگا تھا۔ میری عزت کرنے لگا۔ جسّی دور کھڑی میرا سیاہ و سفید دیکھتی رہی اور حیران ہوتی رہی۔ ایک شام جو میں گھر لوٹا، تو وہ ہانپتی کانپتی میرے سامنے آئی اور بولی—

بابو مجھے تم نے کچھ کہنا ہے۔

میں نے کہا، کہو۔

جسّو نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ پھر اپنی آنکھیں اوپر اُٹھائیں۔ اُس کی آنکھیں لال تھیں اور سوجی ہوئی۔ معلوم ہوتا تھا دیر تک روتی رہی ہے۔ کچھ دیر گومگو کے عالم میں رہنے کے بعد وہ بولی— ’’پھر سہی۔‘‘ اور وہ چل دی—

میں سوچتا رہا ۔ جسّی مجھے کیا کہنے آئی تھی؟ وہ شرم سار کیوں تھی۔ اُس کی آنکھیں نم ناک کیوں تھیں؟ صبح اُس کی ماں دیوانوں کے کارندے کے ساتھ لڑتی کیوں رہی تھی؟ بہ ہر حال کچھ ہو گا۔ میں نے سوچا اور اِس واقعے کو بھول گیا۔ اُسی شام جسّی نے کھانے پر میرے لیے ایک سفید بُرّاق اور بے داغ چادر بچھا دی تھی—

اب میں جلسے جلوسوں میں عام طور پر شرکت کرنے لگا۔ میں ہر ایک سے الگ نظر آتا تھا۔ نرہری خوش تھا، مگر وہ مشکوک نگاہوں سے میری طرف دیکھتا رہتا۔ اب اُس کی چوپڑی— اُس کا اخبار میرے ہاں مفت آنے لگا تھا۔ ہمیں اُس کے لیے پیسے پو‘ل نہیں کرنے پڑتے تھے۔ اُن ہی دنوں کلکتہ کانگریس کے موقعے پر پچاس ہزار کام گاروں نے مظاہرہ کیا تھا اور اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ ہندستان کو ’’آزاد سوشلسٹ ری پبلک‘‘ قرار دیا جائے۔ گاندھی جی، جنھوں نے پچھلے سال اپنے آپ کو کانگریس سے علاحدہ کر لیا تھا ، پھر لوٹ آئے اور سیاست کی باگ ڈور سنبھال لی۔ نرہری اِس بات سے خوش نہ تھا۔ وہ نہرو اور سبھاش کی قیادت کو پسند کرتا تھا۔ لیکن وہ اس بات کو بھول گیا، جب کہ اس کے تیل کا لاٹ (LOT) کسی بیوپاری نے اُٹھا لیا۔ وہ بمبئی جا سکتا تھا۔ اُسے مصیبت میں دیکھ کر اُس بیوپاری نے اپنی ٹوپی اُتار دی۔ اور رومال سے اپنے گھُٹے ہوئے سر کے ایک ایک مسام سے اُمنڈنے والے پسینے کو پونچھا اور بولا۔ دیکھو میں تمھیں ایک اور کام بتاتا ہوں۔ اگر بمبئی جا کر کرو تو … میں نے ایک دھات ایجاد کی ہے، جو سونے کے موافق دکھائی دیتی ہے۔ اُسے پیٹ کر بڑے اچھیّ زیور بنائے جا سکتے ہیں اور اُنھیں ایک سے لے کر پانچ روپئے تولے [تک؟] کے حساب سے بیچا جا سکتا ہے۔ نرہری نے کہا۔ نا بابا! میں تمھارے اِس نئے سونے کا قائل نہیں۔ میں تو رولڈ گولڈ کا بھی قائل نہیں۔ میں محنت کا قائل ہوں۔ کھری چیز کا قائل ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی چیز دیکھنے میں کچھ اور لگے، اور اندر سے کچھ اور ہو … اور خالص سونے کا وہ دل دادہ چلا گیا— ہم رات کو آئے تو وہ کہیں نہ تھا۔ صرف ایک چٹ سی پڑی تھی جس پر لکھا تھا — ’’میری تم سب کو جے مزدور۔ میں بمبئی جا رہا ہوں۔ تمھیں پہلے اِس لیے نہیں بتایا کہ تم میرا جلوس نکالو گے، تم اپنی جدّوجہد کو جاری رکھنا۔ مگر دیکھنا کھرا کیا ہے اور کھوٹا کیا۔‘‘ تمھارا نرہری۔

میں نے رُقعہ پڑھا۔ دولت ابھی ابھی آیا تھا اور اپنی بیلوں کو سنبھال کر طاق پر رکھ رہا تھا۔ اُس موٹے لدّھڑ کا ہاتھ اوپر نہیں پہنچ رہا تھا۔ قد کے لمبا ہونے کے کارن میں نے وہیں کھڑے کھڑے اُس کی بیلوں کو اوپر سرکا دیا۔ دولت نے قمیص کے سامنے دو پلّو [سامنے کا پلّو؟] اُٹھا کر اپنے آپ کو پنکھا کیا اور بولا۔ اوف۔ اوف… اب مجھ سے یہ کام نہیں ہو گا بھیّا!

میں نے کہا— کیوں؟

میں جتنا لوگوں کے پیچھے پڑتا ہوں، اُتنا ہی وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ بولا، اگر تم لوگوں کو یقین دلا دو [کہ؟] تمھیں اُن کی ضرورت نہیں ہے، تب وہ تمھاری ضرورت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ مگر میں یہ سب کیسے کروں؟ میں کوشش کرتا ہوں لوگوں کو پتہ نہ چلے، لیکن جانے وہ کیسے جان جاتے ہیں [کہ؟] میں بہت ضرورت مند ہوں۔ آج میری ایک بھی بیل نہ بک سکی… تم جانتے ہو اِس پہ چونّی میری اپنی لاگت آتی ہے اور بیچتے سمے میں ڈیڑھ روپئے سے شروع کرتا ہوں اور آخر چونّی تک آ جاتا ہوں۔ لوگ اِسے چونّی میں بھی نہیں خریدتے۔ تب میری روح کُلبلا اُٹھتی ہے۔ آج ایک آدمی آیا۔ اُس کی گود میں ایک بچّہ تھا جو اس بیل کی طرف ہمک رہا تھا۔ جب اُس آدمی نے چونّی پر بھی وہ بیل نہ خریدی تو میں نے کہا۔ تم اِسے مفت لے لو۔ بچّے نے ہاتھ بڑھایا… میں نے کہا، میں سچ کہتا ہوں۔ میں اِسے مفت دیتا ہوں۔ تم اِسے اِس پیارے بچّے کی خاطر لے لو۔ مگر اُس آدمی کو یقین نہ آیا۔ اور وہ چلا گیا… اور وہ بچّہ میری بیل کی طرف ہمکتا ہی رہا۔

میں خاموش ہو گیا۔ میں کیا کہتا۔ دولت خود ہی بولا۔ دیکھو اب تم بڑے آدمی ہو گئے ہو۔ مجھے اپنا سکریٹری رکھ لو۔ میں تمھارے خطوں کا جواب لکھ دیا کروں گا۔ یہ ٹھیک ہے، مجھے انگریزی نہیں آتی… پر… میں سیکھ لوں گا… یہ جوہر کوئی بولتا پھرتا ہے۔ اِس میں مشکل کیا ہے… آئی وی فار یو یس پلیز یور ہمبل سرونٹ…

اتنے میں بلّو نے سر اُٹھایا۔ وہ بھی ہماری باتوں کو سنتا رہا تھا۔ اُس نے کہا، بھیّا! تم جو روز کانگریس سے ملتے ہو، اُسے ایک بات تو کہہ دو۔ یہ جو ہم سے نو گھنٹے روز کام لیتے ہیں۔ اُنھیں کسی طرح کم کروا دے…

میں نے دیکھا دونوں کی آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے تھے۔ آپ نے وہ آدمی نہیں دیکھے جو رو نہ سکیں۔ وہ جینے والے نہیں دیکھے جو مر نہ سکیں۔ میں نے کہا ——آج نرہری چلا گیا ہے۔ دولت نے کہا۔ کب؟بلّو اپنی نیند بھول گیا۔ میں نے وہ چِٹھّی سامنے کر دی۔ دولت اُسے جھپٹتے ہوئے دوڑا۔ اور لالٹین کی روشنی میں چلا گیا اور پھر وہیں کا وہیں بیٹھ گیا۔ وہی دولت اب رو رہا تھا۔ گھکھی بندھ گئی اُس کی۔ بلّو بھونچکّا بیٹھا رہا۔ وہ ہنسا ۔ ایسی ہنسی جو ہنس ہی دینا چاہیے تھی۔ میں نے دولت سے کہا—— دولت! پاگل ہو گیا ہے؟ دولت نے کہا… نہیں بھیّا! میں جانتا ہوں۔ وہ کیوں چلا گیا ہے۔اُسے بھی پتا چل گیا نا، ہمیں اُس کی ضرورت ہے۔

یوں ہم ایک دوسرے کے سہارے جی رہے ہیں، جیسے بھیڑیں کسی نا معلوم خوف سے گلّے میں اندر کی طرف منھ کیے دبکی کھڑی رہتی ہیں… شہر کے مزدوروں کی یہ حالت تھی۔ گانو کے کسان کا سونا روپئے کا سولہ سیر بک رہا تھا۔

اُس کے بچّے نہیں جانتے تھے ، اُس کی بھینسوں، اُس کی گایوں کی دودھ پر کوئی روغنی زردی بھی ہوتی ہے۔ وہ زندگی کے دودھ میں پانی ملاملا کر پی رہے تھے۔ حالت بہت پتلی تھی۔ اُس کی بیوی، اُس کی پی پی، اُس کی ہیر، اُس کے وارث کی ہیر بھوکی تھی اور ننگی۔ وہ سسرال جاتی تو میکے نہ آسکتی۔ میکے ہوتی تو سسرال نہ پہنچ پاتی۔ ماں باپ کہتے، جن کی ذمّے داری ہے وہ کیوں نہیں بھُگتتے۔ سسرال والے کہتے، چار دن اور میکے رہ آئے تو یہاں کچھ آسودگی ہو جائے گی۔ اور وہ آنکھ کا نور، دل کا سرور ، مائیکے اور سسرال دونوں پر ایک سا بوجھ بنی ہوئی تھی۔ اپنے رانجھے سے الگ ہو کر وہ یہی گاتی—

یار ڑے دا سانوں ستھر چنگیرا …محبوب کے ہمیں چیتھڑے ہی پسند ہیں… بھٹہ کھیڑیاں دا رہنا۔ یہاں کھیڑوں کے ہاں رہنا لعنت… اور اُس کا محبوب اپنے کام سے بیزار ہو گیا تھا، جس سے اُسے روٹی بھی نہ ملتی تھی۔ وہ الگ ہل کی ہتّی پر ایک ہاتھ رکھے، دوسرا ہاتھ کان پر تھامے گاتا تھا۔

چھالے پئے نے ہتھ تے، پیر پٹھّے

سانوں داہی داکم نہ آوندا ای

راتیں دُکھاں دے نال نہ نیند پیندی

دن روونے نال دیا ہندا ای

ہاتھوں میں چھالے پڑے ہیں، پانو پھٹ گئے ہیں… ہمیں یہ ہلوں کا کام راس نہیں آتا۔ رات کو دُکھوں کے کارن نیند نہیں آتی، اور دن ہے کہ کراہتے گزر جاتا ہے…

موہن جھولے سے خبر آئی [کہ؟] رتنی کی شادی ہو گئی۔ میں نے کہا… اچھّا ہوا! گھر تو بس گیا اُس کا۔ کہنے کو تو میں نے کہہ دیا ،مگر میں خود ہی اِس جملے کا مطلب سمجھتا تھا۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے [کہ] ناداری کے دنوں میں اپنے زیور سے گرجانے والے سونے کی جگہ، ہم گلٹ سے بھر لیتے ہیں۔ اُس دن جسّو میرے پاس آئی۔ آج وہ لہو روتی رہی تھی۔ آج اُس کا دل ٹوٹ گیا تھا اور تالاب پر رہنے والے لوگ نہیں جانتے تھے، جب دل ٹوٹتا ہے تو کوئی آواز تھوڑے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اُس دن کی اَن کہی ، جسّو نے آج کہہ ڈالی۔ جانے وہ اِس بارے میں کتنا سوچتی رہتی [رہی؟] ہو گی جو اُس نے چھوٹتے ہی کہہ دیا۔

بابو —تم مجھ سے شادی کر لو۔

شادی؟— میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا——تم؟ تمھارے ساتھ شادی کر لوں؟ پھر میں نے سوچا اور کہا۔ کر تو لوں جسّی، پر تم نے مائی سے بات بھی کی ہے۔

ہاں!— جسّی نے اُسی طرح جلدی جلدی کہا —ماں ڈرتی ہے۔

کیوں؟— میں نے پوچھا۔

وہ کہتی ہے، وہ کہتی ہے… تم شادی تو کر لو گے، مگر پھر چھوڑ دو گے… اور جسّو ایک عجیب بے بسی کے ساتھ مجھ سے لپٹ گئی ۔ بولی تم مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے؟

میں نے کہا۔ نہیں… جسّو کے چہرے پر تیقّن کی ایک روشنی آئی۔ میں نے کہا، اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جسّو کا چہرہ پھر ماند پڑ گیا۔ پھر ایک کالا سیاہ ابر اُس کے چہرے کے چاند پر چلا آیا ، لیکن اب کے جو چاند نکلا وہ عالم تاب تھا، کیوں کہ میںنے جسّو کو اپنے بہت ہی نزدیک کھینچ لیا تھا۔ اتنا نزدیک کہ اُس کے راز میرے اپنے راز ہو گئے۔

جسّو کے راز کیا تھے؟ پندرہ سولہ برس کی ایک الھّڑ ، اَن پڑھ لڑکی کے راز کیا ہو سکتے ہیں؟ وہ اُتنے ہی چھوٹے چھوٹے، اُتنے ہی نابالغ ہوتے ہیں، جتنی وہ خود چھوٹی، خود نا بالغ ہوتی ہے۔ وہ معمولی سی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ بدن کی معمولی سی تبدیلی سے سہم جاتی ہے اور اُس کی چھوٹی چھوٹی پردہ داریوں کی ہمیں اُس وقت تک عزّت کرنا پڑتی ہے، جب تک وہ عمر اور تجربے کے ساتھ ہر چیز کو عام نہ سمجھنے لگے—— بھرپور جوانی کے علاوہ جسّو کا ایک اور راز تھا جس نے اُسے پریشان کر رکھا تھا۔ لیکن اُسے کیا معلوم جن حالات میں وہ اور مائی بستی کی دوسری بیٹیاں پلتی ہیں وہ راز بھی راز ہیں[نہیں؟] ایک کھُلی ہوئی بات ہے اور اُنھیں اُس سے شرم سار ہونے کی بجاے، اُسے چھپانے کی بجائے، اپنے کسی مونس و غم خوار کو کہہ ڈالنا چاہیے… بات یہ تھی، جسّو حاملہ تھی ۔دیوانوں کے کارندے نے اِس امیر نادار سے اپنا کرایہ وصول کر لیا تھا اور میں اِسے جانتا تھا۔

جسّو نے مجھے وہ راز نہ بتایا۔ میں نے اپنے جذباتی گھامڑ پنے، ایک ریشمیں سُبک سری میں اُسے نہ جتایا۔ نتیجہ یہ کہ وہ بے باک لڑکی ، ہمیشہ کے لیے دب گئی۔ اُس کے دبّو پنے کا یہ سلسلہ چار چھے روز بعد ہی شروع ہو گیا، جب کہ شادی کی باتیںہونے لگیں۔

جسّو میرے پاس آئی اور کہنے لگی—— شادی پہ بھی تم ——؟… اور اُس نے میرے کالے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے کہا —ہاں جسّو!

وہ بولی—کم سے کم شادی کے دن تو سفید پہنو۔

میں نے کہا—نہیں، اگر تمھیں منظور ہے تو شادی کر لو، ورنہ کوئی اور گھر ڈھونڈ لو۔

جسّو کا چہرہ ایک دم سیاہ پڑ گیا۔ یوں معلوم ہوا جیسے میرے کالے لباس کا سایہ اُس پہ پڑ گیا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں سو‘ت کی ایک انٹی تھی، جو وہ ابھی ابھی کرگھے سے اُتار کر لائی تھی اور اب اُسے ہاتھ پر لپیٹ رہی تھی۔ وہ گھبرا کے اٹھی اور بولی—نہیں، یہ بات تو نہیں۔ میں تو کہتی ہوں، جیسا تم چاہو… یہ ماں ہی دشمن ہے میری!

اور اس کے بعد اسی گھبراہٹ میں وہ چل دی۔ اُس کی انٹی وہیں پڑی پڑی کھلتی رہی اور کچّے سوت کا دھاگہ جسّو کے ساتھ چلتا چلتا، پہلی ہی روک میں اڑ کے ٹوٹ گیا۔

یہی نہیں ۔ میں نے اُن لوگوں سے سادہ سی شادی کا مطالبہ کیا۔ میں نے کہا، ہم آریا سماج مندر میں جائیں گے اور بیاہ کریں گے۔ کاہے کو فضول رسموں پر پیسا لٹانا۔ بس تمھاری ماں ہوں گی۔ میرے کچھ دوست ہوں گے۔ گانو سے کسی کو نہیں بلائیں گے… اور میں اِس بات کو سمجھ نہ سکا، شادی زندگی میں ایک ہی بار ہوتی ہے جس کے بارے میں جسّی کی طرح کی لڑکیاں اور اُن کی مائیں برسوں سوچا کرتی ہیں اور ان کے تخیّل میں رنگ، میلے میں اُڑانے والے غبّاروں کی طرح، مچلا کرتا ہے۔ بیاہ شادی کے موقع پر گائے جانے والے گیت ، اُس وقت کا ہنگامہ، وہاں کا سوانگ، اُن کے صدیوں سے اسائے ہوئے کانوں اور آنکھوں کو برمایا کرتے ہیں… آخر شادی اور ماتم میں فرق ہوتا ہے۔ شادی کا ایک اپنا انداز ہے اور ماتم کا اپنا۔ دونوں کا اظہار جداگانہ۔ بہت پڑھ جانے والے بھی شادی اور ماتم کو ایک ہی بات نہ سمجھ سکے۔

اِس کوّے اور مینا کی شادی ہوئی۔ میں نے بیار اپنے گانو خط لکھ دیا۔ اچمبھا اِس بات کا تھا کہ سوائے میری بھابی کے اور کسی کو غصّہ نہ آیا۔ میرے باپ نے مجھے اور اپنی کُل ودھو کو آشیرواد دی۔ جوانی میں وہ ہم سب پر برسا کرتے تھے، لیکن اُن کے بڑھاپے کا جب مجھے احساس ہوا… اُنھوں نے کچھ نہ کہا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ہر مہینے اُنھیں تھوڑا بہت بھیج دیا کرتا تھا اور اُس پہ ہی اُن کی گزران ہوتی تھی۔ پتہ نہیں کیا کیا خیال اُن کے دماغ میں آآ کر رہ گئے ہوں گے۔     بہ ہر حال اُن حالات کی آخری شکل وہ آشیرباد تھی، جس کے اختیار میں اُن کا پیچ و تاب اور آخر اُن کی کرب ناک مصالحت نظر آ رہی تھی۔ شادی ہو جانے کی خبر سُن کر کتنی بار اُن کا صافہ کھلا ہو گا۔ اور کتنی بار اُنھوں نے اُسی ناشائستہ، نا زیبا اور بھدّے طریقے سے اُسے لپیٹ لیا ہو گا— یہ سب میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ بھیّا نے اتنا لکھا… یہ تو تم نے کر لیا۔ اب بیوی کو لے کے آؤ۔ عورتیں پوچھتی ہیں، رتنی پوچھتی ہے۔ کتھوڑا صاحب (انگریزی پلانٹر جو وہاں آباد ہو گیا تھا) کے باغ میں اب کے بہت بڑے سیب لگے ہیں اور شہ دانے ۔ تمھارا بھتیجا اب چاچی کہہ لیتا ہے… بھابی نے لکھوایا—سمجھو میں تمھارے لیے مر گئی۔ میں نے خط غور سے دیکھا تو لکھا تھا۔ آج سے تم میرے لیے مر گئے اور پھر اس جملے کو کاٹ دیا گیا تھا۔ جانے کس احتیاج نے اُس سے یہ اصلاح کروا دی تھی۔ تمھارے لیے میں مر گئی اب بیار مت آنا۔ اور اِسی نہ آنے کے حکم میں آنے کی کتنی دعوتیں تھیں۔ کاش میرے بھولے بھالے بھائی کو بُلاوے کا یہ انداز آتا۔ جی چاہتا تھا اُڑ کر بھابی کے پاس چلا جاؤں اور اُس کی گود میں سر رکھ کر روؤں اور بس اتنا سا کہوں——تو دیکھتی ہے بھابی؟… کیا کیا حسرتیں تھیں جو میری وجہ سے بھابی کے دل میں رہ گئیں۔ وہ اِس شادی میں ماں بن کر ’’ہتھ بھرا‘‘ کرنا چاہتی تھی۔ اُس کے تصوّر میں مول اور بانکوں والے بازو اُٹھے کے اُٹھے رہ گئے۔ کیا کیا گیت تھے جو اُس کے نورانی گلے کی کوئل کوک نہ سکی۔ میرے دیور کی ہو گئی سگائی ہو… اور پھر تو یہ شادی تھی۔

ایک دن جسّی نے بھنّا کر کہا، ہر وقت یہ بھابی… بھابی… بھابی… کیا بڑی ہی خوب صورت ہے تمھاری بھابی؟

میں نے کہا—ہاں!

جسّی تنک کر بولی، مجھ سے اچھّی ہے۔

میں نے کہا، نہیں جسّی! تم اور تمھاری یہ خفتی ماں ایک جگہ ہوں اور باتیں کم کریں تو میری بھابی بن جاتی ہے… اِس پر خوب قہقہہ پڑا۔

اچھے گزر گئے ہماری شادی کے دن۔ جیسے جیسے میری جیب اجازت دیتی، میں جسّی کے لیے چیزیں خرید کے لاتا۔ خود اُس نے کبھی کسی چیز کی فرمائش نہ کی۔ اُن دنوں سیال کوٹ کے رستے جمّوں سے موتیا آتا تھا۔ مجھے یاد ہے ہم نے سیروں موتیے کے پھول اپنے بچھونوں پر مسل ڈالے۔ اُن پھولوں کی تیز مہک سے گھبرا کر ماں اوپر کی چھت پہ چلی جایا کرتی تھی۔ اور بلّو اور دوست دور ہی سے ہمیں گالیاں دیا کرتے۔

فرصت پاکر میں کئی بار جسّی کو باہر بھی لے گیا۔ باہر کہاں؟ — چڑیا گھر!

ہمارے طبقے کے آدمی جب بیوی پر بہت خوش ہوتے ہیں تو سیر کرانے کے لیے اُسے چڑیا گھر لے جاتے ہیں۔ واپسی پر پیدل آنے کی وجہ سے ہماری بُری حالت ہوتی تھی۔ لیکن راستے میں چُہل سے وقت کٹ جاتا تھا۔ اسی زمانے میں میں نے چرخا سَنگھ میں نوکری کر لی۔ میرے ساتھ میرا ایک مسلمان دوست ہوتا تھا ۔ جو اَب ریاست کشمیر میں وزیر بن گیا ہے۔ میں اور وہ ، گھر گھر اور دُکان دُکان گھوم کر کھادی بیچا کرتے تھے۔ میرا وہ مسلمان دوست ہانک خوب لگاتا تھا… جو تھوڑا وقت بچتا ، وہ جلسوں اور جلوسوں میں لگ جاتا۔ جسّی کے زچگی کے دن آنے لگے۔ اب وہ گھر ہی میں پڑی رہتی۔ شام کو میں لوٹ کے آتا تو یوں معلوم ہوتا جیسے اُس کے پھپھوندی لگ گئی ہے۔ ہاتھ لگاؤ تو ساتھ چلی آتی ہے۔

جسّی مجھ سے گھبرانے لگی تھی۔ میں اُس کی گھبراہٹ کی وجہ سمجھتا تھا۔ لیکن ہر طریقے سے اُسے تسلّی دینے کا جتن کیاکرتا۔ سب سے زیادہ جس بات سے مجھے وحشت ہوتی تھی، وہ یہ تھی کہ جسّی نے ہاں کے سوا کچھ سیکھا ہی نہیں تھا۔

جسّی! روٹی کھاؤ گی؟

ہاں جی!

جسّی! باہر چلو گی—گھومنے ؟

کچھ رُک کر— ہاں جی!

جسّی باہر تو نہیں جاؤ گی، آج؟

ہاں جی! آج نہیں جاؤں گی۔ میرا جی اچھا نہیں۔

یعنی باقی فقرے وہ صرف میرے شہ پر کہہ دیتی ،لیکن اگر اس سوال کو دوسرے طریقے پر کرتا تو وہ فوراً ہاں جی کہہ دیتی۔ یہی نہیں —اُٹھ کے ساتھ بھی چل دیتی۔ آٹھ مہینے کا پیٹ! جب وہ چلتی تو یوں معلوم ہوتا جیسے کوئی چھدامی بھاری بھرکم بہنگی اُٹھائے جا رہا ہے اور بہنگی کی لکڑی سے عجیب طرح چرّخ چوں چرّخ چوں کی آواز نکل رہی ہے…پہلو ٹن کی عام طور پر یہ حالت نہیں ہوتی، لیکن پڑے رہنے اور میرے نئے نئے شوق کی خاطر اور اچھّی اچھّی چیزیں کھانے کے کارن جسّی کا پیٹ بہت بڑھ گیا تھا۔ ایک دن اِسی طرح وہ میرے کہنے پر باہر چلی گئی۔ میں نے اُس کی حالت دیکھی تو کہا —میرا خیال ہے اب لوٹ چلیں۔ جسّی بولی، ہاں جی! میرا بھی یہی جی چاہ رہا ہے۔ میں نے برافروختہ ہو کر کہا۔ تو حرام زادی بکتی کیوں نہیں۔ جو بات کرو۔ ہاں جی، ہاں جی، ہاںجی… اِس کے سوا کوئی بات ہی نہیں۔ ایسا ہی کرتی رہی تو میری اور تمھاری نہیں پٹے گی، سمجھیں؟… میں چھوڑ دوں گا تمھیں——

اور زندگی میں پہلی بار جسّی نے کہا — ناں جی!

اور 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیان رات کو جب راوی کے کنارے پنڈت نہرو نے مکمل آزادی کا جھنڈا گاڑا۔ ہمارے یہاں ایک حرامی بچّہ پیدا ہوا۔ اُس بچّے کا مکمل آزادی کے اعلان کے ساتھ کیا تعلق تھا؟— یہ میں اب نہیں کہہ سکتا، اسے اتفاق کی بات سمجھیے۔ بہ ہر حال وہ ایک ایسا بچّہ تھا جس کے پیدا ہونے پر میں خوش تھا۔ بلّو اور دولت خوش تھے۔ میرا وہ مسلمان دوست ، میرے دوسرے ساتھی، میرے راہبر خوش تھے، لیکن اگر خوشی نہ تھی تو اُس بچّے کی اپنی ماں۔ جو جانتی تھی… جو پشیمان تھی۔ آنکھوں میں ندامت کے آنسو لیے اُس نے اُس بچّے کو میری گود میں ڈال دیا… ایک طرف میں اور میرے دوست تھے ،دوسری طرف جسّی تھی اور اُس کی ماں۔ ایک طرف گاندھی، نہرو اور دوسرے لیڈر لوگ تھے! دوسری طرف بھارت ماتا!

(ناولٹ کا ایک حصّہ)

[رسالہ ’’شاہراہ‘‘ دہلی۔ 1953]

٭٭٭

 

 

 

سارگام کے بھوکے

 

بہت سوکھا پڑ گیا تھا… ایک [بھی] دانہ جوار کا پیدا نہیں ہوا تھا۔

دینا بھاگتی ہوئی جھونپڑی میں داخل ہوئی اور چلاّئی —— ’’دادی ، بادل!… ‘‘بس، اُس کا یہ کہنا تھا کہ سب نکل کر باہر آکھڑے ہوئے ——جھونپڑیوں سے باہر کھیتوں کی مینڈ پر، جہاں پانی نہ ہونے کے کارن بڑی بڑی (درزیں) [دراڑیں] نظر آ رہی تھیں، جیسے بہت بڑے بھوکمپ کے بعد دھرتی میں نظر آتی ہیں۔

دور قصبہ جمبو گھوڑا کی مخالف سمت سے بادل نظر آ رہے تھے، جو ہولے ہولے آسمان کی طرف اُٹھتے دکھائی پڑتے [تھے]۔ ’’بادل‘‘ ’’بادل‘‘… جوان، بوڑھی، بچکانہ آوازیں آئیں۔ دینا کی بوڑھی دادی نے آنکھیں سُکیڑکے دیکھا اور پژمردگی کے ساتھ بولی ’’رانڈ! بادل کہاں ہیں؟— دھُول ہے!‘‘

کرشن کنھّیا کی سرزمین گجرات میں تھا یہ گانو… تھا (میں) اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اب یہ گانو وہاں نہیں ہے۔ اُس کی سب جھونپڑیاں جلا کر راکھ کی جاچکی ہیں۔ لیکن جب یہ موجود تھیں تو ان میں غریب، بے حد غریب لوگ (بستے) [رہتے] تھے——کسان ، موچی، گوالے، ٹمرو کے پتّوں کی بیڑیاں بنانے والے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ کسان نے کبھی صرف کسان کا کام نہ کیا، [نہ ہی] موچی نے موچی کا۔ ایک ہی کام سے پیٹ نہ بھرتا تھا۔ گوالنیں آس پاس کے قصبوں میں دودھ اور عصمت بیچ کر چلی آتیں، جب بھی اُنھیں جنگل سے بانس کاٹ کے لانے پڑتے، جن سے وہ ڈولیاں ، مونڈھے، پنکھے بناتیں۔ کچّے بانس کا اچار ڈالتیں اور جمبو گھوڑا میں بیچ آتیں۔ لیکن جب کبھی محکمۂ جنگلات کے کارندے چوکس ہو جاتے، یہ کام بھی بند ہو جاتا۔ پھر ننھّے ننھّے بچّے چوری چھپّے کانٹوں سے (لدے) [بھرے] ہوئے ببول پہ چڑھ کے گوند اور موم اُتارتے اور ایسے ہی دوسرے پیڑوں پر سے لاکھ اور شہد۔ اور اُن کے بڑے ، ویسے ہی چوری چھُپّے اُسے پانچ محل ضلع کے مختلف قصبوں ، جمبو گھوڑا، ہلول ، کلول اور بھلوڈ وغیرہ میں بیچ ڈالتے—

کئی کاروبار آپ سے آپ بند ہو گئے۔ آپ نے اخباروں میں پڑھا ہو گا—— گوالوں نے ایکا ایکی گوالنوں کو شہر بھیجنا بند کر دیا۔ اس لیے کہ بھوکی ہونے کے باوجود وہ     خوب صورت تھیں۔آج سے ہزاروں سال پہلے کرشن کنھیّا نے ان کے کان میں جو بانسری کی تان پھونکی تھی، وہ انھیں آج تک سنائی دے رہی تھی… ہاں، کرشن کنھیّا نہیں تھے، اُن کی جگہ اور ہی قسم کے لوگ تھے، بھوک اور بے کاری سے تنگ آ کر جنھوں نے عشق کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا تھا…

(یہ طے ہوا) [طے یہ ہوا] کہ وہ بادل نہیں (دھول ہے صرف) [صرف دھول ہے]… اور سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹ آئے۔ دینا کے ساتھ اُس کی دادی تھی۔ ادھیڑ عمر کا باپ تھا ،جو کہ نیم پاگل تھا۔ جسے ہمیشہ یہ وہم رہتا تھا کہ ساری دنیا اُسے مارنے (اُسے تباہ اور برباد) [اور تباہ] کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ ایک مستقل قسم کا ڈر اور خوف اُس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا۔ جب تک اُس سے بن پڑی، اُس نے حالات کا مقابلہ کیا لیکن اب ——آخر میں ہتھیار ڈال دیے۔ وہ ہر اَن ہونی کو قبول کر لیتا اور کہتا —— ’’میں تو کہتا تھا یہ ہو کے رہے گا‘‘ اور (اب) [پھر] اپنی بیوی کی موت کے بعد [اُس کی] رہی سہی مدافعت بھی جاتی رہی [تھی۔] (اُس کی۔)

آسمان سے دھول صاف ہوئی اور مہوے کے سوکھے ہوئے پتّوں کے پیچھے سے کچھ شکلیں ظاہر ہوئیں ۔ پیچھے سورج ڈوب رہا تھا اور ڈوبتے ڈوبتے اُس نے آسمان پر کچھ خونیں سے چھینٹے پھینک دیے، جو کہ دینا کے گھر میں پھیلے سوگ کو اور سوگوار (بنا رہے) [بنانے لگے] تھے… اچانک جھونپڑے کے باہر سے آواز آئی۔

’’اے گووند—‘‘

دینا کا باپ، گووند اِس آواز کو پہچانتا تھا۔ وہ ایک دم خوف کے جذبے سے کانپ اُٹھا اور جیسے بچّے ڈر کر ماں کی گود میں جا چھپتے ہیں، وہ بھی اپنی بوڑھی ماں کے پاس دبک گیا اور بولا— ’’ماں! مقدّم ہے ——ماں، مقدّم پھر آ گیا… ‘‘ ماں بولی— ’’تو جا، اُسے جواب دے نا… (مرد ہے) [بڑا مرد بنا ہے]…‘‘

دینا بولی ’’تم ٹھہرو باپو—میں جاتی ہوں۔‘‘ اِس سے پہلے کہ کوئی اُسے روکتا، مقدّم جھونپڑی میں آچکا تھا۔ یہ سب لوگ نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس لیے جب مقدّم ٹانگیں پھیلا کے کھڑا ہوا تو وہ اور بھی بڑا لگنے لگا… اُس نے اپنی دھوتی کا ایک پلّو بہت (اونچا) [اوپر] اُٹھا رکھا تھا۔ ٹانگیں رانوں تک ننگی تھیں۔ کالی ٹوپی سر پر گُدّی کی طرف سرکی ہوئی تھی۔ موٹے موٹے کھُلے ہوئے ہونٹ … اُن کے پیچھے چھدرے چھدرے دانت۔ منھ پان کی پیک سے بھرا ہوا، وہ بالکل بھیروں کی تصویر معلوم ہو رہا تھا۔ آتے ہی [وہ] بولا— ’’تمھاری بیوی مری ہے گووند؟‘‘

’’ہاں…ہاں‘‘ گووند نے کچھ سنبھل کر کہا۔ ’’ہاں مقدّم جی۔ میری بیوی مرگئی… مرگئی!‘‘

’’مر گئی تو کیا‘‘ مقدّم نے نفرت سے کہا ’’مرد ہو کے روتا ہے سالے؟ تو آدمی ہے یا شِکھنڈی ہے کوئی؟…‘‘

(’’ای… ای…‘‘) گووند کے منھ (سے اتنی سی آواز نکلی۔) [میں آواز ڈوب گئی۔] جس ہمدردی کے لیے وہ رو دیا تھا، وہ اُسے نہ ملی۔ اپنی رُلاہٹ کو دبا کر وہ بیٹھ گیا۔ آپ سے آپ اُس کے ہاتھ کھٹیا کے نیچے ٹمرو کے سوکھے پتّوں کی طرف اُٹھ گئے۔ پتّہ نکال کر ، جلدی سے اُس نے ایک بیڑی بنائی اور مقدّم کو دیتے ہوئے بولا— ’’آپ کی کیا (کھاطری) [سیوا] کریں، مقدّم جی؟‘‘

دینا، پیٹھ مقدّم کی طرف کیے لیکن منھ موڑ کے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یوں کہ اُس کی بڑی سی چوٹی گلے کا ہار بنتی ہوئی پُٹھّے پر گر رہی تھی۔ مقدّم نے گووند سے بیڑی لے لی۔ ایک اُچٹتی ہوئی نظر سے دینا کی طرف دیکھا اور بولا ’’(کھاطری) [سیوا] تو پھر بتاؤں گا۔ پہلے یہ بتا کہ تو نے رپٹ لکھائی ہے ——بھوکی مر گئی بسنتی؟‘‘

گووند چُپ رہا۔ دادی بھی چُپ رہی—(ہاں کہیں یا نہ) [کیا کہیں]—اُن کی سمجھ میں نہ آیا۔ دینا ایک دم جو پلٹی تو مقدّم کے رو بہ رو کھڑی ہو گئی اور تڑ سے بولی۔ ’’میں نے لکھوائی ہے— ماں بھوکی رہ کر مر گئی۔ اِس میں کوئی جھوٹ ہے؟‘‘

’’جھوٹ ہے‘‘ مقدّم نے غصّے سے کہا ’’وہ بھوکی نہیں مری۔‘‘

’’کیسے؟‘‘ دینا بولی ’’وہ بھوکی مری ہے—بھوکی!‘‘

’’چپ رہ ‘‘ مقدّم نے بلند آواز سے کہا۔

دادی بولی ’’اری کتیا! تو ، (چُپ کرتی) [چُپتی] ہے یا نہیں؟‘‘

’’یہ میری اولاد نہیں ہے، یہ نہیں ہے میری اولاد‘‘ گووند نے بیٹی کو دو چار گالیاں سناتے ہوئے کہا ’’جانے کون مردود اِسے چھوڑ گیا ہمارے گھر میں—‘‘

’’باپو!‘‘ دینا کڑک کر بولی۔

’’ارے!‘‘ مقدّم نے حیرت سے لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا ’’پھر زبان کھولی تو یاد رکھیو… باہر چار (مشٹنڈے کھڑے ہیں تیرے لیے… برابر کر دیں گے…‘‘) [چار خصم کھڑے ہیں ترے…‘‘] دینا بولی (’’ہاتھ تو لگا کے دیکھیں… ایک ایک کو کچّا کھا جاؤں) [’’خصم ہوں گے تیری ماں بہن کے…] جو سچ ہے وہ سچ ہے، جو جھوٹ ہے سو جھوٹ—‘‘ اور دینا کی آواز میں (وہی حوصلہ تھا) [گرج تھی] جو ایک ڈرے ہوئے آدمی کی آواز میں (ہوتا) [ہوتی] ہے۔ جب اُسے یقین نہیں آتا کہ [ایک] انسان دوسرے انسان پر اتنا (بھی) ظلم [بھی] کرسکتا ہے؟… جب بھی [؟؟] بچ جانے کی کوشش میں وہ خالی برتنوں کو الٹنے پلٹنے لگی۔ گووند بولا ’’آپ اِس کی باتوں پر نہ جائیے، مقدّم جی … جو آپ کہتے ہیں ہم وہی کریں گے—‘‘

’’(بس) میں تم سے (یہی کہتا ہوں) [کچھ نہیں کہتا‘‘] مقدّم بولا۔ [’’کہنا ہے تو بس یہی] تم اپنی رپٹ واپس [لے] لو۔‘‘

(’’کیسے واپس لے لیں؟‘‘) [’’سو تو ہم مانتے ہیں۔ پر اب… کیسے واپس لے لیں رپٹ؟‘‘] ’’بس ——اِتنا سا لکھ دو ۔ تمھاری بیوی نے تربوز کھایا، اوپر سے پانی پیا اور ہیضے سے مرگئی…۔‘‘

گووند نے کہا [’’تو پھر—]آپ [ہی] لکھ دیجیے، [میں] انگوٹھا [میں] لگا دیتا ہوں۔‘‘

مقدّم نے جلدی جلدی کاغذ کے ایک پرزے پر کچھ لکھا۔ پھر باہر کی طرف منھ کر کے آواز دی —(’’ارے) [او] رتنو!‘‘… ایک ہٹّا کٹّا، سیہ فام ، مچھیل کناڈا اندر آیا۔ (اور) مقدّم نے اُس سے پیڈ مانگا (اور) پھر گووندکا انگوٹھا پیڈ پہ رکھ کے اُے کالا کیا اور [آخر] کاغذ پہ لگا دیا— دینا دیکھتی رہی اور کُڑھتی رہی۔ دادی دونوں ہاتھ سر پر رکھے یوں بیٹھی رہی، جیسے کوئی بڑی ہی مصیبت میں بیٹھتا ہے۔ سارگام کے کچھ موچی اور گوالنیں جو (تماشا) [یہ سب] دیکھنے (کے لیے) چلی آئی تھیں ، مقدّم کی ایک ہی ڈانٹ سے چلتی بنیں۔

مقدّم نے اطمینان کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھا [اور] پھر (اُس نے) اشارہ کیا (اور) رتنو کناڈا [اپنے آپ ] باہر چلا گیا۔ گووند سمجھا (گلو خلاصی ہوئی) [چلو جان بچی۔] اُس نے خفّت کا پسینہ پونچھنے کے لیے (ہاتھ جو) منھ پہ [جو حصّہ؟؟] پھیرا تو ہاتھ کی کالک منھ پہ چلی آئی۔ مقدّم ہنسنے لگا اور اُس کا ساتھ دینے کے لیے گووند بھی ہنس دیا اور بولا (اب بتایئے) [’’کہیے نا—] آپ کی کیا (کھاطری) [سیوا] کریں؟… بسنتی تو آپ جانتے ہیں، آپ کے پانو زمین پہ نہیں پڑنے دیتی تھی—‘‘

’’ہاں ، ہاں‘‘ مقدّم نے مزے سے یاد کرتے ہوئے کہا ’’میرے اور اپنے بھی—‘‘ اور پھر (ہنس دیا) [کھلکھلا کے ہنس دیا۔] اِس بات کو گووند سمجھا، نہ دادی، نہ دینا۔ بات صرف ہنسی میں ٹل گئی۔ مقدّم نے (معاملہ چھیڑا) [بات آگے بڑھائی] اور بولا ’’کیا ہوا بسنتی نہ رہی — دینا جو ہے … کیا ہاتھ پیر نکالے ہیں۔ کمر پتلی اور کولھے اِتنے بڑے بڑے […] ہے بھگوان! (—) پوری گجراتن ہے۔‘‘

(خبردار) [’’کھبردار]—موئے مُشنڈے جو ایسی (اُلٹی سیدھی) باتیں کیں (تو)…‘‘ دینا تنک کر بولی۔

’’ارے!‘‘ مقدّم نے حیرانی سے کہا (تیری ماں تو ایسی نہ تھی) [’’تو اور کِس پر گئی ہے— ماں پر نہیں گئی!‘‘] (نہ ہو گی) دینا نے (لہک) [چمک] کرکہا ’’وہ تیرے ایسے پولیسئے کی بیٹی تھی، میں نہیں…‘‘

مقدّم (برابر ہنستا رہا۔) [بات ہنسی میں ٹال گیا۔]کھاٹ پر بیٹھتے اور بیڑی سُلگاتے ہوئے بولا ’’تو بھی تو (کسی) پولیسئے کی بیٹی ہے۔ پوچھ (باپ) [باپو] سے —— ’’اور اُس نے دینا کے باپ کی طرف دیکھا، جس کا کالا منھ بھیانک معلوم ہو رہا تھا (جسے) [اور اُس منھ کو] اچھّی طرح سے اُٹھانے کی اُس میں ہمّت نہ تھی۔ دادی پہلے ہی سر دونوں ہاتھوں میں دیے بیٹھی تھی۔ دینا نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’اچھّا! میں ہوں تیرے ایسے پولیسئے کی بیٹی… تب تجھے بیٹی سے ایسی باتیں کرتے شرم نہیں آتی؟‘‘

(’’میری تھوڑے ہے‘‘ مقدّم بولا۔ ’’کسی اور کی ہو گی، میرے بھائی کی… تو آنا میرے پاس—‘‘)[’’میرے ایسے کی ہے نا—میری تو نہیں‘‘ مقدّم نے کہا اور پھر ہاتھ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’’آ جا میرے پاس—‘‘] (اور مقدّم اُٹھ کر دینا کی طرف بڑھا۔) [اور وہ اُٹھ کر خود دینا کی طرف بڑھ گیا۔] باپ چُپ رہا۔ دادی خاموش رہی۔ زمین نہ ہلی، آسمان نہ ٹوٹا۔ مقدّم نے دینا کے ہاتھ پکڑ لیے۔ دینا نے اُس کا منھ نوچنے کی کوشش کی۔ آخر مجبور ہو کر ایک ہاتھ آزاد کیا اور پاس پڑے موصل کو اُٹھا کر مقدّم کے سر پہ دے مارا۔ شور مچ گیا۔ رتنو کناڈا اور اُس کے ساتھی اندر چلے آئے… اس چیخ پکار میں سارگام کے دوسرے لوگ، ایک دوسرے کے گلے لگے دبکے رہے۔ سب جانتے تھے، کیا ہو رہا ہے؟ مگر کسی کی ہمّت نہیں پڑتی تھی… کوئی بچاؤ۔ ارے کوئی بچاؤ۔ چاچُو ، سُبو، کھوکھی…مگر کسی نے آواز نہ دی۔ سب کچھ صاف سنائی دے رہا تھا—میری ماں بھوکی مری ہے، بھوکی مری ہے، میں اُس کی رپٹ لکھواؤں گی۔ میں اپنی رپٹ لکھواؤں گی… مار ڈالو، (نہیں) مجھے مار ڈالو ——ماں… [ہائے] ماں [ری]…

جب تک سورج ڈوب چکا تھا۔ پچھم میں خون کے چھینٹے کرشن پکش کی سیاہی میں گم ہو گئے۔ (سب) آوازیں بند ہو گئیں—ایک سنّاٹا چھا گیا ۔ صرف جنگل سے گیدڑوں کی (ہُواں ہُواں) [آوازیں] سنائی دیتی (رہی) [رہیں۔] (پھر) [آخر] پو پھٹی اور سورج نے اپنا سونا اُگلنا شروع کیا، جس نے شفق کی لالی دھو ڈالی… سب لوگ پچھلی شام کی طرح جھونپڑوں کے باہر کھیتوں کی مینڈ پر کھڑے تھے اور مقدّم اور اُس کے ساتھیوں کو رخصت کر رہے تھے۔ زمین کی درزیں بڑی بڑی نظر آ رہی تھیں۔ کال کے بھونچال نے (بہت) بڑے بڑے شگاف پیدا کر دیے تھے۔

[——] مقدّم جا رہا تھا۔ اُس نے گووند کو سمجھا بجھا دیا، مگر جھونپڑی کے اندر سے کبھی کبھی آواز آتی۔ میری ماں بھوکی مری ہے۔ میں اُس کی رپٹ لکھواؤں گی۔ میں اپنی رپٹ لکھواؤں گی۔ میری ماں ہی نہیں سارگام کے آٹھ آدمی بھوکے مرے ہیں۔ اُنھیں ہیضہ نہیں ہوا۔ اُنھیں سیتلا نے نہیں کھایا۔ وہ بھوکے مرے ہیں۔ بھوکے… میں سب کو بتاؤں گی۔ دنیا جہان کو خبر کر دوں گی…

مقدّم کا دوسرا پڑاؤ خود جمبو گھوڑا تھا۔ قصبے میں ایک دوسرے کا سہارا لیے لوگ دیر تک جی سکتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح اپنے گھاؤ چھپا سکتے ہیں، لیکن یہاں بھی بھوک سے موتیں ہوئی تھیں اور مقدّم اُن کی تحقیق کرنے جا رہا تھا۔

وہ بہت فکرمند نظر آ رہا تھا۔ اُسے اپنی عزّت بچانا تھی۔ سب ڈویژن کے افسروں کی عزّت بچانا تھی اور اِس کے لیے اُسے (ہتھیار چاہیے تھے۔)[کیا کچھ کرنا تھا۔] ورنہ وہ [سب] بمبئی کی سرکار کو کیا جواب دیں گے؟ بمبئی کی سرکار (دہلی) [دلّی] کی سرکار کو کیا جواب دے گی؟

جمبو گھوڑا کے مضافات میں پہنچتے ہی مقدّم کو ایک نوجوان کے مر جانے کی خبر ملی۔ وہ ایکا ایکی گھبرا گیا۔ آخر وہ کب تک بھوکے مرنے والوں کو ہیضے کا شکار بتاتا رہے گا۔ اسی گھبراہٹ میں وہ پولس چوکی پہنچ گیا۔

سب انسپکٹر سے لے کر معمولی کانسٹبل تک سب کیل کانٹے سے لیس کھڑے تھے۔ سب ڈویژن سے آیا ہوا مقدّم اُن کے لیے بہت بڑا آدمی تھا۔ سب انسپکٹر نے مقدّم کو سلیوٹ کیا۔ بٹھایا۔ مقدّم نے اُسے بتا دیا۔ سارگام سے کچھ لوگ آئیں گے اور اُلٹی سیدھی باتیں کریں گے۔ تُم اُن کی رپٹ مت لینا۔ سب انسپکٹر نے مشکوک انداز میں کہا۔ ’’اچھّا——اچھّا مقدّم (صحیب) [صاحیب۔]‘‘

مقدّم نے اپنی کالی ٹوپی اُتار کر [پولس] چوکی کے صحن میں پڑی ہوئی کھاٹ کے پایے پر رکھ دی اور سب کو درجہ بہ درجہ بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ (سامنے انسپکٹر) [انسپکٹر سامنے] ٹھوس چوبی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مقدّم بولا۔

’’کتنی موتیں ہوئیں جمبو گھوڑا میں؟‘‘

’’دس‘‘ انسپکٹر نے کہا۔

’’بھوک سے کتنے مرے؟‘‘

’’چھے آدمی مرے ہیں—— تین بچّے، دو عورتیں اور ——ایک مرد!‘‘

مقدّم نے کہا ’’آپ تو سمجھتے ہیں (اپنے) [عقل کے] گھوڑے دوڑائیے (…اور) ایسا بندوبست کیجیے کہ اوپر کے ا فسروں تک یہ بات نہ پہنچے۔ لکھ دیجیے، کچھ لوگ محرِّقہ بخار، قولنج ، تپِ دق وغیرہ سے مرے ہیں۔‘‘

’’مگر … کب تک ایسا کرتے رہیں گے؟‘‘ سب انسپکٹر نے پھر مشکوک لہجے میں کہا ’’موتیں روز بڑھتی جا رہی ہیں۔‘‘

’’دیکھیے انسپکٹر صاحب۔ ‘‘ مقدّم نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ’’اگر آپ ایسا نہیں کریں گے، تو گودھرا والے آپ سے ناراض ہو جائیں گے۔ آپ فکر کیوں کرتے ہیں؟ بمبئی سے گیہوں، چاول کی بوریاں چل چکی ہیں۔ امریکا سے اناج آ رہا ہے… جب تک آپ افسروں کی عزّت رکھ لیجیے۔ سالے وقت پر کام کرتے نہیں، بعد میں پتلون ڈھیلی ہوتی ہے… اور سُنیے—پنڈت نہرو گجرات کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اگر اُنھوں نے اوپر کے کسی افسر کا ٹین پاٹ کر دیا تو ساتھ آپ کا بھی ہو جائے گا۔‘‘

انسپکٹر چونکا ’’پنڈت جی یہاں بھی آنے والے ہیں؟‘‘ اُس نے پوچھا اور پھر بولا— ’’یہ میں کر دیتا ہوں مگر… آپ کو (نشچے) [یقین] ہے بمبئی سے (شیگھر)[جلدی] ہی مدد آ جائے گی؟‘‘

(’’نشچے؟‘‘)[’’یقین؟‘‘] مقدّم نے کہا۔ ’’سولہ آنے!‘‘

انسپکٹر کی تسلّی ہوئی۔ مقدّم نے کہا —— ’’گجرات اپنا دیش ہے (ڈیسائی صحیب) [پٹیل صاحیب]… ! ہم اِسے بھوکوں نہیں مرنے دیں گے۔ ہماری اپنی حکومت ہے۔ کانگریس حکومت… ہم اِسے دنیا کی نظروں میں بدنام نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جیل کی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ ہم [اپنی] دھرتی (ماں) کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکا نہیں لگنے دیں گے۔‘‘

قومیت (تو چھوت کی بیماری سے بھی زیادہ مہلک ہوتی ہے) [کا جذبہ چھوت کی بیماری کی طرح اُڑ کر اُس کو بھی لگ گیا۔] (انسپکٹر نے) مصمّم ارادے سے [اُس نے] کہا ’’نہیں ہم ایک آدمی کو بھی بھوکا نہیں مرنے دیں گے‘‘ اور پھر اپنا منھ مقدّم کے کان کے پاس لے جا کر اُس نے کچھ کہا۔ مقدّم نے کہا۔ ’’سچ؟‘‘ اور پھر ایک دم اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اُس کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے۔ لیکن ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اُن ہی لرزتے ہاتھوں سے اُس نے کھاٹ کے پایے پر سے ٹوپی اُٹھا لی، دوسرے ہاتھ سے دھوتی کو سنبھالا اور کہا ’’رتنو، چلو… انسپکٹر صاحب— ایک کانسٹبل دے دیجیے جو ہمیں اُس حلوائی کے پاس لے جائے … وہ مارا… وہ مارا…‘‘

اور خوشی خوشی مقدّم اپنے چار چھے ساتھیوں اور کانسٹبل کو لے کر امبا لال حلوائی کے پاس [جا] پہنچا —— حلوائی (پورے کا پورا ریجی مینٹ) [سپاہیوں کی پوری کی پوری گارد]دیکھ کے ڈرگیا—اور بولا:

’’میرا کوئی (قصور) [دوش] نہیں —میرا کوئی قصور نہیں صاحب!‘‘

’’صاحب کے بچّے‘‘ مقدّم نے درشتی سے کہا ’’ہم جو پوچھتے ہیں وہ بتاؤ… وہ نوجوان جو ایک دو روز ہوئے مرا (ہے) ، کون تھا، کیسے آیا تھا یہاں؟‘‘

’’یہ منگل پھیرا ہے نا‘‘ امبا لال حلوائی نے اوندھی کڑھائی کو سامنے سے ہٹا کر، مقدّم کے پاس آتے ہوئے کہا ’’یہاں ایک برات آئی تھی۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’برات میں وہ چھوکرا آیا تھا۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’اُس چھوکرے کے ساتھ ایک اور چھوکرا آیا تھا۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’پھر اُنھوں نے آپس میں شرط بدی کہ جو زیادہ جلیبیاں کھائے گا وہ دس روپئے جیتے گا۔ اُن کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی تھا جسے وہ لوگ نانو بابا کہتے تھے۔ بڑی بڑی داڑھی تھی۔ چوڑا (مستک) [ما تھا] تھا—‘‘

’’(مستک) [ماتھے] کے بچّے … آگے بتا۔‘‘

’’پھر اُنھوں نے سیر ایک جلیبیاں کھائیں۔ پھر دو سیر … اور وہ نوجوان (دس) [چھے] سیر جلیبیاں کھا گیا۔ اس کے بعد اُس (کا رنگ پیلا پڑ گیا) [کی] آنکھیں پھر گئیں— وہ چکرا کے گرا ——اُس کرسی پر۔‘‘ اور امبا لال نے کرسی کی طرف اشارہ کیا ’’اور گرتے ہی اُس نے دم دے دیا۔ سانس بند ہو گیا اُس کا۔ صاحب میرا کوئی (قصور) [دوش] نہیں—‘‘

’’تمھارا نہیں (سالے) تو کس کا ہے؟‘‘ مقدّم نے کہا ’’چلو ہم تمھیں (نہ مارتے؟؟) [چھوڑے دیتے] ہیں۔ اُلٹا انعام دیں گے مگر جو کوئی پوچھنے آئے تو اُسے سچ سچ بتانا — آں؟‘‘

’’سچ بتاؤں گا، سچ بتاؤں گا، سچ بتاؤں گا… امبا لال حلوائی اِتنی بار سچ کہہ گیا کہ خواہ مخواہ جھوٹ کا شبہ ہونے لگا۔ مقدّم نے بغل بجائی اور پورا بازو گھما کر ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ کیا۔ ’’بچ گئی ہماری (موت) (عزّت) بچ گئی‘‘ اُس نے کہا ’’اب دیکھیے میں کیا کرتا ہوں، ایس ڈی اُو خوش ہو گا۔ ڈپٹی کمشنر [پھو‘لا نہیں سمائے گا] [خوش ہو گا] بمبئی کی سرکار (…؟؟) [خوش]ہو گی۔ ہماری [دلّی کی] قومی (حکومت) [سرکار] … چلو … چلو بے، کیا دیکھتے ہو (چلو چلو) —؟‘‘

اور مقدّم بھاگا بھاگا چوکی پہنچا۔ وہاں دینا کھڑی تھی۔ دینا کا باپ گووند کھڑا تھا۔ دادی کھڑی تھی۔ دادی جھکی ہوئی تھی۔ باپ کے گھٹنے آپس میں ٹکرا رہے تھے۔ دینا تنی ہوئی تھی۔ اِن [سب] کے علاوہ سارگام کے دوسرے بھوکے کھڑے تھے۔ جنھیں دینا کسی طور [ساتھ] لیتی آئی تھی۔ مقدّم کو دیکھتے ہی دینا چلاّئی ’’یہ ہے وہ چنڈال… یہ ہی ہے۔ اِسے (پکڑو) [پکڑلو]، حوالدار جی… (اِسے پکڑو) [پکڑ لو اِسے] … ‘‘لیکن کانسٹبل سب کو دھکّے مار کر باہر نکالنے لگا۔ دینا بہ دستور چلاّتی جا رہی تھی ’’میں نہیں جاتی۔ میں رپٹ لکھواؤں گی——میری رپٹ لکھ لو ، حوالدار صاحب——میری ماں بھوکی مری ہے۔ گاڑی والا بھوکا مرا ہے۔ آٹھ آدمی بھوکے مرے ہیں … ہم بھی بھوکے مر جائیں گے… نکال دو … نکال دو باہر … میں بڑی سرکار کے پاس جاؤں گی۔ ہائے رام، تمھیں پوچھنے والا کوئی نہیں…‘‘

مقدّم نے کچھ بھی پروا نہ کی۔ اُس کی اپنی (حکومت) [سرکار] تھی۔ قومی (حکومت) [سرکار]… انگریزی عمل داری تھوڑے تھی کہ دوسری دنیا کے لوگ شور مچائیں۔ اپنے امن اور اپنے قانون کی حفاظت کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے تھے… (دس) [چھے] سیر جلیبیاں کھا کر مرنے والے نوجوان کی موت کی تصدیق کے لیے مقدّم مرگھٹ بھی گیا۔ اُس لڑکے کا باپ اور بھائی چوتھے کے پھول چُن رہے تھے اور [اپنی] قسمت کو (اپنی) رو رہے تھے۔ (لیکن مقدّم خوش تھا) [ایک خوش تھا تو مقدّم]… اُس کا خیال تھا، اُس نوجوان نے یوں مر کے گجرات تو کیا دیش بھر کی لاج رکھ لی تھی۔

گودھرا کے سب ڈویژن میں بڑے بڑے لوگ تھے، آزادی کے بعد چمپا نگر [؟] اپاواگڑھ، سنجیلی اور کاٹھیا واڑ تک کی ریاستوں کے رئیس بڑے بڑے افسر تک بن گئے تھے۔ احمدآباد کی مِلوں میں اُن کے حصّے تھے۔ بمبئی میں رشتے (دارییں)[داریاں] تھیں۔ مرکز کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ اُنھوں نے اپنے علاقے میں شیر کا شکار کھیلا تھا۔ نوا گانو کے گرم پانی کے چشمے پر نہانے کے لیے گئے تھے… اِن سب کی عزّت رکھ لینا پریس کا [بھی] فرضِ (منصبی) تھا۔ زیادہ کھا کر مر جانے والے نوجوان کی خبر سب ڈویژن کے گزٹ میں چھپی۔ جہاں سے احمدآباد کے پریس نے نقل کی اور پھر بمبئی کے اخباروں نے اُڑا لی… قحط کی خبریں اِس طومار کے نیچے سسکتی بلکتی رہ گئیں—

یہ خبر امریکا تک جا پہنچی ۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں کا علم بردار امریکا اور اُس کا جمہوری پریس اپنی ایک ساتھی قوم کو نیچا ہوتے کیوں کر دیکھ سکتا تھا۔ نیویارک کے بڑے بڑے اخباروں نے لکھا— ہندستان میں قحط کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ بھوک سے موت کی خبریں (مفسدہ پرداز) [بدمعاش] کمیونسٹوں نے اُڑائی ہیں۔ ہندستانی ہماری [ہی] طرح (طبعاً بسیار خور لوگ) [بہت کھاتے] ہیں گجرات کا علاقہ جہاں سے بھوک (کی) [سے] موتوں کی خبریں آ رہی ہیں بسیارخوری کا شکار ہے۔ لوگ بہت کھا جانے سے مر رہے ہیں… البّتہ کسی کسی جگہ (خوراک)[روٹی؟؟] کی کمی ہے(جس کے لیے مدد پہنچانے کے بارے میں) [جسے پورا کرنے کے لیے] ہماری اسٹیٹ پوری کوشش کررہی ہے۔

جب تک دینا بے نیل ِ مرام گھر جاچکی تھی۔ لیکن دینا اور دوسرے لوگ زیادہ دیر سارگام [میں] نہیں رہ سکتے تھے۔ بھوک کا کوئی سامان ہوتا نظر نہ آتا تھا۔ پیٹ پالنے کی کوشش میں گانو کے بھوکوں نے درخت کی چھال (کاٹ) [نوچ] لی۔ لاکھ اُتار کے رکھ لی۔ مہوے اور ساگوان کے پیڑ کاٹ کے اُنھیں جھلوڈ اور دھیر گڑھ بازیا تک بیچ آئے… اِس پر بھی اُن کے پیٹ کا (نرک)[دوزخ] نہ بھرا۔ ایک دن دینا کی دادی چل بسی۔ گووند کی ویسے ہی بُری حالت تھی۔ کوئی راستہ (دینا) [ان لوگوں] کو نظر نہ آتا تھا۔ اس پر بھی دینا اور سارگام کے بھوکے اس دھرتی سے یوں چمٹے ہوئے تھے جیسے (دودھ پیتا) بچّہ ماں کے مر جانے کے بعد بھی اُس کی چھاتی سے الگ نہیں ہوتا… شاید وہ سب وہیں مر جاتے اگر سارگام کے بھوکوں کو جنگل کاٹنے، موم، شہد اور لاکھ کی چوری کرنے کے الزام میں جرائم پیشہ لوگ نہ قرار دیا جاتا… ایک رات بڑی پُراسرار [سی] آگ لگی۔ اور گانو کا گانو راکھ کر گئی۔ سب لوگوں کو سارگام سے چل دینا پڑا۔

سارگام کے بھوکوں کی دو پالیاں بنیں۔ ایک جمبوگھوڑا کی طرف چل دی اور دوسری گودھرا کی طرف ۔ دینا جمبو گھوڑا کی طرف نہ جانا چاہتی تھی۔ اگرچہ وہ نزدیک تھا، اِس لیے کہ وہاں روٹی نہ تھی اور — انصاف نہ تھا۔ گودھرا میں شاید اُسے کوئی کھانا دے دے اور رپٹ لکھ لے… دینا، اُس کا باپو گووند اور دوسرے دو چار (عورتیں اور مرد) [مرد اور عورتیں] گودھرا کی طرف (چلے) [چل دیے]۔

ابھی وہ بہت دور نہ گئے تھے کہ اُنھیں سفید چمڑی والا ایک آدمی ملا۔ اُس نے اپنی چمکتی (دمکتی) ہوئی کار روک لی اور اپنے ڈرائیور کی معرفت جمبو گھوڑا کا راستہ پوچھا۔ (سب مرد دیکھتے رہے۔) دینا نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا۔ کہا — ’’وہ ہے‘‘ اور پھر نفرت سے تھوک دیا… وہ جمبو گھوڑا کا نام تک نہ لینا چاہتی تھی!

گووند نے ایک ہاتھ کار کی طرف پھیلاتے ہوئے اور دوسرے سے پیٹ بجاتے ہوئے کہا’’ہم بھوکے ہیں بابا!…‘‘

دینا نے کار کے اندر منھ کرتے ہوئے کہا ’’تم صاحب لوگ ہو۔ دیکھو ہم سب بھوکے مر رہے ہیں، گجرات میں سیکڑوں [ہجاروں لوگ] بھوکے مر گئے—‘‘

ڈرائیور نے کہا ’’صاحب (امریکن ہے،) [امریکا سے آیا ہے…] وہ کیا کرسکتا ہے؟‘‘

گووند کے چہرے پر ایک چمک سی آ گئی۔ اُس نے سُن رکھا تھا۔ امریکا سے اناج آ رہا ہے۔ اُس نے ڈرائیور سے کہا۔ ’’مہتا جی ! ذرا پوچھو، (کیا) اناج (اُس وقت) [کب] آئے گا؟ [کیا اُس وقت] جب ہم سب مر جائیں گے؟… ہمیں ابھی کچھ دے دو… [نہیں] ہم مر جائیں گے… (ہم بھوکے ہیں…! ) [دیکھو ہمارا پیٹ—‘‘] صاحب نے ڈرائیور سے انگریزی میں کچھ کہا۔ ڈرائیور نے بتایا، صاحب کہہ رہا ہے— ’’کوچھ پھیکر نہیں۔ تمھارا بریڈ آئے گا۔ اُدھر سے بھیجا ہے۔ ہم اس وقت کچھ نہیں کرنے سکتا۔ ہم دیکھنے جا رہا ہے۔ جمبو گھوڑا میں سچا کوئی آدمی جیادہ کھایا اور مر گیا؟‘‘

گووند بولا ’’سب یہی جانتا ہے۔ اُدھر لوگ جیادہ کھایا اور مر گیا۔ یہ کوئی نہیں جانتا،   نہ کھایا اور کتنا آدمی مر گیا۔ ہے بھگوان ! (یہ) کیسی دنیا ہے… جب چاروں طرف سے کوئی اُمید نہ دیکھی تو گووند نے دینا کی طرف اشارہ کیا اور کہا ’’یہ میری لڑکی ہے، صحیب ! دیکھو (کیسی بیوٹی ہے—…‘‘) (اس کے بعد زوں ساں ساں کی ایک آواز آئی اور) [اُسی دم ایک معمولی سے جھٹکے کے ساتھ] گاڑی چل دی۔

دینا (میں اب وہ پہلی سی چمک نہ رہی تھی۔ اُس نے صرف اتنا سا کہا) [بھوک کے باوجود بھپر اُٹھی۔ بولی] ’’باپو!… (اور پھر مشکل سے بولی ’’تم میں اتنی بھی لاج نہیں رہی‘‘) [اتنا ہی پانی مر گیا ہے تمھاری آنکھوں کا]…‘‘

(جانے) گووند (ڈھینگر) کے دل میں کب سے غصّہ بھرا پڑا تھا۔ یا جانے کہاں کا غصّہ تھا اور کہاں نکال دیا اُس نے۔ بولا ’’(لاج) [پانی]کی بچّی!…اتنی ہی (لاج) [شرم] والی ہوتی تو مقدّم کے سامنے (ٹانگیں نہ پھیلا دیتی) [نہ بچھ جاتی]‘‘

’’ڈوب (مر باپو) [مرو۔] ‘‘دینا نے کہا’’[کچھ ہو تو کھا مرو؟؟] جہاں تم ایسے باپ، تم ایسے بھائی ہوں وہاں کون بیٹی، کون بہن (لاج) [شرم] بچا سکتی ہے (اپنی)۔ جب تم بھی تو تھے۔ کیوں نہ مر گئے تم شرم کے مارے (کیوں) [   ؟؟] نہ کچھ کھا لیا (تم) [تو] نے؟…‘‘

’’(تم) [تو] نے کیوں نہ کھا لیا (کچھ) ، حرام جادی‘‘ گووند نے ڈھٹائی سے کہا۔

’’حرام جادے تم ہو‘‘ (میں نہیں) دینا نے کہا اور (زور) [اپنے ہاتھ؟؟]سے گووند کو ایک دھکّا (دیا اور) [دے کر] چل دی۔ گووند میں پہلے ہی دم نہ تھا۔ منھ کے بل گرا۔ اُٹھا۔ گرا اور بلبلانے لگا۔

’’مجھے پتا تھا۔ میں جانتا تھا۔ تو یہ سب کرے گی۔ تو بھی مجھے چھوڑ جائے گی ایک دن۔ اپنی دھوتی کا گہنا بیچے گی اور کھائے گی۔ یہ سب ہونا تھا۔ سب ہونا تھا (یہ) [ایک دن]… (اور گووند اُوہو ، اُوہو، کر کے رونے لگا۔ دینا نے) کچھ دور جا کر [دینا نے] اُس کی طرف دیکھا۔ لوٹی اور پھر نفرت سے اُسے گھسیٹتی ہوئی بولی— ’’چل—چل (حرامی)… [مر۔]‘‘

گجرات کے قحط کی خبریں دب نہ سکیں۔ لوگ کہتے ہیں [جناب] شہر کے کارخانوں سے جو دھُواں اُٹھتا ہے، کوئلے کا نہیں ہوتا۔ کام گاروں کی آہوں کا [دھواں] ہوتا ہے۔ (دھُواں) (ویسے) دیہات میں سوکھے کے سمے جو دھول اُڑتی ہے، کسان کی آہ ہوتی ہے… دھُواں اور دھول آخر آسمان پر پہنچ جاتے ہیں… مجبور دینا نے اپنی رپٹ کسی آسمانی چوکی میں لکھا دی اور گرتی پڑتی گودھرا کی طرف چل دی۔

گجرات کے کال سے مارے ہوئے لوگوں کی [صحیح] خبریں (دہلی تک پہنچیں) [اب دلّی تک پہنچیں۔]امریکا سے جو گندم (پہنچی) [آئی] وہ جانوروں کے [بھی] کھانے (کے بھی) قابل نہ تھی۔ (دیش، مٹّی کے بدلے امریکا کے سامنے گرو پڑ گیا۔ بیسیوں [ ؟؟] اور بھوکے مر گئے۔ لیکن دنیا جہان میں یہی چرچا تھا، ہندستانی زیادہ کھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں… گیہوں پر ہاتھ نہ پڑا تو بمبئی کی سرکار نے جوار بھیجنا شروع (کی) [کر دی۔] پنڈت جی کے آنے سے کچھ دن پہلے لنگر لگ گئے۔ بھوکوں کو مفت کھانا بٹنے لگا۔ (لیکن جب) [اُس وقت] تک گانو برباد ہو چکے تھے، قصبے اُجڑ چکے تھے… بربادیاں آبادیوں کی طرف (لپکی جا رہی) [برابر لپکی آ رہی] تھیں۔

جب سارگام کے بھوکوں کی یہ پالی گودھرا پہنچی تو قریب قریب سب مر چکے تھے۔ چاچُو راستے میں ڈھیر ہو چکا تھا۔ کھوکھی ، چاچُو کی بہن ایک اور گروہ کے ساتھ چلی گئی تھی۔ دو بچّے پُل پر سے سوکھے نالے میں پھینک دیے گئے تھے۔ گووند میں کوئی دم نہ تھا۔ گودھرا کے ایک مل کی چمنی بہت اونچی نہ ہوتی تو گووند اور اُس کے بچے کھچے سب ساتھی مر لیے تھے… گودھرا تک پہنچتے پہنچتے گووند (بالکل جاں بہ لب ہو گیا۔)[کی جان ہونٹوں تک آ پہنچی۔] دینانے (باپو) [گووند] کو شری شکتی منڈل کے پاس ایک دیوار کی اوٹ میں بٹھا دیا اور خود (مانگنے تانگنے کے لیے چل) دوڑی۔ (کہیں) [ایک] لنگر سے روٹیاں اُٹھا لائی اور آ کر باپو کو دے دیں۔ باپو نے ایک دم ساری عمر کے لیے کھا لیا۔ کچھ دیر کے بعد اُس کے پیٹ میں ایک عجیب طرح کی کلبلاہٹ شروع ہوئی اور شام تک اسہال شروع ہو گئے۔ [اُس کی] آنکھوں کی پُتلیاں پھر گئیں۔ دینا نے دہشت سے ایک چیخ ماری اور پھر [کچھ دیر بعد] ہمّت جمع کر کے (باپو) [گووند] کا ایک بازو اپنے کاندھے پہ ڈالا اور گھسیٹتے ہوئے لے چلی۔ لنگر جاتے ہوئے اُس نے راستے میں ڈاکٹر کا ایک کیمپ دیکھا تھا——

گرتی پڑتی، باپو کو لے جا کر، دینا نے خیمے کے سامنے ڈال دیا اور (دوڑی دوڑی) [گھبرائی ہوئی] ڈاکٹر کے پاس پہنچی اور بولی۔

’’بید جی —میرا باپو مر رہا ہے، اُسے بچائیے… اُسے بچائیے، بید جی ۔‘‘

ڈاکٹر نے دینا کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دور پڑے ہوئے اُس کے باپ کی طرف ، اور بولا’’یہ اسپتال عام مریضوں کے لیے نہیں۔ اسے بڑے اسپتال لے جاؤ۔‘‘

دینا کے دل پہ چوٹ سی پڑی۔ ’’یہ کن بیماروں کے لیے؟‘‘ وہ بولی …

’’اُس علاقے کے لوگوں کے لیے جو بھوکے مر رہے ہیں۔‘‘

’’ہم بھی وہیں کے ہیں، وہیں کے ہیں‘‘ دینا نے بے صبری سے کہا۔

ڈاکٹر نے پوچھا ’’کیا نام ہے تمھارے گانو کا؟‘‘

’’سارگام — سارگام ‘‘ دینا نے پھر جلدی سے کہا۔

ڈاکٹر نے (پھر کوئی چوپڑی دیکھی) [کچھ کاغذ دیکھے] اور بولا ’’ایسا کوئی گانو نہیں لکھا ہے یہاں… [دیکھ لو۔‘‘] اور پھر یہ جان کر کہ لڑکی شاید پڑھی لکھی نہ ہو۔ بولا۔ ’’اِسے بڑے اسپتال میں لے جاؤ۔ ہم صرف خاص علاقے کے مریضوں کو لیتے ہیں—‘‘

ڈاکٹر پلٹا اور کسی کمپاؤنڈر کو کچھ ہدایات دینے لگا۔ دینا نہ جان پائی — وہ کیا کرے۔ وہ دوڑی دوڑی باپو کے پاس آئی (—— ’’ہائے ! میرا جنم داتا ، میرا بابل جا رہا ہے اور میں کچھ نہیں کرسکتی۔‘‘ کچھ نہ سمجھنے پہ بھی) [اور بولی—باپو… باپو رے… ہائے میرا باپو… پھر اسی ؟؟] میں اُس نے گووند کا بازو گلے میں ڈالا اور اُسے اُٹھانے کی کوشش کی۔ مگر اب خود (اُس) [دینا] میں ہمّت نہ رہی تھی۔ اُس نے (باپو) [بڈھے باپ] کو وہیں چھوڑ دیا۔ اور اُس کی طرف دیکھ کر بلند آواز میں چلاّئی— ’’باپو۔‘‘اور پھر (—بس کھڑی اُس کی طرف دیکھتی رہی—) [اپنی پھٹی ہوئی دھوتی کے پلّو سے منھ ڈھانپ کر ایک طرف کھڑی ہو گئی۔] پھر ایکا ایک (جانے اُسے کیا) [دینا کو کوئی] خیال آیا۔ وہ (دوڑی دوڑی) [بھاگتی ہوئی] ڈاکٹر کے پاس آئی اور بولی ’’بید جی !… ہم جمبو گھوڑا کے ہیں، جمبو گھوڑا…‘‘

’’او… ‘‘ ڈاکٹر بولا۔ ’’وہی جمبو گھوڑا جہاں ایک آدمی زیادہ کھانے سے مر گیا تھا—؟‘‘

’’ہاں — ہاں وہی‘‘ دینا نے جلدی سے کہا ’’جہاں ایک آدمی بہت کھانے سے مر گیا تھا—‘‘

’’لے آؤ۔‘‘—ڈاکٹر نے کہا۔

دینا پھر بھاگی۔ لیکن جب (تک ڈاکٹر نے گووند کا نام رجسٹر میں لکھتا، گووند اِس دنیا سے جا چکا تھا!) [وہ گووند کے پاس پہنچی تو اُس نے دیکھا— اُس کا باپو مر چکا تھا — زیادہ کھا جانے سے!]

[مئی 1964 سے قبل لکھا گیا۔ رسالہ ’’روحِ ادب‘‘ میں ’’فنکار‘‘ سے نقل ہوا۔]

٭٭٭

 

 

 

چھے ادب پارے

 

پھول

 

لوگوں کے گھر کتنے بے رونق ہیں۔

ان میں محبت نہیں، دولت نہیں——پھول نہیں

(گھر شرط ہے، ورنہ کوئی آدمی اتنا غریب، اتنا مصروف نہیں ہوتا کہ اپنے ہاں کسی کونے میں پھول بھی نہ اُگا سکے)

اکثر لوگ بیج اس لیے نہیں بوتے کہ شام تک اُس کا پھل نہ پا سکیں گے!

میں کہتا ہوں ذرا صبر…

چوبیس گھنٹے میں نہ تم محبت کا اجر پا سکتے ہو، نہ دولت کا شجر، نہ بیج کا ثمر۔

کسی نم زمین میں بیج بو دو اور بھول جاؤ… جب تم دوسرے کام کر رہے ہو گے، بیج اپنے آپ پھوٹتا رہے گا، شجر و ثمر بنتا رہے گا۔

اُس خوب صورت صبح کا تصوّر کرو جب تم اِس بد معاملہ دنیا کے بدصورت خوابوں سے اُٹھ کر ادھر آنکلو گے، تو ایک پھول تمھیں اپنی طرف ہمکتا ہوا نظر آئے گا!

 

بیداری

 

پربھات کی پرچھائیاں پرے جا رہی تھیں

پالنے میں ننھّی پارو سو رہی تھی… صبح کا سنگیت لوریاں دے رہا تھا۔ ہوا جھولنے جھلا رہی تھی۔ پرے… کھڑکی کے پاس دو سپید سپید پنچھی اُڑے اور اُڑتے اُڑتے دور کہیں آسمان کی پہنائیوں میں گم ہو گئے۔

پیچھے دیکھا تو پارو جگ گئی تھی۔

 

کولی واڑہ

 

کولی واڑہ مہاجرین کا ایک کیمپ ہے۔

یہاں انسان اپنے ارتقاء سے نبرد آزما ہو رہا ہے۔ عورتوں نے کھپریل ڈال کر گھر بنا لیے ہیں۔ مزدوروں نے ٹین پھینک کے دُکانیں۔

کبھی کبھی کارپوریشن کے آدمی اُنھیں بے دخلی کی دھمکی دینے چلے آتے ہیں۔

اسّی سالہ رنگی رام… ابھی ابھی بے دخلی سے بچنے کے لیے اُس نے پانچ روپئے کارکن کے ہاتھوں میں تھما دیے ہیں… رنگی رام وہیں بیٹھ جاتا ہے۔ ہانپتا ہے۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اُٹھنے کی کوشش میں ہمکتا ہے ’’ہے میرے رام جی‘‘ اور آخر لیمپ کے لیے لگی ہوئی رسّی کو پکڑ کر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ’’کوئی بات نہیں‘‘ وہ کہتا ہے ’’ایک دن تو باقاعدہ دُکان ہو گی ہی۔ اس میں ساڑھے تین سو کی رسد ڈال لوں گا… چھے مہینے میں پانسو، سال میں آٹھ سو، ہزار کی ہو جائے گی۔ چند ہی برس میں سب ٹھیک ہو جائے گا…‘‘

ایک بیوہ اپنے ’’منحوس‘‘ بچّے کو گھر میں چھوڑ کر رنگی رام کی دُکان پر سودا لینے آتی ہے۔ اُس کی قمیص کے نیچے کوئی محرم نہیں اور چھاتیوں سے گھِس گھِس کر قمیص میں دو سوراخ ہو گئے ہیں… وہ مسکرا رہے ہیں اور نہیں بھی۔ کہہ رہے ہیں ’’جیسے تیسے بھی لالہ، آج کا دن تو گزر ہی گیا ہے‘‘۔

دو بچّے کھیلتے ہوئے دُکان کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو کہہ رہا ہے ’’جب ہم لاہور میں تھے نا دیپو ——اِس سے بھی بڑے بڑے مکان تھے ہمارے… ایک پشاوری ٹم ٹم تھی… اور کھانے کو ٹوکروں کے ٹوکرے مٹھائیاں—‘‘

یہ تہذیب ہماری… جس میں آج تک بچّے ماضی، نوجوان حال اور بوڑھے مستقبل کی باتیں کیا کرتے ہیں!

 

تلافی

 

کائنات میں تلافی بدرجۂ اتم ہے۔

کوئی چیز حتمی طور پر اچھّی نہیں —اور نہ بُری۔

بد شکل شریف آدمی سے کہیے کہ وہ مایوس نہ ہو … اُس کے ساتھ تعلّق پیدا کر کے آخر لوگ خوش ہوتے ہیں۔

—اُس کی شکل دیکھتے ہی جو ڈر لگا تھا، بے بنیاد ثابت ہوا۔

 

حادثے

 

وہ اُداس تھا اور یوں ہی اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا۔

یہ اکیلی تھی اور پارک کے پاس سوکھی سی زمین پر بیٹھی تھی… اور سامنے کئی بچّے کھیل رہے تھے۔

وہ چاہتی تھی کوئی راہ رو اُسے بُلا لے اور اُس سے باتیں کرے۔ خود بُلانے کی ابھی ہمّت نہ تھی کیوں کہ وہ لڑکی تھی۔

لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے اور پھر جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے— ’’یہ لڑکی یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہے؟‘‘

گویا مرد کے لیے اکیلے ہونے کا تصوّر بندھ سکتا ہے۔ عورت کا [کے لیے؟]نہیں… شاید یہ ٹھیک ہی ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے آپ کو اکیلا پاتے ہی دو ہو جانے کی کوشش کرتا ہے۔

اُداس لڑکا بھٹکتا ہوا وہاں آ نکلا۔ اور پھر وہی — ’’یہ لڑکی یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہے؟‘‘ اپنی سوچ میں وہ ایک قدم آگے بڑھ گیا۔ پھر اُس نے مُڑ کے دیکھا۔ لڑکی نے اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔ اور اپنی ہی ابروؤں، اپنی ہی پلکوں کے سایوں میں بیٹھی مسکراتی رہی…

’’ہو گی‘‘ لڑکے نے سوچا اور چلا گیا۔

—یہ ترسی ہوئی دھرتی، وہ ابر کا ٹکڑا،

اور یہ حوادث کی ہوا

کچھ دور جا کر لڑکے [نے؟] سوچا ’’مگر وہ اکیلی کیوں بیٹھی تھی‘‘ اور وہ لوٹ آیا۔

لڑکی کی پیشانی پہ تیور تھے… لڑکے نے اُسے ایک عام بدمزاج لڑکی سمجھا اور چلا گیا…

بات صرف اتنی ہی ’’تم نے پہلے کیوں نہ مجھے بُلایا؟‘‘

یہ ازل سے اکیلی، وہ ابد تک اُداس۔

— اور سامنے کئی بچّے کھیلتے رہے!

 

مندر

 

تو مندر کی طرف جا رہا ہے؟

یہ راستہ مت چُن… یہ بہت صاف اور سیدھا ہے

اُس ٹیڑھے میڑھے، اُس اونچے نیچے راستے سے جا، جدھر کیچ ہے، غلاظت ہے… خون ہے!

تیرے پانو کیچ سے اَٹ جائیں گے، کپڑے غلاظت سے پَٹ جائیں گے، بدن خون سے آلودہ ہو جائے گا مگر — تو مندر پہنچ جائے گا — کیوں کہ —

تیرا قد اونچا ہے اور تجھے مندر کے کلس دکھائی دیتے ہیں۔

تو اپنی آسودگی کا خیال نہ کر، پانو کے نشان بناتا جا۔ اُنھیں پاکر لاکھوں گم کردہ راہ مندر کو چل نکلیں گے۔

پھر مندر — تجھے بھی ایک صاف ستھری جگہ دکھائی دے گی۔

—یہ صاف سیدھا راستہ چُن کر مندر کی پاکیزگی اور عظمت کو کم مت کر!

(رسالہ ’’گفتگو‘‘ بمبئی ۔ شمارہ 2 ، 1967)

٭٭٭

 

 

 

تک شک

 

مجھے بہت جلدی تھی۔ کچہری میں کاغذ داخل کرنے کی آخری تاریخ تھی۔ شام کے ساڑھے چار کا وقت تھا اور پانچ بجے سب دفتر بند ہو جاتے ہیں۔

میرا چھوٹا بھائی ٹائپسٹ کے پاس بیٹھا ہوا حلف نامہ ٹائپ کرا رہا تھا۔ وقت بچانے کے لیے اُس نے کہا ’’بھائی صاحب آپ جلدی سے کوئی وکیل ٹھیک کر دیجیے، ورنہ ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔‘‘

میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اُٹھا اور [وکیل؟] صاحب کو ٹھیک کرنے جا رہا تھا کہ بائیں طرف کچہری کے میدان میں مجھے ایک بھیڑ سی نظر آئی۔ اِس ویران آبادی میں کوئی کسی سے ملنا نہیں چاہتا۔ اس لیے جب بہت سے لوگ مل کر کچھ دیکھتے ہیں تو ضرور کوئی بات ہے، کوئی حادثہ، کوئی سانحہ۔ جس پیڑ پر بہت سے گدھ بیٹھے ہوں ،ضرور اُس کے نیچے کوئی لاش ہوتی ہے، جسے دیکھنے کی دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ سب کچھ بھول کر، میں اُس بھیڑ میں داخل ہو گیا۔

ایک آدمی نے مجمع لگا رکھا تھا۔ اُسے میں مداری ، ماندری ، حکیم یا وید اِس لیے نہیں کہہ سکتا کیوں کہ اُس نے کہا تھا جو بھی ان خطابات اور انتسابات سے مجھے یاد کرے گا وہ اپنے باپ کا نہ ہو گا۔

جن ٹھاکر صاحب کو میں ٹھیک کرنے گیا تھا، اتفاق سے وہ بھی اُسی مجمع میں موجود تھے۔

’’ٹھاکر صاحب‘‘ میں نے کہا ’’یہ آدمی کون ہے؟‘‘

اُنھوں نے میری طرف دیکھا اور بولے ’’یہ مداری نہیں ہے۔‘‘

’’مجھے آپ سے بڑا ضروری کام ہے۔‘‘

ٹھاکر صاحب نے کچھ توقّف کا اشارہ کیا۔

میں بھی یہی چاہتا تھا کہ کچھ دیر کے لیے دیکھوں، آخر ہو کیا رہا ہے۔ چنانچہ میں اُس آدمی کی تقریر سُننے لگا، جو بہ قول اُس کے اچھّے خاندان کا چشم و چراغ تھا، اور بہت سے لوگوں کی طرح سے انسانی فلاح کے لیے پیدا ہوا تھا۔ اُس نے نہایت درست لہجے میں اردو کا شعر پڑھا ـ ؎

آؤ حُسنِ یار کی باتیں کریں

زُلف کی، رخسار کی باتیں کریں

مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا ’’ٹھاکر صاحب جانتے ہیں اِس شعر میں کیا سُقم ہے؟‘‘ ٹھاکر صاحب شعر بھی کہتے تھے اور کیف ؔ تخلص کرتے تھے۔ اُنھوں نے گویا وزن سے شعر کو تولا اور کہنے لگے۔

’’ٹھیک تو ہے۔‘‘

’’جی نہیں آپ دوبارہ غور فرمائیں۔‘‘

کچھ غور کرنے کے بعد اُنھوں نے پوچھا۔

’’الِف گرتا ہے؟‘‘

’’الِف؟‘‘ میں نے محض [اتنا؟] کہا ’’الف کی تو بات ہی نہیں۔‘‘

’’تو پھر؟…آؤ حسنِ یار کی باتیں کریں، زلف کی رخسار کی باتیں کریں‘‘ اُنھوں نے دُہرایا۔ ’’ٹھیک تو ہے۔‘‘

’’جی نہیں۔ اِس میں ایک ہی بات غلط ہے۔ باتیں کریں۔‘‘

ٹھاکر صاحب ہنس دیے اور ہم دونوں مل کر اُس شخص کی باتیں سننے لگے، جس نے دو سانپ زمین پر رکھے ہوئے تھے اور ہمارے بہت سے شاعروں کی طرح کھینچ کھانچ کر اُن کا زلف و رخسار سے رشتہ پیدا کر لیا تھا۔ ایک سانپ مٹیالے رنگ کا تھا اور کوئی بالشت بھر لمبا۔ دوسرا سلیٹی تھا اور پہلے سے بھی چھوٹا۔ کہتے ہیں سانپ جتنا چھوٹا ہوتا ہے اُتنا ہی کھوٹا ہوتا ہے۔ چنانچہ میری دل چسپی بڑھ گئی۔ شاید اس کی وجہ ڈر کا وہ جذبہ تھا جو ہم سب میں مشترک ہوتا ہے۔ کیوں کہ سانپ ایک معقول اور جری عدو کی طرح سامنے سے تو آتا نہیں، اندھیرے میں آپ کو دیکھے بوجھے بغیر اپنا کام کر جاتا ہے۔ اس کا کاٹنا، پیار کی چٹکی سے زیادہ نہیں ہوتا، البّتہ نتیجہ پیار سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اگر کہیں پتہ چلتا کہ وہ سانپ بہت زہریلے تھے تو مزا آتا ،لیکن اُس شخص نے صاف کہہ دیا کہ وہ ہماری طرح مینڈک، مچھلی سے زیادہ نہ تھے۔ میں نے سوچا شاید اُس کے پاس الگ سے کوئی پٹارا ہو جس میں سے کوئی ایسا سانپ نکالے جو تین فٹ اونچا پھن اٹھا لے، لیکن اُس کے پاس پونڈس کریم کی ڈبیا کے سوا کچھ نہ تھا۔

اور اِس پہ اُس شخص نے ایک لمبا چوڑا لیکچر دینا شروع کر دیا۔ وہ اُن سانپوں کے بارے میں ایسے کوائف بتا رہا تھا جو واجبی علم کا آدمی پہلے ہی جانتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا۔ لوگ اِس کے زہر سے کم اور دہشت سے زیادہ مرتے ہیں۔ یہ غلط بات ہے کہ سانپ بین کی آواز پر مست ہو جاتا ہے، وہ نِپٹ بہرا ہوتا ہے۔ صاحبو! صرف آواز کی تھرتھراہٹ مساموں کے راستے سے اِس کے بدن میں داخل ہوتی ہے جس سے اِس کا پورا عصبی نظام چوکنّا ہو جاتا ہے۔

خدا معلوم سانپ اور انسان میں کیا مماثلت ہے جو انسان اسے دیکھے اور مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کا ذکر سننے کے بعد شاید اس لیے بھی کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈّی سانپ ہی کی سی ہوتی ہے اور کُنڈلی کا پورا فلسفہ اس سے متعلق ہے۔ دنیا بھر کے لوگ ناگ کی پوجا کرتے ہیں۔ ایک قوم کی قوم اس کے نام سے آباد تھی۔ اور اب بھی ہے۔مصری فرعون حتّٰی کہ قلوپطرہ کے تاج پر بھی ناگ ہی کا موٹِف تھا اور وہ سانپ ہی کی عنایت سے مری تھی۔ جاسوسی کہانیوں اور بھوت [پریت؟] کے قصّوں کا نمبر سانپ کی حکایت کے کہیں بعد لگتا ہے اور پھر سانپ کے بارے میں یہ حقیقت ہے کہ نر کو مار دو تو مادہ بدلا لینے کے لیے آتی ہے، چاہے آپ رائیوڈی جیز و جا بیٹھیں۔ سانپ کا ذکر کرو تو ضرور کہیں نہ کہیں دکھائی دے جاتا ہے۔ مثلاً اُسی دن کی بات لیجیے، اُس آدمی نے سانپ کا ذکر کیا تھا کہ وہ سامنے موجود، ایک نہیںدو اور تیسرا شاید پونڈس کریم کی شیشی میں تھا، ورنہ اُس شیشی کے وہاں ہونے کا کیا مطلب؟ کس قدر چھوٹا اور فتنہ ہو گا وہ سانپ، جو کریم کی شیشی میں آ جاتا ہے۔ چنانچہ وہی بات ہوئی۔ کاغذ داخل کروانے میں پندرہ ہی منٹ رہ گئے تھے۔ میں نے پیچھے دیکھا، میرا بھائی ابھی تک مصروف الٹائپ تھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ میں کیا کرسکتا ہوں۔

یہاں سانپ ہیں اور جب اُس کے چہرے پر برہمی کے آثار دیکھے تو الزام ٹھاکر صاحب پر ٹال [ڈال؟] دیا، جو وہیں موجود تھے اور یوں بھائی کے چہرے پر کے خطوط سیدھے کیے۔ جب میں نے دیکھا کہ سانپ والا بے کار کے لکچر سے باز نہیں آتا ، تو میں نے اپنے لہجے میں من ڈیڑھ من مِنّت ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ٹھاکر صاحب ! ابھی مجھے حلف نامے کی تصدیق کروانا ہے اور پھر کاغذات داخل کرنا ہیں۔‘‘

ٹھاکر صاحب ذرا تلخ لہجے میں بولے۔

’’چلتا ہوں‘‘ جس کا مطلب تھا کہ تمھاری لاکھوں کی جائداد کی خاطر میں اپنا سانپ چھوڑ دوں۔

میں نے اپنا فیصلہ کر لیا کہ وہاں سے چلا جاؤں اور کسی ٹٹ پونجیے وکیل کو ٹھیک کر لوں اور اِس عمل میں خود میں ٹھیک ہو جاؤں۔ میں پھر رُک گیا کہ شاید اِس آخری منٹ، آخری لمحے میں وہ شخص سانپوں کے بارے میں کوئی پتے کی بات کہہ دے ،لیکن جب اُس شخص نے وہی میٹھی اور بے نمک باتیں جاری رکھیں تو میں نکلنے لگا۔ جبھی میرے کانوں میں آواز آئی ’’اِس میں تک شک ناگ ہے دوستو!‘‘

میں نے اُسی وقت اُس آدمی کو پیچھے کی طرف ڈھکیل دیا ،جو میری جگہ لے کر ابھی ٹھیک سے خوش بھی نہ ہوا تھا۔ میں نے مُڑ کر اُس کے چہرے کی طرف [نہ؟] دیکھا کہ نہ معلوم کیسا لگے؟ باقی لوگ بھی تک شک ناگ کو دیکھنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکّے دے رہے تھے۔ جو پیچھے کھڑے تھے، اُن کی گردنیں کُلنگ کی گردنیں ہو رہی تھیں۔ شاید وہ بھی جانتے تھے کہ تک شک ایک کلاسیکی ناگ ہے جس کا ذکر وید مالا میں تو آتا ہے، لیکن اُن میں سے کسی کو آج تک اُس کے نیاز حاصل نہیں ہوئے۔ سانپ والے نے پونڈس کریم کی شیشی ہاتھ میں اُٹھا رکھی تھی اور آہستہ آہستہ اُس کا ڈھکنا ڈھیلا کر رہا تھا۔ ’’اِس میں وہ ظالم ناگ ہے دوستو! جس نے تریتا یُگ کے آخری راجا پریکشت کی جان لی تھی اور جس کے مرتے ہی کل جُگ شروع ہو گیا تھا۔ جیوتشیوں نے پریکشت کو کہا تھا۔

’’ہے راجن ! تیری موت سانپ کے کاٹنے سے ہو گی۔‘‘

سانپ والا داستان گوئی میں طاق تھا۔ کیوں کہ پُرانے زمانے کے رِشی مُنی، براہمن اور جیوتشی وغیرہ قسم کے لوگ بادشاہ تک کو صیغۂ واحد حاضر میں خطاب کرتے تھے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُس زمانے میں علم و فنون کو ذوق [فوق؟] حاصل تھا۔ ورنہ آج کل تو اپنے بیٹے کو بھی جمع حاضر اور خود کو جمع [واحد؟] متکلّم میں خطاب کرنا پڑتا ہے۔

سانپ والے نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا ’’راجاپریکشت نے ایک ایسا محل بنایا تھا ، جسے ایک ہی چٹان اور ایک ہی پتھّر سے کاٹا گیا تھا۔ اُس میں نالی تو ایک طرف درز تک نہ تھی۔ سانپ تو کجا اُس میں دال کھانے والی چیونٹی بھی نہ گھُس سکتی تھی۔ لیکن صاحبو! کرم گتی ٹالے نہیں ٹلتی اور نہ جیوتش ٹلتا ہے۔ تھوڑا پیچھے ہٹ جائیے۔ ایک انگ رکھشک نے پھول بھینٹ کیے تو پریکشت ایک پھول میں بیٹھا چلا آیا اور سانپ کو ڈس لیا۔‘‘

لوگ حیران ہوئے لیکن میں جو لوگوں کے جوش اور اُس کی اساس کو سمجھنے کے قابل ہوں، جان گیا کہ پھول میں ناگ بیٹھا تھا اور اُس نے پریکشت کو ڈس لیا۔ ’’عین اُسی لمحے کل جُگ شروع ہوا اور ہم نے مرنا اربند [آرمبھ؟] کر دیا۔‘‘

چھوٹے بھائی عام طور پر خفا نہیں ہوتے لیکن اُس دن میرا چھوٹا بھائی خفا ہو گیا۔ جھلاّ کر اُس نے مجھے آواز دی ’’بھائی صاحب آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘

میں نے مجمع سے گردن باہر نکالی اور کہا ’’سانپ دیکھ رہا ہوں۔‘‘

میں جھوٹ تھوڑے ہی کہہ رہا تھا؟ لیکن میں نے تو اُسے بھی کہا کہ ’’تو آ جا‘‘ وہ نہ آیا تو اُس کی اپنی عقل مندی، فہم و فراست تھی، میرا کیا قصور تھا؟

مڑتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ سانپ والے نے کریم کی شیشی کا ڈھکنا کس دیا اور اُسے پھر سے زمین پر رکھ دیا۔ وہ کہنے لگا ’’پہلے اِن [اِس؟] سانپوں کے سانپ، تک شک ناگ کی شکل کے بارے میں آپ کو بتا دوں۔ یہ بِنّی کے دھاگے سے بھی زیادہ باریک ہوتا ہے۔ دوستو! اِس کا رنگ سیندوری ہوتا ہے۔ سر پر کلغی اور تاج ہوتے ہیں۔ جو تاج اور کلغی نہیں ہوتے، صرف ایک سفید اور سیاہ نشان ہوتے ہیں، جنھیں سانپوں کے بارے میں جاہل آدمی تاج اور کلغی کہتے ہیں۔ صرف ایک بات ٹھیک کہتے ہیں کہ تک شک سانپوں کا بادشاہ ہوتا ہے۔‘‘

بادشاہ ؟ میں نے سوچا۔ خیر چھوڑو کوئی کوبرے کو سانپوں کا بادشاہ کہتا ہے۔ کوئی رسل وائپر اور ہمدریا کو اور کوئی کڑندیئے کو، اور وہ اجگر اپنی ڈیڑھ من کی لاش کے ساتھ کیا ہوا؟ میکس کہاں گیا جو چلتا ہے تو راستہ سیاہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ سانپ جو کاٹے بھی نہیں، آدمی مر جاتا ہے۔ بادشاہ تو ہم ایسے ہی کہتے رہتے ہیں۔ جیسے فلاں آدمی کہانی کا بادشاہ ہے اور فلاں شعر کا شہنشاہ۔ شاید آج کل کے بادشاہوں کی طرح سے اِن غریبوں کے القاب و آداب بھی وافر ہو گئے ۔ خیر،

اب صرف سات منٹ رہ گئے تھے…

جبھی سانپ والے نے بیویوں کی طرح کچھ ایسی بات نکالی کہ میں بھونچکّا رہ گیا۔ اگلے ساڑھے تین منٹ وہ اکبر اور بیربل کی کہانی سُناتا اور ہمارا صبر آزماتا رہا۔ وہ کہانی اکبر اور بیربل کی لڑکی سے متعلق تھی اور نہایت ہی فحش سی۔ بظاہر اُس کا سانپ سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن صاحب تمام کہانیاں، خاص طور پر فحش کہانیاں، سانپ کی کہانی کی طرح ہی دل کش ہوتی ہیں۔ اب ہم کہیں نہیں جا سکتے تھے۔ سانپ والے نے زلف اور سانپ کا رشتہ پیدا کر دیا تھا۔ ٹھاکر صاحب نے میری طرف دیکھا اور میں نے اُن کی طرف۔ اُن کا خیال تھا ،میں بے وقوف معلوم ہوتا ہوں۔

میں بے وقوف ہوتا تو ٹھاکر صاحب کی طرح سے وہیں کھڑا رہتا۔ میں اُسی دم مجمع سے باہر نکل گیا۔ دل میں کہتے ہوئے: تک شک کی ایسی کی تیسی۔ بھائی کے پاس پہنچا تو حلف نامہ ٹائپ ہو چکا تھا۔ میں نے اُسے غور سے دیکھا تو مجھے بہت تاؤ آیا۔ میں بھائی پر برس پڑا۔

’’تم تو کہتے تھے، ختم ہو گیا۔‘‘

’’مقدمہ یا کاغذ؟‘‘ اُلٹا وہ مجھ سے سوال کرنے لگا۔

میں نے جواب دیا ’’کاغذ، بھائی کاغذ۔‘‘

’’یہ ختم نہیں ہوا تو اور کیا ہوا؟‘‘

’’جاہل ہونا‘‘ میں نے ٹائپ کیے ہوئے کاغذ کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ’’ابھی تو اِس پر YOURS FAITHFULLY ٹائپ ہونا ہے۔ تم اِسے کراؤ، میں ابھی آتا ہوں۔ میرے دستخط کے لیے جگہ چھوڑ دینا۔‘‘

اور میں پھر اُس مجمع میں پہنچ گیا۔ ٹھاکر صاحب سے پوچھا ’’دیکھا تک شک؟‘‘

’’کہاں؟‘‘ ٹھاکر صاحب افسوس اور غم و غصّے کے لہجے میں بولے۔ ’’مجمع میں سے کسی اُلّو کے پٹھّے نے کہہ دیا، اِس کے پاس کوئی تک شک و کشک نہیں ہے۔ ایسے ہی آپ کو اُلّو بنا رہا ہے۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’پھر کیا؟ اُس نے شیشی نیچے رکھ دی۔‘‘

’’آدمی غیرت مند ہے۔‘‘

’’ہاں ‘‘ ٹھاکر صاحب متفق ہوئے ’’اُس نے دُہرایا، وہ اچھّے خاندان کا چشم و چراغ ہے، صرف سانپوں کے شوق نے اُسے کہیں کا نہ رہنے دیا۔‘‘

’’ٹھیک کہتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’یہ شوق ہی ایسا ہوتا ہے‘‘ اور یہ کہنے میں ایک بار پھر میں نے بھائی کی طرف دیکھا اور ٹھاکر صاحب سے پوچھا ’’اور کیا بولا؟‘‘

’’بس تقریر کا لُبّ لباب تھا ——سانپوں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے۔‘‘

پہلی بار ٹھاکر صاحب ہنسے۔ مجمع میں سے آواز آئی ’’سُنو، سُنو۔‘‘

’’منتر [سنتے؟] ہیں بھائی‘‘ میں نے جواب دیا ’’دیکھتے بھی ہیں۔‘‘

میں نے دیکھا ،سانپ والے نے پھر کریم کی شیشی اُٹھا لی اور باتیں کرتے کرتے اُس کا ڈھکنا ڈھیلا کرنے لگا۔ میں نے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کر دی اور سامنے کھڑے ایک تماشائی نے کس لی، اِس قدر کہ اُس کی آنکھیں باہر آنے لگیں اور گردن لمبی ہو گئی۔ جیسے پھانسی پانے والے کی ہوتی ہے۔

سانپ والے نے تقریر کرتے ہوئے بیچ میں کہا ’’جو اپنے باپ کا ہے، چار قدم پیچھے ہٹ جائے‘‘ پورے مجمع میں کوئی نہ تھا جو دو قدم سے زیادہ پیچھے ہٹا ہو۔

میں تین قدم پیچھے ہٹا تھا۔ لیکن جب اُس نے ڈھکنا تھوڑا اور ڈھیلا کیا تو بے اختیار چار قدم آگے بڑھ گیا۔ سانپ والا کہہ رہا تھا ’’یہ ناگ پھُنکار ہی سے مار ڈالتا ہے۔ دوستو، کاٹنے کی نوبت ہی نہیں آتی…‘‘ اُس کا مطلب تھا کہ اگر تک شک کہیں کاٹ لے تو آپ کیا ،آپ کا پورا خاندان گُل ہو جائے، چاہے آپ یہاں ہوں، آپ کے گھر والے فورٹ میں، پھر وہ کہنے لگا۔ ’’باقی کے سانپ کاٹتے کیسے ہیں؟ تک شک کو سمجھنے کے لیے اس کا دیکھنا ضروری ہے۔‘‘

اور شیشی کا ڈھکنا کستے ہوئے اُس نے پھر اُسے زمین پر رکھ دیا۔ پھر وہ نیچے پڑے ہوئے سانپ کو ایک میلے سے ڈسٹر سے چھیڑنے، تاؤ دینے لگا۔ مجھے بہت تاؤ آیا ،کیوں کہ میں آخر پنجابی ہوں لیکن اٹھّارہ سال اپنے وطن سے دور بمبئی میں رہنے کی وجہ سے دنگا فساد تو ایک طرف، منھ سے گالی بھی نہ نکلی۔ اُس کے چھیڑنے سے مٹیالے رنگ کا سانپ اپنے آپ میں سمٹ گیا اور کنڈلی سا بن گیا۔ پھر اُس نے تھوڑا سا سر اُٹھایا جیسے وہ حملہ کرنے، کاٹنے ہی والا ہو، اُٹھتے ہی پلک میں، موت کے چھبن سے [کذا] ، سانپ والے کی انگلی سے خون کے قطرے بہہ رہے تھے۔ جسے وہ اپنے ہی منھ میں ڈال کر، اپنا ہی خون چوس رہا تھا۔

یہ میرے صبر کی حد تھی۔ میں نے گھڑی دیکھی، پانچ بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے۔ میں بھاگ کر چھوٹے بھائی کے پاس پہنچا۔ اگر وہ مجھ پر خفا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی، اُس کے ہونٹ بھِنچے ہوئے تھے اور وہ سخت چُپ تھا۔

اُس سے کچھ کہنے کی بجاے، میں نے ٹائپ شدہ کاغذ اُس سے لے لیے اور نوٹیری پبلک کے پاس بھاگا۔

اُس کے پیر پکڑ کر میں نے تصدیق کرائی، یہ لالچ دے کر کہ میں اُسے اپنے ہوٹل میں کھانے پر بلاؤں گا، اور شراب پلواؤں گا۔ ورنہ نوٹیری پبلک کی بھتیجی بیمار تھی اور میرے کاغذوں پر تصدیق [اُس کے لیے؟] مہلک ثابت ہو سکتی تھی۔

میں پھر بھاگتا ہوا کچہری پہنچا۔ پیادے، کلرک، سب جا      پروہت—گذپوچ سے کانا تھا،اؤ چکے تھے۔ قُرقیاں لینے والا کلرک بائیسکل کے پیڈل پر پیر رکھ چکا تھا۔ یہ میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے اُسے اُس کے تختِ طاؤس سے کیسے اُتارا۔ میں نے کہا ’’میں ایک ہزار میل دور بمبئی سے آیا ہوں اور وہ بھی ہوائی جہاز سے، صرف دہلی تک آنے جانے کا پانچ سو روپئے کرایہ لگتا ہے۔ پھر میں نے وجینتی مالا کی، مینا غکماری کی باتیں کیں، لیکن اُس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ آخر میں نے اُس کی مُٹھّی دبائی، جیسے ہر ہندستانی دوسرے کی دباتا ہے۔ وہ منھ میں کچھ مِنمِنایا، لیکن میرے کاغذ لینے کے لیے تیار ہو گیا۔ اندر پہنچ کر اُس نے صندوقچی کھولی۔

رجسٹر نکالا اور اِندراج کرتے ہوئے چِٹ پر مجھے رسید کا نمبر دے دیا اور شُنوائی کی تاریخ۔ اور اب اُس نے میری مُٹھّی دبائی۔ وہ مجھے بے نقط سُنا رہا تھا لیکن کر کیا سکتا تھا، عرضی تو داخل ہو ہی چکی تھی۔

جب عرضی داخل ہو گئی تو میرے چھوٹے [بھائی] نے یوں [ہی؟] بکنا شروع کر دیا… تسکین محض تسکین کے احساس سے، باہر آئے تو کچہری کے احاطے میں مجمع بکھر رہا تھا۔

ٹھاکر صاحب اپنی پیشانی پر سے انفعالی قطرے پونچھتے ہوئے جا رہے تھے۔ وہ مجھ سے سخت شرمندہ تھے اور اپنے آپ سے بھی۔ میرا کام کر دیتے تو کچھ پیسے بھی بن جاتے۔ اُن سانپوں نے اُنھیں کہیں کا نہ رکھا۔ اُنھوں نے مجھ سے آنکھیں چار کیں نہ ہاتھ دو کیے، وہ رکشا کر چپکے سے سِول لائن کی طرف نکل گئے۔

مجمع سے میں نے ادھیڑ عمر کے ایک آدمی کو پکڑا اور پوچھا ’’چاچا جی، اُس سانپ والے نے تک شک دکھایا؟‘‘

’’نہیں بھائی‘‘ اُس نے مشفقانہ لہجے میں کہا ’’وہ یہ دوائی بیچ کر چلا گیا‘‘ اور اُس نے دوائی کی شیشی میرے ہاتھ میں پکڑا دی۔

’’کاہے کی دوائی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’پڑھ لو … میں نے دو شیشیاں لی ہیں، چاہو تو ایک تم رکھ لو۔‘‘

میں نے پڑھا ، وہ بواسیر کی دوائی تھی۔

جب ہم پریڈ گراؤنڈ میں پہنچے تو وہاں بھی ایک مجمع لگا ہوا تھا۔ اوّل الذکر مجمع سے سَو گُنا بڑا اور مہا بلیشور کے شہر کی طرح تاڑ سا تھا، جس میں مکھّی بھی نہ گھُس سکتی تھی۔ البّتہ دور سے ایک معتبر آدمی تقریر کرتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ لاؤڈ اسپیکر میں سے اُس کی زنانہ آواز آ رہی تھی۔

’’ہمارا گول سوشلزم ہے۔ ہم اس دیش میں سوشلزم لا کے رہیں گے۔ سوشلزم۔ سوشلزم۔‘‘

چوں کہ ہمارا کام تمام ہو چکا تھا، اِسی لیے ایک تسلّی کے ساتھ میں دیوار پر چڑھ گیا اور دیکھنے لگا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کیوں کہ اس تقریر کرنے والے کے پاس تو کریم کی شیشی بھی نہ تھی۔

[رسالہ ’’جام و مینا‘‘ دہلی۔ اگست 1974]

٭٭٭

 

 

 

 

شِکار

 

 

یہ شروع سردیوں کی بات ہے۔ میں فیروز پور کے قریب مویشیوں کے ایک ہسپتال میں سلوتری تھا۔اُن دنوں دیہات کی خودرو بیریوں پر بَور پیدا ہو چکا تھا اور ہسپتال کے اِرد گِرد کئی فرلانگ تک اُگی ہوئی جھاڑیوں پر پیلی داڑھیاں لٹکنے لگی تھیں۔ قریب کے جھُنڈ اور کیکر بھی اِس زرد جال سے محفوظ نہ تھے۔ گانو کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ داڑھیاں ہرے بھرے درختوں کا کوڑھ ہوتی ہیں اور اِن کے پتّوں ٹہنیوں کو لپیٹ میں لے کر نشو و نما سے روک دیتی ہیں۔لیکن کیکر اور جھُنڈ کے کوڑھی ہونے کا افسوس اُسے ہو گا، جو اِن درختوں پر سے کسی میٹھے پھل کا متوقع ہو۔ اِس قسم کے درختوں پر تو وہ زرد کوڑھ ،جس کا نام امربیل بھی ہے پھل [پھیل؟] کر عجیب بہار دیتا ہے۔

میرے پاس میرا نائب سنگی بیٹھا تھا [جو؟] نائب ہونے کے علاوہ میرا دوست بھی تھا۔ دیہات میں شہر کی سی محبت [صحبت؟] تو میسّر نہیں آتی، اِس لیے سنگی ایسے بد مذاق کورے لوگوں پر ہی اِکتفا ہوتی ہے۔ سنگی خود رو بیلوں کو [سنگی خود بَیلوں کو؟] اوسر کرتے کرتے تنگ آ چکا تھا۔ میں نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا—

’’آج کل چاندنی راتیں ہیں اور یہی دن ہیں جب گنڈا سنگھ والے کی رکھ میں سے نیلا نکل کر ستلج کے کنارے چلا آتا ہے اور درختوں کے جھُنڈ میں سے صاف دکھائی دیتا ہے۔ اُس کا شکار بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے۔ کیوں، کیا خیال ہے تمھارا—؟‘‘

سنگی تو گویا پہلے ہی سے تیّار بیٹھا تھا۔ میری تجویز کو بے حد پسند کرتے ہوئے وہ اُچھل پڑا اور بولا ’’بہت اچھی رہی ڈاکٹر۔ ہاتھ دو ڈاکٹر، شکار کے ساتھ میرا دوسرا کام بھی ہو جائے گا۔‘‘

میں سنگی کا مطلب نہ سمجھ سکا، خود غرض انسانوں کی بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ سنگی کو شرم ساری سے بچانے کے لیے میں نے سردی کے باوجود اپنا ہاتھ جیب سے نکالا اور سنگی کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں دیتے ہوئے بولا ’’دوسرا کام —کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘

’’یہی نا‘‘ سنگی نے اپنی آنکھوں کو عادتاً جھپکتے ہوئے کہا ’’چار پانچ دن میں شکار بھی اچھّا ہو جائے گا اور جو تیل کی پیٹی بچ رہی ہے، اُسے بھی قریب کے کسی گانو میں بیچ ڈالوں گا۔ گانو کے لوگ چنبیلی کے تیل کو بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘ میں نے خفا ہوتے ہوئے کہا ’’تمھیں تیل ہی کی پڑی رہتی ہے۔ اُس دن ڈپٹی صاحب کی آمد کے سلسلے میں جو جلسہ ہوا تھا، اُس میں بھی تم نے تیل کی اشتہار بازی شروع کر دی۔ دیکھو یہ کتنی بُری بات ہے اور پھر سرکاری ملازم ہو کر— لیکن دیہات میں۔ خیر لے چلو اپنا تیل بھی—!‘‘

اُسی دن سنگی نے بندوق میں پُل تھرو ڈالنا شروع کیا اور صبح سے پہلے پہلے بندوق صاف کر ڈالی اور پیٹی میں کارتوس بھر لیے۔ سنگی نے نئے خاکی کپڑے پہنے اور اُن پر ایک بوسیدہ سا ادھ سِیا ٹیونک اوڑھ لیا۔ یہ ٹیونک سنگی کے بابا کو شاید افغانستان کی تیسری لڑائی میں ملا تھا جسے دادا، باپ اور پھر پوتا ، تینوں استعمال کرتے آئے تھے اور غالباً سنگی کو اُسے اپنے بیٹوں کے لیے چھوڑنے کا چنداں خیال نہ تھا۔ میں نے بھی خاکی برجیس پہن ڈالی۔ اِس کے علاوہ میرے پاس ایک نفیس کُلاہ تھا جس کے ساتھ میں ایک طُرّے دار پگڑی باندھا کرتا۔ اُس سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ دیہات کے سادہ لوح لوگ مجھے عموماً تھانے دار یا مال افسر سمجھتے تھے۔ گانو کے پرائمری اسکولوں میں ہمیں اکثر چارپائیاں مِل جاتیں، جن پر طلبہ کے گھروں سے منگوائی ہوئی سوتی یا کھدّر کی چادریں بچھی ہوتی تھیں۔ سفید پوش نمبردار تک اُس بڑے طُرّے سے مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے اور ہمیں رکھ سے ورے ہی مُرغیاں بھُنی ہوئی ملنی شروع ہو جاتیں۔ اب بھی جب اُن مرغیوں کا خیال آتا ہے تو مُنھ میں پانی بھر آتا ہے۔

گنڈا سنگھ والا ہمارے قصبے سے دس بارہ میل کے فاصلے پر ہو گا۔ ہم ایک ٹم ٹم کے ذریعے وہاں پہنچ گئے اور جو شو نمبردار کے ہاں ٹھہر گئے۔ پہلے روز ہی ہمیں شکار سے بہت مایوسی ہوئی۔ ایک دو مرغابیوں کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہ لگا۔ شب بھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے کے باوجود کوئی نیلا ستلج کے کنارے آتا دکھائی نہ دیا اور اگلے روز فرصت پاکر سنگی نے اپنا تیل بیچنا شروع کر دیا۔

مجھے سنگی کی یہ حرکت بہت بُری معلوم ہوئی، لیکن دوستی اور رفاقت کی وجہ سے اپنے بہت سے ذاتی رجحانات ، پسند و ناپسند کو خیرباد کہہ دینا ہوتا ہے۔ میں خاموش ہو رہا لیکن ایک بات جو مجھ پر شاق گزری وہ یہ تھی کہ سنگی کا تیل خالص نہ تھا۔ بالکل وہائٹ آئل تھا جسے صاف کر کے اُس میں چنبیلی کی خوشبو ڈالی گئی تھی اور اُس پر روغنِ چنبیلی درجہ اوّل کے لیبل لگا دیے گئے تھے۔ بوتل پر ہلکاسا مومی کاغذ چڑھ جانے سے یوں بھی اُس کی شان دوبالا ہو گئی تھی اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پاؤ بھر تیل کی قیمت بوتل سمیت چھے آنے تھی۔

گنڈاسنگھ والا میں ایک کولھو‘ تھا جس کا مالک ایک ساٹھ سال کا بوڑھا جاٹ اللہ داد تھا۔ اُس کی داڑھی لمبی تھی اور اکثر چلتے وقت ہوا سے دونوں شانوں پر بکھر جاتی۔ اللہ داد کی لاپروائی کی وجہ سے وہ زردی مائل ہو گئی تھی۔ دور سے اللہ داد یوں دکھائی دیتا تھا جیسے جھُنڈکا کوئی بڑا سا درخت ہو اور اُس پر پیلی پیلی امربیل پھیل گئی ہو، اور میں آج تک امربیل کی خوب صورتی اور داڑھی کی عظمت سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

اللہ داد انْدھا تھا۔ بچپن میںاُس کے لیے ماں [اُس کی ماں؟] نے جست کے پھولوں کی بجائے کوئی اور ہی چیز اللہ داد کی آنکھوں میں ڈال کر اُسے ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم کر دیا تھا۔ اللہ داد کے کولھو‘ کا کچّی گھانی کا تیل دور دور تک مشہور تھا۔ اِس بات کا اُسے بہت غرور تھا۔ وہ جوشو نمبردار، بیلا سنگھ ذیل دار اور گانو کے برانچ پوسٹ ماسٹر، کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ اِس لیے ڈاک خانے والوں نے فیروز پور اور بھٹنڈے سے آئے ہوئے تیل کے آرڈر عمداً رد کر دیے تھے اور جوشو نمبردار نے اللہ داد کے چھوٹے بھائی کے [کی] پنشن کے کاغذوں پر تصدیق ثبت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالتوں کے پیادے، اللہ داد کے دیوانی مقدموں کے سمن کی تعمیل کیے بغیر، شہر کو واپس چلے جاتے۔ شاید یہ اللہ داد کے غرور کی وجہ سے ہی تھا کہ اُس نے اپنے بزرگوں کے مزار پر دِیا جلانا بھی چھوڑ دیا تھا۔

اللہ داد کو دو ہی باتوں پر ناز تھا۔ ایک کچّی گھانی کے تیل پر اور دوسرا اپنی بیوی نیکاں کی   پاک بازی پر۔نیکاں دراصل ارائیں عورت تھی، جسے اُس کے باپ نے افلاس سے تنگ آ کر   اللہ داد کے ہاتھ ایک سو پندرہ روپئے اور ایک ریکھ کے عوض بیچ ڈالا تھا، ورنہ اندھے کو کون لڑکی دیتا ہے۔ اب اللہ داد کے پاس ایک کماد، تین سرسوں کے کھیت، کچھ زمین اور ایک تنومند عورت تھی۔ اِس لیے وہ رہٹ کی گاڑی پر بیٹھا بڑے اطمینان سے وارث شاہ گاتا۔

چھالے پئے ہتھ تے پیر پھُٹے

سانوں واہی داکم نہ آوندا ای

تیل اور نیکاں پر ناز تھا بھی بالکل بجا۔ فیروز پور سے پہلوان، گنڈا سنگھ والا میں آیا کرتے تو صرف اِس لیے کہ اللہ داد کے کولھو سے نکلتے ہوئے تیل کی پہلی چند بوندیں حاصل کی جا سکیں۔ بسااوقات اُن چند بوندوں کے لیے اُنھیں بہت زیادہ قیمت دینا پڑتی۔ اور حسینی والا نہر کے ہیڈ میں کام کرنے والے بابو اور اوورسیئر ، جب بہت تھک جاتے تو گنڈا سنگھ والا میں نیکاں کو صرف ایک نظر دیکھنے کے لیے چلے آتے۔ شاید اِس سے اُن کی تکان اُتر جاتی [تھی]۔

اُس دن جب ہم جوشو کے ہاں سے نکلے تو مالوے کے دیہاتی پیمانے کے مطابق سورج سوا نیزے کے برابر اُٹھ چکا تھا۔ گنڈا سنگھ والا کے نزدیک نالے پر سفید سفید بگلے پانی میں اُبھرے ہوئے مینڈکوں کو ٹھونگ رہے تھے۔ اُن جانوروں میں سنگھاڑوں کے درمیان سورج کی سنہری عکس کے خلاف کہیں کہیں کوئی مرغابی بھی دکھائی دے جاتی جو ایک نامعلوم خطرے سے اپنی ٹانگوں کو یک لخت سمیٹ کر نہایت تیزی سے پر پھڑپھڑاتی ہوئی نالے کے اِرد گِرد میلوں تک اُگی ہوئی دوب میں کہیں غائب ہو جاتی۔

اِس دوران ہمیں اللہ داد آتا دکھائی دیا۔ وہ حسبِ دستور بڑے اطمینان سے وارث شاہ گا رہا تھا۔ایک ہاتھ کان پر تھا اور دوسرا ڈنڈے پر، جس کی مدد سے وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ ڈنڈے کی مدد تو برائے نام تھی۔ اللہ داد، گنڈا سنگھ والا اور اُس کے نواح کی چپّہ چپّہ زمین سے واقف تھا۔ یہ بھی نہیں، بلکہ اُسے اپنے قدموں پر پورا یقین اور بھروسا تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی پگڈنڈی پر ہوتا ہوا اپنے جدّی کنویں کی طرف جا رہا تھا۔

گنڈاسنگھ والا کے شمال کی طرف ایک پانی سے بھرا چھنب تھا، جو مشرق کی طرف سمٹ سمٹا کر ایک نالا رہ گیا تھا— — اللہ داد کے کنویں خانقاہ والے [خانقاہ والے کنویں؟] کو اُس نالے پر سے راستہ جاتا تھا۔ ایک بڑے سے شیشم کو صاف کر کے نالے پر رکھ دیا گیا تھا۔ اُس پر سے گزرتے ہوئے، لوگ دوسری طرف چلے جاتے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اللہ داد آیا۔ اُس کی لاٹھی پر ایک گانٹھ سی دکھائی دے رہی تھی۔ چند گز کے فاصلے پر سے تو وہ گانٹھ بالکل انسانی آنکھ معلوم ہوتی تھی۔ شاید اُسی آنکھ سے دیکھتا ہوا اللہ داد بلا خوف و خطر آگے بڑھ رہا تھا۔ اُس کی لاٹھی کی آہٹ پاکر مُرغابی تیر کی طرح اُڑ کر سنگھاڑوں میں غائب ہو گئی۔ اللہ داد مُرغابی اور کونج کے اِس طور لپکنے کے انداز سے پوری طرح واقف تھا۔ وہ اب نالے کے کنارے آچکا تھا۔ شیشم کے ایک تنگ سے راستے پر… ہمارا سانس رُک گیا۔

ایک — دو — چھے — آٹھ—

اور اللہ داد نالے کے اُس طرف تھا۔ آٹھ دس لمبی لمبی ڈگوں میں اُس نے اُس راستے کو ، جس پر سے بینائی والے انسان کو بھی گزرتے ہوئے خوف آتا تھا، آناً فاناً پھاند ڈالا تھا۔

ہماری چھُٹّی میں ابھی دن باقی تھے۔ جمعرات کو میں اور سنگی بندوق اور ریلی کے کارتوس لے کر ستلج کے کنارے ایک ٹیلے کی اوٹ میں دبکے رہے۔ آسمان پر شکل مکش کا چاند ستلج کے وسیع پانیوں میں روشن اور لہروں کا مدّ و جزر، نور و نغمہ کا زیر و بم پیدا کر رہا تھا۔ پانی سے بھیگی ہوئی ہواؤں نے ایک ناگوار سردی پیدا کر دی تھی۔ کبھی کبھی سنگی اپنے بوسیدہ ٹیونک کو بندوق کی مدد سے کانوں تک کھینچ لیتا اور اونگھنے لگتا۔

کبھی یوں ہوتا کہ ٹیلے کی اوٹ میں سے ریت کے ذرّوں کی وساطت سے لاکھوں کروڑوں چاند نظر آتے اور آنکھ محسوس کرتی کہ ستلج کے کنارے ہمیشہ کے لیے محوِ تماشا [ہو؟] رہے۔ ستلج کے پانی کی ہلکی ہلکی آواز میں صدیوں سے مانوس لے سُنائی دیتی اور جی چاہتا کہ کان یہی آواز سنتے رہیں۔ ایسے لمحے زندگی میں بار بار نہیں آتے جب کہ ہم آگ، پانی ہوا اور ایسے قدرتی نظاروں سے یوں دوچار ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی سنگی کے خرّاٹے کی آواز فضا کو مکدّر کر دیتی اور میں بندوق کے دستے کو سنگی کے پہلو میں مار کر اُسے جگا دیتا، یا کبھی یوں ہوتا کہ ستلج کے پار سے چکوے کی آواز آتی اور اِس پار سے چکوی کی جوابی آواز سے دل میں ایک ہو‘ک سی اُٹھتی۔ ہم صبح تک انتظار کرتے رہے لیکن کوئی نیلا ستلج کے کنارے پانی پینے نہ آیا۔ آسمان سے دھُند سی اُترنا شروع ہو گئی جو سرکنڈوں کے دامن میں بیٹھ گئی اور اُس کے اوپر سفیدی میں اُودے رنگ کی تہ سی جمنے لگی۔ اُس سے اوپر اُودا رنگ نیلاہٹ میں تبدیل ہونا شروع ہوا اور ہمیں صبحِ کاذب کی روشنی میں دور تک آسمان نظر آنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد کسی کرن کے اشارے نے خوب صورت صبح کو شرما دیا۔ شکار کے نہ ملنے سے جو مایوسی ہوئی تھی، شفق نے اُس کی تلافی کر دی۔ سنگی کے چہرے پر پکّے سرے سے مایوسی کے آثار نظر نہ آتے تھے۔ سنگی کا کیا تھا، وہ تو ’’دوسرے کام‘‘ کے لیے آیا تھا۔ ہم نے اپنا خالی تھیلا اُٹھایا۔ اب صبح ہو چکی تھی اور وہاں سردی میں بیٹھنا بے کار تھا۔ جوں جوں سورج اوپر آتا گیا ،مایوسی بڑھتی گئی، حتّیٰ کہ میں نے بندوق اُٹھا کر کھیتوں میں اُترنے والے چند کوّوں پر دو تین فائر کیے لیکن کوّے بھی اُڑ گئے۔

گانو پہنچ کر سنگی نے تیل کی پیٹی نکالی اور تیل بیچنا شروع کر دیا۔ گانو کی عورتیں شوخ رنگ اور تیز خوشبو کی طرف بہت مائل ہوتی ہیں۔ شہریوں کی طرح تیز رنگ سے اُن کی آنکھوں میں چکا چوند پیدا نہیں ہوتی اور نہ تیز خوشبو اُن کے سر میں درد اور طبیعت میں متلی پیدا کرتی ہے۔ سنگی، مردوں اور عورتوں کے ہجوم میں کھڑا ’’تیل کا ہے سب کھیل‘‘ اور اِسی قسم کے پیشہ ورانہ مصرعے پڑھ رہا تھا۔ مرد کھُل کر ہنستے تھے اور عورتیں ایک دوسرے کو کُہنیاں لگاتی تھیں۔

کچھ دیر کے بعد ایک عورت نے جھولی میں سے کپاس نکال کر سنگی کے سامنے ڈال دی۔ سنگی نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ وہ اِس کپاس کا کیا کرے گا۔ اُسے نقد پیسے چاہئیں، لیکن پھر اُس نے کپاس کو قبول کر لیا۔ کپاس گانو کے واحد دُکان دار کے ہاتھ بک سکتی تھی۔ بلکہ سنگی کو اِس سودے میں فائدہ تھا۔ جنس جلدی میّسر آتی تھی اور زیادہ ملتی تھی۔

کچھ دیر کے بعد نیکاں بھی اُس مجمعے میں آئی۔ اُس کا جی چاہتا تھا کہ چنبیلی کا خوشبودار تیل خریدے۔ اُس نے بڑے شوق سے جہلم آرائیں کے ہاتھ پر لگے ہوئے تیل کو سونگھا ،پھر اُسے کچھ نفرت سی پیدا ہوئی اور وہ اُن لوگوں کے درمیان سے چل دی۔ اللہ داد بھی اپنی لاٹھی لیے ہوئے اُدھر سے گزرا اور بھنبھناتا ہوا ایک طرف کو ہو لیا۔ شام تک آدھی سے زیادہ پیٹی خالی ہو چکی تھی اور سنگی بڑے اطمینان سے بیٹھا جاٹ لوگوں کو مویشیوں کی بیماریوں کے متعلق باتیں بتا رہا تھا۔ جب اُسے کسی چیز پر شک گزرتا تو وہ میری طرف دیکھتا، میں اُس کی تائید یا تردید کر دیا کرتا۔ ’’کھُر آنے‘‘ کی بیماری کے متعلق اُس نے لمبا چوڑا لکچر دیا اور تلقین کی کہ صاف ستھری جگہ مویشی باندھے جائیں تاکہ اُن کے پانو اِس موذی بیماری سے محفوظ رہیں اور تان اِس پر ٹوٹی کہ چنبیلی کا تیل لگانے سے مویشیوں کو یہ بیماری ہو ہی نہیں سکتی۔

اُسی شام کو ہمیں پتہ چلا کہ چوپال میں بیٹھ کر اللہ داد، سنگی کو اور مجھ کو گالیاں دیتا رہا ہے۔ وہ اپنی لاٹھی گھماتا رہا ہے اور کہتا رہا ہے ’چنبیلی کا تیل بالکل نِکمّا ہے، بے کار ہے، آٹھ دن میں بال سفید کر دیتا ہے۔ اُس نے کچّی گھانی کے تیل کا بھاؤ پہلے ایک تہائی کم کر دیا اور پھر آدھی قیمت پر بیچنے لگا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ گانو کا دُکان دار سنگی سے باقاعدہ تیل خریدنا شروع کر دے اور اِس طرح اُس کی تجارت کو نقصان ہو۔

اللہ داد کا تیل خالص تھا۔ اُس کے استعمال سے بال برسوں تک سیاہ رہتے تھے، لیکن اُس سے کھَلی کی عجیب سی بدبو آتی تھی۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ جن چیزوں میں کھَلی کی بو آتی ہے، وہ اُس وقت بُری ضرور معلوم ہوتی ہیں لیکن آخرِکار مفید رہتی ہیں اور جن چیزوں سے چنبیلی کی خوشبو آتی ہے وہ چیزیں اُس وقت بھلی لگتی ہیں لیکن بعد میں اُن کی قلعی کھل جاتی ہے اور اُسے استعمال کرنے والے پر برص کی سفیدی اور سیاہی چھا جاتی ہے۔ لوگ کل کی خبر سُننا نہیں چاہتے۔ وہ عموماً ’آج‘ میں رہتے ہیں اور اُن سے بھی زیادہ تعداد اُن انسانوں کی ہے جو آج، جس میں صبح سے لے کر شام [تک؟] کا وقفہ شامل ہے، کے لیے صابر نہیں ہوتے۔ وہ ’’اِسی وقت‘‘ اور ’’اب‘‘ کے قائل ہوتے ہیں، لیکن چوں کہ ’’اب‘‘ بھی ’’آج‘‘ کی ایک سمٹی ہوئی شکل ہے، اِس لیے وہ ’’آج‘‘ کو نہ ماضی میں سمجھتے ہیں نہ مستقبل میں۔ وہ زمان و مکان کی اِس قید میں شام تک کا منظر دیکھ لیتے ہیں— اور چنبیلی کا یہ ’’تیل‘‘ ’’آج کا دن‘‘ تھا — پکّی گھانی کے ’’کل‘‘ کی کون پروا کرتا تھا۔ عورتیں اور مرد گانو میں آئے ہوئے اِن نئے تاجروں کے قائل ہو گئے تھے۔ دُکان دار دیوان نے نہ صرف کئی شیشیاں خرید کر رکھ لیں، بلکہ ایک پوری پیٹی کا آرڈر دے دیا اور جوشو نمبردار کی مدد سے سنگی نے ایک تانگہ جُتوا لیا تاکہ شہر سے باقی تیل بھی لے آئے۔

اللہ داد یقینی طور پر بیمار آدمی کی طرح سارا دن چوپال سے گھر، گھر سے چوپال، ٹھٹھّی سے نمبردار کے ہاں اور نمبردار کے ہاں سے دیوانوں کی طرح، حویلی تک گھومتا پھرا، خطرے اور ضرورت نے اُسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔

’’چنبیلی دا تیل لائے… جیل دی ہوا کھائے‘‘ وہ تمام دن یہی کہتا پھرتا۔ شعر میں تو زیادہ موزونیت نہ تھی، بوجھوں مارنے کی بات تھی لیکن ضرورت کا تقاضا تھا۔ اِس جوابی حملے کے باوجود وہ تمام دن کانپتا رہا۔ اُس کی داڑھی چاروں طرف پھیل گئی اور پہلے کی نسبت زیادہ زرد معلوم ہوتی تھی۔ یوں نظر آتا تھا کہ جھنڈ کے اِس دیو قامت درخت کے پھول پتّوں کو امر بیل نے پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اِس کی مزید نشو و نما بالکل رک گئی ہے۔ سنگی کو ایک اور شرارت سوجھی، یہ بھی اقتضائے وقت تھا۔

’’نیکاں کے گھٹنے پر ایک تِل ہے‘‘ سنگی نے جوشو نمبردار سے کہا۔

’’تم نے کیسے جانا؟‘‘ جوشو نمبردار نے پوچھا۔

’’بس، میں جو کہتا ہوں، نیکاں کے گھٹنے پر ایک تِل ہے‘‘ اور اِس کے بعد سنگی خاموش رہا۔ سنگی نے جوشو سے کہا، جوشو نے دیوان سے کہا، دیوان نے گانو کے دوسرے لوگوں سے کہا۔ میں سنگی کی اِس مذموم حرکت کو دیکھتا رہا۔ بات پھیل گئی، بالکل اُس امر بیل کی طرح جو ایک دم جسم اور ذہن کا احاطہ کر لیتی ہے۔ سنگی کا تیل بکنے لگا۔ اللہ داد کا پندار ڈگمگا گیا۔

اُس رات بہت کُہر پڑا۔ سرِ شام ہی سے کانٹے والی سردی کا اندازہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس لیے ہم نے ستلج کے کنارے جانے کا خیال چھوڑ دیا۔ سنگی، نحیف جسم کا آدمی ، ٹیونک سمیت بستر میں گھُس گیا تھا۔ اُس کے منھ سے روڑی برانڈ (دیسی شراب) کی بو‘ آ رہی تھی۔ یہ سب کچھ ایک فتح مندی کا اظہار تھا۔ اُس وقت ہسپتال کا ایک ہرکارہ آیا جس نے اطلاع دی کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ ہمیں ہر حالت میں ہسپتال پہنچنا لازم تھا۔ چنانچہ میں نے سنگی کو کالر سے پکڑ کر اُٹھایا اور زبردستی اُسے جوشو کی گھوڑی پر بٹھا دیا۔ ابھی ہم گاڑی [گانو؟] سے باہر کچھ دور جھنپ کے قریب پہنچے، تو ہمیں دِیے کی لو دکھائی دی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں لکڑی کے لٹّھے کے ذریعے جھنپ پار کر کے اللہ داد اپنے کھیتوں کو جایا کرتا تھا۔ اللہ داد کے ہاتھ میں ایک دِیا تھا۔ اُسے اپنے تمام بزرگ یاد آ گئے تھے اور وہ اُن کی قبر پر دِیا رکھنے کے لیے جا رہا تھا۔ اُس دن اُس نے کس پھرتی سے وہ راستہ پار کر لیا تھا، آج بھی اللہ داد پُل پر پہنچا تو ہمارے سانس رُک گئے۔

ایک — دو— چھے—

ایک قدم اور … پانی کی ایک اُچھال آئی۔ اُس کے بعد یوں آواز آئی جیسے کوئی گھڑا پانی میں ڈوبتا ہے۔ دِیا، جس کی بے بضاعت روشنی میں وہ منظر دکھائی دے رہا تھا، پانی میں گِر گیا۔ چاند ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ لیکن رات کے اندھیرے میں ہمیں لاٹھی اور پگڑی پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی نظر آئی اور صبح تک باوجود کوشش کے ہمیں اللہ داد کی لاش نہ مل سکی۔     (پنجابی سے)

[رسالہ ’’سیپ‘‘ کراچی۔ افسانہ نمبر۔ 1967]

٭٭٭

 

 

 

فرشتہ

 

 

                (1)

 

طوفان پورے جوبن پر تھا۔اور برف زمین پر سفید چادر کا نمونہ پیش کر رہی تھی۔

ایک فرشتہ جس کے چہرے پر معصومیت نمایاں تھی، رات کے وقت ایک تیرہ و تار گلی میں ترانۂ وحدت گاتا جا رہا تھا۔ تکان کی وجہ سے اُس کی دودھیا سفید پر ،پیٹھ پر پڑے ہوئے تھے اور سینے میں اُس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔

اور اُس کی نگاہیں لوگوں کے دروازوں کی زنجیروں پر تھیں۔

چاند چھپا ہوا تھا اور تارے بھی اپنا منھ بادلوں کے نقاب میں چھُپا بیٹھے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فرشتہ اپنی جائے قیام گاہ [جائے قیام؟] تک نہ پہنچ سکا۔ کیوں کہ آسمان پر چڑھنے کے لیے جو روشنی کی سیڑھیاں تھیں وہ بادلوں نے اُٹھا لی تھیں۔

 

                (2)

 

’’دروازہ کھولو اور مجھے اپنی آگ کے پاس جگہ دو …اُف! کس قدر سردی ہے… دروازہ کھولو‘‘ فرشتے نے ایک دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے کہا۔

ساری دنیا سو رہی تھی۔ لوگوں نے اس فرشتے کی چیخ و پکار کو بھی اپنی نیند کے خوابوں کا ایک حصّہ سمجھا اور اُس پر کسی نے توجّہ نہ دی۔

’’میں تمھاری خواہش پوری کروں گا ——سُنا؟ لالچی لوگو… دروازہ کھول دو، آہ! تم کس قدر سنگ دل ہو گئے ہو۔ تمھارے دل کے تاریک گھر میں رحم کی روشنی نہیں——اُف سردی… دروازہ کھولو— جلدی۔‘‘

اب برف باری پہلے سے زیادہ ہونے لگی۔ سرد ہوا کے جھونکے ہر کسی کو سامنے ٹانگوں پر کھڑا ہوتے دیکھ کر اُسے سرنگوں کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ تُند ہوا کے جھونکے دیار کے بڑے درختوں کو، جن کا سر ثریّا تک پہنچا تھا، اِک خوف ناک آواز سے توڑ کر نیچے گرا دیتے تھے۔ اور [ہر] وہ درخت جو کہ تھوڑی دیر پہلے آسمان کو چھوتا تھا، اب زمین پر پڑا تھا۔

’’دروازہ کھولو! میں تمھیں ایک بہت ہی اچھّی چیز دوں گا— برائے خدا … مرا — بوڑھی امّاں … مرا‘‘۔ فرشتے نے ایک دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے کہا۔

بُڑھیا، جس کا چہرہ گناہوں کی آلودگی سے پاک و صاف ، کندن کی طرح چمک رہا تھا اور جس کا نحیف و زار بدن اُس کے دائم المریض ہونے کی علامت تھا، باہر نکلی۔

اُس نے آوارہ فرشتے کی پُرسوز اور الم انگیز آواز سنی، اور دروازہ کھول دیا۔

اِس لیے نہیں کہ اُسے کوئی بیش قیمت شے ملے گی —— مطلق نہیں —— وہ دُکھی تھی اور ستم رسیدہ لوگوں کے مصائب سے بہ خوبی واقف تھی۔ اُس نے فرشتے کو اندر بلا لیا۔ آگ جلا کر اُس کے نم دار پر، جو کہ برودت کی وجہ سے سُن ہو چکے تھے، سُکھائے اور پھر اُسے سونے کے لیے نرم اور آرام دہ بستر دیا۔

جب مشرق کی طرف افق پر سرخی کی جھلک نمودار ہوئی تو فرشتہ اُٹھا۔ اور جب آفتاب نے اپنا سیاہ لبادہ اُتار کر اپنی نیلی شعاع سے دنیا کو سلام کیا، تو فرشتے نے اُٹھ کر بڑھیا کی پیشانی کو بوسہ دیا اور آسمان کو پرواز کر گیا۔ صبح کو لوگوں نے دیکھا، بُڑھیا تمام دُکھوں اور تکلیفوں سے نجات حاصل کرچکی ہے۔

[رسالہ ’’چندن‘‘ لاہور۔ جنوری 1932]

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید