FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سوسن بیل

نا معلوم

سچ ہے یا جھوٹ، یہ تو معلوم نہیں، لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں کسی ملک میں ایک گدھا اور ایک بیل رہتے تھے۔ بیل دن بھر میں اتنی زمین پر ہل چلا لیتا تھا جتنی زمین پر کوئی دوسرا بیل ہفتے بھر میں بھی نہیں چلا سکتا تھا، لیکن شام کو وہ تھکا ہارا لوٹ کر گھر آتا تو اسے سوکھی پھیکی گھاس کا ایک گٹھا کھانے کو ملتا تھا۔ جہاں تک گدھے کا تعلق تھا وہ کوئی کام کاج نہ کرتا، دن بھر پڑے پڑے دھوپ کھاتا، لیکن اس کو پانی کی جگہ دودھ پلایا جاتا اور سوکھی پھیکی نہیں بلکہ ہری ہری رس بھری گھاس سے تواضع کی جاتی تھی۔

ایک روز بیل شام کو حسب معمول تھکا ہوا اپنے تھان پر لوٹا اور خشک بے ذائقہ گھاس کو بے دلی سے چبانے لگا، لیکن سوکھی گھاس اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی۔ اس نے گدھے سے مخاطب ہو کر کہا:

"بھائی گدھے! اپنے رسیلے چارے میں سے تھوڑا سا مجھے بھی دے دو نا۔ یہ خشک بے ذائقہ گھاس تو اب مجھ سے بالکل نہیں کھائی جاتی۔”

گدھے کو بیل پر رحم آ گیا اور اس نے اپنے چارے میں سے تھوڑا سا اس کو دے دیا۔

مالک تھان پر آیا تو یہ دیکھ کر کہ گدھا اپنا چارا سارا کھا چکا ہے، بہت خوش ہوا اور کہا:

"ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔! خوب کھاتے ہو رم! شاباش میرے گدھے!”

مالک نے گدھے کے آگے کولی بھر اور گھاس دال دی۔ پھر اس نے بیل کے ناند میں دیکھا تو پتا چلا کہ تمام خشک گھاس جوں کی توں پڑی ہے۔ وہ طیش میں آ کر بیل پر چیخنے چلانے لگا:

"مردود! نکما کہیں کا! تو چارا کیوں نہیں کھاتا؟ کل کھیت پر جا کے لیٹ جائے گا تو کون ہل چلائے گا؟”

یہ کہتے ہوئے وہ بیل کو ڈنڈے سے مارنے لگا۔ اتنا مارا، اتنا مارا کہ بیچارے بیل کی کھال کی ساری گرد جھڑ گئی۔

اس دن سے گدھا روز اپنے شام کے کھانے کا کچھ حصہ بیل کو دینے لگا۔

ایک دن مالک تھان پر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ بیل گدھے کا چارا ڈٹ کر کھا رہا ہے اور گدھا پاس کھڑا اس سے کہہ رہا ہے:

"کھاؤ بھائی، کھاؤ۔”

بس پھر کیا تھا، مالک کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی، ڈنڈا لے کر گدھے پر ٹوٹ پڑا اور یہ کہتے ہوئے اس کی مرمت کرنے لگا:

"اچھا! یہ بات ہے! تیرا پیٹ بھر گیا ہے؟ تجھ پر حد سے زیادہ چربی چڑھ گئی ہے، تو اب اپنا سارا چارا اس نکمے بیل کو دے دیتا ہے؟ ٹھہر تو جا، میں تجھے اس کا مزہ چکھائے دیتا ہوں۔”

مالک جب گدھے کا گرد و غبار خوب جھاڑ چکا تو اسی ڈنڈے سے بیل کی خبر لینے لگا۔

اگلے دن مالک نے تھان پر آ کر کہا:

"اچھا گدھے میاں! اب ہل چلانے کی آپ کی باری ہے۔چلئے تو سہی۔”

وہ گدھے کو کھیت میں لے آیا اور اس کی گردن میں طوق ڈال لگا کر ہانکنا شروع کر دیا۔گدھا سارا دن پسینے سے شرابور ہل چلاتا رہا اور بیل مزے سے پڑا دھوپ کھاتا رہا۔شام کو مالک گدھے کو واپس تھان پر لے آیا اور اس کو بیل کی جگہ پر باندھ کر سوکھے پھیکے پھوس کا ایک گٹھا اس کے آگے ڈال دیا۔ بیل کو ہری ہری نرم و ملائم گھاس کھانے کو ملی۔ چار ڈال کر مالک چلا گیا تو گدھے نے بیل سے گڑگڑاتے ہوئے کہا:

"یار! جب تم بھوکے تھے تو میں نے تم پر رحم کیا تھا۔ اب تم بھی میرے حال پر رحم کرو۔ اپنے رسیلے چارے میں سے کچھ مجھے دے دو۔”

بیل پر لالچ غالب آ گیا اور اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا:

"دیکھتے نہیں ہو، میرا چارہ تھوڑا سا تو ہے۔ خود میرے لیے بھی کافی نہیں ہے۔”

بیچارے گدھے کو اپنی قسمت کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ وہ دن بھر کھیت میں ہل چلاتا اور شام کو تھکا ہارا تھان پر لوٹ آتا تو روز وہی روکھی سوکھی گھاس اس کو کھانے کو ملتی اور بیل تھا کہ مزے اڑائے جا رہا تھا۔ پہلے وہ بالکل دبلا پتلا سا تھا۔ اس کی پسلیاں نکلی رہتی تھیں۔ لیکن اب کچھ ہی دنوں میں کھا پی کر خوب موٹا تازہ ہو گیا اور بیچارہ گدھا اتنا دبلا پتلا ہو گیا کہ کسی سوکھے ہوئے درخت کا ٹھنٹھ معلوم ہونے لگا۔ آخرکار اس کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور اس نے ایک دن بیل سے کہا:

"یار! تم ہی بتاؤ۔ اب میں کیا کروں؟ روز روز کی مار پیٹ اور ان اذیتوں سے کیسے چھٹکارا پاؤں؟ مالک کی مسلسل مار پیٹ سے میرا بدن چھلنی ہو گیا ہے۔”

بیل نے مشورہ دیا:

"کل جب مالک تمھاری گردن میں طوق لگا کر ہانکنے لگے تو تم ٹانگیں اڑائے کھڑے رہنا۔ اپنی جگہ سے ہلنا تک نہیں۔ مالک کو تم پر رحم آ جائے گا۔ وہ سوچے گا کہ بیچارہ گدھا بالکل تھک گیا ہے اور تمھیں آرام کرنے دے گا۔”

اگلے دن صبح مالک نے روز کی طرح گدھے کو کھیت پر لا کر گردن میں طوق لگا دیا اور ہانکنے لگا تو گدھا اس طرح اڑ گیا کہ چلنے کا نام ہی نہ لیا۔ مالک کو غصہ آ گیا اور وہ گدھے کو ڈنڈے سے بےدردی سے مارنے لگا۔ گدھا مار پیٹ کی تاب نہ لا سکا اور چل پڑا۔ شام کو مالک نے اس کو تھان پر لا کر باندھ دیا تو وہ تھکا ماندہ پڑے پڑے سوچنے لگا:

"نہیں۔ اب ایسے کام نہیں چلے گا۔ میں اب یہاں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتا۔ کہیں بھاگ جاؤں گا۔”

یہ طے کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا، ایک جھٹکے سے رسی توڑ لی اور باہر آ کر ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔

گدھا بھاگتا گیا اور اب آپ آئیے، ذرا مرغ کی بات سنئے۔

ایک چکی والے نے ایک مرغا اور کئی مرغیاں پال رکھی تھیں، لیکن وہ ان کو کھانے کو کچھ نہیں دیتا تھا۔ مرغا اور مرغیاں بیچارے دن دن بھر خوراک کی تلاش میں آنگن میں مارے مارے پھرتے، ادھر ادھر اکا دکا دانے مل جاتے جنہیں کھا کر وہ اپنی بھوک کی آگ ٹھنڈی کر لیا کرتے۔

ایک بار مرغا چکی کے اندر چلا گیا اور گیہوں کے دانے چگنے لگا۔ "در! در! مردود!” کہہ کر مالک اس کو بھگانے لگا اور ایک لکڑی اٹھا کر اس پر پھینکی۔ وہ لکڑی مرغ کے اس زور سے لگی کہ بیچارہ قلابازیاں کھا گیا اور درد سے "ککڑوں کوں” کر کے کراہ اٹھا۔ وہ بھاگ کر آنگن میں نکل گیا اور آنگن کی دیوار پھاند کر ایک طرف کو چل دیا۔ وہ چلا جا رہا تھا کہ راستے میں گدھا مل گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا پھر گدھے نے مرغ سے پوچھا:

"بھائی مرغ! تم کہاں جا رہے ہو؟”

مرغا بولا: "میں سوسن بیل جا رہا ہوں۔”

گدھے نے پوچھا: "وہ کیسی جگہ ہے؟”

مرغا بولا: "وہ ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا۔”

گدھا کہنے لگا: "تب تو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو گے؟”

مرغا بولا: "ہاں، ضرور لے چلوں گا چلو چلتے ہیں۔”

دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ چلتے چلتے وہ ایک میدان میں آ گئے۔ آگے بڑھتے جا رہے تھے کہ اچانک شہد کی ایک مکھی نے نہ جانے کہاں سے آ کر گدھے کی گردن میں ڈنک مار دیا۔

"اری کمبخت!” گدھے نے طیش میں آ کر کہا۔ "تجھے آ کر مجھ ہی کو ڈنک مارنا تھا؟ مجھ میں کیا رکھا ہے تمھارے لیے، میری تو ساری چربی پگھل کے بہہ چکی ہے۔ رس نام کو نہیں ہے۔ میری گردن کوئی گردن نہیں، کوئی سوکھی لکڑی سمجھو۔ چاہے جتنے ڈنک مارو تم کو کچھ نہیں ملے گا۔ معلوم ہوتا ہے ہماری ہی طرح تم بھی قسمت کی ماری ہو۔ اچھا تو آؤ، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”

شہد کی مکھی نے پوچھا: "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

گدھا بولا: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

شہد کی مکھی نے پوچھا:”یہ وہی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا؟”

مرغا بولا: "ہاں۔”

شہد کی مکھی بولی: "تب تو میں ضرور تم لوگوں کے ساتھ چلوں گی، لیکن میں اکیلی نہیں جاؤں گی ۔ میری بہت سی ساتھی مکھیاں ہیں، کیا میں ان کو بھی بلا لاؤں؟”

گدھا بولا: "ہاں، شوق سے بلا لو سب کو۔”

کچھ ہی دیر کے بعد مرغے اور گدھے کو کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شہد کی مکھیوں کا ایک برا سا غول اڑتا چلا آ رہا ہے۔

ان سب کو سوسن بیل کی طرف جانے دیجیئے اور آئیے اب ذرا کچھ دوسروں کا حال سنئے۔

ایک جگہ میدان میں صحرائی خرگوش کا جوڑا رہتا تھا۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ روز میاں بیوی دونوں غذا کی تلاش میں دور دور تک چلے جاتے، زمین کو جگہ جگہ کھودتے، لیکن کچھ نہ ملتا تھا۔ دونوں بہت تھک گئے اور فاقوں سے تنگ آ گئے۔ بالآخر ایک دن خرگوش نے خرگوشنی سے کہا:

"آؤ آج دوسرے راستے پر چلیں۔ شاید ہماری قسمت جاگ اٹھے اور کوئی راہ گیر نظر آ جائے تو ہم اس سے کچھ کھانے کو مانگ لیں۔”

وہ دوسرے راستے پر نکل گئے۔ اچانک انھوں نے گدھے اور مرغے کو آتے دیکھا جن کے اوپر شہد کی مکھیوں کا ایک غول بادل کی طرح اڑتا چلا آ رہا تھا۔ وہ نزدیک آئے تو میاں بیوی نے ان سے کہا:

"بھائیو! ہم نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ از راہ کرم ہم کو کچھ کھانے کو دے دو۔”

"ارے دوستو!” مرغے نے رک کر ان سے کہا۔ "تم بھی ہماری ہی طرح بھوکے ہو؟ تم بھی ہماری طرح پیٹ پالنے کی فکر میں مارے مارے پھرتے ہو؟ کھانا چاہتے ہو تو تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”

خرگوش بولا: "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

مرغا بولا: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

خرگوش نے پوچھا: "وہ کون سی جگہ ہے؟”

مرغا کہنے لگا: "وہ ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کسی کا کسی سے کوئی سروکار نہیں۔”

خرگوش بولا: تب تو ہم بھی تم لوگوں کے ساتھ چلتے ہیں۔”

وہ سب ایک ساتھ چلنے لگے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ اچانک کسی کے پکارنے کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ فاصلے پر کوئی اسی طرف دوڑتا ہوا نظر آیا۔ تھوڑی دیر میں وہ قریب آ گیا تو گدھا اس کو پہچان گیا۔ یہ اس کا ساتھی بیل تھا۔ بیل نے نزدیک آکر سب کو جھک کر سلام کیا اور پوچھا:

"تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

جانور: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

بیل: "وہ کون سی جگہ ہے؟”

جانور: ” وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا۔”

بیل: یہ بات ہے تو تم لوگ مجھ کو ساتھ لے چلو۔”

بیل کو لے کر سب آگے چلے۔ چلتے چلتے گدھے نے بیل سے پوچھا:

"جناب! آپ کو کیا ہوا؟ جس وقت ہم دونوں جدا ہوئے اس وقت تو آپ بڑے مزے میں تھے؟”

"ارے بھائی! کچھ نہ پوچھو۔” بیل نے کہنا شروع کیا۔ "تم چلے گئے تو مالک نے مجھے لے جا کر ایک سانڈ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ ہم لڑنے لگے۔ میں نے اس کے چھکے چھڑا دیے اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد مالک نے مجھ کو ایک اور سانڈ سے لڑایا۔ میں نے اس کو بھی ہرا دیا، لیکن بڑی مشکل سے۔ اس کے بعد میں سوچنے لگا کہ اب میری خیر نہیں۔ یہ مجھ کو سانڈوں سے لڑاتا رہے گا اور کسی نہ کسی دن ان میں سے کوئی میری جان لے کر چھوڑے گا۔ ایک رات میں پڑا سو رہا تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑے سانڈ نے میرے پاس آ کر بڑے رعب سے کہا:

"آہ! ہاتھ آ گئے! اب میں تمھیں سبق سکھاتا ہوں! یہ کہہ کر وہ مجھ پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ میں نے ذرا سا پیچھے ہٹ کر اس کے وار سے پہلے ہی اس کو زور سے سینگ مارا کہ وہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی اور کیا دیکھتا ہوں کہ میرا مالک میرے سامنے زمین ہر اوندھے منھ بےہوش پڑا ہے۔

معلوم ہوا کہ مالک مجھ کو چارا دینے آیا تھا اور میں سوتے میں اس کو سینگ مار بیٹھا۔ وہ ہوش میں آیا تو اٹھا اور ڈنڈا لے کر مجھے دنادن مارنے لگا۔ مار مار کر مجھ کو لہولہان کر دیا۔ مجھے اتنا دکھ ہوا کہ جب مالک مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا تو میں کسی طرح اپنی رسی توڑ کر باہر آیا اور جہاں سینگ سمائے چل دیا۔”

سب جانور ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ان کے اوپر شہد کی مکھیاں بھی اڑتی رہیں۔ انہوں نے بہت لمبا راستہ طے کیا اور بالآخر سوسن بیل کے کنارے پہنچ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک سر سبز و شاداب وادی ہے۔ صاف و شفاف ہوا ہے۔ ہری بھری گھاس کے میدان ہیں۔ باغیچوں میں خربوزے تربوز پک رہے ہیں۔ بیلوں میں انگور کے گچھے لٹک رہے ہیں۔ درختوں پر خوبانیاں، سیب ، ناشپاتیاں اور انواع و اقسام کے دیگر پھل پک گئے ہیں اور ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ کھیتوں میں گیہوں، جو وغیرہ کی فصلیں لہلہا رہی ہیں۔ ہر چیز کی فراوانی ہے۔

یہ سب سوسن بیل میں رہنے لگے۔ یہاں ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے والا، مارنے پیٹنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ سب اپنی خوشی سے محنت کرتے، جو چاہتے کھاتے اور جتنا چاہتے کھیلتے کودتے، آرام اور تفریح کرتے۔ بیل اور مرغا گیہوں جمع کرتے جاتے اور مکھیاں پھولوں کا رس جمع کر کے شہد بناتی۔ سب بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اور یہ بھول چکے تھے کہ فکر و پریشانی کس چڑیا کا نام ہے۔

سوسن بیل کے گرد و نواح میں برف سے ڈھکے ہوئے اونچے اونچے پہاڑ تھے اور ان پہاڑوں پر بہت سارے بھیڑیئے رہتے تھے ایک دن بھیڑیوں کے سردار ایک اونچے پہاڑ پر اپنے بادشاہ کے گرد جمع ہوئے اور وہاں بیٹھے آپس میں رونا رونے لگے کہ کیسے برا زمانہ آ گیا ہے، پہاڑوں پر جنگلی بکریوں کا نام و نشان تک نہیں رہا ۔آئے دن فاقے کرنے پڑتے ہیں،پریشان رہتے ہیں۔ اتنے میں اچانک ان کے بادشاہ نے نیچے سوسن بیل کی وادی میں بیل ،گدھے اور مرغ وغیرہ کو گیہوں کی فصل کاٹتے ہوئے دیکھ لیا۔ خوشی سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے اپنے سرداروں سے مخاطب ہو کر کہا:

"وہ دیکھو نیچے وادی میں کباب پھر رہا ہے۔”

سب بھیڑئیے ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے دانت کٹکٹاتے ہوئے نیچے وادی کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کے منھ سے رال ٹپکنے لگی۔ ان کے بادشاہ نے حکم دیا:

"دس بہادر ابھی چلے جائیں اور اس چلتے پھرتے کباب کو اٹھا لائیں۔”

ایک بھیڑیا جو بڑا شیخی خور تھا آگے بڑھا اور اپنی دم ہلاتے ہوئے بولا:

"بادشاہ اعظم! بیل، گدھے اور مرغ کو پکڑ لانے کے لیے دس بھیڑیوں کے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اجازت ہو تو میں اکیلا جا کر ان کو آپ کے حضور میں ہانک لاؤں؟”

"ارے تم کیا کر لو گے؟” ایک دوسرا بھیڑیا کہنے لگا۔ "تمھاری جگہ میں جاؤں تو زیادہ اچھا رہے گا۔”

بس پھر کیا تھا یہ دونوں آپس میں لڑ پڑے۔

"بند کرو لڑائی!” بادشاہ غصے میں آ کر غرایا۔ "جاؤ! تم دونوں ہی چلے جاؤ۔ باقی بھیڑئیے کباب پکانے کے لیے سیخیں تیار کر لیں اور آگ جلا دیں۔”

دونوں بھیڑئیے خوشی کے نعرے بلند کرتے ہوئے وادی کی طرف دوڑ پڑے۔

گدھے نے ان کو آتے دیکھ لیا اور ہانک مار کر اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا”

"ایں آں، ایں آں! بھیڑئیے آ رہے ہیں۔ بھاگو!” یہ کہہ کر گدھا بھاگنے ہی کو تھا کہ مرغا کہہ اٹھا”

"ککڑوں کوں! رک جاؤ! بزدل کہیں کے! کیا تمہیں اپنی مضبوط ٹانگوں پر بھروسہ نہیں؟” یہ کہتے ہوئے وہ اچھل کر گدھے کی پیٹھ پر چڑھ گیا اور ا س کو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔

"ارے اب کیا کیا جائے؟ بھیڑئیے بہت سے ہیں اور ان کے دانت لوہے کے ہیں۔” گدھے نے گھبرا کر کہا۔

"میری بات سنو!” مرغے نے کہا۔ "بیل کے سینگ بڑے مضبوط ہیں۔ وہ بھیڑیوں کو ان سے مارے گا۔ تمھارے سم مضبوط ہیں۔ تم ان کو دو لتیاں مارنا۔ شہد کی مکھیاں تیز تیز ڈنک ماریں گی۔ خرگوش جگہ جگہ گڑھے کھودیں گے تاکہ بھیڑئیے ٹھوکریں کھا جائیں۔”

"اور تم خود کیا کرو گے؟ بس چیختے چلاتے رہو گے؟” گدھے نے ڈر کے مارے تھر تھر کانپتے ہوئے طنز سے کہا:

"اور میں تم لوگوں کی رہنمائی کروں گا۔ تمھیں ہدایتیں دیا کروں گا۔” مرغ نے جواب دیا۔

اتنے میں بھیڑئیے نزدیک آ گئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:

"تم اس گدھے کو پکڑو اور میں اس بیل کو پکڑوں گا۔”

اور وہ دونوں بھیڑئیے اپنے اپنے شکار کی طرف لپکے۔ بیل تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور دوڑتے ہوئے آ کر بھیڑئیے کے جو سینگ مارا تو بھیڑیا قلابازیاں کھا کر پرے جا گرا۔ ادھر شہد کی مکھیاں آندھی کی طرح امنڈ آئیں اور بھیڑیوں کو ڈنک مارنے لگیں۔ بھیڑیوں کی ناکیں، آنکھیں، زبانیں، مختصر یہ کہ ان کے بدن کا کوئی بھی حصہ مکھیوں کے ڈنکوں سے نہ بچا۔ آخر بھیڑیوں نے دیکھا کہ ان کی خیر نہیں تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ بھاگتے ہوئے کتنی بار خرگوشوں کے کھودے ہوئے گڑھوں میں گر گئے اور ان کی ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں۔

ادھر پہاڑ کے اوپر بھیڑئیے اس امید میں کہ ان کے ساتھی ابھی جانوروں کو ہانک لائیں گے، کباب کھانے کی تیاریاں کر کے بیٹھے تھے۔ انھوں نے بہت سی سیخیں بنا لی تھیں۔ الاؤ جلا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ پیاز کو باریک باریک کاٹ کے اس پر نمک مرچ چھڑک دیا تھا۔ اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے بہادر ساتھی ہانپتے کانپتے بھاگے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے سارے بدن خون میں لت پت ہیں اور سانس پھول رہی ہے۔

"کیا بات ہے؟” بادشاہ اعظم نے اپنے بہادروں سے پوچھا۔

"بادشاہ اعظم!” وہ دونوں ہانپتے کانپتے کہنے لگے۔ ” وہاں کباب نہیں پھر رہا تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا۔ وہاں تو بھیڑیوں کی موت ناچتی پھر رہی تھی۔”

اور انھوں نے نیچے وادی میں جو کچھ دیکھا اور جھیلا وہ سب اپنے بادشاہ کو بتا دیا۔

دونوں بہادروں میں سے ایک نے کہا:

"وہاں نیچے خود موت کا فرشتہ گھومتا پھرتا ہے۔ اس نے ہاتھوں میں لوہے کا ایک بڑا بھاری ڈنڈا پکڑ رکھا ہے اور جس کو بھی اس ڈنڈے سے مارتا ہے وہ سات قلابازیاں کھا کر زمین پر گرتا ہے اور بےہوش ہو جاتا ہے۔”

"ارے معلوم ہوتا ہے تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔” دوسرے بہادر نے کہا۔ "ان کے ساتھ ایک پہلوان ہے جس کی آواز بالکل بگل کی طرح ہے اور ہاتھ لوہے کے ہیں۔ وہ جس کے مکا مار دیتا ہے وہ سات قلابازیاں کھائے بغیر سنبھل نہیں پاتا۔”

"ارے معلوم ہوتا ہے تم نے ان جیالے سپاہیوں کو نہیں دیکھا جو اپنی تیز نوکدار برچھیاں بدن میں یوں گاڑتے ہیں کہ خارش اور درد سے تڑپتے رہ جاؤ۔”

"وہ تو اپنے گورکن بھی ساتھ لائے ہیں۔ ان گورکنوں نے ہمارے لیے دس دس قبریں کھود ڈالی تھیں۔ ہم ان میں گر گر جاتے تھے۔ ہماری ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں۔”

"ان کے ساتھ ایک بگل بجانے والا بھی تھا۔ وہ ایک درخت پر چڑھا بیٹھا تھا اور اس زور سے بگل بجا رہا تھا کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹتے پھٹتے رہ گئے۔” یہ ساری باتیں سن کر بھیڑئیے خوف سے تھر تھر کانپنے لگے۔ ان کا بادشاہ بھی گھبرا گیا۔

"اب ہم کیا کریں؟” بادشاہ نے اپنے سرداروں سے پوچھا۔ "کیوں نہ ہم سب ان پر ہلہ بول دیں!”

"بادشاہ اعظم! ایسا کرنا مناسب نہیں۔” بھیڑئیے تھر تھر کانپتے ہوئے کہنے لگے۔ "معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی بلائے ناگہانی ہیں کہ دنیا بھر کے بھیڑئیے بھی جمع ہو جائیں تو وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”

"اب تو خیر اسی میں ہے کہ ہم جلد ہی یہاں سے کھسک جائیں۔” بھیڑیوں کے بادشاہ نے کہا۔ باقی سب بھیڑئیے بھی کباب پکانے اور کھانے کے تمام سازو سامان کو چھوڑ چھاڑ کے اپنے بادشاہ کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔

سوسن بیل میں بھیڑیوں کا نام و نشان نہ رہا۔ ہمارے سب جانور پھر بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔
٭٭٭
ٹائپنگ: ابو کاشان ، مقدس
پروف ریڈنگ : سید زلفی، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید