ڈاؤن لوڈ کریں
فہرست مضامین
- انتساب
- پیش لفظ
- ایک خوشگوار تجربہ
- ایک مشّاق بدیہہ گو شاعر
- حمد
- نعت
- سوچ رہا ہوں
- دسمبر
- آ رہا ہے کوئی ہاتھوں میں کلیجہ تھام کر
- بُرقعے کی آبرو ہے نہ چادر کا احترام
- صبحِ اُمید کو خفا کر کے
- مقدر خامۂ حکمت سے جو تحریر کر لیں گے
- چہرہ مرے محبوب کا منظر میں نہیں ہے
- گلستاں کے خواب کی تعبیر کے قبضے میں ہوں
- آدمیّت نیم جاں ہے آدمی مجروحِ غم
- ظُلم ڈھاتے ہیں تو چرچا نہیں ہونے دیتے
- عمر بھر کی ہے وفا اور ملا کچھ بھی نہیں
- جانتا تھا زخم دِل کے دیکھنے والے نہیں
- تصویر اُس کی گھر سے ہٹانے کے باوجود
- بنا اُمید کا پودا شجر آہستہ آہستہ
- ملّت کے گیسوؤں کو سنوارا نہیں گیا
- میری آنکھوں میں مرے دل میں سمانے والے
- درد کو میری مسیحائی کا حاصل سمجھے
- ڈھونڈنے دُنیا نئی اہلِ نظر جائیں گے
- جب وہ چپکے سے پاس آ بیٹھے
- وہ جو مٹی کے گھر میں رہتے ہیں
- دیکھا جو کوئی چاندسا چہرہ نقاب میں
- غم کے بادل چھٹے نہیں ہیں ابھی
- ایسی محفل میں نہ ٹھہروں گا چلا جاؤں گا
- ہیں بانہیں نیم جاں پتوار والی
- مصائب نے مرے عزمِ جواں کو
- کارواں کے بعد گردِ کارواں رہ جائے گی
- تُو نے جو بھی مرے خلاف کیا
- مسرّت کے آنسو زیارت سے پہلے
- روٹھ جانے پہ منایا تو برا مان گئے
- ہر شخص لگ رہا ہے یہاں اجنبی مجھے
- کام گر ناکام ہو کر رہ گئے
- دل کے زخموں پہ جب بہار آئی
- اِتنا تو اثر لاتی فریاد محبّت کی
- اَپنوں کی جلوہ گاہ میں اپنا نہیں کوئی
- اَندھیرے نفرتوں کے ہم زمانے سے مٹائیں گے
- آئے جو مرے لب پہ محبّت کے ترانے
- کسی کے سینے کا سنگ پِگھلا تو میں نے دیکھا
- بدل جائیں گے وہ بدلتے بدلتے
- مِل کے روکو یہ درد کے دھارے
- مشکل پڑی تو وقت کے دھارے بدل گئے
- روحوں کا ہے جہاں کیا موت و حیات کیا ہے
- دل کے بُجھنے سے اندھیروں کو بقا ملتی ہے
- ہر پھول مہک اُٹّھے ماحول نکھر جائے
- حرف چُپ تھے کتاب ہونے تک
- دی ہے شُعلوں کو دوستوں نے ہوا
- جو شہرِ دل فریب میں رُسوائے عشق ہے
- گھر بلا کر جو گھر نہیں آتا
- لہو اِنسانیت کا بہہ رہا ہے
- جب کوئی سورج اندھیروں کے مقابل ڈٹ گیا
- میں تیری جُستجو میں کھو گیا ہوں
- یادوں کے جھروکوں سے اس درجہ بہا پانی
- جب سے مرے اکاؤنٹ میں پیسہ نہیں رہا
- فانوس تیری یاد کا دل میں جلا لیا
- غم جو آیا مسرّتیں بھی گئیں
- فرزانگی کی چوٹ نہ دیوانگی کی چوٹ
- آرزو تھی جو مسکرانے کی
- فون پر اُن سے بات ہوتی ہے
- لے گئے لوٹ کے جو خواب سہانے سارے
- چہرہ گلاب سا ہے اِک پیکرِ حیا کا
- محرمِ راز طلسمات کا پیکر نکلا
- چھلکتے جام ہیں آنکھیں بھنویں ہیں محرابی
- جب مجھے بگڑے مقدّر کو بنانا آ گیا
- رہروی کی تلخیاں راہوں کی پہنائی سے پوچھ
- میرے لئے بھی شہر میں جائے اَماں تو ہو
- دل ہے کیا جو درد کا خوگر نہیں
- ہر لحظہ فسوں کار ہے ہر لمحہ خطرناک
- گھر جو ہے دوزخ نما وہ خُلد پیکر چاہئے
- ہونٹوں پہ ہنسی اور دلِ زار میں غم ہے
- روٹھی ہوئی ہے ہر خوشی مجھ کم نصیب سے
- سنگ رہنے کا ارادہ کر لیا
- ڈھلا شباب ہمارا بدل گیا موسم
- رشک اپنوں پہ کب نہیں آتا
- بدل کے بات پرانی سناؤ بات نئی
- ڈھونڈتا ہوں بہار کے لمحے
- جو تیری خواب گاہ کی قسمت جگا گئے
- ایک صورت جو بھا گئی دل کو
- کون کہتا ہے بھول جاؤں گا
- قطعات
ورڈ فائل
ای پب فائل
انتساب
اَپنے والد (مرحوم )
محمّد اشرف خان رحمۃ اللہ علیہ
کے نام
پیش لفظ
{مانا ہوا شاعر}
اکرم سحرؔ فارانی شاعری کو اپنی زندگی بنائے ہوئے ہیں میں نے شاعری کے لئے اِتنی بیقراری کم کم شاعروں میں دیکھی ہے وہ پولیس میں اِنسپکٹر بھی ہیں، لفظ بھی پر غور کریں کہ وہ انسپکٹری کے دوران بھی شاعری میں گھُلے ہوئے ہوتے ہیں وہ اکثر اوقات وردی کے اندر ہی مشاعروں میں پہنچ جاتے ہیں ایک با وردی شاعر کیسا لگتا ہے، جب وہ وردی پہنے ہوئے غزل سنا رہے ہوں تو اُن کے چہرے پر کیفییات کو دیکھیں وہ میرے اس خیال کی مجسّم تصویر ہیں کہ با وردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔
شاعری اور اِنسپکٹری دونوں صورتوں میں وہ ایک ہی شخصیّت ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو کئی حیثیّتوں میں یک جا کرتے ہیں اور یکتا ہونے کی خواہش میں مُبتلا نظر آتے ہیں وہ انسپکٹری بھی بہت ذمہ داری اور دیانتداری سے کرتے ہیں اور شاعری کے لئے بھی ایک گہرا ذوقِ فراواں اُنہیں تڑپائے رکھتا ہے اِنسپکٹر کا عہدہ اتنا اہم ہے کہ پولیس کا بلند ترین منصب بھی اِنسپکٹر جنرل ہے
وہ انوکھی تڑپ کے آدمی ہیں لگن اور تھکن کے مزاج سے اُن کی شخصیّت اور شاعری کا مزاج بنا ہے وہ دونوں کام بلکہ سب کام ایک ساتھ کرتے ہیں اُن کے کسی عمل میں دوئی نہیں ہے۔ اُن کے اندر کئی اکائیاں رَل مل گئیں ہیں وائرلس پر احکامات سُنتے ہیں اور غیب سے آنے والے پیغامات اُن کے دل و نگاہ سے ہمکلام ہوتے ہیں ۔
شاعری کی چار مقبول کتابوں کے بعد اُن کے پانچویں مجموعۂ کلام کا نام،، پیامِ سحر،، ہے سحر کا پیام اُجالا ہے اُجالے کی طرح اُجلے دل والا اکرم سحرؔ فارانی ہی ایسی شاندار شاعری کر سکتا ہے جس طرح تاریکیوں سے روشنیوں کا ظہور ہوتا ہے صبح ہمیشہ رات کے اندھیرے سے نکلتی ہے فارانی کے باطن سے بھی شاعری اسی طرح نمودار ہوتی ہے یہ عمل صرف سورج کے طلوع ہونے کے منظر میں ہے۔
ایک سحر پوری کائنات کو روشن کر دیتی ہے اور ایک سحر انسان کے اندر بھی پیدا ہوتی ہے سحر یعنی صبح روشنی کے علاوہ جاگنے کا پیغام بھی لاتی ہے اور جیون جاگنے کے وقفے کا نام ہے دل تو ہر وقت جاگتا ہی رہتا ہے اور شاعر لوگ اپنے دل میں رہتے ہیں ایسے میں سونے جاگنے میں فرق نہیں رہتا اعلیٰ شاعری وہی کر سکتا ہے جس کی ہمکلامی اپنے دل کے ساتھ جاری رہتی ہے خود کلامی اور ہمکلامی ایک ہو جائیں تو بہترین کلام تخلیق ہوتا ہے۔
اکرم سحرؔ فارانی کو معلوم ہو گا کہ اُن کے وجود میں کلام کرتی ہوئی کیسی کیسی کیفیّتیں وجد کرتی ہیں وہ ایک سادہ آدمی ہیں اِس لئے آسودہ آدمی ہیں۔ آسودگی سادگی کے بغیر میسّر نہیں آتی سادگی اور آسودگی مل کر ذوق و شوق کے کئی چراغ دل میں جلا دیتی ہیں فارانی کے عمدہ ذوق و شوق اور بہترین شاعری کی یہ بھی دلیل ہے کہ اُنہوں نے ذوقیؔ مظفر نگری کی رفاقت اور رہنمائی میں اپنے خیالوں کا نگر بسایا اور وہاں خود ہی ہر طرف رہنا شروع کر دیا یہ قیام اتنے اہتمام کے ساتھ کیا گیا کہ وہ ذوقی مظفر نگری کے جانشین بنا دئے گئے۔
ذوقیؔ صاحب( مرحوم) ایک قادر الکلام اوراستادشاعر تھے ان کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی تحریر سحرؔ فارانی کے پاس ہے جس میں اُن کے پکیّ شاعر ہونے کی اہلیّت کو مانا گیا ہے کہتے ہیں جسے ذوقیؔ صاحب نے مان لیا وہ مانا ہوا شاعر بن گیا ہم بھی فارانی صاحب کو مانتے ہیں اور کُچھ کُچھ جانتے بھی ہیں وہ ہر لحاظ سے اعتبار اور پیار کے قابل ہیں وہ ایک اِہل آدمی ہیں اور اہلِ دل بننے کی خواہش رکھتے ہیں اُنہیں شاعری کے لئے کئی ایوارڈز مل چکے ہیں نعتوں کے مجموعے ؛ قرآنِ ناطق؛ پر سیرت ایوارڈ اور غزلیات کے مجموعے ؛حرفِ شکایت؛ پر گِلڈ ایوارڈ ملا مگر اصل ایوارڈ وہ شاعری ہے جو فارانی صاحب کو ولولۂ تازہ عطا کرتی ہے یہ ایوارڈ بھی ہے کہ وہ ہر وقت شاعری کی مستی میں رہتے ہیں یہ اُن کا مشغلہ ہے اور مسئلہ بھی لگتا ہے کہ وہ پیدا ہی شاعری کے لئے ہوئے ہیں وہ اچھے شعر کہتے ہیں مگر شعر اچھا یا برا نہیں ہوتا وہ شعر ہوتا ہے۔ شاعر بھی بڑا چھوٹا نہیں ہوتا اکرم سحرؔفارانی اس تکلّف سے بے نیاز ہیں۔ میں کُچھ بھی باقاعدہ فارانی کے لئے نہیں لکھ پا رہا وہ بھی شاعری میں باقاعدہ یا بے قاعدہ ہونے میں یقین نہیں رکھتے ایک تخلیقی تسلسل ہے جو اُن کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوتا شاعری اور زندگی اُن کی ذات میں ایک ہو گئیں ہیں وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جو فنافی الشعر ہونا چاہتے ہیں جو شاعری میں فنا ہوتا ہے وہ شاعری میں ہی بقا پاتا ہے اُنہوں نے شاعری میں دانشوری کبھی نہیں بگھاری اُن کے پاس اپنی کوئی دانش ہے، اور یہ لوک دانش سے بھی مختلف ہے۔ شعر دیکھئے۔
٭
وعدہ تنہائی میں ملنے کا وفا ہو کیسے
دونوں جانب تو فرشتے ہیں گنہگار کے ساتھ
آئے کُچھ لوگ مرے دل کے مدینے میں نئے
یعنی دو چار مہاجر بھی ہیں انصار کے ساتھ
میں نے اب تک سینکڑوں فلیپ اور دیباچے لکھے ہوں گے سحرؔ فارانی کے لئے لکھتے ہوئے جتنی مشکل مجھے پیش آئی اور جتنی آسانی ہوئی وہ اُن کی شخصیّت اور شاعری دوسروں سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے ہے کسی کے ساتھ شاعری کے حوالے سے فارانی صاحب دوستی لگانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں میرے ساتھ بھی اُن کی وابستگی بڑی جلدی وارفتگی میں بدل گئی اُنہیں مل کر ہمیشہ اچھا لگتا ہے اُن کی شاعری سُن کر بھی بہت اچھا لگتا ہے میں نے کہا ہے کہ اُن کی شخصیّت اور اُن کی شاعری ایک دوسرے میں ہم آہنگ ہو کر ہم رنگ ہو گئی ہیں سحرؔ فارانی کا کلام پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سحرؔ کا پیام بھی وہی ہے جو سحر کا پیام ہے۔ آخر میں فارانی کے چند اشعار پیش کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔
٭
رفیقوں سے وفا کرنا مری فطرت میں شامل ہے
وفاؤں کا صِلہ کیا ہے یہ اُن پر چھوڑ دیتا ہوں
٭
منزلیں اُس کے قدم چوم لیا کرتی ہیں
جو مسافر بھی چلے وقت کی رفتار کے ساتھ
٭
ہم سمجھتے ہیں محبّت کا تقاضا کیا ہے
ہم محبّت کو تماشا نہیں ہونے دیتے
٭
گھر کا موسم نہ جن کو راس آئے
وہ پرندے سفر میں رہتے ہیں
ڈاکٹر محمّد اَجمل نیازی( لاہور)
٭٭٭
ایک خوشگوار تجربہ
سحرؔ فارانی سے تعارف ایک خوشگوار تجربہ ہے
اور سحرؔ فارانی کی شاعری سے تعارف خوشگوار تر تجربہ شخصیّت کا اس کے تخلیقی عمل پر اثر ایک فطری عمل ہے اور اس فطری عمل کا بہت واضع عکس اوپر بیان کردہ ہر دو تجربات سے کھُل کر دلکش انداز میں دکھائی دیتا ہے اور یوں پہلے سے ایک جانا مانا قول ایک بار پھر سچ ثابت ہوتا ہے کہ ایک اچھا فنکار ایک اچھے انسان کے اندر ہی آباد ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔
غزل کا پیرایۂ اِظہار اپنی ہمہ جہتی اوراسلوب کی رنگا رنگی کے سبب ہمیشہ سے پسندیدہ رہا ہے مضامین کی بیکرانی غزل کی سدا بہار جوانی کا بہت کافی اور شافی جواز ہے اور یہ سحرؔ فارانی جیسے شعرا کا اعجازِ ہُنر ہے کہ وہ عروسۂ غزل کی مانگ کے سیندھور کو ماند نہیں پڑنے دیتے۔
اکرم سحرؔ فارانی کی غزل کے مضامین اور موضوعات ہمارے جیتے جاگتے معاشرے کی زمینی حقیقتوں اور
ہمارے ارد گرد چلتے پھرتے سانس لیتے اور زندگی کرتے انسانوں کے روز و شب اور معمولات حیات و جذبات سے جنم لیتے ہیں مگر ان زمینی حقیقتوں اور انسانی روز و شب کے معمولات کے بیان میں اکرم سحرؔ فارانی اپنے قلم کو بے لگام نہیں ہونے دیتے۔
٭
ہم سمجھتے ہیں محبّت کا تقاضا کیا ہے
ہم محبّت کو تماشا نہیں ہونے دیتے
٭
اکرم سحرؔ فارانی کی شاعری تقاضا کرتی ہے کہ اس پر تفصیل سے لکھا جائے یہ میری اپنی خواہش بھی ہے اور میں یہ خواہش انشا اللہ،، پیامِ سحر،، کی اشاعت کے بعد ضرور پوری کروں گا فی الحال آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ سحرؔ فارانی سے تعارف ایک خوشگوار تجربہ ہے اور ان کی شاعری سے تعارف خوشگوار تر تجربہ ہے
اعزاز احمد آذرؔ
اپریل2014
٭٭٭
ایک مشّاق بدیہہ گو شاعر
اکرم سحرؔ فارانی اردو اور پنجابی کے مقبول ترین شعراء میں شمار ہوتے ہیں .ان کا فنی سفر تیس چالیس برسوں پر محیط ہے اِسی لئے ان کا اسلوبِ سُخن منفرد ہے اُنہیں شعری لوازمات پر اس قدر دسترس حاصل ہے کہ وہ جس موضوع پر جب چاہیں شعر لکھ دیتے ہیں۔ یہ ملکہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ بدیہہ گوئی میں وہ اس حد تک مشّاق ہیں کہ آنِ واحد میں شعروں کا انبار لگا دیتے ہیں طنز و مزاح بھی ان کا میدان ہے چونکہ وہ خود پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے پولیس کے بارے میں بے شمار نظمیں لکھیں جو سب کی سب سبق آموز ہیں۔ گزشتہ برس ان کے نعتیہ مجموعے، ، قُرآنِ ناطق کو سیرت ایوارڈ اور مجموعۂ غزلیات،، حرفِ شکایت کو رائٹرز گِلڈ ایوارڈبھی مل چکا ہے۔ عشقِ مصطفیٰ میں ڈوب کر نعت کہتے ہیں۔ اکرم سحرؔ فارانی کو ہر صنفِ سُخن پر عبور حاصل ہے، ، پیامِ سحر،، ان کا پانچواں مجموعۂ کلام ہے اس میں ایک سے بڑھ کر ایک غزل ہے۔ غزل میں جو روانی سحرؔ صاحب کے یہاں ہے وہ اب کم کم ہی نظر آتی ہے اسے ہم محاکاتی شاعری کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔
روشنی کے ہزار ہا پیکر
میرے دستِ ہُنر میں رہتے ہیں
٭
سہلِ ممتنع میں بھی موصوف یدِ طولیٰ رکھتے ہیں یعنی اس کتاب میں کثیر تعداد ایسے شعروں کی ہے جن کا ترجمہ ممکن نہیں۔ شعر دیکھئے۔
آیا نہ کبھی کوئی محبت کا پیامی
اُمید کی بانہوں میں گزارے ہیں زمانے
٭
محبّت عام ہوتی جا رہی ہے
برائے نام ہوتی جا رہی ہے
دیارِ آدمی میں آدمیّت
خیالِ خام ہوتی جا رہی ہے
٭
ایسے ہی شعروں نے اس مجموعہ کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ ہمہ اہلِ دانش کو ایسے شاعروں پر ناز ہے جو اکرم سحرؔ کی طرح اپنے فن کو انتہائی لگن، محنت، اور خوش اسلوبی کے رنگا رنگ پھولوں سے نوازتے ہیں اکرم سحرؔ کی اچھی شاعری کو اچھا کہنا مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ کہ اب اچھے شاعر اور اچھے انسان ناپید ہوتے جا رہے ہیں
اقبال راہی دسمبر2014
٭٭٭
حمد
تُو قادرِ مطلق ہے نہاں بھی ہے عیاں بھی
روشن ترے جلوؤں سے زمیں بھی ہے زماں بھی
ہر نفس تری قدرتِ کامل کا حوالہ
ہر نقش تری عظمت و حکمت کا نشاں بھی
تُو نے ہی لگایا ہے یہ اجسام کا میلہ
آباد کیا تُو نے ہی روحوں کا جہاں بھی
ہر سمت ضیا بار ترا نورِ ازل ہے
رخشندہ مہ و مہر بھی ہیں کاہکشاں بھی
یہ فرشِ زمیں ہو کہ سرِ عرشِ معلّیٰ
جلوے تری قدرت کے یہاں بھی ہیں وہاں بھی
ہر چیز پہ قادر ہے تری ذاتِ گرامی
دیتا ہے تُو اِنساں کو تبسّم بھی فغاں بھی
آنکھوں میں ترے نور کے تابندہ اثر سے
قرآن کا قاری ہے مرا دل بھی زباں بھی
تیرے ہی تجسّس میں دمکتے ہیں سحرؔ تک
یہ چاند ستارے بھی مرے اشکِ رواں بھی
٭٭٭
نعت
نازاں ہیں قدم آپ کے در پر جو پڑے ہیں
خوش بخت ہیں قوسین کی سرحد پہ کھڑے ہیں
اللہ کا گھر اور حسیں گُنبدِ خضرا
دھرتی کی انگوٹھی پہ نگینے سے جڑے ہیں
لاریب دو عالم میں بجز خالقِ مطلق
’’ سرکار بڑے سب سے بڑے سب سے بڑے ہیں‘‘
سرکار نے جب ایک نظر دیکھ لیا ہے
دُشمن جو تعاقب میں تھے دھرتی میں گڑے ہیں
جو ظُلم کا عُنوان تکبّر کے خدا تھے
وہ شاہ بھی سرکارﷺ کے منگتوں میں کھڑے ہیں
٭٭٭
درختوں پر کسی کا نام لکھ کر چھوڑ دیتا ہوں
نظر کو جو نہیں بھاتے وہ منظر چھوڑ دیتا ہوں
مری نظریں تو ہیں اُڑتے پرندوں کے تعاقب میں
جو میرے ہاتھ آتے ہیں کبوتر چھوڑ دیتا ہوں
ہوائیں جب سناتی ہیں ترے آنے کی خوشخبری
ضروری کام بھی اکثر میں کل پر چھوڑ دیتا ہوں
رفیقوں سے وفا کرنا مری فطرت میں شامل ہے
وفاؤں کا صِلہ کیا ہے یہ اُن پر چھوڑ دیتا ہوں
کبھی آنکھوں سے پیتا ہوں کبھی دستِ حِنائی سے
جو مینا ہاتھ لگ جائے تو ساغر چھوڑ دیتا ہوں
مناظر حُسنِ فطرت کے کبھی جو مضمحل دیکھوں
تو کاغذ کی نئی تتلی بنا کر چھوڑ دیتا ہوں
دُعائیں مانگتا ہوں جس کو پانے کی میں رو رو کر
وہ میری دسترس میں ہو تو ہنس کر چھوڑ دیتا ہوں
کسی کی یاد مجھ کو رات بھر سونے نہیں دیتی
سحرؔ جب نیند آتی ہے تو بستر چھوڑ دیتا ہوں
٭٭٭
ناؤ طوفاں میں ہے ٹوٹے ہوئے پتوار کے ساتھ
دشمنی بھی ہے اَزل سے مری منجدھار کے ساتھ
راہِ منزل میں مرا عزم اکیلا تو نہیں
راستہ بھی ہے سفر میں مرے رہوار کے ساتھ
منزلیں اُس کے قدم چوم لیا کرتی ہیں
جو مسافر بھی چلے وقت کی رفتار کے ساتھ
آگ برسی تو پرندوں کے ٹھکانے بھی گئے
جل بُجھے گھونسلے جلتے ہوئے اشجار کے ساتھ
بیج نفرت کے کہاں باغ میں بوتا ہے کوئی
جھاڑیاں خود ہی اُگا کرتی ہیں اشجار کے ساتھ
شاہی دربار جو پہنچے وہ زباں بیچ گئے
کون پہنچا ہے وہاں جرأتِ اِظہار کے ساتھ
وقت کے شمر سے کہہ دو کہ خبردار رہے
جھُک نہیں سکتا یہ سر جائے گا دستار کے ساتھ
وعدہ تنہائی میں ملنے کا وفا ہو کیسے
دونوں جانب تو فرشتے ہیں گنہگار کے ساتھ
پوچھ کر حال سبھی دوست چلے جاتے ہیں
رات بھر کوئی نہیں جاگتا بیمار کے ساتھ
آئے کچھ دوست مرے دل کے مدینے میں نئے
یعنی دو چار مہاجر بھی ہیں انصار کے ساتھ
جان بھی ٹیکس میں دے دوں گا میں ہاروں گا نہیں
میں نے یہ شرط لگا رکھی ہے سرکار کے ساتھ
لوگ سمجھے مرے کمرے میں ہے موجود کوئی
میں نے تصویر لگا رکھی تھی دیوار کے ساتھ
یوں نبھائی ہے سحرؔ رسمِ وفا گُلشن میں
پھول جس طرح نبھاتا ہے کسی خار کے ساتھ
٭٭٭
ہونٹوں پر مسکان الگ ہے آنکھ میں تیر کمان الگ
جینے کا اَرمان الگ ہے مرنے کا سامان الگ
شوخ نظر کی ایک نظر نے نیند چرا لی آنکھوں سے
اور کیا ہے دل میں برپا ایک نیا طوفان الگ
جانِ جاں کے رہنے کو ہے جسم و جاں کی بِلڈنگ میں
دل کی ایک الگ حویلی آنکھوں کے دالان الگ
جوئے شیر نکالیں گے ہم تیشے کے محتاج نہیں
شیریں تیرے دیوانوں میں اپنی ہے پہچان الگ
دل میں ہم نے ساری چیزیں رکھیں خوب قرینے سے
حسرت اور اُمید الگ ہیں اور مرے اَرمان الگ
درد و غم اور آنسو آہیں سب تیری سوغاتیں ہیں
ہم نے دل کے اک کونے میں رکھا یہ سامان الگ
تُم سے دور ہوا تو جاناں مجھکو یہ احساس ہوا
یہ جینا بھی کیا جینا ہے، جسم الگ ہے، جان الگ
بجلی بن کر دل پہ گری اِک شعلہ بدن کی انگڑائی
دل میں آگ الگ بھڑکی ہے آنکھوں کا نقصان الگ
بچّے بھوکے بِلک رہے ہیں ماں کو نیند نہیں آتی
نیند سے خالی آنکھوں میں ہے خوابوں کا فقدان الگ
اشک چھِڑک کرتا زہ رکھا پھولوں جیسے زخموں کو
اور سحرؔ نے قصرِ جاں میں رکھا یہ گُلدان الگ
٭٭٭
سوچ رہا ہوں
پارک میں وہ اِک بنچ پر بیٹھی
گُم سُم گُم سُم تنہا لڑکی
جانے کیا کیا سوچ رہی ہے
کِس کا رستہ دیکھ رہی ہے
کس کے آنسو
اُس کی آنکھوں سے بہتے ہیں
کیا کہتے ہیں
سوچ رہا ہوں
مُجھ کو دیکھ کے چونکی ہے وہ
آنسو پونچھ کے ہس دی ہے وہ
جیسے اُس نے منزل پالی
جیسے من کا چور ملا ہو
جِس نے اُس کے اَرماں لوٹے
کیا وہ میں ہوں
یا وہ مجھ سا اور ہے کوئی
سوچ رہا ہوں
٭٭٭
دل جلانے لگے آلام خدا خیر کرے
شب کی تنہائی کا انجام خدا خیر کرے
آج پھر شہرِ محبت میں اُجالوں کا نقیب
یاد آیا ہے سرِ شام خدا خیر کرے
جن کی دیتے تھے صفائی یہ جہاں کے منصف
اب ہیں وہ موردِ اِلزام خدا خیر کرے
دام لگتے ہیں ضمیروں کے ضرورت کے تحت
جسم بکتے ہیں سرِ عام خدا خیر کرے
اب درِ غیر پہ خود دار کا سر جھُکتا ہے
کعبۂ دل میں ہیں اَصنام خدا خیر کرے
دل میں ہونے لگی پھر یورشِ پیکانِ ستم
مچ گیا شہر میں کہرام خدا خیر کرے
جو مرا نام بھی سننے سے گریزاں تھے سحرؔ
اُن کا نامہ ہے مرے نام خدا خیر کرے
٭٭٭
عشق جب آہ بھرے سوختہ سامانی میں
آگ لگ جاتی ہے رسموں کے رواں پانی میں
جوش میں ہوش کا میں اس لئے رکھتا ہوں خیال
عقل بہہ جائے نہ جذبات کی طغیانی میں
کِتنا مشکل ہے جدائی کی اذّیت سہنا
خود کشی کرنے لگے خواب پریشانی میں
کون آتا ہے حفاظت کی ضمانت دینے
جب کوئی گھر ہو لُٹیروں کی نگہبانی میں
اہلِ منصب سے تغافل کا گلہ کیسے کروں
وہ تو مصروف ہیں آقاؤں کی دربانی میں
اب ہیں جنگل کے مناظر مرے گلشن میں سحرؔ
بھیڑئیے پھرنے لگے خلعتِ اِنسانی میں
٭٭٭
رُخ گلابی نقاب سادہ ہے
آگ پر موم کا لبادہ ہے
آج کہنے دو دل کی بات مجھے
یہ ملاقات حسبِ وعدہ ہے
دل بھی حاضر ہے جان بھی حاضر
کچھ تو کہئیے کہ کیا اِرادہ ہے
مختصر ہیں حیات کے لمحے
کارِ دنیا بہت زیادہ ہے
ہر قدم پر ہے اِک نیا راون
غیر محفوظ حُسنِ رادھا ہے
رات دن منزلوں کی سمت بڑھو
دامنِ جُستجو کشادہ ہے
تو پیمبر ہے روشنی کا سحرؔ
تیرا دل سورجوں کا جادہ ہے
٭٭٭
یہ نہ سوچیں گے ہمیں اِس میں خسارہ کیا ہے
جو بھی روٹھے گا منا لیں گے ہمارا کیا ہے
جو سمجھ پائے نہ خاموش محبّت کی زباں
کیا خبر اُن کو کہ لمحوں کا اشارہ کیا ہے
ہر وکیل اُن کا، گواہ اُن کے حکومت اُن کی
میرے منصف تری محفل میں ہمارا کیا ہے
بندگی کی ہے اگر مار کے بندوں کے حقوق
بوجھ تو سر پہ رہا تُو نے اُتارا کیا ہے
ڈھونڈتا ہے وہ بچانے کے بہانے ورنہ
ڈوبتے شخص کو تنکے کا سہارا کیا ہے
چارہ گر یہ تو بتا ماں کی دعا سے بڑھ کر
مرہمِ زخم ہے کیا درد کا چارہ کیا ہے
خوابِ غفلت سے میں غافل کو جگاؤں کیسے
وہ بھی کہہ دے گا کہ حق مجھ پہ تمہارا کیا ہے
تیری قسمت میں جدائی تھی جدائی ہی رہی
ان کی بستی میں سحرؔ آ کے سنوارا کیا ہے
دل لگی کی ہے کسی سے نہ شرارت کی ہے
چاند کو چاند کہا شرحِ رفاقت کی ہے
تیری دہلیز کو چوما ہے بصد عجز و نیاز
میری نظروں نے نئے ڈھب سے عبادت کی ہے
مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں زمانے والے
عشق نے جب سے رگ و پے میں سرایت کی ہے
اِک محبّت کے سوا اس میں بچا کچھ بھی نہیں
تُو نے برپا میرے دل میں وہ قیامت کی ہے
مجھ سے اس بات پہ برہم ہیں زمانے والے
میں نے اظہارِ محبّت کی جسارت کی ہے
دُنیا والوں کی نگاہوں میں گنہگار ہوں میں
میں نے نفرت کے سفیروں سے محبّت کی ہے
ہم نے ہر زندہ روایت کا بھرم رکھا ہے
کُہنہ فرسودہ اصولوں سے بغاوت کی ہے
تشنہ حرفوں کو پلاتے رہے سوچوں کا لہو
عمر بھر ہم نے رہِ فن میں ریاضت کی ہے
ہم سے لرزاں نہ کس طرح اندھیروں کا وجود
ہم نے ظُلمت میں اُجالوں کی قیادت کی ہے
آرزو کیوں نہ سحرؔتاب اُجالے پہنے
آنکھ نے ماہِ درخشاں کی زیارت کی ہے
٭٭٭
بیتے لمحوں کو صدا دوں یہ ضروری تو نہیں
خود کو جینے کی سزا دوں یہ ضروری تو نہیں
گھر میں حُسنِ جُستجو کے قُمقُمے روشن کئے
دل لگی میں گھر جلا دوں یہ ضروری تو نہیں
میں نظر اَنداز کر کے بے وفا کی ہر خطا
اُس کو جینے کی دعا دوں یہ ضروری تو نہیں
اُس کا ہر اک مسئلہ ہے اَب ہمارا مسئلہ
حالِ دل سب کو سنا دوں یہ ضروری تو نہیں
دل کے بُلبل کو نیا رستہ دکھانے کے لئے
جُگنو پلکوں پر بٹھا دوں یہ ضروری تو نہیں
یاد کا پنچھی ہے اب اس دل کے پنجرے میں اسیر
آگ پنجے کو لگا دوں یہ ضروری تو نہیں
جانتا ہوں غم ہی غم ہیں راہِ اُلفت میں سحرؔ
غم کو اشکوں میں بہا دوں یہ ضروری تو نہیں
٭٭٭
دسمبر
وہی دسمبر کی سرد راتیں
وہی جوانی کے گرم جذبے
مگر ہیں راتیں اداس میری
گزشتہ برسوں کی طرح پہلو میں اب وہ شعلہ بدن نہیں ہے
جو چودھویں شب کا چاند بن کر
مری حریمِ وفا میں اُترے
میں اُس کی کرنیں بدن پہ اوڑھوں
وہ میری سوچوں کو جگمگا دے
مجھے محبّت کا ڈھنگ سکھا دے
گزشتہ برسوں کی طرح پہلو میں اب وہ شعلہ بدن نہیں ہے
جو میرے دل کو نہال کر دے
مری وفا کا جواب بن کر
مجھے سراپا سوال کر دے
میں رہگزر میں اُداس بیٹھا
اداس لمحوں سے پوچھتا ہوں
کہ یہ دسمبر کی سرد راتیں
کٹیں گی کیسے
گزشتہ برسوں کی طرح پہلو میں اب وہ شعلہ بدن نہیں ہے
٭٭٭
آ رہا ہے کوئی ہاتھوں میں کلیجہ تھام کر
چند لمحوں کیلئے اَے وقت کے دھارے ٹھہر
تیری گلیاں چھوڑ کر یہ جائیں تو جائیں کہاں
تیرے دیوانوں کا مسکن کوئی جنگل ہے نہ گھر
اے دیارِ حسن تیرے آبلۂ پاؤں کی خیر
منزلوں کی رہگزر میں عشق ہے زادِ سفر
بے حسی کی لہر میں جب بہہ گئے فکر و عمل
کشتیِ دل کو ڈبونے کیلئے آئے بھنور
یہ محبت کے مسیحا کی نظر کا فیض ہے
دِل کی سوکھی ٹہنیوں پر آ گئے برگ و ثمر
میری سانسوں میں بسا ہے عشق خوشبو کی طرح
اے بہارِ حُسن تو بھی میری رگ رگ میں اُتر
میں بھی تیری جستجو میں جاگتا ہوں رات بھر
اے عروسِ زندگی میرے لئے بھی بن سنور
اب بھٹکتی پھر رہی ہے آرزو ظلمات میں
اب شبستاں میں کہیں ملتا نہیں نورِ سحرؔ
٭٭٭
بُرقعے کی آبرو ہے نہ چادر کا احترام
نظروں کا راستوں میں ہے گستاخ اژدہام
ہر چوک میں ہے موت کا میلہ لگا ہوا
راہوں میں خوفناک دھماکے ہیں گام گام
امن وسکوں کو ڈھونڈتا پھرتا ہے آدمی
’’ جینا یہاں عذاب ہے مرنا یہاں حرام‘‘
ملتے ہیں کالجوں میں بھی دیمک لگے بدن
مرتے ہیں نشہّ پی کے جوانی میں لالہ فام
دامانِ شب سے کب سحرؔ پھوٹے گی روشنی
کب تک ہمارے چار سُو ظلمت کا ہے خرام
٭٭٭
صبحِ اُمید کو خفا کر کے
’’ رات کاٹی خدا خدا کر کے ‘‘
وہ جو خود کو خدا سمجھتے ہیں
آؤ دیکھیں ذرا دعا کر کے
یہ گدائی بھی زہر ہے شاید
مر گئی روح اِلتجا کر کے
کوئی کھولے نہ کھولے دروازہ
ہم چلے جائیں گے صدا کر کے
حسنِ مشرق بھی ہو گیا رُسوا
خود کو محفل میں بے رِدا کر کے
تم بھی وحشت کی اِبتدا کر دو
سنگ باری کی اِنتہا کر کے
غم کے جنگل میں کھو گیا ہوں سحرؔ
بے ضمیروں کو رہنما کر کے
٭٭٭
مقدر خامۂ حکمت سے جو تحریر کر لیں گے
وہ صحرا میں بھی خوشبوؤں کے گھر تعمیر کر لیں گے
اگر تاریکیاں ڈسنے لگیں صبحِ تمنّا کو
مسخّر آفتابِ وقت کی تنویر کر لیں گے
خزاں نے آگ برسائی اگر سوچوں کے گلشن پر
نیا گلشن بہارِ عزم کا تعمیر کر لیں گے
جو طُولِ سجدہ کی قسمت میں ہے جلووں کی تابانی
تو ہم سجدے سے اُٹھنے میں ذرا تاخیر کر لیں گے
اگر اِس غم کدے میں دل کو تنہائی نہ راس آئی
مزیّن دل کے شیشے میں تری تصویر کر لیں گے
ابھی تو درد پالا ہے کسی کے ہجر کا دل میں
مداوے کے لئے اس درد کی تشہیر کر لیں گے
نظر آزاد تتلی تھی گلابی رُخ پہ جا بیٹھی
خبر کیا تھی اُسے وہ زُلف کو زنجیر کر لیں گے
مری دستک پہ اُن کے دل کا دروازہ نہیں کھلتا
سحرؔ یہ مرحلہ بھی ایک دن تسخیر کر لیں گے
٭٭٭
چہرہ مرے محبوب کا منظر میں نہیں ہے
یا تابِِ جمال آنکھ کے پتھر میں نہیں ہے
جس سے ہو مری تشنۂ تمنّا کا مداوا
وہ بوند زمانے کے سمندر میں نہیں ہے
دیتی تھی پرندوں کو جو معراجِ حقیقت
وہ جُرأتِ پرواز نئے پر میں نہیں ہے
جذبے ہیں دکھاوے کے صدائیں ہیں غرض کی
تقدیسِ کرامات قلندر میں نہیں ہے
اب صبر بھی ہے، بھوک بھی، افلاس بھی غم بھی
ہر چیز ہے کیا چیز مرے گھر میں نہیں ہے
اب میتِ نادار پہ روتا نہیں کوئی
کیا اَشک سحرؔ آنکھ کے محور میں نہیں ہے
٭٭٭
گلستاں کے خواب کی تعبیر کے قبضے میں ہوں
صَر صرِ حالات کی زنجیر کے قبضے میں ہوں
لوحِ دل پر کر رہا ہوں آرزوؤں کو رقم
میں نگاہِ ناز کی تاثیر کے قبضے میں ہوں
لمحہ لمحہ میرا دشمن لحظہ لحظہ ہے خلاف
میں غم و اَندوہ کی تعزیر کے قبضے میں ہوں
کس طرح پرچم بلندی پر اُڑے تقدیر کا
دُشمنِ توقیر کی تدبیر کے قبضے میں ہوں
اب نئی تدبیر کوئی کارگر ہوتی نہیں
خود لکھی ہے جو اُسی تقدیر کے قبضے میں ہوں
میری خود داری کا سورج چھپ نہیں سکتا کبھی
کون کہتا ہے کہ میں تحقیر کے قبضے میں ہوں
خُون بہتا دیکھتا ہوں اپنی غیرت کا سحرؔ
وارثانِ وقت کی شمشیر کے قبضے میں ہوں
٭٭٭
آدمیّت نیم جاں ہے آدمی مجروحِ غم
زندگی کے مضطرب احساس کی پلکیں ہیں نم
جِن کی نظروں کو ابھی تک ذات کا عرفاں نہیں
کعبۂ ٔ دل میں لئے پھرتے ہیں پتھر کے صنم
فائزِ منزل ہو کیسے رہرووں کی جستجو
گُمرہی جکڑے ہوئے ہے دیدۂ و دل کے قد م
امن کے انوار برسائیں زمیں پر کس طرح
رات انجم کر رہے تھے مشورہ مل کر بہم
خونِ دل بونا پڑے گا نئی بہاروں کے لئے
خُشک صحراؤں میں ایسے تو نہیں اُگتے اِرم
جب فصیلِ کُفر آئی کارواں کی راہ میں
توڑ ڈالیں گے سحرؔ ایمان کے پیشے سے ہم
٭٭٭
ظُلم ڈھاتے ہیں تو چرچا نہیں ہونے دیتے
ایسے ظالم ہیں وہ ایسا نہیں ہونے دیتے
تھام رکھا ہے مرے عزمِ جواں نے مجھ کو
میرے جذبے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
ہم سمجھتے ہیں محبّت کا تقاضا کیا ہے
ہم محبّت کو تماشا نہیں ہونے دیتے
میرے ہمراز جنہیں میں نے مسیحا سمجھا
دِل کے زخموں کا مداوا نہیں ہونے دیتے
کوئی کس طرح اُٹھائے کسی لاچار کا بوجھ
غم ہی اتنے ہیں کہ سیدھا نہیں ہونے دیتے
ہم نوا اُن کا مرا دل بھی ہے اِک مدّت سے
وہ مرے دل کو بھی میرا نہیں ہونے دیتے
سوداگر ہے وہ ضمیروں کا اُسے کہہ دینا
ہم ہیں خود دار یہ سودا نہیں ہونے دیتے
ایک چہرہ جو سحرؔ سوچ کے وِجدان میں ہے
اُس کے جلوے مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے
٭٭٭
عمر بھر کی ہے وفا اور ملا کچھ بھی نہیں
میرے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
اُن کی اِک جنبشِ اَبرو پہ زمانہ اُن کا
میری برسوں کی رفاقت کا صلہ کچھ بھی نہیں
جس ستم گر نے جلایا ہے مرے دل کا نگر
مطمئن یوں ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں
راستہ عزم کا رُکتا نہیں طوفانوں سے
عشق سچا ہو تو پھر موجِ بلا کچھ بھی نہیں
جبر سے کون بدل سکتا ہے عورت کا چلن
آنکھ میں گر نہ حیا ہو تو رِدا کچھ بھی نہیں
داستاں کہہ دی ہے مظلوم کی خاموشی نے
جبر کے سائے میں گو اُس نے کہا کچھ بھی نہیں
وہ جفا کار ہے رہتا ہے جفاؤں میں مگن
اُس کے نزدیک سحرؔ مہر و وفا کچھ بھی نہیں
٭٭٭
جانتا تھا زخم دِل کے دیکھنے والے نہیں
اِس لئے گلدان میں یہ پھول سنبھالے نہیں
تیری صورت ہر گھڑی چشمِ تصوّر میں رہی
میں نے تنہائی کے لمحے ہجر میں ڈھالے نہیں
پڑھ رہا ہوں وقت کے ماتھے کی ہر تحریر کو
میری آنکھوں میں ہوس کے بدنما جالے نہیں
لَو مرے اَفکار کی اب دودھیا بالوں میں ہے
یہ ہیں کرنیں آگہی کی برف کے گالے نہیں
ظُلمتِ کِبر و ریا میں ذوقِ منزل کھو گیا
اب چراغِ راہِ منزل پاؤں کے چھالے نہیں
اے امیرِ شہر تیرے ہمنواؤں کے سِوا
کون ہے جس کے لبوں پر جبر کے تالے نہیں
بِن ترے وہ خوش رہے گاکِس طرح جانِ سحرؔ
جس نے تجھ سے لا تعلق غم کبھی پالے نہیں
٭٭٭
تصویر اُس کی گھر سے ہٹانے کے باوجود
بھولا نہیں وہ شخص بھلانے کے باوجود
مہندی سے جو لکھا تھا ہتھیلی پہ ایک دن
وہ نام مِٹ سکا نہ مٹانے کے باوجود
رہتے ہیں میری تاک میں پتھر بدست لوگ
دیوانہ ہوں میں ہوش میں آنے کے باوجود
دستار جو گری تھی اُٹھائی نہ جا سکی
سر کو کسی کے دَر سے اُٹھانے کے باوجود
تیرہ شبی میں دل ہی جلانا پڑا ہمیں
اے شمع تیرے ناز اُٹھانے کے باوجود
دی ہے اذانِ عشق جہانِ حیات میں
جاگا نہیں نصیب جگانے کے باوجود
جس کے لئے کیا تھا سحرؔ آگ پر سفر
وہ اجنبی ہے دل میں سمانے کے باوجود
٭٭٭
بنا اُمید کا پودا شجر آہستہ آہستہ
لگیں گے اس کی شاخوں پَر ثمر آہستہ آہستہ
دریچے رفتہ رفتہ کھلتے ہیں قصرِ نگاراں کے
اے دل تو اُن کی گلیوں سے گزر آہستہ آہستہ
صدف کے دل میں جو سہتا ہے چوٹیں موجِ طوفاں کی
وہ قطرہ بن ہی جاتا ہے گُہر آہستہ آہستہ
گئی تِحتُ الثریٰ سے کہکشاں کے آبگینوں تک
نظر نے کر لیا کتنا سفر آہستہ آہستہ
ابھی ہم نے ستاروں کا جہاں تسخیر کرنا ہے
بسانے ہیں خلا میں بھی نگر آہستہ آہستہ
عقابِ جستجو ہر ایک سیّارے پہ اُترے گا
ملیں گے اُس کو ایسے پر مگر آہستہ آہستہ
لہُو سے آبیاری کی تو یہ عُقدہ کھلا مجھ پر
لگا کرتے ہیں شاخوں پر ثمر آہستہ آہستہ
چراغِ دل جلاؤں گا نویدِ صبح آنے تک
شبِ غم کٹ ہی جائے گی سحرؔ آہستہ آہستہ
٭٭٭
ملّت کے گیسوؤں کو سنوارا نہیں گیا
یہ زندگی کا قرض اُتارا نہیں گیا
اُٹھتی رہیں جفاؤں کی گُستاخ آندھیاں
دِل سے مرے وہ جان سے پیارا نہیں گیا
دامن میں چھپ گئی مرے اشکوں کی کہکشاں
فرشِ زمیں پہ ایک بھی تارہ نہیں گیا
اُس کو تو اِنتظار رہا عمر بھر مگر
کشتی کے پاس چل کے کنارہ نہیں گیا
جس نے حقیر جان کے ٹھکرا دیا سحرؔ
میں اُس کی انجمن میں دو بارا نہیں گیا
٭٭٭
میری آنکھوں میں مرے دل میں سمانے والے
یاد کر میری وفا دِل سے بھلانے والے
بند رکھتا ہوں اِسی ڈر سے سبھی دروازے
تیری تصویر چرا لیں نہ زمانے والے
پھر کوئی وعدہ تو کر رسمِ تغافل ہی سہی
کر کے ہر روز نیا وعدہ نہ آنے والے
ڈھل گیا جب ترا جوبن تو نہیں آئیں گے
لوگ آنکھیں تری راہوں میں بچھانے والے
تجھ کو مرقدمیں اُتاریں گے چلے جائیں گے
چھوڑ کر تجھ کو ترے ناز اُٹھانے والے
دل کی دھڑکن سے مجھے کیسے نکالیں گے سحرؔ
اب مرا نام کلائی سے مٹانے والے
٭٭٭
درد کو میری مسیحائی کا حاصل سمجھے
کاش وہ شخص مجھے پیار کے قابل سمجھے
ہم تو دیوانے ہیں دیوانوں سے شکوہ کیسا
موجِ وحشت کو بھی ہم لوگ تو ساحل سمجھے
کوئی ہم سا بھی کہاں سادہ طبیعت ہو گا
جو ترے ظلم کو بھی طرزِ تغافل سمجھے
درد جو راہِ محبت میں زمانے سے ملا
تیرے دیوانے اُسے راحتِ منزل سمجھے
تیغِ اَبرو بھی اُٹھی تیر بھی نظروں کے چلے
نیم جاں پھر بھی نہیں نیّتِ قاتل سمجھے
تا سحرؔ کم نہ ہوا یاد کی پریوں کا ہجوم
شب کی تنہائی کو بھی ہم تری محفل سمجھے
٭٭٭
ڈھونڈنے دُنیا نئی اہلِ نظر جائیں گے
ہفت افلاک پہ بسنے یہ بشر جائیں گے
حق پرستوں نے اگر رختِ سفر باندھ لیا
رہبری کیلئے اَلیاس و خضر جائیں گے
عشق نے جن کو سکھائے ہیں محبت کے اصول
تیری گلیوں سے وہ چپ چاپ گزر جائیں گے
تیری نم آنکھوں کا موسم نہ اگر راس آیا
ہم ترے دل کے سمندر میں اُتر جائیں گے
دِل تو گلدان ہے شیشے کا نہ کھیلو اِس سے
دل جو ٹوٹے گا تو اَرمان بکھر جائیں گے
کاش نفرت کی کڑی دھُوپ نہ اُترے گھر میں
ہم تو شاعر ہیں تمازت سے ہی مر جائیں گے
دِل جو ٹوٹا ہے سحرؔ دل کی کوئی بات نہیں
سوچنا یہ ہے مکین اس کے کدھر جائیں گے
٭٭٭
جب وہ چپکے سے پاس آ بیٹھے
ہم بھی شکوے گِلے بھلا بیٹھے
ایک ہی شاخ پر ٹھکانہ تھا
پھول کانٹوں سے دل لگا بیٹھے
ہر قدم پر ملا نیا قاتل
سر بچایا تو دل گنوا بیٹھے
میرے دل کی بریدہ شاخوں پر
کچھ پرندے ہیں بے صدا بیٹھے
کھول رکھا ہے دل کا دروازہ
جو بھی آئے وہ برملا بیٹھے
کب سے دوشِ ہوا پہ رکھا تھا
ہم خودی کا دِیا بجھا بیٹھے
تیری چوکھٹ پہ حاجتیں لے کر
ہم نے دیکھے کئی خدا بیٹھے
رات آنکھوں میں کاٹتے ہیں سحرؔ
چاند، تارے جدا جدا بیٹھے
٭٭٭
وہ جو مٹی کے گھر میں رہتے ہیں
میرے دل کے نگر میں رہتے ہیں
گھر کا موسم نہ جن کو راس آئے
وہ پرندے سفر میں رہتے ہیں
جسم پتوں سے ڈھانپنے والے
اب مریخ و قمر میں رہتے ہیں
روشنی کے ہزار ہا پیکر
میرے دستِ ہنر میں رہتے ہیں
دل سے کیسے جدا کریں اُن کو
جاں سے پیارے نظر میں رہتے ہیں
اب تو برق و شرر کے ہنگامے
تیری ترچھی نظر میں رہتے ہیں
اوڑھ لیتے ہیں چاندنی کی رِدا
ہم جمالِ سحرؔ میں رہتے ہیں
٭٭٭
دیکھا جو کوئی چاندسا چہرہ نقاب میں
ہلچل سی مچ گئی دلِ خانہ خراب میں
ہم تم ملے تو سامنے شکوے ہزار تھے
اُلجھی رہی نگاہ سوال و جواب میں
جس پر گماں ہوا ترے عہدِ شباب کا
وہ پھول میں نے رکھ لیا دل کی کتاب میں
صورت نظر کے سامنے رہتی ہے رات دن
دیکھا تھا چشمِ شوق نے جس کو حجاب میں
جرم وفا کی مجھ کو یہ اَپنوں نے دی سزا
غیروں کے جرم لکھ دئیے میرے حساب میں
پیغام دے رہی ہے سحرؔ کے ظہور کا
اِک روشنی سی ہے جوسیلِ اِنقلاب میں
٭٭٭
غم کے بادل چھٹے نہیں ہیں ابھی
گھپ اَندھیرے گھٹے نہیں ہیں ابھی
یہ بہاریں ابھی اَدھوری ہیں
دن خزاں کے کٹے نہیں ہیں ابھی
آؤ دستار کو سنبھالا دیں
سر جھکے ہیں کٹے نہیں ہیں ابھی
کم نہیں ہم کسی بھی دشمن سے
ہاں ! مقابل ڈٹے نہیں ہیں ابھی
ہاتھ میں مصلحت کے ہوں گے سحرؔ
جو گریباں پھٹے نہیں ہیں ابھی
٭٭٭
میری تنہائی میں آ کر اِسے محفل کر دے
میں اَدھورا ہوں مجھے جلد مکمل کر دے
میرے جذبوں کو عطا کر کے تکلّم کی ضیا
اپنی چاہت کو مری زیست کا حاصل کر دے
میری سانسوں میں تری یاد ہے خوشبو کی طرح
اس کو دھڑکن کی صداؤں میں بھی شامل کر دے
ہو سکوں میں بھی مسرت کے سفینے میں سوار
غم کے بپھرے ہوئے طوفان کو ساحل کر دے
ایسی محفل میں نہ ٹھہروں گا چلا جاؤں گا
تیری یادوں سے مرے دل کو جو غافل کر دے
دور ہو جائے مرے شہر سے ظلمت کا فسوں
میری ہر سوچ کو تو جادۂ منزل کر دے
ایسی وحشت ہے سحرؔ عشق میں عرفاں کی نوید
سنگ باری پہ جو اَحباب کو مائل کر دے
٭٭٭
ہیں بانہیں نیم جاں پتوار والی
بچا لو کشتیاں منجدھار والی
درِ اغیار پر سر جھُک رہے ہیں
لُٹا کر عظمتیں دَستار والی
ترا بندہ ہوں کُن کا راز داں ہوں
خبر رکھتا ہوں میں اُس پار والی
شعورِ ذات سے سُلجھا رہا ہوں
ہزاروں گُتھیاں اَسرار والی
مصائب نے مرے عزمِ جواں کو
جسامت بخش دی کُہسار والی
مُجھے نفرت سے نفرت ہو گئی ہے
کوئی صورت نکالو پیار والی
پڑا ہوں دم بخود کُنجِ قفس میں
جلا کر مشعلیں اَفکار والی
وہی دیدار کی حسرت پرانی
وہی تصویر ہے دیوار والی
مشامِ جاں میں خوشبو ہے وہ لڑکی
گُلابوں سے لب و رخسار والی
نظر کے تیر میں شوخی بلا کی
اَدا ابرو میں ہے تلوار والی
دلوں میں کر گئی طوفان برپا
ہواؤں سی سُبک رفتار والی
جوانی میں سراپا بولتا ہے
زباں چُپ ہو اگر اِظہار والی
پلا کر زہر دیتا ہے دلاسے
سحرؔ حد ہو گئی غمخوار والی
٭٭٭
کارواں کے بعد گردِ کارواں رہ جائے گی
ہم نہیں ہوں گے ہماری داستاں رہ جائے گی
خاک ہو جائے گا یہ خاکی کھلونا ایک دن
اور باقی یہ کھلونوں کی دکاں رہ جائے گی
ڈھل گیا سورج تو اِس کے ضو فشاں لمحوں کی یاد
رات کے دامن پہ مثلِ کہکشاں رہ جائے گی
راکھ ہو جائیں گے یہ دُنیا کے سارے سِلسلے
اور باقی اک صدائے کُن فکاں رہ جائے گی
ختم کر دے گی ہمارا اعتمادِ باہمی
جو غلط فہمی ہمارے درمیاں رہ جائے گی
جس کی بانہیں غم کی رُت میں ہیں مری جائے اماں
بعد میرے وہ محبّت بے اماں رہ جائے گی
مُنقطع ہو جائے گا یہ دھڑکنوں کا سلسلہ
گُفتگو کُچھ دوستوں کے درمیاں رہ جائے گی
جب زباں خاموش ہو جائے گی سب کے روبرو
خامشی اکرم سحرؔ کی ترجماں رہ جائے گی
٭٭٭
تُو نے جو بھی مرے خلاف کیا
جا مُحبّت تجھے معاف کیا
ہم تو آنکھیں بچھائے بیٹھے تھے
تُو نے وعدوں سے اِنحراف کیا
دل نے کعبہ سمجھ کے چوما تھا
جب نظر نے ترا طواف کیا
ہم نے ماحول کے صحیفے پر
تیری تقدیس کو غلاف کیا
دل جلوں نے ٹھٹھرتی را توں میں
تُجھ کو اوڑھا تُجھے لحاف کیا
خوبصورت ہے یہ جہاں تُجھ سے
سارے عالم نے اعتراف کیا
دِل کا شیشہ سحرؔ مُکدّر تھا
ہم نے پلکیں بھگو کے صاف کیا
٭٭٭
مسرّت کے آنسو زیارت سے پہلے
نظر با وضو ہے عبادت سے پہلے
یہ قامت یہ پیکر یہ قاتل نگاہیں
قیامت کا ساماں قیامت سے پہلے
ملا ایک ہلکے تبسّم کی صورت
محبّت کا ٹوکن محبّت سے پہلے
محبّت اُتاری گئی اِس جہاں میں
شریعت سے پہلے طریقت سے پہلے
جو خوابوں میں آئے وہ تعبیر بن کر
ملی مجھ کو منزل مسافت سے پہلے
کروں کیسے شکوہ تری بے رُخی کا
میں واقف تھا تیری طبیعت سے پہلے
سحرؔ تیری نسبت سے اب نامور ہے
تھا بے نام تیری رفاقت سے پہلے
٭٭٭
روٹھ جانے پہ منایا تو برا مان گئے
جن کو پلکوں پہ بٹھایا وہ برا مان گئے
اُن کو وعدے پہ نہ آنا تھا نہ آئے قصداً
یاد جب ہم نے دلایا تو برا مان گئے
میں نے جھانکا تھا فقط ایک نظر آنکھوں میں
دل کو پہلو میں نہ پایا تو برا مان گئے
اُن کی تصویر سجا کر سبھی دیواروں پر
خستہ گھر ہم نے سجایا تو برا مان گئے
حُسن کی شوخ اداؤں پہ جو نازاں تھے سحرؔ
آئنہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے
٭٭٭
ہر شخص لگ رہا ہے یہاں اجنبی مجھے
لے آئی ہے کہاں یہ میری سادگی مجھے
یوں کٹ رہے ہیں مرحلے فانی حیات کے
میں زندگی کو ڈھونڈتا ہوں زندگی مجھے
میں غم کے سِلسلے میں بڑا خود کفیل ہوں
خیرات میں ملی خوشی جو بھی ملی مجھے
جو میرے جسمِ زار میں ہے روح کی طرح
ڈر ہے کہ مار دے نہ اس کی بے رُخی مجھے
اعزاز یہ مرا کسی زاہد سے کم نہیں
تیرے حضور لائی میری کافری مجھے
پلکوں پہ اشک ہیں سحرؔ ہونٹوں پہ ہے فُغاں
سوغات دے گئی یہ تیری عاشقی مجھے
٭٭٭
کام گر ناکام ہو کر رہ گئے
نامور بدنام ہو کر رہ گئے
ہم بھی تھے انمول تیرے شہر میں
بندۂ بے دام ہو کر رہ گئے
ذکر تیرا داستاں دَر داستاں
اور ہم بے نام ہو کر رہ گئے
جو بھی دانے پر گرے ہیں وہ پرند
سب اسیرِ دام ہو کر رہ گئے
جھُک گئے جب حُسن کی دہلیز پر
عشق میں ناکام ہو کر رہ گئے
جو خیالِ خام میں اُلجھے رہے
وہ خیالِ خام ہو کر رہ گئے
اُٹھ گیا روئے حیا سے جب نقاب
خاص چہرے عام ہو کر رہ گئے
ہم خوشی کی دھُن میں نکلے تھے سحرؔ
رہروِ آلام ہو کر رہ گئے
٭٭٭
دل کے زخموں پہ جب بہار آئی
یاد آنے لگا وہ ہر جائی
پھِر ہوا حُسن مائلِ پرواز
پھِر جوانی نے لی ہے انگڑائی
اے شبِ غم میں اب نہیں تنہا
اب مری ہمنشیں ہے تنہائی
سوزِ ہجراں کی شدّتیں توبہ
دل جو سُلگا تو آنکھ بھر آئی
اشک ٹپکے تو یوں ہوا محسوس
کہکشاں فرش پر اُتر آئی
اجنبی راہ کا مسافر ہوں
میری قسمت ہے دشت پیمائی
جب جنوں حد سے بڑھ گیا تو سحرؔ
مجھ کو زنجیر اُس نے پہنائی
٭٭٭
اِتنا تو اثر لاتی فریاد محبّت کی
نفرت کے خدا کرتے امداد محبّت کی
جب پاؤں کے چھالوں سے رِستا ہے لہو دل کا
تصویر اُبھرتی ہے برباد محبّت کی
جو درد کے ماروں کو سینے سے لگاتے ہیں
کرتے ہیں نئی دُنیا آباد محبّت کی
جذبوں کی صداقت کو وہ عام کریں کیسے
تفسیر نہیں سمجھے نقّاد محبّت کی
مُفلس کے تعاقب میں نفرت کی صدائیں ہیں
بٹتی ہیں اَمیروں میں اَسناد محبّت کی
وہ گھول کے اشکوں میں کاجل کی سیاہی کو
لکھتے ہیں محبّت سے روداد محبّت کی
جذبے ہوں اگر کامل پھر عزم کے تیشے سے
لکھتے ہیں سحرؔ قسمت فرہاد محبّت کی
٭٭٭
اَپنوں کی جلوہ گاہ میں اپنا نہیں کوئی
ہر شخص اجنبی ہے کسی کا نہیں کوئی
اُگنے لگی ہے تیرگی کشتِ حیات میں
کرنیں شعورِ زیست کی بوتا نہیں کوئی
اپنی برائیاں جسے آتی نہیں نظر
اُس کم نظر کی سوچ میں اچھا نہیں کوئی
گانا جو کوئی گائے تو سب جھومنے لگیں
لیکن نوائے درد کو سُنتا نہیں کوئی
جس میں تری رضا تھی وہ سولی قبول کی
ہم نے نیا بہانا تراشا نہیں کوئی
دیکھا سحرؔ کے گھر کا جو چولہا بجھا ہوا
اُس کے غریب خانے پہ ٹھہرا نہیں کوئی
٭٭٭
اَندھیرے نفرتوں کے ہم زمانے سے مٹائیں گے
لہو دے کر محبّت کے چراغوں کو جلائیں گے
ستاروں پر کمندیں ڈالنا اپنی روایت ہے
انوکھی کہکشاں سے دامنِ قسمت سجائیں گے
وہ کرنیں اوڑھ کر آئیں گے جب دل کی حویلی میں
اندھیرے لڑکھڑائیں گے اُجالے مسکرائیں گے
چلو پاتال میں بحرِ محبّت کی اُتر جائیں
اُٹھا طوفاں تو ساحل پر سفینے ڈوب جائیں گے
ڈبوتے جا رہے ہیں وہ کنول مہر و محبّت کے
وہ میرے ظرفِ دل کو جانے کب تک آزمائیں گے
بفیضِ عشق آئی ہے یہ عظمت اِس کے حصّے میں
سحرؔ کی راہ کے ذرّے فلک پر جگمگائیں گے
٭٭٭
آئے جو مرے لب پہ محبّت کے ترانے
ہر لفظ پہ لوگوں نے تراشے ہیں فسانے
یادوں کی پری دل کی منڈیروں پہ ہے رقصاں
دیوانہ بنا رکھا ہے اک شوخ ادا نے
آیا نہ کبھی کوئی محبّت کا پیامی
اُمّید کی بانہوں میں گزارے ہیں زمانے
ملنے کا اِرادہ ہو تو مشکل نہیں مشکل
نیّت میں خلل آئے تو بنتے ہیں بہانے
بارش میں سُلگنے لگے سب موم کے پُتلے
برسائی ہے کیا آگ یہ ساون کی گھٹا نے
رویا ہے غمِ ہجر گلے مجھ کو لگا کر
غیروں نے شبِ وصل کے چھیڑے جو فسانے
جینے کا سبب لذّتِ بیتابیِ دل تھی
مارا ہے سحرؔ دردِ محبّت کی دعا نے
٭٭٭
کسی کے سینے کا سنگ پِگھلا تو میں نے دیکھا
سراب آنکھیں بنی جو دریا تو میں نے دیکھا
بہت ہی دلکش تھے خدّوخال اُس کی چاہتوں کے
وفا کا اُس نے لباس پہنا تو میں نے دیکھا
نظر کی بیتاب تتلیاں رقص کر رہی تھیں
کسی نے چاہت کا گیت گایا تو میں نے دیکھا
یہ چاندنی مجھ کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی ہر سُو
جگر میں شب کے جو چاند چمکا تو میں نے دیکھا
سہم کے بے چارگی سے لپٹے ہوئے تھے بچّے
ٹپکتی چھت نے بدن بھگویا تو میں نے دیکھا
جو موت اَپنوں میں بانٹتے ہیں بِکے ہوئے ہیں
حصارِ ظُلمت سحرؔ نے توڑا تو میں نے دیکھا
٭٭٭
بدل جائیں گے وہ بدلتے بدلتے
پگھلتے ہیں پتھر پگھلتے پگھلتے
محبّت کی راہوں میں کھائی ہے ٹھوکر
سنبھل جائیں گے ہم سنبھلتے سنبھلتے
تڑپتا رہا دل تری جُستجو میں
کٹی رات کروٹ بدلتے بدلتے
خدا جانے گم ہے کہاں ذوقِ منزل
مچلنے لگے ہیں قدم چلتے چلتے
جفاؤں کے پتھر وہ برسا رہے ہیں
ہوئے نیم جاں ہم تڑپتے تڑپتے
یہ بچّہ کھلونے کی ضِد کر رہا ہے
بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے
٭٭٭
مِل کے روکو یہ درد کے دھارے
ڈوب جائیں نہ بخت کے مارے
ترسے کربل میں بوند پانی کو
مصطفیٰﷺ کے حسیں جگر پارے
جن کو ہم نے دئیے نشاط کے پھول
دے رہے ہیں وہ غم کے اَنگارے
چارہ گر بھی ہیں درد و غم کے مریض
کیسے چارہ کریں گے بے چارے
خوب شطرنج ہے محبّت کی
جیت جن کی ہوئی وہی ہارے
مہرباں ہو گئے ہیں وہ شاید
روز آتے ہیں گھر پہ ہرکارے
عزمِ نَو کا چراغ لے کے چلو
راستے میں سحرؔ ہیں اَندھیارے
٭٭٭
مشکل پڑی تو وقت کے دھارے بدل گئے
رستہ ہمارے ہمسفر سارے بدل گئے
ماحول اجنبی ہے نگاہیں اُداس ہیں
بے چارگی کی رُت میں سہارے بدل گئے
اپنے مکاں کی راہ بھی آتی نہیں نظر
جب سے ہماری آنکھ کے تارے بدل گئے
تیرہ شبی سے کیا گِلہ قسمت کی بات ہے
روٹھا جو ماہتاب ستارے بدل گئے
انجام کیا ہو دیکھئے اَب دل کی ناؤ کا
طوفاں کو دیکھتے ہی کنارے بدل گئے
جور و جفا کے چوک میں تنہا کھڑا سحرؔ
سمجھا تھا جن کو جان سے پیارے بدل گئے
٭٭٭
روحوں کا ہے جہاں کیا موت و حیات کیا ہے
اہلِ نظر سے پوچھو حُسنِ ثبات کیا ہے
محبوب کی تجلّی جس میں نہیں ہے شامل
منظر ہے بے حقیقت وہ کائنات کیا ہے
سب سے عظیم تر ہے اِنسانیت کا رشتہ
یہ اُونچ نیچ کیا ہے یہ ذات پات کیا ہے
ہر بچّہ غزنوی ہے اس شہرِ بُت شکن کا
پھرسومنات کیا ہے لات و منات کیا ہے
خالق کے اس جہاں میں خلقت خفا ہو جس سے
اُس شخص کو خبر کیا راہِ نجات کیا ہے
صحرائے عشق میں جو اُترے ہیں اُن سے پوچھو
غم کا تنور کیا ہے فُرقت کی رات کیا ہے
پچھلی عمر میں اب ہیں وہ مہرباں سحرؔ پر
معلوم کیا کسی کو یہ اِلتفات کیا ہے
٭٭٭
دل کے بُجھنے سے اندھیروں کو بقا ملتی ہے
شمع جذبوں کی جلائیں تو ضیا ملتی ہے
وہ رقیبوں سے الگ مجھ سے جدا ملتی ہے
دیکھئے کس کو جفا کس کو وفا ملتی ہے
اُن کے جُرموں کا تو ہوتا ہے اداؤں میں شمار
مُجھ کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی ہے
یوں سرِ راہ گزر مجھ سے ملا تھا کوئی
پھول سے جیسے گلے لگ کے صبا ملتی ہے
کاش بیمارِ محبّت کو ملے ایسا طبیب
جس کے چھونے سے مریضوں کو شفا ملتی ہے
دل کے کمرے میں سُلگتے ہوئے ارمانوں کو
تیری یادوں کے دریچوں سے ہوا ملتی ہے
جانے کب آئے سحرؔ لالہ و گل کا موسم
جس کے آنے کی خبر صبح و مسا ملتی ہے
٭٭٭
ہر پھول مہک اُٹّھے ماحول نکھر جائے
جب دل کے گلستاں میں وہ رشکِ قمر آئے
تنہائی کے لمحوں میں قُربت کا تقاضا ہے
جذبوں کی تمازت کا دل تک تو اثر جائے
ہم پیار کے راہی ہیں روکیں گے نہ قدموں کو
منزل کے تجسّس میں جاتا ہے تو سر جائے
جھُکتی ہے عقیدت سے چھوتی ہے محبّت سے
محبوب کے چہرے پہ جب میری نظر جائے
وہ در کے فقیروں سے ملنے نہیں آئیں گے
دیدار کے طالب سے کہہ دو کہ وہ گھر جائے
بہہ جائیں نہ اَرماں بھی اَشکوں کی روانی میں
دریائے غمِ ہستی اے کاش اُتر جائے
ہر بات پہ لوگوں کی کس طرح یقیں کر لوں
سچ بات سحرؔ وہ ہے جو دل میں اُتر جائے
٭٭٭
حرف چُپ تھے کتاب ہونے تک
آرزو کا نصاب ہونے تک
بند رہتا ہے دل کا میخانہ
آنکھ جامِ شراب ہونے تک
سیکھ لیتا ہے مہکنے کی ادا
نرم غُنچہ گلاب ہونے تک
دُشمنوں کا پتہ نہیں چلتا
دوستوں کا حساب ہونے تک
دی ہے شُعلوں کو دوستوں نے ہوا
دل کے جل کر کباب ہونے تک
دل جلا لیں گے روشنی کے لئے
چاند کے بے نقاب ہونے تک
دیکھ مُطرب سحرؔ نہ ہو جائے
دھڑکنوں کے رباب ہونے تک
٭٭٭
جو شہرِ دل فریب میں رُسوائے عشق ہے
وہ آرزوئے حُسن ہے منشائے عشق ہے
انمول جذبہ ہے وہ محبّت کہیں جسے
اس کے لئے جو جاں سے گزر جائے عشق ہے
جام و سبُو کا شوق ہے نہ جُستجو مجھے
مجھ کو شعورِ زندگی صہبائے عشق ہے
پنچھی کی طرح آئے ہو دل کی منڈیر پر
جاؤ نہ چھوڑ کر یہ تمنائے عشق ہے
بہتا ہے جس میں شام و سحرؔ حسرتوں کا خون
دل کی یہ سر زمین وہ دریائے عشق ہے
٭٭٭
گھر بلا کر جو گھر نہیں آتا
اُس کے وعدوں پہ کیا یقیں آتا
میرے دل کا مکاں ہے ویرانہ
اِس میں کیسے کوئی مکیں آتا
میری نظروں کا انتخاب ہو تم
ہر کسی پر تو دل نہیں آتا
دور تر ہوں شعورِ ہستی سے
کوئی کیسے مرے قریں آتا
دل کے زخموں پہ بات ہو جاتی
وعدہ کر کے جو ہمنشیں آتا
عشق اُس کو جہاں صدا دیتا
حُسن دل تھام کر وہیں آتا
میں نہ کرتا کوئی خطا جو سحرؔ
آسمان سے نہ بَر زمیں آتا
٭٭٭
لہو اِنسانیت کا بہہ رہا ہے
مرا گھر ہے کہ دشتِ کربلا ہے
ترستی ہے نظر امن و اماں کو
جدھر دیکھو نیا محشر بپا ہے
گرا جو آنکھ سے اشکِ ندامت
وہ اِک انمول موتی بن گیا ہے
یہ دل زندہ ہے اور زندہ رہے گا
فنا گہ سے ذرا آگے بقا ہے
بڑا ضدّی بڑا سر کش ہے ظالم
صنم جو کعبۂ دل میں بسا ہے
مری سانسیں ہیں اُس کے پاس گروی
یہ میری بے بسی کی اِنتہا ہے
اُسے میں کس طرح دل سے نکالوں
جو میرے دل کی دھڑکن بن گیا ہے
غموں کی دھُوپ میں جو سائباں تھا
وہی سایہ مجھے اب گھورتا ہے
ٹھہر جا روٹھنے والے ٹھہر جا
تجھے کوئی صدائیں دے رہا ہے
کسی پر کیا کرے گا مہربانی
اب اپنے آپ سے اِنساں جدا ہے
شعورِ آدمیّت کو جگاؤ
ضمیرِ آدمی سویا ہوا ہے
لگے ہیں کان کس کی آہٹوں پر
کوئی مُڑ مُڑ کے پیچھے دیکھتا ہے
سحرؔ کو ڈھونڈنے والوں سے کہہ دو
ابھی فردوس کی جانب گیا ہے
٭٭٭
جب کوئی سورج اندھیروں کے مقابل ڈٹ گیا
چار سُو پھیلے اجالے اور اندھیرا چھٹ گیا
یہ تبسّم کی سزا ہے یا بہاروں کی عطا
مسکرائی جب کلی نازک گریباں پھٹ گیا
عشق میں جب ہم جنوں کی سرحدوں تک آ گئے
راہ کا پتھر ہمارے راستے سے ہٹ گیا
دشتِ دل میں درد کی جاگیں ہیں ایسی آندھیاں
گرد سے چہرہ کتابِ زندگی کا اَٹ گیا
ٹوٹ کر اُس وقت برسی ہے محبّت کی گھٹا
رابطہ پیاسے شجر کا جب زمیں سے کٹ گیا
دل کو توڑا تھا کسی نے دل سے جانے کے لئے
آئنہ تھا دل ہزاروں آئنوں میں بٹ گیا
یہ سحرؔؔ کی روشنی کا اِک حسیں اعجاز ہے
بڑھ رہا تھا جو اندھیرا رفتہ رفتہ چھٹ گیا
٭٭٭
میں تیری جُستجو میں کھو گیا ہوں
اسیرِ کُنجِ ہستی ہو گیا ہوں
جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھا
اُسی کو گھر سمجھ کر سو گیا ہوں
لبِ گُفتار پر پہرے لگے ہیں
سراپا حرف و معنی ہو گیا ہوں
نئی سوچوں کے پودے اُگ رہے ہیں
دلوں میں بیج ایسے بو گیا ہوں
سوال آیا نہیں میری زباں تک
درِ لُطف و عطا تک تو گیا ہوں
کسی کو اعتبار آئے نہ آئے
جسے چاہا اُسی کا ہو گیا ہوں
سحرؔ جب فرض نے مجھ کو پکارا
بڑی سج دھج سے مقتل کو گیا ہوں
٭٭٭
یادوں کے جھروکوں سے اس درجہ بہا پانی
جب آگ لگی دل میں آنکھوں میں نہ تھا پانی
روئے ہیں کنارے بھی موجیں بھی تڑپ اُٹھیں
جب آلِ محمدﷺ کے پیاسوں نے کہا پانی
آلام کی بھٹی میں ارمان سُلگ اُٹّھے
کمبخت نہ کام آیا آنکھوں میں جو تھا پانی
صحرا کے سُلگنے سے اک حبس کا عالم تھا
دریا سے اُٹھا لائی بانہوں میں ہوا پانی
طوفان کی موجوں میں کیا ناؤ پہ گزری ہے
’’ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی‘‘
ذی نفس زمانے میں آیا ہے سحرؔ جو بھی
اُس کی ہے نوا پانی اُس کی ہے بقا پانی
٭٭٭
جب سے مرے اکاؤنٹ میں پیسہ نہیں رہا
مجھ سے کسی عزیز کا رشتہ نہیں رہا
یوں مجھ سے آنکھیں پھیر لیں لختِ جگر نے بھی
جیسے میں خاندان کا حصّہ نہیں رہا
اپنوں کی گُفتگو میں بھی بیگانگی سی ہے
پہلے جو تھا وہ دلنشیں لہجہ نہیں رہا
بے کیف زندگی ہے ترے روٹھنے کے بعد
جو دل کی دھڑکنوں میں تھا نغمہ نہیں رہا
شیریں تو منتظر ہے سرِ کوہِ آرزو
اب ہاتھ میں فرہاد کے تیشہ نہیں رہا
جس جوہرِ خودی پہ ہمیں ناز تھا کبھی
دل میں وہ آگہی کا اساسہ نہیں رہا
فیشن میں ڈھل گئی ہے نمائش وجود کی
مغرب زدوں کے سر پہ دوپٹہ نہیں رہا
گُم ہے سرابِ نَو میں اب منزل کی جُستجو
رہبر کے سامنے کوئی رستہ نہیں رہا
مانا غرورِ حُسن ہو فتنہ طراز ہو
میں بھی شبابِ عشق ہوں بچّہ نہیں رہا
دو گز زمین شہرِ خموشاں میں کیا ملی
اب میرے نام کوئی بھی رقبہ نہیں رہا
غُربت نے چھین لی سحرؔ تہذیبِ زندگی
دانا کی گُفتگُو میں سلیقہ نہیں رہا
٭٭٭
فانوس تیری یاد کا دل میں جلا لیا
یوں سادگی سے ہم نے یہ خیمہ سجا لیا
تیرے غموں پہ وار کے خوشیاں حیات کی
ہم نے تری وفا کا تقدّس بچا لیا
فُرقت کی لذّتوں سے جب مانوس ہم ہوئے
ذوقِ وصالِ یار سے دامن چھڑا لیا
مسمار کر دئیے ہیں تکبّر کے بُتکدے
بندوں سے پیار کر کے خدا کو منا لیا
منّت نہ کی بہار کی صحرا نورد نے
چھِڑکا جگر کا خون گُلستاں سجا لیا
ساحل کی بھیک لی نہیں الیاسِ وقت سے
لہروں کے دل میں ہم نے گھروندا بنا لیا
سورج وفا کا بام پہ اُبھرا تو تھا سحرؔ
نظروں کے اک ہجوم نے بانہوں میں آ لیا
٭٭٭
غم جو آیا مسرّتیں بھی گئیں
وہ جو بچھڑے رفاقتیں بھی گئیں
ہو کے برہم وہ کیا ہوئے رُخصت
عمر بھر کی عداوتیں بھی گئیں
اُن کی یادیں گئیں ہیں کیا دل سے
دردِ پیہم کی لذّتیں بھی گئیں
مر چکا ہے یقین جینے کا
اب دوا کی ضرورتیں بھی گئیں
پائے جُرأت میں پڑ گئے چھالے
راہِ نَو کی مسافتیں بھی گئیں
بے حسی کا نتیجہ ہے یہ سحرؔ
عزم کے ساتھ عظمتیں بھی گئیں
٭٭٭
فرزانگی کی چوٹ نہ دیوانگی کی چوٹ
غیرت کا خون کر گئی بے غیرتی کی چوٹ
ہر فرد زندگی کے دُکھوں میں ہے مبتلا
اب دیکھتا ہے کون کہاں ہے کسی کی چوٹ
آتے کسی کو دیکھ کے دیوانہ مر گیا
بیچارہ سہہ سکا نہ اچانک خوشی کی چوٹ
نکلا تھا گھر سے ڈھونڈنے آسائشِ حیات
رہزن سے بچ گیا تو لگی رہبری کی چوٹ
بیخود پڑا ہے اب سحرؔ کُنجِ حیات میں
خود سر کے سر پہ لگ کے رہی خود سَری کی چوٹ
٭٭٭
آرزو تھی جو مسکرانے کی
کیا ضرورت تھی دل لگانے کی
آج مُڑ مُڑ کے دیکھنا اُن کا
اِبتدا کر گیا فسانے کی
شب کدوں میں ضمیر بکتے ہیں
رِیت صدیوں سے ہے زمانے کی
جل رہا ہے بہار کا دامن
خیر یا ربّ ہو آشیانے کی
خونِ مزدور کی حرارت سے
نبض چلتی ہے کارخانے کی
میری جاں پر بنی ہوئی ہے سحرؔ
اُن کو جلدی پڑی ہے جانے کی
٭٭٭
فون پر اُن سے بات ہوتی ہے
روز یہ واردات ہوتی ہے
لوگ کھو جائیں جب اندھیروں میں
میرے گھر چاند رات ہوتی ہے
دل نہ توڑو کسی بھی اِنساں کا
دل میں اِک کائنات ہوتی ہے
جذبِ سُقراط ہو نصیب جسے
اُس کو تلخی نبات ہوتی ہے
زندگی پر سحرؔ نہ ہو نازاں
زندگی بے ثبات ہوتی ہے
٭٭٭
لے گئے لوٹ کے جو خواب سہانے سارے
حالِ دل پوچھنے آئے وہ یگانے سارے
میرے اَرمان بھی نیندیں بھی متاعِ دل بھی
لُٹ گئے راہِ محبّت میں خزانے سارے
کھُل گیا اپنے پرائے کا مصیبت میں بھرم
کام تو کر ہی دئیے میرے خدا نے سارے
جب محبّت کے چمن زار میں آئی ہے صبا
بن گئے پھول مرے زخم پرانے سارے
شامِ ہجراں کی تڑپ وصل کی رعنائی بھی
ہم نے دیکھے ہیں محبّت کے زمانے سارے
آؤ آدابِ محبّت میں سکھا دوں تم کو
بھول جاؤ گے نہ آنے کے بہانے سارے
ہائے فُرقت میں سحرؔ کی یہ تڑپنا دل کا
دیکھ آئی ہے نظر اُس کے ٹھکانے سارے
٭٭٭
چہرہ گلاب سا ہے اِک پیکرِ حیا کا
روشن جبیں پہ غازہ خاموش اِلتجا کا
بکھرے ہوئے ہیں گیسو اُس نازنیں کے رُخ پر
مہتاب پر ہو سایہ جیسے کسی گھٹا کا
گُلزار کی گھُٹن میں مرجھا رہے ہیں غُنچے
ایسے میں کاش آئے جھونکا کوئی ہوا کا
اپنوں کا خون ہر سُو اپنے بہا رہے ہیں
میرے دیار میں ہے ماحول کربلا کا
کانٹوں کی سازشوں سے گُلشن لہو لہو ہے
دامن ہے ٹکڑے ٹکڑے ہر پھول کی رِدا کا
بھیجے ہیں لاکھ تحفے اہلِ غرض نے مجھ کو
سر جھُک سکا نہ اُن سے لیکن مری انا کا
کیوں مضمحل سحرؔ ہے کیوں ہیں اداس کرنیں
کیوں ماند پڑ گیا ہے سورج رہِ وفا کا
٭٭٭
محرمِ راز طلسمات کا پیکر نکلا
میں نے سمجھا تھا جسے پھول وہ پتھر نکلا
میں ہوں سادہ کہ ہیں عیّار زمانے والے
میں نے سمجھا جسے بہتر وہی بد تر نکلا
جب اُجالوں کے تجسّس میں اُٹھی میری نظر
دل میں سورج کے بھی ظُلمات کا محور نکلا
ڈوبتے چاند ستاروں کا فسردہ منظر
میری مٹتی ہوئی تہذیب کا منظر نکلا
یہ ہُنر مند کو دیتے ہیں سزا اہلِ غرض
گھر بنا کر جو دیا کرتا تھا بے گھر نکلا
جس میں لکھا تھا کرائے کے مکاں میں رہنا
وہ نوِشتہ ہی سحرؔ تیرا مقدّر نکلا
٭٭٭
چھلکتے جام ہیں آنکھیں بھنویں ہیں محرابی
الٰہی دیرو حرم میں یہ قُربتیں کیسی
گُلوں پہ کس نے لگائے ہیں خار کے پہرے
بہت اداس ہے گُلشن میں بُلبلِ ہستی
جگر کا خون پلا دو اُداس پودوں کو
بہارِ نَو کے لئے ایک زخم اور سہی
کھڑا ہے بن کے تماشائی ریگِ ساحل پر
بھنور سے کیسے نکالے گا ناخدا کشتی
چھٹے گی رات اُجالوں کا راج کب ہو گا
بھٹک رہا ہے اندھیروں میں سوچ کا پنچھی
مری وفا کو سرا ہے گا کون بستی میں
یہ کام جنکا ہے ان سے مری نہیں بنتی
فقیہہ شہر سے شکوہ نہ دوستوں سے گلہ
تری وفاؤں کی دولت مرا نصیب نہ تھی
سحرؔ تُو اِس کی عدالت میں آ کے دیکھ ذرا
ترا ضمیر گواہ بھی ہے اور منصف بھی
٭٭٭
جب مجھے بگڑے مقدّر کو بنانا آ گیا
مہرباں ہو کر مرے در پر زمانہ آ گیا
رینگتے تھے جو پرندے بے حسی کے ریت پر
اب مجھے ان کو فضاؤں میں اُڑانا آ گیا
مل گیا اہلِ چمن کو جب سے دستورِ حیات
پھول کو ہسنا کلی کو مسکرانا آ گیا
دیکھتا ہوں قاتلوں کو مدعی بنتے ہوئے
محوِ حیرت ہوں کہ یہ کیسا زمانہ آ گیا
جل رہا ہے اب بھی شعلوں میں بہاروں کا بدن
ہم سمجھتے تھے سحرؔ موسم سہانہ آ گیا
٭٭٭
رہروی کی تلخیاں راہوں کی پہنائی سے پوچھ
کس قدر ڈھونڈا ہے تجھ کو آبلہ پائی سے پوچھ
وحشتوں کی رُت میں کتنے زخم سر پر آئے ہیں
پتھروں کو دیکھ یا خونِ شکیبائی سے پوچھ
اے گلِ گُلزارِ ہستی اے بہاروں کے شباب
گردشِ صحرا کسے کہتے ہیں صحرائی سے پوچھ
میرا ذوقِ جُستجُو گزرا ہے کس کس راہ سے
جھانک دشتِ شوق میں یا غم کی پہنائی سے پوچھ
جاگنے والا ہی جانے جاگنے کی لذّتیں
کیا ہے بیداری تمنّا کی تمنّائی سے پوچھ
بھوک سے معصوم بچّے تو تڑپ کر مر گئے
چاہتی ہے اور کیا مجھ سے یہ مہنگائی سے پوچھ
حادثہ گزرا ہے کیا تیرے مکاں پر اے سحرؔ
کیوں ہوئی خاموش تیرے در پہ شہنائی سے پوچھ
٭٭٭
میرے لئے بھی شہر میں جائے اَماں تو ہو
کوٹھی نہیں تو نہ سہی کچّا مکاں تو ہو
میں بھی کسی سے حالِ دلِ زار کہہ سکوں
میرا بھی اس جہاں میں کوئی راز داں تو ہو
آرام کھو گیا ہے تو آلام ہی سہی
بے مہریوں کی رُت میں کوئی مہرباں تو ہو
ہم بھی ہوں بزمِ حسن میں موضوعِ گُفتگو
اچھا گُماں نہیں تو کوئی بد گُماں تو ہو
جس سے ملے سراغ عروجِ حیات کا
آوارہ سر زمیں پہ کوئی آسماں تو ہو
معراجِ زندگی کی ہے منزل قریب تر
اب کہکشاں کی راہ پہ کوئی رواں تو ہو
بہرہ زمانہ تم کو نہ سمجھا سحرؔ تو کیا
گونگے تخیّلات کے تم ترجماں تو ہو
٭٭٭
دل ہے کیا جو درد کا خوگر نہیں
کیا ہیں آنکھیں غم کی جو محور نہیں
کون سا آنگن نہیں غم کا حصار
کون سے گھر میں بپا محشر نہیں
بند ہے راہِ نشاطِ زندگی
غم کی دیواروں میں کوئی در نہیں
زندگی پر چھا رہا ہے اِضطراب
مطمئن اب کوئی بھی پیکر نہیں
سوزِ غم سے آنکھ بھر آئے نہ کیوں
میرے سینے میں ہے دل پتھر نہیں
آؤ بوئیں ہم بہارِ زندگی
کشتِ دل زرخیز ہے بنجر نہیں
میں محبّت ہوں مجھے پہچانئے
درد کی تصویر ہوں پتھر نہیں
لَوٹ جاتی ہے خوشی دہلیز سے
یہ سمجھ کر کہ سحرؔ گھر پر نہیں
٭٭٭
ہر لحظہ فسوں کار ہے ہر لمحہ خطرناک
صد حیف کہ اِنسان ہے اِنسان کی خوراک
تحریص کے فرقوں میں جو ہوتا ہے تصادم
کرتا ہے جنوں دامنِ تہذیبِ خرد چاک
افلاس کا انجام ہے آغازِ جرائم
افلاس بنا دیتا ہے اِنسان کو سفّاک
کب ہو گی بہاروں کی نظر شاخِ چمن پر
پھولوں کی طرح دامنِ امّید ہے صد چاک
اُس شوخ کی تصویر بھی دھُندلا سی گئی ہے
جب سے ہیں سحرؔ ہجر میں آنکھیں مری نمناک
٭٭٭
گھر جو ہے دوزخ نما وہ خُلد پیکر چاہئے
مجھ کو منظر شہر بھر کا روح پرور چاہیے
جس کے آنگن میں مہکتی ہو گُلستاں کی بہار
میری نظروں کے بیاباں کو وہ منظر چاہیے
شیش محلوں کے مکیں آسائشوں میں ہیں مگن
خانماں برباد کہتے ہیں ہمیں گھر چاہیے
گھولتے ہو تلخیاں کیوں درد کے تالاب میں
زندگی کی پیاس کو میٹھا سمندر چاہیے
جو بہاروں کو بچا لے صَر صَرِ حالات سے
اے سحرؔ گُلشن کو ایسا اَمن پرور چاہیے
٭٭٭
ہونٹوں پہ ہنسی اور دلِ زار میں غم ہے
اِحسان بھلا مُجھ پہ یہ احباب کا کم ہے
جاتی ہی نہیں ان پہ نظر چارہ گروں کی
نوحہ غمِ حالات کا چہروں پہ رقم ہے
میں دار کی منزل سے ابھی دور کھڑا ہوں
جو زادِ سفر عشق نے بخشا تھا وہ کم ہے
خوشیوں کو مری ذات سے رغبت نہیں ورنہ
دہلیز سے آنگن کا سفر چار قدم ہے
سُلجھاؤں میں کس طرح یہ حالات کے گیسو
ہاتھوں میں سکت اور نہ آنکھوں میں ہی دم ہے
میں جس کی مسافت سے ہوں برسوں سے گریزاں
اک سانس کی دوری پہ وہ صحرائے عدم ہے
آنکھوں سے رواں اب بھی ہیں جذبات کے دھارے
دامن شبِ فُرقت کا سحرؔ آج بھی نم ہے
٭٭٭
روٹھی ہوئی ہے ہر خوشی مجھ کم نصیب سے
آنے لگے ہیں وسوسے دل میں عجیب سے
یہ دودھیا بدن لب و رخسار آرسی
مِلتا ہے یہ شباب کسی کو نصیب سے
خوشبو ترے وجود کی بکھری فضاؤں میں
جھونکا ہوا کا چھُو کے جو گزرا قریب سے
رو کر وفا کا مجھ کو دلاتا تھا جو یقیں
ہنس ہنس کے مل رہا ہے وہ میرے رقیب سے
کھولی ہے جب زباں کسی منصورِ وقت نے
آنے لگی صدائے انا الحق صلیب سے
مُنصف نے بیگناہی کا تب فیصلہ دیا
دو گام دور رہ گئے جب ہم صلیب سے
لگتا ہے پھِر سحرؔ سے کوئی بھول ہو گئی
ہر شخص کی جبیں پہ ہیں تیور عجیب سے
٭٭٭
سنگ رہنے کا ارادہ کر لیا
ہم نے اک دوجے سے وعدہ کر لیا
غم زدوں نے غم چھپانے کے لئے
مُسکراہٹ کو لبادہ کر لیا
جب کیا وعدہ خلافی کا گلہ
اُس نے پھر آنے کا وعدہ کر لیا
بھول کر ہم نے بھروسہ حُسن پر
کُچھ ضرورت سے زیادہ کر لیا
جب کسی سے قربتیں بڑھنے لگیں
بھول جانے کا ارادہ کر لیا
جو ملیں خوشیاں وہ باہم بانٹ لیں
غم بھی ہم نے آدھا آدھا کر لیا
بُجھ گئے اُمید کے جب قُمقُمے
آنسوؤں سے اِستفادہ کر لیا
مل گیا جس کو سحرؔ حسبِ طلب
اُس نے دامن کو کُشادہ کر لیا
٭٭٭
ڈھلا شباب ہمارا بدل گیا موسم
رہا نہ روپ کنوارہ بدل گیا موسم
مرا لباس تھا وہ میں لباس تھا اُس کا
اُسے بدن سے اُتارا بدل گیا موسم
ڈسا غموں نے تو مانگی کسی سے ایک خوشی
کیا نہ اُس نے گوارا بدل گیا موسم
خزاں کا راج ہے اب میرے دل کے گُلشن میں
خزاں کی حبس میں سارا بدل گیا موسم
حریمِ قصرِ محبّت میں جان کی بازی
کُچھ اس ادا سے میں ہارا بدل گیا موسم
ڈھلا وفاؤں کا سورج جفا کی رات آئی
ملا نہ کوئی سہارا بدل گیا موسم
٭٭٭
رشک اپنوں پہ کب نہیں آتا
اشک آتے ہیں جب نہیں آتا
اپنی مرضی سے آ بھی جاتا ہے
جب بلاؤں وہ تب نہیں آتا
اُس کے وعدوں پہ میرے دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
دور رہتے ہیں غم کے ماروں سے
جن کو جینے کا ڈھب نہیں آتا
ظُلم حد سے نہ بڑھ گیا ہو سحرؔ
زلزلہ بے سبب نہیں آتا
٭٭٭
بدل کے بات پرانی سناؤ بات نئی
نیا زمانہ ہے اس کی ہے واردات نئی
وہی زمیں کا چلن ہے وہی نجومِ فلک
پرانے خول میں آئے کہاں سے بات نئی
بسا رہا ہے زمانہ شہر خلاؤں میں
چلو تلاش کریں ہم بھی کائنات نئی
یہ ڈھا رہا ہے ستم پاک سر زمین پہ کون
ضمیر بیچ کے بوتا ہے واردات نئی
گزار لیتا ہوں دن کے فسوں اثر لمحے
چراغِ شام دکھاتا ہے غم کی رات نئی
سحرؔ کی تازہ غزل سے یہ بات ہے ظاہر
جدید شعر تو وہ ہے ہو جس میں بات نئی
٭٭٭
ڈھونڈتا ہوں بہار کے لمحے
گُلستاں پر نکھار کے لمحے
جلوہ جلوہ تھا زندگی کا جمال
کتنے پیارے تھے پیار کے لمحے
لے گیا اِنقلابِ وقت کہاں
موسمِ خوشگوار کے لمحے
کوئی نغمہ نہیں عنادل کا
چُپ ہیں کیوں لالہ زار کے لمحے
دل کو دیتے ہیں درد کے تحفے
اب شبِ انتظار کے لمحے
اب تو دل پر بھی اختیار نہیں
کھو گئے اختیار کے لمحے
بے قراری سحرؔ کی قسمت ہے
کاش ملتے قرار کے لمحے
٭٭٭
جو تیری خواب گاہ کی قسمت جگا گئے
وہ خواب میری جاگتی آنکھوں میں آ گئے
شُعلے کسی کی یاد کے لپکے شبِ فراق
بُجھتے چراغ بزمِ طلب کے جلا گئے
بے تاب جب ہوئی تجھے پانے کی آرزو
آنکھوں میں جُستجو لئے راہوں میں آ گئے
پرواز کیا کرے مری امّید کا عُقاب
شُعلے زمیں سے ایسے اُڑے پَر جلا گئے
وہ لوگ کیا تھے کون تھے ڈھونڈیں کہاں سحرؔ
جو سازِ دل پہ گیت محبّت کے گا گئے
٭٭٭
ایک صورت جو بھا گئی دل کو
بس وہ پاگل بنا گئی دل کو
ایک زخمی سی مسکراہٹ تھی
حالِ دل جو سنا گئی مجھ کو
وہ تو ہرجائی کہہ کے چھوڑ گیا
بات چھوٹی سی کھا گئی مجھ کو
ہر ستم ہس کے سہہ لیا میں نے
بدگمانی رُلا گئی مجھ کو
کھو گیا جب ترے خیالوں میں
نیند کانٹوں پہ آ گئی مجھ کو
خواب میں بھی نہ مٹ سکی حسرت
بد نصیبی جگا گئی مجھ کو
یاد آئی ہے جب سحرؔ کی مجھے
ساری دنیا بھلا گئی مجھ کو
٭٭٭
کون کہتا ہے بھول جاؤں گا
جب پکارو گی لوٹ آؤں گا
ٹوٹے دل میں وفا کے ملبے سے
ایک چھوٹا سا گھر بناؤں گا
رُخ سے تیرے سمیت کر زُلفیں
شب کے پہلو سے چاند اُگاؤں گا
تیری آنکھوں میں جان کر اُترا
جانتا تھا کہ ڈوب جاؤں گا
نام لکھ کر تیرا ہتھیلی پر
میں رقیبوں کے دل جلاؤں گا
کیا خبر تھی کہ دیکھ کر تم کو
گھر کا رستہ ہی بھول جاؤں گا
بات اتنی سی ہے سحرؔ سُن لو
تم سے بچھڑا تو جی نہ پاؤں گا
٭٭٭
قطعات
کون دیتا مجھے شفا کی نوید
مہرباں نیّتِ طبیب نہ تھی
حرف تہذیب کیا سکھاتے سحرؔ
سوچ تھی بے ادب ادیب نہ تھی
٭٭
روٹھ جاتی ہے نیند آنکھوں سے
دل تڑپتا ہے اَشک بہتے ہیں
غم کے پہرے میں جاگنے والو
کیا محبت اِسی کو کہتے ہیں
٭٭
ہم رُکے ہیں نہ رُکیں گے رہِ منزل میں کبھی
ایک مشکل جو پڑی سینکڑوں حل نکلیں گے
شاخِ اُمید پہ کچھ پھول تر و تازہ ہیں
وقت آنے پہ اِنہی پھولوں سے پھل نکلیں گے
٭٭
عید آئی غریب بچوں کی
ماں نے چوما گلے لگایا ہے
بیچ کر آج خون کی بوتل
باپ کپڑے خرید لایا ہے
٭٭
جُرم چھُپتا نہیں چھپانے سے
کُچھ تو فطری حوالے ہوتے ہیں
کوئلے کی دوکان میں رہ کر
ہاتھ پاؤں تو کالے ہوتے ہیں
٭٭
منڈلا رہی ہیں سر پہ عُقابوں کی ٹولیاں
صیّاد بھی کھڑا ہے نشانہ لئے ہوئے
سہمی ہوئی ہے امن کی معصوم فاختہ
سینے میں کوئی درد پرانا لئے ہوئے
٭٭
دیارِ عشق میں قائم حکومت ہے محبّت کی
عدالت بھی محبّت کی وکالت بھی محبّت کی
یہاں سب فیصلے ہوتے ہیں دھڑکن کی گواہی پر
ہمارے دل کی بستی بھی ریاست ہے محبّت کی
٭٭
بھُول بھی جا سبھی گِلے شکوے
بے رُخی کا مری ملال نہ کر
تُو مری جان ہے یہ کہہ جو دیا
اِس سے آگے کوئی سوال نہ کر
٭٭
اِفلاس کے مارے ہوئے مزدور کی حالت
فُرصت جو ملے ایک نظر دیکھ لیا کر
اَوروں کے معائب پہ نظر اپنی جگہ ہے
اپنے بھی کبھی عیب و ہنر دیکھ لیا کر
٭٭
ایسی مجھ سے خفا ہوئی بیگم
میکے رہتی ہے گھر نہیں آتی
میں ہوں آزاد آج کل پھر بھی
’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘
٭٭
زخم دیتے ہو تو مرہم بھی لگانے آؤ
ایک ہمدم کی طرح ایک مسیحا کی طرح
ہم تو بے مثل ہیں اِس شہرِ محبّت میں سحرؔ
حُسنِ یوسف کی طرح عشقِ زُلیخا کی طرح
٭٭
یوں ہیں کسی کے عشق میں آزار ساتھ ساتھ
جیسے ہوں گُلستاں میں گل و خار ساتھ ساتھ
محسوس ہو سکا نہ سفر میں حیات کے
چلتا رہا ہے موت کا رہوار ساتھ ساتھ
٭٭
کل اِک پری جمال سے جب سامنا ہوا
گھبرا کے میں نے ہاتھ کلیجے پہ رکھ لیا
بچ کر نکل رہا تھا میں ابرو کی تیغ سے
ترچھی نظر کا تیر نشانے پہ آ لگا
٭٭٭
تشکر: کتاب ایپ، آئڈیل آئیڈیاز ڈاٹ کام
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں