فہرست مضامین
- پھول خوشبو اور تارہ
- انتساب
- سوچ کا سفر
- حمد
- نعت
- سلام
- عجیب ہوتی ہے یہ محبت
- اے عشق تری توقیر ہے کیا
- اک بختوں والے کا قصہ
- …تو میَں تقدیر سے پوچھوں
- سُن میری سہیلی، بات تو سُن
- مجھے جانا ہے جاناں کی طرف
- مرے مہرباں، مرے معتبر
- تُو نے کس کی خاطر شعر کہے
- اجنبی مسافرکے نام
- صبح تو ہو گی
- وطن کیلئے (جشن آزادی پر)
- عید حیران ہے
- اُسے عید مبارک کہتی ہوں
- کوچۂ عشق سے اس طرح رہا بھی کیوں ہوں
- مرے قصہ گو، مرے نامہ بر
- بہت دنوں سے …
- دل دیس تمہارا مسکن تھا
- تمہارا بھی یقیں ٹوٹے
- وہ کہتے ہیں ہمیں لکھو
- زمانے مرے بن بھلا اپنی تکمیل کیسے کرے گا؟
- محبت کی شاعرہ ۔۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے تاثرات
- جہانِ نادیدہ کی شاعری ۔۔۔ بشریٰ رحمٰن
- ہجر اور بلندی کا استعارہ ۔۔۔ رضی الدین رضی
- نجمہ شاہین اپنی شاعری کے آئینے میں ۔۔۔ سعیدہ افضل
- خوشبو کا جھونکا، نجمہ شاہین کھوسہ ۔۔۔ شہباز مزمل
- دبستانِ ادب کی شہزادی ۔۔۔ ملک فدا الرحمن
- عورت اور عورت ہے ۔۔۔ بشریٰ اعجاز
پھول خوشبو اور تارہ
ڈاکٹر نجمہؔ شاہین کھوسہ
بتشکر: کتاب ایپ
ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
اپنوں اور غیروں کے ان زخموں کے نام جو جلا بخشتے ہیں اور قلم کی سیاہی بن کر لفظوں کی صورت کاغذ پر اترتے ہیں اور شاعری بنتے ہیں۔
اور اس وحدہٗ لاشریک کے نام جس کا عشق ہی اصل عشق ہے سچا اور کھرا عشق۔۔۔
٭٭٭
سوچ کا سفر
سفر تو اتنا سا تھا کہ جو پھول سے بچھڑی خوشبو نے ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک کرنا تھا۔ ایک فرق روپ کا روح سے اور ایک خیال مکاں سے لامکاں تک کا۔
ہوا جو سب کے وجود کیلئے سانس ہے، آسودگی ہے زندگی ہے مگر پھول سے خوشبو کی جدائی کا سبب بھی یہی ہے، خوشبو جو پھول سے بچھڑی تو اسی ہوا کے سنگ دور تک اڑتی اپنے وجود سے بے خبر، اپنے نشان اپنی منزل سے دور ایسے مقام تک جا پہنچی جہاں اسے اپنی آنکھیں بند رکھنی تھیں کیونکہ اگر وہ آنکھیں کھولتی تو زمانے کی تمام بد صورتیاں اس کے سامنے آتیں جن کو دیکھنے کی اُس میں ہمت نہیں تھی۔ وہ بد صورتیاں چاہے شب کے اندھیروں میں پلتیں یا دن کے اجالوں میں سخت کڑکتی، جلتی دھوپ میں آنکھوں کو چندھیاتیں سو وہ اس مقام پر ٹھہر گئی جہاں ایک شام اس کے تمام دکھ سکھ اپنی گٹھڑی میں لپیٹے اس کیلئے رکی ہوئی تھی جہاں اس کی منزل، اس کا نشاں، اس کا وجود ٹھہرا تھا۔ ایک ایسی شام جو بے عمیق گہرائیوں میں ڈھل کے بھی رات نہ بن سکی کہ وہ رات بنتی تو اس کا انت سحر ہوتی۔ مگر سحر بچھڑنے والوں کے نصیب میں کہاں۔
پھر شاید وہ اسی شام میں ٹھہرے ٹھہرے سحر کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی۔ اس نے نظر بھرکر بیچارگی سے آسماں کو دیکھا اور چاند کے گرد جھلملاتے تاروں کے اور جھانکا اور سوچ میں پڑ گئی کہ شاید ان تاروں میں اس کے لیے بھی تھوڑی سی ضیاء ہو جو اس لامتناہی اندھیرے سفر کو ہلکی سی روشنی دے دے یہ کٹھن سفر کچھ آسان کر دے مگر جب سوچ نے سفر کیا تو اس پر یہ منکشف ہوا کہ خوشبو کی منزل پھول ہے کوئی چاند تارہ نہیں اور تارے تو ویسے بھی مانگ کی ضیاء پر جیتے ہیں وہ بھلاکسی کو کیا روشنی دیں گے کہ جن کا اپنا مقدر ہی عمیق گہرائیوں اور اندھیروں میں ٹوٹ کے گرنا ہے۔
اور سوچ کا یہ سفر جب اپنے مرکز کی طرف اپنے دائرے کے گرد پلٹا تو لفظوں کی صورت صفحہ قرطاس پر ابھرا۔ وہ لفظ تاروں کی ضیا کی طرح مانگے کے نہیں تھے، وہ صدیوں سے رائیگانی میں گذرے۔ ان تمام لمحوں کی ودیعت تھے جو آنکھوں سے بینائی لے لیتے ہیں۔ اور ایک ایک لفظ قطرہ قطرہ خونِ دل سے سینچے جاتا ہیں۔
ان اشکوں کا تو ذکر ہی کیا، تجھے عشق لہو سے بھی لکھا۔۔
کبھی پڑھ تو سہی ان نوحوں کو، تجھے علم تو ہو تحریر ہے کیا….
اور وہ سب لمحے ہی رائیگاں ہوتے ہیں جو روح اپنے ہمزاد کی تلاش میں گذارتی ہے جسے وہ عشق کہتی ہے اور عشق کی مثال توبس ایسے ہی ہے کہ جسے ایک بیوہ ماں اپنا جگر گوشہ کھودے اور ساری عمر ایک ویران آنگن میں بیٹھے اس آس، اس امید پر روتے روتے گزار دے کہ اس کی کل کائنات ایک دن اس کے پاس اس آنگن میں ضرور پہنچے گی۔ مگر جب سارا سفر طے ہو جائے اور عمر کے سارے برس لکیروں کی صورت چہرے پر تحریر ہو جائیں اور زندگی آخری ہچکیوں تک آ پہنچے تب اس پر انکشاف ہو کہ جس کائنات کو اس نے جہاں کھویا تھا وہ تو وہیں منوں مٹی تلے دفن ہے اور اس کی امید بھی انہی لمحوں پہ اخیر ہو کہ عمر تو ساری بیت گئی ایک رائیگانی میں روتے، ایک لاحاصل کو تلاشتے۔
وقت بیت جاتا ہے، عمریں گذر جاتی ہیں مگر حقیقتیں وقت کی دھند میں دھندلا کے بھی ختم نہیں ہوتیں۔ زندگی کے جھمیلوں سے تھک ہار کے شام کو اپنے اپنے گھروندوں میں لوٹنے والوں کو کوئی پل ایسا ضرور ملتا ہے جب وہ اپنی ذات کا سفر کرتے ہیں۔ اپنی سوچ کا سفر، اور سفر تو سارا سوچ کا ہی ہے۔ یہ سوچ ہی تو ہے جو پیٹ کے بل لڑکھٹاتی عشق کا روپ دھارے گردش زمانہ کی تمام تلخیاں سمیٹے، تمام کٹھن اور اذیت سے بھرپور راہوں کا سفر طے کرتے کرتے اپنے قبلہ و کعبہ تک پہنچتی ہے اور اپنے خلوص کا تحفہ اپنے معشوق کے منتظر ہونے کی صورت میں پاتی ہے اور یہ بھی سوچ ہی کا سفر ہے جو حطیم اور باب قلزم میں مانگی جانے والی دعاؤں کے نتیجے میں بہنے والے آنسو صرف پانی کے چند قطروں میں ڈھل کے اس پاک مٹی میں جب مل جاتے ہیں تو وقعتِ زمانہ انہیں بے وقعت آنسؤوں کا نام دے دیتا ہے۔ محبت سے عشق کا سفر بھی سوچ ہے اور سوچ گردشِ زمانہ میں کہاں جا کے خود کو ڈھونڈے، کہاں جا کے خود کو تلاشے۔ زمانے نے اس کی اب تقسیم کر دی ہے۔
اپنے لامتناہی دائروں میں گردش کرتی اپنے خوابوں کو روح کی پاکیزگی میں جا کے ڈھونڈے یا زمانے کی طرح نظر آنے والے کسی مجسم روپ کو ہی اپنا محور بنائے۔ بہرحال خیالات کا دیوتا تو بنانا ہوتا ہے کہ جینے کیلئے خیال ضروری ہے۔ یہ خیالات کا دیوتا بھی کس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ اپنے پیچھے اپنے پوجنے والوں کو ساری زندگی یوں لگائے رکھتا ہے کہ جیسے اس کی اجازت کے بغیر ایک سانس لینا بھی گناہ ہو اور کتنی عجیب بات ہے کہ جب پجاری اس کے عادی ہو کر اسے پوجتے پوجتے مٹی سے دیوتا اور دیوتا سے معبد بنا لیتے ہیں تو ایکدم سے سارا منظر ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔
آنکھ کیا جھپکتی ہے کہ معبد گم، دیوتا گم، مٹی کا پتلا گم، خیالات گم اور ہاتھ خالی خالی، اور تنہائی کے مکاں میں ویران، حیران و پریشان گم سم خالی خالی آنکھیں
اور خالی خالی آنکھیں۔ دنیا کے کارواں میں ہوا کی سختیاں سہتی ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ کا منظر دیکھ رہی ہیں۔ جو کبھی کرب کی اذیت سے اپنی آنکھیں بند رکھتی ہے۔ اور کبھی ایک ٹھہری ہوئی شام کے سائے میں جا کر پناہ ڈھونڈتی ہے اور کبھی بے بسی کے عالم میں آسماں کو تکتی ہے۔ جہاں فلک پر دور بہت دور ایک تارہ دکھائی دیتا ہے وہ نہیں جانتی کہ وہ تارہ محبت کا استعارہ ہے یا دکھ کا کوئی دھارا دریا کا کوئی ٹوٹا کنارہ ہے۔ یا اس کی قسمت کا کوئی ستارہ کہ جس نے گردش ماہ وسال میں ٹوٹ کر بکھرنا ہے اور ریزہ ریزہ ہو کر واپسی اس مٹی کا حصہ بننا ہے جہاں تہہ بہ تہہ مٹی برابر کر کے مالی نے پھر سے پھول لگانا ہے۔ جو اس بکھری بچھڑی خوشبو کا مقدر ہو! مگر کیا کہیئے کہ ان آنکھوں کو نہ کوئی منظر ملتا ہے نہ ہی ماہ و سال کے زیر و بم میں کوئی منتظر، نہ انتظار، اور نہ ہی آس و امید کا کوئی جگنو۔
بس ایک سوال۔
صرف ایک سوال۔
چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے تجھ کو۔
زندگی اتنا بتا، کتنا سفر باقی ہے۔۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
۱۶جنوری ۲۰۱۶
***
حمد
مری اُجڑی لمبی رات سئیں
کب بدلیں گے حالات سئیں
مرا عشق ہی مذہب مسلک ہے
اور عشق ہے تیری ذات سئیں
مجھے اپنا پتہ درکار ہے
اب بس اتنی سی خیرات سئیں
مرشد مَیں تیری منگتی ہوں
مری تجھ سے ہی بس بات سئیں
میں تیرے در پر حاضر ہوں
لئے آنکھوں میں برسات سئیں
ہر بات تری مَیں مانتی ہوں
لیکن میری اک بات سئیں
مجھے اپنی خطائیں یاد آئیں
مجھے خود سے ہوئی ہے مات سئیں
کبھی گیتوں میں تبدیل تو ہوں
مرے درد بھرے نغمات سئیں
٭٭٭
نعت
ہمیں پھر سے عطا ہو سر فرازی یا رسول اللہؐ
جواں جذبوں میں ہو روحِ حجازی یا رسول اللہؐ
ہمیں گھیرا ہوا ہے دشمنوں نے چار جانب سے
کہاں ہیں ملتِ بیضا کے غازی یا رسول اللہؐ
امیروں کو فراغت ہی نہیں ہے عیش و عشرت سے
غریبوں کی ہو حق سے کار سازی یا رسول اللہؐ
مسلماں کاش! ملت کی بھلائی کا ذرا سوچیں
لگا دیں ہر طرح سر دھڑ کی بازی یا رسول اللہؐ
درودوں کا ثمر ہے نعمتوں کا سلسلہ شاہینؔ
سدا حاصل رہے یہ دلنوازی یا رسول اللہؐ
٭٭٭
سلام
بنام شاہِ شہیداں، سلام کیا لکھوں
حقیر لفظ ہیں، مدح امام کیا لکھوں
غضب کہ نوکِ سناں پر ہے کربلا کا سفر
ہر ایک تیغِ ستم بے نیام، کیا لکھوں
دہک رہے ہیں ہر اک سمت دھوپ کے شعلے
مسافران وفا کا قیام، کیا لکھوں
عجیب وقت، تھی چشم فلک ہی خود حیراں
کھڑی تھی سر پر قیامت کی شام، کیا لکھوں
ہر ایک نام ہے لوحِ دوام پر محفوظ
کتابِ دل میں شہیدوں کے نام کیا لکھوں
خدا نے جن کو عطا کی ہے چادر تطہیر
میں ان کی شان میں نجمہ کلام کیا لکھوں
٭٭٭
زمیں ملے کہیں ہمیں، کہیں تو آسماں ملے
دکھوں کی دھوپ میں شجر کوئی تو مہرباں ملے
ترے فراق میں جئے، ترے فراق میں مرے
چلو یہ خواب ہی سہی، وصال کا گماں ملے
الم کی شام آ گئی، لو میرے نام آ گئی
چراغ لے کے راہ میں اے کاش مہرباں ملے
ابھی تلک فغاں ہوں میں، مثالِ داستاں ہوں میں
ملے تو ایک پل کبھی، کہیں تو کارواں ملے
عجیب سے وہ رنگ تھے، سبھی کے ہاتھ سنگ تھے
ہمیں تو غیر بھی سبھی، مثالِ دوستاں ملے
جبیں، جبیں نہیں رہی، تو مہ جبیں نہیں رہی
نہ لوگ وہ کہیں ملے، نہ تجھ کو آستاں ملے
٭٭٭
کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں مَیں اور ابھی تلک ہوں کہاں سلامت
فریبِ ہستی میں رہنے والے رہے ترا یہ جہاں سلامت
نہ کوئی بستی یہاں سلامت، نہ اس میں مکاں سلامت
یہی بہت ہے ہر ایک چہرے پہ بس ہے اشکِ رواں سلامت
پگھل چکا ہے وجود سارا، سلگ رہی ہے ہماری ہستی
چراغِ جاں کب کا بجھ چکا ہے، مگر ابھی تک دھواں سلامت
بس ایک لمحہ تھا روشنی کا، گرفت سے جو نکل گیا ہے
کوئی نشانی کہاں بچی ہے؟ مگر ہے دل پر نشاں سلامت
کسی سے شکوہ بھی کیا کریں اب، چمن پہ حق ہی نہیں تھا اپنا
بکھرنے والا یہ کہہ رہا ہے رہے ترا آشیاں سلامت
جنوں کے رستوں پہ میرے ہم دم، شمار زخموں کا کیوں کروں اب؟
تمہارا ہر ایک وار مجھ پر رہے گا اے مہرباں سلامت
یہ بے سبب سی اداسیاں ہیں، یہ روگ سہتی سی داسیاں ہیں
نئے زمانوں میں رہنے والو، رہے تمہارا زماں سلامت
اجڑ گیا ہے بکھر گیا ہے، یہ عشق آخر کو مٹ گیا ہے
کمین گاہوں میں رہنے والو، رہے تمہاری کماں سلامت
وہ حسن بانہوں میں سو گیا ہے، تو عشق راہوں میں کھو گیا ہے
یقیں کی منزل تو کھو چکی ہوں، مگر ابھی ہے گماں سلامت
میں اشک آنکھوں کے پی رہی ہوں، میں وار سہہ سہہ کے جی رہی ہوں
دعا کرو بس رہے ابد تک، مری یہ آہ و فغاں سلا مت
ابھی تو زندہ ہیں ہم جہاں میں، ابھی کہانی نہیں بچے گی
تمام کردار جب مریں گے، رہے گی پھر داستاں سلامت
٭٭٭
عجیب ہوتی ہے یہ محبت
عجیب ہوتی ہے یہ محبت
نصیب والوں کے دل میں جب بھی یہ جاگتی ہے
تو پہلے نیندیں اُجاڑتی ہے
یہ جھومتی ہے، یہ ناچتی ہے
یہ پھیلتی ہے، یہ بولتی ہے
ہر ایک لمحہ ہر ایک وعدے کو تولتی ہے
یہ اپنے پیاروں کو مارتی ہے
صلیب ہوتی ہے یہ محبت
عجیب ہوتی ہے یہ محبت
یہ پھیلتی ہے تو پیڑ بنتی ہے، چھاؤں کرتی، یہ روپ دیتی
یہ چھاؤں کر کے بھی دھوپ دیتی
کبھی کبھی تو بس آپ اپنی رقیب ہوتی ہے یہ محبت
عجیب ہوتی ہے یہ محبت
لہو کی صورت رگوں میں دوڑے
یہ خواب بن کر نظر میں ٹھہرے
سحاب بن کر فلک سے برسے
اسے جو دریا میں ڈال آؤ تو اک سمندر کا روپ دھارے
کہیں جو صحرا میں گاڑ آؤ تو پھول بن کر دلوں میں مہکے
اسے جو دیوار میں بھی چُن دو تو ہر کلی میں ہو عکس اس کا
ہر اک گلی میں ہو رقص اس کا
حبیب ہوتی ہے یہ محبت
عجیب ہوتی ہے یہ محبت
کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے یہ محبت
٭٭٭
آج بھی شاہیں ساتھ ہے میرے بچھڑے ہوئے اک ساتھ کا دکھ
دل میں آ کر بیٹھ گیا ہے، ٹوٹی اُجڑی ذات کا دکھ
موت کو جیون جان کے شب بھر جاگنا ہے معمول مرا
شب بھر چنتی رہتی ہوں میں ہجر میں ڈوبی رات کے دکھ
خوشیوں کے پیراہن میں ملبوس ہیں یوں تو لوگ سبھی
کون بھلا کب جان سکا ہے حال کا اور حالات کا دکھ
اشکوں کو دریا کر ڈالا، پھر دریا کو بحر کیا
عشق نے آنکھ کو بخشا ہے اک ہجر بھری برسات کا دکھ
حاکم سے کیا پوچھیں ہم جو حال بھی ہے مخلوق کا اب
تپتا سورج جان سکا کب کہر میں لپٹی رات کا دکھ
جی چاہے اس چارہ گر کا حال کبھی میں جان سکوں
اس کو تو معلوم نہ ہو گا ہاتھ سے چھوٹے ہاتھ کا دکھ
میرے مولا اور کسی دکھ پر کیا تجھ سے شکوہ ہو
خود کو تنہا کر دیتا ہے عشق میں کھائی مات کا دکھ
چلتے چلتے وصل اچانک ہجر کی شام میں ڈھل جاتا ہے
تم کیا جانو کیا ہوتا ہے بات سے نکلی بات کا دکھ
٭٭٭
گئی رتوں کی رفاقتوں میں تمہیں ملوں گی
مَیں چاہتوں کی ریاضتوں میں تمہیں ملوں گی
تم اپنی منزل کے راستوں میں جو دیکھ پاؤ
تو راستوں کی صعوبتوں میں تمہیں ملوں گی
نہیں ملوں گی کسی بھی وصل آشنا سفر میں
مَیں ہجر موسم کی شدتوں میں تمہیں ملوں گی
کہ مَیں نے چاہت کو بھی عقیدہ بنا لیا ہے
اگر ملی تو عقیدتوں میں تمہیں ملوں گی
مَیں جانتی ہوں کہ تیرے ادراک میں نہیں ہوں
مگر وفا کی شباہتوں میں تمہیں ملوں گی
ہو قید تم اپنی ذات کے خول میں اگرچہ
بس ایک خوشبو ہوں دستکوں میں تمہیں ملوں گی
وہ بنتِ حوا کو گو نظر سے گرا رہے ہیں
مگر وہ کہتی ہے رفعتوں میں تمہیں ملوں گی
نہیں ہے شاہین خواب پر اعتبار مجھ کو
سو زندگی کی حقیقتوں میں تمہیں ملوں گی
٭٭٭
اے عشق تری توقیر ہے کیا
اے عشق تُو گردِ سفر بنا، تری اور بھلا توقیر ہے کیا
تو خود ہی حسرت کا مارا، ترا خواب ہے کیا تعبیر ہے کیا
اے عشق تُو بکتا رہتا ہے، کبھی راہوں میں کبھی بانہوں میں
تُو بوجھ ہے دل کی دنیا کا، مرے واسطے تُو جاگیر ہے کیا؟
اے عشق مزار پہ رقص ترا، اور کتبوں پر ہے عکس ترا
تُو بجھتے دیے کا دھواں ہے بس، تُو کیا جانے تنویر ہے کیا
تجھے سنا تھا میں نے قصوں میں، اِس تن پر تو اب جھیلا ہے
مرا روپ رنگ تو زرد ہوا، مجھے خبر نہیں تصویر ہے کیا
تُو میم سے عین بنا تھا کیوں؟اب چین سے بین بنا ہے کیوں؟
میں اب تک پوچھتی پھرتی ہوں، مرے پیروں میں زنجیر ہے کیا
ان اشکوں کا تو ذکر ہی کیا، تجھے عشق لہو سے بھی لکھا
کبھی پڑھ تو سہی ان نوحوں کو، تجھے علم تو ہو، تحریر ہے کیا
٭٭٭
دل کو ذرا قرار تھا وہ بھی نہیں رہا
آنکھوں کو انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا
وہ ساتھ تھا تو ساتھ میں میری بھی ذات تھی
میرا کہیں شمار تھا، وہ بھی نہیں رہا
اُس سے جو ہم جدا ہوئے، خود کو بھی کھو دیا
خود پر جو اعتبار تھا وہ بھی نہیں رہا
دامن میں کوئی چاند، ستارہ نہ آفتاب
جگنو پر انحصار تھا وہ بھی نہیں رہا
جھیلی تھیں جس کے سنگ ہی یہ رنجشیں کبھی
اک دل ہی غمگسار تھا وہ بھی نہیں رہا
الجھا تھا میرے دل میں جو مدت سے اک سوال
لب پر جو بار بار تھا وہ بھی نہیں رہا
جس پر چراغ روز جلاتی تھی رات کو
دل میں جو اک مزار تھا وہ بھی نہیں رہا
مدت سے اُس کی راہ میں دل تھا بچھا ہوا
سوچوں میں وصلِ یار تھا وہ بھی نہیں رہا
تقدیر کی اسیر ہوں جس کیلئے یہ دل
مدت سے اشکبار تھا وہ بھی نہیں رہا
معبود میرے میرا مقدر تو دیکھ لے
خود پر جو اختیار تھا وہ بھی نہیں رہا
٭٭٭
کیسے گزرے ہیں یہ حالات، نہ پوچھو مَیّا
مجھ سے آنکھوں کی یہ برسات، نہ پوچھو مَیّا
چاند کل جس کی پناہوں کو ترستا تھا اُسے
ٹُوٹے تارے سے ہوئی مات، نہ پوچھو مَیّا
اک زمیں زاد کے آنچل میں ستارے کیسے؟
میرے ظلمت میں ہیں دن رات، نہ پوچھو مَیّا
اِذن جینے کا مجھے سب نے دیا تھا ایسے
جس طرح دیتے ہیں خیرات، نہ پوچھو مَیّا
عشق کرتا ہے زمانے میں سبھی کو رسوا
درد بن جاتے ہیں بارات، نہ پوچھو مَیّا
دشمنوں سے تو مجھے خوف نہیں تھا کوئی
رہ میں اپنوں کی مگر گھات، نہ پوچھو مَیّا
دلِ نادان سمجھتا رہا رانجھا جس کو
اُس میں کھیڑوں کی ملی ذات، نہ پوچھو مَیّا
جو لبوں پر ہیں یہی سُن لو، یہی کافی ہیں
دل میں ہیں جو بھی سوالات، نہ پوچھو مَیّا
قافلہ درد کا اس روح میں کیسے ٹھہرا؟
بھیگی آنکھوں کی ملاقات، نہ پوچھو مَیّا
لفظ جتنے تھے اکارت ہی گئے ہیں شاہین
دل کی سمجھا نہ کوئی بات، نہ پوچھو مَیّا
٭٭٭
اک بختوں والے کا قصہ
سکھی آج میں تیرے واسطے پھر
اک نئی کہانی لائی ہوں
اک درد نیا سا ہے اس میں گو بات پرانی لائی ہوں
سُن سکھی کہانی سُن میری
اک بات پرانی سُن میری
اک دن کے اُجالے کا قصہ
اک بختوں والے کا قصہ
اک مہربان سے لمحے میں
اک سرد ہوا کے جھونکے میں
مَیں اک دن اس کو دیکھ رہی تھی
اور پھر اپنے مَن ہی مَن میں جانے کیا کیا سوچ رہی تھی
مَیں سوچ رہی تھی جذبوں کی کیا آنچ یہ سرد نہیں ہو گی؟
جو ایک خوشی ہے جیون میں کیا کل بھی یہیں کہیں ہو گی؟
مَیں سوچ رہی تھی ہجر کی جو اونچی ہیں فصیلیں چار طرف
کیا ان مضبوط فصیلوں کو ہم قیدی مل کر توڑ سکیں گے؟
اور خوشیوں کا رخ ہم اک دن پھر اپنی جانب موڑ سکیں گے؟
اسی وفور سے لمحے میں پھر
چُپ کا پہرہ ٹوٹ گیا تھا
کیا جانے کیا سوچ کے اس نے
میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا تھا
میرا کنگن چھُو کر اُس نے
میری کلائی پر موجود وہ ایک سیہ تِل دیکھ لیا تھا
اور سیہ بختی کی علامت دیکھ کے اُس بختوں والے کے
چہرے پر اک کرب ابھرا تھا
اس ریشم سے لمحے میں بس
میری آنکھ کا سارا دریا ایک ہی قطرے میں سمٹا تھا
پلکوں کا وہ قیدی قطرہ
آنکھ فصیل کو توڑ کے اس کے ہاتھ پہ آخر آن گرا تھا
لیکن ہجر کا آبِ زم زم اُس نے ہاتھ سے جھٹک دیا تھا
درد کا وہ انمول سا قطرہ
وصل کا اک انمول سا لمحہ
اُس پل خاک میں خاک ہوا تھا
ہجر کے دریا کے شعلوں میں
میرا جیون راکھ ہوا تھا
٭٭٭
تخت نشین تھی عشق کی پھر بھی، دل کی بازی ہاری سائیں
تیرا مذہب دنیا داری، میں الفت کی ماری سائیں
مثلِ خوشبو مہکی تھی مَیں، اس کے وصل کی چھاؤں میں کل
سر پر تپتی دھوپ کھڑی اب، ساتھ میں ہجر کی باری سائیں
ہر اک موڑ پہ دل نے تجھ کو کیسے اپنا مان لیا ہے
مجھ کو مار گئی ہے تیری، جھوٹی یہ دلداری سائیں
گھِر کر آیا درد کا ساون، جل تھل جل تھل من کا آنگن
دکھ کے آنسو کب رک پائیں، ان کی برکھا جاری سائیں
لازم ہے اب دل بھی اجڑے، ساجن سے ساجن بھی بچھڑے
ہر جانب اک شور کا میلہ، اور دولت کے پجاری سائیں
تیرے ہر اک زخم کو اپنی روح کا اس نے زیور جانا
کیسے سج کر پھرتی ہے، ؤ اب تیری راج دلاری سائیں
درد وچھوڑا تُو کیا جانے، من مندر کو تُو کب مانے
دل کی دھڑکن کب پہچانے، تُو جذبوں سے عاری سائیں
کل سوچا تھا شعر میں تجھ سے سارے شکوے کر ڈالوں گی
آج غزل کہنے بیٹھی تو کیوں اتنی دشواری سائیں
اپنے من کو آگ لگائی، اور پھر اس کی راکھ اُڑائی
یوں ہی جلتے بجھتے شاہیں ساری عمر گزاری سائیں
٭٭٭
یہ عشق عجب لمحۂ توقیر ہے جاناں
خود میرا خدا اس کی ہی تفسیر ہے جاناں
جو نام ہتھیلی کی لکیروں میں نہیں تھا
کیوں آج تلک دل پہ وہ تحریر ہے جاناں
اس خواب کی تعبیر تو ممکن ہی نہیں تھی
آنکھوں میں مگر اس کی ہی تاثیر ہے جاناں
مانا کہ ترے ہاتھوں میں ہیں پھول ابھی تک
لیکن ترے پیروں میں جو زنجیر ہے جاناں
کیا جانئے کس روز بکھر جائے کہیں بھی
اس آس کی دل میں جو اک تنویر ہے جاناں
یہ روگ کہیں مجھ کو ہی مسمار نہ کر دے
آ لوٹ کر آ تُو ہی تو اکسیر ہے جاناں
تو ہجر میں ڈوبی ہوئی نَیّا کا کنارہ
جیون کی ترے پاس ہی تدبیر ہے جاناں
یہ زخم جدائی کے کبھی سلنے نہیں ہیں
تُو جان لے اپنی یہی تقدیر ہے جاناں
٭٭٭
…تو میَں تقدیر سے پوچھوں
کبھی تقدیر گر میری
مجھے رستے میں مل جائے
کبھی بھولے سے ہی گَر وہ
مری بستی میں آ جائے
مرے گھر کا پتہ پوچھے
کبھی مجھ سے کہے آ کر
کہ میں تقدیر ہوں تیری
بتا کیا چاہئے تجھ کو؟
خوشی درکار ہے تجھ کو؟
ہنسی درکار ہے تجھ کو؟
وفا درکار ہے تجھ کو؟
کسی بچھڑے ہوئے کا کوئی پتہ درکار ہے تجھ کو؟
بتا تقدیر کی ماری کہ کیا درکار ہے تجھ کو؟
کبھی تقدیر گر پوچھے تو میں کچھ بھی نہ مانگوں گی
میں اے جانِ جہاں تقدیر سے تیرا نہ پوچھوں گی
نہ تیرا پیار اور چاہت
نہ جذبوں کی کوئی حدت
نہ ہونٹوں کی کوئی لرزش
نہ ہاتھوں کی کوئی جنبش
نہ خوشبو دار سا موسم
نہ زخموں کے لئے مرہم
نہ کوئی امید مانگوں گی
نہ اس سے عید مانگوں گی
نہ میں تیری محبت کی کوئی تجدید مانگوں گی
نہ اُس بھولے ہوئے وعدے کی اب تائید مانگوں گی
بس اے جانِ جہاں تقدیر سے میں اتنا پوچھوں گی
رفاقت اور محبت کا
ریاضت اور عبادت کا
یہی انجام ہوتا ہے؟
مسلسل ایک سجدے کا یہی انعام ہوتا ہے؟
کسی کے نام پر کوئی اس طرح بے نام ہوتا ہے؟
مثالِ شام ہوتا ہے؟
٭٭٭
مجھ کو وہ حسرتوں کی یوں تصویر کر گیا
چنری کو تپتی دھوپ کی جاگیر کر گیا
خواہش تو تھی کہ گل کی طرح سے کھلوں مگر
وہ زرد سی رتیں ہی بس تقدیر کر گیا
جیسے ہی میں دہلیز کے اس پار آ گئی
دیوار ہجر اک نئی تعمیر کر گیا
قصہ جنونِ عشق کا تم پوچھتے ہو کیوں
ہر ایک دکھ وہ باعثِ توقیر کر گیا
اس داستاں میں کونسا کردار ہے میرا
سوھنی ہوں، صاحباں ہوں کہ وہ ہیر کر گیا؟
مدت سے ایک چاک پہ ہے رقص میں حیات
وہ کوزہ گر کچھ اس طرح تسخیر کر گیا
جیون میں روشنی کی ضمانت بھی ہے وہی
اک دائمی سی رات جو تحریر کر گیا
٭٭٭
آئینہ تھا، میں تھی اور اُس کی نگاہوں کا حصار
اِس رعایا کو ملا یوں بادشاہوں کا حصار
دشت میں زاد سفر اتنا ہی تھا میرے لئے
اشک تھے اور ساتھ تھا بس میری آہوں کا حصار
کیا کریں ہم کو تو بڑھنے ہی نہیں دیتا کہیں
گم شدہ منزل اور کچھ الجھی راہوں کا حصار
سانس لینے سے بھی اکثر روک دیتے ہیں ہمیں
جان لیوا ہو چلا ہے خیر خواہوں کا حصار
اس لئے تو کاروانِ دل ابھی بھٹکا نہیں
اک جبینِ عشق ہے اور سجدہ گاہوں کا حصار
خود خدا تاریکیوں میں راہ دکھلائے ہمیں
خود خدا بنتا ہے شاہین بے گناہوں کا حصار
٭٭٭
سُن میری سہیلی، بات تو سُن
سُن میری سہیلی، بات تو سُن
کٹی کیسے عمر کی رات تو سُن
اک شام کی لالی اوڑھ کے جب
اک یاد میں خود کو توڑ کے جب
میں آئینہ بن کر کھڑی رہی
گویا اس ہجر کے زیور میں
مَیں موتی بن کر جڑی رہی
مہ و سال کے دیپک بجھ بھی گئے
اک صورت دل میں گڑی رہی
مرا وقت وہیں پر تھم سا گیا
بس گرد کی صورت آنکھوں میں
اک شام کا لمحہ جم سا گیا
ہے رستہ ایک جدائی کا
صحرا میں آبلہ پائی کا
امید کا ریشم بنتی رہی
ہر کرچی دل کی چنتی رہی
پھر بھی میں ضد پر اڑی رہی
بکھرے پتوں کی صورت بس
ویراں آنگن میں پڑی رہی
سب لیکھ کے پورے ہو گئے گُن
اب کھو گئی عشق قفس کی دھن
تجھ کو معلوم ہے یہ بازی
کیونکر اور کیسے ہاری میں
وہ روشن تارا فلک کا ہے
اندھی تقدیر کی ماری میں
سُن میری سہیلی بات تو سُن
کٹی کیسے عمر کی رات تو سُن
٭٭٭
یوں تیری قربت بھلا رہی ہوں
کہ جیسے دنیا سے جا رہی ہوں
رہے تری بے رخی سلامت
میں رسمِ الفت نبھا رہی ہوں
کسی کی یادیں سلا کر اب تک
میں خود کو کیوں کر جگا رہی ہوں
کوئی مجھے روز توڑتا ہے
میں روز خود کو بنا رہی ہوں
وہ بات جو بات ہی نہیں ہے
وہ بات سب کو بتا رہی ہوں
جلا کے اس نے بجھا دیا تھا
میں بجھ کے خود کو جلا رہی ہوں
سماعتوں کا ہے قحط پھر بھی
وفا کے نغمے سنا رہی ہوں
بھلا سکی ہوں کہاں سے تجھ کو
یہ یاد خود کو دلا رہی ہوں
نہ کوئی پونچھے گا اشک میرے
سو دردِ دل اب چھپا رہی ہوں
٭٭٭
ہجر اثاثہ رہ جاتا ہے
ہاتھ میں کاسہ رہ جاتا ہے
جب امید نہ باقی ہو تو
صرف دلاسہ رہ جاتا ہے
زخم بہت سے مل جاتے ہیں
وقت ذرا سا رہ جاتا ہے
دل سے درد نکل کر بھی تو
اچھا خاصا رہ جاتا ہے
موجیں جب بھی چھو کر گزریں
ساحل پیاسا رہ جاتا ہے
ایک شناسائی کی دھن میں
دکھ ہی شناسا رہ جاتا ہے
وقت بھلا دیتا ہے سب کچھ
صرف خلاصہ رہ جاتا ہے
٭٭٭
مجھے جانا ہے جاناں کی طرف
اے دل میرے، ناشاد مرے
ہمزاد مرے، برباد مرے
اک عمر سے اس زندان میں ہوں
پر کھول مرے آزاد تو کر
مرے پیروں میں زنجیرِ وفا
اسے توڑ ذرا، مجھے جوڑ ذرا
مجھے جینے کی تہذیب تو دے
مری سانسوں کو ترتیب تو دے
اب خود کو ذرا تُو شاد تو کر
مجھے جیون سے آزاد تو کر
تُو جانتا ہے اس جیون کو
یہ مدفن ہے ہر حسرت کا
یہ جیون ہے اک موت نما
مجھے دور یہاں سے جانا ہے
اُڑنا ہے فلک کی جانب اب
اک زنداں سے زنداں کی طرف
حیراں کی طرف، جاناں کی طرف
ہاں اُس کی طرف جس کی خاطر
یہ آنکھیں برسی ہیں شب بھر
جو خوشبو دیس کا باسی ہے
اور جس کو نہیں اب میری خبر
اے دل میرے میں خاک نشیں
کیا چاند کو اب تسخیر کروں
کس خواب کو کیوں تعبیر کروں؟
تاریک سا یہ جو جیون ہے
اب کیسے اسے تنویر کروں؟
اک رنگ جو ہے دامن میں مرے
اسے کتنی دفعہ تصویر کروں؟
دکھ سارے کیوں تحریر کروں؟
ہمزاد مرے، ناشاد مرے
اے دل میرے، برباد مرے
اب خود کو ذرا تُو شاد تو کر
اب تُو مجھ کو آزاد تو کر
مجھے جانا ہے جاناں کی طرف
حیراں کی طرف زنداں کی طرف
٭٭٭
جہاں چاہو میرا نام لکھو، جو چاہو تم الزام لکھو
مجھے عشق نے برسوں قید رکھا، مجھے ہجر کی گہری شام لکھو
مرے جوش جنوں کا یہ تنہا سفر، اے چارہ گرو تمہیں کیا ہے خبر
مرے پاس ہے جو بھی یہ دردِ ہُنر، اسے تم میرے ہی نام لکھو
مرے لب پہ ابھی وہ سوال ہے کیوں؟مرے دل میں ابھی وہ ملال ہے کیوں؟
مرے چاروں جانب جال ہے کیوں؟مرے خواب کا اب انجام لکھو
یہ عشق مسلسل ساون ہے، من آگ، تو جسم اک ایندھن ہے
بس موت ہے، کب یہ جیون ہے؟ اسے زہر بھرا اک جام لکھو
کبھی دشت میں خار پہ ہے چلنا، کبھی آگ کا پھول میں ہے ڈھلنا
کبھی تنہا دھوپ میں ہے چلنا، اسے عشق کا ہی انعام لکھو
ہر خواہش ہے سرِ نوکِ سناں، ہر چاہت ہے بس نوحہ کناں
معلوم نہیں خود مَیں ہوں کہاں، اب چاند نہیں سرِ بام لکھو
یہ ہجر جو اک طولانی ہے، مرے پاس جو ایک نشانی ہے
شاہیں یہ مری جو کہانی ہے، اسے خوشیوں میں کہرام لکھو
٭٭٭
جب سے تری نظر کا اشارہ بدل گیا
میرا نصیب میرا ستارہ بدل گیا
برسوں کی پیاس لے کے ہم دریا پہ آ گئے
دریا بھی تھا عجب کہ جو دھارا بدل گیا
ٹھہرا ہوا ہے شام کا منظر نگاہ میں
کہنے کو یہ جہان تو سارا بدل گیا
اُس کی کسی کتاب میں میرا شمار تھا
پھر ایک روز بس وہ شمارہ بدل گیا
برسوں کی خواہشوں سے جو تسخیر ہوا تھا
لمحوں کے پھیر میں وہ سہارا بدل گیا
٭٭٭
مرے مہرباں، مرے معتبر
مرے پاؤں کتنے لہو لہو
ترے عشق والی دھمال میں
مرے ہاتھ پر یہ حنا جو ہے
یہ سجی ہے تیرے ہی خیال میں
مرے پاس کاسہ بھی ہے مگر
مرے لب پہ کوئی صدا نہیں
میں دعابدست سہی مگر
مرے لب پہ کوئی دعا نہیں
وہ جو آرزو تھی وصال کی
وہ جو ساعتیں تھیں نصیب سی
وہ جو گرد گرد تھے راستے
وہ جو منزلیں تھیں قریب سی
کسی ایک گٹھڑی میں باندھ کر
کہیں راستے میں ہی چھوڑ دیں
وہ جو ابتلائیں تھیں زیست کی
میں نے اپنی جانب وہ موڑ دیں
مرے مہرباں، مرے معتبر
مری منزلیں نہ تلاش کر
مجھے سب نے تنہا کیا مگر
مجھے توُ تو اب نہ نراش کر
٭٭٭
نہ گل میں نہ اب گلستاں ہی میں ڈھونڈو
محبت کو بس آستاں ہی میں ڈھونڈو
نشانی محبت کی تم کو ملے گی
کسی ایک دھندلے نشاں ہی میں ڈھونڈو
پتہ شہرِ دل کی بہاروں کا اب تم
کہیں بام و در کی خزاں ہی میں ڈھونڈو
اگر ڈھونڈنا ہے وجود اپنا تم کو
کسی دل کے اُجڑے مکاں ہی میں ڈھونڈو
ملے گی اندھیرے میں اُجلی کرن بھی
اسے سوچ کی کہکشاں ہی میں ڈھونڈو
وفا کی کہانی میں ڈھونڈو مجھے تم
کبھی ہجر کی داستاں ہی میں ڈھونڈو
ہو جس پر یقیں تم کو شاہیںؔ ازل سے
اسے اپنے وہم و گماں ہی میں ڈھونڈو
٭٭٭
زندگی میں زندگی دکھ بھر گئی
روشنی آنکھوں کی مدھم کر گئی
اتنا سناٹا تھا میری روح میں
میں تو اپنے آپ سے بھی ڈر گئی
میرے عارض جس سے دمکے تھے کبھی
ایک دن وہ آرزو بھی مر گئی
ہر طرف اک پیاس کا صحرا تھا بس
جس طرف بھی میری چشمِ تر گئی
اپنی قسمت سے گلہ مجھ کو نہیں
اس کی قسمت بھی تو بس مجھ پر گئی
٭٭٭
تُو نے کس کی خاطر شعر کہے
تُو جانتا ہے ہمزاد مرے
اے دل میرے، ناشاد مرے
جس نام کے سارے حرفوں کو
اور نظم کے سارے مصرعوں کو
اے دل تُو نے سو بار لکھا
اور عشق کے زرد سے موسم کو
ہر بار مثالِ بہار لکھا
پر آج ترے چارہ گر نے
اے دل تیرے کوزہ گر
ان عشق مسافت جذبوں کو
ان ہجر ریاضت لمحوں کو
بس شعروں کا ہی نام دیا
اور ہنس کر یہ بھی پوچھ لیا
تُو نے کس خاطر اے لڑکی
اس زیست کو یہ انجام دیا؟
٭٭٭
نینوں میں نیر پروتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
جیون کے ساز پہ روتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
اک یاد پڑی ہے آنگن میں، اک شام رکھی ہے جیون میں
اک درد کا بوجھ بھی ڈھوتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
جب ہلکی سی اک آہٹ پر میرا دل چونک سا اٹھتا ہے
پھر دھیان کے دشت میں سوتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
جب پھول بھرے اس موسم میں پنچھی بھی گیت نہیں گاتے
پھر آس کے بیج کیوں بوتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
اک چاک پہ رقص میں رہتی ہیں، یہ لڑکیاں اشک بہاتی ہیں
پھر ان کے جیسی ہوتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
چنری کے سارے رنگوں میں، اور پیار پریت کی جنگوں میں
جیون کے رنگ سموتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
پہلے تو پاگل ہوتی ہے کوئی تنہا کسی کی یادوں میں
پھر ہوتے ہوتے ہوتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
جیون کی ان زنجیروں سے اور اجڑی ہوئی تصویروں سے
اب درد کا میل بھی دھوتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
میں تو بس جاگتی رہتی ہوں، یہ کب تک میرا ساتھ دیں اب
تھک کے آخر سوتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
کوئی ساز نہیں، ہم راز نہیں، آواز نہیں، انداز نہیں
شاہیں ایسی بھی ہوتی ہیں، یہ پایل، چوڑیاں اور مہندی
٭٭٭
اُس گلی کے راستے کے اور گھر کے درمیاں
ہو گئی تقسیم میں زیر و زبر کے درمیاں
جرم بس یہ تھا کہ منزل کا تعین کر لیا
پھر سدا رہنا پڑا ہم کو سفر کے درمیاں
اے خدا دہکی ہوئی اس آگ سے نکلوں گی کب؟
تھک گئی میں چاک اور اک کوزہ گر کے درمیاں
پھول، کلیاں، خوشبوئیں، مہکے ہوئے وہ راستے
خواب ہو کر رہ گئے ہیں بام و در کے درمیاں
اب نہ وہ موجیں، نہ طغیانی، نہ سیلِ آب ہے
لیکن اک کشتی ابھی تک ہے بھنور کے درمیاں
آج تک ہوں بے خبر جانے کہاں ہے روشنی؟
کہکشاں بن کر ملے جو رہ گزر کے درمیاں
اک مسافر کو کسی نے دی تھی منزل کی نوید
خود ابھی تک ہے مگر شام و سحر کے درمیاں
لُٹ گیا اسباب لیکن آرزو باقی رہی
جستجو جاری ہے مجھ میں اور سفر کے درمیاں
میں نے تو شاہین رب سے اور کچھ مانگا نہ تھا
اک طلب تھی اک دعائے مختصر کے درمیاں
٭٭٭
اجنبی مسافرکے نام
اجنبی سی راہوں کے
اجنبی مسافر تم
اجنبی سی راہوں کے
اجنبی مسافر ہم
جانے کتنی صدیوں سے
زندگی کے رستے پر
اوراس سفرمیں تم
ایک پل کو رکتے ہو
اجنبی سی راہوں کی
اجنبی مسافت میں
درد کی صداؤں کو
ایک ساز دیتے ہو
سرپھری ہواؤں کو
دل کے اس دریچے میں
وصل جاں کے لمحوں کا
ایک راز دیتے ہو
بے جواز لمحوں کو
کیوں جواز دیتے ہو؟
٭٭٭
زخم اپنے گلاب کر دینا
روح کو ماہتاب کر دینا
ڈال کر اک نظر محبت کی
سب کو تم لا جواب کر دینا
روح کے زخم روشنی دیں گے
ہجر کو آفتاب کر دینا
پتھروں سے اگر جو بچنا ہو
عکس کو بھی سراب کر دینا
باب لکھنا ہو زندگی کا اگر
چاہتوں کو نصاب کر دینا
اپنی تعبیر ڈھونڈنے کے لئے
اپنی آنکھوں کو خواب کر دینا
خود کو مسمار کر کے شاہیں تم
اک ستارہ شہاب کر دینا
٭٭٭
دل اُسی کا غلام ہے اب تک
عشق کا احترام ہے اب تک
اس سے آباد شب کی تنہائی
اس کا ہی اہتمام ہے اب تک
وصل کی راہ میں نہیں کچھ بھی
ہجر والی ہی شام ہے اب تک
روح میں ہے ابھی مہک اُس کی
لب پہ اُس کا ہی نام ہے اب تک
اُس نے مجھ سے کہا، یہاں ٹھہرو
بس وہیں پر قیام ہے اب تک
٭٭٭
صبح تو ہو گی
یہاں پر صبح تو ہو گی
یہاں سورج تو نکلے گا
یہ ممکن ہے کہ ان روشن دنوں کا بھی نہ کوئی منتظر ہو تب
نہ امیدِ سحر ہو اور نہ جیون کی طلب ہو تب
جو اک اندھے سے اور بنجر سے رستے پر مسافر ہے
وہ جو صدیوں سے تنہا ہے
کسی کی راہ تکتا ہے
یہ ممکن ہے کہ جب سورج نکل آئے
تو اس کی شام ڈھل جائے
یہاں پر صبح تو ہو گی
یہاں سورج تو نکلے گا
بھلے سورج نکلنے پر شب ہجراں سلامت ہو
کسی کی چشم ویراں میں غم جاناں امانت ہو
بھلے سورج نکل کر بھی نہ سورج کو نکلنا ہو
کسی نے عمر بھر یو نہی برہنہ پا بھٹکنا ہو
بھلے زندان میں امید کا دیپک نہ جلنا ہو
کسی نے دور تک اس دشت میں تنہا ہی چلنا ہو
یہاں پر صبح تو ہو گی
یہاں سورج تو نکلے گا
بھلے پھر عشق موسم باعث دیدار ہو، نا ہو
یہاں خود سے بھلے کوئی بر سر پیکار ہو، نا ہو
بھلے زندان کی دیوار بھی مسمار ہو، نا ہو
مگرسورج تو نکلے گا
جو دامن میں امید وصل کے جگنو سلامت ہیں
جو آنکھوں میں ابھی تک چند یہ آنسو امانت ہیں
سلامت ہی رکھو ان کو
امانت ہی رکھو ان کو
تمھیں معلوم ہے آنکھوں میں اب تک بھی وہی ویرانیاں سی ہیں
کسی حیرت زدہ منظر کی کچھ حیرانیاں سی ہیں
کسی مشکل گھڑی میں بھی کئی آسانیاں سی ہیں
انہیں حیران رہنے دو
انہیں ویران رہنے دو
انہیں آسان رہنے دو
یہاں پر صبح تو ہو گی
بھلے پھر منتظر آنکھوں میں کوئی گریہ کناں مت ہو
جہاں کوئی آج ہے ممکن ہے پھر وہ بھی وہاں مت ہو
کسی کا کوئی جہاں مت ہو
کہیں کوئی داستاں مت ہو
مگرسورج تونکلے گا
یہاں پر صبح تو ہو گی
پھر اس سورج ابھرنے سے
یہ ممکن ہے کہ محبت کے وہ سب جذبے
ہمیشہ کیلئے ہی ماند پڑ جائیں
امید وصل کے جتنے شجر ہیں سب اکھڑ جائیں
جو اِن آنکھوں میں خوابوں کے کئی میلے سجے ہیں اب
یہ ممکن ہے اجڑ جائیں
اگرچہ آج نفرت نے سبھی کچھ راکھ کر ڈالا
وہ جو اک شام کی لالی تھی اس کو بھی
سیہ بختی کی آندھی نے خس و خاشاک کر ڈالا
مگر امید کے دل میں ابھی جگنو سلامت ہے
کسی کی آنکھ میں اب بھی کوئی آنسو سلامت ہے
اگرچہ ہم نہیں ہوں گے مگر امید کا جگنو
کسی کی آنکھ کا آنسو ہی جیون کی ضمانت ہے
اسی سے روشنی ہو گی، اسی سے زندگی ہو گی
سو تم اس بے یقیں موسم میں بس اتنا یقیں رکھنا
غروبِ جاں کے لمحوں میں
کوئی سورج تو ابھرے گا
طلوع وصل کا لمحہ فضاؤں میں جو نکھرے گا
اسی بے رنگ دنیا میں
وہ رنگ جاوداں اس دن
میری سانسوں میں اترے گا
جو اَب خود کھو چکا ہے وہ
اسی دن مجھ کو ڈھونڈے گا
٭٭٭
جب مرا ہر ایک دکھ میرا ہنر ہو جائے گا
زندگی کا یہ سفر آسان تر ہو جائے گا
دل میں اک موہوم سا جذبہ کہیں جاگا تھا کل
جانتی کب تھی یہ اک دن اس قدر ہو جائے گا
کیا خبر تھی ریگزاروں میں ہی گزرے گی حیات
یہ سفر دشوار سے دشوار تر ہو جائے گا
عشق کی لَو ایک نہ اک دن جلا دے گی مجھے
پھر مرا ہر ایک دکھ مثلِ قمر ہو جائے گا
خاک ہو جائیں گے ہم تعبیر کی حسرت لئے
قریۂ خوابِ ابد اجڑا نگر ہو جائے گا
کرب کے لمحات میں بھی تم یقیں رکھنا کہ بس
عرصۂ شامِ الم آخر بسر ہو جائے گا
جب کبھی مَیں ہر خبر سے بے خبر ہو جاؤں گی
وہ مرے ہر ایک دکھ سے باخبر ہو جائے گا
اب یہاں بس شور ہے اور سسکیاں ہیں چار سُو
دیکھ لینا یہ جہاں وحشت کا گھر ہو جائے گا
خوف آتا ہے مجھے شاہین ڈھلتی شام سے
جب وفا کا نام بھی گردِ سفر ہو جائے گا
٭٭٭
جب وفاؤں کا دیا جل کر دھواں ہو جائے گا
اپنا ہر نام و نشاں پھر بے نشاں ہو جائے گا
چھوڑ جائیں گے مکیں، ہوں گی فقط محرومیاں
دشتِ وحشت میں یہ دل اجڑا مکاں ہو جائے گا
عمر بھر کے جس سفر کو رائیگاں کہتے ہو تم
اک نہ اک دن دیکھنا کارِ جہاں ہو جائے گا
چوٹ کھائیں گے کہیں اور غم رلائیں گے کہیں
مہرباں وقت اس طرح نا مہرباں ہو جائے گا
جب لکیروں میں ڈھلے گا میرے دل کا اضطراب
غم کہانی سے نکل کر داستاں ہو جائے گا
کیا خبر تھی میں سوالوں میں ہی بس کھو جاؤں گی
ایک لمحہ زندگی کا امتحاں ہو جائے گا
اک دیا جلتا رہے گا اِس میں اُس کی یاد کا
اور مرا دل عشق کا اک آستاں ہو جائے گا
ایک دن شاہیں مری آواز سن لیں گے سبھی
میرا ہر اک شعر میرا ترجماں ہو جائے گا
٭٭٭
وطن کیلئے (جشن آزادی پر)
دریا دریا بہنا ہے اب پاکستان کے ساتھ۔
مگر میں کیسے پرسہ دوں؟
مرے کانوں میں چیخیں ہیں
مرے معصوم بچوں کی
مری آنکھوں کے تاروں کی
کہ جن کے کھیلنے کے دن تھے
لیکن ظالموں نے ان سے کیسا کھیل کھیلا تھا
مرے بچوں سے اس دن موت کھیلی تھی
مری آنکھوں میں منظر ہیں
بہت سفاک منظر ہیں
کہیں بکھری کتابیں ہیں
کہ جن پر موت لکھی ہے
کہیں بستہ ہے کاپی ہے
کہ جن پر خون کے دھبے
رُلائیں خون کے آنسو
کسی منظر میں مائیں، بین کرتی ہیں
کہیں پھولوں کی لاشوں پر
بہت سے پھول رکھے ہیں
مجھے ماؤں کی چیخیں رات بھر سونے نہیں دیتی
کہ میں ان سرد راتوں میں
یہ گھنٹوں سو چتی ہوں بس
میں پرسہ دے سکوں گی کیا
انہیں اب اپنی نظموں سے؟
میں کیسے ان کے دکھ کو اپنی نظم میں ڈھا لوں؟
خدا سے پوچھنا چاہوں
کہ یارب تیری دھرتی پر اگر یہ ظلم ٹوٹا ہے
زمیں کیوں کر سلامت ہے؟
قیامت کیوں نہیں آئی؟
میں شکوہ کر نہیں سکتی، جواب آئے گا شکوے کا
تمہارا فرض بھی کچھ تھا
اگر تم قوم بن جاتے
تو یہ دن بھی نہیں آتا
مجھے شکوہ نہیں کرنا
مجھے پرسہ تو دینا ہے
مجھے ان سب دکھوں کو اپنی نظموں میں بھی لکھنا ہے
مرے آنسو بھی حاضر ہیں
مری یہ نظم نذرانہ
مگر میں کیسے پر سہ دوں
کہ یا رب میں بھی تو ماں ہوں
سو ماں کا دکھ سمجھتی ہوں
مجھے معلوم ہے ایسے دکھوں کا تیری دنیا میں
مداوا ہو نہیں سکتا
کبھی بھی دل گرفتہ ماں کو پرسہ ہو نہیں سکتا
تڑپتی مامتا کو اب دلاسہ ہو نہیں سکتا
٭٭٭
ہجر کے غم کو میں لوگوں سے چھپاتی کیسے؟
کھو گئی خود ہی تو پھر اس کو بچاتی کیسے؟
جا بجا چاند چمکتا تھا کسی راستے پر
راہ روشن تھی بھلا دل سے بھُلاتی کیسے؟
میری آنکھیں تو ابھی تک ہیں وہیں سجدہ کناں
اپنے ماتھے سے وہ محراب مٹاتی کیسے؟
آخری بار جب آیا تھا کوئی ملنے کو
آخری بات پھر اُس کو میں بتاتی کیسے؟
ایک چڑیا نے اِسی واسطے پھر چپ کو اوڑھا
ہجر کے گیت ہی گانے تھے تو گاتی کیسے؟
خود کلامی جِسے ورثے میں ملی ہو شاہین
اُس کی آواز کسی اور تک جاتی کیسے؟
٭٭٭
ہجر کے پھول کھِلے، بے سر و سامانی دیکھی
ہجر کے شہر میں جب یاد پرانی دیکھی
بازار وفا میں بے قیمت و قامت ٹھہرے
روح نے سلسلۂ زر میں عجب گرانی دیکھی
اور کیا عمر رواں تجھ کو حیراں کرتے
شہر پندار میں فرقت کی روانی دیکھی
میں زمین زاد ڈرتی تھی اُس کے خوابوں سے
آسماں پہ بھی مگر چاند کی ارزانی دیکھی
اک خوشی کو بھلا بانٹنا کتنے لوگوں میں
ہم نے اس کے غم میں اپنی زندگانی دیکھی
٭٭٭
عید حیران ہے
عید مہندی کا، خوشیوں کا
رنگوں کا، خوشبو کا
اور کانچ کی چوڑیوں کی کھنک
میں بسی آرزوؤں کا اک نام ہے
عید انعام ہے
عید امید ہے
عید تجدید ہے
عید جیسے کوئی روشنی کی کرن
ایک وعدے، کہانی، فسانے کی یا
ہجر موسم میں لپٹے ہوئے وصل کے
دکھ کی تمہید ہے
عید امید ہے
ایک گھر میں تو خوشیوں کا سامان ہے
ایک گھر میں مگر دکھ کا طوفان ہے
عید حیران ہے
عید ہیرا نہیں، عید موتی نہیں
عید ہنستی نہیں، عید روتی نہیں
ایک آنگن کہیں کوئی ایسا بھی ہے
جس میں شہزادی صدیوں سے سوتی نہیں
شاہزادے کی جب دید ہوتی نہیں
عید کے دن بھی پھر عید ہوتی نہیں
٭٭٭
دائمی ہے عشق اور اک دائمی آواز ہے
میرے کانوں میں ابھی تک بس وہی آواز ہے
ساتھ میرے رات بھر جو جاگتی آواز ہے
کون جانے یہ تو میری روح کی آواز ہے
ہجر کے لمحوں میں اب تک یہ خبر کب ہو سکی
جاگتی ہوں میں یا کوئی جاگتی آواز ہے
ہجر جیسے وصل میں اُس کو سنا تو یوں لگا
موت جیسی زندگی میں زندگی آواز ہے
اجنبی سی منزلوں کی اجنبی سی راہ
اک مکمل خواب اور اک خواب سی آواز ہے
آنے والے دور میں شاہین رہنا ہے مجھے
سب کہیں گے یہ وہی اک دکھ بھری آواز ہے
٭٭٭
قطعہ
اپنے پیروں کے چھالوں اور دل کے زخم کو دھول لکھا
ہم نے وصل کی خواہش کو بہکے جذبوں کی بھول لکھا
ہم تقدیر کی تال کو چال بنا رقص کناں تو ہیں
وقت نے در بدری کو ہمارے جیون کا معمول لکھا
٭٭
قطعہ
مثال بن کے مثالوں کے ساتھ مرنا ہے۔
مجھے تو اپنے حوالوں کے ساتھ مرنا ہے
وہ کہہ رہے ہیں مقدر ہے تیرگی
میں کہہ رہی ہوں اجالوں کے ساتھ مرنا ہے
٭٭٭
اُسے عید مبارک کہتی ہوں
آج بھی برسوں بعد مرے
کانوں میں صدا تیری آئے
مَیں چاند ہوں جاناں، چاند ہوں مَیں
سُن چاند ہوں تیری عید کا مَیں
پیغام ہوں ایک نوید کا مَیں
رنگوں سے سجی، خوشبو میں بسی
ہر دید کا اک انعام ہوں مَیں
پیغام ہوں مَیں
وہ جو تیری صدا کا لمحہ تھا
مری ساکن روح میں اُتر گیا
اُس لمحے نے کیسے ہم کو شاداب کیا، نایاب کیا
دل کی بنجر جو مِٹی تھی اس کو کیسے سیراب کیا
ہر خار کو پھول کیا اس نے، ہر ذرے کو مہتاب کیا
وہی لمحہ میری حیات بنا
وجہِ تکمیل ذات بنا
اسی اک لمحے میں آج تلک
مری روح کہیں پر اٹک گئی
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
پھر اک لمحہ وہ بھی آیا
جب میرا چاند ہی ماند ہوا
کوئی دید رہی، نہ ہی عید رہی
نہ ہی خوشیوں کی امید رہی
پھر عید نہ اتری آنگن میں
اک لمحہ ایسے محیط ہوا
میں اپنی ذات میں سمٹ گئی
اور خوشیوں کی ہر اک رُت پھر
مرے دروازے سے پلٹ گئی
لیکن جب عید کا دن آئے
وہی لمحہ لوٹ کے آتا ہے
وہی لہجہ لوٹ کے آتا ہے
وہی چاند نظر میں سماتا ہے
کس حال میں اب وہ رہتا ہے
کس حال میں اب میں رہتی ہوں
اُسی دھارے میں بس بہتی ہوں
اُسے عید مبارک کہتی ہوں
اُسے عید مبارک کہتی ہوں
٭٭٭
اُجاڑ رات ہے، تنہائی ہے، قیامت ہے
وہ سامنے ہے کہ جذبوں میں اتنی شدت ہے
کل اُس کے لفظ پڑھے تو مجھے کچھ ایسا لگا
زبانِ غیر میں لکھی ہوئی عبارت ہے
جو میری مانگ میں کچھ زخم جگمگاتے ہیں
کسی کے عشق میں مجھ کو ملی یہ دولت ہے
میں اپنے آپ کو بھی بھول ہی چکی ہوں اب
کسی کی یاد کی مجھ پر بڑی عنایت ہے
ہوا کے سنگ اسے دور تک ہی جانا ہے
کہ پھول سے بھلا خوشبو کی کیا رفاقت ہے
یہ جلتی ریت تری یاد کی بچھی ہے اور
میں پوچھتی ہوں کہ کتنی ابھی مسافت ہے؟
مجھے جو دیکھ رہے ہو تم ایسے حیرت سے
خود اپنے آپ پہ مجھ کو بھی اتنی حیرت ہے
ہے کرب جو مری تخلیق میں اسے سمجھو
یہ شاعری مرا اظہار ہے، عبادت ہے
میں زخم سہہ کے بھی شاہین مسکراتی ہوں
کہ درد دل کا چھپانا تو میری عادت ہے
٭٭٭
اب تک اُسی طرح سے اذیت میں کون ہے؟
اے دل تو خود بتا کہ محبت میں کون ہے؟
نظروں میں کون ہے اگر کوئی سامنے نہیں
گر بولتا نہیں تو سماعت میں کون ہے؟
آنکھوں میں آج تک بھلا کس کا قیام ہے؟
دن رات ایک جیسی عبادت میں کون ہے؟
کس کو خبر کہ کون کہاں ہمکلام ہے؟
کس کو خبر کسی کی رفاقت میں کون ہے؟
اچھا ہوا کسی پر حقیقت نہ کھُل سکی
شاہیں میں کیا کہوں کہ حقیقت میں کون ہے؟
٭٭٭
کوچۂ عشق سے اس طرح رہا بھی کیوں ہوں
آج تھک ہار کے ہم نے تو عجب سوچا ہے
تیری یادوں سے کہیں دور بہت دور کہیں
ایسی نگری میں ہی اب جا کے بسیرا کر لیں
ہجر لمحہ نہ جہاں گریہ کناں ہو کوئی
تری یادوں سے نہ اٹھتا سا دھواں ہو کوئی
ایسی بستی نہ جہاں وصل تمنا جاگے
اور کبھی دل نہ کسی دید کا پرسہ مانگے
آنکھ کے بند دریچوں میں نہ جھانکے کوئی
اور کبھی خواب نہ تعبیر کا توشہ مانگے
بس وہاں درد و الم کا نہ کہیں ہو عالم
اور کبھی ہجر نہ پھر وصل کا جھونکا مانگے
آج تھک ہار کے ہم نے تو عجب سوچا تھا
اب تلک دل تو ہمارا ہے وہی شیدائی
اس کی ویران رگوں میں ہے تری رعنائی
دل کی نگری میں تو ہر سُو ہے خدائی تیری
ہم تماشا جو بنے خلق امڈ کر آئی
در و دیوار پہ بس تیرا تصور ابھرے
شبِ تاریک میں بانٹے جو مری تنہائی
دل بہر طور فقط تیری رفاقت مانگے
چین لینے ہی نہیں دیتا ہمیں ہرجائی
آج تھک ہار کے اب ہم نے یہی سوچا ہے
ہم اگر ایسے نگر میں بھی بسیرا کر لیں
جز تری یاد بھلا زادِ سفر کیا رکھیں؟
تجھ سے بچھڑیں تو بھلا دستِ ہنر کیا رکھیں؟
بے خبر ہو کے بھی ہم اپنی خبر کیا رکھیں؟
ہم نے سوچا ہے ہم اب تجھ سے خفا بھی کیوں ہوں؟
اتنی تنہائی میں ہم خود سے جدا بھی کیوں ہوں؟
تیرے ہوتے ہوئے ہم وقفِ قضا بھی کیوں ہوں؟
کوچۂ عشق سے اس طرح رہا بھی کیوں ہوں؟
٭٭٭
دن میں ارادے باندھتی ہوں اور شب بھر اُن کو توڑتی ہوں
یادوں کے مرہم سے اپنی روح کو اکثر جوڑتی ہوں
جس رستے میں جگمگ کرتی یاد کے دیپک روشن تھے
اُس کی خوشی کی خاطر مَیں اب وہ رستہ بھی چھوڑتی ہوں
تیری جانب دکھ کا دریا جب بھی بڑھنے لگتا ہے
اُس کا رخ میں اپنے دل کی جانب ہی بس موڑتی ہوں
جس نے برسوں پہلے رستہ چھوڑ دیا دل توڑ دیا
ناحق اُس کی رہ تکتی ہوں ناحق آنکھیں پھوڑتی ہوں
تیرے لئے کوئی پھول تو ہو اور میرے لئے کوئی خار تو ہو
مَیں گلشن جا کر اپنے اشک ہی آج نچوڑتی ہوں
جب سے وفا بیوپار ہوئی اور جس دن عشق کی ہار ہوئی
اُس دن سے ہی سر پر اپنے ہجر کی چادر اوڑھتی ہوں
شاہیں خود سے باتیں کرنے کی خاطر بس شام ڈھلے
کرچی کرچی ہو کر بھی مَیں اک تصویر کو جوڑتی ہوں
٭٭٭
مرے قصہ گو، مرے نامہ بر
مرے قصہ گو، مرے نامہ بر
مری بات ہے بڑی مختصر
کبھی ہو سکے تو جو داستان ہے ہجر کی
مری نارسائی کے ذکر کی
اسے کر بیاں
کبھی اپنے لفظوں سے کر اسے بھی تُو معتبر
کہ جو آنے والی رتیں ہیں ان کو بھی ہو سکے پھر مری خبر
مری یاد کو کسی ایسے سائے میں چھوڑ دے
جہاں دھوپ کا بھی نہ ہو گزر
جو نہ آشنا ہو زوال سے
مری داستاں کی حقیقتوں کو کبھی اک ایسا بھی موڑ دے
جو طویل ہو نہ ہی مختصر
کہ وفا کے رستوں پہ جومسافر بھی گامزن ہیں
بس ان کو کرنا مری خبر
کہ وہ جان لیں یہ اداسیاں
مرے ان پپوٹوں پہ بوجھ بنتی ہیں کس طرح
کسی شام ڈھلتے ہی یاد جگنو
کسی بگولے کا روپ بن کر دھمال ڈالیں
تو جسم و جاں کی فصیل کو بھی گرا ہی ڈالیں
نہ یاد کوئی سُلا سکیں تو یہ جاگتے کو جگا ہی ڈالیں
مرے دشت میں کبھی چاند نکلے تو چاہتوں کی ہنسی اڑا کر
مجھے اندھیرا ہی دان کر دے
یہاں پہ پنچھی کبھی جو آئیں تو دکھ بھرا گیت ہی سنائیں
مرے قصہ گو مری آرزو
کہ یہ داستان کچھ ایسے ترتیب دے سکوں
میں جنون کو یونہی بیٹھ کر کبھی ایسے تہذیب دے سکوں
کہ وہ عکس ہو مری ذات کا
مری شام کا مری رات کا
مرے قصہ گو مرے نامہ بر
مری بات اگرچہ ہے مختصر
مری داستاں تو طویل ہے
یہ جو میری پلکوں پہ رک گئے ہیں کئی زماں
ہے قلم مرا جو ابھی تلک بڑا خونچکاں
ہیں جو دل میں اب بھی شکایتیں
ہیں جو لب پہ اتنی حکایتیں
یہ جو چاہتیں، ہیں جو حسرتیں
انہیں ایک اچھا سا نام دے
مرے قصہ گو، مرے نامہ بر
مری داستاں جو طویل ہے
یہ صداقتوں کی دلیل ہے
یہی زندگی کی سبیل ہے
٭٭٭
زمیں ملے کہیں ہمیں، کہیں تو آسماں ملے
دکھوں کی دھوپ میں شجر کوئی تو مہرباں ملے
ترے فراق میں جئے، ترے فراق میں مرے
چلو یہ خواب ہی سہی، وصال کا گماں ملے
الم کی شام آ گئی، لو میرے نام آ گئی
چراغ لے کے راہ میں اے کاش مہرباں ملے
ابھی تلک فغاں ہوں میں، مثالِ داستاں ہوں میں
ملے تو ایک پل کبھی، کہیں تو کارواں ملے
عجیب سے وہ رنگ تھے، سبھی کے ہاتھ سنگ تھے
ہمیں تو غیر بھی سبھی، مثالِ دوستاں ملے
جبیں، جبیں نہیں رہی، تو مہ جبیں نہیں رہی
نہ لوگ وہ کہیں ملے، نہ تجھ کو آستاں ملے
٭٭٭
بہت دنوں سے …
بہت دنوں سے دیواریں ہم راز ہوئیں
بہت دنوں سے یادیں بھی ناراض ہوئیں
بہت دنوں سے خال و خد وہ یاد نہیں
بہت دنوں سے دل بھی اپنا شاد نہیں
بہت دنوں سے دشتِ جنوں آباد نہیں
بہت دنوں سے زخموں کی روداد نہیں
اور قلم کی بھی کوئی فریاد نہیں
بہت دنوں سے ہم بھی خود کو یاد نہیں
٭٭٭
زخموں سے کہاں، لفظوں سے ماری گئی ہوں مَیں
جیون کے چاک سے یوں اتاری گئی ہوں مَیں
مجھ کو مرے وجود میں بس تُو ہی تُو ملا
ایسے تری مہک سے سنواری گئی ہوں میں
افسوس مجھ کو اُس نے اتارا ہے گور میں
جس کے لئے فلک سے اُتاری گئی ہوں مَیں
مجھ کو کیا ہے خاک تو پھر خاک بھی اُڑا
اے عشق تیری راہ میں واری گئی ہوں مَیں
لو آ گئی ہوں ہجر میں مرنے کے واسطے
اتنے خلوص سے جو پکاری گئی ہوں مَیں
میری صداقتوں پہ تمہیں کیوں نہیں یقین
سَو بار آگ سے بھی گزاری گئی ہوں مَیں
تم جانتے نہیں ہو اذیت کے کیف کو
ہجرت کے کرب سے تو گزاری گئی ہوں مَیں
مَیں مٹ چکی ہوں اور نمایاں ہوا ہے تُو
مُرشد خمار میں یوں خماری گئی ہوں مَیں
اس وجد میں موجود کہاں ہے مرا وجود
جانے کہاں پہ ساری کی ساری گئی ہوں مَیں
مقتل میں جان دینا تھی پیاروں کے واسطے
مَیں ہی تھی ان کو جان سے پیاری۔۔ گئی ہوں مَیں
یہ قرضِ عشق مَیں نے چکانا تھا اس لئے
شاہین اپنی جان سے واری گئی ہوں مَیں
٭٭٭
دل دیس تمہارا مسکن تھا
دل دیس تمہارا مسکن تھا
اس میں تو تمہارا جیون تھا
اس میں تو تمہاری دھڑکن تھی
دل ہی تو تمہارا گلشن تھا
اس میں تو تمہاری خوشیاں تھیں
اک دل کا دل سے بندھن تھا
اے جان بتاؤ پھر تم نے
دل دیس کو کیوں پامال کیا؟
کیوں اس کو یوں بے حال کیا؟
اس دل کو اجاڑا کیوں تم نے؟
اس طرح بگاڑا کیوں تم نے؟
دل دیس میں تم ہی رہتے تھے
دل دیس میں تم ہی بستے تھے
اس کے دیوار و در کو بس
تم تنہا دیکھا کرتے تھے
اس کی اونچی سی مسند پر
بس تم ہی بیٹھا کرتے تھے
دل مندر میں تو تمہاری ہی
ہر ہر پل پوجا ہوتی تھی
دل دیس تمہارا مسکن تھا
اس دیس کی بنجر مٹی میں
تم نے ہی پھول اگانے تھے
اس کے ویران سے آنگن میں
خوشیوں کے گیت بھی گانے تھے
اس کی اندھی راتوں میں تمہیں
امید کے دیپ جلانے تھے
کچھ رنگ فضا میں پھیلا کر
ان سے کچھ رنگ بنانے تھے
لیکن میں حیراں ہوں جاناں
دل دیس تمہارا مسکن تھا
دل دیس تمہارا جیون تھا
اس دیس کو تم کیوں چھوڑ گئے؟
دل دیس کی راہوں سے آخر
رُخ اپنا کیونکر موڑ گئے؟
سب دیپ بجھا کر چلے گئے
سب خواب جلا کر چلے گئے
دل دیس جو روشن روشن تھا
یہ آج تلک بس ویراں ہے
اک آنکھ یہاں موجود ہے پر
یہ آنکھ ابھی تک حیراں ہے
دل دیس کی اونچی سی مسند
اے جان ابھی تک خالی ہے
اور مندر میں موجود وہی
اک پوجا کرنے والی ہے
اس کا دامن بھی خالی ہے
٭٭٭
تمہارا بھی یقیں ٹوٹے
یہ جو اک زعم ہے تم کو
کہ تم جتنا بھی چاہو گے
مرے اِس دل کو توڑو گے
مرا جو بھی یقیں ہے نا
اسے تم بے رخی سے اب
گماں کی سمت موڑو گے
اور اس کے بعد پھر جاناں
تمہارا جب بھی جی چاہے
مجھے بس تم منا لو گے
اور اپنے چند لفظوں سے
مجھے اپنا بنا لو گے
مگر اب کے نہیں ایسا
مرا دل بھی ہوا جاناں
ترے پتھر کے دل جیسا
تمہیں بس یہ بتانا ہے
یہی خود کو دکھانا ہے
مرا دل تم نے توڑا ہے
جو اَب رستے میں چھوڑا ہے
بس اتنی بات سن لو تم
میں اب تم سے نہ مانوں گی
تمہیں اپنا نہ جانوں گی
مری بس اب یہ خواہش ہے
تمہارا بھی یقیں ٹوٹے
مکاں دل کا تو ٹوٹا ہے
بس اب اس کا مکیں روٹھے
٭٭٭
چار جانب شام ہے یا گردشِ ایام ہے
پھول، خوشبو اور تارہ زندگی کا نام ہے
زندگی کے کھیل کا شاہین عجب انجام ہے
حسرتوں کی لاش ہے، اشکوں بھری اک شام ہے
پھول ہے گم ذات میں، خوشبو گھری حالات میں
ہجر کا لمحہ ہی بس اب عشق کا انعام ہے
زندگی خیرات میں لی موت کی اب التجا
وہ مرا آغاز تھا اور یہ مرا انجام ہے
میں بہت خوش ہوں کہ دامن میں خوشی کوئی نہیں
کامیابی تو یہی ہے زندگی ناکام ہے
نفرتوں کی بارشیں، سب بہہ چکی ہیں خواہشیں
درد کا طوفان ہے اور ہر طرف کہرام ہے
عشق تیری راہ کے سب منفرد ہیں سلسلے
دام میں آیا ہوا پنچھی یہاں بے دام ہے
٭٭٭
وہ کہتے ہیں ہمیں لکھو
سبھی کی ایک خواہش ہے انہیں لکھوں
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں ہمیں لکھو
وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی تو
تری اس دکھ کہانی کا ہی حصہ ہیں
فقط حصہ نہیں ہیں اب
کہ ہم تو سارا قصہ ہیں
یہ جو فریاد ہے تیری
یہ جو روداد ہے تیری
ہم اس میں اب بھی شامل ہیں
نہ دشمن ہیں، نہ قاتل ہیں
نہ ہم اب تجھ سے غافل ہیں
سو ہم قصے کا حاصل ہیں
اب ان کو کیا بتاؤں میں
کہ یہ جو ریت پانی ہے
یہ جو صحرا نشانی ہے
کہ یہ جو پھول خوشبو ہے
یہ جو بھٹکا سا آہو ہے
کہ یہ جو آسماں ہے اور ستارے ہیں
یہ جو دریا کنارے ہیں
کہ یہ جو ٹہنیاں اور پتیاں، اشجار سارے ہیں
یہ جو آنسو ہمارے ہیں
یہ جو بادِ بہاری ہے
گلوں کی جو کیاری ہے
یہ جو تتلی سی اُڑتی ہے
یہ جو شبنم سی گرتی ہے
یہ سب گر معتبر بھی ہوں
مگر ان پر کسی محبوب لمحے کا نہ سایہ ہو
کوئی بھٹکا ہوا ان پر قدم رکھنے نہ آیا ہو
نہ ہی کوئی غم کی چھایا ہو
تو ان پر کون لکھے گا؟
انہیں غزلوں کہ نظموں میں
بھلا پھر کون سوچے گا؟
سو مجھ کو اب نہیں کہنا ہمیں لکھو
سو مجھ کو اب نہیں کہنا ہمیں سوچو۔۔
٭٭٭
اس کی طلب میں راہ کو تکتی ہے زندگی
آنکھوں میں وقت شام چمکتی ہے زندگی
تیرے لئے جب آنکھ برستی ہے رات کو
پھر دل کے ساتھ ساتھ سلگتی ہے زندگی
دکھ سے نڈھال ہوکے جب روتی ہیں بیٹیاں
پھر ان کے لیکھ دیکھ کے ہنستی ہے زندگی
جو اک خیال باعث آزار ہے بہت
اس اک خیال سے ہی چہکتی ہے زندگی
کس سے کریں یہ بات کہ جو حال ہیں یہاں
خاموش ہوں اگر تو بلکتی ہے زندگی
رستوں کو سوچ سوچ پریشان ہیں سبھی
منزل کو کھوج کھوج سسکتی ہے زندگی
چاہت کے جو بھی زخم ہیں رکھیئے سنبھال کر
ان کی ہی باس سے تو مہکتی ہے زندگی
اس نے دیا تھا ایک دیا راہ کے لئے
کب تک جلے گا آج تو تھکتی ہے زندگی
٭٭٭
زمانے مرے بن بھلا اپنی تکمیل کیسے کرے گا؟
زمانے اگرچہ میں تجھ سے الگ ہوں
ترے ہر چلن سے
ترے بانکپن سے
چمن سے الگ ہوں
زمانے میں تری کہانی میں شامل کہانی تو ہوں پر
میں قصہ نہیں ہوں
زمانے میں حصہ ترا ہوں مگر پھر بھی حصہ نہیں ہوں
زمانے تری روشنی گرچہ سب کے لیے ہے
مگر جانتی ہوں مرے واسطے تو یہ ہرگز نہیں ہے
زمانے تری سب عنایات اور کے دامن میں ہیں
اور تہی دامنی میرے دامن میں ہے بس
زمانے محبت کا پرچم مرے ہاتھ میں اور
زمانے کی نفرت بھی گلشن میں ہے
زمانے مجھے تجھ سے شکوہ نہیں ہے
زمانے مجھے اب گلہ بھی نہیں ہے
مجھے علم ہے کہ زمانہ ہی ایسا ہے
جس میں جزا بھی نہیں اور صلہ بھی نہیں ہے
زمانے میں تجھ سے الگ ہی سہی لیکن اتنا بتا تو
مرے بن کہانی میں اشکوں کی ترسیل کیسے کرے گا؟
محبت کی تاویل کیسے کرے گا؟
کسی مختصر دکھ کی ترسیل کیسے کرے گا؟
زمانے مرے بن بھلا اپنی تکمیل کیسے کرے گا؟
٭٭٭
محبت کی شاعرہ ۔۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے تاثرات
آج کا اردو شاعر اس عبوری دور میں سانس لے رہا ہے، جہاں اس کے پیچھے کلاسیکی غزل کی وہ تابناک روایت بھی ہے جو بیسویں صدی کے شروع میں ہی ختم ہو گئی اور پھر وہ اندھا کنواں بھی ہے جس میں سکہ بند روائتی غزل آج تک ڈوبی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر نجمہ شاہیں کھوسہ کی نظموں نے مجھے یقیناً متاثر کیا ہے۔ ان کی نظمیں دیگر معتاد، اسٹیریو ٹائپ شعرا کی طرح گذشتہ نصف صدی کے شہرہ ور نظم گو شاعروں، (بطورِ خاص فیض احمد فیضؔ) کی لفظیات کے دسترخوان کے باقی ماندہ بچے کھچے ٹکڑوں سے پاک ہیں جن پر قانع رہ کر بہت سے شاعر آج تک غزلیں اور نظمیں لکھے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ جدے دیت کی تحریک میں بہہ کر مضمون، متن، اور اسلوب کی سطحوں پر انتشار، افشار، ایہام اور یادہ گوئی کا شکار ہونے سے بالکل بچ رہی ہیں۔ انہوں نے اس تحریک کا اثر بالکل قبول نہیں کیا۔ ان کی کچھ نظمیں یقیناً ’’بڑی ‘‘ نظمیں ہیں جنہیں سراہا جانا چاہیے۔ محبت ایک پاک جذبہ ہے، اس میں صوفیانہ عشق کی آسماں بدست بلندی سے لے کر تعشق اور ہوس کی تحت الثرا تک شاعروں نے طبع آزمائی کی ہے۔ نجمہ شاہیں کی نظموں میں یہ جذبہ ان دو بے نہایت حدود کے درمیان اس سطح مرتفع پر قائم ہے، جسے ہم ’’من و تو‘‘ کا علاقہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس ’من و تو‘ میں ’من‘ تو یقیناً شاعرہ کا واحد متکلم ہے، وہ خود ہے یا اس کی انا ہے لیکن ’ تو‘ محبوب بھی ہو سکتا ہے، دوست بھی ہو سکتا ہے، نامہرباں آسماں بھی ہو سکتا ہے اور ظالم و حاکم بھی۔ اس کی ایک وجہ تو غزل کی چار سو برس پرانی اور مستحکم وہ روایت ہے جس نے غزل ہی کو نہیں بلکہ اردو نظم کو بھی اب تک ’ من و تو ‘ کے حصار میں قید کر رکھا ہے اور دوسری وجہ آسان راہوں کے سفر کو پر پیچ راستوں پر فوقیت دینا ہے۔ وہ محبت کے پاک و صاف جذبے کو جہاں خوشروئی اور شائستگی سے بیانیہ یا مکالمہ کے فارمیٹ میں ڈھالتی ہیں، وہاں پُر کاری اورسحر کاری کا انداز بھی اپناتی ہیں۔ وصل اور ہجر تو کیفیات ہیں، لیکن ان کے تہہ در تہہ معانی میں وفاداری یا بے وفائی اور ان کے متعلقات کے بیسیوں حصاروں میں مقید تازہ کاری سے مزین وہ مضامین بھی ہیں جو شاعرہ کی غزلوں اور نظموں دونوں میں بکثرت موجود ہیں۔ مجھے نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری سے بہت امیدیں ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند واشنگٹن، ڈی سی، امریکا ۵۱ / اپریل ۲
٭٭٭
جہانِ نادیدہ کی شاعری ۔۔۔ بشریٰ رحمٰن
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اپنی چوتھی تخلیق منظر عام پر لائی ہیں
پھول خوشبو اور تارہ۔۔
پھول ان کی اپنی ذات ہے
خوشبو ان کے افکار ہیں اور
تارہ تقدیر کا استعارہ ہے
تقدیر جو ازلوں سے لکھی ہوئی ملتی ہے اور تدبیر جو ہمیشہ اس سے الجھتی ہی رہتی ہے
پھول کتنا بھی دل آویز کیوں نہ ہو۔۔ ۔ اپنی خوشبو پر اس کا اپنا اختیار نہیں ہوتا۔۔ ۔
نجمہ خوشبو کی طرح ایک بے چین سی روح ہے۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تقدیر کا رانجھا کیسے راضی ہو گا۔ شعر سنانے سے یا نشتر چلانے سے۔۔ ۔
کبھی وہ آس کا گیت گاتی ہے۔ کبھی نراش کی دھن بجاتی ہے۔ کبھی اشکوں کے موتیوں سے ملن مالا پروتی ہے۔۔ ۔ کبھی جدائی کے کرب کو شعروں کا سوز عطا کرتی ہے۔
کس کو خبر کہ کون کہاں ہم کلام ہے؟
کس کو خبر کہ کس کی رفاقت میں کون ہے؟
آنکھوں میں آج تک بھلاکس کا قیام ہے؟
دن رات ایک جیسی عبادت میں کون ہے؟
اس کے دل کی سرخ زمین پر، کسی بے رنگ لمحے کے گزر جانے کے انمٹ نقوش ثبت ہیں
جنہیں مٹانے کیلئے وہ ہوا کی طرح باؤلی بن کے گرتے پتوں کی زبان میں باتیں کرنے لگتی ہے۔ تب وہ نقش اور بھی ابھرنے لگتے ہیں
اُس کی شاعری روح کی شاعری ہے
ایک جہان نا دیدہ کی شاعری ہے
ایک دبی دبی فغاں ہے۔ ایک خاموش دھواں ہے۔
دنیا کی اونچ نیچ۔۔ ۔ نا ہمواریاں۔۔ ۔ نا قدریاں۔۔ ۔ انسانیت بیزاریاں اسے تڑپاتی ہیں
اتنا سناٹا تھا میری روح میں
میں تو اپنے آپ سے بھی ڈر گئی
کہنے کا سلیقہ اسے قدرت کی طرف سے عطا ہوا ہے۔
سہنے کا کمال اس نے ماحول کی گھٹن سے سیکھا ہے۔
شدت احساس اس کی میراث ہے اور رسم وفا کا اسے پاس ہے۔
وہ جب دنیا میں عدم مساوات، بے حسی کے معاملات اور اخلاقی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ دیکھتی ہے تو وہ سنیاس لینا چاہتی ہے۔
جوگ میں عمر بسر کرنا چاہتی ہے تو سارے جہاں کے روگ اس کے آگے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔ اور کہتے ہیں کانٹے چنتے رہنا بھی گلشن آرائی کا ایک چلن ہے۔۔ ۔ پھر وہ کرب ذات سے کرب کائنات میں الجھ جاتی ہے۔
معصوم بچے کی طرح ایک کلبلاتی خواہش کو سینے کے اندر تھپک تھپک کر سلا دیتی ہے اور ماحول کے کانٹے چننے لگتی ہے۔۔ ۔
یہی لگن اس کے عشق کی انتہا ہے۔ اور یہی چبھن اسے ایک دن منزل کا پتہ دے گی
ابھی اسے ادراک و عرفان کی منزلوں میں دور تک صدا دینی ہے۔
ابھی اسے بہت کچھ کہنا ہے
گو اُس کی منزل دور ہے مگر لا حاصل نہیں
عمر بھر کے جس سفر کو رائیگاں کہتے ہو تم
اک نہ اک دن دیکھنا کار جہاں ہو جائے گا
٭٭٭
ہجر اور بلندی کا استعارہ ۔۔۔ رضی الدین رضی
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے نئے شعری مجموعے نے مجھے حیران کیا ہے۔ حیرت کے کچھ سامان تو ان کی گزشتہ کتابوں میں بھی موجود تھے لیکن وہ اپنے شعری سفر میں جس ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں اس کا مکمل عکس ان کی نئی کتاب میں موجود ہے۔ ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ ان کی پہلی کتاب تھی جسے ہم نے سرسری انداز میں دیکھا اوراس پر توجہ نہ دی۔ ویسے بھی وہ ان کی ابتدائی شاعری تھی اور ہمارا خیال تھا کہ وہ شاید اپنے شعری ذوق کی تسکین کے لیے اپنی کچھ نظمیں اور غزلیں کتابی صورت میں منظر عام پر لائی ہیں اور جیسے اور بہت سے لوگ اپنی پہلی کتاب شائع کروانے کے بعد منظرسے غائب ہو جاتے ہیں، ڈاکٹر نجمہ شاہین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ اپنا دوسرا شعری مجموعہ سامنے لے آئیں۔ پہلی کتاب کے مقابلے میں دوسری کتاب زیادہ مربوط تھی اور اس میں شعری حسن بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ تیسری کتاب اس سے آگے کا سفر تھا اوراس دوران ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی ان کی شرکت تواتر کے ساتھ شروع ہو چکی تھی۔ تیسری کتاب سامنے آنے کے بعد ناقدین اور معاصرین نے تمام تر حسد کے باوجود ان کی شاعری پر توجہ دی اور انہیں غور سے پڑھا لیکن اس کے باوجود یہ بحث جاری رہی کہ وہ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باعث شاعری پر بھرپور توجہ نہیں دے سکیں گی۔ نئی کتاب میں ہمیں ان کا ہنر پہلی تمام کتابوں کے مقابلے میں زیادہ بھرپور دکھائی دیتا ہے۔ غزلوں اور خاص طور پر نظموں میں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری کے نئے رنگ سامنے آئے ہیں۔
کسی بھی شاعر کے فن کو پرکھنے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کا ادبی سفر کس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ بعض شاعر ابتدائی کتابوں میں بہت مضبوط اور منجھے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن بعد کے دنوں میں ان کے ہاں وہ شاعرانہ مہارت کم دکھائی دیتی ہے یا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک حقیقی قلمکار کی طرح ہمیں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ بتدریج اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کی پہلی کتاب اگر ان کی نثری نظموں اور غزل کے رنگ میں بیان کئے گئے احساسات کا مجموعہ تھی تو دوسری کتاب میں ان کی شاعری فنی اعتبار سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر نظر آئی لیکن پھر بھی بعض مقامات پر اور خاص طور پر ہمیں نظموں میں وہ روانی نہ ملی جو اگلے مرحلے میں ان کی تیسری اور اب چوتھی کتاب میں پڑھنے کومل رہی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان تمام شعری مجموعوں میں مضامین احساسات اور جذبوں کی کہانی ایک سی ہے۔ وہی دکھ اور نارسائی کا کرب جو ہمیں پہلی کتاب میں دکھائی دیتا ہے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے ایک ہی جست میں منزل تک پہنچنے کی بجائے دھیرے دھیرے اپنے خیال کاسفر جاری رکھا ہے۔
’’پھول خوشبو اور تارہ‘‘ ہجر کا استعارہ ہے۔ ہجر جو زندگی بھی ہے اور موت بھی۔ ہجر جو روشنی بھی ہے اور تاریکی بھی۔ ہجر جو بے سکون بھی کرتا ہے اور اطمینان بھی بخشتا ہے۔ یہی بندگی ہے اور یہی زندگی ہے۔ یہی تشنگی ہے اور یہی آسودگی۔ یہی خواب ہے اور یہی سراب۔ یہی حقیقت ہے اور یہی گمان۔ اور جب ہجر آپ کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے تو پھر حقیقت اور گمان کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں اور ہجر ہی آپ کی پہچان بن جاتا ہے جیسے ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی پہچان بن گیا۔ ہجر کا استعارہ ہمیں ان کی تمام کتابوں میں کسی نہ کسی انداز میں دکھائی دیتا ہے۔ نسائی جذبے ہمیں جس انداز میں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں پڑھنے کو ملے وہ اس خطے کی کسی اور خاتون کی شاعری میں موجود نہیں۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین نے دکھوں کو اپنی اظہار کی قوت میں تبدیل کیا اور نارسائی کے ذریعے اس منزل تک رسائی حاصل کی جو ہر شاعر کا خواب ہوتا ہے۔ ہجر ان کی شاعری میں ہمیشہ نئے زاویوں کے ساتھ پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہیں کہیں ان کے ہاں تصوف کا وہ رنگ بھی دکھائی دیتا ہے جہاں وہ عشق مجازی سے عشق حقیقی کی جانب سفر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب کی بہت سی نظموں میں ہمیں اس کیفیت کا بھرپور اظہاریہ دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے اگر اس کتاب میں پھول اور خوشبو کے ساتھ تارہ بھی جوڑا تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کی نظر آسمان کی طرف ہے اور وہ بندگی کے سفر میں بلندیوں تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ وہ شاعری میں بھی اسی رکھ رکھاؤ اورسلیقے کو مد نظر رکھتی ہیں جو مشرقی خاتون کا خاصا ہے۔ ہر شعر اور مصرعے میں وہ مکمل بات بھی کہتی ہیں اور وقار، متانت اور تمکنت کو بھی برقرار رکھتی ہیں۔ خواتین کے ہاں جذبوں اور نارسائی کا اظہار بسا اوقات اس حد تک واشگاف ہوتا ہے کہ وہ بے باکی کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ آج ملک بھر اور خاص طور پر سرائیکی علاقے میں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کو اگر عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جذبوں اور نارسائی کو بہت سلیقے کے ساتھ اور شاعرانہ حسن کے ساتھ بیان کیا اور یہاں وہ عورت کے دکھوں کی ترجمان بھی بنیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی گزشتہ کتابوں کے مقابلے میں زیر نظر کتاب ناقدین کی زیادہ توجہ حاصل کرے گی اور ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری ان کے لیے صرف ہجر ہی نہیں بلندیوں کا استعارہ بھی ثابت ہو گی۔
20 جنوری 2016 ء
٭٭٭
نجمہ شاہین اپنی شاعری کے آئینے میں ۔۔۔ سعیدہ افضل
{اے کہ تو عکس نوبہار }
جب میں نجمہ شاہین کھوسہ سے پہلی بار ملی تو معلوم نہ تھا کہ پھُول جیسی یہ نازک سی شاعرہ اتنی توانا اور بھر پور شخصیت کی مالک ہو گی۔
پہلی ملاقات اُس کے کلینک جان سرجیکل ہسپتال میں ہوئی تو سوچا تھا کہ نجمہ ایک معروف ڈاکٹر ہے اور اس کا وقت بہت قیمتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ دس، پندرہ منٹ بات ہو سکے گی۔ مگر اُس روز ہی جب اُس نے مجھے ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں ‘‘ کا مسودہ دکھایا تو اُسے پڑھ کر میری آنکھیں کھُل گئیں۔
اس قدر مشکل پیشے سے وابستہ ہونے کے باوجود کتنی یکسوئی کے ساتھ اُس نے اپنے جذبوں کو بہت با وقار طریقے سے مرصع مصرعوں کی صورت میں قلمبند کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ خوش رنگ پھُول جیسی ہنستی مسکراتی نرم و نازک یہ پری چہرہ کرب و اضطراب سے بھرے کتنے رت جگوں کا بوجھ اپنی پلکوں پر لئے بیٹھی ہے۔
یہ تو ثابت ہے تخلیق کے لئے اضطراب کو جھیلنا شرط اولین ہے اور ان اضطراب بھرے رت جگوں کو جھیلنے کا حوصلہ اللہ تعالیٰ صرف اپنے اُن بندوں کو عطا کرتا ہے جن کو وہ ہنر کی میراث بخشنا چاہتا ہے۔
پھر تو باتیں ہوتی گئیں اور وقت گزرنے کا احسان بھی نہ ہوا۔
نجمہ تم اتنی مصروفیت میں کیسے شاعری کا جوکھم سر لیتی ہو؟ میں نے سوال کیا… جواب ملا… آپا… بس لکھ لیتی ہوں کوشش نہیں کرتی اشعار خود بخود ذہن میں آتے ہیں اور آپ کو یہ جان کر … شاید حیرت ہو کہ میں عشا ء کی نماز ختم کر لینے کے بعد بھی مصلے پر بیٹھی رہتی ہوں پھر سوچیں آتی جاتی ہیں اور میں ان کو اشعار کی صورت لکھتی جاتی ہوں۔
کبھی آدھی رات تک …کبھی صبح تک… تب مجھے لگا جیسے … اس کو اپنی ذات کی تلاش کے ساتھ ساتھ اُس منعم کی تلاش ہے۔ جو اس کی بے قرار روح کو سکون اور طمانیت کی دولت بخش دے۔ پھر تو مجاز اک بہانہ ہوا…کہ
بقول علامہ اقبال…
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
اصل بات تو ہے صداقت مطلق کی تلاش…
یہ اضطراب یہ درد اور یہ بے چینی…؟ جلد ہی پھر اس کا شعری مجموعہ… ’’اور شام ٹھہر گئی‘‘ منظر عام پر آ گیا…تو اس کی کہی ہوئی بات کا حسن اور بھی نکھر کر سامنے آیا۔ مجھ کو اس کی شاعری میں اُس کی اپنی خوبصورت شخصیت کی مکمل شبہہ دکھائی دی۔ اس کے اندر کی چہکتی مہکتی جذبات کی دنیا… اُس کی سلگتی سوچوں کا الاؤ…ہجر کے در و دیوار وصال کی مہکاریں …یہ خزانے جو اُس کے متوازن ذہن کا اثاثہ تھے وہی اس کی شاعری کی اساس بنے … غزلیں … نظمیں گیت اور رت جگے بے شک… اُس نے اپنی اِس ریاضت کو عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔
اس سے بڑھ کر میری وفا کا کوئی نہیں گواہ
غزلیں نظمیں … سجدے آنسو اور اکِ شبِ سیاہ
کسی کے فن کو پرکھنا آسان بات نہیں مگر کسی کی شخصیت کے بارے کچھ کہنا اور زیادہ مشکل امر ہے۔ نجمہ بڑی خوش قسمت ہے کہ اس کو قلم کا ہنر ودیعت ہوا… وہ کتابی نہیں ایک پیدائشی شاعرہ ہے اور یہ وصف اُسے خالق کی طرف سے عطا ہوا ہے۔
سچ کہنے کا حوصلہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے اور سچے فنکار کو سچ کا زہر سقراط کی طرح پینا پڑتا ہے۔ نجمہ شاہین کے اشعار پڑھ کر اور اس سے مل کر ایک جیسا احساس ہوتا ہے کہ سچ اُس کی شاعری ہے اور سچ ہی اُس کی شخصیت کا خاصہ ہے۔
وہ شاعرہ ہونے کے ساتھ ایک کامیاب ڈاکٹر بھی ہے اُس کے کلینک میں جو معصوم بچے پہلی سانس لیتے ہیں وہ ان کی امانت دار ہوتی ہے۔ اپنے پیشے کے لحاظ سے بھی اُس کا ہنر قابل قدرو ستائش ہے کیونکہ جب کوئی معصوم وجود اس دنیا میں آتا ہے تو رب عظیم اپنی تخلیق کردہ کائنات میں خوشیاں بانٹ رہا ہوتا ہے۔
جس دم وہ ان ننھے منے معصوموں کو سلامتی کی ساتھ اُن کی ماؤں کی گود کے سپرد کرتی ہے تو بقول نجمہ… اُس کا دل، روح اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اُس کی زندگی میں اکثریت سے ایسے لمحات آتے رہتے ہیں کہ عدم سے وجود میں نئی زندگی جب آتی ہے تو بے اختیار دل کی گہرائیوں سے یہ آواز آتی ہے۔
’’اے رب العرش عظیم تُو بے شک بیکراں عظمت و طاقت والا ہے‘‘
واقعی، انسان نے خالق کو اُس کی بیکراں عظمت و قدرت سے ہی پہچانا ہے۔
وہ کہتی ہے …
’’ہم ڈاکٹر لوگ دن رات… زندگی اور موت کے کھیل میں … معجزے ہوتے دیکھتے ہیں۔ کبھی مرنے والا مرتے مرتے جی اُٹھتا ہے اور کبھی اچھا بھلا… جیتا جاگتا انسان پلک جھپکتے اس دنیا سے معدوم ہو جاتا ہے تب ہمارے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے … بتا نہیں سکتی…بے شک ایک ڈاکٹر اُس وقت خدا سے بہت نزدیک ہو جاتا ہے۔‘‘
نجمہ شاہین کھوسہ پھول سی خوش رنگ اور تتلیوں جیسی نرم و نازک سہی مگر فولاد جیسی مضبوط "Will Power”بھی رکھتی ہے جو انسان کو اس کی منزل تک لے جاتی ہے۔ اپنی تمام تر نزاکت کے باوجود وہ راہ میں تھک کر بیٹھ جانے والی مسافر نہیں کیونکہ اس کو اپنے سفر سے عشق ہے اور وہ سچ کی تلاش میں سر گرداں ہے …اورسچ تو یہ ہے کہ اس کی شخصیت میں اس کی شاعری اور اُس کی شاعری میں اُس کی شخصیت کے سب ہی رنگ ملتے جلتے ہیں مگر ان رنگوں میں اُس کا اپنا رنگ… سب سے جدا ہے … نجمہ شاہین کو سمجھنے کے لئے اس کی شاعری کو سمجھنا ضروری ہے …تحریر ہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ادیب کی شخصیت کے بہت سے پوشیدہ پہلو خود بخود سامنے آ جاتے ہیں۔ صد شکر کہ وہ جو کہنا چاہتی ہے اُسے بر ملا کہنے کی جرات رکھتی ہے۔ میری نظر میں وہ ایک جراتمند لڑکی ہے مگر اُس کے اپنے الفاظ میں وہ یوں رقم طراز ہے …
’’کیا شاعری وہ سب کچھ کہہ سکتی ہے۔ جو کہا جانا چاہئے …؟ ان سنگلاخ درد کے پہاڑوں سے گزرتی اپنی ناتواں جان پر تندو تیز ہواؤں کے طوفان برداشت کرتی کرب کی ان مسلسل راتوں کی کہانی … یہ بے یقینی اور مایوسی کے دھُول میں اٹی ہوئی بے خواب راتوں کی کہانی … یہ رت جگوں کے عذاب، اندھی راتوں کی کہانی…؟
گویا کہ اس کے اندر کے درد وا لم اور کرب و اضطراب قوت اظہار سے بڑھ کر ہیں شاعری کے وسعت داماں بھی تنگ پڑ جاتے ہیں۔ تبھی…
’’وہ اپنی ذات کی تنہائی اور دکھ کے لا محدود صحرا میں اکیلے پن کا سفر طے کرتے ہوئے سوچتی ہے، ، اس اُجاڑ سفر میں اُس کا ساتھ کون دے۔ سوائے اپنے دکھ اور تنہائی کے۔‘‘
اُسے کسی ہمدرد غمگسار چارہ گر کی تلاش ہے؟ یا پھر… اُس کے سلگتے جذبے … تپتے آنسو…ہجر و فراق کی ریاضت اور تمنائے وصال کی عبادت؟ انجانے کتنے رت جگے ابھی اور اُس کے منتظر ہیں اور نجانے کتنی ریاضت اور عبادت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سفر ابھی جاری ہے …
’’گئی رُتوں سے یادوں کے چراغ جلا کر جذبوں کی محفلیں سجانے اور محفلوں سے گلاب اُگانے کا… استعارہ…
’’اپنے بے ربط و بے ترتیب بہہ جانے والے آنسوؤں سے ان گلابوں کو سراب کرنے اور ان سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے روشنیوں سے سیاہی بنا کر اپنے لفظوں کو شاعری کی صورت صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کا جوکھم‘‘
شاعری کے اس سفر میں وہ دھیمے دھیمے لہجہ میں بولنے والی نرم خو، جس کی شخصیت میں قرینہ… طریقہ… سلیقہ اور حسن توازن بہ درجہ اتم موجود ہے اور یہی اوصاف اس کی شاعری میں ہنر مندی کے ہیں … میں اس کی شاعری کو اس کی شخصیت سے جُدا نہیں دیکھتی مگر بطور ایک ماں، ایک با وفا بیوی اُس کے انداز دلکش مشرقی روایات سے مزین ہیں جہاں وہ با حیا … نرم خو ذمہ دار اور با لحاظ ہے وہاں وہ نرم دل بھی ہے۔ ایک روز اس نے باتوں باتوں میں بتایا ’’آپا… ایک صحافی صاحب جو نامور اخبار سے وابستہ ہیں انہوں نے مجھے فون کر کے انٹر ویو کے لئے ٹائم مانگا اور ساتھ ہی اپنی ایک عزیزہ کی شادی کے لئے امداد بھی مانگ لی۔ کسی کی بچی کی رخصتی میں مدد کرنا نیکی ہے یہ سوچ کر میں نے ان کو دس ہزار روپے بھجوا دیئے۔ مگر انٹرویو کا عندیہ نہیں دیا… آج پھر ان صاحب کا فون آیا ہے اور انٹرویو کے ساتھ ساتھ مزید رقم کا مطالبہ کیا ہے … ان حضرات سے کیسے جان چھڑاؤں؟ میں نے کہا نجمہ… اگر کہو تو میں ان کے باس کو بتاؤں اُس کی نوکری چلی جائے گی۔
کسی کی نوکری جاتی ہے تو نہ کہئے گا … آپا میں کسی کو بیروزگار نہیں کرنا چاہتی شاید بال بچے دار ہو… اچھا چھوڑیئے … میں اب اُس کا فون ہی نہ اُٹھاؤں گی۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شخصیت کا یہ پہلو بہت سوں کی نظروں سے اوجھل ہو گا مگر مجھے معلوم ہے وہ وسیع دل رکھتی ہے سخی ہے اور معاف کرنا بھی جانتی ہے۔ وہ چپکے چپکے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی قائل ہے لہٰذا بہت سوں کی دعائیں اُس کے ساتھ ہیں۔ نیکی کا اجر دونوں جہانوں میں ملتا ہے یقیناً اُس کو اس دنیا میں بھی کامیابیاں اور پذیرائی ملے گے کیونکہ خلق خدا جس سے محبت کرتی ہے ؛ خالق کی اس بندے پر خاص نظر ہوتی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ نجمہ شاہین کی چوتھی تخلیق ’’پھول خوشبو اور تارہ‘‘ کتابی صورت میں آ گئی ہے۔ اس نے بہت کم وقت میں شہرت کی منزلیں طے کر لی ہیں جبکہ اس سفر میں ایک عمر لگ جاتی ہے۔ مجھ کو اس بات کی بھی خوشی ہے کہ وہ اب بھی اپنی کامیابیوں سے مطمئن نہیں ہے۔ ارتقا کے سفر میں اطمینان جمود کو جنم دیتا ہے اور مطمئن نہ ہونا ہی زیادہ کامیاب ہونے کی نشانی ہے۔ نجمہ!اللہ کرے زور قلم اور زیادہ… کہ اس حبس زدہ موسم میں عکس نو بہار ہو تم…
سعیدہ افضل
-16دسمبر 2015ء
٭٭٭
خوشبو کا جھونکا، نجمہ شاہین کھوسہ ۔۔۔ شہباز مزمل
تارے کی طرح دمکتی خوشبو کی طرح مہکتی اور پھولوں کی طرح شگفتہ نجمہ شاہین کھوسہ جس سے میں کبھی ملی نہیں۔ اخبارات اور رسائل کے ذریعے اُس سے ملاقات رہی اور وہ دل کے اندر اُتر تی چلی گئی۔ اُس کے ذات کے مصرعوں نے مجھے محصور کر لیا اور اس کی شاعری روح کے تاروں کو چھیڑتی رہی۔ جانے کیا تھا جو دل اس سے ملنے پر مجبور ہو گیا۔ ویسے میں خود کم ہی کسی سے ملتی ہوں اور کم گو بھی ہوں۔ مگر نجمہ شاہین کی شخصیت اور شاعری مجھے اچھی لگی۔ ایک دفعہ علم ہوا کہ وہ عمرانہ مشتاق کے ہاں آ رہی ہے۔ عمرانہ نے مجھے بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ میں نے ایک اور جگہ جانا تھا مگر میں وہاں جا پہنچی انتظار کے دوران ایک اور دانشور خوبصورت خاتون زینت آفاق سے ملاقات ہوئی جو میری سوچوں کے عین مطابق تھیں مگر یہ کیا؟ میری واپسی کا وقت آ گیا مگر نجمہ شاہین بوجوہ وہاں نہ پہنچ سکیں اور میں اُس سے ملنے کی حسرت لئے واپسی آ گئی۔ اپنے خلوص کی ایک نشانی عمرانہ کے سپرد کر آئی تھی۔ کچھ عرصے بعد نجمہ کا شکریے کا فون آیا اور اُس سے بھی لمبی گفتگو کر کے مزہ آیا۔ اُس کے محبت بھرے لہجے اور خلوص نے بے حد متاثر کیا اور میں نے حسب عادت اُسے بیٹی کہا اور یوں ٹیلی فونک گفتگو کا سلسلہ چل نکلا اُس نے اپنی زیر اشاعت کتاب کا مسودہ مجھے رائے کے لئے بھجوایا۔ پھول خوشبو اور تارہ سامنے رکھے میں منظر غائر میں اس کا جائزہ لے رہی ہوں نجمہ کی غزلیں اور نظمیں میرے سامنے ہیں۔ غزل کا فن دو مصرعوں کے کوزے میں دریا کو بند کر دینے کا فن ہے۔ صرف دو مصرعوں میں ایک پورا مضمون ہی شاعر بیان کر سکتا ہے جسے غزل گوئی کے فن میں مہارت حاصل ہو۔ مرد حضرات گو ابھی تک وادی شعر و سخن میں خواتین کی شمولیت کو دل سے تسلیم نہیں کرتے اور اچھی شاعرات کی انفرادیت کا اعتراف کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اب تک بہت سی شاعرات وہ ادبی مقام حاصل نہیں کر سکیں جو ان کا حق اور حصہ ہے۔ نجمہ کھوسہ بھی بلاشبہ وہ خاتون ہیں جو اپنی شاعری کا علم اُٹھائے اس طرح بیکراں میں نہ صرف شامل ہو گئی ہیں بلکہ اپنے آپ کو منوا بھی لیا ہے۔ دھیمے اور پر تاثیر لہجے کی یہ شاعرہ غم جاناں، غم دوراں کا تذکرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ نا امیدی اور یاس کی بجائے آس اور امید کی کرن ان کی شاعری میں پھوٹتی نظر آتی ہے اور بہت سے سوالات ابھی تک دل میں پوشیدہ ہیں۔
جو لبوں پر ہیں یہی سن لو یہی کافی ہیں
دل میں ہیں جو بھی سوالات نہ پوچھو میا!
میا اور سائیں جیسے استعارے نجمہ کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ اصل میں یہ استعارے ان کی پناہ گاہ ہیں۔ وادی شعر و سخن میں پا بجولاں سفر کرنے والی نجمہ چشم ترلئے صحرائے درد کی تپش کو کم کرنے کی کوشش میں مصرف نظر آتی ہیں۔ یہاں جو آرزوئیں ان کو لائی ہیں وہ وہ بے مہری زمانہ سے مر گئی ہیں اور ایک سناٹا ان کی روح میں در آیا ہے۔
اتنا سناٹا تھا میری روح میں
میں تو اپنے آپ سے ہی ڈر گئی
لیکن درودوں کے طفیل جوان کو نعمتوں کے ثمر حاصل ہوئے ہیں وہ ان کو رکنے نہیں دیتے۔ ان کے عجز کا خانہ اُس کی کبریائی سے جڑا ہے وہ اُسی کے نگاہ کرم کی منتظر ہیں۔
مجھے اس کی اب بھی ہے جستجو، پڑھوں رات دن اسے با وضو
مری آنکھ سے جو نہاں ہے اب، مجھے راز داں تو ملے وہی
شاید یہی میری اور اُس کی سانجھی سوچ ہے جو مجھے اُس سے ملنے پر مجبور کرتی رہی۔ میرا اور اُس کا محور خیال ایک ہے۔ وہ ہی ذات حقیقی اپنا عشق ہے اور اُسی کا عشق اس کائنات میں ہمیں دوڑائے لئے جا رہا ہے میں بھی کہہ اٹھی ہوں
عاشق جو اپنے عشق الٰہی میں مست ہے
کب جانتا وہ راز دان بود و ہست ہے
لمبی بحر کی خوبصورت غزلیں ان کے کلام کا حسن ہیں۔
وہ حسن باہوں میں مر گیا ہے تو عشق راہوں میں کھو گیا ہے
یقین کی منزل تو کھو چکی ہوں مگر ابھی ہے گماں
میں نے اس کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔
مجھے راستوں کی خبر نہ تھی اڑی خاک میرے وجود کی
میں تلاش کرتی ہوئی تجھے ترے لا مکاں سے گزر گئی
یقیں و گماں کے بھی عجیب سلسلے ہیں اور یہ سب سلسلے عشق کے سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں شاید یہی ذہنی ہم آہنگی مجھے نجمہ سے ملنے پر مجبور کرتی رہی نجمہ کی خوبصورت بڑی بحر کی غزل اور خوبصورت شعر۔
پگھل چکا ہے وجود سارا سلگ رہی ہے ہماری ہستی
چراغ جاں کب کا بجھ گیا ہے مگر ابھی تک دھواں سلامت
اللہ نہ کرے کہ کبھی کسی کو غم ہجراں کا سامنا کرنا پڑے مگر انسان اپنے رب سے دور آ کر بھی کرب محسوس کرتا ہے اور یہ کرب بھی میرا اور نجمہ کا سانجھا ہے
درد و چھوڑا تو کیا جانے، من مندر کو تو کب مانے
دل کی دھڑکن کب پہچانے تو جذبوں سے عاری سائیں
غزلوں کی نعمگی اور سروں سے آراستہ نظمیں بھی نجمہ کی اس کتاب کا حصہ ہے۔
عجیب ہوتی ہے یہ محبت
مجھے جانا ہے جاناں کی طرف
دہشت گردی سے متاثر ہو کر لکھی گئی نظم ‘‘مگر میں کیسے پرسہ دوں‘‘
تو میں تقدیر سے پوچھوں
اور اس قبیل کی دیگر نظمیں نجمہ کی شاعری میں رنگ بھرتی نظر آتی ہے۔ تمہاری شاعری پڑھ کر مجھے تم سے کیوں ملنا ہے اس سوال کا جواب مل گیا ہے۔ میں نے پہلے بھی تمہاری شاعری میں پایا تھا۔
تمہارے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں مگر وقت کی کمی کی وجہ سے صرف اتنا کہوں گی۔ کہ
’’پھول خوشبو اور تارہ‘‘ نے مجھے تمہاری ذات سے روشناس کروایا ہے۔ بے شک تم بھی بین الاقوامی ادب میں رونما ہونے والی نئی شعری تحریکات سے آگاہ ہو۔ تمہارے خیال کا کینوس وسیع ہے۔ فکری گہرائی کے ساتھ پختگی بھی ہے۔ جو تمہیں تمہارے ہم عصر شعراء میں ممتاز کرتی ہے۔ وادی شعر و سخن ایک کانٹوں بھری وادی ہے جس میں کانٹے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی آبلہ پا آئے اور اُن کی پیاس بجھائے، تم اب ان کانٹوں کی پیاس بجھانے کا کتنا حوصلہ رکھتی ہو اور کب تک اس وادی پر خار میں سفر کر سکتی ہو یہ تو وقت بتائے گا۔ مگر تمہاری شاعری میں موجود توانائی تمہیں مائل بہ سفر رکھے گی اور قارئین کو اچھی شاعری پڑھنے کو ملتی رہے گی۔ بہت سی نیک تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ اس نئی کتاب کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ میں بانہیں پھیلائے اپنی بیٹی سے ملنے کی منتظر ہوں۔
شہناز مزمل
چیئر پرسن ادب سرائے انٹر نیشنل
125 ایف ماڈل ٹاؤن لاہور
0300-4275692
٭٭٭
دبستانِ ادب کی شہزادی ۔۔۔ ملک فدا الرحمن
ڈیرہ غازی خان پاکستان کی اکائی کا مضبوط ستون ہے۔ جہاں پاکستان کے چاروں صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس دور افتادہ ضلع کے لوگوں کا جتنا ادبی شغف ہے وہ پاکستان کے کسی بھی ضلع کے لوگوں میں کم ہی ملے گا۔ یہاں کے لوگ انتہائی ذہین اور ادب شناس ہیں۔ لیکن یہاں کی ثقافت نے عورت کی آزادی کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ اور ان کی صلاحیتوں بلکہ سوچ کو ہی سلب کر رکھا ہے۔ اگر صرف پندرہ بیس سال پیچھے دیکھا جائے تو عورت بازار جا کر اپنی پسند سے کپڑے نہیں خرید سکتی تھی۔ اگر کہیں آنا جانا پڑے تو ٹوپی والے برقعے کے ساتھ وہ باہر نکل سکتی تھی۔ اس میں بعض اوقات یہ بھی ہوتا کہ جس ٹانگے میں خواتین نے سفر کرنا ہوتا اس کو چادریں تان کر چاروں طرف سے ڈھانپ دیا جاتا۔
ایسے حالات میں کسی بھی لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا اور ڈاکٹری جیسا پیشہ اختیار کرنا اور پھر شاعری کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ شاعری ویسے بھی خواتین کے لئے ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھی جاتی ہے۔ اور پھر شاعرہ عورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوش شکل بھی ہو تو اس کی شاعری کو معیوب نہیں ’’نعوذ باللہ‘‘ گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود پھر کچھ خواتین نے معاشرے کی اس سوچ سے بغاوت اختیار کر لی۔ جو شاعرات بھی تھیں اور خوبصورت بھی تھیں اور ان کو پاکستان میں لازوال عزت سے بھی نوازا گیا۔ جن میں ادا جعفری، پروین شاکر اور بشریٰ اعجاز سمیت کچھ اور نام بھی لئے جا سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف بڑے شہروں تک محدود تھا۔ ڈیرہ غازی خان سے 30 کلو میٹر دور قبائلی علاقے کی بستی جندانی جیسی جگہ کی رہنے والی خوبصورت لڑکی کے لئے بغاوت کر کے ڈاکٹری کے شعبے میں جانا اور پھر شاعری کرنا بھی اتنا ہی مشکل کام تھا جتنا فرہاد کے لئے دودھ کی نہر کھودنا تھا۔ لیکن ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے اپنے والدین کو اپنی محنت اور اپنے مثالی کردار سے اعتماد میں لے کر یہ مشکل مرحلے طے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ڈیرہ غازی خان کے شعراء میں محسن نقوی کے بعد سب سے زیادہ شہرت ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے حصے میں آئی۔ بڑے بڑے اخبارات کے ادبی صفحات کی زینت ان دونوں شاعروں کا کلام ہی بنتا ہے۔
یہاں میں یہ لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹری اور شاعری دو متضاد چیزیں ہیں۔ ڈاکٹری کا شعبہ بہت ہی زیادہ حاضر دماغی اور انگریزی ادویات کو ذہن میں رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ جبکہ شاعری مسلسل اردو لفظوں اور خیالوں میں کھوئے رہنے کے ساتھ ان کو خوبصورت لڑیوں میں پرونے کا نام ہے۔ دونوں شعبوں کے ساتھ اپنی خداداد صلاحیتوں سے بیک وقت ایک جیسا انصاف کرنے والی شاید ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ پاکستان کی واحد خاتون ہیں جن کو اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے مخصوص فضل و کرم سے ان خاص صلاحیتوں سے رکھا ہے۔ اور ان کا شمار پاکستان کی تاریخ ساز خواتین میں ہوتا ہے۔ بستی جندانی کی چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر اپنی نانی کی انگلی پکڑ کر سفر کرنے والی ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ آج دبستانِ ادب (ڈیرہ غازی خان) کی شہزادی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔
ڈاکٹری اور شاعری کے علاوہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ جو سب سے بڑا اہم کام کر رہی ہیں اس کا یہاں ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ وہ خواتین کے حقوق کے لئے ایسے معاشرے میں رہ کر کام کر رہی ہیں جو عورت کو قطعاً وہ مقام نہیں دیتا جس کی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی حقدار ہوتی ہے۔ اپنی بہن، بیٹیوں سے اجازت تو درکنار پوچھے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح کسی کے پلے باندھ دیا جاتا ہے۔ کسی بھی لڑکی کو زندگی کا ساتھی سمجھنے کے بجائے زر خرید غلام سے بھی نچلا درجہ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین ان خواتین کی آواز اور مظلوم کی للکار بن کر بھی شبانہ روز محنت کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ بیک وقت ایک فرض شناس ڈاکٹر، خوبصورت شاعرہ، پُر اعتماد بیٹی، وفادار بیوی، دور اندیش اور ذمہ دار ماں، خواتین کے حقوق کی علم بردار ہیں اور ان ساری خوبیوں سے اللہ قسمت والوں کوہی نوازتا ہے۔
’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ ’’اور میں آنکھیں بند رکھتی ہوں ‘‘ ’’ اور شام ٹھہر گئی‘‘ کے بعد ’’پھول، خوشبو اور تارا ‘‘کا مجموعہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ساری کتابوں کے مطالعے کے بعد شاعرہ کی جو شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ وہ بات کر کے پھولوں کی خوشبو کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ سخت سے سخت بات کہنے اور منوانے کے لئے بھی محبت کا دامن نہیں چھوڑتیں۔ وہ خواتین کے حقوق پر بات کرتے وقت محبت سے یہ مٹھاس بھرا اور خوشبودار پیغام دیتی ہیں کہ بچیوں کو تعلیم دلاؤ۔
اہلِ ادب ان کی ان کوششوں اور کاوشوں کو سلام پیش کرتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور ادبی دنیا میں اس خوبصورت اضافے کو اپنے لئے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ ’’ دبستانِ ادب کی شہزادی‘‘ یہ ادبی سفر بغیر کسی رکاوٹ کے طے کرتی چلی جائیں۔ آمین۔
ملک فدا الرحمن
چیئرمین ادبی و ثقافتی تنظیم ’’آئینہ‘‘
اسلام آباد
٭٭٭
عورت اور عورت ہے ۔۔۔ بشریٰ اعجاز
پھول، خوشبو اور تارہ کا مسودہ میرے ہاتھ میں ہے … جسے دیکھتے ہوئے سنسکرت کے رومانی شاعر امارو کی نظم یاد آ رہی ہے …
جس کا عنوان… عورت اور عورت ہے …!
ابھی تھوری دیر ہوئی کہ وہ مجھے سدا کے لئے چھوڑ گیا
لیکن میں ہمت سے کام لوں گی
اور کوئی بھی میری نا امیدی کو دیکھ نہ پائے گا
میں مسکراتی ہوں
میں تو مسکرا رہی ہوں
تمہاری مسکراہٹ میں ویسی ہی اداسی ہے
جیسی اس صبح میں
جو کسی آتش زدہ گاؤں پر نمودار ہوئی ہو…
مجھے ڈاکٹر نجمہ کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی اداسی دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا…مگر پھول خوشبو اور تارہ کے مسودے کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں مجھے اس پر عورت اور عورت کا گمان گزر تا رہا …یعنی عورت کا عورت سے مکالمہ…!
عورت بھی وہ جو ڈاکٹر ہے، ماں ہے، فرماں بردار بیٹی اور بیوی ہے، مگر اس کی ذات کے کچھ حصے شاید ان تمام حیثیتوں کے درمیان ان بوجھے … ان کہے رہ گئے ہیں
ہم عورتوں کے ساتھ اکثر یہی ہوتا ہے بظاہر مکمل… اندر سے ٹوٹی اور بکھری ہوئیں … کسی پرانے درخت کی جڑوں کی طرح درد کی زمین میں دور دور تک پھیلی ہوئیں …
کسی حل نہ ہو سکنے والے معمے کی طرح ان بوجھی…، پرانی حویلیوں کے دالانوں کے پیچھے دبکی ان تنگ و تاریک کوٹھڑیوں جیسی… جن میں دن کو بھی اندھیرا ہی چھایا رہتا ہے …
سورج کی ایک بھولی بھٹکی کرن بھی نہیں جاگتی جن کے اندھے اندھیروں میں …
لہٰذا دن میں بھی چراغ جلائے بغیر وہاں سے کچھ ڈھونڈ نکالنا ممکن نہیں ہوتا… یہی وجہ…اس نے شاعری کا چراغ جلا لیا… اور ذات کی تاریک کوٹھڑی میں جا گھسی…
ابھی تک لوٹی نہیں …وہیں کھڑی کہہ رہی ہے …
جرم بس یہ تھا کہ منزل کا تعین کر لیا
پھر سدا رہنا پڑا ہم کو سفر کے درمیاں
اس سفر کی ابتدا کیسے ہوئی؟
بظاہر ایک ڈائری سے جس میں چھپ چھپ کر وہ تمام ایسی باتیں لکھتی رہی… جو کسی سے کہہ نہ سکتی تھی …کسی کو سنا نہ سکتی تھی…
بھول جانے والی باتیں …اور بھول کر بھی یاد رہ جانے والی باتیں …! وہ باتیں جو راتوں کی تنہائیوں میں چاند کی اداسی کے کاغذ پر سرگوشیوں کی صورت لکھی جاتی ہیں … اور پھر ان سرگوشیوں کو دل کے پلو سے باندھ لیا جاتا ہے … احتیاط سے … حفاظت سے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے …! پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا… ڈائری اس کی باقاعدہ راز دان بن گئی… بعد میں جب اس راز سے پردہ اٹھا تو…
انکشاف کی طرح…اُس کی پہلی کتاب پھول سے بچھڑی خوشبو… سب کے سامنے آئی…
بالکل ایسے ہی جیسے آج سے بیس برس پہلے میں نے ڈائری میں سفرِ حج کے تاثرات رقم کئے تھے تو… مجھ پر اک انکشاف کی طرح سفر نامۂ حج عرضِ حال اترا تھا…اور مجھے … دفعتاً ادراک ہوا تھا… کہ میری ذات کے بہت سے ان کہے حصوں میں سے یہ صرف ایک حصہ تھا… اور یہ کہ ابھی ذات کی تاریک کوٹھڑیوں میں انگنت چراغ جلنے کے منتظر ہیں … جو بعد میں آہستہ آہستہ جلتے چلے گئے …!
ایسے ہی جیسے …ڈاکٹر نجمہ کی ذات کی تاریک کوٹھڑی میں رکھا ہوا… یہ چوتھا چراغ…
جس کے متعلق خود ڈاکٹر نجمہ کہتی ہیں … اگر میں مصروف ڈاکٹر نہ ہوتی تو شاید اب تک میری پندرہ بیس کتابیں آ چکی ہوتیں …!
میں ڈاکٹر نجمہ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کر تی ہوں …کہ اپنی پرو فیشنل لائف میں جس dedication سے وہ کام کرتی ہے۔
اور اپنی توانائی، اور توجہ جس طرح اپنے مریضوں پر پوری پوری نچھاور کر دیتی ہے۔ اس کے بعد شاعری کو وقت دینا اور پوری دیانت داری سے اپنی ذات کی دریافت کے سفر پر روانہ ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ایسا وہی کر سکتے ہیں۔۔ جنہیں لگن لگی ہوتی ہے لگن خود کو بوجھنے کی…اپنا بوجھا ہوا۔۔ ۔ سلیقے سے زمانے کے سامنے پیش کرنے کی اور پورے وقار کے ساتھ… اپنے لکھے ہوئے ہر لفظ کو اون کرنے کی چاہے زمانہ کچھ بھی کہے کچھ بھی کرے … اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب کوئی تخلیق کار پوری سچائی سے خود کو بیان کرتا ہے اور اس ضمن میں کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا…!
میں پہلی دفعہ جب ڈاکٹر نجمہ سے ملی تو یہ وصف میں نے اس کی ذات میں نمایاں دیکھا اس نے نہایت دھیمے لہجے میں پوری سچائی سے بتایا … اس کا تعلق جس قبیلے سے ہے … وہاں دور دور تک شاعر تو کیا ڈاکٹر بھی کوئی نہیں …!
اور یہ کہ اس قبیلے کی لڑکیاں آنکھیں بند رکھتی ہیں …!
انہیں آنکھیں کھولنے کی اجازت نہیں …
انکی زندگیوں کے فیصلے دالانوں اور حجروں میں بیٹھ کر گھر کے مرد کیا کرتے ہیں …
انہیں صرف اطلاع دی جاتی ہے …
اور اس اطلاع کے ہمراہ یہ ہدایت ایک وارننگ کی طرح نتھی ہوتی ہے …
کہ سرخ جوڑا پہن کر ڈولی چڑھنا تو جاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشان مٹاتی جانا…!
سو اس نے بھی ایسا ہی کیا… ڈولی چڑھی تو مڑ کر پیچھے کبھی نہ دیکھا…
سفر مسلسل سفر…قیام کہیں نہیں …
اس سفر میں اس کی روح پر کیا گزری، اس کے دل نے کیا کچھ سہا…
اور ایک حساس انسان ہونے کی وجہ سے زندگی کا مشاہدہ کیسا رہا…
اُس کی شاعری یہ سب کچھ تو نہیں بتاتی البتہ… اتنا ضرور کہتی ہے …
کہ اک ہمہ وقت اداسی اور تنہائی اس کے ہمراہ رہی… جس سے اس کا ہمیشہ مکالمہ رہا…
اس وقت بھی جب وہ شب کی آخری ساعتوں میں خود سے ہم کلام ہوئی اور اسوقت بھی… جب کسی بھیڑ بکری نما عورت کی ڈوبتی نبضوں کو بحال کرنے میں اس کی مسیحائی نے اپنی پوری قوت لگا دی… اس وقت بھی جب وہ اپنی پہلی نظم… ملاقات آخری لکھتے ہوئے، درد کی اک اچھوتی واردات سے گزر رہی تھی… اور اس وقت بھی… جب عمر اور حمزہ نے اس کی گود میں آ کر اسے ماں بننے کی آسودگی سے ہم کنار کیا تھا… کہ ہر آسودہ اور نا آسودہ جذبے کا تعلق انسان کی جذباتی دنیا سے ہے … اور ایک سچے تخلیق کار کی جذباتی دنیا کم و بیش ایسی ہی ہوتی ہے … ہمہ وقت زیروزبرسی… جس کا کسی ایسی کیفیت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں …جس میں ٹھہراؤ ہو… اور آرام جیسا کوئی احساس ہو…
ہمہ وقتی اضطراب اور بے چینی، جس کا اظہار ڈاکٹر نجمہ کی شاعری ہے …
حالانکہ بظاہر اس کی ذات میں ٹھہراؤ بھی ہے … اور آرام بھی… مگر زیریں سطح پر دبا دبا احتجاج، چھپی چھپی بغاوت… صاف دکھائی دیتی ہے۔
اگرچہ ڈاکٹر نجمہ نے نہایت عقلمندی سے اس احتجاج، اس بغاوت کو سات پروں میں چھپایا ہوا ہے مگر اس کی شاعری اس کا چیخ چیخ کر اعلان کرتی ہے …
اور وہ کہتی ہے۔
سانس لینے سے بھی اکثر روک دیتے ہیں ہمیں
جان لیوا ہو چلا ہے خیر خواہوں کا حصار
اور
دشمنوں سے تو مجھے خوف نہیں تھا لیکن
رہ میں اپنوں کی مگر گھات، نہ پوچھو میا
وہ محبت کی شاعرہ ہے۔
ہر شاعر محبت کا شاعر ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ محبت جنسِ مخالف کی ہو۔
مخلوقِ خدا کی… یا پھر خود خدا کی…
کہ شاعر کی تخلیقی کائنات میں نفرت کی کوئی جگہ ہی نہیں …
وہ محبت کے علاوہ کچھ کر رہی نہیں سکتا۔
چنانچہ یہ محبت تمام مضامین میں اس کی ہم رکاب ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نجمہ کی شاعری میں یہ محبت ہجر کے گاڑھے شیرے میں ڈوبی ہوئی ہے۔
اسی لئے ٹپ ٹپ ٹپکتی ہے … پورے پکے ہوئے آم کی طرح…
آدھے ادھورے آنسو کی طرح…
اس موتی کی طرح
جسے سیپ کسی بے اختیاری لمحے میں سمندر سے اچانک اگل دیتی ہے …!
میں نے اس کی شاعری میں جا بجا یہ کیفیت محسوس کی ہے۔ جس کی آنچ میں کبھی وہ شعر پرو رہی ہے اور کبھی نظم بن رہی ہے۔
یہی کیفیت سچی شاعری کا جوہر ہے۔ جس کے بغیر نہ تخلیق مکمل ہوتی ہے، نہ تخلیق کار…
ڈاکٹر نجمہ جس عمدگی سے اس کیفیت کو اپنی شاعری میں سمو رہی ہیے۔
اسے دیکھتے ہوئے اس کے شعری سفر کی کامیابی کی امید روشن لگنے لگتی ہے۔
میری دعا ہے وہ اس سفر میں اس مقام پر پہنچ جائے۔
جہاں پہنچ کر منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔
اور مسافر تمام تر تھکن کے باوجود سرشاری جیسی کیفیت میں یہ کہہ اٹھتا ہے۔
نہیں ملوں گی کسی بھی وصل آشنا سفر میں
میں ہجر موسم کی شدتوں میں تمہیں ملوں گی
اب بتائیں ایسے شعر کہنے والی شاعرہ کی شاعری پر مجھے عورت اور عورت کا گمان کیسے نہ گزرے …
اور اس کی مسکراہٹ اس مسکراہٹ سے مشابہ کیونکر نہ لگے …
جو کسی آتش زدہ گاؤں پر اچانک نمودار ہوتی ہے!
ہو جذبے، ہر اظہار میں نمایاں ہے۔۔ وہ ہے اس کا عورت ہونا…
بشریٰ اعجاز
٭٭٭
تشکر:
www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں