FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں

 

(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء)

 

 

 

انتخاب اور ترجمہ: عامر صدیقی

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

ڈپٹی کلکٹر

 

امر کانت

 

امر کانت، پیدائش: یکم جولائی ۱۹۲۵ ء، بلِیا (اتر پردیش)۔ میدان: کہانی، ناول، یادداشتیں، بچوں کا ادب۔ اہم تخلیقات: ناول: سوکھا پتا، آکاشی پکشی، سکھ جیوی، بیچ کی دیوار، گرامسیوِیکا، سُنّر پانڈے کی پتو ہُو، کنٹیلی راہ کے پھول، انہیں ہتھیاروں سے، لہریں، بِدا کی رات۔ بچوں کے ناول: وانر سینا، نیعُر بھائی، منگری، سچا دوست، بابو کا فیصلہ، کھونٹوں میں دال ہے۔ کہانیوں کے مجموعے: زندگی اور جونک، دیش کے لوگ، موت کا نگر، کُہاسا، طوفان، کلا پریمی، ایک دھنی ویکتی کا بیان، دکھ اورسکھ کا ساتھ، جانچ اور بچے، عورت کا کرودھ۔ یادداشتیں: کچھ یادیں کچھ باتیں، دوستی۔ متفرقات: سگی چاچی کا گاؤں، ایک ستری کا سفر، جھگڑو لال کا فیصلہ۔ ایوارڈز: سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ، میتھلی شرن گپت شیکھر ایوارڈ، یشپال ایوارڈ، ساہتیہ اکادمی سمان، جنان پیٹھ ایوارڈ، انسٹی ٹیوٹ ایوارڈ (اتر پردیش ہندی انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے )، مہاتما گاندھی اعزاز (اتر پردیش ہندی انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے )۔ انتقال: ۱۷ فروری۲۰۱۴ ء، الہ آباد(اتر پردیش)۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

 

شکلدیپ بابو قریب ایک گھنٹے بعد واپس لوٹے۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے برآمدے کے کمرے میں جھانکا، کوئی موکل نہیں تھا اور محرر صاحب بھی غائب تھے۔ وہ اندر چلے گئے اور اپنے کمرے کے سامنے برآمدے میں کھڑے ہو کر بندر کی مانند آنکھیں ملکا ملکا کے انہوں نے باورچی خانے کی طرف دیکھا۔ ان کی بیوی جُمنا، چوکے کے پاس پیڑھی پر بیٹھی، ہونٹ پر ہونٹ دبائے، منہ پھلائے ترکاری کاٹ رہی تھی۔ وہ ہولے ہولے مسکراتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس چلے گئے۔ اِن کے چہرے پر غیر معمولی اطمینان، یقین اور جوش کے ملے جلے تاثرات رقم تھے۔ ایک گھنٹے پہلے ایسی بات نہیں تھی۔

بات کچھ اس طرح شروع ہوئی تھی۔

شکلدیپ بابو سویرے دانت صاف کرنے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھے ہی تھے کہ جمنا نے ایک طشتری میں دو جلیبیاں ناشتے کیلئے سامنے رکھ دیں۔ وہ بغیر کچھ بولے ناشتہ کرنے لگے۔ جمنا پہلے تو ایک آدھ منٹ چپ رہی۔ پھر شوہر کے چہرے کی جانب اچٹتی نظروں سے دیکھنے کے بعد اس نے بات چھیڑی۔ ’’دو تین دن سے ببُوا بہت اداس رہتے ہیں۔‘‘

’’کیا؟ ‘‘سر اٹھا کر شکلدیپ بابو نے پوچھا اور ان کی بھنویں تن گئیں۔

جمنا نے بیکار میں مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’کل بولے، اس سال ڈپٹی کلکٹر کی بہت سی جگہیں ہیں، بابوجی سے کہتے ڈر لگتا ہے۔ کہہ رہے تھے، دو چار دن میں فیس جمع کروانے کی تاریخ گزر جائے گی۔‘‘

شکلدیپ بابو کا بڑا لڑکا نارائن، گھر میں ببُوا کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔ عمر اس کی تقریباً چوبیس سال کی تھی۔ گزشتہ تین چار سال سے بہت سے امتحانوں میں بیٹھنے، ایم ایل اے لوگوں کے دروازوں کی چوکھٹیں پھلانگتے اور مزید اسی طرح کے الٹے سیدھے ہنر آزمانے کے باوجود اسے اب تک کوئی نوکری نہیں مل سکی تھی۔ دو بار ڈپٹی کلکٹر کے امتحان میں بھی وہ بیٹھ چکا تھا، لیکن بدقسمتی ہمراہ تھی۔ اب ایک موقع اسے اور ملنا تھا، جس کو وہ چھوڑنا نہ چاہتا تھا اور اسے یقین تھا کہ چونکہ اس بار جگہیں کافی ہیں اور وہ اب کے جی جان سے محنت بھی کرے گا، اس وجہ سے بہت ممکن ہے کہ اُسے چن لیا جائے۔

شکلدیپ بابو مختار تھے۔ لیکن ادھر ڈیڑھ دو سال سے مختاری کی گاڑی ان سے چلائے نہیں چلتی تھی۔ بڑھوتری کی وجہ سے اب ان کی آواز میں نہ وہ تڑپ رہ گئی تھی، نہ جسم میں وہ طاقت اور نہ چال میں وہ اکڑ، اسی لئے موکل اب ان کے یہاں کم ہی پہنچتے۔ کچھ تو آ کر بھی بھڑک جاتے۔ اس حالت میں وہ رام کا نام لے کر کچہری جاتے، اکثر کچھ پا جاتے، جس سے دونوں وقت کا چوکا چولہا چل جاتا۔

جمنا کی بات سن کر وہ ایک دم بگڑ گئے۔ غصے سے ان کا منہ ٹیڑھا ہو گیا اور وہ سر کو جھٹکتے ہوئے، کٹ کھنے کتے کی طرح بولے۔ ’’تو میں کیا کروں؟ میں تو حیران پریشان ہو گیا ہوں۔ تم لوگ میری جان لینے پر تلے ہوئے ہو۔ صاف صاف سن لو، میں تین بار کہتا ہوں، مجھ سے نہیں ہو گا، مجھ سے نہیں ہو گا، مجھ سے نہیں ہو گا۔‘‘

جمنا کچھ نہ بولی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ شوہر کا غصہ کرنا واجب ہے۔

شکلدیپ بابو ایک دو لمحے خاموش رہے، پھر دائیں ہاتھ کو اوپر سے نیچے نچاتے ہوئے بولے۔ ’’پھر اس کی ضمانت ہی کیا ہے کہ اس دفعہ بابو صاحب لے ہی لئے جائیں گے؟ معمولی اے جی آفس کی کلرکی میں تو پوچھے نہیں گئے، ڈپٹی کلکٹری میں کون پوچھے گا؟ آپ میں اب ایسی کیا خوبی ہے صاحب کہ آپ ڈپٹی کلکٹر ہو ہی جائیں گے؟ تھرڈ کلاس بی اے آپ ہیں، چوبیس گھنٹے مٹر گشتی آپ کرتے ہیں، دن رات سگریٹیں آپ پھونکتے ہیں۔ آپ میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں؟ ، بڑے بڑے بہہ گئے، گدھا پوچھے کتنا پانی۔ پھر نصیب نصیب کی بات ہوتی ہے۔ بھائی، سمجھ لو، تمہارے نصیب میں نوکری لکھی ہی نہیں۔ اوہ ہاں، اگر تمام کتے کاشی ہی سدھاریں گے تو ہنڈیا کون چاٹے گا؟ ڈپٹی کلکٹر، ڈپٹی کلکٹر۔ سچ پوچھو تو ڈپٹی کلکٹر نام سے مجھے نفرت ہو گئی ہے۔‘‘ان کے ہونٹ تھرتھرا گئے۔

جُمنا نے اب مرے مرے لہجے میں ان کی بات کی مخالفت کی۔ ’’ایسی منحوس بات منہ سے نہیں نکالنی چاہئے۔ ہمارے لڑکے میں نقص ہی کون سا ہے؟ لاکھوں میں ایک ہے۔ صبر کی سو دھار، میرا تو دل کہتا ہے اس بار ببُوا ضرور لے لئے جائیں گے۔ پھر پہلے ہی ترسا ہوا لڑکا ہے، ماں باپ کا سکھ تو جانتا ہی نہیں۔ اتنا بھی نہیں ہو گا، تو اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔ ویسے بھی معلوم نہیں کیوں ہمیشہ اداس رہتا ہے، صحیح طریقے سے کھاتا پیتا نہیں، ٹھیک سے بولتا نہیں، پہلے کی طرح گاتا گنگناتا نہیں۔ نہ معلوم میرے لاڈلے کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘آخر میں اس کا گلا بھر آیا اور وہ دوسری طرف منہ کر کے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔

جُمنا کو روتے ہوئے دیکھ کر شکلدیپ بابو آپے سے باہر ہو گئے۔ غصے اور طنز سے منہ چِڑاتے ہوئے بولے۔ ’’لڑکا ہے تو لے کر چاٹو۔ ساری خرافات کی جڑ تم ہی ہو، اور کوئی نہیں۔ تم مجھے زندہ رہنے دینا نہیں چاہتیں، جس دن میری جان نکلے گی، تمہاری چھاتی ٹھنڈی ہو گی۔‘‘وہ ہانپنے لگے۔ انہوں نے جُمنا پر فیصلہ کن انداز میں ایسا زبردست وار کیا تھا، جسے وہ سہہ نہ سکی۔ روتی ہوئی بولی۔ ’’اچھی بات ہے، اگر میں ساری خرافات کی جڑ ہوں، تو میں کمینی کی بچی، جو آج سے کوئی بات۔۔ ۔‘‘ رونے کے مارے وہ آگے نہ بول سکی اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔

شکلدیپ بابو کچھ نہیں بولے، بلکہ وہیں بیٹھے رہے۔ منہ ان کاتنا ہوا تھا اور گردن ٹیڑھی ہو گئی تھی۔ ایک آدھ منٹ تک اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد وہ زمین پر پڑے اخبار کے ایک پھٹے پرانے ٹکڑے کو اٹھا کر اس استغراق سے پڑھنے لگے، جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔

لگ بھگ پندرہ بیس منٹ تک وہ اسی طرح پڑھتے رہے۔ پھر اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے لنگی کی طرح لپٹی دھوتی کو کھول کر ٹھیک سے پہن لیا اور اوپر اپنا پارسی کوٹ پہن لیا، جو کچھ میلا ہو گیا تھا اور جس میں دو پیوند بھی لگے تھے، اور پرانا پمپ شو پہن کر، ہاتھ میں چھڑی لئے، ایک دو بار کھانس کر باہر نکل گئے۔

شوہر کی بات سے جُمنا کے دل کو گہرا جھٹکا پہنچا تھا۔ شکلدیپ بابو کو باہر جاتے ہوئے اس نے دیکھا، پر وہ کچھ نہیں بولی۔ وہ منہ پھلائے خاموشی گھر کے اٹرم سٹرم کام کرتی رہی۔ اور ایک گھنٹے بعد جب شکلدیپ بابو باہر سے لوٹ کر اس کے پاس آ کر کھڑے ہوئے، تب بھی وہ کچھ نہ بولی، خاموشی سے ترکاری کاٹتی رہی۔

شکلدیپ بابو نے کھنکھار کر کہا۔ ’’سنتی ہو، یہ ڈیڑھ سو روپے رکھ لو۔ قریب سو روپے ببُوا کی فیس میں لگیں گے اور پچاس روپے الگ رکھ دینا، کوئی اور کام آ پڑے۔‘‘

جُمنا نے ہاتھ بڑھا کر روپے تو ضرور لے لئے، پر اب بھی کچھ نہیں بولی۔

لیکن شکلدیپ بابو بے انتہا خوش تھے اور انہوں نے جوش بھری آواز میں کہا۔ ’’سو روپے ببُوا کو دے دینا، آج ہی فیس بھیج دیں۔ ہوں گے، ضرور ہوں گے، ببُوا ڈپٹی کلکٹر ضرور ہوں گے۔ کوئی وجہ ہی نہیں کہ وہ نہ لئے جائیں۔ لڑکے کے ذہن میں کوئی خرابی تھوڑی ہے۔ رام رام۔۔ ۔۔ نہیں، فکر کی کوئی بات نہیں۔ نارائن جی اس بار بھگوان کی کرپا سے ڈپٹی کلکٹر ضرور ہوں گے۔‘‘

جُمنا اب بھی چپ رہی اور روپیوں کو ٹرنک میں رکھنے کے لئے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

شکلدیپ بابو اپنے کمرے کی طرف لوٹ گئے۔ لیکن کچھ دور جا کر پھر گھومے اور جس کمرے میں جُمنا گئی تھی، اس کے دروازے کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور جُمنا کو ٹرنک میں روپے بند کرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پھر بولے۔ ’’غلطی کسی کی نہیں۔ ساری غلطی تو میری ہے۔ دیکھو نہ، میں باپ ہو کر کہتا ہوں کہ لڑکا نالائق ہے۔ نہیں، نہیں، ساری خرافات کی جڑ میں ہی ہوں، اور کوئی نہیں۔‘‘

ایک دو لمحے وہ کھڑے رہے، لیکن پھر بھی جُمنا نے کوئی جواب نہیں دیا تو کمرے میں جا کر وہ اپنے کپڑے اتارنے لگے۔

نارائن نے اسی دن ڈپٹی کلکٹر کی فیس اور فارم بھیج دیئے۔

دوسرے دن اپنی عادت کے بر خلاف، صبح ہی شکلدیپ بابو کی نیند اچٹ گئی۔ وہ ہڑبڑا کر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر برآمدے میں آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ گھر کے سبھی افراد نیند میں مگن تھے۔ سوئے ہوئے لوگوں کی سانسوں کی آوازیں اور مچھروں کی بھنبھناہٹ سنائی دے رہی تھیں۔ چاروں جانب اندھیرا تھا۔ لیکن باہری کمرے سے ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ شکلدیپ بابو چونک پڑے اور دبے پاؤں کمرے کی طرف بڑھے۔

ان کی عمر پچاس سے اوپر ہو گی۔ وہ گورے، ناٹے اور دبلے پتلے تھے۔ ان کے چہرے پر بے شمار لکیروں کا جال بُنا ہوا تھا اور ان کے بازوؤں اور گردن پر چمڑی جھول رہی تھی۔

دروازے کے قریب پہنچ کر، انہوں نے پنجوں کے بل کھڑے ہو، ہونٹ دبا کمرے کے اندر جھانکا۔ ان کا لڑکے نارائن میز پر رکھی لالٹین کے سامنے سر جھکائے بغور کچھ پڑھ رہا تھا۔ شکلدیپ بابو کچھ دیر تک آنکھوں کو حیرانگی سے پھیلا کر اپنے لڑکے کو دیکھتے رہے، جیسے کسی بہت ہی خوشیوں بھرے اسرار کا انہوں نے اچانک پتہ لگا لیا ہو۔ پھر وہ خاموشی سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ گئے اور پھر وہیں کھڑے ہو کر ذرا سا مسکرائے اور پھر دبے پاؤں واپس لوٹے اور اپنے کمرے کے سامنے برآمدے کے کنارے کھڑے ہو کر آسمان کو اشتیاق سے دیکھنے لگے۔

ان کی عادت چھ، ساڑھے چھ بجے سے پہلے اٹھنے کی نہیں تھی۔ لیکن آج اٹھ گئے تھے، تو دل ناخوش نہیں ہوا۔ آسمان میں ستارے اب بھی چٹک دکھائی دے رہے تھے، اور باہر کے درختوں کو ہلاتی ہوئی اور آنگن میں نہ معلوم کس سمت سے آتی جاتی ہوا، ان کو مسرور کر رہی تھی اور ساتھ میں حوصلہ بھی دے رہی تھی۔ وہ دوبارہ مسکرا اٹھے اور انہوں نے آہستہ سے سرگوشی کی۔ ’’چلو، اچھا ہی ہے۔‘‘

اور اچانک ان میں معلوم نہیں کہاں کا جوش آ گیا۔ انہوں نے اسی وقت ہی دانت مانجھنے شروع کر دیئے۔ ان کاموں سے نمٹنے کے بعد بھی اندھیرا ہی رہا، تو بالٹی میں پانی بھرا اور اسے غسلخانے میں لے جا کر اشنان کرنے لگے۔ نہانے دھونے سے فراغت پا کر جب وہ باہر نکلے، تو ان کے جسم میں ایک عجیب سی تازگی اور من میں ایک نیا ہی جوش و ولولہ تھا۔

اگرچہ انہوں نے اپنے تمام کام خاموشی سے کرنے کی کوشش کی تھی، پھر بھی جسم کی کمزوری کی وجہ سے کچھ کھٹ پٹ ہو ہی گئی، جس کے نتیجے میں ان کی بیوی کی نیند کھل گئی۔ جُمنا کو تو پہلے چور، وور کا شبہ ہوا، لیکن اس نے فوری طور پر جب آ کر دیکھا، تو حیران ہو گئی۔ شکلدیپ بابو آنگن میں کھڑے کھڑے آسمان کو تک رہے تھے۔

جُمنا نے پریشانی بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اتنی جلدی اشنان کی ضرورت کیا تھی؟ اتنا سویرے تو کبھی بھی نہیں اٹھا جایا جاتا تھا؟ کچھ ہو ہوا گیا، تو؟ ‘‘

شکلدیپ بابو جھینپ گئے۔ مصنوعی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔ ’’دھیرے دھیرے بولو، بھئی، ببُوا پڑھ رہے ہیں۔‘‘

جُمنا بگڑ گئی۔ ’’دھیرے دھیرے کیوں بولوں، اسی لچھن سے پچھلے سال بھی بیمار پڑ گیا تھا۔‘‘

شکلدیپ بابو کو خدشہ ہوا کہ اس طرح بات چیت کرنے سے تکرار بڑھ جائے گی، شور شرابہ ہو گا، اس لئے انہوں نے بیوی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ پیچھے پلٹے اور اپنے کمرے میں آ کر لالٹین جلا کر خاموشی سے رامائن کا پاٹھ کرنے لگے۔

پوجا ختم کر کے جب وہ اٹھے تو اجالا ہو گیا تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکل آئے۔ گھر کے بڑے لوگ تو جاگ گئے تھے، پر بچے ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ جُمنا بھنڈار گھر میں کچھ کھٹرپٹر کر رہی تھی۔ شکلدیپ بابو تاڑ گئے اور وہ بھنڈار گھر کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کرتجسس کے ساتھ اپنی بیوی کو کُنڈے میں سے چاول نکالتے ہوئے دیکھتے رہے۔

کچھ دیر بعد انہوں نے سوال کیا۔ ’’نارائن کی اماں، آج کل تمہارا پوجا پاٹھ نہیں ہوتا کیا؟ ‘‘پھر جھینپ کر وہ مسکرائے۔

شکلدیپ بابو اس سے پہلے ہمیشہ رادھاسوامیوں پر بگڑتے تھے اور موقع بے موقع ان پر سخت تنقید بھی کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے عورتوں میں کبھی کبھی رونا پیٹنا تک بھی ہو جاتا تھا۔ اسی لئے جب آج بھی شکلدیپ بابو نے پوجا پاٹھ کی بات کی، تو جُمنا نے سمجھا کہ وہ طنز کر رہے ہیں۔ اس نے بھی جواب دیا۔ ’’ہم لوگوں کو پوجا پاٹھ سے کیا مطلب؟ ہمیں تو نرک میں ہی جانا ہے۔ جنہیں سورگ جانا ہو، وہ کریں۔‘‘

’’لو بگڑ گئیں۔‘‘ شکلدیپ بابو دھیمے دھیمے مسکرائے اور بولے، ’’ارے، میں مذاق تھوڑی کر رہا تھا۔ میں بڑی غلطی پر تھا، رادھاسوامی تو بڑے پربھاؤ شالی دیوتا ہیں۔‘‘

جُمنا کو رادھاسوامی کو دیوتا کہنا بہت برا لگا اور وہ تنک کر بولی۔ ’’رادھاسوامی کو دیوتا کہتے ہیں؟ وہ تو پِتا پرمیشور ہیں، ان کا لوک سب سے اوپر ہے، اس کے نیچے ہی برہما، وشنو اور مہیش کے لوک آتے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، لیکن کچھ پوجا پاٹھ بھی کرو گی؟ سنتے ہیں سچے دل سے رادھاسوامی کی پوجا کرنے سے سبھی منورتھ سِدھ ہو جاتے ہیں۔‘‘ شکلدیپ بابو جواب دے کر کانپتے لبوں سے مسکرانے لگے۔

جُمنا نے فوراً ان کی غلطی کو ٹھیک کیا۔ ’’اس میں دکھانا تھوڑے ہوتا ہے، من میں نام لے لیا جاتا ہے۔ سبھی منورتھ بن جاتے ہیں اور مرنے کے بعد آتما پِتا پرم پِتا میں مل جاتی ہے۔ پھر چوراسی نہیں بھگتنا پڑتا۔‘‘

شکلدیپ بابو نے خاطر جمعی سے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، بہت اچھی بات ہے۔ ذرا اور سویرے اٹھ کر نام لے لیا کرو۔ صبح نہانے سے طبیعت دن بھر ہلکی پھلکی رہتی ہے۔ کل سے تم بھی شروع کر دو۔ میں تو بدنصیب تھا کہ میری آنکھیں آج تک بند رہیں۔ خیر کوئی بات نہیں، اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، کل سے تم بھی سویرے چار بجے اٹھ جانا۔‘‘

انہیں خوف محسوس ہوا کہ جُمنا کہیں ان کی تجویز کی مخالفت نہ کر دے، اس لئے اتنا کہنے کے بعد وہ جلدی سے پلٹے اور کھسک گئے۔ لیکن پھر اچانک کچھ یاد کر کے وہ دوبارہ آئے۔ پاس آ کر انہوں نے بیوی سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’ ببُوا کیلئے ناشتے کا انتظام کیا کرو گی؟ ‘‘

’’جو روز ہوتا ہے، وہی ہو گا، اور کیا ہو گا؟ ‘‘اداسی بھرے لہجے میں جُمنا نے جواب دیا۔

’’ٹھیک ہے، لیکن آج حلوہ کیوں نہیں بنا لیتیں؟ گھر کا بنا اچھا ہوتا۔ اور کچھ میوے منگا لو۔‘‘

’’حلوے کے لئے گھی نہیں ہے۔ پھر اتنے پیسے کہاں ہیں؟ ‘‘ جُمنا نے مجبوری ظاہر کی۔

’’پچاس روپے تو بچے ہیں نہ، اس میں سے خرچ کرو۔ روکھی سوکھی سے بنا جسم، لڑکے کو مناسب طریقے سے کھانے پینے کا نہ ملے گا، تو وہ امتحان کیا خاک دے گا؟ روپے کی فکر نہ کرو، میں ابھی زندہ ہوں۔‘‘اتنا کہہ کر شکلدیپ بابو قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ پھر وہاں سے ہٹنے سے پیشتر وہ بیوی کو یہ بھی ہدایت کرتے گئے۔ ’’ایک بات اور کرو۔ تم لڑکے لوگوں سے ڈانٹ کر کہہ دینا کہ وہ باہر کے کمرے میں جا کر مچھلی بازار نہ لگائیں، نہیں تو مار پڑے گی۔ کیوں کہ پڑھنے میں رکاوٹ ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ ببُوا سے کہہ دینا، وہ باہر والے کمرے میں بیٹھ کر آرام سے پڑھیں، میں باہر آنگن میں بیٹھ جاؤں گا۔‘‘

شکلدیپ بابو سویرے ایک ڈیڑھ گھنٹے باہر والے کمرے میں بیٹھتے تھے۔ وہاں وہ موکلوں کے آنے کا انتظار کرتے اور انہیں سمجھاتے بجھاتے۔

اور وہ اس دن سچ مچ ہی مکان کے باہر پیپل کے درخت کے نیچے، جہاں کافی سایہ رہتا تھا، ایک میز اور کرسیاں لگا کر بیٹھ گئے۔ جان پہچان کے لوگ وہاں سے گزرے، تو انہیں وہاں بیٹھے دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے۔ جب سڑک سے گزرتے ہوئے ببّن لال پیشکار نے ان سے پوچھا کہ ’’بھائی صاحب، آج کیا بات ہے؟ ‘‘تو انہوں نے زور سے چلا کر کہا کہ ’’ اندر بڑی گرمی ہے۔‘‘اور انہوں نے جوکر کی طرح منہ بنا دیا اور آخر میں قہقہہ مار کر ہنس پڑے، جیسے کوئی بہت بڑا مذاق کر دیا ہو۔

شام کو جہاں روز وہ پہلے ہی کچہری سے آ جاتے تھے، اس دن دیر سے واپس آئے۔ انہوں نے بیوی کے ہاتھ میں چار روپے تو دئیے ہی، ساتھ ہی دو سیب اور قینچی مارکہ سگریٹ کے پانچ پیکٹ بھی بڑھا دیے۔

’’سگریٹ اب بھلا کیوں؟ ‘‘ جُمنا نے تعجب سے پوچھا۔

’’ تمہارے لئے ہے۔‘‘ شکلدیپ بابو نے آہستہ سے کہا اور دوسری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے، لیکن ان کا چہرہ شرم سے کچھ تمتما گیا۔

جُمنا نے پیشانی پر آئی ساڑی کو نیچے کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’کبھی سگریٹ پی بھی ہے کہ آج ہی پیوں گی۔ اس عمر میں مذاق کرتے لاج نہیں آتی؟ ‘‘

شکلدیپ بابو کچھ بولے نہیں اور تھوڑا سا مسکرا ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ پھر سنجیدہ ہو کر انہوں نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’’ ببُوا کو دے دینا۔‘‘ اور وہ فوری طور پر وہاں سے چلتے بنے۔

جُمنا بھونچکی ہو کر کچھ دیر انہیں دیکھتی رہی، کیونکہ آج سے پہلے تو وہ یہی دیکھتی آئی تھی کہ نارائن کی تمباکو نوشی کے وہ سخت خلاف رہے ہیں اور اسی وجہ سے کئی بار لڑکے کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کر چکے ہیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، تو وہ یہ کہہ کر مسکرا دی کہ بُڑھو سٹھیا گئے ہیں۔ نارائن دن بھر پڑھنے لکھنے کے بعد ٹہلنے گیا ہوا تھا۔ شکلدیپ بابو جلدی سے کپڑے بدل کر ہاتھ میں جھاڑو لے باہر والے کمرے میں جا پہنچے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ کمرے کو اچھی طرح جھاڑا پونچھا، اس کے بعد نارائن کی میز کو صاف کیا اور میز پوش کو زور زور سے کئی بار جھاڑ پھٹک کر سلیقے کے ساتھ میز پر بچھا دیا۔ آخر میں نارائن کی چارپائی پر پڑے بچھونے کو کھول کر اس میں کی ایک ایک چیز کو جھاڑ پھٹکار کر قرینے سے بچھانے لگے۔

اتنے میں جُمنا نے آ کر دیکھا تو اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’کچہری سے آنے پر یہی کام رہ گیا ہے کیا؟ بچھونا روز بچھ ہی جاتا ہے اور کمرے کی، مہرن صفائی کر ہی دیتی ہے۔‘‘

’’اچھا، ٹھیک ہے۔ میں اپنی مرضی سے کر رہا ہوں، کوئی زبردستی تھوڑی ہے۔‘‘ شکلدیپ بابو کے چہرے پر ہلکی سی جھجک کے تاثرات نمایاں ہو گئے تھے اور وہ اپنی بیوی سے منہ موڑ تے ہوئے ایسی آواز میں بولے، جیسے انہوں نے اچانک یہ کام شروع کر دیا تھا، ’’ اور جب اتنا کر ہی لیا ہے، تو درمیان میں چھوڑنے سے کیا فائدہ، پورا ہی کر لیں۔‘‘ ویسے کچہری سے آنے کے بعد ان کا روزانہ کا معمول یہ تھا کہ وہ کچھ ناشتہ پانی کر کے چارپائی پر لیٹ جاتے تھے۔ اکثر انہیں نیند آ جاتی تھی اور وہ لگ بھگ آٹھ بجے تک سوتے رہتے تھے۔ اگر نیند نہ بھی آتی، تو بھی وہ اسی طرح خاموشی سے پڑے رہتے تھے۔

’’ناشتہ تیار ہے۔‘‘یہ کہہ کر جُمنا وہاں سے چلی گئی۔

شکلدیپ بابو کمرے کو چمکانے، بچھونا لگانے اور کرسیاں ترتیب سے سجانے کے بعد آنگن میں آ کر کھڑے ہو گئے اور بغیر کسی وجہ کے ہنستے ہوئے بولے۔ ’’اپنا کام ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کرنا چاہئے، نوکروں کا کیا ٹھکانہ؟ ‘‘

لیکن ان کی بات پر کسی نے توجہ نہیں دی اور نہ اس کا جواب ہی۔

آہستہ آہستہ دن گزرتے گئے اور نارائن محنت کرتا رہا۔ کچھ دنوں سے شکلدیپ بابو شام کو گھر سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر واقع شیو جی کے ایک مندر میں بھی جانے لگے تھے۔ وہ بہت چلتا ہوا مندر تھا اور اس میں بھکت جنوں کی بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ کچہری سے آنے کے بعد وہ نارائن کے کمرے کو جھاڑتے پونچھتے، اس کا بچھونا لگاتے، میز کرسیاں سجاتے اور آخر میں ناشتہ کر کے مندر کے لئے روانہ ہو جاتے۔ مندر میں ایک ڈیڑھ گھنٹے تک رہتے اور لگ بھگ دس بجے گھر آتے۔ ایک دن جب وہ مندر سے واپس آئے، تو ساڑھے دس بج گئے تھے۔ انہوں نے دبے پاؤں برآمدے میں قدم رکھا اور اپنی عادت کے مطابق کچھ دیر تک مسکراتے ہوئے جھانک کر کمرے میں نارائن کو پڑھتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پھر اندر جا کر اپنے کمرے میں چھڑی رکھی، نل پر ہاتھ پیر دھوئے، اور کھانے کیلئے چوکے میں جا کر بیٹھ گئے۔

بیوی نے کھانا پروس دیا۔ شکلدیپ بابو نے منہ میں نوالہ چباتے ہوئے پوچھا۔ ’’ ببُوا کو میوے دے دیے تھے؟ ‘‘

وہ آج شام جب کچہری سے واپس آئے تھے تو میوے لیتے آئے تھے۔ انہوں نے میوے کو بیوی کے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے صرف نارائن کو ہی دینا، اور کسی کو نہیں۔

جُمنا کو غنودگی ہو رہی تھی، لیکن اس نے شوہر کی بات سن لی، چونک کر بولی، ’’کہاں؟ میوہ ٹرنک میں رکھ دیا تھا، سوچا، ببُوا گھوم کر آئیں گے تو چپکے سے دے دیں گے۔ پر لڑکے تو شیطان بنے ہوئے ہیں، اونا کونا، انترا سنترا، سب جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ ٹن ٹن نے کہیں سے دیکھ لیا اور اس نے سارے کا سارا کھا ڈالا۔‘‘

ٹن ٹن، شکلدیپ بابو کا سب سے چھوٹا، بارہ سالہ انتہائی شرارتی لڑکا تھا۔

’’کیوں؟ ‘‘ شکلدیپ بابو چلا پڑے۔ ان کے منہ کھل گیا تھا اور ان کی زبان پر روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دکھائی دے رہا تھا۔ جُمنا کچھ نہ بولی۔ اب شکلدیپ بابو نے غصے میں بیوی کو منہ چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’کھا گیا، کھا گیا۔ تم کیوں نہ کھا گئیں۔ تم لوگوں کے کھانے کیلئے ہی لاتا ہوں نہ؟ ہوں۔ کھا گیا۔‘‘

جُمنا بھی تنک اٹھی۔ ’’تو کیا ہو گیا؟ کبھی میوہ مصری، پھل فروٹ تو ان کو ملتا نہیں، بیچاروں کو روکھی سوکھی جو کچھ ملتی ہے، اسی پر صبر باندھے رہتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے خرید کبھی کچھ دیا بھی تو نہیں۔ بچہ ہی تو ہے، من چل گیا، کھا لیا۔ پھر میں نے اسے بہت مارا بھی، اب اس کی جان تو نہیں لے لوں گی۔‘‘

’’اچھا تو کھاؤ تم اور تمہارے لڑکے۔ خوب مزے میں کھا لو۔ ایسے کھانے پر لعنت ہے۔‘‘وہ غصے سے تھر تھر کانپتے ہوئے چلا اٹھے اور پھر چوکے سے اٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔

جُمنا خوف، ذلت اور غصے سے رونے لگی۔ اس نے بھی کھانا نہیں کیا اور وہاں سے اٹھ کر چارپائی پر منہ ڈھانک کر پڑ  گئی۔ لیکن دوسرے دن صبح بھی شکلدیپ بابو کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے نہانے دھونے اور پوجا پاٹھ کرنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جب ٹن ٹن بیدار ہوا، تو اسے اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس نے میوہ کیوں کھایا؟ جب اس کو کوئی جواب نہ سوجھا اور وہ ساکت ہو کر اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا، تو شکلدیپ بابو نے اسے بہت سے طمانچے جڑ دیے۔

ڈپٹی کلکٹر کا امتحان الہ آباد میں ہونے والا تھا اور وہاں کی روانگی کے دن آ گئے۔ اس دوران نارائن نے اتنی زیادہ محنت کی کہ سبھی حیران تھے۔ وہ اٹھارہ انیس گھنٹے تک پڑھتا۔ اس کی پڑھائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونے پاتی، صرف اسے پڑھنا تھا۔ اس کا کمرہ صاف ملتا، اس کو بچھونا بچھا ملتا، دونوں اوقات گاؤں کے خالص گھی کے ساتھ دال چاول، روٹی، ترکاری ملتی۔ جسم کی طاقت اور دماغ کی تازگی کو برقرار رکھنے کیلئے ناشتے میں سویرے حلوہ دودھ اور شام کو میوے یا پھل۔ اور تو اور، لڑکے کی طبیعت نہ بیزار ہو، اس لئے سگریٹ کا بھی مناسب بندوبست تھا۔ جب سگریٹ کے پیکٹ ختم ہوتے، تو جُمنا اس کے پاس چار پانچ پیکٹ اور رکھ آتی۔

جس دن نارائن کو الہ آباد جانا تھا، شکلدیپ بابو کی چھٹی تھی اور وہ سویرے ہی گھومنے نکل گئے۔ وہ کچھ دیر تک کمپنی باغ میں گھومتے رہے، پھر وہاں طبیعت نہ لگی، تو دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ وہاں بھی دل نہ لگا، تو اپنے خاص دوست کیلاش بہاری مختار کے یہاں چلے گئے۔ وہاں بہت دیر تک گپیں لڑاتے رہے، اور جب گاڑی کا وقت قریب آیا تو جلدی جلدی گھر لوٹ آئے۔

گاڑی نو بجے چلنی تھی۔ جُمنا اور نارائن کی بیوی نرملا نے سویرے ہی اٹھ کر جلدی جلدی کھانا بنا لیا تھا۔ نارائن نے کھانا کھایا اور سب کو پرنام کر کے اسٹیشن کیلئے چل پڑا۔ شکلدیپ بابو بھی اس کے ساتھ اسٹیشن گئے۔ نارائن کو رخصت کرنے کیلئے اس کے چار پانچ دوست بھی اسٹیشن پر پہنچے تھے۔ جب تک گاڑی نہیں آئی تھی، نارائن پلیٹ فارم پر ان دوستوں سے باتیں کرتا رہا۔ شکلدیپ بابو الگ کھڑے چاروں طرف اس طرح دیکھتے رہے، جیسے نارائن سے ان کی کوئی جان پہچان نہ ہو۔ اور جب گاڑی آئی اور نارائن اپنے والد اور دوستوں کے تعاون سے گاڑی میں تمام لوازمات کے ساتھ چڑھ گیا، تو شکلدیپ بابو وہاں سے آہستہ سے کھسک گئے اور وِہیلر کے بک اسٹال پر جا کھڑے ہوئے۔ بک اسٹال والا آدمی جان پہچان کا تھا، اس نے سلام کر کے پوچھا۔ ’’کہیے، مختار صاحب، آج کیسے آنا ہوا؟‘‘

شکلدیپ بابو نے تفاخرانہ انداز میں مسکراتے جواب دیا۔ ’’لڑکا الہ آباد جا رہا ہے، ڈپٹی کلکٹر کا امتحان دینے۔ شام تک پہنچ جائے گا۔ ڈیوڑھے درجے کے پاس جو ڈبا ہے نہ، اسی میں ہے۔ نیچے جو چار پانچ لڑکے کھڑے ہیں، وہ اس کے دوست ہے۔ سوچا بھائی کہ ہم لوگ بوڑھے ٹھہرے، لڑکے امتحان ومتحان کی بات کر رہے ہوں گے، کیا سمجھیں گے، لہٰذا ادھر چلا آیا۔‘‘ان کی آنکھیں مزاحیہ انداز میں اکٹھا ہو گئیں۔

وہاں وہ تھوڑی دیر تک رہے۔ اس کے بعد جا کر گھڑی میں وقت دیکھا، کچھ دیر تک تار گھر کے باہر تار بابو کو کھٹرپٹر کرتے ہوئے دیکھا اور پھر وہاں سے ہٹ کر ٹرینوں کے آنے جانے کا ٹائم ٹیبل پڑھنے لگے۔ لیکن ان کا دھیان شاید گاڑی کی طرف ہی تھا، کیونکہ جب ٹرین چلنے کی وسل بجی، تو وہاں سے بھاگ کر نارائن کے دوستوں کے پیچھے آ کھڑے ہوئے۔

نارائن نے جب انہیں دیکھا، تو اس نے فوراً نیچے اتر کر پاؤں چھوئے۔ ’’خوش رہو، بیٹا، بھگوان تمہاری منوکامنا پوری کرے۔‘‘انہوں نے لڑکے سے بدبدا کر کہا اور دوسری طرف دیکھنے لگے۔

نارائن بیٹھ گیا اور اب گاڑی چلنے ہی والی تھی۔ اچانک شکلدیپ بابو کا داہنا ہاتھ اپنے کوٹ کی جیب میں گیا۔ انہوں نے جیب سے کوئی چیز لگ بھگ باہر نکال لی، اور وہ کچھ آگے بھی بڑھے، لیکن پھر نہ معلوم کیا سوچ کر رک گئے۔ ان کا چہرہ تمتما سا گیا اور جلد بازی میں وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ گاڑی وسل دے کر چلنے لگی تو شکلدیپ بابو چونک اٹھے۔ انہوں نے جیب سے وہ چیز نکال کر مٹھی میں دبا لی اور اسے نارائن کو دینے کے لئے دوڑ پڑے۔ وہ کمزور اور بوڑھے آدمی تھے، لہٰذا ان سے تیز کیا دوڑا جاتا، وہ پیروں میں تیزی لانے کیلئے اپنے ہاتھوں کو اس طرح لہرا رہے تھے، جیسے کوئی رو گی، مریل لڑکا اپنے ساتھیوں کے بیچ، کھیل کود کے دوران کوئی ہلکی پھلکی شرارت کرنے کے بعد تیزی سے بھاگنے کے دوران گردن کو جھکا کر ہاتھوں کو گول گول گھماتا ہے۔ ان کے پاؤں تھپ تھپ کی آواز کے ساتھ پلیٹ فارم پر پڑ رہے تھے اور ان کی حرکتوں کا ان کی صورت پر کوئی خاص اثر ظاہر نہیں ہو رہا تھا، بس یہی معلوم ہوتا کہ وہ کچھ پریشان ہیں۔ پلیٹ فارم پر جمع لوگوں کا دھیان ان کی طرف ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے موج میں آ کر زور سے للکارا، کچھ نے کلکاریاں ماریں اور کچھ لوگوں نے دوڑ تے ہوئے پیدا ہوئی ان کی بے ہنگم حالت کو دیکھ کر بے تحاشہ ہنسنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ ان کی خوش قسمتی ہی تھی کہ گاڑی ابھی ہی چلی تھی اور رفتار میں تیزی نہیں آئی تھی۔ نتیجے میں ان کی یہ ظریفانہ کوشش کامیاب ہوئیں اور انہوں نے ڈبے کے سامنے پہنچ کر جوش اور فکر مندی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ڈبے سے سر نکال کر جھانکتے ہوئے نارائن کے ہاتھ میں ایک پڑیا دیتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا، اسے شردھا کے ساتھ کھا لینا، بھگوان شنکر کا پرشاد ہے۔‘‘

پڑیا میں کچھ بتاشے تھے، جو انہوں نے کل شام کو شیو جی کو چڑھائے تھے اور جسے پتہ نہیں کیوں، نارائن کو دینا بھول گئے تھے۔ نارائن کے دوست استعجاب سے مسکراتے ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور جب وہ پاس آ گئے، تو ایک نے پوچھا۔ ’’ بابو جی، کیا بات تھی، ہم کہہ دیتے۔‘‘ شکلدیپ بابو یہ کہتے ہوئے کہ ’’ کوئی بات نہیں، کچھ روپے تھے، سوچا، میں ہی دے دوں۔‘‘ تیزی سے آگے بڑھ گئے۔

امتحان ختم ہونے کے بعد نارائن گھر واپس آ گیا۔ اس نے واقعی پرچے بہت اچھے کئے تھے اور اس نے گھر والوں سے صاف صاف کہہ بھی دیا تھا کہ اگر کوئی بے ایمانی نہ ہوئی، تو وہ انٹرویو میں ضرور بلایا جائے گا۔ گھر والوں کی بات تو دوسری تھی، لیکن جب محلے اور شہر کے لوگوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے یقین نہیں کیا۔ لوگ مذاق میں کہنے لگے۔ ’’ ہر سال تو یہی کہتے ہو بچُّو۔ وہ کوئی دوسرے ہی ہیں جو انٹرویو میں بلائے جاتے ہیں۔‘‘

لیکن بات نارائن نے جھوٹ نہیں کہی تھی، کیونکہ ایک دن اس کے پاس اطلاع آئی کہ اس کو الہ آباد میں علاقائی پبلک سروس کمیشن کے سامنے انٹرویو کیلئے حاضر ہونا ہے۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ بہت سال بعد اس شہر سے کوئی لڑکا ڈپٹی کلکٹری کے انٹرویو کیلئے بلایا گیا تھا۔ لوگوں کی حیرت کا ٹھکانا نہ رہا۔

شام کے وقت کچہری سے پہنچ کر شکلدیپ بابو سیدھا آنگن میں جا کھڑے ہو گئے اور زور سے ٹھٹھا مار کر ہنس پڑے۔ پھر کمرے میں جا کر کپڑے اتارنے لگے۔ شکلدیپ بابو نے کوٹ کو کھونٹی پر ٹانگتے ہوئے، لپک کر آتی ہوئی جُمنا سے کہا۔ ’’اب کرو نہ راج۔ ہمیشہ شور مچائے رہتی تھی کہ یہ نہیں ہے، وہ نہیں ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے کہ ببُوا انٹرویو میں بلائے گئے ہیں، آیا ہی سمجھو۔‘‘

’’جب آ جائیں، تبھی نہ۔ ’’ جُمنا نے کنجوسی سے مسکراتے ہوئے کہا۔

شکلدیپ بابو تھوڑا ہنستے ہوئے بولے۔ ’’تمہیں اب بھی شک ہے؟ لو میں کہتا ہوں کہ ببُوا ضرور آئیں گے، ضرور آئیں گے۔ نہیں آئے، تو میں اپنی مونچھ منڈوا دوں گا۔ اور کوئی کہے یا نہ کہے، میں تو اس بات کو پہلے ہی جانتا ہوں۔ ارے، میں ہی کیوں، سارا شہر یہی کہتا ہے۔ امبیکا بابو وکیل مجھے مبارکباد دیتے ہوئے بولے۔ ’’انٹرویو میں بلائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انٹرویو تھوڑا بھی اچھا ہو گیا، تو انتخاب لازمی ہے۔‘‘میری ناک میں دم تھا، جو بھی سنتا، مبارک دینے چلا آتا۔‘‘

’’محلے کے لڑکے مجھے بھی آ کر مبارکباد دے گئے ہیں۔ جانکی، کمل اور گوری تو ابھی ابھی گئے ہیں۔‘‘ جُمنا نے خواب بھری آنکھوں سے اپنے شوہر کو دیکھتے ہوئے اطلاع دی۔

’’تو تمہاری کوئی معمولی ہستی ہے۔ ہیں۔۔ تم ڈپٹی کلکٹر کی ماں ہو نہ، جی۔‘‘اتنا کہہ کر شکلدیپ بابو قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ جُمنا کچھ نہیں بولی، بلکہ اس نے مسکرانا چھوڑ کر ساڑی کا پلو سر کے آگے تھوڑا سا کھینچا اور منہ ٹیڑھا کر لیا۔ شکلدیپ بابو نے جوتے اتار کر چارپائی پر بیٹھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’’ارے بھئی، ہمیں تمہیں کیا لینا ہے، ایک کونے میں پڑے رام نام جپا کریں گے۔ لیکن میں تو ابھی یہ سوچ رہا ہوں کہ چند سال تک اور مختاری کروں گا۔ نہیں، یہی ٹھیک رہے گا۔‘‘انہوں نے گال پھلا کر ایک دو بار مونچھوں کو تاؤ دیا۔

جُمنا نے اس کی مخالفت کی۔ ’’لڑکا مانے گا تھوڑی، کھینچ لے جائے گا۔ ہمیشہ یہ دیکھ کر اس کی چھاتی پھٹتی رہتی ہے کہ بابو جی اتنی محنت کرتے ہیں اور وہ کچھ بھی مدد نہیں کرتا۔‘‘

’’کچھ کہہ رہا تھا کیا؟ ‘‘ شکلدیپ بابو نے آہستہ سے پوچھا اور بیوی کی جانب سے نظریں ہٹا کر دروازے کے باہر منہ بنا کر دیکھنے لگے۔

جُمنا نے یقین دہانی کرائی۔ ’’میں جانتی نہیں کیا؟ اس کا چہرہ بتاتا ہے۔ باپ کو اتنا کام کرتے دیکھ کر اس کو کچھ اچھا تھوڑی لگتا ہے۔‘‘آخر میں اس نے ناک سُڑک لی۔

نارائن پندرہ دن بعد انٹرویو دینے گیا۔ اور اس نے انٹرویو بھی بہت اچھا کیا۔ وہ گھر واپس آیا تو اس کے من میں بے حد جوش و خروش تھا اور جب اس نے یہ بتایا کہ جہاں اور لڑکوں کا پندرہ بیس منٹ تک انٹرویو ہوا، اس کا پورے پچاس منٹ تک انٹرویو چلتا رہا اور اس نے تمام سوالوں کے تسلی بخش جوابات دئیے، تو اب یہ سب نے مان لیا کہ نارائن کا چن لیا جانا یقینی ہے۔

دوسرے دن کچہری میں پھر وکیلوں اور مختاروں نے شکلدیپ بابو کو مبارک بادیں دیں اور اپنا یقین ظاہر کیا کہ نارائن ضرور منتخب کر لیا جائے گا۔ شکلدیپ بابو مسکرا تے ہوئے شکریہ ادا کرتے رہے اور لگے ہاتھوں نارائن کی نجی زندگی کی ایک دو باتیں بھی بتا تے رہے اور آخر میں سر کو آگے بڑھا کر سرگوشی کے انداز میں دل کا راز ظاہر کیا۔ ’’آپ سے کہتا ہوں، پہلے میرے من میں شک تھا، شک کیا سولہ آنے شک تھا، لیکن آپ لوگوں کی دعاؤں سے اب وہ دور ہو گیا ہے۔‘‘

جب وہ گھر واپس آئے، تو نارائن، گوری اور کمل دروازے کے سامنے کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ نارائن انٹرویو کے سلسلے میں ہی کچھ بتا رہا تھا۔ وہ اپنے پتا جی کو آتا دیکھ کر آہستہ آہستہ بولنے لگا۔ شکلدیپ بابو خاموشی کے ساتھ وہاں سے گزر گئے، لیکن دو تین گز ہی آگے گئے ہوں گے کہ گوری کی آواز انہیں سنائی پڑی۔ ’’ارے تمہارا ہو گیا، اب تم موج کرو۔‘‘اتنا سنتے ہی شکلدیپ بابو پلٹ گئے اور لڑکوں کے پاس آ کر انہوں نے پوچھا، ’’ کیا؟ ‘‘ان کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں اور ان کی حالت ایسی ہو گئی تھی، جیسے کسی نجی محفل میں وہ زبردستی گھس آئے ہوں۔

لڑکے ایک دوسرے کو دیکھ کر شائستگی سے مسکرائے۔ پھر گوری نے اپنی بات کی وضاحت کی۔ ’’میں کہہ رہا تھا نارائن سے، بابو جی، کہ ان کا چنا جانا یقینی ہے۔‘‘

شکلدیپ بابو نے سڑک سے گزرتی ہوئی ایک موٹر کو غور سے دیکھنے کے بعد دھیرے دھیرے کہا۔ ’’ہاں، دیکھئے نہ، جہاں ایک سے ایک تیز طرار لڑکے پہنچتے ہیں، سب سے تو بیس منٹ ہی انٹرویو ہوتا ہے، پر ان سے پورے پچاس منٹ۔ اگر نہیں لینا ہوتا تو پچاس منٹ تک تنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی، پانچ دس منٹ پوچھ تاچھ کر کے۔۔ ۔‘‘

گوری نے سر ہلا کر اس بات کی حمایت کی اور کمل نے کہا۔ ’’پہلے کا زمانہ ہوتا تو کہا بھی نہیں جا سکتا، لیکن اب تو بے ایمانی اتنی نہیں ہوتی ہو گی۔‘‘

شکلدیپ بابو نے آنکھیں کھولیں کر کے ہلکی پھلکی آواز میں پوچھا۔ ’’بے ایمانی نہیں ہوتی نہ؟ ‘‘

’’ ہاں، اب اتنی نہیں ہوتی۔ پہلے بات دوسری تھی۔ وہ زمانہ اب لد گیا۔‘‘گوری نے جواب دیا۔

شکلدیپ بابو اچانک اپنی آواز پر زور دیتے ہوئے بولے، ’’ارے، اب کیسی بے ایمانی صاحب، گولی ماریئے، اگر بے ایمانی ہی کرنی ہوتی تو اتنی دیر تک ان کا انٹرویو ہوتا؟ انٹرویو میں بلایا ہی نہ ہوتا اور بلاتے بھی تو چار پانچ منٹ پوچھ تاچھ کر کے رخصت کر دیتے۔‘‘

اس کا کسی نے جواب نہیں دیا، تو وہ مسکراتے ہوئے گھوم کر گھر میں چلے گئے۔ گھر میں پہنچنے پر جُمنا سے بولے۔ ’’ ببُوا ابھی سے ہی کسی افسر کی طرح لگتے ہیں۔ دروازے پر ببُوا، گوری اور کمل باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے دور ہی سے غور کیا، جب نارائن بابو بولتے ہیں، تو ان کے بولنے اور ہاتھ ہلانے سے ایک عجیب ہی شان ٹپکتی ہے۔ ان کے دوستوں میں ایسی بات کہاں؟ ‘‘

’’آج دوپہر میں مجھے کہہ رہے تھے کہ تمہیں موٹر میں گھماؤں گا۔‘‘ جُمنا نے خوش خبری سنائی۔

شکلدیپ بابو خوش ہو کر ناک سڑکتے ہوئے بولے، ’’ارے، تو اس کو موٹر کی کمی ہو گی، گھومنا جتنا چاہو۔‘‘وہ اچانک خاموش ہو گئے اور کھوئے کھوئے سے اس طرح مسکرانے لگے، جیسے کوئی مزیدار چیز کھانے کے بعد دل ہی دل میں اس کا مزہ لے رہے ہوں۔

کچھ دیر بعد انہوں نے بیوی سے سوال کیا۔ ’’کیا کہہ رہا تھا، موٹر میں گھماؤں گا؟ ‘‘ جُمنا نے پھر وہی بات دہرا دی۔

شکلدیپ بابو نے آہستہ سے دونوں ہاتھوں سے تالی بجاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ ’’چلو، اچھا ہے۔‘‘ان کے چہرے پر اطمینان کے تاثرات رقم تھے۔

سات آٹھ دنوں میں نتیجہ نکلنے کا اندازہ لگا گیا تھا۔ سب کو یقین ہو گیا تھا کہ نارائن چن لیا جائے گا اور سبھی نتیجے کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔

اب شکلدیپ بابو اور بھی مصروف رہنے لگے۔ پوجا پاٹھ کا ان کا پروگرام لگاتار جاری تھا۔ لوگوں سے بات چیت کرنے میں ان کو کافی مزا آنے لگا تھا اور وہ گفتگو کے دوران ایسی صورت پیدا کر دیتے کہ لوگوں کو کہنا ہی پڑتا کہ نارائن کو ضرور ہی چن لیا جائے گا۔ وہ اپنے گھر پر جمع ہوئے نارائن اور اس کے دوستوں کی باتیں چھپ کر سنتے اور کبھی کبھی اچانک ان کی مجلس میں گھس جاتے اور زبردستی باتیں کرنے لگتے۔ کبھی کبھی نارائن کو اپنے باپ کی یہ حرکت بہت بری لگتی اور وہ غصے میں دوسری طرف دیکھنے لگتا۔ رات میں شکلدیپ بابو چونک کر اٹھ بیٹھتے اور باہر آ کر کمرے میں لڑکے کو سوتے ہوئے دیکھنے لگتے یا آنگن میں کھڑے ہو کر آسمان کو تکنے لگتے۔

ایک دن انہوں نے سویرے ہی سب کو سنا نے کے لئے بلند آواز میں کہا۔ ’’نارائن کی ماں، میں نے آج خواب دیکھا ہے کہ نارائن بابو ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔‘‘

جُمنا باورچی خانے کے برآمدے میں بیٹھی چاول پھٹک رہی تھی اور اسی کے پاس نارائن کی بیوی، نرملا، گھونگھٹ کاڑھے دال بِین رہی تھی۔

جُمنا نے سر اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’خواب سویرے دکھائی پڑا تھا کیا؟ ‘‘

’’سویرے کے نہیں تو شام کے خواب کے بارے میں تم سے کہنے آؤں گا؟ ارے، ایکدم حقیقت میں دیکھا تھا۔ دیکھتا ہوں کہ اخبار میں نتیجہ نکل گیا ہے اور اس میں نارائن بابو کا بھی نام ہے، اب یہ یاد نہیں کہ کون نمبر تھا، پر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ نام کافی اوپر تھا۔‘‘

’’اماں جی، سویرے کا خواب تو ایک دم سچا ہوتا ہے نہ۔‘‘نرملا نے آہستہ سے جُمنا سے کہا۔

شاید نرملا کی آواز شکلدیپ بابو نے سن لی تھی، کیونکہ انہوں نے ہنس کر سوال کیا۔ ’’کون بول رہا ہے، ڈِپٹائن ہیں کیا؟ ‘‘آخر میں وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔

’’ ہاں، کہہ رہی ہیں کہ سویرے کا خواب سچا ہوتا ہے۔ سچا ہوتا ہی ہے۔‘‘ جُمنا نے مسکرا کر بتایا۔

نرملا لاج سے سمٹ گئی۔ اس نے اپنے بدن کو سمٹایا اور پیٹھ کو نیچے جھکا کر اپنے منہ کو اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان چھپا لیا۔

اگلے دن بھی سویرے شکلدیپ بابو نے گھر والوں کو اطلاع دی کہ انہوں نے آج بھی ہو بہو ویسا ہی خواب دیکھا ہے۔

جُمنا نے اپنی ناک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’سویرے کا خواب تو ہمیشہ ہی سچا ہوتا ہے۔ جب بہو کو لڑکا ہونے والا تھا، میں نے سویرے سویرے خواب دیکھا کہ کو ئی سورگ کی دیوی ہاتھ میں بچہ لئے آسمان سے آنگن میں اتر رہی ہے۔ بس، میں نے سمجھ لیا کہ لڑکا ہی ہے۔ اور لڑکا ہی نکلا۔‘‘

شکلدیپ بابو نے جوش میں آ کر کہا۔ ’’اور مان لو کہ جھوٹ ہے، تو یہ خواب ایک دن دکھائی پڑتا، دوسرے دن بھی ہو بہو وہی خواب کیوں دکھائی دیتا، پھر وہ بھی حقیقت جیسا۔‘‘

’’بہو نے بھی ایسا ہی خواب آج سویرے دیکھا ہے۔‘‘

’’ڈپٹائن نے بھی؟ ‘‘ شکلدیپ بابو نے مسکراہٹ روکتے ہوئے کہا۔

’’ ہاں، ڈپٹائن نے ہی۔ ٹھیک سویرے انہوں نے دیکھا کہ ایک بنگلے میں ہم لوگ رہ رہے ہیں اور ہمارے دروازے پر موٹر کھڑی ہے۔‘‘ جُمنا نے جواب دیا۔

شکلدیپ بابو کھوئے کھوئے سے مسکراتے رہے۔ پھر بولے۔ ’’اچھی بات ہے، اچھی بات ہے۔‘‘

ایک دن رات کو تقریباً ایک بجے شکلدیپ بابو نے اٹھ کر بیوی کو جگایا اور اس کو الگ لے جاتے ہوئے بے شرمی سے اونچا قہقہہ لگا کر سوال کیا۔ ’’کہو بھئی، کچھ کھانے کو ہو گا؟ بہت دیر سے نیند ہی نہیں آ رہی ہے، پیٹ کچھ مانگ رہا ہے۔ پہلے میں نے سوچا، جانے بھی دو، یہ کوئی کھانے کا وقت ہے، لیکن اس سے کام بنتے نہ دکھا، تو تمہیں جگایا۔ شام کو کھایا تھا، سب ہضم ہو گیا۔‘‘

جُمنا تعجب کے ساتھ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ ازدواجی زندگی کے اتنے طویل عرصے میں کبھی بھی، یہاں تک کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں بھی، شکلدیپ بابو نے رات میں اس کو جگا کر کچھ کھانے کو نہیں مانگا تھا۔ وہ جھنجھلا گئی اور اس نے غیر یقینی کا اظہار کیا۔ ’’ایسا پیٹ تو کبھی بھی نہیں تھا۔ معلوم نہیں، اس وقت باورچی خانے میں کچھ ہے بھی یا نہیں۔‘‘

شکلدیپ بابوکھسیا کر مسکرانے لگے۔

جند لمحوں بعد جُمنا نے آنکھیں مل کر پوچھا۔ ’’ ببُوا کے میوے میں سے تھوڑا سا دوں کیا؟ ‘‘

شکلدیپ بابو جھٹ سے بولے، ’’ارے، رام رام۔ میوہ تو، تم جانتی ہو، مجھے بالکل پسند نہیں۔ جاؤ، تم سوجاؤ، بھوک ووک تھوڑی ہے، مذاق تھا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ دھیرے سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ لیکن وہ لیٹے ہی تھے کہ جُمنا کمرے میں ایک پلیٹ میں ایک روٹی اور گڑ لے کر آئی۔ شکلدیپ بابو قہقہہ لگا کر اٹھ بیٹھے۔

شکلدیپ بابو پوجا پاٹھ کرتے، کچہری جاتے، دنیا بھر کے لوگوں سے دنیا بھر کی بات کرتے، ادھر ادھر مٹرگشت کرتے اور جب فارغ ہوتے، تو کچھ نہ کچھ کھانے کو مانگ بیٹھتے۔ وہ چٹورے ہو گئے اور ان کو جب دیکھو، بھوک لگ جاتی۔ اس طرح کبھی روٹی گڑ کھا لیتے، کبھی آلو بھنوا کر چکھ لیتے اور کبھی ہاتھ پر چینی لے کر پھانک جاتے۔ کھانے میں بھی وہ تبدیلی چاہنے لگے۔ کبھی کھچڑی کی فرمائش کر دیتے، کبھی ستّوپیاز کی، کبھی صرف روٹی دال کی، کبھی مکھنی اور کبھی صرف دال چاول کی ہی۔ ان سے وقت کٹتا ہی نہ تھا اور وہ وقت کاٹنا چاہتے تھے۔

ان بد پرہیزیوں اور ذہنی دباؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بیمار پڑ گئے۔ انہیں بخار ہو گیا اور دست بھی آنے لگے۔ ان کی بیماری سے گھر کے لوگوں کو بڑی تشویش ہوئی۔

جُمنا نے روہانسی آواز میں کہا۔ ’’بار بار کہتی تھی کہ اتنی محنت نہ کیجیے، پر سنتا ہی کون ہے؟ اب جھیلنا پڑا نا۔‘‘

پر شکلدیپ بابو پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ انہوں نے بات ہوا میں اڑا دی، ’’ارے، میں تو کچہری جانے والا تھا، پر یہ سوچ کر رک گیا کہ اب مختاری تو چھوڑنی ہی ہے، تھوڑا آرام کر لیں۔‘‘

’’مختاری جب چھوڑنی ہو گی، تب ہو گی، اس وقت تو دونوں وقت کی روٹی دال کا انتظام کرنا ہے۔‘‘ جُمنا نے فکر مندی سے کہا۔

’’ارے، تم کیسی بات کرتی ہو؟ بیماری تو سب کو ہوتی ہے، میں مٹی کا ڈھیلا تو ہوں نہیں کہ گھل جاؤں گا۔ بس، ایک آدھ دن کی بات ہے، اگر بیماری سخت ہوتی تو میں اس طرح ٹنک ٹنک کر بولتا؟ ‘‘ شکلدیپ بابو نے سمجھایا اور آخر میں ان کے ہونٹوں پر ایک لاغر مسکراہٹ کھیل گئی۔

وہ دن بھر بے چین رہے۔ کبھی لیٹتے، کبھی اٹھ بیٹھتے اور کبھی باہر نکل کر ٹہلنے لگتے۔ لیکن کمزور اتنے ہو گئے تھے کہ پانچ دس قدم چلتے ہی تھک جاتے اور پھر کمرے میں آ کر لیٹے جاتے۔ کرتے کرتے شام ہوئی اور جب شکلدیپ بابو کو یہ بتایا گیا کہ کَیلاش بہاری مختار ان کی خیر خبر لینے آئے ہیں، تو وہ اٹھ بیٹھے اور فوراً چادر اوڑھ کر، ہاتھ میں چھڑی لے کر، بیوی کے لاکھ منع کرنے پر بھی باہر نکل آئے۔ دست تو بند ہو گئے تھے، پر بخار ابھی بھی تھا اور اتنے وقت میں ہی وہ چڑچڑے ہو گئے تھے۔

کَیلاش بہاری نے ان کو دیکھتے ہی فکر مند لہجے میں کہا۔ ’’ارے، تم کہاں باہر آ گئے، مجھے ہی اندر بلا لیتے۔‘‘

شکلدیپ بابو چارپائی پر بیٹھ گئے اور کمزور سی ہنسی ہنستے ہوئے بولے، ’’ارے، مجھے کچھ ہوا تھوڑی ہے، سوچا، آرام کرنے کی عادت ہی ڈال لوں۔‘‘یہ کہہ کر وہ معنی خیز نظروں سے اپنے دوست کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔

سب حال چال پوچھنے کے بعد کَیلاش بہاری نے سوال کیا۔ ’’نارائن بابو کہیں دکھائی نہیں دے رہے، کہیں گھومنے گئے ہیں کیا؟ ‘‘

شکلدیپ بابو نے مصنوعی بیزاری ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’ ہاں، گئے ہوں گے کہیں، لڑکے ان کو چھوڑتے بھی تو نہیں، کوئی نہ کوئی آ کر ساتھ لے جاتا ہے۔‘‘

کَیلاش بہاری نے تعریف کی۔ ’’خوب ہوا، صاحب۔ میں جب بھی اس لڑکے کو دیکھتا تھا، دل میں سوچتا تھا کہ یہ آگے چل کر کچھ نہ کچھ ضرور بنے گا۔ وہ تو، صاحب، دیکھنے سے ہی پتہ لگ جاتا ہے۔ چال ڈھال میں اور بولنے چالنے کے انداز میں کچھ ایسا ہے کہ۔۔ ۔ چلئے، ہم سب ان معنوں میں بہت خوش قسمت ہیں۔‘‘

شکلدیپ بابو ادھر ادھر دیکھنے کے بعد سر کو آگے بڑھا کر صلاح مشورے کے انداز میں بولے، ’’ارے بھائی صاحب، کہاں تک بتاؤں اپنے منہ سے کیا کہنا، پر ایسا سیدھا سادہ آدمی تو میں نے دیکھا نہیں، پڑھنے لکھنے کا تو اتنا شوق کہ چوبیس گھنٹے پڑھتا رہے۔ منہ کھول کر کسی سے کوئی بھی چیز مانگتا نہیں۔‘‘

کَیلاش بہاری نے بھی اپنے لڑکے کی تعریف میں کچھ باتیں گوش گذار کر دیں۔ ’’لڑکے تو میرے بھی سیدھے ہیں، منجھلا لڑکا شِو ناتھ جتنا سادہ ہے، اتنا کوئی نہیں۔ ٹھیک نارائن بابو ہی کی طرح ہے۔‘‘

’’نارائن تو اس زمانے کا کوئی رشی منی معلوم پڑتا ہے۔‘‘ شکلدیپ بابو نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’بس، اس کی ایک ہی عادت ہے۔ میں اس کی ماں کو میوہ دے دیتا ہوں اور نارائن رات میں اپنی ماں کو جگا کر کھاتا ہے۔ بھلی بری اس کی صرف ایک یہی عادت ہے۔ ارے بھیا، تمہیں بتاتا ہوں، لڑکپن میں ہم نے اس کا نام پنّا لال رکھا تھا، پر ایک دن ایک مہاتما گھومتے ہوئے ہمارے گھر آئے۔ انہوں نے نارائن کا ہاتھ دیکھا اور بولے، اس کا نام پنّا لال، سنّا لال رکھنے کی ضرورت نہیں، بس آج سے اسے نارائن کہا کرو، اس کے کرم میں بادشاہ ہونا لکھا ہے۔ پہلے زمانے کی بات دوسری تھی، لیکن آج کل بادشاہ کا مطلب کیا ہے؟ ڈپٹی کلکٹر تو ایک معنی میں بادشاہ ہی ہوا۔‘‘آخر میں آنکھیں مٹکا کر انہوں مسکرانے کی کوشش کی، پر ہانپ گئے۔

دونوں دوست بہت دیر تک بات چیت کرتے رہے، اور زیادہ تر وقت وہ اپنے اپنے لڑکوں کی ستائش ہی کرتے رہے۔

گھر کے لوگوں کو شکلدیپ بابو کی بیماری کی فکر تھی۔ بخار کے ساتھ اسہال بھی تھا، اسی لئے وہ بہت کمزور ہو گئے تھے، لیکن وہ بات کو یہ کہہ کر اڑا دیتے۔ ’’ارے، کچھ نہیں، ایک دو دن میں، میں اچھا ہو جاؤں گا۔‘‘اور ایک حکیم کی کوئی معمولی، سستی دوا کھا کر دو دن بعد وہ اچھے بھی ہو گئے، لیکن ان کو کمزوری مستقل تھی۔

جس دن ڈپٹی کلکٹر کا نتیجہ نکلا، اتوار کا دن تھا۔

شکلدیپ بابو نے سویرے سویرے رامائن کا پاٹھ کیا، پھر ناشتے کے بعد مندر چلے گئے۔ چھٹی کے دنوں میں وہ مندر پہلے ہی چلے جاتے اور وہاں دو تین گھنٹے، اور کبھی کبھی تو چار چار گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ آٹھ بجے مندر پہنچ گئے۔ جس گاڑی سے نتیجہ آنے والا تھا، وہ دس بجے آتی تھی۔

شکلدیپ بابو پہلے تو بہت دیر تک مندر کی سیڑھی پر بیٹھ کر سستاتے رہے، وہاں سے اٹھ کر اوپر آئے تو نند لال پانڈے نے، جو صندل رگڑ رہا تھا، نارائن کے نتیجے کے بابت استفسار کیا۔ شکلدیپ بابو وہاں پر کھڑے ہو کر مکمل تفصیل کے ساتھ سب کچھ بتانے لگے۔ وہاں سے جب انہیں چھٹی ملی تو دھوپ کافی چڑھ گئی تھی۔ انہوں نے اندر جا کر بھگوان شِو کے بت کے سامنے اپنا ما تھا ٹیک دیا۔ کافی دیر تک وہ اسی طرح پڑے رہے۔ پھر اٹھ کر انہوں نے چاروں جانب گھوم گھوم کر مندر کے گھنٹے بجا کر منترویچارن کئے اور گال بجائے۔ آخر میں بھگوان کے سامنے دوبارہ ما تھا ٹیک کر باہر نکلے ہی تھے کہ جنگ بہادر سنگھ ماسٹر مندر میں داخل ہوئے اور انہوں نے شکلدیپ بابو کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا۔ ’’ارے، مختار صاحب۔ گھر نہیں گئے؟ ڈپٹی کلکٹر کا نتیجہ تو نکل آیا۔‘‘

شکلدیپ بابو کا دل دھک سے کر گیا۔ ان کے ہونٹ کانپنے لگے اور انہوں نے مشکل سے مسکرا کر پوچھا۔ ’’اچھا، کب آیا؟ ‘‘

جنگ بہادر سنگھ نے بتایا۔ ’’ارے، دس بجے کی گاڑی سے آیا۔ نارائن بابو کا نام تو ضرور ہے، لیکن۔۔ ۔‘‘وہ کچھ آگے نہ بول سکے۔

شکلدیپ بابو کا دل زوروں سے دھک دھک کر رہا تھا۔ انہوں نے اپنے خشک ہونٹوں کو زبان سے گیلا کرتے ہوئے انتہائی دھیمی آواز میں پوچھا۔ ’’کیا کوئی خاص بات ہے؟ ‘‘

’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ارے، ان کا نام تو ہے ہی، یہ ہے کہ ذرا نیچے ہے۔ دس لڑکے لئے جائیں گے، لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا نام سولہواں سترہواں پڑے گا۔ لیکن کوئی تشویش کی بات نہیں، کچھ لوگ تو کلکٹری میں چلے جاتے ہیں کچھ میڈیکل میں ہی نہیں آتے اور اس طرح پوری پوری امید ہے کہ نارائن بابو لے ہی لئے جائیں گے۔‘‘

شکلدیپ بابو کا چہرہ پھیکا پڑ گیا۔ ان کے پاؤں میں زور نہیں تھا اور معلوم پڑتا تھا کہ وہ گر جائیں گے۔ جنگ بہادر سنگھ تو مندر میں چلے گئے۔

وہ کچھ دیر تک وہیں سر جھکائے کچھ اس طرح کھڑے رہے، جیسے کوئی بھولی بات یاد کر رہے ہوں۔ پھر وہ چونک پڑے اور اچانک انہوں نے تیزی سے چلنا شروع کر دیا۔ ان کے منہ سے دھیمی آواز میں تیزی سے شِیو، شِیو نکل رہا تھا۔ آٹھ دس گز آگے بڑھنے پر انہوں نے رفتار اور تیز کر دی، پر جلد ہی تھک گئے اور ایک نیم کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ہانپنے لگے۔ چار پانچ منٹ سستانے کے بعد انہوں نے پھر چلنا شروع کر دیا۔ وہ چھڑی کو اٹھاتے گراتے، سینے پر سرٹکائے اور شِیو، شِیو کا جاپ کرتے، ہوا کے ہلکے جھونکے سے دھیرے دھیرے آڑا ٹیڑھا اڑتے سوکھے پتے کی مانند ڈگ مگ ڈگ مگ چلے جا رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے ان کو نمستے کیا، تو انہوں نے دیکھا نہیں، اور کچھ لوگوں نے ان کو دیکھ کر مسکرا کر آپس میں الٹی سیدھی باتیں شروع کر دی، اس وقت بھی انہوں نے کچھ نہیں دیکھا۔ لوگوں نے اطمینان سے، ہمدردی سے اور افسوس سے دیکھا، پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ان کی بس ایک ہی دھن تھی کہ وہ کسی طرح گھر پہنچ جائیں۔

گھر پہنچ کر وہ اپنے کمرے میں چارپائی پر دھم سے بیٹھ گئے۔ ان کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا۔ ’’نارائن کی اماں۔‘‘

سارے گھر میں مردنی چھائی ہوئی تھی۔ چھوٹے سے آنگن میں گندا پانی، مٹی، باہر سے اڑ کر آئے ہوئے سوکھے پتے اور گندے کاغذ پڑے تھے، اور موری سے بدبو آ رہی تھی۔ برآمدے میں پڑی پرانی بنس کھٹ پر بہت سے گندے کپڑے پڑے تھے اور باورچی خانے سے اس وقت بھی دھواں اٹھ اٹھ کر سارے گھر کی سانس کو گھوٹ رہا تھا۔

کہیں کوئی کھٹرپٹر نہیں ہو رہی تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ گھر میں کوئی ہے ہی نہیں۔

جلد ہی جُمنا نہ معلوم کدھر سے نکل کر کمرے میں آئی اور شوہر کو دیکھتے ہی اس نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟ ‘‘

شکلدیپ بابو نے جھنجھلا کر جواب دیا۔ ’’مجھے کیا ہوا ہے، جی؟ پہلے یہ بتاؤ، نارائن جی کہاں ہیں؟ ‘‘

جُمنا نے باہر والے کمرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ ’’اسی میں پڑے ہے۔، نہ کچھ بولتے ہیں اور نہ کچھ سنتے ہیں۔ میں پاس گئی، تو گم صم رہے۔ میں تو ڈر گئی ہوں۔‘‘

شکلدیپ بابو نے مسکرا کر یقین دلایا۔ ’’ارے کچھ نہیں، سب بھلا ہو گا، فکر کی کوئی بات نہیں۔ پہلے یہ تو بتاؤ، ببُوا کو تم نے کبھی یہ تو نہیں بتایا تھا کہ ان کی فیس اور کھانے پینے کے لیے میں نے چھ سو روپے قرض لیے ہیں۔ میں نے تم کو منع کر دیا تھا کہ ایسا کسی بھی صورت میں نہ کرنا۔‘‘

جُمنا نے کہا۔ ’’میں ایسی بیوقوف تھوڑی ہوں۔ لڑکے نے ایک دو بار کھود کھود کر پوچھا تھا کہ اتنے روپے کہاں سے آتے ہیں؟ ایک بار تو اس نے یہاں تک کہا تھا کہ یہ پھل میوہ اور دودھ بند کر دو، بابو جی بیکار میں اتنی فضول خرچی کر رہے ہیں۔ پر میں نے کہہ دیا کہ تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں، تم بغیر کسی فکر کے محنت کرو، بابو جی کو ادھر بہت مقدمے مل رہے ہیں۔‘‘

شکلدیپ بابو بچے کی طرح خوش ہوتے ہوئے بولے۔ ’’بہت اچھا۔ کوئی تشویش کی بات نہیں۔ بھگوان سب بھلا کرے گا۔ ببُوا کمرے ہی میں ہیں نا؟ ‘‘

جُمنا نے اقرار میں سرہلا دیا۔

شکلدیپ بابو مسکرا کر اٹھے۔ ان کا چہرہ سوکھ گیا تھا، آنکھیں دھنس گئی تھیں اور چہرے پر مونچھیں جھاڑو کی مانند تھرک رہی تھیں۔ وہ جُمنا سے یہ کہہ کر کہ ’’تم اپنا کام دیکھو، میں ابھی آیا‘‘ قدموں کو اٹھاتے ہوئے باہر والے کمرے کی طرف بڑھے۔ ان کے پاؤں کانپ رہے تھے اور ان کا سارا جسم بھی کانپ رہا تھا، ان کی سانس حلق میں پھنس پھنس جا رہی تھی۔

انہوں نے پہلے برآمدے ہی میں سے سرآگے بڑھا کمرے میں جھانکا۔ باہری دروازہ اور کھڑکیاں بند تھیں، نتیجے میں کمرے میں اندھیرا تھا۔ پہلے تو کچھ نہ دکھائی دیا اور ان کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ لیکن انہوں نے تھوڑا سا آگے بڑھ کر غور سے دیکھا، تو چارپائی پر کوئی شخص سینے پر دونوں ہاتھ باندھے چت پڑا تھا۔ وہ نارائن ہی تھا۔ وہ آہستہ سے چوروں کی مانند دبے پاؤں کمرے کے اندر داخل ہوئے۔

ان کے چہرے پر غیر فطری اعتماد کی مسکراہٹ تھرک رہی تھی۔ وہ میز کے پاس پہنچ کر خاموشی سے کھڑے ہو گئے اور اندھیرے ہی میں کتابیں الٹنے پلٹنے لگے۔ لگ بھگ ڈیڑھ دو منٹ تک وہیں اسی طرح کھڑے رہنے پر وہ سرہانے پھرتی سے مڑ کر نیچے بیٹھ گئے اور کھسک کر چارپائی کے پاس چلے گئے اور چارپائی کے نیچے جھانک جھانک کر دیکھنے لگے، جیسے کوئی چیز تلاش کر رہے ہوں۔

اس کے بعد پاس میں رکھے نارائن کے موزے کو اٹھا لیا اور ایک دو لمحے اسے الٹنے پلٹنے کے بعد اس کو آہستہ سے وہیں رکھ دیا۔ آخر میں وہ سانس روک کر آہستہ آہستہ اس طرح اٹھنے لگے، جیسے کوئی چیز تلاش کرنے آئے تھے، لیکن اس میں ناکام ہو کر چپ چاپ واپس لوٹ رہے ہوں۔ کھڑے ہوتے وقت وہ اپنا سر نارائن کے چہرے کے قریب لے گئے اور انہوں نے نارائن کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ چپ چاپ پڑا ہوا تھا، لیکن کسی قسم کی آہٹ، کسی قسم کا کوئی لفظ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ شکلدیپ بابو ایکدم ڈر گئے اور انہوں نے کانپتے دل سے اپنا بایاں کان نارائن کے چہرے کے بالکل قریب کر دیا۔ اور اس وقت ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا، جب انہوں نے اپنے لڑکے کی سانس کو باقاعدگی سے چلتے پایا۔

وہ خاموشی سے جس طرح آئے تھے، اسی طرح باہر نکل گئے۔ پتہ نہیں کب سے، جُمنا دروازے پر کھڑی تشویش کے ساتھ اندر جھانک رہی تھی۔ اس نے شوہر کا منہ دیکھا اور گھبرا کر پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

شکلدیپ بابو نے اشارے سے اسے بولنے سے منع کیا اور پھر اس کو اشارہ سے بلاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جُمنا نے کمرے میں پہنچ کر شوہر کو فکر مندی اور تجسس بھری نظروں سے دیکھا۔

شکلدیپ بابو نے بھیگے لہجے میں کہا۔ ’’ ببُوا سو رہے ہیں۔‘‘

وہ آگے کچھ نہ بول سکے۔ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ وہ دوسری طرف دیکھنے لگے۔

***

 

 

 

 

گرمیوں کے دن

 

کملیشور

 

 

کملیشور، پیدائش: ۶ جنوری۱۹۳۲ء، میں پوری، اتر پردیش۔ میدان: کہانی، اسکرین پلے برائے ہندی سنیما/ٹی وی۔ اہم تخلیق: ناول ’’ کتنے پاکستان ’’۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، پدم بھوشن۔ انتقال: ۲۷ جنوری ۲۰۰۷ء، فرید آباد۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

 

چنگی دفتر خوب رنگ برنگا، چھیل چھبیلا ہے۔ اس کے دروازے پرقوس و قزح جیسے سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ سید علی پینٹر نے اپنے بڑے مشاق ہاتھوں سے ان بورڈوں کو بنایا ہے۔ دیکھتے دیکھتے شہر میں بہت سی ایسی دکانیں ہو گئی ہیں، جن پر سائن بورڈ لٹکنے شروع ہو گئے ہیں۔ سائن بورڈ کا لگنا یعنی اوقاتِ کار کا بڑھنا۔ بہت دنوں پہلے جب دینا ناتھ حلوائی کی دوکان پر پہلا سائن بورڈ لگا تھا تو وہاں دودھ پینے والوں کی تعداد اچانک بڑھ گئی تھی۔ پھر سیلاب سا آ گیا اور نئے نئے طریقے اور بیل بوٹے ایجاد کئے گئے۔ ’’اوم‘‘ یا ’’جے ہند‘‘ سے شروع کر کے ’’ایک بار ضرور ہمیں آزمائیں‘‘ یا پھر ’’ملاوٹ ثابت کرنے والے کو سو روپیہ نقد انعام‘‘ کے دعووں یا للکاروں پر تحریر ختم ہونے لگی۔

چنگی دفتر کا نام تین زبانوں میں لکھا ہے۔ چیئرمین صاحب بڑی بدھی کے آدمی ہیں، ان کی سوجھ بوجھ کا ڈنکا بج رہا ہے، اس لئے ہر سائن بورڈ ہندی، اردو اور انگریزی میں لکھا جاتا ہے۔ دور دور سے لیڈر حضرات تقریریں کرنے آتے ہیں، دیسی اور بدیسی لوگ آگرے کا تاج محل دیکھ کر مشرق کی طرف جاتے ہوئے یہیں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ ان پر اثر پڑتا ہے، بھائی۔ اور پھر موسم کی بات، میلے ٹھیلوں تماشوں کے دنوں میں حلوائیوں، جولائی، اگست میں کتاب، کاغذ والوں، شادی کے سیزن میں کپڑے والوں اور خراب موسم میں ویدوں حکیموں کے سائن بورڈوں پر نیا روغن چڑھتا ہے۔ شدھ دیسی گھی والے سب سے اچھے رہے، جو چھپروں کے اندر دیوار پر گیرو یا کوئلے سے لکھ کر کام چلا لیتے ہیں۔ اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔ اہمیت بتاتے ہوئے وید جی نے کہا۔ ’’بغیر پوسٹر چپکائے سنیما والوں کا بھی کام نہیں چلتا۔ بڑے بڑے شہروں میں جائیے، گھانس لیٹ بیچنے والے کی دکان پر سائن بوٹ مل جائے گا۔ بڑی ضروری چیز ہے۔ بال بچوں کے نام تک کے سائن بوٹ ہیں، نہیں تو نام رکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ سائن بوٹ لگا کے سکھ دیو بابو کمپوڈر سے ڈاکٹر ہو گئے، بیگ لے کے چلنے لگے۔‘‘

پاس بیٹھے رام چرن نے ایک اور نئے کرشمے کی خبر دی۔ ’’ انہوں نے بدھیو والا اِکّا گھوڑا خرید لیا۔۔ ۔‘‘

’’ہانکے گا کون؟ ‘‘ٹین کی کرسی پر یوگا کا آزمودہ یام آسن جمائے بیٹھے پنڈت نے پوچھا۔

’’ یہ سب جیب کترنے کا طریقہ ہے۔‘‘وید جی کی توجہ اِکّا گھوڑے کی جانب مرکوز تھی۔ ’’مریض سے کرایہ وصول کریں گے۔ سائیس کو بخشش دلائیں گے، بڑے شہروں کے ڈاکٹروں کی طرح۔ اسی سے پیشے کی بدنامی ہوتی ہے۔ پوچھو بھلا، مریض کا علاج کرنا ہے کہ رعب و دبدبہ کا مظاہرہ کرنا ہے۔ انگریزی آلے دکھا کے مریض کی آدھی جان پہلے ہی خشک کر ڈالتے ہیں۔ آئیورویدی، نبض دیکھنا تو دور، چہرہ دیکھ کر بیماری بتا دے۔ اِکّا گھوڑا اس میں کیا کرے گا؟ تھوڑے دن بعد دیکھنا، ان کا سائیس کمپوڈر ہو جائے گا۔‘‘ کہتے کہتے وید جی بڑی گھسی ہوئی ہنسی میں ہنس پڑے۔ پھر بولے۔ ’’ کون کیا کہے بھائی؟ ڈاکٹری تو تماشا بن گئی ہے۔ وکیلوں مختاروں کے لونڈے بھی ڈاکٹر ہونے لگے۔ خون اور سنسکار سے بات بنتی ہے، ہاتھ میں جب آتا ہے، وید کا بیٹا وید ہوتا ہے۔ آدھی ودیا لڑکپن میں جڑی بوٹیاں کوٹتے پیستے آ جاتی ہے۔ تولہ، ماشہ، رتی کا ایسا انداز ہو جاتا ہے کہ دوائیاں غلط ہو ہی نہیں سکتی ہیں۔ دوائیوں کا چمتکار اس کو بنانے کی ترکیبوں میں ہے۔ دھنونتر۔۔ ۔۔‘‘وید جی آگے کہنے جا ہی رہے تھے کہ ایک آدمی کو دکان کی طرف آتے دیکھ کر خاموش ہو گئے اور بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف کچھ اس طرح دیکھنے، جانچنے لگے کہ جیسے یہ گپ لڑانے والے فالتو کے آدمی نہ ہوں بلکہ ان کے مریض ہوں۔

آدمی کے دکان پر چڑھتے ہی وید جی نے بھانپ لیا۔ مایوس ہو کر انہوں نے اسے دیکھا اور لاتعلق سے ہو گئے۔ لیکن دنیا دکھاوا بھی کچھ ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے، کل یہی آدمی بیمار پڑ جائے یا اس کے گھر میں کسی کو بیماری گھیر لے۔ اس لئے اپنا رویہ اور پیشے کا وقار ایک دم چوکس رہنا چاہئے۔ خود کو بٹورتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کہو بھائی، راضی خوشی۔‘‘

اس آدمی نے جواب دیتے ہوئے شیرے کی ایک کنستریا سامنے کر دی، ’’یہ ٹھا کر صاحب نے رکھوائی ہے۔ منڈی سے لوٹتے ہوئے لیتے جائیں گے۔ ایک ڈیڑھ بجے کے قریب۔‘‘

’’اس وقت دکان بند رہے گی۔‘‘وید جی نے بیکار کے کام سے اوبتے ہوئے کہا۔‘‘ حکیم ویدوں کی دکانیں دن بھر نہیں کھلی رہتیں۔ بیوپاری تھوڑے ہی ہیں، بھائی۔‘‘لیکن پھر کسی دوسرے دن اور موقع کی امید نے جیسے زبردستی کہلوایا۔‘‘خیر، انہیں دقت نہیں ہو گی، ہم نہیں ہوں گے تو برابر والی دکان سے اٹھا لیں۔ میں رکھتا جاؤں گا۔‘‘

اس آدمی کے جاتے ہی وید جی بولے۔ ’’شراب بندی سے کیا ہوتا ہے؟ جب سے ہوئی، اس کے بعد سے کچی شراب کی بھٹیاں گھر گھر چالو ہو گئیں۔ سیرا گھی کے بھاؤ بکنے لگا۔ اور ان ڈاکٹروں کو کیا کہیے۔ ان کی دکانیں ہولی بن گئی ہیں۔ لیسنس ملتا ہے دوا کی طرح استعمال کرنے کا، پر کھلے عام جنجر بکتا ہے۔ کہیں کچھ نہیں ہوتا۔ ہم بھنگ افیون کی ایک پڑیا چاہیں تو تفصیل دینی پڑتی ہے۔‘‘

’’ ذمہ داری کی بات ہے۔‘‘پنڈت جی نے کہا۔

’’ اب ذمہ دار وید ہی رہ گئے ہیں۔ سب کی رجسٹری ہو چکی، بھائی۔ ایسے غیر پنچ کلیانی جتنے گھس آئے تھے، ان کی صفائی ہو گئی۔ اب جس کے پاس رجسٹری ہو گی وہی ویدیہ کر سکتا ہے۔ چورن والے بھی وید بن بیٹھے تھے۔ سب ختم ہو گئے۔ لکھنؤ میں سرکاری جانچ پڑتال کے بعد سند ملی ہے۔‘‘

وید جی کی بات میں چاشنی کا مزہ نہ پا کر پنڈت اٹھ گئے۔ وید جی نے اندر کی جانب قدم بڑھائے اور دوا خانے کا بورڈ لکھتے ہوئے چندر سے بولے، ’’سفیدا گاڑھا ہے بابو، تارپین ملا لو۔‘‘پھر وہ ایک بوتل اٹھا لائے جس پر اشوکارِشٹ کا لیبل لگا تھا۔

اسی طرح نہ جانے کون کون سی دواؤں کی بوتلوں میں کس کس اقسام کی آتمائیں بھری ہیں۔ سامنے کی اکلوتی الماری میں بڑی بڑی بوتلیں رکھی ہیں۔ جن پر طرح طرح کے ارشٹوں اورآسوؤں کے نام چپکے ہیں۔ صرف پہلی قطار میں یہ شیشیاں کھڑی ہیں۔ ان کے پیچھے ضرورت کا کا دوسرا سامان ہے۔ سامنے کی میز پر سفید شیشیوں کی ایک قطار ہے، جس میں کچھ مزیدار چورن، نمک بھاسکر وغیرہ ہیں، باقیوں میں جو کچھ بھرا ہوا ہے، اسے صرف وید جی ہی جانتے ہیں۔

تارپین کا تیل ملا کر چندر آگے لکھنے لگا۔ ’’پروفیسرکوی راج نتیانند تیواری‘‘، اوپر کی عبارت ’’ شری دھنونتری دوا خانہ‘‘ خود وید جی لکھ چکے تھے۔ سفیدے کے وہ الفاظ ایسے لگ رہے تھے جیسے روئی کے پھاہے چسپاں کر دیے ہوں۔ اوپر جگہ خالی دیکھ کر وید جی بولے، ’’ بابو، اوپر جے ہند لکھ دینا اور یہ جو جگہ بچ رہی ہے، اس میں ایک طرف دوائی کی بوتل، دوسری طرف کھرل کی تصویر۔ آرٹ ہمارے پاس مڈل تک تھا، لیکن یہ تو ہاتھ سدھنے کی بات ہے۔‘‘

چندر کچھ اونگھ رہا تھا۔ خواہ مخواہ پکڑا گیا۔ خوش خطی اچھی ہونے کا یہ انعام اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ بولا، ’’کسی پینٹر سے بنواتے۔۔ اچھا خاصا لکھ دیتا، وہ بات نہیں آئے گی۔‘‘اپنا پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے کُوچی نیچے رکھ دی۔

’’پانچ روپے مانگتا تھا بابو۔ دو لائنوں کے پانچ روپے۔ اب اپنی محنت کے ساتھ یہ سائن بوٹ دس بارہ آنے کا پڑا۔ یہ رنگ ایک مریض دے گیا۔ بجلی کمپنی کا پینٹر بدہضمی سے پریشان تھا۔ دو خوراکیں بنا کر دے دیں، پیسے نہیں لئے۔ سو وہ دو تین رنگ اور تھوڑی سی وارنش دے گیا۔ دو بکسے رنگ لگ گئے۔ اور یہ بوٹ بن گیا اور باقی سے کرسی رنگ جائے گی۔ تم بس اتنا لکھ دو، لال رنگ کے شیڈ ہم دیتے رہیں گے۔ حاشیہ ترِنگا کھِلے گا؟ ‘‘ وید جی نے پوچھا اور خود ہی قبولیت کی سند بھی دے دی۔

چندر گرمی سے پریشان تھا۔ جیسے جیسے دوپہر نزدیک آتی جا رہی تھی، سڑک پر دھول اور لو کا زور بڑھتا جا رہا تھا، نتیجے میں چندر انکار نہیں کر پایا۔ پنکھے سے اپنی پیٹھ کھجلاتے ہوئے وید جی نے اجرت کے کام والے، پٹواریوں کے بڑے بڑے رجسٹر نکال کر پھیلانا شروع کئے۔

سورج کی تپش سے بچنے کے لئے دکان کا ایک کِواڑ بھیڑ کر وید جی خالی رجسٹر پر خسراکھتونیوں سے نقل کرنے لگے۔

چندر نے اپنا پنڈ چھڑانے کیلئے پوچھا، ’’یہ سب کیا ہے وید جی؟ ‘‘

وید جی کا چہرہ اتر گیا، بولے، ’’خالی بیٹھنے سے بہتر ہے کچھ کام کیا جائے، نئے لیکھ پالوں کو کام دھام آتا نہیں، روز قانون گو یا نائب صاحب سے جھاڑیں پڑتی ہیں۔ جھک مار کے ان لوگوں کو یہ کام اجرت پر کرانا پڑتا ہے۔ اب پرانے گھاگ پٹواری کہاں رہے، جن کے پیٹ میں قانون بستا تھا۔ روٹیاں چھن گئیں بے چاروں کی، لیکن صحیح پوچھو تو اب بھی سارا کام پرانے پٹواری ہی ڈھو رہے ہیں۔ نئے لیکھ پالوں کی تنخواہ کا سارا روپیہ اسی کی اجرت میں نکل جاتا ہے۔ پیٹ اُن کا بھی ہے۔ تیا پانچا کر کے کسانوں سے نکال لاتے ہیں۔ لائیں نہ تو کھائیں کیا۔ دو تین لیکھ پال اپنے ہیں، انہی سے کبھی کبھار ہلکا بھاری کام مل جاتا ہے۔ نقل کا کام، رجسٹر بھرتے ہیں۔‘‘

باہر سڑک ویران ہوتی جا رہی تھی۔ دفتر کے بابو لوگ  جا چکے تھے۔ سامنے چنگی میں خس کی ٹٹّیوں پر چھڑکاؤ شروع ہو گیا۔ دور ہر ہراتے پیپل کا شور لو کے ساتھ آ رہا تھا۔ تبھی ایک آدمی نے کواڑ سے اندر جھانکا۔ وید جی کی گفتگو، جو شاید لمحے دو لمحے بعد درد سے بوجھل ہو جاتی، رک گئی۔ ان کی نگاہ نے آدمی کو پہچانا اور وہ محتاط ہو گئے۔ فوراً بولے، ’’ایک بوٹ آگرے سے بنوایا ہے، جب تک نہیں آتا، اسی سے کام چلے گا۔ فرصت کہاں ملتی ہے جو ان سب میں سرکھپائیں۔‘‘اور ایک دم مصروف ہوتے ہوئے انہوں نے اس آدمی سے سوال کیا، ’’کہو بھائی، کیا بات ہے؟ ‘‘

’’ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ چاہئے۔ کوسما ٹیشن پر خلاصی ہیں گے صاحب۔‘‘ریلوے کی نیلی وردی پہنے وہ خلاصی بولا۔

اسکی ضرورت کا پورا اندازہ لگاتے ہوئے وید جی بولے، ’’ ہاں، کس تاریخ سے کب تک کا چاہئے۔‘‘

’’پندرہ دن پہلے آئے تھے صاحب، سات دن کو اور چاہئے۔‘‘

کچھ حساب جوڑ کر وید جی بولے، ’’دیکھو بھائی، سرٹیفیکیٹ پکا کر کے دیں گے، حکومت کا رجسٹر نمبر دیں گے، روپیا چار لگیں گے۔‘‘ وید جی نے جیسے کھٹ سے چار روپے پر اس کے بھڑک جانے کا احساس کرتے ہوئے کہا، ’’اگر پچھلا نہ لو تو دو روپے میں کام چل جائے گا۔‘‘

خلاصی مایوس ہو گیا۔ لیکن اس کی مایوسی سے زیادہ بڑی مایوسی وید جی کے پسینے سے نم چہرے پر نمودار ہو گئی۔ بڑی بد لحاظی کے انداز سے خلاصی بولا، ’’سوبرن سنگھ نے آپ کے پاس بھیجا تھا۔‘‘ اس کے کہنے سے کچھ ایسا لگا، جیسے یہ اس کا کام نہ ہو بلکہ سوبرن سنگھ کا کام ہو۔ پر وید جی کے ہاتھ میں نبض آ گئی، بولے، ’’وہ ہم پہلے ہی سمجھ رہے تھے۔ بغیر جان پہچان کے ہم کرتے نہیں، عزت کا سوال ہے۔ ہمیں کیا معلوم تم کہاں رہے، کیا کرتے رہے؟ اب سوچنے کی بات ہے۔ اعتبار پر جوکھم اٹھا لیں گے۔ پندرہ دن پہلے آپ کا نام رجسٹر میں چڑھائیں گے، بیماری لکھیں گے۔ ہر تاریخ پر نام چڑھائیں گے، تب کہیں کام بنے گا۔ ایسے گھر کی کھیتی نہیں ہے۔‘‘کہتے کہتے انہوں نے چندر کی طرف مدد کیلئے دیکھا۔ چندر نے ساتھ دیا، ’’اب انہیں کیا پتہ کہ تم بیمار رہے کہ ڈاکہ ڈالتے رہے۔ سرکاری معاملہ ہے۔‘‘

’’ پانچ سے کم میں دنیا چھور کا ڈاکٹر نہیں دے سکتا۔‘‘کہتے کہتے وید جی نے سامنے رکھا لیکھ پال والا رجسٹر کھسکاتے ہوئے جوش سے کہا، ’’ارے، دم مارنے کو فرصت نہیں ہے۔ یہ دیکھو، دیکھتے ہو نام۔ ایک ایک مریض کا نام، مرض، آمدنی۔۔ ۔ انہی میں آپ کا نام چڑھانا پڑے گا۔ اب بتاؤ کہ مریضوں کو دیکھنا زیادہ ضروری ہے کہ دو چار روپے کے لئے سرٹیفیکیٹ دے کر اس سرکاری لفڑے میں پھنسیں۔‘‘کہتے ہوئے انہوں نے تحصیل والا رجسٹر ایک دم بند کر کے سامنے سے ہٹا دیا اور صرف احسان کر سکنے کیلئے تیار ہونے جیسی صورت بنا کر قلم سے کان کریدنے لگے۔

ریلوے کا خلاصی ایک منٹ تک بیٹھا کچھ سوچتا رہا۔ اور پھر وید جی کو سر جھکائے اپنے کام میں مشغول دیکھ کر دکان سے نیچے اتر گیا۔ ایک دم وید جی نے اپنی غلطی محسوس کی، لگا انہوں نے بات غلط جگہ منقطع کر دی اور ایسی منقطع کہ ٹوٹ ہی گئی۔ اچانک کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو اسے پکار کر بولے، ’’ارے سنو، ٹھا کر سوبرن سنگھ سے ہماری، جے رام جی کی، کہہ دینا۔ ان کے بال بچے تو راضی خوشی ہیں؟ ‘‘

’’ ہاں سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔‘‘خلاصی نے رک کر کہا۔

اسے سناتے ہوئے وید جی، چندر سے بولے، ’’ شہر ’’دس گاؤں‘‘ کے ٹھا کر سوبرن سنگھ علاج کیلئے یہیں آتے ہیں۔ بھئی، ان کیلئے ہم بھی ہمیشہ حاضر رہے۔‘‘

چندر نے بورڈ پر آخری الفاظ ختم کرتے ہوئے پوچھا، ’’چلا گیا۔‘‘

’’ لوٹ پھر کے آئے گا۔‘‘وید جی نے جیسے خود کو سمجھایا، لیکن اس کے واپس آنے کی بات پر یقین کرتے ہوئے بولے، ’’ گاؤں کے وید اور وکیل ایک ہی ہوتے ہیں۔ سوبرن سنگھ نے اگر ہمارا نام اس سے کہا ہے تو ضرور واپس آئے گا۔ گاؤں والوں کی سمجھ ذرا مشکل سے کھلتی ہے۔ کہیں بیٹھ کے سوچے سمجھے گا، تب آئے گا۔۔ ۔‘‘

’’اور کہیں سے لے لیا، تو؟ ‘‘ چندر نے کہا تو وید جی نے بات کاٹ دی۔ ’’ نہیں، نہیں بابو۔‘‘کہتے ہوئے انہوں نے بورڈ کی طرف دیکھا اور تحسین بھرے انداز سے بولے۔‘‘واہ بھئی چندر بابو۔ سائن بوٹ جچ گیا۔ کام چلے گا۔ یہ پانچ روپے پینٹر کو دے کر مریضوں سے وصول کرنا پڑتا۔ اِکّا گھوڑا اور یہ خرچہ۔ بات ایک ہے۔ چاہے ناک سامنے سے پکڑ لو، چاہے گھما کر۔ سید علی کے ہاتھ کا لکھا بوٹ مریضوں کو چنگا تو کر نہیں دیتا۔ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔‘‘کہتے ہوئے وہ دھیرے سے ہنس پڑے۔ پتہ نہیں، وہ اپنی بات سمجھ کر خود پر ہنسے تھے یا دوسروں پر۔

تبھی ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ ایک بار تو لگا کہ خلاصی آ گیا۔ پر وہ پانڈو رو گی تھا۔ دیکھتے ہی وید جی کے چہرے پر طمانیت چھلک آئی۔ وہ اندر گئے۔ ایک تعویذ لاتے ہوئے بولے، ’’اب اس کا اثر دیکھو۔ بیس پچیس روز میں اس کا چمتکار دکھائی دے گا۔‘‘پانڈو رو گی کے بازو میں تعویذ باندھ کر اور اس کے کچھ آنے پیسے جیب میں ڈال کر وہ سنجیدہ ہو کر بیٹھ گئے۔ مریض چلا گیا تو بولے، ’’یہ ودیا بھی ہمارے والد صاحب کے پاس تھی۔ ان کی لکھی کتابیں پڑی ہیں۔ کئی بار سوچتا ہوں، انہیں دوبارہ نقل کر لوں۔ بڑے تجربے کی باتیں ہیں۔ وشواس کی بات ہے، بابو۔ ایک چٹکی دھول سے آدمی چنگا ہو سکتا ہے۔ ہومیوپیتھک اور بھلا کیا ہے؟ فقط ایک چٹکی چینی۔ جس پر وشواس جم جائے، بس۔‘‘

چندر نے چلتے ہوئے کہا۔ ’’ اب تو دکان بند کرنے کا وقت ہو گیا، کھانا کھانے نہیں جائیے گا؟ ‘‘

’’تم چلو، ہم پانچ منٹ بعد آئیں گے۔‘‘وید جی نے تحصیل والا کام اپنے آگے سرکا لیا۔ دکان کا کواڑ ادھ کھلا کر کے بیٹھ گئے۔ باہر دھوپ کی طرف دیکھ کر نظر چوندھیا جاتی تھی۔

برابر والے دکاندار بچن لال نے دکان بند کر کے، گھر جاتے ہوئے وید جی کی دکان کھلی دیکھ کر پوچھا۔ ’’ آپ کھانا کھانے نہیں گئے۔‘‘

’’ہاں ایسے ہی، ایک ضروری کام ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں چلے جائیں گے۔‘‘وید جی نے کہا اور زمین پر چٹائی بچھا لی۔ رجسٹر میز سے اٹھا کر نیچے پھیلا لئے۔ لیکن گرمی تو گرمی تھی۔ پسینہ تھمتا ہی نہ تھا۔ رہ رہ کر پنکھا جھلتے، پھر نقل کرنے لگتے۔ کچھ دیر من مار کے کام کیا، پر ہمت چھوٹ گئی۔ اٹھ کر دھول پڑی پرانی شیشیاں جھاڑنے لگے۔ انہیں قطار سے لگایا۔ لیکن گرمی کی دوپہر یا۔۔ ۔ وقت رکا سا لگتا تھا۔ ایک بار انہوں نے کواڑوں کے درمیان سے منہ نکال کر سڑک کی طرف غور سے دیکھا۔ ایک آدھ لوگ نظر آئے۔ ان آتے جاتے لوگوں کی موجودگی سے بڑا سہارا مل گیا۔ اندر آئے، بورڈ کا تار سیدھا کیا اور دکان کے سامنے لٹکا دیا۔ دھنونتری دوا خانے کا بورڈ دکان کی گردن میں تعویذ کی طرح لٹک گیا ہے۔

کچھ وقت اور گزرا۔ آخر انہوں نے ہمت کی۔ ایک لوٹا پانی پیا اور جانگھوں تک دھوتی سرکا کر مستعدی سے کام میں جٹ گئے۔ باہر کچھ آہٹ ہوئی۔ فکر سے انہوں نے دیکھا۔

’’آج آرام کرنے نہیں گئے حکیم جی۔‘‘گھر جاتے ہوئے ایک جان پہچان کے دکاندار نے پوچھا۔

’’بس جانے کی سوچ رہا ہوں۔ کچھ کام نکل آیا تھا، سوچا، کرتا چلوں۔‘‘وید جی دیوار سے پیٹھ ٹکا کر بیٹھ گئے۔ کرتا اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ اِکہری چھت کی دکان بھٹی سی تپ رہی تھی۔ وید جی کی آنکھیں بری طرح نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ ایک جھپکی آ گئی۔۔ کچھ وقت ضرور گزر گیا تھا۔ رہا نہیں گیا تو رجسٹر کا تکیہ بنا کر انہوں نے پیٹھ سیدھی کی۔ پر نیند۔۔ آتی اور چلی جاتی، نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔

دفعتاً ایک آہٹ نے انہیں چونکا دیا۔ آنکھیں کھولتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ بچن لال دوپہر بِتا کر واپس آ گیا تھا۔

’’ارے، آج آپ ابھی تک گئے ہی نہیں۔‘‘اس نے کہا۔

وید جی زور زور سے پنکھا جھلنے لگے۔ بچن لال نے دکان سے اترتے ہوئے پوچھا، ’’کسی کا انتظار ہے کیا؟ ‘‘

’’ہاں، ایک مریض آنے کو کہہ گیا تھا۔ ابھی تک آیا نہیں۔‘‘وید جی نے بچن لال کو جاتے دیکھا تو بات درمیان میں ہی منقطع کر کے خاموش ہو گئے اور اپنا پسینہ پونچھنے لگے۔

***

 

 

 

 

دادی اماں

 

کرشنا سوبتی

 

کرشنا سوبتی، پیدائش: ۱۸ فروری ۱۹۲۵ء، گجرات، ہند۔ میدان: ناول، کہانی۔ اہم تخلیقات: ناول: ڈار سے بچھڑی، مترو مرجانی، یاروں کے یار تن پہاڑ، سورج مکھی اندھیرے کے، سوبتی ایک صحبت، زندگی نامہ، اے لڑکی، سمیہ سرگم، جینی مہربان سنگھ، کہانیوں کے مجموعے: بادلوں کے گھیرے، نفیسہ، سکہ بدل گیا،۔ ایوارڈ، اعزازات: ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، شرومنی ایوارڈ، شلاکا ایوارڈ، میتھلی شرن گپت سمان وغیرہ۔ حال مقیم نئی دہلی، ہند۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

بہار پھر آ گئی۔ بسنت کی روشن ہوائیں پت جھڑ کے پھیکے ہونٹوں کو چپکے سے چوم گئیں۔ جاڑے نے سکڑے سکڑے پنکھ پھڑپھڑائے اور سردی دور ہو گئی۔ آنگن میں پیپل کے درخت پر نئے پات کھِل کھِل آئے۔ خاندان کے ہنسی خوشی میں تیرتے دن رات مسکرا اٹھے۔

بھرا بھرایا گھر۔ سنبھلی سنوری سی خوبصورت سلونی بہویں۔ شوخیوں سے کھلکھلاتی بیٹیاں۔ مضبوط بازو والے نوجوان بیٹے۔ گھر کی مالکن میہراں اپنے ہرے بھرے خاندان کو دیکھتی ہے اورمسرت میں بھیگ جاتی ہیں، یہ پانچوں بچے اس کی عمر بھر کی کمائی ہیں۔

اسے وہ دن نہیں بھولتے، جب بیاہ کے بعد چھ سالوں تک اس کی گود نہیں بھری تھی۔ اٹھتے بیٹھتے ساس کی گھمبیر کٹھور نظریں، اس کے پورے بدن کو ٹٹولتی رہتیں۔ رات کو تکیے پر سر رکھے رکھے وہ سوچتی کہ شوہر کی محبت کے سائے میں لپٹے لپٹے بھی اس میں کچھ مہمل سا ہو گیا ہے، قابل عمل نہیں رہ گیا ہے۔ کبھی ہچکچاتی سی سسر کے پاس سے گزرتی تو لگتا کہ اس گھر کی دہلیز پر پہلی بار پاؤں رکھنے پر جو آشیش اسے ملی تھی، وہ اس کی قدر نہیں کر پائی۔ وہ سسر کے چرنوں میں جھکی تھی اور انہوں نے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا، ’’بہو رانی، پھولو پھلو۔‘‘ کبھی آئینے کے سامنے کھڑی کھڑی وہ بانہیں پھیلا کر دیکھتی۔ کیا ان بانہوں میں اپنے پیدا ہوئے کسی ننھے منے کو بھر لینے کی صلاحیت نہیں؟

چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد سردیوں کی ایک لمبی رات میں کروٹ بدلتے بدلتے میہراں کو پہلی بار لگا تھا کہ جیسے نرم نرم لحاف میں وہ سکڑی پڑی ہے، ویسے ہی اس میں، اس کے تن من کے نیچے گہرائی میں کوئی دھڑکن اس سے لپٹی ہوئی ہے۔ اس نے اندھیرے میں ایک بار سوئے ہوئے شوہر کی طرف دیکھا اور خود ہی سے شرما کر اپنے ہاتھوں سے آنکھیں ڈھانپ لی تھیں۔ بند پلکوں کے اندر سے دو چمکتی آنکھیں تھیں، دو ننھے ننھے ہاتھ تھے، دو پاؤں تھے۔ صبح اٹھ کر کسی میٹھے اطمینان میں گھری گھری سی انگڑائی لی تھی۔ آج اس کا دل بھرا ہوا ہے۔ ساس نے بھانپ کر پیار برسایا تھا۔ ’’بہو، خود کو تھکاؤ مت، جو آرام آرام سے کر سکو، کرو۔ باقی میں سنبھال لوں گی۔‘‘

وہ مضبوطی سے مسکرا دی تھی۔ کام پر جاتے شوہر کو دیکھ کر دل میں آیا تھا کہ کہے۔ ’’اب تم باہر ہی نہیں، میرے اندر بھی ہو۔‘‘

دن میں ساس آ بیٹھی، ما تھا سہلاتے سہلاتے بولی۔ ’’بہو رانی، بھگوان میرے بچے کو تم سا روپ دے اور میرے بیٹے سا جگرا۔‘‘

بہو کی پلکیں جھک گئیں۔

’’بیٹی، اس مالک کا نام لو، جس نے بیج ڈالا ہے۔ وہ پھل بھی دے گا۔‘‘

میہراں کو ماں کا گھر یاد آ گیا۔ پاس پڑوس کی عورتوں کے درمیان ماں، بھابھی کا ہاتھ آگے کر کہہ رہی ہے، ’’بابا، یہ بتاؤ، میری بہو کی قسمت میں کتنے پھل ہیں؟ ‘‘

پاس کھڑی میہراں سمجھ نہیں پائی۔ ہاتھ میں پھل؟

’’ماں، ہاتھ میں پھل کب ہوتے ہیں؟ پھل کسے کہتی ہو ماں؟ ‘‘

ماں لڑکی کی بات سن کر پہلے ہنسی، پھر ناراض ہو کر بولی، ’’دور ہو میہراں، جا، بچوں کے ساتھ کھیل۔‘‘

اس دن میہراں کا چھوٹا سا دماغ یہ سمجھ نہیں پایا تھا، لیکن آج تو ساس کی بات وہ سمجھ ہی نہیں، بوجھ بھی رہی تھی۔ بہو کے ہاتھ میں پھل ہوتے ہیں، بہو کی قسمت میں پھل ہوتے ہیں اور خاندان کی بیل بڑھتی ہے۔

میہراں کی گود سے اس کے خاندان کی بیل بڑھی ہے۔ آج گھر میں تین بیٹے ہیں، اُن کی بہویں ہیں۔ بیاہ کے لائق دو بیٹیاں ہیں۔ ہلکے ہلکے کپڑوں میں لپٹی اس کی بہویں جب اس کے سامنے جھکتی ہیں، تو لمحے بھر کیلئے میہراں کے دماغ میں گھر کی مالکن ہونے کا غرور ابھر آتا ہے۔ وہ بیٹھے بیٹھے انہیں آشیش دیتی ہے اور مسکراتی ہے۔ ایسے ہی، جیسے وہ کبھی اپنی ساس کے سامنے جھکتی تھی۔ آج تو وہ تیکھی نگاہوں والی مالکن، بچوں کی دادی اماں بن کر رہ گئی ہے۔ پچھواڑے کے کمرے میں سے جب دادا کے ساتھ بولتی ہوئی اماں کی آواز آتی ہے، تو پوتے لمحے بھر ٹھٹک کرسنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ بہویں ایک دوسرے کو دیکھ کر دل ہی دل میں ہنستی ہیں۔ لاڈلی بیٹیاں سر ہلا ہلا کر کھلکھلاتی ہوئی کہتی ہیں، ’’دادی اماں بوڑھی ہو گئیں، پر دادا سے جھگڑنا نہیں چھوڑا۔‘‘

میہراں بھی کبھی کبھار شوہر کے قریب کھڑی ہو کہہ دیتی ہے، ’’اماں ناحق باپو کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ بہو بیٹیوں والا گھر ہے، کیا یہ اچھا لگتا ہے؟ ‘‘

شوہر صاحب ایک بار پڑھتے پڑھتے آنکھیں اوپر اٹھاتے ہیں۔ لمحے بھر کیلئے بیوی کی طرف دیکھتے، پھر دوبارہ صفحے پر نظریں گڑا دیتے ہیں۔ ماں کی بات پر شوہر کی خاموش بھری سنجیدگی میہراں کو نہیں بھاتی۔ لیکن لاکھ کوشش کرنے پر بھی وہ کبھی شوہر کو کچھ کہہ دینے تک، اکسا نہیں پائی۔ بیوی پر ایک اچٹتی نگاہ، اور بس۔ کسی کو حکم دیتی میہراں کی آواز سن کر کبھی انہیں وہم ہو جاتا ہے۔ وہ میہراں کی نہیں اماں کی رعب دار آواز ہے۔ ان کے ہوش میں اماں نے کبھی ڈھیلا پن جانا ہی نہیں۔ یاد نہیں آتا کہ کبھی ماں کے کہنے کو وہ جانے انجانے میں ٹال سکے ہوں۔ اور اب جب ماں کی بات پر بیٹیوں کو ہنستے سنتے ہیں، تو یقین نہیں آتا۔ کیا واقعی ماں آج ایسی باتیں کیا کرتی ہیں کہ جن پر بچے ہنس سکیں۔

اور اماں تو سچ مچ اٹھتے بیٹھتے بولتی ہے، جھگڑتی ہے، جھکی کمر پر ہاتھ رکھ کر وہ چارپائی سے اٹھ کر باہر آتی ہے، تو جو سامنے ہو، اس پر برسنے لگتی ہے۔ بڑا پوتا کام پر جا رہا ہے۔ دادی اماں پاس آ کھڑی ہوئی۔ ایک بار اوپر تلے دیکھا اور بولی، ’’کام پر جا رہے ہو بیٹے، کبھی دادا کی طرف بھی دیکھ لیا کرو، کب سے ان کا جی اچھا نہیں۔ جس گھر میں بھگوان کے دئیے بیٹے پوتے ہوں، وہ اس طرح بغیر دوا دارو کے پڑے رہتے ہیں۔ ’’

بیٹا دادی اماں سے نظر بچاتا ہے۔ دادا کی خبر کیا گھر بھر میں اسے ہی رکھنی ہے۔ چھوڑو، کچھ نہ کچھ کہتی ہی جائیں گی اماں، مجھے دیر ہو رہی ہے۔ لیکن دادی اماں جیسے راہ روک لیتی ہے، ’’ارے بیٹا، کچھ تو لحاظ کرو، بہو بیٹے والے ہوئے، میری بات تم کو اچھی نہیں لگتی۔‘‘

میہراں، منجھلی بہو سے کچھ کہنے جا رہی تھی، لوٹتی ہوئی بولی، ’’اماں کچھ تو سوچو، لڑکا بہو بیٹوں والا ہے۔ تو کیا اس پر آپ اس طرح برستی رہو گی؟ ‘‘

دادی اماں نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے میہراں کو دیکھا اور جل کر کہا، ’’کیوں نہیں بہو، اب تو بیٹوں کو کچھ کہنا تم سے پوچھ کر ہو گا۔ یہ بیٹے تمہارے ہیں، گھر بار تمہارا ہے، حکم کا حق تمہارا ہے۔‘‘

میہراں پر ان سب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ساس کو وہیں کھڑا چھوڑ کروہ بہو کے پاس چلی گئی۔ دادی اماں نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے بہو کی یہ رعب دار چال دیکھی اور اونچی آواز میں بولی، ’’بہو رانی، اس گھر میں اب میرا اتنا سا، مان رہ گیا ہے۔ تمہیں اتنا گھمنڈ۔۔ ۔‘‘

میہراں کو ساس کے پاس لوٹنے کی خواہش نہیں تھی، پر گھمنڈ کی بات سن کر لوٹ آئی، ’’گھمنڈ کی بات کرتی ہو اماں؟ تو آئے دن چھوٹی چھوٹی بات لے کر جلنے جلانے سے کسی کا مان نہیں رہتا۔‘‘

اس الٹی بات نے دادی اماں کو مزید جلا دیا۔ ہاتھ ہلا ہلا کر غصے میں رک رک کر بولی، ’’بہو، یہ سب تمہارے اپنے سامنے آئے گا۔ تم نے جو میرا جینا دوبھر کر دیا ہے، تمہاری تینوں بہویں بھی تمہیں اسی طرح سمجھیں گی، کیوں نہیں، ضرور سمجھیں گی۔‘‘

یہ کہتے کہتے دادی اماں جھکی کمر سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ راستے میں بیٹے کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھا تو بولی، ’’جس بیٹے کو میں نے اپنا دودھ پلا کر پالا، آج اسے دیکھے مجھے مہینوں گزر جاتے ہیں، اس سے اتنا نہیں ہو پاتا کہ بوڑھی اماں کو یاد کرے۔‘‘

میہراں منجھلی بہو کو گھر کے کام دھندے کیلئے حکم دے رہی تھی۔ پر کان ادھر ہی تھے۔ ’’بہویں اسے بھی سمجھیں گی۔‘‘ اس بد دعا کو وہ تلخ گھونٹ سمجھ کر پی گئی تھی، پر شوہر کیلئے ساس کی یہ ملامت سن کر نہ رہا گیا۔ دور سے ہی بولی، ’’اماں، میری بات چھوڑو، پرائے گھر کی ہوں، پر جس بیٹے کو گھر بھر میں سب سے زیادہ تمہارا خیال ہے، اس کیلئے یہ کہتے تمہیں شرم نہیں آتی؟ پھر کون ماں ہے، جو بچوں کو پالتی پوستی نہیں۔‘‘

اماں نے اپنی جھریوں بھری گردن پیچھے کی۔ پیشانی پر پڑے تیوروں میں اس بار غصہ نہیں قیامت تھی۔ چہرے پر وہی پرانا انداز لوٹ آیا، ’’بہو، کس سے کیا کہا جاتا ہے، یہ تم بڑے سمدھیوں سے ما تھا لگا کر سب کچھ بھول گئی ہو۔ ماں اپنے بیٹے سے کیا کہے، یہ بھی کیا اب مجھے بیٹے کی بہو سے ہی سیکھنا پڑے گا؟ سچ کہتی ہو بہو، سب مائیں بچوں کو پالتی ہیں۔ میں نے کوئی انوکھا بیٹا نہیں پالا تھا، بہو۔ پھر تمہیں تو میں پرائی بیٹی ہی مانتی رہی ہوں۔ تم نے بچے خود جنے، خود ہی وہ دن کاٹے، خود ہی بیماریاں جھیلیں۔‘‘

میہراں نے کھڑے کھڑے چاہا کہ ساس ان سب کے بعد کچھ اور بھی کہتی۔ وہ اتنی دور نہیں اتری کہ ان باتوں کا جواب دے۔ خاموشی سے شوہر کے کمرے میں جا کر ادھر ادھر بکھرے کپڑے بچانے لگی۔

دادی اماں کڑوے دل سے اپنی چارپائی پر جا پڑی۔ بڑھاپے کی عمر بھی کیسی ہوتی ہے۔ جیتے جی دل سے سنگ ٹوٹ جاتا ہے۔ کوئی پوچھتا نہیں، جانتا نہیں۔ گھر کے پچھواڑے جسے وہ اپنی چلتی عمر میں کوٹھری کہا کرتی تھی، اسی میں آج وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے۔ ایک کونے میں اس کی چارپائی اور دوسرے کونے میں شوہر کی، جس کے ساتھ اس نے ان گنت بہاریں اور پت جھڑ گزار دیئے ہیں۔ کبھی گھنٹوں وہ خاموشی سے اپنی اپنی جگہ پر پڑے رہتے ہیں۔ دادی اماں بیچ بیچ میں کروٹ بدلتے ہوئے گہری سانس لیتی ہے۔ کبھی کچی نیند میں پڑی پڑی سالوں پہلے کی کوئی بھولی بسری بات کرتی ہے، پر بچوں کے دادا اُسے سنتے نہیں۔ دور کمروں میں بہوؤں کی میٹھی دبی دبی ہنسی ویسے ہی چلتی رہتی ہے۔ بیٹیاں کھل کھل کر کھلکھلاتی ہیں۔ بیٹوں کے قدموں کی بھاری آواز کمرے تک آ کر رہ جاتی ہے اور دادی اماں اور پاس پڑے دادا میں جیسے گزر گئے برسوں کی دوری جھولتی رہتی ہے۔

آج دادا جب گھنٹوں دھوپ میں بیٹھ کر اندر آئے تو اماں لیٹی ہوئی نہیں، چارپائی کی پٹی پر بیٹھی تھی۔ گاڑھے کی دھوتی سے پورا تن نہیں ڈھکا تھا۔ پلّو کندھے سے گر کر ایک طرف پڑا تھا۔ سینہ کھلا تھا۔ آج سینے میں ڈھکنے کو رہ بھی کیا گیا تھا؟ گلے اور گردن کی جھریاں ایک جگہ آ کر جمع ہو گئی تھیں۔ بوڑھے سینے پر کئی تل چمک رہے تھے۔ سر کے بال بے ترتیبی سے پیشانی کے اوپر بکھرے تھے۔

دادا نے دیکھ کر بھی نہیں دیکھا۔ اپنے جیسا ہی پرانا کوٹ اتار کر کھونٹی پر لٹکایا اور چارپائی پر لیٹ گئے۔ دادی اماں دیر تک بغیر ہلے ڈلے جوں کی توں بیٹھی رہی۔ سیڑھیوں پر چھوٹے بیٹے کے قدموں کی امنگوں بھری سی آہٹ ہوئی۔ امنگ کی چھوٹی سی گنگناہٹ دروازے تک آ کر لوٹ گئی۔ بیاہ کے بعد کے وہ دن، میٹھی مدھر دن۔ پاؤں بار بار گھر کی طرف لوٹتے ہیں۔ پیاری سی بہو آنکھوں میں محبت بھر بھر دیکھتی ہے، لجاتی ہے، ہچکچاتی ہے اور شوہر کی بانہوں میں لپٹ جاتی ہے۔ ابھی کچھ مہینے ہوئے، یہی چھوٹا بیٹا پیشانی پر پھولوں کا سہرا لگا کر بارات لے گیا تھا۔ باجے گاجے کے ساتھ جب لوٹا تو سنگ میں دلہن تھی۔

سب کے ساتھ دادی اماں نے بھی بہو کا ما تھا چوم کر اسے ہاتھ کا کنگن دیا تھا۔ بہو نے جھک کر دادی اماں کے پاؤں چھوئے تھے اور اماں لین دین پر میہراں سے لڑائی جھگڑے کی بات بھول کر بہت پلوں تک دلہن کے مکھڑے کی طرف دیکھتی رہی تھی۔ چھوٹی بیٹی نے چنچل پن سے ہنس کر کہا تھا، ’’دادی اماں سچ کہو بھیا کی دلہن تمہیں پسند آئی؟ کیا تمہارے دنوں میں بھی شادی بیاہ میں ایسے ہی کپڑے پہنے جاتے تھے؟ ‘‘

یہ کہہ کر چھوٹی بیٹی نے دادی کے جواب کا انتظار نہیں کی۔ ہنسی ہنسی میں کسی دوسری جانب پلٹ گئی۔ میہراں، بہو بیٹے کو گھیر کر اندر لے چلی۔ دادی اماں بھٹکی بھٹکی نظر سے لوگوں کے چہرے دیکھتی رہی۔ کوئی پاس پڑوسن اسے مبارکباد دے رہی تھی، ’’مبارک ہو اماں، سونے سی بہو آئی ہے شکر ہے اس مالک کا، تم نے اپنے ہاتھوں چھوٹے پوتے کا بھی کاج سنوارا۔‘‘

اماں نے سر ہلایا۔ واقعی آج اس جیسا کون ہے۔ پوتوں کی اسے ہونس تھی، آج پوری ہوئی۔ پر کاج سنوارنے میں اس نے کیا کیا، کسی نے کچھ پوچھا نہیں تو کرتی کیا؟ سمدھیوں سے بات چیت، لین دین، دلہن کے کپڑے گہنے، یہ سب میہراں کے ہنرمند ہاتھوں سے ہوتا رہا ہے۔ گھر میں پہلے دو بیاہ ہو جانے پر اماں سے صلاح مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں رہ گیا۔ صرف کبھی کبھی کوئی نیا گہنا گڑھوانے پر یا نیا جوڑا بنوانے پر میہراں اسے ساس کو دکھا تی رہی ہے۔

بڑی بیٹی دیکھ کہتی ہے، ’’ماں، اماں کو دکھانے جاتی ہو، وہ تو کہیں گی کہ یہ گلے کا گہنا ہاتھ لگاتے اڑتا ہے۔ کوئی بھاری ٹھوس کنٹھا بنواؤ، سر کی سنگار پٹی بنواؤ۔ میرے اپنے بیاہ میں میکے سے پچاس تولے کا رانی ہار چڑھا تھا۔ تمہیں یاد نہیں، تمہارے سسر کو کہہ کر اسی کے بھاری جڑاؤ کنگن بنوائے تھے تمہارے بیاہ میں۔ ’’

میہراں، بیٹی کی طرف لاڈ سے دیکھتی ہے۔ لڑکی جھوٹ نہیں کہتی۔ بڑے بیٹوں کی سگائی میں، بیاہ میں، اماں بیسیوں بار یہ دہر ا چکی ہیں۔ اماں کو کون سمجھائے کہ یہ پرانی باتیں پرانے دنوں کے ساتھ گئیں۔ اماں ناطے رشتوں کی بھیڑ میں بیٹھی بیٹھی اونگھتی رہی۔ اچانک آنکھ کھلی تو نیچے لٹکتے پلو سے سر ڈھک لیا۔ ایک بے خبری کہ بغیر سر ڈھانکے بیٹھی رہی۔ پر دادی اماں کو اس طرح خود کو سنبھالتے کسی نے دیکھا تک نہیں۔ اماں کی جانب دیکھنے کا خیال بھی کسے ہے؟

 

 

بہو کو نیا جوڑا پہنایا جا رہا ہے۔ روشنی میں دلہن شرما رہی ہے۔ نندیں مسخرہ پن کر رہی ہیں۔ میہراں گھر میں تیسری بہو کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچ رہی ہے کہ بس، اب دونوں بیٹیوں کو ٹھکانے لگا دے تو سرخ رُو ہو۔

بہو کا سنگھار دیکھ دادی اماں بیچ بیچ میں کچھ کہتی ہیں، ’’لڑکیوں میں یہ کیسا چلن ہے آج کل؟ بہو کے ہاتھوں اور پیروں میں مہندی نہیں رچائی۔ یہی تو پہلا شگن ہے۔‘‘ دادی اماں کی اس بات کو جیسے کسی نے سنا نہیں۔

سنگھار میں چمکتی بہو کو گھیر کر میہراں دولہا کے کمرے کی طرف لے چلی۔ رشتے ناتے کی لڑکیاں مسکرا مسکرا کر شرمانے لگیں، دولہے کے دوست، بھائی آنکھوں میں نہیں، بانہوں میں نئی نئی تصویریں بھرنے لگے اور میہراں بہو پر آشیرواد برسا کر لوٹی تو دہلیز کے ساتھ لگی ہے دادی اماں کو دیکھ کر پیار جتا کر بولی، ’’ آؤ اماں، شکر ہے بھگوان کا، آج ایسی میٹھی گھڑی آئی۔‘‘

اماں سر ہلاتی ہلاتی، میہراں کے ساتھ ہو لی، پر آنکھیں جیسے سالوں پیچھے گھوم گئیں۔ ایسے ہی ایک دن وہ میہراں کو اپنے بیٹے کے پاس چھوڑ آئی تھی۔ وہ اندر جاتی تھی، باہر آتی تھی۔ وہ اِس گھر کی مالکن تھی۔

پیچھے مزید پیچھے، باجے گاجے کے ساتھ اس کا اپنا ڈولا اس گھر کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ گہنوں کی چھنکار کرتی وہ نیچے اتری۔ گھونگھٹ کی اوٹ سے مسکراتی، نیچے جھکتی اور شوہر کی بوڑھی پھوپھی سے آشیرواد پاتی۔

دادی اماں کو اونگھتے دیکھ کر بڑی بیٹی ہلا کر کہنے لگی، ’’اٹھو اماں، جا کر سو جاؤ، یہاں تو ابھی دیر تک ہنسی مذاق ہوتا رہے گا۔‘‘ دادی اماں موندی آنکھوں سے پوتی کی جانب دیکھتی ہے اور جھکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنے کمرے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔

اس دن اپنی چارپائی پر لیٹ کر دادی اماں سوئی نہیں۔ آنکھوں میں نہ اونگھ تھی، نہ نیند۔ ایک دن وہ بھی دلہن بنی تھی۔ بوڑھی پھوپھی نے سجا کر اسے بھی شوہر کے پاس بھیجا تھا۔ تب کیا اس نے یہ کوٹھری دیکھی تھی؟ بیاہ کے بعد برسوں تک اس نے جیسے یہ جانا ہی نہیں کہ پھوپھی دن بھر کام کرنے کے بعد رات کو یہاں سوتی ہے۔ آنکھیں مند جانے سے پہلے جب پھوپھی بیمار ہوئی تو دادی اماں نے سعادت مند بہو کی طرح اس کی خدمت کرتے کرتے پہلی بار یہ جانا تھا کہ گھر میں اتنے کمرے ہوتے ہوئے بھی پھوپھی اس پچھواڑے میں اپنے آخری برس کاٹ گئی ہے۔ پر یہ دیکھ کر، جان کر اس کو حیرت نہیں ہوئی تھی۔

گھر کے پچھواڑے میں پڑی پھوپھی کا بدن چھاؤں دار درخت کے پرانے تنے کی طرح لگتا تھا، جس کے پتوں کی چھاؤں اس سے الگ، اس سے آگے، گھر بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ آج تو دادی اماں خود پھوپھی بن کر اس کوٹھری میں پڑی ہے۔ بیاہ کے ہنگامے سے نکل کر جب دادا تھک کر اپنی چارپائی پر لیٹے، تو ایک لمبی چین کی سی سانس لے کر بولے، ’’کیا سو گئی ہو؟ اس بار کی رونق، لین دین تو منجھلے اور بڑے بیٹے کے بیاہ کو بھی پار کر گئی۔ سمدھیوں کا بڑا گھر ٹھہرا۔‘‘

دادی اماں لین دین کی بات پر کچھ کہنا چاہتی تھی پر بولی نہیں بولی۔ خاموشی سے پڑی رہی۔ دادا سو گئے، آوازیں دھیمی ہو گئیں۔ برآمدے میں میہراں کا رعب دار لہجہ، نوکروں چا کروں کو صبح کیلئے احکامات دے کر خاموش ہو گیا۔ دادی اماں پڑی رہی اور کچی نیند سے گھری آنکھوں سے نئی پرانی تصویریں دیکھتی رہی۔ اچانک کروٹ لیتے لیتے، دو چار قدم اٹھائے اور دادا کی چارپائی کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ جھک کر بہت دیر تک دادا کی طرف دیکھتی رہی۔ دادا نیند میں بے خبر تھے اور دادی جیسے کوئی پرانی شناسائی کر رہی ہو۔ کھڑے کھڑے کتنے لمحے گزر گئے۔ کیا دادی نے دادا کو پہچانا نہیں؟ چہرہ اس کے شوہر کا ہے پر دادی تو اس چہرے کو نہیں، چہرے کے نیچے شوہر کو دیکھنا چاہتی ہے۔ ان بچھڑ گئے سالوں کو واپس لوٹا لینا چاہتی ہے۔

سرہانے پر موجود دادا کا سر بالکل سفید تھا۔ بند آنکھوں کے ارد گرد جھریاں ہی جھریاں تھیں۔ ایک سوکھا ہاتھ کمبل پر سکڑا سا پڑا تھا۔ یہ نہیں۔۔ یہ تو نہیں۔۔ دادی اماں جیسے سوتے سوتے جاگ پڑی تھی، ویسے ہی اس بھولے بھٹکے بھنور میں اوپر سے نیچے ہوتی چارپائی پر جا پڑی۔

اس دن صبح اٹھ کر جب دادی اماں نے دادا کو باہر جاتے دیکھا تو لگا کہ رات بھر کی بھٹکی بھٹکی تصویروں میں سے کوئی بھی تصویر اس کی نہیں تھی۔ وہ اس سوکھے بدن اور جھکے کندھوں میں کسے ڈھونڈ رہی تھی؟ دادی اماں چارپائی کی بانہوں سے اٹھی اور لیٹ گئی۔ اب تو اتنے سے ہی معمولات باقی رہ گئے ہیں۔ بیچ بیچ میں کبھی اٹھ کر بہوؤں کے کمروں کی جانب جاتی ہے تو لڑ جھگڑ کر لوٹ آتی ہے، کیسے ہیں اس کے پوتے جو عمر کی مستی میں کسی کی بات نہیں سوچتے؟ کسی کی طرف نہیں دیکھتے؟ بہو اور بیٹا، انہیں بھی کہاں فرصت ہے؟ میہراں تو کچھ نہ کچھ کہہ کر چوٹ کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔ لڑنے کو تو دادی بھی کم نہیں، پر اب تیز اونچی آواز میں بات کرنے پر جیسے وہ تھک کر چور چور ہو جاتی ہے۔ بولتی ہے، بولے بغیر رہ نہیں سکتی، بعد میں گھنٹوں بیٹھی سوچتی رہتی ہے کہ وہ کیوں ان سے متھا لگاتی ہے، جنہیں اس کی پروا نہیں۔ میہراں کی تو اب چال ڈھال ہی بدل گئی ہے۔ اب وہ اس کی بہو نہیں، تین بہوؤں کی ساس ہے۔ ٹھہری ہوئی سنجیدگی سے گھر کی حکومت چلاتی ہے۔ دادی اماں کا بیٹا اب زیادہ دوڑ دھوپ نہیں کرتا۔ میل ملاقات سے زیادہ اب بہوؤں کی جانب سے سسر کا مان سمان ہی زیادہ ہوتا ہے۔ کبھی اندر باہر جاتے اماں مل جاتی ہے تو جھک کر بیٹا ماں کو پرنام ضرور کرتا ہے۔ دادی اماں گردن ہلاتے ہلاتے آشیرواد دیتی ہے، ’’جیو بیٹا، جیو۔‘‘

کبھی میہراں کی جلی کٹی باتیں سوچ کر بیٹے پر غصہ کرنے اور ڈانٹنے کود ل کرتا ہے، پر بیٹے کو پاس دیکھ کر دادی اماں سب بھول جاتی ہے۔ ممتا بھری بوڑھی آنکھوں سے بغور دیکھ کر بار بار آشیرباد برساتی چلی جاتی ہے، ’’سکھ پاؤ، بھگوان بڑی عمر دے۔۔‘‘ کتنا سنجیدہ اور سعادت مند ہے اس کا بیٹا۔ ہے تو اس کا نہ؟ پوتوں کو ہی دیکھ سکتے ہیں، کبھی جھک کر دادا کے پاؤں تک نہیں چھوتے۔ آخر ماں کا اثر کیسے جائے گا؟ ان دنوں بہو کی بات سوچتے ہی دادی اماں کو لگتا ہے کہ اب میہراں اس کے بیٹے میں نہیں اپنے بیٹوں میں لگی رہتی ہے۔ دادی اماں کو وہ دن بھول جاتے ہیں جب بیٹے کے بیاہ کے بعد بہو بیٹے کے لاڈ پیار میں اسے شوہر کے کھانے پینے کا خیال تک نہ رہتا تھا اور جب لاکھ لاکھ منتیں کرنے پر پہلی بار میہراں کی گود بھرنے والی تھی تو دادی اماں نے آ کر دادا سے کہا تھا، ’’بہو کے لئے اب یہ کمرہ خالی کرنا ہو گا۔ ہم لوگ پھوپھی کے کمرے میں جا کر رہیں گے۔‘‘

دادا نے بھرپور نظروں سے دادی اماں کی طرف دیکھا تھا، جیسے وہ گزرے سالوں کو اپنی نظروں سے ٹٹولنا چاہتے ہوں۔ پھر سر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے کہا تھا، ’’کیا بیٹے والا کمرہ بہو کے لئے ٹھیک نہیں؟ ناحق کیوں یہ سب کچھ الٹا سیدھا کرواتی ہو؟ ‘‘

دادی اماں نے ہاتھ ہلا کر کہا، ’’اوہ ہو، تم سمجھو گے بھی۔ بیٹے کے کمرے میں بہو کو رکھوں گی تو بیٹا کہاں جائے گا؟ الٹے سیدھے کی فکر تم کیوں کرتے ہو، میں سب ٹھیک کر لوں گی۔‘‘

اور بیوی کے چلے جانے پر دادا بہت دیر بیٹھے بھاری دل سے سوچتے رہے کہ جن سالوں کا بیتنا انہوں نے آج تک نہیں جانا، انہی پر بیوی کی امید پہاڑ بن کر آج کھڑی ہو گئی ہے۔ آج سچ مچ ہی اسے اس الٹ پھیر کی پروا نہیں۔

اس کمرے میں بڑی پھوپھی ان کی دلہن کو چھوڑ گئی تھی۔ اس کمرے کو چھوڑ کر آج وہ پھوپھی کے کمرے میں جا رہے ہیں۔ لمحے بھر کے لئے، صرف لمحے بھر کے لئے انہیں بیٹے سے جلن ہوئی اور بے حسی میں بدل گئی اور پہلی رات جب وہ پھوپھی کے کمرے میں سوئے تو رات گئے تک بھی بیوی، بہو کے پاس سے نہیں لوٹی تھی۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ان کی پلکیں جھپکیں تو انہیں لگا کہ ان کے پاس بیوی نہیں پھوپھی کا ہاتھ ہے۔ دوسرے دن میہراں کی گود بھرائی تھی، بیٹا ہوا تھا۔ گھر کی مالکن شوہر کی بات جاننے کے لئے بہت زیادہ مصروف تھی۔

کچھ دن سے دادی اماں کا جی اچھا نہیں۔ دادا دیکھتے ہیں، پر بڑھاپے کی بیماری سے کوئی دوسری بیماری بڑی نہیں ہوتی۔ دادی اماں بار بار کروٹ بدلتی ہے اور پھر کچھ کچھ دیر کے لئے ہانپ کر پڑی رہ جاتی ہے۔ دو ایک دن سے وہ باورچی خانے کی طرف بھی نہیں آئی، جہاں میہراں کا قبضہ رہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہ کچھ نوکروں کو سنانے میں چوکتی نہیں ہے۔ آج دادی کو نہ دیکھ کر چھوٹی بیٹی ہنس کر منجھلی بھابھی سے بولی، ’’بھابھی، دادی اماں کے پاس اب شاید کوئی لڑنے جھگڑنے کی بات نہیں رہ گئی، نہیں تو اب تک کئی بار چکر لگاتی۔‘‘

دوپہر کو نوکر جب اماں کے یہاں سے ان چھوئی تھالی اٹھا لایا تو میہراں کا ما تھا ٹھنکا۔ اماں کے پاس جا کر بولی، ’’اماں، کچھ کھا لیا ہوتا، کیا جی اچھا نہیں؟ ‘‘

اماں کچھ بولی نہیں۔ لمحے بھر رک کر آنکھیں کھولیں اور میہراں کو دیکھتی رہ گئی۔

’’کھانے کو دل نہ ہو تو اماں دودھ ہی پی لو۔‘‘

اماں نے ہاں، نہ کچھ نہیں کہا۔ نہ پلکیں ہی جھپکیں۔ ان نظروں سے میہراں بہت سالوں کے بعد آج پھر ڈری۔ ان میں نہ غصہ تھا، نہ تحقیر تھی، نہ بیزاری تھی۔ ایک گہری ملامت پہچاننے میں میہراں کو دیر نہیں لگی۔

ڈرتے ڈرتے ساس کے ماتھے کو چھوا۔ ٹھنڈے پسینے سے بھیگا تھا۔ پاس بیٹھ کر آہستہ سے پیار بھرے لہجے میں بولی، ’’اماں، جو کہو، بنا لاتی ہوں۔‘‘

اماں نے پڑے پڑے سر ہلایا، نہیں، کچھ نہیں اور بہو کے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

میہراں لمحے بھر کچھ سوچتی رہی اور بغیر آہٹ کئے باہر چلی گئی۔ بڑی بہو کے پاس جا کر فکر مند لہجے میں بولی، ’’بہو، اماں کچھ زیادہ بیمار لگتی ہیں، تم جا کر پاس بیٹھو تو میں کچھ بنا لاؤں۔‘‘

بہو نے ساس کی آواز میں آج پہلی بار دادی اماں کیلئے گھبراہٹ دیکھی۔ دبے پاؤں جا کر اماں کے پاس بیٹھ کر ہاتھ پاؤں دبانے لگی۔ اماں نے اس بار ہاتھ نہیں کھینچے۔ نڈھال سی لیٹی رہی۔

میہراں نے باورچی خانے میں جا کر دودھ گرم کیا۔ اوٹانے لگی تو اچانک ہاتھ اٹک گیا، کیا اماں کیلئے یہ آخری بار دودھ لئے جا رہی ہے؟

دادی اماں نے مد ہوشی میں دو چار گھونٹ دودھ پی کر چھوڑ دیا۔ چارپائی پر پڑی اماں چارپائی کے ساتھ لگی دیکھتی تھیں۔ کمرے میں کچھ زیادہ چیزیں نہیں تھا۔ سامنے کے کونے میں دادا کا بچھونا بچھا تھا۔

شام کو دادا آئے تو اماں کے پاس بہو اور بیٹی کو بیٹھے دیکھ کر پوچھا، ’’اماں تمہاری روٹھ کر لیٹی ہے یا۔۔ ۔۔؟ ‘‘

میہراں نے اماں کا بازو آگے کر دیا۔ دادا نے چھوکر ہولے سے کہا، ’’جاؤ بہو، بیٹا آتا ہی ہو گا۔ اسے ڈاکٹر کو لانے بھیج دینا۔ ’’ میہراں سسر کے الفاظ کی سنجیدگی کو جانتے ہوئے خاموشی سے باہر نکل گئی۔ بیٹے کے ساتھ جب ڈاکٹر آیا تو دادی اماں کے تینوں پوتے بھی پیچھے آ کھڑے ہوئے۔ ڈاکٹر نے ماہر ہاتھوں سے دادی کی جانچ کی۔ جاتے جاتے دادی کے بیٹے سے کہا، ’’کچھ ہی گھنٹے اور۔۔‘‘ میہراں نے بہوؤں کو دھیمے لہجے میں حکم دیئے اور بیٹوں سے بولی، ’’باری باری کھا پی لو، پھر باپ اور دادا کو بھیج دینا۔‘‘ اماں کے پاس سے ہٹنے کی والد اور دادا کی باری نہیں آئی اس رات۔ دادی نے بہت جلدی کی۔ ڈوبتے ڈوبتے ہاتھ پاؤں سے چھٹپٹا کر ایک بار آنکھیں کھولیں اور بیٹے اور شوہر کے آگے بانہیں پھیلا دیں۔ جیسے کہتی ہو، ’’مجھے تم پکڑ کے رکھو۔‘‘

اماں کا سانس اکھڑا، دادا کا گلا جکڑا اور بیٹے نے ماں پر جھک کر پکارا، ’’اماں۔۔ ۔ اماں۔‘‘

’’سن رہی ہوں بیٹا، تمہاری آواز پہچانتی ہوں۔‘‘

میہراں، ساس کی جانب بڑھی اور ٹھنڈے پڑتے پاؤں چھوکر التجا بھری نظروں سے دادی اماں کو بچھڑتی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ بہو کو روتے دیکھ کر اماں کی آنکھوں میں لمحے بھر کو اطمینان جھلکا، پھر سالوں کی لڑائی جھگڑے کا تاثر ابھرا۔ دروازے سے لگی تینوں پوتوں کی بہویں کھڑی تھیں۔ میہراں نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ باری باری دادی اماں کے قریب تینوں جھکیں۔ اماں کی پتلیوں میں زندگی بھر کا موہ اتر گیا۔ میہراں سے الجھا کڑوا پن معدوم ہو گیا۔ چاہا کہ کچھ کہے۔۔ کچھ۔۔ پر چھوٹتے تن سے دادی اماں، ہونٹوں پر کوئی لفظ نہیں کھینچ پائی۔

’’اماں، بہوؤں کو آشیرواد دیتی جاؤ۔‘‘ میہراں کے گیلے سے لہجے میں اصرار تھا، گذارش تھی۔

اماں نے آنکھوں کے جھلملاتے پردے میں سے اپنے پورے خاندان کی طرف دیکھا بیٹا۔۔ بہو۔۔ شوہر۔۔ پوتی بہو۔۔ پوتیاں۔ چھوٹی پوتی بہو کی گلابی اوڑھنی جیسے دادی کے تن من پر بکھر گئی۔ اس اوڑھنی سے لگے گورے گورے لال لال بچے، ہنستے کھیلتے، بھولی کلکاریاں۔۔ ۔

دادی اماں کی دھندلی آنکھوں میں سے اور سب مٹ گیا، سب اڑ گیا، صرف ڈھیر سارے ان گنت بچے کھیلتے رہ گئے۔۔ ۔۔

اس کے پوتے، ان کے بچے۔۔ ۔

باپ اور بیٹے نے ایک ساتھ دیکھا، اماں جیسے ہلکے سے ہنسی، ہلکے سے۔۔ ۔

میہراں کو لگا، اماں بالکل ویسے ہنس رہی ہے جیسے پہلی بار بڑے بیٹے کی پیدائش پر وہ اسے دیکھ کر ہنسی تھی۔ سمجھ گئی۔ بہوؤں کو آشیرواد مل گیا۔ دادا نے اپنے سوکھے ہاتھ میں نانی کا ہاتھ لے کر آنکھوں سے لگایا اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رو پڑے۔ رات گزر جانے سے پہلے دادی اماں گزر گئی۔ اپنے بھرے پورے خاندان کے بیچ وہ اپنے شوہر، بیٹے اور پوتوں کے ہاتھوں میں آخری بار گھر سے اٹھ گئی۔ انتم سنسکار ہوا اور دادی اماں کا بوڑھا بدن خاک ہو گیا۔

دیکھنے سننے والے بولے، ’’قسمت ہو تو ایسی، پھلتا پھولتا خاندان۔‘‘

میہراں نے اداس اداس دل سے سب کے لئے نہانے کا سامان جٹایا۔ گھر باہر دھلایا۔ عزیز رشتہ دار، پاس پڑوس، اب تک لوٹ گئے تھے۔ موت کے بعد روکھی سہمی سی دوپہر۔ اَن چاہے دل سے کچھ کھا پی کر گھر والے خاموشی سے بیٹھ گئے۔ اماں چلی گئی، پر خاندان بھرا پورا ہے۔ پوتے تھک کرا پنے اپنے کمروں میں جا لیٹے۔ بہوئیں اٹھنے سے پہلے ساس کا فرمان لینے کے لیے بیٹھی رہیں۔ دادی اماں کا بیٹا نڈھال ہو کر کمرے میں جا لیٹا۔ اماں کی خالی کوٹھری کا دھیان آتے ہی من بہہ آیا۔ کل تک اماں تھی تو سہی اس کوٹھری میں۔ روہانسی آنکھیں برس کر جھک آئیں تو خواب میں دیکھا، دریا کنارے گھاٹ پر اماں کھڑی ہے، اپنی چتا کو جلتے دیکھ کر کہتی ہے۔ ’’جاؤ بیٹا، دن ڈھلنے کو آیا، اب گھر لوٹ چلو، بہو راہ دیکھ رہی ہو گی۔ ذرا سنبھل کر جانا۔ بہو سے کہنا، بیٹیوں کو اچھے ٹھکانے لگائے۔‘‘

منظر بدلا، اماں دروازے پر کھڑی ہے۔ جھانک کر اس کی طرف دیکھتی ہے۔ ’’بیٹا، اچھی طرح کپڑا اوڑھ کر سو۔ ہاں بیٹا، اٹھو تو۔ کوٹھری میں باپو کو مل آؤ، یہ دکھ ان سے نہ جھیلا جائے گا۔ بیٹا، باپو کو دیکھتے رہنا۔ تمہارے باپو نے میرا ہاتھ پکڑا تھا، اسے آخر تک نبھایا، پر میں ہی چھوڑ چلی۔‘‘ بیٹے نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔ بہت دیر دروازے کی طرف دیکھتے رہے۔ اب کہاں سے آئے گی اماں اس دہلیز پر۔۔ ۔

بغیر آہٹ کئے میہراں آئی۔ روشنی کی۔ چہرے پر اماں کی یاد نہیں، اماں کا دکھ تھا۔ شوہر کو دیکھ کر ذرا سی روئی اور بولی، ’’جا کر سسرجی کو تو دیکھو۔ پانی تک منہ نہیں لگایا۔‘‘

شوہر کھڑکی میں سے کہیں دور دیکھتے رہے۔ جیسے دیکھنے کے ساتھ کچھ سن بھی رہے ہوں۔ ’’بیٹا، باپو کو دیکھتے رہنا، تمہارے باپو نے تو آخر تک ساتھ نبھایا، پر میں ہی چھوڑ چلی۔‘‘

’’اٹھو۔‘‘ میہراں کپڑا کھینچ شوہر کے پیچھے ہو لی۔ اماں کی کوٹھری میں اندھیرا تھا۔ باپو اسی کوٹھری کے کونے میں اپنی چارپائی پر بیٹھے تھے۔ نظریں دادی اماں کی چارپائی والی خالی جگہ پر گڑی تھی۔ بیٹے کو آیا دیکھ کر بھی ہلے نہیں۔

’’باپو، اٹھو، چل کر بچوں میں بیٹھو، جی سنبھلے گا۔‘‘

باپو نے سر ہلا دیا۔

میہراں اور بیٹے کی بات باپو کو گویا سنائی نہیں دی۔ پتھر کی طرح بغیر ہلے ڈلے بیٹھے رہے۔ بہو، بیٹا، بیٹے کی ماں۔۔ ۔ خالی دیواروں پر اماں کی تصویریں اوپر سے نیچے ہوتی رہیں۔ دروازے پر اماں گھونگھٹ نکالے کھڑی ہے۔ باپو کو اندر آتے دیکھ کر شرماتی ہے اور پھوپھی کی آڑ میں ہو جاتی ہے۔ پھوپھی پیار سے ہنستی ہے۔ پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہتی ہے۔ ’’بہو، میرے بیٹے سے کب تک شرماؤ گی؟ ‘‘

اماں بیٹے کو گود میں لیے دودھ پلا رہی ہیں، باپو گھوم پھر کر پاس آ کھڑے ہوتے ہیں۔ تیور چڑھے۔ بکھرے بال پھیلائے کہتے ہیں۔ ’’میری دیکھ بھال اب سب بھول گئی ہو۔ میرے کپڑے کہاں ڈال دیئے؟ ’’ اماں بیٹے کے سر کو سہلاتے سہلاتے مسکراتی ہے۔ پھر باپو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے۔ ’’اپنے ہی بیٹے سے محبت کا بٹوارہ کر کے اوپر سے جھنجھلانے لگے۔‘‘

باپو اس بار جھنجھلاتے نہیں، جھجکتے ہیں، پھر اچانک دودھ پیتے بیٹے کو اماں سے لے کر چوم لیتے ہیں۔ منے کے نازک نرم ہونٹوں پر دودھ کی سفیدی اب بھی چمک رہی ہے۔ باپو اندھیرے میں اپنی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ ہاتھ گیلے ہو جاتے ہیں۔ ان کے بیٹے کی ماں آج نہیں رہی۔

تینوں بیٹے دبے قدموں جا کر دادا کو جھانک آئے۔ بہوئیں ساس کا حکم پا کر اپنے اپنے کمروں میں جا کر لیٹ گئیں۔ بیٹیوں کو سوتا جان میہراں شوہر کے پاس آئی تو سر دباتے دباتے پیار سے بولی، ’’اب حوصلہ کرو۔‘‘۔۔ ۔ لیکن اچانک کسی کی گہری سسکی سن کے چونک پڑی۔ شوہر پر جھک کر بولی، ’’باپو کی آواز لگتی ہے، دیکھو تو۔‘‘

بیٹے نے جا کر باہر والا دروازہ کھول دیا، پیپل سے لگا جھکا سا سایا۔ بیٹے نے کہنا چاہا۔ ’’باپو۔‘‘ پر بیٹھے گلے سے آواز نکلی نہیں۔ ہوا میں پتے کھڑکھڑائے، ٹہنیاں ہلیں اور باپو کھڑے کھڑے سسکتے رہے۔

’’باپو۔‘‘

اس بار باپو کے کانوں میں بڑے پوتے کی آواز آئی۔ سر اونچا کیا، تو تینوں بیٹوں کے ساتھ دہلیز پر جھکی میہراں دکھائی پڑی۔ آنسوؤں میں دھند بہہ گئی تھی۔ میہراں اب گھر کی بہو نہیں، گھر کی اماں لگتی ہے۔ بڑے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر باپو کے قریب آئی۔ جھک کر بڑے پیار سے بولی، ’’باپو، اپنے ان بیٹوں کی طرف دیکھو، یہ سب اماں کا ہی تو کر و فر ہے۔ مہینے بھر کے بعد بڑی بہو کی جھولی بھرے گی، اماں کا خاندان اور پھولے پھلے گا۔‘‘

باپو نے اس بار سسکی نہیں بھری۔ آنسوؤں کو کھل کر بہہ جانے دیا۔ درخت کے سخت تنے سے ہاتھ اٹھاتے اٹھاتے سوچا، دور تک زمین میں بیٹھی بے شمار جڑیں اندر ہی اندر اس بڑے پرانے پیپل کو تھامے ہوئے ہیں۔ دادی اماں اسے مسلسل پانی دیا کرتی تھی۔ آج وہ بھی زمین میں مل گئی ہے۔ اس کے تن سے ہی تو بیٹے پوتے کا یہ خاندان پھیلا ہوا ہے۔ پیپل کی گھنی چھاؤں کی طرح یہ اور پھیلے گا۔ بہو سچ کہتی ہے۔ یہ سب اماں کا ہی کروفر ہے۔ وہ مری نہیں۔ وہ تو اپنے بدن پر موجود کپڑے بدل گئی ہے، اب وہ بہو میں جئے گی، پھر بہو کی بہو میں۔۔ ۔

***

 

 

 

پرندے

 

نرمل ورما

 

نرمل ورما، پیدائش، ۳ اپریل ۱۹۲۹ء، شملہ، ہماچل پردیش۔ میدان: ناول، کہانی، نقاد وغیرہ۔ اہم تخلیقات: ناول، انتم ارنیہ، رات کا رپورٹر، ایک چیتھڑا سکھ، لال ٹین کی چھت، وہ دن۔ کہانیوں کے مجموعے: پرندے، کوے اور کالا پانی، سوکھا اور دیگر کہانیاں، بیچ بحث میں، جلتی جھاڑی، پچھلی گرمیوں، دھاگے۔ رپورتاژ، سفرنامے: ہر بارش میں، چہروں پر چاندنی۔ ڈرامہ: تین ایکانت۔ مضامین اور تنقید: ڈھلان سے اترتے ہوئے، بھارت اور یورپ وغیرہ۔ ایوارڈز، اعزازات: پدم بھوشن، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈسمیت دیگر کئی ایوارڈز۔ انتقال: ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۵ ء۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

اندھیرے گلیارے میں چلتے ہوئے لتیکا ٹھٹک گئی۔ دیوار کا سہارا لے کر اس نے لیمپ کی لو بڑھا دی۔ سیڑھیوں پر اس کا سایہ ایک بے ڈول کٹی پھٹی صورت اختیار کرنے لگا۔ سات نمبر کمرے میں لڑکیوں کی بات چیت اور ہنسی مذاق کی آواز ابھی تک سنائی دے رہی تھی۔ لتیکا نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ شور اچانک بند ہو گیا۔ ’’کون ہے؟ ‘‘

لتیکا خاموش کھڑی رہی۔ کمرے میں کچھ دیر تک کانا پھوسی ہوتی رہی، پھر دروازے کی چٹخنی، کھلنے کی آواز آئی۔ لتیکا کمرے کی دہلیز سے کچھ آگے بڑھی، لیمپ کی جھپکتے شعلے میں لڑکیوں کے چہرے، سنیما کے پردے پر ٹھہرے ہوئے کلوز اپ کی مانند ابھرنے لگے۔

’’کمرے میں اندھیرا کیوں کر رکھا ہے؟ ‘‘لتیکا کے لہجے میں ہلکی سی جھڑکی کا تاثر تھا۔

’’لیمپ میں تیل ہی ختم ہو گیا، میڈم۔‘‘یہ سُدھا کا کمرہ تھا، اس لئے اسے ہی جواب دینا پڑا۔ ہوسٹل میں شاید وہ سب سے زیادہ مقبول تھی، کیونکہ ہمیشہ چھٹی کے وقت یا رات کو ڈنر کے بعد آس پاس کے کمروں میں رہنے والی لڑکیوں کا جمگھٹا اسی کے کمرے میں لگ جاتا تھا۔ دیر تک گپ شپ، ہنسی مذاق چلتا رہتا۔

’’تیل کیلئے کریم الدین سے کیوں نہیں کہا؟ ‘‘

’’کتنی بار کہا میڈم، لیکن اسے یاد رہے تب تو۔‘‘

کمرے میں ہنسی کی پھوار ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گئی۔ لتیکا کے کمرے میں آنے سے نظم و ضبط کی جو گھٹن گھِر آئی تھی، وہ اچانک بہہ گئی۔ کریم الدین ہوسٹل میں تھا۔ اس کی کاہلی اور کام میں ٹال مٹول کرنے کے قصے، ہوسٹل کی لڑکیوں میں پیڑھی در پیڑھی چلے آتے تھے۔ لتیکا کو اچانک کچھ یاد آ گیا۔ اندھیرے میں لیمپ گھماتے ہوئے چاروں جانب نگاہیں دوڑائیں۔ کمرے میں چاروں طرف گھیرا بنا کر وہ بیٹھی تھیں، پاس پاس ایک دوسرے سے چپک کر۔ سب کے چہروں سے واقفیت تھی، لیکن لیمپ کی پیلی مدھم روشنی میں گویا کچھ بدل گیا تھا، یا جیسے وہ انہیں پہلی بار دیکھ رہی تھی۔

’’جولی، اب تک تم اس بلاک میں کیا کر رہی ہو؟ ‘‘

جولی کھڑکی کے پاس پلنگ کے سرہانے بیٹھی تھی۔ اس نے خاموشی سے آنکھیں نیچی کر لیں۔ لیمپ کی روشنی چاروں طرف سے سمٹ کر اب صرف اس کے چہرے پر مرکوز ہو رہی تھی۔

’’نائٹ رجسٹر پر دستخط کر دیے؟ ‘‘

’’ ہاں، میڈم۔‘‘

’’ پھر۔۔ ۔؟ ‘‘ لتیکا کا لہجہ سخت ہو گیا۔ جولی گھبرا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ جب سے لتیکا اس اسکول میں آئی ہے، اس نے محسوس کیا ہے کہ ہوسٹل کے اس اصول پر عمل، ڈانٹ پھٹکار کے باوجود نہیں ہوتا۔

’’میڈم، کل سے چھٹیاں شروع ہو جائیں گی، اس لئے آج رات ہم سب نے مل کر۔۔ ۔‘‘ اورسُدھا پوری بات مکمل کئے بغیر، ہیمنتی کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی۔ پھر گویا ہوئی، ’’ہیمنتی کے گانے کا پروگرام ہے، آپ بھی کچھ دیر بیٹھیں نہ۔‘‘

لتیکا کو الجھن محسوس ہوئی۔ اس وقت یہاں آ کر اِس نے، ان کے مزے کو کر کرا کر دیا تھا۔ اس چھوٹے سے ہل اسٹیشن پر رہتے ہوئے اسے خاصا عرصہ ہو گیا، لیکن وقت کب، گرمیوں اور خزاں کا گھیرا پار کر کے سردی کی چھٹیوں کی گود میں سمٹ جاتا ہے، اسے کبھی یاد نہیں رہتا۔ چوروں کی طرح خاموشی سے وہ دہلیز سے باہر گئی۔ اس کے چہرے کی کشیدگی میں کمی آ گئی تھی۔ وہ مسکرانے لگی۔ ’’میرے ساتھ سنو فال دیکھنے کوئی نہیں ٹھہرے گا؟ ‘‘

’’ میڈم، چھٹیوں میں کیا اپنے گھر نہیں جا رہی ہیں؟ ‘‘سبھی لڑکیوں کی نگاہیں اس پر جم گئیں۔

’’ابھی کچھ پکا نہیں ہے، آئی لو دی سنوفال۔‘‘

لتیکا کو لگا کہ یہی بات اس نے گزشتہ سال بھی کہی تھی اور شاید گزشتہ سے گزشتہ سال بھی۔ اسے لگا شاید لڑکیاں اسے شکوک بھری نظروں سے دیکھ رہی ہیں، گویا انہوں نے اس بات پر یقین نہیں کیا۔ اس کا سر چکرانے لگا، گویا بادلوں کا سیاہ جھرمٹ کسی انجانے کونے سے اٹھ کر اسے خود میں ڈوبا لے گا۔ وہ ہولے سے ہنسی، پھر آہستہ سے اس نے سر کو جھٹک دیا۔ ’’جولی، تم سے کچھ کام ہے، اپنے بلاک میں جانے سے پہلے مجھ سے مل لینا، ویل گڈ نائٹ۔‘‘ لتیکا نے اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

’’گڈ نائٹ میڈم، گڈ نائٹ، گڈ نائٹ۔۔ ۔‘‘

لتیکا گلیارے کی سیڑھیاں نہیں اتری، بلکہ ریلنگ کے سہارے کھڑی ہو گئی۔ لیمپ کی بتی کو نیچے گھما کر کونے میں رکھ دیا۔ باہر دھند کی نیلی تہیں بہت گہری ہو چلی تھیں۔ لان پر لگے ہوئے چیڑ کے پتوں کی سرسراہٹ، ہوا کے جھونکوں کے ساتھ کبھی تیز، کبھی دھیمی ہو کر اندر بہہ آتی تھی۔ ہوا میں سردی کا ہلکا سا احساس پا کر لتیکا کے دماغ میں کل سے شروع ہونے والی چھٹیوں کا خیال کہیں سے بھٹک آیا۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔ اسے لگا کہ جیسے اس کی ٹانگیں بانس کی کھپچیوں کی طرح اس کے جسم سے بندھی ہیں، جس کی گانٹھیں آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی ہیں۔ سر کا گھومنا ابھی مِٹا نہیں تھا، مگر اب جیسے وہ اندرسے نکل کر باہر پھیلی دھند کا حصہ بن گئی تھی۔

سیڑھیاں پر باتوں کا شور سن کر لتیکا جیسے سوتے سے جاگی۔ شال کو کندھوں پر سمیٹا اور لیمپ اٹھا لیا۔ ڈاکٹر مکرجی، ایم ہیوبرٹ کے ساتھ ایک انگریزی دھن گنگناتے ہوئے اوپر آ رہے تھے۔ سیڑھیاں پر اندھیرا تھا اور ہیوبرٹ کو بار بار اپنی چھڑی سے راستہ ٹٹولنا پڑ رہ تھا۔ لتیکا نے دو چار سیڑھیاں اتر کر لیمپ کو نیچے جھکا دیا۔ ’’گڈ ایوننگ ڈاکٹر، گڈ ایوننگ ایم ہیوبرٹ۔‘‘

’’ تھینک یو مس لتیکا۔‘‘ہیوبرٹ کے لہجے میں تشکر تھا۔ سیڑھیاں چڑھنے سے ان کی سانس تیز ہو رہی تھی اور وہ دیوار سے لگے ہوئے ہانپ رہے تھے۔ لیمپ کی روشنی میں ان کے چہرے کا پیلا پن کچھ تانبے کے رنگ جیسا ہو گیا تھا۔

’’یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو مس لتیکا؟ ‘‘ ڈاکٹر نے ہونٹوں کے اندر سے سیٹی بجائی۔

’’چیکنگ کر کے لوٹ رہی تھی۔ آج اس وقت اوپر کیسے آنا ہوا مسٹر ہیوبرٹ؟ ‘‘

ہیوبرٹ نے مسکرا کر اپنی چھڑی ڈاکٹر کے کندھوں سے چھُلا دی، ’’ انہی سے پوچھو، یہی مجھے زبردستی گھسیٹ کر لائے ہیں۔‘‘

’’مس لتیکا، ہم آپ کو دعوت دینے آ رہے تھے۔ آج رات میرے کمرے میں ایک چھوٹا سا کنسرٹ ہو گا جس میں ایم ہیوبرٹ، شوپاں اور چائیکووسکی کی کمپوزیشن بجائیں گے اور پھر کریم کافی پی جائے گی۔ اور اس کے بعد اگر وقت رہا، تو گزشتہ سال ہم نے جو گناہ کئے ہیں، انہیں ہم سب مل کر کنفینس کریں گے۔‘‘ڈاکٹر مکر جی کے چہرے پر گہری مسکراہٹ کھیل گئی۔

’’ڈاکٹر، مجھے معاف کریں، میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

’’چلئے، یہ ٹھیک رہا۔ پھر تو آپ ویسے بھی میرے پاس آتیں۔‘‘ڈاکٹر نے آہستہ سے لتیکا کے کندھوں کو پکڑ کر اپنے کمرے کی جانب موڑ دیا۔ ڈاکٹر مکر جی کا کمرہ بلاک کے دوسرے سرے پر چھت سے جڑا ہوا تھا۔ وہ آدھے برمی تھے، اس کی جھلک ان کی تھوڑی دبی ہوئی ناک اور چھوٹی چھوٹی چنچل آنکھوں سے صاف عیاں ہوتی تھی۔ برما پر جاپانیوں کا قبضہ ہونے کے بعد وہ اس مختصر سے پہاڑی شہر میں آ بسے تھے۔ پرائیویٹ پریکٹس کے علاوہ وہ کانوینٹ اسکول میں ہائی جن، فزیالوجی بھی پڑھایا کرتے تھے اور اس وجہ سے ان کو اسکول کے ہوسٹل میں ہی ایک کمرہ رہنے کیلئے دے دیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ برما سے آتے ہوئے راستے میں ان کی بیوی کی موت واقع ہو گئی تھی، لیکن اس سلسلے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ڈاکٹر کبھی اپنی بیوی کے متعلق بات نہیں کرتے تھے۔

گفتگو کے دوران ڈاکٹر اکثر کہا کرتے ہیں۔ ’’مرنے سے پہلے میں ایک دفعہ برما ضرور جاؤں گا۔‘‘اور پھر ایک لمحے کیلئے ان کی آنکھوں میں ایک نمی سی چھا جاتی۔ لتیکا چاہنے پر بھی ان سے کچھ پوچھ نہیں پاتی۔ اسے لگتا کہ ڈاکٹر نہیں چاہتے کہ کوئی ماضی کے تعلق کے بارے میں ان سے کچھ بھی پوچھے یا ہمدردی دکھلائے۔ دوسرے ہی لمحے اپنی سنجیدگی کو دور دھکیلتے ہوئے وہ ہنس پڑتے۔ ایک خشک، بوجھی ہوئی ہنسی۔

ہوم سکنیس ہی ایک ایسی بیماری ہے، جس کا علاج کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے۔ چھت پر میز کرسیاں ڈال دی گئیں اور اندر کمرے میں پرکولیٹر میں کافی کا پانی چڑھا دیا گیا۔

’’سنا ہے اگلے دو تین برسوں میں یہاں پر بجلی کا بھی انتظام ہو جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر نے اسپرٹ لیمپ جلاتے ہوئے کہا۔

’’یہ بات تو گزشتہ دس سالوں سے سننے میں آ رہی ہے۔ انگریزوں نے بھی کوئی لمبی چوڑی اسکیم بنائی تھی، پتہ نہیں اس کا کیا ہوا۔‘‘ ہیوبرٹ نے کہا۔ وہ آرام کرسی پر لیٹا ہوا باہر لان کی جانب دیکھ رہا تھا۔

لتیکا کمرے سے دو موم بتیاں لے آئی۔ میز کے دونوں سروں پر ٹکا کر انہیں جلا دیا گیا۔ چھت کا اندھیرا موم بتی کی پھیکی روشنی کے ارد گرد سمٹنے لگا۔ ایک گنجان اداسی چاروں جانب گھرنے لگی۔ ہوا میں چیڑ کے درختوں کی سائیں سائیں، دور دور تک پھیلی پہاڑیوں اور وادیوں میں سیٹیوں کی گونج سی چھوڑتی جا رہی تھی۔

’’اس بار شاید برف جلدی گرے گی، ابھی سے ہوا میں ایک سرد خشکی سی محسوس ہونے لگی ہے۔‘‘ ڈاکٹر کا سگار اندھیرے میں سرخ شعلے سا چمک رہا تھا۔

’’پتہ نہیں، مس ووڈ کو اسپیشل سروس کا گورکھ دھندہ کیوں پسند آتا ہے۔ چھٹیوں میں گھر جانے سے پہلے، کیا یہ ضروری ہے کہ لڑکیوں فادر ایلمنڈ کا سرمن سنیں؟ ‘‘ ہیوبرٹ نے کہا۔

ڈاکٹر کو فادر ایلمنڈ ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ لتیکا کرسی پر آگے جھک کر پیالوں میں کافی انڈیلنے لگی۔ ہر سال اسکول بند ہونے کے دن یہی دو پروگرام ہوتے ہیں، چیپل میں اسپیشل سروس اور اس کے بعد دن میں پکنک۔ لتیکا کو پہلا سال یاد آیا، جب پکنک کے بعد وہ ڈاکٹر کے ساتھ کلب گئی تھی۔ ڈاکٹر بار میں بیٹھے تھے۔ بار روم کماؤ رجمنٹ کے افسروں سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ دیر تک بلیئرڈ کا کھیل دیکھنے کے بعد، جب وہ واپس بار کی جانب آ رہے تھے، تب اس نے دائیں جانب کلب کی لائبریری میں دیکھا، مگر اسی دوران ڈاکٹر مکر جی پیچھے سے آ گئے تھے۔

’’ مس لتیکا، یہ میجر گریش نیگی ہے۔‘‘

بلیئرڈ روم سے آتے ہوئے ہنسی مذاق کے بیچ وہ نام دب سا گیا تھا۔ وہ کسی کتاب کے بیچ، انگلی رکھ کر لائبریری کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ ’’ہیلو ڈاکٹر۔‘‘ وہ پیچھے مڑا۔ تب اس لمحے۔۔ ۔

اس لمحے نہ جانے کیوں لتیکا کا ہاتھ کانپ گیا اور کافی کے کچھ گرم قطرے اس کی ساڑی پر چھلک گئے۔ اندھیرے میں کسی نے نہیں دیکھا کہ لتیکا کے چہرے پر ایک سپاٹ سا احساس گھِر آیا ہے۔ ہوا کے جھونکے سے موم بتیوں کی لو تھرتھرانے لگی۔ چھت سے بھی بلند کاٹھ گودام جانے والی سڑک پر یو پی روڈویز کی آخری بس، ڈاک لے کر جا رہی تھی۔ بس کی ہیڈ لائٹس میں آس پاس پھیلی ہوئی جھاڑیوں کے سائے، گھر کی دیوار پر سرکتے ہوئے غائب ہونے لگے۔

’’مس لتیکا، آپ اس سال بھی چھٹیوں میں یہیں رہیں گی؟ ‘‘ڈاکٹر نے پوچھا۔

ڈاکٹر کا سوال ہوا میں معلق رہا۔ اسی لمحے پیانو پر شوپاں کا نوکٹرن، ہیوبرٹ کی انگلیوں کے نیچے سے پھسلتا ہوا آہستہ آہستہ چھت کے اندھیرے میں گھلنے لگا، جیسے پانی پر کومل خوابیدہ لہریں، بھنوروں کا جھلملاتا جال بنتی ہوئیں، دور دور کناروں تک پھیلتی جا رہی ہوں۔ لتیکا کو لگا کہ جیسے کہیں بہت دور برف کی چوٹیوں سے پرندوں کے جھنڈ نیچے انجان دیشوں کی جانب اڑے جا رہے ہیں۔ ان دنوں اکثر اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے انہیں دیکھا ہے۔ دھاگے میں بندھے چمکیلے لٹوؤں کی طرح وہ ایک لمبی، ٹیڑھی میڑھی قطار میں اڑے جاتے ہیں، پہاڑوں کی سنسان اداسیوں سے پرے، ان عجیب شہروں کی جانب جہاں شاید وہ کبھی نہیں جائے گی۔

لتیکا آرام کرسی پر اونگھنے لگی۔ ڈاکٹر مکر جی کا سگار اندھیرے میں چپ چاپ جل رہا تھا۔ ڈاکٹر کو تعجب ہوا کہ لتیکا نہ جانے کیا سوچ رہی ہے اور لتیکا سوچ رہی تھی، ’’کیا وہ بوڑھی ہوتی جا رہی ہے؟ ‘‘ اس کے سامنے اسکول کی پرنسپل مس ووڈ کا چہرہ گھوم گیا، پوپلا منہ، آنکھوں کے نیچے جھولتی ہوئی گوشت کی تھیلیاں، ذرا ذرا سی بات پر چڑ جانا، کرخت آواز میں چیخنا۔ سب اس ’’اولڈ میڈ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ چند سالوں بعد وہ بھی ہو بہو ویسی ہی بن جائے گی۔ لتیکا کے پورے جسم میں جھرجھری سی دوڑ گئی، مانو جیسے انجانے میں اس نے کسی غلیظ چیز کو چھو لیا ہو۔ اسے یاد آیا، چند مہینے پہلے اچانک اسے ہیوبرٹ کا محبت نامہ ملا تھا، جذباتی التجاؤں سے بھرا ہوا ایک خط، جس میں اس نے نہ جانے کیا کچھ لکھا تھا، جو کبھی اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اسے ہیوبرٹ کی اس بچکانہ حرکت پر ہنسی آئی تھی، لیکن اندر ہی اندر خوشی بھی محسوس ہوئی تھی۔ اس کی عمر ابھی بیتی نہیں ہے، اب بھی وہ دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کر سکتی ہے۔ ہیوبرٹ کا خط پڑھ کر اسے غصہ نہیں آیا، آئی تھی تو صرف ممتا۔ وہ چاہتی تو اس کی غلط فہمی کو دور کرنے میں دیر نہ لگتی، لیکن کوئی طاقت اُسے روکے رہتی ہے، اس کی وجہ سے خود پر یقین رہتا ہے، اپنی خوشیوں کا بھرم گویا ہیوبرٹ کی غلط فہمی سے جڑا ہے۔

ہیوبرٹ ہی کیوں، وہ کیا کسی کو چاہ سکے گی، اس آگاہی کے سنگ، جو اب نہیں رہی، جو سائے سی اس پر منڈراتی رہتی ہے، نہ خود مٹتی ہے، نہ اسے نجات دے پاتی ہے۔ اسے لگا، جیسے بادلوں کا جھرمٹ پھر اس کے ذہن پر آہستہ آہستہ چھانے لگا ہے، اس کی ٹانگیں پھرسُن اور یخ بستہ سی ہو گئی ہیں۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’ڈاکٹر معاف کرنا، مجھے بہت تھکاوٹ سی لگ رہی ہے۔۔ ۔۔ ۔‘‘بات مکمل کئے بغیر ہی وہ چلی گئی۔ کچھ دیر تک ٹیرس پر مردنی چھائی رہی۔ موم بتیاں بجھنے لگی تھیں۔ ڈاکٹر مکر جی نے سگار کا نیا کش لیا۔ ’’سبھی لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہے، بیوقوف اور سینٹی مینٹل۔‘‘

ہیوبرٹ کی انگلیوں کا دباؤ پیانو پر ڈھیلا پڑتا گیا، آخری بار سروں کی جھجکی سی باز گشت کچھ لمحوں تک ہوا میں تیرتی رہی۔

’’ڈاکٹر، آپ کو معلوم ہے، مس لتیکا کا رویہ گزشتہ کچھ عرصے سے عجیب سا لگتا ہے۔‘‘ ہیوبرٹ کے انداز میں لاپرواہی کا تاثر تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ڈاکٹر کو لتیکا کے تئیں اس کے اندرونی جذبات کا رتی برابر بھی اندازہ ہو سکے۔ جس کومل احساس کو وہ اتنے عرصے سے سیج رہا ہے، ڈاکٹر اسے ہنسی کے ایک قہقہے میں مضحکہ خیز بنا دے گا۔

’’کیا تم قسمت میں یقین رکھتے، ہیوبرٹ؟ ‘‘ڈاکٹر نے کہا۔ ہیوبرٹ دم روکے انتظار کرتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ کوئی بھی بات کہنے سے پہلے ڈاکٹر کوفلاسوفائز کرنے کی عادت تھی۔ ڈاکٹر ٹیرس کے جنگلے سے چپک کر کھڑا ہو گیا۔ پھیکی سی چاندنی میں، چیڑ کے پیڑوں کے سائے، لان پر پھیل رہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی جگنو اندھیرے میں سبز روشنی چھڑکتا، فضا میں غائب ہو جاتا تھا۔

’’میں کبھی کبھی سوچتا ہوں، انسان زندہ کس لئے رہتا ہے۔ کیا اسے کوئی اور بہتر کام کرنے کو نہیں ملا؟ ہزاروں میل اپنے ملک سے دور میں یہاں پڑا ہوں۔ یہاں کون مجھے جانتا ہے، یہیں شاید مر بھی جاؤں گا۔ ہیوبرٹ، کیا تم نے کبھی محسوس کیا ہے کہ ایک اجنبی کی حیثیت سے پرائی زمین پر مر جانا کافی خوفناک خیال ہے۔۔ ۔۔‘‘

ہیوبرٹ حیران سا ڈاکٹر کو دیکھنے لگا۔ اس نے پہلی بار ڈاکٹر مکر جی کے اس پہلو کو دیکھا تھا۔ اپنی بابت وہ اکثر خاموش رہتے تھے۔

’’کوئی پیچھے نہیں ہے، یہ بات مجھ میں ایک عجیب قسم کی بے فکری پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کی موت آخر دم تک پہیلی بنی رہتی ہے، شاید وہ زندگی سے بہت امید لگاتے تھے۔ اسے ٹریجک بھی نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ آخری دم تک انہیں مرنے کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘

’’ ڈاکٹر، آپ کس کا ذکر کر رہے ہیں؟ ‘‘ ہیوبرٹ نے پریشان ہو کر پوچھا۔ ڈاکٹر کچھ دیر تک خاموشی سے سگار پیتا رہا۔ پھر مڑ کر وہ موم بتیوں کی بجھتی ہوئی لو کو دیکھنے لگا۔

’’تمہیں معلوم ہے، کسی وقت لتیکا بلا ناغہ کلب جایا کرتی تھی۔ گریش نیگی سے اس کا تعارف وہیں ہوا تھا۔ کشمیر جانے سے ایک رات پہلے اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔ میں اب تک لتیکا سے اس ملاقات کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکا ہوں۔ لیکن اس رات کون جانتا تھا کہ وہ واپس نہیں لوٹے گا۔ اور اب۔۔ اب کیا فرق پڑتا ہے۔ لیٹ دی ڈیڈ۔ ڈائی۔۔ ۔‘‘ڈاکٹر کی خشک اور سرد ہنسی میں خالی پن بھرا تھا۔

’’کون گریش نیگی؟ ‘‘

’’ کماؤ رجمنٹ میں کیپٹن تھا۔‘‘

’’ ڈاکٹر، کیا لتیکا۔۔ ۔‘‘ ہیوبرٹ سے مزید کچھ نہیں کہا گیا۔ اسے یاد آیا وہ خط، جو اس نے لتیکا کو بھیجا تھا، کتنا بے معنی اور احمقانہ، جیسے اس کا ایک ایک لفظ اس کے دل کو کچوٹ رہا ہو۔ اس نے آہستہ سے پیانو پر سر ٹکا لیا۔ لتیکا نے اسے کیوں نہیں بتایا، کیا وہ اس قابل بھی نہیں تھا؟

’’ لتیکا۔۔ ۔ وہ تو بچی ہے، پاگل۔ مرنے والے کے ساتھ خود تھوڑے ہی مرا جاتا ہے۔‘‘

کچھ دیر خاموش رہ کر ڈاکٹر نے اپنے سوال کو دوبارہ دہرایا۔ ’’لیکن ہیوبرٹ، کیا تم قسمت پر یقین رکھتے ہیں؟ ‘‘

ہوا کے ہلکے جھونکے سے موم بتیاں ایک بار ٹمٹما کر بجھ گئیں۔ ٹیرس پر ہیوبرٹ اور ڈاکٹر اندھیرے میں ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہے تھے، پھر بھی وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کانوینٹ اسکول سے کچھ دور میدانوں میں بہتے پہاڑی نالے کی آواز آ رہی تھی۔ اب بہت دیر بعد کماؤ رجمنٹ سینٹر کا بگل سنائی دیا، تو ہیوبرٹ ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ ’’اچھا، چلتا ہوں، ڈاکٹر، گڈ نائٹ۔‘‘

’’گڈ نائٹ ہیوبرٹ۔۔ ۔ معاف کرنا، میں سگار ختم کر کے اٹھوں گا۔۔ ۔‘‘

صبح کی بدلی چھائی تھی۔ لتیکا کے کھڑکی کھولتے ہی دھند کا بادل سا اندر گھس آیا، جیسے رات بھر دیوار کے سہارے سردی میں ٹھٹھرتا ہوا وہ اندر آنے کا انتظار کر رہا ہو۔ اسکول سے اوپر چیپل جانے والی سڑک بادلوں میں چھپ گئی تھی، بس چیپل کا ’’کراس‘‘ دھند کے پردے پر ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی پنسل کی لکیروں جیسا دکھائی دے جاتا تھا۔

لتیکا نے کھڑکی سے آنکھیں ہٹائیں، تو دیکھا کہ کریم الدین چائے کی ٹرے لئے کھڑا ہے۔ کریم الدین ملٹری میں اردلی رہ چکا تھا، اسی لئے ٹرے میز پر رکھ کر ’’اٹینشن‘‘ کی حالت میں کھڑا ہو گیا۔ لتیکا جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ صبح سے آلسی کر کے کتنی بار جاگ کر وہ سو چکی ہے۔ اپنا کھسیاناپن مٹانے کیلئے لتیکا نے کہا، ’’بڑی سردی ہے آج، بستر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘

’’اجی میم صاحب، ابھی کیا سردی آئی ہے۔ بڑے دنوں میں دیکھنا کیسے دانت کٹکٹاتے ہیں۔‘‘اور کریم الدین اپنے ہاتھوں کو بغلوں میں ڈالے ہوئے اس طرح سکڑ گیا، جیسے ان دنوں کے محض تصور سے ہی اسے جاڑا لگنا شروع ہو گیا ہو۔ گنجے سر پر دونوں اطراف موجود اس کے بال خضاب لگانے سے کتھئی رنگ کے بھورے ہو گئے تھے۔ بات چاہے کسی موضوع پر ہو رہی ہو، وہ ہمیشہ کھینچ تان کر اسے ایسے مقام پر گھسیٹ لاتا تھا، جہاں وہ بلا جھجھک اپنے خیالات کا ا ظہار کر سکے۔

’’ایک دفعہ تو یہاں لگاتار اتنی برف گری تھی کہ بھوالی سے لے کر ڈاک بنگلے تک کی ساری سڑکیں جام ہو گئیں۔ اتنی برف تھی میم صاحب کہ درختوں کی ٹہنیاں تک سکڑ کر تنوں سے لپٹ گئی تھی، بالکل ایسے۔‘‘اور کریم الدین، نیچے جھک کر مرغا سا بن گیا۔

’’کب کی بات ہے؟ ‘‘ لتیکا نے پوچھا۔

’’اب یہ تو حساب جوڑ کر کے ہی پتہ چلے گا، میم صاحب، لیکن اتنا یاد ہے کہ اس وقت انگریز بہادر یہیں تھے۔ کنٹونمنٹ کی عمارت پر قومی جھنڈا نہیں لگا تھا۔ بڑے زبردست تھے یہ انگریز، دو گھنٹوں میں ہی ساری سڑکیں صاف کروا دیں۔ ان دنوں ایک سیٹی بجاتے ہی پچاس گھوڑسوار جمع ہو جاتے تھے۔ اب تو سارے شیڈز خالی پڑے ہیں۔ وہ لوگ اپنی خدمت بھی کروانا جانتے تھے، اب توسب اجاڑ ہو گیا ہے۔‘‘کریم الدین اداسی بھرے انداز سے باہر دیکھنے لگا۔ آج یہ پہلی دفعہ نہیں ہے جب لتیکا، کریم الدین سے اُن دنوں کی باتیں سن رہی ہے، جب انگریز بہادر نے اس جگہ کو جنت بنا رکھا تھا۔

’’آپ چھٹیوں میں اس سال بھی یہی رہیں گی میم صاحب؟ ‘‘

’’ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے کریم الدین، تمہیں پھر تنگ ہونا پڑے گا۔‘‘

’’ کیا کہتی ہیں میم صاحب۔ آپ کے رہنے سے ہمارا بھی من لگ جاتا ہے، ورنہ چھٹیوں میں تو یہاں کتے لوٹتے ہیں۔‘‘

’’تم ذرا مستری سے کہہ دینا کہ اس کمرے کی چھت کی مرمت کر جائے۔ گئے سال برف کا پانی دراڑوں سے ٹپکتا رہتا تھا۔‘‘ لتیکا کو یاد آیا کہ پچھلی سردیوں میں جب کبھی برف گرتی تھی، تو اسے پانی سے بچنے کے لئے رات بھر کمرے کے کونے میں سمٹ کر سونا پڑتا تھا۔

کریم الدین چائے کی ٹرے اٹھاتا ہوا بولا۔ ’’ ہیوبرٹ صاحب تو شاید کل ہی چلے جائیں، کل رات ان کی طبیعت پھر خراب ہو گئی۔ آدھی رات کے وقت مجھے جگانے آئے تھے۔ کہتے تھے، چھاتی میں تکلیف ہے۔ انہیں یہ موسم راس نہیں آتا۔ کہہ رہے تھے، لڑکیوں کی بس میں وہ بھی کل ہی چلے جائیں گے۔‘‘ کریم الدین دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ لتیکا کی خواہش ہوئی کہ وہ ہیوبرٹ کے کمرے میں جا کر ان کی طبیعت کے بارے میں پوچھ آئے۔ لیکن پھر نہ جانے کیوں سلیپر پیروں میں ٹنگے رہے اور وہ کھڑکی کے باہر بادلوں کو اڑتا ہوا دیکھتی رہی۔ ہیوبرٹ کا چہرہ، جب اسے دیکھ کر سہما سا، قابلِ رحم ساہو جاتا ہے، تب لگتا ہے کہ وہ اپنی خاموشی بھری معصوم التجاؤں میں اسے کوس رہا ہے۔ نہ وہ اس کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کر پاتی ہے، نہ اسے اپنی مجبوریوں کی صفائی دینے کی ہمت ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس جال سے باہر نکلنے کے لئے وہ دھاگے کے جس سرے کو بھی پکڑتی ہے، وہ خود ایک گرہ بن کر رہ جاتا ہے۔

باہر بوندا باندی ہونے لگی تھی، کمرے کی ٹین کی چھت ٹن ٹن بولنے لگی۔ لتیکا پلنگ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بستر کو صاف کر کے بچھایا۔ پھر پیروں میں سلیپروں کو گھسیٹتے ہوئے وہ بڑے آئینے تک آئی اور اس کے سامنے پڑے اسٹول پر بیٹھ کر بالوں کو کھولنے لگی۔ مگر کچھ دیر تک کنگھی بال میں ہی الجھی رہی اور وہ گم صم ہوئی شیشے میں اپنا چہرہ تکتی رہی۔ کریم الدین کو یہ کہنا یاد ہی نہیں رہا کہ دھیرے دھیرے آگ جلانے کی لکڑیاں جمع کر لے۔ ان دنوں سستے داموں سوکھی لکڑیاں مل جاتی ہیں۔ پچھلے سال تو کمرہ دھوئیں سے بھر جاتا تھا، جس کی وجہ سے کپکپاتے جاڑے میں بھی اسے کھڑکی کھول کر ہی سونا پڑتا تھا۔

آئینے میں لتیکا نے اپنا چہرہ دیکھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ پچھلے سال اپنے کمرے کی سیلن اور ٹھنڈ سے بچنے کیلئے کبھی کبھی وہ مس ووڈ کے خالی کمرے میں چوری چپکے سونے چلی جایا کرتی تھی۔ مس ووڈ کا کمرہ بغیر آگ کے بھی گرم رہتا تھا، ان کے گدیلے سوفے پر لیٹتے ہی آنکھ لگ جاتی تھی۔ کمرہ چھٹیوں میں خالی پڑا رہتا ہے، لیکن مس ووڈ سے اتنا نہیں ہوتا کہ دو مہینوں کیلئے اس کے حوالے کر جائیں۔ ہر سال کمرے میں تالا مار کر جاتی ہیں۔ وہ تو پچھلے سال غسل خانے میں اندرونی کنڈی لگانا بھول گئی تھیں، جسے لتیکا چور دروازے کے طور پر استعمال کرتی رہی تھی۔

پہلے سال اکیلے میں اسے بڑا ڈر سا لگتا تھا۔ چھٹیوں میں سارے اسکول اور ہوسٹل کے کمرے سائیں سائیں کرنے لگتے ہیں۔ ڈر کے مارے اسے جب کبھی نیند نہیں آتی تھی، تب وہ کریم الدین کو رات گئے تک باتوں میں الجھائے رکھتی۔ باتوں میں جب کھوئی سی وہ سو جاتی، تب کریم الدین خاموشی سے لیمپ بجھا کر چلا جاتا۔ کبھی کبھی بیماری کا بہانہ کر کے وہ ڈاکٹر کو بلا بھیجتی تھی اور بعد میں بہت ضد کر کے دوسرے کمرے میں ان کا بستر لگوا دیتی۔

لتیکا نے کندھے سے بالوں کا گچھا نکالا اور اسے باہر پھینکنے کیلئے وہ کھڑکی کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ باہر چھت کی ڈھال سے بارش کے پانی کی موٹی سی دھار مسلسل لان پر گر رہی تھی۔ بادلوں سے بھرے آسمان میں سرکتے ہوئے بادلوں کے پیچھے پہاڑیوں کے جھنڈ کبھی ابھر آتے تھے، کبھی چھپ جاتے تھے، گویا چلتی ہوئی ٹرین سے کوئی انہیں دیکھ رہا ہو۔ لتیکا نے کھڑکی سے سر باہر نکال لیا، ہوا کے جھونکے سے اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ اسے جتنے کام یاد آتے ہیں، اتنی ہی کاہلی بڑھ جاتی ہے۔ بس کی سیٹیں ریزرو کروانے کے لئے چپراسی کو روپے دینے ہیں۔ جو سامان ہوسٹل کی لڑکیاں پیچھے چھوڑے جا رہی ہیں، انہیں گودام میں رکھوانا ہو گا۔ کبھی کبھی تو چھوٹی کلاس کی لڑکیوں کے ساتھ پیکنگ کروانے کے کام میں بھی اسے ہاتھ بٹانا پڑتا تھا۔

وہ ان کاموں سے اُوبتی نہیں۔ آہستہ آہستہ سب نمٹتے جاتے ہیں، کوئی غلطی ادھر ادھر رہ جاتی ہے، سو بعد میں سدھر جاتی ہے۔ ہر کام میں کھچ کھچ رہتی ہے، پریشانی اور دقت ہوتی ہے، لیکن دیر سویر اس سے چھٹکارا مل ہی جاتا ہے۔ لیکن جب لڑکیوں کی آخری بس چلی جاتی ہے، تب دل اچاٹ سا ہو جاتا ہے۔ خالی کاریڈور میں گھومتی ہوئی وہ کبھی اِس کمرے میں جاتی ہیں اور کبھی اُس میں۔ وہ نہیں جان پاتی کہ خود سے کیا کرے، دل کہیں بھی نہیں ٹک پایا، ہمیشہ بھٹکا بھٹکا سا رہتا ہے۔

ان سب کے باوجود جب کوئی سادگی میں پوچھ بیٹھتا ہے، ’’مس لتیکا، چھٹیوں میں اپنے گھر نہیں جا رہیں؟ ‘‘تب وہ کیا کہے؟

ڈنگ ڈانگ ڈنگ۔۔ ۔ اسپیشل سروس کے لئے اسکول چیپل کے گھنٹے بجنے لگے تھے۔ لتیکا نے اپنا سر کھڑکی کے اندر کر لیا۔ اس نے جھٹ پٹ ساڑی اتاری اور پیٹی کوٹ میں ہی کندھے پر تولیہ ڈالے غسل خانے میں گھس گئی۔ لیفٹ رائٹ۔ لیفٹ۔۔ ۔ لیفٹ۔۔ ۔

کنٹونمنٹ جانے والی پکی سڑک پر چار چار کی قطاروں میں کماؤ رجمنٹ کے سپاہیوں کی ایک ٹکڑی مارچ کر رہی تھی۔ فوجی بوٹوں کی بھاری کھردری آوازیں، اسکول چیپل کی دیواروں سے ٹکرا کر اندر ’’پریئر ہال‘‘ میں گونج رہی تھیں۔

’’بلیسڈ آر دی میک۔۔ ۔‘‘ فادر ایلمنڈ ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کھنکھارتی آواز میں ’’سرمن آف دی ماؤنٹ‘‘ پڑھ رہے تھے۔ عیسی مسیح کی مورتی کے نیچے ’’کنیڈلابرَم’‘‘ کے دونوں جانب موم بتیاں جل رہی تھیں، جن کی روشنی آگے والی بنچ پر بیٹھی ہوئی لڑکیوں پر پڑ رہی تھی۔ پچھلی لائنوں کی بینچیں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں، جہاں لڑکیاں دعائیہ انداز میں بیٹھی ہوئی سر جھکائے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ مس ووڈ، اسکول سیزن کے کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہونے پراسٹوڈنٹس اور عملے کے ارکان کو مبارکباد پر مبنی تقریر دے چکی تھیں اور اب فادر کے پیچھے بیٹھی ہوئی کچھ بڑبڑا رہی تھیں، گویا دھیرے دھرے فادر کو ’’پرومٹ‘‘ کی کر رہی ہوں۔

’’آمین۔‘‘ فادر ایلمنڈ نے بائبل میز پر رکھ دی اور ’’دعائیہ کتاب‘‘ اٹھا لی۔ ہال کی خاموشی لمحے بھر کیلئے بکھر گئی۔ لڑکیوں نے کھڑے ہوتے ہوئے جان بوجھ کر بینچوں کو پیچھے دھکیلا۔ بینچیں فرش پر رگڑ کھا کر سیٹی بجاتی ہوئی پیچھے کھسک گئیں۔ ہال کے کونے سے ہنسی پھوٹ پڑی۔ مس ووڈ کا چہرہ تن گیا، پیشانی کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ پھر اچانک سکوت سا چھا گیا۔ ہال کے اس گھٹے ہوئے ملگجے ماحول میں فادر کی تیکھی پھٹی آواز سنائی دینے لگی۔ ’’جیسز سیڈ، آئی ایم دی لائٹ آف دی ورلڈ، ہاؤ ایور فالوز می وِل نیور واک اِن دی ڈارکنس، بٹ وِل ہیو دا لائٹ آف دی لائف۔‘‘

ڈاکٹر مکھر جی نے بوریت اور اکتاہٹ سے بھری جمائی لی، ’’کب یہ قصہ ختم ہو گا؟ ‘‘انہوں نے اتنی اونچی آواز میں لتیکا سے پوچھا کہ وہ کھسیا کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ اسپیشل سروس کے وقت ڈاکٹر مکر جی کے ہونٹوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی اور وہ آہستہ آہستہ اپنی مونچھوں کو کھینچتا رہتا۔ فادر ایلمنڈ کا گاؤن دیکھ کر لتیکا کے دل میں گدگدی سی دوڑ گئی۔ جب وہ چھوٹی تھی، تو اکثر یہ بات سوچ کر ششدر ہوا کرتی تھی کہ کیا واقعی پادری لوگ سفید گاؤن کے نیچے کچھ نہیں پہنتے، اگر غلطی سے وہ اوپر اٹھ جائے تو؟

لیفٹ۔۔ ۔ لیفٹ۔۔ ۔ لیفٹ۔۔ ۔ مارچ کرتے ہوئے فوجی بوٹ، چیپل سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ صرف ان کی باز گشت ہوا میں باقی رہ گئی تھی۔

’’پیج نمبر ۱۱۷‘‘فادر نے دعائیہ کتاب کھولتے ہوئے کہا۔ ہال میں ہر لڑکی نے میز پر رکھی ہوئی کتاب کھول لی۔ صفحات کے الٹنے کی کھڑکھڑاہٹ پھسلتی ہوئی، ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گئی۔ آگے کی بینچ سے اٹھ کر ہیوبرٹ پیانو کے سامنے اسٹول پر بیٹھ گیا۔ موسیقی کا استاد ہونے کی وجہ سے ہر سال اسپیشل سروس کے موقع پر اسے ’’کویر‘‘ کے ساتھ پیانو بجانا پڑتا تھا۔ ہیوبرٹ نے اپنے رو مال سے ناک صاف کی۔ اپنی گھبراہٹ کو چھپانے کیلئے ہیوبرٹ ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتا تھا۔ کنکھیوں سے ہال کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے کانپتے ہاتھوں سے کتاب کھولی۔ لِیڈ کائنڈلی لائٹ۔۔ ۔

پیانو کے سُر دبے، اور جھجکتے سے ملنے لگے۔ گھنے بالوں سے ڈھکیں ہیوبرٹ کی لمبی، پیلی انگلیاں کھلنے سمٹنے لگیں۔ ’’کویر‘‘ میں گانے والی لڑکیوں کے سُر ایک دوسرے سے گتھے اور کومل، نرم لہروں میں بندھ گئے۔ لتیکا کو لگا، اس کا جُوڑا ڈھیلا پڑ گیا ہے، شاید گردن کے نیچے جھول رہا ہے۔ مس ووڈ کی نظر بچا کر، لتیکا نے خاموشی سے بالوں میں لگے کلپوں کو کس کر کھینچ دیا۔

’’بڑا جھکی آدمی ہے۔۔ ۔ صبح میں نے ہیوبرٹ کو یہاں آنے سے منع کیا تھا، پھر بھی چلا آیا۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔

لتیکا کو کریم الدین کی بات یاد آ گئی۔ رات بھر ہیوبرٹ کو کھانسی کا دورہ پڑا تھا، کل جانے کیلئے کہہ رہے تھے۔ لتیکا نے سرٹیڑھا کر کے ہیوبرٹ کے چہرے کی ایک جھلک پانے کی ناکام کوشش کی۔ اتنے پیچھے سے کچھ بھی دیکھ پانا نا ممکن تھا، پیانو پر جھکا ہوا بس ہیوبرٹ کا سر دکھائی دیتا تھا۔

لِیڈ کائنڈلی لائٹ، سنگیت کے سُرمانو ایک اونچی پہاڑی پر چڑھ کر ہانپتی ہوئی سانسوں کو آسمان کے لامحدود خلاؤں میں بکھیرتے ہوئے نیچے اتر رہے ہیں۔ بارش کی نرم و ملائم دھوپ، چیپل کے لمبے چوکور شیشوں پر جھلملا رہی ہے، جس کی ایک باریک چمکیلی لکیر عیسی مسیح کی مورتی پر ترچھی ہو کر پڑ رہی ہے۔ موم بتیوں کا دھواں دھوپ میں نیلی سی لکیر کھینچتا ہوا، ہوا میں تیرنے لگا ہے۔ پیانو کے عارضی ’’پوز‘‘ میں لتیکا کو پتوں کی مانوس چرمراہٹ کہیں دور کسی انجانی سمت سے آتی ہوئی سنائی دے جاتی ہے۔ ایک لمحے کے لئے ایک وہم ہوا کہ چیپل کا پھیکا سا اندھیرا، اس چھوٹے سے ’’پریئر ہال‘‘ کے چاروں کونوں سے سمٹتا ہوا، اس کے آس پاس گھِر آیا ہے، مانو کوئی اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے یہاں تک لے آیا ہو اور اچانک اس کی آنکھیں کھول دی ہوں۔ اسے لگا کہ جیسے موم بتیوں کی ملگجی روشنی میں کچھ بھی ٹھوس، حقیقی نہ رہا ہو۔ چیپل کی چھت، دیواریں، ڈیسک پر رکھا ہوا ڈاکٹر کا ماہر سڈول ہاتھ اور پیانو کے سُر ماضی کی دھند کو منتشر کرتے ہوئے، خود ہی اس دھند کا حصہ بنتے جا رہے ہوں۔

ایک پاگل سی یاد، ایک بلبلے جیسا احساس۔ چیپل کے شیشوں کے باہر پہاڑی پر خشک ہوا، ہوا میں جھکی ہوئی ویپنگ ویلوز کی کانپتی ٹہنیاں، پیروں تلے چیڑ کے پتوں کی مدھم سی چرمراہٹ، کھڑ۔۔ کھڑ۔۔ وہیں پر گریش ایک ہاتھ میں ملٹری کا خاکی ہیٹ لئے کھڑا ہے۔ چوڑے، اٹھے ہوئے، مضبوط کندھے، اپنا سر وہاں ٹکا دو، تو جیسے سمٹ کر کھو جائے گا، چارلس بوئیر، یہ نام اس نے رکھا تھا، وہ جھینپ کر ہنسنے لگا۔ ’’تمہیں آرمی میں کس نے چن لیا، میجر بن گئے ہو، لیکن لڑکیوں سے بھی گئے گزرے ہو، ذرا ذرا سی بات پر چہرہ لال ہو جاتا ہے۔‘‘یہ سب وہ کہتی نہیں، صرف سوچتی بھر تھی، سوچا تھا کبھی کہوں گی، وہ ’’کبھی‘‘ کبھی نہیں آیا، بُروس کا سرخ پھول لائے ہو نہ جھوٹے، خاکی قمیض کی جس جیب پر بیج چپکے تھے، اس میں سے مسلا ہوابُروس کا پھول نکل آیا۔ چھی، بالکل مرجھا گیا، اب کھِلا کہاں ہے؟ اس کے بالوں میں گریش کا ہاتھ الجھ رہا ہے، پھول کہیں ٹک نہیں پاتا، پھر اسے کلپ کے نیچے پھنسا کر اس نے کہا۔ ’’ دیکھو۔‘‘

وہ مڑی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی، گریش نے اپنا ملٹری ہیٹ دھپ سے اس کے سر پر رکھ دیا۔ وہ مسحور سی ویسی ہی کھڑی رہی۔ اس کے سر پر گریش کا ہیٹ ہے۔ ماتھے پر چھوٹی سی بندیا ہے۔ بندیا پر اڑتے ہوئے بال ہے۔ گریش نے اس بندیا کو اپنے ہونٹوں سے چھو لیا ہے، اس نے اس کے ننگے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں سمیٹ لیا ہے۔ ’’ لتیکا۔‘‘ گریش نے چڑاتے ہوئے کہا۔ ’’مین اِیٹر آف کماؤں (اس کا یہ نام گریش نے اسے تنگ کرنے کے لئے رکھا تھا)‘‘۔۔ ۔ وہ ہنسنے لگی۔

’’ لتیکا سنو۔‘‘گریش کا لہجہ کیسا ہو گیا تھا۔

’’نا، میں کچھ نہیں سن رہی۔‘‘

’’ لتیکا۔۔ ۔ میں چند ماہ میں واپس لوٹ آؤں گا۔‘‘

’’ نا۔۔ ۔ میں کچھ بھی نہیں سن رہی۔‘‘لیکن وہ سن رہی ہے۔ وہ نہیں جو گریش کہہ رہا ہے، لیکن وہ جو نہیں کہا جا رہا ہے، جو اس کے بعد کبھی نہیں کہا گیا۔۔ ۔

لِیڈ کائنڈلی لائٹ۔۔ ۔

لڑکیوں کی آواز پیانو کے سُروں میں ڈوب رہی ہے، اٹھ رہی ہے۔ ہیوبرٹ نے سر موڑ کر لتیکا کوپل بھرکو دیکھا، آنکھیں موندے مستغرق پتھر کی مورت سی بنی، وہ غیر متحرک اور مگر مستحکم کھڑی تھی۔ کیا یہ انداز اس کیلئے ہے؟ کیا لتیکا نے ایسے لمحات میں اسے اپنا ساتھی بنایا ہے؟ ہیوبرٹ نے ایک گہری سانس لی اور اس سانس میں ڈھیر سی تھکاوٹ امڈ آئی۔

’’دیکھو۔۔ ۔ مس ووڈ کرسی پر بیٹھے بیٹھے سورہی ہے۔ ’’ڈاکٹر منہ ہی منہ میں پھسپھسایا۔ یہ ڈاکٹر کا پرانا مذاق تھا کہ مس ووڈ پریئر کے بہانے آنکھیں موندے ہوئے نیند کی جھپکیاں لیتی ہے۔

فادر ایلمنڈ نے کرسی پر پھیلے اپنے گاؤن کو سمیٹ لیا اور پریئر بک بند کر کے مس ووڈ کے کانوں میں کچھ کہا۔ پیانو کی آواز ترتیب سے مند پڑنے لگی، ہیوبرٹ کی انگلیاں ڈھیلی پڑنے لگی۔ سروس کے ختم ہونے سے پہلے مس ووڈ نے آرڈر پڑھ کر سنایا۔ بارش ہونے کے خدشہ سے آج کے پروگرام میں کچھ ضروری تبدیلیاں کرنی پڑی تھیں۔ پکنک کے لئے جھولا دیوی کے مندر جانا ممکن نہیں ہو سکے گا، اس لئے اسکول سے کچھ دور ’’میڈوز‘‘ میں ہی سب لڑکیاں ناشتے کے بعد جمع ہوں گی۔ تمام لڑکیوں کو دوپہر کا ’’لنچ‘‘ہوسٹل کچن سے ہی لے جانا ہو گا، صرف شام کی چائے ’’میڈوز‘‘ میں بنے گی۔

پہاڑوں کی بارش کا بھلا کیا بھروسہ؟ کچھ دیر پہلے دھواں دھار بادل گرج برس رہے تھے، سارا شہر پانی میں بھیگا ٹھٹھر رہا تھا۔ اب دھوپ میں نہاتا نیلا آسمان، دھند کی اوٹ سے باہر نکلتا ہوا پھیل رہا تھا۔ لتیکا نے چیپل سے باہر آتے ہوئے دیکھا۔ ویپنگ ویلوز کی بھیگی شاخوں سے دھوپ میں چمکتی ہوئی بارش کی بوندیں ٹپک رہی تھیں، لڑکیاں چیپل سے باہر نکل کر چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر کاریڈور میں جمع ہو گئی ہیں، ناشتے کیلئے ابھی پون گھنٹہ پڑا تھا اور ان میں سے اب کوئی بھی لڑکی ہوسٹل جانے کی خواہاں نہیں تھی۔ چھٹیاں ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں، لیکن شاید اسی لیے وہ ان چند بچے کچے لمحات میں، نظم و ضبط کے اندر رہتے ہوئے بھی، بھرپور فائدہ اٹھا لینا چاہتی تھیں۔

مس ووڈ لڑکیوں کا یہ غل غپاڑہ ناگوار گذرا، لیکن فادر ایلمنڈ کے سامنے وہ انہیں ڈانٹ پھٹکار نہیں سکی۔ اپنی جھنجھلاہٹ دبائے وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’کل سبھی چلی جائیں گی، سارا اسکول ویران ہو جائے گا۔‘‘

فادر ایلمنڈ کا لمبا، پر تاثر چہرہ، چیپل کی گھٹی ہوئی گرمائش سے سرخ ہو اٹھا تھا۔ کاریڈور کے جنگلے پر اپنی چھڑی لٹکا کر وہ بولے۔ ’’چھٹیوں میں پیچھے ہاسٹل میں کون رہے گا؟ ‘‘

’’ پچھلے دو تین سالوں سے مس لتیکا ہی رہ رہی ہیں۔‘‘

’’ اور ڈاکٹر مکر جی چھٹیوں میں کہیں نہیں جاتے؟ ‘‘

’’ ڈاکٹر تو سردی گرمی یہیں رہتے ہیں۔‘‘مس ووڈ نے حیرت سے فادر کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھ نہیں سکی کہ فادر نے ڈاکٹر کا سیاق و سباق کیوں چھیڑ دیا ہے۔

’’ڈاکٹر مکر جی چھٹیوں میں کہیں نہیں جاتے؟ ‘‘

’’ دو ماہ کی چھٹیوں میں برما جانا کافی مشکل ہے، فادر۔‘‘ مس ووڈ ہنسنے لگی۔

’’مس ووڈ، پتہ نہیں آپ کیا سوچتی ہیں۔ مجھے تو مس لتیکا کا ہوسٹل میں اکیلے رہنا کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

’’ لیکن فادر۔‘‘مس ووڈ نے کہا، ’’ یہ تو کانوینٹ اسکول کا اصول ہے کہ کوئی بھی ٹیچر چھٹیوں میں اپنے خرچے پر ہوسٹل میں رہ سکتا ہے۔‘‘

’’ میں اس وقت اسکول کے قوانین کی بات نہیں کر رہا۔ مس لتیکا، ڈاکٹر کے ساتھ یہاں اکیلی ہی رہ جائیں گی اور سچ پوچھئے مس ووڈ، ڈاکٹر کے بارے میں میری رائے کچھ بہت اچھی نہیں ہے۔‘‘

’’ فادر، آپ کیسی بات کر رہے ہیں؟ مس لتیکا بچی تھوڑی ہی ہے۔‘‘مس ووڈ کو ایسی امید نہیں تھی کہ فادر ایلمنڈ اپنے دل میں ایسی دقیانوسی سوچ کو جگہ دیں گے۔

فادر ایلمنڈ کچھ حیران سے ہو گئے، بات پلٹتے ہوئے بولے۔ ’’مس ووڈ، میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ آپ تو جانتی ہیں، مس لتیکا اور اس ملٹری افسر کو لے کر ایک اچھا خاصا اسکینڈل بن گیا تھا، اسکول کی بدنامی ہونے میں کیا دیر لگتی ہے۔‘‘

’’ وہ بے چارہ تو اب نہیں رہا۔ میں اسے جانتی تھی فادر۔ ایشور اس کی روح کو سکون دے۔‘‘مس ووڈ نے آہستہ سے اپنی دونوں ہاتھوں سے کراس بنایا۔

فادر ایلمنڈ کو مس ووڈ کی نا فہمی پر اتنا زیادہ غضب ہوا کہ ان سے آگے اور کچھ نہیں بولا گیا۔ ڈاکٹر مکر جی سے ان کی کبھی نہیں پٹتی تھی، اس لئے مس ووڈ کی آنکھوں میں وہ ڈاکٹر کو نیچا دکھانا چاہتے تھے۔ لیکن مس ووڈ، لتیکا کا رونا لے بیٹھی۔ آگے بات بڑھانا بیکار تھا۔ انہوں نے چھڑی کو جنگلے سے اٹھایا اور اوپر صاف کھلے آسمان کو دیکھتے ہوئے بولے، ’’پروگرام آپ نے یوں ہی بدلا، مس ووڈ، اب کیا بارش ہو گی۔‘‘

ہیوبرٹ جب چیپل سے باہر نکلا، تو اس کی آنکھوں چندھیا سی گئیں۔ اسے لگا جیسے کسی نے اچانک ڈھیر سی چمکیلی ابلتی ہوئی روشنی، مٹھی میں بھر کر، اس کی آنکھوں میں جھونک دی ہو۔ پیانو کی موسیقی کے سُر، چھوئی موئی کے ریشوں کی مانند اب تک اس کے دماغ کی تھکی ماندی نسوں پر پھڑپھڑا رہے تھے۔ وہ کافی تھک گیا تھا۔ پیانو بجانے سے اس کے پھیپھڑوں پر ہمیشہ بھاری دباؤ پڑتا، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ موسیقی کے ایک نوٹ کو دوسرے نوٹ میں اتارنے کی کوشش میں، وہ ایک اندھیری کھائی کو پار کر رہا ہے۔

’’آج چیپل میں، میں نے جو محسوس کیا، وہ کتنا پراسرار، کتنا عجیب تھا۔‘‘ ہیوبرٹ نے سوچا۔ ’’مجھے لگا، پیانو کا ہر نوٹ، عتیق خاموشی کی اندھیری کھوہ سے نکل کر باہر پھیلی نیلی دھند کو کاٹتا، تراشتا ہوا، ایک بھُولا سا مفہوم کھینچ لاتا ہے۔ گرتا ہوا ہر ’’پوز‘‘ ایک چھوٹی سی موت ہے، گویا گھنے سایہ دار درختوں کے کانپتے سایوں میں کوئی پگڈنڈی گم ہو گئی ہو، ایک چھوٹی سی موت، جو آنے والے سروں کو، اپنی بچی کھچی گونجوں کی سانسیں وقف کر جاتی ہے، جو مر جاتی ہے، لیکن مٹ نہیں سکتی، مٹتی نہیں اس لئے مر کر بھی زندہ ہے، اوردوسرے سُروں میں جذب ہو جاتی ہے۔‘‘

’’ڈاکٹر، کیا موت ایسے ہی آتی ہے؟ ، اگر میں ڈاکٹر سے پوچھوں تو وہ ہنس کر ٹال دے گا۔ مجھے لگتا ہے، وہ پچھلے کچھ دنوں سے کوئی بات چھپا رہا ہے، اس کی ہنسی میں جو ہمدردی کا تاثر ہوتا ہے، وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ آج اس نے مجھے اسپیشل سروس میں آنے سے روکا تھا۔ وجہ پوچھنے پر وہ چپ رہا تھا۔ کون سی ایسی بات ہے، جسے مجھ سے کہنے میں ڈاکٹر کتراتا ہے۔ شاید میں نک چڑھا ہوتا جا رہا ہوں۔ کوئی اور بات نہیں ہے۔‘‘

ہیوبرٹ نے دیکھا، لڑکیوں کی قطاریں، اسکول سے ہوسٹل جانے والی سڑک پر نیچے اترتی جا رہی ہیں۔ اجلی دھوپ میں ان کے رنگ برنگے ربن، ہلکی آسمانی رنگ کی فراکیں اور سفید پیٹیاں چمک رہی ہیں۔ سینئر کیمبرج کی کچھ لڑکیوں نے چیپل کی واٹیکا کے گلاب کے پھولوں کو توڑ کر اپنے بالوں میں لگا لیا ہے، کنٹونمنٹ کے تین چار سپاہی، لڑکیوں کو دیکھتے ہوئے فحش مذاق کرتے ہوئے ہنس رہے ہیں اور کبھی کبھی کسی لڑکی کی طرف ذرا جھک کر سیٹی بجانے لگتے ہیں۔

’’ہیلو ایم ہیوبرٹ۔‘‘ ہیوبرٹ نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ لتیکا ایک موٹا سا رجسٹر بغل میں دبائے کھڑی تھی۔

’’آپ ابھی یہیں ہیں؟ ‘‘ ہیوبرٹ کی نظر لتیکا پر ٹکی رہی۔ وہ کریم کلر کی پوری آستینوں والی اونی جیکٹ پہنے ہوئی تھی۔ کماؤنی لڑکیوں کی طرح لتیکا کا چہرہ گول تھا، دھوپ کی شدت سے پکا گندمی رنگ کہیں کہیں سے ہلکا سا گلابی ہو گیا تھا، گویا بہت دھونے پر بھی گلال کے کچھ دھبے ادھر ادھر بکھرے رہ گئے ہوں۔

’’ان لڑکیوں کے نام نوٹ کرنے تھے، جو کل جا رہی ہیں، سو پیچھے رکنا پڑا۔ آپ بھی تو کل جا رہے ہیں ایم ہیوبرٹ؟ ‘‘

’’ ابھی تک تو یہی ارادہ ہے۔ یہاں رک کر بھی کیا کروں گا۔ آپ اسکول کی طرف جا رہی ہیں؟ ‘‘

’’چلئے۔‘‘

پکی سڑک پر لڑکیوں کی بھیڑ جمع تھی، اس لئے وہ دونوں پولو گراؤنڈ کا چکر کاٹتے ہوئے پگڈنڈی سے نیچے اترنے لگے۔ ہوا تیز ہو چلی تھی۔ چیڑ کے پتے ہر جھونکے کے ساتھ ٹوٹ ٹوٹ کر پگڈنڈی پر ڈھیر لگاتے جا رہے تھے۔ ہیوبرٹ راستہ بنانے کیلئے اپنی چھڑی سے انہیں ہٹا کر دونوں جانب بکھیر دیتا تھا۔ لتیکا پیچھے کھڑی ہوئی دیکھتی رہتی تھی۔ الموڑا کی جانب سے آتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بادل، ریشمی رومالوں کی مانند اڑتے ہوئے، پہلے سورج کے منہ پر لپٹتے، پھر ہوا میں بہہ نکلتے تھے۔ اس کھیل میں دھوپ کبھی مند، پھیکی سی پڑ جاتی تھی، تو کبھی اپنا اجلا آنچل کھول کر پورے شہر کو خود میں سمیٹ لیتی تھی۔

لتیکا ذرا آگے نکل گئی۔ ہیوبرٹ کی سانس چڑھ گئی تھی اور وہ آہستہ آہستہ ہانپتا ہوا پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ جب وہ پولو گراؤنڈ کے پویلین کو چھوڑ کر سمیٹری کے دائیں جانب مڑے، تو لتیکا، ہیوبرٹ کا انتظار کرنے کیلئے کھڑی ہو گئی۔ اسے یاد آیا، چھٹیوں کے دنوں میں جب کبھی کمرے میں اکیلے بیٹھے بیٹھے اس کا دل اوب جاتا تھا، تو وہ اکثر ٹہلتے ہوئے سمیٹری تک چلی جاتی تھی۔ اس سے ملحقہ پہاڑی پر چڑھ کر وہ برف میں ڈھکے دیودار کے درختوں کو دیکھا کرتی تھی۔ جن کی جھکی ہوئی شاخوں سے روئی کے گولوں سی برف نیچے گرا کرتی تھی، نیچے مارکیٹ جانے والی سڑک پر بچے سلیج پر پھسلا کرتے تھے۔ وہ کھڑی کھڑی برف میں چھپی ہوئی اس سڑک کا اندازہ لگایا کرتی تھی، جو فادر ایلمنڈ کے گھر سے گزرتے ہوئی ملٹری ہسپتال اور پوسٹ آفس سے ہو کر چرچ کی سیڑھیوں تک جا کر گم ہو جاتی تھی۔ جو تفریح ایک ناقابل تفہیم پہیلی کو سلجھانے میں ہوتی ہے، وہی لتیکا کو برف میں کھوئے رستوں کو کھوج نکالنے میں ہوتی تھی۔

’’آپ بہت تیز چلتی ہیں، مس لتیکا۔‘‘ تھکاوٹ سے ہیوبرٹ کا چہرہ کملا گیا تھا۔ پیشانی پر پسینے کی بوندیں چھلک آئی تھیں۔

’’کل رات آپ کی طبیعت کیا کچھ خراب ہو گئی تھی؟ ‘‘

’’ آپ نے کیسے جانا؟ کیا میں بیمار دکھ رہا ہوں؟ ‘‘ ہیوبرٹ کے لہجے میں ہلکی سی جھلاہٹ کا تاثر تھا۔ ’’سب لوگ میری صحت کو لے کر کیوں بات شروع کرتے ہیں۔‘‘ اس نے سوچا۔

’’نہیں، مجھے تو پتہ بھی نہیں چلتا، وہ تو صبح کریم الدین نے باتوں ہی باتوں میں ذکر چھیڑ دیا تھا۔‘‘ لتیکا کچھ خجل سی ہو گئی۔

’’کوئی خاص بات نہیں، وہی پرانا درد شروع ہو گیا تھا، اب بالکل ٹھیک ہے۔‘‘اپنے بیان کی تصدیق کیلئے ہیوبرٹ چھاتی سیدھی کر کے تیز قدم بڑھانے لگا۔

’’ڈاکٹر مکر جی کو دکھلایا تھا؟ ‘‘

’’ وہ صبح آئے تھے۔ ان کی بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ ہمیشہ دو باتیں ایک دوسرے سے متضاد کہتے ہیں۔ کہتے تھے کہ اس بار مجھے چھ سات مہینوں کی چھٹی لے کر آرام کرنا چاہیے، لیکن اگر میں ٹھیک ہوں، تو بھلا اس کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘

ہیوبرٹ کے لہجے میں درد کے سائے لتیکا سے چھپے نہ رہ سکے۔ بات کو ٹالتے ہوئے اس نے کہا۔ ’’آپ تو ناحق فکر کرتے ہیں، ایم ہیوبرٹ۔ آج کل موسم بدل رہا ہے، اچھے بھلے آدمی تک بیمار ہو جاتے ہیں۔‘‘ ہیوبرٹ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔ اس نے لتیکا کو غور سے دیکھا۔ وہ اپنے دل کا شک مٹانے کیلئے پر یقین ہو جانا چاہتا تھا کہ کہیں لتیکا اسے صرف دلاسہ دینے کیلئے ہی تو جھوٹ نہیں بول رہی۔

’’یہی تو میں سوچ رہا تھا، مس لتیکا۔ ڈاکٹر کا مشورہ سن کر میں ڈر ہی گیا۔ بھلا چھ ماہ کی چھٹی لے کر میں اکیلا کیا کروں گا۔ اسکول میں تو بچوں کے ساتھ دل لگا رہتا ہے۔ سچ پوچھو تو دہلی میں یہ دو مہینوں کی چھٹیاں کاٹنا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔‘‘

’’ایم ہیوبرٹ، کل آپ دہلی جا رہے ہیں؟ ‘‘ لتیکا چلتے چلتے اچانک ٹھٹک گئی۔ سامنے پولو گراؤنڈ پھیلا تھا، جس کی دوسری طرف ملٹری کے ٹرک کنٹونمنٹ کی طرف جا رہے تھے۔ ہیوبرٹ کو لگا، جیسے لتیکا کی آنکھیں ادھ کھلی رہ گئی ہیں، گویا پلکوں پر ایک بھولابسرا ساسپنا سرک آیا ہے۔

’’ایم ہیوبرٹ۔۔ ۔ آپ دہلی جا رہے ہیں۔‘‘اس بار لتیکا نے سوال نہیں دوہرایا۔ اس کے لہجے میں صرف ایک بڑی دوری کا تاثر اتر آیا۔ ’’بہت عرصہ پہلے میں بھی دہلی گئی تھی، ایم ہیوبرٹ۔ تب میں بہت چھوٹی تھی، نہ جانے کتنے برس گزر گئے۔ ہماری خالہ کی شادی وہیں ہوئی تھی۔ بہت سی چیزیں دیکھی تھیں، لیکن اب تو سب کچھ دھندلا سا پڑ گیا ہے۔ اتنا یاد ہے کہ ہم قطب مینار پر چڑھے تھے۔ سب سے اونچی منزل سے ہم نے نیچے جھانکا تھا، نہ جانے کیسا لگا تھا۔ نیچے چلتے ہوئے آدمی چابی بھرے ہوئے کھلونوں سے لگتے تھے۔ ہم نے اوپر سے ان پر مونگ پھلیاں پھینکی تھیں، لیکن ہم بہت مایوس ہوئے تھے، کیونکہ ان میں سے کسی نے ہماری طرف نہیں دیکھا۔ شاید ماں نے مجھے ڈانٹا تھا اور میں بس نیچے جھانکتے ہوئے ڈر گئی تھی۔ سنا ہے، اب تو دہلی اتنا بدل گیا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔‘‘

وہ دونوں پھرسے چلنے لگے۔ ہوا کی رفتار دھیمی پڑنے لگی۔ اڑتے ہوئے بادل اب سستانے سے لگے تھے، ان کے سائے نندا دیوی اور پنچولی کی پہاڑیوں پر پڑ رہے تھے۔ اسکول کے پاس پہنچتے پہنچتے چیڑ کے درخت پیچھے چھوٹ گئے، کہیں کہیں خوبانی کے درختوں کے آس پاس بروس کے سرخ پھول دھوپ میں چمک جاتے تھے۔ اسکول تک آنے میں انہوں نے پولو گراؤنڈ کا لمبا چکر لگا لیا تھا۔

’’مس لتیکا، آپ کہیں چھٹیوں میں جاتی کیوں نہیں، سردیوں میں تو یہاں سب کچھ ویران ہو جاتا ہو گا؟ ‘‘

’’اب مجھے یہاں اچھا لگتا ہے۔‘‘ لتیکا نے کہا، ’’پہلے سال تنہائی کچھ کھلی تھی، اب عادی ہو چکی ہوں۔ کرسمس سے ایک رات پہلے کلب میں ڈانس ہوتا ہے، لاٹری ڈالی جاتی ہے اور رات کو دیر تک ناچ گانا ہوتا رہتا ہے۔ نئے سال کے دن کماؤ رجمنٹ کی جانب سے پریڈ گراؤنڈ میں کارنیوال کیا جاتا ہے، برف پر اسکیٹنگ ہوتی ہے، رنگ برنگے غباروں کے نیچے فوجی بینڈ بجتا ہے، فوجی افسر فینسی کپڑوں میں حصہ لیتے ہیں، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، ایم ہیوبرٹ۔ پھر کچھ دنوں بعد ونٹر اسپورٹس کیلئے انگریز سیاح آتے ہیں۔ ہر سال میں ان سے متعارف ہوتی ہوں، واپس لوٹتے ہوئے وہ ہمیشہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگلے سال بھی آئیں گے، پر میں جانتی ہوں کہ وہ نہیں آئیں گے، وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ نہیں آئیں گے، پھر بھی ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر۔۔ ۔ پھر کچھ دنوں بعد پہاڑوں پر برف پگھلنے لگتی ہے، چھٹیاں ختم ہونے لگتی ہیں، آپ سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے واپس لوٹ آتے ہیں اور ایم ہیوبرٹ پتہ بھی نہیں چلتا کہ چھٹیاں کب شروع ہوئی تھیں، کب ختم ہو گئیں۔‘‘

لتیکا نے دیکھا کہ ہیوبرٹ اس کی طرف خوف بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ وہ سٹپٹا کر خاموش ہو گئی۔ اسے لگا، گویا وہ اتنی دیر سے پاگلوں سی، بے دھڑک، بے دریغ باتیں کر رہی ہے۔ ’’مجھے معاف کرنا ایم ہیوبرٹ، کبھی کبھی میں بچوں کی طرح باتوں میں بہک جاتی ہوں۔‘‘

’’ مس لتیکا۔۔ ۔‘‘ ہیوبرٹ نے آہستہ سے کہا۔ وہ چلتے چلتے رک گیا تھا۔

لتیکا، ہیوبرٹ کی بھاری آواز سے چونک سی گئی۔ ’’کیا بات ہے ایم ہیوبرٹ؟ ‘‘

’’ وہ خط، اس کیلئے میں شرمندہ ہوں۔ اسے آپ واپس لوٹا دیں، سمجھ لیں کہ میں نے اسے کبھی نہیں لکھا تھا۔‘‘

لتیکا کچھ سمجھ نہ سکی، گم صم سی کھڑی ہوئی ہیوبرٹ کے زرد دھندلے چہرے کو دیکھتی رہی۔ ہیوبرٹ نے آہستہ سے لتیکا کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’کل ڈاکٹر نے مجھے سب کچھ بتا دیا۔ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو۔۔ ۔ تو۔۔ ۔۔‘‘ ہیوبرٹ ہکلانے لگا۔

’’ایم ہیوبرٹ۔۔ ۔‘‘مگر لتیکا سے آگے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ اس کا چہرہ سفید پڑ گ      یا تھا۔

دونوں چپ چاپ کچھ دیر تک اسکول کے گیٹ کے باہر کھڑے رہے۔ میڈوز۔۔ پگڈنڈیوں، پتوں، چھایاؤں سے گھرا چھوٹا سا جزیرہ، مانو کوئی گھونسلا دوہری وادیوں کے درمیان آ دبا ہو۔ اندرگھستے ہی پکنک کے، آگ سے جھلسے ہوئے کالے پتھر، ادھ جلی لکڑیاں، بیٹھنے کیلئے بچھائے گئے پرانے اخباروں کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے ہوئے دکھائی دے جاتے ہیں۔ اکثر سیاح پکنک کیلئے یہاں آتے ہیں۔ میڈوز کو درمیان میں کاٹتا ہوا ٹیڑھا میڑھابرساتی نالہ بہتا ہے، جو دور سے دھوپ میں چمکتا ہوا سفید ربن سا دکھائی دیتا ہے۔

یہیں پر لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا ٹوٹا سا پل ہے، جس پر لڑکیاں ہچکولے کھاتے ہوئے چل رہی ہیں۔

’’ڈاکٹر مکرجی، آپ تو سارا جنگل جلا دیں گے۔‘‘ مس ووڈ نے اپنی اونچی ایڑی کے سینڈل سے جلتی ہوئی دیا سلائی کو دبا ڈالا، جو ڈاکٹر نے سگار سلگا کر چیڑ کے پتوں کے ڈھیر پر پھینک دی تھی۔ وہ نالے سے کچھ دور ہٹ کر چیڑ کے دو درختوں کے گتھے ہوئے سائے میں بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے ایک چھوٹا سا راستہ نیچے پہاڑی گاؤں کی طرف جاتا تھا، جہاں پہاڑ کی گود میں شکر پاروں کے کھیت ایک دوسرے کے نیچے بچھے ہوئے تھے۔ دوپہر کے سناٹے میں بھیڑ بکریوں کی گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کا شور ہوا میں بہتا ہوا سنائی دے جاتا تھا۔ گھاس پر لیٹے لیٹے ڈاکٹر سگار پیتے رہے۔ ’’جنگل کی آگ کبھی دیکھی ہے، مس ووڈ۔۔ ۔ ایک بھرپور نشے کی طرح دھیرے دھیرے پھیلتی جاتی ہے۔‘‘

’’آپ نے کبھی دیکھی ہے ڈاکٹر؟ ‘‘مس ووڈ نے پوچھا، ’’ مجھے تو بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’بہت سال پہلے شہروں کو جلتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘ڈاکٹر لیٹے ہوئے آسمان کی طرف تک رہے تھے۔ ’’ایک ایک مکان، تاش کے پتوں کی طرح گرتا جاتا ہے۔ بدقسمتی، ایسے موقع دیکھنے میں بہت کم آتے ہیں۔‘‘

’’آپ نے کہاں دیکھا، ڈاکٹر؟ ‘‘

’’جنگ کے دنوں میں اپنے شہر رنگون کو جلتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘مس ووڈ کی روح کو ٹھیس لگی، لیکن پھر بھی ان کی بے چینی شانت نہیں ہوئی۔

’’آپ کا گھر، کیا وہ بھی جل گیا تھا؟ ‘‘

ڈاکٹر کچھ دیر تک خاموش لیٹا رہا۔

’’ہم اسے خالی چھوڑ کر چلے آئے تھے، معلوم نہیں بعد میں کیا ہوا۔‘‘اپنی ذاتی زندگی کے تعلق سے کچھ بھی کہنے میں ڈاکٹر کو مشکل محسوس ہوتی ہے۔

’’ڈاکٹر، کیا آپ کبھی واپس برما جانے کی بات نہیں سوچتے؟ ‘‘ڈاکٹر نے انگڑائی لی اور کروٹ بدل کر اوندھے منہ لیٹ گئے۔ ان کی آنکھیں مند گئیں اور پیشانی پر بالوں کی لٹیں جھول آئیں۔

’’سوچنے سے کیا ہوتا ہے مس ووڈ۔۔ ۔ جب برما میں تھا، تو کیا کبھی سوچا تھا کہ یہاں آ کر عمر کاٹنی ہو گی؟ ‘‘

’’لیکن ڈاکٹر، کچھ بھی کہہ لو، اپنے ملک کا سکھ کہیں اور نہیں ملتا۔ یہاں آپ چاہے جتنے سال رہ لو، خود کو ہمیشہ اجنبی ہی پاؤ گے۔‘‘

ڈاکٹر نے سگار کے دھوئیں کو آہستہ آہستہ ہوا میں چھوڑ دیا۔ ’’در اصل اجنبی تو میں وہاں بھی سمجھا جاؤں گا، مس ووڈ۔ اتنے سالوں بعد مجھے کون پہچانے گا۔ اس عمر میں نئے سرے سے تعلقات استوار کرنا کافی سر درد کا کام ہے، کم از کم میرے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘

’’لیکن ڈاکٹر، آپ کب تک اس پہاڑی قصبے میں پڑے رہیں گے، اسی ملک میں رہنا ہے تو کسی بڑے شہر میں پریکٹس شروع کیجیے۔‘‘

’’پریکٹس بڑھانے کے لئے کہاں کہاں بھٹکتا پھروں گا، مس ووڈ۔ جہاں رہو، وہیں مریض مل جاتے ہیں۔ یہاں آیا تھا کچھ دنوں کیلئے، پھر مدت ہو گئی اور ٹکا رہا۔ جب کبھی جی گھبرائے گا، کہیں چلا جاؤں گا۔ جڑیں کہیں نہیں جمتی، تو پیچھے بھی کچھ نہیں چھوٹ جاتا۔ مجھے اپنے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے مس ووڈ، میں خوش ہوں۔‘‘

مس ووڈ نے ڈاکٹر کی بات پر خاص توجہ نہیں دی۔ دل میں وہ ہمیشہ ڈاکٹر کوسست، لا پرواہ اور سنکی سمجھتی رہی ہے، لیکن ڈاکٹر کے کردار پر انہیں پورا یقین ہے، نہ جانے کیوں، شاید ڈاکٹر نے جانے انجانے میں اس کا کوئی ثبوت دیا ہو، یہ انہیں یاد نہیں پڑتا۔

مس ووڈ نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتی تھی کہ اگر ڈاکٹر اتنا سست اور لا پرواہ نہ ہوتا، تو اپنی قابلیت کے بل پر کافی چمک سکتا تھا۔ اس لیے انہیں ڈاکٹر پر غصہ بھی آتا تھا اور دکھ بھی ہوتا تھا۔

مس ووڈ نے اپنے بیگ سے اون کا گولا اور سلائیاں نکالیں، پھر اس کے نیچے سے اخبار میں لپٹا ہوا چوڑا سا کافی باکس اٹھایا، جس میں انڈوں کی سینڈوچ اور ہیمبرگر بھرے ہوئے تھے۔ تھرماس سے پیالوں میں کافی انڈیلتے ہوئے مس ووڈ نے کہا۔ ’’ڈاکٹر، کافی ٹھنڈی ہو رہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر لیٹے لیٹے بڑبڑایا۔ مس ووڈ نے نیچے جھک کر دیکھا، وہ کہنی پر سر ٹکائے سو رہا تھا۔ اوپر کا ہونٹ ذرا سا پھیل کر مڑ گیا تھا، گویا کسی سے مذاق کرنے سے پہلے مسکرا رہا ہو۔

اسکی انگلیوں میں دبا ہوا سگار نیچے جھکا ہوا لٹک رہا تھا۔

’’میری، میری، واٹ ڈو یو وانٹ، واٹ ڈو یو وانٹ؟ ‘‘دوسرے اسٹینڈرڈ میں پڑھنے والی میری نے اپنی چنچل، چست آنکھیں اوپر اٹھائیں، لڑکیوں کا دائرہ اسے گھیرے ہوئے کبھی پاس آتا تھا، کبھی دور ہوتا چلا جاتا تھا۔

’’آئی وانٹ۔۔ ۔ آئی وانٹ بلیو۔‘‘دونوں ہاتھ ہوا میں گھماتے ہوئے میری چلائی۔ دائرہ پانی کی طرح ٹوٹ گیا۔ سبھی لڑکیاں ایک دوسرے پر گرتی پڑتی کسی نیلی چیز کو چھونے کیلئے بھاگ دوڑ کرنے لگیں۔ دوپہر کے کھانے کے ختم ہو چکا تھا۔ لڑکیوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ میڈوز میں بکھر گئے تھے۔ اونچی کلاس کی کچھ لڑکیاں چائے کا پانی گرم کرنے کیلئے درختوں پر چڑھ کر خشک ٹہنیاں توڑ رہی تھیں۔

دوپہر کی اس گھڑی میں میڈوز سستاتا، اونگھتا سا معلوم پڑتا تھا۔ ہوا کا کوئی بھولا بھٹکا جھونکا آتا تو، چیڑ کے پتے کھڑکھڑا اٹھتے تھے۔ کبھی کوئی پرندہ اپنی کاہلی مٹانے جھاڑیوں سے اڑ کر نالے کے کنارے بیٹھ جاتا تھا، پانی میں سر ڈبوتا تھا، پھر اکتا کر ہوا میں دو چار مبہم سے چکر کاٹ کر دوبارہ جھاڑیوں میں دبک جاتا تھا۔

لیکن جنگل کی خاموشی شاید کبھی خاموش نہیں رہتی۔ گہری نیند میں ڈوبی خوابوں سی کچھ آوازیں سکوت کے ہلکے مہین پردے پر سلوٹیں بچھا جاتی ہیں، لہروں سی ہوا میں تیرتی ہیں، مانو کوئی دبے پاؤں جھانک کر خفیہ سا اشارہ کر جاتا ہے۔

’’دیکھو میں یہاں ہوں۔‘‘ لتیکا نے جُولی کے ’’باب ہیئر‘‘ کو سہلاتے ہوئے کہا، ’’تمہیں کل رات بلایا تھا۔‘‘

’’میڈم، میں گئی تھی، آپ اپنے کمرے میں نہیں تھیں۔‘‘ لتیکا کو یاد آیا کہ رات وہ ڈاکٹر کے کمرے کے ٹیرس پر دیر تک بیٹھی رہی تھی اور اندر ہیوبرٹ، پیانو پر شوپاں کا نوکٹرن بجا رہا تھا۔

’’جولی، تم سے کچھ پوچھنا تھا۔‘‘اسے لگا، وہ جولی کی آنکھوں سے خود کو بچا رہی ہے۔

جولی نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس کی بھوری آنکھوں سے تجسس جھانک رہا تھا۔

’’تم آفیسرز میس میں کسی کو جانتی ہو؟ ‘‘جولی نے غیر یقینی سے سر ہلایا۔ لتیکا کچھ دیر تک جولی کو ایک ٹک گھورتی رہی۔

’’جولی، مجھے یقین ہے، تم جھوٹ نہیں بولو گی۔‘‘کچھ لمحے پہلے جولی کی آنکھوں میں جوتجسس تھا، وہ خوف میں تبدیل ہونے لگا۔ لتیکا نے اپنی جیکٹ کی جیب سے ایک نیلا لفافہ نکال کر جولی کی گود میں پھینک دیا۔

’’یہ کس کی چٹھی ہے؟ ‘‘

جولی نے لفافہ لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا، لیکن پھر ایک لمحے کے لئے اس کا ہاتھ کانپ کر ٹھٹک گیا۔ لفافے پر اس کا نام اور اس کے ہوسٹل کا پتہ لکھا ہوا تھا۔

’’تھینک یو میڈم، میرے بھائی کا خط ہے، وہ جھانسی میں رہتے ہیں۔‘‘جولی نے گھبراہٹ میں لفافے کو اپنے اسکرٹ کی تہوں میں چھپا لیا۔ ’’جولی، ذرا مجھے لفافہ دکھاؤ۔‘‘ لتیکا کا لہجہ تیکھا، چڑچڑا سا ہو گیا۔

جولی نے بے کسی بھرے انداز سے لتیکا کو خط دے دیا۔ ’’تمہارے بھائی جھانسی میں رہتے ہیں؟ ‘‘جولی اس بار کچھ نہیں بولی۔ اس کی مضطرب اکھڑی سی آنکھیں لتیکا کو دیکھتی رہیں۔

’’یہ کیا ہے؟ ‘‘

جولی کا چہرہ سفید، پھک پڑ گیا۔ لفافے پر کماؤں رجمنٹل سینٹر کی مہر اس کی طرف گھور رہی تھی۔

’’کون ہے یہ؟ ‘‘ لتیکا نے پوچھا۔ اس نے پہلے بھی ہوسٹل میں اڑتی ہوئی افواہ سنی تھی کہ جولی کو کلب میں کسی ملٹری افسر کے ساتھ دیکھا گیا تھا، لیکن ایسی افواہیں اکثر اڑتی رہتی تھیں اور اس نے ان پر یقین نہیں کیا تھا۔

’’جولی، تم ابھی بہت چھوٹی ہو۔‘‘ جولی کے ہونٹ کانپے، اس کی آنکھوں میں معصومیت کا تاثر ابھر آیا۔

’’اچھا اب جاؤ، تم سے چھٹیوں کے بعد باتیں کروں گی۔‘‘جولی نے للچائی نظروں سے لفافے کو دیکھا، کچھ بولنے کو تیار ہوئی، پھر بغیر کچھ کہے خاموشی سے واپس لوٹ گئی۔

لتیکا دیر تک جولی کو دیکھتی رہی، جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔ کیا میں کسی کھوسٹ بڑھیا سے کم ہوں؟ اپنی محرومی کا بدلہ کیا میں دوسروں سے لے رہی ہوں؟

شاید، کون جانے۔۔ ۔ شاید جولی کی یہ پہلی ملاقات ہو، اس احساس سے، جسے کوئی بھی لڑکی بڑے شوق سے سنجوکر، سنبھال کر خود میں چھپائے رہتی ہے، ایک نرالا سکھ، جو دکھ رکھتا ہے، دکھ اور سکھ کو ڈبوتی ہوئی امنڈتے جذبے کی خماری، جو دونوں کو خود میں سمو لیتی ہے۔ ایک درد، جو خوشی سے حاصل ہوتا ہے اور دکھ دیتا ہے۔

یہیں اسی چیڑ کے نیچے اسے بھی یہی لگا تھا، جب گریش نے پوچھا تھا۔ ’’تم خاموش کیوں ہو؟ ‘‘

وہ آنکھیں موندے سوچ رہی تھی، سوچ کہاں رہی تھی، جی رہی تھی، اس لمحے کو جو ڈر اور تحیر کے بیچ پھنسا تھا، بہکا سا پاگل لمحہ۔ وہ ابھی پیچھے مڑے گی تو گریش کی ’’نروس‘‘ مسکراہٹ دکھائی دے گی، اُس دن سے آج دوپہر تک کا ماضی ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ٹوٹ جائے گا۔ وہی چیڑ کا درخت ہے، جس پر اس نے اپنے بالوں کے کلپ سے گریش کا نام لکھا تھا۔ درخت کی چھال اترتی نہیں تھی، کلپ ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا، تب گریش نے اپنے نام کے نیچے اس کا نام لکھا تھا۔ جب کبھی کوئی حرف بگڑ کر ٹیڑھا میڑھا سا ہو جاتا تھا تو وہ ہنستی تھی اور گریش کا کانپتا ہاتھ اور بھی کانپ جاتا تھا۔

لتیکا کو لگا کہ جو وہ یاد کرتی ہے، وہی بھولنا بھی چاہتی ہے، لیکن جب واقعی بھولنے لگتی ہے، تب اسے خوف آتا ہے کہ جیسے کوئی اس کی کسی چیز کو اس کے ہاتھ سے چھین کر لئے جا رہا ہے، ایسا کچھ جو ہمیشہ کیلئے کھو جائے گا۔ بچپن میں جب کبھی وہ اپنے کسی کھلونے کو کھو دیتی تھی، تو وہ گم صم سی ہو کر سوچا کرتی تھی، کہاں رکھ دیا میں نے۔ جب بہت دوڑ دھوپ کرنے پر کھلونا مل جاتا، تو وہ بہانہ کرتی کہ ابھی اسے تلاش کر ہی رہی ہے، کہ وہ اب ملا نہیں ہے۔ جس جگہ پر کھلونا رکھا ہوتا، جان بوجھ کر اسے چھوڑ کر گھر کے دوسرے کونے میں اسے تلاش کرنے کا عزم کرتی۔ تب کھوئی ہوئی چیز یاد رہتی، اس لئے بھولنے کا خوف نہیں رہتا تھا۔

آج وہ اُس بچپن کے کھیل کا بہانہ کیوں نہیں کر پاتی؟ ’’بہانہ‘‘ شاید کرتی ہے، اسے یاد کرنے کا بہانہ، جو بھولتا جا رہا ہے۔۔ ۔ دن، مہینے بِیت جاتے ہیں اور وہ الجھی رہتی ہے، انجانے میں گریش کا چہرہ دھندلا پڑتا جاتا ہے، یاد وہ کرتی ہے، لیکن جیسے کسی پرانی تصویر کے دھول بھرے شیشے کو صاف کر رہی ہو۔ اب ویسا درد نہیں ہوتا، صرف اس کو یاد کرتی ہے، جو پہلے کبھی ہوتا تھا، تب اسے خود پر شرمندگی ہوتی ہے۔ وہ پھر جان بوجھ کر اس زخم کو کریدتی ہے جو بھرتا جا رہا ہے، خود بخود، اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھرتا جا رہا ہے۔ دیودار پر نقش ادھ مٹے نام لتیکا کی جانب معصومیت بھرے انداز سے دیکھ رہے تھے۔ میڈوز کے گھنے سناٹے میں نالے پار سے کھیلتی ہوئی لڑکیوں کی آوازیں گونج جاتی تھیں۔۔ ۔

واٹ ڈو یو وانٹ؟ واٹ ڈو یو وانٹ؟

تتلیاں، جھینگر، جگنو۔۔ ۔ میڈوز پر اترتی ہوئی سانجھ کی چھایاؤں میں پتہ نہیں چلتا، کونسی آواز کس کی ہے؟ دوپہر کے وقت جن آوازوں کو الگ الگ شناخت کیا جا سکتا تھا، اب وہ ہم آہنگی کی دھارا میں گھل گئی تھیں۔ گھاس سے اپنے پیروں کو پونچھتا ہوا کوئی رینگ رہا ہے، جھاڑیوں کے جھرمٹ سے پروں کو پھڑپھڑاتا ہوا جھپٹ کر کوئی اوپر سے اڑ جاتا ہے، لیکن اوپر دیکھو تو کہیں کچھ بھی نہیں ہے۔ میڈوز کے جھرنے کا گنگناتا شور، جیسے اندھیری سرنگ میں جھپاٹے سے ٹرین گزر گئی ہو، اور دیر تک اس میں سیٹیوں اور پہیوں کی آواز گونج رہی ہو۔

پکنک کچھ دیر تک مزید چلتی، لیکن بادلوں کی تہیں ایک دوسرے پر چڑھتی جا رہی تھیں۔ پکنک کا سامان جمع کیا جانے لگا۔ میڈوز کے آس پاس بکھری ہوئی لڑکیاں مس ووڈ کے ارد گرد جمع ہونے لگیں۔ اپنے ساتھ وہ عجیب و غریب چیزیں بٹور کر لائی تھیں۔ کوئی کسی پرندے کے ٹوٹے پنکھ کو بالوں میں لگائے ہوئے تھی، کسی نے درخت کی شاخ کو چاقو سے چھیل کر چھوٹی سی چھڑی بنا لی تھی۔ اونچی کلاس کی کچھ لڑکیوں نے اپنے اپنے رومالوں میں نالے سے پکڑی ہوئی چھوٹی چھوٹی بالشت بھر کی مچھلیوں کو دبا رکھا تھا، جنہیں مس ووڈ سے چھپا کر وہ ایک دوسرے کو دکھا رہی تھیں۔

مس ووڈ لڑکیوں کی ٹولی کے ساتھ آگے نکل گئیں۔ میڈوز سے پکی سڑک تک تین چار فرلانگ چڑھائی تھی۔ لتیکا ہانپنے لگی۔ ڈاکٹر مکر جی سب سے پیچھے آ رہے تھے۔ لتیکا کے پاس پہنچ کر وہ ٹھٹک گئے۔ ڈاکٹر نے دونوں گھٹنوں کو زمین پر ٹکاتے ہوئے سر جھکا کر کہا۔ ’’میڈم، آپ اتنی پریشان کیوں نظر آ رہی ہیں؟ ‘‘اور ڈاکٹر کے ڈرامائی انداز کو دیکھ کر لتیکا کے ہونٹوں پر ایک تھکی سی، ڈھیلی ڈھیلی مسکراہٹ بکھر گئی۔ ’’پیاس کے مارے گلا سوکھ رہا ہے اور یہ چڑھائی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔‘‘

ڈاکٹر نے اپنے کندھے پر لٹکتے ہوئے تھرماس کو اتار کر لتیکا کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا۔ ’’تھوڑی سی کافی بچی ہے، شاید کچھ مدد کر سکے۔‘‘

’’ پکنک میں آپ کہاں رہ گئے ڈاکٹر، کہیں دکھائی نہیں دیئے؟ ‘‘

’’ دوپہر بھر سوتا رہا، مس ووڈ کے سنگ۔ میرا مطلب ہے، مس ووڈ پاس بیٹھی تھیں۔ مجھے لگتا ہے، مس ووڈ مجھ سے محبت کرتی ہیں۔‘‘کوئی بھی مذاق کرتے وقت ڈاکٹر اپنی مونچھوں کے کونوں کو چبانے لگتا ہے۔

’’کیا کہتی تھیں؟ ‘‘ لتیکا نے تھرماس سے کافی کو منہ میں انڈیل لیا۔

’’شاید کچھ کہتیں، لیکن بدقسمتی سے بیچ میں ہی مجھے نیند آ گئی۔ میری زندگی کے کچھ خوبصورت محبت بھرے سیاق و سباق، کم بخت اس کی نیند کی وجہ سے ادھورے رہ گئے ہیں۔‘‘

اور اس دوران جب دونوں باتیں کر رہے تھے، ان کے پیچھے میڈوز اور موٹر روڈ کے ساتھ چڑھتی ہوئی چیڑ اور بانج کے درختوں کی قطاریں شام کے گھرتے اندھیرے میں ڈوبنے لگیں، گویا دعا کرتے ہوئے انہوں نے خاموشی سے اپنے سر نیچے جھکا لیے ہوں۔ انہی درختوں کے اوپر بادلوں میں چیپل کا کراس کہیں الجھا پڑا تھا۔ اس کے نیچے پہاڑوں کی ڈھلانوں پر بچھے ہوئے کھیت بھاگتی ہوئی گلہریوں سے لگ رہے تھے جو مانو کسی کی ٹوہ میں ٹھٹک گئے ہوں۔

’’ڈاکٹر، ایم ہیوبرٹ پکنک پر نہیں آئے؟ ‘‘

ڈاکٹر مکر جی ٹارچ جلا کر لتیکا کے آگے آگے چل رہے تھے۔ ’’میں نے انہیں منع کر دیا تھا۔‘‘

’’کیوں؟ ‘‘

اندھیرے میں پاؤں کے نیچے دبتے ہوئے پتوں کی چرمراہٹ کے آگے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ ڈاکٹر مکر جی نے آہستہ سے کھانسا۔ ’’گزشتہ کچھ دنوں سے مجھے شبہ ہوتا جا رہا ہے کہ ہیوبرٹ کے سینے کا درد شاید معمولی درد نہیں ہے۔‘‘ڈاکٹر تھوڑا سا ہنسا، جیسے اسے اپنی یہ سنجیدگی بدمزہ لگ رہی ہو۔

ڈاکٹر نے انتظار، شاید لتیکا کچھ کہے گی۔ لیکن لتیکا خاموشی اس کے پیچھے چل رہی تھی۔ ’’یہ میرا محض شک ہے، شاید میں بالکل غلط ہوں، لیکن یہ بہتر ہو گا کہ وہ اپنے ایک پھیپھڑے کا ایکس رے کروا لیں، اس سے کم از کم کوئی وہم تو نہیں رہے گا۔‘‘

’’ آپ نے ایم ہیوبرٹ سے اس کے بارے میں کچھ کہا ہے؟ ‘‘

’’ ابھی تک کچھ نہیں کہا۔ ہیوبرٹ ذرا سی بات پر فکر مند ہو جاتا ہے، اس لیے کبھی جرات نہیں کر پاتا۔‘‘ڈاکٹر کو لگا، اس کے پیچھے آتے ہوئے لتیکا کے پیروں کی آواز اچانک بند ہو گئی ہے۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، لتیکا بیچ سڑک پر اندھیرے میں پرچھائیں بنی خاموش اداس کھڑی ہے۔

’’ڈاکٹر۔۔ ۔‘‘ لتیکا کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔

’’کیا بات ہے مس لتیکا، آپ رک کیوں گئی؟ ‘‘

’’ ڈاکٹر، کیا ایم ہیوبرٹ۔۔ ۔؟ ‘‘

ڈاکٹر نے اپنی ٹارچ کی مدھم روشنی لتیکا پر اٹھا دی۔ اس نے دیکھا لتیکا کا چہرہ ایک دم زرد پڑ گیا ہے اور وہ رہ رہ کر کانپ جاتی ہے۔ ’’مس لتیکا، کیا بات ہے، آپ تو بہت ڈری ہوئی سی معلوم پڑتی ہیں؟ ‘‘

’’ کچھ نہیں ڈاکٹر، مجھے۔۔ ۔ مجھے کچھ یاد آ گیا تھا۔‘‘وہ دونوں پھر چلنے لگے۔ کچھ دور جانے پر ان کی آنکھیں اوپر اٹھ گئیں۔ پرندوں کا ایک جھنڈ ملگجے آسمان میں تکون بناتا ہوا پہاڑوں کے پیچھے سے ان کی طرف آ رہا تھا۔ لتیکا اور ڈاکٹر سر اٹھا کر ان پرندوں کو دیکھتے رہے۔ لتیکا کو یاد آیا، ہر سال موسم سرما کی چھٹیوں سے پہلے یہ پرندے میدانوں کی جانب اڑتے ہیں، کچھ دنوں کیلئے بیچ کے اس پہاڑی اسٹیشن پر بسیرا کرتے ہیں، انتظار کرتے ہیں برفانی دنوں کا، جب وہ نیچے اجنبی، انجانے دیشوں میں اڑ جائیں گے۔

کیا وہ سب بھی انتظار کر رہے ہیں؟ وہ، ڈاکٹر مکرجی، ایم ہیوبرٹ، لیکن کہاں کیلئے، ہم کہاں جائیں گے؟

لیکن اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اس اندھیرے میں میڈوز کے آبشار کے شور اور دیودار کے پتوں کی سرسراہٹ کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ لتیکا ہڑبڑا کر چونک گئی۔ اپنی چھڑی پر جھکا ہوا ڈاکٹر آہستہ آہستہ سیٹی بجا رہا تھا۔

’’مس لتیکا، جلدی کریں، بارش شروع ہونے والی ہے۔‘‘ہوسٹل پہنچتے پہنچتے بجلی چمکنے لگی تھی۔ لیکن اس رات بارش دیر تک نہیں ہوئی۔ بادل برسنے بھی نہیں پاتے تھے کہ ہواؤں کے تھپیڑوں سے دھکیل دیئے جاتے تھے۔ دوسرے دن تڑکے ہی بس پکڑنی تھی، اس لئے ڈنر کے بعد لڑکیاں سونے کیلئے اپنے اپنے کمروں میں چلی گئی تھیں۔

جب لتیکا اپنے کمرے میں گئی، تو اس وقت کماؤ رجمنٹل سینٹر کا بگل بج رہا تھا۔ اس کے کمرے میں کریم الدین کوئی پہاڑی دھن گنگناتا ہوا لیمپ میں گیس پمپ کر رہا تھا۔ لتیکا انہی کپڑوں میں، کشن کو دوہرا کر کے لیٹ گئی۔ کریم الدین نے اچٹتی ہوئی نگاہ سے لتیکا کو دیکھا، پھر اپنے کام میں لگ گیا۔

’’پکنک کیسی رہی میم صاحب؟ ‘‘

’’ تم کیوں نہیں آئے، سبھی لڑکیاں تمہیں پوچھ رہی تھیں؟ ‘‘ لتیکا کو لگا، دن بھر کی تھکاوٹ آہستہ آہستہ اس کے جسم کی پسلیوں پر چپٹتی جا رہی ہے۔ یکایک اس کی آنکھیں نیند کے بوجھ سے جھپکنے لگیں۔

’’میں چلا آتا تو ہیوبرٹ صاحب کی تیمار داری کون کرتا۔ دن بھر ان کے بستر سے لگا ہوا بیٹھا رہا اور اب وہ غائب ہو گئے ہیں۔‘‘ کریم الدین نے کندھے پر لٹکتے ہوئے میلے کچیلے تولیے کو اتارا اور لیمپ کے شیشوں کی گرد پونچھنے لگا۔

لتیکا کی نیم وا آنکھیں کھل گئی۔ ’’کیا ہیوبرٹ صاحب اپنے کمرے میں نہیں ہیں؟ ‘‘

’’ خدا جانے، اس حالت میں کہاں بھٹک رہے ہیں۔ پانی گرم کرنے کچھ دیر کیلئے باہر گیا تھا، واپس آنے پر دیکھتا ہوں کہ کمرہ خالی پڑا ہے۔‘‘ کریم الدین بڑبڑاتا ہوا باہر چلا گیا۔ لتیکا نے لیٹے لیٹے چپلوں کو پیروں سے اتار دیا۔

ہیوبرٹ اتنی رات کو کہاں گئے؟ لیکن لتیکا کی آنکھیں پھر جھپک گئیں۔ دن بھر کی تھکاوٹ نے سب پریشانیوں، سب سوالوں پر کنجی لگا دی تھی، گویا دن بھر آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے اس نے اپنے کمرے میں ’’دیے‘‘ کو چھو لیا تھا۔ اب وہ محفوظ تھی، کمرے کی فصیل کے اندر اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ دن کے اجالے میں وہ گواہ تھی، مجرم تھی، ہر چیز کا اس سے تقاضہ تھا، اب اس تنہائی میں کوئی گلہ نہیں، ملامت نہیں، سبھی کھینچا تانیاں ختم ہو گئی ہیں، جو اپنا ہے، وہ بالکل اپنا سا ہو گیا ہے، جو اپنا نہیں ہے، اُس کا دکھ نہیں، اپنانے کی فرصت نہیں۔۔ ۔

لتیکا نے دیوار کی طرف چہرہ گھما لیا۔ لیمپ کے پھیکی روشنی میں ہوا میں کانپتے پردوں کے سائے ہل رہے تھے۔ بجلی کڑکنے سے کھڑکیوں کے شیشے چمک چمک جاتے تھے، دروازے چٹخنے لگتے تھے، جیسے کوئی باہر سے دھیرے دھیرے کھٹکھٹا رہا ہو۔ کاریڈور سے اپنے اپنے کمروں میں جاتی ہوئی لڑکیوں کی ہنسی، باتوں کے چند لفظ، پھر سب کچھ پرسکون ہو گیا، لیکن پھر بھی دیر تک کچی نیند میں وہ چراغ کا دھیما سا ’’سی سی‘‘ کا شور سنتی رہی۔ کب وہ شور بھی خاموشی کا حصہ بن کر خاموش ہو گیا، اسے پتہ نہ چلا۔ کچھ دیر بعد اس کو لگا، سیڑھیوں سے کچھ دبی آوازیں آ رہی ہیں، بیچ بیچ میں کوئی چیخ اٹھتا ہے اور پھر اچانک آوازیں مدھم پڑ جاتی ہیں۔

’’مس لتیکا، ذرا اپنا لیمپ لے آئیں۔‘‘کوریڈور کے زینے سے ڈاکٹر مکر جی کی آواز آئی تھی۔

کاریڈور میں اندھیرا تھا۔ وہ تین چار سیڑھیاں نیچے اتری، لیمپ نیچے کیا۔ سیڑھیاں کے جنگلے پر ہیوبرٹ نے اپنا سر رکھ دیا تھا، اس کا ایک بازو جنگلے سے نیچے لٹک رہا تھا اور دوسرا ڈاکٹر کے کندھے پر جھول رہا تھا، جسے ڈاکٹر نے اپنے ہاتھوں میں جکڑ رکھا تھا۔

’’مس لتیکا، لیمپ ذرا اور نیچے جھکا دیجئے۔۔ ہیوبرٹ۔۔ ہیوبرٹ۔۔ ۔‘‘ڈاکٹر نے ہیوبرٹ کو سہارا دے کر اوپر کھینچا۔ ہیوبرٹ نے اپنا چہرہ اوپر کیا۔ وہسکی کی تیز بو کا جھونکا لتیکا کے سارے جسم کو جھنجھوڑ گیا۔ ہیوبرٹ کی آنکھوں میں لال ڈورے کھنچ آئے تھے، قمیض کا کالر پلٹ گیا تھا اور ٹائی کی گرہ ڈھیلی ہو کر نیچے کھسک آئی تھی۔ لتیکا نے کانپتے ہاتھوں سے لیمپ سیڑھیوں پر رکھ دیا اور خود دیوار کے سہارے کھڑی ہو گئی۔ اس کا سر چکرانے لگا تھا۔

’’ان اے بیک لین آف دی سٹی، دیئر اِز اے گرل ہو لوز می۔۔ ۔‘‘ ہیوبرٹ ہچکیوں کے درمیان گنگنا اٹھتا تھا۔

’’ ہیوبرٹ پلیز۔۔ ۔ پلیز۔‘‘ڈاکٹر نے ہیوبرٹ کے لڑکھڑاتے جسم کو اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔

’’مس لتیکا، آپ لیمپ لے کر آگے چلئے۔‘‘ لتیکا نے لیمپ اٹھایا۔ دیوار پر ان تینوں کے سائے ڈگمگانے لگے۔

’’ان اے بیک لین آف دی سٹی، دئیر از اے گرل ہو لوز می۔‘‘ہیوبرٹ، ڈاکٹر مکر جی کے کندھے پر سر ٹکائے، اندھیری سیڑھیوں پر الٹے سیدھے پاؤں رکھتا چڑھ رہا تھا۔

’’ڈاکٹر، ہم کہاں ہیں؟ ‘‘ ہیوبرٹ دفعتاً اتنی زور سے چلایا کہ اس کی لڑکھڑاتی آواز سنسان اندھیرے میں کاریڈور کی چھت سے ٹکرا کر دیر تک ہوا میں گونجتی رہی۔

’’ ہیوبرٹ۔۔ ۔‘‘ ڈاکٹر کو ایکدم ہیوبرٹ پر غصہ آ گیا، پھر اپنے غصے پر ہی اسے جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوئی اور وہ ہیوبرٹ کی پشت تھپتھپانے لگا۔ ’’کوئی بات نہیں ہے ہیوبرٹ ڈئیر، تم صرف تھکے ہو۔‘‘ ہیوبرٹ نے اپنی آنکھیں ڈاکٹر پر گڑا دیں، ان میں ایک خوفزدہ بچے کی سی وحشت جھلک رہی تھی، گویا ڈاکٹر کے چہرے سے وہ کسی سوال کا جواب حاصل کر لینا چاہتا ہو۔ ہیوبرٹ کے کمرے میں پہنچ کر ڈاکٹر نے اسے بستر پر لٹا دیا۔ ہیوبرٹ نے بغیر کسی مزاحمت کے خاموشی سے جوتے موزے اتروا دیئے۔ جب ڈاکٹر، ہیوبرٹ کی ٹائی اتارنے لگا، تو ہیوبرٹ، اپنی کہنی کے سہارے اٹھا، کچھ دیر تک ڈاکٹر کو آنکھیں پھاڑتے ہوئے گھورتا رہا، پھر آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’ڈاکٹر، کیا میں مر جاؤں گا؟ ‘‘

’’ کیسی بات کرتے ہو ہیوبرٹ۔‘‘ڈاکٹر نے ہاتھ چھڑا کر آہستہ سے ہیوبرٹ کا سر تکیے پر ٹکا دیا۔ ’’گڈ نائٹ ہیوبرٹ۔‘‘

’’گڈ نائٹ ڈاکٹر۔‘‘ ہیوبرٹ نے کروٹ بدل لی۔

’’گڈ نائٹ ایم ہیوبرٹ۔۔ ۔‘‘ لتیکا کی آواز بھرا گئی۔ لیکن ہیوبرٹ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کروٹ بدلتے ہی اسے نیند آ گئی تھی۔

کاریڈور میں واپس آ کر ڈاکٹر مکر جی ریلنگ کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ ہوا کے تیز جھونکوں سے آسمان میں پھیلے بادلوں کی پرتیں جب کبھی اکہری ہو جاتیں، تب ان کے پیچھے سے چاندنی بجھتی ہوئی آگ کے دھواں کی مانند آس پاس کی پہاڑیوں پر پھیل جاتی تھی۔

’’آپ کو ایم ہیوبرٹ کہاں ملے؟ ‘‘ لتیکا کاریڈور کے دوسرے کونے میں ریلنگ پر جھکی ہوئی تھی۔

’’کلب کے بار میں ان کو دیکھا تھا، میں نہ پہنچتا تو نہ جانے کب تک بیٹھے رہتے۔‘‘ڈاکٹر مکر جی نے سگریٹ جلائی۔ انہیں ابھی ایک دو مریضوں کے گھر جانا تھا۔ کچھ دیر تک انہیں ٹال دینے کے ارادے سے وہ کاریڈور میں کھڑے رہے۔ نیچے اپنے کوارٹر میں بیٹھا ہوا کریم الدین ماؤتھ آرگن پر کوئی پرانی فلمی دھن بجا رہا تھا۔

’’آج دن بھر بادل چھائے رہے، لیکن کھل کر بارش نہیں ہوئی۔‘‘

’’کرسمس تک شاید موسم ایسا ہی رہے گا۔‘‘کچھ دیر تک دونوں خاموش کھڑے رہے۔ اسکول کے باہر پھیلے لان سے جھینگروں کا مسلسل آتا شور چاروں جانب پھیلی اداسی کو اور بھی زیادہ گھمبیر بنا رہا تھا۔ کبھی کبھی اوپر موٹر روڈ پر کسی کتے کی بلبلاہٹ سنائی پڑ جاتی تھی۔

’’ڈاکٹر۔۔ ۔ کل رات آپ نے ہیوبرٹ سے کچھ کہا تھا میرے بارے میں؟ ‘‘

’’ وہی جو سب لوگ جانتے ہیں اور ہیوبرٹ، جسے جاننا چاہیے تھا، نہیں جانتا تھا۔‘‘ڈاکٹر نے لتیکا کی طرف دیکھا، وہ مذبذب سی ریلنگ پر جھکی ہوئی تھی۔

’’ویسے ہم سب میں اپنی اپنی ضد ہوتی ہے، کوئی چھوڑ دیتا ہے، کوئی آخر تک اس سے چپکا رہتا ہے۔‘‘ڈاکٹر مکر جی اندھیرے میں مسکرائے۔ ان کی مسکراہٹ میں خشک سی اکتاہٹ کا اظہار بھرا ہوا تھا۔ ’’کبھی کبھی میں سوچتا ہوں مس لتیکا، کسی چیز کو نہ جاننا اگر غلط ہے تو جان بوجھ کر نہ بھول پانا، ہمیشہ جونک کی طرح اس سے چپٹے رہنا، یہ بھی غلط ہے۔ برما سے آتے ہوئے میری بیوی کی موت ہوئی تھی، مجھے اپنی زندگی بیکار سی لگی تھی۔ آج اس بات کو عرصہ گزر گیا اور جیسا کہ آپ دیکھتی ہیں، میں جی رہا ہوں، امید ہے کہ کافی عرصہ مزید جیوں گا۔ زندگی بہت دلچسپ لگتی ہے اور اگر عمر کی مجبوری نہ ہوتی تو شاید میں دوسری شادی کرنے میں بھی نہ ہچکچاتا۔ اس کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا تھا، آج بھی کرتا ہوں۔‘‘

’’ لیکن ڈاکٹر۔۔ ۔ ’’ لتیکا کا گلا رندھ گیا۔

’’کیا مس لتیکا۔۔ ۔‘‘

’’ڈاکٹر، سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کیا چیز ہے جو ہمیں چلائے جاتی ہے، ہم رکتے ہیں تو بھی اپنے ریلے میں وہ ہمیں گھسیٹ لے جاتی ہے۔‘‘ لتیکا کو لگا کہ وہ جو کہنا چاہ رہی ہے، کہہ نہیں پا رہی، جیسے اندھیرے میں کچھ کھو گیا ہے، جو مل نہیں پا رہا، شاید کبھی نہیں مل پائے گا۔

’’یہ تو آپ کو فادر ایلمنڈ ہی بتا سکیں گے مس لتیکا۔‘‘ ڈاکٹر کی کھوکھلی ہنسی میں ان کا پرانا سنک ابھر آیا۔ ’’اچھا چلتا ہوں، مس لتیکا، مجھے کافی دیر ہو گئی ہے، ’’ ڈاکٹر نے دیاسلائی جلا کر گھڑی کو دیکھا۔ ’’گڈ نائٹ، مس لتیکا۔‘‘

’’ گڈ نائٹ، ڈاکٹر۔‘‘

ڈاکٹر کے جانے کے بعد لتیکا کچھ دیر تک اندھیرے میں ریلنگ سے لگی کھڑی رہی۔ ہوا چلنے سے کاریڈور میں جمع ہوا کہرا اڑ جاتا تھا۔ شام کو سامان باندھتے ہوئے لڑکیوں نے اپنے اپنے کمروں کے سامنے جو پرانی کاپیوں، اخبارات اور ردی کے ڈھیر لگا دیئے تھے، وہ سب کے سب بھی اندھیرے کاریڈور میں ہوا کے جھونکوں سے ادھر ادھر بکھرنے لگے تھے۔

لتیکا نے لیمپ اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ کاریڈور میں چلتے ہوئے اس نے دیکھا، جولی کے کمرے میں روشنی کی ایک پتلی لکیر دروازے کے باہر کھنچ آئی ہے۔ لتیکا کو کچھ یاد آیا۔ وہ کچھ لمحوں تک سانس روکے جولی کے کمرے کے باہر کھڑی رہی۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔ لتیکا نے دبے ہاتھوں سے ہلکا سا دھکا دیا، دروازہ کھل گیا۔ جولی لیمپ بجھانا بھول گئی تھی۔ لتیکا آہستہ آہستہ دبے پاؤں چلتی جولی کے پلنگ کے پاس چلی آئی۔ جولی کا سوتا ہوا چہرہ لیمپ کے پھیکی روشنی میں زرد سا دکھائی دے رہا تھا۔ لتیکا نے اپنی جیب سے وہی نیلا لفافہ نکالا اور اسے آہستہ سے جولی کے تکیے کے نیچے دبا کر رکھ دیا۔

***

 

 

 

رسپَرِیا

 

پھنیشور ناتھ رینو

 

پھنیشور ناتھ رینو۔ پیدائش: ۴ مارچ ۱۹۲۱ء، اوراہی ہنگنا، ضلع اراریہ (بہار)۔ میدان: کہانی، ناول، رپورتاژ، یادداشتیں۔ ناول: میلا آنچل، پرتی پریکتھا، جلوس، دِیرگھتپا، کتنے چورا ہے، پلٹو بابو روڈ۔ کہانیوں کے مجموعے:، ٹھمری، اچھے آدمی، وغیرہ۔ یادداشتیں: رنجل دھنجل، شرُت اشرت پوروے، آتم پرچیہ، ون تلسی کی گند، وقت کی شلا پر۔ رپور تاژ: نیپالی کرنتی کتھا، وغیرہ۔ انتقال: ۱۱ اپریل ۱۹۷۷ء۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

 

 

دھول میں پڑے قیمتی پتھر کو دیکھ کر جوہری کی آنکھوں میں ایک نئی چمک جھلملا گئی۔ اپروپ روپ۔

چروا ہے موہنا چھونڑا کو دیکھتے ہی پنچکوڑی مِردنگیا کی منہ سے نکل پڑا۔ اپروپ روپ۔

کھیتوں، میدانوں، باغوں باغیچوں اور گائے بیلوں کے بیچ چروا ہے موہنا کی سندرتا۔

مِردنگیا کی کمزور، بے نور آنکھیں روشن ہو گئیں۔

موہنا نے مسکرا کر پوچھا، ’’تمہاری انگلی تو رسپریا بجاتے ٹیڑھی ہو گئی ہے، ہے نہ؟ ‘‘

’’اے۔‘‘بوڑھے مِردنگیا نے چونکتے ہوئے کہا، ’’ رسپریا؟ ۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔ نہیں۔ تم نے کیسے۔۔ ۔ تم نے کہاں سنا بے۔۔ ۔؟ ‘‘

’’بیٹا ’’ کہتے کہتے وہ رک گیا۔ پرمان پور میں اس بار ایک برہمن لڑکے کو اس نے لاڈسے ’’بیٹا‘‘ کہہ دیا تھا۔ سارے گاؤں کے لڑکوں نے اسے گھیر کر مار پیٹ کی تیاری شروع کر دی تھی، ’’بہردار ہو کر برہمن کے بچے کو بیٹا کہے گا؟ مارو سالے بڈھے کو گھیر کر۔۔ ۔۔ مردنگ پھوڑ دو۔‘‘

مِردنگیا نے ہنس کر کہا تھا، ’’اچھا، اس بار معاف کر دو سرکار۔ اب سے آپ لوگوں کو باپ ہی کہوں گا۔‘‘

بچے خوش ہو گئے تھے۔ ایک دو ڈھائی سال کے ننگے لڑکے کی ٹھوڑی پکڑ کر وہ بولا، ’’کیوں، ٹھیک ہے نہ باپو جی؟ ‘‘

بچے ٹھٹھا مار کر ہنس پڑے تھے۔

لیکن، اس واقعے کے بعد پھر کبھی اس نے کسی بچے کو بیٹا کہنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ موہنا کو دیکھ کر بار بار بیٹا کہنے کی خواہش ہوتی ہے۔

’’رسپریا کی بات کس نے بتائی تم سے؟ ۔۔ ۔ بولو بیٹا۔‘‘

دس بارہ سال کا موہنا بھی جانتا ہے کہ پنچکوڑی اَدھ پگلا ہے۔ کون اس سے نجات پائے۔ اس نے دور میدان میں چرتے ہوئے اپنے بیلوں کی طرف دیکھا۔

مِردنگیا، کمل پور کے بابو لوگوں کے یہاں جا رہا تھا۔ کمل پور کے نندو بابو کے گھرانے میں بھی مِردنگیا کو دو چار میٹھی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں۔ ایک دو وقت کا بھوجن تو بندھا ہوا ہی ہے، کبھی کبھی رس چرچا کتھا بھی یہیں آ کر سنتا ہے وہ۔ دو سال کے بعد وہ اس علاقے میں آیا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ آج صبح شوبھا مشر کے چھوٹے لڑکے نے تو صاف صاف کہہ دیا۔

’’تم جی رہے ہو یا مذاق کر رہے ہو مِردنگیا؟ ‘‘

ہاں، یہ جینا بھی کوئی جینا ہے۔ نری بے شرمی ہے، اور مذاق کی بھی حد ہوتی ہے۔ پندرہ سال سے وہ گلے میں مردنگ لٹکا کر گاؤں گاؤں گھومتا ہے، بھیک مانگتا ہے۔ دائیں ہاتھ کی ٹیڑھی انگلی مردنگ پر بیٹھتی ہی نہیں ہے، مردنگ کیا بجائے گا۔ اب تو، ’’دھاتِنگ دھاتِنگی‘‘ بڑی مشکل سے بجاتا ہے۔ بے تحاشہ گانجے، بھنگ کے استعمال سے گلے کی آواز مضروب ہو گئی ہے۔ مگر مردنگ بجاتے وقت ودیاپتی کی پداولی گانے کی وہ کوشش ضرور کرے گا۔ پھٹی دھُنکنی کی جیسی آواز نکلتی ہے، ٹھیک ویسی ہی آواز۔ سوں یہ، سوں یہ۔

پندرہ بیس سال پہلے تک ودیاپتی نام کی تھوڑی پوچھ ہو جاتی تھی۔ شادی بیاہ، یاگی اپنین، منڈن چھیدن وغیرہ جیسے شبھ کاموں میں ودپتیا منڈلی کا بلاوا ہوتا تھا۔ پنچکوڑی مِردنگیا کی منڈلی نے سہرسہ اور پورنیہ ضلع میں کافی نام کمایا ہے۔ پنچکوڑی مِردنگیا کو کون نہیں جانتا۔ سب جانتے ہیں، وہ ادھ پگلا ہے۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے کہتے ہیں۔ ’’ارے، پنچکوڑی مِردنگیا کا بھی ایک زمانہ تھا۔‘‘

اِس زمانے میں موہنا جیسا لڑکا بھی ہے، سندر، سلونا اور سریلا۔ رسپریا گانے کی درخواست کرتا ہے، ’’ایک رسپریا گاؤ نہ مِردنگیا۔‘‘

’’رسپریا سنو گے؟ ۔ اچھا سناؤں گا۔ پہلے بتاؤ، کس نے۔۔ ۔‘‘

’’ہی اے اے ہی اے اے۔۔ ۔ موہنا، بیل بھاگے۔‘‘ایک چرواہا چلایا، ’’رے موہنا، پیٹھ کی چمڑی ادھیڑے گا کرمو۔‘‘

’’ارے باپ۔‘‘ موہنا بھاگا۔

کل ہی کرمو نے اسے بری طرح پیٹا ہے۔ دونوں بیلوں کو ہرے ہرے پاٹ کے پودوں کی مہک کھینچ لے جاتی ہے بار بار۔ کھٹ مٹھال پاٹ۔

پنچکوڑی نے پکار کر کہا، ’’میں یہیں درخت کے سائے میں بیٹھا ہوں۔ تم بیل ہانک کر لوٹو۔ رسپریا نہیں سنو گے؟ ‘‘

موہنا جا رہا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔

ودیاپت ناچ والے رسپریا گاتے تھے۔ سہرسہ کے جوگیندر جھا نے ایک بار ودیاپتی کے بارہ پدوں کی ایک کتاب چھپوائی تھی۔ میلے میں خوب بکری ہوئی تھی رسپریا پوتھی کی۔ وداپت ناچ والوں نے گا گا کر جنپریا بنا دیا تھا رسپریا کو۔

کھیت کے ’’آل ’’ پر جھرجامُن کے سائے میں پنچکوڑی مِردنگیا بیٹھا ہوا ہے، موہنا کی راہ دیکھ رہا ہے۔ جیٹھ کی چڑھتی دوپہریا میں کام کرنے والے بھی اب گیت نہیں گاتے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد کوئل بھی کوکنا بھول جائے گی کیا؟ ایسی دوپہریا میں خاموشی سے کیسے کام کیا جاتا ہے۔ پانچ سال پہلے تک لوگوں کے دل میں انبساط باقی تھا۔ پہلی بارش میں بھیگی ہوئی دھرتی کے ہرے ہرے پودوں سے ایک خاص قسم کی خوشبو نکلتی ہے۔ تپتی دوپہریا میں موم کی طرح گل اٹھتی تھی۔ رس کی ڈالی۔ وہ گانے لگتے تھے۔ بِرہا، چانچر، لگنی۔ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے گانے والے گیت بھی، وقت کا خیال کر کے گائے جاتے ہیں۔ رم جھم بارش میں بارہ ماسا، چلچلاتی دھوپ میں بِرہا، چانچر اور لگنی،

’’ ہاں رے، ہل جوتے ہلوایا بھیا رے۔۔ ۔‘‘

کھرپی رے چلاوے۔۔ ۔ مجدور۔

ایہ پنتھے، دھنی مورا ہے رُُسلی۔

کھیتوں میں کام کرتے ہلواہوں اور مزدوروں سے کوئی بِرہی پوچھ رہا ہے، محتاط لہجے میں، اس کی روٹھی ہوئی دھنی کو اس راہ سے جاتے دیکھا ہے کسی نے؟ ۔۔ ۔

اب تو دوپہریا یک رنگی کٹتی ہے، گویا کسی کے پاس ایک لفظ بھی نہیں رہ گیا ہے۔

آسمان میں چکر کاٹتے ہوئے چیل نے ٹِنکاری بھری۔ ٹ۔۔ ۔ ای۔۔ ۔ ٹِن۔ ہِی۔ ا۔

مِردنگیا نے گالی دی۔ ’’شیطان۔‘‘

اس کو چھوڑ کر موہنا دور بھاگ گیا ہے۔ وہ مشتاق ہو کر انتظار کر رہا ہے۔ جی کرتا ہے، دوڑ کر اس کے پاس چلا جائے۔ دور چرتے ہوئے مویشیوں کے جھنڈوں کی طرف بار بار وہ دیکھنے کی بیکار کوشش کرتا ہے۔ سب دھندلا۔

اس نے اپنی جھولی ٹٹول کر دیکھا۔ آم ہیں، مُوڑھی ہے۔ اسے بھوک لگی۔ پھر موہنا کے سوکھے منہ کی یاد آئی اور بھوک مٹ گئی۔

موہنا جیسے سندر، شریف لڑکوں کی تلاش میں ہی اس کی زندگی کے سب سے زیادہ دن گزرے ہیں۔ وداپت ناچ میں ناچنے والے ’’نٹوآ‘‘ کی تلاش کھیل نہیں۔ اعلی ذات کے گھر کا پتہ نہیں، پر چھوٹی ذات کے لوگوں کے یہاں موہنا جیسے سندر چہرہ، لوچدار لڑکے ہمیشہ پیدا نہیں ہوتے۔ یہ اوتار لیتے ہیں وقت وقت پر جدا جدا۔۔ ۔

میتھل برہمنوں، کائیستھوں اور راجپوتوں کے یہاں وداپت والوں کی بڑی عزت ہوتی تھی۔ اپنی بولی، متھلام میں نٹوآ کے منہ سے ’’جنم اودھی ہم روپ نِہارل‘‘سن کر وہ نہال ہو جاتے تھے۔ تو ہر منڈلی کا ’’مُول گین‘‘نٹوآ کی تلاش میں گاؤں گاؤں بھٹکتا پھرتا تھا۔ ایسا لڑکا، جسے سجا سنوار کر ناچ میں اتارتے ہی تماشبین میں سرگوشی کی ایک لہر پھیل جائے۔

’’ٹھیک براہمنی کی طرح لگتا ہے۔ ہے نہ؟ ‘‘

’’مدھو کانت ٹھا کر کی بیٹی کی طرح۔۔ ۔‘‘

’’نا۔ چھوٹی چمپاجیسی صورت ہے۔‘‘

پنچکوڑی گنی آدمی ہے۔ دوسری دوسری منڈلی میں مُول گین اور مِردنگیا کی اپنی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ پنچکوڑی مُول گین بھی تھا اور مِردنگیا بھی۔ گلے میں مردنگ لٹکا کر بجاتے ہوئے وہ گاتا تھا، ناچتا تھا۔ ایک ہفتے میں ہی نئے لڑکے بھانوری دے کر پنڈال میں اترنے کے قابل ناچ سیکھ لیتے تھے۔

اسے ناچ اور گانا سکھانے میں کبھی مشکل نہیں ہوئی، مردنگ کے خاص ’’بول‘‘ پر لڑکوں کے پاؤں خود ہی تھرکنے لگتے تھے۔ لڑکوں کے ضدی ماں باپ سے نمٹنا البتہ مشکل بیوپار ہوتا تھا۔ خالص میتھلی زبان میں اور بھی شہد میں لپیٹ کر وہ پھسلاتا۔۔ ۔

’’سن کنہیا بھی ناچتے تھے۔ ناچ تو ایک گُن ہے۔ ارے،  جا چک کہو یا دسدوآری۔ چوری ڈکیتی اور آوارہ گردی سے اچھا ہے، اپنا اپنا ’’گن‘‘ دکھا کر لوگوں کو رِجھا کر گزارا کرنا۔‘‘

ایک بار اسے لڑکے کی چوری بھی کرنی پڑی تھی۔ بہت پرانی بات ہے۔ اتنی مار لگی تھی کہ۔۔ ۔ بہت پرانی بات ہے۔

پرانی ہی سہی، بات تو ٹھیک ہے۔

’’رسپریا بجاتے وقت تمہاری انگلی ٹیڑھی ہوئی تھی۔ ٹھیک ہے نہ؟ ‘‘

موہنا نہ جانے کب لوٹ آیا۔

مِردنگیا کے چہرے پر چمک لوٹ آئی۔ وہ موہنا کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگا۔ آہ یہ گُن وان مر رہا ہے۔ دھیرے دھیرے، گھل گھل کر۔ وہ کھو رہا ہے۔ لال لال ہونٹوں پر بیڑی کی کاجل لگ گئی ہے۔ پیٹ میں تِلّی ہے ضرور۔۔ ۔۔

مِردنگیا حکیم بھی ہے۔ ایک جھنڈ برابر بچوں کا باپ آہستہ آہستہ ایک خاندانی طبیب کی قابلیت حاصل کر لیتا ہے۔ تہواروں کے باسی تباسی بھوجنوں کی مار کبھی کبھی بہت بری ہوتی۔ مِردنگیا اپنے ساتھ نمک سلیمانی، چانمار پاچن اور کونین کی گولی ہمیشہ رکھتا تھا۔ لڑکوں کو ہمیشہ گرم پانی کے ساتھ ہلدی کی بُکنی کھلاتا۔ پیپل، کالی مرچ، ادرک وغیرہ کو گھی میں بھون کر شہد کے ساتھ صبح شام چٹاتا۔۔ ۔۔ گرم پانی۔

پوٹلی سے موڑھی اور آم نکالتے ہوئے مِردنگیا بولا، ’’ ہاں، گرم پانی۔ تیری تِلّی بڑھ گئی ہے، گرم پانی پیو۔‘‘

’’یہ تم نے کیسے جان لیا؟ فاربس گنج کے ڈاگڈر بابو بھی کہہ رہے تھے، تِلّی بڑھ گئی ہے۔ دوا۔۔ ۔ ’’

آگے کہنے کی ضرورت نہیں۔ مِردنگیا جانتا ہے، موہنا جیسے لڑکوں کے پیٹ کی تِلّی، چتا پر ہی گلتی ہے۔ کیا ہو گا پوچھ کر، کہ دوا کیوں نہیں کرواتے۔

’’ماں، بھی کہتی ہے، ہلدی کی بُکنی کے ساتھ روز گرم پانی لو۔ تِلّی گل جائے گی۔‘‘

مِردنگیا نے مسکرا کر کہا، ’’بڑی سیانی ہے تمہاری ماں۔‘‘

کیلے کے سوکھے پتلے پر موڑھی اور آم رکھ کر اس نے بڑے پیار سے کہا، ’’آؤ، ایک مٹھی کھا لو۔‘‘

’’نہیں، مجھے بھوک نہیں۔‘‘

مگر موہنا کی آنکھوں سے رہ رہ کر کوئی جھانکتا تھا، موڑھی اور آم کو ایک ساتھ نگل جانا چاہتا تھا۔۔ ۔۔ بھوکا، بیمار، لاچار۔

’’آؤ، کھا لو بیٹا۔ رسپریا نہیں سنو گے؟ ‘‘

ماں کے سوا، آج تک کسی دوسرے شخص نے موہنا کو اس طرح محبت سے کبھی پروسے بھوجن پر نہیں بلایا۔ لیکن، دوسرے چروا ہے دیکھ لیں تو ماں سے کہہ دیں گے۔۔ ۔۔ بھیک کا اناج۔

’’نہیں، مجھے بھوک نہیں۔‘‘

مِردنگیا شرمندہ ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں پھر دھندلا جاتی ہیں۔ مِردنگیا نے موہنا جیسے درجنوں بچوں کی خدمت کی ہے۔ اپنے بچوں کو بھی شاید وہ اتنا پیار نہیں دے سکتا اور اپنا بچہ۔ ہوں۔۔ ۔۔ اپنا پرایا؟ اب تو سب اپنے، سب پرائے۔

’’ موہنا۔‘‘

’’کوئی دیکھ لے گا تو؟ ‘‘

’’تو کیا ہو گا؟ ‘‘

’’ماں سے کہہ دے گا۔ تم بھیک مانگتے ہو نہ؟ ‘‘

’’کون بھیک مانگتا ہے؟ ‘‘ مِردنگیا کی خود داری کو اس بھولے لڑکے نے بلا وجہ ٹھیس پہنچا دی۔ اس کے دل کی جھانپی میں سویا ہوا کنڈلی دار سانپ پھن پھیلا کر پھنکار اٹھا، ’’اے سالا۔ ماریں گے وہ طمانچہ کہ۔۔ ۔‘‘

’’اے۔ گالی کیوں دیتے ہو۔‘‘ موہنا نے ڈرتے ڈرتے مذمت کی۔

وہ اٹھ کھڑا ہوا، پاگلوں کا کیا اعتبار۔

آسمان میں اڑتی ہوئی چیل نے پھر ٹِنکاری بھری۔ ٹ۔۔ ۔ ای۔۔ ۔ ٹِن۔ ہِی۔ ا۔

’’ موہنا۔‘‘ مِردنگیا کی آواز گھمبیر ہو گئی۔

موہنا ذرا دور جا کر کھڑا ہو گیا۔

’’کس نے کہا تم سے کہ میں بھیک مانگتا ہوں؟ مردنگ بجا کر، پداولی گا کر، لوگوں کو رجھا کر پیٹ پالتا ہوں۔ تم ٹھیک کہتے ہو، بھیک کا ہی اناج ہے یہ۔ بھیک کا ہی پھل ہے یہ۔ میں نہیں دوں گا۔ تم بیٹھو، میں رسپریا سنا دوں۔‘‘

مِردنگیا کا چہرہ آہستہ آہستہ پرسکون ہو رہا ہے۔ آسمان میں اڑنے والی چیل اب درخت کی ڈالی پر آ بیٹھی ہے۔۔ ۔۔ ٹِن۔ ٹِن ٹِن ٹِک۔

موہنا ڈر گیا۔ ایک ڈگ، دو ڈگ۔۔ ۔ دے دوڑ۔ وہ بھاگا۔

ایک بیگھہ دور جا کر اس نے چلا کر کہا، ’’ڈائن نے بان مار کر تمہاری انگلی ٹیڑھی کر دی ہے۔ جھوٹ کیوں کہتے ہو کہ رسپریا بجاتے وقت۔۔ ۔‘‘

’’ایں۔ کون ہے یہ لڑکا؟ کون ہے یہ موہنا؟ رمپتیا بھی کہتی تھی، ڈائن نے بان مار دیا ہے۔‘‘

’’ موہنا۔‘‘

موہنا نے جاتے جاتے چلا کر کہا، ’’کریلا۔‘‘

اچھا، تو موہنا یہ بھی جانتا ہے کہ مِردنگیا ’’کریلا‘‘ کہنے سے چڑتا ہے، ’’کون ہے یہ موہنا؟ ‘‘

مِردنگیا دہشت زدہ ہو گیا۔ اس کے دل میں ایک نامعلوم سا خوف سما گیا۔ وہ تھر تھر کانپنے لگا۔ اس میں کمل پور کے بابوؤں کے یہاں جانے کا جوش بھی نہیں رہا۔۔ ۔۔ صبح شوبھا مشر کے لڑکے نے ٹھیک ہی کہا تھا۔

اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔

جاتے جاتے موہنا ڈنک مار گیا۔ اس کے زیادہ تر شاگردوں نے ایسا ہی سلوک کیا ہے اس کے ساتھ۔ ناچ سیکھ کر پھُر سے اڑ جانے کا بہانہ کھوجنے والے ایک ایک لڑکے کی باتیں اسے یاد ہیں۔

سونما نے تو گالی ہی دی تھی، ’’گرگری کہتا ہے، چوٹّا۔‘‘

رمپتیا آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولی تھی۔ ’’اے دِنکر۔ گواہ رہنا۔ مِردنگیا نے پھسلا کر میرا سروناش کیا ہے۔ میرے من میں کبھی چور نہیں تھا۔ اے سورج بھگوان۔ اس دانتوں والے کتے کا انگ انگ پھٹ کر۔۔ ۔‘‘

مِردنگیا نے اپنی ٹیڑھی انگلی کو ہلاتے ہوئے ایک طویل سانس لی۔ رمپتیا؟ جودھن گرو جی کی بیٹی رمپتیا۔ جس دن وہ پہلے پہل جودھن کی منڈلی میں شامل ہوا تھا، رمپتیا بارہویں میں پاؤں رکھ رہی تھی۔ بال ودھوا، رمپتیا پدوں کا مطلب سمجھنے لگی تھی۔ کام کرتے کرتے وہ گنگناتی، ’’نو انوراگنی رادھا، کچھو نانہ مانیہ وادھا۔‘‘

مِردنگیا، مول گینی سیکھنے گیا تھا اور گرو جی نے اسے مردنگ تھما دیا تھا۔ آٹھ سال تک تعلیم پانے کے بعد جب گورو جی نے خانہ بدوش پنچکوڑی سے رمپتیا کے چمونا کی بات چلائی تو مِردنگیا سب تال ماترا بھول گیا۔ جودھن گرو جی سے اس نے اپنی ذات پوشیدہ رکھی تھی۔ رمپتیا سے اس نے جھوٹا پریم کیا تھا۔ گرو جی کی منڈلی چھوڑ کر وہ راتوں رات بھاگ گیا۔ اس نے گاؤں آ کر اپنی منڈلی بنائی، لڑکوں کو سکھایا پڑھایا اور کمانے کھانے لگا۔ لیکن، وہ مول گین نہیں ہو سکا کبھی۔ مِردنگیا ہی رہا سبھی دن۔ جودھن گرو جی کی موت کے بعد، ایک بار گلاب باغ میلے میں رمپتیا سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ رمپتیا اسی سے ملنے آئی تھی۔ پنچکوڑی نے صاف جواب دے دیا تھا۔ ’’کیا جھوٹ فریب جوڑنے آئی ہے؟ کمل پور کے نندو بابو کے پاس کیوں نہیں جاتی، مجھے الو بنانے آئی ہے۔ نندو بابو کا گھوڑا بارہ بجے رات کو۔۔‘‘

چیخ اٹھی تھی رمپتیا۔‘‘ پانچو۔۔ ۔۔ چپ رہو۔‘‘

اسی رات رسپریا بجاتے وقت اس کی انگلی ٹیڑھی ہو گئی تھی۔ مردنگ پر جمنیکا دے کر وہ ابتدائی تال بجانے لگا۔ نٹوآ، ڈیڑھ ماترا بے تال ہو کر داخل ہوا، تو اس کا ما تھا ٹھنکا۔ ابتدائی ناچ کے بعد اس نے نٹوآ کو جھڑکی دی، ’’اے سالا۔ تھپڑوں سے گال لال کر دوں گا۔‘‘

اور رسپریا کی پہلی کڑی ہی ٹوٹ گئی۔ مِردنگیا نے تال کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی۔ مردنگ کی سوکھی چمڑی جل اٹھی، دائیں پورے پر لاواپھر سے پھوٹنے لگا اور نیچے آتے آتے اس کی انگلی ٹیڑھی ہو گئی۔ جھوٹی ٹیڑھی انگلی۔۔ ۔۔ ہمیشہ کیلئے پنچکوڑی کی منڈلی ٹوٹ گئی۔ آہستہ آہستہ علاقے سے ودیاپتی ناچ ہی اٹھ گیا۔ اب تو کوئی بھی ودیاپتی کا ذکر بھی نہیں کرتا ہے۔ دھوپ پانی سے پرے، پنچکوڑی کا بدن ٹھنڈی محفلوں میں ہی پلا تھا۔ بیکار زندگی میں مردنگ نے بڑا کام دیا۔ بیکاری کا اکلوتا سہارا۔۔ ۔ مردنگ۔

ایک زمانے سے وہ گلے میں مردنگ لٹکا کر بھیک مانگ رہا ہے۔ دھا تِنگ۔ دھا تِنگ۔

وہ ایک آم اٹھا کر چوسنے لگا۔، لیکن، لیکن،۔۔ ۔ لیکن۔۔ موہنا کو ڈائن کی بات کیسے معلوم ہوئی؟

انگلی ٹیڑھی ہونے کی خبر سن کر رمپتیا دوڑی آئی تھی، گھنٹوں انگلی کو پکڑ کر روتی رہی تھی، ’’ہے دِنکر، کس نے اتنی بڑی دشمنی کی؟ اس کا برا ہو۔۔ ۔۔ میری بات لوٹا دو بھگوان۔ غصے میں کہی ہوئی باتیں۔ نہیں، نہیں۔ پانچو، میں نے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ ضرور کسی ڈائن نے بان ماردیا ہے۔‘‘

مِردنگیا نے آنکھیں پونچھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھا۔ اس مردنگ کو کلیجے سے چپکا کر رمپتیا نے کتنی راتیں کاٹی ہیں۔ مردنگ کو اس نے اپنے سینے سے لگا لیا۔

درخت کی ڈالی پر بیٹھی ہوئی چیل نے اڑتے ہوئے جوڑے سے کہا۔ ٹِن۔ ٹِن ٹِن ٹِک۔۔

’’اے سالا۔‘‘اس نے چیل کو گالی دی۔ تمباکو چنیا کر منہ میں ڈال لی اور مردنگ کے پورے پر انگلیاں نچانے لگا۔ دھری ناگی، دھری ناگی، دھری ناگی دھِنتا۔

پورا جمنِکا وہ نہیں بجا سکا۔ بیچ میں ہی تال ٹوٹ گئی۔

ا۔ ک۔ ہی۔ اے۔ اے۔ اے، ہا۔ آآ۔ ہ۔ ہا۔

سامنے جھڑبیری کے جنگل کے اس پار کسی نے سریلی آواز میں، بڑے اہتمام کے ساتھ رسپریا کی پداولی اٹھائی۔

’’ن۔ و۔ ورند۔ ون۔ ن۔ و۔ ن۔ و۔ تُر۔ گ۔ ن،نن وکست پھول۔۔ ۔‘‘

مِردنگیا کے سارے جسم میں ایک لہر دوڑ گئی۔ اس کی انگلیاں آپ ہی آپ مردنگ کے پُورے پر تھرکنے لگیں۔ گائے بیلوں کے جھنڈ دوپہر کے اترتے سائے میں آ کر جمع ہونے لگے۔

کھیتوں میں کام کرنے والوں نے کہا، ’’پاگل ہے۔ جہاں جی چاہا، بیٹھ کر بجانے لگتا ہے۔‘‘

’’بہت دن کے بعد لوٹا ہے۔‘‘

’’ہم تو سمجھتے تھے کہ کہیں مر کھپ گیا۔‘‘

رسپریا کی سریلی راگنی تال پر آ کر کٹ گئی۔ مِردنگیا کا پاگل پن اچانک بڑھ گیا۔ وہ اٹھ کر دوڑا۔ جھڑبیری کی جھاڑیوں کے اُس پار کون ہے؟ کون ہے یہ شدھ رسپریا گانے والا؟ اس زمانے میں رسپریا کا عاشق۔۔ ۔؟ جھاڑی میں چھپ کر مِردنگیا نے دیکھا، موہنا مستغرق ہو کر دوسرے پد کی تیاری کر رہا ہے۔ گنگناہٹ بند کر کے اس نے گلے کو صاف کیا۔ موہنا کے گلے میں رادھا آ کر بیٹھ گئی ہے۔ کیا بندش ہے۔

’’نہ۔ وی۔ وہ نینک نی۔ ر۔

آہو۔ پلّی بہی تاہی دی۔ ر۔‘‘

موہنا بے سدھ ہو کر گا رہا تھا۔ مردنگ کی دھن پر وہ جھوم جھوم کر گا رہا تھا۔ مِردنگیا کی آنکھیں اسے ایک ٹک دیکھ رہی تھیں اور اس کی انگلیاں پھرکی کی طرح ناچنے کو مضطرب ہو رہی تھیں۔ چالیس سال کا آدھا پاگل زمانے کے بعد جذبات میں ناچنے لگا۔ رہ رہ کر وہ اپنی پھٹی آواز میں پدوں کی کڑی بولتا، پھو نی پھونیہ، سونی سونیہ۔

دھری ناگی دھِنتا۔

’’دُوہُو رس۔۔ ۔ م۔۔ ۔ یہتنو، گُنے نہیں اور۔

لا گل دُوہک بھنگ ہجور۔‘‘

موہنا کے آدھے کالے اور آدھے لال ہونٹوں پر نئی مسکراہٹ دوڑ گئی۔ پد ختم کرتے ہوئے وہ بولا، ’’اس ٹیڑھی انگلی پر بھی اتنی تیزی؟ ‘‘

موہنا ہانپنے لگا۔ اس کی چھاتی کی ہڈیاں۔

اف۔ مِردنگیا دھم سے زمین پر بیٹھ گیا۔ ’’کمال۔ کمال۔ کس سے سیکھے؟ کہاں سیکھی تم نے پداولی؟ کون ہے تمہارا گرو؟ ‘‘

موہنا نے ہنس کر جواب دیا، ’’سیکھوں گا کہاں؟ ماں تو روز گاتی ہے۔ پراتکی، مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے، لیکن ابھی تو اس کا وقت نہیں۔‘‘

’’ ہاں بیٹا۔ بے تالے کے ساتھ کبھی مت گانا بجانا۔ جو کچھ بھی ہے، سب چلا جائے گا۔ وقت کا بھی خیال رکھنا۔ لو، اب آم کھالو۔‘‘

موہنا بلا جھجھک آم لے کر چوسنے لگا۔

’’ایک اور لو۔‘‘

موہنا نے تین آم کھائے اور مِردنگیا کے خصوصی اصرار پر دو مٹھی موڑھی بھی پھانک گیا۔

’’اچھا، اب ایک بات بتاؤ گے موہنا۔ تمہارے ماں باپ کیا کرتے ہیں؟ ‘‘

’’باپ نہیں ہے، اکیلی ماں ہے۔ بابو لوگوں کے گھر کُٹائی پسائی کرتی ہے۔‘‘

’’اور تم نوکری کرتے ہو۔ کس کے یہاں؟ ‘‘

’’ کمل پور کے نندو بابو کے یہاں۔‘‘

’’نندو بابو کے یہاں؟ ‘‘

موہنا نے بتایا کہ اس کا گھر سہرسہ میں ہے۔ تیسرے سال سارا گاؤں کوسی میا ندی کے پیٹ میں چلا گیا۔ اس کی ماں اسے لے کر اپنے میکے آئی ہے۔۔ ۔ کمل پور۔

’’ کمل پور میں اپنی ماں کے ماموں رہتے ہیں؟ ‘‘

مِردنگیا کچھ دیر تک خاموشی سے سورج کی طرف دیکھتا رہا۔ نندو بابو، موہنا، موہنا کی ماں۔

’’ڈائن والی بات تمہاری ماں کہہ رہی تھی؟ ‘‘

’’ ہاں۔‘‘

’’اور ایک بار سام دیو جھا کے یہاں جنیو میں تم گردھر پٹّی منڈلی والوں کا مردنگ چھین لیا تھا۔۔ ۔۔ بے تالہ بجا رہا تھا۔ ٹھیک ہے نہ؟ ‘‘

مِردنگیا کی کھچڑی داڑھی گویا اچانک سفید ہو گئی۔ اس نے خود کو سنبھال کر پوچھا، ’’تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟ ‘‘

’’اجودھاداس۔‘‘

’’اجودھاداس؟ ‘‘

بوڑھا اجودھاداس، جس کے منہ میں نہ بول، نہ آنکھ میں نور۔ منڈلی میں گٹھری ڈھوتا تھا۔ بِنا پیسے کا نوکر بیچارہ، اجودھاداس۔

’’بڑی سیانی ہے تمہاری ماں۔‘‘ایک طویل سانس لے کر مِردنگیا نے اپنی جھولی سے ایک چھوٹا بٹوا نکلا۔ لال پیلے کپڑوں کے ٹکڑوں کو کھول کر کاغذ کی ایک پڑیا نکالی اس نے۔

موہنا نے پہچان لیا۔ ’’لوٹ؟ کیا ہے، لوٹ؟ ‘‘

’’ ہاں، نوٹ ہے۔‘‘

’’کتنے روپے والا ہے؟ پنچ ٹکیا ہے۔ یا۔ دس ٹکیا؟ ذرا چھونے دو گے؟ کہاں سے لائے؟ ‘‘ موہنا ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لیا، ’’سب دس ٹکیا ہیں؟ ‘‘

’’ ہاں، سب ملا کر چالیس روپے ہیں۔‘‘ مِردنگیا نے ایک بار ادھر ادھر نگاہیں دوڑائی، پھر سرگوشی میں بولا، ’’ موہنا بیٹا۔ فاربس گنج کے ڈاگڈر بابو کو دے کر اچھی دوا لکھا لینا۔ کھٹا مٹھا پرہیز۔ گرم پانی ضرور پینا۔‘‘

’’روپے مجھے کیوں دیتے ہو؟ ‘‘

’’جلدی رکھ لے، کوئی دیکھ لے گا۔‘‘

موہنا نے بھی ایک بار پھر چاروں جانب نظر دوڑائی۔ اس کے ہونٹوں کی کاجل اور گہری ہو گئی۔

مِردنگیا بولا، ’’بیڑی تمباکو بھی پیتے ہو؟ خبردار۔‘‘

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

موہنا نے روپے لے لئے۔

’’اچھی طرح گانٹھ باندھ لے۔ ماں سے کچھ مت بتانا۔‘‘

’’اور ہاں، یہ بھیک کا پیسہ نہیں۔ بیٹا، یہ میری کمائی کے پیسے ہیں۔ اپنی کمائی کے۔۔ ۔‘‘

مِردنگیا نے جانے کیلئے قدم بڑھایا۔

’’میری ماں کھیت میں گھاس کاٹ رہی ہے۔ چلو نہ۔‘‘ موہنا نے زور دیا۔

مِردنگیا رک گیا۔ کچھ سوچ کر بولا، ’’نہیں موہنا۔ تمہارے جیسا گُنوان بیٹا پا کر تمہاری ماں ’’مہارانی ’’ ہیں، میں مہا بھکاری گھر گھر مانگنے والا ہوں۔   جا چک، فقیر۔ دواسے جو پیسے بچیں، اس کا دودھ پینا۔‘‘

موہنا کی بڑی بڑی آنکھیں کمل پور کے نندو بابو کی آنکھوں جیسی ہیں۔۔ ۔

’’رے موہنا رے۔ بیل کہاں ہیں رے؟ ‘‘

’’تمہاری ماں پکار رہی ہے شاید۔‘‘

’’ ہاں۔ تم نے کیسے جان لیا؟ ‘‘

’’رے موہنا رے۔‘‘

ایک گائے نے تال میں تال میں ملا کر اپنے بچھڑے کو بلایا۔

گائے بیلوں کے گھر لوٹنے کا وقت ہو گیا۔ موہنا جانتا ہے، ماں بیل ہانک کر لا رہی ہو گی۔ جھوٹ موٹ اسے بلا رہی ہے۔ وہ چپ رہا۔

’’جاؤ۔‘‘ مِردنگیا نے کہا، ’’ماں بلا رہی ہے۔ جاؤ۔۔ ۔ اب سے میں پداولی نہیں، رسپریا نہیں، نرگُن گاؤں گا۔ دیکھو، میری انگلی شایدسیدھی ہو رہی ہے۔ شدھ رسپریا کون گانا سکتا ہے آج کل؟ ۔۔ ۔‘‘

’’ارے، چلُو من چُلو من سسراریجوے ہو راما،

کی آہو راما،

نَہیرا میںا گیا لگایب ری رے ’’

کھیتوں کی پگڈنڈی، جھڑبیری کے جنگل کے درمیان سے ہو کر جاتی ہے۔ نرگُن گاتا ہوا مِردنگیا جھڑبیری کی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔

’’لے۔ یہاں اکیلا کھڑا ہو کر کیا کرتا ہے؟ کون بجا رہا تھا مردنگ رے؟ ‘‘گھاس کا بوجھا سر پر لے کر موہنا کی ماں کھڑی ہے۔

’’ پنچکوڑی مِردنگیا۔‘‘

’’ایں، وہ آیا ہے؟ آیا ہے وہ؟ ‘‘اس کی ماں نے بوجھ زمین پر پٹکتے ہوئے پوچھا۔

’’میں نے اس کی تال پر رسپریا گایا ہے۔ کہتا تھا، اتنا شدھ رسپریا کون گا سکتا ہے آج کل۔ اسکی انگلی اب ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘

ماں نے بیمار موہنا کو لاڈ سے اپنی چھاتی سے چپکا لیا۔

’’لیکن تُو تو ہمیشہ اس کی ٹوکری بھر شکایت کرتی تھی، بے مان ہے، گرو دروہی ہے، جھوٹا ہے۔‘‘

’’ہے تو۔ ایسے لوگوں کی سنگت ٹھیک نہیں۔ خبردار، جو اس کے ساتھ پھر کبھی گیا۔ فقیروں،  جا چکوں سے ہیل میل کر کے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔۔ ۔۔ چل، اٹھا بوجھ۔‘‘

موہنا نے بوجھ اٹھاتے وقت کہا، ’’جو بھی ہو، گُنی آدمی کے ساتھ رسپریا۔۔‘‘

’’چپ۔ رسپریا کا نام مت لے۔‘‘

عجیب ہے ماں۔ جب غصہ کرے گی تو شیرنی کی طرح اور جب خوش ہوتی ہے تو گائے کی طرح ہنکارتی آئے گی اور سینے سے لگا لے گی۔ گھڑی بھر میں خوش، گھڑی بھر میں ناخوش۔۔ ۔

دور سے مردنگ کی آواز آئی۔ دھا تِنگ۔ دھا تِنگ۔

موہنا کی ماں کھیتوں کی ناہموار منڈیر پر چل رہی تھی۔ ٹھوکر کھا کر گرتے گرتے بچی۔ گھاس کا بوجھا گر کر کھل گیا۔ موہنا پیچھے پیچھے منہ لٹکائے آ رہا تھا۔ بولا، ’’کیا ہوا، ماں؟ ‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘

دھا تِنگ دھا تِنگ۔

موہنا کی ماں کھیت کی منڈیر پر بیٹھ گئی۔ جیٹھ کی شام سے پہلے جو پُروا چلتی ہے، آہستہ آہستہ تیز ہو گئی۔ مٹی کی خوشبو ہوا میں آہستہ آہستہ گھلنے لگی۔

دھا تنِگ دھا تنگ۔

’’ مِردنگیا اور کچھ بولتا تھا، بیٹا؟ ‘‘ موہنا کی ماں آگے کچھ بول نہ سکی۔

’’کہتا تھا، تمہارے جیسا گُنوان بیٹا۔۔ ۔‘‘

’’جھوٹا، بے ایمان۔‘‘ موہنا کی ماں آنسو پونچھ کر بولی، ’’ایسے لوگوں کی سنگت کبھی مت کرنا۔‘‘

موہنا چپ چاپ کھڑا رہا۔

***

 

 

 

 

وانگ چُو

 

بھیشم ساہنی

 

 

بھیشم ساہنی، پیدائش: ۸ اگست ۱۹۱۵ء جائے پیدائش، راولپنڈی (پاکستان)، میدان: کہانی، ایکٹر وغیرہ، اہم کام: کہانیوں کے مجموعے:

بھاگی ریکھا، وانگ چو، پہلا پاٹھ، بھٹکتی راکھ، پٹریاں، شوبھا یاترا، ناول: جھروکے، تمس، میّا داس کی موڑی، بسنتی، وغیرہ، ڈرامے: کبیرا کھڑا بازار میں، ہانُوس، مادھوری، بچوں کا ادب: غلیل کا کھیل، ایوارڈ: پدم بھوشن، ناول ’’تمس ’’ پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، سوویٹ لینڈ ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈ اور اعزازات سے نوازا گیا۔ انتقال: ۱۱ جولائی ۲۰۰۳ء

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

 

تبھی دور سے وانگ چُو آتا دکھائی دیا۔ دریا کے کنارے، لال منڈی کی سڑک پر دھیرے دھیرے ڈولتا سا چلا آ رہا تھا۔ گیروی رنگ کا چوغہ پہنے تھا اور دور سے لگتا تھا کہ بدھ مت کے بھکشوؤں کی ہی مانند اس کا سر بھی گھُٹا ہوا ہے۔ پیچھے شنکر آچاریہ کی اونچی پہاڑی تھی اور اوپر صاف نیلا آسمان۔ سڑک کی دونوں جانب اونچے اونچے سفیدے کے درختوں کی قطاریں۔ لمحے بھر کیلئے مجھے لگا، جیسے وانگ چُو تاریخ کے صفحات سے اتر کر آ گیا ہے۔ زمانہ قدیم میں دیس بدیس سے اسی شباہت کے حامل چِیوردھاری بھکشو، پہاڑوں اور وادیوں کو پھلانگ کر ہندوستان آیا کرتے ہوں گے۔ ماضی کے ایسے ہی تجسس آمیز دھندلکے میں مجھے وانگ چُو بھی چلتا ہوا نظر آیا۔ جب سے وہ سرینگر میں آیا تھا، بدھ مت کی تہذیب کے کھنڈروں اور عجائب خانوں میں گھوم رہا تھا۔ اس وقت بھی وہ لال منڈی کے عجائب گھر سے نکل کر آ رہا تھا، جہاں بدھ دور کے کئی عجائبات رکھے ہیں۔ اس کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے لگتا تھا کہ وہ حقیقت میں حال سے کٹ کر ماضی کی ہی کسی صدی میں جی رہا تھا۔

’’بدھ کے آثار سے ملاقات ہو گئی؟ ‘‘پاس آنے پر میں نے چٹکی لی۔ وہ مسکرا دیا، ہلکی سی ٹیڑھی مسکراہٹ، جسے میری خالہ زاد بہن ڈیڑھ دانت کی مسکراہٹ کہا کرتی تھی، کیونکہ مسکراتے وقت وانگ چُو کا اوپری ہونٹ صرف ایک جانب سے تھوڑا سا اوپر کو اٹھتا تھا۔

’’میوزیم کے باہر بہت سی مورتیاں رکھی ہیں۔ میں وہی دیکھتا رہا۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔، پھر وہ اچانک جذباتی ہو کر بولا، ’’ایک مورتی کے صرف پیر ہی بچے ہیں۔۔ ۔‘‘

میں نے سوچا، آگے کچھ بولے گا، لیکن وہ اتنا جذباتی ہو اٹھا تھا کہ اس کا گلا رندھ گیا اور اس کیلئے بولنا نا ممکن ہو گیا۔ ہم ایک ساتھ گھر کی طرف لوٹنے لگے۔

’’مہا پران کے بھی پیر ہی پہلے دکھائے جاتے تھے۔‘‘ اس نے کانپتی سی آواز میں کہا اور اپنا ہاتھ میری کہنی پر رکھ دیا۔ اس کے ہاتھ کا ہلکا سا لمس، دھڑکتے دل کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔

’’ابتدا میں مہا پران کی مورتیاں نہیں بنائی جاتی تھیں نا۔ تم تو جانتے ہو، پہلے اسٹوپے کے نیچے صرف پیر ہی دکھائے جاتے تھے۔ مورتیاں تو بعد میں بنائی جانے لگی تھیں۔‘‘

ظاہر ہے، بدھ کے پاؤں دیکھ کر اسے مہا پران کے پاؤں یاد آ گئے تھے اور وہ جذباتی ہو اٹھا تھا۔ کچھ پتہ نہیں چلتا تھا، کون سی بات کس وقت وانگ چُو کو خاموش کر دے، کس وقت وہ فضول گو ہونے لگے۔

’’تم نے بہت دیر کر دی۔ سب لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ میں چناروں کے نیچے بھی تمہیں تلاش کر آیا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔

’’میں میوزیم میں تھا۔۔ ۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے، پر دو بجے تک ہمیں ہبّا کدل پہنچ جانا چاہئے، ورنہ جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ اس نے چھوٹے چھوٹے جھٹکوں کے ساتھ تین بار سر ہلایا اور قدم بڑھا دیئے۔ وانگ چُو ہندوستان میں عاشق بنا گھوم رہا تھا۔ وہ مہا پران کی جائے پیدائش لمبنی کی یاترا ننگے پاؤں کر چکا تھا، سارے راستے ہاتھ جوڑے ہوئے۔ جس جس سمت میں مہا پران کے قدم اٹھے تھے، وانگ چُو فریفتہ سا اسی سمت میں گھوم آیا۔ سارناتھ میں، جہاں مہا پران نے اپنا پہلا پروچن دیا تھا اور دو ہرن مسحور ہو کر، جھاڑیوں میں سے نکل کر ان کی طرف دیکھتے رہ گئے تھے، وانگ چُو ایک پیپل کے درخت کے نیچے گھنٹوں جھکا ہوا بیٹھا رہا تھا، یہاں تک کہ اس کے بیان کے مطابق اس کے دماغ میں عجیب سے جملے گونجنے لگے تھے اور اسے لگا تھا، جیسے مہا پران کا پہلا پروچن سن رہا ہے۔ وہ اس وارفتگی بھرے تصور میں اتنا گہرا ڈوب گیا تھا کہ سارناتھ میں ہی رہنے لگا تھا۔ گنگا کی دھار کو وہ دسیوں صدیوں پہلے کے دھندلے میں پوتر جل پروا کے روپ میں دیکھتا۔ جب سے سری نگر میں آیا، برف سے ڈھکے پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اکثر مجھ سے کہتا۔

’’وہ راستہ لہاسا کو جاتا ہے نا، اسی راستے بدھ گرنتھ تبت میں بھیجے گئے تھے۔‘‘

وہ اس پہاڑی سلسلے کو بھی پوتر مانتا تھا، کیونکہ اس پر بچھی پگڈنڈیوں کے راستے بدھ بھکشو تبت کی جانب گئے تھے۔ وانگ چُو چند سالوں پہلے عمر رسیدہ پروفیسر تانشان کے ساتھ ہندوستان آیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ انہی کے ساتھ رہا اور ہندی، انگریزی زبانوں کا مطالعہ کرتا رہا، پھر پروفیسر شان چین لوٹ گئے اور وہ یہیں رکا رہا اور کسی بدھ سوسائٹی سے گرانٹ حاصل کر کے سارناتھ میں آ کر بیٹھ گیا۔ پر جوش، شاعرانہ عہد کی زندگی، جو عہدِ عتیق کے دل فریب ماحول میں مشغول رہنا چاہتی تھی۔ وہ یہاں حقائق کی تلاش کرنے تھوڑے آیا، وہ تو بدھ عہد کی مورتیوں کو دیکھ کر مسرور ہونے آیا تھا۔ مہینے بھر سے عجائب گھروں کے چکر کاٹ رہا تھا، لیکن اس نے کبھی نہیں بتایا کہ بدھ مت کی کس تعلیم سے اسے سب سے زیادہ ترغیب ملتی ہے۔ نہ تو وہ کسی حقیقت کو پا کر جوش و خروش سے کھِل اٹھتا، نہ اسے کوئی ابہام پریشان کرتا۔ وہ بھگت زیادہ اور متجسس کم تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس نے ہمارے ساتھ کبھی کھل کر بات کی ہو یا کسی موضوع پر اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہو۔ ان دنوں میرے اور میرے دوستوں کے درمیان گھنٹوں بحثیں چلا کرتیں، کبھی ملک کی سیاست کے بارے میں، تو کبھی مذہب میں بارے میں، لیکن وانگ چُو ان میں کبھی حصہ نہیں لیتا تھا۔ وہ تمام وقت ہولے ہولے مسکراتا، کمرے کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھا رہتا۔ ان دنوں ملک میں ولولوں کا سیلاب سا اٹھ رہا تھا۔ آزادی کی تحریک کون سا رخ اختیار کرے گی۔ عملی سطح پر تو ہم لوگ کچھ کرتے کراتے نہیں تھے، لیکن جذباتی سطح پر اس کے ساتھ بہت جڑے ہوئے تھے۔ اس پر وانگ چُو کی غیر جانبداری کبھی ہمیں کچوکے لگاتی، تو کبھی اچنبھے میں ڈال دیتی۔ وہ ہمارے ملک کی سرگرمیوں کے بارے میں ہی نہیں، بلکہ اپنے ملک کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ اس سے اس کے اپنے ملک کے بارے میں بھی پوچھو تو مسکراتا سر ہلاتا رہتا تھا۔

کچھ دنوں سے سرینگر کی ہوا بھی بدلی ہوئی تھی۔ کچھ عرصے پہلے یہاں گولی چلی تھی۔ کشمیر کے لوگ مہاراجہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اب کچھ دنوں سے شہر میں ایک نئی ہلچل پائی جاتی تھی۔ نہرو جی سرینگر آنے والے تھے اور ان کا استقبال کرنے کیلئے شہر کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا۔ آج ہی دوپہر کو نہرو جی سرینگر پہنچ رہے ہیں۔ دریا کے راستے کشتیوں کے جلوس کی شکل میں ان کو لانے کی منصوبہ بندی تھی اور اسی وجہ سے میں وانگ چُو کو تلاش کرتا ہوا، اس طرف آ نکلا تھا۔ ہم گھر کی طرف بڑھے جا رہے تھے، تبھی اچانک وانگ چُو ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔

’’کیا میرا جانا بہت ضروری ہے؟ ‘‘

’’جیسا تم کہو۔۔ ۔‘‘مجھے دھکا سا لگا۔

ایسے وقت میں، جب لاکھوں لوگ نہرو جی کے استقبال کیلئے جمع ہو رہے تھے، وانگ چُو کا یہ کہنا کہ اگر وہ ساتھ نہ جائے تو کیسا رہے گا، مجھے واقعی برا لگا۔ لیکن پھر خود ہی کچھ سوچ کر اس نے اپنے اصرار کو دوہرایا نہیں اور ہم گھر کی جانب ساتھ ساتھ بڑھنے لگے۔ کچھ دیر بعد ہبّا کدل کے پل کے قریب لاکھوں کی بھیڑ میں ہم لوگ کھڑے تھے، میں، وانگ چُو اور میرے دو تین دوست۔ چاروں جانب جہاں تک نظر جاتی، لوگ ہی لوگ تھے۔ مکانوں کی چھتوں پر، پل پر، دریا کے ڈھلواں کناروں پر۔ میں بار بار کنکھیوں سے وانگ چُو کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اس کا کیا رد عمل ہے، اور یہ کہ ہمارے دل میں اٹھنے والے ولولوں کا اس پر کیا اثر ہوا ہے۔ یوں بھی یہ میری عادت سی بن گئی ہے، جب بھی کسی بدیسی کے ساتھ میں ہوں۔ تومیں اس کے چہرے کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ ہمارے رسم و رواج، ہماری طرزِ معاشرت کے بارے میں اس کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔

وانگ چُو نیم وا آنکھوں سے سامنے کا منظر دیکھے جا رہا تھا۔ جس وقت نہرو جی کی کشتی سامنے آئی، تو جیسے مکانوں کی چھتیں بھی ہل اٹھیں۔ راج ہنس کی شکل والی سفید کشتی میں نہرو جی، مقامی رہنماؤں کے ساتھ کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ اور ہوا میں پھول ہی پھول بکھر گئے تھے۔ میں نے پلٹ کر وانگ چُو کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ پہلے ہی کی طرح غافل سا سامنے کا منظر دیکھے جا رہا تھا۔

’’آپ کو نہرو جی کیسے لگے؟ ‘‘ میرے ایک ساتھی نے وانگ چُو سے پوچھا۔

وانگ چُو نے اپنی ترچھی سی آنکھیں اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا، پھر اپنی ڈیڑھ دانت کی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’اچّا، بہت اچّا۔‘‘ وانگ چُو معمولی سی ہندی اور انگریزی جانتا تھا۔ اگر تیز بولو، تو اس کے پلے کچھ نہیں پڑتا تھا۔ نہرو جی کی کشتی دور  جا چکی تھی، لیکن کشتیوں کا جلوس اب بھی رواں دواں تھا۔

تبھی وانگ چُو دفعتاً مجھ سے بولا، ’’میں تھوڑی دیر کیلئے میوزیم میں جانا چاہوں گا۔ ادھر سے راستہ جاتا ہے، میں خود چلا جاؤں گا۔‘‘ اور وہ بغیر کچھ کہے، ایک بار پھر نیم وا آنکھوں سے مسکرایا اور ہولے سے ہاتھ ہلا کر مڑ گیا۔ ہم سب حیران رہ گئے۔ اسے سچ مچ جلوس میں دلچسپی نہیں رہی ہو گی۔ جبھی اتنی جلدی میوزیم کی جانب تنہا چل دیا ہے۔

’’یار، کس بودم کو اٹھا لائے ہو؟ یہ کیا بات ہے؟ کہاں سے پکڑ لائے ہو اسے؟ ‘‘ میرے ایک دوست نے کہا۔

’’باہر کا رہنے ہے، اسے ہماری باتوں میں کیسے دلچسپی ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔

’’واہ، ملک میں اتنا کچھ ہو رہا ہو اور اسے دلچسپی نہ ہو۔‘‘

وانگ چُو اب تک دور  جا چکا تھا اور بھیڑ میں سے نکل کر درختوں کی قطار کے نیچے آنکھوں سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا۔

’’مگر یہ ہے کون؟ ‘‘ ایک دوسرا دوست بولا، ’’نہ یہ بولتا ہے، نہ چہکتا ہے۔ کچھ پتا نہیں چلتا، ہنس رہا ہے یا رو رہا ہے۔ سارا وقت ایک کونے میں دبک کر بیٹھا رہتا ہے۔‘‘

’’نہیں، نہیں بڑا سمجھدار آدمی ہے۔ پچھلے پانچ سال سے یہاں پر رہ رہا ہے۔ بڑا پڑھا لکھا آدمی ہے۔ بدھ مت کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔‘‘ میں نے پھر اس کی صفائی دیتے ہوئے کہا۔ میری نظر میں اس بات کی بڑی اہمیت تھا کہ وہ بدھ گرنتھ سیکھتا ہے اور انہیں سیکھنے کیلئے اتنی دور سے آیا ہے۔

’’ارے بھاڑ میں جائے ایسی پڑھائی۔ واہ جی، جلوس کو چھوڑ کر میوزیم کی جانب چل دیا ہے۔‘‘

’’سیدھی سی بات ہے یار۔‘‘ میں نے مزید کہا، ’’اسے یہاں ہندوستان کا حال گھسیٹے نہیں لایا، ہندوستان کا ماضی لایا ہے۔ ہیون تسانگ بھی تو یہاں بدھ گرنتھ ہی سیکھنے آیا تھا۔ یہ بھی سیکھتا ہے۔ بدھ مت میں اسے دلچسپی ہے۔‘‘ گھر لوٹتے ہوئے ہم لوگ سارے رستے وانگ چُو کے متعلق ہی گفتگو کرتے رہے۔ اجے کا خیال تھا، اگر وہ پانچ سال ہندوستان میں کاٹ گیا ہے، تو اب وہ زندگی بھر یہیں پر رہے گا۔

’’اب آ گیا ہے، تو لوٹ کر نہیں جائے گا۔ ہندوستان میں ایک بار پردیسی آ جائے، تو واپس جانے کا نام نہیں لیتا۔‘‘

’’ہندوستان نامی ملک وہ دلدل ہے کہ جس میں ایک بار باہر کے آدمی کا پاؤں پڑ جائے، تو دھنستا ہی چلا جاتا ہے، نکلنا چاہے بھی تو نہیں نکل سکتا۔‘‘دلیپ نے مذاق میں کہا، ’’نہ جانے کون سے کنول کے پھول توڑنے کیلئے اس دلدل میں گھسا ہے۔‘‘

’’ہمارا ملک ہم ہندوستانیوں کو پسند نہیں، باہر کے لوگوں کو تو بہت پسند ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

’’پسند کیوں نہ ہو گا۔ یہاں تھوڑے میں گزارا ہو جاتا ہے، سارا وقت دھوپ کھلی رہتی ہے، پھر باہر کے آدمی کو لوگ پریشان نہیں کرتے، جہاں بیٹھا ہے وہیں بیٹھا رہنے دیتے ہیں۔ اس پر انہیں آپ جیسے پاگل بھی مل جاتے ہیں، جو ان کی ستائش کرتے رہتے ہیں اور ان کی آؤ بھگت میں مصروف رہتے ہیں۔ تمہارا وانگ چُو بھی یہیں پر مرے گا۔‘‘

ہمارے یہاں ان دنوں میری چھوٹی خالہ زاد بہن ٹھہری ہوئی تھی، وہی جو وانگ چُو کی مسکراہٹ کو ڈیڑھ دانت کی مسکراہٹ کہا کرتی تھی۔ چلبلی سی لڑکی بات بات پر ٹھٹھولی کرتی رہتی تھی۔ میں نے دو ایک بار وانگ چُو کو  کنکھیوں سے اس کی جانب دیکھتے پایا تھا، لیکن کوئی خاص توجہ نہیں دی، کیونکہ وہ سبھی کو کنکھیوں سے ہی دیکھتا تھا۔ پر اس شام نیلم میرے پاس آئی اور بولی، ’’آپ کے دوست نے مجھے تحفہ دیا ہے۔ پیار سے۔‘‘

میرے کان کھڑے ہو گئے، ’’کیا دیا ہے؟ ‘‘

’’جھومروں کی جوڑی۔‘‘ اور اس نے دونوں مٹھیاں کھول دیں، جن میں چاندی کے کشمیری انداز کے دو سفید جھومر چمک رہے تھے۔ اور پھر وہ دونوں جھومر اپنے کانوں کے پاس لے جا کر بولی، ’’کیسے لگتے ہیں؟ ‘‘ میں بے حس سا نیلم کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ’’اس کے اپنے کان کیسے بھورے بھورے ہیں۔‘‘ نیلم نے ہنس کر کہا۔

’’کس کے؟ ‘‘

’’میرے اس پریمی کے۔‘‘

’’تمہیں اس کے بھورے کان پسند ہیں؟ ‘‘

’’بہت زیادہ۔ جب شرماتا ہے براؤن ہو جاتے ہیں گہرے براؤن۔‘‘ اور نیلم کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

لڑکیاں کیسے اس آدمی کی محبت کا مذاق اڑا سکتی ہیں، جو انہیں پسند نہ ہو۔ یا کہیں نیلم مجھے بنا تو نہیں رہی ہے؟ پر میں اس خبر سے بہت پریشان نہیں ہوا تھا۔ نیلم لاہور میں پڑھتی تھی اور وانگ چُو، سارناتھ میں رہتا تھا اور اب وہ ہفتے بھر میں سرینگر سے واپس جانے والا تھا۔ اس محبت کی کونپل اپنے آپ ہی جل بھن جائے گی۔

’’نیلم، یہ جھومر تو تم نے اس سے لے لئے ہیں، اس طرح کی دوستی آخر میں اس کیلئے تکلیف دہ ثابت ہو گی۔ بنے بنائے گا کچھ نہیں۔‘‘

’’واہ بھیا، آپ بھی کیسے دقیانوس ہو۔ میں نے بھی چمڑے کا ایک رائٹنگ پیڈ اسے تحفے میں دیا ہے۔ میرے پاس پہلے سے پڑا تھا، میں نے اسے دے دیا۔ جب لوٹے گا تو پریم پتر لکھنے میں اسے آسانی ہو گی۔‘‘

’’وہ کیا کہتا تھا؟ ‘‘

’’کہتا کیا تھا، تمام وقت اس کے ہاتھ کانپتے رہے اور چہرہ کبھی سرخ ہوتا رہا، کبھی زرد۔ کہتا تھا، مجھے خط لکھنا، میرے خطوں کا جواب دینا۔ اور کیا کہے گا بے چارہ، بھورے کانوں والا۔‘‘

میں نے غورسے نیلم کی طرف دیکھا، پر اس کی آنکھوں میں مجھے مسکان کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیا۔ لڑکیاں دل کی بات چھپانا خوب جانتی ہیں۔ مجھے لگا، نیلم اسے بڑھاوا دے رہی ہے۔ اس کیلئے تو یہ سارا کھیل تھا، لیکن وانگ چُو ضرور اس بات کا دوسرا ہی مطلب نکالے گا۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ وانگ چُو اپنا توازن کھو رہا ہے۔ اسی رات، جب میں اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا، باہر میدان میں چناروں کی قطار کی جانب دیکھ رہا تھا، تبھی چاندنی میں، کچھ فاصلے پر درختوں کے نیچے مجھے وانگ چُو ٹہلتا دکھائی دیا۔ وہ اکثر رات کو دیر تک درختوں کے نیچے ٹہلتا رہتا تھا۔ پر آج وہ اکیلا نہیں تھا۔ نیلم بھی اس کے ساتھ ٹھمک ٹھمک کر چلی جا رہی تھی۔ مجھے نیلم پر غصہ آیا۔ لڑکیاں کتنی ظالم ہوتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سارے کھیل سے وانگ چُو کی بے چینی بڑھے گی، وہ اسے بڑھاوا دیئے جا رہی تھی۔ دوسرے روز کھانے کی میز پر نیلم پھر اس کے ساتھ ٹھٹھولی کرنے لگی۔ وہ کچن میں سے ایک پتلاسا المونیم کا ڈبا اٹھا لائی تھی۔ اور اس کا چہرہ تپے تانبے جیسا سرخ ہو رہا تھا۔

’’آپ کیلئے روٹیاں اور آلو بنا لائی ہوں۔ آم کے اچار کی پھانک بھی رکھی ہے۔ آپ جانتے ہیں پھانک کسے کہتے ہیں؟ ایک بار کہو تو پھانک۔ کہو وانگ چُو جی، پھانک۔‘‘

اس نے نیلم کی طرف کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھا اور بولا، ’’بانک۔‘‘ ہم سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

’’بانک نہیں، پھانک۔‘‘پھر ہنسی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ نیلم نے ڈبا کھول دیا۔ اس میں سے آم کے اچار کا ٹکڑا نکال کر اسے دکھاتے ہوئے بولی، ’’یہ ہے پھانک، پھانک اسے کہتے ہیں۔‘‘ اور اسے وانگ چُو کی ناک کے پاس لے جا کر بولی، ’’اسے سونگھنے پر منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ آیا منہ میں پانی؟ اب کہو، پھانک۔‘‘

’’نیلم، کیا فضول باتیں کر رہی ہو۔ بیٹھو آرام سے۔‘‘ میں نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ نیلم بیٹھ گئی، پر اس کی حرکتیں بند نہیں ہوئیں۔ بڑے لگاؤ سے وانگ چُو سے کہنے لگی، ’’بنارس جا کر ہمیں بھول نہیں جائیے گا۔ ہمیں خط ضرور لکھئے گا اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو تکلف نہیں کیجئے گا۔‘‘ وانگ چُو الفاظ کے معنی تو سمجھ لیتا تھا، لیکن ان میں چھپے مذاق کو وہ نہیں پکڑ پاتا تھا۔ وہ بہت زیادہ پریشانی محسوس کر رہا تھا۔

’’بھیڑ کی کھال کی ضرورت ہو یا کوئی نمدا یا اخروٹ۔۔ ۔‘‘

’’نیلم۔‘‘

’’کیوں بھیا، بھیڑ کی کھال پر بیٹھ کر گرنتھ سیکھیں گے۔‘‘وانگ چُو کے کان سرخ ہونے لگے۔ شاید پہلی بار اسے احساس ہونے لگا تھا کہ نیلم ٹھٹھولی کر رہی ہے۔ اس کے کان سچ مچ بھورے ہو رہے تھے، جن کا نیلم مذاق اڑایا کرتی تھی۔

’’نیلم جی، آپ لوگوں نے میری بڑی مہمان نوازی کی ہے۔ میں بڑا معترف ہوں۔‘‘ ہم سب خاموش ہو گئے۔ نیلم بھی جھینپ سی گئی۔ وانگ چُو نے لازمی اس کی ٹھٹھولی کو سمجھ لیا ہو گا۔ اس کے دل کو ضرور ٹھیس لگی ہو گی۔ پر میرے ذہن میں یہ خیال بھی اٹھا کہ ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہے کہ نیلم کے بارے میں اس کے احساسات بھی بدلیں، ورنہ اسے ہی سب سے زیادہ مصیبت ہو گی۔ شاید وانگ چُو اپنے مقام کو جانتے سمجھتے ہوئے بھی ایک قدرتی اپنائیت کی زد میں آ گیا تھا۔ جذباتی شخص کا خود پر کوئی قابو نہیں ہوتا۔ وہ شکست کھا کر گرتا ہے، تبھی اپنی بھول کو سمجھ پاتا ہے۔

ہفتے کے آخری دنوں میں وہ روز کوئی نہ کوئی تحفہ لے کر آنے لگا۔ ایک بار میرے لئے بھی ایک چوغہ لے آیا اور بچوں کی طرح ضد کرنے لگا کہ میں اور وہ اپنے اپنے چوغے پہن کر ایک ساتھ باہر گھومنے جائیں۔ میوزیم میں وہ اب بھی جاتا تھا، دو ایک بار نیلم کو بھی اپنے ساتھ لے گیا تھا اور واپسی پر ساری شام نیلم بدھ مت سے جڑے نوادرات کا مذاق اڑاتی رہی تھیں۔ میں دل ہی دل میں نیلم کے اس رویے کا خیر مقدم ہی کرتا رہا، کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ وانگ چُو کا کوئی خیال ہمارے گھر میں جڑ جما پائے۔ ہفتہ گزر گیا اور وانگ چُو، سارناتھ لوٹ گیا۔ وانگ چُو کے چلے جانے کے بعد اس کے ساتھ میرا رابطہ ویسا ہی رہا، جیسے عموماً ایک واقف کار شخص کے ساتھ رہتا ہے۔ گاہے گاہے کبھی خط آ جاتا، کبھی کسی آتے جاتے شخص سے اس کی اطلاع مل جاتی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا، جو برسوں تک رسمی تعارف کے گھیرے پر ہی ڈولتے رہتے ہیں، نہ گھیرا پھلانگ کر اندر آتے ہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹ کر آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ مجھے اتنی ہی جانکاری رہی کہ اس کی سیدھے اور بندھے بندھائے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ کچھ دیر تک مجھے تجسس سا بنا رہا کہ نیلم اور وانگ چُو کے بیچ کی بات آگے بڑھی یا نہیں، لیکن لگا کہ وہ محبت بھی وانگ چُو کی زندگی پر حاوی نہیں ہو پائی۔

مہینے اور سال گزرتے گئے۔ ہمارے ملک میں ان دنوں بہت کچھ برپا ہو رہا تھا۔ آئے دن جلسے ہوتے، بنگال میں قحط پڑا، ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ کی تحریک چلی، سڑکوں پر گولیاں چلیں، بمبئی میں ملاحوں کی بغاوت ہوئی، ملک سے انگریزوں کا اخراج ہوا، پھر ملک کا بٹوارہ ہوا اور تمام وقت وانگ چُو سارناتھ میں ہی بنا رہا۔ وہ خود سے مطمئن دِکھتا تھا۔ کبھی لکھتا کہ تنتر جنجان کا مطالعہ کر رہا ہے، کبھی پتہ چلتا کہ کوئی کتاب لکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

اس کے بعد میری ملاقات وانگ چُو سے دہلی میں ہوئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب چین کے وزیر اعظم چو ان لائی ہندوستان کے دورے پر آنے والے تھے۔ وانگ چُو اچانک سڑک پر مجھے مل گیا اور میں اسے اپنے گھر لے آیا۔ مجھے اچھا لگا کہ چین کے وزیر اعظم کی آمد کی اطلاع اسے ملی ہے، تو مجھے اس کے رویے پر تعجب ہوا۔ اس کا مزاج ویسے کاویسا ہی تھا۔ پہلے کی ہی طرح ہولے ہولے اپنی ڈیڑھ دانت کی مسکراہٹ بکھیرتا رہا۔ ویسا ہی آلکسی، بے لچک۔ اس دوران اس نے کوئی کتاب یا مقالہ بھی نہیں لکھا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس کام میں اس نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ تنتر جنجان کا حوالہ دیتے وقت بھی وہ بہت چہکا نہیں۔ دو ایک گرنتھوں کے بارے میں بتاتا رہا، جس سے وہ کچھ اقتباسات لیتا رہا تھا۔ اپنے کسی مضمون کی بات بھی اس نے کی، جس پر وہ آج کل کام کر رہا تھا۔ نیلم کے ساتھ اس کی خط و کتابت چلتی رہی، اس نے بتایا۔ اگرچہ نیلم کب کی بیاہی  جا چکی تھی اور دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔

وقت کی رفتار کے ساتھ ہماری اصل سوچیں بھلے ہی نہ بدلی ہوں، پر ان کی طلب اور بیتابی میں توازن سا آ گیا تھا، اب پہلے جیسی جذباتیت نہیں تھی۔ وہ بدھ کے پیروں پر اپنی جان نچھاور نہیں کرتا پھرتا تھا۔ لیکن اپنی زندگی سے مطمئن تھا۔ پہلے ہی کی طرح تھوڑا کھاتا، تھوڑا پڑھتا، تھوڑا سفر کرتا اور تھوڑا سا سوتا تھا۔ اور لڑکپن کے ملگجے دور سے کسی انجان دیش میں چنی گئی اپنی شاہراہِ زندگی پر کچھوے کی چال مزے سے چلتا آ رہا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے درمیان بحث چھڑ گئی۔

’’سماجی طاقتوں کو سمجھے بغیر آپ بدھ مت کو بھی کیسے سمجھ پاؤ گے؟ علوم کی ہر شاخ ایک دوسرے سے منسلک ہے، زندگی سے منسلک ہے۔ کوئی چیز زندگی سے الگ نہیں ہے۔ تم زندگی سے الگ ہو کر مذہب کو کس طرح سمجھ سکتے ہو؟ ‘‘

کبھی وہ مسکراتا، کبھی سر ہلاتا اور تمام وقت فلسفیوں کی طرح میرے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میرے کہے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا، گویا کسی چکنے گھڑے پر میں پانی انڈیلے جا رہا ہوں۔

’’ہمارے ملک میں نہ سہی، تم اپنے ملک کی زندگی میں تو دلچسپی لو۔ اتنا جانو سمجھو کہ وہاں پر کیا ہو رہا ہے۔‘‘ اس پر بھی وہ سر ہلاتا اور مسکراتا رہا۔ میں جانتا تھا کہ ایک بھائی کو چھوڑ کر چین میں اس کا کوئی نہیں ہے۔ ۱۹۲۹ ء میں وہاں پر کوئی سیاسی اتھل پتھل ہوئی تھی، اس میں اس کا گاؤں جلا ڈالا گیا تھا اور سب سگے رشتے دار مر گئے تھے یا بھاگ گئے تھے۔ لے دے کر ایک بھائی بچا تھا اور وہ بیجنگ کے قریب کسی گاؤں میں رہتا تھا۔ برسوں سے وانگ چُو کا رابطہ اس کے ساتھ ٹوٹ گیا تھا۔ وانگ چُو پہلے گاؤں کے اسکول میں پڑھتا رہا تھا، بعد میں بیجنگ کے ایک اسکول میں پڑھنے لگا تھا۔ وہیں سے وہ پروفیسر شان کے ساتھ ہندوستان چلا آیا تھا۔

’’سنو وانگ چُو، ہندوستان اور چین کے درمیان بند دروازے اب کھل رہے ہیں۔ اب دونوں ممالک کے درمیان رابطے قائم ہو رہے ہیں اور اس کی بڑی اہمیت ہے۔ تحقیق کا جو کام تم ابھی تک الگ تھلگ کرتے رہے ہو، وہی اب تم اپنے ملک کے موزوں نمائندے کی حیثیت میں کر سکتے ہو۔ تمہاری حکومت تمہارے لئے گرانٹ کا انتظام کرے گی۔ اب تمہیں الگ تھلگ پڑے نہیں رہنا پڑے گا۔ تم پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے ہندوستان میں رہ رہے ہو، انگریزی اور ہندی زبانیں جانتے ہو، بدھ مت گرنتھوں پر تحقیق کرتے رہے ہو، تم دونوں ممالک کے ثقافتی رابطے کی ایک مضبوط کڑی بن سکتے ہو۔‘‘

اس کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی۔ واقعی اسے کچھ سہولیات مل سکتی تھیں۔ کیوں نہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی خیر سگالی سے وہ بھی متاثر ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ چند دن پہلے گرانٹ کی رقم لینے جب وہ بنارس گیا، تو سڑکوں پر راستہ چلتے لوگ اس کے گلے مل رہے تھے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ کچھ وقت کیلئے ضرور اپنے ملک لوٹ جائے اور وہاں ہونے والے سیاسی تبدیلیوں کو دیکھے اور سمجھے، کیوں کہ سارناتھ میں الگ تھلگ بیٹھے رہنے سے اسے کچھ فائدہ نہیں ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔

وہ سنتا رہا، سر ہلاتا رہا اور مسکراتا رہا، لیکن مجھے کچھ معلوم نہیں ہو پایا کہ اس پر کوئی اثر بھی ہوا ہے یا نہیں۔ تقریباً چھ ماہ بعد اس کا خط آیا کہ وہ چین جا رہا ہے۔ مجھے بڑا اطمینان محسوس ہوا۔ اپنے ملک میں جائے گا تو دھوبی کے کتے والی اس کی حیثیت ختم ہو جائے گی، کہیں کا ہو کر تو رہے گا۔ اس کی زندگی میں نئی ولولہ انگیزی آئے گی۔ اس نے لکھا کہ وہ اپنا ایک ٹرنک سارناتھ میں چھوڑے جا رہا ہے، جس میں اس کی کچھ کتابیں اور تحقیق کے کاغذات وغیرہ رکھے ہیں، کیونکہ برسوں تک ہندوستان میں رہ چکنے کے بعد وہ اپنے آپ کوہندوستان کا ہی شہری مانتا ہے اور وہ جلد ہی واپس لوٹ آئے گا اور پھر اپنا تحقیقی کام کرنے لگے گا۔ میں دل ہی دل ہنس دیا، ایک بار اپنے ملک میں گیا تو لوٹ کر یہاں نہیں آنے کا۔

چین میں وہ تقریباً دو سال تک رہا۔ وہاں سے اس نے مجھے بیجنگ کے قدیم شاہی محل کا پوسٹ کارڈ بھیجا، دو ایک خط بھی لکھے، پر ان سے اس کی حیثیت کے بارے میں کوئی خاص جانکاری نہیں ملی۔ ان دنوں چین میں بھی بڑا جوش و خروش اٹھ رہا تھا، بڑا ولولہ تھا اور اس و لولے کی لپیٹ میں لگ بھگ سبھی لوگ تھے۔ زندگی نئی کروٹ لے رہی تھی۔ لوگ کام کرنے جاتے تو ٹولیاں بنا کر، گاتے ہوئے، سرخ پرچم ہاتھ میں اٹھائے ہوئے۔ وانگ چُو سڑک کے کنارے کھڑا انہیں دیکھتا رہ جاتا۔ اپنے شرمیلے مزاج کی وجہ سے وہ ٹولیوں کے ساتھ گاتے ہوئے جا تو نہیں سکتا تھا، لیکن انہیں جاتے دیکھ کر حیران سا کھڑا رہتا، مانو کسی دوسری دنیا میں پہنچ گیا ہو۔ اسے اپنا بھائی تو نہیں ملا، لیکن ایک پرانا استاد، دور پار کی اس کی خالہ اور دو ایک واقف کار ضرور مل گئے تھے۔ وہ اپنے گاؤں گیا۔ گاؤں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ اسٹیشن سے گھر کی طرف جاتے ہوئے اس کا ایک ساتھی اس سے کہنے لگا۔

’’وہاں، اس درخت کے نیچے، زمیندار کی تمام دستاویزات، تمام کاغذات جلا ڈالے گئے تھے اور زمیندار ہاتھ باندھے کھڑا رہا تھا۔‘‘

وانگ چُو نے بچپن میں زمیندار کا بڑا ساراگھر دیکھا تھا، اس کی رنگین کھڑکیوں اسے ابھی بھی یاد تھیں۔ دو ایک بار زمیندار کی بگھی کو بھی قصبے کی سڑکوں پر جاتے دیکھا تھا۔ اب وہ گھر گاؤں انتظامیہ کا مرکز بنا ہوا تھا اور بہت کچھ بدلا ہوا تھا۔ پر یہاں پر بھی اس کیلئے ویسی ہی صورتحال تھی جیسی ہندوستان میں رہی تھی۔ اس کے دل میں بشاشت نہیں اٹھتی تھی۔ دوسروں کا جوش اس کے دل پر سے پھسل پھسل جاتا تھا۔ وہ یہاں بھی تماشائی ہی بنا گھومتا تھا۔

شروع شروع کے دنوں میں اس کی آؤ بھگت بھی ہوئی۔ اپنے پرانے ٹیچر کے بلاوے پر اسے اسکول میں مدعو کیا گیا۔ ہندوستان، چین ثقافتی تعلقات کی اہم کڑی کے روپ میں اس کی قدردانی بھی کی گئی۔ وہاں وانگ چُو دیر تک لوگوں کو ہندوستان کے بارے میں بتاتا رہا۔ لوگوں نے طرح طرح کے سوال پوچھے، رسم و رواج کے بارے میں، تیرتھوں، میلوں ٹھیلوں کے بارے میں، وانگ چُو صرف ان سوالات کا اطمینان بخش جواب دے پاتا، جن کے بارے میں ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔

کچھ دنوں بعد چین میں ’’بڑی چھلانگ ’’ کی مہم زور پکڑنے لگی۔ اس گاؤں میں بھی لوگ لوہا جمع کر رہے تھے۔ ایک دن صبح اسے بھی ردی لوہا بٹورنے کے لئے ایک ٹولی کے ساتھ بھیج دیا گیا تھا۔ دن بھر وہ لوگ بڑے فخر سے دکھا  دکھا کر لا رہے تھے اور مشترکہ ڈھیر پر ڈال رہے تھے۔ رات کے وقت آگ کے لپلپاتے شعلوں کے درمیان اس ڈھیر کو پگھلایا جانے لگا۔ آگ کے ارد گرد بیٹھے لوگ انقلابی گیت گا رہے تھے۔ تمام لوگ ایک آواز میں کورس میں حصہ لے رہے تھے۔ اکیلا وانگ چُو منہ دبائے بیٹھا تھا۔

چین کے ماحول میں دھیرے دھیرے کشیدگی سی آنے لگی اور ایک جھٹپٹا سا چھانے لگا۔ ایک روز ایک آدمی نیلے رنگ کا کوٹ اور نیلے ہی رنگ کی پتلون پہنے اس کے پاس آیا اور اسے اپنے ساتھ گاؤں انتظامیہ کے مرکز میں ساتھ لے گیا۔ راستے بھر وہ آدمی خاموش ہی رہا۔ مرکز میں پہنچنے پر اس نے پایا کہ ایک بڑے سے کمرے میں پانچ افراد کی ایک ٹیم میز کے پیچھے بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے۔ جب وانگ چُو ان کے سامنے بیٹھ گیا، تو وہ باری باری اس کی ہندوستان میں موجودگی کے بارے میں پوچھنے لگے،

’’آپ وہاں کتنے سالوں تک رہے؟ ‘‘

’’وہاں پر کیا کرتے تھے؟ ‘‘

’’کہاں کہاں گھومے؟ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

پھر بدھ مت کے بارے وانگ چُو کے تجسس کے بارے میں جان کر ان میں سے ایک شخص بولا، ’’تم کیا سوچتے ہو، بدھ مت کی فکری بنیاد کیا ہے؟ ‘‘

سوال وانگ چُو کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نے آنکھیں میچیں۔ ’’مادہ پرستی کے نقطہ نظر سے تم بدھ مت کو کیسے جانتے ہو؟ ‘‘

سوال پھر بھی وانگ چُو کی سمجھ میں نہیں آیا، لیکن اس نے بدبداتے ہوئے جواب دیا، ’’انسان کی روحانی ترقی کے لئے اس کے سکھ اور امن کے لئے بدھ مت کی راہ بہت اہم ہے۔ مہا پران کے اپدیش۔۔ ۔‘‘ اور وانگ چُو بدھ مت کے آٹھ اپدیشوں کی تشریح کرنے لگا۔ وہ ابھی اپنا بیان ختم بھی نہیں کر پایا تھا کہ وزیر کی کرسی پر بیٹھے گہرائی میں جھانکتی آنکھوں والے ایک شخص نے بات کاٹ کر کہا، ’’ہندوستان کی غیر ملکی پالیسی کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟ ‘‘

وانگ چُو مسکرایا، اپنی ڈیڑھ دانت کی مسکراہٹ، پھر بولا، ’’آپ معززین اس سلسلے میں زیادہ جانتے ہیں۔ میں تو عام سا بدھ مت کا محقق ہوں۔ پر ہندوستان بڑا قدیم ملک ہے۔ اس کی ثقافت امن اور انسانی خیر سگالی کی ثقافت ہے۔‘‘

’’نہرو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ ‘‘

’’نہرو کو میں نے تین بار دیکھا ہے۔ ایک بار تو ان سے باتیں بھی کی ہیں۔ ان پر مغربی سائنس کا اثر ہے، لیکن قدیم ثقافت کے وہ بھی بڑے پرستار ہیں۔‘‘ اس کے جوابات سنتے ہوئے کچھ رکن پھر سر ہلانے لگے، کچھ کے چہرے تمتمانے لگے۔ پھر طرح طرح کے آڑھے ٹیڑھے سوالات پوچھے جانے لگے۔ انہوں نے محسوس کیا جہاں تک حقائق کا اور ہندوستان کے موجودہ زندگی کا سوال ہے، وانگ چُو کی معلومات ادھوری اور مضحکہ خیز ہیں۔

’’سیاسی اعتبار سے تو تم صفر ہو۔ بدھ مت کے تصورات کو بھی سوشیالوجی کی نظر سے تم دیکھ نہیں سکتے۔ نہ جانے وہاں بیٹھے کیا کرتے رہے ہو۔ پر ہم تمہاری مدد کریں گے۔‘‘

تفتیش گھنٹوں تک چلتی رہی۔ پارٹی حکام نے اسے ہندی پڑھانے کی نوکری دے دی، ساتھ ہی بیجنگ کے میوزیم میں ہفتے میں دو دن کام کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ جب وانگ چُو پارٹی دفتر سے لوٹا تو تھکا ہوا تھا۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ اپنے ملک میں اس کا دل جم نہیں پایا تھا۔ آج وہ اور بھی زیادہ اکھڑا اکھڑا محسوس کر رہا تھا۔ چھپر کے نیچے لیٹا تو اسے اچانک ہی ہندوستان کی یاد ستانے لگی۔ اسے سارناتھ کی اپنی کوٹھری یاد آئی، جس میں دن بھر بیٹھا پوتھی پڑھا کرتا تھا۔ نیم کا گھنا درخت یاد آیا جس کے نیچے کبھی کبھار سستایا کرتا تھا۔ یادوں کا سلسلہ طویل ہوتا گیا۔ سارناتھ کی کینٹین کا رسوئیا یاد آیا، جو ہمیشہ پیار سے ملتا تھا، ہمیشہ ہاتھ جوڑے ’’کہو بھگوان‘‘ کہہ کر ملا کرتا تھا۔ ایک بار وانگ چُو بیمار پڑ گیا تھا تو دوسرے روز کینٹین کا رسوئیا، اپنے آپ اس کی کوٹھری میں چلا آیا تھا۔

’’میں بھی کہوں، چینی بابو چائے پینے نہیں آئے، دو دن ہو گئے۔ پہلے آتے تھے تو درشن ہو جاتے تھے۔ ہمیں خبر کی ہوتی بھگوان، تو ہم ڈاکٹر بابو کو بلا لاتے، میں بھی کہوں، بات کیا ہے۔‘‘

پھر اس کی آنکھوں کے سامنے گنگا کا کنارہ آیا، جس پر وہ گھنٹوں گھوما کرتا تھا۔ پھر اچانک منظر بدل گیا اور کشمیر کی جھیل آنکھوں کے سامنے آ گئی اور پیچھے ہمالیہ پہاڑ، پھر نیلم سامنے آئی، اس کی کھلی کھلی آنکھیں، موتیوں سی جھلملاتی دانتوں کی قطاریں۔ اس کا دل بے چین ہو اٹھا۔ جیسے جیسے دن گزرنے لگے، ہندوستان کی یاد اسے اور زیادہ پریشان کرنے لگی۔ وہ پانی میں سے باہر پھینکی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ سارناتھ کے وِہار میں سوال جواب نہیں ہوتے تھے۔ جہاں پڑے رہو، پڑے رہو۔ رہنے کیلئے کوٹھری اور کھانے کا انتظام وِہار کی جانب سے تھا۔ یہاں پر نئے نقطہ نظر سے دھرم گرنتھوں کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے اس میں صبر نہیں تھا، تجسس بھی نہیں تھا۔ برسوں تک ایک معمول پر چلتے رہنے کی وجہ سے وہ تبدیلی سے کتراتا تھا۔

اس اجلاس کے بعد وہ دوبارہ خود میں سمٹنے لگا تھا۔ کہیں کہیں اسے ہندوستان مخالف جملے سننے کو ملتے۔ اچانک وانگ چُو بہت تنہا محسوس کرنے لگا اور اسے لگا کہ زندگی حاصل کرنے کیلئے اسے اپنے لڑکپن کے اسی ’’کھلی آنکھوں والے خواب‘‘ میں پھر سے لوٹ جانا ہو گا، جب وہ بدھ بھکشو بن کر ہندوستان کی سیر کا تصور کرتا تھا۔ اس نے اچانک ہندوستان واپسی کی ٹھان لی۔ لوٹنا آسان نہیں تھا۔ ہندوستانی سفارت خانے سے تو ویزا ملنے میں مشکل نہیں ہوئی، لیکن چین کی حکومت نے بہت سے اعتراضات اٹھائے۔ وانگ چُو کی شہریت کا سوال تھا اور کئی دیگر سوال تھے۔ لیکن ہندوستان اور چین کے تعلقات ابھی تک بہت بگڑے نہیں تھے، اس لئے بالآخر وانگ چُو کو ہندوستان واپسی کی اجازت مل گئی۔ اس نے دل ہی دل تہیہ کر لیا کہ وہ ہندوستان میں ہی اب زندگی کے دن کاٹے گا۔ بدھ بھکشو ہی بنے رہنا اس کی قسمت تھی۔

جس روز وہ کلکتہ پہنچا، اسی روز سرحد پر چینی اور ہندوستانی فوجیوں کے درمیان تصادم ہوا تھا اور دس ہندوستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس نے پایا کہ لوگ گھور گھور کر اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ اسٹیشن کے باہر ابھی نکلا ہی تھا کہ دو سپاہی آ کر اسے پولیس اسٹیشن میں لے گئے اور وہاں گھنٹے بھر ایک افسر اس کے پاسپورٹ اور کاغذوں کی جانچ پڑتال کرتا رہا۔

’’دو برس پہلے آپ چین گئے تھے۔ وہاں جانے کا کیا مقصد تھا؟ ‘‘

’’میں بہت برسوں تک یہاں رہتا رہا ہوں، کچھ وقت کیلئے اپنے ملک جانا چاہتا تھا۔‘‘

پولس افسر نے اسے سر سے پیر تک دیکھا۔ وانگ چُو پراعتماد تھا اور مسکرا رہا تھا، وہی ٹیڑھی سی مسکراہٹ۔

’’آپ وہاں کیا کرتے رہے؟ ‘‘

’’وہاں ایک کمیون میں میں کھیتی باری کی ٹولی میں کام کرتا تھا۔‘‘

’’مگر آپ تو کہتے ہیں کہ آپ بدھ گرنتھ پڑھتے ہیں؟ ‘‘

’’ہاں، بیجنگ میں ایک ادارے میں ہندی پڑھانے لگا تھا اور بیجنگ میوزیم میں مجھے کام کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔‘‘

’’اگر اجازت مل گئی تھی تو آپ اپنے ملک سے بھاگ کیوں آئے؟ ‘‘ پولیس افسر نے غصے میں کہا۔

وانگ چُو کیا جواب دے؟ کیا کہے؟ ’’میں کچھ وقت کیلئے ہی وہاں گیا تھا، اب لوٹ آیا ہوں۔‘‘

پولس افسر نے دوبارہ سر سے پاؤں تک اسے گھور کر دیکھا، اس کی آنکھوں میں شک اتر آیا تھا۔ وانگ چُو عجیب سا محسوس کرنے لگا۔ ہندوستان میں پولیس حکام کے سامنے کھڑے ہونے کا اس کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس سے ضامن کے لئے پوچھا گیا، تو اس نے پروفیسر تان شان کا نام لیا، پھر گرودیو کا، لیکن دونوں مر چکے تھے۔ اس نے سارناتھ کے ادارے کے منتری کا نام لیا، شانتی نکیتن کے پرانے دو ایک ساتھیوں کے نام لئے، جو اسے یاد تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے تمام نام اور پتے نوٹ کر لئے۔ اس کے کپڑے کی تین بار تلاشی لی گئی۔ اس کی اس ڈائری کو رکھ لیا گیا، جس میں اس نے اقتباسات اور تبصرے لکھ رکھے تھے اور سپرنٹنڈنٹ نے اس کے نام کے آگے تبصرہ لکھ دیا کہ اس آدمی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ریل کے ڈبے میں بیٹھا، تو مسافر گولی اسکینڈل پر گفتگو کر رہے تھے۔ اسے بیٹھتے دیکھ کر سب خاموش ہو گئے اور اس کی طرف گھورنے لگے۔ کچھ دیر بعد جب مسافروں نے دیکھا کہ وہ تھوڑی بہت بنگالی اور ہندی بول لیتا ہے، تو ایک بنگالی بابو اچک کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ہاتھ جھٹک جھٹک کر کہنے لگے، ’’یا تو کہو کہ تمہارے دیش والوں نے دھوکہ کیا ہے، نہیں تو ہمارے ملک سے نکل جاؤ۔۔ نکل جاؤ۔۔ نکل جاؤ۔‘‘ ڈیڑھ دانت کی مسکراہٹ جانے کہاں اوجھل ہو چکی تھی۔ اس کی جگہ چہرے پر کرب اتر آیا تھا۔ دہشت زدہ اور خاموش وانگ چُو خاموشی بیٹھا رہا۔ کہے بھی تو کیا کہے؟ گولی اسکینڈل کے بارے میں جان کر اسے بھی گہرا دھکا لگا تھا۔ اس جھگڑے کی وجہ کے بارے میں اسے کچھ بھی واضح طور پر معلوم نہیں تھا اور وہ جاننا چاہتا بھی نہیں تھا۔ ہاں، سارناتھ میں پہنچ کر وہ واقعی جذباتی ہو اٹھا۔ اپنا بیگ رکشہ میں رکھے جب وہ آشرم کے قریب پہنچا تو کینٹین کا رسوئیا سچ مچ لپک کر باہر نکل آیا۔

’’آ گئے بھگوان۔ آ گئے میرے چینی بابو۔ بہت دنوں بعد درشن دیے۔ ہم بھی کہیں، اتنا عرصہ ہو گیا چینی بابو نہیں لوٹے۔ اور کہیے، سب کُشل منگل ہے؟ آپ یہاں نہیں تھے، ہم کہیں کہ جانے کب لوٹیں گے۔ یہاں پر تھے تو دن میں دو باتیں ہو جاتی تھیں، بھلے آدمی کے درشن ہو جاتے تھے۔ اس سے بڑا پُنیہ کیا ہوتا ہے۔‘‘

اور اس نے ہاتھ بڑھا کر بیگ اٹھا لیا، ’’ہم دیں پیسے، چینی بابو۔‘‘ وانگ چُو کو لگا، جیسے وہ اپنے گھر پہنچ گیا ہے۔ ’’آپ کا ٹرنک، چینی بابو، ہمارے پاس رکھا ہے۔ منتری جی سے ہم نے لے لیا۔ آپ کی کوٹھری میں ایک دوسرے سجن رہنے آئے تو ہم نے کہا کوئی فکر نہیں، یہ ٹرنک ہمارے پاس رکھ جائیے اور چینی بابو، آپ اپنا لوٹا باہر ہی بھول گئے تھے۔ ہم نے منتری جی سے کہا، یہ لوٹا چینی بابو کا ہے، ہم جانتے ہیں، ہمارے پاس چھوڑ جائیے۔‘‘

وانگ چُو کا دل بھر بھر آیا۔ اسے لگا، جیسے اس کی ڈانوا ڈول زندگی میں توازن آ گیا ہے۔ ڈگمگاتی زندگی کی گاڑی دوبارہ مستحکم رفتار سے چلنے لگی ہے۔ منتری جی بھی پیار سے ملے۔ پرانی جان پہچان کے آدمی تھے۔ انہوں نے ایک کوٹھری بھی کھول کر دی، لیکن گرانٹ کے بارے میں کہا کہ اس کے لئے دوبارہ کوشش کرنی ہو گی۔

وانگ چُو نے پھر سے کوٹھری کے بیچوں بیچ چٹائی بچھا لی، کھڑکی کے باہر وہی منظر دوبارہ ابھر آیا۔ کھوئی ہوئی مخلوق اپنے مقام پر واپس لوٹ آئی۔ تبھی مجھے اس کا خط ملا کہ وہ ہندوستان لوٹ آیا ہے اور دوبارہ جم کر بدھ گرنتھوں پر تحقیق کرنے لگا ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ اسے ماہانہ گرانٹ کے بارے میں تھوڑی فکر ہے اور اس سلسلے میں، میں اگر بنارس میں اگر فلاں آدمی کو خط لکھ دوں، تو گرانٹ ملنے میں مدد ہو گی۔

خط پا کر مجھے کھٹکا ہوا۔ کون سا سراب اسے دوبارہ واپس کھینچ لایا ہے؟ یہ لوٹ کیوں آیا ہے؟ اگر کچھ دن اور وہاں رہتا تو اپنے لوگوں کے درمیان اس کا من لگنے لگتا۔ پر کسی کی سنک کا کوئی علاج نہیں۔ اب جو واپس آیا ہے، تو کیا چارہ ہے۔

میں نے ’’فلاں‘‘ جی کو خط لکھ دیا اور وانگ چُو کی گرانٹ کا چھوٹا موٹا انتظام ہو گیا۔ پر لوٹنے کے دس ایک دن بعد وانگ چُو ایک دن صبح چٹائی پر بیٹھا ایک گرنتھ پڑھ رہا تھا اور بار بار اس کا مزہ لے رہا تھا، تبھی اس کی کتاب پر کسی کا سایہ پڑا۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، تو پولیس کا ایس ایچ او کھڑا تھا، ہاتھ میں ایک فارم اٹھائے ہوئے۔ وانگ چُو کو بنارس کے بڑے پولیس اسٹیشن میں بلایا گیا تھا۔ وانگ چُو کا من خدشات سے بھر اٹھا تھا۔ تین دن کے بعد وانگ چُو بنارس کے پولیس کے برآمدے میں بیٹھا تھا۔ اسی کے ساتھ بینچ پر بڑی عمر کا ایک اور چینی شخص بیٹھا تھا، جو جوتے بنانے کا کام کرتا تھا۔ آخر کار بلاوا آیا اور وانگ چُو چک اٹھا کر بڑے افسر کی میز کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

’’تم چین سے کب لوٹے؟ ‘‘

وانگ چُو نے بتا دیا۔

’’کلکتہ میں تم نے اپنے بیان میں کہا کہ تم شانتی نکیتن جا رہے ہو، پھر تم یہاں کیوں چلے آئے؟ پولیس کو پتہ لگانے میں بڑی پریشانی اٹھانی پڑی ہے۔‘‘

’’میں نے دونوں مقامات کے بارے میں کہا تھا۔ شانتی نکیتن تو میں صرف دو دن کے لئے جانا چاہتا تھا۔‘‘

’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں۔۔ ۔‘‘ اس نے پہلے کا جواب دہرا دیا۔

’’جو لوٹ آنا تھا، تو گئے کیوں تھے؟ ‘‘

یہ سوال وہ بہت بار پہلے بھی سن چکا تھا۔ جواب میں بدھ گرنتھوں کا حوالہ دینے کے علاوہ اسے کوئی اور جواب نہیں سوجھ پاتا تھا۔ بہت لمبا انٹرویو نہیں ہوا۔ وانگ چُو کو ہدایت کی گئی کہ ہر مہینے کے پہلے پیر کو بنارس کے بڑے پولیس اسٹیشن میں اسے آنا ہو گا اور اپنی حاضری لکھوانی ہو گی۔

وانگ چُو باہر آ گیا، پر اداسی سی محسوس کرنے لگا۔ مہینے میں ایک بار آنا کوئی بڑی بات نہیں تھی، لیکن وہ اس کی سیدھی زندگی میں رکاوٹ تھی، دخل اندازی تھی۔ وانگ چُو دل ہی دل اتنی افسردگی محسوس کر رہا تھا کہ بنارس سے لوٹنے کے بعد کوٹھری میں جانے کی بجائے وہ سب سے پہلے اس سنسان پوتر مقام پر جا کر بیٹھ گیا، جہاں صدیوں پہلے مہا پران نے اپنا پہلا پروچن دیا تھا اور دیر تک بیٹھا غور کرتا رہا۔ بہت دیر بعد اس کا دل پھر سے ٹھکانے پر آنے لگا اور دل میں پھر سے احساس کی ترنگیں اٹھنے لگیں۔

لیکن وانگ چُو کو چین نصیب نہیں ہوا۔ چند دن بعد اچانک چین اورہندوستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ ملک بھر میں جیسے طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی روز شام کو پولیس کے کچھ افسران ایک جیپ میں آئے اور وانگ چُو کو حراست میں لے کر بنارس چلے گئے۔ حکومت یہ نہ کرتی، تو اور کیا کرتی؟ حکومت والوں کو اتنی فرصت کہاں کہ بحران کے وقت خوش دلی اور خیر سگالی کے ساتھ دشمن کے ایک ایک شہری کی حیثیت کی جانچ پڑتال کرتے پھریں؟ دو دنوں تک دونوں چینیوں کو پولیس اسٹیشن کی ایک کوٹھری میں رکھا گیا۔ دونوں کے درمیان کوئی بات بھی مشترک نہیں تھی۔ جوتے بنانے والا چینی سارا وقت سگریٹ پھونکتا رہتا اور گھٹنوں پر ہاتھ ٹکائے بڑبڑاتا رہتا، جبکہ وانگ چُو اداس اور نڈھال سا دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے بیٹھا، خلا میں دیکھتا رہتا۔

جس وقت وانگ چُو اپنی پوزیشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، اسی وقت دو تین کمرے چھوڑ کر پولیس سپرنٹنڈنٹ کی میز پر اس کی چھوٹی سی پوٹلی کی تلاشی لی جا رہی تھی۔ اس کی غیر موجودگی میں پولیس کے سپاہی کوٹھری میں سے اس کا ٹرنک اٹھا لائے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ کے سامنے کاغذوں کا پلندہ رکھا تھا، جس پر کہیں پالی میں، تو کہیں سنسکرت زبان میں اقتباسات لکھے تھے۔ لیکن بہت سا حصہ چینی زبان میں تھا۔ صاحب کچھ دیر تک تو کاغذوں کو الٹتے پلٹے رہے، روشنی کے سامنے رکھ کر ان میں لکھی کسی خفیہ زبان کو ڈھونڈتے بھی رہے، آخر میں انہوں نے حکم دیا کہ کاغذوں کے پلندے کو باندھ کر دہلی کے حکام کے پاس بھیج دیا جائے، کیونکہ بنارس میں کوئی آدمی چینی زبان نہیں جانتا تھا۔ پانچویں دن جنگ بند ہو گئی، لیکن وانگ چُو کو سارناتھ واپسی کی اجازت ایک ماہ کے بعد ملی۔ چلتے وقت جب اسے اس کا ٹرنک دیا گیا اور اس نے اسے کھول کر دیکھا، تو سکتے میں آ گیا۔ اس کے کاغذات اس میں نہیں تھے، جس پر وہ برسوں سے اپنے تبصرے اوراقتباسات لکھتا رہا تھا اور جو ایک طرح سے اس کا سرمایہ تھے۔ پولیس افسر کے کہنے پر کہ انہیں دہلی بھیج دیا گیا ہے، یہ سن کر وہ سر سے پیر تک کانپ اٹھا تھا۔

’’وہ میرے کاغذات آپ مجھے دے دو۔ ان پر میں نے بہت کچھ لکھا ہے، وہ بہت ضروری ہیں۔‘‘

اس پر افسر بے رخی سے بولا، ’’مجھے ان کاغذوں کا کیا کرنا ہے، آپ کے ہیں، آپ کو مل جائیں گے۔‘‘ اور اس نے وانگ چُو کو چلتا کیا۔ وانگ چُو اپنی کوٹھری میں لوٹ آیا۔ اپنے کاغذوں کے بغیر وہ ادھ مرا سا ہو رہا تھا۔ نہ پڑھنے میں دل لگتا، نہ کاغذوں پر نئے اقتباس اتارنے میں۔ اور پھر اس پر سخت نگرانی بھی رکھی جانے لگی تھی۔ کھڑکی سے تھوڑا ہٹ کر نیم کے درخت کے نیچے ایک آدمی روز بیٹھا نظر آنے لگا۔ ڈنڈا ہاتھ میں لئے وہ کبھی ایک کروٹ بیٹھتا، کبھی دوسری کروٹ۔ کبھی اٹھ کر ڈولنے لگتا۔ کبھی کنویں کی منڈیر پر جا بیٹھتا، کبھی کینٹین کی بنچ پر آ بیٹھتا، کبھی دروازے پر جا کھڑا ہوتا۔ اس کے علاوہ اب وانگ چُو کو مہینے میں ایک بار کی جگہ ہفتے میں ایک بار بنارس میں حاضری لگوانے جانا پڑتا تھا۔

تبھی مجھے وانگ چُو کا خط ملا۔ ساری تفصیلات دینے کے بعد اس نے لکھا کہ بدھ وِہار کا منتری تبدیل کر دیا اور نئے منتری کو چین سے نفرت ہے اور وانگ چُو کو ڈر ہے کہ گرانٹ ملنا بند ہو جائے گی۔ دوسرے، کہ میں جیسے بھی ہو سکے، اس کے کاغذوں کو بچا لوں۔ جیسے بھی بن پڑے، انہیں پولیس کے ہاتھوں سے نکلوا سارناتھ میں اس کے پاس بھجوا دوں۔ اور اگر بنارس کے پولیس اسٹیشن میں فی ہفتہ پیش ہونے کے بجائے اسے مہینے میں ایک بار جانا پڑے تو اس کے لئے آسان ہو جائے گا، کیونکہ اس طرح مہینے میں تقریباً دس روپے آنے جانے میں لگ جاتے ہیں اور پھر کام میں دل ہی نہیں لگتا، سر پر تلوار ٹنگی رہتی ہے۔

وانگ چُو نے خط تو لکھ دیا، لیکن اس نے یہ نہیں سوچا کہ مجھ جیسے آدمی سے یہ کام نہیں ہو پائے گا۔ ہمارے یہاں کوئی کام بغیر جان پہچان اور سفارش کے نہیں ہو سکتا۔ اور میرے تعارف کا بڑے سے بڑا آدمی میرے کالج کا پرنسپل تھا۔ پھر بھی میں کچھ ایک پارلیمنٹ اراکین کے پاس گیا، ایک نے دوسرے کی طرف بھیجا، دوسرے نے تیسرے کی طرف۔ گھوم پھر کے میں لوٹ آیا۔ یقین دہانیاں تو بہت ملیں، پر سب یہی پوچھتے۔

’’وہ چین کو گیا تھا تو وہاں سے واپس کیوں آیا؟ ‘‘

یا پھر پوچھتے۔ ’’گزشتہ بیس سال سے تحقیق ہی کر رہا ہے؟ ‘‘

جب میں اس کے قلمی نسخوں کا ذکر کرتا، توسب یہی کہتے، ’’ہاں، یہ تو مشکل نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ اور سامنے رکھے کاغذ پر کچھ نوٹ کر لیتے۔ اس طرح کی یقین دہانیاں مجھے بہت ملیں۔ سبھی سامنے رکھے کاغذ پر میری سفارش نوٹ کر لیتے۔ پر سرکاری کام کے راستے، مایا جال کے معمے کی طرح ہوتے ہیں اور ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی شخص تمہیں تمہاری حیثیت کا احساس کراتا رہتا ہے۔ میں نے جواب میں اسے اپنی کوششوں کی مکمل تفصیل بتائی، یہ بھی یقین دلایا کہ میں پھر ان لوگوں سے ملوں گا، پر ساتھ ساتھ میں نے یہ بھی تجویز دی کہ جب حالات بہتر ہو جائیں، تو وہ اپنے ملک واپس لوٹ جائے، اس کے لئے یہی بہتر ہے۔

خط سے اس کے دل کی کیا حالت ہوئی، میں نہیں جانتا۔ اس نے کیا سوچا ہو گا؟ لیکن ان کشیدگی کے دنوں میں جب مجھے خود چین کے رویے پر غصہ آ رہا تھا، میں وانگ چُو کی پوزیشن کو بہت ہمدردی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے بعد ایک خط آیا۔ اس میں چین واپس جانے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس میں صرف گرانٹ کی بات کی گئی تھی۔ گرانٹ کی رقم اب بھی چالیس روپے ہی تھی، لیکن اسے پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی کہ سال ختم ہونے پر اس پر دوبارہ غور کیا جائے گا کہ وہ ملتی رہے گی یا بند کر دی جائے گی۔

تقریباً سال بھر بعد وانگ چُو کو ایک پرزہ ملا کہ تمہارے کاغذ واپس کئے جا سکتے ہیں، تم پولیس اسٹیشن آ کر انہیں لے جا سکتے ہو۔ ان دنوں وہ بیمار پڑا تھا، لیکن بیماری کی حالت میں بھی وہ گرتا پڑتا بنارس پہنچا۔ لیکن اس کا ہاتھ ایک تہائی کاغذ لگے۔ پوٹلی اب بھی ادھ کھلی تھی۔ وانگ چُو کو پہلے تو یقین نہیں آیا، پھر اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ اس پر ایس ایچ او بے رخی کے ساتھ بولا، ’’ہم کچھ نہیں جانتے۔ انہیں اٹھاؤ اور یہاں سے لے جاؤ ورنہ ادھر لکھ دو کہ ہم لینے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘

کانپتی ٹانگوں سے وانگ چُو پوٹلی بغل میں دبائے لوٹ آیا۔ کاغذوں میں صرف ایک مکمل مضمون اور کچھ تبصرے بچے تھے۔ اسی دن سے وانگ چُو کی آنکھوں کے سامنے دھول اڑنے لگی تھی۔ وانگ چُو کی موت کی خبر مجھے مہینے بھر بعد ملی، وہ بھی بدھ وہار کے منتری کی جانب سے۔ مرنے سے پہلے وانگ چُو نے زور دیا تھا اس کا چھوٹا سا ٹرنک اور اس کی گنی چنی کتابیں مجھے پہنچا دی جائیں۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ کر انسان بری خبریں سننے کا عادی ہو جاتا ہے اور وہ دل پر گہرا صدمہ نہیں کرتیں۔ میں فوراً سارناتھ نہیں جا پایا، جانے میں کوئی تک بھی نہیں تھی، کیونکہ وہاں وانگ چُو کا کون بیٹھا تھا، جس کے سامنے افسوس کا اظہار کرتا، وہاں تو صرف ٹرنک ہی رکھا تھا۔ پر کچھ دنوں بعد موقع ملنے پر میں گیا۔

منتری جی نے وانگ چُو کے بارے میں خیر سگالی کے الفاظ کہے، ’’بڑا نیک دل آدمی تھا، حقیقی معنوں میں بدھ بھکشو تھا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ میرے دستخط لے کر انہوں نے ٹرنک دیا، جس میں وانگ چُو کے کپڑے تھے، وہ پھٹا پرانا چوغہ تھا جو نیلم نے اس کی احسان مندی میں دیا تھا۔ تین چار کتابیں تھیں، پالی اور سنسکرت کی چٹھیاں تھیں، جن میں کچھ میری، کچھ نیلم کی رہی ہوں گی، اور کچھ دیگر لوگوں کی۔ ٹرنک اٹھائے میں باہر کی طرف جا رہا تھا، تبھی مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ ملی۔ میں نے مڑ کر دیکھا، کینٹین کا رسوئیا بھاگتا چلا آ رہا تھا۔ اپنے خطوط میں اکثر وانگ چُو اس کا ذکر کیا کرتا تھا۔

’’ بابو آپ کو بہت یاد کرتے تھے۔ میرے ساتھ آپ کا بہت ذکر کرتے تھے۔ بہت بھلے آدمی تھے۔‘‘ اور اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ تمام دنیا میں شاید یہی اکلوتا انسان تھا، جس نے وانگ چُو کی موت پر دو آنسو بہائے تھے۔

’’بڑی بھولی طبیعت تھی۔ بیچارے کو پولیس والوں نے بہت پریشان کیا۔ شروع شروع میں تو چوبیس گھنٹے کی نگرانی رہتی تھی۔ میں اس حوالدار سے کہوں، بھیا، تو کیوں اس بیچارے کو پریشان کرتا ہے؟ وہ کہے، میں تو ڈیوٹی کر رہا ہوں۔‘‘

میں ٹرنک اور کاغذوں کا پلندہ لے آیا ہوں۔ اس پلندے کا کیا کروں؟ کبھی سوچتا ہوں، اسے شائع کرا ڈالوں۔ پر نامکمل کتاب کو کون چھاپے گا؟ بیوی روز بگڑتی ہے کہ میں گھر میں کچرا بھرتا جا رہا ہوں۔ دو تین بار وہ پھینکنے کی دھمکی بھی دے چکی ہے، پر میں اسے چھپاتا رہتا ہوں۔ کبھی کسی فریم میں رکھ دیتا ہوں، کبھی پلنگ کے نیچے چھپا دیتا ہوں۔ پر میں جانتا ہوں کسی دن یہ بھی گلی میں پھینک دیے جائیں گے۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل