FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

پسند کی شادی اور اسلامی تعلیمات

 

                   غازی عبدالرحمن قاسمی

 

 

 

 

 

تعارف

 

اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اسلام کا نظام نکاح ایک ایسا مرتب ادارہ ہے جو انسانی اجتماعیت کی بنیاد ہے۔ اگر اس میں کوئی سقم یا نقص نہ ہو تو معاشرہ ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے گا۔ لیکن اگراس میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی تو اس کے اثرات و نتائج پورے معاشرہ پر مرتب ہوں گے۔ اسی لئے اسلامی تعلیمات شادی بیاہ کے بارے میں اس قدر مفصل اور عمدہ ہیں کہ اگر ان کو اپنا لیا جائے تو عصر حاضر میں پیش آنے والے بعض ایسے مسائل جو بظاہر حل ہوتے نظر نہیں آرہے وہ سب خود بخود درستگی کی راہ پر آ جائیں گے۔

اسلام نے مرد و عورت کے تعلق کو معاشرتی قدر کے طور پر قانونی اور اخلاقی تحفظ دے کر نکاح سے موسوم کیا ہے اور ایسے آداب سکھائے ہیں جو اس رشتہ کو مضبوط تر بنانے میں اور اس کے اہم مقاصد کے حصول میں مم دو معاون ثابت ہوتے ہیں اور ایسی جذباتیت سے منع کیا جو شریعت کی نظر میں غیر ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں معاشرتی پاکیزگی کی فضاء قائم کرنے کے لئے عفت و عصمت کی بنیاد بنا کر مرد و عورت کے جنسی تعلق کو قانونی شکل دینے کی اہم وجہ جنسی آسودگی کے ساتھ، حفاظت نسب اور زندگی کے تسلسل کو باقی رکھنا ہے۔

انسان جب حدود قیود سے باہر نکل کر سوچتا ہے تو اس کا نفس اسے جنسی آوارگی اور بے راہ روی پر آمادہ کرتا ہے جس سے اخلاقی بندشیں ختم ہو جاتی ہیں اور بہیمی قوتیں اسے انسانیت سے گرا کر حیوانیت کی سطح پر لے آتی ہیں۔ جو اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی فضیلت کو داغدار بنا دیتی ہیں۔ اسلام نے نفس کی سرکشی اور بہیمانہ خواہشات کو فطری اور جائز راستہ نکاح کی صورت میں دیا تاکہ انسان اعتدال و توازن کے ساتھ زندگی گزارے اور ناجائز تعلقات و منفی راستوں سے بچے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے اندر جو طبعی تقاضے رکھے گئے ہیں ان میں عورتوں کی طرف رغبت ایک فطری بات ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ(1)

’’لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں۔ ‘‘

لوگوں کی عورتوں میں رغبت اور ان کی طرف قلبی میلان فطرتاً ان میں ودیعت رکھ دیا گیا ہے۔ اپنی پسند اور محبت کا قرب حاصل کرنے کے لئے انسان غلط راستہ کا انتخاب کرسکتا ہے جو اس کے لئے شرعاً و عقلاً جائز نہیں ہے اور اگر اسے کہا جائے کہ وہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھے اور عورتوں کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو تو یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اسلام نے راہ اعتدال کو اختیار کرتے ہوئے مرد و عورت کے درمیان ایک قانونی رشتہ نکاح کی صورت میں قائم کیا۔ آج کل نجی زندگی اور پسند کے نام پر مغربی دنیا میں غیر فطری عمل اختیار کیے جا رہے ہیں۔ زیر نظر آرٹیکل میں ان کا شرعی جائزہ لیا گیا ہے۔ اور عصر حاضر میں چونکہ پسند کی شاد ی کا رجحان بہت زیادہ بڑھ رہا ہے اس لیے مرد و عورت کے لیے پسند کی شادی کی شرعی حیثیت پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

 

 

 

 

شادی کی اہمیت قرآن وسنت کی روشنی میں

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ  مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً (2)

’’تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ بھی نکاح کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں موجود ہیں۔ ارشاد نبویﷺ  ہے:

وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي( 3)

’’میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں پس جس نے میری سنت سے رو گردانی کی وہ میرے طریقے پر نہیں۔ ‘‘

ایک اور مقام پر نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:

یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ الْبَائَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَاِنَّہُ لَہُ وِجَاءُْ (4)

’’اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھے وہ شادی کر لے اور جس میں طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے۔ روزہ اس کو خصی کر دیتا ہے۔ (شہوت کم کر دیتا ہے)‘‘

بلکہ ایک مقام پر آپﷺ نے شادی کو نصف دین کی تکمیل قرار دیا ارشاد ہے:

اذا تَزَوَّجَ العَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ اللّٰہ في النِّصْفِ الباقِي(5)

’’جب کوئی بندہ (مسلمان) شادی کرتا ہے تو اس نے اپنے نصف دین کو مکمل کر لیا۔ پس باقی نصف کے بارے میں وہ اللہ سے ڈرے۔ ‘‘

مندرجہ بالا مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح اللہ تعالیٰ اور حضور اکرمﷺ کے حکم کی تعمیل ہے۔ شریعت اسلامیہ نے ایک طرف نکاح کو جائز قرار دیا تو دوسری طرف زنا سے شدت اور سختی کے ساتھ منع کیا اور عبرت ناک سزا بھی رکھی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَآئَ سَبِیْلاً(6)

’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بُری راہ ہے۔ ‘‘

اور زنا کی سزا کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ  بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ  بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا  طَآئِفَۃٌ  مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(7)

’’بدکار عورت اور بدکار مرد سودونوں میں سے ہر ایک کو سو سودرے مارو اور تمہیں اللہ کے معاملہ میں ان پر رحم نہ آنا چاہیے اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیے۔ ‘‘

 

 

 

 

شادی معاشرتی ستون

 

 

شادی صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، شخصی ضرورت، طبعی خواہش اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دو خاندانوں میں باہمی الفت و ملاپ کا ذریعہ ہے اور معاشرہ انسانی کے بقاء کا ایک بنیادی ستون بھی ہے اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت و فضیلت کا حامل ہے۔ نکاح کی اہمیت اور اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت آدمؑ کے وقت سے شریعت محمدیﷺ تک کوئی ایسی شریعت نہیں گزری جو نکاح سے خالی رہی ہو۔

چنانچہ ہر شریعت میں مرد و عورت کا اجتماع ایک خاص معاہدہ کے تحت شروع رہا ہے اور بغیر اس معاہدے کے مردو عورت کا باہمی اجتماع کسی بھی شریعت و مذہب نے جائز قرار نہیں دیا۔ البتہ اس معاہدہ کی صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے شرائط و احکام میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اسلام نے جو شرائط مقرر کیں، احکام نافذ کیے اور جو قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں وہ قرآن  و حدیث اور کتب فقہ میں موجود ہیں۔ اسلام نے نکاح میں مرد و عورت کو پسند اور ناپسند کا اختیار دیا ہے مگر اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ پسند ایسی نہ ہو جس پر شریعت کی طرف سے ممانعت ہے۔

 

 

 

 

یورپ میں جنسی بے راہ روی

 

اسلام میں مرد و عورت کے لئے جنسی لذت کا حصول صرف نکاح میں ہے۔ اس شریفانہ طریقہ کے علاوہ اور کسی صورت کو جائز قرار نہیں دیا گیا۔ مگر اس وقت مغربی ممالک کی صورت حال اس بارے میں بڑی تشویشناک اور لمحہ فکریہ والی ہے۔

یورپ کی جنسی بے راہ روی کے بارے میں ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں :

’’ہر معاشرے میں شادی سے پہلے ہر مرد اور عورت کو جنسی لحاظ سے پاک دامن رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن مغربی معاشرہ اور کچھ دیگر غیر ترقی یافتہ معاشرے مرد و عورت کو جنسی اختلاط کی اجازت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پولی نیشیا کے سیموئن قبائل میں ہر بالغ مرد اور عورت سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے جنس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ان قبائل میں شادی سے پہلے منگیتر کے ساتھ راتیں گزارنا ان کی روایت اور تمدن کا حصہ ہے۔ اسی طرح کینیا کے ماسی قبائل میں جب ایک لڑکا بالغ ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر تربیتی کیمپوں میں چلا جاتا ہے جہاں وہ جنگی ماہرین سے جنگ اور لوٹ مار کرنے کے طریقے سیکھتا ہے۔ اس دوران نزدیکی گھروں میں رہنے والی جوان لڑکیاں ان کی خدمت گزاری کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ جن سے جنسی تعلق قائم کرنا ان جوانوں کا حق ہوتا ہے۔ (8)

اور مغربی تہذیب کے بارے میں مولانا گوہر رحمنؒ لکھتے ہیں جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

’’اہل یورپ چونکہ اپنی مذہبی اقدار سے دور جا چکے ہیں اس لئے مغربی تہذیب ایک بالغ شخص کو کھلی چھٹی دینے کی قائل ہے۔ کسی قسم کی کوئی بندش یا قید جو اس مرد و عورت کا فاصلہ کرے اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہر طرف جسمانی طور پر لطف اندوزی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔ اخلاقی قدروں کی پامالی اس کا حق آزادی شمار کیا جاتا ہے اور حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر مال کمائے تو یہ اس کا معاشی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ عورت، مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرے تو یہ اس کا تمدنی حق سمجھا جاتا ہے اور مرد و عورت بے راہ روی پر اُتر آئیں تو یہ ان کا جنسی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی اکثریت اپنی کسی لذت اور خواہش کی تکمیل کے لئے ایک ناجائز کام کو جائز کرانا چاہے تو یہ حق جمہوریت کی رو سے ممکن ہے۔ (9)

الغرض یورپ میں ہر بالغ شخص کو کھلی چھوٹ حاصل ہے کہ وہ جس طریقہ سے چاہے اپنی زندگی گزارے اور جنسی تعلقات پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک ہم جنس پرستی بھی جائز ہے خواہ وہ مرد کی مرد کے ساتھ ہو یا عورت کی عورت کے ساتھ ہو۔ بلکہ وہ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر جانوروں کے ساتھ فحش حرکات میں ملوث ہو گئے ہیں۔ مگر اسلام میں نکاح کے علاوہ  تمام صورتیں ناجائز اور حرام ہیں۔ شریعت نے جہاں مرد و عورت کو پسند سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے وہاں یہ بھی بتا دیا ہے کہ کن افراد کے ساتھ نکاح کیا جا سکتا ہے۔ مگر یورپ میں آج کل بے راہ روی اپنے عروج پر ہے۔ پسند اور نجی معاملہ کے نام پر غیر فطری عمل اختیار کیے جا رہے ہیں ان کی شرعی حیثیت درج ذیل ہے۔

 

1۔ مرد کی مرد کے ساتھ شادی:

 

مغربی ممالک میں مرد کی مرد کے ساتھ شادی کا رواج عام ہے۔ مگر چونکہ اس قسم کے تعلق سے مقصود عیش و عشرت ہے، عفت و عصمت و بقائے نسل انسانی و دیگر مقاصد پیش نظر نہیں ہوتے اس لئے شریعت اسلامیہ نے اس قسم کے تعلقات پر کڑی پابندی لگائی ہے۔ قرآنی شہادت کے مطابق مرد کی دوسرے مرد کے ساتھ جنسی تعلق کی ابتداء حضرت لوطؑ کی قوم سے ہوئی۔ (10)اور جب وہ اس جرم عظیم سے باز نہ آئی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور زمین کو اُلٹ کر ان پر پھینک دیا گیا۔ (11)اس فعل قبیح کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:

وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا(12)

’’تم میں سے جو دو مرد بدکاری کریں ان کو ایذا دو۔ ‘‘

اور اسی طرح حدیث میں ہے :

مَنْ وَجَدْ تُمُوہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِہِ(13)

’’تم جس کو قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔ ‘‘

 

2۔ عورت کی عورت سے شادی:

 

عورت کا عورت سے شادی کرنا جیسا کہ یورپ میں اس قسم کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اسلام میں اس قسم کے تعلقات بھی مذموم و ممنوع ہیں۔

حدیث میں ہے:

َلایَنْظُرُ الرَّجُلُ اِلَی عَوْرَۃِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْ أَۃُ اِلَی عَوْرَۃِ الْمَرْأَۃِ وَلَا یُفْضِی الرَّجُلُ اِلَی الرَّجُلِ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِی الْمَرْأَۃُ اِلَی الْمَرْ أَۃِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ(14)

’’کوئی مرد کسی مرد کا ستر نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کا ستر دیکھے اور نہ ہی کوئی مرد ایک کپڑے میں دوسرے مرد کے ساتھ لیٹے اور نہ ہی کوئی عورت ایک کپڑے میں دوسری عورت کے ساتھ لیٹے۔ ‘‘

حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م۔ 1176ھ) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اقول: ذلک لان النظر الی العورۃ یھیج الشہوۃ، والنساء ربما یتعا شقن فیما بینھن   وکذالک الرجال فیما بینھم ولاحرج فی ترک النظر الی السوء ۃ، وایضا فستر العورۃ من اصول الارتفاقات لا بد منھا۔ (15)

’’میں کہتا ہوں یہ ممانعت اس لئے ہے کہ ستر کا دیکھنا شہوت کو برانگیختہ کرتا ہے اور بسااوقات عورتیں بھی ایک دوسرے پر فریفتہ ہو جاتی ہیں اور اس طرح مرد بھی ایک دوسرے کے عاشق ہو جاتے ہیں اور ستر کی طرف نظر نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نیز ستر کو چھپانا تہذیب کے ان اصولوں میں سے ہے جن کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ‘‘

چنانچہ شریعت اسلامیہ میں مردوں کے مردوں کے ساتھ عورتوں کے عورتوں کے ساتھ اس قسم کے تعلقات سختی سے منع ہیں۔

 

3۔ مرد کا غیر عورت کے ساتھ تعلقات قائم کرنا:

 

نکاح کے بغیر مرد کا عورت کے ساتھ جنسی تعلقات کبیرہ گناہ ہیں۔ جس کی سزا شادی شدہ کے لئے رجم (16)اور کنوارے کے لئے سوکوڑے ہیں (17)اور اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ قوم لوط والا عمل کرے تو اس پر بھی بڑی سخت وعید ہے۔

حضور اکرمﷺ  نے فرمایا:

لایَنْظُرُ اللَّہُ اِلَی رَجُلٍ أَتَی رَجُلًا أَوْ امْرَأَۃً فِی الدُّبُرِ(18)

’’اللہ اس شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یا عورت سے غیر فطری عمل کرے یعنی پیچھے سے جماع کرے۔ ‘‘

محی الدین امام نوویؒ(م۔ 676ھ) لکھتے ہیں :

واتفق العلماء الذین یعتدبھم علی تحریم وطء المرأۃ فی دبرھا حائضا کانت أوطاھراً لأحادیث کثیرۃ مشھورۃ۔ (19)

’’بہت سی احادیث مشہو رہ کے پیش نظر قابل اعتماد علماء کا اتفاق ہے کہ عورت سے وطی فی الدبر کرنا حرام ہے خواہ وہ حائضہ ہو یا پاک۔ ‘‘

 

4۔ جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا:

 

مغربی ممالک میں ایک قبیح فعل جانوروں کے ساتھ فحش حرکات میں ملوث ہونا ہے۔ مگر اسلام میں اس کی بڑی سخت مذمت اور وعید آئی ہے۔ جانوروں کے ساتھ فعل بدکی سخت سزا تجویز کی گئی ہے۔

حضور اکرمﷺ  نے فرمایا:

مَنْ وَجَدْ تُمُوہُ وَقَعَ عَلَی بَھِیمَۃٍ فَاقْتُلُوہُ وَاقْتُلُوا البَھِیمَۃَ(20)

’’جس کو جانور سے بد فعلی کرتے پاؤ اسے قتل کر دو اور جانور بھی ہلاک کر دو۔ ‘‘

بلکہ ایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے۔ حدیث میں ہے :

مَلْعُونُْ  مَنْ أَتَی بَھِیْمَۃً(21)

’’چوپائے سے بد فعلی کرنے والا بھی ملعون ہے۔ ‘‘

الغرض یہ کہ نکاح کے پاکیزہ رشتے کے علاوہ باقی جتنی بھی صورتیں ہیں ان میں حفاظت نسب کی کوئی صورت نہیں۔ جب کہ بعض صورتوں میں نسل انسانی کا خاتمہ ہے اور نکاح سے معاشرتی زندگی میں جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ بھی پس پشت چلے جاتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ وفساد پیدا ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑی نقصان دہ بات یہ ہے کہ انسانیت ختم ہو جاتی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب خواہشات کی تکمیل کے لئے اخلاقی و مذہبی پابندیوں کی رعایت نہ کی جائے تو پھر معاشرہ میں پھیلنے والی انارکی کا تصور ہی لرزا دینے والا ہے۔ اسی لیے شریعت اسلامیہ نے ناجائز راستوں پر پابندیاں لگائیں۔ مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ شریعت نے پسند کے نکاح کی اجازت دی ہے۔ مگر ناجائز اور غلط طریقوں سے پسند کو اپنانے سے منع کیا ہے۔

 

 

 

مردوں کے لیے پسند کی شادی کی شرعی حیثیت

 

شریعت اسلامیہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کسی بھی ایسی عورت سے شادی کرسکتا ہے جو نہ اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو اور نہ وقتی کسی عارض کی وجہ سے حرام ہو۔ قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ  مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً(22)

’’ تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو۔ ‘‘

بلکہ نکاح سے پہلے مرد کا اس عورت کو دیکھنا جائز ہے جس سے وہ نکاح کر رہا ہے۔ احادیث میں نہایت صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمْ الْمَرْأَۃَ فَاِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْطُرَ اِلَی مَا یَدْعُوہُ اِلَی نِکَا حِھَا فَلْیَفْعَلْ قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِیَۃً فَکُنْتُ أَتَخَبَّأُ لَھَا حَتَّی رَأَیْتُ مِنْھَا مَا دَعَانِي اِلَی نِکَاحِھَا وَتَزَوُّجِھَا فَتَزَوَّجْتُھَا(23)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو پیغام نکاح دے تو اگر ممکن ہو اس کو دیکھ لے اس کے بعد نکاح کرے۔ حضرت جابرؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لڑکی کو نکاح کا پیغام دیا اور میں نے اس کو چھپ کر دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس میں وہ چیز پائی جو نکاح پر رغبت کا سبب بنی۔ پھر میں نے اس سے نکاح کر لیا۔ ‘‘

بلکہ اس مضمون کی اور بھی احادیث ہیں جن میں نکاح سے قبل عورت کی طرف دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

امام ابن بطالؒ(م۔ 449ھ) لکھتے ہیں :

ففی ھذہ الأحادیث اباحۃ النظر الی وجہ المرأۃ لمن أرادنکاحھا۔ (24)

’’پس ان احادیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جس عورت سے نکاح کا ارادہ ہو اس کے چہرے کی طرف دیکھنا جائز ہے۔ ‘‘

 

جمہور کی رائے :

 

جمہور علماء کے نزدیک قبل از نکاح مخطوبہ عورت کو دیکھنا جائز ہے۔

امام ابن بطالؒ لکھتے ہیں :

ذھب جمھور العلماء الی أنہ لابأس بالنظر الی المرأۃ اذا أراد أن یتزوجھا۔ (25)

جمہور علماء اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جب کسی عورت کے ساتھ شادی کا ارادہ ہو تو اس کی طرف نظر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

محی الدین امام نوویؒ  مخطوبہ عورت کی طرف نظر کے جواز والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

وفیہ استحباب النظر الی وجہ من یرید تزوجھا وھو مذھبنا ومذھب مالک وأبی حنیفۃ وسائر الکوفیین وأحمد وجماھیرالعلماء۔ (26)

’’اوراس حدیث میں ہے کہ عورت کے چہرے کی طرف نظر کرنا اس شخص کے لئے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور یہی مذہب ہمارا (شوافع کا ) ہے اور (امام )مالکؒ اور (امام) ابوحنیفہ اور تمام کوفہ(کے اہل علم) اور (امام) احمدؒ سمیت جمہور علماء کا ہے۔ ‘‘

اما م عبدالرحمن المقدسی الحنبلیؒ(م۔ 682ھ) لکھتے ہیں :

قال شیخنا لا نعلم بین أھل العلم فی اباحۃ النظر الی المرأۃ لمن أرادنکاحھا خلافا۔ (27)

’’ہمارے مشائخ نے کہا کہ ہم نہیں جانتے اہل علم کے درمیان اختلاف واقع ہو اس عورت کی طرف نظر  کے جائز ہونے کے بارے میں جس سے کوئی شخص نکاح کا ارادہ رکھتا ہو۔ ‘‘

مخطوبہ عورت کے جن اعضاء کو دیکھنا جائز ہے :

محدث جلیل مولانا ظفر احمد عثمانیؒ تھانوی(م۔ 1394ھ)باب جواز النظر الی المخطوبہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ ، حضرت جابرؓ بن عبداللہ، حضرت محمد بن مسلمہؓ ، حضرت ابو حمید الساعدیؓ  کی مخطوبہ عورت کی طرف قبل از نکاح دیکھنے والی روایات ذکر کرنے کے بعد  لکھتے ہیں جس کا مفہوم درج ذیل ہے:

’’کہ احادیث مذکورہ اس باب میں نص ہیں کہ یہ نظر صرف ان اعضاء کی طرف ہوسکتی ہے جو ستر میں داخل نہیں ہیں مثلاً چہرہ اور ہتھیلیاں۔ اور جمہور کا یہی مذہب ہے۔ اور اس مسئلہ میں جمہور کی دلیل حضرت جابرؓ  کی روایت فَخَطَبْتُ جَارِیَۃً فَکُنْتُ أَتَخَبَّأُ ہے اور راوی جو روایت کرتا ہے وہ اس کو زیادہ پہچانتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ خاطب لڑکی کے اولیاء سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ لڑکی کو اس کے سامنے لایا جائے۔ اس لیے کہ اس میں اولیاء کی سبکی ہے۔ اور ایسے مباح کام جن میں کسی کی سبکی ہوسکتی ہو وہ جائز نہیں ہوتے۔ اور نہ ہی عورت کو مطلع کرتے ہوئے دیکھا جائے اس لیے کہ ایسے معاملات میں عورتوں کو حیا آتی ہے اور اس طرح سے اجنبی مرد کی نظر عورت کے دل پر گراں گزرتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے عورتوں کی جبلت میں غیرت رکھی ہے۔ بہرکیف چپکے اور خفیہ طریقے سے مخطوبہ عورت کو دیکھنا جائز ہے۔ اور اس قسم کی نظر میں چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ (28)

 

مخطوبہ عورت کو نکاح سے قبل دیکھنے کی اجازت میں شریعت کی حکمت:

 

شریعت اسلامیہ کا قبل از نکاح مخطوبہ عورت کی طرف دیکھنے کو جائز قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ پیغام نکاح دینے والے مرد کے دل میں الفت و محبت کے جذبات پیدا ہوں اور وہ اس عورت کو اپنی پسند اور رضا سے اپنائے تاکہ بعد میں ناپسندیدگی کی وجہ سے ندامت  و شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔

علامہ ابن نجیمؒ (م۔ 970ھ) لکھتے ہیں :

ونظرہ الی مخطوبتہ قبل النکاح سنۃ فانہ داعیۃ للألفۃ۔ (29)

’’اور مخطوبہ عورت کی طرف نکاح سے قبل دیکھنا سُنت ہے پس بے شک یہ دیکھنا محبت کی طرف داعی ہے۔ ‘‘

حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں :

السبب فی استحباب النظر الی المخطوبۃ ان یکون التزوج علی رویۃ وان یکون أبعد من الندم الذی یلزمہ ان اقتحم فی النکاح ولم یوافقہ۔ (30)

’’مخطوبہ عورت کی طرف دیکھنے کے مستحب ہونے کا سبب یہ ہے کہ شادی غور و فکر سے ہو اور وہ اس ندامت سے دور رہے جو اس کو نکاح کرنے کے بعد لاحق ہو گی۔ اگر وہ شادی اسے موافق نہ آئی۔ ‘‘

مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ نکاح سے عورت کو دیکھنے کی اجازت دینا اسی لئے تاکہ اس کی محبت میں اضافہ ہو اور زندگی پرسکون و خوشگوار گزرے۔

اور اہم بات یہ کہ جمہور فقہاء کے نزدیک مخطوبہ عورت کو دیکھنے کے لئے اس کی رضا مندی ضروری نہیں ہے بلکہ چپکے سے اس کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر اطلاع کیے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ احادیث میں بھی عورت کی اجازت کے ساتھ دیکھنے کا ذکر نہیں ہے اور اس کی حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ اگر اس کو اطلاع کیے بغیر دیکھ لیا اور وہ پسند نہ آئی تو اسے ٹھکرائے جانے پر تکلیف اور اذیت نہیں ہو گی۔ (31)

مندرجہ بالا اہل علم کے اقوال سے معلوم ہو رہا ہے کہ نکاح سے قبل مرد کو عورت کے چہرے کی طرف نظر کرنے کی اجازت دینا اسی لئے ہے تاکہ وہ پسند کی شادی کرسکے اور بعد میں ناپسندیدگی کی تلخیاں اس کی زندگی میں زہر نہ گھول سکیں۔ شریعت اسلامیہ چاہتی ہے کہ رشتہ نکاح ایک پائیدار رشتہ ہو اس لئے وہ ابتداء ً  ہی ناپائیداری کے تمام دروازوں کو بند کر دیتی ہے۔ اس لئے اس لڑکی کو نکاح سے قبل دیکھنے کی اجازت دی گئی۔ بلکہ آپﷺ نے اس کی ترغیب فرمائی کہ جس کو پیغام نکاح دیا جائے پہلے اس کو دیکھ لیا جائے۔

لیکن مغربی تہذیب تو اس بات کی اجازت دے رہی ہے کہ مرد و عورت کو نکاح سے قبل ایک دوسرے کے ساتھ ایک عرصہ تک وقت بھی گزارنا چاہیے اور باہم پیار و محبت کے تعلقات رکھنے چاہییں۔ تاکہ اچھی طرح ایک دوسرے کی طبیعت اور مزاج کا علم ہو جائے۔ مگر اسلام اس طرح کے تعلقات کو بے حیائی اور کبیرہ گناہ قرار دیتا ہے۔


 

 

عورتوں کے لیے پسند کی شادی کی شرعی حیثیت

 

شریعت اسلامیہ نے جس طرح مرد کو پسند کی شادی کا اختیار دیا ویسے ہی عورت کو بھی دیا ہے۔ کہ وہ شادی کے لئے ایسے مرد کا انتخاب کرسکتی ہے جس سے نکاح شرعاً حرام اور ناجائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے۔ ارشاد بانی ہے:

حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ(32)

’’یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے۔ ‘‘

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُن(33)

’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پس وہ اپنی عدت تمام کر چکیں تو اب انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ ‘‘

چنانچہ ان آیات کے پیش نظر فقہاء احناف کی یہ رائے ہے کہ عاقلہ و بالغہ عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے۔ (34)اسی طرح احادیث مبارکہ بھی اس مسئلہ کو واضح کرتی ہے کہ عورتوں کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کا نکاح کیا جائے اور بالغہ عورت سے بغیر اس کی اجازت کے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا:

لا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَاْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا یَارَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ اِذْنُھَا قَالَ أَنْ تُسْکُتَ(35)

’’شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ کنواری کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہؓ نے پوچھا یارسول اللہﷺ! کنواری کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے۔ ؟ فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔ ‘‘

بلکہ ایک دفعہ حضور اکرمﷺ کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپﷺ سے عرض کیا تو آپﷺ نے اس کا نکاح فسخ کر دیا۔

عَنْ خَنْسَایَ بِنْتِ خِدَامٍ الْأَنْصَارِیَّۃِ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ ثَیِّب ُْ  فَکَرِھَتْ ذَلِکَ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِکَاحَھا(36)

’’حضرت خنسا بنت خدام انصاریہؓ   کہتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح کر دیا اور میں ثیبہ تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں نے رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کِیا،  تو آپﷺ نے میرا نکاح فسخ کر دیا۔ ‘‘

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے :

’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے ایک کنواری لڑکی حضور اکرمﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی اس کے باپ نے اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کر دیا ہے تو آپﷺ نے اس کو اختیا ر دیا۔ (یعنی اگر وہ چاہے تو نکاح کو فسخ کر دے )‘‘(37)

حضرت عروہؓ سے روایت ہے :

أَنَّ عُمَرَبْنَ الْخَطَابِ قَالَ: یَعْمَدُ أَحَدُ کُمْ اِلَی بِنْتِہِ فَیُزَوِّجُھَا الْقَبِیْحَ اِنَّھُنَّ یُحْبِبْنَ مَاتُحِبُّونَ(38)

’’حضرت عمرؓ بن خطابؓ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایک اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کرتا ہے اور اس کی شادی بدصورت آدمی سے کرا دیتا ہے (ایسا نہ کرو) بے شک وہ عورتیں بھی وہی پسند کرتی ہیں جو تم پسند کرتے ہو۔ ‘‘

اور حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی کتب حدیث میں موجود ہے:

لَا یُکْرِ ھَنَّ أَحَدُ کُمُ ابْنَتَہُ عَلَی الرَّجُلِ الْقَبِیْحِ فَاِنَّھُنَّ یُحْبِبْنَ مَاتُحِبُّونَ(39)

’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیٹی کو بدصورت آدمی کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور نہ کرے پس بے شک وہ عورتیں بھی وہ پسند کرتی ہیں جو تم پسند کرتے ہو۔ ‘‘

علامہ موسیٰ الحجاوی المقدسی (م۔ 968ھ) شیخ الاسلام ابن جوزیؒ (م۔ 597ھ) کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قال ابن الجوزی فی کتاب النساء ویستحب لمن أراد أن یزوج ابنتہ أن ینظرلھا شابا مستحسن الصورۃ ولا یزوجھا دمیما وھوالقبیح۔ (40)

’’ابن جوزی نے کتاب النساء میں کہا اس آدمی کے لئے مستحب ہے جو اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کرے کہ وہ اس کے لئے اچھی شکل و صورت والا نوجوان دیکھے اور اس کی شادی بدصورت آدمی سے نہ کرائے۔ ‘‘

معلوم ہوا عورت کے جذبات اور احساسات کی رعایت رکھتے ہوئے اس کی شادی کی جائے۔

 

نکاح سے قبل مخطوبہ عورت کے لیے خاطب کو دیکھنے کی اجازت:

 

فقہاء نے اس مسئلہ پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ پیغام نکاح دینے والے مرد کو عورت نکاح سے قبل دیکھ سکتی ہے۔

امام ابواسحاق شیرازیؒ(م۔ 476ھ) لکھتے ہیں :

ویجوز للمرأۃ اذا أرادت أن تتزوج برجل أن تنظر الیہ لانہ یعجبھا من الرجل ما یعجب الرجل منھا۔ (41)

’’اور جائز ہے عورت کے لئے جب وہ کسی آدمی سے شادی کا ارادہ کرے کہ دیکھے اس کی طرف، اس لئے کہ پسند آئے گی اس کو مرد میں سے وہ چیز جو پسند آتی ہے مرد کو عورت سے۔ ‘‘

فقہاء احناف و مالکیہ اور حنابلہ کی بھی یہی رائے ہے کہ نکاح سے قبل عورت پیغام نکاح دینے والے مرد کو دیکھ لے۔ ( 42)

معلوم ہوا نکاح سے پہلے عورت کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ پیغام نکاح دینے والے مرد کو دیکھے تاکہ بعد میں ناپسندیدگی ازدواجی زندگی پر اثر اندا ز نہ ہو۔

 

ولی کی اجازت کے بغیر عورت کی شادی کا شرعی حکم:

 

عصر حاضر میں پسند کی شادی کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ بہت سے واقعات ایسے آرہے ہیں کہ جن میں مرد و عورت اپنی پسند سے اپنے اولیاء اور بزرگوں کو اعتماد میں لے کرLove Marriage کر رہے ہیں۔ یہ ان کا شرعی حق ہے جس کی شریعت تائید کرتی ہے مگر بہت سارے واقعات ایسے بھی ہیں کہ مرد و عورت نے اپنے اولیاء کو اعتماد میں لیے بغیر گھر سے بھاگ کر پسند کی شاد ی کر لی اور بعد میں پکڑے جانے پر انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ جیسا کہ آج کل اخبارات میں اس قسم کی خبریں کثرت سے سامنے آ رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کرتی ہے تو یہ شادی شریعت کی نگاہ میں کیسی ہے۔ ؟

اس مسئلہ کو ا س طرح سے بھی تعبیر کیا جا سکتاہے کہ عاقلہ و بالغہ عورت اپنا نکاح ولی کے بغیر خود کرسکتی ہے یا نہیں۔ ؟فقہاء کی اصطلاح میں اسے کہتے ہیں ’’حکم النکاح بعبارۃ النساء ‘‘(عورتوں کے ایجاب و قبول سے نکاح کا حکم ) اس مسئلہ میں حنفیہ اور جمہور فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کے نزدیک ’’عبارت النساء ‘‘سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ جبکہ جمہور فقہاء کے نزدیک ’’عبارۃ النساء‘‘سے نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ ولی کی’’ تعبیر‘‘ ضروری ہے۔ ائمہ کا تفصیلی موقف درج ذیل ہے۔

 

احناف کا موقف:

 

امام ابو حنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ  کے نزدیک ظاہر الروایت کے مطابق عاقلہ و بالغہ عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر منعقد ہو جاتا ہے۔ اور امام ابویوسفؒ  سے ایک اور روایت ہے کہ ولی کی رضامندی ضروری ہے۔ جبکہ امام محمدؒ  کے نزدیک اس قسم کا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف ہو گا۔ اگر ولی اجازت دے گا تو نکاح منعقد ہو جائے گا وگرنہ نکاح منعقد نہیں ہو گا۔

علامہ مرغینانیؒ  (م۔ 593ھ)لکھتے ہیں :

وینقعد نکاح الحرۃ العاقلۃ البالغۃ برضا ھا وان لم یعقد علیھا ولی بکرا کا نت او ثیبا عند ابی حنیفۃؒ وابی یوسفؒ، فی ظاھر الروایۃوعن ابی یوسفؒانہ لاینعقد الابولی وعند محمدؒ ینعقد موقوفا۔ ( 43)

’’اور عاقلہ و بالغہ عورت کا نکاح اس کی رضامندی سے منعقد ہو جاتا ہے۔ اگر چہ ولی نے اس پر عقد نہ کیا ہوباکرہ ہو یا ثیبہ امام ابو حنیفہؒ  اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک ظاہر الروایت میں۔ اور امام ابو یوسف سے (غیر ظاہر الروایت میں )مروی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہ ہو گا۔ اور امام محمدؒ  کے نزدیک موقوف ہو کر منعقد ہو گا۔ ‘‘

مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہؒ  اور امام ابویوسفؒ  کے نزدیک عاقلہ و بالغہ اپنی مرضی سے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرسکتی ہے۔ اور امام محمدؒ  کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے بھی شیخین کے اس قول کی طرف رجوع کر لیا تھا۔

چنانچہ علامہ مرغینانیؒ  لکھتے ہیں :

ویروی رجوع محمدالی قولھما۔ ( 44)

’’اور روایت کیا گیا امام محمدؒ  کا رجوع شیخین کے قول کی طرف۔ ‘‘

 

احناف کے دلائل :

 

1۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نکاح کی نسبت براہ راست عورت کی طرف کی گئی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے۔ جیسا کہ دو آیتیں پیچھے گزر گئی ہیں۔ پہلی آیت ہے۔ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ

اس آیت کے تحت امام کاسانیؒ  (م۔ 587ھ)لکھتے ہیں۔

انہ اضاف النکاح الیھا فیقتضی تصور النکاح منھا۔ ( 45)

’’بے شک نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہو رہی ہے جو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ نکاح عورت سے متصور (منعقد )ہوسکتاہے۔ ‘‘

2۔ اور دوسری آیت ہے۔ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُنَّ

امام کاسانیؒ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

انہ اضاف النکاح الیھن فیدل علی جواز النکاح بعبارتھن من غیر شرط الولی۔ ( 46)

’’بے شک نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہو رہی ہے جو ولی کی شرط کے بغیر عورتوں کے ایجاب و قبول سے نکاح کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ ‘‘

3۔ اسی طرح قرآن مجید میں ان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے جن کو نبی کریمﷺ  اپنے نکاح میں لا سکتے ہیں ارشاد ربانی ہے :

وَاَمْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ  یَّسْتَنْکِحَھَا( 47)

’’اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلا عوض اپنے کو پیغمبر کو دیدے بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہیں۔ (وہ بھی حلال ہے )‘‘

امام کاسانیؒ  لکھتے ہیں :

فالایۃ الشریفہ نص علی انعقادالنکاح بعبارتہا۔ ( 48)

’’پس آیت مبارکہ عورتوں کے ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہونے پر صریح ہے۔ ‘‘

4۔ شمس الائمہ سرخسیؒ (م۔ 483ھ)نے حضرت علیؓ  کے ایک فیصلہ کو ذکر کیا ہے جو اس مسئلہ میں حنفیہ کی مضبوط دلیل ہے۔

ان امراء ۃ زوجت ابنتھا برضا ھا فجاء اولیاؤ ھما فخاصموھاالی علیؓ فا جاز النکاح وفی ھذا دلیل علی ان المراء ۃاذا زوجت نفسھا اوامرت الی غیر الولی ان یزوجھا فزوجھا جاز النکاح وبہ اخذ ابو حنیفۃؒسواء کانت بکرا ًاو ثیبا ًاذا زوجت نفسھا جاز النکاح فی ظاہر الروایۃ۔ ( 49)

’’ایک عورت نے اپنی بیٹی کی شادی اس کی رضامندی سے کر دی تو اس کے اولیاء مقدمہ لے کر حضرت علیؓ کے پاس آئے تو آپ نے اس نکاح کو جائز قرار دیا۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب عورت نے اپنی شادی کی یا غیر ولی کو حکم دیا کہ وہ اس کی شادی کرا دے اور اس نے شادی کرا دی تو نکاح جائز ہو گا۔ اسی کو امام ابو حنیفہؒ  نے لیا ہے۔ عام ازیں اپنا نکاح کرنے والی عورت باکرہ ہو یا ثیبہ جب اس نے خود شادی کر لی تو اس کا نکاح جائز ہو گا ظاہر الروایت کے مطابق۔ ‘‘

5۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ  سے روایت ہے :

لَیسَ لِلوَلِّی مَعَ الثَیِّبِ اَمر‘( 50)

’’ثیبہ کے معاملہ میں ولی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ ‘‘

امام کاسانیؒ  لکھتے ہیں :

وھذاقطع ولایۃ الولی عنھا۔ ( 51)

’’اور یہ حدیث ولی کی ولایت کو عورت سے ختم کر رہی ہے۔ ‘‘

6۔ حضور اکرمﷺ  نے فرمایا:

الْأَیِّمُ اَحَقُّ بِنَفسِھَا مِن وَلیِّھَا (52)

بے نکاحی عورت اپنی ذات کی ولی سے زیادہ حقدار ہے۔

شمس الائمہ سرخسیؒ لکھتے ہیں :

والایم اسم لامراء ۃ لازوج لھا بکراً کانت او ثیباً وھذا ھوا لصحیح عند اھل اللغۃ۔ (53)

’’اور ایم اس عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر نہ ہو، خواہ وہ باکرہ ہو یا ثیبہ، اور یہی مطلب اہل لغت کے ہاں صحیح ہے ‘‘۔

یہ حدیث حنفیہ کے موقف پر بڑی وزنی دلیل ہے۔

 

7۔ عقلی دلیل:

 

عاقلہ و بالغہ عورت کے اپنی مرضی سے کیے گئے نکاح کے جائز ہونے کی عقلی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے حق میں تصرف کیا ہے اور اس کو یہ اختیار حاصل ہے۔ اس لیے کہ وہ عقل و شعور سے مالامال ہے اور غلط و صحیح میں امتیاز کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو اپنے مال میں تصرف کا اختیار ہے وہ جیسے مرضی استعمال کرے اسی طرح زندگی اس نے گزارنی ہے تو اسے شوہر کو پسندکرنے کا بھی اختیار ہو گا۔

علامہ مرغینانیؒ  لکھتے ہیں :

ووجہ الجواز انھا تصرفت فی خالص حقھا وھی من اہلہ لکونھا عاقلۃ ممیزۃ ولھذا کان لھا التصرف فی المال ولھا اختیار الازواج( 54)

اور جواز کی وجہ یہ ہے کہ اس عورت نے خالص اپنے حق میں تصرف کیا ہے۔ اور وہ تصرف کی اہل بھی ہے اس لیے کہ عاقلہ ممیزہ ہے۔ اور اسی وجہ سے اسے مال میں تصرف کا اختیار ہے۔ تو اسے شوہروں کو پسند کرنے کا بھی اختیار ہے۔

چنانچہ ان مذکورہ بالا دلائل کے پیش نظر فقہائے احناف کے نزدیک عاقلہ و بالغہ عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر منعقد ہو جائے گا۔

 

ولی کی وساطت:

 

حنفیہ نے ا س بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ عورتوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ ایسے اقدامات خود کرنے کی بجائے اولیاء کی وساطت سے طے کریں تاکہ عورتوں کی طرف بے حیا ئی منسوب نہ ہو۔ کیونکہ عورتوں میں اللہ تعالی نے شرم و حیاء کا مادہ مردوں سے زیادہ رکھا ہے ان کو مردوں کی محافل اورمجالس میں اس قسم کی گفت و شنید میں حیاء آئے گی اور اگر وہ جرات کر کے ایسا کر لیں تو لوگ ان کو بے حیا کہیں گے۔ جو کہ نسوانیت کے وقار کے خلاف ہے۔

چنانچہ علامہ ابن نجیمؒ مصری لکھتے ہیں :

وانما یطالب الولی بالتزویج کیلاتنسب الی الوقاحۃ ولذا کان المستحب فی حقھا تفویض الامر الیہ۔ (55)

’’اور بے شک مطالبہ کیا جاتا ہے ولی سے نکاح کرنے کا تاکہ اس عورت کی طرف بے حیائی کی نسبت نہ ہو۔ اور اسی لیے عورت کے حق میں مستحب ہے کہ اس کا معاملہ ولی کے سپرد کیا جائے۔ ‘‘

 

کفو کا لحاظ:

 

حنفیہ کے ہاں عاقلہ و بالغہ عورت کا اپنی پسند سے کیا ہوا وہی نکاح منعقد ہو گا جو اس نے اپنے ’’کفو‘‘ میں کیا ہو گا۔ تاکہ ا س کے اولیاء کے لیے باعث ذلت و عار نہ ہو۔ اگر اس نے ’’غیر کفو ‘‘میں نکاح کیا تو وہ منعقد نہیں ہو گا۔

اما م زیلعیؒ(م۔ 743)لکھتے ہیں :

وعن أبی حنیفۃ وأبی یوسف أنہ لایجوز فی غیر الکفء لأن کثیرا من الأشیاء لایمکن دفعہ بعد الوقوع واختار بعض المتأخرین الفتوی بھذہ الروایۃ لفساد الزمان۔ (56)

’’اور امام ابو حنیفہؒ اور ابو یوسفؒ سے روایت ہے کہ غیر کفو میں نکاح جائز نہ ہو گا۔ اس لئے کہ بہت سے ایسے معاملات ہیں واقع ہو جانے کے بعد جن کا حل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور بعض متاخرین نے زمانہ کے فساد کی وجہ سے اسی روایت پر فتویٰ دیا ہے۔ ‘‘

علامہ ابن نجیم مصریؒ (م۔ 970ھ) لکھتے ہیں :

ان کان الزوج کفؤا نفذ نکاحھا والا فلم ینعقد أصلا وفی المعراج معزیا الی قاضی خان وغیرہ والمختار للفتوی فی زماننا۔ (57)

’’اگر عورت کا شوہر اس کے ہم پلہ ہو تو اس کا نکاح نافذ ہو جائے گا وگرنہ بالکل نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہو گا اور معراج میں قاضی خان وغیرہ کی طرف سے نسبت کرتے ہوئے ہے۔ ہمارے زمانہ میں فتویٰ کے لئے یہی بات پسندیدہ ہے۔ ‘‘

البتہ اگر لڑکی کے اولیاء اس غیر کفو میں نکاح سے رضا مند ہوں تو پھر وہ نکاح صحیح ہے۔ (58)احناف کے اس موقف کی روشنی میں جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

1۔ عاقلہ و بالغہ عورت ولی کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے خود نکاح کرسکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کے ’’کفو‘‘ میں ہو۔

2۔ غیر کفو میں کیا ہوا نکاح بالکل منعقد ہی نہیں ہو گا۔

3۔ غیر کفو میں اگر اولیاء اپنی رضامندی سے نکاح کر دیں تو وہ درست ہو گا۔

4۔ عورتوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ خود ایسے اقدام نہ کریں بلکہ اولیاء کوواسطہ بنائیں تاکہ ان کی طرف بے حیائی منسوب نہ ہو۔

 

 جمہور کا موقف:

 

جمہور فقہاء کے نزدیک اس قسم کا نکاح جو ولی ’’کی تعبیر ‘‘کے بغیر ہو درست نہ ہو گا۔ اس لیے کہ نکاح سے مقصود مقاصد نکاح ہوتے ہیں اگر ان کو عورتوں کے حوالے کر دیا جائے تو ان میں خلل واقع ہو گا اور وہ پوری طرح حاصل نہ ہوں گے۔ اس لیے کہ عورتوں کی عقل ناقص ہے۔ (59)

اس مسئلہ    میں جمہور کا موقف تفصیل سے ذکر کیا  جاتا ہے۔

 

مالکیہ کا موقف:

 

علامہ ابن رشدؒ الجد (م۔ 520ھ)لکھتے ہیں :

ان النکاح لایصح الابولی ولا ینکح المراۃ الا ولیھا۔ (60)

’’ولی کے بغیر نکاح صحیح نہ ہو گا۔ اور عورت نکاح نہ کرے مگر اپنے ولی کے ذریعے۔ ‘‘

شوافع کا موقف:

امام ابو اسحاق شیرازیؒ لکھتے ہیں :

لایصح النکاح الابولی فان عقدت المراۃ لایصح۔ (61)

ولی کے بغیر نکاح صحیح نہ ہو گا۔ پس اگر عورت نے عقد کر لیا تو صحیح نہ ہو گا۔ ‘‘

امام ابو الحسین یحیی بن ابی الخیر العمرانی(م۔ 558ھ)لکھتے ہیں :

قال الشافعیؒ قد دل کتاب اللہ تعالی وسنۃ رسولہﷺعلی ان حتما علی الاولیاء ان یزوجواا لحرائرالبوالغ اذااردن النکاح۔ (62)

’’امام شافعیؒ نے کہا تحقیق اللہ تعالی کی کتاب اور سنت رسولﷺ  اس بات پر رہنمائی کرتی ہے کہ اولیاء پر لازم ہے وہ بالغہ آزاد عورتوں کی شادی خود کرائیں جب وہ عورتیں نکاح کا ارادہ کریں۔ ‘‘

 

حنابلہ کا موقف:

 

شیخ الاسلا م ابن قدامہؒ (م۔ 620ھ)لکھتے ہیں :

فان عقدتہ المراۃ لنفسہا، اولغیرھاباذن ولیھا، اوبغیر اذنہ لم یصح۔ (63)

پس اگر عورت نے اپنا نکاح خود کر لیا یا کسی اور عورت کا ولی کی اجازت سے یا بغیر اجازت کے نکاح کر دیا تو وہ نکاح صحیح نہ ہو گا۔

 

جمہور فقہاء کے دلائل:

 

وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ(64)

’’اور نکاح کرا دیا کرو تم لوگ ان کے جو تم میں سے بے نکاح ہوں۔ ‘‘

وَ لَا  تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ  حَتّٰی یُؤْمِنُوْا(65)

’’تم اپنی عورتوں کو مشرک مردوں کے نکاح میں مت دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ ‘‘

ان مذکورہ بالا آیات میں اولیاء کو متوجہ کر کے خطاب کیا گیا ہے معلوم ہو ا اولیاء کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح درست نہ ہو گا۔ (66)

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُنَّ(67)

’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پس وہ اپنی عدت تمام کر چکیں تو اب انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ ‘‘

امام ماوردیؒ (م۔ 450ھ )لکھتے ہیں :

قال وھذہ ابین آیۃ فی کتاب اللہ تعالی دلالۃعلی ان لیس للمرا ء ۃان تتزوج بغیرولی۔ (68)

’’امام شافعیؒ  نے کہا اللہ تعالی کی کتاب میں یہ آیت بڑی وضاحت سے اس مسئلہ پر دلالت کر رہی ہے کہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر ولی کے شاد ی کرے۔ ‘‘

علامہ ابن رشدؒ مالکی الحفید(م۔ 595ھ)اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وھذا خطاب للاولیاء ولولم یکن لھم حق فی الولایۃلمانھو عن العضل۔ (69)

’’اور یہ خطاب اولیاء کو ہے۔ اور اگر ان کو حق ولایت حاصل نہ ہوتا تو انہیں عورتوں کو منع کرنے کی نہی نہ ہوتی۔ ‘‘

علامہ ابن رشدؒ  کی کلام کا حاصل یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح منعقد ہوسکتاہے تو اولیاء کو نکاح سے منع کرنے کا اختیار نہ رہا اس صورت میں قرآن کریم کی نہی کا کوئی مطلب نہ ہوا۔

اَلرِّجَالُ  قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِِ(70)

’’مر د، عورتوں پر حاکم ہیں۔ ‘‘

امام قرطبیؒ (م۔ 671ھ) لکھتے ہیں :

فقد تعاضد الکتاب والسنہ علی ان لانکاح الا بولی۔ (71)

’’تحقیق قرآن وسنت اس بات کی موید ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہ ہو گا۔ ‘‘

5۔ قرآن کریم میں حضرت موسیؑ  اور حضرت شعیبؑ  کا واقعہ ہے جب حضرت شعیبؑ نے موسیؑ  سے فرمایا :

قَالَ  اِنِّیْٓ  اُرِیْدُ  اَنْ  اُنْکِحَکَ اِحْدَی  ابْنَتَیَّ  ھٰتَیْنِ(72)

’’کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کر دوں۔ ‘‘

امام قرطبیؒ  اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

وفیہ عرض الولی ابنتہ علی الرجل، وھذہ سنۃ قائمۃ۔ (73)

’’اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ولی اپنی بیٹی کو مرد پر پیش کرے(پیغام نکاح دے)اور یہی سنت رائج ہے۔ ‘‘

اور آگے مزید امام قرطبیؒ  لکھتے ہیں :

وفی ھذہ الایۃ دلیل علی النکاح الی الولی لاحظ للمراۃ فیہ۔ (74)

’’اور یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح کا معاملہ ولی کے سپر د ہے اور  عورت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ ‘‘

6۔ حضور اکرمﷺ  نے فرمایا:

لاَنِکَاحَ اِلاَِّ بِوَ لِیّ ٍ(75)

’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہ ہو گا۔ ‘‘

7۔ حضور اکرمﷺ  نے فرمایا:

ایما امراۃ نکحت بغیر اذن ولیہا فنکاحہا باطل باطل باطل(76)

’’جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ ‘‘

اس پوری بحث سے معلوم ہوا جمہور فقہاء کے نزدیک عورت اپنی پسند اور مرضی سے خود نکاح نہیں کرسکتی اور اگر اس نے ایسا کر لیا تو ا س کا نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا۔

 

جمہور فقہاء کے دلائل کے جوابات :

 

1۔ وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ

اس آیت میں اولیاء کو نکاح کرانے کا حکم ہے۔ احناف کا موقف بھی یہی ہے کہ اولیاء کی وساطت سے امور نکاح طے ہونے چاہییں، اس میں تو اختلاف نہیں ہے۔ اور اختلافی مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی عاقلہ وبالغہ نے اپنا نکاح خود کر لیا تو وہ منعقد ہو گا یا نہیں۔ ؟اس آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہذا جمہور کا استدلال تام نہ ہوا۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ  (م۔ 1976ٰء)لکھتے ہیں :

’’ایامی، ایم کی جمع ہے جو ہراس مرد و عورت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کا نکاح موجود نہ ہو۔ خواہ اول ہی سے نکاح نہ کیا ہو۔ یا زوجین میں سے کسی ایک کی موت سے یا طلاق سے نکاح ختم ہوچکا ہو۔ ایسے مردوں و عورتوں کے نکاح کے لیے ان کے اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے نکاح کا انتظام کریں۔ آیت مذکورہ سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہے کہ نکاح میں اولیاء کا واسطہ ہونا چاہیے باقی یہ صورت کہ کوئی بلاواسطہ اولیاء نکاح کرے تو اس کا کیا حکم ہو گا۔ یہ آیت قرآن اس سے ساکت ہے۔ خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ لفظ ایامی میں بالغان مردو عورت دونوں داخل ہیں۔ اور بالغ لڑکوں کا نکاح بلاواسطہ ولی سب کے نزدیک صحیح ہو جاتا ہے۔ اس کو کوئی باطل نہیں کہتا، اسی طرح ظاہر یہ ہے کہ لڑکی بالغ اگر اپنا نکاح خود کرے تو وہ بھی صحیح اور منعقد ہو جائے۔ ہاں خلاف سنت کام پر ملامت دونوں کی جائے گی۔ ‘‘(77)

وَ لَا  تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ  حَتّٰی یُؤْمِنُوْا

۱۔ یہ آیت بھی جمہور کے موقف پرمحکم نہیں ہے۔ اس میں اولیاء کو نکاح کرانے کاکہا جارہا ہے۔ اولیاء کی وساطت سے نکاح کو حنفیہ بھی مستحب کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عاقلہ وبالغہ اگر اپنا نکاح خود کر لے تو وہ منعقد ہو گا یا نہیں۔ ؟اس آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہذا استدلال مکمل نہ ہوا۔

۲۔ یہ آیت منسوخ ہے۔

علامہ بدرالدین عینیؒ (م۔ 855ھ)لکھتے ہیں :

یہ آیت کریمہ منسوخ ہے اور ناسخ یہ آیت ہے۔  وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ  الَّذِیْنَ  اُوْتُوا الْکِتٰبَ  مِنْ قَبْلِکُم(78)اور نیز اس میں خطاب عام ہے جو اولیاء کو بھی شامل ہوسکتاہے اور غیر اولیاء (اولوالامر) کو بھی شامل ہوسکتاہے تو استدلال تام نہ ہوا۔ (79)

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُنَّ

اس آیت سے بھی جمہور فقہاء کا استدلال نامکمل ہے۔ اس آیت میں واضح خطاب ان شوہروں کو ہو رہا ہے جو اپنی بیویوں کو طلاق کے بعد ان کی مرضی سے نکاح کرنے سے روکتے تھے۔

امام بدر الدین عینیؒ لکھتے ہیں :

لایتم الاستدلال بہ لان ظاہرالکلام ان الخطاب لازواج الذین یطلقون نساء ھم ثم یعضلونھا بعد انقضاء العدۃتاثماولحمیۃ الجاھلیۃ لایترکونھن یتزوجھن من شئن من الازواج۔ (80)

’’اس آیت کریمہ سے استدلال تام نہیں ہے۔ ا س لیے کے کلام کا ظاہریہ ہے کہ اس آیت میں ان خاوندوں کو خطاب  ہے جو اپنی عورتوں کو طلاق دے دیتے، پھر عدت گزرنے کے بعد جاہلیت کے تعصب کی وجہ سے انہیں روکے رکھتے تھے وہ انہیں چھوڑ تے نہیں تھے کہ وہ اپنی حسب منشاء شوہروں سے شادی کر لیں۔ ‘‘

علامہ عینیؒ  کے اس محققانہ کلام سے واضح ہوا کہ اس آیت کریمہ میں اولیاء کو خطاب نہیں ہے بلکہ ان عورتوں کے سابقہ شوہروں کو ہے جو طلاق دینے کے بعد دوسری جگہ ان عورتوں کی شادی میں رکاوٹ بنتے تھے۔

نیز اس آیت وَاِذَا طَلَّقْتُم میں کہا جا رہا ہے جب تم طلا ق دو، شر ط میں ان کے پہلے خاوند مراد ہیں تو جزا ء فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ میں بھی وہی خاوند مراد ہوں گے۔ اوراس کا قرینہ کے اس آیت میں خاوند ہی مراد ہیں۔ آیت کریمہ کے یہ الفاظ وَاِذَا طَلَّقْتُم ’’اور جب تم طلاق دو ‘‘طلاق خاوند دیتے ہیں نہ کہ اولیاء اس لیے یہ خطاب سابقہ شوہروں کو ہے۔

اَلرِّجَالُ  قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء

اس آیت سے تو صرف اتنا معلوم ہو رہا ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے۔

امام ابن کثیرؒ  (م۔ 774 ھ)اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مرد، عورت کا حاکم اور رئیس ہے۔ اور ہر طرح سے اس کا محافظ و معاون ہے۔ اس لیے کہ مرد، عورتوں سے افضل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت ہمیشہ مردوں میں رہی۔ بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد بن سکتاہے۔ حضورﷺ نے فرمایا وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جو اپنا والی عورت کو بنائے۔ اسی طرح ہرقسم کا منصب قضا بھی مردوں کے لائق ہے۔ اور دوسری وجہ افضلیت کی یہ ہے مرد، عورتوں پر مال خرچ کرتے ہیں جو قرآن وسنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً نان و نفقہ، مہر وغیرہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے۔ اور با اعتبار نفع کے بھی اس کا بڑا درجہ ہے۔ اسی لحاظ سے مرد کو عورت کا سردار بنایا گیا ہے۔ ‘‘(81)

امام ابن کثیرؒ  کی بیان کردہ تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس آیت سے مردوں کی فضیلت ثابت ہو رہی ہے۔ جس کا مقتضی یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے معاملات میں مردوں سے رہنمائی لینی چاہیے جس میں شادی وغیرہ کا مسئلہ بھی شامل ہے کہ مردوں کی سرداری اور قیادت میں عورتوں کو قدم بڑھانا چاہیے اس پر سب کا اتفاق ہے۔

جس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان بحث ہے کہ اولیاء کی اجازت کے بغیر عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے یا نہیں، اور اگر کر لیتی ہے تو وہ منعقد ہو گا یا نہیں اس کا اس آیت میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ جبکہ وہ آیات جن میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہو رہی ہے ان کا مقتضٰی یہ ہے کہ اس قسم کا نکاح منعقد ہو جائے گا۔

قَالَ  اِنِّیْٓ  اُرِیْدُ  اَنْ  اُنْکِحَکَ اِحْدَی  ابْنَتَیَّ  ھٰتَیْنِ

اس آیت سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اولیاء کو پیغام نکاح دینا چاہیے جس کے استحبابی درجہ میں احناف بھی قائل ہیں۔ اور جو اختلافی مسئلہ ہے اس کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے۔ کہ اگر عورتیں خود ایسے اقدامات کر لیں تو وہ صحیح ہوں گے یا نہیں۔ ؟جبکہ حنفیہ کے پیش کردہ دلائل میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہو رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اپنا نکاح کرسکتی ہیں۔

لاَنِکَاحَ اِلاَِّ بِوَ لِیّ ٍ

ایما امراۃ نکحت بغیر اذن ولیہا فنکاحہا باطل باطل باطل

علامہ ابن نجیمؒ  نے ان دونوں حدیثوں کے متعدد جوابات دیے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

۱۔ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں۔

۲۔ ان دونوں حدیثوں کی صحت میں اختلاف ہے اور یہ اس حدیث صحیح کا معارض نہیں بن سکتیں جس کی صحت میں اتفاق ہے اور وہ حدیث صحیح یہ ہے۔

الْأَیِّمُ اَحَقُّ بِنَفسِھَا مِن وَلیِّھَا (82)

بے نکاحی عورت اپنی ذات کی ولی سے زیادہ حقدار ہے۔

ایما امراۃ نکحت الخیہ حدیث باندی، صغیرہ اور مجنونہ کے بارے میں ہے کہ ان کا نکاح ولی کے بغیر منعقد نہ ہو گا۔ یااس عورت کے بارے میں ہے جو اپنا نکاح ’’غیر کفو‘ ‘میں کر لے۔ نیز یہ حدیث جمہور فقہاء کے خلاف حجت ہے۔ اس لیے کہ اگر کسی عورت نے ولی کی اجازت سے نکاح کیا تو اس حدیث کے مطابق وہ صحیح ہے حالانکہ جمہور فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان کے نزدیک ولی کی ’’تعبیر‘‘ ضروری ہے۔

  لاَنِکَاحَ اِلاَِّ بِوَ لِیّ ٍیہ حدیث نفی کمال پر محمول ہے کہ اس قسم کا نکاح کامل نہیں ہو گا۔

5۔ عورت اپنے نفس کی خود ولیہ ہے لہذا اگر وہ اپنا نکاح کرتی ہے تو وہ ولی کے بغیر نہ ہوا۔ اس توجیہ کا فائدہ یہ ہوا کہ اس سے ان نکاحوں کی نفی ہو جائے گی جن میں عورتوں کی اپنے اوپر ولایت نہیں مثلاً باندی اور مجنوبہ کی اپنے اوپر ولایت نہیں ہے۔ تو ان کے کیے ہوئے نکاح منعقد نہیں ہوں گے۔ (83)

احناف اور جمہور فقہاء کے تفصیلی موقف کو جاننے کے بعد دو قسم کی آرا ء سامنے آئی ہیں۔

1۔ حنفیہ کے ہاں عاقلہ و بالغہ عورت اپنا نکاح کرنے میں خود مختار ہے۔ اگر اس نے ولی کی اجازت کے بغیر ’’کفو‘‘ میں اپنا نکاح کر لیا تو یہ منعقد ہو جائے گا۔ گو بہتر یہی ہے کہ معاملات نکاح اولیاء کی وساطت سے ادا ہوں۔

2۔ جمہور فقہاء کے نزدیک عورت اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی اگر ایسا کیا تو وہ نکاح سرے سے منعقد نہیں ہو گا۔

اب عصر ی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتاہے کہ اگر عاقلہ و بالغہ عورت اپنے’’ کفو ‘‘میں شادی کرتی ہے تو فقہائے احناف کے ہاں وہ نکاح درست ہو گا۔ اور جمہور فقہاء کے نزدیک اس قسم کا نکاح صحیح نہ ہو گا۔

تاہم جو لوگ گھروں سے بھاگ کر اولیاء کی اجازت کے بغیر شادی و بیاہ کرتے ہیں ان کا یہ فعل خلاف سنت ا ور قابل مذمت ہے اوراس قسم کا نکاح شریعت اسلامیہ میں پسندیدہ نہیں ہے۔ کیونکہ اولیاء اپنی اولاد کا بہتر اور اچھا ہی سوچتے ہیں۔ جہاں شریعت یہ کہتی ہے کہ مرد و عورت اپنی محبت و پسند سے نکاح کرسکتے ہیں وہاں اس بات کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے کہ شادی اور نکاح کا معاملہ اپنے بزرگوں اور اولیاء کے ہاتھوں طے کرایا جائے اور عقد سے متاثر ہونے والے اہم افراد (اولیاء) کی رضا مندی کے بغیر نہ کیا جائے۔ تاکہ نکاح کے بنیادی مقاصد پس پشت نہ چلے جائیں اور لڑائی جھگڑوں اور تلخیوں کا طوفان برپا نہ ہو جائے۔

اس لیے کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نکاح صرف دو افراد کے ملن کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس میں دو خاندانوں کے آپس میں تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اگر خاندان کے بزرگوں اور بڑوں سے صرف نظر کرتے ہوئے نکاح کیا جائے گا تو اس میں ان کی دعائیں اور دلی تمنائیں شامل نہیں ہوں گی۔ اور بسا اوقات اولیاء اپنے نظر انداز کیے جانے کو اس قدر محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفقتوں اور سرپرستی اولاد کو محروم کر دیتے ہیں۔ جس سے زوجین کو قد م بقدم مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔

احناف اور جمہور فقہاء کے اس موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محد ث دہلویؒ نے جو تطبیق کی صورت نکالی ہے وہ نہایت اہمیت کی حامل ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

’’نکاح میں صرف فیصلہ کرنے کا اختیار عورتوں کو دے دیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کی عقل ناقص اور سوچ ادھوری ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ ان کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے لئے کون سا قدم اٹھانا بہتر ہے اور عام طورپر ان خاندانی خصوصیات کا لحاظ بھی نہیں کرتی جو خاندانوں میں اہم ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہ کبھی غیر کفو میں نکاح کر لیتی ہیں جو اُن کے خاندان کے لئے باعث شرمندگی بنتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوں سرانجام ہوتا کہ ہرقسم کی خرابی اور فساد سے بچا جا سکے اور عام طورپر فطرت کی طرف سے لوگوں میں رائج طریقہ یہی ہے کہ مردعورتوں کے ذمہ دار ہوں اور ان کے ہاتھ میں ہی معاملات کو کھولنا اور لپیٹنا ہو۔ اُن کے ذمہ مصارف ہوں اور عورتوں کے نکاح میں اولیاء کا ہونا مردوں کی شان بڑھاتا ہے اور عورتوں کا خود نکاح کرنا بے شرمی کی بات ہے جس کا سبب حیاء کی کمی ہے اور اس میں اولیاء کی حق تلفی ہوتی ہے جو ان کی بے قدری کا باعث ہے اور اہم بات یہ ہے کہ نکاح کی تشہیر بھی ضروری ہے تاکہ نکاح اور بدکاری میں فرق ہو جائے اور شہرت کا بہترین طریقہ ہے کہ اولیاء کو نکاح میں شامل کیا جائے۔ ‘‘ (84)

آخر میں شاہ صاحب نے ایک اور اہم بات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:

اقول: لایجوز ایضاان یحکم الاولیاء فقط لانھم لایعرفون ماتعرف المراۃ من نفسھا ولان حار العقد وقارہ راجعان الیھا۔ (85)

’’میں کہتا ہوں یہ بھی جائز نہیں کہ صرف اولیاء کو ہی حاکم بنا کر عورتوں کے نکاح کا پورا اختیار دے دیا جائے اس لئے کہ وہ نہیں جانتے اس بات کو جسے عورت اپنی ذات کے بارے میں جانتی ہے اور اس لئے کہ عقد کا گرم وسرد معاملہ عورت کی طرف لوٹنے والا ہے۔ ‘‘

شاہ صاحبؒ کی یہ رائے نہایت معتدل ہے کہ شادی و بیاہ کے مسئلہ میں مکمل اختیار نہ صرف اولیاء عورت کو دیا جائے کہ وہ اپنی پسند اور نا پسندکو مد نظر رکھتے ہوئے عورتوں کے جذبات سے کھیلیں اور نہ ہی عورت کو مکمل اختیار حاصل ہو کہ وہ اپنی من مانی اور مرضی کے مطابق شادی کرنے کے لئے اپنے اولیاء سے مشاورت کی بھی ضرورت محسوس نہ کرے بلکہ فریقین کو چاہیے کہ وہ اس نہایت اہم عائلی مسئلہ کو شریعت اسلامیہ کے دیے گئے احکامات کی روشنی میں طے کریں کہ جانبین کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ جو کہ یقینا اُن کے لئے باعث برکت و اطمینان ہو گا۔

خلاصہ بحث:

اسلام ایک عالمگیر مذہب اور دین فطرت ہے جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو صاف اور پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ہروہ بے راہ روی کاراستہ اور موڑ جو انسان کے لئے نقصان دہ ہے اس سے منع کرتا ہے اور سیدھے راستہ پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے۔ عورتوں کی طرف رغبت اور قلبی میلان و رجحان لوگوں کی فطرت میں شامل ہے۔ اسلام نے غلط اور آوارگی والے راستوں کے متبادل مرد و عورت کے درمیان تعلق کا ایک جائز طریقہ نکاح کی صورت میں دیا۔ جس کا مقصود اصلی مرد و عورت کا ایک دوسرے سے جنسی آسودگی حاصل کرنا ہے اور اپنے دامن عفت کو بے حیائی اور برائی کے بدنما داغوں سے بچانا ہے جو نہ صرف حفاظت نسب کا سبب ہے بلکہ بقاء نسلِ انسانی کا بھی ذریعہ ہے۔

اس کے علاوہ جنسی تعلقات کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب ناجائز اور حرام ہیں۔ اس رشتہ کے قیام کے لئے اسلام مرد و عورت دونوں کو پسند و نا پسند کا اختیار دیتا ہے تاکہ شادی کے بعد نا پسندیدگی کی تلخیاں پرسکون زندگی میں انتشار و اضطراب کی باعث نہ بنیں اور اولیاء کواس مسئلہ میں عورتوں پرسختی کرنے سے منع کیا ہے۔ اور مردوں و عورتوں کو بھی یہ تلقین کی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو اعتماد میں لے کر ان کی مشاورت و معاونت سے فیصلہ کریں اور ان کی وساطت سے قدم اٹھائیں تاکہ ان کی بھی دل آزاری نہ ہو اور معاشرتی زندگی صحیح خطوط پر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حوالہ جات

 

1۔ القرآن، آل عمران:14

2۔ القرآن، النساء:3

3۔ البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، بیروت، دار ابن کثیر الیمامہ، 1407ھ، ج5، ص1949

4۔ البخاری، الجامع الصحیح، ج5، ص1950

5۔ المنذری، عبدالعظیم، ابومحمد، الترغیب و الترھیب، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ھ، ج3، ص29

6۔ القرآن، الااسراء:32

7۔ القرآن، النورـ:2

8۔ خالد علوی، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، لاہور، الفیصل ناشران غزنی سٹریٹ اردو بازار، 2009ء، ص162

9۔ گوہر رحمان، مولانا، اسلامی سیاست، مردان، مکتبہ تفہیم القرآن، 2002ئ، ص88تا 93

10۔ القرآن، الاعراف:80

11۔ القرآن، الھود:82

12۔ القرآن، النساء:16

13۔ ابوداؤد، سلیمان بن اشعث، السنن، بیروت، المکتبۃ العصریہ صیدا، س ن، ج4، ص158

14۔ المسلم، بن حجاج، القشیری، الصحیح، بیروت، دار احیاء التراث العربی، س ن، ج1، ص266

15۔ شاہ ولی اللہ، احمد بن عبدالرحیم، حجتہ اللہ البالغہ، بیروت، دارالجیل، 1426ھ، ج2، ص194

16۔ البخاری، الجامع الصحیح، ج5، ص2020

17۔ القرآن، النور:2

18۔ الترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ، السنن، مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، 1395ھ، ج3، ص461

19۔ النووی، یحی بن شرف، المنہاج شرح صحیح مسلم بن حجاج، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1392ھ، ج9، ص210

20۔ الترمذی، ج4، ص56

21۔ ایضاً، ج4، ص17

22۔ القرآن، النساء:3

23۔ ابوداؤد، ج2، ص228

24۔ ابن بطال، ابوالحسن علی بن خلف، شرح صحیح البخاری لابن بطال، ریاض، مکتبۃ الرشد، 1423ھ، ج7، ص237

25۔ ایضاً، ج 7، ص236

26۔ النووی، المنہاج، ج9، ص210

27۔ المقدسی، عبدالرحمن، ابو الفرج، الشرح الکبیر علی متن المقنع، دارالکتاب العربی، للنشر والتوزیغ، ج2، ص341

28۔ العثمانی، ظفر احمد، مولانا، اعلاء السنن، کراچی، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، ج17، ص382تا 384

29۔ ابن نجیم، زین الدین، البحرالرائق شرح کنزالد قائق، بیروت، دارالمعرفت، س ن، ج3، ص87

30۔ شاہ ولی اللہ، حجتہ اللہ البالغہ، ج2، ص192

31۔ النووی، المنہاج، ج9، ص210

32۔ القرآن، البقرہ:230

33۔ القرآن، البقرہ:232

34۔ العینی، بدرالدین، محمودبن احمد، ابومحمد، البنایہ شرح الھدایہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1420ھ، ج5، ص70

35۔ البخاری، الجامع الصحیح، ج6، ص2556

36۔ ایضاً، ج5، ص1974

37۔ ابو داؤد، السنن، ج2، صفحہ232

38۔ عبدالرزاق بن ھمام، ابوبکر، المصنف، بیروت، المکتب الاسلامی، 1403ھ، ج6، ص158

39۔ عمر بن شبہ بن عبیدہ، ابوزید، تاریخ المدینہ لابن شبہ، جدہ، 1399ھ، ج2، ص769

40۔ الحجاوی، موسیٰ بن احمد بن موسیٰ، ابو النجا، الاقناع فی فقہ الامام احمد بن حنبل، بیروت، دارالمعرفت، ج3، ص157

41۔ الشیرازی، ابواسحاق، المھذب فی فقہ الامام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، س ن، ج2، ص424

42۔ شامی، ابن عابدین، محمد امین، ردالمحتار علی الدر المختار، بیروت، دارالفکر، 1412ھ، ج6، ص370

المغربی، شمس الدین، ابوعبداللہ، محمد بن محمد، مواھب الجلیل لشرح مختصر الخلیل، دار عالم الکتب، 1423ھ، ج5، ص22

ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، ابومحمد المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل، بیروت، دارالفکر1405ھ، ج7، ص465

43۔ المرغینانی، علی بن ابی بکربن عبدالجلیل، ابو الحسن، الھدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، بیروت، دار احیا ء الترا ث العربی، س ن

، ج1، ص191

44۔ ایضاً، ج1، ص191

45۔ الکاسانی، علاء الدین، ابو بکر بن مسعود، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1406ھ، ج2

، ص248

46۔ ایضاً، ج2، ص248

47۔ القرآن، الاحزاب:50

48۔ الکاسانی، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج2، ص248

49۔ السرخسی، محمد بن احمد، شمس الائمہ، المبسوط، بیروت، دارالمعرفت، 1414ھ، ج5، ص10

50۔ النسائی، احمد بن شعیب، السنن، حلب، مکتب المطبوعات الاسلامیہ، 1406ھ، ج6، ص، 85

51۔ الکاسانی، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج2، ص248

52۔ المسلم، الصحیح، ج2، ص1037

ابوداؤد، السنن، ج2، ص232

الترمذی، السنن، ج3، ص408

النسائی، السنن، ج6، ص84

مالک بن انس، الامام، الموطا، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1406ھ، ج2ص524

ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج3، ص117

53۔ السرخسی، المبسوط، ج5، ص12

54۔ المرغینانی، الھدایہ، ج1، ص191

55۔ ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج3، ص117

56۔ الزیلعی، فخرالدین، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، قاہر، المطبعۃ الکبری الامیریۃ، 1313ھ، ج2، ص117

57۔ ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج3، ص118

58۔ شیخ نظام و جماعۃ من علماء الھند، فتاوی عالمگیری، بیروت، دارالفکر، ج 1، ص293

59۔ المرغینانی، الھدایہ، ج1، ص191

60۔ ابن رشد الجد، محمدبن احمد، ابو الولید، المقدمات المھدات، دار الغرب الاسلامی، 1408ھ، ج1، ص472

61۔ الشیرازی، المھذب، ج2، ص426

62۔ العمرانی، ابو الحسین یحیی بن ابن الخیر، البیان فی مذھب الامام الشافعی، جدہ، دارالمنہاج، 1421ھ، ج9، ص152

63۔ ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، ابو محمد، الکافی فی فقہ الامام احمد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1414ھ، ج3، ص9

64۔ القرآن، النور:32

65۔ القرآن، البقرہ:221

66۔ ابن رشد الجد، المقدمات المھدات، ج1، ص472

67۔ القرآن، البقرہ:221

68۔ الماوردی، علی بن محمد، ابو الحسن، الحاوی الکبیرفی فقہ مذھب الامام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1419ھ، ج، 9

، ص37

69۔ ابن رشد الحفید، محمد بن احمد، ابوالولیدبدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد، قاہرہ، دار الحدیث، 1425ھ، ج3، ص37

70۔ القرآن، النسائ:34

71۔ قرطبی، محمدبن احمد، ابو عبداللہ، الجامع لاحکام القرآ ن، قاہرہ، دارالکتب المصریہ، 1384ھ، جلد3، ص73

72۔ القرآن، القصص:27

73۔ قرطبی، الجامع لاحکام القرآ ن، ج13، ص271

74۔ ایضا ً، ج13، ص271

75۔ النووی، یحیی بن شرف، المجموع شرح المھذب، بیروت، دارالفکر، س ن، ج16، ص148

ابن قدامہ، الکافی فی فقہ الامام احمد، ج3، ص9

ابوداؤد، السنن، ج2، ص229

76۔ ابن رشد الحفید، بدایۃ المجتہد، ج3، ص37

النووی، لمجموع شرح المھذب، ج16، ص148

ابوداؤد، السنن، ج2، ص229

77۔ مفتی محمد شفیع، مولانا، معارف القرآن، کراچی، ادارۃ المعارف، 2005ئ، ج6، ص409

78۔ القرآن، المائدہ:5

79۔ العینی، محمود بن احمد، بدرالدین، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ج20، ص121

80۔ ایضاً، ج20، ص121

81۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، ابو الفدائ، تفسیرالقرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1409ھ، ج2، ص256

82۔ ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج3، ص117

83۔ ایضاً، ج3، ص117

84۔ شاہ ولی اللہ، حجتہ اللہ البالغہ، ج2، ص196

85۔ ایضاً، ج2، ص196

٭٭٭

 

 

 

 

مصادر و مراجع

 

1۔ القرآن

2۔ البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، بیروت، دارابن کثیرالیمامہ، 1407ھ

3۔ ابن بطال، ابو الحسن علی بن خلف، شرح صحیح البخاری لابن بطال، ریاض، مکتبۃ الرشد، 1423ھ

4۔ الترمذی، ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ، السنن، مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، 1395ھ

5۔ الحجاوی، موسیٰ بن احمد بن موسیٰ، ابو النجا، الاقناع فی فقہ الامام احمد بن حنبل، بیروت، دارالمعرفت، س ن

6۔ خالد علوی، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، لاہور، الفیصل ناشران غزنی سٹریٹ اردوبازار، 2009ء

7۔ ابوداؤد، سلیمان بن اشعث، السنن، بیروت، المکتبۃ العصریہ صیدا، س ن

8۔ گوہر رحمان، مولانا، اسلامی سیاست، مردان، مکتبہ تفہیم القرآن، 2002ء

9۔ الزیلعی، فخرالدین، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، قاہر، المطبعۃ الکبری الامیریۃ، 1313ھ

10۔ ابن رشد الجد، محمدبن احمد، ابو الولید، المقدمات المھدات، دار الغرب الاسلامی، 1408ھ

11۔ ابن رشد الحفید، محمد بن احمد، ابوالولیدبدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد، قاہرہ، دارالحدیث، 1425ھ

12۔ الشیرازی، ابواسحاق، المھذب فی فقہ الامام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، س ن

13۔ شاہ ولی اللہ، احمد بن عبدالرحیم، حجتہ اللہ البالغہ، بیروت، دارالجیل، 1426ھ

14۔ شامی، ابن عابدین، محمد امین، ردالمحتار علی الدرالمختار، بیروت، دارالفکر، 1412ھ

15۔ شیخ نظام وجماعۃ من علماء الھند، فتاوی عالمگیری، بیروت، دارالفکر، س ن

16۔ عبدالرزاق بن ھمام، ابوبکر، المصنف، بیروت، المکتب الاسلامی، 1403ھ

17۔ العثمانی، ظفر احمد، مولانا، اعلاء السنن، کراچی، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، س ن

18۔ العینی، بدرالدین، محمودبن احمد، ابومحمد، البنایہ شرح الھدایہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1420ھ

19۔ العمرانی، ابو الحسین یحیی بن ابن الخیر، البیان فی مذھب الامام الشافعی، جدہ، دارالمنہاج، 1421ھ

20۔ عمر بن شبہ بن عبیدہ، ابوزید، تاریخ المدینہ لابن شبہ، جدہ، 1399ھ

21۔ قرطبی، محمدبن احمد، ابو عبداللہ، الجامع لاحکام القرآ ن، قاہرہ، دارالکتب المصریہ، 1384ھ

22۔ ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، ابومحمد المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل، بیروت، دارالفکر، 1405ھ

23۔ ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، ابو محمد، الکافی فی فقہ الامام احمد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1414ھ

24۔ الکاسانی، علاء الدین، ابو بکر بن مسعود، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1406ھ

25۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، ابو الفدائ، تفسیرالقرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1409ھ

26۔ السرخسی، محمد بن احمد، شمس الائمہ، المبسوط، بیروت، دارالمعرفت، 1414ھ

27۔ المسلم، بن حجاج، الصحیح، بیروت، داراحیاء التراث العربی، س ن

28۔ المنذری، عبدالعظیم، ابو محمد، الترغیب والترھیب، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1407ھ

29۔ المغربی، شمس الدین، ابوعبداللہ، محمد بن محمد، مواھب الجلیل لشراح مختصر الخیلیل، دارعالم الکتب، 1423ھ

30۔ المرغینانی، علی بن بی بکربن عبدالجلیل، ابو الحسن، الھدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، س ن

31مالک بن انس، الامام، الموطا، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1406ھ

32۔ الماوردی، علی بن محمد، ابو الحسن، الحاوی الکبیرفی فقہ مذھب الامام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1419ھ

33۔ المقدسی، عبدالرحمن، ابوالفرج، الشرح الکبیر علی متن المقنع، درالکتاب العربی، للنشر والتوزیغ، س ن

34۔ النسائی، احمد بن شعیب، السنن، حلب، مکتب المطبوعات الاسلامیہ، 1406ھ

35۔ النووی، یحیی بن شرف، المجموع شرح المھذب، بیروت، دارالفکر، س ن

36۔ النووی، یحییٰ بن شرف، ابوزکریا، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1392

37۔ ابن نجیم، زین الدین البحرالرائق شرح کنزالدقائق، بیروت، دارالمعرفت، س ن

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی ان پیج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید