بسم اللہ الرحمن الرحیم
فہرست مضامین
- ٹوٹی ہوئی سڑک
- انتساب
- پیش لفظ
- ریلوے اسٹیشن
- ٹِک ٹِک ٹِک
- ایٹوموسو
- وہ آنکھیں
- اُداس ماسی نیک بخت
- میں پاگل نہیں ہوں
- کس جرم کی پائی ہے سزا
- ایک الجھی ہوئی کہانی
- کہیں جو غالبِ آشفتہ سر ملے
- ٹوٹی ہوئی سڑک
- ’’میں‘‘
- ٹِکٹ چیکر
- بوڑھا اور جنٹلمین
- دنیا کا آخری کونا
- دھُند میں لپٹی شام
- اُستاد جی
- ۱: دیوار
- ۲: اندھیرا
- ۳: جنگل
- ۴: مجھے نہیں معلوم
- ۵: حسینہ عالم
- ۶: گلوبل ویلج(Global Village)
- ۷: روشنی
- ۸: کتابیں
- ۹: حل
- ۱۰: طوفان
- ۱۱: جنگل میں تنہا آدمی
- ۱۲: روٹ
- ۱۳: ساتھ
- ۱۴: خوف
- ۱۵: نعمت
- ۱۶: اولاد
- ۱۷: اندھا
ٹوٹی ہوئی سڑک
محمد جمیل اختر
ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
ماں جی اور ابا جی کے نام
پیش لفظ
’’افسانوں کی کتاب پر میں پیش لفظ کو اضافی سمجھتا ہوں، میں نے جو کچھ کہنا تھا وہ افسانوں میں کہہ دیا ہے‘‘
محمد جمیل اختر
۱۰ نومبر۲۰۱۷
راولپنڈی
ریلوے اسٹیشن
’’جناب یہ ریل گاڑی یہاں کیوں رکی ہے؟‘‘ جب پانچ منٹ انتظار کے بعد گاڑی نہ چلی تو میں نے ریلوے اسٹیشن پہ اُترتے ہی ایک ٹکٹ چیکر سے یہ سوال کیا تھا۔
’’او جناب پیچھے ایک جگہ مال گاڑی کا انجن خراب ہو گیا ہے اب اس گاڑی کا انجن اُسے لے کے اِس اسٹیشن پہ آئے گا۔‘‘
’’کیا اِس کے علاوہ اور کوئی متبادل حل نہیں؟‘‘
’’نہیں جناب، یہی حل ہے‘‘
’’اچھا کتنا وقت لگے گا؟‘‘
’’دو گھنٹے تو کہیں نہیں گئے‘‘ ٹکٹ چیکر نے کہا
’’دو گھنٹے؟؟‘‘ میں نے پریشانی میں لفظ دہرائے۔۔۔
دو گھنٹے اب اِس اسٹیشن پر گزارنے تھے، مسافر اب گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے، کچھ چائے کا آرڈر دے رہے تھے، کچھ اور کھانے کا سامان خرید رہے تھے۔
راولپنڈی سے ملتان جاتے ہوئے راستے میں یہ ایک چھوٹا سا سٹیشن تھا، ایک عرصہ بعد میں اِس راستے سے گزرا تھا اور اِسا سٹیشن پر تو بہت ہی مدت بعد، شاید تیس سال بعد۔
مجھے گورڈن کالج کے وہ دن یاد آ گئے جب میں صفدر اور احمد ملتان سے راولپنڈی پڑھنے آئے تھے۔ اُن دنوں جب ہم چھٹیوں میں گھر جاتے تو تقریباً ہر سٹیشن پر اُترتے تھے۔ کیسے دن تھے نہ وقت کا پتہ چلتا نہ راستے کی کچھ خبر، اِدھر راولپنڈی سے بیٹھے اور اُدھر ملتان اسٹیشن۔
میں جس بنچ پر آج بیٹھا ہوں عین ممکن ہے اب سے تیس برس قبل بھی بیٹھا ہوں، ہو سکتا ہے بنچ تبدیل کر دیا گیا ہو مجھے ویسے ہی ایک خیال آیا میں نے عمارت کی طرف دیکھا یہ وہی پرانی عمارت ہے، میں نے یہ عمارت شاید پہلے دیکھ رکھی ہے۔ وقت کس تیزی سے گزرتا ہے آواز بھی نہیں ہوتی کسی بھی لمحے کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ میں کراچی میں محکمہ ڈاک میں ملازم ہوں، ایک سال بعد ریٹائر ہونا ہے ایک کام کے سلسلے میں راولپنڈی آیا تھا، اب ملتان جا رہا ہوں کچھ روز وہاں ٹھہرنے کا ارادہ تھا اُس کے بعد ہی کراچی جاؤں گا۔
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا، انجن کو گئے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے یہ وقت بھی عجیب ہے گزارنے پہ آؤ تو ایک پل بھی نہیں گزرتا اور گزرنے پہ آئے تو صدیاں گزر جائیں اور خبر بھی نہ ہو شاید انتظار وقت کو طویل کر دیتا ہے۔
’’جناب، تھوڑا ساتھ ہو کے بیٹھیں گے؟ میں نے بھی بیٹھنا ہے۔‘‘
ایک بزرگ ہاتھ میں عصا لیے کھڑے تھے، شاید میرے ہم عمر ہی ہوں گے، مجھے کچھ ناگوار گزرا لیکن میں سکڑ کر بنچ کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ وقت کے بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا، گزرے تو عمر گزر جائے نہ گزرے تو لمحہ صدیوں کی مثل ہو جائے۔
چائے والے کی دکان پر رش کم ہوا تو مجھے بھی خیال آیا کہ اب چائے پینی چاہیے۔
’’سنیے محترم میری جگہ رکھیے گا میں چائے لے آؤں‘‘ میں نے ان صاحب سے کہا۔
’’اچھا‘‘ جواب ملا۔
’’جناب ایک کپ چائے‘‘ میں نے چائے والے کو کہا
’’جی بہتر‘‘ دکاندار نے جواب دیا
چائے والے کو پیسے دیتے ہوئے میں نے اُسے غور سے دیکھا ایسا لگا کہ میں نے اُسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے، شاید اُس کے والد یہ سٹال چلاتے ہوں اور میں نے اُنہیں دیکھا ہو۔
مجھے پوچھنا چاہیے اس کے والد کے بارے؟ میں نے سوچا لیکن پوچھا نہیں اور چپ چاپ واپس بنچ پر آ کے بیٹھ گیا۔
مجھے ہر چیز دیکھی دیکھی کیوں لگ رہی ہے۔
میں نے گھڑی کی جانب دیکھا، ابھی دو گھنٹے گزرنے میں ایک گھنٹہ مزید رہتا تھا۔ میں چائے پیتے ہوئے ماضی کے صفحات الٹنے لگا۔
’’آپ کہیں جا رہے ہیں؟‘‘ ساتھ بیٹھے صاحب نے یادوں کے سلسلے کو روکا
’’جی ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے سب لوگ ہی کہیں نہ کہیں جا رہے ہوتے ہیں‘‘ میں نے کہا
’’نہیں سب لوگ تو نہیں جا رہے ہوتے‘‘ اُن صاحب نے جواب دیا
’’اچھا‘‘ میں نے مختصر جواب دیا اور ماضی کی ورق گردانی شروع کر دی۔ میں نے عمارت پر لکھے اسٹیشن کے نام کو بغور پڑھا یہ نام۔۔۔ یہ نام کچھ سنا سنا سا تھا۔ سوچوں کا سلسلہ پھر گورڈن کالج کے طرف مڑ گیا۔
کیسے کیسے ہم جماعت تھے کبھی کبھی سارا سارا دن اکٹھے گھومنا اور اب یہ حالت کہ نام تک یاد نہیں شکلیں بھی جو یاد ہیں وہ بھی بس دھندلی دھندلی سی۔
میں، صفدر، احمد اور ایک اور دوست بھی تھا جو ہمارا ہوسٹل میں روم میٹ تھا، اوہ ہاں یاد آیا بشارت علی نام تھا اُس کا۔۔۔ اور یہ اسٹیشن۔۔۔۔ اب یہ گتھی سلجھی تھی، بشارت علی اِسی اسٹیشن پر اُترا کرتا تھا میں بھی کہوں مجھے سب دیکھا دیکھا کیوں لگ رہا ہے اس اسٹیشن کے پیچھے بنے ریلوے کوارٹرز میں اُس کا گھر تھا۔
دماغ بھی عجیب ہے ابھی جس کا نام یاد نہیں آ رہا تھا اور ابھی اُس سے جڑی کئی یادیں ایک ساتھ دماغ کے کواڑوں پہ دستک دینے لگی تھیں۔
’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ اُن صاحب نے پھر سلسلہ منقطع کیا۔
’’ملتان‘‘ میرا جواب مختصر تھا میں اُن سے کچھ پوچھ کر بات طویل نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جب ہم چھٹیوں میں گھر واپسی کا سفر کرتے اور بشارت کا یہ اسٹیشن پہلے آتا اور گاڑی یہاں پانچ منٹ کے لیے رکتی، تو ہم چاروں ایک ساتھ اُترتے اور بھاگتے ہوئے بشارت کے گھر تک جاتے اور اُسے اُس کے گھر کے سامنے الوداع کہتے اور بھاگتے ہوئے واپس گاڑی تک آتے۔ بعض دفعہ گاڑی رینگنا شروع کر دیتی تھی، لیکن ہم کسی نہ کسی طرح گاڑی میں سوار ہونے میں کامیاب ہوہی جاتے پھر بہت سے لوگ ہمیں ڈانٹتے کہ ایسا کرنا کتنا غلط تھا لیکن اگلی بار پھر یہی ہوتا۔
وقت کیسے بدل جاتا ہے اتنی تیزی سے، میں نے گھڑی کی طرف دیکھا ابھی آدھا گھنٹہ مزید رہتا تھا۔
ہم تھرڈ ائیر میں تھے جب بشارت نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ معلوم نہیں ایسا اُس نے کیوں کیا تھا وہ پڑھائی میں اچھا تھا پھر بھی جانے کیوں ایک روز اس نے ہم سب کو یہ فیصلہ سنا کر حیران کر دیا، جانے اُسے کون سی مجبوری نے آن گھیرا تھا، ہم نے اُس سے اُس وقت بھی نہیں پوچھا تھا اور بعد میں بھی نہ پوچھ سکے۔
ہم نے اُس سے کہا کہ ہم اُسے خط لکھا کریں گے اور گھر واپسی پر اُس کے گھر ضرور بھاگتے ہوئے آیا کریں گے، اُسے ضرور ہمارا انتظار کرنا چاہیے کہ ہم اچھے دوست ہیں، ہمارا ایسا کہنے سے اُسے کچھ اطمینان ہوا تھا پھر اس کے بعد بشارت نے ہمیں اور ہم نے بشارت کو نہیں دیکھا۔
مجھے یاد ہے اُس کے واپس جانے کے بعد کچھ دن ہم بہت اُداس رہے تھے۔ پھر ہم مصروف ہو گئے۔
ہم بشارت کو بھول گئے اور ہم نے اسے کبھی خط نہ لکھا اس کے بعد ہم کبھی بھی اس سٹیشن پر نہ اترے اور نہ بھاگ کے اس کے گھر اُس کی خیریت پوچھنے گئے۔
اگرچہ کہ ہم جا سکتے تھے لیکن معلوم نہیں ہم کیوں نہیں گئے۔
مجھے آج شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ تین سال کی دوستی کا اختتام ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں ضرور اُس سے اُس کے حالات پوچھنے چاہیے تھے کیونکہ حالات اور وقت کے تناظر میں رویئے نہیں بدلنے چاہئیں اچھے لوگ ہمہ وقت اچھے ہوتے ہیں۔ میں نے اسٹیشن سے پرے بنے ریلوے کوارٹرز کو دیکھا سب دیکھا دیکھا تھا۔ کیا اب بھی وہ یہاں رہتا ہو گا؟
کیا مجھے جانا چاہیے تیس سال بعد ویسے ہی بھاگتے ہوئے؟
’’آپ غالباً راولپنڈی سے آ رہے ہیں؟‘‘ سلسلہ پھر روک دیا گیا
’’جی ہاں میں راولپنڈی سے آ رہا ہوں، ملتان جانا ہے اور کراچی میں کام کرتا ہوں، ایک سال بعد ریٹائر ہونا ہے‘‘ میں نے ایک سانس میں ساری داستان کہہ سنائی تاکہ مزید کوئی سوال نہ ہو۔
’’آپ شاید میرے سوال پر برا مان گئے ہیں؟‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں‘‘ میں نے کہا اور گھڑی کی جانب دیکھا، وقت پورا تھا دور سے انجن کی آواز سنائی دی۔ انجن کے اسٹیشن پر پہنچنے اور اس گاڑی کے ساتھ منسلک ہونے میں پانچ منٹ تو لگ جانے تھے کیا مجھے بشارت کا پتہ کرنا چاہیے۔
میں اٹھ کھڑا ہوا۔
ہاں۔۔۔
لیکن نہیں۔۔۔۔۔ میں اب بھاگ کے نہیں جا سکتا تھا۔۔۔
مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ میں بشارت سے اُس کے حالات نہ پوچھ سکا، مجھے آج سے پہلے تو ایسا کبھی خیال نہیں آیا تھا اِس اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے نہ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا، دل کیسا افسردہ ہو گیا تھا۔
انجن گاڑی کے ساتھ منسلک ہو گیا تھا۔ لوگ آہستہ آہستہ گاڑی پر سوار ہونے لگے تھے میں رش کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔
’’آئیں نا آپ بھی؟‘‘میں نے اُن صاحب سے کہا
’’نہیں میں نے کہیں نہیں جانا میں تو ویسے ہی ہر روز اس وقت گاڑی دیکھنے آتا ہوں، بس صاحب اب یہی ایک مصروفیت ہے۔‘‘
’’تو آپ یہیں کے رہنے والے ہیں؟‘‘میں نے پوچھا
’’جی ہاں۔‘‘
’’اچھا تو آپ اس گاؤں میں کسی بشارت علی کو جانتے ہیں؟ میرے اور آپ کے ہم عمر ہی ہوں گے‘‘ میں نے سوال کیا کہ شاید یہ بشارت کو جانتے ہوں سو اِن سے ہی بشارت کی خیریت پوچھ لوں۔
بزرگ نے غور سے میری طرف دیکھا۔
’’آپ اُسے کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’یہ چھوڑیں آپ یہ بتائیں جانتے ہیں کیا؟‘‘
’’جی جانتا ہوں‘‘
’’آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اب کیسے ہیں وہ میرے ساتھ پڑھتے تھے گورڈن کالج میں، میں نے اُن سے پوچھنا تھا کہ انہوں نے پڑھنا کیوں چھوڑ دیا تھا۔ شاید حالات خراب ہو گئے ہوں، وہ اب کیسے ہیں؟‘‘ میں نے مڑ کر گاڑی کی طرف دیکھا، ریل گاڑی آہستہ آہستہ سرکنے لگی تھی۔
’’ہم انہیں خط نہ لکھ سکے شاید انہوں نے ہمارا اور ہمارے خط کا انتظار کیا ہو، مجھے معذرت کرنی تھی ان سے‘‘
’’کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں؟‘‘
’’تم کمال احمد ہو شاید؟‘‘ ان صاحب نے میرے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا
’’جی جی میں کمال احمد ہوں لیکن آپ کیسے جانتے ہیں، کیا آپ بشارت ہیں؟‘‘
’’دیکھو گاڑی نکلنے والی ہے، طویل سوالوں کے جواب مختصر وقت میں نہیں دئیے جا سکتے۔‘‘
’’خدا حافظ‘‘
اور وہ صاحب اٹھے اور تیزی سے ریلوے اسٹیشن سے باہر کے راستے پر چل دئیے۔
تیس سال بعد میں بھاگتے ہوئے ریل گاڑی میں سوار ہوا تھا۔۔۔۔ ایک افسردگی اور پریشانی کے ساتھ۔
٭٭٭
ٹِک ٹِک ٹِک
ٹِک، ٹِک، ٹِک
’’ایک تو اس وال کلاک کو آرام نہیں آتا، سردیوں میں تو اس کی آواز لاوڈ سپیکر بن جاتی ہے‘‘
ٹِک ٹِک ٹِک
یہ آواز اور یہ احساس واقعی بہت تکلیف دہ ہے، خصوصاً جب آپ گھر میں اکیلے ہوں، اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے وال کلاک ٹک ٹک کی بجائے کم، کم کہہ رہا ہو۔
’’کیا وقت یونہی تیزی سے نکل جائے گا۔ کیا اس ویرانے میں میری پوری زندگی گزر جائے گی؟ میری تو زندگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ میں اس ویرانے میں مر گیا تو شہر میں گھر والوں کو کون بتائے گا، مجھے تو ابھی بہت سے کام کرنے ہیں، لیکن میرے پاس تو وقت ہی نہیں ہے، یہ تو بھاگ رہا ہے کیا میں بھی وقت کے ساتھ بھاگنا شروع کر دوں؟‘‘
اس کی سوچیں بہت بکھری ہوئی، پریشان حال تھیں۔
معلوم نہیں اسے کیا ہو گیا تھا وہ جن دنوں شہر میں تھا تب تو وہ ایسا بالکل نہیں تھا، کوئی ایک ماہ پہلے اس کا تبادلہ اِس گاؤں میں ہوا تھا اور اُس کی نیند اس سے روٹھ کر کہیں چلی گئی تھی اب تک کی ساری عمر اس کی شہر میں گزری تھی، وہ شور کا اتنا عادی ہو گیا تھا کہ یہ سناٹا اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ آدھی آدھی رات تک جاگتا رہتا لیکن اُسے نیند نہیں آتی تھی۔
اب تو روز ہی ایسا ہوتا، لیکن آج تو وحشت کچھ اور بڑھ گئی تھی۔
ٹِک ٹِک ٹِک
’’اوہ یہ وقت تو میرے پیچھے ہی پڑ گیا ہے، ایسے تو میں نہیں سو سکتا۔ یہ آواز بہت تکلیف دہ ہے‘‘
وہ اٹھا اور الماری سے ریڈیو اٹھا لایا، ریڈیو پر پرانے گیت آ رہے تھے۔ اُس نے ریڈیو کو تکیے کے ساتھ رکھا اور آنکھیں بند کر لیں، جب وہ شہر میں تھا تو روز رات کو ریڈیو سنتے ہوئے سو جاتا تھا اور جب آدھی رات کو آنکھ کھلتی تو اسے پتہ چلتا کہ ریڈیو تو چلتا ہی رہ گیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ابھی بھی وہ ویسے ہی سو جائے گا۔۔۔
گانے سنتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لیے وال کلاک کو بھول گیا تھا۔ عجیب بات تھی وہ چاہتا تھا کہ شور ہو لیکن وال کلاک کے شور سے وہ بھاگتا تھا۔۔۔۔
’’شب کے بارہ بجے ہیں‘‘
ریڈیو پر بارہ بجنے کا وقت بتایا گیا تو اسے خیال آیا کہ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے ریڈیو سن رہا ہے لیکن افسوس کہ وہ ابھی بھی جاگ رہا ہے۔
’’آخر یہ نیند کب آئے گی‘‘
اس نے ریڈیو بند کر کے آنکھیں موند لیں۔
ٹِک ٹِک ٹِک
’’آخر یہ کیا ہے۔ اس گھڑی کا کچھ کرنا ہی پڑے گا‘‘
وہ اٹھا اور وال کلاک کو دیوار پر سے اتارا اور ملحقہ کمرے میں جا کر رکھ آیا۔
’’اب میں سکون سے سو سکوں گا‘‘ اس نے سوچا
اس نے تکیے پر سر رکھا اور سونے کی کوشش کی، ابھی کچھ دیر ہی ہوئی ہو گی کہ اسے محسوس ہوا کہ بہت ہی آہستہ آہستہ ٹک، ٹک کی آواز ابھی بھی آ رہی ہے۔۔۔۔۔
’’کوئی نہیں آ رہی‘‘
اس نے خود کو سمجھایا اور کروٹ بدل لی۔
کان پھر نہ مانے اور دل سے کہا۔
’’سنو، آ رہی ہے‘‘
دماغ نے کہا ’’ہاں، ہاں یہ کم، کم، کم کی آواز ہی ہے‘‘
’’اوہ میرے خدا، میں کہاں جاؤں‘‘
اس نے اپنا سر پکڑ لیا ’’یہ وقت تو میرے پیچھے ہی پڑ گیا ہے‘‘
اس نے غور سے سنا تو آواز ابھی بھی آ رہی تھی۔۔۔
’’ایک ہونے کو ہے اور میں پچھلے کئی گھنٹوں سے سونے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں، صبح ڈیوٹی پر بھی جانا ہے‘‘
وہ پچھلے کئی دنوں سے ٹھیک سے سو نہیں سکا تھا۔ پوسٹ آفس میں باقی لوگ اسے کام چور سمجھنے لگے تھے، حالانکہ وہ کام چور نہیں تھا اس کے پیچھے تو وقت پڑ گیا تھا۔
وہ غصے سے اٹھا، ساتھ کے کمرے سے وال کلاک کو اٹھایا اور صحن میں جا کر پٹخ دیا۔۔۔۔۔
پٹاخ۔۔ کی آواز کے ساتھ وال کلاک چور چور ہو چکا تھا۔
اتنی بلند آواز سن کر وہ ڈر گیا۔۔۔
’’یہ تو کافی اونچی آواز تھی‘‘ میں نے توڑنے سے پہلے کیوں نہ سوچا۔
’’آدھی رات کو یہ آواز محلے کے لوگوں نے بھی سنی ہو گی اوہ یہ کیسا برا کیا میں نے‘‘ اُسے اب خیال آیا
’’کوئی پوچھنے آ گیا تو کیا جواب دوں گا، لوگ کہیں گے کہ یہ نیا شہری بابو کتنا عجیب ہے آدھی رات کو شور شرابا کرتا ہے حالانکہ رہتا بھی اکیلا ہے، اس چھوٹے سے گاؤں میں اتنی رات گئے ایسا شور کسی نے پہلے کب سنا ہو گا؟‘‘
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔
اوہ یعنی لوگوں نے یہ شور سن لیا ہے۔۔۔ میں نے وال کلاک کیوں توڑا ہے‘‘ اسے اب ڈر لگنے لگا تھا۔
’’اب کیا جواب دوں گا‘‘
اب افسوس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
’’میں دروازہ ہی نہیں کھولتا۔ جوہو گا صبح دیکھا جائے گا‘‘ اس نے خود کو سمجھایا اور کمرے کی طرف مڑنے لگا۔
گھنٹی پھر ہوئی۔۔۔ اس کے قدم رک گئے۔
’’کاش میں کہیں جا کر چھپ جاؤں اور جب لوگ آ کر ڈھونڈیں کہ وال کلاک کس نے توڑا ہے تو وہ مجھے نہ ڈھونڈ سکیں۔ میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گا‘‘
لیکن اس وقت تو یہ آفت سر پر تھی
’’میں دروازہ نہیں کھولتا۔۔۔۔۔ لیکن یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ مجھے دروازہ کھولنا چاہیے۔ میں کہہ دوں گا کہ وال کلاک میرے ہاتھ سے گر گیا تھا۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔ میں یہی کہوں گا۔۔ انسان سے چیزیں گرتی ہی رہتی ہیں۔۔‘‘ اس نے خود کو سمجھایا اور ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔
سامنے اس کے پڑوسی کا بڑا بیٹا کھڑا تھا
’’السلام علیکم‘‘
’’وعلیکم السلام
وہ، وہ وال کلاک میرے ہاتھ سے گر گیا تھا، میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کی آنکھ کھل گئی۔ لیکن میں نے دانستہ ایسا نہیں کیا‘‘
لڑکے نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا، جیسے وہ کچھ سمجھ نہ پا رہا ہو۔۔۔
’’وہ جی اباجی کہہ رہے ہیں آپ کے پاس بخار کی کوئی دوا ہے میری چھوٹی بہن کو تیز بخار ہے اور شور کیسا جی میں تو سو رہا تھا، مجھے تو اباجی نے جگا کر آپ کی طرف بھیجا ہے‘‘
اوہ یعنی اسے نہیں پتہ اس شور کا۔۔ یہ تو بہت اچھا ہوا کہ انہیں شور سنائی نہیں دیا
’’کچھ نہیں، کچھ نہیں وہ، وہ میں۔۔۔۔۔ چھوڑو میں دوا لاتا ہوں‘‘
اُس نے اندر سے بخار کی ٹیبلٹس لا کر لڑکے کو تھما دیں
’’شکریہ‘‘ لڑکے نے کہا
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور سوال پوچھتا، اُس نے فوراً دروازہ بند کر دیا اور آ کر بستر پر لیٹ گیا۔۔۔
’’اب تو سکون سے سو سکتا ہوں۔۔۔ وال کلاک سے بھی جان چھوٹی اور اچھی بات کہ کسی نے شور بھی نہیں سنا‘‘
۔۔۔۔
اس نے تکیے پر سر رکھا، ایک لمبی سانس لی اور آنکھیں موند لیں۔۔۔
لیکن یہ کیا۔۔۔۔
’’اوہ میرے خدا
ٹِک، ٹِک کی آواز تو ابھی بھی آ رہی ہے‘‘
٭٭٭
ایٹوموسو
مکمل دیوانگی اور ہوش میں ایک ایسا عالم بھی ہوتا ہے کہ جب آپ ایک خلا میں ہوتے ہیں جب آپ کو نہ تو دیوانہ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی عقلمند۔ ایسے عالم میں آدمی یا تو بے حد بولنے لگ جاتا ہے یا مکمل خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ پہلے پہل بہت بولنے والے جب دیوانے ہوتے ہیں تو انہیں گہری چُپ آن گھیرتی ہے اور جو پہلے پہل خاموش رہتے ہیں دیوانگی ان کے لیے آوازوں کا تحفہ ساتھ لاتی ہے سو وہ چیختے ہیں چلاتے ہیں آپ کبھی پاگل خانے جائیں تو آپ کو دو ہی طرح کے پاگل ملیں گے بہت خاموش یا بہت باتونی لیکن بہرحال کہلاتے سب پاگل ہی ہیں۔
۔۔۔۔۔
وہ بھی آج کل ایسے ہی خلا میں تھا اُسے محسوس ہوتا تھا کہ چند روز اور اگر وہ اِسی کرب میں گزارے گا تو عین ممکن ہے مکمل پاگل ہو جائے، لیکن وہ پاگل ہونے سے ڈرتا بھی تھا کہ پاگل تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ وہ بہت ڈرتا تھا
بہت سی باتیں اُسے بھولنے لگ گئیں تھیں کبھی کبھار تو اُسے یوں لگتا کہ جیسے وہ اپنا نام تک بھول گیا ہے وہ فوراً جیب سے شناختی کارڈ نکالتا، نام پڑھتا اور کہتا ’’حد ہے یہی نام تو مجھے یاد ہے بھلا آدمی اپنا نام تھوڑی بھول سکتا ہے۔‘‘
راستوں میں وہ خود کلامی کرتا دکھائی دیتا اور جونہی اُسے یہ خیال آتا کہ وہ کافی اونچی آواز میں خود سے باتیں کر رہا ہے اور اسے لوگ دیکھ رہے ہیں تو وہ فوراً خاموش ہو جاتا اور لوگوں کی طرف یوں دیکھتا کہ جیسے کہہ رہا ہو، آپ کو غلط فہمی ہوئی میں ابھی پاگل نہیں ہوا۔
وہ جب بہت اونچی آواز میں خود کلامی کرتا تو کچھ اس طرح کے بے ترتیب جملے لوگوں کو سننے کو ملتے۔
میں نہیں ڈرتا۔۔۔۔ نہیں کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ میں نہیں، نہیں، نہیں ڈرتا۔۔۔۔ نہیں، نہیں۔۔۔۔ پھر اسے خیال آ جاتا کہ اسے لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔۔
نیند اُسے اب بہت مختصر ٹکڑوں میں آتی، ذرا سے شور سے بھی وہ جاگ جاتا اُسکے خواب سارے پریشان تھے اتنے پریشان کہ وہ چیخ اٹھتا ایسے خوابوں کے بعد بھلا کون سو سکتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ وہ ایک زندہ دل آدمی تھا، خوش باش، بھرپور انداز میں زندگی گزارنے والا انسان۔ لوگوں میں گھل مل جانا اُس کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔
لیکن اب وہ دن نہیں رہے تھے۔ اسے اب لوگوں سے خوف آتا تھا حتیٰ کہ چوک میں کھڑی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں سے ڈرتا تھا۔ لوگوں کو بہت غور سے دیکھتا۔ اب اسے کسی پر اعتبار نہیں تھا۔ کیا ساری دنیا بے اعتباری ہے؟؟؟
اُس کا یہی خیال تھا۔
وہ بہت راستے تبدیل کرتا ہر موڑ پر کوئی موٹر سائیکل کھڑی ہوتی جو اس کا راستہ روک لیتی۔۔۔ وہ پریشان تھا لیکن وہ ڈرتا تھا۔ وہ بیچارا بہت عجیب تھا۔
وہ آوازوں سے اتنا خوفزدہ تھا کہ کانوں میں ہر وقت روئی ڈالے رکھتا لوگ اُس کی حالت پر افسوس کرتے اور اس کے ماضی کی خوشگوار باتوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے۔ لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو اس قدر خوف انسان کو مار ڈالتا ہے اور اُسے ضرور حوصلے سے کام لینا چاہیے اور اس طرح کی اور بہت سی عام باتیں۔۔۔ لیکن وہ ڈرتا تھا ہر آواز سے، ہر شور سے۔
ایک روز جب دسمبر کی خوشگوار دھوپ نکلی ہوئی تھی، اس کا دل چاہا کہ صحن میں بیٹھا جائے اور دھوپ کے مزے لوٹے جائیں، کافی عرصے بعد اس کے دل میں کوئی خواہش اٹھی تھی۔ سو وہ صحن میں موجود ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں، دسمبر کی دھوپ یقیناً خوشگوار ہوتی ہے اُس نے سوچا اور آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ دیوار پر چند چڑیاں بیٹھی چہچہا رہی ہیں، مجھے یقیناً اب ڈرنا نہیں چاہیے اور پرندوں کی خوبصورت آوازوں کو سننا چاہیے اس نے ڈرتے ڈرتے کانوں سے روئی نکال کر پھینک دی اور آنکھیں موند لیں، یہ آوازیں اور یہ دھوپ کتنی بھلی معلوم ہوتی ہے۔۔۔
اور مجھے اب ڈر بھی نہیں لگتا۔۔۔ مجھے اب اِس خوف سے نکلنا ہو گا
باہر گلی میں بچے کھیل رہے تھے انہوں نے ایک پٹاخے کو آگ لگائی اور پٹاخہ اندر صحن میں پھینک دیا۔۔۔۔
یہ دھوپ کتنی خوشگوار ہے، یہ چڑیاں کتنا خوبصورت گاتی ہیں اور مجھے اب ڈر بھی نہیں لگتا۔۔۔
ڈزز۔۔۔۔۔۔
ایک چیخ۔۔۔۔ ایسی دلدوز چیخ کہ چڑیاں اُڑ گئیں، بچے ڈر کے بھاگ گئے۔
اور وہ کرسی پر ہی بے ہوش ہو گیا۔ پچھلے دھماکے میں بھی وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔۔۔۔
٭٭٭
Reference: Atomosphobia is the fear of Atomic explosions
ایٹوموسو۔ اس کا مطلب دھماکے کا خوف ہے
وہ آنکھیں
تقریباً روز ہی صبح آفس جاتے ہوئے جب میں سٹاپ پر اپنی گاڑی کا انتظار کر رہا ہوتا ہوں تو پولیس والے قیدیوں سے بھری گاڑیاں لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔ آج کل پولیس کو قیدیوں کو لے جانے کے لیے جو نئی گاڑیاں ملی ہیں انہیں دیکھ کر مجھے مرغیوں کا ڈربہ یاد آ جاتا ہے
آپ نے چھوٹے چھوٹے مرغیوں کے ڈربے تو دیکھ رکھے ہوں گے جن کے اوپر ایک چھوٹا سا روشندان بھی بنایا جاتا ہے جو روشنی کا کام دیتا ہے اور مرغیاں زیادہ تر اسی روشندان کے پاس ہی کھڑی ہوتی ہیں۔
زیادہ تر قیدیوں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اِسی روشندان کے پاس ہی کھڑے ہوں شاید ہر شے آزادی کی خواہش مند ہے چاہے وہ انسان ہو کہ جانور۔
میں نے کبھی یہ کھڑکی کہ جس کے اوپر لوہے کی سلاخیں لگی ہوتی ہیں، خالی نہیں دیکھی کوئی نہ کوئی آنکھ باہر ضرور جھانک رہی ہوتی ہے حالانکہ روشندان تقریباً پانچ فٹ اونچائی پر ہے لیکن پھر بھی شاید قیدی اِس ڈربے میں بیٹھتے نہیں اور سلاخوں پر آ کر چمٹ جاتے ہیں۔
یہ گاڑیاں قیدیوں کو صبح جیل سے کچہری لے کر جا رہی ہوتی ہیں۔ مجھے اصل میں قیدیوں کی آنکھوں سے ڈر لگتا ہے مجھ سے اُن کی آنکھیں دیکھی نہیں جاتیں، میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے محکمے کی گاڑی پہلے آ جائے اور میں یہاں سے چلا جاؤں۔ آپ کہیں گے آنکھوں سے بھلا کون ڈرتا ہے۔ ہاں بات سچ ہے لیکن آنکھوں آنکھوں میں فرق ہوتا ہے شاید۔ ہر آنکھ ایک الگ کہانی سنا رہی ہوتی ہے اب ایسی درد بھری داستان گو آنکھوں سے وحشت نہ ہو تو کیا ہو۔
بعض آنکھیں ایسی وحشت زدہ سی ہوتی ہیں کہ ایک بار آپ کی نظر پڑ جائے تو آپ کانپ جائیں ایسے قیدیوں کو شاید بڑی سزا ہونے والی ہوتی ہے اور وہ آپ کو یوں دیکھیں گے کہ گویا آپ ہی وہ جج ہیں کہ جس نے اُن کی سزا لکھی ہے سو جیسے ہی میری آنکھیں اُن آنکھوں سے ٹکراتی ہیں تو وہ آنکھیں چیخ چیخ کر سوال کرنے لگتی ہیں کہ کیوں لکھی ہے یہ سزا، میرا قصور کیا تھا، سارے ثبوت اور گواہ میرے حق میں تھے پھر بھی فیصلہ میرے خلاف کیسے آ گیا۔ میں سوچتا ہوں شاید دوسری پارٹی بہت مضبوط ہو گی یا جج نے پیسے لے لیے ہوں گے۔ ایسے سوالوں کے جواب میں میرا دل کرتا ہے پولیس بس کے ساتھ ساتھ بھاگتا جاؤں اور عین کھڑکی کے نیچے پہنچ کر کہوں کہ فیصلہ میں نے نہیں سنایا تم نے جو کہنا ہے جج کو کہو لیکن میں کچھ بھی نہیں کہتا۔ اور نظر چرا کر سڑک کے دوسری طرف دیکھنے لگ جاتا ہوں۔
کچھ قیدی ایک ہی نظر میں سارا باہر کا منظر اپنے اندر اتارنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے میں پلک جھپکانا بھی بھول جاتے ہیں ایسے قیدیوں کو شاید لگتا ہے کہ اب وہ کبھی بھی آزاد نہیں ہوں گے اور اِس قید میں ہی باقی زندگی گزرے گی سو تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی جتنے منظر دیکھ لو بہت ہیں، ایسی آنکھیں کوئی سوال نہیں پوچھ رہی ہوتیں، شاید پہلے والی آنکھیں جب سوال پوچھ پوچھ کر تھک جاتی ہیں تو وہ ایسی ہو جاتی ہوں، لالچی آنکھیں سارے منظروں کو اپنے اندر سمو لینی کی خواہش میں ڈوبی آنکھیں۔
لیکن کچھ آنکھیں بے حد اداس ہوتی ہیں ایک نظر باہر کا منظر دیکھا اور پھر آہ سرد کھینچ کر آنکھیں نیچے جھکا لیں ایسے قیدی شاید عادی مجرم نہیں ہوتے۔ یونہی کبھی کبھار جذبات میں یا حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوئی جرم کر بیٹھتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ پکڑے بھی جاتے ہیں پھر ضمیر انہیں ملامت کرتا رہتا ہے اور وہ ایک پچھتاوے کی آگ میں سلگ رہے ہوتے ہیں۔
صبح صبح ایسی آنکھیں بالکل نہیں دیکھنی چاہئیں کیونکہ ایسی آنکھیں دیکھ کر آپ بھی میری طرح اداس ہو جائیں گے اور سارا دن دفتر میں آپ سے کام نہیں ہو سکے گا، سو میں کوشش کرتا ہوں کہ ان گاڑیوں کا بلکہ ان آنکھوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن جب بھی وہ سامنے سے گزرتی ہیں تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی نظر اٹھا کے دیکھ لیتا ہوں۔
اور آج بھی میں یہی سوچ رہا ہوں کہ میرا سامنا نہ ہو لیکن محکمے کی گاڑی آج لیٹ ہے سو انتظار کرنا پڑے گا۔ اور وہ دیکھیں پھر پولیس کی گاڑیاں آ رہی ہیں آج تو میں نہیں دیکھوں گا، پہلی گاڑی گزر گئی میں دوسری جانب دیکھنے لگا، ایسا بھی کیا ڈر مجھے دیکھ لینا چاہیے میں نے سوچا اور جب دوسری بس نزدیک آئی تو میری نظر فوراً کھڑکی کی طرف اٹھ گئی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔
میری آنکھیں کھڑکی پر کیا کر رہی ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟؟
٭٭٭
اُداس ماسی نیک بخت
وہ اتنی اداس تھیں کہ اتنا اداس میں نے پھر کسی کو نہیں دیکھا۔۔۔۔
میں نے پہلی بار ماسی نیک بخت کو اپنے بچپن میں دیکھا تھا، اُس وقت وہ بہت ضعیف تھیں۔ بعض لوگوں کو دیکھ کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ بچپن میں یا جوانی میں وہ کیسے رہے ہوں گے، سو میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ بچپن میں یا جوانی میں کیسی رہی ہوں گی میں نے انہیں جب دیکھا اُداس دیکھا شاید وہ بچپن میں بھی اُداس ہی رہتی ہوں۔
وہ پرانے محلے میں ایک کمرے کے مکان میں رہتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے ہمارے چھوٹے سے شہر کا پرانا محلہ ہی اصل میں آباد محلہ تھا اور یہاں بڑی رونق تھی یہاں سارے گھر پرانی طرز پر بنے ہوئے تھے تقسیم کے بعد بھی یہاں کافی آبادی تھی لیکن پھر لوگ پرانے مکانوں سے اُکتا نے لگے یا شاید چھوٹے مکانوں میں ان کا دم گھٹنے لگا تھا اور انسان ویسے بھی ایک جگہ پر زیادہ عرصہ رہ نہیں سکتا سو لوگ اب اس محلے سے نکل کر ارد گرد مکان بنانے لگے تھے لیکن ماسی نیک بخت کہاں جاتیں اور کیسے جاتیں اُن کا اِس دنیا میں اب تھا ہی کون۔
اُن کے شوہر کو پانچ سال پہلے ٹی بی ہوئی اور وہ چل بسا، کوئی اولاد تھی نہیں کہ بوڑھی نیک بخت کا سہارا بنتی سو زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے انہوں نے گھر ہی میں بچوں کی ٹافیاں اور کھلونے بیچنے شروع کر دیئے۔ جب پرانے محلے میں آبادی تھی تو ان کی دُکان پر بچوں کا کافی رش رہتا اور پھر ہر سال جب لوگ زکوٰۃ دیتے تو کسی نہ کسی کو بوڑھی نیک بخت کا خیال آ جاتا کہ اِدھر محلے میں ایک بوڑھی بیوہ بھی رہتی ہے جس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔
ماسی نیک بخت کے سارے گھر میں بس ایک کمرہ تھا جس میں دو چارپائیاں پڑی رہتی تھیں پہلے ایک چارپائی پر خیر دین (ماسی کا شوہر) سارا دن پڑا کھانستا رہتا پھر جب وہ چل بسا تو ماسی نے اُس چارپائی پر بچوں کی ٹافیوں اور کھلونوں کی دکان کھول لی، غریب کی کوئی بھی چیز بیکار نہیں جاتی۔
خیر دین کے فوت ہونے کے بعد کسی نے بھی ماسی نیک بخت کو ہنستے ہوئے نہ دیکھا وہ ہمیشہ ہی اُداس رہتیں اتنی اُداس کہ ایسا اُداس میں نے پھر کسی کو نہیں دیکھا۔
جوں جوں محلے کی آبادی کم ہوتی جا رہی تھی اداسی بڑھتی جا رہی تھی مجھے ابھی بھی یاد ہے اُن دنوں جب ہم ماسی کی دکان پر جاتے تو وہ روز ہم سے یہی سوال پوچھتیں
’’مسجد گئے تھے؟‘‘
’’جی ماسی‘‘
’’کتنی صفیں تھیں؟‘‘
’’ماسی تین‘‘
اور وہ ایک آہِ سرد کھینچتیں اور کہتیں
’’خیر دین تمہارے ہوتے پانچ صفیں بنتی تھیں۔‘‘
سارا محلہ ویران ہوتا جا رہا تھا لوگ باغوں کے پاس بننے والی نئی ہاوسنگ سوسائیٹی میں جانے لگے تھے
پھر ہوتے ہوتے ایک صف بننے لگی، اُداسی اور بڑھ گئی۔
ان کے پڑوسی اشرف چچا ابھی بھی ساتھ والے مکان میں آباد تھے، جس سے ماسی کو بڑی ڈھارس ہوتی کہ چلو دیوار کے اُس پار کوئی تو ہے۔ لیکن اب اشرف چچا کو بیٹھے بٹھائے پرانے محلے میں سو عیب نظر آنے لگے تھے ’’یہاں گلیاں تنگ ہیں، صفائی کا کوئی نظام نہیں ہے، نیا محلہ باغوں کے پاس بنا ہے اس میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں‘‘
سو آخر وہ بھی پرانے محلے سے اُکتا گئے اور انہوں نے نئے محلے میں مکان بنوانا شروع کر دیا۔
اُن دنوں اشرف چچا کا بیٹا ناصر اور میں جب ماسی کے گھر جاتے تو ماسی برآمدے کی دیوار سے ٹیک لگائے پتہ نہیں کس سے باتیں کر رہی ہوتی تھیں۔
’’بن گیا تمہارا مکان؟‘‘ ماسی ناصر سے پوچھتیں
’’بس ماسی کچھ دنوں میں بن جائے گا‘‘ ناصر جواب دیتا
’’اتنا پیارا مکان چھوڑ کر جا رہے ہو میں کہتی ہوں پھر یہ محلہ اور ایسے لوگ نہیں ملیں گے تمہیں۔ اور یہ تم لوگوں کے پودے سارے کے سارے برباد ہو جائیں گے اور یہ آم کا درخت یہ بھی سوکھ جائے گا‘‘
’’ماسی ابا کہتا ہے اُدھر سکون ہی سکون ہے۔‘‘
’’ابا کو کہو جگہیں بدلنے سے سکون نہیں ملتا‘‘
’’نہیں ماسی اِدھر بڑے مسئلے ہیں یہاں گلیاں تنگ ہیں وہ جو گاڑی چلاتے ہیں نا وہ ہماری گلی میں نہیں آ سکتی اور ماسی اُدھر باغ بھی ہیں‘‘
’’باغ ہیں تو کیا ہوا تم نہیں جاؤ گے تو باغ اکیلے ہو جائیں گے، اداس ہوں گے، روئیں گے کیا؟‘‘
’’نہیں ماسی وہ تو درخت ہیں۔۔۔۔ وہ بھلا کیوں روئیں گے‘‘
’’یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ وہ درخت ہیں اکیلا تو بندہ ہوتا ہے۔۔۔‘‘
ماسی جو بھی چیزیں بیچتی تھیں وہ سارا سامان گلی کے نکڑ پر بنی امام بخش کی دکان سے آتا تھا، جوں جوں آبادی کم ہوتی جا رہی تھی امام بخش کی بِکری بھی کم ہوتی جا رہی تھی اور ایک دن وہ بھی پرانے محلے سے اکتا گیا اور اس نے بھی نئے محلے میں ایک دکان کرائے پر لے لی اور وہیں چلا گیا،ا ب ماسی کو سامان کون لا کر دیتا، بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی طاقت نہیں تھی کہ بازار تک جا کر سامان خریدیں سو اس پریشانی میں بیمار ہو گئیں، پڑوسی تیمار داری کو آئے تو ماسی نے اپنی پریشانی بتائی کہ اب کھاؤں گی کہاں سے، تو اُس وقت اشرف چچا نے بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ’’ماسی تو پریشان نہ ہو کھانا میرے گھر سے آئے گا‘‘
ماسی جو کئی روز سے اپنی دکان کے بند ہونے کے غم کو سینے سے لگائے پریشان تھیں ان کا کچھ بوجھ کم ہوا، اُٹھ کے اشرف پتر کی پیشانی چومی اور ڈھیروں دعائیں دیں۔
اور پھر کچھ دن بعد اشرف صاحب کا مکان بن گیا اور جس روز سامان منتقل ہو رہا تھا اس دن ماسی بہت اداس تھیں، بار بار گلی کے دروازے سے دیکھتیں کہ یہ لوگ چلے تو نہیں گئے اتنا غم شاید اشرف چچا کو اپنے پرکھوں کا گھر چھوڑنے پر نہیں ہو گا جتنا ماسی کو ان کے جانے کا تھا۔ اب تو دیوار کے اُس پار بھی کوئی نہیں ہو گا اور اب تو دکان بھی نہیں چلتی۔
شام تک سارا سامان منتقل ہو گیا تھا سو اشرف چچا اپنے بیوی بچوں سمیت ماسی کو ملنے آئے۔
’’اچھا ماسی اجازت، بڑا اچھا وقت گزرا پتہ نہیں اب وہاں آپ جیسے اچھے پڑوسی ملیں نہ ملیں، آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو کوئی بھی کام ہو، آپ کا بیٹا حاضر ہے‘‘
’’جیتے رہو بچو، جیتے رہو، سدا سکھی رہو، رونقیں لگی رہیں‘‘ ماسی کی آنکھیں نم تھیں اور لب دعاگو تھے۔
اشرف صاحب اور ان کی فیملی جب گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو ماسی اپنے گھر کے دروازے کا پردہ ہٹا کر انہیں دیکھ رہی تھیں اس وقت میں نے جو آنکھیں دیکھیں تھیں وہ اتنی اداس تھیں کہ اتنی اُداس آنکھیں میں نے پھر کسی کی نہیں دیکھیں۔۔۔۔
٭٭٭
میں پاگل نہیں ہوں
پچھلے دو سال سے سرکاری پاگل خانے میں رہتے رہتے میں نے اپنی زندگی کے تقریباً ہر واقعہ کو یاد کر کے اس پر ہنس اور رو لیا ہے۔
ویسے میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔۔
آپ کو یقین تو نہیں آئے گا کہ اگر پاگل نہیں ہوں تو پاگل خانے میں کیا کر رہا ہوں، دیکھیں جی زندگی میں بعض دفعہ ہوش کی دنیا سے ناطہ توڑ کر بے ہوش رہنا بڑا ضروری ہوتا ہے، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
میں نے غربت میں آنکھ کھولی، محکمہ ریلوے میں ملازم بھرتی ہوا تو نجمہ سے شادی ہو گئی، نجمہ سے مجھے شدید محبت تھی زندگی غربت میں سہی لیکن خوشی خوشی بسر ہو رہی تھی، شادی کی دس سال تک ہمارے ہاں اولاد تو نہ ہوئی لیکن نجمہ کو ٹی بی ہو گئی۔ گھر کو رہن رکھوا کر چودھری صاحب سے قرض لیا اور نجمہ کے علاج کے لیے ڈاکٹر، پیر، فقیر کہاں کہاں نہیں گیا لیکن نجمہ کی زندگی نے وفا نہ کی۔۔۔۔
نجمہ کے جانے کے بعد میں بالکل تنہا تھا، دوست، رشتہ دار پہلے کون سا جان چھڑکتے تھے لیکن اب تو رسمی خیر، خیریت پوچھنے سے بھی گئے اور جب بندہ غریب ہو تو رشتہ دار بھی جلدی بھول جاتے ہیں، اتنی جلدی کہ گویا آپ تھے ہی نہیں، گویا کہ ایک قصہ پارینہ۔۔
اِس دور میں دولت انسان کو یاد رکھنے اور یاد رکھوانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔۔۔
اُن دنوں میں شدید تنہائی کا شکار تھا، کام میں جی نہ لگتا، دفتر سے غیر حاضر رہتا اور یونہی گلیوں میں بے مقصد پھرا کرتا۔۔۔۔
با مقصد آدمی کا، بے مقصد پھرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔۔
آفیسرز کو مجھ سے شکایت تھی سو مجبوراً جلد ریٹائرمنٹ لے لی، مبلغ دو لاکھ روپے پرویڈینٹ فنڈ کے ملے، گاؤں کے چودھری صاحب نے کریانہ کی دوکان کھولنے کا مشورہ دیا، اگرچہ کہ ان دنوں میری زندگی ایک جگہ آ کر رک گئی تھی کوئی مقصد مل ہی نہیں رہا تھا۔ ایسے میں جب آپ کے دوست احباب آپ کو بھول چکے ہوں وہاں گاؤں کے چودھری صاحب کی حوصلہ افزائی بڑی بات تھی، سو میں نے ہمت باندھی کہ اور نہیں تو کاروبار کر کے چودھری صاحب کا قرض تو لوٹا دوں اور یہ جو گھر رہن رکھوایا تھا وہ واپس مل جائے۔۔۔ ویسے اس گھر کو میں نے کرنا بھی کیا تھا لیکن پھر بھی وہ میرا آبائی گھر تھا سو میں نے بینک سے اپنے پرویڈینٹ فنڈ کے پیسے نکلوانے کا فیصلہ کر لیا
اور پھر قصہ اس شام کا جو آئی اور میری زندگی بدل کر، تاریک رات میں ڈھل گئی۔۔
اُس شام جب میں شہر سے اپنی عمر بھر کی کمائی لے کر لوٹ رہا تھا تو مجھے بہت دیر ہو گئی تھی، گاڑی سے اُتر کر میں تیز تیز چلتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوا،
مجھے اُس دن احساس ہوا کہ عمر بھر کی دولت سنبھالنا کیسا مشکل کام ہوتا ہے، جانے یہ لوگ کروڑوں، اربوں کیسے سنبھال لیتے ہیں، میرا تو ایک ایک قدم من من وزنی ہو گیا تھا،
میں جتنا تیز چلتا راستہ اتنا ہی طویل ہوتا جا رہا تھا یا شاید مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا اور یوں بھی راستے کبھی طویل نہیں ہوتے انسان کی سوچ طویل ہو جاتی ہے۔۔ جب میں بڑے گراونڈ سے گزر رہا تھا تو وہاں چودھری صاحب کا بیٹا انور اور اس کے دوست کھڑے تھے۔۔۔ گاؤں میں عموماً اتنی شام کو اس گراونڈ پر کوئی نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔
’’کریم دین آ گئے شہر سے پیسے لے کر؟؟؟‘‘ انور نے پوچھا
’’نہیں۔۔۔
وہ۔۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘
’’تو تم ہمیں قرض کب واپس کر رہے ہو؟‘‘
’’جی میں اس سے کاروبار کروں گا اور جلد ہی آپ کو قرض لوٹا دوں گا‘‘
’’پر ہم تو ابھی قرض واپس لیں گے کریم دین۔۔۔ ‘‘ انور نے کہا
’’ابھی نہیں دیکھیں، یہ میرا عمر بھر کا اثاثہ ہے، میرا یقین کریں میں جلد قرض لوٹا دوں گا‘‘ میں نے کہا
’’تو ہماری رقم کیا یونہی بیکار پڑی تھی؟‘‘
’’لیکن دیکھیں اس کے بدلے میں نے اپنا گھر بھی تو رہن رکھوایا ہے‘‘۔
’’اچھا تو اب تم باتیں بھی سناؤ گے اب تمہارے منہ میں زبان بھی آ گئی ہے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر انور نے پستول نکالا اور میری کنپٹی پر رکھ دیا اور اس کے دوستوں نے مجھ سے رقم کا تھیلا چھینا اور موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔۔۔۔
میری عمر بھر کی کمائی جس کا ایک روپیہ بھی میں استعمال نہ کر سکا مجھ سے چھین لی گئی تھی، اگر آپ نے کبھی کسی کی عمر بھر کی کمائی لٹتے دیکھی ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بڑے ہی کرب کی بات ہے۔
میں بھاگتے بھاگتے تھانے پہنچا، تھانیدار صاحب نے چودھری صاحب کے خلاف رپورٹ لکھنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھلا ایسے معزز آدمی بھلا ایسی چھوٹی حرکت کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔
چودھری صاحب نے الگ برا بھلا کہا اور تھانیدار کو کہا کہ میں اس الزام کے باوجود اس سے اس کا گھر خالی کرنے کو نہیں کہوں گا۔
سارے گاؤں میں چودھری صاحب کی اس دریا دلی کی باتیں ہونے لگیں، میری بات کا کسے یقین تھا، غریب کی بات بھی بھلا کوئی بات ہوتی ہے۔ میرے پاس گزر اوقات کو فقط گھر کا سامان تھا جو ایک ایک کر کے بکنے لگا تھا، ایک ہلکی سی آرزو جو کام کرنے کی دل میں جاگی تھی اب وہ بھی نہیں تھی۔۔ میں بھلا کیوں کام کرتا، کس کے لیے کام کرتا۔۔۔
سارا سارا دن گھر میں پڑا رہتا لوگ پہلے بھی کم ملتے تھے اب تو بالکل ملنا جلنا ترک کر دیا تھا۔
دیکھیں غم اتنا شدید نہیں ہوتا لیکن جب کوئی غم بانٹنے والا نہ ہو، جب کوئی آپ کی بات نہ سنے تو غم میں ایسی شدت آ جاتی ہے کہ غم کے جھکڑ انسان کو تنکوں کی طرح اڑا کر لے جاتے ہیں۔
میں بھی تنکا تنکا بکھر رہا تھا۔۔۔ ذرہ ذرہ ہو کر۔۔۔۔ مجھے باتیں بھولنے لگیں تھیں۔ حافظے کا یہ عالم تھا کہ بعض دفعہ دوکاندار سے چیز خریدنے جاتا تو بھول جاتا کہ کیا خریدنا ہے یا کبھی پیسے دینا بھول جاتا، ایک عرصہ تک حجامت نہ کرانے کی وجہ سے بال بڑھ گئے تھے، لوگ آہستہ آہستہ مجھے پاگل سمجھنے لگے تھے اور بچے ڈرتے تھے۔۔۔ پہلے دبے دبے لفظوں میں پاگل ہے کا لفظ سنتا تھا پھر لوگوں کے ہاتھ شغل لگا وہ پاگل پاگل کہہ کر چھیڑتے تھے۔۔۔ میں یونہی سارا سارا دن گھر کے دروازے میں بیٹھا رہتا، شروع شروع میں، میں نے کوئی توجہ نہ دی کہ لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں لیکن پھر ایک دن میں ان کے پیچھے بھاگنے لگا کہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔ میں اور کر ہی کیا سکتا تھا، ایک نہ ایک دن پتھر اٹھا کہ بھاگنا تھا سو ایک دن میں نے پتھر اٹھا لیا۔۔۔۔
میں پاگل نہیں تھا۔۔۔۔
لیکن تھا۔۔۔۔۔۔
پھر میں لوگوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کے تھک گیا اور میرے پاس کھانے کو بھی پیسے ختم ہو گئے کہ گھر میں اب ایک بھی ایسی چیز نہیں تھی کہ جسے بیچ کر پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکتا۔۔۔۔ یہاں صرف میں تھا اور گھر کے در و دیوار تھے وہ در و دیوار جو پہلے ہی رہن رکھے جا چکے تھے اس قرض کے بدلے جو کبھی ادا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔
گاؤں والوں نے چودھری صاحب سے گزارش کی کہ ایک پاگل کو گاؤں میں نہیں رہنا چاہیے سو ایک روز چودھری صاحب نے اپنا مکان خالی کرنے کا حکم صادر کر دیا۔۔۔۔ یہ مکان یہ میرے آباء و اجداد کا مکان، جہاں میں پیدا ہوا، جو میرا تھا لیکن میرا نہیں تھا۔۔۔۔
پاگل کا ایک ہی ٹھکانہ ہے جی ہاں پاگل خانہ سو ایک دن پاگل خانے آن پہنچا، انتظامیہ نے داخل کرنے سے انکار کر دیا کہ کوئی گواہ لاؤ جو تمہارے پاگل ہونے کی گواہی دے، میں نے بہت کہا کہ میں پاگل ہوں میرا یقین کریں لیکن وہ نہ مانے یہ دنیا بڑی ظالم ہے پہلے خود پاگل بناتی ہے پھر پاگل پن کا سرٹیفکیٹ بھی مانگتی ہے۔۔۔
سو چودھری صاحب کے ہاں حاضر ہوا، مکان کی چابی انہیں تھمائی اور پاگل خانے تک چلنے اور داخل کرانے کی درخواست کی۔۔۔
چودھری صاحب جیسے نیک دل آدمی بھلا اِس نیک کام میں کیوں کر ساتھ نہ دیتے۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
کس جرم کی پائی ہے سزا
پہلا قیدی ’’ہاں تنہائی زہر ہے، ایک قاتل ہے وہ قاتل کہ جسے مقتول کی کوئی پرواہ نہیں لیکن لوگ کب سمجھتے ہیں پہلے میں بھی نہیں سمجھتا تھا کہ پہلے اس کی میری ایسی ملاقات نہیں رہی تھی، وہ جوانی کہ جسے میں اب ایک خواب سمجھتا ہوں اور وہ دن کہ جو اتنی تیزی سے گزرے کہ میں کچھ یاد بھی کروں تو بھی ذرا بھی حقیقت کا گماں نہیں ہوتا، شاید تم بور ہو گئے ہو اتنی لمبی تمہید سن کر، لیکن میں مجبور ہوں۔
تنہائی نے مجھے فلسفی بنا دیا ہے۔
تمہیں اب اس بیرک میں میرے ساتھ رہنا تو میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے بارے معلوم ہونا چاہیے۔۔
کیا تم میری کہانی سنو گے؟؟؟‘‘
پہلے قیدی نے سوالیہ نظروں سے دوسرے قیدی کو دیکھا جو آج ہی اس بیرک میں آیا تھا۔
نئے قیدی نے پرانے قیدی کو پاگل سمجھا اور ایک نظر اسے دیکھ کر زمین کو گھورنے لگ گیا۔
پہلا قیدی پھر گویا ہوا۔
’’اچھا، یعنی تم میری کہانی سننا چاہتے ہو‘‘
’’تو میرے دوست کہانی سات سال پرانی ہے‘‘
’’جی ہاں اِس جیل میں آئے مجھے ساتواں سال ہے۔ سات سال اس کمرے میں رہتے رہتے میں نے ہر بات جو سوچی جا سکتی تھی سوچ ڈالی ہے اور اب تو یوں ہے کہ میرے پاس سوچنے کو بھی کچھ نہیں ہے۔ ایک قیدی آخر کتنا سوچے؟ ہاں، ہاں تم ضرور کہو گے کہ سوچ کی بھلا حد تھوڑی ہے جتنا مرضی سوچو، جو مرضی سوچو لیکن یقین مانو، انسان پر یہ وقت بھی آتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں سوچ سکتا یا یوں کہیں کہ وہ سوچنا ہی نہیں چاہتا۔
اوہ میں شاید پھر کہانی سے ہٹ رہا ہوں۔
میں مجرم نہیں ہوں۔
ہاں یقین تو نہیں آئے گا کہ مجرم نہیں ہوں آپ کہیں گے کہ مجرم نہیں ہوں تو یہاں جیل میں کیا کر رہا ہوں، لیکن میرا یقین کرو میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں اپنی صفائی میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں آپ کو یقین آئے سو آئے نہ آئے تو میں کچھ کر نہیں سکتا کہ ضروری نہیں کہ دنیا آپ کی ہر بات سے اتفاق کرے اورسچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں کہ جس پرسارے انسان متفق ہوں۔‘‘
’’قابل افسوس‘‘۔۔۔ دوسرے قیدی نے نظر اٹھائے بغیر کہا۔
’’ہاں قابل افسوس لیکن یہ سچ ہے۔۔۔ سات سال میں اب یہ حالت ہے کہ میں سوچتا ہوں تو گماں ہوتا ہے کہ میں شاید کبھی بھی آزاد نہیں رہا۔۔۔۔ اگر ان سات سالوں کو بھی میری زندگی کے بقیہ تیس سالوں میں جمع کیا جائے جو میں نہیں کرتا تو میری عمر اب سینتیس برس ہے جب کہ میں تیس سال میں مرگیا تھا وہ اس لیے کہ مجھے اب زندگی اس طرح نہیں محسوس ہوتی جو تیس سال میں محسوس کرتا رہا ہوں۔
آزادی کے دنوں میں، میں ایک آزاد طبع اور آزاد خیال انسان تھا، ادھر یار دوست بیٹھے ہیں تو آدھی رات تک گپیں ہانک رہے ہیں اور پھر یہ تاریک کمرہ کہ جس کے درو دیوار مجھے اب زبانی یاد ہو چکے ہیں۔ ایک ایک اینٹ گن چکا ہوں۔ پہلے پہل ایک مدت تک میں اپنے ماضی کو یاد کر کے آہیں بھرتا رہا پھر آہستہ آہستہ آہیں ختم ہوئیں تو کمرے کے در و دیوار پر غور کیا کہ اب یہاں ایک عمر گزارنی تھی‘‘
’’چھت کی اینٹیں تک گن چکا ہوں‘‘ پہلے قیدی نے بیرک کی چھت کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ایک عرصہ تک میری یہ مصروفیت رہی ہے۔۔۔ ایک ہی کام تھا بس اینٹیں گنتے رہو۔۔ سو اینٹیں گنتا رہا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں مجرم نہیں ہوں۔ میں نے گریجویشن کر رکھا ہے۔ بی اے کرنے کے بعد ہی مجھے محکمہ ڈاک میں نوکری مل گئی، نوکری ملے دوسرا سال تھا جب میری شادی ہو گئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے تو پھر جیل میں کیسے آیا ہوں۔‘‘
دوسرے قیدی نے کوئی جواب نہ دیا
’’ہاں سنیے تو۔۔۔
شادی کے دو سال بعد میرا بیٹا پیدا ہوا گویا کہ رونق بھی ہو گئی۔۔۔۔۔ اور پھر جب اس نے چلنا سیکھا۔۔۔۔ میں کتنا خوش ہوتا تھا اُسے چلتا دیکھ کر۔ میں وہ خوشی شاید لفظوں میں بیان نہ کر سکوں۔ کبھی کبھی لفظ ہار جاتے ہیں، اور جذبات کی جیت ہوتی ہے۔۔۔
کہانی اُس دن شروع ہوتی ہے جب ایک دن میرا بچہ، میرا پیارا بچہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور اس کا پاؤں پھسلا اور وہ زمین پر آن گرا۔
ہم اُسے اسپتال لے کر گئے ڈاکٹروں نے بہت سارے ٹیسٹ کیے اور ٹانگ کا آپریشن کرنے کا کہا۔۔۔۔۔ اور جب تک روپے کا انتظام نہیں ہو جاتا ڈاکٹر اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر تھے۔۔۔۔ جی آپ کہیں گے کہ ڈاکٹر انسانیت کے خادم ہیں۔
جی بہتر لیکن بڑے مجبور خادم ہیں۔
مجھے ایک خطیر رقم درکار تھی۔۔۔ پہلی بار۔ ہاں پہلی بار مجھے لگا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں کہ جس کے پاس کوئی جائیداد نہیں اور جو کرائے کے مکان میں رہتا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا خیال نہیں آیا تھا یا شاید میں نے اس طرح غور نہیں کیا یا یوں کہیں کہ کبھی ایسے حالات سر پر نہیں پڑے تھے۔ میں بھاگم بھاگ تمام قریبی رشتہ داروں کے پاس گیا تو اس دن مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایسے بھی قریبی نہیں ہیں کہ جیسا میں سمجھتا رہا ہوں سارے بہت مجبور لوگ تھے۔
بیوی کے زیور بھی اتنے ہی تھے کہ ان سے آدھی رقم کا بندوبست ہوا، ایک سائیکل تھی وہ بھی بیچ دی۔ گھر میں اس سے بڑھ کر کوئی قیمتی سامان نہیں تھا کہ جس سے بقیہ رقم کا انتظام ہو سکے، بینک سے قرضہ لینے کے لیے بھی کسی چیز کو بطور ضمانت رکھوانا پڑ رہا تھا اور ادھر تو یہ حال تھا کہ سائیکل تک پاس نہیں رہی تھی کہ اسے بطور ضمانت رکھوا دوں۔۔۔۔
پھر میں نے فیصلہ کر لیا۔۔۔۔
اور اُس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آدھی رات کو چودھریوں کی حویلی کی دیوار پھلانگ کر اندر کود پڑا۔۔۔۔
گناہ اور وہ بھی پہلا گناہ۔۔۔ اُف توبہ۔۔۔ دل یوں دھڑک رہا تھا کہ گویا ابھی کے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔ ٹانگیں کانپ رہی تھیں، اور ضمیر الگ جھگڑا کر رہا تھا کہ ’’دیکھ خادم حسین، دیکھ خادم حسین، تو ایک شریف آدمی ہے اور شریف آدمی یوں آدھی رات کو لوگوں کی دیواریں نہیں پھلانگا کرتے‘‘
میں نے سوچا یہیں سے واپس چلا جاؤں کہ میں ایک شریف آدمی تھا۔
دیوار پر واپسی کے لیئے ہاتھ بلند کیے تھے کہ میرا بیٹا میرا ہاتھ تھام کر ’’ابا، ابا چلانے لگا۔۔۔ میرے بچے نے میرے پاؤں پکڑ لیے، ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے۔
نہیں، نہیں میں واپس نہیں جا سکتا تھا مجھے صبح تک ہر حال میں پیسے چاہیے تھے اور اتنے سے پیسوں سے چودھریوں کی دولت میں کونسی کمی آ جانی تھی۔۔ سارا گاؤں کہتا تھا کہ چودھریوں نے بڑا حرام کما رکھا ہے۔۔۔
سو میں حویلی میں جانے کے لیے مڑا۔ اندھیرا کافی زیادہ تھامیں سرچ لائٹ ساتھ لایا تھا جو ابھی تک بجھا رکھی تھی۔۔۔۔ سوچا اس سے کام لیا جائے۔
میں نے ڈرتے ڈرتے سرچ لائٹ جلائی۔۔۔
سامنے چودھریوں کا کتا کھڑا تھا جو لائٹ کے جلتے ہی بھونکنے لگا، میں ڈر کے واپسی کے لیے بھاگا لیکن کتے نے میری ٹانگ پر اِس زور سے کاٹا کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کبھی کبھی برسات کے دنوں میں مجھے وہ درد پھر ٹانگ میں محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔
مرکزی دروازے پر بیٹھا چوکیدار چلایا۔۔۔ ’’کون ہے؟ کون ہے؟‘‘ پہلے قیدی نے با آواز بلند دو بار کہا۔
’’اور عین اُسی لمحے اوپر حویلی کی دوسری منزل سے فائر کی آواز آئی۔۔۔ میں جو درد کے مارے مرا جا رہا تھا، ابھی اٹھا ہی تھا کہ چوکیدار نے آن دبوچا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خاموشی کا وقفہ۔۔۔۔
دوسرے قیدی نے نظر اٹھا کر دیکھا اور کہا
’’پھر؟؟؟‘‘
’’نہیں کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔۔۔ پولیس کو بلوا لیا گیا تھا کہ کسی نے چودھری صاحب کو گولی ماردی تھی اور ملزم واپسی پر بھاگتے ہوئے کتے کے حملے سے زخمی ہو گیا تھا اور وہیں کئی گواہ بھی آ گئے تھے کہ جنہوں نے مجھے گولی چلاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔ مجھے اُس دن معلوم ہوا کہ قانون اندھا کیوں ہے‘‘
تمام گواہوں کی موجودگی میں عدالت نے مجھے دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی‘‘
دوسرا قیدی پریشانی میں گویا ہوا۔ ’’ختم؟؟؟؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔ کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔۔
چودھری صاحب کو فوراً اسپتال پہنچایا گیا اور ڈاکٹروں کی انتھک محنت رنگ لائی اور ان کی جان بچی۔ اسی اسپتال میں، جہاں چودھری صاحب کا علاج ہوا تھا اُسی دن وہاں ایک بچہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا اور اس کے بعد سے میں یہاں ہوں۔۔۔۔
دوست، تم سن رہے ہو نا؟‘‘
اور خاموشی سسکیوں میں ڈھل گئی تھی۔۔۔
’’تم سن رہے ہو کیا؟؟؟؟‘‘
’’چپ کرو سالے، ہر روز نئی کہانی سنا رہے ہوتے ہو‘‘ بیرک سے باہر کھڑا حوالدار شوکت چلایا۔
’’پچھلے سات سال سے، میں کوئی پچیس مختلف کہانیاں سن چکا ہوں۔ کبھی موبائل چرا کر آ رہا ہے تو کبھی کسی کی گاڑی چوری کا الزام اس پر لگ گیا ہے‘‘
شوکت صاحب۔۔ دیکھیں‘‘ پہلا قیدی منمنایا۔
’’چپ کر جھوٹا آدمی‘‘
’’نہیں میں جھوٹا نہیں ہوں‘‘
’’تو یہ جو ہر روز نئی کہانیاں سنا رہے ہوتے ہو یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے؟‘‘
’ ’ وہ تو میں خود پر کوئی الزام ڈھونڈ رہا ہوتا ہوں‘‘
نیا قیدی حیرانی سے کبھی خادم حسین کو دیکھتا تو کبھی حوالدار شوکت کو۔۔۔۔
٭٭٭
ایک الجھی ہوئی کہانی
’’لو آج میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں یہ کہانی سو سال پرانی ہے‘‘
’’سو سال؟‘‘
’’ہاں تقریباً سو سال‘‘
’’نہیں بھئی ہم نہیں سنتے اتنی پرانی کہانی، دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور تم ہمیں سو سال پرانی کہانیاں سنا رہے ہو‘‘
’’کچھ کہانیاں کبھی پرانی نہیں ہوتیں، وہ وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور سداجوان رہتی ہیں، جب تک انسان کے دکھ سکھ ایک سے ہیں کہانیاں ایک سی ہی رہیں گی‘‘
’’نہیں تم ہمیں کوئی نئی کہانی سناو بالکل نئی بلکہ آج کی کہانی سناؤ‘‘
’’آج کی کہانی؟‘‘
’’ہاں آج کی کہانی، ہمیں کوئی ایسی کہانی سناؤ کہ کچھ وقت گزرے اِس ہسپتال میں لگتا ہے وقت ٹھہر گیا ہے سو کوئی قصہ سناؤ دوست لیکن آج کا قصہ‘‘
’’آج تو کوئی خاص بات نہیں ہوئی ہاں بس ایک فون آیا تھا کہ شبیر نے اپنی بیوی سلمیٰ کو طلاق دے دی ہے‘‘
’’اوہ اچھا تو تم ہمیں اسی شبیر کی کہانی سناؤ‘‘
’’شبیر کی کوئی خاص کہانی نہیں ہے وہ میرا بچپن کا دوست ہے اور ایک ساتھ پڑھتے اور کھیلتے رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ اُس کی کوئی خاص کہانی نہیں ہے بس یہ کہ جب ہم میٹرک میں تھے تو اُسے سلمیٰ سے محبت ہو گئی اور ہم دونوں گاؤں کے راستوں پر سلمیٰ کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر گھنٹوں انتظار کرتے تھے، تم اِس قصے کو چھوڑو میں تمہیں سو سال پہلے کی کہانی سناتا ہوں اور تم دیکھو گے کہ کس طرح ایک دولت مند ایک غریب کی عزتِ نفس کو مجروح کرتا ہے، یہ تب کی بات ہے جب ہمارے گاؤں میں دریائے سندھ پر پُل بن رہا تھا‘‘
’’نہیں نہیں رکو بھئی ہمیں بتاؤ شبیر کی کہانی میں آگے کیا ہوا؟‘‘
’’قصہ مختصر یہ کہ شبیر چونکہ گاؤں کے ایک کھاتے پیتے زمیندار کا بیٹا تھا سو جب اُس کے گھر والے اُس کا رشتہ لے کر سلمیٰ کے گھر گئے تو سلمیٰ کے گھر والے انکار نہ کر سکے اور انہوں نے سلمیٰ سے پوچھے بغیر شادی کے لیئے ہاں کر دی۔۔۔۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ جب ہمارے گاؤں میں پُل بن رہا تھا تو بہت سے آفیسرز دور دور سے ہمارے گاؤں آئے تھے جب کہ مزدوروں میں زیادہ تر لوگ مقامی تھے۔ اور اِن مزدوروں میں کرمو بھی شامل تھا جو گاؤں کا سب سے غریب آدمی تھا۔‘‘
’’لیکن جب شبیر کو سلمیٰ سے محبت تھی تو طلاق کیسے ہو گئی، بات کچھ سمجھ نہیں آ رہی‘‘
’’اصل میں یہ بات لوگوں میں مشہور ہے کہ شادی کی پہلی ہی رات سلمیٰ نے شبیر کو کہہ دیا تھا کہ مجھے تم سے نفرت ہے اور یہ شادی میری مرضی کے خلاف ہوئی ہے‘‘
’’اوہ اچھا تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’کس کا کرمو کا؟‘‘
’’نہیں بھئی شبیر کا؟‘‘
’’شبیر زمیندار خون تھا بھلا یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اُس کی بیوی کسی اور سے محبت کرے سو وہ روز سلمیٰ کو پیٹتا اور کہتا مجھے بتاؤ تمہیں کس سے محبت ہے، پر سلمیٰ عجیب عورت تھی اُس نے چھ ماہ تک شبیر کو نہیں بتایا کہ اُسے کس سے محبت ہے۔۔‘‘
’’اچھا پھر؟‘‘
’’پُل پر کام کرنے والے ایک صاحب کے پاس بہت قیمتی گھڑی تھی جو انہوں نے ولایت سے لی تھی۔
ایک دن کیا ہوا کہ وہ صبح اٹھے تو ان کی گھڑی غائب تھی۔ انہوں نے سارے مزدوروں کو بلایا، مزدور سارے ہی غریب تھے لیکن کرمو کی حالت سب سے زیادہ پتلی تھی اور اُس سے ایک دن پہلے ہی اُس نے صاحب سے اپنے حالات کا رونا رو کر تنخواہ بڑھانے کی گزارش کی تھی سو صاحب کو شک ہو گیا کہ چور یقیناً کرمو ہی ہے سو انہوں نے کرمو کو کہا کہ وہ انہیں ان کی گھڑی واپس کر دے ورنہ وہ کوڑے مار مار کر گھڑی نکلوا لیں گے‘‘
’’لیکن ہم تو شبیر اور سلمیٰ کے بارے پوچھ رہے ہیں‘‘
’’ارے بھئی چھوڑو بھی سلمیٰ اور شبیر کو، ہوا کچھ یوں تھا کہ چھ ماہ بعد سلمیٰ نے ایک روز شبیر سے کہا کے اُسے شبیر کے دوست یعنی مجھ سے محبت ہے‘‘
’’اوہ یعنی تم بھی اِس کہانی کا حصہ ہو؟‘‘
’’نہیں نہیں میں تمہیں دوسرا قصہ سنا تا ہوں کہ جب کرمو پر الزام لگا تو اُس نے بہت قسمیں کھائیں اور کہا کہ وہ غریب ضرور ہے لیکن چور نہیں، پر تمہیں تو پتا ہے غریب آدمی کے لیے یہ ثابت کرنا کتنا مشکل ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے سو کسی نے بھی کرمو کی بات کا یقین نہیں کیا اور صاحب نے ایک لمبا کوڑا منگوایا اور وہ کرمو کو مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کمبخت چور، بتا دے میری گھڑی کہاں ہے، ارد گرد کھڑے باقی مزدور بھی کرمو پر آوازے کسے جا رہے تھے کہ چوری کا انجام برا ہی ہوتا ہے، اب نکال دے گھڑی، کوئی دسویں بار جب صاحب نے کوڑا مارا تو کوڑا ان کے ہاتھ سے گر گیا جسے اٹھانے کے لے وہ جھکے تو گھڑی ان کی اپنی جیب سے نکل کر نیچے گر گئی، صاحب کبھی کرمو کو اور کبھی گھڑی کو دیکھتے اور کرمو نے صاحب کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ایک غریب کو ایک امیر کو دیکھنا چاہیے لیکن یکدم اُسے خیال آیا کہ کہیں نوکری ہی نہ چلی جائے وہ اُٹھا اور صاحب سے کہا
’’صاب مبارک ہو گھڑی مل گئی۔۔ رشید، فقیرو، گورو یہ دیکھو صاب کی گھڑی مل گئی۔۔۔۔۔‘‘
’’اوہ ہو یہ تو بہت دکھی کہانی ہے لیکن وہ شبیر کا کیا ہوا؟‘‘
’’جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اس کہانی کا حصہ ہوں اور سلمیٰ کو مجھ سے محبت ہے، سو ایک روز میں گھر کے باہر ہی کھڑا تھا کہ شبیر آ گیا اُس نے کہا
’’میں تو تمہیں اپنا جگری دوست سمجھتا تھا مجھے کیا معلوم تھا تم ایسے نکلو گے‘‘
’’کیا ہوا دوست مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی‘‘ میں نے پوچھا
’’اب اتنے بھولے نہ بنو مجھے سلمیٰ نے سب کچھ بتا دیا ہے‘‘
اور یہ کہہ کراُس نے مجھ پر گولی چلا دی جو میری ٹانگ پر لگی، سو تب سے میں تم لوگوں کے ساتھ اس وارڈ میں علاج کی غرض سے داخل ہوں۔۔۔‘‘
’’اوہ اچھا تو یہ ہے تمہارے زخم کی کہانی لیکن تم تو کہہ رہے تھے کہ یہ گولی تمہیں پستول کی صفائی کے دوران لگی تھی‘‘
’’تو کیا پہلی ہی ملاقات میں سب کچھ بتا دیتا؟‘‘
’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے‘‘
’’لیکن پھر شبیر نے سلمیٰ کو آج کیوں طلاق دی؟‘‘
’’سنا ہے کل رات وہ سارے زیور لے کر انور کے ساتھ بھاگ رہی تھی، لیکن دونوں پکڑے گئے اور شبیر نے سلمیٰ کو طلاق دے دی۔۔۔‘‘
’’بھئی یہ انور کون ہے اب‘‘
’’انور سلمیٰ کا پڑوسی۔۔۔‘‘
٭٭٭
کہیں جو غالبِ آشفتہ سر ملے
’’وہ اپنی تیسویں سالگرہ کے دن پاگل ہو گیا‘‘
’’کیا مطلب وہ تو بالکل ٹھیک تھا پھر پاگل کیسے ہو گیا میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’بس میرے دوست آج کل پاگل ہونے میں دیر تھوڑی لگتی ہے۔۔۔۔ وہ تو مجھے اس روز بھی پاگل ہی لگا جس روز میں نے اسے بڑی نہر کے کنارے، برف سے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈبوئے بیٹھے دیکھا۔۔۔‘‘
’’ارے دوست اس سردی میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو، بیمار ہو جاؤ گے نمونیا ہو جائے گا‘‘ میں نے اُس سے کہا اور وہ جذباتی ہو کر کہنے لگا
’’ہاں ہو جاؤں بیمار تو۔۔۔۔ تمہیں کیا مسئلہ ہے، میں چاہے یہاں چھلانگ لگا دوں اور وہ جہاں سورج ڈوب رہا ہے وہاں سے میری لاش نکلے یا لوگ مجھے تلاش کرتے کرتے تھک جائیں اور میں نہ ملوں۔۔۔۔ تمہیں کوئی مسئلہ ہے‘‘
معلوم نہیں اس نے اور کیا کیا کہا ہو گا میں تو جلدی جلدی وہاں سے آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
’’کسی لڑکی کا چکر تو نہیں تھا؟‘‘
’’نہیں نہیں اُس کی تو بچپن میں منگنی ہو گئی تھی۔ ہاں لیکن اُس لڑکی نے بعد میں اُس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس کا خیال تھا کہ وہ ایک ناکام شخص ہے جو بی اے کرنے کے بعد فارغ پھرتا ہے۔۔۔۔‘‘
’’تو اسے نوکری کرنی چاہیے تھی ناں‘‘
’’اُس نے کبھی کام کرنے سے انکار نہیں کیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ آجکل بی اے پاس کو کون پوچھتا ہے۔۔۔۔ ‘‘
’’میں نے سنا ہے وہ گاؤں کے پرائمری سکول میں استاد تھا؟‘‘
’’نہیں نہیں وہ قصہ یوں نہیں ہے بی اے کرنے کے کئی سال تک وہ دفتروں میں جوتیاں چٹخاتا رہا لیکن نوکری نہیں ملی، گاؤں کے سکول میں جب مالی اور چوکیدار کی جگہ خالی ہوئی تو اس نے وہاں درخواست دی اور قسمت اچھی تھی کہ چوکیدار بھرتی ہو گیا۔۔۔ جس روز وہ چوکیدار بھرتی ہوا اُسی روز اس لڑکی نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔۔ اب بھلا چوکیدار سے وہ کیسے شادی کر لیتی۔۔۔‘‘
’’بیچارہ شاید اس لیے پاگل ہو گیا؟‘‘
’’نہیں میرا نہیں خیال، کیوں کہ چوکیدار بھرتی ہونے کے بعد کئی بار میری اس سے ملاقات ہوئی وہ بہت خوش تھا کہ بیروزگار رہنے سے تو یہ چوکیداری اچھی تھی، پاگل تو وہ جیل سے آنے کے بعد ہوا تھا‘‘
’’یہ جیل کا کیا قصہ ہے؟‘‘
’’ہوا یہ کہ ایک روز رات کو کوئی سکول کے سارے کمروں کے پنکھے اتار کر لے گیاپولیس نے شک کی بنیاد پر اسے ہی جیل میں بند کر دیا، مقدمہ چلا اور عدالت نے دفعہ ۳۷۹ کے تحت ۳ سال قید با مشقت کی سزاسنا دی۔۔۔
میں ایک بار جیل میں اس سے ملنے گیا تھا۔
بیچارہ بہت اداس تھا۔۔۔ وہ روتا جاتا تھا اور کہتا تھا، میرا یقین کرو، خدا کی قسم میں نے چوری نہیں کی۔۔۔۔ اُس کی آنکھیں رو رو کے ایسی سوجی ہوئی تھیں کہ میں پھر کبھی اس سے جیل ملنے نہ گیا۔۔۔۔ وہ کوئی آنکھیں تھیں، کئی روز تک مجھ سے وہ آنکھیں نہ بھولتی تھیں۔
جب وہ تین سال بعد جیل سے رہا ہو کے آیا تو لوگوں کا اس کے ساتھ رویہ یکسر بدل گیا تھا۔۔۔ لوگ اسے ایک چور سمجھتے تھے۔۔۔ بیچارہ کسی دکان پر جاتا تو دکاندار مشکوک نظروں سے دیکھتا کہ اس کے ہاتھ کہاں ہیں، آنکھیں کہاں ہیں۔ نوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھتے کہ اصل ہے کہ نقل۔۔۔ دو بار تو کسی کی بھینس چوری ہوئی تو شک کے الزام میں اس بیچارے کو وہ مار پڑی کہ کچھ نہ پوچھو حالانکہ کے بعد میں وہ جانور کچے کے علاقے سے ملے تھے۔۔۔ لیکن اُسے خوب مار پڑی۔۔۔
جب انسان کو شک کا چشمہ لگا کر دیکھا جائے تو اس کا اچھا عمل بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا، ایک بار نمبردار صاحب کا پرس کہیں گر گیا جو بد قسمتی سے اُس کے ہاتھ لگا اس نے شناختی کارڈ دیکھا اور امانت لوٹانے نمبردار کے گھر گیا، نمبردار صاحب نے بغیر تحقیق کے اُس پر الزام لگا دیا کہ پرس اُس نے ہی چرایا تھا اور جیل جانے کے ڈر سے اب واپس دینے چلا آیا ہے، اُس نے کچھ نہ کہا اور چپ چاپ واپس چلا آیا۔۔۔
’’لیکن میں نے تو سنا ہے جیل میں جو چھوٹے مجرم جاتے ہیں وہ بڑے مجرم بن کر آتے ہیں تو وہ کیونکر ایسا تھا؟‘‘
جی بالکل آپ نے ٹھیک سنا ہے لیکن وہ کوئی مجرم نہیں تھا۔۔ یقین مانیں وہ ایک انتہائی شریف آدمی تھا جسے لوگ مجرم سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ اس کا باپ بھی اسے ایک چور سمجھتا تھا۔۔۔ اب ایک چور کا گھر میں کیا کام۔۔۔ سو گھر سے نکالے جانے کے بعد اس کا ریلوے اسٹیشن پر بسیرا تھا۔ لیکن انسان نے صرف رہنا ہی تو نہیں ہوتا ناں، پیٹ کی آگ بجھانے کو کام بھی کرنا پڑتا ہے وہ گاؤں کا سب سے سستا مزدور تھا جہاں مزدور پانچ سو دیہاڑی لیتے ہوں وہاں لوگ اسے ڈھائی سو روپے اُجرت دیتے۔۔
’’وہ کام کم کرتا ہو گا‘‘
’’نہیں نہیں بالکل نہیں وہ چور نہیں تھا حتیٰ کہ وہ کام چور بھی نہیں تھا وہ لگاتار اندھا دھند کام کرتا اور شام کو آدھی مزدوری چپ چاپ لے کر ریلوے سٹیشن چلا جاتا کہ اب وہی اس کا گھر تھا۔
جیل سے آنے کے بعد اس کا لوگوں سے ملنا جلنا تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔۔ میں کبھی کبھار اتوار کی شام ریلوے سٹیشن جاتا تو اس سے ملاقات ہو جاتی، ایک بار میں ایک مہینہ لاہور رہنے کے بعد واپس لوٹا اور ایک شام ریلوے سٹیشن پر چہل قدمی کرنے گیا تو اس نے مجھے دور سے دیکھا اور بھاگ کر آیا۔۔‘‘
’’تم ٹھیک تو ہو؟ اتنے روز کہاں تھے؟ عرصہ ہو گیا تم ملنے نہیں آئے میں نے ہر اتوار تمہارا انتظار کیا‘‘
’’میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی ہر اتوار میرا انتظار کرتا ہے فقط پانچ منٹ کی ملاقات کے لیے۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔
ایک دسمبر کی یخ بستہ شام سگریٹ سلگائے چہل قدمی کرتے ہوئے میں ریلوے اسٹیشن گیا تو وہ ایک بنچ پر اکڑوں بیٹھا سردی سے کانپ رہا تھا وہ میرا بچپن کا دوست تھا میں واپس آیا اور ایک کمبل لا کر اسے دے دیا
’’دوست یہ کمبل لے لو‘‘ میں نے کہا
’’شکریہ۔۔۔۔ وہ، وہ۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں بتاؤ دوست‘‘
’’وہ کچھ دن سے کام نہیں ملا میں دو دن سے بھوکا ہوں‘‘۔۔۔
’’وہ رو رہا تھا۔۔۔۔ کسی خود دار آدمی کے لیے مانگنا کس قدر مشکل ہوتا ہے یہ مجھے اُس روز معلوم ہوا۔۔۔
اس کے بال بڑھ گئے تھے وہ بالکل بھی اپنا خیال نہیں رکھتا تھا۔۔۔ ایک وقت آیا کہ سارا گاؤں ہی اسے چور سمجھتا تھا، لوگ کہتے تھے اس نے چوروں کی طرح بال بڑھا رکھے ہیں، حالانکہ میں جب بھی اس سے ملنے ریلوے اسٹیشن گیا مجھے وہ ایسا مسافر لگا جو سب کچھ راہ میں لٹا چکا ہو۔۔۔۔
اتفاق سے اس کی اور میری سالگرہ ایک ہی دن ہوتی ہے ہم جب میٹرک میں تھے تو ایک بار سب دوستوں نے مل کے ہم دونوں کے لیے کیک کا انتظام کیا تھا۔۔۔ میں نے سوچا آج ریلوے سٹیشن جانا چاہیے سو جب میں وہاں پہنچا تو وہ زمین پر بیٹھا تھا۔۔۔‘‘
’’دوست کیا کر رہے ہو‘‘ میں نے کہا
’’پکڑ لو‘‘
’’کسے؟‘‘
’’اِس چیونٹی کو۔۔۔۔‘‘
’’چیونٹی کو کیوں؟‘‘
’’بس پکڑ لو‘‘
’’لیکن چیونٹی نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’ٹھہرو میں اس چڑیا کو پکڑ کر لاتا ہوں وہ جو اُڑی جا رہی ہے۔۔۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
اور وہ اٹھا اور جس سمت چڑیا اڑی جا رہی تھی، بھاگنے لگا۔
’’پکڑ لو۔۔۔ پکڑ لو۔۔۔۔‘‘
دور افق میں سورج ڈوب رہا تھا اور وہ بھاگے جا رہا تھا۔۔۔۔
اس کے بعد میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
ٹوٹی ہوئی سڑک
وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک چھوٹی سی سڑک تھی، جس کے ارد گرد درخت ہی درخت تھے درختوں کے پیچھے سکول کی عمارت تھی، اُس سڑک پر آپ اگر چلتے جائیں تو آگے ہسپتال آ جائے گا جہاں ایک ڈاکٹر صاحب بیٹھتے تھے، جو سب کو ایک ہی طرح کی کڑوی ادویات دیتے تھے ان کے پاس کوئی دوا میٹھی نہیں تھی دوا کے فوراً بعد آپ کو چینی بھی کھانا پڑتی تھی، لیکن اب وہ ڈاکٹر صاحب معلوم نہیں کہاں ہوں گے کہ یہ بہت پرانی بات ہے۔
اُس سڑک میں کچھ بھی خاص بات نہیں تھی لیکن معلوم نہیں مجھے وہ سڑک بھولتی کیوں نہیں، اُس کے ایک سرے پر بجلی کا کھمبا نصب تھا جب رات ہوتی تو بلب جلتا اورسب بچے اس کے نیچے کھیلا کرتے، جب بہت بارش ہوتی تو سڑک پر پانی ہی پانی ہوتا اور اپنی کشتیاں لے کرسڑک کے دریا میں اتر جاتے، معلوم نہیں مجھے وہ سڑک وہ کھمبا کیونکر یاد ہے، وہاں ایک بچہ تھا جو شاید درخت کے ساتھ ٹیک لگائے اب بھی بیٹھا ہو، وہ جو ساری دوپہر درخت کے نیچے گزارتا تھا، اسے گاؤں سے اس سڑک سے اور وہاں کے پرندوں سے محبت تھی۔ اُسے اُس گاؤں سے محبت تھی جہاں امن و سکون تھا۔
شاید وہ اب بھی سکول کی فیس جو اس سے راہ میں کہیں کھو گئی تھی ڈھونڈھ رہا ہو، ساری دوپہر نکل گئی تھی ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے تھک گیا تھا لیکن اسے روپے نہ ملے، بغیر پیسوں کے نہ وہ سکول جا سکتا تھا اور نہ گھر، معلوم نہیں وہ کتنی بار سڑک پر آیا اور گیا تھا، وہ بار بار سورج کو دیکھتا کہ کہیں ڈوب نہ جائے یہ ڈوب گیا تو اندھیرے میں روپے کیونکر ملیں گے لیکن سورج کو کیا خبر سو وہ ڈوب گیا۔۔۔ وہ پریشان ہو کر کھمبے کے نیچے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔
شاید وہ اب بھی وہاں بیٹھا ہو۔۔۔۔۔
وہ بالکل ہی عام سی سڑک تھی۔
وہی لڑکا کہ جو میرے ساتھ شہر نہ آ سکا، اپنے ہم جماعتوں سے جھوٹ بولتا تھا کہ سڑک کے کنارے درختوں میں جن پرندوں کے گھونسلے ہیں وہ سارے پرندے اس کے دوست ہیں اور جب باقی لڑکے نہیں ہوتے تو پرندے درختوں سے اتر کر آتے ہیں اور وہ مل کر کھیلتے ہیں، سب کہتے تھے یہ جھوٹ ہے ایسا بھلا کیونکر ممکن ہے سب نے کہا اگر ایسا ہے تو ہم چھپ کر بیٹھیں گے اور دیکھتے ہیں پرندے کیسے نیچے آتے ہیں، سب لڑکے جھاڑیوں میں چھپ گئے اور وہ لڑکا درخت کے نیچے بیٹھ گیا، پرندے نہیں آئے، پرندوں کو کیا خبر کہ وہ کون ہے، لیکن وہ بیٹھا رہا شاید وہ اب بھی بیٹھا ہو اُسی درخت سے ٹیک لگائے پرندوں کو دیکھ رہا ہو کہ یہ کب نیچے آ کر اُس سے کھیلیں گے۔۔۔۔۔ وہ پرندے اس کے دوست تھے لیکن وہ نہیں آئے۔ اور سب لڑکے اس پر ہنسنے لگے تھے۔
وہ لڑکا بہت جھوٹا تھا وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں بہادر ہوں اور میں اکیلا کئی لوگوں سے لڑ سکتا ہوں، چھٹی کے بعد اسی سڑک پر چلتے ہوئے چار لڑکوں نے اس کی خوب دھنائی کی اور اس کی شرٹ کے بٹن بھی توڑ دیئے، اسے تھپڑ پڑتا تھا اور وہ زمین پر اپنے بٹن تلاش کر رہا تھا۔
’’ٹھہرو مجھے بٹن اٹھا لینے دو، ٹھہرو، ایک منٹ ٹھہرو۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ میری جیب ہے۔ دیکھو، دیکھو جیب چھوڑ دو‘‘
جیب بھی پھٹ گئی تھی، بٹن بھی ٹوٹ گئے تھے۔
’’اب بتاؤ تمہیں تو بڑے کراٹے آتے تھے تم تو کئی لوگوں سے لڑ سکتے تھے اب بتاؤ‘‘ اور وہ لڑکے چلے گئے اُس نے بٹن تلاش کیے، جب سارے بٹن مل گئے تو اسے احساس ہوا کہ اس کی کہنی سے خون بھی بہہ رہا ہے۔۔۔۔
وہ وہیں سڑک کے کنارے بیٹھ کر رونے لگا، شاید وہ اب بھی وہیں بیٹھا رو رہا ہو۔۔۔۔
میں بھلا اُسے کیسے ساتھ لا سکتا تھا وہ خود بہت ضدی تھا حالانکہ گاوں کے حالات اب پہلے سے نہیں رہے تھے۔
ہوا یوں کہ ایک ظالم دیو نے اپنے حامیوں سمیت گاؤں پر قبضہ کر لیا، ظلم کی سیاہ رات چھا گئی تھی، سورج نکلتا تھا لیکن دن نہیں ہوتا تھا، کالی سیاہ رات میں جس میں کوئی اگر اجالا کرنا چاہتا تو اسے سزا دی جاتی، غریب ڈرے ہوئے لوگ اب آہستہ آہستہ گاؤں چھوڑ کر جا رہے تھے، دیوار و در کو، اب دیمک چاٹ رہی تھی، وہ گاؤں اور وہ گلیاں کہ جو سارا دن بچوں کے شور و غل سے مسکرا رہی ہوتیں، اب ویران ہو کر سسک رہی ہوتیں، حتی کہ وہ کھمبا کہ جس کے نیچے ہر شام بچے کھیلا کرتے تھے، اداس تھا۔
سڑک اور زیادہ ٹوٹ گئی تھی اوراس کے ارد گرد جھاڑیاں بھی بڑھنے لگ گئیں تھیں، اب گاؤں میں صرف دیو کے حامی اور چند ہی اور لوگ رہ گئے تھے، اور ظلم و ستم جاری تھا مخالفین کے گھر توڑے جا رہے تھے اور لوگ اس دیو کے خلاف کچھ نہ کر سکتے تھے، غریب لوگ بھلا کر ہی کیا سکتے تھے، وہ ایک شام کہ جب دیو کے کارندے آئے اور ہمیں بھی گھر خالی کرنے کو کہا، ہاں وہ گھر کہ جس کہ ایک ایک اینٹ محبت سے رکھی گئی تھی، وہ دیواریں جو مکینوں کو جانتی تھیں، مکین دیواروں کو جانتے تھے، وہ گھر خالی کرنا تھا، سو سامان باندھ لیا گیا تھا، لیکن وہ لڑکا اسی ٹوٹی ہوئی سڑک کے کنارے بیٹھا تھا جہاں اب جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں سکول بند ہو گیا تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب جو کڑوی دوائیاں دیا کرتے تھے وہ بھی اب نہ آتے لیکن پھر بھی وہ لڑکا وہیں بیٹھا تھا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو یہ لوگ بہت ظالم ہیں، اب ہمارا گزارہ یہاں ممکن نہیں ہم غریب ناتواں لوگ ان ظالموں کے خلاف کر ہی کیا سکتے ہیں، اٹھو میرے پیارے، اب یہاں ویرانیاں ہی ویرانیاں ہیں، یہاں سکول ہے نہ ہسپتال، اور تمہارے سارے دوست بھی اب یہ گاؤں چھوڑ کر جا چکے ہیں سو ہمیں بھی جانا ہو گا پر وہ نہیں مانا اُس کا خیال تھا کہ پرندے اُس کے دوست ہیں سو وہ وہیں رہے گا، اور وہ اُسی ٹوٹی سڑک پر ہی رہ گیا۔۔۔۔۔ اور میں شہر آ گیا
٭٭٭
’’میں‘‘
آج صبح آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ ’’میں‘‘ گُم ہو گیا ہے۔
’’میں‘‘ جو آہستہ آہستہ گُم ہو رہا تھا آج مکمل طور پر کہیں گُم ہو گیا تھا گھر کے تمام کمروں میں دیکھا، کتابوں، کتابوں میں چھُپے خطوں حتیٰ کہ برتنوں تک میں دیکھ لیا لیکن ’’میں‘‘ کا کوئی سُراغ نہ ملا۔
پڑوسیوں کے دروازے پر دستک دی تو وہاں سے ایک چھوٹا بچہ باہر نکلا
’’بیٹا کیا تُم نے ’’میں‘‘ کو دیکھا ہے؟‘‘
’’جی کیا انکل؟‘‘ بچے نے حیران ہو کر پوچھا
’’کیا تمہارے ابو گھر پر ہیں؟‘‘
’’نہیں‘‘
اب بچے سے مزید سوالات کرنا فضول تھا اور یہاں وقت تھا کہ دوڑے جا رہا تھا دفتر ۹ بجے پہنچنا تھا اور اب دس ہونے کو تھے، اِسی دوران دفتر سے صاحب کا فون آ گیا، اُن کو بتایا کہ ’’میں‘‘ آج صبح سے لاپتہ ہے سو دفتر آنے سے قاصر ہے جیسے ہی ’’میں‘‘ ملا فوراً ہی دفتر حاضر ہو کر رپورٹ کرے گا۔
صاحب نے ’’میں‘‘ کو خوب برا بھلا کہا کہ اُس نے ہمیشہ ہی کام سے جی چرایا ہے اور آج دفتر میں چونکہ کام زیادہ تھا سو گمشدگی کا بہانہ بنا لیا ہے سو اب اُس کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی جائے گی۔ اِس سے پہلے کہ صاحب کوئی وضاحت سُنتے انہوں نے فون ہی کاٹ دیا۔
دوپہر تک ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک ٹہلتا رہا اور اُس کا انتظار کرتا رہا۔
’’میں‘‘ کی گُمشدگی کا واقعہ یکدم نہیں ہوا تھا بلکہ یہ گمشدگی قسطوں میں ہوئی تھی آہستہ آہستہ کر کے میں کو گُم کیا جا رہا تھا اور آج صبح تو ’’میں‘‘ مکمل طور پر کہیں کھو گیا تھا۔
’’میں‘‘ جو پیدائشی طور پر ایک آرٹسٹ تھا گاؤں کی کچی دیواروں پر جلی ہوئی لکڑی کے کوئلے سے وہ عجیب و غریب تصویریں بنایا کرتا تھا اوراُس کے ہاتھ ہر وقت کوئلے اور مٹی سے کھیلنے کی وجہ سے گندے رہتے تھے جب سکول داخل ہوا تو اُس کے اُستاد نے سب بچوں کو کہا کہ تم سب نے بڑے ہو کر ’’فوجی‘‘ بننا ہے، کسی بھی بچے کو فوجی کے بارے کچھ معلوم نہیں تھا بس یہی جو اُستاد نے بتایا تھا کہ فوجی بہت بہادر ہوتے ہیں اور اُس سے سب ڈرتے ہیں۔
’’میں‘‘ پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا فوجی تصویریں بناتے ہیں؟ لیکن استاد کے ہاتھ میں بید کی چھڑی دیکھ کر ’’میں‘‘ زندگی بھر یہ سوال نہ پوچھ سکا اور چُپ چاپ فوجی بننے لگا۔
میٹرک کے بعد ’’میں‘‘ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے ٹیسٹ دینے گیا تو معلوم ہوا کہ اُس کا قد اتنا بلند نہیں جتنا کہ ایک فوجی کا ہونا چاہیے سو اُسے ریجیکٹ کر دیا گیا ’’میں‘‘ بڑا دلبرداشتہ ہوا کہ اُسے تو اُس کے استاد نے بچپن ہی سے فوجی بننے کا خواب دکھایا تھا پھر یہ سوچ کر ’’میں‘‘ کو چین آ گیا کہ اب اطمینان سے تصویریں بنایا کرے گا لیکن اِسی دوران اُس کے بارے ایک اور فیصلہ ہو چکا تھا کہ اُسے ڈاکٹر بننا چاہیے سو وہ ڈاکٹر بننے کے لیے کالج میں داخل ہو گیا بائیولوجی کی لیبارٹری میں اُسے ہمیشہ الٹی آنے لگتی اور اُسے سمجھ نہ آتی کہ وہ یہ تجربات کیسے کرے سو ’’میں‘‘ فیل ہو گیا۔
’’میں‘‘ بہت پریشان ہوا لیکن یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ اب چین سے تصویریں بنائے گا اب کی بار ’’میں‘‘ کو سادہ ایف اے کرا دیا گیا جو اُس نے پاس کر لیا۔ اُس کے بعد اُس نے کئی چھوٹے بڑے کورسز کیے، ٹی وی ریپئرنگ، الیکٹریشن، پولٹری فارمنگ اور سروے جیسے کئی کورسز کرنے کے بعد ’’میں‘‘ کو ایک سرکاری ادارے میں کلرک کی نوکری مل گئی پچھلے پانچ سال سے ’’میں‘‘ کلرک تھا۔
’’میں‘‘ نے اس دوران کئی پینٹنگز بھی بنائیں کہ جن کی کہیں نمائش نہ ہو سکی اُس کے دوست اُس کی بنائی ہوئی پینٹنگز دیکھ کر ہنستے تھے اور کہتے کہ ایسی تصویریں کوئی مفت میں بھی نہ لے لیکن وہ اُس سے اپنے اسکیچ مفت بنواتے اور اُن اسکیچز کی خوب تعریف کرتے۔
اِسی دوران سارے دوستوں اور قریبی رشتے داروں کو فون کر کے ’’میں‘‘ کی گمشدگی کی اطلاع دی اور اُن سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے ’’میں‘‘ کو دیکھا ہے، سب کا خیال تھا کہ انہوں نے اُس کو کئی سال پہلے دیکھا تھا ایک اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ مختلف لوگوں نے ’’میں‘‘ کو مختلف وقتوں میں مختلف انداز میں دیکھا تھا سو یہ اندازہ لگانا تقریباً نا ممکن تھا کہ ’’میں‘‘ در اصل کب اور کہاں گُم ہوا ہے۔
اخبار کے دفتر پہنچ کر ’’میں‘‘ کی گمشدگی کا اشتہار دیا کہ ’’میں‘‘ جو گزشتہ کئی سالوں سے آہستہ آہستہ گُم ہو رہا تھا آج مکمل طور پر گم ہو گیا ہے جس کسی کو نظر آئے وہ ’’میں‘‘ کو گھر تک پہنچا دے۔ اطلاع دینے والے کو ’’میں‘‘ کی بنائی گئی ایک پینٹنگ مفت دی جائے گی۔
اخبار کے دفتر بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ سارا گھر دیکھ لیا ہے لیکن گھر کا تہہ خانہ نہیں دیکھا۔ تہہ خانے کو ’’میں‘‘ نے پینٹنگ روم بنا رکھا تھا لیکن کلرک بننے کے بعد ’’کلرک‘‘ اور ’’میں‘‘ کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا اب تو مدت سے تہہ خانہ بند تھا اور وہاں موجود تصویروں پر مٹی نے نئے نقش بنا دیے تھے وہ تصویریں جو اپنی پہلی نمائش کی منتظر تھیں۔
تہہ خانے کا دروازہ کھُلا تھا اندر جا کر معلوم ہوا کہ ساری پینٹنگز جلا دی گئی تھیں اور ’’میں‘‘ رنگوں میں ڈوبا ہوا بے حس و حرکت پڑا تھا اور اُس کی آنکھیں مجھے گھُور رہی تھیں۔۔۔
٭٭٭
ٹِکٹ چیکر
پینتیس سال ٹرین میں سفر کر کر کے وہ تھک گیا تھا وہ جب مڑ کر اپنی زندگی کے گزرے سالوں کی جانب دیکھتا تو اُسے سوائے سفر کے کچھ دکھائی نہ دیتا حالانکہ اِن گزرے سالوں میں اُس کی زندگی میں کیا کیا نہ ہوا تھا۔ شادی ہوئی، پانچ بچے ہوئے پھر وہ وقت بھی آیا کہ بچوں کی شادیاں بھی ہو گئیں لیکن وہ مُڑ کر دیکھتا تھا تو سوائے سفر کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا وہ گزشتہ پینتیس سال سے ریلوے میں ٹکٹ چیکر کی نوکری کر رہا تھا اور یہ سال اُس کی نوکری کا آخری سال تھا اگلے سال اُس نے ساٹھ سال کا ہو کر ریٹائر ہو جانا تھا۔
بچپن میں اُسے ٹرین کی آواز سے محبت سی ہو گئی تھی وہ مسجد میں سپارہ پڑھنے کے بعد شیشم کے بڑے درخت کے نیچے بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرتا اور جب وہ پاس سے گُزرتی تو وہ مسافروں کو ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہتا تھا وہ سوچتا کہ کاش وہ بھی اِن مسافروں کے ساتھ سفر کر سکے۔
بچپن کی یہ محبت وقت کے ساتھ پروان چڑھتی رہی اُس نے بہت شوق سے ریلوے میں نوکری کی تھی اور ٹرین سے یہ عشق بھی برقرار تھا جن مسافروں کو وہ بچپن میں ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہتا تھا اب وہ اُن کے ساتھ سفر کرنے لگا تھا۔
زندگی ایک سفر ہے لیکن اُس نے تو سچ میں اِس سفر کو سفر میں کاٹ دیا تھا اُسے پہلے تو کبھی ایسا احساس نہیں ہوا تھا لیکن کچھ مہینے پہلے جب اُس کی بیوی نے اُسے ملتان بیٹی کے ہاں جانے کا کہا تو اُس نے بتایا کہ اُس کی تو لاہور سے کوئٹہ جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی ہے سو وہ نہیں جا سکتا تو اُس کی بیوی نے اُسے کہا کہ تم نے ساری زندگی سفر میں گزار دی ہے۔ اُس نے بیوی کی اِس بات کو نظر انداز کیا اور ڈیوٹی پر چلا گیا لیکن وہ بات اُس کے لا شعور میں کہیں چِپک کر رہ گئی، معلوم نہیں کیوں بعض اوقات بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کے دل و دماغ پر بہت گہرے اثرات چھوڑ جاتی ہیں، ٹرین میں بیٹھے بیٹھے اُس نے اپنے گزشتہ ۳۵سال کی نوکری پر نظر دوڑائی تو وہاں سفر ہی سفر تھا جہاں مسافروں کی طرف سے یہ جملے تواتر سے سننے کو مل رہے تھے
’’بابو یہ ملتان جنکشن کب آئے گا؟‘‘
’’یہ ٹرین کیوں رک گئی ہے کیا کوئی کراس ہے یا سگنل ڈاؤن ہے؟‘‘
’’بابو میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے میں در اصل بھاگتے ہوئے ٹرین میں سوار ہوا ہوں سو ٹکٹ نہیں خرید سکا مجھے ٹکٹ بنا دیں پر جرمانہ نہ کریں‘‘ اور وہ جرمانہ نہ کرتا بس مسافر کو سمجھا دیتا کہ آئندہ احتیاط کرے۔
واقعی یہ جملے اُس کی زندگی میں کتنے زیادہ استعمال ہوئے تھے اُس اب احساس ہوا۔
اب وہ ہر روز نہ چاہتے ہوئے بھی یہی سوچتا رہتا کہ اُس کی ساری زندگی ٹرین میں گزر گئی ہے اور وہ زندگی کا اُس طرح لطف نہیں لے سکا کہ جیسا وہ اپنے ارد گرد لوگوں کو لطف اندوز ہوتے دیکھتا تھا۔ وہ کبھی بھی اپنی ڈیوٹی سے جی نہیں چراتا تھا کیونکہ اُسے اپنے کام اور ٹرین سے محبت تھی، وہ اب بھی عمر کے اِس حصے میں ٹرین کی آواز سنتا تو اُس کے اندر خوشی کی ایک لہر سی دوڑ جاتی، لیکن اب اُس کا اپنے کام میں دل نہیں لگتا تھا وہ چاہتا تھا جلد از جلد کام ختم ہو اور وہ گھر جائے کراچی اور کوئٹہ کی وہ طویل مسافتیں جو پچھلے پینتیس سال سے بلا کسی حیل و حجت کے آرام سے کٹ رہی تھیں اب ایک بوجھ بن گئی تھیں وہ کوشش کرتا کہ وہ اب ان طویل راستوں پر سفر نہ کرے اُس نے دو ایک بار اپنے افسر سے بات بھی کی کہ اب اُس کی صحت اتنے طویل سفر کی اجازت نہیں دیتی اگر ممکن ہو تو اُسے اتنے طویل سفر پر نہ بھیجا جائے
اب وہ مسافروں سے پہلے کی طرح مسکراتے ہوئے نہیں ملتا تھا اور بغیر ٹکٹ کے ہر مسافر کو وہ جرمانہ ضرور کرتا۔
’’یہ کیا زندگی ہوئی کہ ٹرین ہی میں کٹ گئی‘‘ دن رات یہ سوال اُس کے دل و دماغ پر دستک دیتا رہتا تھا اور وہ ٹرین میں بیٹھے بیٹھے وہ واقعات یاد کرتا کہ جب زندگی نے اُسے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا لیکن وہ منہ موڑ کر ٹرین میں آ بیٹھا۔ اُسے یاد آیا کہ جب اُس کے بڑے بیٹے کی پہلی سالگرہ تھی تو اُس کی بیوی نے کتنے مہمانوں کی دعوت کی تھی اُس نے جلدی جلدی کیک اور کھانے پینے کی دوسری اشیا بازار سے خرید کر بیوی کے حوالے کی تھیں کیونکہ اُسے دوپہر دو بجے ملتان جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی دینا تھی اُس کی بیوی کتنا ناراض ہوئی تھی کہ وہ چھٹی کیوں نہیں کر لیتا لیکن اُس نے چھٹی نہیں کی اور ملتان چلا گیا۔۔۔ اُسے ٹرین میں بیٹھے بیٹھے ایک اداسی نے آن گھیرا کاش وہ اُس دن اتنا اداس ہوتا اور گھر پر رُک جاتا۔
معلوم نہیں وہ کونسے سال کی اکتیس مارچ تھی جب بچوں کا نتیجہ آنا تھا اُس روز بھی وہ ٹرین میں کسی شہر جا رہا تھا جب وہ اگلے دن واپس آیا تو اُسے معلوم ہوا کہ اُس کے تین بچوں نے اپنی اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن لی ہے اوراُس کی بیوی نے اُسے بتایا کہ سکول کی ہیڈمسٹریس نے اُسے سٹیج پر بُلا کر بچوں کی بہت تعریف کی آپ کے بارے بھی پوچھا کہ آپ کیوں نہیں آئے، میں نے انہیں بتایا کہ آپ ڈیوٹی پر ہیں تو ہیڈمسٹریس نے کہا کہ آج کے دن بھی ڈیوٹی؟
بیوی کی زبانی سے سنے ہیڈمسٹریس کے اُن الفاظ نے اتنے سالوں بعد اُسے پریشان کر دیا کاش وہ اُس دن ڈیوٹی پر نہ جاتا اور بچوں کی خوشی میں خوش ہو لیتا۔
اُس نے بچوں کی شادی کے دنوں کو یاد کیا جو اُس نے بھاگتے دوڑتے کی تھیں اُس نے ساری زندگی کتنی محنت کی تھی اور ایک ایک روپیہ بچا کر رکھا تھا اپنے بچوں کے لیے اور جب اُس روپے کو خرچ کرنے کا وقت آیا تو اُس نے خوب روپے لٹائے لیکن خود معلوم نہیں وہ کہاں تھا ہر بچے کی شادی میں اُس نے چھٹی کی لیکن اُس کے لاشعور میں یہی چلتا رہا کہ ۱۳ اپ اور ۴۱ ڈاؤن معلوم نہیں اِس وقت کہاں ہوں گی۔۔۔
اُس نے اور بہت سے واقعات یاد کیے جب وہ اُس موقع پر تھا لیکن وہ وہاں نہیں تھا یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ بعض اوقات انسان جہاں ہوتا ہے حقیقت میں وہاں نہیں ہوتا۔۔۔ اُسے اب یقین ہو گیا کہ گزشتہ پینتیس سال اُس نے کہیں بھی گزارے تھے وہ در اصل ٹرین ہی میں تھا اُسے لگا کہ وہ ٹرین سے باہر کبھی گیا ہی نہیں اصل زندگی ٹرین ہے اور ٹرین سے باہر ایک خیال۔۔۔
یہ خیالات اُس کے لیے وحشت ناک تھے لیکن وہ خوش تھا کہ بس چھ مہینے بعد ہی وہ ریٹائر ہو جائے گا اور پھر وہ خوش و خرم زندگی گزارے گا اُس نے سوچ رکھا تھا کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ کے لیے بڑے بیٹے کے پاس مری چلا جائے گا اور وہاں پہاڑوں پر حسین موسم کا اور نظاروں کا لطف لے گا بہت سی کتابیں جو وقت نہ ملنے کی وجہ سے وہ نہ پڑھ سکا وہ پڑھے گا، اُس کا چھوٹا بیٹا ملتان میں رہتا تھا وہ کچھ روز کے لیے وہاں چلے جائے گا، روز صبح سیر کو جائے گا اور اِس طرح کے لا تعداد پروگرام جو اب وہ دن رات سوچتا رہتا تھا۔
پھر وہ دن آ گیا جب وہ ریٹائرڈ ہو گیا اُسے ایسا لگا کہ اُس کے کندھوں سے کوئی بھاری بوجھ اُتر گیا ہے وہ جب آخری بار سٹیشن سے واپس گھر جانے لگا اور اُس نے مڑ کر ٹرین کی جانب دیکھا تو معلوم نہیں اُسے کیا ہوا کہ وہ رونے لگا جیسے کوئی برسوں پرانے محبوب سے بچھڑ رہا ہو وہ یہ سوچ کر بے انتہا افسردہ ہو گیا کہ اب وہ کبھی بھی ٹرین کی آواز نہ سن سکے گا وہ آواز کہ جس کے ساتھ وہ بچپن سے محبت کرتا آیا تھا، اور ٹرین سے جڑی ساری باتیں اب خیال بن کر بکھر جائیں گی۔ لیکن اُس نے خود کو سمجھایا کہ اب یہ اُس کی آزادی کے دن ہیں اور اُسے خوش ہونا چاہیے۔
گھر آ کر اُس نے باری باری اپنے سب بچوں کو فون کیا کہ اب اُسے فرصت ہی فرصت ہے سو وہ بہت جلد اُن کے پاس آئے گا اُس نے بیوی سے کہا کہ وہ آج خوب گھوڑے بیچ کر سوئے گا کہ اُسے اب کوئی رات کی ڈیوٹی نہیں کرنی بلاشبہ یہ تبدیلی اُس کے لیے ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔
وہ اب رات کو چین سے سویا کرتا تھا لیکن ہفتے میں ایک دو بار وہ رات کو اٹھتا اور یونیفارم پہن کر ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیار ہو جاتا بیوی کے جگاتا اور کہتا ’’دروازہ بند کر دو میں جا رہا ہوں‘‘ اُس کی بیوی حیران ہو کر اُسے بتاتی کہ وہ تواب ریٹائرڈ ہو چکا ہے تو تب وہ بہت شرمندہ ہوتا اور کہتا ’’اوہ ہو مجھے تو یاد ہی نہیں رہا‘‘ ایسا کئی بار ہوا تو اُس کی بیوی نے اُس کہا کہ وہ کچھ دن کے لیے چھوٹے بیٹے کے ہاں ملتان چلا جائے سو وہ ملتان چلا گیا پہلی ہی رات وہ دو بجے نیند سے جاگ گیا اور کچھ ڈھونڈنے لگا جب اُسے کچھ نہ ملا تو اُس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا
’’میرا یونیفارم اور جوتے کہاں ہیں؟‘‘
شور سُن کر اُس کا بیٹا اور بہو اپنے کمرے سے باہر آئے تو انہیں سمجھ نہ آئی کہ مسئلہ کیا ہے جب انہوں نے اُسے بتایا کہ وہ اب نوکری نہیں کرتا تو وہ بہت دکھی ہو گیا ’’آخر یہ مجھے یاد کیوں نہیں رہتا کہ میں نوکری نہیں کرتا؟‘‘ اور اِس طرح کے واقعات اب مسلسل بڑھتے جا رہے تھے۔
وہ روز صبح گھر سے نکلتا اور ملتان اسٹیشن جا کر ایک بنچ پر بیٹھ جاتا اور گاڑیوں کو آتا جاتا دیکھتا رہتا ہر ٹرین کے گُزرتے مسافروں کو وہ ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہتا اور اُسے ایسا لگتا کہ جیسے وہ اپنے گاؤں کا وہ چھوٹا سا لڑکا ہے جو سپارہ پڑھنے کے بعد درخت کے نیچے ٹرین کا انتظار کر رہا ہے تاکہ وہ مسافروں کو ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہہ سکے۔۔
انہی دنوں کی ایک گرم دوپہر کا قصہ ہے کہ اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے معلوم نہیں اُسے کیا سوجھی کہ وہ ایک ٹرین میں داخل ہو گیا اور مسافروں سے ٹکٹ کے بارے پوچھنے لگا لوگ اُسے حیرت سے دیکھنے لگے اور کچھ ہنسنے لگے
’’کونسا ٹکٹ؟‘‘ ایک مسافر نے پوچھا
’’ریل میں کوئی بھی بغیر ٹکٹ کے سفر نہیں کر سکتا، بغیر ٹکٹ سفر کرنا جرم ہے سو ٹکٹ دکھایئے‘‘
’’تو تمہیں کیوں دکھائیں‘‘ مسافر نے کہا
’’مجھے نہیں دکھاؤ گے تو کسے دکھاؤ گے میں ہی تو ٹکٹ چیکر ہوں‘‘ لوگ ہنسنے لگے اِسی دوران گاڑی میں موجود ٹکٹ چیکر آ گیا
’’ہاں بھئی کیا مسئلہ ہے‘‘
’’یہ میرا یونیفارم آپ کے پاس کیسے؟‘‘ اُس نے ٹکٹ چیکر سے سوال کیا
’’کیا ہو گیا ہے پاگل ہو گئے ہو، اپنا ٹکٹ دکھاؤ‘‘
’’میرا ٹکٹ؟ میرا کونسا ٹکٹ؟ میں تو خود ٹکٹ چیکر ہوں‘‘
اور انہوں نے اُسے پاگل سمجھ کر ایک اسٹیشن پر اتار دیا معلوم نہیں وہ کونسا شہر تھا کہ جس کی گلیوں میں وہ ’’ٹکٹ، ٹکٹ‘‘ پکارتا ہوا دوڑ رہا تھا۔۔۔
٭٭٭
بوڑھا اور جنٹلمین
معاف کیجیے گا میں یہ کہانی بہت جلدی میں لکھ رہا ہوں اِس تیزی کا جواب میں آگے چل کر شاید دے دوں شاید نہ بھی دوں لیکن ساری باتیں ایک طرف رکھ کر میں پھر اِس کہانی کی طرف آتا ہوں کہ جس کا کردار ہر وقت چلتا رہتا تھا ہر وقت چلتے رہنے سے مراد ہے کہ جب بھی میں نے اُسے دیکھا چلتے ہوئے دیکھا اور یہ دیکھنے کا عمل کوئی سات مہینوں پر مشتمل ہے یقیناً وہ رات کو سو جاتا ہو گا لیکن میں نے اُسے دن میں ہی دیکھا ہے سو میں آپ کو اُس کی رات کے بارے کچھ بھی بتانے سے قاصر ہوں۔
اُسے میں نے چاندنی چوک میں پہلی بار تقریر کرتے سُنا ارد گرد لوگ ’’پاگل ہے‘‘ کہہ کر گزر رہے تھے۔
ٹائی سوٹ پہنے یہ شخص منہ سے جھاگ اُڑا رہا تھا مجھے وہ پہلی ہی نظر میں ایک ڈراؤنا کردار لگا لیکن ایک تجسس سے مجبور ہو کر میں اُسے سننے لگا
’’جنابِ صدر یہ ویت نام کی سرد جنگ کب ختم ہو گی؟ یہ جنوبی اور شمالی ویت نام کے پسِ پردہ امریکہ اور چین کی لڑائی کب ختم ہو گی؟ یہ بڑے ترقی یافتہ ملک کب تک اپنی جنگیں چھوٹے ملکوں میں لڑیں گے
جنابِ صدر کب تک بے گناہ غریب لوگ یونہی بے مقصد مرتے رہیں گے؟ مجھے بتائیے جواب ہے کسی کے پاس؟‘‘
میں نے قریب جا کر کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
’’حوصلہ رکھیے‘‘
’’حوصلہ رکھوں کس بات کا حوصلہ رکھوں یہاں لوگ مر رہے ہیں آپ کو حوصلے کی پڑی ہے‘‘
’’لیکن ویت نام کی جنگ تو کب کی ختم ہو چکی‘‘ میں اُسے بتایا تو اردگرد کھڑے لوگ ہنسنے لگے بوڑھے کو یہ بات بہت ناگوار گزری اور وہ شدید غصے میں آ گیا
’’تم بتاؤ گے مجھے تم جنٹلمین، تم خود کو سمجھتے کیا ہو، ٹھہرو میں تمہیں ابھی بتاتا ہوں‘‘ وہ ارد گرد کچھ تلاش کرنے لگا شاید پتھر اُسے جب کچھ نہ ملا تو اُس نے میرا گریبان پکڑ لیا اور زور زور سے جھنجھوڑنے لگا
افف کتنی ڈراؤنی تھیں وہ آنکھیں جن کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں سرخ جیسے اُن میں فقط خون بھرا ہوا ہو
’’میں تو صرف ایک بات کر رہا تھا‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا
’’شٹ اپ جنٹلمین‘‘
یہ کہہ کر اُس نے زور کا دھکا دیا اور میں وہاں سے سرپٹ بھاگ پڑا۔ کتنے قہقہے میرے پیچھے بلند ہوئے تھے۔
اُس کے بعد کے واقعات جو میں بتانے جا رہا ہوں اُس سے پہلے میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں کوئی پاگل نہیں ہوں اور ایک ذہین آدمی ہوں یہ وضاحت بہت ضروری تھی کیونکہ اُس دن کے بعد ہر رات مجھے خواب میں وہ بوڑھا نظر آنے لگا اور اُس کے ہاتھ میں ایک چاقو ہوتا اور ہر روز وہ مجھ پر حملہ کر دیتا اور میں چیخ مار کر جاگ جاتا کبھی کبھی مجھے لگتا اُس نے میرا گلا گھونٹ دیا ہے کبھی وہ میرے سینے میں خنجر گھونپ دیتا اور میں ڈر کر جاگ جاتا میں نے لاکھ کوشش کی کہ وہ میرے ذہن سے نکل جائے لیکن اُس کا منحوس چہرہ مجھے یاد رہتا اور میں جب صبح کام پر جانے کے لیے چاندنی چوک سے گزرتا تو وہ اُسی طرح وہاں تقریر کر رہا ہوتا میں وہاں سے تیز تیز گزرتا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظر اُس کی جانب اٹھ جاتی اور حیران کن بات یہ ہے کہ وہ اُسی لمحے جب میں اُس کی جانب دیکھتا وہ اپنی خونی نگاہوں سے مجھے گھور رہا ہوتا۔
ایک بار اُس نے مجھے بلایا بھی تھا
’’اے جنٹلمین رکو، رکو مجھے تم سے ایک کام ہے‘‘
اور میں سرپٹ بھاگ کھڑا ہوا جیسے وہ میرے پیچھے آ رہا ہے، جیسے وہ میرے خواب میں آتا تھا۔
اُنہی دنوں جب میں اِس خوف میں مبتلا تھا اور میرے رات دن پریشانی میں گزر رہے تھے مجھے نادیہ سے محبت ہو گئی تھی اُن پریشان دنوں میں اُس کا ساتھ میرے لیے بڑا سہارا تھا وہ میرے دکھ درد بانٹتی لیکن پھر بھی میرے خواب پریشان تھے میں سو نہ سکتا تھا۔
سو ایک روز تنگ آ کر میں ایک ماہرِ نفسیات کے پاس گیا اُس نے کچھ سکون آور ادویات مجھے دیں اور مجھے کہا کہ میں دفتر جانے کا راستہ بدل لوں اب میں لمبے راستے سے ہو کر جاتا تاکہ اُس بوڑھے کا سامنا نہ ہو لیکن آپ یقین کریں وہ اب بھی میرے خوابوں میں خنجر لیے آتا تھا
پھر کچھ دنوں بعد جب میں اپنے گھر سے نکلا تو گلی کے سرے پر ایک ہجوم تھا اور وہ منحوس بوڑھا اب میری گلی کے سرے پر کھڑا تقریر کر رہا تھا۔ اُس نے اتنے ہجوم میں بھی مجھے دیکھ لیا تھا
’’اے جنٹلمین رکو‘‘
شاید اُس نے مجھے پکارا تھا لیکن میں چونکہ اتنی تیزی سے وہاں سے آگے نکل گیا تھا کہ مجھے سنائی نہ دیا کہ اور کیا کہا تھا لیکن میرا خیال ہے اُس نے پکارا ضرور تھا۔
انہی پریشانیوں سے تنگ آ کر میں نے نادیہ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا سو اُس کے گھر والوں سے ملنے آج پہلی بار میں اُس کے گھر گیا تھا اچھا خوبصورت ڈرائنگ روم تھا مجھے انتظار کرنے کا کہہ کر نادیہ اپنے والدین کو بلانے گئی میں ایک پینٹنگ دیکھنے میں محو تھا جب مجھے آواز آئی۔
’’جنٹلمین‘‘۔۔۔
میں یہ کہانی ریلوے اسٹیشن پر بیٹھ کر لکھ رہا ہوں میں اِس شہر سے ہمیشہ کے لیے جا رہا ہوں
٭٭٭
دنیا کا آخری کونا
’’رکو آگے مت بڑھو!
دیکھو یہ دنیا کا آخری کونا ہے‘‘
’’ہو گا، میں کیا کروں تم نے کبھی سوچا میں کتنا دکھی ہوں، رگ رگ میں جیسے آگ چل رہی ہو، جیسے حبس ہو آنکھیں بار بار آسمان کی طرف اٹھیں لیکن پھر بھی بارش نہ ہو میں بھی تو بنجر زمین ہوں سو مجھے کیا کہ میں کہاں ہوں عرصہ ہوا میں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ میں کہاں ہوں، میں تو بس راہ کا مسافر ہوں دریا کنارے کھڑی وہ جھاڑی کہ جس کو کبھی کبھار پانی کی کوئی موج چھو کے گزر جائے اور تا دیر اُس پر لرزا طاری رہے سو میں بھی دیر تک لرزتا رہتا تھا اب وہ بھی نہیں۔ بھلے یہ آخری ہی کونا کیوں نہ ہو مجھے پرواہ نہیں۔
’’رکو رکو دیکھو چھلانگ مت لگانا‘‘
’’ایک چھلانگ کے دوری پر ہے یہ ساری مشقت، یہ سارے دُکھ پھر میں کہاں اور تم کہاں بلکہ یہ دنیا کہاں ایک چھلانگ کے بعد یہ دُکھ بھی اکیلے رہ جائیں گے‘‘
’’کسے خبر ہو سکتا ہے مرنے کے بعد اور مشکل پڑ جائے‘‘
ہائے ہائے یہ کیا کہہ دیا تم نے، تم مجھے ڈرا رہے ہو، دیکھو مجھے ڈراؤ مت، میں ساری زندگی ڈرتا رہا ہوں، مجھے اور مت ڈراؤ، اب میں کہاں جاؤں تم بھی مجھے ڈراتے ہو جیسے اِس دنیا نے مجھے ڈرایا‘‘
’’خدایا رحم کن بر من خدایا خدایا‘‘
’’میں کہاں جاؤں، عجب وحشت کا عالم ہے، یہ کیسی تنہائی ہے کہ بھری دنیا میں اکیلا ہوں، مجھے سب بھول گئے ہیں اتنا بھلا دیا ہے کہ میں یہاں دنیا کے آخری کونے پر چھلانگ لگانے آ گیا ہوں اور وہ بھی تم نہیں لگانے دے رہے مجھے مت روکو مجھے ڈراؤ مت، میرے دوست یہ شہر کتنا ظالم ہے اتنا ظالم کہ چالیس سال تک میں فٹ پاتھ پر سوتا رہا ہوں اور مجھے کسی نے یہ نہیں کہا کہ تم ہمارے گھر میں رہ لو، اِس شہر میں کتنے گھر ہیں تم گنو تو گن نہ سکو، یہ دنیا کہ جس نے مجھے فٹ پاتھ سے زیادہ جگہ نہیں دی میں کبھی بھی حاسد نہیں رہا لیکن جب کبھی ان محل نما کوٹھیوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیسے یہ سب کچھ بن گیا میں چالیس سال سے فٹ پاتھ پر ہوں‘‘
’’محنت‘‘
کیا کہا محنت؟
’’مت سناؤ مجھے یہ کتابی باتیں کہ یہ سب کچھ محنت کا نتیجہ ہے، میں ایک دن محنت نہ کروں تو فٹ پاتھ پر بھوکا مر جاؤں اور لوگ اٹھانے بھی نہ آئیں ہاتھ جو کالے سیاہ ہو گئے ہیں یہ محنت ہی کا نتیجہ ہیں اور یہ شکل کہ جسے میں نے ایک عرصے سے خود نہیں دیکھا، ذرا غور سے دیکھو میں کیساہوں؟
میں ساتویں میں تھا جب اپنے گھر سے بھاگ کر اس شہر میں آیا تھا کاش میں بغیر پڑھے اِس شہر میں آ جاتا مجھے لفظوں سے آگاہی نہ ہوتی، کاش میں بغیر پڑھے یہاں آتا اور میں فٹ پاتھ پر پڑے باقی مزدوروں کی طرح کچھ بھی نہ سوچتا یہ سوچنا بھی انسان کو کتنا دُکھی کر دیتا ہے، مجھے شوق تھا اداکار بننے کا جو میں نہیں بن سکا لیکن مجھ پہ اب یہ راز کھل چکا ہے کہ یہ کردار تو میں وہاں رہ کر بھی نبھا سکتا تھا یہ بھی ممکن ہے کہ میں غربت سے بھاگ آیا تھا لیکن یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ میں پھر بھی غریب رہا، تم تو جانتے ہو کہ میں شاعری کر سکتا ہوں اِسی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر میں نے کئی شعروں کے وزن درست کئے ہیں نظم اچھی کہہ سکتا ہوں لیکن میری کئی نظمیں کوڑا کرکٹ میں چنے کاغذوں پر لکھی گئی تھیں کچھ وہاں فٹ پاتھ پر ہی بکھری پڑی ہیں کچھ آندھی طوفان میں اڑ گئی ہیں فٹ پاتھ کے دائیں جانب پلازہ میں جو ایک بڑی بڑی مونچھوں والے صاحب رہتے ہیں جو ایک ماہنامہ ادبی پرچہ بھی نکالتے ہیں۔
’’کیا کہا شہر کے مشہور شاعر اُداس سلطان پوری صاحب؟‘‘
’’آہ مشہور شاعر، اگرچہ کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ یہ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا لیکن چونکہ اب میں دنیا کے آخری کونے پر ہوں سو اب میں بتا سکتا ہوں وہ ساری غزلیں میں ہی اُسے لکھ کر دیتا ہوں جو وہ اپنے نام سے پرچے میں چھاپتا ہے بھئی دو دن اچھا کھانا مل جاتا ہے ایک غزل آپ کو اس سے زیادہ کیا دے سکتی ہے ہاں بتائیے بتائیے؟‘‘
’’میری آنکھوں میں کتنے خواب تھے لیکن تمہیں معلوم ہے فٹ پاتھ پر بیٹھ بیٹھ کر لیٹ لیٹ کر کونسے خواب کونسی تعبیریں؟‘‘
’’بہت ہو گئیں یہ ساری باتیں، مجھے الجھاؤ مت‘‘
’’اب میں چھلانگ لگانا چاہتا ہوں ہٹ جاؤ‘‘
’’ایک ناکام شخص آخر اور کر ہی کیا سکتا ہے؟‘‘
’’کیا کہا ناکام؟ تم بھی ایسا سمجھتے ہو تم نے تو میرے ساتھ ساری زندگی گزار دی تم تو ایسا نہ کہو‘‘
یاد رکھو میں ناکامی سے نہیں جا رہا میں بس اُکتا گیا ہوں اِن روز و شب سے یہ کیا لوگ ہیں دن رات دولت دولت دولت یہ کیا ہے آخر کون لوگ ہیں ہم۔
ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کا سر پھاڑ دینے والے لوگ، چالیس سال فٹ پاتھ پر رہ رہ کر اِن آنکھوں نے عجب تماشے دیکھے ہیں انسان بہت عجیب ہیں یقین مانو بہت ہی عجیب، یہاں سب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں صرف پچھلی ۳۵۰۰ سال کی انسانی تاریخ میں صرف ۲۳۰ سال ایسے ہیں جن میں کوئی لڑائی کی خبر نہیں باقی ہر روز ایک ہی تاریخ دہرائی جاتی رہی ہے اور شاید دہرائی جاتی رہے گی۔ میں روز اخبار پڑھتا ہوں اِس دور میں ایک حساس آدمی اخبار کیسے پڑھے اور کیوں پڑھے میں اخبار پڑھتے ہوئے بعض اوقات رو پڑتا ہوں تو میرے ساتھ فٹ پاتھ پر رہنے والے مزدور مجھ پر ہنستے ہیں، وہ نہیں سمجھتے کہ کاغذ کے ٹُکڑے میں دُکھ کیسے سمو سکتا ہے۔۔۔
میں نے شاعری یوں بھی چھوڑ دی تھی کہ جب کبھی میں کوئی محبت بھرا شعر لکھتا تو میں کہتا یہ بات کتنی جھوٹی ہے ایک ایسے شخص سے جو فٹ پاتھ پر رہتا ہو بھلا اُس سے محبت کیوں کر ہو سکتی ہے سو میں شاعری سے بھی اکتا گیابس یونہی رات گئے شعر کہتا ہوں لیکن لکھتا نہیں بھئی کیوں لکھوں کس کے لیئے لکھوں کون پڑھے گا میرے شعر۔۔
اپنے لیے ہی لکھتا رہا ہوں اور میں نے بہت لکھا میں بس تھک گیا ہوں۔
میں نے فٹ پاتھ پر گزارے چالیس سالوں میں شاید ہر کام کر لیا ہے، میں پلمبر، مکینک، ترکھان، خاکروب سب ہوں یہاں تک کہ ایک بار ایک سیٹھ کے کتے نہلانے کی ڈیوٹی بھی سرانجام دے چکا ہوں یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے اگرچہ کہ میرے پاس وقت نہیں ہے کہ میں یہاں چھلانگ لگانے آیا ہوں اور تم میرے ماضی کے قصے لے بیٹھے ہو، لیکن میں پھر بھی تمہیں یہ قصہ سُنا دیتا ہوں کہ جب میں سیٹھ کے پاس پہنچا تو اُس نے مجھے سر سے پاوں تک دیکھا اور کہا تم نے کبھی پہلے کتے نہلائے ہیں
’’میں نے کہا، نہیں لیکن یہ کونسا مشکل کام ہے سیکھ لوں گا‘‘
انہوں نے کہا کہ پہلے مجھے نئے اور صاف کپڑے پہننے پڑیں گے ان میلے کچیلے کپڑوں میں کون روس سے منگائے کتے نہلا سکتا ہے، تم یقین کرو کتے نہلاتے ہوئے میں صاف کپڑے پہنتا تھا اور فٹ پاتھ پر پرانے، ہے نا عجیب بات، یہ کتنے دُکھ کی بات ہے، یہ دنیا ہے ہی عجیب تبھی تو میں چھلانگ لگانا چاہتا ہوں۔۔ میں جب ایک پارک میں جوکر کی نوکری کرتا تھا تو سارا دن بچوں کے آگے ہنسنا ہوتا تھا جب آپ کا اندر رو رہا ہو لیکن پھر بھی آپ کوہنسنا پڑے تو یہ دنیا کہ چند مشکل کاموں میں سے ایک ہے سو میں دو سال ہی میں تھک گیا۔
’’تو تم اسی طرح جس طرح چالیس سال سے گزارہ کرتے آ رہے ہو کرتے رہو‘‘
اب وہ وقت نہیں رہا اب آپ فٹ پاتھ پر بھی محفوظ نہیں بلکہ اب آپ کہیں بھی محفوظ نہیں، صبح سویرے میونسپلٹی والے آتے ہیں اور مار کر بھگا دیتے ہیں، فٹ پاتھ کے نیچے نشہ کرنے والے بھی تو بہت لوگ ہوتے ہیں اب ایسے لوگوں کی وجہ سے ہمیں بھی اپنا گھر چھوڑنا پڑا آج تو حد ہی ہو گئی میونسپلٹی والوں نے صبح سویرے ڈنڈوں سے حملہ کر دیا میں نیند میں تھا اندھا دھند بھاگا کہ سڑک پر سے گزرتی ایک گاڑی سے ٹکڑ ہو گئی یہ دیکھو میرا بازو ٹوٹ گیا ہے پولیس پکڑ کر لے جاتی تو اور مار پڑتی اور اگر سرکاری ہسپتال چلا جاتا تو انتظار میں عمر گزر جاتی لیکن میرا علاج نہ ہوتا، بس میں نے کہا اِس طرح جینے کا کیا فائدہ سو میں یہاں آ گیا لیکن میں مانتا ہوں میں کب سے باتیں کر رہا ہوں، میرے دوست میرے پیارے میں چھلانگ لگانے سے ڈرتا ہوں میں زندگی سے بھی ڈرتا ہوں ہائے میں کیا کروں، میں موت سے بھی ڈرتا ہوں، میں واپس جا رہا ہوں اپنے گھر اپنے فٹ پاتھ پرمیرا جب بازو ٹھیک ہو جائے گا تو میں پھر کہیں کتے نہلاؤں گا تو کہیں جوکر بن کر اُلٹی سیدھی حرکتیں کروں گا میں بھوکا رہوں گا تو غزلیں بیچوں گا اور دنیا میں ہونے والی تباہی و بربادی کی خبریں پڑھ کر روتا رہوں گا، لیکن میں چھلانگ نہیں لگا سکتا۔۔۔۔ آہ میں چھلانگ نہیں لگا سکتا۔۔۔۔۔
٭٭٭
دھُند میں لپٹی شام
سردیوں میں شام کتنی جلدی ہوتی ہے ابھی سورج تھا اور ابھی غائب، ہلکی ہلکی دھند بھی چھا رہی تھی سلیم جلدی جلدی دکان بند کر رہا تھا آج تو بہت دیر ہو گئی تھی اور حالات ایسے تھے کہ دیر نہیں ہونی چاہیے تھی کچھ روز قبل ہی اُس کے چچا زاد بھائی ناصر نے پٹھانوں کے ایک لڑکے کو قتل کر دیا تھا جس سے دونوں خاندانوں کے بیچ دشمنی چل رہی تھی اُس واقعہ کے بعد سے ناصر مفرور تھا لیکن خاندان کا ہر شخص پریشان تھا کہ اب وہ لوگ ان سے بدلہ ضرور لیں گے سو سلیم سمیت ہر بندہ ہر وقت اپنے پاس پستول ضرور رکھتا تھا۔ سلیم کو جب اپنے پاس پستول رکھنے کا کہا گیا تووہ ڈر گیا وہ بھلا اسے چلائے گا کیسے؟ اُس نے تو کبھی کسی پر ہاتھ بھی نہیں اٹھایا تھا تو یہ پستول کیسے چلائے گا لیکن خاندان کا دباؤ تھا سو، وہ پستول اپنے پاس رکھتا تھا کبھی کبھار اُسے لگتا کہ پستول خود بخود چلنا شروع ہو جائے گا اور گولی اپنے آپ کو بھی لگ جائے گی۔ وہ ایک خوفزدہ شخص تھا کہ جس نے ساری عُمر دکانداری کے سوا کچھ نہ کیا تھا
اِسی دوران اُس کے موبائل پر اُس کے بیٹے کا میسج آیا۔
’’ابا کب تک آؤ گے، اماں پوچھ رہی ہیں‘‘
آ جاؤں گا پُتر، سلیم منہ ہی منہ میں بڑبڑایا اور موبائل جیب میں رکھ کر جلدی جلدی دکان کا سامان سمیٹا، دن بھر کی نقدی اٹھائی، پستول کو شلوار میں اڑسا اور دکان کو تالا لگا کر نہر کے کنارے کنارے چلنے لگا۔ شام گہری ہوتی جا رہی تھی اور اُس کے اندر کا خوف بڑھتا جا رہا تھا، آج واقعی بہت دیر ہو گئی ہے، ابھی وہ گھر سے کافی فاصلے پر تھا کہ نہر کنارے ایک ویران جگہ پر کسی نے اُسے پکارا
’’رکو‘‘ آواز آئی
اُسے ایسے لگا کہ یہ آواز اُس کے اندر سے آئی ہے، کیا خوف بہت بڑھ جائے تو وہ بولنے لگ جاتا ہے؟
’’رک جاؤ ورنہ میں گولی چلا دوں گا‘‘ آواز پھر آئی
اُسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں تو کیا زندگی کا سارا سفر اتنا ہی تھا
’’کون ہے؟‘‘
سلیم نے ڈرتے ڈرتے پیچھے دیکھا ایک نقاب پوش ہاتھ میں پستول تھامے کھڑا تھا
’’کک…. کون ہو تم‘‘ سلیم نے ڈرتے ہوئے پو چھا۔
’’تمہارے پاس جو کچھ ہے نکال دو‘‘ نقاب پوش نے کہا۔
’’یہ ضرور پٹھانوں کا آدمی ہے اور مجھے مارنا چاہتا ہے‘‘سلیم نے سوچا۔
’’اچھا میں نکال رہا ہوں سب کچھ، دیکھو گولی مت چلانا میں سب کچھ دے رہا ہوں‘‘
اُس نے جیب میں ہاتھ ڈالا رقم کا تھیلا زمین پر رکھ دیا نیچے ہوتے ہوئے اُس نے جیب سے پستول نکال کر نقاب پوش پر تان لیا اب صورتحال یہ تھی کہ دونوں ایک دوسرے پر پستول تانے کھڑے تھے، اندھیرے کے باعث سلیم کے کانپتے ہاتھوں کو کوئی دیکھ نہ سکتا تھا۔
’’پستول رکھ دو‘‘ نقاب پوش نے کہا۔
’’نہیں پہلے تم پستول نیچے کرو‘‘ سلیم نے کہا۔
’’میں تمہیں مارنا نہیں چاہتا‘‘ نقاب پوش نے کہا۔
’’مارنا تو میں بھی نہیں چاہتا‘‘ سلیم نے کہا۔
’’اچھا تم اپنی رقم واپس لے لو اور مجھے اپنی موٹر سائیکل تک جانے دو میں چلا جاتا ہوں، دیکھو گولی مت چلانا، میں جا رہا ہوں‘‘ اور وہ یہ کہہ کر دائیں طرف کھڑی موٹر سائیکل کی جانب جانے لگا لیکن وہ بدستور پستول سلیم کے طرف تانے ہوئے تھا
سلیم بھی آہستہ آہستہ اُس کی طرف بڑھنے لگا کہ کہیں وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فائر نہ کر دے اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ اب بہت بڑھ گئے تھی، نقاب پوش موٹر سائیکل پر بیٹھا ہی تھا کہ ایک گولی چلنے کی آواز آئی، اور پھر دھند میں لپٹی شام میں نہر کنارے اُس ویرانے میں میسج آیا تھا
’’ابا دیر نہیں کرنی‘‘
اور کوئی اندھا دھند نہر کنارے دوڑے جا رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہر کنارے پکی سڑک سے گزرتے کسی راہگیر نے گولی چلنے کی آواز سنی تو اطلاع تھانے میں پہنچا دی پولیس جب وہاں پہنچی تو رات گہری ہو چکی تھی اور دھند نے اپنے ڈیرے جما لیے تھے بیٹریوں کی روشنی میں انہیں ایک موٹر سائیکل کے قریب ایک نوجوان کی لاش ملی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدیق ڈاکیے کے بیٹے ساجد کو بی اے کیے تیسرا سال تھا لیکن وہ بیروزگار تھا اُس نے بہت ہاتھ پیر مارے لیکن آج کل بغیر سفارش نوکری کون دیتا ہے۔ سعدیہ اُس کے بچپن کی منگ جانے کب سے اُس کے برسرِ روزگار ہونے کی منتظر تھی، سو ایک روز تنگ آ کر ساجد اپنے دوست دلاور کا موٹر سائیکل اور اپنے چھوٹے بھائی کا کھلونا پستول لے کر نہر کنارے ویران جگہ پر کھڑا ہو گیا وہاں کھڑے کھڑے اُس نے سعدیہ کو میسج کیا تھا
’’میں جلد اپنا کاروبار شروع کرنے لگا ہوں بس کچھ رقم کا انتظام کرنا ہے‘‘
اُس نے اِس سے پہلے کبھی چوری یا ڈاکہ نہیں ڈالا تھا ایک خوف تھا جو اُسے اندر ہی اندر پریشان کر رہا تھا لیکن وہ بیروزگار رہ رہ کر بھی تنگ آ چکا تھا اُسے امید تھی کہ کھلونا پستول سے اُس کا کام چل جائے گا لیکن ایک خوف اُسے اندر ہی اندر کھائے جاتا تھا
شام گہری ہوتی جا رہی تھی اور دھند بھی۔۔۔۔
اُس نے موٹر سائیکل ایک سائیڈ پر کھڑی کی اور منہ پر چادر لپیٹ لی، دور سے ایک شخص تیز تیز چلتا ہوا آ رہا تھا، اُس نے کھلونا پستول پر ہاتھ مضبوطی سے جما لیے جب وہ اِس کے قریب سے گزرا تو اس نے اُسے روکا لیکن اگلے ہی لمحے اُس شخص کے ہاتھ میں پستول آ گیا یہ دیکھ کر ساجد کے کانپتے ہاتھ میں مزید تیزی آ گئی دھند میں لپٹی سرد شام میں اُس کے ماتھے پر پسینے آ گئے،
اُسے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’میں تمہیں مارنا نہیں چاہتا مجھے موٹر سائیکل تک جانے دو‘‘ اُس نے ہمت کر کے کہا
وہ ابھی موٹر سائیکل پر بیٹھا ہی تھا کہ دوسرے شخص نے گولی چلا دی جو اُس کے سینے کے آر پار ہو گئی
’’مجھے معاف کر دو مجھے معاف کر دو یہ گولی خود بخود پستول سے نکلی ہے میرا یقین کرو، خدا کے لیے مجھے معاف کر دو‘‘ وہ شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا
ساجد کو یوں لگا کہ جیسے کسی نے آگ کا گولہ اُس کے سینے میں اتار دیا ہو وہ بتانا چاہتا تھا کہ یہ پستول نقلی ہے اُس نے پستول والا ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ دوسرے شخص نے وہاں سے دوڑ لگا دی
’’لیکن رقم آئے گی کہاں سے؟‘‘ ایک میسج آیا تھا۔
شام اور دھند دونوں بہت گہری ہو چکی تھیں۔۔۔۔۔
٭٭٭
اُستاد جی
اب بھی فجر کے وقت جب آنکھ کھلتی ہے تو ذہن میں بچپن کی سُنی وہ آواز گونجنے لگتی ہے وہ آواز اُستاد جی کی تھی، جو گاؤں کی مسجد کے امام تھے اور بچوں کو قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے۔
ہر روز جب وہ فجر کی اذان دیتے اور پھر کچھ دیر بعد سرائیکی زبان کے یہ شعر پڑھتے
آ، ہُنڑ رب دے در تے، تے سر کو جھُکا
گُزر ویسیا ویلا، پچھے، کرسیں کیا۔۔۔۔
آ، ہُنڑ رب دے در تے
(رب کے در پہ آؤ کہ وقت گزر گیا تو کیا کرو گے؟)
اب اتنی مُدت گزر چکی ہے اور میں ہزاروں آوازیں سُن چکا ہوں لیکن معلوم نہیں وہ کیا سوز تھا جو، اُستاد جی کے گلے میں تھا، وہ مجھے پھرکسی آواز میں سنائی نہیں دیا۔ اب بھی وہ آواز ڈھونڈھتا ہوں جو کہیں کھو گئی ہے لیکن میرے خیالوں میں وہ آواز اب بھی گونج رہی ہے۔
مجھے لگتا ہے اُستاد جی کہہ رہے ہیں، آہنڑرب دے درتے۔۔۔۔
استاد جی کی اولاد نہیں تھی، شکوہ شکایت وہ کرتے نہیں تھے سارے گاؤں کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھ کر بہت محبت سے قرآن پاک پڑھاتے تھے، سارے گاؤں کے چھوٹے بڑوں کے وہ استاد جی تھے۔۔
کبھی کبھار تو عجیب منظر ہوتا، ہم دیکھتے کہ اُستاد جی مسجد کے صحن میں بیٹھے ہیں اور آنکھیں بند کیے نعت شریف پڑھ رہے ہیں
’’اَج سِک متراں دی ودھیری اے
کیوں دِلڑی اُداس گھنیری اے‘‘
آنکھیں بند ہیں پڑھ رہے ہیں اور رو رہے ہیں، ہم بچے تھے ہمیں شعروں کی سمجھ نہیں تھی لیکن وہ آواز اُف وہ کیا آواز تھی ہم بھی اُستاد جی کے گرد بیٹھ جاتے اور رونے لگتے وہ ہماری آواز سنتے تو آنکھیں کھولتے جلدی سے اپنا رو مال آنکھوں پر ملتے اور کہتے اوہ میرے بچو تم کب آئے، نہیں نہیں روتے نہیں اچھے بچے کبھی بھی نہیں روتے۔۔ لیکن شاید ہم اچھے بچے نہیں تھے ہم ہر بار رو پڑتے۔۔
اُنہی دنوں گاؤں میں بالی بدمعاش کا بہت چرچا تھا لوگ بہت ڈرتے تھے اور کہتے کہ وہ ہر وقت ایک پستول اپنے پاس رکھتا ہے اور اپنے دشمنوں کو مار ڈالتا ہے۔
ہمیں تو شام کے بعد گھر سے نکلنے کی اجازت ہی نہیں تھی کہ ہم تو بچے تھے لیکن بڑے بھی باہر نکلتے ڈرتے تھے۔۔۔ بالی بدمعاش ہمارے ہی گاؤں کا رہنے والا تھا بیس سال کا تھا کہ ایک دن گاؤں سے اچانک غائب ہو گیا خبریں آتیں کہ وہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ میں شامل ہو گیا ہے پانچ سال غائب رہنے کے بعد ایک روز اچانک وہ گاؤں واپس آ گیا اور وہ واقعی ڈاکو بن گیا تھا۔
شروع شروع میں وہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کے پیسے لے لیتا یا پھر کسی دکان سے کوئی بھی چیز بغیر پیسوں کے اٹھا لیتا، گاؤں کے سیدھے سادے لوگ تھے وہ بھلا اس سے دشمنی کیسے مول لیتے۔۔ وہ لوگوں سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا، مجھے یاد ہے اُن دنوں جب ہم کسی گلی میں بالی کو دیکھتے تو ڈر کے بھاگ جاتے، ہمیں لگتا کہ وہ ہمارے پیچھے ہے اور پستول سے ہم سب کو مار ڈالے گا۔۔۔ ہاں کبھی کبھار وہ کہیں لڑ جھگڑ رہ ہوتا اور وہاں سے استاد جی گزرتے تو چُپ کر جاتا کہ وہ بھی کبھی اُستاد جی سے پڑھا تھا۔ لیکن پھر ایک واقعہ ہوا کہ اُس نے اُستاد جی کی بات نہ مانی۔
وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ بالی نے جب کریم دین کی بیٹی کو دیکھا تو کریم دین کے گھر رشتہ لینے پہنچ گیا۔
’’کریم دین، میں نے شادی کرنی ہے تمہاری بیٹی سے‘‘
کریم دین کو پہلے تو سمجھ نہ آئی کہ اس بات کا کیا جواب دینا چاہیے۔
’’کیا ہو گیا ہے کریم دین، تمہیں منظور نہیں کیا؟‘‘ بالی نے پوچھا۔
’’وہ، وہ وہ بالی پُتر، میری دھی کی تو منگنی ہو چُکی ہے‘‘ کریم دین منمنایا۔
’’تو کیا ہوا، منگنی ٹوٹ بھی سکتی ہے‘‘ بالی نے اونچی آواز میں کہا۔
’’دیکھ بالی پُتر کچھ سوچنے کا موقع دے‘‘ کریم دین نے مدھم آواز میں کہا۔
’’نہ نہ کریم دین اس میں سوچنا کیا ہے، اگلی اتوار شادی ہے‘‘۔
’’لیکن وہ سنو‘‘
بالی نے پستول نکالا اوراسے صاف کرنے لگا۔
کریم دین بیچارے کے سارے سوال ختم ہو گئے تھے۔
بالی اُس کے گھر سے نکلا تو کریم دین کو سمجھ نہ آئی کہ اب یہ پریشانی کس سے کہے، اُس کے ذہن میں اُستاد جی کا خیال آیا شاید وہ بالی کو سمجھا دیں وہ بھاگا اور اُستاد جی کے گھر پہنچتے ہی رونے لگا،
’’کیا ہوا کریم دین؟‘‘
’’اُستاد جی کچھ کیجئے، میری بیٹی تباہ ہو جائے گی بالی بدمعاش اگلے اتوار اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔‘‘
حوصلہ رکھ میں کچھ کرتا ہوں میں ابھی جاتا ہوں اُس نالائق کو سمجھاتا ہوں‘‘، استاد جی بالی کے پاس گئے
سُن بالی پُتر، کریم دین کے بیٹی کی پہلے ہی منگنی ہو چکی ہے اس کا خیال چھوڑ دے
’’اُستاد جی کرتا تو میں وہی ہوں جو دل میں آئے اب اس کا خیال دل میں آ گیا ہے سو شادی تو اب اسی سے کروں گا‘‘
’’نہ نہ پُتر دیکھ یہ ٹھیک نہیں ہے‘‘
’’آپ بالی کو ابھی ٹھیک طرح سے جانتے نہیں ہیں’’ بالی نے پستول نکال کر میز پر رکھ دیا
’’تو اس سے مجھے ڈرانا چاہتا ہے اس کھلونے سے؟ لگتا ہے مجھے پولیس کی مدد لینی پڑے گی‘‘
’’میں بتا رہا ہوں استاد جی میرے راستے میں نہ آئیں تو اچھا ہو گا، جو بھی ہو شادی تو میں نے اُسی سے کرنی ہے اور اگلی اتوار ہی کرنی ہے، میں دیکھتا ہوں آپ کونسی پولیس بُلاتے ہیں‘‘۔
استاد جی کے شاگردوں میں ایک شہر میں پولیس انسپکٹر بھی تھا، اگلے روز کریم دین کو لے کر تھانے پہنچے اور سارا معاملہ انسپکٹر صاحب کے گوش گزار کر دیا، انسپکٹر صاحب نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی اگلے روز پولیس کی گاڑی آئی لیکن بالی رو پوش ہو چکا تھا۔۔۔۔
کئی دن گزر گئے بالی کا کچھ پتہ نہیں تھا، سارے گاؤں نے سکھ کا سانس لیا کہ ایک مصیبت تو کم ہوئی۔
ایک صبح فجر کی نماز کے بعد اُستاد جی کھیتوں کی پگڈنڈیوں سے گزر رہے تھے
’’اج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اُداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں لایاں کیوں جھڑیاں‘‘
بالی پستول تھامے اُن کے راستے میں آ گیا۔۔
’’میں نے کہا تھا نا استاد جی کہ میرے راستے میں نہ آئیں لیکن آپ بات پولیس تک لے گئے، یہ اچھا نہیں کیا آپ نے‘‘
اوہ بالی حیا کر حیا، اتنا بے لگام نہ ہو کہ لوگ ساری عمر تمہیں لعنتیں ہی مارتے رہیں، اُس کی مخلوق کو اذیت دے گا تو خود بھی ساری عُمر اذیت میں رہے گا، دیکھ تجھے سمجھ کیوں نہیں آتی دوسروں کا سُکھ ہی اپنا سُکھ ہے‘‘۔
’’میں نے کہا نا کہ کرتا میں وہی ہوں جو دل میں آتا ہے اور آج میرے دل میں آیا ہے کہ آپ کو مار دوں‘‘ بالی نے پستول نکال لیا
’’اس کھلونے سے ڈرائے گا مجھے، تو بہت بڑا بدمعاش بنا پھرتا ہے لیکن میں تمہیں اس گاؤں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے نہیں دوں گا‘‘
لیکن بالی نے استاد جی کو گولی ماردی اور فرار ہو گیا۔۔۔۔
گاؤں میں کُہرام مچ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالی کو اس کے بعد کسی نے نہیں دیکھا
اس واقعہ کو پچیس سال گزر گئے ہیں۔۔۔ وقت پر لگا کر اُڑ گیا، اُستاد جی کی بیوی جو ساری عُمر استاد جی کے ساتھ رہیں، وہ بھلا انہیں اکیلا اس سفر پر کیسے جانے دیتیں سو انہوں نے بھی جلد اپنا سامان باندھا اور اُستاد جی کے پیچھے پیچھے چل دیں۔۔
اور وہ آواز جو ہزاروں آوازوں میں پہچانی جا سکتی ہے جواب بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے لیکن اُستاد جی نہیں ہیں۔
کچھ دنوں سے گاؤں میں ایک نیا بھکاری آیا ہے بالکل عجیب سا ہے کسی سے کوئی بات نہیں کرتا، سر کے بال بے تحاشا بڑھے ہوئے ہیں قریب سے گزرو تو بدبو کے بھبوکے اڑتے ہیں وہ اُستاد جی کے دروازے کے باہر بیٹھا روتا رہتا ہے اور مُنہ میں کچھ بڑبڑاتا رہتا ہے۔۔۔ آج میں اُس کے بالکل پیچھے کھڑا ہوں، آخر یہ کہتا کیا ہے۔۔۔۔
’’اُستاد جی، مینوں معاف کر دیو‘‘
٭٭٭
مختصر کہانیاں
۱: دیوار
’’کیا شہر کے چاروں طرف دیوار بنانی ہے؟‘‘
’’جی ہاں چاروں طرف سے‘‘
’’کوئی دروازہ؟‘‘
’’نہیں کوئی نہیں‘‘
’’کوئی کھڑکی؟‘‘
’’بالکل نہیں‘‘
’’مگر پھر؟‘‘
’’کسی اور کو بلاؤ، یہ دیوار نہیں بنا سکتا‘‘
’’نہیں، نہیں، میں نے ایسا کب کہا؟‘‘
’’ابھی‘‘
’’میں نے تو کہا کہ لوگ باہر کیسے نکلیں گے؟‘‘
’’اِس کی فکر نہ کرو، انہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ اندر ہیں کہ باہر‘‘
٭٭٭
۲: اندھیرا
’’یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟‘‘
’’کنویں سے‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں‘‘
’’میں کون؟‘‘
’’میں ایک اندھا ہوں‘‘
’’کنویں میں کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’پاؤں پھسل گیا تھا‘‘
’’باہر آؤ‘‘
’’نہیں یہاں باہر کی نسبت کم اندھیرا ہے‘‘
٭٭٭
۳: جنگل
’’یہ پتھر اُٹھا لوں؟‘‘
’’نہیں، پتھروں کا کیا کرو گے؟‘‘
’’اِن سے کھیلوں گا، راستے میں کسی نے حملہ کر دیا تو میں پتھروں سے مقابلہ کروں گا‘‘
’’راستے طویل ہوں تو ہر چیز ساتھ لے کر نہیں جاتے‘‘ بوڑھے نے جواب دیا
’’یہ پتھر خوبصورت ہیں بالکل چاند کی طرح۔ یہ ہم چاند کے ساتھ چلتے ہیں یا چاند ہمارے ساتھ؟‘‘ بچے نے دوڑتے ہوئے پوچھا
’’سب اپنے اپنے مدار میں چلتے ہیں، اب کوئی کسی کے ساتھ نہیں چلتا‘‘
’’یہ جنگل کب آئے گا؟‘‘
’’بس ہم جنگل میں پہنچ چکے ہیں‘‘
’’یہاں اندھیرا کتنا زیادہ ہے، مجھے لگتا ہے وہ لوگ بندوقیں لے کر آئیں گے اور ہم پر حملہ کر دیں گے، جیسا ہمارے گاؤں پر کیا تھا، کتنے بُرے ہیں وہ لوگ۔۔ مجھے ان سے ڈر لگتا ہے اگر ہم پتھروں کے پیچھے نہ چھپتے تو وہ ہمیں بھی مار ڈالتے‘‘
’’کیا وہ جنگل میں بھی آ سکتے ہیں؟‘‘
’’نہیں اب ہم محفوظ ہیں‘‘ بوڑھے نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا
٭٭٭
۴: مجھے نہیں معلوم
’’آگے بڑھوں لیکن آگے اندھیرا ہے اور پیچھے بھی تاریکی ہے دائیں طرف گھنا جنگل ہے اور بائیں طرف کون جانا چاہتا ہے۔۔۔
معلوم نہیں ایٹم بم کس نے ایجاد کیا اور کیا سوچ کر ایجاد کیا
اوزون لئیر ختم ہو جائے گی اور گلوبل وارمنگ سے زمین جلنے لگے گی
کیپیٹلزم میں دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے
معلوم نہیں انقلاب کیوں نہیں آتا؟‘‘
’’بھئی یہ اکیس نمبر بس یہیں سے چلتی ہے؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم‘‘
٭٭٭
۵: حسینہ عالم
اُس نے صبح سویرے اخبار کھولا تو حیران رہ گئی، وہ مر چکی تھی، اسے یقین نہ آیا۔۔۔۔
اُس نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا، ہر چیز اپنی جگہ موجود تھی، اس نے انگلیوں کو دانتوں تلے دبایا درد کی ایک لہر اٹھی۔۔
اُس نے اپنی چھڑی سنبھالی اور اٹھ کر شیشے تک آئی تو اسے یقین آیا۔۔۔۔
٭٭٭
۶: گلوبل ویلج(Global Village)
’’دنیا اب گلوبل ویلج (Global Village) بن چکی ہے، موبائل اور کمپیوٹر سے آپ دنیا بھر کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں، فاصلے جو کبھی پہلے تھے اب وہ فاصلے رہے ہی نہیں، آپ دنیا کے کسی بھی کونے پر موجود شخص کے بارے جان سکتے ہیں‘‘
’’معاف کیجئے ایک سوال تھا، کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟‘‘
’’نہیں، مجھے نہیں معلوم آپ کون ہیں‘‘
’’لیکن میں تو آپ کا پڑوسی ہوں‘‘
٭٭٭
۷: روشنی
’’بابا کیا یہ شہر کا اسٹیشن ہے؟‘‘
’’نہیں بیٹا، شہر ابھی دور ہے‘‘
’’شہر میں بڑی بڑی عمارتیں ہوں گی‘‘
’’ہاں بہت بڑی‘‘
’’اور اِن میں روشنیاں بھی ہوں گی؟‘‘
’’ہاں بالکل اور اُن روشنیوں سے وہ عمارتیں جگ مگ جگ مگ کرتی ہیں‘‘
’’لوگ اُنہیں دیکھ کر کتنا خوش ہوتے ہوں گے اور تالیاں بھی بجاتے ہوں گے؟‘‘
’’نہیں بیٹا تالیاں تو نہیں بجاتے‘‘
’’لیکن ہم بجائیں گے‘‘ بچے نے ضد کرتے ہوئے کہا
’’جناب آپ خاموش رہ کر سفر نہیں کر سکتے، میرے سر میں درد ہے اور بچے تم شہر میں جا کر خود دیکھ لینا بڑی عمارتیں‘‘ ساتھ بیٹھے مُسافر نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
’’معذرت جناب، لیکن میرا بچہ تو اندھا ہے‘‘
٭٭٭
۸: کتابیں
اُس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو حیران رہ گیا، کتابیں الماریوں سے نکل اِدھر اُدھر چل رہی تھیں، اوہ یہ کیا ہے؟ کچھ کتابیں جو مُدت سے کبھی کھلی ہی نہیں تھیں وہ بہت غصے میں تھیں اور صفحوں کو پٹخ پٹخ کر اپنی گرد اُتار رہی تھیں، وہ ڈر کر باہر بھاگا، باہر گلی میں بھی کتابیں غصے میں دوڑ رہی تھیں، کچھ روتے ہوئے اپنے اندر موجود راز کے بارے بتا رہی تھیں، گرد کا ایک طوفان تھا۔
اُس نے فوراً موبائل نکالا اور فیس بک پر یہ سٹیٹس اپ ڈیٹ کر دیا۔۔۔۔
٭٭٭
۹: حل
’’دیکھو تمہارے بچے کا علاج ہو جائے گا، لیکن تمہیں جلد رقم کا انتظام کرنا ہو گا‘‘ ڈاکٹر نے اُس کے بچے کا معائنہ کرتے ہوئے کہا۔
’’صاب کوئی رعایت؟‘‘
’’دیکھو یہ کوئی پھل سبزی کی دکان تو ہے نہیں کہ تم سے رعائت کی جائے، علاج کی جو رقم بن رہی ہے وہی بتائی ہے‘‘۔ اُس نے ایک نظر اپنے بچے کی طرف دیکھا اور گھر کا سامان ایک ایک کر کے گننے لگا۔
سائیکل۔۔ لیکن سائیکل تو ایک ہی ہے۔ ریڑھی کہ جس ریڑھی پر وہ سبزی لگاتا ہے وہ بھی ایک ہی تھی، اُس نے دکھ سے بچے کی طرف دیکھا۔۔۔ اُس کا بچہ بھی ایک ہی تھا۔۔۔۔
یکدم اُس کی آنکھوں میں چمک دوڑی۔۔۔ اُس کے پاس گردے دو تھے۔۔۔
٭٭٭
۱۰: طوفان
’’سارے دروازے بند کر دو اور یہ کھڑکیاں بھی، باہر کتنی شدید آندھی ہے۔۔۔۔
’’توبہ کیسا طوفان ہے کچھ نظر بھی نہیں آ رہا‘‘
’’اے خدا، رحم فرما‘‘
’’اور یہ تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’باہر‘‘
’’باہر؟ اس طوفان میں؟؟؟ تمہارا دماغ ٹھیک ہے،‘‘
’’کونسا طوفان‘‘؟ اُس نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا
٭٭٭
۱۱: جنگل میں تنہا آدمی
’’یہ کھال پہن لو اور اِس پنجرے میں بیٹھ جاؤ‘‘
’’یہ تو بھالو کی کھال ہے‘‘
’’تو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے، تم نے تو نوکری کرنی ہے‘‘
’’لیکن یہ بھالو؟‘‘
’’اچھا پھر یہ لومڑی کی کھال پہن لو‘‘
’’لومڑی بے حد مکار ہوتی ہے، مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی‘‘
’’گدھ بن سکتے ہو؟‘‘
’’اوہ وہ حرام خور، نہیں بالکل نہیں‘‘
’’تم اگر کچھ کرتب دکھا سکتے ہو تو تمہیں شیر کی کھال بھی مل سکتی ہے اور تمہیں سرکس میں بھیجنے کے بارے سوچا جا سکتا ہے‘‘
’’لیکن مجھے شیر کے کرتب نہیں آتے‘‘
’’تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا‘‘
’’جناب، جناب سنیے تو، کیا میں چڑیا گھر میں آدمی کے طور پر رہ سکتا ہوں‘‘
’’نہیں آدمی کی ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں‘‘
٭٭٭
۱۲: روٹ
’’یہ سڑک کیوں بند ہے؟‘‘
’’روٹ لگا ہے، یہاں سے بڑے صاحب نے گزرنا ہے۔‘‘
’’جناب مجھے جانے دیں‘‘
’’نہیں، ابھی آپ نہیں جا سکتے، جب تک صاحب نہیں گزر جاتے، آپ کو انتظار کرنا ہو گا‘‘
’’لیکن انسپکٹر صاحب میرا بچہ بیمار ہے میں نے اِسے ہسپتال لے کر جانا ہے‘‘
’’اچھا تو آپ قبرستان والی سڑک سے چلے جائیں۔۔۔‘‘
٭٭٭
۱۳: ساتھ
ایک قیدی نے دوسرے قیدی کے کان میں کہا ’’کیوں نہ ہم جیل توڑ کر بھاگ جائیں؟‘‘
’’نہیں، نہیں، مجھے پولیس مقابلے سے ڈر لگتا ہے، میں تو بے قصور یہاں آیا تھا‘‘ دوسرے قیدی نے گھبرا کر کہا
’’اِسی لیے تو میں آخری دم تک تمہارا ساتھ دوں گا، سنو تم بائیں طرف کی دیوار پھلانگنا اور میں دائیں طرف سے جاؤں گا‘‘
۔۔۔
اُس رات جب وہ بھاگے تو دائیں طرف والے نے دیوار پھلانگنے سے پہلے سپاہیوں کو جگا کر بائیں طرف بھیج دیا تھا۔۔۔
٭٭٭
۱۴: خوف
ایک رات اور دن کا سفر طے کر کے آخرکار وہ آبادی سے بہت دور نکل آیا تھا، چوہدریوں کی حویلی سے چوری کیا گیا بریف کیس اب بھی اُس کے ہاتھ میں تھا۔ ویرانے میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اُس نے بریف کیس کا تالا توڑا اور اندر نوٹ ہی نوٹ دیکھ کر گھبرا گیا۔
اُس غریب مزارع نے زندگی بھر اتنی رقم کے بارے سوچا بھی نہیں تھا۔
کئی دن وہ ویرانوں میں گھبرایا پھرتا رہا، ساری رات بریف کیس کو ساتھ چمٹائے رہتا لیکن اب اُسے نیند نہ آتی اور ساری دنیا اُسے چور دکھائی دینے لگی تھی۔
آخر کار تنگ آ کر ایک رات وہ گاؤں واپس آیا اور بریف کیس چوہدریوں کی حویلی میں پھینک کر بھاگ گیا۔۔
٭٭٭
۱۵: نعمت
وہ ایک سیاح تھا۔
ایک بار صحرا میں سفر کرتے ہوئے اپنے قافلے سے بچھڑ گیا اور اِدھر اُدھر بھٹکنے لگا۔ جب اُس کے پاس موجود پانی ختم ہو گیا تو وہ ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگنے لگا۔ وہ نڈھال ہو کر گرا تو اُسے کچھ دور ایک گڑھے میں پانی دکھائی دیا جہاں چرند پرند سب پانی پی رہے تھے وہ لڑکھڑاتا ہوا وہاں پہنچا اور منہ پانی میں ڈبو دیا۔ اِسی دوران ایک قافلے کا وہاں سے گُزر ہوا اور وہ اُسے ساتھ لے کر شہر آ گئے۔۔
اب وہ شہر بھر کے نلکوں کو ٹھیک کرتا پھرتا ہے تاکہ ایک قطرہ بھی زمین پہ نہ گرے، اب اُس کی روز لوگوں سے لڑائی ہوتی ہے۔
٭٭٭
۱۶: اولاد
آدھی رات کو پاگل خانے میں آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ عملے کے لیے پاگلوں کو باہر پہچانا ایک مشکل ترین مرحلہ تھا انہوں نے فائر برگیڈ کو فون کیا، پاگلوں کی بیرکوں کے دروازے کھول کر عملے کے لوگ خود باہر نکل آئے اور ایک بڑے اسپیکر پر اعلان کرنے لگے کہ عمارت میں آگ بھڑک اُٹھی ہے سو تمام پاگل باہر آ جائیں۔ سب پاگل چیختے چلاتے باہر آ گئے لیکن ایک پاگل نے باہر آنے سے انکار کر دیا اور چلانا شروع کر دیا کہ اُس کا بچہ اندر رہ گیا ہے سو وہ باہر نہیں آئے گا۔
اسپیکر پر اعلان کرنے والے صاحب نے اُسے سمجھایا کہ جلد باہر آؤ تمہارا کوئی بچہ نہیں ہے۔
’’تو میرے تکیے کے نیچے کیا ہے؟‘‘ پاگل نے چیخ کر کہا۔
’’وہ تو تصویر ہے‘‘ سپیکر والے صاحب نے کہا۔
٭٭٭
۱۷: اندھا
’’ایک ہو گیا ہے اور تم سو رہے ہو؟ اُٹھو اور کام پرجاؤ‘‘
’’ایک؟‘‘
’’ہاں ایک‘‘
’’لیکن جنابِ عالی، میری نیند پوری نہیں ہوئی‘‘
’’کام چور، تمہاری نیند کبھی پوری نہیں ہو سکتی‘‘
’’معاف کیجیے، مجھے لگا میں ابھی ابھی سویا ہوں‘‘
’’لیکن میں جب کہہ رہا ہوں کہ اٹھو ایک ہو گیا ہے تو تمہیں اُٹھ جانا چاہیے ورنہ سزا ملے گی‘‘
’’جی میں اُٹھ رہا ہوں، کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ یہ دن کا ایک ہے یا رات کا؟‘‘
’’اِس سے کیا فرق پڑتا ہے، تم تو اندھے ہو‘‘
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی تدوین اور ای نک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں