FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ٹوٹی ہوئی دیوار

 (ناول)

 

 

                بلند اقبال

 

 

 حصہ اول

 

 

میں اپنی بازیافت کہوں یا خدا کہوں

جی چاہتا ہے جو بھی کہوں، برملا کہوں

حمایت علی شاعر

 

 

 

 

اظہار تشکر

 

شجعیہ۔ ۔ ‘مری حیات، مری کائنات، مرا ثبات’

تمہاری محبتوں کے بنا اس کتاب کی تکمیل نا مکمل تھی۔

 

جو زیر، علائنا، ژویر اور عیشل۔ ۔ ‘مری زندگی کے حسین خوابوں کی منزلیں ‘

تمہارے پیار بھرے لہجے اس کتاب کے صفحوں پر تتلیاں بن کر رنگ بکھرتے ہیں۔

 

ایڈوکیٹ جاوید صدیقی۔ ۔ ترجمہ تخلیق سے زیادہ مشکل فن ہے

یہ تجربہ مجھے آپ کی کاوشوں کے صلے اس کتاب کے انگریزی ترجمہ کی صورت ملا۔

 

مصطفی کمال پاشا۔ ۔ ترتیب و تدوین تخلیق کو حُسن عطا کر دیتی ہے

آپ کے اس ہنر کے بدولت یہ خو بصورت سی کتاب شائع ہوئی

 

 

 

 

اپنے خوابوں کے نام

 

ایک ایسی دنیا جہاں رنگ، نسل اور مذہب کا فرق نہ ہو

 

 

 

 

Our separation of each other is an optical illusion of consciousness.

Albert Einstein ~

 

 

پیش لفظ

 

” ٹوٹی ہوئی دیوار ” بلند اقبال کا پہلا ناول ہے اور موضوعی اعتبار سے بھی اسے اردو کا پہلا ناول قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ مشرقی اقدار اور مغرب کی بدلتی ہوئی فکر اور گلوبلائیزیشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ناول اپنے وقت سے کم از کم پچاس یا ساٹھ برس آ گے کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ کیونکہ مشرقی ممالک کا ارتقائی سفر بہت دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا ہے۔ اس ناول میں پاکستان، افغانستان، کینیڈا اور ہندوستان کے افراد ہیں۔ پاکستان جو ایک اسلامی ملک کہلانا پسند کرتا ہے، لیکن جس طرح وہاں مسلکی مسائل اور شدت پسندی دکھائی دیتی ہے، اس کے سبب نفرتیں جنم لے رہی ہیں اور ہر مسلک کا حامی اپنے آپ کو جنتی اور دیگر کو کافر اور جہنمی سمجھ رہا ہے، یا مذہب کی آڑ میں کچھ افرادجس طرح سیاسی، مفاد پرستانہ کھیل کھیل رہے ہیں، اُن کے باعث عام انسان پر کیا بیت رہی ہے یہ سب پر عیاں ہے۔

افغانستان کئی برسوں سے جنگ کا عذاب جھیل رہا ہے اور مغربی ممالک اپنی اقتصادی، معاشی پالیسیوں کو کامیاب بنانے کی خاطر امن کے نام پر جو چال چل رہے ہیں، دنیا اس سے بھی خوب واقف ہے۔ روس کی بالا دستی کو ختم کرنے کے لیے ہی مغربی ممالک نے طالبان کو پیدا کیا تھا، اور اُنھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال بھی کیا تھا۔ طالبان کو جب اپنے استحصال کا احساس پیدا ہوا تو وہ مغربی ممالک سے متنفر ہو گئے اور اپنے مذہب کی طرف شدت سے راغب ہوئے لیکن دین کے نام پر اُنھوں نے وہ راستہ اختیار کیا جو دینِ اسلام تو کیا کسی بھی مذہب کا نہیں ہو سکتا۔ اسی سبب نے لوگوں کی سوچ کو دو دھاروں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے نام پر ہونے والے ظلم اور شدت پسندی کے باعث، مذہب اور قومیت کے خلاف ذہنی آزادی چاہتا ہے۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ مغربی ممالک ہیں جنھوں نے اپنی قومیت کو فراموش کر کے اقتصادی، تجارتی اور معاشی استحکام کی خاطر سرحدوں کے راستے ایک دوسرے پر کھول دئیے ہیں جو انسانیت کے جذبے کوسب سے اہم تصور کرتے ہیں، اور تیسری دنیا کے ممالک کو اپنی آئیڈیالوجی کی طرف راغب کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو اب بھی طالبانی ذہنیت رکھتا ہے، اُن کی نظروں سے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ انسانیت کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے یہ مغربی ممالک اپنی معاشی اقتصادی بہتری کے لیے مشرق وسطیٰ کے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خود اُن ہی کے ممالک کے امن پسند شہری اُن کے اس عمل پر شدید احتجاج کر رہے ہیں۔

ہندوستان جو کئی مذاہب اور کئی عقائد کے ساتھ ساتھ کئی زبانوں کا ملک ہے۔ یہاں بھی جب جب شدت نے سر اُٹھایا فہیم اور انسانیت نواز طبقے نے اس کے خلاف آواز بلند کی، اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ انسان ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے جہاں منافرت نہ ہو، تنگ نظری نہ ہو، دنگے فساد نہ ہوں، خون خرابہ نہ ہو اور وہ تمام فرقوں کے ساتھ امن و سکون کی زندگی جی سکے۔

ادب چونکہ معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اس لیے جب جب بھی معاشرہ خواہ کسی بھی قسم کی شدت کا شکار ہوتا ہے ادب میں اُس کا عکس ضرور دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ ” انگارے ” بھی ایسے ہی معاشرے کے خلاف ایک احتجاج تھا، یا عصمت چغتائی کے ناول ” ٹیڑی لکیر ” میں بھی اس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ کئی ناولوں اور افسانوں نے اپنے وقت کے جبر کو ضرور پیش کیا ہے۔

بلند اقبال نے بھی وقت کے ان سلگتے مسائل سے اپنے ناول کا تانا بانا بُنا ہے۔ ان میں پاکستان کے وہ معصوم کردار بھی ہیں جو اپنی مذہبی کم علمی کے باعث سیاسی افراد کے ہاتھوں آلۂ کار بن رہے ہیں اور وہ یہ نہیں جانتے کہ چھوٹی چھوٹی آسودگیوں کی آڑ میں اُن کا کس طرح استحصال ہو رہا ہے، یا افغانستان کے وہ کردار ہیں جو ایک طرف بڑی طاقتوں کے اپنے مفاد کے باعث جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں یا پھر اپنے ہی مذہبی بھائیوں کے ہاتھوں ترقی کی مین اسٹریم سے کٹ کر زمانے سے صدیوں پیچھے ہوتے جا رہے ہیں تو وہیں واحدی جیسا پولیٹکل سائنس کا پروفیسر جس کا مطالعہ بہت وسیع تھا، یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے :

” بھائی میرے ترقی کا سارا دارو مدار اقتصادیات پر ہے۔ جب مذہبی دور تھا تو اقتصادیات اُس سے جڑی ہوئی تھی۔ ایک پنڈت، ایک مولوی، ایک پیغمبر، ایک خدا کا بیٹا، آڑ میں رہتے تھے اور جو طاقتور تھا اُن سے جڑ کر حکومت کر رہا تھا۔ اب اُن لوگوں کی ضرورت ختم ہو گئی۔ سائنس نے اُن کے بغیر ہی قوموں کو طاقت ور کر دیا ہے۔ بڑے بڑے میزائل اور بم موجود ہیں، تم خدا کو مانو یا نا مانو ؟ کس کو پرواہ ہے اُنگلی کے اشارے پر تمہاری زندگی ہے۔ ابھی پرچار کا زمانہ گیا، یہ چورن صرف گلیوں اور مُحلّوں کی سیاست کے لیے بکتا ہے۔ تاکہ چھوٹے موٹے غریب ملکوں کے کچھ عیار لوگ عوام کو چونا لگا کر بڑی طاقتوں سے کچھ مال بٹور سکیں۔ مگر یہ بھی ارتقائی عمل ہے پچیس پچاس سال کے بعد یہ اور نہیں بک پائے گا۔ بازار میں خود سائنسی معاشرہ ہے۔ اس دکان کو آگے بڑھا دے گا۔ میرے بھائی بھلا طوفان کے آگے کبھی بھی تنکے کنکر وغیرہ ٹھہر پاتے ہیں۔ ”

یہی نہیں پروفیسرواحدی مغربی مفکرین کی کتابیں پڑھ پڑھ کر اور بھی بہت ساری باتیں مذہب اور قومیت سے متعلق کہتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاید بے دین، دہریہ ہو گیا ہے۔ آخر وہ ایسی باتیں کیوں کرتا تھا ؟ تو اس کا جواب ملتا ہے کہ جس لڑکی سے وہ محبت کرتا تھا اُسی کے بھائی مسعود نے جو طالبان کے ایک ونگ کا کمانڈر بھی تھا، اپنی بہن صوفیہ اور واحدی کے ماں باپ کو محض مسلکی فرق کی وجہ سے قتل کر دیا تھا۔ اسلام میں پیدا ہونے والے یہ مسلکی فرقے عموماً ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ پھر طالبان کا لڑکیوں کو تعلیم سے بے دخل کرنے کا فرمان، فنون لطیفہ سے نفرت، مذہب کی آڑ میں معاشرتی، سماجی زندگی پر غیر ضروری رسی کسنا، اُسے فون پر ڈرانا دھمکانا، اُسے ملک کا غدار سمجھنا وغیرہ، ان ساری باتوں نے تعلیم یافتہ واحدی کے دل و دماغ پر گہرا اور ڈالا تھا، اور اُس کی سوچ کے دھارے بدل گئے تھے۔ لیکن یہی واحدی جب امریکہ کی واشنگٹن ڈی۔ سی میں پیش کرنے کے لیے اپنا مقالہ تیار کرتا ہے تو وہ لکھتا ہے :

” پچھلے چار دہائیوں سے افغانستان سرمایا دارانہ و غیر سرمایہ دارانہ قوتوں سے مسلسل نبرد آزما ہے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی و اقتصادی اعتبار سے افغانستان تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ قوتوں نے غیر سرمایا دارانہ قوتوں کو شکست دینے کی خاطر جہادی کلچر غیر مذہبی مملکت چین اور مذہبی سلطنت سعودی عرب کے ذریعے ایک کلائنٹ اسٹیٹ پاکستان کی مدد سے امپلانٹ کیا ہے۔ اور جب کھیت پر فصل پوری طرح پک گئی تو کاٹ کر ضائع کرنے کے لیے ستمبر گیارہ کے واقعے کے بعد ایک مخالف جہادی کلچر پھر سے ری امپلانٹ کر دیا گیا۔ صدیوں پرانی بوسیدہ قومیت اور مذہب کے تصور کو دل سے لگائی ہوئی افغان قوم اگر اپنے سیاسی مفکرین کے بدولت معاشرتی، معاشی اور مذہبی تصور سے واقف ہوتی تو شاید سرمایادارانہ اور غیر سرمایا دارانہ قوتوں کی حریف یا مخالف ہو کر استعمال ہونے کی بجائے خود کو بچا لیتی، اور آج اس بُرے حال میں نہیں پہنچتی۔ مذہب اور نیشنل ازم کے روایتی تصور کے ساتھ ساتھ کلچر، سیاست اور اقتصادیات کے نا مساعد حالات بھی آج کے افغانستان کو گلوبل ورلڈ میں زندہ رکھنے کے لیے درپیش چیلنجز میں شامل ہیں۔ نیشنل ازم کے ساتھ ساتھ مذاہب بھی اکانومی کی دنیا کی سیاسی مصنوعات میں ہمیشہ سے شامل رہے ہیں۔ کیا یورپ میں عیسائی قوموں نے کروڑوں یہودیوں کو بھون نہیں دیا تھا، یا پھر عیسائیوں نے کیا برسوں تک ایک دوسرے کا خون نہیں پیا تھا؟ اور آج مشرق وسطیٰ میں کیا مسلمان ایک دوسرے کو ذبح کرنے اور زندہ جلانے میں مصروف نہیں ہیں، اس جنگ و جدل میں اقتصادی حصول کے خاطر مذہب کی اخلاقیات کو بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔ ”

اسی ناول میں دلیپ اور ثانیہ کی ایک رومانی جوڑی بھی ہے۔ ثانیہ کے والدین پاکستانی ہیں جو ایک طویل عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ثانیہ کینیڈا ہی میں پیدا ہوئی ہے اور یہیں کی فضاؤں میں پلی بڑھی ہے۔ یہ خاندان احمدی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ دلیپ سنگھ کا تعلق ہندوستان کی ریاست پنجاب سے ہے جو کینڈا میں میڈیسن کا طالب علم ہے۔ یہ رومانی جوڑی اپنے اپنے خاندانوں کے مذاہب اور کلچر سے بے نیاز محبت کی پینگیں بڑھاتی ہیں۔ والدین تک یہ اطلاع پہنچتی ہے اور وہی ہوتا ہے جو ہندوستانی اور پاکستانی ماں باپ کا رد عمل ہوتا ہے، لیکن محبت کرنے والے بڑی مشکل ہی سے ہار مانتے ہیں۔ کلائمکس پر وہ دونوں اپنے اپنے مذاہب سے بے نیاز ہو کر ایک ہو جاتے ہیں۔ ہماری تنگ نظری اس کا الزام مخلوط تعلیم، یا پھر سوشیل میڈیا پر ڈال دیتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ان دریافتوں سے پہلے اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے تھے ؟ ہوئے ہیں۔ بہت سارے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ناول میں مذہبی شدت پسندی کے باعث ادریس کے ہاتھوں ایک قتل ہو جاتا ہے۔ تو اُسے بچانے کی خاطر مذہبی کٹر پسند لوگ سامنے آتے ہیں۔ یہ صرف پاکستانی شدت پسندوں کی کہانی نہیں ہے، بلکہ دنیا میں جہاں جہاں بھی اکثریت کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی ہو گی، اقلیت کا مقدر ظلم سہنا ہی ہو گا۔ ایسے مناظر ہندوستان میں بھی بار بار نظر آتے ہے۔ مثال کے طور پر دادری میں ہونے والا واقعہ سب کے سامنے ہے۔ اُس مقتول کے قاتلوں کو بچانے کون آگے بڑھا ؟یہ بھی سب پر آشکارا ہے۔

ایسے میں مغرب سے اُٹھنے والی یہ آواز کہ سب سے اہم مذہب ” انسانیت ” ہے اور سب سے اہم چیز ” انسان کی زندگی ” ہے تو مشرق کا فہیم طبقہ اس طرف تو دھیان دے گا ہی ؟ بھلے ہی اپنے مذہب اور اپنی مذہبی شناخت سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ مشکل اس لیے بھی ہوتا ہے کہ اسی تہذیب اور اسی کے اُصولوں کے تحت معاشرتی اور سماجی زندگی بندھی ہوتی ہے۔ خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک کے لیے یہ جسم اور روح کی طرح ہے کہ جسم کے بغیر روح کی پہچان، اور روح کے بغیر جسم کی زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں۔

مذاہب، قومیت، خدا کا وجود، خوف اور نفرت کے اسباب میں اُلجھا ہوا دانشور پروفیسر واحدی کو آخر وہ کلید مل جاتی ہے جس کے سبب وہ سارے عالم کو مذہب ” انسانیت” کے دھاگے میں پرو سکتا تھا، اور وہ کلید اُسے حاصل ہوئی تھی جل بولٹے ٹیلر کی مشہور کتاب My stroke of in sight کے مطالعے کی وجہ سے۔ چنانچہ جب یونیورسٹی میں اُس نے تالیوں کی گونج میں اپنا مقالہ ختم کیا تو ایک سوال ہال میں گو نجا:

” گلو بلائزیشن کیا مغربی تہذیب کو دنیا میں پھیلانے کی ایک سازش نہیں ہے ؟ ”

” نہیں۔ ” واحدی نے اُسی پُر اعتماد لہجے میں کہا، ” اول تو گلو بلائزیشن کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ اس میں شامل افراد اپنے مذہب، رسوم و رواج اور کلچر کو یکسر نظر انداز کر دیں۔ آپ اپنے ارد گرد دیکھیں، کیا یہاں نیپال، سوڈان، سعودی عرب، ایران، کینیڈا اور یورپ کے طالب علم نہیں پائے جاتے ہیں ؟ اُن کی شناخت اُن کے قد و خال، لباس و تراش، اور بناؤ سنگھار سے ہی نمایاں ہے۔ مذہب انسان کا روحانی مسلہ ہے اس کو روح کی شناخت کے لیے دل میں رکھنا چاہئیے، تاکہ وہ کسی سیاست کی سازش کا شکار نہ ہو، گلو بلائزیشن سے قومیت کا مصنوعی تصور اگر ختم ہو جائے تو کیا یہ اچھا نہیں ہے ؟ میں نہیں کہتا کہ آپ کل تک پاکستانی تھیں، اب آج سے امریکی ہو جائیں کیونکہ امریکی ہونا بھی اُتنا ہی نامناسب ہے جتنا پاکستانی، بلکہ آپ رنگ نسل اور مذہب کے بھید بھاؤ سے آزاد ہو جائیں۔ آپ گلوبل ورلڈ کے شہری بن جائیں، گلو بل مذہب کے ماننے والے ہو جائیں ( مراد انسانیت ) گلوبل زبان کے بولنے والے ہو جائیں۔ ایک مشترکہ چھتری کے نیچے رہتے ہوئے اپنے ذاتی تعلق کو ضرور رکھیں چاہے آپ کا کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی زبان یا کوئی بھی رسم و رواج۔ انسان کی یہ تہذیبی شناخت خود ستائشی کے منفی اثرات سے آزاد کرا دیتی ہے۔ جس کا سب سے مثبت اثر عدم برداشت ہے اور عدم برداشت ایک انسانی رویہ ہے جو ہمیں حیوانوں سے جدا کرتا ہے۔ ”

اس کے بعد وطنیت کے ایک سوال کے جواب میں پروفیسر واحدی بتاتا ہے کہ حیوان بھی جہاں پیدا ہوتے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں اُس غار، پہاڑ، جنگل یا تالاب سے پیار کرتے ہیں۔ حیوان اگر پنجرے میں بند ہو تو پنجرے سے پیار کرنے لگتے ہیں اگر آپ اُن سے زبردستی اُن کی جگہ لے لیں تو وہ غم کا اظہار کرتے ہیں جگہ سے یہ محبت وطنیت کا وہی بنیادی احساس ہے جو صدیوں قبل انسانوں میں بھی پیدا ہوا تھا جب وہ پتھر کے دور میں غاروں میں رہتا تھا۔

واحدی اس طرح کے مختلف سوالات کا جواب دیتا ہے۔ اس پورے ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ناول نگار نے اپنی جانب سے کچھ نہیں کہا، جو کچھ بھی کہا، وہ ناول کے کرداروں نے کہا، اور ناول کے کرداروں نے وہی کہا جسے وہ اپنے اطراف میں دیکھ رہے تھے، سُن رہے تھے۔ یا برت رہے تھے۔

بلند اقبال نے ناول کے آغاز میں جس تشدد کوادریس کے ہاتھوں انجام پاتے دکھایا تھا اُس کی دہشت اُس کے بچے پر اس طرح حاوی ہو جاتی کہ چورنگی کی ایک ٹوٹی دیوار کے پیچھے چھپ جاتا ہے اور خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ یہ خوف پھر کبھی اُس کی آنکھوں سے دور نہیں ہوتا۔ وہ ہر دم ڈرا سہما اور بیمار سا ہی رہنے لگتا ہے۔ ناول میں پھر ایسا ہی ایک اور منظر سامنے آتا ہے جہاں ایک قادیانی جوتا فروش اور اُس کے بیٹے کو ادریس اوراُس کے ساتھی اسی مذہبی نفرت کے سبب مارتے ہیں۔ اُس کا بچہ عثمان پھر ایک بار اس واقعے سے خوف زدہ ہو کر اُسی ٹوٹی دیوار کی آڑ میں چھپ جاتا ہے :

” ادریس بھائی عثمان یہاں ہے۔ ” اور ادریس اور بختاور نے جونہی رب نواز کی آواز سنی وہ دونوں دیوانوں کی طرح بھاگتے ہوئے گلی کے نکڑ پر پہنچے، جس کے اُس جانب ٹوٹی دیوار کے پیچھے چھپ کر عثمان خوف و دہشت سے اُس سارے تماشے کو دیکھ رہا تھا۔ ادریس اور بختاور نے دیوار کی آڑ سے جب عثمان کو گود میں لینے کے لیے اپنے ہاتھ اُس کی طرف پھیلائے تو وہ اُنھیں دیکھ کر سہم گیا اور وہاں چھپے ہوئے اپنے جیسے کئی اور بچوں کے ساتھ مل کر رونے لگا۔ ”

ناول یہاں پہنچ کر غور و فکر کے لیے ایک بہت بڑا سوال اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے کہ اگر ہم نے مذہبی بنیادوں پریا مسلکی فرق سے پیدا ہونے والی نفرتوں اور خون خرابے سے چھٹکارہ نہیں پایا تو آنے والی ہماری نسل وہی ہو گی جو ادریس اور اُس جیسے انسانوں کے بچوں کی ہو سکتی ہے۔

 

نورالحسنین

اورنگ آباد ( دکن )

ہندوستان

٭٭

 

 

 

 

Literature should reflect real life

~Anonymous

 

 

 

 

 

 

پہلا باب

 

وقت:سہ پہر ساڑھے ۴ بجے

تاریخ: ۶نومبر، ۲۰۱۵

مقام:شاہ فیصل کالونی نمبر ۵۔ کراچی

 

پکڑ پکڑ سالے کو، ذلیل کتا ہمارے نبی کے لیے بکتا ہے، جرات کیسے ہوئی اِس مردود حرامی کی۔ ۔

ادریس پاگلوں کی طرح چیختا ہوا سفید لٹھے کے کرتے شلوار والے شخص کو پکڑنے کے لیے بے تحاشہ دوڑا تو اُس کے نو سا لا لڑکے عثمان نے بد حواس ہو کر اپنی انگلی اُس کی مٹھی سے چھڑوائی اور پھر خوف زدہ ہو کر بھا گتا ہوا گلی کے کونے کی آدھی ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے جا کر چھپ گیا۔ دو چار منٹ کے بعد عثمان نے دیوار کی آڑ سے ڈرتے ڈرتے سر نکال کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر دور چورنگی کے پار سڑک کے اُس جانب اُس کی نظر ٹھہر گئی جہاں اُس کا باپ، ادریس اُس شخص کو پکڑنے کے لیے اندھا دھند بھاگ رہا تھا جسے کچھ دیر پہلے ہی اُس نے چیخ کر گالی دی تھی اور گریبان پکڑ کر تھپڑ مارنے کی کوشش کی تھی مگر وہ شخص اُس کے ہاتھ کو جھٹکے سے چھڑا کر اب جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔ ۔ ۔ عثمان ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے چھپ کر سہمی ہوئی نظروں سے اُس چوہے بلی کے منظر کو تکنے لگا۔

عثمان کے قریب ہی اُسی دیوار کے ایک کونے پر اکھڑوں بیٹھے ہوئے ادریس کے دوست رب نواز نے جونہی اسے یوں چیختے چلاتے بھاگتے ہوئے دیکھا توساتھ ہی کھڑے ہوئے اپنے یار کلو کو چیخ کر کہا :’اوئے کلو یہ ہے کون سالا حرامی جس کے پیچھے اپنا ادریس بھاگ رہا ہے ؟ ابے اُدھر نہیں بے، اِدھر بے کلو۔ ۔ وہ دیکھ۔ ۔ جدھر ادریس بھاگ رہا ہے نا اُس کے آگے دیکھ ‘ یہ کہہ کر رب نواز نے ایک ہاتھ سے کلو کی ٹھوڑی پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے چورنگی کی جانب اشارہ کیا اور پھر اُس کے چہرے کا رُخ ادریس کی طرف کر دیا، ”وہ دیکھ بے اُدھر سالے۔ ۔ ۔ چورنگی کی اُس جانب، اُدھر نیکو کے ہوٹل کے پاس۔ ۔ ۔ جس کے پیچھے ادریس لگا ہے۔ وہ ہے نہ سالا حرامی، سفید لٹھے کے کپڑے میں۔ ۔ ۔ ہاں ہاں و ہی۔ ۔ ۔ نظر آیا؟۔ ۔ ۔ ابے ابھی ابھی ادریس چیخ رہا تھا کہ سالے نے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے ”

کلو سے یہ کہہ کر رب نواز نے ادریس کی طرف دیکھ کر چیختے ہوئے کہا، ”پکڑ لے سالے کو ادریس۔ ۔ ۔ دیکھ جانے نہ پائے سالا۔ ۔ ۔ بھڑوا ہاتھ سے نہ نکلے۔ ۔ ۔ ۔ ”

کلو نے بھی رب نواز کی چیخ سن کر ساتھ میں ایک دھاڑ لگائی، ” اوئے ادریس بھائی۔ ۔ جانے نہ پائے سالا۔ ۔ ۔ ۔ ”

”چل بے چل” یہ کہہ کر رب نواز اور کلو نے ایک دوسرے کے ہاتھ کھینچے اور ادریس کی طرف چیختے چلاتے ہوئے بھا گنے لگے ، ”ابے پکڑ ادریس۔ ۔ ۔ سالے نے پیارے نبی کے لیے بُرے لفظ بولے ہیں، اس کافر کی اولاد کو چھوڑنا نہیں ہے۔ ۔ ۔ پکڑو اوئے سالے کو۔ ۔ ۔ ” کلو اور رب نواز نے ساری چورنگی کو مخاطب کرتے ہوئے نعرے لگاتے ہوئے پہلے پہل تو سڑک کی طرف بھاگے تاکہ چورنگی کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے فٹ پاتھ پر دوڑ لگائیں مگر پھر اچانک شارٹ کٹ کے خیال سے چورنگی کی چھ اینٹوں والی دیوار کو پھلانگ کر پارک کے بیچوں بیچ دوڑنے لگے تاکہ پورے سرکل سے بچ کر صرف آدھا چوتھائی ہی کو کراس کر کے ادریس تک پہنچ جائیں اور کیسے بھی اُس شخص کو دبوچ لیں، جس نے نبی کے لیے شاید کوئی بُری بات کہی تھی اورادریس کو بھڑکا دیا تھا۔ چاروں جانب پارک میں بیٹھے ہوئے لوگ اس ساری بھگدڑ سے ڈسٹرب ہو کر کھڑے ہو ہو کر رب نواز اور کلو کو بھاگتے ہوئے دیکھنے لگے۔ یکا یک چورنگی میں لیٹا ہوا فارغ ما لیشیا، گھانس پر آلتی پالتی بیٹھے ہوئے دونوں مولوی اور وہ چار چھ مزدور بھی جو صبح سے چورنگی کی دیوار پر بیٹھے ہوئے دہاڑی کا انتظار کر رہے تھے، رب نواز اور کلو کے پیچھے پیچھے ادریس کی طرف بھاگنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایک ایک کر کے کم و بیش ساری ہی چورنگی کے اور اطراف کے لوگ اور راہگیر ادریس کی طرف تیز تیز قدموں سے جانے لگے۔ رب نواز اور کلو نے تو خیر کچھ ہی دور بھاگتے ہوئے سڑک چھوڑی اور پھر چورنگی کی دیوار پر سے جست لگائی اور چورنگی کے بیچ سے دوڑ تے ہوئے سڑک کی اُس طرف پہنچ گئے جہاں ادریس اور دو چار قدم پر سفید لٹھے والا شخص ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔

” پکڑ سالے کے ماں کی۔ ۔ ۔ ” کلو نے دوڑتے ہوئے پھر چلایا۔

سفید لٹھے والے شخص نے وحشت سے جو اپنے پیچھے ایک ہجوم کو آتے ہوئے دیکھا تو بدحواس ہو کر پہلے تو سامنے کھڑے ہوئے کیلے کے ٹھیلے سے ٹکرا یا اور سر کے بل گرا اور پھر سے اُٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی مگر اس بار اُس کا پاؤں کچھ اس طرح سے پھسلا کہ وہ خود پر قابو نہ کر سکا اور دو تین قلابازیاں کھا تا چلا گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھل کر اُٹھ پاتا پیچھے سے آنے والے ادریس نے اُس پر چھلانگ لگائی اور اُسے کسی کتے کی طرح دبوچ لیا اور پھر پوری طاقت سے ایک لات اُس کے پیٹ کے نیچے لگائی جس سے لٹھے والے شخص کی شلوار اچانک سفید سے سرخ ہو گئی اور وہ دوبارہ قلابازیاں کھاتا ہوا بجلی کے کھمبے سے ٹکرایا، مگر اس بار اٹھنے کے بجائے وہی زمین پر کسی پلے کی طرح تکلیف کی شدت سے تڑپنے لگا۔

”کیوں بے بھڑوے کیا بولا تھا تو۔ ۔ ۔ ؟” ادریس کے منہ سے جانوروں کی طرح جھاگ نکل رہا تھا، اُس نے اُس کی ایک ٹانگ کو پکڑا اور گھسیٹتا ہوا بیچ چورا ہے پر کھینچ لایا۔ اِس سے پہلے کہ لٹھے والے شخص کے منہ سے ایک لفظ بھی نکلتا کلو اور رب نواز بھاگتے ہوئے اُس کے سر پر پہنچ گئے اور پھر اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، گھونسوں لاتوں اور تھپڑوں کی بھرمار شروع کر دی کہ پل بھر میں وہ آدھ موا ہو گیا اور سسک سسک کر رونے لگا۔

”میں نے کچھ نہیں بولا۔ ۔ ۔ میں نے کچھ نہیں بولا۔ ۔ ۔ ” وہ ہسٹریائی انداز میں چیخنے لگا، ”بھائی صاحب، بھائی صاحب، میں نے تو۔ ۔ ۔ میں نے تو، ان صاحب کو صرف اتنا ہی بولا تھا کہ محمد میرے نبی نہیں ہیں۔ ۔ ۔ میں کرسچن ہوں بھائی میرے نبی تو حضرت عیسیٰ ہیں۔ ”

”سالے۔ ۔ ۔ پھر نام لیتا ہے تو کتے۔ وہ نبی ہیں ساری دنیا کے، سب کے نبی ہیں۔ ۔ ۔ تیری جرات کیسے ہوئی یہ بکنے کی۔ ۔ تیری تو۔ ۔ ۔ ؟ ” کلو نے چیخ کر کہا اور دیا ایک اور گھونسا لٹھے والے کے پیٹ میں۔

”سالا بلاسفمی کر رہا ہے یہ۔ ۔ ” دونوں مولویوں میں سے لمبے قد والے نے چلا کر مجمع سے کہا،

”اور بھائیوں اسلام میں سزا موت ہے اس کی۔ ۔ ۔ مارو سالے کو۔ ۔ ۔ ایسے حرامی بہت ہو گئے ہیں اب ہر طرف۔ ”

”یہودیوں کا اجنٹ ہے ذلیل سالا۔ ۔ بھنگی۔ ۔ کرسچن کی اولاد۔ ” ادریس نے چیخ کر کہا

کچھ ہی دیر میں سارا مجمع گھونسوں لاتوں اور جوتوں کے ساتھ سفید لٹھے والے شخص پر ٹوٹ پڑا، ادریس اُن سب میں آگے تھا۔ اُس نے اُٹھا کر ایک اینٹ دی لٹھے والے کے سر پر اور چیخ کر کلو سے بولا، ”ابے کلو۔ ۔ جا پٹرول لا۔ ۔ سالے کو ابھی جہنم میں پہنچا دیتے ہیں۔ ”

کلو بھاگتا ہوا قریب کی میکنک کی دوکان سے مٹی کے تیل کا ڈبا اُٹھا لایا تو ادریس نے چیخ کر کہا، ”ہٹو بہنو۔ ۔ ۔ سب، دور ہٹو۔ ۔ اس کتے کی نسل کو آگ لگانی ہے، حرامی۔ ۔ ۔ آگے سے پھر کسی کو جرات نہیں ہو گی نبی کو اپنا نبی نہیں بولنے کی۔ ۔ ۔ ”

کلو نے مٹی کا تیل پھینکا لٹھے والے شخص پر اور ادریس نے ماچس جلا کر اُس پر تین چار جلتی ہوئی تیلیاں پھینک دیں۔ لٹھے والے شخص نے خوفزدہ نظروں سے لوگوں کو دیکھا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا، ” اوہ بھائی مجھے چھوڑ دو، اللہ کے واسطے رسول کے واسطے مجھے چھوڑ دو، پیارے نبی کے واسطے چھوڑ دو۔ ۔ ۔ ” اور پھر وحشت سے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی مگر آگ یک لخت بھڑک گئی اور پھر اُس کی چیخنے اور کراہنے کی درد ناک آوازیں زور زور سے گونجنے لگیں، وہ بدحواس ہو کر جلتا ہوا ادھر ادھر بھاگنے لگا مگر بھاگنے سے آگ نے اور بھی شدت اختیار کر لی اور اُس کو پوری طرح اپنے لپیٹے میں لے لیا، وہ چیختا ہوا زمین پر لوٹنے لگا مگر آگ بھڑکتی ہی چلی گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زندہ گوشت کے جلنے کی بو دھوئیں کے ساتھ چاروں جانب پھیلنے لگی اور کچھ ہی دیر میں ہی اُس کی آوازیں کراہٹوں سے بدل کر ختم ہونے لگیں۔ مجمع پہلے تو کچھ دیر کھڑا اُس کے جلتے ہوئے جسم کے تڑ پنے کا منظر دیکھتا رہا مگر جب لٹھے والے کی جلی ہوئی لاش کی آخری حرکت بھی ختم ہو گئی تو پھر لوگ ایک ایک کر کے چھٹنے لگے سوائے کچھ لوگوں کے جو ایک طرف کھڑے ہوئے سیل فون کے کیمرے سے اُس کے آخر تک جلنے کا وڈیو بناتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں ادریس بھی مجمع سے نکل گیا مگر نکلتے نکلتے اُس نے لٹھے والے کی جلی ہوئی لاش پر تھوک کر کلو اور رب نواز سے کہا، ”سالا کتے کی نسل۔ ۔ ۔ ابھی وہاں اپنے نرک میں جلے گا سا لا حرامی۔ ۔ ۔ چل بھئی کلو۔ ۔ نکل یہاں سے، ابھی یہاں پولیس کیس ہونے والا ہے۔ ”

یہ سن کر کلو نے چیخ کر کہا، ”کا ہے کا پولیس کیس سالے۔ ۔ ، تھانے کو آگ لگا دیں گے کسی نے اگر کچھ کیا۔ اسلام میں بلاسفمی کی سزا موت ہے۔ ۔ ۔ کیا ان سالے پولیس کے کتوں کو نہیں پتہ۔ ۔ ؟”

”اچھا چل چل۔ ۔ ۔ ابھی تو چل نکل یہاں سے۔ ۔ ۔ ” ادریس نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر کچھ یاد کرتے ہوئے کہنے لگا :

”ابے اوئے، یہ عثمان کدھر ہے ۔ ۔ ۔ ؟ ”

”عثمان کون۔ ۔ ۔ ؟” کلو نے ادریس سے پوچھا :

”ابے میرا لونڈا اور کون۔ ۔ ۔ وہ میرے ساتھ تھا۔ جب میں اُس کتے کے تخم سے بات چیت کر رہا تھا اور اُس حرامی نے بکواس کی تھی اور سارا دماغ اُلٹ دیا مادر۔ ۔ نے، مگر یہ بتا بے عثمان کو دیکھا تو نے ؟ ”

” ابے دیکھتے ہیں یار۔ یہی کہیں ہو گا، کہاں جائے گا۔ ؟ اچھا یہ تو بتا سالے، یہ بھڑوا تھا کون ؟” رب نواز نے ادریس سے پوچھا۔

”بتاؤں گا یار۔ ۔ لمبا قصہ ہے۔ ” ادریس نے آسمان کی طرف دیکھا، ” یہ پھڈا کئی دنوں سے چل رہا تھا اور مجھے پتہ تھا اس کی پھینٹی لگے گی۔ پر اس بار اس حرامی نے تو حد ہی کر دی۔ ”

”اسی لیے تو مرا سالاجل کر۔ ” کلو بولا

” ابے وہ رہا عثمان۔ ۔ ۔ اُدھر۔ ۔ ۔ ” اچانک رب نواز نے ادریس کا شانہ ہلا کر چورنگی کی دوسری طرف، گلی کے کونے کی طرف اشارہ کر کے کہا، ” ادھر اُس طرف، وہ رہا نہ۔ ۔ ۔ اُدھر ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے۔ ۔ ۔ ”

”اوئے عثمان ابے ادھر آ۔ ۔ ۔ ” ادریس نے عثمان کو دیکھ کر چیخ کر کہا اور ہوا میں ہاتھ ہلانے لگا۔

مگر عثمان دیوار کے پیچھے سے چھپ کر یونہی وحشت اور خوف سے سے لٹھے والے شخص کی جلتی ہوئی لاش کے دھوئیں کو دیکھتا رہا۔ جب ادریس نے دیکھا کہ عثمان اُس کی طرف دیکھنے کے بجائے مسلسل دوسری طرف دیکھ رہا ہے تو اُس نے پھر سے زور سے آواز لگائی،

”اوئے عثمان ادھر آ بے۔ ۔ ۔ ادھر آ۔ ۔ ۔ ”

ادریس کی آواز سُن کر عثمان یک لخت پلٹا اور کھوئی ہوئی نظروں سے اپنے باپ کو تکنے لگا اور پھر اچانک اُس کو ایک زور کی ابکائی آئی اور اُس نے ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے ایک لمبی سی قے کر دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

دوسرا باب

 

وقت : صبح آٹھ بج کر ۳۰ منٹ

تاریخ:۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : کابل، افغانستان

 

 

‘اگر مذہب سیاست ادب رسوم و رواج فراڈ نہ ہوتے تو کیا انسان فراڈ ہوتا ؟ ‘

ڈاکٹر واحدی نے کمنٹ لکھ کر کچھ دیر ہی پلک جھپکی تھی کہ اسکرین پر دوسری طرف سے ثانیہ کا جوابی کمنٹ موصول ہو گیا۔

‘مگر ہم کس طرح اس کا تمام تر الزام مذہب، سیاست، ادب اور رسوم و روج پر دھر سکتے ہیں ؟ ہم یہ کیوں نہ کہیں کہ انسان خود ہی سب سے بڑا فراڈ ہے اور اُس نے انہیں ڈھنگ سے برتا ہی نہیں اور الزام اُن پر دھر رہا ہے ؟ ‘

ڈاکٹر واحدی کی انگلیاں پھر سے کمپیوٹر کی کی بو رڈ پر تیزی سے ناچنے لگی، ‘ثانیہ بد قسمتی سے یہ تمام مصنوعی عناصر آپس میں قدرتی طور پر جڑے ہوئے ہیں کہ صدیوں کے ارتقائی عمل میں یہ انسانوں کے تصورات میں اپنے ادوار اور اپنی شکل و صورت اور خصلت و عادات کے لحاظ سے انسانی تہذیب کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ دیکھیں ادب اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے کہ ہر دورِ انسانی میں ‘ اعلی ترین’ ادب الہامی حکایتوں اور دیو مالائی قصوں کہانیوں سے ماخوذ ہے۔ صدیوں سے انسانی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی صورتوں میں اخلاقیات کا سارا بیڑا ان ہی دو عناصر نے اپنی پیٹھ پر لادا ہوا ہے اور پھر سیاست ہے جو اپنے حقیقی معنوں میں محض طاقت کے خاطر جوڑ توڑ کا کام کرتی ہے۔ اب رہی بات رسوم و رواج اور کلچر کی تو وہ تو رنگ و نسل کی تر جمانی کے نام پر تقسیم کا ایک ایسا مقدس انداز ہے جو انسانوں کو مغربی اور مشرقی جیسی مصنوعی جغرافیائی تقسیم یا ہندو اور مسلمان جیسی تہذیبوں میں توڑ کر نفرتوں کی بنیاد پر بانٹنے کا نام ہے۔ انسانوں کی صدیوں کی تہذیبی شناخت میں ان اجزائے ترکیبی نے سوائے نفرتوں، بٹواروں، تقسیموں اور اپنی اعلی و ادنی ترین حالت میں خون ریزی کے سوا کیا نوازا ہے ؟ آج کا انسان اپنی ‘تہذیب یافتہ خون آلود ‘ فطری صورت میں ان ہی عناصر سے تعمیر ہوا ہے۔ دیکھے ادب کا جہاں تک تعلق ہے اُن عام انسانوں کو جن سے کوئی بھی معاشرہ تخلیق پا تا ہے یا تعمیر ہوتا ہے، کی سمجھ میں تو آتا نہیں کیونکہ ادب میں تو صرف ‘اعلی ذہن’ کے انسانوں کا عمل دخل ہی رہا ہے تو یوں کہیے کہ ادب بھی ذہانت یا انٹیلیکٹ کے نام پر انسانوں کی تقسیم ہی کرتا ہے۔ سیاست صرف اور صرف ‘ شاطر ترین ذہنوں ‘کو فیض پہنچاتی ہے اور مذہب عام ذہنوں کو سلانے کے خاطر ان شاطر ذہنوں کا ہتھیاری فلسفہ ہے۔ باقی بچ گئے رسوم و رواج تو وہ ایک مصنوعی غرور کی صورت عام انسانوں کو خیرات کی صورت میں با نٹ دئیے جاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ان تمام عناصر کی یہی اصل روح ہے۔ انہیں کسی نے مصنوعی طور پر بنایا یا بگاڑا نہیں ہے کہ یہی ان کی فطرت ہے کیونکہ یہ سب انسانی فطرت کے ارتفاعی سفر میں استعمال ہونے والے عناصر بھی ہیں، بائی پرو ڈکٹ بھی اور اینڈ پرو ڈکٹ بھی۔ ۔ دیکھیے ثانیہ آپ میری بات سے مکمل اختلاف رکھیں مگر جس وقت آپ انسانی تاریخ کا مطالعہ انتہائی غیر جانبداری سے کر یں گی، حتی کہ انسانی شکل سے بھی نہیں بلکہ کوئی اور حیوان بن کر تو آپ کو اس انسانی بھیڑیے کے سارے کمالات سمجھ میں آ جائیں گے کہ کس طرح اُس نے اِن ہتھیاروں کو تیار کیا اور پھر کس طرح اپنے خون آلود دانتوں کو ان ہی کے رو مال سے صاف کیا ‘

چند ہی لمحوں میں ثانیہ کا جوابی کمنٹ ڈاکٹر واحدی کی اسکرین پر تھا، ‘ ہو سکتا ہے آپ درست ہو ڈاکٹر صاحب مگر آپ اسے ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں انسانوں کی خون ریزی میں کسی حد تک کمی ان عناصر کی وجہ سے بھی ہوئی ہے۔ کیا غیر مذہبی لو گوں نے دنیا میں کچھ کم خون بہایا ہے ؟ ‘

واحدی نے جوابی کمنٹ پڑھے اور کنکھیوں سے اسکرین پر ٹائم دیکھا اور بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھا ، ‘ممکن ہے آپ درست ہو ثانیہ مگر ہمیں اس کے حتمی فیصلے تک جانے کے لیے ان عناصر کا مطالعہ فلسفے اور تاریخ کی روشنی میں کرنا ہو گا۔ آپ کے یہاں رات کے دس یا گیارہ بج رہے ہیں آپ کو سونا ہو گا اور مجھے بھی یونیورسٹی جا نا ہے اس لیے اب اجازت دیجیے۔ ‘

انگریزی میں ‘بائی فار ناؤ’ پلک جھپکنے سے پہلے ہی ثانیہ کی طرف سے موصول ہو گیا اور ڈاکٹر واحدی نے بھی فیس بُک کو سائین آف کر دیا۔ کمپیوٹر ٹرن آف کر کے ڈاکٹر واحدی نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنی گردن کو پیچھے سے پکڑ کر اسٹریچ کیا اور پھر میز پر بکھرے ہوئے کاغذوں کو سمیٹ کر میز کے ایک کارنر کی طرف کر دیا اور پھر قریبی پڑے ہوئے سیل فون کو اُٹھا کر ناظر عزیزی کا نمبر ملانے لگا۔

”ہاں۔ ۔ میں بس نکل رہا ہوں، دس منٹ میں تمھاری طرف ہوں گا۔ تم بس تیار ملنا ” یہ کہہ کر ڈاکٹر واحدی نے فون بند کیا اور اپنا بیگ اُٹھا کر گلے میں ڈالا اور پھر ایک طائرانہ نظر کمرے کے چاروں طرف ڈالی جیسے کوئی کھوئی ہوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو۔ کتابیں کمرے میں چاروں جانب بکھری ہوئی تھی، کچھ بیڈ اور کچھ فرش پر، بیڈ کی چادر سمٹی ہوئی تھی اور مڑے ہوئے تکیے پر ابھی تک اُس کی کہنی کا گڑھا نظر آ رہا تھا جو رات بھر اُس کے کبھی بغل میں تو کبھی ہاتھ کے نیچے دبا رہا تھا۔ واحدی کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ کرسی میز کی جگہ رات بھر بستر پر لیٹ کر پڑھتا تھا اور پھر کالج سے واپس ہو کر بستر پر بے سدھ گر جاتا تھا۔ عموماً رات دس یا گیارہ کے بعد سے اُس کا پڑھائی کا سیشن شروع ہوتا تھا جو صبح تین یا چار بجے تک نان اسٹاپ چلتا تھا۔ اُس کے بعد وہ کمپیوٹر پر میل چیک کرتا اور سونے سے پہلے اپنے بلاگ پر کچھ کمنٹس لکھتا تھا۔ اگلی صبح اگر چھٹی ہو یا پھر کلاس دیر میں ہو تو یونیورسٹی جانے سے پہلے آ دھا ایک گھنٹہ فیس بُک پر بحث و مباحثہ بھی انجوائے کر لیتا تھا۔ اُس کے نوجوان دوستوں میں کینیڈا سے ثانیہ، لاہور سے زبیر، امریکہ سے عذرا، شہریار، لندن سے شکیل رضا، خاور اور جرمنی سے عبید طاہر وغیرہ شامل تھے جو اکثر و بیشتر اُس سے علمی بحثوں میں الجھ بھی جاتے تھے مگر اُن سب میں ایک بات عموماً یکساں تھی کہ وہ سب اُس کی عمر اور عزت و مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے گفتگو کرتے تھے اور کبھی بھی غیر معیاری بات چیت نہیں کرتے تھے۔ اُن سب کی گفتگو عموماً علمی نوعیت کی رہتی تھی۔ اچانک واحدی کی نظر ”ہیریٹک ” نامی کتاب پر پڑی، جسے وہ آج اپنی کلاس میں متعارف کرانا چاہ رہا تھا۔ صومالی نژاد ڈچ امریکن رائٹر آیان ہرشی علی کی اِس نئی کتاب نے اُسے اسقدر متاثر تو نہیں کیا تھا مگر اُس کی کچھ عادت سی تھی کہ جب بھی وہ اپنا پالٹیکل سائنس کا لیکچر ختم کرتا تو کوئی نئی کتاب یا کم از کم نیا آ ۤرٹیکل کسی انٹر نیشنل پولیٹیکل میگزین سے چن کر آخری پانچ دس منٹ میں اپنے طا لب علموں سے ضرور ڈسکس (Discuss) کرتا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ اس طرح طالب علموں میں پڑھنے کا نہ صرف شوق پیدا ہوتا ہے بلکہ ذہن بھی نئی افکار کے لیے کھلتا ہے۔ واحدی کا ٹیکسٹ بُک پڑھانے کا انداز بھی اور استادوں سے مختلف تھا وہ اپنے شاگردوں سے سوال کرنے کے بجائے اُنہیں الٹا اکساتا تھا کہ وہ اُس سے اورآپس میں سوالات کریں اور پھر جوابات سے مزید سوالات اور پھر ان جوابات سے مزید سوالات یوں اُس کی کلاس میں ڈا ئلو گز (Dialogues) کا  نہ ختم ہونے والا دلچسپ سلسلہ چلتا رہتا اور کم و بیش پوری کلاس اس بحث میں شامل رہتی تھی۔ اس دوران داحدی کی حتی الامکان کوشش رہتی کہ طالب علم اُس کی کلاس میں قلم کا استعمال کم سے کم کریں، ہاں کلاس کے بعد اُنہیں اجازت تھی کہ وہ کلاس کے بعد اپنی یادداشت کو استعمال کریں اور جو کچھ بھی نیا علم اُنہیں ملا ہو اُسے تحریر میں لے آئیں۔ واحدی نے کتاب کندھے پر لٹکے ہوئے بیگ میں اُڑسی اور کمرے سے نکلنے سے قبل دیوار پر لگے قد آدم آئینے میں خود کو دیکھا۔ اُس کے سر کے سفید و سیاہ بال اُسکی خشخشی داڑھی کے بالوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ اُس کی چمکدار نیلی آنکھوں، افغانی ناک نقشے اور کشادہ پیشانی پر کچھ کچھ بکھرے ہوئے بال اُس کی شخصیت کا حصہ تھے۔ کمرے سے نکل کر وہ گیراج کی طرف بڑھ گیا جونہی گاڑی گھر سے نکل کر سڑک پر آئی، کابل کا کھنڈر شہر پندرہ سال کے جنگی زخموں کو بدن پر سجائے اُس کے چاروں جانب بکھرا ہوا تھا۔ اُس نے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا وزن بڑھایا اور خود کو بے ہنگم ٹریفک کے جال میں پھنسا لیا۔ منصور سٹی ٹاور والی سڑک تک اُس کے گھر کا سارا راستہ کچا تھا، جگہ جگہ سے سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اور گٹروں کے ابلنے سے زمین تالاب بن چکی تھی بس ایک چھوٹی سی پگڈنڈی تھی جو کبھی پکی سڑک تھی اور اب جس کے کناروں پر چھابڑی دوکانیں تھیں۔ کہنے کو یہ راستہ صرف دس منٹ کا تھا مگر ہمیشہ گاڑیوں، ٹھیلوں والوں، راہگیروں اور خچروں کے ہجوم کی وجہ سے کھنچ کرتیس سے چالیس منٹ تک کا ہو جاتا تھا مگر جونہی تحصیلات عالی سلام کاسائن بورڈ اُسے نیلے رنگ کی عمارت کے ماتھے پر لگا دور سے دکھائی دیتا تو وہ ایک گہرا سانس لیتا کیونکہ وہ پگڈنڈی پھر سے سڑک بن جاتی تھی۔ یہاں سڑک نسبتا کشادہ تھی اور دو طرفہ بھی اور پھر دونوں کے درمیان پکا فٹ پاتھ تھا جس کے درمیان کہیں کہیں پیڑ پودے بھی تھے جو دیکھنے میں خوشنما لگتے تھے، گو کہ زیادہ تر پودے محض جھاڑیوں کی صورت میں تھے اور اُن کے رنگ بھی خزاں رسیدہ تھے۔ سڑک کے اطراف کے مکانات مخصوص افغانی کلچر کے تھے یعنی کہیں بالکل کچی مٹی کے مکانات تھے جن کی کھڑکیاں روشن دانوں کی طرح اس قدر چھوٹی تھی کہ دور سے سوائے اندھیرے کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا البتہ جو بڑے گھر، یا، کوٹھیاں تھیں اُن کی دیواریں اونچی اور کانچ کے رنگ برنگے ٹکڑوں سے ٹائلز کی طرح سجی ہوئی تھی۔ ایسے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے کہیں سبز اور سرخ رنگ کے تھے تو کہیں نیلے یا آسمانی۔ مرکز موی رفتگی انوژن کے سائن بورڈ کے قریب بسوں کا اڈا تھا جہاں ہمیشہ رش رہتا تھا مگر اُس کے فوراً بعد سڑک کے دونوں جانب جا بجا انگریزی زبان میں سائن بورڈز بھی لگے ہوئے تھے اور فلیٹس یا اپارٹمنٹ بلڈنگز کی تعمیر  کئی سالوں سے زور شور سے جاری تھی۔ اپنے گھر سے ان نئی بلڈنگوں تک پہنچتے پہنچتے واحدی کا دماغ گاڑیوں کے شور سے کم مگر تاریخ کی ارتقائی سرگوشیوں سے زیادہ گونجتا تھا۔ ایسے میں اُس کو لگتا جیسے ٹریفک کی اس ساری بے ترتیبی میں وہ بھی اور افغانیوں کی طرح تاریخ کی بے رحم شاہراہ پر وقت کے ایک ایسے انجان لمحہ میں پھنس گیا ہے جہاں سے منزل کا تعین ناممکن ہے۔ اپنے گھر کی کچی پگڈنڈی سے نئی اپارٹمنٹ بلڈنگوں کے راستے پر سفر کرتے ہوئے واحدی کا ذہن پانچ سو سال قبل مسیح کے چندر گپت موریا کے ہندو یا بدھا افغانستان سے ہوتا ہوا تین سو قبل مسیح کے سائرس دی گریٹ اور سکندر اعظم کے زوراسٹرین افغانستان میں آ پہنچتا اور پھر جب تک مرکز موی رفتگی انوژن کا سائن بورڈ اُسے نظر نہیں آتا وہ یونہی ۶۴۲ سنہ ہجری کے بعد کے اسلامی افغانستان میں وقت گزارتا ہوا انیسویں صدی تک آ پہنچتا اور جب اُسے نئی اپارٹمنٹ بلڈنگز کے قریب انگریزی سائن بورڈ نظر آتے تو اُسے لگتا جیسے وہ امان اللہ اور ظاہر شاہ کے ماڈرن افغانستان میں آ گیا ہے مگر جونہی اُس کے بعد جو گرد مٹی پرانی عمارتوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اُڑ اُڑ کر اُس کی آنکھوں میں آتی تو وہ گاڑی کے شیشے چڑھا کر سوچتا لو بھئی طالبانی دود شروع ہوا۔ اس سے قبل کہ اُسے پچھلے پندرہ سالوں کے حامد کرزائی اور اشرف غنی کے دور میں جھانکنے کی فرصت ملتی اُسے اکثر ناظر عزیزی مل جاتا جو کسی نہ کسی دوکان کے سائے میں کھڑا اخبار پڑھ رہا ہوتا تھا مگر آج اُسے ناظر عزیزی کہیں نظر نہیں آیا۔ کچھ دیر ادھر ادھر نظر گزارنے کے بعد بلا خر اُس نے موبائل جیب سے نکالا اور ناظر عزیزی کا نمبر ڈھونڈنے لگا مگر اس سے قبل کہ وہ اُسے فون کرتا دوسری طرف سے اُسی کی کال آ گئی۔

” یار میں یو نیورسٹی میں ہوں، یہاں کچھ گڑ بڑ ہے تم یا تو ابھی و ہیں رُک جاؤ یا پھر کسی دوست کے یہاں چلے جاؤ۔ ۔ اور ہاں، جب تک میں نہ کہوں یونیورسٹی نہ آ نا۔ ”

”خیر تو ہے۔ ۔ ۔ ؟ ” واحدی نے پریشان ہو کر کہا مگر اتنی دیر میں فون لائین کٹ چکی تھی۔ واحدی نے حیرت سے فون کو کچھ دیر تک دیکھا اور پھر کندھے اچکا کر واپس اُسے جیب میں رکھ دیا اور گاڑی کو ریورس گئیر میں ڈال کر کچھ لمحے مخالف سمت میں گاڑی چلائی اور پھر گھما کر سامنے ہی کے رستوران کے سامنے اُسے بھی اور گاڑیوں کے ساتھ پارک کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیسرا باب

 

وقت: رات دس بج کر ۳۰ منٹ

تاریخ: ۶ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

 

ثانیہ نے ڈاکٹر واحدی کو بائی فار ناؤ ٹائپ کیا اور پھر رائٹ کلک سے فیس بُک سے ہی سائن آوٹ کر دیا۔ وہ کچھ دیر یوں ہی خالی آنکھوں سے کمپیوٹر کے آئیکانز کو تکتی رہی جیسے کچھ سوچ رہی ہو اور پھر کسی خیال سے کیمرے کے ائیکون کو کلک کیا اور خود کوا سکرین پر دیکھنے لگی۔ اُسے یونیورسٹی سے آئے ہوئے دو تین گھنٹوں سے زائد ہو چکے تھے۔ ڈنر کے بعد ایک دو گھنٹے تک تو وہ یونیورسٹی کے کچھ اسائنمنٹ دیکھتی رہی مگر پھر تھک گئی اور فیس بک پر ڈاکٹر واحدی سے باتیں کرنے لگی۔ گھر آنے کے بعد سے نہ تو وہ فریش ہوئی تھی اور نہ ہی اُس نے کپڑے بدلے تھے۔ البتہ اُس کے بال ابھی تک سنورے ہوئے تھے اور صبح کی لگائی ہوئی آئی لائنر سے اُس کی آنکھیں خاصی جاذب نظر ہو رہی تھیں۔ بس چہرے پر تھوڑی سی تھکن تھی جو اُس کے سارے دن کے بھاگ دوڑ کی چغلی کھا رہی تھی۔ ثانیہ نے خود کو کمپیوٹر کے کیمرے میں دیکھتے ہوئے پاس ہی پڑے ہوئے اپنے بیگ کو کھولا اور اُس میں سے ٹٹول کر لپ اسٹک نکالی، اُسے انگلی پر پھیرا اور پھر انگلی سے لپ اسٹک کو ہونٹوں پر ملنے لگی پھر اسکرین کے قریب آ کر ہونٹوں کو دیکھا مگر کچھ سوچ کر بیگ سے لپ اسٹک پینسل نکالی اور اُس سے ہونٹوں کے کنارے بنا نے لگی۔ اس کے بعد اُس نے فیس پاؤڈر بیگ سے نکالا اُس کے کئی ایک پف اپنے چہرے پر لگائے۔ جب وہ اپنے چہرے سے مطمئن ہو گئی تو پھر کیمرے کے سامنے ٹیڑھا ہو کر کئی زاویوں سے اپنے تین چار سیلفی پوز (selfie poses)بنائے پھر اُس میں سے ایک پوز کو سلیکٹ(select) کیا، اسکائپ (skype)کے سیل فون میسج باکس پر جا کر اُسے اٹیچ(attach) کیا اور ‘مس یو’ انگریزی میں ٹائپ کر کے دلیپ کو بھیج دیا۔ کچھ ہی لمحوں میں اُسے دلیپ کا جواب اپنے سیل فون کے اسکرین پر موصول ہوا ‘می ٹو’، اس سے پہلے کہ ثانیہ آگے لکھتی فوراً ہی دلیپ کا دوسرا میسج آ گیا ‘ لو کنگ گورجیس (looking gorgeous) ‘ ثانیہ نے جواب میں لکھا : ‘ ملنے کو جی چاہ رہا ہے ‘ فوراً ہی دلیپ کا جواب آیا ‘آ جاؤ نہ پھر، ملتے ہیں ڈکسی والے ۲۴ آورز اسٹار بکس پر (Dixie’s Starbucks 24 hour’ اور مما کو کیا کہوں ‘ ثانیہ نے لکھا۔ ‘ ابھی تک سو ئی نہیں کیا ؟’دلیپ کا سوالیہ میسج جواب میں آیا ‘ یار پپا گھر میں نہیں ہیں، کسی فرینڈ کے یہاں ہیں اگر مما سو رہی ہوں تو پھر میں آدھے گھنٹے میں اسٹار بکس پہنچتی ہوں ‘ ثانیہ نے جواب میں لکھا اور بائی کہہ کر اسکایپ اور فیس بک دونوں سے سائن آوٹ کر دیا۔

آدھے گھنٹے کے بعد ثانیہ اور دلیپ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے اسٹار بکس رسٹورنٹ کے ایک کونے میں آمنے سامنے بیٹھے ایک دوسرے کی نظروں میں نظریں ڈال کر دھیمے دھیمے کافی کی چسکیاں لے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ثانیہ نے آنکھوں کی پتلیاں سمیٹ کر دلیپ کو پیار سے گھورا اور کہا، ” اچھا اب کہو، کیا ہے جواب تمھارے پاس میرے سوال کا؟”

”میرا تو وہی جواب ہے جو میں نے صبح یونیورسٹی میں کہا تھا کلاس میں۔ ۔ ۔ یار تیرے کو یاد نہیں میں نے کیا لکھا تھا پیپر پر ؟” دلیپ نے بھی اُسی محبت سے ثانیہ کی کنجی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔

”کیسے کیسے ؟ اب نا تم مجھے اپنی ڈاکٹری کی سائنس سے سمجھاؤ گے، مجھے سب پتہ ہے۔ ” ثانیہ نے کس قدر ٹھنک کر کہا

”ہاں آں بالکل ویسے ہی جیسے تو مجھے اکثر اپنی نفسیات کی سائنس سے سمجھاتی ہے۔ ” دلیپ نے ثانیہ کے ہی لہجے میں مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

”اچھا کہو نا پھر۔ ۔ ذرا سا ڈیٹیل میں۔ ۔ ۔ ! ” ثانیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں اور انگوٹھوں کو جوڑ کر رنگ بنا کر نچاتے ہوئے کچھ اس ادا سے کہا کہ دلیپ کی ہنسی چھوٹ گئی، ”اچھا تو پھر سن۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے بھی کسی پرو فیسر کی طرح جیب سے پین نکالا اور سامنے پڑے ہوئے اسٹار بکس کے نیپکن کو سیدھا کر کے اُس پر پین سے تین چار چھوٹے بڑے دائرے بنائے اور کہا، ”یہ رہے کینڈا کے برفیلے بادل۔ ” اور پھر آٹھ دس چھوٹے چھوٹے سے مخروطی دائرے قطاروں کی صورت بنائے اور کہا، ” اور یہ رہی ان سے گرتی ہوئی ٹورنٹو میں برف کی بارش جو میرے اور تیرے سروں پر گر رہی تھی، جب میری اور تیری پہلی ملاقات ہوئی تھی، یونیورسٹی کی اوپر ائر لابی میں۔ ۔ یہ رہی تو اور یہ ہوں میں۔ ۔ ۔ ”کہہ کر دلیپ نے دو انسانوں کے اسکیچ بھی بنا دیے اور پھر کہا، ” یاد آیا۔ ۔ ۔ ؟ ” ثانیہ نے اس یچ کو بڑے اشتیاق سے دیکھا، پھر اُس کی نظریں دلیپ کی طرف اُٹھ گئیں، ”کچھ کچھ۔ ۔ ۔ ”

”اچھا اب دیکھ میری جان۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے مخصوص پنجابی لہجے میں جان کو ذرا سا لمبا کھینچتے ہوئے کہا۔

ثانیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھی پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر ٹشو پیپر کو دیکھتے ہوئے ایک ادا سے کہا، ”دکھاؤ۔ ۔ ۔ ”

”جب میری اور تیری انکھیاں پہلی بار آپس میں ملیں، تو لو جی میرے اور تیرے دماغ مہاراج کو آنکھوں نے کچھ اسپیشل میسج کیا۔ ” یہ کہہ کر اُس نے انسانوں کے اسکیچ کے سروں میں ایک ایک آپٹک لوپ(Optic loop )بنا دیا جو دائروں کی صورت آنکھوں سے نکل کر دماغ کے اندر جا رہے تھے۔

”اور وہ اسپیشل اسپیشل میسج کیا تھا۔ ۔ ۔ ؟ ” ثانیہ نے اپنی ایک آنکھ بھینچی اور دوسری آنکھ سے دلیپ کو ایسے دیکھا جیسے اُسے آنکھ مار رہی ہو۔

”تو جانتی ہے یار میسج کیا تھا، اب اتنا بھی نا بن۔ ۔ ‘دلیپ نے دونوں اسکیچ کی آنکھوں کے سامنے لو کیو پڈ کے سائن بنائے اور مزاحیہ انداز میں کہا ‘ یہ ہے وہ اسپیشل میسج جو انکھیوں سے نکلتا ہے اور پیچھے دماغ مہاراج میں جا کر اثر کرتا  ہے اور اُن سے کہتا ہے ‘اوئے بھائی کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے، یہ کڑا اور کڑی کی آنکھیں ایک دوجے کے پیار میں آپس میں ٹکرا گئی ہیں ‘۔ پہلے پہلے تو دماغ مہاراج جی گھبرا سے جاتے ہیں کہ اوئے یہ کوئی لڑائی مار کٹائی کا چکر شکر ہے ؟ مگر پھر فوراً ہی انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ یہ وہ لڑائی نہیں ہے جس میں کوئی خون خرابہ ہوتا ہے بلکہ اس والی لڑائی میں تو بس پیار ہی پیار ہے، امن ہی امن ہے اور سکون ہی سکون، بس جی پھر دیکھتے ہی دیکھتے برین مہاراج سے ایک کے بعد ایک لاکھوں کروڑوں نیورو ٹرانسمیٹرز(Neurotransmitters) نکلنے شروع ہو جاتے ہیں جیسے ڈوپامین(Dopamine)، سرو ٹو نین (Serotonin) اور نور ایپی نیفرین (Nor-epinephrine)۔ ” یہ کہہ کر دلیپ نے پین کی نوک سے دونوں اسکیچ کے سروں میں بہت سارے نکتے بنانے شروع کر دیے اور پھر کہا، ” اوئے۔ ۔ ۔ پھر چاہے کتنی ہی ٹورنٹو میں برف باری ہو یا آسمان سے اولے پڑھ رہے ہوں، یہ ہارمون اُڑتے ہوئے جا کر سوئٹ گلینڈز(Sweat Glands) پر اثر کر تے ہیں اور کڑے کڑی کو پسینہ پسینہ کر دیتے ہیں۔ پھر چاہے یہ بستر پر آرام نال لیٹے ہوئے ہو، یہ دل پر اثر کر کے اُس کی ایسی رفتار بڑھا دیتے ہیں جیسے بندہ ٹریڈ مل پر دوڑ رہا ہو، پھر چاہے بندہ کتنا ہی مزے دار اٹالین یا چا ئنیزز فوڈ کے رسٹورنٹ میں بیٹھا ہو، بھوک شوک اُڑ جاتی ہے، پھر چاہے آسمان پر کتنے ہی بادل آئے ہوئے ہو پر وہ نیلا نیلا ہی دکھائی دیتا ہے اور کڑے اور کڑی کا دل کرتا ہے کہ راتوں کو اُٹھ کر چاند کو دیکھے یا تاروں کو گننا شروع کر دے۔ ۔ ایک دو تین چار۔ ۔ ۔ ”

”اوہ مسٹر۔ ۔ ۔ ایکسیوز می۔ ” اس سے پہلے کہ دلیپ کی گنتی چار سے آگے بڑھتی ثانیہ نے ایک ادا سے کہا، ” مستقبل کے ڈاکٹر صاحب، یہ سب آپ کو پتہ ہے نا ؟ڈپرشن کے سائنز ہیں۔ ویسے بائی دی وے جناب، نفسیات میں ایک اور بیماری بھی ہوتی ہے اُسے ہم لوگ شیز و فیرینیا (Schizophrenia)کہتے ہیں کہیں آپ ان دونوں کو ملا کر ایک نیا چورن تو نہیں بنا  تھا، ابا ن بنائے اور مذہ کے مارص سےیل: اعجاز عبیدرہے ہو۔ ۔ ‘ سائکولو جی آف لو۔ ” یہ کہہ کر ثانیہ نے ٹشو پیپر کو میز سے اُٹھایا، مٹھی میں لیا اور پھر اُس کو اچھی طرح سے دونوں ہاتھوں میں مسل کر ایک کاغذ کی گولی بنائی اور پھر ایک ادا سے اپنی ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ سے کونے میں رکھے ہوئے ڈسٹ بن کا نشانہ لیا اور اُس کی طرف اُچھال دیا۔

” ویسے اس میں کچھ رول سیکس ہارمونز کا بھی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے شرارتی انداز میں اپنی آنکھیں بھینچ کر ثانیہ سے کہا

”اچھا۔ ۔ ۔ ” ثانیہ نے اسی طرح شرارتی انداز میں اچھا کو تھوڑا لمبا کھینچ کر کہا، ”مگر پروفیسر صاحب کیا اس سارے پروسس میں کچھ فرق پڑتا ہے جب منڈی پاکستانی اردو بولنے والی احمدی مسلم فیملی سے ہو اور منڈا ہندو ستانی پنجابی بولنے والی سکھ فیملی کا ہو ؟ ”

”کینیڈا میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے بچے، مگر ہندوستان اور پاکستان میں بڑا فرق پڑتا ہے۔ ” دلیپ نے ایسے منہ بنایا جیسے مار پڑنے والی ہو۔

پہلے تو ثانیہ بے ساختہ ہنس پڑی مگر پھر کچھ ہی دیر میں اُس کی ساری ہنسی غائب ہو گئی اور پھر اُس کا چہرہ یکایک سنجیدہ سا ہو گیا اور وہ آہستہ سے بڑبڑائی، ” پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ادھر کینیڈا میں بھی بہت فرق پڑتا ہے۔ ”

دلیپ نے ثانیہ کو جو یوں سیریس ہوتے ہوئے دیکھا تو آہستہ آہستہ اُس کے لبوں کی مسکراہٹ بھی دور ہوتی چلی گئی۔ پھر اُس نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر ثانیہ کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا اور آہستہ سے کہا، ” یہ جو ڈوپامین ہے نا ثانیہ جی، جو انکھیوں کے ملنے سے دماغ مہاراج جی سے نکلتا ہے یہ زندگی کو بچانے والا ہارمون ہے، جب یہ بچاتا ہے نا تو پھر یہ دھرم شرم وطن بطن کچھ بھی نہیں دیکھتا، یہ پھر آخری سانس تک لڑتا ہے۔ یہ بڑا ہی طاقتور ہارمون ہے ثانیہ جی، اور تمھیں پتہ ہے یہ جو زندگی ہے نا بس یہ محبت سے ہی پیدا ہوتی ہے اور اس محبت کے پیچھے وہی ڈوپامین ہے، مجھے تجھ سے محبت ہے یار اور میں تیرے بنا زندگی نہیں گزار سکتا۔ ” یہ کہہ کر اُس نے ثانیہ کے ہاتھوں کو پیار سے اپنی طرف کھینچ لیا۔ کچھ لمحات تک تو دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پیار سے تکتے رہے مگر پھر ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے اور پھر آہستہ سے اپنی آنکھیں بند کر لی اور ایک دوسرے کے پیار میں کھو گئے۔

کافی ہاوس کے باہر برف کی صورت پیار کی بارش ہو رہی تھی۔ ان کے آسمان سے زمین تک گرنے کے درمیان دور دور تک کہیں بھی رنگ مذہب یا نسل کے نام کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ دور کہیں برف کے بادلوں سے اٹے ہوئے آسمانوں کے اوپر ایک نیلا شفاف آسمان اور بھی تھا جو اُجلے اُجلے تاروں سے بھرا ہوا تھا جن کے اجالوں میں کوئی سایہ نہ تھا۔ سخت برفیلی سردی کے موسم میں بھی ثانیہ اور دلیپ کے بدن پسینہ پسینہ ہو رہے تھے اور دل کی دھڑکن تیز اور تیز ہو رہی تھی۔ کیا یہ سب کچھ صرف ڈوپامین اور سروٹینین کا اثر ہے یا کچھ آنکھوں سے اوجھل بھی ہے ؟ ثانیہ نے کنکھیوں سے کافی ہاوس سے جھانک کر اُس اوجھل کو جاننے کی ایک بار اور کوشش کی مگر چاروں جانب محبت کے تیز طوفان کو پاکر پیار سے دلیپ کے سینے سے لپٹ گئی اور پھر اپنی آنکھیں دھیمے سے بند کر لیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

چوتھا باب

 

وقت : صبح دس بجے

تاریخ:۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : شاہ فیصل کالونی نمبر ۵۔ کراچی

 

” ساری رات نہیں سویا ہے یہ، ذرا سی آنکھ لگتی نہیں ہے تو پھر چیخ کر اُٹھ جاتا ہے، اُٹھتا ہے تو پھر الٹیاں لگ جاتی ہیں، مجال ہے جو ایک دانا بھی پیٹ میں گیا ہو۔ ”بختاور نے عثمان کو پریشانی سے دیکھتے ہوئے ادریس سے کہا

” اچھا ٹھیر میں ابھی تھوڑی دیر میں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں وہ سوئی دے دے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ” ادریس نے پیٹھ کھجا کر بختاور کو جواب دیا پھر ایک لمبی سی جمائی لی اور کمرے سے دالان میں آ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا اور پھر منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا غسل خانے میں چلا گیا، ”لگتا ہے آج ٹھیک ٹھاک سالی بارش ہو گی۔ ” ابھی اُس نے غسل خانے کے دروازے کی اندر سے چٹخنی چڑھائی تھی کہ کوئی گلی میں کھلنے والے دروازے کو زور زور سے پیٹنے لگا۔ بختاور چیختی ہوئی اندر کمرے میں سی نکلی، ” کھولتی ہوں۔ ۔ کھولتی ہوں توڑو گے کیا دروازہ بھائی؟” یہ کہتے ہوئے اُس نے دروازے کی چٹخنی اتار دی۔ دروازہ کھلا تو تین چار سپاہی اور ایک سب انسپکٹر دروازے پر کھڑے ہوئے تھے۔

”ادریس گھر پر ہے ؟ ” سب انسپکٹر نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

” کیوں۔ ۔ ۔ ادریس سے کیوں ملنا ہے ؟ ” ان کے سوال کا جواب دینے کے بجائے بختاور نے اُن سے اُلٹا سوال دھر دیا۔ ” اوئے بندہ جلا دیا ہے اُس نے چار سو دو کا کیس بن رہا ہے اُس پر۔ ” انسپکٹر نے پھر تحکمانہ لہجے میں کہا۔ یہ سن کر بختاور نے فوراً کہا، ”وہ گھر پر نہیں ہے۔ آتا ہے تو اُسے بتاتی ہوں۔ ” بختاور نے کنکھیوں سے باتھ روم کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ انسپکٹر کی طرف دیکھ کر جواب دیا، ” اوئے بتانا نہیں ہے تھانے بھیج دینا۔ ” انسپکٹر نے ڈنڈا گھماتے ہوئے کہنا شروع کیا، ” بیان لینا ہے اُس سے، کل واردات ہوئی ہے چوک پر، بندہ مار دیا ہے کچھ لوگوں نے، اُس کا بھی نام ہے مارنے والوں میں۔ ” تھانہ دار یہ کہ کر پلٹ گیا اور بختاور نے دروازے کی چٹخنی اندر سے چڑھا دی اور پھر غسل خانے کے دروازے کو زور زور سے گھبراہٹ میں بجانے لگی، ” ادریس باہر نکل پولیس آئی تھی۔”

” اوئے آ رہا ہوں مر نہیں۔ ۔ ۔ ” ادریس باہر نکلا تو اُس کے چہرے پر وہی اطمینان تھا جو اندر جانے سے پہلے تھا، ”کیا ہو گیا ؟۔ ۔ ۔ کیوں شور مچا رہی ہے تو۔ ” ادریس نے تولیہ گلے سے نکالا۔

” پولیس آئی تھی تیرا پوچھ رہی تھی۔ ۔ ۔ کہہ رہی تھی کوئی بندہ مارا ہے تو نے ؟” بختاور نے روہانسی لہجے میں کہا۔

” اوئے وہ کل کے چکر میں آئی ہو گی۔ ” ادریس کے چہرے پر اب بھی وہی اطمینان تھا، ” تو فکر نہیں کر، وہ بلاسفمی کا کیس ہے، پولیس کی دو منٹ میں پھٹ جائے گی۔ ۔ ۔ تجھے میں نے کل رات نہیں بتایا تھا کہ وہ سالا کوئی کرسچن بھنگی، ہمارے نبی کریم کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ ۔ ۔ سالا حرامی لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا تھا، اس لیے بیس تیس لوگوں نے اُسے پکڑ کر مار دیا۔ ” اُس نے بختاور کی آنکھوں میں دیکھا، ” ابے تجھے نہیں پتہ؟ یہ تو سالا ثواب کا کام ہے۔ اپنے مولوی سلیم اللہ نے خاص طور پر بتایا تھا کہ محلے میں ان سب باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ ۔ ۔ اچھا ٹھیر میں ابھی ذرا مولوی سلیم اللہ کو بتا تا ہوں تاکہ وہ تھانہ جانے سے پہلے ہی کچھ بند و بست کر دیں۔ ” یہ کہہ کر ادریس نے سیل فون سے مولوی سلیم اللہ کو فون ملایا اور بتانے لگا، ” جی مولوی صاحب علاقے کا سب انسپکٹر گھر پر آیا تھا دو تین پولیس والوں کو لے کر۔ ۔ ۔ جی جی۔ ۔ ۔ میری بیوی کو تڑی مار کر گیا ہے۔ ۔ ۔ جی جی۔ ۔ ۔ اچھا۔ اچھا ٹھیک ہے جیسے آپ کہیں مولوی صاحب۔ ” پھر وہ بختاور کی جانب دیکھتے ہوئے بولا، ”لے بھئی بختاور کام ہو گیا ابھی تیس چالیس لوگ آ رہے ہیں مدرسے سے، نعرہ بازی کرنی ہے تھانے پر، اس انسپکٹر کی تو ابھی بجاتے ہیں، سالا کنجر تڑیانے رہا ہے زنانی کو۔ ” یہ کہتے ہوئے ادریس دالان سے کمرے میں واپس چلا گیا اور پھر الماری سے ایک ٹوپی نکال کر پہنی اور واپس دالان میں آ گیا۔ پھر کچھ سوچ کر وہ دوبارہ کمرے میں آیا اور اُسی الماری سے مولوی سلیم اللہ کا دیا ہوا ایک اسکارف بھی گلے میں ڈال لیا مگر جونہی اُس نے الماری کا پٹ بند کیا اُس کی کھڑکھڑ اہٹ سے عثمان کی اچانک آنکھ کھل گئی اور جونہی ادریس پر اُس کی نظر پڑی وہ ہسٹریائی انداز میں زور زور سے چیخنے لگا، ”نہیں مجھے نہ جلانا، مجھے نہ جلانا، آگ آگ۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر وہ بسترپرا س بُری طرح سے اچھلنے لگا جیسے سچ مچ اُس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی ہو اور پھر وہ اپنے پیروں سینے اور پیٹ پر جلدی جلدی ہاتھ پھرنے لگا جیسے کوئی بھڑکتی ہوئی آگ بجھا رہا ہو۔

”اوئے عثمان۔ کیا ہو گیا بچہ۔ ۔ ۔ ” ادریس دوڑ کر اُس کے قرب آیا اور اُس کو پکڑنے کی کوشش کی مگر عثمان نے وحشت سے خود کو ادریس سے چھڑایا اور پاگلوں کی طرح بھاگ کر دالان میں آ گیا اور پھر بختاور کے پیچھے چھپ گیا، ” اماں مجھے بچا لے۔ ۔ اماں مجھے بچا لے۔ ۔ ۔ ” کی تکرار کرتے ہوئے عثمان کبھی بختاور کے دائیں جانب جاتا تھا تو کبھی بائیں جانب مگر ادریس کو اُسی طرح وحشت زدہ نظروں سے دیکھتا رہا۔

”اوئے اس تخم کو کیا ہوا یار؟ ” ادریس نے نے ٹھوڑی پر ہاتھ پھرتے ہوئے عثمان کو حیرانگی سے دیکھا اور بختاور سے کہا، ” تو فکر نہ کر۔ ۔ میں تھانے سے واپسی میں ڈاکٹر منظور احمد کو گھر لاؤں گا، وہ انجکشن دیں گے تو یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔ ۔ مجھے لگتا ہے کل کا سین دیکھ کر کچھ ڈر شر گیا ہے شاید۔ ۔ ۔ ” یہ کہتے ہوئے ادریس گھر سے باہر نکل گیا اور پھر مولوی سلیم اللہ سے ملنے مسجد کی طرف تیز تیز قدموں جانے لگا مگر ابھی اُس نے اپنے گھر والی گلی کو پار ہی کیا تھا کہ نکڑ پر کھڑے ہوئے رب نواز نے اُسے زور سے آواز دی، ”ابے ادریس۔ ” ادریس نے پلٹ کر دیکھا تو رب نواز دوڑتا ہوا اُس کے قریب آ گیا اور پھر اُس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر سرگوشی کے لہجے میں کہنے لگا، ” ابے کل والا سین آگے بڑھ گیا ہے استاد۔ ۔ ۔ کل ہی رات کو پولیس کلو کو اُٹھا کر لے گئی ہے۔ ”اُس نے ادھر اُدھر دیکھا، ” دس بارہ نام لیے ہیں کلو نے، تیرا نام تو ٹاپ پر ہے۔ ۔ ۔ باس تو نکل لے ادھر سے۔ ۔ ۔ سالا ابھی معاملہ بڑا گرم چل رہا ہے۔ ”

جواب میں ادریس نے آنکھیں بھینچ کر کہا، ” ابے ان کی ماں کی۔ ۔ ۔ سالے ہاتھ تو لگا کر دیکھے، میرے پیچھے پوری مسجد ہے، مدرسے کا لشکر ہے لشکر سمجھا۔ ۔ ۔ ابے کلو سمجھ لیا ہے کیا میرے کو ؟ تھانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ” پھر اُس نے کچھ گردن اونچی کی اور رب نواز کی آنکھوں میں آنکھیں،ڈالتے ہوئے کہنے لگا، ”سالے دین کا معاملہ تھا کوئی میری جاتی دشمنی نہیں تھی اُس حرام کے تخم سے۔ ” اور پھر غصے میں ادریس نے زمین پر تھوک دیا، ”دیکھ بھائی ایک بات سن لے، حرمت رسول پر ہماری جان بھی قربان ہے۔ یہ پولیس کے ڈھکن، انہیں کیا پتہ ایمان کیا ہے ؟ نبی کی عزت کسے کہتے ہیں ؟ سالے سور کا گوشت کھانے والے حرامی رشوت خور۔ ۔ ۔ ۔ ”

ابھی ادریس کا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک پجیرو جیپ اور ایک سفید ٹیوٹا کار اُس کے قریب ہی دھول اُڑاتی ہوئی رک گئی۔ ٹیوٹا میں سے تین چار مولوی شکلوں کے لوگ گاڑی سے باہر آئے اور بہت ہی احترام سے ادریس کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر گاڑی میں اُسے ساتھ ہی بٹھا لیا۔

ابھی ان کی گاڑی دو قدم ہی چلی تھی کہ ادریس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور کھڑکی سے منہ نکال کر چیخ کر کہا، ” اوئے رب نواز، یار ایک کام تو کر دے بھائی، ذرا ڈاکٹر منظور کو کلینک سے لے کر میرے گھر چلے جا، یار عثمان کی طبیعت خراب ہے۔ ”

”تو فکر نہ کر بھائی میں دیکھ لوں گا۔ ۔ ۔ ” رب نواز نے ہاتھ ہلا کر ادریس کو جواب دیا۔ اور دونوں گاڑیاں دھول اُڑاتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ۔ ۔ تو رب نواز نے سگریٹ سلگائی اور ایک لمبا کش لے کر ہوا میں دھواں چھوڑا اور پھر ڈاکٹر منظور احمد کی کلینک والی گلی کی جانب قدم اُٹھانے لگا۔

ڈاکٹر منظور نے گھر پہنچ کر عثمان کو پہلے تفصیل سے دیکھا اور پھر بختاور کو کمرے کے ایک کونے میں لے جا کر کہا، ” کیا بچپن ہی سے آگ سے ڈرتا ہے ؟ ”

” نہیں ڈاکٹر صاحب۔ ” وہ بتانے لگی، ” ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا بلکہ پچھلی شب برات میں تو خوب ہی پٹاخے پھوڑے تھے اِس نے، اور پھول جھڑی بھی بہت ساری جلائیں تھیں۔ گھر میں روٹی پکتی ہے تو باورچی خانے میں آتا جاتا رہتا ہے کبھی بھی کچھ نہیں ہوا۔ مگر کل شام سے اس کا بُرا حال ہے۔ بات یہ ہے کہ کل شام چوک پر جو بندہ مرا تھا نا چورنگی کے پاس، وہی جس نے نبی کی شان میں بے ادبی کی تھی، بس یہ وہی کھڑا ہوا تھا اور سب کچھ دیکھ رہا تھا، بس پھر کل شام کے بعد سے یہی حال ہے۔ اور۔ ۔ ۔ ” بختاور نے جب نان اسٹاپ بولنا شروع کیا تو ڈاکٹر نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روکا اور کہا، ”ہاں میں نے سنا تو تھا کل کوئی واقعہ ہوا تھا چوک پر۔ ۔ ۔ کسی کو پکڑ کر لوگوں نے زندہ جلا دیا تھا۔ ۔ ۔ خیر میرا خیال ہے بچے کو ہسٹریائی دورے آ رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ کل کے واقعہ کی وجہ سے ہی ہو۔ جو کچھ اُس نے دیکھا ہے، یہ اُس کا صدمہ ہو یا پھر ڈر گیا ہو، فکر نہ کرو ٹھیک ہو جائے گا، تھوڑا وقت لگے گا سب بھول جائے گا۔ ۔ ۔ بس یہ دوائیں دیتی رہو۔ اگر فرق نہ پڑے تو کلینک لے آنا یا مجھے بلا لینا، میں آ کر پھر دیکھ لوں گا۔ ابھی میں اسے ایک انجکشن لگا دیتا ہوں یہ کہہ کر انہوں نے جونہی عثمان کو دوبارہ دیکھا تو عثمان پھر سے ہسٹریائی انداز میں چیخنے اور رونے لگا اور پھر یکا یک اُس نے بستر سے چھلانگ لگائی اور بختاور کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرنے لگا۔

بختاور نے اُس کو پچکارا، ”نہ میرے لال ضد نہیں کرتے شاباش انجکشن لگوا لے۔ ”

مگر عثمان اور بھی زور زور سے چیخنے لگا۔ ۔ ۔ آگ آگ اماں آگ، دیکھ نہ اماں دیکھ نا ” یہ کہہ کر اُس نے بے تحاشا اچھلنا اور کپڑوں کو ہاتھوں سے ملنا شروع کر دیا جیسے واقعی کسی نے اُس کے کپڑوں میں آگ لگا دی ہو۔

” رب نواز اس کو پکڑنا۔ ” جونہی ڈاکٹر نے یہ کہہ کر رب نواز کو اشارہ کیا تو عثمان نے ایک جھٹکے سے بختاور کا ہاتھ چھڑایا اور ڈاکٹر کو دھکا دے کر کمرے سے نکلا اور گلی کے دروازے سے سے باہر نکل گیا۔ رب نواز اور بختاور بھی اُس کے پیچھے فوراً دوڑے مگر وہ پلک جھپک کر نکڑ تک پہنچ گیا اور پھر بھاگتا ہوا گلی کے کونے کی آدھی ٹوٹی دیوار کے پیچھے جا کر چھپ گیا اور گھٹنوں کے درمیان اپنا سر چھپا کر زور زور سے کانپنے لگا۔

٭٭٭

 

 

 

پانچواں باب

 

وقت : صبح گیارہ بج کر تیس منٹ

تاریخ:۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : کابل، افغانستان

 

 

دو گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جب ناظر عزیزی کی کال نہیں آئی اور اُس کا نمبر بھی مسلسل مصروف ملتا رہا تو واحدی نے تنگ آ کر کالج کے ایک اور پروفیسر نعمت اللہ خان کو کال ملائی مگر ابھی بیل بجنا شروع ہی ہوئی تھی کہ ناظر عزیزی کی کال آ گئی۔ واحدی نے فوراً نعمت اللہ خان کی کال کو آف کر کے ناظر عزیزی کی کال لے لی، ”کہاں ہو تم ناظر؟ صبح سے تمھیں کئی بار کالز کر چکا ہوں، کیا چل رہا ہے یونیورسٹی میں ؟ مجھے تم نے اُس کے بعد اپ ڈیٹ(update) تک نہیں کیا یار۔ ” واحدی نے ہلکی سی تشویش اور خفگی کے ملے جلے تاثر سے کہا۔

”بس یار میں خود یہاں کچھ چکروں میں گھر گیا تھا۔ اصل مسلۂ یار یونیورسٹی کا نہیں تھا بلکہ بات تمھارے کسی آرٹیکل کی تھی جو کل صبح ٹائم آف افغانستان میں چھپا تھا۔ بس اُسی آرٹیکل پر کچھ طلبہ تنظیمیں تمھارے خلاف ایجی ٹیشن کر رہی تھیں اور تمھیں تو پتہ ہے کچھ اپنے پڑھانے والے بھی اِن کے پیچھے ہیں تاکہ تمھارے خلاف آگ لگا سکیں، یہ گروپ تمھارے آگے کچھ اور ہیں مگر پیچھے سے طالب علموں کو تمھارے خلاف بھڑکاتا رہتا ہے۔ بہر حال میں نے آرٹیکل تو نہیں پڑھا مگر میں نے سنا ہے کہ تم نے شاید اُس میں قومی اور مذہبی آئڈیالوجی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے کہ یہ سب سراسر مصنوعی افکار ہیں اور ان سب کا تعلق محض معاشیات و اقتصادیات کے لیے سیاست سے ہے اور اگر ان کے پیچھے ایسے خود غرضانہ مالی فوائد نہ ہوتے تو انہوں نے کب انسانی تاریخ سے ہی ضائع ہو جانا تھا یا شاید تم نے ایسا ہی کوئی بھاری جملہ بھی کہیں لکھ دیا ہے کہ مذہب اور قوم کے تصور نے اس دنیا کو انسانوں کے بجائے کسی اور ہی پر تشدد مخلوق کی دنیا کا نقشہ بنا دیا ہے۔ تم نے کہا ہے کہ حیوانوں کی دنیا کا نقشہ تو عین فطری ہے مگر انسانوں کے قومی اور مذہبی تصورات کی وجہ سے اُن کی دنیا کا نقشہ بد نمائی کی حد تک مصنوعی اور مصنوعاتی ہو گیا ہے۔ ”

” ہاں ہاں تو کیا غلط کہا ہے ؟۔ ۔ ۔ ناظر یار یہ آرٹیکل کوئی نیا تو نہیں ہے یہ تو ٹائم آف افغانستان میں آج سے تین مہینے پہلے واشنگٹن پوسٹ میں بھی چھپ چکا ہے مگر وہاں تو کسی کے کان پر بھی جوں بھی نہیں رینگی۔ ” واحدی نے اکتا کر کہا، ”یار یہ نالائق لوگ کب بڑے ہوں گے ؟ ”

”اب یہ تو مجھے پتہ نہیں بھائی کہ کب بڑے ہوں گے، بڑے بھی ہوں گے یا اور چھوٹے ہو جائیں گے مگر یار تجھے سمجھنا چاہیے وہ واشنگٹن ہے اور یہ کابل ہے، خیر تم ایک کام کرو ابھی تم فوراً اپنے گھر مت جانا کیونکہ میں نے اُڑتی ہوئی یہ بات سنی ہے کہ اِن تنظیموں کے پیچھے کچھ شدت پسند جماعتیں بھی ہیں، اب تجھے اپنے ماضی کا تو پتہ ہی ہے نا، اس لیے بہت ممکن ہے تمھارے گھر پر بھی کچھ پتھراؤ وغیرہ ہو جائے۔ ” ناظر عزیزی نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا، ” اچھا تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ابھی تم میرے ہی گھر آ جاؤ اور اِس سارے آندھی طوفان کو گزر جانے دو، دو چار دن کی تو بات ہے پھر واپس چلے جانا جب سب معاملہ ٹھنڈا ہو جائے۔ ”

”کیا بکواس ہے یار۔ ۔ کہاں پیدا ہو گئے ہیں ؟ کھل کر بات تک نہیں کر سکتے، کھل کر لکھ نہیں سکتے ” واحدی نے چڑ کر کہا۔

”ویل پیدا تو ہو گئے یہ ٹھیک ہے پر اِن کے ہاتھوں مرنا نِری بے وقوفی ہے۔ میری بات سمجھا کر و بھائی میں یونیورسٹی سے گھر جا رہا ہوں، ابھی یہاں کوئی کلاس نہیں ہو رہی ہے، تم بھی سیدھا میرے گھر آ جاؤ۔ میں تمھاری بھابی کو فون کر کے تمھاری پسند کے لیمب کباب اور بولانی بنواتا ہوں۔ ” ناظر عزیزی نے اُسے دعوت دیتے ہوئے کہا۔

” چلو پھر ٹھیک ہے، تم جیسا کہو یار، پھر میں ابھی تمھاری طرف ہی آ جاتا ہوں۔ ” یہ کہ کر واحدی نے فون بند کیا اور ریسٹورانٹ کی پارکنگ سے کار نکالی اور واپس ہائی وے پر آ گیا۔

تقریباً دو ڈھائی گھنٹے کے بعد وہ اور ناظر عزیزی ساتھ بیٹھے ہوئے لیمب کباب، بولانی اور کابلی پلاؤ سے لنچ کر رہے تھے، دونوں کے درمیان گفتگو کا موضوع صبح کا آرٹیکل ہی تھا۔ واحدی اپنے مخصوص تقریری انداز میں کہہ رہا تھا، ”بھائی میں نے یہ ہی تو لکھا ہے نا کہ قومیت اور مذہب کے تصورات انسانی ضرورتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تصورات معاشیات یا اقتصادیات کے سہارے پرورش پاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ فرد کی حد تک انسان کی نفسیات اور اقتصادیات کا رشتہ سہل نظر آتا ہے کیونکہ اقتصادیات مثبت نفسیاتی نتائج دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے مگر اجتماعی طور پر جب قومیت اور مذہب کو اقتصادی مصنو عات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو یہ رشتہ پیچیدہ ہوتا چلے جاتا ہے خصوصا ٌ جب یہ دونوں مصنوعات ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بازار سے برامد ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات فرد کے ساتھ ساتھ پوری قوم پر پڑنے لگتے ہیں۔ بھئی اگر ہم تہذیبی ارتقا ء میں جا کر دیکھیں تو قومیت ہو یا مذہب دونوں کے تانے بانے قبائلی کلچر سے شروع ہوتے ہیں۔ پہلے ایک فرد پھر خاندان پھر ایک محلہ اور پھر ایک قبیلہ اور پھر پورا گاؤں اور آخر میں چند گاؤں آپس میں ملتے ہیں تو ان میں زبان، رسوم رواج، مذہب اور لباس اور قومیت کے مصنوعی تصورات ہی تو ہیں جو ایک دوسرے کو جوڑنے کے لیے گوند کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ۔ نہیں ؟”

ناظر عزیزی نے درمیان سے واحدی کی بات کاٹ کر کہا، ” اسی بات پر تو اعتراض ہے بھائی لوگوں کو۔ ۔ ۔ ” ناظر نے ایک اور لیمب کباب واحدی کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا، ” اُن کا خیال ہے کہ تم نہ تو افغانی ہو اور نا ہی مسلمان۔ ۔ ۔ بس تم ایک کافر ہو جو مذہب پر یقین نہیں رکھتا ہے اور شاید دشمنوں کے ایجنٹ بھی ہو۔ ۔ ۔ تبھی تو قومیت کے تصور پر بھی تنقید کرتے ہو کیونکہ تمھیں اپنے ملک سے محبت جو نہیں ہے۔ ”

واحدی نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روکتے ہوئے کہا، ” نہیں نہیں یار یہ ایسا سادہ نہیں ہے۔ یہ لوگ ابھی اتنے بچے بھی نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ دوسروں کو دکھانے کے لیے ایسا رویہ دکھاتے ہیں تاکہ لوگ ہم سے نفرت کریں۔ اس سارے جھگڑے کے پیچھے بھی سیاست ہے۔ ۔ ۔ ایک خود غرضانہ سیاست اور یہ سب کا سب اقتصادی معاملہ ہے۔ اُنہیں ایسے نظریات چاہیے ہی نہیں جس سے اُن کی کمائی میں کمی آئے۔ ۔ ۔ ابھی اس بازار میں سب سے اچھا چورن مذہب اور قومیت ہی کا بِک رہا ہے تو کون اپنی چلتی ہوئی دوکان بند کروائے گا ؟۔ ۔ ۔ مگر میرے بھائی ہر مال کے بکنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے اور اُس کا ایک بازار بھی، اب دیکھو نا ایک زمانہ تھا لوگ گرام فون پر گانے سنتے تھے مگر آج کل سی ڈی پلیر کا زمانہ ہے، اب لوگ ایم پی تھری پلیر پر گانے سنتے ہیں۔ ”

ناظر عزیزی نے ہنستے ہوئے کہا، ”چلو میں تمھاری بات مان بھی لوں مگر یہ نا بھولنا کہ ہم ایک ایسی قوم کے فرد ہیں جہاں سو چنے اور بات کرنے پر پابندی ہے۔ ۔ ۔ تمھیں یہ لوگ نقصان پہنچا سکتے ہیں بھائی تم سمجھتے کیوں نہیں۔ ۔ ۔ ؟”

مگر واحدی نے ناظر عزیزی کے جملے کو سنی ان سنی کرتے ہوئے آخری نوالہ منہ میں رکھا اور پانی کے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھا تے ہوئے اپنی ہی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ” دیکھو بھائی ابھی انٹر نیشنلزم کا زمانہ ہے۔ اب لوگ گلوبل ورلڈ کے باسی ہیں جہاں مختلف اقسام کے مذہب، قومیت، رنگ، نسل اور زبانوں کے لوگ مل جل کر ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور اگر اُن کے درمیان کی کوئی شے اُنہیں آپس میں جوڑتی ہے تو وہ محض اقتصادیات ہے۔ ۔ ۔ یہ زیادہ پرانی بات تو نہیں ہے کہ دوسری عظیم جنگ میں سارا مغرب ایک دوسرے سے قومیت اور مذہب کے نام پر گتھم گتھا ہو گیا تھا، پو لینڈ پر جرمنی اور جرمنی پر فرانس بم مار رہا تھا مگر آج ساری جغرافیائی سرحدیں مٹا کر ایک ملک کی طرح۔ ۔ ۔ اب یہی لوگ بغیر ویزے کے پورے یورپ میں آ جا رہے ہیں تو کہاں گیا وہ سارا نیشنل ازم جو پچاس سال پہلے خون پی رہا تھا ؟ اور اب یہ ڈھیر ساری محبتیں راتوں رات کہاں سے پیدا ہو گئیں ؟ ارے بھائی صرف اور صرف اقتصادیات اور کچھ بھی نہیں۔ ”

واحدی نے پانی کا ایک بڑا گھونٹ لیا اور اُس کی گفتگو کچھ دیر کے لیے ٹوٹ گئی۔

”اچھا مان لیا قومیت پر تمھارا نقطہ نظر ٹھیک ہو گا مگر مذہب کے بارے میں تم کیا کہو گے ؟۔ ۔ ۔ اِس پر تو سیدھا سیدھا خون خرابا ہو جائے گا، جونہی کوئی مولوی سنے گا کہ مذہب کا خیال ہی مصنوعی ہے تو تمھاری بات کا یہی مطلب نکالا جائے گا کہ خدا ہے ہی نہیں، پھر اُن کے لیے تو یہ سیدھی سادی دہریت ہو گئی نا؟ ” یہ کہہ کر ناظر عزیزی نے میٹھے کی طرف ہاتھ بڑھا کر اُسے واحدی کی جانب کھسکا دیا اور آنکھ کے اشارے سے اُسے لینے کے لیے کہا۔ واحدی نے مسکرا کر میٹھے کو دیکھتے ہوئے کہا، ”یہی تو سب سے کڑوا موضوع ہے یار، اِس پر تو بات کرنے کے لیے تو منہ میٹھا کرنا ہی پڑے گا۔ ۔ ۔ مگر اس کا جواب تمھیں میرے چند سوالوں سے مل جائے گا بھائی۔ ۔ ۔ کیا وجہ ہے آج مغرب میں چرچ خالی ہو رہے ہیں اور مشرق میں مسجدیں ہمیشہ کی طرح دن بدن بھرتی جا رہی ہیں ؟ کیا وجہ ہے مغرب میں فلسفہ اور سائنس عروج پر نظر آتے ہیں اور مشرق والے اُن سے قطعی بے بہرا ہیں۔ ۔ ۔ اگر کہیں سائنس نظر آتی بھی ہے تو چین یا جاپان میں جہاں روایتی مذہب نہیں رہا اور فلسفہ بھی اسی لیے کیونکہ وہ اُس سے جڑا ہوا نہیں ہے، ویسے بھی مذہب ٹھیک و ہیں پر ختم ہو جاتا ہے جہاں پر فلسفہ شروع ہوتا ہے۔ تھوڑا بہت مذہب اگر چین یا جاپان میں ہے بھی تو بدھا مذہب ہے اور وہ خدا کے سہارے کے بغیر ہے۔ ۔ ۔ یعنی فلسفہ ہی فلسفہ ہے۔ ایک ہندوستان ہے جو اب تقسیم کے بعد کچھ نئی شکل دکھا رہا ہے۔ رہ گیا اُس کا ایک حصہ پاکستان جو روایتی مذہب کے چنگل میں پھنس گیا ہے یا اقتصادی فائدوں کے خاطر پھنسا دیا گیا ہے۔ تو اُس کے حالات دیکھ لو اور ہندوستان کے حالات بھی دیکھ لو، ہے نا دونوں جانب زمین آسمان کا فرق؟۔ ۔ ۔ تو بھائی اگر مذہب واقعتاً کوئی فطری واقعہ ہے تو فطرت اس کے ماننے والوں کے ساتھ بھلا ئی کیوں نہیں کر رہی ہے ؟ اب مجھے وہ گھسی پٹی بات نہیں کرنا جو مخصوص مذہبی ذہن کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ذہنی ارتقا کچھ علاقوں میں ہوا ہے اور کہیں رک گیا ہے۔ کہیں کا سماج مذہب سے آگے بڑھ گیا تو کہیں کا اُس سے پیچھے رہ گیا ہے۔ جہاں سائنسی دماغ نے ترقی کر لی وہاں چرچ خالی ہو گئے اور لوگوں کی زندگی خوشحال ہو گئی، جہاں سا ئنسی دماغ پیدا نہیں ہوا وہاں اقتصادی بدحالی آ گئی اور لوگوں کی زندگی بھی بد حال ہو گئی۔ بھائی میرے، ترقی کا سارا دارومدار اقتصادیات پر ہے جب مذہبی دور تھا تو اقتصادیات اُس سے جڑی ہوئی تھی۔ ایک پنڈت ایک مولوی ایک پیغمبر ایک خدا کا بیٹا آڑ میں رہتے تھے اور جو طاقتور تھا اُن سے جڑ کر حکومت کر رہا تھا۔ ابھی اُن لوگوں کی ضرورت ختم ہو گئی سائنس نے اُن کے بغیر ہی قوموں کو طاقتور کر دیا ہے۔ بڑے بڑے میزائل اور بم موجود ہیں تم خدا کو مانو یا نا مانو، کس کو پروا ہے ؟ انگلی کے اشارے پر تمھاری زندگی ہے۔ ابھی پر چار کا زما نہ گیا، یہ چورن اب صرف گلیوں محلوں کی سیاست کے لیے بکتا ہے تاکہ چھوٹے موٹے غریب ملکوں کے کچھ عیار لوگ عوام کو چونا لگا کر بڑی طاقتوں سے کچھ مال بٹور سکیں مگر یہ بھی ارتقا ئی عمل ہے، پچیس پچاس سال کے بعد یہ اور نہیں بک پائے گا بازار میں، خود سائنسی معاشرہ ہی اس دوکان کو آگے بڑھا دے گا۔ میرے بھائی بھلا طوفان کے آگے بھی کبھی تنکے کنکر وغیرہ ٹھہر پاتے ہیں ؟”

ناظر عزیزی نے ہنستے ہوئے کہا، ” اچھا تو تمھاری خیال میں ضرورت ایجاد کی ماں ہے ؟ ”

”ہاں اور اقتصادیات باپ ہے اور جس کی بہت ساری بیویاں ہیں ان میں سے جو سب سے زیادہ خوبصورت ہے اُس کا نام مذہب ہے۔ اُس کی دوسری بیوی کا نام قومیت ہے، تیسری زبان تو چوتھی رسوم و رواج، اب جسے چاہے وہ بازار میں لے آئے اُس کا کوئی دین ایمان تھوڑا ہی ہے۔ ” یہ کہہ کر ہنستے ہوئے واحدی اپنی کرسی سے اُٹھ گیا۔

” ہاں مگر۔ ۔ ۔ اُس کے کچھ بچے بگڑے ہوئے ہیں اُن سے زرا بچ کر۔ ۔ ۔ ” ناظر عزیزی نے تھوڑا سا سنجیدہ ہو کر جملہ لگایا۔

”میں سمجھ سکتا ہوں یار۔ ۔ ۔ چلو آؤ، چائے پیتے ہیں اور سوچتے ہیں آگے کیا کرنا ہے ؟ ” واحدی یہ کہہ کر ڈائنگ ٹیبل سے اُٹھ کر ہاتھ دھونے باتھ روم کی طرف چلا گیا اور پھر دونوں دوست واپس بیٹھک میں آ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چھٹا باب

 

وقت: بارہ بج کر تیس منٹ رات

تاریخ: ۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

 

دروازے کے کھلنے کی دھیمی سی آواز اور مما کی دھاڑتی ہوئی تیز آوازیں جو آپس میں ملیں تو ثانیہ کے سارے بدن میں ایک خوف کی لہر سی دوڑ گئی۔ اُسے لگا جیسے ایک طوفان کسی چیتے کے مانند گھر کے جنگل میں دبک کر اُس کی واپسی کے انتظار میں اُسے دبوچنے کے خاطر تیار بیٹھا ہوا تھا۔ مگر یہاں صرف چیتا ہی نہیں تھا بلکہ اُس کے پیچھے ایک شیر بھی غصے میں کھڑا ہوا میں ہانپ رہا تھا۔ مما کے پیچھے پپا دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کس کر کھولتے ہوئے اُسے غصے سے گھور رہے تھے کہ جیسے ابھی اسے چیر پھاڑ کر اُسے کھا جائیں گے۔

”آ گئی بے حیا پو چھیں اِس سے کیا گل کھلا رہی تھی اِس وقت آدھی رات میں وہاں اسٹار بکس میں ؟”پپا نے اُس کو دیکھتے ہوئے چیخ کر اپنے سامنے ہی کھڑی ہوئی مما کو دیوار کی گھڑی دکھاتے ہوئے کہا۔

”مجھ سے مت کہیے۔ ۔ ۔ اوہ خدایا۔ ”، مما جو شاید ابھی ابھی آدھی نیند سے اُٹھائی گئی تھیں، اُنھوں نے اُسے گھورتے ہوئے دیکھا اور پھر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر لیونگ روم کی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔

”بے شرمی بے حیائی کی حد یں ہوتی ہیں ! یہ پٹ جائے گی میرے ہاتھوں سے۔ ۔ ۔ اس سے کہو دور ہو جائے میری نظروں کے سامنے سے۔ ” پپا نے شعلے برساتی ہوئی آنکھوں سے اُسے گھورتے ہوئے کہا، اُن کے منہ سے اُڑتا ہوا تھوک اُسے دور سے دکھائی دے رہا تھا۔

” تمھیں شرم نہیں آ رہی تھی اُس سکھ لڑکے کے ساتھ ؟۔ ۔ ۔ کیا بے شرمی تھی وہ سب؟” مما نے چنگھاڑتے ہوئے اُسے کہا

ثانیہ کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی خوبصورت رومانی ملاقات کا انجام اس قدر درد ناک ہونے والا تھا۔ اُس نے فرش کو تکتے ہوئے کہا، ” مما اُس کا نام دلیپ ہے میری ہی یو نیورسٹی میں پڑھتا ہے۔ ۔ ۔ اور ہم دونوں اچھے دوست ہیں۔ ” اور پھر اُس نے ایک لمحے کا وقفہ دے کر جھٹکے سے کہہ دیا، ” ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ ”

”چپ ہو جا کمبخت دوزخ کی آگ میں جلے گی تو۔ ۔ ۔ ” مما نے جواب میں چیخ کر کہا۔

” میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسی بے حیا، بے غیرت اولاد ہو گی میری ؟ ” پپا اب سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُسے گھورتے ہوئے زور سے بڑبڑانے لگے تھے، ”پہلے تو کسی کے ساتھ شادی سے پہلے ملنا ہی گناہ ہے پھر وہ بھی غیر مسلم سے۔ ۔ ۔ اور وہ بھی باہر چائے خانوں میں سب کے سامنے۔ ۔ ۔ اخ تھوں کتنی شرم کی بات ہے، ایسی اولاد پیدا ہونے سے پہلے مر کیوں نہیں جاتی ہے ؟۔ ۔ ۔ کل تک میں لوگوں کی ایسی اولادوں کا سنتا تھا تو اُنہیں سمجھاتا تھا اور آج میری اپنی ہی اولاد یہ گل کھلا رہی ہے۔ ” پپا نے ‘یہ’ پر زور دے کر چیختے ہوئے کہا ”اس سے پو چھو نیلوفر۔ ۔ ۔ ” پپا نے اب کی بار مما کو مخاطب کرتے ہوئے چیخ کر کہا، ” اس کو ہم نے یو نیورسٹی میں عشق لڑانے بھیجا تھا یا تعلیم حاصل کرنے ؟ ارے اولاد اگر ایسی دھوکے باز ہو تو کوئی کیا کرے ؟”

”کرے کیا جی۔ ۔ ۔ ” مما نے پپا کا ہی جملہ دہرایا اور پھر اُسی لہجے میں ڈپٹ کر کہا ‘لڑکی کی شادی کر دو بس۔ ۔ ۔ بہت ہو گیا پڑھنا لکھنا، کوئی اچھی سی احمدی فیملی دیکھو اور اسے رخصت کرو۔ میں تو کہتی ہوں اگر یہاں اچھا رشتہ نہ ملے تو پاکستان چلو، بس بہت ہوا ہو گئی سب تعلیم وغیرہ، اِس کی یونیورسٹی ختم آج سے۔ ” ثانیہ کو لگا جیسے مما آج ہی اُس کے مستقبل کو ٹھکانے لگا دیں گی۔

”ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔ ۔ ۔ کوئی ضرورت نہیں کل سے یونیورسٹی جانے کی بیٹھو گھر میں بی بی، بہت ہو گیا یہ ڈرامہ تعلیم کا۔ ۔ ۔ ” پپا نے بھی مما کی طرح وہی کچھ کہا جو مما سننا چاہ رہی تھی۔

”اونہہ، گھر میں بیٹھو۔ ۔ ۔ ” ثانیہ نے دل میں سوچا مگر منہ سے نہیں کہا، اُسے لگا کہ اگر اس وقت اُس نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو اُس کے مما پپا بس اُسے کچا ہی چبا جائیں گے۔ یہ سوچ کر وہ اپنے کمرے میں جانے کے لیے آہستہ آہستہ سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھانے لگی مگر پیچھے سے مما کی چیختی ہوئی آواز نے پھرسے اُس کے قدم روک لیے، ” کہاں جا رہی ہو تم، ابھی ہماری بات ختم نہیں ہوئی ہے، ہمیں بتاؤ یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے ؟” مما کی زبان آگ اُگل رہی تھی۔

”پچھلے دو سال سے۔ ” ثانیہ جہاں تھی وہی رک گئی اور پھر مما پپا کی طرف دیکھے بغیر ہی آہستہ سے جواب دیا

”تو دو سالوں سے تم ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو ؟ ”

”مما میں کوئی دھول نہیں جھونک رہی ہوں۔ آپ نے پوچھا نہیں اسی لیے میں نے بتا یا نہیں اور مجھے یہ پتہ تھا کہ آپ لوگ ایسے ہیری ایکٹ (react)کر یں گے۔ ” ثانیہ کی آنکھوں میں اب آنسو آنے لگے تھے اور آواز بھی بھرانے لگی تھی، ” کیونکہ وہ سکھ ہے میں مسلم اور وہ بھی احمدی اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپ لوگ احمدیوں میں ہی میری شادی کرنے کے پابند ہیں، کیونکہ آپ ہمیشہ سے یہی کہتی رہی ہیں مجھ سے، جب سے میں بڑی ہوئی ہوں تاکہ میں اس بات کو یاد رکھوں کہ ہمارے یہاں ار ینجڈ  میرج (arranged Marriage)ہوتی ہے اور وہ بھی صرف اپنے ہی لوگوں میں، اب اگر میں یہ آپ کو بتا دیتی کہ مجھے ایک لڑکا پسند ہے اور وہ سکھ ہے تو آپ نے کب مجھے معاف کر دینا تھا، آپ وہ ہی اُس وقت کرتی نا جو آج کر رہی ہیں۔ مما ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے، ہاں ہم ایک دوسرے سے ملتے ہیں کیونکہ ہم ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ ” ثانیہ نے جیسے ایک سانس میں ہی اپنے دل سے سارا طوفان نکال دیا اور پھر سے فرش کو تکنے لگی۔

” تو تمھارے ارادے کیا ہیں بی بی ؟” مما نے یہ سن کر تنک کر کہا

”مما مجھے نہیں پتہ آپ کیا پوچھنا چاہتی ہیں اور آپ کو کونسی بات زیادہ بری لگ رہی ہے ؟ یہ کہ مجھے ایک بندہ کیوں اچھا لگتا ہے ؟ یا یہ کہ ایک سکھ کیوں اچھا لگتا ہے ؟ یا یہ کہ میں نے آپ کو یہ سب پہلے کیوں نہیں بتا دیا تھا؟ یا یہ کہ میں اُس سے چھپ کر کیوں ملتی رہی ہوں ؟ تو ان سب باتوں کا بس ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ مجھے اس لیے اچھا نہیں لگتا کہ وہ سکھ ہے یا مسلمان، پنجابی ہے یا ہندوستانی بلکہ وہ مجھے اس لیے اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ ایک بہت ہی اچھا انسان ہے۔ اب رہی بات اچھا لگنے کی تو آپ کو بھی تو پپا اچھے ہی لگتے ہوں گے تبھی تو آپ نے اُن سے شادی کی تھی ‘۔ آہستہ آہستہ ثانیہ کا لہجہ بدلتا جا رہا تھا، وہ اب مما پپا کے اچانک حملے سے باہر آ رہی تھی اور اُس کا اعتماد بڑھتا جا رہا تھا۔

‘بکواس بند کرو ‘، اب کی بار پپا نے زور سے چنگھاڑا ‘ ضرورت نہیں ہے تمھیں اپنی بے ہو دگیوں کو ہمارے سامنے جسٹیفائی(justify) کرنے کی بی بی۔ ہم دونوں احمدی مسلمان تھے اور ہمارے خاندانوں نے عزت و احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ہمارے رشتے ناطے جوڑے تھے اور ہم شادی سے پہلے ایک دوسرے سے ملتے نہیں تھے بے شرموں کی طرح، تمھاری مما سے شادی کے بعد میں نے پہلی بار اُس سے بات کی تھی اور چھوڑ دو یہ سب باتیں تمھارے سمجھ میں نہیں آنے والی، بس اب میرا فیصلہ سنو، آگے سے یہ سب کچھ ہونے نہیں والا اور سنو جی ‘ اس بار پپا مما سے مخاطب تھے۔ ‘تمھیں بھی اب اس سے زیادہ سوال جواب کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں اس سارے معاملے کو زیادہ بڑھاوا دینا ہی نہیں ہے بس سمجھو یہ بات یہی پر ختم ہو گئی ہے اور اب اس کی شادی کے لیے سنجیدہ کوشش شروع کرو ‘۔ یہ کہ کر پپا نے دوبارہ اُس کی طرف دیکھا اور خشمگیں نگاہوں سے اُسے گھورتے ہوئے کہا ‘چلو جا ؤ اپنے کمرے میں اور اب اس موضوع پر اس گھر میں کوئی بات نہیں ہونے والی ‘۔ پپا نے چار جملوں میں اپنا فیصلہ سنا کر جیسے سارے جھگڑے کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور پھر دونوں ہاتھ جھاڑ کر جیسے اُس پر آخری مٹھی مٹی بھی ڈال دی اور پھر چپ چاپ زمین کو تکنے لگے۔ ثانیہ نے خالی خولی مگر گیلی آنکھوں سے دونوں کو دیکھا، تھوک نگلا اور چپ چاپ مگر تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنے کمرے میں چلے گئی اور پھر ایک زور دار آواز کے ساتھ دروازہ بند کر دیا۔ اُسے یوں لگا جیسے دروازے کی زوردار آواز نے اُس کے جذبات کو زبان دے دی ہے۔ ثانیہ کو لگا جیسے اُس کے اندر کی تکلیف، غصہ اور بیزارگی دروازے کی چوکھٹوں کے راستے پل بھر میں گھر کی دیواروں میں اتر گئی ہے جس نے لمحے بھر کے لیے اُسے پرسکون تو کر دیا مگر زندگی بھر کے لیے اس گھر سے بے گانہ بھی کر دیا۔ کمرے میں آ کر کچھ دیر تو وہ یونہی بستر پر بیٹھی کمرے کی دیواروں کو تکتی رہی مگر پھر کچھ سوچ کر اپنے بیگ میں سے سیل فون نکا لا اور دلیپ کو کال کرنے لگی مگر دلیپ کا فون مصروف تھا اُس نے میسج ریکارڈ کرا دیا: ‘سنو دلیپ، مجھے کال بیک کرنا ایک بہت ہی اہم بات کرنی ہے ‘ اور بستر سے اُٹھ کر کمپیوٹر کے سامنے آ کر بیٹھ گئی اور بد دلی سے اُس کے اسکرین کو تکنے لگی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ساتواں باب

 

وقت : دس بجے رات

تاریخ:۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : شاہ فیصل کالونی نمبر ۵۔ کراچی

 

بختاور نے گلی والا دروازہ کھولا تو وہاں ادریس نہیں تھا بلکہ مولوی سلیم اللہ چار پانچ داڑھی والے لوگوں کے ساتھ کھڑے تھے۔

بختاور نے فوراً ہی دوپٹہ سر پر لے لیا اور دروازے کی آڑ میں ہو گئی، ”اسلام علیکم جی، ادریس تو گھر پر نہیں ہیں وہ تو صبح سے مسجد گئے ہوئے ہیں پھر لوٹے نہیں ” بختاور نے دبے ہوئے لہجے سے کہا

”جی جی بہن جی ہمیں پتہ ہے صبح ہی ہماری ان سے ملاقات ہوئی تھی، آپ کو ابھی ہم یہی بتانے حاضر ہوئے تھے۔ کیا اندر آ سکتے ہیں ؟”مولوی سلیم اللہ نے مودبانہ لہجے میں گلا کھنکار کر کہا تو بختاور نے جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی دروازہ چھوڑ کر کہا، ”جی جی مولوی صاحب اندر آ جائیں ” بختاور دروازے کے آڑ ہو گئی اور مولوی صاحب دو لوگوں کے ساتھ گھر میں آ گئے اور باقی لوگوں کو باہر انتظار کرنے کا کہہ کر دالان میں پڑی بید کی کر سیوں پر بیٹھ گئے جبکہ بختاور رسوئی کی طرف چلے گئی اور ایک طرف منہ پر روپٹہ رکھ کر دروازے کی آڑ میں پھر سے کھڑی ہو گئی، ”مولوی صاحب سب خیریت تو ہیں نا ؟” بختاور نے ادریس کا نام لیے بغیر تشویشانہ انداز میں پوچھا۔

”بات در اصل یہ ہے بہن جی کہ کل ایک ملعون نے شان رسول میں گستاخی کی تھی جس پر محلے کے کچھ معزز لوگ جذباتی ہو گئے تھے اور اُس کم بخت کو مارا پیٹا تھا جس پر وہ ملعون جہنم رسید ہو گیا تھا، اب پولیس ضابطے کی کاروائی کر رہی ہے۔ ہمارے ادریس بھائی کا نام بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جن کے خلاف پر چہ درج ہوا ہے۔ ” مولوی صاحب نے تمہید باندھی اور بختاور کی طرف منہ کیے بغیر ہی زمین کو تکتے ہوئے کہنے لگے، ”ادریس بھائی تھانے میں ہیں مگر آپ فکر نہ کر یں ہم انہیں چھڑا لیں گے، بس صرف ضابطے کی کاروائی ہے، شاید ایک یادو دن گھر نہ آئیں تو بس آپ پریشان نہ ہوں۔ ” مولوی صاحب اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے جاتے تھے، ” ہم یہی سوچ کر ہم آپ کو بتانے کے لیے آئے تھے۔ ۔ ۔ پولیس نے نو دس آدمی اُٹھائے ہیں اکیلے ادریس بھائی نہیں ہیں، مگر مسجد اور ہمارا مدرسہ انشا اللہ و تعالی سب کے پیچھے ہے اور اللہ تبارک و تعالی نے چاہا تو ایک شخص بھی اندر نہیں رہے گا سب با عزت و تکریم باہر آ جائیں گے۔ ۔ ۔ جزاک اللہ ہمارے ادریس بھائی اور ساتھی، یہ سب لوگ ناموس رسول کے خاطر بہت نیک کام کے لیے آگے آئے ہیں۔ ۔ ۔ محترم مولوی شمس الحق نے جو ہماری مسجد کے بڑے کرم فرما ہیں خاص طور پر مجھے تاکید کر کے آپ کی طرف یہ سندیسہ بھیجا ہے کہ آپ کو ادریس بھائی کے لیے قطعی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم ادریس بھائی اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کا پورا ساتھ دیں گے اور اس مشکل گھڑی میں ان کا پورا پورا خیال رکھیں گے۔ ”

”جی مگر وہ ادریس کو ماریں گے تو نہیں مولوی صاحب؟” بختاور نے پریشان ہو کر کہا، ”’سنا ہے تھانے میں پولیس والے تو بہت ظلم کرتے ہیں۔ ”

” ارے نہیں بہن جی ادریس بھائی کوئی اخلاقی جرم میں نہیں پکڑے گئے ہیں۔ ” مولوی صاحب کے چہرے پر ایک عجیب سے مسکراہٹ نمودار ہوئی، ” اُنہوں نے چوری چکاری یا کسی کا مال نہیں لوٹا ہے اور نہ ہی کسی کو دھوکہ دیا ہے۔ بھئی گستاخان رسول کو انجام تک پہنچانا کوئی گناہ نہیں ہے، قرآن میں بھی رسول اکرم کی عزت و ناموس اور آبرو کے خیال رکھنے کی سخت تاکید کی گئی ہے اور اس کی حفاظت کو واجب قرار دیا ہے۔ بھائی ادریس نے تو بہت نیک کام کیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر ایک ملعون کو واصل جہنم کر دیا۔ بہن جی ایک مسلمان کے نزدیک اللہ کے رسول سے محبت عین عبادت ہے وہ سب کچھ بر داشت کر سکتا ہے لیکن اس کے رسول کی شان اقدس میں ادنی سی گستاقی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ ایسا مسلمان تو مسلمان کہہ جانے کے بھی لائق نہیں ہے بہن، جو آپ نبی کریم صلعم یا ان کے صحابہ اکرام کی توہین یا بے ادبی سن کر بے غیرتوں کی طرح برداشت کر لے۔ قرآن نے گستا خان رسول کو ہمیشہ سخت لہجے میں جواب دینے کا حکم فرمایا ہے، اُن پر لعنتیں بر سائیں ہیں اور تاریخ گواہ ہے مسلمان خلفا ء اور فقہا سبھی کا یہ ہمیشہ موقف رہا ہے کہ جب بھی نعوذ باللہ کسی نے حضور سرور کائنات کی شان میں گستاخی کی تو اُس کے قتل کا حکم دیا گیا۔ ۔ ۔ بہن جی آپ بالکل بھی پریشان نہ ہو ں، بھائی ادریس دو ایک دن میں بخیریت باہر آ جائیں گے۔ اُنہیں تھانے میں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، وہ تو مجاہد ہیں اللہ کے غازی ہیں۔ دنیاوی قانون کی دفعات کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں جب توہین قرآن یا توہین رسالت کا کوئی بھی بد بخت واقعہ ہوتا ہے۔ آپ فکر نہ کریں بس دو ایک دن کے صبر کی بات ہے۔ کوئی ضرورت ہو کسی بھی قسم کی، پیسے آٹا چاول دال تو براہ کرم بلا جھجک فرما دیجیے گا۔ محلے کے کسی بھی بچے کے ذریعے مجھے پیغام پہنچا دیجئے گا انشاء للہ فی الفور مسجد کی طرف سے بند وبست ہو جائے گا۔ ”

”شکریہ مولوی صاحب” بختاور نے سکھ کا سانس لیا، ” مولوی صاحب آپ ٹھیریں چائے پی کر جائے گا۔ ۔ ۔ ” بختاور کو اچانک خیال آیا۔

”ارے نہیں بہن ابھی ہمیں کچھ اور بھائیوں کے گھر بھی جانا ہے۔ ہماری اور بہنیں بھی آپ کی طرح پریشان ہیں۔ اللہ تبارک تعالی کی امت پر کیا بُرا وقت آ گیا ہے کہ لوگ نیک کاموں سے بھی پریشان ہوتے ہیں، اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے، جزاک اللہ خیر ” پھر مولوی صاحب اور اُن کے اکابرین اُٹھ کھڑے ہوئے، اور دروازے سے باہر نکل گئے۔ اور بختاور نے دروازہ کی کنڈی اندر سے لگا لی۔ اچانک اُسے خیال آیا کہ اُس نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ ادریس کس تھانے میں ہے اور وہ اُس سے کس طرح ملاقات کر سکتی ہے۔ اُس نے پھر سے دروازے کی کنڈی کھولی اور باہر جھانک کر ادھر اُدھر دیکھا مگر گلی میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے اُسے کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ ایک دو کتے گلی میں چہلیں کرتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے دکھائی دیے۔ بختاور نے سوچا صبح رب نواز سے فون کر کے معلوم کروا لوں گی۔ ۔ ابھی وہ دروازہ پر کنڈی چڑھا ہی رہی تھی کہ اچانک اندر کمرے سے عثمان کے رونے کی آواز آئی اور بختاور دالان سے ہوتی ہوئی کمرے میں عثمان کے پاس آ گئی۔ عثمان شاید پھر خواب میں ڈر گیا تھا اور اب ششدر آنکھوں سے دیواروں کو تک رہا تھا۔ اُس نے جونہی ماں کو قریب آتا ہوا محسوس کیا تو خالی خالی آنکھوں سے کچھ دیر تک اُسے تکتا رہا اور پھر ایک دم سے آ آ کی آوازیں نکالنے لگا جیسے اُسے الٹی آ رہی ہو۔ ۔ بستر کی چادر پہلے ہی عثمان کی الٹیوں کی بساند میں بھری ہوئی تھی۔ صبح سے یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا تھا بس مولوی صاحب کے آنے سے قبل ہی اُس کی آنکھ لگی تھی۔ ہر دو منٹ میں اُس کی آنکھ لگتی تھی مگر پھر متلاہٹ اور الٹیوں کی وجہ سے نیند ٹوٹ جاتی تھی۔ صبح ڈاکٹر صاحب نے جو دوا دی تھی وہ بھی ساری الٹ دی تھی مجال ہے جو ایک قطرہ بھی دوا کا پیٹ میں اُترا ہو۔ بختاور نے بھی جان بوجھ کر بستر کی چادر نہیں بدلی تھی کہ کہیں پھر دھلی ہوئی چادر خراب نہ کر دے۔ اُس نے عثمان کو اپنے قریب کر لیا اور اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ ”کیا ہوا میرا بچہ، ڈر گیا ؟ الٹی ہو رہی ہے ؟ ٹھیر میں کچھ لاتی ہوں۔ ” مگر اس سے پہلے کہ بختاور کوئی میلا کپڑا یا برتن لاتی عثمان نے حلق سے زور سی آواز نکالی اور پھر جھٹکے سے پیلے رنگ کی الٹی کر دی۔ اُس کے معدے میں شاید کچھ بھی نہیں تھا اسی لیے الٹی زیادہ بڑی نہیں تھی مگر پیٹ کے کھنچنے کی وجہ سے وہ درد سے دوہرا ہو گیا تھا۔ بختاور نے پھر سے اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اُس پر پھونکنے لگی مگر عثمان بیمار آنکھوں سے اُسے تکتا ہوا دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ کربستر پر ترچھا ہو کر لیٹ گیا اور پھر درد کے مارے اماں اماں بسورنے لگا۔

”ٹھیک ہو جائے گا میرا بچہ۔ ” بختاور نے اُس کا منہ اُسی میلی چادر سے صاف کیا اور عثمان کو آہستہ سے اپنی گود میں بھینچ لیا، ” ٹھیک ہو جائے گا میرا بچہ۔ ۔ ابھی اپنے لال کو الٹی کی دوا دے دیتی ہوں، دودھ لاؤں تیرے لیے ؟ ” وہ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی،

”نہیں اماں میں کچھ نہیں کھاؤں گا مجھے متلی آتی ہے۔ ۔ ۔ ” عثمان نے بسورتے ہوئے کہا

”ابھی تیر ا ابا آ جائے گا، تو ان سے کہوں گی میرے بیٹے کے لیے آم لے آئے۔ ۔ تجھے آم اچھے لگتے ہیں نا بیٹا ؟”

”نہیں اماں نہیں۔ ۔ ۔ ” عثمان اچانک سے چیخنے لگا، ” ابا کو نہیں بلانا، ابا سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ ۔

” نہیں اماں نہیں، ابا کو نہیں بلانا۔ ۔ ”

” اماں اماں ابا کو نہیں بلانا اماں۔ ۔ ۔ ”

عثمان پھر چیخنے لگا اور پھر بڑی سی ابکائی کے بعد چھوٹی سی ایک اور الٹی کر دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

آٹھواں باب

 

وقت : بارہ بجے دوپہر

تاریخ:۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : کابل، افغانستان

 

گھر پہنچ کر واحدی نے کپڑے بدلے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ دوسری طرف ایک انجانی سی آواز تھی، ”پروفیسر صاحب تمھارے بارے میں ہمیں سب پتہ ہے۔ تم کہاں رہتے ہو کیا کام کرتے ہو اور ابھی ابھی کہاں سے آئے ہو۔ ہم تمھیں یہ پہلی اور آخری بار فون کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ہماری گولی ہو گی اور تمھارا سر۔ بہتر ہو گا یہ سب بکواس لکھنا بند کرو۔ تم یہودی ایجنٹ ہو غدار ہو اور غداروں اور ایجنٹوں کا ہم کیا حشر کرتے ہیں تمہیں پتہ رہنا چاہیے۔ ۔ اور ہاں اِس فون کو ایزی مت لینا اس سے قبل بھی تمھاری شکایتیں آئی تھی ہماری جب سے تم پر نظر ہے۔”

واحدی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اُس کے بھنچے ہوئے منہ سے صرف ایک لفظ نکلا، ”کون ہو تم؟”

دوسری طرف سے جواب آیا، ”طالبان۔ ۔ ۔ ” اور فون بند ہو گیا۔

واحدی نے ہیلو ہیلو کئی بار کہا مگر آواز ندارد۔ ۔ ۔ اُس نے فون کریڈل پر رکھ دیا۔ یہ کوئی پہلا فون نہیں تھا۔ واحدی کو ایسے فون کالز اس سے قبل بھی آتی رہی تھیں اور اس نے کبھی پرواہ نہیں کی تھی مگر اس بار لہجہ دوسرا تھا۔ واحدی چپ چاپ فون کو کچھ دیر تک تکتا رہا اور پھر ایک گہری سانس لی اور پھر الماری سے کپڑے نکال کر باتھ روم چلا گیا۔

کچھ دیر بعد جب وہ باتھ روم سے باہر نکلا تو سلپینگ ڈریس میں تھا۔ واحدی نے قریب ہی میز پر پڑی کتابوں میں سے ایک کتاب اُٹھائی اور لیٹ کر ورق گردانی کرنے لگا۔ جلد ہی اُس کو لگا جیسے کتاب پڑھنے میں اُس کا دل نہیں لگ رہا ہے شاید فون کال کی وجہ سے ایک بے چینی سی اُس میں اندر ہی اندر رینگ رہی تھی، پھر کچھ سوچ کر وہ اُٹھا اور کمپیوٹر آن کر کے اُس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور پھر فیس بک پر لاگ اِن ہو گیا۔ اس وقت اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ کسی سے بیٹھ کر بے مقصد باتیں ہی کرتا رہے کیونکہ ذہن اس وقت بہت منتشر تھا اچانک ثانیہ کا میسج ان باکس میں آ گیا۔

”کیسے ہیں سر آپ ؟”

”میں ٹھیک ہوں، آپ کیسی ہو ثانیہ؟” اُس نے ٹائپ کیا۔

”سر کیا آپ کے پاس کچھ وقت ہے ؟ میں آپ سے کچھ دیر باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ ” ثانیہ کے جواب میں سوال آ گیا۔

”جی ضرور فرمائیں۔ ۔ میں حاضر ہوں ” اس نے اپنے مخصوص لہجے کو ٹائپ کر دیا

” سر کیا محبت۔ رنگ نسل قومیت مذہب دیکھ کر ہوتی ہے ؟ ”

”نہیں۔ ۔ ۔ ” اُس نے نہیں ٹائپ کر کے ایک لائین کھینچی اور پھر لکھا ” رنگ نسل قومیت مذہب دیکھ کر صرف نفرت ہوتی ہے ! ”

”تو جو لوگ یہ دیکھ کر زندگیوں میں رشتے قائم کرتے ہیں اُسے آپ کیا نام دیں گے ؟ ”

”سمجھوتہ ” اُس نے محض ایک ہی لفظ ٹائپ کیا۔

”کیا سمجھوتے کے سہارے زندگی گزاری جا سکتی ہے ؟” پھر میسج باکس پر ثانیہ کا نیا سوال آ گیا تھا

”ہاں۔ ۔ گزاری جا سکتی ہے مگر اُس میں بس محبت نہیں ہو گی ”۔

”تو کیا ہو گی۔ ۔ ۔ ؟ نفرت؟ گھٹن؟ غصہ؟ تکلیف ؟ آنسو ؟ ” لگتا تھا وہ بھری ہوئی بیٹھی ہوئی تھی۔

‘پہلے صبر۔ ۔ ۔ اور پھر عادت !” یہ لکھ کر بھیجنے کے فوراً ٌ بعد وہ دوسرا میسج ٹائپ کرنے لگا

” کبھی کبھی کچھ عرصہ ساتھ ساتھ رہنے کے بعد ایک دوسرے کی کچھ خصوصیات بھلی بھی لگنے لگتی ہیں اور پھر عادت کو لوگ غلطی سے محبت سمجھنے لگتے ہیں، مگر ایسے رشتے اگر کسی وجہ سے ٹوٹ جائیں تو بہت زیادہ تکلیف نہیں ہوتی بلکہ بہت جلد ہی ایک دوسرے کو بھلا بھی دیا جاتا ہے اور نئی زندگی کے مسائل میں لوگ مصروف ہو جاتے ہیں، اس سے پھر جلد ہی پتہ بھی چل جاتا ہے کہ وہ محبت نہیں تھی محض ایک سمجھوتہ تھا۔ ”

دوسرا میسج بھیج کر واحدی کچھ دیر انتظار کرتا رہا مگر ثانیہ کی طرف سے فوراً ہی کوئی میسج نہیں آیا۔ واحدی کو لگا جیسے ثانیہ لکھنے سے قبل کچھ سوچ رہی ہے کیونکہ میسج باکس پر بار بار کچھ ٹائپ ہوتا تھا مگر پھر بھی اُسے وہ میسج موصول نہیں ہو رہا تھا۔ اُسے لگا جیسے وہ لکھ کر اسے بار بار ایریز کر رہی ہے ور پھر دوبارہ سے ٹائپ کر رہی ہے۔ بالآخر کچھ سیکنڈز کے بعد ایک نیا میسج ثانیہ کی طرف سے آیا۔

”جب ہر مذہب کی ابتدا محبت ہے، انتہا محبت ہے تو پھر وہ اتنے سارے خانوں میں بٹ کیوں گئے ہیں ؟”

”فکر تو خیر ایک ہی ہے بس مختلف ادوار میں مختلف اذہان سے اُس کا اظہار ہوا ہے۔ اُن اذہان کے ماننے والوں نے اپنے ادوار کے لحاظ سے اُس کو جذب کیا ہے اور مجموعی اعتبار سے محبت ہی سب کا مرکز ہے اب یہ علیحدہ بحث ہے کہ یہ فکر فطری ہے یا غیر فطری، سماجی ہے یا سیاسی، انسانی ہے یا الہامی مگر انفرادی طور پر اقوام میں بٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ یہ فکر کھربوں اربوں لوگوں کو متاثر کرنے کی وجہ سے سیاسی طور پر استعمال ہو گئی ہے اور خاصی حد تک پرا گندہ بھی۔ ۔ ” واحدی نے پرسکون انداز میں جواب تحریر کر دیا۔

” سرمذہب کی ابتدا کیسے ہوئی؟” ثانیہ کا سوال بھی باکس میں آ گیا

”خوف، لاعلمی اور تنہائی سے۔ ” واحدی نے فوراً ہی ٹائپ کر دیا

” محبت؟ ” لگتا تھا ثانیہ نے حیرانگی سے یہ لفظ ٹائپ کیا تھا!

”ہاں محبت کو مذہبی دانشوروں نے خوف اور تنہائی کے علاج کے لیے استعمال کیا اور لا علمی کے نتیجے میں خدا کی تخلیق کی اور اُس سے منسوب کر دیا ‘ پھر اُس خدا کی انسانی نفسیات کے لحاظ سے کہیں تقسیم ہو ئی تو کہیں جمع ! ” واحدی جیسے آنکھیں بند کر کے لکھ رہا تھا۔

”آپ اِس قدر پر اعتماد کیسے ہیں اس بات میں ؟” ثانیہ نے حیرانگی سے ٹائپ کیا

” اس لیے کہ خدا کی تخلیق صرف مذہبی ادوار اور علاقوں میں ہوئی اُن کا ظہور سائنس و فلسفے کے ادوار اور علاقوں میں نہیں ہوا اور نہ ہی ممکن ہے۔ ! ”

”سر کیا آپ محبت پر یقین رکھتے ہیں ؟” ثانیہ نے شاید جھجکتے ہوئے ٹائپ کیا

”ہاں !” واحدی نے پر اعتمادی سے جواب لکھا

”اور آپ خدا کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے ؟” ثانیہ نے اب کی بار بلا جھجک ہو کر لکھ دیا

”نہیں !” واحدی نے پھر اُسی پر اعتمادی سے جواب دیا

”کیا خدا کے تصور کے بغیر محبت ہو سکتی ہے ؟” ثانیہ نے کچھ سوچ کر لکھا

”ہاں ہو سکتی ہے ”۔ اور پھر کچھ وقفے کے بعد واحدی نے ایک اور میسج اپنے ہی میسج کے فوراً بعد لکھ دیا۔

”اصل میں وہی اصل محبت ہے جو خوف یا تنہائی کے خاطر نہ کی جائے۔ ۔ یعنی خدا اور محبت کا رشتہ بھی غور طلب ہے !”

” سر آپ سے ایک پرسنل سوال پوچھ سکتی ہوں ؟ ” ایک بار پھر جیسے ثانیہ نے جھجکتے ہوئے لکھا۔ ”آپ نے کبھی کسی سے محبت کی ہے ؟”

”ہاں۔ ۔ کی ہے مگر اب وہ کسک کی شکل میں رہ گئی ہے۔ میری محبوبہ کو مر کر بیس سال ہو گئے ہیں۔ اب میں جذبوں کی ترو تازگی سے کہیں آگے چلا گیا ہوں۔ میری کسک میری طاقت ہے وہ میرے جینے کا سہارہ ہے ! ” واحدی نے خیالوں میں بہتے ہوئے ٹائپ کیا۔

”پھر آپ نے کسی اور سے شادی نہیں کی ؟” ثانیہ نے جواب میں سوال لکھ دیا

”میں نے اپنی محبوبہ سے بھی شادی نہیں کی تھی، اُسے مجھ سے پیار کرنے کی سزا ملی تھی، اُس پر بد کرداری کا الزام لگا تھا کیونکہ ہم ایک دوسرے سے چھپ کر ملتے تھے۔ اُس کے خاندان نے میرے ماں باپ اور اپنی بیٹی کو مار دیا، میں بھی زخمی ہو گیا تھا مگر بچ گیا، میرے لیے زندہ رہنے کے لیے اُس کی یاد ہی بہت ہے، پھر کبھی کوئی دوسری عورت مجھ میں وہ جذبہ پیدا نہیں کر سکی جو اپنی محبوبہ کو دیکھ کر مجھ میں جاگا تھا۔ ”

”کیا آپ کی محبوبہ الگ مذہب سے تھی؟” ثانیہ نے پھر لکھا

”وہ الگ فرقے سے تھی اور ایک الگ قبیلے سے بھی۔ ۔ ۔ ” واحدی نے اسکرین کو تکتے ہوئے، کی بورڈ کی طرف دیکھے بغیر ایک لائن اور ٹائپ کی، ” میں مذہب کو نہیں مانتا مگر محبت کے بنا ء شادی کو اخلاقی جرم سمجھتا ہوں۔ ”

کچھ دیر تک واحدی انتظار کرتا رہا مگر اُسے لگا جیسے ثانیہ کے پاس اب بات کرنے کے لیے کچھ بچا نہیں ہے۔ مزید کچھ سیکنڈ واحدی نے انتظار کیا اور پھر خدا حافظ ٹائپ کر کے کمپیوٹر ہی ٹرن آف کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نواں باب

 

وقت: دو بج کر تیس منٹ رات

تاریخ:۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

 

 

اچانک سیل کی کی وابریشن کی آوازسے ثانیہ چونک گئی، دوسری طرف دلیپ ہی تھا۔

”وہی ہوا جس کی امید تھی دلیپ، اِٹس آل میسی ناؤ(It’s all messy now)، مما پپا کو پتہ چل گیا، اُنہوں نے ہمیں ساتھ دیکھ لیا ہے سٹار بکس میں، ‘ناؤ دے ار تھریٹ اننگ دیٹ دے وونٹ لیٹ می گو ٹو یو نیورسٹی اینی مور

(Now they are threatening that they won’t let me go university anymore)

اُس نے سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ دیا

دلیپ کی ایک گہری سانس کی آواز اُسے سنائی دی، ”ویل دس از ناٹ گڈ (well this is not good)۔”

”اب کیا ہو گا یار۔ ۔ ” ثانیہ کی آواز میں پریشانی کے ساتھ ساتھ ڈپریشن بھی تھا

”میرا خیال ہے ہمیں تھوڑا سا بریک دینا چاہیے اور چپ چپ دیکھنا چاہیے چیزیں کس طرف جا رہی ہیں۔ ۔ ۔ کیا خیال ہے ؟”

دلیپ نے ٹھہر ٹھہر کر سوچتے ہوئے بولا۔

”یار مما پاپا بالکل سے میڈ (mad)جیسے ہو رہے ہیں۔ ۔ ” ڈونٹ یو اینڈر اسٹینڈ(Don’t you understand)”۔ تمھارا گیٹ اپ(getup) دیکھ کر پرابلم ہو گیا۔ ڈیٹنگ، پھر وہ بھی ایک سکھ کے ساتھ۔ ۔ ناٹ ایون مسلم (not even Muslim)۔ ۔ ۔ آئی ٹولڈ یو یار مائی پیرنٹس آر ویری ٹر یڈیشنل اور کنزر ویٹو ! (I told you my parents are very traditional and conservative) ” ثانیہ نے روہانسہ ہو کر کہا

”خیر ہے یار، تم پریشان نہ ہو اور پھر تمھیں پتہ ہی ہے نا ہم بھی کہاں کچھ اچھے کی امید کر رہے تھے۔ مجھے پتہ ہے میرے ماں باپ نے بھی سر ہی پھوڑنا ہے وہ بھی اُن ہی کی طرح ہیں۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہنے لگا، ”ابھی دو چار دن ٹھیر جاؤ دیکھو تو سہی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟”

”پتہ نہیں یار بیٹھتا بھی ہے یا نہیں۔ ۔ ۔ مجھے تو چھلانگیں لگاتے ہوئے ہی دکھائی رہا ہے۔ ” ثانیہ فون پر بڑبڑانے لگی

”اچھا سنو پریشان نہ ہو۔ ۔ ۔ کچھ چکر چلاتے ہیں۔ ” دلیپ نے آہستہ سے کہا

”کیا چکر چلاتے ہیں، گھر سے لے کر بھاگو گے کیا؟۔ ۔ ۔ فلم چل رہی ہے کوئی یار؟۔ ۔ ۔ یہ کوئی بالی ووڈ ہے کیا ؟ یار تمھیں نہیں پتہ وہ تو ابھی سے ہی میرا رشتہ ڈھونڈنے کی عجیب عجیب باتیں کر رہیں ہیں ” ثانیہ نے جواب دیا۔

”یار یہ کوئی انڈیا یا پاکستان نہیں ہے جس سے تمھارا جی چاہا شادی کر دی۔ ۔ ۔ تھوڑی سی ہمت کر وجب تک تم نہیں چا ہو گی تمھارا ہمارا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ ۔ ۔ سمجھا کر و، مجھے ذرا دیکھنے تو دو میرے گھر والے کیسے ریکٹ(React) کرتے ہیں ؟ فرق صرف اتنا ہے کہ مجھے خود انہیں بتانا ہو گا، ابا جی کی تو خیر ہے پر بے جی تو مجھے مار ہی دے گی۔ ۔ ۔ ” دلیپ اپنی ماں کو بے جی کہتا تھا، ” تم پریشان مت ہو میں آج ہی سری نگر کال کرتا ہوں گھر پر، ابا جی کو تو پہلے میں کو نفیڈ نس (Confidence) میں لے لوں، اگر وہی ہتے سے اکھڑ گئے تو پھر مجھے دیکھنا ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ادھر سے بولیں کہ اوئے تجھے کینیڈا پڑھنے بھیجا تھا اور تو اُدھر یہ کام کر رہا ہے ؟ لیٹس سی فرسٹ یار، بس پریشان نہ ہو، کوئی نا کوئی راستہ تو نکل ہی آئے گا۔ ۔ ۔ !” دلیپ نے ایک ہی سانس میں دلاسے تسلیاں، خدشات اور پلانز کم و بیش سبھی کچھ کا تذکرہ کر دیا۔

”خیر تمھارے مما پپا کم از کم یہاں تو نہیں ہیں، مگر مجھے تو یہی رہنا ہے نا، روزانہ اُن کی ناراض شکلیں  ۔  let me go university anymoreدیکھنی ہیں، ڈانٹ کھانی ہے، غصہ برداشت کرنا ہے۔ ۔ ۔ ” ثانیہ پھر سے بڑبڑانے لگی۔

”ہاں مگر یار میں تو ہندوستانی شہری ہوں اور تو کینیڈین اور پھر یہ بھی تو دیکھو یار کل میرے اسٹوڈنٹ ویزے نے ختم ہو جانا ہے پھر مجھے بھی جا کر اُنہیں ہی دیکھنا ہے نا یار۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے جواب دیا

”دلیپ۔ ۔ ۔ ” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ثانیہ نے ہچکچاتے ہوئے آہستہ سے کہا، ”۔ ۔ ۔ یار تو مجھ سے پیار تو کرتا ہے نا؟”

”نہیں دشمنی ہے تیری میری۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے اُس کی بات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ”کیسے ثابت کرنا ہے اب یہ بھی بتا دو؟”

ثانیہ کچھ دیر تک چپ رہی پھر کہنے لگی، ” نہیں، یونہی بس خیال آیا تھا اس لیے پوچھ لیا۔ ۔ ۔ ”

ثانیہ کے اس جملے کے بعد دونوں طرف سے کچھ دیر کے لیے خاموشی ہو گئی، صرف ہلکی ہلکی سانسوں کی آوازیں آپس میں باتیں کرتی رہیں۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور ثانیہ کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا، ”دلیپ دروازے پر کوئی ہے، میں پھر بات کرتی ہوں ” یہ کہہ کر ثانیہ نے جھٹکے سے سیل فون آف کر دیا۔ دروازے پر مما تھی، چہرے پر ابھی تک تھوڑی دیر پہلے والا کھچاؤ تھا جو کچھ دیر قبل غصے کے ساتھ تھا مگر اب غصہ اسٹریس میں بدل چکا تھا البتہ آنکھوں میں اب گہرے دکھ کی کیفیت تھی کچھ کچھ نا امیدی بھی تھی یا شاید ثانیہ کو ایسے محسوس ہو رہا تھا کیونکہ وہ خود اندر سے نا امید اور ڈپرس تھی۔

”سیل فون دے دو اپنا۔ ۔ ۔ تیرے ابو منگوا رہے ہیں۔ ” اُنہوں نے اپنا ایک ہاتھ اُس کی طرف پھیلا کر کہا

”مما ڈو یو تھنک اِٹ از فیر؟(Do you think it is fair?)۔ ۔ ۔ ؟”

” میں نہیں جانتی، زیادہ بکواس نہیں کر۔ ” مما نے چڑ کر کہا

”آپ لوگ کیوں ایسے روایتی لوگوں کی طرح بی ہیو(behave) کر رہے ہیں ؟” اُس نے تھوڑا تنک کر کہا

”ہاں ہاں ہم لوگ ایسے ہی ہیں۔ ۔ ۔ روایتی قسم کے لوگ ہیں، تم سیل فون دے دو مجھے۔ ” مما نے چڑ کر جواب دیا۔

ثانیہ مڑی اور میز سے سیل فون اُٹھا کر مما کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیا

”پاسورڈ (Password) کیا ہے ؟” مما نے فون ہاتھ میں لے کر کہا۔

” ڈی آئی ایل آئی پی ” ثانیہ نے جواب دیا

”دلیپ نام ہے اس کا۔ ۔ ۔ ؟” مما نے ثانیہ کو گھورتے ہوئے کہا

”ہاں ” ثانیہ نے آہستہ سے کہا

”چل ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ بھوک لگی ہے تو نیچے کچن میں آ کر کھانا کھا لینا، میز پر لگا ہوا ہے۔ ” اماں نے جیسے احسان کرتے ہوئے اُس سے کہا۔

”مجھے نہیں ہے کوئی بھوک ووک۔ ” ثانیہ نے چڑ کر کہا اور مما کے جانے کے بعد دروازہ زور سے بند کر لیا اور پھر پلٹ کر آ کر بستر پر آڑی لیٹ گئی، پہلے تو وہ یونہی کمرے کی دیوار کو کچھ دیر تکتی رہی پھر اچانک اُٹھی اور جلدی سے کمپیوٹر پر ہاٹ میل پر لاگ اِن ہو کر دلیپ کو ای میل لکھنے لگی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

دسواں باب

 

وقت : آٹھ بجے رات

تاریخ:۸ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : شاہ فیصل کالونی نمبر ۵۔ کراچی

 

 

جس رات شاہ فیصل نمبر پانچ تھانے پر دھاوا پڑا تھا، اُس رات سارا علاقہ اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھا تھا۔ پہلے مولوی سلیم اللہ چار پانچ بندوں کے ساتھ ایس ایچ او سے ملنے کے لیے آیا اور جب بات بحث سے بڑھ کر چیخ و پکار میں بدل گئی تب ایس ایچ او کے کان میں کانسٹبل رحیم داد نے کہا، ” سر جی یہ تو پوری طرح سے تیار ہو کر آئے ہیں، باہر لوگ صرف ڈنڈے لاٹھیوں کے ساتھ ہی نہیں اسلحہ بھی اُٹھائے ہوئے ہیں۔ ”

یہ سنتے ہی ایس ایچ او کا رنگ بدل گیا تھا مگر اس نے خود کو لمحے بھر میں کنٹرول کر لیا اور اُتنی ہی آہستہ سے پوچھا، ”کتنے بندے ہوں گے۔ ۔ ؟”

”یہی کوئی دو ڈھائی سو تو ہوں گے۔ ”

یہ سنتے ہی ایس ایچ او کا لہجہ یکایک نرم ہو گیا، ” اچھا اچھا مولوی صاحب ذرا دھیرج سے کام لو۔ ”

مگر پھر جونہی مولوی شمس الحق کی گرما گرم کال اِس وارننگ کے سا تھ آ گئی کہ’ ابھی تو صرف دو ڈھائی سو بندے ہیں کل دو ڈھائی ہزار بھی ہو سکتے ہیں۔ بات ناموس رسول کی ہے کوئی معمولی بات نہیں ہے ‘ تو پھر ایس ایچ او منت سماجت پر اُتر آیا، ” مولوی صاحب، مولوی صاحب ابھی دیکھو بھائی۔ ۔ ۔ ابھی تو نا معلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کٹی ہے نا، اب کسی نا کسی کو تو تھانے میں رکھنا ہو گا نا ہمیں۔ ۔ ۔ آپ سمجھتے ہو نا ہمیں بھی جواب دینا پڑتا ہے اُوپر والوں کو، ”

اُس پر اُدھر سے مولوی شمس الحق نے ایس ایچ او کو سمجھاتے ہوئے کہا، ”بھائی آپ کے اوپر والوں سے بھی کچھ اوپر والے موجود ہیں جن سے ہم بھی رابطے میں ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی قانونی مجبوریاں کچھ حد تک ہوتی ہیں، تو ابھی تو ہم یہ ہی آپ کو کہیں گے کہ آپ یوں کرو کہ دو چار چرسی موالی تھانے میں بند کر دو، یہ تو یوں بھی ہمارے معاشرے پر بوجھ ہی ہیں، یہ پھر اچھے مقصد کے لیے کب کام آئیں گے ؟ آپ ان شریف لوگوں کو چھوڑ دو یہ سب مسجد کے لوگ ہیں نیک مسلمان ہیں، ویسے بھی گستاخانِ رسول کو انجام تک پہنچانا قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ ”

اب یہ مولوی شمس الحق کی دھواں دھار تقریر تھی یا باہر کھڑے ہوئے دو ڈھائی سو اسلحہ بردار داڑھی والے پُر ایمان لوگوں کی موجودگی کا اثر یا پھر خود ایس ایچ کا اپنا سویا ہوا ایمان تھا جو مولوی صاحب کی دھواں دھار تقریر سے اچانک ہی جاگ گیا اور کچھ ہی دیر بعد اُس نے ایک دو اور جگہ فون کیا اور معاملات کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے کانسٹبل رحیم داد کو اشارے سے کہا کہ اندر جو لوگ بند ہیں ان میں سے اُنہیں چھوڑ دے جن کا مولوی سلیم اللہ صاحب نام دیں۔

ادریس تھانے سے گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر خوشی سے حیران ہو گیا کہ کم و بیش سارا ہی محلہ ادریس کو دیکھنے اور مبارکباد دینے اُس کی گلی میں جمع تھا، چاروں طرف رونق ہی رونق تھی۔ ادریس کی بیوی تو خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہی تھی وہ خود مسجد سے آئے ہوئے لڈو محلے کے لوگوں کو بانٹ رہی تھی اور بار بار تھالیاں بھر کر صحن میں رکھتی جا رہی تھی۔ رات گئے جب سب لوگ ایک ایک کر کے اپنے اپنے گھر روانہ ہونے لگے تو مولوی سلیم اللہ رخصت ہوتے ہوئے ادریس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہنے لگے، ” ادریس میاں کل عشاء کے بعد مولوی شمس الحق غریب خانے پر تشریف لا رہے ہیں، انہوں نے آپ کو خصوصاً یاد فرمایا ہے۔ ”

ادریس نے جھک کر مولوی سلیم اللہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر آنکھوں کے خم سے آنے کا وعدہ کر لیا۔ آہستہ آہستہ گھر خالی ہوتا چلا گیا اور پھر کچھ دیر بعد ادریس اور بختاور گھر میں اکیلے رہ گئے۔ اندر کمرے میں عثمان بے سدھ سو رہا تھا، سب کے جانے کے بعد پہلے تو ادریس نے صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھ پھیلا کر لمبی سی جمائی اور پھر وہی ترچھا ہو کر لیٹ گیا اور لیٹے لیٹے بختاور سے کہنے لگا، ”بختاور مجھے تو نیند آ رہی ہے، آج کا دن بہت لمبا تھا بھئی۔ سن مجھے کل فجر کے وقت مسجد جانا ہے، مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ اب نماز قضا نہ کرنا اور مسجد میں وقت زیادہ دینا۔ ”

”یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ” بختاور نے مسکرا کر کہا

”اچھا سن۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر ادریس نے لیٹے لیٹے ہی شلوار کی اندر کی جیب سے نوٹوں کی ایک موٹی گڈی نکالی اور بختاور کے ہاتھ میں رکھ کر کہا، ”یہ روپے اندر الماری میں رکھ دے۔ ” اور پھر اُس نے گلے پر سے پھولوں کے ہار اُتارے اور ایک طرف چارپائی پر ڈال دیے اور کروٹ لے کر لیٹ کر بختاور کو مسکراتے ہوئے دیکھنے لگا۔

”اتنے سارے پیسے۔ ۔ ۔ ! ” بختاور کی آنکھیں نوٹوں کو دیکھ کر چمک گئی، ”یہ کہاں سے آ گئے۔ ۔ ۔ ؟”

”اوہ کچھ نہیں۔ ۔ مولوی سلیم اللہ نے دیے ہیں خرچے کے لیے، وہ کہہ رہے تھے کہ چونے کا کام چھوڑ کر آئندہ بھی مسجد کے لیے ہی کام کروں ! وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اللہ کے نبی یا ان کے صاحبہ کرام کے بارے میں بد فعلی کرنے والوں پر مجھے نظر رکھنی ہے محلے میں بھی اور محلے کے باہر بھی، کل بڑے مولوی صاحب ہیں نا مولوی شمس الحق صاحب، اُن سے ملاقات ہے عشاء کے بعد پھر وہ سمجھائیں گے کیا کیا کام ہیں جو مسجد کے لیے ہمیں کرنے ہیں، سب نیکی کے کام ہیں اور پیسے بھی گھر کے خرچ کے لیے بھی وہ ہی دیں گے۔ لے اور کیا چاہیے ؟”

”اسی لیے تو کہتے ہیں اُس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ” بختاور نے رو پیوں کو مٹھی میں دبا کر آسمان کی طرف ٹیڑھی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خوشی خوشی کہا۔

”چل ٹھیک ہے۔ ۔ ایک طرح سے تو تھانے جانا اچھا ہی ہوا، اپنے بھی دن پھرے۔ ۔ نہیں ؟ ” ادریس نے بختاور کو خوش ہوتا دیکھ کر اُسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر اچانک اُسے کچھ یاد آیا تو اُس نے موضوع بدل کر کہا، ”اوئے اپنے عثمان کی طبعیت کیسی ہے اب؟ الٹیاں اُس کی کم ہو گئی تھیں ؟ میں نے رب نواز کو جاتے وقت کہا تھا کہ وہ عثمان کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے، دکھایا تھا اُس نے۔ ۔ ۔ ؟”

”ہاں ہاں دکھایا تھا ڈاکٹر صاحب کو، اور اُنہوں نے دوائیں بھی دی تھی، مگر ابھی تک کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔ ابھی بھی کبھی کبھار وہ الٹیاں کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ بہت ڈر گیا ہے عثمان، اُس دن جو آدمی کا واقعہ ہوا تھا نا چوک پر۔ ۔ ۔ اُس نے دماغ کو ذرا دھچکا پہنچایا ہے، تھوڑا ٹائم لگے گا ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ” بختاور نے اسی روانی سے ادریس کو جواب دیا جس روانی سے ادریس نے پوچھا تھا پھر کچھ لمحوں بعد کہا، ”اچھا چل منہ ہاتھ دھو لے اب میں کھانا لگا دیتی ہوں۔ ۔ ۔ ” بختاور نے چارپائی سے اُٹھ کر کہا۔

”نہیں، نہیں۔ ۔ ۔ مجھے بھوک نہیں ہے، مولوی صاحب کے لوگ اتنی مٹھا ئیاں لائے تھے کہ کھا کھا کر ہی میرا تو پیٹ ہی بھر گیا، ابھی مجھے بالکل بھوک نہیں ہے۔ ”ا در یس نے جمائی لیتے ہوئے کہا، ” اور سُن زرا دالان کی لائٹ بند کر دے، میں یہی سو رہا ہوں اب، کچھ گھنٹوں کی تو بات ہے پھر فجر میں اٹھنا ہی ہے ” یہ کہتے ہوئے ادریس کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔

اندر کمرے میں آ کر بختاور نے آہستہ سے الماری کا پٹ کھولا اور دراز نکال کر اندر سیف میں روپیوں کی گڈی چھپانے لگی کہ اچانک بختاور کو یوں لگا جیسے اُسے پیچھے سے کوئی تک رہا ہے، بختاور نے گھبرا کر پلٹ کر دیکھا مگر کوئی بھی نہیں تھا۔ ادریس باہر صحن میں سوتے ہوئے زور زور سے خراٹے لے رہا تھا اور سامنے کمرے میں عثمان اپنی چارپائی پر بے سدھ سو رہا تھا صرف آنسووں کے چند قطرے تھے جو عثمان کے گالوں پر بلب کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں چمک رہے تھے۔ شاید سونے سے کچھ دیر پہلے تک وہ روتا رہا تھا !

٭٭٭

 

 

 

گیارہواں باب

 

وقت : بارہ بج کر تیس منٹ دوپہر

تاریخ:۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : کابل، افغانستان

 

 

کمپیوٹر ٹرن آف کر کے واحدی نے پہلے تو ایک گہری سانس لی اور پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو گردن کے پیچھے آپس میں الجھا کر چھت کی طرف ترچھا ہو کر خالی خولی نظروں سے تکنے لگا۔ کچھ دیر پہلے کی ثانیہ سے ہوئی گفتگو نے اُس کے دل کو پر ملال کر دیا تھا۔ آج کتنے عرصے بعد اُس کے دل کے زخم پھر سے ہرے ہو کر رس رہے تھے۔ یادیں قطرہ بہ قطرہ اس کے غمزدہ دل کی دیواروں کو بھگو رہی تھیں اور وقت لمحہ بہ لمحہ اُسے ماضی میں دھکیل رہا تھا۔ واحدی نے دھیمے سے آنکھیں بند کی تو اسے لگا جیسے کچھ آنسو پلکوں سے باہر آنے کے بجائے اندر کہیں دل کے اندھیرے کنو یں میں اتر گئے۔ ایک ایک کر کے پچیس تیس سال پہلے کی بند کتاب کے ورق پھر سے کھلنے لگے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ لمحوں کے لیے ماضی میں کھو گیا۔

”جنگ کے بعد اصل جنگ شروع ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ” پولیٹیکل سا ئنسسز کی کلاس میں جب اُس کے پروفیسر ڈاکٹر زمان اللہ نے ملک کے سیاسی حالات پر فکر انگیز جملہ کہا تھا تو اُس نے چانک ہاتھ اُٹھا کر پشتو میں کہا تھا، ” آپ کو یقین ہے سر یہ جنگ اب کبھی ختم بھی ہو گی؟” اُس نے دیکھا تھا کہ اُس کی بات سن کر اُن کی آنکھوں کی ذہانت، وحشت اور بے چینی سے بدل گئی تھی۔ اُس وقت تقریباً سات سال سویت یونین کے ساتھ جنگ کو ہو چکے تھے۔ کہنے کو تو سارا افغانستان ہی دھواں ہو رہا تھا مگر زیادہ تر لڑائی بڑے صوبوں اور سرحدی پہاڑی علاقوں میں چل رہی تھی۔ دار الخلافہ کابل میں تو ابھی بھی روز مرہ کا کاروبار چل رہا تھا، یہ الگ بات کہ اکثر و بیشتر سرکاری عمارتوں پر بم دھماکوں سے پورا شہر دہل جاتا تھا مگر پھر بھی بجلی اور پانی کا نظام ابھی باقی تھا اور بازار بھی کھل رہے تھے۔ کابل یونورسٹی میں کلاسیں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی مگر کبھی کبھار لائبریری سے وہ کتابیں جمع کر کے شیرازی کی طرف آ جاتا تھا۔ شیرازی اُس کا ددیالی چچا زاد بھائی تھا، بچپن کا دوست تھا اور سب سے بڑھ کر اُس کی محبوبہ صوفیہ کے بھائی کا دوست تھا۔ شیرازی کا باپ سلطان علی کشمند کی کیبنٹ میں وزیر تھا اور واحدی کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ اُس نے ہی پرائمری کی تعلیم سے واحدی کی پڑھائی کے خرچے کا سارا ذمہ اُٹھا یا ہوا تھا اس بات سے واحدی کا باپ مطمئن تھا اور بامیان میں اپنے خاندان کی دیکھ بھال اور چھوٹے سے کاروبار میں مصروف تھا۔ کابل کے حالات بامیان سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ کابل میں حکومتی ادارے اس کوشش میں رہتے تھے کہ دار الخلافہ کو جنگ کے زمانے میں بھی جتنا ممکن ہو سکے کنٹرول میں رکھیں اور بیرونی دنیا کو مضبوط ہونے کا تاثر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہسپتال، بازار، تعلیمی ادارے اکثر و بیشتر وقفوں سے کھل جاتے تھے مگر پھر جونہی لڑائی زور پکڑ تی حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بند ہو جاتے۔ اُدھر ہزارہ جات کا بھی یہی حال تھا وہاں بھی اکثر و بیشتر ہزارہ جات میں میدان وردک، غور اور روزگان اور اُس کے صوبے بامیان میں اچانک حالات بگڑ جاتے تھے۔ اکثر و بیشتر مجاہدین تنظیموں خصوصاً تنظیمِ نسل نو ہزارہ اور خمینی اسلامی گروپس اور کارمل حکومت کے درمیان جھڑپ اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ سار علاقہ میزائلوں اور بموں کے دھماکوں کی آوازوں سے گونجنے لگتا اور پھر چاروں جانب بارود کی بو اردگرد کی فضا میں پھیل جاتی تھی۔ یوں بھی یہاں انہتر سے ببرک کارمل کا حکومتی اثر کم سے کم ہوتا جا رہا تھا زیادہ تر سیکولر گرو پس مدافعتی حالات میں تھے اور مجاہدین طاقتور ہوتے جا رہے تھے خصوصاً ایران کی پشت پناہی میں خمینی اسلامی گروپ بہت طاقتور ہو رہا تھا اور اب لڑائی سویت یونین یا کارمل حکومت کے خلاف ہونے کے بجائے آپس میں زیادہ ہو رہی تھی اس میں کوئٹہ کی پشت پناہی میں تنظیمِ نسل نوہزارہ سب سے آگے تھی، وہ کسی طور خمینی گروپ کو ہزارہ جات کا کنٹرول دینے کو تیار نہیں تھی اب یہا لگ بات کہ حکومت میں ابھی بھی ہزاراہ جات کی نمائندگی سلطان علی کشمند جیسے سیاسی اور سید منصور نادری کی طرح کے مذہبی و سیاسی پیر بھرپور طرح سے کر رہے تھے۔ بادل نخواستہ سویت یونین نے یونائٹڈ نیشن کی ہدایت پر چھ رجمنٹ فوج افغانستان سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا مگر امریکا اسے چاول کے دانے سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا کیونکہ اُس وقت بھی ایک لاکھ بیس ہزار سویت فوجی افغانستان میں موجود تھے دوسری طرف مجاہدین تھے جو دن بدن طاقتور ہوتے جا رہے تھے۔ انہیں امریکا، انگلینڈ اور چین مسلسل پاکستان کے ذریعے زیادہ بہتر اسلحہ خصوصاً اسٹنگر مزائل پہنچا رہا تھا جو نچلی پرواز کے روسی جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر گرانے میں بہت زیادہ کارآمد ہو رہے تھے۔ ببرک کارمل کی سیاسی پالیسیوں سے سویت لیڈر شپ سخت مایوس تھی انہیں صحت کی خرابی کے بہانے سے ماس کو میں ہی جلاوطنی کی غرض سے روک لیا گیا تھا جبکہ دوسری طرف نجیب اللہ کو تبدیلی کے لیے بھی اشارہ مل گیا تھا۔ جنگ مسلسل جاری و ساری تھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے لیے بڑے نقصانات کا دعوی کیا جا رہا تھا مگر یہ کہنا نا ممکن تھا کہ کونسافریق جیت رہا ہے ہاں یہ بات درست تھی کہ پچھلے آٹھ نو مہینے میں ہی دس سے بارہ ہزار افغان شہری مارے جا چکے تھے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی جو آئے دن ہینڈ گرنیڈ کو کھلونے سمجھ کر اُن سے کھیلنے کے دوران دھماکوں میں مرے تھے یا بڑے دھماکوں کی زد میں آ رہے تھے۔

واحدی کو ۱۶اکتوبر۱۹۸۵کی وہ شام یاد تھی جب پہلی بار اُس نے صوفیہ کو دیکھا تھا اور پھر اُس کی زندگی کے سارے نظریات یکا یک بدل گئے تھے۔ اُس شام جب ریڈ آرمی کی پریڈ سویت یونین کی واپسی کے لیے کابل کے مرکزی بازار سے گزر رہی تھی تو اچانک مجاہدین کے لگائے گئے طاقتور بموں کے دھماکوں سے پورا شہر گونج اٹھا تھا اور پھر ایک کے بعد ایک کئی عمارتیں اور دوکانیں دھول مٹی کے طوفان کے نذر ہو گئی تھیں۔ اُس شام واحدی اور شیرازی اندھا دھند گلیوں میں بھاگتے ہوئے مسعود کے گھر میں جاگھسے تھے جو شیرازی کا پرانا دوست تھا۔ مسعود یوں تو شیرازی کے بچپن کا یار تھا مگر گلدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی سے جڑا ہوا تھا یہ تو بعد میں واحدی کو پتہ چلا کہ اُس دن کے دھماکے میں بھی مسعود کا ہی سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ جب واحدی کی نظر پہلی بار مسعود کی بہن پر پڑی تھی تو اُس کی آنکھیں پتھرا گئیں تھیں اور دل دھماکے کی آواز سے زیادہ اپنی ہی دھڑکنوں کی آوازوں سے کانپ گیا تھا۔ ایسا واحدی کے ساتھ پچیس سال کی زندگی میں پہلے پہل ہوا تھا جب سر شام ہونے والے دھماکوں، روتی چیختی کراہتی ہوئی انسانی آوازوں اور مذہبی و قومی نعروں کی گونج میں پھیلی ہوئی بارود کی بواُس کے حواسوں پر طاری تھی اور ایک ساتھ کئی مخالف و موافق جذبات اُس کے دل و دماغ میں رات بھر دست و گریبان رہے تھے۔ ۔ وطن اور محبت، مذہب اور محبت، عورت اور محبت مگر جب وہ صبح بستر سے اُٹھا تو وطن اور مذہب کہیں دھندلا چکے تھے مگر صوفیہ اور اس کی محبت کی خوشبو اُس کے چاروں جانب پھیل چکی تھی۔ صوفیہ میں کیا تھا جو اُسے خود سے چھین گیا تھا اُس کا تعین اُس سے کبھی بھی نہ ہو سکا، نہ تو اُس دن جب وہ پہلی بار اُسے مسعود کے پیچھے نارنجی رنگ کے پھولوں کی اوڑھنی اوڑھے کچھ مسکراتی کچھ شرماتی ہوئی دکھائی دی تھی اور شیرازی کی پکار کی وجہ سے دونوں بہن بھائیوں کو اچانک اُن کی طرف دیکھنے پر راغب کر دیا تھا، جس لمحے شیرازی کی نظریں مسعود کی طرف اُٹھی تھیں واحدی کی بے ساختہ نگاہیں صوفیہ سے ٹکرا گئی تھیں۔ اُس ایک لمحے میں واحدی نے صوفیہ کی کنجی آنکھوں میں وہ جاذبیت دیکھی تھی جو صرف پہلی نظر کی پہلی محبت میں ہوتی ہے۔ صوفیہ کا وہ پہلا دلربانہ عکس واحدی کی رومانوی زندگی کا سب سے زیادہ خوشگوار احساس تھا جس نے اُس کی بے رنگ بدمزہ زندگی کو بعد میں کتنے ہی دلفریب رنگوں سے بھر دیا تھا جو گزرتے وقت کے ساتھ پھر اُڑتے چلے گئے اور اپنی آخری شکل میں لہو کے سرخ رنگ سے رنگتے چلے گئے۔ اُن دنوں واحدی کابل یونیورسٹی میں پو لیٹیکل سائنس میں بیچلر کر رہا تھا جو شہر کے حالات کی وجہ سے دو سے چار سال کے وقفے میں بدل گئے تھے۔ حالات خراب ہونے پر یو نیورسٹی اکثر کئی کئی ہفتوں کے لیے بند ہو جاتی تھی مگر پھر جونہی حالات ٹھیک ہوتے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا تھا۔ کابل کا کلچر ابھی بھی پوری طرح سے برقعہ کلچر میں نہیں بدلا تھا بلکہ سچ تو یہ تھا کہ بڑی تعداد طالبات کی ایسی تھی جو اسکرٹ پہنتی تھی اور مغربی انداز کے کوٹ اور پینٹ زیب تن کر تی تھیں صرف گلی کوچوں میں ہی سفید اور کالے برقعے زیادہ دکھائی دیتے تھے۔ یہی حال طالب علموں کا تھا ابھی داڑھی اور شلوار صرف ان ہی علاقوں میں تھی جو یا تو پسماندہ تھے یا کاروباری اور مزدور وغیرہ، ورنہ یونیورسٹی تو سویت انداز کے ملبوسات کے بدولت مشرقی و مغربی تہذیب کا حسین اشتراک نظر آتی تھی۔ بعض گھرانے دقیانوسیت کا شکار تھے اور سویت ملبوسات کو کفر کی علامت سمجھتے تھے خصوصاً سویت افغان جنگ کے بعد مجاہدین کی اسلام و کفر کی جنگ کے پرو پگنڈے نے شدت پسندی کو خاصا فروغ دے دیا تھا اور برقعہ اور داڑھی اسلام کی علامت بن کر گھر گھر پھیل رہا تھا اور سویت کلچر دھیرے دھرے رخصت ہو رہا تھا۔ واحدی کو یاد تھا صوفیہ اور اس کی دوسری ملاقات جب شیرازی کے گھر ہوئی تھی تو صوفیہ نے روسی جین اور افغانی اسکارف پہنا ہوا تھا اور وہ واحدی کی گفتگو پر مسعود کے تیور دیکھ کر خاصی مایوس ہوئی تھی۔ صوفیہ نے فائن آرٹ میں بیچلر کیا تھا اور بہت اچھی پینٹنگز بناتی تھی مگر مسعود کے سیاسی خیالات اُس کی تخلیقی زندگی پر بھی اثر انداز ہو رہے تھے۔ اُس شام شیرازی کے گھر کھانے پر کئی بڑی سیاسی شخصیات مدعو تھیں جن میں سلطان علی کشمند کے ساتھ کچھ نادری خاندان کے لوگ بھی شامل تھے۔ واحدی کے ساتھ یونیورسٹی کے جہاں کچھ دوست بیٹھے ہوئے تھے، سویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے معاملے پر  بحث کر رہے تھے تھے۔ مسعود مسلسل اس سارے معاملے کا کر یڈٹ مجاہدین کی مسلسل مزاحمت اور جذبہ جہاد کو دے رہا تھا مگر واحدی کا خیال تھا کہ یہ جنگ اسلام و کفر کی نہیں بلکہ دو سیاسی نظریات یعنی کمیونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان کی ہے۔ واحدی نے جب ایک بارمسکرا کر کہا ‘مذاہب کے درمیان جنگیں در اصل مونارکزم یا بادشاہت کے درمیان حکمرانی کے خاطر تھیں، آج بیسویں صدی میں مذاہب کو آئڈیالوجیز کے درمیان ٹکراؤ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ ہمیشہ کی طرح اس سے مذہب کے تصور انسانیت کو نقصان پہنچے گا۔ ‘ تو مسعود نے جھنجلا کر جواب دیا، ”یہ ڈرائنگ روم کی گفتگو کرنے والے اسلام کے جہادی تصور سے نا واقف ہیں، اسلام کی حفاظت کا وعدہ رب الکریم نے خود کیا ہے۔ جس طرح انہوں نے کعبہ پر ابابیلیں بھیجی تھیں ٹھیک اسی طرح اللہ کی نیک ہدایت کی وجہ سے دوسری قومیں ہماری مدد کے لیے آئی ہیں۔ ” واحدی کی مسکراہٹ مسعود کو اُس وقت زہر آلود لگی تھی جب اُس نے جواب میں کر بلا کے واقعہ پر سوال اٹھایا تھا کہ : اُس وقت ابابیلیں کہاں تھیں جب آل رسول کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا؟

صوفیہ کی معصومانہ محبت اور مسعود کے سیاسی و مذہبی شدت پسندانہ خیالات بعد کے کچھ سالوں میں واحدی کی زندگی کی دردناک تعبیر ثابت ہوئے۔ اُسی شام اس سارے سیاسی بحث کے دوران واحدی کی نگاہیں کئی بار زنان خانے کی طرف اور خواتین کی بیٹھک کی طرف صوفیہ کو ڈھونڈتی رہی تھیں اور بالآخر کنکھیوں سے اُس سے نظریں ملانے میں کامیاب بھی ہو گئی تھیں۔ اپنی اس دوسری ملاقات میں واحدی کو اپنے اور صوفیہ کے درمیان ایک انجان رشتے کی موجودگی کا شدت سے احساس ہوا تھا کیونکہ جب جب اُس کی نظریں صوفیہ سے ملی تھیں، اُس کا دل محبت کے سمندر میں ڈوبتا ہوا ملتا تھا اور نہ جانے کیوں اسے اس بات کا یقین سا تھا کہ صوفیہ بھی اُس کی طرف اُس کی طرح مائل ہے۔

جوں جوں واحدی ماضی کی گلیوں میں آوارہ پھر رہا تھا، صوفیہ کا مجسم حسین روپ آہستہ آہستہ اُس کے بے رنگ حال کو خوشنما رنگوں سے رنگین تر بنا رہا تھا۔ وہ کبھی یونیورسٹی کے آرٹ ڈپارٹمنٹ میں اُسے اپنی سہیلیوں کے ساتھ مسکراتی کھلکھلاتی ہوئی دکھائی دیتی تو کبھی بازار میں اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ شاپنگ کرتے ہوئے دکھائی دیتی۔ کبھی اپنے گھر کے پیچھے اُس کو ایک نظر دیکھنے کے خاطر بہانوں سے آتی جاتی دکھائی دیتی تو کبھی کانپتے ہاتھوں سے اُس سے اپنے پیار کی چھٹی لیتی ہوئی یونیورسٹی کے کسی کمپاؤنڈ میں دکھائی دیتی تھی۔ واحدی صوفیہ کے خیالات میں آہستہ آہستہ یوں جذب ہوتا چلا گیا کہ کرسی پر لیٹے لیٹے اُسے نیند کا ایک جھونکا سا آ گیا کہ اچانک کچھ ٹوٹنے کی آواز کے ساتھ اُس کے رومانی خیالات کی ڈور بھی ٹوٹ گئی۔ اُس نے آدھی نیند کی کیفیت سے نکل کر کمرے میں چاروں طرف حیرانگی سے نظریں گھمائیں مگر جب اُسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ کرسی سے اُٹھا اور کمرے کے بالائی دروازے سے نکل کر پیچھے گیلری کی طرف چلا آیا کہ اچانک کسی نامعلوم سمت سے ایک اور پتھر زناٹے کے ساتھ آیا جس نے اس بار کھڑکی کا شیشہ توڑنے کے بجائے اُس کی پیشانی کو خون سے رنگ دیا۔ پتھر اس قدر شدت سے اُس کی پیشانی پر لگا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے چند لمحوں کے لیے اندھیرا آ گیا اور پھر جب اُس نے بے چینی سے اپنی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے مسلا تو اسے لگا جیسے اُس کی آنکھیں اور ہاتھ دونوں خون سے بھر گئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بارواں باب

 

وقت: بارہ بجے دوپہر

تاریخ: ۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: یونیورسٹی آف ٹورنٹو۔ کینیڈا

 

 

پچھلے دو گھنٹے سے دلیپ اور ثانیہ یونیورسٹی کے کمپاؤنڈ میں ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے۔ ثانیہ کے چہرے پر پریشانی اور دلیپ گہری فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ کچھ لمحوں کی اور خاموشی کے بعد دلیپ نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر پلٹ کر ادھر ادھر نظر یں گھما کر دیکھنے لگا۔ چاروں جانب اسٹوڈنٹس لڑکے اور لڑکیاں کہیں گروپس تو کہیں جوڑوں کی صورت میزوں کے ارد گرد بیٹھے ہوئے پڑھ رہے تھے یا ادھر ادھر کھڑے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ انڈین، پاکستانی، بنگلہ دیشی، چائینز، افریقی، کینیڈین، یورپین غرض یہ کہ ہر چہرہ زندگی کی رونق سے دمک رہا تھا۔ چہرہ کہیں بات کر رہا تھا تو کہیں آنکھیں، آوازیں کہیں گونج رہی تھیں تو کہیں مسکراہٹیں، نہ کہیں رنگ، نسل یا مذہب کے فرق کا کوئی احساس تھا اور نہ ہی کہیں قد و قامت و شکل صورت کے فرق کا، ہاں اگر کچھ تھا تو ایک دوسرے کے ساتھ ایک محبت و دوستی کا رشتہ تھا جو اِن ساری لغویات سے بالاتر تھا۔ نومبر کے باوجودموسم میں ابھی تک شدت پیدا نہیں ہوئی تھی، گھانس اپنا سبز رنگ سینے سے لپٹا کر بیٹھی تھی، درختوں پر خزاں بہار سے زیادہ رنگ بکھیر رہی تھی وہ جو پہلے محض سبز تھے اب زرد اور سرخ بھی ہو رہے تھے جیسے خزاں بھی نوجوانی کے رنگوں میں ڈھل رہی تھی اور افسردگی کے بجائے کسی انجانی مسرت کے احساس سے دوچار تھی۔ ہوا میں خنکی تھی مگر دھوپ کے اُجلے رنگ میں جذب ہو کراُس کی لطیف گرمی ساتھ مل کر گرم ہونے کے بجائے ایک تمازت آمیز سردی کا ذائقہ دے رہی تھی۔ دلیپ نے پھر ثانیہ کو ایک گہری نگاہ سے دیکھا اور پھر دھیرے سے اُس کے ہاتھ کو محبت سے بھینچ لیا۔ ۔ جیسے وہ بھی اس گلوبل سوسائٹی کی فطری دنیا کا ایک حصہ بن جانا چاہتا ہو۔

”تم پھر گھر سے نکلی کیسے آج؟۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے آہستہ سے کہا

”سینڈل پہن کر۔ ۔ ۔ ” ثانیہ نے منہ بسور کر کہا اور پھر اچانک ہنسنے لگی، ”یار دلیپ تم بھی نا بس۔ ۔ ۔ ” پھر ایک گہرا سانس لے کر کہا، ” یار میں نے کل رات جب تمھیں ای میل کیا تھا نا تو کیا لکھا تھا یہی نا کہ تم سے ملنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے۔ مما پپا کے سمجھ نہیں آ رہی ہے وہ ابھی تک پاکستان میں ہی رہتے ہیں ذہنی طور پر۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ادھر ایک دن، ایک رات، ایک گھنٹہ حتی کہ ایک منٹ بھی کینیڈا میں نہیں رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں ہے اس ملک کا، یہاں کے کلچر کا، یہاں کے رنگوں کا، انہیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ اُن کے بیک یارڈ میں جو پچھلے دس سال سے اُگا ہوا درخت ہے، جو جھاڑی ہے، اس کا نام کیا ہے ؟ اور یو نو واٹ(you know what) انہیں دلچسپی بھی نہیں ہے کیونکہ وہ یہاں کینڈا صرف ڈالر کمانے کے لیے آئے تھے، وہ یہاں آئے تھے اچھے گھر کے لیے یا بڑی گاڑیوں کے لیے یار۔ انہیں اس سے کیا غرض کہ یہاں کا سماجی نظام کیا ہے،ا ن کے یہاں کونسی نئی تہذیب پیدا ہو رہی ہے ؟ اِن کا ماضی کیا ہے، اِن کا مستقبل کیا ہے ؟ دے ڈونٹ کیر(they don’t care) ؟ بس انہیں فکر صرف اس بات کی ہے کہ سال میں دو بار پاکستان ضرور جانا ہے اور دو تین سال میں ایک بار انہیں یورپ جانا بہت اچھا لگتا ہے تاکہ فیس بک پر یورپ کے وزٹ کی تصویریں لگا کر دوستوں کو جیلس(jealous) کیا جائے یا پاکستان جا کر اپنے رشتے داروں میں شیخی ماری جائے۔ اُنہیں اچھا لگتا ہے کہ اپنے دوستوں رشتہ داروں کو پاکستان جا کر بتائیں کہ ہمارے بچے یہ کر رہے ہیں، ہمارے بچے وہ کر رہے ہیں، وہ بہت ہی جینیس(genius) ہیں، وہ سب سے آگے ہیں، وہ ڈاکٹر بن رہے ہیں، وہ اب سی ای او(CEO) بن گئے ہیں اور یہ کہ ہمارا گھر ٹورنٹو کی مہنگی ترین سڑک پر ہے اور ہمارے پاس دو دو بی ایم ڈبلیوز(BMWs) ہیں۔ ان سب بکواس میں دے ٹرائی ٹو فائنڈ دیر ہیپی نس (they try to find their happiness)۔ ۔ ۔ مگر میں، آئی ایم ناٹ لا ئیک دیم یار(I am not like them)۔ ۔ ۔ آئی ہیٹ آل دس شٹ (I hate all this shit)، دس از مائی کنٹری، کینیڈا، (this is my country۔ .. Canada)آئی لو دس کلچر (I love this culture)، دس لینگوج (this language)، دس از واٹ آئی ایم(this is what I am)، آئی ایم کینیڈین(I am Canadian) یار۔ ۔ میں یہاں رہنا چاہتی ہوں اس ملک میں، یہی زندگی گزاروں گی کیونکہ یہی جگہ میرا گھر ہے، یہی میرا کلچر ہے، میں اِن جیسی ہی ہوں یار۔ ۔ ۔ ” ثانیہ نے اردگرد دیکھ کر کہا، ” مجھے نہیں چاہیے کوئی پاکستان نا ہی وہاں کا کلچر۔ ۔ ۔ میں نہ تو یہاں پر اس سوسائٹی میں رہنا چاہتی ہوں اور نہ ہی میں وہاں جانا چاہتی ہوں۔ مجھے پتہ ہے وہاں زیادہ تر لوگ دوغلے ہیں، جب دیکھو یہ لوگ خوامخواہ ہی جھوٹ بولتے رہتے ہیں کبھی ایک دوسرے سے، کبھی اپنے آپ سے، وہ سچ سننا نہیں چاہتے، جاہلوں کی طرح ایک دوسرے کی جانوں کے پیچھے ہیں، وہ نفرتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ آئی کین سی تھرو نیوز، تھرو اور سوسائٹی، تھرو اور فیملی فرینڈز (I can see through news, through our society, ہنگوچت اودست ودthrough our family friends)۔ ۔ ۔ آئی کینٹ افورڈ آل دس نان سینس یار !(I can’t afford all this nonsense )، لسن(listen) دلیپ میں نے طے کیا کہ ہمیں کچھ طے کرنا ہو گا اور اب ہمیں اپنے والدین کو بتا نا ہو گا کہ ہم کیا چاہتے ہیں، بجائے اس کے ہم ان سے پوچھیں کہ اُن کا ہمارے بارے میں کیا فیصلہ ہے۔ ۔ ۔ ”

دلیپ نے مسکرا کر کہا، ” وہ تو سب ٹھیک ہے پر یار تو نے بتا یا نہیں تو گھر سے نکلی کیسے، دیوار پھلانگ کر یا گیٹ سے کود کر۔ ۔ ۔ ؟ ”

ثانیہ پھر ہنسنے لگی، ” ہاں میں بالی وڈ کی ہیروئین ہوں نا ؟۔ ۔ ۔ یار ابو جاب پر گئے اور امی پاکستانی ٹی وی کے مارننگ شو دیکھنے بیس منٹ(basement) میں اور میں نے سینڈل پہنی اور آئی پاڈ(iPod) کانوں میں لگا کر سیدھا اپنے دلیپ کمار کے پاس آ گئی۔ میں نے فوراً سوچا اِس سے پہلے کہ ان کا فضول سا مارننگ شو ختم ہو اور وہ موڈ بنائیں، مجھے ڈانٹنے یا لتاڑنے کا، میں تو نکلوں یہاں سے۔ ۔ ۔ ویسے بائی دی وئے (by the way) اب تک تو مما کی پپا کے پاس آدھی درجن سے زیادہ کالیں تو جاچکی ہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ” ثانیہ نے رِسٹ واچ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”تو ایسا کر یار میرے پاس شفٹ ہو جا۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے ثانیہ کی ٹھوڑی کو شرارت سے ہاتھ لگا کر کہا، ”ہاں تاکہ سال میں میرے تین بچے بنا شادی کے ہی پیدا ہو جائیں اور پھر تم تو نکل جاؤ ہندوستان واپس اپنی ڈاکٹری کی ڈگری لے کر اور میں یہاں ماہر نفسیات بننے کہ بجائے، سنگل مادر (single mother) بن کر بچے پالوں اور پوری نفسیاتی مریض بن جاؤں۔ ۔ ہوں ؟” یہ کہہ کر ثانیہ نے مسکرا کر دلیپ کے ہاتھ کو پکڑ کر ٹھوڑی سے ہٹایا مگر چھوڑا نہیں بلکہ کہنے لگیں، ” نہیں دلیپ۔ ۔ ۔ ہمیں اب کچھ سنجیدہ فیصلے کرنے ہیں یہاں آج۔ ۔ ۔ دیکھو یار ابھی جب میں گھر جاؤں گی تو یہ ہو سکتا ہے میرے مما پپا یا مجھے غصے میں دو ایک ہاتھ بھی لگا دیں گے اور پھر پیار سے چمکار کر میری شادی جلد سے جلد اِدھر اُدھر کہیں کرنے کی بات کر یں گے، اور یو نو واٹ کلوزڈ فیملی سسٹم(closed family system) میں شادی وادی اور یہ رشتے وشتے سب بہت ہی آسانی سے ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ کوئی نہ کوئی سگی دور یا پاس کی پھوپھی نکل آتی ہے جو بیچاری اپنے بیٹے کے سہرے کے پھولوں کو دیکھنے کے لیے بس مری جا رہی ہوتی ہے اور اُدھر ان کے لڑکے بھی کینیڈا آنے کے لیے مر رہے ہوتے ہیں، تو ایک ٹکٹ میں دو مزے سب کو اچھے لگتے ہیں نا۔ مگر مجھے یہ سب بکواس نہیں چاہیے۔ میں اس لیے گھر واپس نہیں جانے والی اور ہاں میں شاید تیرے ساتھ بھی نہ رہوں۔ میں سوچ رہی ہوں کسی فرینڈ کے پاس شفٹ ہو جاؤں گی۔ آئی ایم ویری اسٹیٹ فارورڈ، (I’m very straightforward) یو نو می (you know me) دلیپ اگر تم مجھ سے شادی کر لو گے تو ہی میں تمھارے ساتھ رہوں گی اگر یہ ممکن نہیں ہے تو بھی میں نے سوچ لیا ہے کہ میں گھر نہیں جانے والی اور ہاں میں پھر اپنے اور تیرے تعلق کو بھی مزید ری ویو (review)کروں گی۔ ۔ آئی تھنک آئی ایم فیر اینڈ آئی ایم میکنگ دی رائٹ ڈسیشن۔

(I think I am fair and I am making the right decision”)

ثانیہ جو کل رات دیر تک سوچتی رہی تھی وہ سب اُس نے ایک ہی سانس میں دلیپ سے کہ دیا۔

”ثانیہ تمھیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔ ۔ ۔ ؟ تمھیں لگتا ہے میری محبت میں کھوٹ ہے۔ ۔ ۔ ؟” دلیپ کو اس کی باتوں سے شاید کچھ دکھ ہوا تھا۔

” تمھیں کوئی ضرورت نہیں ہے کسی دوست ووست کے پاس جانے کی یار  اور پلیز یہ مت سمجھو کہ میں تمھیں چھوڑ کر بھاگنے والا ہوں۔ تم جو مجھے چھوڑ گئی تو چھوڑ گئی۔ ۔ مگر میرا اِدھر ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ مجھے تو پہلے ہی معلوم ہے کہ میرے ابا جی تو شاید پھر بھی ہماری شادی کے لیے راضی ہو جائیں گے پر بے جی تو مرتے دم تک راضی نہیں ہوں گی۔ اب بس لے دے کر ایک ہی طریقہ ہے کہ میں بے جی کو یونہی لٹکا تا رہوں اور پھر ایک دن تھک ہار کر وہ میری بات مان لیں، مگر پھر مجھے یہ بھی سوچنا ہو گا کہ میں پھر ہمیشہ کے لیے کینیڈا ہی شفٹ ہو جاؤں کیونکہ انڈیا ہو یا پاکستان دونوں طرف کلوزڈ فیملی سسٹم ہے۔ اور اگر تم یہاں رہنا چاہتی ہو تو میں بھی ہمیشہ کی واپسی کا خیال دل سے نکال دوں۔ یار ابھی تک تو میں نے اتنی آگے کا سوچا بھی نہیں تھا، مگر مجھے اب لگتا ہے جیسے ان سب باتوں کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ ” پھر ایک گہری سانس لے کر دلیپ نے کہا، ”یار ثانیہ میں بے جی سے بہت پیار کرتا ہوں جیسے تم ان سب باتوں کے باوجود اپنے مما پاپا سے پیار کرتی ہو گی۔ ۔ ۔ مگر تم فکر نہیں کرو۔ ۔ ۔ کچھ نہ کچھ بہتر ہی ہو گا، بس تم مجھ پر بھروسہ کرو۔ ۔ ۔ ”

ثانیہ شاید یہی کچھ دلیپ سے سننا چاہتی تھی، جواب میں اُس نے دلیپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ” مجھے تم پر خود سے زیادہ بھروسہ ہے دلیپ، اسی لیے تمھارے خاطر اپنا گھر اپنے ماں باپ سب چھوڑ کر آ گئی ہوں۔ ۔ ۔ تم کچھ بھی کہو، مگر یار یہ میرے لیے آ سان نہیں تھا۔ ۔ ۔ ”

” نہیں یہ آسان نہیں ہے ثانیہ اور میں تمھارا ساتھ مرتے دم تک نبھاؤں گا یار۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے ثانیہ کو کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گلے لگے ہوئے یونہی چپ چاپ ایک دوسرے کی قربت کو محسوس کرتے رہے اور پھر کچھ ہی دیر میں دلیپ کو لگا جیسے ثانیہ آہستہ آہستہ رو رہی ہے۔ دلیپ اُس کی آنکھوں کو نمی کو دیکھے بغیر ہی اپنی گردن اور سینے اور دل میں محسوس کر سکتا تھا۔ اُس نے ثانیہ کو پیار سے بھینچ لیا اور پھر اُس کے کان میں کہا، ”آئی لو یو ودھ آل مائی ہارٹ، یو آر مائی لائف ثانیہ۔ ۔ ۔ (I love you with all my heart, you are my life)” اور پھر اسے لگا جیسے اس کے اپنے جملے ثانیہ کی سانسوں میں اُتر کر اُس کی دھڑکنوں کا حصہ بن گئے ہیں کیونکہ اب وہ اُس کے دل کی دھڑکنوں کو اپنے سینے میں محسوس کر رہا تھا۔ محبت چپکے چپکے وقت، جگہ، رنگ، نسل اور مذہب سے بے نیاز ہوتی جا رہی تھی۔ دلیپ اور ثانیہ کے ملاپ سے یونیورسٹی کے کمپا ؤنڈ میں نظر آنے والا ادھورا منظر تکمیل پا رہا تھا اور فطرت انہیں گلوبل سوسائٹی کا حصہ بنانے کی تگ دو میں مصروف ہو گئی تھی گو کہ وہاں موجود ہر شے بظاہر ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دے رہی تھی مگر اندرون خانہ یکساں تھی اور آپس میں جڑی ہوئی تھی۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید