FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ٹوٹی ہوئی دیوار

 (ناول)

 

 

                بلند اقبال

 

حصہ دوم

 

 

تیرواں باب

 

وقت : نو بجے رات

تاریخ:۸ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : شاہ فیصل کالونی نمبر ۵۔ کراچی

 

 

ادریس کا اگلا سارا دن مسجد میں ہی گزر گیا۔ فجر سے عشاء تک مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھا رہا، نمازیوں کی نظر جونہی اس پر پڑتی وہ بے اختیار اُس سے مصافحے کے خاطر بڑھتے، کئی ایک تو تھوڑا سا جھک بھی جاتے تھے بلکہ ایک دو نے تو اس کے ہاتھوں پر بوسے بھی دے۔ عزت و تکریم کا یہ احساس ادریس کے لیے بالکل نیا اور چونکہ دینے والا تھا جس سے وہ اس سے قبل کبھی بھی نہیں گزرا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ محلے کے لوگ اس کی دادا گیری کی وجہ سے اُس سے ڈرتے تھے اور پھر اُسے بھی کچھ لیڈری کا شوق تھا جس کی وجہ سے وہ اُس سے ملتے وقت تھوڑا خیال کر تے تھے پھر کچھ ادریس کا قد کاٹھی اور ڈیل ڈال بھی ایسا لمبا تڑنگا اور بھاری بھرکم تھا کہ وہ ہجوم میں آسانی سے نمایاں بھی ہو جاتا تھا اور خود اُسے بھی لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا اچھا لگتا تھا۔ ہمیشہ سے وہ محلے کا ادریس بھائی تھا۔ چاہے کبھی کسی کی گاڑی خراب ہو جائے یا گھر کا نلکا ٹوٹ جائے یا محلے میں کسی عورت کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کرے یا پھر کوئی باہر کا شخص چوری چکاری کرتا ہوا محلے میں پکڑا جائے تو ہاتھ پاؤں چلانے اور ڈنڈے گھمانے میں ادریس ہمیشہ سے آگے آ گے رہتا تھا۔ پچھلے سال بھی جب شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا تھا تو اُس نے گھر گھر جا کر سامان جمع کیا تھا اور پھر مسجد کے ذریعے اُسے وہاں بھجوانے کے لیے بندوبست بھی کیا تھا۔ اسی طرح اس سال جب مون سون کی بارش کے بعد محلے کے گٹر ابل گئے تھے اور الیکٹریشن الیاس کا چھوٹا لڑکا گلی کے کھلے مین ہول میں گر کر مر گیا تھا تو ادریس نے نہ صرف اس کی لاش کو گٹر سے نکالا تھا بلکہ بعد میں چندہ کر کے محلے کے سارے مین ہول بھی بند کروائے تھے۔ یہی نہیں کم و بیش ہر دوسرے تیسرے سال وہ محلے کی مسجد کا چونا بھی فری میں کروا دیتا تھا کیونکہ وہ رنگ روغن کا ہی کا کام کرتا بھی تھا اس لیے آس پاس کے چونے والے اُس کے ساتھ جمع ہو جاتے تھے اور نیکی سمجھ کر مفت چونا پھیر دیتے تھے۔ اس کے یار دوستوں کا پکا خیال تھا کہ اس کو محلے کے لوگ علاقے کے کونسلر سے زیادہ جانتے تھے بلکہ پچھلے برس تو اُس کے جگری یار، رب نواز نے اس کو مشورہ بھی دیا تھا کہ، ” ابے چونے وونے کا کام چھوڑ۔ ۔ ۔ اب توسیاست میں آ جا اور اس بار اللہ کا نام لے کر کونسلر کے الیکشن میں کھڑا ہو جا۔ ” مگر شاید ادریس کو اندر سے یہ احساس تھا کہ وہ تو آٹھویں جماعت بھی پاس نہیں ہے اور اس کے محلے میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل لوگ رہتے ہیں اُن میں انجینیر، ڈاکٹر، وکیل، بینکر، استاد سب ہی شامل ہیں اور ویسے بھی اب کونسلر کے لیے کم از کم بی اے پاس ہونا ضروری تھا۔ مگر ابھی تو حالات ہی اچانک سے بدل گئے تھے۔ آج عصر کے وقت خود علاقے کا کونسلر بھی اُس سے جھک کر ملا تھا اور کافی دیر تک اِدھر اُ دھر کی باتیں کرتا  رہا تھا۔ محلے کے اکثر پڑھے لکھے نمازی ادریس بھائی سلام علیکم کہتے ہوئے اُس کے پاس سے گزرتے تھے، گلی کی نکڑ والے گھر کے وکیل صاحب جن کا نام بھی اتفاق سے ایڈوکیٹ محمد وکیل تھا انہوں نے تو اس کے ہاتھ کو پکڑ کر چوما ہی نہیں تھا بلکہ آگے بڑھ کر اسی کی پیشانی کو بوسہ بھی دیا تھا۔ ادریس خود بھی صبح سے مسجد میں نمازیں پڑھتا رہا تھا، آج اُس نے غیر ارادی طور پر ایک تسبیح بھی ہاتھ میں پکڑ لی تھی اور زیر لب کسی آیت کا ورد بھی کرتا جا رہا تھا اور گردن کے ارد گرد مولوی سلیم اللہ کی طرح کا ایک اسکارف بھی ڈالا ہوا تھا۔ آج وہ خود کو با عزت اور محترم محسوس کر رہا تھا، وہ جب سے تھانے سے واپس آیا تھا ایک الگ ہی طرح کی بڑائی یا عظمت کا احساس بھی اُس میں پیدا ہو گیا تھا جو اگرچہ ابھی نو مولود حالت میں تھا مگر اُس کی کونپلیں اُس کے اندر تیزی سے پھل پھول رہی تھیں۔ اس سارے عمل میں مسجد کے ماحول میں پھیلی ہوئے تقدس یا کچھ پاکیزگی کا احساس اور پھر سب سے بڑھ کر مستقل ملنے والی عزت افزائی، ان سب باتوں کا شاید اس نے کبھی خوابوں میں بھی تصور نہیں کیا تھا۔ اصل بات تو یہ تھی کہ محض ایک دن مسجد میں گزار کر ہی وہ خود کو کچھ کچھ جونیئر مولوی سلیم اللہ سمجھ رہا تھا یا شاید سچ مچ بن بھی گیا تھا۔ عشاء کا وقت کب ہو گیا، ادریس کو وقت کا پتہ ہی نہ چلا، اُس کا سارا دن نمازوں، تلاوت اور خصوصاً مصافحوں میں گزر گیا تھا۔ عشاء پڑھ کر جب اُسے تھوڑا وقت ملا تو مولوی سلیم اللہ نے اس کے کان میں کھسر پسر کی کہ ‘ابھی ابھی میرے پاس فون آیا ہے کہ مولوی شمس الحق بس اب راستے میں ہی ہیں اور ممکن ہے آدھے گھنٹے میں گھر پہنچ جائیں گے۔ ‘ ادریس نے یونہی اِدھر اُدھر مسجد میں نظر یں گھمائی اور آہستہ سے کہا، ” کیا اور بھی کچھ لوگ آپ کے یہاں شامل ہیں رات کے کھانے میں ؟”

مولوی سلیم اللہ نے کہا، ” نہیں بھائی یہ ضیافت صرف خاص خاص لوگوں کے لیے ہے، اچھا اب چلیں، راستے میں سے کچھ چیزیں دودھ دہی مٹھائی وغیرہ بھی لے کر گھر جانا ہے، شمس بھائی کو ٹھنڈی لسی اور گرم گاجر کا حلوہ بہت پسند ہے۔ ”

ادریس کی مولوی شمس الحق سے پہلی ملاقات تھی مگر اُس نے ان کا چرچہ بہت سن رکھا تھا۔ اکثر ان کے تین سطری بیانات بھی اخباروں کے پچھلے صفحوں میں چھپتے رہتے تھے جس میں پاکستان میں شریعت کے قیام، داعش کی موافقت اور شیعاؤں اور احمدیوں کے کفر کا تذکرہ ہوتا تھا۔ ادریس کو یہ نہیں پتہ تھا کہ مولوی شمس الحق کا تعلق کس سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہے مگر اُن کی شہرت، دہشت اور طاقت سے وہ دل ہی دل میں مرعوب تھا اُسے پتہ تھا کہ وہ ملک بھر میں بہت سی مساجد اور مدرسوں کو کنٹرول کر رہے ہیں اور کم و بیش ہر ایک مدرسے یا مسجد میں مولوی سلیم اللہ جیسے لوگ اُن ہی کی جماعت نے ہی تعینات کیے ہوئے ہیں۔

ادریس اور مولوی سلیم اللہ کے گھر پہنچنے کے دس پندرہ منٹ بعد ہی ایک ساتھ کئی بڑی گاڑیاں قطار در قطار سلیم اللہ کے محلے میں آ گئی تھیں۔ مولوی شمس الحق اور ان کے تین چار قریبی ساتھی تو ایک ہی بڑی کار میں سوار تھے مگر باقی کی دو تین گاڑیوں میں کچھ اسلحہ بردار داڑھی والے اشخاص بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ شاید مولوی شمس الحق کی سیکو رٹی کے لیے پابند تھے شاید اسی لیے وہ گھر کے باہر ہی گلی میں بیٹھے رہے اور مولوی سلیم اللہ نے وہی گلی میں ہی اُن کے کھانے پینے کا بھی بندوبست کر دیا تھا۔ مولوی شمس الحق کے ساتھ جو تین چار اور بھی اکابرین تھے اُن کی داڑھیاں خاصی بے ترتیبی سے اُن کے سینوں پر پھیلی ہوئی تھیں۔ اُن چار حضرات میں سے دو تو شمس الحق کے اپنے رشتے دار تھے یعنی ایک اُن کا بڑا بیٹا اور دوسرا چھوٹا بھائی تھا جن کا تعارف بعد میں مولوی سلیم اللہ نے کرایا تھا۔ مولوی شمس الحق کی نظر جونہی ادریس پر پڑی انہوں نے با آواز بلند سورہ توبہ کی ایک آیت پڑھی اور جب ادریس نے آگے آ کر اُن سے مصافحہ کیا اور جھک کر ان کے دونوں ہاتھوں کو بوسا دیا تو انہوں نے جواب میں اُس کی پیشانی کو چوم لیا اور پھر ٹھیر کر کہا، ”شاباش ادریس میاں گستاخِ رسول کی سزا صرف موت ہے۔ تحفظ حرمت رسول ہر سچے مسلمان کا فرض ہے۔ آپ نے تو ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے، کسی کافر کی یہ مجال جو ہمارے آقا کی شان میں گستاخی کرے۔ ”

ویسے ادریس کو تو پہلے ہی مولوی سلیم اللہ کے ذریعے خاصا اطمینان ہو چلا تھا مگر پھر بھی اس نے سوچا کیوں نہ براہ راست اس سلسلے میں مولوی شمس الحق صاحب سے بھی بات کر لی جائے چنانچہ اس نے آہستہ سے ان کے کان کے قریب آ کر کہا، ” مولوی صاحب کیا کوئی کوٹ کچہری کا چکر بھی ہو سکتا ہے آگے۔ ۔ ۔ ؟”

یہ سُن کر مولوی شمس الحق نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ”ارے ان کافروں کی مجال ہے جو یہ کچھ کریں ہم یہاں کس لیے بیٹھے ہیں ؟ یہاں سے اسلام آباد تک طوفان مچ جائے گا ادریس میاں، آپ بس بے فکر رہیں اور آپ نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے بھائی بلکہ آپ نے تو بڑا نیک کام کیا ہے۔ دیکھیں جو کام حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے وہ آپ نے انجام دیا ہے۔ بس یہ بات ہے، آپ نے جو کیا ہے وہ تو ہر مسلمان پر فرض ہے، اسلام کی سربلندی کے لیے، اُس کے استحکام کے لیے، مگر خیر ابھی تو یہ باتیں چلتی رہیں گی، پہلے تھوڑا کھانا وغیرہ کھا لیا جائے، کیوں بھائی سلیم اللہ صاحب کھانا تو لگوائیں۔ ۔ ۔ ”

”آئیں حضرات۔ ۔ ۔ ” یہ کہتے ہوئے وہ مولوی سلیم اللہ سے اور اپنے پیچھے کھڑے ہوئے تینوں چاروں مولوی حضرات سے مخاطب ہو کر کہا اور پھر اپنی گھنی داڑھی پر ہاتھ پھیر تے ہوئے ادریس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُس کے ساتھ دالان میں سے ہوتے ہوئے ڈرائنگ روم کی طرف چلے آئے جہاں پر پہلے ہی سے ایک فرشی نشست کا بندوبست تھا۔ کمرے میں سفید چاندنی پچھی ہوئی تھی جس پر دیوار کے ساتھ ساتھ بڑے سائز کے سرخ مخملی گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے جن پر گوٹے کناری سے جا بجا پھول کڑھے ہوئے تھے۔ کمرے کے کونوں میں گلدان رکھے ہوئے تھے سوائے ایک کونے میں جہاں ایک اُگالدان بھی دھرا ہوا تھا۔ کمرے میں چاروں جانب اگر بتی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی جو اُسے کسی مقبرے کی طرح مہکا رہی تھی۔ دیواروں پر مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کی دو بڑی تصاویر سنہرے فریم میں جڑی ہوئی تھیں۔ کمرے کے بیچوں بیچ دسترخوان پر گرم گرم کھانا چنا ہوا تھا جن سے نکلنے والا دھواں اُن میں موجود بھنے ہوئے مرغ مسلم، بریانی، قورمہ اور سیخ کباب کی موجودگی کی شہادت دے رہے تھے۔ مولوی شمس الحق کے ساتھ ساتھ باقی حضرات بھی ایک ایک کر کے دسترخوان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پھر سب دسترخوان کے ارد گرد بیٹھنے لگے۔ مولوی شمس الحق نے ادریس کو خصوصاً اپنے پہلو میں جگہ دی اور پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے اُس کی پلیٹ میں بریانی اور سیخ کباب ڈال دیے اور کہا، ” لیجیے ادریس میاں آپ بسم اللہ فرمائیے۔ ۔ ۔ ”

کچھ دیر تک تو کمرے میں صرف چمچوں اور پلیٹوں کی آواز یں گونجتی رہیں مگر پھر تھوڑی دیر بعد گفتگو کا سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو گیا اور مولوی شمس الحق نے مولوی سلیم اللہ سے مخاطب ہو کر کہا، ”ہاں تو سلیم اللہ صاحب کیا کہہ رہا تھا پھر وہ ایس ایچ او؟”

” جی مولوی صاحب وہ یہی کہہ رہا تھا کہ ابھی واقعہ ذرا گرم ہے، کچھ دن تو یہ ہیومن رائٹس اور سول سوسائٹی والے اس واقعہ کو اٹھائیں گے، میڈیا پرو پگینڈا کرے گا، اشتہارات جمع کرے گا، پیسہ ویسہ بنائے گا مگر پھر جوں جوں تھوڑا وقت گزرے گا تو سب معاملہ پیچھے چلا جائے گا۔ ”

مولوی سلیم اللہ نے نان کی پلیٹ دوسرے اشخاص کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ”مولوی صاحب جواب میں میں نے بھی وہی کچھ کہا جیسا کہ آپ نے حکم فرمایا تھا کہ بھائی یہ جو چرسی موالی شہر میں گھوم رہے ہیں انہیں پکڑ پکڑا کر بند کر و بجائے ہمارے ان نیک لوگوں کے اور مولوی صاحب یہ بات آپ کی سو فیصد بجا بھی تو ہے، اچھا ساتھ ہی میں نے اشارہ بھی کیا کہ مولوی شمس الحق صاحب کی بھی پہنچ اوپر تک ہے اور رہی بات ڈنڈے کی تو بھائی اگر پولیس نے ڈنڈا چلایا تو ہمارے پاس بھی بہت لاٹھی بردار ہیں۔ ” مولوی سلیم اللہ نے یہ کہتے ہوئے نان کی تھالی ایک طرف رکھی اور بھنے ہوئے مرغ کے ٹکڑے مہمانوں کے پلیٹوں میں ڈالنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا، ”بھائی انصاف کیجیے، آپ لوگ تو بہت تکلف فرما رہے ہیں ”

مولوی شمس الحق نے ایک ہلکی سی ڈکار لی اور اپنے ایک ہاتھ سے نہیں کا اشارہ بناتے ہوئے مولوی سلیم اللہ سے مخاطب ہو کر کہا، ”ارے نہیں سلیم صاحب۔ ۔ ۔ دیکھو بھائی ہم اکثر کہتے ہیں مذہب میں جبر نہیں ہے، ایسی باتیں مت کرو جس سے تصادم کا اندیشہ ہو ہم تو ویسے بھی خون خرابے کے خلاف ہیں۔ بھائی اسلام امن کا مذہب ہے، یہ تو کچھ لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں کہ شریعت کے اپنے کچھ قوانین ہیں، یہ قوانین اللہ تبارک تعالی کی طرف سے ہیں، کیا اب ہم نعوذ باللہ اُن احکامات کی پابندی نہیں کریں گے ؟ اب رہی بات اس ملعون کے واقعہ کی تو اس بات پر تو کوئی حجت، بحث اور دلیل کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ رسول پاک کی حرمت کے لیے تو جان لی بھی جا سکتی ہے اور دی بھی جا سکتی ہے۔ بہر حال ایس ایچ او اپنا ہی آدمی ہے بس ذرا تھانے میں وردی کی دھو نس بھی دکھانی ہوتی ہے اور پھر تھانے میں بھی تو اِن اخبار والوں کے مخبر ہوتے ہیں نا۔ ۔ ۔ سالا کون کس سے ملا ہوا ہوتا ہے پتہ نہیں چلتا ہے، اِس لیے بھی سب باتیں اندر ہی طے کرنی پڑتی ہے۔ ” یہ کہہ کر وہ پھر ادریس سے مخاطب ہو گئے، ” اچھا ادریس میاں اب آپ کچھ ضروری کام کر لیں ایک تو یہ کہ آپ فٹا فٹ ہماری جماعت کا حلف نامہ بھر دیجیے تاکہ افیشیلی (officially)آپ ہماری جماعت کے رکن بن جائیں۔ اُس کا آپ کو بہت فائدہ ہو گا کیونکہ ہماری جماعت اپنے ارکان کا بالکل اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتی ہے اور دوسرا یہ کہ فرض تو آپ پورے فرما رہے ہیں تو سنت بھی پوری کیجیے اور اس خشخشی کو مٹھی برابر تو اللہ کے فضل سے کر لیجیے۔ ۔ ۔ ”

مولوی شمس الحق نے مسکرا کر ادریس کی ٹھوڑی کے بالوں پر ہاتھ لگا کر کہا، ”’اور ہاں ایک اور بات یہ کہ اب آپ چونے کے کام کی جگہ جماعت کے کام میں زیادہ وقت دیجیے کیونکہ اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کو عبادت کی طرف اور اُن کی خدمت کرنا ہر مومن کی ذمہ داری ہے۔ خصوصاً امت جب بے راہروی اور اخلاقی پستی کا شکار ہو جائے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دین کی تبلیغ کرے اور اخلاقیات کا درس دے، انہیں سیدھے راستے پر لانے کی کوشش کرے۔ ”

بجا فرمایا جی، بجا فرمایا مولوی صاحب بار بار کہتے ہوئے ادریس کا دل ایک طرف تو مسرت سے بھرتا جا رہا تھا کہ زندگی کس طرح دونوں ہاتھوں سے اس پر برکتیں نچھاور کر تی جا رہی تھی مگر دوسری طرف یہ خیال اُسے مسلسل حیران بھی کر رہا تھا کہ سب کچھ اس قدر اچانک اور طاقت سے اس کے حق میں ہو رہا تھا جس کا اسے اب تک شائبہ بھی نہیں تھا۔ اب اس کا ذہن اس بات پرآ مادہ ہوتا جا رہا تھا کہ اب تک جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں یقیناً قدرت کی رضا شامل ہے نہیں تو وہ یوں ہی تھوڑی اتنی کم مدت میں اتنے بڑے جید عالموں اور بزرگوں کی نگاہ التفات کا مرکز بن جاتا اور یوں اُس پر عزت و پیسے کی بھرمار ہونی شروع ہو جاتی۔ کہاں وہ آٹھویں جماعت فیل چونے والا اور کہاں یہ عزت و تکریم، ہو نہ ہو اللہ تبارک تعالیٰ نے اسے کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، سچ کہہ رہے ہیں مولوی صاحب دین کی سر بلندی اور اس کی عظمت کے لیے تو اُس کی دی ہوئی جان بھی حاضر ہے اور زندگی بھی تو اسی کی بخشی ہوئی ہے۔ اچانک مولوی سلیم اللہ نے مرغی کی ایک ٹانگ ڈونگے سے نکال کر اُس کی رکابی میں ڈالی تو چمچہ پھسل کر رکابی سے زور سے ٹکرا گیا اور ادریس کے خیالات کی ٹرین اچانک رُک گئی، اُس نے چونک کر پلیٹ میں پڑے چمچے کو ایک کونے سے پکڑا اور پھر دوبارہ ڈونگے میں ڈال دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چودہواں باب

 

وقت : دو بجے دوپہر

تاریخ:۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : کابل، افغانستان

 

واحدی کی آنکھ کھلی تو اُس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ وہ فرش پر جہاں اوندھا پڑا ہوا تھا وہاں خون ٹپک کر جم گیا تھا۔ شکر ہے آنکھ بچ گئی تھی ورنہ پتھر خاصا نوکدار تھا جس نے اُس کی پیشانی کو چھیل کر رکھ دیا تھا۔ دائیں بھنویں پر گھاؤ گہرا تھا جہاں سے نکلنے والی خون کی پچکاری اُس کی آنکھ کو بھر گئی تھی۔ جس طرح سے آنکھ پر بوجھ بڑھ گیا تھا واحدی کو یوں لگا جیسے دائیں آنکھ پر پپوٹا سوجھ گیا ہے مگر بائیں آنکھ سے وہ ارد گرد دیکھ سکتا تھا۔ وہ ابھی بھی گیلری میں ویسے ہی الٹا پڑا ہوا تھاجیسے پتھر لگنے کے بعد وہ چکرا کر گرا تھا۔ واحدی آہستہ سے اُٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا گیلری سے واپس کمرے میں آ گیا اور پھر اندازے سے دروازے کی کنڈی چڑھا کر کمرے کو اندر سے لاک کر لیا۔ باتھ روم میں آ کر اُس نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ آنکھ اور پیشانی پر سے ہٹا یا تو اسے دیکھ کر اطمینان ہوا کہ صرف پپوٹا خون کے جمنے کی وجہ سے آنکھ سے چپکا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھ صاف بچ گئی تھی صرف دائیں بھنو یں کے اوپر کا زخم تھا جس سے رسنے والے خون نے اُس کی آنکھ بھر دی تھی۔ واحدی نے پانی سے آنکھ اور پیشانی کا سارا جمع ہوا خون صاف کیا اور پھر قریب سے زخم کو دیکھنے لگا۔ زخم پچھلے گھنٹے بھر کے گزرنے کی وجہ سے تھوڑا سا خشک ہو گیا تھا گو کہ ابھی بھی اس کا ایک کونا جو زیادہ گہرا تھا ہلکا سا رس رہا تھا۔ واحدی نے فرسٹ ایڈ بکس الماری سے نکال کر زخم صاف کیا اور پھر اُس پر بینڈیج لگا لی۔ کمرے میں آ کر اُس نے دو گولی اسپرو کی کھائی اور پھر کھڑکی کے جھروکے سے باہر جھانکنے کی کوشش کی جہاں توقع کے مطابق اُسے کوئی نظر نہیں آیا کیونکہ اُسے یقین تھا کہ ابھی اُس کو دھمکانے کا پیریڈ چل رہا ہے، پہلے فون پر گالیاں اور اب پتھر بازی مگر کچھ پتہ نہیں وہ ابھی دو چار خالی فائر بھی مار سکتے یا شاید اُسے زخمی کرنے کی کوشش کرتے۔ واحدی نے کھڑکی سے ہٹ کر سیل فون پر ناظر عزیزی کا نمبر ملایا، خوش قسمتی سے ناظر عزیزی فون پر مل گیا، ناظر عزیزی نے اُسے خبردار کیا کہ ابھی گھر سے نکلنے کا سوچے بھی نہیں جب تک وہ خود دو چار بندے لے کر اُس کے گھر اُسے لینے نہ پہنچ جائے۔ دروازے بند رکھے اور احتیاطاً ہینڈ گن پاس ہی رکھے۔ واحدی نے اُس کی بات سن کر بستر کی دراز سے اپنی ہینڈ گن نکالی اور اس کے میگزین کو چیک کر کے اپنے سرہانے رکھا اور پھر سر پر ہاتھ رکھ کر بستر پر لیٹ گیا۔ آنکھیں بند ہوتے ہی واحدی کا ذہن بہت سے بے ترتیب خیالوں کی ناؤ میں ہچکولیاں سی کھانے لگا۔ اُن لہروں میں کبھی تو اچانک صوفیہ تاریکی میں سے نکل کر ست رنگی کرنوں کی صورت اس کے چاروں جانب پھیل جاتی اور اُس کا دل محبت و مسرت سے بھر جاتا تو کبھی اچانک طالبان کے داڑھی والے ہولناک چہرے سایوں کی صورت اپنی شیطانی شکلوں کے ساتھ نمودار ہونے لگتے اور اُس کا دل پھر سے نفرت و متلاہٹ سے اُلٹنے لگتا جب صوفیہ کی شربتی آنکھوں میں واحدی کی سپردگی کا احساس اُس میں نشہ بھر نے لگتا تو مسعود کی جلتی ہوئی سرخ انگارہ آنکھوں میں اُ سے اپنے لیے چھپی ہوئی نفرت بھی یاد آنے لگتی۔ کچھ ہی لمحوں میں واحدی کو لگا جیسے پتھر لگنے سے قبل وہ ماضی کی کھائیوں میں جس شدت سے وہ اُتر گیا تھا شاید یہ پتھر بھی اُس کی زندگی کے اور دوسرے پتھروں کی طرح زخمی کر کے اُس کے لیے نئی را ہوں کو متعین کرنے کا شارہ بن گیا تھا۔ خواب میں اسے لگا تھا جیسے اُس کی ساری زندگی دو بڑے حصوں یعنی پہلے تیس سالوں اور بعد کے بیس سالوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ پہلے تیس سال جن میں اُس کی امیدیں، خواہشیں، طلب، خواب، عشق، اور ہلاکتیں جیسے ایک دن میں سمٹ گئی تھیں جبکہ اگلے بیس سال میں افسردگی، غم، ملامتیں، پژمردگی، فرار اور پھر جنگ دوسرے دن میں سمٹ گئی تھیں۔ پہلے تیس سال وہ تھے جن میں اُس کا بچپن تھا، نوجوانی کا پیار صوفیہ تھی، اُسے ماں باپ باپ اور چھوٹے بھائی کی رفاقتیں تھیں جنہیں اُس سے بے دردی سے چھین لیے گیا تھا اور پھر تقدیر نے اُسے انگاروں پر جینے کے لیے دوسرے بیس سالوں میں پھینک دیا تھا۔ اس کی زندگی کے پچاس سال ہو چکے تھے جس میں سے وہ دو تہائی حصہ وہ گزار چکا تھا اور تیسری تہائی میں ابھی بھی لڑ رہا تھا۔ کبھی اپنے آپ سے تو کبھی اُس مردہ فکر سے جو سارے افغانستان کو اژدھا بن کر نگل چکی تھی، اُس کے دشمنوں کے پاس کل بھی بندوقیں تھی، پتھر تھے اور نفرتیں تھیں، اُس کے پاس آج بھی قلم تھا، الفاظ تھے اور محبتیں تھیں۔ یہ اور بات تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کے الفاظ گولیوں سے زیادہ طاقتور ہو گئے تھے۔ اُس کی پہلی کتاب ‘ سول وار ان افغانستان ‘آج سے پندرہ سال قبل ۲۰۰۱ میں چھپی تھی جس میں واحدی نے ۱۹۹۶ء  اور ۲۰۰۱ء تک کی افغانستان کی سول وار کو ۱۹۷۸ء سے آگے پھیلی ہوئی جنگ کے ایک حصہ سے ہی تعبیر کیا تھا۔ اُس کا خیال تھا افغانستان ۱۹۷۸ ء سے ایک مسلسل جنگ کی صورتِ میں ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ شدید ترین ہو گئی ہے۔ ۱۹۹۶ ء میں جب کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا تھا اور رپبلک آف افغانستان کا نام اسلامک اسٹیٹ آف افغانستان ہو گیا تھا تو اس وقت سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے خاطر اُس کی حمایت کی تھی۔ اُس وقت کا وزیر دفاع کابل انجینیرنگ یو نیورسٹی کا قوم پرست طالبعلم احمد شاہ مسعود تھا جس نے طالبان کے مقابلے پر نارتھرن الائنز بنا یا تھا اور جس میں تاجک، ازبک، ہزارہ، تر کمن اور کچھ پشتو بھی شامل تھے۔ اس وقت ان کے اور طالبان کے درمیان جھگڑوں کے دوران طالبان کو ملٹری سپورٹ پاکستان سے اور اقتصادی سپورٹ سعودی عرب سے پہنچتی تھی۔ اس زمانے میں القاعدہ کے سا تھ ساتھ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان بھی نارتھرن الائنز کے خلاف عرب ممالک اور سینٹرل ایشیا سے جنگجو سپلائی کر رہے تھے۔ چھ سال کی اس سول وار میں طالبان اور القاعدہ نے کم و بیش پندرہ بار عام شہریوں کا بڑے پیمانوں پر قتل عام کیا تھا جن میں زیادہ تر ہزارہ کے غریب شیعہ عوام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس دوران بڑی تعداد میں شیعہ عوام جان بچانے کی غرض سے احمد شاہ مسعود کے علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے۔ درہ پنجشیر، کندز، کابل اور مزار شریف میں چلنے والی اس سول وار میں براہ راست طالبان اور القائدہ کے پیچھے ملا احمد عمر، اسا مہ بن لادین، ایمن الظوا ھری کی رہنمائی میں پاکستان آرمی کے تقریباً پچاس ہزار سویلین ڈریس میں وہ جنگجو بھی شامل تھے جن کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے مذہبی مدرسوں سے جنگ میں جہاد کے نام پر پارسل کی گئی تھی۔ ان کم عمر طلباء کی شناخت کٹی ہوئی باڈیز کی شکل میں پاکستان پہنچنے پر مسلسل ہو رہی تھی۔ اس زمانے میں پاکستان کے جنرل مشرف، لیفٹینٹ جنرل حمید گل، نسیم رانا، ضیا الدین بٹ، محمود احمد اور سلطان احمد تارڑ افغانستان کی اس سول جنگ میں طالبان کے سب سے بڑے سپورٹرز تھے جبکہ دوسری طرف ان سب کے خلاف نارتھرن الائنز کے پیچھے انجینیر احمد شاہ مسعود، مشرقی افغانستان شورہ کا پشتون لیڈر عبد القادر، اُس کا بھائی عبد الحق اور عبد الرشید دو ستم شامل تھے۔ مگر پھر ۹ ستمبر ۲۰۰۱ء میں احمد شاہ مسعود کا القاعدہ اور طالبان نے مل کر قتل کروا دیا اور پھر دو ہی دن بعد ستمبر ۱۱ کو نیویارک میں ٹو ئین ٹاور پر حملے میں تین ہزار امریکیوں کے مرنے کے نتیجے میں افغانستان کی سول وار کا دور ختم ہو گیا اور پھر وہی افغانستان ایک نئی جنگ میں چلا گیا اور پاکستانی فوج ایک نئے کردار کے ساتھ افغانستان کی جنگ میں شا مل ہوئی، جہاں ان کے بڑے موافق طالبان اور القاعدہ اب ان کے سب سے بڑے دشمن بن گئے تھے۔ جہاد کے نام پر لاکھوں لوگوں کو خاک میں سلانے والے اور سونے والے سیاسی بندر بانٹ کے بائی پروڈکٹ کے سوا کچھ بھی نہیں رہے تھے۔ پانچ سال پہلے ۲۰۱۱ ء میں واحدی کی دوسری کتاب ‘ فرام دی ڈیتھ آف احمد شاہ مسعود ٹو دی ڈیتھ اف آسامہ بن لادین’ چھپ کر آئی جس نے واشنگٹن سے کابل تک خوب ہی دھوم مچائی اور پھر واحدی کا نام افغانستان کے پچاس انفلینشول (influential) لکھنے والے صحافیوں میں شامل ہو گیا تھا۔ واحدی کے یکے بعد دیگرے کئی آرٹیکلز خصوصاً عورتوں پر طالبان کے مظالم، کابل ٹائمز کی شہ سرخی تک بن گئے تھے جنہوں نے انٹرنیشنل پریس میں کئی بار اپنی جگہ بنائی تھی۔ قندوز کی لڑائی کے دوران طالبان پر اغوا، ریپ اور عام شہریوں کی ہلاکتوں پر لکھے گئے آرٹیکل(article) پر بھی اُسے کئی بار فون پر سخت دھمکیاں ملی تھی بعد میں جب اُسی آرٹیکل کی بنیاد ایک نیوز چینل نے ٹی وی خبر بنا دی تو جنوری میں ہونے والے خود کش دھماکے میں پانچ صحافیوں کی موت بھی ہو گئی تھی۔ واحدی کو اس سے قبل بھی کابل یونیورسٹی کے اسٹاف رپورٹر نے اندر کی خبر دی تھی کہ سیکو رٹی فورسز نے اُسے خصوصاً خبردار رہنے کو کہا ہے۔ اب واحدی کا نام کابل میں موجود طالبان کو چبھنے لگا تھا یہی وجہ تھی اُسے مسلسل فون پر دھمکیاں مل رہی تھیں اور اب تو حد ہی ہو گئی تھی اور پتھراؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی تو خیالوں کا سلسلہ یک لخت ٹوٹ گیا۔ گھر کے باہر ناظر عزیزی یونیورسٹی کے پانچ چھ طلبا کے ساتھ اُسے لینے کے لیے پہنچ گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پندرھواں باب

 

تاریخ: ۱۳ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: ٹورنٹو۔ کینیڈا

 

ثانیہ کو دلیپ کے گھر میں رہتے ہوئے کئی دن ہو چکے تھے۔ ان دنوں میں مما پپا کی بے تحاشہ فون کالز آ چکی تھیں۔ شروع شروع میں جو غصہ اور دھمکیاں تھیں وہ آہستہ آستہ منت سماجت، درخواستوں اور قسموں وعدوں میں بدل گئی تھیں۔ خاندان کی عزت شرافت، نیک نامی پاسداری، نام نمود، جائز ناجائز، نکاح طلاق، خاندانی غیر خاندانی غرض یہ کہ ہر ایک اچھی اور اچھا، بری اور برا اخلاقی اور و غیر اخلاقی کوشش اور حربہ استعمال کر کے انہوں نے دیکھ لیا تھا۔ فون پر ثانیہ کو اس طرح کی ‘غیر فطری’ شادیوں کے سماجی و مذہبی نقصانات سمجھانے کے لیے گھنٹوں لیکچر دیے گئے۔ اُسے ماں کے دودھ سے لے کر باپ کی قربانیوں کے واسطے دیے گئے اور تو اور ہمیشہ کے لیے منہ نہ دیکھنے اور اپنی زندگیوں سے نکال دینے کی دھمکی بھی دی گئی مگر ثانیہ کے خیالات ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ ثانیہ کے ماں باپ حیران تھے کہ آخر دلیپ نے ایسا بھی کیا جادو اُن کی خوبصورت اور سمجھدار بیٹی پر کر دیا تھا کہ اُس کی عقل اپنے نقصانات اور فائدے سمجھنے سے قطعی قاصر ہو گئی تھی۔ ان کے خیال میں اُن کی پرورش میں تو کوئی کمی نہیں تھی بس یہ یونیورسٹی کے کھلے ماحول نے سارے مسائل کھڑے کر دیے تھے۔ اُن کا یہ پختہ خیال تھا کہ کینیڈا میں یونیورسٹی لیول تک لڑکیوں اور لڑکوں کی تعلیم ایک ساتھ نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے اپنی بچی کو اسلامی اسکول میں پڑھایا تھا وہاں وہ ہمیشہ نقاب میں رہی مگر جونہی وہ یونیورسٹی آئی اُس نے نقاب ترک کر دیا تھا۔ ثانیہ کا خیال تھا کہ نقاب یا اسکارف کا تعلق ہمیشہ سے عرب کی تہذیب سے تھا نہ کہ خالصتاً مذہب اسلام سے کیونکہ اس کے خیال میں جو مذاہب عرب دنیا میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے وہاں کے کلچر کو اس میں شامل کر لیا تھا جیسے ہندوستان میں جو مذاہب پیدا ہوئے مثلاً ہندو ازم اور بدھا ازم، تو انہوں نے تو ایسی کوئی شرط اپنے ماننے والی عورتوں پر نہیں لگا ئی تھی ہاں ہندوستان کا کلچر رسوم و رواج اُن کے بھی مذہب میں شامل ہوا اور جب پپا نے زیادہ بحث کی تو اُس نے جواب دیا کہ کیتھولک، عیسائی اور یہودی عورتیں بھی عبائیں پہنتی ہیں اور یہ ڈریس مذہب سے پہلے کا بھی ہے اگر ہم مذہب سے قبل کی انسانی تاریخ کو پڑھیں یعنی جس دور میں نہ یہودیت پیدا ہوئی تھی اور نہ عیسایت اور نہ ہی اسلام کا نام و نشان تھا تب بھی عرب میں خواتین دھول مٹی سے بچنے کے خاطر اسی طرح کے کپڑے منہ پر لپیٹ لیا کرتی تھیں مگر یہاں کینیڈا میں نہ تو لوگوں کو ایک دوسرے کو گھورنے کا شوق ہے اور نہ ہی یہاں کی ہواؤں میں کوئی دھول یا مٹی ہے۔ ایسی باتوں کا نہ تو اُس کے والدین کے پاس جواب تھا اور نہ ہی دلیل مگر پھر بھی جب اُنہوں نے ایک بار سختی سے کہا کہ جو بھی ہو اُسے اسکارف تو پہننا ہی پڑے گا تو اُس نے پلٹ کر کہہ دیا کہ’ میں اکیسویں صدی کی لڑکی ہوں اور مجھے چودہویں صدی میں رہنے کا کوئی شوق نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں آپ لوگوں سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتی اور نہ ہی یہ چاہتی ہوں کہ کچھ اس طرح کی حرکتیں کروں کہ گھر سے نقاب یا اسکارف باندھ کریونیورسٹی چلی جاؤں اور پھر وہاں جا کر اسے اپنے لاکر میں رکھ دوں، مجھے اِس طرح کی فضول باتیں پسند نہیں ہیں اس لیے پلیز خدا کے واسطے مجھے میری نارمل زندگی گزارنے دیجیے جس طرح نوے فیصد لوگ گزارتے ہیں، میں اپنے کام اور اپنے علم سے اچھوتی اور اچھی نظر آنا چاہتی ہوں نہ کہ اپنی بود و باش، کپڑے لتوں سے، میں ماہر نفسیات بننا چاہتی ہوں پلیز مجھے اپنی زندگی کے فیصلے اعتماد اور علم کی روشنی میں کرنے دیجیے، میں نے نہ تو سماج میں مصنوعی انداز میں پیش ہونے کا کوئی ٹھیکہ لیا ہے اور نہ ہی مجھے اس کا کوئی شوق ہے اور نہ ہی مجھے اس طرح کی باتیں مرعوب کرتیں ہیں یا چونکاتی ہیں ‘۔ ثانیہ کی تقریر سُن کر انہوں نے بھی پھر نقاب پر اور زیادہ بات نہیں کی شاید اندرون خانہ اُنہیں بھی ڈر تھا کہ مستقل نقاب وغیرہ سے اچھے رشتوں کے امکانات میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ ثانیہ نے یونیورسٹی جوائین اس لیے کی تھی کہ وہ فلسفہ پڑھنا چاہتی تھی مگر پھر بعد میں اُس کا شوق نفسیات میں بڑھنے لگا تو اُس نے فلسفے میں بیچلر کے بعد اپنا میجر سبجکٹ تبدیل کروا لیا تھا۔ پچھلے دو سالوں میں فلسفے کے مطالعہ کی وجہ سے اُس کی فکری نشو و نما ہو تی چلی گئی تھی اور اُسے سماج کے روایتی تصورات سے بالاتر ہو کر سماج کا تجزیہ کرنے کی کچھ عادت سی پڑ گئی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اُس کا اجتماعی سماجی نقطہ نظر اُس کی انفرادی زندگی کے عوامل پر اثر انداز ہونے لگا اور اُس میں ایک اور ناقدانہ، علمی رویہ پیدا ہوا جس کے نتیجے میں وہ ایک ذاتی محاسبہ کے عمل سے گزر نے لگی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی زندگی کے کئی ایسے تصورات کو رد کر تی چلی گئی جو اُس کے خیال میں قطعی غیر علمی بنیادوں پر موروثی اور خاندانی وجوہات کی وجہ سے اُس میں شامل کیے گئے تھے۔ خوش قسمتی سے اُس کا تعلیمی ریکارڈ اس قدر اچھا اور متا ثر کن تھا کہ اُس کے مما پپا اُسے اکثر و بیشتر یونورسٹی میں تہنیتی اسناد وصول کرتے ہوئے ہی پاتے تھے مگر پھر انہوں نے دیکھا کہ اُس میں دھیرے دھیرے تبدیلی آنی شروع ہو گئی ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ دلیپ سے اُس کی ملاقات تھی۔ دلیپ نہ صرف نصابی طور پر ذہین تھا بلکہ وہ ایک بہت ہی اعلی فکر کا روشن خیال ذہن رکھتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اُس نے اپنی زندگی میں شاید ہی فلسفے کی کوئی کتاب پڑھی ہو مگر شاید وہ دل کی کتاب سے اچھی طرح سے واقف تھا۔ اُس نے اپنی پہلی ہی ملاقات میں جس طرح ٹھیٹ پنجابی انداز میں اُس سے اپنے پیار کا اظہار کیا تھا اُس نے ہی ثانیہ کے ہوش اڑا دیے تھے اور جب ثانیہ نے اپنے اور اُس کے فرق پر بات کرنی چاہی تو وہ دیر تک ہنستا رہا تھا اور بس ایک ہی جملے میں اپنی بات کہہ کر وہ اُس کے لیے کیفے ٹیریا سے آ ئس کریم لانے چلا گیا تھا، اُس نے ہنستے ہوئے کہا تھا، ” ثانیہ جی دنیا کے سارے فلسفے محبت سے شروع ہوتے ہیں، سارے رنگ، سارے مذہب، سارے سماجی اورنفسیاتی تصورات۔ ۔ ۔ اگر دنیا میں محبت ہی نہ ہو تو انسان ہی نہیں ہو گا اور جو انسان نہیں ہو گا تو پھر ان سب باتوں کا فائدہ ہی کیا ہے ؟کیا دنیا کے جس پہلے مرد اور عورت نے محبت کی تھی کیا وہ احمدی مسلمان تھے یا گرو نانک کے ماننے والے سکھ، کیا وہ اردو بولنے والے پاکستانی تھے یا پنجابی بولنے والے ہندوستانی۔ ۔ نہیں وہ صرف انسان تھے۔ ۔ ۔ ” اور پھر ہنستے ہوئے اپنے دونوں انگوٹھے اُس کی طرف نچاتے ہوئے کہا تھا، ”یا پھر حیوان؟؟” ثانیہ کو اُس کا کھلنڈرا پن بہت اچھا لگا تھا کیونکہ وہ بہت ہی فطری تھا اس قدر فطری کہ اُس میں کہیں بھی کسی بھی قسم کی مصنوعی فکر کی آمیزش نہیں تھی۔ ثانیہ کو لگا تھا جیسے دلیپ کا دل اور اُسکی زبان ایک دوسرے سے اچھی طرح سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو بھی جیسا بھی خیال اُس کے دل میں آتا ہے وہ جوں کا توں اُس کے لبوں پر آ جاتا ہے۔ دلیپ کی ایسی ہی سیدھی سپاٹ باتیں سن کر ثانیہ اپنا فلسفہ، اپنی نفسیات اور اپنا دل سب کچھ اُس پر ہار بیٹھی تھی۔ اُس نے دل ہی دل میں طے کر لیا تھا کہ مجھے زندگی بھر کے لیے دلیپ جیسا سادہ اور سچا دوست چاہیے۔ مما پپا کی ضد جوں جوں بڑھتی گئی ثانیہ کا لہجہ بھی ویسا ہی سخت ہوتا چلا گیا آخر اُس نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ اگر وہ شادی کرے گی تو صرف اور صرف دلیپ سے ہی کرے گی۔ باتوں ہی باتوں میں اُس نے مما کو بتا دیا تھا کہ وہ اور دلیپ ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ سو نہیں رہے ہیں اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مما پپا اس بات سے شدید غصہ اور دکھ میں تھے کہ آخر ثانیہ دلیپ کے پاس منتقل ہی کیوں ہوئی ہے ؟اور ثانیہ اس بات سے شدید غصہ اور دکھ میں تھی کہ اُس کے مما پپا نے آخر اُس کے ‘ کردار’ پر سوا لات ہی کیوں اُٹھائے ہیں ؟ جس شام پپا نے سخت لہجے میں اُس کے کردار کو نشانہ بنایا تھا تو خود اُس کے اپنے ذہن میں عورتوں کے حوالے سے مذہب کا کردار بھی مشکوک ہو گیا تھا۔ اُس دن سے ہر لمحے وہ عورتوں کے ‘کردار’ پر خود سے ایک فلسفیانہ بحث میں الجھی ہوئی تھی اور کئی بار اپنے آپ سے یہ سوالات پوچھ چکی تھی کہ آخر عورت کا کردار اُس کے جنسی اعضاء سے ہی کیوں منسوب ہے ؟ آخر عورت کا بدن کس طرح بیک وقت اُس کا اپنا دوست اور دشمن ہو سکتا ہے ؟ آخر عورت کی طاقت اس کی کمزوری ہی کیوں بنائی گئی ہے ؟ آخر مذاہب کی جڑوں میں جنس ہی کیوں گھس کر بیٹھی ہوئی ہے ؟ آخر اخلاقیات کا سارا سماجی ڈھانچہ  اس کی مصنوعی بنیادوں پر ہی کیوں قائم کیا گیا ہے ؟ آخر مذاہب نے سچ کی تلقین کے لیے جھوٹ کا سہارہ کیوں لیا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ نسل پرستی کے خلاف احکامات نازل کرتا ہے مگر دوسری طرف اپنے پھیلاؤ کے خاطر نسل پر ستی کو شادیوں کے لیے شرط کے طور پر استعمال بھی کرتا ہے ؟ آخر میری محبت کا میرے ‘ کردار’ سے کیا تعلق بنتا ہے ؟ اگر میں مسلم اور وہ سکھ ہے تو ہماری شادی سے مذہبی اور سماجی بنیادیں کیوں ہل رہیں ہیں ؟ اگر محبت کا تعلق روح سے ہے اور جنس کا تعلق جسم سے ہے تو مذہب کا تعلق پہلے روح سے ہے یا پہلے جسم سے ؟ آخر یہ خیال کیوں دیا گیا ہے کہ جسم کی پاکیزگی سے روح کی پاکیزگی بنتی ہے کیوں نہیں یہ خیال دیا گیا کہ روح کی پاکیزگی سے جسم بھی پاکیزہ ہو جاتا ہے ؟ آخر کیوں نہیں میرے ہونے والے بچے آدھے سکھ اور آدھے مسلمان ہو سکتے ہیں، آخر کیوں نہیں ہم ایک ہی وقت میں دو مذاہب کے پیروکار ہو سکتے جبکہ پرماتما تو سب کا ایک ہی ہے ؟ آخر کیوں معاشی و معاشرتی مسائل سے انسانی قوانین کے ذریعے براہ راست نبرد آزما ہو جانے سے مذاہب کی آسمانی حیثیت کو دھچکا لگتا ہے ؟ آخر کیوں نہیں ہم زمین کے مسائل زمینی حقائق کے ذریعے حل نہیں کر سکتے ؟ آخر کیوں نہیں ہم سمجھ رہے کہ آسمانی سچائیاں آسمانی جھوٹ بھی تو ہو سکتے ہیں ؟ کیا ان آسمانی سچائیوں کے کچھ حقیقی ثبوت ہمیں ابھی تک کہیں سے میسر ہوئے ہیں، سوائے ایقان و ایمان یا قصے کہانیوں کے ؟ جوں جوں اُس کے کنفیو شن میں اضافہ ہو رہا تھا اُس کے واحدی کے لیے فیس بُک پر میسجز بڑھتے جا رہے تھے۔ ۔ ۔ آخر کیوں پرو فیسر واحدی فیس بُک پر نظر نہیں آ رہے ہیں ؟ اُس کی بے چینی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔

پچھلے کئی دنوں سے ثانیہ ڈاون ٹاون ٹورنٹو میں دلیپ کے ساتھ اُس کے دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی گو کہ مما پاپا کے لیے یہ بات قیاس آرائی تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے پیار تو کرتے ہیں مگر ان کا رشتہ ابھی تک صرف اچھے دوستوں کا ہے یعنی وہ واقعی ایک دوسرے کے ساتھ بستر شیئر نہیں کر رہے ہیں مگر سچ یہی تھا کہ وہ دونوں ہی اِس بات کا تعین کرنا چاہتے تھے کہ اُن کی محبت میں جنسی کشش کے علاوہ ایک دوسرے کی شخصیت کے حصار کا بھی حصہ ہے کیونکہ وہ دونوں ہی اوائل عمر کے جذباتی دور سے آگے نکل چکے تھے، دونوں ہی ایک دوسرے کی موجودگی کو ایک دوسرے کے لیے ضروری سمجھنے لگے تھے، دونوں ہی ذہین تھے اور مستقبل کے خواب دیکھنے والے اور خود کی تعمیر میں تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں تھے۔ شا ئد اِسی لیے دونوں کے رویے بیک وقت روحانی اور میکانی تھے، شاید اسی لیے دونوں اپنی محبت کو ایک بالغ نظر سے دیکھ رہے تھے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یوں بھی اُن کی محبت کا معاملہ سماج و مذہب کے عمومی تصورات سے بالاتر تھا۔ اس ساری فکر پر وہ کم و بیش روزانہ ہی ایک علمی بحث سے گزر رہے تھے مگر ابھی تک کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر تھے۔ ابھی تک اُن کی سمجھ سے یہ بالاتر تھا کہ اُن کی ہئیت میں کہاں سے ایک ایسی رکاوٹ پیدا ہو گئی تھی جو مصنوعی یا فطری سماجی بندھنوں کے ساتھ مل کر یا آزاد ہو کر نئی دنیا کی طرف اُن کے بڑھنے میں مشکل بن رہی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی ثانیہ نے ایک دن دلیپ سے اپنے فیس بُک فرینڈ پروفیسر واحدی کا تذکرہ کیا اور اُسے بتایا کہ ڈاکٹر واحدی محض ایک سیاسی مفکر ہی نہیں ہے بلکہ اُس کی نظر انسانی نفسیات کے ارتقائی عمل پر بھی ہے جس میں معاشیات اور سماجیات کا ایک طویل کردار ہے اور جس کو جانے بغیر ایک پر اعتماد فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔ دلیپ نے جب اُس سے پروفیسر واحدی کا ذکر سُنا تو اُس کی دلچسپی اُن میں بڑھ گئی تھی۔ اُس نے ایک دن پروفیسر واحدی کو گوگل کر کے اُن کی کتابوں کا سراغ نکال لیا۔ ثانیہ نے پہلی بار پروفیسر واحدی کی تصویر اُن کی کتاب پر ہی دیکھی تھی اِس سے قبل اُس کے لیے پروفیسر واحدی صرف کابل یو نیورسٹی کے انٹر نیشنل ریلیشنز یا پالٹیکل سائنسز ڈپارٹمنٹ کا ایک گمنام مگر ذہین پرو فیسر تھا جو اکثر و بیشتر اُس کے سیاسی اور سماجی سوالوں پر کمنٹس (comments) لکھ دیا کرتا تھا۔ ثانیہ نے جوں جوں پروفیسر واحدی کے بارے میں ویسٹرن نیوز اور انٹرنیشنل میڈیا میں ریفرنسز (references)پڑھے اُس کے دل میں اُن کے لیے قدر و عزت اور بھی بڑھتی چلی گئی خصوصاً یہ بات اُسے بہت بالغ لگی کہ انہوں نے کبھی بھی خود سے اپنا تعارف کرانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ثانیہ کو بھی پروفیسر واحدی کے بیک گراونڈ کا کچھ خاص پتہ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی اُس نے جاننے کی کوشش کی تھی اور انہیں ایک گمنام الیکٹرانک فرینڈ کے طور پر اپنے دوستوں کی لسٹ میں رکھا ہوا تھا مگر پھر آہستہ آہستہ وہ ان کی گفتگو سے متاثر ہوتی چلی گئی اور باتوں ہی باتوں میں اُسے یہ پتہ چل گیا تھا کہ وہ کابل یونیورسٹی میں پولیٹیکل ساینسز کے ایک پروفیسر ہیں۔ ابھی بھی اُسے پروفیسر واحدی کی ذاتی زندگی کا پتہ نہیں تھا کیونکہ اُن کی گفتگو کبھی بھی ذاتی حوالوں پر نہیں ہوئی تھی۔ اُن کی گفتگو کا عمومی محور علمی موضوعات تک ہی محدود رہتا تھا مگر اب چند دنوں سے ثانیہ سوچ رہی تھی کہ وہ اپنے ذاتی مسائل اور کنفیوشن پروفیسر واحدی سے شیئر کرے گی اور دیکھے گی کہ اُن کا اس سلسلے میں کیا نقطہ نظر ہے ؟ اِس وقت اُس کی زندگی کا سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ کون سے سماجی تصورات فطری یا نیچرل(natural) ہیں اور کونسے تصورات انسانی ارتقا ئی عمل سے نرچر(nurture) ہوئے ہیں ؟ شاید اسے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ ایسے ہی سوالات کے جواب میں اُس کی محبت کی زندگی کا بھی دارومدار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سولہواں باب

 

تاریخ: ۱۴ نومبر، ۲۰۱۵

مقام : شاہ فیصل کالونی نمبر ۵۔ کراچی

 

ادریس کی خشخشی داڑھی چند دنوں میں ہی اُس کی مٹھی تک پہنچ گئی تھی۔ سر پر مستقل سفید ٹوپی، گلے میں سبز اسکارف، آنکھوں میں گہرا سرمہ، ٹخنوں سے اونچی شلوار اور چوڑے دامن کی لمبی قمیص پہننے اور ہاتھ میں مستقل تسبیح پڑھنے سے اُسے اپنے آپ میں ایک بہتر مسلمان پیدا ہو جانے کا احساس ہونے لگا تھا۔ مولوی سلیم اللہ کے بار بار سمجھانے پر اُس نے اپنی گفتگو میں گالی گلوچ کم و بیش ختم کر دی تھی اور لہجہ بھی کسی حد تک بدل لیا تھا، ایک اور بدلی ہوئی بات جو اُس کے دوستوں نے ہی نہیں بلکہ بختاور نے بھی محسوس کی تھی کہ ادریس اب بات بے بات کچھ نئے لفظ یا جملے اپنی گفتگو میں بکثرت استعمال کرنے لگا ہے مثلاً یہ کہ اللہ بڑا کارساز ہے، اللہ کا کرم ہے، اللہ نگہبان ہے، رب العزت کی جو مرضی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ کبھی سینے پر ہاتھ رکھ کر تو کبھی دونوں ہاتھوں کو کانوں پر لگا کر کبھی ہاتھوں کو جوڑ کر معافی اور دعائیہ انداز میں آسمان کی طرف دیکھنا اُس کے انداز گفتگو بن گئے تھے۔ شاید اس کی وجہ ادریس کے ارد گرد مولانا سلیم اللہ کی دی ہوئی تربیت اور اطراف میں پائے جانے والے اُن کے سینکڑوں ساتھیوں کی ہمہ وقت موجودگی تھی۔ وہ اب اُن جیسے طرز عمل اور گفت و شنید کو ارادی اور غیر ارادی طور پر اپنا تا جا رہا تھا۔ اُس نے خود بھی یہ محسوس کیا تھا کہ گفتگو کے دوران بات بے بات ماشا اللہ، سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنے سے ایک اندرونی تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے اور اپنا آپ دوسروں سے بہتر بھی محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح کی گفتگو سے مذہب سے رشتہ اور بھی گہرا محسوس ہوتا ہے اور ساتھ ہی ایک تقویت کا احساس بھی ملتا ہے۔ مولوی شمس الحق کے بتانے پر ہی یہ بات اُس کی سمجھ میں آئی تھی کہ کسی بھی زبان کے کچھ رٹے رٹائے الفاظ جب کبھی بھی ارادتاً یا غیر ارادتاً منہ سے ادا ہوتے رہتے ہیں تو در اصل یہ اُس زبان کے بولنے والوں سے اپنے پر خلوص تعلق یا اُن سے متاثر ہونے کے رویے کو ظاہر کرتے ہیں مثلاً محلے کے ڈاکٹر، انجینیر اور بینک مینیجر جب بات بے بات تھینک یو، سوری اور ایکسیوزز می کہتے ہیں تو وہ انگریزی زبان سے محبت ہی نہیں بلکہ فرنگی کافروں سے بھی اپنے تعلق یا وفاداری کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان چند دنوں میں ادریس کو یہ نئی بات بھی پتہ چلی تھی کہ یہ لوگ دنیاوی علم کے پیچھے چلنے والے لاعلم لوگ ہیں جنہیں یا تو بد قسمتی سے دنیوی علم کی نعمت ہی نصیب نہیں ہوئی یا پھر سمجھ نہیں پیدا ہوئی کہ عربی زبان پاک رسول عربی کی زبان تھی اور قرآن مجید بھی عربی زبان میں ہی اُن پر اترا تھا تو اللہ تبارک تعالی کے لیے بھی یہ افضل ترین زبان ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کوئی کافر ہی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ دنیا کی ساری زبانیں اصل میں تو اللہ تبارک تعالی کی ہی ہیں مگر کیونکہ اللہ تبارک تعالی اپنے پیارے نبی سے عربی زبان میں مخاطب ہوئے تھے اس لیے وہ ہمیشہ عربی زبان کو دیگر زبانوں پر فوقیت دیں گے۔ مولوی شمس الحق کے مطابق گفتگو کے دوران ہر بار عربی زبان کے الفاظ کی ادائیگی سے مسلمانوں کو بہت ثواب ملتا ہے۔ بالکل اسی طرح فارسی میں خدا کہنے سے زیادہ بہتر عربی میں اللہ کہنا ہزار گنا بہتر ہے، عربی حلیہ، غذا، رہن سہن بھی اور قوموں سے بالاتر ہے کیونکہ محمدؐ عربی النسل تھے اس لیے عرب دنیا کی افضل ترین قوم ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے ادریس کے دل میں عرب دنیا سے ایک خاص رغبت کا احساس بڑھتا جا رہا تھا جس کا نہ تو اس سے قبل اسے کوئی احساس تھا اور نہ ہی اُس نے ایسا کبھی سوچا تھا۔ اسے وہابیت اور دیوبندی فرقوں کے فرق تو مولوی شمس الحق نے ہی سمجھایا تھا۔ انہوں نے یہ بھی سمجھایا تھا کہ شیعہ ہمیشہ سے صحابہ کرام کے دشمن رہے ہیں اور ان کافرین سے مذہب اسلام کی یک جہتی کو بہت نقصان پہنچا ہے اور یہ بھی کہ قادیانی اور سانپ اگر ساتھ ملے تو قادیانی پر نظر رکھنا سانپ سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہ نبی پاک کو خاتم الرسول نہیں سمجھتے ہیں اور یہ اسلام کی شہ رگ کے دشمن ہیں اور اسلام کی پشت میں سینہ گھونپتے ہیں۔ ایسی بہت سی باتیں تھی جو چند ہی دنوں میں اُسے سمجھ میں آ گئیں تھیں اور وہ حیران بھی ہوتا تھا اور دکھی بھی کہ ان سب باتوں سے پہلے وہ کیوں نا واقف تھا۔ اس سے قبل تو اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اُس کے دوستوں اور محلے میں کون کون کس کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ مولوی شمس الحق اور مولوی سلیم اللہ کے پاس سارے محلے بلکہ آس پاس کے محلے کی بھی ساری تفصیلات موجود تھیں اور وہ اکثر خلوت میں اُنہیں خنزیر یا کتے کہہ مخاطب کرتے تھے اور کبھی اگر زیادہ طیش ہو تو چند ایک گالیاں بھی نواز دیتے تھے مگر عام لوگوں کے سامنے بُرے لفظ سے اجتناب برتتے تھے۔ گھر پر بھی ادریس نے بختاور کو بھی پابند کر دیا تھا کہ وہ پردے کے بجائے اب برقعہ پہنا کرے اور نامحرموں سے باضابطہ پردہ کیا کرے اور تو اور اب اُس کے بچپن کا دوست رب نواز بھی بختاور کے لیے غیر محرم ہو گیا تھا۔ پہلے رب نواز جب چاہے گھر کے دالان میں آ کر بیٹھ جاتا تھا اور بھابی جی کا نعرہ لگا کر روٹی پانی مانگ لیا کرتا تھا اور بختاور بھی بنا کسی اگلے خیال کے اُس کو گھر کے فرد کی طرح دالان میں چارپائی پر بٹھا دیتی تھی مگر اب وہ بھیادریس کی تبدیلیوں کو بھانپ گیا تھا اور اُس کے سمجھانے سے پہلے ہی اپنے اپ کو خاصا محتاط کر لیا تھا۔ اب وہ ہمیشہ ادریس کے گھر اُس کی موجودگی میں ہی آتا تھا بلکہ پہلے دروازہ کھٹکھٹا کر پردے کا یقین کر لیتا تھا پھر ہی گھر میں قدم رکھتا تھا۔ ادریس نے کئی بار بختاور سے دبے لفظوں میں کہا تھا کہ عثمان کو بھی مدرسے میں بیٹھا دے اور قرآن حفظ کرانا شروع کر دے مگر بختاور کچھ پس و پیش کا شکار تھی۔ شاید اس لیے کہ عثمان چوک والے واقعے کے بعد سے پہلا جیسا بچہ نہیں رہا تھا۔ اس واقعہ سے قبل عثمان صبح شام گلی کوچوں میں دوستوں کے ساتھ کھیلتا کودتا اور پتنگیں اڑاتا پھرتا تھا مگر اب وہ کھیل کود کے بجائے سارا سارا دن گھر کے کسی کونے میں پڑا رہتا تھا۔ اکثر و بیشتر وہ راتوں کو اچانک سوتے میں ڈر جاتا اور پھر روتے ہوئے چیخیں مار نا شروع کر دیتا تھا جیسے اُس نے کوئی بُرا خواب دیکھ لیا ہو اور پھر وحشت ناک نگاہوں سے جاگ کر ماں سے چمٹ جاتا تھا۔ پہلے وہ بات بے بات زور زور سے ہنستا تھا مگر اب ایک عجیب طرح کی اداسی اُس کے چہرے پر رہتی تھی خصوصاً جب بھی ادریس گھر میں ہوتا تو وہ یا تو چپ چاپ بستر پر لیٹا کسی لحاف میں دبکا رہتا یا پھر کسی کونے میں بیٹھا اپنے کھلونوں سے کھیلتا رہتا۔ کبھی کبھی تو بختاور کو لگتا جیسے عثمان کچھ کچھ نفسیاتی بھی ہو گیا ہے۔ بات بے بات رونا چلانا، چیخنا اور گھنٹوں خاموش رہنا، کسی بات کا جواب نہیں دینا اور نہیں تو گھنٹوں گلی کی نکڑ پر جا کر آتے جاتے لوگوں کو تکنا اُس کا کچھ دنوں سے مشغلہ سا بن گیا تھا۔ اب اُس کی پسندیدہ جگہ گلی کے نکڑ کی ٹوٹی ہوئی دیوار والا کارنر تھا جہاں وہ اکثر جا کر چھپ جاتا اور پھر وہی بیٹھے بیٹھے مٹی کے گھر بناتا، توڑتا اور پھر بناتا تھا اور جب اکتا جاتا تو چوک پر بدلتے مناظر کو دیکھتا رہتا اور راہ چلتے گدھوں گھوڑوں اور آوارہ کتوں کو گنتا رہتا تھا۔ جب سے ادریس کی مصروفیت مدرسے اور مسجد میں بڑھ گئی تھی گھر میں پیسے کی آمد و رفت میں بھی خاصا اضافہ ہو گیا تھا، پہلی جیسی غربت اور مفلسی نہیں رہی تھی، گھر میں نیا چونا ہو گیا تھا اور تو اور اب تو ادریس کا ارادہ چھت پکی کرا کے ایئر کنڈیشن لگوانے کا تھا جس کا خواب وہ اور بختیار کئی برسوں سے دیکھ رہا تھے مگر اُس کی تعبیر یوں چند دنوں میں پوری ہو جائے گی ایسا انہیں خیال بھی نہیں آیا تھا۔ یہ سب باتیں بختاور کے لیے خود بے انتہا خوشی اور اطمینان کا سبب تھیں کہ اچانک چند دنوں پہلے جو مصیبت ادریس کے جیل جانے سے آئی تھی وہ اصل میں اپنے پیچھے بہت سی راحتیں اور مسرتیں چھپا کر لائی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سترہواں باب

 

وقت: گیارہ بجے رات

تاریخ:۱۴ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: کابل، افغانستان

 

ناظری کے گھر تین چار روز کے آرام نے واحدی کو خاصا پر سکون کر دیا تھا۔ ان دنوں میں نہ صرف یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پروفیسر دوست اُس کی خیریت دریافت کرتے رہے بلکہ اُس کے طالبعلم، یونیورسٹی کے علاوہ دوست احباب اور پریس کے لوگ بھی ملتے رہے یوں اس واقعہ کی خبر کابل کے نجی اخباروں سے نکل کر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بیرونی ممالک بھی پہنچ گئی اور فیس بُک اور ٹوئٹر پر بھی دوستوں کا تانتا بند ھ گیا۔ اُن سے بھی جن سے وہ کبھی بھی باضابطہ نہیں ملا تھا مگر اپنے خیالات اور تحریروں کی وجہ سے شناسا تھا۔ اس دوران جب بھی اُسے وقت میسر ہوا اُس نے کئی ایک اہم سوالوں پر سوچ بچار کر کے نوٹس بنائے جن پر وہ مستقبل میں آرٹیکلز لکھنا چاہتا تھا۔ سویت وار کے بعد کی تین دہائیوں میں چلنے والی مستقل سول وار کی وجہ سے جو انتظامی بر بادیاں ہوئی اُس نے تمام تر افغانستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا تھا مگر طالبان کے دور حکومت کے بعد سے افغانستان میں مجموعی طور پر میڈیا آزادی کی طرف مائل ہوا تھا جس کے نتیجے میں ملک میں سیکڑوں رسائل، درجنوں ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشنز اور کئی ایک نیشنل اور انٹر نیشنل نیوز ایجنسیز قائم ہوئی تھیں۔ مگر اس مقام تک پہنچنے میں افغان صحافیوں کو ایک بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑی تھی کیونکہ وہ نہ صرف اس سارے عرصے میں سخت ترین جسمانی زیادتیوں سے گزرے تھے، بلکہ اُن کی املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا تھا۔ جنگ سے متعلق بہت سی اندوہناک خبروں سے انہیں مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا تاکہ اُن کے ذریعے بیرونی دنیا افغانستان میں ہونے والی زیادتیوں کے علم سے قطعی محروم رہے مگر بہت سے ایسے واقعات جن کا تعلق براہ راست جنگ سے نہیں بلکہ جنگ کی پالیسیوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھینک انگ ٹینک سے تھا جن کا مجموعی شعور دنیا بھر کے عوام الناس کے لیے قطعی ضروری تھا۔ ۲۰۱۴ء سے انٹر نیشنل افواج کے افغانستان کے اخراج کے عمل سے طالبانی قوتیں ایک بار پھر آزاد میڈیا کے خلاف بر سروپیکار ہو رہی تھیں اور سیکولر صحافیوں، دانشوروں اور پریس کو خصوصاً ہراساں کیا جا رہا تھا۔ واحدی اس ساری سیاسی تبدیلی کے عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اُن سماجی امکانات پر فکری مقالات لکھ رہا تھا جو مسقبل کے افغانستان اور ا فغانستان جیسے دوسرے غریب ممالک میں پائے جانے والے عام انسانوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی شعور عطا کر سکے۔ اُس کا خیال تھا کہ افقی ہی نہیں عمودی طور پر بھی سماجوں کے ٹکراؤ کے عمل نے تہذیبی گنجلک میں اضافہ کیا تھا جس کے نتیجے میں نئے سماج نئی شکلوں میں دنیا کے طول و عرض پر بنتے بگڑتے نظر آ رہے ہیں۔ شعور کی تبدیلی کا عمل فکری ارتقاء سے ہے جس کی کمی محض معاشی تنگ حالی کو دور کرنے سے پوری نہیں ہوتی بلکہ سائنسی انداز فکر اور مشاہداتی و تجرباتی تبدیلیوں سے ممکن ہے۔ ماضی و مسقبل کا تہذیبی ٹکراؤ در اصل مسقبل کے اگلے قدم کے لیے مثبت یا منفی علامت کی شکل رکھتا ہے کیونکہ ماضی پرست معاشرہ جامد مذہبی بنیادوں پر کھڑا ہوا ایک مضبوط ڈھانچہ ہے جس کی جڑیں دماغی خلیات میں کئی سطحوں کے اندر تہہ در تہہ پھیلی ہوئی ہیں اگر مسقبل کا معاشرہ اُن سطحوں کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی شکل متعین کرے گاجس کے امکانات گلوبل ورلڈ میں عرضی تہذیبی تصادم کے نتائج میں زیادہ ہیں تو اسی گلوبل ورلڈ کی خود غرضانہ سیاسی مقاصد کے لیے با آ سانی استعمال ہو کر مثبت سے منفی نتائج دے سکتا ہے بلکہ اُس کے خیال میں دے رہا ہے۔ واحدی کے تصور میں عمودی تصادم کا عمل ایک لاشعوری عمل ہے جبکہ افقی تصادم سراسر شعوری تصادم ہے مگر اس کے ڈائمنشنز (dimension) براہ راست سیاسیات، سماجیات، معاشیات اور انسانی نفسیات سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں اُس کا انداز فکر عمومی تجزیہ نگاروں سے قطعی مختلف تھا کہ بڑی قوتوں کی سیاسی حکمت عملی غریب ممالک کی تباہی و بربادی کا سبب ہے جبکہ اُس کے خیال میں غریب ممالک کی غربت کی بڑی وجہ وہاں کے بسنے والوں کی غریبانہ فکری سوچ ہوتی ہے کہ وہ علم و شعور سے مجموعی طور پر بہر ور نہیں ہوتے اور ذہنی طور پر پس ماندہ اور قلاش ہوتے ہیں اسی لیے وہ مسلسل اندرونی و بیرونی سیاسی سازشوں کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی کمزور آگہی اور خستہ حال ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے اُس کا علمی تجزیہ بھی نہیں کر پاتے ہیں اور الزام تراشیوں کی دنیا میں رہتے ہیں اس طرح سے وہ وقتی سکون حاصل کر لیتے ہیں اور یوں مستقل ایک تباہی و بربادی کی دنیا میں رہتے ہیں۔ واحدی کے خیالات کی تائید اُس کے اردگرد کے سیکولر مزاج کے لوگ اکثر و بیشتر کرتے تھے مگر ان کا خیال تھا کہ افغانستان کے حالات ابھی تک اس لائق نہیں ہوئے کہ ان موضوعات پر کھل کر لکھا یا کہا جائے جبکہ واحدی کا معاملہ مختلف تھا۔ اُس کے خیال میں کسی بھی شے کی ضرورت فطرت کے اصولوں کے مطابق ہوتی ہے۔ علم و شعور اور جدید فکر کی کمی اس وقت غریب ملکوں کی عوام کا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ وہ اکثر یہ جملہ اپنے دوستوں میں دہراتا تھا کہ اندھے کو اندھیرے یا روشنی میں فرق نہیں نظر آتا ہے۔ ہم کیسے ایک اندھے شخص سے اس امتزاج کی توقع رکھ سکتے ہیں جب اُس کے پاس دیکھنے کے لیے نظر ہی نہیں ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ عمارت کی نئی تعمیر پرانے کھنڈر پر نہیں ہو سکتی جب تک کہ ملبہ اچھی طرح سے صاف نہ کر دیا جائے۔ مذاہب کے بارے میں اُس کی تجزیاتی و ناقدانہ فکر بھی خاصی عالمانہ تھی۔ یہ تجزیاتی فکر کبھی کبھار اُسے تنہا بھی کر دیتی تھی کیونکہ عمومی طور پر مذہبی تجزیہ یا تنقید غیر مذہبی ہونے کا لیبل عطا کر دیتی ہے۔ افغان معاشرہ مذہبی پسماندگی کا شکار معاشرہ تھا اور مذہبی انتہا پسندی کا اثرجس معاشرے پر چڑھ جائے وہ پھر آسانی سے نہیں اترتا اس کے لیے جدید فکر کی جھاڑ پونچھ کی نہیں بلکہ واشنگ مشین درکار تھی۔ پچھلے سال واحدی کا ایک آرٹیکل اُس وقت بھی اُس کی جان کے لیے عذاب بن گیا تھا جب اُس نے اِسلام میں بُت پرستی کو موضوع بنایا تھا۔ اُس کے مطابق مذہب بت پرستی کے باہر دم توڑ دیتا ہے۔ قرآن مجید کا ہر ایک لفظ بُت کی شکل و صورت اختیار کر گیا ہے کیونکہ مسلمان لفظوں کے معنوں سے بے بہرہ اپنے اپنے ایمان کی جائے نماز پر بیٹھے انہیں چومتے رہتے ہیں۔ جو اِن لفظوں کے تراجم پڑھ بھی لیتے ہیں وہ اُس کے سطحی معنویت تک ہی رہتے ہیں۔ شخصیات کے حوالے سے بھی مسلمانوں نے یہی کیا اور اپنے اُس پیغمبر کا بُت تراش لیا ہے جس نے کعبہ کے ۳۶۰ بُت توڑے تھے۔ گو کہ یہ آرٹیکل بھی اپنے بیک گراونڈ میں دوسرے ابرا ہیمی مذاہب یعنی عیسایت اور یہودازم کے ساتھ ساتھ غیر ابراہیمی مذاہب یعنی ہندو ازم، بدھا ازم اور جین ازم کے تقا بل کے ساتھ لکھا گیا تھا اور تو اس میں خاصی تفصیل کے ساتھ اسطورا یا متھ کے فلا سفیانہ تصور کا بھی تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس آرٹیکل پر خود یونیورسٹی کے کئی ایک پروفیسرز نے بھی لے دے کی تھی اور باضابطہ اس کے خلاف ایک گروپ بن گیا تھا جن کے خیال میں پروفیسر واحدی کی تحریریں یونیورسٹی کو جلد ہی ایک سیاسی وسماجی اکھاڑہ بنا دیں گی۔ اُن کے خیال میں ایسے وقت میں جب ایک طویل عرصے کے بعد بھی کابل پوری طرح شدت پسندوں کے اثرات سے باہر نہیں نکلا ہے یہ بحثیں قبل ازوقت ہیں اور ان کے مضر اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ واحدی بھی اِس سارے منظر نامے کو سمجھتا تھامگر تمام تر احتیاطوں کے باوجود اُس کی جا مع مگر متنازع تحریروں نے اُس کا نام خصوصی علمی حلقوں سے نکال عمومی سیاسی و مذہبی حلقوں میں دھکیل دیا تھا۔ جن کے اثرات ذہنی اور جسمانی تشدد کی صورت میں سامنے آنے شروع ہو چکے تھے مگر اس میں ایک بڑا حصہ یونیورسٹی میں اُس کے خلاف اُن پروفیسرز کے گروپس کا بھی تھا جو اُس کے خیالات کی وجہ سے اُس کے پھیلتے ہوئے نام سے خائف اور حاسد بھی تھے۔ اپنے آرٹیکلز پر لکھے ہوئے کئی ایک کمنٹس پڑھنے اور جواب دینے کے بعد اچانک اُس کی نظر کمپیوٹر کے میسج باکس میں ثانیہ کے لکھے ہوئے میسج پر بھی پڑی جس میں اُس نے گزارش کی تھی کہ وہ اُس سے اپنے ذاتی مسائل پر کچھ رائے چاہتی ہے۔ واحدی نے جواب میں دو سطریں لکھیں ‘ضرور ثانیہ، موسٹ ویل کم ‘ مگر شاید وہ اس وقت کمپیوٹر پر سائن اِن نہیں تھی اس لیے فوراً ہی کوئی جواب میسر نہیں ہوا۔ واحدی نے کچھ لمحوں کے انتظار کے بعد اپنے کئی اور دوستوں کو فرداً  فرداً ان کے کمنٹس کے جوابات لکھے اور پھر اپنے بلاگ پر جا کر کچھ ری ویوز (reviews)پر نظر یں گھمائیں اور پھر بلا خر کمپیوٹر کو سائن آف کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اٹھارواں باب

 

وقت: پونے دو بج رات

تاریخ:۱۶ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

 

ثانیہ اپنے بیڈ روم سے اس خیال سے دبے پاؤں نکلی کہ اُس کے شور سے دلیپ کی نیند نہ خراب ہو مگر کچن میں لائٹ آن دیکھ کر حیران ہو گئی۔ رات کے تقریباً پونے دو بج رہے تھے اور دلیپ چپ چاپ سر جھکائے کسی میڈیکل میگزین میں گم تھا اور ساتھ ہی بسکٹ چائے کے ساتھ کھاتا بھی جا رہا تھا۔ ثانیہ کو نظر اُٹھا کر اُس نے دیکھا اور پھر کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ”خیریت تو ہے میرے بنا نیند نہیں آ رہی ہے کیا ؟”

ثانیہ کے چہرے پر یہ سن کر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی، ”ہاں میرا دلیپ کمار کسی اور سائرہ بانو کے چکر میں ہو تو یہ تو ہو گا ہی نا۔ ”

”یہ ” دلیپ نے یہ پہ زور دے کر اپنے ہاتھ میں موجود امریکن جنرل آف میڈیسن کو ہلکا سا ہلایا اور پھر دوبارہ اُسے پڑھنے لگا مگر پھر اچانک اُسے کوئی خیال آیا تو ثانیہ کی طرف کنکھیوں سے دیکھ کر مسکرا کر کہا، ” مگر یہ سائرہ بانو دل کا دورہ نہیں دیتی بلکہ دل کے دورہ سے بچاتی ہے۔ ”

”اچھا میں بھی دیکھوں۔ ۔ ۔ ! ” ثانیہ نے فریج سے پانی نکال کر منہ بھر کر گھونٹ لیا اور پھر قریب آ کر دلیپ کے کندھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی اور پھر دھیمے دھیمے اُس کی گردن اور کندھوں پر مساج کرنے لگی، ”کارڈیک( Cardiac)ریسنکو رائزیشن تھراپی (resynchronization therapy)۔ ۔ ۔ کیا، کب، کیسے اور کیوں۔ ۔ اچھا آرٹیکل تو خوب ہے۔ ”

”ہاں۔ ۔ ” دلیپ نے کہا، ” ہارٹ فیلیر کی علامتوں کے ساتھ مریضوں میں ایل وی ای ایف (LVIF) ۳۵ فیصد یا اُس سے کم ہو اور کیو آر ایس(QRS) ۱۲۰ ملی سیکنڈ یا اُس سے کم ہو تو کارڈیک ریسنکو رائزیشن تھراپی خاصی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ ””اچھا۔ ۔ ۔ ” ثانیہ نے زور دے کر کہا اور شرارت سے اپنا بایاں ہاتھ کندھے سے سر کا کر دلیپ کے دل پر رکھ دیا۔ دلیپ نے مسکرا کر اپنا ہاتھ چپس کی تھیلی پر سے ہٹا کر ثانیہ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور مسکرا کر کہا، ”اب ایسی صورت میں تو ریسنکو رائزیشن کے ساتھ ساتھ ڈی فبری لیٹر(Defibrillator) بھی ضروری ہو جائے گا کیونکہ سڈن کارڈیک اریسٹ ((sudden cardiac arrest میں دونوں ضروری ہو جاتے ہیں۔ ” یہ کہہ کر دلیپ نے اچانک جھٹکے سے ثانیہ کا ہاتھ کھنچا اور ثانیہ اُس کے پیچھے سے نکل کر سائڈ میں آئی اور پھر اچانک کرسی کے بازوں پر سے پھسل کر اُس کی گود میں بیٹھ گئی۔ دلیپ نے میگزین کو بند کیا اور ایک ہاتھ سے اُس کے کندھے کو سہارہ دیا اور دوسرے ہاتھ سے اُس کی ٹھوڑی کو ہلکا سا اُٹھا کر اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ ثانیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو دلیپ کی گردن کے پیچھے سے لے جا کر ایک دوسرے میں پھنسا لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ دونوں کچھ دیر تک یونہی ایک دوسرے کے لبوں کو چومتے رہے اور پھر کچھ دیر میں ثانیہ اُس کے سینے سے لپٹ گئی، دلیپ نے اُس کو پیار سے بھینچ لیا اور اُس کی گردن پر پیار کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد ثانیہ نے آنکھیں کھو لیں اور دلیپ کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے بولی، ” مما کا فون پھر آیا تھا۔ ”

”اچھا کیا کہہ رہی تھیں۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے ثانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔

” وہی جو ہمیشہ کہتی ہیں۔ کہہ رہی تھیں کہ اٹ از بیٹر موونگ سم وئر ایلس ریدر دن لیونگ ودھ ہیم (It is better moving somewhere else rather then living with him) اُن کا خیال ہے کہ ہم چاہیں سیکس نا کریں لوگ تو یہ ہی سمجھیں گے نا۔ ۔ ۔ ابھی تو یہ بات کسی رشتے دار کو نہیں پتہ ہے، مگر آج نہیں تو کل یہ بات سارے خاندان میں پھیل جائے گی۔ خصوصاً احمدی کمیونٹی میں یہاں کینیڈا میں بھی اور وہاں پاکستان میں بھی تو ممکن ہے اِس کے بہت سخت نتائج ملیں گے۔ ” دلیپ نے شرارت سے کہا، ” اگر ایسا ہے تو ہمیں پھر خوب دل بھر کر سیکس کر لینا چاہیے آخر لوگ بھی تو یہی سمجھ رہے ہیں ہے نا ؟” ثانیہ نے دلیپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ” تو تمھارا خیال ہے کہ ہم اِن لوگوں کی وجہ سے سیکس نہیں کر رہے ہیں ؟، کیا ہماری محبت سیکس کے بنا مکمل نہیں ہو گی ؟؟ ”

دلیپ ہنسنے لگا، ”یار، لوگ تو سیکس اور محبت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں نا۔ ۔ ۔ اُن کا خیال ہے دل وجائنا (Vagina) یا پینس (Penis) کا ہی ایک ” مسلسل اندرو نہڑے سپورٹر  ” ا یمبرا ئلو جیکلر یمننٹ (Embryological remnant) ہے۔ ”

ثانیہ بھی دلیپ کے ساتھ ہنسنے لگی۔ کچھ دیر بعد جب اُن کی ہنسی رک گئی تو دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں پھر جھانکنے لگے، ” یار یہ دنیا میں سب لوگ اتنا الگ الگ کیوں سوچتے ہیں۔ ”

ثانیہ نے پھر کہا، ” کیا ہوا جو میں احمدی مسلمان ہوں، کراچی پاکستان میں پیدا ہوئی اور میرا خاندان نان پنجابی ہے اور تم سکھ ہو، ہندو ستان میں پیدا ہوئے اور تمھارے خاندان والے پنجابی ہیں۔ میری تمھاری محبت کے درمیان یہ مذہب، قومیت اور نسل کے فرق کہاں سے گھس گئے۔ ۔ ۔ ؟”

دلیپ نے شرارتی نظروں سے ثانیہ کی ایک زلفوں کی ایک لڑی پیار سے پکڑ کر اُس کے ہونٹوں کے پاس سے ہٹا کر کان کے پیچھے پھنسا دی اور کہا، ” کہاں ہیں ؟۔ ۔ ۔ لو ہم نے ساری رکاوٹیں ہٹا دیں۔ ” اور پھر جھک کر اُس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ ثانیہ نے آنکھیں بند کر لیں اور وہ بھی اُس کے ہونٹوں کو پیار کرنے لگی دونوں کچھ دیر تک یونہی ایک دوسرے میں کھو کر پیار کرتے رہے۔

کچھ لمحوں بعد ثانیہ نے آنکھیں کھو لیں اور آہستہ سے اپنے لب دلیپ کے ہونٹوں پر سے ہٹا کر گہری سانس لی اور کہا، ”کاش یہ سب اتنا ہی آسان ہوتا۔ ۔ ۔ ویسے دلیپ۔ ۔ ۔ کیا پھر تمھاری بات ہوئی تھی بے جی یا ابا جی سے ؟ ”

”ہاں ہوئی تو تھی۔ ۔ ۔ اور ابا جی کو میں نے ہلکا سا اشارہ بھی دیا تھا کہ مجھے ایک کڑی اچھی لگتی ہے مگر زیادہ بیک گراونڈ نہیں بتایا ابھی۔ مجھے پتہ ہے وہ ہر بات بے جی سے کرتے ہیں اور اس بات کو تو مشکل ہی سے چھپائیں گے۔ ۔ ۔ ”

ثانیہ نے دلیپ کی بات سن کر کہا، ”ویسے دلیپ تمھارا کیا خیال ہے ؟ کیا۔ ۔ ہمیں واقعی ایک دوسرے سے شادی کرنی ہی چاہیے ؟ کبھی تم نے سوچا کہ ہمارے جب بچے ہوں گے تو وہ کیا ہوں گے احمدی مسلمان یا سکھ ؟۔ ۔ ۔ اُن کی شادی کس سے ہو گی احمدی مسلمانوں میں یا سکھوں میں ؟ وہ کونسا کلچر اپنائیں گے میرے گھر والا یا تمھارے گھر کا۔ ۔ ۔ ؟ وہ پنجابی میں بات کریں گے یا اردو میں ؟۔ ۔ ۔ وہ گرو نانک کو ما تھا ٹیکیں گے، یا مسیح مو عود کو مانیں گے ؟۔ ۔ ۔ ”

دلیپ پہلے تو کچھ دیر چپ چاپ ثانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا اور پھر اچانک اُس کی آنکھوں میں بہت ساری شرارت ایک ساتھ آ گئی اور اُس نے ثانیہ کے کان کے پاس آ کر کہا، ” فکر نہ کر یار۔ ۔ ہم کنڈوم استعمال کر لیں گے۔ ” یہ کہہ کر زور زور سے ہنسنے لگا۔ ثانیہ نے ایک دم سے اُس کی گود میں سے اُٹھ کر دلیپ کے کان پکڑنے چاہے مگر دلیپ کرسی سے اُٹھ کر میز کے ارد گرد ہنستے ہوئے بھاگنے لگا۔ ثانیہ بھی ہنستے ہوئے اُس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی مگر پھر کچھ دیر بعد تھک کر لیونگ روم میں آ کر صوفے پر گر گئی۔ دلیپ بھی اُس کے پاس ہی آ کر بیٹھ گیا اور پھر اُس کے دونوں پیروں کو اپنی گود میں رکھ کر سہلانے لگا۔ ثانیہ کچھ دیر تک یونہی لیٹی رہی مگر پھر کچھ سوچ کر اُٹھی اور قریب ہی کافی ٹیبل پر پڑے ہوئے لیپ ٹاپ کو اٹھایا اور ٹرن ان کر کے فیس بک پر لاگ ان ہونے لگی۔ دلیپ نے اُسے یوں اچانک لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ٹائپ کرتے ہوئے دیکھ کر مسکرا تے ہوئے کہا، ”لگتا ہے کل کا ویک اینڈ رات میں ہی شروع ہو چکا ہے تمھارا۔ چائے پیو گی کیا ؟۔ ۔ ۔ مجھے بھی ابھی وہ آرٹیکل ختم کرنا ہے۔ ”

” ہاں یار دل تو کر رہا ہے، پلیز بنا لو نا۔ ”

دلیپ نے کھڑے ہو کر ہلکا سا سر کو آگے خم کیا، ” جو حکم میری جان کا۔ ۔ ۔ ” وہ کچن کی طرف چلا گیا۔ اچانک ثانیہ کی نظر پرفیس بک پر واحدی کے اسٹیٹس پر پڑی اور وہ جلدی جلدی ایک کے بعد ایک کئی سوال ٹائپ کرنے لگی، ‘ ہیلو سر کیسے ہیں آپ؟ ‘ میں نے اپ کی طبیعت کا سنا تھا، اب آپ کا زخم کیسا ہے  ؟ کون لوگ تھے وہ؟کچھ ہی دیر میں واحدی کا جواب آیا ‘ میں بالکل ٹھیک ہوں ثانیہ، میں تمھیں بتاؤں گا اس بارے میں مگر تم نے مجھے لکھا تھا کہ تم مجھ سے کچھ پرسنل بات شئیر کرنا چاہتی تھیں ؟ سب خیریت تو ہے نا ؟’جواب میں ثانیہ کی انگلیاں دوبارہ سے کی بورڈ پر ناچنے لگیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ا نیسواں باب

 

تاریخ: ۶ ۱نومبر، ۲۰۱۵

مقام: کراچی پاکستان

 

مولوی شمس الحق کی ہدایت کے مطابق ادریس مسجد کے ساتھ جڑے ہوئے مدرسہ دینیات میں اب زیادہ وقت دینے لگا تھا۔ اس مدرسے میں دو سو سے زیادہ طالبعلم تھے جو مولوی سلیم اللہ کے مطابق اُن کی اور مولوی شمس الحق کی رہنمائی میں قرآن، تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر اُس نے کبھی بھی مولوی شمس الحق کو کچھ پڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا شاید اس لیے کہ وہ ایسے کئی ایک درس گا ہوں کی ایڈمنسٹریشن کے کاموں میں خاصے مصروف رہتے تھے دوسری طرف مولوی سلیم اللہ نے بھی مسجد کے ہی مختلف اماموں کی ڈیوٹی لگا ئی ہوئی تھی کہ وہ نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ اس مدرسے میں بچوں کو قرآن مجید بھی حفظ کرائیں گے۔ ادریس کے لیے مدرسے کا کلچر خاصا نیا تھا کیونکہ اس سے پہلے وہ کبھی بھی مدرسے میں نہیں آیا تھا۔ اُس کے بچپن میں محلے میں مدرسے کا وجود نہیں تھا اس لیے اُس کے ابا نے اُسے مسجد میں ہی قرآن شریف پڑھوایا تھا۔ ایک دن مولوی سلیم اللہ نے مدرسے کے آفس میں دیر تک اُسے بٹھا کر اُس کے بیک گراونڈ کے بارے میں خاصی تفصیل سے بتایا تھا کیونکہ انہیں میڈیا کی طرف سے اُن کے بارے میں افواہوں کا علم تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ادریس کبھی بھی کسی کنفیوشن کا شکار ہو کیونکہ ادریس معمولی عقل کا ایک کم علم سا عام آ دمی تھا۔ ادریس کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ حضور مکہ میں پیدا ہوئے تھے یا مدینہ میں یا اُن کا روضہ مبارک کہاں پر واقع ہے۔ جب اُس سے مولوی سلیم اللہ نے پوچھا کہ پہلا کلمہ کیا ہے تو اُس نے جھٹ سے کلمہ سنا دیا۔ ہاں اسے کلمہ طیبہ یا توحید کہتے ہیں مگر دوسرا کلمہ کیا ہے تو ادریس کچھ دیر تک سر کھجاتا رہا اور جونہی مولوی سلیم اللہ نے اشھد ان لا الہ کہا ہی تھا تو اُس نے فوراً ہی اشھدان لا الہ سے محمد عَبدُہ وَ رسُول اللہ سنا دیا جو اُس نے شاید کبھی بچپن میں رٹا تھا اور اکثر و بیشتر نمازوں میں پڑھتا بھی تھا مگر ہاں اُسے بہت سے اور مسلمانوں کی طرح یہ نہیں پتہ تھا کہ اِس کے لفظی معنی کیا ہیں اور اسے کلمہ شہادت کہتے ہیں۔ مولوی شمس الحق نے مولوی سلیم اللہ کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وہ ادریس کا خاص طور پر خیال رکھے کیونکہ وہ ایک جذباتی، بہادر اور مضبوط اعصاب کا مسلمان ہے۔ مولوی سلیم اللہ نے ادریس کو بتایا تھا کہ اُن کے اس والے مدرسہ دینیات میں زیادہ تر بچے ۸ سے ۱۲ سال کے ہیں مگر بعض اوقات والدین سات سال کے بعد بھی یہاں بچوں کو داخل کرا دیتے ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے بچوں کو پیشاب پاخانے کے مسائل بہت ہوتے ہیں اس لیے مسجد میں سات سال سے کم عمر بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا ہے۔ ہاں بعض اوقات اگر کلاس میں جگہ ہو یا کوئی بہت ضرورت مند ہو تو کبھی کبھار ۱۲ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو بھی لے لیتے ہیں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ زیادہ عمر کے بچے قرآن کو حفظ کرنے میں وقت بھی زیادہ لیتے ہیں اور اکثر و بیشتر چھوٹے بچوں کے لیے پریشانی کا بھی سبب بنتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ شرارتی اور جھگڑالو ہوتے ہیں۔ بہت سی باتیں تھیں جو ادریس کے علم میں نہیں تھیں مثلا یہ کہ مدرسہِ دینیات دیوبندی مسلک پاکستان کے دیگر چالیس پچاس ہزار مدرسوں میں سے ایک مدرسہ ہے جو جنرل محمد ضیا الحق کے زمانے میں ۸۶۔ ۸۵ ۱۹ء میں روسی باطلوں پر فتح پانے کی خاطر سعودی امداد سے بنائے گئے تھے۔ ایک زمانے میں خود مولوی سلیم اللہ کے مدرسے میں ۵۰۰ سے زیادہ طالب علم تھے مگر مشرف کی حکومت نے بہت سارے مدرسوں پر کئی ایک پابندیاں لگا دی تھی اس لیے مدرسہ دینیات کو بھی ۲۰۰۳ ء میں پاکستان مدرسہ ایجوکیشنل بورڈ سے رجسٹرڈ کرایا گیا اور اس میں شامل بہت سے بیرون ملک کے طالبعلموں کو راتوں رات فارغ کیا گیا تھا۔ لشکر طیبہ اور جماعت الدعو یٰ وغیرہ کے نام ادریس کے لیے کچھ نئے نہیں تھے ان کے بارے میں وہ کچھ نہ کچھ اڑتی ہوئی باتیں سنتا رہتا تھا مگر مولوی سلیم اللہ سے باتوں کے دوران اُسے اندازہ ہوا کہ کس طرح جان توڑ کوششوں سے یہ جماعتیں پاکستان میں وہابی ازم کے پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ اصل اسلام کی روح تو وہابیت یا سلفی فرقہ میں ہے جو تمام تر بدعتوں سے پاک ہیں اور پاک سرور کائنات کے مقام مقدسہ سعودی عرب سے خالصتاً منسوب ہے جبکہ اہل سنت و الجماعت یا بریلوی فرقہ سراسر بدعتوں سے بھرا ہوا ہے کیونکہ یہ فرقہ اولیاؤں کے مزاروں پر جا کر اللہ تبارک تعالی سے دعائیں کرتے ہیں جبکہ اللہ اور اُس کے رسول نے مزاروں یا مقبروں کے نشانات رکھنے کو بھی منع کیا ہے۔ مولوی سلیم اللہ نے ہی اسے بتایا کہ صوفی ازم کی وجہ سے یہ جو قوالیاں، میلاد شریف وغیرہ اس فرقے میں شامل ہوئی ہیں یہ سب ہندوؤں کے کلچر کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ سب بدعتیں ہیں اور اسلام میں اس کی سخت سزائیں ہیں۔ مدرسہ دینیات میں بچوں کو تین وقت کا کھانا قرآنی تعلیم کے ساتھ مفت میسر تھا۔ اوپر کی کئی منزلوں میں کل ملا کر پچاس سے بھی زیادہ کمرے تھے جہاں ایک کمرے میں چار بچے سوتے تھے۔ ان سب کے لیے کچن، لانڈری، صفائی ستھرائی، صحت، بیماری، سیکورٹی کے انتظا مات غرض یہ کہ یہ سب کوئی چھوٹی ایڈمنسٹریشن نہیں تھی اور پھر یہ تو ایک مدرسہ تھا ایسے تو شہر میں کئی مدرسے تھے جو مولوی شمس الحق کی رہنمائی میں چل رہے تھے۔ مولوی سلیم اللہ ایک دن ادریس کو مولوی شمس الحق کی رہائش گاہ پر بھی لے گیا تھا جو ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹی میں تھی۔ مولوی شمس الحق کا گھر تھا کہ محل نما ایک قلعہ تھا جسے دیکھ کر ادریس کا تو دل ہی دھڑکنا بھول گیا تھا۔ گھر کے باہر آدھے درجن تو سیکو رٹی گارڈز کے پہرے تھے اور گھر کے اندر پجیرو اور مرسیڈیز کی قطار لگی ہوئی تھی۔ ادریس کے لیے یہ ایک بالکل نئی دنیا تھی جس کا اس سے قبل اُس کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا۔ اُس دن صحیح معنوں میں وہ مولوی شمس الحق سے بہت مرعوب ہو گیا تھا اور اُس نے دل میں سوچ لیا تھا کہ وہ بھی اُن کی طرح دین اور دنیا کے اِس کام میں پوری طرح جت جائے گا کیونکہ نیک کام میں واقعی برکت ہوتی ہے۔ وہ اس فکر میں لگ گیا تھا کہ مدرسے کے تمام تر معاملات کو اِس خوبی سے چلائے کہ مولوی سلیم اللہ اور مولوی شمس الحق کے اعتماد کو کبھی بھی ٹھیس نہ پہنچنے۔ یوں بھی جب سے مدرسے کی مصروفیت شروع ہوئی تھی اُس کی زندگی ایک ڈگر پر آ گئی تھی جو پہلے دور دور تک نہیں تھی۔ مولوی سلیم اللہ کی خاص ہدایت تھی کہ مدرسے کے معاملات کو ادریس خود تک محدود رکھے اور اُسے محلے کے لوگ، قریبی دوستوں حتی کہ اپنی گھر والی سے بھی ذکر نہ کریں کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے حکومت کی بدلتی ہوئی پایسیوں کی وجہ سے پاکستان بھر میں مدرسوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا تھا جن سے مولوی شمس الحق کو بہت ہی احتیاط سے نمٹنا پڑ رہا تھا۔ مولوی سلیم اللہ نے ادریس کو پاکستان کی سیاست کے بھی کچھ حالات سمجھانے کی کوشش کی تھی تاکہ اُسے اپنے کام کی نزاکت اور اہمیت کا اندازہ ہو سکے۔ اُنہوں نے ادریس کو ایک دن سمجھایا کہ ‘ سیاست پاکستان میں ایسے ہی کروٹ بدلتی ہے جیسے طوائف اپنے گاہک اور مزے دار بات یہ ہے کہ ہر گاہک سے اُس کا رویہ بھی ایسا ہوتا ہے جیسے وہ اُس کا سب سے چہیتا گاہک ہے۔ یہی پاکستان جب بنا تھا تو یہاں کل ملا کر ٹوٹل ۱۸۹ مذہبی مدارس تھے جو ۲۰۰۸ء تک آتے آتے بڑھ کر چالیس ہزار تک ہو گئے۔ اس تمام تر ترقی کا سہرا مرد مومن مرد حق جنرل محمد ضیا الحق کے سر پر تھا۔ کہتے ہیں اللہ تبارک تعالی خو ذریعے بناتا ہے اُس کا کرنا ایسا ہوا کہ روس کے کافروں نے ایک مسلمان ملک اور ہمارے قریب ترین ہمسائے افغانستان پر حملہ کر دیا اور یوں اسلام جو پہلے تیس پیتیس سالوں میں صرف نام نہاد سا پاکستان میں تھا چند ہی سالوں میں سارے ملک میں پھیل گیا اور پاکستان اسلام کا مضبوط ترین قلعہ بن گیا۔ اس دوران ساری دنیا کی اسلامی حکومتیں خصوصاً سعودی عرب اور عرب امارات اپنے افغان مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے صف آرا ہو گئیں۔ اللہ تبارک تبارک تعالیٰ کے کرم سے اُس وقت امریکا میں بھی ایسی حکومت تھی جو اسلامی دنیا کی بھلائی چاہتی تھی یوں افغانستان کے مٹھی بھر مسلمانوں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت روس کو شکست فاش عطا کی اور کافروں کو ذلت و خواری کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسی وقت پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بھی بن گئی، اپ اس بات سے اندازہ لگائیں ادریس بھائی کہ محمد ضیا الحق کے دور میں لگ بھگ دو ملین بچے مدارس کے طالبعلم تھے اور غریب ماں باپ اس بات سے خوش تھے کہ ان مدرسوں کی صورت نا صرف اُن کے بچوں کو کھانے پینے رہنے کی مفت سہولت دستیاب تھی بلکہ وہ دن رات قرآنی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ مگر پھر ستمبر ۱۱ کا واقعہ ہو گیا اور یہودیوں کی سازش سے مسلمانوں کے خلاف ساری طا غوتی قوتیں اکھٹی ہو گئیں۔ پھر تو ایک کے بعد ایک مسلم ملک پر حملے ہونے شروع ہو گئے پہلے عراق اور پھر افغانستان پر حملہ ہوا بس اس کے بعد پاکستان میں بھی مشرف کی کافرانہ حکو مت آ گئی جو یہودیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھی۔ ابھی حالات مسلم امہ پر سخت ہیں مگر سعودی عرب اور دوسری عرب دنیا ڈٹی ہوئی ہے انشا اللہ تعالی ٰ اسلام پھر غالب ہو گا اور کفر ذلیل و خوار۔ ۔ ۔ ” اِن ساری باتوں کو سُن کر ادریس کے اندر کا مرد مومن پوری طرح پک کر تیار ہو رہا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ جب مولوی شمس الحق نے ادریس کو اگلے ہفتے ایک اسپیشل پرو جیکٹ کے لیے اپنے ڈیفنس والے گھر پر بلوایا تو پروجیکٹ کی تفصیل سننے سے پہلے ہی وہ اپنا دماغ اِس کام کو ہر صورت میں کرنے کے لیے تیار کر چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

بیسواں باب

 

وقت: دس بج کر تیس منٹ صبح

تاریخ: ۱۶ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: کابل افغانستان

 

واحدی نے ثانیہ کو اپنے زخمی ہونے کی ساری تفصیلات بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ ثانیہ کے متواتر سوالوں کے جواب میں اُس نے سوال کر کے ثانیہ کو آسانی سے اُس کی زندگی کے مسائل کی طرف موڑ دیا تھا، ” میں بالکل ٹھیک ہوں ثانیہ، میں تمھیں بتاؤں گا اس بارے میں مگر تم نے مجھے لکھا تھا کہ تم مجھ سے کچھ پرسنل باتیں شئیر کرنا چاہتی تھیں ؟ سب خیریت تو ہے نا ؟”

جواب میں ثانیہ کی انگلیاں دوبارہ سے کی بورڈ پر ناچنے لگیں، ” ڈاکٹر واحدی، پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ کے نزدیک اچھے یا بُرے کردار کی تعریف کیا ہے۔ ؟ ” ثانیہ نے نپے تلے انداز میں ٹائپ کیا۔

یہ پڑھ کر واحدی نے بھی مختصرسوال کا نپا تلا سا جواب لکھ دیا، ” اگر کسی کی ذات سے کسی بھی انسان یا جاندار کو جانی یا مالی نقصان پہنچے گا تو اُس کا کردار بُرا ہے اور جو نقصان نہ ہو یا فائدہ ہو جائے تو اچھا ہے۔ ”

ثانیہ نے اگلا سوال لکھا، ”کیا ہمارے کردار کا فیصلہ ہمارا معاشرہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ؟”

” کرتا ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر معاشرے کے لحاظ سے وہ درست بھی ہو اس لیے ہمارا کوئی بھی عمل اگر ہماری نفسیات میں ہیجان پیدا کر دے اور ایک احساسِ شکستگی عطا کر دے تو وہ عمل خود ہمیں ہی ہمارے اپنے کردار کے بارے میں ایک گمان ضرور پیدا کر دیتا ہے اب باقی رہیں معاشرہ وغیرہ کی باتیں تو یہ بہت حد تک مصنوعی باتیں ہیں۔ ” پھر واحدی ٹائپ کرتا چلا گیا، ” دیکھیے ثانیہ ہم معاشرے میں شامل ہر ایک فکر و خیال کے شخص کو کبھی بھی ایک ساتھ خوش نہیں رکھ سکتے اس لیے بنیادی تخلیق شدہ معاشرتی اصولوں تک بھی ہمارا پابند رہنا بھی کافی ہے۔ ”

” سر کیا سیکس یا جنس کا تعلق اچھائی یا بُرائی سے ہے۔ ۔ ۔ ؟” ثانیہ نے تھوڑا سا سنبھل کر اگلا سوال لکھا، ”انسانی تہذیبی ارتقاء کا سفر نا معلوم سے معلوم کی طرف ہے اس نامعلوم سے مذہبی فکر نے جنم لیا اور جنس اُس فکر کی بنیادی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ فطری طور پر مذہب نے اخلاقیات کی پرورش کا ٹھیکہ سیکس کے ذریعے سے لیا کیونکہ جنس انسانی پیدائش کا فطری عمل تھا۔ چونکہ جنس یا سیکس واحد نفسیاتی تحریک ہے جو بیک وقت حیوانی اور انسا نی تہذیبی تقاضوں کا تعین کرتی ہے۔ ۔ ۔ ”واحدی نے اسی روانی میں جواب دیا اور پھر کچھ سیکنڈ کے وقفے کے بعد دوبارہ ٹائپ کرنا شروع کیا، ثانیہ نے جونہی محسوس کیا کہ ابھی واحدی کی بات پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے تو اُس نے اپنی انگلیوں کو مزید ٹائپ کرنے سے روک دیا اور اُس کے اگلے میسج کا انتظار کرنے لگی۔

” اچھا تم میرے سوال کا جواب دو کیا مذہب اور سیکس فطری دشمن ہیں ثانیہ۔ ۔ ۔ ؟ ”

ثانیہ نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر لکھا، ” میرے خیال میں تو پکے دشمن ہیں مگر پلیز مجھ سے مت پوچھیے گا کیوں ؟ ”

اس دوران دلیپ بھی کچن سے چائے کے دو کپ لے کر لیونگ روم میں آ گیا اور ثانیہ کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا اور ایک چائے کا کپ ثانیہ کو دے کر اُس گفتگو کو دلچسپی سے پڑھنے لگا، ” محبت ایک فطری کیفیت ہے مگر اس کا تعلق ایک لطیف احساس سے ہے جس کا میکانی تجزیہ ممکن نہیں ہے جبکہ سیکس ایک شدت سے بھر پور احساس کا نام ہے جس کا میکانی تجزیہ ممکن ہے۔ محبت لامحدود فاصلے اور لا متناہی اشکال پر مشتمل ہے جبکہ جنس یا سیکس کا عمل محدود فاصلوں اور محدود اشکال پر محیط ہے۔ دیکھو مذہب کی فطرت میں تجزیہ نہیں ہے کیونکہ تجزیاتی ذہن مذہب سے فطری طور پر دور چلا جاتا ہے اِس عمل سے بچنے کے خاطر سیکس کو منفی قوت جبکہ محبت کو مثبت طاقت کے طور پر مذہب نے استعمال کیا گیا۔ ۔ ۔ اچھا اگلا سوال؟ ”

ثانیہ نے پھر سے لکھنا شروع کیا، ” کیا مذہب نے نسل پرستی کو فروغ دیا ہے۔ ۔ ۔ ؟”

واحدی نے جواب میں ٹائپ کرنا شروع کیا، ” ثانیہ نسل پرست بنیادی طور پر کلر بلائنڈ ہوتا ہے اُسے کائنات میں صرف چند ہی رنگ نظر آتے ہیں جو خود غرضی کی حد تک صرف اُس سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ رنگ در اصل جلد، زبان، رسوم و رواج اور تہذیبی و جغرافیائی بنیادوں پر سیاسی طور پر انسانی معاشرے میں پیدا کیے گئے تھے جس کا بنیادی مقصد معاشی فوائد کا تعین تھا۔ بلاشبہ اس سلسلے میں مذہب کا ایک بڑا تاریخی کردار ہے۔ مذہب جو حقیقت میں نسل کشی کے خلاف ہوتا تو مختلف مذاہب کے درمیان شادی کے لیے شرائط ہی نہیں رکھتا، مذہب اپنے پیغمبر اور دوسرے پیغمبروں میں امتزاج بھی نہیں کرتا، وہ اُن رسوم و رواج اور عبادات کی تائید بھی نہیں کرتا جو ایک دوسرے سے متنازع ہوتے ہیں اور اکثر و بیشتر امتیاز کا سبب بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے مذاہب نے نسل پرستی کے خاتمے کا دعویٰ تو کیا مگر حقیقت میں پوری شدت کے ساتھ نسل پرستی کو پھیلانے کا سبب بھی بنا ہے۔ اس کے لیے ہم منفی سیاست کو بھی الزام دے سکتے ہیں مگر یہ بھی تو سوچنا ہو گا نا کہ ایک منفی سیاسی عمل ایک مثبت مذہبی فکر پر اس قدر آسانی سے غالب کیوں اور کیسے آ گئی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ فکر میں کہیں نہ کہیں کمزوریاں تھیں اور یوں وہ بہت آسانی سے انسانی سیاسی چالوں کے نظر ہو گئی تو پھر یہاں مذہب کے الٰہی رشتے پر بھی کئی ایک سوالات اُٹھ جاتے ہیں۔ ۔ نہیں؟”

کچھ دیر کے لیے دونوں کی گفتگو میں ایک وقفہ آ گیا تھا۔ شاید واحدی کا آخری جملہ دلیپ اور ثانیہ کے لیے کئی ایک فکری دروازے کھول گیا تھا اور وہ اس وقفے میں اُس فکر پر غور کر رہے تھے مگر اس سے پہلے کہ وہ اس سوالیہ ‘ نہیں ‘ پر کوئی جواب لکھتے، ثانیہ نے کچھ سوچتے ہوئے ایک براہ راست سا سوال ٹائپ کرنا شروع کر دیا، ” سر آپ نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ آپ کی اپنی محبوبہ سے شادی نہیں ہو پائی تھی اور اُسے آپ سے پیار کرنے کی سزا ملی تھی اور آپ نے شاید یہ بھی لکھا تھا کہ اُس پر بد کرداری کا ایک جھوٹا الزام لگا کر اُسے اور آپ کے خاندان پر حملہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے آپ کے والدین اور محبوبہ ماری گئی تھی۔ کہیں آپ اُس سارے واقعہ سے متاثر ہو کر مذہب کی روایتی فکر سے تو نالاں نہیں ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ ؟ ”

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ثانیہ کو محسوس ہوا جیسے دوسری جانب ٹائپ کے دوران چند جملے لکھے گئے اور پھر ڈیلٹ کر دیے گئے مگر پھر لفظ ایک کے بعد ایک ٹائپ ہونے لگے۔ دلیپ اور ثانیہ بے صبری سے واحدی کے جواب کا انتظار کر تے ہوئے ان باکس کو تک رہے تھے

جوں جوں واحدی نے کی بورڈ پر ٹائپ کرنا شروع کیا اُس کے سامنے سے آہستہ آہستہ کمپیوٹر کا سکرین اوجھل ہوتا چلا گیا اور تیس سال قبل ۱۹۸۶ ء کا ا افغانستان، ماضی کے جھروکوں سے نکل کر واحدی کی چاروں سمتوں میں اچانک پھیلتا چلا گیا۔ اُس وقت نجیب کی جگہ ببرک کارمل کی تعنیاتی نے جنگ بندی کی کچھ امیدیں پیدا کی تھیں مگر مجاہدین نے ببرک کارمل کی آواز پر کان دھرنے سے انکار کر دیا تھا اور جینوہ میں امن معاہدہ پر دستخط سے قبل مجاہدین نے ۱۹۸۶ ء۔ ۱۹۸۵ ء کے سال کو روسی فوجیوں کے خون سے اچھی طرح سے نہلا دیا تھا۔ اس پورے سال میں مجاہدین نے ہزاروں شیلوں، راکٹوں اور دستی بموں کی بھرمار سے سارے کابل میں خصوصاً گورنمنٹ کے اداروں، ریڈیو اسٹیشنز، ایر ٹرمنل، سڑکوں، پلو ں، ہو ٹلوں، سینماؤں، الیکٹرک پاور ہاوس، انڈیسٹیریل اداروں حتی کے فیکٹریز اور ایجو کیشنل اداروں کو بھی اچھی طرح سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں سارے شہر کی بجلی اور پانی کئی کئی دنوں کے لیے بند ہو جا تی تھی۔ سٹرکوں، گلیوں، محلوں، کھیل کے میدانوں اور اس کول کالجوں میں جگہ جگہ دستی بم پھٹے رہتے تھے اور آئے دن شہری بھی افغان اور سویت فوجیوں کے ساتھ لقمہ اجل بن رہے تھے۔ کابل کے مقابلے میں واحدی کے صوبے بامیان میں اُس سال قدرے امن تھا اور واحدی کے پاس سوائے بامیان واپس جانے کے کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ کابل یونیورسٹی کئی مہینوں سے بند تھی اور صوفیہ سے اُس کی ملاقاتیں ہفتوں نہیں ہو پار ہی تھیں۔ اُدھر صوفیہ کی زندگی خود اسی کے اپنے سگے بھائی مسعود نے اجیرن کر کے رکھی ہوئی تھی جب سے وہ گلدین حکمت یار کی حزب اسلامی میں گیا تھا اُس نے صوفیہ کے لیے سختیاں شروع کر دی تھیں۔ صوفیہ کا باپ بیٹے کے برتاؤ پر کبھی کبھار سرزش کرتا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ بھی اب اُس کے تیوروں سے ڈرنے لگا تھا۔ مسعود مجاہدانہ کاروائیوں میں خاصا آگے نکل گیا تھا اور اُن کی کسی ونگ کمانڈر کو لیڈ بھی کر رہا تھا۔ اِس سلسلے میں وہ ہفتوں گھر سے باہر رہتا تھا مگر جب بھی گھر آتا تو پھر گھر کے لوگوں کو بھی ونگ سمجھ کر ہی کنٹرول کرتا  تھا۔ صوفیہ کا باپ دن بدن مجبور اور بے کس ہوتا جا رہا تھا، صوفیہ کی ماں صوفیہ کو بھائی کے سامنے بھی جانے کو بھی منع کرنے لگی تھی مگر پھر بھی وہ صوفیہ پر سخت نگاہیں رکھتا تھا اور اُسے اکثر و بیشتر ڈانٹتا ڈپٹتا رہتا تھا۔ اُس کا زیادہ تر غصہ صوفیہ کے کپڑوں لتوں، گھر سے باہر نکلنے پر ہوتا تھا اُسے صوفیہ کے آرٹ ورک سے تو الرجی ہو گئی تھی۔ اُسے پتہ تھا کہ صوفیہ نے آرٹ ورک میں بیچلر کیا ہے اور پینٹنگ اُس کی کمزوری ہے۔ صوفیہ کو فائن آرٹ میں بچپن سے دلچسپی تھی مگر اب جیسے ہر شے کو ایک اسٹاپ سائن لگ چکا تھا۔ اُس کی گھٹن تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ مسعود اب اُس پر چیختا چلاتا ہی نہیں تھا بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہاتھ بھی اُٹھانے لگا تھا ایسے بُرے حالات میں لے دے کر واحدی کی محبت ہی اُس کے جینے کا سہارہ بن گئی تھی۔ شیرازی کی مدد سے اُس کے گھر پر واحدی اور صوفیہ کی ملاقاتیں تین چار ہفتوں میں ایک آدھ بار ہو جاتی تھیں مگر مسعود کا خوف صوفیہ کو ہمیشہ اُس سے ملنے سے باز رکھتا تھا۔ واحدی آغا خانی شیعہ خاندان کا فرد تھا جبکہ صوفیہ کا تعلق ایک کٹر سنی گھرانے سے تھا۔ صوفیہ کابل میں پیدا ہوئی اور بڑی ہوئی تھی جبکہ واحدی ہزارہ جات کے صوبے بامیان کا رہنے والا تھا۔ دونوں کے مذہبی اور سوشل بیک گراونڈ میں ہی نہیں بلکہ پختون اور ایرانی نسل ہونے کا بھی فرق تھا۔ یہ فرق شاید سویت وار سے پہلے کے افغانستان میں فرق بھی نہیں سمجھے جاتے تھے مگر اب حالات یکسر بدل چکے تھے اب یہ فرق صرف فرق نہیں تھا بلکہ گناہ بن گیا تھا جس کی سزا موت بھی ہو سکتی تھی۔ شدت پسندی کی یہ لہر اچھی طرح سے واحدی کے علم میں تھی اور خود اُس کے لیے بھی اس گھٹن میں افغانستان میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اکثر تنہائی میں سوچتا تھا کہ وہ کیسے بھی صوفیہ کو ساتھ لے کر افغانستان سے نکل جائے اور کسی بھی طرح سے قریبی ملک ایران وغیرہ ہی چلا جائے اور پھر وہاں بیٹھ کر حالات کے لحاظ سے آگے کا فیصلہ کرے۔ مگر شاید اسے ابھی صوفیہ کو اپنے ساتھ لے جانے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

کاش اُس رات صوفیہ مسعود سے کسی بات سے پٹنے کے بعد گھر چھوڑ کر شیرازی کی بہن سے ملنے اُس کے گھر روتی ہوئی نہیں آتی اور واحدی جذبات کی رو میں اُس کا ہاتھ پکڑ کر بامیان کے لیے نہیں نکل جاتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ واحدی اور صوفیہ دونوں کو پتہ تھا کہ کابل سے بامیان تک کی سڑک کا راستہ انتہائی غیر محفوظ تھا۔ اسی لیے انہوں نے احتیاطاً صوبہ وردک کے بجائے پاروان والا راستہ لیا تھا اور پھر چاریکار سے گھوربند ہوتے ہوئے تقریباً آٹھ دس گھنٹے میں دو تین گاڑیاں بدل کر بامیان پہنچے تھے۔ اُس رات تین بجے جب سارا گاؤں گہرے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، بامیان کے مرکزی بازار میں چاروں جانب سناٹا تھا، کچی سڑک کے دونوں اطراف کچے پکے مکانوں کی قطاروں میں کہیں کہیں قندیلیں جل رہیں تھیں، ٹھیلوں اور چھابڑی والوں کی دوکانوں کے نیچے چھپے ہوئے کہیں کچھ آوارہ کتے اچانک نکل کر ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے غول کی شکل میں کبھی بھاگ رہے تھے تو کبھی ایک دوسرے پر بھونک رہے تھے۔ رات کے پچھلے پہر جونہی واحدی اور صوفیہ والی لاری وہاں پہنچی تو دھول مٹی کے طوفان اور انجن کی زور دار گھڑگھڑاہٹ کی آواز سے ڈر کر کتے چھا بڑیوں اور ٹھیلوں کے پیچھے چھپ گئے۔ اسی مرکزی بازار میں خشک میوے کا سب سے بڑا بزنس واحدی کے باپ کا تھا جو ایک زمانے سے آس پاس کے چھوٹے بازاروں کی دوکانوں میں میوے کی سپلائی کا کام بھی کر رہا تھا۔

افغان ریاستوں سے ہزاراں کا تعلق ہمیشہ سے پیچیدہ رہا تھا۔ لگ بھگ سو سال پہلے ۱۸۸۶ ء۔ ۱۸۸۷ ء میں افغانستان کے حاکم عبد الرحمان نے مرکزیت کی ایک تحریک شروع کی تھی۔ اس دوران اس نے سیاسی طریقوں سے کئی ایک خود مختار اور نیم خود مختار قبائلی گروہوں کو اپنے تابع کیا لیکن نہ جانے کیوں ہزاراں کے مکینوں کے ساتھ اُس کا رویہ بے انتہا جابرانہ اور ظالمانہ رہا۔ اُس نے اُن کو زمینوں سے بے دخل کر کے غلام بنا کر فروخت کیا اور پھر بڑی تعداد میں انہیں قتل و غارت کیا جس کے نتیجے میں ہزاراں کے بچے کچے لوگوں نے بھاگ کر ایران اور مستقبل کے پاکستان والے علاقوں میں جا کر پناہ لینی لی تھی۔ ان واقعات کے نتیجے میں ہزاراں کے لوگ مستقل طور پر سماج میں دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری بن گئے تھے اور مزدور اور نوکر چاکر بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ سویت یونین وار سے افغانستان میں شدت پسند مجاہدین کی مضبوطی ہزاراں کے شیعہ مسلمانوں کے لیے موت کا سندیسہ بنتی چلی گئی تھی۔ وہاں آباد ہونے والے رہائشی علاقے اُن کے لیے بیک وقت خوفزدہ اور تشویش زدہ تھے۔ واحدی کو ان باتوں کی سُن گُن تھی اس لیے اُس کا ارادہ تھا کہ بامیان میں ایک دو دن ٹھیر کر اپنے ماں باپ سے صوفیہ کو ملا نے کے بعد ایران چلا جائے گا۔ اُس رات تقریباً ٌ تین بجے جب واحدی ایک ہاتھ میں چھوٹا سا سوٹ کیس اور دوسرے ہاتھ سے صوفیہ کا ہاتھ تھامے اپنے چھوٹے مگر قدرے پکے مکان میں پہنچا تو واحدی کے ماں باپ اُس کے ساتھ صوفیہ کو دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے خوفزدہ ہو گئے تھے خصوصاً اُس کا باپ جسے ہزاراں میں مجاہدین کے سیاسی اثرات کا اچھی طرح سے اندازہ تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ واحدی نے دو بہت بڑی غلطیاں کر دی تھیں ایک تو یہ کہ وہ صوفیہ کو جو سنی فرقہ سے تعلق رکھتی تھی اُسے نکاح کیے بغیر اپنے ساتھ لے کر کابل سے چلا آیا تھا اور دوسرا یہ کہ وہ اسے کابل سے یہاں بامیان لے کر آیا تھا جو کسی بھی طرح سے اُن کے لیے محفوظ جگہ نہیں تھی۔ واحدی کے پہنچنے پر اُس کے باپ نے اُسے بتایا کہ اِس وقت بامیان کے حالات کابل جیسے نہیں ہیں مگر امن یہاں بھی نہیں ہے۔ ہزارہ جات میں میدان وردک، غور اور روزگان اور بامیان کے حالات اچانک بگڑ جاتے ہیں کیونکہ مجاہدین، تنظیمِ نسل نو ہزارہ اور خمینی اسلامی گروپس اور حکومتی گروپ کے درمیان جھڑپیں بار بار چل رہی ہیں۔ گلدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے جنگجو جتھے یہاں جگہ جگہ موجود ہیں جوا س تصادم میں آگے آگے ہیں۔ یہی ہوا بھی اُن کی انٹیلی جینس واحدی اور صوفیہ کے رومانی خوابوں سے بھی کہیں زیادہ تیز ثابت ہوئی۔ واحدی کی کابل سے روانگی کے فوراً ہی بعد شیرازی کو گھر سے اٹھا لیا گیا اور اگلی رات ابھی واحدی کے بستر کی شکنیں بھی دور نہیں ہوئی تھی کہ مسعود اپنے ۱۴ جنگجو مجاہدین ساتھیوں کے ساتھ ٹرکوں اور جیپوں میں اندھا دھند بامیان پہنچ گیا۔ اللہ اکبر کے نعروں اور کلاشنکوف کے برسٹوں سے واحدی کے ماں باپ اور صوفیہ اور واحدی کو سوتے میں چھلنی کر دیا گیا۔ واحدی حملے میں شدید زخمی ہوا مگر اُس کے ماں باپ اور صوفیہ موقع پر ہلاک ہو گئے۔ واحدی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ سب اس قدر جلدی ہو جائے گا ورنہ وہ صوفیہ کو لے کر کبھی بھی بامیان نہیں آتا اور اُس کے ماں باپ اور صوفیہ اُس کی غلطی کی سزا نہیں پاتے۔ واحدی کے زخم ابھی پوری طرح بھرے بھی نہیں تھے کہ اُس نے سنا کہ مسعود کابل میں سویت یونین کی فوج اور مجاہدین کی کسی جھڑپ میں کابل میں مارا گیا۔

واحدی نے کمپیوٹر کی دھندلی اسکرین کو صاف کرنے کے لیے اسکرین پر ہاتھ پھیرا مگر اسکرین پھر بھی دھندلی رہی۔ پھر اُس نے دوسرے ہاتھ سے اپنی ڈبڈبائی آنکھیں صاف کی اور لکھنا شروع کیا، ” نہیں ثانیہ ایسا نہیں ہے، میں تو وہ خوش نصیب ہوں جو بامیان میں بدھا کے عظیم ترین مجسموں صلصال اور شاہ مامہ کے زیر سایہ پلا اور بڑا ہوا ہوں اور میں نے اپنی بلوغت کے اُس دور میں دنیا کے ان قد اور ترین مجسموں کے قدموں میں بیٹھ کر مہاتما بدھا سے یہ سوال کیا تھا کہ بدھا ازم میں تو خدا کا دور دور تک کوئی تصور نہیں ہے اور آپ کی تعلیمات بھی تو بت پرستی کے ہمیشہ خلاف ہی رہی ہیں تو پھر آپ کے بھکشوؤں نے آپ کے یہ بُت کیوں تعمیر کر دیے ؟ کیا محض اس لیے کہ انسان فطرتاً بت پرست ہے ؟۔ ۔ ۔ دیکھو ثانیہ تم جدید فکر کی اکیسو یں صدی کی نئی نسل سے ہو اور تم ایک ماہر نفسیات بننا چاہتی ہو تو تمہیں اس کی سچائی انسانی نفسیات کے ارتقا میں سا ئنسی آگہی سے ڈھونڈنی چاہیے نہ کہ پانچویں قبل مسیح کی مذہبی فکر میں۔ ہو سکتا ہے انسانی فکر کے گنجلک روحانی تقاضے کچھ دیر کے لیے اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں میں تمھیں الجھا دیں مگر مجھے یقین ہے کہ روح اور ذہن کی جدید تجزیاتی تفریق تمھیں شعور کی اُس اعلی ترین منزل سے بھی آگے لے جائیں جہاں بہت ممکن ہے تمھارے قبل المسیح کے آباء و اجداد کی فکر نہ پہنچ پائی ہو اور میرا یقین مانو کہ ایسا ممکن بھی ہے کیونکہ شعور صرف اور صرف علم کی روشنی کا محتاج ہے اور تم خوش نصیب ہو کہ تم اکیسویں صدی کی روشن سائنسی دنیا میں پیدا ہو ئی ہو نہ کہ ماضی کے کسی لاعلمی کے تاریک مزار میں۔ ۔ اچھا ثانیہ مجھے اب اجازت دیں کیونکہ میری طبیعت اِس وقت ماضی کے دکھوں سے بے انتہا بوجھل ہو گئی ہے۔ میں تم سے پھر کبھی بات کروں گا’ یہ کہہ کر واحدی نے کمپیوٹر ٹرن آف کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اکیسواں باب

 

وقت: گیارہ بجے رات

تاریخ:۲۱ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: شاہ فیصل کالونی، پاکستان

 

بختاور نے جونہی ٹی وی ٹرن آن کیا بریکنگ نیوز کی ہائی لائٹ اسکرین پر چل رہی تھی اور بلیٹن میں کراچی کی ایک مسجد پر شدت پسندوں کے حملے کی خبر دکھائی جا رہی تھی۔ نیوز کاسٹر کے مطابق چند دہشت گرد مسجد کے پچھلے دروازے سے داخل ہوئے اور جب نمازی رکوع میں گئے تو انہوں نے نمازیوں کی پیٹھ اور سر پر گولیاں بر سانا شروع کر دی۔ شدت پسندوں کا حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے گیارہ نمازی تو وقت پر ہی شہید ہو گئے اور چھتیس زخمی ہو گئے مگر زخمیوں کی حالت نازک تھی اور مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ٹی وہی اسکرین پر زخمی اور مرنے والوں کی تصاویر ہر ایک لمحے پر بدل رہی تھی۔ مسجد کا فرش اور دیواریں نمازیوں کے خون سے سرخ ہو رہی تھیں۔ کہیں دیواروں پر اُن کے جسموں کے حصے خصوصاً سروں پر گولیاں لگنے کی وجہ سے نمازیوں کے بھیجے اُڑ کر جگہ جگہ چپکے ہوئے تھے۔ جانمازیں، قرآن مجید اور سپارے انسانی خون میں لت پت ہو رہے تھے اور چاروں طرف بکھرے پڑے تھے۔ نمازیوں کے رشتے دار، دوست، جاننے والے چیخ چیخ کر ماتم کر  رہے تھے اور زخمیوں کو اُٹھا کر ایمبولینس میں رکھنے میں مدد کر رہے تھے۔ بختاور نے بے چین ہو کر ٹی وی کا والیم بڑھا یا تو نیوزکاسٹر کی آواز، لوگوں کی چیخ و پکار، رونے کی کرب ناک چیخیں اور ایمبولینس کا شور آپس میں مل کر کمرے میں زور زور سے گونجنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی کی اسکرین سے خون رستے ہوئے کمرے میں آنے لگا اور پھر بہاؤ بڑھتا چلا گیا اور خون کے ساتھ ساتھ اُس میں لتھڑی ہوئی نمازیوں کی لاشیں بھی کمرے میں اترنے لگیں۔ خون کے بہاؤ کی رفتار جوں جوں بڑھنے لگی وہ کسی دریا کی لہر کی طرح تیزی سے بہتا ہوا بختاور کے ارد گرد جمع ہونے لگا مگر اُسے گیلا کیے بغیر اُس کے پیچھے پلنگ پر بیٹھے ہوئے سہمے ہوئے عثمان کی طرف بڑھنے لگا۔ عثمان ڈر کے مارے ٹی وی اسکرین کو دیکھ کر زور زور سے چیخنے چلانے لگا۔ اُسے لگا جیسے خون کا یہ دریا کمرے میں پھیلتا جا رہا ہے اور جوں جوں نیوز ریڈر کی آوازوں کا شور نمازیوں کے رشتہ داروں کی چیخوں پکار سے مل رہی ہیں کمرے میں خون کی سطح بڑھتی جا رہی ہے۔ کمرے میں اُن مرے ہوئے اور زخمی نمازیوں کی لاشیں تیر رہی ہیں۔ کمرے میں خون کے بڑھنے کی وجہ سے اُسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔ عثمان نے جوں جوں گہری گہری سانسیں لینی شروع کی اور ہسٹریائی انداز میں چیخنا شروع کیا، بختاور نے پلٹ کی ہیبت ناک نگاہوں سے اُسے دیکھا اور پھر حیرانگی سے ٹی وی کو دیکھا جہاں مسجد میں حملے کی بریکنگ نیوز کا بلٹین چل رہا تھا جس میں مسجد میں شہید اور زخمی ہونے والوں کی تصویریں اور ایمبولینس کی ایمرجنسی سروسز دکھائی جا رہی تھیں۔ بختاور کے کچھ دیر کے لیے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا کہ اچانک عثمان کو کیا ہو گیا جو ابھی تھوڑی دیر سے چپ چاپ بیٹھا کاغذ پر کچھ تصویریں بنا رہا تھا مگر پھر اچانک اُسے احساس ہوا کہ ممکن ہے عثمان پر ٹی وی پر چلنے والی خبر سے ہسٹریائی دورہ پڑا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ جھٹکے سے اُٹھی اور سب سے پہلے ٹی وی کو ٹرن آف کر دیا اور پھر پلٹ کر ہیبت زدہ عثمان کو پکڑنا چاہا۔ عثمان نے جونہی بختاور کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھا وہ گھبرا کر پیچھے سرکنے لگا جیسے بختاور بھی مرے ہوئے نمازیوں میں سے کوئی ایک ہے مگر پھر پیچھے موجود دیوار کی وجہ سے وہ رک گیا اور سہمی ہوئی نظروں سے بختاور کو دیکھ کر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔ بختاور نے عثمان کو جونہی پکڑا تو پہلے تو اُس نے بے قرار ہو کر اُس کے ہاتھوں سے نکلنا چاہا مگر پھر چیختا ہوا اُس سے کس کر لپٹ گیا جیسے کوئی ڈوبتا ہوا شخص اپنے بچانے والے سے پانی میں بُری طرح چمٹ جاتا ہے۔ بختاور نے عثمان کو گود میں اٹھا یا اور گھبرا کر کمرے سے باہر بھاگی مگر پھر کچھ سوچ کر اُسے دالان میں چھوڑا، اور پھر واپس کمرے میں آئی اور الماری سے عثمان کی دوا کی بوتل نکالی جو پچھلی بار اُس کے ڈاکٹر نے اس تاکید کے ساتھ اُسے دی تھی کہ اگر عثمان کو پھر کبھی ہسٹریاکے دورے پڑے توڈائیزا پام(diazapam) کی وہ گولیاں اُس کو فوراً کھلا دے۔ بختاور نے بوتل سے ایک گولی نکالی اور فوراً عثمان کے حلق میں ڈالی اور اُسے زبردستی پانی کا گھونٹ پلایا۔ عثمان جس طرح سے گہری گہری سانسیں لے کر اپنے بدن کو بے چینی سے ہلا رہا تھا اور ہاتھوں کو ہوا میں چلا رہا تھا اُس میں اُسے دوا یا پانی پلانا واقعی جان جوکھوں کا کام تھا۔ ادریس کو کال ملائی مگر اُس کا فون مسلسل ٹرن آف جا رہا تھا۔ بختاور نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً ہی برقعہ سر پر ڈالا اور الٹے قدموں بھاگتی ہوئی اپنے پڑو سی غازی صلاح الدین کے یہاں پہنچی تاکہ اُن کی گاڑی میں کسی طرح سے عثمان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے۔

بختاور کے گھر سے جانے کے چند گھنٹوں کے بعد جب ادریس گھر پہنچا تو اُس وقت رات کے تقریباً ٌ ایک بج چکے تھے۔ اُس کا رنگ فق ہو رہا تھا اور بدن پسینہ پسینہ جیسے وہ کوئی سخت جان لیوا کام کر کے گھر لوٹا ہے۔ بختاور اور عثمان کو گھر پر نہ پاکر اُس نے پہلے تو سیل فون ٹرن آن کیا اور پھر بے چینی سے اُس کے میسیجز سُنے تو اُسے اندازہ ہوا کہ بختاور عثمان کو لے کر پہلے محلے کے ڈاکٹر پھر بعد میں قریبی ہسپتال لے کر گئی ہے کیونکہ عثمان کے ہسٹریائی دوروں کا علاج محلے کی کلینک کے ڈاکٹر سے نہیں ہو پا رہا تھا اور اُسی نے بختاورسے کہا تھا کہ وہ عثمان کو فوراً قریبی ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں لے جائے۔ ادریس نے جب یہ میسجز سنے تو وہ اُلٹے پاؤں گھر کو تالا لگا کر ہسپتال کی طرف دوڑا مگر چند قدم چلنے کے بعد ہی اُسے کچھ خیال آیا اور وہ واپس گھر آ گیا۔ گھر میں آ کر اُس نے اندر سے دروازے کھڑکیاں بند کی اور پھر اپنی شلوار کی اندر کی جیب میں سے ایک شارٹ گن نکالی اور اُسے الماری میں رکھ کر اُسے لاک کر دیا۔ گھر سے باہر نکل کر دروازے پر تالا لگایا اور پھر تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گلی کے اندھیرے میں غائب ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

با ئیسواں باب

 

وقت: چار بجے شام

تاریخ:۲۱ نومبر ۲۰۱۵

مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

 

”اچھا پھر کل یونیورسٹی میں ملتے ہیں۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر دلیپ نے فون بند کیا اور فون واپس کریڈل پر رکھ کر مڑ کر ثانیہ کی طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا، ”یار آج کل کے منڈے منڈیوں سے زیادہ گل نہیں کرتے۔ ۔ ۔ ؟ ” اور پھر اُسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر اپنے دونوں کندھے اُچکائے اور دوبارہ سے لیونگ روم میں آ کر صوفے پر بیٹھ گیا جہاں ثانیہ دلیپ کے لکھے ہوئے کچھ اسائنمٹس (Assignments) کی ورق گردانی کر رہی تھی۔ ثانیہ نے اُسے مسکرا کر دیکھنے کے بعد دوبارہ فائل پر نظر گھما ئی اور ابھی اُس کا اگلا صفحہ پلٹا ہی تھا کہ اس بار کافی ٹیبل پر رکھے ہوئے دلیپ کے سیل فون کی گھنٹی بجنے لگی، اُس نے ہاتھ بڑھا کر فون اُٹھا یا اور پھر اسکرین پر انگریزی میں ‘ ابا جی’ لکھا ہوا دیکھ کر اُس سے کہا، ” اے شاید ابا جی کی کال ہے۔ ۔ ۔ ” کیونکہ کبھی کبھی دلیپ کی امی بھی اُن کے ہی فون سے کال کر لیتی تھی مگر چونکہ تھوڑی دیر پہلے ہی دلیپ ابا جی کو کال کرنے کی کوشش کر رہا تھا اِس لیے ثانیہ کا خیال تھا کہ ابا جی ہی کال بیک کر رہے ہوں گے اور اُس کا خیال درست بھی تھا دوسری طرف ابا جی ہی لا ئن پر تھے۔ دلیپ اور اُن کی بیس منٹ کی یہ گفتگو زیادہ تر پنجابی میں ہوتی رہی مگر اب ثانیہ کسی حد تک پنجا بی سمجھنے لگی تھی یہ اور بات تھی کہ اُسے پنجابی زبان بولنی نہیں آتی تھی۔ فون کے بند ہونے کے بعد ثانیہ نے پیپرز پرسے اپنی نگاہیں اُٹھائیں اور دلیپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ” پھر کیا کہہ رہے ہیں ابا جی۔ ۔ ۔ ؟” دلیپ نے کچن کی طرف جا کر اپنی چائے دوبارہ سے مائکرو ویو میں رکھی اور ۴۰ سیکنڈ کے لیے ٹمپریچر کا بٹن دبا دیا۔ وہ کچھ دیر تک یونہی خالی آنکھوں سے مائکرو ویو میں گرم ہوتی ہوئی چائے کو چپ چاپ تکتا رہا اور پھر کچھ دیر بعد کپ ہاتھ میں لے کر ثانیہ کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا، ”ثانیہ ابا جی وہ ہی کہہ رہے تھے جیسا کہ میرا اُن کے بارے میں خیال تھا، وہ خاصے کشادہ ذہن کے آدمی ہیں۔ ہمارے بارے میں ساری باتیں سُن کر وہ کہنے لگے کہ ‘دیکھ پتر نانک دیوجی فرماتے ہیں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی بننے سے پہلے ہمیں انسان بننا چاہیے اور جس نے محبت پائی اُس نے گویا اپنے رب کو پا لیا۔ اگر تجھے لگتا ہے کہ یہ تیری سچی محبت ہے تو اُس کو دل میں بسا لے، اور اُس کا احترام کر، پتر تو خوش نصیب ہے۔ اب رہی باقی باتیں توتو اس کی فکر مت کر یہ سب باتیں وقت کی دھول میں اڑ جائیں گی۔ تیری ماں ذرا روایتی قسم کی عورت ہے ہو سکتا ہے اُس کو یہ باتیں ذرا مشکل سے ہی ہضم ہو مگر تو فکر نہیں کر پتر۔ وقت کے ساتھ ساتھ آدمی زندگی میں کئی سمجھو تے کرتا  ہے مگر پھر بھی میرا مشورہ تجھ کو یہی ہے کہ کسی بھی کام میں جلد بازی نہیں کرنا کیونکہ کبھی کبھی جو بات دور سے کچھ نظر آ تی ہے وہ قریب سے کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ ایک طرح سے یہ بھی رب کا کرم ہے کہ تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہو تو یہ اچھا ہی ہے ایک دوسرے کو دیکھ لو اور سمجھ لو اور یہ بھی جان لو کہ تم جو ایک دوسرے کے بارے میں دور سے سوچتے ہو کیا واقعی قریب میں بھی میں تم لوگ ایک دوسرے کے لیے ویسے ہی ہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ محض وقتی جذبات ہیں ؟ کیونکہ بیٹا اکثر جب ہم کسی کے ساتھ رہتے ہیں تو ہمیں اپنے اور اس کے بارے میں زیادہ پتہ چلتا ہے۔ بس ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھو آگے میں کیا کہوں تم خود پڑھے لکھے اور بالغ انسان ہو۔ ۔ رب راکھا، اور ہاں میں دھیرے دھیرے تیری ماں کو بھی سمجھانے کی کوشش کروں گا مگر اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔ ۔ ۔ ‘ ثانیہ نے مسکرا کر دیکھا، ” دس از گریٹ۔ ۔ آئی ایم سر پرایز ڈ(Iam surprised)۔ دلیپ، یو آر اے لکی مین (You are a lucky man)۔ کاش میرے ابو بھی تمھارے ابو کی طرح ہوتے تو کم از کم ففٹی پر سنٹ پرابلم تو حل ہو جاتا نا۔ ۔ ۔ ؟”

دلیپ نے اُس کی بات بیچ میں سے کاٹ کر کہا، ” اچھا یہ بتاؤ تمھارے امی ابو کل یہاں آنے والے تھے نہ۔ ۔ ۔ ؟ کتنے بجے تک وہ آئیں گے ؟”

”ہاں یار، صبح دس بجے، تمھاری اُن سے پہلی ملاقات ہے اور مجھے ڈر ہے خاصا تماشہ ہونے والا ہے کل۔ ۔ ۔ لیٹس سی۔ ۔ ۔ ”یہ کہہ کر ثانیہ نے فکر مندی سے ایک گہرا سانس لیا اور چپ چاپ سامنے پڑے ہوئے پیپرز کو تکنے لگی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اگلے دن ثانیہ کے مما پپا اُس صوفے کے عین سامنے بیٹھے ہوئے تھے جہاں کل وہ اور دلیپ دونوں بیٹھے، آج ہونے والی اس میٹنگ کے نتائج سے کسی حد تک خوفزدہ تھے۔

” ثانیہ تم نے کیا سوچا ہے پھر۔ ۔ ۔ ؟ یہ سب سلسلہ کب تک اور چلے گا؟” ثانیہ کی ماں نے ثانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ” میرا خیال ہے ہمیں ثانیہ کے بجائے کچھ باتیں دلیپ صاحب سے کر لینی چاہیے۔ ” ثانیہ کے پپا نے ثانیہ کا جواب سنے بغیر ہی درمیان سے بات کاٹ کر چبا چبا کر کہا۔ اُن کی آنکھوں میں دلیپ کے لیے غصہ اور بے زارگی کا ملا جلا احساس تھا۔ دلیپ نے نظر اُٹھا کر  ثا نیہ کے پپا کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔ ایک پل کے لیے اُسے یوں لگا جیسے اُس سے ایک انجانا گناہ مرتکب ہو گیا ہے جسے وہ محبت کا نام دے رہا ہے گناہ اور ثواب جیسے بے معنی لفظ اور محبت جیسے معنی آفریں لفظ شاید مجھے افریدی سے ہی پوچھنا ہو گا کہ محبت کا اخلاقیاتی تجزیہ کیسے ہو ؟ کہیں ایسا تو نہیں گناہ و ثواب جیسے لفظوں ہی سے انسانی فکر کے استحصال کا عمل شروع ہوا ؟ دلیپ کو اندازہ ہوتا جا رہا تھا کہ ثانیہ سے اُس کی محبت میں اُس پر ایک ایسی دنیا کے دروازے کا قفل کھول دیا ہے جس میں اُس سے قبل وہ کبھی بھی نہیں آیا تھا۔ دلیپ نے آفریدی کے بارے میں ثانیہ سے اب تک جو بھی سننا تھا وہ انجانے میں اُس کی شخصیت کی کسی گمنام فکر سے جڑ گیا تھا۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پروفیسر آفریدی کے ساتھ بیٹھ کر اُن سے ایسے موضوعات پر گفتگو کرے جن کا ذکر اسے کبھی بھی میڈیسن کی کتابوں میں نہیں ملا مگر اب اُسے لگ رہا تھا کہ اِنہیں جاننے بغیر انسانی سائنس کو مکمل سمجھنا قطعی ناممکن ہے۔ لمحے بھر میں اپنے بے ترتیب خیالوں کی سہ رنگی دنیا سے واپس وہ ثانیہ کے مما اور پپا کی خشمگیں نگاہوں کی دنیا میں آ گیا، جہاں اُس کے جذبوں کی سچائی کا فیصلہ نسل اور مذہب کی بنیادوں پر ہونے والا تھا۔

”دلیپ صاحب مجھے ثانیہ کی ماں نے بتایا ہے کہ آپ میڈیکل اسٹوڈنٹ ہیں ؟ ”

” جی۔ ۔ ۔ ” دلیپ نے ثانیہ کے پپا کے سوال کے جواب میں آہستگی مگر پر اعتماد انداز سے جی کی آواز نکالی اور ساتھ ہی یہ جملہ بھی کہا، ” میں نے اس سال میڈیکل اسکول کم و بیش مکمل کر لیا ہے۔ ”

”آپ یہاں اسٹودنٹ ویزے پر ہیں۔ ۔ ۔ ؟” ثانیہ کے پپا نے کئی ایک خیالات کی یلغار کو محسوس کرتے ہوئے اپنے تئیں ایک اہم خیال کو سوال کی شکل دی۔ دلیپ نے ثانیہ کے پپا کے خیالوں کی یلغار کو بہت آسانی سے محسوس کر لیا اور اپنی مسکراہٹ کی ڈھال پر اُسے روکتے ہوئے کہا، ”جی میں یہاں اسٹوڈنٹ ویزے پر ہوں۔ ”

ثانیہ کے پپا نے کچھ ہی دیر میں اپنے سارے شبہات کو حقائق سے تعبیر کیا اور دلیپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ” تو اب آپ کیا کرو گے تعلیم تو یہاں آپ کی پوری ہو گئی ہے۔ ۔ ۔ ؟ ”

دلیپ نے اُسی اعتماد سے جواب دیا، ” جی میری میڈیسن میں پوسٹ گریجوشن اگلے سال سے شروع ہونے والی ہے میک ماسٹر یونیورسٹی میں۔ یہ چار سال کی ٹریننگ ہے اور اُس کے بعد میرا ارادہ کارڈیالوجی میں فیلو شپ کا ہے تو اِس طرح سے میں ابھی سات سال اور کینیڈا میں ہوں۔ ”

ثانیہ کے مما اور پپا کے لیے یہ ایک نئی اطلاع تھی کیونکہ انہیں میڈیکل کی تعلیم کے حدود اربعہ کے بارے میں واجبی سی معلومات تھیں۔ انہیں نہیں اندازہ تھا کہ ایک عام ماہر امراض قلب بننے کے لیے بھی بی ایس سی کے چار سال کے بعد مزید گیارہ سال کی تعلیم درکار ہوتی ہے کیونکہ وہ خود آج سے چودہ سال پہلے پاکستان سے بی ایس سی اور ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کل چار سال میں کر کے آئے تھے اور پھر حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے سال بھر کا ایم ایس کارٹن یو نیورسٹی اوٹوا سے کر لیا تھا۔ جس کے بعد ہمیشہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے خود پر نازاں رہے تھے۔ دلیپ کے مسقبل کے پلان سُن کر اُنہوں نے ایک نئی نظر سے دلیپ کو اس بار دیکھا۔ دلیپ قدو قامت میں اُن سے نکلتا ہوا، پچیس چھبیس سال کا خوش شکل سا نوجوان تھا جس کی آنکھوں میں بَلا کی ذہانت تھی۔ اُس کا حلیہ عموماً سکھوں جیسا تھا یعنی سر پر ٹربن اور ہلکی سی داڑھی مگر دلیپ کے چہرے میں معصومیت اور بھولپن کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی، دلیپ کی اگر ٹربن اور داڑھی ہٹ جائے تو وہ اچھا خاصا ہینڈسم نوجوان لگے، ثانیہ کے پپا نے دل ہی دل میں سوچا اور پھر ایک لمحے کے لیے ثانیہ کی مما کی طرف دیکھا جیسے وہ نظروں ہی نظروں میں اُنہیں اپنی بات کا مطلب سمجھارہے ہو اور پھر کھنکار کر دوبارہ گویا ہوئے، ”دیکھیں دلیپ ہم جانتے ہیں کہ آپ اور ثانیہ ایک دوسرے کے لیے سیریس ہیں اور ہم نے بھی اس معاملے کو جذبات سے ہٹ کر طے کرنے کا سوچا ہے اور سچی بات یہی ہے کہ ہم خود اس معاملے کو طول نہیں دینا چاہتے کیونکہ اس میں ہماری بدنامی ہو رہی ہے۔ ہماری کمیونٹی کے لوگوں میں یہ بات اب پھیل رہی ہے اور ہماری بیٹی کسی کے ساتھ یوں رہے ویسے بھی یہ ہمارے لیے بھی قطعی گوارا نہیں ہے۔ مذہب کے علاوہ ہماری اپنی خاندانی قدریں ہیں اور یہاں مغرب میں رہنے کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ بُری باتیں بھی اپنا لیں۔ بات سیدھی سی ہے اور وہ یہ کہ ہم چاہتے ہیں پہلے تو ثانیہ واپس گھر چلے اور وہیں ہمارے ساتھ رہے۔ ہم نے کافی سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر آپ احمدی مسلمان ہو جائیں اور صدق دل سے کلمہ پڑھ لیں تو ہم اپنی بیٹی کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے آپ کو قبول کرنے کے بارے میں غور کر یں گے حالانکہ۔ ۔ ۔ ” انہوں نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر کہا، ” اِس کے بعد بھی اس معاملے میں کئی ایک قباحتیں ہیں کہ مثلاً آپ کے اور ہمارے کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم لوگ دہلی سے ہجرت کر کے کراچی میں آبسے تھے جبکہ آپ لوگ مشرقی پنجاب کے ہیں تو ہمارے اور آپ کے رہن سہن رسوم و رواج میں بھی بہت زیادہ فرق ہے۔ ہم یہ بھی چاہیں گے کہ آپ پھر شادی کے بعد یہیں کینیڈا میں بس جائیں اور واپس پنجاب وغیرہ جا کر رہنے کے بارے میں اور  نہ سوچیں۔ اگر آپ کو ہماری یہ شرائط منظور ہیں تو ہم آپ کے بارے میں غور کر سکتے ہیں۔ غور کرنے کی بات بھی ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ ہمیں اس بارے میں اپنے خاندان اور کمیونٹی کے لوگوں سے بھی مشورہ کرنا ہو گا۔ ”

اس سے قبل کہ دلیپ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتا ثانیہ کے منہ سے نکلا، ”بٹ پاپا، دس یز ناٹ فئیر(but this is not fair)۔ ۔ ۔ ” اس سے پہلے کے وہ کچھ مزید بولتی دلیپ نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے اور کچھ کہنے سے روک دیا اور کہا، ”کیا آپ ہمیں اس بارے میں سوچنے کے لیے مزید کچھ وقت دیں گے۔ ۔ ۔ ؟”

ثانیہ کی مما بھی ثانیہ کی طرح اپنے شوہر کو تعجب سے دیکھ رہی تھیں کیونکہ وہ جو باتیں ابھی کہہ رہے تھے یہ سب گھر میں طے نہیں ہوا تھا۔ دلیپ کو اپنانے والی بات ایک بالکل نئی بات تھی جو اچانک ثانیہ کے پپا نے دلیپ کے حوالے سے کر دی تھی۔ دلیپ کی بات سن کر انہوں نے خاصے نرم لہجے سے کہا، ” ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ۔ ۔ مگر ثانیہ اب تم گھر چلو بیٹا۔ ۔ ۔ ”

مما نے بھی سب کچھ بھول کر فوراً اُن کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا، ” تمھارے بنا گھر بہت سونا ہو گیا ہے بیٹی، اب گھر چلو ہمارے ساتھ ہی۔ ۔ ۔ ”

مگر   اہےزف جا رہا تھا۔ بختاور نے آوثانیہ نے نپے تلے لفظوں میں جواب دیا، ” نو مما۔ ۔ ۔ ناٹ دس ٹائم، جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہو گا میں گھر نہیں آؤں گی۔ ” دونوں نے خاموشی سے ثانیہ کی طرف دیکھا اور پھر ثانیہ کے پپا کندھے اچکا کر کھڑے ہو گئے، ”اوکے۔ ۔ ۔ جیسی تمھاری مرضی بیٹی۔ ۔ ۔ ” اُنھوں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، ” مگر میرا خیال ہے ہمیں اب یہاں سے چلنا چاہیے۔ ۔ ۔ ” پھر اُنھوں نے دونوں کی طرف دیکھا، ” تم دونوں جو بھی فیصلہ کرو ہمیں بتا د ینا۔ ” یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی بیوی کی طرف پھر نظر ڈالی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں چلنے کا اشارہ کیا۔ ثانیہ نے یہ سن کر دلیپ کی طرف دیکھا جو اِن دونوں کی طرف دیکھنے کے بجائے چپ چاپ زمین کو تک رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

تئیسواں باب

 

وقت: گیارہ بجے رات

تاریخ: ۲۱ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: کابل افغانستان

 

ناظر عزیزی کے یہاں رہتے ہوئے واحدی کو ہفتے بھر سے زیادہ وقت ہو چکا تھا۔ اُس واقعہ کی وجہ سے ہونے والی بے چینی پوری طرح ختم تو نہیں ہوئی تھی مگر اب یہ بے تابی سے واپس گھر جانے کے لیے بدل رہی تھی۔ ناظر عزیزی نے اُسے کئی بار روکنے کی کوشش کی مگر واحدی کو اپنے کئی ایک اسا ئنمنٹس(Assignments) پر کام کرنا تھا اور کچھ پچھلے نامکمل آرٹیکلز بھی مکمل کرنے تھے جس کے خاطر اُس کا گھر جانا اور بھی ضروری تھا۔ گھر پہنچ کر پہلے چند گھنٹے تو اُسے تنہائی سے سخت وحشت محسوس ہوئی مگر پھر جلد ہی وہ اپنی عادت کے مطابق اپنے شیڈول (schedule) میں مصروف ہو گیا۔ اُس نے طے کیا ہوا تھا کہ اپنی نئی کتاب ‘ افغانستان کا ارتقا ء۔ ۔ بدھاسے اسامہ تک’ پر جلد سے جلد کام شروع کر دے گا۔ بہت کچھ اُس نے لکھ لیا تھا مگر ابھی بھی کافی کچھ کام باقی تھا۔ اس موضوع پر کئی ایک تاریخی، سیاسی، سماجی اور مذہبی حوالے درکار تھے جس کی رِسرچ کے لیے نہ صرف کابل کی سینٹرل لائبریری میں طویل وقت گزارنا تھا بلکہ افغانستان کے اُن مختلف علاقوں کی وزٹ کا بھی ارادہ تھا جہاں سے اس سارے تہذیبی سفر کی تصویری و تحریری سچائیاں مل سکتی تھیں، مگر پچھلے کئی ہفتوں کے متواتر واقعات کی وجہ سے اُسے اِس اہم موضوع پر کام کرنے کی مہلت نہیں مل رہی تھی۔ پچھلے ہفتے جب وہ ناظر عزیزی کے یہاں تھا تو کئی ایک بکھرے ہوئے خیالات اُس کے ذہن کے مختلف گوشوں سے نکل کر اسے بے چین کرتے رہے جس میں کبھی ماضی کی یادیں ثانیہ سے گفتگو کے دوران بھی اُسے کچوکے لگاتی رہی۔ ثانیہ سے باتوں کے بعد اُس کا دل خاصا پر ملال رہا تھا۔ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ اُس کا ماضی اب اُس کا حال بن چکا ہے ورنہ فیس بک پر ثانیہ سے باتوں کے بعد کچھ دنوں تک وہ یوں دل گرفتہ نہیں رہتا۔ اُسے اس بات کا بھی احساس تھا کہ یہ ماضی کا ہی درد تھا جو اُس کے حال اور مستقبل کی قوت بن گیا ہے ورنہ شاید وہ کب کے خود کشی کر چکا ہوتا۔ ثانیہ اُس سے ایسے سوالات کیوں کر رہی تھی اُس نے گھر آ کر سوچا تھا۔ شاید اُس کی زندگی میں کوئی بڑی الجھن ہے جس سے نکلنے کا اُسے راستہ نہیں مل رہا ہے اور وہ اپنے دل کے دورا ہوں کے کہیں بیچ راستے میں پھنس گئی ہے ؟ صوفیہ نے بھی تو اُس سے اُس شام یہی سوال کیا تھا جب وہ شیرازی کے گھر روتی ہوئی پہنچی تھی۔ صوفیہ کے یہاں صدیوں سے خاندان میں شادی کا رواج تھا اور وہ نہ صرف پورا افغانی پختون تھا بلکہ اپنے بیک گراونڈ سے ایرانی النسل شیعہ مسلمان تھا مگر کیا واقعی اُس کے اور صوفیہ کی محبت کے لیے یہ کوئی اہم سوال تھے ؟ اُس رات صوفیہ نے یہ سوال کر کے اُس کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور پھر نہ جانے کیا اُسے میری آنکھوں میں دکھائی دیا تھا اُس نے فوراً ہی اپنی انگلی میرے ہونٹوں پر رکھ دی تھی اور آہستہ سے کہا تھا، ” کچھ نہ کہو واحدی میرا یہ سوال خود میری محبت پر سوال اٹھاتا ہوا میرا جرم بن رہا ہے۔ ” تو کیا صوفیہ اور ثانیہ ایک ہی راستے کے دو مسافر ہیں ؟ نسلی اور مذہبی تفرقوں نے انسانی جذبات کو کس قدر تکلیف سے دوچار کیا ہے۔ یہ سراسر استحصال ہے دو تہذیبی ارتقائی عوامل کا جنہوں نے اپنی بقا کے خاطر انسانی فطری جذبات سے اتصال کر کے اُسے پراگندہ کر دیا ہے اور پھر صوفیہ کو دو دہا یوں کے بعد اُسے آج ثانیہ کی صورت میں وہیں لا کھڑا کیا جس کے جواب سے وہ کل خوفزدہ تھی۔ نسل اور مذہب کے اشتراک سے جو فکر پیدا ہوتی ہے اُس کا کوئی مخصوص نام کیوں نہیں ؟ اُس فکر سے جو انسانی احساسات پیدا ہوتے ہیں اُس کا کوئی مخصوص نام کیوں نہیں ؟ اُن احساسات سے جو جذبات پیدا ہوتے ہیں اُس کا کوئی نام کیوں نہیں ؟ ان جذبات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں اُس کا نام۔ ۔ ۔ ؟ یہاں آ کر واحدی مسکرا کر چپ ہو گیا اور زیر لب کہا ‘ آج کی تہذیبی دنیا’۔ پھر واحدی نے دائیں بائیں خالی کمرے میں دیکھا اور اطمینان کا سانس لیا کہ شکر ہے کہ یہاں کوئی نہیں ہے ورنہ اُس کی خود کلامی کو دیکھ کر لوگ اُس کی دیوانگی پر ہنسنا شروع کر دیں گے۔ ۔ ۔ بے ہنگم خیالات کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک اُس کا سیل فون بجنے لگا۔ دوسری طرف ناظر عزیزی تھا، ” سنو ایک بُری خبر ہے اور ایک اچھی بھی یہ بتاؤ کونسی پہلے سنو گے ؟ ”

واحدی نے کہا، ” پہلے بُری تاکہ اچھی خبر کو پھر پورے دل سے سن سکو ں۔ ”

”بری خبر یہ ہے کہ طالبان شدت پسندوں نے باضابطہ طور پر یہ طے کیا ہوا ہے کہ افغانستان میں لبرل یا سیکولر دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں وغیرہ کو ٹھکانے لگایا جائے اور اُس لسٹ میں بدقسمتی سے تمھارا بھی نام ہے۔ ۔ ۔ ، یعنی پچھلے دنوں سے جو کچھ بھی تمھارے ساتھ ہو رہا تھا در اصل اُسی پلان کا حصہ تھا۔ یہ واقعات محض تمھاری ایک دو آرٹیکلز کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ تمھارے بارے میں عمومی نقطہ نظر یہی ہے کہ تم سیکولر بلکہ دہریہ ہو اور طالبان کے دشمنوں میں سے ایک ہو۔ ۔ ۔ ” ناظری ایک سانس میں کہتا چلا گیا۔

”خیر۔ ۔ ۔ ، اس کا اندازہ تو مجھے بھی ہوتا جا رہا تھا کیونکہ جس طرح سے انہوں نے میرا پتہ ڈھونڈ نکال کر مجھ پر حملہ کیا ہے اور جس لہجے میں مجھ کو دھمکیاں دی گئی تھی وہ خاصی سیریس نوعیت کی تھیں۔ اچھا اب کہو اچھی خبر کیا ہے ؟” واحدی نے پر سکون لہجے میں پوچھا۔ ” اچھی خبر یہ ہے کہ یونیورسٹی اف کیلیفورنیا نے ‘ افغانستان اینڈ گلوبل ورلڈ پر سماجی اور سیاسی لیکچرز کے لیے کابل یونیورسٹی کو تمھارا نام تجویز کیا ہے۔ یہ لیکچرز امریکہ میں کیلیفورنیا اور واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے ہیں جبکہ ایک پروگرام برطانیہ میں بھی ہے لیکن وہ مانچسٹر کی یو نیورسٹی کے کو لابریشن (Collaboration)سے طے ہوا ہے۔ تفصیلات ساری وی سی (Vice Chancellor)کے پاس ہے مجھے امید ہے وہ فوراً ہی تم سے تمھاری دستیابی کے حوالے سے بات کرے گا کیونکہ پروگرام ہفتے بھر میں ہے۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے یونیورسٹی تمھارے ویزے اور ٹکٹ کا بندوبست چند دنوں میں کر رہی ہے بشرطیکہ تمھاری دلچسپی شامل ہو ؟ ” ناظر عزیزی نے پر جوش انداز میں اُسے دوسری خبر دی۔

” اور تمھارا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ ۔ ۔ ؟” واحدی نے آہستہ سے پوچھا۔

” بھائی میرا تو خیال ہے کہ تم وہاں ضرور جاؤ ایک تو اس لیے کہ یہ ایک اچھا موقع ہے بین الاقوامی سطح پر افغانستان کے مسائل پر کھل کر بات کرنے کا، اور اپنے موقف کو دنیا کے سامنے رکھنے کا، اور دوسری طرف اس تکلیف دہ فضا سے نکلنے کا بھی ایک اچھا بہانہ ہے، تو میں تو یہ ہی کہوں گا جب تک تمھاری جان کو یہاں خطرہ ہے اور اِس قسم کی وارداتیں چل رہی ہیں تو کچھ دن دہیں رہو بلکہ میں کہوں گا اُس وقت تک وہیں رہو جب تک یہاں کے حالات کچھ بہتر نہیں ہو جاتے۔ ۔ ۔ ” ناظر عزیزی نے محبت سے جواب دیا۔

واحدی نے ایک گہرا سانس لیا، ” چلو پھر سوچتے ہیں اس بارے میں، تم سے میں کل یونیورسٹی میں ملتا ہوں۔ ۔ ۔ ” فون بند کر کے واحدی نے میز پر رکھی ہوئی فائلز پر ایک نظر ڈالی اور پھر  اُن میں سے ایک فائل نکال کر اس کے کاغذات کی ورق گردانی کرنے لگا اور پھر قلم سے اپنی ہی لکھی ہوئی سطروں کو کراس کر کے کچھ جملوں پر اسٹارز لگانے لگا : ‘ انسانا پنے ارتقائی سفر میں گرو پس کی صورت اپنی بقا کے خاطر نیشنل اسٹیٹ میں بسے ہیں تاکہ خود کی نشو و نما کر سکیں مگر خود کی انفرادی اور پھر اجتماعی نشو نما اور کامیابی بعد ازاں فخر اور بالا تری کے احساس سے بدل جاتی ہے۔ کسی مخصوص نیشن میں پیدا ہونے والی وابستگی کے احساس کا تعلق عمر کے مخصوص حصہ میں اسی لیے ہوتا ہے کیونکہ اس سے بر سہا برس کی عادات و اطوار اور یادیں وابستہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ محبت خود ایک فطری جذبہ ہے مگر اس کے تانے بانے کئی ایک غیر فطری عوامل سے جڑے ہوئے ہیں۔ نیشنل ازم کی اخلاقیات بھی اُس کی طرح قطعی مصنوعی ہوتی ہے۔ وطن کے نام پر کسی دوسرے انسان یا انسانوں کی جان لینا اور پھر اسے قتل و غارت گیری کی جگہ وطنیت سے تعبیر کیا جانا اخلاقی دیوالیہ پن ہے کیونکہ وطنیت کا یہ جذبہ نیشنل ازم کی ایک شدت پسندانہ شکل ہے جس کی روح میں نفرت، بیزارگی، جنگ و جدل اور خون خرابہ جیسے وحشیانہ جذبات چھپے بیٹھے ہوئے ہیں۔ گلو بلا زیشن اخلاقی طور پر قابل قبول یا نا قابل قبول نیشنل ازم کو ختم نہیں کرتا بلکہ اُسے ایک نئے چیلنج سے ہم کنار کرتا ہے۔ اس چیلنج کی انتہائی ناکامی کی شکل ہمیں امریکا اور برطانیہ میں پیدا ہونے والے اُن خاندانوں میں نظر آتی ہے جن کے بچے مذہب سے وابستگی کے احساس کو اپنی جائے پیدائش سے ‘محبت’ کے احساس سے بالاتر سمجھتے ہیں اور سن بلوغت میں داعش اور آئی ایس آئی سے مل کر اپنے ہی وطن عزیز کے خلاف ہتھیار اُٹھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ نیشنلزم اور مذہب کے اختلاط سے نیشنل ازم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

واحدی نے ان جملوں کو پڑھتے وقت کئی جگہ چھوٹے بڑے اسٹار لگائے جن کا مطلب تھا کہ اس تحریر میں مزید بہتری کی گنجائش ہے اور پھر فائل بند کر کے واپس میز پر رکھ دی اور کمپیوٹر کو ٹرن ان کر کے میل چیک کرنے لگا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چوبیسواں باب

 

وقت: دو بجے رات

تاریخ:۲۲ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: شاہ فیصل کالونی، پاکستان

 

” سخت ذہنی صدمہ ہے۔ ۔ ۔ میں نے دوائیں دے دی ہیں انشاء اللہ آرام آ جائے گا۔ ” ڈاکٹر صاحب نے عثمان کو چیک کر کے بختاور سے کہا۔

”ڈاکٹر صاحب آپ سے ایک بات پو چھ لوں۔ ۔ ۔ ؟ ” بختاور نے ڈاکٹر صاحب سے اسی طرح ڈرتے ہوئے کہا جیسے پرائمری اسکول کے بچے اپنے کلاس ٹیچر سے ڈرتے ہوئے بات کرتے ہیں۔

” جی جی فرمائیے۔ ۔ ۔ ؟ ” ڈاکٹر صاحب نے جواب میں اتنی ہی ملائمت سے کہا۔

”ڈاکٹر صاحب میرا بچہ پہلے بالکل ٹھیک تھا مگر پھر اچانک اس پر یہ دورے پڑنے لگے۔ پہلے وہ صرف الٹیاں کرتا تھا اب تو اسے چیزیں بھی نظر آتی ہیں کبھی کبھار تو اِسے آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ ۔ ۔ ڈاکٹر صاحب آج تو ٹی وی دیکھتے وقت اسے اتنے جھٹکے آئے اور پھر ایک دم سے سانس بھی چڑھ گیا، ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اِس کا دم گھونٹ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہیں اِس پر کوئی جن بھوت کا سایہ تو نہیں ہو گیا ہے ؟۔ ۔ ۔ ہمارے دور کے رشتہ دار کے بچے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا پھر بڑی مشکل سے جھاڑ پوچھ کر جن نکلا اور یوں اُسے آرام آیا۔ ۔ ۔ ” بختاور نے منمناتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے کہا تو ڈاکٹر صاحب نے منہ بنا کر کہا، ”دیکھیں بی بی۔ ۔ ۔ آپ کے بچے کو یہ پینک اٹیک(Panic attack) ہو رہے ہیں۔ شدید ہسٹریائی دوروں میں بعض اوقات سائکوسس کی علامتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ آپ کے بچے کو ہیلو سنیشنز (Hallucinations) ہو رہی ہیں اور ایسا ان کیسز میں اکثر ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں حقیقت میں اردگرد وہ ہوتا نہیں ہے جو نظر آ رہا ہوتا ہے۔ مریض کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سچ مچ اُس کے ارد گرد کوئی دوسری ہی دنیا ہے، ایسے میں اُسے چیزیں بھی دکھائی دیتی ہیں اور آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ یہ سب دماغ کے کیمیائی مادوں کے اچانک یا آہستہ آہستہ بگڑنے یا توازن خراب ہونے سے ہوتا ہے۔ یہ سب دواؤں سے ٹھیک ضرور ہو جاتا ہے مگر یہ گارنٹی نہیں ہوتی کہ یہ علامتیں دوبارہ پیدا نہیں ہوں گی۔ اس میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ ایسی باتوں اور مناظر سے دور رہا جائے جو ہسٹریائی اٹیک پیدا کرتے ہیں۔ ویسے کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں ؟ ”

” جی ڈاکٹر صاحب۔ ۔ ۔ ” بختاور نے تشویش سے کہا۔

” کیا آپ کے خاندان میں کسی اور کو بھی کبھی اِس طرح کے اٹیک پڑتے ہیں خصوصاً قریبی رشتے داروں میں ؟ ”

بختاور یہ سن کر سوچ میں پڑ گئی۔ اُسے پتہ تھا کہ اُس کے خاندان میں تو ایسا کوئی بھی نہیں تھا مگر ادریس کے خاندان کا اُسے علم نہیں تھا، اُس نے کہنا شروع کیا، ” جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایسا تو کوئی بھی نہیں تھا مگر پھر بھی میں اپنے میاں سے ذکر کروں گی۔ ۔ ۔ اچھا اگر ایسا کوئی ہوا تو کیا عثمان کا پورا علاج ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟ مطلب یہ کہ اسے پھر سے ایسے دورے نہ پڑیں اور یہ پھر سے پہلے ہی جیسا ہو جائے۔ ” بختاور نے جلدی جلدی سے کہا۔

”دیکھیں بعض خاندانوں میں کبھی کبھار نفسیاتی امراض ہوتے ہیں جو ایسی صورت میں اُس خاندان کے اور افراد میں صدموں کی صورت میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں مگر آپ دواؤں کا استعمال وقت پر کیجیے اور ایک ہفتے کے بعد دوبارہ بچے کو چیک کروا لیجیے۔ ” ڈاکٹر نے جونہی آخری جملہ کہا ٹھیک اسی وقت پردہ ہٹا کر اچانک ادریس کلینک میں داخل ہوا اور گھبراتے ہوئے بختاور سے کہا، ”بختاور سب ٹھیک تو ہے۔ ۔ ۔ ؟ عثمان کیسا ہے ؟ ” ادریس نے اندر آ کر بیڈ پر لیٹے ہوئے عثمان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو اِس وقت دواؤں کے اثر سے ایک گہری نیند میں تھا۔ ڈاکٹر نے مڑ کر ادریس کی طرف ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور پھر جلدی سے کمرے سے نکل گیا شاید اُس کو بھی اور مریضوں کو دیکھنے کی جلدی تھی اور وہ بختاور سے کہے گئے تمام جملوں کو دوبارہ ادریس کے سامنے دہرا کر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔

” خیر تو ہے ؟ کیا ہوا تھا؟ اور یہ ڈاکٹر کیا کہہ رہا تھا ؟ ”

بختاور نے ادریس کو دیکھ کر کہا، ”خدا کا شکر ہے ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ بس ایک دم سے وہی دورے پڑ گئے تھے۔ اس بار سانس بھی ایسے اُکھڑ کر آ رہا تھا، میں تو ایک دم ڈر گئی تھی، اس لیے بھاگم بھاگ صلاح الدین بھائی کے یہاں پہنچی وہ تو اللہ کا شکر ہے گھر پر ہی تھے اور مجھے فوراً اِدھر بڑے ہسپتال ہی لے آئے۔ ۔ ۔ نیچے ایمرجنسی والے ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ یہ نفسیاتی دوروں کا کیس ہے اس کے لیے اسپیشلسٹ ڈاکٹر جو ماہر نفسیات ہوتے ہیں انہیں دکھانا ہو گا۔ ۔ ۔ اتفاق سے یہ والے ماہر نفسیات ہسپتال آئے ہوئے تھے۔ ایمرجنسی والے ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ آج کل ایسے کیس ہسپتال میں بہت آ رہے ہیں خصوصاً بچوں اور بڑوں میں نفسیاتی دورے بڑھ گئے ہیں اس لیے ماہر نفسیات اکثر و بیشتر ہسپتال میں ہی ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ”

ادریس نے بختاور کی لن ترانیوں سے تنگ آ کر کہا، ”اچھا اچھا۔ ۔ ۔ چھوڑ اِس ساری رام کہانی کو، یہ بتاؤ ڈاکٹر اپنے عثمان کے بارے میں کیا کہہ رہا تھا؟ ٹھیک تو ہو جائے گا نا یہ۔ ۔ ۔ ؟” بختاور نے پھر سے بات کاٹ کر کہا۔

” وہ بس دوا تو دے دی ہے تب سے سو رہا ہے۔ دورے تو ختم ہو گئے بس کچھ کچھ بڑبڑا رہا تھا نیند میں، مگر ابھی تو گہری نیند میں چلا گیا ہے۔ ۔ ۔ ”

” ڈاکٹر صاحب نے ایڈمٹ تو نہیں کیا نا۔ ۔ ۔ ؟” ادریس نے پوچھا۔

” نہیں نہیں۔ ۔ ۔ انہوں نے کہا ہے گھر لے جاؤ اور ایک ہفتے بعد لاؤ۔ ۔ ۔ دوبارہ چیک کروانے کے لیے۔ ”

یہ سن کر ادریس نے بڑھ کر عثمان کو گود میں اُٹھا لیا اور کلینک سے باہر نکل گیا۔ باہر سڑک پر ادریس کے پڑوسی صلاح الدین صاحب ابھی تک ہسپتال کے باہر اپنی کار میں بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ انہوں نے جونہی ادریس اور بختاور کو ہسپتال سے باہر آتے دیکھا تو گہرا سانس لیا اور فوراً گاڑی سے نکل کر پیچھے کے دروازے کھولنے لگے تاکہ عثمان کو گاڑی میں بٹھانے میں ادریس کی مدد کر سکیں۔

” خیر ہے ادریس بھائی اب عثمان کیسا ہے۔ ۔ ۔ ؟” انہوں نے ادریس کو دیکھ کر کہا تو جواب میں ادریس نے کہا، ” بس صلاح الدین بھائی یہ ڈاکٹروں کی باتیں اپنے تو سمجھ میں نہیں آتیں ہیں۔ کبھی سالے کہتے ہیں کہ دوا دے دو، پورا علاج ہو جائے گا، کبھی کہتے ہیں دو بارہ آ جاؤ چیک کرواؤ، بس یہ یوں ہی معاملہ چلتا رہے گا۔ ۔ ۔ مجھے تو لگتا ہے یہ سارا چکر پیسے کھینچنے کا زیادہ ہے۔ ابھی دیکھیے نہ ایمرجنسی ڈاکٹر کی فیس ایک ہزار روپے اور ماہر نفسیات نے دیکھنے کے تین ہزار لیے اور دوائیں دو ہزار کی اور پھر دو ہفتے بعد دوبارہ آؤ، مگر مرض کے علاج کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ”

صلاح الدین اس دوران گاڑی چلاتے رہے اور عثمان کی صحت سے زیادہ یہ سوچتے رہے کہ ادریس اتنا مہنگا علاج کیسے برداشت کر رہا ہے ؟ ادریس کا منہ ڈاکٹروں کی لوٹ مار پر چلتا رہا اور بختاور کی انگلیاں عثمان کے بالوں میں رینگتی رہیں۔ ادریس کو یقین ہو چلا تھا کہ یہ معاملہ ڈاکٹروں واکٹروں کے بس کا نہیں ہے انہوں نے تو نیند اور بے ہوشی کے انجکشن لگا کر ہر بار یونہی اپنے پیسے کھرے کرنے ہیں۔

گھر پہنچ کر ادریس نے عثمان کوبستر پر لٹایا ہی تھا کہ اُس کا سیل فون بجنے لگا۔ دوسری طرف مولوی سلیم اللہ تھے جو اُس سے کہہ رہے تھے کہ مولوی سراج الحق اسے اسی وقت یاد کر رہے ہیں اور بھی چند لوگ ہیں جو اُن کے یہاں موجود ہیں اس لیے فوراً پہنچنے کا حکم ہے۔ فون بند کر کے اُس نے بختاور سے کہا، ” مجھے ابھی مولوی سراج الحق صاحب نے یاد فرمایا ہے مجھے جانا ہے۔ ” اور پھر ایک نظر عثمان کی طرف ڈال کر کہا، ”وہ جو تو ابھی کہہ رہی تھی نا کہ اِسے کچھ آوازیں کان میں سنائی دے رہی تھی اور شکلیں بھی نظر آ رہی تھی، میرا بھی یہی خیال ہے کہ یہ کچھ جن بھوت کا چکر ہے۔ میں مولوی سراج الحق صاحب سے مشورہ کروں گا ویسے تو وہ خود ہی پہنچے ہوئے عالم ہیں، ہو سکتا ہے کچھ پڑھنے اور اِس پر پھونکنے کے لیے بتا دیں، قرآن مجید میں ویسے بھی ہر مرض کا علاج ہے، یہ بھوت پریت میرے بچے کا کیا بگاڑ لیں گے۔ ۔ ” ادریس نے اعتماد سے عثمان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بختاور سے پھر کہا، ”اچھا میں نکلتا ہوں ابھی، مجھے آنے میں شاید دیر ہو جائے۔ ”

بختاور نے کہا، ” ٹھیک ہے پر تو کچھ کھا نا تو کھا لے۔ ۔ ۔ ”

” نہیں میں راستے میں سلیم بھائی کے ساتھ کچھ لے لوں گا۔ ۔ ۔ ابھی تو عثمان کا دھیان کر۔ ” بختاور جب دروازے کا قفل چڑھانے لگی تو اچانک ادریس پلٹا اور آہستہ سے بختاور سے کھسر پھسر کی، ” سُن اس سارے چکر میں ایک اچھی خبر تو رہ ہی گئی۔ مولوی سلیم اللہ نے کہا ہے کہ وہ مجھے سستے داموں میں ایک پلاٹ دلا دیں گے اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں، وہاں پر جو مسجد دینیات ہے نا بس سمجھ لے اِسی مسجد کی ایک برانچ ہے، ہاں اس کے ساتھ میں ہی کوئی پلاٹ خالی ہے دو سو گز کا۔ وہاں انہیں اپنے لوگ مسجد کے آس پاس رکھنے ہیں تاکہ مدرسے اور مسجد کے اطراف محلے میں کوئی شیطانی چکر نہ چل رہے ہو، اُن پر نظر رکھنی ہو گی اور سارا انتظام دیکھنا ہو گا۔ میں نے تو فوراً ہی حامی بھر لی سمجھ لے بس تقریباً مفت میں ہی پلاٹ مل جائے گا، بعد میں ہم اُسے تعمیر کروا لیں گے۔ ”

” بختاور نے خوش ہو کر کہا، ”یہ تو بڑی اچھی بات ہے، یہ ساری اُس کی برکت ہے۔ ” اور پھر فوراً اپنے دونوں ہاتھ پھلا کر دعا کی اور کہا، ” سچ کہا ہے کسی نے اُس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ”

ادریس کے جانے کے بعد بختاور نے دروازہ بند کیا اور دالان میں اپنے خیالات میں کھوئی کھوئی واپس کمرے میں آ گئی۔ وہ اس بات سے مسرور تھی کہ کچھ ہی ہفتوں میں اس کے زندگی کے دن کتنے بدل گئے ہیں۔ وہ توسوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہی وہ ادریس ہے جسے سوائے آوارگی کرنے اور دوسروں کے بے جا معاملات میں ٹانگیں اڑانے اور دادا گری کے سوا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ اچانک اس قدر بدل جائے گا۔ ابھی کچھ ہفتے پہلے یہی ادریس تھا جو مہینوں کچھ نہیں کماتا تھا، بہت ہو جائے تو محلے کے گھروں میں کسی کے یہاں چونا کر کے، نلکے اور بجلی کے چھوٹے موٹے کام کر کے چند ہزار بڑی مشکل سے لا پاتا تھا۔ گھر کا کرایہ، بجلی پانی کا بل، روز کا راشن ہر شے کس قدر مشکل ہو گئی تھی، جب دیکھو گھر میں چک چک، جب دیکھو سر میں درد، لڑائی جھگڑے، چیخ و پکار اور اور اب دو تین ہفتے میں ہی گھر میں اے سی بھی لگ گیا ہے، ٹی وی فرج بھی اور تو اور اب ادریس گاڑی بھی خریدنے والا ہے۔ آج اُس نے پلاٹ کی بھی بات کر لی ہے اللہ نے چاہا تو اب ہمارا اپنا گھر بھی ہو جائے گا اور اِس کرائے کے گھر سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ کیا پتہ وہ علاقہ بھی اس علاقے سے اچھا ہو۔ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر، میرا عثمان بس جلدی سے ٹھیک ہو جائے یا اللہ، جس طرح تو نے ادریس کے دل میں نیکی ڈالی ہے اسے سیدھے راستے پر لے آیا ہے۔ اب تو ادریس نماز بھی پابندی سے پڑھتا ہے۔ اسی لیے اتنی برکت ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہی تو ہے جو میں کہتی ہوں اُس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ کمرے میں داخل ہو کر اُس نے بنا سوچے سمجھے پہلے تو ٹی وی آن کر دیا پھر پلٹ کر جونہی اُس کی نظر سوتے ہوئے عثمان پر پڑی اُسے اچانک سب کچھ یاد آ گیا اور اُس نے فوراً ٹی وی کا سوئچ آف کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

پچیس واں باب

 

وقت: شام سات بجے

تاریخ:۲۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

 

دلیپ کی ثانیہ کے والدین سے ملاقات نے اُس کے لیے سوچ کا ایک نیا جہاں کھول دیا تھا۔ اُس نے اس سے قبل اس بات پر کبھی غور نہیں کیا تھا کہ ایسی سچویشن میں وہ کیا کرے گا۔ تنہائی میں اُس نے کئی بار خود سے سوال کیا کہ کیا وہ ثانیہ کے خاطر مسلمان ہو سکتا ہے ؟ٹھیک ہے ثانیہ اُسے بہت اچھی لگتی تھی، اگر وہ اُس کی زندگی سے چلی جائے تو کیا ہو جائے گا؟ ہو سکتا ہے پھر اُس کی زندگی میں بے جی کی پسند کی کوئی لڑکی آ جائے۔ ایسی لڑکی جو سکھ ہو گی اور جو اس کی طرح پنجابی بھی اور جس سے اُس کے سارے خاندان والے بہت خوش ہوں گے کیونکہ وہ پوری کی پوری اُن جیسی ہی ہو گی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اُس کی شادی یہی کینیڈا میں کسی پنجابی سکھ ڈاکٹر لڑکی سے ہو جائے جو اس کی طرح بعد میں خوب سارا پیسے بھی کمائے اور وہ اور بھی امیر ہو جائے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ کسی بہت بڑے گھرانے میں شادی کر لے، شاید پنجاب کے کسی بیورو کریٹ یا منسٹر کی بیٹی سے جو خود بھی خوب پیسہ اور ایک اسٹیٹس بھی لے کر اُس کی زندگی میں آئے۔ اور پھر یہ بات بھی تو ہے کہ آخر کو وہ مستقبل کا ایک کارڈیالوجسٹ ہے تو ایسا لڑکا تو اپنے انڈیا میں یوں بھی بہت مہنگا ملتا ہے اور ایک بار بے جی بتا بھی رہی تھیں کہ یہاں لڑکی والوں کو انڈیا کا ڈاکٹر پچاس لاکھ کا اور امریکا کینیڈا کا کروڑ، ڈیڑھ کروڑ میں ملتا ہے۔ وہ کتنی خوش ہو رہی تھی جب میرا کینیڈا میں ڈاکٹری میں داخلہ ہو گیا تھا تو وہ منہ بھر بھر کر سب سے کہہ رہی تھیں دلیپ تو نے تو ہمارے دن ہی پھیر دیے، دیو جی کی کرپا سے بھگوان نے کتنا سو نھوڑا بیٹا دیا ہے ہمیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں کچھ دنوں بعد سونیا کو بھول بھی جاؤں ویسے بھی جب میں مصروف ہو جاؤں گا کام میں اور میرے بچے وغیرہ ہو جاؤں گے تو کون کسی کو یاد آتا ہے ؟۔ سب کی زندگی پھر ایک جیسی ہی ہو جاتی ہے وہی صبح وہی شام وہی دن وہی رات۔ رات کا اسے خیال آیا تو نا جانے کیوں اُس کو لگا جیسے اُس کے دل میں ایک ہلکی سی خراش اُتر آئی۔ اسے لگا ایک پھانس کہیں دل کے کسی کونے سے نکلی اور حلق میں پھنس گئی۔ رات میں تو صرف میں ہوں گا، صرف میں کیونکہ دن تو سارا ہسپتال میں ہی گزر جائے گا مریضوں کے ساتھ، ہسپتال کے لوگوں کے ساتھ جن کے ساتھ میرا تعلق سوائے کام کے کچھ نہیں ہو گا جو مجھ سے ایسے ہی ملیں گے جیسے سب ڈاکٹروں سے ملتے ہیں۔ شام میں میں اپنے بچوں کے ساتھ رہوں گا جو ٹھیک ہے ثانیہ سے نہیں ہوں گے مگر میرے تو ہوں گے اس لیے میں اُن سے خوب پیار کروں گا اُن کا خیال کروں گا، ان کی پرورش کروں گا ان کی ساری ذمہ داریاں نبھاؤں گا۔ دن میں دو بار روٹی کھاؤں گا کبھی ہسپتال میں تو کبھی گھر پر، جب جب بینک جاؤں گا تو اپنے نوٹوں کے نمبر دیکھ کر خوش ہوں گا اور پھر ہو سکتا ہے اُسے اپنے بچوں اور بیوی کے اکاؤنٹ میں ڈال کر کہیں انوسٹ(invest) بھی کر دوں گا اُن کے مستقبل کے خاطر۔ دن میں کبھی کسی محفل میں کچھ دوستوں سے بھی ملوں گا، اُن سے بہت ساری باتیں کروں گا اور پھر اِن باتوں کو ملاقات کے بعد بھول بھی جاؤں گا۔ مگر رات۔ ۔ رات میں کیا ہو گا؟ رات میں تو میں ہی ہوں گا۔ صرف میں اپنے ساتھ، اکیلا، تنہا۔ میرے ساتھ ثانیہ تو نہیں ہو گی جس سے میں یوں کھل کر دل کی ہر بات کہہ دیتا ہوں، بنا سوچے سمجھے، ہو سکتا ہے دنیا کی حسین ترین، پڑھی لکھی، امیر ترین لڑکی اُس وقت میرے ساتھ ہو، مگر کیا وہ ثانیہ کی طرح ہو گی ؟ میری ثانیہ کی طرح ؟دن بھر میں لوگوں کے دلوں کو میکانی طریقوں سے جوڑتا رہوں گا اور رات میں اپنے دل کو۔ ۔ کیا جوڑ پاؤں گا ؟ اگر نہیں جوڑ پایا تو؟ میں کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ؟ دل کے ساتھ یا دھڑکن کے ؟ میں تکلیف کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں یا درد کے، میں خود کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں یا اوروں کے ؟ میں ساری دنیا کے ساتھ جھوٹ بول سکتا ہوں مگر کیا خود کے ساتھ ؟ ہو سکتا ہے میں ثانیہ کے بنا اپنی زندگی کی ساری راتیں جاگتے ہوئے گزار دوں اور اپنی زندگی کے سارے دن، ان خوابوں کو پورا کرنے میں جن میں شاید ایک خواب بھی میرا نہیں ہو گا۔ نیند میں مجھے ویسے بھی مجھے کونسے خواب آنے والے ہیں ؟ میرے تو سارے ہی خواب جاگ کر دیکھنے کے تھے۔ نہیں یہ تو بہت مشکل ہے میں شاید ہی ثانیہ کے علاوہ کسی اور کے ساتھ زندگی گزار پاوں گا۔ ۔ تو کیا میں ثانیہ کے خاطر مسلمان ہو جاؤں ؟ تو اُس سے کیا ہو گا ؟ کیا اپنی محبت کے خاطر میں اپنا خاندانی مذہب چھوڑ دوں ؟ ابا جی کہہ رہے تھے دیو گرو نانک جی تو خود فرماتے ہیں ہندو مسلمان سکھ عیسائی بننے سے پہلے ہمیں انسان بننا چاہیے اور جس نے محبت پائی اُس نے گویا اپنے رب کو پا لیا تو میرا خیال ہے مجھے پہلے انسان بننا چاہیے بعد میں سکھ یا مسلمان۔ اگر میں سکھ رہ کر کسی سے محبت کیے بغیر اُس کے ساتھ زندگی گزاروں اور صبح شام اُس سے جھوٹ بولتا رہوں کہ مجھے اُس سے سچی محبت ہے تو کیا میرا بھگوان خوش ہو گا؟ میرا بھگوان جانتا ہے کہ میں سچے دل سے ثانیہ سے محبت کرتا ہوں اور اس محبت سے میں اسے پالوں گا تو وہ پھر بھی مجھ سے کیا دکھی ہو گا ؟ نہیں میرا خیال ہے بھگوان یا رب اگر کوئی واقعی ہے تو وہ صرف اور صرف محبت اور انسانیت ہے باقی سب رسوم و رواج انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ ۔ سب مصنوعی ہیں۔ سکھ ہونا یا مسلمان ہونا بالکل اہم نہیں ہے اہم بات تو یہ ہے کہ ہم کتنے انسان ہیں ؟ یہ سکھ، مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی یہ سب انسانوں کی بنائی ہوئی تقسیم ہیں جو نفرتیں پیدا کرتی ہیں اس لیے یہ اصل بھگوان نہیں ہے یہ اصل اللہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی گاڈ وغیرہ ہے۔ ۔ یہ سب بس لفظ ہیں اگر اس میں محبت نہیں ہے، انسانیت نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس تقسیم کے پیچھے بھاگ رہے ہیں انہیں تو مذہب یا بھگوان یا اللہ سمجھ میں ہی نہیں آیا ہے۔ بے چارے نادان لوگ ہیں جو مذہب کی مصنوعی تقسیم کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ سب مذہب کی سیاسی اور سماجی تقسیم ہے اور کچھ نہیں۔ میرا رب میری محبت کا سچا احساس ہے اور میری انسانیت کی خدمت ہے۔ میرا دن میرے مریضوں کے دکھوں کا علاج اور میری رات میری سچی محبت کے ساتھ میرا ساتھ ہے۔ ۔ اس سے زیادہ مجھے اس زندگی میں کچھ چاہیے ؟ دلیپ یونہی خیالات کے تناؤں میں الجھا اگلے چند دنوں تک پھنسا رہا اور چپ چاپ خود سے باتیں کرتا رہا۔ ثانیہ نے بھی نوٹ کیا تھا کہ جب سے ممی پپا دلیپ سے مل کر گئے ہیں وہ خاصا چپ چاپ ہے اور خود میں مگن ہے مگر شاید وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ دلیپ کو کچھ وقت ملے اور وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکے۔

ایک شام جب دلیپ بالکنی میں خاموش کھڑا ہوا کسی ایسی ہی سوچ میں کھویا ہوا تھا تو ثانیہ چپکے سے آ کر اُس کے برابر میں کھڑی ہو گئی اور آہستہ سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ” دلیپ میں احمدی مسلمان ہوں اور تم پنجابی سکھ۔ ۔ ۔ کیا یہ تفریق محبت کی جمع سے زیادہ طاقتور ہے ؟”

دلیپ نے اپنی انگلی اُس کے ہونٹوں پر رکھ دی اور آہستہ سے کہا، ” نہیں اسی لیے میں مسلمان ہونے کو تیار ہوں۔ ”

ثانیہ نے یہ سُنا تو اُس کی آنکھیں یکا یک بھر آئی، اس نے دلیپ کی انگلی اپنے ہونٹوں سے ہٹائی اور بڑھ کر اُس کے لبوں کو چوم لیا اور پھر اُس سے لپٹ گئی۔ کچھ لمحوں تک وہ یونہی بالکنی میں کھڑے ایک دوسرے سے پیار کرتے رہے۔ ثانیہ نے محسوس کیا جیسے دلیپ بھی اُس کے ساتھ ساتھ رو رہا ہے۔ کچھ دیر کے بعد ثانیہ نے دلیپ سے کہا، ”چلو اندر چلتے ہیں میں نے تمھارے لیے چائے بنائی ہے۔ ”

٭٭٭

 

 

 

 

 

چھبیسواں باب

 

وقت: ساڑھے سات بجے صبح

تاریخ:۲۷ نومبر، ۵ ۲۰۱

مقام: کابل افغانستان

 

کابل ائر پورٹ پر واحدی کو چھوڑنے ناظری کے علاوہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور کچھ اور پروفیسرز بھی آئے ہوئے تھے۔ واحدی نے ناظر عزیزی کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا، ”تم اگر ساتھ ہوتے تو زیادہ اچھا وقت گزرتا۔ ”

ناظر عزیزی نے مسکراکرجواب دیا، ”اگلی بار انشا اللہ۔ ۔ ۔ اچھا یہ تو بتاؤ کہ ایر لائن کا کیا حال احوال ہے ؟ کونسی ہے۔ ۔ ۔ اور کب تک پہنچ جاؤ گے۔ ”

” یار ترکش ایر لائن ہے، چھ گھنٹے میں استنبول پہنچائے گی۔ ” واحدی نے اپنا سیدھا ہاتھ ناظر عزیزی کے کندھے پر رکھا اور اُسے بتانے لگا، ” پھر شاید تین چار گھنٹے وہاں جہاز رکے گا، اُس کے بعد کم و بیش دس گھنٹے میں وہی فلائٹ جے ایف کے نیویارک پہنچا دے گی۔ ۔ ۔ نیویارک میں مجھے ایک رات ہوٹل میں ٹھیرنا ہے اور پھر اگلے دن ایک گھنٹے کی فلائٹ ہے واشنگٹن کے لیے، جہاں سے مجھے کوئی صاحب ہوٹل تک پہنچا دیں گے۔ وہاں چار دن رہوں گا پھر آگے کا پلان دیکھیں گے کیا بنتا ہے۔ ۔ ۔ ”

” ہیو اے سیو ٹرپ (Have a save trip)۔ ۔ ۔ ” کہتے ہوئے، ناظر عزیزی نے اُسے گلے لگایا اور کہا، ”یار فون کرتے رہنا تاکہ میں تمھیں یہاں کے حالات کے بارے میں اپ ڈیٹ(update) کرتا رہوں۔ ”

” ضرور۔ ۔ ۔ ” واحدی نے ہاتھ بلند کر تے ہوئے دوستوں کو الوداع کہا اور بورڈنگ ڈیسک کی طرف آ گیا۔

کچھ ہی دیر بعد واحدی جہاز میں بیٹھا ہوا اپنے کچھ پرانے آرٹیکلز کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ اچانک اُسے یونیورسٹی اف کیلیفورنیا میں دینے والے لیکچر ‘ افغانستان اینڈ گلوبل ورلڈ’ کا خیال آیا تو یہ سوچ کر اُس کے چہرے پر ایک ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ بھی آ گئی ‘مارکیٹ اکانومی کے اس نئے بازار میں تباہ حال ترقی پزیر ملکوں کے کھوکھے کہاں رکھے جائیں تاکہ بازار میں انہیں بھی کچھ اپنے مال کو بیچنے کا موقع مل سکے ؟ ‘واحدی نے سوچا ‘ کیوں نہ اس فارغ وقت کو غنیمت جان کر جو جو خیالات کی یلغار چل رہی ہے اس کو لکھ لیا جائے تاکہ واشنگٹن پہنچ کر اُسے بھی اپنے آرٹیکل میں شامل کیا جا سکے اور پھر واحدی کا قلم کسی کشتی کے چپو کے مانند کاغذ کی جھیل میں راستہ بنانے لگا، ” پچھلی چار دہایوں سے افغانستان سرمایہ دارانہ و غیر سرمایہ دارانہ قوتوں سے مسلسل نبرد ازما ہے جس کے نتیجے میں سیاسی و اقتصادی اعتبار سے افغانستان تباہ و بر باد ہو چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ قوتوں نے غیر سرمایہ دارانہ قوتوں کو شکست دینے کے خاطر غیر مذہبی مملکت چین اور مذہبی سلطنت سعودی عرب کے ذریعے جہادی کلچر ایک کلائنٹ اسٹیٹ پاکستان کی مدد سے افغانستان میں امپلانٹ کیا اور جب کھیت پر فصل پوری طرح پک گئی تو کاٹ کر ضائع کرنے کے لیے ستمبر گیارہ کے واقعے کے بعد ایک مخالف جہادی کلچر پھر سے ری امپلانٹ کر دیا گیا۔ صدیوں پرانے بوسیدہ قومیت اور مذہب کے تصور کو دل سے لگائی ہوئی افغان قوم اگر اپنے سیاسی مفکرین کے بدولت جدید معاشرتی، معاشی اور مذہبی تصور سے واقف ہوتی تو شاید سرمایہ دارانہ اور غیر سرمایہ دارانہ قوتوں کی حریف یا مخالف ہو کر استعمال ہونے کے بجائے خود کو بچا لیتی اور آج اِس بُرے حال میں نہیں پہنچتی۔ مذہب اور نیشنل ازم کے روایتی تصور کے ساتھ ساتھ کلچر، سیاست اور اقتصادیات کے نامسائد حالات بھی آج کے افغانستان کو گلوبل ورلڈ میں زندہ رکھنے کے لیے درپیش چیلنجز میں شامل ہیں۔ نیشنل ازم کے ساتھ ساتھ مذاہب بھی اکانومی دنیا (world economy)کی سیاسی مصنوعات میں ہمیشہ سے شامل رہے ہیں۔ کیا یورپ میں عیسائی اقوام نے کروڑوں یہودیوں کو زندہ نہیں بھون نہیں دیا تھا ؟یا پھر عیسائیوں نے کیا بر سہا برس تک ایک دوسرے کا خون نہیں پیا تھا ؟اور آج مشرقی وسطیٰ میں کیا مسلمان ایک دوسرے کو ذبح کرنے اور زندہ جلانے میں مصروف نہیں ہیں ؟ اس جنگ و جدل میں اقتصادی حصول کے خاطر مذہب کی اخلاقیات کو بے دریغ استعمال کیا گیا کیونکہ مذہبی اخلاقی  قدریں نہ صرف بے انتہا کم زور اور نحیف ثابت ہوئی ہیں بلکہ بہت ہی آسانی سے جوڑی توڑی جا سکتی ہے مگر گلو بلائزشن کے دور میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں مذہب کی تکثیری شکل یعنی انسانی آدرش، وقار اور آزادی کی تعلیم ضروری ہے۔ کیوں نہ مذ اہب کی جامد عبارتوں کے بجائے اُن کے آزادانہ معنی کی تفسیر کی جائے تاکہ ساری دنیا میں ایک ہی مذ ہب رائج ہو جائے یعنی انسانیت، کیونکہ اب تک رائج مذاہب کی سیاسی و سماجی تفسیروں نے اُس میں سے روحانیت کو مکمل طور پر خارج کر دیا ہے اور انسانوں کو محبت سے نکال کر نفرت کی دنیا میں پھینک دیا ہے۔ ہمیں لوئی ٹالسٹائی، مارٹن لوتھر کنگ اور گاندھی جی کی طرح مذاہب سے تشدد اور شدت پسندی کو نکال کر نئے سرے سے مذہب کی شناخت کرنی چاہیے۔ ‘ یہ لکھ کر اُس نے ایک گہرا سانس لیا اور قلم روک کر مسکرا کر دل میں سوچا ‘یہ سب لکھنا اور بولنا کس قدر آسان ہے مگر ایسی دنیا کا تصور بھی کرنا کس قدر مشکل ہے جو مذہب اور نیشنل ازم کے روایتی تصور سے صاف ہو۔ ہٹلر نے مذہبی جنونیت کو نیشنل ازم سے جوڑ کر کروڑوں انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے تھے اور عربوں نے وہابیت کے تصور کے زر یعے عرب نیشنل ازم کو غریب اسلامی ملکوں میں پھیلا کر مذہبی نسل پرستی کا بازار گرم کر دیا ہے۔ ‘ پھرچند ہی لمحوں میں واحدی کا ذہن بیس سال پیچھے چلا گیا جب اُس کی نظر سے جیف میک ماہن کی کتاب دی ماریلیٹی آف نیشنلازم (The Morality of Nationalism by Jeff McMahan) نظر سے گزری تھی۔ اُسے یاد تھا اس کتاب میں رابرٹ گوڈن کا ارٹیکل Why is Nationalism Sometimes so Nasty? بہت ہی پر لطف آرٹیکل تھا۔ اس آرٹیکل کا حوالہ اُس نے کئی بار اپنی کلاس میں طالبعلموں کو لیکچر کے دوران دیا تھا۔ وہ اس خشک موضوع کو ذائقہ دار بنانے کے خاطر اکثر کہا کرتا تھا کہ شعوری اعتبار سے نیشنل ازم کا گوند در اصل نسل، جگہ، مذہب اور تاریخ کے صفحات کو کمیونٹی کے نام کے بند لفافے میں رکھ کر چپکانے کے لیے صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ ‘ نیشنل ازم اور مذہب کے ان بے ترتیب خیالوں میں بہتے ہوئے واحدی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اُس کی آنکھ لگ گئی اور پھر جب اُس کی آنکھ کھلی تو جہاز استنبول سے صرف آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہی تھا۔ اُسے سوتا ہوا دیکھ کر ائر ہوسٹس نے اُسے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور اس کے برابر کے پسنجر کو چائے پیش کر دی۔ واحدی نے ایک جمائی لی، بکھرے ہوئے کا غذ سمیٹ کر اپنے چمڑے کے بیگ میں ڈالے اور پھر ائر ہوسٹس کو بلانے کے لیے بٹن دبایا، وہ چائے کی طلب کو شدت سے محسوس کر رہا تھا۔

کچھ ہی دیر میں جہاز استنبول پر لینڈ کر چکا تھا اور وہ ایر پورٹ کی ایک بُک شاپ پر کھڑا مختلف کتابوں کی ورق گردانی کر رہا تھا اچانک اُس کی نظر مائی اسٹوک انسائٹ( My stroke of Insight ) پر پڑی جو کسی امریکن رائٹر جل بولٹے ٹیلر کی کتاب تھی۔ کتاب کے پیچھے لکھے ہوئے تجزیے خاصا دلچسپ تھے۔ رائٹر نے جو خود نیوروسائنس رسرچ کا بیک گراونڈ رکھتی تھی نے اپنے برین اسٹوک (Brain Stroke)کا تجزیہ کیا تھا جس کے دوران اُنہیں کچھ روحانی تجربات ہوئے تھے۔ واحدی کے دل میں خیال آیا چلیں دیکھتے ہیں یہ سائنسی دماغ روحانیت کے بارے میں کیا توجہات پیش کرتے ہیں۔ واحدی نے کتاب خرید کر اپنے بیگ میں ڈال لی تاکہ استنبول سے نیویارک کا سفر کچھ یاد گار بن سکے۔

 

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ستا ئیس واں باب

وقت: تین بجے رات

تاریخ: ۲۲ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: ڈیفنس سوسائٹی کراچی پاکستان

 

مولوی سراج الحق کے یہاں ایک رونق لگی ہوئی تھی۔ مولوی سلیم اللہ اور انہیں ملا کر اس وقت دس لوگ جمع تھے۔ ہر ایک کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھاہر ایک دوسرے کو کامیاب مشن پر مبارکباد دینے میں لگا ہوا تھا۔ مولوی سراج نے جونہی اُسے ڈرائنگ روم میں آتے ہوئے دیکھا تو زور سے کہا، ” ماشا اللہ۔ ۔ ۔ ہمارا ساتواں مرد حق مردِ مجاہد بھی آپہنچا۔ ” اور بڑھ کر اُسے گلے سے لگالیا۔ ادریس ایک کے بعد ایک کمرے میں موجودہر شخص سے گلے ملا اور پھر مولوی سلیم اللہ کے ساتھ ہی ایک طرف کارپٹ پر بیٹھ گیا۔

”میرے بھائیوں اطلاع کے مطابق اب تک ۱۵ کافر جہنم واصل ہو چکے ہیں، ۸ کی حالت تشویش ناک ہے اور ۲۵ یا ۲۶ زخمی حالت میں ہیں۔ ہمارے سارے مسلمان بھائی حملے کے بعد باسلامت غازی بن کر لوٹے ہیں۔ ۔ ۔ بھئی واللہ اس کو کہتے ہیں پلاننگ اور دشمنوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلادینا۔ ۔ ۔ بخدا ہم خوش ہیں کہ اسلام کو ایسے جا نباز مجاہد میسر ہیں اور بھئی اللہ تبارک تعالیٰ کا شکر ہے کہ برادر ادریس بھی اس نیک کام میں اب ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ غازی محمد ادریس کا یہ دوسرا بڑا کارنامہ ہے، اللہ ان کی راہیں آسان کرے اور انہیں اس ہراول دستہ میں یونہی حق و باطل کی جنگ میں حق پر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اچھا بھائیوں اب آپ لوگ کھانا تنا ول فرمالیں اور جیسے میں نے تاکید کی تھیں کچھ دنوں کے لیے آپ سب پنجاب کے مراکز چلے جائیں وہاں آپ لوگوں کے رہنے کھانے پینے کا سارا بندو بست کر دیا گیاکیونکہ ابھی اس واقعہ پر کچھ دشمنانِ دین ضابطہ کی کاروا ئیاں کریں گے اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی مگر ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے کامیاب ترین مشن پر ذرا بھی آنچ آئے اور ہمارے سپاہ پر اِن کافروں کے بدولت کوئی بھی زک پہنچے ویسے تو اس کے امکانات بہت ہی کم ہیں مگر پھر بھی احتیاط لازم ہے۔ ”

اس دوران مولوی سلیم اللہ نے ایک ایک لفافہ ہر ایک مجاہد کے حوالے کیا جس کی ساخت باہر سے نوٹوں کی گڈی سے مشاہبہ تھی۔ مولوی سلیم اللہ نے کہا، ”اب تک کی خبر کے مطابق تین لاکھ ہیں ویسے ہوتے تو ۲۵ ہزار فی کافر کے لحاظ سے دو پچہتر بنتے تھے مگر جس طرح سے اچھی خبریں آ رہی ہیں اُس سے لگتا ہے آپ لوگوں کو ایک دو لاکھ اور اُوپر ہی مل جائیں گے۔ بس دعا کریں اُس کی رحمت میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر سلیم اللہ نے تمام حاظرین کو اندر بلالیا جہاں دستر خوان پر کئی طرح کے کھانے، پھل اور مٹھائیاں چنی ہوئی تھیں۔ مولوی سلیم اللہ نے بڑھ کر مٹھائی کی تھالی اٹھائی اور تمام حاظرین سے کہا، ” پہلے منہ میٹھا کر لیجیے اس کامیابی پر اُس کے بعد کھانا۔ ۔ ۔ ”

اُس پر مولوی سراج الحق نے زور سے ہنستے ہوئے کہا، ” ہاں بھائی یہ اسپیشل دعوت ہے جس میں میٹھا پہلے کھارا بعد میں۔ ”

یہ سُن کر کمرے میں موجود سب ایک ساتھ ہنسنے لگے۔ ادریس کا پیٹ تو اپنی جیب کے اس قدر بھر جانے کی وجہ سے پہلے ہی بھر چکا تھا۔ اُس نے آہستہ سے جیب کو تھپتپایا اور مسکراتے ہوئے کہا، ” ہاں مولوی صاحب اب پیٹ بھی تھوڑا سا بھر لیتے ہیں ورنہ جیب ناراض ہو جائے گی۔ ”

اُس کے اس مذاق سے سب ہی لطف اندوز ہوئے اور زور زور سے ہنسنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں اور باتیں شروع ہو گئی اور بات بے بات ہنسنے اور کھانے کے دوران چمچوں اور پلیٹوں کی آوازوں سے کمرہ گونجنے لگا۔

مولوی سراج الحق کے گھر سے نکلتے نکلتے صبح کے ساڑھے چار بج گئے تھے۔ دروازہ سے نکلتے ہوئے مولوی سلیم نے ادریس کو ایک طرف لے جا کر کہا، ”بھائی کچھ ہی دیر میں فجر کی نماز کا وقت ہونے والا ہے کیوں نہ پہلے مسجد ہی چلیں۔ ”

ادریس نے راستے میں مولوی سلیم اللہ سے عثمان کی بیماری کا تذکرہ کیا جس پر وہ کہنے لگے، ”عجیب آدمی ہو یار۔ ۔ ۔ بچے کی طبیعت خراب ہے اور تم نے نہ تو مجھ سے اور نہ سراج الحق بھائی سے اس کا ذکر کیا۔ ۔ ۔ سراج الحق بھائی تو بڑے عالم دین ہیں ابھی کہ ابھی آپ کو بتادیتے کہ کن کن آئتوں کا دم کرنا ہے۔ مگر خیر ہے۔ ۔ ۔ پریشان مت ہو فجر پڑھ کر گھر چلتے ہیں اور میں ہی کچھ آیتوں کا بچے پر دم کر دیتا ہوں اگرطبیعت بہتر نہیں ہوئی تو کچھ اور بھی عا مل ہیں میری جان پہچان میں، اُن سے چل کر مل لیں گے۔ دیکھے بھائی قرآن مجید میں جنوں کا تذکرہ ہے مگر آئتیں بھی ہیں جن سے ان کا توڑ بھی ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک تعالی نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے بیماریاں پیدا کیں تو اُس کاعلاج بھی دیا ہے۔ ابھی چلیں، مسجد چلتے ہیں پھر وہاں سے آپ کے گھر چلیں گے ٹھیک ہے ؟ فکر نہ کریں بھائی اللہ تبارک تعالی شفاء دینے والا ہے۔ ”

کچھ ہی دیر میں اُن کی گاڑی شا ہرائے فیصل سے شاہ فیصل کالونی میں داخل ہوئی۔ ابھی وہ ریلوے پھاٹک کے نیچے سے گزرے ہی تھے کہ اُن کے کانوں میں مساجد سے کھنکارنے کے بعد آزانوں کی آوازیں آ نی شروع ہو گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا شاہ فیصل کالونی آزانوں کی آوازوں سے گونجنے لگا۔ سارا علاقہ سویا ہوا تھا سوائے چند ایک آوارہ کتے تھے جو سڑک کے کنارے کھڑے ٹھیلوں اور چھابڑی والوں کے پاس رات کے پڑے ہوئے چھچڑوں کے لیے لڑ رہے تھے۔ مین بازار کی سڑک کے پاس اکا دکا چرسی ابھی بھی میلے کچیلے کمبلوں میں لیٹے ہوئے ٹوٹے ہوئے نشے کی بے چینی میں فٹ پاتھ پر کروٹیں لے رہے تھے۔ اُس وقت سڑک پر سوائے ان کی گاڑی کے دور دور تک کوئی اور گاڑی نہیں تھی۔ پانچ نمبر چورنگی کا چکر کاٹ کر گاڑی جونہی مسجدِ دینیات والی روڈ کی طرف آئی تو ادریس کی بے ساختہ نظر اُس جگہ پر پڑی جہاں اُس نے چار ہفتے پہلے اُس مردود کرسچن کو آگ لگائی تھی جس نے پاک نبی کریم کی شان میں گستاخی کی تھی۔ ادریس کی نظر دوکانوں پر سے ہوتی ہوئی، فٹ پاتھ سے پھسلتی ہوئی اُس ٹوٹی ہوئی دیوار پر آ کر رُک گئی جہاں عثمان اُس مردود کے جلنے والے سین سے ڈر کر چھپ گیا تھا۔ ابھی گاڑی مسجد والی سڑک پر آنے کے لیے نکڑ تک پہنچی ہی تھی کہ اندھیرے میں سے دو پولیس والے اچانک سڑک پر آ کر کھڑے ہو گئے اور ہاتھ لہرا کر گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا۔ مولوی سلیم اللہ نے پولیس والوں کو دیکھ کر زیر لب لا ہول پڑھا اور گاڑی بیچ سڑک پر روک دی۔ ایک پولیس والے نے گاڑی میں جھانک کر دیکھا تو مولوی سلیم اللہ کو فوراً ہی پہچان لیا اور اپنے ساتھی سے پلٹ کر کہا، ”’ارے یہ تو اپنے مولوی سلیم اللہ اور ادریس بھائی ہیں۔ ”

مولوی سلیم اللہ نے جونہی کانسٹبل رحیم داد کو دیکھا تو داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا، ” والیکم اسلام رحمۃ اللہ برکاتہ۔ ” یہ سن کر رحیم داد ایک دم شرمندہ ہو گیا اور فوراً جواب میں کہا، ” اسلام و علیکم مولوی صاحب کیسے ہیں آپ ؟ بہت دنوں بعد دکھائی دیے خیریت تو ہے ؟”

مولوی سلیم اللہ نے رحیم داد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ” ہاں بھائی بس اللہ کے نیک کاموں کے لیے نکلے ہوئے ہیں اب فجر پڑھنے کا ارادہ ہے آپ بھی چلو ادریس بھائی بھی ساتھ ہیں ”

” ارے ادریس بھائی کیسے ہیں آپ۔ ” رحیم داد نے مولوی سلیم اللہ کے بعد ادریس سے کہتے ہوئے ہاتھ ملایا۔

” بس رحیم داد بھائی میں ٹھیک ہوں آپ کہیے، گھر پر سب خیریت سے ہیں نا؟” ادریس نے مسکرا کر کہا۔

” میری بیوی نے بتایا تھا کہ کل رات آپ کے بچے کی طبعیت کچھ خراب ہو گئی تھی وہ بھی اتفاق سے اسی ہسپتال میں تھی اُس کا اپنڈکس کا درد پھر اُٹھ گیا تھا ڈاکٹرکہہ رہا تھا سرجری کروانی پڑے گی۔ ۔ ۔ ” رحیم داد نے ادریس سے یوں باتیں شروع کرد یں جیسے کسی پرانے دوست سے کافی دنوں بعد ملاقات ہوئی ہو۔

”اللہ صحت عطا فرمائے۔ ۔ ۔ ” ادریس نے کہنا شروع ہی کی تھا کہ مولوی سلیم اللہ نے درمیان سے بات کاٹ کر کہا، ” ادریس بھائی بھی اپنے بچے کی بیماری کی وجہ سے خاصے پریشان ہیں اور مجھ سے چاہ رہے ہیں کہ نماز فجر کے بعد گھر چل کر بچے پر آیت کریمہ کا دم کر دوں۔ ”

”ارے مولوی صاحب ہمیں بھی بتادیجیے گاتاکہ ہماری بیگم بھی کچھ صحت یاب ہو جائے سال کے بارہ مہینے ہاتھ میں دوا کی بوتل رہتی ہے۔ ” رحیم داد نے مولوی صاحب سے گزارش کی تو جواب میں مولوی سلیم اللہ نے جواب میں کہا، ” ضرور ضرور، بھائی نماز پڑھا کرو اس سے گھر میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ ”

” جی ضرور مولوی صاحب۔ ۔ ۔ بس شروع کر دیں گے ہم، ابھی تو بس جمعہ ہی پڑھتے ہیں بلکہ وہ بھی کبھی کبھی چھوٹ جاتا ہے، کیا کریں ڈیوٹی ہی دن رات کی شفٹ میں چل رہی ہوتی ہے۔ ” رحیم داد نے شرمندگی سے زمین میں گڑتے ہوئے کہا۔

” ارے بھائی نماز اللہ کی ڈیوٹی ہے جو تمھاری اس ڈیوٹی سے بہت بڑی ڈیوٹی ہے، سمجھ رہے ہو نا۔ ۔ ۔ ” مولوی سلیم اللہ نے سمجھ رہے ہو نا کو با آواز بلند کہا اور دوبارہ سے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا، ” چلیں بھائی فجر نکل جائے گی اگر یونہی باتوں میں رہے تو۔ ”

رحیم داد نے بھی مولوی سلیم اللہ کی بات سن کر سکھ کا سانس لیا۔ اچھا بھائی اللہ حافظ یہ کہ کر مولوی سلیم اللہ نے گاڑی آگے بڑھادی۔ اُن کے جانے کے بعد رحیم داد نے مڑ کر اپنے ساتھ پولیس والے کی طرف دیکھ کر آنکھ دبائی اور مسکرا کر کہا، ” پہچانا تو نے ؟ ابے مولوی سلیم اللہ ہے سپاہ والے بھائی۔ ۔ ۔ بہت اوپر تک پہنچ ہے اِن لوگوں کی، ادریس بھی تو اب اِن ہی کے آدمی ہیں۔ ”

”چل بھئی چھوڑ اِنہیں۔ ۔ ۔ یہ بڑے لوگ ہیں، اپن اپنی چھوٹی مچھلیاں پکڑتے ہیں اُدھر چل واپس ٹھیلے کے پیچھے۔ ” یہ کہہ کر رحیم داد کے ساتھی کانسٹبل نے رحیم داد کی بات کاٹی اور اُس کی پیٹی پکڑ کر اُسے کھینچتا ہوا دوسری طرف لے گیا۔ دونوں کے ہنسنے کی آوازیں، چھچھڑوں پر لڑنے والے کتوں کی آوازوں کے ساتھ مل کر اند ھیرے میں گونجنے لگیں۔

 

٭٭

 

 

 

 

 

 

اٹھا ئیس واں باب

وقت: شام ساڑھے سات بجے

تاریخ: ۲۷ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

 

ثانیہ چائے ہاتھوں میں لے کر دلیپ کے ساتھ لیونگ روم میں صوفے پر بیٹھ گئی۔ دونوں آہستہ آہستہ چائے کے سپ لیتے ہوئے دیوار پر ٹنگے ٹی وی کو دیکھتے رہے جس پر موسم کی خبریں چل رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد دلیپ کا دوسرا ہاتھ صوفے پر آہستہ سے سرکا اور اُس نے پیار سے ثانیہ کا ایک ہاتھ تھام لیا اور دونوں یونہی ایک ہاتھ سے دھیمے دھیمے چائے کی چسکیاں لیتے رہے اور کھوئی ہوئی نظروں سے موسم کی خبروں کو دیکھتے رہے۔ وہ دونوں اُس وقت اپنے اپنے اندر کے موسموں میں بھیگ رہے تھے۔ اُن کے آنسو اگرچہ کے خشک ہو چکے تھے مگر دل ابھی تک نم تھے۔ ایک خوشی اور غم کی ملی ہوئی کیفیت تھی جو نہ پورا غم تھا اور نہ ہی خوشی بس دل کی جگہ دھڑکن تھی اور جسم کی جگہ روح جو اُس دھڑکن کو محسوس کر کے جیر ہیں تھیں۔ ثانیہ دلیپ کے بالکنی میں کہے ہوئے جملے کی سرسراہٹ سے ابھی تک باہر نہیں آئی تھی۔ دور کہیں آسمانوں کے پیچھے کہیں کسی انجان سے احساس کی بارش تھی جس کے قطرے قطرے میں الفت کے سمندر چھپے ہوئے تھے اور وہ اور دلیپ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے اُس میں کھڑے بھیگ رہے تھے۔ اُس آبشار کے رنگوں میں سارے جہاں کے رنگ تھے جنہوں نے ایک دوسرے سے مل کر رنگوں کی تفریق ختم کر دی تھی۔ اُس آبشار کے موسموں میں سارے جہاں کے موسم تھے جنہوں نے آپس میں مل کر موسموں کے فرق مٹا دیے تھے، اُس آبشار کی آوازوں میں سارے جہاں کی آوازیں تھیں جنہوں نے آپس میں مل کر سر تال کے سارے تال آپس میں ملا دیے تھے۔ ثانیہ اور دلیپ چپ چاپ ٹی وی کو تک رہے تھے اور اپنے اندر کی موسم کی خبروں کو سن رہے تھے۔ وہ چپ چاپ بیٹھے رنگ، نسل، مذہب کے آلودہ جسم سے نکل کر محبت کے روحانی تجربے سے ہم کنار ہو رہے تھے۔ اُن کے ہاتھوں کی انگلیاں دھیمے دھیمے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہی تھی جس میں لمس جسم کا نہیں بلکہ اُلفت کا تھا۔ وہ دونوں اس لمحے ایک دوسرے میں گم تھے خود اپنے آپ سے بے گانہ، بدن کی سرزشوں سے آزاد، دنیا کے بکھیڑوں سے پاک، خاموش تنہا اور گم جیسے آسمانوں پر کوئی محبت کا جز خدا کے روایتی تصور سے بے نیاز، ساری کائنات کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی تگ دو میں مصروف ہو اور اپنے اعلیٰ ترین ظرف کے ساتھ جس میں شکایت اور شکوہ کا کوئی تصور بھی نہ ہو۔ اچانک تصور ات کے سلسلے ٹوٹ گئے دلیپ نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور پھر ثانیہ کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرانے لگا، ”کیا تم بھی وہی سوچ رہے تھے جو میں سوچ رہی تھی؟ ” ثانیہ نے دھیمے سے دلیپ کو زیر لب مخاطب کیا۔

” تم کیا سوچ رہی تھی۔ ۔ ۔ ؟” دلیپ نے آہستہ سے پوچھا۔

”یہی کہ مجھے محبت کا مجرم نہیں بننا ہے۔ ” ثانیہ نے دلیپ کو دیکھتے ہوئے کہا، ”میں اسلام چھوڑ دوں گی اور سکھ مذہب اختیار کر لوں گی میں نے تہیہ کر لیا ہے۔ ۔ ۔ ”

” مگر کیوں ؟۔ ۔ ۔ میں نے تو تم سے مذہب بدلنے کو نہیں کہا اور نا ہی ابا جی نے، بے جی کو تو ان سب باتوں کو پتہ ہی نہیں ہے، پھر تم کیوں مذہب چھوڑنے کی بات کر رہی ہو؟ ” دلیپ نے حیرانگی سے کہا۔

” دلیپ میں مما پپا کی اُس ملاقات کے بعد سے، پچھلے دو تین دنوں سے انہیں باتوں پر مسلسل سوچ رہی ہوں۔ میں تمھارے بنا نہیں رہ سکتی، مجھے دلیپ کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ محبت اپنی ذات میں بڑی خود غرض ہوتی ہے اور میں تمھاری غرض میں مبتلا ہوں۔ تم ہندو، عیسائی، سکھ ہو یا مسلمان مجھے جب تم سے محبت ہوئی تھی تو میں نے رامائین کا پاٹ یا قرآن کی آیت میں تمھیں نہیں پایا تھا۔ تمھاری زبان پنجابی تھی مگر اُس میں تم نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا تھا۔ تمھارا مذہب سکھ اور میرا اسلام تھا مگر دونوں کے رب کی آخری منزل محبت تھی۔ نسل اور مذہب جسموں سے گزر کر جب روح تک پہنچتے ہیں تو وہ کچھ نہیں بچتے صرف محبت بن جاتے ہیں جو مجھے تم سے ہے۔ مجھے نہیں پتہ میں کیا کہہ رہی ہوں مگر میں کبھی نہیں چا ہوں گی کہ تم میرے خاطر مسلمان ہو جاؤ کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو میں اپنی محبت کی مجرم ہو جاؤں گی۔ ۔ ۔ ”دلیپ نے یہ سن کر کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تو ثانیہ نے اپنی انگلی اُس کے ہونٹوں پر رکھ دی اور کہا، ” نہیں۔ ۔ ۔ کچھ نہ کہو بس یہ سمجھ لو جیسے میرے تمھارے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی ہے، یوں بھی جب روحیں آپس میں بات کریں تو جسموں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔ ”

ثانیہ کی یہ سوچ لفظوں سے ٹوٹی، رنگوں میں بکھری، سازوں میں ڈھلی اور ہواؤں میں گم ہو گئی اور لمحے بھر میں دو دہایوں سے گزر کر کابل کے ایک مضافاتی بستی میں واحدی کا ہاتھ تھامے روتی ہوئی صوفیہ کے ہونٹوں کی مسکراتی ہوئی ایک حرکت بن گئی۔ ٹھیک اسی لمحے واشنگٹن کے ہوٹل میریٹ کے ایک کمرے میں واحدی نے کمپیوٹر آن کیا اور فیس بک پر جا کر ثانیہ کو میسج کیا کہ’ میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں واشنگٹن آیا ہوا ہوں، سوچا آپ کو یہ بات بتا دوں۔ ”

٭٭٭

 

 

 

 

 

ا نتیسواں باب

 

وقت: دوپہر بارہ بجے

تاریخ:۲۸ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: واشنگٹن، امریکا

 

My stroke of Insight نے واحدی پر ایک ایسی نئی فکر کے دروازے کھول دیے جو اس سے قبل اُس کے شعور میں نہیں تھے۔

پا لیٹیکل سائنس اور جنرلزم سے ہمیشہ سے اُس کا لگاؤ اس قدر شدید رہا کہ اُس نے کبھی بھی حیاتیاتی سا ئنسز کے بیک گراونڈ میں انہیں سمجھنے کی کوئی کوشش کی ہو کیونکہ یہ قطعی مختلف موضوعات تھے مگر یہ ضرور ہے کہ فلسفہ اور مذہب سے اُس کو ہمیشہ سے ایک خاص رغبت رہی تھی شاید یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست اور مذہب کے معاملات کا فلسفیانہ انداز میں تجزیہ کرتا رہتا تھا۔ نیشنل ازم کے موضوع پر سوچتے ہوئے اُسے اندازہ ہوا کہ اُس کی اور مذہب کی گانٹھیں اس قدر مضبوطی سے انسانی تاریخ کے ارتقائی عمل میں بندھی ہوئی تھی کہ وہ بالآخر اس بات پر یقین کر چکا تھا کہ یہ دونوں عوامل صدیوں کے ارتقائی عمل میں انسانی ضروریات کے تابع رہنے کی وجہ سے بالآخر انسانوں کی خلیاتی ساخت کا حصہ بن گئے ہیں۔ صدیوں پہلے غاروں میں بسنے والے انسانوں کے عدم تحفظ نے جس طرح سے اُسے آسمانی آفتوں اور زمینی دشمنوں سے بچانے کے خاطر خدا اور قومیت کے تصور کے قریب لا کھڑ ا کیا اور سیاسی و سماجی ضرورتوں نے مقدس قومی و مذہبی کلمات کے سامنے اُ سے سجدہ ریز کروایا اُن تمام تر پرورش کے نتائج ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام میں مختلف صورتوں میں سامنے آئیں۔ مارکیٹ اکانومی کے دور میں ماڈرن دنیا نے اس سائنس کو سمجھ لیا اور اپنی عوام الناس کے لیے سیکولرمعاشرے تعمیر کیے۔ اُنہوں نے قومی یکجہتی کے خاطر سیاسی انداز میں ان دونوں تصورات کو استعمال کیا اور اُس کے معیارات اپنے اور دوسروں کے لیے مختلف تعمیر کیے، یوں اپنی نسلوں کو اس فکر کے منفی اثرات سے بخوبی بچا لیا جبکہ ذہنی طور پر پسماندہ اور شعوری اعتبار سے نادان قومیں ابھی تک قومیت اور مذہب کے بیچ اس جنگل میں پھنسی ہوئی ہیں اور بہت آسانی سے خود اپنے کرپٹ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے دام میں پھنس کر اُن کے پیٹ کا ایندھن بنی ہوئی ہیں۔ واحدی اس بات کی تہہ کی تگ دو میں تھا کہ آخرکس طرح ایک فرد میں قومیت اور مذہب کا تصور جذبات کا یہ اندھا طوفان پیدا کر دیتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مجرمانہ اخلاقیات اعلیٰ ترین اخلاقیات کا روپ دھار لیتی ہیں۔ قومیت کو مقدس بنانے میں مذہب سے دیے گئے معاشرتی شعور کا حصہ ہے یا اس کا تعلق واقعتاً روحانیت کے کسی ایسے یکساں منبع سے ہے جو انسانی دماغ میں کہیں براجمان ہے اور مختلف معیارات کی پرورش کے تابع ہے ؟ My stroke of Insight کی رائٹر جل بولٹے ٹیلر نے جس طرح سے اپنے اسٹوک کے تجربے کے بیک گراونڈ میں انسانی دماغ کے دائیں اور بائیں حصے کے نیورو سائنٹیفک فرق کو جدید رسرچ کی روشنی میں بیان کیا تھا اُسے پڑھ کر واحدی پر مذہب اور قومیت کے تصور کی حیاتیاتی ابتدا اور صدیوں کے تہذیبی ارتقائی مراحل کے نتیجے میں اُس کے مخصوص نفسیاتی ساخت میں ڈھلنے پر ایک نئی فکر کو پیدا کر دیا جو کسی حد تک اُس کے فلسفیانہ خیالات کی تائید کر رہا تھا۔ واشنگٹن پہنچ کر واحدی کا پورا ایک دن تو جیٹ لیگ سے نکلنے میں ہی گزر گیا اگلے دن دو پہر میں جب وہ بستر سے اٹھا تو اُس نے سب سے پہلے اپنے کچھ پرانے دوستوں کو فون کیا۔ اُس کے دوستوں کی ایک وسیع تعداد یہاں امریکا میں موجود تھی مگر یونیورسٹی کے دور کا خاص دوست شیرازی بھی یہیں نیو جرسی میں رہتا تھا۔ شیرازی اُس کے اچھے بُرے دور کا دوست تھا جس کے ساتھ اُس کی نوجوانی کی کئی یادیں وابستہ تھیں۔ یہ شیرازی ہی تھا جو مسعود کے حملے کے بعد فوراً بامیان پہنچا تھا اور واحدی کو شد ید زخمی حالت میں پاکر اُس کے مرنے کی خبر مشہور کر دی تھی تاکہ وہ صوفیہ کے بھائی مسعود کے عتاب کا نشانہ نہ بنے اور پھر بعد میں وہ اُسے ایران کے شہر زاحدان لے کر آیا تھا جہاں اُس نے اُسے دوسال تک اپنے رشتہ داروں کے گھر میں رکھا تھا۔ پندرہ برس پہلے وہ کابل چھوڑ کر نیو جرسی آ کر بس گیا تھا۔ شیرازی کے بچے بھی اب بڑے ہو گئے تھے بلکہ ایک بیٹی کی تو شادی بھی ہو گئی تھی اور وہ پچھلے ہی دنوں نانا بن گیا تھا۔ شیرازی ہمیشہ سے واحدی کے خیالات سے واقف تھا بلکہ متفق بھی تھا۔ وہ نہ صرف اُس کی کتابیں اور نت نئے آرٹیکلز پڑھتا رہتا تھا بلکہ اُس کے بلاگ پر اپنے کمنٹز بھی دیتا رہتا تھا یوں وہ مسلسل اُس کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اُس کو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ وہ یہاں ایک سیاسی اس کالر کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ اُس نے واحدی کو بار بار ای میلز میں لکھا تھا کہ وہ امریکا میں قیام کے دوران اُسی کے گھر پر رہے گا مگر واحدی کے لیے سیمنار تک واشنگٹن کے ہوٹل میں رہنا ضروری تھا۔ اُس نے شیرازی سے وعدہ کر لیا تھا کہ سیمنار کے بعد وہ اُس کے ساتھ نیوجرسی آ جائے گا اور پھر ایک ہفتے تک وہ دونوں ساتھ رہیں گے اور پُرانی یادیں تازہ کریں گے۔ پھر اگلے ہفتے کیلی فورنیا میں بھی کچھ ایسا ہی ملتا جلتا پلان تھا وہاں بھی ایک اور دوست نے کچھ ایسے ہی عہد و پیمان اُس سے کیے ہوئے تھے۔ واشنگٹن پہنچنے کے بعد اُس کی ملاقات یونیورسٹی کی ارگینائزر کمیٹی کے کئی ایک ممبران سے ہوئی جن سے مل کر اُسے خاصی حیرت ہوئی کہ اُس کے علاوہ کوئی اور افغان اس کالر اس گروپ میں شامل نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس قسم کے موضوعات گلوبل دنیا کے خاص موضوعات میں سے ایک ہیں اور مختلف ممالک کے مندوبین، اسکالرز یا تجزیہ نگاروں کو یوں سیمنارز میں شامل کرنے کا مقصد ایک گلوبل مکالمہ کی تشکیل ہے۔ واحدی کے اگلے دو دن پر لگا کر اُڑ گئے وہ یا تو سارے وقت اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے آرٹیکل کو فائنل کر نے میں مصروف رہا یا پھر یونیورسٹی کے مختلف پروفیسرز اور سیمنار کے ارگینائزر سے ملاقاتیں کرتا رہا تاکہ نئے ماحول اور لوگوں سے تھوڑی بہت واقفیت پیدا ہو جائے۔ واحدی کو اندازہ نہیں تھا کہ پچھلے بیس سالوں کی مسلسل تحریری کاوشوں نے انٹر نیشنل جنرلزم میں اُسے اس قدر معتبر بنا دیا ہے اور اُس کے سیکولر خیالات کی وجہ سے اُس کی ایک علمی ساکھ قائم ہو گئی ہے شاید یہی وجہ تھی کہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے بغیر کسی حوالہ یا تعلق کہ اُس کا نام نہ صرف اس سیمنار کے لیے چنا بلکہ یونیورسٹی آف کابل سے براہ راست رابطہ کر کے اُسے سیمنار میں شامل ہونے کے لیے درخواست بھی کی تھی۔ کابل یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے خود بھی اس بات کا اعتراف واحدی سے واشنگٹن آنے سے قبل اپنے آفس میں کیا تھا کہ یہ بات اُن کی یونیورسٹی کے لیے خاصے اعزاز کی ہے۔

واحدی کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے اس پہلے پہل دورہ امریکا سے زیادہ سے زیادہ صحافتی فائدہ اُٹھائے اور افغانستان کے سیلکولر مستقبل کے حوالے سے کھل کر بات کرے۔ واحدی کا یقین تھا کہ کسی بھی ملک کے نام سے مذہبی شناخت اُس کے سیکولر رویے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جب کبھی بھی کسی ملک کا نام اسلامک ری پبلک رکھ دیتے ہیں تو قومیت اور مذہب کے ایک منفی تصور کو آپس میں جوڑ دیتے ہیں جس کے منفی اثرات سے وہاں آباد اقلیتی آبادیوں کو نفسیاتی طور پر دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری بنا دیتے ہیں اور بعد ازاں اُس کے سیاسی استعمال ظلم و زیادتیوں کی صورت سامنے آتے ہیں۔ سیمنار کے دوران یونیورسٹی کا سیمنار روم دو تین سو حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔ پروگرام کی لائف ٹی وی ریکارڈنگ کا بندو بست تھا اور کئی ایک اخباری نمائندے بھی اُس کی کو ریج (coverage)کے لیے موجود تھے۔ واحدی کے علاوہ تین اور اسکالرز بھی اِس سیمنار میں شریک تھے جو پاکستان، انڈیا اور ایران سے تعلق رکھتے تھے۔

حاضرین میں زیادہ تر یونیورسٹی کے طالبعلم تھے جو اپنے حلیوں میں کم و بیش ہر ایک رنگ و نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ واحدی نے جونہی اپنا آرٹیکل ختم کیا سیمنار روم کئی منٹوں تک تالیوں کی آوازوں سے گونجتا رہا اُس کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا، ”سر کیا گلوبل ورلڈ کا حصہ بننے کی صورت میں افغانستان کی تہذیبی شناخت باقی رہے گی؟” ایک سعودی طالبعلم نے ہاتھ کھڑا کر کے واحدی سے سوال کیا۔

”تہذیبیں انسانوں سے وابستہ ہیں۔ مشرق و مغرب کے تہذیبی ملاپ سے اگر کوئی نئی تہذیب جنم لیتی ہے جو تمام تر انسانیت کی ایک مشرکہ تہذیب بن جاتی ہے تو اس سے بڑی شناخت کیا ہو سکتی ہے ؟ اگر تہذیبی شناخت منفی قوتوں کے ذریعے فاصلوں کا سبب بن رہی ہو تو کیا آپ دوریوں کو قربت پر ترجیح دیں گے ؟” واحدی کے جوابی سوال پر سعودی طالب علم تھوڑی دیر کے لیے شش و پنج میں پڑ گئی مگر پھر سنبھل کر کہا، ”مگر یہ شناخت تو ایک انسانی نفسیات ہے اس کے بغیر انسان کا تعارف کیسے ممکن ہو؟، انسانوں کی اس نئی سوسائٹی میں بھی اُس شناخت کی جگہ مذہب نے نہیں لے لی ہے ؟ گلو بلائزیشن کیا مغربی تہذیب کو دنیا میں پھیلانے کی ایک سازش نہیں ہے ؟”

” نہیں۔ ۔ ۔ ” واحدی نے اُسی پر اعتماد لہجے میں کہا، ” اول تو گلو بلائزشن کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ اس میں شامل افراد اپنے مذہب، رسوم و رواج اور کلچر کو یکسر نظر انداز کر دیں۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیں کیا یہاں نیپال، سوڈان، سعودی عرب، ایران، کینیڈا اور یورپ کے طالبعلم نہیں پائے جاتے ہیں ؟ اُن کی شناخت اُن کے خد و خال، لباس و تراش اور بناؤ سنگہار سے ہی نمایاں ہے۔ مذہب انسان کا روحانی مسلۂ ہے اُس کو روح کی شناخت کے خاطر دل میں رکھنا چاہیے تاکہ وہ کسی سیاست کی سازش کا شکار نہ ہو۔ گلوبلائزشن سے قومیت کا مصنوعی تصور اگر ختم ہو جائے تو کیا یہ اچھا نہیں ہے ؟۔ ۔ ۔ میں نہیں کہتا کہ آپ کل تک پاکستانی تھیں اب آج سے امریکی ہو جائیں کیونکہ امریکی ہونا اُتنا ہی نامناسب ہے جتنا پاکستانی۔ ۔ ۔ بلکہ آپ رنگ نسل اور مذہب کے بھید بھاؤ سے آزاد ہو جائیں۔ آپ گلو بل ورلڈ کے شہری بن جائیں، گلو بل مذہب کے ماننے والے ہو جائیں، گلوبل زبان کے بولنے والے ہو جائیں۔ ایک مشترکہ چھتری کے نیچے رہتے ہوئے آپ اپنے ذاتی تعلق کو ضرور ساتھ رکھیں، چاہے وہ آپ کا کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی زبان یا کوئی بھی رسوم و رواج ہو۔ انسان کی یہ تہذیبی شناخت خود ستائشی کے منفی اثرات سے آزاد کرا دیتی ہے جس کا سب سے مثبت اثر عدم برداشت ہے اور عدم برداشت ایک انسانی رویہ ہے جو ہمیں حیوانوں سے جدا کرتا ہے۔ ”

اچانک ایک نوجوان لڑکی نے آخری لائن میں کھڑے ہو کر اپنا ہاتھ بلند کیا اور کہا، ” سر کیا مذہب اور وطنیت کا تصور انسانی سرشت میں شامل نہیں ہے اس سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہو اگر یہ عین فطری ہیں ؟”

واحدی نے نظر اُ ٹھا کر دیکھا تو اُسے سوال پوچھنے والی لڑکی کی شکل کچھ جانی پہچانی سی لگی، ” حیوان بھی جہاں جہاں پیدا ہوتے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں اُس غار، پہاڑ، جنگل یا تالاب سے پیار کرتے ہیں۔ حیوان اگر پنجرے میں بند ہو تو پنجرے سے پیار کرنے لگتے ہیں اگر اپ زبردستی ان سے اُن کی جگہ لے لیں تو وہ غم کا اظہار کرتے ہیں۔ جگہ سے یہ محبت وطنیت کا وہی بنیادی احساس ہے جو صدیوں قبل انسانوں میں بھی پیدا ہوا تھا جب وہ پتھر کے دور میں غاروں میں رہتا تھا۔ حیوان بھی اپنی سرشت میں روحانیت رکھتے ہیں جیسے وہ غم جو ایک ہرنی کی آنکھ میں اُس کے بچے کے چھن جانے سے پیدا ہوتا ہے، یا کتے کی محبت کا وہ احساس جو اپنے مالک انسان کے لیے اُسے رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ مالک یا ملکیت کا تصور بھی ہمارا ہی ہو۔ ۔ ۔ وہ بے چارہ تو انسان کو اپنا دوست ہی سمجھتا ہو گا اسی لیے اپنی محبت جسے ہم غلطی سے وفا سے تعبیر کرتے ہیں سے مجبور ہو کر اپنی جان کا نذرانہ تک انسانوں کو دے دیتا ہے۔ ۔ ۔ حیوانوں میں یہ محبت یا دکھ در اصل خالصتاً روحانیت ہے جو مذہب کے سوشل یا پولیٹکل معنوں سے ہم کنار نہ ہونے کی وجہ سے پراگندہ ہونے سے بچ گیا۔ روحانیت اور وطنیت کی اس سرشت کو ہمیں حیوانوں سے سیکھنا ہو گا جس کو مذہب اور قوم کے فرق کے شعور کی کمی نے اُس تشدد سے بچا لیا جو بعد میں انسانوں کا نصیب بن گیا۔ ۔ ۔ ”

اُس کا جواب سن کر اُس لڑکی کے پاس ہی بیٹھے ہوئے ایک سکھ نوجوان نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور کہا، ” مگر سر آپ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں میں یہ تحریک صرف صدیوں کے ارتقاء سے ظہور پذیر ہوئی، یعنی یہ نرچرڈ(nurtured) ہے نیچرل نہیں۔ ”

اس پر مسکرا کر واحدی نے جواب دیا، ” انسانوں کے دائیں دماغ میں روحانیت، آرٹ، میوزک، ادب اور اپنی جگہ سے محبت پیدا ہوتی ہے مگر یہ محبت جب اظہار کے خاطر بائیں دماغ میں پہنچتی ہے تو وہاں موجود رنگ و نسل مذہب کے میکانی خانے اُسے علم و تربیت کے لحاظ سے اچھی یا بُری شکل میں ڈھال دیتے ہیں اور اچھائی اور برائی کا یہ تصور سراسر بیرونی معاشرے سے ہے، اگر معاشرہ اقتصادی طور پر کمزور ہے اور وہاں پر آباد لوگ جدید علم سے بے بہرہ اور شعوری اعتبار سے صدیوں پیچھے ہیں تو ان کی کمزور اخلاقیات اُنہیں تشدد پر آمادہ کر دیتی ہیں۔ یہ تشدد ایک ایسا مخصوص vicious circle پیدا کرتا ہے جس میں پھنس کر پہلے کمزور اخلاقیات اور پھر پر تشدد نسلیں پیدا ہونے لگتی ہیں اور یوں وہ تہذیب ایک اجتماعی خود کشی کے ذریعے ہلاک ہو جاتی ہے، اس لیے اچھائی یا بُرائی کی اخلاقیات وقت اور زمانے کے ساتھ جڑے ہوئے شعور سے ہے، ضروری نہیں کہ اچھائی یا بُرائی اور نیکی یا بدی دونوں ایک ہی فکر کی محتاج ہو بلکہ ان دونوں کے فرق کو مختلف افکار کی روشنی میں جاننا ہی حقیقی سچ سے آگاہی ہے۔ ”

جب واحدی اس لمحے سانس لینے کے لیے رکا تو اچانک اُس سوال پوچھنے والے سکھ طالب علم کے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی نے پھر سے ہاتھ اُٹھا کر کہا، ” اور یہ آگاہی اس دور میں کس طرح سے ممکن ہے ؟ ”

واحدی نے جواب دیا، ”ہمیں صدیوں سے تعمیر انسانی دماغ میں قائم اُس مصنوعی دیوار کو اپنی شعوری کوشش سے پوری طرح توڑنا ہو گا جو اس فرق کو پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے، ہمیں روحانیت اور مذہب یا وطنیت اور قومیت کے درمیان پیدا شدہ سیاسی و معاشی عزائم کو سمجھنا ہو گا کیونکہ یہ عزائم نا دانستگی یا دا نستگی میں محبت میں نفرت کی آمیزش کے سبب ہیں۔ ”

یہ سن کر سوال کرنے والی لڑکی نے بے ساختہ تالیاں بجانی شروع کر دی جس پر ایک بار پھر سارا حال تالیوں سے گونجنے لگا۔ سیمنار کے بعد واحدی ہال کے ایک جانب چائے کا کپ لیے کچھ شرکاء سے گفتگو کر رہا تھا کہ اچانک اُسے لگا جیسے اُسے کسی نے پیچھے سے آہستہ سے مخاطب کیا اور کہا، ” سر۔ ۔ ۔ ”

واحدی نے مڑ کر دیکھا تو وہی سوال کرنے والی لڑکی اور ٹربن والا لڑکا اس کے سامنے کھڑے تھے۔ واحدی نے گرم جوشی سے اُن سے ہاتھ ملایا اور کہا، ”میں آپ کے ذہانت سے بھرے ہوئے سوالات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ”

جواب میں لڑکی نے کہا، ” ڈاکٹر واحدی آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، بائی دی وے میرا نام ثانیہ اور یہ میرے بوائے فرینڈ دلیپ ہیں اور ہم آپ سے ملنے ٹورنٹو سے آئے ہیں۔ ۔ ۔ ” واحدی کے چہرے پر ایک پر مسرت حیرت پھیل گئی اور اُس نے بڑھ کر ثانیہ اور دلیپ کو گلے لگا لیا۔ سیمنار کے بعد کی شام واحدی ثانیہ اور دلیپ کی ایک ساتھ گزری۔ تینوں نے مل کر ایک ساتھ ڈنر کیا اور خوب دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ثانیہ کا خیال تھا کہ وہ امریکا سے واپسی میں کینیڈا بھی آئیں تاکہ کچھ دن اُن کے ساتھ گزارے مگر واحدی کے پاس صرف امریکا اور انگلینڈ کا ویزہ تھا اور کینیڈا کا ویزہ صرف کابل سے ہی لگ سکتا تھا۔ ثانیہ اور دلیپ نے جب اُس پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا، ” افغانستان میں اُس کی جان کو خطرہ ہے۔ ”

اُن کا خیال تھا کہ واحدی کو واپس افغانستان نہیں جانا چاہیے کیونکہ اُس کی صورت حال میں امریکن گورنمنٹ اُسے آسانی سے سیاسی پناہ گزین کا اسٹیٹس آفر کر سکتی ہے تو واحدی نے مسکرا کر اُنہیں جواب دیا، ”مجھے اس بات کی اطلاع ہے مگر میں افغانستان واپس ہی جانا چا ہوں گا اس لیے کہ میں نئی نسل کا نگہبان ہوں، مرے طالب علم میرے آنے والی صبحیں ہیں، وہ میرے روشنی کے دیے ہیں جنہیں سورج بن کر آنے والے کل میں اجالا پھیلانا ہے، مجھے ڈر ہے اگر میں نے یہ قربانی آج نہیں دی تو کل میرے اندر رہنے والی صوفیہ مجھ سے پوچھے گی کہ کیا اب افغانستان میں کوئی مسعود اپنی بہن کو آرٹ کی تخلیق سے تو نہیں روکتا ہے، کیا کوئی مسعود اپنی بہن کو علم حاصل کرنے سے تو نہیں روکتا ہے، کیا کوئی سنی صوفیہ کسی شیعہ آغا خانی واحدی سے محبت کر سکتی ہے ؟ کیا کوئی مسعود خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بہن کے جسم کو گولیوں سے چھلنی تو نہیں کر رہا ہے ؟ ہو سکتا ہے کل میں یہاں سیمنار میں کھڑے ہو کر تمھارے تمام سوالات کے جوابات دینے کے لائق ہوں گا، مگر اپنی صوفیہ کے ایک سوال کا بھی نہیں۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر واحدی نے اپنی ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں صاف کی اور کہا اسی لیے دو ستوں مجھے واپس جانا ہو گا مگر میں پھر آؤں گا کیونکہ اس نئی گلوبل دنیا میں شامل مختلف قومیت اور مذہب کے لا تعداد لوگ جو یہاں دور دراز سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی چاہت میں جمع ہو گئے ہیں۔ ان سوالات کے جواب سے واقف بھی ہوں۔ ان میں اور اُن میں فرق یہ ہے کہ یہ یہاں ہیں اور وہ وہاں اور میں ایک گلوبل ورلڈ کا خواب وہاں کی دنیا کے لیے دیکھ رہا ہوں۔ ” یہ کہہ کر واحدی نے ویٹر کو ہاتھ سے اشارہ کیا تاکہ وہ بل لے آئے۔ ہوٹل کی لابی سے باہر نکلتے ہوئے ثانیہ اور دلیپ نے اُسے بتا یا کہ اُنکی فلائٹ صبح سویرے ہے اور وہ یہاں سے بیس منٹ کے فاصلے پر کسی دوست کے یہاں ٹھیریں ہوئے ہیں۔ جونہی واحدی نے انہیں خدا حافظ کیا اور ثانیہ اور واحدی کی گاڑی مین ہائی وے پر آئی ثانیہ کا سیل فون بجنے لگا دوسری طرف ثانیہ کی امی تھی، ”بیٹا تمھارے پپا مجھ سے کہہ رہے تھے کہ تم سے پو چھ لوں کہ دلیپ نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ ”

”جی مما دلیپ نے کہا تھا کہ میں تمھارے خاطر مسلمان ہونے کو تیار ہوں اور پھر کسی بھی وقفے کے بعد جملے کویوں مکمل کیا جیسے کوئی غیر اہم سی بات کر رہی ہو، مگر مما میرا بھی کچھ یہی خیال ہے کہ میں اُس کے خاطر اسلام چھوڑ کر سکھ ہو سکتی ہوں مگر آج ہم دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں ایک ہونے کے لیے ان سب تبدیلیوں کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ”

”مطلب۔ ۔ ۔ ؟” مما نے تجسس سے کہا، ”تو تم گھر آ رہی ہو اُسے چھوڑ کر۔ ۔ ۔ ؟”

” نہیں۔ ۔ ۔ مما ہم دونوں ایک ساتھ ہی رہیں گے، شادی کریں گے وہ یونہی سکھ اور میں یونہی احمدی مسلمان۔ ۔ ۔”

دوسری طرف مما نے یہ سن کر ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا، ” اور کل جو تمھارے بچے ہوں گے وہ۔ ۔ ۔ ؟”

ثانیہ نے اتنے ہی سکون سے جواب دیا، ” وہ اپنے مذہب اور قومیت کا فیصلہ بالغ ہونے کے بعد اپنے علم و شعور کی روشنی میں کریں گے۔ ۔ ۔ اچھا مما میں اور دلیپ واشنگٹن آئے ہوئے تھے، ایک سیمنار میں شرکت کے لیے ہم کل واپس ٹورنٹو آ جائیں گے، پھر آپ سے تفصیل سے بات ہو گی، پپا کو میرا سلام کہہ دیجیے گا۔ ” یہ کہہ کر ثانیہ نے فون بند کر دیا کچھ دیر میں دونوں کے ہاتھ سرسرائے اور اُنہوں نے ایک دوسرے کو پیار سے تھام لیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیسواں باب

 

وقت: دوپہر بارہ بجے

تاریخ:۲۹ نومبر، ۲۰۱۵

مقام: شاہ فیصل نمبر ۵، کراچی پاکستان

 

مولوی سلیم اللہ چار چھ دنوں تک کم و بیش روزانہ ہی عثمان پر آیتوں کا دم کرتے رہے مگر عثمان اس عرصے میں یا تو ڈاکٹروں کی دواؤں کے اثر سے سوتا رہتا تھا یا پھر اچانک چیخ مار کر اُٹھ جاتا تھا۔ اُس کی بے چینی کبھی بہت بڑھ جاتی تھی تو کبھی ایک دم ختم ہو جاتی یہ کہنا مشکل تھا کہ دوائیں کس قدر اُس کے ہسٹریائی دوروں کو کنٹرول کر پا رہی تھیں۔ آخر ایک صبح انہوں نے سوتے ہوئے عثمان پر کئی آیتوں کا دم کیا اور جانے سے قبل ادریس کو ایک طرف لے جا کر کہا، ” بھائی میرا یہ خیال ہے کہ جنوں کا یہ چکر کچھ زیادہ ہی پیچیدہ نوعیت کا ہے تم ایسا کرو ایک آدھ دن اور دیکھ لو۔ ۔ ۔ اگر اس کے بعد بھی فائدہ نہ ہو تو میرے ایک جاننے والے عامل ہیں اُنہیں دکھا دو۔ خاصے پہنچے ہوئے ہیں اور ہاں میرا نام لو گے تو وہ تم سے شاید ہی پیسے لیں مگر پھر بھی اُن کے ہاتھ میں ہزار ایک روپیہ رکھ دینا بھائی، پیسے کی ضرورت تو سب کو ہوتی ہے اور جب پیسہ جیب میں جاتا ہے تو دل سے دعا سے نکلتی ہے۔ ” آخری جملہ کہتے ہوئے مولوی سلیم اللہ کے منہ پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی تھی۔ بختاور نے زبردستی مولوی صاحب کے لیے گرم گرم پراٹھوں اور انڈوں کا ناشتہ بنا یا تھا۔ دالان میں چارپائی پر بیٹھ کر ادریس اور مولوی سلیم اللہ جب ناشتہ کر رہے تھے تو بختاور باورچی خانے کی آڑ سے باتیں بھی کر رہی تھی تاکہ بے پر دگی بھی نہ ہو اور مولوی سلیم اللہ کو گھر کی اپنایت کا احساس بھی رہے۔ بختاور در اصل دل ہی دل میں مولوی سلیم اللہ کو اپنے خاندان کے لیے ایک محسن سمجھتی تھی۔ اُس کا خیال تھا جب سے مولوی سلیم اللہ اُس کے گھر پر آنے لگے ہیں تبھی سے اُن کے گھر پر مسلسل برکتیں نازل ہو رہی تھیں۔ ادریس بھی انہیں کی وجہ سے نماز و صلواۃ کا پابند ہو گیا تھا اور اُس نے مسجد اور مدرسے کے کاموں کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔ خیر سے شراب اور جوئے کا تو وہ کبھی بھی عادی نہیں تھا مگر سگریٹ نوشی جو وہ کبھی کبھار کرتا تھا وہ بھی کم و بیش ختم ہو گئی تھی۔ سب سے بڑھ کرپیسے کی روانی بڑھ گئی تھی اور گھر میں ٹی وی فرج اور ایر کنڈیشن بھی لگ گیا تھا۔ پراٹھے اور انڈوں کا ناشتہ ختم ہوا تو چائے کا دور شروع ہو گیا اس موقع پر مولوی سلیم نے بختاور سے کہا، ”بھابھی ہمارے ادریس میاں اللہ و رسول کے کاموں میں جس طرح سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہیں ہیں اُس سے خوش ہو کر مولوی سراج الحق صاحب نے یہ طے کیا ہے کہ انہیں پنجاب میں بھی کچھ مدرسوں کے انتظام میں بھی شریک کیا جائے۔ ہم نے ان سے کہا ہے کہ وہ کچھ دنوں میں پنجاب کا وزٹ کر کے آ جائیں، اور پھر وہاں کے حوالے سے جو مدرسوں کی ضرورتیں ہیں اُس کا انتظام کیا جا سکے۔ ضرورت چونکہ فوری نوعیت کی ہے اس لیے انہیں فوراً ہی روانہ ہونا پڑے گا۔ آپ کو اس سلسلے میں کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا؟”

” ارے نہیں مولوی صاحب یہ تو بہت نیکی کی بات ہے مجھے بھلا اس سلسلے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ ” بختاور نے گھگھیاتے ہوئے پردے کی آڑ سے کہا، ” تو ٹھیک ہے ادریس میاں آپ سفر کا ارادہ تو کر چکے ہیں بس تیاری کیجیے اور آج ہی ٹکٹوں کا بندوبست کر لیجیے اور ہاں۔ ۔ ۔ فرسٹ کلاس میں سفر کیجیے گا۔ ”

”مگر مولوی صاحب وہ جو عثمان بیمار ہے ؟ ” بختاور کو اچانک خیال آیا، ”اگر اُسے پھر سے دورے پڑے تو میں اکیلے کیسے سنبھال پاؤں گی۔ ۔ ۔ ؟ ” بختاور نے عثمان کی طرف سے فکرمند ہو کر کہا تو ادریس نے فوراً ٌ ہی درمیان میں بات روک کر کہا، ” تو کیوں نا مولوی صاحب۔ ۔ ۔ عثمان کو اور بختاور کوا سی وقت عامل صاحب کے پاس لے جاتے ہیں، تاکہ کم از کم کچھ نہ کچھ عمل تو فوراً ہی شروع ہو جائے اور پھر میں ان دونوں کو اپنی خالہ کے یہاں چھوڑ کر ٹرین کے ٹکٹوں کا بندوبست کر لوں ؟”

” ہاں یہ ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ ” مولوی سلیم اللہ نے اپنے کندھے پر پڑے ہوئے رو مال سے منہ صاف کیا اور سامنے تپائی پر پڑی چائے کا آخری گھونٹ لیا اور کہا، ”اچھا ادریس میاں۔ ۔ ۔ اب مجھے اجازت دیجیے۔ ”

مولوی سلیم اللہ کے جانے کے بعد ادریس نے دروازے کا قفل اندر سے لگایا اور شلوار کی جیب سے نوٹوں کی ایک اور گٹھی بختاور کے ہاتھ میں رکھی جسے دیکھ کر بختاور کی آنکھیں خوشی اور حیرانگی سے پھیل گئی۔

”چل اندر چل۔ ۔ ۔ نیک بخت۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر ادریس بختاور کو لے کر کمرے کے اندر آیا اور کہا، ”دیکھ یہ وہ پیسے ہیں جو آج مولوی سلیم اللہ صاحب کے ہاتھوں مولوی سراج الحق صاحب نے مجھے پھر بھیجے ہیں۔ ۔ ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اندرونی پنجاب کے مدرسوں کا انتظام سنبھالنے کے لیے میرا فوراً وہاں جانا ضروری ہے۔ ”

ادریس مولوی سلیم اللہ کی ہوشیاری سے خوش تھا کہ اُس نے پنجاب جانے کے لیے ایک بہت اچھا جواز بختاور کے سامنے بنا دیا تھا اور اب اُسے کراچی سے نکلنے کے لیے کوئی نئی کہانی بختاور کو نہیں سنانی پڑے گی۔ ادریس کو بھی اندازہ تھا کہ پچھلے ہفتے کی کاروائی سے اتنے زیادہ کافر جہنم واصل ہوئے ہیں کہ پچیس ہزار کے حساب سے ایک لاکھ سے کچھ زیادہ کی رقم یہاں سے نکلنے سے پہلے مل ہی جائے گی۔

چورنگی کے پاس پہنچ کر ادریس نے عثمان کو گود سے اتارا اور بختاور سے کہا تم یہاں ٹھیرو میں ذرا عامل صاحب کے پاس جانے کے لیے کسی ٹیکسی کا بند وبست کرتا ہوں کہ اچانک اُس کی نظر گلی کے کونے کی دیوار پر ایک طرف اکھڑوں بیٹھے ہوئے رب نواز اور کلو پر پڑھی جو گٹکا کھاتے ہوئے آتی جاتی عورتوں کو تک رہے تھے۔ ادریس نے رب نواز کو دیکھا تو زور سے آواز لگائی اور ہاتھ ہلا کر کہا، ” ارے او، رب نواز بھائی۔ ۔ ۔ اسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ ‘۔ ”رب نواز نے جو ادریس کو دیکھا تو بھاگتا ہوا اُس کی طرف آنے لگا اُس کے پیچھے پیچھے کلو بھی دوڑتا ہوا چلا آیا، ”سب ٹھیک تو ہے نہ بھائی۔ ” ادریس نے رب نواز سے کہا۔ ” ہاں ہاں سب ٹھیک ہی ہے بس میں کچھ دنوں سے آپ سے ملنے کے چکر میں ہی تھا مگر یار آپ تو بڑے آدمی بن گئے ہیں، کبھی گھر یا ٹھیہ پر ملتے ہی نہیں۔ ” رب نواز نے شکایت کے لہجے میں کہا۔

”نہیں بھائی۔ ۔ ۔ بس وہ مولوی سلیم اللہ صاحب نے مدرسے کے کام میں بہت زیادہ لگا دیا ہے اس لیے سارا دن بس وہی گزر جاتا ہے۔ پھر اُوپر سے مسجد کے معاملات بھی دیکھنے پڑتے ہیں، اس لیے صبح شام اِن ہی کاموں میں مصروف رہتا ہوں۔ اچھا سنو رب نواز میں نے تم سے کہا تھا کہ محلے میں سب کاروائیوں پر نظر رکھنی ہے۔ یہاں کوئی کافر پنا تو نہیں چل رہا ہے نہ ؟ دیکھ بھائی یہ شیعہ پندی اور قادیانی کافروں پر خاص نظر رکھنی ہے۔ ۔ ۔ یہ معاملات بہت اہم ہیں۔ ہمیں تو اب اندازہ ہو رہا ہے ان لوگوں نے ہمارے دین میں کیا گندگی مچائی ہوئی ہے۔ ”

کلو نے یہ بات سن کر ادریس کے قریب آ کر کہا، ”بھائی میں نے اِس کو پہلے بھی یہ بات بتائی تھی کہ یہ جو چورنگی کے پاس ایک نئی جوتوں کی دوکان کھلی ہے نا۔ ۔ ۔ اُس کا مالک قادیانی کافر ہے۔ ” کلو نے رب نواز کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ہاتھ سے بازار کی ایک دوکان کی طرف اشارہ کیا۔

” اچھا۔ ۔ ۔ ” ادریس نے چونک کر کہا، ”یہ یہاں کیسے گھس گیا سالا۔ ۔ ۔ ؟ ہمارے محلے میں، اس کو پتہ نہیں یہ مسجدِ دینیات والا مولوی سلیم اللہ کا علاقہ ہے ؟ ”

کلو نے کندھے اچکائے، ” ابھی آپ کہو ادریس بھائی کیا کرنا ہے۔ ۔ ۔ ؟”

ادریس نے رب نواز اور کلو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ” چلو ابھی کہ ابھی اُس سالے کو تعارف کرا دیتے ہیں تاکہ اپنا بوریا بستر سنبھال لے یہاں سے۔ ” یہ کہہ کر ادریس، رب نواز اور کلو گلی کے نکڑ کی طرف سے چورنگی کی اُس طرف جانے لگے جہاں نئے جوتے والے کی دوکان تھی۔ اتفاق سے یہ دوکان اُسی جگہ کے پاس ہی تھی جہاں ادریس نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر مہینے بھر پہلے ایک کر سچن پر بلا سفمی کا الزام لگا کر اُسے جلا کر مارا تھا۔ بختاور نے جو اچانک ادریس کو دوستوں کے ساتھ دوسری طرف جاتے ہوئے دیکھا تواُسے پیچھے سے ہلکے سے آواز دی، ”سنیں جی، عثمان بڑا بے چین ہو رہا ہے۔ ”

ادریس نے ہاتھ ہلا کر کہا، ”ہاں ہاں۔ ۔ ۔ میں ابھی آتا ہوں۔ ” اور وہ، رب نواز اور کلو چورنگی پر کھلنے والی اُس نئی دوکان میں داخل ہوئے تو دوکان میں ایک نوجوان لڑکا شوکیس سے جوتے نکال کر کسی گاہک کو دکھانے میں مصروف تھا۔ دوکان واقعی بالکل نئی تھی جس میں مرد عورتوں اور بچوں کے شوکیس دیوار کے ساتھ ساتھ تھے جن میں بہت ہی قرینے سے مختلف نمبروں کے جوتے لائن میں لگے ہوئے تھے۔ درمیان کے گیپ میں سائڈ ٹیبلس لگی ہوئی تھیں جن پر پلاسٹر اف پیرس کے بنے ہوئے جوتوں کے ماڈلز رکھے ہوئے تھے۔ دوکان کے بیچوں بیچ کرسیوں کی قطاریں تھیں جن پر کچھ گاہک بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک کونے پر ایک ادھیڑ عمر کا شخص ٹوپی لگائے ہوئے بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کی فرینچ کٹ داڑھی تھی اور وہ چپ چاپ بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ وہی شخص شاید دوکان کا مالک تھا کیونکہ اُس کے پیچھے غلام محمد قادیانی کی ایک تصویر فریم میں لگی ہوئی تھی۔ تصویر بلیک انڈ وائٹ تھی اور قریب سے دیکھنے کے بعد سمجھ میں آتی تھی ورنہ دور سے تو ایسا لگتا تھا جیسے کوئی تصویر اخبار سے کاٹ کر فریم کر دی گئی ہے۔ ادریس نے ایک نظر بھر کر پوری دوکان کو دیکھا اور پھر سیدھا فرنچ کٹ داڑھی والے شخص کے پاس پہنچ گیا، ”کیوں جناب کیا چل رہا ہے ؟’ ادریس نے اپنی گھنی داڑھی پر ہاتھ پھرتے اُس شخص سے کہا۔

جس پر فر نچ کٹ والے شخص نے کہا، ” فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں میں آپ کی ؟”

” خدمت تو ہم کریں گے آپ کی۔ ۔ ۔ یہ تصویر کس کی ہے ؟” ادریس نے انگلی کے اشارے سے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”مسیح مو عود کی۔ ۔ ۔ ” اُس نے سراسیمہ ہو کر کہا شاید وہ آنے والے لوگوں کے ارادوں کو بھانپ گیا تھا۔

” اس کو میں ہٹاؤں یا تو خود ہٹائے گا؟” ادریس نے فرنچ کٹ والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

” بھائی ان کی تصویر ہم نے صرف کاروبار میں برکت کے لیے لگائی ہے اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ ” جواب میں فرنچ کٹ والے نے گھگھیاتے ہوئے کہا۔

” قادیانی ہے تو۔ ۔ ۔ ؟” ادریس نے اب کی بار ذرا زور سے کہا۔

”جی۔ ۔ ۔ میں احمدی ہوں، اللہ کو مانتا ہوں۔ ”

ادریس نے غصے سے پوچھا، ” اچھا بول محمدؐ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ” اب کی بار ادریس باضابطہ اُسے کلمہ پڑھانے میں لگ گیا، بول’ فرنچ کٹ ڈاڑھی والے نے کہا، ”آپ یہ سب کیوں کر رہے ہو ؟ میں اللہ کو مانتا ہوں محمدؐ کو مانتا ہوں اب آپ جائیں یہاں سے۔ ”

اتنی دیر میں وہ نوجوان جو کسٹمر کو جوتے پہنا رہا تھا اٹھ کر فرینچ کٹ والے کے پاس آ گیا، اور پوچھا، ”کیا بات ہے ابو۔ ۔ ۔ ؟ یہ کیا ہو رہا ہے ؟’ اُس نے ادریس اور رب نواز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

ادریس نے جواب میں کہا، ” سالے اگر دوکان کی برکت بڑھانی ہے تو اللہ محمد کے نام کا فوٹو دیوار پر لگا اور نہیں تو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی مبارک تصویروں سے دوکان کو سجا۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہے ؟ ” یہ کہتے ہوئے ادریس نے فرینچ کٹ داڑھی والے کو گریبان سے کھینچ کر ایک طرف کیا اور اُس کی کرسی پر کھڑے ہو کر غلام محمد قادیانی صاحب کی تصویر کے فریم کو زور سے کھینچا جس سے تصویر اپنی کیل پر سے اکھڑ گئی اور جھٹکے سے زمین پر آ گری۔ فرنچ کٹ والے صاحب کا بیٹا یہ سب دیکھ کرتا ؤ میں آ گیا اور زور سے چیخ اُٹھا، ”یہ کیا بد معاشی ہے ؟”

جونہی اُس کے منہ سے یہ جملہ نکلا رب نواز نے اُس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا اور اُس کے منہ سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑا، دوسری طرف ادریس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جھٹکے سے فرنچ کٹ والے شخص کی کرسی کو الٹ دیا اور زور سے ایک لات اُس کے پیٹ میں لگائی۔ اتنے عرصے میں کلو نے ٹھو کروں سے جوتوں کے شوکیس کے شیشے توڑ دیے اور اُس میں سے جوتے نکال کر باہر پھینکنے شروع کر دیے۔ اس اچانک حملے سے گھبرا کر باپ بیٹے دوکان سے بو کھلا کر باہر نکلے اور ہیلپ ہیلپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑک پر آ گئے۔ اتنی دیر میں ادریس رب نواز اور کلو بھی بھاگتے ہوئے اُن دونوں کے پیچھے دوڑے ادریس نے چیخ کر کہا، ”مارو سالے ان قادیانی کافروں کو یہ ہمارے پیارے نبی کو آخری نبی نہیں کہتے ہیں۔ ان کی ذات کا بھڑ۔ ۔ ۔ ماروں سالے کافر کی اولاد۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر کلو نے بھاگتے ہوئے فر نچ کٹ والے شخص کی پیٹھ پر مکا رسید کیا جس سے وہ وہیں فٹ پاتھ پر گر پڑا۔ اپنے باپ کو بچانے کے لیے جب اُس کا بیٹا اُسے اٹھانے لگا تو ادریس نے اُسے بھی ایک لات رسید کی اور چیخ کر کہا، ” چلو بھڑووں نکلوں یہاں سے۔ ” اور یہ کہہ کر پھر زور سے بیٹے کو دھکا دیا، یہ سارا شور سن کر لوگ دوکانوں سے نکل کر جمع ہونے لگے۔ چورنگی میں بیٹھے ہوئے لوگ اور سڑک پر گزرنے والے راہگیر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے فٹ پاتھ کے اس طرف آنے لگے۔ یہ کم و بیش وہی جگہ تھی جہاں ادریس، رب نواز اور کلو نے مہینے بھر پہلے اُس کرسچن شخص کو جلا کر مارا تھا۔ اِس اچانک کے غول غپاڑے سے جو کھل بھلی مچی تو لوگ سمجھے جیسے پھر سے کوئی بلاسفمی کا کیس ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے نعرہ تکبیر کے نعرے بھی لگا دیے اور کچھ لوگوں نے سیدھا دوکان پر ہلہ بول دیا۔ چورنگی پر پھیلے اس سارے ہنگامے میں جب بختاور نے ادریس کو دیکھا تو پریشان ہو کر اُس کے پیچھے دوڑی تاکہ وہ اُسے اِس ساری مار کٹائی سے روک سکے مگر اس سارے ہنگامے کے نتیجے میں عثمان کا ہاتھ بختاور کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ ڈر کے مارے واپس گلی کے نکڑ کی طرف دوڑ گیا۔ بختاور اس قدر ہیبت زدہ تھی کہ اُس نے اُس وقت عثمان کے بجائے ادریس کے بارے میں سوچا اور دیوانگی سے چورنگی کے بیچ سے دوڑتی ہوئی اُس جگہ پہنچ گئی جہاں کلو، رب نواز اور ادریس اُن دونوں باپ بیٹے کو پکڑ کر بُری طرح پیٹ رہے تھے۔ بختاور نے ادریس کو پیچھے سے پکڑ کر چیختے ہوئے کھینچا اور کہا، ” ادریس مت مار، چھوڑ دے ان لوگوں کو۔ ۔ ۔ ”

مگر ادریس بالکل پاگل ہو رہا تھا اُس کا چہرہ لال انگارہ اور بدن غصے سے کھول رہا تھا۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مار مار کر باپ بیٹے کو ابھی ختم کر دے۔ بختاور کے اچانک بیچ میں آنے کی وجہ سے ادریس تھوڑی دیر کے لیے رُک گیا اور زور سے ماں کی گالی دے کر زمین پھر تھوکتا ہوا پیچھے ہٹ گیا، ” ابے سالوں اس سے پہلے کہ تمھاری یہاں سے میتیں اُ ٹھ جائیں اِس محلے کو چھوڑ دو۔ سالوں یہاں تمھارا کافری کا بزنس نہیں چلے گا بند کرو یہ حرامی پن اور دو دن میں یہ جگہ خالی کرو۔ ” پھر اُس نے پٹائی کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا، ” چھوڑ دے بے در نواز جانے دے ان سالوں کو، آ بھئی کلو نکل یہاں سے۔ پتہ نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں سالے بہن۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر ادریس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال پیچھے کیے اور لوگوں کو دھکا دیتا ہوا بھیڑ سے نکلنے لگا۔ اُس کے پیچھے پیچھے رب نواز اور کلو بھی بھیڑ سے باہر آ گئے۔ دونوں باپ بیٹے درد سے کراہتے ہوئے یونہی فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے تھے ایسے میں انہیں ہسپتال لے جانے کے بجائے کچھ لوگ اُن کی سیل فون پر وڈیو بنا رہے تھے۔ بھیڑ سے نکل کر اچانک ادریس کو عثمان کا خیال آیا تو اُس نے بختاور سے چیخ کر کہا، ” اوئے یہ عثمان کہاں گیا۔ ۔ ۔ ؟ وہ تو تیرے ساتھ تھا نا؟”

بختاور کو بھی جونہی عثمان کے ارد گرد نہ ہونے کا احساس ہوا تو اُس نے گھبرا کر پلٹ کر دیکھا اور پھر ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگی۔ ادریس ادھر ادھر بھاگ کر عثمان کو دیکھنے لگا مگر عثمان کہیں نظر نہیں آیا۔ ہر طرف یوں بھی ایک افراتفری کا عالم تھا، لوگوں کی بھیڑ چورنگی کے اُس پار تماشہ دیکھنے میں لگی ہوئی تھی۔ ادریس نے غصے سے بختاور سے کہا، ”تجھے کس نے کہا تھا مردوں کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کو؟ میں نے تجھے کہا تھا کہ تو عثمان کا خیال کر۔ ۔ ۔ اور تو ہے کہ۔ ۔ ۔ ” ابھی ادریس کا جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ گلی کے نکڑ سے رب نواز نے اُسے آواز دی، ”ادریس بھائی عثمان یہاں ہے۔ ”

ادریس اور بختاور نے جونہی رب نواز کی آواز سنی وہ دونوں دیوانوں کی طرح بھاگتے ہوئے گلی کے نکڑ پر پہنچے جس کے اُس جانب ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے چھپ کر عثمان خوف و  دہشت سے اِس سارے تماشے کو دیکھ رہا تھا۔ ادریس اور بختاور نے دیوار کی آڑ سے جب عثمان کو گود میں لینے کے لیے اپنے ہاتھ اُس کی طرف پھیلائے تو وہ اُنہیں دیکھ کر سہم گیا اور وہاں چھپے ہوئے اپنے جیسے کئی اور بچوں کے ساتھ مل کر رونے لگا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید