فہرست مضامین
ٹرمینس
راجندر سنگھ بیدی
ٹرمینس
(آخری اسٹیشن)
جیون— یا بہتر طور پر جیحون دوآبہ اس لائن کا آخری اسٹیشن تھا اور گاڑی اس کی طرف بے تحاشہ بھاگی جا رہی تھی، جس طرح بجھنے سے پہلے شعلے میں ایک لپک پیدا ہوتی ہے، اسی طرح گاڑی کی رفتار میں بھی ایک لپک سی پیدا ہو رہی تھی۔دائیں اور بائیں شوالک کے سلسلے دو لمبے لمبے بازوؤں کی صورت کھل رہے تھے، اور اس وسیع و عریض آغوش کے اندر چھوٹے چھوٹے ٹیلے، گینگ ہٹ، آم ، جھاڑیاں، جھونپڑیاں، گاڑی کے آخری چھکڑے کو پکڑنے کے لیے پیچھے کی طرف بھاگ رہی تھیں۔ دور کہیں پٹھو اور مویشی گوپھیے میں پڑے ہوئے کنکروں کی مانند ایک بہت بڑے دائرے میں گھومتے دکھائی دیتے تھے۔
اس وقت بارش تھمی ہوئی تھی، لیکن کچنال اور آم کے پیڑوں کی سیاہ چھال سے اندازہ ہوتا تھا کہ دن اور رات کے چار پہروں میں چھاجوں ہی پانی پڑ گیا ہے۔ سورج ،برساتی شام کے شوخ و شنگ رنگوں کے درمیان بادل کے ایک ٹکڑے میں الجھا ہوا پریشان نگاہوں سے زمین کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کتنی کہر تھی اور سیل، جسے اس نے اُٹھا رکھا تھا۔ پانی زمین پر کہیں کم تھا اور کہیں زیادہ۔ ہوا ساکن تھی اور گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے پر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان زمین کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا ہے۔
کبھی آنِ واحد میں یوں محسوس ہونے لگتا، جیسے باہر دکھائی دینے والا ہر ایک نظارہ ہمارے ہی کسی اندرونی منظر کا عکسِ کثیف ہے— جے رام اُداس تھا اور اسے فضا میں مغمومیت دکھائی دیتی تھی۔ وہ گاڑی میں کھڑکی کے پاس بیٹھا بیکلی سے جیحون دوآبہ ٹرمینس کا انتظار کر رہا تھا۔ کبھی وہ درد سے اپنی سیٹ پر اچھل جاتا اور کبھی سامنے چوٹیوں پر دھندلی سی دکھائی دینے والی برف کو دیکھ کر اس کی انگلیاں،اس کے سفید بالوں میں دھنس جاتیں اور وہ سوچتا —جس طرح گاڑی ایک لپک کے ساتھ اپنے مقامِ آخر کی طرف بھاگی جا رہی ہے، شاید میں بھی اپنے مقامِ آخر کی طرف لپکا جا رہا ہوں۔ یکایک اس نے مقابل کی نشست پر پڑی ہوئی مائی کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا
’’بھولی مائی! اُٹھ دیکھ! تیرا جیحون آ رہا ہے۔‘‘
مائی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔ اس کے چہرے کا جلال، جو ایک چالیس سالہ رنڈاپے اور لا ولدی کا شاخسانہ تھا اور جو کسی ناخوشگوار خواب کی وجہ سے مدھم ہو گیا تھا، عود کر آیا اور وہ ایک بچی کی طرح خوش ہو کر بولی ’’آ گیا جیحون—بس یہاں سے سات کوس پرے رہیں میری بیٹی اور جنوائی— میری سیتارام کی جوڑی!‘‘
باہر سے ایک ننھی سی کنکری اُڑی اور جے رام کی آنکھ میں پڑ گئی۔ کچھ دیر کے لیے اس کی آنکھیں اندر کی طرف سمٹ گئیں۔ پُتلیاں قدرے پھیلیں اور حقیقتِ حال کی خلش کے باوجود اسے گزرے وقت کے ڈراؤنے خواب دکھائی دیے۔ زرد رو، جفا کش، شکست آشنا جے رام نے اپنے ماضی میں جھانکا تو اسے اپنے بے کیف پچاس برسوں میں ایک حیات افروز لمحہ نظر آیا۔ اس وقت جب کہ جے رام زندگی کی بیسیویں خزاں دیکھ رہا تھا، کرتار پور اسٹیشن کے پیاؤ پر ایک لڑکی اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور کئی دن جے رام کی عقل و حیا محبت کے گوپھیے میں پڑی رہی!
ایک دھکا سا لگا اور قریب کے شور و غل سے پتہ چلا کہ گاڑی جیحون دوآبہ ٹرمینس کے احاطے میں داخل ہو کر کھڑی ہو گئی ہے۔بھولی مائی اور اس کے ساتھ دوسرے مسافر اُترے اور باہر نکلنے کے لیے پھاٹک کی طرف بڑھے— اس وقت شام لمحوں کی سولی پر تڑپ رہی تھی، اور سیاہی کی لمبی لمبی لٹیں اونچے اونچے کھمبوں، پل اور شیڈ کی مدد سے دن کے شانوں پہ بکھر رہی تھیں۔ جے رام بھی غم اور کپڑوں کی گٹھڑیاں اُٹھائے پھاٹک کی طرف بڑھا، لیکن رُک گیا۔ اس وقت ٹھٹھر گانو جانے کا اسے سمبندھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔
معاً جے رام کو ایک ایسا خیال آیا، جو اس نے سفر سے پہلے سوچا ہی نہ تھا — اسے اب ٹھٹھر گانو میں پہچانے گا کون؟ وہ کٹھون کے ایک پُرانے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن کھٹ کچھ تو جیحون اور کچھ ہوشیار پور اور اس کے نواح میں آباد ہو گئے تھے، اور اپنے پیڑوں کی وجہ سے جیحون میں ایک خاص شہرت کے مالک تھے۔ ٹھٹھر میں صرف ایک تایا باپو کی خبر ملتی تھی ، لیکن وہ تو جے رام کے بچپن ہی میں ضعیفی اور جھکی ہوئی کمر سے یوں دکھائی دیتے تھے جیسے قبر تلاش کر رہے ہوں۔ اس وقت ان کا موجود ہونا ایک ناممکن سی بات تھی۔ ان کے چار پانچ لڑکیاں تھیں، جو ایک ساتھ شادی کے بعد سنتوکھ گڑھ، اونہ، گڑھ شنکر اور اس کے نواح میں اس طرح بکھر گئی تھیں جیسے آتشیں انار کی چنگاریاں چھوٹتے ہی چاروں طرف بکھر جاتی ہیں، اور جے رام پلیٹ فارم پر پڑے ہوئے بنچ کی طرف لوٹا اور مایوسی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
جیون دو آبہ ایک خاصا بڑا اسٹیشن تھا۔ کبھی جیون ایک بڑی منڈی ہوا کرتی تھی، جس کے لیے اسٹیشن پر ایک یارڈ تعمیر کیا گیا تھا، جو ان دنوں سونا پڑا تھا۔ لائن پر بچھانے کے لیے پتھر تو ابھی تک بھیجے جا رہے تھے۔ سائیڈنگ میں بڑا سا کرین یکہ و تنہا، بیکار و بے مصرف کھڑا دور سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مرغ ہے جسے بھوننے کے لیے اس کے بال و پر نوچ لیے گئے ہوں۔ اس کرین سے پیچھے ہٹ کر دو مال گاڑیاں کھڑی تھیں جن کے چھتوں کے نہ ہونے سے ان میں پتھر اور بارش کا پانی پڑا تھا۔ سائیڈنگ کے شمال کی طرف ریل پر چند ٹھوکریں تھیں۔ ایک ٹھوکر باقیوں کے بہ نسبت کافی فاصلہ پر تھی اور یہ دور صرف اس لیے بنائی گئی تھی، کہ انجن کو شنٹ کرنے میں آسانی رہے، یا اگر گاڑی تیزی و تندی میں آگے نکل جائے تو اسے پٹری پر سے اترنے یا ٹکرانے کا خطرہ نہ رہے۔ اور لوہے کی یہ بڑی بڑی اور مضبوط ٹھوکریں جے رام کو ہراساں کرنے لگیں۔ جے رام نے سوچا، کاش یہ ریلیں ایک دم ان ٹھوکروں پر رُک جانے کے بجائے سامنے دکھائی دینے والی پہاڑی میں گم ہو جائیں۔
جے رام نے اُٹھ کر اپنے جسم کو ایک بوسیدہ اور پیوند لگے کمبل میں اچھی طرح سے لپیٹا اور ایک نہایت مشتبہ انداز میں اسٹیشن کے جنگلے کے ساتھ ساتھ گھومنے لگا۔ جنگلے کے قریب اندھے کنوئیں پر پیپل کا ایک تنہ بڑھا ہوا تھا اور ایک لنگور اپنی لمبی سی دُم کو تنے پر بل دے کر کنوئیں میں اوندھا لٹکا ہوا تھا۔ اس کالے کلوٹے چہرے میں دو بھوری سی آنکھیں راکھ میں دہکتے ہوئے کوئلوں کی طرح نظر آ رہی تھیں۔ گھاٹیوں کے پیچھے پانی بڑے زور شور سے بہہ رہا تھا اور اس برساتی نالے کے شور میں جیحون کے قصبے کا سب شور ڈوب رہا تھا۔ اسٹیشن کی فضا خاموش اور افسردہ تھی۔ جدھر سے جے رام آیا تھا، اُدھر لائنوں کا ایک جال بِچھا ہوا تھا۔ ایک بڑے جنکشن اسٹیشن پر ہی کم از کم اتنی لائنیں تھیں جتنی جے رام کے جسم میں شریانیں اور وریدیں اور وہاں سینکڑوں ہی خلاصی، قلی اور یارڈمین تھے، جو آتی جاتی گاڑیوں کے درمیان بے کھٹکے ، مطلب بے مطلب گھوما کرتے۔ کبھی کبھار کوئی انجن آناً فاناً دندناتا ہوا شیڈ کے دوزخ سے سُرمہ اڑاتا ہوا کسی کو جھپٹ میں لے لیتا۔ لیکن صبح سے پہلے کوئی اور مائی کا لال اس کی جگہ پُر کرنے کے لیے آ دھمکتا اور جے رام نے سوچا یہاں جیحون کی کسی سُونی لائن پر کوئی بے کھٹکے سر رکھے اور سو رہے۔
جب سے جے رام آیا تھا، کسی نے ٹکٹ بھی تو نہیں پوچھا۔ ایک صاحب جو انداز سے اسٹیشن ماسٹر اور کپڑوں سے حجام معلوم ہوتے تھے، کُرتا اور تہمد پہنے ، ہاتھ میں ناریل سنبھالے، کھڑاؤں سے کھٹ کھٹ کرتے ایک ٹوٹے ہوئے لیمپ کے ستون کے قریب کھڑے ہو کر کانٹے والوں کو بے تحاشہ صلواتیں سُنار ہے تھے۔ کانٹے بدستور گالیوں سے بے اعتنائ، دُور کھڑے سبز اور سُرخ بتّیوں کی پریڈ کر رہے تھے۔ اسٹیشن کے اسٹاف نے یہاں وردی پہننے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔ کہیں برس میں ایک آدھ بار ٹریفک انسپکٹر آ نکلتا تو اس کا حصّہ چپکے سے ہاتھ میں تھما دیا جاتا اور پھر اُسے دھوتی کُرتے میں ہی سرج دکھائی دینے لگتی۔ بہتا ہوتا تو وہ بڑے مشفقانہ انداز میں اسٹیشن ماسٹر سے کہہ دیتا—
’’مر جاؤ گے مادھو لال — مر جاؤ گے سردی میں تم لوگ!‘‘
انسپکٹر پیسوں کی حدّت اور اسٹیشن ماسٹر جیحون کی سردی سے کسی قدر آشنا ہو گیا تھا، ’’مر جاؤ گے تم لوگ‘‘ کا جواب ایک مختصر ’’ہونہہ‘‘ کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ جے رام گھوم پھر کر پھر اندھے کنوئیں کے پاس جا کھڑا ہوا اور اس کی تہٖ میں ٹوٹے ہوئے ڈھکنے، قمچیاں، پیپل کے پتّے ، پتھر اور پانی کو دیکھنے لگا۔ لنگور اس وقت تک کہیں بھاگ گیا تھا۔ اس کی جگہ چند چھوٹے چھوٹے بندر قلابازیاں لگانے لگے۔ ایک ننھّا سا بندر اپنی ماں کے پیٹ کے ساتھ چمٹا ہوا نیچے گویا موت کو دیکھ کر منھ چڑا رہا تھا ۔جے رام نے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر زندگی کی اس لغو نقل کو ختم کرنے کی ٹھانی۔ لیکن وہ اس کارِ خیر کے لیے بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ جیسے اوپر بندر کا بچّہ موت کا منھ چڑا رہا تھا، اسی طرح موت جے رام کا منھ چڑا رہی تھی۔
دُور گھاٹیوں پر چند روشنیاں ایک سمت کو جاتی ہوئی دکھائی دیں۔ جے رام اس تیس برس کے عرصہ میں بہت کچھ بھول چکا تھا۔ لیکن اسے یہ نظارہ کچھ مانوس سا معلوم ہوا۔ جنگلے سے پرے ہٹتے ہوئے وہ اسٹیشن ماسٹر کے قریب پہنچتے ہوئے بولا
’’یہ روشنیاں کیسی ہیں بابو؟‘‘
اسٹیشن ماسٹر نے مونچھوں کا ایک بڑا سا فلِٹر اُٹھایا اور ایک بھدّی سی آواز میں بولا۔ ’’یہ لوگ گانو جا رہے ہیں۔‘‘
’’کون گانو میں؟‘‘
’’یہی ٹھٹھر— سنتوکھ گڑھ بگیرہ۔‘‘
جے رام خاموش ہو گیا۔ اس خیال سے اُسے ایک گونہ تسلی ہوئی کہ جیحون دوآبے سے پرے بھی ہزاروں پگڈنڈیاں شوالک کے گرد بل کھاتی چلی جاتی ہیں، جس طرح تناسخ کے پہلے طالب علم کو موت کے دروازے میں سے جھانکنے پر اپنی ہی سینکڑوں شبیہیں دکھائی دی تھیں، اور حیات و ممات اسے صرف ایک کھیل سا نظر آیا تھا، اس طرح ان پگڈنڈیوں کو دیکھ کر جسم و روح میں لرزہ پیدا کر دینے والی ریلوں کی ٹھوکریں جے رام کے لیے بے معنی ہو کر رہ گئی تھیں۔ جیحون دوآبہ ایک برانچ لائن کا ٹرمینس ہو تو ہو، لیکن انسانی قدموں سے بنی ہوئی پگڈنڈیوں کا اختتام نہیں۔
اسٹیشن ماسٹر نے پھر مونچھیں اٹھائیں اور بولا
’’تم کون ہو؟‘‘
جے رام نے ایک سرد آہ بھری اور بولا
’’میں کون ہو؟ — میں ایک مسافر ہوں بابا۔‘‘
مسافر کا لفظ ہم شکست پسندوں کی لغت میں ایک خاص معنی رکھتا ہے۔ ایک خاص انداز میں ’’مسافر‘‘ کہنے سے دو سننے والے ایک ہی دُنیا میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ایسی دنیا میں جہاں ٹکٹ پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اور اس بے حد جذباتی اور روایات کا منظر لیے ہوئے لفظ سے، گفتگو اور ہی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اسٹیشن ماسٹر ،جس کے پردادا کو لقوہ کی شکایت تھی، کچھ تتلایا۔ پھر اُس نے اپنا ہاتھ ران پر مارا۔ اور پھر ایک لمبی سرد آہ بھرنے کے بعد انجن کی طرح بھاپ چھوڑتے ہوئے بولا۔
’’ہو بابا— ہر شے مسافر ہر چیز راہی!‘‘
اور پھر ٹرمینس اسٹیشن والوں کے لیے مسافر کا لفظ ایک خاص وسعت اور حدود رکھتا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ایک فرسودہ سا مصرعہ دُہرایا ؎
’’اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے۔‘‘
اور یہ مصرعہ اسٹیشن ماسٹر نے کسی شاعر کے دیوان کی بجائے، لاری کے ایک تختے پر خدا کے ہندو، سکھ اور مسلم ناموں کے درمیان مقیّد اور محفوظ پڑھا تھا اور شرابی ڈرائیور کی ہر ممکن غلطی اور ٹھرّے کا جواز تھا۔ یکایک اسٹیشن ماسٹر کو پتہ چلا کہ اس مصرعے کے پڑھنے سے وہ یکلخت اپنی جیورس ڈکشن سے پرے، ذلیل لاریوں اور پرندوں کی دنیا میں چلا گیا ہے۔ اس نے بات کا رُخ بدلتے ہوئے سورداس کی ایک چوپائی پڑھی اور بولا
’’ہو بابا —یہ دنیا مسافر خانہ ہے — ہر ایک کو آنا جانا ہے— یہ سنسار متھیا مایہ ہے — کوئی اپنا ہے نہ پرایا ہے—‘‘
اس بات کے بعد جے رام نے اپنے آپ کو اسٹیشن ماسٹر کے بہت قریب محسوس کیا اور وہ اس کے پاس لاٹھی ٹیک کر بیٹھ گیا۔ اس زمین میں کچھ دیر طبع آزمائی کرنے کے بعد رسمیات میں داخلہ ہوا۔ اسٹیشن ماسٹر نے پوچھا۔
’’آپ کا دولت خانہ کہاں ہے؟‘‘
جے رام نے مسکراتے ہوئے اپنی کرم خوردہ بتیسی دکھائی اور اپنے مذہبی اور ملّی انکسار سے بولے ’’میرا غریب خانہ ٹھٹھر ہے— اور آپ کا؟‘‘
’’میں ہمیرپوریا ٹھاکر ہوں—‘‘
’’بندہ‘‘ کی جگہ ’’میں‘‘ کا لفظ آ جانے سے جے رام کو اچنبھا ہوا۔ لیکن اسٹیشن ماسٹر سچّا تھا۔ ٹھاکر بندے نہیں ہوتے۔ یہ تو بہت کیا کہ وہ ’’میں‘‘ ہو گئے، ورنہ ’’ہم‘‘ سے ورے کوئی صیغہ استعمال نہیں کرتے۔ جے رام کچھ جھینپ گیا۔ یکایک اُسے خیال آیا کہ ٹھاکر ٹھٹھر گانو کے داماد بھی ہیں اور اگر مصلحت اپنے بے ہنگم پن کی بنا پر گدھے کے سے ناقابلِ قبول جانور کو اپنا باپ بنا لیتی ہے، تو ایک نوع سے اسٹیشن ماسٹر کو اپنا داماد متصور کر لینے سے کون سا گناہ ہوتا ہے۔ جے رام نے باچھیں کھلاتے ہوئے خوشامدانہ لہجہ میں کہا۔
’’ہو ٹھاکرے!— ٹھاکروں کے ہاں ہمارے ٹھٹھر کی بھی ایک لڑکی ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘ اسٹیشن ماسٹر نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا ’’میرے بڑے بھائی کی بیوی ٹھٹھرانی ہے۔‘‘
جے رام لاٹھی چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے کمبل میں اپنے بازو پھیلا دیے، اور یوں دکھائی دینے لگا، جیسے کوئی گدھ پرواز کرنے لگی ہو۔ آنکھوں کو سیکڑکر اس نے ایک مرتبہ پھر اسٹیشن ماسٹر کی طرف غور سے دیکھا اور بولا
’’تم کیدارے کے چھوٹے بھائی ہو؟ بجّوباورے … ہے ہے ہے بجّوباورے…‘‘ اور جے رام پھر ہنسنے لگا۔
اسٹیشن ماسٹر نے اِدھر اُدھر دیکھا ،جیسے کوئی آناً فاناً ننگا ہو جانے پر اِدھر اُدھر دیکھا کرتا ہے۔ ایک مسافر قریب ہی کھڑا اس عجیب و غریب نام کو سُن کر مسکرارہا تھا۔ اسٹیشن ماسٹر نے راز داری میں جے رام کو آنکھ ماردی اور سر کو ایک جھٹکا دیا۔ گویا کہہ رہا ہو ’’ہوں تو بجّو باورا، لیکن یار چپ رہو۔ یہاں ذرا عزّت بنی ہوئی ہے اور مادھو لال کے نام کے سوا مجھے اور کوئی کسی نام سے نہیں جانتا۔‘‘ جے رام نے دونوں ہاتھوں میں اسٹیشن ماسٹر کا ہاتھ بھینچ لیا اور بازو گویا کلول کے لیے اس کے گلے میں ڈال دیے اور نسبتاً اونچی آواز میں بولا۔’’چھوڑو یارو۔ لوگوں کے لیے تم ہو گے مادھو وادھو۔ پر جے رام کھٹ کے لیے تم بجّو باورے ہو۔ اُف!— اُف! کتنی دیر کے بعد تمھیں پایا ہے اور یہ نام ہم نے بھارت ورش کے پرسدھ گویّے کے نام پر تمھیں دیا تھا۔ یاد ہے تم نے ٹیکرے چنت پورنی پر ایک بہت ہی بھدّی آواز میں مالکونس کی دھن الاپی تھی، تب سے … ہوہو …۔‘‘
اسٹیشن ماسٹر کو سب کچھ یاد تھا، لیکن وہ اُسے بھولنا ہی قرینِ مصلحت سمجھتا تھا۔ اس وقت بندر نے ایک زقند لگائی اور مادھو لال کے کندھے پر آ بیٹھا۔ مادھو لال نے متوجہ ہوئے بغیر ایک خفیف سی بھَوں چڑھائی اور اسے ایک طرف ہٹا دیا۔
جے رام بولا ’’بجّو باورے! تمھارے ہاں کتنے بندر ہیں؟‘‘
’’کبھی بہت تھے۔ اب تو روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ مادھو لال نے جواب دیا اور ایک معلوماتی بات سُنانے کا فخر حاصل کرتے ہوئے بولا۔ ’’یہ بندر بہت مفید جانور ہے۔ سنتے ہیں کوئی ڈاکٹر وارنوف ہے ،جس کے تجربوں کے لیے یہاں کے بندر پکڑ کر لے جائے جا رہے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر وارنوف؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کوئی روسی ڈاکٹر ہے؟‘‘
’’ہاں—‘‘
’’کیا کرتا ہے وہ بندروں کا؟‘‘
شُترکینہ صفت مادھو لال نے اسی دم بجّو باورے کا بدلہ چکاتے ہوئے کہا ’’جب کوئی شخص تم سا بوڑھا ہو جاتا ہے اور کسی قابل نہیں رہتا، تو اس میں بندروں کے غدود شامل کر دیتے ہیں۔ پھر وہ نئے سرے جوان بن جاتا ہے…‘‘
شاید جے رام کے ذہن میں شہر کا کوئی اشتہاری مضمون چکّر لگانے لگا۔ ’’یہ سائنس بھی کیا واہی تباہی ہے۔‘‘ جے رام نے کہا اور مسکرا دیا۔ مرد اپنی قوت کے متعلق کوئی ایسی ویسی بات برداشت نہیں کرتا، اس لیے جے رام نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ان سفید بالوں سے بڈھا نہ سمجھ لینا بجّو باورے!‘‘
اور دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ جے رام بولا ’’اِن غدودوں سے بندر کی سی پھُرتی بھی پیدا ہو جاتی ہو گی؟‘‘
’’یہ تو نہیں کہہ سکتے‘‘ مادھو لال بولا ’’لیکن بھائی یہ تجربہ خوب ہے۔ ڈاکٹر وارنوف کا، اور اسے اپنے تجربے کے لیے بندر بھی ہردوار ،چنت پوری وغیرہ سے ہی ملتے ہیں۔ یہ لوگ آئینہ میں اپنا منھ دیکھتے، ورنہ اُنھیں ہندستان کا رُخ نہ کرنا پڑتا۔ اب چند برسوں سے یہ بندر پکڑے جا رہے ہیں۔ وقت آئے گا یہاں ایک بھی نہ ہو گا اور سچ پوچھیے تو مہابیر کی مورتیاں اب بھی کم دکھائی دیتی ہیں۔ اسٹیشن کے چار بابوؤں، پانچ خلاصیوں، جیحون کے پجاریوں اور مہابیر دل والوں نے ایک میموریل وائسرائے کو بذریعہ تار بھیجا ہے۔ لیکن دوست! یہ تو میں بھول ہی گیا تھا، میں نے تمھیں پہچانا نہیں۔ شکل بہت بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے —کہیں خفیہ پولیس مین تو نہیں؟‘‘
’’ہو ہو ہو …‘‘
جے رام نے اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔
’’میں آتوکھٹ کا بیٹا ہوں۔ منجھلا بیٹا —پہچانا؟—جس کا بڑا اور چھوٹا بھائی دونوں لاہور کے پاگل خانے میں ہیں۔‘‘
اس معمولی سے اشارے سے مادھو لال کو سب کچھ یاد آ گیا۔ ہماری دُنیا ہوشیاروں کی نسبت پاگلوں کو زیادہ یاد رکھتی ہے اور زندہ لوگوں کی بہ نسبت مرے ہوئے لوگوں کے گناہ فوراً بخش دیتی ہے۔ مادھو لال بولا
’’میں آتوکھٹ کے سب بیٹوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں— بچپن میں ہم نے ایسی شرارتیں کی ہیں جن کی یاد آتی ہے تو شرم سے گردن جھک جاتی ہے۔ لیکن وہ بچپنا تھا نہ آخر —— کہو، تم اتنے دنوں رہے کدھر؟‘‘
اس وقت اندھیرا پوری طرح اپنا تسلّط جما چکا تھا۔ آسمان پر ستارے اور شیڈ میں چمگادڑ ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ہوئے تھک چکے تھے۔ اور املی کے درختوں میں اپنے گھروندے یا لوہے کے کسی گارڈر کے ایک کنارے لٹک گئے تھے۔ ٹھٹھر جانے والی روشنیاں ایک کہکشاں سا بن گئی تھیں ۔ جے رام نے حکیمانہ انداز میں اپنی ٹھوڑی تھامتے ہوئے کہا۔
’’میری کیا پوچھتے ہو بابا! بہت سے کھیل کھیلے ہیں، بہت چوٹیں کھائی ہیں، اب آخر میں ایک بڑے وکیل کا منشی تھا۔ اس سے پہلے عدالت میں ریڈر تھا۔ یہ قانون تو میری انگلیوں کی پوروں میں ہے۔‘‘
’’یہ بات ہے‘‘ مادھو لال نے مصافحہ کے لیے ہاتھ پھینکتے ہوئے کہا ’’میرا ایک عزیز تین سو دو(302) میں دھر لیا گیا ہے — آتُو—کیا نام ہے تمھارا؟‘‘
’’جے رام!‘‘
’’جے رام!— اچھا تم اپنی کہہ لو۔ پھر میں اس مقدمہ کی کہوں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں— تم کہو۔‘‘ جے رام نے مادھو کو تھپکتے ہوئے کہا اور پھر خود ہی بولنے لگا۔ ’’کسی کے سامنے اپنی مونچھ نیچی نہیں ہونے دی۔ یہ اپنا دھرم نہیں —اور نہیں تو آج ایک پورے ضلع کا مجسٹریٹ ہوتا۔‘‘
مادھو لال نے پلٹ کر اپنے سامنے بظاہر ایک رذیل آدمی کو دیکھا، جو اپنی لاٹھی سے زمین پر حلقے بنا رہا تھا اور تیکھی اور مسلسل نظر سے اسے گھور رہا تھا۔ اس نظر کی تاب نہ لاتے ہوئے مادھو لال نے منھ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس بہ ظاہر رذیل آدمی کی باتوں میں کچھ ایسا خلوص تھا کہ قائل ہوتے ہی بنتی تھی۔ جے رام نے ایک سرد آہ بھری اور ناک کے رقیق لعاب کو کمبل کے ایک کونے سے پونچھتے ہوئے کہنے لگا
’’لادی کا بیل جب بھاگے گا، گھوم پھر کر لادی کے پاس آکھڑا ہو گا۔بڑے منصف سے لڑائی ہوئی تو ریڈری چھوڑ کر وکیل کا منشی ہو گیا ۔یہ میرا آخری پیشہ ہے، اس سے پہلے میں بیس پیشے اختیار کر چکا ہوں۔‘‘
مادھو لال نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’تمھیں بھوک تو لگی ہو گی جے رام۔‘‘
جے رام نے پیٹ پر ہاتھ مارا اور بولا ’’ہاں، ہے تو—بھوک سے ناف کے نیچے ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے اور یوں ڈکار آ رہے ہیں، جیسے برسوں کے لیے کھا لیا ہے۔‘‘
’’اچھّا تو چلتے ہیں—چلو—‘‘ اور مادھو لال نے اپنے پوربی خلاصی کو آواز دیتے ہوئے کہا ’’اے سکھوئی۔ بندریا کے نندوئی۔‘‘
ایک کالا سیاہ آدمی، جس کی آنکھیں مشعل کی طرح روشن تھیں، قریب آنے لگا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اندھے کنوئیں پر وہی لٹک رہا تھا۔ اور یوں بھی لنگور ،بندریا کا نندوئی ہوتا ہے۔ سکھوئی لیمپ روم سے ہاتھ میں مٹی کے تیل اور راکھ سے آلود ایک چیتھڑا لیے ہوئے آ کھڑا ہوا اور بولا۔
’’کیا حکم ہے سرکار؟‘‘
’’دیکھو، لالہ کی گٹھڑیاں اٹھا لو۔ پھینک دو اِس چیتھڑے کو؟‘‘
سکھوئی نے ایک گٹھڑی اٹھائی۔ غم کی گٹھڑی۔ مادھو لال نے کم از کم وقتی طور پر اٹھا لی تھی اور جے رام کچھ سبک سا محسوس کرتا ہوا ساتھ ہولیا۔ راستے میں بہت دیر خموشی رہی۔ کبھی کبھی اندھیرے میں پتھّروں سے ٹھوکر کھانے پر ’’اوہ‘‘ کی آواز پیدا ہوتی۔ آخر جے رام بولا ——
’’دراصل میں دُنیا سے بہت اُچاٹ ہوں باورے! بہت اُچاٹ ہوں۔ اس لیے میں اِدھر بھاگ آیا ہوں۔ میں نے بہت دولت برباد کی ہے،لیکن کچھ بن نہیں سکا ہے۔ میری طبیعت میں چند ایسے مستقل نقص پیدا ہو گئے ہیں، جنھیں میں کوشش کے باوجود ٹھیک نہیں کرسکا۔‘‘
مادھو لال سنتا گیا۔ جے رام بولتا گیا۔ ایک مقدس گرنتھ میں لکھا ہے— ’’کتنے ہی جوبن ہیں جو محبت کے بغیر مرجھا گئے ہیں‘‘ اور دراصل میری عادتوں، میری سب بے اعتدالیوں، میرے نشے، میرے تلوّن سب کا کارن یہی ہے کہ میرے ساتھ کسی نے محبت نہیں کی۔ میں نہیں جانتا، آج تک نہیں جانتا محبت کسے کہتے ہیں۔ کرتارپور میں تیس سال پہلے ایک واقعہ پیش آیا تھا— ایک نوجوان لڑکی میری طرف دیکھ کر مسکرائی تھی۔ لیکن چھوڑو اس بات کو باورے۔ اب تک تو وہ آٹھ دس بچّوں کی ماں ہو چکی ہو گی— اور کیا معلوم وہ اب کرتاپور میں ہو بھی یا نہیں۔‘‘
اس سال لامحدود فضا میں چند خاکے پیدا ہونے شروع ہوئے اور سکھوئی خود بخود ایک جگہ پر جا کر رُک گیا۔ یہ کمرہ پتھروں سے بنے ہوئے ایک خوبصورت کوارٹر کا ذیلی حصہ، اس کا ضمیمۂ محض تھا، جس کا ایک دروازہ غائب تھا۔ دوسرا دروازہ کھُلنے پر میل اور مٹی کا تعفّن باہر کی طرف لپکا۔ اس کمرے کا اندر ایک اور دروازہ اسٹیشن ماسٹر کے کمرہ میں کھلتا تھا۔ جس کی درز میں سے روشنی کی ایک گھٹی ہوئی کرن کمرے کے خاکی ذرّات کو تیرتے ہوئے دکھا رہی تھی۔ دوسری طرف سے باورے کی نوجوان لڑکیوں کی غٹرغوں بھی سُنائی دے رہی تھی۔ کمرے کے ایک طرف پیال بچھی ہوئی تھی۔ یہاں مادھو لال اپنی گائے باندھا کرتا تھا،جو اِن دنوں بیانے کے لیے باہر بھیج دی گئی تھی۔ سکھوئی نے اشارہ پاکر جے رام کا بستر پیال پر پٹک دیا اور جے رام بستر کھولنے لگا۔
جے رام کے دل میں ایک خلش پیدا ہوئی۔ کاش! اُسے بھی گھر کا ایک فرد سمجھا جاتا اور ادھر کسی نرم و گرم کونے میں جگہ دی جاتی ۔ لیکن مہمان نوازی بھی مرتبے کے تلوے چاٹتی ہے، اور وہ خاموش رہا۔
تھوڑی دیر بعد کھانا اور کھاٹ آ گئی۔ جے رام کو اپنی حالت پر رحم آنے لگا۔ اس کے تخیّل میں رفعت تھی، جس نے پیال کی دنیا کا خلا پاٹ دیا تھا۔ باورے نے بھی کھانا کھایا اور ڈکار لیتے ہوئے بولا ’’بس دال پھُلکا ہی ہے۔‘‘جس کا مطلب تھا کہ اس کے اہتمام کا بار بار تذکرہ کیا جائے اور مزید برآں شکریہ بھی ادا ہو۔ لیکن تحسین و شکریہ میں جے رام نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا تھا۔باورا اور بھی زیادہ منکسرانہ لہجہ میں بولا— ’’بس تمھارے پانو کی خیریت پرماتما نے سبھی کچھ دیا ہے۔ دودھ ہے، پوت ہے، بھاگوان بیوی ہے…‘‘
جے رام کو یہ بات خوش نہیں کرسکتی تھی۔ اسے زندگی میں یہ سب نعمتیں یا تو میسّر ہی نہیں آئی تھیں اور جو میسّر آئیں، وہ وفا نہ کرسکیں۔ وہ دوسروں کی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ اس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ اس نے ڈبیہ نکال کر کچھ پھانکا اور اپنی بے چینی کے نکاس کے لیے بات کا رُخ بدلتے ہوئے بولا
’’کچھ روزگار کی کہو باورے—‘‘
شاید اگر مادھو لال مقروض ہوتا تو اس کے دل کو ایک نوع کی خوشی ہوتی، لیکن مادھو لال بولا’’میں یہاں اے کلاس کا اسٹیشن ماسٹر ہوں۔ چند مہینوں میں بی کلاس کا ہو جاؤں گا اور ایک بڑا جنکشن اسٹیشن ملے گا۔ یہاں قریب ہی ایک اسٹیشن کے لیے کوشش کر رہا ہوں جہاں سے سارے پنجاب میں سلیپر جاتے ہیں اور مونگ پھلی۔ فی سلیپر چار آنے اور فی بوری مونگ پھلی دو آنے ملتے ہیں۔
جے رام نے گھبرا کر بات کاٹ دی۔ ’’ابھی تمھاری نوکری کافی ہو گی۔‘‘
مادھو لال بولا۔’’ابھی بہت کافی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ریٹائر ہونے سے پہلے میں سی کلاس کے اسٹیشن پر قائم مقام اسٹیشن ماسٹر تو ہو سکوں گا۔‘‘
اس کے بعد مادھو لال اٹھ کر چلا گیا۔ جے رام کی بھی یہی خواہش تھی۔ وہ پہلے ہی اپنا منھ چھپانے کے لیے بستر ٹٹول رہا تھا۔ سونے کی کوشش کے باوجود جے رام کو نیند نہ آئی۔ اُسے مادھو لال سے حسد پیدا ہو گیا تھا۔ اسے اپنی دنیا، اس بیل کی مانند دکھائی دینے لگی جو بڑے سے درخت پر چڑھتی ہے، بڑھتی ہے لیکن پُروایا، پچھوایا کے پہلے ہی جھونکے پر سڑ جاتی ہے۔
گیلی پیال کی سڑاند سے جے رام بہت بیزار ہوا۔ صبح سویرے کچھ آنکھ لگی، تو مرغیوں کی غٹرغوں نے اُسے جگا دیا۔ جے رام اٹھا اور اس نے دروازے کے قریب ہو کر باہر جھانکا۔ دور کرین پتھروں کا دانہ دنکا چگ رہا تھا اور اس کے ارد گرد مزدور یوں چمٹے ہوئے تھے جیسے پُر مغز ہڈی کے اردگرد چیونٹیاں چمٹ جاتی ہیں۔ کچھ بندر گھنے پیپل سے مسافرخانے کی چھت پر اتر آئے اور اسے وارنوف کی تجربہ گاہ بنا دیا تھا۔ نیچے مسافر، اسٹیشن کے اندر داخل ہونے کے لیے ایک دوسرے میں اُلجھ رہے تھے۔ حالاں کہ کوئی خاص بھیڑ نہ تھی، لیکن یہ افراتفری مسافروں کی زندگی کا ایک جزو بن چکی تھی۔ باہر نکلتے تھے تو افراتفری دکھاتے تھے اور اندر آتے تو سراسیمگی کا اظہار کرتے—! مادھو لال کے سامنے ہی کسی نے ایک گنوار کو دھکّے دے کر چند لاتیں اور گھونسے رسید کیے۔ لیکن وہ شخص پھر سے صافہ باندھ آنکھیں جھپکاتا ہوا اسی جگہ آکھڑا ہوا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں…‘‘
جے رام کے دل میں پھر باورے کی مطمئن دُنیا اور اس کا شاندار مستقبل پیدا ہوا گیا۔ایک دم حبس سا محسوس کرتے ہوئے جے رام اُٹھا اور اپنے کپڑے لتّے سمیت باہر نکل آیا۔ اس جلدی میں اس نے اپنے میزبان کا شکریہ تک ادا نہ کیا۔
باہر نکل کر وہ چند غلیظ اور تندرست پٹھوؤں کے پاس پہنچا اور بولا— ’’کیوں بھائی ٹھٹھر چلو گے؟‘‘
پانچ چھ پٹھو جے رام کے بوجھ کے لیے دوڑے اور پھر ایک ساتھ اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے آپس میں لڑنے لگے، لیکن اور ایک آدمی ٹھٹھر جانے کے لیے دکھائی دیا تو سب کے سب جے رام کا بوجھ رکھ کراس کی طرف بھاگے اور پھر وہاں بھی وہی ہا تھا پائی شروع ہو گئی۔جے رام پٹھوؤں کی اس حرکت سے اندازہ نہ کرسکا کہ کیوں اس کی گٹھڑی پہلے تھامی اور پھر ایکا ایکی پھینک دی گئی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی وجہ کا پتہ چلا۔ پٹھو اکیلے ہی دو مسافروں کا بوجھ اُٹھانا چاہتے تھے۔ایک جسمانی طاقت کے لحاظ سے سب پر حاوی تھا۔ دوسرے مسافر کی گٹھڑی لے کر جب وہ جے رام کے بوجھ کے لیے لپکا تو جے رام نے للکارا ’’خبردار ! اگر اسے کسی نے ہاتھ لگایا تو۔‘‘
سب کے سب اس پیر فرتوت کی شکل دیکھنے لگے جو کہ اَب گٹھڑی پر دھرنا مارے منھ میں فحش گالیاں منمنا رہا تھا۔ دوسرا مسافر جانتا تھا کہ جب تک پٹھّو دوسرے کے بوجھ سے لد نہیں جائے گا، یہاں سے نہیں ہلے گا۔ اس نے جے رام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
’’لالہ! دے دو بوجھ اپنا — دیتے کیوں نہیں، آؤ چلیں۔‘‘
جے رام نے قہر آلود نگاہیں اس نئے مسافر کی طرف اٹھائیں، اور پھر یہ جان کر کہ یہ میرے ہی گانو کا آدمی ہے، چُپ ہو گیا، ورنہ جھپٹ ہو جاتی۔ نئے مسافر کا جگر خراب تھا۔ آنکھوں کے نیچے بڑے بڑے تھیلے تھے اور آنکھوں کے اندر ککروں کی سُرخی دکھائی دیتی تھی۔ وہ ککروں کی خارش سے تسکین پانے کے لیے بار بار اپنے بے حد غلیظ کوٹ کے کفوں کو باری باری آنکھوں پر رگڑتا۔ کچھ لب بسور کر اور آنکھیں پھیلا کر وہ پھر بولا — ’’تھوک دو غصّہ۔‘‘
جے رام نے کہا ’’لالہ اگر انسان ہو تو ان بندروں کو سبق سکھانے کے لیے بوجھ یہاں رکھ دو۔ پھر اکٹھے جائیں گے۔‘‘
لالہ نے مان لیا اور دونوں اکٹھے بیٹھ گئے۔ جے رام بولا ’’ٹھٹھر میں تمھارا کون ہوتا ہے؟‘‘
’’میں بیس سال سے ٹھٹھر میں رہتا ہوں۔ اگرچہ میرے جیون میں تین مکان ہیں، جن کا تیرہ روپیہ ہر ماہ کرایہ آتا ہے، پھر بھی میں ٹھٹھرمیں رہنا پسند کرتا ہوں۔ وہاں کا پانی آنکھوں کے لیے اچھا ہے۔‘‘
’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘
’’اَماوٹ بیچتا ہوں۔ جب آموں کی فصل ہوتی ہے تو سینکڑوں من آم ایک بڑے احاطے میں صفوں پر بچھا دیے جاتے ہیں۔ پٹھو پانو دھوکر اُن میں گھومتے ہیں اور اپنے پانو سے ان کا ملیدہ بنا دیتے ہیں اور پھر اس ملیدہ کو صاف کر کے اور سکھاکر اَماوٹ بنایا جاتا ہے۔‘‘
جے رام نے دور انجن کو پانی پی کر ٹھوکر کے قریب پہنچتے ہوئے دیکھا۔ اُسے خیال گزرا کہ انجن ٹھوکر سے ٹکرا کر یا تو خود اُلٹ جائے گا، اور نہیں تو ٹھوکر کو پاش پاش کر دے گا۔ جے رام کا اندر کا سانس اندر اور باہر کا باہر رک گیا اور وہ اپنی گٹھڑی پر سے اُٹھ کر لاٹھی کے سہارے کھڑا ہو گیا اور انجن کی طرف دیکھنے لگا۔ ٹھوکر کے قریب انجن کے کھڑے ہو جانے سے جے رام نے اطمینان کاسانس لیا اور واپس اپنے بوجھ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔’’اماوٹ کا بیوپار کرنے والے تمھارے سب لوگوں کو جانتا ہوں۔‘‘
’’کیسے جانتے ہو؟‘‘ لالہ نے پھر کفوں سے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا ’’میں ٹھٹھر ہی کا باسی ہوں۔ آتوکھٹ کا بیٹا۔ چھوٹا اور بڑا بھائی پاگل خانے میں ہیں۔‘‘
لالہ اُٹھ کھڑا ہوا اور اس نے آتو کے بیٹے سے پُر جوش مصافحہ کیا۔ وہ دونوں چند لمحے ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے رہے۔ لالہ اپنا سر بھی ہلاتا رہا۔ گویا اُسے کسی ذہنی الجھن کا حل مل رہا ہو۔ جے رام نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ’’لیکن لالہ! تمھارے خاندان کے سب لوگوں میں اماوٹ کی تُرشی ہوتی ہے اور تم میں ترشی نام کو نہیں؟‘‘
لالہ ہنس دیا۔ جے رام نے جیب میں سے ایک تھیلی برآمد کی اور اس میں سے تمباکو نکال کر ہتھیلی پر مسلا اور پھانک گیا۔ اس وقت آسمان صاف تھا اور سورج نکل آیا تھا، جس کے نمودار ہوتے ہی دھُند اترنے لگی اور اس کی وجہ سے سورج اپنی آب و تاب کھو کر ایک کانسی کا تھال دکھائی دینے لگا۔ لالہ کی رعشہ والی آنکھوں کے لیے یہ روشنی بھی زیادہ تھی۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا اور جے رام کے کریدنے پر بولا
’’گھی اور اَماوٹ کے سب بیوپاری گندے رہتے ہیں۔ ان کے ارد گرد مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن اس اَماوٹ کی بدولت میں نے تین چار مکان بنا لیے ہیں اور یہاں سے کئی من اماوٹ ہر سال شہر لاہور کو لے جاتا ہوں۔ کل ہی واپس آ کر تین بیسی کم دو ہزار کی وصولی کرنے جا رہا ہوں—‘‘
جے رام نے یک لخت لالہ کی باتوں میں دلچسپی ختم کر دی اور ٹھٹھر جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور بولا۔’’لاہور؟‘‘—لاہور بہت بڑا شہر ہے۔ وہاں سب کچھ بک جاتا ہے۔ غلاظت، اماوٹ سبھی کچھ بِک جاتا ہے۔‘‘
پٹھو کچھ دُور کھڑے بے صبری سے اُن دونوں کی باتیں سن رہے تھے۔ کچھ مایوس ہو کر چلے گئے اور کچھ اپنے ٹوکروں کے سہارے کھڑے رہے۔ دُور سے ایک اور سواری دکھائی دی اور سب کے سب اس کی طرف دوڑے۔ جے رام نے پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا
’’چہ چہ —لالہ تم بہت امیر ہو گئے ہو۔ لیکن اس امارت کا فائدہ ہی کیا؟— تمھاری اپنی پوشش— یہ دیکھو، کمائی تو بازاری عورتوں کی بھی بہت ہوتی ہے، لیکن پیشے پیشے میں فرق ہے نا؟‘‘
لالہ نے آنکھوں پر روک بناتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی، کہ یہ آتو کھٹ کا بیٹا بول رہا ہے اور پھر اپنے کپڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’تم چاہتے ہو، تمھیں ساری بھی ملے اور چُپڑی ہوئی بھی— یہ دو باتیں ناممکن ہیں۔‘‘
اس اثنا میں ایک پٹھو تیسرے گاہک سے بھی مایوس ہو کر لوٹا۔ لالہ نے جلدی سے اسے اپنا بوجھا اٹھوا دیا اور کچھ دور جا کر ٹھہر گیا۔ پیچھے کی طرف گھوما اور ایک پورا پنجہ اور ایک انگلی دکھاتے ہوئے بولا ’’اس فصل میں چھ سو من اماوٹ شہر لے جاؤں گا۔ اور ہو سکاتو ایک ہزار —‘‘ اور ایک ہزار کہتے ہوئے اس نے اپنے دونوں پنجے پوری طرح پھیلا دیے اور اپنا بوجھ آپ ہی اٹھائے گھاٹی کی طرف بڑھا۔ جے رام اس کے غائب ہونے تک اس کے میزان سے بازو، کبھی ایک طرف سے نیچے اور کبھی دوسری طرف سے اوپر ہوتے ہوئے دیکھتا اور منھ میں کچھ بڑبڑاتا رہا۔ حتیٰ کہ لالہ ایک چٹان کے پیچھے غائب ہو گیا۔
اس وقت انجن واپس لائنوں کے ایک جال میں الجھنے کے لیے جیحون دوآبہ ٹرمینس چھوڑنے کے لیے تیار تھا۔ وہ ادھر رُخ کیے ہوئے تھا، جدھر سینکڑوں جنکشن اسٹیشن اور سی کلاس کے اسٹیشن ماسٹر تھے۔ اور ہر سال ہزاروں من اماوٹ کی کھپت تھی۔ انجن ایک خوش بلّی کی طرح خُوخُو کر رہا تھا۔ اس کی آواز کبھی اونچی اور کبھی مدھم ہو جاتی۔ کبھی ایک اونچی سیٹی بازار میں کھیلنے والے بچوں کو ڈرا دیتی، یا خلاصیوں، سگنل مینوں کے نڈر بچّے انجن کی نقل میں سیٹیاں بجانے لگتے اور ایک دوسرے کی قمیص پکڑ کر ایک ہاتھ سے پسٹن بناتے ہوئے چلنے لگتے۔
جے رام نے اس پریشانی کے عالم میں گٹھڑی اٹھائی اور مسافر خانے کی طرف چل دیا۔ دنیا کتنی وسیع اور لامتناہی تھی، لیکن اس پر اس کا ظرف کس قدر تنگ ہو گیا تھا۔ مسافر خانے میں بھیڑ صاف ہو رہی تھی۔ کچھ دیر بعد ایک خوش پوش سامنے آیا اور بولا۔
’’میں ٹکٹ لینا چاہتا ہوں بڈھے! کیا میرے اس اٹیچی اور بستر کا خیال رکھو گے؟‘‘
جے رام نے اس خوبصورت چھوکرے کی طرف دیکھا اور اس سے پہلے کہ وہ اثبات میں اپنا سر ہلائے، نوجوان اپنا سامان رکھ کر جا چکا تھا۔ جے رام ایک مطیع خادم کی طرح ان چیزوں کے پاس کھڑا ہو گیا۔ وہ نوجوان کچھ دیر کے بعد ٹکٹ لے کر لوٹا اور جے رام نے پوچھا۔
’’صاحب بہادر! کدھر جا رہے ہیں آپ؟‘‘
نوجوان نے یہ خطاب پسند کیا۔ اس نے خوش ہو کر ایک سگریٹ سلگایا، ایک ادا سے دِیاسلائی کو بجھا کر پانو تلے مسلتے ہوئے وہ قریب قریب سارے کا سارا گھوم گیا اور بولا
’’میں بہت دور جا رہا ہوں، بڈھے بہت دور—‘‘
’’دور—؟‘‘
’’ہاں دور — تمھارے قیاس سے پرے—‘‘
’’کیا سان فرانسسکو جا رہے ہو آخر؟‘‘
نوجوان نے حیران ہو کر جے رام کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں بڈھے کی جغرافیائی علم سے مرعوب ہوتے ہوئے بولا’’بمبئی جا رہا ہوں بابا۔‘‘
’’بمبئی —؟ —ہے تو دور ہی ‘‘جے رام سوچتے ہوئے بولا۔’’سیر کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘
’’میں ایک فلم کمپنی میں ایکٹر بھرتی کر لیا گیا ہوں بابا— ابھی مجھے ولین کا پارٹ ملا ہے۔ ولین سمجھتے ہو نا؟ وہ چھوکرا جو عاشق اور معشوق کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور جس کی لاتوں اور گھونسوں سے مرمت ہوتی ہے۔ لیکن مجھے ان لاتوں اور گھونسوں کی کوئی پروا نہیں —ولین کے بعد اگلا قدم ہے ہیرو— میں کچھ بنوں گا، بابا تمھاری دعا چاہیے۔‘‘
جے رام نے دعا کا ایک لفظ بھی منھ سے نہ نکالا۔ اس کی نگاہوں سے وحشت سی ٹپکنے لگی۔ اس نے جنگلہ پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ کانپ رہا تھا۔ نوجوان نے اپنا اٹیچی، ٹرنک اور بستر ایک پٹھو سے اُٹھوایا، اور پھاٹک کے پیچھے غائب ہو گیا۔ کچھ دیر کے بعد پُل پر اس کی ٹانگیں چلتی ہوئی دکھائی دیں۔ جے رام چند لمحے گومگو کے عالم میں کھڑا رہا۔ اچانک ایک خیال کے آنے سے اس کے منھ پر رونق آ گئی —اس وقت گاڑی چھوٹنے کی گھنٹی بجی۔ جے رام بھاگا اور ٹکٹ گھر کے سامنے جا کھڑا ہوا اور بہت سے پیسے نکال کر کھڑکی میں بکھیر دیے۔ تار بابو بولا
’’کدھر جاؤ گے بڈھے؟‘‘
’’کرتارپور—کرتارپور— ’’ جے رام نے دُہرایا اور گاڑی چھوٹنے سے چند ہی لمحہ پہلے جے رام گاڑی میں سوار ہو گیا۔ اس وقت جب کہ ٹھوکریں، یکہ و تنہا کرین، بجّو باورا اس کی نظروں سے غائب ہوا ، اُسے زندگی کافی دلچسپ دکھائی دینے لگی تھی۔
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید