فہرست مضامین
وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم وصیت
شیخ مقصود الحسن فیضی
حفظہ اللہ
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا (45) وَدَاعِیًا إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجًا مُنِیرًا (46) الاحزاب۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل بہت ہی اہم وصیتیں فرمائیں، کچھ باتوں کا امت کو حکم دیا اور کچھ باتوں سے منع فرمایا، بعض امور کی تاکید کی اور بعض کی تاکید اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک فرماتے رہے، اور بعض ایسے امور ہیں کہ ان کی تاکید و وصیت بار بار اور بڑے زوردار انداز میں کرتے رہے، عام لوگوں بھی کو کی، خاص لوگوں کو بھی کی، اپنے قریب ترین لوگوں کو بھی کی اور خاص خاص صحابہ کو بھی کی۔ انہیں وصیتوں میں ایک وصیت اس اہم امر سے متعلق بھی تھی جس سے دنیا میں شرک اور شخصیت پرستی کی بنیاد پڑی، یعنی نبیوں اور ولیوں کا مزار اور ان کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنے کی ممانعت۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس امر کی کیا اہمیت تھی اسے درج ذیل نقاط سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
عام حالات میں
چونکہ اس دنیا میں شرک کی بنیاد شخصیت پرستی اور قبر پرستی سے شروع ہوئی ہے اور اس دنیا میں بہت سی قومیں اللہ کی لعنت کی مستحق اسی وجہ سے ٹھہریں، اسلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں برابر امت کو اس سے متنبہ کرتے رہے، چنانچہ آپ نے فرمایا:
” قَاتَلَ اللَّہُ الْیَہُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ”
البخاری:437 الصلاۃ، مسلم: 530 المساجد، ابوداود: 3227 الجنائز، النسائی:4/95 بروایت ابوہریرۃ
اللہ کی لعنت ہو یہود پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبر کو مسجدیں بنا لیا تھا۔
یہی روایت مسند احمد 5/184٫185میں حضرت زید بن ثابت سے بھی مروی ہے، نیز ابن زنجویہ نے فضائل الصدیق میں حضرت ابوبکر الصدیق سے بھی روایت کیا ہے۔ دیکھئے علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب تحذیر الساجد ص28٫
ایک اور حدیث میں فرمان نبوی ہے: "سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُہُ السَّاعَۃُ وَہُمْ أَحْیَاءٌ وَمَنْ یَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَََََ”.
صحیح ابن خزیمۃ:789، صحیح ابن حبان:6808، مسند احمد1/405، الطبرانی الكبیر:10413 بروایت ابن مسعود.
میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جن پر قیامت قائم ہوگی اور وہ لوگ جو قبروں کو مسجدیں بنائیں گے۔
اپنی وفات سے پانج دن قبل
سَمِعْتُ النَّبِیَّ -صلی اللہ علیہ وسلم- قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ بِخَمْسٍ وَہُوَ یَقُولُ « 0000 أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا یَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ وَصَالِحِیہِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّی أَنْہَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ .
مسلم:532 المساجد، الطبرانی الكبیر:1686، بروایت جندب بن عبداللہ البجلی.
حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰ دھیان دینا تم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ، تم قبروں کو مسجد نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں۔
یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں الحارث النجرانی سے بھی مروی ہے:
عن عبد اللہ بن الحارث النجرانی قال حدثنی جدی قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبل أن یموت بخمس وہو یقول : (ألا وإن من كان قبلكم كانوا یتخذون قبور أنبیائہم وصالحیہم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إنی أنہاكم عن ذلك).
مصنف ابن ابی شیبۃ:7620، 3/366.
حضرت عبد اللہ بن حارث نجرانی بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰ دھیان دینا تم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کومسجد بنا لیا تھا ، تم قبروں کو مسجد نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں۔
بیماری کے بالکل آخری ایام اور آخری لحظات میں
لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَفِقَ یَطْرَحُ خَمِیصَۃً لَہُ عَلَی وَجْہِہِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِہَا كَشَفَہَا عَنْ وَجْہِہِ فَقَالَ وَہُوَ كَذَلِكَ لَعْنَۃُ اللَّہِ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا.
صحیح البخاری :435 الصلاۃ، صحیح مسلم: 531 المساجد، مسند احمد1/218و6/275، سنن النسائی 2/40.
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرض موت کی کیفیت طاری تھی تو آپ اپنی چادر کو بار بار چہرے پر ڈالتے، جب کچھ افاقہ ہوتا تو اپنے مبارک چہرے سے چادر کو ہٹا دیتے، اپنی اسی پریشانی کی حالت میں فرمایا: اللہ کی پھٹکار ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا، آپ یہ فرما کر امت کو ان کے کارناموں سے متنبہ کر رہے تھے۔
ایک اور حدیث میں ہے: عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْرِجُوا یَہُودَ أَہْلِ الْحِجَازِ وَأَہْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ.
مسند احمد1/196، مسند ابویعلی:872، 2/177.
حضرت ابو عبیدہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ حجاز کے یہود اور اہل نجران کو جزیرہ عربیہ سے باہر نکال دینا اور یاد رکھو کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جو اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لئے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ کی یہ حدیث بھی پڑھیں:
علی بن أبی طالب یقول لقینی العباس فقال یا علی انطلق بنا إلی النبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فإن كان لنا من الأمر شئ وإلا أوصی بنا الناس فدخلنا علیہ وہو مغمی علیہ فرفع رأسہ فقال لعن اللہ الیہود اتخذوا قبور الأنبیاء مساجد، ثم قال: فلما رأینا ما بہ خرجنا ولم نسألہ عن شئ .
تاریخ دمشق 42/426، الطبقات الكبری4/28.دیکھئے تحذیر الساجد 27۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری کے ایام میں میری ملاقات حضرت عباسؓ سے ہوئی، انہوں نے مچھ سے کہا : اے علی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد حکومتی معاملات میں ہمارا کچھ حصہ ہے کہ نہیں، اگر نہیں ہے تو آپ ہمارے بارے میں لوگوں کو کچھ وصیت کر دیں، چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ پر غشی طاری تھی، پھر آپ نے اپنا سر اٹھا کر فرمایا : یہود پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا۔ پھر جب ہم نے آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو ہم باہر نکل آئے اور کچھ نہیں پوچھا۔
ازواج مطہرات کی خاص مجلس میں
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ لَمَّا اشْتَكَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِہِ كَنِیسَۃً رَأَیْنَہَا بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ یُقَالُ لَہَا مَارِیَۃُ وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ وَأُمُّ حَبِیبَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَۃِ فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِہَا وَتَصَاوِیرَ فِیہَا فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ أُولَئِكِ إِذَا مَاتَ مِنْہُمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَی قَبْرِہِ مَسْجِدًا ثُمَّ صَوَّرُوا فِیہِ تِلْكَ الصُّورَۃَ أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّہِ( یوم القیمۃ).
صحیح البخاری:427 الصلاۃ، صحیح مسلم:، مسند احمد6/51.
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب بیمار ہوئے تو آپ کی بعض بیویوں نے حبشہ کے ماریہ نامی ایک کنیسہ کا ذکر کیا جسے انہوں نے وہاں دیکھا تھا، کیونکہ حضرت ام سلمہؓ اور ام حبیبہ ؓ حبشہ کی زیارت کر چکی تھیں، لہذا انہوں نے اس کنیسہ کی خوبصورتی اور اس میں موجود تصویروں کا ذکر کیا تو آپ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا:یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے یہاں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر لیتے تھے، اللہ تعالی کے نزدیک سب سے برے یہی لوگ ہیں۔
صحابہ کو خصوصی تلقین
عن أسامۃ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فی مرضہ الذی مات فیہ : « أدخلوا علی أصحابی » فدخلوا علیہ وہو متقنع ببردۃ معافری فقال : « لعن اللہ الیہود اتخذوا قبور أنبیائہم.
مسند احمد5/204، الطبرانی الكبیر و مسند الطیالسی2/113 ترتیبہ امام نورالدین الہیثمی لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں المجمع 2/72۔
حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اس مرض کے ایام میں جسمیں آپ کی وفات ہوئی فرمایا : میرے صحابہ کو میرے پاس اندر آنے کی اجازت دو، چنانچہ لوگ آپ کے پاس آئے، اس وقت آپ ایک معافری چادر سے اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: یہود پر اللہ تعالی کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی ایک بیان پڑھئے:
قال لی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی مرضہ الذی مات فیہ ائذن للناس علی فأذنت فقال لعن اللہ قوما اتخذوا قبور أنبیائہم مساجد ثم أغمی علیہ فلما أفاق قال یا علی ائذن للناس علی فأذنت للناس علیہ فقال لعن اللہ قوما اتخذوا قبور أنبیائہم مسجدا قالہا ثلاثا فی مرضہ.
مسند البزار2/219 رقم الحدیث:438.
جس مرض میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہوا آپ نے مجھے حکم دیا کہ لوگوں کو میرے پاس آنے کی اجازت دو، میں نے اجازت دی تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اپنے نبی کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا، پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی اور جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے پھر فرمایا : کہ لوگوں کو میرے پاس آنے کی اجازت دو، میں نے اجازت دی تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اپنے نبی کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا، پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار فرمایا۔
ایک قدم اور آگے۔
آپ صلی اللہ علیہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی قبر سے متعلق بھی تاکیدی حکم فرمایا:
لا تتخذوا قبری عیدا ولا تجعلوا بیوتكم قبورا وحیثما كنتم فصلوا علی فإن صلاتكم تبلغنی.
مسند 2/367، سنن ابوداود:2042 المناسك.
میری قبر پر میلہ نہ لگانا اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا لینا اور جہاں کہیں بھی رہو وہیں سے مجھ پر درود بھیجنا اس لئے کہ تمھارا درود مجھ تک پہنچے گا۔
اسی معنی میں ایک اور حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے:
عن علی بن حسین أنہ رأی رجلا یجیء إلی فرجۃ كانت عند قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم فیدخل فیہا فیدعو فنہاہ فقال : ألأ أحدثكم حدیثا سمعتہ من أبی عن جدی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ؟ قال : لا تتخذوا قبری عیدا ولا بیوتكم قبورا فإن تسلیمكم یبلغنی أینما كنتم .
مسند ابویعلی:469، 1/361
علی زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر کے پاس ایک سوراخ کے پاس آ کر اس میں داخل ہوتا ہے اور دعا کرتا ہے، چنانچہ اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا: کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے اپنے باپ سے سنی ہے اور میرے باپ نے میرے دادا سے سنی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری قبر کو عید [میلہ گاہ] نہ بناؤ اور جہاں کہیں بھی رہو مجھ پر سلام پڑھو تمھارا سلام مجھ تک پہنچ جائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا کیونکہ آپ کو اس امت کے جاہلوں کی جہالت سے خطرہ لاحق تھا اسلئے آپ نے اللہ تعالی سے دعا بھی کی کہ آپکی قبر کے ساتھ وہ سب کچھ نہ کیا جا سکے جو دیگر نبیوں کی قبروں کے ساتھ ہوا تھا: :
اللہم لا تجعل قبری وثنا لعن اللہ قوما اتخذوا قبور أنبیائہم مساجد.
مسند احمد2/246، مسند ابویعلی .
اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا دے[ کہ اس کی پوجا کی جائے] اللہ کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔ .
نیز اسی معنی میں ایک حدیث حضرت ابوسعید الخدری سے بھی مروی ہے:
"اللہم إنی أعوذ بك أن یتخذ قبری وثناً فإن اللہ تبارك وتعالی اشتد غضبہ علی قوم اتخذوا قبور أنبیائہم مساجد”.
مسند البزار( كشف الأستار:440، 1/220.
اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ میری قبر کو بت بنا لیا جائے، اسلئے کہ اللہ تعالی کا غضب اس قوم پر بڑا سخت ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لئے ہیں۔
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل
صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اہم وصیت کو اچھی طرح سمجھا اور اپنی دعوتی و جہادی زندگی میں اس پر عمل پیرا رہے اور اس سلسلے میں انھوں نے بہترین نقوش چھوڑے ان کے آثار علامہ البانی رحمہ اللہ کی نادر کتاب تحذیر الساجد ص118 تا 132 اور ایک سعودی عالم عبدالعزیز الراجحی کی کتاب مجانبۃ اھل الثبور میں دیکھا جا سکتا ہے، علی سبیل المثال :
عَنْ أَبِی الْہَیَّاجِ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَلاَّ أَبْعَثُكَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ.
صحیح مسلم 968 الجنائز، سنن ابوداود: سنن النسائی: سنن الترمذی: مسند احمد1/96،
حضرت ابو ہیاج الاسدی بیان کرتے ہیں حضرت علیؓ نے مجھ سے فرمایا :کیا میں تمہیں اس کام کی لئے نہ بھیجوں جس کام کیلئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھیجا تھا؟ کوئی بھی مجسمہ اور تصویر بغیر مٹائے نہ چھوڑنا اور کسی بھی اونچی قبر کو بغیر برابر کئے نہ رہنے دینا۔
اپنے وقت میں اہل بیت نبوی کے سردار حضرت علی زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آ کر کھڑا ہوتا ہے اور دعا کرتا ہے یہ دیکھ کر اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : کیا میں تجھے وہ حدیث نہ سناوں جو میں نے اپنے والد{ حضرت حسین} سے سنی ہے اور میرے والد نے میرے دادا سے اور میرے دادا نے میرے نانا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ آپ نے فرمایا:
(لا تتخذوا قبری عیدا ولا بیوتكم قبورا وصلوا علی فإن صلاتكم تبلغنی حیثما كنتم).
مصنف ابن ابی شیبۃ 3/365، رقۃ:7616 ومسند ابویعلی1/361، رقم:469.
میری قبر کو عید[ میلہ گاہ] نہ بناؤ اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ اور میرے اوپر درود بھیجو تم جہاں کہیں بھی ہو گے تمہارا درود مجھ تک پہنچ جائے گا۔
اہل بیت نبوی کے ایک اور ہونہار عالم حضرت حسن بن حسن بن علی نے ایک بار ایک تابعی سہیل بن ابی سہیل کو دیکھا کہ وہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور اس سے چمٹ جاتے ہیں اور بطور تبرک کے اسے بوسہ دیتے ہیں، یہ دیکھ کر انھیں اپنے قریب بلایا اور اپنے نانا علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کا وہی فرمان سنایا جو ان کے چچازاد بھائی حضرت زین العابدین نے سنایاتھا: کہ لوگو میرے گھر پر میلا نہ لگاؤ اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ ، البتہ جہاں کہیں بھی رہو میرے اوپر درود بھیجتے رہو، اسلئے کہ تمھارا درود مجھ تک یقیناً پہنچے گا۔
مصنف ابن ابی شیبہ 3/365 رقم:6717 ومصنف عبدالرزاق3/577 رقم:6694۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار مین کسی ایسی جگہ نماز پڑھ رہا تھا جہاں سامنے کوئی قبر تھی اور مجھے معلوم نہیں تھا، جب حضرت عمر رضی اللہ نے دیکھا تو ہمیں متنبہ کرتے ہوے فرمایا : دیکھو سامنے قبر، سامنے قبر ہے، میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات نہ سمجھ سکا ، میں تو یہ سمجھا کہ آپ قمر کہ رہے ہیں، میرے بگل میں موجود کسی شخص نے مجھ سے کہا کہ امیر المومنین قبر کہہ رہے ہیں، یہ سن کر میں وہاں سے ہٹ گیا۔
صحیح البخاری وفتح الباری1/523، 524۔
نیز یہی اثر مصنف عبد الرزاق میں بھی ہے اسمیں مزید یہ بھی مذکور ہے کہ خود حضرت عمر نے فرمایا: میں قبر کہہ رہا ہوں، وہاں نماز نہ پڑھو۔ مصنف عبد الرزاق1/404
4—مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ قبر پر تعمیر کو حرام سمجھتے تھے۔
قبروں کو مسجد بنانے کا معنی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ناصحانہ اور تاکیدانہ فرمان اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اس تعامل کے بعد اپنے دین و ایمان پر حریص ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ غور کرے کہ ان احادیث میں وارد ” قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ” کا معنی کیا ہے؟
علماء کے اقوال پر نظر ڈالتے ہیں تو اس لفظ کے تین معنی ہمیں ملتے ہیں اور تینوں ہی اس ممانعت داخل ہیں:
1- قبروں پر سجدہ کرنا۔
2نماز و دعا کیلئے قبر کو بطور قبلہ کے استعمال کرنا۔
3—قبروں پر مسجد تعمیر کرنا اور اس مسجد میں نماز کی اہمیت دینا۔ اسی حکم میں کسی بڑی شخصیت کو مسجد میں دفن کرنا بھی ہے۔
پہلے معنی کی وضاحت
یعنی قبر پر سجدہ کرنا یہ سجدہ بطور تعظیم کے بھی ہوسکتا ہے اور بطور طلب رضا کے بھی کہ صاحب قبر ہم سے راضی ہو جائے اور اللہ تعالی کے حضور ہماری سفارش کرے ، یہ عین عبادت اور رب کی طرف سے لعنت کا سبب ہے، اس حدیث کی شرح میں علماء نے اس معنی کی صراحت کی ہے، چنانچہ حافظ احمد بن حجر الہیتمی نے اپنی مشہور کتاب الزواجر 1/121 پر لکھتے ہیں : "قبر کو مسجد بنانے کا معنی یہ ہے کہ اس پر نماز پڑھی جائے { سجدہ کیا جائے} یا اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے "۔
یہی معنی امام الصنعانی نے بھی سبل السلام میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے۔ 1/296، 297۔
اس معنی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض حدیثوں سے بھی ہوتی ہے، مثلاً:
1– نہی نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان یبنی علی القبور أو یقعد علیہا أو یصلی علیہا .
مسند ابویعلی 2/297، بروایت ابوسعید الخدری
نبی صلی اللہ علیہ و سلم قبروں پر عمارت تعمیر کرنے، اس پر مجاور بن کر بیٹھنے اور اس پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
2– لا تصلوا إلی قبر ولا تصلوا علی قبر”.
الطبرانی الكبیر(مجمع الزوائد2/27) بروایت ابن عباس. تحذیر الساجد ص 31.
نہ قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھو اور نہ قبروں پر نماز پڑھو۔
دوسرے معنی کی وضاحت۔
یعنی شریعت میں اس امرسے بھی روکا گیا ہے کہ کسی بزرگ یا ولی کی قبر کو اپنے سامنے کر کے نماز پڑھی جائے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس بزرگ کو اللہ تعالی کے نزدیک ایک مقام حاصل ہے، لہذا اس کی برکت سے ہماری دعا اور نماز قبول کی جائے گی، چونکہ شرک کی طرف یہ پہلا قدم ہے اور گزشتہ امتوں میں اسی راستے سے شرک داخل ہوا ہے، لہذا امت محمدیہ کو اس کام سے سختی سے روکا گیا اور ایسا کرنے والے کو اللہ کی رحمت سے دور ہونے کی وعید سنائی گئی، حافظ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ حدیث :” قَاتَلَ اللَّہُ الْیَہُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ”.کی شرح میں لکھتے ہیں : قبروں کو مسجد بنانے کا معنی یہ ہے کہ یہود بطور قبلہ کے اپنے سامنے رکھکر نماز پڑھتے تھے4/612۔
اس معنی کی وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد حدیثوں میں صراحت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے، چنانچہ:
1– حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا”۔
صحیح ابن حبان:2317، 4/133۔
2—حضرت ابو مرثد الغنوی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "لاَ تُصَلُّوا إِلَی الْقُبُورِ وَلاَ تَجْلِسُوا عَلَیْہَا”.
صحیح مسلم:972، مسند احمد4/135، ابوداود:3229، النسائی2/67۔
نہ قبروں کی رخ کر کے نماز پڑھو اور نہ ہی اس پر بیٹھو۔
3—حضرت عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میری ملاقات صحابی رسول حضرت واثلہ بن الا سقع رضی اللہ عنہ سے ہوئی، میں نے عرض کیا کہ شام میں میرا کوئی کام نہیں ہے صرف آپ سے ملاقات کی غرض سے آیا ہوں، لہذا مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ فرما رہے تھے : اللَّہُمَّ ارْحَمْنَا، وَاغْفِرْ لَنَا، وَنَہَانَا أَنْ نُصَلِّیَ إِلَی الْقُبُورِ، أَوْ نَجْلِسَ عَلَیْہَا.
المعجم الكبیر22/79, مسند البزار:442,1/221كشف الأستار.
اے اللہ تو ہمارے اوپر رحم کر، ہمیں معاف فرما، اور ہمیں اس بات سے منع فرمایا کہ ہم قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں یا اس پر بیٹھیں۔
3—نیز حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے درمیان نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
صحیح ابن حبان:1697، 3/243، مسند البزار{المجمع2/27}۔
تیسرے معنی کی وضاحت
زیر بحث حدیثوں کا تیسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے اور یہی معنی الفاظ حدیث کے زیادہ قریب ہے کہ نبیوں، ولیوں اور بزرگوں کی قبروں پر یا ان کی قبر کے پہلو میں مسجد تعمیر کی جائے یا کسی نبی یا ولی و بزرگ کو مسجد میں دفن کیا جائے اور اسمیں نماز، دعا اور اعتکاف وغیرہ کو زیادہ اہمیت دی جائے، جیسا کہ آج بہت سے بزرگوں کے مزارات بنے ہیں اور وہاں حاضری کی وہ اہمیت دی جاتی ہے جو عام مسجدوں میں پنجوقتہ نماز کو نہیں دی جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں باب منعقد کرتے ہیں : "باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور”۔ باب اس بیان میں کہ قبروں پر مسجدیں بنانا منع ہے، پھر اس باب کے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث نقل کی ہے جس میں یہ بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اس مرض میں جس میں آپ کی وفات ہوئی فرماتے تھے : ” لَعَنَ اللَّہُ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسْجِدًا” یہود و نصاریٰ پر اللہ تعالی کی لعنت ہو کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا۔ یہ فرمان رسول بیان کرنے کے بعد حضرت عائشہؓ اس کی مزید وضاحت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کریں گے تو آپ کی قبر بھی کھلے میدان میں بنائی جاتی، لیکن خطرہ تھا کہ آپ کی قبر کو بھی مسجد بنا لیا جائے گا۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم۔
اس کی مزید وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مرض وفات میں پیش آمدہ اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب ازواج مطہرات نے اس کنیسہ کا ذکر کیا جسے حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ نے حبشہ میں دیکھا تھا، اسمیں موجود تصاویر اور ان کی خوبصورتی کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:” إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِیہِمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنَوْا عَلَی قَبْرِہِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِیہِ تِلْكَ الصُّوَرَ فَأُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّہِ یَوم القیامۃ. صحیح البخاری و صحیح مسلم
یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں سے کسی نیک آدمی کا انتقال ہو جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے، یاد رکھو یہ اللہ تعالی کے نزدیک قیامت کے دن بدترین قسم کے لوگ ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس بارے میں ویسے بھی امت کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ نہ قبروں کو پختہ بنایا جائے نہ ان پر مجاور بنکر بیٹھا جائے اور نہ اس پر کسی قسم کی عمارت تعمیر کی جائے، چنانچہ جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نہی رسول اللہ ان یجصص القبر وأن یقعد علیہا وأن یبنی علیہا
صحیح مسلم :970 الجنائز، مسند احمد3/339، ابوداود:3226 الجنائز، الترمذی: 1052 الجنائز، النسائی4/86.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ قبر کو پختہ بنائی جائے، اس پر [مجاور] بن کر بیٹھا جائے، اور اس پر عمارت تعمیر کی جائے۔
قبروں پر مسجد کی تعمیر کبیرہ گناہ ہے۔
کبیرہ گناہ کس کو کہتے ہیں۔
کبیرہ گناہ اللہ ورسول کی نافرمانی کے وہ کام ہیں جن کے کرنے والے کو اللہ کے غضب، لعنت، اللہ کی رحمت سے دوری اور جہنم میں داخلے کی دھمکی دی گئی ہو۔
متعدد علمائے کرام کی بیان کردہ اس تعریف کو سامنے رکھ کر اگر مذکورہ حدیثوں اور ان میں وارد وعید پر نظر کرتے ہیں تو اس بارے میں کوئی شبہہ نہیں رہ جاتا کہ قبروں پر مسجد و گنبد وغیرہ کی تعمیر کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ اولاً تو ایسے لوگوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے اور یہ امر مسلم ہے کہ لعنت انہیں اعمال پر ہوتی ہے جو شرع کی نظر میں قبیح اور گناہ کبیرہ ہوتے ہیں، ثانیاً اس سلسلے کی وارد بعض حدیثوں میں ایسے لوگوں کے بارے میں یہ فرمان نبوی ہے : "اولئک شرار الخلق عند اللہ” یہی لوگ اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں، چنانچہ ایسے لوگوں کو بدترین مخلوق قرار دینا اس کے کبیرہ گناہ ہونے کی واضح دلیل ہے، نیز بہت سے علمائے محققین بصراحت اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کرتے آئے ہیں ، ان میں سے بعض کے نام درج ہیں:
1– امام محمد بن الحسن الشیبانی حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب الآثار میں لکھتے ہیں :
ہم یہ جائز نہیں سمجھتے کہ قبر سے نکلی ہوئی مٹی سے زیادہ مٹی اس پر ڈالی جائے، اسی طرح قبر کو پختہ بنانا، اسے لیپ کرنا اور اس کے قریب مسجد بنانا ہم مکروہ سمجھتے ہیں ص 45۔
2– امام قرطبی متوفی سنۃ 671ھ صاحب تفسیر اپنی مشہور تفسیر احکام القرآن میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہمارے علماء یعنی علماء مالکیہ کہتے ہیں کہ ” مسلمانوں پر حرام ہے کہ نبیوں اور علماء کی قبروں پر مسجد یں تعمیر کریں 10/380۔
3–عالم ربانی حافظ ابو بکر ابن القیم متوفی سنۃ 751ھ نے بھی اپنی مشہور کتاب اغاثۃ اللہفان 1/90 اور اس کے بعد کئی صفحات پر اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور اس عمل کا کبیرہ گناہ ہونا ثابت کیا ہے۔ نیز اس پر وارد ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے، ہر طالب علم کو چاہئے کہ اس موضوع کو وہاں ضرور پڑھے۔
4– امام ابو زکریا احمد ابن النحاس الدمشقی متوفی سنۃ 814ھ اپنی مشہور اور اہم کتاب تنبیہ الغافلین ص306 پر لکھتے ہیں : "ان اعمال میں سے جن کا ذکر بہت سے علماء نے کبیرہ گناہوں میں کیا ہے ، ایک کبیرہ یہ بھی ہے کہ قبروں پرمسجدیں تعمیر کی جائیں اور ان پر چراغاں کیا جائے” پھر اس باب کے تحت وہی متعدد حدیثیں ذکر کی ہیں جن کا ذکر اس سے قبل آ چکا ہے، پھر حدیثیں ذکر کرنے کے بعد اپنی تائید میں حافظ ابن القیم اور ابو محمد الدمشقی کے اقوال نقل کئے ہیں۔
5–مشہور شافعی عالم وفقیہ احمد بن حجر الہیتمی متوفی سنۃ 974ھ اپنی مشہور کتاب "الزواجر عن اقتراف الکبائر 2/286 اور اس کے بعد” میں لکھتے ہیں: کبیرہ نمبر 93، 94، 95، 96، 97اور98۔ قبروں پر مسجد بنانا، اسپر چراغ جلانا، انھیں بت کی حیثیت دینا، ان کا طواف کرنا، ان کا چومنا اور بطور تبرک چھونا اور ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا ہے۔ پھر اس سلسلے کی کئی حدیثیں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :ان چھ امور کا گناہ کبیرہ ہونا بعض علماء شافعیہ کے کلام سے بالکل واضح ہے۔گویا ان کا استدلال میری ذکر کردہ حدیثوں سے ہے، جہاں تک یہ مسئلہ کہ قبروں کو مسجد بنانا کبیرہ ہے تو یہ ان احادیث سے بالکل واضح ہے، اسلئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے شخص کو ملعون ٹھہرایا ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کے ساتھ ایسا معاملہ کرے، مزید جو لوگ اپنے ولیوں اور بزرگوں کی قبروں کے ساتھ ایسا کریں انھیں قیامت کے دن اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق کہا گیا ہے، لہذا اسمیں ہمارے لئے تنبیہ ہے جیسا کہ ایک روایت میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا اس لئے فرمایا تاکہ لوگ یہود و نصاریٰ کی ان حرکتوں سے دور رہیں اور اگر امت نے ایسا کیا تو یہود و نصاریٰ کی طرح یہ لوگ بھی ملعون ٹھہریں گے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء { علمائے شافعیہ} نے کہا ہے کہ بطور تبرک و تعظیم نبیوں اور ولیوں کی قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا حرام ہے، اسی حکم میں اس پر نماز پڑھنا [ اس پر سجدہ کرنا] بھی داخل ہے، ان اعمال کا کبیرہ گناہوں میں داخل ہونا مذکورہ حدیثوں سے واضح ہے، جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا، نیز بعض علمائے حنابلہ[ شاید حافظ ابن القیم کی طرف اشارہ ہے] کا کہنا ہے کہ تبرک حاصل کرنے کے لئے کسی قبر کے پاس نماز پڑھنا اللہ اور اس کے رسول کی کھلی نافرمانی اور دین میں ایسی بدعت ایجاد کرنا ہے جس کی اجازت اللہ تعالی نے قطعاً نہیں دی ہے، ان کاموں کی ممانعت بطور اجماع ثابت ہے، اسلئے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنا اور انہیں مسجد بنا لینا سخت حرام اور شرک کا ذریعہ ہے، اور جن علماء نے اسے مکروہ لکھا ہے تو ان کا مقصدکچھ اور ہے اسلئے کہ جس عمل پر لعنت بھیجنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو اور اسے علماء جائز[ مکروہ تنزیہی] قرار دیں ، ان کے بارے میں ایسا گمان نہیں رکھا جا سکتا، لہذا ایسی تمام مسجدوں کو ڈھا دینا اور اسپر بنے ہوئے گنبدوں کو مسمار کر دینا واجب ہے، اسلئے کہ ان کا ضرر مسجد ضرار سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ان کی تعمیر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی اور آپ کے حکم کے ساتھ بغاوت ہے، کیونکہ آپ نے اس سےمنع فرمایا ہے اور اونچی قبروں کو مسمار کر دینے کا حکم دیا ہے، لہذا ہر وہ چراغ اور قندیل جو قبروں اور مزاروں پر ہے اسے زائل کرنا واجب، اسپر وقف اور اس کے لئے نذر ماننا حرام ہے۔ الزواجر 2/286، 287۔
واضح رہے کہ ائمہ متقدمین کے نزدیک مکروہ حرام کا ہم معنی ہوتا تھا، اور کراہت کا یہی معنی قرآن و حدیث میں بھی ہے، مثال کے طور پر صرف ایک آیت اور ایک حدیث ہم ذکر کرتے ہیں جسے مزید تفصیل درکار ہو وہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب تحذیر الساجد کی طرف رجوع کرے۔
سورہ بنی اسرائیل میں روزی کے خوف بچوں کے قتل، زنا، ناحق خون، یتیم کا مال کھانے اور اس قسم کے دیگر کبائر کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے:”كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَیٍّئُہُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوہًا”.ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک مکروہ[ کاپسندیدہ] ہے۔
غور کریں اس آیت میں متعدد کبیرہ گناہوں کے شمار کے بعد تمام کو لفظ "مکروہ” سے تعبیر کیا ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
إن اللہ كرہ لكم ثلاثا قیل وقال وإضاعۃ المال وكثرۃ السؤال.
صحیح البخاری: 1477 الزكاۃ، صحیح مسلم (1/158 منۃ المنعم).
اللہ تعالی تمھارے لئے تین کام مکروہ قرار دیتا [ناپسند کرتا ]ہے، 1- قیل و قال کو، 2- مال ضائع کرنے کو، 3- بہت زیادہ سوال کرنے کو۔
اس حدیث میں بھی مکروہ کا معنی حرام ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں جو اس روایت کے فورا بعد ہے اسمیں "کرہ” کی جگہ "حرم” کا لفظ ہے، نیز شارحین حدیث نے بھی اس حدیث میں وارد لفظ کرہ کا معنی حرام ہی کیا ہے۔
شبہات کا ازالہ
وہ حضرات جو جہالت یا ہواپرستی یا تقلید وغیرہ کے طور پر قبر پرستی اور قبروں پر مساجد و مزارات بنانے کے مرض میں مبتلا ہیں وہ قرآن و حدیث کی ان واضح تعلیمات اور علماء کی تصریحات کے مقابلے میں کچھ شبہات پیش کرتے ہیں اور انہیں دلیل بنا کر پر اپنی قبر پرستی کے لئے جواز پیدا کر رکھا ہے، ان واضح دلائل کے بعد ایک مومن کے لئے کسی شبہے کی گنجائش تو باقی نہیں رہنی چاہئے اور نہ ہی اللہ ورسول پر ایمان لانے والے کے سامنے کسی اور شبہے کی گنجائش رہ جاتی ہے، لیکن چونکہ بعض لوگ ان شبہات کے ذریعہ اہل توحید سے بحث و مباحثہ کرتے اور اپنی بدعت پر ڈٹے رہنے پر دلیل پکڑتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ ان کے پیش کردہ چند اہم شبہات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
پہلا شبہہ
اصحاب کہف کا واقعہ: ارشاد باری تعالی ہے : إِذْ یَتَنَازَعُونَ بَیْنَہُمْ أَمْرَہُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَیْہِم بُنْیَانًا رَّبُّہُمْ أَعْلَمُ بِہِمْ قَالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلَی أَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْہِم مَّسْجِدًا (21)
اس وقت کو یاد کرو جبکہ وہ اپنے امر میں باہم اختلاف کر رہے تھے، کہنے لگے ان کی غار پر ایک عمارت تعمیر کر دو۔ ان کا رب ہی ان کے حال کو زیادہ جانتا ہے، جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے کہ ہم تو ان کے آس پاس مسجد بنا لیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ نصاریٰ تھے ، ان کے انتقال کے بعد لوگوں کا باہمی اختلاف ہوا ، ان میں سے کچھ لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اس غار یا اس کے قریب کوئی عمارت تعمیر کر دی جائے جس سے ان کی یادگار باقی رہے اور نشان مٹنے نہ پائے، لیکن ان میں جو صاحب ثروت اور زبردست قسم کے لوگ تھے انہوں نے کہا کہ ہم ان کا مزار تو نہیں بناتے البتہ یہاں ایک مسجد تعمیر کر دیتے ہیں۔
بعض لوگوں کو یہاں یہ شبہہ ہوتا ہے کہ اس قصے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولیوں اور بزرگوں کی قبروں پر مسجد و عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے،
لیکن متعدد وجوہ سے یہ قصہ دلیل نہیں بن سکتا، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
اولاً- یہ عمل پہلی شریعت کا ہے اور پرانی شریعت ہمارے لئے حجت نہیں ہے، اور جو اہل علم پچھلی شریعت کو حجت تسلیم کرتے ہیں ان کے نزدیک شرط ہے کہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو، اور جب ہماری شریعت میں واضح طور پر قبروں پر مسجد اور کسی قسم کی عمارت تعمیر کرنے سے روک دیا گیا حتی کہ قبروں کو قبلہ بنانے کو حرام ٹھہرایا گیا تو اہل کہف کا واقعہ ہمارے لئے کس طرح دلیل بن سکتا ہے؟ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَأَنْزَلْنَا إِلَیْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُہَیْمِناً عَلَیْہِ، الآیۃ، المائدۃ: 48.
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کر نے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔
اس آیت میں وارد لفظ ” مہیمن” کا معنی محافظ، امین، شاہد اور حاکم وغیرہ کیا جاتا ہے، جس کا مفہوم علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں کوئی حکم ایسا ہے جو پچھلی کتابوں کے خلاف ہے تو فیصلہ اس کتاب کا مانا جائے گا، کیونکہ پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف و تغییر بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا، جس کو یہ صحیح قرار دے وہی صحیح ہے باقی باطل ہے۔
ثانیاً – ان کا مزار بنانے والے لوگ صاحب علم و تقوی نہ تھے اور نہ ہی مسجد بنانے والے لوگ ہی متقی و پرہیزگار تھے کہ ان کا عمل ہمارے لئے حجت بنے، بلکہ قرآن کے ظاہر سے پتا چلتا ہے کہ عام لوگوں کے خلاف اپنی طاقت و نفوذ کے زور پر وہاں مسجد بنا لی گئی، اور ایسا اس دنیا میں بہت ہوتا ہے، چنانچہ جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں اس کے بانی حافظ عبد العزیز کے مزار کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
ثالثاً– مفسرین کا اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ اس مسجد کو تعمیر کرنے والے لوگ آیا مسلمان تھے یا کافر، اگر مسلمان تھے تو کیا دلیل ہے کہ ان کے پاس صحیح علم بھی تھا ؟ اور اگر کافر تھے تو ان کا کام ہی بتوں کی پوجا اور شخصیت پرستی تھی پھر ان کا عمل ہمارے لئے کسطرح دلیل بن سکتا ہے؟
رابعاً— نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان سے بتواتر یہ ثابت ہے کہ یہود و نصاریٰ نے دین قویم اور صراط مستقیم سےانحراف کر کے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مساجد و مزارات کی شکل دے دی تھی اور اسی بنیاد پر وہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان پر ملعون ٹھہرے:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْحَارِثِ النَّجْرَانِیِّ قَالَ حَدَّثَنِی جُنْدَبٌ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ -صلی اللہ علیہ وسلم- قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ بِخَمْسٍ وَہُوَ یَقُولُ ……….. « أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا یَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ وَصَالِحِیہِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّی أَنْہَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ ».صحیح مسلم وغیرہ.
حضرت عبداللہ بن حارث النجرانی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ نے یہ حدیث بیان کی کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے صرف پانچ دن قبل سنا آپ فرما رہے تھے کہ یاد رکھنا تم سے پہلے لوگوں [یہود و نصاریٰ] نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا، دیکھو تم لوگ قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہو ں۔
نیز فرمایا: ( لعن اللہ الیہود والنصاری اتخذوا قبور أنبیائہم مسجدا ) .
صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ بروایت عائشہؓ
اللہ تعالی کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔
لہذا اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ ان کی ان گمراہیوں میں سے ایک گمراہی تھی جس کی بنیاد پر وہ قابل ملامت ٹھہرے، نہ یہ کہ ان کا عمل ہمارے لئے حجت بنے۔
دوسرا شبہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کا مسجد نبوی میں وجود
شبہہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اگر مسجد میں قبر بنانا یا اس کے برعکس نا جائز و حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مسجد میں کیوں ہے؟
یہ اعتراض بھی نادانی یا عناد پر مبنی ہے، درج ذیل امور پر غور کر لینے کے بعد یہ شبہہ باقی نہیں رہ جاتا۔
اولاً- نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ کے گھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں دفن کیا گیا تھا نہ کہ مسجد میں، اور آج بھی وہ حصہ جس میں قبر مبارک ہے مسجدسے خارج متصور ہے، اتنا حصہ مسجد میں داخل نہیں ہے۔
ثانیاً – نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کو مسجد کی حدود میں عباسی خلیفہ ولید بن عبد الملک [86ھ تا 96ھ] نے جس وقت داخل کیا تھا اس وقت مدینہ منورہ میں کوئی صحابی رسول موجود نہیں تھا کیونکہ مدینہ منورہ میں وفات پانے والے آخری صحابی حضرت جابر بن عبداللہ ہیں جن کی وفات سنۃ 78ھ ہے، نیز اس وقت مدینہ منورہ میں موجود سید التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے ولید پر نکیر بھی کی تھی، جیسا حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں ذکر کیا ہے، 9/75۔
ثالثاً- یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان اور ان صحابہ کے عمل کے خلاف ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، یعنی خلفائے راشدین چنانچہ حضرت عمر عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی مسجد نبوی کی توسیع کی تھی لیکن انہوں نے اس جانب سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا جس طرف ازواج مطہرات کے حجرات تھے۔
رابعاً – ولید بن عبد الملک کا مقصد قطعاً یہ نہ تھا کہ اس طرح مسجد کی اہمیت میں اضافہ ہوگا بلکہ مسجد نبوی کی فضیلت تو پہلے ہی سے مقرر شدہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک اس میں داخل کر دینے سے اس کی فضیلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، ولید بن عبد الملک رحمہ اللہ نے اپنے اجتہاد سے یہی بہتر سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کو چاروں طرف سے دیوار کھڑی کرکے گھیر دیا جائے اور باقی ازواج مطہرات کے کمروں کو مسجد میں شامل کر دیا جائے تاکہ نمازیوں کو تکلیف نہ ہو، اور آج بھی نمازیوں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کے درمیان ڈبل دیوار حائل ہے۔
تیسرا شبہ۔ مسجد خیف میں ستر نبیوں کی قبر
معجم الطبرانی الکبیر کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ قَبْرُ سَبْعِینَ نَبِیًّا. الطبرانی الكبیر11/43.بروایت ابن عمر
مسجد خیف میں ستر نبیوں کی قبریں ہیں۔
کہا یہ جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجدمیں خیف نماز پڑھی، حالانکہ اس میں نبیوں کی قبریں ہیں، لہذا قبروں پر مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے اور اسمیں نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
حالانکہ یہ استدلال کئی اعتبار سے ضعیف ہے، کیونکہ :
اولاً — یہ حدیث ضعیف، شاذ اور ناقابل استدلال ہے، حافظ السیوطی اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : متقدمین علماء جن کی تصحیح و تضعیف پر اعتماد کیا جائے کسی نے بھی اس حدیث صحیح نہیں قرار دیا ہے اور نہ ہی اصولی اعتبار سے اسے صحیح قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلکہ حدیث کے صحیح الفاظ اس طرح ہیں کہ صلی فی مسجد الخیف سبعون نبیا منہم موسی صلی اللہ علیہ و سلم. الطبرانی الكبیر11/452و453والأوسط6/194۔ یعنی مسجد خیف میں ستر نبیوں نے نماز پڑھی ہےجس میں حضرت موسی علیہ السلام بھی ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے تحذیر الساجد ص 93 تا 99۔
ثانیاً – کیا اس مسجد میں آج کسی قبر کا نشان ہے، ان ستر قبروں میں سے کسی ایک قبر کا بھی پتا بتایا جا سکتا ہے؟ اعتبار تو قبر کے ظاہر رہنے کا ہے، اور جب قبر کا نشان موجود نہیں ہے تو نہ یہود و نصاریٰ کی مشابہت ہے، نہ قبر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جا سکتی ہے اور نہ ہی قبروں کی تعظیم کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
ثالثاً— یہ حدیث ان تمام صحیح اور متواتر حدیثوں کے خلاف ہے جن میں قبر کو مسجد بنانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ کسی عالم نے بھی اس حدیث کو ان صحیح حدیثوں کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا ہے۔
رابعاً—اس حدیث کے غیر محفوظ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ستر نبیوں کی اتنی بڑی تعداد جو مسجد خیف میں مدفون ہیں، وہ کہاں سے آئے، کیا وہ باہر سے آ کر یہاں وفات پائے اور مدفون ہوئے، تو اپنی قوم اور انہیں دعوت دینے سے کیوں اعراض کیا اور اگر ان کی بعثت مکہ مکرمہ کیلئے تھی تو یہ بھی قابل قبول نہیں کیونکہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ مکہ مکرمہ میں کسی نبی کی بعثت نہیں ہوئی۔
چوتھا شبہ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر حجر میں
کہا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر حجر میں ہے، چنانچہ امام ابو احمد الحاکم کی کتاب الکنی 1/239 میں ہے: "ان قبر اسماعیل فی حجر”۔ یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر حجر میں ہے۔
جب مسجد حرام میں جو دنیا کی سب سے افضل مسجد ہے اس میں قبر بنائی جا سکتی ہے تو کسی اور مسجد میں بدرجۂ اولی بنائی جا سکتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث کئی اعتبار سے قابل حجت نہیں ہے :
اولاً—یہ حدیث ضعیف و منکر ہے ، امام ذہبی، حافظ ابن حجر اور علامہ البانی رحمہم اللہ وغیرہ نے اسے ضعیف ومنکر بتلایا ہے، دیکھئے میزان الاعتدال 4/491، لسان المیزان 7/10، تحذیر الساجدص100 اور اس کے بعد، طبقات ابن سعد وغیرہ میں اس حدیث کی دیگر سندیں بھی ہیں لیکن کوئی سند قابل اعتماد نہیں ہے۔
ثانیاً—اس حدیث کا من گھڑت ہونا ا س سے بھی واضح ہے کہ حضرت اسماعیل اور ان کے بہت بعد تک حجر کا وجود ہی نہ تھا، کیونکہ آج جسے حجر یا حطیم کہا جاتا ہے وہ اصل میں خانۂ کعبہ کا ایک حصہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے پانچ سال پہلے تک خانہ کعبہ کا ایک حصہ رہا ہے لیکن جب قریش اس گھر کی تعمیر نو کرنے لگے اور ان کے پاس اتنی کافی رقم متوفر نہ ہو سکی جس سے مکمل کعبہ کی تعمیر ہوسکے تو انہوں نے بیت اللہ کا کچھ حصہ بلا تعمیر چھوڑ دیا، جسے بعد میں حجر کے نام سے جانا جانے لگا۔
ثالثاً – آج مسجد حرام میں نہ کہیں قبر کا نشان ہے اور نہ ہی کوئی علامت، لہذا اس سے قبر پرستی کا شبہہ بھی نہیں ہوتا۔
پانچواں شبہ۔ حضرت ابو بصیر کا قصہ
صلح حدیبیہ کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش مکہ سے جو صلح نامہ طے کیا تھا اس کی ایک بند یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کا کوئی فرد اگر کافر ہو کر مکہ واپس چلا جاتا ہے تو قریش اسے واپس کرنے کے پابند نہ ہونگے اور اگر کافروں کا کوئی فرد مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آ جاتا ہے تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہونگے، اس عہد نامہ کے بعد جب ایک کمزور مسلمان حضرت ابو بصیر مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے تو کفار نے انہیں واپس لانے کے لئے دو آدمیوں کو بھیجا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حسب عہد نامہ ان دونوں کے ساتھ ابو بصیر کو واپس کر دیا لیکن راستے میں انہوں نے ایک شخص کو قتل کر دیا اور خود ساحل سمندر العیص نامی مقام پر آ گئے ادھر ابو جندل نامی ان کے ایک اور ساتھی جو کافروں کے ظلم میں پس رہے تھے بھاگ ان سے آملے، اب قریش کا جو آدمی بھی اسلام لا کر بھاگتا وہ ابوبصیر سے آ ملتا، یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہو گئی، اب انہوں نے قریش کے قافلوں پر چھاپا مارنا شروع کر دیا، قافلوں میں موجود مردوں کو مار ڈالتے اور مال لوٹ لیتے، قریش اس صورت حال سے تنگ آ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آپ ان لوگوں کو اپنےپاس بلا لیں اور جو بھی آپ کے پاس جائے گا ہم اس کا مطالبہ نہ کریں گے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بلا لیا اور وہ مدینہ آ گئے۔
قصے کا اتنا حصہ ثابت اور صحیح بخاری وغیرہ کتب حدیث میں ہے لیکن مغازی موسی بن عقبہ کے حوالے سے اتنا اضافہ نقل کیا جاتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا خط ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے پاس پہنچا تو اس وقت وہ مرض موت میں تھے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا خط اپنے ہاتھ میں لیا، پڑھا اور اسی حال میں ان کا انتقال ہو گیا، ابو جندل رضی اللہ عنہ نے انہیں نہلایا، ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور وہیں دفن کر کے ان کی قبر کے پاس ایک مسجد بنا دی، فتح الباری 5/351۔
یہ ہے وہ حدیث جس سے اہل قبور نے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث کسی بھی طرح ان کے لئے دلیل نہیں بن سکتی، جس کے وجوہات درج ذیل ہیں۔
اولاً — اس حدیث کو امام زہری رحمہ اللہ نے مرسل روایت کیا ہے اور مرسل حدیث ضعیف کی قسم سے ہے، خاص کر امام زہری کی مرسل حدیثیں تو ضعیف ترین مانی جاتی ہیں، جیسا کہ امام ذہبی وغیرہ نے لکھا ہے۔
ثانیاً — یہ قصہ صحیح بخاری :2731، 2732 اور مسند احمد 4/328، 331 وغیرہ میں بھی بسند صحیح مذکور ہے لیکن مسجد بنانے کا ذکر کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ دیکھئے تحذیر الساجد ص 108 تا 110۔
ثالثاً – اس روایت میں ہے کہ ان کی قبر کے پاس مسجد بنا دیا ـ جس کا مقصد یہ رہا ہوگا کہ تاکہ اس طرح قبر کے مکان کا پتا معلوم رہے مقصد بطور تبرک قبر پر مسجد نہیں بنائی گئی تھی جیسے آج کیا جاتا ہے، حالانکہ قبر کے پاس مسجد اور قبر پر مسجد دونوں میں فرق ہے۔
رابعاً – ممکن ہے یہ اس وقت کی بات ہو جبکہ ابھی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنے کی حرمت کا نازل نہیں ہوا تھا۔ تحذیر الساجد ص 110۔
خامساً— حضرت ابو جندلؓ اور ان کے ساتھی مرکز اسلام سے دور تھے، ضرور ہو گئے تھے لیکن تعلیمات اسلام مکمل رو سناش نہیں تھے، لہذا ان کا وہ عمل جو متعدد حدیثوں کے خلاف ہو کیسے حجت بن سکتا ہے؟
خلاصہ کلام یہ کہ قبروں پر مسجدوں اور عمارتوں کی تعمیر ایک فعل قبیح اور اللہ کی لعنت کا سبب ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.islamidawah.com/play.php?catsmktba=1334
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید