FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

وعدہ پورا ہوا

مظہر یوسف زئی

شہر کے ایک غریب علاقے میں ایک ایسا اسکول تھا جہاں با مقصد، سستی اور معیاری تعلیم دی جاتی تھی۔ طالب علموں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے ہر چیز دستیاب تھی۔ فیس بھی اتنی تھی جو وہاں کے رہنے والوں کی پہنچ سے باہر نہ تھی۔ اس کے علاوہ نادار اور کم تنخواہ دار لوگوں کے ذہین بچوں کو ماہانہ امداد بھی دی جاتی تھی۔ میٹرک پاس کرنے والے طلبہ کو یہ سہولت بھی میسر تھی کہ وہ کالج میں داخلہ لینا چاہیں اور وہاں کے اخراجات ان کے والدین برداشت نہ کر سکیں تو اسکول یہ اخرابات قرض حسنہ دے کر پورے کرے گا۔ جب طالب علم عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو یہ رقم ماہانہ آسان قسطوں میں اسکول کو واپس کرنا ہو گی، تاکہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔

آج یہی اسکول بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ جو بھی وہاں سے گزرتا تھا وہ یہی کہتا تھا کہ اسے کہتے ہیں روشنیوں کا گھر۔ آج اس اسکول کی سال گرہ تھی۔ تمام روایات کو پس پشت ڈال کر پروگرام یہ بنایا گیا کہ اس تقریب میں اسٹیج کرسیاں نہیں ہوں گی، بلکہ فرشی نشست ہو گی۔ مہمان خصوصی کو نہ سپاس نامہ پیش کیا جائے گا اور نہ کوئی تقریر ہو گی، بلکہ امریکہ سے آنے والے ایک پاکستانی مہمان خصوصی ہوں گے اور تمام طالب علموں کو ایک کہانی سنائیں گے۔ بچے کہانی بڑی توجہ سے سنتے ہیں اور اس کا اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ مہمان خصوصی وقت مقررہ پر پنڈال میں پہنچے تو جلسے کی کاروائی اللہ کے نام اور اس کے کلام سے شروع ہوئی۔ تلاوت کے بعد مہمان خصوصی نے مائک سنبھالا اور کہانی سنانا شروع کر دی:

بہت دن ہوئے اسی شہر میں ایک بچہ تھا۔ یہ اس کچی آبادی میں رہتا تھا، جہاں اب بڑی شان دار عمارتیں بن گئی ہیں۔ اس نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ وہ کالج میں داخلہ لے، مگر اس کا باپ چاہتا تھا کہ وہ کوئی کام کاج کرے تاکہ چار پیسے گھر کے لیے کمائے۔ اس کے باپ کا پیشہ راج گیری تھا۔ یہ بچہ خاندان کا پہلا فرد تھا جس نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ برادری والوں نے اس کے باپ کو بہت مبارک باد دی۔ کچی آبادی کے دوسرے بزرگوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔ ایک دو بزرگوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بچہ آگے پڑھنا چاہے تو اسے آگے پڑھانا چاہیے۔ انھی باتوں سے متاثر ہو کر اس نے اپنے بیٹے کو آگے پڑھانے کا ارادہ کر لیا۔ اس کا پیشہ ایسا تھا کہ روز کنواں کھودنا، روز پانی پینا۔ مزدوری مل گئی تو پیسے آ گئے، ورنہ دوسرے دن کا انتظار۔

بڑی عمارتوں کے زیر سایہ یہ کچی آبادی بستے بستے بس گئی تھی۔ وہیں ایک عمارت میں ایسے بزرگ شخص بھی رہتے تھے جنھیں لوگ خبطی سمجھتے تھے۔ وہ ہر ایک کے کام آتے تھے۔ یہ بزرگ بستی کے ہر شخص کی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ بلا سود قرض دیتے تھے، مگر قرضے کی میعاد پوری ہونے کے بعد مقروض کی وعدہ خلافی پر بہت برہم ہوتے تھے۔ انھوں نے ایک ٹکٹکی (تپائی) بنائی ہوئی تھی جس میں وہ وعدہ پر قرض واپس نہ کرنے والے کا پتلا باندھ کر اسے سر راہ قمچی سے پیٹتے اور کہتے جاتے کہ میاں فلاں! تو نے کل کی تاریخ کے وعدے پر ادھار لیا تھا وہ ادھار تو نے واپس نہیں کیا۔ یہ تماشا دیکھنے کے لیے لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے تھے۔ پھر کچھ لوگ اس مقروض کو شرمندہ کر کے قرض واپس کرنے پر مجبور کرتے تھے۔

دیکھتے دیکھتے شہر میں تعمیرات کے کام میں ایسی تیزی آئی کہ اس بچے کے باپ کو بھی ایک ٹھیکے دار نے مستقل رکھ لیا۔ بچے کے داخلے کا وقت آیا تو اس نے بستی کے بزرگ سے اپنے بچے کے داخلے کے لیے ایک ماہ کے وعدے پر رقم ادھار لی۔ بچے کا داخلہ ہو گیا اور وہ تاریخ بھی آن پہنچی، جس تاریخ پر یہ قرض واپس کرنا تھا۔ اس دن ایسی بارش ہوئی کہ جیسے آج برس کے پھر نہ برسے گی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آسمان میں چھید ہو گیا ہے۔ اتنا پانی برسا کہ پورا علاقہ جل تھل ہو گیا۔ نالے نالیاں ابل پڑے۔ پگڈنڈیوں اور سڑکوں نے ندیوں کی صورت اختیار کر لی۔ گلی کوچوں میں نکلنا دشوار ہو گیا۔ ہر شخص گھر میں قید ہو کر رہ گیا۔ بچے کا اصرار تھا کہ ادھار کے پیسے وعدے کے مطابق آج ہی واپس کر دیئے جائیں۔ باپ کا کہنا تھا کہ ایک دو دن کے بعد ادھار اتارا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، مگر بچہ وعدہ خلافی نہیں چاہتا تھا۔ وہ آج کا کام کل پر نہیں ٹالتا تھا۔ شاید اسی عادت کی وجہ سے وہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا۔

جب بیٹا اور باپ ادھار چکانے کے لیے گرتے پڑتے اور بچتے بچاتے بزرگ کے ٹھکانے پر پہنچے تو ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس وقت بھی بارش کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔

بزرگ نے انہیں دیکھتے ہی کہا: "آؤ آؤ، میں جانتا تھا تم ہاتھ کے بھولے نہیں ہو۔

بچے کا باپ کہنے لگا: "میں نے تو اس سے کہا تھا کہ بارش کا زور ٹوٹے تو چلیں گے، مگر اس نے ایک نہ سنی اور کہنے لگا کہ بابا! میں نے دینیات کی کتاب میں پڑھا ہے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو وصیت فرمائی تھی کہ کبھی وعدہ خلافی نہ کرنا۔ نہ اس معاملے میں کسی کی مدد کرنا۔ یہ سنتے ہی میں بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔”

بزرگ نے بچے کے سر پر محبت و شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: "اس بچے نے انسانی رشتے اور اخلاقی اصول کا ایسا مظاہرہ کیا ہے کہ دل خوش ہو گیا ہے۔ میں یہ پیسے بچے کو دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ ذہین لوگوں اور نیکو کاروں میں شامل ہو۔”

بارش تھمی تو ایسا لگا جیسے اس بچے کے باپ کی تمام مشکلات دھل گئی ہوں۔ معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ ایسا تھاما کہ پیسہ برسنے لگا اور وہ اپنے علاقے کا بڑا ٹھیکے دار بن گیا۔ بچے نے بھی تعلیمی میدان میں سرپٹ بھاگنا شروع کر دیا۔ انجینئرنگ کی سند ملتے ہی اس کا اسی کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا کے فورڈ فاؤنڈیشن کے ارکان تیسری دنیا کے ممالک میں گھوم پھر کر وہاں کے ذہین لوگوں کو اعلا تعلیم کے لیے وظیفے دے کر ان کی ذہانتوں کو اپنی بھلائی کے لیے استعمال کرتے تھے۔

ایک دن وہ کل کا بچہ اور اس وقت کا انجینئر کلاس میں پڑھا رہا تھا۔ فورڈ فاؤنڈیشن کا ایک رکن دورے پر آیا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان لیکچر دے رہا ہے اور اس سے بڑی عمر کے طالب علم کلاس میں بیٹھے بڑے توجہ اور رغبت سے لیکچر سن رہے ہیں۔ وہ رکن بھی کلاس کی پچھلی صف میں بیٹھ گیا۔ جب وقت ختم ہوا اور یہ نوجوان لیکچرار برآمدے میں آیا تو اس رکن نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: "کیا تم اعلا تعلیم کے لیے ہماری کفالت (اسپانسر شپ) قبول کرو گے؟

اس نوجوان لیکچرار نے تعجب اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس کی طرف دیکھا تو رکن نے کہا: "فطری اہلیت کو عمر کے ترازو میں نہیں تولا جاتا۔ عمر کی زیادتی یا کمی سے فطری اہلیت اور صلاحیت کا تعلق نہیں ہوتا۔ یہ نوجوان لیکچرار اعلا تعلیم کے لیے امریکا چلا گیا اور بعد میں وہیں ملازمت اختیار کر لی۔

آپ کو معلوم ہے کہ وہ بچہ کون ہے؟ تمام حاضرین مہمان خصوصی کی ہلکی سے مسکراہٹ کو دیکھنے لگے، جس کا مطلب تھا کہ انھوں نے اپنی ہی کہانی سنائی ہے۔ اسی وقت حاضرین کی پچھلی نشست سے ایک بچہ جو اسی اسکول کا طالب علم تھا، کرسی پر کھڑا ہو کر کہنے لگا: "وہ ایک بچہ میں بھی ہوں۔”

سب لوگ اسے حیران نظروں سے دیکھنے لگے۔ کچھ لوگوں نے اسے ڈانٹتے ہوئے خاموش رہنے کے لیے بھی کہا۔ مہمان خصوصی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا: "بچوں کی بات بھی سننی چاہیے۔”

سب لوگ خاموش ہو گئے تو مہمان خصوصی نے بچے سے پوچھا: "ہاں میاں! ذرا بتاؤ وہ بچہ تم کیسے ہو؟”

بچے نے جواب دیا: "جناب! میں اعلا تعلیم حاصل کر کے اپنے ملک ہی میں رہ کر ایک معیاری فنی درسگاہ قائم کروں گا۔ میں نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے کہ جو کام خلوص دل سے کیا جائے وہ آسان ہوتا ہے۔ اگر عبد الستار ایدھی اتنا بڑا رفاہی اور فلاحی ادارہ چلا سکتے ہیں تو میں بھی تعلیم کے میدان میں اپنے منصوبے کو کام یاب بنا سکتا ہوں۔”

بچے کے عزم اور ارادے کو دیکھ کر مہمان خصوصی کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور انھیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے نیک کاموں کا اجر ملنا شروع ہو گیا ہے۔ مہمان خصوصی نے حاضرین پر فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا: "جس قوم میں چراغ سے چراغ جلانے کی روایت قائم رہتے ہے، جو قوم بچوں کے حقوق ادا کرتی ہے اور بچوں کی سوچ کے دھارے کو صحیح رخ پر ڈالتی ہے وہ قوم ترقی کی دوڑ میں کبھی پیچھے نہیں رہتی۔”
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس
پروف ریڈنگ: ذوالقرنین، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید