FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

وُرود

               خالد کرّار

 

یہ کتاب (ای بک) القلم ریسرچ لائبریری میں بطور خاص اشاعت کے لیے مصنف اور ناشر کی جانب سے پیش کی گئی ہے

یہ کتاب www.khalidkarrar.com پر بھی دستیاب ہے

 

 

انتساب

            شیخ طہٰ اَلماس

            شیخ نجم السحر  ا ور  شیخ احمد دَیّان

            کے نام

            ع ’تم ماہِ شبِ چار دَہُم ہو مرے گھر کے‘

            ڈاکٹر عبد الماجد

            جناب عبد الباسط قاضی

            اور

            جناب فاروق مضطرؔ کے لیے

            ع ’کیونکر نہ کروں مدح کو میں ختم دُعا پر‘

۔۔۔۔شیخ خالد کرار

 

Ink  runs  from  the  corners  of  my  mouth

There  is  no  happiness  like  mine.

I  have  been  eating   poetry.

Mark  Strand”Eating Poetry,” Reasons  for Moving.

 

یہ کائنات مرے بال و پر کے بس کی نہیں

تو کیا کروں سفرِ ذات کرتا رہتا ہوں

عرفان صدیقی

 

وُرود اور میں

            شاعری‘ بقول پال ویلرے*:

 In  poetry  everything  which  must  be  said

 is  almost  impossible  to  say well.

            بلاشبہ بہت کچھ کہا اَن کہا رہ جاتا ہے اور کہے میں سے بھی بہت کچھ ہواؤں کی نذر ہو جاتا ہے۔اِس لیے شعر گوئی کے لئے منطقی انجام لازمی نہیں۔یعنی تفہیم، ترسیل اور ابلاغ سے ماورا بھی کچھ ہے جسے شاعری کا حصہ ہونا چاہیے۔شاعری کو ہم قدم لیے بغیر نہ شعر گوئی ممکن ہے اور نہ شعر فہمی۔میرا پختہ یقین ہے کہ شاعری پیشہ ورانہ حدود سے آزاد ہے،اور رہے گی۔

             ’وُرود‘ اصل میں میرے اِدراک و اِنکشاف کے ثمرات کا تسلسل ہے۔یعنی،رَو میں ہے قلم،سیاہی رواں ہے اور آگہی زندہ۔

            تین سال قبل میری شاعری کے حوالے سے حقانی القاسمی نے لکھا تھا کہ ’پانی اِس کی شاعری کا اسمِ اعظم ہے‘ بظاہر یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ پانی یااس طرز کے دوسرے استعارے کسی شاعر کے ہاں تواتر اور تسلسل سے استعمال ہوں۔لیکن میرے لئے یہ معاملہ سچ مچ دِگر تھا کہ اِس سٹیٹمنٹ کے بعد میں نے اپنی شاعری کا معروضی جائزہ لیا تو  القاسمی کا بیان مجھے حقیقت پسندانہ نظر آیا۔ کہ محض پانی ہی نہیں بلکہ ’صحرا‘ ’دشت‘ ’ریت‘ اور ایسے ہی بے شمارSymbolsہیں جو چاہتے نہ چاہتے ہوئے میری شاعری میں در آتے ہیں اور کبھی کبھی مفید بھی ثابت ہوتے ہیں۔

            ’وُرود‘ کیا ہے؟بس میں اتنا ہی کہوں گا کہ، شاعری ہم قدم ہے اور بس۔اصل یہ ہے کہ اپنی شاعری کے حوالے سے میں کبھی بے جا یا بجا ’گمان‘ کا شکار نہیں ہوا۔نہ میرا اس حوالے سے کوئی دعویٰ ہے، نہ ہی بقول عرفان صدیقی ’’شاعری کون کرامت ہے‘‘ ہاں ! بس یہ کہ شعر ہوتا ہے،پس ہو جاتا ہے اور بعضے کو پسند اور بعضے کو نہیں آتا۔میں پسندیدگی سے زیادہ حواس باختہ اور ناپسندیدگی سے زیادہ حوصلہ شکن نہیں ہوتا کہ یہ دونوں اِنتہائی صورتیں ہیں اور دو انتہاؤں کے درمیان ہمیشہ ایک مرکزی نقطے کی گنجائش رہتی ہے۔

            میں جناب شمس الرحمٰن فاروقی کا سپاس گذار ہوں ،جنہوں نے نہ صرف ’وُرود‘ کے مسودے پر نظر ثانی کی، اپنے بیش قیمت مشوروں سے نوازا، زبان و بیان کی بہت سی باریکیوں سے واقف کروایا بلکہ اپنی مصروفیت کے با وصف،میر ی شعر گوئی کے حوالے سے،دورانِ سفر  اپنے تاثرات تحریر کیے۔اِس حوالے سے جناب پرتپال سنگھ بیتابؔ کا بھی بےحد ممنون ہوں ،بیتابؔ صاحب نے ہمیشہ میرے ساتھ مشفقانہ رویہ رکھا ’وُرود‘ کے حوالے سے بھی ان کے مشورے میرے بہت کام آئے۔جناب حامدی کاشمیری، جناب محمد یوسف ٹینگ، ڈاکٹر فرید پربتی،ؔ پروفیسرقدوس جاوید،ڈاکٹر پریمی رُومانی،کا بھی شکر گذار ہوں ،جنہوں نے اپنے مضامین میں میری شاعری کا تفصیلی احاطہ کیا۔جناب عابد احمد کی سپاس گذاری کا اعتراف بھی ضروری ہے جنہوں نے میری کئی نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔

            دوسرے صاحبوں میں ،اپنے دوست،ڈاکٹر جاوید راہیؔ کا بھی سپاس گذار ہوں جو مرے حوصلوں میں جان ڈالتے رہتے ہیں۔

            ڈاکٹر عبد الماجد قاضی سے اِظہارِ تشکر کے لئے بھی مجھے اَلفاظ کم پڑتے د،کھائی دیتے ہیں۔

            ع     ’’دو ہاتھ ہیں سو محوِ دعا ہونے والے ہیں ‘‘

             اپنے کرم فرما‘ معروف مصور، زرگر ظہور(ہیڈ،ایپلائیڈ آرٹس،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی) کا سپاس گذار ہوں جنہوں نے نہایت محبت اور اہتمام سے اس کتاب کا سرورق تیار کیا۔اصل یہ ہے کہ اس کتاب کا ’’شانِ وُرود‘‘ بس یہی سرورق ہے۔

            جناب فاروق مضطرؔ کی محبت کا اعتراف حسبِ سابق کرو ں گا کہ

            ع  ’’ شہر میں ایک ہی دو ہوں گے تمہارے جیسے‘‘

            نہایت محترم اور مکّرم دوست قاضی عبد الباسط مدنی ہیں۔جو بلاوجہ محبت اور کرم فرمائی پہ تُلے رہتے ہیں۔تو یہ صاحب سُن لیں کہ میں ان کی نوازشات کا مناسب جواب دینا چاہتا ہوں پر نہیں سکتا۔

            اب ’وُرود‘ اور آپ!!

                                                            شیخ خالد کرارّؔ

                                                            یکم دسمبر2010ء

                                                            جموں

 

حسنِ فروغِ شمعِ سخن دُور ہے

غزلیں

 

ہے مول بھاؤ میں، بازار میں ہے ساتھ مرے

وہ ایک کارِ فنا زار میں ہے ساتھ مرے

صلیبِ جاں سے وصال آسماں کے ساحل تک

ہر ایک لذتِ آزار میں ہے ساتھ مرے

کبھی تو ہیرو بناتا ہے اور کبھی جوکر

ہر ایک رنگ کے کردار میں ہے ساتھ مرے

یہی بہت ہے مرے جسم و جاں کا حصہ ہے

کہیں تو موجۂ  خُوں بار میں ہے ساتھ مرے

عجب گُمان ہے جیسے کہ سرفراز ہوں میں

عجیب فتنۂ  دستار میں ہے ساتھ مرے

کبھی مجھے بھی ذرا معجزہ نما کرتا

جو اپنی ذات کے اسرار میں ہے ساتھ مرے

وہ دسترس میں ہے، لیکن نظر سے غائب ہے

حریفِ جاں کوئی پیکار میں ہے ساتھ مرے

میں اک نگاہ کو محسوس کر رہا ہوں مدام

کوئی تو ریگِ فنا زار میں ہے ساتھ مرے

وہ سارے خیمے لگاتا ہے، پھر اُکھاڑتا ہے

سرابِ منزل و آثار میں ہے ساتھ مرے

جو چھوڑ دیتا ہے دشتِ زوال میں تنہا

وہ ریل پیل میں، بازار میں ہے ساتھ مرے

●●●

 

ایک کارِ ہنر تماشا ہے

ایک یہ رہگذر تماشا ہے

آج کل کُچھ سُجھائی دیتا نہیں

آج کل خواب بھر تماشا ہے

اِس طرف عشق بھی، ہوس بھی ہے

اُس طرف سربسر تماشا ہے

ہم ہیں اپنے تماش بینوں میں

اور دیوار و در تماشا ہے

ایک نُقطے پہ مرتکز دونوں

دِل مداری ہے، سر تماشا ہے

مستقل کر دے یہ سرابِ شوق

کس لیے مختصر تماشا ہے

پھر وہ نظارگیِ  دشتِ فنا

پھر وہی چشمِ تر تماشا ہے

ایک بے پایاں آسماں سر پر

اور یہ بال و پر تماشا ہے

ایک ہجرت ہے مُستقل خالدؔ

ہم ہیں اور دربدر تماشا ہے

●●●

 

کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے

بہت پُختہ بہت ہی پاس سے باندھا ہوا ہے

ہمارے تخت کو مشروط کر رکھا ہے اُس نے

ہمارے تاج کو بن باس سے باندھا ہوا ہے

سیاہی عمر بھر میرے تعاقب میں رہے گی

کہ میں نے جسم کو قرطاس سے باندھا ہوا ہے

مرے اثبات کی چابی کو اپنے پاس رکھ کر

مرے انکار کو احساس سے باندھا ہوا ہے

ہمارے بعد اِن آبادیوں کی خیر کیجو!

سمندر ہم نے اپنی پیاس سے باندھا ہوا ہے

سجا رکھی ہے اُس نے اپنی خاطر ایک مسند

مرے آفاق کو انفاس سے باندھا ہوا ہے

عجب پہرے مرے افکار پر رکھے ہیں خالدؔ

عجب کھٹکا مرے احساس سے باندھا ہوا ہے

●●●

 

توشۂ  خواب لئے چلتا ہوں

جسم کی قاب لئے چلتا ہوں

ہر قدم اپنے لہو میں غلطاں

موجِ پایاب لیے چلتا ہوں

یاد رکھتا ہوں پُرانی باتیں

دل میں زہر اب لیے چلتا ہوں

 جسم شل اور سفر تازہ ہے

رُوح بیتاب لیے چلتا ہوں

ہے مرا کارِ ہنر ساتھ مرے

جنسِ نایاب لیے چلتا ہوں

ایسا کرتا ہوں، سرِ کوئے ابد

کچھ نئے خواب لیے چلتا ہوں

●●●

 

پسِ خیال، کوئی سلسلہ نہیں ٹِکتا

کہ میرے پاس کوئی معجزہ نہیں ٹِکتا

یہ مسئلہ ہے کہ اُس شخص کے خیال بغیر

ہمارے پاس کوئی مسئلہ نہیں ٹِکتا

سُنا ہے قافلے ابرِ رواں کے آتے ہیں

میں ریگ زار، کوئی قافلہ نہیں ٹِکتا

ہماری ذات مسلسل سفر میں ہے اب بھی

ہمارا خود سے کوئی رابطہ نہیں ٹِکتا

چلو یہی کہ وہ ٹِکتا تو ہے کہیں آخر

اگرچہ پاس مرے وہ ذرا نہیں ٹِکتا

ٹِکائے بیٹھا ہے دھرتی کو اِن خلاؤ ں میں

کسی بھی شہر میں لیکن خدا نہیں ٹِکتا

ہزار آئینہ تمثال دار ہو لیکن

وہ سامنے ہو، کوئی آئینہ نہیں ٹِکتا

گلہ گذار ہوں مسجد کے بام و در کی طرح

کہ مجھ میں کوئی بھی بہرِ خدا نہیں ٹِکتا

یہ تیرا پھُول سا بوسہ مری پشیمانی

مرے لبوں پہ کوئی ذائقہ نہیں ٹِکتا

●●●

 

جان دی ہے امان چاہتا ہوں

اور خُود پر کمان چاہتا ہوں

ہوں ہراساں خود اپنی ذات سے میں

یعنی کوئی مچان چاہتا ہوں

کھودتا ہوں اُنھیں زمینوں کو

اور نیا آسمان چاہتا ہوں

اور کچھ چاہتا نہیں لیکن

روٹی، کپڑا، مکان چاہتا ہوں

بُعد رکھتا ہوں اپنی ذات سے میں

کچھ نہ کچھ درمیان چاہتا ہوں

●●●

 

وجودِ خاک میں یہ نغمۂ  لہو پانی

زمینِ سنگ میں تنہا سی آبجُو پانی

تمام عمر یہ دھڑکا لگا رہا مجھ کو

تمام عمر کی عُجلت وہی وضو پانی

پھر ایک دِن میرے شجرے پہ حرف آنے لگا

پھر ایک دن، مرے آبا  کی آ برو پانی

پھر ایک دن، وہی غیرت مرے قبیلے کی

پھر ایک دن، وہی خنجر وہی لہو پانی

پھر ایک دن، کہ رواں میری ایڑیوں سے ہوا

پھر ایک دن، کہ کیا اُس نے سُرخرو پانی

پھر ایک دن کہ، مرا نام پانیوں پہ لکھا

پھر ایک دن، کہ سبھی جام اور سُبو پانی

پھر ایک دن، مرے صحرا نے یہ کہا مجھ سے

یہاں پہ ہوگا یقیناً رواں کبھو پانی

پھر ایک دن، کہ کوئی تشنۂ  فرات رہا

پھر ایک دن، مرے پانی کی آبرو پانی

پھر ایک دن، کہ مرا خوش ادا بدن مٹی

پھر ایک دن، مری تاثیر، میری خُو پانی

پھر ایک بُوند نے مانگا حساب صدیوں کا

پھر ایک دن، کہ ہوا میرے رُوبرو پانی

پھر ایک آخری منظر، کہ ڈوبتا منظر

پھر ایک دن، کہ ہوا میرے چار سُو پانی

پھر ایک دن، کہ مرے سارے رنگ مٹی کے

پھر ایک دن، مری تصویرِ رنگ و بُو پانی

پھر ایک پل میں کوئی شور سا اُٹھا خالدؔ

پھر ایک پل، میری بستی میں کُو بہ کُو پانی

●●●

 

اِمکان سے باہر کبھی آثار سے آگے

محشر ہے مرے دیدۂ  خوں بار سے آگے

عِرفان کی حد، یا مرے پیکر کی شرارت

نِکلا مرا سایہ، مری دستار سے آگے

اِک جنس زدہ نسل ہے تہذیب کے پیچھے

بازار ہے اک کوچہ و بازار سے آگے

سُورج ہے شب و روز تعاقب میں وگرنہ

ہے اور بہت رات کے اسرار سےآگے

ہم لوگ، کہ منزل کے بھُلاوے کے گرفتار

آثار سے پیچھے، کبھی آثار سے آگے

●●●

 

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے

مرے اثبات کو اِنکار سے باندھا ہوا ہے

مرے ہاتھوں میں کیلیں گاڑھ رکھی ہیں کسی نے

مرے ہی جسم کو دیوار سے باندھا ہوا ہے

یا رستہ دائروں کی قید میں ہے میری خاطر

یا میرے جسم کو پرکار سے باندھا ہوا ہے

حویلی میں مرے اجداد رہتے تھے مگر اب

اَنا کے سانپ کو دستار سے باندھا ہوا ہے

مجھے واپس اُسی جنگل میں جانا ہے کسی دن

مجھے تہذیب نے بازار سے باندھا ہوا ہے

میں اُس کو سر اُٹھا کر دیکھنا تو چاہتا ہوں

مگر کندھوں کواُس نے بار سے باندھا ہوا ہے

مجھے، ہر گام ہے تازہ ہزیمت  عمر بھرکی

کہ میں نے آئینہ کردار سے باندھا ہوا ہے

حیا داری کے دھاگے نے پرو رکھا ہے خالدؔ

بھرم نے مجھ کو میرے یار سے باندھا ہوا ہے

●●●

 

رہے گا جسم میں، اور جان سے گذارے گا

وہ روز لذتِ وجدان سے گذارے گا

نواز دے گا وہ بحرِ خود آگہی سے مجھے

پھر ایک عالمِ انجان سے گذارے گا

یہ عشق ذوق وسلیقۂ  بندگی ہے مجھے

یہ کُفر کُوچۂ  ایمان سے گذارے گا

مری سرشت کو ناممکنات میں رکھ کر

وہ روز  تازہ  تر  اِمکان سے گذارے گا

وہ اصل بات کو بین السطور لکھے گا

کہ بے سبب مجھے عنوان سے گذارے گا

یا خار زارِ حقیقت، یا آرزو کی شکست

وہ زندگی اِسی سامان سے گذارے گا

وہ بخش دے گا نئے ذائقے لبوں کو مگر

پھر ایک آتشِ ہیجان سے گذارے گا

وہ رنگ و چہرہ و نام و نسب کی بستی میں

عجیب فتنۂ  پہچان سے گذارے گا

مجھے بھی نوچ ہی لے گا کہ اُس کی عادت ہے

مجھے بھی حلقۂ  گُلدان سے گذارے گا

وہ اپنے سارے طلسمات پاس رکھے گا

مجھے ہی دشت و بیابان سے گزارے گا

میں رزمِ گاہِ بدن سے تو جیت  جاؤں گا

وہ ایک معرکۂ  جان سے گذارے گا

میں اُس کے نام کی پیچیدگی سے نکلوں گا

وہ اپنی ذات کے عِرفان سے گذارے گا

کبھی تو راہ میں مل جائے گا مجھے خالدؔ

کبھی تو دیدۂ  حیران سے گذارے گا

●●●

 

ہر قدم موجِ بلا سے واسطہ ہے

اُس پہ اک دشتِ اَنا سے واسطہ ہے

میں بھی کن دو کشتیوں پر ہوں سوار

تُجھ سے نسبت ہے، خُدا سے واسطہ ہے

سیپیوں کو پانیوں سے ہے غرض

بادبانوں کو ہوا سے واسطہ ہے

وہ میرے احوال سے ہے باخبر

اب اُسے دستِ دُعا سے واسطہ ہے

میرا ماضی دفن ہے پاتال میں

میرے فردا کو خلا سے واسطہ ہے

سب صدائیں، سارے منتر، سارے راگ

کوئی لہجہ ہو، خدا سے واسطہ ہے

برگ کی بیچارگی میرا عذاب

اور اُسے رنگِ حِنا سے واسطہ ہے

موسموں سے کیا تعلق ہے مجھے

اک سُبو سے، اک صبا سے واسطہ ہے

●●●

 

پانی کا اضطراب، مرے جسم و جاں میں اور

پھر سے وہی سراب، مرے جسم و جاں میں اور

میرے ہی رُوبرو، مرا باطن، سیاہ رات

اپنی ہی آب و تاب، مرے جسم و جاں میں اور

بھُولے نہیں عدن کے وہ دیوار و در ابھی

رہتا ہے ایک خواب، مرے جسم و جاں میں اور

اب کے ہوا بھی تیز ہے، میں بھی ورق ورق

کھُلتا ہے کوئی باب، مرے جسم و جاں میں اور

ڈُوبے گا پھر کہاں کہ شبِ کرب، ایک بار

اُترے گا آفتاب، مرے جسم و جاں میں اور

اب کے نفس کی بارہ دری پر محیط ہے

اک گرد کہ حباب مرے جسم و جاں میں اور

سارے پُرانے نشے ہوا ہو گئے کہ اب

تازہ ہے زہرِ آب، مرے جسم و جاں میں اور

بولو کہ سب صدائیں مری گُنگ ہو چلیں

لِکھو نیا عذاب مرے جسم و جاں میں اور

خالدؔ خود اپنی ذات سے خدشات ہیں بہت

خُود سے ہی اجتناب، مرے جسم و جاں میں اور

●●●

 

لُہو سے چشمۂ  حیواں نکالنا تھا کبھی

مجھے بھی ورطۂ  حیرت میں ڈالنا تھا کبھی

ہمارے سارے اُجالے ہیں مستعار ترے

یا آپ جلنا یا کاغذ اُجالنا تھا کبھی

دلِ تباہ،  یہ صحنِ بدن،  غُبارِ فنا

یہیں کہیں تری یادوں کا پالنا تھا کبھی

یہ خاک تُم نے جو چھانی تو کیا ملا خالدؔ

بدن میں آگ کا دریا اُبالنا تھا کبھی

●●●

 

صحرا، ملال، دھوپ، تھکن، بے قرار ریت

حدِ نظر زوال ہے، منزل، شرار ریت

سارے خدا ہواؤں کی زد پر ہیں آج کل

سارے مزار ریت، عبارت گزار ریت

میں ایک گہرے سبز سمندر کی تھاہ ہوں

رہتی ہے مجھ میں چار سُو نا پائیدار ریت

پھر اُس کے بعد سارے صحیفے نمائشی

پھر اُس کے بعد آج بھی قول و قرار ریت

یہ بے کنار رات کا دامن، یہ ریگ زار

رستے میں ایک شور کہ مٹی سوار ریت

سینے میں اک خلا کا مسلسل سکوت ہے

ظاہر میں ایک دشت، مرے آر پار ریت

میں کس بھرم میں ریت سے اُمیدوار ہوں

کرتی ہے ایک عمر کہاں انتظار ریت

ٹھہرے تھے ایک دن جہاں ناقہ سوارتم

کرتی ہے آج تک وہی خاکے شمار ریت

اِس خوش ادا لباس کے دامن میں رکھ دیا

رُکتی نہیں کہیں بھی مری طرحدار ریت

آخر میں ہاتھ بھر، مرا مال و متاع تھا

دیکھا تو ہست و بُود تلک بے شمار ریت

میں چاہتا ہوں آج کوئی خواب دیکھ لوں

آنکھوں میں چُبھ رہی ہے مگر خار خار ریت

میں اور ریگ زار، کہ وحشت ہی راس ہے

اوّل غبار خاک ہے، آخر غبار ریت

میں نے یہ کب کہا تھا مرا اعتبار کر

اب ڈھونڈتی پھرے مجھے دیوانہ وار ریت

ہر عکس ہے خلا، سبھی چہرے دھواں دھواں

ہے خواب آئنہ، مرے نقش و نگار ریت

●●●

 

اضطرابِ جسم و جاں ہے اور میں

پھر نیا اِک امتحاں ہے اور میں

اُس کی رحمت، اب نصیبِ دُشمناں

ہاں مگر اک سائباں ہے اور میں

ریت آنکھوں میں رواں ہونے لگی

خاک!قدموں کے نشاں ہیں اور میں

ایک پنجر ہے، نفس ہے آگ ہے

ہر قدم خاکِ رواں ہے اور میں

میں پیمبر ہوں، سیاہی، پیرہن

حرف میرا ترجماں ہے اور میں

دشت و دریا چھانتے بنتی نہیں

آج اپنا آشیاں ہے اور میں

اک زمیں، ہے بارہا دیکھی ہوئی

ایک تازہ آسماں ہے اور میں

عرشۂ  تاریخ پر بیٹھا ہوا

ڈوبتا ہوں، بادباں ہے اور میں

مجھ سے خائف بھی، مرا دم ساز بھی

کوئی میرا ہم زباں ہے اور میں

راستوں پہ ڈھونڈتا ہوں خود کو اب

خاک پر نام و نشاں ہے اور میں

آج کل میرا نصیبہ ہفت رنگ

لفظ مجھ پر مہرباں ہے اور میں

ریت پیاسی تھی، سو پیاسی ریت ہے

سایۂ  ابرِ رواں ہے اور میں

●●●

 

شعورِ آگہی کے فلسفے میں جلتا ہوں

میں اپنے ساتھ اِسی رابطے میں جلتا ہوں

ہوں آج بھی اُسی قربان گاہ کی زینت

 میں آج بھی اُسی آتش کدے میں جلتا ہوں

اُسی ’’اُنگشت‘‘ کے زیرِ اثر ہوں صدیوں سے

میں ماہتاب، اُسی معجزے میں جلتا ہوں

میں ریگ زار میں اُمید کی طرح روشن

یا خیمہ گاہ میں، یا قافلے میں جلتا ہوں

میں خانقاہ میں جلتا ہوا چراغ نہیں

اندھیرے موڑ پہ ہوں، راستے میں جلتا ہوں

ہوا بُجھانے کے درپے ہے جن چراغوں کو

 میں روشنی کے اُسی سلسلے میں جلتا ہوں

میں جانتا ہوں، یہ خندق نہ پاٹ پاؤں گا

فصیلِ ذات پہ کس حوصلے میں جلتا ہوں

یہ رات جیت کے ہر روز ہار جاتی ہے

میں روز یونہی شفق آئینے میں جلتا ہوں

●●●

 

صحرا، ساگر سب پانی

سبزہ، بنجر سب پانی

اوّل اوّل پانی تھا

آخر آخر سب پانی

پانی پانی شہر پناہ

مسجد، مندر، سب پانی

کوئی دن ایسا ہوگا

صحرا، ساگر، سب پانی

مستقبل، مٹی کا ڈھیر

ماضی، کھنڈر، سب پانی

آگ، دھماکے، خُون، دھُواں

نیزے، لشکر، سب پانی

ساری دُنیا ڈانواڈول

دھرتی، ساگر سب پانی

اندر اندر آگ، دھُواں

جسم کے باہر، سب پانی

سارے موحّد، پانی کے

پھُول، مجاور، سب پانی

●●●

 

مرے کہے پہ ذرا اعتبار کرنا تھا

کوئی جنم تو مرا انتظار کرنا تھا

قبا کو چاک، عبا تار تار کرنا تھا

تلاش کوئی نیا ریگ زار کرنا تھا

کہا تھا کس نے کہ کتبے پڑھو مزاروں کے

تمہارا کام تو قبریں شمار کرنا تھا

مجھے خبر تھی کہ انجام کار اُس نے میرے

لہو کو خاک، بدن کو غُبار کرنا تھا

●●●

 

صدیوں کا اِنتظار مرے جسم و جاں میں اور

میں اور وہی غُبار مرے جسم و جاں میں اور

میں رہگذارِ کارِ تمنا، مرادِ دِل

خود اپنا انتظار، مرے جسم و جاں میں اور

اک لُطف کی سبیل بظاہر رواں دواں

اک کرب کا حصار مرے جسم و جاں میں اور

ماضی کے زخم تیری عنایات اور میں

مژ گاں کا اعتبار مرے جسم و جاں میں اور

لمحے، طلوع، رات، فلک، صبح، آفتاب

پھر سے وہی شمار، مرے جسم و جاں میں اور

اک ریگ ہے کہ درپے مرے برگ و بار کے

اک گرد کا حصار، مرے جسم و جاں میں اور

دیکھو یہ ’گُل گماں، تو فقط دیکھنے کا ہے

ہے دشتِ ریگزار، مرے جسم و جاں میں اور

اک برگ کے سکوت میں لِپٹا ہوا ہوں میں

ہے دشت خار خار، مرے جسم و جاں میں اور

لمحوں کی آہٹوں سے مزّین مرا وجود

صدیوں کا اختصار، مرے جسم و جاں میں اور

●●●

 

رات ہوں اندھیرا ہوں

اور کوئی رستا ہوں

روز ہی اُجڑتا ہوں

 اور روز بستا ہوں

دیکھتے ہو کیا مجھ کو

بند ہوں، دریچہ ہوں

زندگی سمندر ہے

میں کوئی جزیرہ ہوں

طاق پہ ہوں مُدت سے

گویا اک صحیفہ ہوں

عمر لد گئی خالدؔ

زندگی میں الجھا ہوں                     ●●●

 

صبا کی خاک نوردی، سُبوکی ویرانی

تمہارے بعد ہوئی آرزو کی ویرانی

ترے بغیر میرے حوصلے زوال پذیر

ترے بغیر مری جُستجو کی ویرانی

شمارِ عمرِ گریزاں، حسابِ طاعت و زہد

وُضو کی خانہ پُری تھی لہُو کی ویرانی

ہر ایک دشت پُرانا سرابِ جاں کی طرح

ہر ایک شہر نیا، آبرو کی ویرانی

تمہارے ساتھ سےمیرے سُخن کی شیرینی

تمہارے بعد، میری گفتگو کی ویرانی

تمام رات، سرابِ سفر کا دھڑکا تھا

تمام رات تھی اِک ’ہاؤ ہُو‘ کی ویرانی

●●●

 

نیند کیسی؟خواب کیا؟ جلتے شکارے دیکھنا

آنکھ وا کرنا، تو آنگن میں شرارے دیکھنا

دیکھنا ہر روز، تازہ تر خداؤں کا نزول

پھر اُفق کو دیکھنا، پھر سے کنارے دیکھنا

دیکھنے کو، دیکھ بھی لینا مناظر کا ہجوم

اور پھر خاموشیوں کے استعارے دیکھنا

سوچ لینا، کون کتنے پانیوں میں ہے مقیم

یونہی دالانوں سے موسم کے اِشارے دیکھنا

بھُول جانا، تو دِنوں تک بھُولتے جانا اُسے

یاد کرنا تو مہینوں تک ستارےدیکھنا

خود کشی کرنے کی ہمت بھی جُٹا پانا نہیں

ڈُوبنے جانا تو تِنکوں کے سہارے دیکھنا

یاد کر لینا چناروں پر پرندوں کا ہجوم

اور کتبوں پر پُرانے گوشوارے دیکھنا

●●●

 

توشۂ  دشتِ خلا خالی ہے

اک بھرم اور خُدا خالی ہے

جیسے چُلّو میں مرے پانی ہو

ہاتھ بھر پور دُعا خالی ہے

جیسے خوشبو نے بھی ہجرت کر لی

آج کل بادِ صبا خالی ہے

صحن تک ساری قطاریں بھرپور

پھر بھی خانائے خدا  خالی ہے

سارے بھرپور ہیں، اِس شہر کے لوگ

کون جو میرے سِوا خالی ہے

تُو ہی خالی نہیں اے خانۂ  جاں

دیکھ اب سب کا خدا خالی ہے

●●●

 

بات یہ ہے کہ کوئی بات پُرانی بھی نہیں

اور اِس خاک میں اب کوئی نشانی بھی نہیں

یا تو ظاہر میں تمّوج تھا بلا کا لیکن

یا بدن میرا، جہاں کوئی روانی بھی نہیں

یا تو اِک موجِ بلا خیز ہے میری خاطر

یا کہ مشکیزۂ  جاں میں کہیں پانی بھی نہیں

بات یہ ہے، کہ سبھی بھائی مرے دشمن ہیں

مسئلہ یہ ہے کہ میں یوسفِ ثانی بھی نہیں

سچ تو یہ ہے، کہ مرے پاس ہی درہم کم ہیں

ورنہ اِس شہر میں اس درجہ گرانی بھی نہیں

سارے کردار ہیں اُنگشت بدنداں مجھ میں

اب تو کہنے کو مرے پاس کہانی بھی نہیں

ایک بے نام و نسب سچ، مرا اظہار ہوا

ورنہ الفاظ میں وہ سیلِ معانی بھی نہیں

●●●

 

میں تماشا ہوں تُو تماشا ہے

آئینہ رُوبرو تماشا ہے

ہے بدن میں جو سرگرانی سی

دیکھیے تو لہو، تماشا ہے

دشت ویرانیوں میں ہے آباد

شہر میں کُو بہ کُو تماشا ہے

انجمن کیا ہے آدمی کیا ہیں

حاصلِ گُفتگُو تماشا ہے

میں تُجھے یاد کرتا رہتا ہوں

ایک یہ ’بے وُضو‘ تماشا ہے

اُس کی خلوت، زہے نصیب مگر

الاماں تُند خُو، تماشا ہے

اُس کے اِس بیکراں سمندر میں

یہ مری آب جُو، تماشا ہے

ہیں تماشے بہت مگر مُجھ کو

اِک تری آرزو تماشا ہے

بات بے بات اِس قبیلے میں

 جانے کیوں آبرو تماشا ہے

زہر سے زہر کاٹتا ہوں میں

خُون اُس پر سُبو، تماشا ہے

ہے مجھے سب خیال و خواب ایسا

کیا مرے رُوبرو تماشا ہے؟

●●●

 

نہ راس آیا مجھے خوش ادا بدن میرا

کہیں یہ راکھ، کہیں خاکِ پا بدن میرا

   لہو، صلیب پہ رکھا رہا بدن میرا

نفس، فصیل پہ دستِ دعا بدن میرا

تمام روز یونہی ہم کلام رہتے ہیں

یہ میری بھوک، وہ میرا خدا، بدن میرا

تمام سُر بھی تمہارے ہر ایک آہنگ بھی

تمہارے دشت میں نغمہ سرا بدن میرا

میرا نفس، میرا محشر، ہزار بندش ہے

میرے وجود کی زنجیرِ پا بدن میرا

بُجھے گی آگ، یا پگھلے گی برف لازم ہے

یہ کوہسار، یہ شعلہ نما بدن میرا

یہ انتظارِ مسلسل، یہ امتحاں پیہم

یہ دشت اور یہی بے رِدا بدن میرا

یہ ٹُوٹ جائے اگر، کھُل کے جی سکوں میں بھی

مرا یقین، مرا آسرا، بدن میرا

پھر اُس کے بعد مجھے دیکھنا مرے یارو!

ابھی ہے پاؤں میں ایک آبلہ بدن میرا

●●●

 

بلا کی پیاس تھی حدِ نظر میں پانی تھا

کہ آج خواب میں صحرا تھا گھر میں پانی تھا

پھر اُس کے بعد مری رات، بے مثال ہوئی

اُدھر وہ شعلہ بدن تھا، اِدھر میں پانی تھا

نہ جانے خاک کے مژگاں پہ آبشار تھا کیا

مرا قصور تھا، میرے شرر میں پانی تھا

تمام عُمر یہ عُقدہ نہ وا ہوا مجھ پر

کہ ہاتھ میں تھا یا چشم خِضر میں پانی تھا

عجیب  دشتِ تمنا سے تھا گزر خالدؔ

بدن میں ریگِ رواں تھی، سفر میں پانی تھا

●●●

 

رواں ہے موجِ فنا جسم و جاں اُتار مجھے

اُتار، اب کے سرِ آسماں اُتار مجھے

میرا وجود سمندر کے اضطراب میں ہے

کہ کھَل رہا ہے ترا بادباں اُتار مجھے

بہت عزیز ہوں خارانِ تازہ کار کو میں

بہت اُداس ہے دشتِ جواں اُتار مجھے

کوئی جزیرہ جہاں ہست و بُود ہو نہ فنا

وجود ہو نہ زمانہ وہاں اُتار مجھے

●●●

 

اگرچہ آج مری چشمِ تر میں آوے ہے

زہے نصیب کوئی اپنے گھر میں آوے ہے

اُتار دیوے ہے قالب میں سارے صیغوں کو

خیالِ یار ’’اُدھر،، سے ’’اِدھر،، میں آوے ہے

کبھی کبھی تو بجائے ہمارے، شام ڈھلے

اُداسیوں کا جنازہ ہی گھر میں آوے ہے

اُس ایک فتنۂ  محشر کی یاد جب آوے

عجیب لطف مجھے ’دردِ سر‘ میں آوے ہے

مثالِ خوشبوئے مہتابِ رنگ و بُو خالدؔ

کبھی تو موجۂ  برق و شرر میں آوے ہے

●●●

 

اک تماشا یہ دکھا دینے کا

دشت میں خاک اُڑا دینے کا

خود سے دیوار اُٹھانا ہر شب

صبح دیوار گِرا دینے کا

پہلے بھر لینے کا سب پیاس اپنی

چاہے چھاگل کو بہا دینے کا

پھُول چُننے کا کوئی سب سے الگ

اُس کی زُلفوں میں سجا دینے کا

اے صبا! اُس شہِ دو عالم کو

میرا احوال سُنا دینے کا

شہر میں شور بہت ہے خالدؔ

کس طرح اُس کو صدا دینے کا

●●●

 

اِس لیے بیقرار ہے شاید

دشت خالد کراّرؔ ہے شاید

وقت نکڑ پہ آ کے بیٹھا ہے

میرا ہی  انتظار ہے شاید

میری گٹھڑی تو اب بھی خالی ہے

مجھ پہ اپنا ہی بار ہے شاید

میں نکلتا ہوں اور روتا ہوں

جسم میرا حصار ہے شاید

صبح اک راکھ سی جو اُڑتی ہے

رات میں کچھ  شرار ہے شاید

شہر میں دشت دشت چیختا ہے

وہی خالد کراّرؔ ہے شاید

●●●

 

اب کوئی آرام مجھے پر کاہے کو

خواب مسہری درد کا دفتر کاہے کو

کاہے کو یہ شہر پریشاں پھرتا ہے

ہو جاوے جو کھیت بھی بنجر کاہے کو

تجھ کو کوئی پانے والا پاوے گا

بھکشو، مُلّا، مسجد، مندِر کاہے کو

مُجھ سے باہر آ جاوے تو مانوں میں

شور مچاوے اندر اندر کاہے کو

میں ہی جوگی، میں ہی سانپ بھی لاٹھی بھی

زہر جب اپنا ہے تو منتر، کاہے کو

●●●

 

وُرودِ جسم تھا جاں کا عذاب ہونے لگا

لہُو میں اُترا مگر زہر آب ہونے لگا

کوئی تو آئے، سُنائے نویدِ تازہ مجھے

اُٹھو کہ حشر سے پہلے حساب ہونے لگا

اُسے  یہ شک  ہے جھُلس جائے گا وہ ساتھ میرے

مجھے یہ خوف کہ میں آفتاب ہونے لگا

پھر اُس کے سامنے چُپ کی کڑی لبوں پہ لگی

مرا یہ منصبِ حرف آب آب ہو نے لگا

میں اپنے خول میں خوش بھی تھا مطمئن بھی تھا

میں اپنی خاک سے نکلا خراب ہونے لگا

ضرور مجھ سے زیادہ ہے  اُس میں کچھ خالدؔ

مرا حریف اگر فتحیاب ہونے لگا

●●●

 

سارے آثار، سب امکان بدل جاتے ہیں

لفظ رہ جاتے ہیں، پیمان بدل جاتے ہیں

گرد ہٹتی ہے صحیفوں سے مگر اُس کے بعد

دیکھتے دیکھتے جُز دان بدل جاتے ہیں

ایک آذر کو قلق ہے کہ صنم خانوں میں

بُت بدلتے نہیں، ایمان بدل جاتے ہیں

آندھیوں میں کوئی پہچان نہیں رہ پاتی

اُونٹ ملتے ہیں تو سامان بدل جاتے ہیں

کون قاتل ہے کہ مقتول، سبھی کتبوں کے

رات ہی رات میں عنوان بدل جاتے ہیں

●●●

 

خالدؔ اب یہ بیکرانی اور لکھنے کی نہیں

ایسے صحرا کی کہانی، اور لکھنے کی نہیں

اور کرنے کا نہیں مجھ کو حسابِ جسم و جاں

یہ بلائے ناگہانی اور لکھنے کی نہیں

تُجھ کو کرنے کا نہیں برپا کوئی تازہ نزول

مجھ کو پھرویسی کہانی اور لکھنے کی نہیں

اور سننے کی نہیں صحراؤں کی آہ و فغاں

ساحلوں کی بیکرانی اور لکھنے کی نہیں

●●●

 

شجر، پانی، ہوا یکسر خلا ہے

ہر اک سایہ، ہر اک پیکر خلا ہے

مکانوں میں مکیں ہے لامکانی

درونِ بام و در منظر خلا ہے

زمیں بس آ گئی ہے راستے میں

وگرنہ دُور تک یکسر خلا ہے

اگرچہ خوب تر ہے پیش منظر

مگر منظر کا پس منظر خلا ہے

خلا سے میرا رشتہ ہے پُرانا

میرے اندر، مرے باہر خلا ہے

●●●

 

آتے ہی تیرے جان مری جان میں آئے

وحشت ہے تو اب جامۂ  انسان میں آئے

اب کون بتائے مرے خوابوں کی حقیقت

یوسف سے کہو لوٹ کے کنعان میں آئے

ہر روز تعاقب میں چلی آئیں صلیبیں

ہر روز کلیسا مرے ایمان میں آئے

ٹوٹی ہوئی چھاگل میں مری پیاس پڑی تھی

میں سمجھا خزانے مرے سامان میں آئے

ہم ایسے صحیفوں کی طرح ہیں جو ہمیشہ

جُز دان سے نکلے بھی تو جُز دان میں آئے

ہم تھے تو کہیں اور بھی موجود تھے ہم لوگ

تھے خواب کے پروردہ جب امکان میں آئے

●●●

 

سیاہ رات کے قصے سُنا رہی ہے ہوا

میں جا رہا ہوں کدھر؟کیوں بُلا رہی ہے ہوا

میں ریگ زارِ فنا سے ہوں برسرِ پیکار

یہ آج کس لئے مُجھ کو سُنا رہی ہے ہوا

کچھ ایک دن سے ہیں سرگوشیاں سی کانوں میں

کہ جیسے شاخ سے پتے گِرا رہی ہے ہوا

میں گھر سے نکلا کہاں ہوں کہ آج میرے لیے

ہر ایک راہ پہ کانٹے بِچھا رہی ہے ہوا

ہے ایستادہ مرے سامنے زوال مرا

اگرچہ عقل پہ پردے گرا رہی ہے ہوا

●●●

 

حرفِ تازہ کہ مری اور چلا آتا ہے

پھر وہ سجدہ کہ مری اور چلا آتا ہے

اور منزل تو مسافر کے لئے رہتی ہے

اور رستا کہ مری اور چلا آتا ہے

اور دریا نے ہمیشہ مجھے پیاسا رکھا

اور صحرا کہ مری اور چلا آتا ہے

میں اِسے جو ڑ کے اک حرف بنا دیتا ہوں

اک صحیفہ کہ مری اور چلا آتا ہے

پھُول سب اُس کے دریچے کے لئے کھلتے ہیں

زخم گہرا کہ مری اور چلا آتا ہے

آئنہ کور ادا، دیکھتا رہتا ہے مجھے

یہ سراپا کہ مری اور چلا آتا ہے

●●●

 

سفر، رستہ، صعوبت، خواب، صحرا

سمندر، واہمہ، خوناب، صحرا

سفینے، بارشیں، طُوفان، موسم

جزیرے، کشتیاں، سیلاب، صحرا

مسافر، ریت، ڈنٹھل، پیاس، پانی

کھجوریں، باغ، گھر، تالاب، صحرا

کلیسا، مولوی، راہب، پُجاری

کلس، مینار، بُت، محراب، صحرا

مشینیں، گھر، دھواں، گندم، قطاریں

ملازم، نیند، بچے، خواب، صحرا

زمیں، پتھر، شجر، نہریں، کنارے

خلا، نقشے، حدیں، گرداب، صحرا

●●●

 

خُود کشی،   ارمان،   دریا، بے ثبات

راستا، گُنجان،  دریا، بے ثبات

پیاس، صحرا دھُوپ، مشکیزۂ  جاں

دل، بدن ایمان، دریا، بے ثبات

دشت، خنجر، خون، خرقہ، چاہِ جاں

رات، ڈر، کنعان، دریا،  بے ثبات

سانس، لمحے، رات دِن، گردش، ہوا

آسماں، احسان، دریا،  بے ثبات

موت، خواہش، درد، بستر، دل، صدا

زندگی، سرطان، دریا،  بے ثبات

خواب، شب، دفتر، کچہری، گھر، سڑک

روز و شب، آسان، دریا  بے ثبات

●●●

 

خیمۂ  جاں میں ستارے اُترے

پھر سمندر میں شرارے اُترے

خاک بھی اپنے لئے بیکل تھی

ہم بھی افلاک کے مارے اُترے

کون اُترا ہے بشارت مآب

آسمانوں سے کنارے اُترے

پہلے کھینچا مری رگ رگ سے لہُو

پھر مری جاں کے سہارے اُترے

عُمر کی ساری مُسافت کا حساب

جمع کھینچا تو خسارے اُترے

ق

دل کے ویرانے میں سرسوں پھوٹی

اور آنکھوں میں ستارے اُترے

تم جو اُترے ہو سرِ شاخِ طلب

آسمانوں سے کنارے اُترے

●●●

 

سربسر خواب ہوں پائندہ کیا

رُوحِ بیتاب ہوں پائندہ کیا

دھُوپ نکلے گی پگھل جاؤں گا

کوہِ برفاب ہوں پائندہ کیا

ہاتھ بھر خاک ہوں اُلجھن کیا ہے

آنکھ بھر خواب ہوں پائندہ کیا

جال سے بچ تو گیا ہوں خالدؔ

ماہی ٔ آب ہوں پائندہ کیا

●●●

 

خاک کو صورتِ تصویر کیا اچھا ہے

اُس نے جو لوح پہ تحریر کیا اچھا ہے

اُس نے بھی ریگِ فنا زار میں چھوڑا تھا مجھے

میں نے بھی جسم کو زنجیر کیا اچھا ہے

میں ہرا دیتا اُسے اور پشیماں ہوتا

پھر اُسی نے مجھے تسخیر کیا اچھا ہے

پہلے مٹی میں مری خاک ملائی اُس نے

پھر مجھے صاحبِ توقیر کیا اچھا ہے

●●●

 

جبینِ وقت پہ لکھا ہوا نشاں بھی نہ تھا

کہ میں یہاں بھی نہ تھا اور میں وہاں بھی نہ تھا

میں ایسے مرحلۂ  ذات پہ رُکا تھا جہاں

حریف بھی نہ تھے انبو ہِ دوستاں بھی نہ تھا

ترا حضور،میری جُستجو، میرا حاصل

یہ وصل زار تھا کیسا کہ آستاں بھی نہ تھا

مکان چھوڑ دیئے ہم نے لامکاں کے لئے

زمین ختم ہوئی تو یہ لامکاں بھی نہ تھا

●●●

 

دھُواں ،شورش، روانی،بے یقینی

ہوا،رفتار، پانی، بے یقینی

خلا، انسان، وحشت،خاک،ہجرت

مکاں ،رستے، نشانی، بے یقینی

ازل،ہابیل، راوی،  خون، آدم

ابد، قابیل،  ثانی،     بے یقینی

ازل،خالی،خلا،انجام،آخر

ابد، آباد،فانی،   بے یقینی

بطن،آغوش، رستہ،کام، گندم

دوا،بچے، جوانی،  بے یقینی

فضا،روشن، اندھیرا،جشن،گلیاں

خوشی،ماتم، کہانی،  بے یقینی

مساجد،شنکھ، معبد،بُت،کلیسے

یقیں ،سر،بِھیڑ، پانی،  بے یقینی

●●●

 

نالہ پابندِ نےَ نہیں ہے

آزاد غزلیں

 

زندہ رہنے کے بہت سامان تھے

ہم ہی تن آسان تھے

ہر قدم تازہ نویدوں کی اُمید

ہر نفس پیمان تھے

زندگی ہم تیرے ہر اوّل میں کیوں ؟

بے سروسامان تھے

کوئی حرفِ تازہ و زندہ نہ تھا

ہر طرف جُزدان تھے

منزلیں نادم،مسافر مضمحل

راستے حیران تھے

سوچتاہوں سُود بھی ہے سُودمند

پر زیاں میں بھی کئی امکان تھے

میں بہت پہلے نکل پڑتا مگر

بس خلا کے راستے انجان تھے

●●●

 

لوحِ محفوظ پہ لکھا ہوتا

میں اگر حرفِ تمنا ہوتا

میں جو ہوں بھی تو یہ ویرانی ہے،تنہائی ہے

میں نہ ہوتا تو تماشا ہوتا

تم سے آباد خرابے سارے

تم نہ ہوتے تو بھُلاوا ہوتا

میں جو صحرا ہوں کبھی ابرِ رواں زندہ باش!

میں بھی دریا ہوتا

دل ہی سیمابی ہے

تم نہ ہوتے تو کوئی اور تقاضا ہوتا ہے

یہ غلط ہے کہ تُم ہی تُم ہو مآلِ ہستی

ہاں کوئی اور سہارا ہوتا

●●●

 

اک سکوتِ مسلسل میں گرداب ہے

خُوں میں سیلاب ہے

مُجھ میں کوئی پرِند ایک مُدت سے پر تولتا ہے مگر

زیرِ محراب ہے

لمسِ ہجر و وصال، بے طرب ماہ وسال

آنکھ بے خواب ہے

اک کمرشل سفر پہ رواں ہیں سبھی

زندگی؛ جنسِ نایاب ہے

سانپ کا کیا خطر، اب مرا جسم خود

موجِ زہر اب ہے

ایک کوہِ صدا ہے، جزیرہ نما دشت  ہے

زندگی خواب ہے

رَو میں ہے چاندنی

اُس کے آتے ہی آنگن میں مہتاب ہے

دن ہجومِ رواں

رات؛بستر؛وہی پیچ ہے تاب ہے

جسم، ٹوٹی ہوئی شاخ ہونے کو ہے

رُوح میں تاب ہے

●●●

 

سارے اسرارِ نہاں کھولتی ہے

خامشی بولتی ہے

وہ نِگہ، جس طرح جادُو کا اثر رکھتی ہو

نبض کچھ ڈولتی ہے

اپنی ہی کوکھ تہہِ آب چھپا رکھتی ہے

سِیپ کیوں رولتی ہے

یہ تری ذات عقیدہ ہے کہ عقدہ جانے

خواب، تعبیر اگر کھولتی ہے

گھر کے پچھواڑے اندھیرے میں کوئی رہتا ہے

کوئی شئے بولتی ہے

میری مٹی کو نہ ڈھونڈو کہ اِدھر کچھ بھی نہیں

خاک کب کھولتی ہے؟

گُنبدِ جاں سے صداؤں کا ’ورُود،

خامشی بولتی ہے

●●●

 

کہ جستہ جستہ بھُلا دیا ہے

مجھے بھی اُس نے  یونہی مکمل بنا دیا ہے

یونہی مکمل بنا کے اُس نے

مِٹا دیا ہے

اے میرے باطن ذرا سا پانی کہیں نہیں کیا؟

ہوس نے زندہ جلا دیا ہے

تمام کہنہ عبارتوں کی سیاہیاں لے کے اُس نے

وہ حرفِ تازہ مِٹا دیا ہے

یہی بہت ہے کہ عشق کافر نے پھر سے مجھ کو

تمہارا بندہ بنا دیا ہے

●●●

 

جامِ جم رہتا نہیں

خواب کوئی بھی پسِ زندانِ غم رہتا نہیں

کیا کروں بے مول ہے کارِ ہُنر

اب کسی بازار میں اپنا بھرم رہتا نہیں

ہر طرف ڈانڈے ہیں اُس کی جیت کے

کیا مرا کوئی عَلم رہتا نہیں ؟

 ’پھر ترے کُوچے کو جاتا ہے خیال،

دل کہیں شامِ اَلم رہتا نہیں

اُس کے آگے ساری تشبیہیں پُرانی ہو چکیں

اب، صنم، رہتا نہیں

ٹھاٹھ رہ جاتا ہے سارا

اُس کے آگے بیش و کم رہتا نہیں

 ’’اُس کے آنے کی خبر پھر گرم ہے،

پر یہ دَم رہتا نہیں

ٹِک گئی دھرتی خلا کے درمیان

دم قدم رہتا نہیں

●●●

 

زندگی جادۂ  عرفاں سے سواچاہتی ہے؟

کیا بُرا چاہتی ہے؟

سانس اِس قیدِ مشقت سے رِہا چاہتی ہے

رُوح بھی تازہ ہوا چاہتی ہے

اپنے کمرے کی سجاوٹ سے بہت نالاں ہے وہ

کچھ نیا چاہتی ہے

موت اک سیلِ  رواں

زندگی؛ کارِ تمنا کا صلہ چاہتی ہے

سارے امکان ہوئے جاتے ہیں معدوم مگر

ایک اُمید بچا چاہتی ہے

ریگ زاروں میں یہ بے نام سی عُریاں خواہش

کون ہے؟کس کا پتہ چاہتی ہے؟

رات بھر یونہی سرِ راہگذر شمعِ دل

جیسے جلتی ہے، جلا چاہتی ہے

●●●

 

بدن دریدہ

مگر میں اب بھی ہوں برگزیدہ

وہ پنجگانہ عبادتوں پر بھی خوش نہیں ہے

ازل سے میں بھی ہوں نا شنیدہ

یونہی نہ پیٹو لکیر بیکار

میں خود گزیدہ

ہے ناتوانوں پہ تیغ و خنجر کی آزمائش

سجے ہیں نیزوں پہ سر کشیدہ

نہیں تلاشا قرینِ شہِ رگ

بنوں میں کیوں پھر رہے ہیں سارے خدارسیدہ

زوالِ صبح ؛ کہ روشنی بے ثبات ٹھہری

زمین بھی میری آبدیدہ

میں آگہی کے عذاب میں ہوں ؛ وہ میری  خاطر

میں خود گزیدہ، وہ آبدیدہ

●●●

 

رابطہ چل پڑا

ایک دن اُس گلی کو مرا راستہ چل پڑا

ایک لمبی مسافت دھری رہ گئی اور دھری رہ گئی

قافلہ چل پڑا

ابتداً تو اک نام لکھا گیا

اور پھر حرف و معنی کا اک سلسلہ چل پڑا

ایک قابیل تھا، ایک ہابیل تھا

اور یوں قتل کا سلسلہ چل پڑا

میں کہ ٹھہرا رہا، میری جانب مگر

راستہ چل پڑا

 ’کُن، کی اک صوت سے

کہنے سُننے کا اک فلسفہ چل پڑا

عکس حیران ہے

اب کناروں سے وہ آئنہ چل پڑا

اِتفاقاً ہی اسرار تریاق کا منکشف ہو گیا

نسخۂ  کیمیا چل پڑا

●●●

 

کچھ اور چاہیے وُسعت

نظمیں

 

زیبرا کراسنگ اور میں

زیبرا کراسنگ پر

میں کھڑا ہوں مُدت سے

جیسے رُک گئیں نبضیں

جیسے تھم گیا دوراں

زیبرا کراسنگ پر میں کھڑا ہوں مُدت سے

اور ہیں مرے پیچھے

منہدم کئی صدیاں

اور میرے آگے ہیں

منتظر ہزاروں سال

جل کے راکھ ہونے کو

زیبرا کراسنگ پر

سوچتا ہوں آؤ تو

تم مجھے بلاؤ تو

زیبرا کراسنگ سے

میں لپک کے لمحو ں کی

بھیڑ بھاڑ سے نکلوں

●●●

 

کوئی آنے کا نہیں اب

گو ہمیں معلوم تھا

کہ اب وہ سلسلہ باقی نہیں ہے

گو ہمیں معلوم تھا کہ

نوح آنے کے نہیں اب

ہاں مگر جب شہر میں پانی در آیا

ہم نے کچھ موہوم اُمیدوں کو پالا

اور اک بڑے پنڈال پہ یکجا ہوئے ہم

اور بیک آواز ہم نے نوح کو پھر سے پُکارا

گو ہمیں معلوم تھا کہ

نوح آنے کے نہیں اب

گو ہمیں احساس یہ بھی تھا کہ ہم نے

خود ہی وہ سارا سمندر کاٹ کر

اُس کا رُخ موڑا تھا اپنے شہر کی جانب

مگر ہم مطمئن تھے

موہوم اُمیدوں کو آئے دن جواں کرتے ہوئے ہم سب

کہ پھر سے نوح آئیں گے

بلائیں گے

جلو میں اپنے تازہ کشتیاں

مخلوقِ خدا کے تازہ جوڑے لائیں گے

اور ہم پھر سے

نوح کی کشتی میں پانی سے نکل جائیں گے اک دن

کہ اب پانی فصیلیں توڑ کر

شہر کو دریا بنانے پہ تُلا ہے

اب نہیں معلوم کہ ہم کس جگہ ہیں کون ہیں ہم

ہم ابھی تک منتظر ہیں

اب ہمیں کامل یقیں ہے

ابنِ مریم لوٹ آئیں گے

ہمیں زندہ اُٹھائیں گے

●●●

 

یعنی

میں یعنی کہ، میں

وہی ہوں نا کہ جو تھا ہی نہیں

میں وہی ہوں جو کہیں ہوں

میں وہی ہوں نا کہ جو تھا اور ہوں گا

میں یعنی ہوں

میں وہی ہوں جس نے ایک دن مارا تھا مجھ کو

میں ہی تو تھا جس نے مجھ کو خُوں بہا دے کر کہا تھا

تُو کہیں ہے

میں نہیں ہوں

میں وہی ہوں جو کہ ہے لیکن نہیں ہے

میں !کچھ نہیں معلوم میں ہوں کہ نہیں ہوں

تو گویا میں کہیں تھا، میں کہیں ہوں

میں یعنی ہوں

لایعنی ہوں

●●●

 

 ’نو مینس لینڈ‘ *

مجھے بتا کر

کہ میری سمتِ سفر کہاں ہے

کئی خزانوں کے

بے نشان نقشے

مجھے تھما کر

کہا تھا اُس نے کہ ساتویں در سے اور آگے

تمھاری خاطر

مرا وہ بابِ بقا کھُلا ہے

مگر

وہاں پر تمام در وا تھے میری خاطر

وہ ساتواں در کھُلا نہیں تھا

مگر وہاں پر

کوئی بھی رازِ بقا نہیں تھا

تمام اجسام تھے سلامت

کوئی بھی زندہ بچا نہیں تھا

کوئی بھی میرے سِوا نہیں تھا

وہاں بھی کوئی خدا نہیں تھا

•          No Man ’s Land

●●●

 

آپ قطار میں ہیں *

ہمیں کچھ زندگانی چاہیے تھی

نہ جانے کب سے ہم

پُرانی ڈھیر قبروں میں پڑے تھے

منتظر تھے

ہمہ تن گوش تھے ہم

آہٹوں پہ گڑبڑاتے تھے

خوشی سے دانت اپنے کٹکٹاتے تھے

ہزاروں سال کی تاریک لمبی رات میں ہم

ستارہ وار آنے کی بشارت یاد کرتے تھے

ہمہ تن گوش تھے ہم

منتظر تھے

مضطرب تھے

ساعتیں گنتے تھے ہم

ہمیں کچھ زندگانی چاہیے تھی

مگر یہ کیا …………؟

ہزاروں سال کی پژ مُردگی

انتظارِ بیکراں کا سب ثمر

بشارت؛

اور نویدِ زندگی کی سب مسرت

اکارت جا رہی ہے

کہ جس ساعت کے ہم سب منتظر تھے

وہ آ پہنچی؛ مگر ہم بے دست و پا ہیں

صدا آئی خلا سے

اُٹھو کہ ابنِ مریم لوٹ آئے ہیں

شفا کی آیتیں اور

حیاتِ جاوداں بھی ساتھ لائے ہیں

ابنِ مریم لوٹ آئے ہیں مگر

عجب دستور جاری ہے

کہ ہم قبروں سے نکلے تو

قطاروں میں کھڑے ہیں

*You are in queue

●●●

 

اور اب ہم ایلین *کے منتظر ہیں

اب سُنا ہے تازہ سیارے ملے ہیں

اب سُنا ہے تازہ سیاروں پہ پانی بھی ملا ہے

اب سُنا ہے تازہ سیارے ہوا سے ہیں معطر

اب سُناہے تازہ سیاروں پہ زندہ رہنا ممکن ہے

اب سُنا ہے تازہ سیاروں سے آوازیں بھی آتی ہیں

اب سُنا ہے تازہ سیاروں پہ ا ک مخلوقِ خدا ہے

اور اب ہم ایلین کے منتظر ہیں

اب سُنا ہے تازہ سیاروں پہ سب کچھ عین ممکن ہے

اب سُنا ہے تازہ سیاروں پہ ساری زندگی ہے

ہاں مگر بس ایک اُلجھن ہے

زندگی تو ہے

 مگر کیا تازہ سیاروں پہ آدمی کو موت بھی  ہے؟

●●●

*Alien

 

بلا عنوان

آنکھ وا تھی

ہونٹ چُپ تھے

اک رِدائے یخ ہوا نے اوڑھ لی تھی

جبیں خاموش

سجدے بے زباں تھے

آگے اک کالا سمندر

پیچھے  صبحِ آتشیں تھی

اور جب لمحے رواں تھے

ہم کہاں تھے؟

●●●

 

ہمیں معلوم ہے اب کیا کرو گے تم

ہمیں معلوم ہے اب کیا کرو گے تم

گلوبل وارمنگ *

زلزلے،طُوفان،سُونامی

اور اس کے بعد کھولتے آتش فشاں

ہمیں معلوم ہے اب کیا کرو گے تم

مرغزاروں کو خشک صحرا بناؤ گے

اور صحراؤں میں کِھلاؤ گے حسیں غُنچے

کوہساروں کو جھُلساؤ گے تم

اور کھلیانوں کو زیرِ آب کر دو گے

مرے کھیتوں کو اک اک بُوند کو ترساؤ گے تم

ہمیں معلوم ہے

گلوبل وارمنگ،زلزلے،طُوفان،سُونامی

جواں چشموں کا پانی کاٹ دو گے

یا اِسے کھارا بناؤ گے

اور سب بیابانوں کو جل تھل کرو گے

ماؤنٹ ایورسٹ *کو پیوندِ زمیں کر دو گے تم رفتہ رفتہ

جنگلوں کے سب جواں سرسبز پیڑوں کو

یونہی بے موت مارو گے

اور صحاری ٰ *میں سمندر منتقل کر دو گے تم

ہمیں معلوم ہے اب کیا کرو گے تم

مچھلیوں کو پَر لگاؤ گے

پرندوں کو سیپوں کا ہُنر دو گے

 جنگلوں کے سب درندوں کو شہروں میں دھکیلو گے

زمیں کو تنگ کر دو گے

سمیٹوگے ہمیں پھر سے کسی تنہا جزیرے میں

تو کیا پھر سے یعنی

تم ایک آدم، ایک حّوا، منتخب کر کے

اُنھیں پھر سے وہیں، کوہِ آدم پر بُلاؤ گے

پھر سے رُلاؤ گے

اُنھیں واپس بلاؤ گے؟

*Global Warming   *Sahara

●●●

 

زُوم*

زندگی سالوں پُرانی ایک البم

اور البم میں وہی

سالوں پرانی ساری تصویریں

وہی گُم گشتہ لمحوں کی صدا

وہی نا مہرباں موسم

وہی ناشاد رشتے

پھر وہی آباد گلیوں میں بھٹکتی خواہشیں

پھر وہی البم پُرانی

پھر وہی سب کچھ

منجمد،بیکار، آزُردہ، بے مہار و بے نَوا

اور البم میں وہی سالوں پرانی ساری تصویریں

کوئی لمحہ

ایسا مل جاوے

کہ جس سے بوجھ گھٹ جاوے

مرے شانوں سے

یہ میرا بار کٹ جاوے

زندگی………….!

زُوم کر کے دیکھتے ہیں

کوئی لمحہ ڈھونڈتے ہیں

*Zoom

●●●

 

یا بنی اسرائیل

چیتھڑے، راکھ، چیخیں، دھُواں، یا بنی اسرائیل

شورِ گِریہ، وحشت، فغاں، یا بنی اسرائیل

خوف، بارُود، پتھر، لہو، سرحدیں، آگ، گھر

خندقیں، سر، فصیلیں، مکاں، یا بنی اسرائیل

وقت نادم، پریشاں صحیفے، زمیں تر بہ تر

چشمِ یعقوب نوحہ کناں، یا بنی اسرائیل

●●●

 

سفر معکوس ہے

ابھی تو ہم

خود اپنی ہی کھودی ہوئی سُرنگیں

پاٹنے میں منہمک ہیں

ہمارے جسم

برگِ خزانی

ہماری رنگتیں دھانی

سفر معکوس، منزل بیکرانی

ہمارے خواب

سب پانی!!

●●●

 

ایس اوایس*

ساحلوں پر ہم کھڑے

کب سے تماشا کر رہے ہیں

اور لہراتے ہیں ایس اوایس کے جھنڈے

ساحلوں پہ ہم کھڑے

ریت پہ لکھتے ہیں کچھ اُونچے حروف

سوچتے ہیں کوئی طیارہ اگر گذرے اِدھر سے

ریت پر لکھا ہوا پیغام پڑھ لے

جنگلوں میں ہم بھٹکتے پھر رہے ہیں

اپنے ’یک رنگے، لباسوں کو پھریروں کی طرح لہرا رہے ہیں

سوچتے ہیں کوئی طیارہ اگر!!

جنگلوں میں ہم دھُواں کرتے ہیں اِس اُمید پر

کوئی طیارہ اگر گذرے اِدھر سے

دیکھ لے ہم کو

بچا لے جائے ہم کو

برف کے صحرا میں بھی

ہم کو رہتے کئی صدیاں ہو چلی ہیں

اور ہم اپنی اُنگشتِ شہادت کاٹ کر

برف پر لکھتے ہیں تازہ ایس او ایس

اور کوئی ’ ایلین‘

اِس سمت آنے کا نہیں

ساحلوں پر ہم کھڑے

جنگلوں سے تازہ پتوں کے دھوئیں کو دیکھتے ہیں

ریت پر لکھا ہوا پڑھتے ہیں ہم

برف پر لکھا ہوا پڑھتے ہیں ہم

●●●

*S.O.S

 

دشت ہم قدم ہے

دشت میرے ہم قدم ہے

شہر کی گُنجان گلیوں سے

نواحی بستیوں تک

دشت میرے ہم قدم ہے

شاہراہوں پر ہُجومِ بیکراں

دفتروں میں ڈھُونڈتا ہے پاؤں رکھنے کی جگہ

اور بازاروں میں جب

کھوےسے کھوا چِھل رہا ہو

جام ہو چاہے پہیہ چل رہا ہو

دشت میرے ہم قدم ہے

دشت راشن کی قطاروں میں کھڑا ہے

دشت دفتر اور کچہری جا رہا ہے

دشت ہمسائے کے گھر جاتا  ہے

دشت راتوں کو بہت تاخیر سے آتا ہے گھر

دشت میخانوں کے چکر کاٹتا ہے

دشت پیتا ہے تبھی تو دشت جیتا ہے

دشت ہی مسجد کے دروازے پہ کب سے

گُم سُم کھڑا ہے

دشت مندر کے کلس پر جھولتا ہے

دشت میرے ہم قدم ہے

میں جِدھر جاؤں اُدھر جاتا ہے

چھُٹیوں میں دشت گھر آتا ہے

دشت میرے ہم قدم ہے

●●●

 

آسمان روشن ہے

اُدھار کھائے بیٹھے ہو

مُنہ پھُلائے بیٹھے ہو

کیوں ہو اِس قدر بَد دل

زندگی نہیں رُکتی

سانس بھی مقرر ہے

آؤ اِس طرف دیکھو

دھُوپ بالکونی میں

پر کھلائے بیٹھی ہے

باڑھ میں گئی پت جھڑ

صبح کھِلکھلاتی ہے

آسمان روشن ہے

●●●

 

کمپیوٹر اور میں

ہر منظر کا بیک اَپ، *

 میموری، *میں رکھ چھوڑا ہے

دن کے زخم کو روز کے روز مِٹا دیتا ہوں

شب کو تکیے پر سر رکھتے

سارے منظر

ایک اک کر کے

ایل سی ڈی*، پر

سلائڈ شو، *کی طرح چلنے لگتے ہیں

اب دو ہی آپشن *باقی ہیں

یا تو سارے منظر یُونہی گھومتے رہیں

اور میں اِن کی عطا کو

لفظوں کے پیکر میں ڈھالوں

یا پھر جاگتے جاگتے

کروٹ کروٹ رات بِتا دوں

دوسرا آپشن یہ ہے کہ

اپنے آپ کو فارمیٹ *کر لوں

لیکن ایسا کب ممکن ہے

سِٹ اَپ، *کاپاس ورڈ، *

اُس نے اپنے پاس رکھا ہے

●●●

*Backup   *Memory  *LCD        *Slide Show

*Format   *Setup      *Password

 

موت

تم بھی بے مہر ہو، دِل بھی سفّاک ہے

راکھ ہی راکھ ہے، خاک ہی خاک ہے

آؤ نا!

اِس بے تُکے وصل کو توڑ دو!

رُوح بے داغ ہے

جسم ناپاک ہے

●●●

 

اِنہدام

سبھی کچھ منہدم ہے

کوئی قصہ پُرانا

یا

پُرانی یاد کی کڑیاں

کہانی دادی اماں کے کولیکشن کی

سبھی کچھ منہدم ہے

نہ یخ بستہ شبوں میں

آتش دان کے آگے

کہانی کوئی کہتا ہے

نہ کسی کو آج

سُننے کی ہی فرصت ہے

نہ گرما کی دوپہری میں

بڑے دالان میں بیٹھے

بڑے بُوڑھوں کی باتیں ہیں

نہ حقہ ہے

نہ کڑوے اور کسیلے  دھوئیں کا ذائقہ ہے

سبھی کچھ منہدم ہے

پرانی ڈھیر قبروں پر

برائے رسم

 شمعیں جلانے کے لئے کوئی نہیں ہے

کہ اب ’سادہ جہالت‘ یا ’محبت‘

منہدم ہے

نہ شب راتوں کی رسمیں ہیں

کہ جو اچھا بُرا تھا

منہدم ہے

نہ کسی کی ایکا ایکی موت پر

کوئی آنسو بہاتا ہے

نہ کوئی سات دن

ماتم کے گھر کھانا بناتا ہے

نہ یہ محکم یقیں کہ جب کہیں

لہو بہتا ہے ناحق

تو

آندھی، اور جھکڑ اور بارش

اور طُوفاں

اور بجلی کے کڑاکے ٹُوٹ پڑتے ہیں

کہ اولے قہر کی صورت برستے ہیں

نہ اب جھکڑ کے چلنے پر

کسی مسجد میں کوئی بِھیڑ

نہ کسی کے گھر دُعائے خیر

ہاں مگر اب

ہوا، بارش، جھکڑ اور آندھی میں

سبھی باہر نکلتے ہیں

ہوا کے دوش پر

سب رقص کرتے ہیں

سبھی کچھ منہدم ہے

●●●

 

نہیں اب عشق!

کبھی ہم چاندنی راتوں میں نہائے تھے

کبھی ہم وصل کے لمحے

گِنا کرتے تھے چاہت سے

کہ جیسے بڑی بُوڑھیاں موتیوں کا ہار محنت سے پروتی ہیں

            چناروں کے تنے شاہد ہوئے ہیں

            لِپٹ کر چاندنی راتوں میں ہم اکثر نہائے ہیں

            بدن جب کسمسائے ہیں

مگر یوں  ہے کہ اب

باہر زرد جاڑا شور کرتا ہے

پہاڑوں سے برف اک مہرباں غازے کی صورت

وادیوں پر جب اُترتی ہے

ہمارے درمیاں اک کانگڑی کا فاصلہ ہے

پہ لگتا ہے کہ جیسے

اک ہمالہ برف کی دیوار بن کر ایستادہ ہے

نہ ویسے خواب آتے ہیں

نہ اب کے یہ بدن ہی کسمساتے ہیں

●●●

 

اصل میں یہ دشت تھا

اصل میں یہ دشت تھا

اِس دشت میں

مخلوق کب وارد ہوئی

خدا معلوم

لیکن

سب بڑے بوڑھے یہ کہتے ہیں

اِدھر اک دشت تھا

جانے کیوں اُن کو یہاں

لمبی قطاروں

شہر کی گنجان گلیوں

دفتروں

شاہراہوں

راستوں اور ریستورانوں

جلسے جلوسوں

ریلیوں اور

ایوان ہائے بالا و زیریں میں

خوش لباسی کے بھرم میں

ناچتی وحشت نظر آتی نہیں

●●●

 

کہ ہم تو لَوٹنے والے تھے لیکن

ہمیں تو لَوٹنا تھا

کہ ہم تو لوٹنے والے تھے پایۂ  تخت کو لیکن

ہوا نے راستے میں

خوب اُودھم مچایا

ریت نے ہر گام ہم سے

تازہ امتحاں مانگے

ایک آندھی نے اُکھاڑے سارے خیمے

ہمارے لشکری ٹیلوں پہ جا بیٹھے

ہمارے اُونٹ بھاگے

اور کجاوے ٹُوٹ کر گرنے لگے

حرم کی ساری کنیزیں

ریت کے اندھے الاؤ نے نگل لیں

اور مشکیزے مصفّا پانیوں کے

سب ہوا نے

ہزاروں سال کی

بے انت پیاسی ریت پر قربان کر ڈالے

اور جب آندھی رُکی تو

ہم نے دیکھا

اب پڑاؤ کی جگہ اک اُونچا ٹیلہ

سر اُٹھائے  دیکھتا تھا

ہم نے پھر  سُدھ بُدھ سنبھالی

اور جب ہم پایۂ  تخت آن پہنچے

تو ہم یہ دیکھ کر حیراں ہوئے کہ

شہر کے اُونچے  منارے پر

اجنبی پرچم ہوا کے دوش پہ لہرا رہا تھا

فصیلوں پر سیہ چہروں پر

کماں داروں کی سُرخ آنکھیں

ہمیں بھوکے گِدھوں سی گھُورتی تھیں

اور شہر پناہ کا آہنی پھاٹک

ہمارے واسطے کب کا مقفّل ہو چکا تھا

اور اب یوں ہے کہ

ہم بے سروسامان یونہی

اپنی خالی چھاگلیں بغلوں میں دبائے

کئی صدیوں سے مسلسل منتظر ہیں

کہ ہم تو لوٹنے والے تھے پایۂ  تخت کو لیکن

ہوا نے راستے میں

کچھ عجب اُودھم مچایا

●●●

 

اے مِری دیوارِ گریہ!

سبت کے روز

عجب شور ہوا بستی میں

کئی لاشے

چیتھڑے، تازہ لہو

ناکہ بندی

اور خیمہ بستیوں پر آتشیں بارش

اسکولوں سے دھُواں

مسجدیں خالی

کلیسے شاک میں

اے مِری دیوارِ گِریہ!!

سبت کا دن تھا مگر ہم کیا کریں

 ہمیں بھی قتل و خُوں سے خوب وحشت ہے

ہمیں اِس جنگ کا اِلزام کیوں ؟

کہ ہم تو جنگ کی بُنیاد رکھ کر آرہے ہیں

            ابھی تو ہم لہو گرما رہے ہیں !

●●●

 

اے حضرتِ جِّن!

نہ وہ پریوں کے قصے

وہ خزانے اور نقشے

محل سرائیں

بھول بھلیاں

راستے آبادیاں

نہ لق و دق صحرا

نہ شہزادی کا قصہ

کھجوروں کے حسیں باغات

نہ الہ دین باقی ہے

نہ اُس کا جِّن زندہ ہے

وہ سب قصے ہمارے عہد کے

جاتے رہے ہم سے

چلو اچھا ہے

گھر بیٹھے

خلا میں گھُوم آتے ہیں

ہمارے عہد کا یہ قصہ گو ہے

کہ ہم ہیں

یہ کمپیوٹر ہے

 ’گُوگل *جِّنّ، باقی ہے

●●●

*google

 

جوکر

(1)

صبحدم کھیل شروع ہو جاتا ہے

ہم سب

سج دھج کر چل پڑتے ہیں

رنگ برنگی پوشاکوں میں

رنگ برنگے چہرے لیکر

اپنا اپنا کرتب دِکھانے

شام ڈھلے جب لوٹ آتے ہیں

ہم سب اپنے اپنے چہرے

سرکس گھر میں بھُول آتے ہیں

(2)

ہم سے پہلے آنے والے سارے جوکر

ایک اک کر کے لوٹ گئے ہیں

اِس سرکس میں

سب کھیلوں کا کھیل وہی ہے

بیک اِسٹیج اک تخت بچھا ہے

سرکس کا اَن دیکھا مالک

کھاتے پر کُچھ نام چڑھاتا

کھاتے سے کچھ نام مِٹاتا

بیک اِسٹیج پہ سچ مُچ کوئی

اور ہی کرتب جاری ہے

اب کے اپنی باری ہے

●●●

 

جنگل سے جنگل کی طرف

ایک دن جنگل سے نکلا

اپنی تنہائی لیے جنگل سے نکلا

بستیاں آباد کیں میں نے کہ جب جنگل سے نکلا

اِس خلا سے اپنا رشتہ جوڑ کر خوش تھا کہ میں جنگل سے نکلا

اِس سمندر کی تہیں کھوجیں کہ میں جنگل سے نکلا

میں کہ اِس پاتال کے اسرار سے واقف ہوا

آج پھر تنہا ہوں میں، سہما ہوں میں

میں بغل میں اپنی تہذیبیں لیے بیٹھا ہوا ہوں

میں کہ جنگل سے نکل آیا مگر تاریک سا جنگل مرے اندر اُگا ہے

●●●

 

دریافت

اِس سے پہلے

مجھ کو یہ معلوم نہیں تھا

افریقہ کے تپتے جلتے صحراؤں میں

کچے پکے آبادوں میں

سڑک کِنارے ریت کے سُوکھے تالابوں پر

ننگ دھڑنگ کالے بچوں اور

کریہہ صورت بُوڑھوں سے

میرا کیا رِشتہ ہے

اے کالی کملی والے

 ’ساری خلقت کنبہ ہے *

تُو نے مجھ کو سِکھلایا ہے

…………………………..

      *الخلق کُلہم عیال اللہ۔ساری مخلوق اللہ کا کُنبہ ہے

………………………………………………….

●●●

 

الف

(فاروق مضطرؔ کے نام)

الف سے آدمی

الف سے آگ ہے

الف سے المیہ

الف سے الاماں

الف انجام ہے

الف آغاز ہے

الف سے آگہی

الف سے اَن کہی

الف سے اشرفی

الف سے آشکار

الف کا المیہ

الف کے تم بھی ہو

الف کا میں بھی ہوں

الف سےآگہی

الف سے آدمی

الف سے آسماں

الف سے آستاں

 ’الف‘ سے ’ے‘ تلک

 ’الف ہی الف ہے‘

●●●

 

کہ بس اک خواب

کہ بس اک خواب کا قصہ ہے سارا

یہ سب نغمے

اُسی اک تان کے ہیں

یہ سارے راگ اُس کے ہیں

یہ رستے

اور دریا

اور سڑکیں

اور پُل، بازار، ہوٹل

اور خلا کے اُس پرے

سب اُسی کا ہے

یہ جنگل

بارشیں

سیلاب

اُس کے ہیں

یہ کھانا

اور پینا

اور سونا

سب اُسی کے نام کا ہے

کہ میرے چار دانگ عالم

جو ڈنکا بج رہا ہے

اُسی کا ہے

جو سکہ چل رہا ہے

اصل میں اُسی کا ہے

یہ صحرا

پیاس

بادل

اور سُوکھے لب

اور جنگل کے حسیں چشمے

کہ بس اک خواب کا قصہ ہے سارا

اُسی کی ہیں اذانیں

اور نغمے

اور تانیں

اور صدائے بے صدا

 ’الف‘ سے ’ے‘ تلک وہ تھا،وہی ہے

میں تو بس دائم ’اِضافت‘ ہوں

●●●

 

اُس کو آثارِ قدیمہ سے محبت ہے

اور پھر

میں اُس میں مِس فٹ*ہو گیا

وہ کہ پیچھے جا رہا تھا

 اور میں فردا کے غم میں مبتلا تھا

وہ کہ آثارِ قدیمہ کھوجتا تھا

مجھ کو اُن خالی پڑی پنجر زمینوں کو بسانا تھا

وہ کہ ’’پیرا نویا*‘‘ میں مبتلا تھا

اور مجھ کو کھوکھلے نعروں سے وحشت ہو چلی تھی

وہ کہ اُن خالی زمینوں پر

نئی قبریں بنانا چاہتا تھا

اِس لیے پھر یوں ہوا

میں لوٹ آیا اپنے خیمے میں

اور اب اُ س سے میری ٹھنی ہے

پر مجھے اِتنا یقیں ہے

وہ کہ ماضی کے رشتوں کی بِنا پر

قبر کھدوائے گا میری

اُس کو آثارِ قدیمہ سے محبت ہے

*Misfit         *Paranoia

●●●

 

وُرود

جواں راتوں میں کالا دشت

قالب میں اُترتا ہے

کہ میرے جسم و جاں میں مرغزاروں کی مہک

ہوا کے دوش پر رقص کرتی ہے

پیاسی ریت صحراؤں کی دھنستی ہے

رگ و پے میں

اُدھڑتے ہیں مساموں سے

 ’لہو زاروں‘ کے چشمے

برف کوہسار کے سارے پرندے

گیت گاتے ہیں

حباب اُٹھتا ہے

گہرے نیلگوں زندہ سمندر کا

ہمالہ سانس میں ڈھل کر

گلیشئر سا پگھلتا ہے

جواں راتیں

ریگ زاروں کی پیاسی ریت

سمندر کا حباب

برف کوہسار کے سارے پرندے

ہمالہ اور گلیشئر

جواں راتوں میں

میری کائناتوں میں

نئے سیارے اور تازہ جہاں دریافت کرتے ہیں

کہ مجھ پر لفظ بارش سے اُترتے ہیں

●●●

 

دشت آفتاب

آج شام پھر میں نے

جگمگاتے سُورج کو

دشت کے سمندر میں

لڑکھڑا کے گرتے

اور مرتے دیکھا ہے

آج رات پھر میں نے

صبح کی سپیدی سے

پھر اُبھرتے دیکھا ہے

ایک جھینپتا سُورج!

●●●

 

سراب

ہمارا واہمہ تھا

مسلسل واہمہ تھا

کہ ہم تو ایک لق و دق صحرا سے گزرتے تھے

ہمارے چارسُو

تاریخ جلوہ گر تھی لیکن

ہمیں تو کچھ خبر نہ تھی

کہ ہم جس راستے پہ گامزن تھے

نقوشِ کہنہ سے آراستہ تھا

مگر منزل ندارد تھی

ہمارے چار سُو کھنڈر بُلاتے تھے

زبانِ حال سے ہم کو

ہمیں کچھ تازہ مورّخ یاد کرتے تھے

مگر ہم تو پرانی کِرم خوردہ کتابوں میں دفن تھے

ہماری بدحواسی کا، ہمارا وقت شاہد تھا

مسلسل واہمہ تھا

ہمیں لگتا تھا جیسے ہم

کھجوروں کے حسیں باغات کے مالک

ملائم گھاس، مہرباں سائے میں بیٹھے

قصہ گو سے اگلے وقتوں کی کہانی سن رہے ہیں

خوش گپیوں میں مصروف ہیں ہم

مسلسل واہمہ تھا

اصل میں ہم ایک جلتے ہوئے صحرا میں رواں تھے

شدتِ تشنہ لبی سے

باؤلے سے ہو چکے تھے

کھجوریں تھیں نہ حسیں باغات تھے

کہ ہم جو پھانکتے تھے ریت تھی وہ

سمندر واہمہ تھا

ہمیں لگتا تھا جیسے ہم

اک بڑے بحری بیڑے پر

ساتوں سمندر ناپتے ہیں

کہ ہم عرشے پہ بیٹھے

ٹھنڈی ہوا میں رزمیے گاتے ہیں فتح کے

خوشی سے جھومتے ہیں

بادباں لہرا رہے ہیں

اور مستول پر اپنا علم

سر اُٹھائے آسماں کو دیکھتا ہے

ہمیں لگتا تھا جیسے

ریشم و کمخواب میں ملبوس ہیں ہم

کہ ہم محلوں میں رہتے ہیں

حرم رکھتے ہیں ہم

اور قضا و قدر کے مالک ہیں

ہمارے شہہ زور گھوڑے

سُموں سے دھُول اڑاتے ہیں

دشت و صحرا ناپتے ہیں

مسلسل واہمہ تھا

کہ ہم تو بس اک بے صدا و بیکراں

 صحرا کی زینت تھے

پیاس و نا امیدی تھی

اور تاریخ کا چکر مسلسل گھومتا تھا

اور کچھ تازہ مورّخ

ہمیں پھر ڈھونڈتے تھے

●●●

 

کلینڈر اور میں

مگر صفحے پلٹنے سے

کہاں موسم بدلتے ہیں

میں ہر صبح بے سبب

صفحے پلٹتا ہوں

کلینڈر، کہ جسے برسوں کی کائی

اور سِیلن سے بھری دیوار میلا کر چکی ہے

دریچے سے گھنے کہرے میں

بُوڑھے پیڑوں کی صدائے خامشی

ہوا کی سرسراہٹ

ہر روز تازہ پھانس سینے میں اُگاتی ہے

کسی کی چاپ آتی ہے

تو لگتا ہے کہ جیسے وقت نے کروٹ بدل لی ہے

پُل کے نیچے سے گزرتا نیلگوں پانی

مخالف سمت بہنے لگ گیا ہے

مرے سارے پرندے جو گزشتہ موسموں میں

کھو گئے تھے

دفعتاً ہی لوٹ آئے ہیں

ہوا پھر مہرباں ہے

فضا میں نہ دھُواں ہے

نہ کوئی نا مہرباں انجان نشتر ہے

لہو کی چیخ،نَے بارُود لمحوں کی گھٹن

گُماں ہوتا ہے جیسے

ہمارے درمیاں کا فاصلہ

یک لحظہ صفر پر آ رُکا ہے

تم اُسی نُکڑ پہ میری منتظر ہو

اور سب کچھ ٹھیک ویسا ہے کہ جیسا

عین ممکن تھا کہ ہوتا

مگر صفحے بدلنے سے

کلینڈر کے پلٹنے سے

پُل کے نیچے سے سسکتا

 ’لہو آزار، پانی ہی ٹھہرتا ہے

پرندے لوٹ آتے ہیں

ہمارے درمیاں کا فاصلہ یک لحظہ گھٹتا ہے

زمیں گردش بدلتی ہے

نہ یہ سُورج سفر معکوس کرتا ہے

تو کیا میں

آج بھی گزری دہائیوں کے

کسی اک سال

کسی اک ماہ

کلینڈر کے حاشیے پر

بس کسی اک دن میں زندہ ہوں ؟

●●●

 

ہوا سب جانتی ہے

ہمارے دشت سے بادل گزرتے ہیں

سیہ بادل گزرتے ہیں

گھنے بادل گزرتے ہیں

سُنا ہے مہرباں بادل گزرتے ہیں

برستے کیوں نہیں یہ مہرباں بادل

ہمارے دشت کو صحرا بنانے کی سعی ہے

یقیناً یہ صحیح ہے

کہ یہ تازہ خداؤں کا موقف جانتی ہے

ہوا سب جانتی ہے

●●●

 

میں اور ہزار دشت

اُس نے مجھ کو چھُوا

کسمساتی ہوئی ایک وحشت ہوئی

میرے اندر ہزاروں کی تعداد میں

سارے سوئے ہوئے جانور جاگ اُٹھے

اُس نے مجھ کو چھُوا

دشت پاگل ہوا

●●●

 

آپشن لِیس* آدمی کا تجربہ

(اپنی سالگرہ)

پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں

وقت اک کالے الاؤ کی طرح

پھنکارتا ہے

 تجربے پیلے سنپولوں کی طرح

بے دست و پا سے تیرتے ہیں

اور آگے اک بھیانک رات

اپنی صدیوں کی ماہر

نا مہر باں بانہیں پسارے دیکھتی ہے

آپشن لِیس*آدمی  کا تجربہ ہے

٭٭

*Optionless

●●●

 

راون زندہ باد!

جلا رہا ہوں

کئی یُگوں سے

میں اُس کو خود ہی جلا رہا ہوں

جلا رہا ہوں کہ اُس کہ جلنے میں

جیت میری ہے مات اُس کی

جلا رہا ہوں بڑے سے پنڈال میں سجا کر

جلا رہا ہوں

مِٹا رہا ہوں

مگر وہ

مرے ہی من کی اندھیر نگری میں جی رہا ہے

وہ میری لنکا میں اپنے پاؤں پسارے بیٹھا

کئی یُگوں سے

مجھے مسلسل چِڑا رہا ہے

●●●

 

اُلجھن

وِوَستھا بھی بہت زیادہ نہیں ہے

جتن جوکھم بہت ہیں

آگے جو جنگل ہے وہ

اِس سے بھی زیادہ گنجلک ہے

تپسیا کے ٹھکانے

گیان کے منتر

دھیان کی ہر ایک سیڑھی پر

وہی مُورکھ

عجب سا جال تانے بیٹھا ہے یُگوں سے

نہ جانے کیوں

مرے نِروان سے اُس کو

پراجے کا خطرہ ہے

تُو یوں کرتا ہوں

اب کے خُود کو خُود سےتیاگ دیتا ہوں

●●●

 

اے خُدا!

تین سو ساٹھ توڑ ڈالے ہیں

سب خُدا ہم نے پھوڑ ڈالے ہیں

پر جو تھے آستین کے اندر

تین سو ساٹھ سے زیادہ ہوئے

کچھ تو اِن میں سے سانپ ہو بھی چکے

باقی ماندہ کُدورتوں میں ڈھلے

تین سو ساٹھ ٹُوٹ کر بھی مگر

تیرے ہم نام ٹل سکے نہ ٹلے

●●●

 

بلا عنوان

میں ازل سے ریگ زارِ ذات میں

میں ہجومِ طرب میں بھی ناشنید

اور روز و شب سے بھی نا مطمئن

منکشف ہوں اپنی تنہائی پہ میں

اور تنہائی ہے مجھ پہ منکشف

●●●

 

بلا عنوان

حرف و نوا افلاک پر

دھُند ذہنوں پر دھُواں اِدراک پر

اک صحیفہ طاق پر

میں خاک پر

●●●

 

آب جُو

میں آبجُو ہوں

پہ سُرخرو ہوں

کہ سارے دریا

لپک کے ساحل سے دیکھتے ہیں

تو سوچتے ہیں

ہمارے پہلو میں کون ہے یہ

جو آب جو ہے

پہ سُرخرو ہے!!

●●●

 

بلا عنوان

ریگ زاروں میں بھٹکتے رہ گئے

بے زباں تھی وقت کی اندھی گلی

ہم صدائے عہدِ پارینہ ہوئے

سُرخ آندھی زندگی

ہم کہ نابینا ہوئے

●●●

 

یہ دریا رُخ بدلتا جا رہا ہے

ہمیں سب یاد ہے

جب گھر سے نکلتے تھے

تو دریا تک پہنچنے میں

کوئی فرلانگ بھرکا فاصلہ تھا

کنارے پر عجب سبزہ اُگا تھا

اور سبزے سے عجب آوازیں آتی تھیں چِرندوں کی

 بھیگی ریت پر ہم

نقشے بناتے تھے، مِٹاتے تھے

لہروں سے اٹھکیلیاں کرتے تھے ہم

اور اپنے اپنے علاقے بانٹ لیتے تھے

کبڈی کھیلتے تھے

کھیل کے ہر قاعدے کو مانتے تھے

کاغذی ناؤ بناتے تھے

اور اُنہیں کنارے کی چھوٹی آبجوؤں میں بہاتے تھے

ریت بھرتے تھے ناؤ میں

اور کاغذ کی طاقت آزماتے تھے

جو تھک جاتے تھے  ہم

تو کنارے سے کوئی فرلانگ بھر

گھنے سائے میں جا کر

بے سرو پا ہانکتے تھے

ہمیں سب یاد ہے لیکن

ہمارے نونہالوں کو

یہ سارے تجربے عنقا

چلو اچھا ہے!ہر اک عہد کے اپنے تقاضے ہیں

مگر تشویش یہ ہے کہ

ہمارے گھر سے دریا تک

جو فرلانگ بھر کا فاصلہ تھا

گھٹ رہا ہے

یہ دریا کٹ رہا ہے

●●●

 

لہُو کو زُوم *کرتے ہیں

دریچے سے جہاں تک بھی نظر آتا ہے

مسلسل خامشی ہے

سڑک کی پیلی لکیر

سر پیٹتی ہے

دور تک فٹ پاتھ پر روندے ہوئے سائے

پول پر بجلی کے کھمبے سے لٹکتی ایک چمگادڑ

صبح کا زرد چہرہ،رات کے اندوہ کا احوال،ایک چوپایہ

اور نکڑ پر کھڑے ہو تم…………..!

مسلسل خامشی ہے

دریچے سے جہاں تک بھی نظر آتا ہے

مسلسل خامشی ہے

مرے کمرے کے اندر

ہاں مگر تاریخ روشن ہے

ہزاروں سال کے تجربے بانہیں پسارے ایسے بیٹھے ہیں

کہ جیسے شہر بھر کی خامشی سے مطمئن  ہوں

میرے کمپیوٹر کی ڈیسک ٹاپ

کل کی اک تصویر اپنی کہانی بولتی ہے

نہ جانے کیوں یہ منظر دیکھتے ہی

سڑک پر پھر شور و گریہ  جاگ اٹھتا ہے

سروں کی بھیڑ اُگتی ہے

رواں ہوتے ہیں سائے

بجز اِس کے مسلسل خامشی ہے

مگر دل چاہتا ہے خامشی کو ایسے توڑوں

تمہارے پاس جاؤں

اور کہوں

بندوق کو نیچے کرو

آؤ نا!مری ڈیسک ٹاپ پر کل کا فوٹو تم بھی دیکھو

تم بھی دیکھو

میں لہو کو زُوم *کرتا ہوں

*Zoom

●●●

 

آئی سو لیشن* وارڈ میں پڑی زندگی

آگے کیا ہونے والا ہے؟

سب کچھ ہونے جیسا ہے

پہلے اُس نے زہر بھرا تھا رگ رگ میں

میرا بدن اُس کی تجربہ گاہ بنا

اُس نے ریشہ ریشہ نچوایا

اُس نے جسم کے بخیے اُدھیڑے

تازہ دم بھوکوں کو مجھ پہ چھوڑ دیا

ہر دن نئی اذیت مجھ پہ نازل کی

اُس نے مجھ زندہ نعش کو روندا

سڑکوں پہ گھسیٹا

اب کے اُس نے

مجھ کو آئی سو لیشن وارڈ میں لا کر پھینک دیا ہے

٭٭٭

ماخذ: القلم لائبریری

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید