FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے

 

 

 

 

                   علّامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواروی

 

 

 

 

 

 

پہلی بات

 

ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزرا ایک بار جماعت امت مسلمہ کی دعوت پر شمس العلماء حافظ محب الحق مرحوم کے ساتھ امرتسر گیا تھا تو ادارہ البیان کے بہت سے احباب ملے اور امت مسلمہ کے ارکان بھی۔ مولانا احمد الدین سے بھی ملاقات ہوئی مگر وہ ملاقاتیں محض سرسری ہی رہیں البتہ البیان میں میرے مضامین برابر چھپتے رہے۔ مگر ادارہ البیان بالکل انکارِ حدیث کی طرف مائل تھا اور میں مطابق قرآن حدیثوں کو دین میں حجت سمجھنے پر مصر تھا مگر باہم مخلصانہ افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہا۔

میرے ایسے مضامین بھی برابر چھپتے رہے جن سے ادارے کو کم و بیش اختلاف تھا۔ ہجرت کے بعد میں ڈھاکہ پہونچا اور ادارہ طلوعِ اسلام نے کراچی کو اپنا مستقر بنایا باوجود بُعد المشرقین کے باہمی مخلصانہ تعلقات قائم ہوئے اور میرے مضامین طلوعِ اسلام میں چھپنے لگے۔ البیان بھی لاہور سے نکلنے لگا اور اس میں بھی میرے مضامین چھپتے رہے مگر البیان زندہ نہ رہ سکا جس کا مجھ کو افسوس ہے، طلوعِ اسلام میں میرے وہی مضامین چھپتے رہے جو ادارہ طلوعِ اسلام کے مسلک کے موئد تھے اور جن سے ادارے کو ذرا سا بھی اختلاف ہوا وہ مضامین شائع نہ ہوئے۔ چنانچہ بعض واپس شدہ مضامین اب تک میرے پاس موجود ہیں۔ طلوعِ اسلام سے تعلقات پیدا ہونے کے چند برس کے بعد ہی سے مجھ کو اس کے مسلک سے اختلاف ہوا تو میں نے کسی اور رسالے میں اپنے اختلافی مضامین شائع کرانے کے بجائے نجی طور پر مراسلت شروع کی اور اپنے اختلاف سے مطلع کرتا رہا کیونکہ اس طور پر افہام و تفہیم سے اصلاح کی توقع زیادہ ہوتی ہے، بہ نسبت اس کے کہ رسائل و جرائد میں ردّ و قدح کا ہنگامہ برپا کیا جائے اس لیے کہ ایسی صورت میں مناظرے اور ضد کی نوعیت پیدا ہو جانے کا قوی امکان ہوتا ہے، چنانچہ بہت سے مسائل پر نجی خطوط کے ذریعہ مسلسل افہام و تفہیم کرتا رہا اور یہ صورت حال امسال تک جاری رہی۔

 

بلاغ القرآن

 

۱۳٨٧ھ میں جب میں کراچی گیا تھا اور وہاں چھ ماہ تک قیام رہا، تو اسی قیام کے زمانے میں ، رسالہ ” بلاغ القرآن ” کا تعارف ہوا جس کا مفصل ذکر رسالہ الصلوٰة پر تبصرہ میں موجود ہے۔ اعادہ بے سود ہے، اس ادارے کی روش نے مجھ کو بے چین کر دیا یہاں تک کہ میں ایک ایسی تصنیف میں مصروف تھا جس کواس وقت کی بہت اہم دینی خدمت سمجھتا تھا اور بہت کچھ لکھ چکا تھا، لیکن اس کو چھوڑ کر اس ادارے کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے بعد گہری نظر سے طلوعِ اسلام کے مطالعے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تو میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوا کہ دونوں کی ایک ہی راہ ہے فرق اتنا ہے کہ بلاغ القرآن دوڑ رہا ہے اس لیے اس کی دوڑ نمایاں ہے اور طلوعِ اسلام بہت دبے پاؤں جا رہا ہے، قدم ذرا کھسکساتا ہوا اس لیے وہ دور سے دیکھنے والوں کو کھڑا ہی نظر آتا ہے۔

 

صرف قرآن کریم

 

ادارہ بلاغ القرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر صرف قرآن کریم اترا، قرآن کریم کے علاوہ کسی قسم کی وحی بھی آنحضرتﷺ کی طرف اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں فرمائی۔ سنّت اگر کوئی چیز واجب الاتباع ہوتی تو قرآن کی طرح رسول کریم ﷺ ضرور اس کو بھی لکھوا کہ کتابی صورت میں قرآن کریم کے ساتھ امت کو دے جاتے۔ اس لیے سنّت کہاں ہے ؟ کس کتاب میں ہے ؟ کوئی ایسی کتاب دکھائیے جس میں تمام فرقوں کی متفق علیہ سنت ہو جس کے کسی جز سے کسی فرقے کو اختلاف نہ ہو، اور طلوعِ اسلام کا مؤقف بھی یہی ہے۔ ان کے اس سوال کا جواب تو میرے رسالہ ” السنة” میں ہے یہاں اعادہ بے فائدہ ہے مگر یہاں مجھ کو صرف یہ دکھانا ہے کہ صرف قرآن کریم کو قبول کرنے اور باقی سب چیزوں کو روایت کہہ کر ٹھکراتے رہنے سے ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟

 

اصل مقصد

 

قرآن مجید کو قبول کر لینے اور باقی سارے دینی لٹریچر کو ردی قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی آیتوں کو توڑ مروڑ کر جو مفہوم جس آیت سے چاہیں گے نکال لیں گے، جس لفظ کے چاہیں گے معنی حقیقی کی جگہ مجازی لے لیں گے، جس واقعے کو چاہیں گے خواب کا واقعہ کہہ دیں گے، جس عبارت میں ضمیر جدھر چاہیں گے پھیر دیں گے، جس اسم اشارہ کا جس کو چاہیں گے مشار الیہ قرار دیں گے، جس لفظ کے متعدد معانی لغت والوں نے لکھے ہیں ان میں سے جو معنی چاہیں گے حسبِ دلخواہ مراد لے لیں گے، اس طرح قرآن مجید کی آیتوں کو اپنے منشا اور اپنی اغراض کے تابع رکھنے کی پوری آزادی حاصل رہے گی۔ دوسروں نے کیا لکھا ہے اس کو دیکھنے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ دوسرے تو سب کسی نہ کسی فرقے کے ہیں اور فرقہ وارانہ روایات کے پابند ہیں اور یہاں روایات کے اتباع کو گمراہی بلکہ شرک سمجھتے ہیں اس لیے ان ” مشرکین ” کی تفسیروں اور ترجموں کو دیکھنا بھی گناہ ہے۔ ہاں ! ان میں سے اگر کسی کا کوئی قول ایسا مل جائے جس سے اپنے خیال کو تقویت ہو تو البتہ اس کو پیش کریں گے بلکہ ضعیف سے ضعیف روایت اور کسی منافق راوی کا قول بھی اپنے موافق مل جائے گا تو اس کو اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کریں گے اور کہیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰن) ہم نے ضرور اس قرآن کو آسان کر دیا ہے تو پھر انسان کے سمجھنے میں دشواری کیوں ہو گی ؟ ہم جو مطلب جس آیت کا سمجھے ہیں صحیح ہی سمجھے ہیں ۔ آسان بات کے سمجھنے میں غلطی نہیں ہوسکتی۔ مگر قرآنی آیات کو سمجھنے کی کوشش کب کی جاتی ہے ؟ ساری کوششیں تو آیات سے اپنے موافق مفہوم پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں اس لیے ضرورت ہوئی کہ اس فرقے کی طرف خصوصیت سے توجہ کی جائے۔ خصوصاً اس لیے دیکھ رہا ہوں کہ کوئی صاحبِ علم اس فرقے کی طرف پوری طرح سے متوجہ نہیں ہو رہا۔ صرف ” فتنہ انکارِ حدیث ” کہہ دینے یا بعض رسالوں سے اس فتنہ کا انسداد نہیں ہو سکتا۔ حدیث کا ثبوت حدیث سے، روایت کا ثبوت روایت سے منکرینِ حدیث کے سامنے پیش کرنا کیا مفید ہوسکتا ہے۔

یہ رسالہ صرف وحی کے اقسام اور وحی غیر متلو یعنی حدیث صحیح کے ثبوت میں اور دین میں اس کے حجت ہونے کے اثبات میں ہے۔ اس کے ساتھ اور متعدد رسالے ہیں جن میں ” السنة ” میں اتباعِ سنّت کی فرضیّت از روئے آیات قرآنی ثابت کی گئی ہے۔ گویا وہ اس رسالے کا دوسرا حصہ ہے۔

 (اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ    وَمَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ    عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَیْهِ اُنِیْبُ )

 

وحی

 

آلات تکلم یعنی لب و زبان و کام و دہن کے واسطہ کے بغیر جو باتیں کی جائیں اس کو از روئے لغت وحی کہتے ہیں ۔

سورہ مریم میں حضرت زکریا کے ذکر میں فرمایا گیا ہے:

فَاَوْحٰٓى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّعَشِ یًّا   مریم۔ 11

حضرت زکریا کو خبر دی گئی تھی کہ تم تین دن کچھ نہ بول سکو گے یہی علامت ہے اس کی کہ اب تم کو ایک پسر (بیٹا) صالح اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے گا۔  تو وہ مسجد سے نکلے اور اپنے لوگوں کو اشارے سے انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح صبح و شام کیا کرو۔

اللہ تعالیٰ کا ہر کلام وحی ہے اس لیے کہ آلات تکلم کی حاجت اللہ تعالیٰ کو نہیں ہے وہ بغیر آلات تکلم کے کلام فرماتا ہے۔ غیر ذوی العقول کی فطرت میں بعض امور جو داخل کر دیئے گئے ہیں ان کو بھی وحی کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جیسے: 

 (وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ) ( النحل : ٦٨)

"اور تمہارے رب نے شہد کی مکھیوں کی طرف وحی کر دی ہے کہ وہ پہاڑوں (کے کسی حصے) میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں (یا چھتوں) میں گھر بنائیں ۔ "

یا کائنات کے آغازِ تخلیق کا ذکر سورۂ حٰم سجدہ کی آیتِ کریمہ ۱٠،  ۱۱،  ۱۲ میں فرماتے ہوئے آسمانوں کی تکمیلِ تخلیق کے بعد فرمایا ہے (وَ اَوْحیٰ فِی کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَا) اور ہر آسمان (اور اس کے ماتحت کی کائنات) میں سارے متعلقہ قوانین تفویض فرما دیئے (تاکہ ان قوانین کے مطابق کارخانہ کائنات چلتا رہے) یہاں تفویض احکام و قوانین کو وحی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ مگر یہ مضامین اس وقت میرے موضوع سے خارج ہیں میرا موضوع وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جاتی ہے۔

 

غیر رسول کی طرف وحی

 

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیررسول کی طرف بھی وحی ہوتی ہے بذریعہ القاء فی القلب یعنی دل میں بات ڈال کر۔

قرآن مجید میں ہے :

وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِیْهِ  ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ   القصص 7

"اور ہم نے مادرِ موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اس کو دودھ پلاؤ تو جب اس کے بارے میں تم پر خوف و ہراس غالب ہو تو اس کو دریا میں ڈال دو اور کچھ پروا اس کے بارے میں نہ کرو۔ "

 یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں جو بات ڈالی گئی تھی اس القاء فی القلب کو وحی کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا۔ اسی طرح جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے ایک کنوئیں میں ڈال دیا تو اس وقت وہ کمسن مراہق نابالغ تھے، نبی و رسول نہ تھے۔ مگر قرآن مجید میں ارشاد ہے :

 وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ           یوسف۔ 15

 ” اور ہم نے وحی کی یوسف کی طرف کہ (گھبراؤ نہیں) تم ضرور ان لوگوں کو ان کی اس حرکت سے (کسی وقت) ضرور متنبہ کرو گے اور یہ سب  (اس کو) نہیں سمجھتے ہیں ۔ ” (یوسف : ۱٥)

 

القاء وحی شیطانی بھی ہوتی ہے

 

قرآن مجید میں ارشاد ہے :

 (وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰهِمْ) (انعام :۱۲۱)

” شیاطین اپنے (انسانی) ساتھیوں کی طرف وحی کیا کرتے ہیں) ۔ "

اس لیے ہر شخص ایسی باتوں کو جو اس کے دل میں القاء ہو جائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نہ سمجھ لے اس کے لیے بھی منہ چاہیئے، ایسے مکاشفے کہ جب ذرا گردن جھکائی لوحِ محفوظ تک نظر پہونچ گئی محض افسانہ طرازی ہے۔ کسی نبی کو یہ اختیار نہ تھا کہ غیب کی کوئی بات بطورِ خود دریافت کر لیں یا کسی فرشتے کو جب چاہیں بلوا لیں، کسی بات کی وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب چاہیں منگوا لیں ، تو کسی غیر نبی کو یہ اختیار کب حاصل ہوسکتا ہے۔ بعض فرقوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے اماموں کو اسمِ اعظم معلوم تھا اور وہ اسمِ اعظم کے ذریعے غیب کی جس بات کو چاہتے تھے دریافت کر لیتے تھے یہ ساری باتیں سخت گمراہ کن ہیں ۔ البتہ مومنین صالحین کو بلا ارادہ غیر متوقع طور پر کسی بات کا اگر اتفاقاً انکشاف ہو جائے تو وہ منجانب اللہ ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ قرآن مجید اور سنّت ثابتہ کے یا تجربہ یا عقل کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔

 

عُجب و غرور

 

بعض آئندہ ہونے والی باتوں کے قبل از وقت بلا ارادہ غیر متوقع کشف سے نفس میں عُجب و غرور پیدا ہو تو سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے اس کے پاس معلومات کے ذرائع انسانوں سے زیادہ ہیں اس نے ایک مردِ مومن صالح کو عُجب و غرور میں مبتلا کر کے اس کے نفس کو خراب کرنے کے لیے ایسی وحی کی ہے فوراً توبہ کرے اور اپنے نفس کو عجب و غرور سے پاک کرے۔

 

منجانب اللہ وحی

 

اللہ تعالیٰ جو اپنے صالح بندوں پر وحی فرماتا ہے اور اپنے مکالمے سے سرفراز فرماتا ہے اس کو قرآن مجید میں خود وضاحت کے ساتھ فرما دیا ہے۔ سورۂ شوریٰ کی آخری تین آیتیں پڑھئے :

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَاءُ   اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ       51  وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا  مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا  وَاِنَّكَ لَ   تَهْدِیْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ      ۙصِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ  اَلَآ اِلَى اللّٰهِ تَصِیْرُ الْاُمُوْرُ        شوریٰ 51- 53

کسی بشر کا (وہ نبی و رسول ہی کیوں نہ ہو) یہ منہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے دو بدو ہو کر بجز اس کے کہ یا تو (بلا توسط کسی فرشتے کے القاء یعنی دل میں بات ڈال کر یا خواب کے ذریعے) وحی فرمائے یا پردے کی اوٹ سے یا کسی فرشتے کو بھیج کر کہ اللہ کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہے (اس کے نبی کے پاس) وہ فرشتہ اس کی وحی پہونچائے بیشک اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے (اس سے کہ کوئی اس سے بالمشافہ بیداری میں روبرو ہو کر باتیں کرے) وہ حکمت والا ہے (بندوں کے منافع و مصالح کے پیشِ نظر وحی کی تین صورتیں اس نے قائم کر دی ہیں) (اے رسول) ہم نے اسی طرح تمہاری طرف اپنے دین کا پر عظمت کلام وحی کیا ہے تم تو (اے رسول) جانتے بھی نہ تھے کہ (اللہ تعالیٰ کی) کتاب کیسی ہوتی ہے بلکہ (۱) تم ایمان کی حقیقت سے کچھ واقف نہ تھے لیکن ہم نے اس (کلام) کو روشنی بنایا ہے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں گے اس کے ذریعے ہدایت کریں گے اور تم (اس کلام کے ذریعے) بلاشبہ صراطِ مستقیم ہی کی طرف (لوگوں کی) رہنمائی کرو گے۔ اس راہ کی طرف جو اللہ کی راہ ہے (وہ اللہ) جس کی ملک میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (اے جن و انس) سن رکھو کہ سارے امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع ہو کر رہیں گے (۲)”

 

اوّل و آخر

 

اول بآخر نسبتے دارد اسی طرح آخر بھی اوّل سے ضرور مناسبت رکھتا ہے اس لیے سورۂ شوریٰ کی ان آخری تین آیتوں کے ساتھ حروف مقطعات کے بعد کی پہلی آیت کو بھی پیشِ نظر رکھ لیجئے پہلی اور دوسری دو آیتیں تو حروف مقطعات کی ہیں اس لیے شمار کے حساب سے یہ تیسری آیت ہے اور آیت مقطعات کے بعد پہلی آیت ہے :

كَذٰلِكَ یُوْحِیْٓ اِلَیْكَ وَاِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۙ اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ      لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ  وَهُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ      شوریٰ 3-4

"عزت و حکمت والا اللہ اسی طرح تمہاری طرف وحی کر رہا ہے (جس طرح یہ وحی اس وقت ہو رہی ہے) اور جو (نبی) تم سے پہلے گزرے (ان کی طرف بھی اسی طرح وحی کرتا رہا) ………….”

غرض وحی کے تین طریقے بتائے گئے۔

 

 (۱) القاء جس کو الہام بھی کہتے ہیں ۔

 

 (۲) پردے کی اَوٹ سے جس طرح حضرت موسیٰ علیٰ نبینا علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے باتیں کیں ۔

 

 (۳) تیسرا طریقہ جو انبیاء و مرسلین علیہم السلام میں برابر معمول بہ رہا ہے یعنی فرشتے کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنا کلام اپنے نبی اور اپنے رسول کے پاس بھیجے۔ ان تینوں طریقوں سے انبیاء و مرسلین کے پاس وحی آتی تھی۔ علیہم السلام۔ مگر آخری دونوں طریقے انبیاء علیہم السلام کے لیے مخصوص تھے۔

 

پہلا طریقہ القاء و الہام کا جو بیداری میں بھی ہوتا تھا اور خواب میں بھی۔ وہ غیر نبی، مومنین و صالحین کو بھی نصیب ہوسکتا ہے مگر غیر نبی کا الہام اور خواب محض کسی وہم کے تحت، تخیلات کے زیرِ اثر اور شیطانی وسوسے سے بھی ہوسکتا ہے مگر کسی نبی کا الہام یا خواب غلط نہیں ہوسکتا وہ من جانب اللہ وحی ہی ہوتا تھا اس لیے حج کے ارکان میں سر کا منڈانا یا سر کے بال تراشنا بحیثیت فرض کے داخل ہے باوجود اس کے کہ کوئی آیت حکم حلق یا قصر کی قرآن مجید میں نہیں ہے صرف رسول اللہ ﷺ کے ایک خواب مبارک کا ذکر سورة فتح کے چوتھے رکوع میں ہے :

لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ ۙ مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ ۙ لَا تَخَافُوْنَ

"بہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ضرور سچا خواب دکھایا ہے اپنے رسول کو مبنی بر حقیقت کہ تم لوگ (اے مومنین) ضرور داخل ہو گے مسجدِ حرام میں (بعضے) سر منڈوانے والے اور (بعضے) بال کتر لینے والے، امن و امان کے ساتھ بغیر کسی خوف و ہراس کے۔ "

اس خواب کے ذکر کی وجہ سے حج کے ارکان مفروضہ میں حلق یا قصر داخل ہو گیا۔

 

وحی را بہتر کہ فہمد از رسول

 

جس پر وحی اتری ہے وہی توا س وحی کا مخاطب اولیٰ ہے چاہے وہ وحی کتابی ہو یا غیر کتابی یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ خود رسول نے اس وحی کا کیا مفہوم سمجھا تھا اور احکام وحی کی کس طرح تعمیل فرمائی تھی رسول صرف مبلغ کتاب بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ معلّم اور مبینِ کتاب بھی تھے اس لیے تعلیم و تبیین رسول سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت نہ سمجھنا اور بطور خود اپنی خواہش کے مطابق آیات قرآنی کی تفسیرکرنا سخت گمراہی اور بدترین الحاد ہے۔

 

انبیاء سابقین کی طرف غیر کتابی الہامی و القائی وحی

 

سورة مومنون آیت ۲٧ میں ہے :

فَاَوْحَیْنَآ اِلَیْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا

"تو ہم نے نوح کی طرف وحی کی کہ تم کشتی تیار کرو ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق۔ "

کیا حضرت نوح پر جو کتاب اتری تھی اس کتاب میں کشتی بنانے کا حکم آیا تھا اور کشتی بنانے کا طریقہ بتایا گیا تھا ؟ یقیناً یا تو القاء و الہام کے ذریعے ان کو حکم بھی ہوا اور کشتی بنانے کا طریقہ بھی بتایا گیا یا کسی فرشتے کو بھیج کر زبانی حکم بھی فرشتے نے سنایا اور فرشتے نے حکم ربانی کے مطابق کشتی بنانے کا طریقہ بھی بتایا۔ بہر حال غیر کتابی ہی وحی تھی۔

 

سورة اعراف (آیت ۱٦٠) میں ہے :

وَاَوْحَیْنَآ اِلیٰ مُوْسٰٓی اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ

 "اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی جس وقت ان کی قوم نے ان سے پانی کا مطالبہ کیا تھا اس پتھر پر اپنے عصا سے مارو۔ "

کیا ان کے صحیفوں میں کوئی آیت اس وقت اس حکم کی اتری تھی ؟ یقیناً قوم نے پانی کا مطالبہ کیا تو ان کے دل میں القاء و الہام ہوا کہ سامنے جو پتھر ہے اس پر عصا سے مارو یا فرشتے نے آ کر حکم سنایا، تورات میں اس واقعے کا ذکر ہے جس طرح قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر ہے تورات میں پتھر پر عصا سے ضرب لگانے کے حکم کی کوئی آیت نہیں ہے یہ غیر کتابی وحی تھی۔ حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ السلام کے متعلق اور بھی کئی جگہ وحی کا ذکر ہے جو فوری طور پر القاء و الہام کے ذریعے ہوئی یا فرشتے کے ذریعے بھیجی گئی تھی۔ تورات میں ان واقعات کا بعد وقوع ذکر ہے جس طرح قرآن مجید میں ان واقعات کا ذکر ہے۔ حکم کی آیتیں اس میں نہیں ہیں ۔ غرض انبیائے سابقین علیہم السلام پر تینوں اقسام کی وحی آتی رہیں اور ارشاد ہوا ہے :

 (اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ كَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلیٰ نُوْحٍ وَّالنَّ بِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ  ۚ  وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰى وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَیْمٰنَ ۚ وَاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا) نساء : ۱٦۳

” (اے محمد رسول اللہ ﷺ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی ہے جس طرح ہم نے نوح کی طرف اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف وحی کی تھی اور (جس طرح) ابراہیم اور اسمٰعیل اور یعقوب (اور ان کے بارہ بیٹے) اسباط اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی تھی اور تم کو قرآن دیا جس طرح ہم نے داؤد کو زبور دیا تھا۔ "

اس آیتِ کریمہ میں گیارہ انبیائے مرسلین علیہم السلام کے اسمائِ گرامی مذکور ہیں اور بارہ اسباط یعنی حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تو تئیس انبیاء علیٰ نبینا و علیہم السلام کا ذکر فرما کر ارشاد ہوا ہے کہ جس طرح ان لوگوں کی طرف ہم نے وحی کی تھی اسی طرح تمہاری طرف بھی وحی کی ہے ان ۲۳ نبیوں میں سے صحفِ ابراہیم و صحفِ موسیٰ (تورات) اور انجیل و زبور کا ذکر قرآن مجید میں صراحةً موجود ہے۔ حضرت نوح پہلے رسول ازروئے قرآن مبین تھے اس لیے ان پر کوئی کتاب ضرور اتری تھی۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۱۳ میں آغاز سلسلہ بعثت انبیاء علیٰ نبینا علیہم السلام کا ذکر فرمایا ہے۔

فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ  ۠ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ

میں صاف مذکور ہے

"تو اللہ تعالیٰ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے نبیوں کو مبعوث کرنا شروع کیا اور ان کے ساتھ کتاب بھی اتاری۔ "

حضرت نوح تو پہلے رسول تھے اس لیے ان پر ضرور کتاب اتری تھی البتہ بیک وقت کئی نبی بھی پہلے مبعوث ہوتے تھے۔ تو ان میں سے ایک پر کتاب اترتی تھی اور سب ہم عصروں کی وہی کتاب ہوتی تھی، جس طرح حضرت موسیٰ و ہارون پر الگ الگ کتابیں نہیں اتری تھیں ، حضرت موسیٰ کے وہ وزیر تھے مگر ان پر غیر کتابی وحی اترتی تھی اس لیے اس آیت میں ان کا بھی اسم گرامی ہے اور بھی انبیاء اس آیت میں مذکور ہیں ۔ خصوصاً اسباط کہ ان میں کسی پر بھی کوئی کتاب نہیں اتری تھی۔ حضرت سلیمان پر بھی کوئی کتاب نہیں اتری ان سب پر غیر کتابی وحی ہی اترتی رہی تو جب رسول اللہ ﷺ کو فرمایا گیا کہ ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی ہے جس طرح ان ۲۳ غیر نبیوں کی طرف وحی کی تھی تو اگر آنحضرت ﷺ کی طرف قرآن مجید کے سوا دوسری اور کسی قسم کی کوئی وحی نہیں ہوئی تو اسباط و ہارون و سلیمان علیہم السلام کے ساتھ تمثیل تو صحیح نہ ہو گی۔ ایسے انبیاء علیہم السلام کے مماثل حضور ﷺ کو قرار دینا جن پر کوئی کتابی وحی اتری ہی نہ تھی، غیر کتابی ہی وحی اتری تھی۔ ان کے ساتھ صاحبِ وحی ہونے میں آپ کی مماثلت جبھی صحیح ہوسکتی ہے کہ آپ پر بھی غیر کتابی وحی آئی ہو اس لیے یہ آیتِ کریمہ اس کی واضح دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ پر وحی غیر قرآنی بھی ضرور اترتی رہی ہے وحی غیر قرآنی کا انکار اس آیت کریمہ کا انکارِ صریح ہو گا۔

 

غیر قرآنی وحی کی دوسری قرآنی شہادت

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 (المّرٰ    تِلْكَ ایٰٰتُ الْكِتٰبِ   وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ    الرعد  1

"المر، یہ (اس آیت سے لے کر آخر سورة تک) کتاب اللہ کی آیتیں ہیں اور بھی جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے (سب) بر حق ہے لیکن اکثر لوگ (سب پر یا بعض پر) ایمان نہیں لاتے۔ (سورہ رعد کی پہلی آیت) "

تلک، اسم اشارہ مؤنث ہے عربی زبان میں غیر ذوی العقول کی جمع کی طرف عموماً واحد مؤنث ہی اسم اشارہ سے اشارہ کرتے ہیں اور ضمیر بھی واحد مؤنث ہی کی پھیرتے ہیں ، اس کو ہر مبتدی عربی دان بھی جانتا ہے۔ مثالیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ۔ تو  تلک اسم اشارہ واحد مونث صرف صورةً ہے، مفہوم کے اعتبار سے جمع مونث ہے، اس کا مشار الیہ اس پہلی آیت سے اس سورة کی آخری آیت تک ہے۔ یہ طریقہ ہر زبان میں رائج و سائر ہے کہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں پہلے اس کی طرف اشارہ بھی کر دیں جیسے کسی سے آپ کہیں ، کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں ۔ اتنا کہنے کے بعد جو کہنا چاہتے ہیں وہ پندرہ بیس منٹ میں کہہ ڈالیں ، تو پہلے جملے میں جو "یہ”  اسم اشارہ تھا اس کا مشار الیہ وہ آپ کی طویل بات قرار پائی جس کو آپ نے ۱٥، ۲٠ منٹ میں کہہ ڈالا تھا۔ بالکل اسی طرح یہاں تلک اسم اشارہ ہے اور اس آیت سے آخر سورة تک اس کا مشار الیہ ہے آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ تو الکتاب یعنی کتاب اللہ کی آیتیں ہی ہیں (الکتاب پر الف لام عوض مضاف الیہ ہے) مومنین کتاب اللہ پر تو ایمان لا ہی چکے ہیں مگر اس کتاب کے علاوہ بھی وحی تم پر تمہارے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے وہ سب بر حق ہے۔ رسول کے خواب کو عام لوگوں کے خواب کی طرح سمجھنا، رسول کو جو الہام ہو اس کو عام لوگوں کے ذہنوں میں جیسے کوئی بات آ جاتی ہے اُس کی طرح سمجھ لینا، فرشتے نے قرآنی آیات کے علاوہ زبانی کوئی پیغام یا مژدہ آ کہ پہونچایا تو چونکہ وہ قرآنی آیت نہیں ہے اس لیے اس کو وحی نہ سمجھنا۔ ممکن ہے یہ باتیں بعض کم فہموں کے ذہن میں آ رہی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تو دلوں کی بات جانتا ہے ان کے ایسے وسوسوں کی اصلاح ضروری تھی اس لیے یہاں وضاحت سے بتا دیا کہ جو کتاب اللہ کی آیتیں ہیں صرف وہی نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی بھی جس قسم کی وحی بھی رسول پر نازل کی گئی ہو، سب وحی ہے اور سب بر حق ہے، اسی لیے "آیات الکتاب ” پر وقف مطلق ہے یعنی الکتاب پر پہلا جملہ پورا ہو گیا اس کے بعد نیا جملہ واؤ استیناف کے ساتھ آیا ہے جس کا عطف جملے پر عطف جملہ بر جملہ ہے عطف لفظی نہیں ۔

اس وقت بھی ایک جماعت ہے جو قرآنی آیات کے سوا کسی قسم کی وحی کو وحی نہیں سمجھتی بلکہ غیر قرآنی وحی کو وحی منزل من اللہ ہی تسلیم نہیں کرتی، ان کی طرف سے کہا جا سکتا ہے اس آیت کریمہ میں تلک اسم اشارہ ہے جس مشار الیہ اس کے سامنے ” آیات اللہ ” موجود ہے جو معطوف علیہ ہے واؤ عطف کے بعد (وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ ) معطوف ہے اور یہ عطف، عطف تفسیری ہے، یعنی یہ آیات کتاب وہی ہیں جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتاری گئی ہیں ۔ معطوف اور معطوف علیہ مل کر مشار الیہ اور اشارہ مشار الیہ مل کر مبتدا اور الحق خبر ہے۔ ترجمہ یوں ہو گا : ” یہ آیات کتاب یعنی تمہارے رب کی طرف سے جو تم پر اتاری گئی ہیں ، بر حق ہیں ۔ ” (کتنی صاف نحوی ترکیب ہے) لہٰذا اس آیہ کریمہ سے غیر قرآنی وحی ثابت نہیں ہوئی یہ استدلال بھی میں نے ان حضرات کی طرف سے پیش کر دیا ہے جو صرف قرآن ہی کو وحی کا مصداق قرار دیتے ہیں اور غیر قرآنی وحی کو وحی منزل من اللہ تسلیم نہیں کرتے اگر اس فرقہ میں سے آج تک میں نے کسی کو کسی موضوع پر بھی اپنے مخصوص دعویٰ کے لیے مغالطہ آمیزی سہی مگر سلجھا ہوا استدلال پیش کرتے ہوئے نہیں دیکھا یہ استدلال بظاہر بہت سلجھا ہوا ہے مگر مغالطہ ہی مغالطہ ہے۔

 

الجواب

 

مذکورہ مغالطہ استدلال نما کا دارو مدار اس دعویٰ پر ہے کہ (آیَاتُ الْکِتَابِ) اور ( وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ) دونوں ایک ہی ہیں دونوں کے درمیان واؤ عطف گویا تفسیر ہی کے لیے آیا ہے۔ مگر یہ دعویٰ ہی صحیح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ آیات مونث ہیں اسی لیے اس کے لیے مبتدا مونث لایا گیا ہے۔ تلک آیات الکتاب فرمایا گیا ہے۔ اگر انہی آیات کی تفسیر الذی انزل ہوتا تو دونوں لفظ مونث لائے جاتے اور التی انزلت فرمایا جاتا، پہلا جملہ اپنا مسند الیہ اور مسند دونوں مونث رکھتا ہے اور دوسرا جملہ اپنا مسند الیہ و مسند دونوں مذکر رکھتا ہے، ایسی حالت میں ایک جملہ دوسرے جملے کی تفسیر کس طرح ہوسکتا ہے ؟ دونوں مذکر و مونث جملوں میں محرمیت ہے باہم عقد و نکاح کی طرح عقد تفسیر نہیں ہوسکتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں جملوں کا مسند الیہ ایک نہیں ۔ دو ہیں تو پھر دوسرا جملہ پہلے جملے کی تفسیر کس عقل کی رو سے کہا جائے گا۔

 

بڑی مصیبت

 

یہ ہے کہ ہر زبان کی صرف ہے، نحو ہے، معانی ہے، بیان ہے جن کے ماتحت کسی زبان کی عبارت سمجھی جاتی ہے مگر معانی و بیان کو تو یہ مدعیان قرآن فہمی جانتے بھی نہیں کہ ان دونوں فنون کے موضوع اور مباحث کیا ہیں ، معمولی صرف و نحو سے بھی واقف نہیں الف لام کی قسمیں بھی نہیں جانتے واؤ تفسیر اور” من ” ابتدائیہ کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ۔ مگر قرآنی آیات کی کسی قدر دوسروں کے اردو ترجموں سے سمجھ کر مجتہد بن گئے ہیں اور جس آیت سے چاہتے ہیں اپنے مطلب کے مطابق کھینچ تان کر مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر ان کے سامنے معانی و بیان کو تو چھوڑیئے، نحوی مسائل کے غوامض بھی بیان کیجئے گو ان کے سمجھنے کی بھی ان میں صلاحیت نہیں اور ضد ہٹ دھرمی اور ناخدا ترسی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں اور قرآن میں اجتہاد کے لیے صرف و نحو اور معانی و بیان وغیرہ علوم سے کماحقہٗ واقفیت کے ضروری سمجھے جانے پر ” اٹھارہ علوم کا پشتارہ ” کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ میں نے قرآن مجید میں غور و فکر کرتے ہوئے زندگی بسر کی ہے۔ کاش اس سے پہلے اور کچھ نہیں تو کافیہ اور مختصر المعانی ہی کسی سے پڑھ لیا ہوتا اس کے بعد قرآن مجید پر غور کرتے۔

بیس پچیس برس قرآن مجید پر غور کرتے ہی بسر کیے تو اس لیے نہیں کہ یہ معلوم کریں کہ قرآن مجید کیا ارشاد فرماتا ہے بلکہ اس لیے کہ ڈارون کی تھیوری کو کس طرح قرآنی آیات سے ثابت کریں اور لینن و مارکس کے نظریوں کا ثبوت کس طرح قرآنی آیات سے پیدا کریں اس لیے جو شخص سیاہ عینک آنکھوں پر لگا کر دیکھے گا تو ساری فضا اس کو سیاہ ہی نظر آئے گی ایسے لوگ تلک آیات الکتاب اور الذی انزل کو ایک قرار دیں تو کیا تعجب ہے ؟ غرض کسی طرح بھی  تلک آیات الکتاب اور الذی انزل الیک من ربک دونوں سے ایک چیز مراد نہیں لی جا سکتی۔ دونوں کے دو مفہوم۔ آیٰت الکتاب خاص ہے اور الذی انزل الیک من ربک عام ہے جس میں آیٰت الکتاب بھی داخل ہیں دونوں کے درمیان واؤ اضراب بھی کہا جا سکتا ہے ” بلکہ ” کے معنیٰ میں ، یعنی آیت کا ترجمہ یوں کیا جائے تو نامناسب نہ ہو گا، ” یہ آیتیں (جو یہاں سے آخر سورة تک چلی گئی ہیں) جو کتاب اللہ کی آیتیں ہیں ، یہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ جو کچھ بھی تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، سب بر حق ہیں واؤ عطف اضراب کے لیے قرآن مجید میں متعدد جگہ آیا ہے جیسے :

وَمَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِ

” تم نہیں ہوتے کسی کام میں اور نہیں ہوتے اس (کتاب) سے کچھ قرآن پڑھتے بلکہ نہیں ہوتے کسی عمل کو بھی کرتے ہوئے کہ ہم موجود ہوتے ہیں جس وقت اس میں تم لوگ مشغول ہوتے ہو۔ ” (یونس : ٦۱)

اس آیت کریمہ میں ولا تعلمون پر واؤ اضراب ہی کے لیے ہے بلکہ کے معنیٰ میں ۔ اسی طرح او بھی اضراب کے لیے آتا ہے جیسے- قاب قوسین او ادنیٰ -میں او بلکہ ہی کے معنیٰ میں ہے اضراب کے لیے لایا گیا ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں میرے ذہن میں ہیں ۔

بات یہ ہے کہ یہ سورة رعد کی پہلی آیت ہے اس سے پہلے قرآن مجید میں بارہ سورتیں گزر چکی ہیں جن میں سے چھ سورتوں کے شروع میں قرآن مجید کی کچھ نہ کچھ منقبت ضرور بیان فرمائی گئی ہے۔ سورة بقرہ کے شروع میں ہے

 

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ     ٻ فِیْهِ ھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ

 یہ کتاب (یعنی اب دنیا میں کتاب اللہ یہی اور صرف یہی ایک تنہا ہے۔ دوسری کتابیں اور صحیفے یا تو مفقود ہو گئے یا محرف ہو کر ان کے صرف ترجمے ہی ہر جگہ نظر آتے ہیں اصل کتاب کا کہیں پتہ نہیں ۔ اس لیے کتاب اللہ اب بس یہی ایک کتاب ہے) اس کے اندر کسی طرح کے ریب و شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مگر اس سے وہی لوگ ہدایت کا فائدہ اٹھائیں گے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں ۔ "

اس کے بعد آل عمران کے شروع میں ہے :

اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ  الْ حَیُّ الْقَیُّوْمُ   نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ

 ” اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ زندگی کا مالک آپ اپنی ذات سے ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور دوسری ہر مخلوق کو قائم رکھنے والا اس نے اس کتاب کو مبنی بر حقیقت اتارا ہے۔ "

سورۂ اعراف کے شروع میں ہے :

كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْریٰ لِلْمُؤْمِنِیْنَ  

” بڑی عظمت (۱) والی کتاب ہے (دشمنوں کی مخالفت سے) تم میں دل تنگی پیدا نہ ہونی چاہیے (یہ کتاب) اس لیے ہے کہ تم (مخالفین کو مخالفت کے برے نتیجے سے) ڈراتے رہو یہ (کتاب) ایمان والوں کے لیے بڑی نصیحت (۲) ہے۔ "

سورۂ یونس کے شروع میں ہے :

تِلْكَ ایٰٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ

 ” یہ (جو یہاں سے آخر سورة تک آیتیں ہیں) بڑی حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں ۔ "

یہاں بھی تلک کا اشارہ پوری سورة کی طرف ہے۔

سورۂ ہود کے شروع میں ہے :

كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ ایٰٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍ

” بڑی عظمت والی یہ کتاب ہے جس کی آیتیں بہت استوار اس پر مفصل بڑے حکمت والے ہر ذرے ذرے سے باخبر کے پاس سے آئی ہوئی ہے۔ "

سورۂ یوسف کے شروع میں ہے :

تِلْكَ ایٰٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ

(یہاں سے آخر سورة تک جتنی آیتیں ہیں) یہ ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنے مفہوم کو وضاحت کے ساتھ بیان کر دینے والی ہے۔ "

یہاں بھی تلک کا اشارہ پورے سورہ کی آیتوں کی طرف ہے جس کی تفصیل سورة رعد کی آیت میں گزر چکی۔ سورة رعد کے بھی۔ سورۂ ابراہیم، سورة حجر، سورة کہف وغیرہ کی ابتدا میں قرآن مجید کی منقبت کے الفاظ آئے ہیں ۔ اور بیسیوں سورتوں کے درمیان بھی قرآن مجید کی عظمت و اہمیت مختلف عنوان سے بیان فرمائی گئی ہے۔ مگر غیر قرآنی وحی بھی تو آتی رہی ہے اس کا بالکل ذکر نہ کرنا مناسب نہ تھا۔ اگرچہ اکثر غیر قرآنی وحی خصوصاً جن کا تعلق احکام دین سے ہے پہلے ان پر عمل غیر قرآنی وحی کے مطابق ہوتا رہا بعض کو ایسی ہر غیر قرآنی وحی کا ذکر قرآن مجید میں کسی نہ کسی عنوان سے ضرور فرما دیا گیا ہے تاکہ وہ احکام دین کسی ناقص الفہم کی نظر میں غیر قرآنی قرار نہ پائیں یا یہ کہ قرآن مجید سے باہر نہ رہیں اور قرآن مجید کی جامعیت پر حرف نہ آئے مگر ابتدا ان احکام پر عمل درآمد کی ضرور غیر قرآنی وحی ہی سے ہوئی۔ جیسے ادائے فریضہ الصلوٰة کا طریقہ وغیرہ جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ غرض ضرورت تھی کہ غیر قرآنی وحی جس کو علماء وحی غیر متلو کہتے ہیں اس کی اہمیت بھی بیان فرما دی جائے اس لیے سورة رعد کی مذکورہ آیت کریمہ میں ایک عام جملہ بیان فرمایا کہ صرف قرآنی آیات ہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی جس قسم کی وحی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی طرف نازل ہوئی ہے وہ سب بر حق ہیں جو وحی آپ پر الہام و القاء فی القلب کے ذریعے فرمائی گئی یا عالم خواب میں فرمائی گئی یا فرشتے کے ذریعے قرآنی آیات کے ماسوا بطور پیغام فرمائی گئی یا کسی فرشتے کے ذریعے بطور تلقین و تعلیم جو وحی کی گئی ہو زبانی ہو یا عملی وہ سب بر حق ہیں ۔ اس آیت میں

وَالَّذِیَ أُنزِلَ ِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ الْحَقُّ

 ” اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سب بر حق ہیں "

فرما کر ہر قسم کے نازل شدہ وحی کے بر حق ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ وحی غیر متلو کو غیر قرآنی قرار دے کر کوئی اس کا انکار نہ کرے۔

 

وحی متلو و غیر متلو

 

یہ تقسیم علماء سلف نے اپنی طرف سے نہیں کی خود قرآن مجید نے تقسیم بیان فرما دی ہے۔ سورة الکہف کی آیت ۲٧ پڑھیے :

وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ  رَبِّكَ

” اور تم تلاوت کرو اس وحی کی جو تمہارے رب کی کتاب سے تمہاری طرف کی گئی ہے۔ "

 اس آیت کریمہ میں (مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ) کی قید بتا رہی ہے کہ تلاوت وحی کتاب ہی کی مامور بھا ہے اور اس قید نے یہ بتا دیا کہ کتاب سے باہر بھی بعض وحی ہوئی ہے جس طرح اگلے انبیاء علیہم السلام کی طرف کتابی و غیر کتابی دونوں طرح کی وحی آتی ہے۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے کاتبین وحی سے صرف کتابی وحی لکھوائی تاکہ اس کی تلاوت ہو غیر کتابی وحی کی تلاوت کا حکم نہ تھا۔ اس لیے قرآن کی طرح با ضابطہ اس کو نہیں لکھوایا۔ کتابی وحی میں الفاظ وحی ہوتے جن کا محفوظ رکھنا ضروری تھا غیر کتابی وحی میں مفہوم کی وحی ہوتی تھی اور اگر مفہوم فرشتے کو القاء ہوتا تھا تو الفاظ فرشتے کے ہوتے تھے جو وہ رسول تک پہونچاتا اور اگر مفہوم رسول پر بیداری میں یا خواب میں ا لقاء ہوتا تھا تو رسول اپنے الفاظ میں بیان فرماتے تھے۔ مگر مفہوم ایسی احکامی وحیوں کے بعد کو کہیں نہ کہیں قرآن مجید میں کسی نہ کسی طرح ضرور بیان فرما دیئے جاتے تھے تاکہ وہ مفہوم محفوظ رہ جائے اسی لیے دیکھئے دوسری جگہ بھی یونہی فرمایا ہے :

اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِ مِ الصَّلٰوةَ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ  وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ  وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ

” اس کتاب سے جو وحی تمہاری طرف کی گئی ہے اس کی تلاوت کیا کرو اور نماز قائم کرو بے شک نماز بے حیائی کی باتوں اورناپسندیدہ کاموں سے روک دیتی ہے اور اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرو گے۔ ” (عنکبوت : ٤٥)

اس آیت کریمہ میں دو کاموں کا حکم دیا گیا ہے پہلا حکم  (اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ) کا ہے یعنی حکم دیا جا رہا ہے کہ اس کتاب سے جو وحی تمہاری طرف کی گئی ہے اس کی تلاوت کیا کرو۔ جو شخص کچھ بھی آخرت کی باز پرس سے ڈرتا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ اگر قرآنی آیات کے مفہوم صحیح کے اقرار و انکار میں ہٹ دھرمی سے کام لیں گے تو قیامت کے دن ہم سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ میں ایسے مومن سے پوچھتا ہوں کہ (مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ) میں جو قید (مِنَ الْکِتٰبِ) کی ہے صاف بتا رہی ہے یا نہیں کہ کتاب والی وحی کے علاوہ بھی وحی ضرور آتی تھی ورنہ من الکتاب کی قید محض فضول ٹھہرے گی اور قرآن مجید میں کوئی لفظ بھی بے سود نہیں لایا گیا ہے اور چونکہ صرف کتابی ہی وحی کی تلاوت کا حکم ہے اس لیے کتابی ہی وحی متلو ہوئی اور غیر کتابی وحی غیر متلو ہوئی قرآن مجید نے خود وحی کی دو قسم متلو و غیر متلو بتا دی یا نہیں ؟ اور پھر متصلاً اس کے بعد ہی (وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ) کا دوسرا حکم یہ ظاہر کر رہا ہے کہ نماز میں بھی قرآن  مجید کی تلاوت ہونی چاہیئے اور (اقم) سے یہ اشارہ سمجھا گیا کہ تلاوت صرف قیام میں ہونی چاہیئے۔ رکوع و سجود دونوں صورتیں سر نیاز خم کرنے کی ہیں اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہونا چاہیئے سجدے کے متعلق حکم ہے۔

 (فَسَبِّحْ بَحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ)

” اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ۔ "

 اس لیے رکوع و سجود میں تلاوت آیات کی ممانعت ہے کہ حکم صرف تسبیح و تحمید کا ہے۔ سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ سجدے میں اورسبحان ربی العظیم و بحمدہ رکوع میں کہنا چاہیئے۔ تلاوت مخالفت حکم بھی ہو گی اور مخالفت سبیل المومنین بھی۔ مخالفت سنت تو اس فرقے کا خاص ” دینی فریضہ ” ہے اس لیے مخالفت سنت کا الزام ان پر نہیں عائد کرتا ہوں ۔ قرآنی حکم اور سبیل المومنین کا اتباع ان پر بہر حال فرض ہے مگر سبیل المومنین کی تو مطلق پرواہی یہ لوگ کبھی نہیں کرتے باوجودیکہ از روئے قرآن مجید سبیل المومنین کے خلاف راہ اختیار کرنے والا قطعی جہنمی ہے۔ (نساء ۱۱٥)

اس آیت کریمہ میں تلاوت کا حکم صریح ہے اور اشارہ نماز کے قیام میں تلاوت کا حکم ہے اس لیے وحی کتابی کی خصوصیت ظاہر کر دی مگر اتباع چونکہ ہر قسم کی وحی کا فرض ہے اس لیے جہاں اتباع کا حکم ہے وہاں عام وحی کے اتباع کا حکم یا ذکر ہے ان آیتوں میں (من الکتاب) کی قید نہیں لگائی گئی۔ تو اب اتباعِ وحی کے ذکر یا حکم کی آیات کریمہ ایمان و دیانت کی نظر سے خدا ترسی کے جذبے کے ماتحت ملاحظہ فرمائیے۔

 

۱) قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ  ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ  (انعام :٥٠)

” کہہ دو (اے رسول) کہ نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے (دیئے ہوئے) خزانے ہیں اور نہ میں غیب (کی باتیں) جانتا ہوں اور نہ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو بس اسی کا اتباع کرتا ہوں جس (بات) کی وحی میری طرف کی جاتی ہے۔ "

۲) اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ  ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ (انعام : ۱٠٧)

” (اے رسول) تم اتباع کرو اس (بات) کا جس کی وحی تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے کی گئی اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور مشرکین کی طرف سے منہ پھیر لو (ان کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کرو) ۔ "

۳) قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ (اعراف:۲٠۳)

” کہہ دو (اے رسول) کہ میں اتباع صرف اسی کا کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف میرے رب کی طرف سے کی جاتی ہے۔ "

٤) وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓى اِلَیْكَ وَاصْبِرْ حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ     ښ      وَھُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ

جو وحی (اے رسول) تمہاری طرف کی جائے تم اس کا اتباع کرو اور صبر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ ”  (سورۂ یونس کی آخری آیت

٥) وَّاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓى اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ  اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا

 (اے رسول) تمہارے رب کی طرف سے جو وحی کی جائے اس کا اتباع کرتے رہو تم لوگ جو کچھ کرو گے اللہ تعالیٰ بیشک اس سے باخبر ہے۔ ” (احزاب :۲

 

ان پانچ آیتوں میں اتباعِ وحی کا حکم ہے اور یہ حکم عام وحی سے متعلق ہے کہیں بھی کتاب کی قید نہیں ۔

 

اتباع ما انزل

 

سورة اعراف کی تیسری آیتِ کریمہ ہے :

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَاءَ   قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ

” تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ تمہاری طرف اتارا گیا ہے اسی کا اتباع کرو اور اپنے رب کے سوا (دوسروں کو) اپنا ولی (کارساز مالک) بنا کر ان کا اتباع نہ کرو۔ بہت کم تم لوگ نصیحت کرتے ہو۔ "

اس آیتِ کریمہ میں (مَا أُنزِلَ ِلَیْْکُم مِّن رَّبِّکُمْ) سے صرف قرآن مجید مراد لینا صحیح (۳) مان بھی لیں تو یہاں من دونہ کی ضمیراسی ما انزل یعنی قرآن مجید کی طرف پھیرنا یا تو جہالت ہے یا جانتے بوجھتے ہٹ دھرمی ہے رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک پر جو باتیں القاء ہوتی تھیں حضور ﷺ کو جن باتوں کا الہام ہوتا تھا وہ بھی جب نزول وحی کی ایک صورت تھی جس کو میں قرآنی آیات سے ثابت کر چکا ہوں تو الہام نبوی کو ما انزل سے بالکل خارج کوئی مومن خدا ترس کس دلیل سے کرسکتا ہے ؟ اسی طرح خواب میں جو وحی حضور پر نازل کی گئی وہ بھی ما انزل میں ضرور داخل ہے اور جو زبانی پیغام یا ہدایت یا مژدہ فرشتہ لے کر نازل ہوا (نزل بہ الروح الامین) کی حیثیت سے اس کو ما انزل سے خارج کیوں سمجھا جائے گا ؟ جس طرح ما یوحیٰ اور ما اوحیٰ عام ہے بالکل اسی طرح ما انزل بھی عام ہے یقیناً قرآن مجید ما اوحیٰ میں سے بہت زیادہ عظمت و اہمیت والی وحی ہے اس طرح ما انزل میں سے بھی وہ بہت زیادہ عظمت و اہمیت والا منزل من اللہ ہے مگر اس سے قرآن مجید کے سوا غیر متلو وحیوں کا انکار تو کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا ہر ما انزل واجب الاتباع ہے مگر منزل یعنی ما انزل کے نازل کرنے والے کو اپنا ولی واحد مان کر اس کی اطاعت کے ماتحت اس کے نازل کردہ احکام کا اتباع واجب ہے اگر کسی نے احکام قرآنی کا اتباع کیا حکومتِ اسلامیہ کے حکام کی دارو گیر سے ڈر کر۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا ولی اور والی سمجھ کر نہیں تو اس نے بھی من دونہ اولیاء کا اتباع کیا۔ اتباعِ احکام قرآنی میں نیت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ضروری ہے باقی رہی من دونہ کی ضمیر تو اس کو ما انزل کی طرف پھیرنا کھلی ہوئی جہالت یا کھلی ہوئی ہٹ دھرمی ہے۔ (لا تتبعوا من دونہ اولیاء) میں لا تتبعوا کا مفعول اولیاء ہے یعنی جس کی طرف من دونہ کی ضمیر پھرتی ہے اسی کو اپنا ولی سمجھو اور اسی کے احکام کا اتباع کرو، اسی کے بھیجے ہوئے رسول کا اتباع کرو اس کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنا کر ان کا اتباع نہ کرو۔ قرآن کو ولی نہیں بنایا جا سکتا۔ ولی وہی ہو گا جو علم و ارادہ اور قدرت و قوت والا ہو جو ولایت کا حق ادا کرسکے اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید علم و ارادہ اور قدرت و قوت والا نہیں ہے۔ جو ولایت کا حق ادا کرسکے اسی لیے قرآن مجید میں قرآن مجید کے لیے ولی کا لفظ کہیں نہیں آیا جہاں آیا ہے اللہ کے لیے آیا ہے مومنین کا ولی اللہ ہے اور کفار کا شیطان ہے۔

اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا

"اللہ تعالیٰ مومنین کا ولی ہے۔ ” (بقرہ : ۲٥٧)

حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے فرمایا :

اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ

” تو میرا ولی ہے دنیا و آخرت میں ۔ ” (یوسف : ۱٠۱)

وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ

” مومنین کا ولی اللہ تعالیٰ ہے۔ ” (آل عمران : ٧٨)

وَاللّٰهُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ

” تقویٰ والوں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے۔ ” (جاثیہ :۱٩)

 

اور بہت سی آیتیں ہیں ۔ غرض ولی کوئی صاحبِ عقل و علم و ارادہ و اختیار ہی ہوسکتا ہے ایک کتاب خواہ وہ کتاب اللہ ہی کیوں نہ ہو اس کو ولی قرار نہیں دے سکتے نہ کہہ سکتے ہیں اس لیے اس آیت کریمہ میں من دونہ کی ضمیر ربکم ہی کی طرف لوٹتی ہے جو شخص اس ضمیر کو ما انزل کی طرف پھیرے وہ جاہل ہے یا ہٹ دھرم یا معنوی تحریف کرنے والا ہے۔

 

دوسری آیتِ کریمہ

 

وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ  (اعراف : ۱٥٧)

” اور اتباع کرو اس نور کا جو ان کے ساتھ اتارا گیا۔ "

یہاں النور سے عام طور پر قرآن مجید ہی مراد لیا جاتا ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی اور جس قسم کی وحی کسی نبی پر جب بھی نازل ہوئی تھی وہ نور ہی تھی ہر وحی ایک نور ہے اس لیے اس آیتِ کریمہ سے بھی غیر قرآنی وحی کو خارج سمجھنا غلط ہے۔ جب قرآنی آیتوں سے غیر قرآنی وحی کا وجود ثابت ہو چکا تو قرآنی و غیر قرآنی ہر قسم کی وحی اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ نور ہے۔ یہ بات دوسری ہے جب کسی اسم جنس کا ذکر ہو گا تو عموماً فرد اعظم و اہم کی طرف پہلے ذہن جائے گا کتاب اللہ ہر دوسری قسم کی وحی سے زیادہ اہم اور زیادہ واجب التمسک ہے اس لیے اس آیتِ کریمہ میں (النور الذی انزل معہ) سے قرآن مجید ہی کی طرف پہلے ذہن جائے تو حق بجانب ہے اس لیے کہ دوسری قسم کی ہر وحی کتاب اللہ کے تابع ہے۔ اسی لیے تلاوت کا حکم صرف قرآن مجید وحی متلو ہی کا ہوا۔ وحی غیر متلو کی تلاوت کا حکم نہیں ہوا وحی متلو کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا اور اس کو ہر طرح محفوظ رکھا۔ وحی غیر متلو کی حفاظت امت کے ذمے چھوڑ دی اور امت نے اس کی حفاظت کی۔ اگلی امتوں کے ذمے کتاب اللہ وحی متلو اور سبیل المومنین سب کی حفاظت تھی چونکہ اگلی امتیں قومی امتیں تھیں ہر قوم میں نبی آتے تھے ان کا دین بھی قومی ان کی کتاب بھی قومی تھی۔

جب پورے الناس کے لیے ایک نبی، ایک کتاب اور ایک دین آگیا تو اب چونکہ نہ کوئی نبی آئے گا نہ کوئی نئی کتاب آئے گی اس لیے اس آخری کتاب کی حفاظت تو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمّہ رکھی اور نبی آخر الزماں ﷺ پر جو وحی غیر متلو آئی تھی ان میں سے جو اہم دینی وحی تھی ان کو بھی قرآن مجید میں ذکر کر کے محفوظ کر دیا گیا ہے باقی کل وحی غیر متلو اور سبیل المومنین کی حفاظت امت کے ذمے چھوڑ دی تاکہ یہ امت بھی اگلی امتوں کی طرح اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھے اور ذمہ داریوں سے بالکل آزاد نہ رہے اور اب چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے جو کچھ وحی غیر متلو اور سبیل المومنین میں اختلافات اور کمی بیشی اور تبدیلی و تغیر پیدا ہو جائے اس کو کتاب اللہ کے ذریعے درست کر لیں اور دینی اختلافات کا فیصلہ کر لیں ۔

 

حقیقی و اصلی اتباع

 

حقیقی و اصلی اتباع تو قرآن مجید ہی کا ہے وحی متلو کو بھی قرآنی آیات ہی کے مطابق دیکھ کرواجب الاتباع سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے :

وَ اتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَاْ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ

” تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں سے بہترین چیز کا اتباع کرو۔ "

 (احسن ما انزل) سے یہ مراد لینا بھی صحیح ہے کہ جتنی کتابیں جتنے صحیفے اگلے انبیاء علیہم السلام پر اُترے تھے سب سے احسن جو کتاب اب اتری ہے اس کی اتباع کرو گویا اس کی مخاطبت اہل کتاب کی طرف ہے یہ مفہوم بھی ضرور صحیح ہے مگر اہل کتاب کی طرف مخاطبت نہ اس آیت سے پہلے ہے نہ اس آیت کے بعد البتہ عام مخاطبت ہے۔ لیکن یہ مفہوم زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ جس مسئلے میں وحی قرآنی اور وحی غیر قرآنی دونوں متفقہ فتویٰ دیں وہی (احسن ما انزل) ہے۔ بخلاف اس کے کہ اس متفقہ فتویٰ کو چھوڑ کر اسی مسئلے میں صرف آیت سے ایک نیا مفہوم نکالا جائے جو وحی غیر قرآنی سے مختلف یا اس کے خلاف ہو جہاں تک ہوسکے ہر مسئلے میں وحی قرآنی کے ساتھ وحی غیر قرآنی کا اتباع بھی پیشِ نظر رہے مگر یہ روش بڑی غلط ہو گی وحی غیر قرآنی کے اتباع کے لیے قرآنی آیات کو کھینچ تان کر کے اس وحی غیر قرآنی کے تابع رکھنے کی کوشش کی جائے۔ وحی قرآنی محفوظ بحفاظت خیر الحافظین تبارک و تعالیٰ ہے اور وحی غیر قرآنی کی حفاظت امت نے کی ہے ظاہر ہے کہ امت کی حفاظت اللہ کی حفاظت کی برابری نہیں کرسکتی۔

 

اتباع و اطاعت

 

آج کل عموماً اچھے اچھے مدعیانِ قرآن فہمی اتباع و اطاعت کا فرق نہیں سمجھتے اور اطاعت قانون اور اطاعت احکام وغیرہ برابر الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں حالانکہ اطاعت کسی شخص اور کسی ذات کی ہوتی ہے۔ احکام و قانون کا اتباع ہوتا ہے۔ اتباع کسی شخص کا بھی ہوسکتا ہے۔

” اطاعت ” باب افعال کا مصدر ہے اس کا مادہ طوع ہے جس کے معنیٰ ہیں پسند۔ جس کی ضد ہے کرھ یعنی مجبوری و ناپسندیدگی اور دباؤ میں رہنا۔ طوعاً و کرہاً اردو میں بھی پڑھے لکھے لوگ بولتے ہیں ۔ واؤ بمعنی او ہے بمعنی طوعاً و کرہاً یعنی پسند سے خوشدلی سے یا مجبوری سے دباؤ سے۔

سورة توبہ میں ہے :

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ

 ” (اے رسول) منافقین سے کہہ دو کہ تم (کسی کارِ خیر میں) خوشی سے خرچ کرو یا نا خوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ "

باب افعال کا ایک خاصہ سلب مآخذ کا بھی ہے یعنی اصل مآخذ مادہ کے جو معنی تھے۔ وہ باب افعال پر لانے سے اس مفہوم کے سلب کر لینے کے معنیٰ پیدا ہو جاتے ہیں تو اطاعت کے معنی ہوئے اپنی پسند اور اپنی خوشی کا سلب کر لینا اس کی پسند اس کی خوشی کے مقابل جس کی اطاعت کی جائے۔ (اطیعوا اللّٰہ) کے معنیٰ ہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مقابل اپنی خواہش اپنی رضا اپنی پسند کو دل سے نکال پھینکو۔

 (اطیعوا الرسول) کے معنیٰ ہیں اپنی پسند کو رسول کی پسند میں فنا کر دو۔ تو یہ اطاعت کسی ذات، کسی شخص، کسی حاکم، صاحبِ اقتدار و اختیار ہی کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ غیر ذوی العقول، غیر صاحب اقتدار و قوت کی اطاعت نہیں ہوسکتی۔ جن کی کوئی اپنی پسند نہ ہو بلکہ غیر ذی روح محض اقوال وہ بھی تحریری قوانین ہوں ان کی اپنی کوئی مرضی اور اپنی کوئی پسند تو ہے نہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے گی البتہ جس کا نافذ کردہ قانون ہے جس کے احکام ہیں اس کی اطاعت ہو گی۔

اگر کوئی یہ کہے کہ مجازاً قانون کی اطاعت کہی جاتی ہے مقصود صاحبِ قانون ہی کی اطاعت ہے تو یہ ویسا ہی ہے کہ کوئی دینے والے کا شکر ادا نہ کرے۔ روپے کا شکر ادا کرے کہ اس کا کام روپے سے نکلا ہے۔ پھر یہ کہ گفتگو عربی استعمال سے متعلق ہو رہی ہے نہ کہ اردو میں زبان و استعمال سے متعلق۔ اس سلسلے میں مدعیانِ قرآن فہمی ایک بڑے مغالطے سے کام لیتے ہیں وہ یہ کہ اطاعت ذات اور شخص ہی کی ہوتی ہے اور اسے ” بالمشافہ ” ہی ہونا چاہئے  لہٰذا آج جبکہ رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف فرما نہیں ہیں تو ان کی اطاعت کے کیا معنی ؟ اس بنا پر یہ حضرات بزعمِ خود یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن میں وارد شدہ اطاعت رسول سے مراد ہے ہر دور کے مرکزِ ملت کی اطاعت۔

یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو رسول اور منصب رسالت سے بالکل نابلد ہو اور اپنے مزعومہ مرکزِ ملت کو مقام رسالت پر بٹھانا چاہتا ہو۔ یقیناً اطاعت ذات اور شخص کی ہوتی ہے لیکن ان حضرات کو معلوم ہونا چاہئے کہ محمد بن عبد اللہ کی وفات ہوئی ہے نہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اور اگر ایسا نہیں ہے تو حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کے لیے قیامت تک لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ پر بھی ایمان کوئی معنی نہ رکھے گا۔ لہٰذا  اطاعتِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ احکام رسول کی اتباع کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی جائے یعنی رسول کی پسند کے مقابل اپنی پسند کو سلب کر لیا جائے۔ رہا ان حضرات کا یہ کہنا کہ اطاعت ” بالمشافہ ” ہی ہوتی ہے تو یہ ایک بلا دلیل بات ہے، دوسرے یہ کہ پھر تو اللہ کی اطاعت کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ ” بالمشافہ ” نہیں ہے یعنی وہ ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہے لہٰذا جس طرح اللہ کے ” بالمشافہ ” نہ ہونے کے باوجود اس کی مرضی اور پسند معلوم کی جا سکتی ہے اور اس کی مرضی اور پسند کے مقابل اپنی مرضی اور پسند کو سلب کیا جا سکتا ہے، اسی طرح آج بھی رسول اللہ ﷺکی پسند معلوم کی جا سکتی ہے اور حضور ﷺ کی پسند کے مقابل اپنی پسند کو سلب کر کے اطاعتِ رسول کی جا سکتی ہے اور کرنی چاہئے کہ اطاعتِ رسول ہر دور میں قیامت تک کے لیے منصوص ہے۔

یاد رکھئے کہ اطاعت بغیر محبت کے نہیں ہوسکتی۔ قانون جس کے منشاء کے خلاف ہو وہ کبھی خوشدلی سے اس قانون کو قبول نہیں کرسکتا جب تک صاحبِ قانون سے محبت نہ ہو۔ قانون بھی پیارا ہو گا اگر صاحبِ قانون پیارا ہے۔

اتباع حکم کا اور قانون کا بھی ہوسکتا ہے اور کسی راہنما کا بھی اسی لیے قرآن مجید میں وحی کے اتباع کا بھی حکم ہے اور رسول کے اتباع کا بھی مہاجرین و انصار کے اتباع پر دوسروں کے لیے رضائے الٰہی موقوف ہے۔

 

اتباع وحی و تلاوت وحی

 

قرآن مجید میں اتباعِ وحی کا حکم انہی پانچ مذکورہ سورتوں میں اور ان کی مذکورہ انہی پانچ آیتوں میں ہے مگر ہر آیت میں عام وحی اور ہر قسم کی وحی کے لیے حکم اتباع ماننا پڑے گا عموم لفظ کی بلا دلیل تخصیص جائز نہیں ۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ حضور ﷺ پر ہر قسم کی وحی آتی رہتی تھی جیسا کہ اگلے انبیاء علیہم السلام پر اُترتی رہی اور بلا تخصیص عام وحی کے اتباع کا حکم ہے تو یقیناً کسی قسم کی وحی بھی حکم اتباع سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی۔

اور تلاوت وحی کا حکم پورے قرآن مجید میں دو ہی جگہ ہے ایک اکیسویں پارے کی پہلی آیت کریمہ میں جو سورہ عنکبوت کی پینتالیسویں آیت ہے جس میں صاف طور سے فرمایا گیا ہے : (اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ ) تلاوت کرو اس وحی کی جو وحی اس کتاب سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔

کس قدر صاف لفظوں میں وحی کتابی ہی کی تلاوت کا حکم ہے عام وحی کی تلاوت کا حکم نہیں ۔ اسی طرح دوسری آیت کریمہ میں ہے : (وَ اتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ ْکِتَابِ رَبِّکَ) اور تلاوت کرو اس وحی کی (اے رسول) جو تمہارے رب کی کتاب (قرآن) سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ (کہف :۳٧) یہاں بھی صراحت و وضاحت کے ساتھ تلاوت کا حکم ہے اس وحی کے لیے جو (من کتاب ربک) تمہارے رب کی نازل کردہ کتاب سے ہو۔

صرف دو ہی آیتوں میں تلاوت وحی کا حکم ہے اور دونوں جگہ صاف اور واضح طور سے وحی کتابی کی قید موجود ہے اس لیے وحی کی دو قسمیں متلو اور غیر متلو۔ قرآن مبین نے صراحتاً خود کر دی ہیں ۔ علمائے سلف کا اختراع نہیں ہے۔

وحی غیر متلو کو ” غیر قرآنی ” کہہ کر رد کرنا اور قبول نہ کرنا اور اس کے اتباع سے انکار کرنا در حقیقت قرآن مجید کا انکار ہے۔ (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ)

 

روایت

 

وحی غیر متلو جس کو مدعیانِ قرآن فہمی وحی تو تسلیم ہی نہیں کرتے، ” غیر قرآنی ” باتیں کہہ کر رد کر دیتے ہیں ان میں بہت سی تو ایسی ہیں جن کا ذکر کسی نہ کسی طرح قرآن مجید میں کر دیا گیا ہے مگر اس فرقے والوں کو ان آیات سے کیا بحث ؟ ان کو ایسی آیتوں کی تلاش رہتی ہے جن سے وہ آج کل کے الحاد زدہ نوجوانوں کو مطمئن کرسکیں اور دنیا میں انسانوں کو خودساختہ نظام معیشت قائم کرسکیں اور بزعم خود سرمایہ داری کا استیصال کرسکیں،  ڈارون کی تھیوری کو قرآنی آیتوں سے ثابت کرسکیں ۔ غرض ان کا حاصل یہ ہے :

اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا

” ان کی ساری جدو جہد دنیاوی ہی زندگی کے مفاد میں کھو گئی (خرچ ہو گئی ہے) اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ ” (کہف : ۱٠٤)

اس لیے وہ کبھی اس پر غور ہی نہیں کرتے کہ (اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ) سے نمازِ جمعہ کا ثبوت تو مل رہا ہے مگر نمازِ جمعہ کب فرض ہوئی تھی ؟ اور کس آیت کے ذریعے فرض ہوئی تھی ؟

پھر” نداء للصلوٰة ”  یعنی اذان کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ ہے اذان کا حکم اور اذان کے کلمات کی تعلیم کس آیت سے ثابت ہوتی ہے ؟ ان باتوں پر غور کرنے کا ان کے پاس وقت کہاں ؟ ا س لیے یہ ان وحی ہائے غیر متلو سے بالکل بے خبر ہیں جو قرآن مجید میں صراحتاً مذکور نہیں اور جو قرآن مجید میں صراحتہً مذکور نہیں ان کو غیر قرآنی اور روایتی کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں حالانکہ قرآن مجید ان کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے۔

 

قرآن مجید اور روایت

 

قرآن مجید نے روایت کو رد کرنے یا قبول کرنے کے متعلق بہترین اصول خود بتا دیا ہے۔ ارشاد ہے :

اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا (حجرات :٧)

” (اے ایمان والو!) اگر کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیقات کرو۔ "

یہ حکم دنیاوی امور، جنگ، صلح، حملہ، دشمن وغیرہ کے متعلق ہے کہ کوئی فاسق بھی کوئی خبر لائے تو محض اس کے فسق کی وجہ سے اس کی خبر دہی کو چھوٹتے ہی غلط اور جھوٹ قرار دے کر اس سے بے پروائی نہ برتو ممکن ہے کہ تحقیقات سے خبر صحیح ثابت ہو جائے۔ اور نہ اس پر فوراً اعتماد کر لو۔ ممکن ہے خبر غلط ہو اور تم کو خواہ مخواہ کی پریشانی اٹھانی پڑے غرض یہ حکم نہیں ہوا کہ چونکہ خبر لانے والا فاسق ہے اس لیے اس کو جھٹلا دو۔

حدیثیں جن میں وحی غیر متلو، وحی غیر قرآنی کا بھی کچھ حصہ ضرور ہے جن اقوال و افعال کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کر کے راوی روایت کر رہا ہو۔ بغیر راوی کی وثاقت و عدم وثاقت کا پتہ لگائے، بغیر اس کو قرآنی درایت کی میزان پر تولے ہوئے صرف روایت روایت کا شور مچا کر رد کر دینا تو دراصل قرآن مجید کی اس آیتِ کریمہ کی کھلی ہوئی مخالفت ہے اور اس کے ساتھ نسبت الی الرسول کی توہین بھی۔ کسی قول منسوب الی الرسول کی نسبتِ صحت سے انکار اور بات ہے اور عام طور سے ہر حدیث قولی و فعلی کا انکار اور بات ہے۔ کسی ایک یا چند یا بہت سی حدیثوں کا عدم قبول اور باقی کا اقرار کرنے والے کو کہا جا سکتا ہے کہ اس کا عدم قبول مبنی بر دیانت ہے جس طرح موضوعات پر کتابیں لکھنے والوں نے کافی تعداد میں حدیثوں کو موضوع قرار دیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں بعض حدیثیں صحیح ہوں اور جن حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے ان میں کچھ موضوع حدیثیں بھی ہوں ۔ بہ ہر حال جن حدیثوں کو کتاب الموضوعات لکھنے والوں نے موضوع قرار دیا ہے ان کے پاس حدیثوں کے پرکھنے کا معیار ہے اپنے معیار کے مطابق موضوعات الگ کر کے جن حدیثوں کو صحیح سمجھا ان کو وہ دین میں حجت سمجھتے ہیں یہاں ایک بلا دلیل یہ خیال قائم کر لیا کہ قرآن مجید کے سواکوئی وحی آنحضرت کی طرف بھیجی نہیں گئی۔ حضور ﷺ کو کبھی کسی بات کا الہام ہوا ہی نہیں ۔ جبریل قرآن مجید کے سوا اور کوئی بات پہنچاتے ہی نہ تھے۔ اور اس تنکے پر انکار کا پہاڑ اٹھائے ہوئے ہیں ۔

 

محکم دلیل

 

کتاب اللہ کے ساتھ، سنت کا نام لینے والوں کے سامنے بزعم خود گویا ایک پہاڑ لا کر رکھ دیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ سنت کہاں ہے ؟ کس کتاب میں ہے ؟ کوئی ایسی کتاب دکھاؤ جس میں سارے اسلامی فرقوں کی متفق علیہ حدیثیں ہوں جس پر سارے فرقوں کا یکساں عمل درآمد ہو، دکھاؤ ایسی کتاب ؟ ایسا کہنا قرآن فہمی نہیں بلکہ دراصل قرآن سے بے خبری کی شہادت ہے میں نے ان مدعیانِ قرآن فہمی کی اس پہاڑ ایسی دلیل کو کالعہن المنفوش کھانے کے لیے ایک مستقل رسالہ ” السنّہ ” کے نام سے لکھا ہے، اس بنا پر یہاں اس بحث کی تفصیلات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے چند بنیادی اور اہم باتوں پر اکتفا کرتا ہوں ۔

 

رسول اللہ ﷺ  کو تلقینِ ایمان کس وحی کے ذریعہ ہوئی ؟

 

” منجانب اللہ وحی ” کے عنوان کے تحت کچھ پہلے سورۂ شوریٰ کے آخر کی تین آیتیں لکھ کر وحی کے تین اقسام میں نے قرآن مجید کی ان آیتوں سے ثابت کیے ہیں ۔ ان تین آیتوں میں سے دوسری آیت یعنی سورۂ شوریٰ کی آخری آیت سے پہلے جو آیت ہے اس میں رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ (مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ) ” (اے رسول) تم تو جانتے بھی نہ تھے کہ الکتاب (کتاب اللہ) کیسی ہوتی ہے بلکہ ایمان (۴) کی حقیقت سے بھی واقف نہ تھے۔ "

حیرت ہے کہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ حضرت موسیٰ جب وادی مقدس ” طویٰ ” میں پہنچتے ہیں ۔ تو حسبِ صراحت قرآنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں (اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ) گویا اللہ اپنا تعارف کراتا ہے۔ پھر انہیں بتاتا ہے کہ وہ کس مقدس جگہ کھڑے ہیں (اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی) پھر ان کو منصبِ رسالت پر فائز کرنے کی وحی کرتا ہے (وَ اَنَا اخْتَرْتُکَ) پھر اس کے بعد دوبارہ گویا اپنا تعارف اس طرح کراتا ہے کہ (اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰھُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا) (بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی الہٰ نہیں) پھر انہیں حکم دیتا ہے کہ (فَاعْبُدْنِیْ) (لہٰذا میری ہی عبادت کیا کرو) پھر اس عبادت کے سلسلے میں حکم دیتا ہے کہ (وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْ) (میری یاد کے لیے نماز کی پابندی رکھو) پھر حضرت موسیٰ اور اللہ کے کے درمیان کچھ اور گفتگو ہوتی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو” ایک کارِ خاص ” پر مامور فرماتا ہے۔ (اِذْھَبْ اِلیٰ فِرْعُوْنَ اِنَّہ طَغیٰ) (فرعون کے پاس جاؤ، کہ وہ سرکش ہو رہا ہے) ۔

لیکن رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت جبریل آتے ہیں تو نہ اپنا تعارف کراتے ہیں نہ ایمان کی تلقین کرتے ہیں۔ باوجودیکہ رسول اللہ ﷺ ایمان کی حقیقت سے واقف نہ تھے (۵)۔ (مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ) اور نہ وہ رسول اللہ ﷺ کو یہ بتاتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو منصبِ رسالت پر فائز کر دیا ہے، پس اچانک وہ نمودار ہوتے ہیں اور آتے ہی سورۂ علق کی ابتدائی چند آیات پڑھوا دیتے ہیں !!

یقیناً منصبِ نبوت عطا کرنے سے پہلے آپ ﷺ کو تلقینِ ایمان کی گئی ہو گی، تاکہ آپ ﷺ اوّل المومنین ہوں ، مگر نبوت کا آغاز کس طرح ہوا ؟ تلقینِ ایمان کس طرح ہوئی ؟ قرآن مجید اس کو بیان نہیں فرماتا۔ روایتیں جو آغازِ وحی کی ہیں ان میں کہیں تلقینِ ایمان کا ذکر نہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غشی سے افاقے کے بعد فرمایا (اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ) مگر رسول اللہ ﷺ کے لیے قرآن مجید میں اوّ ل المومنین کا لفظ کہیں نہیں ہے اور اس کے ذکر کی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ حضور ﷺ کا اوّل المومنین ہونا قطعی و یقینی ہے۔ عیاں را چہ بیاں ۔

سورۂ بقرہ کے آخری رکوع آیت ۲٨٥ کے شروع میں ہے :

 اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ  كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ

"یہ رسول ایمان لائے ان سب وحیوں پر جو ان کے رب کی طرف سے ان پر اتاری گئیں اور سارے مومنین ایمان لائے۔ سب کے سب ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر۔”

تو یہ خبر وہی ہے سب کے ایمان لانے کی۔ سب کے سب بیک وقت بیک روز تو ایمان نہیں لائے تھے۔ مومنین نے تو جب رسول سے دعویٰ نبوت و رسالت سنا قرآن مجید کی آیتیں سنیں تب رسول پر ایمان لاتے گئے۔ خود رسول اللہ ﷺ کب ایمان لائے ؟ کس دن کس وقت ؟ اور کس حکم سے ایمان لائے اور کس کی تلقین سے ایمان لائے یقیناً کوہِ حرا میں حضرت جبریل حضور ﷺ کے پاس آئے تو پہلے انہوں نے اپنا تعارف کرایا ہو گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے تلقینِ ایمان کی وحی پیش کی ہو گی کیونکہ آپ ایمان کی حقیقت اور تفصیل سے ناواقف تھے (جیسا کہ قرآن کی مذکورہ آیت میں بتصریح مذکور ہے) ۔ اللہ تعالیٰ پر اگرچہ فطری ایمان ہو گا مگر فرشتوں پر کتابوں پر اگلے رسولوں پر اور قیامت پر ایمان کی تفصیل کا علم نہ ہو گا۔ تلقینِ ایمان کے بعد جب آپ ﷺ اوّل المومنین ہو گئے تو پہلے آپ کو آپ کے منصب نبوت و رسالت کی حقیقت سے مطلع کیا ہو گا اور اس کی بھی وحی ہی لے کر آئے ہوں گے، اس کے بعد سب سے پہلی وحی جو حضور ﷺ کے سامنے پیش ہوئی وہ بسم اللہ الرحمان الرحیم کی، پھر اس کے بعد پوری سورۂ فاتحہ کی وحی ہوئی (۶)۔ تو وحی قرآنی سے پہلے حضرت جبریل نے اپنے ذاتی تعارف کی وحی غیر متلو پیش کی پھر تلقینِ ایمان کی وحی غیر متلو پیش کی پھر منصبِ نبوت و رسالت کی حقیقت سے آگاہ کرنے کی وحی غیر متلو پیش کی، تین وحی غیر متلو کے بعد پھر پہلے بسم اللہ الرحمان الرحیم کی وحی کتابی پیش کی۔ پھر سورۂ فاتحہ کی وحی کتابی پیش کی، تو تین وحی غیر متلو کے بعد دو وحی متلو پیش کیں ۔ سورة فاتحہ میں (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن) کا اقرار تھا (ایّاک نستعین) میں تو طلبِ اعانت کا اقرار ہے اور طلب کا تعلق قلب سے ہے وہ تو آسان بات تھی مگر (ایاک نعبد) کا تعلق صرف قلب سے نہیں ہے بلکہ جوارح یعنی دست وپا اور سر و جبین سے بھی ہے لہٰذا کس طرح اس قلبی اقرار کا عملی ثبوت دیا جائے اس کی تعلیم یقیناً ضروری تھی۔ ضرور حضرت جبریل نے حضور ﷺ کو نماز پڑھانے کے طریقے کی وحی بھی دی بلکہ بہت زیادہ قرینِ عقل و قرینِ قیاس ہے کہ حضرت جبریل نے خود دو رکعت نماز پڑھ کر بتا دیا ہو اور حضور ﷺ نے اسی جگہ تعلیمِ جبریل کے مطابق دو رکعت نماز پڑھی ہو۔

غرض، پہلے تین وحی غیر متلو، پھر دو وحی متلو، ان کے بعد پھر تعلیم صلوٰة کی دو وحی غیر متلو، زبانی اذکار کی اور عملی ہئیات صلوٰة کی بالواسطہ اور بالتوسط پہونچائی، اس کے بعد سورہ علق کی پانچ ابتدائی آیتوں کی بسم اللہ الرحمان الرحیم کے ساتھ وحی متلو پیش ہوئی۔

 

وحی بالواسطہ اور وحی بالتوسط

 

سورۂ الشوریٰ کی آیت ٥۲ میں ہے :

اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہ مَا یَشَآءُ

"اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو اپنے نبی کے پاس بھیجتا ہے تو جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس کے حکم کے مطابق فرشتہ وحی پیش کرتا ہے۔ "

تو اللہ تعالیٰ مرسل یعنی وحی بھیجنے والا اور نبی مرسل الیہ یعنی جس کی طرف وحی بھیجی گئی اور فرشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے درمیان واسطہ ہوا۔ اگر فرشتے کی حیثیت محض ایک امین کی ہے کہ وحی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو دی فرشتے نے بالکل اسی طرح اس کو نبی تک پہنچا دیا فرشتے کا بذات خود اس وحی سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں تو وہ وحی بالواسطہ ہے اور اگر فرشتے کا بھی فی الجملہ کوئی تعلق قولی یا عملی اس وحی سے ہو تو وہ وحی بالتوسط ہوئی۔

چونکہ (اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ) فرما کر اللہ تعالیٰ نے کتابی وحی کی تلاوت کا حکم دیا ہے۔ اس لیے ایسی وحی جو بالفاظ بطور امانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر مشروط طور پر بالکل امانت کی حیثیت سے فرشتے نے آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچائی وہ وحی بالواسطہ وحی متلو ہوئی اور وہی کتابی وحی ہے۔

دوسری وہ وحی کلامی جو اللہ تعالیٰ نے فرشتے کی طرف فرمائی اور حکم یہ فرمایا کہ انہیں الفاظ میں اس وحی کو تم اپنی طرف سے ہمارے نبی سے کہیو یہ بھی کتابی وحی رہے گی تاکہ ہر تلاوت کرنے والا قیامت تک اس وحی کے مضمون سے آگاہ رہے۔

جیسے سورة مریم کی دو آیتیں ٦٤، ٦٥ ہیں :

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ۚ  لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْ  نَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِ یًّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ  هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا

” (اے نبی) ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترسکتے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کا مالک وہی ہے اور تمہارا رب بھولنے (۷) والا نہیں ہے اور وہ سارے آسمانوں کا اور ساری زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کا رب ہے تو پھر تم اسی کی بندگی کا حق ادا کرو اور اسی کی بندگی پر ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہو (اس کی) ذات و صفات و اختیارات کا شریک تو کوئی کیا ہو گا) تم اس کے نام کا شریک بھی کیا کسی کو پاتے ہو ؟”

یہ وحی ہے تو کلامی اور بالفاظ اور امانت ہی کی حیثیت سے لفظاً لفظاً پہونچائی گئی مگر اس میں فرشتے کا ذاتی تعلق بھی ہے۔ فرشتے کو حکم ہے کہ اس قول کو تم اپنی طرف سے کہو تو دوہری وساطت ہوئی کلام پہنچانا اور اپنی طرف سے پہنچانا اس لیے میں نے اس قسم کی وحی کا نام وحی بالتوسط رکھا ہے مگر اس قسم کی وحی بالتوسط متلو ان دو آیتوں کے سوا تو کوئی تیسری آیت میرے ذہن میں نہیں ہے ممکن ہے دو ایک اور بھی کہیں ہوں ۔ و اللہ اعلم

 

وحی بالمفہوم

 

غرض وحی کلامی بالفاظہ تعالیٰ صرف وحی کتابی ہی ہے اور وحی بالواسطہ ہی ہے بجز مذکورہ دو آیتوں کے جو وحی متلو کتابی بالتوسط نازل ہوئیں یا شاید کوئی اور آیت بھی اس طرح کی ہو البتہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے پر مفہوم القاء فرمایا اور فرشتے نے اس مفہوم کو اپنے الفاظ میں نبی تک پہنچایا تو یہ وحی بالتوسط ہے اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتے نے پہنچایا ہے تو وہ حدیثِ قدسی ہے اور اگر حسبِ حکم ربانی فرشتے نے اپنی طرف سے کہا ہے تو وہ حدیث جبریل ہے اگر حضرت جبریل ہی اس وحی کو پہنچانے والے ہیں ورنہ جو فرشتہ بھی ہو اس کی طرف وہ حدیث منسوب ہو گی۔

 

حواشی

 

 (۱)       کتاب میں تنوین وحدت تعظیمی ہے اس لیے ترجمہ میں عظمت کا اظہار کیا گیا ہر زبان میں وحدت تعظیمی ہوتی ہے۔

 

 (۲)        ذکریٰ چونکہ غیر منصرف ہے اس لیے اس پر تنوین نہیں آسکتی مگر تنکیر موجود ہے اور یہ تنکیر اس وحدت تعظیمی کی ہے، جو کتاب میں تنوین کی صورت میں ہے اصل تو مفہوم تنکر و وحدت کا ہے۔ تنوین تو تنکر و وحدت کی ظاہری علامت ہے۔

 

 (۳)      ما انزل الیکم من ربکم سے صرف قرآن مجید مراد لینا صحیح مان بھی لیں ، یہ اس لیے لکھا ہے کہ اگر نزل بہ الروح الامین اور نزلہ روح القدس کی حیثیت آپ جانتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ صرف وہی وحی معتبر ہو جس میں مفہوم اس کے الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل لائے ہوں اور وہ وحی معتبر نہ ہو جس کا صرف مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل اپنے الفاظ میں لائے ہوں یا جس کے مفہوم کا القاء حضور کے قلبِ مبارک پر کیا ہو اور حضور علیہ السلام نے اپنے الفاظ طیبہ میں اس مفہوم کو ادا فرمایا ہو۔ نزل بہ الروح الامین اور نزل روح القدس تو تینوں قسم کی وحی ہوئی فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ کی نوعیت تینوں قسم کی وحیوں میں موجود ہے اس لیے صرف قرآن مجید کے منزل من اللہ ماننے پر اصرار اور باقی دونوں وحیوں کے منزل من اللہ ہونے سے انکار تو جائز نہیں خصوصاً جب ان دو قسم کی وحیوں کا ثبوت بھی قرآن مجید سے مل رہا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اصل وحی کتاب اللہ ہے اس کے علاوہ جتنی قسم کی وحی بھی ہوئی وہ کتاب اللہ کے تابع ہے اس لیے نزل بہ اور نزلہ کی ضمیر مجرور و مفعولی قرآن مجید ہی کی طرف پھرتی ہے اس لیے کہ ان آیات کریمہ کے مخاطب منکرین تھے ان سے اصل کتاب کو منزل من اللہ منوانا تھا جو کتاب پر ایمان لے آئے گا وہ ایسی ہی ہر چیز پر ایمان لے آئے گا جو کتاب سے ثابت ہو غیر کتابی وحی تو مومنین کے لیے ہے کہ نہ کہ منکرین کے لیے۔ جو لوگ مصلحةً صرف قرآن مجید کے الفاظ پر ایمان کا زبان سے اقرار کرتے ہیں مگر مفہوم ہر آیت میں اپنا ٹھونستے ہیں انکے نزدیک تو اللہ تعالیٰ نے صرف الفاظ بے مفہوم نازل کیے ہیں جو اپنا کوئی مفہوم ہی نہیں رکھتے تو جن کے نزدیک اللہ نے نازل ہی نہیں فرمایا وہ صرف مفہوم والی وحی کو منزل من اللہ کس طرح تسلیم کریں گے اس لیے وہ کوئی آیت بھی جب لکھتے ہیں تو ا سکا لفظی ترجمہ لکھ کر اگر مفہوم لکھیں تو ہر اردو داں ترجمہ اور مفہوم کو ملا کر سمجھ لے گا کہ یہ مفہوم جو بیان کیا گیا ہے واقعی اس آیت کریمہ کا صحیح مفہوم ہے یا نہیں ؟ اس لیے جب لکھیں گے تو بغیر لفظی ترجمہ کے آیت لکھ کر صرف مفہوم لکھیں گے مگر ان کو خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف لفظوں میں فرما دیا ہے۔ :

اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ ایٰٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا

 

(۴)          ولا ایمان پر واو اضراب کے لیے آیا ہے یعنی ” بلکہ ” کے معنی میں ہے۔

 

(۵)          یعنی ایمان اور اعمال ایمانیہ کی یہ تفاصیل جو بذریعہ وحی معلوم ہوئیں ” پہلے سے کہاں معلوم تھیں ” گو رسول اللہ ﷺ نفسِ ایمان کے ساتھ ہمیشہ متصف تھے۔ (مولانا شبیر احمد عثمانی)

 

(۶)         بعض روایتوں میں مذکور ہے کہ سب سے پہلے سورۂ فاتحہ نازل ہوئی اور میرے خیال میں یہی قرینِ عقل و صواب ہے اور علّامہ زفخشری کی تحقیق کے مطابق تو اکثر مفسرین کی رائے میں سب سے پہلے نازل ہونے والی سورة الفاتحہ ہے۔

 

(۷)         یعنی تم کو بھول نہیں گیا تھا وہ کسی بات کو کسی شخص کو بھی بھولتا نہیں ہے۔

٭٭٭

 

٭٭٭

ماخذ: واقعۃ شمارہ نمبر ۳

http://www.al-waqia.blogspot.in

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید