FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

نیلے ہاتھی کا بچہ

 

 

 

                مرزا اطہر بیگ

 

تعارف

 

مرزا اطہر بیگ معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس 7 مارچ 1950کو شرق پور میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کا لج لاہور میں شعبہ فلسفہ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے متعدد اردو اور پنجابی ڈرامے اور سیریل لکھے ہیں۔ جن میں ’دلدل‘۔ ’دوسراآسمان ‘۔ ’گہرے پانی ‘۔ ’حصار ‘۔ ’روگ‘۔ ’خواب تماشا‘۔ ’نشیب‘۔ ’ خوامخواہ‘۔ ’یہ آزاد لوگ‘۔ پاتال۔ ’شکر دوپہر‘۔ ’کیٹ واک ‘۔ ’دھند میں راستہ ‘۔ ’بے وزن لو گ‘ شامل ہیں۔ اُن کے پہلے نا ول ’’غلام باغ ‘‘ نے ادبی دنیا کو ان کے فن کی ایک نئی جہت سے متعارف کرایا۔ ادبی قحط الرجال کے اس دور میں نا ول ’غلام باغ ‘ ایک چکا چوند کی ما نند ہے۔ آج کی جواں نسل ان کی تخلیقات کی مداح ہے۔ 2006میں شائع ہونے والے ناول ’غلام باغ ‘‘ کے اب تک پا نچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ’صفر سے ایک تک، سائبر سپیس کے منشی کی سرگذشت ‘اور ’ حسن کی صورت حال ‘ خالی جگہیں پُر کرو ان کے دوسرے مقبول نا ول ہیں۔ پاکستان اور عالمی میڈیا میں ان کے ناولوں اور افسانوں کا بھر پور تجزیہ اور تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اپنے اسلوب میں وہ فکاہیہ حقیقت نگاری پیش کر تے ہیں۔ ان کا نا ول ’’حسن کی صورت حال …۔ خالی جگہیں پُر کرو ‘‘ ایک غیر معمولی ناول ہے۔ اسے عالمی ادب کا نمائندہ نا ول کہا جا سکتا ہے جس میں سررئیلزم سے لے کر حقیقت نگاری تک ہر انداز میں کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ نے ادبی جمود کے ساکت پا نیوں میں اپنی ادبی کاوش سے ایک ارتعاش پیدا کیا ہے۔ موج در موج زندگی کی رنگا رنگی کو ایک نئے انداز بیان کے ساتھ اپنی فکشن میں پیش کرنا ان کا کمال فن ہے۔ ’’بے افسانہ ‘‘ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ہفت روزہ ’ ہم شہری‘ کا ایک اعزاز ہے کہ ان کی ایک نئی طویل کہانی کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کی دوسری نئی کہانیوں کو بھی ان ہی صفحات پر مستقل ’مرزا کہانی ‘ کے زیر عنوان شائع کیا جائے گا۔ برصغیر کے ایک بڑے ناول نگار کے تخلیقی انداز تکلم سے قارئین کے آشنا ہونے کا یہ ایک نا یاب لمحہ ہے۔

(طاہر اصغر)

 

 

 

 

ہر صبح جب ہمارے گھر میں زندگی کے مزید ایک دن کا آغاز ہوتا ہے میں اپنے بیڈ روم میں بستر پر دائیں کروٹ پڑا اچھا خاصہ جاگتا آنکھیں بند کیے لیٹا رہتا ہوں اور صرف کانوں سے گھر میں جاری مختلف نوعیت کی کاروائیوں کو بھانپتا رہتا ہوں۔ اُس صبح بھی ایسا ہی تھا میں جانتا تھا کہ میری بیوی فریدہ بستر کی بائیں طرف سے اُٹھ کر کب کی جا چکی ہے۔ کچن میں ہے اور دودھ کے دو پیکٹ کھول کر انہیں پین میں انڈیل کر اب ہلکی آنچ پر رکھ چکی ہے۔ فریج کھول کر جائزہ لے رہی ہے کہ انڈے ہیں یا نہیں۔ یا اللہ انڈے ہوں۔ ۔ میرا دل دہل جا تا ہے۔ اگر نہ ہوئے تو ابھی مجھے خود مارکیٹ جانا پڑے گا۔ ملازمہ آپا حمیداں اپنی نانی کی تیسری مرتبہ فوتیدگی پر دو دن کے لیے گاؤں گئی ہوئی ہے۔ لیکن انڈے ہیں اگر نہ ہوتے تو فری اب تک بیڈروم میں آ چکی ہوتی اور کہہ رہی ہوتی ’’سودی تمہاری یہ دیر تک بستر پر اڑینگنے کی عادت کیوں نہیں جاتی؟‘‘

بڑی بیٹی ارم جس کی عمر بارہ سال ہے اپنی کتابوں کو زور زور سے ایک دوسرے پر پٹخ کر بستے میں ڈال رہی ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتی ہے ؟میں نے اُس سے کبھی نہیں پوچھا۔ میں بچوں کے ذاتی معاملات میں دخل دینے کا قائل نہیں۔ آوازیں آ رہی ہیں۔ لیکن اس طرح، ہر صبح، بستر پر ایک حساس صوتی آلہ بنا لیٹے رہنے کے دوران بعض اوقات میں ان آوازوں سے قطعاً لاتعلق بھی ہو جاتا ہوں اور یہ وہ کیفیت ہے جسے عرفِ عام میں اُونگھنا بھی کہہ لیتے ہیں۔

تو اکتوبر کی اُس صبح بھی یقیناً میرے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا تھا مگر اُونگھ سے واپس میں خود ہی نہیں آیا تھا بلکہ کسی نے میرے چہرے پر نرم نرم سی اُنگلیاں پھیریں تھیں۔ ’یہ کیا ہے ‘میں آنکھیں بند رکھتے ہوے بھی ہڑبڑا گیا۔ کیونکہ اگر فری ہوتی تو کم از کم اُس وقت نرم لمس کی بجائے میرا واسطہ کسی چانٹا نما ضرب سے پڑا ہوتا۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ میرا چھ سالہ بیٹا مانی اصل نام سلمان سامنے کھڑا تھا۔

’’مانی کیا ہوا بیٹا۔ ۔ ؟‘‘

مجھے فوری طور جو خیال آیا وہ یہ تھا کہ وہ سکول نہیں جانا چاہتا اور کسی حقیقی یا پھر اُس سے بھی زیادہ حقیقی خود اختیار کردہ تکلیف میں مبتلا ہے۔

’’طبیعت تو ٹھیک ہے بیٹا؟‘‘میں نے تشویش سے پوچھا۔ اُس نے کچھ کہنے کی بجائے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’تو پھر۔ ۔ ۔ بیٹا۔ ۔ کیا بات ہے ‘‘

میں نے غور سے مانی کو دیکھا تو مجھے کچھ کھویا کھویا سا لگا جیسے کہیں اور دیکھ رہا ہو، اور وہ کافی اُداس بھی نظر آیا۔ اُس کی اس کیفیت پر میری طبعیت اور بھی پریشان ہوئی ظاہر ہے جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ اور بھی پریشان کرتی ہے۔

’’بتاؤ۔ ۔ بتاؤ۔ مانی بیٹا۔ بتاؤ۔ ۔ کیا بات ہے ؟‘‘

ٓاُس نے چند لمحے سوچا یعنی اُس پر جو کیفیت طاری تھی وہ اور بھی گہری ہو گئی۔

’’مجھے نیلے ہاتھی کا بچہ لا دو۔ ‘‘اُس نے رُک رُک کر کہا۔

سچی بات ہے کہ چند لمحے تو مجھے یہی لگا کہ میں نے کچھ غلط سُنا ہے اور وہ کچھ اور کہہ رہا ہے۔ ۔ ۔ نیلی ہاکی۔ نیلی ٹوپی یا شاید نیلی جرسی۔ ۔ سردیاں آ رہی تھیں۔

’’کیا کہا بیٹا کیا لا دوں ؟‘‘

’’ابو مجھے نیلے ہاتھی کا بچہ لا دو۔ ‘‘اُس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔ اب غلط سُننے یا سماعت میں خرابی ہونے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ میں نے حیرت سے اُس کا فقرہ دہرایا۔

’’نیلے ہاتھی کا بچہ لا دوں۔ ۔ کیا مطلب۔ ۔ ۔ کیسا۔ ‘‘

اُس نے گہری سانس لی اور کہنا شروع کیا۔ ’’ وہ نا …جنگل تھا۔ ۔ بہت درخت تھے۔ ۔ میں تھا۔ ۔ پھر ایک جگہ تھی۔ ۔ گلابی گھاس میں نا… نیلے ہاتھی کا بچہ پھر رہا تھا۔ ۔ نیلا۔ ۔ آسمان بھی نیلا تھا پر وہ زیادہ نیلا تھا۔ ۔ ‘‘اُس کے لفظوں میں خوابوں کی حیرت تھی۔

’’او خو …تم نے کوئی خواب دیکھا ہے ! گلابی گھاس۔ ۔ ‘‘میں نے کہا اور اُس نے سر ہلایا تومیں ہنس پڑا۔ اُس نے مجھے گھور کر دیکھا۔ صاف ظاہر تھا کہ اُسے میری ہنسی پسند نہیں آئی تھی۔ وہ میری ایک ’چھوڑو۔ ۔ یار۔ ۔ یہ۔ ۔ تو۔ ۔ کوئی۔ ۔ بات۔ ۔ نہ۔ ۔ ہوئی ‘ قسم کی ہنسی تھی۔ میں نے فوراً اپنے آپ کو تنبیہ کی اورسنجیدگی اور اشتیاق سے جو کچھ ایسا مصنوعی نہ تھا، اُس سے کہا۔ ’’پورا خواب سناو مانی۔ ‘‘ اور مانی اب زیادہ اعتماد سے بولنے لگا۔

’’جنگل تھا ابو۔ درخت تھے۔ میں تھا۔ ۔ اور وہاں نا۔ ۔ گلابی گھاس میں نیلے ہاتھی کا بچہ پھر رہا تھا۔ آسمان نیلا تھا۔ وہ زیادہ نیلا تھا۔ بڑے بڑے پھول تھے۔ ۔ پیلے۔ سرخ۔ ۔ کالے۔ سبز اور سفید۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اوہو۔ ہو۔ یار یہ تو کمال ہے۔ ۔ ‘‘ میں نے کہا اگرچہ گلابی گھاس، سبز اور کالے پھول میرے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے لیکن خواب سب مشکلات دور کر دیتے ہیں۔ ’’اچھا۔ ۔ مانی وہ وہاں کر کیا رہا تھا نیلے ہاتھی کا بچہ؟‘‘

’’ پھر رہا تھا۔ ‘‘ مانی نے گہری سنجیدگی سے کہا گویا پھرنا کسی بھی ذی روح کے لیے اہم ترین کام کی حیثیت رکھتا ہو۔

’’اچھا پھر رہا تھا۔ ٹھیک ہو گیا۔ ‘‘ میں نے بھی اُسی لہجے میں تصدیق کی اور بات آگے بڑھائی۔ ’’اچھا۔ یہ کتنا۔ ۔ بڑا تھا یہ نیلے ہاتھی کا بچہ؟‘‘

جواباً مانی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دور ہٹا کر اتنا فاصلہ پیدا کیا کہ جس میں سے ایک صحت مند جسامت کا دیسی مرغا گذر سکتا تھا۔

’’ہوں۔ ۔ تو کافی چھوٹا تھا۔ ۔ یہ۔ ‘‘

’’ہاں۔ ۔ مجھے نیلے ہاتھی کا بچہ لا دو۔ ‘‘مانی نے کہا اور اب اُس کا لہجہ تحکمانہ تھا کہ گویا وہ اپنے مطالبے کا کافی جواز پیش کر چکا تھا اور لازم تھا کہ اُسے جلد پورا کیا جاتا۔

’’ تمہارا مطلب ایسا کوئی کھلونا…۔ نیلے ہاتھی کے بچے جیسا؟‘‘

مانی نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا۔

’’ہو ں۔ ‘‘میرے اندر سے اضطراری سی آواز نکلی جو بیک وقت ظاہر کرتی تھی کہ مانی کا یہ مسئلہ عجیب ہے اس کا کیا کیا جائے اور یہ کہ اب مجھے بھی جلد اُٹھ کر دنیا کو دکھانے لائق اپنا مُنہ تیار کرنا چاہیے۔ لیٹے لیٹے ہی بائیں طرف اُلٹ کر میں دائیں ہاتھ سے تکیوں کے نیچے اپنی عینک ڈھونڈنے لگا جسے میں نے سونے سے پہلے کی زیرِ مطالعہ کتاب ’لائبریری میں قتل‘ مصنفہ اگا تھا کرسٹی، کے ساتھ کہیں رکھا تھا۔ عینک میرے ہاتھ لگی ہی تھی کہ اچانک مجھے ایک چیخ جیسی آواز سنائی دی، میں نے تیزی سے پلٹ کر دیکھا تو مانی غائب ہو چکا تھا۔ پھر چند ہی لمحوں بعد باتھ روم سے کسی بچے کے رونے اور رونے پر قابو پانے کی بے بس آوازیں آنے لگیں۔ فری مانی کا سر دھونے کے عمل کا آغاز کر چکی تھی جو اصل میں اُس کی کلاس ٹیچر مسز گھمن کو نیچا دکھانے کی کوشش کا ایک حصہ تھا۔ ۔ ۔ کہ ’’لے اب نکال کر دکھا بچے کے سر سے جُوں !۔ ‘‘لیکن خیر یہ ایک الگ کہانی ہے۔

میں نے گہری سانس لی اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اچانک فری کی بلند آواز سنائی دی۔ ’’اُٹھتے ہو یا۔ ۔ اُف خدایا میں کیا کروں۔ ۔ سوتوں کو تو کوئی جگا دے۔ جاگتوں کو کون جگائے۔ ‘‘وہ ایک جارحانہ ہڑبڑاہٹ کے ساتھ پھر کمرے میں گھس آئی تھی۔ لیکن میں نہ صرف جاگ یعنی ’جاگا جاگ‘ چکا تھا بلکہ سوچ رہا تھا کہ اُسے مانی کے خواب کے بارے میں ابھی بتا دوں یا بعد میں۔ فیصلہ کیا کہ ابھی بتا دوں کیونکہ جلد ہی افراتفری اور بھی بڑھ جانے والی تھی۔ ایک مصروف دن سامنے کھڑا للکار رہ تھا۔

’’تم ان دنوں، حمیداں جب تک نہیں آتی، کم از کم دودھ ہی دیکھ لیا کرو۔ ‘‘ اُس نے کچھ کہنا شروع کیا۔

’’بہت دفعہ دیکھے ہیں ‘‘ میں نے اُس کی بات کاٹی۔

’’کتنا گندا ہے تمہارا ذہن۔ ۔ ‘‘ فری کی مخصوص ہنسی ابھری جو میرے ذہن کے گندے پن کوپہچاننے اور اُسے گندا ہی برقرار رکھنے کی اجازت دیتی تھی۔ وہ کچھ اور ہی سمجھی تھی اور خطرہ تھا کہ بات کسی اوربھی اور طرف نکل جاتی حالانکہ میرا اشارہ اس ملٹی نیشنل فرم کی طرف تھا جس میں میں کام کرتا ہوں اور جو پوری دنیا میں دودھ کی مصنوعات بیچتی ہے۔ میں نے جلدی سے کہا۔

’’اور دیکھو مانی کو اس طرح صبح صبح ہلکان کرنا چھوڑ دو۔ اُس کے سر میں اب کوئی جُوں باقی نہیں رہی۔ لعنت بھجو مسز گھمن پر۔ مانی ابھی ضروری بات کر ہی رہا تھا کہ تم اُسے دبوچ کر لے گئیں۔ ‘‘

’’ہاں دیکھا تھا میں نے ضروری بات، جو تمہارے پاس کھڑا مِن مِن کر رہا تھا۔ کہتا ہو گا پیٹ میں درد ہے۔ ۔ سکول نہ جانے کا بہانہ۔ ۔ دیکھو سودی ہم گھر کو تالا لگا کر جاتے ہیں۔ مانی کو چھُٹی کرانے کا مطلب ہے اُسے امی کے پاس ماڈل ٹاون میں چھوڑیں۔ ویسے تووہ چاہتی ہی یہ ہیں کہ مانی ہر وقت اُن کے پاس رہے۔ ‘‘

میں نے دو تین بار خاموش اشاروں سے اُس کی بات کاٹنے کی کوشش کی لیکن بے سود، آخر میں نے کڑک کر کہا۔

’’سنو۔ سنو۔ ‘‘

’’تمہارا دماغ چل گیا ہے جو صبح صبح دھاڑ رہے ہو۔ ‘‘ جواب ملا۔

’’دیکھو فری بات یہ ہے کہ مانی نے ایک خواب دیکھا ہے۔ ‘‘

’’خواب؟‘‘

’’ہاں خواب۔ ‘‘

’’کیسا خواب؟‘‘

میں نے پھر گہری سانس لی اور کہنا شروع کیا۔ میرے لہجے کی سنجیدگی کو وہ بھانپ گئی بس یہی مجھے چاہیے تھا۔

’’بات یہ ہے کہ مانی نے خواب میں نیلے ہاتھی کا بچہ دیکھا ہے۔ ‘‘

’’کیا۔ نیلے ہاتھی کا بچہ۔ ۔ !‘‘اُس نے کہا اور اُس کی آنکھیں اور مُنہ حیرت سے کھُل گئے۔ وقت نہیں تھا ورنہ میں اُسے بتاتا کہ پندرہ سال پہلے میں دراصل اُس کی اسِی ادا پر مر مٹا تھا۔

’’ہاں۔ نیلے ہاتھی کا بچہ۔ ۔ وہ کہتا ہے کہ نیلے ہاتھی کا بچہ گلابی رنگ کی گھاس میں گھوم پھر رہا تھا اور پاس ہی بڑے بڑے پیلے۔ سرخ۔ سبز۔ کالے پھول کھلے ہوئے تھے۔ ‘‘

’’سودی۔ ۔ یہ۔ ۔ یہ کوئی تشویش کی بات تو نہیں ؟ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بچوں کے بعض ذہنی امراض۔ ۔ ۔ اور رنگ…۔ ‘‘پریشانی کا تاثراُس کے چہرے پر تھا دراصل میری طرح وہ بھی بچے پالنے کے جدید نظریات کی قائل ہے جو بچوں کے خوابوں کو نظرانداز نہیں کرتے۔

’’کم آن ڈارلنگ۔ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ اتنا خوبصورت خواب تو کاش مجھے کبھی آ جائے۔ اصل میں تشویش کی بات دوسری ہے۔ ‘‘

’’وہ کیا؟‘‘ اب وہ مزید تشویش سے بولی۔

’’وہ کہتا ہے مجھے نیلے ہاتھی کا بچہ لا دو۔ کھلونا یعنی…… ‘‘

میرا خیال تھا کہ بچے کا یہ عجیب و غریب خواب کھلونا مطالبہ سن کر وہ مزید پریشان ہو گی لیکن اُس نے جیسے سُکھ کا سانس لیا۔

’’تو کیا مسئلہ ہے۔ اُسے کھلونوں کی دُکان پر لے جاؤ اور نیلے ہاتھی کا بچہ لے دو۔ پلاسٹک کا ملے گا شاید …نہیں ربڑ کا…ہاں ربڑ کا ملے گا…آج جمعہ ہے مانی کو جلد چھٹی ہو گی۔ ۔ تم بھی ہاف کرو…کبھی کر لیا کرو…کوئی میرا ہی فرض نہیں اور آج تو بہت ہی مشکل ہے۔ پتہ نہیں ارم کو کیسے پِک کروں گی۔ ۔ ۔ تم اسے ساتھ لے جاؤ اور خرید دو نیلے ہاتھی کا بچہ۔ بات ختم۔ ‘‘

فری نے بات ختم کر دی۔ لیکن میری بات ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ شروع ہوئی تھی دفتر میں ماہانہ میٹنگ تھی اور زیادہ مصیبت یہ کہ فرم کے کچھ غیر ملکی نمائندے آنے والے تھے۔ میں تو خود اُس سے دست بستہ درخواست کرنے والا تھا کہ آج اپنی کمپنی کی گاڑی میں واپسی پر وہ دونوں بچوں کو اُٹھا لے۔ لیکن ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کی آمد نے صورتِ حال کو بہت پیچیدہ بنا دیا تھا۔ میں ابھی اتفاق رائے سے اس مسلئے کا حل تلاش کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک کچن سے ارم کی کلکاری جیسی آواز آئی۔ ’’ماما دودھ ابل گیا ہے۔ ‘‘

’’لعنت‘‘ فری نے کوسا اور کچن کو بھاگی ہی تھی کہ میں نے ہمت کر کے نعرہ سا لگایا، ’’ ہماری آج میٹینگ ہے۔ تم دونوں کو لے لو اور مانی کو کھلونا بھی لے دو۔ ‘‘

’’ ناممکن۔ ہم لوگ شوٹ پر جا رہے ہیں، وہ ذلیل واشنگ پاوڈر…‘‘ فری ایک ایڈورٹازینگ کمپنی میں کام کرتی ہے۔ …۔ ۔ ’’ تم اُسے کھلونوں کی دوکان پر لے جاؤ اور نیلے ہاتھی کا بچہ لے دو…۔ ۔ ربڑ کا ملے گا…۔ ‘‘میں نے کہیں سے آتی اُس کی آواز سنی۔

گویا فیصلہ ہو چکا تھا۔ بحث کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ’نیلے ہاتھی کا بچہ ‘ میری ذمے داری تھی۔ کہتی ہے، ربڑ کا ملے گا۔ ۔ ہنھ۔ ۔ ۔ لیکن مانی کا خواب…۔ کیا یہ سب اتنا ہی آسان ہو گا؟میں نے سوچنا چاہا مگر پھر جلدی سے باتھ روم میں گھس جانے کو ترجیح دی۔

کھانے کی میز پر فری عام طور پر صدارتی نشست پر بیٹھناپسند کرتی ہے، کون کیا کھا رہا ہے کتنا کھا رہا ہے اور کیسے کھار ہا ہے ان سب اہم معاملات کا مشاہدہ اِس مقام سے اُس کے لیے آسان رہتا ہے۔ چنانچہ مانی کی ناشتے میں بے رغبتی فوری طور پر اُس کے نوٹس میں آ گئی۔

’’مانی تم ناشتا نہیں کر رہے بیٹا۔ ‘‘ اُس نے کہا اور تشویش سے میری طرف دیکھا اور میں نے مانی کی طرف۔ وہ ڈبل روٹی کے چھوٹے سے ٹکڑے سے اپنا فرائیڈ انڈا کرید رہا تھا لیکن اُس کی آنکھیں کہیں اور دیکھ رہی تھیں۔ ارم فوراً بھانپ گئی کہ کوئی معاملہ ہے۔

’’ماما کیا بات ہے مانی ناشتہ کیوں نہیں کر رہا؟‘‘ اُس نے پوچھا۔ اور پیشتر اس کے کہ فری کچھ کہتی میں نے لہک کر کہا۔

’’مانی نے خواب میں ایک نیلے ہاتھی کا بچہ دیکھا ہے گلابی گھاس میں پھرتا……۔ آوُووچ۔ ۔ ‘‘ میز کے نیچے سے پڑنے والا فری کا ٹھڈا اتنا ہی شدید تھا کہ میری چیخ نکل گئی۔ ارم نے بہرحال میری چیخ کو نظرانداز کیا اور دوسری بات کو پکڑلیاجس کا…۔ ۔ اب میرے اوپر واضح ہو گیا تھا کہ فری بالکل نہیں چاہتی تھی کہ ارم کے سامنے ذکر کیا جائے مگر اب کیا ہو سکتا تھا، نقصان ہو چکا تھا۔ ارم بے ساختہ کھلکھلاکر ہنسی پھر اُس نے یک دم پوری قوت سے ہنسی کو بریک لگائی منہ کا نوالا نگلا اور پھر ہنسنے بولنے لگی۔

’’نیلے ہاتھی کا بچہ…۔ گلابی گھاس…ہی۔ ۔ ہی۔ ۔ ہی۔ ۔ ‘‘

فری نے قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے کندھے اُچکائے، مطلب یہ کہ سزا مل چکی ہے اب اور کیا چاہتی ہو۔ پھر اُس کی توجہ ارم پر اور میری مانی پر منتقل ہو گئی۔

’’فضول دانت نہ نکالو اِری۔ خواب کسی کو کوئی بھی آ سکتا ہے۔ ‘‘ اُس نے ڈانٹ کر کہا۔ اور میں نے دیکھا کہ مانی نے اپنا فرائیڈانڈہ کریدنا بھی چھوڑ دیا ہے اور رونے سے قبل کی کیفیات سے نپٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

’’مگر ماما …نیلا بچہ۔ ۔ کا ہاتھی۔ ۔ گلابی گھاس…۔ ‘‘وہ پھر ہنسی اُس کی نظر مانی کی پلیٹ پر پڑی اور اُس نے اُس کا انڈہ اپنی پلیٹ میں ڈال لیا۔ ’’مانی تو کھا نہیں رہا۔ میں کھا لوں۔ ‘‘ اُس نے وضاحت اور سوال کے درمیانی انداز میں کہا۔

’’کیسی بُری لڑکی ہے۔ بھائی کا ذرا برابر خیال نہیں اسے۔ اپنا انڈہ ہڑپ …‘‘

’’ یہ اِس لیے ہے کہ اِس گھر میں مدتوں سے فی کس ایک انڈہ بن رہا ہے ‘‘میں نے فری کی بات کاٹی اور مجھے ٹھڈے اور اُس سے بھی پہلے اُس کے ملازمتی عدم تعاون کا بدلہ لینے کا موقعہ مل گیا۔ ’’حالانکہ دنیا بھر میں دستوراب دو انڈوں کا ہے۔ ایک انڈہ تو الٹا نقصان کرتا ہے۔ سائنٹفک ریسرچ ہے۔ تمہیں کہا بھی ہے بچوں کی بڑھوتری کا زمانہ ہے دو انڈے …‘‘

’’تم بچوں کو چھوڑو اپنی بڑھوتری کی بات کرو…توند کا خیال کرو…اس حساب سے سال دو سال میں بھینسے بن جاؤ گے۔ ‘‘

یہ بہرحال انتہائی مبالغہ آرای تھی۔ یہ درست ہے کہ میں مشہور خور دنی قولِ زریں ’’زندہ رہنے کے لیے کھاو نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہو۔ ‘‘ کو بے حد متنازع اور قحط سالی کی دانش سمجھتا ہوں لیکن بسیارخوری بہرحال میرے عیوب میں شامل نہیں۔ ہاں خوش خوراکی کی بات الگ ہے۔ مگر اس کے باوجود جسمانی خطوط کو حدود میں رکھنے کی کامیاب کوشش جاری رکھتا ہوں۔ کئی بار جِم جوائن کیا۔ طے کیا ہوا ہے کہ ہفتے میں زیادہ نہیں تو چار بار تین کلو میٹر کی سیر ضرور ہونی چاہیے۔ زیادہ تر پھل اور اُن سے بھی زیادہ کچی سبزیاں کھانا لیکن اُس حد تک کہ انسانوں کا خرگوشوں اور گلہریوں سے فرق برقرار رہے۔ خیر یہ ایک الگ کہانی ہے۔ …۔ جی تو چاہا کہ فری سے کہوں کہ تم نے توندیں دیکھی بھی ہیں کیا…مگر ٹھہرو روز تو دیکھتی ہو اپنی کمپنی کے مالک کی توند۔ توند کے دفتر میں داخل ہونے کے ٹھیک دس سیکنڈ بعد وہ خود دفتر پہنچتا ہے۔ بات کرتی ہو…۔ مگر پھر سوچا کہ ناشتے کی میز پر اس طرح کے غیر بلکہ انتہائی غیر مردوں کو گھسیٹ لانے کی کیا ضرورت ہے۔ اور پھر مسلۂ مانی کا ہے اُسے کچھ تو کھانا چاہیے۔

’’مانی بیٹا دودھ پی لو۔ ‘‘ میں نے اور فری نے بیک وقت کہا۔ مانی نے بہر حال ہم دونوں کی مشترکہ درخواست سے بھی کوئی خاص اثر قبول نہ کیا۔ فری نے پہلے میری طرف چڑ کر دیکھا

پھر مجھے لگا کہ بس اب مانی کی ڈانٹ ڈپٹ شروع ہونے والی ہے لیکن پھر فری کے سیل فون نے ہمیں بچا لیا۔ اس کی چائے کے کپ کے ساتھ پڑا یہ آلہ اچانک جگمگانے۔ گنگنانے اور ناچنے لگا۔ فری نے ایک نظر سکرین پر ڈالی اور جگمگاتی ڈبیہ کا بٹن دبا کر اُسے کان سے لگا لیا۔ ’’ ہاں بولو ممتاز۔ ۔ ۔ ‘‘

میں موقع دیکھ کرمیز کے اوپر سے مانی کے کان کی طرف جھکا اور سرگوشیوں میں اسے یقین دلایا کہ جیسے بھی ہوا چھٹی کے بعد ہم چلیں گے اور کہیں نہ کہیں سے نیلے ہاتھی کا بچہ ڈھونڈ کر خرید لیں گے۔ فکر نہ کرو۔ ساتھ بیٹھی ارم نے مانی کے سر سے سر جوڑ کر سننے کی سر توڑ کوشش کی، مانی تھوڑا سا چیخا بھی لیکن یقیناً ارم کے پلے کچھ نہ پڑا اور اُس نے مشکوک شکایتی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ مانی اب جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگا۔ اُدھر فری کی آوازیں آ رہی تھیں جو دنیا کا کوئی حیرت انگیز مکالمہ تھا جس کا صرف ایک حصہ ہم سن سکتے تھے۔ ’’دوربین آیا ہے ؟اچھا…گوند سے کہو…ارے بابا وہ کاپی رائیٹر…اُسے کہو ریڈیو سکرپٹ بھی آج ہی مکمل کرے اور غار کو پہنچا دے۔ پروڈیوسر بے چین ہو رہا ہے۔ بس آ رہی ہوں بیس منٹ تک۔ ‘‘ ٖفریدہ ایڈورٹائزینگ ایجنسی The cyclops میں اسسٹینٹ آرٹ ڈائیریکٹر ہے اور اپنے اس ادارے کے بیشتر رفقائے کار کو اُن کے اصل ناموں کی بجائے اُن کے خصوصیاتی ناموں سے پہچانتی ہے۔ اب یہ اصحاب اپنی کن خصوصیات کی بنا پر دوربین، گوند اور غار کہلائے ؟ فریدہ نے اس حساس انسانی لسانی معاملے پر ایک دفعہ کچھ روشنی ڈالی تھی لیکن بہر حال یہ ایک الگ کہانی ہے۔

ارم نے اچانک اپنا بایاں ہاتھ گھما کر مانی کی آنکھوں کے سامنے کیا اور دائیں کی انگلی اُس کے سر کے قریب گھما تے ہوئے شوخ نظروں اور شرارتی انداز میں سر ہلاتے ہوئے مجھے پوچھنے لگی۔

’’ہیں ناں ابو؟‘‘

شاید وہ پوچھ رہی تھی کہ… کیامانی پاگل ہو گیا ہے ؟ اور اُس کے اگلے سوال نے تصدیق بھی کر دی۔

’’اتنے چھوٹے بھی ہو جا تے ہیں ؟ ہیں ابو ؟‘‘اُس نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

فری بھی اپنا سیل فون واپس رکھتے ہوئے اُس کی حرکت دیکھ چکی تھی چنانچہ میری بجائے اُس نے بات کی۔

’’کتنی بے حس لڑکی ہے۔ چھوٹے بھائی کے بارے میں ایسا سوچتی ہے۔ ‘‘اب میں اُسے کیا بتاتا کہ بچے اور طرح سے سوچتے ہیں۔ یقیناًارم کے لیے یہ بڑی دلچسپ ڈویلپمینٹ تھی کہ مانی پاگل ہونے جا رہا ہے۔

’’لیکن ماما۔ ۔ گلابی گھاس…نیلے ہاتھی کا بچہ…‘‘وہ  کھلکھلائی اور میں نے دیکھا کہ مانی کا منہ پھر سکڑ رہا ہے۔ میں نے نعرہ لگا دیا۔

’’چلو۔ چلو۔ چلو۔ ‘‘

فری نے تیزی سے بقیہ چائے حلق میں انڈیلی اور کہا۔ ’’چلو‘‘ پھر میری طرف تصدیق کرانے کے انداز میں دیکھ کر کہا ’’ پھر ٹھیک ہے نا؟‘‘

میں نے اپنی آواز کو تھوڑا احتجاجی بناتے ہوئے کہا ’’ہاں میں دیکھتا ہوں۔ چلو۔ ‘‘ اور ہم چلے۔

اب یہ تھا کہ میں سب افرادِ خانہ کو ایک ایک کر کے شہر میں مختلف مقامات پر گراتا جاؤں اور خود صفائی کے عملے کے ساتھ اپنے دفتر جا پہنچوں۔

٭٭٭

 

 

میں دفتر پہنچا تو نیامت میرا اٹینڈینٹ جسے پیار سے سب نیاموں کہتے ہیں کچھ دوسرے عملے کے ساتھ کمیٹی روم سے نکل رہا تھا جس کے اندر کسی قسم کی غیر معمولی صفائی کی کاروائی جاری تھی۔ ’’ کیا ہوا؟‘‘ میں نے سب جانتے ہوئے بھی پوچھا۔ ’’ سر مہینے والی میٹینگ۔ ‘‘ اُس نے بشاشت سے کہا۔

مانی کے ساتھ ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کی تلاش میں نکلنے کی راہ میں پہلی رکاوٹ سامنے آ گئی تھی۔ مینٹنگ سے بروقت کھسکنا بہت ضروری تھا۔

میری اس ملٹی نیشنل فرم کی کمپنی فلاسفی یہ ہے کہ دودھ اصل میں اُن کی ایجاد ہے یہ گائیں بھینسیں تو ایسے ہی درمیان میں آ گئی ہیں۔ لیکن اب آ ہی گئی ہیں تو فرم کی پراڈکٹس میں کم از کم اُن کی تصویری نمائندگی فرم کا اخلاقی فرض ہے۔ میں جانتا تھا کہ اُس روز ہونے والی ایم ڈی کی ماہانہ میٹینگ میں یہ نازک موضوع ایجینڈے میں سرفہرست ہو گا۔ اور چونکہ ہالینڈسے آئے کمپنی کے کچھ گورے ماہرین ’’مصنوعات کی پیکینگ کو ثقافت دوست بنانے کی بصری حکمتِ عملیاں۔ کچھ جدید راہنما اصول‘‘، پر فرم کے مختلف قسم کے مینیجروں، جن میں ایک میں بھی شامل تھا، لیکچر دینے والے تھے اس لیے میٹینگ سے بروقت کھسکنا کافی مشکل بھی ہو سکتا تھا۔ اُدھر یہ لازم تھا کہ میں مانی کو چھُٹی کے فوراً ہی بعد سکول سے اُٹھا لوں اور فوراً ہی ہم اپنی خواب کھلونا تلاش میں نکل جائیں۔ میں نے تلاش کا ایک عبوری سا منصوبہ بھی بنا لیا تھا کہ پہلے ہم نے کھلونوں کی کس مشہور لیکن قدیم مارکیٹ میں جانا ہے اورکس طرف سے جانا ہے اور اگر وہاں کامیابی نہ ہوئی تو پھر فیشن ایبل علاقے میں واقع کھلونوں کی ایک جدید دوکان میں جانا ہے اور اگر وہاں بھی ’نیلے ہاتھی کا بچہ ‘ نہ ملا تو پھر کیا کرنا ہے، اور اس کا مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ پھر کیا کرنا ہے لیکن اس سب کے لیے پہلی شرط وہی تھی، یعنی سلیقے سے میٹینگ سے غائب ہونا۔

ناگزیر حالات میں بڑی بڑی اہم بلکہ سنگین کارپوریٹ میٹنگز میں سے جُل دے کر نکل جانے کی میں نے چند کامیاب ترکیبیں بنا رکھی ہیں لیکن اُس وقت ایک ہی قابل عمل نظر آتی تھی اور اُس میں مجھے نیاموں کی مدد درکار تھی چنانچہ میں نے اُسے ایک طرف لے جا کر کچھ ہدایات دیں اور ساتھ یہ تاکید کہ اگر ایک خاص وقت تک یہ میٹینگ ختم نہ ہوئی تو وہ کاروائی کر دے۔ جواباً اُس نے سازشی انداز میں دانت نکالے اور مجھے اطمینان ہو گیا کہ ٹھیک ہو گیا ہے۔ اس اطمنان میں اُس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب میٹینگ کا اصل ایجنڈا سامنے آیا۔ دودھ دہی کے ولندیزی ماہرین کے لیکچر کے بعد لنچ رکھا گیا تھا اور پھر اُن کی رخصتی کے بعد معمول کے معاملات پر غور و فکر شروع ہونا تھا۔ میرے خدا یہ تو سیدھا سیدھا چار پانچ بجنے کا نسخہ تھا۔ کوئی اور دن ہوتا تو میں اب تک فری کو سیل فون سے پیغام بھیج چکا ہوتا کہ ارم کے ساتھ آج وہ جس طرح بھی ہو مانی کو بھی سکول سے لینے کا بندوبست کر لے۔ لیکن ’نیلے ہاتھی کے بچے‘ کے دن اُس کی اپنی انکاری مجبوری پہلے ہی سامنے آ چکی تھی اس لیے میں نے کوئی پیغام نہ بھیجا لیکن پیغام آیا ضرور۔

ہینڈرک گِڈنز نامی گورا بھرپور مثالوں سے ہمیں سمجھاچکا تھا کہ دنیا کا ہر معاشرہ گایوں، بھینسوں اور کسی حد تک بکریوں کے بارے میں بھی اپنا اپنا انتہائی مخصوص جذباتی رویہ رکھتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس گائے بھینسی بصیرت کی روشنی میں اپنی عالمی فرم کے مقامی دودھ دہی کے ڈبوں پر بنی ان حیوانات کی تصویروں کا ثقافتی جائزہ لینے ہی والا تھا کہ یک لخت میرے سیل فون سے ٹنن ٹن ٹا کی بھیانک آواز بلند ہوئی۔ اور تمام شرکائے محفل بُری طرح چونک پڑئے۔ ستیاناس، ذہنی کھینچا تانی کی کیفیت میں میں فون کو میٹینگ موڈ پر ڈالنا ہی بھول گیا تھا۔ خفت اور پشیمانی کی کیفیت میں میری نظریں چاروں طرف اُچکیں …۔ ایم ڈی کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے جبکہ گورا مسکرا رہا تھا۔ یقیناًسوچتا ہو گا کہ ان لوگوں نے ہماری چیزیں خرید تو لی ہیں لیکن استعمال کرنے کی تمیز نہیں۔ مجھے فری پر یا اپنی حماقت پر غصہ آنے کی بجائے گورے پر شدید غصہ آیا، یعنی مزید حماقت…خیر تیزی سے فون میز کے نیچے لے جا کر اس کا گلا گھونٹا اور ساتھ پیغام دیکھا۔ فری تھی۔ پوچھا تھا، ’’گئے ہو؟‘‘ یعنی اُس کا خیال تھا کہ میں اب تک دفتر سے نکل بھی چکا ہوں گا۔ اُدھر شیر فروشی کا بین الاقوامی کام پھر شروع ہو چکا تھا۔ میں نے بھی پوری کوشش سے مسٹر گڈنز کی ملٹی میڈیا پر دکھائی ہماری اپنی ایک دیسی بھینس کے چہرے کو اپنایت سے دیکھا۔

’’اب اس کو…‘‘ گورا اپنی ڈچ لہجے کی انگریزی میں کہہ رہا تھا۔ ’’ایک اعلی تخلیقی ڈیزائنز کی ضرورت ہے جو اس مایوس بھینس کو ایک ہنستی ناچتی بھینس بنا دے۔ جو…۔ ‘‘ اُس نے ایک ڈرامائی خاموشی کا وقفہ بنایا حاضرین پر ایک کھلنڈری سی نگاہ ڈالی اور کہا ’’…جو شاید دودھ بھی دیتی ہے۔ ‘‘ اس پر اُس کی توقع کے عین مطابق سب ہنس پڑئے اور میں نے نظریں بچا کر سیل فون پر وقت دیکھا۔ میرا وقت خطرناک حد تک قریب آ چکا تھا۔ نیاموں کہاں ہے ؟ میں نے بے چینی سے سوچا…۔ اور اسی لمحے مجھے دروازے میں سے نیاموں کا بہت جھجھکتا ہوا لیکن ’پریشان حال‘ چہرہ جھانکتا ہوا نظر آیا۔

اگلی کاروائی کو سمجھنا بے حد آسان ہے۔ نیاموں نے اُس ہائی پروفائیل میٹنگ میں مداخلت پر اپنے پورے جسم کو مکمل معافی بنا کر جھُکتے، گرتے پڑتے لیکن تیر کی طرح سیدھا میٹینگ میں میری کرسی تک آنا تھا اور پھر اتنی ہی تیزی سے میرے کانوں میں کچھ کھسر پھسر کر کے واپس بھاگ جانا تھا۔ اِس طرح کے ڈرامے کا مقصد ظاہر ہے صرف یہ باور کرانا ہوا کرتا تھا کہ چونکہ میٹینگ کے احترام میں سیل فون بند کر دیے گئے ہیں اس لیے دفتر کے لینڈ لائن فون پر موصول ہوئی کسی ایمرجینسی کی اطلاع مجھ تک پہنچائی گئی ہے اور اگر میں فی الفور میٹینگ کو ڈسڑب کیے بغیر چلا گیا ہوں تو یہ قابل معافی ہی نہیں بلکہ قابلِ ستائش ہے۔ تو یہ تھا، لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ میں آئے دن میٹنگوں سے بھاگتا رہتا ہوں اگرچہ اِس ملٹی نیشنل میں میٹنگیں بہت ہوتی ہیں، ہر ہفتے ایک، مہینے کی ایک بڑی اور ایمرجینسی کا تو ظاہر ہے کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ فارن ایکسپرٹس آتے رہتے ہیں چنانچہ پھر میٹنگیں۔ تو ان حالات میں کبھی نہ کبھی نیاموں کی ضرورت پڑ ہی جاتی تھی اور جب بھی اُس کی اِن انتہائی خصوصی خدمات کی ضرورت پڑتی تھی نیاموں یہ چھوٹا موٹا ڈرامہ بہت خوشی سے پوری ذمے داری سے اور میں سمجھتا ہوں عمدہ اداکاری کے ساتھ کرتا تھا۔ البتہ ہر دفعہ وہ ایک سوال ضرور پوچھتا تھا۔

’’سر جی آ کر کان میں کیا کہنا ہے ؟ منہ ہلتا تو نظر آنا چاہیے نا سرجی۔ ‘‘

یعنی جب وہ میرے کان میں کھسر پھسر کر کے ’ بُری خبر‘ سنا رہا ہو گا تو کچھ نہ کچھ بول تو رہا ہو گا۔ اس کے ہونٹ ہلتے نظر تو آنے چاہیں مگر کیا بول رہا ہو گا؟ سوال معقول تھا اور میں اُسے کہہ دیتا تھا، ’’یار کچھ بھی بول دینا۔ گنتی کر دینا، ادھر سب افسروں کے نام کہہ دینا، کسی گانے کے بول سنا دینا۔ ایک منٹ کی تو بات ہے اس میں کیا مشکل ہے۔ ‘‘ لیکن اُس روز ایسا ہوا کہ میرے اور نیاموں کے درمیان اِس فنی تفصیل پر کوئی تبادلۂ خیال نہ ہوا، عجیب افراتفری مچی ہوئی تھی۔ دنیا میں دودھ بیچنے والے گورے جب بھی آ تے تھے ایسا ہی ہوتا تھا۔ بہر حال نیاموں کا ’پریشان حال ‘ چہرہ چند لمحوں کے لیے مجھے کمیٹی روم کی بیضوی میز کے گرد بیٹھے افسروں میں تلاشتا رہا اور اُسے چند سیکنڈ ہی لگے۔ میں وہیں بیٹھا تھا جہاں ہمیشہ بیٹھتا ہوں۔ وہ ایم ڈی، پرسانل مینجر اور لیبر انچارج کی کڑی نظروں کا سامنا کرتا وہی کسی لڑکھڑاتے ہوئے تیر کی طرح میری کرسی کے پیچھے آیا اور پھر میری طرف جھک گیا۔ اب سکرپٹ کے مطابق ہوتا تو یہ تھا کہ میرے کانوں میں اُس کی کھسر پھسر، یعنی گنتی، افسروں کے نام، گانوں کے بول، پرندوں یا سبزیوں کے نام پڑتے ہی میرے چہرے پر تردد اور پریشانی کے ایک لہر دوڑ جاتی تھی اور جو اگلے ہی لمحے ہوائیاں اُڑنے میں بدلتی تھی اور پھر میں ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر ایم ڈی کی طرف ایک اچٹتی سی نگاہ ڈال کر لیکن پورے اعتماد کے ساتھ فرار ہو جاتا تھا۔ پیچھے میٹینگ جاری رہتی تھی، اگلے دن اگر کوئی پوچھتا بھی تھا تو جیسے ہماری ملازمہ کی نانی کی تین مرتبہ فوتیدگی ہو سکتی ہے کوئی نہ کوئی بات بن ہی جاتی تھی۔

تو نیاموں کا مُنہ میرے کانوں کے نزدیک آیا۔ ایک لمحے کے لیے خاموشی رہی اور پھرکھُسرپھُسر شروع ہوئی اور میں جو گنتی یا سبزیوں کے نام سن کر چہرے پر شدید پریشانی کی لہر دوڑانے والا تھا بے ساختہ مسکرا بلکہ تقریباً ہنس پڑا۔ یعنی دیکھنے والوں کو فوری پیغام یہ چلا گیا کہ کوئی خوش خبری ملی ہے حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ انتہائی غیر متوقع طور پر منہ ہلتا دکھانے کی ہماری سابقہ حکمتِ عملی کے بالکل برعکس نیاموں نے اچانک قومی ترانہ سنانا شروع کر دیا تھا۔ اُدھر ڈچ ماہر کی آواز آ رہی تھی کہ دہی کے پلاسٹک کے ڈبوں میں ایسا مٹیریل استعمال کرنا چاہیے جو لکھائی اور ہنستی مسکراتی بھینس کی تصویروں کو نمائیاں بھی کرے اور اُس میں کوئی زہریلے کیمیکل بھی نہ ہوں۔ یہ موضوع یعنی غذائی اشیا کی محفوظ پیکیجنگ فرم میں ایک لحاظ سے میرے شعبے سے متعلق بھی تھا لیکن میں نے بہرحال مزید ایک لفظ بھی سننے کی بجائے انتہائی سرعت سے اپنا چہرہ ایسا بنانے کی کوشش کی کہ جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہو اور خوف ہوا کہ وہ اور بھی مضحکہ خیز نظر آ رہا ہو گا۔ لیکن وقت اب فن اداکاری کی باریکیوں میں جانے کا ہرگز نہیں تھا۔ اگلے ہی لمحے میں میٹنگ سے باہر تھا۔

کاری ڈور میں کھڑے کھڑے میں نے کئی گہری گہری سانسیں لیں اور چاروں طرف دیکھا۔ نیاموں کو اس کی کھُسر پھسری اُپج پر ڈانٹنے کی خواہش پیدا ہوئی لیکن وہ غائب ہو چکا تھا۔ اچانک جیب میں پڑے خاموشی پر لگے سیل فون کی سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ دیکھا۔ فری پانچ مرتبہ میسج کر چکی تھی۔ ’کدھر ہو؟‘۔ ’ اگر ابھی تک دفتر میں ہی ہو تو مانی کو کب لو گے۔ کھلونا کب لو گے۔ حد ہے۔ ‘ ’جواب کیوں نہیں دے رہے ؟ کون ہے تمہارے ساتھ؟‘ ’کچھ کھا رہے ہو؟ شرم کرو۔ وزن کا خیال کرو۔ ‘ ’ نیلے ہاتھی کا کھلونا بچہ اتنی آسانی سے نہیں ملے گا۔ میرے خدا میں خود ہی چلی جاتی۔ اگر پانچ منٹ میں تمہارا میسیج نہ آیا تو میں تمہارے دفتر کے لینڈ لائین پر فون کرتی ہوں۔ ‘  میں نے گھبرا کر اور تیزی سے لیکن ہر ممکن اختصار سے اپنے پیغام میں اسے صورت حال سے آگاہ کیا۔ اور یہ کہ بس نکل رہا ہوں۔ جواب آیا۔ ’ ٹھیک ہے نکلو۔ اور اب بار بار مجھے textکر کے پریشان نہ کرنا میری غار اور دوربین سے پروڈکشن سکرپٹ پر بات ہو رہی ہے۔ آگے آرٹ ڈائریکٹر شپ کا معاملہ ہے۔ شوٹ چل رہی ہے۔ تمہاری طرح فارغ نہیں ہوں۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

فری میری طرح فارغ نہیں تھی اسے اپنی متوقع فل آرٹ ڈائریکٹر شپ کے لیے گوند اور دوربین کے سامنے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا تھا اور میں جو بطور ایریا مینیجر عین ایم ڈی کے سامنے پیکیچنگ پر گورئے کی take انتہائی مشکوک طریقے سے چھوڑ کر بھری میٹنگ سے بھاگ نکلا تھا اُس کا اُسے خیال ہی نہ تھا۔ مانی کے سکول تک پہنچتے پہنچتے میں ’ملازمتی جوڑوں میں قانون مساوات‘ یا اس سے ملتے جلتے موضوعات پر فری سے کئی تصوراتی مکالمے کر چکا تھا۔ وہ یہ کہے گی تو میں یہ کہوں گا۔ وہ پھر اس طرح کا کوئی اعتراض کرے گی تو میں کچھ ایسی بات کروں گا، میری بات سن کر وہ یہ دلیل دے گی لیکن میرا یہ منطق اُسے لاجواب کر دے گا۔ کئی طرح کے ایسے خیالی منظر ناموں کے آخر میں میں اُسے سرجھکائے لاجواب دیکھتا تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ تسلی پھر بھی نہیں ہوتی تھی اور ایک غصیلی سی بے چینی برقرار رہتی تھی۔ یہ کیفیت لیکن ایک ہی لمحے میں اُس وقت زائل ہو گئی جب مانی خوشی سے بھاگتا ہوا آیا، اُس نے اپنا بیگ پچھلی سیٹ پر پھینکا، میرے ساتھ والی سیٹ پر اچھل کر بیٹھا، تھوڑا پھر اچھلا، میری طرف اپنی چمکتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ہنسا اور پھر باہر دیکھنے لگا۔ میں جانتا تھا کہ وہ دنیا میں اپنا خواب کھلونا دیکھ رہا ہے۔ اور پھر ہم ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کی تلاش میں نکلے۔

کسی مہم پر نکلنے کا جوش ہم دونوں میں تھا لیکن میں نے سوچا خواب کی بات اپنی جگہ کچھ حقیقی باتوں پر اتفاق ہمیں بہرحال ابھی کر لینا چاہیے۔

’’اچھا مانی ہم نے ایک کھلونا ڈھونڈنا ہے جو کسی ہاتھی کے بچے جیسا ہو؟ رائٹ؟ ‘‘ میں نے بات شروع کی۔

’’کسی نہیں ابو۔ اُسی۔ ‘‘ اُس نے چہک کے کہا اور میرا ما تھا ٹھنکا کہ کہیں میں حقیقت حقیقت میں اپنے لیے خواب کھلونے کی تلاش کو اور بھی مشکل نہ بنا لوں۔

’’ہاں ہاں ہاں۔ مطلب نیلے رنگ کا ہو۔ اور کتنا بڑا ہو، تم نے بتایا تھا۔ ‘‘

’’اتنا۔ ‘‘ جواباً مانی نے پھر دونوں ہاتھ دور ہٹا کر صحت مند دیسی مرغے کی جسامت بنا کر دکھائی۔

’’ٹھیک ہو گیا۔ ‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’ویسے تمہیں پتہ ہے ناں اصلی ہاتھی کا بچہ تقریباً ہماری اس گاڑی جتنا بڑا ہوتا ہے۔ ‘‘

میرا خیال تھا وہ میری ہنسی میں شامل ہو گا لیکن اُس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’ وہ جو گرافک والا ہوتا ہے ابو۔ میرا دوسرے والا ہے۔ ‘‘

یقیناً! میں نے سوچا۔ گلابی گھاس میں پھرتا ایسا مختصر سا نیلے ہاتھی کا بچہ تو نیشنل جوگرافک چینل والوں نے بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ مانی ٹی وی پر جانوروں کے پروگرام شوق سے دیکھتا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کھلونے کی تلاش کی ابتدا میں ہی اُسے یہی چینل دکھانے کا مشورہ دیا گیا۔ لیکن جہاں تک مشوروں کا تعلق ہے تو وہ تو ایک آغاز تھا۔

گاڑی کو پارکنگ میں لگانے تک میں ذہن میں دو تین طرح کے مناسب کلمات، فقرے، جملے بنا چکا تھا جن کے ذریعے کھلونے بیچنے والوں پر اپنا مدعا واضح کرنا تھا۔ اب ظاہر ہے ہم سیدھا ایسا تو نہیں کہہ سکتے تھے … ’’دیکھیں ہمیں ایک نیلے ہاتھی کا بچہ دے دیں۔ ‘‘ ایسے نہیں بلکہ ایسے … ’’دیکھیں ہمیں ایک کھلونا چاہیے، ہاتھی کے بچے جیسا، اور نیلا ہو۔ ‘‘ یا پھر ’’ آ…۔ ایسا ہے وہ جانوروں کے کھلونے تو ہوں گے آپ کے پاس؟ گڈ۔ تو ہاتھی …بلکہ ہاتھی کا چھوٹا سا بچہ۔ ۔ کھلونا چاہیے، اور ہاں اس کا رنگ نیلا ہو یہ بہت ضروری ہے۔ ‘‘ یا پھراس طرح۔ ۔ ’’ربڑ کا یا پلاسٹک کا کوئی کھلونا ہو گا آپ کے پاس، نیلے ہاتھی کے بچے جیسا؟ہاں جی نیلا ہی ہونا چاہیے۔ تقریباً اتنا بڑا ہو۔ ‘ ‘

شہر کے ایک بہت مشہور بازار میں واقع چھوٹی چھوٹی اسٹال نما دوکانوں پر مشتمل وہ کھلونا مارکیٹ ایک نیم دائرے کی شکل میں ہے جس کے اندر بائیں طرف سے داخل ہوتے ہی پہلی ہی دوکان پر میں نے اپنے ’ریہرسل شدہ ‘کلمات کافی روانی سے ادا کر دیے یہ سوچے بغیر کے پچاس پچپن سالہ بیزار سی شکل و صورت والا دوکاندار آٹھ دس فٹ دور دوکان کے عقبی حصے میں طرح طرح کے کھلونوں میں کھڑا اپنے کسی کام میں مشغول ہے اور گاہکوں کی آمد سے فی الحال اُسے کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی۔ مانی کی نظریں تیزی سے دوکان میں کافی بے ترتیبی سے رکھے اُلٹے سیدھے ٹنگے کھلونوں پر اُچکنے لگیں اور میں نے توجہ دوکاندار پر مرکوز کی…تو پتہ چلا کہ اُس کے ہاتھ میں ایک کافی بڑی کھلونا موٹر سائیکل ہے جس پر ایک کافی مضبوط ڈیل ڈول کا ٹریفک سارجینٹ بیٹھا ڈیوٹی دے رہا ہے۔ مزید توجہ دی تو اندازہ ہوا کہ بد قسمتی سے سارجینٹ کا بازو اُس کے کندھے سے الگ ہو چکا ہے، دوکان دار پوری کوشش سے بازو کو دوبارہ کندھے سے جوڑنا چاہ رہا ہے لیکن اُس کی ہر کوشش ناکام ہو رہی ہے اور ہر ناکامی پر غالباً اُس کی جنجھلاہٹ ہی ہے جو بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کبھی سارجینٹ کے کندھے پر پھونک مار کر بازو ساتھ چپکانا چاہتا ہے، کبھی کہیں کوئی دھاگہ لپیٹتا ہے، پھر ایک طرف سے ایک چھوٹی سی ٹیوب اُٹھا کر بار بار دباتا ہے لیکن اندر سے کچھ نہیں نکلتا۔ میں اب ایک طرح سے اُس کی اس سرگرمی میں کافی دلچسپی لینے لگا تھا اور متجسس ہو رہا تھا کہ دیکھیں کیا بنتا ہے۔ بلکہ اب تو مانی بھی صرف اُسی کی طرف متوجہ تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے بیزار صورت دوکاندار نے موٹر سائیکل کو ایک بازو والے بیچارے سارجینٹ سمیت زور سے نیچے پٹخ دیا۔ لیکن اگلے ہی لمحے جیسے اُسے اپنے اس انتہائی اقدام کی سنگینی کا اندازہ ہوا تووہ یک دم گر پڑنے کے انداز میں نیچے جھکا اور لڑکھڑا کر اُٹھا تو اُس کے ہاتھوں میں بہت سے مشینی اور انسانی اجزا کا ایک چھوٹا سا ڈھیر تھا جسے وہ پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ مانی اور میں نے بے ساختہ مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، بلکہ مانی تو ہنس پڑا اور غالباً اُس کی ہنسی ہی تھی جس نے دوکان دار کو بالآخر ہماری طرف متوجہ کر دیا، وہ نہ صرف متوجہ ہوا بلکہ سیدھا ہماری طرف آیا اور ایسے مخاطب ہوا جیسے مدتوں سے ہمیں جانتا ہو۔

’’اب آپ مجھے بتائیں۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو سر پر چڑھا رکھا ہے، مصیبت ہمیں ڈالی ہوئی ہے۔ کوئی کھلونا پسند نہیں آتا۔ پھر توڑ تاڑ کر لے آتے ہیں، ٹھیک کر دو۔ اب یہ لے کر گئے جوان میاں بیوی، بچہ ساتھ تھا۔ موٹر سائیکل سارجینٹ۔ بچہ صاحب نے فنا کر دیا۔ کیوں جی۔ اخے ہیلمٹ کے نیچے منہ کوئی نہیں اور سارجینٹ سلیوٹ نہیں مارتا۔ بچہ جی نے سلیوٹ مروانے کے چکر میں بازو توڑ دیا۔ یہاں لے آئے۔ ’’ سلیوٹ مارنے والا بن سکتا ہے ؟ ‘‘ اب یہ مجھ سے پوچھتے ہیں ……۔ ایسا ویسا بن سکتا ہے۔ دو چانٹے پڑے ہوں تو بچے کی عقل ٹھکانے آ جائے۔ پر نہیں جی …اب وہ زمانے ہی نہیں رہے۔ یہ بچہ کس کے ساتھ ہے ؟‘‘

اُس نے یک دم مانی کو دیکھتے ہوئے پوچھا اور مانی سہم کر میرے ساتھ لگ گیا اور میں نے سوچا یہ آغاز تو کوئی اچھا نہیں ہو رہا۔

’’جج…جی جی…وہ دراصل ہم…۔ ۔ ‘‘ میں نے معذرت کے انداز میں بات کا آغاز کیا اور بہت محتاط لفظوں میں دوبارہ اپنا مدعا بیان کیا۔ لیکن عہد حاضر کے بچوں اور والدین سے نالاں کھلونا فروش پھر بھی سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

’’ نیلا ہاتھی …۔ اور اُس کا بھی آگے بچہ۔ حد ہے۔ افسوس کا مقام ہے۔ ‘‘ اُس نے تاسف سے مسلسل سر ہلاتے ہوئے کہا اور میں نے فیصلہ کیا کہ کھسکنا چاہیے۔ میں نے مانی کو اشارہ کیا اور ہم کھسکے تو اُس کی کڑاکے دار آواز سنائی دی۔

’’ٹھہریں۔ اب آ ہی گئے ہیں تو۔ ‘‘ ہم ٹھہر گئے تو اُس نے سر کھجاتے ہوئے پوچھا۔ ’’ چابیاں ہیں آپ کے پاس؟‘‘

’’جی ہیں۔ ‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔

’’ دیکھیں میرے پاس ایک چیز ہے۔ آپ کے دونوں مسلے حل ہو جائیں گے۔ چابیوں کا بھی اور ساتھ …یہ بھی۔ ‘‘ اُس نے مانی پر ایک کڑی نظر ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ جج …جی۔ ‘‘ میں بالکل نہ سمجھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اور مجھے یوں لگا کہ میری الجھن دیکھ کر اُس کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اُدھر مانی میری انگلی آگے کو کھینچ رہا تھا یقیناً وہ اُس دوکاندار کے چالے مجھ سے بہتر سمجھ رہا تھا۔ لیکن میں متجسس تھا کہ آخر وہ کیا چیز دکھانا چاہتا ہے، کیا واقعی …نیلے ہاتھی کا بچہ اور ساتھ یہ چابیوں کا کیا کہتا ہے۔ وہ موٹر سائیکل سارجینٹ کی تباہی کے واقعے کے بعد سے ابھی تک دوکان میں کھڑا تھا اب اپنی فرشی نشست کی طرف آیا کچھ دیر طرح طرح کی گدیوں کو اوپر نیچے کچھ نامعلوم سمتوں میں اتھل پتھل کرتا رہا پھر یک لخت بھد سے بیٹھ گیا، اسی حرکت کے تسلسل میں دائیں ہاتھ کو دائیں گھما کر ایک گتے کا ڈبہ اٹھایا، کھولا اور پُر تشویش انداز میں ہاتھ اندر ڈال کے، کھٹ پٹ کرتا کچھ ڈھونڈنے اور بڑبڑانے لگا۔ مانی اور میں آوازیں سن رہے تھے۔

’’چن تارہ، کوڈی، سپ، چاقو، چھلی…کدھر گیا…سیٹی، دل تیر، زمین، بیٹری…یہ آ گیا۔ ‘‘ اس نے فاتحانہ انداز میں ہماری طرف دیکھا اور ’’چیز‘‘ باہر نکال لی۔

’’آپ کی قسمت اچھی ہے یہ مل گیا۔ یہ ہمارے پاس بڑے فینسی کی رِنگ ہوتے ہیں ساتھ انہوں نے شغل لگائے ہوتے ہیں۔ مجھے یاد تھا ایک کے ساتھ ایک ہاتھی ٹنگا ہے۔ یہ دیکھیں۔ آ گیا ہاتھی۔ کی رِنگ کا کی رِنگ ہاتھی کا ہاتھی، اب آگے اس کو نیلا کر لیں، بچہ کر لیں۔ کچھ کر لیں۔ ‘‘ اُس نے کیِ  رِنگ ہمارے سامنے لہرایا تو بادامی رنگ کا تقریباً بادام جتنا ہی بڑا پلاسٹک کا ہاتھی بے بسی سے ہماری نظروں کے سامنے جھولنے لگا۔

مانی نے زور زور سے انکار میں سر ہلایا۔ ظاہر ہے اُس کے خواب کھلونے کی یہ ایک انتہائی گئی گذری تعبیر تھی اور اسے بطور ’نیلے ہاتھی کا بچہ‘ لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا لیکن پھر بھی میں نے سوچا کہ کی رِنگ بُرا نہیں۔ اتنے میں دوکاندار کی غصیلی آواز پھر آئی۔

’’ہاں جی بچہ صاحب نہیں مان رہے نا۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ‘‘

’’ذرا دکھائیں۔ ‘‘ میں نے کی رنگ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو مانی کے انکار میں اور بھی شدت آ گئی۔ میں نے جھک کر سرگوشی میں اُسے بتایا بھی کہ میں صرف کی رِنگ دیکھنا چاہتا ہوں لیکن شاید اُسے شک پڑ گیا تھا کہ میں اُسے اس فضول سی چیز پر ٹرخانا چاہتا ہوں۔ دوکاندار پھر بولا۔

’’ نہیں مانتے جی اس طرح کے بچے نہیں مانتے۔ اپنی مرضی کرتے ہیں۔ میری ایک بات سنیں۔ ‘‘

’’جی…کیا؟‘‘ میں نے اب قدرے خفگی سے کہا۔

’’ اِس بچے کو جغرافیہ ٹیلی ویژن دکھائیں، اُس میں وہ ہاتھیوں کی فلمیں چلاتے ہیں۔ بڑے بڑے ہاتھیوں کے ساتھ بچہ مال، کئی نکے موٹے ہاتھی ٹھڈے کھاتے پھرتے ہیں۔ وہ دکھائیں اس بچے کو…۔ ‘‘ اس نے پھر کڑی نظروں سے مانی کو دیکھتے ہوئے کہا تو مانی نے بھی اُسے ایسی نظروں سے گھورا کہ جیسے سیدھا ایک ٹھڈا اُسے رسید کرنا چاہتا ہو اور مجھے خوشی ہوئی کہ وہ بچوں کے خوابوں کی پرواہ نہ کرنے والوں کے خلاف اب اپنے رد عمل کا اظہار کرنے کے قابل ہو رہا تھا۔ دوکاندار نے کی رِنگ واپس ڈبے میں پٹخا اور ہم اپنی تلاش میں آگے بڑھے، میں یہ سوچتا ہوا کہ آخر اس شخص کا مسئلہ کیا ہے ؟ اور ظاہر ہے مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔

اگلے تین کھلونا فروشوں کا بہرحال ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ انہوں نے توجہ سے ہماری بات سنی اور معقول کاروباری انداز میں معذرت کر لی کہ اُن کے پاس ہمارے مطلب کا کوئی کھلونا نہیں ہے، البتہ پانچویں اور تقریباً میرے ہم عمر دوکاندار کا مسئلہ پہلے کے بالکل برعکس نکلا۔ یہ کافی بڑی دوکان تھی اور خوب بھری ہوئی تھی۔ اور یقیناً خوب چلتی ہو گی کیونکہ ایک ملازم بھی تھا جو دو تین گاہکوں کو نپٹا رہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی دوکان دار کی سرمہ زدہ آنکھیں چمکیں، باچھیں بے تحاشہ کھل گئیں اور اتنے والہانہ انداز میں اُس نے مجھ سے اور مانی سے مصافحہ کیا کہ ہم گھبرا گئے کہ شاید اُس نے ہمیں کوئی دوسرے بندے سمجھ لیا ہے۔

’’ماشا اللہ بڑا بڑا ہو گیا ہے ہمارا بھتیجا۔ شبر کاکا اُدھر سے کون ایس کریم پکڑ ایک پپو کے لیے، سر جی آپ ادھر بیٹھیں۔ بیٹھیں۔ ‘‘ اُس نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اصرار کیا۔ ہم دونوں باپ بیٹا نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ مانی کا منہ بگڑا ہوا تھا یقیناًاُسے پپو کا خطاب بالکل پسند نہیں آیا تھا۔

’’پپو بیٹا کونسی چلے گی، ونیلا کہ چاکلیٹ؟ سر جی آپ بیٹھیں۔ شبر جلدی……‘‘

اب تو ہم دونوں نے اتنی شدت سے انکار میں سر ہلائے اور نہیں، نہیں کی آوازیں نکالیں کہ نہ صرف شبر وہیں رک گیا بلکہ دوکان دار بھی بوکھلا کر بول اُٹھا۔

’’ جی سر، جی سر، حکم سر۔ بالکل سر۔ حکم کریں سر۔ کیا حاضر کروں۔ ‘‘

میں نے طے شدہ مدعا اب نسبتاً زیادہ تفصیل سے بیان کر دیا۔ دوکان دار انتہائی توجہ سے سنتا ہوں ہوں کرتا اور سر ہلاتا رہا۔ پھر کچھ دیر گہری سوچ میں ڈوبا رہا، آخر بولا۔

’’ بڑی مشکل فرمائش کر دی ہے پپو بیٹے نے۔ ہو خو۔ سر جی میرے پاس عین بین یہ چیز تو نہیں پر فیملی کی چیز ہے۔ پپو بیٹا میرے پاس ’نیلے ہاتھی کا دادا ہے۔ آ آ آآآ ۔ ‘‘

اُس نے آخری فقرہ کچھ اتنے مزاحیہ اندار میں کہا کہ پپو یعنی مانی اور میں دونوں ہنس پڑے۔ میں نے دل ہی دل میں ایک تو شکر کیا کہ چلو مانی کا موڈ تو کچھ ٹھیک ہوا دوسرے دوکان دار کو داد دی، یقیناً وہ سیلز مین شپ کے فن کا ماہر تھا۔ اور جلد ہی یہ ثابت بھی ہو گیا۔

’’شبر، چڑیا گھر سارا لے آ۔ ‘‘ اس نے اپنے معاون لڑکے سے کہا۔ اور چند ہی لمحوں بعد دنیا کہ تقریباً تمام مشہور جانوروں کے کھلونا متبادل ڈبوں میں بند یا شفاف پیکنگ میں لپٹیے ہمارے سامنے رکھے تھے۔ سب سے پہلے تو اُس نے ہمارے تقاضے کے قریب ترین حیوان کو ہمارے سامنے پیش کیا۔

’’لو جی بیٹا جی یہ آ گیا آپ کا نیلے ہاتھی کا دادا۔ ‘‘ اُس نے پر امید نظروں سے مانی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی مخصوص لہک سے کہا۔

یہ سُرمی رنگ کے پلاسٹک کا بنا ایک ہاتھی تھا، رنگ کا واضح فرق ہونے کے باوجود اُس کی جسامت تقریباً مانی کے خواب کھلونے کے برابر ہی تھی جو ایک خوش آئند بات تھی لیکن دادا ہونے کے ناطے اور عمر کے تقاضوں کے مطابق اس کے چہرے کے نقوش نہ صرف اپنی ذات سے بیزاری بلکہ تمام ’ہاتھی دنیا‘سے مایوسی کا اظہار کر رہے تھے۔ اس اظہار کو اس کے دائیں بائیں باہر کو نکلے لمبے سفید ہاتھی دانت اور بھی وحشیانہ بنا رہے تھے۔ مانی کچھ دیر اُس کھلونے کو ہاتھوں میں پکڑ کر گھما پھرا کر ہر طرف سے اُس کا جائزہ لیتا رہا پھر میرے خدشے کے عین مطابق اُس نے رد کرنے کے انداز میں اُسے ایک طرف رکھ دیا۔ دوکان دار کے چہرے پر ہلکی سی مایوسی کی ایک لہر دوڑی لیکن پھر اُس نے ایک عجیب سے معاملہ فہم انداز میں میری طرف دیکھا جیسے مجھے یقین دلانا چاہتا ہو کہ وہ نہ صرف میری مشکل سمجھتا ہے بلکہ یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ ابھی بالکل مایوس ہونے کا وقت نہیں آیا۔ اُس کے چہرے کی بشاشت واپس آ گئی اور اس نے دوسرے کھلونوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میرا خیال تھا اب وہ خاموشی سے ایک ایک کر کے کھلونے دِکھاتا جائے گا لیکن نہیں اُس کی اپروچ دوسری تھی۔

’’کوئی بات نہیں۔ ابھی تو نیلے ہاتھی کے اور بہت رشتے دار آنے والے ہیں۔ ‘‘ اُس نے دوسرے پیکٹوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر اور ہنس کر کہا۔ مانی نے میری طرف ایک نظر دیکھا جیسے پوچھنا چاہتا ہو کہ کیا یہ ضروری ہے ؟

’’ کوئی بات نہیں بیٹا۔ دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’دیکھیں گے جی سب دیکھیں گے ‘‘ اُس نے پیکٹ کھولا۔ ’’ لیں جی یہ تو ہو گئی شیر کی خالہ بلی، بھوری بلی، ہیں جی۔ یہ آ گیا کالے ریچھ کا چھوٹا بھائی۔ ‘‘

مانی اور میں پھر ہنسے اور مانی بظاہر کچھ زیادہ دلچسپی لینے لگا۔

’’ ہیں جی… اوئے یہ آ گیا پیلے ہرن کا چا چا۔ اور یہ ہے جی ہرے طوطے کا ماما۔ اور… اور …‘‘

وہ تھوڑا خاموش ہوا، اُس کے ہاتھ میں ایک شیر تھا اور غالباً وہ اِس الجھن میں تھا کہ اپنے اُس مخصوص انداز میں اُس کے بارے میں کیا کہے، آخر اُس نے کہا۔

’’ یہ ہے جی دھاری دار شیر، براؤن جیسا۔ یہ آپ خود ہی ہے۔ اس کا کوئی ماما چاچا نہیں ہے۔ ‘‘

میں دل ہی دل میں خوب ہنسا اور اُس شخص کی قوت متخیلہ کی داد دی۔ لیکن داد کی کوئی صورت حال مجھے مانی کے ہاں نظر نہ آئی۔ وہ کھلونے دیکھ ضرور رہا تھا اور ’پیلے ہاتھی کا چاچا ‘ پر وہ زیادہ دیر رکا بھی لیکن نتیجہ ایک ہی تھا یعنی ’’نہیں یہ میرا نہیں !‘‘۔

’’یہ ہو گیا جی کالے سپ کا ابا، یہ بڑا زہری ہے، ساتھ اس کے ہے لال باندر کا دوست اور یہ ہے بڑا شرارتی۔ ‘‘ میں نے محسوس کیا کہ اس کی آواز اب کچھ تھک رہی ہے۔ مانی نے کالے سپ اور لال باندر کو بھی اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ وہ ’نیلے ہاتھی کا بچہ‘ کی جگہ کسی کو بھی دینے پر تیار نہیں تھا۔ دوکان دار نے اب جو میری طرف دیکھا تو مجھے اُس کی مایوسی گہری ہوتی نظر آئی۔ اتنے میں کچھ اور گاہک آ گئے اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوا اور اسی لمحے میرا سیل فون بجنے لگا۔ نیاموں تھا، مجھے تھوری حیرت ہوئی، میٹنگ سے فرار میں مدد دینے کے بعد شاید ہی اُس نے کبھی مجھے فون کیا ہو۔ میں مانی کو وہیں کھلونوں کے پاس کھڑا چھوڑ کر چند قدم پیچھے ہٹ کر سننے لگا۔

اُس نے مجھے بتایا ’’ سر جی جب گورے روٹی کھا رہے تھے، افسر سارے انہیں کھاتا دیکھ رہے تھے۔ آپ بھی کھا رہے تھے تو بڑے صاحب (ایم ڈی) نے آپ کا پرسان صاحب (پرسانل مینجر) سے پوچھا تھا اور پرسان صاحب نے چیف صاحب (چیف ایریا مینجر، اور مجھ سے خوامخواہ خار کھا نے والا۔ ) سے پوچھا اور پھر سر جی انہوں نے میری طرف دیکھا اور میں کسٹرڈ کی ایک دو گندی پلیٹیں اٹھا کر بہانے سے بھاگ گیا۔ ‘‘

’’بس اب بہانے سے بھاگے ہی رہو۔ اور تمہیں کسٹرڈ کی پوری پلیٹ اُٹھا کر بھاگنا چاہیے تھا۔ کسی سے کچھ بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں کل آ کر دیکھ لوں گا۔ ‘‘ میں نے اس کی ہنسی کی آواز سنی وہ توتسلی میں آ گیا تھا، لیکن ایم ڈی سے پرسانل اور پرسانل سے چیف کی یہ تکونی حرکت میرے لئے کچھ تشویش بھی پیدا کر رہی تھی۔ میں نے بہرحال اسے ذہن سے جھٹک دیا یعنی جس حد تک بھی جھٹکنا ممکن تھا۔ اتنے میں مانی دوکان کے سامنے کھڑے رہنے کی بجائے خالی ہاتھ میرے قریب آ گیا۔

’’ چلیں ابو۔ ‘‘

’’آ…آ…ہا… ہاں ہاں۔ چلیں۔ ‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ حالانکہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کہاں چلیں۔ مجھے قوی امید بندھی تھی کہ وہ دوکاندار اپنی اُس تخلیقی سیلزمینشپ سے مانی کو ’نیلے ہاتھی کا بچہ‘ کا کوئی متبادل لے لینے پر آمادہ کر لے گا۔ لیکن نہیں خواب کھلونا ہر حقیقی کھلونے کو رد کرتا جا رہا تھا۔ میں نے سوچا کم از کم مجھے اُس کا بھر پور شکریہ تو ادا کرنا چاہیے اور میں نے کیا تو وہ ایک اُداس سے معذرت خواہانہ انداز میں مسکرایا۔

’’ساری سر جی، میں نے تو کوشش کی بات بن جائے پر پپو بیٹے کی شرط بڑی سخت ہے۔ ‘‘ اس نے مانی کی طرف نیم شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اور میں نے سوچا شاید کہ وہ مانی کے لیے پپو بیٹا کے الفاظ استعمال نہ کرتا تو وہ ’نیلے ہاتھی کا بچہ‘ کی جگہ ’ پیلے ہرن کا چاچا ‘ تو قبول کر ہی لیتا۔ بچوں کے عجیب مسئلے ہوتے ہیں لیکن اب دیر ہو چکی تھی اور’ اصل عجیب مسلۂ‘ وہیں کا وہیں تھا۔ میں نے اگلے لائحۂ عمل کا کچھ فیصلہ کیا اور دوکاندار کو بھی اپنی تلاش کی اگلی منزل یعنی پوش علاقے میں واقعہ کھلونوں کی ایک ماڈرن دوکان کے بارے میں بتایا۔ اور وہ ہنس پڑا۔

’’ ضرور جائیں سر جی۔ ٹائے لینڈ نام ہے فینسی جیسی دوکان ہے …۔ پر ہو گا بس اتنا کہ یہی سودا سارا دکھائے گا وہ۔ فینسی فینسی چالاک باتیں کرے گا آپ سے اور ہم سے تین گنا زیادہ قیمت مانگے گا۔ مال سارا سر جی ایک ہی جگہوں سے آتا ہے۔ ہم سے اُٹھاتے بھی ہیں وہ۔ آپ دیکھ لیں پر یہ آئٹم ملے گا نہیں۔ اس کا تو یہ ہے کوئی آپ آرڈر پر بنوائے۔ ایک دو پلاسٹک فیکٹریاں ہیں ہمارے ادھر بھی، تھوڑا مال بناتے ہیں وہ بھی۔ ‘‘

میں نے اور مانی نے پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ایسا لگا جیسے امید کی ایک نئی کرن روشن ہو رہی ہو، حالانکہ یہ ناممکنات میں تھا۔

’’ کدھر ہے یہ فیکٹری؟‘‘میں نے پھر بھی اشتیاق سے پوچھا۔

’’ فیکٹری تو شہر سے بہت دور ہے۔ کہیں اور ہے لیکن ہیڈ آفس ان کا ادھر ہی ہے جدھر آپ جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’ آپ کا مطلب ہے جدھر وہ فینسی فینسی دوکان ہے ؟‘‘

’’ جی سر جی بالکل ادھر ہی۔ کوئی بھلا سا انگریزی نام ہے …۔ ۔ ‘‘ وہ ذہن پر زور ڈالنے لگا۔ اُدھر اُس کے گاہک بے چین ہو رہے تھے۔ میں نے سوچا ہم اس کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ میں نے پھر اُس کا شکریہ ادا کیا اور ہم چلنے کو تھے کہ وہ یک دم بولا۔

’’ یاد آ گیا…۔ پیراگون پلاسٹکز…۔ ۔ ‘‘

’’ او کے۔ فائن۔ ‘‘ میں نے کہا اُس کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور ہم واپس پارکنگ کی طرف چل پڑئے۔ مین بازار سے گذرتے ہوئے میں نے دائیں بائیں کھُلتی کئی ذیلی گلیوں میں جھانکا تو مجھے اُس علاقے میں موجود مقامی غذاؤں کے کئی مخصوص مراکز کا خیال آیا جو خوش خوراکی کے انتہائی لذت افروز مواقع فراہم کر تے ہیں، خصوصاً گوشت کے کئی ایسے پکوان جن کے پکانے والے فنکاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ان کھانوں کی خفیہ تراکیب اپنے ساتھ لے کر اس جہان سے رخصت ہونے ہی والے ہیں۔ قدردانوں کے لیے بس آخری موقع ہے کہ جلد از جلد فیض یاب ہوں۔ میرے ذہن میں طرح طرح کے کباب، نہاریاں، اور بریانیاں مہک اُٹھیں جو اردگرد کی روایتی دنیا میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود تھیں۔ یہ ایک سنہری موقع تھا، یوں بھی اس علاقے میں شاذو نادر ہی آنا ہوتا تھا۔

میں نے وقت دیکھا اور پھر مانی کی طرف دیکھا جو میری انگلی پکڑے مجھے تقریباً کھینچتا ہوا گاڑی کی طرف لے جا رہا تھا۔ اکتوبر کے پونے چار شام کی اطلاع دے رہے تھے۔ دوپہر کو بھی کچھ کھانے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ ایک پرانی سے گلی میں سے گذرتے ہوئے دم پخت مصالحوں کی ایک ایسی خوشبو ناک میں گھسی کہ بھوک ایک حادثے کی طرح رونما ہو گئی۔ میں رُک گیا۔ مانی نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔

’’کیا ہوا ابو؟‘‘

یہ ایک نازک لمحہ تھا میں ا’سے قطعاً یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ اُس وقت اُس کے ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کی تلاش کی نسبت، سیخ کباب اور چپل کباب کی تلاش میرے لیے زیادہ اہم ہو رہی تھی۔ براہ راست بات کرنا ناممکن تھا۔ ضروری تھا کہ اُسے غیر محسوس طریقے سے ترغیب دی جاتی۔ آخر بچوں کو بھی بھوک لگ سکتی ہے خواہ وہ اپنا کوئی خواب کھلونا ہی کیوں تلاش نہ کر رہے ہوں۔ اور اُس نے پھر پوچھا۔

’’ابو کیا ہے ؟‘‘

میں نے گہری سانس لی اور کہا۔ ’’ بیٹا یہ ایک عجیب جگہ ہے۔ ‘‘

’’اچھا۔ ‘‘ اُس نے بغیر کسی تجسس کے کہا۔

’’ہاں۔ یہاں اگر ہم سانس لیں تو بڑی مزے مزے کی خوشبوئیں آتی ہیں۔ ‘‘ میں نے خواہ مخواہ لفظ ’سانس‘ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

اب اُس نے تھوڑے تعجب سے اردگرد آتے جاتے اور ہمارے مسائل سے قطعاً لاتعلق لوگوں کو دیکھا۔

’’یہ …سانس نہیں لیتے ابو یہ لوگ؟‘‘

میں سٹپٹا سا گیا۔ ’’ سانس لیتے ہیں بیٹا۔ مطلب اگر گہری سانسیں لیں تو۔ ‘‘

اُس نے گہری سانسیں لیں اور بُرا سا منہ بنایا۔

’’کچن جیسی بو آ رہی ہے۔ چلیں ابو۔ ‘‘

’’ چلیں۔ ‘‘ میں نے روہانسی سی آواز میں کہا اور دل مسوس بلکہ معدہ مسوس کر رہ گیا۔

ہم گاڑی میں بیٹھے اور ابھی پارکنگ میں ہی تھے کہ فری کا فون پھر آ گیا۔ احتیاط کا تقاضہ یہ تھا کہ ہماری گفتگو مانی کے کانوں میں نہ پڑتی۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتی تھی آگے سے میں کچھ بھی کہہ سکتا تھا۔ ظاہر ہے بچوں کے بارے میں ماں باپ کی ہر بات بچوں کے لیے نہیں ہوتی۔ میں گاڑی سے باہر نکلا، پارکنگ والے کو اشارہ کیا کہ ابھی ہم ادھر ہی ہیں۔ اور پھر گاڑی کے اردگرد منڈلاتے ہوئے میں فری کی بات سننے لگا اور اپنی بات سنانے لگا۔

میں نے اُس کے سامنے اب تک کا ماجرہ بیان کیا اور آگے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اُس نے تیزی سے اپنے نتائج اخذ کیے اور جواب آیا۔

’’ سودی تم سے کچھ نہیں ہوتا۔ چھوٹا سا یہ کام تھا۔ تم پتہ نہیں کن چکروں میں پڑ گئے ہو۔ کن لوگوں میں جا پھنسے ہو۔ کون تھا وہ بدبخت کھلونے بیچنے والا جس نے مانی کو ڈانٹا۔ ذلیل۔ ‘‘

’’لعنت بھیجو اُس پر…۔ ۔ ‘‘ میں نے اُسے مشورہ دیا اور اُس نے اُس پر عمل کیا پھر بولی۔

’’اور اب یہ ’پیلے ہرن کا چاچا‘ کیا ہے ؟ مائی گاڈ…مجھے خطرہ ہے کوئی تمہیں ٹھگ نہ لے۔ ‘‘

میں نے اُسے پر جوش لیکن مدلل انداز میں یقین دلایا کہ ابھی تک کرہ ارض پر ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جو مجھے ٹھگ سکے، لیکن اُس نے میرے دلائل کو قطعاً نظر انداز کرتے ہوئے دوسری بات کی۔

’’ تو مانی کو ہی سمجھاو پھر۔ اب اتنا تو ڈھونڈ لیا ہے ’نیلے ہاتھی کا بچہ‘، اب کیا کریں۔ ‘‘

’’میں اُسے ایسا کچھ نہیں کہوں گا۔ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے۔ اگر نہ ملا تو وہ خود ہی سمجھ جائے گا۔ وہ بہت سمجھ دار بچہ ہے …یعنی تم پر گیا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا اور اک دم جواب آیا۔

’’ یہ وقت ہے تمہارا سودی طنزیہ باتیں کرنے کا؟ اگر اتنے ہی جلے بھنے ہو تو نہ جاتے، میرا یہ ان دنوں یہ آرٹ ڈائرکٹر شپ کا چکر نہ چل رہا ہوتا تو میں خود چلی جاتی مانی کو لے کر……‘‘

جواباً میں نے اُسے کھل کر بتایا کہ آج کی گورا میٹنگ میں میری مسلسل حاضری کتنی ضروری تھی۔ نیاموں کی کال اور اس سے سر اُٹھانے والے خدشات کی طرف زور دار اشارے کیے۔ اُس نے اتنے ہی زور شور سے دوربین، غار، اور گوند جیسے غیر انسانی ناموں والے انسانوں کے ساتھ اپنے دفتری معاملات کا ذکر کیا اور پھر اچانک دونوں طرف ایک رفع دفع قسم کی خاموشی چھا گئی۔

’’ اچھا تو اب کھلونا فیکٹری جاؤ گے ؟‘‘ آخر اس نے پوچھا۔

’’ آ…۔ نہیں، میرا نہیں خیال۔ اب ایسا تو نہیں ہوتا کھلونا بنوانے بندا فیکٹری چلا جائے، لیکن کم از کم اُس بڑی اور ماڈرن دوکان میں تو ضرور جائیں گے۔ ہو سکتا ہے ہمارے مطلب کی کوئی چیز مل ہی جائے۔ ‘‘

’’ ہوں …تو جاؤ پھر…آخر بچے بیچارے نے کچھ مانگ ہی لیا ہے تو کچھ تو کرو…کریں ہم۔ میری ذرا بات تو کراو مانی سے۔ ‘‘

’’ ہرگز نہیں۔ ‘‘ میں نے ہڑبڑا کر کہا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ فری کی کسی بات سے مانی کسی نئی پیچیدگی کا شکار ہو۔ لیکن یہ میری بھول تھی۔ ایک دوسرے کو اپنا اپنا خیال رکھنے کی تلقین کرنے کے بعد میں جب فون بند کر کے واپس گاڑی میں بیٹھا۔ اور اپنی طرف سے بڑے کھلنڈرے سے موڈ میں مسکراتے ہوئے مانی کی طرف دیکھا تو مانی ایک بدلا ہوا بچہ تھا۔

’’تو اب جناب …ہم چلتے ہیں …ٹوائے لینڈ کی طرف۔ ‘‘ میں نے کچھ ہچکچا کر کہا۔

’’ میں نے گھر جانا ہے۔ ابو۔ ‘‘ اُس نے کہا اور میں سمجھ گیا کہ کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔

’’ لیکن بیٹا …ابھی تو ہم ڈھونڈ رہے ہیں کھلونا…نیلے ہاتھی کا بچہ…‘‘ میں نے ٹٹولتی ہوئی نظروں سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ خاموش رہا۔ ، میں نے پارکنگ والے کو فارغ کیا۔ کچھ لمحے اور گذر گئے۔

’’میں ’پیلے ہرن کا چچا ‘ لے لیتا ہوں۔ ‘‘ اچانک اُس نے ٹھہرے ہوئے اُداس سے لہجے میں کہا۔

میں نے گہری سانس لی۔ حماقت میری اپنی تھی۔ میں اپنی طرف سے بڑی احتیاط برتتے ہوئے اپنا سیل فون لیے گاڑی سے باہر تو آ گیا تھا لیکن پھر بھی وہیں گھوم گھوم کر ملازمت پیشہ شریک حیات سے محو گفتگو ہونے کے دوران اور غالباً جوشِ جذبات میں اپنی آواز کی والیم کی طرف سے بے نیاز ہو گیا تھا۔ اب یقیناً ہوا یہ تھا کہ ہماری حیات کے ایک اور شریک نے میری کچھ ایسی آوازیں سن لی تھیں جو اُس کے بارے میں تو تھیں لیکن اُس کے لیے نہیں تھیں۔ وہ بہت ناخوش ہو چکا تھا نہ صرف ہم سے بلکہ شاید اپنے آپ سے بھی۔ اور یہ بات میرے لیے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ اُس کا ’خواب کھلونا‘ ڈھونڈنے کی دن بھر کی سب کوششیں رائے گاں جاتی محسوس ہوئیں۔ حسب عادت مجھے فری پر غصہ آیا اور پھر اس ’ہر وقت سر پر سوار رہنے والے فون‘ اور اسے ایجاد کرنے والوں پر۔ ایک ہی دن میں دوسری مرتبہ میں اِس آلے کی وجہ سے شدید جذباتی مشکلات کا شکار ہوا تھا۔

’’چلیں …ابو، وہی ہرن والا لے لیتے ہیں۔ ‘‘ مانی نے ایسے کہا جیسے مجھے تسلی دے رہا ہو۔

میں نے بہرحال دوسری حماقت نہ کی۔ یعنی یک دم ہڑبڑا کر ایسی کوئی بات نہ کی…۔ کیا؟ یہ کیا ہوا تمہیں اک دم؟ کیا بات ہے ؟ کیا ہوا ہے مانی ؟ تم نے اپنا ارادہ بدل کیوں دیا؟ مانی تم کسی بات پر پریشان ہو بیٹا؟ وغیرہ وغیرہ۔

میں نے قہقہہ لگایا، گاڑی نکالی اور تاثر دیاجیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

’’ چلو یار وہی لے لیں گئے لیکن پہلے ہم ’ٹواے لینڈ ‘اور ’پیراگان پلاسٹکس‘میں تو ضرور ڈھونڈیں گے، ’نیلے ہاتھی کا بچہ‘۔ کہیں نہ ملا تو دیکھیں گے۔ ‘‘ میں نے جوشیلے سے انداز میں کہا اور میں نے محسوس کیا کیا کہ مانی کا اُترا ہوا چہرا نارمل ہو رہا ہے۔ بچے آخر بچے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ میں نے بہرحال فیصلہ کر لیا کہ اگر جانا ہی پڑا تو پلاسٹک فیکٹری کے ہیڈ آفس میں بھی جا پہنچیں گے اپنی ’خواب کھلونا‘ تلاش لے کر۔ دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔

پہلی منزل یعنی ’ٹواے لینڈ‘ ہمارے تخلیقی کھلونا فروش کی پیشین گوئی کے عین مطابق ایک’ فینسی‘ دوکان ہی ثابت ہوئی اور ہمارے ساتھ خصوصاً مانی کے ساتھ’ فینسی فینسی چالاک باتیں ‘ بھی بہت کی گئیں۔ مانی کی کسٹمر رجسٹریشن کی گئی۔ ’ٹم انیڈ  ٹوائے کلب ‘ کا ممبر بنایا گیا۔ کھلونوں اور کمپیوٹر گیمز کے حوالے سے مانی کی پسند ناپسند پر مبنی کئی طرح کا dataکمپنی کے ماسٹر کمپیوٹر میں feedکیا گیا۔ مانی شوق سے سب کچھ بتاتا گیا لیکن جب اُس کا email ایڈریس مانگا گیا تو اُس نے پریشان سی نظروں سے میری طرف دیکھا۔

’’ اوہ بچے کا email ایڈریس نہیں ہے !؟‘‘ تیز طرار سیلز گرل نے کی بورڈ پر کھٹا کھٹ کرتے ہوئے ایسے الزامی لہجے ہیں کہا کہ میں خود شرمندہ ہو گیا، واقعی بچے کے پیدا ہوتے ہی اُس کا email ایڈریس دنیا کے سامنے آ جا نا چاہیے۔ بہر حال میں نے معذرت خواہانہ انداز میں اپنا ایڈریس لکھوا دیا۔ اس کے بعد ہمیں اپنی ڈیمانڈ کے ساتھ displayسیکشن میں بھیج دیا گیا۔ سچی بات ہے کہ مجھے اور یقیناً مانی کو بھی اب کچھ کچھ امید ہو چلی تھی کہ یہ لوگ جو اتنی زبردست کمپیوٹرایزڈ کاروائی کر رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم بالآخر اپنی خواب تلاش میں کامیاب ہو ہی جائیں۔

ہم ایک چمکتے دھمکتے displayکاونٹر کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے سمارٹ ملازم نے جو دنیا کے سب سے مشہور چوہے مِکی ماوس کی ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا مانی کو دو تین دفعہ بھرپور smileyانداز میں مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا۔

’’آپ کا ٹوائے آ رہا ہے۔ ‘‘

پھر وہ انٹرکام پر کسی سے مخاطب ہوا۔ ’’ہاں سٹور نوید۔ دیکھو سٹور نوید۔ ۔ ۔ کسٹمر انتظار کر رہے ہیں بھئی۔ ہاں کوڈ وہی ہے۔ GK9/35elp۔ ‘‘ اُس نے کسی اپریشنل مینیجر کی سنجیدگی سے کہا اور ہمیں بے حد مرعوب دیکھ کر اُس نے اگلے ہی لمحے پھر ایک smileyدی اور کہا۔

’’آپ کا ٹوائے آ رہا ہے۔ ‘‘

اور ٹوائے آ گیا بلکہ آنے لگا اور ہم اُسے آتے ہوئے دیکھنے لگے لیکن زیادہ دیر دیکھ نہ سکے اور چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے پھر بے ساختہ مسکرا اُٹھے۔

سٹور نوید کے دونوں ہاتھوں میں ایک بڑا سا خوبصورت ڈبہ تھا۔ اُس کے اندر کیا تھا ہم خوب جانتے تھے کیونکہ ڈبے کے باہر بھی اُس کی بھرپور رنگین تصویر ہمیں گھور رہی تھی…۔ ۔ وحشی دادا ہاتھی لمحہ بہ لمحہ ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔

’’پلیز سر۔ ‘‘ سٹور نوید نے ڈبہ کاؤنٹر پر رکھا اور مانی ہنسنے لگا۔

’’یہ تو وہی ہے !‘‘ اُس نے کہا۔

’’ہاں۔ ‘‘ میں نے بھی ہنس کر کہا اور ایک بے ساختہ تیزی سے کھلونے کی قیمت پوچھی۔ اور ایک بار پھر ’تخلیقی کھلونا فروش‘ کی عظمت کا قائل ہو گیا۔ قیمت اُس کی مانگی قیمت سے تین نہیں چار گنا زیادہ تھی۔

’’آ…۔ یہ ہم نہیں لیں گے۔ ‘‘ میں نے کہا تو سٹور نوید ہلکے سے طنزیہ انداز میں بولا۔

’’سر سستا مال بھی ہے ہمارے پاس اگر دیکھنا ہو تو…ادھر ہم نہیں لگاتے ذرا۔ ‘‘پھر وہ احمقانہ سے انداز میں ہنس پڑا تو مِکی ماوس نے ناپسندیدگی سے اُسے گھورا۔ یقیناً وہ سٹور کے عملے کی نسبت ہمارے معاملے کو بہتر سمجھتا تھا۔ ہم شکریہ ادا کر کے جانے کے لیے چلے تو اُس نے بے چینی سے کہا۔

’’سر اصل میں مسٹر سلمان مسعود کی ڈیمانڈ customer specificہے۔ ایسے کیسیز میں ایسا ہو جاتا ہے۔ ‘‘ پہلے تو میں حیران ہوا کہ یہ سلمان مسعود کون ہے لیکن اگلے ہی لمحے خیال آیا …’اہوخو یہ تو مانی کو کہہ رہا ہے۔ ‘ اور وہ ابھی بات کر رہا تھا۔ ’’میری request یہ ہے سرکہ آپ جانے سے پہلے ہمارے امپورٹ ایکسپورٹ انچارج ڈینی صاحب سے ضرور مل لیں۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کو کمپیوٹر پر کچھ ایسا آئٹم دکھا دیں جو ہم آپ کے لیے امپورٹ کروا دیں۔ ‘‘

میں نے ٹھنڈی سانس لی۔ ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کا دن اب شام میں بدل چکا تھا۔ مانی کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے لیکن اُس کے بعض دوسرے آثار مجھے بتا رہے تھے، ’’دیکھ لینے میں کیا حرج ہے۔ ‘‘ اور میں نے یہی بات مکی ماؤس کو کہہ بھی دی۔

’’ ہاں دیکھ لینے میں کیا حرج ہے۔ ‘‘ اور یہ بات کہتے ہوئے میں سوچے بیٹھا تھا کہ بس یہ ہماری آج کی آخری کاروائی ہو گی جو مانی کو مطمئن کر دے گی کہ اُس کے ’خواب کھلونے ‘ کی تلاش میں ہم آخری حد تک گئے۔ اور پیراگون پلاسٹکس جانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ لیکن مجھے کیا علم تھا کہ ہم سے پہلے ہی پیرا گون پلاسٹکس ڈینی صاحب کے روپ میں ٹوائے لینڈ پہنچ چکی ہے اور ہمارے دن بھر کے واقعات ہی نہیں بلکہ آئندہ دنوں کے واقعات بھی ایک نیا ہی رخ اختیار کرنے والے تھے۔ مانی کا خواب کوئی عام خواب نہیں تھا۔

سٹور نوید ہمیں ڈینی صاحب سے ملوانے کے لیے ایک کاریڈور میں داخل ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ ’ٹوائے لینڈ‘ کھلونوں کی کچھ زیادہ ہی بڑی دوکان ہے۔ آخر اتنے کئی طرح کے شعبے کس لیے ہیں۔ مجھے اپنی ملٹی نیشنل فرم کا خیال آیا، وہاں کے کارپوریٹ ماحول کا اور پھر اپنے خیر خواہ کولیگ اور کافی حد تک دوست رحمان ظفر کا جو سلیز میں تھا اور جس کی تین کالز میں گذشتہ دو گھنٹوں میں نظر انداز کر چکا تھا ہر بار یہ سوچ کر کہ فارغ ہو کر خود اطمینان سے اُسے فون کروں گا کہ یار ایسی کیا مصیبت آ گئی ہے۔ لیکن ظاہر ہے مصیبت کا تعلق گوارا میٹنگ سے میرے فرار سے تھا، اور یہ کالز میری اس بے چینی میں اضافہ کر رہی تھیں۔ سوچا اب کرتا ہے تو سن لوں گا اور ساتھ ہی فون کو میٹنگ سے عام حالات پر کر دیا۔

ہم کاری ڈور میں ایک جگہ رُکے۔ ایک با رعب دروازے پر اور بھی زیادہ با رعب گن میٹل کی پلیٹ پر سیاہ چمکے لیے انگریزی الفاظ میں لکھا تھا Plastics II۔ مجھے تعجب ہوا اور یہ احساس کہ جیسے کھلونوں کے سٹور میں پھرتے پھرتے کسی اور ہی فرم کے دفتر میں نکل آئے ہیں۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ میرا احساس کافی حد تک صحیح تھا۔

ہمارا رہبر نوجوان دروازہ کھول کر ہمیں اندر لے گیا۔ یہ ایک مستطیل شکل کا لمبا کمرہ تھا، کسی بھی جدید آفس جیسا۔ آمنے سامنے تین تین میزوں پر کمپیوٹر مانیٹرز کے سامنے بیٹھے چھ افراد اپنے کام میں مشغول تھے۔ دروازے کے ساتھ ہی کمرے کی تقریباً ایک چوتھائی جگہ یقیناً ایک سربراہی مقام تھا، ایسے تمام مقامات کے لوازمات سے لیس۔ سٹور نوید نے ٹیلی فونوں اور کمپیوٹر مانیٹرز سے آراستہ ایک بڑی میز کے پیچھے ایک گھومتی کرسی میں موجود ٹیلی فون پر بات کرتے ایک شخص کی طرف دیکھ کر سرگوشی کی۔

’’ڈینی صاحب۔ ‘‘

ٹیلی فون پر مصروفِ گفتگو ہونے کے باوجود ڈینی صاحب بھانپ گئے کہ ہم لوگ اُنہی سے ملاقات کی آرزو لے کر آئے ہیں، چنانچہ پہلے تو انہوں نے ریسور دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کرنے کے دوران میز پر پڑی ایک مخروتی تختی کا رُخ غیر محسوس طریقے سے بدل کر ہمیں اپنا نام دیکھنے کا موقعہ فراہم کیا۔ ……۔ ڈینیل برگینزا۔ پھر انہوں نے ہاتھ کے اشاروں سے شدید اصرار کرتے ہوئے ہمیں سامنی کرسیوں میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ مانی اور میں ہم دونوں نے ایک نئی مہم جوئی کے انداز میں مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ دیکھو اب کیا ہوتا ہے اور ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کی تلاش ہمیں کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔

آپ کے سامنے بیٹھ کر ٹیلی فون پر کسی سے بات کرتا شخص ایک لحاظ سے آپ کو اجازت دے رہا ہوتا ہے کہ آپ چاہیں تو پوری توجہ سے اُسے دیکھ اور سن کر اُس کی شخصیت کے بارے میں بھرپور اندازے لگا سکتے ہیں۔ بعض نسبتاً کم مہذب لوگ ایسے موقعوں پر ٹکٹکی باندھ کر گھورنے لگتے ہیں لیکن ایک کافی مہذب انسان ہونے کے ناطے میں نے ڈینی صاحب کے ساتھ ایسا کوئی سلوک نہ کیا بلکہ اچٹتی نظروں لیکن ٹکے ہوئے کانوں کے ساتھ ان کا جائزہ لیتا رہا۔

میں نے دیکھا ہے کہ گھومتی کرسیوں میں بیٹھنے والے اپنی نشستوں کی اس خصوصی صلاحیت کے حوالے سے عام طور پر دو طرح کے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یا تو وہ اپنے جسم و جان کے کسی نہ کسی چکر کی مطابقت میں گھماؤ کے اس آزادانہ اظہار کا کوئی ایک موقع بھی ضائع نہیں کرتے۔ آپ انہیں میز کی سیدھی لکیر کے پیچھے ایک نصف دائرے میں تقریباً مسلسل اُچھلتے چکراتے کسی بھی زاویے پر موجود دیکھ سکتے ہیں بلکہ بعض تو اپنے اس نشستی رقص کے ایک اندازِ دلربانہ میں دائرہ مکمل کر ڈالنے کی آخری کوشش کر ڈالتے ہیں اور یوں ایسے موقعوں پر آپ کو اُن کی کمر سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔ دوسری قسم کے خواتین و حضرات گھومتی کرسی میں بیٹھتے ہی کسی نا معلوم خدشے یا اندیشے کا شکار ہو جاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر کرسی ذرا بھی گھوم گئی تو کوئی آفت نازل ہو جائے گی، آگے ان کی کچھ ذیلی اقسام بھی ہیں لیکن تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ جہاں تک ڈینی صاحب کا تعلق ہے وہ پہلی قسم کی ایک انتہائی روشن مثال تھے۔ میں ابھی اُن کے پچاس پچپن سالہ گندمی کلین شیوڈ  تکونے چہرے، عینک کے چوکور فریم، بے ترتیب با لوں، بغیر ٹائی کی چیک شرٹ اور بھورے کارڈروئے کے کوٹ کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ وہ یک لخت دائیں سے بائیں گھوم گئے، لینڈ لائین فون کی تار ایک سپرینگ کی طرح کھنچ کر ہوا میں اُٹھ گئی، ان کے چہرے کی مکمل پروفائیل میرے سامنے آ گئی جس کہ بارے میں ابھی میرا یہ تاثر بنا ہی تھا کہ یہ تو ایک لا پرواہ یونیورسٹی پروفیسر کی پروفائیل ہے کہ وہ اور بائیں کو گھوم گئے اور کان سامنے آ گیا جو بس ٹھیک تھا۔ پھر کیا ہوا کہ اتنی تیزی سے واپس بائیں سے دائیں ہمارے سامنے سے گھومتے ہوئے پیچھے کو گئے کہ ان کے آفٹر شیو کی خوشبو ہوا میں اُڑ گئی میز کے کونے پر پڑا ایک پیپر کٹر نیچے گر گیا اور خود ڈینی صاحب وہی ’رقصِ کرسی‘ کے آخری انداز میں دوسری طرف جا ٹھہرے اور کسی خیالی حجام کو سر کے پچھلی طرف سے بال تراشنے کا موقع فراہم کرنے لگے۔ مجھے مانی کی دبی دبی ہنسی سنائی دی میں نے اُسے کی طرف دیکھ کرسوچا کہ اُس کے کان میں سرگوشی کروں کہ ’دیکھ لو بیٹا تمہارے ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کی وجہ سے ہمیں کیسے کیسے تماشے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ‘ لیکن اُس لمحے جب کہ وہ ہم سے منہ موڑے بیٹھے تھے میری مکمل توجہ اُن کی ٹیلی فونی گفتگو پر مرکوز ہو گئی اور مجھے اندازہ ہوا کہ گھومتی کرسی میں چکرانے کے حیرت انگیز مظاہرے سے کہیں زیادہ حیرت انگیز تو ان کی گفتگو تھی اور جو انگریزی میں جاری تھی۔ مخاطب کوئی مسڑ لی تھا۔

’’ دیکھو مسٹر لی ہم دنوں پلاسٹک انجینیر ہیں اور دوست ہیں اور تم جانتے ہو میں ایک پلاسٹک کا بنا انسان ہوں۔ میرا دماغ ذہن اور جسم کے سب اعضا پلاسٹک کے بنے ہیں۔ کیا؟…۔ ہا…ہاں وہ بھی…۔ ہا ہا ہا ہا …۔ ‘‘

دوسری طرف سے یقیناًکچھ ایسا پوچھا گیا تھا جس نے ڈینی صاحب کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا تھا۔ مز ید اظہار کے لیے وہ پھر واپس بائیں طرف گھومے تو ہمارے بالکل سامنے ٹھہرتے ہوئے انہوں نے مجھے آنکھ ماری۔ میں کچھ سمجھ چکا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایک خیال بھی میرے اندر گونجا کہ ’یار اس بندے کے ساتھ بات ہو سکتی ہے۔ ‘ اُن نے مانی کی طرف دیکھا تو چہرے پر ہلکی سی تشویش کا تاثر آیا پھر مانی کو منہ چڑھایا اور فوراً انہوں نے اُدھر مسٹر لی کو ہولڈ کرنے کو کہا۔ اور انٹر کام پر کسی کو بولا ’’ انور آنا۔ ‘‘ انور آیا۔

’’ بچہ لوگ کے لیے سینڈوچ اور آ…۔ آپ…۔ ۔ ‘‘ میں نے ان کی لمحے بھر کی ہچکچاہٹ پر ’’ہاں ہاں میرے لیے بھی سینڈوچ‘‘ کہنے کی بجائے اپنا دفتری کارڈ بھی انہیں پیش کر دیا جسے انہوں نے چٹکی میں تھام لیا۔

’’سینڈوچ، کافی اور جوس…۔ ؟‘‘ انہوں نے جوس کہتے ہوئے مانی کی طرف سوالیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور میں حیران ہوا کہ مانی نے میری طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھنے کی بجائے اثبات میں سر ہلا دیا۔ بچے کو بھوک لگی تھی۔ انور چلا گیا۔

’’ساری سر بس چند منٹ اور…۔ یہ ہانگ کانگ کے چینی بات لمبی کھینچتے ہیں۔ ‘‘ ڈینی صاحب نے فون کی مصروفیت پر معذرت کی۔ اور اپنے ’ ’ہاں مسٹر لی ‘‘ کو بھی لمبا کھینچا پھر اُدھر سے کوئی بات سننے کے دوران میرے کارڈ پر ایک گہری نظر ڈالی لیکن فون پر کچھ بھی کہنے یا مجھے کچھ کہنے کی بجائے انہوں نے چہرے کے تاثرات، ہاتھوں کے اشاروں اور کرسی کی گھماؤ کے ذریعے مجھ عاجز کی ذات سے متاثر ہونے کا اتنا شدید استقبالیہ اظہار کیا کہ میں بوکھلا کر رہ گیا۔ پھر وہ مسٹر لی کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’ہاں میں ان دنوں پیراگون پلاسٹکس کے ساتھ ہی ہوں۔ لیکن یہاں کی پلاسٹک کی دنیا میں کہیں بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوInjection moulding ہو یا blow moulding، extrusion ہو یا thermoforming…۔ ۔ آخر میں وہ ڈینی کے پاس ہی آتے ہیں۔ Dany the plastic man.۔ میں لوگوں کی سوچوں کو، مسئلوں کو، فیصلوں کو، ضرورتوں کو، اصل میں خوابوں کو پلاسٹک کی شکل دیتا ہوں۔ ہوں ہوں ہوں …۔ ہاں ہاں ……۔ ‘‘

ڈینی صاحب کی بات سن کر میرے اندر گھنٹیاں سی بج اُٹھیں۔ نہ صرف یہ کہ اِس بندے کے ساتھ بات ہو سکتی بلکہ ہر طرح کی بات ہو سکتی ہے مکمل بات ہو سکتی ہے۔ نیلے ہاتھی کے بچے کے دن کی سب سے بڑی دریافت Dany the plastic man کی شکل میں سامنے آ رہی تھی۔

’’ہاں پلاسٹکس II پیراگون والوں کا ہی ذیلی شعبہ ہے۔ ‘‘ ڈینی صاحب کہہ رہے تھے۔ ’’ یہ لوگ کافی عرصے سے PVC پائیپ، ٹینک اور اس طرح کا ہیوی کام کر رہے ہیں۔ اب چھوٹا، خوبصورت کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں جیسے کھلونے، برتن……ہوں ہوں ہوں۔ ۔ ۔ تمہاری فرم کا نام ساتھ چلے گا تو ان کا کاروبار خوب چمکے گا۔ ……۔ ۔ ظاہر ہے ڈیر یہ ابتدائی رابطہ تو ہم چھوٹے لوگوں کے درمیان بس پرانی دوستی کا معاہدہ ہے اصل معاہدہ تو کارپوریٹ سیٹھوں کے درمیان ہی ہو گا۔ ‘‘ ڈینی صاحب نے کرسی گھمائی تو میرے بے انتہا متجسس چہرے کو شاید انہوں نے میری بے زاری سمجھا اور مسٹر لی سے اپنی بات فوراً ہی سمیٹ دی۔

’’اچھالی میں کافی مصروف ہو گیا ہوں۔ تم ذرا feeler لو، سونگھو اچھی طرح ہر طرف، feasibility دیکھو۔ ہم پھر بات کریں گے۔ Bye ‘‘ ڈینی صاحب نے ریسیور رکھا اور یک دم اُٹھ کر میرے ساتھ بھر پور مصافحہ کیا ہے۔ میں تو خیر اب تک کئی حوالوں سے ان سے متاثر ہو چکا تھا لیکن میری کارپوریٹ بیک گراونڈ بھی یقیناً انہیں متاثر کر چکی تھی۔ اور جب ہم میز کے دونوں طرف آمنے سامنے کھڑے دو ملکی سربراہوں کی طرح ایک دوسرے کے بازوں کو جھٹکے دے رہے تھے میرے سیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ ہمارے چہروں پر مسکراہٹ آئی جو قہقہے میں بدل گئی۔

’’ساری‘‘ میں نے کہا۔

’’پلیز‘‘ انہوں نے کہا۔

وہی رحمان ظفر تھا۔ ڈینی صاحب گھومتی کرسی چھوڑ کر مانی کے کندھے پر ہاتھ رکھے اس کونے کی طرف بڑھ گئے جدھر کھانے پینے کی اشیا کا اہتمام کیا گیا تھا۔

’’ کم آن ماسٹر ہم دونوں تو سینڈوچ اڑانا شروع کرتے ہیں۔ پاپا آ جائیں گئے۔ ‘‘ مجھے اُن کی آواز سنائی دی۔

ظفر سے میں نے شروع میں ہی کہہ دیا کہ وہ ایم ڈی کا چمچہ نہ بنے لعن طعن کسی اور وقت پر اُٹھا رکھے اور ٹو دی پوائینٹ بات کرے۔ اور ٹو دی پوائینٹ بات جو اُس نے کی وہ یہ تھی کہ دودھ کی مصنوعات کو بصری طور پر ثقافت دوست بنا نے کے علاوہ گورے اس بارے میں بے حد حساس ہو رہے ہیں کہ پراڈکٹس خاص طور پر دہی، پنیر اور مکھن کی پیکنگ میں جو پلاسٹک استعمال ہو رہا ہے اُسے انسانی صحت کے لیے سو فیصد محفوظ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ اگر ہو سکے تو اس مقصد کے لیے، ماحولیاتی تحفظ کے لیے Bio-degradeableپلاسٹک استعمال کیا جائے۔ اب مسئلہ یہ ہے اگر یہ کام باہر سے کروایا جاتا ہے تو کمپنی اکانومی کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ ایم ڈی صاحب تمہیں یہ assignmentدینا چاہتے ہیں کہ تم اس مسئلے کا حل کسی طرح یہیں ڈھونڈو۔

میں نے ڈینی صاحب اور مانی کی طرف دیکھا اور پھر فون میں قہقہہ لگایا۔

’’ظفر صاحب میں نے مسئلے کا حل ڈھونڈ بھی لیا ہے بلکہ حل اس وقت میرے سامنے ہی بیٹھا سینڈوچ کھا رہا ہے۔ ‘‘

’’مسعود پلیز میں مذاق کے میں موڈ میں نہیں ہوں۔ ایک تو تم میٹنگ سے پھُٹ گئے اور اب یہ……‘‘

’’ میں بالکل مذاق نہیں کر رہا۔ ہمارے مسئلے کے حل کا نام ہے Dany the plastic man‘‘

’’کیا؟ کون؟ کہاں …کیسے …کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ ظفر کی آواز لڑکھڑا سی گئی۔

’’Dany the plastic man.‘‘ میں نے پھر کہا

’’کک۔ کون۔ کس نے بتایا …یہ تمہیں …۔ ۔ ‘‘

’’بتایا کسی نے نہیں ’نیلے ہاتھی کا بچہ‘ مجھے یہاں لے آیا۔ ‘‘

چند لمحوں کے لیے دوسری طرف ایک سراسیمہ سی خاموشی چھائی رہی پھر ظفر کی ڈری ڈری سے آواز سنائی دی۔

’’ مسعود۔ تم۔ تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے۔ ؟‘‘ ظفر کی تشویش اب اور بھی نمایاں تھی۔ اور شرارت مجھ پر حاوی تھی۔

’’’نیلے ہاتھی کا بچہ‘ ہو یا ’ پیلے ہرن کا چاچا‘ مسٹر لی کی کمپنی اور پیراگان پلاسٹکس میں شراکت کا معاملہ ہو یا ہمارے بیچارے ڈچ گوروں کے پنیر، دہی کی پیکنگ کے مسائل۔ مسائل جب بھی پلاسٹک کے ہوں گے مائی ڈیر۔ حل ایک ہی ہے۔ ‘‘

’’‘Dany man plastic man‘‘ میری بجائے ظفر نے کہنے کی کوشش کی۔

’’Exactly‘‘

میں ہنس پڑا اور اُسے کل ملنے اور خدا حافظ کہنے کے بعد فون بند کر دیا۔ ڈینی صاحب نے دور سے میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔

’’کافی تیار ہے ‘‘

پلاسٹک انجینیر ڈینی برگینزا نے … جو اپنے آپ کو پلاسٹک آرٹسٹ کہنا زیادہ پسند کرتا ہے …کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے پلاسٹک مسائل کیسے حل کیے یہ ایک الگ کہانی ہے اگرچہ اتنی الگ بھی نہیں کہ میں خود اس دنیا کا بھی باشندہ ہوں۔ لیکن جیسا میں نے پہلے سوچا تھا کہ ’’ اِس شخص سے سب بات ہو سکتی ہے ‘‘ وہ بات میں نے کی۔ کچھ مانی کے سامنے اور کچھ الگ۔

مانی کا خواب سن کر تو ڈینی صاحب جیسے وجد کی کیفیت میں آ گئے بار بار I love it اور I simply love it جیسے الفاظ بے ساختہ ان کے منہ پر آتے تھے اور گھومتی کرسی میں نہ بیٹھے ہونے کے باوجود جھوم جاتے تھے۔ پھر ہماری دن بھر کر روداد سن کر فلک شگاف قہقہے لگائے لیکن جب خواب کی پلاسٹک تعبیر کا معاملہ سامنے آیا تو اک دم اُداس ہو گئے۔

’’میں آپ کو دنیا بھر کے toy manufacturers کے کیٹالاگ دکھا سکتا ہوں۔ ٹوائے لینڈ پلاسٹکس IIکا ہی حصہ ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا …۔ کیا کہیں گے …خوابوں کے کھلونے کبھی بنے بنائے ملتے ہیں۔ لیکن یہ بنتے کیسے ہیں یہ میں Dreamer boyکو بتا سکتا ہوں۔ ‘‘ انہوں نے مانی کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔ اور ایک طرف رکھے کمپیوٹر کی طرف اشارہ کیا۔

سب سے پہلے تو انہوں نے بصری آرٹ کا کوئی مخصوص سافٹ ویر چلایا۔ اور پھر مانی سے بار بار ہر تفصیل پوچھ کر اُس کے خواب کی ایک تصویر اتنی رنگین اور حقیقی بنائی کہ مانی خوشی سے قہقہے لگانے لگا۔ پھر انہوں نے سبز، پیلے، کالے، سرخ پھولوں اور گلابی گھاس میں پھرتے ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کو ایک digitalآہستگی سے اُٹھایا اور ایک دوسری جگہ اتار کر چند ہی اشاروں میں اُسے ایک مجسم، گھومتے ہوئے 3Dماڈل کی شکل دے دی۔

’’یہی ہے ؟‘‘ ڈینی صاحب نے پوچھا۔

’’یہی ہے ؟‘‘ مانی نے لرزتی ہوئی سی آواز میں کہا۔ اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔

’’اب سوال یہ ہے کہ اس شیطان کو سکرین سے باہر کیسے نکالا جائے۔ اور یہاں ہمارا پلاسٹک کا جادو چلتا ہے۔ لیکن سب سے پہلے ہمارا ماڈل میکر اس ماسٹر فِگرسے، clayیا plasticene میں ایک پلاسٹر ماڈل بنائے گا پھر اُس سے ایک ماسٹر مولڈ بنے گا۔ ہم thermoplasticsمیں سے کوئی پیار سا، میرا خیال ہے polysterene چنیں گئے اُسے یہ والا نیلا رنگ دیں گے اور پھر اُسے پگھلا ہوا گرما گرم injection moulding کے ذریعے ماسٹر مولڈ میں ڈال دیں گے۔ انتظار کریں گے۔ انتظار تو کرنا پڑتا ہے نا۔ …۔ ۔ اور یہ لو پہلا ’نیلے ہاتھی کا بچہ ‘ پیدا ہو گیا۔ ‘‘

ہم تینوں نے قہقہے لگائے۔ ڈینی صاحب آگے بولے۔

’’ لیکن یہ …۔ یہاں ایک مصیبت پڑے گی۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘ مانی نے پوچھا۔ اور میں کچھ سمجھ گیا کہ وہ مصیبت کیا ہو گی۔

’’ ابھی ہمارا کسٹمر صرف ایک ہے۔ پہلا sample batch بھی ایک ہو گا۔ اس لیے ………۔ ‘‘ ڈنیی صاحب نے میری طرف دیکھا۔

’’مانی اس طرح ’ نیلے ہاتھی کا بچہ‘ لاکھوں کا بنے گا‘‘ میں نے خاصے گنوار پن سے کہا۔

’’ تقریباً آٹھ دس لاکھ میں۔ لیکن جب ہزاروں کی تعداد میں بنے گا تو یہی پانچ سو کا ہو جائے گا۔ ‘‘ انہوں نے کہا۔

میرا خیال تھا کہ مانی مایوس ہو گا۔ لیکن پھر میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کو لاکھوں کا ہی رہنے دینا چاہتا ہے۔ اُس نے میری طرف دیکھا اور ہم دونوں میں یہ احساس تھا کہ ہم اپنی تلاش، اور کامیاب تلاش کے اختتام تک پہنچ چکے ہیں۔

ہمیں رخصت کرتے وقت ڈینی صاحب نے دو باتیں کیں۔ ایک تو انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ خواب اور 3D گرافکس کی فائیلیں ہمیں ای میل کر دیں گے۔ دوسرے انہوں نے مانی سے ہاتھ ملاتے ہوئے اور میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ کم آن مائی بوائے۔ ابھی امید ہے تمہارا باپ، جو میں کہوں گا ایک مثالی باپ ہے …اور ہم اور ہانگ کانگ شاید مل کر کچھ کام کریں گے۔ اس سب میں کیا پتہ plastics II کھلونے بنا نے کا فیصلہ کر ہی لے۔ میں یہ گرافکس سنبھال کر رکھوں گا مسٹر مسعود۔ ‘‘

’’Sure۔ تھینک یو۔ ‘‘ میں نے پلاسٹک کے بنے آدمی سے گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

ہم باہر گاڑی تک آئے تو رات کے نو بج چکے تھے۔ اس دوران فری کے تین میسج آ چکے تھے۔ اور ہر بار میں نے یہی جواب دیا تھا ’’ معاملات کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ فکر نہ کرو۔ ‘‘ اب جب کہ کامیابی ہو چکی تھی تو ہمیں سیدھا گھر کا رُخ کرنا چاہیے تھا لیکن میری نیت اس دوران خراب ہو چکی تھی۔

’’ مانی یار آج کی مہم کو تو اب celebrate کرنا چاہیے۔ ‘‘ میں نے اُسے ترغیب دیتے ہوئے کہا اور اُس نے پُر جوش تائید کی۔ اب ظاہر ہے celebrationکے لیے پرانے شہر کی اُس پرانی گلی میں ملتے کبابوں اور روایتی کھانوں سے بہتر چیز اور کیا ہو سکتی تھی۔

٭٭٭

 

گھر پہنچے تو پہلے تو یہی کھانے ہمارے گلے پڑ گئے۔ دانشمندی کا تقاضہ یہ تھا کہ یہ ذکر گول ہی کر دیا جاتا لیکن جب فری نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو مانی کے سامنے جھوٹ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ خیر بتایا کہ دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد، بھوک سے نڈھال ہو کر مجبوراً جا کر یہ سب کچھ کھانا پڑا۔ اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ماں بیٹی نے شدید احتجاج کیا۔

’’ ادھر ہم دونوں غریبنوں نے آملیٹ کھا کر گذارا کیا۔ آپا حمیداں ابھی تک آئی نہیں اور تم دونوں باپ بیٹا اُدھر کباب پراٹھے اُڑاتے رہے۔ حد ہے۔ ‘‘

خیر یہ معاملہ اس وعدے پر رفع دفع ہوا کہ جلد ہی انہیں بھی ان نعمتوں سے مستفید کیا جائے گا۔ حالات نارمل ہوتے ہیں اصل بات کا تجسس ارم پر غالب آیا۔

’’کھلونا ملا؟ کہاں ہے ؟‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’لمبی بات ہے۔ ‘‘ مانی نے کہا اور میں نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا مجھے یوں محسوس ہوا کہ ایک ہی دن میں وہ کہیں زیادہ mature ہو گیا ہے۔ فری کو بھی میرا جواب فی الحال یہی تھا۔ ہم ابھی لوینگ روم میں بیٹھے تھے۔ لیکن ارم مانی کو نظر انداز کر کے مجھ سے دن بھر کی روداد سننا چاہتی تھی۔ میں نے دن بھر کے واقعات کا ایک بنیادی لیکن مختصر خاکہ پیش کر دیا۔

’’ باقی مانی بتائے گا۔ ‘‘ میں نے پوری ذمہ داری سے کہا اور ارم بادنخوستہ اُسے دھکیلتی ہوئی اُس کے کمرے میں لے گئی۔ آخر ہم دونوں نے اپنے کمرے کا رخ کیا۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض فلم پروڈیوسر اچھی خاصی دلچسپ، کامیاب لیکن ’صاف ستھری‘ فلم میں بھی جب تک ایک آدھ بیڈ روم سین نہ ڈال لیں انہیں تسلی نہیں ہوتی۔ خواہ اس سین کے واقعات بالکل فالتو ہی کیوں نہ ہوں۔ ’نیلے ہاتھی کے بچے ‘ کا دن ایک فلم نہ سہی لیکن ایک بہت دلچسپ اور کامیاب دن ضرور تھا اور اس میں بیڈ روم تو کیا کسی بھی قسم کا مزید کوئی سین ڈالنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن فری کو ’لمبی بات‘ پوری تفصیل سے سننانے کے بعد پیش آنے والا ایک چھوٹا موٹا واقعہ بہرحال فالتو نہ تھا کیونکہ اُس کا تعلق بھی اُس دن کے اصل موضوع سے ہی تھا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اُسے مناسب سینسر کے بعد روداد میں شامل کر لینے میں کوئی ہرج نہیں۔

فری سب کچھ سنتی رہی، پوچھتی رہی، ہنستی رہی۔ ہر واقعے، ہر بات، تفصیل پر اس کی آنکھیں اور ہونٹ کھُلتے اور بند ہوتے رہے۔ ساتھ ساتھ مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے بھی کئی طرح کے حساب کتاب لگا رہی ہے۔ بات ختم ہوئی تو اُس نے ایک لمبی ہوں کی اور لمبی سانس لی اور پھر عجیب انتظامی سے لہجے میں بولی۔

’’ تو یہ ہوا۔ دیکھو سودی۔ اب یہ تو طے لگ رہا ہے کہ تمہاری فرم کچھ نئی پراڈکٹس مارکیٹ کرے گی اور سیف پیکجینگ کا بہت رولا ڈالے گی یعنی زبردست پبلسٹی ہو گی۔ اگر تم یہ ایڈورٹایزینگ campaign کسی طرح Cyclop کو دلوا دو تو مزہ آ جائے۔ غار بہت خوش ہو جائے گا۔ اُس کی غار اور بھی بھر جائے گی اور سمجھ لو میری آرٹ ڈائریکٹرشپ پکی۔ …یہ کرو۔ ‘‘

’’ہوں اور وہ گوند اور بھی تمہارے ساتھ چپک جائے گا۔ ‘‘ میں نے کہا ویسے سوچا کہ بات تو کمال کی ہے اور ہو بھی سکتی ہے۔ پھر میں سونے کے کپڑے پہننے کے لیے اُٹھا تو فری آ کر میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔

’’پھر۔ بولو ناں …‘‘

’’دیکھتے ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا

’’ دیکھتے کیا ہیں۔ ہاں ہاں …ابھی تو یہ دیکھو…۔ ۔ ‘‘ اُس نے غور سے میری طرف دیکھا اور پھر دائیں ہاتھ سے ایک چپت میرے پیٹ پر ماری۔

’’دو درجن کباب تو ادھر تم نے ڈالے ہوں گے …۔ دیکھو سودی کچھ خیال کرو۔ اگر تم ایسے ہی کھاتے رہے تو قسم خدا کی ہاتھی بن جاؤ گے۔ ‘‘

بس اُس کے اس فقرے کے بعد کچھ ہوا۔ وہ یک دم خاموش ہوئی اُس کا منہ اب کسی نامعلوم جذبے سے کھُل گیا اور پھر بے تحاشہ ہنسنے لگی۔

’’کیا ہوا؟‘‘

مجھے کوئی جواب دینے کی بجائے وہ تیزی سے وارڈ روب کی طرف گئی اور وہاں سے نیلے رنگ کی اپنی ایک شال نکال لائی۔ میں حیرت سے سوچ ہی رہا تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے کہ اُس نے وہ شال مجھے اُڑھائی اور پھر کھینچتی ہوئی مجھے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لے گئی۔ اور اُس وقت مجھے سمجھ آئی کہ وہ مجھے کیا بنا رہی ہے اور آگے کیا بنانا چاہتی ہے۔

’’دیکھو سودی میرا……‘‘ اُس نے بمشکل ہنسی روکتے ہوئے کہا۔ ’’ میرا خیال ہے کہ مانی کا ایک اور بھائی بہن ہونا چاہیے۔ دو بچے اپنی اپنی جگہ اکے لیے رہ جاتے ہیں۔ میں کل سے pill چھوڑ رہی ہوں۔ ‘‘

’’نیلے …ہاتھی…کا…بچہ۔ ‘‘ میرے منہ سے یہ الفاظ ایسے نکلے جیسے دن بھر نہ نکلے تھے۔ اور فری پر ہنسی کا پھر ایسا دورہ پڑا کہ مجھے اُس کے کھلے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے بند کرنا پڑا۔

بعد میں ہم نے سنجیدگی سے بھی اس حل کا جائزہ لیا۔ رات کافی آگے جا چکی تھی۔ ویسے بھی ایک نئے دن کا آغاز ہو چکا تھا۔ آخر ہم اسی نتیجے پر پہنچے کہ فی الحال دو تین ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انہیں ایڈورٹائز کرنے والی ایک ملکی کمپنی کے مشترکہ مسائل ایک جیتے جاگتے ’’ نیلے ہاتھی کے بچے ‘‘ کی آمد کی اجازت نہیں دیتے۔ فری نے کروٹ بدلی اور سو گئی۔ میں نے بھی سائیڈ لیمپ مدھم روشن کر کے تکیے کے نیچے سے اپنی نیند سے پہلے کی کتاب اگا تھا کرسٹی کی ’لائیبرری میں قتل ‘ ڈھونڈھ نکالی۔

اُس رات میں نے ایک خواب دیکھا جو اکثر خوابوں کی طرح دن بھر کے واقعات کا ایک مضحکہ خیز خوابی replayتھا۔ میں نے دیکھا کہ سرسبز گھاس اور رنگ برنگے پھولوں سے بھری ایک جگہ ہے۔ ہمارا ایم ڈی، تمام مینیجر، آفیسر دوسرا عملہ اور ڈچ گورے ہر طرف ٹولیوں کی شکل میں موجود ہیں۔ وہ سب پلاسٹک کے بڑے بڑے ڈبے ہاتھوں میں پکڑے دہی کھا رہے ہیں۔ ڈبے ختم ہونے پر نیاموں انہیں نئے ڈبے کھول کھول کر دیتا جا رہا ہے۔ ان کے کھانے سے پچاک پچاک کی آوازیں آ رہی ہیں۔ فری میرے ساتھ ہے۔ فری کہتی ہے۔ ’’ نہیں یہ بہت crudeہے ڈارلنگ۔ یہ تھیم گنوارو ہے۔ کچھ اور سوچو ADکے لیے۔ ‘‘ اچانک سڑیل کھلونا فروش ٹریفک سارجینٹ کی ہیوی موٹر سائیکل دوڑاتا آتا ہے۔ وہ چیختا ہے۔ ’’ تم یہاں ٹریفک روک رہے ہو۔ تمہیں یہاں دہی کھانے کی اجازت کس نے دی ہے۔ ڈینی صاحب مانی کو ایک نیلے ہاتھی کے بچے پر بٹھائے آ جاتے ہیں۔ ’’میں نے اجازت دی ہے مین۔ ‘‘ ’’ تم کون ہو؟‘‘ کھلونا فروش پوچھتا ہے۔ ’’I am Dany the plastic man‘‘۔

٭٭٭

ماخذ:

http://humshehrionline.com/?p=12182#sthash.YD4BnB7j.dpuf

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید