FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نیا بھائی

معراج

بات صرف یہ تھی کہ پپو چھوٹا سا تھا، اس لیے اس کا بڑا بھائی ہاشم ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتا اور پپو میاں کو ڈانٹتا اور پٹائی کرتا رہتا۔ اس دن بھی ہاشم نے پپو کو صرف اس بات پر مارا کہ وہ "چور سپاہی” کھیلنا نہیں چاہتا تھا۔ شاید یہ پہلا موقع تھا کہ پپو میاں نے کھیلنے سے انکار کیا تھا۔

ہاشم غصے سے چلایا: "تم بالکل احمق ہو۔ اگر تم میرے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتے تو جاؤ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ میں اکیلا ہی کھیل لوں گا۔”

پپو نے روتے ہوئے کہا: "تم مجھے ہمیشہ چور بناتے ہو اور جب مجھے پکڑ لیتے ہو تو اس زور سے چلاتے ہو کہ میرے سر میں درد ہو جاتا ہے۔ جب کبھی تم "ماسٹر جی” والا کھیل کھیلتے ہو تو ہمیشہ ماسٹر جی بن جاتے ہو اور شاگرد مجھے بناتے ہو۔ پھر مجھے کبھی مرغا بناتے ہو، کبھی کرسی پر کھڑا کر دیتے ہو۔ میں یہ باکل پسند نہیں کرتا۔”

ہاشم نے کہا: "تم مجھ سے چھوٹے ہو، اس لیے جو کچھ میں کہوں گا وہ تمہیں ماننا پڑے گا۔ اب تم رونا دھونا بند کرو، ورنہ میں بری طرح پٹائی کروں گا۔”

ہاشم کی اس دھمکی کا پپو پر الٹا اثر ہوا۔ وہ اور زور زور سے رونے لگا۔ تب ہاشم نے تلملا کر پپو کے دو تین چانٹے لگا دیے اور غصے سے بولا: "کاش کہ تم میرے بھائی نہ ہوتے۔”

پپو زور زور سے رونے لگا۔ عین اسی وقت جھاڑیوں میں سے ایک باریک سی آواز سنائی دی: "کیوں میاں! کیا بات ہے؟ تم اس زور زور سے کیوں رو رہے ہو؟”

پھر آواز نے قریب سے کہا: "میاں صاحب زادے! تم اس بچے کو کیوں مار رہے ہو؟ اس نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟”

دونوں نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ تب ایک داڑھی والا بونا قریبی جھاڑی سے پھدک کر باہر نکلا۔ دونوں لڑکے اسے دیکھ کر ٹھٹک گئے۔ بوڑھے کی لمبی سی داڑھی ہوا میں لہرا رہی تھی۔ اس کی پکوڑا سی ناک پر گول شیشوں کی عینک ٹکی ہوئی تھی۔ بوڑھے بونے نے کہا: "میں حکیم بربروس ہوں۔ بد اخلاق اور بد تمیز لوگوں کا اخلاق سدھارا کرتا ہوں۔ یہاں سے گزر رہا تھا کہ تم لوگوں کے لڑنے بھڑنے کی آواز سنی۔”

ہاشم بونے کی طرف دیکھ کر ہنسا اور بولا: "جاؤ بڑے میاں! اپنا راستہ ناپو۔ جو لوگ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہیں آخر ان کی ناک کٹ جاتی ہے۔”

حکیم بربروس نے آنکھیں نکال کر دیکھا اور بولا: "ہوں،تم خود میاں فضیحت ہو اور دوسروں کو نصیحت کرتے ہو۔ کیوں برخوردار! بڑوں کی باتوں پر نکتہ چینی کرنے کا سبق تم نے کس کتاب میں پڑھا ہے؟ اچھی نصیحت قبول نہ کرنے کا مشورہ کس استاد نے دیا ہے؟ چھوٹوں سے بد سلوکی کا سبق کس اسکول میں سکھایا جا تا ہے؟”

اب ہاشم کو غصہ آ گیا۔ وہ زور زور سے چیخنے لگا: "بالشت بھر کا بونا اور گز بھر کی زبان! میں کہتا ہوں تم اسی وقت یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ، ورنہ میں تمھاری مرمت کروں گا کہ تم زندگی بھر یاد رکھو گے۔ دفع ہو جاؤ فوراَ ورنہ۔۔۔ ”

الفاظ ہاشم کے منہ میں ہی رہ گئے، کیوں کہ حکیم بربروس نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر پھونکا اور ہاشم جہاں تھا وہاں بت بنا رہ گیا۔ تب حکیم بربروس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بولا: "بس! اب بتاؤ تم میرا کیا بگاڑ لو گے؟ بے وقوف لڑکے! جو لوگ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کم زوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں ان کا ایسا ہی حشر ہوا کرتا ہے۔ حضرت انسان میں یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ کم زور کے آگے شیر اور زور آور کے سامنے بھیڑ بنا رہتا ہے۔”

پپو نے نے ہمت کر کے کہا: "اچھے حکیم صاحب! آپ میرے بھیا کو معاف کر دیجیئے۔ آئندہ وہ کبھی ایسی بدتمیزی نہیں کریں گے۔”

حکیم بربروس داڑھی پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ کافی دیر غور کرنے کے بعد بولے: "بیٹے!پرانا مرض بغیر علاج کی خود بخود دور نہیں ہو جایا کرتا، بلکہ میرا تو مشاہدہ یہ ہے کہ علاج کے بغیر مرض روز بروز بڑھتا ہی رہتا ہے، اس لیے میرے نیک دل بچے! تم مجھے اپنے طور پر مریض کا علاج کرنے دو۔”

پپو حیرانی سے بولا: "آپ بھیا کو کیا دوا دیں گے؟”

حکیم بربروس قہقہہ لگا کر بولا: "بیٹا جو لوگ مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتے وہ خیر و عافیت کی قدر نہیں جانتے۔ یہ فلسفہ ابھی تمہاری عقل میں نہیں آئے گا، البتہ جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو یقیناً سب باتوں کو سمجھنے لگو گے۔ اچھا! اب تم گھر جاؤ، میں ذرا دیر بعد تمھارے بھائی کو بھیجتا ہوں۔ پھر تم اسے بالکل بدلا ہوا پاؤ گے۔”

پپو نے جانے سے پہلے حکیم بربروس کو سلام کیا اور اللہ حافظ کہا۔ جواب میں حکیم بربروس نے اس کی عمر کی درازی کی دعا دی اور اللہ حافظ کہا۔

اب حکیم بربروس نے ہاشم کی طرف متوجہ ہوا جو اب تک بت بنا کھڑا ہوا تھا۔ حکیم صاحب نے کہا: "ہاں تو برخوردار! تمھیں اپنے بھائی سے شکایت ہے کہ وہ سخت نالائق ہے اور تمھارا کہنا نہیں مانتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ میں پپو کے بجائے تمھیں ایک بے حد دلچسپ، پر مذاق اور کھلنڈرا بھائی دے دوں۔ بولو منظور ہے تمھیں؟”

ہاشم نے بہت مشکل سے سر ہلا کر ہاں کہی، تب بربروس صاحب نے کوئی منتر پڑھا اور دوچار دفعہ ہوا میں ہاتھ گھما کر کہا: "مجھے ایک بے حد دلچسپ، پر مذاق اور کھلنڈرا لڑکا چاہیے، جو ہاشم کا بڑا بھائی بن سکے۔”

اس کے ساتھ ہی ایک بگولا سا اٹھا۔ حکیم بربروس غائب ہو گیا اور اس جگہ ایک ٹیڈی قسم کا لڑکا نمودار ہو گیا۔ ہاشم پر سے بھی جادو کا اثر ختم ہو گیا۔ شکل و صورت سے ہی یہ لڑکا بہت نٹ کھٹ اور لڑاکا نظر آ رہا تھا۔ حکیم بربروس کی آواز کہیں دور سے سنائی دی: "لو میاں ہاشم! یہ ہے تمھارا نیا بھائی۔ تم اس کے ساتھ دل بھر کے کھیلو۔ جب تم اکتا جاؤ تو اسی جگہ آ جانا اور زور زور سے پکارنا: "حکیم بربروس! حکیم بربروس!”میں فورا آ جاؤں گا۔”

اب ہاشم اس لڑکے کی طرف متوجہ ہوا اور بولا: "تمھارا کیا نام ہے۔”

اس لڑکے نے ہاشم کے ایک زور دار چانٹا مارا اور بولا: "بدتمیز! بڑوں سے اس طرح بات کی جاری ہے۔ آخر تمھیں کب عقل آئے گی؟”

ہاشم کو شاید پہلی بار ایک دھکا سا لگا۔ عادت کے مطابق اس نے چیخ چلا کر کہا: "ذرا تمیز سے با ت کرو لڑکے! جانتے ہو میں ہاشم ہوں۔ تمھارا دماغ ٹھکانے لگا دوں گا ہاں؟”

وہ لڑکا لپک کر آگے آیا اور ہاشم کو گدی سے پکڑ کر بولا: "بدتمیز! بے ہودہ لڑکے تیر ی یہ مجال۔ یاد رکھنا میرا نام مٹو ہے۔ میں تم جیسے بد تمیز اور بے ہودہ لڑکوں کا دماغ درست کرنا اچھی طرح جانتا ہوں۔”

یہ کہ کر اس نے ہاشم کو دو چار جھٹکے اتنی زور زور سے دیے کہ اس کی بتیسی بجنے لگی۔ پہلی بار ہاشم نے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ جوں ہی مٹو نے اسے چھوڑا ہاشم آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا۔ مٹو زور سے چلایا: "بھاگ کر کہا جاؤ گے؟ چلو ادھر آؤ اور میرے ساتھ چور سپاہی کھیلو۔”

ہاشم نے کہا: "میں سپاہی بنوں گا۔”

مٹو لال لال دیدے نکال کر بولا: "کیوں جی تم سپاہی کیسے بن سکتے ہو بھلا؟ تم مجھ سے چھوٹے ہو، اس لیے تمھیں میرا ہر کہنا مانا پڑے گا۔ چلو بنو چور۔”

ناچار ہاشم کو چور بننا پڑا۔ وہ جھاڑیوں میں چھپ گیا،لیکن مٹو نے اسے فوراَ ہی ڈھونڈ نکالا۔ مٹو نے چھلانگ مار کر ہاشم کو چت گر دیا اور اس کے کان میں زور سے چلایا: "ہاہا پکڑ لیا چور۔”

ہاشم کے کان میں درد ہونے لگا۔ وہ منہ بسورتے ہوئے بولا: "تم اس زور سے چلائے ہو کہ میرے کان میں درد ہونے لگا ہے۔”

مٹو اس کا کان کھینچ کر بولا: "دیکھوں کہاں درد ہے تمہارے؟ ہوں اب سمجھا۔ جب پکڑے گئے تو بہانا کرنے لگے۔”

بے چارے ہاشم کا برا حال تھا۔ اس نے کھلنڈرا اور پر مذاق لڑکا بے شک مانگا تھا، لیکن ایسے جلاد صفت بھائی کی درخواست نہیں کی تھی۔ شاید اس کے خیالات مٹو نے بھی پڑھ لیے۔ وہ ہاشم کو جھنجوڑ کر بولا: "تم نے دیکھا میں کتنا دلچسپ اور پر مذاق ہوں۔ کیوں ہے نا؟”

ہاشم نے سر ہلا دیا۔ مٹو بولا: "آؤ اب اسکول کھولیں۔”

ہاشم خوش ہو کر بولا: "میں ماسٹر بنوں گا۔”

مٹو نے ہاشم کے ایک چانٹا مارا اور غصے سے بولا: "کیوں بھئی، تم کیسے ماسٹر بن سکتے ہو؟ کیا تم نے آج تک چھوٹا سا ماسٹر اور بڑے بڑے لڑکے دیکھے ہیں کہیں؟”

ہاشم منہ بسورتے ہوئے بولا: "نہیں نہیں، ماسٹر میں بنوں گا”

مٹو نے ہاشم کے دو تین ہاتھ رسید کیے اور بولا: "پھر وہی بکواس کیے جا رہے ہو۔ میں بڑا ہوں، اس لیے میں ماسٹر بنوں گا۔”

ہاشم نے بڑی بحث کے بعد مٹو کی بات مان لی۔ مٹو ہاشم کا سبق سنا اور اس میں دو تین غلطیاں نکال کر اسے میز پر کھڑا ہونے کی سزا دے دی۔ ہاشم نے اکڑ کر کہا: "میں میز پر ہر گز کھڑا نہیں ہوں گا۔”

مٹو نے ہاشم کو گدی سے پکڑ جھٹکا دیا اور ہاشم زمین پر گر پڑا۔ مٹو نے کہا: "دیکھتا ہوں کہ اب تم کیسے میرے حکم سے انکار کرو گے۔”

ہاشم نے روتے ہوئے کہا: "تم مجھے بالکل پسند نہیں ہو۔”

مٹو جھلا کر بولا: "بڑے آئے ہو نا پسند کرنے والے۔ اپنی شکل بھی دیکھی ہے کبھی؟”

ہاشم آنسو پونچھ کر بولا: "تم پپو سے کتنے مختلف ہو۔”

مٹو فخر سے بولا: "جو سلوک تم نے پپو سے کیا، وہی آج میں تم سے کر رہا ہوں۔”

ہاشم آہستہ سے بولا: "میرا خیال ہے ہم یہ فضول سا کھیل بند کر کے کوئی اور کھیل کھیلیں، مثلاً لوڈو۔”

مٹو نفرت سے بولا: "ہونہہ تمھارے بھس بھرے دماغ سے باتیں بھی فضول ہی نکلتی ہیں، بھلا لوڈو بھی کوئی کھیل ہے؟ آؤ ڈاکٹر مریض کھیلیں۔”

ہاشم نے کبھی یہ کھیل نہیں کھیلا تھا۔ اس نے پوچھا: "یہ کھیل کیسے کھیلتے ہیں؟”

مٹو بولا: "ہم میں سے ایک مریض بن کر زمین پر لیٹ جائے گا۔ ڈاکٹر اس کا معائنہ کر کے دوا لکھے گا”

ہاشم بولا: "ٹھیک ہے، میں ڈاکٹر بنوں گا۔”

مٹو نے ڈانٹ کر کہا: "کیوں تم ڈاکٹر کیسے بن سکتے ہو؟ یہ کھیل میں نے تجویز کیا ہے اور پھر میں بڑا بھی ہوں، اس لیے میں ڈاکٹر بنوں گا۔ اب تم جلدی سے لیٹ جاؤ زمین پر۔”

ہاشم نے کہا: "میں مریض نہیں بنوں گا۔”

مٹو نے لال آنکھیں نکال کر ہاشم کو گھورا: "دیکھتا ہوں کہ تم میرے حکم سے کیسے انکار کرتے ہو؟” یہ کہہ کر مٹو نے دھکا دے کر ہاشم کو زمین پر گرا دیا۔ ہاشم کا غصے اور جھنجلاہٹ سے برا حال تھا۔ مٹو ہاشم کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور اس کی نبض ٹٹولنے لگا۔

ہاشم روہانسا ہو کر بولا: "اللہ کے واسطے مجھے چھوڑ دو، میں بالکل ٹھیک ہوں۔”

مٹو ڈانٹ کر بولا: "خاک ٹھیک ہو تم۔ چپ چاپ لیٹے رہو۔ بکواس کرنے اور رونے دھونے والے مریض مجھے بالکل پسند نہیں۔”

ہاشم بسور کر بولا: "میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے چھوڑ دو۔”

مٹو نے ہاشم کے سینے کو ٹھونک بجا کر دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی، کانوں کو مروڑا اور ایک لمبا سانس لے کر بولا: "ہوں تمھیں ملیریا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹائیفائڈ بھی ہے۔ کچھ چیچک کا اثر بھی ہے اور نمونیا بھی ہے۔ تمھیں آرام کی سخت ضرورت ہے، اس لیے تمھیں ہلنا جلنا بالکل نہیں چاہیے۔ میں ابھی تمہارے لیے دوا اور انجکشن لاتا ہوں۔”

"بھئی اب مجھ سے نہیں لیٹا جاتا۔” ہاشم اٹھنے لگا۔ مٹو نے دھکا دے کر اسے پھر گرا دیا اور بولا: "تم نرے کوڑھ مغز ہو۔ آخر تمہاری سمجھ میں کب آئے گا کہ تم بہت سخت بیمار ہو؟ میں کہتا ہوں اب تم ہلنے جلنے کی کوشش نہ کرنا۔ میں ابھی تمہارے لیے دوا لاتا ہوں۔”

ہاشم کا غصے اور جھنجلاہٹ سے برا حال تھا، لیکن وہ مٹو کے سامنے بالکل بے بس تھا۔ مٹو اس زور آور کی طرح تھا، جو مارتا بھی تھا اور رونے بھی نہیں دیتا تھا۔

تھوڑی دیر بعد مٹو نہ جانے کہاں سے ایک کٹوری لے آیا۔ اس میں سبز رنگ کا پانی تھا۔ مٹو نے زبردستی یہ پانی ہاشم کے منہ میں انڈیل دیا اور ہاشم کا منہ سخت کڑوا ہو گیا۔ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا اور تھوکنے لگا۔ ادھر مٹو نے ہاشم کے بازو میں ایک سوئی چبھو دی۔ درد تکلیف سے ہاشم کی چیخ نکل گئی۔ اب اس سے ضبط نہ ہو سکا۔ وہ زور زور سے رونے لگا اور ہچکیاں لے لے کر بولا: "تم بہت برے ہو۔ تم نے ایسی دوا دی ہے۔ جس سے میرے منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا۔ سوئی کی تکلیف سے میرا بازو درد کر رہا ہے۔ میں اب ہرگز تمہارے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔”

ہاشم اٹھنے لگا، لیکن مٹو نے دھکا دے کر اسے زمین پر گرا دیا۔ اس دھینگا مشتی میں ہاشم کو بہت چوٹیں آئیں۔ ہاتھ کی ایک انگلی بھی کچلی گئی۔ ہاشم بلند آواز سے رونے لگا۔ مٹو نے اس کی انگلی کو زور سے پکڑا اور دبا دبا کر دیکھنے لگا۔ پھر بولا: "کہیں درد تو نہیں ہو رہا ہے تمہارے؟ اچھا خیر، میں ابھی اس کی مرہم پٹی کیے دیتا ہوں۔”

یہ کہہ کر مٹو نے ہاشم کا رومال پھاڑ کر ایک پٹی بنائی اور ہاشم کی انگلی پر اتنی کس کر باندھی کہ اس کے ہاتھ میں تکلیف اور زیادہ ہو گئی۔

ہاشم اور زور زور سے رونے لگا اور بولا: "میرا ہاتھ چھوڑ دو۔ تم نے اتنی کس کر پٹی باندھی ہے کہ مجھے سخت تکلیف ہو رہی ہے۔”

مٹو نے ہاشم کے ایک طمانچے مار کر کہا: "رونے والے بچے مجھے بالکل پسند نہیں آتے۔ جب دیکھو منہ پھاڑ ے آنسو بہاتے رہتے ہو۔ کاش کہ تم میرے بھائی نہ ہوتے۔”

تب ہاشم کو اپنے الفاظ یاد آ گئے۔ پھر سب واقعات فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگے۔ اس کو اچھی طرح احساس ہو گیا کہ وہ ایسا ظالمانہ رویہ اپنے چھوڑے بھائی سے بھی کرتا رہا ہے۔ یقیناً اسے اس کی سزا مل رہی ہے۔ تب اسے حکیم بربروس کے الفاظ بھی یاد آ گئے کہ تم اپنے نئے بھائی سے اکتا جاؤ تو زور زور سے پکارنا: "حکیم بربروس! حکیم بربروس”

ہاشم زور زور سے چلانے لگا: "حکیم بربروس! تم کہاں ہو۔ اللہ کے واسطے میری مدد کرو اور مجھے اس مصیبت سے بچاؤ۔”

اسی وقت ایک بگولا سا اٹھا۔ حکیم بربروس پلک جھپکنے کے عرصے میں وہاں حاضر ہو گیا اور اسی لمحے مٹو ہوا میں غائب ہو گیا۔ حکیم بربروس نے ہاشم کو تسلی دی، اس کے آنسو پونچھے اور پوچھا: "کیا بات ہے برخوردار! تم نے مجھے کس لیے پکارا ہے؟”

ہاشم بولا: "مجھے اب بہت نصیحت ہو گئی ہے۔ اللہ کے واسطے مجھے معاف کر دیجیے۔ میں اب چھوٹو ں سے شفقت اور بڑوں کے ساتھ احترام سے پیش آؤں گا۔”

حکیم بربروس نے قہقہہ لگا کر اس کے کندھے تھپ تھپائے اور بولا: "بے شک! اب تم اشرف المخلوقات ہو بیٹے! جب انسان میں شرافت، عزت، احترام، شفقت اور مہربانی جیسے پاک جذبات باقی نہ رہیں تو وہ ارذل المخلوقات، یعنی مخلوق میں سب سے زیادہ ذلیل بن جاتا ہے۔ بولو تمہیں کیا بننا منظور ہے؟”

ہاشم پر جوش لہجے میں بولا: "میں اشرف المخلوقات بنوں گا۔”

ہاشم کی کایا ہی پلٹ گئی ہے اگر تم اب اسے دیکھو تو اس کی شرافت اور نیکی دیکھ کر تم خود بھی کہو گے کہ ہاشم بہت نیک لڑکا ہے۔

٭٭٭
ٹائپنگ:وجی
پروف ریڈنگ :فہیم اسلم، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید