

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. کتاب کا نمونہ پڑھیں
فہرست مضامین
- نغمہ زار
- سید انور جاوید ہاشمی
- منتخب شعراء کے طبع زاد ہائیکو
- اظہر عباس
- افضل مراد
- اقبال حیدر
- امداد نظامی
- پیر زادہ قاسم رضا صدیقی
- تابش دہلوی
- ثروت سلطانہ ثروت
- جمال نقوی
- راغب مراد آبادی
- رسا چغتائی
- رئیس علوی
- سحر انصاری
- سہیل احمد صدیقی
- سہیل غازی پوری
- سید انور جاوید ہاشمی
- سید معراج جامی
- شبہ طراز
- شہاب الدین شہاب
- شہزاد نیاز
- صدف جعفری
- صہبا اختر
- فراست رضوی
- فیصل عظیم
- کاوش پرتاب گڑھی
- لیاقت علی عاصم
- محسن بھوپالی
- محسن شکیل
- مشہود حسن رضوی
- معراج حسن عامر
- نسیم نازش
- وضاحت نسیم
- یاسر چغتائی
- جاپانی شعراء کے منتخب ہائیکو کے منظوم تراجم
- محسن بھوپالی
- جاپان میں مذاہب
- اُردو ادب میں نئے تجربات کی اہمیت
- اُردو میں ہائیکو کی ہئیت
نغمہ زار
جاپانی شعری ادب کی تاریخ و تعارف مع واکا و ہائیکو شاعری
(طبع زاد و و منظوم تراجم)
سید انور جاوید ہاشمی
منتخب شعراء کے طبع زاد ہائیکو
اظہر عباس
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’سبز رُتوں کے خواب‘
پت جھڑ آتے ہی
آنکھ سے جھڑنے لگتے ہیں
آنسو اپنے آپ
ہجرت کا موسم
پیروں میں چھالے پھوٹے
اور آنکھوں میں غم
اُس کے جیون کا
حصہ بننا تھا لیکن
قصہ بن بیٹھے
شاید ایسے ہی
دل کا بوجھل پن جائے
شعر سُنا کوئی
سجنا دل کی بات
آج بھی کہنے کہنے میں
بِیت گئی ہے رات
یاد ہے ہم دونوں
ترکِ اُلفت سے پہلے
کتنا روئے تھے
افضل مراد
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’تِرنِک‘
میرا اُس کا میل
جیسے گھر کے آنگن میں
اک انگور کی بیل
ایک کہانی میں
تیرا عکس مہکتا جائے
بہتے پانی میں
کچے ہیں بادام
ان کی لذت لائی ہے
ہونٹوں کا پیغام
ژالہ باری نے
اُس کا رستہ روک دیا
کچی یاری نے
بادل برسے تھے
اِک ہونے کی ساعت میں
آنسو ترسے تھے
سرد ہواؤں میں
تیرے لمس کی گرمی تھی
میری بانہوں میں
اقبال حیدر
طبع زاد ہائیکو
بادل کے اُس پار
اک معصوم پرندے سے
بچھڑ گئی ہے ڈار
تم ہو میرے سنگ
لیکن چاروں جانب ہیں
تنہائی کے رنگ
دل وہ پرندہ ہے
آخری گیت سنانے کو
اب تک زندہ ہے
جب مرجھائے پھول
بھنورا کیا ہے تتلی بھی
اس کو جائے بھول
سرد ہواؤں میں
بھیگی چڑیاں بیٹھی ہیں
دھوپ کی چھاؤں میں
تتلی، پھول، ہوا
جھولوں پر بچے خوش ہیں
کچھ تعبیر بتا
امداد نظامی
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’سورج تھا سو ڈوب گیا‘
کیا ہے یہ اُفتاد
چھیڑوں گیت تو ہونٹوں پر
آتی ہے فریاد
بارش بن گئی آگ
کوئل اور پپیہے نے
چھیڑا درد کا راگ
پتے پھل اور پھول
پیڑوں پر اب کچھ بھی نہیں
ہر سُو اڑتی دھول
یہ بھی دیکھے رنگ
ساری عمر رہی جاری
دل سے دل کی جنگ
بادل، بارش، برف
اور دُعا اب کیا مانگوں
لب پر جم گئے حرف
رات کا پچھلا پہر
کس انہونی کے ڈر سے
جاگ رہا ہے شہر
پیر زادہ قاسم رضا صدیقی
طبع زاد ہائیکو
بے قرار کرتی ہے
سن رسیدہ پتوں کو پھوٹتی ہوئی کونپل
دل فگار کرتی ہے
جی جلاتا رہتا ہے
پھر بھی صبح تک دل میں اِک ستارۂ غم
جگمگاتا رہتا ہے
بات چلتی رہتی ہے
اب کسی بھی موسم کو جی کا روگ مت کرنا
رُت بدلتی رہتی ہے
دن بدلتے رہتے ہیں
پھر خزاں کے موسم میں نخلِ بے قراری پر
برگ و بار آتے ہیں
تابش دہلوی
طبع زاد ہائیکو
قائم ایک اصول
موج نمو کی جاری ہے
توڑو کوئی پھول
سورج کیسا ہے
نابینا درویش کہے
روٹی جیسا ہے
میل نہیں باہم
پھر بھی ملتے جلتے ہیں
موتی اور شبنم
ساحل کیسے ہیں
دریا آشامی میں بھی
پیاسے رہتے ہیں
رحمت ہے یا قہر
ویراں کر گئی سارا شہر
سردی کی اک لہر
رات کا یہ انداز
سناٹا ٹھکراتی ہے
قدموں کی آواز
ثروت سلطانہ ثروت
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’شفق اُتری ہے مجھ میں‘
جب برکھا چھائے
مجھ کو ایسے موسم میں
کوئی یاد آئے
دل گھبراتا ہے
جب راس آئے سُونا پن
صحرا بھاتا ہے
دل میرا دھڑکا
شاخ سے اب گر جائے گا
یہ سُوکھا پتہ
تنکے ہیں دو چار
سہمے سہمے سے پنچھی
پت جھڑ کے آثار
یادوں کا میلہ
جیسے دل میں کھل جائے
چمپا اور بیلا
گل ا فشانی ہے
موسمِ گل تو آ بھی گیا
اور ویرانی ہے
جمال نقوی
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’نغمے سُورج دیس کے‘
ٹھنڈا ہے موسم
اک کمبل کیسے اوڑھیں
بیوی، بچے، ہم
یادوں کا یہ غم
پت جھڑ میں بے چین کرے
ہوں آنکھیں پُر نم
کیسا ہے یہ خواب
دریا ہی میں رہتا ہوں
لیکن ہوں بے آب
گلشن کی سج دھج
بدلی ہے، جب سے نکلا
خوشیوں کا سورج
پھولوں کی ڈالی
اچھی تھی ، تو پھر تُو نے
کیوں توڑی مالی
کیوں یہ دوری ہے
ملنے کب آؤ گے تم
کیا مجبوری ہے
راغب مراد آبادی
طبع زاد ہائیکو
کلی کھلی بہار میں تو کیا
ہوائے تند و تیز اڑا کے لے گئی
نشان بھی نہیں ہے اب کہیں
غنچے ہر سُو رنگ برنگ مہکے
کیسا پیارا ہے گلشن سبز ردا میں لپٹا
سبزہ لہکا، شاخ پہ بلبل چہکا
کالا بھنورا پھول پہ اُڑ کر بیٹھا
رس جی بھر کر چوسا اور پھر اُڑ گیا فوراً
ہائے یہ دھوکا، ہائے دھوکا، توبہ
چلتے چلتے چاند بھی تھک جائے گا
تکتے تکتے آخر اُس کو سو جاؤں گا میں بھی
تیری یادیں اپنے دل میں چھپائے
رسا چغتائی
طبع زاد ہائیکو
دریا بہتا ہے
کوئی ایسے موسم میں
گھر میں رہتا ہے
اجڑے اجڑے گھر
جگمگ جگمگ جنگل میں
کالی کا مندر
گھر کی چھتری پر
زرد کبوتر شام ڈھلے
آتا ہے اکثر
ممتا کا دم تھا
یا بچے کی ایڑی میں
آبِ زم زم تھا
جیون ساگر میں
روشن روشن اک چہرہ
میں پس منظر میں
بے موسم ایسے
آتے جاتے یہ بادل
لگتے ہیں کیسے
رئیس علوی
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’حرفِ سفر‘
چاندی رنگ پہاڑ
دریا برف کی سِل جیسا ہے
بادل روئی کے جھاڑ
لہروں کی للکار
رات میں تنہا سنتی ہے
ساحل کی دیوار
مسُکائے ہے ڈال
پیاری تتلی ہوش میں آ
پھول کے نیچے جال
رستہ بے سایا
دور پیڑوں کا اک جھنڈ
بچپن یاد آیا
شور سے چاروں اور
وہ چھائی گھٹا گھنگور
ناچے باغ میں مور
بگلے، جھیل، پھوار
نرم چھاؤں ہوا کم کم
باغ میں شور ہزار
سحر انصاری
طبع زاد ہائیکو
کونپل سے پہلے
موسم کے دروازے پر
کل کی دستک ہے
ہوش میں آیا کر
سوچ کے سلجھے دھاگے کو
مت الجھایا کر
فن ہے جادو گر
بت سازی کے منتر سے
موم ہوا پتھر
گھر بس جاتے ہیں
پھر دیواروں کے سائے
کیوں ڈس جاتے ہیں
ہم بنجارے ہیں
شہر کے سارے ویرانے
ساتھ ہمارے ہیں
کیا تعبیر ملے
شاخِ خواب سے گرتے ہیں
بے مصرف پتے
سہیل احمد صدیقی
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’خوش کن ہے پت جھڑ‘
فرحت دیں بے حد
سب پہ سایہ افگن ہیں
پیپل اور برگد
لو دیتا آنچل
اندھیارے میں کافی ہے
جگنو کی مشعل
اپنا گریباں چاک
فصلِ بہاراں کی آمد
سب گُل ہیں بے باک
زرد گلابوں میں
نومیدی کے صحرا ہیں
میرے خوابوں میں
کہرے کی چادر
سورج بھی شرماتا ہے
کیسا ہے منظر
رُت ہے پھر ساون
تیری یادوں کی برکھا
مہکا من آنگن
سہیل غازی پوری
طبع زاد ہائیکو
اپنے یاروں کو
میں کب اچھا لگتا ہوں
دنیا داروں کو
بے گھر ہو جاؤ
پیچھے مڑ کو دیکھو تو
پتھر ہو جاؤ
گنتا ہو پل پل
تجھ کو آنا ہے تو آ
پھر دل ہے بے کل
ڈالیں ان پر دھول
نقلی ہیں کیا مہکیں گے
گلدانوں کے پھول
کچھ میری ہوں گی
جن باتوں کا چرچا ہے
تیری بھی ہوں گی
فطرت کا معمول
موسم کے لہرانے سے
کھل اٹھتے ہیں پھول
سید انور جاوید ہاشمی
طبع زاد ہائیکو
اپنی ہائیکو
نی ہون گو میں لکھ کر دو
شیگی اتاکا کو
کیچی اتا باشی
محفل میں جب آتے تھے
دیتے شاباشی
پینسٹھ سالہ دَور
جاپانی، پاکستانی
مل کے رہیں گے اور
لہریں ہیبت ناک
سینڈو کی جانب بڑھتا ہے
کاہ کشاں، بے باک
قُربِ جاں ہیں وہ
بزمِ تصور میں اب تک
باشو سے شاعر
کاتا کانا میں
تم نے واکا نہیں لکھی
ہِیرا گانا میں
سید معراج جامی
طبع زاد ہائیکو/سین ریو
صبح کو تھے سب دنگ
دلہن کا میک اپ اترا
اور دلہا کا رنگ
کھٹیا کے نیچے
دیکھ کے مجھ کو بیگم نے
گھٹنے ٹیک دئیے
دلوں کا سودا ہے
ستر سال سے آگے بھی
ابد کا رشتہ ہے
یہ قسمت کا پھیر
گھر میں بھیگی بلی ہے
اور دفتر میں شیر
ختم کرو جنجال
تم اپنے میکے جاؤ
میں اپنے سسرال
ٹوٹ گئی ہر آس
اپنے مظالم یاد آئے
بنی بہو جب ساس
شبہ طراز
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’جگنو ہنستے ہیں’
سورج اترا ہے
بستی کے سب بچوں کو
چھیڑ کے گزرا ہے
پاپولر کے پیڑ
نہر کنارے ایستادہ
حُسن کے پہریدار
صدیوں کی ہے پیاس
صحراؤں میں چلتی ہے
ننگے پاؤں آس
میرے ہمدم ہیں
پت جھڑ کی تنہائی میں
پیڑ سفیدے کے
تنہا دن اور رات
ایک سہارا وہ بھی چھوُٹا
پت جھڑ کی سوغات
مٹی کا بستر
سر پر چھت ہے نیل گگن
دھرتی سب کا گھر
شہاب الدین شہاب
طبع زاد ہائیکو
ہاتھ میں اُس کا ہاتھ
دھیرے دھیرے لرزاں ہے
کتنی سرد ہے رات
تُو ہے جانِ بہار
ہنس دے تو لگ جاتے ہیں
پھولوں کے انبار
ساتھ پُرانا ہے
ستّر سال نہیں کچھ بھی
آگے جانا ہے
من میں ناچے مور
برکھا رُت میں گوری، اور
بھیگے تن کا شور
گردن کو نہوڑائے
بارش دھوپ میں بیٹھی ہے
گیلے پر پھیلائے
یخ بستہ راتیں
آتشدان میں روشن ہیں
یادیں ہی یادیں
شہزاد نیاز
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’ڈھلتی جائے رَین‘
ڈھلتی جائے ریَن
تیرا رستہ تکتے ہیں
میرے ترسے نین
بچھڑا ہے وہ آج
میرے من آنگن میں ہے
سناٹے کا راج
میٹھا رَس گھولے
گرما کی دوپہروں میں
کوئل جب بولے
ہر سُو ہا ہا کار
سننے کو ترسا ہوں میں
چڑیوں کی چہکار
سب ہیں محوِ رقص
میں تنہا اور میرے ساتھ
تیری یاد کا عکس
برکھا رُت آئی
لیکن تم بِن سب کچھ ہے
دشتِ تنہائی
صدف جعفری
کلکتہ، ہندوستان
طبع زاد ہائیکو
ناٹک جب لکھنا
ساگر، ساحل، طوفاں، ڈر
سب کا سب لکھنا
سورج تھا چنچل
بولا شبنم سے ہنس کر
جی لے پَل دو پَل
بھیگا ساون تھا
پھر بھی جانے کیوں اپنا
جلتا آنگن تھا
سمجھو، خود بوُجھو
لوگوں سے غم سہنے کا
ہر گز مت پوچھو
جھوٹا تھا جھوٹا
سچ کے آگے اک دن وہ
آئینہ ٹوٹا
آندھی آئے گی
کچھ آنسو اور کچھ تارے
دے کر جائے گی
صہبا اختر
طبع زاد ہائیکو
٭
جنگلوں کا بھی نُور ہوتا ہے
آج کے شاعروں میں بھی موجود
کوئی باشو ضرور ہوتا ہے
چاکِ دل سِلتا نہیں
آدمی کو ڈھونڈتا ہوں
آدمی ملتا نہیں
کوئل کُوکی
بانسوں کے جنگل میں کیا کیا
چاندنی ٹوٹی
فراست رضوی
طبع زاد ہائیکو
شبِ خزاں مہتاب
دل دریا میں ناچ اٹھے
یادوں کے گرداب
آنکھ اور دل کے سنگ
ہر موسم میں ساتھ رہے
اُس قربت کے رنگ
منظر پڑ گئے مانند
کالی رات ڈراتی ہے
کب نکلے گا چاند
تنہا رہ گئی گونج
توڑ نہ دے سانسوں کے تار
سناٹے کی گونج
سرما کی اِک شام
یاد دلاتی ہے کتنے
بھولے بسرے نام
تجھ بِن فصلِ بہار
روح کے اندر اُتر گئی
چیری کی مہکار
فیصل عظیم
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’میری آنکھوں سے دیکھو‘
وعدے ٹوٹیں گے
کیا تم کو معلوم نہ تھا؟
اپنے لوُٹیں گے
وہ دن آئیں گے
جو تیرے رُوٹھے موسم
واپس لائیں گے
رنگت بدلے گی
شہرِ نا پُرساں کی بھی
حالت بدلے گی
گھور اندھیرا ہے
سورج بن کر آؤں گا
شہر تو میرا ہے
لوگ ہیں لب بستہ
ڈھونڈ نہ لیں آزادی کا
کوئی نیا رستہ
کفارہ ہو گا
تم رو دو گے، جب گھر کا
بٹوارہ ہو گا
کاوش پرتاب گڑھی
پرتاب گڑھ، انڈیا
طبع زاد ہائیکو نُما
سنگ ریزہ ہے وہ کہ ہیرا ہے
آؤ پوچھیں ذرا تو دنیا سے
اپنی آنکھوں پہ اعتماد نہیں
آج پھر جم کے ہو گئی بارش
ہر طرف ہے سکوت کا پہرا
محض تالاب میں ہے ٹر ٹر ٹر
گاوں سے دور ایک ٹیلہ ہے
چاندنی شب کو بارہ بجتے ہی
گھنٹیاں اس پہ بجنے لگتی ہیں
کتنی خوشبوئیں پاس سے گزریں
کوئی دل کو نہیں جچی کاوش
گھر کی خوشبو ہی اپنی بہتر ہے
اہلِ دہلی کی گفتگو سن کر
اک غریب الدیار نے پوچھا
میر و غالب یہیں پہ رہتے تھے
لیاقت علی عاصم
طبع زاد ہائیکو
ہائیکو کہتا ہوں
یا فطرت کے چھوٹے سے
گھر میں رہتا ہوں
شیشے توڑ گئی
لیکن آندھی کھڑکی میں
چہرے چھوڑ گئی
پیروں تلے ببول
پھر بھی دل پر کاڑھتا ہوں
اپنا قومی پھول
شام کی ہلچل میں
کس نے سورج ڈال دیا
کالی بوتل میں
ہجر نے کھینچا طُول
بیٹھے بیٹھے ٹہنی پر
تتلی بن گئی پھول
ایٹم بم کی شان
رفتہ رفتہ پھیل گیا
دنیا بھر میں جاپان
محسن بھوپالی
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’منظر پُتلی میں‘
ہیں پھولوں کے سنگ
پت جھڑ میں کب ہوتے ہیں
ہونٹوں کے یہ رنگ
صحرا صحرا پھول
کیسی رُت یہ آئی ہے
بگیا بگیا دھول
لمبی کالی رات
تارے گننے والی آنکھ
بے موسم برسات
آنسو پھولوں پر
کیسا موسم آیا ہے
شبنم کانٹوں پر
فطرت کے سب رنگ
سچ کہتی ہے یہ دنیا
ہیں موسم کے سنگ
اشکوں کی رم جھم
ایسے میں کیا بھائے گا
پھولوں کا موسم
محسن شکیل
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’سرگوشی’
دھرتی گدرائی
اُجلے پن کی نرمی جو
منظر پہ چھائی
گاؤں بہت ہے دور
اوس کو بستر کرتے ہیں
بدن تھکن سے چُور
خزاں رسیدہ میں
پگڈنڈی پر سنتا ہوں
پتوں کی چیخیں
ایک سفر کرنا
خود سے ہی سرگوشی میں
عمر بسر کرنا
آدھے خواب لئے
اب تک منظر جھانکے ہے
کسی دریچے سے
دل کے جنگل میں
اِک لمحے کو بانٹا تھا
ہم نے کس پل میں
مشہود حسن رضوی
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’بارش میں دھوپ’
پھولوں کا موسم
رنگ برنگے جذبوں میں
پڑتی ہے شبنم
خنک ہواؤں میں
بے موسم رنگ ہیں بکھرے
زرد فضاؤں میں
دہقاں ہے لا چار
گونگے بادل کب برسیں
کھیتوں میں اس بار
بارش میں ہے دھوپ
پژ مردہ چہروں پر بھی
آیا کیسا رُوپ
اڑتی جائے دھول
گلشن اجڑا اجڑا ہے
گلدانوں میں پھول
آم جو پکتے ہیں
شاخوں پر طوطے بیٹھے
کس کو تکتے ہیں
معراج حسن عامر
طبع زاد ہائیکو
چڑیا گاتی ہے
تازہ پھولوں کو شبنم
جب نہلاتی ہے
روکو گے کب تک
راتوں کے دروازوں پر
سورج کی دستک
نسیم نازش
طبع زاد ہائیکو
بُلبُل ہے روتی
دھوپ اٹھا لے جاتی ہے
شبنم کے موتی
اے لوگو جاگو
جھُوٹی شہرت کے پیچھے
کبھی نہیں بھاگو
جب یاد آیا تُو
چھلکے میری پلکوں پر
اشکوں کے جُگنو
ہر دن اور ہر سال
پیارے جاپانی لوگو
سدا رہو خوشحال
کس کو تھا معلوم
اب کے بارش کر دے گی
ہم سب کو مغموم
وضاحت نسیم
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’دل چھونے والا منظر‘
اوس میں بھیگی گھاس
دل چھونے والا منظر
تتلی پھول کے پاس
پتوں کی ملہار
مہکی مہکی مست ہوا
بادل اور پھوار
لہروں کا یہ شور
جھاگ اڑا کر کہتا ہے
پانی ہے منہ زور
بیلیں زرد ہوئیں
لوٹی ہے جس راہ بہار
آنکھیں گرد ہوئیں
پت جھڑ کے دن ہیں
بید کا پیڑ ہو پھر شاداب
وہ دن ممکن ہیں
دل بہلانے کو
چڑیا شاخ پہ بیٹھی ہے
گیت سنانے کو
یاسر چغتائی
طبع زاد ہائیکو از مجموعہ کلام ’دل یہ کہتا ہے‘
کلیاں چنتی ہے
پربت کی کومل لڑکی
سپنے بنتی ہے
رستے سارے گُم
ہلکی بارش میں بھیگے
اِک میں اور اِک تم
آنکھیں پُر نم ہیں
میرے ساتھ سفر میں شاید
وحشی موسم ہیں
میں صحرائی شخص
میرے خواب میں تتلی، پھول
یا بارش کا رقص
ایک ادھوری لےَ
جوگی نے جب بھی چھیڑی
بول اٹھی ہر شے
کس کو یاد کریں
ٹوٹنا تھا دل ٹوٹ گیا
کیا فریاد کریں
جاپانی شعراء کے منتخب ہائیکو کے منظوم تراجم
خواجہ رضی حیدر
ترجمہ براستہ انگریزی
What a wonder scene
Sea was full of shine
Under wishful shade
کیسا منظر تھا
اِک سائے کی تمنا میں
دھوپ سمندر تھا
うみようきな
きがあるでかげ
事件のげんば
Jiken no genba
ki ga aru de kage
umi yo ki na
ڈاکٹر پرویز پروازی
تراجم براستہ انگریزی
Oh! flower-gazers,
who have decked the surface
of their skeletons!
Uejima Onitsura
وہ انسانی استخواں
زرق برق کپڑوں میں
پھول دیکھنے نکلے
You rice-field maidens!
The only things not muddy
Are the songs you sing.
Konishi Raizan
دھان بونے والیو!
ہر شے کیچڑ میں لت پت ہے
مگر تمھارے گیت!
شبِہ طراز
تراجم براستہ انگریزی
In every village
sleep grows deeper
falling water
Buson
ہر اِک گاؤں میں
گہری نیندیں اور سپنے
جھرنے پانی کے
You can see the morning breeze
blowing the hairs
of the cater pillar
Buson
جھونکا پُروا کا
بال ہلاتا ہے دھیرے سے
ریشم کا کیڑا
شہزاد نیاز
فُوکُودا چیونی کی ہائیکو کے براہِ راست منظوم تراجم
霞かな
羽風も尽す
蝶々の
Chōchō no
hakaze mo tsukusu
kasumi kana
Is it a mist
that exhausts the
butterfly’s wings
دھُند سے ہے گھائل
بوجھل پنکھ ہیں تتلی کے
اُڑنا ہے مشکل
٭٭٭
月日かな
我をわすれる
ももの花
Momo no hana
gao wasureru
tsukihi kana
Peach blossoms
I wonder if it’s time
to forget me
آلُوچے کے پھول
سحر زدہ ایسا کر دیں
خوُد کو جاؤں بھُول
٭٭٭
蛙かな
梅をながめる
仰向いて
Aomuite
ume o nagameru
kaeru kana
Lie on your back
and look at the plums,
maybe a frog
پیٹھ پہ بیٹھا ہے
تکتا جائے آلُوچے
شاید مینڈک ہے
٭٭٭
迯て行
椿落して
鴬や
Dropping the bush
warblers and camellias
Uguisu ya
tsubaki otoshite
nigete gyō
نٹ کھٹ سا بُلبل
کُترے اور پھینکے جائے
کیمیلا کے گُل
٭٭٭
おぼつかな
山路の往来
ほたる火や
Hotarubi ya
yamaji no ōrai
obotsukana
Firefly lights
and mountain
road traffic
جگنو ہیں گویا
بیچ پہاڑی رستوں کے
مثلِ مشعلِ راہ
٭٭٭
きりぎりす
石に出て啼
月の夜は
Tsukinoyo wa
ishi ni dete naku
Kirigirisu
On the night of the moon,
go out on a stone
and cry
چاند ہے جوبن پر
بیٹھ کے رونا چاہوں میں
پتھر کی سِل پر
٭٭٭
田植哉
むすばぬも出て
まだ神の
Mada kami no
musubanu mo idete
taue kana
Again the woman
Come to the fields
With unkempt hair
کھیتی کا جنجال
عورت کو فُرصت کب ہے
باندھ سکے وہ بال
٭٭٭
みゆり とき
おなご の はだ の
ゆおがお や
yuogao ya
onago no hada no
miyuri toki
Moonflowers!
When a woman’s skin
revealed
گُل مہتاب سا رنگ
جب پوشاک سے ظاہر ہو
گوری تیرا انگ
٭٭٭
عبدالعزیز خالد
تراجم براستہ انگریزی
On the jutting rock
Another man also
Is the guest of the moon
Kyorai
بام پر ماہتاب اُبھرا تھا
ٹکٹکی باندھے دیکھتا تھا میں
میرے ہمراہ تھے سعید آغا
Under the Cherry-blossoms
the guarchious of the tree
lay their white heads together
Kyorai
پھول ہیں چیری کے
کومل، کومل سی چڑیاں
گائیں سر جوڑے
فاطمہ حسن
تراجم براستہ انگریزی
On the jutting rock
Another man also
Is the guest of the moon
Kyorai
ساتھ ساتھ آتا ہے
ایک اجنبی سایہ
دُور سے ڈراتا ہے
Under the Cherry-blossoms
the guarchious of the tree
lay their white heads together
Kyorai
پھول ہیں چیری کے
کومل، کومل سی چڑیاں
گائیں سر جوڑے
محسن بھوپالی
تراجم براستہ انگریزی
Well, nothing seems to have happened,
Though I ate swelt fish soup
Yesterday
Basho
کچھ بھی نہیں ہوا
سُوپ بساندی مچھلی کا
میں نے کل جو پیا
I’ll on a journey:
My dreams wander
Over a withered moor.
Basho
ہے در پیش سفر
آوارہ ہیں میرے خواب
بنجر دھرتی پر
Snow break also
Can be heard,
This dark night.
Buson
دُور سے آتی ہے
برف لدی شاخوں کی چیخ
رات اندھیری ہے
محسن بھوپالی
تراجم براستہ انگریزی
Spring rain;
How pitiful she is,
Unable to write.
Buson
بارش کے دن ہیں
کیسے لکھے وہ خط میں
ساجن تجھ بِن ہیں
A sudden winter shower—
I on my sleeping mat—
It lightens up.
Issa
سرما کی برسات
میں ہوں اپنے بستر پر
روشن ہو گئی رات
Come out fire flies!
I’m going to lock up,—
Do come out!
Issa
اب اے جگنوؤ
گھر کو تالا دینا ہے
باہر آ جاؤ
وضاحت نسیم
جاپانی سے براہِ راست تراجم
Scattering rice too,
This is a sin:
The fowls are kicking one another
Issa
چاول پھیلانا
ہو گیا جیسے کوئی گناہ
لڑ بیٹھے ہیں مرغ
Same thing to depend on
That the silkworm on their shelf
Will also like their meal
Issa
زندہ رہنے کو
ریشم کے کیڑے کو بھی
رزق ضروری ہے
In the white dew
Four or five houses
A hamlet
Shiki
گنتی کے کچھ گھر
شبنم جن پر پھیلی ہے
پیارا سا گاؤں
From forty
When we look into the mirror
We feel irritated
Genroku to Horeki
چار دہائی بعد
آئینہ بتلاتا ہے
عمر کے سب اعداد
Festival pathos
Falling hopelessly in love
With a lady juggler
Yamaguchi Seishi
ہائے وہ تہوار
شعبدے باز حسینہ کی
چاہ میں تھا بیزار
She rubs her cold hands
A thousand times even ten
Thousand times over
Yamaguchi Seishi
اپنے ٹھنڈے ہات
مل کر گرم کرے گوری
اک سرما کی رات
Since this mountain road
Goes up a rushing river
I climb a river
Yamaguchi Seishi
دریا پربت بیچ
اس کو پار تو کرنا ہے
چل دی آنکھیں میچ
Cut the oats in front of the window
Let me see
The distant mountains!
Buson
جَو کاٹی ہے یُوں
دور وہ پربت دیکھ سکوں
اپنی کھڑکی سے
Round the cops
Where her young ones are
hidden
Issa
ان کے گرد رہوں
جھنڈ کی آڑ میں ہیں بچے
چوں چوں چیں چیں چوں
Even on the smallest island
They are tilling the fields
Skylarks singing
Issa
ننھا جزیرہ
دیکھو اس میں کھیت بھی ہیں
گاتی چڑیاں بھی
Having lit the garden lantern
The people of the small house
Have gone out
Shiki
گھر تو خالی ہے
ہاں باغیچے کی قندیل
جلتی رہتی ہے
The child
Came out of the willows
A flying squirrel
Issa
بیدِ مجنوں سے
’او گلہری‘ کہتے ہی
بچہ بھاگا ہے
The white bait
As though spirit of the water
Were moving
Raizan
رنگت پانی سی
لگتی ہے پانی کی روح
جل میں اک مچھلی
Holy Lord Buddha!
In the bagger quarter also
He is born a new
Issa
اے ہنستے گوتم
بستی میں گداؤں کی
تیرا جنم دن ہے
Children too
They anoint His Head
With the sweet tea of heave
Issa
بچے بھی خوش ہیں
سر پہ ڈال کے گوتم کے
اما چا کانا
Don’t go don’t go!
I am of your company
Country cuckoo!
Issa
تنہا مت جاؤ
تم میں شامل ہوں میں بھی
ککو رُک جاؤ
Morning dew
Smoke from the cooking rice
Creeps over the grass
Masaoki Shiki
سبزہ شبنم اور
چاول کے دَم کی خوشبو
گھاس پہ چھائی ہے
جاپان میں مذاہب
سید انور جاوید ہاشمی
پہلی صدی عیسوی میں منگول کثیر تعداد میں جنوبی کوریا اور مرکزی جاپان سے کوریا تک آباد تھے۔ یہ جنگجُو قوم تھی جو ازاں بعد قبائلی نظام زندگی بسر کرنے لگی تھی۔ اوائل میں یہ لوگ مظاہرِ فطرت کی پرستش کیا کرتے تھے۔ اس عبادت کو کہا جاتا تھا۔
درخت، پہاڑ، چٹانیں اور دیگر قدرتی مظاہر کی پرستش عام تھی۔ ان تمام قسم کے معبودوں کو ’کامی‘ کہا جاتا تھا۔ حکومت کا نظام رائج ہونے سے قبل جادو، ٹونے اور غیر معمولی ذہنی صلاحیت کے حامل افراد عام لوگوں کو اپنا تابع بنائے رکھتے۔ خصوصاً عورتیں جو نہ صرف یہ کہ پُر اسرار شخصیت رکھتی تھیں ان میں غیر معمولی خوداعتمادی و قوتِ ارادی ہوتی مذہبی رسومات ادا کرواتی تھیں۔ رفتہ رفتہ قبائلی سرداروں نے مذہبی پیشوا کے اختیارات سنبھالنا شروع کر دئیے اور خود کو ’کامی’ کہلوانے لگے۔
کنفیوشس کی تعلیمات جب جاپان کی سر زمین پر پہنچیں تو لوگ ان سے متاثر ہونے لگے۔
تیسری یا چوتھی صدی میں یاماتو میں تنّو قبیلے کو حکمرانی ملی اور ساتھ ہی مذہبی پیشوائیت بھی۔ موجودہ شہنشاہیت کا سلسلہ اسی خاندان سے ملتا ہے۔ ۶۰۴ء میں ولی عہد شوتوکو نے ۲۱۷دفعات کا دستور نافذ کیا۔ یہ جاپان کا پہلا آئین تھا۔
جیسا کہ بتایا گیا جاپانی زبان میں معبود کے لئے ’کامی‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اس کے معنیٰ ’اعلیٰ‘ یا ’اوُپر کا’ ہیں۔ جب کہ اس کے بر خلاف جو شئے ’ادنٰی’ یا ’کمتر’ ہے
وہ ’شیِمو’ کہلاتی ہے۔چناں چہ جسم کے اوپر کے حصے کو ’کامی‘ اور نیچے کے دھڑ کو ’شیِمو‘ کہتے ہیں۔ اعلیٰ طبقے کا آدمی ’کامی‘ اور ادنٰی طبقے کا فرد ’شیِمو‘۔آسمان ’کامی’ ہے اور زمین ’شِیمو‘!
آفتاب پرستی جاپان کا خاص مذہب ہے۔ چین کے ایک بادشاہ نے جاپان کا نام ’دائی نپّون’ یعنی ’طلوعِ آفتاب کی سر زمیں‘۔ برخلاف د دیگر مذاہب کے جاپان میں سورج کو مونث مانا جاتا ہے۔ کیونکہ قدیم جاپان میں عورت کو ہی فوقیت حاصل تھی۔
جاپانی شہنشاہ جو ملیکیڈو کہلاتے ہیں اپنا مورثِ اعلی سورج دیوی ( آماتےرس) کو مانتے ہیں اور نیابتِ الہٰی کے قائل ہیں۔ اس لئے جاپان میں زمانہ قدیم سے شہنشاہ پرستی کا رواج رہا ہے۔
جاپان کا شاہی خاندان دُنیا کا سب سے پرانا شاہی خاندان ہے۔ آنجہانی ہیرو ہیتو اس خاندان کے ۱۲۴ ویں شہنشاہ تھے۔ ان کے بعد موجودہ شاہ اکی ہیتو ۱۹۸۹ء میں تخت نشین ہوئے۔ یہ ہے ای سے سی عہد کا آغاز ہے۔ جبکہ سب سے پہلے شہنشاہ کا نام جم مو (۶۶۰ ق م) تھا۔ ہئیان عہد (۱۱۸۵ء۔۷۹۴ء) کے آغاز یعنی ۷۹۴ء میں کیوٹو کو دارالحکومت کا درجہ دیا گیا۔ آٹھویں صدی کے اختتام پر یہ ایک اہم زریں دور تھا۔ تقریباً ایک ہزار برس تک یہ شہر دارالحکومت رہا ہے۔
سائیچواور کُوکائی جنہیں ’دینگیئو دائی شی‘ اور ’کوبو دائی شی ’ کے خطاب اُ ن کی موت کے بعد دئیے گئے ایسے دو مذہبی رہنما تھے جنہوں نے بُدھ مت میں ترامیم کیں۔ یہ دونوں بادشاہ کی ہدایت پر بدھ مت کی روحانی اشکال و اقدار کی تعلیمات حاصل کرنے کے لئے چین بھیجے گئے۔ واپسی پر سائیچو نے ’تیندائی’ عقیدہ ۸۰۵ء کی بابت اور کُوکائی نے ’شنِ گون‘ مسلک ۸۰۹ء کی تبلیغ کی۔ ان دونوں کے عقائد کی بازگشت نچلے طبقے کے افراد میں خوب پھیلتی گئی اور تقریباً موجودہ دور کے ترقی یافتہ زمانے میں برق رفتار ترقی کرنے والے اہلِ جاپان ’شنِتو’ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ شنِتو چینی زبان کا لفظ ہے جِس کے معنٰی ’دیوتاؤں کا راستہ‘ ہیں۔ شنِتو مذہب کا علم ہمیں دو کتابوں سے حاصل ہوتا ہے: ۔ کوجیکی؛ اور نی ہون شُوکی۔ یہ تہذیب تنئیو میں لکھی گئی بالترتیب ۷۱۲ء اور ۷۲۰ء کی تالیفات ہیں۔ یہ عہد نارا دور کہلاتا ہے۔ اس سے پہلے زبانی ادب موجود تھا مگر روایتی نظمیں اور نیم تاریخی کہانیاں اُس وقت محفوظ کی جا سکیں جب چھٹی صدی عیسوی میں چینی رسم الخط متاثر ہوا اور جاپان کے دانشوروں نے اسی پر عبور حاصل کیا۔
شنِتو مذہب کے آغاز کے تعلق سے یہ بتانا تو مشکل ہے کہ اس جاپان کے قدیم باشندوں نے جو آئینو کہلاتے ہیں کہاں تک متاثر کیا اور وہ چین کے مذہب سے کیا تعلق رکھتا ہے البتہ کنفیوشس کی تعلیمات نے شنِتو مذہب کو متاثر کیا، علاوہ ازیں چین کی طرح جاپان میں بھی آباء پرستی اور مناظری فطرت کی پرستش کا رواج ہے لیکن چین اور جاپان کے مذاہب میں بڑا فرق ہے۔ چین میں سب سے بڑا معبود آسمان ہے ۔ اُس کے بعد زمین، چاند، سورج وغیرہ۔ لیکن جاپان میں سب سے بڑا معبود سورج دیوی کو قرار دیا جاتا ہے٭۔
[نوٹ: اِس ذیل میں متذکرہ بالا دو جاپانی کتابوں کے علاوہ راقم الحروف نے نگار پاکستان کے خدا نمبر کی اشاعتِ ثانی دسمبر ۱۹۹۳ء شائع کردہ قمر کتاب گھر، اُردو بازار سے بھی استفادہ کیا ہے۔ دیکھئیے نگار خُدا نمبر، مدیر ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔]
بارہویں صدی تک جاپان کے عوام ان کی تعلیمات کی روشنی میں مذہبی رسومات، ثقافتی سرگرمیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سر گرمِ عمل رہے۔ شوتوکُو (۶۲۲ء۔۵۷۴ء) شہزادہ کی طرح بقولِ عوام شنِ ران، اے ایسائی، دوگین، نچی رین اور دیگر مذہبی رہ نماؤں نے بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں تیندائی مسلک کی تعلیمات اور فلسفے سے نئی حکمت عملی اور نئے نکات پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیا۔
زین بدھ ازم، عیسائیت اور شنِتو مذاہب مختلف ادوار میں مقبولیت حاصل کرتے رہے اور مذاہب کی پیروی میں عوام نے اپنی ثقافتی و فنّی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ خود ماتُسو باشو زین بُدھ مت سے متاثر تھا۔ اُس کی اکثر و بیشتر ہائیکو نظمیں اِسی پسِ منظر میں کہی گئی ہیں۔
تفصیلات کے لئے اگر کوئی دلچسپی رکھتا ہو تو کی ریلجنز اِن جاپان یا جاپانیز کلچر –اےشارٹ ہسٹری از نامی دو کتابوں کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ کیونکہ جاپان کی ثقافتی تاریخ سے آشنائی کے بغیر شعر و ادب کا پس منظر واضح نہیں ہو سکتا۔اس لئے راقم الحروف نے کوشش کی کہ اُن قارئین کو جنہوں نے جاپان کی ثقافتی و ادبی تاریخ کا مطالعہ نہ کیا ہو اختصار کے ساتھ بتاتا چلے کہ یہ طے شُدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت کا اُس ملک کے ادب سے گہرا تعلق و رشتہ ہوتا ہے۔ اپنی قومی (ملکی) روایات، سماجی و ثقافتی ورثے اور اپنے عہد بہ عہد معاشرتی و سیاسی حالات سے اتفاق یا اختلاف، اطمینان و بے اطمینانی، آسودگی و ناآسودگی کا اظہار دیگر فنکاروں کی بہ نسبت اہل فکر و تعقل یعنی ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں اور تخلیقات کے ذریعے عامتہ الناس تک باآسانی اور مؤثر طور پر سامنے آتا ہے۔ دراصل یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو ادب کے رواج کے ذریعے کسی ملک کے بارے میں تمام تر معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اگر چہ قومی سطع پر ایک جانب اگر کچھ لوگ قدیم روایات کو سینے سے لگائے رکھنے کی اُمنگ میں اپنی جان کھپاتے ہیں تو دوسری طرف انحراف و اختلاف کرنے اور قومی روایات سے بغاوت کرنے والے گروہ کے جذبات بھی سر ابھارتے ہیں۔ چناں چہ شاعری ہو یا افسانہ نگاری، ناول نویسی ہو یا مضمون نویسی، موسیقی ہو یا ڈرامے؛ اس نوع کے اثرات لکھنے والوں کے ذہن و دل پر مرتسم ہوا ہی کرتے ہیں۔ علاقائی تفریق و امتیاز آج دنیا کے ہر ملک میں نظر آتی ہے۔ اسے ہوا دینے والے زیادہ اور اس کے مخالف کم تعداد میں دکھائی پڑتے ہیں۔ تاہم یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ہمارے دوست ملک جاپان کا ادب ہنوز اس رجحان کے اثر میں نہیں ہے۔ سیاسی رسہ کشی اور اقتصادی برتری کی کشمکش الگ موضوعات ہیں۔ آغازِ کار ۱۹۸۹ء سے اس کتاب کی تکمیل تک جن دشوار گزار مراحل سے میں گزرا یا گزارا گیا ہوں اُن کا ذکر کئے بغیر میں تو سمجھتا ہوں کہ میری اس تحقیقی کاوش و تلاش اور شدید عدیم الفرصتی کے با وصف تقریباً چار برس کی تگ و دو کے ماحصل کی اہمیت (Worth)سے صاحبانِ عقل و فکر انکار نہ کر سکیں گے۔؏
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست
مؤ لف
اکتوبر ۲۰۲۳ء
اُردو ادب میں نئے تجربات کی اہمیت
ڈاکٹر یونس حسنی
آج کے آفاقی معاشرے میں جس طرح اقوام ایک دوسرے سے بے نیاز رہ کر نہیں جی سکتیں، اسی طرح شعرو ادب اور علم و ثقافت بھی باہمی لین دین کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کی اس صدی میں اُردو زبان نے متعدد مقامی اور غیر ملکی اصنافِ سُخن کو اپنایا۔ بعض تجربے کامیاب رہے، بعض ناکام، بعض کی دھوم ایک زمانے میں خوب رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اصناف متروکات کے خزانے میں داخل کر دی گئیں۔
اُردو میں نظم معرّیٰ، نظر آزاد، سانٹ، لمرک، ترائیلے دوسرے ملکوں سے آئیں، جب کہ ماہیا ، دوہا، کافی، وائی وغیرہ مقامی زبانوں سے اُردو میں داخل ہوئیں۔ لمرک اور ترائیلےاپنی پابندیوں اور اُردو مزاج سے لگاّ نہ کھانے کے باعث جلد منظر سے غائب ہو گئیں۔ سانیٹ میں بھی مصرعوں اور قوافی کی قیوّد خاصی ہیں، اس لئے اُردو کے چند ہی شعراء اس طرف توجہ دے سکے اور ان کے بعد سانیٹ کا نام لیوا کوئی نہ رہا۔
آزاد نظم اور نظم معرّیٰ شاید زمانے کی ضرورت تھیں، اس لئے عرصے تک اہل اُردو کا ساتھ دیتی رہیں۔ نظم معرّیٰ اب بہت کم لکھی جا رہی ہے۔
ماہیے کو اختر شیرانی اُردو میں لائے تھے۔ وہ بھی سہ مصرعی نظم تھی، مگر پھر بھی کسی نے اسے اٹھایا نہیں۔ دوہا عالی جی کی ذات سے زندہ ہے۔
ہمارے یہاں تین مصرعوں پر مشتمل تین اصناف پہلے سے موجود ہیں، مثلّث، ثلاثی اور سہ حرفی۔
مثلث ایک علیحدہ صنفِ سُخن نہیں۔ ایک طویل نظم کا ایک بند ہوتا ہے۔ مگر ایک بند میں چونکہ ایک بات مکمل ہو جاتی ہے، اس لئے تین مصرعوں میں مکمل بات کہنا ہو تو مثلث سے مدد لینے میں کیا حرج ہے۔ جبکہ اس کے پسِ پشت سالہا سال کی اُردو روایت اور قوافی کی مانوس ترتیب چلی آتی ہے:
نگاہِ شوق پہ ہے قیدِ اعتبار ابھی
نمو کا جوش فراواں ہے بے قرار ابھی
پھر امتحانِ نظر موسمِ بہار میں ہے
قوافی کے اس در و بست سے ہم آشنا اور مانوس ہیں۔ جب ایک مکمل کیفیت، ، منظر یا بات کو با آسانی مثلث کے ایک بند میں ادا کیا جا سکتا ہے تو پھر کسی دوسرے تجربے کی کیا ضرورت ہے؟ یا یہ تجربہ بطور تجربہ ہے۔
پھر حمایت علی شاعر کی ثلاثیاں ہیں، چھوٹے اور حیرت زدہ تجربات کے اظہار کے لئے ان سے کام نہیں لیا جا سکتا؟
یہاں یہ بات زیرِ غور ہے کہ نظم معرّیٰ یا آزاد نظم کے علاوہ جو تجربات اصناف کی شکل میں اُردو میں کئے گئے ہیں، اُن میں چند مخصوص شعراء نے دلچسپی لی اور عام اُردو شعراء کی عدم دلچسپی سے وہ پنپ نہ سکیں۔
ہائیکو کو اُردو شعراء کے ایک بڑے حلقے نے اپنی طبع آزمائی کے لئے پسند کیا ہے اور اس وقت اختیار کیا ہے کہ جب اُردو کے پاس تین مصرعوں پر مشتمل دوسری اصناف اور ہئیتیں موجود تھیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جاپانی ہائیکو کے کسی جوہر نے اُردو شاعری کی تخلیقی سطح کو کسی طور چھوا ہے اور اس کو اتنے بڑے پیمانے پر شعراء نے اختیار کیا ہے۔
تجربے کی ہر لہر دیرپا نہیں ہوتی، کہیں ایسا تو نہیں کہ جاپانی قونصل خانے کی سرپرستی اُردو شعراء کی دلچسپی کا سبب بنی اور جب بھی ادھر سے سرد مہری دکھائی دے، تجربے کی یہ لہر دم توڑ جائے۔
اُردو شعراء کو ان تمام امکانات پر اچھی طرح غور کر لینا چاہیے۔ ہائیکو یقیناً جاپان کی اہم صنفِ سخن ہے، اگر اسے سنجیدگی سے اختیار کرنا ہے اور اُردو ادب کی ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے زندہ رکھنا ہے، تو پھر اسے مثلث یا ثلاثی سے منفرد صنفِ سخن ہی کے طور پر زندہ رکھنا ہو گا۔ اس لئے اُردو شعراء کو جاپانی روایت سے مکمل آگاہی حاصل کر کے ہائیکو کو جاپانی روایت کی اصل سے وابستہ کرنا ہو گا۔ ہائیکو جس قدر جاپانی اصل سے قریب ہو گی، اسی قدر اس کے زندہ رہنے کا جواز رہے گا۔
ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہائیکو پر اُردو اثرات مرتب نہ ہوں۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں آتے ہوئے لفظ کی جنس بدل جاتی ہے۔ ایک صنف جب دوسری زبان میں آئے گی تو ثقافتی، سماجی اور ادبی سطح پر اس میں تبدیلیاں نا گزیر ہوں گی، اگر ہائیکو اُردو مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو سکی، تو کتنی ہی کوشش کر لیجیے، وہ ادب کا حصہ نہ بن سکے گی۔ اس لئے اس قسم کی ناگزیر تبدیلیوں سے تو انکار ممکن نہیں، ہاں یہ ضروری ہے کہ ہائیکو کے بارے میں چند بنیادی باتیں طے کر لی جائیں۔
یہ ایک جاپانی صنفِ سخن ہے۔ جو ڈاکٹر جمیل جالبی کی زبان میں تجربات ، مشاہدات اور خیالات کا اظہار کرتی ہے۔ جس سے عام زندگی کا ایک نیا پہلو ، کسی خیال کا نیا رُخ اور کسی بات کی نئی جہت سامنے آتی ہے۔ ہمیں بھی ہائیکو کو ایسے ہی خیالات، مشاہدات اور تجربات تک محدود رکھنا چاہیے۔ ہائیکو اس طرح لکھی جائے کہ نتیجہ ایک حیرت زار مسرّت کی صورت میں ظاہر ہو۔
۱۔تین مصرعوں کی سختی سے پابندی ہو۔ پہلے اور تیسرے کے چھوٹے اور دوسرے کے لمبے ہونے کی پابندی بھی عائد ہونی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ ضرورتِ شعری کے لئے پہلے مصرعے کو بڑا اور آخری دونوں مصرعوں کو چھوٹا رکھ دیا، یا تینوں مصرعے برابر کر دئیے، یا کسی اور طرح تین مصرعے مرتب کر دئیے گئے۔ پانچ، سات، پانچ کی پابندی اٹھائے نہ بنے گی، مگر مصرعوں کی طوالت و ترتیب بہ آسانی اُردو میں برتی جا سکتی ہے۔
۲۔ اختصار جاپانی ہائیکو کی بہت نمایاں خوبی ہے، اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے مزاج میں جو غلو پسندی ہے، وہ بعض اوقات لفاظی کی متقاضی ہوتی ہے۔ لفاظی ہائیکو کے لئے سُمِ قاتل ہے۔ اس لئے کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معنی آفرینی کو بھی ہائیکو کے لئے لازم قرار دیا جانا چاہیے۔
۳۔ موسمی کیفیات ہائیکو کا بنیادی حوالہ ہیں۔ ہم بھی تو موسموں کے اسیر ہیں۔ موسمی کیفیات اور فطرت کی حُسن آفرینی کے اظہار کے لئے اس کو مخصوص رکھنا چاہیے۔
۴۔مصوری اور لفظی مصوری بھی ہائیکو کے تصور کے ساتھ وابستہ ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔ اس طرح اُردو شاعر کو شاعری اور مصوری کو ہم آہنگ کرنے کے فن سے بھی آگاہی ہوگی۔
۵۔ڈاکٹر جمیل جالبی کی تجویز کا اقتباس اگر چہ طویل ہے، مگر اسے ہم نقل ضرور کریں گے کہ یہ ہائیکو کے اُردو میں زندہ رہنے کی ایک صورت پیدا کرتی ہے۔
۶۔’ہمارے شعراء ان تین مصرعوں کو دو حصوں میں تقسیم کریں، پہلے حصے میں کہی جانے والی بات ذہن کو ایک سمت میں لے جائے اور دوسرا حصہ اسے بظاہر دوسری طرف لے جائے، تاکہ حقیقی فاصلہ دونوں میں برابر رہے، لیکن جب تین مصرعے ایک ساتھ پڑھے جائیں، تو ان کے اتّصال سے ایک نیا پہلو سامنے آئے، جس سے پڑھنے والا واقف تو تھا، لیکن اُس نے اِس بات کو اس انداز سے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ دونوں حصوں کے موضوعات بظاہر الگ الگ ہوں، لیکن تخیلی سطح پر ان میں ربط موجود ہو۔ دونوں حصوں میں تخیلی فاصلہ نہ اتنا زیادہ ہو کہ بات مبہم ہو جائے اور نہ اتنا واضح کہ بات سپاٹ ہو جائے اور لطفِ سخن جاتا رہے۔ ایک ایسے حصے سے ایک امیج ابھرے اور دوسرے سے دوسرا امیج ابھرے اور دونوں تخیل ایک سطح پر اس طرح مربوط و پیوستہ ہوں کہ ایک حصہ دوسرے کی اور دوسرا حصہ پہلے کی اہمیت بڑھائے۔‘
(ہائیکو کا تاریخی پس منظر، جنگ کراچی، ۱۰ دسمبر ۱۹۹۳ء)
یہ تکنیک سانیٹ میں استعمال کی جاتی ہے اور آٹھ اور چھ مصرعوں پر مشتمل دو حصے وہ کام انجام دیتے ہیں، جس کی طرف ڈاکٹر جمیل جالبی نے اشارہ فرمایا، مفر تین مصرعوں کو اس طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنا آسان ہو گا۔ اگر یہ نہ بھی ہو سکے ، تو وہ تیکنیک استعمال کی جا سکتی ہے، جو رباعی کے چار مصرعوں میں ہوتی ہے۔ ایک مصرعے سے بات شروع ہو، درمیان میں کسی نہج پر پہنچے اور مصرعہ ایک حیرت زا مسرت سے آشنا کر دے۔ چار مصرعوں کے عمل کو تین مصرعوں کے عمل میں دہرانا مقابلتاً آسان ہو گا۔
تجربے کی روایت بری نہیں ہے۔ تجربے ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ یہاں تک کے تجربے کے لیے بھی جو تجربے کیے جائیں، ادب میں ان کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ تاہم آخری تجزیے میں ادب ایک نتیجہ خیز فنّی عمل ہے۔ ہائیکو ایک بھاری پتھر ہے، وہ ریاض چاہتا ہے، انگریزی والوں نے اسے بڑا سہل جانا، بات اتنی سہل نہ تھی، چنانچہ انگریزی میں ہائیکو ’بچوں کا کھیل‘ ہو کر رہ گیا۔ ہم ریاض کی روایت کے امین ہیں، ہماری بات اور ہے، اس لیے فنّی سطح پر اس کو زندہ رکھنے کی بامعنی کوشش کر سکتے ہیں، ورنہ تو سابقہ تجربات ہماری نظر میں ہیں۔ محّرکات سے محروم ہوتے ہیں، تجربہ اپنی جڑ چھوڑ دیتا ہے، اگر محّرک خالص ادنی ہو، تو ادنی صداقت بہر حال زندہ رہنے والی چیز ہے۔
٭٭٭
اُردو میں ہائیکو کی ہئیت
ڈاکٹر محمد امین
مطبوعہ سہ ماہی الزبیر بہاولپور، شمارہ نمبر ۴، ۲۰۰۵ء
جاپانی زبان تین رسوم الخط یا تین قسم کے الفاظ یا تین قسم کے تصویری کرداروں پر مشتمل ہے۔ ہیرا گانا، کاتا کانا اور کانجی۔ ہیرا گانا اور کاتا کانا کی حیثیت حروفِ تہجی کی سی ہے۔ جاپانی میں ہر حرف یا آواز یا شکل پانچ آوازوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ان تمام آوازوں کی شکلیں مختلف ہیں۔ نا۔ نی۔ نُو۔ نے۔ نو، کا۔ کی۔ کُو۔ کے۔ کو، ما۔ می۔ موُ۔ مے۔ مو وغیرہ۔ یہ آوازیں اور شکلیں ہیرا گانا اور کاتا کانا کی صورت میں موجود ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ بدیسی اور غیر جاپانی الفاظ کاتاکانا میں لکھے جاتے ہیں۔ کانجی چینی تصویری کردار ہیں۔ یہ تینوں جاپانی زبان کا لازمی حصہ ہیں۔
جاپانی عروض میں عروض رکن کو اُنجی کہتے ہیں۔ اُنجی کے معنی ہیں لکھی ہوئی آواز۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام حروف تہجی یعنی ہیرا گانا عروضی ارکان ہیں۔ جاپانی عروض میں لکھی ہوئی آوازوں کو گنا جاتا ہے۔ ادائیگی یا صوت کو سامنے نہیں رکھا جاتا ۔مفرد آوازیں ایک شکل پر اور مرکب آوازیں دو شکلوں پر مشتمل ہیں۔ مثلاً ً گیا۔ گی۔آر۔ دو شکلوں پر مشتمل ہیں۔ مثلا ً میو دو شکلوں پر مشتمل ہے۔ می ۔ او یعنی سہ حرفی الفاظ بھی ہیرا گانا میں لکھنے کی صورت میں دو شکلوں میں لکھے جاتے ہیں اور عروض میں دو شکلیں ہی شمار ہوتی ہیں ۔ جاپانی ہیرا گانا میں ایک ہی شکل ایسی ہے ۔جو ادائیگی میں سہ حرفی ہے ۔یعنی تسُو یہاں تے کی آواز اتنی خفیف ہے کہ ادائیگی میں نمایاں نہیں ہوتی اور کئی جگہ یہ تسُو ، زُو میں بدل جاتا ہے ۔چونکہ یہ آواز ایک ہی شکل میں لکھی جاتی ہے لہٰذا ایک ہی شمار ہوتی ہے ۔
جاپانی زبان اور عروض کے مطابق اُردو کا ہر حرف ایک شکل ہے اور ایک عروضی رُکن ہے مثلا دل د۔ل دو شکلوں پر مشتمل ہے اور دو ارکان شمار ہوں گے۔ نظر ن ۔ظ۔ر تین شکلوں پر مشتمل ہے ۔اور تین ارکان شمار ہوں گے۔ کتاب ک ۔ت۔ا۔ب چار شکلوں پر مشتمل ہے اور چارارکان شمار ہوں گے۔ منتظر میں م۔ن۔ت۔ظ۔ر پانچ شکلوں پر مشتمل ہے اور پانچ ارکان شمار ہوں گے۔علی ٰ ہذاٰ القیاس اب جاپانی عروض کو اُردو میں کیسے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے اردو کے عام چھوٹے چھوٹے الفاظ بھی چار پانچ اُنجی پر مشتمل ہیں ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جاپانی عروض کو ہائیکو کے لیے اختیار کیا جائے۔ یا ہائیکو کے لیے جاپانی اوزان کو کیسے اپنایا جا سکتا ہے ۔ میرے خیال میں یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ۔ ہمارے بعض ہائیکو نگار شعراء کا یہ اصرار ہے کہ فعلن فعلن فع/ فا فعلن فعلن فعلن فا فع/ فعلن فعلن فع ارکان ہی جاپانی صوتیات کے نمائندہ ہیں اور ہ ہائیکو کا جاپانی وزن یہی ہے اور صرف اس وزن میں کیے گئے ہائیکو ، ہائیکو ہیں یہ غلط ہے۔
جاپانی اُنجی کے مطابق یہ تو یہ ارکان یوں بنتے ہیں فعلن ف/فعلن فعلن فعل/ فعلن ف اردو میں ان کو اختیار کرنا ممکن ہی نہیں ۔ ہم نے جاپانی اُنجی کو اپنے عروضی نظامِ ادائیگی میں ڈھال لیا ہے جبکہ یہ بھی غلط ہے۔ ہر جاپانی آواز الف ، واؤ اور یائے پر ختم ہوتی ہے۔ ا۔ و۔ ی جو حروف علت ہیں کو جن کی ادائیگی جاپانی میں بھی بعض اوقات بہت خفیف اور بعض اوقات نمایاں ہوتی ہے۔ یہ حروف علت اردو میں بھی تقطیع میں بعض اوقات ساقط ہو جاتے ہیں اور شمار نہیں کیے جاتے۔ میں کیسے مان لوں کہ فعلن والے ارکان ہی جاپانی ارکان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان اوزان میں کیے گئے ایک ہائیکو کی تقطیع جاپانی اُنجی کے مطابق دیکھیے :
دنیا سوتی ہے /باغ میں گل کی ہستی پر/ شبنم روتی ہے
د۔ ن۔ ی۔ ا، س۔ و۔ ت۔ ی، ہ۔ ے = ۱۰ ا نجی
ب۔ ا۔ غ، م۔ ی۔ ں، گ۔ ل، ک۔ ی، ہ۔ س۔ ت۔ ی، پ۔ ر = ۱۶ اُنجی
ش۔ ب۔ ن۔ م، ر۔ و۔ ت۔ ی، ہ۔ ے = ۱۰ اُنجی کُل ۳۶ اُنجی
یہ کیسے سترہ جاپانی ارکان بنتے ہیں۔ جب ارکان وضع کرنے ہیں اور قریب تر ارکان اختیار کرنے ہیں تو پھر متذکرہ ارکان پر اصرار کیوں۔ اس کا کیا جواز ہے۔ اور اس کے لیے کیا دلیل ہے ؟
جاپانی میں ہائیکو یک سطری اور یک مصرعی ہے ۔ جو بالعموم ۱۷ اُنجی پر مشتمل ہے ۔جس میں دو برام ہیں۔ پہلا برام بالعموم پانچ اُنجی پر اور دوسرا برام بالعموم سات اونجی پر واقع ہوتا ہے اور ہائیکو اوپر سے نیچے لکھی جاتی ہے ۔مصرعے کا جو تصور اردو میں ہے اس کے مطابق ہائیکو تین مصرعوں پر مشتمل نہیں ہے۔ ہائیکو میں قافیے کی سخت ممانعت ہے اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ برام ہے ۔ اکثر ہائیکو نگار شعراء پہلے اور تیسرے مصرعے میں قافیے کا اہتمام بالالتزام کرتے ہیں جو جائز نہیں ہے ۔ قافیے کا یہ انتظام ہمارے یہاں ماہیے کی ہیئت کا حصہ ہے اور متذکرہ وزن بھی ماہیے کا ہے ۔ یوں متذکرہ وزن میں قافیے کے التزام کے ساتھ لکھے گئے ہائیکو ، ہائیکو نہیں ماہیے ہیں۔ ان کا لہجہ اور موضوعاتی پیشکش ماہیے کے قریب ہے ۔ اگر اردو ہ ہائیکو کے لیے جاپانی ہائیکو کا تتبع لازمی ہے تو پھر ہمیں اردو میں بھی ہائیکو ایک ہی سطر یا مصرعے میں اوپر سے نیچے لکھنا چاہیے جو میرے خیال میں کسی صورت بھی مناسب نہیں ۔
اردو کے علاوہ ہ ہائیکو کے تراجم کئی زبانوں میں ہوئے ہیں اور کئی زبانوں میں طبع زاد ہائیکو لکھے جا رہے ہیں میں نے جاپانی کے علاوہ جن زبانوں میں ہائیکو کے تراجم اور طبع زاد ہائیکو پڑھیں وہ بغیر قافیے کے تین مصروعو ں یا سطروں پر مشتمل ہیں اور ان کے اوزان وہی ہیں جو اس زبان کے مروجہ اوزان ہیں ۔ انگریزی کے ہائیکو مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہی صورتحال اردو میں ہے۔ ہمیں اردو میں تین مصرعوں پر مشتمل بغیر قافیے کے ہائیکو اردو اوزان میں لکھنے چاہئیں۔
اردو میں دوسری زبانوں سے اخذ و استفادہ کی روایت موجود ہے۔ ہمیں اس روایت کا اتباع کرنا چاہیے اردو میں نظم معریٰ، نظم آزاد ، انگریزی کے زیر اثر لکھی گئی ۔ مگر انگریزی کے اوزان نہیں اپنائے گئے ۔ کیونکہ یہ اردو میں ممکن نہیں تھا۔ اردو میں لمرک، ترائیلے ، سانیٹ اور کینٹو کے تجربے ہوئے ۔ سانیٹ اور کینٹو کے تجربات بڑے نمایاں ہیں اور قابل ذکر ہیں۔ کیا ان اصناف میں ان زبانوں کے اوزان بھی اپنائے گئے ؟ نہیں۔ کیا سانیٹ میں انگریزی اوزان اپنائے گئے ؟ کیا کینٹو میں اتالوی اور انگریزی اوزان اختیار کیے گئے ہیں؟ نہیں ۔ اس لیے کہ یہ ممکن نہیں تھا ۔ ہم نے صرف ظاہری ہیئت اور موضوعات کو اختیار کیا اور اس میں اختلاف نظر آتا ہے ۔ اس روایت کے مطابق جو اردو میں موجود ہے ۔ صرف ہائیکو کے لیے جاپانی اوزان کی پابندی کیوں؟ اردو میں دوہا لکھا جاتا ہے ۔ بعین دوہا نگاروں نے ہندی اوزان سے انحراف کیا ہے ۔ یعنی لبرام کا اہتمام نہیں کیا۔ اور ارکان میں بھی اضافہ کیا ہے ۔ میرے ناقص مطالعے کے مطابق جاپانی میں بھی ہائیکو کے ارکان میں کمی بیشی بڑی نمایاں نظر آتی ہے۔ تفصیل کے لیے راقم کے مضامین اور کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اگر رباعی کی چوبیس بحریں ہو سکتی ہیں اور مثنوی سات بحروں میں لکھی جا سکتی ہے ۔ تو ہائیکو کے لیے مختلف ارکان کیوں نہیں ہو سکتے۔ اردو میں ہائیکو کی باقاعدہ ترویج سے پہلے ثلاثی ، مثلث۔ ماہیا اور تین مصرعوں کی آزاد نظم کے تجربے نظر آتے ہیں۔ ان کو ہائیکو کے پسِ منظر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ ماہیا کے علاوہ باقی تمام تجربات ہائیکو میں ڈھل گئے ہیں اور ہائیکو کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ البتہ ماہیا علیحدہ سے اپنی ہیئت کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ لیکن یہ ایک زمانی حقیقت ہے کہ ماہیے کے اس تجربے کو مقبولیت ہائیکو کے تجربے کے بعد حاصل ہوئی ۔ اب تین مصرعوں کی نظم ہائیکو کہلاتی ہے اور اختلاف سے قطع نظر شعراء اسے ہائیکو ہی کہتے ہیں ۔
جاپان میں ہائیکو کے ہیئت کے اعتبار سے تین مکاتب فکر ہیں، اردو میں کیوں نہیں ہو سکتے ۔ اردو میں مکاتبِ فکر تشکیل دینے میں کیا امر مانع ہے۔ اب حمدیہ ہائیکو ، نعتیہ ہائیکو اور کئی طرح کے ہائیکو لکھے جا رہے ہیں کیا ہم شعراء کو منع کر سکتے ہیں کہ وہ یہ ہائیکو نہ لکھیں۔
میں جاپانی زبان میں بھی ہائیکو لکھتا ہوں ۔ موضوع اور ہیئت کی پابندی کے ساتھ ، میں پانچ ، سات ، پانچ اُنجی کی سخت پابندی کرتا ہوں ۔مگر اُردو میں میں نے الگ راہ اختیار کی ہے ۔ جو میرے نزدیک اردو کے مطابق ہے۔ میں نے کچھ عرصہ بیشتر اپنی کتاب ’ہائیکو ، ایک مطالعہ’ میں یہ تجویز پیش کی کہ اردو میں ہیئت کے اعتبار سے ہائیکو کے دو مکاتب ِفکر تسلیم کر لئے جائیں۔ ہائیکو نگار شعراء کی اکثریت بحر ِخفیف اور فعلن کے ارکان استعمال کرتی ہے کیوں نہ ان دونوں کو دو مکاتب فکر مان لیا جائے ۔بحر ِخفیف استعمال کرنے والوں کو فعلن کے ارکان میں ہائیکو لکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ۔ لیکن فعلن کے ارکان استعمال کرنے والے شعراء کو بحر ِخفیف پر اعتراض ہے۔ اور وہ اسے ہائیکو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ۔ حالانکہ ان کے پاس ان ارکان کو جاپانی ارکان قرار دینے کے لیے کوئی دلیل اور ثبوت نہیں ۔ جاپانی ہائیکو میں قافیہ کا استعمال نہایت سخت ممنوع ہے ۔ جبکہ فعلن کے ارکان میں بغیر قافیے کے ہائیکو اچھی نہیں لگتی۔ پھر اس کی پیشکش ایسی ہے جو ماہیے کے قریب تر ہے ۔
آر۔ ایچ ۔بلائتھ کی کتاب ’تاریخِ ہائیکو’ کی دوسری جلد سے درج ذیل اقتباس قابل غور
ہے:
’لیکن جہاں کہیں ہائیکو لکھا جاتا ہے۔ ہیئت کا مسئلہ ضرور پیدا ہوتا ہے ۔یورپین اور امریکیوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان کے ہائیکو موزوں ابیات میں ہوں یا سہ مصرعی ہوں یا مقفیٰ ہوں یا آزاد ہوں۔ جسے بعض درست لوگ نثر کا ترشح کہتے ہیں ۔ یا جاپانی کی طرح پانچ سات سلیبلز میں ہوں۔ جہاں تک موخر الذکر کا تعلق ہے ۔ تو انگریزی میں پانچ سات پانچ کی سخت پابندی سے جاپانی ہائیکو کے چند عجیب و غریب تراجم وجود میں آئے ہیں۔‘
بلائتھ کا متذکرہ بالا اقتباس بڑا واضح ہے اور دوسری زبانوں میں ہائیکو کو اپنانے کے لیے واضح اصول بیان کرتا ہے ۔دوسری زبانوں میں جاپانی ارکان پانچ سات پانچ کی سختی سے پابندی ممکن نہیں۔ اس سے ہائیکو کا بعض اوقات اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا ۔
جاپانی میں ہائیکو کی ابتدا کے بارے میں ایک نظریہ یہ ہے کہ ہائیکو تانکا کے پہلے تین مصرعوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ کیا ہم اردو میں تانکا کے آخری دو مصرعوں اور دوسرے مصرعے پر مشتمل ہائیکو نہیں لکھ سکتے۔ یوں تانکا کے یہ تین مصرعے ہم وزن ہو جاتے ہیں۔ مساوی الاوزان ہائیکو یہی ہیئت پیش کرتے ہیں۔ بحرِ خفیف میں لکھے گئے ہائیکو بھی یہی ہیئت رکھتے ہیں ۔
ہیئت کے اعتبار سے اردو میں تین طرح کے ہائیکو لکھے جا رہے ہیں۔ مختلف اوزان میں مساوی الاوزان ہائیکو ا، آزاد اور نثری ہائیکو ، فعلن کے اوزان میں مقفیٰ اور غیر مقفیٰ ہائیکو ۔ اگر شماریاتی تحدید کی جائے تو مساوی الاوزان میں بحر خفیف زیادہ استعمال کی جا رہی ہے۔ اور فعلن کے اوزان میں مقفیٰ ہائیکو بھی زیادہ لکھے جا رہے ہیں۔ اگر ہائیکو کی شناخت کے لیے اوزان کی تحدید ضروری ہے تو متذکرہ دونوں اوزان کو جو کثرت سے استعمال میں ہیں ، ہائیکو کے اوزان قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔ میں نے جاپانی کے علاوہ دوسری زبانوں میں لکھے گئے ہائیکو بھی پڑھے ہیں۔ اپنے ناقص مطالعے کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ صرف فعلن کے اوزان پر اصرار کرنا درست نہیں اور ہائیکو کی ہیئت میں تبدیلی ممکن ہے۔
٭٭٭
تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں