FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نئی نظم کے معمار۔ ساقی فاروقی

                   محرک: زیف سید (ظفر سید)

فیس بک کے حاشیہ ادبی گروہ کے آن لائن مباحثے کا سکرپٹ

 

خالی بورے میں زخمی بلا

                   ساقی فاروقی

جان محمد خان

سفر آسان نہیں

دھان کے اس خالی بورے میں

جان الجھتی ہے

پٹ سن کی مضبوط سلاخیں دل میں گڑی ہیں

اور،آنکھوں کے زرد کٹوروں میں

چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں

اور بدن میں رات پھیلتی جاتی ہے۔۔۔

آج تمہاری ننگی پیٹھ پر

آگ جلائے کون

انگارے دہکائے کون

جدوجہد کے خونیں پھول کھلائے کون

میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں

آج سفر آسان نہیں

تھوڑی دیر میں یہ پگ ڈنڈی

ٹوٹ کے اک گندے تالاب میں گر جائے گی

میں اپنے تابوت کی تنہائی سے لپٹ کر سو جاؤں گا

پانی پانی ہو جاؤں گا

اور تمہیں آگے جانا۔۔۔

۔۔۔ اک گہری نیند میں چلتے جانا ہے

اور تمہیں اس نظر نہ آنے والے بورے۔۔۔

۔۔۔ اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں

جان محمد خان

سفر آسان نہیں

٭٭٭

 

ظفر سیّد: یہ نظم عام طور پر ارد و کی عمدہ ترین نظموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ جان محمد خان اپنی پیٹھ پر ایک بورا اٹھائے ہوئے کسی گندے تالاب کی طرف چلا جا رہا ہے۔ اس بورے میں ایک زخمی بلا بند ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ بلا بہت خونخوار تھا اور جان محمد خان پر حملے کر کے اسے زخمی کر دیا کرتا تھا۔ جان محمد خان نے اسے بڑی مشکل سے بلے کو پکڑ کر بورے میں بند کیا ہے اور اب اسے اس سے نجات کا یہی راستہ سوجھا ہے کہ اسے بورے سمیت غرقاب کر دیا جائے۔

 زخموں سے چور بلے کو بھی اپنے انجام کا علم ہو چکا ہے اور موت سے قبل وہ فلسفیانہ موڈ میں آ گیا ہے۔ وہ جان محمد خان کو اپنے مرنے سے پہلے چند باتوں سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ جان محمد خان کے ساتھ ہونے والی خوں ریز لڑائیوں کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے بعد تم سے لڑنے والا کوئی نہیں ہو گا اور یہ کہ میں تو پانی میں ڈوب کر مر جاؤں گا لیکن تمہارا انجام بھی کچھ مختلف نہیں ہو گا۔ وجہ یہ کہ میری طرح تم بھی بورے میں بند ہو، فرق صرف یہ ہے کہ میں اپنا بورا دیکھ سکتا ہوں لیکن تمہیں اپنا بورا نظر نہیں آ رہا۔ یہاں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بلا دنیا کو قید خانہ (بورا ) کہہ رہا ہے جس میں جان محمد خان بند ہے۔ وقت اس بورے کو اپنی پشت پر لادے افتاں و خیزاں ایک گندے تالاب (موت) کی جانب رواں دواں ہے، جو ہر انسان کا مقسوم ہے۔

 اب دیکھیے کہ جان محمد خان کی پیٹھ پر ایک بورا ہے جس میں بلا بند ہے۔ دوسری طرف جان محمد خان خود بھی ایک بورے میں بند ہے جو کسی اور کی پیٹھ پر لادا ہوا ہے۔ دنیا کو قید خانہ کہنا، انسان کا اس میں بند ہونا اور مر کر ہی اس سے نجات پانا نہ صرف روایتی اردو وفارسی شاعری کا مضمون ہے بلکہ اس کے ڈانڈے تصوف اور ویدانت سے بھی جا ملتے ہیں۔ استاد ذوق کا لافانی شعر ملاحظہ ہو جو انہوں نے قرآنی آیت سے روشنی پا کر لکھا ہے :

 احاطے سے فلک کے ہم تو کب کے

 نکل جاتے مگر رستا نہ پایا

 لیکن تو نظم کا فقط ایک پہلو تھا، غور کرنے پر مزید گرہیں کھلتی ہیں۔

 یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جان محمد خان اور بلا ایک ہی ہستی کے دو روپ ہوں !

 جاری ہے۔

مشہور انگریزی ادیب رابرٹ لوئیس سٹیونسن کا ایک ناول ہے، "ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ کا عجیب قصہ” جس پر کئی فلمیں ، سٹیج ڈرامے اور ٹی وی سیریل بن چکے ہیں۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک سائنس دان ڈاکٹر ہیری جیکل ایک ایسی دوا ایجاد کرتا ہے جسے کھانے کے بعد اس کی شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک تو وہ خود، یعنی ایک نیک طینت اور شریف سائنس دان اور اس کا ہمزاد ہائیڈ، جس کے بارے میں ناول کے ایک کردار کا کہنا ہے :

 "یہ آدمی مشکل ہی سے انسان لگتا ہے۔ اسے کیا کہا جائے، کوئی غاروں کا باسی؟۔۔۔ یا ایک گھناؤنی روح کی جھلک، جس کے پرتو نے اس کے جسدِ خاکی کی تقلیب کر دی ہے ؟۔۔۔ اگر میں نے زندگی میں کبھی بھی کسی شخص کے چہرے پر شیطان کے دستخط رقم دیکھے ہیں تو یہ چہرہ ہے۔ "

 جس وقت سٹیونسن نے یہ ناول لکھا (1886ء)، تقریباً اسی وقت چیکو سلوواکیا کا ایک نوجوان اپنے نفسیاتی نظریات پر غور و فکر میں مشغول تھا۔ ممکن ہے اس ناول نے اس کی سوچ پر اثر ڈالا ہو۔ میرا اشارہ ہے سگمنڈ فرؤئڈ کی طرف۔

 فرؤئڈ انسانی شخصیت کو تین حصوں میں منقسم بتاتا ہے : اِڈ، ایگو اور سپر ایگو۔ اڈا انسان کے لاشعور سے عبارت ہے اور لذت کے حصول اور خود غرضی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ سپر ایگو اڈ کی بے مہار خواہشات پر ایک پردہ ہے اور انسان کی ذات کے مجلسی روپ کی ترجمان ہے۔ ایگو ان دونوں دھڑوں کے درمیان پل کا کام کرتی ہے۔

 سٹیونسن کے ناول میں مسٹر ہائیڈ کو ہم اڈ کا جب کہ ڈاکٹر جیکل کو سپر ایگو کا نمائندہ سمجھ سکتے ہیں۔ "خالی بورے میں زخمی میں بلا” میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ،حال نظر آتی ہے۔ اس نظم کی فرؤئڈین توجیح کچھ ایسے کی جا سکتی ہے کہ جان محمد خان سپر ایگو کا نمائندہ ہے اور بورے میں بند زخمی بلا اڈ کا۔ جان محمد خان کو اس کی بے لگام اڈ نے بہت پریشان کیا ہوا ہے اور اب وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرمِ عمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ” ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ” میں بھی ایسا ہی ایک مرحلہ درپیش آتا ہے جب ڈاکٹر جیکل تہیہ کر لیتا ہے کہ وہ اب کبھی بھی مسٹر ہائیڈ کا روپ نہیں دھارے گا لیکن تمام تر کوشش و خواہش کے باوجود وہ اپنی جبلت کے سامنے ہار جاتا ہے جو اسے آخر میں تو بغیر دوا کے مسٹر ہائیڈ میں منتقلب کرتی رہتی ہے۔

 نظم کو ایک بار اور پڑھیں تو ایک پرت کھلتی نظر آتی ہے۔ پگڈنڈی پر تالاب کی جانب لشٹم پشٹم رواں دواں جان محمد خان کا سفر انسانی ارتقا کا سفر نظر آنے لگتا ہے اور جان محمد خان اپنی جبلت سے نبرد آزما دکھائی دیتا ہے۔ یہاں پہلی بار بلا ولین کی بجائے مثبت کردار کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے فرانسیسی فلسفی روسو کا خیال تھا کہ تاریخ کے سفر کے ساتھ ساتھ انسان کی شخصیت پر معاشرتی ادب آداب اور تکلفات کے مصنوعی ماسک چڑھتے جا رہے ہیں اور انسان اپنی اصلیت سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس خالص، فطرت سے قریب تر اور منافقانہ ملمع سے پاک انسان کو روسو نے "دی سیوج مین” کا خطاب دیا۔ روسو کا خیال تھا کہ انسان اپنی روح سے ان تمام نقابوں کو نوچ کر پھینک دینے کے بعد ہی اپنی اصل کو پا سکتا ہے۔

 اب جان محمد خان کو دیکھیے کہ اس نے معاشرتی جبر کے تحت اپنی اصل کو بورے میں مقید کر لیا ہے اور اب اسے ہمیشہ کے لیے غرق کرنے کے درپے ہے۔ وہ یہ بھول چکا ہے کہ اس کی اصل نے اسے ہمیشہ اپنی ان تھک جدوجہد او ر شعلہ گری سے مائل بہ سفر رکھا ہے۔ اسے یہ بھی خیال نہیں کہ اپنی اصل کو کھو دینے کے بعد وہ خو دبھی کہاں رہے گا؟

 نظم میں ابھی بہت کچھ ’مسالہ، موجود ہے، لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ بعد میں گفتگو آگے بڑھے گی تو مزید حصہ لوں گا۔

 جنابِ صدر سے گزارش ہے کہ وہ اجلاس کی کارروائی آگے بڑھائیں۔

علی محمد فرشی: کچھ دیر قبل صدرِ جلسہ سے فون پر ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کا نیٹ کام نہیں کر رہا، ممکن ہے شام تک درست ہو جائے۔ انھوں مجھ پر یہ ذمہ داری بھی ڈال دی کہ میں بحث کا آغاز کر دوں۔

علی محمد فرشی: صاحبِ صدارت! جنابِ ظفرسید کو داد دینا چاہیے کہ انھوں نے ایک بار پھر ہمیں ایک اہم نظم پر گفت گو کا موقع فراہم کیا۔ مجھے ان سے اتفاق ہے کہ:”یہ نظم عام طور پر اردو کی عمدہ ترین نظموں میں شمار کی جاتی ہے۔ ” بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ اسے خود شاعر کی بھی عمدہ ترین اور اہم تر نظموں میں ہمیشہ بلند مقام پر رکھا جائے گا۔ تا حال اس نظم کا شہرہ تو بہت ہوا لیکن اس کی فنی اور فکری بلندیوں کو دریافت کرنے کی کوئی سنجیدہ تنقیدی کوشش کم از کم میری نظر سے نہیں گزری۔ وزیر آغا اس دنیا سے شاکی چلے گئے کہ تا حال نظم کو مکمل آزادی نصیب نہیں ہوئی۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ ’نظم، بہ طور صنف ابھی تک ’غزل، کے اثرات سے نہیں نکل پائی۔ انھیں شاعر سے شکایت تھی تو مجھے نقاد پر غصہ ہے بلکہ افسوس ہوتا ہے کہ اس کے لیے نظم نگاروں نے ان گنت توانا اور ترو تازہ شکار میدان میں سجا کر رکھ دیے جن پر جانے کیوں اس کی نظر نہیں پڑی؟ حال آں کہ غذائیت سے بھرپور یہ خوراک اسے قابلِ رشک صحت عطا کرسکتی تھی۔ کہنے دیجیے کہ یہ صنف تو ابھی تک اپنے خالص قارئین سے بھی محروم ہے اور غزل کے عادی سامعین کی واہ واہ اور ٹھاہ ٹھاہ کے شور شرابے میں یا تو شرما کر رہ جاتی یا گھبرا کر (خود میں ) سمٹ جاتی ہے۔ ’حاشیہ، کو یہ توفیق حاصل ہے کہ یہاں راشد، میرا جی، مجید امجد جیسے نابغہ ہائے روزگار کی ایسی شہ کار نظموں کی گرہیں کھولی گئیں جن پر دہائیوں سے تنقید کے ناخن مقروض تھے۔ میرے خیال میں زیرِ بحث نظم بھی نظموں اسی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے جس کی تفہیم کا اعزاز ’حاشیہ‘ کو حاصل ہو گا۔

 جنابِ صدر! میں ، ابتداً، بحث کو آغاز دینے کی خاطر اس نظم کی معنوی جہات پر گفت گو کرنا چاہوں گا۔ پہلی جہت مقامیت سے منسلک ہے اور دوسری آفاقیت سے لب ریز۔ نظم کے دونوں دائرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور کہیں ایک دوسرے کو قطع نہیں کرتے۔ نظم کا دریچہ کھلتے ہی مقامی لینڈ سکیپ پر نظر پڑتی ہے :

 1 پٹ سن

 2 دھان

 3 جان محمد خان

 4 زخمی بلا

 5 تالاب

 درجِ بالا پانچ الفاظ نظم کے مقامی دائرے کا تعین کرتے ہیں ، نظم کی شاہ کلید "پٹ سن” کی علامت ہے جو قاری کے ذہن پر فوراً مشرقی پاکستان کی سر زمین کا نقشہ کھول دیتی ہے۔ پٹ سن اوردھان مشرقی پاکستان کی معیشت کے مضبوط ستون، نظم کی عمارت کو بھی سہارا فراہم کر رہے ہیں۔ زمین سے منسلک تیسری علامت ’تالاب، کی ہے جو اپنے پھیلاؤ میں سیلابی آفت کا اشارہ بھی ہے جو اس خطۂ ارض کی جغرافیائی شناخت کو مستحکم کر رہا ہے۔ ’ جان محمد خان، مقتدرہ طبقے کی علامت ہے اور ’زخمی بلّا‘ اس سرزمین کے عوام کا استعارہ۔ (جاری ہے )

علی محمد فرشی: نظم کے مقامی دائرے میں سیاسی موضوع انسانی المیے اور قومی سانحے سے آمیخت ہے۔۔۔۔۔۔ ہماری تاریخ کا سیاہ باب کھلتا ہے تو جان محمد خان کے مکھوٹے میں قاری کو صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان، گورنر مشرقی پاکستان جنرل منعم خان، گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ امیر محمد خان، جنرل ٹکا خان، جنرل امیر عبداللہ خان نیازی، یحیٰ خان کے چہرے بغیر کسی کوشش کے نظر آنے لگتے ہیں۔

 مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے ذمہ دار کیا مغربی پاکستان کے عوام تھے یا پھر پورے ملک پر قابض غاصب حکم ران؟ نظم نے اس بارے میں ’جان محمد خان‘ کا اسم معرفہ چن کر اپنے مؤقف کا کھلا اظہار کیا ہے۔ یہ خان لوگ کون تھے، یہ تو واضح ہو چکا۔ ان کا مشرقی پاکستان اور اس خطے کے عوام کے بارے میں کیا رویہ تھا اس کا ثبوت خود جنرل صدر ایوب خان کی لکھی ہوئی ڈائری سے ملاحظہ کیجیے :

 "مغربی پاکستان کابینہ اور گورنر موسیٰ سے ملاقات میں یہ سوال زیرِ بحث آیا کہ مشرقی پاکستان کی جانب سے مغربی حصے کو بلیک میل کرنے کی کوششوں سے کیسے نمٹا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ مرکزی اور مغربی پاکستان کی حکومت مقننہ، انتظامیہ اور پریس کی سطح پر مشرقی پاکستان کی بے وفائی کا پردہ چاک کرے۔ ممکن ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ وہ چاہیں تو پاکستان سے الگ ہوسکتے ہیں تو یہ سن کر ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ "( 28 جون1967 )

 غاصبانہ و آمرانہ نظامِ حکم رانی نے مشرقی عوام کو جس احساسِ محرومی بل کہ احساس غلامی سے دوچار کر رکھا تھا اس کی روداد ہی اس نظم کی کہانی بنی ہے۔ شاعر نے جان محمد خان کا اسم معرفہ آمریت کے استعارے طور برتا ہے لیکن کمال یہ کیا ہے کہ مد مقابل استعارے کو اسم نکرہ کی صورت میں استعمال کر کے محکوم عوام کی بے چہرگی، بے توقیری اور بے بسی کو بھی گہری معنویت عطا کر دی ہے۔

 سوال کیا جا سکتا ہے کہ نظم کا عنوان مہمل ہے، کہ جب بورا خالی ہے تو اس میں بلّے کی موجودگی کا کیا جواز ہے ؟ اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دھان سے خالی بورا ہے، یعنی اسم معرفہ نے اسم نکرہ کو اس کے پیداواری وسائل سے محروم کر کے غربت وافلاس کا قیدی بنا رکھا ہے اور اب اسے موت کے منھ میں پھینکنے جا رہا ہے۔

 صاحب صدارت! میں نے مقامی جہت پر اظہارِ خیال کیا ہے اور آفاقی جہت پر توقف کر لیا ہے تاکہ دوسرے احباب بھی بحث میں شریک ہو جائیں تو اس سمت آؤں۔

زکریا شاذ : سبحان اللہ۔۔۔۔۔ ماشا اللہ۔۔۔۔۔ میرے اس استعجابیے کے دو اسباب ہیں۔۔۔۔ مگر ان کے ذکر سے پہلے میں حاشیہ کے محترم منتظمین اور نظم کے بہت ہی منفرد شاعر اور میرے یار غار اور حاشیہ کے شریک کار محمد یامین کا شکریہ ادا کر دینا ضروری سمجھتا ہوں ، جنہوں نے اس انتہائی سنجیدہ، فعال اور ادب پرور حاشیہ کے فورم میں شمولیت کی دعوت کی سعادت بخشی۔۔۔۔ میں محترم علی محمد فرشی اور بالخصوص صاحب صدر، مکرم ظفر سید کا کا بھی ممنون ہوں کہ اتنے خوبصورت فورم سے آج میرا تعارف ہو رہا ہے۔۔۔ جس کے روح رواں آپ جیسے اہل فکر و دانش کی مصاحبت مجھے مل رہی ہے۔۔۔ حاشیہ کے دیگر احباب کی معیت کے لیے بھی میں بے حد پر جوش اور شکر گزار ہوں۔۔۔۔

 اب میں ان اسباب کی طرف آتا ہوں جن کا ذکر میں نے آغاز میں کیا ہے۔۔۔۔۔ میں نے اظہار استعجاب و مسرت اول تو جدید اردو نظم کے اتنے جدید تر، فکرمند اور تہ دار شاعر ساقی فاروقی صاحب کا نام اور ان کی انتہائی حیران کن اور منفرد ٹریٹمنٹ کی حامل نظم۔۔۔۔۔ خالی بورے میں زخمی بلا۔۔۔ دیکھ کر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ دوم۔۔۔۔۔ صاحب صدر جناب ظفر سید کے اس نظم کے حوالے سے اتنے معنی خیز انشراح و افتتاح کو پڑھ کر کیا۔۔۔۔۔ بلا شیہ انہوں نے نظم کی تفہیم کے سلسے میں بہت ہنر مندی سے ہی کام نہیں لیا۔۔۔ بلکہ بہت صائب اور متعلقہ پہلوؤں کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ بھی کیا۔۔۔۔۔ جس سے شرکائے حاشیہ کو نظم زیر بحث پر کھل کر اظہار کرنے کی سہولت عطا کی۔۔۔۔۔

 مگر ان سب وضاحتوں کے باوجود۔۔۔۔۔ میرے خیال میں نظم کے بہت ہی اہم پہلو ابھی تشنۂ تشریح ہیں۔۔۔۔۔

زکریا شاذ : اس سے پہلے کہ میں نظم کے تشنۂ تشریح گوشوں کی نشاندہی کرتا۔۔۔ جناب علی محمد فرشی کا نظم زیر موضوع کا تجزیہ پڑھ کر میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔۔۔۔ فرشی صاحب نے نظم کی تفہیم کے سارے رخ ہی بدل ر کھ دہے ہیں۔ یہ ایک مانوس حیران کن اچھوتا اور قابل قبول تجزیہ معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔ اس طرح گویا انہوں نے نظم کو سیاسی مفاہیم پہنا کر اسے ایک سیاسی نظم کا روپ بھی دے دیا ہے۔۔۔۔۔ جاری۔۔

زکریا شاذ : ہاں سردست اور فی الحال میں فرشی صاحب کے اس نوٹ کے آخری حصے پر کچھ کہنا چاہوں گا۔۔۔۔

 میں نے شاید پہلے بھی کسی دوست سے اس نظم کے عنوان کے مہمل ہونے بابت سنا تھا جس پر مجھے تعجب ہوا تھا اور ابھی یہ پڑھ کر حیرانی ہوئی ہے۔۔۔۔ جاری۔۔

زکریا شاذ : عنوان کسی طرح سے بھی مہمل نہیں ہے۔۔۔۔ شاعر نے۔۔۔ خالی بورا۔۔۔ عنوان نہیں تراشا کہ جس سے بلے کی موجودگی گا جواز ڈھونڈا جائے۔۔۔ بلکہ خالی بورا اہتماماً کہا گیا ہے نہ کہ سہواً۔۔۔۔ اگر شاعر۔۔ بورے میں زخمی بلا۔۔ کہتا تو۔۔۔۔ نظم کی بلاغت قابل تعریف نہ ہوتی۔۔۔۔ اس لیے کہ۔۔ اس طرح بورے میں کچھ اور بھی ہے۔۔ کی الجھن نظم میں در آتی جو عنوان کی خامی پر دلالت کرتی نہ کہ اس کی خوبی۔ کیونکہ بلے کو کہیں دور لے جا کر پھینکنے کے لیے۔۔۔ خالی بورے یا تھیلے ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔۔ نہ کہ محض بورے کی۔۔۔ جاری۔۔

زکریا شاذ : خالی بورا کہہ کر شاعر نے نظم کو بلاغت کے اعلی نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔۔۔ بلاغت کیا ؟؟؟ یہ کہ بلے کو پھینکنے کا واضح اشارہ۔۔ خالی بورا۔۔۔ کہنے سے ہی ملتا ہے۔۔۔ نہ کہ محض بورا کہہ دینے سے۔۔۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ۔۔۔۔ خالی بورا۔۔۔ کہہ کر شاعر نے اپنی شاعرانہ ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔۔۔ صرف بورا کہنے سے شاعر کا نظم کہنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا تھا۔۔۔ الغرض۔۔۔ خالی بورے میں زخمی بلا۔ کا عنوان۔۔ بلیغ اور نظم کے بیانیے کے عین مطابق ہے۔۔۔۔۔

زکریا شاذ : مگر شاید یہ تذکرہ ایک طویل جملہ معترضہ تھا جو۔۔۔ اتفاقًا بیچ میں آ گیا۔۔۔۔ میں اس نظم کے بارے جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ کچھ اور پہلو ہیں۔۔۔۔ جاری۔۔

زکریا شاذ : پہلے تو میں فرشی صاحب کی اس نظم کے حوالے سے نئی، معنی خیز اور دل کے قریب محسوس ہونے والی اس نظم کی تفہیمی جہت کی داد دیتا ہوں۔۔۔ جس کا اظہار انہوں نے بہت دہلا دینے والے انداز میں کیا۔۔۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔۔۔ کم از کم میرے لیے اور شاید نظم کے شاعر کے لیے بھی تسلی بخش اور خوش کن ہے اور ہو گی۔۔۔۔۔ جاری۔۔

زکریا شاذ : میں سمجھتا ہوں کہ جب ایک نقاد یا مبصر یا کوئی بھی ادبی ذوق کا حامل انسان کسی نظم کے صرف مفاہیم یا اس کی معنوی تہ داری پر اپنا سارا زور بیان صرف کرتا ہے۔۔۔۔ تو وہ اس نظم کے ساتھ کافی حد تک انصاف نہیں کر رہا ہوتا۔۔۔ اور نہ ہی یہ ایک مستند و معتبر نقاد کا اصلی منصب ہے۔۔۔۔ تخلیق پارے کی تشریح محض اس کے معانی تلاش کرنے سے اس کی فنی و ادبی قدر و قیمت سے ہمیں کسی طرح بھی آگاہ نہیں کر سکتی۔۔۔۔ شاید یہ کام کرنے والا زیادہ سے زیادہ ایک شارح کی حیثیت سے آگے نہیں جا سکتا۔۔۔ اس طرح کی کاوش اس نظم کی محض تشریح کہلائے گی۔۔۔۔ اس کا تجزیہ نہیں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ یہی وہ ٹول ہے جس سے کسی تخلیق کو صحیح معنوں میں جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ اور اس کے ادبی و فنی معیار قائم کیے جا سکتے ہیں۔۔ جاری۔۔

زکریا شاذ : کسی بھی فن پارے کی معنوی تہ تک پہنچنا اس فن پارے کا آخری منصب ہے یا ہونا چاہیے۔ نہ کہ اس کے بنیادی اور اولیں تقاضوں میں سے ہے۔۔۔ ہاں اس کا معنوی پہلو بھی مد نظر رہنا چاہیے۔۔۔۔ اس لیے میں کہوں گا کہ نظم مذکورہ کی جو منفرد اور توجہ طلب خوبی ہے وہ اس کے عنوان ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔۔۔۔

 جدید اردو نظم۔۔۔ یعنی نظم آزاد کی پوری روایت میں یہ خوبی خال خال ہی ملے گی کہ اس کو اسم معرفہ پر عنوانات جما کر کہا جائے۔۔۔ یہ خصوصیت مقداری اعتبار سے صرف ساقی ہی کی شاعری کی ہے۔۔۔ اسم معرفہ سے مخاطب ہونے کا چلن ساقی کی ساری نہیں بیشتر اور اہم نظموں میں ضرور ملتا ہے۔۔ مثلاً۔۔ جاوید کی خاموشی۔۔۔ شیخ زمن شادانی، شیر امداد علی کا میڈک، شاہ صاحب اینڈ سنز اور حاجی بھائی پانی والا وغیرہم۔۔۔ سو یہ انفراد جدید اردو نظم میں صرف ساقی کو حاصل ہے۔۔۔ اس لیے اردو نظم کے قاری کے لیے حیران کن بھی ہے اور چونکا دینے والا بھی۔۔۔ یہ پہلو اردو نظم کی حد تک تو نیا ہے مگر عالمی سطح پر شاعری میں اور خاص کر انگریزی شاعری کے لحاظ سے یہ نیا اور انوکھا ہر گز نہیں۔۔۔ اردو میں تو اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں مگر انگریزی میں کافی ہیں۔۔۔ ٹی ایس ایلیٹ نے بھی جدید انگریزی شاعری کے حوالے سے ایسے انداز سے کام لیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ساقی صاحب کی ایسے عنوانات کی اختراع انگریزی شاعری کے مطالعے اور اس کے اثر کا نتیجہ ہے۔۔۔ جاری۔۔

محمد حمید شاہد: لیجئے احباب حاشیہ، اجلاس آغاز ہو چکا اتنے بھرپور آغاز کے لیے ظفر سید، علی محمد فرشی اور زکریا شاذ کا شکریہ۔ فرشی کا ایک بار پھر شکریہ کہ انہوں نے میری عدم موجودگی کو محسوس نہ ہونے دیا۔

 ساقی فاروقی کی بہت اہم نظم پر مکالمہ چل رہا ہے اور بتاتا چلوں کہ مجھے ساقی فاروقی کی نظم اور نثر کا مطالعہ ہمیشہ لطف سے ہمکنار کرتا رہا ہے، ڈکشن اور موضوع دونوں اعتبار سے۔ اچھا یوں بھی ہے کہ ساقی نے جب جب نظم کہی وہ واقعی نئی ہو گئی۔ تاہم کہنے والوں نے ایسا بھی کہہ رکھا ہے کہ ساقی کے ہاں موضوع جذب نہیں ہوتا، اوپر ہی اوپر رہتا ہے، یقیناً ساقی کی نظم پر بات چلی ہے تو اس حوالے سے بھی بات ہو گی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ساقی کی نظم اپنے خالق کی شخصیت کے آہنگ کی طرح گونجتی ضرور ہے، مگر اپنی ڈکشن کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ اس کی شوخ نظمیں اٹھلا اٹھلا کر چلتی ہیں اور رنگ و معنی اچھالتی رہتی ہیں اور یہ نظم اس اعتبار سے اس تخلیقی وتیرے سے باہر کی نظم نہیں ہے۔

 ایک بات یاد رکھنے کی ہے، ساقی فاروقی کا یہ کہنا رہا ہے کہ نئی نسل کو بہکانے اور اردو نظم کی نمو میں رخنہ ڈالنے میں فیض کی شاعری پیش پیش رہی۔ وہ احمد فراز ٹائپ شاعروں کو تنبیہ کرتا ہے کہ فیض کے الفاظ، سردار کے انداز، ساحر کے لہجے اور مخدوم کے نغمے چوری نہ کرو کہ سحر، صلیب، پرچم اور مقتل کے بیشتر امکانات ۱۹۳۶ء والوں نے ختم کر دئیے تھے۔ ساقی کہتا رہتا ہے۔ نئے الفاظ اختیار کرو، نئے استعارے بناؤ ورنہ مارے جاؤ گے۔ اسی ساقی فاروقی نے وزیر آغا کو بھی نہیں مانا اور وزیر آغا کی شاعری کو نابالغ شاعری کی مثل قرار دیا تھا۔ اب حاشیہ پرایسے نٹ کھٹ شاعر کی الگ سی نظم پر مکالمہ یقیناً بحث کے بہت سے نئے دریچے کھولے گا۔

 احباب، میں آپ سب سے بھرپور شرکت کی استدعا کرتا ہوں۔

علی محمد فرشی: جنابِ صدر!مجھے زکریا شاذ : صاحب کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اس نظم کا "عنوان کسی طرح سے بھی مہمل نہیں ہے۔ ” شاید میں اپنا مدعا واضح کرنے میں کام یاب نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ایک بار پھر اس بارے میں اپنے موقف کو دہرانے کی اجازت چاہتا ہوں گا:” سوال کیا جا سکتا ہے کہ نظم کا عنوان مہمل ہے، کہ جب بورا خالی ہے تو اس میں بلّے کی موجودگی کا کیا جواز ہے ؟ اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دھان سے خالی بورا ہے، یعنی اسم معرفہ نے اسم نکرہ کو اس کے پیداواری وسائل سے محروم کر کے غربت وافلاس کا قیدی بنا رکھا ہے اور اب اسے موت کے منھ میں پھینکنے جا رہا ہے۔ ” میں نے نظم کے معنوی منطقے میں رہ کر عنوان کے مہمل ہونے کا استرداد کیا تھا تو شاذ صاحب نے اسلوبیاتی اور تکنیکی حوالوں سے اس کے مہمل ہونے کو رد کیا ہے۔۔۔ چوں کہ میں نظم کے مقامی دائرے میں رہ کر موضوع کو نشان زد کر رہا تھا اس لیے معنویت کے راستے سے آنا ہی میری دلیل کا فطری تقا ضا تھا۔ شاید میں نے اسم معرفہ کی وضاحت نہیں کی تھی یعنی آمریت۔۔۔۔ اور اسم نکرہ(بلّا) یعنی مشرقی پاکستان کے عوام کو بھی کھل کر نہیں بیان کیا تھا۔ اس لیے یہ مغالطہ در آیا۔۔۔۔ تاہم جب ہم ایک ہی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عنوان مہمل نہیں تو جھگڑے کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے۔

محمد یامین: صاحب صدر!

 جناب ساقی فاروقی کی نظم پر بحث کا آغاز جناب ظفر سید نے اپنے منفرد اور اچھوتے تفہیمی سانچے میں ڈھال کر کیا ہے۔ جناب فرشی نے بھی ابتدا ہی میں نظم کی ایک مقامی جہت کو بھی اجاگر کر دیا اس طرح نظم نے گویا یہ واضح کر دیا ہے کہ میں ایک ہی وار میں شکار ہونے والی چڑیا نہیں ہوں ، میں پنکھ سمیٹ لوں تو اور رنگ دکھاتی ہوں اور اڑنے لگوں تو زیریں پروں سے اور رنگ نکل آتے ہیں۔ پاس بیٹھوں تو اور دکھتی ہوں ، دور جاؤں تو اور۔۔۔۔۔ کیوں نہ ہوں کہ مجھے ساقی جیسے منفرد اور تازہ کار شاعر نے چوگا چگایا ہے

 زکریا شاذ : اور فرشی صاحب نے قابل غور باتیں کی ہیں۔ شاذ صاحب شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ صرف نظم کی معنوی سطحیں ہی دریافت کی جا رہی ہیں لیکن وہ اطمینان رکھیں ابھی بہت کچھ کھودنا ہے۔ معنی بھی، زبان بھی، فن بھی اور وہ بھی جو شاید کبھی نہ کھودا جا سکے اور صرف اشارے مل سکیں۔ فرشی صاحب نے نظم کی ارضی/ مقامی جہت کی طرف خوب اشارہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس کی ایک جہت آفاقی بھی ہے۔۔۔۔۔ میں نے ایک بار پھر نظم کو پڑھا ہے۔۔۔ ماہرین حیوانات کے مطابق بلا ( ٹام کیٹ) آسانی سے پالتو بننے والا جان ور نہیں اس کے مقابلے میں بلیاں معصوم ہوتی ہیں۔۔۔ بلا جارحیت پسند، کینہ پرور اور کھلا دھوکے باز ہوتا ہے۔ یہ کھیل کھیل میں بھی پیٹھ پر انگارے دھکا دیتا ہے۔۔۔۔ اس کے حملے کو ڈرون حملے سے جوڑ کر دیکھیں تو موجودہ استعمار کی عیاری اور اچانک وار کرنے کی عادت سامنے آ جاتی ہے۔۔۔ یوں اس کہانی کی ایک عالمی جہت بھی ہے۔۔۔ جس میں نیلی آنکھوں والی دنیا نے جان محمد خان جیسے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔۔۔۔ اب یہی جان محمد خان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو عجب کیا ہے۔۔۔۔ لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نظم کی آخری لائینیں اس تعبیر کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہیں یا نہیں۔ ملاحظہ کریں۔

 • اور تمھیں آگے جانا ہے۔۔۔

،۔۔۔ اک گہری نیند میں چلتے جانا ہے

 اور تمھیں اس نظر نہ آنے والے بورے۔۔۔

،۔۔۔ اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں

 جان محمد خان

 سفر آسان نہیں

 جناب صدر! یہاں بلا جان محمد خان کو جس دنیا کی خبر دیتا ہے وہ اس دنیا سے ماورا ہے۔۔ کیا یہ ما بعد الطبیعاتی اشارہ نہیں۔۔ یہ آگے کی دنیا جس اک گہری نیند میں چلتے جانا ہے اور جس سے بلے نے جان محمد خان کو ڈرایا ہے اگلے جہان کی دنیا ہے جہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے والا ہے۔۔۔ اس اگلی دنیا کے بارے میں بہت سی باتیں کی جا سکتی ہیں لیکن پہلے ہمیں شاعر کی شخصیت اوراس کے نظریاتی فریم کا بھی مطالعہ کرنا ہو گا۔۔۔ اگر شاعر فکری سطح پر ما بعد الطبیعاتی ہے تو پھر ہم اسے ساقی صاحب کی نمائندہ نظم مان کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

محمد یامین: جناب صدر ایک درستی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم کی دسویں لائن میں ایک لفظ غلط ٹائپ ہو گیا ہے بل کہ اس سے پہلے والی لائن میں بھی۔۔ دونوں لائنیں یوں ہوں گی۔

 آج تمھاری ننگی پیٹھ پہ (پر نہیں )

 آگ جلائے کون (برسائے نہیں ) (جاری)

 معافی چاہتا ہوں ابھی شاذ کا بیان جاری ہے اور میں نے ان جانے میں اپنا اظہاریہ چسپاں کر دیا۔ امید ہے وہ بُرا نہیں مانیں گے

علی محمد فرشی: صاحب صدارت! البتہ شاذ صاحب کے اس دعوے سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے کہ اسم معرفہ کو نظم کا عنوان بنانے میں ” یہ انفراد جدید اردو نظم میں صرف ساقی کو حاصل ہے۔ ” اگرچہ میں اقبال کو پہلا جدید نظم نگار مانتا ہوں اور اس رجحان کا آغاز انھی سے ہوتا ہے۔ مثال کے لیے "خضرِ راہ”اور ” ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” ہی کافی ہیں۔ اور اگر جدید نظم سے مراد آزاد ہئیت کی نظم ہی لی جائے، تب بھی یہ سہرا شاید راشد کے سر بندھے۔ ان کی نظم "حسن کوزہ گر” تو فوراً ذہن میں آ جاتی ہے۔ پھر ” ابولہب کی شادی” اور "اسرافیل کی موت” بھی معروف امثلہ ہیں۔ اگر شاذ صاحب کو اس معاملے میں عددی اعتبار سے ساقی صاحب کی فوقیت پر اصرار ہے تو ممکن ہے ان کا دعویٰ درست ہو۔۔

زکریا شاذ : جب ہم کسی شاعر کے شہ پارے پر بات کرتے ہیں تو پتا نہیں کیوں ہم شاعر کو بیچ میں سے نکال دیتے ہیں۔۔۔ یعنی اس کی سماجی، معاشی، سیاسی، نفسیاتی اور خانگی اور اس کی فکری، علمی، نظریاتی، جذباتیاتی اور احساساتی شخصیت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔۔۔۔ جناب شمس الرحمان فاروقی کا عندیہ یہ ہے کہ تخلیق پارے سے تمام ممکنہ مفاہیم اخذ کرنے چاہیں۔۔۔ بلکہ غالب کی طرف سے ایک مثال پیش کر کے وہ اپنے موقف کی توثیق بھی کرتے ہیں۔۔۔ خاکم دہن کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔۔۔۔ سبب یہ ہے کہ اگر آپ شاعر کی شخصیت کو جانے بغیر اس کے فن پارے کو فرض کریں کہ اس کو فنی اعتبار سے ساویں آسمان پر لے جاتے ہیں۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہو کہ متعلقہ شاعر کی فنی اڑان اس سے آگے یا اس سے بہت نیچے ہو۔۔۔ تو یہ نہ صرف شاعر بلکہ اس کے ریڈرز کو بھی گمراہ کر دینے کے مترادف ہو گا۔۔۔۔ یاد رہے کے یہ میری حتمی رائے نہیں ہے مگر میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اگر ایک حد تک شاعر کی شخصیت ہمارے پیش نظر رہے تو اس کی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔۔ سو دیکھنا ہو گا کہ خالی بورے میں زخمی بلا۔۔۔ کے خالق کی فکری اور نظریاتی اڑان کہاں تک ہے۔۔۔ اور حیات و کائنات کے بارے میں اس کے خیالات کیا ہیں۔۔۔۔ شاعر اس لحاظ سے۔۔۔۔ خدا کے حوالے سے اپنے اندر کلئیر نہیں ہے۔۔۔۔ وہ ٹکروں میں بٹے ہوئے انسان کی حالت ار پر روتے ہے۔۔۔۔ شاعر کے والد پیشے کی رو سے حیوانات کے ڈاکٹر تھے۔۔ سو شاعر اپنی مرضی سےزندگی گزارنے کے نظریے کے شدت کے ساتھ حامی ہے اور اس راہ میں ہر رکاوٹ کھڑی کرنے والے کو غاصب سمجھتا ہے۔۔۔۔ سو جان محمد خان۔۔۔ اس نظم میں ایک غاصب کی علامت ہے۔۔۔ یہ غاصب عمومی اعتبار سے بھی ہے اور شاعر کے اپنے معنوں میں بھی ہے۔۔۔۔ شاعر اس نظم میں اپنی روح کو بلے کے جسم میں منتقل کرتے ہوئے اپنی ذات کو بلے کی جون میں پیش کر رہا ہے۔۔۔ یہ نظم ایک تصویر کی طرح ہے جس کے چار مناظر ہیں۔۔۔۔ مگر یہ سارے مناظر رات کے پس منظر میں ہیں۔۔۔ یعنی جان محمد بلے کو رات کی تاریکی میں غرقاب کرنے جا رہا ہے۔۔۔ تصویر کا پہلا منظر یہی پہلو روشن کر رہا ہے

 اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں

 چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں

 پٹ سن کی جالی دار دیوار کے پیچھے سے باہر جھانک رہا ہے۔۔ چاندنی کھلی ہوئی ہے۔۔۔ جو جالی سے چھن چھن کر اس کی زرد آنکھوں تک پہنچ رہی ہے۔۔۔ مگر کسی بھیک کی طرح۔۔۔۔۔۔ یہاں زرد آنکھیں اپنے حقیقی اور مجازی دونوں معانی میں ہیں۔۔۔۔ شاعر اپنی شاعری میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کا رسیا ہے۔۔۔ اور یہی کیفیت اس نظم میں بھی ہے۔۔۔۔

 بلا جان محمد خان پر یہ انکشاف کرتا ہے کہ پٹسن کے اس زندان رات اور تھکن کے باوجود وہ جاگ رہا ہے مگر تم جان محمد خان۔۔۔۔ سوئے ہوئے ہو۔۔۔۔

 کتے تیتھوں اتے

 نظم کے آخری مصرعے

 اور تمہیں آگے جانا ہے۔۔۔

،۔۔۔ اک گہری نیند میں چلتے جانا ہے

 اور تمہیں اس نظر نہ آنے والے بورے۔۔۔

،۔۔۔ اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں

 جان محمد خان

 سفر آسان نہیں

 معنوی اعتبار سے اس نظم کی کلیدی لائنیں ہیں۔۔۔۔

زکریا شاذ : فرشی صاحب آپ کے موقف سے صد فی صد اتفاق ہے۔۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بہت سی باتیں بوجوہ چھوڑنی پڑتی ہیں۔۔۔ جب میں نے خال خال۔۔۔۔ کہا تو میرے نزدیک راشد ہی تھے۔۔۔۔ اور جب میں نے شاعر پر انگریزی کے اثر کی بات کی تو میری نگاہ میں ساقی کے پیش نظر راشد بھی تھے۔۔۔ کیونکہ ساقی شاعری میں راشد سے بہت متاثر ہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ یہ بات الگ ہے کہ سب سے زیادہ اس طرز پر نظمیں ساقی ہی نے لکھی ہیں۔۔۔۔ اور میں یہ بھی کہنا چاہتا تھا کہ ساقی جب معرفہ سے کام لیتا ہے تو۔۔ اس کی نظموں کے نام۔۔۔ کوئی غیر معمولی کرداروں سے تشکیل نہیں پاتے۔۔۔ بلکہ ہماری سوسائٹی کے باکل عام اور معمولی کرداروں کے نام ہوتے ہیں۔۔۔ وہ کوئی اہم تاریخی یا مذہبی کرداروں کے ناموں پر نہیں ہوتے۔۔۔۔۔

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! زکریا صاحب چوں کہ پہلی بار حاشیہ کے اجلاس میں شرکت فرما رہے ہیں (بلکہ بھر پور اور پر جوش انداز میں شرکت کر رہے ہیں ، جو کہ حاشیہ کے لیے اپنی جگہ ایک نیک فال ہے ) اس لیے عین ممکن ہے کہ انھیں حاشیے پر بحث کے طریقہ کار سے کُلی آگاہی نہ ہو، جس کی طرف یامین صاحب نے بھی اشارہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اجلاس دو ہفتوں تک جاری رہے گا اور اس نظم کے حوالے سے شاعر کی شخصیت اور اس کی کئی دوسری نظمیں بھی زیرِ بحث آسکتی ہیں۔ نقاد کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ جس زاویے سے چاہے نظم پر اظہارِ خیال کرے۔ اگر کوئی فن پارے کو سمجھنے کے لیے شاعر کی سوانح سے مدد نہیں لینا چاہتا اور متن کو مرکز مان کر اپنا مقدمہ قائم کرتا ہے تو یہ اس کا تنقیدی موقف اور طریقہ کار ہے، ہمیں اس کے اس حق کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ "قاری اساس یا متن اساس تنقید” باقاعدہ ایک تنقیدی مکتبہ فکر ہے، اسے یوں رد کرنا بھی مناسب نہ ہو گا۔

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! ساقی فاروقی کی اس نظم ” خالی بورے میں زخمی بلا” سے دل چسپ مماثلت رکھنے والی ان کی ایک اور نظم کا مطالعہ بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہے جس کا عنوان ہے "مکڑا”۔

 مکڑا

 میں نہانے کے ہرے ٹب میں

 اسے دیکھ کر یہ جان گیا

 میرے مہمان میں

 اک نظم چھپی ہے میری

 بلب کے گرد پتنگے تھے بہت

 ایک چرایا میں نے

 دور سے خوب رجھایا میں نے

 اس کی مشکوک نگاہوں میں کہاں

 حرص کا ہیجان ملے

 اپنے سینے کی طرف

 موڑ کے پنجے اپنے

 اس طرح بیٹھ گیا

 جیسے کوئی بات نہ ہو

 ایک ترکیب سمجھ میں آئی

 یہ کہ ستلی میں جگہ چھوڑ گرہ۔۔۔۔۔

،۔۔۔۔۔۔ اور گرہ اور گرہ اور گرہ

 اس طرح زینہ بنا کے

 ذرا اوپر سے گرایا میں نے

 وہ جو مردے کی طرح

 بن کے پڑا تھا بڑی مکاری سے

 جس میں اک نظم چھپی تھی میری

 میرے زینے پہ کلانچیں بھرتا

 دندناتا ہوا باہر آیا

 اور آتے ہی کہیں بھاگ گیا

 جو بھی کہیں بھاگ گیا ہے

 اسے معلوم نہیں

 جیل خانے کے پرانے ٹب میں

 اک زمانے سے پڑا ہوں میں بھی

 کوئی پروانہ ادھر آتا ہے

 نہ کوئی زینہ

 کسی سمت نظر آتا ہے

علی محمد فرشی: دونوں نظموں میں پہلے کون سی نظم خلق ہوئی؟ ظاہر ہے کہ اس کے لیے ہمیں شاعر ہی سے رجوع کرنا ہو گا؟ اب اگر شاعر موجود نہیں یا ہمیں نہیں بتانا چاہتا تو ہم کیا کریں گے سوائے اس کے کے دونوں نظموں کے متون کو سامنے رکھیں گے اور دونوں میں سے بہتر نظم کو اولیت دیں گے۔ کیوں کہ تنقید کو بہ ہر حال بہترین فن پارے ہی کو سرِ فہرست رکھنا ہوتا ہے۔ اب اگر شاعر بتا بھی دے کہ اس نے کون سی نظم پہلے لکھی تھی تب بھی نقاد کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہو گا، ماسواے اس کے کہ اگر "مکڑا” پہلے تخلیق ہوئی تو "خالی بورے میں زخمی بلا” میں شاعر نے ارتقا کیا۔ اور جواب اس کے بر عکس ہے تو شاعر کے ذہن میں اپنی بہترین نظم کی گونج ابھی موجود تھی۔۔۔۔ اس نوع کی تنقید کی اہمیت سے بھی مجھے کوئی انکار نہیں کہ اس طرح ہم تخلیقی عمل کی پراسراریت کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں اور بس۔۔۔۔

زکریا شاذ : جناب صدر۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس فورم میں نووارد ہوں۔۔۔۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ اس طرح کے کسی بھی فورم میں پوری یکسوئی کے ساتھ بات کرنا محال ہے۔۔۔۔ مگر میں نے پھر بھی اپنے موقف کو ربط کے ساتھ پیش کرنے کی مقدور بھر کاوش کی ہے۔۔۔ مجھے فورم کے ہر محترم ساتھی کی رائے کا پورا احترام ہے۔۔ میں اس نظریے کا بندہ ہی نہیں کہ اپنی رائے خواہ کتنی بھی درست کیوں نہ ہو اسے دوسرے پر بزور بازو مسلط کیا جائے۔۔۔ نہ ہی میں اس کو ایک صحت مند سوچ کا مظہر سمجھتا ہوں۔۔۔

 ساقی کی یہ نظم بلاشبہ ایک عمدہ ترین نظم ہے۔۔۔ معنوی تہ داری کے لحاظ سے اسے ساقی کی نمائندہ ترین نظم کہنا چاہیے۔۔

 26 مصرعوں کی یہ نظم پٹ سن کے بورے کی طرح بڑی مہارت اور نفاست سے بنی گئی ہے۔۔۔ کوئی بھی مصرع ڈھیلا، اضافی، اور جامد نہیں۔ نہ ہی ادھر سے ادھر ہے۔۔۔ شاعر نے اس نظم میں موسیقیت کا بھی پورا خیال رکھا ہے۔ کہیں اندرونی قافیوں اور کہیں بیرونی قوافی سے بھرپور سمفنی پیدا کی ہے۔۔۔ جان، خان، آسان اور دھان اس کے اندرونی قوافی کی مثالیں ہیں۔۔۔ اور پہچان۔۔ وغیرہ بیرونی قافیوں کی۔۔۔۔ تکرار لفظی نے، بلکہ پورے ٹیپ کے مصرعے

 سفر آسان نہیں

 سے پوری نظم گونج اٹھی ہے۔ بلکہ نظم کے موڈ کے موجب اس تکرار سے ایک زنجیر زنی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔۔۔۔ اس انداز نے نظم کی اثر آفرینی میں اہم کردار اد کیا ہے۔

 نظم کے دو اہم کردار اور ان کے بیچ ایک بلیغ حوالہ ہے

 جان محمد خان

 زخمی بلا

 اور حوالہ

 خالی بورا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ نظم۔۔۔۔ جسم اور روح کی کہانی بھی ہے۔۔۔۔ خالی بورا۔۔۔۔ جسم اور۔۔ زخمی بلا۔۔ مجروح یا داغدار روح کے استعارے ہیں۔۔۔۔ جسم مادیت اور لذت کیشی کی طرف راغب رہتا ہے۔۔۔ جبکہ روح کا سفر اس کے مخالف سمت جاری رہتا ہے۔ جسم سطحی، کم تر اور فانی ہے۔۔۔ روح اس کے مقابلے میں۔۔۔ اعلی و ارفع اور دائمی ہوتی ہے۔۔۔۔ روح جسم کو باز رہنے کے اشارے قدم قدم پر کرتی رہتی ہے۔۔۔ مگر جسم سنی ان سنی کرتا رہتا ہے۔۔۔۔ حتی کہ روح سے اتنا بے خبر ہو جاتا ہے اور اسے اتنا زخمی کر جاتا ہے کہ وہ مردہ ہو کر رہ جاتی ہے۔۔۔۔ بالآخر جسم کی مثال ایک خالی بورے کی ہو کر رہ جاتی ہے۔۔۔ یعنی ہم سب بے روح جسم کے ساتھ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔۔۔ اور افسوس یہ ہے کہ ہمیں اس خالی پن کا احساس تک نہیں ہوتا۔۔۔ اگر یہ روح جاگتی بھی ہے تو اس وقت جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے

 پانی پانی ہو جاؤں گا

 اور اس وقت جب

 چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں

 اب اس روشنی اس روح کی بیداری کا کیا حاصل جب جسم کو بھی موت آ گئی ہے۔۔۔

 بلے کا پر اصرار انتباہ

 سفر آسان نہیں

 در اصل روح کی وارننگ اور اس کی بیداری کے سفر کی کہانی ہے جو کسی طرح بھی آسان نہیں۔۔۔ نظم مصرع مصرع خبریہ سے چلتی ہوئی انشائی انداز میں ختم ہو کر کئی مفاہیم اور ان گنت سوالوں کے در کھول جاتی ہے۔۔۔۔

 تمام۔۔۔۔ مگر ناتمام

ظفر سیّد: جنابِ صدر: یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ نظم پوسٹ ہونے کے پہلے ہی دن دو درجن سے زیادہ تبصرے بھی آ گئے۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ اجلاس آگے چل کر کیا رخ اختیار کرے گا۔ جناب یامین کی نشان دہی پر میں نے ٹائپو کی تصحیح کر دی ہے۔

ظفر سیّد: جنابِ صدر: میں آپ کی وساطت سے جناب زکریا شاذ : کا خیرمقدم کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے آتے ہی جس بھرپور طریقے سے شرکت کی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ حاشیہ کے نہایت قابلِ قدر رکن ثابت ہوں گے۔

 شاذ صاحب نے اپنے ایک تبصرے میں لکھا ہے :

 ’شاعر کی شخصیت ہمارے پیش نظر رہے تو اس کی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ،

 دلچسپ بات ہے کہ ساقی فاروقی نے اپنی ’پاپ بیتی‘ میں اس نظم کا پس منظر بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ بھارت میں ان کی خاندانی حویلی ہوا کرتی تھی جس میں ان کا ایک ملازم جان محمد خان تھا۔ بعض اوقات جان محمد خان گھر کے جانوروں کو بورے میں بند کر کے ایک قریبی تالاب میں پھینک آتا تھا۔

 اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اضافی معلومات سے نظم کی تفہیم میں اضافی مدد ملتی ہے ؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ ان سے کسی محقق کا تو کام نکل سکتا ہے جو شاعر کی سوانح پر کام کر رہا ہو لیکن ایک عام قاری کے لیے اس سے نظم کے کسی خفتہ گوشے پر روشنی نہیں پڑتی۔

 بلکہ سچ پوچھیں تو مجھے یہ پڑھ کر الٹا مایوسی سی ہوئی تھی کہ اتنی ’آفاقی‘ تخلیق کی اتنی ’زمینی‘ جڑیں ؟

زکریا شاذ : صدر ذی وقار۔۔۔۔ آپ کے اس بیانیے میں واضح تضاد ہے۔۔۔ یا شاید میں ہی نہیں سمجھ پایا۔۔۔ آپ نے بات کا آغاز پہلے اس طرح کیا۔۔۔

 "شاذ صاحب نے اپنے ایک تبصرے میں لکھا ہے :”

 ’شاعر کی شخصیت ہمارے پیش نظر رہے تو اس کی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ،

 پھر آپ یوں مرتقم ہوئے۔۔

 "دلچسپ بات ہے کہ ساقی فاروقی نے اپنی ’پاپ بیتی، میں اس نظم کا پس منظر بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ بھارت میں ان کی خاندانی حویلی ہوا کرتی تھی جس میں ان کا ایک ملازم جان محمد خان تھا۔ بعض اوقات جان محمد خان گھر کے جانوروں کو بورے میں بند کر کے ایک قریبی تالاب میں پھینک آتا تھا۔ "

 اس کے بعد آپ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔۔۔

 "اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اضافی معلومات سے نظم کی تفہیم میں اضافی مدد ملتی ہے ؟”

 اب فرق خود ہی دیکھ لیجیے۔۔۔ ادھر آپ میرے شاعر کی شخصیت کو سمجھنے کا حوالہ دے رہے ہیں۔ اور ادھر آپ ساقی کی اس نظم کی تفہیم کے باب میں ان کی پاپ بیتی سے مثال پیش کر رہے ہیں۔۔۔۔ یعنی بات شاعر کی شخصیت کو سمجھنے کی گئی اور آپ شاعر سے اس کی متذکرہ نظم کو سمجھنے کا قصہ لے بیٹھے۔۔

 اب جب آپ شاعر کی شخصیت کو سمجھنے کی بجائے اسی سے ہی اسی کی نظم سمجھیں گے۔۔ تو اول تو مایوسی ہو گی ہی کہ شاعر کا کام تخلیقی ہے ترکیبی نہیں

 اور دوم یہ بات میرے کہے کے بالکل الٹ ہو جاتی ہے۔۔۔

 میرا عندیہ یا تھا کہ شاعر کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اس کی شخصیت کو سمجھنا چاہییے۔۔ نہ کہ اس کے ہی پاس جا کر اس کی شاعری کو سمجھنے کا مضحک فریضہ سر انجام دیا جانا چاہیے۔۔۔

ظفر سیّد: شاذ صاحب: آپ کے بیان پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں جلدی سے وضاحت کر دوں کہ اس اجلاس کا صدر میں نہیں ہوں بلکہ جناب حمید شاہد ہیں۔

زکریا شاذ : معذرت۔۔۔۔ جناب ظفر صاحب۔۔۔۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔۔۔

محمد یامین: جناب صدر!

 ساقی فاروقی صاحب نے افتخار عارف سے مشہور مکالمے میں کہا تھا ” نظموں کی علامتیں مختلف ذہنوں پر مختلف طریقوں سے کھلتی ہیں۔ یہی نہیں کسی اچھے فن پارے کی تعریف یہ ہے کہ وہ دروپدی کی ساڑی کی طرح کھلتا چلا جائے، ملک کی سرحد سے پرے، براعظم کی سرحد سے پرے، وقت کی سرحد سے پرے۔ اور یہ سرف اسی وقت ممکن ہے جب اس فن پارے کی بوتل میں فن کار نے کسی گزرتے ہوئے لمحے کا جن قید کر دیا ہو”۔۔۔۔۔۔۔

 میں نے قبل ازیں کچھ تاثرات بیان کیے تھے۔ کچھ باتیں مزید گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ اس نظم میں جو دو بڑے کردار نظر آ رہے ہیں میں ان کو ظالم اور مظلوم، یا نیکی اور بدی یا حاکم اور محکوم یا جسم اور روح جیسے روایتی خانوں میں بند کر کے نہیں دیکھنا چاہتا۔ نہ ہی (مجھے ) نظم میں ایسی کوئی تقسیم نظر آتی ہے۔ دراصل یہ دو ظا لموں کے درمیان جنگ کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ ہے۔ کیوں کہ اگر جان محمد خان کا اسم معرفہ جلالی ہے تو زخمی بلا بھی ہمیشہ کا لا ابالی ہے، ایک مکار ہے ہے تو دوسرا عیار۔ اگر ایک کے پاس معیشت کی اجارہ داری کی طاقت ہے تو دوسرے کے پاس شعلہ گر پنجوں کے ہتھیار ہی۔ پھر نظم یہ بھی بتاتی ہے کہ دونوں کی چپقلش گزرے زمانے میں بھی جاری تھی۔ اگر آج کسی جان محمد خان نے تدبیر سے بلے کو زخمی کر کے قابو کر لیا ہے اور اسے دھان کے خالی بورے میں بھر لیا ہے تو کل یہ وقت جان محمد پر بھی آ سکتا ہے۔۔۔۔۔ میری فہم میں یہ دونوں کردار ظالم کی نمائندگی کرتے ہیں جو اپنے عمل میں اگرچہ مختلف انداز رکھتے ہیں لیکن ان کی سرشت ایک ہے۔ ان کی اصل ایک ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ ایک اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے اور موت کی طرف جا رہا ہے لیکن جاتے جاتے اس پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ جان محمد خان بھی ایک بورے میں لپٹا ہوا ہے لیکن یہ جال اسے نظر نہیں آتا۔ یہاں عیار بلا موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا اور جان محمد خان کی فتح کو اچانک شکست میں بدل دیتا ہے۔ گویا اس سے ساری زندگی کا انتقام لے لیتا ہے۔

 اور تمھیں آگے جانا ہے

 اور تمھیں اس نظر نہ آنے والے بورے

 اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں

 درمیانی لائن کا لفظ ” نظر” بحر کے یک ساں چلتے ہوئے ردھم میں اچانک دھمک پیدا کرتا ہے اور قاری اچھل کر پرے ہو جاتا ہے۔ یہی اس نظم کا کلائمیکس ہے۔

 ساری نظم ظالم قوتوں کے مفادات کا جنگ نامہ ہے۔ چوں کہ نظم میں بلا شکست خوردہ ہے اس لئے ہم اس کو مادہ بلیوں کی طرح معصوم اور مظلوم سمجھنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ نظم کی کسی بھی لائن سے بلے کی مظلومیت ظاہر نہیں ہوتی۔ ملاحظہ کریں اور دوبارہ لطف لیں

 ” آج تمھاری ننگی پیٹھ پہ

 آگ جلائے کون

 انگارے دہکائے کون

 جدوجہد کے خونیں پھول کھلائے کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں

 آج سفر آسان نہیں "

 یہاں آج کا لفظ بلے کی موجودہ بے بسی کو ظاہر کرتا ہے لیکن یہ بھی بتاتا ہے کہ کبھی کبھی جان محمد خان پر اپنے شعلہ گر ہتھیاروں سے وہ بھی حاوی ہو جاتا تھا۔ حضرت سلیمان کی یاد آتی ہے ” لوگو میں نے توجہ کی اور جانا کہ دنیا میں نہ تو دوڑ میں تیز رفتار کو سبقت ہے اور نہ جنگ میں زور آور کو فتح، نہ روٹی دانش مند کو ملتی ہے اور نہ عقل مند کو دولت۔۔۔۔۔ بل کہ ان سب کے لیے وقت اور حادثہ ہے "۔۔۔۔۔۔۔ گویا اصل قوت وقت ہے جس کی طرف نظم نے اشارہ کیا ہے "”اور تمھیں آگے جانا ہے "”” وقت گزرتا ہے۔۔ ہم سفر کرتے ہیں۔ اور سفر آسان نہیں۔۔

محمد حمید شاہد: احباب حاشیہ

 جب نظم پر گفتگو اپنے ہی زور پر چل نکلی ہو تو صدر کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہو جاتا ہے۔ بے جا مداخلت سے میں گفتگو میں کوئی رخنہ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ ایک اچھے مکالمہ کے آغاز کے لیے اتنی ہی توانائی اور اخلاص کی ضرورت ہے جو جناب زکریا شاذ، ظفرسید، علی محمد فرشی اور محمد یامین نے اس فورم کو اس مرحلے پر فراہم کیا اور حاشیہ کے بہت سے اہم اراکین قبل ازیں فراہم کرتے رہے ہیں۔

 ظفر سید نے نظم پر گفتگو کو آغاز دیا تو یہ نشان زد کرتے ہوئے کہ ساقی کی زیر بحث نظم بالعموم ارد و کی عمدہ ترین نظموں میں شمار کی جاتی ہے، اس میں سے یہ معنی بھی اخذ کیے :

 1۔ جان محمد خان کا بورے میں زخمی بلا بند کر کے گندے تالاب کی طرف جانا ظاہر کرتا ہے کہ بلا خونخوار ہے اورجان محمد خان پر حملے کر کے اسے زخمی کر دیا کرتا تھا۔ جان محمد خان نے اس سے نجات کا یہی راستہ سوجھا ہے کہ اسے بورے سمیت غرقاب کر دیا جائے۔

 2۔ اپنے انجام سے باخبر زخمی بلا موت سے قبل فلسفیانہ موڈ میں جان محمد خان کو آگاہ کرتا ہے کہ اس کے بعد لڑنے والا کوئی نہیں ہو گا اور یہ کہ وہ پانی میں ڈوب کر مر جائے گا لیکن جان محمد خان کا انجام بھی مختلف نہیں ہو گا کہ وہ بھی ایک بورے میں بند ہے۔

 ظفر سید نے یہاں دنیا کو قید خانہ (بورا ) کے طور پر متن سے برآمد کیا ہے اور جان محمد خان کو اس بورے میں بند وقت کی پشت پر لدا گندے تالاب یعنی موت کی جانب رواں دواں دکھاتے ہوئے بتایا ہے کہ یہی "ہر انسان کا مقسوم ہے۔ "

 گویا دنیا کو قید خانہ کہنا، انسان کا اس میں بند ہونا اور مر کر ہی اس سے نجات پانا ساقی فاروقی کی نئی نظم کا وہ روایتی اردو وفارسی شاعری والا مضمون ہے جسے تصوف اور ویدانت جوڑ جاتا رہا۔

 نظم کا دوسرا پہلو ظفر سید کے پاس یہ ہے کہ:

 جان محمد خان اور بلا ایک ہی ہستی کے دو روپ ہیں۔ رابرٹ لوئیس سٹیونسن کے ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ کی طرح کے۔ ایک نیک طینت اور ہمزاد گھناؤنی روح کی جھلک۔

 اسے ظفر نے سگمنڈ فرؤئڈ کی اِڈ، ایگو اور سپر ایگو کے ساتھ بھی جوڑا ہے۔ جان محمد خان سپر ایگو کا نمائندہ، بورے میں بند زخمی بلا اڈ کا۔ جان محمد خان کو اس کی بے لگام اڈ نے بہت پریشان کر رکھا ہے سو وہ اس سے چھٹکارا پانے کی مہم پر رواں ہے۔

 تیسری پرت بھی ظفر سید کے پاس ہے : پگڈنڈی پر تالاب کی جانب رواں جان محمد خان کا سفر انسانی ارتقا کا سفر ہے وہ اپنی جبلت سے نبرد آزما ہے۔ اور یہ اس کردار کا مثبت روپ ہے کہ وہ روسو کا "دی سیوج مین” بننے نکلا ہے گویا بوارا اور اس میں بند بلا وہ روح کا وہ نقاب ہے جسے نوچ کر پھینک دینے کے بعد ہی اپنی اصل کو پا سکتا ہے۔

محمد حمید شاہد: -2-

 علی محمد فرشی نے بھی نظم کو اردو ادب اور خود ساقی فاروقی کی نمایاں ترین نظموں میں سے ایک قرار دیا ہے اور گفتگو کو آغاز دینے کیے لیے نظم کی مقامی جہت کو چنا ہے اس اعلان کے ساتھ کہ اس کی ایک آفاقی جہت بھی ہے۔ اس مقامی جہت کی بنیاد نظم میں برتے گئے مقامی لینڈ سکیپ کو بنایا گیا ہے۔ پٹ سن، دھان، جان محمد خان، زخمی بلا اور تالاب۔ پٹ سن کے بورے کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ جوڑا گیا جو کچھ کے نزدیک سقوط ڈھاکہ کی اصطلاح میں ظاہر ہوتا ہے اور بعضوں کے ہاں مغربی پاکستان کے غیر منصف مقتدر طبقہ سے آزادی اور نجات۔

 خیر، فرشی صاحب نے اس واقعے یا سانحے کو نظم کے متن کے ساتھ جوڑا ہے۔ یہاں جان محمد خان مقتدرہ طبقے کی علامت ہے اور ’زخمی بلا‘ اس سرزمین کے عوام کا استعارہ۔ یوں سیاسی موضوع انسانی المیے اور قومی سانحے سے جڑ جاتا ہے۔ فرشی ہی کے الفاظ میں ، دھان سے خالی بورا، یعنی اسم معرفہ نے اسم نکرہ کو اس کے پیداواری وسائل سے محروم کر کے غربت وافلاس کا قیدی بنا رکھا ہے اور اب اسے موت کے منھ میں پھینکنے جارہا ہے۔، اسم معرفہ آمریت ہے اور اسم نکرہ، بلا، یعنی مشرقی پاکستان اور اس کے عوام۔

 زکریا شاذ اس فورم پر بہت اچھا اضافہ ثابت ہوئے۔ ان کے نزدیک بھی یہ نظم ـمنفرد  ٹریٹمنٹ کی حامل۔ ٹھہرتی ہے۔ انہوں نے نظم کے عنوان کی معنویت کو کھولتے ہوئے کہا کہ یہاں خالی بورا اہتماماً کہا گیا ہے جسے شاعر نے بلاغت کے طور پر برتا ہے گویا اس میں بند بلے کو پھینکنے کا اشارہ اس میں موجود ہے۔

 انہوں نے شاعر کی شخصیت کو پیش نظر رکھنے کی بات کی کہ اس طرح اس کی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

 محمد یامین نے خود ساقی فاروقی کے کہے کی روشنی میں نظم کو اس دروپدی کی صورت آنکا جس کی ساڑی خود بہ خود کھلتی چلی جاتی ہے۔ جب وہ بوتل میں بند جن کی بات کر رہے تھے تو یہ وہ بوتل یقیناً نہ تھی جس کے ساتھ تصویر کھنچوا کر ساقی نے اپنی پاپ بیتی کو بیان کیا کہ یہ بوتل وہ نظم ہے جس کے اندر سے ایک جہان معنی برآمد ہوتا ہے۔

 یامین کے مطابق : نظم کے کرداروں یعنی جان محمد خان اور بورے میں بند زخمی بلا کو ظالم اور مظلوم، یا نیکی اور بدی یا حاکم اور محکوم یا جسم اور روح جیسے روایتی خانوں میں بند نہیں دیکھنا چاہئے۔ کہ یہاں انہیں ایسی کوئی تقسیم نظر نہیں آتی۔ یہ تو دو ظا لموں کے درمیان جنگ کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ ہے۔ جان محمد خان کا اسم معرفہ جلالی ہے تو زخمی بلا بھی ہمیشہ کا لا ابالی ہے، ایک مکار ہے ہے تو دوسرا عیار۔ اگر ایک کے پاس معیشت کی اجارہ داری کی طاقت ہے تو دوسرے کے پاس شعلہ گر پنجوں کے ہتھیار ہے۔ دونوں کی چپقلش گزرے زمانے میں بھی جاری تھی۔ اگر آج جان محمد خان نے تدبیر سے بلے کو قابو کر کے دھان کے خالی بورے میں بھر لیا ہے تو کل یہ وقت جان محمد پر بھی آ سکتا ہے۔۔ یوں یامین کے نزدیک دونوں ظالم ہیں ایک سی سرشت والے۔ ایک اصل والے۔ ان میں سے ایک موت کی طرف جا رہا ہے اور دوسرے پر یہ وقت آنا ہے۔

 یہ ہیں وہ معنوی دائرے جو اب تک نشان زد ہوئے ہیں۔ نظم کی جمالیات پر بھی بات ہوئی تاہم ہم اسے نظم پر گفتگو کے دوسرے مرحلے تک موخر کرتے ہیں۔ اور اوپر نظم کی معنویت کے تعیین میں جو جو تضادات ابھرے ہیں ان پر بات کو آگے بڑھاتے۔ جی احباب حاشیہ ہم پوری طرح متوجہ ہیں۔

جلیل عالی: صدرِ محترم زیرِ بحث نظم پر ہونے والی گفتگو میں حقیر سا حصہ ڈالنے کی غرض سے متن کے قریب تر رہتے ہوئے چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔ نظم کی کہانی تو اتنی ہے کہ جان محمد خان بلے کوسدھا کر پالتو غلام بنانے کی کوششوں میں ناکامی سے تنگ آ کر مار پیٹ کے بعد اسے پٹ سن کے بورے میں بند کر کے گندے تالاب میں پھینکنے جا رہا ہے۔ اس سفر کے دوران بلا اسے کہتا ہے کہ میں تو بورے میں بند قیدِ تنہائی کی اذیت سے گزر رہا ہوں اور اتنا بے بس ہوں کہ غلامی کے خلاف جد و جہد کرتے ہوئے اپنے پنجوں سے تیری پیٹھ پر خونی خراشیں ڈالنے سے قاصر ہوں۔ تو مجھے گندے تالاب میں پھینک دے گا۔ میں پانی میں گھل گھل کر پانی ہو جاؤں گا۔ مگر یاد رکھ ابھی تو غفلت میں ایسا کر رہا ہے اور بھولا ہوا ہے کہ تیرا بورا(کفن/قبر) بھی تیرے انتظار میں ہے جو تیرا لازمی مقدر ہے۔ لہٰذا تیرا بھی اگلا سفر آسان نہیں ہے۔

 نظم کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں بورے میں بند زخمی اور ادھ موئے بلے کی اذیت کی ترجمانی کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں بلے کی بے بسی کی طرف اشارہ کیا گیا کہ جس نے اسے احتجاجی و مزاحمتی کارروائی کے قابل نہیں رہنے دیا۔ اور تیسرے حصے میں بلے کی طرف سے جان محمد خان کو وعید سنائی جا رہی ہے کہ اسے بھی کفن و قبر کے خالی بورے ( قیدِ تنہائی) میں بند ہونا ہے۔

 یہ ساری نظم دراصل خود جان محمد خان کے اپنے احساسات کی ترجمانی کرتی ہوئی ایک خاموش خود کلامی کی صورت ہے۔ اور شاعر کے اس ایقان کا پتہ دیتی ہے کہ قدرت نے کیسے اچھائی اور برائی کا شعور پیدائشی طور پر انسان کو الہام کر رکھا ہے۔ شاعر نے زخمی بلے کے مکالمے کی شکل میں جان محمد خان کے باطنی احساسات (ضمیر کی آواز) کو مجسم و بیدار کیا ہے۔ نظم کا آخری حصہ جس طور اخلاقی انسانی فیکلٹی کے حوالے سے وجودی کرب کے ساتھ ساتھ اگلے جہان کے بھیانک روحانی سفر کے امکانات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے اس سے نظم کے معنوی دائرے میں وسعت اور اپیل میں اضافہ ہو گیا ہے۔

 فنی اعتبار سے نظم بہت گتھی ہوئی اور خوب صورت سطروں پر مشتمل ہے۔ کفایتِ لفظی کا عمدہ نمونہ ہے۔ آغاز ہی میں جان، خان، آسان اور دھان کے قوافی کا صوتی اہتمام قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ اہتمام جلائے، دہکائے، کھلائے اور سو جاؤں ، ہو جاؤں کی صورت میں بھی موجود ہے۔ اور آخر میں پہچان کے قافیاتی اضافے کے ساتھ ابتدائی دو مصرعوں کی تکرار پر نظم کا اختتام کر کے دائرہ مکمل کر دیا گیا ہے۔ ایجازو ایمائیت نے نظم کی شعری قدر و قیمت بڑھا دی ہے۔ جان محمد خان /سفر آسان نہیں کے ٹکرے کا لوک ادبی انگ اور آہنگ ضمیری خلش کی دائمی اخلاقی صداقت کے احساس و تاثر کو گہرا کرتا ہے۔

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! جدید اردو نظم کے سرچشمۂ حیات، اقبال، سے نظم کے دو بڑے واضح دھارے نمودار ہوئے تھے۔ یعنی ایک ابلاغ پسند جن کی سیادت فیض صاحب کے حصے میں آئی اور دوسرے اظہار پسند جن کی قیادت راشد، میرا جی اور مجید امجد نے کی۔ ساقی فاروقی کا رشتہ ابلاغ پسند قبیلے سے ہے، لیکن انھیں فیض کے ساتھ ساتھ راشد اور میرا جی سے بھی کم نسبت نہیں رہی۔ ہر چند ان کی کثیر نظموں میں ابلاغ کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا ہے لیکن وہ نظمیں جو ساقی کی نمائندگی کریں گی اظہارپسندی کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھتی ہیں جس کے باعث ان میں تہ داری اور ایمائیت نے ایک متن کے بطن میں دوسرے متن کی گنجائش پیدا کر لی ہے۔ واضح رہے کہ یہ شاعر کی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں ورنہ اس کا غالب رجحان مختلف ہوتا۔

 اب جو میں نے بحث کے آغاز میں اس نظم کے متن کو سیاسی تناظر میں دریافت کیا تھا تو یہ کوئی میری خود ساختہ تعبیر نہیں تھی نظم کے فریم میں رہ کر ہی میں نے اس کے خود مختار وجود کو نشان زد کیا تھا۔ ذاتی نوعیت کی نظموں کے لیے تو شاعر کی سوانح سے مدد لینا کوئی بری بات نہیں۔، جیسے کہ اقبال کی نظم "والدہ مرحومہ کی یاد میں ” (حال آں کہ یہ بھی سوانحی امداد کی محتاج نہیں ) یا پھر سلویا پلاتھ کی نظم ” ڈیڈی”۔۔۔۔۔۔ لیکن نظم پر سنجیدہ مباحث میں اسمعیل میرٹھی کے زمانے کی نظم نہیں مراد لی جاتی بل کہ اقبال کے بعد کے عہد کو معیار مان کر بات کی جاتی ہے۔ میں اس بات کا حامی ہوں کہ کسی بھی شاعر کی کسی بھی نظم کے رشتے نہ صرف اس کی دیگر نظموں سے قائم ہو سکتے بل کہ دنیا کے کسی بھی فن پارے سے اس کا تعلق ہوسکتا ہے۔ "بین المتنیت” نے اس ضمن میں کام کی کئی باتیں دریافت کی ہیں ، جن کا محل نہیں۔ مجھے تو صرف اپنے مؤقف کے حق میں ساقی کی نظموں ہی سے دلیل لانی ہے کہ زیرِ بحث نظم کے سیاسی تناظر کا علاقہ کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ ساقی کی ایک مختصر نظم "نمو” دیکھیے :

 نمو

 ادھر بھی دیکھو

 قطار اندر قطار پٹ سن کے نرم پودے

 جو اپنے ساتھی ہزاروں پودوں سے کہ رہے ہیں

 ہم اتنی جلدی جواں ہوئے ہیں

 کہ سبز پانی

 جو پہلے سینوں پہ بہ رہا تھا

 ہمارے ٹخنوں تک آ گیا ہے

 اس نظم میں "پٹ سن” اور "سبز پانی” کو استعارہ مان کر بات کی جائے تو یہ نظم ” خالی بورے میں زخمی بلّا” کا بیج قرار پاتی ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام کے شعور کی تیز رفتار نمو، ان کا مثالی نظم و ضبط(جس کی گواہی تحریک پاکستان کی تاریخ بھی دے گی)اور ان کے سینوں پر سیلاب بن کر بہنے والا سرکاری استحصالی سبز نظریہ ہمیں اس مختصر نظم کے باطن میں پڑے اس طوفان کی خبر دیتا ہے جس کی پیش گوئی آخری سطر کر رہی ہے۔

 ساقی صاحب کی ایک اور نظم "الکبڑے ” بھی میرے نقطۂ نظر کو تقویت دیتی ہے۔ ہر چند میں ’کبڑے ، سے ’ال،کی پیوند کاری کو لسانی اور جمالیاتی زاویے سے سراسر ناجائز سمجھتا ہوں لیکن نظم میں موجود ’کبڑوں ، کو اسم معرفہ بنانے کی خاطر شاعر کے اس حربے کو قبول بھی کرسکتا ہوں۔ اس نظم میں ہمیں قیام پاکستان کے بعد مختلف ہتھ کنڈوں اور ناجائز ذرائع سے ملکی وسائل پر قابض ہونے والے بدکاروں کو "الکبڑے ” کہا گیا ہے۔ ایک بند دیکھیے :

 (عجب زمانہ تھا

 جب یورپ کے گل زاروں میں

 اکھوے پھوٹتے تھے

 تب بنگال کے اور پنجاب کے

 لش لش کرتے کھیتوں میں

 دھان اور گندم کے خوشے

 مرجھانے لگتے تھے )

 صاف ظاہر ہے کہ شاعر یورپ اور اپنے دیس کے جغرافیائی اور موسمی تغیرات کی بات نہیں کر رہا۔ نظم نے اپنی پہلی سطروں میں جن "ست ماہے، ننگے، بھوکے، بھک منگے ” نودولتیوں اور ناجائز حکم رانوں کا ذکر کیا تھا یہاں پہنچ کر ان کی حرام زدگیوں کے نتیجے میں اپنے دیس کی تباہ حال معیشت کو موضوع بنا رہا ہے۔۔۔۔۔ کہنے دیجیے کہ شاعر اپنے وطن سے اپنا جسم تو لے کر ہجرت کر سکتا ہے لیکن اپنی روح کو وہاں سے نکلنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔

علی محمد فرشی: صاحبِ صدارت! میں ساقی فاروقی کے اپنے وطن سے قلبی تعلق کی بات کر رہا تھا تو میرے ذہن میں ایک اور ادبی نکتہ در آیا۔ سوال یہ ہے کہ ادیب کا اپنی مٹی سے قلبی سطح کا تعلق ہی کافی ہوتا ہے یا اس کا جسمانی اور معاشرتی طور پر بھی اپنی دھرتی پر، دیگر ہم وطنوں کے درمیان، رہنا ضروری ہے۔ میرے خیال میں شاعر کا جسمانی، ذہنی، روحانی، معاشرتی، تہذیبی اور ما بعد الطبیعیاتی ہر سطح پر اپنے دیس میں رہنا زیادہ فائدے کا سودا ہوتا ہے۔

 اگر ساقی فاروقی پاکستان سے نہ نکلتے تو کہیں بڑے شاعر ہوتے، ہر چند وہ خود کو "اہم” کے سابقے سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ (افتخار عارف کو دیے گئے انٹرویو میں )دوسرے یہ کہ اگر وہ اپنی تنقیدی گفت گو میں جارحانہ رویہ نہ اختیار کرتے تو دوسرے بھی ان پر تنقید کرتے ہوئے خوف زدہ نہ رہتے۔ اس طرح شاید وہ زیادہ ہوشیار اور بڑا شکار مارنے پر ہمہ وقت تیار رہتے۔ ہوا یہ کہ اس سارے کھیل میں ساقی کی شخصیت تو آگے نکل گئی لیکن ان کی شاعری زیادہ قد نہ نکال سکی۔ لیکن اس کا کیا کیجیے کہ وقت ’اگر مگر، کو نہیں مانتا اور موجود کام ہی سے کلام کرتا ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ جس قدر تر و تازہ، کِھلا کِھلا، روشن اور زندگی کی خود کار قوت سے لہریں لیتا اسلوب ساقی کے پاس تھا وہ خال ہی کسی جدید نظم نگار کو نصیب رہا تھا۔ کلیشے سے دُور یک سر نئے پن کو دریافت کر لینے والے ساقی فاروقی کی ایک نظم "پام کے پیڑ سے گفت گو” سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :

 "مجھے سبز حیرت سے کیوں دیکھتے ہو

 وہی تتلیاں جمع کرنے کی ہابی

 ادھر کھینچ لائی”

 "یہ پہاڑی کسی دیو ہیکل فرشتے کا جوتا ہے

 تم کتھئی چھال کے تنگ موزے میں

 اک پیر ڈالے

 یہ جوتا پہننے کی کوشش میں لنگڑا رہے۔۔۔۔ "

 ” مرا جال خالی

 مگر دل مسرت کے احساس سے بھر گیا

 تم اسی بانکپن سے

 اُسی طرح

 گنجی پہاڑی پر

 اپنی ہری وگ لگائے کھڑے ہو

 یہ ہئیت کذائی جو بھائی

 تو نزدیک سے دیکھنے آ گیا ہوں

 ذرا اپنے پنکھے ہلا دو

 مجھے اپنے دامن کی ٹھنڈی ہوا دو

 بہت تھک گیا ہوں "

 ایسے انوکھے اور نامیاتی قوت سے بھرے ہوئے امیجز جو سچی اور خالص شاعری کی روح ہوتے ہیں ساقی کی نظموں میں جگہ جگہ سامنے آتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی اس انفرادی خصوصیت سے بڑی شاعری پیدا کرنے میں شاید زیادہ کام یاب نہیں ہوئے۔ ہوا یہ کہ انھوں نے مغرب سے "اسلوب کی تازگی” کا اصول تو دل سے قبول کر لیا لیکن مشرقی ادب کی شناخت "بڑے موضوع” کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ لہٰذا اردو ادبیات کی روایت سے ساقی کا رشتہ مضبوط نہ ہو سکا۔

الیاس ملک: جنابِ صدر! نظم کی معنوی جہات پر جو نہایت عمدہ گفتگو ہو چکی ہے میں اسے تھوڑا سا آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا –

 بلاشبہ اس نظم کے کچھ معانی ظالم اور مظلوم، حاکم اور محکوم، جابر اور مجبور وغیرہ کے تناظر میں دریافت کیے گئے ہیں – اسی طرح نم کی کچھ پرتیں مرگ و حیات، ہستی و عدم اور فنا و بقا کے تناظر میں کھلتی ہوئ نظر آتی ہیں – ان موضوعات پر احباب نے جو مفصّل گفتگو کی ہے اس سے معنوی سطح پر نظم کے کئ پہلو اجاگر ہوئے ہیں – کسی مضمون میں اس نظم کو معاشرے کے ان لوگوں کی عینک پہن کر پڑھنے کا ذکر بھی ملتا ہے جنہیں ناکارہ سمجھ کر غفلت کے تالاب میں ڈبو دیا جاتا ہے – یہ نظم ان سوختہ بالوں کا نوحہ بھی ہے اور احتجاج بھی –

 ساقی صاحب نے گورکھپور میں آنکھ کھولی اور بچپن کے دنوں میں ہی اپنے گھریلو ملازم (جان محمد خان) کو ایک آوارہ بلّے کو (خالی) بورے میں بند کر کے تالاب تک لے جانے اور ڈبونے کا دلخراش منظر بھی دیکھا – پھر گھر کی آسائشوں اور امّاں کے لاڈ پیار کو خیرباد کہہ کر(پہلی ہجرت) لڑکپن بنگال کے بورڈنگ سکولز کی دیواروں (پٹ سن کی مضبوط سلاخوں ) کے پیچھے گزارنا پڑا – صنفِ نازک (یعنی شاعری) سے پہلا پہلا تعارف بھی اسی دور میں ہوا – پھر ملک تقسیم ہوا تو حضور دوسری ہجرت کے بعد کراچی (مہاجروں کے مکّے ) تشریف لے آئے – اسی زمانے میں موصوف نے اردو ادب کی ننگی پیٹھ پہ آگ جلانے، انگارے دہکانے اور اپنے شعلہ گر پنجوں سے جدوجہد (نئ نظم) کے خونیں پھول کھلانے کا کام بھی شروع کر دیا تھا-کچھ سال اپنے شاعر دوستوں (آوارہ بلّوں ) کے ساتھ مل کر جان محمد خان سے ہر محاذ پر لڑتے رہے – مگر فاقہ کشی اور زلّت کی سڑکیں ماپتے ماپتے جب صبر کا فیتہ ٹوٹ گیا تو وہ تیسری ہجرت (پگڈنڈی) کے بعد لندن (گندے تالاب) چلے آئے – برسوں بعد ایک دن جان محمد خان کی یاد نے آن گھیرا تو اسے ایک خط لکھا جس کا آغاز یوں ہوتا یے :

 جان محمد خان

 سفر آسان نہیں

،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حمید شاہد: الیاس ملک صاحب آپ آئے تو شاعر کو جان کر اس کے فن پارے کو جاننے کا ایک نیا مفہوم کھلا۔ نظم سے کچھ اور معنی چھلک پڑے ہیں ، آپ نیند لیں۔ پھر دفتر سے نمٹ کر حاشیہ پر آئیں گے تو ہمیں منتظر پائیں گے۔ جلیل عالی صاحب اور فرشی صاحب آپ نے بات کو آگے بڑھایا، اچھا لگا۔ میرا جی کی نظم پر مکالمہ چل رہا تھا کہ محترم ستیہ پال آنند کچھ کہہ نہ پائے، ان کی وال پر حاشیہ کا لنک جو نہ مل رہا تھا خیر اب مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور بولیں گے۔ ساقی کی نظم کا ان پر حق بھی تو ہے۔ احمد سہیل اب حاشیہ پر موجود ہیں ، یقیناً وہ بات کو نیا رخ دیں گے۔ اور یوں ہے کہ ابرار احمد، نسیم سید، علی ارمان، شہزاد نیر، قاسم یعقوب، صدف مرزا، اقتدار جاوید، پروین طاہر، ناصر عباس نیر، انوار فطرت، نجیبہ عارف، عارفہ شہزاد نے بھی تو اس نظم پر کچھ کہنا ہے۔ ایسے میں حارث خلیق، حمیدہ شاہین، زاہد امروز، مقصود وفا، سعید احمد اور ضیا ترک بھی کچھ کہیں گے تو لطف آئے گا اور اشعر نجمی، شارق کیفی۔ نعمان شوق معید رشیدی، تصنیف حیدر، فیاض وجیہہ، بھئی کس کس کا نام لیں سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے تو مکالمہ جمے گا۔ کہے جناب، ضرور کہئیے !

زکریا شاذ : Sadr-e-waala..Afsos ke mein sunday tak ghar se baahar hoo jaha, n net ki sahoolat hasb-e- zururat muyassar nhi…is liye wapsi par nazm par mohtar aehbaab ke sawaloo ka jawab doo ga..sar e dast itna kehna kaafi hai ke shakhsiyat ko sajhnay ke hawalay se jo mein ne kaha tha us par bht baleegh andaaz mein aur meray is kahay ko shayad behs ko harf aakhir tak pohnchanay ka aaghaz meray dost Ilyas Malik sb ne kar diya hai…baaqi proper tareeqay se jald hi haazir ho kar baat ko aagay barhaoo, n ga.. Bht maazarat ke saath۔۔۔۔

جلیل عالی: صدرِ مکرم ایک بار پھر جسارت کرہا ہوں۔ جہاں تک اظہاری اور ابلاغی نظموں کی تقسیم کا مسئلہ ہے اس سے کلی اتفاق مشکل ہے۔ ہر تخلیقی فن پارہ اظہار و ابلاغ سے مرکب ہوتا ہے۔ ابلاغِ محض اور اظہارِ محض سے وقیع شعری تخلیق وجود میں نہیں آسکتی البتہ دونوں کی افراط و تفریط کا معاملہ دوسرا ہے۔

 کسی بھی شخصیت کی نفسیاتی کیس ہسٹری شعری فن پارہ بن سکتی ہے۔ مگر فن پارہ محض کیس ہسٹری نہیں ہوتا۔ ایک کامیاب اور وقیع فن پارے کے لئے اپنے ظاہری اور باطنی معانی کے حوالے سے متنی سطح پر خود مکتفی ہونا لازمی ہے۔ اور فن پارے کے بنیادی معنوی ساختئے کے تمام اجزا کی ہم آہنگ شمولیت ہی ایک جینوئن اور معتبر تنقیدی تعبیر کو ممکن بناتی ہے۔ میں نے اپنی معروضات میں زیرِ بحث نظم کے بنیادی معنوی ڈھانچے کی وضاحت کی کوشش کی ہے۔ نظم کے معنوی اطلاقات میں نظم کے اندر موجود اشاروں اور کنائیوں کی مدد سے مختلف نفسیاتی اور سیاسی و سماجی تعبیرات کی جا سکتی ہیں تاہم ہر تعبیر کے لئے نظم کی کلیدی تھیم یعنی اس کی ضمیری اور مکافاتی جہت کو جسے ‘ جان محمد خان / سفر آسان نہیں ‘ کی تکرار سے نما بلاغِ محض اور اظہارِِ ۔۔۔۔ عویاں کیا گیا ہے، پیشِ نظر رکھنا لازمی ہو گا۔ اور ایک آخری بات یہ کہ جب ہمارا دھیان اس حقیقت کی طرف جاتا ہے کہ جان محمد خان جو ننگی پیٹھ جنگلی بلے کو سدھانے کی نوکری کے ناطے کسی استحصالی رئیس کے کارندے کے طور پر بلے کو تالاب سپرد کرنے جا رہا ہے تو جان محمد خان کو اپنا بورا نظر نہ آنے کا متنی نکتہ اس کے سفر کا ایک اور رخ (ملازمتی غلامی) بھی سامنے لے آتا ہے۔

حمیدہ شاہین:  جنابِ صدر، آپ نے میرا نام پکارا ہے، میں فقط اس پکار کے احترام میں بات کر رہی ہوں ، ورنہ جہاں اتنی اچھی گفتگو کرنے والے موجود ہوں وہاں اپنی بات کرنے کے بجائے ان کی بات کو سمجھنا مجھے زیادہ پُر لطف لگتا ہے

 جنابِ صدر اس نظم کو دیکھنے کے ان سب زاویوں سے مجھے اتفاق ہے، جنھیں دیگر احباب نے اب تک اختیار کیا ہے کیونکہ ’حاشیہ‘ پر نظم گویا درمیان میں رکھی ہوتی ہے اور اسے پرکھنے کے لیے کوئی اسے کسی طرف سے دیکھتا ہے، کوئ کسی طرف سے، اور جو اسے دکھائ دیتا ہے، وہ بیان کر دیتا ہے اور مجھے ہر بار یہی لگتا ہے کہ سبھی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔

 یہ نظم پہلی نظر میں مجھے بہت پُر کشش لگی، آغاز ہی مقناطیسی ہے ’ سفر آسان نہیں‘،۔ پھر وہ آہنگ متاثر کرتا ہے جس پر پر بات ہو چکی، اس کے بعد نظم کے ساتھ سفر کا آغاز ہو جاتا ہے۔

 جنابِ والا ! کوئ بھی تخلیق کار فقط اپنی زندگی نہیں جیتا۔ خود اسے بھی خبر نہیں ہوتی کہ کب وہ کس کے قالب میں بیٹھ کر کس کے آنسو روئئے گا اور کب کس کی ہنسی چڑیا کی طرح ا س کی منڈیر پر اتر آئے  گی۔ وہ کس کی پیاس میں بلبلائے گا اور کس کی چوٹ خود پر سہ کر چلاّئے گا۔ مجھے لگتا ہے کبھی کبھی اس کی روح ایک آئینہ بن جاتی ہے کہ جو سامنے آ کر اس میں سما جائے، آئینہ اسی کے خد و خال پہن لیتا ہے۔ جن کرداروں کی زندگی سے کچھ لمحے تخلیق کار پر صدیوں کی طرح بیت جاتے ہیں ، وہ کردار کہیں سے بھی ہو سکتے ہیں۔ کبھی وہ کردار حقیقی ہوتے ہیں اور کبھی حقیقی نہیں بھی ہوتے، یعنی بعض اوقات تخلیق کار کردار بھی خود تراشتا ہے، اس کا دکھ بھی خود گھڑتا ہے پھر خود بھی اس دکھ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ مجھے لگا کہ اس نظم میں شاعر نے بورے میں بند زخمی بلے ّ کی تکلیف خود پر جھیلی ہے، اس نے جان محمد خان کی پشت پر لدے بورے میں بیٹھ کر یہ نظم لکھی ہے

حمیدہ شاہین:  یہ بھی کوئ ضروری نہیں تھا کہ شاعر کی روح اپنی تخلیقی لہر میں اسے بورے کے اندر بلے ّ تک ہی لے جاتی، وہ جان محمد خان بھی ہو سکتا تھا، جان محمد خان کے قالب میں شاعر بلے ّ کو بورے میں بند کرنے کے حق میں دلائل پیش کرتا، تب شاید وہ کہتا

 سرکش بلے ّ

 تو نے میری پشت پہ کتنے گھاؤ لگائے

 آج تجھے معلوم ہوا؟

 بے بس ہونا کیسا لگتا ہے

 یہ وہ جھکاؤ ہے جو تخلیق کار لا شعوری طور پر قاری کے لیے رکھتا ہے کہ جہاں وہ خود ہے ادھر کا پلہّ بھاری رہے،

حمیدہ شاہین:  صدرِ محترم ! اس نظم نے مجھ سے ایک اور بات کہی ہے کہ میں جوانی اور بڑھاپے کی بات بھی تو ہو سکتی ہوں۔ بدن پٹ سن کا وہ بورا ہے جو عالمِ جوانی میں دھان ( توانائی اور تمناؤں )سے بھرا ہوا تھا۔ ہولے ہولے بورا خالی ہوتا گیا اور بڑھاپے میں ناتوانی کا کا یہ عالم ہے کہ ’ جان الجھتی ہے ، اور

 ’ آج تمہاری ننگی پیٹھ پہ آگ جلائے کون۔۔۔۔۔انگارے دہکائے کون۔۔۔۔۔۔۔۔جدوجہد کے خونیں پھول کھلائے کون۔۔۔۔۔۔۔میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔آج سفر آسان نہیں –

 جان محمد خان زندگی کا استعارہ بھی ہو سکتا ہے اور موت کا بھی، جس سے مخاطب ہو کر بے بسی کی یہ کیفیت بیان کی جا رہی ہے۔ ’ گہری نیند میں چلتے جانا، زندگی کے لگے بندھے تسلسل کی طرف اشارہ ہے، جس میں کسی فرد کے چلے جانے سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔

 ’ نظر نہ آنے والے خالی بورے کی پہچان نہ ہونے ، کا مطلب یہ ہے کہ انسان ’ نظر آنے والی‘  مادّی اشیا کو سمیٹنے اور جمع کرنے میں زندگی گزار دیتا ہے اور کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ نظر نہ آنے والے بورے کے لیے بھی کچھ جمع کرنا ہے۔

الیاس ملک:صدرِ محفل – کچھ گزارشات نظم کے عنوان کی بابت –

 جو احباب ساقی فاروقی صاحب سے علمی ادبی یا ذاتی حوالے سے واقفیت رکھتے انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ موصوف جتنی محبت سے نظم بُنتے ہیں اُتنی ہی محنت سے نظم کا عنوان بھی تراشتے ہیں – کبھی کبھی تو قاری کا دماغ عنوان میں ہی الجھ جاتا ہے اور نظم کا متن ثانوی سا رہ جاتا ہے – کہنا صرف یہ مقصود ہے کہ جو انصاف ساقی نے اپنی نظموں کے عنوانات سے کیا ہے وہ قابلِ ستائش بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی – اس نظم کا عنوان بھی قابلِ غور ہے – یہ عنوان کئ طرح سے لکھا جا سکتا تھا – مثلاً :

 خالی بورے میں بلّا

 بورے میں زخمی بلّا

 بورے میں بلّا

 زخمی بلّا

 خالی بورا

 خالی بورا اور زخمی بلّا

 جان محمد خان

 سفر آسان نہیں

،۔

،۔

،۔

،۔

 یہ میرا پاکستان نہیں

 مگر ساقی کے ہاں ایسے تساہل اور نعرہ بازی کی گنجائش کبھی نہیں رہی – اس کی نظم کا عنوان کبھی قطب ستارہ بن کر نظم کی سمت کا تعین کرنے میں معاونت کرتا ہے اور کبھی یہ زہرہ جمال اپنے نیک چلن قاری کو بہکا کر نظم کے نئے مفاہیم تلاش کرنے کی دعوتِ گناہ دیتا –

 مذکورۂ بالا عنوان کا احوال بھی کچھ ایسا ہی ہے جہاں "بورے میں زخمی بلّا ” قطب شمالی ہے اور "خالی” وہ زہرہ جمال ہے جو قاری کی توجہ کا سوالی ہے –

تصنیف حیدر: (1) صدر صاحب! میری رائے میں اس نظم کا سب سے معتبر حوالہ جنس ہے۔ ہم سب کے اندر ایک بلا ہے،۔ لیکن ہم سب ہی جان محمد خان نہیں ہیں۔ مجھے سعدی کی ایک بات یاد آ رہی ہے۔

 اذا ے ئس الانسان طال لسانہ

 سعدی نے تو خیر انسان کا ذکر کیا تھا۔ میں فطرت کا ذکر کرتا ہوں۔ فطرت بھی مجبوری میں ہی بولتی ہے۔ اور اس فطرت کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک تو وہ معصوم بلی کی شکل ہے جو ضمیر یا خود داری کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جو بولتی کم ہے، بلکہ ایسے موقعوں پر جہاں انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی جان پر بھی ظلم کر رہا ہوتا ہے تو معصوموں کی طرح انسان کی طرف دیکھنے لگتی ہے۔ کچھ اس کے دیکھنے سے ایسے متاثر ہوتے ہیں کہ وہ عمل کرنے سے رک جاتے ہیں جو ان کی یادوسروں کی تباہی کا باعث ہوتا ہے اور کچھ اس کی مدھم ’میاؤں میاؤں ، کو نظر میں ہی نہیں لاتے۔ اچھا یہ ممکن اس لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بلی تو ہر دوسرے قدم پر نیکی، بھلائی اور اچھائی کا سائرن بجانے لگتی ہے۔ لیکن اس سائرن کے پس پشت دراصل وہ سماجی آواز کام کر رہی ہوتی ہے جو ہماری زمین قلب میں کسی بیج کی طرح شعور کی آنکھ کھولتے ہی بو دی گئی ہوتی ہے۔ لیکن فطرت کا دوسرا روپ وہ بلا ہے، جسے نفس، اشتہا یا جنس کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ہماری دنیا میں انسان کا جنس کے ساتھ سلوک کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ جان محمد خان کا اس بلے کے ساتھ۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ جنس کے لیے بلے سے بہتر استعارہ اور کو ئی ہوہی نہیں سکتا۔ اس لیے نہیں کہ بلا کوئی جنگلی یا ہٹ دھرم جانور ہے بلکہ اس لیے کیونکہ وہ احتجاج کرنا جانتا ہے۔ ہم سب نے سماج کے ڈر سے اپنی جنسی حس کو دھان کے ایک خالی بورے میں ڈال کر پیٹھ پر لاد لیا ہے۔ جنس پارہ صفت ہوتی ہے۔ اب ذرا ان سطروں پر پھر سے نظر ڈالیے

 دھان کے اس خالی بورے میں

 جان الجھتی ہے

 پٹ سن کی مضبوط سلاخیں دل میں گڑی ہیں

 اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں

 چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں

 میں ساقی کی اس کاری گری کی جتنی تعریف کروں کم ہے کہ انہوں نے سامنے کے ایک واقعے سے کیسا بہتر نتیجہ اخذ کیا ہے۔ جن لوگوں کو کبھی کھیل ہی کھیل میں بورے اوڑھنے یا لپیٹنے کا تجربہ رہا ہو گا وہ جانتے ہیں کہ اس میں ایک خاص قسم کی چبھن ہوتی ہے۔ پھر بورے سے باہر کا جو منظر دیکھا جاتا ہے وہ چھنا ہوا ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ نظر اور بیرونی منظر کے درمیان پٹ سن کی باریک سلاخیں حائل ہوتی ہیں۔ ’چاند کے سکے‘ دراصل اس خواب اور اس آزادی کی بھیک کا استعارہ ہیں جو کبھی کبھار انسانوں کی جھولی میں دھوکے سے گر جاتے ہیں۔ اب دوسرا مرحلہ آتا ہے۔ جنس سے ہمارا ڈر، ہمیں اس سے دور تو نہیں کرتا مگر اس کی ان سنی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مذہبی لوگوں سے معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ مذہب اس جنسی کشاکش اور بلے کو زخمی کرنے کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔ خیر!یہ نظم دراصل عمر کے ایک خاص حصے کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں جنس کو زخمی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ گھائل تو پہلے سے ہے۔ بس اسے کسی گندے تالاب میں پھینکنے کی ضرورت ہے۔ اچھا دوسری جانب مذہب کے ساتھ ساتھ سماج بھی اتنا ہی قصور وار ہے، جنس کو زخمی کرنے میں اس فکر، اسٹریس اور معاشی جدوجہد کا بھی بڑا رول ہے، جو انسان کو اپنے ذاتی مسائل میں سب سے بڑے مسئلے کی جانب توجہ دینے کا موقع تک نہیں دیتی اور جب انسان عمر کے ایک خاص حصے پر پہنچ کر اس ’بلے ، کی جانب توجہ دیتا ہے تو اسے زخمی پاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ نظم ایک ایسا رد عمل معلوم ہوتی ہے جو ادھیڑ عمر کے حضرات کی مائل بہ زوال جنسی خواہش کا المیہ بیان کرتی ہے۔ پھر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب انسان میں اور اس نام نہاد راہب میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، جو جنس کے احساس تک سے عاری ہو جاتا ہے۔ اب یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ عجیب دوغلاپن ہے کہ ایک جانب تو مذہب خدا کے حکم سے اورسماج ذمہ داریوں کے احساس سے ہمیں رہبانیت کے تصور سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے اور دوسری جانب ہمارا مذہب، ہمارا سماج اور ہمارا معاشی نظام ہمیں اسی کگار پر لا چھوڑتا ہے جہاں ہم میں اور راہب میں کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔ اگر غور کیا جائے تو یہ فرسٹیٹڈ جان محمد خان آج ہمارے معاشرے کی ہردوسری گلی میں پیٹھ پر کسی خالی بورے میں زخمی بلے کو لیے ایک گندے تالاب کی طرف جا رہا ہے۔ گندا تالاب دراصل جنس جیسی محترم اور مقدم حس کے اس بھیانک انجام کی علامت ہے جس میں وہ ڈوب مرتی ہے۔

تصنیف حیدر: (2)اب سوال یہ ہے کہ بلے نے یہ کیوں کہا کہ تمہیں اس خالی بورے، نظر نہ آنے والے بورے کی پہچان نہیں۔ میں یہاں اپنی بات کہنے سے پہلے آپ کو امام غزالی اور اردو کے ایک شاعر مصحفی کی رائے پڑھوانا چاہتا ہوں۔ غزالی نے کہا تھا کہ

 ’اپنے اعضا و جوارح کی تفصیلات کو جاننا ہی حقیقتاً کمالات الہیہ کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنا ہے اور اپنے اعضائے جسمانی کے عجائبات و فوائد میں کمالات علوم الہیہ کو دیکھ پانا ہے۔ اور ان تمام اعضائے جسمانی کو مجموعی طور پر دیکھنے سے بھی الطاف و کرامات خداوندی کو دیکھا جا سکتا ہے خواہ وہ ضرورتاً ہوں یا خوبصورتی و زیب و زینت سے متعلق ہوں۔ لہٰذا اسی وجہ سے معرفت نفس، معرفتِ خداوندی کی چابی اور آئینے کا مقام رکھتی ہے۔ ،

 مصحفی نے کہا تھا

 ہم لوگ صفات اس کی بیاں کرتے ہیں ورنہ

 ہے وہم و خرد سے بھی پرے ذات کا عالم

 لیکن ہم کر کیا رہے ہیں۔ کیا ہمیں کبھی اتنی فرصت ملی کہ ہم اس زخمی بلے کی صحیح پرورش کرتے۔ جنس کے حوالے سے ہمارے ڈر اور ہماری ہچکچاہٹ نے ہی ہمیں اتنا ظالم بنا دیا ہے۔ سلیم احمد نے وزیر آغا پر ہزارہا تنقید کے باوجود ان کی اس بات کو سر آنکھوں پر رکھا تھا کہ شاعری دراصل شاعر کے اندر موجود ایک انسان کا دوسرے انسان سے ہم کلام ہونا ہے اوراس کلام کی ترسیل ہی دراصل ابلاغ کا سب سے بہتر قرینہ ہے۔ میں ساقی کے جان محمد خان اور اس بلے کو بھی اپنے اور آپ کے اندر موجود ان دو لوگوں کی طرح دیکھتا ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی اس بلے سے ہم کلام بھی نہیں ہوسکتا۔ ضرورت پڑی تو پھر حاضری دوں گا۔ ابھی کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے

علی ارمان:

 https://www.facebook.com/photo.php؟v=4110633997097

 Saqi Farooqi reciting his fous poem۔

علی ارمان: عزیز دوستو نظم پر بہت اچھی گفتگو ہو رہی ہے اور آج ہفتے کی چھٹی میں پوری گفتگو پڑھ پایا ہوں۔ جو خیالات میرے ذہن میں ابھرے ہیں نظم کے حوالے سے وُہ امید ہے کل آپ کی خدمت میں پہش کرسکوں گا۔ پچھلے دنوں ایک مشاعرے میں ساقی صاحب نے یہ نظم پڑھی تو میں نے ریکارڈ کر لی۔ اس کا لنک اوپر دیا ہے۔ امید ہے اس سے نظم پر گفتگو پر برا نہیں بلکہ اچھا اثر پڑے گا۔ ساقی صاحب کی نظم نگاری کے اور بہت سے خصائل میں سے ایک بہت بڑی خصوصیت ان کے اسلوب کی ڈرامائیت ہے۔ اور انھیں شاعری پڑھتا دیکھا کر آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا شاعری اور ذات کا اسلوب آپس میں بہت سنکرونائز ہیں۔ دوسرا بہت اہم وصف ساقی صاحب کی شاعری میں یہ ہے کہ وُہ کسی منظر، کیفیت یا کسی خیال کو شش جہات سے بیان کرتے ہیں۔ بالکل ایک آئنے کی طرح جس میں ساری سمتیں آپس میں مدغم ہو کر ایک الٹرا ڈائمنیشن میں ڈھل جاتی ہیں۔ ساقی صاحب کی نظموں میں آئیں بائیں شائیں نہیں بلکہ

 A very precise and pointed flux of creativity hai

 جس سے ان کی نظم میں عجیب کثیر المعانی چکا چوند پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر یہ سب ایک بہت فطری انداز میں ہوتا نظر آتا ہے نظم کے عنوان سے نظم کی آخری لائن تک۔

 ساقی صاحب سے ملنا بھی اپنی نوع کا ایک تجربہ ہے اور کرنے کے قابل ہے۔ میری جب ساقی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا آج تک جتنا ہم نے انھیں پڑھا۔ کیا وُہ سب ان کی ذات سے پھوٹا ہے کہ کوئی درشنی رچایا ہوا ڈھونگ ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ساقی صاحب ساختہ اور بیساختہ دونوں سطح پر کلیشے سے مبرا آدمی ہیں اور یہی کلیشے اور پامالی سے رمیدگی ہی ساقی صاحب کی شخصیت اور شاعری کو وُہ بناتی ہے جو وُہ ہے۔ تازہ کار، پر تاثیر اور خطرناک۔۔ یہ کچھ باتیں عمومی طور پر ساقی صاحب کے حوالے سے میرے اندر کلبلا رہی تھیں۔ جو میں نے کر دیں۔ کل انشاءاللہ نظم کے حوالے سے کچھ بات کروں گا۔ حاشیہ کے بانیان اور تمام شرکاء مبارکباد کے مستحق ہیں جو ایسا سنجیدہ فورم فیس بک پر اتنی مستقل مزاجی سے چلا رہے ہیں۔ جس میں ہم جیسے طالبعلم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ شکریہ

محمد حمید شاہد: علی ارمان صاحب، آپ نے اچھا کیا کہ ساقی فاروقی کی نظم ان کی اپنی زبان میں بھی فراہم کر دی، لیجئے، کل "آج” ہو گیا ہے، اپنی بات ٓگے بڑھائیے۔

ستیہ پال آنند:

‘‘The Voyage of Discovery lies not in finding new landscapes but in having new eyes …’’

 مارسل پروسٹ نے یہ کہتے ہوئے جس بات کی نشاندہی کی تھی وہ ادب سے ہی متعلق تھی۔ متنازع فیہ ایک ایسا ڈِسکورس تھا جس کا تعلق رہبانیت سے تھا اور جس کی تفہیم پر عیسائی راہب بھی من حیث المجموع متفق نہیں تھے۔ پرُوسٹ نے کہا، پہلے لکھنے والے کی نظر سے ڈسکورس کے اس لینڈ سکیپ کو دیکھو، پھراس پادری کی نظر سے دیکھو جسے روزانہ اس کو اپنے خطبے میں پڑھ کرسنانا پڑتا ہے۔ پھر اپنی نظر سے دیکھو جس کے سامنے صرف ایک صفحہ قرطاس ہے جس پر وہ متن درج ہے جو تین سو برس پہلے تحریر کیا گیا تھا۔۔۔ تم دیکھو گے کہ تمثال تو وہی ہے لیکن ہر بار تمہاری آنکھیں اسے نئی بصارت سے دیکھتی ہیں۔ وقت اور فاصلے کے علاوہ (جو قاری اور تحریر کنندہ کے مابین حائل ہے )، معنیاتی علیہات کی تعلیق بندی، ( اور اس عمل میں کسی امر کو تعلیق بالمحال تصور کر لینا)، یہ بھی اور ظاہری نشانیات، مثلاً لکھاوٹ، سامعین کی حاضری یا غیر موجودگی۔۔ یہ سب عناصر معانی کے انشراح پر ا اثر انداز ہوتے ہیں۔۔۔۔ میں پرُوسٹ کا پورا اقتباس دے سکتا ہوں ، لیکن اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے صرف یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ساقی کی نظم کی تفہیم و تنقید میں کچھ عوامل آپس میں گڈ مڈ ہو گئے ہیں ، جو کہ ایک قدرتی بات ہے، لیکن ان سب کا لیکھا جوکھا میرا کام نہیں ہے، (میں تو مختصراً اپنی بات کہوں گا اور چلتا بنوں گا۔ ) یہ تو صاحب صدر کا فریضہ ہے اور ان کے ذہن، زبان اور قلم میں وہ ربط موجود ہے، جس پر مجھ جیسے معمولی لوگ رشک بھی کر سکتے ہیں اور اس کی کاٹ کے شاکی بھی ہیں۔

 میں نے عرض کیا کہ میں مختصراً اپنی بات کہہ کر چلتا بنوں گا۔ لیکن حاشیہ کے اراکین میں شاید ہی مجھ جیسا بختاور کوئی اور ہو، جو سالہا سال سے ساقی کا حلیف ہے (حریف بننے کی نوبت ابھی نہیں آئی!) اور کہ یہ نظم اور اس قبیل و قماش کی دیگر نظمیں (جن میں مکڑے والی نظم بھی شامل ہے ) اس کی زبان سے (یا فون پر سن رکھی ہیں ) اور ان پر اس سے اظہار خیال بھی ہوا ہے۔

ستیہ پال آنند: ( گذشتہ سے پیوستہ۔ دو ) : جلیل عالی رقم طراز ہیں۔ (اقتباس) کسی بھی شخصیت کی نفسیاتی کیس ھسٹری شعری فن پارہ بن سکتی ہے، مگر فن پارہ محض کیس ہسٹری نہیں ہوتا۔ ایک کامیاب اور وقیع فن پارے کے لیے اپنے ظاہری اور باطنی معانی کے حوالے سے متنی سطح پر خود مکتفی ہونا لازمی ہے، اور فن پارے کے بنیادی معنوی ساختیے کے تمام اجزا کی ہم آہنگ شمولیت ہی ایک جینوئن اور معتبر تنقید اور تعبیر کو ممکن بناتی ہے (اقتباس القط)۔۔۔ "متنی سطح پر خود مکتفی ہونا لازمی ہے۔ ” میں اس میں صرف اس حد تک ترمیم یا اضافہ کروں گا کہ متن چونکہ کاغذ پر وہ مجموعۂ الفاظ ہے جو یا تو ایک مکمل اجنبی صورت حال کو خلق کرتا ہے جو قاری کے ادراک و نظر سے ظہور پذیر ہوتی ہے اور خارجی حقیقت سے ظاہری رشتوں کی تنسیخ کرتی ہے، یا وہ تخیل اور حقیقت کا امتزاجی عمل بروئے کار لاتا ہے۔ یعنی اگر افسانے یا نظم میں کوئی تاریخی یا ذاتی (بچپن میں زخمی بلّے کو بورے میں بند کر کے تالاب میں ڈبونے کے لیے لے جانے والے منظر کی پردۂ ذہن پر چسپاں عینی تصویر)، تو اس تاریخی یا ذاتی حیثیت کو قبول اور تسلیم کرتے ہوئے بھی، یعنی اصل زندگی میں اس سے جو اقدار و تصورات وابستہ ہیں ، ان کے ادراک کو اپنانے کے باوجود بھی، وہ حقیقی صورت پر اصرار نہیں کرتا، کیونکہ وہ تخیل کاری کے تانے بانے میں جُڑ جاتے ہیں۔ یہ عمل اختر الایمان کی نظموں میں بیشتر اور اس خاکسار کی نظموں میں بھی اکثر اوقات نمایاں ہے۔ ساقی کی کچھ نظموں میں (لفظ "کچھ” کو ہائ لایٹ کیا گیا ہے ) حقیقت اور تخیل کی ہی صورت تمام و کمال ملتی ہے۔ کیٹس کے ملک میں رہنے کے باوجود اس نے ان”طلسمی دریچوں ” کو کھلوانے کا جتن نہیں کیا جو "کہر آلود سمندروں ” کو دیدنی بناتے ہیں۔ یہ رویہ ردِّ،رومانیت پر منتج ہوتا ہے۔ اس عمل میں ساقی کی "کچھ” نظموں میں (سب میں نہیں !) کوئی معروض، واقعہ یا منظر مناسب الفاظ سے متشکل ہوتا ہے اور پھر کردار اپنی وجودی واردات کو سامنے لاتا ہے اور دونوں کو بیک جنبش قلم اینالوجایز کرتا ہے۔ یعنی نظم میں وجودی اور غیر وجودی واقعات اپنے طور پر مالیدگی سے آشنا ہوتے ہوئے کسی analogize نقطۂ اتصال کی سمت بڑھتے ہیں۔ (میری نظموں کے بارے میں پروفیسر حامدی کاشمیری نے ایک بار لگ بھگ انہی الفاظ میں رائے دی تھی)۔ اس نقطۂ اتصال کے تصادم کے نظارے میں قاری غیر ضروری ابہام، ژولیدگی یا علامت کے معمے میں تبدیل ہونے کے مسٗلے سے بچتے ہوئے لفظوں میں پنپنے والے اور پھیلنے والے تجربے کا ادراک کرتا ہے۔ البتہ کمزور نظموں میں ، جہاں حقیقت تجربے کی فرضیت کو تقویت نہیں دے پاتی، وہاں نظم کی پہچان معرض وجود میں پڑ جاتی ہے۔

ستیہ پال آنند: (گذشتہ سے پیوستہ) (تین) جب بہت سے ریزے بکھرے پڑے ہیں تو آسان طریقہ تو یہی ہے کہ ان میں سے بقدر ضرورت و پسند مطلوبہ ٹکڑے چن لیے جائیں اور باقی پھینک دیے جائیں۔ کسی بھی تنقیدی جائزے کے لیے یہ طریق کار مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے بہتر لائحہ عمل یہ ہے کہ سب سے پہلے غیر مطلوبہ، قابل تنسیخ حصص ایک ایک کر کے خارج کرتے چلے جائیں ، اور جو باقی بچ جائیں انہیں ناپ تول کر کے قبول کر لیا جائے۔ منطق کی اصطلاح "اخراج کا طریق کار”  ہے۔ Process of elimination یعنی  تو میں احباب کی ناراضی کی پروا کیے بغیر بسم اللہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔ زکریا شاد صاحب نے اور علی محمد فرشی صاحب نے اوائل انیسویں صدی سے (جب تنقید کا دور دورہ انگریزی میں باقاعدگی سے شروع ہوا) مستعار سوانحی اپروچ کا مشورہ ان الفاظ میں دیا۔ (اقتباس۔ ایک) زکریا شاد : مگر میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اگر ایک حد تک شاعر کی شخصیت ہمارے پیش نظر رہے تو اس کی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔۔ سو دیکھنا ہو گا کہ خالی بورے میں زخمی بلا۔۔۔ کے خالق کی فکری اور نظریاتی اڑان کہاں تک ہے۔۔۔ اور حیات و کائنات کے بارے میں اس کے خیالات کیا ہیں۔۔۔۔ شاعر اس لحاظ سے۔۔۔۔ خدا کے حوالے سے اپنے اندر کلئیر نہیں ہے۔۔۔۔ وہ ٹکروں میں بٹے ہوئے انسان کی حالت ار پر روتے ہے۔۔۔۔ شاعر کے والد پیشے کی رو سے حیوانات کے ڈاکٹر تھے۔۔ سو شاعر اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے نظریے کے شدت کے ساتھ حامی ہے اور اس راہ میں ہر رکاوٹ کھڑی کرنے والے کو غاصب سمجھتا ہے۔۔۔۔ سو جان محمد خان۔۔۔ اس نظم میں ایک غاصب کی علامت ہے۔۔۔ یہ غاصب عمومی اعتبار سے بھی ہے اور شاعر کے اپنے معنوں میں بھی ہے۔۔۔۔ شاعر اس نظم میں اپنی روح کو بلے کے جسم میں منتقل کرتے ہوئے اپنی ذات کو بلے کی جون میں پیش کر رہا ہے (اقتباس القط) (اقتباس دو) فرشی۔ اس نظم کے حوالے سے شاعر کی شخصیت اور اس کی کئی دوسری نظمیں بھی زیرِ بحث آسکتی ہیں۔ نقاد کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ جس زاویے سے چاہے نظم پر اظہارِ خیال کرے۔ اگر کوئی فن پارے کو سمجھنے کے لیے شاعر کی سوانح سے مدد نہیں لینا چاہتا اور متن کو مرکز مان کر اپنا مقدمہ قائم کرتا ہے تو یہ اس کا تنقیدی موقف اور طریقہ کار ہے، ہمیں اس کے اس حق کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ "قاری اساس یا متن اساس تنقید” باقاعدہ ایک تنقیدی مکتبہ فکر ہے، اسے یوں رد کرنا بھی مناسب نہ ہو گا۔ (اقتباس القط)۔۔۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوتا ہے، میرے دونوں محترم دوست اپنی اپروچ میں پون صدی پیچھے چلے گئے ہیں۔ شاعر تو "شاعر” ہے۔ اگر وہ واحد متکلم حاضر کے طور پر "میَں ” کا اسم ضمیر استعمال کرتا ہے، یا نہیں کرتا، یا کوئی بھی اسم ضمیر برتنے سے احتراز کر کے قصہ گو کی طرح داستان سناتا ہے (جیسا کہ اس نظم میں ہے ) یہ زیادتی ہو گی اگر ہم نظم کے موضوع، مضمون، اس میں مشمولہ کردار اور ان سے متعلق واقعات کو اس کے سر منڈھ دیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف نظم ہی مجروح ہو گی بلکہ ناظم بھی مورد الزام ٹھہرے گا۔ شیکسپیر کے ٹریجک کرداروں میں ” میک بیتھ” (تذلیل کا باعث بیوی)، ” ہیملیٹ” (تذلیل اور موت کا باعث ماں )” کنگ لئیر” (پاگل پن، تذلیل اور موت کا باعث، گانریل اور ریگن ناموں کی دو بیٹیاں ) "اوتھیلو” (تذلیل، تباہی اور موت کا باعث، ایک وفا شعار بیوی پر اس کا شک)۔۔۔۔ یا بارہ تاریخی ڈرامے ہیں جن میں ہر ایک کا منظر نامہ جداگانہ ہے۔ ما سوا ایک دو معمولی باتوں کے، بسیار کوشش کے باوجود ہزاروں محقق اور مفسر شیکسپئیر کی زندگی میں ایسے کوئی محرک تلاش نہیں کر سکے، جن سے ان ڈراموں میں کسی بھی مقام پر اس کے سوانحی حالات اثر انداز ہوئے ہوں۔۔۔ انٹرٹیکسچویلٹی یعنی بین المتونیت کی سطح پر ہزاروں ماخذ تلاش کیے جا سکتے ہیں لیکن وہ اس کی ذاتی زندگی سے تعلق نہیں رکھتے۔ بعینہ کیا ہم” ڈکنز” کے معروف ناول "اے ٹیل آف ٹُو سِٹییز” (جس میں ۱۷۹۱ کے فرانسیسی انقلاب کے بارے میں تحقیق کا مواد اس نے کارلائل سے حاصل کیا تھا، جس نے ایک گھوڑا گاڑی میں پانچ وزنی بنڈل رکھوا کر اس کے گھر بھیج دیے تھے )میں کوئی سوانحی عنصر تلاش کر سکتے ہیں ؟(انگریزی سے زیادہ مثالیں نہ ہو دوں تو بہتر ہے ) لیکن اپنے ملک میں ہی پریم چند کے ناول” گئو دان” میں ، سرت چندر کے ناول "دیو داس” میں ، ٹیگور کے ناول "گورا” میں یا فی زمانہ قرۃ العین حیدر کے زمانوں اور زمینوں پر محیط ناولوں یا شمس الرحمن فاروقی کے ناول "کئی چاند تھے سر آسماں ” میں مین میخ کے ساتھ بھی کیا ہم کچھ سوانحی عناصر نکال سکتے ہیں ؟ شاید کچھ ہوں بھی، لیکن ان ماڈرن کلاسکس کی تخلیق ان عناصر کی مرہون منت نہیں ہے۔ فی الحال یہ نکتہ خارج از بحث، دوستو۔ آگے چل کر میں پھر اسے ہاتھ لگاؤں گا۔ (جاری ہے )

ستیہ پال آنند: (گذشتہ سے پیوستہ۔۔ چار) اب مجھے اجازت دیں کہ میں بین المتونیت کے اس دھارے پر کچھ کہوں جس کی طرف علی محمد فرشی صاحب نے صرف اشارہ ہی نہیں کیا بلکہ ساقی میاں کی ایک دیگر نظم "مکڑا” کے ساتھ اس نظم کا تعلق قائم کر کے یہ دیکھنے کی سعی کی ہے، کہ کیا یہ دونوں ایک ہی کھیت کی پیداوار ہیں۔ مجھے علم ہے کہ یہ نظم بعد میں خلق ہوئی، یعنی مکڑا بلّے کے بعد پیدا ہوا اور لنڈن میں ساقی نے اپنے گھر میں جب مجھے سنائی تو اس پر کچھ اظہار خیال بھی ہوا فرشی صاحب نے چونکہ ایک چالاک مکڑے کے بارے میں یہ نظم ان کالموں میں حرف بحرف درج کر دی ہے، اس لیے اس کے متن کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہاں ، انٹر ٹیکسچویلٹی کی سطح پر ایک اور بات کا اندراج ضروری ہے۔ پہلے دیکھیے میری انگریزی نظموں کی کتاب "اے ویگرینٹ مِرر” کے صفحہ نمبر چھ کا یہ اقتباس، اور اس کے بعد بات ہو گی۔

 A VAGRANT MIRROR SATYAPAL ANAND. p. vi۔

 I read Walt Whitman’s poem ‘‘A Noiseless Patient Spider’’ when I was just thirteen. I memorized it and let it evolve and revolve in my mind. The question I asked myself was, ‘‘If the word ,soul’ is replaced ,poem’, will it not be more appropriate؟’’ This question haunted me for days. Then I forgot about it۔

 Let us now read the poem

 A noiseless patient spider

 I marked where on a little promontory it stood isolated,

 I mark’d how to explore the vacant cast surrounding,

 It launch’d forth filent, filent, filent, out of itself,

 Ever unreeling them

 And you O my soul where you stand

 Surrounded, detached, in measureless oceans of space,

 Ceaselessly musing, venturing, throwing, seeking the spheres to connect them

 Till the bridge you will need be form’d, till the ductile anchor hold,

 Till the gosser thread you fling catch, somewhere, O my soul۔

 Today 67 years later, I feel that I wasn’t wrong. If Walt Whitman had written this poem now, he would certainly have used the spider’s web as a metaphor for his creative urge to write a poem rather than for the orphous nomenclature, soul’۔(اقتباس القط)

 یہ نظم، ظاہر ہے، ایک صدی سے بھی پیشتر لکھی گئی اور اس کا بظاہر کوئی تعلق ساقی کی نظم سے نہیں دکھائی دیتا۔ بہر حال چونکہ نظم کا واحد متکلم دونوں حالتوں میں شاعر ہے، اور دونوں نظموں میں اس کی چشم دید گواہی ایک مکڑے کے بارے میں ہے جس کی حرکات و سکنات کو وہ غور سے دیکھ رہا ہے، اس لیے یہ امر بعید از قیاس نہیں ہے کہ ساقی نے، جو انگریزی شاعری کا گرویدہ ہے، عمر کے کسی حصے میں یہ نظم پڑھی ضرور ہو گی۔ اس کے متحرک امیجز کی ہلکی سی تصویر یادداشت کی کسی سطح پر ضرور چسپاں ہوئی ہو گی۔ والٹ وِٹمین کی انگریزی میں اور ساقی کی اردو میں ، ان دو نظموں کے علاوہ، آج تک کم از کم میری نظر سے اس مضمون پر کوئی نظم نہیں گذری، (اور میں حتی الوسع یورپی شاعری کا ایک "آگاہ” قاری ہوں ) تو شاید لکھی ہی نہ گئی ہو۔

 یہ جملے معترضہ بھی نہیں اور نا مغفور بھی نہی تھے۔ کیونکہ ان سے سوائے اس بات کے کہ بین المتونیت دنیا بھر کے ادب کو تار عنکبوت (میں نے قصداً "مکڑا” استعمال نہیں کیا !) کی طرح جکڑے ہوئے ہے، اور کچھ مقصود نہیں تھا۔ اور ہم جو سرقہ، توارد، مضمون کے ٹکراؤ وغیرہم کا رونا روتے رہتے ہیں ، وہ ایک خامی نہیں ، خوبی ہے۔ ہاں ، اس میں فرشی صاحب نے ایک اور نادر خیال بھی ٹانک دیا ہے۔ میں انہیں کوٹ کر رہا ہوں۔ (اقتباس) دونوں نظموں میں پہلے کون سی نظم خلق ہوئی؟ ظاہر ہے کہ اس کے لیے ہمیں شاعر ہی سے رجوع کرنا ہو گا؟ اب اگر شاعر موجود نہیں یا ہمیں نہیں بتانا چاہتا تو ہم کیا کریں گے سوائے اس کے کے دونوں نظموں کے متون کو سامنے رکھیں گے اور دونوں میں سے بہتر نظم کو اولیت دیں گے۔ کیوں کہ تنقید کو بہ ہر حال بہترین فن پارے ہی کو سرِ فہرست رکھنا ہوتا ہے۔ اب اگر شاعر بتا بھی دے کہ اس نے کون سی نظم پہلے لکھی تھی تب بھی نقاد کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہو گا، ماسواے اس کے کہ اگر "مکڑا” پہلے تخلیق ہوئی تو "خالی بورے میں زخمی بلا” میں شاعر نے ارتقا کیا۔ اور جواب اس کے بر عکس ہے تو شاعر کے ذہن میں اپنی بہترین نظم کی گونج ابھی موجود تھی۔۔۔۔ اس نوع کی تنقید کی اہمیت سے بھی مجھے کوئی انکار نہیں کہ اس طرح ہم تخلیقی عمل کی پراسراریت کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں اور بس۔۔۔ "۔۔۔ میرا خیال ہے کہ میرے "رد العجزعلی الصدر” کے بعد اب اس "پراسراریت ” کو سمجھنے کی سعی کرنا شرلک ہومز کا فرض تو ہو سکتا ہے، ہمارا نہیں ، اس لیے، بے حد عجز و انکسار کے ساتھ۔۔۔۔

 فی الحال فرشی صاحب کی مکڑے والی نظم کے حوالے کو اور بلے والی نظم کے ساتھ اس کے تعلق محض کو بھی بالائے طاق رکھتے ہیں۔ (جاری ہے )

ستیہ پال آنند: پانچ (گذشتہ سے پیوستہ) اب مجھے نظم کے توسیحی معانی کے ذیل ظفر سید صاحب کے "ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائڈ” کی "سپلِٹ پرسینلِٹی” کی کہانی کو اس تناظر میں درآمد کرنے کے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت دیں۔ نظم کے ساتھ زبردستی منسلک کرنے کے لیے خارجی اور بیرونی متعلقات کی درآمد اس لحاظ سے تو صحیح ہے، کہ شاعر کے بطن سے خلق ہونے کے بعد باہر آ کر نظم ایک مادر پدر آزاد مخطوطہ ہے، جس پر آنے والے زمان و مکان میں کوئی قاری یا نقاد کسی بھی تناظر میں اظہار خیال کر سکتا ہے۔ اور شاعر کے زمان و مکان کے اندر مقید اس کے تنگ معانی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ اس طرح شاعری کو موضوعیت اور مطلقیت کی عاید کردہ حد بندیوں کو عبور کرنے اور آزاد فضا میں تجسس و استفہام کی منزلوں سے گذرنے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے تسلیم ہے کہ ایک وسیع تر کائناتی تناظر میں رکھ کر کسی بھی ڈاکومینٹ کو دیکھنے سے شاید اس کی اصل اور ماہیت کی تفہیم و تحسین میں مدد ملتی ہے، لیکن یہ ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس میں الجھ کر ہم "اصل و ماہیت” کو گم بھی کر سکتے ہیں۔ کوئی ایک عشرہ پہلے میں ایک مناظرے میں کچھ دوستوں کے ساتھ شامل تھا۔ سوال زیر بحث یہ تھا کہ کیا متن خود کار ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا قرأت کے تفاعل کا اس سے کوئی رابطہ نہیں۔ یعنی "کیا قرأت کا تفاعل قاری کے تصور کے بغیر ممکن ہے ؟” اور پھر کیا قاری کا تصور اس کے ہم عصری حالات اور تاریخ کے بہاو سے جداگانہ ہے ؟ مجھے کچھ "شتر گربگی” کا سا احساس ہوا جب میں نے ظفر سید صاحب کا "دو لخت شخصیت” اور فرائڈ سے متعلق ریفرینس پڑھے۔ انگریزی مصنف کے ہاں تو یہ دو شخصیتیں نیکی اور بدی کے جڑواں روپ جو انسان کے اندر ہیں ، ایک شخص میں الگ الگ ہو کر آزاد تشخص اختیار کر لیتے ہیں اور ایک سے دوسرے تک رسائی یا دوسرے سے واپس پہلے تک مراجعت ایک تحرک پر منحصر ہے جو واضح اور روزمرہ کی زندگی کا ہی ایک فعل ہے۔۔۔۔ ہمارے ظفر سید صاحب نہایت زرخیز دماغ رکھتے ہیں اور میں اس کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ فرشی صاحب ان سے دو تین ہی نہیں دس بارہ قدم آگے بڑھ گئے جب انہوں نے اس نظم کی "قاری اساس قرأت” کے تناظر میں یہ لکھا۔ (اقتباس)” نظم کے مقامی دائرے میں سیاسی موضوع انسانی المیے اور قومی سانحے سے آمیخت ہے۔۔۔۔۔۔ ہماری تاریخ کا سیاہ باب کھلتا ہے تو جان محمد خان کے مکھوٹے میں قاری کو صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان، گورنر مشرقی پاکستان جنرل منعم خان، گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ امیر محمد خان، جنرل ٹکا خان، جنرل امیر عبداللہ خان نیازی، یحیٰ خان کے چہرے بغیر کسی کوشش کے نظر آنے لگتے ہیں۔

 مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے ذمہ دار کیا مغربی پاکستان کے عوام تھے یا پھر پورے ملک پر قابض غاصب حکم ران؟ نظم نے اس بارے میں ’جان محمد خان، کا اسم معرفہ چن کر اپنے مؤقف کا کھلا اظہار کیا ہے۔ یہ خان لوگ کون تھے، یہ تو واضح ہو چکا۔ ان کا مشرقی پاکستان اور اس خطے کے عوام کے بارے میں کیا رویہ تھا اس کا ثبوت خود جنرل صدر ایوب خان کی لکھی ہوئی ڈائری سے ملاحظہ کیجیے :

 "مغربی پاکستان کابینہ اور گورنر موسیٰ سے ملاقات میں یہ سوال زیرِ بحث آیا کہ مشرقی پاکستان کی جانب سے مغربی حصے کو بلیک میل کرنے کی کوششوں سے کیسے نمٹا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ مرکزی اور مغربی پاکستان کی حکومت مقننہ، انتظامیہ اور پریس کی سطح پر مشرقی پاکستان کی بے وفائی کا پردہ چاک کرے۔ ممکن ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ وہ چاہیں تو پاکستان سے الگ ہوسکتے ہیں تو یہ سن کر ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔”(28 جون1967 )

 غاصبانہ و آمرانہ نظامِ حکم رانی نے مشرقی عوام کو جس احساسِ محرومی بل کہ احساس غلامی سے دوچار کر رکھا تھا اس کی روداد ہی اس نظم کی کہانی بنی ہے۔ شاعر نے جان محمد خان کا اسم معرفہ آمریت کے استعارے طور برتا ہے لیکن کمال یہ کیا ہے کہ مد مقابل استعارے کو اسم نکرہ کی صورت میں استعمال کر کے محکوم عوام کی بے چہرگی، بے توقیری اور بے بسی کو بھی گہری معنویت عطا کر دی ہے۔

 سوال کیا جا سکتا ہے کہ نظم کا عنوان مہمل ہے، کہ جب بورا خالی ہے تو اس میں بلّے کی موجودگی کا کیا جواز ہے ؟ اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دھان سے خالی بورا ہے، یعنی اسم معرفہ نے اسم نکرہ کو اس کے پیداواری وسائل سے محروم کر کے غربت وافلاس کا قیدی بنا رکھا ہے اور اب اسے موت کے منھ میں پھینکنے جا رہا ہے۔

 صاحب صدارت! میں نے مقامی جہت پر اظہارِ خیال کیا ہے اور آفاقی جہت پر توقف کر لیا ہے تاکہ دوسرے احباب بھی بحث میں شریک ہو جائیں تو اس سمت آؤں۔ ” (اقتباس القط)

 میں بارتھ کے پیاز کے چھلکوں والی مثال تو نہیں دینا چاہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ساختیات کے بعد آنے والے مدارس فکر جب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معنی کا کوئی "مرکز” نہیں یا معنی ” تعطک” یا” التوا” میں ہے، یا معنی جتنا عیاں ہے، اتنا ہی مخفی بھی ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ لا مرکزیت، یا التوا، یا غیاب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم متن پر معانی کی بوریاں لادتے ہی جائیں ، جب تکٰ کہ اونٹ بیٹھ نہ جائے۔ (جاری ہے )

ستیہ پال آنند: چھ۔ (گذشتہ سے پیوستہ) یعنی ہم اگر ہر شعری تخلیق کے ساتھ جزوی یا کلی طور پر اس قسم کے سائڈ اشو کھڑے کرتے چلے جائیں گے تو یہ کہنے میں کیا ہرج ہے کہ بقول حامدی کاشمیری "تخلیق کسی معنی یا خیال کی ترسیلیت سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ یہ امکان خیز تخیلی فضا جو لسانی عمل کا نتیجہ ہے، کی تشکیل کرتی ہے۔ اس میں کردار و واقعہ کے تعمل سے جو تجربہ ابھرتا ہھے وہ مختلف جہات کی جانب سفر کرتا ہے اور تجسس و تحیر کو انگیخت کرتے ہوئے جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے۔ ” میں نے خود ایک بار دہلی کے ایک سیمینار میں حامدی بھائی صاحب سے چبھتا ہوا یہ سوال کیا کی کیا یہ سفر قاری اور نقاد دونوں کو انارکی یعنی طوائف الملوکی کی طرف نہیں لے جاتا؟ کہ یا تو کوئی معنی سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اس کی صد ہزار جہات ہیں۔ یا تو وہ خلا میں ، ہر قسم کے تاثر یا تصور سے وراء  الورا ہے اور یا ستاروں سے بھرے ہوئے آسمان میں ہر ستارے کی معنویت پر اس کا اطلاق کیا جا سکے گا۔ جو جواب انہوں نے دیا، وہ یہ تھا۔ "میں نے شعر سے معنی کی لا تعلقی پر زور دیا ہے کیونکہ شعر تجربے سے نہ کہ معنی سے سروکار رکھتا ہے۔ ” میں شاید اس وقت نا فہم تھا (اور اب بھی ہوں ) کہ یہ بات سمجھ نہیں پایا)۔ اس سلسلے میں ایک دو جملے فرشی صاحب کے "مقامی” اور "آفاقی” جہات کے بارے میں بھی ضروری محسوس ہوتے ہیں۔ میں ان سے اتفاق رکھتا ہوں کہ پس ساختیاتی فکر کے تنقید پر اطلاق سے مقامی ترجیحات پر زیادہ زور دیا جانے لگا ہے۔ لیکن آفاقی جہت کے حوالے سے اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ ترجیحی دائروں میں گھومتے ہوئے ہی اور دائرہ در دائرہ اپنے گھیرے کو بڑھاتے ہوئے ہی آفاقی حد فاصل تک پہنچا جا سکتی ہے۔ ادب کی آفاقیت تو مسلم ہے، اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں ، لیکن کیا مقام اور آفاق آپس میں دست و گریباں ہیں ؟ جی نہیں ، ایسا نہیں ہے، !

ستیہ پال آنند: دوستو، میں معافی چاہتا ہوں۔ مجھے آج رات ہی بوجوہ ایک ہفتے کے لیے کینیڈا جانا پڑ رہا ہے۔ میں اگر ممکن ہوا تو وہاں سے ہی (وہاں کمپیوٹر میں اردو ان پیج نہیں ہے ) یا لوٹ کر اس بات کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ معافی۔

علی محمد فرشی: صاحب صدارت!میں نے بحث کے آغاز میں نظم کے دو بڑے دائروں (مقامی اور آفاقی) کا ذکر کیا تھا۔ ستیہ پال آنند صاحب نے لکھا ہے :

 ” ایک دو جملے فرشی صاحب کے "مقامی” اور "آفاقی” جہات کے بارے میں بھی ضروری محسوس ہوتے ہیں۔ میں ان سے اتفاق رکھتا ہوں کہ پس ساختیاتی فکر کے تنقید پر اطلاق سے مقامی ترجیحات پر زیادہ زور دیا جانے لگا ہے۔ لیکن آفاقی جہت کے حوالے سے اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ ترجیحی دائروں میں گھومتے ہوئے ہی اور دائرہ در دائرہ اپنے گھیرے کو بڑھاتے ہوئے ہی آفاقی حد فاصل تک پہنچا جا سکتی ہے۔ ادب کی آفاقیت تو مسلم ہے، اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں ، لیکن کیا مقام اور آفاق آپس میں دست و گریباں ہیں ؟ جی نہیں ، ایسا نہیں ہے، "

 صاحب صدارت! میں نے بھی تو یہی موقف اختیار کیا تھا۔ یاددہانی کے لیے دھرانے کی اجازت چاہوں گا:

 "میں ، ابتداً، بحث کو آغاز دینے کی خاطر اس نظم کی معنوی جہات پر گفت گو کرنا چاہوں گا۔ پہلی جہت مقامیت سے منسلک ہے اور دوسری آفاقیت سے لب ریز۔ نظم کے دونوں دائرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور کہیں ایک دوسرے کو قطع نہیں کرتے۔ "

علی محمد فرشی: جنابِ صدر!

 تخلیقی عمل چاہے کتنا ہی پراسرار اور پیچیدہ کیوں نہ قرار پائے لیکن اس ضمن میں اس حقیقت کو کسی صورت بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ "تخلیقی واردات” میں زیادہ عمل دخل لاشعور کا ہوتا ہے۔ لاشعور میں پڑا ہوا کوئی بیج کسی بھی وقت تخلیق کا شجر بن سکتا ہے۔ یہ بیج(ذاتی) مشاہدے، مطالعے یا تجربے کا بھی ہو سکتا ہے اور اجتماعی لاشعور کی کارفرمائی بھی۔ کبھی غیب سے مضامیں خیال میں آ جاتے ہیں تو کبھی کوئی تخلیق پہلے سر زد ہو جاتی ہے اور اس میں پیش کی گئی صورتِ حال (حقیقی دنیا میں )کہیں بعد میں نمودار ہوتی ہے۔ میں یہ بات تسلیم کر کے آگے بڑھا ہوں کہ تخلیق کا بیج شعور ہی کے راستے سے لاشعور میں پہنچتا ہے، البتہ یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ اسے تخلیق کی صورت اختیار کرنے میں کتنا وقت لگے گا۔ نہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس بیج سے بہ عینہ وہ ویسا ہی پودا نمودار ہو گا جس کا یہ بیج تھا۔ چناں چہ ساقی صاحب کا شعوری مشاہدہ نظم کا واقعہ تو بن گیا لیکن تخلیقی عمل کے دوران میں شاعر نے اسے اپنی فنی مہارت سے ایسی ساخت میں ڈھالا اور جذبے کی بھٹی سے اس طور گزارا کہ ایک شہ کار وجود میں آ گیا۔ لہٰذا اس فن پارے کے پسِ پردہ واقعے سے نہ نظم کی تفہیم میں کوئی مدد ملتی ہے نہ اس واقعے کی عمومیت سے اس کی عظمت میں کوئی فرق آتا ہے۔ البتہ حیرت ضرور ہوتی ہے کہ ایک عام واقعہ شاعر کے تخلیقی وفور کے سبب کیسی بے مثال نظم کی شکل اختیار گیا۔

 مان لیا کہ شاعر کا ملازم بہت پہلے ایک بلے کو بورے میں بند کر کے تالاب میں پھینک آیا تھا کیوں کہ وہ اہلِ خانہ (انسان) کے لیے باعثِ آزار تھا۔ اور انسان اس اصول پر کار بند ہے کہ جو شے بھی انسان کے لیے نقصان دہ ہو اسے ختم کرنا کوئی جرم نہیں۔ لیکن شاعر ایک بلے کودی جانے والی اذیت ناک موت کا کرب کئی برسوں تک اپنے سینے میں لیے پھرتا رہا۔ یہ بھی مان لیا کہ اس ملازم کا نام جان محمد خان تھا۔ اگر شاعر نے اس اسم معرفہ کو جوں کا توں لیا بھی ہے تو یہ نظم کی ضرورت تھا، بل کہ اشد ضرورت تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو شاعر کوئی اور اسم معرفہ خلق کر لیتا۔

 دیکھنا یہ ہے کم زور مخلوق(بلّا)کبھی طاقت ور(جان محمد خان) کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہی۔ یہ نظم کم زور کی حمایت میں کھڑی ہے، شاعر کی ہم دردی کم تر اور کم زور کے ساتھ ہے۔ خیال رہے کہ تعصبات سے بالا ہونا بھی بڑے ادب کی ایک شناخت ہے۔ اس نظم نے انسان کے حیوان کے ساتھ روا تعصب کی مذمت کی ہے اور انسانی احساس کی سطح پر رکھ کر حیوان کے ساتھ ہونے والی بربریت کی مذمت کی ہے۔ ذی جانوں کے ساتھ محبت اور مساوات کا رویہ ساقی صاحب کی کئی اور نظموں میں بھی ان کی انفرادی خصوصیت بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ پہلو بھی اس نظم کی آفاقی جہت کا نمایاں جز ہے۔

علی ارمان: ستیہ پال آنند صاحب نے حامدی کاشمیری کا جو اقتباس اپنے کامنٹ میں درج کیا میں اس سے اپنی بات شروع کرتا ہوں۔

 (کوٹ) حامدی کاشمیری "تخلیق کسی معنی یا خیال کی ترسیلیت سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ یہ امکان خیز تخیلی فضا جو لسانی عمل کا نتیجہ ہے، کی تشکیل کرتی ہے۔ اس میں کردار و واقعہ کے تعمل سے جو تجربہ ابھرتا ہے وہ مختلف جہات کی جانب سفر کرتا ہے اور تجسس و تحیر کو انگیخت کرتے ہوئے جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے۔ ” (ان کوٹ)

 آگے چل کر اس قتباس کے حوالے سے محترم ستیہ پال آنند صاحب فرماتے ہیں کہ (کوٹ)

 ” میں نے خود ایک بار دہلی کے ایک سیمینار میں حامدی بھائی صاحب سے چبھتا ہوا یہ سوال کیا کی کیا یہ سفر قاری اور نقاد دونوں کو انارکی یعنی طوائف الملوکی کی طرف نہیں لے جاتا؟ کہ یا تو کوئی معنی سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اس کی صد ہزار جہات ہیں۔ یا تو وہ خلا میں ، ہر قسم کے تاثر یا تصور سے وراء  الورا ہے اور یا ستاروں سے بھرے ہوئے آسمان میں ہر ستارے کی معنویت پر اس کا اطلاق کیا جا سکے گا۔ جو جواب انہوں نے دیا، وہ یہ تھا۔ "میں نے شعر سے معنی کی لا تعلقی پر زور دیا ہے کیونکہ شعر تجربے سے نہ کہ معنی سے سروکار رکھتا ہے۔ ” میں شاید اس وقت نا فہم تھا (اور اب بھی ہوں ) کہ یہ بات سمجھ نہیں پایا)۔ (ان کوٹ)

 ستیہ پال آنند صاحب کے سوال کے جواب میں محترم حامدی کاشمیری نے جو فرمایا اس سے میں اس حد تک تو اتفاق کرتا ہوں کہ تجربہ یا واقعہ بذات خود کسی معانی کا محتاج نہیں مگر وُہ تجربہ یا واقعہ وقوع پذیر ہونے کے بعد اگر شاعر یا ادیب اس کا اظہار کرنے لگے تو وُہ کسی صورت بھی اس میں کسی نہ کسی معنی (بے معنویت بھی معنی ہی کی ایک صورت ہے ) یا خیال (یا پراگندہ خیالی) کی ترسیل کی کوشش سے نہیں بچ سکتا میں ابھی تک مغربی تنقید کے اس نکتہ نظر کو قبول نہیں کر پایا جس میں ادب کو صرف ایک خود کار لسانی عمل کا نتیجہ مان لیا جائے۔ اور میرے خیال میں یہی وجہ تھی کہ آنند صاحب نے بھی کاشمیری صاحب سے یہ سوال کیا۔ ایک خاص طرح کی جمالیاتی فضا کی تشکیل بھی معنی یا خیال کی ترسیل ہی کی ایک صورت ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ایک شاعر کسی تجربے کا اظہار کرتے وقت اپنے ذہن میں موجود الفاظ کے کھرب ہا کھرب ممکنہ انسلاکات و روابط میں سے کچھ خاص رشتوں کو اپنے اظہار کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اس کے پیچھے یقیناً مصنف کا، جینیاتی، ذاتی، شعوری، لاشعوری اور تہذیبی وجود اپنے تمام تر امکانات و ایقانات کے ساتھ کارفرما ہوتا ہے۔ یہ صرف کسی خودکار لسانی عمل کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ ایک زندہ خلاق ذہن اور زبان کے باہمی تفاعل کا نتیجہ ہے۔ مغربی فلسفے اور تنقید میں خدا اور مصنف کی موت کے اعلان کے باوجود خدا اور مصنف وہیں ہیں جہاں تھے۔ صرف اب ہم ان دونوں کے اپنی مخلوق سے رشتوں کو نئی نظروں سے دیکھتے ہیں۔

 لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے

 فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے

 مغرب فانوس کی گردش سے پیدا ہونے والے مظاہراتی پیراڈاکس کا ایسا شکار ہوا کہ اس نے شمع کی لو کے وجود ہی سے انکار کر دیا۔

 بو علی اندر غبار ناقہ گم

 پیر رومی پردوہ محمل گرفت

 مغربی علوم و فنون کی تاریخ خصوصاً انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی ابتدا سے اسی بو علی کے غبار ناقہ میں گم ہونے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ اور اسے وہی دیکھ سکتا ہے جس نے پردہ ءِ محمل پر گرفت حاصل کر لی۔ ہمارا تہذیبی اور فکری دائرہ انسانی تفکر واحساس ے کے دونوں ذیلی دائروں کو اپنی گرفت میں لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر ہم کبھی اپنے تہذیبی (اس میں صرف اسلامی تہذیب نہیں کئی اور دوسری مشرقی تہذیبیں بھی شامل ہیں ) تشخص کے ساتھ ادب، تاریخ، آرکیٹکچر، آرٹ اور مغرب کے علوم و فنون کا جائزہ لینے کے قابل ہو گئے اور کوئی مشرقی تنقیدی تھیوری مرتب ہو گئی تو یقیناً اس میں خدا اور مصنف دونوں ہمیں دوبارہ زندہ نظر آئیں گے۔ جس میں یہ کائنات خودکار مادی عوامل، اور کوئی تخلیقی فن پارہ محض خودکار لسانی عمل کا جمالیاتی نتیجہ نظر نہیں آئے گا۔ مصنف کی موت سے معنی کی موت تک مغرب کیوں پہنچا اس کی تھیورائزیشن کے لیے ایک طویل عرق ریزی کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے )

علی ارمان: (گزشتہ سے پیوستہ) یہ ابتدائی باتیں شاید ساقی صاحب کی نظم کے حوالے سے غیر متعلق لگیں مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔

 اس نظم کے ایک واقعہ یا تجربہ کا بیان ہے جس میں ایک جان محمد خان نامی شخص ایک زخمی بلے کو دھان کے خالی بورے میں قید کر کے اسے اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے ایک چاندنی رات میں کسی تالاب میں پھینکنے جا رہا ہے۔

 یہ نظم اظہار کی سطح پر اس زخمی بلے کی زخم خوردہ خود کلامی ہے۔ جو شاید زخم خوردہ جان محمد کی اپنی خود کلامی ہے۔ نظم کے تین حصے یا منظر ہیں۔ جس میں پہلا موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے جسے ہم اس ڈرامے کا اوپننگ شاٹ کہہ سکتے ہیں

 جان محمد خان

 سفر آسان نہیں

 دھان کے اس خالی بورے میں

 جان الجھتی ہے

 پٹ سن کی مضبوط سلاخیں دل میں گڑی ہیں

 اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں

 چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں

 اور بدن میں رات پھیلتی جاتی ہے۔۔۔

 دوسرا حصہ کے پہلے میں نظم موجودہ صورتحال کے پس منظر کی طرف جاتی ہے جس میں شاعر نے بڑی مہارت سے وُہ تکنیک استعمال کی جسے ہم فلم شوٹنگ کی زبان میں  Double Exposure  کہتے ہیں۔ یعنی موجود منظر بھی جس میں سکرین پر موجود ہے لیکن اس اس منظر کے پیچھے ایک دھندلا سا منظر اور بھی نظر آتا ہے جس میں وُہ زخمی بلا ہمیں جان محمد کی پیٹھ پر اپنے پنجوں سے آگ لگاتا، انگارے دہکاتا اور حتی المقدور جدوجہد کے خونیں پھول کھلاتا نظر آتا ہے

 آج تمہاری ننگی پیٹھ پہ

 آگ جلائے کون

 انگارے دہکائے کون

 جدوجہد کے خونیں پھول کھلائے کون

 مگر اس سے اگلے دو مصرعوں میں یکایک وُہ پس منظر کا سین غائب ہو جاتا ہے اور اگلے دو مصرعے اس زخمی بلے کے احساس شکست اور زخم خوردگی کو ہمارے دلوں پر نقش کر جاتے ہیں

 میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں

 آج سفر آسان نہیں

 یہ دو مناظر، دو کیفیتوں اور دو ادوار کا ایسا کنٹراسٹ اور اتنا کامیاب اور موثر اظہار ہے ہم جس کی شدت سے اس زخمی بلے کی جون میں چلے جاتے ہیں۔ ساقی صاحب نے یہاں تک ہم میں سے ہر ایک کو وُہ زخمی بلا بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ نظم کا اس سے اگلا حصہ ہماری اس دکھ بھری بپتا کو مزید آگے بڑھاتا ہے۔ ہماری بپتا اس لیے کہ اس وقت تک ہم اپنے اندر کے جان محمد خان کو بھول کر مکمل طور پر اس زخمی بلے کی جون میں جا چکے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ زخمی بلے کے ساتھ تھوڑی دیر یعنی مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے۔

 تھوڑی دیر میں یہ پگ ڈنڈی

 ٹوٹ کے اک گندے تالاب میں گر جائے گی

 میں اپنے تابوت کی تنہائی سے لپٹ کر سو جاؤں گا

 پانی پانی ہو جاؤں گا

 اس حصے میں نظم کا یہ ایک بہت بڑا کرافٹ مین دوبارہ وہی تکنیک استعمال کرتا ہے جو اس نے نظم کے پچھلے بند کی پہلی چار لائنوں میں استعمال کی تھی

 لیکن اس بار یہ ڈبل ایکپوژر نہیں بلکہ ٹرپل ایکسپوژر کی مثال ہے جس میں جان محمد خان ابھی اس بلے کو پیٹھ پر اٹھائے ابھی سفر میں ہے ابھی وُہ اس تالاب پر نہیں پہنچا۔ اس منظر کے عقب میں ہمیں ایک اور منظر نظر آ رہا ہے جس میں وُہ پگڈنڈی ٹوٹ کے اک گندے تالاب میں گرتی نظر آ رہی ہے اور زخمی بلا اپنے خالی بورے کے تابوت میں پانی پانی ہوتا نظر آتا ہے۔ اس منظر کے کے پیچھے ایک منظر اور ہے جس میں یہ پوری نظم ایک فاسٹ فاروڈ فلیش بیک میں چلتی ہے اور ایک نادیدہ جان محمد خان، اس دیدنی جان محمد خان کو اپنے بورے میں بند کر کے کسی تالاب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور یہی خود کلامی ہم جان محمد خان کی زبانی سن رہے ہیں جسے ماہر خلاق شاعر نے ایک زخمی بلے کی صورت میں میٹا مارفوسائز کر دیا۔ یعنی اس وقت تک ہماری اندر کا جان محمد خان بھی ایک زخمی بلے کی صورت میں ڈھل کر کسی تالاب کے پانی میں پانی ہو چکا ہے۔ یہ تجربے کا اتنا کامیاب اور کثیر الجہاتی اظہار ہے کہ شاید کوئی بڑے سے بڑا کیمرہ میں بھی اسے ہمارے سامنے پردوۂسیمیں پر اس کامیابی اور موثر طریقے سے پیش نہ کر سکے۔ شاعری کی یہ معراج اردو کے کم نظم نگاروں کے حصے میں آئی ہے۔

 نظم کا آہنگ اس نظم کے کامیاب کیفیاتی ابلاغ میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نظم میں جان محمد خان پیدل چل کر اس بلے کو ایک تالاب میں پیدل چل کر پھینکے جا رہا ہے۔ اس نظم میں فعلن فعلن کے اوزان کا ماہرانہ استعمال پیدل چلنے کی کیفیت کے قریب ترین ہے۔ اگر کوئی سوال کرے کہ پیدل چلنے کی بحر کیا ہے تو میرا جواب یقیناً ہو گا کہ فعلن فعلن کے اوزان اس کیفیت کے قریب ترین ہیں۔ یہ شاید بلکہ یقیناً شاعر کا شعوری فیصلہ نہیں کہ ایسی کامیاب نظم اپنا آہنگ ساتھ لے کر آتی ہے۔ مگر مناسب جگہوں پر فعلن فعلن کے ارکان کو توڑنا اور مصرعوں کی تقسیم میں یقیناً شاعر کی آہنگ آگاہی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ (جاری ہے )

علی ارمان: (گزشتہ سے پیوستہ) یہ نظم کے معنی کی وُہ پہلی جہت یا پرت ہے جسے آپ ایک تجربے کا کامیاب جمالیاتی اظہار کہہ سکتے ہیں۔ اس سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اس نظم کو لکھنے والا شاعر ایک بہت حساس، خلاق اور ذہین فنکار ہے۔ یہاں تک نظم سے معنی کشید کرنے اور محظوظ ہونے کے لیے نہ ہمارا شاعر کو جاننا ضروری ہے نہ اس کے ذاتی حالات و واقعات، سیاسی وسماجی نکتہ نظر اور انسان، کائنات اور خدا کے بارے میں اس کے خیالات سے آگاہی ضروری ہے۔ یہ نظم ہر کامیاب نظم کی طرح ایک قائم بالذات نامیاتی وحدت ہے معانی جس سے براہ راست اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ جلیل عالی صاحب نے جسے اپنے ظاہری اور باطنی معانی کے حوالے سے متنی سطح پر خود مکتفی ہونا لازمی قرار دیا ہے۔ میں اس سوچ کا حامل ہوں کہ کوئی بھی فن پارہ تخلیق کرتے وقت کسی تخلیق کار کے پیش نظر اس تخلیق کا کم از کم ایک باطنی معنی ضرور موجود ہوتا ہے۔ زبان کے استعاراتی اور علامتی استعمال کا فیصلہ ہی اس بات کا اشارہ ہے کہ تخلیق کار کچھ کہنا چاہتا ہے۔ ایک تجربے یا واقعے کے اظہار کا فیصلہ بذات خود ایک طرح کے خیال یا معنی کو جنم دیتا ہے۔ یہ الگ بات کہ وُہ تخلیق بات شروع ضرور کرتا ہے مگر یہ سارا عمل کلی طور پر اُس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ میں اس میں اس تخلیق کار کے شعور، لاشعور اور متن یا زبان کی جبریت کے ساتھ اس کے معروضی حالات کو اس سارے عمل میں شریک سمجھتا ہوں۔ کبھی ان میں سے ایک عنصر حاوی ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرا اور کبھی یہ سارے عوامل اس تخلیقی عمل میں برابر کے شریک بھی ہو سکتے ہیں۔

 شعوری یا لاشعوری سطح پر۔ نظم کی تخلیق کی ابتدا ایک خیال سے بھی ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے وُہ خیال یا معنی کی ایک قاش شاعر پر بھی پوری طرح واضح نہ ہو اور نظم کی تخلیق کے دوران نظم ان راستوں پر چل نکلے جو شاعر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ یا کسی آنے والے عہد میں اس فن پارے سے ہم وُہ معنی برآمد کر لیں جو یقیناً اس تخلیق کار کے ذہن میں نہ ہو سکتے ہوں۔ یعنی خیال یا معنی اور نظم (یہاں چونکہ ایک نظم زیر بحث ہے ) ایک ساتھ اپنی تکمیلیت کا سفر طے کریں۔ اس میں خیال سے میری مراد کوئی مرکزی خیال ہر گز نہیں۔ اسی التباس کی وجہ سے مغربی تنقید نے مصنف کو تخلیقی عمل ہی سے دیس نکالا دے دیا۔ نئی تنقید والے نظم کی تفہیم کرتے وقت شاعر کی ذات سے واقفیت کو ایک بے کار چیز سمجھتے تھے۔ مگر تخلیقی عمل سے تخلیق کار کی کلی بے دخلی کا آغاز رولاں بارت کے مضمون مصنف کی موت کے ساتھ ۱۹۶۷ میں ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد ایک کے بعد ایک تھیوری میں ایک ایسی ہاہاکار مچی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ آج بھی یورپ اور امریکہ کے بیشتر تخلیقی فنکار ان ساری تھیوریز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی محفلوں اور اپنی تحریروں میں ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور اس حوالے سے لطیفے بھی گھڑتے اور سناتے ہیں۔

 لمحہ تخلیق میں کسی نظم کے ظاہری متنی معنی اور کم از کم ایک باطنی مفہوم کی حد تک اس نظم کا خود مکتفی ہونا لازمی ہے۔ اس کے بعد باطنی مفاہیم کی لامتناہیت کا میں قائل ہوں۔ کسی فن پارے کے عہد تخلیق یا کسی آئندہ دور میں اس فن پارے سے اگر کوئی قاری یا نقاد نئے مفاہیم و معانی اخذ کرتا ہے تو یہ اس کی ذمہ داری ہے کو وُہ دیکھے کہ نظم میں اس کو کیا کوئی ایسا غالب اشارہ موجود ہے جس کی تنسیخ و تردید اس نظم کے اندر ہی متنی سطح پر موجود نہیں اور کیا نظم اپنے تمام اعضا و جوارح کے ساتھ اس نئے لباس معانی میں سما جاتی ہے کہ نہیں۔

 After all we cannot putate a poem to make her wear the dress we like and think it should wear۔

 مجھے فرشی صاحب کی اس رائے سے اختلاف ہے کہ ساقی کی شاعری بڑے موضوعات سے خالی ہے سوال یہ ہے کہ بڑا موضوع کیا ہے۔ اس حوالے سے جو التباس ہے اس نے اردو نظم نگاروں سے بہت سی ایسی نظمیں تخلیق کروائیں جنھیں بگ اٹیمپٹس تو کہہ سکتے ہیں مگر کامیاب کاوشیں نہیں کہہ سکتے۔ ایک بہت بڑا کائناتی دائرہ کھینچنے کی کوشش میں اگر پرکار کانپ جائے تو وُہ آئندہ شاعروں یا اس زبان کی شاعری کے آئندہ میں شاید بطور ایندھن تو استعمال ہو سکے مگر اسے بذاتہ بڑی شاعری نہیں کہا جا سکتا۔ فرشی صاحب نے نظم کی تفہیم کے حوالے سے اپنے پہلے کمنٹس میں جو طریقہ کار اختیار کیا اور اس نظم کو مقامی اور ارضی تناظر میں رکھ کر دیکھا میں اس سے کلی اتفاق کرتا ہوں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ بڑا موضوع کیا ہے۔ ہمارا صوفی کہتا ہے کہ اک نکتے وچ گل مکدی اے۔ اس کو جدید سائنس کی نظروں سے دیکھیں تو پوری کائنات ایک ذرے یا ایٹم میں موجود ہے۔ بشرطیکہ اس ذرے کا نظام کامیابی سے چل رہا ہو جس میں الیکٹران، پروٹان، نیوٹران اور دوسرے سب اٹامک پارٹیکلز ایک خاص ضابطے یا بے ضابطگی کے تحت آپس میں بندھے ہوں

 اگر کسی بھی موضوع پر شاعر نے ایک ایسا فن پارہ تخلیق کر دیا یا اس سے ہو گیا جو ایک ایٹم کی طرح خود مکتفی ہے تو پھر اس میں سے کائناتی معانی برآمد کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ شاعر نے خود اپنے اس فن پارے میں یہ روک نہ لگا دی ہو کہ اسے صرف ایک خاص تناظر ہی میں دیکھا جائے۔ اگرچہ اس کے باوجود ہم تخلیق کے اندر موجود اس پابندی کو بھی توڑ سکتے ہیں۔ اور جیسے چاہیں ویسے معنی برآمد کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی فن پارہ اس بنیادی سطح یا معنی کی پہلی پر ہی اندرونی تضادات کا شکار ہو تو اس سے مزید کسی باطنی مفہوم کی دریافت میں کئی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی (جاری ہے )

علی ارمان: (گزشتہ سے پیوستہ) اس نظم کا اساسی معنوی دائرہ وہی واقعہ یا منظر نامہ ہے جو اس نظم میں بیان ہوا ہے۔ نظم کے مفہوم کا یہ دائرہ انتہائی بنیادی مگر انتہائی ضروری ہے اس کی حیثیت وہی ہے جو کائنات میں ایک ذرے کی ہے۔ اگر نظم اس اساسی سطح پر بقول جلیل عالی ایک خود مکتفی نظام ترتیب دے لیتی ہے تو پھر اس سے معانی کی پوری کائنات برآمد کی جا سکتی ہے۔ کسی فن پارے کا یہ خود مکتفی نظام اس کی زبان، آہنگ اور علامات و استعارات و اشارات کے بلا تضاد اور قائم بالذات ایک نامیاتی وحدت میں ڈھل جانے سے معرض وجود میں آتا ہے۔ میں اس بات کو پھر دہراتا ہوں کہ کسی تخلیقی فن پارے کے مفاہیم و مطالب لامتناہی یا لامتناہیت میں ہو سکتے ہیں مگر زبان اور متن کی سطح پر وہ فن پارہ ایک متناہی وحدت ہوتا ہے۔

 نظم میں تمام دوستوں نے جو معانی دریافت کیے وُہ تمام کے تمام اس میں موجود ہیں۔ ظفر سید نے نظم کی نفسیاتی تعبیر کی اور پھر پھر اسے مجموعی انسانی ارتقا کے دائرے میں رکھ کر دیکھا۔ علی محمد فرشی نے نظم کی اک ارضی اور مقامی تعبیر سے بات شروع کی اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہم پر نظم کے مفاہیم کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ الیاس ملک صاحب نے نظم کو شاعر کی سوانح زندگی اور ان کی ہجرتوں سے جوڑ کر دیکھا۔ علی محمد فرشی صاحب نے اگرچہ اس میں نظم کے مفاہیم میں آفاقیت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ اور یقیناً ان کی بات سے مجھے اتفاق ہے۔ ظفر صاحب کا یہ کہنا کہ انھیں مایوسی ہوئی یہ دیکھ کر کہ اتنے آفاقی تخلیق کی اتنی زمینی جڑیں والے فقرے پر میں اتنا ضرور کمنٹ کروں گا کہ کسی آفاقی فن پارے کی جڑیں اگر زمین میں نہیں ہوں گی اور وُہ ہوائی تو ہو سکتا ہے آفاقی نہیں۔ نظم کی تفہیمی کوشش کو علی محمد فرشی صاحب کی ارضی یا مقامی تفہیم، ظفر صاحب کے نفسیاتی تفہیم اور الیاس ملک کے سوانحی تفہیم کے دائروں سے آگے بڑھا کر اسے آفاقی مفہوم کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ ظفر سید نے اسے مجموعی انسانی ارتقا کے تناظر میں رکھ کر وُہ آفاقی مفاہیم ہمارے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

 میرے خیال میں نظم کو اگر مارکسی نکتہ نظر سے کلاس کانفلکٹ کے تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس سے نظم میں مفاہیم کے کئی نئے در وا ہو جاتے ہیں۔ جس میں دھان، پٹ سن، زخمی بلا، خالی بورا، جان محمد خان اور جان محمد کا نظر نہ آنے والا خالی بورا اور تالاب ان سب کو کلاس سٹرگل کی مختلف علامتوں کے طور پر بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ جاں محمد خان اس نظر نہ آنے والے بورے یعنی سرمایہ دارانہ نظم کا قیدی ہے اور شاید اسی جبر کے تحت وُہ زخمی بلے جو اس تناظر میں پرولتاریہ کی علامت کہا جا سکتا ہے کی تھوڑی سی ریزنٹمنٹ اور جدوجہد بھی برداشت نہیں کرتا اور اور اسے زخمی کر کے تالاب میں پھینکنے جا رہا ہے۔

 اس پر مزید تفصیلی گفتگو کے لیے مجھے ایک اور چھٹی کی ضرورت ہو۔

 اس کے علاوہ یہ نظم پڑھ کر مجھ پر ایک کلاسٹروفوبک کیفیت طاری ہوئی اور میں نے خود کو اس کائنات کے کے خالی بورے میں قید پایا۔ شاید نظم کا یہ الٹی میٹ مفہوم ہو۔ اور جس کا منتہا ایک خوفناک کائناتی موت ہے۔

 یوں یہ خلاق شاعر

 ایک زخمی بلے کی خالی بورے میں قید سے ہمیں ایک  Cosmic Claustrophobia  سے آشنا کرتا ہوا

  Cosmic death  کی خبر بھی دیتا ہے۔

 سائنسدان آج ایک ایسی تھیوری آف ایوری تھنگ کی تلاش میں ہے جس سے کائنات کے ہر معلوم اور نا معلوم کو ہم اس تھیوری مدد سے سمجھ اور سمجھا سکیں۔ مگر شاید بڑی شاعری اور بڑا ادب اس تھیوری آف ایوری تھنگ کی سطح پر پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔

علی محمد فرشی: صدر گرامی!علی ارمان صاحب نے اس بحث میں بہت وقیع اضافہ کیا ہے۔ مجھے ان کی لگ بھگ تمام باتوں سے اتفاق ہے کیوں کہ انھوں نے اختلاف کو بھی علمی سطح پر استوار رکھا۔ البتہ میں اپنے حوالے سے ان کی ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ انھوں نے لکھا ہے :

 "مجھے فرشی صاحب کی اس رائے سے اختلاف ہے کہ ساقی کی شاعری بڑے موضوعات سے خالی ہے "

 جنابِ صدر! میری گفت کا وہ حصہ جس سے انھیں اشتباہ ہوا ہے خاصا طویل ہے، مزید یہ کہ سیاق و سباق کے بغیر نقل کرنا بھی خلط مبحث کا باعث بن سکتا ہے، پھر سب کچھ اسی صفحے پر ملاحظہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں اگر ساقی صاحب کی شاعری کو بڑے موضوعات سے خالی قرار دیتا تو مجھے اس نظم پر اس قدر طویل بات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا یہ نظم بڑے موضوع سے تہی ہے ؟ یقیناً نہیں۔ البتہ مجھے بہ طور قاری، ساقی فاروقی، جسے میں اردو نظم کی پوری تاریخ میں بے مثل شاعر مان کر بحث کر رہا تھا، سے کچھ مزید توقعات رکھنے کا حق تو ہونا چاہیے ناں۔

زکریا شاذ : بہت ہی محترم صدر محفل۔۔۔۔۔ اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث میں نظم زیر بحث کی اب تک کی ہونے والی گفتگو میں شامل نہیں ہو سکا جس کا دکھ ہے۔۔۔ اب جو اس گفتگو کو پڑھنے کا موقع ملا ہے تو یہ جان کر نہایت ہی خوشی ہوئی کہ اس بحث میں ستیہ پال آنند جیسی کچھ سینئر اور قابل احترام شخصیات بھی شریک بزم ہو گئی ہیں۔ آنند صاحب نے بہت ہی علمی اور فکری باتیں ہی نہیں کیں بلکہ اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ ا اپنا قیمتی وقت بھی نذر محفل کیا ہے۔ علی ارمان صاحب نے بھی نظم کے علاوہ جو گفتگو کی ہے وہ بھی نہایت وقیع اور توجہ طلب ہے۔۔۔ شاید اب تک کی گفتگو میں فرشی صاحب کو چھوڑ کر انہی محترم حضرات ہی نے بحث کو آگے بڑھانے اور مجھے بھی مزید کچھ سوچنے سمجھنے اور اظہار خیال کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔۔ سو میں کوشش کروں گا کہ اپنی تھوڑی بہت ذہنی استعداد کے مطابق بحث کے قابل غور پہلوؤں پر اپنے طور پر ؟؟؟ جی ہاں۔۔ اپنے طور پر ہی کچھ کہنے کی جسارت کروں۔۔۔ جاری

زکریا شاذ : جناب والا۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب کسی موضوع پر مختلف احباب اظہار رائے کرتے ہیں تو بات سے بات نکلتی ہے۔۔۔۔۔ لیکن یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ بعض صاحبان بات سے اتنی باتیں نکالتے ہیں کہ ایک مقام پہ جا کر وہ غیر متعلقہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی میں نے محسوس کیا ہے۔۔۔

 یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ موضوع بحث۔۔ جناب۔۔۔ ساقی فاروقی۔۔۔ کی نظم۔۔۔ خالی بورے میں زخمی بلا۔۔۔ ہے، نہ کہ جناب ساقی فاروقی کے فن و شخصیت پر دعوت فکر دی گئی ہے۔۔ سو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نقطہ ہائے نگاہ کا مرکز و محور موضوع زیر بحث ہو نہ کہ کچھ اور۔۔۔

 اب تمام ضروری حوالوں پر بات کرنا نہ میرے بس میں ہے نہ میرا منصب ہے اور نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ دیگر صاحبان کی مفید گفتگو سے خود بھی محروم رہوں اور دوسروں کو بھی رکھوں۔۔

 جناب آنند صاحب کی فکر انگیز گفتگو اول و آخر پڑھ کر یہ احساس شدت کے ساتھ ہوا کہ آپ نے نظم پر براہ راست اور سنجیدگی سے کچھ بھی نہیں کہا۔۔ حالانکہ وہ اس محفل میں موضوع ہی کے توسط سے تشریف لائے تھے۔۔۔ مگر افسوس کہ ہمیں وہ اس سعادت سے بہرہ مند نہ کر سکے۔۔

 میں نے گفتگو کے آغاز میں ضمناً اور وہ بھی نظم کے حوالے ہی سے یہ عرض کی تھی کہ شاعر کی شخصیت کوبھی سمجھنا چاہیے۔۔۔ چنانچہ جناب آنند صاحب نے میری اس رائے سے اختلاف کیا۔۔ اور دلائل کے طور پر

 قدرے تفصیل سے مثالیں بھی پیش کیں۔۔ پہلی بات تو یہ کہ انہوں نے میرے اس کہے کو درخور اعتنا سمجھا۔ جس کے لیے میں ان کی اس محبت کا شکر گزار ہوں۔۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے مشرقی و مغربی ادب سے جتنی بھی مثالیں دیں افسوس کہ وہ سب کی سب نثری ادب سے متعلق ہیں۔ جبکہ میرا موقف شاعری کے حوالے سے تھا کہ عنوان گفتگو بھی شاعری ہی ہے۔۔۔۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ وہ شیکسپئیر کے سانیٹ اور ہمارے کچھ اردو نظم نگاروں کی شاعری کا حوالہ دیتے تا کہ ان کے اس دعوے کو مزید تقویت مل سکتی۔۔۔ اور مجھے بھی رستہ تلاش کرنے میں آسانی ہوتی۔۔۔۔۔ جاری۔۔

زکریا شاذ : جناب صدر محفل۔۔۔۔۔

 علی ارمان صاحب۔۔۔ اپنی گفتگو میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ۔۔۔

 ” مغربی تنقید نے مصنف کو تخلیقی عمل ہی سے دیس نکالا دے دیا۔ نئی تنقید والے نظم کی تفہیم کرتے وقت شاعر کی ذات سے واقفیت کو ایک بے کار چیز سمجھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد ایک کے بعد ایک تھیوری میں ایک ایسی ہاہاکار مچی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ آج بھی یورپ اور امریکہ کے بیشتر تخلیقی فنکار ان ساری تھیوریز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی محفلوں اور اپنی تحریروں میں ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور اس حوالے سے لطیفے بھی گھڑتے اور سناتے ہیں۔ "

 اس سے پہلے اسی حوالے سے وہ یوں بھی کہ چکے ہیں کہ۔۔۔۔

 "اس کے پیچھے یقیناً مصنف کا، جینیاتی، ذاتی، شعوری، لاشعوری اور تہذیبی وجود اپنے تمام تر امکانات و ایقانات کے ساتھ کارفرما ہوتا ہے "

 "پھر اسی سلسلے میں وہ یوں رقمطراز ہیں کہ۔۔۔

 "مغربی فلسفے اور تنقید میں خدا اور مصنف کی موت کے اعلان کے باوجود خدا اور مصنف وہیں ہیں جہاں تھے "

 کہنے کا مطلب یہ کہ وہ اپنی گفتگو میں ہر جگہ مصنف (شاعر) کے اس کے فن پارے سے الگ کر کے مغربی انداز تنقید کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔ جبکہ میرے اسی موقف کی کہ "پتا نہیں ہم شاعر کو بیچ میں سے کیوں نکال دیتے ہیں ” تردید میں یوں قلم فرسا ہیں کہ۔۔۔۔

 "نہ ہمارا شاعر کو جاننا ضروری ہے نہ اس کے ذاتی حالات و واقعات، سیاسی وسماجی نکتہ نظر اور انسان، کائنات اور خدا کے بارے میں اس کے خیالات سے آگاہی ضروری ہے۔۔ "

 بات سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔ شاید وہ میرے موقف کو ٹھیک سے سمجھ نہیں سکے۔ میں بھی وہی کہہ رہا ہوں جس کے حق میں وہ خود بول رہے ہیں۔۔۔۔

زکریا شاذ : جناب صدر محفل۔۔۔۔ ایک خلاق شاعر نظم کے فریم میں جو تصویرسجاتا ہے وہ بظاہر دھندلی اور غیر واضح ہوتی ہے۔۔ اس لیے مقدم یہی ہوتا ہے کہ پہلے اس تصویر کو مکمل کیا جائے تا کہ اس کا کوئی گوشہ نظروں سے اوجھل نہ رہے۔۔۔ چنانچہ اس سلسے میں سب سے پہلے راقم ہی نے یہ واضح کیا تھا کہ نظم زیر بحث کی تصویر کا پس منظر رات کے وقت کو اجاگر کرتا ہے۔۔۔ یعنی نظم کا پہلا کردار جان محمد خان۔۔ بلے کو رات کے وقت غرقاب کرنے جاتا ہے۔۔۔۔ اس کا انکشاف ان مصرعوں سے بخوبی ہو جاتا ہے

 اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں

 چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں

 ان مصرعوں میں جو غور طلب پہلو ہے وہ یہ ہے کہ شاعر نے چاند کو سکے سے تشبیہ دی ہے۔۔۔۔ نظیر اکبر آبادی نے بھی اپنی ایک نظم میں چاند کو روٹی سے تشبیہ دی تھی۔۔۔ نظیر اکبر آبادی اور اس نظم کے شاعر میں اس تشبیہ کے حوالے سے جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ۔۔۔ نظیر کے ہاں بھی وجہ شبہ چاند کی گولائی ہے اور ساقی نے بھی چاند کی اس بہت کم استعمال ہونے والی صفت سے کام لیا ہے۔۔۔ نظیر نے بھی چاند کو روایتی معنوں سے ہٹ کے دیکھا اور ساقی نے بھی۔

 اب جان محمد خان بلے کو رات کے وقت تالاب میں موت کی نیند سلائے یا دن کے اجالے میں اس سے نظم کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظم میں رات کی مناسبت سے چاند کی رعایت کا کیا جواز ہے۔۔۔ شاعر نے چاند کے حوالے کو ضروری کیوں سمجھا ؟؟؟ یا سمجھا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مذکورہ دو مصرعوں کا نظم کے آہنگ یا نظم کے تسلسل و تفہیم سے کیا کوئی علاقہ ہے۔۔ اگر ہے تو وہ کیا ہے ؟؟؟؟ اگر نہیں۔۔ تو پھر ان دو مصرعوں کا اس نظم میں کیا جواز ہے۔۔۔۔ ؟؟؟ میں تمام احباب کو نظم کے اس پہلو کی وضاحت کی درخواست کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔

علی ارمان: جناب صدر میں علی محمد فرشی صاحب سے معذرت چاہتا ہوں اگر میں نے انھیں رواروی میں مس کوٹ کر دیا۔ بھائی زکریا شاز نے مجھے کوٹ کرنے میں خالی جگہ کا خوب استعمال کیا۔

 مجھے زکریا شاز صاحب نے کچھ یوں کوٹ کیا

 "مغربی تنقید نے مصنف کو تخلیقی عمل ہی سے دیس نکالا دے دیا۔ نئی تنقید والے نظم کی تفہیم کرتے وقت شاعر کی ذات سے واقفیت کو ایک بے کار چیز سمجھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد ایک کے بعد ایک تھیوری میں ایک ایسی ہاہاکار مچی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ آج بھی یورپ اور امریکہ کے بیشتر تخلیقی فنکار ان ساری تھیوریز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی محفلوں اور اپنی تحریروں میں ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور اس حوالے سے لطیفے بھی گھڑتے اور سناتے ہیں "

 جبکہ میری تحریر میں بات کچھ یوں تھی

 ” مغربی تنقید نے مصنف کو تخلیقی عمل ہی سے دیس نکالا دے دیا۔ نئی تنقید والے نظم کی تفہیم کرتے وقت شاعر کی ذات سے واقفیت کو ایک بے کار چیز سمجھتے تھے۔ مگر تخلیقی عمل سے تخلیق کار کی کلی بے دخلی کا آغاز رولاں بارت کے مضمون مصنف کی موت کے ساتھ ۱۹۶۷ میں ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد ایک کے بعد ایک تھیوری میں ایک ایسی ہاہاکار مچی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ آج بھی یورپ اور امریکہ کے بیشتر تخلیقی فنکار ان ساری تھیوریز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی محفلوں اور اپنی تحریروں میں ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور اس حوالے سے لطیفے بھی گھڑتے اور سناتے ہیں "

 اس تحریر سے میں یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ میں نظم کی تفہیم میں شاعر کی ذات و واقعات کو نہ لانے کا بہت زیادہ حد تک قائل ہوں مگر تخلیقی عمل میں تخلیق کار کو ایک مجبور محض ماننے کا انکاری ہوں۔ یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ شکریہ

زکریا شاذ : جناب صدر۔۔۔۔ علی ارمان صاحب آپ نے فرمایا کہ آپ تخلیق میں شاعر کے مجبور محض ہونے سے انکاری ہیں ہیں تو جناب میرا بھی یہی مدعا تھا۔۔۔ آپ بس الفاظ کی بھول بھلیوں میں پڑ گئے۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔ خوش رہیں۔۔۔۔۔۔

Tasnim Abidi Hshiaye ki is mehfil main ahbab ki khidmat main adab aap hazrat nay jis arq raizi say nazm par guftogo ki woh parh kay tabeeyat seyrab ho gaye.jan mohd khan aur billa dar asl alatain hain jo waqt kay sath sath aik majboor ka roop dhar layti hain magar unhain waqt ki badalti hoi is tabdeeli ka ahsas waqt guzarnay kay baad hota hay.yeh khali bora arzoo aur tana ka hay jis main insan qaid ho jata hay zindigi ka yeh pahya chalta rahta hay.majboor tabqa jid ojehad kay khonien phol khilata eeron ki rah main angaray bikhayrta agay barhta jata hay magar waqt aur zarooriat us ko aisa kzor aur zaeef kar kar daytay hain keh us kay khonien panjon main jan nahin rahti aur phir woh jan mohd khan kay zalim haton main waqt ki qaid main giraftar ho kar zindigi ki pagdandi say rasta tor layta hay magar apni kzori aur baybasi kay zareey jan mohd ko us ki ghaflat ka ahsas dilata hay۔

 ‎19 ‎September‎, 2012 at 12 ‎‎‎ · Like · 4

 Tasnim Abidi ahbab say maazrat kay un ko roman main urdu parhna hay.abhi to main aap t hazrat ki guftogo ko jazb kar rahi hoon.kion kay yahan say sarsari nahin guzra ja sakta۔

محمد حمید شاہد: تسنیم عابدی آپ کو خوش آمدید، مگر یہاں صرف اردو رسم الخط میں ہی اندراجات کی اجازت ہے۔

Tasnim Abidi hameed Shahid sahib main nay sirf apni hazri lagwai hay aap kay bil ijazat roman main likhnay par maazrat khaw hoon.aaj kal bayti Houstan main hay warna is masalay ko hal jaldi kar layti۔

تالیف حیدر: بلا حقیقتاً جان محمد خان کا استعارہ ہے اور جان محمد خان استعارہ ہے، ایک عابد کا، ایک زاہد کا، ایک سالک کا، ایک عارف کا۔ اور نہ جانے کس کس کا۔۔۔۔۔ وہ عارف کہ جس نے معرفت توحید کو پالیا ہے۔ ان تمام مختلف کیفیات کو ایک استعارے میں سمو لینا شاعر کے وسیع النظر ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ پند و نصاح اور خود کلامی جیسے دو رخی انداز کو اپنے زور تخاطب سے یکجا کر دینا ہر کس ونا کس کے بس کی بات نہیں۔ جان محمد خان جب ’سفر آسان نہیں ،کے فقرے کو ادا کرتا ہے تو وہ سفر اس کے تجربات کا سفر بھی نظر آتا ہے اور سفر در وطن کی شرح بھی، میں اس سفر کی تشریح خالص سفر سلوک کے سیاق میں کرتا لیکن اس بند کے اگلے مصرعے نے مجھے سفر در وطن کی جانب مائل کیا کیوں کہ’ دھان کے اس خالی بورے میں ، جسے کتنا ہی بھرو وہ خالی ہی رہتا ہے، وہ جان محمد خان کے وجود ذاتی کا استعارہ معلوم ہو رہا ہے، حالاں کہ اس میں اور بھی کئی قسم کی معنویتیں پوشیدہ ہیں جو اگلی گفتگو میں کھلیں گی، بہر کیف جان محمد خان کو جان محمد ہی کے ذریعے اس راہ پر پیچ کا پتہ دیا جا رہا ہے جس میں سالک کی طبیعت بشری اس انداز میں سفر کرتی ہے جس میں تمام صفات بشری صفات ملکی میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور اخلاق ذمیمہ اوصاف حمیدہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ وہ اوصاف حمیدہ نہیں جسے ہم عام زندگی میں اخلاق ذمیمہ سے ممیز کرتے ہیں بلکہ یہ وہ اخلاق و اوصاف ہیں جس کی تشریح نا ممکنات میں سے ہے، اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اس کی تشریح، تشریح توحید کے عروجی نکتے کی تشریح کے مماثل ہے، جہاں تک پہنچتے پہنچتے تمام فلسفوں کی سانس اکھڑ جاتی ہے اور تمام حکما، علما، فقہا دم بہ خود نظر آنے لگتے ہیں ، اور یہ عالم حیرانی کسی قسم کے مشاہدے کی دین نہیں ہوتا بلکہ اس احساس کی دین ہوتا ہے کہ جہاں وہ ایک موچی، درزی، لکڑ ہار ے اور پارچہ بافی جیسے بظاہر اسفل ترین نظر آنے والے کارندوں کو خود سے بہتر حالت میں دیکھتا ہے اور خود سے افضل ترین مقامات پر پاتا ہے۔ اس مقام پر جان محمد کی انانیت کو گہری چوٹ پہنچتی ہے اور اس کی نظروں میں عابدوں اور زاہدوں کی موت کا منظر گھومنے لگتا ہے اور اس کرب ناک کیفیت میں بھی اس کے وجود میں تبسم کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ وہ اپنے انجام کو ذہن سے جھٹک دیتا ہے اور تبھی جان محمد خان اسے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیتا ہے اور اسے جان محمد خان سے واصل بحق ہونے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ توحید ہے جو بڑے بڑے شارحین سے بھی حل نہ ہو سکی اور جہاں امام رازی، جنید بغدادی اور رویم بن احمد جیسے متبحر علما بھی اپنی گردنیں جھکائے کھڑے نظر آتے ہیں اور اس مقام پر ہمیں اسی جان محمد خان سے اس مسئلے کا حل دریافت کرنا پڑتا ہے، اور وہ گلا کھنکار کر بے نیازی کے عالم میں فرماتے ہیں کہ :”توحید یہ ہے کہ جس نے توحید کے بارے میں کوئی تصور باندھا، مشاہدہ معانی کیا، علم الاسماء پر عبور حاصل کیا، اسماء الٰہی کی اللہ کی طرف نسبت کی اور صفات کو اس سے منسوب کیا اس نے تو حید کی بو تک بھی نہیں سونکھی، مگر جس نے یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی اسے منفی کر دیا وہی موحد ہے مگر رسمی طور پر حقیقتاً نہیں۔ "

تالیف حیدر: جان محمد خان اس سفر کو عابد و زاہد کے بس کا کھیل قرار نہیں دیتا وہ جب’ سفر آسان نہیں ، پر زور دیتا ہے تو اس لمحے وہ ان تمام مسلوکین کے اسفار کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے اور عابدین و  زاہدین کے ما حصل پر بھی اس کی نگاہ ہوتی ہے اور وہ سفر جو سفر باطنی ہے اور اپنے وطن (قلب) سے جس کی ابتدا کی جاتی ہے تاکہ مقصود (معبود)تک پہنچا جائے تو جان محمد خان کو وہ مصفا قلوب نظر نہیں آتے جو علائق دنیا وی سے پاک ہوں اور طلب دنیا (کلب دنیا) کی زنگ آلود سلاخوں سے آزاد ہوں۔ تب جان محمد خان رقت آمیز انداز میں جان محمد کے وجود پر افسوس کرتا ہے اور بے ساختہ اس کے قلب پہ اس شعر کی آمد ہوتی ہے کہ:

 باور نہیں ابھی تجھے غافل، پہ عن قریب

 معلوم ہووے گا کہ یہ عالم فسانہ تھا

 خواجہ میر درد ؔ کا یہ شعر اسی وجدانی کیفیت کا مظہر ہے، خواجہ صاحب کا ذکر ہوا ہے اور سفر در وطن کی گفتگو جاری ہے تو اس موقعے پر ان کا اہم ترین موقف بھی یہاں بیان کرنا بے جا نہ ہو گا کیوں کہ خواجہ صاحب وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے نقشبندیہ سلسلہ کی اس قدیم ترین اصطلاح کو ایک نئے ڈھنگ سے پیش کیا اس اصطلاح کے متعلق ان کا خیال ہے کہ سفر در وطن حقیقتاً وطن در سفر ہے وہ فرماتے ہیں :’سفر در وطن جو سالک کے سیر النفسی سے عبارت ہے اور جو سیر الی اللہ کی صورت میں پیش آتا ہے یہ سلسلہ نقشبندیہ کے خواجگان کی قدیم اصطلاح ہے اور وطن در سفر ایسے مقام کا اشارہ ہے جو انفس و آفاق سے ورا ہے اور سیر من اللہ سے سیر فی اللہ کے مرتبے میں پیش آتا ہے۔ یہ ایک جدید اصطلاح ہے جو اس فقیر سے مختص ہے اور اصحاب طریقۂ محمدیہ ﷺ کا راستہ ہے۔

 صوفیا دروطن سفر بکنند

 درد اندر سفر مرا وطن است

 سفر در وطن یعنی سیر الی اللہ کے مرتبے کا اصول بے نفسی و فروتنی کے بغیر ممکن نہیں۔ سفر در وطن کی دولت انسان کو اس وقت حاصل ہوئی ہے جو عاجزی اور انکساری کا میدان سر کر لیتا ہے۔ اس کے لیے فقیرانہ زندگی اور خاک نشینی اختیار کرنی چاہیے۔

تالیف حیدر: در وادی افتادگی و خاک نشینی

 جز ساے ۂ ما کیست کہ ہمراہ بگیریم

،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں

 چاندی کے سکے چھن چھن گرتے ہیں

 اور بدن میں رات پھیلتی جاتی ہے

 یہ بھی شاعر کا کمال بیان ہے جس میں بیک وقت کئی طرح کی معنویتیں پوشیدہ ہیں ہم چونکہ اس کے صوفیانہ پہلو پر  گفتگو کر رہے ہیں ، اس لئے یہ عرض ہے کہ: آنکھوں کے زرد کٹورے عوام الناس کے قلوب ہیں جس میں چاندی کے سکے چھن چھن کے گر رہے ہیں یعنی نفسانی خواہشات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور وہ الفت دنیا سے مملو ہو تے جا رہے ہیں اور جتنی تیزی سے یہ کٹورہ بھر رہا ہے اتنی تیزی سے جان محمد خان کے بدن میں رات پھیلتی جا رہی ہے، یعنی وہ اپنی اصل سے دور ہوتا جا رہا ہے اور بد مستی و بد کیفی کے سمند میں غرق ہوتا جا رہا ہے۔

محمد حمید شاہد: تالیف حیدر آپ کا شکریہ، کہ آپ نے نظم کو ایک اور نہج سے دیکھا، نظم کو بھی اور جان محمد خان کے کردار کو بھی، جو اس رخ سے عابد، زاہد، اور عارف ہو گیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو خالی بورے کا تابوت بن جانا اور زخمی بلے کا اس تابوت کی تنہائی سے لپٹ کر سو جانا اور پانی پانی ہو جانا، محض خان محمد جان کی ننگی پیٹھ پر آگ جلانے اور انگارے دہکانے اور جدوجہد کے خونیں پھول کھلانے والے کی کہانی نہیں ہے کہ جان محمد خان نامی کردار پر انکشاف اور اکتشاف کا ایسا نیا دریچہ وا ہو گیا ہے جس میں حیات انسانی بنفسہ اپنا تحفظ محض جسم اور وجود کے سہارے نہیں کر پارہی کہ ایسے میں وہ علم بلکہ معرفت سے معنی پارہی ہوتی ہے۔ اس معرفت کے نور جھپاکے میں جان محمد خان کو قبل ازیں پہچان میں نہ آنے والے اپنے خالی بورے کی بھی پہچان ہو جاتی ہے اور اس سفر کی بھی جو ہر گز آسان نہیں ہے۔

 احباب عمدہ گفتگو چل رہی ہے، اگرچہ ساقی فاروقی صاحب فیس بک کا حصہ ہیں نہ اس فورم کا لیکن ہم چاہیں گے کہ اس نظم کے حوالے سے شاعر کے اپنے خیالات بھی اس بحث کا حصہ ہو جائیں۔ سو، اس باب میں جو دوست حاشیہ کی اور شاعر کی مدد کریں گے ہمیں اپنا ممنون پائیں گے۔ اس سے پہلے پہلے بالخصوص وہ احباب جو ابھی تک اپنی بات کہہ نہ پائے ہوں ، یا اسے مکمل کرنا چاہتے ہوں ، یا وہ احباب جو نظم کے جمالیاتی پہلوؤں پر مزید کچھ کہنے کے متمنی ہوں ، ان سے گزارش کروں گا کہ وہ اور انتظار نہ فرمائیں۔

 ‎20 ‎September‎, 2012 at 7 ‎‎‎ · Like · 11

 ضیاء ترک: صدرِ،گرامی قدر !!۔

 واقعی، "حاشیہ” پر موجود ہونا ــــ محلِّ،شکر ہے، اس سطح کے مکالمہ کا شاید باِیں درجہ، تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہیں اور ــــــــــــ بلاشبہ بڑی خوبصورت اور بامعنی گفتگو ہو رہی ہے، اور پیش کردہ، بیش تر نکات سے مَیں خود کو متفق پاتا ہوں۔۔۔ ایک آدھ حوالہ سے کچھ معروضات گوش گذار کرنا چاہوں گا ـــ سو، ابھی کالج سے فراغت پاتے ہی حاضر ہوتا ہوں ـــــ

تالیف حیدر: اپنی اگلی گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے میں ایک اہم نکتے کی وضاحت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ کسی بھی فن پارے کی تشریح شارح کی نکتہ دانی کے میلان کا اظہار کرتی ہے، مگر یہاں میں نے جس تناظر میں اس نظم کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اس میں تصوف کا خالص لفظی فلسفہ پیوست ہے جب کہ تصوف کی اصل کو کسی بھی قسم کے فلسفے سے کچھ علاقہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ تصوف کو ہر زمانے میں اکثریت میں واقع مستصوفین نے حتی المقدور گزند پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جن کی صعوبتوں نے امام ابن تیمیہ، امام جوزی اور حافظ ابن قیم جیسے اصل حامیان تصوف کو پیدا کیا، وہ تمام تر مستصوفین آج علمی مباحث کی محفلیں گرم کر کے اپنی دکانیں چلا رہے ہیں اور وحدت الوجود اور وحدت الشہود (اصلاً جس کی مبادیات کا علم بھی ان حضرات کو حاصل نہیں ہوتا) کے مسائل کو پوری گرم جوشی سے اپنی طفلانہ ذہنیت سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بزم میں ان کا وقار قائم رہے یہ سادہ لوح حضرات اس بات سے ذرا بھی واقف نہیں کہ جس نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مراتب کو جب تک خود کے مجاہدے سے حاصل نہ کیا وہ ابن عربی اور مجدد الف ثانی کی پشت پناہی میں ہر گز ان مسائل کو حل نہیں کر سکتا تو یہ لفظی گورکھ دھندا چہ معنی دارد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ صوفیہ کی مجالس میں علمی مباحث کا چلن نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کتاب اللمع، کشف المحجوب، مجمع السلوک اور فوائد الفوائد جیسی کتب ہر گز مرتب نہ ہوتیں لیکن یہ تمام کتب ایسی ہیں جن کے مطالعے سے ہر اس شخص کو جسے تلاش حق نے مجنون صحرا بنا رکھا ہے اپنے مقصود کو حاصل کرنے کا طریقہ بخشا اس کے بر عکس ان جیسے بے جا مباحث سے ان کتب کو دور کا بھی علاقہ نہیں میں نے جلد ہی اثبات کے ترجمہ نمبر میں محمد عمر میمن کا ترجمہ کردہ ایک مضمون پڑھا تھا جو انگریزی زبان میں موجود ایک جاپانی مصنف کا تھا جس نے عین القضات ہمدانی کے ایک مضمون کا تر جمہ کیا تھا حالاں کہ ان کے اس مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو کسی قسم کے تنازعے کا باعث بنتی لیکن وہ جاپانی جس نے ان کی شخصیت کا انتخاب کیا وہ میرے لئے حیرانی کا باعث بن گئی کیوں کہ ادھر میری نظر سے مستشرقین کی کئی طرح کی ایسی تحریریں گزریں جو تمام تر صاحب سبحانی ما اعظم شانی جیسی شخصیات پر مشتمل تھی جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ یہ حضرات کہیں قدیم تنازعات کو جن کی روح بھی اب مر چکی ہے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے جس کا اصل مقصد سواے اصل تصوف سے علما کو گمراہ کرنے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا بہت تحقیق اور جدوجہد سے تمام ان ان شخصیات کو تلاش کر کے ان کے خیالات کی تشہیر کرتے ہیں جو انالحق کی صدائیں بلند کرتے نظر آتے ہیں حالاں کہ اہم صوفیہ کی ایسی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کسی بھی قسم کے متنازعہ مسائل میں الجھے بغیر اپنے اندر علم و معرفت کا ایک سمندر رکھتی ہیں اسی لئے میں نے بھی اس نظم کی تشریح اس سیاق میں اس لئے کی ہے کہ مجھے اس نظم کے ذریعے غیر ضروری مباحث میں الجھنا نہ پڑے اور ان اشعار کی تشریح کے ذریعے میں خود اپنی اصلاح کا کام انجام دے سکوں۔

زکریا شاذ۔ نظم کا جمالیاتی و فنی تجزیہ

 میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھی اور عمدہ نظم پہلے خود بولتی ہے اور سننے والے بعد میں۔۔۔ اس لیے سننے والے کو چاہیے کہ وہ ہمہ تن گوش اور سر تا پا خاموش ہو کر پہلے نظم کو سنے کہ وہ کیا کہتی ہے، کیا کیا کہتی ہے اور کیسے کیسے بولتی ہے۔۔۔ شاعری، ظاہری سی بات ہے کہ کوئی عام گفتگو (ordinary speech) نہیں ہے کہ بس اس کے معنی ہی پر ساری سوچ کو فوکس کیا جائے۔ شاعری ارفعی گفتگو refined speech) کی صفت سے عبارت ہوتی ہے۔۔ اور ایسی صورت میں کان صرف اس کے مدعا پر ہی رکھنا اسے عام گفتگو کی سطح پر لے آنے ہی کے برابر ہو گا۔۔ کیونکہ عام بات چیت کا مقصد یہی ہوتا ہے۔۔ جبکہ ارفعی کلم کا منصب و مرتبہ عام بول چال سے بہت بلند و بالاہوتا ہے۔۔۔ منزل پر پہنچنے کے کوئی معنی نہیں ہوتے اگر منزل تک کے سفر سے قدم بہ قدم اور خم بہ خم کچھ حاصل نہ کیا جائے۔۔ ساری لذت اسی میں ہے ورنہ منزل کی حقیقت تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ اور پھر ہر قدم منزل ہی کا تو نام ہے۔۔۔۔ اس لیے مطلب و مقصد کے ساتھ ستھ دیکھ لینا چاہیے کہ اس فن پارے کی زبان کیسی ہے بیان کی کون کون سی خوبیاں ہیں ، اس کا لب و لہجہ کیسا ہے، اس کی آواز کہاں بلند ہوتی ہے اور کہاں سرگوشیاں کرتی ہے۔ اس کا اسلوب کیا ہے، کیا وہ کوئی تصویر بناتی ہے ؟؟ اگر بناتی ہے تو اس میں کیا کیا دکھتا ہے۔۔۔ اور کیا ہے جو اس میں نظر نہیں آتا مگر اس کے نظر آنے کے سارے امکان اس میں پیدا کر دیے گئے ہیں۔ الغرض اس کے تمام فنی خصائص کا احاطہ کرنا ہی اس کے شایان شان ہوتا ہے۔۔۔ اور اگر اس کی معنوی توجیہات کرنی ہوں تو وہ مصرع در مصرع، منظر در منظر، لہجہ بہ لہجہ ہوں۔ نہ کہ اس کو سن یا پڑھ کر اپنے الفاظ میں محض اس کا خلاصہ بیان کر دینا۔۔ جیسے وہ کوئی فن پارہ نہ ہوا محض کوئی تحریری دستاویز ہوئی۔ تمام احباب نے اب تک جتنی بھی گفتگو کی ہے وہ قابل ستائش و اعتنا اس لیے بھی ہے کہ ہر محترم دوست نے جو بھی فرمایا ہے وہ نظم کی معنوی جہتوں کا پتا دیتا ہے۔۔ یعنی سب نے نظم کی باطنی خوبیوں کو بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔۔

 مگر یہ سب ناممکن ہوتا اگر نظم خارجی سطح پر مضبوط نہ ہوتی تو۔۔ سو میں "معنی” کی بجائے "لفظ ” کو پیش نظر رکھوں گا۔۔۔۔۔

زکریا شاذ : پہلی بات تو یہ کہ نظم کا عنوان بظاہر غیر شاعرانہ ہے۔ اس میں جمالیاتی پہلو کم ہی نظر آتا ہے۔۔ مگر اس کے ساتھ ہی خالی بورے میں زخمی بلا کی ترکیب حیران کن بھی ہے اور معنی آفریں بھی۔ یہی اس کا معنوی حسن جو اس کو غیر جمالیاتی ہونے سے بچاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ نظم جو تصویر بناتی ہے اس کے چار مناظر ہیں۔۔۔ یا یوں کہیں کہ بلا چار بار جان محمد خان سے چار مختلف لہجوں میں مخاطب ہوتا ہے۔۔ بعض احباب کا چار کی بجائے تین پر اصرار ہے۔۔۔ مگر مجھے اس سے اختلاف ہی ہے۔۔ پہلے حصے میں بلا اپنی اسیری کی اذیت اور خوف کا ذکر کرتا ہے۔ جو ’’ اور بدن میں رات پھیلتی جاتی ہے‘‘  پر ختم ہو جاتا ہے

 دوسرے حصے میں وہ جان محمد پر قید ہو جانے کے باعث اپنے حملوں کا استفہامی انداز میں غصہ یا حسرت کو بیان کر کے۔۔۔۔۔ میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں۔۔ کہہ کر اپنی شکست مانتے ہوئے خاموش ہو جاتا ہے

 نظم کے تیسرے حصے میں بلا پھر مخاطب ہوتا ہے مگر اب اس کے لہجے میں وہ غصہ اور جلال نظر نہیں آتا

 بلکہ ایک دکھ اور آہ کی کیفیت ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہو گیا ہے جان محمد خان نے اس کے ساتھ انجام کار کیا سلوک کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔ پانی پانی ہو جاؤں گا۔۔۔ یہاں نظم کا حصہ اختتام پذیر ہوتا ہے

 چوتھی اور آخری بار بلا جب بولتا ہے تو اس کا لہجہ تنبیہ آمیز ہو جاتا ہے اور کچھ خشمگیں بھی۔

 اور تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چوکنا کر دینے والا بھی۔۔ اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں

 یہاں یہ پہلو توجہ طلب ہے کہ بلے کو پوری نظم میں کہیں بھی غرقاب کر چکنے کا اظہار نہیں ملتا۔۔۔ بلکہ جب بلے کو خالی بورے میں قید کر کے اس بورے کو اپنی پیٹھ پر لاد کر جان محمد خان گھر سے باہر نکلتا ہے تو بلے کو وہاں سے ہی سارے المیے کا پتا چل جاتا ہے۔ اس لیے وہ حال و ماضی سے ہوتے مستقبل کو مد نظر رکھ کر جان محمد خان سے خطاب کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ اسے آغاز سے ہی اپنے المناک انجام کا علم ہو جاتا ہے۔

 اب نظم کے آغاز پر غور کیجیے۔۔ شاعر دھان کا بورا کہہ کر پھر پٹ سن کے ذکر کو بیچ میں کیوں لے آتا ہے

 اس کی دو وجوہات ہیں۔۔۔ 1۔۔ وہ اس لیے کہ بلا چونکہ قید ہے اور ایک قیدی کے تصور سے سلاخوں کا خیال ذہن میں فطری طور پر آتا ہے۔۔ اب سلاخوں میں اور دیوار میں فرق یہ ہوتا ہے کہ دیوار سے باہر کا منظر نہیں دیکھا جا سکتا۔۔ جبکہ سلاخوں سے باہر دیکھا جا سکتا ہے۔ اب سلاخوں کو دکھانے کے لیے پٹ سن کہنا ضروری تھا۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں اور ہمارا تجربہ و مشاہدہ بھی یہ ہے کہ پٹ سن کا بورا جالی دار ہوتا ہے جس سے سلاخوں کا پورا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ اگر شاعر پٹ سن نہ کہتا صرف بورا کہتا تو اس سے سلاخوں کی تشبیہ کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا جاتا تھا۔ 2۔۔ اب اگر پورا پٹ سن کا نہ ہوتا، یعنی جالی دار۔۔ جس سے باہر کا منظر دیکھا جا سکتا ہے تو ان مصرعوں۔۔ اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں

 چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں۔۔۔ کا بھی نظم میں ذکر بے محل ہوتا۔ سو بلے کی زرد آنکھیں۔ سلاخیں۔ اور چاند دکھانے کے لیے شاعر نے نظم میں پٹ سن کے بورے کا منطقی مگر بر محل تلازمہ استعمال کیا۔

 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے سلاخیں دکھانے کی وجہ سے تو شاعر نے پٹ سن کے بورے کا اہتمام کیا لیکن زرد آنکھوں ، چاند اور پھر سکے کے پیکروں کی ضرورت محسوس کیوں کی ؟؟؟؟وہ اس لیے کہ شاعر ایک قیدی کا ذکر کر رہا ہے۔۔۔ اور قیدی بخوبی جانتے ہیں کہ قید خانے کی کوٹھری اگر بند اور تیرہ و تاریک ہو تو اسیری کاجان لیوا احساس کتنا بڑھ جاتا ہے۔۔۔۔ اگر اس زندان میں کوئی روزن کوئی کھڑکی یا کوئی سوراخ موجود ہو تو قیدی اس سے باہر کا منظر دیکھ دیکھ کر آزادی کے خوشگوار احساس سے زندگی کی امنگ کشید کرتا رہتا ہے۔ پھر جب اس روزن کا کھلنا یا بند ہونا قیدی کے اختیار میں نہ ہو تو قید خانے کی گھٹن اور آزادی کی تڑپ اور بھی دو چند ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں باہر کا نظارہ بھیک کی طرح دیکھنے کو ملتا ہے۔۔

زکریا شاذ : چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں۔۔ جب بلے کو بورے کے ان گنت مہین سوراخوں میں سے چاند دکھائی دیتا ہے تو اس کا بورے میں جکڑن کا احساس کم ہو جاتا ہے۔۔۔ پر افسوس کہ وہ آزادی کا یہ خوب صورت اور روشن استعارہ یعنی چاند بھی بلے کومسلسل دکھائی نہیں دیتا کہ یوں دیکھنا اس کے بس میں نہیں ہے۔۔ ایسا اس لیے ہے کہ وہ سراسر جان محمد خان کے چلنے کی رفتار پر منحصر ہے۔۔ جان محمد خان کے چلتے رہنے اور بورے کے مسلسل ادھر ادھر حرکت کرتے رہنے کی وجہ سے۔۔۔ چاند بلے کی نظروں پہ کبھی ظاہر تو کبھی اوجھل ہوتا رہتا ہے۔۔ مگر بلا چاہتا ہے کہ اسے چاند دکھتا ہی رہے۔ اور ایسا ہوتا نہیں۔ سو چاند کا نظارہ کسی بھیک کے سکوں کی طرح (کیونکہ چاند اور سکوں میں جسمی مشابہت ہوتی ہے ) اس کی آنکھوں کے زرد کٹوروں میں گرتا رہتا ہے۔ چھن چھن۔۔ سے گرتے رہنے کے احساس کو اجاگر کیا گیا ہے۔۔ بلوں کی آنکھیں زرد بھی ہوتی ہیں۔۔ مگر یہاں جو سچویشن پیش کی گئی ہے اس کے مطابق آنکھ کا زرد ہونا خوف اور مردہ رنگی کے باعث ہے۔۔

 نظم کا یہاں تک جو محاکمہ کیا گیا ہے۔ اس سے شاعر کی خورد بینی نگاہ اور اس کی تخلیقی اپج کا اندازہ صاف لگایا جا سکتا ہے۔۔ نظم کے دوسرے منظر میں بلے کے کس بل اور اس کا طنطنہ جدا ہے۔ اب وہ ماضی کو یاد کرتا ہے۔ اس آزادی کو یاد کرتا ہے جب وہ جان محمد خان کو تگنی کا ناچ نچا کر اسے لہو لہان اور ہلکان چھوڑ کر اس کے چنگل سے نکل جایا کرتا تھا۔۔ اور شکاری کی بلے کو پکڑنے کی ساری کوششیں دھری کی دھری رہ جایا کرتی تھیں۔ یہاں ایک دو پہلو قابل غور ہیں۔۔ آج تمہاری ننگی پیٹھ پہ آگ جلائے کون۔۔۔۔

 انگارے دہکائے کون۔۔۔ جدو جہد کے۔۔ خونیں پھول کھلائے کون

 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاعر نے پہلے مصرعے میں۔۔ ننگی پیٹھ۔۔ کیوں کہا ؟؟؟ اب اگر کوئی صاحب کہیں کہ بس ایسے ہی کہہ دیا ہے۔۔۔ تو کیا شاعر اور وہ بھی ساقی جیسا شاعر نظم میں کچھ باتیں بس یوں ہی کہ دیتا ہے۔۔۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ ننگی پیٹھ ہی کیوں ؟؟؟ محض پیٹھ کیوں نہیں ؟؟؟ پھر یہ کہ بلا جب حملہ کرے تو عام طور پر منہ یا چہرہ پہلے زد میں آئے گا۔۔ فرض کریں پیٹھ۔۔ ہی سہی۔۔ مگر۔۔۔ ننگی کیوں۔۔۔ ؟؟آ

 پھر لفظ جدو جہد کے پیچھے کون سی جدوجہد مراد ہے۔۔۔۔ ان دونوں سوالوں کے جواب نظم میں ہی پوشیدہ ہیں اور یہی نظم کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔۔ پہلے جدو جہد۔۔۔ کو دیکھیں۔۔۔ اس کے پیچھے بلے کو کئی بار پکڑنے کی کوششو کا پتا چلتا ہے۔۔ یعنی جو بلا آج پکڑا گیا ہے۔۔۔ وہ جان محمد خان کی کئی دنوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔۔۔ تبھی تو بلا۔۔ آگ، انگارے اور خونیں پھول‘‘، میں۔۔۔ کون۔۔۔۔ کو بار بار دہراتا ہے۔۔ یعنی۔۔۔ میں وہی ہوں جسے تو پکڑنے کی کوشش کرتا تھا مگر۔۔ میں تمہارے جسم پر۔۔ آگ جلا، انگارے دہکا اور خونیں پھول کھلا کر اپنی کوششوں سے تمہارے ہاتھوں سے نکل نکل جاتا تھا۔۔ مگر اب یہ کام کون کرے کیونکہ آج میں تمہارے پنجرے (بورے )۔ میں آ گیا ہوں۔۔۔ اب پہلے سوال۔۔۔ ننگی پیٹھ۔۔۔ پر غور کریں۔۔ ننگی کہہ کر شاعر نے نظم میں رات کا جواز فراہم کر دیا ہے۔۔۔ لفظ۔۔ ننگی کے پیچھے ایک وقوعہ پوشیدہ ہے یا وہ بڑی آسانی سے فرض کیا جا سکتا ہے۔۔۔ جان محمد خان۔۔ بلے کی تاک میں میں کب سے تھا۔۔

زکریا شاذ : لیکن ہر بار وہ اس کی گرفت سے نکل جاتا تھا۔۔۔ اچانک ایک دن رات کے عالم میں جب جان محمد خان سونے کی تیاریوں میں تھا اور اس نے عادتاً اپنی قمیض/کرتا وغیرہ اتارا (جیسا کہ اکثر مرد سونے سے پہلے کرتے ہیں )۔ کر ایک طرف رکھا ہی تھا کہ اچانک بلا آ گیا۔ اور وہ خوش قسمتی سے اور شاید آسانی سے جان محمد کی پکڑ میں آ گیا۔ اب جان محمد نے جو کب سے موقعے کی تلاش میں تھا فوراً بلے کو پکڑ کر بورے میں ڈالا اور قمیض پہننے اور بلے کے ہاتھ سے نکل جانے کے ڈر کے باعث بغیر قمیض ہی کے چل نکلا۔۔۔ نظم میں شاعر کے رات اور ننگی پیٹھ۔۔ کہنے کے پیچھے بس یہی وقوعہ چھپا ہوا ہے۔۔ ورنہ نظم میں رات اور ننگی پیٹھ کا کوئی منطقی جواز نہیں بنتا۔۔۔ ویسے بھی شاعر سوچ سمجھ کر شاعری کرنے والوں میں سے ہے۔۔ کیونکہ وہ ایک مفکر شاعر بھی ہے۔۔۔ اور یہ کہنا بھی بے محل نہ ہو گا کہ شاعر اسمائے صفت کا استعمال اپنی شاعری میں بیان میں زور اور شدت پیدا کرنے کے لیے اکثر کرتا رہتا ہے۔۔ خالی بورا، زخمی بلا، مضبوط سلاخیں ، زرد کٹورے، سکوں کا چھن چھن گرنا، ننگی پیٹھ، خونیں پھول، شعلہ گر پنجے، گندہ تالاب اور گہری نیند وغیرہ۔ اب بلا جان محمد کی پیٹھ پر بورے میں بند جھول رہا ہے۔۔ اور سوچتا ہے کہ آج میں جان محمد کی پیٹھ پر ہوں اور وہ بھی ننگی پیٹھ پر۔۔۔ آج اگر میں آزاد ہوتا تو اس کی پیٹھ کو نوچ کے رکھ دیتا۔۔ مگر افسوس آج اس کی ننگی پیٹھ پر آگ کون جلائے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میرے شعلہ گر پنجے بورے میں بند ہونے کی وجہ سے بے جان ہو چکے ہیں۔۔۔ اب آگ جلانا۔۔۔ انگارے دہکانا اور خونیں پھولی کھلانا۔۔۔ تینوں میں کنائے کی خوبی پنہاں ہے۔۔ آگ جلانا کنایا ہے۔۔ بلے کے نوکیلے ناخن سے پڑنے والی درد آمیز خراش کا

 انگارے دہکانا۔۔۔ کنایا ہے زخم کے کچھ پرانا ہو کر دکھنے کے احساس کا۔۔ کیونکہ انگارہ فوراً نہیں بن جاتا وہ کچھ وقت لیتا ہے۔ یاد رہے کہ جب جسم پر اس طرح کی درد ناک خراشیں آئیں تو درد کے ساتھ ساتھ وہاں کی تپش جسم کے باقی حصے کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے ایک جلن کا احساس بھی ہوتا ہے۔

 خونیں پھول۔۔۔ کنایا ہے سرخ سرخ خراشوں سے جسم پر نقش و نگار بن جانے کا۔۔

 پگڈنڈی کا ٹوٹ کر گندے تالاب میں گر نا حسن تعلیل کو خوبصورت مثال ہے۔ نظم کی خوش آہنگی میں جہاں اور بھی بیان کی کچھ دیگر خوبیوں کا عمل دخل ہے وہاں اس کی بحر اہم کردار ادا کرتی ہے۔۔ کیونکہ فعلن کا وزن میرے نزدیک وہ واحد وزن ہے جو اردو زبان سے بہت زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔۔ اور خالص ہندی ہے۔۔ اس میں ماترے beats بہت نمایاں اور واضح ہیں۔ نظم میں تجنیس حرفی کی مثال کم کم ہے۔۔ مثلاً۔۔ تابوت کی تنہائی۔ تجنیس صوتی کی مثال کہیں کہیں ملتی ہے۔۔ تمہاری ننگی پیٹھ۔۔ چاند کے سکے۔۔۔۔ گرتے۔۔۔۔۔۔ آنے والے بورے

،۔۔ مصرعوں یا لفظوں کی تکرار سے خوش آہنگی کا استعمال زیادہ ہے۔

 چھن چھن۔۔۔ پانی پانی۔۔ سفر آسان نہیں۔ قوافی کی کثرت نے نظم کو سب سے زیادہ سریلا کیا ہے

زکریا شاذ : نظم کے دو کردار ہیں۔ جان محمد خان نظم کا مرکزی کردار ہے۔ مگر نظم میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ یہ خاموش سست اور بے جان ہے۔ نظم کو آگے بڑھانے میں یہ نظم کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ دوسرا کردار بلا ہے۔۔۔ یہ ثانوی ہے۔ لیکن نظم میں ساری لہربہر اسی کے دم سے ہے۔ یہ متحرک چست اور پرجوش ہے۔ نظم کی جان ہے۔ اور نظم کو آگے بڑھانے اور اسے دلچسپ بنانے کی ساری خوبیاں اسی میں ہیں۔ بلا نظم کا بلا شبہ

 ایک اہم ترین اور یاد رہ جانے والا کردار ہے۔

 خالی بورا، بلا اور گندہ تالاب نظم کی نمایاں ترین علامتیں ہیں۔ خالی بورا پنجرے، اور نادیدہ آفتوں کآ مظہر بھی ہے۔ بلا۔۔ بے بس و بے اختیار انسان کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ گندہ تالاب۔۔۔ جمود و تنزلی کی بھی علامت ہو سکتا ہے۔ نظم کا سارا تانا بانا انشائیہ ہے۔ یاد رہے کہ بیان کی دو حالتیں بتائی جاتی ہیں

 خبریہ۔۔۔۔ اور۔۔۔ انشائیہ۔۔ آخرالذکر کو بیان کی خوبی تصور کی جاتا ہے۔ نظم زیر بحث اول و آخر انشائی انداز میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظم کی یہ وہ اکیلی خوبی ہے جس نے نظم میں ایک جہان معنی پیدا کر دیا ہے۔ اگر بیان کا یہ انداز نظم میں نہ ہوتا تو نظم شاید اتنی ہشت پہلو نہ ہوتی۔۔۔ ساری نظم انسان کے آدمی سے انسان بنے کی بھی ایک خوبصورت تمثیل ہے۔۔ آدمی۔۔۔ کجیوں ، خامیوں ، آلائشوں ، کمزوریوں وقتی لذتوں کی ایک آمجگاہ ہے۔۔ جان محمد اسی آدمی کی مثال ہے۔ بلا اسی آماجگاہ میں سے کسی ایک کی یا سب کی نمائندگی کرتا ہے۔ سفر استعارہ ہے انسان بننے کا۔۔۔ مگر یہ سفر ہر کس نا کس کے بس کا روگ نہیں۔۔۔ قدم قدم پر موت کھڑی ہے۔ بقول غالب۔۔ بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔۔ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

الیاس ملک:صدرِ محترم – شاعرِ عالی مَقام کے خطبہ کی "حاشیہ آرائی” کے انتظامات ترتیب دئیے جا چکے ہیں – میری استداع ہے کہ جلسے کی کاروائی میں ایک ہفتے کی توسیع فرمائ جاوے تا کہ کچھ نئے شامل ہونے والے احباب بھی اس کارِخیر میں حصہ لے سکیں – شکریہ –

محمد حمید شاہد: احباب بہت شکریہ، نظم کی جمالیاتی تفہیم کے باب میں زکریا شاز نے خوب اضافہ فرمایا۔ مجھے یقین ہے ارشد لطیف کا اضافہ بھی حاشیہ کے لیے نیک فال ہو گا۔ امید بندھ گئی ہے کہ ساقی فاروقی کے خیالات اس اجلاس کا حصہ ہو پائیں گے۔ الیاس ملک اور ارشد لطیف سے گزارش ہے کہ لگے ہاتھوں ساقی جی کو فیس بک پر لائیں اور حاشیہ کا ممبر بنوا دیں کہ براہ راست مکالمہ کا اپنا لطف ہے۔ خیر احباب جب بات مکمل کر لیں گے تو ہم شاعر سے بلواسطہ یا بلاواسطہ اپنا نوٹ اپ لوڈ کرنے کی درخواست کریں گے۔ 11 ستمبر کو نظم حاشیہ میں بحث کے لیے اپ لوڈ ہوئی، بالعموم 2 ہفتے تک کا دورانیہ نظم پر گفتگو کے لیے ہوتا ہے۔ تاہم اگر اس کے ممبران چاہیں تو اس دورانیے میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لہذا احباب اگر الیاس ملک کی تجویز کی تائید کریں گے تو اجلاس کا دورانیہ ایک ہفتہ کے لیے بڑھایا دیا جائے گا۔

تصنیف حیدر: تائید

جلیل عالی: تائیدِ مزید

محمد حمید شاہد: احباب الیاس ملک کی تجویز کو تصنیف حیدر اور جلیل عالی کی تائید بھی حاصل ہو گئی ہے لہذا اجلاس کا دورانیہ بڑھایا جا رہا ہے۔

تالیف حیدر: توصیف نہیں تصنیف حیدر۔

محمد حمید شاہد: شکریہ تالیف، اور معذرت تصنیف۔ نام درست کر دیا ہے۔

محمد یامین: جناب صدر ! زکریا شاذ : کی جمالیاتی تفہیم و تعبیر میں ایک ذرا سا اضافہ کرنا چاہتا ہوں اگرچہ میں اپنا نوٹ بروقت حاشیے پر نہ لا سکا کہ کل سے انٹرنیٹ ناراض تھا اس لیے حاشیے پر اس نظم کے دسویں دن اور گیارہویں رات کو خالی رہنا پڑا۔۔۔۔۔۔

 صدر گرامی! بہ قول جیلانی کامران، نئی نظم کو نہ سمجھنے کا مسئلہ صرف دقت اسلوب کی وجہ سے ہے۔ نئی نظم آزاد شعری تخیل کے ذریعے تخلیق ہوتی ہے اور چوں کہ ہمارا مزاج منطقی قدروں کا مزاج ہے اور ہم روزمرہ کی سلجھائی ہوئی ہدایات کے عادی ہیں اس لیے ہم شعری تخیل کی ریخت و پرداخت کو نہیں سمجھ سکتے۔

 یہ شعری تخیل امیجز کے ذریعے رونما ہوتا ہے۔ جن کی وجہ سے علامتیں اور سمبل بنتے ہیں۔ جس نظم میں مجموعی طور پر الفاظ سے زیادہ معنی پائے جاتے ہیں اسے استعاراتی یا علامتی اسلوب سے ہی لکھا جاتا ہے۔ اس اسلوب میں جمالیاتی صفات بھی ہوتی ہیں اور فکری بھی۔ زیر بحث نظم کو جمالیات عطا کرنے میں بھی امیجز اور علامتوں کا دخل دیکھا جا سکتا ہے۔ نظم قدم قدم پر اپنی جمالیات دکھاتی جاتی ہے۔ ” جان محمد خان/۔ سفر آسان نہیں ” کے الفاظ سرگوشی یا بہت دھیمی آواز میں قاری کے کانوں میں اترتے ہیں۔۔۔ اور اس سرگوشی سے ما قبل خاموشی اور سناٹے کی کیفیت قاری کے تجربے کا حصہ بنتی ہے۔ حال آں کہ شاعر نے کہیں خاموشی کے لیے کوئی لفظ استعمال نہیں کیا۔ جوں ہی اس سرگوشی سے سناٹا ٹوٹتا ہے امیجز کی سکرین ذہن میں کھل جاتی ہے۔ یعنی دھان اور اس سے وابستہ تمام امیجز ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ثانیہ بھر کی پریزینٹیشن بناتے ہیں۔ دھان کے ساتھ جو امیجز جڑے ہیں ان میں کھیت، چاول کی سنہری بالیاں ، کھیتوں میں سے ابھرتا ایک قوی، جری انسان کا چہرہ، فصل کا کھلیان اور گودام جس کے کواڑ کھلے نظر آتے ہیں ، گودام کے اندر دھان کے بھرے ہوئے بورے اور ان میں سے ایک خالی کیا ہوا بورا اور اندھیرا اور چوہے اور پھر بلا۔ یہ شاید دس بارہ امیج ہیں جو کسی اور ذہن میں اس سے زیادہ بھی ابھر سکتے ہیں۔ لیکن یہ سارے امیجز ایک سیکنڈ یا اس سے بھی کم وقت میں تصور کے پردے پر ابھرتے ہیں ، اپنی زندگی جیتے ہیں اور پھر مر کر تصور کے پردے پر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح پوری نظم میں امیجز ڈوبتے اور ابھرتے چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ علامتوں میں ڈھل جاتے ہیں اور کچھ محض امیج ہی کی سطح پر رہتے ہیں۔ یوں یہ تصویریں قاری کو شاعر کی ذات کا حصہ بنا دیتی ہیں۔ اگر ہم علامتوں پر نظر ڈالیں تو ہم جان محمد خان کی شخصیت، خالی بورا، زخمی بلا، پٹ سن، زرد کٹورے، چاند، سکے، رات، ننگی پیٹھ، شعلہ گر پنجے، پگڈنڈی، تالاب، تابوت کو دیکھتے ہیں۔ یہ ساری علامتیں معنوں سے ملبوس ہو کر ملتی ہیں لیکن کچھ علامتیں معنوں کی حتمیت کو رد کر کے منظومے کے امکانات میں اضافہ کرتی ہیں۔ (جاری)

محمد یامین: (گزشتہ سے پیوستہ)

 نظم کا متن ایسے ٹکڑوں میں منقسم ہے جن کو ادا کرتے وقت تسلسل اور ترنم قاری کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ (جیسے جان محمد خان/ سفر آسان) نظم کی لائنیں بحر متقارب سے تعمیر کی گئی ہیں جسے میر نے مثنوی "جوشِ عشق” میں برتا ہے۔ اس بحر کے کئی زحافات ہیں جن سے فعولن، یا فعلن یا فعلُ فعولن یا فعولُ فعلن کی شکلیں نکلتی ہیں۔ (پابند ہیت میں عروض و ضرب میں فعل، فع، فعول جیسی شکلوں کا اجتماع دیکھا گیا ہے ) اگرچہ نئی نظم ان پابندیوں کی گرفت سے مرحلہ وار نکلتی جا رہی ہے لیکن ان شعری آلاتِ نغمہ کو نئے انداز میں برتنا جمالیات میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ ساقی فاروقی نے عروضی تکنیک کو اپنی شاعری میں بڑی خوب صورتی سے برتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے ان کے ایک خط سے اقتباس پیش کرتا ہوں جو انھوں نے 24 نومبر 1994 کو مجھے لکھا۔ یہ اقتباس درج ذیل لائن کے بارے میں ہے

 "اور تمھیں اس۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر نہ آنے والے بورے "

 لکھتے ہیں ” میں نے پوری نظم کا ردم بحر متقارب سے لیا ہے۔ جس میں طرح طرح کی زحافات کی اجازت ہے۔ ” اور تمھیں اس ” کے بعد وقفہ رکھا ہے (اندرونی آہنگ کے لیے ) اور ایک جھٹکے کے ساتھ ” نظر نہ آنے ” لکھا ہے۔ جو مفا علان کے اچھوتے پن کے ساتھ اٹھایا ہے مگر اس آگاہی کے ساتھ کہ گاہے گاہے تقطیع میں متحرک کو ساکن اور ساکن کو متحرک کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں یعنی متفاعلن عروض کی رو سے مستفعلن کے وزن پر قائم ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ نثری نظموں سے الگ (پان سات) میں نے اپنی ہر نظم میں بحر اور وزن اور ردم کی پابندی کی ہے۔ بل کہ بعض نثری نظموں میں بھی (جیسے شیر امداد علی کا میڈک) موسیقی اور آگ اتنی بھر دی ہے کہ وزن اور بحر کی کمی کا شبہ تک نہیں ہوتا۔ صرف ایک نظم (صرف ایک) "الکبڑے ” میں شیکسپئر کی طرح میں نے ردم توڑ کر یعنی "فعلن فعلن” کو چھوڑ کر طاقت پہنچانے کے لیے "فاعلاتن فاعلاتن” کے وزن پر "تام چینی برتنوں سے ” لکھا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شیکسپئر اپنی زبان کی مجبوری کے باعث بیچ بیچ میں نثر کے مصرعے لکھ جاتا تھا مگر میں نے اجتناب کے باوجود بحر تو بدل دی مگر مصرعہ پھر بھی وزن ہی میں رہنے دیا”

 اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساقی صاحب کتنی توجہ اور محنت سے کام لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیر بحث نظم نہ صرف معنوی لحاظ سے بل کہ جمالیاتی لحاظ سے بھی غور طلب ہے۔ خاص طور پر لفظی مناسبتیں ان کے کلام کی بلاغت اور فصاحت میں اضافہ کرتی ہیں مثلاً: ” چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں ” (آواز کے اعتبار سے لفظ کی مناسبت خیال کے ساتھ ) چھن چھن کے لفظوں سے خود وہی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح بہ اعتبار معنی خیال کے ساتھ لفظ کی مناسبت کے لیے یہ لائن دیکھیں ” پٹ سن کی مضبوط سلاخیں )۔ ساقی صاحب نے کسی جگہ لفظ "سلاخیں ” کو کارمن فگریشن یعنی تصویری شکل میں بھی لکھا ہے۔ اس طرح لفظ خود ایک آبجیکٹ بن جاتا ہے۔

 بہ ہر حال یہ تو شاید فن کا تجزیہ ہے اور مجھے پھر جیلانی کامران کی ایک بات یاد آ گئی ہے کہ ” تنقید ہمیشہ اس حقیقت کو فراموش کرتی رہی ہے کہ شعری کشف اصل میں ایک ایسی حقیقت ہے جس پر وہ اصول اثر انداز نہیں ہو سکتے جن کا شاعری کے فن پر اطلاق ہوتا ہے ” (ختم شد)

ارشد لطیف : جناب صدر اور احباب گرامی قدر، میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایک ایسی محفل میں لایا گیا ہوں جس میں اردو ادب کی ایک شاہکار نظم پر گفتگو ہو رہی ہے اور اس علمی و ادبی مجلس کا ماحول بھی آپ اپنی ہی مثال نظر آتا ہے۔ میں اس کرم پر اپنے قریبی دوست محترم الیاس ملک اور جناب سید ظفر صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

 جدید اردو شاعری میں ساقی صاحب نے گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ ان کا شمار یقیناً اردو نظم کے سفر کو آگے لے جانے والوں میں ہوتا ہے اور یہ کام ایسا آسان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"جان محمد خان سفر آسان نہیں "

 غالباً یہ لائن ان کے شعری سفر پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے جیسے کہ زندگی کے سفر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کامیابی پر انہیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ جلیل عالی صاحب نے کیا ہی خوبصورت بات کی ہے کہ "جان محمد خان سفر آسان نہیں کے ٹکرے کا لوک ادبی انگ اور آہنگ ضمیری خلش کی دائمی اخلاقی صداقت کے احساس و تاثر کو گہرا کرتا ہے۔ ” میں سمجھتا ہوں کہ یہ سطر اب ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے اور اس نظم کی تشہیر میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔

 محترم سید ظفر صاحب کے ابتدائیہ کلمات، نظم پر بات کرنے والے دوستوں کے لیے رہنمائی اور آسانی پیدا کرنے والے ہیں۔

 جناب علی محمد فرشی صاحب نے اس نظم کی جو مقامی ارضی جہت دریافت کی ہے وہ قابلِ داد ہے شاید نظم کا آخری حصہ پوری طرح ان کی بات کا ساتھ نہیں دیتا۔

زکریا شاذ صاحب کا جوش و خروش، والہانہ پن اور استدلال بڑا ہی متأثر کن ہے۔ ان سے ایک عرض ہے کہ جان محمد خان کی ننگی پیٹھ ننگے جبر کی علامت بھی تو ہوسکتی ہے۔ اور یہ لائن کہ "آج تمہاری ننگی پیٹھ پر آگ جلائے کون” سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے بھی وہ (بلا) کئی بار جان محمد خان کی ننگی پیٹھ پر آگ جلا چکا ہے اور جدو جہد کے خونی پھول کھلا چکا ہے۔ یعنی ننگی جارحیت کا مقابلہ کر چکا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں تفہیم کے لیے یہاں اپنے طور پر کوئی کہانی تراشنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

 محمد یامین صاحب کی باتیں دل کو لگتی ہیں۔ ان کا تخلیقی تنقیدی انداز مجھے بہت پسند آیا ہے۔ اسی طرح علی ارمان صاحب نے اچھا تکنیکی جائزہ پیش کیا ہے۔

 اس نظم کا صوتیاتی جمال چاند کے سکوں کی طرح چھن چھن کرتا قاری اور سامع کی توجہ کو ادھر سے ادھر نہیں ہونے دیتا اور دل کی دھڑکن تیز کرتا ہے۔ بلا کی شعری تاثیر کی حامل نظم ہے۔

 جناب صدر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شاندار نظم ہمہ جہت ہے اور احباب نے ان جہات کو خوب اجاگر بھی کیا ہے اور ان پر کئی رنگوں کی روشنی ڈالی ہے۔ مگر اس نظم کے اظہار کا اہم ترین پہلو، ظلم و جبر اوراس ظلم و جبر سے آزادی کی جد و جہد کی کہانی ہی بنتا ہے۔ اسی کہانی میں یہ نظم ہمیں ظالم سے متنفر اور مظلوم سے ہمدردی والے خالص انسانی جذبے پر اکساتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ارشد لطیف : جنابِ صدر، مندرجہ ذیل دو اغلاط کی تصحیح کی درخواست ہے اور اسی کے ساتھ ایک وضاحت بھی پیشِ خدمت ہے۔

 ۱- آج تمہاری ننگی پیٹھ پر آگ جلائے کون (پیٹھ پر ہے پیٹھ پہ نہیں )

 ۲- اور تمہیں آگے جانا ہے ( اس لائن کے آخر پر "ہے ” نہیں ہے )

 نظموں غزلوں کے مجموعے "سرخ گلاب اور بدرِ منیر” میں بھی دیکھ لیا ہے اور ساقی صاحب سے تصدیق بھی کر لی ہے۔

 ساقی صاحب کے گھریلو ملازم کا نام "جان محمد خان” نہیں تھا، "صاحب جان” تھا۔ نظم کا عنوان، صاحب جان سے "جان”اور اردو کے نامور ناول نگار عبداللہ حسین کے اصلی نام "محمد خان” کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ یہ بات ساقی صاحب نے ہی ایک ملاقات میں بتائی تھی۔

ارشد لطیف : جنابِ،صدر، ساقی صاحب کا انٹرنیٹ پر آنا تو شاید ممکن نہ ہو سکے۔ یہ بات میرے علم میں ضرور آئی ہے کہ اس نظم پر کل تک ہونے والی گفتگو کی تصویری نقلیں انہیں فراہم کر دی گئی ہیں اور اس مکالمے کہ اختتام پر بقیہ گفتگو بھی ان کی خدمت میں پیش کر دی جائے گی۔ وہ اس پر ضرور کچھ لکھیں گے اور ان کی وہ تحریر یہاں پیش کر دی جائے گی۔ شکریہ

علی محمد فرشی: جنابِ صدر!یقیناً یہ اس نظم کی برکت ہے کہ ہم زکریا شاذ : صاحب کی عمدہ گفت گو سے لطف کشید کر رہے ہیں۔ ان کی نظم فہمی کا قائل تو میں بہت پہلے سے ہوں ، اس وقت سے جب میں نے ساقی صاحب کی نظم "حاجی بھائی پانی والا” پر ان کا تجزیاتی مضمون "مکالمہ” میں پڑھا تھا، جس کی تعریف میں نے کئی بار ان کی غیر موجودگی میں کی، اب یاد نہیں کہ میں اس بارے میں اپنے جذبات بہ راست بھی ان تک پہنچا پایا کہ نہیں ، "حال آں کہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی” کہ جب کوئی اپنے منصب کا حق ادا کر دے تو اسے ایسی ویسی تعریفوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس نظم پر، جہاں دیگر احباب نے بھی نہایت معیاری بحث کی ہے، شاذ صاحب کی بحث اس اعتبار سے بھی لائقِ تحسین ہے کہ وہ حال ہی میں "حاشیہ” کے رکن بنے ہیں اور پہلی بار ہی اس فورم کے شایانِ شان شریک بحث رہے ہیں۔ یامین نظم کے جتنے عمدہ شاعر ہیں اتنے ہی اچھے نظم شناس بھی۔ ساقی صاحب کو جب ان کا حال ہی میں شائع ہونے والا مجموعۂ نظم”دھوپ کا لباس” موصول ہوا تو انھوں نے فون پر مجھے بتایا کہ اس کتاب میں دس کے لگ بھگ عمدہ نظمیں موجود ہیں۔ میرے خیال میں ساقی صاحب کی بتائی ہوئی یہ تعداد نہایت معتبر ہے کہ ان کی مارکنگ بہت سخت ہوتی ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ میں کَہ یہ رہا تھا کہ ماضی میں بھی ہم یامین صاحب کی عمدہ گفت گو پڑھتے رہے ہیں تاہم اس بار انھوں نے اپنے بارے میں ہماری توقعات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ خدا کرے یہ جوڑی (یاد رہے کہ یامین اور شاذ بچپن کے دوست ہیں ) ادب پر گہرے نقوش مرتب کرے۔

 ارشد لطیف صاحب کا اضافہ بھی قابل قدر ہے۔ شاید وہ بحث میں اس وقت شامل ہوئے جب بحث تقریباً مکمل ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود، ساقی صاحب کے ساتھ تعلق کے باعث انھوں نے چند ایسی باتوں سے پردہ اٹھایا جس سے نظم کے خالق کے تخلیقی طریقہ کار کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مجھے ان سے اتفاق ہے کہ یہ سطر” جان محمد خان سفر آسان نہیں ” اب ضرب المثل کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔ بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ نظم کا عنوان قارئین کے ذہن سے اتر جاتا ہے اور نظم کی کوئی اور لائین یادداشت پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہے۔ (جیسا کہ غزل کے کئی مصرعے ایسے ہیں جو زبان زدِ خاص و عام ہیں لیکن دوسرے مصرعے کا سوائے خواص کے کسی پتا ہی نہیں ) یہ ایسی ہے زندہ سطر ہے جو اپنے جمالیاتی وفور اور فکری گہرائی کے باعث نظم کے عنوان پر حاوی آ جاتی ہے۔ میں اس سطر کی اثر انگیزی بل کہ سحر انگیزی کی بات کر رہا ہوں ورنہ عنوان ہٹا کر اس نظم کو پڑھیں تو عنوان میں پوشیدہ قوت کا اندازہ ہو جائے گا۔

 ارشد لطیف صاحب نے مجھ سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے "علی محمد فرشی صاحب نے اس نظم کی جو مقامی ارضی جہت دریافت کی ہے وہ قابلِ داد ہے شاید نظم کا آخری حصہ پوری طرح ان کی بات کا ساتھ نہیں دیتا” میں نے نظم کے سیاسی اور قومی تناظر میں ” جان محمد خان” کو غاصب حکم رانوں کی علامت قرار دیا تھا۔ کیا ان سیاسی کرداروں کا سفر آسان ثابت ہوا؟ یا اس قبیل کے دیگر حکم ران جو اس ملک پر جبراً قابض ہوئے ان کا سفر آسان ہوا؟ حقیقت یہ ہے وہ سب کے سب اس زمین پر ذلت کا استعارہ بن گئے۔ میں نے اپنے پاس سے معانی نہیں ڈالے تھے بل کہ نظم کے اندر سے نکالے تھے۔ جیسا کہ دیگر احباب نے اس کی مختلف تعبیریں کی ہیں اور میرے خیال میں سب کی سب درست ہیں۔ اس نظم کا علامتی ڈھانچا اس قدر مستحکم اور تخلیقی منطق اتنی مضبوط ہے کہ مزید معانی بھی دریافت ہو سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ شاعر کو بھی نظم کے اتنے پہلوؤں کا علم ہو۔ میں علی ارمان صاحب کی اس بات سے متفق ہوں کہ” کوئی بھی فن پارہ تخلیق کرتے وقت کسی تخلیق کار کے پیش نظر اس تخلیق کا کم از کم ایک باطنی معنی ضرور موجود ہوتا ہے۔ ” فی الحقیقت یہی "سمبل” کی تشکیل ہے۔ اور ایک ظاہری ڈھانچے کو مکمل بنانا ہی شاعر کا مطمحِ نظر ہوتا ہے۔ البتہ مجھے کہنے دیجیے کہ شاعر کا لاشعور اس معاملے میں خود آگاہ و خود کفیل ہوتا ہے۔ تالیف حیدر صاحب نے نظم کی جو تعبیر کی ہے کیا وہ شاعر کے شعور کا کبھی حصہ رہی ہو گی؟ غالباً ناممکن! لیکن نقاد کی رسائی کی داد دینا چاہیے کہ اس نے نظم کے تخلیقی فریم کے اندر ایک ایسی تصویر دریافت کر لی جو شاید کسی اور کو دکھائی نہیں دی۔ یہی زندہ فن پاروں کی پہچان ہے کہ ان میں معانی کا طلسم اپنی کارفرمائی مسلسل جاری رکھتا ہے۔

تالیف حیدر: (گزشتہ سے پیوستہ)

آج تمہاری ننگی پیٹھ پہ

 آگ جلائے کون

 انگارے دہکائے کون

 جدو جہد کے خونی پھول کھلائے کون

 میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں

 آج سفر آسان نہیں

 یہ نظم کا وہ نہج ہے جہاں اس بات کی وضاحت ہو رہی ہے کہ یہاں وہ تمام پیرہن جو وقتاً فوقتاً اپنا طرز بدل رہے تھے وہ کلیتاً محبوبیت کے لباس فاخرہ سے نوازے جا چکے ہیں اور وہ تمام مسائل جن کی اصل تک پہنچنے میں انھیں اپنی زندگی کا بیش قیمتی عہد قربان کرنا پڑا، اس کا صلہ انھیں مل چکا ہے، اور وہ فاتحانہ انداز میں ان کلمات کو سنتے ہوئے تبسم فرما رہے ہیں کہ:آج تمہاری ننگی پیٹھ پہ آ گ جلائے کون، انگارے دہکائے کون، جدو جہد کے خونی پھول کھلائے کون، میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں ، لیکن اس نہج پر جب جان محمد خان کی سماعت سے دوبارہ یہ مصرعہ ٹکراتا ہے کہ :آج سفر آسان نہیں تو وہ بھونچکا رہ جاتا ہے کہ یا اللہ یہ کیا مرحلہ ہے جس کی عقدہ کشائی ہونے پر ہی نہیں آتی، اس لمحے فوراً انھیں گزشتہ تمام مصرعوں کے آگے سوالیہ نشان نظر آنے لگتا ہے، یعنی:آج تمہاری ننگی پیٹھ پہ آ گ جلائے کون؟ انگارے دہکائے کون؟ جدو جہد کے خونی پھول کھلائے کون؟میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں ؟اب فاتحانہ تبسم جو بے نظیر ہے اس کی صورت مقلوب ہو چکی ہے۔ یہاں سے جان محمد خان دوبارہ ایک سفر کی شروعات کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں ، جس کی ابتدا بایزید بسطامی کے اس واقعے سے ہوتی ہے کہ ان کے پاس بلخ سے ایک شخص آتا ہے اور ان سے دریافت کرتا ہے کہ:”(آج) آپ کے نزدیک زہد کی کیا تعریف ہے ؟”اس پر وہ فرماتے ہیں کہ:” اگر ہمیں کچھ کھانے کو مل جاتا ہے تو ہم کھا لیتے ہیں اور اگر کچھ نہیں ملتا تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ” اس پروہ اجنبی کہتا ہے کہ :”بلخ کے کتے بھی یہ ہی کرتے ہیں۔ "یہ جواب سن کر با یزید بسطامی فرماتے ہیں :”تو پھر زہد کیا ہے ؟”وہ جواباً کہتا ہے کہ:”زہد یہ ہے کہ اگر ہمیں کچھ کھانے نہیں ملتا تو ہم صبر کرتے ہیں اور اگر مل جاتا ہے تو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں۔ "اس مضمون میں نظم کے اصل واقعے سے در کنار مجھے اپنا ایک سوال بار بار (جو ہمیشہ مجھے پریشان کرتا ہے۔ ) یاد آ رہا ہے اور جسے میں اکثر خود سے پو چھا کرتا ہوں ، کہ اس اعلی ترین مجاہدے سے ہماری سوسائٹی کے کتنے لوگ واقف ہوں گے۔ اور اگر ہم ایک لمحے کے لئے یہ فرض کر بھی لیں کہ ہماری تمام سوسائٹی اس مجاہدے سے واقف ہو بھی جائے تو ہماری سوسایٹی کی کیا شکل بنے گی ؟کیوں کہ تصوف کے اصل مفہوم کے متعلق (چاہیں اس لفظ کی تشریح کسی بھی طرح پیش کی جائے ) ہم تمام حضرات کما حقہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ہمیں نفس کشی کی طرف مائل کرتا ہے اور دوسرے تمام قسم کے مظالم کو ترک کر کے ہمیں اپنے نفس سے جہاد کی تلقین کرتا ہے تو اس صورت میں جب ہر شخص بجنسہ مظلوم قرار پائے گا۔ تو اس سوسائٹی کی خوبصورت شکل یہ تو نظر آتی ہے کہ تمام سوسایٹی ہر طرح کے ظلم و ستم سے پاک ہو جائے گی لیکن انفرادی طور پھر ہم اسی کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ تو کیا اس کی یہ صورت نظر نہیں آتی کہ اگر ہم نفس کی خاطر لڑیں تو بھی ظالم اور بجائے خود نفس سے لڑیں تو بھی ظالم، ہو سکتا ہے کہ میری ناقص عقل جو صوفیہ کے نزدیک ہمیشہ انسان کو دھوکے میں رکھتی ہے اس نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہو۔ بہر کیف نظم کے سلسلے میں میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ سفر جس پہ اب جان محمد خان کو ملک عدم کا سفیر بنا کر بھیجا گیا ہے وہ اب تک توسب رضائے الہی کے لئے کر رہا تھا مگر اب رضائے الہی سے کرے گا ابھی تک اس کے وجود کو دخل تھا کہ وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو گزند پہچانے کا مختار ہے لیکن جس لمحے وہ مختار کل کا محبوب بن جاتا ہے تو اس سے وہ تمام اختیارات لے لئے جاتے ہیں اور جس کے عوض اسے ایسے اختیارات سے نوازا جاتا ہے کہ جہاں :کخردلۃ علی حکم التصالی نظرت علی بلاد اللہ جمعاً کا مظاہرہ ہوتا ہے اور پھر وہ تمام حالات ظاہر ہوتے ہیں جن کا سامنا انھیں مخلوق کے قلوب کو آئنہ بنانے کے سفر میں در پیش آتے ہیں ، اور یہاں اسی "سفر آسان نہیں "کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں میں شاعر کے بلاغت کلام کا بھی اعتراف کروں گا کہ اس نے ایک "سفر آسان نہیں "کے ذریعے ان دونوں کیفیات کا ذکر کر دیا کہ پہلے خالق کی سمت سفر کرو اور اس کے مصائب برداشت کرو اور پھر مخلوق کی جانب رجوع کرو اوردوسرے سفر کی مصیبتیں جھیلو۔

نسیم سید: جناب صدر آ پ نے صدا دی تھی۔۔۔ میں تو اس سے بھی پہلے مو جود تھی اور موجود ہوں ا یسی عالمانہ گفتگو پر بولنے سے بہتر سمجھتی ہوں خود کو اس میں جذب کرتی رہوں۔۔ کہیں کہیں ذہن غبار آ لو د سا ہوا بھی مگر ذرا سی دیر میں ہی مطلع صاف ہو گیا اب ساقی فاروقی کا انتظار ہے۔ حاشیہ کا کو ئی بیان ایسا نہیں جس کو بغور پڑھے بغیر گزر جا یا جائے۔۔ اس بزم میں ہر حاضری فرائض میں داخل ہے۔ صرف یہی عرض کرنا تھا۔۔۔۔۔۔ لبیک امیرِ حا شیہ لبیک

نسیم سید: جنا ب صدر مجھے حکم ہے کہ اپنی پو ل کھو لوں حالانکہ میں خاموش رہ کے ا س کا بھرم رکھنا چاہتی تھی۔۔۔۔ مجھے در اصل یہ نظم بہت پسند ہو نے کہ با وجود اتنی مشکل نہیں لگی تھی کہ میں نے اس میں جسم کے خالی بو رے میں ” میں ” کو تڑ پتے دیکھا تھا لیکن اس خیال میں تو بہت کام رفو کا نکلا اس لئے موجود ہو تے ہوئے مو جو د نظر نہیں آ ئی مگر لیجئے سب سامنے لائے دیتے ہیں۔۔۔ اس سو چ نے کبھی مات کھا ئی اور کبھی سہارا ملا۔۔۔ ساقی کی شاعری میں بڑے موضوعات کی تلا ش ، اور اس تلا ش پہ سوالیہ نشان۔۔۔ کچھ تشفی ہوئی کچھ نہیں ہو ئی مجھے خود کو تاکید ہے سیکھنے کی بولنے سے زیادہ سو حاشیہ پر مو جو د ظفر سید ہوں یا حمید شاہد یا محمد علی فر شی یا باقی تمام ا حباب یہ بذات خود ایک ادارہ ہیں اور میں یہاں صرف اور صرف ایک طالبعلم کی حیثیت سے مو جو د رہی ہوں مجھے ساقی فاروقی کے بیان یا اظہار کا بے چینی سے انتظار ہے

یشب تمنا: کل فون پر بات چیت کے دوران اور پرسوں ایک ملاقات میں بھی ساقی صاحب کا حکم تھا اس گفتگو میں ، میں بھی شامل ہو ں۔ پیارے دوست الیاس ملک کی مہربانی سے اب حاشیہ کا ممبر بن گیا ہوں تو ضرور اپنا سا حصہ ڈالنے کی کوشش کروں گا ہر چند بہت دیر سے ابھی آیا ہوں اور بہت کچھ کیا جا چکا ہے۔ اب تک کی گفتگو نے جو ذہن کشائی کی ہے ابھی اس سے لطف اندوز ہو رہا ہو ں۔ بہت شکریہ۔

یشب تمنا: ابھی اس محفل کے آداب کا پتہ نہیں ، کیا بات کی جا سکتی ہے یا   اجا زت لینی ہو گی؟ یا اپنی بات کسی وقت بھی کہی جا سکتی ہے ؟ مشورہ!

تصنیف حیدر: تمنا صاحب! آپ صدر کو مخاطب کر کے کبھی بھی اپنی بات بآسانی کر سکتے ہیں

یشب تمنا: تصنیف صاحب شکریہ، مشکل آسان ہوئی۔

یشب تمنا: ساقی صاحب کی نظم خالی بورے میں زخمی بلا کے حوالے سے ہفتوں سے جاری گفگو کو میں نے کافی غور سے پڑھا ہے اور اس میں بہت سی باتیں کی گئی جن کی جانب خیال یا دھیان نہیں گیا۔ سبب شاید اس کا یہ ہے کہ ساقی صاحب سے گزشتہ بیس پچیس سال کے تعلق کی نسبت اور ان سے ملاقاتیں جاری رہیں اور اور سیکڑوں مرتبہ ان سے ان کا کلام سننے کا موقعہ ملا لیکن شاید روز کے ملنے والے ان کے کلام سے زیادہ ان کے سنانے کے سحر میں گرفتار رہتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کا کلام صرف سننے کی چیز ہے۔ یہ بعض اوقات روز کے ملنے والوں کی کوتاہی ہو سکتی ہے۔

 شاعر کو اس کی شخصیت سے الگ دیکھا جانا چاہیے یا نہیں یہ ایک الگ بحث تو ہے ہی لیکن اصل چیز وہی ہو گی جو شاعر کاغذ پر چھوڑ گیا ہے۔ کتاب کی نفیس چھپائی، خوبصورت سر ورق، مہربانوں کے تبصرے، شاعر کا تعلقات عامہ کا فن اور شاعر کے پڑھنے کا دل نشین انداز، یہ سب ( ٹھاٹ پڑا یا ) دھرا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ!

 میرا اپنا یہ خیال ہے کہ ساقی صاحب کی بہت ابتدائی نظموں کو چھوڑ کر ان کی اکثر نظمیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں۔ یہی نظم خالی بورے میں زخمی بلا یا اس کے علاوہ مکڑا، باجوا، حاجی بھائی پانی والا، شہناز بانو دختر شہباز حسین، الکبڑے، مستانہ ہیجڑا اور ایسی بہت سی نظمیں ہیں جو دراصل کہانیاں ہیں اور ساقی ساحب نے ان کہانیوں کو نظما کر انھیں ایک نئی شکل دے دی ہے۔ لیکن ایک کام انھوں نے یہ کیا کہ ان کہانیوں کو صرف کہانی کے طور پر ختم نہیں کیا بلکہ اکثر کے آخر میں ایک نتیجہ بھی نکال لیا اور یوں یہ نظمیں اہم ہو گئیں۔ نظم، مکڑا کے آخر کی چند سطریں ، مستانہ ہیجڑا کی آخری سطریں او اسی طرح خالی بورے میں زخمی بلا کی آخری سطریں

 جناب فرشی نے نظم میں موجود کرداروں کے حوا لے سے جو بات کی وہ بہت فکر انگیز اور دلچسپ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علی ارمان نے جو ساقی صاحب کی نظم ان کی اپنی آواز میں پیش تو کر دی لیکن اس بات کا کوئی اثر نظم کے تجزیے پر نہیں پڑنا چاہیے کیو نکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ بات پھر کہیں ساقی صاحب کی پڑھت کی جانب نہ چلی جائے اور توجہ نظم کے تجزیے سے نہ ہٹ جائے۔

 اسی طرح میرا ذاتی خیال ہے کہ ارشد لطیف کی جانب سے بعض وضاحتوں کی ضرورت بھی نہ تھی کہ یہ باتیں اس نظم کی تاریخ کے حوالے سے تو ہو سکتی ہیں نظم کے تجزیے میں مدد گار ثابت نہیں ہو نگیں۔ یہاں معاملہ، جیسی جس کے دھیان میں آئی، والا ہے۔ ایک صاحب نے شاید یہ بھی کہا ہے کہ اس بلے نے ماضی میں شاعر کو بھی کاٹا ہے اور اب بورے میں پھنس گیا ہے تو فلسیانہ گفتگو کرنے لگا ہے۔ یہ بھی سوچ کا ایک انداز ہو سکتا ہے۔ سو یہاں ہر آدمی کو اپنے تخیل اور خیالات کے گھوڑے دوڑانے کی سہولت ہونی چاہیے۔ ہم جیسے بعض لوگ اگر اس نظم کی تاریخ کے حوالے سے کچھ زیادہ جانتے ہیں تو ہمیں اس معلومات کو تا دیر اپنے پاس امانت کے طور پر رکھنا چاہیے۔

یشب تمنا: میں جنابِ،صدر کی اجازت لینا بھول گیا، معذرت خواہ ہو ں۔

محمد حمید شاہد: احباب حاشیہ! میں نے توجہ سے آپ تمام احباب کے ایک ایک کمنٹ کو پڑھا۔ مجھے خوشی ہے کہ نظم پر بہت چست مکالمہ ہواجس نے لطف دیا۔ مگر اب میں ایسا دیکھ رہا ہوں کہ محض تہنیتی سطروں کا اضافہ ہو رہا ہے یا پھر نظم اونچی ہوا میں پہنچ جانے والے پتنگ کی طرح کہیں اور ہے اور ہم کسی اور جھونک میں محض ڈھیلی پڑ جانے والی ڈور کو ہی تنکا لگائے جاتے ہیں۔ خیر ایسا ہو جاتا ہے۔ مکالمہ بھی تو تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ میں نے اس سارے عرصہ میں اپنے تئیں کوشش کی کہ مجھے گفتگو میں مداخلت نہ کرنی پڑے، احباب کو جو کہنا ہے، آزادانہ کہیں۔ جو مجھے کہنا ہے وہ تو میں ضرور کہوں گا تاہم اب مجھے محسوس ہوتا ہے، وہ مرحلہ آگیا ہے کہ مجموعی طور پر ایک خوب صورت، بامعنی اور اہم مکالمہ کو سمیٹنے کی طرف بڑھا جائے۔ لہذا اپنے احباب کی وساطت سے ساقی فاروقی سے گزارش ہے کہ وہ آئیں اور اپنے تخلیقی تجربے اور نظم کے حوالے سے جو کہنا چاہیں کہیں۔ ہم انہیں سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہیں۔

الیاس ملک:جنابِ صدر! ساقی صاحب سے آج فون پر یہ طے پایا ہے کہ پچھلے پانچ سات روز کی کاروائی (جو انھوں نے ابھی تک نہیں پڑھی ہے ) کل بذریعہ ڈاک انھیں بھیج دی جائے گی – اسے پڑھنے کے بعد وہ اس ہفتتام (ویک اینڈ) پر اپنا خطبہ لکھیں گے جسے آپ سب کی خدمت میں سوموار یا منگل تک پیش کر دیا جائے گا-

محمد حمید شاہد: ہمیں انتظار رہے گا۔

الیاس ملک:صدر محترم۔ ساقی صاحب کا تحریری خطاب اب منگل کی شام ملے گا جسے احباب کی خدمت میں اگلے دن پیش کر دیا جائے ٴ گا۔ اس تاخیر پر نہایت معذرت خواہ ہوں۔

Sajjad Saleem ہم منتظر ہیں جناب

نسیم سید: انتظار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الیاس ملک:جنابِ صدر اور محترم خواتین و حضرات! ساقی فاروقی صاحب کا خطبہ حاضر ہے – اپنے بہت پیارے دوست یامین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس کی ٹائیپنگ کر کے میرے لے ً سہولت پیدا کر دی ورنہ یہ خطبہ آپ کی خدمت میں مزید تاخیر سے پہنچتا – لیجے ً خطبہ حاضر ہے –

 ======================================

صاحبِ صدر، معزّز حضرات اور خواتین!

 افسوس کہ آج کل میں سخت ڈیپریشن کے عالم سے گزر رہا ہوں۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جس سے بیش تر فن کاروں کی ملاقات گاہے گاہے ہوتی رہتی ہے، اور وہ جلد ہی یا ذرا دیر سے اس حصار سے باہر نکل آتے ہیں۔ مگر کوئی 21 دسمبر 2012 کو 77 سال کا ہونے والا ہو اور اسے خود کشی کا خیال بھی آنے لگے تو ذرا تشویش ہوتی ہے۔

 میرے پیارے قارئین / قُرّار (قُرّار، لا حول ولا۔۔۔۔۔۔ علی محمد فرشی کے خوف سے لکھ دیا ہے کہ وہ صرفی و نحوی میرے ” کہہ” کو "کہَ” کر دیتے ہیں اور میری "خوشبو” کو "خوش بو” بنا دیتے ہیں )۔ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کہ جنگ جوئی میری سرشت میں ہے، فی الحال جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔

 اس طویل جملہ معترضہ ( یا پیراگراف) کے بعد مجھے اس نظم کی طرف پلٹنے کی اجازت دیجیے کہ آپ مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں کوئی ڈھنگ کی بات کہَ سکوں گا۔ لا ریب کہ یہ توقعات عبث ہیں کہ ڈھنگ کی باتیں تو آپ لوگوں نے کی ہیں۔ میرا کام تو فقط شکریہ ادا کرنا ہے سو شکریہ ادا کیے دیتا ہوں :

 مسٹر ظفر سید نے کمال کیا کہ مسٹر حمید شاہد کی "غیر موجودگی” کا فائدہ اٹھایا اور میری نظم ‘حاشیہ’ میں ڈال دی۔ نہ صرف یہ بل کہ اس کی تشریح و توضیح بھی کر دی۔ (سنا ہے کہ ان دونوں کے تعلقات جو پہلے ہی خراب تھے اب اور خراب ہو گئے ہیں )۔

 پرسوں علی ارمان نے فون کیا تو مجھے اس چھپے رُستم کو بتانا پڑا کہ اس نظم کے پہلے سامع ن۔ م۔ راشد تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ واقعہ ضرور لکھوں کہ لوگ شاعر کی ایسی ہی ذاتی باتوں کے منتظر ہیں کہ شرح و وضاحت تو ہر آدمی اپنے اپنے طور پر خود کرے گا۔ بات صرف اتنی ہے کہ نظم صیقل کرنے کے بعد میں نے راشد صاحب کو فون کیا کہ جس نظم کی بشارت پچھلے ہفتے دی تھی وہ مکمل ہو گئی ہے۔ عجب ہیجان ہے فوراً سنانا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے ” آ جاؤ، آج ہی کاکٹیل بنانے کا ایک نیا نسخہ پڑھا ہے، تم پر آزماؤں گا”۔ غرض کہ میں لندن سے چلٹنہم (ایک سو میل) گیا۔ ان کی امریکی کاکٹیل پی جس میں انھوں نے طرح طرح کی شرابوں اور نارنگیوں کے رس کے علاوہ انّناسوں کا رس بھی شامل کر دیا تھا۔ ان کی بیوی شیلا نے اطالوی کھانا کھلایا اور اپنے بیڈ روم میں چلی گئیں۔ میں نے ‘ خالی بورے میں زخمی بلّا’ سنائی۔ کہنے لگے ایک بار اور سناو۔ دوبارہ سنائی۔ دو چار منٹ کی خاموشی کے بعد صرف اتنا کہا کہ ساقی، قیامت کی سیّال نظم لکھی ہے۔

 اُس وقت سیّال کے معانی مجھ پر پوری طرح نہیں کھلے تھے مگر مندرجہ لوگوں کی توجیہات اور استدلال نے اس لفظ کی کئی گرہیں کھول دی ہیں :۔ ( ناموں سے پہلے ‘جناب’ اور ناموں کے بعد ‘صاحب’ خود لگا لیجیے )۔

 1۔ ظفر سید 2۔ علی محمد فرشی 3۔ زکریا شاذ : 4۔ محمد یامین 5۔ حمید شاہد 6۔ جلیل عالی 7۔ الیاس ملک 8۔ تصنیف حیدر 9۔ علی ارمان 10۔ ستیہ پال آنند (ظالم نے نظم پر کم اور دوسری چیزوں پر زیادہ بات کی ہے ) 11۔ ارشد لطیف 12۔ یشب تمنا۔۔۔۔۔ آخر آخر میں محترمہ حمیدہ شاہین کا بھی شکریہ۔ یہ تمام باتیں میرے خون، میری نشوونما، میرے لا شعور اور میرے شعور میں کہیں نہ کہیں موجود رہی ہوں گی کہ میں نظم کے عنوان اور ابتدائی لفظ یا الفاظ کو یوں لے کر چلتا ہوں کہ ضمنی استعاروں کا نظام بنتا چلا جائے اور نظم کا "میں ” اس سفر میں "آدمی” یا "انسان”بن جائے۔ کام یابی یا ناکامی کی بات نہیں کر رہا مگر میری کوشش ہوتی ہے کہ Personalبہ خیر و خوبی Universal میں تحلیل ہو جائے۔ ارے ہاں۔۔۔۔۔ مجھے کہنے دیجیے کہ مسٹر تالیف حیدر کی توجیہ خود میرے لیے بھی انکشاف سے کم نہیں۔

 میں اس نظم کے بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔ ایک زمانے میں افتخار عارف نے مجھ سے گفت گو کی تھی (یہ انٹرویو میری کتاب ‘سرخ گلاب اور بدر منیر’ میں موجود ہے )۔ میں نے ان کے ایک سوال کے جواب میں جو کہا تھا وہی دہرائے دیتا ہوں :

 "جب آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں نے ‘ دی ویسٹ لینڈ’ کی علامتوں کے بارے میں اشارے چاہے تھے تو اِلیٹ نے کہا تھا” میں آپ کی مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ مجھے جو کچھ اور جن الفاظ میں کہنا تھا، میں اپنی نظم میں کہَ چکا ہوں ، مجھے اپنا ما فی الضمیر بتانے کے لیے دوسرے الفاظ آتے تو نظم دوسرے الفاظ میں لکھی گئی ہوتی”۔

 P.S: صاحبِ صدر، ایک بار اور، آپ سب کا شکریہ۔ خاص کر الیاس ملک کا کہ اس عزیز نے بڑی محنت اور محبت سے ‘حاشیہ’ کی ساری گفت گو مجھ تک پہنچائی اور اصرار کر کر کے مجھ سے یہ صفحات لکھوائے۔ ساقی

 ======================================

تسنیم عابدی: واہ جناب کیا بات ہے اسے کہتے ہیں الہامی کیفیت مجھ کو یقین تھا یا شاید میری خواہش تھی کہ شاعر کچھ نہ کہے کیوں کہ اس کو جو کچھ کہنا تھا اس نے نظم کی صورت میں کہہ دیا ساقی صاحب کو ڈپریشن ہے فکر ہوئی لیکن خیال آیا کہ اب کوی اور اچھی سی نظم آنے والی ہے کیوں کہ "جانتے ہیں ہم سب سفر آسان نہیں "

زکریا شاذ : بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساقی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سے جس طرح کے اظہار کی توقع تھی آپ نے اس سے بڑھ کر گفتگو کی۔۔۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کس طرح کے کرب میں مبتلا ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔ تمام احباب بھی۔۔۔ کب سے منتظر تھے۔۔۔۔ آج یہ زنجیر بھی پگھل کر پانی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے سب صاحبان حاشیہ بھی اب مطمئن ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔

نسیم سید: ساقی صاحب نے وضاحت در وضاحت کے بجائے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بڑی مکمل بات کی۔۔۔۔۔۔۔ اور بہت خوبصورتی سے کی۔ سلا متی ہو

جلیل عالی: صدرِ محترم ابھی آپ کی صدارت میں اجلاس جاری ہے، اس لئے مناسب یہی ہے کہ احباب آپ کی وساطت سے اپنی بات کریں۔

نسیم سید: صدر محترم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلی معذرت قبو ل کیجئے جنا ب جلیل عالی نے درست فر ما یا

یشب تمنا: صاحبِ،صدر! یقیناً ٹی ایس ایلٹ کی بات میں وزن تھا اور اس کا فائدہ ساقی صاحب نے بھی اٹھایا یے۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ باتیں نئی اور ساقی صاحب کا طرزِ،تخاطب بھی شاید نیا ہو لیکن ان کے قریبی حلقے کے لئے نہیں۔ ساقٰ صاحب کے بعض ہم عصروں نے ان کی شخصیت کے حوالے سے بہت سی غیر مستند باتیں پھیلا دی ہیں میرا خیال ہے ساقی صاحب اگر اپنے آپ کو اس طرح اپنے بعد آنے والے شاعروں سے رابطہ رکھیں اور ان سے مکالمہ جاری رکھیں تو اس سے نئے لوگوں کو بھی فائدہ ہو گا اور شاید ان کا ڈپریشن بھی کم ہو۔ ٰ

محمد حمید شاہد: احباب حاشیہ

 میں سب سے پہلے حاشیہ کے تمام اراکین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ ایک بار پھر وہ جان دار اور پر از معنی مکالمہ قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ مجھے یقین ہے کہ جناب ساقی فاروقی کی نظم” خالی بورے میں زخمی بلا” پر ہونے والی یہ گفتگو جدید نظم کی تفہیم میں ایک اہم باب کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔ اب مجھے بہ طور صدر کچھ کہنا ہے کہ حاشیہ کی یہی روایت ہے، اور یہ جانتے ہوئے، کہ نظم پر بہت کچھ کہا گیا، اتنا کچھ کہ کہنے کو شاید ہی کچھ بچا ہو، مگر پھر بھی ایک عدد صدارتی خطبہ” عطا ” کرنا ہے۔ سو اس باب میں اس "اطائی” کی گزارشات قبول فرمائیے۔

 اپنی بات کہنے سے پہلے مجھے صدر کی حیثیت سے اس مکالمہ کے فاضل شرکا کی کاوشوں کو سراہنا ہے اور بہ طور خاص ان مقامات کو نشان زد کرنا ہے جنہیں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ میں اعتراف کر چکا ہوں کہ نظم پر مکالمہ کے ابتدائیہ ہی میں ایک سلیقے سے گنجائشیں رکھ دیں گئیں کہ بات کسی ایک رخ پر ہی نہ چلے، تفہیم کے تمام امکانات کو دیکھا جائے۔ یوں جو معنیاتی سطح پر متن کی جو پرتیں ہمارے سامنے آتی ہیں انہیں اس طرح مقتبس کیا جا سکتا ہے۔

 یہاں خالی بورا قید خانہ ہو جانے والی دنیا کا سا ہو گیا ہے۔ ایسی دنیا جس میں ہر نفس کا انجام بورے میں بند بلے کی طرح موت ہے۔ گویا نظم بتانا چاہتی ہے کہ ہر انسان کا مقسوم یہی موت ہے۔ اس طرح یہ مضمون اردو اورفارسی شاعری کی عظیم روایت سے جڑ جاتا ہے۔

 نظم کی تفہیم کی ایک صورت تصوف اور ویدانت سے جوڑ کر بھی نکالی گئی۔ بہ طور خاص جب تصوف سے جڑے ہوئے معنی سجھائے جا رہے تھے تو میں نے گزارش کی تھی کہ اس رُخ سے نظم کو شاید پہلی بار دیکھا جا رہا تھا، نظم کو بھی اور اس کے کردار جان محمد خان کو بھی۔ ساقی فاروقی کا بھی کہنا ہے کہ یہ والی توجیہ خود ان کے لیے بھی انکشاف سے کم نہیں تھی۔ خیر شاعر پر اپنی نظم کے سارے معنی منکشف ہو جائیں یہ لازم بھی نہیں ہے۔ تاہم یہ شاعر نے مانا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ’یہ تمام باتیں شاعر کے خون، اس کی نشو ونما، اس کے لا شعور اور شعور میں کہیں نہ کہیں موجود رہی ہوں گی۔ ،

 آدمی اور انسان ہو جانے کی بابت خود شاعر نے اشارہ کیا اور لگ بھگ اس سے جڑی ہوئی ہوئی تفہیم میں آدمی کے انسان ہونے کے لیے اس کے عابد، زاہد اور عارف ہو نے کو اس باب میں ایک اہم منزل کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔ میں کہہ آیا ہوں کہ اس طرح خالی بورے کا تابوت بن جانا اور زخمی بلے کا اس تابوت کی تنہائی سے لپٹ کر سو جانا اور پانی پانی ہو جانا، محض خان محمد جان کی ننگی پیٹھ پرآگ جلانے اور انگارے دہکانے اور جدوجہد کے خونیں پھول کھلانے والے کی کہانی نہیں رہتی۔ اب جان محمد خان نامی کردار پر منکشف ہو چکا ہے کہ حیاتِ انسانی بنفسہ اپنا تحفظ محض جسم اور وجود کے سہارے نہیں کر پائے گی، اسے وہ علم اور معرفت درکار ہے جس سے زندگی کی اذیت سے معنی چھلک پڑیں۔ جان محمد خان اپنے پہچان میں نہ آنے والے خالی بورے کی پہچان اسی قرینے سے ہوتی ہے اور اس سفر کی بھی جو ہر گز آسان نہیں ہے۔

 جان محمد خان اور زخمی بلے کو ایک ہی ہستی کے دو روپ بنا کر بھی نظم کو سمجھا گیا، نیک طینت اوراس کی ہمزاد گھناؤنی روح کی صورت میں۔ اور پھر سگمنڈ فروئڈ کی اِڈ، ایگو اور سپر ایگو کے ساتھ بھی جوڑاگیا۔ ایسے میں جان محمد خان سپر ایگو کا نمائندہ ہوا اور بورے میں بند زخمی بلا اڈ کا۔

 ایک اور جہت سے نظم کے پگڈنڈی پر تالاب کی جانب رواں کردار جان محمد خان کا سفر انسانی ارتقا کا سفر ہو جاتا ہے وہ اپنی جبلت سے نبرد آزما ہے۔ اور یہ اس کردار کا مثبت روپ ہے کہ وہ روسو کا "دی سیوج مین” بننے نکلا ہے گویا بورا اور اس میں بند بلا روح کا ایسا نقاب ہو جاتے ہیں جسے نوچ کر پھینک دینے کے بعد ہی اپنی اصل کو پا سکتا ہے۔

 جب ہمارے ایک فاضل دوست نے، اس نظم کو اس کہانی کی صورت دیکھا جس میں برا کرنے والے کا انجام بھی برے نتیجے کی صورت لازم ہو جاتا ہے۔ ایک متکلم کی نظر سے جان محمد خان اور زخمی بلے کے کردار کو دیکھا جائے تو نظم کی اخلاقی اور نظریاتی جہت اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ، چاہے نظم نگار اپنی عام زندگی میں خود کو کتنا ہی شوخ، چنچل، ریاکار، پاپی ظاہر کرے، نظم کے متن میں ایک پختہ ایمان اور ایقان والے کی صورت نشان زد ہو تا ہے۔ سو اس رخ سے دیکھیں تو یہ بات بہ جا لگتی ہے کہ ” قدرت نے اچھائی اور برائی کا شعور پیدائشی طور پر ہر انسان کو الہام کر رکھا ہے۔ ” یہاں زخمی بلے کی شکل میں جان محمد خان کے ضمیر کی آواز ہو گئی ہے اور نظم کا آخری حصہ انسان کی اسی اخلاقی انسانی فیکلٹی کی نشان دہی۔ وجود اور روح کو بھی یہاں شناخت کیا گیا اور نظم کو اس دنیا اور آخرت سے جوڑ دیا گیا، جو یقیناً ایسا سفر ہے جسے کسی صورت آسان سفر نہیں کہا جا سکتا۔ (جاری ہے )

محمد حمید شاہد: جب ایک ظلم سہتے اور تباہی کے مقابل ہوتے ہوئے غلام کی طرح زخمی بلے کو دیکھا جا رہا تھا تو اس کی جدوجہد اور اذیت سے ترقی پسندوں کو محبوب ہو جانے والے معنی چھلک پڑے تھے۔ یہ معنی بھی نظم کے مرکز کی کشش سے آزاد ہوئے بغیر ایک دائرہ بنا لیتے ہیں لہذا اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ نظم کے کردار کا مزاحمتی ہو جانا، اور زندگی کو ایک مزاحمتی کے نقطہ نظر کی توسیع ہے۔

 نظم کی سیاسی توجیہ بھی نظم کے متن کے اندر پھوٹی ہے اور ان نشانات کو لے کر چلتی ہے جو متن فراہم کرتا ہے مثلاً دھان، پٹ سن، خالی بورا۔ جب یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ "پٹ سن” اور "سبز پانی” کو استعارہ مان کر بات کی جائے تو میں انہیں زندہ استعارے کی صورت دیکھ رہا تھا ایسے میں خالی بورے والا زخمی بلّا مشرقی پاکستان کے عوام کے شعور کی تیز رفتار نمو، ان کا مثالی نظم و ضبط اور ان کے سینوں پر سیلاب بن کر بہنے والا سرکاری استحصالی سبز نظریہ سے جڑ گیا تھا اور نظم کے باطن میں پڑے اس طوفان کی خبر سے بھی جس کی پیش گوئی آخری سطر کر رہی تھی۔

 ایسے میں شاعر کی اپنی زندگی کو نظم سے جوڑا گیا۔ گورکھپور میں آنکھ کھولنے والے اس شاعر کی زندگی کو جس نے بچپن میں اپنے گھریلو ملازم کو ایک بلّے کو بورے میں بند کر کے تالاب تک لے جاتے اور اسے ڈبو کر مار ڈالنے کا منظر دیکھ رکھا تھا۔ جس نے ہجرت کی اور لڑکپن بنگال کے بورڈنگ سکولز کی دیواروں کے پیچھے گزارنا پڑا۔ ملک تقسیم ہوا تو جو پھر ہجرت کر رہا تھا، کراچی آنے اور بعد میں لندن پہنچ کر زندگی کی آسودگی سے بغل گیر ہونے والے اس شاعر کی زندگی کا قصہ بھی اسی مطالعے کے دوران نظم سے چھلک پڑا۔ پٹ سن، دھان، خالی بورا، بلا، تابوت، گندا تالاب، اس سب کے معنی نظم کی کلیت کے اندر سے نکلتے رہے اور لطف دیتے رہے۔ اور ہماری سماعتوں سے یہ آواز ٹکراتی رہی "جان محمد خان/سفر آسان نہیں "

 نظم کا ایک معتبر حوالہ جنس بھی بنا۔ اور جب بتایا جا رہا تھا کہ "ہم سب کے اندر ایک بلا ہے، لیکن ہم سب ہی جان محمد خان نہیں ہیں تو بات اپیل کر رہی تھی۔ لبیڈو کے فطری مطالبوں کو یہاں دبانا ایک طرح سے بلے کو زخمی کرنے اور بند بورے میں بند کرنے اور اذیتیں دینے کے مترادف ہو گیا تھا۔ جب جنس کے بلے کی مدہم "میاؤں ” پر دھیان نہ دھرا جائے تو اس کا سر کش ہونا اس نقطۂ نظر میں نشان زد ہوتا ہے۔ یہی نفس ہے اور یہی اشتہا۔ سو سارے جان محمد خان اس کو دباتے یا مار ڈالنا چاہتے ہیں۔ جب کہ اس کا مرنا خود آدمی کا مرنا بھی ہے۔ اچھا اسی جنسی رخ کی ایک اور طرح سے تفہیم بھی ممکن تھی کہ بلا اور گندا تالاب دونوں جنس کے مظہر ہو جاتے، بلا خالی بورے میں رہتا ہے تو اسی کی دی ہوئی ایذا سہنے پر مجبور ہے، جس کی دسترس میں ہے، مگر جوں ہی کسی دوسرے وجود کے گندے تالاب میں اس بلے کو ڈبو دیا جاتا ہے، زندگی جاگ اٹھتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک اور زندگی یا مشکل سفر کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ جنس کے حوالے سے یہ معنی بھی نظم کے نیوکلس کو متن سے بے دخل کیے بغیر برآمد ہوتے ہیں۔ لہٰذا توجہ پاتے ہیں۔

 یہیں بتاتا چلوں کہ اس نظم میں تخلیقی قرینوں کو جس طرح بروئے کار لایا گیا ہے، اسے بجا طور پر احباب نے نشان زد کیا ہے۔ مثلاً دیکھئے عنوان میں "بورے ” کے ساتھ لفظ "خالی” کتنے جواز کے ساتھ آیا ہے، حالاں کہ اسی بورے میں بلا موجود ہے اور وہ خالی نہیں ہے۔ دھان اور پٹ سن کے لفظوں سے معنویت کے ایک علاقہ کی تعمیر، خالی بورے میں جان کا الجھنا کہہ کر بورے کے خالی پن کو شدت سے ظاہر کرنا، پھر زخمی وجود سے رگڑ کھاتا بورا، اس الجھن کی شدت کو بھی بڑھانے والا۔ بورے کے اندر سے باہر کا منظر جیسے کوئی بندی خانے سے باہر ایک محدود منظر کو دیکھتا ہے۔ بورے کی بنائی کو پٹ سن کی مضبوط سلاخیں بتانا۔ تو یوں ہے کہ یہ سلاخیں اب آہنی ہو گئی ہیں۔ نیزوں جیسی، جو ماس کاٹتی، کچ کڑچ کرتی، دل میں گڑ جاتی ہیں۔ نظم میں پٹ سن کے خالی بورے کا تابوت ہو جانا، اس معنی کا متن میں خود بہ خود ایزاد کر لیتا ہے کہ زخمی بلا بورے میں بند گندے تالاب کے پانیوں کی نذر ہو نے والا ہے۔ بورے میں بند بلے اور پگڈنڈی کا گندے تالاب میں گرنا ایک سا ہو کر پڑھنے والے کے بدن میں سنسنی اچھال دیتا ہے۔ دھان کے بورے کی دیواروں سے چھن چھن کر اندر آنے والا منظر اور چاند کے چھن چھن سکے جو آنکھ کے کٹوروں سے ساتھ صوتی تصویر بناتا ہے۔

 بجا کہا گیا کہ فنی اعتبار سے نظم بہت گتھی ہوئی ہے۔ سطریں یا تو بولتی ہوئی ہیں یا تصویریں بناتی ہیں۔ پھر قوافی کا اہتمام بھی خاص مگر مانوس صوتیات کے ساتھ موجود ہے، جان الجھتی ہے کا جان، قبل ازیں سطر کے آسان اور دھان کی صدا معدوم نہیں ہونے دیتا۔ ” آگ جلائے کون”، "انگارے دہکائے کون” اور”پھول کھلائے کون” بھی اسی طرح کے صوتی قرینے ہیں۔ "سفر آسان نہیں ” اور پھر”آج سفر آسان نہیں ” اور آخر میں ایک بار پھر” سفر آسان نہیں ” کی تکرار جہاں معنوی سطح پر بہت اہم ہے وہیں اس صوتی آہنگ میں ایک حسن کی صورت بھی ہو جاتی ہے۔ سو انہی لسانی حیلوں نے متن کے اندر محض معنی کے کثیر دھارے ہی رواں نہیں کیے، ان کے اندر ایک چکا چوند بھی جگا دی ہے جو خارجی اسٹرکچر میں نظم نگار کے اپنے مزاج سے ہم آہنگ ہو گئی ہے۔ (جاری ہے )

محمد حمید شاہد: یہیں مجھے ان سب احباب کا شکریہ ادا کرنا ہے جو اس فورم پر آئے، اور نظم کی تفہیم میں اپنا حصہ ڈالا، ظفر سید، علی محمد فرشی، زکریا شاذ، محمد یامین، جلیل عالی، الیاس ملک، تصنیف حیدر، علی ارمان، ارشد لطیف، یشب تمنا، تسنیم عابدی، ضیا ترک، نسیم سید، حمیدہ شاہین اور ان دوستوں کا بھی کہ جو مکالمہ پڑھتے رہے، اسے لائیک کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ باقی رہے اپنے محترم ستیہ پال آنند جنہیں میں نے محبت سے نظم پر بات کرنے کی استدعا کی تھی مگر بہ قول ساقی ’ظالم نے نظم پر کم اور دوسری چیزوں پر زیادہ بات کی ہے۔ ، اس باب میں زکریا شاذ نے جو کہا وہی درست ہے :” جناب آنند صاحب کی فکر انگیز گفتگو اول و آخر پڑھ کر یہ احساس شدت کے ساتھ ہوا کہ آپ نے نظم پر براہ راست اور سنجیدگی سے کچھ بھی نہیں کہا۔۔ حالانکہ وہ اس محفل میں موضوع ہی کے توسط سے تشریف لائے تھے۔۔۔ مگر افسوس کہ ہمیں وہ اس سعادت سے بہرہ مند نہ کر سکے۔۔ "

 مجموعی طور پر دوستوں نے بہت کار آمد باتیں کیں۔ جس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔

 احباب گرامی، آخر میں ایک بات اور، یہ بات ایسی ہے کہ تخلیقی عمل کے دوران ہمارے تجربے کا حصہ بنتی آئی ہے، تخلیقی عمل کے دورانیے میں لکھنے والا ڈھنگ سے گمان بھی نہیں باندھ سکتا کہ وہ مظاہر، سانحات یا محسوسات جنہوں نے اس کے باطن میں ابال پیدا کیا اور ہیجان اٹھایا تھا، جب فن پارے میں ڈھلیں گے تو کیا صورت اختیار کریں گے۔ پھر لکھتے سمے وہ تو ویسا ہوتا ہی نہیں ہے، جیسا کہ عام زندگی میں ہمارے مشاہدے میں آتا ہے۔ ایسے میں تجربہ امیج میں ڈھل رہا ہو یا ردھم پوئٹک پیٹرن ڈھال رہا ہو، وہ بہت زیادہ ریشنل ہو کر سوچ رہا ہوتا ہے نہ عالم فاضل اور محقق بن کر۔ تاہم اس سارے عمل میں فن پارہ مکمل اور بامعنی تب ہی ہوتا ہے کہ تخلیق کے اس جادوئی عمل میں کہ جب شاعر کا شعور، تحت الشعور اور لاشعور ایک حیلے کا جال بن رہے ہوتے ہیں ، تو اسی جال کے تانے بانے میں دیکھے بھالے مظاہر، سہے برتے سانحات اور علم و فضل اور تحقیقی اثاثے کے "جن” کو” مکھی” بنا کربُن دیتا ہے۔ یوں کہ ایک غیر متحرک مرکز کے گرد سیال اور لازمانی معرفت کو وجود میں لانے والا گہرا ربط وجود میں آ جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی فن پارے میں یہی ربط نامیاتی وحدت کی صورتیں بناتا ہے اور بہ ظاہر عام سی لسانی تراکیب کی مدد سے متن کے افق پرجمالیات کی دھنک اچھالنے کی سکت رکھتا ہے۔ مجھے اس بات کی جانب یوں آنا پڑا کہ جب ساقی کی نظم اور اس کے شخصی تجربے کا قصہ طول کھینچ رہا تھا توایک طرف اسے سرے سے لائق اعتنا نہیں جانا جا رہا تھا تو دوسری طرف اسے تخلیقی تجربے کی تفہیم کے واحد ٹول کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیق کار کی شخصی زندگی اور اس کے عمومی تجربے اور تخلیقی تجربے کے بیچ جو لطیف تعلق ہوتا ہے نہ تو اس سے انکار کیا جا سکتا ہے نہ کلی طور پر اس پر انحصار کیا جانا چاہیے۔ یوں دیکھیں تو خالی بورے والا زخمی بلا، نظم کے اندر بعنیہ ویسا نہیں رہتا جیسا کہ ساقی فاروقی نے نظم کے باہر، اپنے ملنے والوں کو بتا رکھا ہے۔ اور اس کے اندر وہ سارے معنی، کہیں مکمل اور کہیں جزوی ظاہر ہوتے رہے ہیں جو اس مکالمہ کے دوران نشان زد ہوئے۔ ساقی فاروقی کے شکریہ کے ساتھ میں اس اجلاس کے ختم ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اگلے اجلاس کے بارے میں جلد اطلاع دے دی جائے گی۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید