FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نئی نظم کے معمار: اختر الایمان

فیس بک کے گروہ ’حاشیہ‘ کا ایک آن لائن مباحثہ

               محرک: ظفر سید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید


‎‎‎

کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام

               اختر الایمان

جب دن ڈھل جاتا ہے ، سورج دھرتی کی اوٹ میں ہو جاتا ہے

اور بھڑوں کے چھتے جیسی بھن بھن

بازاروں کی گرمی، افراتفری

موٹر، بس، برقی ریلوں کا ہنگامہ تھم جاتا ہے

چائے خانے ناچ گھروں کے کم سِن لڑکے

اپنے ہم سِن معشوقوں کو

جن کی جنسی خواہش وقت سے پہلے جاگ اُٹھی ہے

لے کر جا چکتے ہیں

بڑھتی، پھیلتی، اونچی ہمالہ جیسی تعمیروں پر خاموشی چھا جاتی ہے

تھیٹر تفریح گاہوں میں تالے پڑ جاتے ہیں

اور بظاہر دُنیا سو جاتی ہے

میں اپنے کمرے میں بیٹھا سوچاکرتا ہوں

کتَوں کی دُم ٹیڑھی کیوں ہوتی ہے

یہ چتکبری دُنیاجس کا کوئی کردار نہیں ہے

کوئی فلسفہ، کوئی پائندہ اقدار نہیں، معیار نہیں ہے

اس پر اہلِ دانش، ودوان، فلسفی

موٹی موٹی ادق کتابیں کیوں لکھا کرتے ہیں؟

فُرقت ؔ کی ماں نے شوہر کے مرنے پر کتنا کہرام مچایا تھا

لیکن عدَت کے دن پورے ہونے سے اک ہفتہ پہلے

نیلم ؔ کے ماموں کے ساتھ بدایواں جا پہنچی تھی

بی بی کی صحنک، کونڈے ، فاتحہ خوانی

جنگ صفین، جمل اور بدر کے قصَوں

سیرت نبوی، ترک دُنیا اور مولوی صاحب کے حلوے مانڈے میںکیا رشتہ ہے

دن تو اُڑ جاتے ہیں

یہ سب کالے پر والے بگلے ہیں

جو ہنستے کھیلتے لمحوں کو

اپنے پنکھوں میں موند کے اوجھل ہو جاتے ہیں

راحت جیسے خواب ہے ایسے انسانوں کا

جن کی اُمیدوں کے دامن میں پیوند لگے ہیں

جامہ ایک طرف سیتے ہیں دوسری جانب پھٹ جاتا ہے

یہ دُنیا لمحہ لمحہ جیتی ہے

مریمؔ اب کپڑے سیتی ہے

آنکھوں کی بینائی ساتھ نہیں دیتی اب

اور غضنفرؔ جو رومَال میں لڈَو باندھ کے اس کے گھر میں پھینکا کرتا تھا

اور اس کی آنکھوں کی توصیف میں غزلیں لکھوا کر لایا کرتا تھا

اُس نے اور کہیں شادی کر لی ہے

اب اپنی لکڑی کی ٹال پہ بیٹھا اپنی کج رائی اور جوانی کے قصَے دوہرایا کرتا ہے

ٹال سے اُٹھ کر جب گھر آتا ہے

بیٹی پر قدغن رکھتا ہے

نئے زمانے کی اولاد اب ویسی نہیں رہ گئی

بدکاری بڑھتی جاتی ہے

جو دن بیت گئے کتنے اچھَے تھے !

برگد کے نیچے بیٹھو یا سولی چڑھ جاؤ

بھینسے لڑنے سے باز نہیں آئیں گے

موت سے ہم نے ایک تعاون کر رکھَا ہے

سڑکوں سے ہر لمحہ اک میَت جاتی ہے

پس منظر میں کیا ہوتا ہے ، نظر کہاں جاتی ہے

سامنے جو کچھ ہے رنگوں آوازوں چہروں کا میلا ہے !

کرگل اُڑ کر وہ پلکھن پر جا بیٹھی

پیپل میں توتے نے بچَے دے رکھَے ہیں

گُلدم جو پکڑی تھی کل بے چاری مر گئی

نجمہ ؔ کے بیلے میں کتنی کلیاں آئی ہیں

پھولوں کی خوشبو سے کیا کیا یاد آتا ہے

یہ جب کا قصَہ ہے سڑکوں پر نئی نئی بجلی آئی تھی

اور مجھے سینے میں دل ہونے کا احساس ہوا تھا

عید کے دن ہم نے لٹھَے کی شلواریں سلوائی تھیں

اور سویَوں کا زردہ ہمسائے میں بھجوایا تھا

سب نیچے بیٹھک میں بیٹھے تھے

 میں اُوپر کے کمرے میں بیٹھا

کھڑکی سے زینب ؔ کے گھر میں پھولوں کے گچھَے پھینک رہا تھا

کل زینب ؔ کا گھر نیلام ہو رہا ہے

 سرکاری تحویل میں تھااک مدَت سے !

شاید پت جھڑ کا موسم آپہنچا

 پتوں کے گرنے کی آواز مسلسل آتی ہے

چیچک کا ٹیکہ بیماری کو روکے رکھتا ہے

ضبطِ تولید، اسقاط وغیرہ

انسانی آبادی کو بڑھنے سے روکیں گے

بندر نے جب سے دو ٹانگوں پر چلنا سیکھا

 اس کے ذہن نے حرکت میں آنا سیکھا ہے

 پتوں کے گرنے کی آواز مسلسل آتی ہے

 سڑکوں پر روز نئے چہرے مِلتے ہیں

 موت سے ہم نے ایک تعاون کر رکھَا ہے

 پس منظر میں نظر کہاں جا تی ہے

پھولوں کی خوشبو سے کیاکیا یاد آتا ہے

 چوک میں جس دن پھول پڑے سڑتے تھے

خونی دروازے پر شہزادوں کی پھانسی کا اعلان ہوا تھا

یہ دنیا لمحہ لمحہ جیتی ہے

 دلَی کی گلیاں ویسی ہی آباد شاد ہیں سب

 دن تو کالے پر والے بگلے ہیں

 جو سب لمحوں کو

 اپنے پنکھوں میں موند کے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں

 چاروں جانب رنگ رنگ کے جھنڈے اُڑتے ہیں

 سب کی جیبوں میں انسانوں کے دُکھ درد کا درماں

 خوشیوں کا نسخہ بندھا پڑا ہے

لیکن ایساکیوں ہے

 جب نسخہ کھلتا ہے

 1857 آ جاتا ہے

 1947آ جاتا ہے

٭٭٭

 

ظفر سیّد: : حاضرینِ کرام: نظم پیش کر دی گئی ہے ۔ اب جناب صدر سے گذارش ہے کہ وہ مسند سنبھال لیں اور ابتدائیہ نگار کو دعوت دیں۔

محمد حمید شاید: احباب حاشیہ، نظم کے معمار کے سلسلہ کے تحت اجلاس کا آغاز ہو چکا۔ بہت اہم اجلاس ہے کہ اس بار اختر الایمان کی نظم” کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام” پر بات ہو گی۔ اجلاس کا دورانیہ دو ہفتے کا ہو گا، تاہم اگر اراکین چاہیں گے اور گفتگو باقی ہو گی تو اس مدت میں توسیع بھی ممکن ہے ۔ جناب احتشام علی صاحب کو دعوت دی جا تی ہے کہ وہ ابتدائیہ عطا فرمائیں۔

احتشام علی: کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام : ابتدائیہ (جزو 1)

    جنابِ صدر! یہ امر جدید اردو نظم کے ہر سنجیدہ قاری کے لیے اطمینان کا باعث ہے کہ اربابِ حاشیہ نے اس اجلاس کے لیے اختر الایمان جیسے اہم لیکن قدرے فراموش کیے ہوئے نظم نگار کا انتخاب کیا ہے ۔ میں اس نظم پر ابتدائی گفتگو کے آغاز میں اختر الایمان کی نظموں کی شعریات پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس نظم کو اُن کی 60 سالہ نظم نگاری کے سیاق اور تناظر میں دیکھنا قاری کے لیے آسان ہو جائے ۔ اختر الایمان نے جس زمانے میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا وہ دور اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی مخصوص ہاؤ ہو کے عروج کا زمانہ تھا اور اکثر شعرا مارکسی نظریات کے زیرِ اثر مظلوموں، لاچاروں اور مزدوروں کے دکھوں کو اپنی شاعری میں سموئے ہوئے فرد کی ذات اور وجود سے بے خبر ہوئے بیٹھے تھے ، ایسے میں اختر الایمان کا پہلا شعری مجموعہ "گرداب” کے نام سے 1943ء میں منظرِ عام پر آیا مگر اس مجموعے کی تہ دار اور سنجیدہ نظموں میں مذکورہ عہد کے ہیجانی مزاج کی تسکین کے لیے بہت کم سامان موجود تھا۔ اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو "گرداب” محض اپنی ذات اور روح کے گرداب میں پھنسے ہوئے انسان کا المیہ نہیں تھا بلکہ اختر کے ہاں ابتدا ہی سے انہدام پذیر معاشرتی قدریں، حق اور باطل کے درمیان جاری جنگ، وقت کی بے رحمی، انسان کے ظاہر اور باطن میں حائل بعد، تہذیب کی گراوٹ اور عصری شعور کی پرچھائیاں ایک علاحدہ منظرنامہ تشکیل دے رہی تھیں اوراس تمام منظر نامے کو شاعر نے اپنے داخلی اور وجودی کرب سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نظموں کے متن میں اس طرح سمو چا تھا کہ وہ مذکورہ عہد کی زندہ دستاویز بن گئی تھیں۔ "گرداب” کی نظموں کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ:

    "اردو کے کسی اور نظم گو شعرا کے ہاں روح کا کرب اور اضمحلال اس شدت کے ساتھ نہیں ابھر سکا جس شدت کے ساتھ گرداب کی نظموں میں ابھرا "

احتشام علی: کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام : ابتدائیہ (جزو 2)

    جنابِ  صدر! مذکورہ نظم کو بھی اگر مندرجہ بالا معروضات کے سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے تو اضافی بات یہ ہو گی کہ اس نظم کی داخلی ساخت میں موجود بیانیے کا تفاعل اورلسانی بندشوں کو بالائے طاق رکھ کر اختیار کیا گیا اسلوب اختر الایمان کی ساٹھ کی دہائی کے بعد لکھی جانے والی نظموں کا ایک نمایاں جُزو ہے ۔ خاص کر 1961 ء میں "یادیں "کی اشاعت کے بعد اختر کی نظموں میں کہانی کا عنصر ایک غالب رجحان کے طور پر سامنے آیا اور اُن کی اکثر کامیاب نظموں کی زیریں ساخت میں بیانیے کی کارفرمائی کو نشان زد کیا جا سکتا ہے مثلاً "ایک لڑکا”، "کل کی بات”، "شیشے کا آدمی "، "بیداد”، "ڈاسنہ سٹیشن کا مسافر "، "مفاہمت "، "تحلیل "اور "دلی کی گلیاں "جیسی سامنے کی نظموں سے اگر بیانیے کے تفاعل کو منہا کر دیا جائے تو مذکورہ نظموں کا وجود ہی باقی نہیں رہے گا۔ مذکورہ نظم کی داخلی ساخت بھی بیانیے پر ہی استوار کی گئی ہے نیز بیانیے کو اکہریت سے بچانے کے لیے لسانی اوراستعاراتی سطح پر ایسے امیجز ابھارے گئے ہیں جو غیر مانوس معلوم ہونے کے باوجود، حسـیاتی سطح پر فعال ہوکراُداسی کی ایک نئی بوطیقا تشکیل دیتے ہیں، نظم کی قرات کے بعد ادب کا ہر حساس قاری داخلی سطح پر تقلیب کے عمل سے گزر کر ایک نامعلوم افسردگی سے ہمکنار ہو جاتا ہے ۔ نظم میں اُبھارے گئے مختلف النوع امیجز کو مدِ نظر رکھیں تو اختر الایمان کی شاعری کی بابت ابوالکلام قاسمی کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ:

    "اختر الایمان کے طنزیہ لہجے کا ایک بہت موثر اور طاقت ور انداز بعض بد ہئیت پیکروں (Grotesque Images) کی  مدد سے تاثر کی شدت کو ابھارنا ہے ۔ "

    اس نظم میں بھی "موٹر، بس، برقی ریلوں کے ہنگامے "، "بھڑوں کے چھتے جیسی بھن بھن”، "کتوں کی ٹیڑھی دُم”، "چتکبری دُنیا”، "ادق کتابیں”، "لکڑی کی ٹال”، "بھینسے "، "چیچک کا ٹیکہ "اور” خونی دروازے "جیسے امیجز

گروہ ’حاشیہ‘ کے آن لائن مباحثے بظاہر خارجی تنظیم سے عاری نظر آتے ہیں لیکن نظم کا متکلم شعور کی رو کے ذریعے مختلف النوع بیانیوں کو انھی غیر مانوس اور بد ہئیت پیکروں کی مدد سے متن کی کُلی ساخت میں حل پذیر کر دیتا ہے ۔ نشان خاطر رہے کہ نظم کی جدید شعریات کی رو سے نظم کا متکلم خود شاعر نہیں بلکہ محض ایک شعری تشکیل ہوتا ہے لہٰذا متن میں موجود مختلف کرداروں اور واقعات کو شاعر کے سوانحی خاکے سے خلط ملط کرنا متن کو پابند کرنے کے مترادف ہے ۔ نظم کے متن کی بات چلی تو مذکورہ نظم کی تفہیم کے لیے نظم کے متن کے ساتھ ساتھ ورائے متنPara text کی کارفرمائی کو بھی نشان زد کرنا از حد ضروری ہے ۔ مشہور فرانسیسی نقاد ژراژینث (Gerad Genette)جس نے ورائے متن کا نظریہ پیش کیا اُس کے بقول متن سے باہر یا بعد میں وجود پذیر ہونے والی تحریریں بھی متن پہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں وہ متن کے عنوان، پیش لفظ، سرِ ورق اور پسِ ورق تحریروں کو Peritext کے نام سے متن کی معنیاتی سطح پہ فعال دیکھتا ہے ، اگر ورائے متن کے مندرجہ بالا تناظر میں نظم کے عنوان”کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام”کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے توسفید اور سیاہ کے تثنیثی مخالفBinary Oppositesایک طرف تو ہمارے معاشرے کے دوہرے معیارات اور اقدار کی نشان دہی کر کے نظم کی گرہ کشائی کے لیے کلید فراہم کرتے ہیں اور دوسری طرف پرندہ وقت کی جبریت اور تسلسل کی علامت کے طور پر اپنا ادراک کراتا ہے ۔ یہاں لفظ شام کو اگر افتراقِ  معنی (جسے دریدا Difference قرار دیتا ہے )کی رُوسے دیکھا جائے تو اس کی معنوی تہ داری اندھیرے اور اجالے کے سنگم اور انسانی وجود کے گرد پھیلے دھندلکوں کی عکاس ہے ۔

    تقسیمِ ہند کے بعد اختر کی شاعری میں وقت کے جبر اور ہولناکی ایک نئے تناظر میں اُبھر کر سامنے آئی ہے مذکورہ نظم کی زیریں ساخت میں بھی وقت ایک منفی کردار کے روپ میں تہذیبی اور معاشرتی سطح پر فرد کی زندگی کو تلپٹ کرتا نظر آتا ہے گو یہاں” وقت "سفاکی اور جبریت کی علامت کے طور پر "باز آمد ” کے "رمضانی قصائی "کی طرح موجود نہیں ہے لیکن اس کی موجودگی کو متن کے اندر ایکState of fluxمیں محسوس کیا جا سکتا ہے ۔

    مذکورہ نظم اپنے کھردرے اسلوب، نثر سے قریب تر مصرعوں، ناہموار ڈکشن اور غیر رومانی فضا کے باوجود ہمارے اردگرد بکھرے مختلف مظاہر مثلاً گوشت پوست کے عام انسانی کرداروں سے لے کر ہند اسلامی تہذیب کے زوال، بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت، انحطاط پذیر قدروں، تاریخ کے گہرے جبر، نئی اور پرانی نسلوں کے درمیان بڑھتی خلیج، مختلف اساطیری عناصر اور وجودی کرب کو اپنے دامن میں سمیٹے شاعر کی فکری بلند پروازی اور تہذیب و معاشرت کے گہرے شعور کی عکاسی کرتی ہے نیزاس کا کثیر ابعاد متن اپنی تفہیم کے لیے قاری کے کامل ارتکاز اور تحسین و تنقید کے نئے سانچے وضع کرنے پر اصرار کرتا ہے ۔

محمد حمید شاید: بہت شکریہ جناب احتشام علی۔

    احباب حاشیہ! عین آغاز میں اتنی باتیں کہہ دی گئی ہیں کہ نظم” کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام” پر اور نظم کہنے کا جو قرینہ اختر الایمان نے اپنے لیے وضع کیا، اس پر بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے ۔ ابتدائیہ نگار نے مکالمہ کو تحریک دینے کے آغاز میں کچھ علاقے نشان زد کر دیے ہیں :

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اختر الایمان نظم کے "اہم” شاعر ہیں لیکن "قدرے فراموش کیے ہوئے نظم نگار” ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنے اہم شاعر ہیں، اپنے ہم عصروں کے مقابلہ میں؟، اور کیوں فراموش ہوئے / کر دیے گئے ؟۔

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اختر الایمان نے ترقی پسند تحریک سے الگ اپنا تخلیقی چلن ڈھالا۔ اپنے زمانے کے اکثر شعرا کی طرح مارکسی نظریات کے زیرِ اثر، فرد کی ذات اور وجود سے کوئی علاقہ نہ رکھنے والی اور مظلوموں، لاچاروں اور مزدوروں کے دکھوں کو بلند آہنگی سے یاد کرنے والی شاعری سے الگ، تخلیقی مزاج رکھنے والی اختر الایمان کی نظموں میں بہ قول ابتدائیہ نگار، تہ داری اور سنجیدگی تھی، ہیجان نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ترقی پسندوں سے کتنے مختلف ہوئے ؟ بہ طور خاص وہاں جہاں انہیں ترقی پسندوں کو مرغوب ہو جانے موضوعات کو اپنی نظم میں لا نا ہوتا تھا ؟

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    ابتدائیہ نگار نے نظم پر بات کرنے کا ایک سیاق بنایا اوراس نظم کی داخلی ساخت میں موجود بیانیے کا تفاعل اورلسانی بندشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کے اسلوب پر بات کو اہم قرار دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کوئی بھی فن پارہ اپنی داخلی ساخت اور لسانی بندشوں سے کٹ کر کوئی اسلوب بنا پاتا ہے ؟

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اختر کی اکثر کامیاب نظموں میں کہانی کا عنصر ایک غالب رجحان بنا اگر ایسی نظموں سے بیانیے کے تفاعل کو منہا کر دیا جائے تو نظموں کا وجود ہی باقی نہیں رہے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہانی کا نظم پر اتنا غلبہ؟؟؟، کیا یہ کہانی سے قربت کا شاخسانہ تھا یا تخلیقی نارسائی جو نظم کے وسیلے سوچنے اور انہیں بروئے کار لانے کی طرف راغب نہیں ہو نے دیتی تھی ؟۔

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    نظم کی داخلی ساخت بھی بیانیہ ہے ۔ بیانیے کو اکہریت سے بچانے کے لیے غیر مانوس امیجز ابھارے گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس باب کی مثالیں ضرور نشان زد کی جائیں، بہ طور خاص ایسی، جو نظم کی اثر انگیزی( نظم کے بہاؤ میں بغیر کوئی رخنہ ڈالے ) بڑھا نے سبب ہو رہی ہوں۔

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    نظم حسّیاتی سطح پر فعال ہوکراُداسی کی ایک نئی بوطیقا تشکیل دیتی ہے ہیں، ایک نامعلوم افسردگی،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی نئی بوطیقا؟ اور نامعلوم کیوں ؟ جب کہ دکھائے جانے والے سارے مناظر معلوم کے گھرانے سے لیے گئے ہیں ؟

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    نظم کے اکثر امیجز بظاہر خارجی تنظیم سے عاری نظر آتے ہیں لیکن نظم کا متکلم غیر مانوس اور بد ہئیت پیکروں کو متن کی کُلی ساخت میں حل کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے ؟ اس پر بات ہو سکتی ہے

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    نظم کے متکلم کو شاعر سے کلی طور کاٹ کر، الگ تھلگ کر کے کیوں دیکھا جائے ؟ شاعر میں اور بھاڑا لے کر کوئی تحریر لکھنے والے محرر میں کوئی تو فرق ہوتا ہو گا، اور یہ فرق کیا شاعر کا اپنا وجود اور اس کے تخلیقی وجود سے متشکل ہونے والا آہنگ نہیں ہوتا ؟

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    مذکورہ نظم اپنے کھردرے اسلوب، نثر سے قریب تر مصرعوں، ناہموار ڈکشن اور غیر رومانی فضا کے باوجود ہمارے اردگرد بکھرے مختلف مظاہر کو بیان کرنے کے باوجود وجودی کرب کو گرفت میں لیتی ہے ، فکری بلند پروازی اور تہذیب و معاشرت کے گہرے شعور کی عکاس ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فکری بلندی بالعموم امید سے فرد کا رشتہ جوڑتی ہے کہ اس کے پاس اداسی سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ اسی "بلندی پروازی” میں اوپر سے دیکھنے کے سبب نکل آیا کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں یہ متضاد باتیں تو نہیں۔ اگر ہیں تو نظم میں یہ کیسے قوت بن کر ظاہر ہوئیں؟؟؟

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    نظم کا کثیر ابعاد متن اپنی تفہیم کے لیے قاری کے کامل ارتکاز اور تحسین و تنقید کے نئے سانچے وضع کرنے پر اصرار کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جناب حاشیہ تو اسی مقصد کے لیے ہے ، آگے بڑھیے اور بات کو آگے بڑھائیے ۔

تصنیف حیدر: جناب صدر!کل شام کو میں نے حاشیہ پر موجود اختر الایمان کی نظم پڑھی اور احتشام حسین کا ابتدائیہ اور آپ کی باتیں پڑھنے کے بعد سوچا کہ اسی وقت کچھ لکھوں مگر پھر سوچا کہ تھوڑا غور و خوض کرنے میں کیا حرج ہے ۔ اختر کی اس نظم کا جو تاثر ابھی قائم ہوا ہے ، اس پر ذرا کچھ ٹھہر کر، رک کر اور پہلو بدل کر سوچتے ہیں، شاید تاثر بدلے اور نظم کی جیب سے کھنکھناتے ہوئے معنی کے سکے اچھل اچھل کر باہر گرنے لگیں، رات میں دوبارہ نظم پڑھی اور اب سہ بارہ پڑھنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ اس پوری بحث میں اگر میری بات مجھے خود ہی بے ہودہ معلوم ہوئی تو بقول عسکری صاحب بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنا موقف بدل لوں گا۔ اول بات تو یہ کہ مجھے اختر الایمان کچھ بہت زیادہ پسند نہیں ہیں، صرف اس لیے نہیں کہ قصہ کہانی اور sensationalانجام نظم پر ان کی توجہ مرکوز ہوتی ہے ، وجہ یہ ہے کہ میں ایسی شاعری کو زیادہ پسند نہیں کرتا، جو نتیجے کے طور پر قنوطیت یا رجائیت دونوں کے معاملے میں اکہری ہوں۔ اختر الایمان کی زیادہ تر شاعری انسان کی بے بسی اور destitutenessکا بکھان ہونے کے علاوہ بہت کچھ نہیں ہے ۔ اب اسے آپ ایک طور پر فنی سطح پر کچھ مارکس تو دے سکتے ہیں مگر نظم کے چوکھٹے میں جب تک معنی کے ابعاد پیدا کرتے وہ نقطے نہ پائے جائیں جو جدید نظم کی پیداوار ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ ان میں پابند نظموں کی سیدھی سیدھی سمانتا کے علاوہ اور کچھ بھی ہو پھر خواہ وہ ان کی مشہور زمانہ نظم ایک لڑکا ہو، قبر ہو، تبدیلی ہویا کچھ اور۔ آپ کہیں گے کہ یہاں اختر کی نظموں کو میں نے ڈی کوڈ کرنے میں شاید کچھ عجلت سے کام لیا ہے ، مگر ایسا نہیں ہے ۔ مجھے یہ نظمیں اپنے مطالعاتی دور کی ابتدا میں بڑی اچھی لگتی تھیں۔ اب اسی نظم کو لیجیے ، لفظوں کا جال پھیلا کر قاری کو اس میں ایک طرح کے ٹرانس کا شکار کرنا ہی اگر مقصد ہے تو یہ کام جوش سے بہتر کس نے کیا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ شروع شروع میں میں نے خود اس طرح کی نظمیں کہنا شروع کی تھیں جن میں ایک طرح کا لفظی تسلسل قائم کرنے کا اہتمام کیا جاتا، یہ بہت آسان کام ہے ، اس میں کوئی ایسی شاعرانہ باریکی اور فکر ی جدو جہد کی ضرورت نہیں ہے ۔ پھر ابتدا سے لے کر آخر تک نظم اسی طرح کی موزوں گوئی اور لفظی تسلسل کی وجہ سے اس مقام سے بھٹکنے لگتی ہے جس کو اس نے ابتدا میں اپنا معنوی مقصود بنایا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زیر بحث نظم بھی شروع ہوتی ہے شام کے ڈھلتے ہوئے ایک منظر سے جہاں شاعر کی فکری کج روی اسے بہت سارے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزارتی ہے اور آخر تک آتے آتے وہ انیس سو سینتالیس کی اسی تقسیم کا رونا رونے لگتا ہے جس کو انسانی جبلت کے ایک گھناؤنے ہی سہی مگر خونخوار رنگ یا شیڈ کے حوالے سے مزید نزدیک سے دکھایا جا سکتا تھا۔ اختر کی نظموں میں ایک خاص قسم کا الجھاؤ ہے ، یعنی کہ ایک لڑکا نظم کے بارے میں خود ان کا بیان ہے کہ اکثر مجھے ایک مصرع سجھائی دیتا تھا، وہ لڑکا پوچھتا ہے اختر الایمان تم ہی ہو، اور ایک دن میں نے کاغذ قلم سنبھالا اور نظم بن دی۔ ایسا نہیں ہوتا، حاصل یہ ہوا کہ پوری نظم میں سوائے اس کے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ہے ’ایک لڑکے نے زندگی کی سختیوں کے آگے اپنے جوش و ولولے کو ایک طرف رکھ کر اس سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور اس سمجھوتے پر اس کا ضمیر اسے اکثر ملامت کرتا رہتا ہے ۔ ‘ اس طرح کی جذباتی قصہ گوئی ڈائجسٹوں میں عورتیں پڑھتی ہیں، ادب کا طالب علم کیوں پڑھے ۔ کسی جنازے کو دیکھ کر ایک بچے کا اپنے باپ سے یہ سوال پوچھنا کہ اس آدمی کو کہاں لے جایا جارہا ہے اور جواب میں باپ کا کہنا کہ اسے ایسی جگہ لے جایا جارہا ہے جہاں نہ کھانا ہے ، نہ پانی ہے ، گھر میں اندھیرا رہتا ہے وغیرہ وغیرہ تو جواب میں بچے کا معصومیت سے پوچھنا کہ کیا اسے ہمارے گھر لے جایا جارہا ہے ، یا پھر دنیا پر تسلط پانے کے ناکام خواب کو دیکھ کر جھنجھلاجانے سے ایک شخص کا سمندر میں پیشاب کر دینا، یہ سب ایک sadistرویے کی نمائندگی کرنے والی نظمیں ہیں، معاف کیجیے گا مگر آج کل ایسے قصے فیس بک اور موبائل میسیجز پر بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتے ہیںء سوال یہ ہے کہ ان میں ادبیت کیا ہے ، ان میں زندگی کے مظہر کا ایک رخ منہ پھاڑے کیوں کھڑا ہے ، ان میں جدید نظموں والی وہ بات کہاں ہے جو شاعر کے تحریر کیے گئے متن سے قاری کو علیحدہ کر کے بھی الگ نہ کرے ۔ مجھے اگر لفظوں کے جاہ و حشم اور ایجاب و قبول سے ہی علاقہ ہے تو میں اقبال اور جوش کو ہی کیوں نہ پڑھ لوں کہ ان کے یہاں کم از کم علم زیادہ ہونے کی وجہ سے الفاظ کی کھپت تو اختر سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ ابھی صرف اتنا باقی دوستوں کے کچھ کہنے سننے پر۔ ۔ ۔ ۔

محمد حمید شاید: بہت شکریہ تصنیف ! آپ کا اس نظم پربل کہ اختر الایمان کی نظم نگاری پر کامنٹ بہت شدید سوالات لے کر آیا ہے :

    1۔ آپ نے کہا ” اختر الایمان آپ کو کچھ زیادہ پسند نہیں ہیں” گویا کسی کم ترسطح پر پسند ہیں، اگرایسا ہے تو اس کم ترسطح/ معیار کو نشان زد فرمائیں تاکہ وہاں سے نظم پر بات آغاز ہو سکے ؟

    2۔ آپ نے فرمایا” اختر الایمان کی زیادہ تر شاعری انسان کی بے بسی اور ڈیسٹیٹیوٹنس کا بکھان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے "۔ اور یہ کہ ” فنی سطح پر کچھ مارکس تو دے سکتے ہیں”۔ گویا موضوع پر نہیں فنی خوبیوں پر بات ہو سکتی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو وہ فنی محاسن نشان زد ہونا چاہئیں

    3۔ آپ اسے جدید نظم نہیں مانتے کیوں کہ اس میں” معنی کے ابعاد پیدا کرنے والے وہ نقطے نہیں جو "جدید نظم کی پیداوار” ہیں۔ کیا اس بنیاد پر ہم اختر الایمان کی ساری نظموں کو رد کر سکتے ہیں؟

    4۔ آپ نے کہا اس نظم میں "لفظوں کا جال پھیلا” کر قاری کو اس کے ٹرانس میں لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کیا شاعری کا ایک مقصد اپنے قاری کے جذبوں کو بیدار کرنا نہیں ہوتا۔ اور کیا نظم لفظوں کی مناسب ترین ترتیب کے سوا کچھ ہوتی ہے ؟

    5۔ ۔ آپ نے فرمایا ” ابتدا سے لے کر آخر تک نظم موزوں گوئی اور لفظی تسلسل کی وجہ سے اس مقام سے بھٹکنے لگتی ہے جس کو اس نے ابتدا میں اپنا معنوی مقصود بنایا تھا” اور یہ کہ آپ نے شاعرانہ باریکی اور فکر ی جدو جہد کی بات کی۔ ان دونوں کے بیچ کچھ تناسب ہونا چاہیے کہ جہاں فکری جدوجہد شاعری رہے اور شاعرانہ باریکیاں فکر کے لیے رخنہ نہ بن جائیں۔ کیا فکری کج روی سے مملو شاعر اچھی نظم نہیں کہہ سکتا جب کہ اس کے پاس فن کی باریکیاں ہوں ؟ اور کیا نظم کو ہر صورت میں فکری طور پر مربوط ہو نا چاہئیے ؟

    6۔ اٹھارہ سو ستاون اور انیس سو سینتالیس اس نظم میں اہم اشارہ ہے ، آپ نے کہا "تقسیم کا رونا” اور”انسانی جبلت کا گھناؤنا پن” اور یہ کہ "یہ خونخوار رنگ یا شیڈ مزید نزدیک سے دکھایا جا سکتا تھا” اگر اختر نزدیک سے حوالہ چن لیتے تو کیا نظم، اس مواد کے ساتھ اور اس قرینے سے پھر بھی بن پاتی۔

    کئی اور سوالات بھی ہیں۔ ہم چاہ رہے ہیں کہ نظم کے متن اور اس کی جمالیات پر بات ہو مگر ہو یہ رہا ہے کہ سوالات کی تعداد بڑھ رہی ہے ؟ ان سوالات کے مقابل کون ہو گا،ہمیں اس مشکل سے کون نکالے گا؟

تصنیف حیدر: صدر محترم!

    کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ اختر الایمان کی اس نظم پر حاشیہ کے اجلاس میں بھی کچھ ویسا شور و غوغا نہیں ہے جیسا کہ اگلی نظموں کا ہوا کرتا تھا، میری دانست میں حاشیہ پر ہرگز برا وقت نہیں پڑا ہے ، جدید نظم پر لوگ بات کرنا چاہتے ہیں، لیکن یقیناً کچھ ایسی ترجیحات بھی لوگوں نے طے کر رکھی ہونگی کہ جدید نظم کے نام پر کسی بھی نظم پر بات کر لینا ان کے لیے شاید آسان نہ ہو۔ خیر! آپ نے مجھ سے اپنے پچھلے کمنٹ میں کچھ سوالات کیے ہیں، میں انتظار کر رہا تھا کہ شاید کوئی اور شخص بھی اپنے معروضات پیش کرے گا اور میں ساتھ ہی اپنی باتیں آپ سب کے گوش گزار کردوں گا، لائکس دیکھ کر اتنا تو اندازہو رہا ہے کہ بات ضائع نہیں جارہی ہے ، لوگ اسے پڑھ رہے ہیں، چنانچہ اب میں آپ کے سوالات کی جانب آتا ہوں۔

    آپ نے کہا کہ اختر الایمان مجھے بہت زیادہ پسند نہیں یعنی کہ کسی کم تر سطح پر پسند ہیں، تو میرا جواب یہ ہے کہ کسی کم تر سطح پر تو مجھے بہت سے ایسے لوگ بھی کبھی کبھار پسند آ جاتے ہیں جن کو میں بالکل پسند نہیں کرتا، ہاں اختر الایمان کبھی کبھار اچھی نظم پڑھنے سے اپنا ایک تاثر قائم کرتے ہیں، ان کی کچھ نظموں میں وہی غزل والی کیفیت موجود ہے ، جسے پڑھ کر نہ کوئی گہری بات سجھائی دیتی ہے اور نہ ہی وہ چونکنے ، روکنے پر مجبور کر پاتی ہے ، لیکن بس مزہ آ جاتا ہے ۔ میں ان کی تمام تر سنجیدہ شاعری کو اسی کیفیت والی شاعری نہ بھی کہوں تو ان اچھی اور جدید لب و لہجے کی نظموں کی تعداد اختر کے یہاں بہت زیادہ نہیں ہے ۔ ان کی ایک نظم ’اپاہج گاڑی کا آدمی‘ مجھے پسند ہے ۔ اس نظم میں اختر نے شروع سے لے کر آخر تک کئی بار جدید نظم کے تانے بانے بنے ہیں اور ان کے لگے بندھے اسلوب سے بھی اس نظم میں گاڑی کسی الگ پٹری پر اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، مثال کے طور پر اس نظم کی بحر بھی اختر کی انہی مانوس بحروں سے مختلف ہے جس میں ان کو مہارت ہے اور جن میں ایک بار پھر میں کہوں گا کہ مصرعے گڑھتے جانا کوئی ایسا کمال نہیں ہے ۔ اب اس نظم کا ایک بند سنیے

    میں بکھرا ہوا آدمی ہوں

    مری ذہنی بیماریوں کا سبب یہ زمیں ہے

    میں اس دن سے ڈرتا ہوں جب برف ساری پگھل کر

    اسے غرق کر دے

    نئے آسمانی حوادث

    صفر میں بدل دیں

    یا آدمی اپنے اعمال سے خود

    اسے ایک کہانی بنادے

    زمیں شورہ پشتوں کی آماجگاہ بن گئی ہے (جاری)

  تصنیف حیدر: حالانکہ اس نظم میں بھی زمین پر پھیلے فتنہ و فساد، اقتدار کی ہوس میں انسان کے خطہ ارضی کو برباد کرنے کی بہت سی ذیلی مصیبتیں بیان کی گئی ہیں، مگر بہرحال اس نظم میں ایک تسلسل ہے ، ایک سلیقہ ہے ، اس کی معنیاتی اکائی پر ایسا کوئی خاص سوال قائم نہیں ہوتا۔ نظم میں الفاظ کا زیر و بم ویسا ہی ہے ، مگر اس میں کچھ نئے پن کی بو ہے ، وہ نیا پن جو اختر کی نظموں میں بیشتر نہیں پایا جاتا۔ جیسا کہ ان دو مصرعوں میں بالخصوص نظر آتا ہے ۔

    میں اس زندگی کی بہت سی بہاریں غذا کی طرح کھا چکا ہوں

    پہن اوڑھ کر پیرہن کی طرح پھاڑ دی ہیں

    تو اس نظم میں اختر کا اسٹائل تھوڑا بہت نیا ہے ، ان کی جدید نظم کہنے کی کوشش یہاں کچھ کچھ کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ باقی تو جو کچھ ہے وہ ایک اسٹریو ٹائپ نظمیہ حوالے کے طور پر یاد رکھا جا سکتا ہے ۔ خیر بات ہو رہی تھی کم تر سطح پر پسند و ناپسند کی۔ تو جہاں شاعری کی بات ہو گی میں یہی کہوں گا کہ غالب و میر مجھے بے حد پسند ہیں، وحشت و عدم کچھ ایسے خاص پسند نہیں اور اختر رضا پہلوی(ایک فرضی شاعر کا نام)مجھے بالکل پسند نہیں۔ تو اب آپ خود بتائیے کہ اگر آپ مجھ سے پوچھ بیٹھیں کہ وحشت و عدم آپ کو ایسے خاص پسند نہیں، یعنی کچھ کچھ پسند ہیں تو اس معیار کی نشاندہی کیجیے تو میں جواباً یہی کہہ سکتا ہوں کہ بس کبھی کبھار ان کا کوئی شعر پسند آ جاتا ہے ، ورنہ اگر انہیں بھی لگاتار پڑھنا چاہوں تو مونوٹونس ہونے کی وجہ سے ان کے کلام سے بڑی اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے ، اور یہی حال نظم کی شاعری کے تعلق سے اختر الایمان کے مطالعے کے دوران ہوتا ہے ۔

    آپ کا دوسرا سوال ذرا سا عجیب ہے تاہم اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ فنی سطح پر کچھ مارکس دینے والا جملہ ہرگز ہرگز اختر الایمان کے حق میں نہیں جاتا، غالباً یہاں آپ نے لفظ ’کچھ‘سے شاید مثبت تاثر لیا ہے ، جبکہ میں نے خود آگے کہا ہے کہ ان کی شاعری میں معنوی ابعاد پیدا کرنے والے نقطوں کی کمی ہے ، یہ بات یک جہان روشن سی ہے کہ اختر الایمان اور مجید امجد یا اختر الایمان اور راشد و میراجی کی شاعری میں کتنا گہرا فرق ہے ۔ جیسے کہ میراجی لفظ کو بہت کھپا کر اس کی معنوی جہت بڑھا کر اسے نظم میں شامل کرتے ہیں، یا پھر ان کے شامل کیے گئے لفظوں؍سطروں(یا مصرعوں کہہ لیجیے )کے معنی بندھے ٹکے نہیں ہیں، ان میں ذہن معنی کو ٹٹولنے کی کوشش کرتا ہے ، اور یہ رویہ جدید نظم کی کامیابی کی علامت ہے ، میں اس نظم کے جدید ہونے کا منکر ہوں جس میں لفظ یا سطر یا بند صرف ایک گھسے پٹے مضمون تک ہی ذہن کی رہنمائی کرتا ہو، زمین پر ہونے والے عارضی خداؤں کے جبر و ظلم کے خلاف صحافی بہت اچھی طرح لکھ سکتا ہے ، آپ اس سے بہتر کمنٹ حالات پر نہیں کر سکتے ، شاعری سماجیات اور سیاسیات کی کھتونی بن کر رہ جائے ، یہ میری رائے میں تو جدید نظم کا ہرگز ہرگز منصب نہیں ہے ۔ اب جب کہ میں کہہ چکا ہوں کہ اختر الایمان کی نظم میں سوائے لفظوں کی جوڑ توڑ کے اور کوئی ایسا فنی کرشمہ نہیں ہے تو پھر آپ مجھ سے فنی محاسن کے بارے میں سوال کیسے کرسکتے ہیں، اگر نظم سے موسیقیت، موزونیت اور جبر و استدلال کے خلاف آواز اٹھانی یا ان کا رونا رونا ہی مقصود ہے تو پھر میں ایسی شاعری کو پسند نہیں کرسکتا۔ مجھے ان تمام رویوں سے ایسی کوئی چڑ نہیں ہے ، چڑ ہے تو بات کو صاف صاف کہنے سے ، نظم نگار کے یک رخی رویے سے ۔ حاشیہ جدید نظم کی تفہیم کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے ، اور اگر جدید نظم کے بارے میں ہی ہماری ترجیحات متعین نہیں ہیں تو پھر اس بحث کا کیا حاصل۔ صرف جمالیات پر ہی کیوں بات کی جائے ، جو چیز پسند نہ ہو، اسے رد کیوں نہ کیا جائے ۔ یہ بھی تو جدید نظم کے قاری کا حق ہے ۔ (جاری)

تصنیف حیدر: مجھے لگتا ہے کہ میں اوپر کہی گئی باتوں میں آپ کی تیسری بات کا جواب بھی دے چکا ہوں، پھر بھی واضح کہہ دیتا ہوں کہ اگر کسی شاعر کی تمام تر شاعری جدید نظم کے معیارات پر کھری نہیں اترتی تو اسے رد کر دینے میں مضائقہ ہی کیا ہے ۔ آخر ہم لوگ رد کرنے سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں۔ پسند و ناپسند کی بات نہیں، مگر اس پر غور ضرور کرنا چاہیے ۔

    یہ کیسی بات کہی آپ نے صدر صاحب کہ شاعری کا ایک مقصد اپنے قاری کے جذبوں کو بیدار کرنا بھی ہوتا ہے ، میں تو اس آدمی کے فن پر ہی شک کروں گا جس کا یہ مقصد ہو، قاری کے جذبوں کو بیدار کرنا یا تو ترقی پسندوں کا مقصد ہوسکتا ہے یا پھر بک اسٹال پر بکنے والے مصنفین وشاعر حضرات کا۔ ہم تو شاعری ایک خاصی فنی جہت کا لحاظ رکھتے ہوئے کرتے ہیں، اس میں قاری کب سے انوولو ہو گیا، قاری سے پوچھ کر اور اسے رائے لے کر یا اس کی ترجیحات کے حساب سے کس بڑے شاعر و ادیب نے قلم اٹھایا ہے ، اور جس نے ایسا کیا ہے وہ کتنا بڑا قلم کار ہے ، میں آپ سے یا اہل حاشیہ سے اس سوال کی وضاحت بھی چاہوں گا۔ قاری کا کوئی جذبہ بیدار ہو یا نہ ہو، اس سے لکھنے والے کو کیا غرض۔ یہ ملا مولوی حضرات تو اقبال کی بیشتر شاعری کو لوگوں کا برین واش کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو کیا اس سے اقبال کے مقصد پر بھی شک کیاجانا چاہیے ، اقبال نے تو پھر بھی اس بیداری کی ہوس میں ہوسکتا ہے کہ شاعری کی ہو، لوگ تو حافظ و غالب کے دیوان سے فال نکالنے لگے ، اسے حکم خداوندی سمجھنے لگے ، ان سب جذبوں کی بیداری کا سبب شاعر کب سے ہونے لگا۔ قاری کو ٹرانس میں لینے والی شاعری ایک دھوکے باز شاعر کی کارستانی ہوسکتی ہے ۔ اس کے لیے شاعر تاریخی طور پر کئی طرح کے جھوٹ باندھتا ہے ، الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے ، بس اپنی بات منوانے کے لیے کچھ بھی کہتا ہے ، اسے لاجک واجک سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ ایسی کئی مثالیں اقبال کے کلام سے دی جا سکتی ہیں، اختر الایمان تو ان کے مقابلے میں کئی گنا چھوٹے شاعر ہیں۔

    پانچویں سوال کے جواب میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ لفظی تسلسل کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابی اس نظم کا عیب ہے ، حالانکہ یہ فی الحقیقت کوئی ایسا عیب نہیں، اور نہ تو شاعر کو فنی طور پر مربوط نظمیں ہی لکھنی چاہییں۔ فکری طور پر نظمیں ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات بہت بٹی ہوئی ہوں مگر ایسا بعد بھی کیا جو اختر الایمان کی نظموں کی تقدیر بن چکا ہے ۔ مثال کے طور پر ان کی ایک نظم ہے ’رویائے صادقہ‘ اس میں ایک مصرع نظم کے درمیان میں لکھا ہے

    خدا نے طیش میں آ کر فرشتے قتل کر ڈالے

    پھر بیان کیا گیا ہے کہ شیطان نے کس طرح مجلس شوریٰ میں فرشتوں کو اپنی علمیت کے سبب اپنا اسیر بنالیا اوروہ سب کے سب خدا کو چھوڑ کر اس کے تابع ہو گئے ۔ اور شیطان نے آدم کو جنت میں ہی چھوڑ دا اور خود اپنے تابعین کے ساتھ دنیا میں آ گیااس لیے کہتے ہیں کہ

    زمیں پر آدمی کی شکل میں شیطان آیا ہے

    بات صرف یہی کہنی تھی کہ انسان کا عمل شیطانوں جیسا ہو گیا ہے ، اب زمیں پر آدمی کی شکل میں شیطان آیا ہے تو اس کو کہنے کے لیے تو صرف یہ مصرع ہی کافی تھانہ بھئی۔ اور یہ کتنا غیر منطقی اور منفی فکری رویہ ہے ، جس میں نہ کوئی شعری دم خم ہے اور نہ ہی کوئی فکری بالیدگی، بس ایک طرح کی نحس زدہ تخریبی گرداب رقص کرتا دکھائی دیتا ہے ۔

    آخری سوال کے جواب میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تو اس نظم میں اہم کچھ بھی نظر نہیں آتا، سو صاف صاف عرض کر دیا ہے ، ہوسکتا ہے کہ یہ میری ہی اپنی کم نگاہی ہو، مگر اس اہمیت کی جانب اگر کوئی ایسا اشارہ کر دے کہ مجھے بھی انیس سو سینتالیس یا اٹھارہ سو ستاون اہم اشارے نظر آنے لگیں تو میں کیونکر نہ مانوں گا۔ میرے اچھے مانیں گے ۔

سحر آفریں: تصنیف صاحب معاف کیجئے گا جدید نظم کے ” معیار "کا فیصلہ کون کر ے گا قاری یا نا قد ؟

سحر آفریں: اور آ پ نے بجا کہا

    ہم تو شاعری ایک خاصی فنی جہت کا لحاظ رکھتے ہوئے کرتے ہیں، اس میں قاری کب سے انوولو ہو گیا،     تو شاعری کا مقصد کیا ہے ؟ اپنے لئے ہی کی جا تی ہے تو اپنی "ذاتی ” ڈا ئریوں تک محدود کیوں نہیں رہتی ؟ قارئین کے حلقے تک کیونکر پہنچ جا تی ہے ؟ اس ترسیل کا جواز ؟

    اور    اقبال نے تو پھر بھی اس بیداری کی ہوس میں ہوسکتا ہے کہ شاعری کی ہو،     یہ ” بیان ” بھی وضاحت طلب ہے

محمد حمید شاید: تصنیف آپ کے مفصل جواب کا شکریہ، آپ کا نقطہ نظر ہم تک پہنچا مگر اختر الایمان اور ان کی نظم کچھ اور پیچھے چلی گئی۔ سحر آفریں ہم آپ کو حاشیہ کے اجلاس میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ کے سوالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ انہیں ایک طرف رکھ دیا ہے تاہم مناسب یہ ہو گا کہ صدر کو مخاطب کر کے بات کی جائے ۔ ظفر سید، علی محمد فرشی، معید رشیدی، عارفہ شہزاد، ناصر عباس نیر، اشعر نجمی، سعید احمد، جلیل عالی، نسیم سید، ستیہ پال آنند بھائی ہمارے ہاں تو بات کرنے کا ہنر جاننے والے سب موجود ہیں پھر نظم پر بات آگے کیوں نہیں بڑھ رہی ؟ کچھ تو کہئیے ۔

احتشام علی: جنابِ صدر!سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں کا کہ آپ نے ابتدائیے کو انتہائی توجہ سے پڑھا اور ایسے علاقے نشان زد کیے جن پر بات کر کے مذکور نظم کی تفہیم ایک نئے انداز میں کی جا سکتی ہے ، میں نے ابتدائیے میں نظم کے متن پر براہِ راست بات کرنے سے اس لیے گریز کیا تھا کہ باقی احباب آگے چل کر اپنے اپنے تناظر میں نظم کی گرہ کشائی کی کوشش کریں گے ، لیکن اجلاس کی مدت ختم ہونے کو ہے اور آپ کی تمام تر توجہ کے باوجود "اُس کے بعد اک لمبی چُپ اور تیز ہو ا کا شور” والی کیفیت محسوس ہو رہی ہے ۔ بہر حال آپ نے ابتدائیے کے بعد جو نکات اُٹھائے میں اُن کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ شاید اسی طور بات چیت کا سلسلہ دراز ہو سکے ۔

احتشام علی: صاحبِ صدر!میں نے اختر الایمان کو قدرے فراموش کیا ہوا شاعر اس لیے قرار دیا تھا کہ جدید اُردو نظم پر بات کرتے ہوئے ہمارے اکثر ناقدین کسی جدید نظم نگار کی شعریات تک رسائی کے لیے نظموں کے متن سے کوئی ایسا کلیدی رجحان دریافت کرنے کی سعی کرتے ہیں، جس کے تحت اُنھیں اپنی نظری یا عملی تنقید کے لیے ایسا فریم ورک وضع کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے جسے بنیاد بنا کر متن کی بازیافت ایک مخصوص اور تہ شدہ تناظر میں کی جا سکتی ہے ۔ مثلاً فیض پربات کرتے ہوئے ترقی پسندی اور مارکسی تنقید کی عینک لگا کر اُنھیں جدید نظم کا سب سے بڑا شاعر قرار دیا جاتا ہے اور کچھ ناقدین اسی برتے پراُن کے لیے "جادوگر "کا خطاب بھی تجویز کر لیتے ہیں۔ اسی طرح راشد کے پُر شکوہ اسلوب اور اُن کے ابتدا ئی تین مجموعوں میں موجود رومانیت، حقیقت پسندی، فراریت، بغاوت اور استعمار شناسی کے رجحانات کو بنیاد بنا کر مضامین کے انبار لگائے جاتے ہیں، حالانکہ راقم کی ناقص رائے میں راشد کی خالص شاعری کا جوہر اُن کے پہلے تین مجموعوں کی نسبت آخری شعری مجموعے "گماں کا ممکن”میں زیادہ موثر پیرائے میں اپنا ادراک کراتا ہے ۔ فیض اور راشد کی نسبت مجید امجد، میراجی اور اختر الایمان کے ہاں ایسی شاعری کے نمونے جا بجا ملتے ہیں جو نظری تنقید کے بنے بنائے سانچوں پر پرکھے جانے کی بجائے عملی تنقید کے نئے معیارات کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں، شاید اسی لیے آخری الذکر تینوں نظم نگاروں کی نظموں کے کثیرا بعاد متون کی تفہیم پر وہ توجہ نہیں دی جا سکی جو اُن کا حق تھی۔ میرا جی کی تاثر اور رچاؤ کی شدید کیفیات والی نظمیں جو متن میں ابہام کی نت نئی صورتوں کو جنم دیتی ہیں اُنھیں میرا جی کی شخصیت کے گنجلکوں، جنسی رویوں اور شراب نوشی سے منسلک کرتے ہوئے ناقابلِ فہم قرار دے دیا جاتا ہے ، مجید امجد کی آخری نظموں پر بات کرتے ہوئے بھی ہمارے اکثر ناقدین کا پتہ پانی ہو جاتا ہے اور وہ انھیں فکری سطح سے زیادہ فنی اور اسلوبیاتی سطوح پر پرکھتے نظر آتے ہیں۔ اختر الایمان اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ اُن پر بھارت میں کافی کام ہوا ہے لیکن اُن میں سے بھی بیشتر مضامین میں ناقدین اُن کی سامنے کی نظموں پر بات کرتے ہوئے سوانحی عنصر کو بیچ میں لانا نہیں بھولتے یوں اُن کی اکثر نظموں کا متن استعاراتی سطح کی بجائے نحوی سطح پر اپنا ادراک کراتا ہے ۔ اگر پاکستان میں اختر الایمان پر ہوئے کام پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو وزیر آغا صاحب کے ایک ابتدائی مضمون "اختر الایمان مراجعت کی ایک مثال "، جمیل جالبی صاحب کے ایک مختصر مضمون اور بعد ازاں سہیل احمد خان صاحب کے "بازدید”پر لکھے ایک تعارفی نوٹ کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر تحریر راقم کی نظر سے نہیں گزری، یہاں یہ امر بھی قابلِ  ذکر ہے کہ جدید اردو نظم کا ذکر آتے ہی ہم جھٹ سے راشد، فیض اور تھوڑے توقف سے میراجی اور مجید امجد کا نام تو پیش کر دیتے ہیں لیکن اختر الایمان کا نام اکثر ہماری یادداشت سے محو ہو جاتا ہے ، مندرجہ بالا تناظر میں ہی راقم نے اختر الایمان کو قدرے فراموش کیا ہوا نظم نگار قرار دیا تھا اوراس فراموشی کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اختر کی اکثر نظموں کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیں میرا جی اور مجید امجد کی طرح آدرشوں اور نظریوں کی بیساکھیاں کم پڑ جاتی ہیں۔

احتشام علی: جنابِ صدر! آپ نے اختر کی نظموں میں ترقی پسند موضوعات کی بابت جو سوال اُٹھایا اُس کے جواب میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اختر کے ہاں ترقی پسند ی کا بیانیہ اُس ڈھلی ڈھلائی اور اکہری صورت میں سامنے نہیں آتا جو ترقی پسند نظم نگاروں کی مخصوص لفظیات اور نعرے بازی سے مملو تھا اور جس پر "میرے ہاتھوں سے میرا قلم چھین لو/اور مجھے ایک بندوق دے دو” کی گہری چھاپ تھی بلکہ اختر کا عصری شعور ان کی نظموں کو ایک نئے پیرائے میں خام مواد مہیا کرتا ہے مثلاً اُن کی خالص داخلی کیفیات والی نظموں میں بھی ایسی علامتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں جو ایک وسیع تر تناظر میں ایک علاحدہ المیہ کی عکاس بن جاتی ہیں۔ ان کی ایک معروف نظم "تنہائی میں” کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

    اِک دھندلکا سا ہے دم توڑ چکا ہے سورج

    دن کے دامن پہ ہیں دھبے سے ریاکاری کے

    اور مغرب کی فنا گاہ میں پھیلا ہوا خوں

    دبتا جاتا ہے سیاہی کی تہوں کے نیچے

    "گرداب” کی ابتدائی نظموں میں ہی "پرانی فصیل ” کے بھی چند مصرعے ملاحظہ ہوں جن میں نوآبادیاتی کلامیوں کے ہاتھوں زوال پذیر ہوتی تہذیب اور اقدار کا شعور شاعر کے وجودی کرب سے آمیز ہو کر سامنے آتا ہے ، لیکن یہاں بھی اُن کے احتجاج کی لَو ترقی پسندوں کی طرح کوئی بلند آہنگ اختیار نہیں کرتی بلکہ زیرِ لب ایک ایسی سرگوشی کی صورت اختیار کر جاتی ہے جو روح سے ہم کلام ہوتی ہے ۔ نظم کا آخری بند دیکھیے :

    غرض اک دور آتا ہے کبھی اک دور جاتا ہے

    مگر میں دو اندھیروں میں ابھی تک ایستادہ ہوں

    مرے تاریک پہلو میں بہت افعی خراماں ہیں

    نہ توشہ ہوں نہ راہی ہوں نہ منزل ہوں نہ جادہ ہوں

    جنابِ صدر! آپ نے نظم پر کہانی کے غلبے کو نشان زد کیا تو میں اس ضمن میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ کہانی کا یہ غلبہ محض جدید اردو نظم اور اختر الایمان کی مندرجہ بالا نظموں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کہانی تو تمام ادب کی کُلی ساخت میں ایک تہ نشیں نظام کی صورت میں موجود ہے ۔ جب یہ بات انتہائی واضح ہے کہ ا دب کا بیانیہ زندگی کے تجربات سے مملو ہوئے بغیر ہمارے سامنے صورت پذیر نہیں ہوسکتا تو ہم ان تجربات کو کہانی کے تفاعل سے کیونکر ایگ کر سکتے ہیں مثال کے طور پہ جب ہم علی محمد فرشی صاحب کی نظم "علینہٰ "کو اگلی منازل کی”اوڈیسی” سے تعبیر کرتے ہیں تو درحقیقت کہانی کے اسی تفاعل کو نشان زد کر رہے ہوتے ہیں جو کسی بھی اعلیٰ فن پارے کی زیریں ساخت میں موجود ہوتا ہے ۔ میرے نزدیک کہانی سے قربت، تخلیقی نارسائی نہیں ہے بلکہ وجودیاتی سطح پر زندگی سے قربت کا اعلامیہ ہے ۔

احتشام علی: صاحبِ صدر!اب اگر ہم بیانیے کو اکہریت سے بچانے کے لیے وضع کیے گئے غیر مانوس امیجز کو نشان زد کریں تو یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ شعری بیانیے اور فکشن کے بیانیے میں نمایاں فرق یہی ہے کہ فکشن کا بیانیہ وضاحت و صراحت کے ذریعے چیزوں کو کھول کر اور پھیلا کر بیان کرتا ہے لہٰذا قدیم اساطیر، حکایات، کہانیوں، داستانوں، ناول، افسانوں میں بیانیہ Description کے طور پر موجود ہوتا ہے جب کہ نظم اور شاعری کے ضمن میں اس کی فعالیت استعاراتی سطح پر مختلف النوع استعاروں اور تمثالوں کی مدد سے اپنا ادراک کراتی ہے ۔ مذکورہ نظم میں بھی غیر مانوس امیجز، بیانیے کو نہ صرف اکہرا اور سپاٹ ہو نے سے بچاتے ہیں بلکہ نظم کے استعاراتی عمل کو بھی ایک نئے تناظر میں نشان زد کرتے ہیں مثال کے طور پر یہ چند مصرعے دیکھیے :

    برگد کے نیچے بیٹھو یا سولی چڑھ جاؤ

    بھینسے لڑنے سے باز نہیں آئیں گے

    موت سے ہم نے ایک تعاون کر رکھا ہے

    سڑکوں پر سے ہر لمحہ اک میّت جاتی ہے

    پس منظر میں کیا ہوتا ہے ، نظر کہاں جاتی ہے

    سامنے جو کچھ ہے رنگوں آوازوں چہروں کا میلا ہے ۔

    مندرجہ بالا مصرعوں میں "برگد کے نیچے بیٹھنا” اور "سولی چڑھ جانا” متن میں مضمر دو ثقافتی کوڈز کی طرف اشارہ کر رہا ہے ، برگد کے نیچے بیٹھنا دُنیا کو تج کر نروان حاصل کرنے کی خواہش کی طرف اشارہ ہے ، جب کہ سُولی پر چڑھنا بھی اپنی ذات کو تمام تر کثافتوں کے ساتھ کسی بحر بے کنار میں حل پذیرکر کے ابدیّت کا استعارہ بن جانے کی غمازی کرتا ہے مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں ہی اپنے وجود کو مادی آلائشوں سے پاک کر کے تقلیب کے عمل سے گزارنا مقصود ہے لیکن برسوں کی تپسیا اور کٹھن ریاضتوں کے بعد بھی آپ کے لیے یہ ادراک سوہانِ روح بن جاتا ہے کہ آپکی قلبِ ماہیت بھی ارد گرد بکھرے مظاہر اور معاشرے پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں کر پائی ہے ، آگ اور خون کا کھیل اُسی طرح جاری و ساری ہے ، کوفے اور دمشق آبادہیں، ظالم کی رسی دراز سے دراز تر ہوتی جا رہی ہے اور وقت کے ڈاکو چکر انسان سے اُس کا سب کچھ لوٹ کر رُخصت ہو رہے ہیں۔ یہاں لفظ بھینسے کو اگر افتراقِ معنی کے حوالے سے دیکھا جائے تو طاقت کے مختلف مظاہر سے منسوب لفظیات کو نظرانداز کر کے قدرے نامانوس لفظ کا استعمال اُن بڑی سامراجی طاقتوں کا اشارندہ ہے جو طاقت کی بدمستی میں اپنی راہ میں آئی ہر رکاوٹ کو قدموں تلے روند دیتے ہیں۔

احتشام علی: مندرجہ بالا شعری بیانیے کو اگر بیانیے کے اہم ترین نظریہ ساز ژراژنیثGerard Genetteکے Narrative Discourse کی رُو سے دیکھا جائے تو ژراژنیث بیانیے میں کہانی اور کلامیے کے ساتھ ساتھ ایک تیسرے عامل Narrative Act کی نشان دہی کرتا ہے ۔ مندرجہ بالا مصرعوں میں کہانی کا تفاعل یہ ہے کہ

    "برگد کے نیچے بیٹھنے اور سُولی چڑھ جانے کے باوجود بھی بھینسوں کی لڑائی میں انسان فُٹ پاتھ پہ اُگی گھاس کی طرح روندے جاتے رہیں گے

    "کلامیہ یہ ہے کہ "یہ ساری وجودی صورتِ حال جس کردار کو درپیش ہے اُسے اپنی ذات کی کم مائیگی اور گردوپیش کا مکمل شعور ہے "

    اور عملِ بیان وہ سارے امیجز اور مدھم نقوش Tracesہیں جو کلامیے کے ساتھ اس طرح صورت پذیر ہوئے ہیں کہ ہم اُن کی تعبیر اپنے اپنے زاویۂ نظر سے کر سکتے ہیں مندرجہ بالا مصرعوں میں عملِ بیان کی چند صورتیں ملاحظہ فرمائیے :

    (1) نظم کا متکلم کون ہے ؟ کیا وہ خود اپنی ذات کی تطہیر کے بعد بیان کیے گئے نتیجے پر پہنچا ہے یااُس نے اپنے اردگرد موجود مختلف کرداروں کے انجام سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے ؟

    (2) نظم میں بھینسے کی علامت کسی مخصوص مقتدرہ کو نشان زد کر رہی ہے یا طاقت کے اُن بڑے مراکز کی نمائندہ ہے جوبرسرِپیکار رہ کر متکلم جیسے عام کرداروں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔

    (3)موت سے تعاون کیونکر ضروری ہو گیا ہے ؟کیا یہ فعل بہ امرِ مجبوری انجام دیا جا رہا ہے یا یہ کوئی سماجی ذمہ داری ہے ؟ متکلم خود اس کھیل کا حصہ ہے یا اُس کی حیثیت محض ایک تماشائی کی ہے ؟

    (4) متکلم کی اس درجہ بے بسی کے اسباب کیا ہیں؟اس نے عملِ بیان میں تصوفانہ فکر کی روایات ہی سے کیوں استفادہ کیا ہے ؟کیا وہ ایک مخصوص صوفیانہ فکر کا نمائندہ ہے یا اُس کا مقصداس فکر کے غیر عملی اور غیر متشدد پہلو کو ہدفِ تنقید بنانا ہے ؟

    (5)اس تمام وجودی صورتِ حال کے پس منظر میں جانا بیان کنندہ کے لیے کیوں ضروری ہے ؟

    (6)عام آدمی کی نگاہ پس منظر میں کیوں نہیں جاتی ہے ؟کیا کوئی پس منظر واقعی موجود ہے ؟یا محض ایک التباس ہے ؟

    (7)جو کچھ سامنے موجود ہیں وہ رنگوں آوازوں اور چہروں کا ہی میلہ کیوں ہے ؟ یہ رنگ اور آوازیں کس قسم کی ہیں؟کیا ان رنگوں سے کوئی خونی منظرنامہ تشکیل دیا گیا ہے ؟کیا یہ آوازیں مظلوم کی آہ وزاری کا نتیجہ ہیں ؟

    (8) میلے اور ہجوم میں یہ آوازیں ہمارے اجتماعی شعور پرکیسے اثرانداز ہو رہی ہیں؟یہ چہرے کن لوگوں کے ہیں جو رنگوں اور آوازوں کی بھیڑ میں چھپے ہونے کے باوجود اپنے وجودی کرب کا احساس دلا رہے ہیں؟

    مندرجہ بالا گفتگو کے سیاق میں، میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا بیانیے کہ متعلق ایک اقتباس پیش کر کے صورتِ حال کو مزید واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ڈاکٹر صاحب کے بقول:

    "ہر بیانیہ متن میں کچھ”کہا”جاتا اور کچھ "دکھایا”جاتا ہے ۔ چنانچہ بیانیوں میں "کہنے ” اور "دکھانے "کے ساتھ ساتھ کوئی کہنے اور دکھانے والا بھی ہوتا ہے ۔ کہنے والا بیان کنندہ Narrator اور دکھانے والا Focalizer ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیان کنندہ کا تعلق بیان کے طریقے سے رہتا ہے جب کہ Focalizer ایک ایسا "ایجنٹ” یا "کردار” ہے جو بیانیے کے مقصود و مفہوم اور جہت کا تعین کرتا ہے ۔ ہر بیانیہ متن کسی نہ کسی علم، آئیڈیالوجی یا ثقافتی پس منظر کے حصار میں ہوتا ہے ۔ وہ کسی نفسیاتی نکتے ، انسانی فطرت کی کسی کمزوری، کسی سیاسی نظریے ، کسی ثقافتی رسم یا کسی تہذیبی صورتِ حال پر بطورِ خاص "اصرار ” کرتا ہے ۔ بس یہی بیانیے کی Focalization ہے "

احتشام علی: صاحبِ صدر! مندرجہ بالا گفتگو کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات بھی قدرے واضح ہو جاتی ہے کہ راقم نے نظم میں بیان کیے گئے شعری تجربے کو حسیّاتی سطح پر فعال ہو کر اُداسی کی ایک نئی بوطیقا کی تشکیل اور نامعلوم افسردگی کا موجب اس لیے قرار دیا تھا کہNarrotor اورFocalizer کا تشکیل دیا ہوا منظر نامہ ہمارے ثقافتی پس منظر اور عصری صورتِ حال پر پوری طرح منطبق ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، لہٰذا نو آبادیاتی عہد میں ہند اسلامی تہذیب کے زوال سے لے کر ما بعد نو آبادیاتی عہد میں اجارے کے لیے وضع کردہ مختلف کلامیوں کو متن کی زیریں ساخت میں محسوس کیا جا سکتا ہے اور اسی بنیاد پراس تہذیب اور ثقافت سے جُڑے رکھنے والا کوئی بھی حساس ذہن مندرجہ بالا شعری بیانیے کی کاٹ کا فوری اثر قبول کرتا ہے ۔ راقم نے یہاں متن کے محض ایک ٹکڑے میں موجود Grotesque Image اور بیا نیاتی عمل کی کارفرمائی سے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اختر کس طرح بعض بد ہئیت پیکروں کو اپنے شعری بیانیوں کی ساخت میں منقلب کرتے ہیں اور بہ ظاہر غیر مانوس نظر آنے والے امیجز بھی متن کی استعاراتی سطح پر فعال نظر آتے ہیں۔

احتشام علی: جنابِ صدر!تصنیف حیدر نے مذکورہ نظم کے متن کو اپنے جس مخصوص پیراڈائم میں رہتے ہوئے دیکھا اور پرکھامیں اُس پر سرِ دست اس لیے کوئی بات نہیں کرنا چاہوں گا کہ اختر الایمان کی اس اہم نظم کی قرات کاعمل آگے بڑھایا جا سکے ، لیکن آپ کی وساطت سے یہ ضرورعرض کرنا چاہوں گا کہ احتشام حسین کو میں ترقی پسند تنقید کے سر بر آوردہ ترین ناقدین میں شمار کرتا ہوں، اُن کا احترام اپنی جگہ پر مگر میرا نام احتشام علی ہے لہٰذا مجھے اسی نام سے مخاطب کیا جائے ۔

    ‎5 ‎September‎ at 12:24 ‎AM‎‎ · Like · 7

سحر آفریں: جناب صدر ! احتشام صا حب نے اپنے مفصل ابتدا ئیے میں اختر الایمان کے تخلیقی سفر کا بنظر غا ئر جا ئزہ لے کر ان کی شا عری کے چیدہ چیدہ محرکات کو سا منے لا کھڑا کیا ہے جس سے ایسی فضا قا ئم ہو گئی ہے جس کو لے کر ان کی نظموں کے فنی محاسن پر بات بڑھا ئی جا سکتی ہے تاہم دیکھا جا ئے تو اس کے بعد آ نے والے تنقیدی تبصروں میں نظم کہیں پیچھے رہ گئی اور اختر کی شا عری کے شعری یا شعو ری عوامل زیر بحث آ گئے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر ہم بات کچھ آ گے بڑھا تے ہو ئے اختر کی مذکو رہ نظم کو سا منے رکھتے ہیں۔ اختر کے با رے میں احتشام صاحب کا تجزیہ قدرے درست تصور کیا جا سکتا ہے کہ روما نوی حوالوں سے تو اختر الایمان کا نام فورا ذہن میں آ جا تا ہے کہ ان کے شعری تجربوں اور ان کی نظموں کی تکنیک نے ایک عہد کو متاثر کیا ہے لیکن جب را شد، فیض، مجید امجد، میرا جی کی بات کی جا ئے تو ما رکسیت کے ساتھ رو ما نوی داخلیت کا گہرا عنصر انہیں جدید نظم نظم کے با نیان میں بخوشی جگہ دے دیتا ہے اور اختر کی نظم کہیں پیچھے دھکیل دی جا تی ہے ۔ اختر کے بارے میں وزیر آ غا کو شکا یت رہی کہ ان کی شا عری میں دا خلیت سے خا رجیت کی طرف سفر تو ہے لیکن یہ "پڑا ؤ ” دیر پا نہیں اور وہ جلد ہی داخلی عوا مل کی طرف را غب ہو جا تے ہیں۔ یہ داخلیت ان کی مذکو رہ نظم میں بھی شدو مد کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے ۔

    نظم کا آ غاز ایک شام کے آ غاز سے ہو تا ہے ۔ تخلیاتی قوت پو ری شدت سے اجا گر نہیں ہو رہی مگر منظر نگا ری کا لطف ہر سطر کے سا تھ کشید کیا جا سکتا ہے

    جب دن ڈھل جاتا ہے ، سورج دھرتی کی اوٹ میں ہو جاتا ہے

    اور بھڑوں کے چھتے جیسی بھن بھن

    بازاروں کی گرمی، افراتفری

    موٹر، بس، برقی ریلوں کاہنگامہ تھم جاتا ہے

    یہ شام 1947 کی ہو یا 2013 کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی منظر کشی جوں کی توں ہے اس میں کوئی فرق نہیں آ یا۔ اس لئے ان ما نو س سطروں سے اجنبیت محسوس ہو تی ہے یا نہ بیزا ریت۔ ۔ ۔ ۔ ان کی چا شنی برقرا ر ہے

    میں اپنے کمرے میں بیٹھا سوچاکرتا ہوں

    کتَوں کی دُم ٹیڑھی کیوں ہوتی ہے

    یہ چتکبری دُنیاجس کا کوئی کردار نہیں ہے

    کوئی فلسفہ، کوئی پائندہ اقدار نہیں، معیار نہیں ہے

    اس پر اہلِ دانش، ودوان، فلسفی

    موٹی موٹی ادق کتابیں کیوں لکھا کرتے ہیں

    بہت جا ندا ر اور چبھتی ہو ئیں سطریں ہیں۔ جو قا ری کا ذہن ایک لمحے کے لئے تو اپنی گرفت میں لے ہی لیتی ہیں۔ اور ادق کتا بیں لکھنے کے سوال میں پنہاں حیرت بھری تشویش دلچسپ اور دلگیر لگتی ہے ۔

    فُرقت ؔ کی ماں نے شوہر کے مرنے پر کتنا کہرام مچایا تھا

    لیکن عدَت کے دن پورے ہونے سے اک ہفتہ پہلے

    نیلم ؔ کے ماموں کے ساتھ بدایواں جا پہنچی تھی

    اب فرقت کی ماں کا شو ہر کون ہو سکتا ہے ۔ ؟ ارباب حا شیہ اس "کہرام ” کی روشنی میں کچھ عرض کریں کہ آ یا یہ محض ایک منطق سے عاری استعارہ ہے یا اس سے کچھ اور معانی بھی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نکتے پہ بات ہو تو مزید عرض کریں گے

    ‎5 ‎September‎ at 3:03 ‎AM‎‎ · Edited · Like · 8

محمد حمید شاید: لیجئے صاحب اب میں اپنی سانسیں بحال ہوتی پاتا ہوں کہ احتشام نے نہ صرف اپنامقدمہ لڑا، نظم پر بات کرنے کی راہ بھی کھول دی، سحر آفرین اآپ کا بھی شکریہ۔ بات کرنے کے لیے اب بہت کچھ موجود ہے ۔ نظم بھی اور یہ علاقے بھی:

   ۔ اختر الایمان کے ہاں ایسی شاعری کے نمونے جابجا ملتے ہیں جو نظری تنقید کے بنے بنائے سانچوں پر پرکھے جانے کی بجائے عملی تنقید کے نئے معیارات کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کی نظموں کے کثیرابعاد متون کی تفہیم پر وہ توجہ نہیں دی جا سکی جو اُن کا حق تھی۔ (باقی نظم نگاروں کو میں نے بحث سے الگ کر دیا کہ ہم پہلے ہی بہت مشکل میں ہیں )

   ۔ اختر الایمان کی اکثر نظموں کا متن استعاراتی سطح کی بجائے نحوی سطح پر اپنا ادراک کراتا ہے ۔ ؟اس پر بات ہونی چاہئیے

   ۔ جدید اردو نظم کا ذکر کرتے ہوئے اختر الایمان کا نام ہماری یادداشت سے اس لیے محو ہو جاتا ہے کہ اختر کی اکثر نظموں کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیں میرا جی اور مجید امجد کی طرح آدرشوں اور نظریوں کی بیساکھیاں کم پڑجاتی ہیں۔

   ۔ اختر کا عصری شعور ان کی نظموں کو ایک نئے پیرائے میں خام مواد مہیا کرتا ہے ۔ اُن کی خالص داخلی کیفیات والی نظموں میں بھی ایسی علامتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں جو ایک وسیع تر تناظر میں ایک علاحدہ المیہ کی عکاس بن جاتی ہیں۔

   ۔ اخترکی نظم میں ایک تہ نشیں نظام کی صورت میں موجود ہے کہانی سے یہ قربت تخلیقی نارسائی نہیں بلکہ وجودیاتی سطح پر زندگی سے قربت کا اعلامیہ ہے ۔

   ۔ اختر کی زیر نظر نظم میں غیر مانوس امیجز، بیانیے کو نہ صرف اکہرا اور سپاٹ ہو نے سے بچاتے ہیں بلکہ نظم کے استعاراتی عمل کو بھی ایک نئے تناظر میں نشان زد کرتے ہیں۔

   ۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ، نظم کا متکلم کون ہے ؟ بھینسے کی علامت کسی مخصوص مقتدرہ کو نشان زد کرہی ہے ، موت سے تعاون کیونکر ضروری ہو گیا ہے ؟متکلم کی اس درجہ بے بسی کے اسباب کیا ہیں؟، اس تمام وجودی صورتِ حال کے پس منظر میں جانا بیان کنندہ کے لیے کیوں ضروری ہے ؟، عام آدمی کی نگاہ پس منظر میں کیوں نہیں جاتی ہے ؟جو کچھ سامنے موجود ہیں وہ رنگوں آوازوں اور چہروں کا ہی میلہ کیوں ہے ؟ میلے اور ہجوم میں یہ آوازیں ہمارے اجتماعی شعور پرکیسے اثرانداز ہو رہی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ

   ۔ اختر بدہئیت پیکروں کو اپنے شعری بیانیوں کی ساخت میں منقلب کرتے ہیں اور بہ ظاہر غیر مانوس نظر آنے والے امیجز بھی ان کے ہاں متن کی استعاراتی سطح پر فعال نظر آتے ہیں۔

    جناب کہیے کتنا کچھ کہنے کو ہے ؟ احتشام ایک بار پھر شکریہ۔ ناصر عباس نیر کی تحریر کا حوالہ آ گیا کیا ہی اچھا ہو کہ یہاں ناصر عباس نیر کا نوٹ آ جائے ۔

    ‎5 ‎September‎ at 10:01 ‎PM‎‎ · Like · 6

سحر آفریں: ہم بھی نا واقف نہیں آ داب محفل سے مگر

    چیخ اٹھیں خا موشیاں تک ایسا سنا ٹا بھی کیا ؟؟؟؟؟؟؟

    اختر سعید

    ‎10 ‎September‎ at 1:33 ‎PM‎‎ · Edited · Like · 2

محمد حمید شاید: مجھے یوں لگتا ہے کہ احباب کی اس اجلاس میں دلچسپی نہیں رہی، ایسے میں مسلسل انتظار کی کوفت کی بجائے کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ اجلاس کو یہیں معطل /ختم کر دیا جائے ۔

    ‎10 ‎September‎ at 2:05 ‎PM‎‎ · Edited · Like · 4

ظفر سیّد: : جنابِ صدر، کچھ دوستوں نے لکھنے کا وعدہ کیا ہے ۔ کچھ مصروفیات اور مسائل کی وجہ سے بھی تاخیر ہو رہی ہے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ اگر اجلاس کے وقت میں ایک ہفتے کی توسیع کر دی جائے تو امید ہے کہ کچھ اور تبصرے بھی سامنے آ جائیں گے ۔

    ‎10 ‎September‎ at 9:35 ‎PM‎‎ · Like · 7

سحر آفریں: جناب صدر اسی تسا ہل سے اندازہ لگا لیں اردو ادب میں تنقید کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے ))))))

    ‎10 ‎September‎ at 11:56 ‎PM‎‎ · Like · 3

    Nasim Syed اسے میری بد قسمتی سمجھ لہجئے کہ ابھی تک کسی بھی رائے سے استفا دہ نہیں کر سکی اور صرف مو جو دگی دکھانے کے لئے لا ئیک لگانا مجھے پسند نہیں۔ ۔ بہت سی بیجا مصروفیات نے ادھر گھیرا ؤ کیا ہوا ہے ۔ ۔ میں پر زور تا ئید کرونگی ظفر سید صا حب کی ایک ہفتہ اور عنا یت ہو

    ‎19 ‎September‎ at 6:52 ‎PM‎‎ · Like · 3

    Nasim Syed شا ید ا پ میں سے کچھ واقف ہو نگے کہ بییس ستمبر کو ہمارا سالانہ پروگرام ہے محمد عمر میمن صا حب کل آ چکے ہین کچھ کچھ مہمان آ ج آ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اس پروگرام کے بعد اپنی بہت ہی پسنددیدہ فورم پر مستقل حا ضری رہے گی

    ‎19 ‎September‎ at 6:55 ‎PM‎‎ · Like · 3

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! مجھے افسوس ہے کہ میں خرابیِ صحت کی بنا پر شروع ہی سے اس اہم اجلاس سے غیر حاضر ہوں۔ آج بہت دنوں بعد تھوڑی دیر کے لیے نیٹ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ "حاشیہ”پر اجلاس ابھی تک جاری ہے لیکن یہ دیکھ کر شدید مایوسی بھی ہوئی کہ(حاشیہ کی جلسوں کی روایت کے برعکس اتنے روز گزرنے کے باوجود) بحث ابھی چند قدم بھی آگے نہیں بڑھی۔ میرے رنجیدہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ احتشام علی صاحب نے پہلی بار کسی نظم کا ابتدائیہ لکھ کراس فورم کو نیا خون فراہم کیا تھا افسوس کہ ہم ان کی تحریر کو بہتر طریقے سے خوش آمدید نہ کَہ سکے ۔

    جنابِ صدر! میری تجویز ہے کہ اس اجلاس کو درپیش مخصوص صورتِ حال کے پیشِ نظر وقت کی حد کو معطل کر دیا جائے اور اس اجلاس کو درپیش مسئلے کا کھوج لگانے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ بلاشبہ اختر الایمان کی نظم قاری کوکئی مسائل میں ملفوف ملتی ہے ، تو کیا ہوا، ان مسائل کے حوالے سے بھی کئی مباحث سامنے آسکتے ہیں جن پر آج تک گفت گو نہیں ہو سکی۔ "حاشیہ” کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس پر ایسی نظمیں زیرِ بحث آئیں جن پر کئی دہائیوں تک تنقید کے لب کشا نہ ہو پائے تھے ۔

    جنابِ صدر! اختر الایمان کی شاعری کو، بہ خیرو خوبی، پڑھنے سے پہلے ہمیں شاعری کی مروجہ تعریف و تعارف کو سر سے نکال کر بیٹھنا پڑتا ہے ۔ تعریف سے میری مراد شاعری کے بارے میں مروجہ تنقیدی نظریات ہیں اور تعارف سے مراد ہمارا وہ ذوق ہے جو تغزل کی گود میں پروان چڑھا ہے ۔ یہاں میں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ مجھے بھی اختر الایمان کی نظم پڑھنے کے لیے خود کو بہ طور خاص آمادہ کرنا پڑتا ہے ۔ سپاٹ اور کھردری زبان کا غلبہ، نظم سے جمالیاتی حظ تلاش کرنے والوں کو، نظم سے انس پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس بات کو اس شاعر کی خوبی قرار دیں یا خامی، ہمیں ان کے معاصرین کے کلام پر ایک نظر ڈالنا سود مند ثابت ہو گا۔ فیض صاحب اس عہد کے نام ور ترین شاعر تھے ، وجہ سامنے ہے کہ ان کی زبان تغزل آشنا ہونے کے با وصف اپنے عہد کے لیے مانوس ترین تھی۔ میراجی کی شاعری پر ان کی ہئیت کذائی اس قدرغالب تھی کہ اس عہد کو میرا جی کے تین گولوں کے سوا کچھ دکھائی ہی نہ دیا۔ راشد کی فارسیت بھری زبان بھی سماعتوں کے لیے اجنبی نہ تھی۔ رہے مجید امجد تو وہ اپنی زندگی میں گم نام ہی رہے البتہ خواجہ زکریا نے ان کا کل کلام جمع کر کے دنیا کو دکھایا تو اس طرف سے بند آنکھیں کھلیں اور کچھ اچھا نقد سامنے آیا۔ یوں ہم "نظمیت” سے واقف ہوئے لیکن اختر الایمان کی نظموں میں برتی جانے والی زبان اس "نظمیت” سے بھی آگے نکل گئی ہے اس حد تک کہ اس پر خشک نثر کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ اب اگر یہ التزام شاعر کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہے تواسے شاعر کی کام یابی کہنا پڑے گا ورنہ ناکامی! یہاں ہم شاعر کے نقطۂ نظر کا جائزہ اس کے بیانات کی روشنی میں نہ بھی لیں تو اس کی نظمیں اپنی ہئیت میں فن پارہ بنتی ہوئی نظر آتی ہیں اور شاعر کی کام یابی پر مہر لگاتی ہیں، لہٰذا ہمیں "نظمیت” کی ایک مختلف صورت کے طور پر ان کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ راشد، میرا جی اور مجید امجد نے فیض کو بھی پیچھے دھکیل دیا ہے لہٰذا اختر الایمان اس مسابقت میں مزید نظر انداز ہو گئے ہیں۔ اگر اس معاملے میں ان کی حق تلفی نہیں ہوئی تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا واقعی ان کے فن میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے ؟ اور رہ گئی ہے تو کہاں؟ جدید نظم کی تنقید کو اس سوال کا جواب آخر دینا تو پڑے گا؟ آج نہیں تو کل سہی۔ تو پھر آج کے کام کو کل پر کیوں ٹالا جائے ؟

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید