FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

میں آئینہ ہی بنی رہی

               ثمینہ راجا

 

میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آئینہ ہی بنی رہی

کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی

وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ہے

میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رہی

کبھی وقف ہجر میں ہو گئی کبھی خواب وصل میں کھو گئی

میں  فقیر عشق  بنی  رہی،  میں  اسیر  یاد  ہوئی  رہی

بڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئی

وہ   ردائے  ابر  سپید   جو ،  سر  کوہسار   تنی   رہی

ہوئی اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی

تو  نہ جانے  کون سی  چیز کی میری  زندگی میں  کمی  رہی

٭٭٭

 

نہ شوق ہے،  نہ تمنا،  نہ یاد ہے  دل میں

کہ مستقل کسی غم کی نہاد ہے دل میں

ہے الف لیلہ و لیلہ  سی  زندگی   در پیش

سو جاگتی ہوئی اک شہر زاد ہے دل میں

جو ضبط چشم کے باعث نہ اشک بن پایا

اس ایک قطرۂ خون کا فساد ہے دل میں

پھر ایک شہر سبا سے  بلاوا آیا  ہے

پھر ایک شوق سلیماں نژاد ہے دل میں

ہے  ایک سحر  دلآویز  کا  اسیر   بدن

تو جال بنتی، کوئی اور یاد ہے دل میں

تمام  خواہشیں اور حسرتیں تمام  ہوئیں

مگر جو سب سے عجب تھی مراد ہے دل میں

٭٭٭

 

تنہا، سر انجمن  کھڑی تھی

میں اپنے وصال سے بڑی تھی

اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر

پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی

اک عمر تلک  سفر  کیا  تھا

منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی

طالب کوئی میری نفی کا تھا

اور شرط یہ موت سے کڑی تھی

وہ  ایک ہوائے تازہ  میں تھا

میں خواب قدیم میں گڑی تھی

وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا

میں اپنے حضور میں کھڑی تھی

٭٭٭

دشت میں اک طلسم آب کے ساتھ

دور تک  ہم  گئے سراب  کے   ساتھ

پھر خزاں آئی  اور  خزاں  کے  بعد

خار  کھلنے  لگے گلاب   کے  ساتھ

رات  بھر  ٹوٹتی  ہوئی    نیندیں

جڑ گئیں سحر ماہتاب کے ساتھ

ہم  سدا  کی  بجھے  ہوئے  تھے

وہ تھا پہلی سی آب و تاب کے ساتھ

چھوٹی عمروں کی پہلی پہلی بات

کچھ تکلف سے کچھ حجاب کے ساتھ

اور   پھر  یہ   نگاہ  خیرہ     بھی

ڈوب جائے گی آفتاب کے  ساتھ

رات کی طشتری میں رکھی ہیں

میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ

یہ فقط رسم ہی نہیں اے دوست

دل بھی شامل ہے انتساب کے ساتھ

٭٭٭

 

جیسے یہ درد سے بنی ہوئی تھی

شام  اس طرح کاسنی ہوئی تھی

رات کی اپنی روشنی تھی بہت

دھوپ کے جیسی چاندنی ہوئی تھی

کوئی ذی روح دور دور نہ تھا

اور خموشی بہت گھنی ہوئی تھی

کون  تھا  بن  میں  بھیگنے   والا

چادر ابر  کیوں  تنی  ہوئی  تھی

گونجتی تھی ہر ایک سانس کے ساتھ

اک  تمنا   جو  راگنی   ہوئی   تھی

ایک  مدت  کے  انتظار  کے   بعد

اس دریچے میں روشنی ہوئی تھی

آئینہ   کیوں   سیاہ   لگتا    تھا؟

کیا اندھیرے سے میں بنی ہوئی تھی

٭٭٭

 

عمر کے بعد اس طرح دید بھی ہو گی بات بھی

تو بھی قریب جاں ہے آج بھیگ رہی ہے رات بھی

دل میں ہے اک محل سرا اس میں لگا ہے آئینہ

عکس ہے اس میں غیر کا عکس میں اپنی ذات بھی

خواب میں تیری دید سے اس طرح روشنی ہوئی

نور سے بھر گیا تمام حجلۂ کائنات بھی

ایک خیال کے طفیل ایک وصال کے سبب

روز تو روز عید تھا شب تھی شب برات بھی

سارے جہاں کے سامنے ایسے رہے ہیں سربلند

دل میں تھا ایک رنج بھی ہاتھ میں ایک ہاتھ بھی

٭٭٭

 

میں خود سے پوچھ رہی تھی،کہاں گئے مرے دن

مجھے خبر ہی نہ تھی   رائگاں گئے مرے دن

گئے ہیں وحشت صحرا سمیٹنے کے لیے

کہ سوئے بزم و سر گلستان گئے مرے دن

بہت اداس نہ ہو دل شکستگی سے مری

مرے حبیب،مرے راز داں ! گئے مرے دن

خدا کرے کوئی جوئے مراد سامنے ہو

بدوش گرد رہ کارواں گئے مرے دن

کوئی نگاہ، کوئی دل، نہ کوئی حرف سپاس

نہیں تھا کوئی بھی جب پاسباں ،گئے مرے دن

بہت سے لوگ گلی کا طواف کرتے تھے

بس اس قدر ہے مری داستاں،گئے مرے دن

٭٭٭

 

خوشبو کے ساتھ اس کی رفاقت عجیب تھی

لمس ہوائے شام کی راحت عجیب تھی

چشم شب فراق میں ٹھہری ہے آج تک

وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی

آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ

پر مستقل وصال کی وحشت عجیب تھی

لپٹا ہوا تھا ذہن سے اک کاسنی خیال

اترا تو جان و جسم کی رنگت عجیب تھی

اک شہر آرزو سے کسی دشت غم تلک

دل جا چکا تھا اور یہ ہجرت عجیب تھی

ملنے کی آرزو،  نہ بچھڑنے کا کچھ ملال

 ہم کو اس آدمی سے محبت عجیب تھی

آنکھیں ستارہ ساز تھیں باتیں کرشمہ ساز

اس یار سادہ رو کی طبیعت عجیب تھی

گزرا تھا ایک بار،ہوائے خزاں کے بعد

اور موجۂ وصال کی حدّت عجیب تھی

ششدر تھیں سب ذہانتیں اور گنگ سب جواب

اس بے سوال آنکھ کی وحشت عجیب تھی

اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال

اس بار درد ہجر کی شدّت عجیب تھی

٭٭٭

 

آسماں   کوئی جو   تا حد نظر   کھولتا ہے

طائر جاں بھی یہ بھیگے ہوئے پر کھولتا ہے

نام  آتا  ہے  مرا   ہجر  کی  سرگوشی   میں

تیری محفل میں کوئی لب بھی اگر کھولتا ہے

دور  سے  ایک  ستارہ  چلا  آتا ہے  قریب

اور اس خاک پہ  اک  راز سفر  کھولتا ہے

لوٹنے والے ہیں  دن بھر کے تھکے ہارے پرند

اپنے  آغوش محبت  کو شجر  کھولتا  ہے

موجۂ باد صبا بھی  جو کبھی چھو جائے

ایسا لگتا ہے  مرا  زخم جگر  کھولتا ہے

غیر سب جمع ہوئے آتے ہیں پرسش کے لیے

کوئی اس حال میں کب دیدۂ تر کھولتا ہے

کون کرتا ہے زمانوں کا سفر اس دل تک

دیکھئے کون اب اس قصر کا در کھولتا ہے

صورت  صبح  بہاراں  چمن  آراستہ  ہے

چہرہ شاداب ہے اور پیرہن  آراستہ ہے

شہر آباد ہے اک زمزمۂ ہجر سے  اور

گھر تری یاد سے اے جان من ! آراستہ ہے

جیسے تیار ہے آگے کوئی ہنگامۂ زیست

اس  طرح  راہ  میں  باغ  عدن  آراستہ  ہے

کوئی  پیغام  شب وصل  ہوا  کیا  لائی

روح سرشار ہوئی ہے، بدن آراستہ ہے

اے غم دوست!تری آمد خوش رنگ کی خیر

تیرے ہی دم سے  یہ  بزم  سخن  آراستہ  ہے

دل کے اک گوشۂ خاموش میں تصویر تری

پاس  اک  شاخ گل  یاسمن   آراستہ   ہے

رامش و رنگ سے چمکے ہے مرا خواب ایسے

نیند میں جیسے کوئی انجمن   آراستہ ہے

اس نے سورج کی طرح ایک نظر ڈالی تھی

رشتۂ نور سے اب بھی کرن  آراستہ ہے

کیا کسی اور ستارے پہ قدم میں نے رکھا

کیسی پیراستہ دنیا، زمن آراستہ ہے

کیسے آئے گا زمانہ مجھے ملنے کے لیے

میرے رستے میں تو دنیائے فن  آراستہ ہے

٭٭٭

 

ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں

خواب ہیں،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں

تاب،  انجام  محبت   کی   بھلا     کیا    لاتے

نا تواں دل، وہیں  آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ

جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں

اے ہوا!  اور خزاؤں کے علاوہ  کیا  ہے؟

وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں

اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی

بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

کٹ کے وہ پر تو ہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے

دل یہیں  حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں

زندگی  آج طلب گار  ہے کچھ  لمحوں  کی

جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں

ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف

بیش قیمت ہیں،بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

دور کہیں تارا ٹوٹا تھا

سویا رستا جاگ گیا تھا

سر پر تاج نہ دل میں نخوت

وہ کس دیس کا شہزادہ تھا

لہریں لیتے اس پانی پر

شیشے کا اک فرش بچھا تھا

ایک کنارے پر میں ششدر

دوسری جانب تو بیٹھا تھا

بیچ میں پھیلی ساری دنیا

تیرا میرا ملنا کیا تھا

تیری آنکھیں کیوں بھیگی تھیں

ہجر تو میرے گھر اترا تھا

دھوپ ہوئی تھی شہر سے رخصت

اندھیارا   امڈا    آتا   تھا

سرد  ہوا  کا  بازو  تھامے

چاند بہت خاموش کھڑا تھا

خواب کے اندر نیند بھری تھی

نیند کے دل میں خواب چھپا تھا

آخر کو اک پھول سنہرا

ان ہونٹوں پر مرجھایا تھا

٭٭٭

 

دروازے پر قفل پڑا ہے

کون اس پر دستک دیتا ہے

تنہائی ہے تیز ہوا ہے

میرا غم سوکھا پتا ہے

دور تلک پھیلا یہ صحرا

کس کا رستہ دیکھ رہا ہے

رستے سے کچھ دور بسی اک

تنہائی کی محل سرا ہے

تیری یاد وہاں بکھری تھی

میرا درد یہاں پھیلا ہے

پیچھے زخموں کا جنگل تھا

آگے خون کا اک دریا ہے

پھول خزاں میں مرجھاتے ہیں

میرے دل کا پات ہرا ہے

چونک گئی ہوں جیسے سچ مچ

میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے

لمس تیرا نہ کہیں کھو جائے

مٹھی کھولتے ڈر لگتا ہے

اب تو کسی کا آنا مشکل

آدھی رات ہے،سرد ہوا ہے

٭٭٭

 

نیند میں کیسی نیند بھری تھی

آنکھ سے دل تک بے خبری تھی

سپنے میں اک شیش محل تھا

باغ کے اندر بارہ دری تھی

نیلا امبر ، کالا  بن  تھا

پھول گلابی، شاخ ہری تھی

میرا چہرہ ان آنکھوں میں

خوش فہمی یا خوش نظری تھی

جیون کیسا رنگ بھرا تھا

دنیا کتنی بھاگ بھری تھی

خواب میں کون قریب آیا تھا

کس آہٹ سے نیند ڈری تھی

طشت میں تھا اک زہر کا پیالہ

ساتھ ہی اک تلوار دھری تھی

میرے دل میں اس کا غم تھا

اس کے جام میں لال پری تھی

٭٭٭

 

فضائے شہر محبت بدلنے والی ہے

دل تباہ کی قسمت بدلنے والی ہے

بدلنے والی ہے اب سے ردائے لالہ و گل

ہوائے دشت کی نیت بدلنے والی ہے

پھر ایک جلوۂ صد رنگ کے تسلسل میں

نگاہ آئینہ ، حیرت  بدلنے  والی  ہے

بس ایک بار تجھے ہم قریب جاں دیکھیں

پلٹ کے دیکھ، یہ حسرت بدلنے والی ہے

کہیں پہ نیم اجالا، کہیں پہ تاریکی

شب ملال کی صورت بدلنے والی ہے

قمر نے ایک نئے برج میں قدم رکھا

زمیں پہ ہجر کی ساعت بدلنے والی ہے

فسون مرگ میں ہے زندگی کئی دن سے

سو اپنا جامۂ وحشت بدلنے والی ہے

ہمیں تو عشق نے ہجر و وصال میں رکھا

سنا ہے وجہ رفاقت بدلنے والی ہے

خبر ہوئی کہ ہے دل ہی نگار خانۂ حسن

نظر کی سمت مسافت بدلنے والی ہے

نئی صدی ہے اور اس کے نئے تقاضے ہیں

ہر آدمی کی ضرورت بدلنے والی ہے

٭٭٭

 

ہوائے یاد  نے اتنے ستم  کیے اس  شب

ہم ایسے ہجر کے عادی بھی رو دیے اس شب

فلک سے بوندیں ستاروں کی طرح گرتی ہوئی

بہک رہی تھی وہ شب جیسے بے پیے اس شب

بھڑکتے جاتے تھے منظر بناتے جاتے تھے

ہوا کے سامنے رکھے ہوئے دیے اس شب

عجب تھے ہم بھی کہ دیوار نا امیدی میں

دریچہ کھول دیا تھا ترے لیے اس شب

چراغ بام نہ تھے، شمع انتظار نہ تھے

مگر وہ دل کہ مسلسل جلا کیے اس شب

وہ چاک چاک تمنا، وہ زخم زخم بدن

تری نگاہ دل آرام نے سیے اس شب

خبر ہوئی کہ جلاتا ہے کس طرح پانی

وہ اشک شعلوں کے مانند ہی پیے اس شب

وہ شب کہ جس کے تصور سے جان جاتی تھی

نجانے صبح تلک  کس طرح جیے  اس شب

٭٭٭

 

چراغ بام تو ہو، شمع انتظار تو ہو

مگر ہمیں ترے آنے کا اعتبار تو ہو

کسی کی دید تو ہو،نیند کا سراب سہی

خدائے خواب! ہمیں اتنا اختیار تو ہو

کھلیں گے ہم بھی برنگ گل و بسان شرر

ترے نگر میں چراغاں تو ہو، بہار تو ہو

وہ ابر ہے تو کسی خاکنائے پر برسے

جو خاک ہے، تو کسی راہ کا غبار تو ہو

ہوا کے ساتھ ہی آئے، ہوا کے ساتھ ہی جائے

پر ایک رشتۂ جاں اس سے استوار تو ہو

جو زندگی کی طرح سامنے رہا ہر دم

وہ راز اپنی نگاہوں پہ آشکار تو ہو

ہے جس کا ورد شب و روز کے وظیفے میں

در وفا،  تری تسبیح میں شمار تو ہو

یہ کیا، وہ سامنے ہو اور دل یقیں نہ کرے

نگاہ شوق پہ تھوڑا سا اعتبار تو ہو

تمام عمر ستاروں کے ساتھ چلتے رہیں

فلک پہ ایسا کوئی خطّ رہگزار تو ہو

٭٭٭

 

کلفت جاں سے دور دور، رنج و ملال سے جدا

ہم نے تجھے رکھا، ہر ایک صورت حال سے جدا

آج نگاہ اور تھی، اور نگاہ سرد میں

ایک جواب اور تھا، میرے سوال سے جدا

شام اداس،پھول زرد،شمع خموش، دل حزیں

کوئی رہا تھا تھوڑی دیر بزم جمال سے جدا

ہم میں بھی کوئی رنگ ہو ذوق نظر کے ساتھ ساتھ

تم میں بھی کوئی بات ہو، شوق وصال سے جدا

تم کو نہ کچھ خبر ہوئی، آمد و رفت ہجر کی

خانۂ عشق میں رہے، ایسے کمال سے جدا

کیسی عجب ہوا چلی،ایک ہوئے ہیں باغ و دشت

گل سے خفا ہے بوئے گل، رم ہے غزال سے جدا

دھند میں اور دھوپ میں،نیند میں اور خواب میں

ہم تھے مثیل سے الگ ، ہم تھے مثال سے جد

٭٭٭

 

وہ ستارہ ساز آنکھیں

وہ ستارہ ساز آنکھیں

مجھے دور سے جو دیکھیں

تو مرے بدن میں جاگے

کسی روشنی کی خواہش

کسی آرزو کا جادو

کسی حسن کی تمنا

کسی عشق کا تقاضا

مرے بےقرار دل کو

بڑی خامشی سے چھو لے

کوئی نرم رو اداسی

کوئی موج زندگی کی

کوئی لہر سر خوشی کی

کوئی خوش گوار جھونکا

اسی آسماں کے نیچے

اسی بے کراں خلا میں

کہیں ایک سرزمیں ہے

جو تہی رہی نمی سے

رہی روشنی سے عاری

رہی دور زندگی سے

نہیں کوئی اس کا سورج

نہ کوئی مدار اس کا

اسی گمشدہ خلا سے

کسی منزل خبر کو

کسی نیند کے سفر میں

کسی خواب مختصر میں

کبھی یوں ہی بے ارادہ

کبھی یوں ہی اک نظر میں

جو کیا کوئی اشارہ

وہ ستارہ ساز آنکھیں

مجھے کر گئیں ستارہ

٭٭٭

آشوب

کیا  آہ   بھرے     کوئی

جب    آہ   نہیں   جاتی

دل سے بھی ذرا گہری

اور عرش سے کچھ اونچی

کیا   نظم    لکھے      کوئی

جب خواب کی قیمت میں

آدرش  کی  صورت  میں

کشکول      گدائی       کا

شاعر کو   دیا جائے

اور   روک   لیا   جائے

جب شعر اترنے  سے

بادل سے   ذرا    اوپر

تاروں سے  ذرا   نیچے

کیا  خاک   لکھے    کوئی

جب خاک کے میداں پر

انگلی   کو   ہلانے   سے

طوفان    نہیں    اٹھتا

جب شاخ پہ امکاں کی

اس   دشت  تمنا   میں

اک  پھول  نہیں   کھلتا

رہوار     نہیں    رکتے

موہوم  سی    منزل  پر

آنکھوں کے اشارے سے

اور  نور  کی  بوندوں  کی

بوچھاڑ    نہیں    ہوتی

اک نیلے ستارے سے

جب دل کے بلاوے پر

اس  جھیل  کنارے  پر

پیغام      نہیں     آتا

اک    دور   کا   باشندہ

اک  خواب  کا  شہزادہ

گلفام،    نہیں    آتا

بستی میں کوئی عورت

راتوں کو  نہیں سوتی

جاگی ہوئی عورت کی

سو‏ئی ہوئی قسمت پر

جب کوئی بھی دیوانہ

بے چین نہیں ہوتا

دہلیز کے   پتھر سے

ٹکرا  کے جبیں  اپنی

اک شخص نہیں روتا

جب نیند کے شیدائی

خوابوں کو ترستے ہیں

اور دیکھنے  کے  عادی

بینائی  سے ڈرتے ہیں

رہ رہ کے اندھیرے سے

آنکھوں میں  اترتے ہیں

آنکھوں کے اجالوں سے

ان پھول سے بچوں سے

کہہ دو کہ نہ اب ننگے

پاؤں سے چلیں گھر میں

اس فرش پہ مٹی کے

اب گھاس نہیں   اگتی

اب سانپ  نکلتے  ہیں

دیوار سے اور در سے

اب نور کی بوندوں سے

مہکی  ہوئی  مٹی   میں

انمول    اجالے   کے

وہ   پھول  نہیں  کھلتے

اب  جھیل کنارے  پر

بچھڑے بھی نہیں ملتے

بستی میں کوئی عورت

راتوں کو  نہیں  سوتی

اور  جاگنے  والوں  سے

اب   نظم  نہیں  ہوتی

کیا   نظم   لکھے   کوئی

جب جاگنے  سونے میں

پا لینے میں،کھونے میں

جب بات کے ہونے میں

اور  بات   نہ  ہونے میں

کچھ  فرق  نہ  رہ   جائے

کیا   بات  کرے  کوئی

٭٭٭

 

آنکھیں جو کھلیں تو

اب یاد نہیں کہ شہر جاں میں

وہ کیسی عجب ہوا چلی تھی

جو مجھ کو مری ہی زندگی سے

اس سمت اڑا کے لے گئی تھی

پاؤں کے تلے تھی دھند گویا

اور سر پہ سنہری چاندنی تھی

آنکھوں میں عجیب سی تھی ٹھنڈک

چہرے پہ گل آب کی نمی تھی

کچھ دور ستار بج رہا تھا

یا وجد میں کوئی بانسری تھی

آہستہ سے میرا نام لے کر

اک شخص نے کوئی بات کی تھی

آنکھیں جو کھلیں تو میں نے دیکھا

میں کوچۂ عشق میں کھڑی تھی

٭٭٭

 

بارش میں پہاڑ کی ایک شام

بہت تیز بارش ہے

کھڑکی کے شیشوں سے بوچھاڑ ٹکرا رہی ہے

اگر میز سے سب کتابیں ہٹا دوں تو چائے کے برتن رکھے جا سکیں گے

یہ بارش بھی کیسی عجب چیز ہے

یوں بیک وقت دل میں خوشی اور اداسی کسی اور شے سے کہاں

تم جو آؤ تو کھڑکی سے بارش کو اک ساتھ دیکھیں

ابھی تم جو آؤ تو میں تم سے پوچھوں کہ دل میں خوشی اور اداسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مگر جانتی ہوں کہ تم کیا کہو گے

مری جان ‘

اک چیز ہے تیز بارش سے بھی تند

جس سے بیک وقت ملتی ہے دل کو خوشی اور اداسی

‘محبت

مگر تم کہاں ہو؟

یہاں سے وہاں رابطے کا کوئی  بھی وسیلہ نہیں ہے

بہت تیز بارش ہے اور شام گہری ہوئی جا رہی ہے

نجانے تم آؤ نہ آؤ

میں اب شمع دانوں میں شمعیں جلا دوں

کہ آنکھیں بجھا دوں؟

٭٭٭

 

کیا مرے خواب مرے ساتھ ہی مر جائیں گے

ساز خاموش کو چھوتی ہے ـــــــ ذرا آہستہ

ایک امید ـــــ کسی زخمۂ جاں کی صورت

لب پر آتے ہیں دل و ذہن سے الجھے یہ سوال

کسی اندیشے کے مانند ــــ گماں کی صورت

ذہن کے گوشۂ کم فہم میں سویا ہوا علم

جاگتی آنکھ کی پتلی پہ نہیں اترے گا

ڈوب جائے گا اندھیرے میں وہ نادیدہ خیال

جو چمکتا تو کسی دل میں اجالا کرتا

جسم پر نشّے کے مانند تصوّر کوئی،

دل میں تصویر مجسّم کی طرح کوئی وصال

دفن ہو جائے گا اک ٹھہرے ہوئے پانی میں

میری آنکھوں کی طرح عشق کا یہ ماہ جمال

ایک ہی پل میں بکھر جائے گا شیرازۂ جاں

ایک ہی آن میں کھو جائے گی لے ہستی کی

عمر پر پھیلی بھلے وقت کی امید جو ہے

ایک جھٹکے سے یہ دھاگے کی طرح ٹوٹے گی

کیا بکھر جائیں گے نظمائے ہوئے یہ کاغذ

یا کسی دست ملائم سے سنور جائیں گے

کیا ٹھہر جائیں گے اس لوح پہ سب حرف مرے

یا مرے ساتھ زمانے سے گزر جائیں گے

میری آواز کی لہروں سے،  یہ بنتے ہوئے نقش

کیا ہوا کی کسی جنبش سے،  بکھر جائیں گے

زندہ رہ جائیں گے تعبیر محبت  بن کر

یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے؟

٭٭٭

 

VALENTINE’S  DAY

کسے خط لکھیں؟

کس کو رنگیں ستاروں

 دمکتے ہوئے سرخ پھولوں

دھڑکتی ہوئی آرزوؤں بھرا کارڈ بھیجیں،

بھلا کس دریچے پر اب

 صبح سے پیشتر

نو شگفتہ گلابی کلی چھوڑ آئیں،

کسے فون کر کے بتائیں

ہمیں اس سے کتنی محبت ہے،

آغاز عہد جوانی کا معصوم نغمہ

وہ ساز غم عشق سے پھوٹتا اک ترانہ

محبت کا غمگین افسانہ —

 کس کو سنائیں؟

‘محبت’

یہ اک لفظ دل کو بہت درد دینے لگا ہے

محبت ، کہ جس کے فقط ہم دریدہ دلوں نے

پرانے زمانوں میں کچھ خواب دیکھے،

محبت ، کہ جس کے دیے زخم

ہم نے ہمیشہ اکیلے میں چاٹے،

محبت ، کہ جس کے بیانوں سے

سارے زمانوں سے،

 ہم نے فقط رنج پائے

ہماری صدا —

 اس محبت کے جنگل میں

گر کر کہیں کھو گئی ہے،

ہماری ہنسی —

 اس محبت کے رستے میں

اک سرد پتھر پہ

تھک ہار کر سو گئی ہے،

کوئی — یادگار محبت کے اس

سبز، چمکیلے دن میں

ہماری ہنسی کو، کسی جگمگاتی کرن سے

ذرا گدگدا کر جگائے،

اندھیرے کے جنگل سے

گم گشتہ اک خواب کو ڈھونڈ لائے،

جو بیتاب آنکھیں

وہاں باغ میں —

زرد پتّوں پہ بکھری پڑی ہیں

کوئی ان کو جا کر اٹھائے،

‘یہ ٹوٹا ہوا دل —

 محبت کے قابل ہے’

کوئی ہمیں بھی یہ مژدہ سنائے

٭٭٭

 

چلو کشمیر چلتے ہیں

جہاں پر برف گرتی ہے

جہاں پتھر کے نیچے پھول کھلتے ہیں

جہاں چشمے ابلتے ہیں

جہاں بارش برستی ہے

برستی بارشوں میں بھی

جہاں کہسار جلتے ہیں

ہمیں اپنے پرانے خواب کی انگلی پکڑ کر

ایک وادی میں اترنا ہے

جہاں دشمن کا قبضہ ہے

یہ وہ قطعہ جس پر مصطفے نے فصل بوئی تھی

یہاں دشمن کی چوکی ہے

ادھر وہ کنج جس میں فاطمہ نے گھر بنایا تھا

وہاں پر خانۂ  ایذا رسانی ہے

وہ میداں جس میں ننھے

 کھیل میں مصروف رہتے تھے

وہاں پر ٹینک چلتے ہیں

چلو دشمن سے ملتے ہیں

ہمیں اک بار پھر اس سے یہ کہنا ہے

” ستم ڈھاؤ

اجازت ہے تمہیں دنیا کے سارے منصفوں

انسانیت کے ٹھیکے داروں کی،

ستم ڈھاؤ مگر اتنا تو بتلاؤ

کہ تم یہ جان لے لو گے

تو کیا ایمان بھی لو گے؟

ہمارا خوں بہاؤ گے

تو کیا جو خون میں شامل ہے

وہ پیمان بھی لو گے؟

دیے جب تم بجھا دو گے

تو کیا پھر انجم و مہتاب لوٹو گے؟

ہماری نیند تو تم لوٹ سکتے ہو

مگر کیسے ہمارا خواب لوٹو گے؟

٭٭٭

 

یروشلم

منار مقدّس پہ —- وعدے کی تصدیق بن کر

فرشتوں کے شانوں پہ ہاتھوں کو پھیلائے

اک روز عیسٰی جو اترا

تو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا،

سلیماں کے ہیکل میں

سونے کے بچھڑے کی مورت سجی تھی

فضاؤں میں ”لا ” کی صدا تھی

ہواؤں کی آواز نوحہ سرا تھی

منار مقدّس کے نیچے بسی

کلمہ گوؤں کی سخت وحشت زدہ بستیوں پر

عجب سحر خاموش چھایا تھا

فرعون دوراں کے قانون شب رنگ سے

تابش نور حق پر، اندھیرے کا پہرہ تھا

جبر مسلسل کے ہاتھوں میں جکڑی ہوئی—– وقت کی نبض تھی

گنگ تھی ساری صدیوں کی آواز

اور عہد موجود کی چشم انصاف پتھرا چکی تھی

فلسطیں کی خاک لہو رنگ پر پاؤں رکھا

تو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا،

محمّد کی مظلوم امّت کے

معصوم پھولوں کے ہاتھوں میں پتھر تھے

اور سامنے—- امّت سامری کی سپہ تھی

وہ پتھر نشانوں پہ لگتے نہیں تھے

مگر امّت سامری کی کسی توپ کا قہر

اپنے نشانوں سے ہرگز نہیں چوکتا تھا

فضاؤں میں ”لا ” کی صدا تھی

وہ ”لا ” کی صدا جو زمیں پر بپا تھی

وہ ”لا” کی صدا جو فلک کے

کناروں پہ نوحہ سرا تھی

زمیں سے فلک تک

اسی اک صدائے قضا کا فسوں تھا

وہ شہروں پہ پھیلا ہوا کوئی دشت جنوں تھا

جو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا

٭٭٭

شاعرہ کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید