فہرست مضامین
منتخب سندھی کہانیاں
حصہ اول
انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول
حصہ دوم
بارود
ہری موٹوانی
احمد آباد میں ایک ادبی سیمینار کے دوران میری اس سے ملاقات ہوئی تھی، جو آگے چل کر دوستی میں بدل گئی۔ اسے سندھی ادب پڑھنے کا بڑا شوق تھا، وہ کونج کا لائف ٹائم ممبر بن گیا۔ (ہری موٹوانی ’’سہ ماہی کونج‘‘ نامی سندھی میگزین کے ایڈیٹر رہے ہیں)
ادب کے ساتھ موسیقی میں بھی اچھی دلچسپی رہی۔ ٹھمری اس کی من پسند راگنی تھی، جسے سنتے ہی اسے نشہ چڑھ جاتا تھا۔ سر جھومنے لگتا اور ہاتھ ہر سر تال پر تھپکی دیتے رہتے تھے۔ کاروبار بینکنگ کا تھا۔ سود پر پیسے لینے اور دینے کے سلسلے میں وہ اکثر بمبئی آیا جایا کرتا تھا۔ جب بھی بمبئی آتا مجھے فون کرتا، ہوٹل میں بلاتا۔ گجرات میں شراب پر پابندی تھی، بمبئی میں دل کھول کر پیتا اور پلاتا تھا۔
ایک دن احمد آباد سے اس کا فون آیا۔ ’’ہائے کاکا۔ میرا ایک کام کرو گے؟‘‘
اس نے میرا لکھا ہوا سندھ کا سفر نامہ پڑھا تھا۔ وہاں سب مجھے کاکا کہہ کر بلاتے تھے، تو یہ بھی ’’کاکا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا۔
’’ہاں بتاؤ، کیا کام ہے؟‘‘
’’میری بات توجہ سے سنیں، سن رہے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں، سن رہا ہوں‘‘ میں نے کہا۔
’’بمبئی میں ایک نئی ٹھمری گلو کارہ آئی ہے، بہت اچھا گاتی ہے، میں اس کو سننا چاہتا ہوں۔ معلوم کریں کہ وہ کہاں پر گاتی ہے؟‘‘
’’نام تو بتاؤ؟‘‘
’’نام چمپا بائی ہے۔‘‘
’’چمپا بائی۔‘‘ میں نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’پھر تو وہ ضرور کسی کوٹھے پر گاتی ہو گی۔ تم کوٹھے پر جاؤ گے؟‘‘
’’کاکا، یہ کون سی بڑی بات ہے۔ میں تو اسے سننے کہیں بھی جا سکتا ہوں۔‘‘
’’اچھا، میں پتہ لگاؤں گا۔‘‘
دوسرے دن اس کا فون پھر آیا۔ میں نے چمپا بائی کا پتہ لگا لیا تھا۔ وہ اوپیرا ہاؤس کے قریب ایک کوٹھے پر مجرا کرتی ہے، یہ معلومات میں نے اسے دی۔
میں نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا، ’’مجھ جیسے سفید پوشوں کے لیے کوٹھے پر چلنا ٹھیک نہ ہو گا، تم اکیلے ہی چلے جانا۔‘‘
وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑا، میں چپ رہا۔ ہنستے ہوئے اس نے کہا، ’’کاکا آپ بھول رہے ہیں کہ آپ مصنف ہیں، اور مصنف کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ آپ نے خود ایک بار ہندی کے مصنف جینندر کمار کا قصہ سنایا تھا، جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’جسم بوڑھا ہوا ہے تو کیا، دل تو جوان ہے۔ کاکا دل سے آپ بھی جوان ہیں۔‘‘ اور اس نے فون رکھ دیا۔
ہفتے کی رات ہم دونوں چمپا بائی کے کوٹھے پر گئے۔ چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ ہم دونوں ایک طرف اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ واقعی میں کمال کی ٹھمری گائی۔ گاتے گاتے جو حرکتیں سُر سے ترنگیں بن کر نکل رہی تھیں، اس سے بدن میں سنسنی سی دوڑنے لگی تھی۔ کتنے ہی پرستار تھے جو اس پر سے نوٹوں کا صدقہ اتار رہے تھے۔
میرا احمد آبادی دوست چپ چاپ بیٹھا راگنی سے لطف لیتا ہوا جھوم رہا تھا۔ رات کے دس بجے کچھ لوگ چلے گئے، کچھ جانے کی تیاری میں تھے، لیکن ہم بیٹھے رہے۔ سوا گیارہ بجے چمپا بائی نے ہمارے سامنے آ کر سلام کیا۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ اجازت چاہتی ہے اور ساتھ میں بخشش کی طلب گار بھی ہے۔ میرے دوست نے بریف کیس کھولا، ایک لفافہ چمپا بائی کی طرف بڑھایا، جسے لیتے ہوئے چمپا بائی نے پھر جھک کر سلام کیا اور پلٹ کر چل دی۔ ہم دونوں بھی نیچے اتر آئے، تاہم میں نے دیکھا میرے دوست پر راگنی کے سُروں کا خمار چھایا ہوا تھا۔
اس کے بعد اکثر اوقات یہی ہوتا رہا۔ وہ جب بھی بمبئی آتا، شام تک سارے کام پورے کرتا اور رات کو کوٹھے پر پہنچ جاتا۔ رات کو گیارہ اور بارہ کے بیچ ہونے والے مزے کو سمیٹ کر وہ لوٹتا۔ مجھے گھر چھوڑتا اور خود ہوٹل چلا جاتا۔ پھر ایک دفعہ وہ دو ڈھائی مہینے تک نہ آیا، نہ ہی اس کا کوئی فون۔ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا؟ میں بھی اپنے کاموں میں مصروف رہا۔ پھر ایک دن اچانک آ پہنچا اور ہم دونوں کوٹھے پہنچے۔ میرے دوست کو دیکھ کر چمپا بائی کی آنکھیں ایسے چمک اٹھیں جیسے سورج نکلنے پر ہر طرف روشنی چھا گئی ہو۔ میرے دوست کے چہرے پر بھی ایسی ہی چمک پھیلنے لگی، جیسے صبح کی تازہ ہوا کے لگنے سے مرجھایا پھول کھل اٹھتا ہے۔ رات کو جب اجازت لینی چاہی تو چمپا بائی نے مسکراتے پوچھا۔ ’’طبیعت ناساز ہے کیا؟‘‘
یہ سوال میرے دوست سے کیا گیا اور اس نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’یورپ گیا تھا۔‘‘
’’آپ یورپ گئے تھے؟‘‘ اس کو شاید یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔
’’بزنس ٹور تھا‘‘
’’ظاہر ہے، وہاں آپ کو ہماری یاد کہاں آئی ہو گی؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ نزاکت کے ساتھ سامنے آ کر بیٹھ گئی۔
میرے دوست نے جیب سے پرس نکالا، مگر اس میں سے نوٹ نہیں، ایک تصویر نکالا۔ میں حیرانی کے ساتھ اس تصویر کو دیکھنے لگا، وہ رنگین تصویر چمپا بائی کی تھی۔
تصویر چمپا بائی کو دکھاتے ہوئے کہا، ’’آپ ہر وقت ہمیں یاد ہیں اور پرس میں محفوظ ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ چمپا بائی یہ دیکھ کر ایک طرف تو حیران ہوئی، لیکن دوسری جانب اس کو فخر محسوس ہوا۔ اچانک وہ اٹھی، اندر گئی اور ایک لفافہ لے کر واپس آئی۔ لفافے میں دیا ہوا چیک میرے دوست کی جانب بڑھا۔ وہ بھی حیران ہو گیا اور کہہ اٹھا، ’’یہ تو میرا دیا ہوا چیک ہے۔ ابھی تک کیش نہیں کروایا ہے؟ یہ مجھے دے دیں، تو میں آپ کو کیش کرا دوں۔‘‘
چمپا بائی چیک والا ہاتھ پیچھے کیا اور مسکرا کر کہہ اٹھی، ’’آپ میری تصویر اپنے بٹوے میں رکھ سکتے ہیں تو کیا میں آپ کا دیا ہوا چیک اپنے پاس سنبھال کر نہیں رکھ سکتی؟‘‘
میرا دوست لا جواب ہو گیا۔ شاید دل میں خوش بھی تھا۔ پھر چمپا بائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’تصویر محض تصویر ہے یادگار کیلئے، پر یہ چیک ہے جس سے تمہیں پیسے ملیں گے۔‘‘
چمپا بائی کا چہرہ اتر گیا، اداس لہجے میں بولی، ’’یہ سچ ہے کہ ہم پیسوں کے لیے ناچتے گاتے ہیں، لیکن ہمارا دل بھی چاہتا ہے کہ ہم آپ کی دی ہوئی سوغاتیں سنبھال کر رکھیں، جیسے آپ نے میری تصویر رکھی ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ بغیر جواب سنے اندر چلی گئی۔ ہم دونوں بھی نیچے آئے۔ پر دوست کے دل پر چمپا بائی کی بات کا بوجھ تھا یا اس چیک کو اس کے پاس محفوظ رہنے کا فخر تھا، میں کہہ نہیں سکتا۔
کتنے موسم بدلے، گرمی آئی، سردی آئی، بہار آئی، خزاں آ کر لوٹ گئی، پر میرا دوست بمبئی نہیں آیا۔ اس دوران میں ہانگ کانگ کا سفر کر کے لوٹ آیا، جس کی تفصیل کونج میں شائع ہوئی۔ اس کو بھیجا گیا پرچہ اس نوٹ کے ساتھ واپس آیا کہ ’’آدمی موجود نہیں۔‘‘ میں حیران تھا کہ آخر وہ گیا کہاں؟ ایک سال سے زیادہ گزر گیا۔ اچانک وہ ایک دن آ دھمکا۔ تاج محل ہوٹل سے فون کیا۔ فوراً آؤ۔ فون نمبر اور روم نمبر بھی بتایا۔ میں ایک گھنٹے میں اس کے پاس پہنچا۔ وہ انتظار کر رہا تھا۔ پہلے ہوٹل میں اچھا سا ناشتا کیا، جوس وغیرہ پیا اور پھر حال احوال سنایا۔
یورپ کے پچھلے ٹرپ میں، وہ کچھ نئی جان پہچان بنا آیا تھا۔ اس بار جب وہ گیا تو انہوں نے اسے امریکن آرمی کے لیے ایک معاہدہ لے کر دیا۔ امریکہ افغانستان کے دہشت گردوں پر فضائی حملے کر رہا تھا، اور انہیں جن چیزوں کی ضرورت تھی۔ وہ میرا یہ دوست انہیں سپلائی کرتا رہا۔ اس معاہدے میں اس نے لاکھوں ڈالر کمائے۔ جنگ بند ہوئی تو معاہدہ بھی پورا ہوا۔ اور وہ انڈیا لوٹ آیا۔
پیسہ بڑا بادشاہ ہے۔ پہلے وہ بمبئی آتا تو سستے ہوٹل میں ٹھہرتا، اب اس کے پاس ڈالر ہیں، وہ تاج محل میں آ کر ٹھہرا ہے۔ ہوٹل نے اے سی کار کا بھی بندوبست کیا ہوا تھا۔ میرے دوست کا سوٹ بھی بہت قیمتی تھا۔
اس رات وہ مجھے گاڑی میں چمپا بائی کے کوٹھے پر لے گیا۔ لیکن پنچھی اڑ گیا تھا، پنجرہ خالی تھا۔ دوست کو گہرا صدمہ پہنچا۔ وہ خالی خالی نظروں سے وہ میری طرف دیکھنے لگا، ایسے جیسے سمندر میں بیچ بھنور، اس کی کشتی شکست کھا گئی ہو اور وہ اس سے بچ کر نکلنے کے لیے کوشش کر رہا ہو۔
میں نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا، ’’میں پتہ لگاتا ہوں کہ وہ کہاں گئی ہے۔‘‘ وہ بھی آنکھوں میں امید لیے مجھے دیکھتا رہا اور مجھے لگا کہ سونے کا پنجرہ بھی بے مول ہے، اگر اس میں سے جیتا جاگتا پرندہ اڑ جائے۔ میں نے تھوڑے پیسے خرچ کر کے چمپا بائی کا پتہ چلایا۔ ہماری تلاش کی منزل ایک ایسے محلے میں تھی، جہاں کوئی بھی بھلا آدمی جانے سے کتراتا۔
وہ چکلا تھا، ایک ریڈ لائٹ ایریا۔
گاڑی کو روڈ پر پارک کر کے ہم دونوں چمپا بائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک تنگ تاریک گلی میں داخل ہوئے۔ میں اس راستے سے کئی بار گزرا ہوں۔ میرے ساتھی لکشمن کے پریس میں جانے کے لیے گھر کے قریب سے بس نمبر۶۵ اور ۶۹ سے سفر کرنے کے بعد، اسی راستے سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔
میر ادوست بے چین ہوتا رہا۔ کہاں امریکہ کا عیش و آرام اور کہاں بمبئی کی یہ گندی گلی۔ ریڈ لائٹ ایریا۔
ہم چمپا بائی کی کھولی پر پہنچے، جہاں وہ دروازے کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ گہرے میک اپ کے باوجود وہ کوئی خاص خوبصورت نہیں لگ رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور مسکرائی۔
میرے دوست کی حالت خشک پتے کی طرح تھی۔ چمپا نے ہی کہا، ’’مجھے امید تھی کہ ایک دن آپ مجھے تلاش ہی لیں گے۔‘‘
ہم دونوں اب بھی چپ تھے۔ چمپا نے اشارے سے کہا، ’’آؤ، اندر آؤ۔‘‘ وہ خود تھوڑا اندر ہو کر کھڑی رہی۔ ہم جیسے تیسے اندر داخل ہوئے۔
میں نے دیکھا کہ دیگر کھولیوں میں بیٹھی، کھڑی، موہن کلپنا (ایک مستندسندھی مصنف) کی نظر میں، آدھے گھنٹے کی چڑیلیں ہمیں دیکھ کر مسکرانے لگیں۔ ہمیں مالدار رئیس سمجھ کر شاید وہ چمپا کے نصیب پر رشک کر رہی تھیں۔
’’کیسے ڈھونڈ لیا؟‘‘ چمپا نے پلنگ پر بچھی چادر کی سلوٹیں ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا۔ ہم نے کچھ نہیں کہا۔
’’ٹھہرو ایک کرسی پڑوس کی کھولی سے لے آتی ہوں۔‘‘
’’نہیں ہم یہاں ٹھیک ہے۔‘‘ میرے دوست نے جیسے تیسے منہ کھولا۔
’’پرانی کوٹھی پر جا کر خبر لگی ہو گی۔‘‘
’’ہاں، کسی طرح آپ کا پتہ لگایا۔‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’بیٹھیں تو میں آپ کو بتاؤں کہ میں یہاں کس طرح پہنچی؟‘‘
ہمارے دلی خواہش بھی یہی تھی کہ پتہ تو لگے کہ وہ کن حالات میں یہاں پہنچی ہے۔ اس نے خود ہی اپنے بارے میں بتانا شروع کیا۔
’’زندگی بڑی بے رحم ہے۔۔‘‘ چمپا نے ہمیں پلنگ پر بٹھایا اور خود ہمارے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ میں نے سوچا یہ ’’زندگی‘‘ لفظ بھی عجیب ہے۔ کبھی بے رحم، تو کبھی مہربان۔ کبھی کڑوی جیسے زہر، تو کبھی شہد جیسی میٹھی۔ چمپا کی باتوں سے یہی حقیقت سامنے آئی۔ وہ کہتی رہی، ’’گاتی بجاتی رہی، آپ جیسے قدردان آئے گئے، زندگی سے کوئی شکایت نہ رہی۔ ایک دن شہر کا مئیر آیا، میرے ساتھ رات گزارنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے اسے کہا، ’’میں رنڈی نہیں، گلو کارہ ہوں۔‘‘
اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’’ایک ہی بات ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’ایک بات نہیں ہے، تم جسم فروش ہو، میں راگ گا کر بخشش لیتی ہوں۔‘‘
ناراض ہو گیا اور تیور بدل کر بولا، ’’راضی خوشی نہیں مانو گی تو زبردستی کروں گا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی، ہمارے دلوں میں کہیں بارود سلگنے لگا۔
’’ایک رات کوٹھی میں ریڈ کروا کر، زبردستی مجھے اپنے بنگلے پر اٹھوا کر لے گیا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا، اس کے سامنے بہت گڑگڑائی کہ میں ایک آرٹسٹ ہوں، گاتی ہوں، عبادت کرتی ہوں۔‘‘ پر وہ ظلم سے ہنسنے لگا جیسے میرا مذاق اڑا رہا ہو۔ اسی رات، اس وحشی درندے نے مجھے رنڈی بنا کر چھوڑا۔‘‘
جیسے بارود پھٹا ہو، بڑا دھماکہ ہوا ہو، ہمارا دل بھی جیسے پرزے پرزے ہو کر بکھر گیا ہو۔ جب دھماکہ ہوا، دھواں چھٹا، تب ہم نے سنا چمپا بائی کہہ رہی تھی۔
’’اس دن کے بعد میں ٹھمری گلو کارہ نہیں رہی، جسم فروش رنڈی ہو گئی ہوں۔‘‘
اس دن کے بعد میں نے اپنے احمد آبادی دوست کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔
***
دل کچے دھاگے سا!
مدد علی سندھی
وہ موسمِ سرما کی ایک سرد اور تاریک رات تھی۔ آسمان پر البتہ کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے سفید بادل بھی تیر رہے تھے۔ ٹھنڈک بھی روز کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ میں اپنے گھر کے برآمدے میں گڑیوں سے کھیل رہا تھا۔ کچھ دور انگیٹھی میں کوئلے سلگ رہے تھے۔ ایسے میں امی اور نانی اماں، تیار ہو کر باہر آئیں اور میرے برابر میں کھڑی ہو گئیں۔
’’نانی اماں، کہاں جا رہی ہو، مجھے بھی ساتھ لے چلو۔‘‘
میں نے گڑیا کو چھوڑ کر نانی کے برقعے کو پکڑا۔
’’مہناز ولایت سے لوٹ آئی ہے، ہم ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ امی نے کہا۔
جب میں نے مہناز آپا کی ولایت سے آنے کی بات سنی تو رونے لگا، کیونکہ بہت دنوں سے مہناز آپا کے متعلق بہت ساری باتیں سنتا رہا تھا۔ امی اور نانی کے منہ سے سن سن کر ان کے مختلف روپ میرے ذہن میں نقش ہو گئے تھے۔
مجھے زمین پر لوٹتے دیکھ نانی نے مجھے اٹھا کر تیار کیا۔ فٹافٹ نیلی نیکر اور بوشرٹ پہن کر میں ہواؤں میں چھلانگیں مارتا ہوا نانی اور امی سے بھی دو قدم آگے چلتے ہوئے وکٹوریہ میں جا بیٹھا۔ وکٹوریہ چلنے لگی تو میں نے گاڑی کی پچھلی کھڑکی کا چمڑے اٹھایا اور ارد گرد کے مناظر کو دیکھنے لگا۔ ان دنوں حیدرآباد کی سڑکوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ نہ اتنا زیادہ ٹریفک، نہ سانس میں بندش پیدا کرنے والا گاڑھا کسیلا دھواں، نہ آٹو رکشاؤں کا شور شرابہ۔ موٹر کاریں بھی خال خال دکھائی پڑتیں۔ سڑکوں پر صرف وکٹوریہ گاڑیاں، ٹانگے اور سائیکلیں۔ فٹ پاتھ سڑک سے کافی اوپر، جن کے دونوں اطراف پیپل اور برگد کے گھنے سایہ دار درخت، تلک چاڑی سے اسٹیشن روڈ تک کا پورا علاقہ ان گھنے درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ رسالہ روڈ کے دونوں اطراف پر بڑے سارے باغیچے (ایک حیدر چوک تک اور دوسرا جہاں آج کل گول بلڈنگ ہے)، جس میں اونچے اونچے درخت، ہری ہری فرحت بخش گھاس، پانی کی جھیلیں اور فوارے، روز شام کے وقت ہم ان دونوں باغیچوں کی سیر کے لئے جایا کرتے تھے۔
وکٹوریہ سیشن کورٹ سے ہوتی ہوئی، پیچھے کی طرف سے بمبئی بیکری کے پاس آ کر رکی تو میں نانی اماں کے ساتھ اتر کر بیکری کے اندر چلا گیا۔ نانی اماں اور امی جب بھی کسی قریبی جاننے والے کے پاس جاتی تھیں، تو سب سے پہلے یہاں آ کر کیک ضرور لیا کرتی تھیں۔ (مضبوط ساگوان کی لکڑی سے بنی الماریاں، جن پر لگے شیشوں کے پیچھے موجود رنگ برنگے کیک للچایا کرتے تھے۔ شیشے کے بڑے بڑے گول مرتبان ہمیشہ تازہ خستہ بسکٹوں سے لبالب بھرے ہوئے ہوتے۔)
وکٹوریہ پھر چلنے لگی تو میں دوبارہ کھڑکی سے کنٹونمنٹ کی سڑک کو دیکھنے لگا۔ طویل سڑک پر سوائے درختوں سے گرے خشک اور زرد پتوں کے، جو ہوا میں ادھر ادھر اڑ رہے تھے، اور کچھ بھی نہیں تھا۔ جب وکٹوریہ باؤنڈری کو پار کرتی ہوئی، ایک سرخ پتھر سے بنائی گئی بڑی اور دو منزلہ عمارت کے پاس رک گئی، تو ہم اس سے اترے اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے۔
توجیہ تھا مہناز بانو کا شاہانہ گھر، جو صرف گھر نہیں، بلکہ محل تھا۔ سارے کاسارا سرخ پتھر سے بنایا ہوا تھا۔ اس جگہ پر سو تو فقط کمرے ہوا کرتے تھے، اوپر سے نیچے۔ اس مکان کے دو دروازے ہوتے تھے۔ ایک کا رخ جنوب کی جانب اور دوسرے کا مشرق کی جانب۔ بڑے بڑے لکڑی کی شہتیروں والے کمرے، برآمدے، سنگ مرمر کی سیڑھیاں، بڑے بڑے ہوا دان، جن میں لگے رنگین شیشوں سے چھنتی دن کی دھوپ ماحول میں قوس و قزح کے رنگ بکھیرتی۔ سنگِ مر مر سے تراشے سفید براق شیر، جو اپنے کندھوں پر اس جگہ کی خوبصورت دیواروں کا بوجھ اٹھائے، آنے جانے والوں کو دیکھا کرتے تھے۔ اوپر کے گلیارے پر بنی بارہ دری تو دور سے ہی دکھائی دیتی تھی۔ اس بڑی دو منزلہ عمارت میں مغرب کی طرف دالان اور مشرق کی طرف چھوٹا ساباغ تھا، جس کے کناروں کے اطراف نیم اور دیگر اقسام کے درخت تھے اور ان کے درمیان میں ایک خوبصورت فوارہ تھا، جس سے پانی آبشار بن کر نیچے تالاب میں گرتا رہتا تھا۔
’’یہ جادو ئی محل ضرور کسی شہزادی نے اپنے رہنے کے لئے بنوایا ہو گا۔‘‘ ہر روز رات کو امی اور نانی اماں سے گل بکاؤلی، مومل رانو اور پھولوں کی رانی والی کہانیاں سن کر میرے تصور میں بھی ہمیشہ صرف محل، شہزادیاں اور دیو بسے رہتے تھے۔ خوبصورت اور کومل شہزادی، جسے ایک بڑا سا دیو، ایک شاہی محل میں قید کر بیٹھا تھا، جسے کہانی کے آخر میں ایک شہزادہ آ کر مار دیتا ہے اور شہزادی کو آزاد کرواتا ہے۔
امی، آنگن میں کسی سے گلے ملیں تو میں اسے دیکھنے لگا۔ امی، مہناز آپا کی ساس سے باتیں کر رہی تھیں۔ وہ ہمیں برآمدے میں لے کر چلیں، جس میں سب سے پہلے ایک شاہانہ کمرہ تھا، جسے ڈرائنگ روم کے نام سے پکارا جاتا تھا (ان دنوں یہ لفظ ڈرائنگ روم بھی کتنا کشش بھرا ہو کرتا تھا)۔ وہ کمرہ پرانے وکٹورین دور کے فرنیچر سے بھرا ہوا تھا۔ کوچ، تپائیاں، سائیڈ ٹیبلز، اوپر چھت پر فانوس۔ بلب (جن کی تاریں دکھائی نہیں دیتی تھیں، فقط سیاہ لوہے کے بٹن کو دبانے سے بتیاں روشن ہو جایا کرتی تھیں۔ انہیں جلانے سے سفید سفید دیواریں جگمگا جاتی تھیں۔ میں جب بھی اس ڈرائنگ روم میں بیٹھتا تھا تو حیران ہوا کرتا تھا کہ آخر یہ بتیاں بغیر تاروں کے کس طرح جلتی ہیں۔ اس وقت تک انڈر گراؤنڈ بجلی کی وائرنگ کا چلن عام نہیں تھا۔)
’’مہناز کہاں ہے؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’بیٹھی ہے اوپر کمرے میں۔‘‘ مہناز آپا کی ساس نے ناک کو مروڑتے ہوئے کہا۔
’’بلا لیتی ہوں۔‘‘ ایسا کہہ کر وہ پھر امی کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ وہ امی کی بچپن کی سہیلی تھیں۔ اس کے ساتھ اسکول میں پڑھتی تھیں۔ اسی لیے ان کی باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ میں نے ان کی باتیں سننے کے بجائے نانی اماں کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ان کے کپڑے گھسیٹ کر انہیں اٹھنے پر مجبور کرتا رہا، ’’چلو چلیں مجھے مہناز آپا کو دیکھنا ہے۔‘‘
آخر نانی اماں مجھے لے کر مہناز آپا سے ملانے چل پڑیں۔ ڈرائنگ روم کے کونے سے ایک چھوٹا آنگن تھا، جسے پار کرتے ایک چھوٹے سے کمرے سے ہوتے، ایک بڑے کمرے کے دروازے پر پہنچے۔
سامنے مضبوط ساگوان کا بنا ہوا دروازہ تھا، جس پر لگے ہوئے رنگین شیشے اندر جلتی روشنی میں جگمگا رہے تھے۔ کمرہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ میرے سامنے ڈبل بیڈ پر ایک گوری خوبصورت عورت (شہزادی) لیٹی ہوئی تھی، جس کے ہاتھوں میں کوئی کتاب تھی، لیکن جس کے دو نین بائیں جانب والی کھلی کھڑکی کے باہر بکھری ہوئی تاریکی کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے امی کی زبانی جو کہانیاں سنی تھیں، انہیں کہانیوں کی شہزادی اپنی تمام تر خوبصورتی، کومل بدن کے ساتھ میرے سامنے موجود تھی۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی اٹھیں اور آ کر پیار سے نانی اماں سے ملیں۔ (بھلا قد، لمبے سیاہ بال، خوبصورت نین نقش، دمکتا مکھڑا، گلاب کے پھول جیسے سرخ ہونٹ)۔
مجھے یوں گم صم اپنی طرف تکتے ہوئے دیکھ کر بازو سے پکڑتے ہوئے کہا، ’’ماسی شانتی کا بیٹا ہے نا؟‘‘
’’ہاں بیٹا ہے، اور دیکھو نہ تمہیں کس طرح دیکھ رہا ہے۔ تم سے ملنے کے لئے ایک دم بے چین ہوا جا رہا تھا۔‘‘ نانی اماں نے اسے بتایا۔
’’بالکل اپنی ماں پر گیا ہے۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے مجھے اپنی گود میں لے کر بیڈ پر بیٹھیں اور نانی اماں سے باتیں کرنے لگیں اور میں ان کے کمرے میں رکھی چیزوں کو دیکھنے لگا۔
مہناز آپا، بہت برسوں بعد اپنے شوہر کے ساتھ ولایت سے واپس لوٹی تھیں، اسی لیے ان کا کمرہ بھی عجیب و غریب چیزوں سے سجا ہوا تھا۔ ڈبل بیڈ، سائیڈ ٹیبلز، دیواروں پر پینٹنگز لکڑی کے بڑے فریم میں جڑی، ایک کونے میں شیشے کی الماری، جس کے ایک حصہ میں کتابیں، دوسرے میں گڑیا اور کھلونے، کچھ فاصلے پر نٹنگ مشین تھی جس میں تاریں لگی ہوئی تھیں۔ (بعد میں پتہ چلا کہ وہ مشین مہناز آپا حیدرآباد میں سب سے پہلے لندن سے لے کر آئی تھیں اور وہ سن ستاون کا زمانہ تھا۔ )
کمرے کے مشرقی جانب ایک شاہانہ گیلری تھی، جس پر لٹکے سرخ پردے، ریشمی رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ ان سے نیچے باغ میں موجود درختوں کی شاخیں ہوا میں ہلتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ باہر افق پر اندھیرا چھا چکا تھا۔ کھڑکی سے سردیوں کی سرد لہر آ کر ہمیں چھو رہی تھی اور میں نے مہناز آپا کی گود میں بیٹھے بیٹھے انہیں دیکھا۔ ان کا چہرہ چودھویں کی چاند کی مانند روشن تھا۔ ان کی نیلی گہری آنکھوں میں بے حد گہرائی تھی (جی ہاں تمام شہزادیاں ایسی ہی ہوتی ہوں گی، شہزادی گل بکاؤلی، پھولوں کی رانی، مومل رانو، امی سے سنی ہوئی سبھی کہانیاں اور ان کہانیوں کی شہزادیاں آ کر میرے سامنے کھڑی ہو گئی ہیں۔ )
’’کیا نام ہے تمہارا۔‘‘ انہوں نے میری ٹھوڑی کو اپنے خوبصورت ہاتھ سے چھوتے ہوئے کہا۔
میں نے دیکھا، ان کے خوبصورت ہاتھوں کے ناخن لمبے تھے، جو سرخ نیل پالش کی وجہ سے چمک رہے تھے۔ میں نے شرماتے ہوئے نام بتایا تو کہنے لگیں، ’’میں تو تمہیں مدھو کہہ کر بلاؤں گی۔۔۔ کیا کہہ کر بلاؤں گی؟ ۔۔۔ بولو نہ بابا؟‘‘
شرم کے مارے میں نے کچھ بھی نہیں کہا، تو ہنسنے لگیں۔ ان کے موتی جیسے دانت اور گلابی ہونٹ۔ میں گردن اٹھا کر انہیں تکنے لگا اور امی کی سنائی پھول رانی کی کہانی کو یاد کرنے لگا۔ (رات میں امی کو بتاؤں گا کہ پھول رانی، دیو کی قید سے خود کو آزاد کروا کے، اپنے محل میں واپس آ گئی ہے )
تو یہ تھی مہناز آپا سے میری پہلی ملاقات، جس نے میرے ناسمجھ دل پر ان کیلئے، نہ سمجھ آنے والی جادو ئی جذبوں کی جھلملاتی باریک چادر ڈال دی تھی۔ میری عمر اس وقت تقریباً سات آٹھ سال کی رہی ہو گی۔ پر مجھے ابھی تک ان کی شخصیت کے سارے رنگ اور روپ یاد ہیں۔
مہناز آپا حیدرآباد کی اپر سوسائٹی کی ایک ذہین خاتون تھیں۔ اس وقت کی مہذب سوسائٹی میں مشکل سے ہی کوئی دوسری عورت فیشن، خوبصورتی اور لباس میں ان کا مقابلہ کر سکتی تھی۔ جیم خانے کی محفلوں سے لے کر سوشل نیٹ ورک تک ان کی خوبصورتی کے چرچے تھے۔ ان کے میکے والے سول لائنز اور سسرالی شہر میں رہتے تھے۔ مہناز آپا کے شوہر ایک نامور ڈاکٹر تھے، جو حال ہی میں لندن سے ایک نئی ڈگری لے کر آئے تھے۔ ان کے سسر کو برٹش کے زمانے میں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ وہ ہمیشہ اس عمارت کے بڑے اور طویل برآمدے میں آرام کرسی پر لیٹے پائپ پیا کرتا تھا۔ ہمارے ان کے ساتھ پرانے خاندانی تعلقات ہوا کرتے تھے، اسی لیے آپس میں زیادہ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ کوئی دن خالی نہیں ہوتا تھا، جب ہمارے یہاں سے کوئی ان کے یہاں یا ان کے وہاں سے کوئی ہماری طرف نہ آتا ہو۔ اماں اگر جاتی ہیں تو ان کا سارا دن مہناز آپا والوں کے پاس گزرتا تھا اور وہ بھی لوگ بھی آتے تو شام ڈھلے ہی ہمارے یہاں سے جاتے۔
عجیب سا زمانہ تھا، زندگی کی ہر ایک بات پر ابھی مشینی زندگی نے اپنے رنگ نہیں جمائے تھے اور آج دکھ فقط اس بات کا ہے کہ وہ محبت بھرے قریبی رشتے جانے کس طرف منہ موڑ کر چلے گئے ہیں۔ ان کا پتہ کسی کو نہیں چلتا، جن سے محبت تھی، جن سے پیار تھا، جن لوگوں کے چہرے ایک دوسرے کو بھلے لگتے تھے۔
اور جیسے جیسے میں نے مہناز آپا کے پاس مزید جانا شروع کیا، ویسے ویسے ہمارے بیچ کا تعلق بھی گہرے سے گہرا ہوتا گیا۔ وہ مجھ سے پیار بھی تو بہت کرتی تھیں۔ میں ایک دن چھوڑ کر ان سے ملنے ضرور جایا کرتا تھا۔ نانی اماں اکثر ان کے شوہر سے دوا لینے چلی جاتی تھیں، تو میں بھی اس کے ساتھ لگ جاتا ( مہناز آپا کے شوہر کا مطب بھی اسی شاہانہ عمارت کے نچلے حصے میں ہوتا تھا)، نانی اماں ان کے شوہر سے دوا لیتی تھیں اور میں مہناز آپا کے پاس اوپر جا کر کھیلا کرتا۔ مہناز آپا کا کمرا، عمارت کے سامنے والے حصے میں تھا، جس کے سامنے فرانسیسی طرز کی ایک شاہانہ گیلری تھی، جسے درختوں کی شاخیں چھو لیا کرتی تھیں۔ تیز ہوا کے جھونکوں کی وجہ سے ان درختوں کے سوکھے اور زرد پتے جھڑ کر نیچے فوارے میں گرا کرتے تھے۔ سرخ پتھر کی اس شاہانہ گیلری میں، میں بیٹھ کر کھیلا کرتا تھا اور مہناز آپا میرے قریب آرام کرسی ڈال کر بیٹھ جاتی تھیں۔ گیلری کے نیچے چھوٹا باغ ہوتا تھا، جس میں دو چار نیم اور چند دیگر اقسام کے گھنے درخت اور ان کے درمیان میں سنگ مرمر کا بنا فوارہ تھا، جس سے پانی نکل کر تالاب میں جا کر گرتا تھا۔ اس کے ارد گرد ہری ہری گھاس اور تھوڑی دور پر اس عمارت کا شیشم سے بنا سیاہ دروازہ تھا۔ دروازے کے سامنے سڑک تھی، جہاں پیپل کے درخت کے نیچے کبھی کبھار کوئی ٹانگا گزرتا تھا، تو اس کی آواز بھی اندر آتی تھی۔ کبھی کبھی میں اور مہناز آپا اس گیلری کے کٹہرے پر سے جھک کر نیچے تالاب کو دیکھتے تھے۔ تیز ہوائیں ہمارے پاس سے گزر کر، مہناز آپا کے لمبے بال اڑا کر، درختوں کے بیچ شور کرتی ہوئی چلی جاتیں۔ میں اس وقت مہناز آپا کے چہرے کی طرف دیکھتا، جو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گالوں پر رکھ کر، نیچے پانی کو دیکھ رہی ہوتی تھیں۔
ایک بار میں اور مہناز آپا گیلری میں بیٹھے تھے۔ وہ جب بھی خاموش ہوتیں تو سگریٹ جلا کر آسمان میں ادھر ادھر تکا کرتی تھیں۔ اس دن بھی وہ سگریٹ ایک خوبصورت ہولڈر میں ڈال کر، لائٹر سے جلا کر، اس کے چھوٹے چھوٹے کش لیتے ہوئے سامنے درختوں کی چوٹیوں کو دیکھنے لگیں۔ میں جو ان کے پاس کھڑا تھا۔ انہیں سگریٹ پیتے دیکھ کہنے لگا، ’’آپا، آپ یہ مت پیا کرو؟‘‘
یہ سن کر انہوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ وہ اسی وقت نہا کر باہر آئی تھیں۔ ان کے سیاہ اور لمبے بال کندھے پر جھول رہے تھے۔ انہیں ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے مجھے بانہوں میں جکڑ کر اپنے قریب لاتے ہوئے کہنے لگیں۔
’’کیوں مدھو، تم کو یہ اچھا نہیں لگتا کیا؟‘‘ میں نے سر ہلا کر حامی بھری تو میرے بالوں کو اپنی خوبصورت مخروطی انگلیوں سے سنوارتے ہوئے کہنے لگیں، ’’اچھا اب نہیں پیوں گی۔‘‘
میں گردن جھکائے ان کے خوبصورت نازک پاؤں دیکھنے لگا۔ مہناز آپا کے ہاتھ پاؤں بہت خوبصورت تھے (عورتیں کہا کرتی تھیں کہ مہناز جیسا خوبصورت حسن انہوں نے بہت کم دیکھا ہے)۔ ان کی خوبصورت لمبی انگلیاں، ان کے بڑھائے ہوئے ناخن، جنہیں وہ سرخ نیل پالش لگاتی تھیں، روشنی میں ہمیشہ چمکتے تھے۔ اچانک میں نے ان کے ناخنوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپا، کیا اپنے ہاتھوں کے ناخن بھی ولایت سے بنوا کر لائی ہیں؟‘‘
یہ سن کر وہ ہنسنے لگیں، ’’کیوں تمہیں اچھے لگتے ہیں کیا؟‘‘
میں ان کے ہاتھوں کے سرخ ناخنوں کو دیکھتے، اپنے دونوں ہاتھ ان کے سامنے پھیلاتے ہوئے کہنے لگا، ’’آپ میرے ناخن بھی اپنے جیسے بنا دیں۔ میں گھر جا کر انہیں لال کروں گا۔‘‘
وہ زور سے ہنسنے لگیں تو میں شرمندہ ہو گیا۔ انہوں نے ہنستے ہنستے کہا، ’’چلو تمہارے ناخنوں کو نیل پالش لگاؤں۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے وہ مجھے اندر بیڈروم میں لے کر چلی گئیں۔ ان کی ڈریسنگ ٹیبل سرخ رنگ کی تھی، جس کے آئینے کے سامنے مختلف اقسام کی شیشیاں تھیں۔ ایک شیشی لے کر وہ کہنے لگیں، ’’کون سا رنگ لگاؤں؟‘‘
’’آپا آپ کو کون سا رنگ پسند ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ریڈ۔۔۔ مجھے سرخ رنگ پسند ہے؟‘‘ وہ اپنے رنگین ناخنوں کو دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔
’’مجھے بھی وہی لگا دو۔‘‘
اس نے فوراً میرے چہرے کی طرف دیکھا۔
’’مدھو، تجھے یہ رنگ بھی میری وجہ سے اچھا لگتا ہے؟‘‘
میں نے گردن ہلائی، پھر وہ ہنس کر کہنے لگیں، ’’چلو، آؤ تو تمہارے ناخنوں کو نیل پالش لگاؤں۔‘‘
ایسا کہہ کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے پاس رکھے اسٹول پر بیٹھ گئیں اور میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ناخنوں کو نیل پالش لگانے لگیں۔ میں سامنے موجود آئینے میں انہیں اور خود کو دیکھنے لگا۔
اچانک ایک شخص بیڈروم میں تیزی سے داخل ہوا۔ سوٹڈ بوٹڈ، جسم بھرا ہوا، رنگ صاف، پر ہونٹ بے حد موٹے۔ مہناز آپا، جن کے ہونٹوں میں اٹکے ہولڈر کا سگریٹ سلگ کر ختم ہو گیا تھا، میرے ہاتھوں میں نیل پالش لگاتے ہوئے، ایک نظر اُس پر ڈالی، پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ بیڈروم کے اندر آنے والا شخص مجھے نجانے کیوں اچھا نہیں لگا تھا۔ اس وقت مجھے اس شخص سے بہت ڈر لگا۔ میں ڈری سہمی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ کپڑوں کی الماری میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ اچانک اس نے کوئی چیز الماری سے نکال کر جیب میں ڈالی اور آگے بڑھ کر ہمارے پاس آ کھڑا ہوا، تو میں مزید ڈرتے ہوئے مہناز آپا سے چپک کر بیٹھ گیا۔
’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس کی آواز بہت بھاری تھی، تیز، کڑک اور جذبات سے خالی۔
’’کیوں ڈاکٹر صاحب، کچھ چاہیے تھا کیا، جو اس وقت اوپر آئے ہو؟‘‘ مہناز آپا نے بغیر سر اٹھائے، اس کی جانب دیکھنے کے بجائے، میرے دوسرے ہاتھ کے ناخنوں کو نیل پالش لگانے میں مصروف رہیں۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ اس نے پوچھا
’’ماسی شانتی کا بیٹا ہے؟‘‘ آپا نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔؟‘‘ اس نے تیز آواز میں کہا۔ ’’پر تم سگریٹ کم پھونکا کرو۔‘‘
’’میں اپنے برے بھلے سے اچھی طرح واقف ہوں۔ آپ براہِ مہربانی بالکل فکر نہ کیا کریں۔‘‘ مہناز آپا نے میری چھوٹی انگلی کے ناخن کو نہایت ہی خوبصورتی سے پالش لگاتے ہوئے کہا۔
نہ جانے اچانک اس شخص کو کیا ہوا، وہ مہناز آپا کے ساتھ تیز لہجے میں بات کرنے لگا۔ وہ بھی پلٹ کر اسے اسی لہجے میں جواب دینے لگیں تو وہ شخص غصے میں زور زور سے زمین پر پیر پٹختا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
یہی تھا مہناز آپا کا شوہر، جسے پہلی بار میں نے اس حالت میں دیکھا۔ مہناز آپا اور ان کے شوہر کے مزاج میں بہت فرق تھا، پر میرا ننھا ذہن اس وقت اس فرق کو سمجھ نہیں پایا۔
ایک بار ہمارے گھر آپا کی ساس آئی تھیں۔ امی اور وہ، دونوں پلنگ پر بیٹھی باتیں کرتی رہیں اور میں قریب ہی رکھے پالنے میں بیٹھا تھا۔ میرے ہاتھوں میں نانی اماں کے ہاتھ سے تیار ’’گول جھومر‘‘ تھا (کسی زمانے میں چھوٹے نوزائیدہ بچے کے لئے رنگین کپڑوں سے اسے بنایا جاتا تھا۔ اس کے اندر روئی ٹھونسی ہوئی ہوتی تھی اور باہر کڑھائی اور چمکیلے ستارے ٹانکے جاتے تھے۔ یہ بچے کے پالنے کے اوپر والی لکڑی پر ٹانگی جاتی تھی)، جو میں پالنے کی لکڑی پر باندھ رہا تھا۔ اچانک بیٹھے بیٹھے میں نے محسوس کیا کہ مہناز آپا کی ساس کے منہ سے مہناز نکلا۔ بس میں نے فوری طور پر اپنے کان ان کی باتوں میں لگا دیے۔ آپا کی ساس ان کے برائیاں کر رہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں۔
’’بھئی عورت ہو تو ایسی، اتنے سکھ دیے ہیں پھر بھی اپنے شوہر کی صورت بالکل اچھی نہیں لگتی۔ ابھاگن کو ولایت لے گیا، تو وہاں سے بھی اکیلی اکیلی لوٹ آئی۔ پھر اسے لے گیا اور اب اتنے برس وہاں گذار کر آئی ہے، تو بھی ذرا دھیان نہیں دیتی ہے اس کی طرف۔‘‘
’’آپ کو زبردستی شادی نہیں کروانی چاہیے تھی۔‘‘ امی نے کہا۔
’’تو پھر کیا کرتے۔ چچیرا رشتہ، لین دین کے تعلقات، ہمیں کیا پتہ تھا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے۔ میرا بیٹا تو ولایت میں تھا۔ اب تو اسے بھی ہر بات کا پتہ چل گیا ہے۔‘‘ ایسا کہہ کر انہوں نے دو چار تلخ الفاظ مہناز آپا کیلئے کہے۔ ان کا ایسا کہنا تھا، میں جو پالنے پر بیٹھا تھا، وہیں سے چلا اٹھا، ’’آپ سب آپاسے جل رہے ہو۔‘‘
میرا ایسا کہنا جیسے بھنبھور کو آگ لگ گئی۔ امی نے مجھے پھٹکارا، ’’شرم نہیں آتی بڑوں کے بیچ میں بات کرتے ہوئے۔‘‘
آپا کی ساس، جو اس محبت کو دیکھ کر دہل گئی تھیں، کہنے لگیں، ’’اما، اب چھوڑو بھی، اس کا بھی کوئی قصور نہیں۔‘‘
میں اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے پالنے سے نیچے اترا، گول جھومر کو وہیں پھینک کر باہر نکلنے لگا، تو مہناز آپا کی ساس کی آواز سنی، ’’اتنے چھوٹے بچے کو بھی اپنا ہمدرد بنا لیا ہے۔‘‘
باہر آنگن میں نکل کر میں اپنی ہرنی کے پاس جا بیٹھا۔ جب کبھی بھی کسی سے روٹھتا تھا تو جا کر اسی کے پاس روتا تھا۔ اس واقعہ کے بعد جب بھی کبھی مہناز آپا کی ساس ہمارے گھر آتیں تو میرے سامنے ایک لفظ بھی بات نہیں کرتی تھیں۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے، میری چاہت مہناز آپا کیلئے بڑھتی رہی۔ ا نکی سحر انگیز شخصیت کے کئی رنگ میرے سامنے آتے رہے۔ ان کے بیڈروم کو دیکھ کر ان کی فطرت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ انہیں پھولوں سے، خاص طور پر مو تیا کے پھولوں سے بے انتہا دلی وابستگی تھی، جنہیں وہ ’’رابیل‘‘ کہہ کر پکارتیں اور میں نے ’’رابیل ’’لفظ بھی پہلی بار انہیں کے منہ سے سنا تھا۔ وہ اکثر شام کے وقت اپنے جوڑے میں انہی پھولوں کا گجرا لگاتی تھیں۔ اس بیڈروم میں داخل ہوتے ہی پھولوں کی خوشبو استقبال کرتی۔ وہیں دو کونوں میں بڑے بڑے اٹالین گلدان رکھے رہتے تھے، جن کے پھول روز ان کی نوکرانی تبدیل کر دیتی تھی۔ اس بیڈروم کی سفید دیواروں پر خو7بصورت پینٹنگز ٹنگی ہوئی تھیں۔ جب بھی اس سے ملنے جاؤ تو کبھی وہ نٹنگ کرتی ہوئی ملتیں، کبھی کتاب پڑھتے ہوئے، تو کبھی ستار بجاتے ہوئے۔ وہ ستار بجانا کب اور کہاں سیکھیں، یہ تو یاد نہیں اور نہ ہی میں نے ان سے اس بابت پوچھا، پر ان کو ستار بجاتے کب دیکھا تھا، یہ اچھی طرح یاد ہے۔
جب میرا، ان کے گھر کے قریب واقع ’’سینٹ بونا وینچر‘‘ میں داخلہ ہوا، تو پہلے دن ہی میں نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا۔ ایسی حالت دیکھ کر میرا نوکر ’’یارو‘‘ مجھے مہناز آپا کے پاس چھوڑ آیا۔
اس وقت صبح کے دس گیارہ بجے ہوں گے۔ میں نے ان کے بیڈروم میں نم سوجی آنکھوں سے داخل ہوا، تو وہ نیچے قالین پر بیٹھی ستار بجا رہی تھیں۔ وہ سیاہ رنگ کی ساڑی پہنے تھیں، جس پر ستارے لگے ہوئے تھے۔ بیڈروم میں اندھیرے اور روشنی کے بیچ کا عالم تھا۔ کھڑکیوں کے پردے اوپر اٹھے ہوئے نہیں تھے، لیکن ہوا دان سے آتی روشنی میں سیاہ ساڑی پر لگے ستارے چمک رہے تھے۔ گلدانوں کے تازہ پھولوں کی مہک کمرے کو مہکا رہی تھی۔ وہ مجھے اس وقت اتنی اچھی لگیں کہ میں اپنا رونا بھول ان کے پاس جا بیٹھا۔ انہوں نے اپنے نین موندے ہوئے تھے اور سارے ماحول پر ستار کی اداس اور جادوئی آواز چھائی ہوئی تھی۔ اچانک ستار بجاتے بجاتے انہیں کسی کے ہونے کا احساس ہوا۔ آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ ستار کی آواز تھم گئی اور کمرے میں ایک عجب خاموشی سی چھا گئی۔ میں، جو ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا، انہیں اپنی طرف دیکھتے شرما گیا۔ انہوں نے ستار ایک طرف رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرا دیں۔
’’آپا میں نہیں پڑھوں گا۔‘‘ میں نے روتے ہوئے کہا۔
مجھے اسکول کے لباس میں دیکھ کر سمجھ گئیں کہ میں اسکول سے بھاگ آیا ہوں۔
’’نہیں مدھو، ایسے نہیں کہتے۔‘‘ انہوں نے بازوؤں کو آگے کرتے ہوئے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔
’’تم پڑھو گے اور ایک دن پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنو گے۔‘‘
میں، جو پہلے سے ہی رونی صورت لئے بیٹھا تھا۔ اب سسکتے ہوئے اس کی گود میں منہ چھپانے لگا۔
وہ اپنی انگلیوں سے میرے بال سنوارنے لگیں، تو میں نے کہا۔ ’’آپا، مجھے اسکول سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’کیوں پاگل، کیا ہوا ہے اسکول کو، اتنا اچھا تو ہے اسکول۔‘‘
’’نہیں آپا، میں نہیں پڑھوں گا، بالکل نہیں پڑھوں گا۔‘‘
’’نہیں پڑھو گے؟‘‘
میں نے انکار میں سر ہلایا تو وہ مسکرا کہنے لگیں، ’’نہیں پڑھو گے تو بڑے لڑکے کس طرح بنو گے؟ نہیں مدھو، تم پڑھ لکھ کر بڑے ہو جاؤ، تو پھر میں تمہارے پاس چل کر رہوں گی۔‘‘ ایک بار میں نے ان سے کہا تھا کہ آپا آپ چل کر ہمارے پاس رہیں۔ یہاں یہ سبھی لوگ آپ سے جھگڑتے ہیں۔
میں خاموشی سے ان کی گود میں منہ چھپائے بیٹھا رہا۔ وہ میرے بال سلجھاتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’’کیوں مدھو پڑھو گے نا؟‘‘
میں گردن ہلا کر کہنے لگا، ’’آپا، میں پڑھوں گا اور بعد میں جب میں بڑا آدمی بن جاؤں گا، پھر آپ چل کر ہمارے ساتھ رہنا۔‘‘
یہ سن کر انہوں نے ہنستے ہوئے میری پیشانی چومی اور کہنے لگیں۔ ’’اچھا، اب ایسا کیوں نہ کریں کہ تم روز شام میرے یہاں آ کر پڑھو، میں تم کو ٹیبل بھی سکھاؤں گی۔ سیکھو گے نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
انہوں نے ہنس کر میرے آنسو اپنے ہاتھ سے پونچھے، پھر میں نے ان سے پوچھا، ’’آپا، آپ یہ کیا بجا رہی ہیں؟‘‘
’’یہ۔۔۔ ستار ہے۔‘‘ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تیر گئی، ’’کیوں، تمہیں اس کی آواز اچھی لگتی ہے؟‘‘
’’سچ آپا، آپ بہت اچھا بجا رہی تھیں۔ اسے پھر بجائیں نا؟‘‘
یہ کہہ کر میں نے برابر میں رکھے ستار کے تاروں کو چھو لیا۔
انہوں نے پل بھر کچھ سوچتے ہوئے ستار اٹھایا اور آہستہ آہستہ سے ایک دھن چھیڑی۔ مہناز آپا ستار بھی اچھا بجا تی تھیں۔ میں جھوم جھوم کر اسے سنتا رہا۔ وہ ستار بجاتی رہیں اور میں وارفتگی سے ان کی خوبصورت اور نازک انگلیوں کو تاروں پر تھرکتے ہوئے دیکھتا رہا۔ آج اس بات کو گزرے مدت ہو گئی ہے، پر میں اب تک ان خوبصورت انگلیوں اور ستار کی اس اداس دھن کو نہیں بھلا پایا ہوں۔
اچانک ستار بجاتے بجاتے ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے، پھر آنکھوں سے نکل کر گال پر ٹھہر گئے۔ یہ دیکھ کر میں ڈر سا گیا، فوری طور پر اٹھ کر اپنے ہاتھوں سے ان آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگا، ’’آپا مت روئیں، آپا مت روئیں۔‘‘
اور انہوں نے ستار بجانا بند کرتے ہوئے میرے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں پر رکھا اور سسکتے ہوئے رونے لگیں۔
اس رات جب آسمان پر ستاروں نے اپنی محفل سجائی تو میں امی کی بغل میں لیٹا ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھتا رہا۔ مجھے ٹکر ٹکر آسمان کو تکتے ہوئے دیکھ کر امی کہنے لگی، ’’بیٹا، آسمان میں یوں دیکھنا نہیں چاہئے، نہیں تو نیند میں ڈر لگنے لگتا ہے۔‘‘
’’کیوں بھلا؟ کیا ہے آسمان میں؟ ابھی تو گھنے سائے بھی آنگن پر نہیں چھائے ہیں۔ میں تو نہیں ڈر رہا۔‘‘ میں نے ضد کرتے ہوئے غصے بھرے لہجے میں کہا۔
’’بیٹے ضد نہیں کرتے۔‘‘ امی نے میرے بال سنوارتے ہوئے کہا، ’’کیوں آج کوئی کہانی نہیں سنو گے کیا؟‘‘
میں نے اپنے دونوں ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے اور ستاروں کی طرف مسلسل دیکھتے ہوئے کہنے لگا، ’’امی آپ مجھے وہ جو ایک کہانی سناتی ہیں نا، جس میں شہزادی کو ایک دیو نے بڑے سے محل سے اٹھا کر اپنی جیل میں رکھا ہوا ہے۔ وہی پھر سنائیں نا۔‘‘
’’وہ تو بہت بار سنائی ہے۔‘‘ امی مسکرانے لگی۔
’’بس وہی کہانی اچھی لگتی ہے۔‘‘ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’امی، وہ شہزادی دیو کی قید سے کب آزاد ہو گی؟‘‘
’’جب شہزادہ دیو کو مار کر اسے قید سے آزاد کروائے گا۔‘‘
یہ کہہ کر، امی نے سوز بھرے لہجے میں کہانی سنانی شروع کی اور میری آنکھیں کہانی سنتے سنتے نہ جانے کب بند ہو گئیں۔ اس رات میں نے کتنی ہی بار ڈراؤنے خواب دیکھے اور ہڑبڑاہٹ میں اٹھتا بیٹھتا رہا۔ اور ساری رات نیند میں تڑپتا رہا۔
’’کل رات مدھو خواب میں ڈر گیا۔‘‘ صبح صبح اٹھتے ہی امی نے نانی اماں سے کہا، جو دودھ کا گلاس پکڑے میرے سرہانے کھڑی تھیں۔ نانی نے آگے بڑھ کر میرے ماتھے کو ہاتھ لگایا تو وہ انہیں جلتا ہوا محسوس ہوا۔ بخار کا نام سنتے ہی پورے گھر میں ہلچل مچ گئی۔ فوری طور پر پڑوس والے ڈاکٹر عزیز احمد کو بلوایا گیا، جس نے آ کر سوئی لگائی اور دوا دی۔ میرا اسکول جانا بند ہو گیا۔ شام کو نانی اماں، بخاری شاہ میں ’’مائی بچل‘‘ کے یہاں دعا مانگ کر پلیٹیں لکھوا کر لے آئیں ( ایک روایت کے مطابق پلیٹ میں کچھ آیتیں لکھی جاتی ہیں۔ روز صبح ان کو دھو کر اس کا پانی پانی پلایا جاتا تھا)
دو چار دن مہناز آپا کے پاس نہیں گیا تو ایک شام وہ خود ہمارے گھر آ پہنچیں۔ میں اس وقت تازہ تازہ بخار سے اٹھا تھا اور اس خوشی کے نشے کے نتیجے میں، خریدی گئی تتلیوں والی بو شرٹ اور کالی مخمل کی نیکر پہن کر آنگن میں پھر رہا تھا۔ ( حیدر آباد شہر میں اس وقت ریڈی میڈ کپڑوں کی فقط ایک ہی بڑی دکان ہوا کرتی تھی، جس میں بچوں اور بڑوں کے طرح طرح کے ریڈی میڈ کپڑے اور کاسمیٹکس بھرے ہوتے تھے۔ وہ دکان تلک چاڑی کے اوپر، جہاں اب ہوٹل جبیس ہے، اس کے نزدیک ہوا کرتی تھی)
انہیں دیکھتے ہی دوڑ کر میں ان سے لپٹ گیا۔ انہوں نے آسمانی رنگ کی ساڑی پہن رکھی تھی، جس پرہ ہُرمِچ کی خوبصورت کاریگری کی ہوئی تھی اور پاؤں میں اونچی ایڑی والی سینڈل تھی۔ میں خوش ہوتے ہوئے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی ہرنی کے پاس لے آیا۔ اپنی ساری گڑیائیں، بچے کی جھومر اور بخار کے دوران خریدے گئے کھلونے دکھانے لگا۔ وہ میرے لئے چاکلیٹ کا ایک خوبصورت پیکٹ لے کر آئی تھیں، جو میں نے اسی وقت اپنی دراز میں چھپا کے رکھ دیا۔ مجھے خوش ہوتا دیکھ کر امی، مہناز آپا سے کہنے لگیں، ’’اتنے دنوں کے بعد آج تجھے دیکھ کر ہنسا ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ مسکرانے لگیں۔
اس شام وہ مجھے اپنے ساتھ گھمانے لے گئیں۔ ہمارے گھر کے سامنے ان کی موٹر کھڑی تھی۔ میں چھلانگیں مارتا ہوا ان کے ساتھ چلنے لگا۔ انہوں نے کار کا دروازہ کھول کر مجھے آگے والی سیٹ پر بٹھایا اور پھر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ میں مسرت بھرے انداز میں انہیں کار چلاتے ہوئے دیکھتا رہا (اس وقت حیدرآباد شہر میں ایک آدھ ہی موٹر کاریں ہوا کرتی تھیں )۔
حیدرآباد کی سڑکیں شام کے دھندلے پن سے گھری ہوئی تھیں۔ فٹ پاتھ پر لوگ چہل قدمی کر رہے تھے۔ سڑکوں پر لگے بجلی کے کھمبوں میں لٹکتے بلب جلنے شروع ہو گئے تھے۔ ہماری موٹر آہستہ آہستہ سیاہ ڈامر کی پختہ سڑک پر چلتی جا رہی تھی۔ جب موڑ پر موٹر مڑ کر بڑی سڑک پر چلنے لگی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’’مدھو، کہاں گھومنے چلو گے؟‘‘
میں، جو اس وقت کھڑکی سے باغ کے قد آور درختوں کو دیکھ رہا تھا، خوش ہو کر کہنے لگا، ’’آپا، جہاں کہیں بھی لے چلیں آپ کی مرضی۔‘‘ پیچھے سے آتا چڑیوں کا شور، شام کے اندھیرے میں عجیب لگ رہا تھا۔ میں سیٹ پر ٹیک لگا کر بیٹھتا تو کبھی سیدھا ہو کر سامنے باغ کو دیکھنے لگتا۔ موٹر جب سندھ یونیورسٹی کے پاس سے گزری تو ٹاور کے گھڑیال کی ٹھن ٹھن شروع ہو گئی۔ برابر میں موجود سیشن کورٹ کی عمارت، احاطے میں اگے درختوں کی وجہ سے بہت ڈراؤنی لگ رہی تھی۔ ہمارے دائیں طرف سیشن کورٹ اور بائیں طرف سندھ یونیورسٹی کی عمارت کا ٹاور، اس کے سامنے شاہی باغ اور اس کا لوہے کا جھولا تھا۔ سبھی شام کے دھندلکے میں گھرے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ کورٹ سے کچھ آگے جا کر بائیں طرف سول لائنز کا بنگلہ نمبر ایک تھا، جس کے صحن میں بہت ساری گائیں بندھی تھیں۔ میں یہ سارا منظر بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا۔ ہمارے سامنے ڈاک بنگلہ اور کچھ فاصلے پر جیم خانہ تھا، جس کی باہر جلتی لائٹیں دور سے دکھائی دے رہی تھیں۔ موٹر جب پریم پارک کے قریب پہنچی تو میں نے آپا کو بتایا، ’’آپا، ہم پریم پارک ایک بار گھومنے آئے تھے۔‘‘
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اچھا، پھر آج ہم اپنے مدھو کو کلب گھمائیں گے۔‘‘
میں دھیان سے پریم پارک کے درختوں تلے چڑھائی پر بنی پتھر کی بنچیں اور سول لائنز کی طرف جاتے راستے پر درختوں کی قطاروں کو دیکھنے لگا۔
گاڑی جب جیم خانہ کلب کے اندر پہنچی تو میں کلب کی عمارت کو دیکھنے لگا، جس کے آگے کتنے ہی درخت لگے تھے اور ان کے درمیان سے شام کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آ جا رہی تھیں۔ عمارت کے اوپری حصے میں جلنے والے بلب ہوا میں جھوم رہے تھے۔
انہوں نے موٹر لے جا کر نیم کے گھنے درخت کے نیچے کھڑی کی اور دروازہ کھول کر نیچے اتریں۔ پھر میری طرف والا دروازہ کھول کر مجھے کلب کے اندر لے جانے لگیں۔ ہمارے اوپر رات کا اندھیرا چھانے لگا تھا۔
ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے تو سامنے ایک خوبصورت لان نظر آیا، جس کے اونچے اونچے درختوں کے نیچے بہت ساری کرسیاں اور میزیں رکھی تھیں اور ان پر بہت سے مرد اور عورتیں بیٹھے آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ ہم لان سے گذر کر اندر برآمدے میں داخل ہوئے۔ ایک طرف بلیئرڈ روم تھا جس کتنے ہی سوٹڈ بوٹڈ مرد منہ میں سگار یا پائپ لگائے اور ہاتھوں میں لمبی اسٹکس پکڑے ایک طویل ٹیبل کے ارد گرد کھڑے تھے۔
’’یہ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے فوراً ہی مہناز آپا سے پوچھا۔
’’یہ کھیل ہے بلیئرڈ‘‘ انہوں نے جواب دیا اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر بلیئرڈ روم سے نکالتے ہوئے عورتوں کے ہال میں لے کر جانے لگیں۔ لیڈیز ہال۔ ایک شاہانہ کمرہ تھا، جو وکٹوریہ دور کے فرنیچر سے بھرا ہوا تھا۔
نیچے غالیچے، اس پر سوفے، میزیں، تپائیاں، کرسیاں اور ادھر ادھر رکھے گلدان تازے پھولوں سے ہال کو مہکا رہے تھے۔ ہال میں کتنی ہی خوش مزاج عورتیں سج دھج کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ سارا ہال طرح طرح کی خوشبوؤں سے مہک رہا تھا۔ آپا مجھے لے کر ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگی، تو کتنی عورتیں ہی آ کر ان سے ملیں۔ وہ عورتوں کو ہیلو ہائے کرتے ہوئے میری برابر والی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
’’باہر چلو، لان میں چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مجھے شرماتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ میں نے گردن ہلا کر حامی بھری تو وہ مسکرا دیں۔ میں واقعی عورتوں کے اتنے بڑے گروپ میں جھجک رہا تھا۔ وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر باہر آئیں۔ برآمدے میں کچھ بچے بھی تھے، جنہیں دیکھ کر وہ کہنے لگیں، ’’دیکھو مدھو یہ بچے کس طرح ادھر ادھر آ جا رہے ہیں۔ کھیل رہے ہیں اور تم ہو کہ شرما رہے ہو۔‘‘
باہر لان میں ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھی میزوں کے ارد گرد موجود کرسیوں پر کتنے ہی جوڑے بیٹھے تھے۔ کچھ بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔ کلب کی تمام بتیاں جل چکی تھیں، جن کے اوپر آسمان پر بکھرے ہوئے بادلوں کے بیچ میں سے کہیں کہیں کچھ بھٹکے ہوئے ستارے جھانک کر ہمیں دیکھ رہے تھے۔
مہناز آپا مجھے ایک ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر خود میرے سامنے بیٹھ گئیں۔ پھر سگریٹ سلگا کر اس کے چھوٹے چھوٹے کش لینے لگیں۔ سفید لباس پہنے ویٹر ہمارے سامنے آ کر کھڑا ہوا، تو اسے چیز سینڈوچ اور آئس کریم کا آرڈر دے کر وہ دوبارہ سگریٹ پینے لگیں۔
اچانک انہوں نے پوچھا، ’’مدھو، تنگ تو نہیں ہو رہے ہو۔‘‘
’’نہیں آپا، مجھے بہت مزا آ رہا ہے۔‘‘
حیدرآباد کی گرمیوں کی رات اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ سارے ماحول پر غلبہ حاصل کرتی جا رہی تھی۔ ہوا میں پھولوں کی خوشبو بسی تھی۔ تھوڑے فاصلے پر موجود عورتیں، مردوں اور بچوں کے بولنے کی ہلکی سی آوازیں ہم تک بھی پہنچ رہی تھیں۔ پر وہ نہ جانے کون سے خیالوں میں گم، سگریٹ کے کش لگا رہی تھیں۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتی، اوپر آسمان کو دیکھ رہی تھیں۔ اوپر آسمان بھی اب بادلوں سے صاف ہو چکا تھا، جس پر چاندمسکرا اور ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ وہ مسلسل سگریٹ پیتے کھلے آسمان کو تک رہی تھیں (میں نے اس وقت ہلکی ہلکی روشنی میں ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا کہ بڑا ہو کر میں مہناز آپا سے شادی کروں گا اور انہیں اپنے پاس رکھوں گا)۔
اور پھر میں نے ہر روز شام کے وقت مہناز آپا کے پاس جانا شروع کر دیا۔ وہ مجھے شام کے وقت پڑھاتی تھیں۔ کبھی اپنے بیڈروم میں تو، کبھی چبوترے پر۔ اس عرصے میں کتنی ہی بار ان کے شوہر سے آمناسامنا ہوا۔ پر نہ انہوں نے مجھ سے بات کی، نہ میں نے ان کے قریب جانے کی کوشش کی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک بار میرے بازو پر لال نشان پڑ گیا تھا، شاید کوئی جِلدی بیماری تھی، جب مہناز آپا نے وہ نشان دیکھا تو پوچھ بیٹھیں، ’’مدھو یہ کیا ہوا ہے؟‘‘
’’آپا، اس میں کھجلی ہوتی ہے۔ پاؤڈر بھی لگایا ہے پھر بھی جلن ہے۔‘‘ میں نے ان سے کہا، یہ سنتے ہی وہ مجھے نیچے لے گئیں۔ اس وقت شام کے پانچ یا چھ بجے تھے۔ نیچے آنگن میں ان کا شوہر واش بیسن کے قریب برش کر رہا تھا۔ مہناز آپا نے، فوری طور پر شوہر سے کہا، ’’دیکھئے، چھوٹو کو یہ نشان پڑ گیا ہے۔ اسے کوئی دوا لکھ دیں۔‘‘
میں نے بازو آگے کیا تو انہوں نے برش کرتے ہوئے، نہایت ہی غصے سے جھڑکتے ہوئے کہا، ’’میں یہاں کسی بھی مریض کو نہیں دیکھتا ہوں۔ دکھانا تو صبح اسے ہسپتال بھیج دینا۔‘‘
پھٹکار سن کر میں کچھ پیچھے ہٹ گیا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ مہناز آپا نے اس وقت انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ غصے میں میرا بازو پکڑا اور اپنے بیڈروم لے گئیں۔ پھر الماری سے پاؤڈر نکال کر میرے بازو میں لگانے لگیں۔ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اپنے ہاتھوں سے انہیں پوچھتے ہوئے مجھے نیچے لے آئیں۔ فوارے کے پاس بیٹھ کر ہم اس میں سے نکلتے پانی کو دیکھنے لگے۔ ان کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کبھی میں نے انہیں اتنے غصے میں نہ دیکھا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ مہناز آپا کو سیر سپاٹے کا بہت شوق ہے۔ قدرت کے خوبصورت نظارے دیکھنے میں تو انہیں بے حد لگاؤ ہے۔ چاندنی راتوں میں وہ اکثر چھت پر چلی جایا کرتی تھیں۔ سردیوں کے موسم میں وہ جھیل کی طرف گھومنے چلی جاتیں، جہاں اس کا ماموں زاد بھائی انہیں شکار کرنے لے جاتا (میرے ذہن میں ابھی تک وہ تصویر تیرتی ہے، جو ان کے میکے کے مکان کے گول کمرے کی دیوار پر ٹنگی ہوتی تھی، جس میں وہ رائڈنگ لباس میں گھوڑے پر بیٹھی نظر آتی تھیں)۔ ایک بار ان کے میکے میں کوئی خاص قسم کی تقریب تھی۔ ان کا گھر سول لائنز میں تھا۔ بہت بڑا بنگلہ، جس میں دونوں جانب لان اور اس کے کناروں پر امرود، آم اور نیم کے درخت ہوا کرتے تھے۔ رات کو وہ جشن اسی کھلے ہوئے شاہانہ لان میں تھا، جس میں شامیانے لگے ہوئے تھے۔ باہر ہلکی سردی تھی۔ لان کے ایک جانب میز کرسیاں رکھی ہوئی تھیں، جن پر سفید کور بچھائے ہوئے تھے۔ مہناز آپا کے خاندان کی لڑکیاں، پڑوس کے بنگلوں کی دیگر لڑکیوں کے ساتھ مل کر شیشے کے گلاسوں میں سفید نیپکن لپیٹ کر رکھ رہی تھیں اور میں مہناز آپا کے پیچھے پیچھے پھر رہا تھا۔ امی برابر والے گول کمرے میں اپنی پرانی سہیلیوں سے باتیں کر رہی تھیں۔ کمرہ عورتوں سے بھرا ہوا تھا۔ مہناز آپا نے لال ساڑی پہن رکھی تھی، جس پر کشیدہ کاری کی ہوئی تھی۔ قدرت نے انہیں ایسی خوبصورتی عطا کی تھی کہ ان پر ہر رنگ پھبتا تھا۔ اس وقت بھی وہ اس لال ساڑی میں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ ا نکے لمبے سیاہ بال، جن کو انہوں نے آج جوڑے میں نہیں باندھ رکھتا تھا، کمر تک لٹک رہے تھے۔
’’چل مدھو، تو میں تیار ہو لوں۔‘‘ انہوں نے اپنی ماں کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
میں جو ان کے انتظار میں برآمدے میں کھڑا تھا، اس کا ہاتھ تھامے ان کے ساتھ چلنے لگا۔ وہ مجھے اندر ڈریسنگ روم میں لے گئیں، پچھلا دروازہ ان کی ماں کے کمرے سے کھلتا تھا۔ اندر ان کی والدہ لکڑی کے تخت پر بیٹھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ انہوں نے ہمارے سلام کا جواب دیتے ہوئے ہماری طرف دیکھا۔ ڈریسنگ روم پہنچتے ہی آپا نے مجھے اسٹول پر بٹھا دیا اور خود آئینے کے سامنے اپنے بال سنوارنے لگیں۔ بال بناتے بناتے وہ میٹھی آواز میں شاہ سائیں کی ایک ’’کافی‘‘ گانے لگیں۔
ترجمہ: جن کے ساتھ دل کے تار جڑ گئے۔ یہ جان اُن پر قربان ہے۔
ان کی مدھر آواز میں، میں نے پہلی بار سندھی کلام سنا تھا۔ وقت کے بے رحم پلوں میں، وہ پل اور وہ آواز کبھی کبھی میرے کانوں میں اکثر گونج اٹھتی ہے۔
میں نے دیوار سے ٹیک لگائی، اسٹول پر بیٹھے بیٹھے ان کا یہ کلام سنا، اچانک کمرے کا دروازہ کھولا اور ان کی ماں اندر آئیں۔ مہناز آپا نے جب انہیں دیکھا تو بال بنانے بند کئے اور آئینے میں سے انہیں دیکھنے لگیں، جو اب تک ان کے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔
’’مہناز‘‘ انہوں نے آہستہ سے آواز دی۔
’’جی اماں۔‘‘ مہناز آپا نے ان کی طرف دیکھتے پوچھا۔
مہناز آپا کی ماں کی گمبھیر آنکھوں پر عینک چڑھی ہوئی تھی، جس میں سے ان کی آنکھیں بیٹی پر سے ہوتے ہوئے مجھ پر آ کر ٹھہر گئیں۔
’’بیٹا تم چل کر باہر بیٹھو، ہم آ رہے ہیں۔‘‘ میرے بالوں کو سہلاتے ہوئے انہوں نے کہا۔
’’نہیں اماں، یہ بیٹھا رہے گا۔‘‘ مہناز آپا نے کچھ تیز لہجے میں کہا، ’’آپ کو جو کچھ بھی کہنا ہے، اس کے سامنے کہہ دیں۔‘‘
’’تمہارے پیچھے تو مدھو جیسے سایہ بن کر گھوم رہا ہے۔‘‘ مہناز آپا کی ماں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’اس کی ماں کہتی ہے کہ یہ اُس کا نیک بیٹا ہے۔ اسی لئے تو مہناز کا اس سے اتنا لگاؤ ہے۔‘‘
’’امی یہ میرا اصلی ساتھی ہے۔ اسی سے میرا دل بہلا رہتا ہے۔‘‘ مہناز آپا نے مجھے پیار بھری نظر سے دیکھتے ہوئے کہا۔
کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد ماں نے پھر آواز دی۔ ’’مہناز۔‘‘
’’امی، کہیں نا کیا کہنا چاہتی ہیں آپ۔‘‘ مہناز آپا نے برش کے تاروں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا تم اپنا بھلا اور برا خود بہتر سمجھتی ہو۔ میں تمہیں اور کیا کہوں۔‘‘ ان کی ماں نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔ ’’کہنا تو بہت کچھ چاہتی ہوں، پر فقط اتنا کہوں گی کہ جو کچھ ہوا، سو ہوا۔ اب حالات سے سمجھوتہ کر لو۔‘‘
’’سمجھوتہ؟‘‘ مہناز آپا کے چہرے کا رنگ دھندلا پڑتا گیا۔
’’امی سمجھوتہ کس سے کروں؟ اپنے آپ سے، ان حالات سے یا زندگی سے؟‘‘
’’مہناز تم سمجھتی کیوں نہیں؟‘‘ ماں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
مہناز آپا نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’امی، میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے اور یہ بات آج پھر آپ کو بتائے دیتی ہوں کہ اس شخص سے شادی کروا کر آپ نے میری زندگی تباہ کر دی، مر جاؤں گی پھر بھی یہ بات آپ کی یاد رہے گی۔‘‘ ان کی آواز غصے اور درد سے بھر آئی۔ فوراً ہی ان کی ماں نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا، تو وہ ماں کی چھاتی میں منہ چھپا کر کسی چھوٹے بچے کی طرح ہمک کر رونے لگیں۔ ماں خاموش کرانے کی کوشش کرنے لگی۔
میں نے اسٹول پر بیٹھ کر یہ سارا منظر دیکھا۔ کچھ وقت خاموشی چھائی رہی، جس میں صرف مہناز آپا کی سسکنے کی آواز تھی۔ جو وقفے وقفے سے گونج رہی تھی۔
’’مہناز، اب ہو بھی کیا سکتا ہے؟‘‘ ان کی ماں کہنے لگیں، ’’تم کوشش کر کے اپنے گھر کو برباد نہ ہونے دو بیٹی۔ اُس مردار سے بھی فون پر بات نہ کیا کرو۔ تمہاری ساس ایک ایک بات تمہارے شوہر کو بتاتی ہے۔‘‘
مہناز آپا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اچانک، انہوں نے دائیں ہاتھ سے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے اور میری طرف دیکھ کر کہا، ’’اوئے مدھو، باہر چلیں کیا؟‘‘ انہوں نے میرے کندھے کو پکڑتے ہوئے اسٹول سے اترنے کیلئے کہا۔ میں پہلے ہی اس ماحول سے سہم گیا تھا۔ فوری طور پر ہاتھ پکڑ کر ان کے ساتھ باہر نکل آیا۔
’’کہاں جا رہی ہو مہناز؟‘‘ ان کی ماں نے آہستہ سے کہا
آپا مجھے باہر لے آئیں۔ باہر برآمدے میں ریفریجریٹر رکھا ہوا تھا، جس سے ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل نکال کر پانی پینے لگیں۔ میں تعجب سے ان کی طرف دیکھنے لگا، جو اتنی سردی میں بھی وہ اتنا ٹھنڈا پانی پی رہی تھیں۔
باہر لان میں لڑکیوں کا شور تھا، جو نیپکن بناتے ہوئے آپس میں زور زور سے باتیں کر رہی تھیں۔ نوکر لان میں پھر رہے تھے۔ عورتوں کی آمد شروع ہو گئی تھی۔ کچھ دور شامیانے میں گلو کارہ چھُمّی شیدانی اپنی پارٹی کے ساتھ آ بیٹھی تھی۔ دن ابھی ختم نہیں ہوا تھا، اسی وجہ سے سورج کی روشنی ابھی باقی تھی۔ لیکن لان کے درختوں میں لگی قمقموں کی جھالر ابھی سے جلا دی گئی تھی۔
ہم برآمدے کے زینے سے اتر کر نیچے لان میں آئے تو مہناز آپا کو لڑکیوں نے گھیر لیا۔ وہ ان سے باتیں کرتیں، لان سے گزر کر جلدی جلدی مجھے اپنے ساتھ لئے بنگلے کے میں گیٹ کی طرف چلنے لگیں۔ تو میں نے پوچھا، ’’آپا، کہاں چل رہی ہیں؟‘‘
’’باہر چلتے ہیں۔ اونچائی پر ہوا کھانے، مدھو، یہاں تو میرا دم گھٹ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
اور میں چپ چاپ ان کے ساتھ چلتا ہوا بنگلے کے گیٹ سے باہر نکل آیا۔
باہر سول لائنز کی سڑکوں پر، شام آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی اور میں، مہناز آپا کے ساتھ پیدل چلتا رہا۔ سارے ماحول پر شام اپنے تمام رنگوں سمیت غالب ہونے لگی تھی اور وہ سامنے ’’ٹنڈو جھانیاں‘‘ والی پہاڑی کی طرف سست رفتار سے قدم بڑھاتی چل رہی تھیں۔
ہم پیدل چلتے جا رہے تھے اور میں آسمان کے ماحول کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ دونوں جانب بنے بنگلوں میں سے کسی کسی وقت لوگوں کی آوازیں ابھرتیں پھر ختم ہو جاتیں۔ کچھ آگے چل کر ہم پہاڑی پر پہنچے (ٹنڈو جھانیاں والی وہ پہاڑی، سول لائنز کے کنارے پر ہوا کرتی تھی اور آج وہ پہاڑی ویران ہو گئی ہے۔ اس پوری پہاڑی پر بنگلے بن گئے ہیں)، وہ وہیں کھڑی ہو کر مغرب کی سمت منہ کئے ڈوبتے سورج کو دیکھنے لگیں۔
ہمارے چاروں جانب شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ اس سیاہ شام میں نے مہناز آپا کی ساڑی کا پلو پکڑا، جس کی انہیں بھنک تک نہیں پڑی۔ میں نے گردن اٹھا کر ان کی جانب دیکھا۔ وہ بہت اداس تھیں اور کرب کی لکیریں شاید ان کی دلی کیفیت کا اظہار چہرے پر کر رہی تھیں۔ میں نے اس وقت آسمان کے کئی رنگوں والی روشنی میں ان کے چہرے پر ایک اداسی محسوس کی اور دل ہی دل میں سوچنے لگا، ’’مقید شہزادیاں، دیوؤں کی قید میں ایسے ہی دکھی اور ملول رہتی ہوں گی۔ مومل، سومل، پھول رانی۔‘‘
اچانک انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’’مدھو، ڈر رہے ہو کیا؟‘‘
’’نہیں آپا۔‘‘ میں نے جھوٹ کہا، ’’آپ جو میرے ساتھ ہیں۔‘‘
میں نے سر اٹھا کر ان کو جواب دیا اور پھر وہ سامنے افق کے رنگوں کو دیکھنے میں گم ہو گئیں۔ ڈھلتے سورج کی کرنیں ٹھیک ہمارے سامنے تھیں۔ چند پلوں میں سورج مغرب کی ڈھلان میں غائب ہو گیا۔ سارے ماحول میں خوف جیسا سناٹا چھا گیا۔ سبھی پرندے بھی خاموش ہو گئے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہمارے پاس سے گزرتی جا رہی تھی، جس سے مہناز آپا کے کھلے بال اڑ رہے تھے اور آسمان سے اترتی دھند، اندھیرے کے ساتھ سرمئی شام کو نگلتی رہی۔
انہوں نے ایک طویل سانس لی اور میرا بازو تھام کر پیچھے کی طرف لوٹنے لگیں۔ ان کا ہاتھ میرے کندھے پر تھا۔ سامنے سول لائنز کی سڑکوں پر لگی اسٹریٹ لائٹس کی طویل قطاریں روشن ہو چکی تھیں۔ اس روشنی میں بھی ساری سڑک ویران تھی۔ ہوا کے تیز جھونکوں سے جھڑے ہوئے پتے اڑ رہے تھے۔ دور کسی نے سوکھے پتوں کے ڈھیر کو جلا دیا تھا۔ جس کا دھواں شام کے سیاہ رنگ میں گھل مل رہا تھا۔ جلنے کی بو ہوا میں شامل ہو کر ہم تک پہنچ رہی تھی۔ آس پاس کے بنگلوں میں آہستہ آہستہ بتیاں جلنے لگی تھیں اور آپا گردن جھکائے چلتی جا رہی تھیں۔
جب ہم واپس بنگلے کے گیٹ کے پاس پہنچے تو آسمان کے سرمئی رنگت میں رات کے ستارے ڈوبتے نظر آئے۔ اندر لان میں عورتوں اور بچوں کا شور تھا۔ جگمگ روشنیوں کے بیچ بچھے ہوئے قالین پر مشہور گلو کارہ چھُمّی شیدانی اپنی درد بھری آواز میں ڈوہیاڑا گا رہی تھی۔
ترجمہ: سورج خندقوں میں ڈھلتا ہوا اٹھکیلیاں کرتا رہا۔ مجھے بے موت مارا تاریکی کر کے۔
اس واقعے کے چند مہینوں کے بعد اچانک بابا کا ٹرانسفر لاہور ہو گیا تو ہمیں جانے کی تیاری کرنی پڑی۔ میرا دل بجھ سا گیا۔ حیدرآباد شہر میں دن کھیلتے گزارے تھے۔ ان لمحوں اور مہناز آپا کو چھوڑتے ہوئے دل اداس ہو رہا تھا۔ میں نے تو بالکل ضد پکڑ لی تھی کہ میں لاہور نہیں جاؤں گا۔ مہناز آپا کے پاس رہ کر پڑھوں گا۔ مجھے یہیں چھوڑ جائیں۔
مجھے یاد ہے، مہناز آپا ہمیں الوداع کہنے ہمارے گھر آئیں تو میں دوڑ کر ان کے گلے لگ گیا اور رونے لگا۔ مہناز آپا میرے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہنے لگیں، ’’مدھو، تم پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جانا، تو پھر میں آ کر تمہارے پاس رہوں گی۔ دیکھو تمہیں میرا وعدہ یاد نہیں ہے؟‘‘ وہ مجھے خاموش کراتے ہوئے اندر جانے لگیں، تو میں اور زیادہ بلکنے لگا۔
اور اس طرح پورے دس برس تیزی کے ساتھ آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔ گرمیاں گئیں اور سردیاں آئیں۔ ساون، پھاگن۔ میں نے یہ تمام موسم لاہور کی مہک بھری فضاؤں میں گزار دیے۔ سن اڑسٹھ کی بات ہے، میں اس زمانے میں میٹرک میں پڑھتا تھا اور بابا سرکاری نوکری سے ریٹائر ہو گئے تھے۔ ہم واپس حیدرآباد لوٹ آئے۔ حیدرآباد لوٹنے پر بہت بری خبرسننے کو ملی کہ مہناز آپا کو کینسر ہو گیا ہے (تعجب کی بات ہے کہ ان کا ستارہ بھی سرطان تھا۔ ان کی پیدائش تین جولائی کو ہوئی تھی) اور انہوں نے علاج کیلئے بیرون ملک جانے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ وہ میرے بچپن کی آدرش تھیں۔ میرے بچپن کی یادوں کے سارے رنگیں خواب، ان کے ہی رنگوں سے بُنے تھے۔ میں انہیں لاہور سے لوٹنے پر پہلی بار دیکھنے گیا۔
(دس سالوں میں حیدرآباد کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ سڑکوں پر دل دہلانے والے ٹریفک کا شور، سڑکوں سے درختوں کا غائب ہونا۔ فٹ پاتھوں کے نام و نشان تک کا پتہ نہیں پڑنا۔ سول لائنز کی طرف رسالہ سے دونوں خوبصورت باغ غائب ہو گئے تھے۔ حیدر باغ کے مقام پر ایک چھوٹا پارک اور دوسری جگہ پر گول بلڈنگ کھڑی تھی۔ سول لائنز کی سڑکوں سے ڈوڈینا کی سبز قطاریں، بینچوں کے ساتھ کسی اور جہان میں جا پہنچی تھیں اور سب سے خوبصورت پریم پارک میں فلیٹ اور دکانیں بن رہی تھیں۔)
وہی سول لائنز تھی۔ وہی حیدرآباد تھا۔ پر نجانے کیوں سب کچھ عجیب عجیب سا لگ رہا تھا۔ اس بنگلے میں پاؤں رکھا تو خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دروازے کے پاس مہناز آپا کی ماں مجھے مل گئیں۔ جھک کر ان کے پیروں پر ہاتھ رکھتے ہوئے نام بتایا تو گلے لگا کر میرے ماتھے کو چومتے ہوئے سسکنے لگیں۔ میری آنکھوں میں بھی آنسو تیر آئے۔ کتنے سالوں کے فراق کے بعد میں اپنے بچپن کی اس رول ماڈل کو دیکھنے جا رہا تھا، جس نے میرے ذہن کے کینوس پر طرح طرح کے رنگوں سے خواب بنائے تھے۔ جس کیلئے میں نے دل ہی دل میں نہ جانے کتنے ریت کے محل بنا کر پھر توڑ دیے تھے۔ میں سر جھکائے آپا کی ماں کے پیچھے چلتا رہا۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئیں، جہاں مہناز آپا ٹھہری ہوئی تھیں۔
کمرے کے سامنے وہی لکڑی کا تخت پڑا تھا، جس پر بیٹھ کر ان کی ماں نماز پڑھا کرتی تھیں۔ اسی پر آج مہناز آپا کا شوہر بیٹھا تھا۔ اس کی گردن نیچے جھکی تھی اور وہ کسی خیال میں گم تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا ہی نہیں اور میں اس کے پاس سے ہوتا ہوا اندر چلا گیا۔
اندر مہناز آپا پلنگ پر لیٹی تھیں۔ ان کے اوپر اجرک پڑی ہوئی تھی۔ دونوں ہاتھ سر کے نیچے ٹکائے وہ مسلسل اوپر چھت کو تک رہی تھیں۔
’’مہناز، دیکھ کون آیا ہے؟‘‘ ان کی ماں کی آواز کمرے میں گونجی اور وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگی (خوبصورت چہرہ، وہی قد، گہری کالی آنکھیں، خوبصورت اور دودھ کی طرح سفید ہاتھ، لمبی انگلیاں اور پدم جیسے پیر) مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی تو میں نے جھک کر اس کے پاؤں چھو لئے۔
’’مدھو ہو نا؟‘‘ انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’ہاں آپا۔‘‘ میں بھرائی سی بھاری آواز میں بولا۔
انکے پیلے زرد چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی ابھر آئی۔ ایکدم میرے بالوں پر ہاتھ پھیرتے، میرے ماتھے پر چومتے ہوئے، ماں سے کہنے لگیں، ’’اماں، دیکھو نا، مدھو کتنا بڑا ہو گیا ہے؟‘‘
میں نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا، جیسے چودھویں کے چاند کو گرہن لگ گیا تھا۔ ان کی گہری، نیلی آنکھوں کے نیچے سیاہ کالے حلقے تھے۔ نہ وہ پہلے سا چہرہ، نہ مسکراہٹ، نہ وہ رنگ، نہ وہ روپ۔ میں نم آنکھوں سے ان میں بچپن والی مہناز آپا کو تلاش کرنے لگا۔
انہوں نے ایک بار پھر مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’مدھو، پڑھ تو رہے ہو نا؟‘‘
’’ہاں آپا۔‘‘ میں نے ان کے پلنگ پر بیٹھے بیٹھے نگاہیں نیچی کر لیں۔
’’مدھو، مجھے وہاں یاد کرتے تھے؟‘‘
میں نے شرما کر جواب نہیں دیا۔ تو مسکرا کر کہنے لگیں، ’’ہمارا مدھو اتنا بڑا ہو گیا ہے، لڑکیوں کی طرح اب بھی شرما رہا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پھر تکیہ پر سر رکھ کر لیٹ گئیں۔ کمرے میں ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ باہر موجود اندھیرے میں ہوا کی سرسراہٹ سننے میں آ رہی تھی۔ سامنے کھڑکی کھلی ہوئی تھی، جس سے جولائی کے مہینے کا سیاہ آسمان نظر آتا تھا، جس کے جنوب میں ستارے جگمگا رہے تھے۔ دور کہیں کسی کتے کی کرب ناک آواز آ رہی تھی۔
پھر میں ہر روز صبح انہیں دیکھنے جانے لگا۔ ہر روز گلِ یاسمین کے پھولوں کا اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا گلدستہ جا کر ان کے ہاتھوں میں دیتا تھا، جسے وہ اپنے سرہانے رکھتے ہوئے مسکرا دیتیں۔
آخری بار انہیں دیکھنے گیا تو وہ جولائی کی ہی ایک اداس اور ویران شام تھی۔ ان کی حالت پہلے سے خراب ہو گئی تھی۔ وہ ویسے ہی اسی پلنگ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ ان کے سرہانے بیٹھی ان کی ماں ان کے بال سنوار رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں نم تھیں۔ کچھ دور کرسی پر ان کا شوہر بیٹھا تھا۔ مہناز آپا کے خاندان کے سبھی افراد کمرے میں آ جا رہے تھے۔
میں نے غور سے بھیگی آنکھوں کے ساتھ مہناز آپا کو دیکھا جو آنکھیں موندے سو رہی تھیں۔ میرے پاؤں کی آہٹ سے موندے نین کھول کر انہوں نے میری طرف دیکھا۔ گہری اور نیلی آنکھوں میں جلتے دیپ، جو کبھی ان کی آنکھوں میں دیکھے تھے، وہ اب مدھم پڑ رہے تھے۔ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ یہ مسکراہٹ بھی حیرت بھری تھی، جیسے سردیوں میں سورج کی روشنی کی ایک کرن۔
اپنے بچپن کے اس خواب کو میں نے دیکھا۔ اس خواب کا سچ ہونا میں نے صرف خواب میں ہی دیکھا تھا۔ میرے لئے وہ ایک بے مثال، قابل تقلید رول ماڈل تھیں۔ میں نے سوچا تھا کہ بڑا ہو کر اس قید سے انہیں آزاد کراؤں گا۔ انہوں نے مجھے پڑھایا تھا۔ ٹیبل سکھائے تھے۔ ہاتھ پکڑ کر اونچی سوسائٹی دکھائی تھی۔
اچانک وہ پھر سے آنکھیں بند کر کے سو گئیں۔ میں نے جھک کر ان کے پاؤں کو چھو لیا۔ کہتے ہیں کہ استاد کا رتبہ ماں باپ کے برابر ہوتا ہے۔ انہوں نے بھی مجھے زندگی کے رنگوں کے کئی شیڈ دکھائے تھے۔ آنکھوں میں آنسو لئے میں بھاری قدموں سے برآمدے کو پار کرتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا۔
باہر سول لائنز کی سڑکوں پر سرمئی شام اپنے رنگ بکھیر رہی تھی۔ اسٹریٹ لائٹس کی ملگجی روشنی میں ساری سڑک ویران اور اداسی سے گھری ہوئی تھی۔ شام کی ہوا سرسراہٹ کرتی درختوں کے خشک، جھڑے ہوئے پتوں کو اڑا رہی تھی۔
***
غیرت مند
شوکت حسین شورو
صبح کا وقت تھا۔ گاؤں کے لوگ جو کھیتوں میں گئے ہوئے تھے، وہ یہ کہتے ہوئے بھاگتے ہوئے آئے کہ سیلاب آ رہا ہے۔ ہر کوئی تھوڑا بہت سامان لے کر گاؤں سے نکلنے کی بھاگ دوڑ میں لگ گیا۔ عارب اور اس کا چھوٹا بھائی قاسم بھی بھاگتے ہوئے گھر آئے۔
’’جلدی کرو، کپڑے لتے، تھوڑا بہت ضروری سامان جو بھی لے سکو، لے کر نکلو۔ سیلاب بس اب آیا کہ تب آیا۔‘‘
قاسم کی بیوی زرینہ پیٹ سے تھی۔ آٹھواں مہینہ چل رہا تھا۔ وہ اٹھی اور ضروری اشیاء سمیٹنے لگی۔
’’صفوراں کہاں ہے؟‘‘، عارب نے پوچھا۔
’’کچھ دیر پہلے باہر گئی ہے۔‘‘ زرینہ نے جواب دیا۔
’’اسے بھی ابھی باہر جانا تھا۔ لوگوں میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی اسے باہر جانے کی۔۔۔‘‘ عارب نے غصے سے کہا۔
’’میں دیکھ کر آتا ہوں۔‘‘ کہتا ہوا قاسم جلدی باہر نکل گیا۔ باہر آ کر ارد گرد نظریں دوڑائیں، پر وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ وہ گھوم کر گھر کے پچھواڑے کی طرف گیا۔ کچھ فاصلے پر صفوراں، رمضان کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر قاسم کا پارہ چڑھ گیا۔ اس کی رمضان کے ساتھ ویسے ہی ان بن تھی اور اب جو اسے بھرجائی کے ساتھ اتنی نزدیکی سے بات کرتے دیکھا، تو وہ چراغ پا ہو اٹھا۔ قاسم کلہاڑی لے کر ان کی طرف دہاڑتا ہوا بڑھا۔ رمضان نے اسے دور سے آتے دیکھا، تو وہ سر پٹ بھاگ گیا۔ صفوراں پتھرا سی گئی۔ قاسم نے ایک لمحے کی دیر نہ کی، ’’تم کاری ہو‘‘ کہتے ہوئے کلہاڑی کا زوردار وار اس کی گردن پر کیا۔ وہ دھڑام سے نیچے گری۔ قاسم الٹے قدموں گھر لوٹا، ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ خون سے تربتر کلہاڑی لے کر گھر پہنچتے ہی اپنے بھائی عارب کے سامنے رکھ دی۔ عارب ہکا بکا رہ گیا۔
’’یہ کیا کر آئے؟‘‘ عارب کی چیخ نکل گئی۔
’’بھرجائی کا قتل کر آیا ہوں۔‘‘ قاسم کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شکل میں بھی ایک وحشت تھی۔ زرینہ کانپنے لگی، خون سے رنگی کلہاڑی دیکھ اس کا جی متلانے لگا۔ عارب کا چھ سالہ بیٹا اور چار سالہ بیٹی، دونوں خوفزدہ ہو کر باپ اور چچا کو دیکھنے لگے۔
’’کیوں کیا؟‘‘ عارب نے ڈوبتی آواز میں پوچھا۔
’’پچھواڑے میں رمضان کے ساتھ اسے دیکھا۔‘‘ قاسم نے کہا۔
’’ایسا کیا دیکھ لیا۔۔۔؟‘‘ عارب نے پھر سوال کیا۔
’’دونوں ایک دوسرے کے نزدیک کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر رمضان بھاگ گیا اور بھاوج۔۔‘‘ قاسم نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’پھر کچھ پوچھے بغیر تم اسے مار آئے۔‘‘ عارب کی چیخ نکل گئی، ’’وہ میری زال تھی، مجھے بتاتے۔ تمہیں کیا حق تھا اسے قتل کرنے کا؟‘‘ عارب نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا۔
بچے جو اب تک خوف سے تھرتھرا رہے تھے، اب ’’اماں اماں‘‘ کہہ کر رونے لگے تھے۔
قاسم نے آگے بڑھ کر زمین پر پڑی کلہاڑی اٹھاتے ہوئے کہا، ’’بھائی میری غیرت جاگ اٹھی تھی۔ ٹھیک ہے، میں تھانے جا کر اپنی گرفتاری دیتا ہوں۔۔‘‘ وہ جانے لگا۔ زرینہ نے گھبرا کر قاسم کی طرف پھر عارب کی طرف دیکھا۔
’’ٹھہرو۔‘‘ عارب نے چلاتے ہوئے کہا، ’’کلہاڑی مجھے دے دو۔‘‘
اس نے آگے بڑھ کر قاسم کے ہاتھوں سے کلہاڑی چھین لی اور زور سے بہت دور پھینک دی۔
’’تھانے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، چلو میرے ساتھ۔‘‘ عارب نے غصے سے کہا۔
سیلاب کا پانی اب گاؤں تک آ پہنچا تھا۔ عارب نے کندھے پر بیٹے کو بٹھایا اور بیٹی کو گود میں لیا۔
’’جلدی کرو، نکلے نہیں تو ڈوب جائیں گے۔‘‘
بڑھتا ہوا پانی اب ان کی کمروں تک پہنچ گیا تھا۔ بڑھتے پانی کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے وہ پشتے پر آ پہنچے۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ آس پاس کے دیگر گاؤں گوٹھوں کے لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے تھے۔ سبھی اپنی اپنی فکروں اور پریشانیوں کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔
عارب کے گھر والوں نے وہ رات پشتے پر گزاری۔ دوسرے دن انہیں ایک ٹریکٹر ٹرالی میں سوار ہونے کی جگہ مل گئی۔ سیلاب سے متاثرہ دیگر لوگوں کے ساتھ وہ ’’سرور‘‘ آ پہنچے۔ کیمپ میں اُدھم مچا ہوا تھا۔ بچوں اور عورتوں کے ساتھ مردوں کی آوازیں بھی چاروں جانب گونج رہی تھیں۔ عارب بچوں کو اپنے ساتھ چپکا کر بیٹھ گیا۔ زرینہ بھی سامان کوسرکا کر وہاں آ بیٹھی۔ گاؤں سے نکلنے کے بعد عارب بالکل خاموش تھا۔
’’میں دیکھ کر آتا ہوں، کہیں کوئی رہنے کا ٹھکانا مل جائے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے قاسم لوگوں کی بھیڑ میں کھو گیا۔ رات بہت دیر گئے وہ واپس لوٹا۔
’’نام لکھوا آیا ہوں۔ ہمیں بھی ایک خیمہ ملا ہے۔ چلو چلتے ہیں۔۔‘‘ قاسم زرینہ کے ساتھ سامان لے کر آگے بڑھا۔ عارب بچوں کو لے کر خاموشی سے ان کے پیچھے جانے لگا۔ خیمے میں آ کر زرینہ نے سامان کو حفاطت سے رکھا۔ وہ اپنے ساتھ کچھ برتن بھی لے آئی تھی۔ قاسم ان میں سے ایک ہانڈی لے کر باہر چلا گیا۔ بچے دن بھر کی بھوک پیاس سے اب رونے لگے تھے۔ قاسم دلیے سے آدھی بھری ہانڈی لے کر اندر آیا۔
’’یہاں کھانا لینا نہیں پڑتا، بھیک میں مانگنا پڑتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ہانڈی نیچے رکھ دی۔ زرینہ نے دو پلیٹوں میں دلیا نکال کر دونوں بھائیوں کے سامنے رکھا۔ عارب بچوں کو کھانا کھلانے لگا۔
‘ ‘ادا، بچوں کو میں کھلاتی ہوں، یہ آپ کھا لو۔‘‘ زرینہ نے عارب سے کہا۔
عارب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ زرینہ نے قاسم کی طرف ایسے دیکھا، جیسے آنکھوں ہی آنکھوں سے شکوہ کرتے ہوئے کہہ رہی ہو، ’’دیکھا کیسا قہر ڈھا دیا تم نے۔‘‘
عارب نے بچوں کو کھلا کر، انہیں لٹایا اور خود بھی لیٹ گیا۔ نیند تو کسی کو بھی نہیں آ رہی تھی۔ زرینہ نے سونے کے لئے آنکھیں موندیں، تو اس کے آگے خون سے تر بتر کلہاڑی گھوم گئی۔ صفوراں تھی تو اس کی جیٹھانی، پر وہ اس کی ساس بن کر اس کا دُلار کرتی اور پیار کرتی۔ زرینہ ابھی دس سال کی ہی تھی کہ اس کی ماں مر گئی۔ اس کا باپ کی دوستیاں چور ڈاکوؤں کے ساتھ تھیں۔ وہ کبھی جیل میں ہوتا، تو کبھی باہر۔ زرینہ کبھی نانی کے پاس تو کبھی پرائی چوکھٹوں کی ٹھوکریں کھاتی رہی۔ سات آٹھ سال یوں ہی گزر گئے۔ اس کا باپ ایک دن اپنے بچپن کے دوست عارب کے پاس گیا اور زرینہ کو شادی کے بندھن میں باندھنے کی بات کی، تاکہ وہ اس جوابداری سے آزاد ہو سکے۔ عارب کو بھی اپنے چھوٹے بھائی قاسم کے لئے ایک رشتے کی تلاش تھی۔ زرینہ خوبصورت بھی تھی اور ہنرمند بھی۔ صفوراں نے اسے اپنی چھوٹی بہن کی طرح سمجھا اور مانا تھا۔ زرینہ کا دل اچانک بھر آیا اور اس سسکی بندھ گئی۔ وہ دوپٹہ منہ میں ٹھونس کر رونے لگی۔ قاسم سمجھ گیا کہ وہ رو رہی ہے۔ وہ خود بھی تو اس کے برابر میں بت بنا لیٹا رہا۔ اس کا ذہن بالکل ماؤف تھا۔
پھر نہ جانے کب ان دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ صبح اٹھے تو خیمے میں نہ عارب تھا، نہ بچے۔ انہوں نے سوچا شاید عارب بچوں کو باہر لے گیا ہو گا۔ جب کچھ دیر مزید گزری، تو قاسم انہیں تلاش کرنے کے لئے باہر نکلا۔ اس نے سارا کیمپ چھان مارا، پر عارب اور بچے کہیں بھی نہیں ملے۔ آخر کچھ دیر بھٹکنے کے بعد وہ اکیلا ہی خیموں کی جانب میں لوٹ آیا۔ زرینہ انتظار میں بیٹھی تھی، قاسم کو اکیلا آتے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔‘‘ کیا ہوا، ادا عارب نہیں ملے؟‘‘
’’نہیں، سارا کیمپ گھوم آیا ہوں، پر وہ کہیں بھی نظر نہیں آئے۔‘‘ قاسم نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا۔
زرینہ حیرت بھری نگاہوں سے قاسم کی طرف دیکھتی رہی، ’’آخر وہ کہاں گئے ہوں گے؟‘‘
’’لگتا ہے بھیا بچوں کو لے کر کسی دوسری جگہ چلے گئے ہیں۔‘‘ قاسم نے کہا۔
زرینہ کے دل کو دھچکا ساپہنچا۔ وہ سمجھ گئی کہ عارب ان سے جدا ہو کر، بچوں کو لئے کہیں نکل گئے ہیں۔
’’اب تو ہم بالکل اکیلے ہو گئے ہیں۔‘‘ زرینہ جیسے خود سے بڑبڑانے لگی۔ قاسم نے بھی کچھ نہیں کہا۔
’’اب ہم خود بھی کیا کریں گے؟‘‘ زرینہ نے کچھ دیر بعد قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا کریں گے۔ ابھی تو یہاں کیمپ میں بیٹھے ہیں۔۔‘‘ اس نے سائیڈ جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔ صرف ایک سگریٹ ہی بچا تھا۔ اس نے پیکٹ پھینک کر، سگریٹ سلگایا اور کش لینے لگا۔
’’کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔ ہانڈی دے دو تو دیکھتا ہوں۔ کھانا لینے کے لئے بھی لمبی قطار۔۔۔‘‘
زرینہ نے خاموشی سے ہانڈی لا کر اسے دی۔ قاسم باہر نکلا۔ وہ جب لوٹا تو اس کی قمیض پھٹی ہوئی تھی۔
’’کھانا لینے کے لئے تو، توبہ۔۔ توبہ۔۔۔ ایک طرف پولیس والوں کی لاٹھیاں، دوسری طرف لوگوں کی دھکم پیل۔۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔
ایک ہفتہ مزید گزرا، تو قاسم باہر سے پریشانی کی حالت میں اندر آیا۔
’’کہہ رہے ہیں کہ کل سے مفت کا کھانا بند ہے۔ ہر ایک اپنا انتظام خود کرے۔‘‘
’’پھر؟‘‘ زرینہ بھی پریشان ہو اٹھی۔
’’میرے پاس توکل ملا کر تین سو روپے ہوں گے۔ تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں؟‘‘ قاسم نے زرینہ سے پوچھا۔
زرینہ خاموشی سے اٹھی، ایک گٹھری میں سے پانچ سو روپے نکال کر قاسم کو دئیے۔
’’بس اتنے‘‘ قاسم نے ان پیسوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ان سے کتنے دن گزاریں گے۔ یہ ختم ہو گئے تو پھر۔۔۔؟‘‘
’’زچگی میں بھی اب کچھ ہی دن باقی ہیں۔ اس کے لئے بھی چار پیسے پاس ہوں تو اچھا ہو گا۔۔‘‘ زرینہ نے جیسے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔ قاسم کھانا بھول گیا۔ وہ پریشان ہو اٹھا۔
’’بھیا کے پاس کچھ پیسے تھے، مگر وہ ہمیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘ قاسم نے شکایتی لہجے میں کہا۔
’’کس منہ سے بھیا پر الزام لگا رہے ہو۔‘‘ زرینہ نے پہلی بار قاسم کے منہ پر سچ کہنے کی حماقت کی۔ قاسم نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو، پر خاموش رہا۔
رات کو وہ دیر تک سوچتے رہے، لیکن مسئلے کا کوئی بھی حل نظر نہیں آ رہا تھا۔
’’دیکھو شہر میں اگر کوئی نوکری مل جائے؟‘‘ زرینہ نے مشورہ دیا۔
’’یہاں کیمپ میں ہزاروں لوگ آئے ہیں، سبھی بھٹک رہے ہیں۔ کیا صرف مجھے ہی نوکری ملے گی؟‘‘ قاسم نے چڑتے ہوئے کہا۔
زرینہ نے خاموش ہونا ہی بہتر سمجھا۔ کچھ دیر بعد وہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔ قاسم کو اچانک خالہ بھاگل یاد آ گئی، جو حیدرآباد میں رہتی تھی۔ خالہ کا شوہر ’’جانوں‘‘ جانا مانا ڈکیت تھا۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ مل کر اس نے ایک صوبیدار کو بھی مارا تھا، مگر پھر وہ ان ڈکیتوں کی ٹولی سے الگ ہو گیا۔ سستائی کے دنوں میں اس نے خالہ بھاگل سے شادی کی اور حیدرآباد میں قاسم آباد کے علاقے میں ایک جگہ بھی لے لی۔ وہیں پر اس کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ کسی جان پہچان والے نے اسے قاسم آ باد میں دیکھ لیا اور جا کر پولیس میں مخبری کی۔ ایک رات پولیس کی ٹیم نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا اور اسے گرفتار کر کے لے گئے۔ خالہ بھاگل نے بہت جتن کئے، کورٹ میں کیس بھی چلا، وکیل بھی کئے، پر جانوں کو پھانسی کی سزا سے کوئی نہیں بچا پایا۔ ان دنوں کبھی عارب، تو کبھی قاسم ماں کے ساتھ قاسم آباد جاتے، اس کی مدد کرتے۔ جانوں کو پھانسی ہوئی تو وہ خالہ کے ساتھ جا کر جانوں کی لاش گاؤں دفنانے لے آئے۔
ماں کے گزر جانے کے بعد خالہ کے پاس ان کا آنا جانا کم کیا گیا تھا۔ اب تو برسوں گزر گئے تھے۔ ان کا خالہ کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہ رہا تھا۔ مگرقاسم کو یقین تھا کہ وہ اگر خالہ کے پاس جائے گا، تو وہ ضرور اس کا لحاظ کرے گی۔ قاسم نے سوچا، ’’اور کوئی چارہ بھی نہیں، یہ بچے کچے پیسے بھی ختم ہو جائیں گے، تو کوئی خیرات بھی نہیں دے گا۔‘‘ اسے کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا تو اس نے خالہ کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے جیسے اس کے دل سے بھاری بوجھ اتر گیا۔
صبح اٹھتے ہی اس نے یہ بات زرینہ کو بتائی۔ ناشتا کر کے، سامان سمیت وہ کیمپ چھوڑ کر سرورا سٹیشن پر آئے۔ قاسم نے قاسم آباد کے دو ٹکٹ لئے اور گاڑی میں روانہ ہو گئے۔
’’میرے خیال میں تو بھیا عارب بھی بھاگل کے پاس گئے ہوں گے۔‘‘ قاسم نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’پتہ نہیں، وہاں چلیں گے تو معلوم پڑے گا۔‘‘ زرینہ نے جواب دیا۔
’’یہ تو طے ہے وہیں ہوں گے، اور کہاں جانا ہے۔‘‘ قاسم نے کہا۔
قاسم اور زرینہ جب قاسم آباد، خالہ بھاگل کے گھر پہنچے، تب ان کی بہو نسرین نے آ کر دروازہ کھولا۔ قاسم نے اس سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
’’خالہ بھاگل گھر میں ہیں؟‘‘ قاسم نے پوچھا۔
’’کون خالہ بھاگل؟‘‘ نسرین حیرت سے پوچھا۔
قاسم کشمکش میں پڑ گیا، ’’یہ گھر خالہ بھاگل کا ہے نا؟‘‘
’’نہیں، یہ خالہ امینہ کا گھر ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر نسرین دروازہ بند کرنے ہی والی تھی کہ خالہ نے پاس آ کر پوچھا۔ ’’کون ہے؟‘‘
اس کی نظر قاسم پر پڑی، تو خوشی سے چلا اٹھی، ’’قاسم تم؟‘‘
وہ قاسم اور زرینہ کو اندر لے آئی۔
’’شاباش ہے بیٹا۔ خالہ کو تو بالکل ہی بھلا بیٹھے۔ میں ٹی وی پر سیلاب کی خبریں دیکھ کر تشویش میں پڑ گئی کہ میرے یتیم بھانجوں کا نہ جانے کیا حال ہوا ہو گا؟ اچھا کیا آ گئے، پر عارب اور اس کے بچے کہاں ہیں؟‘‘ خالہ نے شکایت کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’کیمپ میں تو ساتھ تھے، پھر اچانک بھیا ہمیں بتائے بغیر بچوں کو لے کر نہ جانے کہاں چلے گئے۔ ہم نے سمجھا کہ شاید وہ آپ کے پاس آئے ہوں گے۔۔۔‘‘
خالہ نے حیرانی سے قاسم اور زرینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’یہاں تو نہیں آیا۔‘‘
’’خالہ آپ تو خوش ہیں نا؟ ‘ ‘قاسم نے بات کا رخ بدلتے ہوئے پوچھا۔
’’بس بیٹا۔ مالک کی مہربانی ہے، گزر بسر ہو رہا ہے۔ جو جمع پونجی تھی، وہ تمہارے خالو پر خرچ ہو گئی۔ پھر بھی شکر ہے، یہ گھر بچ گیا۔ اپنی چھت کی چھایا ہے۔‘‘
گھر کافی اچھا تھا، تین کمرے تھے، دالان اور باورچی خانہ۔ ایک کمرے میں صدیق، اس کی بیوی اور بچہ رہ رہا تھا۔ دوسرے کمرے میں خالہ بھاگل، جو آج کل خالہ امینہ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ تیسری کمرہ چھوٹا تھا، جس میں گھر کا سامان رکھا ہوا تھا۔ خالہ نے اس کمرے میں قاسم اور زرینہ کو پناہ دے دی۔
دوسرے دن صبح ناشتہ کرتے وقت قاسم نے صدیق سے کہا، ’’بھائی صدیق، تمہیں اگر کوئی کام نظر آئے تو مجھے دِلا دینا۔ کسی نہ کسی روزگار سے لگ جاؤں تو اچھا ہو گا۔‘‘
صدیق ہنسنے لگا، ’’نوکریاں اتنی آسانی سے ملتیں، تو میں کیوں بے روزگار بیٹھا ہوتا۔ میٹرک پاس ہوں، پر چوکیدار کی نوکری بھی نہیں ملتی۔‘‘
’’بیٹا، نوکری ملنی مشکل ہے۔ کہیں اگر مزدوری مل جائے، تو اور بات ہے۔۔‘‘ خالہ امینہ نے کہا۔
صدیق ناشتا کر کے، تیار ہو کر، گھر کے باہر کھڑی نئی موٹر سائیکل پر سوار کہیں چلا گیا۔ قاسم نے سوچا کہ اسے خود ہی کوشش کر کے روزگار کی تلاش پڑے گی۔ اتنا بڑا شہر ہے، کہیں کوئی مزدوری تو ضرور مل جائے گی۔
قاسم کئی دن بھٹکتا رہا۔ دفتروں میں، دکانوں میں، ہوٹلوں میں، جہاں کہیں بھی گیا اسے دو ٹوک جواب ملا۔ اوپر سے زرینہ کی زچگی کے دن بھی قریب آنے لگے۔
خالہ نے زچگی کا سارا بوجھ خود پر لے لیا۔ کہیں سے دایہ کا انتظام کیا۔ زرینہ نے بیٹے کو جنم دیا۔ مبارکبادوں کا تبادلہ ہوا، خوشیاں منائی گئیں۔
ایک دن زرینہ نے بچے کو سلاتے ہوئے کہا، ’’خالہ نے ہم پر بہت مہربانی کی ہے۔ نہیں تو کون کسی کا اتنا خیال رکھتا ہے اور گھر میں بٹھا کر کھلاتا پلاتا ہے، مگر ہم آخر کب تک خالہ پر بوجھ بنے بیٹھے رہیں گے؟‘‘ فکر میں ڈوبی زرینہ نے کہا۔
’’پھر کیا کریں؟‘‘ھھ قاسم بول اٹھا، اسے خود بھی اس بات کا احساس تھا۔
’’تم تھوڑا بہت ہی کما کر لے آؤ، تو ہم بھی سر اٹھانے جیسے ہوں‘‘ زرینہ نے کہا۔
’’تم کیا سمجھتی ہو کہ میں کمانے سے کتراتا ہوں؟ پورا مہینہ بھٹکا ہوں، کہیں مزدوری بھی نہیں ملی۔ بس بھیک مانگنے کا کام بچا ہے، کہو تو وہ بھی کر کے دیکھوں‘‘ قاسم نے چڑتے ہوئے کہا۔ ’’آہستہ بولو، خالہ سن لے گی۔ میں نے کب کہا کہ بھیک مانگنے کا کام کرو۔‘‘ زرینہ نے جواباً چڑتے ہوئے کہا۔
’’تم بات ہی ایسی کرتی ہو۔ اپنی طرف سے میں نے پوری کوشش کی۔‘‘ قاسم نے اس کے کان کے پاس جا کر دھیرے سے کہا، ’’میری بات تو سنو۔‘‘
زرینہ نے سوالیھہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’یہ ہر روز شام ڈھلے خالہ کے گھر نہ جانے کون سی کون سی لڑکیاں سجیھ سنوری ہوئی آ جاتی ہیں۔ یہ ہیں کون؟ خالہ کے گھر میں کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’مجھے کیا پتہ کون ہیں؟ میں بھی تمہاری طرح ہی دیکھ رہی ہوں۔۔‘‘ زرینہ نے جواب دیا۔
’’رات ہوتے ہی خالہ کے پاس فون آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ فون پر آہستہ سے بات کرتی ہے اور پھر لڑکیوں کو ساتھ لے کر نکل جاتی ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ قاسم نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ اس کی مرضی، تم کیوں سر درد مول لے رہے ہو۔ ہمیں پناہ دی ہے، تین بار کھانا دیتی ہے۔ ہم پر اس کا یہ احسان کم ہے کہ تم بیٹھے بیٹھے خالہ کی جاسوسی کر رہے ہو۔۔‘‘ زرینہ نے قاسم کو ہلکے سے ڈانٹا۔
’’جاسوسی نہیں کر رہا، سامنے کا منظر دیکھ رہا ہوں، اسی لئے پوچھ لیا۔‘‘
’’چلو اب زیادہ دماغ مت لڑاؤ، خاموشی سے سو۔‘‘ زرینہ نے اس کی طرف پیٹھ کرتے ہوئے کہا۔
ایک دن، رات کے وقت زرینہ خالہ کے پاس بیٹھی تھی کہ ایک فون آیا۔
’’ہاں رئیس۔ میں خوش ہوں، گاؤں سے کب لوٹے؟‘‘ خالہ نے پوچھا اور پھر بات سنتے ہی ہنس کر کہا، ’’آتے ہی اتنی بے تابی۔ اچھا دیکھتی ہوں اگر وہ گھر میں ہے، تو لے کر آتی ہوں۔‘‘
پھر خالہ نے کسی کو فون کر کے کہا، ’’رئیس نے بلایا ہے، تم تیار ہو جاؤ، تو میں رکشے میں تمہیں لینے آتی ہوں۔‘‘
خالہ نے زرینہ کی طرف دیکھا، ’’تم چلو گی گھومنے؟‘‘
’’کہاں خالہ۔۔۔؟‘‘ زرینہ نے پوچھا۔ ویسے بھی وہ کبھی کبھی خالہ کے ساتھ بازار میں گھر کے سودے کے لئے جایا کرتی تھی۔
’’بس یوں ہی چلو، چکر لگا آتے ہیں۔‘‘ خالہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میرا۔۔۔ بچہ۔۔۔۔‘‘
’’نسرین جو بیٹھی ہے۔‘‘ خالہ نے نسرین کو بلا کر زرینہ کے بچے کی دیکھ بھال کرنے کی ہدایت کری۔ نسرین نے مسکرا کر زرینہ کی طرف دیکھا۔ وہ شکل صورت میں معمولی تھی، مگر دل کی اچھی تھی۔ زرینہ کو وہ بہت چاہتی تھی۔ گھر کا تمام بوجھ نسرین پر تھا، لیکن اب زرینہ بھی اس کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ خالہ امینہ تو فقط حکم چلایا کرتی۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر میں پکار کر نسرین کو چائے بنانے کے لئے کہتی۔ اسے چائے پینے اور سگریٹ پھونکنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہ تھا۔
’’تو پھر چلیں؟‘‘ خالہ نے زرینہ سے پوچھا۔
زرینہ نے حامی بھری، تو خالہ نے اس کی طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا، ’’اس حال میں باہر چلو گی کیا؟ کپڑے تو ڈھنگ کے پہن لو۔‘‘
زرینہ نے اندر جا کر کپڑے بدلے اور بال ٹھیک کر کے باہر آئی۔ خالہ نے چاہت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور باہر آ کر ہاتھ کے اشارے سے ایک رکشے کو روکا۔ رکشے والے سے دو جگہوں پر رکنے کے پیسے طے کر کے زرینہ کے ساتھ اندر بیٹھ گئی۔ رکشہ ایک گلی میں کسی مکان کے پاس رکا۔ خالہ نے فون سے ایک مس کال دی۔ فوری طور پر چادر میں لپٹی لڑکی باہر آئی اور رکشے میں بیٹھ گئی۔ سندھی مسلم سوسائٹی میں ایک بنگلے کے باہر آ کر رکشہ رکا، تو خالہ نے اس کا کرایہ چکایا۔ آگے جا کر اس نے گھر کی کال بیل بجائی۔ فوراً نوکر نے آ کر گیٹ کھول دیا۔ خالہ کو دیکھتے ہی مسکرا کریک طرف کھڑا ہو گیا۔ خالہ دونوں لڑکیوں کو لے کر بنگلے کے اندر گئی اور ڈرائینگ روم میں جا کر بیٹھ گئی۔ زرینہ کو محسوس ہوا کہ خالہ کا وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ زرینہ نے زندگی میں پہلی بار اتنے بڑے بنگلے کو دیکھا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ ساتھ آئی لڑکی نے اپنی چادر اتار کر پاس ہی موجود سوفے پر رکھ دی۔ لڑکی نوجوان تھی اور دلکش بھی۔ چند لمحوں بعد رئیس اندر آیا اور اس نے خالہ کی طرف مسکرا کر پوچھا، ’’امینہ کیا حال ہے؟‘‘ پھر اس نے لڑکی اور ساتھ بیٹھی زرینہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں زرینہ پر ٹھہر گئیں۔ زرینہ کو شرم آنے لگی، اس نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں۔
’’رئیس یہ میری بھانجی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے یہ لوگ گاؤں سے میرے پاس آئے ہیں۔‘‘ خالہ نے زرینہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا اور پھر دوسری لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’آپ کا فرمائش پر شمائلہ کو لے کر آئی ہوں۔‘‘
رئیس نے مسکراتے ہوئے شمائلہ کی طرف دیکھا، ’’کیسی ہو؟‘‘
’’جی ٹھیک ہوں۔‘‘ شمائلہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
رئیس کچھ سوچتے ہوئے اٹھا اور خالہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’امینہ یہاں آؤ تو۔۔۔‘‘ خالہ اٹھ کر اس کے پیچھے دوسرے کمرے میں گئی۔ رئیس بستر پر بیٹھا اور اس نے خالہ کو اپنے ساتھ بٹھایا۔ وہ خالہ کے کندھے پر اپنے بازو رکھ کر اسے دیکھنے لگا۔
’’کیا دیکھ رہے ہو رئیس؟‘ ‘خالہ ہنسنے لگی، ’’میں تو اب بوڑھی ہو گئی ہوں۔‘‘
’’میں بھی کون سا نوجوان ہوں، امینہ۔ ساٹھ سال کا ہو گیا ہوں۔‘‘
’’نہیں رئیس، مرد اور گھوڑے دونوں کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔‘‘ خالہ کی بات سن کر رئیس نے قہقہہ لگایا۔
’’تمہاری یہی باتیں تو مجھے بھلی لگتی ہیں۔‘‘ رئیس نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر پل بھر رک کر بولا، ’’امینہ جوانی میں تم بھی قہر ڈھاتی تھیں، پر تمہاری بھانجی بھی غضب کی ہے۔ میں تو اس پر فدا ہو گیا ہوں۔‘‘
خالہ نے رئیس کی ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا، ’’نہیں رئیس۔ زرینہ میرے بھانجے کی بیوی ہے، میرے پاس مہمان بن کر آئی ہے۔ یہ بات زیب نہیں دیتی۔ تم اس بات کو ذہن سے نکال دو۔ میں تمہیں زرینہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی ڈھونڈ کر دوں گی۔‘‘
’’نہیں‘‘ رئیس نے انکار میں گردن ہلائی اور کہا، ’’مجھے تو وہ بھا گئی ہے۔ چاہئے تو بس یہی چاہئے‘‘ اس نے ضد کرنے کی کوشش کی۔
’’رئیس، میری بات سنو اور سمجھو، میں تو اسے یوں ہی گھمانے لے آئی تھی۔ مجھے کیا پتہ کہ اسے دیکھتے ہی اپنے ہوش کھو بیٹھو گے۔۔‘‘ خالہ نے ہنستے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
رئیس نے خالہ کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے، ’’دیکھو امینہ تم کچھ بھی کرو، پر یہ کام کر دو۔‘‘
خالہ نے فوراً اٹھ کر رئیس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما، ’’یہ کیا کر رہے ہو رئیس۔ اچھا، کچھ دن صبر کرو، تو میں کوئی حل نکالنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘
رئیس نے خالہ کو آغوش میں لے کر اس کا گال چوم لیا، ’’بس اب سب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ کچھ کرنا، ورنہ میں مر جاؤں گا۔‘‘
’’اچھا، اچھا اب زیادہ اداکاری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہیں جانتی ہوں۔‘‘ خالہ جی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
رئیس نے پرس سے ہزار ہزار کے دو نوٹ نکال کر خالہ کو دئیے۔
’’یہ ایک ہزار تمہارا اور ایک ہزار زرینہ کا۔‘‘ اس نے پھر تیسرا نوٹ نکالتے ہوئے کہا، ’’یہ شمائلہ کو دے دینا اور اسے اپنے ساتھ لیتے ہوئے جانا اب میرا من نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں رئیس، یہ بات ٹھیک نہیں۔ تمہارے کہنے پر ہی اسے لے آئی ہوں۔ اب کس طرح کہوں کہ واپس چلو؟‘‘ خالہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ آئی ہے، تو اس سے دل بہلا لیتا ہوں۔ ورنہ تم بھی برا مان جاؤ گی۔۔۔‘‘ رئیس نے خالہ کی بات مانتے ہوئے کہا۔
دونوں ڈرائنگ روم میں واپس آئے، تو خالہ نے زرینہ کو چلنے کے لئے کہا۔
’’ٹھہرو تمہیں میری گاڑی چھوڑ کر آتی ہے۔‘‘ خالہ کے منع کرنے کے باوجود وہ دونوں رئیس کی گاڑی میں سوارہو کر روانہ ہوئیں۔ گھر سے کچھ فاصلے پر دونوں گاڑی سے اتر کر گھر آئیں۔ زرینہ اپنے کمرے میں گئی، تو دیکھا کہ بچہ سو رہا تھا۔ قاسم ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔ اتنے میں خالہ اس کے کمرے میں آئی۔
’’اے ری پگلی۔ رئیس تجھے دیکھ کر پاگل ہو گیا ہے۔۔‘‘ خالہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’خالہ تم مجھے غیر مرد کے پاس کیوں لے کر گئیں؟‘‘ زرینہ نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
’’اس لئے لے کر گئی کہ تم تھوڑا بہت گھوم پھر آؤ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ تجھ پر لٹو ہو جائے گا۔‘‘ خالہ نے ہزار کا نوٹ اس کی طرف بڑھاتے کہا، ’’یہ لو رئیس نے تجھے خوشی سے بخشش دی ہے۔‘‘
زرینہ حیرانی سے اس نوٹ کو دیکھتی رہی۔
’’نہیں، خالہ نہیں۔ قاسم پوچھے گا کہ پیسے کہاں سے لائی، تو کیا جواب دوں گی۔ تمہیں معلوم نہیں قاسم کتنا شکی ہے۔‘‘ پھر اس نے صفوراں کے قتل کی ساری داستان خالہ کو بتا دی۔
خالہ کے تو جیسے ہوش اڑ گئے، ’’یہ ظالم تو خونی ہے۔ میں بھی سوچوں کہ عارب چھوٹے بھائی کو چھوڑ کر کیوں چلا گیا ہو گا؟ اچھا، تو یہ بات ہے۔‘‘ اس نے ہزار کا نوٹ اپنے پاس رکھتے ہوئے کہا، ’’ہاں واقعی وہ پیسے دیکھ کر شک کرے گا۔ تمہارے پیسے میں اپنے پاس امانت کے طور رکھتی ہوں۔‘‘
’’خالہ ویسے بھی تمہارا ہی تو کھا رہے ہیں۔‘‘ زرینہ نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں پگلی نہیں۔ ہر ایک اپنے نصیب کا کھاتا ہے۔‘‘ خالہ نے ہنستے ہوئے کہا، ’’تمہیں پتہ ہے گھر کا اتنا خرچ کیسے چلتا ہے۔ صدیق بال بچوں والا ہو گیا ہے، لیکن گھر کی ذمہ داری بالکل پوری نہیں لے پاتا۔ ماں جو کما رہی ہے۔ باپ کے تمام پیسے مقدموں میں خرچ ہو گئے۔ خود تو پھانسی پر چڑھ گیا، پیچھے رہ گئی میں۔ صدیق تب بچہ تھا۔ میرے پاس اپنی جوانی کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘
خالہ نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ’’تمہیں کیا پتہ، اکیلی عورت ذات ہو کر میں نے کس طرح گزارا کیا۔ گنہگار پیٹ کو ٹکڑا تو چاہئے نا۔۔‘‘ خالہ کا گلا بھر آیا۔ وہ رونے لگی۔
’’میں نے یہ کام خوشی سے نہیں کیا۔ مجھے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالنا تھا۔ بس، اس دلدل میں اتری تو پھر باہر نہ نکل پائی۔‘‘
خالہ کو روتا دیکھ کر، زرینہ کا دل بھر آیا۔
’’دنیا بڑی ظالم ہے زرینہ۔ کسی نہ کسی طریقے سے اس سے گزرنا تو ہے ہی۔‘‘ خالہ نے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
زرینہ خالہ کی باتیں سن کر دنگ رہ گئی۔
ایک رات قاسم نے یوں ہی بات نکالی، ’’اب مجھے خالہ کے پاس رہنا اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘ زرینہ نے حیرانی سے پوچھا۔
’’مجھے خالہ کے آثار اچھے نہیں لگتے۔‘‘ قاسم نے کہا۔
زرینہ سکتے میں آ گئی، ’’تم نے ایسے کیسے سوچ لیا؟‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
’’صدیق سارا دن موٹر سائیکل پر گھومتا رہتا ہے۔ کوئی کام بھی نہیں کرتا، تو پھر گھر میں اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ خالہ کوئی اچھا کام نہیں کر رہی ہے، اتنا تو میں بھی سمجھ گیا ہوں۔۔‘‘ اس نے گردن ہلا کہا۔
’’پتہ نہیں۔‘‘ زرینہ نے نرم لہجے میں کہا، ’’پھر تمہاری کیا مرضی ہے؟‘‘
’’کوئی بندوبست ہو تو یہاں سے نکل جائیں۔‘‘ قاسم نے کہا۔
’’مرد آدمی ہو، کوئی راستہ ڈھونڈ نکالو۔‘‘
’’صبح سے شام تک روزگار کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہوں۔ بس دعا کر۔‘‘ قاسم نے بے بسی سے کہا۔
’’خدا کرے تمہارے روزگار کا کوئی راستہ نکل آئے۔‘‘ زرینہ نے کہا۔
شاید زرینہ کی دعا قبول ہوئی، قاسم کو ایک ہوٹل میں کام مل گیا، لیکن وہ کام اس کے لئے نیا بھی تھا اور مشکل بھی۔ ایک تو اس کے جسم میں پھرتیلا پن نہیں تھا، دوسرے کبھی اس کے ہاتھ سے پلیٹ گر جاتی، تو کبھی گلاس ٹوٹ جاتا۔ گاہکوں کی باتیں سننی پڑتیں اور ساتھ میں ہوٹل کے مالک کی سختی بھی برداشت کرنی پڑتی۔ وہ ایک ہفتہ بھی نہیں ٹک پایا۔ آخر ہوٹل کے مالک نے اسے نوکری سے نکال دیا۔ زرینہ نے سنا، تو اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا ما تھا پیٹ لیا۔
’’تم سے یہ کام بھی نہیں ہو پایا، تو دوسرا کون سا کام کرو گے؟‘‘ اس نے غصے سے کہا۔
’’لوگوں کی باتیں سن کر، سختی سہہ کر بھی کام کر رہا تھا۔ ہوٹل مالک نے خود جواب دیا۔ اس میں میرا کیا قصور؟‘‘ قاسم نے کہا۔
’’آخر آپ کیا کریں گے؟ اگر تم سے کچھ نہیں ہوتا، تو پھر مجھے رہا کرو، تو میں خالہ کے ساتھ باہر نکلوں۔‘‘ زرینہ نے چڑتے ہوئے کہا۔ قاسم نے جھپٹ کر اس کو گردن سے پکڑ لیا۔
’’پھر اگر ایسی بات ہے، تو تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔‘‘ غصے سے اس کی مٹھیاں بھینچ سی گئیں۔
’’بھڑووں کے ساتھ رہ کر تم بھی ان جیسی ہو گئی ہو۔‘‘ اس نے زرینہ کی گردن پکڑتے ہوئے اسے دھکا دیا۔ زرینہ کمرے کی دیوار سے ٹکرا کر نیچے گر پڑی۔ قاسم تیزی سے باہر نکل گیا۔ شور سن کر خالہ کمرے میں آئی۔ اس نے زرینہ کو گلے لگا کر اسے زمین سے اٹھایا۔ زرینہ خالہ سے لپٹ کر رونے لگی۔
’’ہم بھڑوے ہیں اور خود غیرت مند ہے، تو یہاں کیوں بیٹھا ہے؟‘‘ خالہ بہت غصے میں تھی۔ ’’مجھے تمہارا اور تمہارے بچے کا خیال نہ ہوتا، تو ابھی کا ابھی قاسم کو گھر سے باہر نکال پھینکتی۔ خود کو سمجھتا کیا ہے؟‘‘
اس نے اپنے دوپٹے سے زرینہ کے آنسو پونچھے۔ پھر پانی کا گلاس بھر کر اسے پلایا، ’’یہ پانی پی لے، یہ مرد سبھی کتے ہوتے ہیں۔ جھوٹے، مکار، غیرت مند۔ ان کا بس چلے، تو عورت کا گوشت تو گوشت، ان کی ہڈیاں بھی چبا ڈالیں۔‘‘ خالہ نے غصے بھرے لہجے سے کہا۔
رات کو قاسم دیر سے گھر آیا۔ زرینہ نے خاموشی سے کھانا لا کر اس کے سامنے رکھا اور خود بچے کے پاس لیٹ گئی۔ کھانا کھا کر کچھ دیرقاسم خاموش بیٹھا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ زرینہ سے بات کرے۔ اس نے زرینہ کے بازو پر ہاتھ رکھا، پر زرینہ نے اس کا ہاتھ پرے جھٹک دیا۔ قاسم زمین پر بچھے اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔
خالہ اور زرینہ جب سے رئیس کے پاس سے واپس آئی تھیں، شام ہوتے ہی وہ روز خالہ کو دو تین بار فون کرتا۔
’’کیا ہوا؟ میری راتوں کا سکھ چین کھو گیا ہے۔ کب پرندے کو لے کر آ رہی ہو؟‘‘
’’رئیس، زرینہ کوئی گلاب نہیں، جو خوشبو کے ساتھ تمہارے پاس لے آؤں، پر تمہاری وجہ سے میں بھرپور کوشش کروں گی۔‘‘ خالہ رئیس کو امید دیتی اور اپنی جان چھڑوا لیتی۔ جب رئیس کی بیتابی میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا، تو خالہ نے اس کے فون پر پوچھا، ’’اچھا یہ تو بتاؤ، زرینہ کو کسی طرح لے بھی آئی تو دو گے کیا؟‘‘
’’جو تم کہو گی۔‘‘ رئیس نے فوراً جواب دیا۔
’’زرینہ تمہارے پاس مہینے میں چار بار آئے گی۔ تم اس کے چالیس ہزار مہینے کے باندھ دو۔‘‘ خالہ نے اپنا پانسا پھینک دیا۔
’’یہ لو امینہ، تم تو پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئیں۔‘‘ رئیس کی جیسے چیخ نکل گئی۔
’’اگر رئیسوں کے ادب آداب اپنانے ہیں تو خرچہ تو کرنا پڑے گا۔‘‘
’’میں ہر ماہ تیس ہزار روپے دوں گا، ایک شرط پر۔۔۔‘‘
’’کیسی شرط؟‘‘ خالہ نے پوچھا۔
’’وہ میرے سوا کسی اور کے پاس نہیں جائے گی۔‘‘ رئیس نے شرط سامنے رکھی۔
’’واہ سائیں، واہ۔ تیس ہزار دے کر پرندے کو پنجرے میں بند کر کے رکھو گے۔ اگر ایسا شوق ہے، تو لاکھ روپے مہینے کے دو، نہیں تو ایسی پابندی قبول نہیں۔۔‘‘ خالہ نے روکھا سا جواب دیا۔
’’ایسی زور زبردستی نہ کرو امینہ۔ تمہیں پتہ ہے میرے اور بھی کئی خرچ ہیں۔‘‘
’’تو پھر ایسی شرط بھی مت رکھو۔‘‘
’’چلو پھر میں نے شرط کو منسوخ کر دیا۔ اب تو مان جاؤ۔۔۔‘‘ رئیس جیسے بے بس ہو گیا تھا۔
’’ٹھیک ہے رئیس، دیکھتی ہوں۔ میں کیا کر سکتی ہوں۔‘‘ خالہ نے کوئی وعدہ نہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہائے۔ اب بھی دیکھو گی؟ تب تک تومیں مر جاؤں گا۔۔‘‘ رئیس نے بے تاب ہو کر چلاتے ہوئے کہا۔
’’یہ جملہ کسی اور کو سناؤ، مرتا ورتا کوئی نہیں۔‘‘ خالہ نے ہنستے ہوئے کہا، ’’زرینہ کو حاصل کرنا اتنا آسان نہیں۔ مجھے تھوڑا وقت دو، اپنے گھر کو تو باندھ لوں۔‘‘
’’بس امینہ، اب تمہاری مرضی۔ ہم تو اب تیرے بس میں ہیں۔‘‘ رئیس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے فون بند کر دیا۔
’’خالہ تم نے یہ کیا کیا؟‘‘ زرینہ کے چہرے پر خوف اور پریشانی کے بادل امڈ آئے۔
’’پگلی۔ رئیس کے سائے میں تم بس جاؤ گی۔۔‘‘ خالہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں خالہ نہیں۔۔۔، خوف سے میرا دل کانپ رہا ہے۔ قاسم کو تو تم جانتی ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر زرینہ حقیقت میں کانپنے لگی تھی۔
’’اتنا ڈرنے کی بات نہیں۔ میں بھی اس بات کو سمجھتی ہوں۔ بات بنی تو بنی، نہیں بنی، تو خیر ہے۔ میں نے تو ایسے ہی رئیس سے جاننا چاہا کہ وہ دے گا کیا؟‘‘
خالہ نے زرینہ کو دلاسہ دیا۔
کچھ دنوں تک قاسم سے نہ زرینہ نے بات کی، اور نہ ہی خالہ اس کے منہ لگی۔ قاسم کو خالہ کی جانب سے زیادہ فکر تھی۔ اگر خالہ نے گھر سے نکال دیا، تو کہاں جائیں گے؟ اس خیال سے وہ اور زیادہ خوفزدہ ہو جاتا۔ اب گاؤں میں بھی اس کے لئے کچھ نہ بچا تھا۔ ایک بڑا بھائی تھا، اس نے بھی اس سے ناطہ توڑ دیا تھا۔ کیمپوں میں خیرات پر آخر آدمی کب تک پڑا رہے گا۔ ایک دن اس نے زرینہ سے بات کرتے ہوئے التجا کی، ’’اب غصے کو تھوک بھی دو، کیا ساری عمر بات نہیں کرو گی؟‘‘
’’کیا بات کروں۔ بات کرتی ہوں، تو گلا دبا دیتے ہو۔‘‘ زرینہ نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
"تم نے بات ہی ایسی کی۔ کیا غصہ نہیں آئے گا؟‘‘
’’یعنی، تمہیں میرا بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ تو پھر بات نہ کروں تو ہی ٹھیک ہے۔‘‘
’’گھر میں دو برتن ہوں گے، تو ضرور ہی ٹکرائیں گے۔ اس میں بڑی بات کون سی ہے؟‘‘
’’بڑا آیا ہے برتن۔۔۔‘‘ زرینہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’غنیمت ہے، تم ہنسی توسہی۔‘‘
’’میری تو خیر ہے، مگر خالہ بہت غصے میں ہے۔‘‘ زرینہ نے قاسم کے اندر خوف کو پھونک دیا۔
’’ہاں، میں بھی دیکھ رہا ہوں، وہ گھاس ہی نہیں ڈال رہی۔ تم اس سے بات کرو، تو شاید اس کی ناراضگی کم ہو۔‘‘
’’خالہ تمہاری ہے اور کہا میرا مانے گی؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ پر۔۔‘‘ کچھ کہتے کہتے قاسم خاموش ہو گیا۔
دوسرے دن شام کو خالہ کے گھر دو لڑکیاں آئیں۔ رات ہوتے ہی خالہ کے پاس فون آنے لگے۔ خالہ دونوں لڑکیوں کو لے کر گھر سے نکلی۔ گلی سے نکل کر روڈ پر آئی، تو ایک کار ان کا انتظار کر رہی تھی۔ کار نے انہیں لے کر ایک بنگلے کے سامنے چھوڑا۔ اندر صاحب اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان کے سامنے وہسکی کے بھرے گلاس رکھے تھے۔ خالہ اور لڑکیوں کو دیکھ کر دونوں نے ملا جلا نعرہ لگایا ’’خالہ زندہ باد۔۔‘‘ خالہ نے لڑکیوں کو چھوڑ کر لوٹنا چاہا، پر صاحب اور اس کے دوست نے خالہ کو اپنے ساتھ بٹھایا اور وہسکی کا ایک گلاس خالہ کو پیش کیا۔
’’چیئرز‘‘ کہہ کر انہوں نے اپنے گلاس خالہ کے گلاس سے ٹکرائے۔ خالہ بھی دو پیگ پی کر، مد ہوشی کی حالت میں اپنے گھر واپس آئی۔ اس وقت تک زرینہ اور قاسم جاگ رہے تھے۔ خالہ نے زرینہ کو اپنے کمرے میں بلوایا۔
’’دے خبر؟ ، تمہارا مرد راستے پر آیا ہے یا نہیں؟‘‘ خالہ نے زرینہ سے پوچھا۔
’’تھوڑا بہت۔۔ کہتا ہے خالہ کو منالو۔۔‘‘ زرینہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اچھا، جاؤ اسے لے آؤ۔‘‘ خالہ خوشگوار موڈ میں تھی۔
کچھ دیر میں زرینہ لوٹ آئی اور اس کے پیچھے سہما سہما سا قاسم بھی اندر آیا۔
’’بیٹھو میاں قاسم خان۔‘‘ خالہ نے طنز بھرے لہجے میں کہا، ’’سخت جان ہو۔‘‘
’’نہیں خالہ، تمہارا بچہ ہوں۔‘‘ بیٹھتے ہوئے قاسم نے نرمی سے کہا۔
’’میری جنتی بہن کے بیٹے ہو، اسی لئے میں نے بھی تمہیں اپنا خون سمجھ کر گھر میں رکھا۔ باقی تم مجھے اگر برا سمجھتے ہو، تو دروازہ کھلا پڑا ہے۔ جانا چاہو، تو خوشی سے جا سکتے ہو۔۔‘‘ خالہ نے اس پر سیدھا وار کیا۔
’’نہیں خالہ، آپ بھی میری ماں جیسی ہو۔ تمہیں برا کیوں سمجھوں۔ تمہارے سوا ہمارا ہے ہی کون؟‘‘ قاسم کی آواز میں پشیمانی تھی۔ خالہ نے پرس میں سے پانچ سو والے چار نوٹ نکال کر آگے رکھے۔
’’میری اس کمائی پر سارا خاندان چلتا ہے۔ کچھ چھپا نہیں رہی۔ میرا دھندہ تیرے سامنے ہے، ’’اس نے پانچ سو کا ایک نوٹ قاسم کی طرف بڑھاتے کہا، ’’ہاں، یہ میری طرف سے جیب خرچ ہے۔‘‘
’’نہیں، نہیں، خالہ، تمہارا دیا کھا رہے ہیں، میرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ قاسم نے پیسے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔
’’اب لے بھی لو، خالہ کا دیا ہوا لوٹا رہے ہو۔‘‘ زرینہ نے زور دیا۔
قاسم نے جیسے بڑی لاچاری سے نوٹ لے کر جیب میں ڈالا۔
’’قاسم، اب میری بات ٹھنڈے دماغ سے سنو، کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ اپنی مرضی والے ہو۔ اگر تمہیں یہ بات اچھی نہ لگے، تو جہاں چاہو اپنا راستہ پکڑ کر چلے جانا۔۔‘‘ خالہ نے غور سے قاسم کی طرف دیکھا۔ قاسم بالکل خاموش تھا۔
’’کیا کہتے ہو؟ بات چلاؤں؟‘‘ خالہ نے کہا۔
’’خالہ۔‘‘ قاسم کے گلے سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔
’’تمہاری بیوی اور بچے کا خرچ مجھ پر ہے۔ تم ان سے آزاد ہو۔ تمہیں ہر مہینے پانچ ہزار جیب خرچ ملے گا۔ بس، زرینہ کا ہاتھ میرے حوالے کر دو۔‘‘
قاسم کے چہرے کی نسیں تن گئیں اور اس کا جسم پتھرا گیا۔ خالہ نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔
’’تم بھلے ابھی جواب مت دو۔ ایک دو دن ٹھنڈے دماغ سے سوچ بچار کرو۔ پھر جو تمہاری مرضی۔۔‘‘ خالہ نے نیند میں ڈوبی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اب جا کر سو جاؤ۔‘‘
قاسم اپنے پتھرائے جسم کو ڈھو کر باہر نکل گیا۔ خالہ نے مسکرا کر زرینہ کو آنکھ ماری اور اسے قاسم کے پیچھے جانے کو کہا۔
قاسم جاتے ہی اپنے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ اس رات دونوں نے ایک دوسرے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ ہی دو تین دنوں تک خالہ والی بات چھیڑی۔
دو تین دن گزر گئے۔ قاسم دوپہر کا کھانا کھا کر باہر جانے لگا، تو زرینہ نے اس سے کہا، ’’سنو آج شام جلدی گھر آنا، کام ہے۔‘‘
’’کیا کام ہے؟‘‘ قاسم نے حیرت سے پوچھا۔
’’تم آؤ پھر بتاؤں گی۔‘‘
قاسم کچھ سمجھ نہیں پایا۔ بے چین دل میں اٹھتے نہ جانے کتنے سوالوں نے اس کا باہر رہنا محال کر دیا۔ شام ہوتے ہی گھر لوٹ آیا۔ زرینہ کمرے میں نہیں تھی۔ وہ بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد زرینہ کمرے میں اندر آئی، تو قاسم اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس نے اتنی سجی سنوری زرینہ اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پہلی بار زرینہ اسے اتنی خوبصورت لگی۔
’’اب کہو، اجازت دو تو خالہ کے ساتھ جاؤں؟‘‘ قاسم کا جسم ایک بار پھر پتھرا سا گیا۔
ایک لمحے کے لئے رک کر زرینہ نے کہا، ’’کیا کہتے ہو، تمہاری مرضی نہیں ہے، تو میں نہیں جاتی۔‘‘ زرینہ اس کی طرف دیکھتی رہی اور قاسم کی گردن جھک گئی۔ کچھ دیر کے بعد اس نے زرینہ کی طرف دیکھے بغیر ہولے سے کہا، ’’چلی جاؤ۔۔۔۔‘‘
زرینہ نے گردن موڑ لی۔ ایک طنز بھری مسکراہٹ کو ہونٹوں پر سجائے وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
***
انتظار
کھِمن مولانی
جس بلاک میں ہم رہائش پذیر تھے، اسی کے کونے والے کوارٹر میں سورج مل نام کے ایک عمر رسیدہ شخص بھی رہتے تھے۔ عمر کوئی ستر سال سے اوپر تھی۔ زیادہ تر سب لوگ انہیں ”کاکا” کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ اکثر بیماری جھیلا کرتے تھے، اسی لیے کوئی کام دھندہ نہیں کرتے تھے۔ تمام دن گھر میں ہی فارغ بیٹھے رہتے تھے۔ بیٹے اور پوتے کماتے تھے، جس سے گھر کی گاڑی چل جاتی تھی۔
کاکا دھوتی اور اوپر سے آدھے بازو والی سندھی قمیض پہنتے تھے۔ سر پر سندھی ٹوپی رکھ کر، اس پر پٹکا باندھتے تھے۔ میں جب بھی سبزی ترکاری لینے کے بہانے یا کسی دوسرے کام سے ان کے گھر کے قریب سے گزرتا تھا، تو وہ اکثر مجھے مسکرا کر مسرت بھری آواز سے کہتے، ’’بھائی صاحب، رام رام۔‘‘
’’رام رام کاکا، رام رام۔‘‘ میں جواب دیتے ہوئے آگے نکل جاتا تھا۔
کاکا اپنی تنہائی مٹانے کیلئے مجھ سے ملنا چاہتے تھے، مگر میں بیکار ہی وقت گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ میں ان کی باتوں سے بور ہو جاتا تھا۔ اسی لیے کبھی کبھی تو میں دوسرے راستے سے نکل جاتا، تاکہ ان کا منہ نہ دیکھو۔
ایک دن میں کاکا کے گھر کے قریب سے گزر رہا تھا، تو مجھے ان کی آواز سنائی نہیں دی۔ میرا دھیان اس جانب چلا گیا اور میں رک گیا۔ میں نے کاکا کے گھر کی طرف دیکھا۔ وہ صحن میں اپنے پرانے خستہ حال پلنگ پر روز کی طرح حقہ منہ میں لگائے بیٹھے تھے اور ایک ٹک سامنے والی دیوار کو تک رہے تھے۔ مجھے یوں احساس ہوا کہ شاید کاکا کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انہیں آواز دی۔
’’کاکا، رام رام۔‘‘
کاکا کی توجہ میری جانب نہیں تھی۔ مجھے تعجب ہوا۔ آگے بڑھ کر میں ان کے قریب جا کھڑا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ کاکا کی آنکھیں نم تھیں۔ میں نے پھر سے کہا، ’’کاکا، رام رام۔‘‘۔ لیکن کاکا کی حالت میں تب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مجھے شک ہونے لگا کہ کاکا کہیں اس دنیا سے کوچ تو نہیں کر گئے ہیں۔ میں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ زور سے کہا، ’’کاکا۔۔۔ ہرے۔۔۔ رام۔‘‘
میری آواز پر کاکا چونک پڑے۔ جیسے ان کا دھیان تحلیل ہو چکا ہو۔ حیران نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگے اور میں انہیں دیکھ کر مسکرانے لگا۔ کاکا نے بھی زبردستی اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے، اپنے انگوچھے کے پلو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’آؤ بیٹے، آؤ بیٹھو، بہت دنوں بعد آئے ہو۔‘‘
میں بنا کچھ کہے، ایک فرمانبردار بچے کی طرح خاموشی سے ان کے برابر میں بیٹھ گیا۔ یہ سوچ کر میں ابھی تک حیران تھا کہ ہمیشہ خوش و خرم رہنے والے کاکا آج اتنے غمگین کیوں ہیں؟ کاکا پھر بھی خاموش رہے، پر مجھ سے رہا نہ گیا۔ اس لئے ان کی خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا، ’’کاکا کیا حال چال ہیں؟‘‘
خود کو سنبھالتے ہوئے کاکا نے کہا، ’’سب ٹھیک ٹھاک ہے بیٹا۔‘‘
مجھے اس جواب سے جب کوئی اطمینان نہ ہوا۔ تو تب دوسرا سوال کرنا چاہا، ’’پر کاکا۔۔۔؟‘‘
کاکا نے مجھے اپنا جملہ پورا نہیں کرنے دیا اور کہا، ’’بس بیٹا ایسے ہی پرانی یادیں دل میں تیر آئیں اور من بھر آیا۔ دنیا دیکھی ہے، بہت کچھ پایا اور بہت کچھ گنوایا ہے۔ پر بیٹا، گنوانے کا دکھ تو ہر انسان کو ہوتا ہی ہے۔‘‘
میں ان کی بات کا مطلب مکمل طور پر سمجھ نہیں پایا۔ میں جاننے کے لئے بے چین ہوا کہ ان کی ایسی کون سی چیز گم ہو گئی ہے کہ وہ اتنے پریشان ہوئے ہیں۔ لیکن میں اپنی سوچ کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا پایا۔ بس اتنا ہی کہا، ’’کاکا، آپ کی کون سی چیز کھوئی ہے؟‘‘
کاکا نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’بیٹے، میں نے ایک قیمتی چیز گنوائی ہے۔‘‘
’’ایسی کون سی چیز ہے وہ؟‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔
کاکا نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا، ’’بیٹا میں نے اپنی جنم بھومی گنوائی ہے۔ جنم بھومی جو جنت سے بھی زیادہ عظیم ہوتی ہے۔‘‘
میری ہنسی چھوٹنے والی تھی، لیکن میں نے اسے دبا کر رکھا۔ کچھ لمحے رک کر کہا، ’’کاکا، لیکن یہ تو تقسیم کے بعد کی بات تھی۔ اب تو 1971ء چل رہا ہے۔ تقسیم کو پورے چوبیس سال ہونے کو ہیں، آپ ابھی تک سندھ کو یاد کر رہے ہیں۔‘‘
’’سچ کہتے ہو بیٹے، لیکن جہاں آگ لگتی ہے، وہیں تپش محسوس کی جاتی ہے۔ کسی اور کو کیا پتہ کہ عذاب کیا ہوتا ہے۔‘‘
ایسا کہہ کر کاکا میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے، ’’پتہ ہے، رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ ایسا خوشگوار خواب میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں، میں حیدرآباد اسٹیشن پر جا کر اترا ہوں۔ اسٹیشن دیکھ کر جو خوشی مجھے ہوئی، میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک ایک آتے جاتے آدمی کو غور سے دیکھتا ہوں۔ ایسے جیسے میں پاگل ہو گیا ہوں۔ اچانک دیکھتا ہوں کہ ہمارے گاؤں کا دلارا خان میرے سامنے کھڑا ہے اور وہ مجھے گھورے جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہی آنکھیں گھومتی ہوئیں اس پر ٹھہر گئیں۔ کھینچ کر اسے گلے سے لگایا۔ پھر تو وہ گلے لگ کر رونے لگا۔ زور زور سے سسکیوں کے بیچ جیسے اس کی آواز رندھ گئی۔ میں بھی رونے لگا تو لوگ جمع ہونے لگے۔ سبھی پوچھنے لگے کہ ماجرا کیا ہے؟ کیا ہوا ہے؟ میں انہیں کیا بتاتا کہ کیا ہوا ہے۔ آخر کہا، ’’بھائی برسوں بعد ملے ہیں۔ اسی وجہ سے آنکھیں بھر آئی ہیں۔‘‘ لوگ تو چلے گئے، لیکن دلارا بھولی بسری یادوں کی کہانیاں لے بیٹھا۔
’’یار تمہارے جانے کے بعد ہم تو مسائل سے گھر گئے ہیں۔ تم تو ہمیں اکیلا تنہا کر کے چلے گئے۔ اب تو پردیسیوں کی زور زبردستی نے ہمیں چور چور کر دیا ہے۔ ہمارے ساتھ اپنے ہی دیس میں پردیسیوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔‘‘ پھر کچھ دیر رک کر کہنے لگا، ’’سورج مل، تم کو یہاں سے جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔‘‘
ایسا کہہ کر کاکا کچھ لمحے ٹھہرے اور پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولے، ’’بیٹا، سچ پوچھو تو دلارے کی وہ پہلے سی محبت اور لگاؤ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ اسی طرح باتیں کرتے کرتے ہم نے گاؤں کے دو ٹکٹ لیے اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔‘‘ کاکا بات کرتے کرتے رک گئے۔
’’پھر کیا ہوا کاکا۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھ لیا۔
کاکا نے میری طرف کچھ اس طرح دیکھا جیسے وہ میرا چہرہ پڑھ رہے ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا، ’’پھر نہ جانے کیا ہوا بیٹے۔ بدقسمتی سے آنکھ کھل گئی۔ اس ڈائن نیند کا وار ہی شاید ایسا ہے۔ سسی سے پنوں کو چھینا اور مجھ سے میری جنم بھومی کے نظارے۔‘‘
میں نے کہا، ’’کاکا، کبھی خواب بھی سچ ہوتے ہیں؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم جو یہاں پیدا ہوئے ہیں، پلے بڑھے ہیں، اگر سندھ واپس بھی چلے جائیں تو کیا ہمیں یہ اپنا وطن یاد نہیں آئے گا؟ اور پھر، وہاں جو ہماری طرح نئی نسل پیدا ہوئی ہو گی، ان کے دلوں میں کیا آپ کے لیے وہی پیار، محبت اور عزت ہو گی؟‘‘
کاکا کو میری بات نہ بھائی، کہنے لگے، ’’چھوڑو بیٹا ان باتوں کو۔ بتاؤ ملک کی کیا تازہ خبریں ہیں؟‘‘ کاکا نے بات تبدیل کرنے کیلئے میری طرف ایک نیا سوال اچھال دیا۔
’’سب ٹھیک ہے کاکا۔ ملک ایسے ہی چل رہا ہے جیسے چلتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
کاکا سوچ میں پڑ گئے کہنے لگے، ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ پھر سندھ میں لوٹ جانا ہو گا؟‘‘
’’نہیں کاکا، مجھے تو نہیں لگتا، پھر بھی مولا جانے۔‘‘ میں کاکا کے دل کو دُکھانا نہیں چاہتا تھا۔
’’نہیں بیٹا، ایسے مت کہو۔ وقت بڑا بلوان ہے، رب بڑا مہربان ہے۔ وہ چاہے تو کیا نہیں کر سکتا۔ میری روح کہتی ہے کہ جائیں گے ضرور۔‘‘ ایسے کہتے ہوئے بابا کے چہرے پر ایک انوکھی چمک چھا گئی۔
میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’کاکا، اس بات کا امکان بہت کم ہے۔‘‘
یہ سن کر پہلے تو وہ خیال میں پڑ گئے، پھر سر اٹھا کر کہنے لگے۔‘‘ سچ کہہ رہے ہو بیٹا، مگر میرا دل نہیں مانتا۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہم سندھی ایک دن ضرور اپنی جنم بھومی پر جا کر بس جائیں گے۔‘‘
’’کاکا یہ تو ایک دم جذباتی باتیں ہیں۔ در حقیقت آپ کو سندھ چھوڑنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘
’’ہاں بیٹا، پر میں نے جنم بھومی اپنی مرضی سے نہیں چھوڑی۔ حالات ہی کچھ ایسے بنتے گئے۔‘‘ کاکا نے اپنی مجبوری بتائی۔
’’حالات میں تو سدھار ضرور آ جاتا۔ جلد بازی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’ارے بیٹے، میں نے سندھ ہمیشہ کے لئے تو نہیں چھوڑا تھا۔ پتہ ہے، سن 1946 ء میں، گاؤں میں محل جیسا ہی نیا گھر بنایا تھا۔ سب روک رہے تھے کہ کیوں بیکار کا خرچ کر رہے ہو۔ اب ہمیں ہندوستان چلنا پڑے گا۔ میں نے کسی کی نہیں سنی۔ سب سے یہی کہا کہ پاگل ہو گئے ہو۔ کبھی کسی نے اپنا گھر بھی چھوڑا ہے؟ ہم صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، پلے بڑھے ہیں، پھر کیوں اپنی جنم بھومی چھوڑیں؟ اس وقت بھی سب مجھ پر ہنستے تھے ؛ جیسے آج تم ہنس رہے ہو۔‘‘
ایسا کہتے ہی کاکا کی آنکھوں میں پھر سے آنسو امڈ آئے۔ کچھ رک کر پھر جیسے خود سے بڑبڑانے لگے، ’’اپنا محل جیسا بسا بسایا گھر ایسے ہی چھوڑ آیا۔ تالا لگا کر، چابیاں اپنے دوست بڑے گل محمد کو دی اور کہا، ہم تیرتھ کرنے ہندوستان جا رہے ہیں، جلد ہی واپس آئیں گے۔ تب تک یہ چابیاں سنبھال رکھنا۔‘‘
’’پھر لوٹ کر کیوں نہیں گئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں تو جانا چاہتا تھا، پر رشتہ داروں نے، گھر والوں نے جانے ہی نہیں دیا۔ کہنے لگے، حالات اب بھی خراب ہیں، وہاں جا کر کیا کرو گے؟ بس ایسے ہی مجبور ہو گیا۔‘‘ کاکا کہہ کر خاموش ہو گئے۔
’’کاکا، ان باتوں کو اب دل سے نکال ہی دیں۔‘‘ میں نے تجویز پیش کی۔
کاکا نے ایک لمبی سانس لی، پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’بیٹے تم مجھے لاکھ بار سمجھا لو، پر میرا دل بھی تو مانے نا۔ بار بار شاہ کا کلام کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔‘‘
میں نے کاکا کے اندر موجود عذاب کو محسوس کرتے ہوئے، تسلی کے ارادے سے کہا۔‘‘ کاکا، سچ کہہ رہے ہیں آپ، دل کی لگی بری بلا ہے۔‘‘
’’بیٹے، تم چاہے کیسی بھی باتیں کر لو، مگر مجھے یقین ہے کہ میں مروں گا تو اپنے وطن میں، اگر ایسا نہیں ہوا تو میں وصیت بنواؤں گا کہ میری خاک سندھو دریا میں بہا دی جائیں، اس وقت تک میں اپنی جنم بھومی کے بچھڑنے کا درد سینے میں سجائے، اس کے دیدار کا انتظار کرتا رہوں گا۔‘‘
میں خاموشی سے کاکا کے چہرے کو گھورتا رہا۔ اور اس کے دل کے درد میں خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کرتا رہا۔ میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل پایا۔
***
مصائب زندگی ہیں
جگدیش لچھّانی
ہماری زندگی ہمیشہ تکمیل کی طرف بڑھتی ہے یا بڑھنا چاہتی ہے۔ اور پھر جب ہم مکمل ہو جاتے ہیں، تب ہماری زندگی بھی مطمئن اور طمانیت بھری ہو جاتی ہے۔
پر ایسا بھی نہیں ہے کہ طمانیت میں ہی کوئی جامعیت بھی چھپی ہوئی ہے۔ در حقیقت یہ ادھوراپن ہی ہے، جو ہماری زندگی کو مکمل ہونے میں مدد کرتا ہے، نہ کہ طمانیت۔ زندگی کی ہنگاموں سے بھرپور گھڑیوں کی، اگر ہم سمندر کی لہروں سے مماثلت کریں، تو اس میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہو گی۔
سمندر کی لہریں بھی ساحل کی جانب اٹھتی تو ضرور ہیں، لیکن ساحل ان کا مقصود اور محور نہیں ہے۔ انہیں تو فقط تڑپنے میں لطف اور مچلنے میں مزہ آتا ہے۔ ہر آن ان کے اندر پُر شکوہ اور پُر جوش، پُر شعور مگر پُر شتاب، نئی نئی زندگیاں انگڑائیاں لیتی ظہور پذیر ہوتی ہیں اور پھر یہ البیلی، پر تجسس لہریں آگے، اور آگے، مزید آگے دوڑتی ہیں۔
آج میں ایک جانب تو مکمل ہوا ہوں، مگر دوسری ہی جانب نامکمل بھی۔ اس جامعیت اور ادھورے پن کے انوکھے ملاپ کے بدولت ہی میرے دل کی تہوں میں، اس کے نہاں خانوں میں، اندر بہت اندر کچھ دھڑک رہا ہے، یہی میری زندگی کا میٹھا، رسیلا سنگیت بھی ہے اور موت کا دُہائیوں، فریادوں، آہوں بھرا آلاپ بھی۔
میرے دل کی تہوں میں میری وسعتیں پھیلی ہوئی ہیں، جسے میں باوجود، بھرپور کوششوں کے بھی کبھی نہیں سمیٹ پاؤں گا۔ ہاں، بس ان وسعتوں کے جن حصوں کو میں با آسانی بیان کا روپ دے سکوں گا، وہی آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
ان حصوں کا بیان، جو میں کروں گا، وہ مکمل ہو گا یا نہیں، کیسے کہوں؟ ، کیونکہ میں سوچ رہا ہوں، اس وسعت کا ایک ایک ذرہ بھی تو لامتناہی اور لا محدودیت سمیٹے ہوئے ہے۔
آج میری زندگی موت کی چادر میں ملفوف، لیٹی ہوئی ہے، گویا روشنیوں پر ظلمات نے غلبہ پا لیا ہو اور روشنی کی ہر ایک کرن گھٹ گھٹ کے دم توڑ رہی ہو۔ یہ گھڑیاں بھی کتنی پُر مصائب ہیں، دل کرتا ہے دور، کہیں بہت دور جا کر بھٹکوں، جہاں نہ صبح ہو اور نہ ہی شام۔ بس ہر جانب دھیمی دھیمی روشنی ہو اور کچھ بھی نہیں۔
پر اندھیروں میں روشنی کی تمنا کرنا، میں بھی کتنا نادان ہوں۔ آج کی رات تو کالی ہے، مگر وہ رات کتنی سہانی تھی، کتنی خوشگوار۔ ستاروں اور مسکراتے چاند کی ٹھنڈی آغوش میں ہزاروں حسرتیں پلی تھیں اس رات، کون جانتا تھا کہ ہم حسرتوں کو پوری نہ ہونے کے لیے ہی پال رہے ہیں۔ ارمانوں کا اُبھرنا، اُبھر کر بڑا ہونا اور پھر نمو پذیری کے محدود وقت میں ہی لا چار ہو جانا، زندگی کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہے۔
اس رات جیوتی نے سوال کیا تھا، ’’دِیپ، تقدیر کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ اور کہتے کہتے اس کی سوالیہ نظریں میرے چہرے پر آ کر ٹھہر گئیں۔
’’تقدیر، میری تقدیر تو تم ہو جیوتی۔۔۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔
’’میں تمہاری تقدیر ہوں۔ وہ کیسے دِیپ؟ میں تو تقدیر کو بندش مانتی ہوں۔ تو کیا تم مجھے بندش مانتے ہو؟ نہیں دِیپ، میں تمہارے لئے بندش کیسے بن سکتی ہوں؟ میں تو تمہاری وسعتوں میں گم ہو جانا چاہتی ہوں جان۔۔‘‘ اور اس کی آنکھوں کی چمک اٹھیں، ان میں اس کی آزاد روح کی جھلک ظاہر ہو رہی تھی۔
چاروں طرف دریا کی بے کراں لہریں پھیلی ہوئی تھیں، جن کے سینے پر ہمارا بیڑا اٹھلاتا، بل کھاتا، ایک اور ہی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔
جیوتی کی باتوں نے مجھے خیالوں کے سمندرمیں گہرا غوطہ لگانے پر مجبور کیا اور میں نے سوچا، ’’کیا تقدیر واقعی ایک بندش ہوتی ہے؟ کیا ہماری زندگیاں تقدیر کے ہاتھوں میں واقعی سمٹ کر رہ جاتی ہیں؟ لیکن جیوتی تو مجھ سے بھی زیادہ وسعت رکھتی ہے، مجھ سے ہر بات میں پہل کرتی ہوئی، پھر میرے لئے وہ بندش کس طرح ثابت ہو گی؟ وسعت تو وسعت کو پا کر اور بھی وسیع ہو جاتی ہے۔‘‘
اور ٹھیک اسی وقت، مجھے دل میں ادھورے اور مکمل ہونے کا ملا جلا احساس ہوا۔ ایک لمحے کو تو میں تھرتھرا اٹھا تھا، یہ کہہ کر کہ ’’جیوتی تم بھی تو بہت بڑی ہو۔ تم بھی کیا کم وسعت رکھتی ہو، جو میری وسعتوں میں گم ہونا چاہتی ہو؟‘‘
’’دِیپ، میں بہت بڑی کہاں؟ جتنے آپ بڑے ہو، میں تو ان کی حدیں بھی نہیں بنا پاتی، پھر میں بہت بڑی کس طرح ہوئی۔‘‘
’’کسی کی وسعت کو قبول کرنا، کیا کم بڑا پن ہے، جیوتی؟‘‘، میں نے بحث کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ایسے مت کہو دِیپ، نہیں تو میں یہ سمجھو گی کہ تم مجھ کو سمانا نہیں چاہتے خود میں اور تم میں نہ سما جانے پر، سمجھتے ہو میری حالت کیسی ہو گی؟‘‘ اور وہ خیالوں کی ہلچل سے کچھ لرز گئی تھی۔ اس کی باتوں میں بناوٹ بالکل بھی نہ تھی۔ پھر بھی مجھے اس کے احساسات کا پورا سچ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اور جو کچھ سمجھا، وہ تھا۔
‘ ‘ہمیں ایک دوسرے کی وسعتوں کی ضرورت ہے، نہ کہ بندشوں کی۔ ہم وسیع ہیں، بندشوں سے آزاد ہیں، ہم کبھی بھی ایک دوسرے میں مل نہیں پائیں گے، فقط دو مختلف دائروں میں اور زیادہ وسیع ہوتے جائیں گے۔‘‘
پورنما کا چاند اپنی خوشنما کرنیں پھیلا کر شاید خوشی میں پھولا نہیں سما رہا تھا۔ اس کی ہر نوری نظرمست ہو کر مسکرا رہی تھی۔ یہ اس کی جوانی کا سالانہ جشن تھا۔ وہ شرد پورنما کا چاند تھا۔
ناخدا آہستہ آہستہ گنگنا رہا تھا اور اس کا ہاتھ گنگناہٹ کی تال پر بیڑے کا چپو چلا رہا تھا۔ بیڑا پانی کی لہروں پر تیر رہا تھا، ہم لطف و انبساط کی لہروں پر بہتے چلے جا رہے تھے۔ اس سے پہلے بھی کئی برہم بیڑے کی سیر کر چکے تھے۔ جانے کتنی ہی چاندنی راتوں کی آغوش میں مد ہوش ہو کر گھڑیاں گزاری تھیں۔ لیکن اس چاندنی میں کچھ اور ہی بات تھی، کچھ الگ سی رنگت۔
میں نے سوچوں کا رخ تبدیل کرتے ہوئے کہا، ’’جیوتی، یہ چاندنی مزید کتنے وقت۔۔۔۔؟‘‘
’’کیوں دِیپ، فنائیت کا خیال آ رہا ہے کیا؟‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’یعنی آپ کہنا چاہتے ہو کہ یہ چاندنی ہمیشہ نہیں رہے گی، یہی نا؟‘‘
’’ہاں، مگر کیا اس کی یاد بھی ہمیشہ نہیں رہے گی؟‘‘
’’ویسے تو سب کچھ ہمیشہ ہی رہتا ہے، فقط ہمارے ایمان، بھروسے، یقین، اعتبار ہی پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں اور ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا دنیا پہلو بدل رہی ہے۔‘‘
’’تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام ہی فانی اور بے ثبات ہیں؟‘‘
’’کوئی شک نہیں، لیکن یہ ہرگز نہیں بھلانا چاہیے کہ ایمان، بھروسے، یقین، اعتبار کے غارت گر بھی ہم ہی ہیں۔ جتنے ہم وسعت پذیر اتنے ہی ہم مسمار کنندہ۔‘‘
’’تو جیوتی ہم اتنے محدود کیوں ہیں؟‘‘
’’ہم محدود کہاں دِیپ۔۔ ہم تو لا محدود ہیں۔ ہماری نظر ہی بس کبھی کبھار محدود ہو جاتی ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں ہم محدود ہیں، تابع ہیں۔۔۔ پر حقیقت میں یہ سب ہماری کمزوریوں کے ہی سبب ہوتا ہے۔‘‘
میں کچھ دیر تک دور آسمان کو ٹکٹکی باندھے تکتا رہا، ایک دم خاموش۔
ایسے میں جیوتی نے کہا۔‘‘ دِیپ، آج دل کرتا ہے کچھ خود غرضی کی بات کروں۔‘‘
’’تم کب سے خود غرض ہو گئی ہو جیوتی؟‘‘
’’میں تو ہوں ہی خود غرض۔ کیونکہ آپ میری زندگی میں آئے ہو، بس ایک ہی غرض لئے پھر رہی ہوں، کاش، تمہیں پا سکتی۔ تم نے ہی تو مجھے خود غرض بنا دیا ہے، میری جان۔‘‘
’’پر میں نے تو اپناسب کچھ تمہیں وقف کر دیا ہے ڈئیر۔‘‘
’’یہی تو میری کمزوری ہے، تم نے جو کچھ مجھ پر قربان کیا ہے، میں ان میں سے کچھ بھی نہیں پا سکی ہوں۔‘‘
’’اچھا، تمہارے دل کی غرض بھی تو سنوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تشنگی کا احساس۔‘‘
میرے لبوں سے مسکراہٹ نجانے کہاں غائب ہو گئی، ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھ سے میری زندگی بھرکے سرمائے کا مطالبہ کر دیا ہو۔
میں نے بات کو بدلتے ہوئے کہا، ’’آج کوئی گیت سناؤ جیوتی۔‘‘
لیکن میری کوشش ناکام رہی۔ اس نے پوچھا، ’’کون سا گیت دِیپ، طمانیت کا یا تشنگی کا۔‘‘
میں نے اس کی جھکی ہوئی پلکوں کی طرف دیکھتا رہا، کہا، ’’طمانیت کا۔‘‘
’’تو، تمہیں طمانیت ہی چاہیے؟‘‘
’’تو کیا تم ہمیشہ تشنہ ہی رہنا چاہتی ہو، جیوتی؟‘‘
’’کیا ہمیشہ تشنہ رہا نہیں جا سکتا؟‘‘
’’پر خود غرضی تو ہمیشہ طمانیت ہی مانگتی ہے۔‘‘
’’پر میری خود غرضی تو تشنگی کی طلبگار ہے، دِیپ۔‘‘
’’عجیب طلبگار ہے آپ کی خود غرضی بھی۔‘‘ میں نے اسے تنگ کرنے کے حساب سے کہا۔
’’عجیب کس طرح دِیپ؟ عجیب تو زندگی ہے، سیر رہتے ہوئے بھی تشنگی، تشنگی رہتے ہوئے بھی سیر۔‘‘
میں کچھ الجھ گیا، سیر رہتے بھی تشنگی، تشنگی رہتے بھی سیر۔ میرے کانوں میں یہ الفاظ گونجے اور پرسکون ہو گئے۔ لیکن جانے کیوں میں انہیں بار بارسن پانے کا خواہاں بن گیا، بار بار دل میں انہیں لفظوں کو دوہرانے کی کوشش کی اور دوہرا کر انہیں سمجھنے کی بھی کوشش کی۔
’’کیوں دِیپ خاموش ہو گئے؟‘‘ جیوتی نے کہا۔
’’تمہاری بات میں الجھ گیا ہوں جیوتی، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔‘‘ اور میں پھر سے سوچنے لگا۔
کچھ لمحوں کا توقف کر کے اس نے کہا، ’’دیکھو دِیپ، آج ہم ایک دوسرے کے بہت نزدیک ہیں، پھر بھی جانے کیوں میں یہ سوچ رہی ہوں، ہم دونوں الگ الگ قوتیں ہیں، جن کا آپس میں ملنا اور جدا ہونا دونوں ہی صورتوں میں بھیانک ہے، یعنی ہم دونوں ایک دوسرے کو پا کر سیر بھی ہیں اور تشنہ بھی۔ سیر اس لئے، کیوں کہ تم نے مجھ میں اور میں نے تم میں، اپنی منزل ملنے کا اطمینان پایا ہے اور تشنگی اس لئے کہ ہماری ضروریات ختم نہیں ہوئیں ہیں۔ کوئی بھی منزل ہماری آخری منزل نہیں ہے۔ جو منزل آج ہے، وہی کل شایدکسی دوسری منزل کے لئے پہلی سیڑھی بن جائے اور ہم اسی نئی منزل کے مسافر۔‘‘
وارفتگی کا احساس میرے دل کی سطح سے ابھرا اور میرے لبوں میں منتقل ہو گیا۔ میں اس کا ہاتھ اپنے لبوں تک لے آیا۔ جیوتی کا ہاتھ برف جیسا لگا، جیسے وہ ایک مرمر کی کسی دیوی کا ہاتھ ہو، ایسی دیوی جس میں نہ اچھائیاں ہیں، نہ ہی خرابیاں، نہ جذبات ہیں، نہ ہی احساسات۔ اس کی نظریں لہروں کی طرح سودائی تھیں اور وہ تھر میں بننے والی کسی گڑیا کی طرح ساکن بیٹھی رہی۔ میری جسارت اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں لا پائی۔ جانے کیوں میرا دل بے قابو ہو گیا۔ میں نے اس کی کلائی تھام کر اسے اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کی۔ اچانک کھنچنے پر وہ تھوڑی سی آگے جھکی، لیکن احساس ہوتے ہی دور ہٹ گئی، کہنے لگی، ’’ارے، ارے۔ شاستروں کے مطابق ملاپ گناہ ہے، گناہ ہے۔ ہم شاستروں کے مطابق محبت کریں گے اور اس گناہ سے دور رہیں گے۔‘‘ اور وہ ہنسنے لگی۔
میرے دل میں بسے میری محبت کے جذبے کو ٹھیس لگی۔ میں یوں محسوس کرنے لگا جیسے جیوتی کے ہاتھوں میری توہین ہوئی ہو۔
اسے بھی اس بات کا بہت جلد احساس ہو گیا، اس نے اپنا جسم میرے سینے پر گرا دیا۔ میں خاموش گم صم بیٹھا رہا۔ اس کی زلفوں کی مہک میرے دل و دماغ پر چھانے لگی۔ میں اس کے بالوں کی ایک پریشان لٹ کو انگلیوں پر لپیٹنے لگا۔
’’تمہارے چوڑے چکلے سینے پر لیٹنے میں کتنا سکون ملتا ہے دِیپ۔‘‘
’’بنا تو نہیں رہی ہو جیوتی؟ ‘ ‘میں نے یقین کے فقدان کے تحت کہا۔
’’میں، نہیں، بالکل نہیں، یہ نظارہ تمہیں بنا رہا ہے دِیپ۔ ہم جتنے اندر سے تھری ہیں، اتنے ہی شوق و چنچل بھی ہیں۔‘‘
’’تمہارا کوئی قصور نہیں ہے، کیونکہ تم شوق و چنچل ہوتے ہوئے بھی کمزور نہیں ہو۔۔۔‘‘
اس رات میری سوچوں میں کافی ہلچل مچی رہی۔ واپس لوٹنے پر میں جیوتی کے پاس ہی رہ گیا۔
جیوتی اپنے کمرے میں جا کر سوگئی، لیکن میں ایک لمحے کے لیے بھی نہ سو سکا۔ سوچتے سوچتے میرے سامنے گوپی کی صورت ابھر آئی۔ گوپی، ایک کالج گرل، ایک ایسی کالج گرل جس کی آنکھوں کے آگے لال، ہرے، نیلے نوٹ ہمیشہ تیرتے رہتے تھے۔ ایک ایسی کالج گرل، جس کے دل میں نرم گدوں پر سونے کی خواہش رہتی تھی، جس کے دل میں موٹر کاروں میں گھومنے کی تمنا رہتی تھی۔
یہ ہی کالج گرل گوپی، جب اس کے ساتھ رہی تو اپنی بناوٹی محبت کے بدلے پیسے اور عیش و عشرت کے دیگر لوازمات نہ پا کر اس سے دور ہو گئی۔ ایک غریب فن کار اور بناوٹی محبت والی مالدار کالج گرل کا بھلا کیا میل؟
میں دل کو تسلی دیتا رہا، سوچتا رہا، سوچتے سوچتے میری توجہ جیوتی کی جانب مڑ گ ئی، اس کی شخصیت کی جانب مڑ گ ئی، اس کی محبت کی طرف مڑ گ ئی اور مجھے محسوس ہوا جیسے میں نے کچھ بھی نہ گنوا کر، بہت کچھ پایا ہو۔
ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’جیوتی، نظم سے شروع ہونے والا یہ واقعہ، اب تو ایک مربوط کہانی کی شکل لینے لگا ہے۔‘‘
وہ ہولے ہولے مسکرانے لگی، ’’او ہو۔۔ کہانی چھوٹی ہوتی ہے، دو چار دنوں کی، یا زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کی۔ میں تو اسے مکمل داستان بنانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں اداس ہو گیا۔ یہ سن کر مزید کوئی جواب نہ دے سکا۔ مجھے اداس دیکھ کر اس کے چہرے پر بھی اداسی کے آثار پھیل گئے۔ اس نے غمگین لہجے میں کہا، ’’چپ کیوں ہو گئے دِیپ؟‘‘
میں نے اس کے سوال کا جواب نہ دیتے ہوئے اسی سے الٹا پوچھا، ’’ایک سوال پوچھوں جیوتی؟‘‘
یہ سن کر وہ اور بھی اداس ہو گئی، بولی، ’’کیا تم اور بھی کچھ پوچھنا چاہتے ہو دِیپ؟‘‘
میں نے کہا، ’’پوچھنا نہیں، بہت کچھ سننا چاہتا ہوں۔‘‘ اور آنکھوں میں بھرپور اداسی لیے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
یہ سن کر وہ اور سہم گئی۔ میرے سینے میں چہرہ چھپاتے ہوئے کہا، ’’کہو۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ تمہارا پہلا پیار ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’پہلے پیار کی تڑپ اور لگن کو تم نے سمجھا ہے، اس لئے تمہیں بتا رہا ہوں جیوتی، زندگی میں میں نے بھی ایک بار ایسا ہی پیار کیا تھا۔ پر اس پیار نے مجھے دھوکہ دیا۔ میری زندگی ویران ہو گئی۔ میں سوچنے لگا، میری اس دکھ بھری زندگی کا خاتمہ کیوں نہیں ہو جاتا؟ مگر ایک اور خیال پھرسے کروٹ لیتا کہ ایک ہی تو زندگی ملی ہے، اس سے بھی اتنی نفرت کیوں؟ اس کے بعد کوئی بھی مجھے اپنی طرف کھینچ نہیں پایا۔ بہت سالوں بعد جب پھر تمہیں اپنی طرف آتے دیکھا تو کرب مجسم ہو کر مجھے پریشان کرنے لگا، وہی کرب جو کسی ناکام محبت کا انجام ہوتا ہے، اس لئے چاہتے ہوئے بھی تمہیں ‘ ‘نہ ’’نہیں کر سکا۔ سوچا مجھ جیسا دکھ اور کرب تمہیں نہ ملے۔ جیوتی اس کے لئے میں نے کوشش بھی کی، کوشش ہی نہیں، انتہائی کوشش کی، پر مجھے یہ ممکن ہی نہیں لگتا۔ ٹوٹا ہوا پتھر شاید پھر جڑ جائے پر ٹوٹا ہوا دل جڑ نہیں سکتا۔‘‘
میں نے کچھ دیر رک کر پھر کہا، ’’اُس وقت میں زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔ ایک دن گھر بار کو تیاگ کر ہمالیہ کی طرف چل پڑا، بہرحال میں کاشی، ہردوار، ناشِک، امر ناتھ، بدری ناتھ، نہ جانے کہاں کہاں نہیں بھٹکا۔ میں نے اپنے اندر اٹھتی آگ کو بجھانا چاہا۔‘‘
میں نے جیوتی کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے، مگر نیچے نہ گرے، وہیں اس کی پلکوں پر ٹھہر گئے۔ میں نے پھرآہستہ آہستہ کہنا شروع کیا، ’’بیتی زندگی نے میری پیاس کو بڑھا دیا ہے۔ میں تندہی سے یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ مرد کیا ہے؟ عورت کیا ہے؟ اور دونوں کے ہونے کی اہمیت کیا ہے؟ اسی لئے میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔ شادی سے خوشیاں ملتی ہیں اور خوشیوں کی روشنی میں وجدان گھٹ جاتا ہے۔ میں اسے محرومیاں کے اندھیرے سے ہمیشہ منور رکھنا چاہتا ہوں۔ کیا تم میرے اس کام میں مدد نہیں کرو گی؟‘‘
وہ سسکنے لگی۔ جب وہ پرسکون ہوئی تو کہنے لگی، ’’کیا تمہیں زندگی میں کبھی بھی عورت کی ضرورت نہیں پڑے گی؟ عورت نہ سہی، ایک دوست کے ناطے ہی مجھے اپنے پاس رہنے دو، میرے دِیپ۔‘‘
’’ہاں، ضرورت تو سب کو ہوتی ہے۔ جانتی ہو، میں رات کو دیر تک بھٹکتا رہتا ہوں۔ اپنی ہو، اسی لیے تمہیں سب کچھ بتا رہا ہوں۔ اس طرح کیا تمہاری توہین نہیں ہو گی؟‘‘
’’لیکن کیا تمہارے اس رویے سے میری توہین نہیں ہوتی؟‘‘
’’جیوتی، تمہاری توہین ہو، یہ میں کبھی نہیں چاہوں گا۔ تم کیا کسی بھی عورت کا میرے ہاتھوں ذلیل ہونا، یہ نہ میں نے کبھی چاہا ہے، نہ کبھی چاہوں گا۔ جس کے بغیر میری زندگی ہی نامکمل ہے، اس کی توہین میں کس طرح کر سکتا ہوں؟ خود ایک عورت کے ہاتھوں ذلیل ہو کر بھی میں یہ سب کہہ رہا ہوں۔‘‘
اس نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا، ’’اس اذیت کی میں کیسے متحمل ہو سکوں گی دِیپ؟‘‘
’’غیر متحمل توہین ہوتی ہے، اذیت نہیں اور اذیت کاٹی نہیں، طاری کی جاتی ہے۔‘‘
’’تمہیں دینے کے لئے میرے پاس اذیت کے سوا اور ہے ہی کیا؟‘‘
وہ جیسے پتھر کی بن گئی۔ میں نے اسے بانہوں میں لیتے ہوئے کہا، ’’سوچتا ہوں، تم میری زندگی میں پہلے کیوں نہ آئیں، کیوں نہ آئیں جیوتی؟‘‘
اس نے اداس لہجے میں کہا، ’’کیا یہ کہانی، کہانی ہی رہ جائے گی، داستاں نہ بن سکے گی؟‘‘
میں نے جواب دیا، ’’زندگی کو ایک کہانی ہی رہنے دو جیوتی۔ اس کو زبردستی داستان بنانے سے وہ کہانی بھی نہ بن پائے گی۔‘‘
اور پھر ہم نے ایک دوسرے سے رخصت لی۔
ایک دن، دو دن، دو مہینے، دو سال گزر گئے ہیں۔ اس دن کی جدائی کے بعد ہمارا ملنا بند ہو گیا، بند ہی نہیں بالکل ہی ختم ہو گیا۔
ایک دن اچانک جیوتی میرے سامنے آ کھڑی ہوئی، میں اس کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ میرے منہ سے نکل گیا، ’’جیوتی اتنے دنوں کے بعد تم؟‘‘
وہ شرمائی نہیں، صرف اداسی بھری ہنسی، ہنستے ہوئے بولی۔ ’’تم تو اب ایک عظیم انسان ہو گئے ہو۔ تم کو میں مکمل طور پر سمجھ ہی نہ پائی۔‘‘
’’دیوی، میں عظیم انسان نہیں، پروفیسر بن گیا ہوں؟‘‘
’’ٹھیک ہے، چھوڑو ان باتوں کو، اب میں شادی کر رہی ہوں، اور یہی تمہیں بتانے آئی ہوں۔‘‘
میں سنجیدہ ہو گیا، بولا، ’’جیوتی تم ہمیشہ سہاگن رہو اور بھگوان کرے تینوں لوکوں کا سکھ پاؤ۔‘‘
وہ خاموش کھڑی رہی۔
میں خاموشی میں گم، اس کی طرف دیکھتا ہی رہا۔
اچانک اس نے کہا، ’’دِیپ، ہماری کہانی ابھی پوری نہیں ہوئی ہے۔ تم نے ایک دن کہا تھا کہ عظیم بنے بغیر تکمیل نہیں ہوتی۔‘‘
میرے اوپر جیسے بجلی گری۔
وہ میرے بالکل قریب آئی، کہنے لگی، ’’سوچا تھا، دنیا میں تشنہ اور نامکمل رہ کر بھی جیا جا سکتا ہے، لیکن لگتا ہے زندگی کی کہانی کا یہ انجام نہیں لکھا جا سکتا۔ یہ سچ میری زندگی میں بہت پہلے ظاہر ہوا تھا، پر پھر بھی دل کی آن کی وجہ سے میں اسے ظاہر نہ کر سکی۔ مدت سے میری ایک تمنا تھی دِیپ، سوچتی تھی زندگی میں بھلے ایک ہی کہانی ہو، لیکن ہر ایک پہلو سے وہ مکمل ہو۔ کسی بھی پہلو سے وہ نامکمل اور ادھوری نہ ہو۔ یہ چاہت تھی کہ میں تمہارے بچوں کی ماں بنوں، تمہارے بہت سارے بچوں کی ماں۔‘‘
وہ کچھ رکی اور پھر کہنے لگی، ’’آج میں اپنی اس کہانی کو پورا کرنے آئی ہوں، میری کہانی تمہارے لمس کے بغیر ادھوری ہی رہے گی، کبھی بھی پوری نہ ہو گی۔ مجھے اپنا لو میرے دِیپ، مجھے قبول کر لو۔‘‘
جیوتی کی کہانی مکمل ہو گئی ہے اور میری کہانی جیسے نئے سرے سے شروع ہوئی ہے۔ جیوتی مکمل ہو گئی ہے، میں نا مکمل رہ گیا ہوں، اف منزل کس کی تھی، مل کس کو گئی۔
***
صلہ
بنسی خوب چندانی
’’نرس اب اور کتنی گولیاں کھلاؤ گی؟ میں تو تنگ آ گیا ہوں گولیاں کھا کھا کر۔‘‘
’’انکل گولیاں ڈاکٹر نے دیں ہے، جلدی ٹھیک ہونے کیلئے۔ برابر لو گے تو جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔ اچھا اب منہ کھولو۔‘‘
کیرالہ کی نرس نے اپنے سانولے چہرے پر موجود دودھ جیسے چمکتے دانتوں کے ساتھ کشن لال کو میٹھی ڈانٹ پلائی اور پوری سات عدد گولیاں ایک کے بعد ایک لینے پر مجبور کر دیا۔ کشن لال مجبور تھا۔ وہ سامنے والے بیڈ پر بیٹھی اپنی بیوی سندری کو دیکھنے لگا۔ گویا وہ مدد کیلئے پکار رہا ہو۔ سندری خاموشی سے دیکھتی رہی۔ اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔
ممبئی میں باندرہ کے علاقے میں لیلاوتی ہسپتال میں داخل کشن لال کو آج پورے نو دن ہو گئے ہیں۔ اور بائی پاس سرجری کرائے، اسے ایک ہفتے گزر چکا ہے۔ تین دن تو آپریشن کے بعد ’’آئی سی یو‘‘ میں ہی تھا۔ کل سے ہسپتال کی ساتویں منزل کے ایک کمرے میں ہے۔ ہسپتال کے اس کمرے سے باندرہ میں پھیلے سمندر کو با آسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
کشن لال کو جلدی تھک جانے، بار بار پسینہ آنے اور سینے میں درد کی شکایات تو چار پانچ سال سے ہو رہی تھیں۔
جب تکلیف بڑھی، تو اپنے فیملی ڈاکٹر کے کہنے پر اس ہسپتال میں اس نے اینجیوگرافی کرائی تھی۔ اس فلم کو دیکھ کر ڈاکٹر نے اسے جلد از جلد بائی پاس سرجری کا مشورہ دیا تھا، کیونکہ کشن لال کے دل کی نالیاں اپنا کام صحیح طور پر نہیں کر رہی تھیں۔
کشن لال کو سرجری کرانے کی قطعی خواہش نہ تھی۔ نہ جانے کیوں اسے لگتا تھا کہ اس آپریشن کے بعد وہ نہیں بچ سکے گا۔ لیکن اس کی بیوی سندری نے سمجھایا تھا۔ ’’ایشور پر بھروسہ رکھیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آج کل ویسے بھی دل کا علاج عام ہو گیا ہے۔ ہمارے ممبئی میں تو ویسے بھی ایک سے ایک ماہر ڈاکٹرز ہیں۔ آپ ہمت رکھیں اور سرجری کیلئے انکار نہ کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
کشن لال کے ایک گہرے دوست جے رام نے بھی اس کی ہمت بڑھائی اور وہ آپریشن کے لئے تیار ہو گیا۔ آپریشن کامیاب رہا ہے اور ڈاکٹر کے مطابق وہ دو تین دن میں اندھیری میں واقع اپنے گھر جا سکے گا۔ ہاں مگر وہ دو مہینے اپنے دفتر نہیں جا سکے گا اور کم از کم چھ ماہ پرہیز کا خاص خیال کرنا پڑے گا۔
نرس گولیاں دے کر چلی گئی تھی۔ سندری نے بھی دوسرے بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ دوسرا کوئی چارہ نہ دیکھ کر کشن لال بھی آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ چونک کر اٹھا اور اپنی بیوی کو بلانے لگا۔ سندری گہری نیند سے جاگ اٹھی اور شوہر کے بیڈ کے سرہانے آ کر کہنے لگی۔ ’’ہاں کیا بات ہے؟ کیا ڈاکٹر کو بلاؤں؟‘‘
’’نہیں پیاری، ڈاکٹر کی ضرورت نہیں، میں نے ابھی ایک خواب دیکھا ہے کہ منوج امریکہ سے ہوائی جہاز میں روانہ ہوا ہے اور کل تک ممبئی پہنچ جائے گا۔ کل شام کو وہ مجھے دیکھنے ضرور آئے گا۔ سچ بتاؤں سندری کیا تمہیں اپنے بیٹے کی یاد نہیں آتی۔ میں تو اس کا چہرہ دیکھنے کو ترس رہا ہوں۔‘‘
’’دیکھئے، آپ بار بار وہی بات کر رہے ہیں۔ یہ خواب آپ تین دن سے مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ منوج نے ٹیلی فون پر کہا تھا کہ وہ ابھی ممبئی نہیں آ سکے گا۔ کیونکہ اس وقت امریکہ چھوڑنے پر اس کا گرین کارڈ ملنا مشکل ہو جائے گا۔ اس نے پانچ ہزار ڈالر بھی بھیجے ہیں۔ تاکہ آپ کے علاج میں کوئی کمی نہ رہے۔ بچوں کی خوشی میں ہی خوش رہیں۔ منوج کے امریکہ جانے پر خوشی سے سب سے زیادہ آپ ہی تو اچھلے تھے۔ کیا آپ کو ناریل پانی دوں؟‘‘
کشن لال کچھ لمحے خاموش رہا اور چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ سندری جب باتھ روم سے باہر آئی تو شوہر کی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھ کر وہ خود بھی دکھی ہو گئی۔ اس نے دیکھا کہ شوہر کے آنسوؤں سے بیڈ کا تکیہ بھی گیلا ہو گیا ہے۔
سندری کی آنکھوں میں بھی آنسو تیر نے لگے تھے۔ وہ منہ پھیر کر کھڑکی سے باہر سمندر کی لہروں کو دیکھنے لگی۔ اسے لگا، گویا یہ سمندرسندری اور کشن لال جیسے لوگوں کے آنسوؤں سے بھرا ہوا ہے۔ تبھی تو یہ اتنا نمکین ہے۔
خود کو سمجھاتے ہوئے، دوپٹے کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ کر اور ناریل کا پانی پلاسٹک بیگ سے نکال کر، گلاس میں بھر کر، بیڈ کے ساتھ والی میز پر رکھ دیا۔
کشن لال پلنگ پر تکیے کو اپنی سہولت سے ٹکا کر لیٹ گیا۔ اس کی آنکھیں اب بھی بیٹے کی یاد میں نم تھیں۔ سندری نے کاغذ کے رو مال سے شوہر کے آنسوؤں کو پوچھا اور اسے ناریل پانی پلانے لگی۔
کشن لال پھر بڑبڑانے لگا۔
’’سندری یہ تو بتاؤ کہ گرین کارڈ باپ سے بڑی چیز ہے کیا؟ اگر میں مر جاؤں، تو شاید میرا بیٹا مجھے کاندھا دینے بھی نہیں آئے گا۔ یہ کہہ کر کہ گرین کارڈ ملنے میں دقت ہو گی۔ کیا یہی ہے ہماری محبت اور پرورش کا صلہ؟‘‘
سندری نے شوہر کو کوئی جواب نہیں دیا۔ بس وہ اسٹول کو بیڈ کے پاس سرکا کر بیٹھ گئی اور پیروں کو ہلانے لگی۔ اسے یاد آیا کہ منوج جب چھوٹا تھا۔ تو وہ اسے کیسے جھولا جھلاتی تھی۔ اپنے پیروں کو جھولا بنا کر جب منوج کو جھلاتی، تو وہ کھلکھلا کر اپنی چھوٹی چھوٹی بانہیں ماں کے گلے میں ڈال کر لپٹ جاتا اور اب وہ ماں باپ سے ہزاروں میل دور امریکہ میں گرین کارڈ ملنے کا انتظار کر رہا ہے۔ جس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ ماں باپ سے دور رہ سکے، سندری کے چہرے پر تھوڑی دیر کے لئے آئی مسکراہٹ اب غائب ہو چکی تھی۔ اس نے پاؤں کو جھلانا بند کر دیا۔ اور شوہر کی طرف دیکھنے لگی، جو چھت سے آنکھیں گڑائے جانے کیا سوچ رہے تھے؟
’’سندری سنو تو۔‘‘ کشن لال نے سندری کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’تم کو یاد ہے، جب منوج دس سال کا تھا اور اسے یرقان ہو گیا تھا، تب میں نے پورے دو ماہ کی چھٹی لی تھی۔ آفس سے برخاستگی کا وارننگ نوٹس تک آ گیا تھا۔ لیکن میں نے کام کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی اور جب تک منوج ٹھیک ہو کر اسکول نہیں جانے لگا تھا، اس وقت تک آفس نہیں گیا تھا۔ پھر دو ماہ بعد ہم ویشنو دیوی گئے تھے، اس وقت بھی آفس میں جھگڑا کر کے میں نے چھٹی لی تھی۔ کیا منوج وہ سب بھی بھول گیا ہے؟‘‘
’’اب چھوڑیں پرانی باتوں کو، کیوں اپنے دل کو دکھی کرتے ہیں؟‘‘ سندری نے اپنے شوہر کو تو پرانی باتیں یاد نہ کرنے کو کہا، لیکن وہ خود ماضی کے بھنور میں اب بھی پھنسی ہوئی تھی۔ اسے یاد آیا کہ جب منوج پانچ سال کا تھا اور اسے تیز بخار ہو گیا تھا، اس وقت کشن لال بھی آفس کے کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ منوج کو رات میں ہی کمبل اوڑھا کر وہ ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھی۔
اس وقت اس کے پاس زیادہ پیسے تک نہیں تھے، کسی طرح جوڑ توڑ کر کے منوج کی ایک ہفتے تک دوا کرائی تھی۔ منوج کے ٹھیک ہونے کے بعد خود اسے ملیریا ہو گیا تھا۔ کشن لال نے واپس لوٹ کر سب کچھ سنبھال لیا تھا۔ لیکن اس بیماری کے دوران منوج جس طرح اس کے سینے سے چپکا رہتا تھا، وہ دکھ اور ہاں، وہ خوشی، اب بھی اس کے دل کے کسی کونے میں موجود ہے۔
’’کیسے ہو کشن سیٹھ، کیا حال چال ہیں؟ کیوں ابھی تک ہسپتال سے چپکے بیٹھے ہو۔ کیا یہیں گھر بسانے کی خواہش ہے؟‘‘ جے رام کی پاٹ دار آواز اس چھوٹے سے کمرے میں گونج اٹھی۔
’’آؤ دوست آؤ۔ تمہارے آنے سے شاید دل کچھ بہل جائے گا۔‘‘
کشن لال نے آنسو پونچھتے ہوئے دوست کا استقبال کیا۔ جے رام اس کا بچپن کا دوست ہے۔ اسکول، کالج ایک ساتھ جانے کے علاوہ ان کی نوکری بھی ایک ہی سیکشن میں لگی تھی، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں جے رام کا دل نوکری سے بھر گیا تھا۔ اس نے اپنے چچا کے ساتھ ریڈی میڈ کپڑوں کا کاروبار شروع کر دیا اور اب وہ ایک بڑا سیٹھ بن گیا ہے، لیکن کشن لال اسے ہمیشہ جے رام کہہ کر ہی مخاطب کرتا ہے اور جے رام اسے سیٹھ کشن لال کہہ کر پکارتا ہے۔
سندری نے دوپٹے سے اپنے آدھے سوکھے آنسوؤں کو مناسب طریقے سے پونچھا اور جے رام کوا سٹول پر بیٹھنے کو کہہ کر، خود سامنے والے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ جے رام نے اپنے دوست کو آنسو پونچھتے اور سندری کے چہرے کے اداسی بھرے انداز کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ ماحول کچھ بوجھل رہا ہے۔ وہ دوست کے قریب بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہنے لگا۔ ’’کشن سیٹھ کیا بات ہے۔ کیا پھر بھابھی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا ہے؟‘‘
کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد کشن لال بولا۔ ’’نہیں یار جھگڑا کرنے کے اب دن گئے۔ اب تو ایک دوسرے کو دلاسے دے کر ہی دن کاٹنے ہیں۔‘‘
دونوں دوستوں کی باتوں میں حصہ لیتے ہوئے سندری نے کہا۔ ’’منوج امریکہ سے نہیں آ پا رہا ہے، کیونکہ اس وقت امریکہ چھوڑنے پر اسے گرین کارڈ ملنے میں دقت ہو سکتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے، کیا یہی ہے ہماری محبت کا صلہ۔‘‘
کشن نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو یاد ہے کہ جب منوج کو انجینئرنگ کالج میں داخلہ دلایا تھا۔ میں کس طرح تین ہفتے تک اسے لے کر یا اکیلے ادھر ادھر بھٹکتا رہا تھا۔ کالج کے داخلہ کیلئے میرے پاس پیسے ہی نہیں تھے اور تمہارے پاس میں پیسے لینے آیا تھا۔ تم نے تو مدد کی تھی، لیکن وہ میں جانتا ہوں کہ تم سے پیسے مانگنے میں مجھے کتنی شرمندگی ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت منوج کیلئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے کشن لال اپنی آنکھوں سے بہہ کر نکلنے والی شرمندگی کو پونچھنے لگا۔
جے رام یہ سن کر کچھ لمحے خاموش رہا، پھر اپنے دوست کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے اپنی قدرتی پاٹ دار آواز کو تھوڑا نرم کرتے ہوئے بولا۔ ’’ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے . مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اتنی بھاگ دوڑ کے بعد جب گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملا، تو تم کتنے خوش ہوئے تھے۔ مٹھائی کا ڈبہ لے کر میرے گھر دوڑتے چلے آئے تھے۔ اس وقت تمہارے چہرے پر خوشی کا جو منفرد احساس تھا، اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا گویا تم کو اپنی پریشانیوں کا معاوضہ مل گیا ہو۔ کیا تمہیں وہ خوشی یاد نہیں ہے؟‘‘
کمرے میں کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ نرس نے ایک بار جھانک کر کمرے میں دیکھا، شاید وہ کمرے میں چھائی خاموشی کے خوف سے اندر نہیں آئی تھی۔
جے رام نے پھر پیچھے بیٹھی سندری کو دیکھا اور کہنے لگا۔ ’’بھابھی میں نے آپ کو اور کشن سیٹھ کو سب سے زیادہ خوش تب دیکھا ہے، جب منوج چھوٹا تھا۔ تب آپ کے پاس پیسے تو نہیں تھے، لیکن خوشیوں کا انبار تھا۔ شاید پیسوں اور خوشیوں کا تال میل اکثر نہیں ہو پاتا ہے۔ وہ خوشی آپ کے پاس کہاں سے آتی تھی؟ منوج کے پاس سے ہی نا؟‘‘
کشن لال نے کروٹ بدلی اور دوست کی طرف چہرہ کر کے بیڈ پر لیٹا رہا۔ جے راما سٹول دور کر کے اس طرح بیٹھ گیا، جس سے وہ کشن اور سندری دونوں سے مخاطب ہو سکے۔ پھر ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اور پاؤں آگے پھیلا کر کہنے لگا۔ ’’یار ایک بات بتاؤ، کیا ہمارے بچوں نے ہم سے آ کر کہا تھا کہ آپ ہمیں پیدا کرو؟ ہم نے انہیں صرف اپنی خوشیوں کیلئے پیدا کیا تھا۔ بچے تو اپنے ساتھ خوشی کا خزانہ لے کر آتے ہیں اپنے ماں باپ کو دینے کے لئے۔ منوج کی پیدائش پر آپ لوگ کتنے خوش تھے۔ ہماری مینو بھی جب پیدا ہوئی اس وقت ہم بھی بہت پر جوش تھے۔ ننھی مینو کی خواہشیں پوری کرنے میں مجھے بے پناہ خوشی ملتی تھی۔‘‘
جے رام کی بات سن کر کشن لال گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اسے یاد آ رہا تھا، معروف پینٹر ونسنٹ ویں گی کی سوانح عمری ’’لسٹ فار لائف‘‘ میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ۔ ’’محبت کا مزہ محبت کرنے میں ہے، محبت حاصل کرنے میں نہیں۔‘‘
’’ہم جب اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں، ان کی تکلیفوں کو دور کر کے انہیں خوش دیکھتے ہیں، تو اپنی زندگی کی انمول خوشی حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے بچوں نے ہمارے گھر پیدا ہو کر، ہم سے محبت کرنے کا سکھ دے کر، ہمیں بہت کچھ دے دیا ہے۔ اس سے زیادہ قیمتی صلہ ہمیں اور کیا مل سکتا ہے میرے دوست؟‘‘ یہ کہتے ہوئے جے رام اپنے دونوں ہاتھوں سے دوست کے ہاتھ پکڑ کر اسے تھپتھپانے لگا۔
جے رام کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس کے چہرے پر آ نے والے آنسو رک گئے تھے۔ کہا نہیں جا سکتا، رکے ہوئے آنسو دکھ کے تھے یا خوشی کے، یا پھر اپنی بیٹی مینو کی یاد کے، جو شادی کے بعد کسی اور شہر میں جا بسی تھی۔
***
اپنے ہی گھر میں
ایشور چندر
وسوُدھا اور اس کا بچہ تانگے کے پچھلے حصے میں بیٹھے رہے۔ سامان انہوں نے آگے رکھوا دیا۔ وسوُدھا کے والد تانگے کے آگے والے حصے میں بیٹھ گئے۔ جب تانگہ چلنے لگا تووسوُدھا کو لگا کہ اس کا شہر کافی بدل گیا ہے۔ پانچ سالوں کے لمبے عرصے کے بعد اس شہر میں آئی تھی، جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا، جہاں بڑی ہوتے ہوتے بہت سے پھولوں کو کھلتے اور مرجھاتے دیکھا تھا، جہاں پرندوں کے جوڑوں کو دیکھ کر اپنی آنکھوں میں متعدد خواب سجائے تھے، جہاں ایک دن سجی سجائی ڈولی میں بیٹھ کر وہ اپنے میکے سے بچھڑ گئی تھی۔
پانچ سال گزر گئے۔
تب اور اب میں کتنا فرق آ گیا ہے۔
اس نے راستے کے دونوں اطراف دیکھا۔ کتنا بدل گیا تھا اس کا شہر۔ راستے چوڑے ہو گئے تھے۔ ٹاؤن ہال کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ تمام دکانیں پکی ہو گئی تھیں۔ ٹاؤن ہال کے سامنے ایک پارک بن گیا تھا۔ بہت سارے پھول راہگیروں کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ چورا ہے پر سگنل لائٹس لگ گئی تھیں اور راستوں پر مٹیالی روشنی والے بلبوں کی جگہ پر ٹیوب لائٹس لٹکائی گئی تھیں۔
اپنے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے وسُودھا نے کہا، ’’بابا سائیں کتنا بدل گیا ہے اپنا شہر۔‘‘
’’ہاں بدل تو گیا ہے۔‘‘ باپ نے مختصر ساجواب دیا۔
والد کا اتنا مختصر جواب اسے کچھ اچھا نہیں لگا۔ اسے لگا کہ جیسے اس کے والد کچھ سوچ رہے تھے۔
لیکن ان پانچ سالوں میں نہ جانے کتنے ہی سوالات اس نے اپنے دماغ کی سلیٹ پر خوشخطی سے لکھے تھے۔ وہ بھلا کیسے چپ رہ پاتی؟ باپ کی طرف دیکھتے ہوئے پھر پوچھا، ’’سنجے بڑا ہو گیا ہو گا، کون سی کلاس میں پڑھتا ہے؟‘‘
’’ساتویں کلاس میں۔‘‘
’’سانتونا کیسی ہے؟ اب تو کافی بڑی ہو گئی ہو گی؟ کہیں اس کی بات چیت چلائی؟‘‘
’ ’’ہاں، ایک دو جگہ چلائی ہے۔‘‘
وسوُدھا کو یہ سن کر بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا کہ اس کے والد اس کے ہر سوال کا اتنا چھوٹا اور مختصر جواب دیں۔ لیکن پھر اسے لگا کہ عمر بڑھتے بڑھتے بہت سے لوگوں کا مزاج بدل جاتا ہے۔ ان کی باتوں میں کچھ زیادہ ہی سنجیدگی آ جاتی ہے۔ یہی سوچ کر اس نے خود کو تسلی دی۔ وسوُدھا نے اس بات پر سے اپنی توجہ ہٹا لی۔ وہ پھرسے یہاں وہاں اور شہر کے دل چسپ مقامات کی جانب دیکھنے لگی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کا بچہ تانگے میں بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگا ہے، شاید تھکن کی وجہ سے، ٹھنڈی ہوا لگنے سے اسے نیند آنے لگی تھی۔
وسُودھا سوچ رہی تھی کہ دیکھتے دیکھتے چار برساتیں تو گزر گئی تھیں۔ جب وہ ہر روز دروازے پر کسی ایسے خط کے آنے کے انتظار میں، جا کر کھڑی ہوتی، کہ جس میں اس کے والد نے لکھا ہو کہ یہ برسات تم یہاں آ کر گزارو۔ لیکن ہر برسات میں اسے مایوسی ہی ملی۔ اس کے پیچھے جو سبب ہو سکتا تھا، اس کا بھی اسے کچھ کچھ اندازہ تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ وہ تنگ گلی آ گئی تھی، جہاں بچپن میں وہ سہیلیوں کے ساتھ دھول مٹی کی پرواہ کئے بغیر کھیلا کرتی تھی۔ پڑوس کی کچھ عورتیں اور بچے، تانگے کی آواز سن کر باہر نکل آئے۔ وسودھا کو یاد آیا کہ وہ بھی اسی طرح آواز سن کر باہر نکل آیا کرتی تھی۔ جب کبھی کوئی تانگہ یا موٹر کار اس تنگ گلی میں آتی تھی۔
تب ایک دروازے کے پاس آ کرتا نگہ رک گیا۔ وسدھا نے دیکھا کہ اس کی ماں پہلے ہی سے دروازے پر اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ بچہ والد کی گود میں دے کر، وہ تانگے سے کودی اور دوڑتی ہوئی ماں کی آغوش میں سما گئی۔ اسے پھر خود پر حیرت ہونے لگی کہ وہ کیسے تانگے سے کود پڑی۔ اتنی پھرتی آج کہاں سے آ گئی تھی اس میں؟
نئے ماحول میں آتے ہی اس کا بچہ رونے لگا۔ وسودھا کی ماں نے بچے کو اپنی گود میں لے لیا۔ بچے کو چومتے ہوئے اس نے کہا، ’’کتنا دبلا ہو گیا ہے بچارہ۔ کیا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟‘‘
وسودھا کوئی جواب دیتی، اس سے پہلے سانتونا آ کر اس کے گلے لگ گئی۔ وسودھا نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا، ’’کتنی بڑی ہو گئی ہے میری بہن۔‘‘ پھر ادھر ادھر نظر گھماتے ہوئے پوچھا، ’’سنجے کہاں ہے؟‘‘
’’ٹیوشن پر گیا ہے۔ بس آتا ہی ہو گا۔‘‘
اس نے دیکھا۔ اس دوران اس کے باپ نے سامان اندر رکھوا دیا ہے۔ تانگے والا اب وہاں نہیں تھا۔ سب اندر آنے لگے۔
وسودھا کو لگا، کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ کھٹیا وہیں تھی، جہاں پہلے تھی۔ کونے میں وہی ٹیبل رکھی تھی، جس پر کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ شاید سانتونا کی تھیں یا شاید سنجے کی۔ ٹیبل لیمپ وہی تھا، صرف اس کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ اسے لگا شاید سنجے نے دیوالی پر لیمپ کو رنگ روغن لگایا ہو۔ مجموعی طور پر اسے کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا۔
کچھ دیر وہ گھر کو یوں ہی دیکھتی رہی۔ پھر اس نے سانتونا کو آواز دیتے ہوئے کہا، ’’میری پیاری بہن، پہلے میرے لئے ایک کپ چائے بنا لاؤ اور ہاں بیبُو کے لئے کچھ دودھ گرم کر لینا۔ لیکن سنو پہلے میرے لئے چائے بنا دو۔ ٹرین کی تھکاوٹ باقی ہے۔‘‘
سانتونا باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔ والد اس سے کچھ کہے بغیر ہی گھر کے باہر چلے گئے۔ تب ماں نے کہا۔
’’وسو بیٹا، تم کتنی سخت ہو، مہینے دو کے بعد ہی ماں کو خط لکھتی ہو۔ بیٹا میرا تو بڑھاپا ہے، میں چاہے سستی کر بھی لوں، پر تم ایسا مت کیا کرو۔ بہت فکر ہوا کرتی ہے۔‘‘
اس بات کا وہ کوئی جواب دے، اس سے پہلے اس نے دیکھا کہ پڑوسن رُکما چاچی آ رہی تھی۔ اندر آتے ہی اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’آ گئی بٹیا۔‘‘
’’ہاں چاچی، کیا حال ہے؟‘‘
’’اچھا ہے بٹیا۔ باورچی خانے میں بیٹھی تھی تو کمل دوڑتا ہوا آیا۔ کہا وسودھا بہن آئی ہیں۔ ویسے تمہاری ماں نے بتایا تھا کہ اس نے تجھے خط لکھوایا ہے۔ بیٹا پر تمہارا شوہر نہیں آیا کیا؟‘‘
’’نہیں یہ دن ان کے کام کے ہیں۔ فرصت ہوئی تو پھر کہیں جا کر آئیں گے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ اور بتاؤ خوش تو ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ کچھ ٹھہر کر وسودھا نے کہا، ’’کمل نہیں آیا چاچی؟‘‘
’’ارے اسے تو شرم آتی ہے۔ اس سے کہا بھی کہ چل اپنی دیدی سے ملنے۔ تو وہ کہنے لگا کہ پتہ نہیں وہ مجھے پہچانے گی بھی یا نہیں۔ ویسے تم کو یاد بہت کرتا ہے۔ جب تم شادی کر کے ڈولی میں بیٹھیں، تب رو رو کر بے حال ہو گیا تھا وہ اور پھر ہر گزرتے دن پوچھتا رہا کہ وسودھا دیدی کب آئیں گی؟ تجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رکما چاچی کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگی، ’’جب سے اسے پتہ چلا کہ سنجو کی ماں نے تجھے آنے کے لئے لکھا ہے، اس کے بعد سے ہر روز پوچھتا ہے۔‘‘
وسودھا کی ماں جو وہیں کھڑی تھی اور سب سن رہی تھی، کہنے لگی، ’’کیوں نہیں پوچھے گا، کمل کی ماں۔ اتنا سا تھا تب سے میری وسودھا گود میں لے کر اسے گھماتی تھی۔‘‘
وسودھا کا دل بھر آیا، ’’چاچی، بلاؤ تو کمل کو۔‘‘
’’اب جائے گا کہاں؟ تم تو کچھ دن رہو گی نا۔ کب تک شرمائے گا؟ اپنے آپ چلا آئے گا تم سے ملنے۔‘‘ چاچی نے کہا۔
وسودھا کو لگا کہ پیار کی ڈور اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ اپنا پرایا دیکھتی ہی نہیں۔
سانتونا چائے لے آئی اور کپ دے کر جب وہ جانے لگی تو وسودھا نے کہا، ’’اماں کتنی بڑی ہو گئی ہے ہماری سنتو۔ کوئی گھر وَر دیکھا ہے اس کے لیے؟‘‘
پلیٹ میں آدھی چائے انڈیل کر وسودھا، رکما چاچی کی طرف کپ بڑھاتے ہوئے کہنے لگی، ’’ہاں چاچی، تھوڑی چائے پی لو نا۔‘‘
’’نہیں بیٹے، آگ لگے اس چائے کو، جس نے رگوں کا خون ہی خشک کر دیا ہے۔ تم پی لو، مجھے اس وقت اس کی طلب نہیں ہو رہی۔‘‘
’’اچھا بیٹا میں چلتی ہوں، گھر میں کام پڑا ہے۔ ملے بغیر رہا نہ گیا اس لئے چلی آئی، پھر آؤں گی۔‘‘
’’ضرور آنا چاچی۔‘‘ وسودھا نے اپنائیت سے کہا اور کمل کو بھیجنے کی ہدایت بھی کر دی۔
’’اچھا، اچھا۔‘‘
رکما چاچی چلی گئی، تو اس نے اپنی ماں سے پوچھا، ’’ہاں اماں میں سنتو کے لیے پوچھ رہی تھی۔‘‘
کچھ سنجیدہ ہوتے ہوئے ماں نے بتایا ’’بیٹا، گھر تو بہت ذہن میں ہیں اور پھر دنیا میں جہاں لڑکیاں ہیں۔ وہیں ان کے لیے ایشور نے لڑکے بھی پیدا کئے ہیں، پر آج کل پیسہ ہی سب کچھ ہو گیا ہے۔ سچ پوچھو تو بٹیا، ابھی تک تمہاری شادی کا قرضہ ہی مکمل طور پر نہیں اترا۔ نہیں تو تم ہی سوچو بٹیا۔ کہ پورے پانچ سالوں تک تمہاری جدائی میں کیسے سہتی۔ اپنے نواسے کو دیکھنے کیلئے آنکھیں ترستی تھیں۔ مگر پیسے نے آج کل ہر کسی کو لاچار بنا دیا ہے۔ پیسہ ہی ہماری محبت کے درمیان دیوار بنا ہوا ہے۔ انہیں کہتی تو اور پھٹکارتے تھے۔ بغیر پیسے تو وہ بھی بیگانے ہو گئے ہیں، گھر میں بھی کسی کے ساتھ ٹھیک سے بات نہیں کرتے۔‘‘
وسودھا کو جیسے صدمہ پہنچا۔ اس نے سوچا، راستے میں آتے ہوئے تانگے میں بابا کے ایسے روکھے رویے کی کیا یہی وجہ تھی؟
اس کی ماں بات اچانک خاموش ہو گئی۔ اس نے دیکھا سامنے سے سنجے آ رہا تھا۔ وسودھا کو سامنے دیکھ کر اس نے اپنی کتابیں کھٹیا پر پھینکیں، دوڑتا ہوا آیا اور ’’دیدی‘‘ کہتے ہوئے اپنی بہن سے لپٹ گیا۔
وسودھا کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔
سنجے رو پڑا، ’’تم بڑا بے مروت ہو گئی ہو دیدی۔ ہمیں چھوڑ کر ایسے چلی گئی ہو، جیسے ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے۔ کیوں نہیں آئیں اتنے سال؟‘‘
’’تم لوگوں نے مجھے آنے کے لئے بھی کب لکھا تھا؟‘‘ لیکن یہ الفاظ اس کی زبان سے نہیں نکل پائے، اس کے گلے میں ہی کہیں پھنس گئے۔ سنجے ابھی بچہ ہے۔ وہ بچارہ کیا سمجھے گا ان باتوں کو۔
اسی لیے سنجے کے بالوں پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے کہا، ’’ارے میں تیرے لئے ایک پین لے کر آئی ہوں، سنہری سا خوبصورت۔‘‘
یہ سنتے ہی سنجے ’’میری اچھی دیدی‘‘ کہہ کر اپنی بہن سے لپٹ گیا۔ وسودھا نے اپنا بیگ کھول کر وہ پین نکال کر سنجے کو دیا۔ پھر ایک نئی ساڑی نکال کر سانتونا کو آواز دی، ’’سنتو۔۔۔ اوسنتو۔۔۔ یہاں تو آ۔‘‘
آٹے والے ہاتھ دھوکر سانتونا کمرے میں آئی، ’’تم نے بلایا دیدی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ دیکھو یہ ساڑی کیسی ہے؟‘‘
’’اچھی ہے دیدی۔‘‘
’’تجھے اچھی لگی۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’یہ تو اپنے پاس رکھ، میں تیرے لئے ہی لائی ہوں۔‘‘
سانتونا نے جواب نہیں دیا، تاہم اس کے چہرے سے وسودھا کو لگا کہ وہ خوش تھی۔
اس وقت تک اس کے والد بھی باہر سے واپس آ گئے۔ آتے ہی وسودھا سے کہا، ’’وسو، تیرے لئے پلا مچھلی لے آیا ہوں، تجھے بہت پسند ہے نا؟‘‘
کچھ کہنے کے بجائے وسودھا بس مسکرائی۔ وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی خوشی یہ تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو، اس بہانے اس کے باپ نے اس کے ساتھ بات تو کی۔
انہوں نے پھر پوچھا، ’’ہاں تو بتاؤ بٹیا، ہمارے جمائی راجا کا کام کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’اچھا چل رہا ہے۔‘‘
’’بہت دنوں سے ان سے ملنے کو جی چاہ رہا تھا۔‘‘ کہہ کر وہ کچھ لمحے رک گئے، پھر کہنے لگے، ’’اس بار دہلی جاتے ہوئے وہاں سے گزرا بھی تھا، مگر پھر اترا نہیں۔‘‘
’’تو آ جاتے بابا۔‘‘
’’ہاں آ تو جاتا بیٹے، پر پہلی بار سمدھیوں کے گھر میں جانا کوئی آسان ہے کیا؟ کتنا خرچہ ہو جاتا۔‘‘ پھر جیسے بات بدلتے ہوئے پوچھا، ’’ویسے تمہارے سسرال والوں کا مزاج کیسا ہے؟‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’خوش تو ہو نا بٹیا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
وسودھا کو لگا جیسے اس کے باپ کا دل بھر آیا ہو۔ نہ جانے کون سی سنسناہٹ وسدھا کی رگوں میں پھیلنے لگی۔ اس درمیان اس کا بچے نیند سے بیدار ہو گیا اور رونے لگا۔ سنجے نے آگے بڑھ کر اسے اپنی گود میں اٹھایا۔ والد وہاں سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ سنجے بیبو کو پچکارتے ہوئے باہر چلا گیا۔ تب ماں نے کہا۔
’’وسو، سچ پوچھوں تو، اس بار بھی ان کی مرضی تمہیں بلانے کے لئے لکھنے کی نہ تھی۔ پر میں ہی ضد کرنے لگی۔ انہیں کیا ہے؟ یہ تو چھوٹ جاتے ہیں۔ لیکن میرے کانوں کو تو بھنبھناہٹیں سننی پڑتی ہیں۔ جو بھی عورت گھر میں آتی پہلے یہی بات پوچھتی کہ کیا اس برسات میں بھی وسودھا کو نہیں بلائیں گے۔ ہم تو اسے دیکھنے کو ترس گئے ہیں، کتنے سال ہو گئے ہیں۔‘‘
وسودھا کیا کہتی، وہ چپ رہی۔
ماں نے پھر کہا، ’’میں نے ان سے کہا، بھلے چند دن کے لیے ہی سہی، بیٹی کو بلاؤ تو سہی۔ کم از کم یہ تو پتہ چلے کہ ہماری بیٹی خوش تو ہے۔‘‘
وسودھا سمجھ گئی کہ ماں نے ایک طرح سے اسے بتا دیا ہے کہ اسے تھوڑے دنوں کے لیے بلایا گیا ہے۔ وسودھا نے اپنا بیگ بند کیا۔ پھر اپنے پرس سے کچھ روپے نکال کر ماں کو دیتے ہوئے کہا، ’’ماں یہ پیسے اپنے پاس رکھ لو۔ گھر میں کام آ جائیں گے۔‘‘
ماں ٹکٹکی لگائے بیٹی کو دیکھنے لگی، ’’نہیں یہ گناہ نہ منڈھو۔ میں پیسے نہیں لوں گی۔ لڑکی کا ایک دانہ گھر میں آئے تو دل بھر جائے۔ نہیں، میں نہیں لوں گی۔‘‘
’’ارے اماں، تو رکھو تو سہی۔ میں تم کو تو نہیں دے رہی، سمجھنا کے سنجو اور سنتو کو دیئے ہیں، بس‘‘
ماں شاید پیسے پھر بھی لینے سے انکار کرتی، پر اس نے دیکھا وسودھا کی بچپن کی سہیلی پریا آ رہی تھی۔
’’ہاؤ وسو۔ آخر تم آ ہی گئی۔ گڈ، آئی ایم گلیڈ ٹو سی یو۔ ارے تم اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو؟‘‘
’’کیسی ہو پریا؟‘‘ وسودھا نے مختصر سوال کیا۔
’’نائس۔ سو ہاؤ میں ایشوز؟ کتنے بچے ہیں۔۔۔؟‘‘
’’ابھی تک تو ایک‘‘
’’گڈ فیملی پلاننگ والوں کی مدد کر رہی ہو؟ پھر ملتے ہیں، ابھی کچھ جلدی میں ہوں۔ اوکے سی یو۔‘‘
پریا سے مل کر وسودھا کو تعجب ہوا، ’’کیسے آئی، کیسے چلی گئی؟ کیسا دکھاوا تھا یہ؟‘‘
وسودھا نے ماں سے پوچھا، ’’اماں یہ پریا کتنی بدل گئی ہے؟ ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی ہے کیا؟‘‘
’’نہیں بیٹے، تمہاری یہ سہیلی تو بالکل ہی بگڑ گئی ہے۔ آس پڑوس کی تو ناک ہی کٹوا دی ہے۔ میں تو سنتو پر اس کی پرچھائیں تک نہیں پڑنے دیتی۔‘‘
’’پر اماں، پریا ایسی تو نہ تھی، یہ سب اچانک۔۔۔؟‘‘
’’نہیں بیٹی۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔ حالات نے کروایا ہے۔ اس کے باپ کو لقوہ مار گیا۔ تین سال ہوئے ہیں، اس کا بھائی گھر سے بھاگ گیا۔ آج تک اس کا پتہ نہیں چلا ہے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ مجبوری کیا نہیں کرواتی بیٹے۔‘‘
وسودھا نے ایک بار دروازے کی طرف نفرت کی نظر سے دیکھا، ایسے، جیسے وہ پریا کی طرف نفرت سے دیکھ رہی ہو یا شاید آج کی مجبوریوں کی طرف۔
اس نے ایک سرد سانس لی۔
اس کے بعد ماں بیٹی کچھ دیر باتیں کرتی رہیں۔ پھر نہا دھو کر وہ پڑوس میں اپنی سہیلیوں اور جان پہچان کے لوگوں سے ملنے چلی گئی۔
شام کو جب وہ واپس لوٹی تو گھر میں سب کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ یہ بات اسے بہت عجیب لگی.۔ اس کے لوٹتے ہی والد بِیڑیاں لینے کے بہانے باہر نکل گئے۔ ماں باورچی خانے میں چلی گئی۔ سنجے ٹیبل کے پاس جا کر کتاب اٹھا کر پڑھنے لگا۔ وسودھا کو لگا کہ اس کی غیر حاضری میں یقینی طور پر گھر میں جھگڑا ہوا ہے۔
اس نے سانتونا سے پوچھا، ’’کیا بات ہے سنتو، اس طرح سب کے چہرے کیوں اترے ہوئے ہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں دیدی! ۔۔۔ ایسے ہی پیسوں کو لے کر بابا کچھ ناراض ہو رہے تھے۔‘‘
وسودھا حیرانی سے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔ اچانک ماں نے کمرے میں آ کر سنجے سے کہا، ’’دیکھو بیٹا، تمہارے والد کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’کیا بات ہے ماں؟ کہاں جائیں گے؟ بِیڑیاں لینے گئے ہیں شاید۔‘‘
’’بیٹے، تمہیں پتہ نہیں۔ تم تو پانچ سال ہم سے جدا رہی ہو اس دوران اس گھر میں کیا کیا نہیں ہوا ہے۔‘‘
وسودھا نے دیکھا کہ اس کی ماں کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔
’’کیا بتاؤں بٹیا، تمہارے والد پیسے کے معاملے میں بہت تکرار کرتے ہیں۔ سنتے سنتے میں بھی تنگ ہو جاتی ہوں، تین بار تمہارے والد نے خود کشی کرنے کی کوشش کی ہے، تینوں بار ان بچوں کی قسمت ہے۔ جو لوگ انہیں بچا لیتے ہیں۔‘‘
’’تو گزرے کچھ برسوں میں اس گھر میں اتنا کچھ ہو چکا ہے۔‘‘
وسودھا کا گلا بھر آیا۔ کچھ وقت کے لئے الفاظ اس کی زبان پر پھنس سے گئے، پھر بھی کوشش کر کے اس نے پوچھا، ’’آج پھر کیا ہوا؟‘‘
ماں بے چارگی سے رونے لگی۔ بس اتنا ہی کہہ پائی، ’’آج تم جو آئی ہو بیٹی۔‘‘
وسودھا کے پیروں تلے جیسے زمین کھسک گئی۔
’’میں؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں کیا ہے۔۔۔ کچھ بھی نہیں کیا ہے بٹیا۔‘‘
’’نہیں بتاؤ ماں، حقیقت کیا ہے؟‘‘
’’کیا کرو گی سن کر بیٹی۔ اس سے تو میں مر جاتی تو اچھا ہوتا۔ پھر کوئی محبت کی، ممتا کی ڈور تو نہ ہوتی۔ اپنی بیٹی کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی تھی تو خط میں نے ہی تجھے لکھوا بھیجا تھا۔‘‘
وسودھا کو اب بھی بات ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ وہ سوالیہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھنے لگی۔
’’’تم آج ہی تو آئی ہو بیٹی اور یہ کیسا پیار ہے، کیسا لگاؤ ہے ایک باپ کا، اس نے آج ہی سے پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ وسدھا آئی تو ہے، پر رہے گی کتنے دن؟ زیادہ دن رکھنے کی یا اسے اور اس کے بچے کو کھانا کھلانا کی قدرت نہیں ہے مجھ میں۔ پوچھ لو کہ وہ کب جائے گی؟ ماں نے دکھتے دل میں دبے تمام راز فاش کرتے ہوئے کہا، ’’اب تم ہی بتاؤ بٹیا۔ کون ڈائن ماں ہو گی جو اپنی بیٹی سے یہ پوچھے گی کہ تم آئی تو ہو، پر جاؤ گی کب؟ میں مر کیوں نہیں گئی۔ میں مر کیوں نہیں گئی۔‘‘ یہ کہہ کر ماں پھر رونے لگی۔
وسودھا کی زبان تالو سے لگ گئی، زہر کا وہ گھونٹ خاموشی سے پی گئی۔ کچھ لمحے وہ خاموشی سے نہ جانے کیا سوچتی رہی۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنے گھر میں کسی اجنبی کی طرح چلی آئی ہے۔
اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ پر یہ احساس اسے زخمی کرتا گیا کہ اس کے گھر میں آنے کی خوشی کتنی بناوٹی، کتنی جھوٹی تھی۔
رات کو کافی کوشش کرنے کے باوجود بھی اس کو نیند نہیں آئی۔ والد کے کہے الفاظ پر کافی دیر تک وہ سوچتی رہی۔ بہت سوچنے کے بعد اسے لگا کہ وہ لفظ ایک باپ کی محبت کے نہیں، ایک باپ کی مجبوریوں نے کہے تھے۔ آج کے حالات نے کہے تھے۔ وسودھا کو لگا کہ آج کے حالات نے انسان کو کتنا مجبور کر دیا ہے کہ وہ اب محبت، ممتا کے جال میں جکڑا نہیں جا سکتا۔ اسے لگا جیسے وہ کسی پرائے گھر میں سو رہی ہے۔ آنکھوں میں آئے آنسو پونچھ کر، کروٹ بدل کر، وہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔
***
جلوس
اِندرا واسوانی
جلوسِ آزادی کے دن ہی بابا کا صبح سویرے انتپأ9قال ہوا، ویسے اس سے ایک دن پہلے ان کی طبیعت اتنی خراب نہ تھی۔ خراب کیا، کچھ بھی نہیں تھا، لیکن اچانک ہی بابا نے آدھی رات کو تکلیف محسوس کی تھی۔ دادا، تاؤ دونوں نے بغیر وقت ضائع کئے انہیں اسپتال میں داخل کرا دیا۔ تاؤ نے ماروتی اتنی تیز چلائی کہ اسپتال پہنچنے میں چار منٹ سے زیادہ نہ لگے۔ ڈاکٹروں نے نجانے کتنی کوششیں کیں، انجکشن لگائے، پر بابا کو بچانے کی ہر کوشش ناکام ہی رہی۔
تاؤ کی جان پہچان کا حلقہ ویسے بھی بہت وسیع ہے، دادا تو ہیں ہی ٹھنڈے گھڑے کی مانند، دھوپ میں رکھیں یا چھاؤں میں، پانی ہمیشہ ٹھنڈا رہتا۔ تاؤ ایسے نہیں۔ وکالت کے کام میں کافی درک رکھتے ہیں اور سیاست کے کھیل میں بھی ماہر ہو رہے ہیں۔ وہ بھی جب سے سرکاری پارٹی میں ان کا ایک خاص مقام بنا ہے، ان کی بہت چلنے لگی ہے۔
بابا کے انتقال پر ماں پرسکون ہی رہیں، دادا کی آنکھوں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے، مگر تاؤ نے خود کو قابو میں رکھنے کی بھرپور کوششیں جاری رکھی۔
کتنی غربت میں دن گزارے تھے۔ پھٹے ہوئے موزے اور پیوند لگی ہوئی قمیض پہن کر تاؤ اسکول جاتے تھے۔ تاؤ جتنے پڑھنے میں ہوشیار تھے، اتنے ہی بولنے میں بھی رہے۔ کبھی کبھی اسکول میں ہونے والی تقاریر میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ انعام بھی جیتتے تھے، اس لئے ماسٹروں کے بھی وہ پسندیدہ شاگرد بن گئے تھے۔
ایک کمرے والا گھر تھا، جس میں سبھی رہتے تھے۔ گھر کے باہر ہی ایک چھوٹے سے کیبن میں بابا روزمرہ ضرورت کا سامان رکھ کر فروخت تھے۔ ماں صبح اٹھ کر کبھی چنے، کبھی مونگ تو کبھی کبھار چھولے پکا کر انہیں تھال میں بھر کر دیتی، جو دو تین گھنٹوں میں ہی فروخت جاتے تھے۔ انہی پیسوں سے وہ گھر کی ضرورت کی چیزیں خرید کر، کھانے کا بندوبست کیا کرتیں۔ ’’لاؤ گے تو کھاؤ گے۔‘‘ والا حساب تھا، مگر بابا نے کبھی خود کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ وہ دکھوں کو زندگی کا ایک حسن مانتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ انسان کبھی ایک سی حالت میں نہیں رہتا۔ یہی زندگی جو انہوں نے بسر کی وہ اس سے کافی مطمئن رہے۔ یہی وجہ تھی کہ آگے چل کرتا ؤ کی اچھی کمائی کے باوجود بھی، وہ اس ایک کمرے والے پرانے مکان کو چھوڑ کر نئے بڑے گھر میں جانے کو تیار نہ تھے۔
دکھ کے دن گزر گئے، تاؤ سب سے آگے نکل گئے۔ وکالت کے دھندے میں دولت اور شہرت دونوں کمائیں۔ اپنے لئے پڑھی لکھی، نوکری پیشہ لڑکی ڈھونڈ کر اس سے شادی کی۔ اپنے بچوں کو انگریزی اسکول میں داخلہ دلایا۔ گھر کا انتظام بہتر طریقے سے چل رہا تھا۔ اپنے گھر میں ایک حصہ دادا اور چھوٹے بھائی کو دیا۔ باقی بچا ایک بھائی پرانے ایک کمرے والے گھر میں ہی رہا۔
تاؤ نے بابا سے کہا تھا، ’’اب یہ کیبن بند کر کے گھر میں آرام کریں۔‘‘
بابا نے کہا، ’’’ بیٹا جب تک زندہ ہوں، تب تک اس کیبن سے نبھاؤں گا۔ میرے مرنے کے بعد جیسے چاہو ویسے کر لینا۔ کمائی کے لیے دھندہ نہیں کرتا ہوں، بس وقت کٹ جاتا ہے۔ ویسے بھی بڑی عمر میں جسم سے کام لینا چاہیے، نہیں تو ہڈیاں جم جاتی ہیں۔‘‘
تاؤ کے من پسند موضوعات تھے، ہندی زبان اور سیاست۔ سیاست کا انہیں شوق رہا اور اچھی پریکٹس بھی کرتے تھے۔ ایک بار آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں کھڑے ہوئے۔ سرکاری پارٹی کی جانب سے بہت سارے پیسے دے کر ان کا ہاتھ اوپر کروایا گیا، بعد میں اسی پارٹی کے رکن بن کر کام کرتے رہے۔ سماجی کام، نوکری لے کر دینا، چھوٹے موٹے جھگڑوں کو نمٹانے کیلئے شہرت بھی ملی۔ حالانکہ شروعاتی دور میں ان کے دشمن بھی بہت رہے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ پانی میں ٹھہراؤ آتا گیا اور ان کے حمایتی بڑھتے چلے گئے۔
بابا صبح گزرے، تاؤ کو جھنڈے کی سلامی کے لئے جانا ہی تھا، لیکن اس کے بعد ایک دکان کا مہورت بھی کرنا تھا۔ جھنڈے کی سلامی کے لیے اسمبلی ممبر آنے والا تھا۔ صبح ہی اس نے شاستری جی کو اپنے والد کے انتقال کی خبر دی تھی۔ اس نے کہا کہ سلامی کا کام مکمل کر کے آپ کے پاس آؤں گا۔ تاؤ کو پتہ چلا کہ ڈپٹی منسٹر بھی اپنے گاؤں آیا ہوا ہے۔ یہاں سے پچیس تیس میل کے فاصلے پر ہی وہ گاؤں تھا۔ تاؤ نے اسے بھی فون پر یہ اطلاع دے دی۔
ڈپٹی منسٹر نے کہا، ’’میں بھی وقت پر پہنچ جاؤں گا، پھر بھی کچھ دیر ہو سکتی ہے۔‘‘
’’نہیں صاحب۔ ایسے کیسے ہو گا۔ یہاں تو بڑا جلوس نکلے گا، جس کی قیادت آپ ہی کو کرنا ہے۔‘‘ تاؤ نے زور دیتے ہوئے کہا۔
وزیر صاحب کچھ کہہ نہیں پائے۔ انہیں پتہ تھا کہ اس علاقے کے ووٹوں پر تاؤ کا بڑا قبضہ ہے۔ آخر آمد کا وقت طے ہو گیا۔ تاؤ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، کھیل کو جیتنے جیسی۔ انہوں نے باہر آ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے سب کو بتایا۔
’’ڈپٹی منسٹر صاحب خود آ کر اس جلوس کی قیادت کریں گے اور پورے دس بجے یہاں پہنچیں گے، اس وقت تک اور بھی لوگ جھنڈے کی سلامی سے فارغ ہو جائیں گے۔ اس لئے انتم یاترا کا وقت دس بجے رکھتے ہیں۔‘‘
لوگوں میں خوشی کی لہر پھیل گئی۔ جن کی تاؤ سے نہیں بنتی تھی ان کے چہرے اتر گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’باپ کی موت پر ڈپٹی منسٹر آ رہے ہیں، ارے لگتا ہے پگلا گیا ہے۔‘‘
دوسرے نے کہا، ’’پاگل نہیں ہے، بس سب ووٹوں کا کھیل ہے۔‘‘
تیسرے نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ’’بھائی پارٹی کا زور ہے۔ آج اگر اس کے گھر کا کتا بھی مرتا تو ڈپٹی منسٹر آتے۔ یہ لیڈر ہوتے ہی خود غرض ہیں۔ اسی لئے تو وہ گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔‘‘
دو تین لوگوں نے انہیں ہونٹوں پر انگلی رکھنے کی ہدایت یہ کہتے ہوئے دی کہ ’’دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔‘‘
تاؤ کا جوش بڑھ گیا۔ دو تین لوگوں کو لگوا کر انہیں گھر کے سامنے صفائی کرنے کی ہدایت دی۔ ویڈیوکیسٹ نکالنے کا بندوبست کیا۔ فوٹوگرافر تو پہلے ہی آ چکا تھا۔ بتاشے اور ناریل کا آرڈر بھیج دیا۔ سب اس کام میں ہاتھ بٹا رہے تھے۔ اب تاؤ فقط سوفے پر بیٹھ کر فون ہی کر رہے تھے۔ کھادی کا کرتہ پاجامہ پہن کر تیار ہو گئے۔ ان کا سارا دھیان باہر تھا کہ کب موٹر کا ہارن بجتا ہے اور کب پولیس کا یونٹ آتا ہے۔ اس دوران میں ضلع کے ایس پی، تعلقے کے ڈپٹی کلکٹر، شہر کے پی آئی وغیرہ کے فون آ چکے تھے۔ پولیس کی جیپ پہنچتے ہی آس پاس موجود خاکی وردی والے بہت چوکنے ہو کر یہاں وہاں آنکھیں گھما رہے تھے۔ ایسے موقعوں پر ان میں کافی پھرتی آ جاتی ہے، خاص کر کے آج کل، جب لیڈروں کے پیچھے ان کی مخالف پارٹیوں کے لوگ ہاتھ دھوکر پڑے رہتے ہیں۔
ار تھی کی پوری تیاری ہو چکی تھی۔ اندر سے عورتوں کے رونے کی آواز زور زور سے آ رہی تھیں۔ جہاں جہاں کیمرے جا رہا تھا اسی طرف لوگوں کے چہرے بھی جا رہے تھے۔ کوئی اپنی ناک صاف کر رہا، کوئی اپنے آنسو پونچھنے کے لیے رو مال استعمال کر رہا، تو کوئی اپنا سر پیٹے جا رہا تھا، کوئی تو چیخنے چلانے میں مصروف تھا۔
ڈپٹی منسٹر اور ان کے ساتھ شہر کے کچھ اہم لوگ آئے تو بیٹھے ہوئے لوگوں میں ہلچل مچ گئی۔ تاؤ انہیں ریسیو کرنے کے لئے آنکھوں پر رو مال رکھ کر آگے بڑھے۔ ڈپٹی منسٹر نے اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے اس کے کاندھوں کو تھپتھپانا شروع کیا۔
لوگوں نے وزیر کو گھیر لیا۔ کچھ اس کے پاؤں چھونے لگے، کچھ ہاتھ باندھے کھڑے رہے، دادا ان کا ہاتھ پکڑ کر ار تھی کی طرف لے گئے۔ سکریٹری نے وزیر کو ساتھ لائے ہوئے پھول دیئے، جو انہوں نے ار تھی پر ڈال کر ہاتھ جوڑے۔ کیمرا چلتا رہا۔
’’وزیر صاحب کی جے، وزیر صاحب کی جے۔‘‘ ار تھی کو کندھا دینے کے لیے بے انتہا بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔
آخر کار پہلے چاروں بیٹوں نے کاندھا دیا۔ ’’رام نام ستیہ ہے، واہ گرو سنگ ہے۔‘‘ آہستہ آہستہ کندھے بھی بدلتے رہے۔ ار تھی کو ایک پھولوں سے ڈھکے ٹرک میں رکھا گیا۔ کتنے ہی ٹھیکیدار اپنے ٹرک لائے تھے، کچھ کاریں، کچھا سکوٹر بھی لائے تھے۔
’’بابا جی امر رہے۔ وزیر صاحب کی جے، بابا جی کی جے، رام نام سنگ ہے، ہری نام ستیہ ہے، وزیر صاحب کی جے۔ بابا امر رہے۔‘‘ بتاشے، پھول اور سکے پھینکے جانے لگے۔ تاؤ، وزیر صاحب کے ساتھ اس کی گاڑی میں جا بیٹھے۔ کیمرے کا پورا فوکس اب اس طرف تھا۔ آگے پولیس کی جیپ تھی، اس کے پیچھے وزیر کی گاڑی اور اس کے پیچھے پھر پولیس، پھر ار تھی والا ٹرک اور بڑے آدمیوں کی موٹریں وارا سکوٹریں۔۔۔
جلوس کافی بڑا تھا۔ پانچ منٹ کے بعد ڈپٹی منسٹر کی کار رکی اور اس نے تاؤ سے اجازت لی۔ تاؤ نے ان کا شکریہ ادا کیا اور لوٹ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی لکیریں موجود تھیں۔
وزیر کی گاڑی کے ساتھ کتنی موٹروں اور اسکوٹروں نے بھی اپنا رخ بدلا۔ اس کے باوجود بھی شمشان بھومی تک جلوس میں بہت سے آدمی تھے۔ ار تھی شمشان بھومی میں پہنچ گئی تھی۔ لوگوں کی باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔
’’بابا کی آتما کو یہ سب دیکھ کر کتنی شانتی ملتی ہو گی؟‘‘
دوسرے نے کہا، ’’بابا اچھا انسان تھا، کوئی گھمنڈ نہیں تھا۔‘‘
تیسرے نے کہا، ’’کل تک بھی انہوں نے کیبن میں بیٹھ کر میٹھی گولیاں بیچیں۔‘‘
کسی نے کہا۔ ’’کبھی کبھار بچوں کو مفت میں چیزیں دیا کرتے تھے۔ بھائی جس نے خود غربت میں دن گزارے ہوں، اس کو ہی تو غریبوں کی قدر ہو گی۔‘‘
ایک اور نے کہا، ’’تاؤ کے دماغ میں اب کچھ غرور بیٹھ گیا ہے۔ ‘ ‘
’’آہستہ بولو، آہستہ بولو، پہلے تو وہ بھی اپنی غریبی کے گن گایا کرتا تھا۔ بھائی پھر بھی دیگر لیڈروں سے بہتر ہے، کسی کو لوٹتا تو نہیں ہے۔ غریبوں کا درد تو محسوس کرتا ہے۔ غریبوں کے خاندان سے جو ہے۔‘‘
’’یہ تو اچھا ہے کہ تاؤ پڑھ لکھ گئے، اچھے وکیل بنے اور ترقی کر لی۔ اور اوپر سے سرکاری پارٹی کے لیڈر۔ ورنہ کیا ہم جیسوں کے پاس وزیر آتے؟ یا اتنی بھیڑ ساتھ ہوتی؟‘‘
ار تھی سے آگ کے شعلے نکلنے لگے۔ لوگوں نے آہستہ آہستہ پیچھے ہو کر، واپس لوٹنا شروع کر دیا تھا۔ کچھ ایک کی تو اندر کی آگ بھی باہر نکلی، ’’ارے بھائی یہ تو ان کی چمچہ گیری کرنا ہوئی۔‘‘
’’مگر بابا کی آتما بھی کیا یاد کرے گی۔‘‘ کسی نے جملہ کسا۔
تاؤ جب گھر لوٹے تو اس کے چہرے پر جیت کی فخریہ خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس الیکشن میں اس کے جیتنے کا امکان روشن تھا، پھر۔۔۔ ایسے جلوسوں میں اسے بھی۔۔۔۔
***
نیا موسم
قاضی خادم
موسموں کے صرف دو نام ہیں۔ ملنے کا موسم اور بچھڑنے کا موسم۔
دستاویزات سے گردن نکالتے ہوئے کرسی کے سہارے خود کو ٹِکاتے ہوئے کنہار کے کنارے پر بالاکوٹ کی وادی میں، ہوٹل کی بالکنی میں گودھلی ولا میں پہنچ جاتا ہوں۔
’’آئس کریم کھائیں۔‘‘ وہ پولکا کی اسٹک میرے منہ میں ڈالتی ہے۔
’’مجھے اس طرح کھانے کی عادت نہیں ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں۔
’’تو پھر کس طرح کھائیں گے؟‘‘
’’ہونٹوں سے۔‘‘
وہ قہقہہ مار کر ہنستی ہے، تو فضاؤں میں مہک کی لہر سی اٹھتی ہے۔ گودھلی ولا کا کالا سیاہ اندھیرا چٹکتی چاندنی بن جاتا ہے اور پتہ ہی نہیں ہے کہ ہونٹ کہاں ختم ہوئے اور آئس کریم کہاں سے شروع ہوئی۔
وہ گلیارے میں کھڑی ہے اور ہمیشہ کی طرح چھوٹے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنی لپ اسٹک ٹھیک کر رہی ہے۔
’’کون کہتا ہے کہ ہم کام نہیں کرتے؟‘‘
یہ کام نہیں ہے، تو اور کیا ہے؟
دن تمام تو ہی کھڑے ہیں۔
They also serve who only stand and wait.
’’اتنی ایمانداری سے کوئی کام کر کے تو دکھائے۔‘‘
کیا کیا دکھائیں، ایمانداری دکھائیں، میک اپ کیا ہوا چہرہ دکھائیں۔ دونوں ہی مجبوریاں ہیں۔ ایمانداری اس لئے کیونکہ اور کوئی راستہ نہیں اور میک اپ اس لئے کیونکہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
’’دیکھو تو سہی پٹرول کی قیمت پھر بڑھ گئی۔‘‘
’’ٹیلر تو دیکھئے کتنی سلائی لیتا ہے۔‘‘
’’ارے بھائی، ایک بار میں نے اپنی گھر والی سے دس روپے ادھار لے کر عشق کیا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’وہ ایسے کہ معشوقہ نے فرمائش کی کہ فلم دکھائیں، جیب میں ہمیشہ کی طرح سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لہذا گھر والی سے کہا کہ کہیں سے بھی دس روپے ادھار لا کر دے، کیونکہ سخت ضرورت تھی۔ ظاہر ہے، ضروری چاہئے تو تکمیل اسے ہی کرنی ہے۔ وہ بیچاری پڑوس سے جا کر دس روپے ادھار مانگ لائی۔ بس جناب، میں رکشہ میں بیٹھا، محبوبہ کو ساتھ لیا اور سیدھا پہنچا سنیماہال۔ ڈیڑھ روپیہ تو ہوا رکشہ کا کرایہ، چار روپے ہوئے سنیما کے ٹکٹ کے، دو روپے انٹرویل میں کچھ کھانے کے اور ڈیڑھ روپیہ ہوا واپسی کا کرایہ، مجموعی طور پر۔۔۔ کتنے؟‘‘
’’نو روپے۔‘‘
آج تو بچہ بھی دس کی نوٹ مانگتا ہے۔
’’بابا ٹی وی چاہئے۔‘‘
’’ارے بابا، ٹی وی تو ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘
’’نہیں بابا، گڈو کے ٹی وی سے بھی اچھا ٹی وی ہونا چاہئے۔‘‘
وہ لپ اسٹک لگا کر اندر آتی ہے اور پرس سے الائچی نکال کر چبانے لگتی ہے۔ بیچاری اس چھوٹی سی الائچی سے اندر کی بدبو کیسے ختم ہو گی؟
All perfumes of Arabia cannot sweeten these little hands.
دکھائی دینے والے داغوں کو دھونا آسان کام ہے، پر چھپے، پوشیدہ داغ دھونا؟
Heard melodious are sweet
But those unheard are sweeter
’’بھائی، آگ سے آگ نہیں بجھائی جاتی اور نہ ہی گندگی سے گندگی دھوئی جاتی ہے۔‘‘
’’آپ ہر وقت گندگی، کچرے اور آگ کی باتیں کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’تو کیسی باتیں کریں؟‘‘
’’محبت کی باتیں کریں، کچھ دل کی باتیں کریں۔‘‘
’’کس سے کریں پیار کی باتیں؟ د ل والی باتیں بھی کیسی۔۔۔۔‘‘
’’بجلی کا بل، گیس کا بل، فون کا بل، پانی کا بل۔۔۔‘‘
’’ارے بابا، نلوں میں تو پانی ہی نہیں آ رہا۔‘‘
’’ارے جب پانی دریا میں ہی نہیں ہے تو نلوں میں کہاں سے آئے گا؟‘‘
’’بابا، دریا شاہ کیوں بلاتے ہیں۔‘‘
’’بھائی، دریا بڑا جو تھا۔‘‘
’’پر اب تو بڑا نہیں، اب شاہ تو نہیں، پر نکما حجام بھی نہیں رہا۔‘‘
’’ذات پات میں کیا رکھا ہے، جو محنت کرے وہ پائے۔‘‘
’’نہیں داتا، ذات پات کا اثر انسان کی فطرت سے ہر وقت نظر آتا ہے۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہے ہو؟ اب تو نئی نئی ذاتیں بن رہی ہیں اور کچھ بیوروکریسی کی ذاتیں ہیں۔ کچھ حکمرانوں کی ذاتیں، سی ایس ایس والے سی ایس ایس والوں میں شادی کریں گے، تو فلاں عہدے، ڈگری، مقام والے، اپنے ہی عہدے، ڈگری، مقام والوں سے۔۔۔‘‘
’’نئے خاندان، نئی ذاتیں، نئے نام۔۔۔۔‘‘
’’سگائی کہوں یا منگنی۔‘‘
’’مطلب ایک ہے، بات ہے رسم کی۔‘‘
’’رسموں نے بھی دھوم مچا دی ہے۔‘‘
’’ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ میری بات بھی تو سنو۔‘‘
’’آپ الائچی تو چبا لیجئے۔۔۔۔‘‘
’’آپ آئینہ تو دیکھ لیجئے۔۔۔۔‘‘
’’آپ لپ اسٹک تو ٹھیک کر لیجئے۔‘‘
’’ارے کاٹ کیوں رہے ہو۔۔۔ میں نے تو ایسے ہی ایک بات کہی۔‘‘
’’تم تو کرتی ہی ایسی باتیں ہو، تبھی تو ابھی تک یوں ہی بیٹھی ہو۔‘‘
’’اگر ویسی بھی ہوتی تھی، تو کیا ہوتا۔۔۔ ارے کوئی پانی تو پلائے۔‘‘
’’بالکل نہیں پینا، پانی میں گندی بدبو ہے۔‘‘
’’مجھے تو چاروں طرف سے بدبو آ رہی ہے۔‘‘
’’حقیقت میں یہ بدبو تجھ میں ہے۔‘‘
’’اب تم ذاتی وار کرنے پر تلے ہو۔‘‘
’’تم عام واہیات باتیں بند کرو، تو میں ذاتی باتیں بند کروں۔‘‘
’’تم کیا جانو دکھ کیا ہے۔۔؟‘‘
’’مجھ سے پوچھو۔۔۔ مجھ سے پوچھو۔۔۔ میں بھی ہوں۔‘‘
’’اگر کوئی کارنامہ کرتے، تو اپنی موجودگی کا اظہار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔‘‘
’’جس کی ضرورت ہے، صرف ایک کمرہ، اٹیچڈ باتھ۔۔۔ ایک ٹی وی، ڈش انیٹنا، ایک کمپیوٹر۔۔۔ ایک گاڑی۔‘‘
’’اور چار بیویاں۔۔۔ دو شادیاں تو کر چکے ہو۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘
وہ سرد سانس بھرتے ہوئے پرس لے کر اٹھتی ہے۔
’’یہاں سرد سانس لینا منع ہے۔ پہلے سے ہی ماحول مردہ خانے کی طرح ٹھنڈا ہے۔‘‘
’’کبھی یہ ماحول بالاکوٹ کی طرح سرد ہوا کرتا تھا۔‘‘
’’ہاں، یاد ہے مجھے۔ تمہیں پولکا کھانے کے لئے کہا تھا۔‘‘
’’اور میں نے کیا کہا تھا۔‘‘
"تم نے کہا تھا کہ ہونٹوں سے کھلاؤ تو کھاؤں گا۔‘‘
Drink to me with thine eyes only
’’تبھی تو اوپری ہونٹ پر لپ اسٹک ٹھہرتی ہی نہیں۔‘‘
’’اماں، سرخی کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’مسکارا کیا ہے اماں۔‘‘
’’کاجل کیسے لگایا جاتا ہے؟‘‘
’’Eye Shade نے تو آنکھیں ہی سجا دی ہیں۔ لگانا تو ضرور ہے۔‘‘
’’دھواں تو دیکھو۔۔۔ مچھر مرتے ہی نہیں ہیں۔ صرف اپنی آنکھیں باہر نکل آتی ہیں۔ کھانا تو کھانا ہے نا۔‘‘
’’اب، آٹا تو دیکھو کتنا مہنگا ہو گیا ہے۔‘‘
’’پتہ ہے، وہ بکرے کا گوشت سوا روپے سیر تھا، گائے تو کھاتا ہی نہ تھا۔‘‘
’’جانے کیسی باتیں کر رہے ہو۔۔۔ دیکھ نہیں رہے ہو میرے ہونٹوں سے لپ اسٹک اترتی جا رہی ہے۔‘‘
’’تمہارے ہونٹوں کو لپ اسٹک سے الرجی ہے۔‘‘
’’چائے بھی ہونٹ جلاتی ہے۔‘‘
’’تمہارے ہونٹوں کو چائے سے بھی الرجی ہے۔‘‘
’’ارے کھانا کھاتی ہوں، تو بھی ہونٹ سوج جاتے ہیں۔‘‘
’’تمہارے ہونٹوں کو کھانے سے بھی الرجی ہے۔‘‘
’’تو کیا کروں ان ہونٹوں کا؟‘‘
’’کسی کو ان سے آئس کریم کھلاؤ۔‘‘
’’کس کو۔۔۔ کس کو کھلاؤں، تم ہی کھا لو۔‘‘
’’میرا پیٹ ابھی بھرا ہوا ہے، بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کے ساتھ دودھ والے اور پرچون کے بلوں سے، اسکولوں اور ہسپتالوں کے بلوں سے، چوکیدار اور صفائی کرنے والے کے بلوں سے، کیبل والوں کے بلوں سے۔ ایسی حالت میں کسی قلفی کی گنجائش کہاں ہیں؟‘‘
’’کتنا فرق ہے، کل اور آج میں۔‘‘
’’مجھے تو لگتا ہے، آج اور آج میں بھی بڑا فرق ہے۔‘‘
’’تم تو فلسفی بن گئے ہو۔‘‘
’’یہی تو زندگی کا مذاق ہے۔ زندگی اور حالات کے اثر سے فلسفی، قاتل بن جاتے ہیں اور قاتل، فلسفی۔‘‘
’’پر بھوک تو سبھی کو لگتی ہے۔‘‘
’’کپڑا ضرورت ہے۔‘‘
’’علاج کے سوا چارہ نہیں۔‘‘
’’بجلی چاہئے ’’
’’اگر روشنی نہیں ہو گی، تو لپ اسٹک درست طریقے سے کس طرح لگے گی۔ جب بجلی نہیں ہوتی تھی، تب اندھیرے میں کتے بھی ساتھ آ کر کھانا کھاتے تھے۔‘‘
’’آخر کتوں کا بھی تو پیٹ ہے۔‘‘
’’دیکھو باتوں میں کہاں سے کہاں آ گئی۔‘‘
’’سقراط سے شروع ہوئی اور سقراط پر ختم ہوئی۔‘‘
’’تم بھی تو ابھی سقراط ہو۔‘‘
’’یہ تو تمہاری دلی تمنا ہے، ورنہ میں آج بھی سقراط ہوں۔‘‘
’’تب بھی زہر تو پینا پڑے گا۔‘‘
’’یہ بھی تمہاری چاہت ہے، نہیں تو میں عاشق زہر پینے والا نہیں ہوں۔‘‘
’’تمہیں کیا پتہ کہ میں کیا چاہتی ہوں۔ میں نے کیا چاہا تھا؟ پتہ نہیں نامراد کیسی لپ اسٹک بناتے ہیں۔ ہونٹوں سے پگھل کر چہرے کا رنگ روپ ہی بدل دیتی ہے۔‘‘
وہ لپ اسٹک ٹھیک کرتے ہوئے اٹھی، اٹھ کر کمرے سے باہر نکل جاتی ہے اور بالاکوٹ کے سینے کو چیرتے ہوئے کنہار کے کنارے پر اندھیرا چھا جاتا ہے، جہاں وہی آدھی کھائی ہوئی پولکا زمین پر پیروں تلے کچل کر غائب ہو چکی ہے۔
***
اسٹیل کی تھالی
ہری ہِمتھانی
فتو کی ماں کو اپنے بیٹے کی شادی کی بہت فکر رہتی تھی، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت گرو کی آرادھنا کرتی رہتی، گھرکے کام کاج کرتے ہوئے، وہ خود میں مگن ہو کر شادی بیاہ کے گیت گاتی، جیسے بس ابھی فتو گھوڑی پر چڑھ رہا ہو۔ ابھی بھی دھوپ کے سائے میں، اُدھڑی ہوئی چولی کو سیتے ہوئے وہ یہی سوچ رہی تھی کہ لوگوں کے اپاہج اور معذور بیٹوں کی بھی شادیاں ہو جاتیں ہیں، اس کا فتو تو صرف ٹانگ میں تھوڑی سی خرابی ہونے کی وجہ سے کنوارہ بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی رشتہ ہی نہیں لگتا۔ رشتے جوڑنے والی مائی کو بھی کافی لالچ دے رکھا ہے، پر اس نے بھی کوئی بھرپور کوشش نہیں کی ہے۔ نہ جانے کب اس کی قسمت کا دروازہ کھلے گا۔
اچانک اسے مرچو کی یاد آئی۔ وہ اسی مکان کی نچلی منزل پر اسی کی طرح ایک کرایہ دار تھا۔ آواز دینے پر ’’جی اماں، جی اماں‘‘ کہتے ہوئے آ جاتا تھا۔ مائیں بیٹے پیدا کریں تو ضرور مگر اس جیسے لائق۔ چولی ایک طرف رکھتے ہوئے، چبوترے پر کھڑے ہو کر اس نے آواز دی۔
’’مرچو بیٹے کیا بیٹھے ہو؟‘‘
’’ہاں، اماں، کہو۔‘‘ اس نے زور دار آواز سے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’ہاں اماں، ابھی آیا‘‘ کہتے ہوئے ایک جھٹکے میں مرچو اوپری سیڑھیاں چڑھ آیا تو جھمُل نے شکایتی لہجے میں کہا، ’’واہ بیٹا، کام تو صرف تجھ جیسے بیٹے کریں۔‘‘
’’پھر کیا ہوا اماں؟‘‘ مرچو کے چہرے پر حیرانی صاف جھلک رہی تھی۔
’’پوچھتے ہو کہ کیا ہوا؟ تم نے اپنے اس دوست سے پوچھا؟ ۔۔۔ ہاں، کیا نام بتایا تھا ہیرا نندانی۔‘‘
’’اوہ ہاں اماں، تمہیں بتانا بھول گیا۔‘‘
’’بیٹے، یہ بھی کوئی بھلانے جیسی بات تھی جو بھول گئے؟‘‘
’’بھلانے جیسی تو نہیں تھی، پر اس کی طرف سے جواب ہی ایسا ملا۔۔۔۔‘‘
’’آخر کیا کہا؟‘‘ جب تک مرچو کچھ کہے، اس وقت تک جھمُل کا دل تیزی سے دھڑکتا رہا۔
’’کہا کہ جسمانی خرابی والا نہ ہو، کوئی سیدھا سادہ لڑکا ہو، ہر طرح سے فٹ۔‘‘
’’ہوں! ہر طرح سے فٹ۔ خود کی بہن کون سی بے عیب ہے، جو وہ یہ مطالبہ کر رہا ہے۔ فتو کو پہلے دیکھ تو لیتا۔ بس فیصلہ سنا دیا۔ صرف چلنے میں معمولی سالنگڑاتا ہے، وہ بھی ڈھک جانے پر نظر نہیں پڑتا۔ دیواروں اور درختوں پر بندروں کی طرح چھلانگ لگا کر چڑھ جاتا ہے، یہ تمام خوبیاں بھی تو اسے بتاتے۔‘‘
’’اماں، میں نے بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پریہ تو قسمت کا کھیل ہے۔ اگر فتو کا مقدر وہیں کا ہو گا، تو خود بخود سوئی دھاگے کو کھینچے گی۔ بات تو چھیڑی ہوئی ہے۔‘‘
جھمُل نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، ’’برا ہو سوئی کا اور دھاگے کا۔‘‘
پھردوسرے ہی لمحے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا، ’’پھر بھی بیٹے، اس بات کا پورا پورا دھیان رکھنا۔ کیا پتہ تیرا کہا سچ ہو جائے۔ فتو تیرے لئے کوئی غیر نہیں، اسے اپنا بھائی سمجھنا۔‘‘
’’ہاں اماں! آپ فکر مت کرو۔ وہ نہیں تو اور کوئی سہی۔ آپ دیواروں اور درختوں کی بات کرتی ہو، فتو تمہیں گھوڑی پر چھلانگ لگا کے بیٹھ کر دکھائے گا۔‘‘
’’کیوں نہیں، کیوں نہیں بیٹا۔ تیرے منہ میں گھی شکر۔‘‘
مرچو چلا گیا۔ وہ دل ہی دل میں اس کی خوبیوں کے گن گاتی رہی۔ کچھ وقت کے بعد کمرے کی جنوبی کھڑکی سے، ہوا کی لہروں پر تیرتی ایک آواز آئی۔
’’پرانے کپڑوں پر لے لو نئے برتن۔‘‘
جھمُل اچانک پلنگ سے اٹھ کھڑی ہوئی، یہ کہتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگی، ’’ہاں چھورے ہاں، میں ابھی آئی، چلے نہ جانا۔‘‘
بغیر سلاخوں والی کھڑکی میں سے سر باہر نکال کر زور سے اسے پکارا، ’’چھورے، او برتن والے چھورے۔‘‘
لڑکا ادھر ادھر سر گھما گھما کر دیکھنے لگا۔ تو جھمُل نے پھر اونچی آواز میں کہا، ’’یہاں دیکھ چھورے، آنکھیں ہیں یا پتھر؟‘‘
اس بار لڑکے نے اسے دیکھ لیا، ’’ہاں اماں، دیکھ لیا، آتا ہوں۔‘‘
لڑکے سیڑھی چڑھ کر اوپر آیا اور ابھی اس نے برتنوں کا ٹوکرا سر پر سے اتار کر فرش پر رکھا ہی تھا کہ جھمُل کی نظر ایک چمکتی ہوئی اسٹیل کی تھالی پر پڑی۔ ہاتھ میں اٹھا کر دیکھی، کافی وزنی تھی۔
’’چھورے، یہ ہے تو اصلی اسٹیل کی ہی نا؟‘‘
’’اماں اصلی اسٹیل کی، اصلی ہی تو ہے، ورنہ اتنی وزنی ہوتی کیا؟ اصلی اور نقلی کی یہی تو پہچان ہے۔‘‘
فتو کی ماں تھالی کو اچھی طرح ٹھونک ٹھانک کر جانچتی رہی۔
لڑکے نے پھر کہا، ’’بھلے اس کو بازار میں جانچ کروا کر تسلی کر لینا، دو دن کے بعد بھی میں ذمے دار اور تم آزاد ہو۔‘‘
تھالی کو بار بار ہاتھ میں تولا، واقعی وزن تو تھا، دل سے یہ بات مان لی کہ یہ اصلی ہے، مگر پھر بھی لڑکے کو دھمکاتے کہا، ’’اگر نقلی نکلی تو گلی سے آنا جانا بند کروا دیں گے۔ ہاں اب بتاؤ کتنے کپڑے لو گے؟‘‘
’’ابھی کپڑے لائی نہیں ہو، پہلے سے ہی پوچھتی ہو کتنے لوں گا؟‘‘ لڑکا بھی کوئی چلتا پرزہ تھا، ’’لے آؤ کچھ چار ساڑیاں، سویٹر اور ٹیری لن کے سوٹ، قمیضیں۔‘‘
’’تجھے تو سارا گھر ہی سونپ دیتی ہوں۔ چھورے کا منہ ہے کہ بند ہی نہیں ہوتا۔‘‘
’’اماں گھر سونپنے سے تو تم رہیں۔ میرا مطلب ہے کہ تھالی کی قیمت، جتنے کپڑے ہیں لے آؤ۔ بازار سے جا کر لو گی تو پچھتّر روپے سے کم نہ ملے گی۔‘‘
’’پچھتّر روپے! پاگل ہو، دھتورہ تو نہیں کھا کر آئے ہو۔ اس تھالی کے اتنے پیسے؟‘‘
’’ہاں اماں، اتنے پیسے۔ دس بیس کم ہی بتائے ہوں گے۔ گھر میں اگر ترازو ہو تو تول کر دیکھ لو۔ پاؤنڈ اوپر ہی وزن ہو گا، کم نہ ہو گا۔ ایسا اسٹیل تو ڈیڑھ سو روپے کلو میں ملتا ہے۔ میں کوئی آپ کی آنکھوں میں دھول تھوڑی ہی جھونکوں گا، صحیح صحیح بات ہی کہوں گا۔‘‘
’’دھول ڈالو اپنی ماں کی آنکھوں میں، جس نے تمہیں جنم دیا ہے۔ چھورے کی زبان تو دیکھو کس طرح چل رہی ہے۔‘‘
’’اماں زبان چلے گی سچائی پر، ریاکاری کروں تو ڈروں بھی۔‘‘
’’اچھا اچھا تم کو ایک اچھی سی ساڑی لا دیتی ہوں۔ بڑے بیٹے کی شادی میں سمدھن نے دی تھی۔ تم بھی کیا یاد کرو گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے تھالی لے کر وہ کمرے کے اندر چلی گئی، کچھ لمحوں بعد لوٹ کر لڑکے کو ساڑی دیتے ہوئے کہا، ’’یہ لے چھورے، بھاگوان ہے تو۔ ایک بار ہی پہنی ہے، بالکل نئی ہے۔‘‘
لڑکے نے ساڑی کو کھول کر دیکھتے ہوئے کہا، ’’یہ ساڑی ہے یا مچھر دانی اتنے سارے سوراخ؟ نہیں مائی نہیں، مجھے یہ نہیں چاہیے۔‘‘ ’’چھورے زیادہ لالچ نہ کر۔ ٹھہرو دو تین کپڑے اور بھی لا کر دیتی ہوں۔‘‘
اس بار ٹیری لن کی پتلون اور قمیض لے آئی۔
’’اب تو خوش ہو، اچھی طرح سے چیک کر لو، کہیں سے بھی پھٹی نہیں ہیں۔‘‘ فتو کی ماں کو لگا کہ لڑکا خوش ہو جائے گا، پر اس نے منہ سکوڑتے ہوئے کہا، ’’تمہیں قدر نہیں ہے مائی، کہاں میری تھالی اور کہاں یہ کپڑے۔ تم مجھے تھالی لوٹا دو تو میں یہاں سے نکلوں۔‘‘
’’پگلے نکلو گے کہاں؟ ٹھہرو ایک کپڑا اور لا دیتی ہوں۔‘‘
تھالی کے وزن اور چمک دونوں ہی فتو کی ماں کے دل کو بھا گئے تھے۔ کمرے میں جا کر وہ ایک کپڑا اور لے آئی۔
’’یہ لے چھورے، نہ جانے کون سا منتر پڑھ کر آئے ہو۔ اس کے بعد اگر کچھ کہا تو سوٹا لے کر پیچھے پڑ جاؤں گی۔‘‘
’’اماں، ہے تو اب بھی کم، پر اب رہنے دے۔ سمجھوں گا کسی ماں جیسی کا دل رکھ لیا۔ آگے کبھی آؤں تو پاپڑ پانی تودوں گی نا۔‘‘
’’بات کرنے کا ڈھنگ نرالا ہے۔ ایسا کیوں نہیں کہتے کہ پیاس لگی ہے۔‘‘
پانی پی کر، سر پر ٹوکرا رکھ کر لڑکا چلتا بنا۔ مگر کچھ دیر بعد ہی وہ پھر لوٹ آیا اور انتہائی مایوسی بھرے لہجے میں بلانے لگا، ’’مائی او مائی!‘‘
اس کی رونٹی آواز سن کر فتو کی ماں گھبرا گئی، نہ جانے اب کیا ہوا۔ اتنے میں لڑکا سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا۔ اس کے چہرے سے مایوسی اور بے چینی جھلک رہی تھی۔ فتو کی ماں نے تیز اور ناگوار آواز میں کہا، ’’کیا ہے رے چھورے، یوں رونی صورت لے کر کیوں آیا ہے؟‘‘
’’مائی تم نے مجھے یہ پتلون دی ہے۔ ایک ٹانگ چھوٹی تو ایک ٹانگ بڑی۔ ایسی پتلون کون لے گا۔ بابا نے کہا کہ بدلوا کر لاؤ نہیں تو بھرتہ بنا دوں گا۔ میری عقل کو کوستے ہوئے دو تین چانٹے بھی کس کر لگائے۔ اس لئے میری ماں، مجھ پر رحم کھا اور مجھے یہ پتلون بدل دو یا اس کے بدلے میں اور کوئی کپڑا دے دو۔ اب تو تم اپنی مرضی کی مالک ہو، نہیں تو مجھے میری تھالی واپس کر دو۔‘‘
رحم کھانے کے بجائے فتو کی ماں اس پر چڑھ گئی، ’’لڑکے دماغ تو نہیں خراب ہوا ہے، آدھے گھنٹے کے بعد آئے ہو تھالی واپس مانگنے۔ بھاگو یہاں سے نہیں تو سر پھوڑ دوں گی۔‘‘
’’اماں بھلے پھوڑ دو، پر یہ تھالی لیے بغیر میں یہاں سے ہرگز نہیں ہلوں گا۔ تم اپنے کپڑے واپس لے لو، میں تمہیں ٹھگ تو نہیں رہا ہوں نا؟‘‘
’’ٹھگ نہیں رہے ہو؟‘‘ فتو کی ماں کا سر گھوم گیا، ’’یہ ٹھگنا نہیں تو اور کیا ہے؟ کہہ تو رہی ہوں، جاؤ یہاں سے۔ لڑکا ہے یا سر کا درد۔‘‘
لڑکے نے پھر بھی جیسے رونٹی آواز میں کہا، ’’اماں، تمہارا بچہ ہوں، مجھ پر رحم کرو، اس پتلون کو تبدیل کر دو یا تھالی لوٹا دو۔ بابا کی مار بہت سخت ہے، پیٹ پیٹ کر مجھے بے حال کر دے گا۔‘‘
’’بھلے ہی کر دے، مجھے اس سے کیا؟ اس وقت کیوں نہیں دیکھ لی، اب نخرے کر رہے ہو۔‘‘
’’مجھے کیا پتہ کہ تیرے بیٹے کی ایک ٹانگ چھوٹی ہے، نہیں تو دیکھ لیتا۔ یہ تو سراسر دھوکہ ہے۔‘‘
’’اے چھورے، میرے بیٹے کو معذوروں میں شمار کر رہے ہو؟ دور ہو جاؤ یہاں سے نہیں تو دوں گی دھکا۔ لڑھکتے ہوئے نیچے جا گرو گے۔‘‘
’’دھکا مارو گی، جیسے تمہاری حکومت ہے؟‘‘
’’ٹھہر مردار، تم ایسے نہیں مانو گے، لے آؤں سونٹا۔‘‘
لڑکے نے دیکھا کہ سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکل رہا اور باتیں بھی بے کار ہوئیں، تو کہنے لگا، ’’بھلے لا آؤ سوٹا، چیر پھاڑ ڈالو، میں خون میں لت پت پولیس چوکی شکایت لے جاؤں گا۔ چلا چلا کر پورے محلے کو جمع کر لوں گا۔ میں اپنا حق مانگ رہا ہوں۔‘‘
اماں جہاں کھڑی تھی وہیں ساکت کھڑی رہی۔ بس جواب دیتے ہوئے کہا، ’’تم ایسے نہیں بھاگو گے، مرچو کو بلاتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے زور سے مرچو کو آواز دی۔ آواز بھی ایسے جیسے وہ لوٹ لی گئی ہو۔ مرچو بھی، جلدی میں بِنا چپل کے، ایسے ہی بھاگتا ہوا اوپر آیا۔ سیڑھی پر ڈنڈا رکھا ہوا تھا، وہ بھی ساتھ لے آیا۔ سوچا شاید گھر میں کوئی بدمعاش، اٹھائی گیرا گھس آیا ہے۔ پر جب اس نے سامنے اصل منظر دیکھا تو وہ پرسکون ہو گیا۔ الٹا اماں سے کہنے لگا، ’’یہ بچارا حق ہی تو مانگ رہا ہے، اسے ڈنڈا لگاؤں بھی تو کس بات پر؟ ایسے ہی زخمی کر دوں؟‘‘
مرچو کی اس بات سے پہلے فتو کی ماں نے کہا تھا، ’’ارے مرچو، اس لڑکے کی چکنی چپڑی باتوں میں مت آنا۔ لگاؤ ڈنڈا، بھگا دو یہاں سے۔ کب سے میرا خون پی رہا ہے۔‘‘
پر مرچو کا ایسا جواب سن کر اماں ہکا بکا رہ گئی۔ الٹا مرچو پر برس پڑی، ’’تمہیں اس لئے بلایا تھا کہ آ کر اس کی طرف داری کرو۔ دو ٹکے کے چھوکرے کے سامنے مجھے نیچا دکھا رہے ہو، شاباش ہے۔ بیشک مائیں تم جیسے بیٹے پیدا کریں۔ میرے دفاع کے لئے کیا خوب ڈنڈا لے کر آئے ہو۔‘‘
مرچو اب وہاں ایک لمحے نہیں رکا، یوں کہتے ہوئے چلا گیا، ’’نہیں اماں، مجھ سے یہ نہیں ہو گا، تم جانو تمہارا کام جانے۔‘‘
جھمُل حیران رہ گئی۔ پشت پر آنکھیں ٹکائے اسے لوٹتا دیکھتی رہی، جب تک وہ سیڑھیوں سے نیچے نہیں اتر گیا۔ بڑبڑاتے ہوئے خود کلامی کی، ’’مرچو دیکھ لی تیری مردانگی۔ لڑکے کو کیا ڈانٹنا دھمکانا تھا، الٹا اسے ہی جھاڑ پر چڑھا کر جا رہے ہو۔ واہ کیا خوب نبھایا ہے، تجھے ماں نے جانے کیسے پیدا کیا؟‘‘
لڑکا بولا، ’’مائی، وہ تمہیں سچ کہہ کر گیا توا سے کوستی ہو۔‘‘
’’مردار چپ کر، نہیں تو پٹو گے۔‘‘
’’مائی تم کیا کر لو گی؟ بہت چپ رہا اب میں چلا چلا کر سارے محلے کو جمع کروں گا۔ پھر دیکھوں گا کہ تم کیسے تھالی واپس نہیں کرتیں۔‘‘
’’کلموہے، میں پہلے ہی غصے میں ہوں، مجھے اور زیادہ غصہ مت دلاؤ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے میں گئی۔ کھونٹی پر لٹکا ہوا شوہر کا پاجامہ اور قمیض اتار لائی اور اس کے منہ کی طرف پھینکتے ہوئے کہا، ’’جنم جلے، پچھلے جنم میں تیرا کوئی قرضہ لے آئی تھی۔‘‘
لڑکے یوں کہتا ہوا چلا گیا، ’’تلافی تو اب بھی نہیں ہوئی ہے، پر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی بھلا۔‘‘
’’ابھاگے، لعنت ہو تم پر، کہتے ہو تنکے کا سہارا ہی بھلا۔‘‘ تاہم جھمُل اس لڑکے سے زیادہ مرچو پر چراغ پا ہو رہی تھی، ’’یہ بیٹے بنے ہیں؟ ارے اگر پرائے اپنے ہوتے، تو اپنوں کے لیے کون دکھ جھیلتا۔‘‘
اس غل غپاڑے میں وہ چاول چننا بھول گئی۔ پھر جب پیرومل دکان سے لوٹا، تو اس سے پیار سے کہنے لگی، ’’دیکھو آج میں نے چاول پکائے ہی نہیں، روٹی تو دل سے کھاؤ گے نا؟‘‘
آتے ہی بیوی یوں مدھ بھری آواز سے دل موہ لے، ایسا شاذونادر ہی ہوتا تھا۔ پیرومل فطرتاً ہنسی مذاق پسند کرتا تھا۔ اس عمر میں بھی یہ جذبہ اس میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ اس طرح کے ہنس مکھ مزاج کی وجہ سے ہی کاروبار میں بھی کافی اضافہ ہوا تھا۔ اس کی چادروں کی دکان تھی۔ اگر جان پہچان کی کسی عورت کے ساتھ کوئی انجان عورت بھی اس کی دکان میں ایک بار بھی آئی تو پھر پلٹ کر کبھی کسی اور دکان میں نہیں جاتی تھی، اس یقین کے ساتھ کہ سادہ مزاج والا یہ چاچا اسے کبھی نہیں ٹھگے گا۔ پھر بعد میں بھلے وہ بہن بہن کہہ کر اس کا پرس ہی خالی کروا دے۔ ادھار بھی خوشی خوشی بِنا کسی ڈر کے دے دیتا، جیسے وہ انہیں سالوں سے جانتا ہو۔ جو غیروں سے اس طرح کا رویہ رکھتا ہو، جھمُل تو پھر اس کی بیوی تھی۔ آج بیوی کے منہ سے میٹھے بول سن کر پیرومل نے کہا، ’’دل سے۔ کیا ویسے تمہارے ہاتھ کا پکا ہوا دل سے نہیں کھاتا کیا؟ یہ کیوں پوچھا؟‘‘
’’کھاتے تو ہو، پر پوچھ لیا تو کیا گناہ کیا میں نے؟‘‘
’’نہیں، نہیں، تم گناہ کیوں کرو گی، ڈر مجھے لگتا ہے کہ کہیں مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو جائے۔‘‘
’’اب چھوڑو بھی۔۔۔ تم ہاتھ منہ دھو لو، تب تک میں پاپڑ پانی لے آتی ہوں۔‘‘
’’تانبے کی تھالی بھی لیتی آنا۔‘‘
جاتے جاتے جھمُل رک گئی، ’’تھالی بھی۔ اب اس دن تو کہا، بڑھاپے میں پیا نہیں جاتا، پھر آج کون سا پاگل پن سوار ہے؟‘‘
پیرومل نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا، ’’کوئی قسم تھوڑی ہی کھائی تھی۔ کبھی کبھی تو موج کر لینا چاہئے نا؟ پر اگر تمہاری مرضی نہیں ہے تو میں ہاتھ اوپر اٹھا لیتا ہوں۔‘‘
’’میں کیوں کہوں کہ ہاتھ اٹھاؤ، پی لو، دل کو مت ترساؤ۔ ایسا گناہ نہ میں اپنے سر پر آج اٹھاؤں گی، نہ کل۔‘‘
’’ہو تو تم ایک دم سیانی۔‘‘
پیرومل ہاتھ منہ دھوکر پلنگ پر بیٹھا ہی تھا کہ جھمُل نے کہا، ’’ارے ہاں۔ آپ سے وہ بات کرنا تو بھول ہی گئی۔ پرانے کپڑے دے کرا سٹیل کی تھالی لی ہے۔ ابھی لے کر آتی ہوں۔ آپ بھی چیک کر کے بتائیں کہ کہیں ٹھگی تو نہیں گئی ہوں۔‘‘ وہ جھٹ سے کمرے میں گئی اور تھالی لے آئی۔ اس کا دل رکھتے ہوئے پیرومل نے کہا، ’’بہت اچھی، ایسی جیسی تم ہو۔‘‘
’’میرا موازنہ تھالی سے کر رہے ہو۔‘‘
’’تھالی سے نہیں، تھالی کی خوبصورتی سے۔ صحیح کہا گیا ہے کہ عورت کی عقل اس کی دائیں ایڑی میں ہوتی ہے۔‘‘
جھمُل مسکرائی، ’’تو دل رکھتے ہوئے کہہ رہے ہو۔‘‘
’’ہاں بابا، دل رکھتے ہوئے اور تم کیا ایسی ویسی چیز پسند کرو گی؟‘‘ پیرومل نے مذاق میں کہا، ’’تمہیں تو دور سے آتا دیکھ کر دکاندار وہیں سے ہاتھ جوڑ کر کہے گا، مائی جو چیز آپ لینے آ رہی ہو، وہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
جھمُل نے ہنستے ہوئے کہا، ’’آج کس کا منہ دیکھا ہے؟‘‘
’’تمہارا اور کس کا دیکھوں گا۔‘‘
’’حقیقت میں مجھے فکر ہو رہی تھی کہ چھورا مجھے ٹھگ تو نہیں گیا۔ بہت ہی چالو تھا۔ چھوٹا تھا پر زہر کا پلندہ تھا، ہوش حواس ہی خطا کر دیے۔ جانے کہاں سے منتر پڑھ آیا تھا، عجیب مد ہوشی سے چڑھ گئی تھی۔‘‘
پیرومل نے زوردار قہقہہ لگایا، ’’تمہیں تو وہم ہے۔ سودا کیا کسی قیمتی پتھر کا کیا ہے، جو اس نے تمہیں لوٹ لیا۔ ایک دو پرانے کپڑے اگر زیادہ بھی دیئے تو کونسی آفت آ گئی۔ یہ غنیمت سمجھو کہ تمہیں من پسند چیز ملی ہے۔‘‘
’’سچ میں آپ کی باتوں نے تو میری ہر فکر دور کر دی ہے۔‘‘
’’ایک گھونٹ پی لوں تو باقی کی بھی فکر دور ہو جائے گی۔‘‘
کھانا کھانے کے بعد، پیرومل کمرے میں اپنے رات کے کپڑے تبدیل کرنے گیا تو دیکھا کھونٹی خالی تھی، زور سے آواز دیتے ہوئے پوچھا، ’’بھاگوان، تم نے یہاں سے کپڑے اتارے کیا؟‘‘
’’پرانے تو تھے، اب اور بھی انہیں پہنتے کیا؟ میں نے وہ جوڑا برتن والے کو دے دیا۔‘‘
’’یہ تو بھلا کام کیا، پر جیب میں سو کا نوٹ پڑا تھا، وہ نکالا یا نہیں؟‘‘
’’سو کا نوٹ۔ یہ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ جھمُل کے ہوش اڑ گئے، اس کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا، جیسے وہ ابھی گر پڑے گی، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔
’’سو کا نوٹ تھا کیا جیب میں؟‘‘ کمرے میں آتے ہی وہیں چوکھٹ پر بیٹھ گئی، ’’سو کا نوٹ!‘‘ دل بے چین ہو گیا، غمگین ہو کر رونے لگی، ’’سو کا نوٹ۔۔۔ اے رام۔ یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ سو کا نوٹ۔۔۔‘‘
وہ کچھ اس طرح رونے لگی جیسے ماتم مناتے ہوئے جنازے کو روانہ کیا جاتا ہے۔
’’ارے کون سی بلا پر میرا پاؤں پڑا، جو چھورے کو آپکے کپڑے دے دیے۔ میں تو لٹ گئی، رے لٹ گئی۔ برا ہو اس کمبخت مرچو کا جس نے میرے ہوش خطا کر دیے۔ اب میں کیا کروں، کس طرح ملے گا سو کا نوٹ؟‘‘
پیرومل نے دیکھا کہ سو کا نوٹ جو گیا وہ تو گیا، پر اگر اس بھاگوان کو ابھی نہیں سنبھالا تو نوٹ کے پیچھے یہ بھی چل دے گی۔ وہیں سے آواز میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا، ’’تم سے تو مذاق کرنا بھی گناہ ہے۔‘‘
اسے دونوں ہاتھوں کا سہارا دے کر چوکھٹ سے اٹھاتے ہوئے کہا، ’’میں نے مذاق کیا کیا، تم تو ماتم منانے بیٹھ گئیں۔ سچ کہا ہے سیانوں نے عورت ذات سے کبھی بھی مذاق نہیں کرنا چاہئے۔ اگر اس کا غلط مطلب نکالا گیا تو مذاق گلے کا پھندہ بن جاتا ہے۔‘‘
’’تو آپ نے سچ میں ہی مذاق کیا تھا؟‘‘
’’اور تم واقعی سمجھ بیٹھیں، یہی نہ پگلی۔۔۔؟‘‘ پیرومل نے اسے سینے سے لگا لیا۔
’’غضب کیا ہے، مسخرہ پن بھی ایسا کیا جاتا ہے کہ کسی کی جان ہی نکل جائے۔ میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر دیکھو، اندر جیسے دھونکنی چل رہی ہے۔ توبہ، توبہ۔‘‘ جھمُل نے سکون کی سانس لی۔
پیرومل نے اسے اطمینان بخشنے کیلئے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ’’اگر ایسا مذاق نہ کرتا تو تم مجھے یوں دل پر ہاتھ رکھنے دیتیں۔‘‘
’’اب چھوڑو بھی۔۔۔، چلو دور ہٹو۔‘‘ جھمُل نے اسے بڑے ہی ناز کے ساتھ ہلکا سادھکا دیا، دوسرے ہی لمحے خود بھی اس کے ساتھ آگے سرک گئی تھی۔
***
یہ بھی کوئی کہانی ہے؟
گووند مالہی
موہن نے مجھے اپنے گھر میں ملنے اور اپنے پاس رات کے قیام کا مشورہ دیا اور میں فوراً رضا مند ہو گیا۔
ایک زمانہ تھا، جب ہم دونوں کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، چلنا پھرنا اور لکھنا پڑھنا سبھی ایک ساتھ ہی ہوا کرتا تھا۔ وہ نہ صرف میری عمر کا تھا، بلکہ میرا پڑوسی بھی تھا۔ بچپن سے لے کر میٹرک تک ہم دونوں ساتھ رہے تھے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں جا کر کراچی میں کالج کی رنگین دنیا میں داخل ہو گیا۔ اس کا باپ دال روٹی والا ضرور تھا، پر کالج کا کمر توڑ خرچہ بھر پانا، اس کی حیثیت سے زیادہ تھا۔
موہن کچھ وقت بے روزگار رہنے کے بعد پی ڈبلیوری میں ملازم لگ گیا۔ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو کر، نہ ملنے والی راہوں پر آگے بڑھتے رہے۔ سالوں بعد جب ہم ایک دوسرے کے گلے ملے، تو وہ سندھ میں نہیں بلکہ احمد آباد کے گاندھی چوک میں ملے۔ ہمارے بچھڑنے کے لمبے عرصے میں دنیا نہ جانے کتنی کروٹیں بدل چکی تھی۔ وہ ڈپارٹمنٹ امتحان پاس کر کے ’’روڈ ڈویژن‘‘ کا ہیڈ کلرک بن گیا اور میں۔۔۔۔ میں لٹریچر اور سوشل ورک کے چکر میں ایسا پھنسا کہ نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔
اس کا گھر مانی نگر میں تھا، اس نے بس میں میرے برابر میں بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’تم نے شادی کی ہے؟‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’میں زندگی میں ابھی تک خود کو سیٹل نہیں سمجھتا۔ کسی کی لڑکی کو راستوں پر بھٹکانا مجھے پسند نہیں۔‘‘
وہ خوف میں پڑ گیا، وہ کچھ اور مجھ سے پوچھے اس سے پہلے ہی میں نے اپنا سوال اس کے سامنے رکھا دیا، ’’تم نے تو ضرور شادی کی ہو گی؟‘‘
اس کے چہرے پر ایک عجیب خوشیوں بھرے تاثرات ابھر آئے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’میری ایک بیٹی بھی ہے ریکھا، جو پانچ چھ سالوں کی ہے۔‘‘
بات ختم ہونے کے بعد بھی وہ مسکراتا رہا۔
‘ ‘میں تم کو شادی پر آنے کی دعوت ضرور دیتا، پر ہواؤں میں اڑنے کے دوران یہ ہوش برقرار رکھنا کہ کون کہاں ہے، ذرا مشکل تھا۔‘‘
میں نے حیرت بھرے انداز میں پوچھا، ’’مطلب؟‘‘
’’تمہیں لکھنے اور تقریریں کرنے سے فرصت ہی کہاں رہتی ہے؟‘‘ وہ ہنسا اور میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔
ہم اس کے گھر کے برآمدے میں داخل ہونے والے تھے کہ ریکھا آئی اور اپنے باپ سے لپٹتے ہوئے کہنے لگی، ’’دادا، آپ پاکستان سے گائے لائے کیا؟‘‘
موہن نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ہمارے پڑوسی نے کل ایک گائے لی ہے۔‘‘
ریکھا نے کہا، ’’مجھے بھی گائے چاہئے۔‘‘
میں نے اسے ٹالنے کے لیے کہا، ’’ہماری گائیں پاکستان میں ہیں۔‘‘
کہنے لگی، ’’پاکستان سے گائیں لے آؤ۔‘‘
مجھے ہنسی آ گئی۔
ریکھا نے پھر سوال دہرایا، ’’آپ پاکستان سے گائیں لے آئے کیا؟‘‘
باپ نے نیچے بیٹھ کر بیٹی کی بانہیں اپنے گلے کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا، ’’کل ضرور لاؤں گا۔ آج تم اپنے چچا سے ملو، نمستے کرو بیٹے۔‘‘
ریکھا نے اپنی نازک بانہیں موہن کے گلے سے آزاد کراتے ہوئے اپنے ننھے ہاتھ میری جانب جوڑتے ہوئے کہا، ’’چچا نمستے۔‘‘
میرے ہاتھ خود بخود اس کی طرف بڑھے، میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار سے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا، ’’ریکھا۔۔۔ ماں مجھے ریکھا رانی کہہ کر بلاتی ہے۔‘‘
میں نے بے ساختہ اس کا دایاں ہاتھ اپنے گلے کے پیچھے موڑتے ہوئے، اسے سینے سے لگا لیا۔
موہن نے ہنستے ہوئے کہا، ’’جنابِ مصنف، شادی ایک پابندی سہی، پر اس کی اپنی سوغاتیں ہیں۔‘‘
مجھ میں اس کی بات کاٹنے کی ہمت نہ تھی۔ خاموشی سے نہایت ہی احتیاط کے ساتھ ریکھا کو زمین پر اتار دیا۔ وہ دوڑتی ہوئی گھر اندر بھاگ گئی۔ میں ایک ٹک اسی کی طرف دیکھتا رہا۔
موہن نے میرے دل کی حالت سمجھ کر بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا، ’’پتاجی کہا کرتے تھے، جب مکھن تھا تب دانت نہیں تھے، اب دانت ہیں تو مکھن نہیں ہے۔‘‘
میں اب بھی اسی دروازے کو تک رہا تھا۔ جب موہن نے جب مجھے اندر چلنے کو کہا، تب میں نے روکھی سی آواز میں جواب دیتے ہوئے کہا، ’’میں یہیں بیٹھتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں برآمدے میں پڑے سن کی رسی سے بنے پلنگ کی طرف بڑھا۔ میں پلنگ تک پہنچتا، اس سے پہلے گھونگھٹ نکالے ایک عورت چادر ہاتھ میں تھامے ہوئے پلنگ کے پاس پہنچی۔
موہن نے اس سے چادر لیتے ہوئے کہا، ’’منہ کیوں ڈھک لیا ہے؟ یہ میرا دوست ہے، بھائی سے بڑھ کر۔‘‘
عورت نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی گھونگھٹ اٹھایا۔ خاموشی سے موہن کی چادر بچھانے میں مدد کرتی رہی۔ اور پھر میری طرف مخاطب ریکھا سے تکیہ لے کر پلنگ کے سرہانے رکھا اور پھر اندر چلی گئی۔
ریکھا کو دیکھتے ہی میں یہ جان گیا تھا کہ موہن کی بیوی سڈول اور اچھے نین نقش والی ہو گی۔ عورت کے ہاتھ اور پیروں کو دیکھ کر جانا کہ وہ گوری بھی تھی۔
میں پلنگ پر بیٹھا اور موہن کپڑے تبدیل کرنے اندر چلا گیا۔ ریکھا آہستہ آہستہ، رک رک کر میری جانب بڑھی اور میرے پاس پہنچ کر پوچھا، ’’میں اپنی گڑیا دکھاؤں۔‘‘
میں نے جھٹ سے کہا، ’’ہاں، ہاں لے آؤ۔‘‘
ریکھا جب واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں گڑیا نہیں، مٹھائی کی پلیٹ تھی۔ گھونگھٹ اوڑھے پیچھے سے اس کی ماں تپائی لے آئی۔ موہن نے تولیہ میری طرف بڑھا۔ میں منہ ہاتھ دھوکر پھر پلنگ پر بیٹھا تو ریکھا ہاتھ میں گڑیا لے کر، اٹھلاتی، بل کھاتی میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے گڑیا لیتے ہوئے کہا، ’’خوبصورت ہے۔‘‘
ریکھا نے پوچھا، ’’مجھ سے بھی خوبصورت ہے؟‘‘ میں ایک لمحے کے لیے تو لاجواب ساہو گیا۔
میں نے مٹھائی کا ایک ٹکڑا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’تم اس سے بہت اچھی ہو۔‘‘ ریکھا نے مٹھائی نہیں لی اور پیچھے کی طرف کھسکنے لگی۔
’’لے لو بیٹے، یہ تمہارے چچا ہیں نا؟‘‘ موہن نے اس سے کہا۔
ریکھا نے مٹھائی لی، گڑیا میرے پاس ہی چھوڑ کر گھر کے اندر چلی گئی۔
جب وہ باہر نکلی، تب دور سے ہی پوچھتی ہوئی آئی، ’’آپ مجھے کہانی سناؤ گے؟‘‘
میں نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا، ’’مجھے کہانی آتی ہی نہیں۔‘‘
’’ممی کہتی ہے آپ کو بہت کہانیاں آتی ہیں۔‘‘
’’تمہاری ممی کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
جواب موہن نے دیا، ’’میری بیگم کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتی ہے۔ میں نے تیری اتنی کہانیاں نہیں پڑھی ہوں گی، جتنی اس نے پڑھ رکھی ہیں۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا، ’’پھر بھی مجھ سے پردہ کرتی ہے۔‘‘
’’کہتی ہے اگلی بار ضرور گھونگھٹ ہٹائے گی اور آپ سے کہانیوں کے بارے میں کچھ سوال بھی پوچھے گی۔‘‘ موہن نے جواب دیا۔
میری زبان سے بے اختیار نکل گیا، ’’آج کیوں نہیں پوچھتی؟‘‘
ریکھا نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا، ’’کہانی سناؤ گے۔‘‘
’’ضرور۔‘‘
’’تو پھر سناؤ۔‘‘
’’سوتے وقت سناؤں گا۔‘‘
’’سوتے وقت تو ممی مجھے کہانی سناتی ہے، آپ ابھی سناؤ۔‘‘
’’آج تم ممی کی بجائے مجھ سے کہانی سننا۔‘‘
’’پھر میں تمہارے ساتھ سو جاؤں؟‘‘
میں اب بغلیں جھانکنے لگا، لیکن موہن نے مدد کی، ’’یہ روز ماں سے کہانی سنتی ہے اور پھر ماں کے پاس ہی ڈھیر بن کر پڑی رہتی ہے۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے ریکھا کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’تم میرے ساتھ سو جانا۔‘‘
رہ رہ کر ریکھا مجھے کہانی سنانے کا وعدہ یاد دلاتی رہی۔ ریکھا کی ماں کھانا کھاتے وقت میرے سامنے آئی، پر پہلے سے بھی لمبا گھونگھٹ نکال کر۔ مجھے ایک طرف اس کا گھونگھٹ کھٹک رہا تھا کہ اس میں چھپی ایک خوبصورت عورت۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایک قاری سے رو بہ رو ہونے کی خواہش بھی دوسری جانب بڑھ رہی تھی۔ پر زبان اتنی ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی کہ میں اس سے کچھ باتیں کر سکوں۔
کھانا کھانے نے کے بعد موہن نے کہا، ’’کھانا کھانے کے بعد، پان کھانے کی عادت تو ضرور اپنائی ہو گی؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘ میں نے مختصر ساجواب دیا۔
’’ہمیں تو عادت ہے، پان نہ کھائیں تو کھانا ہضم نہیں ہوتا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ برآمدے سے نیچے اترنے لگا۔
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے جواب دیا، ’’چلو تو پان بھی کھائیں گے اور دو چار قدم بھی چل آئیں گے۔‘‘
ریکھا نے دوڑ کر باپ کی انگلی تھام لی اور کہا، ’’دادا میں بھی چلوں گی۔‘‘
میں نے برآمدے والے پلنگ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، ’’تم جاؤ، میں بیٹھا ہوں۔ رات کے کھانے کے بعد مجھے گھومنے کی عادت نہیں۔‘‘
ریکھا نے باپ کو کھینچتے ہوئے کہا، ’’آپ کے لئے پان لاؤں؟‘‘
’’ضرور۔‘‘ میں نے بستر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
ان کے جانے کے بعد میرا دل اس وفادار قاریہ کا چہرہ دیکھنے اور دو لفظ کہنے کے لئے بیتاب ہو اٹھا۔ میں پلنگ سے اٹھ کر، گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھا، اچانک پیچھے سے آواز آئی، ’’میٹھا پان کھاؤ گے یا سادہ؟‘‘
میں نے چونک کر پیچھے دیکھا، ریکھا آدھے راستے سے دوڑتی، ہانپتی آئی تھی۔ میں نے ہڑبڑاہٹ میں کہا، ’’میٹھا۔۔۔ میٹھا پان لانا۔‘‘
ریکھا جیسے آئی تھی، ویسے ہی دوڑتی ہوئی چلی گئی۔ اب گھر کے اندر جانے کی میری ہمت جواب دے گئی۔
میں برآمدے کے پاس بنے اینٹوں کے چبوترے پر ٹہلتا رہا۔
ریکھا کی ماں ایک بار پھر میرے سامنے آئی، ہاتھ میں دودھ کا گلاس لئے ہوئے۔ اس کا گھونگھٹ نکلا ہوا تھا۔
میں نے اس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس نہ لیتے ہوئے کہا، ’’میں دودھ نہیں پیتا۔‘‘ وہ مڑ کر واپس چلی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’بھابھی، آپ کو میری کون سی کہانی پسند ہے؟‘‘
’’بھابھی۔‘‘ لفظ پر وہ رکی، مگر باقی جملہ سنے بغیر اور جواب دینے کے بجائے وہ جلدی سے اندر چلی گئی۔
سوتے وقت ریکھا میرے بستر پر آ بیٹھی۔ میں ہاتھ کو سر کے نیچے لئے لیٹا تھا۔ میری کمر پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی، ’’چچا، کہانی سناؤ۔‘‘
’’پھر تم میرے ساتھ سو جاؤ گی؟‘‘
’’ہاں، میں ماں سے پوچھ کر آئی ہوں۔‘‘
میں سیدھا ہو کر لیٹ گیا اور وہ میرے سینے پر اپناسر اپنی ہتھیلیوں پر ٹکا کر میرا چہرہ تکنے لگی۔
میں نے شروع کیا، ’’ایک تھا راجا۔۔۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’کھاتا تھا کاجو۔۔۔‘‘
اس نے بات بیچ میں ہی کاٹتے کہا، ’’اوہو، یہ کہانی میں نے کئی بار سنی ہے۔‘‘
میں نے تھوڑا سوچ کر پھر کہا، ’’ایک تھا راجا، اس کی اولاد ہی نہیں تھی۔۔۔‘‘
’’یہ کہانی ممی نے مجھے سنائی ہے۔‘‘
میں پھر سوچ میں پڑ گیا، اس نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے کہا، ’’چچا کہانی سناؤ نا۔‘‘
میں نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا، ’’ایک تھا راجا، اس کی سات بیٹیاں تھیں۔‘‘
وہ خفا ہوتے ہوئے بولی، ’’یہ کہانی بھی سنی ہوئی ہے۔‘‘
میں نے ہار مانتے ہوئے کہا، ’’مجھے اور کوئی کہانی نہیں آتی۔‘‘
ماں تو کہتی ہے، ’’آپ کہانیاں بناتے ہو۔۔۔‘‘
’’مجھے بادشاہوں کی کہانیاں نہیں آتی۔‘‘
اچانک اس نے کہا، ’’میں کہانی سناؤں؟‘‘
’’سناؤ۔‘‘
’’یہ کہانی ممی نے آج مجھے سنائی ہے۔‘‘
’’سناؤ تو سہی۔‘‘
’’پاکستان کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی۔ چچا، پاکستان بہت دور ہے نا؟‘‘
’’ہاں، تم کہانی سناؤ۔‘‘
’’وہاں ایک لڑکا آیا، اس گاؤں میں اس کے نانا نانی کا گھر تھا۔‘‘
تھوڑی دیر رک کر اس نے پھر کہا، ’’وہ دونوں ساتھ کھیلتے تھے۔ ادھڑن دادڑن کھیل کھیلا کرتے تھے۔ ادھڑن دادڑن کھیل کیا ہوتا ہے انکل؟‘‘
"تم نے اپنی ممی سے نہیں پوچھا؟‘‘
’’اس نے کہا اپنے چچا سے پوچھنا۔‘‘
’’جیسے آپ گڈے گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی ہو، ویسے ہی پہلے گاؤں میں لڑکے لڑکیاں گڈا گڑیا بنا کرتے تھے۔‘‘
’’لڑکے لڑکیاں گڈے گڑیا بنا کرتے تھے؟ پھر کیا ہوتا تھا؟‘‘
’’تم اپنی کہانی سناؤ۔۔۔‘‘
اس نے کچھ لمحے رک کر کہا، ’’لڑکا لڑکی کا دولہا بنا۔ لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ میں بڑا ہو کر تم سے شادی کروں گا۔ شادی کیا ہوتی ہے انکل؟‘‘
’’اپنی ممی سے پوچھ کر آؤ۔‘‘
’’ممی نہیں بتاتی ہے۔‘‘
’’تم پہلے اپنی کہانی سناؤ، پھر بتاؤں گا۔‘‘
’’لڑکا جب وہاں جاتا تھا، تب لڑکی کو ایسے کہتا تھا۔‘‘
میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’وہ کالج میں گیا، کالج کیا ہوتا ہے؟‘‘
میں نے بے چین ہو کر کہا، ’’تم کہانی سناؤ۔‘‘
’’لڑکے نے لڑکی کو بھلا دیا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’لڑکی آس لگائے بیٹھی رہی، آس کیا ہوتی ہے انکل؟‘‘
میرے چہرے پر پسینہا تر آیا۔ میں نے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا، ’’پھر آخر کیا ہوا؟‘‘
اس نے لفظوں کی ادائیگی پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’لڑکا پھر واپس نہیں آیا اور لڑکی کے ماں باپ نے اس کی شادی دوسری جگہ کر دی۔‘‘
میں گم صم سا رہ گیا، میری زبان کو تالے لگ گئے۔ اس نے شرارتی انداز میں کہا، ’’کہانی ختم ہوئی، اب ایک آنہ دو۔‘‘
میں نے ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بھی کوئی کہانی ہے؟‘‘
’’میں نے بھی ممی کو یہی کہا، ممی نے پہلی بار ایسی کہانی سنائی ہے، جس میں لڑکا لڑکی کی شادی نہیں ہوئی۔ میں نے ماں سے پوچھا، ’’لڑکے کا کیا ہوا؟‘‘
’’کیا کہا؟‘‘ میں نے گھٹی گھٹی آواز میں پوچھا۔
’’کہا، پہلے لڑکا بہت دودھ پیتا تھا، اب بالکل نہیں پیتا۔‘‘
میں بے اختیار اٹھ بیٹھا، میری حالت اس آدمی کی طرح تھی، جسے سانپ نے ڈسا ہو اور زہر اس کی رگ رگ میں پھیل کر اس کے جسم کے سبھی اعضاء کو اذیت دے رہا ہو۔
اسی وقت موہن باہر نکلا۔ مجھے پریشان دیکھ کر کہا، ’’ریکھا نے تجھے کافی پریشان کیا ہے۔‘‘
میں نے رو مال سے چہرہ پونچھتے ہوئے پوچھا، ’’گاندھی چوک کی طرف بس چلتی ہو گی؟‘‘
اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا، ’’ساڑھے دس بج گئے ہیں، بند ہو گئی ہو گی، پر کیوں؟‘‘
میں نے پلنگ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کہا، ’’ٹیکسی ملے گی؟ مجھے کسی سے ضروری ملنا ہے۔‘‘
موہن نے سنجیدہ لہجے میں کہا، ’’تم یہاں رات رہنے کا وعدہ کر کے آئے ہو۔‘‘
’’صبح وہ بڑودہ چلا جائے گا۔‘‘ میں نے کھڑے کھڑے کہا۔
ریکھا نے روتی سی آواز میں کہا، ’’چچا، تم جا رہے ہو؟ میرے ساتھ نہیں سو پاؤ گے؟‘‘
موہن نے کہا، ’’مصنف ہونا بھی مصیبت ہے۔‘‘
میں نے ریکھا سے کہا، ’’تم میرے ساتھ چلو گی؟‘‘
اس نے بے دھڑک ہو کر کہا، ’’ممی چلے گی تو میں بھی چلوں گی۔‘‘
میرا دل خراب ہو گیا، موہن نے کہا، ’’میں کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ اسٹیشن روڈ سے شاید کوئی ٹیکسی مل جائے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اندر چلا گیا۔ میں نے ریکھا کو گود میں لیتے ہوئے کہا، ’’ممی سے کہنا کہ لڑکی لڑکے سے شادی کر کے دکھی ہوتی، اب وہ بہت سکھی ہے۔‘‘
برآمدے کے دروازے کی اوٹ میں سے نسوانی آواز آئی، گویا وہ خود سے بات کرتے ہوئے کہہ رہی تھی، ’’مردوں کا، عورت کے سکھ کو ناپنے کا پیمانہ الگ ہے۔‘‘
میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ موہن کپڑے بدل کر آیا اور ساتھ میں میرا ویسٹ کوٹ بھی لیتا آیا۔ میں نے اسے پہنتے ہوئے برآمدے سے نیچے اترا۔
موہن نے ہنستے ہوئے کہا، ’’صبح کو اس سے نہیں مل سکو گے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ کہتے ہوئے میں آگے بڑھا، میرے پیچھے آتے آتے موہن کہتا رہا، ’’بچپن والی ضد کی عادت آج بھی تم میں موجود ہے۔‘‘
پیچھے سے ریکھا کی آواز آئی، ’’چچا، ٹاٹا۔۔ پھر کب آؤ گے؟‘‘
میں نے بغیر مڑے ہاتھ کے اشارے سے اسے الوداع کہا۔
٭٭٭
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول