FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

معاملہ ہنسنے ہنسانے کا

 

حصہ سوم

 

مجتبیٰ حسین

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حیدرآباد میں شادیوں کا موسم

 

 

 

جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اس بار رمضان کے پورے مہینے میں ہم نے کسی افطار پارٹی میں شرکت نہیں کی۔  اگرچہ اس فیصلے میں ہماری کچھ شخصی مجبوریاں بھی شامل تھیں لیکن ہم نے اس فیصلے کا سلسلہ تزکیہ نفس، صبر و تحمل، توکل اور فقر وغیرہ سے جوڑ لیا۔  شخصی مجبوریوں کو کوئی اچھا سا عنوان دیا جائے تو اپنی کوتاہیاں بھی پس پشت چلی جاتی ہیں اور لوگ الگ سے خوش ہوتے ہیں کہ چلو ایک گمراہ راہ راست پر آ گیا۔  مگر رمضان کے فوری بعد ہم دس بارہ دنوں کے لئے یوں ہی حیدرآباد چلے گئے تو احساس ہوا کہ وہاں اب بھی افطار پارٹیوں کی سی صورت حال برقرار ہے۔  اس لئے کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوتے ہی حیدرآباد میں شادیوں کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔  یوں لگتا ہے جیسے اس موسم کے اختتام پر حیدرآباد میں کوئی بیچلر باقی نہیں بچے گا۔  شادیوں کی وہ دھوم تھی کہ گلی گلی میں بینڈ باجے کا شور سنائی دیتا تھا۔  کہیں بارات جا رہی ہے، کہیں چوتھی کا کھانا ہو رہا ہے اور کہیں ولیمے کی دعوت کا اہتمام ہے۔  کہیں عقد کے چھوارے اچھالے جا رہے ہیں۔  لگتا تھا سارا شہر شادی خانے میں تبدیل ہو گیا ہے۔  جب احباب کو پتہ چلا کہ ہم حیدرآباد میں ہیں تو شادیوں کے دعوت نامے آنے شروع ہو گئے۔  بلا مبالغہ ایک دن تو ہمیں چار شادیوں میں شرکت کرنا پڑی۔  پانچویں شادی کی دعوت بھی آئی تھی لیکن ہم یہ عذر پیش کر کے وہاں نہیں گئے کہ شرعی اعتبار سے جب چار سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے تو کیوں نہ ہم شادیوں کی تقاریب میں شرکت کے معاملے میں بھی اسی اصول پر عمل کریں۔

شادیوں کے اس موسم میں جب بیچلر نوجوانوں کی فصل کاٹی جا رہی تھی تو ہمیں اپنی شادی کی بھی یاد آئی جو اب ایک قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔  تین برس اور گذر جائیں تو ہماری ازدواجی زندگی پر سے پوری نصف صدی گزر جائے گی۔  لیکن یقین مانئے جب ہماری شادی ہوئی تھی تو ہمیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ شادی کیوں کی جاتی ہے۔  خیر اس عمل کے باوجود پچھلے کئی برسوں سے ہمارا شمار شادی شدہ انسانوں میں ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم پیدا ہی شادی شدہ ہوئے تھے۔

اتنی طویل شادی شدہ زندگی کے آگے ہماری مختصر سی بیچلر زندگی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔  نہ بینڈ باجے کا شور سنائی دیا، نہ گھوڑی پر بارات نکلی اور نہ ہی اپنی نئی نویلی دلہن کو اس کے گھر سے اپنے گھر لے آئے کیونکہ ہم دونوں تو پہلے ہی سے ایک ہی گھر میں رہتے تھے بس گھر کے ایک کمرے سے نکل کر بارات دوسرے کمرے تک چلی گئی۔  اتنا ضرور یاد ہے کہ ہمارے نکاح کے وقت ایک قاضی بھی موجود تھا جو بے حد گیا گزرا اور از کار رفتہ تھا۔  نہایت دُبلا پتلا، مریل اور عمر رسیدہ۔  اس کا خیال آتا ہے تو ہمیں پطرس بخاری مرحوم یاد آتے ہیں۔  سنا ہے کہ پطرس بخاری نے اچانک اپنے کسی عزیز کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔  لاہور میں ان دنوں شادیوں کا موسم چل رہا تھا ایسے میں کسی مناسب قاضی کا ملنا دشوار تھا۔  پطرس بخاری کے ماتحتین نے بڑی تلاش و جستجو کے بعد ایک مریل اور عمر رسیدہ قاضی ڈھونڈ نکالا۔  اس کی حالت بھی ہمارے قاضی کی طرح ناگفتہ بہ تھی۔  قاضی کو جب پطرس بخاری کے سامنے پیش کیا گیا تو پطرس بخاری اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔  فرمایا ’’واہ کیا لاجواب قاضی پکڑ کر لے آئے ہو۔  اسے تو چھوارے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے‘‘۔  غرض ہماری شادی میں بھی ایسا ہی ایسا قاضی لایا گیا، چونکہ اونچا سنتا تھا اسی لئے ہمیں چار پانچ مرتبہ بہ آواز بلند ’’قبول کیا میں نے‘‘ کہنا پڑا۔  ہمیں یقین ہے کہ یہ قاضی اب بقید حیات نہیں ہو گا۔  کیونکہ ہماری شادی کے وقت ہی اس کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ غالباً اپنی زندگی کا آخری اور وداعی نکاح پڑھوا رہا ہے۔  اسے جو بھی فیس دی گئی اسے اس نے بے حیل و حجت قبول کر لیا۔  اس بات سے احساس ہوا کہ وہ دنیا اور دنیا کی چاہت سے بے نیاز ہو چکا ہے، اور دنیا سے ترک تعلق کرنے کی منزل میں داخل ہو چکا ہے۔  جس بے دلی کے ساتھ ہم نے شادی کی تھی کم و بیش اتنی ہی بے دلی کے ساتھ مندرجۂ بالا قاضی نے ہمارا نکاح بھی پڑھوایا تھا۔  گویا ہماری شادی ایک بے لوث سی سرگرمی تھی اور غالباً اسی کا فیض ہے کہ آج ہم ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔  جو لوگ بڑی توقعات اور ارمانوں کے ساتھ شادی کرتے ہیں ان کا انجام عموماً اچھا نہیں ہوتا۔  بڑی پرانی بات ہے کہ ہمارے ایک بے تکلف دوست شہاب الدین ہوا کرتے تھے۔  یونیورسٹی میں ہمارے ہم جماعت تھے۔  طالب علمی کے زمانے میں ہی شہاب الدین ایک خوش شکل ہم جماعت طالبہ کے عشق میں گرفتار ہو چکے تھے اور بعد میں اس سے شادی بھی کر لی۔  شادی کے بہت عرصہ بعد ایک دن بیگم شہاب الدین اچانک ہمیں مل گئیں، تو ہم نے شہاب الدین کا حال پوچھا۔  نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ بولیں ’’ایک زمانہ تھا جب شادی سے پہلے میں آدھی آدھی رات تک جاگ کر اس انتظار میں رہتی تھی کہ شہاب ہمارے گھر سے اپنے گھر کب واپس جائے گا، اور آج میں آدھی رات تک جاگ کر اس انتظار میں رہتی ہوں کہ شہاب کب اپنے گھر واپس آئے گا‘‘۔

حیدرآباد میں شادیوں کے حالیہ موسم کا ذکر کرنے بیٹھے تو ہمیں پچھلی کئی باتیں یاد آ گئیں۔  حیدرآباد میں شادیاں اب بڑے طمطراق اور شان و شوکت کے ساتھ ہونے لگی ہیں۔  براتی بھی اب ایسی سج دھج کے ساتھ آتے ہیں کہ بعض اوقات براتی اور دولہا میں فرق کرنا دشوار بن جاتا ہے۔  ایک بات ہم نے محسوس کی کہ قاضی صاحبان بھی اب وہ نہیں رہے جو پہلے کبھی ہوا کرتے تھے۔  کافی حد تک ماڈرن بن گئے ہیں۔  ماڈرن بننے کا مطلب یہ نہیں کہ سوٹ بوٹ یا جینس پہن کر آنے لگے ہیں۔  وہ ایسا لباس پہن ہی نہیں سکتے کیونکہ قاضی صاحبان کا ایک یونیفارم ہوتا ہے۔  تاہم اب یہ اپنی بڑھتی ہوئی مصروفیات کا اندراج کمپیوٹر میں کرنے لگے ہیں۔  حیدرآباد کے اسی حالیہ دورے میں ہم نے ایک شادی میں دیکھا کہ اول تو قاضی صاحب دیر سے تشریف لائے اور آتے ہی جلدی واپس جانے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے اور اس اثنا میں ان کا موبائل فون بھی بجنے لگا، ظاہر ہے کہ کسی اور شادی میں ان کا بے چینی سے انتظار ہو رہا تھا۔  آپ یقین کریں کہ وہ بمشکل تمام آدھا گھنٹہ شادی کی تقریب میں موجود رہے لیکن اس عرصے میں ان کے موبائل فون کی گھنٹی تین مرتبہ بجی۔  اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شادیوں کے حالیہ موسم میں قاضی صاحبان کتنے مصروف رہے۔  یوں بھی بیچلروں کی فصل کاٹنے کی ذمے داری انہی پر تو عائد ہوتی ہے بہت عرصے بعد حیدرآباد کی شادیوں میں شرکت کر کے ہمیں احساس ہوا کہ اب ضیافتوں کے لوازمات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔

ایک زمانے میں شادیوں کے دسترخوان پر حیدرآبادی لقمی کو وہی حیثیت حاصل رہتی تھی جو شادیوں میں قاضی صاحبان کی ہوتی ہے۔  یہ اور بات ہے کہ ہم نے جملہ چار شادیوں میں شرکت کی اور ہمیں کہیں بھی لقمی دستیاب نہ ہو سکی۔  اس کی جگہ اب مرگ اور رومالی روٹی نے لے لی ہے۔  ڈبل کا میٹھا بھی پس پشت چلا گیا ہے۔  اس خلاء کو آئس کریم اور خوبانی کے میٹھے سے پُر کیا جا رہا ہے۔  ترقی اچھی چیز ہے لیکن روایات کی پاسداری بھی تو ضروری ہے۔  کسی نے بتایا کہ شادیوں کے موسم میں اب شادی خانوں کی قلت بھی بُری طرح محسوس کی جانے لگی ہے۔  کئی کئی مہینے پہلے سے شادی خانوں کو بُک کرانا پڑتا ہے۔ شادی خانوں پر ہمیں یاد آیا کہ آٹھ دس برس پہلے ہمارے بزرگ دوست واسدیو پلے نے ملک پیٹ میں واقع اپنے وسیع و عریض گھر کو شادی خانے کے طور پر چلانے کا منصوبہ بنایا تھا۔  گھر تو ان کا خاصا بڑا تھا لیکن وہاں گاڑیوں کی پارکنگ کی مناسب گنجائش نہیں تھی۔  اس لئے کم لوگوں کے آنے کا اندیشہ تھا۔  انھوں نے اس سلسلے میں ہم سے مشورہ کیا تو ہم نے مذاق میں یہ تجویز پیش کی کہ زمانہ چونکہ تخصیص یعنی Specialisation کا آ چکا ہے اس لئے آپ اپنے شادی خانے کو مخصوص شادیوں کے لئے مختص کر دیں۔  پوچھا یہ مخصوص شادیاں کیا ہوتی ہیں۔  ہم نے کہا آپ اپنے شادی خانے کو ’عقد ثانی کا شادی خانہ‘ بنا دیں۔  اس لئے کہ بعض لوگوں کا عقد ثانی بھی تو ہوتا ہے۔  پھر پہلی شادی اور عقد ثانی میں وہی فرق ہوتا ہے جو پہلے دن دکھائی جانے والی فلم اور مارننگ شو میں دکھائی جانے والی فلم میں ہوتا ہے۔  عقد ثانی میں لوگ کم آتے ہیں۔  یوں پارکنگ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور آپ کا شادی خانہ خوب چل نکلے گا۔  ہم نے تو یہ تجویز مذاق میں پیش کی تھی، بعد میں ہمارے اسی دوست نے جب حیدرآباد سے فون پر اطلاع دی کہ وہ ہماری تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ہم نے بمشکل تمام انھیں ایسا کرنے سے روکا، ورنہ آج حیدرآباد میں عقد ثانی کا بھی ایک شادی خانہ موجود ہوتا۔  بہرحال جب شادیوں کے دعوت نامے ہمارے نام دھڑادھڑ آنے لگے تو ہم نے چار شادیوں میں شرکت کرنے کے بعد دہلی واپس چلے جانا ضروری جانا۔

٭٭٭

 

 

 

 

لو آج ہم بھی صاحبِ ویب سائٹ ہو گئے

 

 

بڑھاپا اپنے شباب پر ہے۔  ہر طرف صرف ماضی ہی ماضی پھیلا ہوا نظر آنے لگا ہے اور مستقبل تو اتنا سُکڑ گیا ہے کہ اس کا دکھائی دینا بھی بند ہو گیا ہے۔  اب جب کہ عمر کی نقدی ختم ہونے والی ہے اور میں ڈیلی ویج پر زندہ رہنے لگا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اب مجھ میں مزید بوڑھا ہونے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔  اور گنجائش ہے بھی تو مجھ میں جینے کی خواہش کا فقدان نظر آتا ہے۔  قویٰ مضمحل ہو چکے ہیں اور عناصر میں اعتدال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔  یہی قانون قدرت ہے اور صدیوں سے یہی ہوتا آیا ہے۔  اب میں نے ادبی محفلوں میں جانا بھی چھوڑ دیا ہے بلکہ لکھنا تک چھوڑ دیا ہے۔  گوشہ نشینی کی زندگی گذار رہا ہوں۔

ایسے میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ نے جب میرے بارے میں ایک ویب سائٹ بنانے کا فیصلہ کیا تو میرا ماضی اچانک روشن نظر آنے لگا کیونکہ میرا یہ ماضی اب ہمیشہ کے لئے ایک دستاویز کی شکل میں آنے والے مستقبل میں محفوظ ہو جائے گا۔  چار برس پہلے کی بات ہے میرے مدّاح اور مشفق ظہیر الدین علی خان، منیجنگ ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ نے ایک دن یونہی مجھ سے پوچھ لیا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی آپ کے پروگرام ہوئے ہیں کیا اُن کے ویڈیو کیسٹ آپ کے پاس محفوظ ہیں؟ ۔  میں نے کہا میں لا پرواہ اور غیر منظم آدمی ہوں، کیسٹ تو ہوں گے ضرور مگر اُنھیں ڈھونڈنا پڑے گا۔  یوں ظہیر الدین علی خان نے اپنے پیہم اصرار کے ذریعہ پچھلے چار برسوں سے مجھے ایک ایسے کام پر لگا دیا جس کے انجام دینے میں میرے عزیز دوست محمد تقی، ریٹائرڈ ڈیویژنل انجینئر (ٹیلی فون) نے میرا بہت ہاتھ بٹایا۔  ورنہ یہ میرے بس کا روگ نہ تھا۔  بہرحال دو سال کی تلاش و جستجو کے بعد ظہیر الدین علی خان نے پہلے تو میرے سارے ویڈیو کیسٹ کو، جو بھی دستیاب ہو سکے، اپنے ہاں ویڈیو سسٹم پر محفوظ کروا لیا۔  پھر کہا اب آپ اپنی ساری مطبوعہ کتابوں کے C.D. اپنے پبلیشروں سے حاصل کر لیجئے۔  یہ بھی ایک جان لیوا کام تھا۔  میں نے دست بستہ عرض کی ’’ظہیر میاں! آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘ بولے ’’آپ ایک بے نیاز آدمی ہیں۔  میں چاہتا ہوں کہ اب تک آپ کی جتنی بھی تصانیف چھپی ہیں وہ ایک ویب سائٹ کی شکل میں محفوظ ہو جائیں‘‘۔  بالآخر میں نے مزید دو سال کی جستجو کے بعد اپنے پبلیشروں سے ان کتابوں کی C.D. حاصل کیں۔  یہ کام مکمل ہوا تو ظہیر الدین علی خان کا اصرار بڑھا کہ اب میں اپنی وہ تصاویر بھی جمع کروں جو مختلف موقعوں پر لی گئی تھیں۔  یہ کام بھی میرے دوستوں محمد تقی اور سید امتیاز الدین کے تعاون سے پورا کر لیا گیا۔  آج بالآخر وہ مرحلہ بھی آ گیا جب اس ویب سائٹ کا اجراء عمل میں آ رہا ہے۔

حضرات! روزنامہ ’’سیاست‘‘ سے میرا رشتہ کچھ ایسا ہی ہے جو گوشت اور ناخن کے درمیان پایا جاتا ہے۔  اپنے ماضی کو کھنگالتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ سڑسٹھ برس پہلے میں علی گڑھ میٹرک کے امتحان کی تیاری کے سلسلہ میں اپنے بڑے بھائی محبوب حسین جگر کے ساتھ اُن کے حیدر گوڑہ والے مکان میں رہا کرتا تھا۔  اُن دنوں عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر دونوں ہی اپنی سرکاری ملازمتوں سے سبکدوش ہو کر روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے اجرا کی تیاریوں میں مصروف تھے۔  چنانچہ 15 اگست 1949 ء کو ’’سیاست‘‘ کا پہلا شمارہ لے کر جب محبوب حسین جگر صبح کی اولین ساعتوں میں گھر آئے اور کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے بستر پر لیٹ گئے تو میں نے اتنی دیر میں ’’سیاست‘‘ کے پہلے شمارہ کی پہلی کاپی کا مطالعہ کر لیا۔  گویا اس اعتبار سے مجھے روزنامہ سیاست کا اولین قاری ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔  انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کر کے میں 1953 میں گلبرگہ سے پھر حیدرآباد آیا تو سیاست نے اپنی زندگی کے چار سال مکمل کر لئے تھے۔  بی۔  اے کی تعلیم کے دوران ہی میں شام کے وقت سیاست کے کئی چھوٹے موٹے کام جیسے پروف ریڈنگ اور ترجمہ وغیرہ کرنے لگ گیا تھا۔  تاہم 1956ء میں، میں باضابطہ طور پر بحیثیت سب ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ سے وابستہ ہو گیا۔  مجھے بطور صحافی کام کرتے ہوئے چھ برس بیت گئے تو اچانک میری زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔  جولائی 1962 کے آخری ہفتہ کی کوئی تاریخ تھی۔  میں ’’سیاست‘‘ میں نائٹ ایڈیٹر کی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا کہ رات میں دس بجے کے قریب سیاست کے مزاحیہ کالم ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کے نامی گرامی کالم نگار شاہد صدیقی دفتر پر آئے۔  وہ غالباً معظم جاہ کے دربار سے ہو کر آئے تھے۔  آتے ہی میرے ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئے اور بولے ’’میرے لئے چائے منگوا دو‘‘ میں نے فوراً چائے منگوائی اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔  میں نے دیکھا کہ شاہد صدیقی نے اپنی جیب سے دوا کی دو گولیاں نکالیں اور اُنھیں میز پر رکھ کر چائے کا انتظار کرنے لگے۔  اتنے میں چائے آئی تو میں نے اُن کی طبیعت کا حال پوچھ لیا، بولے ’’کچھ نہیں۔  سب ٹھیک ہے‘‘۔  پھر اس کے بعد اپنے معمول کے رکشہ راں کے رکشہ میں بیٹھ کر اپنے گھر روانہ ہو گئے۔  اُنھیں گئے ہوئے بمشکل ایک گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ اُن کے برادر نسبتی وزیر حسین فاروقی کا فون آیا کہ شاہد صدیقی کا انتقال ہو گیا۔  اور یہ کہ گھر آتے ہوئے راستہ میں ہی ان کی موت واقع ہو گئی۔  آخری صفحہ کے نائٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے میں نے ہی ان کے انتقال کی خبر تیار کی۔  مجھے اندازہ نہیں تھا کہ شاہد صدیقی کے انتقال کی خبر چھاپنے کے ساتھ ساتھ میں اپنے اندر ایک مزاح نگار کے پیدا ہونے کی خبر بھی چھاپ رہا ہوں۔

شاہد صدیقی جیسے جیّد اور منجھے ہوئے مزاحیہ کالم نگار کے انتقال کے بعد اخبار کے انتظامیہ کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اب یہ مزاحیہ کالم کون لکھے۔  چنانچہ انتظامیہ نے حیدرآباد کے بعض ادیبوں اور صحافیوں سے یہ کالم لکھوانے کی کوشش کی مگر بات نہیں بنی۔  عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر کے ایک گہرے دوست ہوا کرتے تھے احمد رضا قادری جن سے اورینٹ ہوٹل میں میری بھی ملاقاتیں ہو جایا کرتی تھیں۔  ایک دن محبوب حسین جگر نے احمد رضا قادری سے مشورہ کیا کہ اس کالم کے لئے کونسا ادیب یا صحافی موزوں ہو سکتا ہے جس کی تحریر میں شوخی اور شگفتگی بھی موجود ہو۔  اس پر احمد رضا قادری نے کہا ’’تم اپنے بھائی مجتبیٰ حسین کو اس کام کے لئے کیوں نہیں آزماتے۔  میں نے دیکھا کہ اورینٹ ہوٹل کی جس میز پر بھی وہ بیٹھتا ہے وہاں لوگوں کو ہنسا ہنسا کے بے حال کر دیتا ہے‘‘۔  مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن جب میں حسب معمول سیاست کے دفتر اپنی ڈیوٹی پر پہنچا تو محبوب حسین جگر نے مجھے حکم دیا کہ میں دوسرے دن کا مزاحیہ کالم لکھوں۔  میرے لئے یہ ایک آزمائش کا مرحلہ تھا کیونکہ میں نے اس سے پہلے کبھی مزاح نہیں لکھا تھا۔  روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں محبوب حسین جگر کے منہ سے نکلی ہوئی بات حکم کا درجہ رکھتی تھی اور کوئی کارکن عدول حکمی کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔  لہذا میں نے اُن کے حکم کی تعمیل میں 12 اگست 1962ء کو دن میں ٹھیک ساڑھے دس بجے اپنی مزاح نگاری کا آغاز کیا۔  ابتدائی دنوں میں میرا کالم جگر صاحب کی سخت تنسیخ، تبدیلی اور ترمیم سے گذرتا تھا۔  بسا اوقات ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی۔  میں چونکہ ’’کوہ پیما‘‘ کے فرضی نام سے کالم لکھتا تھا۔  لہذا قارئین کو پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ یہ کالم کون لکھ رہا ہے۔  کچھ دنوں بعد لوگوں نے بصد اشتیاق جاننا شروع کیا کہ اصلی کالم نگار کون ہے۔  رفتہ رفتہ یہ کالم مقبول ہوتا چلا گیا اور یوں میری ہمت افزائی بھی ہونے لگی۔  مجھے کالم نگاری شروع کئے ہوئے ابھی چھ مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ مولانا عبدالماجد دریابادی کسی خانگی کام کے سلسلہ میں ایک ہفتہ کے قیام کے لئے لکھنؤ سے حیدرآباد آ گئے۔  حیدرآباد سے واپس جانے کے بعد مولانا نے اپنے رسالہ ’’صدق جدید‘‘ میں اپنے سفر حیدرآباد کا حال لکھا۔  ایک جگہ انھوں نے حیدرآباد کے اخبارات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ’’سیاست‘‘ کے تعلق سے لکھا کہ یہ ایک سنجیدہ اور سلجھا ہوا اخبار ہے اور اس اخبار کی ایک خصوصیت اس کا مزاحیہ کالم بھی ہے جو خوشگوار ہونے کے ساتھ ساتھ شائستہ اور مہذب بھی ہوتا ہے ورنہ اکثر لکھنے والے پھکڑ پن اور شائستگی کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے۔  مولانا عبدالماجد دریابادی جیسے جیّد عالم کی یہ رائے مجھ جیسے نوآموز کے لئے ایک سند کا درجہ رکھتی تھی۔  اس کے بعد میں نے مزاح نگاری کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور آج تریپن (53) برس بعد میری واحد شناخت صرف مزاح نگاری ہی رہ گئی ہے۔  میں نے اپنی مزاح نگاری کو صرف کالم نگاری تک محدود نہیں رکھا۔  جہاں ہزاروں کالم لکھے وہیں شخصیتوں کے سینکڑوں خاکے لکھے۔  کئی سفرنامے لکھے، ان گنت انشایئے لکھے، رپورتاژ نگاری بھی کی۔  گویا ہر صنف ادب میں مزاح کا تڑکا بھی لگایا۔  مجھے یہ کہتے ہوئے گہری مسرت ہوتی ہے کہ میں نے جب بھی کوئی نئی تحریر لکھی تو وہ سب سے پہلے ’’سیاست‘‘ ہی میں شائع ہوئی۔  مجھے یاد ہے کہ بہت عرصہ پہلے میرے ایک دوست نے کہا تھا ’’میاں! تم ایک زوال آمادہ زبان میں دن بہ دن ترقی کرتے چلے جا رہے ہو۔  اردو مر رہی ہے اور تم اردو ادب میں زندہ ہوتے جا رہے ہو‘‘۔  میرے دوست کا یہ تبصرہ چاہے کچھ بھی ہو مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اسی زوال آمادہ زبان کی وجہ سے ہوں۔  اسی غریب زبان کے حوالہ سے میں نے ہوائی جہازوں میں ملکوں ملکوں کی سیر کی اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام کیا۔  مجھے اس بات کا بھی فخر ہے کہ اسی ستم رسیدہ زبان کے حوالہ سے میری تحریریں کئی زبانوں میں شائع ہوئیں اور اسی زبان کے وسیلہ سے مجھے دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے بے شمار مدّاح اور بہی خواہ بھی میسر آئے۔

میں اس موقع پر ویب سائٹ کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔  جیسا کہ آپ جانتے ہیں موجودہ دور انفارمیشن ٹکنالوجی کے عروج کا دور ہے، آپ اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے دنیا کے کسی بھی گھر میں (جہاں کمپیوٹر ہو) داخل ہو کر اس گھر میں رہنے والوں کے سکون کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔  اچھی بُری ضروری اور غیر ضروری ساری معلومات کو ویب سائٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلایا جا سکتا ہے۔  لیکن ویب سائٹ کا اردو کلچر اور خاص طور پر اردو شاعری سے بظاہر کوئی تعلق پیدا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ شعر خوانی اُسی وقت بھلی معلوم ہوتی ہے جب خود شاعر کو یہ پتہ چلے کہ سننے والے پر اس کے کلام کا کیا اثر ہو رہا ہے۔  شاعر کو اس وقت تک سکون قلب حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ سننے والا اس کے کلام پر سبحان اللہ، ماشاء اللہ اور جزاک اللہ، بہت خوب بلکہ مکرر ارشاد کی تحسین آمیز صدائیں بلند نہ کرے۔  پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس تحسین کے جواب میں شاعر دوہرا ہو ہو کر سلام عرض کرتا چلا جائے اور سامعین کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر مزید داد کا طلبگار ہو۔  افسوس کہ ویب سائٹ پر یہ سارا ڈرامہ نہیں ہو سکتا۔  نہ داد دی جا سکتی ہے اور نہ ہی ہوٹنگ کی جا سکتی ہے۔  ویب سائٹ پر کسی شاعر کا کلام پڑھنے والا اپنی داد کے ذریعہ ویب سائٹ کے اندر یا باہر کوئی سماں نہیں باندھ سکتا۔  ویب سائٹ پر کسی کے کلام سے لطف اندوز ہونا ایسا ہی ہے جیسے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔  یہاں تالی دو ہاتھ سے نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے بجتی ہے۔

حضرات! ایک زمانہ تھا جب انسان کے جسم میں ہاتھ کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔  سردار جعفری نے کہا تھا ان ہاتھوں کی تعظیم کرو ان ہاتھوں کی تکریم کرو۔  مگر ٹکنالوجی کے اس دور میں ہاتھ کی نہیں بلکہ صرف ایک اُنگلی کی اہمیت رہ گئی ہے۔  کمپیوٹر پر ایک اُنگلی سے بٹن دباتے چلے جایئے اور دنیا بھر کا حال معلوم کر لیجئے۔  گویا سالم ہاتھ کی حیثیت اب صرف انگشت ششم کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔  وہ دن گذر گئے جب انگلی کو بُری چیز سمجھا جاتا تھا اور اس کے حوالہ سے انگشت نمائی کرنا، انگلی اٹھانا، انگلی رکھ دینا، انگلی پر نچانا، جیسے محاورے سماج میں رائج تھے مگر آج کے ترقی یافتہ انسان کے جسم میں اُسے ایک انگلی میسر آ جائے تو سمجھئے کہ دنیا اُس کی مٹھی میں آ گئی ہے۔

میں آخر میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ اور اس کے مدیر زاہد علی خاں صاحب کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھ جیسے گوشہ نشین کے بارے میں ایک مبسوط ویب سائٹ کو تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔  مجھے اس بات کا اطمینان ضرور ہے کہ میرا شخصی حافظہ جو اب تک صرف میری ذات کا حصہ تھا اب اس ویب سائٹ کے وسیلہ سے پھیل کر سارے اردو سماج کے ’’اجتماعی حافظہ‘‘ کا حصّہ بن جائے گا۔  یوں مجھے اب اپنا ماضی تاریک نہیں بلکہ روشن نظر آنے لگا ہے۔

برادر عزیز عابد صدیقی کا بھی ممنون ہوں کہ یہ تقریب اُن ہی کے بے حد اصرار اور کوششوں کے نتیجہ میں منعقد ہو رہی ہے ورنہ اب میں نے ادبی جلسوں سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔  میں نے جب جلسہ میں شریک ہونے سے معذرت کی تو عابد صدیقی کا استدلال یہ تھا کہ ’’جہاں روزنامہ سیاست آپ کو ویب سائٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلا رہا ہے وہاں ہم لوگ اس تقریب کے ذریعہ آپ کو کچھ دیر کے لئے سمیٹنا اور مقید کر دینا چاہتے ہیں‘‘۔  ان کے اس استدلال کو سن کر مجھے فلم مغل اعظم کے اُس مکالمہ کی یاد آ گئی جس میں شہنشاہ اکبر انارکلی سے کہتا ہے ’’انارکلی! سلیم تجھے مرنے نہیں دے گا اور ہم تجھے جینے نہیں دیں گے‘‘۔  بہرحال جو بھی ہو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔  سب سے آخر میں اپنے تاثرات کو ساحر لدھیانوی کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

( یہ مضمون مجتبیٰ حسین کی ویب سائٹ www/mujtabahusain.com کی افتتاحی تقریب 9؍اگست 2015 ء کو پڑھا گیا)

٭٭٭

 

 

 

 

ہم کرکٹ کا کھیل دیکھنے سے ریٹائر ہو گئے

 

 

کرکٹ کے کھیل میں ہم نے کبھی عملاً دلچسپی نہیں لی البتہ ہماری ٹیم کے رن نہ بنانے کی ’’رننگ کمنٹری‘’ ضرور سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ اچھے بھلے وقت کو اتنے وسیع پیمانے پر ضائع کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ آج تک ایجاد نہیں ہوا ہے۔  جس طرح کھیل کے کچھ آداب ہوتے ہیں اسی طرح رننگ کمنٹری کو دیکھنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔  پھر رننگ کمنٹری سننے یا دیکھنے کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اسے دیکھنے والا کبھی ’’ریٹائر‘‘ نہیں ہوتا۔  پچھلے چارد ہوں میں کرکٹ کے کتنے ہی کھلاڑی ہمارے دیکھتے دیکھتے آئے اور چلے گئے۔  چاہے وہ سنیل گواسکر ہوں یا کپل دیو۔  سب کے سب ریٹائر ہو گئے لیکن ہم ہیں کہ رننگ کمنٹری دیکھنے سے ریٹائر نہیں ہوئے۔  کبھی ہمیں دنیا والوں کے سامنے یہ شکایت کرنے کی حاجت نہ ہوئی کہ دنیا والو! دیکھو ہمیں رننگ کمنٹری دیکھنے سے ریٹائر کر دیا گیا ہے حالانکہ ہم اب بھی اچھے بھلے ہیں اور آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال دیکھنے اور سننے کے اہل ہیں۔  خیر یہ ایک الگ معاملہ ہے۔  آج ہمیں بیٹھے بٹھائے کرکٹ کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی نوبت اس لئے آئی کہ ادھر جب سے آسٹریلیا میں ہماری ٹیم ہارنے کے سارے ریکارڈ کر واپس آئی ہے، ہر کس وناکس ہماری ٹیم کے بارے میں کچھ نہ کچھ اظہار خیال کرنے کو ضروری سمجھ رہا ہے۔  پرسوں پریس کلب میں ہمارے ایک دوست مل گئے تو خود ہی بات چیت کو کرکٹ کے کھیل کی طرف لے گئے۔  کہنے لگے ’’میاں! ہمارے ملک میں کرکٹ کے کھیل کا کیا حشر ہو رہا ہے۔  حشر تو اور بھی کئی چیزوں کا اچھا نہیں ہو رہا ہے لیکن کم از کم کرکٹ کا تو یہ حشر نہیں ہونا چاہئے تھا۔  ہماری ٹیم آسٹریلیا میں لگاتار دو مہینوں تک ہارتی رہی اور ہم ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے اس ہار کو بڑے اہتمام اور ذوق و شوق سے دیکھتے رہے۔  اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری کرکٹ ٹیم میچ جیتنا تو بہت دور کی بات ہے ’ٹاس‘ جیتنے کی بھی اہل نہیں ہے۔  تم خود دیکھ لو کہ آسٹریلیا کے دورے میں ہماری ٹیم نے کتنی مرتبہ ’ٹاس‘ جیتا‘‘ ہم نے کہا ’’ٹاس جیتنا اور میچ کو جیتنا دو الگ چیزیں ہیں‘‘ بولے ’’ہماری ٹیم کو سب سے پہلے ٹاس جیتنے کی تربیت دی جانی چاہئے۔  کھیل کی تربیت کا نمبر تو بعد میں آئے گا۔  میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہماری ٹیم آخر آسٹریلیا کیوں گئی تھی اور اگر گئی تھی تو واپس کیوں آ گئی‘‘۔

ہم نے سوچا کہ ہمارے دوست کا غصہ نقطہ عروج پر ہے اسی لئے دوسرے ٹیبل پر چلے گئے جہاں دیپا مہتا کی فلم کے پس منظر میں شبانہ اعظمی کے سرمنڈوانے کے مسئلے پر بحث ہو رہی تھی۔  ذرا سوچئے کہ ہم لوگ کتنے غیر ضروری موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔  پچھلے کئی دنوں سے ہماری کرکٹ ٹیم کی ہار کے مسئلے پر ساری قوم بلاوجہ بحث کئے چلی جا رہی ہے۔  ہماری ٹیم کی ہار پر ہمیں تو کوئی افسوس نہیں ہوا۔  افسوس ہوا تو اس بات پر کہ ہماری ٹیم نے ہارنے میں اتنی عجلت اور پھرتی کیوں دکھائی۔  ہارنا ہی تھا تو ذرا اطمینان اور دلجمعی سے ہارتے۔  کم از کم دو بار تو ایسا ہوا کہ صبح میں آسٹریلیا نے کھیلنا شروع کیا۔  ہم نے سوچا کہ آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے کھیل کو کیا دیکھنا ہے۔  اتنی دیر میں کیوں نہ کچھ ضروری کام کر لئے جائیں۔  بازار جائیں، بجلی کا بل ادا کریں اور سارے کام نپٹا کر دوپہر میں اطمینان سے گھر واپس آ کر کھانا کھائیں اور پھر اطمینان سے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اپنے محبوب کھلاڑیوں کو کھیلتا ہوا دیکھیں۔  یوں بھی سارے کاموں سے فارغ ہو کر کرکٹ کے کھیل کو دیکھنے میں اور بھی لطف آتا ہے۔  لیکن دونوں مرتبہ ہم کاموں سے فارغ ہو کر گھر آئے اور ٹی وی آن کیا تو پتہ چلا کہ کھیل کے بجائے کوئی اور پروگرام دکھایا جا رہا ہے۔  ہم نے غصے سے کیبل والے کو فون کیا کہ ’’میاں کرکٹ کی بجائے یہ تم کون سا پروگرام دکھا رہے ہو۔  تم لوگ ڈھنگ سے کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘ کیبل والے نے کہا ’’جناب! ہم پر ڈھنگ سے کام نہ کرنے کا الزام عائد کرنے سے پہلے آپ اپنی کرکٹ ٹیم سے کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ ڈھنگ سے کیوں نہیں کھیلتی‘‘۔  ہم نے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ بولا ’’حضور ہماری ٹیم کھیلنے کے لئے آئی تھی ضرور لیکن اسے ہارنے کی اتنی جلدی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری ٹیم آؤٹ ہو گئی۔  یہ ضرور ہے کہ اس نے کرکٹ کے میدان میں سب سے کم اسکور بنانے کا ریکارڈ قائم کیا ہے‘‘۔  ظاہر ہے کہ کیبل والے کے اس جواب کو سن کر ہم شرمندہ ہو گئے حالانکہ ہم جیتنے کو اتنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ ہارنے کو نہایت اعلی و ارفع کام سمجھتے ہیں کیونکہ ہارنے سے آدمی کے ظرف میں اضافہ ہوتا ہے۔  ہارنے والا کچھ سوچتا ہے سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو پرکھتا ہے۔  جیتنے میں کیا رکھا ہے۔  جیتنے والا تو ہمیشہ نقصان میں رہتا ہے کیونکہ جیت سے اس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔  فخر، غرور، نخوت اور گھمنڈ کا مادہ بڑھ جاتا ہے اور یہ چیزیں ہماری تہذیب میں کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتیں۔  سچ تو یہ ہے کہ ہارنے کے لئے جتنے بل بوتے کی ضرورت ہوتی ہے اتنے بل بوتے کی ضرورت جیتنے کے لئے نہیں ہوتی۔  یہی وجہ ہے کہ ہماری ہمدردیاں ہمیشہ ہارنے والے کے ساتھ رہتی ہیں۔  چنانچہ پچھلے دنوں جب ہماری ٹیم آسٹریلیا سے ہار کر واپس آئی اور اسے ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا تو یقین مانئے ہمارا سینہ فخر سے تن گیا کیونکہ ان میں سے بعض کھلاڑی اچھے خاصے ہشاش بشاش بلکہ ہنستے بولتے نظر آئے۔  ہم جان گئے کہ ہماری ٹیم میں وہ حوصلہ اور وہ اعتماد پیدا ہو گیا ہے جو ہارنے کے بعد آدمی میں پیدا ہونا چاہئے۔  مگر بعد میں پتہ چلا کہ ہماری ٹیم کے بعض کھلاڑی چیلنجر کپ میں کھیلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔  سچن تنڈولکر نے کہا کہ وہ آرام کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ آرام کرنے کی ضرورت تو جیتنے والی ٹیم کو پیش آتی ہے۔  سورو گنگولی اور سری ناتھ نے بھی کسی چوٹ کا بہانہ کر کے کھیلنے سے معذوری ظاہر کر دی۔  یہ اچھی بات نہیں ہے۔  ابھی تو جنوبی افریقہ کی ٹیم سے ہمیں اپنی ہی سرزمین پر ہارنا ہے۔  ہماری ٹیم کے لئے ملک سے باہر جا کر ہارنے کا تجربہ کافی نہیں ہے۔  اسے اپنے لوگوں کے درمیان بھی ہارنا چاہئے۔  تبھی تو وہ ہار اور پے در پے ہاروں سے سبق حاصل کر سکے گی۔

مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں

چاہے کچھ بھی ہو آسٹریلیا میں ہماری ٹیم کی شکست فاش سے کچھ اچھے نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔  گلی کے وہ آوارہ لڑکے جو دل بھر بلے بازی کرنے کے شوق میں ہمارے گھر کی کھڑکیوں کے شیشوں کو توڑا کرتے تھے اب ذرا کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔  اور تو اور ہمارا وہ نواسہ جو پڑھنے لکھنے سے حتی الامکان دور رہنے لگا تھا اور کرکٹ کے کھیل کا دیوانہ بن رہا تھا اب بڑی مسکین سی صورت بنائے اپنے اسکول کی کتابیں پڑھنے میں مصروف نظر آتا ہے۔  اللہ اللہ کیا تبدیلی ہے! ہماری ٹیم نے ہار کے ذریعے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے، ورنہ ہم اپنی آنے والی نسل سے مایوس ہو چلے تھے۔

لہذا اب ہم نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سے ٹیلی ویژن پر کرکٹ کا کھیل نہیں دیکھیں گے۔  اگرچہ ہمیں کرکٹ کی رننگ کمنٹری سننے اور دیکھنے کا چالیس برس پرانا تجربہ ہے لیکن اس کے باوجود اب ہم نے ٹیلی ویژن پر کرکٹ کے کھیل کو دیکھنے سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔  اب تک جو کچھ دیکھا ہے وہ کچھ کم ہے جو ہم مزید دیکھیں۔  لہذا ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں سے گذارش ہے کہ وہ اب شوق سے ہارتے رہیں اور ہارنے کے معاملے میں ان کا مرحلۂ شوق کبھی طے نہ ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

سڑک کھودنے والے

 

ہم شخصی طور پر کھدائی کی اہمیت کے زبردست قائل ہیں بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ جو ہمارے سائنسداں آئے دن خلا کی تسخیر کے پروگرام بناتے جا رہے ہیں اور نئے نئے سیاروں کی خبر لا رہے ہیں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔  ایسا نہیں ہے کہ ہم سائنسی تجربات کے ذریعے خلا کے بارے میں انسان کی معلومات میں اضافے کے خلاف ہیں۔  بیشک انسان کی سائنسی معلومات میں اضافہ ہونا چاہئے لیکن انسان کو بنیادی طور پر زمین سے جڑے رہنا چاہئے اور یہی سچی انسانیت ہے۔  انسان کی تاریخ میں خیالی اور خلائی باتوں کے مقابلے میں زمینی سچائیوں کی ہمیشہ اہمیت رہی بلکہ جب تک آدمی کے پاؤں زمین پر ٹکے رہتے ہیں اس کی دماغی حالت بھی نارمل رہتی ہے۔  ہر مسئلے کا حل ہوائی باتیں کرنے سے نہیں نکلتا بلکہ مسئلے کی گہرائی میں جانے پر نکلتا ہے۔  یوں بھی آدمی آسمان کی طرف اُسی وقت جاتا ہے جب وہ زمین کے نیچے چلا جاتا ہے یا زمین کا حصہ بن جاتا ہے۔  اسی لئے آدمی کو زمین کا رزق ہی کہا جاتا ہے لہذا کروڑوں برس سے انسان براہِ زمین آسمان کی طرف جاتا رہا ہے۔  مانا کہ زمین پر جب بھی آفت آتی ہے تو آدمی آسمان کی طرف دیکھتا ہے لیکن جب تک دانہ خاک میں نہیں ملتا وہ گل و گلزار نہیں ہوتا۔  اس لئے صوفیائے کرام نے خاک نشینی کو ہمیشہ اعلی و ارفع مقام عطا کیا۔

معاف کیجئے ہم جب بھی کوئی ہلکی پھلکی بات کرنا چاہتے ہیں تو نہ جانے کیوں سنجیدہ باتیں بلکہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔  یہی دیکھئے کہ آج ہم نے یہ کالم اس ارادے سے لکھنا شروع کیا تھا کہ یہ جو برسات کے حالیہ موسم میں جگہ جگہ سڑکوں پر گہرے کھڈ پڑ گئے ہیں جن میں پانی بھرا رہتا ہے اور جگہ جگہ ڈرینیج پائپ بچھانے کی خاطر کھدائیاں ہو رہی ہیں تو ان کی وجہ سے سڑکیں آدمی کے استعمال کے قابل نہیں رہ گئی ہیں اور بلا مبالغہ پرسوں ہی ہم نے پرانے شہر کے ایک علاقے میں یہ منظر دیکھا کہ لوگ سڑکوں کی بجائے مکانوں کی چھتوں پر سے گزر رہے ہیں اور ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جو عموماً بندر درختوں پر کرتے رہتے ہیں۔

بہرحال سڑکوں پر ہونے والی تکلیف دہ کھدائیوں کو دیکھ کر ہمارا ذہن زمین کی گہرائی اور خلا کی وسعتوں کی طرف چلا گیا اور وہاں سے تصوف کی طرف نکل گیا۔  جب آدمی سڑکوں پر چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا تو وہ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے تصور کے راستوں پر نکل جاتا ہے جہاں نہ ٹریفک جام ہوتی ہے نہ مین ہول کے ڈھکن کھلے رہتے ہیں اور نہ کسی گہرے کھڈ میں گرنے کے بعد ملک الموت کو وہیں بلوا سکتا ہے۔  بخدا ہم کھدائیوں کے خلاف نہیں ہیں۔  ماہرین آثار قدیمہ نے نہ جانے کتنی ہی تہذیبیں زمین کے نیچے سے کھود کر برآمد کی ہیں۔  ہڑپّا و موہنجودارو، بابل و نینوا، مصر، جنوبی امریکہ اور وسط ایشیا کی کتنی ہی تہذیبیں زمین کے نیچے صدیوں سے آرام کر رہی تھیں جنھیں ماہرین آثار قدیمہ نے کھود کر نکالا۔  یہ کھدائیوں کی ہی دین ہے کہ مشرق وسطی میں زمین کے نیچے سے جگہ جگہ تیل کے چشموں کا سراغ مل سکا، سینکڑوں معدنیات زمین کے نیچے سے برآمد کی جاتی ہیں۔  جن کی خاطر زمین کی گہرائی میں جانا نہایت ضروری ہوتا ہے۔  پچھلے زمانے میں جب بینک نہیں ہوا کرتے تھے تو عام آدمی اپنی دولت بسا اوقات زمین کے نیچے ہی دفن کر کے رکھتا تھا۔ قدیم داستانوں کے مطابق بعض افراد اپنے فرمانبردار جنوں اور آسیبوں کو بوتلوں میں بند کر کے زمین میں دفن کر دیتے تھے۔  کھدائی کے بعد کبھی کوئی غلطی سے بوتل کو کھول دیتا تھا تو بوتل کا جن دہاڑتے ہوئے بوتل سے باہر نکلتا تھا اور کہتا تھا ’’میرے آقا آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔  بتایئے کیا چاہئے؟‘‘۔  افسوس کہ ہمیں ایسی بوتل اور ایسا جن کبھی نہیں ملا ورنہ ہم بھی اس سے کچھ ضروری چیزیں جیسے سبزی، دال، سگریٹ اور تیل وغیرہ بازار سے منگوا لیتے۔

کھُدائی اگر کسی خاص مقصد یا نصب العین کے تحت کی جائے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔  اگر آدمی ایسی کھُدائیاں نہ کرتا تو زمین کے اوپر انسان کا زندہ رہنا دشوار ہو جاتا۔

لیکن یہ جو آئے دن سڑکوں پر انواع و اقسام کی کھُدائیاں ہوتی رہتی ہیں تو ہمیں ان پر ضرور اعتراض ہے۔  ہمارے شہر کی زخمی سڑکیں جا بجا لہولہان ہو چکی ہیں۔  پتہ نہیں انھیں کون کھودتا ہے اور ان میں کھڈ پیدا کر کے چلا جاتا ہے۔  ہمارے گھر کے سامنے کی سڑک چونکہ حالیہ برسات کے بعد چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہ گئی ہے اسی لئے ہمیں مجبوراً اپنا وقت گھر پر ہی گزارنا پڑتا ہے۔  تاہم پچھلے ہفتے ہم نے اپنے لئے ایک مصروفیت یہ نکال لی کہ جب بھی کوئی پھاؤڑا اور کدال لے کر سڑک پر مصروف عمل نظر آیا ہم نے اس سے ضرور یہ پوچھا کہ وہ کون سے محکمے سے تعلق رکھتا ہے اور سڑک کو کیوں کھود رہا ہے۔  چنانچہ کچھ لوگ ایک ساتھ مل کر ہمارے گھر کے سامنے کی سڑک کو کھودنے آئے تو ہم نے ان کا سلسلہ حسب نسب پوچھ لیا۔  معلوم ہوا کہ محکمہ بلدیہ کی طرف سے آئے ہیں۔  جب پوچھا کہ وہ سڑک کو کیوں کھود رہے ہیں تو نہایت مودبانہ انداز میں جواب دیا ’’ہمیں کیا معلوم کہ ہم یہ سڑک کیوں کھود رہے ہیں۔  اس کے بارے میں ہمارے عہدیداران سے پوچھئے۔  ہمارا کام تو صرف کھودنا اور حکم کی تعمیل کرنا ہے‘‘۔  اور ہم اس جواب سے مطمئن ہو گئے کیونکہ بلدیہ کا کام ہی کھودنا ہے اور اگر کوئی کھودنے سے منع کرے تو اعتراض کرنے والے کو کھودے ہوئے گڑھے میں گرا کر دفن کر دینا ہے۔  دوسرے دن ہماری سڑک پر کچھ لوگ پھر مصروف عمل نظر آئے تو پوچھنے پر پتہ چلا کہ ٹیلی فون کے محکمے سے آئے ہیں۔  اتفاق سے ہمارا ٹیلی فون اس دن خراب تھا۔  ہم نے ایک مزدور سے کہا ’’میاں اچھے وقت آئے۔  ذرا ہمارا ٹیلی فون ہی ٹھیک کر دو‘‘ بولا ’’ٹیلی فون کے لائن مین الگ ہوتے ہیں۔  ہم تو صرف کھُدائی والے لوگ ہیں‘‘۔  ہم خاموش ہو گئے تو تیسرے دن سڑک پر جو لوگ نمودار ہوئے وہ بجلی کے محکمے کے نکلے۔  چوتھے دن آب رسانی والے پھاوڑا اور کدال لے کر آ گئے اور ہمارے گھر کے سامنے جو تھوڑی بہت سڑک باقی رہ گئی تھی اُسے کھودنے لگے۔  ہم نے کہا ’’ظالمو! بھلے ہی ہمارے چلنے کے لئے کوئی سڑک باقی نہ رکھو لیکن کل کے دن کوئی بھولا بھٹکا محکمہ سڑک کھودنے آئے تو ہمیں اس قابل تو رکھو کہ اس مہمان محکمے کی خدمت میں تھوڑی سی سڑک کھودنے کے لئے پیش کر دیں‘‘۔  مگر وہ باقی ماندہ سڑک بھی کھود کر چلے گئے۔

اگلے دن ایک بزرگوار اچانک چلے آئے اور ہماری کھدی ہوئی سڑک پر زور و شور سے کدال چلانے لگے۔  ہم نے پوچھا ’’قبلہ! آپ کس محکمے سے آئے ہیں اور کھدی ہوئی سڑک کو کیوں کھود رہے ہیں‘‘ بولے ’’جناب! ویسے تو میرا تعلق محکمہ بلدیہ سے رہا ہے جس کا کام ہی اچھی بھلی سڑکوں کو کھودنا ہے۔  میں کل ہی بلدیہ کی ملازمت سے ریٹائر ہوا ہوں‘‘۔  ہم نے کہا ’’تو پھر تم آرام سے گھر میں بیٹھو اور عیش کرو‘‘ بولے ’’کیا کروں پچھلے چالیس برسوں کے عرصے میں صرف سڑکیں ہی کھودتا رہا۔  اب سڑکیں کھودنے کی عادت ہو گئی ہے بلکہ سڑکیں کھودنا میری زندگی کا نصب العین ہے۔  سڑکیں کھودنا ہی میری عادت ہے اور تپسیّا ہے‘‘۔  ایسے ہی ایک بے لوث، قلندر صفت اور بے غرض کھودنے والے کی یاد ہمیں آ گئی۔  سنا ہے کہ ایک شخص کھُدائی کرنے لگا تو کھودنے کے جوش میں اسے یاد نہیں رہا کہ وہ زمین کو کھودتے کھودتے کہاں تک نیچے پہنچ گیا ہے۔  شام ہوئی اور اندھیرا چھانے لگا تو دیکھا کہ زمین میں وہ اتنا نیچے چلا گیا ہے کہ اب اپنے طور پر باہر نکلنے کے قابل نہیں رہ گیا ہے۔  بہت چیخا چلایا لیکن کسی کے کانوں میں اُس کی آواز نہیں پڑی۔  رات بڑھی اور ایک شرابی کا ادھر سے گزر ہوا تواس نے اس غریب کی آواز سنی۔  گڑھے میں جھانک کر دیکھا تو اُسے معلوم ہوا کہ ایک آدمی اندر پھنسا ہوا ہے۔  شرابی نے لڑکھڑاتے ہوئے پوچھا ’’بھیّا کیا چاہتے ہو؟‘‘ آدمی نے جواب دیا ’’میں اس گڑھے میں پھنس گیا ہوں اور باہر نکلنے کے قابل نہیں ہوں۔  مجھے کسی طرح باہر نکالو۔  میں سردی کے مارے ٹھٹھر رہا ہوں‘‘۔  شرابی نے گڑھے کے اندر مٹی ڈالتے ہوئے کہا ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ تم پر مٹی نہیں ڈالی گئی ہے۔  تبھی تو تم سردی کے مارے ٹھٹھر رہے ہو۔  میں ابھی تم پر مٹی ڈالوں گا جب مٹی سے پوری طرح ڈھک جاؤ گے تو ہمیشہ کے لئے سردی سے نجات پا جاؤ گے‘‘۔

بہرحال حکومت کے بعض محکموں کا کام ہی سڑکوں کو کھودنا ہے۔  انھیں اپنا کام کرنے دو۔  ہمارے ہاں بعض محکمے ایسے ہیں جہاں کوئی کام نہیں ہوتا۔  یہ کم از کم سڑکیں تو کھودتے ہیں۔  ویسے مجموعی طور پر حکومت کا کام ہی عوام کی قبریں کھودنا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

روشن ماضی اور تاریک مستقبل

 

 

 

ہمارے ایک خیر خواہس۔ ح۔  ایاز نے جو حیدرآباد کے محلہ ملے پلی میں رہتے ہیں، ایک خوبصورت خط لکھتے ہوئے ایک دلچسپ موضوع کی نشاندہی فرمائی ہے اور ہم سے خواہش کی ہے کہ ہم اس موضوع کے بارے میں اپنے ناچیز خیالات (ان کی نظر میں فکر انگیز خیالات) کا اظہار کریں۔  اصل موضوع کی نشاندہی کرنے سے پہلے انھوں نے خط میں ہماری مزاح نگاری کی تعریف میں کچھ ایسے بے مثال اور فکر انگیز کلمات لکھے ہیں جوکسی زمانے میں روشنائی کے دستیاب ہونے کے باوجود سنہرے حروف میں لکھے جاتے تھے۔  اگر خدانخواستہ ہم ان کی تعریف پر ایمان لے آئیں تو یقین مانئے ان کی خیرخواہی ہمارے حق میں بد خواہی کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔  وہ تو اچھا ہے کہ خدا نے ہمیں مزاح کی بیش بہا دولت سے مالا مال کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنی اور انسان دونوں کی اصلیت اور حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔  اس لئے تعریف کے جال میں بالکل نہیں پھنستے۔  اب ہم یہ نہیں بتائیں گے کہ ہمارے بارے میں ان کے خیالات کتنے اعلی اور احساسات کتنے ارفع ہیں۔  اگر کوئی آپ کی اتنی تعریف کرے تو یقیناً آپ خوشی سے پاگل ہو اٹھیں گے۔  لیکن ہمارا معاملہ جداگانہ ہے کیونکہ من آنم کہ من دانم۔  بہ ایں ہمہ ان کے حق میں ہمارے دل سے یہ دعا نکلتی رہے گی کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔  بہرحال انھوں نے جس موضوع کی نشاندہی کی ہے اس کا ذکر ان ہی کی زبان سے سنئے:

’’ان چند عقیدتمندانہ کلمات کے بعد اصل موضوع کی طرف آنے کی اجازت چاہتا ہوں۔  آج کل شہر اردو (حیدرآباد) کی ادبی محفلوں میں شریک ہونے والا ہر صدر، خصوصی مہمان، اہم مقرر اور مقالہ نگار پتہ نہیں کیوں یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماضی (قریب یا بعید) سے ہی اس کو پہچانا جائے (جبکہ ماضی کی کوئی حیثیت اس کے ساتھ نہیں ہے ) ادبی جلسوں کے دعوت ناموں میں بھی اہم شخصیتوں کے ساتھ برسوں پرانے عہدے یا گزشتہ سماجی، سیاسی یا ادبی رشتے کا ذکر ہوتا ہے اور ناظم جلسہ بھی انھیں ان ہی القاب سے متعارف کراتا ہے۔  مثلاً سابق وائس چانسلر، سابق وزیر، سابق ایم پی، سابق صدر اقلیتی کمیشن، سابق صدر اکادمی وغیرہ اور اس طرح ایسی شناخت جو قصۂ پارینہ بن چکی ہے، ان کی حالیہ شناخت بن جاتی ہے۔  مجھ جیسے ذہنوں میں عجب کلبلاہٹ سی ہوتی ہے کہ کیا ان سابقہ اہم شخصیتوں کے پاس امروز کی کوئی قابلِ ذکر بات نہیں رہ گئی ہے کہ وہ اس سے متعارف کرائے جا سکیں۔  یہ روایت اب عام ہو چکی ہے۔  ویسے اگر حال کو ماضی کا پیراہن دینے کی روایت ناقابل تنسیخ قانون بن جائے تو پتہ نہیں کیسی کیسی الجھنیں پیدا ہوں گی اور کیا کیا مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔  مثال کے طور پر کوئی مطلقہ خاتون اگر اپنی دوسری شادی کے بعد بھی اپنے پچھلے شوہر کے نام کے ذریعے متعارف ہونے پر اصرار کرے تو کیا موجودہ شوہر اس کو برداشت کر پائے گا‘‘۔

ہم س ح ایاز صاحب کے ممنون ہیں کہ انھوں نے اس موضوع کی نشاندہی فرمائی لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس موضوع کی طرف پہلے کبھی ہمارا دھیان نہ گیا ہو۔  ہم تو خود ایسی باتوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔  اصل میں ہمارا معاشرہ سابقوں اور لاحقوں کا معاشرہ ہے۔  ہمارے ہاں صرف نام سے کام نہیں بنتا بلکہ جب تک نام سے پہلے یا بعد میں کوئی دُم چھلہ نہ لگایا جائے تب تک کسی کی پہچان یا تو مکمل نہیں ہوتی یا اگر مکمل ہوتی بھی ہے تو اس شخص کی تشفی نہیں ہوتی جس کی پہچان کرائی جا رہی ہو۔  آخر وہ بھی تو جاننا چاہتا ہے کہ وہ اصل میں ہے کون۔  وہی ہے، کوئی ایرا غیرا تو نہیں ہے۔  مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار کسی فوجی مہم پر جاتے ہوئے انھوں نے اچانک اپنے سپہ سالار سے پوچھ لیا ’’میرا گھوڑا کہاں ہے؟‘‘ سپہ سالار نے دست بستہ عرض کی ’’حضور! آپ تو اس وقت بہ نفس نفیس اپنے ہی گھوڑے پر سوار ہیں۔  اس بارے میں آپ نے مجھ ناچیز کی رائے جاننے کی زحمت کیوں گوارا کی‘‘۔  اس پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جواب دیا ’’وہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ میں اپنے ہی گھوڑے پر سوار ہوں لیکن کبھی کبھی دوسروں کی رائے جان لینا بھی اچھا ہوتا ہے۔  رموز مملکت تم کیا جانو‘‘۔  یہی حال ان سابق مقتدر ہستیوں اور سربرآوردہ اصحاب کا ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ خواب میں بھی اپنے سابق عہدوں پر سوار رہتے ہیں لیکن پھر بھی لوگوں سے اپنے اطمینان قلب کی خاطر پوچھ لیتے ہیں کہ بتاؤ میں ماضی میں کیا تھا۔  اب آپ سے کیا چھپائیں کہ پچھلے دنوں ہمارے پاس ایک صاحب کا خط آیا ہے جس میں انھوں نے ہمیں ’’سابق مزاح نگار جناب مجتبیٰ حسین‘‘ لکھ کر مخاطب کیا ہے۔  ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے کیونکہ ہم دنیا کی بے ثباتی اور ہر شے کے فنا ہو جانے کے قائل ہیں۔  اللہ نے چاہا تو ایک دن ہم بھی سابق مزاح نگار بن جائیں گے۔  سنا ہے کہ ایک صاحب جب کسی کو خط لکھتے تھے تو آخر میں بربنائے انکسار اپنے نام کے ساتھ ’’ننگِ اسلاف‘‘ ضرور لکھا کرتے تھے۔  دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی انھیں ’’ننگِ اسلاف فلاں ابن فلاں‘‘ لکھنا شروع کر دیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ انھوں نے بھی اس پر کوئی اعتراض کرنا ضروری نہیں سمجھا۔  جیسا کہ ہم نے کہا ہے ہمارا معاشرہ سابقوں اور لاحقوں کا معاشرہ ہے۔  ایک زمانے میں اہل علم اور مقتدر ہستیوں کو شمس العلماء اور خان بہادر یا رائے بہادر وغیرہ کے خطابات دئے جاتے تھے اور یہ خطابات ان کے ناموں کے ساتھ سابقوں کے طور پر لکھے جاتے تھے۔  بعد میں ان کی سماجی حیثیتوں کے لاحقوں کا نمبر آتا تھا اور نام اتنا لمبا ہو جاتا تھا کہ اسے زبان پر لاتے ہوئے بسا اوقات بولنے والے کا سانس اکھڑ جاتا تھا۔  مغربی ادب نے بڑی بڑی ہستیاں پیدا کیں لیکن نہ تو شیکسپئر کو کبھی شمس العلماء کہا گیا اور نہ ہی مارک ٹوئین کو خان بہادر یا ڈاکٹر جانسن کو بحر العلوم کہا گیا۔ یہ چونچلے تو خود ہم نے اپنی انا کی تسکین کے لئے پیدا کر رکھے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ہم نے ماضی کے حوالوں کا مذاق نہ اُڑایا ہو۔  ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنے کالم میں ایک سابق وزیر کا ذکر کیا تھا۔  جب تک یہ برسراقتدار رہے لوگ جلسوں میں ان کے نام کے ساتھ ’’عزت مآب‘‘ ضرور لگا دیتے تھے لیکن جب اقتدار کی کرسی ان سے چھن گئی تو ہم نے دیکھا کہ ایک جلسہ میں ناظم جلسہ انہیں بار بار ’’سابق عزت مآب فلاں ابن فلاں‘‘ کہہ کر مخاطب کر رہا ہے اور ساتھ میں ’’سابق وزیر‘‘ کا حوالہ بھی دے رہا ہے۔

قصہ در اصل یہ ہے کہ ہم ماضی پرست لوگ ہیں اور اردو معاشرہ تو ان دنوں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ماضی پرست بنتا چلا جا رہا ہے۔  اس لئے کہ ہمارا جو حال ہے وہ بے حال ہے بلکہ بدحال ہے اور مستقبل ایسا ہے جو نظر نہیں آ رہا ہے۔  جب حال خراب ہو اور مستقبل نظر آنا بند ہو جائے تو آدمی مجبوراً اُلٹے پاؤں ماضی کی طرف لوٹتا ہے۔  اس لئے کہ اسے کسی نہ کسی دور میں تو جینا ہی پڑتا ہے۔  ہمارے معاشرے کے اکثر اصحاب خود اپنے کارناموں کے حوالے سے اپنا ذکر نہیں کرتے (کارنامے ہوں تو ذکر بھی کریں ) بلکہ اسلاف کے کارناموں کو یاد کر کے دن گزارتے ہیں لہذا کچھ لوگ اگر خود اپنے سابقہ عہدوں اور کارناموں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔  ہمیں تو یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ لوگ بھی ہمارے درمیان سے اُٹھ گئے تو ہمارے پاس کیا باقی رہ جائے گا۔

ہم نے ایک قبرستان میں ایک قبر پر ایسا کتبہ بھی لکھا ہوا دیکھا تھا جس میں نہ صرف مرحوم کا نام بلکہ ان کے اسلاف کے کارناموں کا تفصیلی ذکر تھا۔  ان کی تعلیمی قابلیت اور عملی تجربے کا بیان بھی موجود تھا اور آخر میں نہ صرف ان کا مکمل پتہ موجود تھا بلکہ ان کا ٹیلی فون نمبر بھی درج تھا۔  وہ تو اچھا ہوا کہ اس وقت تک موبائل فون کا رواج عام نہیں ہوا تھا ورنہ موبائل فون نمبر بھی درج ہوتا۔  یوں لگتا تھا جیسے یہ کتبہ نہیں ہے بلکہ جنت کی کسی حور کے نام بھیجی گئی مرحوم کی ’’اسم نویسی‘‘ ہو۔ س ح ایاز صاحب نے اپنے خط میں یہ بھی پوچھا ہے کہ اگر کوئی مطلقہ خاتون دوسری شادی کے بعد بھی اپنے سابقہ شوہر کے نام کے حوالے سے پہچانے جانے پر اصرار کرے تو کیا ہو گا۔  اس معاملے میں ہم اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتے کہ کوئی رائے دے سکیں۔  اس لئے کہ شادی کا بندھن بھی اب ویسا نہیں رہا جیسا کہ کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا۔  پچھلے زمانے میں لوگ ایک مقدس سماجی بندھن کے طور پر ضرورتاً شادی کرتے تھے اب تفریحاً شادی کرنے لگے ہیں۔  یہ مذاق نہیں ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ایک قریبی دوست نے کچھ عرصہ پہلے دوسری شادی کی تو اُن کی شادی کا دعوت نامہ ان کی پہلی بیوی کی طرف سے آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ میرے شوہر کی شادی فلاں تاریخ کو فلاں صاحبہ سے ہونے والی ہے۔  اس تقریبِ سعید میں آپ کی شرکت میرے لئے باعثِ مسرت ہو گی۔  کیا کریں ان دنوں معاملات دل بھی یکسر بدل گئے ہیں۔  اس لئے ہم اس خصوص میں کوئی اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اسراف کی اُبکائیاں

 

 

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ماہرین معاشیات عموماً نہایت صدق دل سے اور سیاسی و سماجی رہنما خصوصاً منہ دکھاوے کے طور پر عوام الناس کو آئے دن مخلصانہ مشورے دیتے رہتے ہیں کہ وہ اسراف سے حتی الامکان گریز کرنے اور کفایت شعاری پر حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ سماج میں امیر اور غریب کے درمیان فرق دور ہو اور دونوں معیشت کی ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں۔  نہ کوئی مفلس رہے اور نہ ہی کوئی مفلس نواز۔  مشورے دینا ہم سب کا محبوب مشغلہ ہے اور ان پر عمل نہ کرنا تو ہمارا اور بھی زیادہ مقبول مشغلہ ہے۔  نتیجہ میں ہماری ہاں معیشت کی ایک ہی صف کبھی تشکیل نہ پا سکی۔  ہر فرد کو اگلی صف میں گھسنے یا اپنی صف میں سے کسی دوسرے فرد کو پچھلی صف میں ڈھکیلنے کی جستجو میں مبتلا پایا۔  اسی مسابقت نے ہمارے معاشرے کی صفوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔  کفایت شعاری پر عمل کرنا نہایت معقول بات ہے لیکن ہم نے تو یہ دیکھا کہ جو نسلیں اپنے حالات اور دوراندیشی کے تحت جس جذبہ صادق کے ساتھ کفایت شعاری پر عمل کرتی ہیں اس سے حاصل شدہ اثاثے کو آنے والی نسلیں بڑی بے دردی کیساتھ رنگ رلیوں اور لہو لعب میں بے دریغ خرچ کر دیتی ہیں اور کف افسوس کو ملنے کے ساتھ ساتھ وقفہ وقفہ سے پدرم سلطان بود کا راگ بھی الاپتی رہتی ہیں۔  مغلوں کو محمد شاہ رنگیلے اور نوابان اودھ کو واجد علی شاہ نہ ملتے تو شاید تاریخ کچھ مختلف ہوتی۔  دیکھا جائے تو کفایت شعاری کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔  ان آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو کفایت شعاری اور کنجوسی میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔  ہمارے پرانے دفتر کے ایک ساتھی بے حد کفایت شعار آدمی واقع ہوئے تھے۔ اپنے ساتھ کھانا تو نہیں لاتے تھے البتہ اپنی جیب میں ایک لیموں ضرور رکھ کر لے آتے تھے۔  دوپہر کے کھانے کے وقت وہ اپنے لیموں کا رس دوسروں کے کھانے پر نچوڑ کر کھانے میں شامل ہو جاتے تھے۔  کچھ عرصہ بعد لیموں کے رس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی عزت نفس کے رس کو بھی نچوڑنے پر مجبور ہوتے چلے گئے۔  یہاں تک کہ ان کی خود داری اور اعتماد میں ذرا بھی رس باقی نہ رہا۔  خود داری اور عزت نفس ہی کفایت شعاری اور کنجوسی کے نازک فرق کو برقرار رکھتی ہے۔

آج ہم کفایت شعاری کے موضوع پر نہیں بلکہ حیدرآباد کی شادیوں میں اسراف کے بڑھتے ہوئے رجحان بلکہ مسابقت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔  پچھلے دو تین برسوں سے ہمیں حیدرآباد کی شادیوں کی تقاریب میں گاہے بہ گاہے شرکت کا موقع مل رہا ہے۔  جن میں اسراف کے نت نئے نمونوں اور ان نمونوں کے بیچ بڑھتی ہوئی مسابقت کو دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ شادی کی تقریب جو کسی زمانہ میں خانہ آبادی کی غرض سے منعقد کی جاتی تھی اب خانہ بربادی کے مقصد سے آراستہ کی جانے لگی ہے۔  پچھلے دنوں ہمیں ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا جس میں دولہا میاں تین گھنٹوں کے طویل وقت کے اسراف کے بعد پہنچے تو دیکھا کہ ان کے گلے میں اتنا لحیم شحیم ہار ہے اور اس میں ایسے گل بوٹے سجے ہوئے اور ایسے نگ اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں کہ ہمیں تو یہ ہار کم اور زیور کی طرح زیادہ نظر آیا۔  دولہے کے ایک رشتہ دار نے ہماری حیرت میں مزید اضافہ کرنے کی غرض سے ہمارے کان میں رازدارانہ انداز میں کہا کہ اس ہار کی تیاری پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا صرفہ آیا ہے۔  پھر یہ بھی بتایا کہ وسیع و عریض شہ نشین کی سجاوٹ پر تین لاکھ روپے کا خرچ آیا ہے۔  پورے شادی خانہ کی تزئین اور آرائش پر جو خرچ آیا ہو گا اس کا تخمینہ لگانے کا کام ہم آپ پر چھوڑتے ہیں کیونکہ ریاضی میں ہم یوں بھی خاصے کمزور ہیں۔  جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔  اس قیمتی ہار کو دیکھ کر ہمیں خود اپنی شادی کا ہار یاد آ گیا۔  نصف صدی پہلے پہنے گئے اس ہار کی قیمت اس زمانہ کے حساب سے دس روپے سے زیادہ نہ ہو گی۔  کہاں ڈیڑھ لاکھ روپے اور کہاں دس روپئے۔  اونٹ کے منہ میں زیرہ اسی کو تو کہتے ہیں۔  پھر ہم نے اس ہار کو نہایت رواروی میں پہنا تھا۔  شادی سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اورینٹ ہوٹل سے گھر جا کر ہم نے شادی کی شیروانی پہنی تھی اور اس ہار کو پہن کر کسی اہتمام کے بغیر خود اپنی ہی شادی میں یوں شرکت کی تھی جیسے کسی بیگانی شادی میں شریک ہونے جا رہے ہوں۔

ذرا سوچئے کہ اتنا سستا ہار کتنا دیرپا اور پائیدار ثابت ہوا ہے کہ نصف صدی بعد بھی اس کے پھولوں کی مہک تازہ ہے۔  یہ الگ بات ہے کہ بعد میں قمست نے کچھ اس طرح یاوری کی کہ جگہ جگہ ہمارا ہاروں سے استقبال ہوتا رہا۔  سینکڑوں ہی نہیں بلکہ ہزاروں ہار ہمارے گلے کا ہار بن گئے۔  تاہم ہمارا خیال ہے کہ اگر ان سارے ہاروں کی قیمت جمع کی جائے تو تب بھی ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم نہیں بنے گی۔  ہماری ناچیز رائے تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا شادی میں صرف پھولوں پر چار پانچ لاکھ روپے خرچ کر دیئے گئے تھے اور اتنی ہی رقم میں بخدا ایسی چار پانچ غریب لڑکیوں کی شادیاں ہو سکتی تھیں جن کے ہاتھ برسوں سے پیلے ہونے کے منتظر ہیں۔  دو تین برسوں کے عرصہ میں ہم نے بنظر غائر حیدرآباد کی شادیوں میں اچانک بڑھتے ہوئے اسراف کو دیکھا ہے۔  خاص طور پر دعوتوں میں کھانوں کی انواع و اقسام میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے ان کے بارے میں صرف سوچتے ہی ہیں تو اُبکائیاں آنے لگتی ہیں۔  کبابوں کی تین چار قسمیں، تین چار اقسام کے مرغ کے کباب اور سالن، مچھلیاں بھی اتنی ہی تعداد میں، دہی کی چٹنی، بینگن، ٹماٹر اور مرچ کے تین چار سالن، تین چار اقسام کے میٹھے، بریانیوں کی اقسام کا تو پوچھئے ہی مت۔  اب ہم ان کھانوں کی فہرست ہی لکھ رہے ہیں تو ہمارے قلم کو بھی ابکائیاں آنے لگی ہیں۔  ایک زمانہ میں حیدرآباد کی شادیوں میں لقمی، کباب، بریانی، بگھارے بیگن، دہی کی چٹنی اور ڈبل کا میٹھا مقر رہ غذا تھی۔  لوگ بھی ڈھنگ سے کھاتے تھے اور ڈھنگ سے مرتے بھی تھے۔  سچ پوچھئے تو بعض اصحاب کو آج جب ہم کھاتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ آدمی اتنا کھانا بھی کھا سکتا ہے۔  ہمارے زمانہ میں پیٹ حلق سے کافی نیچے واقع ہوا کرتا تھا۔  حلق کے نیچے جاتے ہی پہلے پھیپھڑوں، پسلیوں اور دل وغیرہ کا نمبر آتا تھا۔  اب یوں لگتا ہے کہ معدے نے حلق کے نیچے واقع سارے اعضاء پر قبضہ کر لیا ہے۔  حلق کے ذریعہ نہ صرف غذا پیٹ میں جاتی ہے بلکہ سانس کا تسلسل بھی اسی سے برقرار رہتا ہے۔  لیکن جب بعض اصحاب پیٹ بھر کھا لیتے ہیں تو سانس کا حلق میں داخل ہونا بھی دشوار نظر آتا ہے۔  دعوتی یوں بے تحاشہ کھانا کھاتے ہیں کہ لگتا ہے وہ ہمہ تن شکم بن گئے ہوں۔  عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی قبریں گورکن پھاؤڑے اور کدال کی مدد سے کھودتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ انسان مرنے سے پہلے ایسی ہی دعوتوں میں شرکت کر کے خود اپنے دانتوں سے اپنی ہی قبریں کھودنے کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو شادیوں میں اسراف کا معاملہ صرف اسراف کا نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ گھٹیا جذبہ کارفرما ہے جس میں انسان اپنی دولت اور جھوٹی شان و شوکت کی نمائش کر کے سماج میں اپنا رتبہ بلند کرنا چاہتا ہے۔  پچھلے دنوں ایک شادی میں ہم نے ایسے ہی دو اصحاب کی بات چیت سنی تھی۔  ایک نے کہا ’’میرے بیٹے کی شادی میں پانچ ہزار افراد کو دعوت نامے روانہ کئے گئے تھے لیکن مجھے اندیشہ تھا کہ دعوتی زیادہ آئیں گے لہذا میں نے دس ہزار افراد کے کھانے کا انتظام کیا تھا۔  چنانچہ اس شادی میں آٹھ ہزار افراد نے کھانا کھایا۔  یہ الگ بات ہے کہ دو ہزار افراد کا کھانا پھر بھی بچ گیا‘‘۔  اس پر دوسرے صاحب نے اپنے دعوتیوں کی تعداد تو نہیں بتائی البتہ یہ ضرور کہا کہ میرے بیٹے کی شادی میں ایسا لاجواب انتظام کیا گیا تھا کہ ہزاروں افراد کی شرکت کے باوجود پانچ ہزار افراد کا کھانا بچ گیا تھا۔  گویا یہاں کھانا کھانے کے بیچ نہیں بلکہ کھانے کے بچ جانے کے درمیان مسابقت جاری تھی اور اس طرح نمود و نمائش کی گنجائش پیدا کی جا رہی تھی۔  غرض ہمارے یہاں شادیوں میں نہ صرف وقت، توانائی، وسائل، تعلقات اور رشتوں کا بیجا اسراف ہو رہا ہے بلکہ اس بدعت کی بے ڈھنگی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔  اخباروں میں تصویریں بطور اشتہار چھاپی جاتی ہیں۔  لاکھوں روپے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں۔  یوں لگتا ہے جیسے ہمارا کلچر اب ہر طرح کی بدہضمی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور جس طرح کی حرکتیں سرزد ہونے لگی ہیں ان کے بارے میں صرف سوچتے ہیں تو ابکائیاں ہی آنے لگی ہیں۔  یہ ابکائیاں اسراف کی ابکائیاں ہیں۔  شادی کی رسم دو افراد کے بیچ ایک مقدس اور خوشگوار بندھن کی حیثیت رکھتی ہے جہاں سے یہ دونوں اپنی نئی زندگی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔  خالصتاً ایک شخصی رشتہ کی تشہیر کی آڑ میں کسی طمطراق، بیجا شان و شوکت اور دھوم دھام کے مظاہرے کی کوئی گنجائش بظاہر نظر نہیں آتی۔  ایسی تقاریب میں لوگوں کی جوق در جوق شرکت، ان کے بے تحاشہ کھانے کی ضرورت اور بعد میں امراض شکم میں مبتلا ہونے کی حاجت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔  بیگانی شادی میں دوسروں کے دیوانے ہو جانے کی روایت یوں تو پرانی ہے لیکن دیوانے اتنے بھی دیوانے ہو سکتے ہیں یہ کبھی نہ سوچا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

اردو اساتذہ اور اردو کا مستقبل

 

 

انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں کچھ عرصہ پہلے انگریزی کے مشہور صحافی رکشت پوری کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں اردو کے ایک حالیہ سمینار کے حوالہ سے اردو کی موجودہ صورت حال کے بارے میں نہایت اطمینان بخش اور دل خوش کن تصویر پیش کی گئی تھی۔  اتفاق سے ہم نے بھی یہ کالم پڑھا تھا لیکن اس کے بارے میں کسی اظہار خیال کی ضرورت اس لئے محسوس نہیں کی تھی کہ رکشت پوری انگریزی کے صحافی ہیں۔  انگریزی جیسی خوشحال زبان میں اگر کوئی کسی اور زبان کے بارے میں کچھ لکھے گا تو وہ اچھا ہی لکھے گا۔  شخصی خوشحالی اور مرفہ الحالی، زندگی کو دیکھنے کا زاویہ ہی بدل دیتی ہے۔  ہماری جیب میں اگر کبھی دو تین سو روپئے فالتو موجود ہوں تو بخدا زندگی بہت حسین نظر آنے لگتی ہے۔  جھگیاں اور جھونپڑیاں بھی قدرت کا ایک انمول تحفہ معلوم ہوتی ہیں۔  غریب آدمی تو ہمیں دکھائی دیتا ہے لیکن غربت نہیں دکھائی دیتی۔  ایسا زاویہ نگاہ وقتی خوشحالی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ پھر رکشت پوری تو انگریزی کے صحافی ہیں۔  اردو بھی تھوڑی بہت جان لیتے ہیں لیکن انہیں کیا پتہ کہ ان دنوں اردو اس ملک میں کن حالات سے گذر رہی ہے۔  دس بارہ برس پہلے اردو کے مشہور شاعر اور ناقد ساقی فاروقی جو لندن میں رہتے ہیں، اپنی جرمن بیوی کے ساتھ پہلی بار ہندوستان آئے تھے۔  بیگم ساقی فاروقی نے ساقی کے ساتھ دہلی کی چند اردو محفلوں میں شرکت کی اور جب دیکھا کہ لوگ ساقی کے کلام پر دوہرے ہو ہو کر داد دے رہے ہیں اور ہلکان ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں تو بیگم ساقی فاروقی نے ہم سے انگریزی میں جو کچھ کہا تھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’مجھے پتہ نہیں تھا کہ ساقی اردو کے اتنے بڑے شاعر ہیں۔  میں نہ جانے کتنے ہی برسوں سے ساقی کے ساتھ زندگی گذار رہی ہوں لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ میں اردو کے اتنے بڑے شاعر کی رفیق حیات ہو۔  اگر میں ان کے ساتھ ہندوستان نہ آتی تو سدا اندھیرے میں ہی رہتی‘‘۔  اس پر ہم نے بیگم ساقی فاروقی سے کہا تھا ’’آپ چونکہ اردو نہیں جانتیں اس لئے اگر اپنے شوہر کے بارے میں ایسی رائے قائم کر لیتی ہیں تو یہ بات حق بجانب ہے۔  اردو نہ جاننے کے یہی تو فائدے ہیں‘‘۔  اردو کی محفل میں لوگ جس طرح سماں باندھ دیتے ہیں اس کے باعث وہ لوگ جو اردو نہیں جانتے اکثر غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔  ماحول بنانا یا سماں باندھنا، اردو تہذیب کا خاصہ رہا ہے۔  ہم نے مشاعروں میں بعض شاعروں کے ایسے کلام پر سامعین کو بے پناہ داد دیتے ہوئے دیکھا ہے جس پر شاعر کو اصولاً سزا ملنی چاہئے تھی۔  سزا اور داد کا فرق جب مٹ جائے تو زبانوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔  رکشت پوری نے اردو کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جو دل خوش کن تحریر لکھی ہے وہ اصل میں ایسی ہی کسی محفل میں شرکت کے بعد لکھی ہے۔

اس کے جواب میں اردو کے ایک بہی خواہ اے اے عباسی کا ایک تفصیلی مراسلہ ’’اردو کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ہندوستان ٹائمز میں ہی شائع ہوا ہے جس میں مراسلہ نگار نے رکشت پوری کے مندرجہ بالا کالم کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایسی گمراہ کن تحریروں سے اردو والے خواہ مخواہ خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔  مراسلہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ ساری گڑبڑ اردو کے ان معدودے چند پروفیسروں اور اساتذہ کی پیدا کردہ ہے جو دہلی، علی گڑھ، بھوپال، لکھنؤ اور حیدرآباد میں بیٹھ کر اردو کے بارے میں جان بوجھ کر ایسی خوش فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں۔  اور ایسی خوش فہمیوں کو پھیلانے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اردو کے یہ پروفیسر اور اساتذہ اپنے زندہ رہنے کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔  انہیں اصل میں اپنے حلوے مانڈے سے مطلب ہوتا ہے۔

اردو اساتذہ کا یہ ٹولہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ ان اداروں اور انجمنوں پر قابض ہو جاتا ہے جنھیں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے امداد ملتی ہے۔  پھر یہ آپس میں مل کر اردو کے لئے ملنے والی اس امداد کو بانٹ لیتے ہیں۔  ان کے سامنے اردو کی بقا کا نہیں بلکہ اپنی بقا کا مسئلہ ہوتا ہے۔  مثل مشہور ہے کہ جلتے گھر کے بانس کو بھی لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔  اردو کے جلتے ہوئے گھر کے ساتھ بھی یہ اساتذہ یہی کر رہے ہیں۔  مراسلہ نگار نے اردو کے بارے میں دل خوش کن تحریریں لکھنے والوں سے کہا ہے کہ وہ اردو کی محفلوں میں اساتذہ کی جانب سے کی جانے والی چکنی چپڑی باتوں پر بالکل نہ جائیں بلکہ اپنی نظر اردو کی کسی بھی محفل میں موجود شرکاء کے سروں کے اندر نہیں بلکہ سروں کے اوپر ہی ڈال لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ اردو کی صورت حال کتنی سنگین ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر شرکاء کے سروں پر یا تو بال ہی نہیں ہوں گے اور اگر ہوں گے تو وہ سفید ہوں گے۔  اردو کی کسی بھی محفل میں اب جتنے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں ان کی عمریں پچپن اور ساٹھ برس سے زیادہ ہوتی ہیں۔  اردو کی محفلوں میں نئی نسل آ ہی نہیں رہی ہے تو کالے بالوں والے سامع کہاں سے آئیں گے۔  اردو کی موجودہ سنگین صورت حال کو سمجھنے کے لئے یہ ثبوت کافی ہے۔  مراسلہ نگار کی اس رائے سے ہمیں پوری طرح اتفاق نہیں ہے کیونکہ دہلی کی ادبی محفلوں میں کبھی کبھار کوئی کالے بالوں والا سامع شریک بھی ہو جاتا ہے۔  ہماری مراد ڈاکٹر خلیق انجم سے ہے جو اپنے بالوں میں بڑے اہتمام سے خضاب لگاتے ہیں۔ ہم انہیں جب بھی دیکھتے ہیں تو اردو کا مستقبل اتنا تاریک نظر نہیں آتا۔  اگر بالوں کی سیاہی کا مطلب اردو کے روشن مستقبل سے ہے تو اردو والوں سے ہماری گذارش ہے کہ وہ اردو محفلوں میں جانے پہلے اپنے بالوں میں خضاب ضرور لگایا کریں کیونکہ بالوں میں خضاب لگانا بھی اردو کے مستقبل کے بارے میں دل خوش کن تحریریں لکھنے کے مترادف ہے۔

جو لوگ اردو کے مستقبل کے بارے میں اچھی اچھی اور پر امید تحریریں لکھتے ہیں وہ بھی تو آخر اپنی تحریر میں خضاب ہی لگاتے ہیں۔  یادش بخیر اردو کے تاریک مستقبل اور روشن ماضی کے بارے میں ایک واقعہ یاد آ گیا۔  پندرہ برس پہلے بنگلور میں ایک سمینار منعقد ہوا تھا جس میں پروفیسر ثریا حسین، جو اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو تھیں اور ڈاکٹر فہمیدہ بیگم، جو ان دنوں ترقی اردو بورڈ کی ڈائرکٹر تھیں بھی موجود تھیں۔  پروفیسر ثریا حسین کا رنگ نہایت سرخ و سفید ہے اور ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کا رنگ کسی قدر سیاہی مائل ہے۔  سمینار میں دونوں برابر برابر بیٹھی ہوئی تھیں۔  ایک مقرر نے سمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’حضرات! اردو کا ماضی اگرچہ نہایت روشن اور تابناک تھا لیکن اب اس کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے‘‘۔  اس پر ہم نے دونوں معزز خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’اور اتفاق سے اس وقت اردو کا روشن ماضی اور تاریک مستقبل دونوں ساتھ ساتھ موجود ہیں‘‘۔  بہرحال یہ ایک فقرہ تھا جو ہمیں اچانک یاد آ گیا۔  غرض مراسلہ نگار نے اپنے مراسلہ میں اور بھی بہت سی باتیں کہی ہیں۔  سچ تو یہ ہے کہ ہم نے بھی دو ایک برس پہلے اسی کالم میں لکھا تھا کہ اردو کی محفلوں میں اب زیادہ تر بوڑھے ہی شرکت کر رہے ہیں۔  سوچا تھا کہ ہمارے لکھنے کے بعد کچھ نوجوان بھی اردو کی محفلوں میں آنے لگیں گے اور اتفاق سے چند روز بعد ہی ہمیں اردو کی ایک محفل میں بارہ برس کا ایک لڑکا نظر آ گیا۔  اردو سے اس کی محبت کو دیکھ کر ہم نہال ہو گئے۔  چنانچہ ہم نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس کی ہمت افزائی کرنے لگے۔  اتا پتہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ اردو کے ایک پروفیسر، جو ہمارے دوست بھی ہیں، کا نواسا ہے۔  جب ہم نے اپنے پروفیسر دوست سے ان کے نواسے کی اردو سے محبت کی تعریف کی تو بولے ’’نعوذ باللہ! بھیّا اسے اردو سے کیا لینا دینا ہے۔ مجھے اصل میں اس محفل کے بعد ایک تقریب میں جانا ہے۔  اس لئے اسے ساتھ لے آیا ہوں۔  بڑی مشکل سے آیا ہے۔  پورے دس روپئے کے چاکلیٹ دلائے ہیں۔  تب کہیں جا کر اردو کی اس محفل میں آنے کے لئے راضی ہوا ہے۔

آپ بھی بڑے معصوم آدمی ہیں، آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں اپنے نواسے کو اردو کے چکر میں مبتلا کروں گا۔  یہ تو انگلش میڈیم کے اسکول میں پڑھتا ہے۔  اردو کے حروف تہجی سے بھی واقف نہیں ہے۔  کیا آپ مجھے اتنا عاقبت نا اندیش سمجھتے ہیں کہ میں اپنے نواسے کو اردو پڑھاؤں گا‘‘۔  اس جواب کے بعد ہم نے اردو محفلوں میں نوجوانوں کو تلاش کرنا چھوڑ دیا ہے۔  اگر کوئی نوجوان مل بھی جاتا ہے تو اس سے یہ تک نہیں پوچھتے کہ وہ کتنے روپیوں کے چاکلیٹ لے کر اس محفل میں آیا ہے۔  مراسلہ نگار نے اردو اساتذہ کے بارے میں جو رائے ظاہر کی ہے اس سے ہمیں بھی صد فیصد اتفاق ہے۔  لیکن ہم اس بارے میں کھل کر اس لئے کچھ کہنا نہیں چاہتے کہ اردو کے بیشتر نقاد یہی اساتذہ ہوتے ہیں۔  بھیّا! ہمیں بھی تو ادب میں زندہ رہنا ہے (بھلے ہی زبان مر جائے )۔  اردو کے سوائے کسی اور زبان میں یہ نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی ٹوٹی پھوٹی اردو میں ایم اے کر کے کسی کالج میں اردو کا استاد مقرر ہو جاتا ہے تو فوراً ناقد بھی بن جاتا ہے اور ادب کے بارے میں غلط زبان لکھ کر غلط فیصلے صادر کرنے لگا جاتا ہے۔  آپ کو اردو کا کوئی خالص استاد ایسا نہیں ملے گا جو اردو کی تعلیم سے مطلب رکھتا ہو۔  جو بھی ملے گا ناقد ہی ملے گا۔  اس کی دکان بھی ایسی ہی لنگڑی لولی تنقیدی تحریروں کے ذریعے چلتی ہے۔  ہمارے ہاں اردو کے بعض اساتذہ کی خواہش یہ نہیں ہوتی کہ اردو زبان کو عام کیا جائے۔  ان کی ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ اردو کے نام پر امداد کہاں سے حاصل کی جائے۔  کون سی کمیٹی کی رکنیت پر قبضہ کیا جائے اور جوڑ توڑ کے ذریعہ ’’بندر بانٹ‘‘ کو کس طرح فروغ دیا جائے۔  ہم نے تو اب اردو کے مستقبل کے تعلق سے ان اساتذہ کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔  ہمیں تو وہ نادار اور مفلس کارکن اچھے لگنے لگے ہیں جو رضاکارانہ طور پر اردو کی ابتدائی تعلیم کے لئے سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔  اردو کا مستقبل روشن ہو گا تو ایسے ہی بے لوث لوگوں کے ذریعہ ہو گا۔  اردو کے با لوث اساتذہ کو تو اپنے ڈرائنگ رومس میں بیٹھ کر لفظوں کے طوطا مینا بنانے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اشیاء اور انسانوں کے دام

 

 

جب سے پرسار بھارتی بورڈ بنا ہے تب سے دوردرشن کی خبروں میں بعض اوقات کسی موضوع پر لوگوں کے انٹرویو یا ان کے تبصرے بھی پیش کئے جانے لگے ہیں مثلاً کسی دن موسم بہت خراب ہو تو ماہرین موسمیات میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسم کی خرابی کی وجہ پوچھی جاتی ہے۔  عام آدمی کی رائے بھی پوچھی جاتی ہے کہ وہ اس موسم میں کیسا محسوس کر رہا ہے۔  پچھلے ہفتہ اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں ایسا ہی ایک رد عمل پیش کیا گیا تھا۔  ماہرین معاشیات تو وہ ہوتے ہیں جن کی دلچسپی عوام کی معیشت میں کم اور ملک کی معیشت میں زیادہ ہوتی ہے۔  اشیاء کی قیمتیں بڑھتی بھی ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اس سے ملک کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ہم نے آج تک اپنی گھریلو معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کبھی کسی ماہر معاشیات سے مشورہ طلب نہیں کیا حالانکہ ملک کے بعض مقتدر ماہرین معاشیات سے ہماری شناسائی ہے۔  چنانچہ اس مباحثہ میں بھی ماہرین معاشیات نے یوں اظہار خیال کیا جیسے اشیاء کی قیمتوں کا بڑھنا ایک فال نیک ہے بلکہ ایک صاحب نے تو دیگر ممالک میں اشیاء کی رائج الوقت قیمتوں کا تقابل اپنے ہاں کی قیمتوں سے کرتے ہوئے تاجروں کو بہکانے کی کوشش کی کہ میاں اپنی اشیاء کی قیمتیں کچھ اور بڑھا لو۔  دیکھو دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور تم کیا کر رہے ہو۔  ملک کے ماہرین معاشیات سے تو خیر ہمیں کوئی امید نہیں ہے کہ وہ عوام کی مشکلات کو کبھی سمجھ پائیں گے۔  البتہ اس مباحثہ میں جن عام آدمیوں کی رائے پوچھی گئی انہوں نے بہت کھری کھری سنائی۔  ایک عام آدمی کا رویہ تو کچھ ایسا تھا جیسے رائے دینے سے پہلے دوردرشن کے نمائندے سے کہنا یہ چاہتا ہو ’’بھیا! میں رائے تو دوں گا لیکن پہلے مجھے کھانا تو کھلا دو تاکہ میں رائے دینے کے قابل بن سکوں۔  خدا کی قسم دو دنوں سے بھوکا ہوں‘‘۔  ایک اور عام آدمی کا رویہ کچھ اتنا جارحانہ تھا کہ لگتا تھا وہ رائے دینے کے بجائے دوردرشن کے نمائندہ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔  اس کا کہنا تھا کہ اس کے رائے دینے سے اشیاء کی قیمتیں تو کم نہیں ہوں گی۔  پھر ایسی رائے دینے کا کیا فائدہ۔  اس عام آدمی کے رد عمل کو دوردرشن کے نمائندے نے دور ہی سے جاننے کی کوشش کی اور صحیح سلامت وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔  لیکن سب سے دلچسپ رد عمل ہمیں اس خاتون کا لگا جو ایک موٹر سے باہر نکل رہی تھی کہ اچانک دوردرشن کے نمائندہ نے اسے جا پکڑا۔  دوردرشن کی ٹیم اور کیمرہ مین کو دیکھ کر خاتون نے پہلے تو اپنے بال ٹھیک کئے، ہونٹوں پر غالباً لپ اسٹک کا تازہ لیپ بھی لگایا۔  پھر مسکرانے لگی تو دوردرشن کے نمائندہ نے اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’محترمہ یہ بتایئے کہ اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ اس پر موصوفہ نے نہایت بے نیازی کے ساتھ جواب دیا ’’میں کیا جانوں کہ ان دنوں چیزوں کے دام کیا ہیں کیونکہ یہ چیزیں تو بازار سے میرا نوکر لے کر آتا ہے۔  میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کے کیا دام ہیں۔  ایسی چھوٹی موٹی فضول باتوں میں دخل دینے کے لئے میرے پاس وقت ہی کہاں ہے؟‘‘۔  دوردرشن کا نمائندہ اس غیر متوقع جواب سے سٹپٹا گیا اور اس نے فوراً کیمرہ کا سوئچ آف کر دیا۔  مگر اس بات سے ہمیں بڑی کوفت ہوئی۔  اس لئے کہ یہ خاتون بالکل سچ بات کہہ رہی تھی اور دوردرشن نے اچانک اس کی بات کو دبا دیا اور عوام تک ان کی آواز پہنچنے نہیں دی۔  کم از کم پرسار بھارتی بورڈ کے بننے کے بعد تو دوردرشن پر اس طرح کی کوئی پابندی نہیں عائد نہیں ہونی چاہئے تھی۔  عوام کو پورا حق ملنا چاہئے کہ وہ اپنی آواز چاہے وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو عوام تک پہنچا سکیں۔  ہمیں اس وقت ایمرجنسی کے دنوں کا ایک واقعہ یاد آیا۔  ایک نوجوان کسی ہوٹل میں بیٹھ کر دوسرے نوجوان سے ہندوستان کے سیاسی حالات کی برائی کر رہا تھا۔  پولیس کے ایک داروغہ نے یہ بات سن لی تو اسے پکڑ لیا اور تھانے میں لے جا کر یہ کہتے ہوئے اس کی پٹائی شروع کر دی کہ ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے ملک کی حکومت کی برائی کرتا ہے۔  شرم کی بات ہے۔

اس پر نوجوان نے صفائی دینے کی خاطر کہا ’’حضور! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں تو اصل میں امریکہ کی حکومت کی برائی کر رہا تھا۔  اپنے ملک کی حکومت کی نہیں‘‘۔  اس پر داروغہ نے اس کے گال پر ایک زوردار طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہا ’’پھر جھوٹ بولتا ہے۔  کیا تو مجھے بیوقوف سمجھتا ہے، کیا میں نہیں جانتا کہ کون سی حکومت نکمی اور ناکارہ ہے‘‘۔  دیکھا جائے تو مذکورہ خاتون نے دوردرشن کے نمائندہ سے جو بات کہی تھی وہ اپنے طور پر سچ تھی۔  بے چاری کو جب پتہ ہی نہیں کہ بازار میں اشیاء کے کیا بھاؤ ہیں تو وہ اس بارے میں کیا کہتی۔  مگر دوردرشن کا نمائندہ اس کی یہ سچی بات سننا نہیں چاہتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس معاملہ میں کس کا نکما پن ہے۔  اس لئے اس نے بات چیت کو بیچ میں ہی روک دیا۔  آپ اس خاتون کی بات کرتے ہیں بھیّا خود ہماری مثال لیجئے۔  ہمیں بھی یہ نہیں معلوم کہ بازار میں ان دنوں اشیاء کے کیا دام ہیں۔  خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہمیں صرف سگریٹ کے داموں کا پتہ ہے۔  ہم نہیں جانتے پیاز کا کیا بھاؤ ہے۔  یہی حال مرچ، مونگ پھلی کے تیل، مصالحوں اور ادرک لہسن کا ہے۔  ہمیں کیا پتہ کہ چیزوں کے دام بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں۔  جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔  بازار سے اردو شاعر کے مصرعہ کی طرح گزرتے ہیں ؎

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

جب آپ کی جیب میں پیسہ ہی نہ ہو تو خریدار کیسے بن پائیں گے۔  ہمارا کوئی نوکر تو ہے نہیں کہ وہ بازار سے چیزیں خرید کر لایا کرے اور ہم اپنی فطری شرافت اور بے نیازی کے باعث اس سے چیزوں کے دام نہ پوچھیں۔  دوردرشن پر اپنے بے نیازانہ رد عمل کا اظہار کرنے والی خاتون نے تو یہ کام اپنے نوکر کو سونپ رکھا ہے کیونکہ اللہ نے اسے یہ توفیق عطا فرمائی ہے جبکہ ہم نے ملک کے ماہرین معاشیات کی حرکتوں کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری اپنی اہلیہ کو سونپ رکھی ہے اور ماشاء اللہ وہ اس فرض سے اس خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ بر آ ہو رہی ہیں اور دکانداروں سے چیزوں کے دام پر اتنی مدلل بحث کرتی ہیں کہ اکثر دکاندار تو انہیں دیکھ کر دکانیں بند کرنے لگ جاتے ہیں۔  یوں بھی چیزوں کے بڑھتے ہوئے داموں کا مقابلہ ہر آدمی اپنے اپنے انداز سے کرتا ہے۔

ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیزوں کے داموں کے بڑھنے کے باوجود اس ملک میں اب بھی بعض لوگ ایسے ہیں (بشمول ہمارے ) جنہیں بازار کا حال بالکل نہیں معلوم۔  وجہ ہر ایک کی جداگانہ ہے۔  مشکل یہ ہے کہ دوردرشن کے نمائندے داموں کے بارے میں رد عمل کو جاننے کے لئے یا تو ماہرین معاشیات کے پاس جاتے ہیں یا پھر بالکل ہی عام آدمی کا رخ کرتے ہیں۔  پہلی بار ایک پیٹ بھری خاتون اس کام کے لئے انہیں ملی تھی تو اس کی آواز عوام تک پہنچنے نہ دی۔  بہرحال ہم نے اپنے قارئین کی سہولت کے لئے اپنے طور پر ایسے ہی بعض افراد کے رد عمل جمع کئے ہیں جن کے چند نمونے ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں۔

’’میں چیزوں کے داموں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی۔  میں نے اس کام کے لئے ایک باورچی رکھ چھوڑا ہے۔  اس باورچی نے میرے ہاں کام کرنے سے پہلے یہ شرط رکھی تھی کہ اس سے صرف کھانا پکانے کا کام لیا جائے گا تو وہ ماہانہ پانچ سو روپئے تنخواہ لے گا اور اگر بازار سے سودا سلف لانے کی ذمہ داری بھی اس کی ہو گی تو ماہانہ دو سو روپئے میں بھی کام کرنے کو تیار ہے۔  ایسا ایماندار باورچی جو اتنی کم تنخواہ میں کھانا بھی پکائے اور بازار سے سودا سلف بھی لے آئے آج کے زمانہ میں کہاں ملتا ہے۔  نتیجہ یہ ہے کہ میں صرف کھانا کھانے سے دلچسپی رکھتی ہوں اور چیزوں کے داموں کے چکر میں نہیں پھنستی‘‘۔

’’آپ چیزوں کے بڑھتے ہوئے داموں کے بارے میں مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔  میں جانتا ہوں کہ چیزوں کے دام ضرور بڑھ رہے ہیں لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ جہاں چیزوں کے دام بڑھ رہے ہیں وہیں انسان کی قیمت دن بہ دن گھٹتی جا رہی ہے۔  جب تک انسان کی قیمت کم ہوتی رہے گی۔  تب تک مجھے چیزوں کے داموں کے بڑھنے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔  بھیّا میں تو ایک تاجر ہوں وہی چیز خریدتا ہوں جو سستی مل جاتی ہے۔  چنانچہ میں چیزیں نہیں خریدتا۔  سستے داموں میں بکنے والے انسانوں کو خرید لیتا ہوں چونکہ ٹھیکہ دار ہوں اس لئے اس عہدیدار کو ہی خرید لیتا ہوں جو مجھے ٹھیکے الاٹ کرتا رہتا ہے۔  پھر اس ٹھیکے سے اتنا کما لیتا ہوں کہ مجھے چیزوں کے بڑھتے ہوئے داموں کی شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔  یہ بات یاد رکھئے کہ آپ کو کوئی انسان سستے داموں میں مل جائے تو پھر آپ دنیا کی کوئی بھی مہنگی چیز خرید سکتے ہیں۔  جب تک اس ملک میں انسانوں کی قیمت گھٹتی رہے گی تب تک مجھے چیزوں کے داموں کے بڑھنے کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘‘۔

’’اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں میری رائے جان کر آپ اپنا اور میرا دونوں کا وقت کیوں برباد کر رہے ہیں۔  بھیّا میں تو اپنے کاروبار کے سلسلہ میں زیادہ تر ملک سے باہر ہی رہتا ہوں اور وہاں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام کرتا ہوں۔  مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ بیرونی ملکوں میں آلو، پیاز، گوبھی، چاول وغیرہ کے کیا دام ہیں۔  آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں اپنے ملک میں ان چیزوں کے دام پوچھتا پھروں گا۔  البتہ میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ مختلف ملکوں کی فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی کیا شرحیں ہیں۔  یوں بھی ٹپ کے معاملہ میں میرا اصول ہے کہ چائے چار ڈالر کی آئے تو چائے لانے والے بیرے کو پانچ ڈالر کی ٹپ دیتا ہوں۔  جب تک داڑھی سے مونچھیں بڑی نظر نہ آئیں تب تک مجھے مزہ نہیں آتا‘‘۔

’’میں ایک سوشل ورکر ہوں۔  دن بھر قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہوں۔  صبح ایک کلب میں ہوتی ہوں تو شام کسی اور کلب میں گزارتی ہوں۔  ابھی کسی جلسہ میں تقریر کر رہی ہوتی ہوں تو ایک گھنٹہ بعد کسی آرٹسٹ کی تصویروں کی نمائش میں فیتہ کاٹ رہی ہوتی ہوں۔  گویا میرے وقت کا ایک ایک لمحہ قوم کی خدمت کے لئے وقف ہوتا ہے۔  مجھے تو بازار جانے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔  میں کیسے جان سکتی ہوں کہ پیاز کا کیا بھاؤ ہے۔  ویسے آپ نے پیاز کا دام پوچھا ہے تو یہ بتایئے کہ پیاز پیڑ پر لگتی ہے یا اسے کسی کارخانہ میں بنایا جاتا ہے۔  آپ یقین نہیں کریں گے، ایک بار سری نگر میں سیب کا پیڑ دیکھا تو یہ جان کر دنگ رہ گئی کہ سیب درخت پر لگتے ہیں۔  میں تو یہ سمجھتی تھی کہ سیبوں کا بھی کوئی کارخانہ ہوتا ہے، تبھی تو یہ اتنے میٹھے ہوتے ہیں۔  آپ جن چیزوں کے داموں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں میں ان کے بارے میں یہ تک نہیں جانتی کہ یہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں، ان کے دام جان کر میں اپنا وقت کیوں برباد کروں جو قوم کی خدمت میں صرف ہو سکتا ہے‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ معافی مانگنے کے بارے میں

 

 

معافی مانگنے کو ایک ایسی انسانی صفت مانا گیا ہے جسے اپنے اندر پیدا کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔  اسی لئے یہ صفت انسانی ہونے کے باوجود ماورائی سی لگتی ہے۔  ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے آج تک کسی سے معافی مانگی بھی ہو تو شاید ہی کبھی صدق دل سے مانگی ہو۔  کیوں کہ معافی کوئی قرض تو ہے نہیں کہ آدمی مانگنے پر آئے تو مانگتا ہی چلا جائے۔  یہ ضرور ہے بچپن میں اگر ہم نے اپنے کسی ہم جماعت کے ساتھ زیادتی کی اور استاد نے آنکھیں اور چھڑی دونوں دکھا کر ہم سے منت سماجت کی کہ ہم اس سے معافی مانگ لیں تو ہم نے تب بھی ’’معاف کر دیجئے‘‘ کا جملہ یوں ادا کیا جیسے ہمارے اکثر دولہا حضرات عقد کے وقت ’’قبول کیا‘‘ کا جملہ ادا کرتے ہیں۔  مگر یہ معاملہ صرف ہمارے بچپن تک محدود تھا کیونکہ بعد میں ہم نے زندگی کچھ اس طرح گزاری کہ کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔  ایسی زندگی کو عموماً گھاٹے کا سودا کہتے ہیں جس کی سزا ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔

آج معافی مانگنے اور معافی منگوانے کا خیال ہمیں اچانک نہیں آیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں معافی مانگنے کی وبا اچانک ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔  پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست ہمارے پاس آئے اور نہایت شرمندگی اور خفت کے ساتھ کہنے لگے ’’آج میں تم سے ایک بات کے لئے خلوص دل سے معافی مانگنے آیا ہوں‘‘۔  ہم نے کہا ’’تم سے ایسی کون سی خطا سرزد ہوئی تھی کہ تم ہم سے معافی مانگو؟‘‘ بولے ’’یہ خطا مجھ سے نہیں بلکہ میرے دادا جان سے سرزد ہوئی تھی‘‘۔  ہم نے کہا ’’ہم نے تو تمہارے دادا جان کی شکل تک نہیں دیکھی اور اگر بفرض محال دیکھی بھی ہو تو ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ تمہارے دادا جان نے ہمارے ساتھ کبھی کوئی ایسی زیادتی کی ہو جس کی معافی تمہیں مانگنی پڑے‘‘ بولے ’’میرا دادا جان نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی تھی البتہ تمہارے دادا جان کے ساتھ ضرور کی تھی‘‘۔  ہم نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولے ’’آج سے سو برس پہلے میرا دادا جان نے تمہارے دادا جان کی جائیداد دھوکہ سے ہڑپ کر لی تھی۔  مجھے پرسوں ہی اس کا پتہ چلا ہے۔  سوچا کہ تم سے معافی مانگ لوں۔  تم میرے اچھے دوست ہو۔  خدا کے لئے مجھے معاف کر دو ورنہ میرا ضمیر تا دم آخر ملامت کرتا رہے گا‘‘۔  ہم نے کہا ’’یہ کیا بات ہوئی کہ تمہارے دادا جان میرے دادا جان کے ساتھ زیادتی کریں

اور تم مجھ سے معافی مانگو اور پھر اگر تمہارے دادا جان نے کوئی غلطی کی بھی تھی تو میں کون ہوتا ہوں انہیں معاف کرنے والا، پھر اہم بات یہ ہے کہ نہ تمہارے دادا زندہ ہیں اور نہ ہی میرے دادا زندہ ہیں۔  ایسے میں اس معافی کی کیا قانونی اور اخلاقی اہمیت باقی رہے گی‘‘۔  اس پر میرے دوست نے کہا ’’بھئی معافی مانگنا تو بہت اچھی چیز ہے۔  اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کسی غلطی کے لئے معافی مانگ لے تو پھر اس میں یہ حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ بار بار وہی غلطی کرتا چلا جائے۔  چاہے بعد میں وہ کوئی معافی نہ مانگے‘‘۔  ہم نے کہا ’’مگر سو برس پہلے جو غلطی تمہارے دادا سے سرزد ہوئی تھی اس کی معافی اب مجھ سے مانگ کر تم اپنے اندر کس بات کا حوصلہ پیدا کرنا چاہتے ہو؟‘‘۔  ہنس کر بولے ’’میں یہ چاہتا ہوں کہ میں بھی اپنے دادا جان کے نقش قدم پر چل کر تمہاری جائیداد کا کچھ حصہ ہڑپ کر لوں تاکہ پھر آج سے پچاس ساٹھ سال بعد میرا پوتا تمہارے پوتے سے میری غلطی کی معافی مانگ لے۔  تاریخ اپنے آپ کو اسی طرح دہراتی رہتی ہے‘‘۔  ہم نے ہنس کر کہا ’’یہ معاملہ تاریخ کا نہیں جغرافیہ کا ہے۔  سو برس پہلے میرے دادا کی جائیداد کا جغرافیہ بہت بڑا تھا۔  اسے کسی نے ہڑپ کر بھی لیا تو کیا ہوا۔  میری موجودہ جائیداد کے جغرافیہ کا یہ عالم ہے کہ میرے لئے تو دو گز زمین بھی حاصل کرنا دشوار نظر آنے لگا ہے۔  ایسے میں تم کیا میری جائیداد کو ہڑپ کرو گے اور تمہارا پوتا کیا میرے پوتے سے معافی مانگے گا‘‘۔  ہمارے دوست نے کہا ’’مگر میں تو آج تم سے معافی مانگ کر ہی رہوں گا۔  تم نے دیکھا نہیں ابھی پچھلے ہفتہ جاپان کے وزیر اعظم نے پچاس برس پہلے لڑی گئی دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے جو زیادتیاں کی تھیں اور مظالم ڈھائے تھے ان کے لئے ساری دنیا سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی اور دنیا نے اسے قبول بھی کر لیا ہے۔  یہ اور بات ہے کہ کچھ اقوام نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ صرف معافی مانگنے سے کچھ بھی نہیں ہو گا جاپان کو اس نقصان کی پابجائی بھی کرنی چاہئے جو جاپان کی وجہ سے ان اقوام کو اٹھانا پڑا تھا۔  انگلی پکڑنے دو تو کلائی پکڑ لینا اسی کو کہتے ہیں‘‘۔  ہمارے دوست کی بات نہایت معقول تھی۔

پتہ نہیں ادھر کیا بات ہوئی ہے کہ ان دنوں ہر کوئی معافی مانگنے پر تُل گیا ہے۔  ابھی کچھ دن پہلے مہاراشٹرا کے سابق چیف منسٹر شرد پوار نے پانچ سال پہلے بابری مسجد کے گرائے جانے کے واقعہ کی معافی مانگی تھی۔  تلگودیشم کے رہنما این ٹی راماراؤ کی اہلیہ لکشمی پاروتی نے بھی ابھی چار سال دن پہلے کچھ اس انداز سے معافی مانگی تھی کہ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ کس سے معافی مانگ رہی ہیں اور کیوں مانگ رہی ہیں۔  بہرحال معافی مانگنے کے اس متعدی مرض کا یہی حال رہا تو کیا عجب ہے کہ قومیں ان خطاؤں کے لئے بھی معافی مانگنا شروع کر دیں جو ان سے ہزاروں برس پہلے سرزد ہوئی تھیں۔ اصولاً یونانیوں کو ہم ہندوستانیوں سے سکندراعظم کے اس حملہ کے لئے معافی مانگنی چاہئے جو اس نے زمانہ قبل مسیح میں ہندوستان پر کیا تھا۔  دور کیوں جایئے خود ہمارے جیتے جی اس دنیا میں اتنا کچھ ہوا ہے کہ کئی قوموں کو ایک دوسرے سے معافی مانگنی چاہئے۔  روس کو افغانستان سے معافی مانگنی چاہئے کہ اس نے خواہ مخواہ ہی وہاں اپنی فوج بھیج دی تھی۔  امریکہ پر واجب ہے کہ وہ ویت نام سے معافی مانگے۔  دیکھا جائے تو امریکہ اس دنیا کا واحد ملک ہے جو معافی مانگنے کے معاملے میں اتنا خود کفیل اور تونگر ثابت ہو سکتا ہے کہ اگر وہ صدق دل سے معافی مانگنے پر اتر آئے تو امریکہ میں پیدا ہونے والی کئی نسلیں ساری عمر صرف معافی ہی مانگتی رہ جائیں گی کیونکہ امریکہ اس اعتبار سے پہلا ملک ہے جس کی فوجوں نے آج تک اپنی سرزمین پر کوئی جنگ نہیں لڑی۔  جب بھی ان فوجوں کا جی جنگ لڑنے کا چاہا تو ساز و سامان لے کر دوسرے ملکوں کی طرف کوچ کر گئیں۔  ماضی بعید میں سرزد ہونے والی غلطیوں کی معافی مانگنے کی اس نئی ادا کے بارے میں ایک صاحب کا خیال ہے کہ یہ سب قرب قیامت کے آثار ہیں۔  انسان کو اب پتہ چل گیا ہے کہ دنیا جلد ہی ختم ہونے والی ہے، لہذا سب کو اپنی غلطیاں یاد آنے لگی ہیں اور وہ اپنے کئے کی معافی مانگ کر حتی الامکان معصوم اور بے گناہ حالت میں خدا کے حضور میں پہنچنا چاہتے ہیں۔  سچ پوچھئے تو ہم نے بھی قرب قیامت سے گھبرا کر کل اپنی بیوی سے اس بات کے لئے معافی مانگ لی ہے کہ آج سے لگ بھگ چالیس برس پہلے ہم نے اس سے شادی کر لی تھی۔  یہ ایک ایسی خطا ہے جس کی سزا ہم دونوں ہی برسوں سے بھگتتے چلے آ رہے ہیں۔

کچھ بھی ہو ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ آج تک کسی نے صدق دل سے معافی نہیں مانگی چاہے اس سے کتنی ہی بڑی خطا کیوں نہ سرزد ہوئی ہو۔  بہت عرصہ پہلے ایک ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان کے بارے میں ایک اخبار نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس پارلیمنٹ کے آدھے ارکان پاگل ہیں۔  اس پر پارلیمنٹ میں خاصا ہنگامہ ہوا۔  جب اس اخبار سے معافی مانگنے کے لئے کہا گیا تو اس نے دوسرے دن معذرت کے طور پر یہ جملہ لکھا ’’قارئین نوٹ فرما لیں کہ پارلیمنٹ کے آدھے ارکان پاگل نہیں ہیں‘‘۔  اب جو جاپان کے وزیر اعظم نے دوسری جنگ عظیم کی زیادتیوں کے لئے معافی مانگی ہے تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ موصوف دوسری جنگ عظیم کے وقت غالباً پرائمری اسکول کے طالب علم رہے ہوں گے۔  انہیں کیا معلوم کہ زیادتیاں کرنے والے اصل مجرم کون تھے۔  لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں۔  انسانیت کے سینہ پر گھاؤ بدستور لگا رہتا تو اچھا تھا۔  معافی کے ذریعہ اس گھاؤ پر مرہم رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

پتے جو لاپتہ ہو گئے

 

 

 

ہمارے پاس ایک ڈائری ہے جو 1980سے 2000 ء تک ہمارے زیر استعمال رہی۔  1980 ء میں جب ہم اپنے پہلے بیرونی سفر پر جاپان جانے لگے تو ہم نے اس میں اپنے بعض اہم ہندوستانی احباب کے پتے اس خیال سے لکھ لئے تھے کہ جاپان کے لمبے قیام کے دوران میں کہیں ہمیں اپنے ان احباب سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت نہ پیش آ جائے۔  اسّی اور نوّے کی دہائیوں کا عرصہ ہماری ادبی، سماجی اور تخلیقی سرگرمیوں کا نہایت فعّال زمانہ رہا ہے۔  اس عرصہ میں ہم نے کئی بیرونی ممالک کے سفر کئے۔  نئی نئی زمینوں پر قدم رکھنے کے علاوہ نئے نئے آسمانوں میں جھانک آئے۔  جوں جوں ہمارے تعلقات نے وسعت اختیار کی، ہماری اس ڈائری میں نئے پتے جلوہ فگن ہوتے چلے گئے۔  تعلقات کے نئے پھول کھلنے لگے اور رشتوں کی کلیاں چٹکنے لگیں۔  جاپان جاتے وقت ہماری اس ڈائری میں اپنے ہندوستانی احباب اور رشتہ داروں کے صرف بیس پتے لکھے گئے تھے مگر جب 2000 ء میں ہم پھر امریکہ جانے لگے تو دیکھا کہ اس ڈائری میں پتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں مزید پتوں کے اندراج کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔  پھر بھی ہم اس ڈائری کو اپنے ساتھ لے گئے اور ایک نئی ڈائری میں نئے اور ضروری پتوں کو لکھنے لگے۔  پچھلے دس بارہ برسوں سے یہ ڈائری ہمارے پاس ایک عظیم مخطوطے یا ہمارے رشتوں اور تعلقات کے عالیشان مقبرے یا آخری آرام گاہ کے طور پر محفوظ ہے۔  ایک زمانہ تھا جب ہم پھیل کر خود زمانہ بن گئے تھے، مگر اب سمٹ کر ایک ایسا دلِ عاشق بن گئے ہیں جس کی ہر دھڑکن یادوں کا خاموش طوفان بپا کر دیتی ہے، جس کی ہر کسک اسے صبر و تحمل کا پتھر بنا دیتی ہے اور جس کی ہر آواز لق و دق صحرا کی وسعتوں اور تنہائیوں میں تحلیل ہو کر اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اول فناء آخر فنا۔  کل ہمیں ذرا سا سکون میسر آیا اور فرصت ملی تو ہم نے پتوں کی اس ڈائری کو کھول کر پڑھنا شروع کیا۔  ایک دو صفحوں کے بعد ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ اس ڈائری میں شامل کئی پتے اب ہمارے لئے لاپتہ ہو چکے ہیں۔  کئی رشتوں کی سانس اُکھڑ چکی ہے، تعلقات کی نبض رُک گئی ہے، قدرت نے مراسم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے اور کئی بزرگوں اور احباب نے اس عالم فانی سے اپنا رشتہ توڑ کر عالم بالا میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہے جہاں کا پتہ خود ہمیں بھی نہیں معلوم ہے (انشاء اللہ جلد ہی معلوم ہو جائے گا)۔  ہم نے سوچا کہ جو لوگ اب اس دنیا کی گلیاں، سڑکیں، محلے اور شہروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہوں اور جن کا اب اس دنیا سے کوئی تعلق ہی نہ رہ گیا ہو انہیں یہاں کے پتوں میں کیوں مقید رکھا جائے۔  ہمارا کرب یہیں سے شروع ہوا، اور دل پر یکے بعد دیگرے بجلیاں سی گرنے لگیں۔  اب آپ سے کیا چھپائیں کہ ساٹھ برس پہلے ہم حیدرآباد کے محلہ فرحت نگر کے ایک ایسے مکان میں رہتے تھے جہاں جانے کے لئے کئی تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا تھا، جس کے باعث اجنبیوں کو ہمیں اپنے گھر کا پتہ سمجھانے میں ہمیشہ دشواری پیش آتی تھی۔  اتفاق سے ہمارے گھر کے بالکل عین سامنے واقع ایک مکان کی دیوار پر منجن بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے منجن کا اشتہار جلی حروف میں لکھوا رکھا تھا۔  ہم یہ منجن تو نہیں استعمال کرتے تھے لیکن اجنبیوں کو اپنے گھر کا پتہ سمجھانے کے لئے اس اشتہار کو ضرور استعمال کرتے تھے۔  جب تک ہم فرحت نگر میں رہے، ہم نے اس اشتہار کی جی جان سے حفاظت کی۔  اشتہار والا مالک مکان جب بھی اپنے گھر کی سفیدی کراتا تھا تو ہم منت سماجت کر کے اس اشتہار کی حیات مستعار میں اضافہ کروا لیتے تھے۔  منجن بنانے والی کمپنی کب کی مر چکی تھی لیکن ہمارا پتہ برسوں زندہ رہا۔  سُنا ہے کہ جس دن ہم یہ گھر چھوڑ کر دہلی چلے گئے اس کے دوسرے ہی دن ہمارے پتے والے مکان کے مالک نے اپنی دیوار پر سفیدی پھیر کر ہمارے پتے کو نیست و نابود کر دیا۔  ہمیں اس گلی میں رہتے ہوئے ہمیشہ غالب کے اس شعر کی یاد آ جاتی تھی:

اپنی گلی میں دفن نہ کر مجھ کو بعد مرگ

میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

آدمی کا پتہ اگرچہ ایک حقیر سی چیز ہوتا ہے کیونکہ اتنی بڑی کائنات میں ایک آدمی مختصر سے قیام کے لئے ایک مختصر سی جگہ میں جہاں جہاں رہتا ہے اس کی بھلا کیا اہمیت اور وقعت ہے، لیکن آدمی جب تک زندہ رہتا ہے اسے ہر دَم اپنا اتا پتہ عزیز ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو اس سے آگاہ کراتا رہتا ہے۔  دنیا بالآخر فانی ہے لیکن اس بے نام و نشان اور گمنام کائنات میں کھو جانے اور معدوم ہو جانے سے قبل انسان اپنی ٹوٹی پھوٹی شناخت کو براعظموں، ملکوں، شہروں، محلوں اور گلیوں میں برقرار رہنے کے سوسو جتن کرتا ہے۔  یہاں تک کہ بالآخر سمٹ سمٹا کر نہ صرف دو گز زمین پر قانع ہو جاتا ہے بلکہ یہاں پہنچ کر بھی مزید قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے تو مشت خاک میں اور پھر بعد میں ایک ذرہ بے توقیر و نا تحقیق میں تبدیل ہو کر بے نام و نشان ہو جاتا ہے۔  اسی عمل کا نام زندگی ہے، اور فناء ہو جانا ہی اصل میں بقاء کی علامت ہے۔

بہر حال ہم نے جب اپنی ڈائری میں سے لاپتہ پتوں کو کاٹنا شروع کیا تو لمحہ لمحہ دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی چلی گئی۔  دل پر جبر کر کے کیسے کیسے نام اور کیسے کیسے پتے کاٹ دیئے اور ذرا سوچئے کہ کس دل سے کاٹے ہوں گے۔  ٹوکیو میں یونیسکو کے ایشیائی ثقافتی مرکز کے ڈائرکٹر جنرل ریوجی ایتو کا پتہ کاٹتے ہوئے ہماری آنکھیں لبریز ہو گئیں۔  یونیسکو کے سمینار میں پندرہ ممالک کے نمائندے شریک تھے لیکن ہمارے لئے ان کے دل میں ایک الگ ہی گوشتہ تھا۔  ہم یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم ہندوستان جیسے عظیم ملک کے نمائندے ہیں، اس لئے ان کے دل میں ہماری قدر و منزلت ہے۔  بے حد مصروف آدمی تھے لیکن ذرا سی فرصت ملتے ہی اپنے دفتر میں بلا لیتے تھے۔  کسی دن ملاقات نہ ہوتی تو کوئی نہ کوئی تحفہ ہمارے ہوٹل پر روانہ کر دیتے تھے۔  یہ عنایت خاص صرف ہمارے لئے مختص تھی۔  ٹوکیو کی آخری شام کو ریوجی ایتو اور بیگم ایتوا ساکسا کے علاقہ میں ہمیں لے کر ایک گیشا گھر میں گئے، جہاں جاپان کی کلاسیکی موسیقی کی دھنوں پر ہمیں حسب توفیق گیشاؤں کے ساتھ رقص بھی کرنا پڑا۔  ہمیں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ جس ملک میں ریوجی ایتو جیسے لوگ رہتے ہوں وہاں کے لوگوں نے دوسری جنگ عظیم میں اتنے مظالم کیسے ڈھائے ہوں گے۔  کاش کہ دنیا آسانی سے سمجھ میں آ سکتی۔  کیسے بتائیں کہ کیسے کیسے محترم، عزیز اور دلنواز ہستیوں کے پتے ہم نے اپنی ڈائری میں سے کاٹ دیئے۔  ایک ایک پتہ کٹتا تھا تو لگتا تھا کہ جذبوں اور احساسات کے ایک عالیشان محل کو ڈھایا جا رہا ہے۔  پروفیسر سوزوکی تاکیشی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، راجندر سنگھ بیدی، سردار جعفری، اختر الایمان، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، عزیز قیسی، باقر مہدی، شکیلہ بانو بھوپالی، امرتا پریتم، وقار لطیف، شیام لال ادیب، فکر تونسوی، صادقین، مشفق خواجہ، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر سخا چوف، شان الحق حقی، محمد طفیل، سراج منیر، منیر نیازی، قتیل شفائی، آل احمد سرور، پروفیسر خورشید الاسلام، خواجہ عبدالغفور، ساغر نظامی، ملک راج آنند، سعید شہیدی، دھرم ویر بھارتی، حکیم عبدالحمید۔  سینکڑوں ناموں میں سے کن کن کے نام گنائیں۔

ایک ہزار پتوں میں سے جب ہم نے گزرے ہووؤں کے پتے کاٹ دیئے تو ہم نے غم جہاں کا حساب کیا۔  پتہ چلا کہ جملہ 790 ( سات سو نوے ) پتے کٹ چکے ہیں۔  حساب کتاب اور حساب فہمی کے ہم قائل نہیں ہیں۔  اس لئے ریاضی میں کبھی پچیس فیصد سے زیادہ نشانات حاصل نہیں کر سکے۔  مگر جب احساس ہوا کہ 1980ء سے یہاں تک آتے آتے ہمارے اسّی فیصد تعلقات رحلت فرما چکے ہیں اور ہماری سماجی زندگی سمٹ سمٹا کر صرف بیس فیصد ہی باقی رہ گئی ہے تو ہمیں اپنی شخصی زندگی اچانک بہت چھوٹی نظر آئی بلکہ اتنی چھوٹی نظر آئی کہ ہم نے اپنے آپ کو مشت خاک سے گزر کر ایک ذرہ بے توقیر میں تبدیل ہوتے ہوئے محسوس کیا۔  اپنے کرم فرماؤں اور یارانِ رفتہ کے بچھڑ جانے اور ان سے اس دنیا میں پھر نہ مل پانے کے احساس نے شدت اختیار کی تو ہمیں سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔  شاہ عبد اللطیف بھٹائی جس شہر میں رہتے تھے وہاں ڈاکوؤں نے ایک بار زبردست ڈاکہ ڈالا۔  ڈاکہ کی ایسی سنگین واردات پہلے کبھی پیش نہ آئی تھی۔  کوتوال شہر نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی ڈاکوؤں کا اتا پتہ بتائے گا یا ان کا سراغ دے گا اسے بھاری رقم دی جائے گی۔  انعام کی رقم اتنی بھاری تھی کہ سارے تندرست، صحت مند اور توانا لوگ ڈاکوؤں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔  دو دن بعد شاہ عبد اللطیف بھٹائی بھی اپنے تکیہ سے غائب ہو گئے۔  دیگر نوجوان تو ڈاکوؤں کی تلاش کے لئے پہلے ہی سے نکلے ہوئے تھے۔  اب تو شاہ صاحب کے معتقدین اور مرید بھی ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔  چپہ چپہ چھان مارا لیکن کہیں بھی شاہ عبد اللطیف بھٹائی نہ ملے۔  ایک دن شہر میں کسی معزز ہستی کی موت واقع ہو گئی اور لوگ اسے دفنانے کے لئے جیسے ہی قبرستان پہنچے تو دیکھا کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی قبرستان کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے گیان دھیان میں مصروف ہیں۔  ان کے معتقدین نے حیرت سے پوچھا ’’شاہ صاحب! آپ یہاں قبرستان میں کیا کر رہے ہیں؟ ہم تو آپ کی تلاش میں ہر روز شہر کے گلی کوچوں اور جنگلوں کی خاک چھان رہے ہیں۔‘‘ اس پر شاہ صاحب نے کہا ’’وہ جو کوتوال صاحب نے ڈاکوؤں کو تلاش کرنے کے لئے بھاری انعام کا اعلان کیا ہے اسی کو حاصل کرنے کی آس میں یہاں آیا ہوں‘‘۔  ارادت مندوں نے دست بستہ عرض کی ’’حضرت قبلہ! ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لئے آپ بستیوں اور جنگلوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

کہ جاتی ہے اردو زباں جاتے جاتے

 

 

اردو شعراء میں مرزا داغ دہلوی کو اردو زبان کی عظمت، شان و شوکت اور جاہ و حشمت پر کچھ اتنا ناز تھا کہ موقع ملتے ہی اس زبان کی معنی آفرینیوں، تہہ داریوں، نکتہ سنجیوں، نازک خیالیوں اور شوخ معاملہ بندیوں کے باب میں نہ صرف رطب اللسان ہو جاتے تھے بلکہ اس زبان کے شاعر ہونے پر کھلے بندوں نہایت پر تعلی ناز کرتے ہوئے ہر دم اس زبان کے قصیدے گایا کرتے تھے۔  ان کے حسب ذیل دو شعر تو اردو کے آج کے دور ابتلا میں بھی زباں زد خاص و عام ہیں۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اور

نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو

کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے

اپنی بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم شروع میں ہی یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ داغ دہلوی نے اردو زبان کی شان میں جتنے قصیدے اپنی شاعری میں گائے ہیں کم و بیش اتنے ہی مرثیے ہم نے اردو کی موجودہ زبوں حالی پر اپنی نثر میں اور وہ بھی مزاح میں لکھے ہیں۔  یہ سب وقت وقت کی بات ہے۔  دنیا کی کسی بھی زبان پر ایسا برا وقت کبھی نہ آیا ہو گا کہ سو، سوا سو سال پہلے جس زبان کی شان میں قصیدے لکھے جاتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے اس زبان کا نوحہ لکھنے کی بھی نوبت آ جائے گی۔  مزید آگے بڑھنے سے پہلے آپ وہ معمولی سی تحریف بھی ملاحظہ فرما لیں جو ہم نے داغؔ دہلوی کے مندرجہ بالا دو شعروں کے ایک ایک مصرعے میں کی ہے۔

اردو ہے جس کا نام ’نہیں ‘ جانتے تھے داغؔ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو

کہ ’جاتی‘ ہے اردو زباں جاتے جاتے

داغؔ نے جب اول الذکر شعر کہا تھا تو دوسرے مصرعہ میں آج کے ’’سارے جہاں‘‘ کی بجائے صرف ’’ہندوستاں‘‘ کو شامل رکھا تھا مگر پچھلی نصف صدی میں جب برطانیہ، امریکہ اور خلیجی ممالک وغیرہ میں اردو کی نئی بستیاں آباد ہونے لگیں تو یاروں نے اس مصرعہ کو حسب حال بنانے کی خاطر ’’ہندوستاں‘‘ کو ہٹا کر ’’سارے جہاں‘‘ کو شامل کر لیا تھا۔  بے شک داغؔ نے اپنے پر تکلف مگر شوخ و طرار انداز بیان میں اردو شاعری کو حسن کی جن عشوہ طرازیوں، چونچلوں، چنچل اداؤں اور ناز و نخروں کے علاوہ عشق کی جولانیوں، بے باکیوں بلکہ شوخ بے اعتدالیوں اور معصوم دست درازیوں سے روشناس کرایا تھا وہ انہی کا حصہ تھا اور یقیناً اس کے باعث سارے ہندوستان میں اس زبان کی دھوم سی مچ گئی تھی لیکن بے چارے داغ یہ نہیں جانتے تھے کہ سو سوا سو سال کے بعد ہی اس ترقی یافتہ بے مثال زبان پر وہ وقت بھی آئے گا جب وہ دنیا میں پھیل تو جائے گی لیکن اس کی گہرائی اور گیرائی اُتھلے پن میں تبدیل ہو جائے گی۔  اس کے لفظوں کی تہہ داریاں سپاٹ ہو جائیں گی، یہاں تک کہ ان لفظوں کے معنی، املا اور تلفظ تک بدل جائیں گے۔  نہ وہ عشق میں رہیں گی گرمیاں اور نہ وہ خم رہے گا زلف ایاز میں۔  اور یوں وہ اردو زبان جو داغ کے زمانہ اور خود ان کے فن میں آتے آتے آ گئی تھی اب جاتے جاتے جانے کے سفر پر روانہ ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے۔

آج ہمیں اچانک داغ دہلوی کی یاد اس لئے آ گئی کہ ممبئی کے اردو اخبار ’’اردو ٹائمز‘‘ میں کسی صاحب قلم نے ’’ن ص‘‘ کے مخفف قلمی نام سے ایک مضمون ’’اردو ہے جس کا نام کہاں جانتے ہیں ہم‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جس میں اردو کے موجودہ ریسرچ اسکالروں کی زبان دانی اور ان کی علمی لیاقت پر روشنی ڈالنے کی غرض سے دلچسپ واقعات قلمبند کئے ہیں۔  دو واقعات آپ بھی ملاحظہ کریں۔  مشہور شاعر قاضی سلیم کی رحلت پر اورنگ آباد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا تو اردو کے ایک ریسرچ اسکالر نے اپنی تقریر کا آغاز اس جملہ سے کیا ’’جب مجھے قاضی سلیم کے انتقال پر ملال کی اطلاع ملی تو میرا دل بلیّوں اچھل گیا‘‘۔  اس جملہ سے آپ قاضی سلیم کی رحلت پر اس ریسرچ اسکالر کے گہرے رنج و ملال کی شدت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔  ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ اس ریسرچ اسکالر نے محاورے کی ’’بلَیوں‘‘ کا تلفظ ’’بِلیّوں‘‘ کی طرح ادا کیا ہو گا کیونکہ اول تو یہ محاورہ شمالی ہند میں زیادہ مروج ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا استعمال خوشی کے جذبات کے اظہار کے لئے کیا جاتا ہے۔  اورنگ آباد کے ریسرچ اسکالر نے شمالی ہند کی ’’بلَیوں‘‘ کو تو کبھی اُچھلتے ہوئے نہیں دیکھا ہو گا (یہاں تک کہ خود ہم نے بھی کبھی نہیں دیکھا حالانکہ شمالی ہند میں ہم برسوں رہے )۔  تاہم اورنگ آباد کے اس ریسرچ اسکالر نے ایسی بِلیّوں کو ضرور دیکھا ہو گا جو چھینکے پر لٹکتی دودھ کی ہانڈی کی طرف اُچھلنے کی تکلیف دہ کوشش تو کرتی ہیں مگر ناکام رہ جاتی ہیں اور یوں گہرے رنج و الم میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔  مضمون نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کے معروف صحافی نے ایک نئے جوڑے کو شادی کی مبارک دیتے ہوئے فرمایا تھا ’’اللہ تم دونوں کو خوشیوں اور مسرتوں کے دہانے پر پہنچا دے‘‘۔  ویسے تو ہم تباہی اور بربادی کے دہانے تک پہنچنے کی کیفیت سے تو بخوبی واقف ہیں لیکن ایک دہانہ خوشیوں اور مسرتوں کا بھی ہوتا ہے اس سے قطعاً ناواقف ہیں۔  آج کے دور ابتلا میں مفرّس اور معّرب اردو بولنے کی کوشش میں ایسی ہی مضحکہ خیز اردو کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔  بہت پرانی بات ہے۔  امروہہ کی ایک ادبی محفل کی صدارت مولانا اسحق سنبھلی کو کرنی تھی، وہ اپنی سیاسی مصروفیات کے باعث محفل میں وقت پر نہ آ سکے۔  نتیجہ میں منتظمین محفل نے ایک ’’کام چلاؤ صدر‘‘ کو کرسی صدارت پر بٹھا دیا مگر جیسے ہی کام چلاؤ صدارت نے کرسی صدارت سنبھالی مولانا اسحق سنبھلی محفل میں پہنچ گئے۔  اس پر ناظم اجلاس نے بوکھلاہٹ میں مائیکرو فون پر اعلان کیا ’’حضرات! شومی قسمت سے مولانا اسحق سنبھلی محفل میں آ چکے ہیں۔  میں عارضی صدر اجلاس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کرسی صدارت کو خالی کر دیں‘‘۔  ایسی ہی مضحکہ خیز اردو کی ایک مثال ہمارے دوست امجد اسلام امجد نے سنائی تھی۔  احمد ندیم قاسمی صاحب کے ایک دوست کے فرزند کا کوئی کام کسی محکمہ کے عہدیدار بالا کے پاس پھنسا ہوا تھا۔  انہوں نے قاسمی صاحب سے خواہش کی کہ وہ اس سلسلہ میں متعلقہ عہدیدار سے بات کریں اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کریں۔  چنانچہ قاسمی صاحب نے عہدیدار بالا سے بات کی اور بالآخر ان کے دوست کے بیٹے کا کام ہو گیا۔  اس پر قاسمی صاحب کے دوست نے شکریہ کا جو معرکۃ الآرا خط انہیں لکھا اس کا پہلا جملہ تھا ’’قاسمی صاحب! آپ کی عنایت، کرم فرمائی، نوازش، سفارش اور آپ کی بے پناہ ’’ریشہ دوانیوں‘‘ کی بدولت میرے بیٹے کا کام بالآخر ہو گیا‘‘۔  ان دنوں اردو کے بہت سے محاوروں کا چلن یا تو ختم ہو گیا ہے یا یہ محاورے خود بے توقیر اور بے معنی ہو گئے ہیں۔  اردو نصاب کے پرچہ میں ایک سوال تھا ’کلنک کا ٹیکہ لگوانا‘ کو جملہ میں استعمال کیا جائے۔  ہماری زبان میں یہ محاورہ اس وقت سے رائج ہے جب کہ علم طب نے ترقی نہیں کی تھی اور ہیضہ، چیچک اور تپ دق وغیرہ جیسی بیماریوں کے ٹیکے ایجاد نہیں ہوئے تھے۔  لہذا ایک بھولی بھالی طالبہ نے اس محاورہ کو اپنے جملوں میں کچھ اس طرح استعمال کیا تھا ’’کل ہمارے گھر میں سارے افراد خاندان نے کلنک کا ٹیکہ لگوایا۔  میں چونکہ گھر پر نہیں تھی اس لئے میں ایسا ٹیکہ لگوانے سے محروم رہ گئی تھی۔  مگر آج میں کلنک کا ٹیکہ ضرور لگواؤں گی۔  احتیاط اور حفاظت اچھی چیز ہوتی ہے‘‘۔

ہمارے ایک دوست تقاریب اور جلسوں کی بڑی کامیاب نظامت کرتے ہیں لیکن ان سے بھی ایک بار بڑی دلچسپ غلطی سرزد ہو گئی تھی۔  ایک سیاسی رہنما جب تک وزارت کی کرسی پر براجمان رہے تب تک انہیں جلسوں میں ’’عزت مآب فلاں ابن فلاں‘‘ وغیرہ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔  لیکن جیسے ہی وہ وزارت کی کرسی سے اترے ایک محفل میں ہمارے مندرجہ بالا ناظم اجلاس نے بے خیالی میں نہیں بلکہ نہایت خیال انگیز لہجہ میں موصوف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’سابق عزت مآب جناب فلاں بن فلاں سے میری گزارش ہے کہ وہ ڈائس پر تشریف لائیں‘‘۔  بھلے ہی اردو زبان سارے جہاں میں پھیل گئی ہو لیکن یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ وہ اردوئے معلی جسے عموماً کوثر و تسنیم میں دھلوایا جاتا تھا اب ’’ڈرائی کلیننگ‘‘ پر گزارہ کر رہی ہے۔  خالص علمی اور ادبی اردو تو پس منظر میں چلی جا رہی ہے البتہ تفریحی اور ثقافتی اردو کا چلن اب بھی برقرار ہے۔  بہت عرصہ پہلے جب فلم ’’مغل اعظم‘‘ ریلیز ہوئی تھی تو کچھ عرصہ تک ہمارے سماج میں ظل الٰہی، عالم پناہ، صاحب عالم، تخلیہ اور یلغار جیسے لفظ سنائی دیتے رہے۔  وہ بھی اس طرح کہ ایک بار دبیر پورہ کمان کے پاس ہم سائیکل رکشا کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک منچلے رکشا والے نے دست بستہ عرض کی ’’عالم پناہ! کہاں جایئے گا؟‘‘ ہم نے کہا ’’عابد روز ’سیاست‘ کے دفتر پر‘‘۔  نہایت مودبانہ انداز میں فرشی سلام کرتے ہوئے بولا ’’ظل الٰہی! زہے نصیب۔  قدم رنجہ فرمایئے‘‘۔  ہم بیٹھ گئے تو پوچھا ’’ظل الٰہی! غلام کو کیا کرایہ عطا فرمائیں گے؟‘‘ (اتفاق سے اس دن ظل الٰہی کی جیب میں صرف آٹھ آنے تھے )۔  ہم نے چار آنے مرحمت کرنے کا وعدہ فرمایا تو حسب معمول فرشی سلام کی تکرار کے دوران بولا ’’عالم پناہ! عنایت، مہربانی، نوازش، کرم! آپ کی بندہ پروری کا شکریہ‘‘۔  خیر ہم رکشا میں تو بیٹھ گئے لیکن رکشا چلنے کا نام نہ لے۔  ہم نے کہا ’’میاں! چلتے کیوں نہیں؟‘‘ بولا ’’عالم پناہ! آپ حکم دیں تو تعمیل بھی ہو‘‘۔  ہم نے بھی مغل اعظم کے لہجہ میں کہا ’’یلغار ہو‘‘۔  اب جو رکشا کی یلغار شروع ہوئی تو یوں لگا جیسے کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے اور اس یلغار کی آڑ میں ہم موت کے غار میں پہنچ جائیں گے۔  سو ہم ڈر کے مارے دم سادھے بیٹھے رہے۔  غرض ’’سیاست‘‘ کے دفتر پر رکشا کی یلغار ختم ہوئی تو ہم نے ڈرتے ڈرتے اس خطرناک یلغار کی شکایت کی تو بولا ’’ظل الٰہی! یہ زمانہ ہمیں جینے نہیں دے گا اور ہم آپ کو مرنے نہیں دیں گے‘‘۔

یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہر دور اپنی لفظیات اپنے ساتھ لاتا ہے۔  ہمیں یہ بھی قبول ہے کہ اردو ساری دنیا میں پھیل رہی ہے لیکن آپ کو بھی یہ مان لینا چاہئے کہ اردو کے بے مثال ذخیرۂ الفاظ میں سے بہت سے لفظ غائب ہوتے جا رہے ہیں اور جو الفاظ بچ رہے ہیں ان کا تلفظ یا تو بگاڑا جا رہا ہے یا ان کی جنس تبدیلی کی جا رہی ہے۔  محاورہ کی ٹانگیں توڑی جا رہی ہیں اور لفظوں کے معنی بدلے جا رہے ہیں۔  حد ہو گئی کہ آئے دن اردو اخباروں میں ’’کتاب کا رسم اجرا‘‘، ’’کتاب کی اجرا‘‘، ’’بات چیت کا پیش ک‘‘ش، ’’حیدرآباد کی عوام‘‘ ’’اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی پر زور خلافت‘‘ جیسے عنوانات نہایت جلی سرخیوں میں دھڑ لے کے ساتھ لکھے جانے لگے ہیں۔  مانا کہ سماج میں جنس کی تبدیلی کے واقعات پیش آنے کے علاوہ خود ہماری حکومت بھی ہم جنسی کے پہلو پر ہمدردانہ غور کرنے لگی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ برسوں پرانے لفظوں کی نہ صرف جنس تبدیل کرنا شروع کر دیں بلکہ ان کے تلفظ، املا اور معنی بھی بدلنے لگے جائیں۔  ہم نے پہلے بھی کئی بار اپنے کالم میں ان باتوں کی طرف نشاندہی کی ہے لیکن ہمارے کالم کو پڑھتا کون ہے اور اگر غلطی سے کوئی پڑھتا بھی ہے تو اس پر عمل کرنے کو ضروری تصور نہیں کرتا۔

کون سنتا ہے فغانِ درویش

٭٭٭

 

 

 

 

 

محتاط بیگ

 

 

محتاط بیگ اُن کا اصلی نام نہیں تھا، کچھ اور تھا۔  کسی نے ان کا نام جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔  دوستوں نے انہیں یہ نام ان کے کام کی وجہ سے دیا تھا۔  وہ جو بھی کام کرتے اس میں اتنی احتیاط برتتے تھے کہ کام تو خیر کچھ بھی نہیں ہوتا تھا صرف احتیاط باقی رہ جاتی تھی۔  گھر سے باہر نکلتے تو اپنا پانی اپنے ساتھ لے جاتے تھے کہ کہیں ایسا ویسا پانی پینے کی وجہ سے بیمار نہ ہو جائیں۔  پانی تو خیر اور بھی بہت سے لوگ لے جاتے ہیں۔  انہیں کوئی اپنے ہاں کھانے پر بلاتا تو اپنا کھانا وہ اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور دعوتوں میں الگ تھلگ بیٹھ کر یوں کھاتے تھے جیسے چوری کر رہے ہوں۔  میزبان کے لئے یہ سخت آزمائش کی گھڑی ہوتی تھی۔  بعد میں لوگوں نے انہیں دعوتوں میں بلانا چھوڑ دیا تھا۔  محتاط بیگ زندگی گزارنے کے معاملہ میں اتنے محتاط واقع ہوئے تھے کہ اگر ان کی خدمت میں آب حیات بھی پیش کیا جاتا تو وہ اسے اُبالے بغیر پینے کے قائل نہیں تھے۔  اسی محتاط رویے کی وجہ سے وہ اپنی ہر چیز کو بڑی احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔  ہاتھ پر گھڑی ضرور باندھتے تھے لیکن وقت کو جاننے کے لئے کبھی اپنی گھڑی کو زحمت نہیں دیتے تھے۔  دوسرے سے وقت پوچھتے تھے اور نتیجہ میں ہر کام ہمیشہ دیر سے انجام دیتے تھے۔  ایک دن انہوں نے مجھ سے وقت پوچھا۔  میں نے کہا دس بجے ہیں۔

پوچھا ’’دن کے یا رات کے؟‘‘

میں نے کہا ’’قبلہ! آپ کو دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ باہر سورج چمک رہا ہے۔  چاروں طرف روشنی پھیلی ہوئی ہے۔  پھر آپ نے یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھا؟‘‘۔

بولے ’’احتیاطاً پوچھ لیا ہے۔  احتیاط ہمیشہ اچھی چیز ہوتی ہے۔  اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟‘‘۔

ویسے تو وہ ایک دفتر میں کام کرتے تھے لیکن کام اتنی احتیاط سے کرتے تھے کہ دن بھر میں ایک فائل بھی ان کی میز سے نکل نہیں پاتی تھی۔  ایک ایک لفظ پر گھنٹوں غور کرتے تھے۔  جس لفظ کو لکھنا چاہتے تھے اس کے مختلف معنی مختلف ڈکشنریوں میں دیکھتے تھے۔  یہاں تک کہ دفتر کا وقت ختم ہو جاتا تھا۔  کام شروع کرنے سے پہلے اپنے ہر ساتھی سے پوچھتے تھے کہ آج کیا تاریخ ہے۔  تاریخ معلوم ہو جاتی تو دن کے بارے میں دریافت کرتے۔  دن معلوم ہو جاتا تو جاریہ مہینہ کی تصدیق کروا لیتے تھے۔  کبھی کبھی تو جاریہ سن کے بارے میں بھی پوچھ لیتے تھے۔  اس پر بھی انہیں اطمینان نہیں آتا تھا تو خود کیلنڈر لے کر بیٹھ جاتے تھے۔  نیا سال آتا تو نئے سال کا پورا ایک مہینہ اپنے ساتھیوں سے یہ پوچھنے میں گزار دیتے تھے کہ واقعی نیا سال آ گیا ہے یا نہیں یا ابھی اس کے آنے میں تھوڑی سی کسر باقی رہ گئی ہے۔  کپڑے نہایت نفیس پہنتے تھے اور پتلون سے کہیں زیادہ اس کی کریز کا ہر دم خیال رکھتے تھے۔  وہ کپڑے پہنتے نہیں تھے بلکہ کپڑوں کو اپنے اوپر لٹکائے رکھتے تھے۔  دن بھر ہینگر کی طرح ٹنگے رہتے تھے اور اپنے جسم کو کم سے کم حرکت میں لاتے تھے۔  کبھی کوئی چیز ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر جاتی تو اسے خود سے نہیں اٹھاتے تھے۔  دوسروں سے اٹھواتے تھے تاکہ پتلون کی کریز خراب نہ ہونے پائے۔  چلتے تو بہت احتیاط سے چلتے تھے۔  ہر قدم نہایت آہستہ اٹھاتے تھے اور اسے دوبارہ زمین پر رکھنے سے پہلے اس زمین کا بغور جائزہ لے لیا کرتے تھے جہاں اُٹھے ہوئے قدم کو رکھنا مقصود ہوتا تھا۔  صحیح معنوں میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے بلکہ پھونکتے زیادہ تھے اور قدم کم اٹھاتے تھے۔

ایک دن میں نے پوچھا ’’محتاط بیگ تم اس قدر احتیاط سے کیوں چلتے ہو؟‘‘ بولے ’’میرا قد یوں بھی ساڑھے پانچ فیٹ کا ہے۔  احتیاط سے نہیں چلوں گا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ گھس گھِسا نہ جائے۔  اسی لئے احتیاط لازم ہے‘‘۔

ایسا محتاط آدمی اپنی صحت کے بارے میں کتنی احتیاط کرتا ہو گا اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔  دن میں دس بارہ مرتبہ اپنی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ اطمینان کر لیتے تھے کہ نبض چل بھی رہی ہے یا نہیں۔  کبھی کبھی انہیں شبہ ہو جاتا تھا کہ ان کی نبض رک گئی ہے۔  تب وہ اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑ کر میرے پاس آتے تھے اور اپنی نبض میرے ہاتھ میں تھما دیتے تھے تاکہ میں ان کے زندہ رہنے کی تصدیق کر سکوں۔  ایک دن میں نے کہا ’’یار! تمہاری سانس تو چل رہی ہے، نبض دیکھ کر کیا کرو گے؟‘‘

بولے ’’سانس کے چلنے سے کیا ہوتا ہے۔  نبض کو بھی تو چلنا چاہئے‘‘۔

میں نے کہا ’’یار! کیوں میرا وقت برباد کر رہے ہو۔  تم تو ابھی زندہ سلامت ہو‘‘۔

بولے ’’احتیاطاً اسی کی توثیق آپ سے چاہتا ہوں‘‘۔

میں نے کہا ’’بھیا! یقین کرو تم صد فیصد زندہ ہو‘‘۔

اپنے زندہ رہنے کی توثیق پا کر پہلے تو خوش ہوئے مگر دوسرے ہی لمحہ میں اپنے اوپر مایوسی طاری کرتے ہوئے بولے ’’مگر یار یہ بھی کوئی زندگی ہے‘‘۔  یہ کہہ کر انہوں نے پھر اپنا بایاں ہاتھ داہنے ہاتھ سے پکڑا اور چلے گئے۔

جب بھی کسی بیماری کے بارے میں کہیں کچھ پڑھ لیتے تو وہ اس بیماری کے جراثیم کو اپنے جسم میں تلاش کرنا شروع کر دیتے تھے۔  طرح طرح کے وسوسے اپنے دل میں اور ان جراثیم کو اپنے جسم میں پالنے میں لگ جاتے تھے۔  پھر اپنے ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنے مخصوص سوالات کے ذریعہ خود ڈاکٹر کی طبی معلومات میں اضافہ کرنا شروع کر دیتے تھے۔

محتاط بیگ نے کبھی شادی نہیں کی۔  زندگی بھر کنوارے رہے۔  یوں بھی جس آدمی کو اپنی پتلون کی کریز کے ٹوٹنے کی ہر دم فکر لاحق رہتی ہو وہ بھلا شادی کر کے کیا کرتا۔  انہوں نے محض اس ڈر سے پہلی شادی نہیں کی کہ اگر پہلی شادی کے بعد بیویوں نے مرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تو چوتھی بیوی کے بعد وہ کیا کریں گے۔  شرع کو بھی وہ پتلون کی کریز سمجھتے تھے جسے کسی قیمت پر ٹوٹنا نہیں چاہئے۔  غرض محتاط بیگ نے اپنی نوجوانی کے دن بھی اتنے محتاط گزارے کہ نوجوانی حیرت سے محتاط بیگ کو صرف دیکھتی رہ گئی کہ ہائے میں کس کے پلّے پڑ گئی۔  گویا انہوں نے اپنی پتلون کے ساتھ ساتھ اپنی نوجوانی کی کریز بھی ٹوٹنے نہیں دی۔

پچھلے ہفتہ اچانک پتہ چلا کہ محتاط بیگ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔  میں ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو تھامے ہوئے ابدی نیند سورہے ہیں۔  میں نے از راہ احتیاط ان کی نبض دیکھی وہ واقعی بند تھی۔

یہ سچ ہے کہ محتاط بیگ نے زندگی کو کچھ نہیں دیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے زندگی سے کچھ لیا بھی نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ باتیں انعاموں کی

 

 

(کچھ عرصہ پہلے دوحہ قطر کی تنظیم ’’بزمِ صدف انٹرنیشنل‘‘ نے مجھے اپنا عالمی انعام دینے کا اعلان کیا تھا اور مجھ سے ایوارڈ کو حاصل کرنے کی غرض سے 29 ڈسمبر کو پٹنہ میں منعقد ہونے والی ایک تہنیتی تقریب میں شرکت کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔  چنانچہ مقر رہ تاریخ کو میں پٹنہ کی فضاؤں میں تو پہنچ گیا لیکن پٹنہ میں موسم اتنا خراب تھا کہ طیارہ وہاں کے ہوائی اڈہ پر اُتر نہ سکا بلکہ کولکتہ چلا گیا۔  بحالتِ مجبوری مجھے طیارہ میں بیٹھے بیٹھے ہی کولکتہ سے فون پر تقریب کے سامعین کو مخاطب کرنا پڑا اور میں نے سامعین سے کہا کہ جس طرح غائبانہ نمازِ جنازہ ادا ہوتی ہے، اسی طرح اس محفل کو غائبانہ ایوارڈ تقریب سمجھیں۔  قدرت کبھی کبھی میرے ساتھ ایسا ہی عملی مذاق بھی کرتی ہے۔  حسب ذیل تحریر اسی موقع کیلئے لکھی گئی تھی جو تقریب میں پڑھی نہیں جا سکی)۔  مجتبیٰ حسین

معزز خواتین و حضرات! جوں جوں میں اپنی تاریخ پیدائش سے بہت دور اور اپنی تاریخ وفات سے قریب تر ہوتا جا رہا ہوں مجھے شدت سے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ میری عمر کی نقدی اب قریب الختم ہے اور مجھے اُدھار کی حاجت ہے۔ یوں سمجھیے کہ اب میں “ڈیلی ویج” کے اُصول پر زندہ رہ کر روز کی زندگی روز جیتا چلا جا رہا ہوں۔  بہت پہلے داؔغ دہلوی نے ایک شعر کہا تھا ؎

ہوش وحواس، تاب و تواں داغ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

مگر میرا معاملہ یہ ہے کہ میرے تاب و تواں تو کب کے جا چکے ہیں البتہ میرے ہوش وحواس اب بھی صحیح وسالم ہیں۔ یوں سمجھیے کہ میرا بڑھاپا اپنے شباب پر ہے اور مجھ میں اس سے زیادہ بوڑھا ہونے کی دور دور تک کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔  گوشہ نشینی کی زندگی گزارتا ہوں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔

حضرات! اس سے پہلے کہ میں بزمِ صدف انٹرنیشنل دوحہ قطر کے اربابِ مجاز کی جانب سے مجھے ملنے والے انعام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں میں یہاں اپنے بزرگ دوست ملک زادہ منظور احمد مرحوم کی مشہور خود نوشت ’’رقصِ شر ر‘‘ کا حوالہ دینا چا ہوں گا جس میں انھوں نے 2000 ء میں میرے ساتھ پیش آئے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جسے آپ اُن ہی کی زبانی سماعت فرمائیے۔

اس خاکسار پر ایک وقت ایسا بھی بیت چکا ہے جب انواع و اقسام کے ایوارڈ دینے والوں کے ہاتھوں ناچیز کے دونوں ہاتھ تھکنے لگے تھے۔  یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ میری مزاح نگاری پر سے بائیس برسوں تک کا عرصہ بیت جانے کے باوجود کسی اُردو تنظیم نے مجھے انعام دینے کے قابل نہیں سمجھا تھا۔  تاہم 1980 میں اُڑیا زبان کے ادیبوں کی تنظیم سرس ساہتیہ سمیتی نے مجھے ’’ہاسیہ رتن ‘‘یعنی (گوہرِ مزاح) کے اعزاز سے نہ صرف نوازا بلکہ کٹک میں دو روزہ جشن منعقد کر کے اُڑیا زبان میں میرے مضامین کی ضخیم کتاب بھی شائع کی۔

مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اُردو کا پہلا انعام جو پہلا غالب انعام برائے اُردو طنز و مزاح بھی تھا، وزیر اعظم ہندوستان شریمتی اندرا گاندھی کے مبارک ہاتھوں سے حاصل کیا۔ یہ 1984 کی بات ہے۔  اس کے بعد یوں سمجھیے کہ مجھ پر اُردو والوں کی طرف سے انعامات اور اعزازات کی بوچھاڑ سی لگ گئی۔ ملکی انعامات و اعزازات کے علاوہ مجھے سعودی عرب، مسقط، دوبئی، کناڈا، برطانیہ، امریکہ اور پاکستان سے بھی بیسیوں انعامات ملے۔  تاہم 2000 میں جب مجھے ہندوستانی نژاد امریکی مسلمانوں کی تنظیم (American Federation of Muslims of Indian Origin)کی جانب سے رات کے دو بجے فون پر یہ اطلاع ملی کہ اس تنظیم نے مجھے 2006 کیلئے میر تقی میر ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو میں نے گہری نیند سے جاگ کر ہڑبڑاتے ہوئے پوچھا ’’یہ میر تقی میر صاحب کون ہیں؟ ۔ گرین کارڈ ہولڈر ہیں یا باضابطہ امریکی شہری ہیں؟ ۔  انجینر ہیں یا ڈاکٹر ہیں؟‘‘۔

جواب آیا ’’یہ وہی میر تقی میر ہیں جنھیں ٹْک روتے روتے سو جانے کی پرانی عادت تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ٹْک ہنستے ہنستے سو جانے کے عادی ہیں‘‘۔ یادش بخیر! ایسی ہی اتفاقی ہڑبڑاہٹ اور بوکھلاہٹ مجھ پراُس وقت طاری ہو گئی تھی جب 2007 میں حکومت ہند نے نا چیز کو پدم شری کے اعزازسے نوازا تھا۔ یقین مانیے دنیا بھر سے مبارکبادیوں کے سینکڑوں فون وصول ہونے لگے اور نا چیز کی زبان شکریہ ادا کرتے کرتے سوکھ گئی۔ ایسے میں میرے ایک بدخواہ اورحاسد نے جب فون پر مجھے گالیاں دینی شروع کیں تو تب بھی میں یہی کہتا رہ گیا ’’آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کی عنایتوں اور ذرّہ نوازی کے لئے تہہ دل سے شکر گزار ہوں‘‘۔ بہرحال فون اُٹھاتے اُٹھاتے جب میں عاجز آ گیا تو میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ اب وہ فون اُٹھائیں تاکہ میں کچھ دیر آرام کر سکوں۔ مگر پہلے ہی فون کال پر کسی نے ہماری بیگم سے پوچھ لیا ’’کیا پدم شری گھر پر ہیں؟‘‘۔

محترمہ نے کہا ’’جی ہیں تو سہی مگر ذرا آرام فرما رہے ہیں‘‘

دوسری طرف سے آواز آئی ’’آپ کون بول رہی ہیں؟‘‘۔

اس پر میری اہلیہ نے بے ساختہ کہا ’’میں شریمتی پدم شری بول رہی ہوں‘‘۔

اس پر میں نے اُن کے ہاتھ سے ریسیور کو چھینتے ہوئے کہا ’’محترمہ! بوکھلاہٹ میں آپ بھی مزاح نگار بنتی چلی جا رہی ہیں‘‘۔

آج جب میں پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ انعامات دینے والوں نے ماضی میں مجھے انعام دینے کے معاملہ میں اتنی عجلت اور جلد بازی دکھائی کہ انعامات کا حصول اب میرے حق میں گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ 1984 میں مجھے جو پہلا غالب انعام ملا تھا تو اُس کی مالیت اُن دنوں دس ہزار تھی جب کہ آج اس کی مالیت پچھتر ہزار کی ہے -1993 میں جب مجھے آندھرا پردیش اُردو اکیڈمی کا کل ہند مخدوم محی الدین ایوارڈ ملا تھا تو اُس کی مالیت اُن دنوں پندرہ ہزار تھی جب کہ آج یہ انعام سوا لاکھ کا ہے۔  اسی طرح مدھیہ پردیش، کرناٹک، ہریانہ، مہاراشٹرا، پنجاب اور دہلی کی اُردو اکیڈیمیوں نے طنز و مزاح کے فروغ کے لئے جو انعامات مجھے دئے تھے اُن کی مالیت اُن دنوں فی کس پندرہ ہزار تھی مگر آج ان سب کی مالیت پچاس ہزار روپئے ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اِن اداروں نے مجھے قبل از وقت انعامات دے کر ایک گہری سازش رچی تھی تاکہ میں تونگر اور مالدار نہ بن سکوں۔

انعامات یاد آنے لگے ہیں تواب مجھے اپنے بزرگ دوست آنجہانی تارا سنگھ کامل کی یاد آ رہی ہے جو پنجابی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے۔ انھیں جب حکومت پنجاب نے اُن کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں اپنے سب سے بڑے انعام سے نوازا تو میں نے تارا سنگھ کامل کو مبارکباد دی۔ اس پر انھوں نے آنکھ مار کر ہنستے ہوئے کہا ’’میاں مجتبیٰ! اس میں مبارکباد دینے کی کیا ضرورت ہے۔  تم تو جانتے ہو کہ اس طرح کے ایوارڈ کس طرح حاصل کئے جاتے ہیں‘‘۔

ایک زمانہ تھا جب ایوارڈوں کے معاملہ میں صرف دو فریقوں کے ہاتھوں کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ ایک ہاتھ ایوارڈ دیتا تھا اور دوسرا ہاتھ اس ایوارڈ کو قبول کرتا تھا۔ لیکن اب اس میں ایک تیسرا ہاتھ بھی نمودار ہو گیا ہے جو ایوارڈ دلاتا ہے۔  اب اہمیت ایوارڈ دینے اور لینے والے کی نہیں رہ گئی ہے بلکہ ایوارڈ دلانے والے کا ہاتھ ہی مرکزی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔  میرے ایک معصوم دوست نے برملا یہ اعتراف کیا تھا کہ اس نے پچاس ہزار روپیے کا ایک ایوارڈ حاصل کرنے کی غرض سے جملہ پچھتر ہزار روپئے خرچ کئے تھے۔ آپ کو یقیناً پتہ ہو گا کہ بعض اداروں کے انعام اتنے بے توقیر اور کم سواد ہو چکے ہیں کہ جس کسی کو یہ انعام ملتا ہے وہ انعام یافتہ کم اور سزا یافتہ زیادہ نظر آنے لگتا ہے۔  خدا کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ عمر کے پچاسی برس گزارنے کے باوجود میں نے کسی ایوارڈ کے حصول کے لئے نہ تو کسی کے آگے اپنا ہاتھ پھیلایا اور نہ ہی کسی تیسرے ہاتھ کی خدمات حاصل کیں۔

خواتین و حضرات! میں کسی مصلحت پسندی کے بغیر ببانگ دہل یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ یوں توساری اُردو دنیا میں میرے بے شمار مدّاح اور بہی خواہ بکھرے ہوئے ہیں لیکن میرے مدّاحوں کی اکثریت بہار میں زیادہ آباد ہے۔  شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب بہار سے میرے پاس کسی نہ کسی مدّاح کا فون نہ آیا ہو۔ اپنے بہاری دوستوں اور کرم فرماؤں کے نام گنانے لگوں تو قصہ طولانی ہو جائے گا۔ یوں بھی یہ معاملہ حسابِ دوستاں در دل والا ہے۔  یہی نہیں 2011 میں جب مجھے وزٹینگ پروفیسر بننے کا اعزاز حاصل ہوا تو اندازہ ہوا کہ قدرت نے بہار کے مایہ نازسپوت اور بہار کے پروفیسر سید محمد حسنین کے فرزند پدم شری احتشام حسنین کو محض اس لئے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا کہ ایک دن وہ مجھے اپنی یونیورسٹی میں بالآخر وزٹینگ پروفیسرمقرر کر دیں۔ مجھ جیسے نرے گریجویٹ کے لئے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔

بہرحال پچھلے دنوں میں حسبِ معمول اپنے سفرِ آخرت کی تیاریوں میں مشغول تھا کہ پردۂ غیب سے میرے ٹیلی فون پر آواز آئی ’’میں پٹنہ سے صفدر امام قادری بول رہا ہوں۔ آپ کو یہ خوش خبری سنانی ہے کہ بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ کی انعامی کمیٹی نے آپ کو 2017 کا اپنا عالمی انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی مالیت ایک لاکھ روپئے ہو گی۔  میں نے جواباً کہا ’’قبول کیا میں نے‘‘۔ اس کے فوراً بعد ایوارڈ کمیٹی کے کنوینر پروفیسر زاہد الحق، جو میرے بہت پرانے ناقابل علاج مدّاح اور بہی خواہ ہیں، کی غیبی آواز آئی۔  ’’جناب مجھے آپ کی صحت کی خرابی کا علم ہے۔  لہذا میں خود 29 ڈسمبر کو آپ کو لے کر پٹنہ آؤں گا اور پھر 31 ڈسمبر کو حیدرآباد بھی واپس لے جاؤں گا‘‘۔

دیکھا آپ نے حضور! یا تو میں کچھ دیر پہلے اپنے سفرِ آخرت کی تیاریوں کے بارے میں غور کر رہا تھا کہ اچانک پٹنہ کے سفر کے بارے میں سوچنے کا مرحلہ آ گیا۔  میرے ایک بہاری دوست نے بہت پہلے کہا تھا ’’مجتبیٰ حسین! زمانہ تمھیں جینے نہیں دے گا اور بہاری تمھیں مرنے نہیں دیں گے‘‘۔ میں بزم صدف انٹرنیشنل کے اربابِ مجاز شہاب الدین احمد، پروفیسر صفدر امام قادری، پروفیسر زاہد الحق اور رفیق دیرینہ ڈاکٹر ظفر کمالی کے علاوہ انعامی کمیٹی کے معزز ارکان پروفیسر مشتاق احمد نوری، پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر محمود الاسلام (بنگلہ دیش) اور بہار کے ادب دوستوں کا تہہ دل سے ممنون ہوں جنھوں نے مجھ ناچیز پر ہمیشہ اپنی محبتیں نچھاور کیں۔

خواتین و حضرات! جیسا کہ آپ جانتے ہیں اپنے ادبی سفر میں مجھے بہت سے انعامات مل چکے ہیں۔ کئی انعامات تو میری مجموعی خدمات کے صلہ میں بھی ملے ہیں۔  کیا یہ ممکن ہے کہ اگلی بار جب مجھے کوئی ایوارڈ ملے تو وہ میری ’’مجموعی خدمات‘‘ پر نہ ہو بلکہ میرے ’’مجموعی انعامات‘‘ پر بھی ہو اور کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے انعام کے پیچھے بھی کسی بہاری کرم فرما کا ہی ہاتھ ہو (آمین)۔ رہے نام اللہ کا۔

٭٭٭

ماخذ: روزنامہ سیاست، حیدر آباد

http://ur.siasat.com

تدوین اور ای بلک ،کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل