FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

تیشۂ سخن

 

فرخ محمود

 

تشکر: کتاب ایپ

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

اپنی شریک حیات

صومیہ فرخ

کے

نام

ہم سے کیا زندگی کا پوچھتے ہو

اِک دیے کی ہوا سے دوستی ہے

 

 

 

 

درد حیاتی دا

 

 

ہم اس وقت انمول ہسپتال کی (Lab) کی سیڑھیوں کے نیچے بیٹھے یہ مضمون لکھ رہے ہیں۔  ہمارے دو بچے ارسل محمود اور ارحم محمود سکول جا چکے ہیں اور دو بچے عبدالرحمن اور ایان عبداللہ گھر میں اپنی ماں کا انتظار کر رہے ہیں۔  جو اس وقت انمول کے شعبہ (Blood cancer) میں زیر علاج ہے۔

وقت کا نصاب بھی پہاڑی ندی نالوں کی طرح پر پیچ اور خم دار ہوتا ہے۔  نہ جانے کس وقت، وقت کا نصاب تبدیل ہو جائے زندگی کے اوراق درہم برہم ہو جائیں کس گھڑی کوئی کڑی گھڑی وقت کی گھڑی میں آ کے آپ کے روز و شب کے معنی تبدیل کر کے رکھ دے کوئی نہیں جانتا۔  ہم بھی اپنی آنکھوں میں اپنی آنے والی کتابوں کے خواب سجائے ہوئے تھے۔  پہلی کتاب، پہلا عشق، پہلی نظر اور پہلا قدم انسان کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔  اگر ہم یہ کہیں کہ پہل کرنا ہی جیت کا آغاز ہوتا ہے۔

The courage to begin is the stat to win

جب ہم کسی کو اپنی English quotation یا Urdu شعر سناتے تو وہ ہم سے یہ کہتا کہ فرخ صاحب آپ کا ذوق بہت عمدہ ہے تو ہم اس بات پہ سیخ پا ہو جاتے اور اپنا یہ شعر داغ دیتے تھے:

مری رگوں میں دوڑتا

خیال ہی خیال ہے

شاعری کا خیال اور خیال کی شاعری ہماری روح کی دھمال ہے اور روح کی دھمال کا مقام ذوق و شوق سے بہت آگے کا مقام ہے۔  اسی دھمال میں ہم اپنی پہلی کتاب تیشہ سخن کی طباعت کے مراحل سے گزر رہے تھے اور اسی سلسلے میں اپنے شاعری کے استاد محترم جناب جاوید قاسم سے مل کے رات کو گھر واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ ہماری زوجہ حیات ہاتھوں میں قلم تھامے کھلی آنکھوں سے کچھ قلم بند کر رہی تھیں۔  ہمارے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ میں نے آپ کی شاعری کے متعلق کچھ قلم بند کیا ہے۔  جب ہم نے اس قلم بند تحریر کو کھلی آنکھوں سے پڑھنا شروع کیا تو ہم قلزمِ حیرت میں ڈوب گئے۔

ہم خود بھی اپنے آپ کو فقرے باز بلکہ فقروں کے باز سمجھتے ہیں لیکن ہمیں یہ ماننے میں کوئی عار نہیں۔  اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یہ راز کھلا کہ فقروں کے باز کو ایک فاختہ نے شکست سے دوچار کر دیا ہے۔  اس کی تحریر کی روانی اور جولانی نے ہمارے لیے حیرانی کے در کھول دیے۔  ہم اس کی تخلیقی صلاحیتوں سے نابلد نہ تھے۔  کیوں کہ جب ہم اسے اپنا شعر یا Quotation سناتے تو اس کے چہرے پر اُبھرنے والی خاموشی کی لکیریں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی آواز بلند نہ ہونے کی صدا بلند کرتی۔  وہ اکثر ہم سے کہتیں کہ میں لکھنا چاہتی ہوں لیکن چار دن کی زندگی میں چار عدد شریر بچوں کو سنبھالنا کسی بڑے تخلیقی تجربے سے کم نہیں۔ اس نے اپنی پہلی تحریر میں ہمارے اپنے احساسات قلم بند کیے لیکن ہم نے اسے اس مضمون کو چھوڑ کر دوسرا مضمون اپنی شاعری اور شخصیت پر لکھنے کا کہا۔  ابھی اس نے وہ مضمون لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ وہ بیمار ہو گئی اور تشخیص کے جاں گداز مراحل سے گزرنے کے بعد یہ کھلا کہ اُسے خون کا سرطان ہے۔  ہم پر اس کے پہلے مضمون میں ایک مصرعہ ’’اندرو اندر وگدا رہندا پانی درد حیاتی دا‘‘ کا عقدہ یہ کھلا کہ اس کو اس کا ادراک پہلے ہو چکا تھا۔  ہم نے اپنی کتاب کا انتساب اپنے والد محترم جناب محمد یار کھوکھر جو کہ (P.C.S) آفیسر تھے اور اپنے استادِ جناب جاوید قاسم کے نام کیا تھا۔  ہماری شاعری ہمارے والد کی اُجلی روح کا کاغذی پیرہن ہے اور جناب جاوید قاسم نے ہمیں انگلی پکڑ کر شاعری کرنا سکھایا اور ہم جیسے نا قابلِ اصلاح کی اصلاح کی۔  اب ہم اپنی کتاب کا انتساب اپنی زوجۂ حیات صومیہ فرخ کے نام کر رہے ہیں اور دونوں نامکمل مضامین بھی کتاب کا حصہ ہیں جو بیماری کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکے۔  آپ کی دعاؤں کا طالب

فرخ محمود

 

 

 

 

نامکمل

 

ستاروں پر کمندیں ڈالنا اور چاند پر گھر بنانا بہت آسان ہو گیا۔  مشکل کام ٹھہرا تو اپنے اندر کے جنتر منتر سے چھٹکارا پانا۔  میں تو اپنی لیکچراری کے مزے لوٹ رہا تھا کہ ایک دن یہ راز منکشف ہوا کہ ہمارے اندر تو ایک شاعر چھپا بیٹھا ہے۔  پہلے پہل تو ہمیں اپنی دماغی صحت پر شبہ ہوا کہ جسے زندگی میں شاعری سے کبھی بھی رغبت نہ رہی ہو بلکہ شعر سن کر اختلاج قلب میں مبتلا ہو جانے کا یقینی خدشہ ہو وہ کیسے شاعر بن سکتا ہے۔

مرتا کیا نہ کرتا ہم نے اس راز کو اپنے سینے میں ایسے ہی چھپا لیا جیسے مشرکین مکہ سے مسلمان اسلام چھپا لیا کرتے تھے۔  سو ہم بھی چھپ چھپ کر عشق کی نماز پڑھتے رہے۔  اس سفر میں پتھر بھی پڑے جنھیں اُٹھا اُٹھا کر اپنی جیبوں میں بھرتے رہے۔  پتھر کھانے کی روایت مجنوں، عاشق اور دیوانے شاعر وغیرہ سے چلی آ رہی ہے لیکن ہمیں اس سے کچھ زیادہ برداشت کرنا پڑا۔  جیسے پہلے پہل کسی کو شعر سنانے کی کوشش کرتے تو وہ ایسی خشمگیں نگاہوں سے گھورتے کہ شعر حلق میں گولہ بن کر اٹک جاتا اور جسمانی توازن بگڑ جاتا اور جس شعر کو ہم نے ترنم سے سنایا ہوتا وہ ایک نوحہ بن کر ہونٹوں سے برآمد ہوتا اور اس کیفیت کے ذمے دار زیادہ میرے سسرالی عزیز ہیں۔  جب بھی میں ان پر اپنے شعر و سخن کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ عجیب ترحم آمیز نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہیں اور کبھی اپنی بیٹی کو دیکھتے ہیں اور ان کی ٹھنڈی آہوں میں میرے شعر سسکی بن کر دم توڑ جاتے ہیں اور دیکھا جائے تو مجھ سا مظلوم شاعر اس دنیا میں کون ہو گا جو اپنے سسرال والوں کو اپنی ایک غزل نہ سنا سکا۔

لیکن ہم نے ہمت ہارنی کہاں سیکھی۔  اندر سے چابک پڑتا رہا کہ دوڑ اور تیز دوڑ کئی دفعہ منہ کے بل بھی گرے لیکن دوڑنا مقدر ٹھہرا تو پھر کہیں نہیں رکے۔  کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

اندرو اندری وگدا رہندا پانی درد حیاتی دا

شعر کا درد وہی سمجھ سکتا ہے جو حیاتی کا درد سمجھتا ہے۔  شعر کی حساسیت سمجھنے کے لیے پائنچے ٹنگ کر اندر ٹبی لگانی پڑتی ہے اور اس کیچڑ سے تو وہ ہی کھیلتا ہے جس کا اندر باہر اُجلا ہو۔  میرا ہر شعر دھوبی پٹرا ثابت نہ بھی ہو تو آپ کے اندر ہلکی سی گدگدی ہی کر دے تو بہت ہے۔

 

 

 

 

نوٹ:  یہ وہ نامکمل مضمون ہے جو میری بیوی صومیہ نے ’’میں‘‘ یعنی فرخ بن کے لکھا جو اس کی بیماری کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکا۔

 

میرا شاعر

 

فرخ صاحب کی شاعری کا سفر زندگی کے سفر کی طرح ہے۔  کہیں سے پر پیچ، کہیں سے سیدھا کہیں سے ٹیڑھا اور صبر آزما ہے۔  پہلے پہل جب انھوں نے شاعری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میری زبان گنگ ہو گئی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود۔  کیوں کہ یہ وہ شخص تھا جسے بڑے شعراء کے نام تو کیا شعر کی حس لطافت کو چھونے کا دور سے بھی موقع نہیں ملا۔  یہ تیشہ گری تو بڑے نازک خیالات رکھنے والے کا کام ہے اور میرے شوہرِ نام دار تو اٹھا پٹخ کے ماہر۔  فریج کا دروازہ زور سے بند کرنا، باتھ روم کا دروازہ اسی قدر زور سے بند کرنا کہ اس کی چول چول فریاد کرنے لگ جائے۔  کچن میں جائیں تو برتن ڈر سے بجنا شروع ہو جائیں اور اگر دھرتی پر چلیں تو ان کے قدموں کی دھم دھم سے نیچے والے کرائے دار سہم سہم جائیں۔  کھانا کھانے اور کھانا کھلانے کے فن پر مکمل عبور کر چکے ہوں۔  انھیں دیکھ کر اگر یہ گمان نہ گزرے کہ یہ شعر فروش ہے بل کہ شعر فروش سے زیادہ مچھلی فروش دکھائی دیتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔  کیوں کہ مچھلی کی تمام اقسام پر جتنا عبور انھیں حاصل ہے شاید کہ مچھلی والے کو بھی نہ ہو۔  (بیوی ہونے کے ناتے میں نے انھیں صرف لیکچراری تک محدود ہونے کی فریاد کی اور سبز باغ دکھائے کہ ایم فل کریں، پی ایچ ڈی کریں۔  ڈگریاں حاصل کریں اور لاکھوں کمائیں۔  اس خارزار میں قدم رکھنا اور پھر منوانا بڑا مشکل ہے۔  کیوں کہ میرے نزدیک شاعر حضرات مرنجاں مرنج قسم کے ہوتے ہیں۔  غالب سے لے کر فیض تک، فیض سے لے کر احمد فراز تک سبھی کھانے پینے سے عاجز نظر آئے۔  میرے تصور میں شاعر سگریٹ کے مرغولے بناتا ہوا فضاؤں میں کہیں دور گھور رہا ہوتا اور دوسرے ہاتھ میں جام لیے اپنے معدے کو کیمیکل سے آلودہ کر رہا ہوتا ہے۔  اسی کیمیکل کے reaction کے طور پر شعر برآمد ہوتے اور صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتے جاتے لیکن جب حقیقت کی آنکھ سے شوہر کو دیکھا تو وہ اس Criteria پر پورا نہیں اُترتے۔  اتنا خوش پوش، خوش خوراک اور صحت مند شاعر شاید ہی میری نظر سے گزرا ہو۔

لیکن فرخ صاحب نے میرے تمام اعتراضات کو بالائے طاق رکھ کر شاعری کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔  پہلے پہل تو انھوں نے اپنے لیے ایک اُستاد ڈھونڈا جیسے گانا سیکھنے سے پہلے باقاعدہ گنڈہ باندھا جاتا ہے اور پھر موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے جاتے ہیں بالکل اسی طرح استاد صاحب نے ان کی باقاعدہ تربیت کا آغاز کر دیا۔  بس پھر کیا تھا موبائل پر دن رات شعر تھے اور ہم تھے۔  گاڑی میں جاؤ تو شعروں کی بوچھاڑ، بازار میں جاؤ شعروں کی یلغار، گھر کی ہر کتاب اور کاپی شعروں سے بھر گئی۔  حتیٰ کہ سودے کی پرچیوں پر بھی جا بجا اشعار نظر آتے۔  انڈوں کے آگے فاعلن، ڈبل روٹی کے آگے مفعول اور مکھن کے آگے مفعولات لکھا نظر آتا۔  سٹور پر جا کر فون آتا یار وہ سودے میں کیا لکھا تھا۔  مجھ سے پرچی گم ہو گئی ہے لیکن میں جانتی تھی کہ راستے میں کسی شعر کی آمد ہوئی تو وہ بیچاری میرے سودے والی پرچی کی شامت آئی۔

پہلے پہل تو ان کے شعروں کو میں نے بھی ہوا میں اڑا دیا کہ شاید یہ اس شوق سے باز آ جائیں اور ایم فل کریں پی ایچ ڈی کریں اور لاکھوں کمائیں۔  لیکچراری کے مزے لوٹتے ہوئے اس قوم کو لوٹیں پھر ہی بڑے آدمی کہلائیں گے۔  جب ڈگریوں کے تحفے سجائیں گے یہ مجھے شعر سنانے کی کوشش کرتے میں کسی بچے کا Pamper تبدیل کرنے کا بہانہ بناتی۔  کبھی کھانا بنانے کا، کبھی بچہ کے رونے پر بہلانے کا۔

غرض فرخ صاحب نے اپنا سفر ذوق و شوق سے جاری رکھا۔  ایم فل کی کتابوں کے نیچے شاعری کی کتابیں ہوتیں۔  ایم فل تو بیچارہ راستے میں ہی ریت کے طوفان کی طرح بہہ گیا لیکن شاعری کسی روشن مینار کی طرح ایستادہ رہی کبھی نہ ختم ہونے کے لیے۔

میں شعر و سخن کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر خیال کے موتی تو نہیں چن سکتی لیکن میری ناقص رائے کے مطابق یہ شاعری پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ زندگی تو صرف ہوا سے دوستی کا نام ہے۔

ہم سے کیا زندگی کا پوچھتے ہو

اک دیے کی ہوا سے دوستی ہے

صومیہ فرخ

 

 

 

 

حمد

 

ترے سجدوں سے جو بھی بھاگتے ہیں

وہ کب دنیا سے آگے سوچتے ہیں

 

کسی صورت بنائیں تیری صورت

ازل سے سب مصوّر سوچتے ہیں

 

وہی ظاہر وہی باطن جہاں میں

اُسے ہی ہر طرف ہم دیکھتے ہیں

 

رضا اُس ذات کی اپنی خوشی ہے

یہ ہی ہم سوچتے تھے، سوچتے ہیں

 

اُسی کی بندگی میں زندگی ہے

بہت کم لوگ اِس کو جانتے ہیں

 

تری طاقت تری حکمت عیاں ہے

ازل سے اہلِ دنیا جانتے ہیں

 

 

 

 

نعت

 

وہ سانسوں میں رواں جس دم ہوا ہے

اُسی دن سے لہو زم زم ہوا ہے

 

کسی صورت نظر آئے وہ صورت

جہاں جس کے لیے باہم ہوا ہے

 

انھیں دیکھوں کہاں اوقات میری

مگر دل منتظر ہر دم ہوا ہے

 

چلیں گے ہم اُنھی کے راستے پر

یہ دل سے مشورہ باہم ہوا ہے

 

ضیاء دیتی ہیں طیبہ کی ہوائیں

دِیا حق کا جہاں مدھم ہوا ہے

 

بلندی پر رہے گا سر وہ فرخؔ

نبیؐ کے سامنے جو خم ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اُترا ہے کوئی دل پہ جو الہام کی طرح

دُنیا پہ کھل نہ جائے وہ پیغام کی طرح

 

احساں کے چاہتوں میں بھی قائل نہیں ہیں ہم

لینا ہے تجھ کو تجھ سے تو انعام کی طرح

 

جتنے چراغ تھے تری یادوں کے جل بجھے

بجھنے لگے ہیں ہم بھی کسی شام کی طرح

 

زنجیر تہمتوں کی تو ہم سے نہ کٹ سکی

کاٹی ہے ہم نے زندگی الزام کی طرح

 

رہتا تھا جو سکوں کی طرح دل کے آس پاس

مجھ میں مچل اُٹھا ہے وہ کہرام کی طرح

 

دنیا میں ایک نام کے بس نام کے لیے

جینا پڑا ہمیں کسی بے نام کی طرح

 

آتے کبھی کبھی ہیں محبت میں وہ مقام

خاموشیاں بھی گونجی ہیں کہرام کی طرح

 

ڈر ہے کہ تیری آنکھ کی گردش مرے لیے

پھر ہو نہ جائے گردشِ ایام کی طرح

 

کہتے ہیں اب یہ لوگ زمانے کے سب مجھے

لیتا ہوں اپنا نام ترے نام کی طرح

 

ہم نے کیا نہ اور کوئی کام عمر بھر

کر جائیں عشق ہی چلو اِک کام کی طرح

 

 

 

 

 

گل کھلاتا ہے اوجِ خار عجب

روتا ہے دیدۂ بہار عجب

 

زندگی کی عجب کہانی ہے

بار ہے غم کا بار بار عجب

 

راس ہے دل کو بے قراری بہت

بے قراری کو ہے قرار عجب

 

خود پہ بھی اختیار رہتا نہیں

اُس کو ہے مجھ پہ اختیار عجب

 

داغ سینے کے لگ کے سینے سے

ہم کو کرتے ہیں داغ دار عجب

 

کون اُجالوں کا انتظار کرے

ہے اُجالوں کا انتظار عجب

 

خود ہی کرتے ہیں پرورش اِس کی

راس ہے ہم کو فصلِ دار عجب

 

شعر اپنے ہیں وہ شجر جن پر

برگِ معنی ہیں بے شمار عجب

 

گُل ہمارا کوئی ہوا نہ مگر

گُل کھلاتی رہی بہار عجب

 

کیا سنائی عجب غزل فرخؔ

رنگ جس میں بھرے ہزار عجب

 

 

 

 

اِس جہاں میں جہاں جہاں دیکھا

شر رگِ زیست میں رواں دیکھا

 

ایک حسنِ نظر تھا پیشِ نظر

اِس نظر نے جہاں جہاں دیکھا

 

یاد قدرت خدا کی آنے لگی

جب جمالِ رُخِ بتاں دیکھا

 

چشمِ حیرت کی انتہا دیکھی

آگ میں تنکوں کا مکاں دیکھا

 

حسنِ اخلاق حسنِ ظن سے ہے

بیج میں ہر شجر نہاں دیکھا

 

دے سکے جو رگِ چمن کو لہو

ہم نے ایسا نہ باغباں دیکھا

 

ڈھا کے اِس قصرِ نفس کو ہم نے

اپنی مٹی کو آسماں دیکھا

 

دل یہی بار بار کہتا ہے

جتنا دیکھا اُنھیں کہاں دیکھا

 

خار کی حکمرانی میں فرخؔ

اپنی ہستی کا گلستاں دیکھا

 

 

 

 

جو اوجِ فصلِ دار ہے

وہ اپنا روزگار ہے

 

غبار کا جو بار ہے

یہ بار، بار بار ہے

 

ہے تیرگی میں روشنی

یہ کیسی زلف یار ہے

 

اُسی کا انتظار تھا

اُسی کا انتظار ہے

 

جو توڑتا نہیں کوئی

یہ کیسا اک حصار ہے

 

وہ ایک ہی قرار تھا

وہ ایک ہی قرار ہے

 

یہ خاک سے نکلتا گل

یہ کس کی یادگار ہے

 

یہ سوچتا نہیں کوئی

یہ زندگی غبار ہے

 

کہیں رہی نہ روشنی

یہ ہر طرف پکار ہے

 

 

 

 

اگرچہ میں جنت کا منظر بناؤں

مگر کیسے تیرے برابر بناؤں

 

بناؤں میں کیا سوچتا ہوں یہ اکثر

بناؤں اگر تو سمندر بناؤں

 

تری زُلف کی تیرگی جو ملے تو

جہاں کو اُجالوں کا پیکر بناؤں

 

اُجالے ہیں جن کی رگ و پے میں پنہاں

میں سوچوں کے ایسے سخن ور بناؤں

 

جہاں ہوں رواں درگزر کے سفینے

میں سوچوں کے ایسے سمندر بناؤں

 

جو پھینکے ہیں مجھ پر زمانے نے پتھر

میں اُن پتھروں کو بھی گوہر بناؤں

 

کہاں تک کسی ایک پتھر کی خاطر

میں خود کو زمانے کا پتھر بناؤں

 

ترے عکس سے روشنی کو بنا کر

عجب روشنی کا مقدر بناؤں

 

بھلا سوچتا ہو جو بس دوسروں کا

اُسے وقت کا میں سکندر بناؤں

 

میں شکوہ کروں جس ستم گر کا فرخؔ

میں خود ہی تو اُس کو ستم گر بناؤں

 

 

 

 

اُٹھائے بوجھ خار کا

ہے حوصلہ بہار کا

 

جو دیکھتی ہے ماں مجھے

وہ وقت ہے قرار کا

 

سنے گا کیسے شاعری

یہ شہر کاروبار کا

 

اگر نہ ملنا ہو تو ہے

بہانہ روزگار کا

 

چلا گیا ہے یار جو

مزہ کہاں بہار کا

 

فضا میں گونجتا رہا

ترانہ بے قرار کا

 

ہمیں نہیں ہے کھیلنا

یہ کھیل جیت ہار کا

 

کہاں تلک اُٹھاؤں میں

یہ بوجھ بار بار کا

 

ہمیں کو کاٹ دے گا اب

یہ وقت انتظار کا

 

 

 

 

زُلفِ ظلمت دراز ہونے لگی

قسمتِ شب فراز ہونے لگی

 

تم کو فرصت نہیں تھی سجدے کی

لو تمھاری نماز ہونے لگی

 

اب حقیقت تلاش کیسے کریں

اب حقیقت مجاز ہونے لگی

 

جب تری بے نیازی حد سے بڑھی

زندگی بے نیاز ہونے لگی

 

کر کے اپنی اَنا فنا فرخؔ

زندگی فخر و ناز ہونے لگی

 

 

 

قلم سے خارِ چمن کو قلم کیا جائے

کہ نغمہ ہائے بہاراں رقم کیا جائے

 

کرے نہ چاک جو مکر و ریا کے سینے کو

تو اُس قلم کا نہ کیوں سر قلم کیا جائے

 

سفینہ جس میں گناہوں کا ڈوب جائے تمام

کچھ ایسے آنکھوں کو اِس بار نم کیا جائے

 

تصورات میں لا کر وہی عروسِ جاں

بدن کے دشت کو باغِ ارم کیا جائے

 

بلند وہ کوئی دستار کر نہیں سکتی

وہ سر جو سامنے غیروں کے خم کیا جائے

 

بنا قلم کی سیاہی کو تو عمل کی ضیا

جو چاہتا ہے اندھیروں کو کم کیا جائے

 

رگِ حیات سے پھوٹیں نئے نئے سورج

لہو میں روشنی کو ایسے ضم کیا جائے

 

 

 

دُنیا کو کیوں چاہا فرخ

فرصت میں کب سوچا فرخ

 

من سب کا منصب کے پیچھے

کیسے کیسے بھاگا فرخ

 

کب نکلا ہے وہ سکتے سے

جس نے اُن کو دیکھا فرخ

 

خود کو دُنیا میں گم کر کے

کیا کھویا کیا پایا فرخ

 

خوش ہیں دُکھ دینے والوں کا

دُکھ ہم نے ہے بانٹا فرخ

 

خود کو خود میں گم صم کر کے

خود کو ہم نے پایا فرخ

 

غم کا خوگر دل تھا اپنا

غم ہی اُس نے چاہا فرخ

 

دُنیا چھوڑنے سے پہلے بھی

دُنیا نے کیا مانا فرخ

 

 

 

 

جب بھی تجھ کو خیال میں پایا

کیف ہم نے ملال میں پایا

 

ڈوبتے چاند نے ہمیں اکثر

محو تیرے خیال میں پایا

کیا عجب بے خودی سی طاری ہے

زندگی کو دھمال میں پایا

 

کون آیا ترے برابر میں

کس کو تیری مثال میں پایا

 

زندگی کا یہ حوصلہ ہم نے

زندگی کے زوال میں پایا

 

جس کو خوئے سوال ہے فرخؔ

اُس کو ڈوبا زوال میں پایا

 

 

 

 

اپنا مقصد بیان کیسے کریں

ہم زمیں آسمان کیسے کریں

 

ہم یہاں آگے بڑھنا چاہتے ہیں

خود کو لیکن دکان کیسے کریں

 

کیا بتائیں کہ باغ سب کا ہے

سب کو ہم باغبان کیسے کریں

 

جو زباں دوسروں کی بولتا ہو

ہم اُسے ہم زبان کیسے کریں

 

اپنی ہر سوچ انتہا کی ہے

سوچ کو درمیان کیسے کریں

 

سوچتے ہیں ذرا سی بات کو ہم

اِک بڑی داستان کیسے کریں

 

دور ہو کر ہمیں وہ سوچیں گے

اُن پہ اتنا گمان کیسے کریں

 

جو تصوّر میں تیرے قید ہوئے

اِس قفس سے اُڑان کیسے کریں

 

دل اُنھیں بچوں کی طرح مانگے

اپنے دل کو جوان کیسے کریں

 

 

 

 

 

خیالوں کا ایسا سماں باندھتے ہیں

زمیں سے سدا آسماں باندھتے ہیں

 

ہمیں اپنی سوچوں نے باندھا ہُوا ہے

خیالوں کو تیرے کہاں باندھتے ہیں

 

وہ کرتے نہیں ہیں کسی سے بھی شکوہ

جو سوچوں میں اپنی فغاں باندھتے ہیں

 

نہیں گل نے باندھی کبھی ایسے خوشبو

جو سوچوں میں اہل خزاں باندھتے ہیں

 

وہ کیا پا سکیں گے جہاں کی حقیقت

جو نانِ جویں میں جہاں باندھتے ہیں

 

نہیں آسماں کچھ بھی اُن کی نظر میں

پروں میں جو خود آسماں باندھتے ہیں

 

تخیل کی ایسی بلندی کہاں ہے

ترے حسن کو لامکاں باندھتے ہیں

 

 

ہمیں جستجو ہے ازل اور ابد کی

مگر زندگی درمیاں باندھتے ہیں

 

جو مٹی سے زر چھانتے ہیں جہاں میں

وہ اسپِ جنوں کو کہاں باندھتے ہیں

 

یہ ہم لوگ ہیں جو زمانے میں فرخؔ

ہَوا کی گرہ میں جہاں باندھتے ہیں

 

 

 

 

ابرِ مریم کا آسماں ہے کہاں

فصلِ صدق و صفا یہاں ہے کہاں

 

جو تھا یادوں کے تازیانوں سے

اب وہ اسپِ قلم رواں ہے کہاں

 

تنگ جی ہے مکانِ دنیا میں

وہ تخیل کا لامکاں ہے کہاں

 

زخم دے کر جو مان جائے یہاں

کوئی اتنا بھی مہرباں ہے کہاں

 

اِک فقط مکتب فنا کے سوا

معرفت کا کہیں نشاں ہے کہاں

 

توڑ ڈالے جو ضبط کا پتھر

درد اتنا مگر جواں ہے کہاں

 

ڈر گیا ہوں جہاں کی دھوپ سے میں

تیری زُلفوں کا سائباں ہے کہاں

 

مار ڈالے نہ مجھ کو من کی گھٹن

کچھ کہو وہ صبائے جاں ہے کہاں

 

کوئی شانہ بہ شانہ چلتا نہیں

بھیڑ ہے ایک، کارواں ہے کہاں

 

 

 

 

 

جو نقش قدم کو قدم دیکھتے ہیں

اُسے دیکھنے کو عدم دیکھتے ہیں

 

وہ دیکھیں گے ہنگامۂ حشر کو کیا

جو اہلِ کرم کا کرم دیکھتے ہیں

 

ہمیں خوف روزِ قیامت کا کیوں ہو

تجھے رُو بہ رُو اپنے ہم دیکھتے ہیں

 

قلم کی سیاہی فقط روشنی ہے

قلم کو یوں اہلِ قلم دیکھتے ہیں

 

وہ کیا دیکھیں دشت و بیابان کو جو

عدم سے پرے اک عدم دیکھتے ہیں

 

یقیں کیجیے مجھ پہ سچ کہہ رہا ہوں

مجھے وہ خدا کی قسم دیکھتے ہیں

 

کریں گے رقم کیسے غم کی حکایت

کہ نوکِ قلم کو قلم دیکھتے ہیں

 

نظر پھر ہمیں کچھ بھی آتا نہیں ہے

ہماری طرف جب وہ کم دیکھتے ہیں

 

کھلے گی جنوں کے یہ ناخن سے فرخؔ

گرہ زندگی کی جو ہم دیکھتے ہیں

 

 

 

 

حشر خوں میں بپا کریں کیسے

خود کو سورج نما کریں کیسے

 

گل سے خوشبو ہوا کریں کیسے

خود کو ان سے جدا کریں کیسے

 

سب سے ملتے رہے اُسی کے لیے

اب کسی سے ملا کریں کیسے

 

دوستی جسم و جاں کی عارضی ہے

دوستوں سے گلہ کریں کیسے

 

زندگی جس سے جگمگا اُٹھے

ایسا اب فیصلہ کریں کیسے

 

آدمیت تمام کھو دی ہے

خود کا اب سامنا کریں کیسے

 

اتنی توحید عشق میں ہے کہاں

ایک بت سے وفا کریں کیسے

 

ہاتھ میں دیکھتے ہیں ان کی لکیر

اب کوئی اور صدا کریں کیسے

 

جو ہمارے سخن میں بولتا ہے

اس کا ہم حق ادا کریں کیسے

 

دل تو مجبور ہے مگر فرخؔ

ملنے کا حوصلہ کریں کیسے

 

 

 

 

جس جگہ بند ہوں سوال کے در

پھر کھلیں گے وہاں زوال کے در

 

ہم نے زر کا خیال چھوڑ دیا

جب سے کھلنے لگے خیال کے در

 

زر پرستی سے کچھ نہیں حاصل

ایسے کھلتے نہیں کمال کے در

 

وقت بس وہ کمال ہوتا ہے

جس میں کھلتے ہیں اُس جمال کے در

 

قصرِ حکمت وہی بناتا ہے

کھولتا جو بھی ہے مثال کے در

 

آج بھی دل کی سمت کھلتے ہیں

تیری فرقت ترے ملال کے در

 

 

 

 

موجِ ہستی جو باغ باغ ہوئی

دکھ کی کائی کا ایک داغ ہوئی

 

راکھ بجھتی ہوئی وہ یادوں کی

دیدہ و دل کا ایک داغ ہوئی

 

جانے کس روشنی کی روشنی ہے

آج کل جو مرا دماغ ہوئی

 

دل کی حالت چھپائی لاکھ مگر

بے خودی اس کا ہی سراغ ہوئی

 

آیا جو باغ میں کوئی گل رخ

حسرتِ گل بھی باغ باغ ہوئی

 

گردشوں سے بھری حیات اپنی

بادۂ وقت کا ایاغ ہوئی

 

 

 

 

دنیا کو میں خواب دے رہا ہوں

اور وہ بھی بے حساب دے رہا ہوں

 

اب کوئی تو زندگی سے پوچھے

میں کس کا حساب دے رہا ہوں

 

کس کس کا جواب دوں میں آخر

لو ایک جواب دے رہا ہوں

 

انسان نظر میں اب کہاں ہے

میں خود کو سراب دے رہا ہوں

 

کانٹے ہی دیے تھے جس نے مجھ کو

میں اُس کو گلاب دے رہا ہوں

 

ہر باب ہی روشنی ہے جس کا

میں ایسی کتاب دے رہا ہوں

 

کیوں سوچوں یہ سوچتا ہوں اکثر

کیوں خود کو عذاب دے رہا ہوں

 

جو مار ہی دے گا مجھ کو اِک دن

میں اس کو شباب دے رہا ہوں

 

یہ شعر مرے کہاں ہیں فرخؔ

صحرا کو چناب دے رہا ہوں

 

 

 

 

شعلہ رُخسار سے لب جل گئے

جلوۂ دلدار سے سب جل گئے

 

ہر طرف بادِ حسد چلنے لگی

دیپکِ رنگِ سخن جب جل گئے

 

اک ترے برقِ تبسم سے یہاں

خرمنِ ہوش و خرد سب جل گئے

 

دردِ شب خورشید نے بانٹا تمام

سارے قطرے اوس کے جب جل گئے

 

 

کون سمجھائے چشمِ پرنم کو

کوئی سمجھے گا کب ترے غم کو

 

جو قدم سے قدم ملاتا رہا

اب کہاں مل سکے گا وہ ہم کو

 

سامنے غیر کے جو جھک جائے

کاٹ ڈالیں گے اُس سرِ خم کو

 

پیٹ لیتی ہے اپنے سر کو گھٹا

دیکھ کر تیری زُلفِ برہم کو

 

وہ قناعت پسند ہوتے ہیں

جو زیادہ سمجھتے ہیں، کم کو

 

اِس جنوں کی کہیں تو داد ملے

ڈھونڈتا پھر رہا ہوں محرم کو

 

ظرف دریاؤں کا جو رکھتے ہیں

کیسے دیکھیں وہ ظرفِ شبنم کو

 

وہ نہیں ہے تو صحنِ ہستی میں

کیا کریں گے گلوں کے موسم کو

 

رُکتے طوفان چل پڑے فرخؔ

دیکھ کر میرے ذوقِ پیہم کو

 

 

 

 

کہاں دل و نظر کی ہے

یہ بات اپنے سر کی ہے

 

یہ اپنی شاعری کہاں

یہ کہ کنی نظر کی ہے

 

کہاں نہیں ہے روشنی

یہ تیرگی نظر کی ہے

 

یہ سائے بھاگتے ہوئے

یہ دوستی شجر کی ہے

 

غبار میں ہیں منزلیں

یہ کج روی سفر کی ہے

 

نیا جو آسماں نہیں

کمی یہ بال و پر کی ہے

 

نگر نگر پھرا ہوں میں

تلاش تیرے در کی ہے

 

لگن نہیں ہے اور کچھ

لگن فقط ہنر کی ہے

 

تھکن نہیں اُڑان کی

لگن جو بال و پَر کی ہے

 

یہ حکمتوں سے فاصلے

یہ رہبری تو زر کی ہے

 

 

 

 

کیسے نہ ریزہ ریزہ بکھر جائے ہر اُمنگ

شیشوں یہ حکمران ہوئی ہے سپاہِ سنگ

 

کب تک ہمارے ساتھ رہے گا یہ سلسلہ

کب تک چلیں گے ہم پہ یوں ہی تیر اور تفنگ

 

تصویر زندگی کی کبھی بن سکے گی کیا

پھیلا ہے چار سو مرے حرص و ہوس کا رنگ

 

وسعت دل و نگاہ کی بڑھتی ہی جائے گی

اہلِ زمانہ ہم کو کریں جس قدر بھی تنگ

 

دوڑا دے جیسے کوئی رگِ سنگ میں لہو

کچھ اِس طرح سے مجھ پہ کھلا آج اُس کا رنگ

 

 

 

 

حکم چلتا ہے یہاں تلوار کا

کیا بھروسہ ہے سر و دستار کا

 

سرخیِ مے تو نہیں ہے آنکھ میں

عکس ہے اِک شعلۂ رُخسار کا

 

جس کو سمجھا ہے زمانہ بے خودی

رقص ہے وہ دل میں اک دلدار کا

 

کیوں نہ ہو رعنائیِ گل، گل یہاں

گل ہوا ہے شعلہ اُس رُخسار کا

 

اب کہاں ایسے جہاں میں لوگ ہیں

جن پہ کھلتا تھا جہاں اسرار کا

 

کھو گئے ہیں جب بدن کے سائے بھی

شکوہ ہم کیسے کریں دیوار کا

 

اپنے جب اپنی خوشی پہ جل اُٹھیں

کیا گلہ شکوہ ہو پھر اغیار کا

 

سنگ ہیں کوئی سنگِ میل نہیں

منزلوں کی کہیں سبیل نہیں

 

سنگ کے ساتھ اک زمانہ ہے

آئینے کا کوئی وکیل نہیں

 

ہم وہاں ہیں ترے تصور میں

جس جگہ پہنچا جبرائیل نہیں

 

حسن والوں سے دل لگانے کی

اے مرے دل کوئی دلیل نہیں

 

پرورش خود زوال کی، کی ہے

اور اس کا کوئی کفیل نہیں

 

دیکھ حسن نظر سے میری طرف

تیرا ذوقِ نظر بخیل نہیں

 

یہ عدالت ہے حسن کی فرخؔ

عشق کا کوئی بھی وکیل نہیں

 

 

 

 

وہ ایسے مسکراتے ہیں

کہ جگنو جگمگاتے ہیں

 

جو خودسری دکھاتے ہیں

وہ روشنی بجھاتے ہیں

 

وہ مسکرا کے غیر سے

ہمارا دل دُکھاتے ہیں

 

کوئی بجھا سکے گا کیا

جو دیپ ہم جلاتے ہیں

 

جدھر کو جا رہے ہیں سب

اُدھر سے سب ڈراتے ہیں

 

یہ بار بار دیکھنا

ہمیں وہ آزماتے ہیں

 

کہ لوگ تیرے حسن کی

کہانیاں سناتے ہیں

 

 

 

 

ریگِ ریا کے ٹیلوں میں

راہ نہیں کوئی میلوں میں

 

من کی بھوک جگائے کون

تن کی بھوکی چیلوں میں

 

کوثرِ ابرِ خیال چھلک

من کی پیاسی جھیلوں میں

 

فکر کے کنکر کہاں ہیں آج

مست ہوس کے فیلوں میں

 

کیسا ہے یہ رقصِ ضیاء

لفظوں کی قندیلوں میں

 

رقصِ ریا ہے بگولوں کا

حسنِ چمن کی دلیلوں میں

 

بحرِ ابد کا شناور ہے

فن کے اِنھی قبیلوں میں

 

عشق کی رہ میں بھی فرخؔ

پڑ گئے لوگ دلیلوں میں

 

 

 

 

الہام ہوں، سوچتا ہوں اکثر

گل ہو کر پھوٹتا ہوں اکثر

 

الزام ہے مجھ پہ ہر کسی کا

ہر بات کو سوچتا ہوں اکثر

 

بیٹھیں جو نہ بن کے بت کہیں بھی

بت ایسے تراشتا ہوں اکثر

 

کیا کوہ کنی نگاہ میں ہے

ہر چیز کو دیکھتا ہوں اکثر

 

جو راہ میں مجھ کو چھوڑ آئے

میں ان کو بھی چاہتا ہوں اکثر

 

احساس ہے ہر کسی کا مجھ کو

ہر ایک کو سوچتا ہوں اکثر

 

لانی ہے بہار جو خزاں میں

کانٹوں کو بھی سوچتا ہوں اکثر

 

نکلوں گا غبارِ خاک سے کب

یہ سوچ ہی سوچتا ہوں اکثر

 

دکھ دے کے جو مجھ کو ہوتے ہیں خوش

دُکھ ان کے بھی بانٹا ہوں اکثر

 

 

 

 

تیرگی در تیرگی ہے ہر طرف

تیرگی کی بندگی ہے ہر طرف

 

اِک تمھاری بے رُخی سے یہ کھلا

بے رُخی ہی بے رُخی ہے ہر طرف

 

ڈر رہا ہے اب چراغِ آگہی

یہ ہوا کیسی چلی ہے ہر طرف

 

اک تمھارے آنے سے کیا ہو گیا

زندگی اب جھومتی ہے ہر طرف

 

آدمیت سو گئی تو کیا ہوا

جاگتا ہر آدمی ہے ہر طرف

 

بیٹھے ہیں بت بن کے جو ہم اس لیے

کچھ بتوں کی خود سری ہے ہر طرف

 

جو تصوّر میں تراشے درد کو

اُس سخن کی برتری ہے ہر طرف

 

کوئی منزل کس طرح فرخؔ ملے

ہر کسی کی رہبری ہے ہر طرف

 

 

 

 

دیکھنا ہم کیا سے کیا ہو جائیں گے

ہم تو صدیوں کی صدا ہو جائیں گے

 

کیا خبر تھی ابتدائے عشق میں

عشق کی ہم انتہا ہو جائیں گے

 

جل کے اِس جور و جفا کے دشت میں

ہم تری خاطر صبا ہو جائیں گے

 

اب یقیں صیاد پر آتا نہیں

ایک دن ہم بھی رہا ہو جائیں گے

 

بد دعائیں دینے والو ایک دن

ہم تمھاری ہی دعا ہو جائیں گے

 

آج جو اپنی ہواؤں میں ہیں مست

دیکھنا اک دن ہوا ہو جائیں گے

 

ہم کسی دن ایک محشر کی طرح

تیرے اندر بھی بپا ہو جائیں گے

 

زندگی اِک قرض ہے اور ایک دن

قرض کی صورت ادا ہو جائیں گے

 

 

 

 

جو حسن کا خیال ہے

وہ اوجِ لازوال ہے

 

مری رگوں میں دوڑتا

خیال ہی خیال ہے

 

بجھی بجھی سی روشنی

دِیے سے اِک سوال ہے

 

جسے کہیں وصال سب

وہ روح کی دھمال ہے

 

نظر جو تجھ سے پھیر لے

کسی کی کیا مجال ہے

 

عجیب سی ہے زندگی

خوشی نہ کچھ ملال ہے

 

کہ جیسے جی رہے ہیں سب

میں یوں جیوں محال ہے

 

اگر نہیں ہے حسن تو

یہ عشق کا زوال ہے

 

 

 

 

ذہن و دل پر چار جانب زنگ ہونے کے لیے

کھلتی ہے وہ چشم حاسد تنگ ہونے کے لیے

 

یہ کہاں قسمت ہماری گفتگو ان سے کریں

دیکھتے رہتے ہیں ان کو دنگ ہونے کے لیے

 

وہ ہوا جو ہم سفر، تھاما جو اس نے ہاتھ کو

آ گیا پھر اک زمانہ سنگ ہونے کے لیے

 

روز و شب ہم نے بہایا اس لیے اپنا لہو

وقت کی تصویر میں اک رنگ ہونے کے لیے

 

خاک سمجھیں گے جہاں والے کہ کیوں درویش لوگ

جھاڑتے ہیں جیب اپنی ننگ ہونے کے لیے

 

باغباں سے پوچھنا کہ کس لیے گلشن کے پھول

پتھروں میں آ بسے ہیں سنگ ہونے کے لیے

 

کون سمجھائے زمانے والوں کو فرخ یہاں

آنکھ تو لڑتی ہے ان سے جنگ ہونے کے لیے

 

 

 

 

تمھارے حسن کی جب کہکشاں بناتے ہیں

نئی زمین نئے آسماں بناتے ہیں

 

ہنر پہ اُن کے میں حیران ہوتا ہوں اکثر

جو بات بات سے لاکھوں بیاں بناتے ہیں

 

سلگتی دھُوپ کے آنگن میں بیٹھ کر دیکھو

عجب خیالوں کی ہم بدلیاں بناتے ہیں

 

اگرچہ ہم ہیں زمانے سے لڑنے والے لوگ

مگر ہمیں ترے غم ناتواں بناتے ہیں

 

خدا کا سایہ اُنھی کا نصیب ہوتا ہے

سلگتی دھوپ میں جو سائباں بناتے ہیں

 

چمن میں جو خس و خاشاک بھی نہ رہنے دیں

ہم ایسے لوگوں کو کیوں باغباں بناتے ہیں

 

نہیں ہے جن کی نظر دوسروں کی خامی پر

وہ خوب اپنی یہاں خوبیاں بناتے ہیں

 

کوئی بھی موج ڈبوتی نہیں کبھی اُن کو

زمانے کے لیے جو کشتیاں بناتے ہیں

 

وہ تیرگی میں صدا جلتے رہتے ہیں فرخؔ

جو دوسروں کے لیے بجلیاں بناتے ہیں

 

زمانے والے جسے شاعری کہیں فرخؔ

جہانِ حبس میں ہم کھڑکیاں بناتے ہیں

 

 

 

 

حرف کے چشموں کو وہ سیل معانی دے گیا

بے پروں کو جلوہ ہائے لامکانی دے گیا

 

ہر طرف آکاس بیلیں ہیں در و دیوار پر

کس قدر باغِ ہوس کو کوئی پانی دے گیا

 

آئینوں کو عکس تیرا آئینہ دکھلا گیا

کیسے حیرانی کو فکر لامکانی دے گیا

 

آیا تھا جو زندگی میں چند لمحوں کے لیے

کیسے میرے فن کو عمرِ جاودانی دے گیا

 

بہہ گیا ہے وہ خس و خاشاک کی صورت یہاں

جو خس و خاشاک کو خود باغبانی دے گیا

 

چھوتی ہیں اوجِ فلک موجیں خیالوں کی مرے

یوں خیالوں کو مرے کوئی روانی دے گیا

 

رہتا ہے چپ اب یہاں فرخؔ بتا کس کے لیے

کون تیرے حرفوں کو یہ بے زبانی دے گیا

 

 

 

 

خس کو چاہے شرر نقاب کرے

کون اک درد کا حساب کرے

 

اب ہماری کہاں کوئی مرضی

اب جو چاہے وہی جناب کرے

 

کیوں سخن میں وہ نام کی خاطر

زندگی کو غم کتاب کرے

حسن کی بات ہو جہاں بھی کہیں

ہر کوئی اس کا انتخاب کرے

 

زندگی کے حساب کی خاطر

کیوں سرابوں کا وہ حساب کرے

 

جب وہی بے حجاب ہو فرخؔ

کون پھر خود کو بے حجاب کرے

 

 

 

 

اک کہانی اُسے سنانی ہے

دیکھنی جذبوں کی روانی ہے

 

خوفِ ساحل میں ڈوب جاؤں گا

میری منزل مری روانی ہے

 

وہ نئے آسماں بنائے گا

جس کا بھی عزم آسمانی ہے

 

دوسروں کے جو کام آ جائے

بس وہی زیست جاودانی ہے

 

کوئی کردار ہی کسی کا نہیں

ایک کردار کی کہانی ہے

 

چھوڑ دے اِن کو حرف بوڑھے ہیں

کر عمل بس یہی جوانی ہے

 

 

 

 

کوئی موسم بھی دل ربا نہ لگے

دل کا دشمن یہ سب زمانہ لگے

 

تم نہ کہنا بروں کو اچھا کبھی

اتنا کہہ دوں اگر برا نہ لگے

 

اب ہوا کو قرار آ جائے

اب ہوا کو مری ہوا نہ لگے

 

چھوڑ جاتا ہے وہ ہوا کی طرح

آتے آتے جسے زمانہ لگے

 

بے زری میں گھرا ہوں میں جب سے

زندگی ایک تازیانہ لگے

 

ہم سے ساحل نے یوں کنارہ کیا

ناخدا کوئی ناخدا نہ لگے

 

روز و شب غم میں ڈھل رہے ہیں جہاں

زندگی ایسا کارخانہ لگے

 

تیری زُلفوں کی جب سے چھاؤں ملی

اب گھٹا بھی ہمیں گھٹا نہ لگے

 

کاش اِس اسپِ شوق کو فرخؔ

پھر کوئی تازہ تازیانہ لگے

 

 

 

 

تری زُلف کے آج تاروں سے کھیلوں

کہ آہوں کے جلتے شراروں سے کھیلوں

 

میں اندر کے اپنے خماروں سے کھیلوں

کہ باہر کے اپنے فشاروں سے کھیلوں

 

مجھے گردشوں میں سدا رکھنے والے

مقدر کے اپنے ستاروں سے کھیلوں

 

نکل کے ذرا اپنی گہرائیوں سے

چلو آج اپنے کناروں سے کھیلوں

 

بھلا سوچتا ہوں صدا دوسروں کا

خزاں میں بھی اکثر بہاروں سے کھیلوں

 

کبھی تو نکل کر ترے سحر سے بھی

میں اندر کے اپنے خماروں سے کھیلوں

 

اشارہ ہے مجھ کو تری آنکھ کا یہ

تری آنکھ کے میں اشاروں سے کھیلوں

 

کنارہ کروں میں تلاطم سے کیسے

میں ساحل پہ آ کے کناروں سے کھیلوں

 

مجھے کھیلنا اب ہے خاروں سے فرخؔ

ترے حسن کے کیا نظاروں سے کھیلوں

 

 

 

جو لوگوں کے لیے خود کو فقط مطلوب رکھتے ہیں

زمین و آسماں اپنا اُنھیں محبوب رکھتے ہیں

 

اُٹھانا اُس گلی سے اب قیامت ہی اُٹھانا ہے

گلی محبوب کی ہم اِس قدر محبوب رکھتے ہیں

 

طلب کیسے ہمیں ہو زندگی میں اب کسی شے کی

یہ کیا کم ہے تمھارے ہم کئی مکتوب رکھتے ہیں

 

اُنھیں اپنا نہیں رکھتی کبھی مطلوب یہ دُنیا

فقط دُنیا کو جو اپنا یہاں مطلوب رکھتے ہیں

 

نظر آتی نہیں ویراں کبھی ہم کو گلی وہ اب

ہوس کی اُس گلی کو یاد ہم کیا خوب رکھتے ہیں

 

اُنھیں پھر زندگی اپنی کہاں محبوب ہوتی ہے

تمھاری ذات کو جو لوگ بھی محبوب رکھتے ہیں

 

نئے افکار ہیں اپنے نئی ہے شاعری اپنی

سخن میں ہم نیا لہجہ نیا اسلوب رکھتے ہیں

 

اگرچہ خوبیاں اپنی نہیں رکھتے مگر فرخؔ

نظر ہم دوسروں کی خامیوں پہ خوب رکھتے ہیں

 

 

 

 

زندگی ہر نفس سنور جائے

اُس گلی سے اگر گزر جائے

 

کاش آکاس بیل یادوں کی

دل کی دیوار سے اُتر جائے

 

خاک اُڑتی پھرے خوشی سے پھر

جب ترے آنے کی خبر جائے

 

سوچتا ہوں تلاشِ ہم دم میں

اور جہاں میں کہاں نظر جائے

 

جس نے دی روشنی زمانے کو

کاش کوئی نظر اُدھر جائے

 

 

 

 

اس کا قرض اُتارے کون

جاں کو جاں پہ وارے کون

 

من کی میل اُتارے کون

اس کا رُوپ سنوارے کون

 

چھوڑ کے اِس من مانی کو

اپنے من کو مارے کون

 

کیا کیا ہار کے جیتا جس کو

جیت کے اُس کو ہارے کون

 

آئینہ آئینہ کہتا ہے

اُس کا عکس اُتارے کون

 

تن کا بوجھ ہی بوجھ ہے اب

من کا بوجھ اُتارے کون

 

چھوڑ کے روشنی من کی فرخؔ

دیکھے چاند ستارے کون

 

 

 

 

فراقِ آرزو کی آرزو کریں

تمام عمر اس کی جستجو کریں

 

مہر و ماہ، گل ہیں اس کے سامنے

کوئی چراغ کیسے رو بہ رو کریں

 

فقط یہ بار بار چاہتا ہے دل

کہ بار بار ان کی گفتگو کریں

 

کھلی کھلی نشانیاں ہیں ہر طرف

ہم اُس کی بار بار جستجو کریں

 

لہو کا قطرہ قطرہ ہم نچوڑ کر

نمازِ عشق کے لیے وضو کریں

 

فقط ہوں گل ہی گل چمن میں ہر طرف

چمن کو اپنے ایسے سرخرو کریں

 

 

 

 

قصے غم کے جنھیں سناتے رہے

ہم پہ وہ لوگ مسکراتے رہے

 

ان کو کھو کر بھی مسکراتے رہے

خود کو ایسے بھی آزماتے رہے

 

بات دل کی لبوں پہ آ نہ سکی

وہ فسانے ہمیں سناتے رہے

 

ہم نے دیکھا نہ پیچھے مڑ کے کبھی

لوگ باتیں بڑی بناتے رہے

 

دعویٰ کیسا سخن وری کا ہمیں

حرف سے حرف ہم ملاتے رہے

 

دل انھیں دے کے پھر نہ پوچھا کبھی

وہ جلاتے رہے بجھاتے رہے

 

میری ہر بات ان سنی کر کے

وہ غزل میری گنگناتے رہے

 

یہ ہمارا ہی حوصلہ تھا کہ ہم

تیرگی میں بھی جگمگاتے رہے

 

 

 

 

یہ دل ہے کہ زندانِ زر ہے کوئی

یہ بتلاؤ اِس کا بھی در ہے کوئی

 

ہمیں کہہ رہی ہیں یہ ویرانیاں

کہ صدق و صفا کا سفر ہے کوئی

 

جہاں جانتا ہے یہ اُس کے سوا

کہ اُس کے لیے در بہ در ہے کوئی

 

بہت دُور مقصد سے ٹھہری ہوئی ہے

یہ اہلِ نظر کی نظر ہے کوئی

 

جو اُڑتا رہا آسمانوں سے آگے

سلامت کہاں اُس کا پر ہے کوئی

 

جہاں اپنی پوجا ہو فرخؔ فقط

اَنا کا نگر بھی نگر ہے کوئی

 

 

 

 

دامنِ زیست تار تار رہا

اِک رفوگر کا انتظار رہا

 

گلشنِ زیست پر بہار رہا

سینۂ گل مگر فگار رہا

 

دشتِ امکان میں سلگتا ہوا

شہر کا شہر برف زار رہا

 

دل پہ طاری رہا سکوتِ مگر

جبر پہ کچھ نہ اختیار رہا

 

پیرہن اوڑھ کر گلوں کا بھی

خار فطرت میں اپنی خار رہا

 

جل کے دشتِ فنا میں اے فرخؔ

پیڑ ہستی کا کشف بار رہا

 

 

سوال کیسے جواب کیسے

وفا کا لکھیں نصاب کیسے

 

سوال کا سر جہاں نگوں ہو

وہاں سے آئے جواب کیسے

 

مری سمجھ میں یہ کیسے آئے

وہ آئے ہیں خود جناب کیسے

 

چراغ جس نے بجھا دیا ہے

اُسے کریں بے نقاب کیسے

 

وہ اپنے گھر سے نکل چکا ہے

نکل سکے آفتاب کیسے

 

وہ دیکھ کر ہم کو مسکرائے

یہ آ گیا انقلاب کیسے

 

نظر چرا کر نکل گئے جو

وہ ہو گئے کامیاب کیسے

 

میں ہر گھڑی سوچتا ہوں فرخؔ

کوئی یہاں دیکھے خواب کیسے

 

 

 

 

چمن میں اُتری بہار کیا کیا

جلے ہیں دل میں شرار کیا کیا

 

ہمیں طلب ہو شراب کی کیوں

وجود میں ہے خمار کیا کیا

 

تجھے حقیقت دکھائی کیا دے

ہیں دل میں تیرے غبار کیا کیا

 

یہ ایک دل ہے یہ ایک جاں ہے

کریں گے اُن پر نثار کیا کیا

 

کہاں ہے آساں گلوں کی منزل

ہیں اپنے رستے میں خار کیا کیا

 

جو دوسروں کا قرار ہو گا

ملے گا اُس کو قرار کیا کیا

 

کلام کیسا سنا دیا ہے

دھُلا ہے دل کا غبار کیا کیا

 

نقاب اس نے اُلٹ دیا ہے

کرے گا اب آشکار کیا کیا

 

وہ ایک صورت، وہ ایک چاہت

درونِ دل انتظار کیا کیا

 

وہ جلوہ افروز ہو رہے ہیں

بندھے گی فرخؔ قطار کیا کیا

 

 

 

 

میرے سینے پہ داغ سورج کا

بن گیا ہے سراغ سورج کا

 

جامِ ظلمت چھلک رہا ہے یہاں

کون لائے ایاغ سورج کا

 

روشنی روشنی ہی سوچتے ہیں

ہم نے پایا دماغ سورج کا

 

روبرو اُس کی روشنی کے بھلا

کیا جلے گا چراغ سورج کا

 

سبز پہنا جو پیرہن اُس نے

کھِل اُٹھا جیسے باغ سورج کا

 

دیکھ شب کے نکلنے سے پہلے

خوں سے تر ہے ایاغ سورج کا

 

روشنی کس کی ہو گئی تھی شفق

گُل ہوا ہے چراغ سورج کا

 

 

 

 

کھُلی آنکھیں مگر ہے جیب خالی

چمن کیسا شجر، ہے جیب خالی

 

اگرچہ ہر طرف میں دیکھتا ہوں

مگر پھر بھی نظر، ہے جیب خالی

 

جدھر دیکھو ہجومِ آدمی ہے

محبت سے مگر ہے جیب خالی

 

تمنا کی طلب حد سے زیادہ

کریں ہم کیا اگر ہے جیب خالی

 

مسافر سب گماں کی منزلوں کے

سفر کیسا سفر ہے جیب خالی

 

اگر دل میں ترے نرمی نہیں ہے

عمل کیسا، بشر ہے جیب خالی

 

سرِ محشر کہیں گے لوگ فرخؔ

بھری زر سے مگر ہے جیب خالی

 

 

 

 

درد جانے سے اِتنا درد ہوا

برگِ احساس اپنا زرد ہوا

 

رنگ میرا اُڑا یہ سوچ کے ہی

کس لیے اُس کا رنگ زرد ہوا

 

سوچتا ہی نہیں یہاں کوئی

سوچ کر ہم کو کتنا درد ہوا

 

زندگی کو گماں نے ڈھانپ لیا

زندگی کا دماغ سرد ہوا

 

ایک بے درد کے لیے فرخؔ

کس لیے تجھ کو اِتنا درد ہوا

 

درد ہو فرد کا جسے فرخؔ

کون ایسا یہاں پہ فرد ہوا

 

 

 

نظر کے صاف رکھیں آئینے یوں

حقیقت زندگی کی پائیے یوں

 

دِیے نے آندھیوں سے کیا کہا ہے

لرزتی ہیں ابھی تک خوف سے یوں

 

نظر کیا کیا نظر میں آئے گا پھر

تماشا زندگی کا دیکھیے یوں

 

لگانا تھا ہمیں محبوب سے دل

لگا دیوار سے یہ دیکھیے یوں

 

سفینہ پھر حقیقت کا ملے گا

خوشی کو دوسروں میں بانٹیے یوں

 

کہاں تک ہے سلاسل کا تسلسل

کبھی فرخؔ اُنھیں بھی سوچیے یوں

 

 

 

 

خلش یہ انتظار کی

ہمیشہ دل کے پار کی

 

وہ قافلوں کے راستے

یہ منزلیں غبار کی

 

یہ خاص خاص لوگ کیوں

ہیں چاہتیں بہار کی

 

کثافتیں یہ وقت کی

لطافتیں وہ یار کی

 

یوں در بہ در ہے آرزو

زوالِ اوج دار کی

 

وہ دل بری کے قافلے

تلاش حسنِ یار کی

 

یہ زلزلہ کہیں جسے

تڑپ ہے بے قرار کی

 

کہ لے گئی ہے دار تک

نگاہ حسن یار کی

 

 

 

 

تابِ شبنم نہیں خیالوں میں

پگھلے جو آتشیں حوالوں میں

 

ذائقہ اب سخن وری کا کہاں

اِن چبائے ہوئے نوالوں میں

 

جب بھی دیکھا ہے وہ حسیں چہرہ

آگ سی لگ گئی خیالوں میں

 

کیسے ہو کس سے ہو سوال کوئی

ڈوبی ہے ہر نوا نوالوں میں

 

بہہ رہا ہے وہ حسن کا لاوا

دیکھ آتش فشاں سے گالوں میں

 

اس نظر سے نظر کے ملتے ہی

کھو گئے ہم عجب سوالوں میں

 

جب سے اِذنِ سفر ملا ہم کو

راستے بٹ گئے ہیں چھالوں میں

 

حق کے احساس سے فقط فرخؔ

ہوتی ہے روشنی خیالوں میں

 

 

 

 

بے خودی میں خیال کے موتی

بن گئے ہیں کمال کے موتی

 

ہم جگر کھود کر نکالیں گے

کیسے کیسے خیال کے موتی

 

کیا سجے گی عروسِ فکر کبھی

بن لگائے سوال کے موتی

 

موت کیسے کرے گی آنکھ وہ بند

جس میں ہوں اُس جمال کے موتی

 

جو بھی چاہے وہ میرے دامن سے

چن لے حسنِ خیال کے موتی

 

آنکھ کے تیشے سے نکالیں گے

حکمتِ لازوال کے موتی

 

ایک ہی حسن میں نہاں سارے

ہیں عروج و زوال کے موتی

 

کیا سنے گا کوئی تری باتیں

جب نہیں ہیں مثال کے موتی

 

ریگ زارِ فراق میں فرخؔ

جل گئے سب وصال کے موتی

 

 

 

 

ترے جانے کا اتنا غم ہوا ہے

بیاباں اشکِ خوں سے نم ہوا ہے

 

مری ہر سانس میں خوشبو ہے اُس کی

مرے اندر وہ ایسے ضم ہوا ہے

 

دلوں کی دھڑکنیں برہم ہیں ہم سے

کوئی ہم سے ذرا برہم ہوا ہے

 

کیا ہے صاف جب سے دل کا شیشہ

نگاہوں کا عجب عالم ہوا ہے

 

کسی سے پوچھ لیں وہ حال میرا

مگر ایسا بہت ہی کم ہوا ہے

 

خس و خاشاک کیا سے کیا ہوئے ہیں

گلوں کا سر ہمیشہ خم ہوا ہے

 

نظر کے سامنے ہر وقت ہے وہ

اگرچہ رو بہ رو وہ کم ہوا ہے

 

جھلک دیکھی ترے رُخسار کی جب

بیاباں گلستاں اس دم ہوا ہے

 

کھلے ہیں راز کیا کیا اس جہاں کے

وہ جس دن سے مرا محرم ہوا ہے

 

عجب ہے گردشِ ایّام فرخؔ

جو شعلہ تھا وہی شبنم ہوا ہے

 

 

 

 

کوئی ایسے ہمیں پکار گیا

اپنے ہونے کا اعتبار گیا

 

اُس گلی میں گیا ہوں میں ایسے

جس طرح کوئی سوئے دار گیا

 

پھولوں کی ہر دوکان تھی خالی

زندگی کیسے وہ گزار گیا

 

اک زمانے کا میرے شانوں پر

بوجھ اپنا کوئی اُتار گیا

 

اپنے اندر ہی وہ ملا مجھ کو

میں جسے ہر طرف پکار گیا

 

زندگی جب ہمیں کہا اُس نے

جینے مرنے کا اختیار گیا

 

اب تصور میں وہ نہیں آتے

اب کہاں اپنا روزگار گیا

 

آخری سانس لے رہی ہے حیات

پھر بھی ان کا نہ انتظار گیا

 

اب تخیل کو کیا ہوا فرخؔ

اب کہاں یادوں کا غبار گیا

 

 

 

 

دل میں اُن کا خیال لائیں کیوں

ایسا کہرام پھر مچائیں کیوں

 

سر اُٹھا کر جیے ہیں دنیا میں

منہ چھپا کر عدم کو جائیں کیوں

 

جس نظر کی نظر اُتاری ہے

اُس نظر سے نظر ہٹائیں کیوں

 

کتنی گہری اداسیوں میں رہے

اے سمندر تجھے بتائیں کیوں

 

آزمایا ہے بار بار جسے

اُس ستم گر کو آزمائیں کیوں

 

وہی کردار ہے کہانی کا

ہم کہانی اُسے سنائیں کیوں

 

رات ڈوبے گی ماند ہو گا چاند

اُن کی تصویر ہم دکھائیں کیوں

 

دے گا احسان کا خدا ہی صلہ

کر کے احسان ہم جتائیں کیوں

 

رُخ ہواؤں کا جو بدل نہ سکے

دیپ ایسا کوئی جلائیں کیوں

 

آئیں وہ اپنے خواب میں شاید

نیند سے خود کو ہم جگائیں کیوں

 

 

 

 

سوال چاہیے جواب چاہیے

تمام عمر کا حساب چاہیے

 

سوال کا کسے جواب چاہیے

ہمیں ہمیشہ اضطراب چاہیے

 

اسی لیے تو سوچتے رہے انھیں

کہ اپنے حرفوں کو شباب چاہیے

 

میں مضطرب ہوں اضطراب زُلف سے

مجھے اُسی کا پیچ و تاب چاہیے

 

کسے کسے میں بے نقاب دیکھوں گا

ہر ایک شخص پر نقاب چاہیے

 

رگوں میں دوڑے روشنی اُسی کی بس

لہو میں ایسا اضطراب چاہیے

 

حقیقتوں کے روبرو نہ کر مجھے

میں خوش ہوں بس مجھے سراب چاہیے

 

 

 

 

کبھی سوچا نہ بے وضو ہو کر

ہم جیے کوثرِ سبو ہو کر

 

کوئی منزل نہیں تھی منزلِ شوق

ہم بہے جوئے جستجو ہو کر

 

ایک شعلہ بدن کو جب سوچا

جی اُٹھے ہم بھی سرخرو ہو کر

 

جام و ساقی کا اُن کو ہوش کہاں

وہ جو جیتے ہیں خود سبو ہو کر

 

شعلۂ حسن میں جلے برسوں

کیوں نکلتے نہ سرخرو ہو کر

 

کب سے یہ انتظار ہے مجھ کو

کبھی دیکھوں گا میں بھی تو ہو کر

 

کب ہمارے یہ اختیار میں ہے

ان کو سوچیں کبھی عدو ہو کر

 

ریگ کے اِس حصار میں فرخؔ

ہم رہے گلشنِ نمو ہو کر

 

 

 

نور سے شب کا یوں ملن ہو گا

چاند تن کا مرے کفن ہو گا

 

کیا خبر تھی وہ گل بدن سا شخص

دیدہ و دل میں اِک چبھن ہو گا

 

کاٹ ڈالوں گا وقت کے پر بھی

وہ مرا جب بھی ہم سخن ہو گا

 

جو نکالے گا جوئے صدق و صفا

وہ مرا تیشۂ سخن ہو گا

 

 

نور دھاگوں سے یہ بُنا ہوا فن

چاند سوچوں کا پیرہن ہو گا

 

جس پہ قبضہ ہو خار و خس کا سدا

کیا مرا ایسا ہی چمن ہو گا

 

تیشہ حق کو تھامنے والا

اب کہاں ایسا کوہ کن ہو گا

 

تیرا ابرِ خیال ہی فرخؔ

بانجھ سوچوں کا اب کفن ہو گا

 

 

 

 

تم نے دیکھا تھا اس گلی میں کبھی

کتنے ہم خوش تھے زندگی میں کبھی

 

دوسروں کے چراغ گل کر کے

روشنی ہو نہ زندگی میں کبھی

 

آدمی آدمی ہیں ہر جانب

انساں ہوتا تھا آدمی میں کبھی

 

سوچ کر سوچ میں نہیں آتا

وہ جو آتا ہے بے خودی میں کبھی

 

کہتی ہیں ہاتھ کی لکیریں مجھے

کچھ کمایا ہے زندگی میں کبھی

 

اب کہاں وہ چراغ ہیں فرخؔ

وہ جو جلتے تھے تیرگی میں کبھی

 

 

 

 

یوں محبت کی انتہا کریں گے

قرض اُلفت کے سب ادا کریں گے

 

دیکھنا اب بتوں کو دیکھتے ہی

کیسے کافر خدا خدا کریں گے

 

عاشقی اب تمام ہو چلی ہے

دل جگر دیکھ کام کیا کریں گے

 

وہ کسی روز تو سنے گا صدا

اُس کے در پر سدا صدا کریں گے

 

اُن کا حق اُن کو پھر خدا دے گا

دوسروں کا جو حق ادا کریں گے

 

اب ہماری وفا کو دیکھتے ہی

دیکھنا بے وفا، وفا کریں گے

 

اپنا اثبات ہم کو پھر ملے گا

اپنی جب ہم اَنا فنا کریں گے

 

توڑے ہیں یوں بتوں نے دل فرخؔ

اب فقط ہم خدا خدا کریں گے

٭٭٭

تشکر: کتاب ایپ، آئڈیل آئیڈیاز ڈاٹ کام

ای پب سے متن کی فراہمی، تدوین اور باز ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل