FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

مشکوٰۃ

 

 

 

 

 

حصہ اول

 

 

 

مدون۔ الطیبی

                   المعروف بہ مظاہر حق جدید

ترجمہ اور تشریح: عبداللہ جاوید

 

 

 

 

 

 

               علم کا بیان

 

                   غزوہ خندق میں عبداللہ بن رواحہ کا رجزیہ کلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک پر

 

اور حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خندق کھودے جانے کے دن خود بنفس نفیس مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے یعنی غزوہ احزاب کے موقع پر جب خندق کھودی جا رہی تھی تو سرکار دو عالم بنفس نفیس سارے کام میں شریک تھے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ بھی بڑے بڑے پتھر اٹھاتے اور مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کا شکم مبارک غبار آلود ہو گیا تھا اور اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا یہ رجزیہ کلام پڑھتے جاتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے۔

خدا کی قسم اگر اللہ کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم راہ راست نہیں پا سکتے تھے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے تھے۔

پس اے اللہ ہم پر وقار اور اطمینان نازل فرما و رجب دشمنان دین سے ہماری مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔

بے شک کفار مکہ نے ہم پر اس لیے زیادتی کی ہے جب وہ ہمیں فتنہ میں مبتلا کرنے یعنی کفر کی طرف واپس لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم انکار کر دیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلمان اشعار کو بلند آواز سے پڑھتے تھے خصوصاً ابینا ابینا پر آواز بلند ہو جاتی تھی۔

 

تشریح

 

یرفع بھا صوتہ میں بھا کی ضمیر لفظ ابینا کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا سے پہلے لفظ قائلا مقدر ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ان اشعار کو پڑھتے تو آخر میں لفظ ابینا کو بار بار دہراتے اور اس وقت آپ کی آواز کو زیادہ بلند کرتے اور اس سے مقصد اس لفظ کے مفہوم کو مؤکد کرنا ، تلذذ و حظ حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں اور کافروں کے کانوں تک پہنچانا تھا۔طبی نے یہ لکھا ہے کہ بھا کی ضمیر ان اشعار کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا اس جملہ میں حال واقع ہو رہا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آپ تمام اشعار کو با آواز بلند پڑھتے تھے اور لفظ ابینا پر پہنچ کر آواز کو خصوصیت سے بلند کر دیتے تھے۔

 

                   غزوہ خندق کے موقع پر رجز پڑھنے والے صحابہ کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب غزوہ احزاب کے موقع پر مہاجرین اور انصار نے خندق کھودنا اور مٹی کو اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کیا تو وہ اس دوران یہ رجز پڑھتے جاتے تھے۔

ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک جہاد کرتے رہنے کے لیے محمد کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔

اور رسول اللہ ان کے اس رجز کے جواب میں یہ دعا فرماتے جاتے تھے کہ اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔ (بخاری ، مسلم)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم گویا ان دعائیہ الفاظ کے ذریعہ صحابہ کو تسلی دیتے تھے کہ تمہیں اس موقع پر جو محنت و مشقت برداشت کرنا پڑ رہی ہے اور تم جن سخت حالات سے دوچار ہو ان پر صبر کرو اللہ تعالیٰ کا انعام تمہارے لیے مقدر ہے اور اس دنیا میں تمہیں راحت و سکون ملے یا نہ ملے لیکن آخرت کی زند گی میں تمہیں اپنی اس محنت و مشقت کے عوض بے شمار انعامات ملیں گے نیز اصل انعامات آخرت ہی کے ہیں بایں طور کہ زندگی بس آخرت ہی کی زندگی ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے جب کہ اس دنیا کی کیا راحت و کیا مصیبت سب کو آخرکار معدوم ہو جانا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (وماالحیوۃ الدنیا الامتاع الغرور

 

                   ہر وقت شعر و شاعری میں مستغرق رہنے اور برے شعر کی مذمت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یاد رکھو! کسی شخص کا پیٹ کو پیپ سے بھرنا جو اس کے پیٹ کو خراب کر دے اس سے بہتر ہے کہ پیٹ کو مذموم اشعار سے بھرا جائے۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ذریعہ ایسی شاعری کی مذمت کی گئی ہے جو انسان کو ہر طرف سے غافل کر دے چنانچہ جو شاعر ہر وقت مضامین بندی اور تخلیق شعر میں مستغرق رہ کر فرائض و عبادت و تلاوت قرآن و ذکر خداوندی اور علوم شرعیہ سے غافل ہو جاتے ہیں ان کے اشعار برائی اور قابل نفرین ہونے کے اعتبار سے اس پیپ سے بھی بدتر ہیں جو زخم میں پڑ جاتی ہے خواہ وہ اشعار کسی بھی طرح کے ہوں اور کیسے بھی اچھے مضامین کے حامل کیوں نہ ہوں۔ یا اس سے ارشاد گرامی میں محض ان اشعار کی مذمت مراد ہے جو فحش و بے حیائی ، کفر و فسق اور ناشائستہ وغیرہ صالح مضامین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے برے اشعار کہتے جاتے ہیں۔

 

                   شعری جہاد کی فضیلت

 

اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ اللہ نے شعر و شاعری کے حق میں جو حکم دیا ہے وہ آیت ظاہر ہے جو اس نے نازل فرمائی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس بات کے جواب میں فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم کافروں کو اشعار کے ذریعہ اسی طرح زخم پہنچاتے ہو جس طرح تیروں کے ذریعہ۔ (محی السنہ)

اور عبدالبر کی کتاب استیعاب میں یوں ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ شعر و شاعری کے متعلق آپ کیا حکم فرماتے ہو یہ کوئی اچھی چیز ہے یا بری؟آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی۔

 

تشریح

 

علماء نے لکھا ہے کہ تین حضرات شعراء اسلام میں ممتاز اور برتر حیثیت رکھتے ہیں ان میں ایک تو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے دوسرے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور تیسرے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تینوں حضرات اپنا الگ الگ شعری انداز و رخ رکھتے ہیں حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے اشعار خصوصیت سے ایسے مضامین پر مشتمل ہوتے تھے جو کفار و مشرکین کو جنگ و جہاد کے خوف میں مبتلا کرتے تھے ، اور ان کے دلوں پر رعب و ہیبت کے اثرات مرتب کرتے تھے ، حضرت حسان رضی اللہ عنہ اپنے اشعار کے ذریعہ دشمنان دین اور دشمنان رسول کے حسب و نسب پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتے تھے اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار کا رخ کفار مشرکین کی توبیخ و سرزنش کی طرف رہتا تھا۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ نے قرآن کریم کی یہ آیت (وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُہمُ الْغَاوٗنَ) 26۔ الشعراء:224)، نازل فرمائی اور اس کے ذریعہ شعر و شاعری کی برائی اور اپنے احوال کے ذریعہ ان پر ظاہر فرمایا کہ شعر و شاعری بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ اس میں برائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کو غیر شرعی باتوں اور نامناسب مضامین کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے اور چونکہ عام طور پر شعراء فکر و خیال کی گمراہی اور زبان کلام کی بے اعتدالیوں کا شکار ہوتے ہیں اس لیے اللہ نے اس کی مذمت میں مذکورہ آیت نازل فرمائی ورنہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی شخص اپنے اشعار کو حق و صداقت کے اظہار باطل و ناحق کی تردید کا ذریعہ بنائے تو اس کی شعر و شاعری اس آیت کا محمول نہیں ہو گی بلکہ جو شعراء اپنے اشعار کے ذریعہ خدا اور خدا کے رسول کی خاطر کفار کا شعری مقابلہ کرتے ہیں اور ان کی ہجو کا جواب ہجو دے دے کر گویا دین اسلام کی تائید کرتے ہیں وہ دراصل جہاد کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں لہذا تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ نہ تمہارے اشعار اس آیت کی روشنی میں قابل مذمت ہیں اور نہ تم ان شعراء میں داخل ہو جن کی برائی ظاہر کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی گئی ہے کیونکہ خود اللہ نے تم جیسے شعراء کو اپنے اس قول کے ذریعہ مذکورہ آیت کے حکم سے باہر رکھا ہے کہ۔ آیت (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰہ كَثِيْراً)26۔ الشعراء:227)

 

 

کم گوئی ایمان کی نشانی ہے

 

اور حضرت ابوامامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا شرم و حیا اور زبان کو قابو میں رکھنا ایمان کی دو شاخیں ہیں جب کہ فحش گوئی اور لاحاصل بکواس نفاق کی دو شاخیں ہیں۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

شرم و حیا کا ایمان کی شاخ ہونا ایک ظاہر و معروف بات ہے اور اس کا تفصیلی ذکر باب الایمان میں گزر چکا ہے۔زبان کو قابو میں رکھنے کا ایمان کی شاخ ہونا اور فحش گوئی و لا حاصل بکواس کا نفاق کی شاخ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ مومن اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرم و حیاء انکساری مسکینی و سلامتی طبع کے جن اوصاف سے مزین ہوتا ہے وہ اپنے خدا کی عبادت، اپنے خدا کی مخلوق کی خدمت اور اپنے باطن کی اصلاح میں جس طرح مشغول و منہمک رہتا ہے اس کی بناء پر اس کے بے فائدہ تقریر بیان پر قدرت ہی حاصل نہیں ہوتی وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہوتا کہ اپنے مفہوم و مدعا کو مبالغہ آرائی اور زبان کی تیز و طرار کے ذریعہ ثابت و ظاہر کر سکے بلکہ وہ اس خوف سے کم گوئی کو اختیار کرتا ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے کہ مبادا زبان سے کوئی بڑی بات نکل جائے اور وہ فحش گوئی اور بد زبانی کا مرتکب ہو جائے اس کے برخلاف منافق کی شان ہی ہوتی ہے کہ وہ چرب زبانی یا وہ کوئی اور مبالغہ آمیزی کی راہ اختیار کرتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ بے فائدہ تقریر و بیان، زبان درازی، اور فحش گوئی پر قادر و دلیر ہو جاتا ہے۔

 

بے فائدہ بیان آرائی مکروہ ہے

 

اور حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن مجھ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب اور میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے زیادہ خوش اخلاق ہیں اور میرے نزدیک تم میں سے سب سے برے اور مجھ سے سے سب سے زیادہ وہ دور لوگ ہوں گے جو تم میں بد اخلاق ہیں ، بد اخلاق سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہت بنا بنا کر باتیں کرتے ہیں بغیر احتیاط کے بک بک لگاتے ہیں اور متفیہقین اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور ترمذی نے بھی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے نیز ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ صحابہ نے یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ثرثارون اور متشدقون کے معنی تو ہمیں معلوم ہیں متفیھقون سے کیا مراد ہے یعنی متفیھق کسے کہتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تکبر کرنے والے۔

 

تشریح

 

فیھق،،ضرورت سے زیادہ باتیں کرنا اور منہ پھیر کر کوئی بات کہنے کو کہتے ہیں جیسا کہ تکبر وغیرہ میں مبتلا لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو وہ کسی سے بات چیت کرتے ہیں تو ان کے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے مخاطب کو بہت حقیر و ذلیل سمجھ رہے ہوں اور یہ بھی گوارا نہیں ہو رہا ہے کہ اس کی طرف منہ اٹھا کر ہی بات کریں بلکہ اس کی طرف سے چہرہ پھیر پھیر کر بات کرتے ہیں چنانچہ اسی معنوی لزوم کی وجہ سے متفیھقین کی وضاحت متکبرین کے ذریعہ کی گئی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بک بک لگانا، بے فائدہ و لا حاصل گفتگو کرنا بنا بنا کر باتیں کرنا اور بیا آرائی و مبالغہ آمیزی کے ساتھ تقریریں کرنا مکروہ مذموم ہے لیکن حق کے تئیں لوگوں کے ذہن و فکر کو متاثر کرنے قلوب کو نرمانے اور عبادات و طاعت کی طرف سے متوجہ و راغب کرنے کے لیے وعظ و نصیحت میں جو بیان آرائی کی جائے اور طول بیان کی جاتی ہے وہ مذموم و مکروہ نہیں ہے لیکن اس صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ کہ انداز بیان اور طرز کلام ایسا اختیار کرنا چاہیے کہ جو آسانی سے لوگوں کو مقصد تک پہنچا دے اس کے برخلاف پیچیدہ و رقیق انداز مشکل لغات و الفاظ اور ایسی نکتہ چینی و حکمت آفرینی اختیار کرنا جو عام ذہن و فہم سے بالا تر ہو اور جس کی وجہ سے ان پڑھ لوگ اس کے وعظ و تقریر سے کما حقہ فائدہ نہ اٹھا سکیں مناسب موزوں نہیں ہے۔

 

                   ایک پیش گوئی

 

اور حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ ایک ایسی جماعت پیدا نہیں ہو جائے گی جو اپنی زبانوں کے ذریعہ اس طرح کھائے گی جس طرح گائیں اپنی زبانوں سے کھاتی ہیں (احمد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنی زبانوں کو کھانے پینے کا وسیلہ و ذریعہ بنائیں گے بایں طور کہ وہ خوشامد چاپلوسی کی خاطر لوگوں کی جھوٹی تعریفیں بیان کریں گے یا بغض وحسد کی بنا پر ان کی جھوٹی مذمت کریں اور وہ اپنی تقریر و تحریر میں زبان دانی اور فصاحت و بلاغت کا جھوٹا مظاہرہ کریں گے تاکہ لوگ دام فریب میں مبتلا کریں اور ان سے دنیا کا مال و زر حاصل کریں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کرائیں۔ جس طرح گائیں اپنی زبان کے ذریعے کھاتی ہیں کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح گائیں اپنی زبان سے کھاتی ہیں اور چارا چرتے وقت یہ تمیز نہیں کرتیں کہ وہ چارہ خشک ہے یا تر اور شیریں ہے یا تلخ اور جائز ہے کہ نا جائز، اسی طرح وہ لوگ بھی جو اپنی زبانوں کو اپنے نا جائز مقاصد اور ناروا خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ و ذریعہ بنائیں گے ، حق و باطل اور سچ جھوٹ کے درمیان قطعاً کوئی تمیز نہیں کریں گے اور نہ حلال و حرام کے درمیان کوئی فرق کریں گے۔

 

                   زبان دراز اور چکنی چپڑی باتیں کرنے والا خدا کا ناپسندیدہ ہے

 

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص سخت ناپسندیدہ ہے جو کلام و بیان میں حد سے زیادہ فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرے بایں طور کہ وہ اپنی زبان کو اس طرح لپیٹ لپیٹ کر باتیں کرے جس طرح گائے اپنے چارے کو لپیٹ لپیٹ کر جلدی جلدی اپنی زبان سے کھاتی ہیں اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ زبان درازی اور طاقت نسائی کوئی اچھی چیز نہیں ہے اپنی زبان اور کلام میں خواہ مخواہ کے لیے حد سے زیادہ فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرنا، حاشیہ آرائی اور مبالغہ آمیزی کے ساتھ اپنی بات کو پیش کرنا اور الفاظ کو چبا چبا کر اور زبان کو لپیٹ لپیٹ کر چکنی چپٹی باتیں کرنا احمق لوگ کے نزدیک تو ایک وصف سمجھا جاتا ہے لیکن جو دانش مند اور عاقل لوگ اس وصف کے پیچھے چھپی ہوئی برائی کو دیکھتے ہیں کہ عام طور پر اس طرح باتیں بنانے والے لوگ جھوٹے اور حیلہ باز ہوتے ہیں ان کے نزدیک اس وصف کا کوئی اعتبار نہیں اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایسا شخص خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہے لہذا چھا کلام وہی ہے جو ضرورت کے بقدر اور سیدھا سادا ہو نیز جس سے یہ واضح ہو کہ متکلم کے ظاہری الفاظ، اس کی باطنی کیفیات کے ہم آہنگ ہیں جو شریعت کا تقاضا بھی ہے۔

 

                   بے عمل واعظ و خطیب کے بارے میں وعید

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ معراج کی رات میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہو جن کی زبانیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں، میں نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ آپ کی امت کے واعظ و خطیب ہیں جو ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے۔ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث میں ان واعظوں اور خطیبوں کے لیے سخت تنبیہ وعید ہے جو دوسروں کو نیک کام کرنے کو کہتے ہیں لیکن خود نیک کام نہیں کرتے تاہم واضح رہے کہ یہ حدیث ان واعظوں اور خطیبوں کی بے عملی کی مذمت کو ظاہر کرتی ہے نہ کہ اس ارشاد کا مقصد اس بات کی برائی کو بیان کرنا ہے کہ وہ نیک کام کے لیے کیوں کہتے ہیں اگرچہ وہ خود نیک کام نہیں کرتے اسی بنیاد پر علماء لکھتے ہیں کہ امر بالمعروف میں فعل شرط نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ نیک کام کے لیے وہی شخص کہہ سکتا ہے جو خود بھی اس پر عمل کرے البتہ یہ بہتر ہے کہ امر بالمعروف کرنے والا اپنے کہے پر خود بھی عمل کرے ، کیوں کہ جس امر بالمعروف کی بنیا د محض قول پر ہوتی ہے عمل پر نہیں ہوتی اس کا اثر نہیں ہوتا۔

 

 

                   چرب زبانی کے بارے میں وعید

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس مقصد کے لیے گھما پھرا کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھے کہ وہ اس کے مردوں کے دلوں یا لوگوں کے دلوں پر قابو حاصل کر لے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ اس کی نفل عبادت قبول کرے گا اور نہ فرض۔

 

تشریح

 

مذکورہ وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو چرب زبانی کرے ضرورت سے زیادہ باتیں بنائے اپنے مقصد کو اس طرح گھما پھرا کر بیان کرے کہ حقیقت ظاہر نہ ہو سکے اور یا اپنے کلام کو ضرورت سے زیادہ فصاحت و بلاغت نیز مبالغہ آرائی کے ساتھ آراستہ و مزین کرے اور ان چیزوں محض یہ ہو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی باتوں سے اثر قبول کر کے اس کے مقصد کو پورا کریں۔

 

                   مختصر تقریر بہتر ہوتی ہے

 

اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے اس وقت فرمایا جب کہ ایک شخص (وعظ کہنے یا خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوا اور اپنی فصاحت و بلاغت کے اظہار کی خاطر) بہت لمبی تقریر کی یہاں تک کہ سننے والے اکتا گئے چنانچہ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر تم اپنی تقریر میں اعتدال و میانہ روی سے کام لیتے تو بے شک وہ تقریر سننے والوں کے حق میں بہت بہتر ہوتی ہے میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے سمجھ لیا ہے یا یہ فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تقریر میں گفتگو میں اختصار کروں حقیقت یہ ہے کہ مختصر تقریر بہتر ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

روایت میں فقال عمرو کے الفاظ طول کلام کے سبب مکرر نقل کیے گیے ہیں کیونکہ ولوقصد..الخ۔ مقولہ ہے کہ قال یوما کا اور قام رجل حال ہے اور ظاہر ہے کہ حال کی وجہ سے قول و مقولہ کے درمیان خاصا فرق ہو گیا اس لیے فقال عمرو دوبارہ کہہ کر گویا قول کا اعادہ کیا۔

 

                   بعض علم جہالت ہوتے ہیں

 

اور حضرت صخرا بن عبداللہ ابن بریدہ اپنے والد (حضرت عبداللہ) سے اور وہ صخر کے دادا حضرت بریدہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بعض بیان جادو کی مانند ہوتے ہیں بعض علم جہالت ہوتے ہیں بعض اشعار فائدہ مند یعنی حکمت و دانائی سے پر ہوتے ہیں اور بعض قول و کلام وبال جان ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)۔

 

تشریح

 

بعض علم جہالت ہوتے ہیں کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ کسی شخص نے ایسا علم حاصل کیا جو بذات خود نہ تو فائدہ مند ہو اور نہ اس کی طرف احتیاج و ضرورت ہو جیسے علم جعفر و رمل یا علم نجوم و فلاسفہ وغیرہ، اور اس بے فائدہ علم میں مشغولیت کی وجہ سے وہ ضروری علوم حاصل کرنے سے محروم رہا ہے جن سے لوگوں کی احتیاج و ضرورت وابستہ ہوتی ہے جیسے قرآن و حدیث اور دین کے علوم، تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ اس شخص نے جو بے فائدہ علم حاصل کیا اس علم نے دوسرے ضروری علوم سے اس کی محرومی و جاہل رکھا ہے جس کا حاصل یہ ہو کہ بعض علوم درحقیقت جہل کو لازم کرتے ہیں اور اسی اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ بعض علم جہالت ہوتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ علم حاصل کرنے والا اپنے علم پر عمل پیرا نہ ہوا، اس اعتبار سے وہ شخص عالم ہونے کے باوجود جاہل قرار پائے گا کیوں کہ جو شخص علم رکھے اور عمل نہ کرے تو وہ گویا جاہل ہے۔علاوہ ازیں اس ارشاد گرامی سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو شخص علم کا دعوی کرتا ہے اور اپنے گمان کے مطابق خود کو عالم سمجھتا ہے مگر حقیقت میں وہ عالم نہیں ہے تو اس کا یہ علم جس کا اس نے دعوی کیا ہے علم نہیں ہے بلکہ سراسر جہالت و نادانی ہے۔ بعض قول و کلام وبال جان ہوتا ہے ، کا مطلب ہے کہ کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی جس کی وجہ سے وہ خود کسی آفت میں مبتلا ہو گیا یا جس شخص نے اس بات کو سنا وہ کسی ملال و دل برداشتگی میں مبتلا ہو گیا، بایں طور کہا گر وہ سننے والا جاہل تھا تو وہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی اور اگر عالم تھا تو اس کے لیے لاحاصل تھی یا وہ کوئی ایسی بات جس کو سننے والا پسند نہیں کرتا اور اس بت کی وجہ سے اس کو رنج و ملال ہوتا ہے تو ان صورتوں میں یہی کہا جائے گا کہ کہنے والے وہ قول و کلام وبال و ملال کا ذریعہ بن گیا ہے۔

 

                   حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی فضیلت

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں مشہور شاعر اسلام حضرت حسان کے لیے منبر رکھوا دیتے جس پر وہ کھڑے ہو کر اپنے اشعار سناتے اور ان اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اظہار فخر کرتے تھے یا یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے کفار کے دین مخالف اشعار اور ہجو کا مقابلہ کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید کرتا ہے جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مقابلہ کرتے ہیں۔ یا یہ الفاظ ہیں کہ جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اظہار فخر کرتے ہیں۔ (بخاری)۔

 

                   حدی کا جواز

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک حدی خواں تھے جن کا نام ابخشہ تھا وہ بہت خوش آواز تھے ایک سفر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ ابخشہ اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکو اور شیشوں کونہ توڑو۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث کے ایک راوی کہتے ہیں کہ شیشوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد عورتیں تھیں۔ (بخاری)

 

 

تشریح

حدی صراح کے مطابق اس بلند آواز گانے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اونٹوں کو ہانکا جاتا ہے لغت کی بعض دوسری کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حدی،عرب شتربانوں کے نغمہ کو کہتے ہیں چنانچہ عرب میں دستور ہے کہ شتربان اونٹ ہانکنے والا جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تھک گیا ہے یا اس کی چال سست ہو گئی ہے تو بلند آواز اور خوش گوئی کے ساتھ گانے لگتا ہے اس گانے کی آواز گویا اونٹ میں چستی و گرمی پیدا کر دیتی ہے جس سے وہ تیز رفتاری کے ساتھ چلنے لگتا ہے کتابوں میں لکھا ہے کہ حدی جو گانے ہی کی ایک قسم ہے مباح ہے اور اس کے بارے میں علماء میں سے کسی کا کوئی اختلافی قول نہیں ہے۔

قواریر قارورہ کی جمع ہے جس کے معنی شیشہ کے ہیں، اس ارشاد گرامی شیشوں کونہ توڑو کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ عورتوں کے بدن میں جو فطری نزاکت و کمزوری ہوتی ہے اس کی بنا پر اونٹوں کا تیز چلنا اور ہچکولے لگنا ان کے سخت تعجب و تکلیف کا موجب بن جاتا ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے شتربان ابخشہ کو حکم دیا کہ اونٹ کو اتنی تیزی کے ساتھ نہ بھگاؤ کہ اس پر سوار عورتیں ہچکولے کھانے لگیں اور اس کی وجہ سے ان کو تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ عورتوں کے دل کی کمزوری و نرمی کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابخشہ کو ہدایت کی اس طرح حدی خوانی نہ کرو جس سے عورتوں کے دل کمزور ، متاثر ہو جائیں اور تمہارے گانے کی وجہ سے ان کے ذہن و دماغ اور جذبات میں ہلچل پیدا ہو جائے اور وہ کسی برے خیال میں مبتلا ہو جائیں کیونکہ گانے کی خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ طبیعت کو بھڑکاتا ہے اور جذبات میں ہلچل مچا دیتا ہے اگرچہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جس موقع پر یہ ارشاد فرمایا اس وقت اونٹ پر ازواج مطہرات میں سے کوئی زوجہ مطہرہ سوار ہوں گی اور اس صورت میں مطلب غیر موزوں معلوم ہوتا ہے کیونکہ مذکورہ احتمال یعنی گانے کی آواز سن کر جذبات میں ہلچل پیدا ہو جانا ازواج مطہرات کے حق میں نہایت کمزور ضعیف ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کسی برے خیال کا پیدا ہو جانا اور طبیعت و دل کا کسی وسوسے میں مبتلا ہو جانا ایک طبعی چیز جو کسی انسان کے اختیار کی پابند نہیں ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو مناسب سمجھا کہ احتیاط کی راہ ظاہر فرما دیں کہ بہر صورت احتیاط کی راہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے اور اولیٰ ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و  سلم کے اس ارشاد کا تعلق درحقیقت امت کے لوگوں کوتعلیم و تلقین سے ہے یعنی آپ نے اس موقع پر مذکورہ ارشاد کے ذریعہ پوری امت کو ہدایت فرمائی کہ جب اونٹ پر عورتیں سوار ہوں تو ان کی موجودگی کو ملحوظ رکھا جائے اور حدی خوانی میں احتیاط و مصلحت کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اوپر جو دو معنی بیان کیے گئے ہیں ان میں سے دوسرے مطلب کو اکثر شارحین نے ترجیح دی ہے لیکن روایت کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ پہلا مطلب صحیح مانا جائے۔

 

 

                   شعر کی خوبی و برائی کا تعلق اس کے مضمون سے ہے

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے شعر کا ذکر کیا گیا، یعنی یہ دریافت کیا گیا شعر و شاعری کوئی اچھی چیز ہے یا بری؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شعر بھی ایک کلام ہے چنانچہ اچھا شعر اچھا کلام ہے اور برا شعر برا کلام ہے۔

 

تشریح

 

شعر و شاعری کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے اور حدیث بھی اسی بات کو واضح کرتی ہے کہ شعر کہنا یا پڑھنا سننا بذات خود کوئی برائی نہیں رکھتا بلکہ اس کی اچھائی اور برائی کا دارومدار شعر کے مضمون پر ہوتا ہے اگر شعر کا مضمون ایسا ہے جو شریعت کے حکم و منشاء اور دینی تقاضوں کے خلاف نہیں ہے تو اس شعر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ ایسے مضمون کا حامل شعر کہا، اور سنا جائے جس سے دین کی بات پھیلتی اور ثابت ہوتی ہے یا جس سے خدا کی وحدانیت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت و منقبت اور دین و خادمان دین کی عظمت ظاہر ہوتی ہو تو یقیناً ایسا شعر مستحسن و محمود بھی ہو گا اس کے برخلاف جس شعر کا مضمون شریعت کے حکم و منشاء کے خلاف ہو تو اس کو برا کہا جائے گا۔

 

                   شعر کی برائی

 

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر کے دوران عرج میں تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے سے نمودار ہوا جو اشعار پڑھنے میں مشغول تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ اس شیطان کو پکڑ لو یا یہ فرمایا کہ اس شیطان کو جانے دو یعنی اس کو شعر پڑھنے سے روک دیا، یاد رکھو! انسان کا اپنے پیٹ کو پیپ سے بھرنا اس میں اشعار بھرنے سے بہتر ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

عرج، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان راستہ میں پڑنے والی ایک گھاٹی کا نام ہے جہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی ہے اس راستے پر چلنے والے قافلے یہاں منزل کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی سفر ہجرت اور حجۃ الوداع میں اس جگہ سے گزرے تھے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حجۃالوداع کے سفر کے دوران کا ہے۔ بہرحال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ شعر پڑھنے میں بری طرح مشغول ہے یہاں تک کہ اس کو وہاں موجود مسلمانوں کی طرف بھی کوئی التفات نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام مسلمانوں سے صرف نظر کیے ہوئے بے محابا چلا جا رہا ہے۔ اور اس کو شوق شعر و شاعری نے اس درجہ بے باک بنا دیا ہے کہ وہ انسانی اور اخلاقی تقاضوں اور آداب زندگی کو فراموش کر بیٹھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رگ و پے میں صرف شعر و شاعری ہی سرایت کیے ہوئے اور وہ پرلے درجے کا بے حیا و بے ادب بن گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو شیطان فرمایا جس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ شخص رحمت الٰہی اور قرب خداوندی سے بعد اختیار کیے ہوئے اور ظاہر ہے کہ اس سے صورت حال کا صدور محض اس لیے ہوا کہ وہ اپنی شعر و شاعری کے غرور نخوت میں مبتلا تھا اس لیے آپ نے شعر کی مذمت کی۔

 

                   راگ لگانا، نفاق کو پیدا کرتا ہے

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، راگ و گانا دل میں نفاق کو اس طرح اگاتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ راگ و گانا انسانی قلب و روح کے لیے ایک آزار ہے کہ جس کا ثمرہ نفاق ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ راگ و گانا انسان میں نفاق و فساد باطن کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔ دیلمی کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی یوں نقل کیا گیا ہے کہ،

حقیقت یہ ہے کہ راگ و گانا اور کھیل کود یہ دونوں نفاق کو اس طرح اگاتے ہیں جس طرح پانی سبزی کا اگاتا ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے قرآن اور ذکر الٰہی یہ دونوں قلب میں ایمان کو اس طرح اگاتے ہیں جس طرح پانی سبزی کو اگاتا ہے۔

حاصل یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ راگ و گانے اور کھیل کود جیسی لاحاصل چیزوں سے اجتناب کرے بلکہ اپنے اوقات کو تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی سے معمور رکھے کیوں کہ یہ چیزیں قلب و روح کو جلا بخشتی ہیں اور ایمان و اخلاق کو مضبوط بناتی ہیں۔ نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب روضہ میں لکھا ہے کہ محض آواز کے ساتھ گانا مکروہ ہے اور اس کا سننا بھی مکروہ ہے نیز اجنبی عورت سے سننا سخت مکروہ ہے اور ساز جیسے عود و طنبور اور دیگر باجوں کے ساتھ شراب نوشوں کا خاص مشغلہ ہوتا ہے حرام ہے اور اس کا سننا بھی حرام ہے۔

 

                   باجے گاجے کی آواز آئے تو کانوں میں انگلیاں ڈال لو

 

اور حضرت نافع تابعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ راستہ میں تھا یعنی ہم دونوں کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی آواز سنی اور فوراً اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال لیں نیز راستہ سے ہٹ کر دوسری طرف ہولیے تاکہ اس آواز سے اپنے آپ کو بچا سکیں پھر اس راستہ سے ہٹنے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ نافع کیا تم بھی کچھ سن رہے ہو یعنی کہ جو آواز آ رہی تھی وہ اب بھی آ رہی ہے یا بند ہو گئی ہے؟میں نے کہا نہیں اب وہ آواز بند ہو گئی ہے انہوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں سے نکال لیں اور پھر بیان کیا کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  نے کی آواز سنی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی کیا جو اس وقت میں نے کیا ہے۔ حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں ایک چھوٹی عمر کا لڑکا تھا۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو اس روایت کے آخر میں جو یہ واضح کیا کہ میں نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے وہ اس وقت کا ہے جب میں بہت چھوٹا تھا اس سے ان کا مقصد اس بات کو واضح کرنا تھا کہ اس وقت چونکہ میں چھوٹی عمر کا تھا اور شرعی طور پر مکلف نہیں تھا اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آواز کو سننے سے مجھ کو منع نہیں کیا اگر میں شرعی طور پر مکلف ہوتا تو وہ یقیناً مجھ کو یہ ہدایت کرتے کہ ان کی طرح میں بھی اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لوں لہذا کسی کو یہ وہم نہیں ہونا چاہیے کہ اس آواز میں کراہت تنزیہی تھی اس لیے انہوں نے مجھ کو اس آواز کے سننے سے منع نہیں کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس آواز کو سننا مکروہ تحریمی تھا اور مجھے منع نہ کرنے کا تعلق میرے غیر مکلف ہونے سے تھا۔ رہی یہ بات کہ جب حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں تھیں تو راستہ چھوڑ دینے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا تعلق کمال تقویٰ اور ورع سے تھا یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احتیاط و تقویٰ کا تقاضہ یہی سمجھا کہ اس راستہ سے ہی ہٹ جائیں ورنہ اگر اس راستے کو چھوڑ دینا بھی شرعی طور پر ضروری ہوتا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقیناً حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بھی وہ راستہ چھوڑ دینے کا حکم دیتے۔ واضح رہے کہ گانے بجانے کا مسئلہ بہت تفصیل طلب ہے خلاصہ کے طور پر اتنا جان لینا کافی ہے کہ محدثین کی تحقیق کے مطابق ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے جس سے گانے کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہو مشائخ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اظہار ممانعت کے طور پر جو کچھ منقول ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ گانا ممنوع ہے جس کے ساز اور باجا بھی شامل ہو البتہ فقہاء نے اس مسئلہ میں بڑی شدت اختیار کی ہے جس کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے کہ لہو و لعب کی چیزوں یعنی ساز اور باجوں کو سننا حرام اور سخت گناہ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، باجوں کا سننا گناہ ہے اس پر بیٹھنا فسق ہے اور اس سے لذت حاصل کرنا کفریات میں سے ہے ، ہاں اگر کسی شخص کے کان میں باجے کی آواز ناگہانی طور پر آ جائے تو اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس پر واجب ہو گا کہ وہ اس بات کی پوری کوشش کرے کہ وہ اس آواز کو سن نہ سکے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باجے کی آواز سے بچنے کے لیے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لی تھیں۔

 

 

 

 

زبان کی حفاظت، غیبت اور برا کہنے کا بیان

 

 

٭٭غیبت  کے معنی ہیں پیٹھ پیچھے بد گوئی کرنا، یعنی کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق ایسی باتیں کرنا کہ جس کو اگر وہ سنے تو ناپسند کرے۔

 

شتم  کے معنی ہیں گالی دینا یعنی کسی کو کوئی فحش بات کہنا بدزبانی کرنا برا بھلا کہنا اور کسی کو ایسے الفاظ کے ذریعہ یاد و مخاطب کرنا جو شریعت و اخلاق اور تہذیب و شائستگی کے خلاف ہوں۔

بہرحال اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے یہ واضح ہو گا کہ زبان کو ایسے الفاظ و کلام سے بچانا چاہیے جن کو زبان پر لانا شرعی ، اخلاقی، اور معاشرتی طور پر ناروا ہے ، خصوصاً غیبت، گالم گلوچ، اور بدزبانی و بدکلامی، نیز ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ان چیزوں میں شرعی طور پر کیا برائی ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والا شریعت و اخلاق کی نظر میں کس کی نظر میں کس قدر ناپسندیدہ ہے۔

 

                   زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے جنت کی بشارت

 

حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ اپنی اس چیز کی حفاظت کرے گا،جواس کے دو کلوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور دانت اور جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہے یعنی شرم گاہ تو میں اس کی جنت کی ضمانت لیتا ہوں۔ (بخاری)

 

تشریح

 

زبان کی حفاظت کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ اپنی زبان پر قابو حاصل کرے بایں طور کہ اس کو بے فائدہ الفاظ و کلام اور فحش گوئی و سخت کلامی سے محفوظ رکھے اور دانت کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حرام چیزوں کے کھانے پینے میں ملوث نہ کرے اس طرح شرمگاہ کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ زنا جیسی برائی سے اجتناب کرے۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص مجھ سے اس بات کا عہد کرے اور عمل کے ذریعہ اس عہد کو پورا کرے گا وہ اپنی زبان کو فحش گوئی و بدکلامی سے محفوظ رکھے گا اپنے منہ کو حرام و نا جائز کھانے پینے سے بچانے اور اپنی شرم گاہ کو حرام کاری سے محفوظ رکھنے پر پوری طرح عامل و کار بند رہے گا تو اس کے تئیں اس بات کا ضامن بنتا ہوں کہ وہ شروع میں ہی نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ اور وہاں کے درجات عالیہ کا مستحق قرار پائے گا۔

واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دراصل حق تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ جس طرح وہ محض اپنے فضل سے بندوں کے رزق کا ضامن ہوا ہے اسی طرح اس نے پاکیزہ زندگی اختیار کرنے اور اعمال صالحہ پر جزاء دینے اور اپنے انعامات سے نوازنے کا بھی قوی وعدہ کیا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کے نائب ہیں اس کی طرف سے مذکورہ ضمانت لی ہے۔

 

                   زبان پر قابو رکھو

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالتا ہے جس میں حق تعالیٰ کی خوشنودی ہوتی ہے تو اگرچہ بندہ اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اس کے درجات بلند کر دیتا ہے یعنی اگرچہ وہ بندہ اپنی اس بات کی قدر و اہمیت سے واقف نہیں ہوتا اور اس کو ایک نہایت سہل اور معمولی درجہ کی بات سمجھتا ہے مگر حق تعالیٰ کے نزدیک وہ بات بہت بلند پایہ اور بڑے مرتبہ کی ہوتی ہے اسی طرح جب بندہ کوئی ایسی بات زبان سے نکالتا ہے جو حق تعالیٰ کی ناخوشی کا ذریعہ بن جاتی ہے تو اگرچہ وہ بندہ اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا یعنی وہ اس بات کو بہت معمولی سمجھتا ہے اور اس کو زبان سے نکالنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا لیکن حقیقت میں وہ بات نتیجے کے اعتبار سے اتنی ہیبت ناک ہوتی ہے کہ وہ بندہ اس کے سبب سے دوزخ میں گر پڑتا ہے۔ (بخاری) اور بخاری و مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ اس کے سبب سے دوزخ میں اتنی دور سے گرتا ہے جو مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہے یعنی وہ جہاں سے دوزخ میں گرے گا وہ دوزخ جس جگہ جا کر گرے گا ان دونوں کے درمیان اتنا طویل فاصلہ ہے جتنا مشرق  و مغرب کے درمیان بھی نہیں ہے۔

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کا حاصل اس بات پر متنبہ کرتا ہے کہ زبان پر ہر وقت قابو رکھو اور اس کے معاملہ کو کم اہم نہ سمجھو نیز اس حقیقت کو کسی بھی لمحہ نظر انداز نہ کرو اگر زبان پر احتیاط کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور یہ چھوٹی سی چیز تمہارے قابو سے باہر ہو گئی تو پھر تمہاری خیر نہیں چنانچہ اس حقیقت کو فرمایا گیا کہ بسا اوقات بندہ اپنی زبان سے کوئی بات نکالتا ہے اور اس کو اپنے نزدیک بہت معمولی درجہ کی بات سمجھتا ہے مگر درحقیقت و نتیجہ کے اعتبار سے اس بات کی اہمیت ہوتی کیا ہے؟اس کو یوں سمجھ لو کہ اگر وہ بات حق ہوتی ہے اور خدا کی خوشنودی کا ذریعہ بنتی ہے تو وہی ذرا سی بات جنت میں اس کی بلندی کا سبب بن جاتی ہے اور اگر وہ بات کہیں ایسی ہوئی جو بری ہونے کی وجہ سے خدا کی ناراضگی کا سبب بن گئی ہو تو بندے کے نزدیک وہی معمولی بات اس کو دوزخ میں گرا دینے کا ذریعہ بن جائے گی۔

 

                   کسی مسلمان کے حق میں بد زبانی و سخت گوئی فسق ہے

 

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی مسلمان کو برا کہنا فسق ہے اور کسی مسلمان کو مار ڈالنا کفر ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مسلمان کے قتل کو کفر کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی مسلمان کو قتل کر دے تو وہ کافر ہو جاتا ہے بلکہ اس ارشاد کا مقصد اس بات کو نہایت سختی و شدت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ مسلمان کا ناحق خون بہانا انتہائی سنگین جرم ہے اور جو مسلمان اپنے بھائی مسلمان کو قتل کرتا ہے وہ اپنے اسلام کے کامل ہونے کی نفی کرتا ہے گویا یہاں کفر سے مراد کمال اسلام کی نفی ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ المسلم من سلم المسلمون۔ یعنی کامل مسلمان وہی ہے جس سے مسلمان محفوظ و مامون رہے اور اگر کفر سے اس کے حقیقی معنی مراد ہوں تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ وہ مسلمان یقیناً کافر ہو جائے گا جو کسی مسلمان کو اس لیے قتل کر دے کہ وہ مسلمان ہو اور اس کے اسلام کے سبب سے اس قتل کرنے کو حلال و مباح جانے کیوں کہ کسی مسلمان کو محض اس کے اسلام کی وجہ سے قتل کرنا اور اس قتل کو حلال و مباح جاننا بلاشبہ کفر ہے۔

 

                   کسی مسلمان کو برا نہ کہو

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہو گیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ایک شخص نے جو خود مسلمان ہے کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہا تو اس کی دوہی صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ کہنے والے نے سچ کہا ہو ظاہر ہے کہ اس صورت میں کلمہ کفر کا مستحق وہی شخص ہو گا جس کو کافر کہا گیا ہے اور جو حقیقتاً کافر ہے دوسرے یہ کہ کہنے والے نے جھوٹ کہا ہے یعنی اس نے جس شخص کو کافر کہا ہے وہ حقیقت میں مسلمان ہے اور اس کی طرف کفر کی نسبت سراسر جھوٹ ہے اس صورت میں کہا جائے کہ کہنے والا خود کافر ہو گیا تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس نے ایمان کو کفر سمجھا اور دین اسلام کو باطل جانا۔ اس حدیث کے سلسلے میں امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ما حصل یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کو بعض علماء نے مشکلات میں شمار کیا ہے کیونکہ اس ارشاد گرامی کا جو بظاہر مفہوم ہے اس کو حقیقی مراد قرار نہیں دیا جا  سکتابایں وجہ کہ اہل حق کا مسلک یہ ہے کہ کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ کرے جیسے قتل اور زنا وغیرہ اور خواہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہنے کا ہی مرتکب کیوں نہ ہو بشرطیکہ وہ دین اسلام کے باطل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو اس کی طرف کفر کی نسبت نہ کی جائے جب کہ مذکورہ حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور حقیقت میں کافر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا۔چنانچہ اسی وجہ سے اس ارشاد گرامی کی مختلف تاویلیں کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا محمول وہ شخص ہے جو نہ صرف یہ کسی مسلمان کو کافر کہے بلکہ کسی مسلمان کی طرف کفر کی نسبت کرنے کو حلال و جائز سمجھے اس صورت میں ، باء بھا، کے معنی یہ ہوں گے کہ کفر خود اس شخص کی طرف تکفیر کی معصیت لوٹتی ہے یعنی جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے گا تو اس کا یہ کہنا اس مسلمان کو تو کوئی نقصان پہنچائے گا نہیں البتہ مسلمان کو کافر کہنے کے گناہ میں خود مبتلا ہو گا اور تیسرے یہ کہ اس ارشاد گرامی کا محمول خوارج ہیں جو مومنوں کو کافر کہتے ہیں لیکن تیسری تاویل بہت ضعیف ہے کیونکہ اس تاویل کا مطلب ہے کہ خوارج کو کافر قرار دیا جائے جب کہ اکثر علماء امت کے نزدیک زیادہ صحیح اور قابل قبول قول یہ ہے کہ خوارج فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ گمراہ بیشک ہیں جیسا کہ اہل بدعت، مگر ان کو کافر نہیں کہنا چاہیے اگرچہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وضاحت کی ہے کہ اس تاویل کو ان کے حق میں ضعیف نہیں کہا جائے گاجو نہ صرف اہل سنت والجماعت بلکہ اکثر اونچے درجہ کے صحابہ کرام تک کے بارے میں نعوذ باللہ کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

 

                   کسی مسلمان کی طرف فسق کی نسبت نہ کرو

 

اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی آدمی کو فاسق نہ کہے اور نہ اس پر کفر کی تہمت لگائے کیونکہ اگر وہ آدمی فسق یا کفر کا حامل نہیں ہے تو اس کا کہا ہوا اسی طرف لوٹ جائے گا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کو نہ تو فاسق کہو اور نہ اس کی طرف کفر کی نسبت کرو کیونکہ اگر کسی شخص نے کسی ایسے مسلمان کو فاسق کہا جو حقیقت میں فاسق نہیں ہے تو وہ کہنے والا خود فاسق ہو گا اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی ایسے شخص کو کافر کہا جو حقیقت میں کافر نہیں ہے بلکہ مومن ہے تو وہ کہنے والا خود کافر ہو جائے گا جیسا کہ پچھلی حدیث کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔

 

                   کسی شخص کو دشمن خدا نہ کہو

 

اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کو کافر کہہ کر پکارے یا کسی کو خدا کا دشمن کہے اور وہ واقعتاً ایسا نہ ہو تو اس کا کہا ہوا خود اس پر لوٹ پڑتا ہے یعنی کہنے والا خود کافر یا خدا کا دشمن ہو جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم)

 

                   آپس میں گالم گلوچ کا سارا گناہ ابتداء کرنے والے پر ہوتا ہے

 

اور حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر دو شخص آپس میں گالم گلوچ کریں تو ان کی ساری گالم گلوچ کا گناہ اس شخص پر ہو گا جس نے پہلی کی ہے جب تک کہ مظلوم تجاوز نہ کرے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر دو شخص آپس میں گالم گلوچ کرنے لگیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور ایک دوسرے کے حق میں بدکلامی و سخت گوئی کریں تو اس ساری گالم گلوچ اور برا بھلا کہنے کا گناہ ان دونوں میں سے اس شخص پر ہو گا جس نے گالم گلوچ کی ابتداء کی ہو گی، یعنی اس کو اپنی گالم گلوچ کا گناہ تو ہو ہی گا دوسرے شخص کی گالم گلوچ کا گناہ بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا کیونکہ اس نے گالم گلوچ کی ابتداء کر کے گویا دوسرے شخص پر ظلم کیا ہے اور اس اعتبار سے وہ ظالم کہلائے گا اور دوسرا شخص مظلوم لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ دوسرا شخص یعنی مظلوم جواب میں زیادتی نہ کرے ، اگر مظلوم حد سے تجاوز کر گیا بایں طور کہ اس کی گالم گلوچ ابتداء کرنے والے کی گالم گلوچ سے بڑھ گئی یا ابتداء کرنے والے نے جو ایذا پہنچائی تھی اس کے جواب میں دوسرے شخص نے اس سے بھی زیادہ پہنچائی تو اس صورت میں ابتداء کرنے والے کی بہ نسبت اس پر زیادہ گناہ ہو گا بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ دوسرا شخص بھی اس تعدی اور زیادتی کی وجہ سے گناہ گار ہو گا۔

 

                   کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا صدیق کے لیے یہ جائز و مناسب نہیں ہے کہ بہت زیادہ لعنت کرنے والا ہو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیاد سچا، بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ صدیق اس شخص کو کہتے ہیں جس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو بلکہ پوری یکسانیت و مطابقت ہو، صوفیاء کے ہاں صدیقیت ایک مقام ہے جس کا درجہ مقام نبوت کے بعد سب سے اعلی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت کریمہ،(فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰہ عَلَيْہمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقاً) 4۔ النساء:69)۔سے مفہوم ہوتا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص صدق و راستی کے وصف سے مزین ہو اور ایسے اونچے مقام پر پہنچ  چکا ہو جو مقام نبوت کے بعد سب سے اعلی ہے اور اس اعتبار سے اس کے مرتبہ کو مرتبہ نبوت سے سب سے قریبی نسبت حاصل ہے تو اس کی شان یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں پر لعنت کرتا رہے اور نہ مقام صدیقیت کا مقتضاء ہو سکتا ہے کیونکہ کسی کو لعنت کرنے کا مطلب یہ ہے ہک اس کو رحمت خداوندی اور بارگاہ الوہیت سے محروم قرار دے دیا جائے جب کہ تمام انبیاء کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ وہ مخلوق خدا کو رحمت خداوندی سے بہرہ یاب کریں اور جو بارگاہ الوہیت سے دور ہو چکے ہیں ان کو قریب تر لائیں اسی وجہ سے اہل سنت والجماعت کا پسندے دی شیوہ یہ ہے کہ لعن طعن کو ترک کیا جائے اور کسی بھی شخص کو لعنت نہ کی جائے اگرچہ وہ اس لعنت کا مستحق ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ جو شخص اپنے قول و فعل کے ذریعہ خدا کے نزدیک خود ملعون قرار دیا جا چکا ہے اس پر لعنت کرنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے لہذا کسی شخص پر لعنت کر کے گویا اپنی زبان کو خواہ مخواہ آلودہ کرنا اس کی لعنت میں اپنا وقت صرف کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے اور یہ کہ اسے لعن و طعن کر کے گویا اپنی جماعت حقہ کے شیوہ و معمول کے برخلاف عمل کرنا ہے البتہ اس کافر پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے بارے میں مخبر صادق یا اپنا علم و یقین یہ ہو کہ وہ کفر ہی کی حالت میں مرا ہے۔ واضح رہے کہ لعنت کی دو قسمیں ہیں ایک تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ شخص کو بھلائی سے بالکل محروم اور رحمت خداوندی سے کلیۃً دور قرار دینا نیز اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل لامتناہی سے مطلق ناامید کر دینا ، ایسی لعنت صرف کافروں کے لیے مخصوص ہے دوسری قسم کی لعنت کا مطلوب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو رضائے حق اور قرب خداوندی کے مقام سے دور و محروم قرار دیا جائے جو ترک اولیٰ و احواط کا مرتکب ہو چنانچہ بعض اعمال کے ترک کے سلسلے میں جو لعنت و ملامت منقول ہے اور جو بعض صحابہ کرام وغیرہ سے بھی نقل کی گئی ہے۔

لفظ لعان مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیادہ لعنت کرنے والا حدیث میں یہ لفظ صیغہ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ عام طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی اونچے سے اونچے درجہ کا مومن بھی تھوڑی بہت لعنت کرنے سے اجتناب کرتا ہو، چنانچہ ابن ملک نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اس لفظ کا بصیغہ مبالغہ ذکر ہونا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لعنت کرنے کی جو برائی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کے حق میں نہیں جس سے کبھی کبھار یعنی ایک مرتبہ یا دو مرتبہ لعنت کا صدور ہو جائے۔

 

                   کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے

 

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو لوگ بہت زیادہ لعنت کیا کرتے ہیں وہ قیامت کے دن نہ گواہ بنائے جائیں گے اور نہ شفاعت کر سکیں گے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

قیامت کے دن امت کے لوگ پچھلی امتوں پر گواہ کی حیثیت سے پیش کیے جائیں گے چنانچہ وہ یہ گواہی دیں گے کہ ان کے رسولوں اور پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ کے احکام ان تک پہنچائے تھے اور ان کو خدا کی طرف بلایا تھا مگر انہوں نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کی بات نہیں مانی اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وکذالک جعلنکم امۃ وسطالتکونوا شھداء علی الناس اور اسی طرح ہم نے تمہیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر گواہ ہو۔ اسی گواہی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایسے گواہ بننے کا اعزاز نہیں بخشا جائے گاجو دوسروں پر اتنی زیادہ لعنت کیا کرتے ہیں کہ لعنت کرنا گویا ان کی عادت بن جاتی ہے اسی طرح بہت زیادہ لعنت کرنے والے لوگ قیامت کے دن درجہ شفاعت سے بھی محروم کر دیے جائیں گے یعنی اگر وہ چاہیں گے کہ دوسرے لوگوں کی شفاعت کریں تو وہ بھی نہ کر سکیں گے۔

 

                   کسی کی طرف اخروی ہلاکت کی نسبت نہ کرو

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوئے یعنی جہنم کی آگ کے مستوجب ہو گئے تو اس طرح کہنے والا سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اگر کوئی شخص کچھ لوگوں، کو ایسے عقائد و اعمال میں مبتلا دیکھے جو دین و شریعت کے خلاف ہوں تو ان کی اس حالت پر حسرت وافسوس کا ہونا اور غم خواری کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر بھی ہے اور اخوت اسلامی کا تقاضا بھی اب اگر وہ شخص اسی حسرت وافسوس اور غم خواری کے جذبات کے تحت ان لوگوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک ہو گئے یعنی ان لوگوں نے ایسے عقائد و اعمال کو اختیار کر لیا ہے جو ان کو دوزخ کی آگ میں دھکیل کر رہیں گے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس شخص کا یہ کہنا دراصل ان لوگوں کے تئیں ہمدردی و غم خواری کا مظہر ہو گا اور اس کا مطلب یہی سمجھا جائے گا کہ وہ شخص ان لوگوں کے برے احوال سے دل شکستہ ہے اور اس کا قلبی جذبہ یہ ہے کہ کاش وہ لوگ اس حالت میں مبتلا ہو کر اخروی ہلاکت و تباہی کے راستہ کو اختیار نہ کرتے اور جب وہ اس راہ پر پڑ گئے ہیں تو اے کاش اب بھی ان کو ہدایت نصیب ہو جائے اور وہ ابدی ہلاکت و تباہی کے خوف سے راہ راست پر لگ جائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ان جذبات ہمدردی و غم خواری کے برعکس محض عیب جوئی حقارت اور ان لوگوں کو رحمت خداوندی سے مایوس کرنے کے لیے اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالے تو یہ سخت براہو گا اور اس طرح کہنے والا شخص خود سب سے زیادہ ہلاکت و تباہی میں پڑے گا کیوں کہ اس کے ان الفاظ سے یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے نفس کی برائی اور اپنے اعمال کے غرور و تکبر میں مبتلا ہو گیا ہے دوسرے لوگوں کو چشم حقارت سے دیکھتا ہے اور ان کو حق تعالیٰ کی رحمت سے ناامید کرتا ہے یہ مطلب اس صورت میں ہو گا کہ جب کہ لفظ اھلکم کاف کے پیش کے ساتھ یعنی بصیغہ تفضیل ہو اور اگر یہ لفظ کاف کے زیر کے ساتھ یعنی بصیغہ ماضی ہو جیسا کہ بعض روایتوں میں نقل کیا گیا ہے تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ اس طرح کہنے والا انکو ہلاک و برباد کر دیتا ہے اور مطلب یہ ہو گا کہ جب کوئی شخص اپنے مشاہدہ کے مطابق بد عملیوں میں مبتلا لوگوں کے بارے میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک و برباد ہو گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ رحمت خداوندی سے مایوس ہو کر ترک طاعت و عبادت اور ارتکاب معصیت و گناہ میں اور زیادہ مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طرح کے الفاظ ان گناہ گاروں کو شکستہ دل ، ناامید، اور بے شوق بنا دیتے ہیں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے گویا دنیا ہی میں خدا کے قہر و جلال میں گرفتار ہوئے ہیں اسی لیے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ بد عملیوں کی راہ اختیار کیے ہوئے ہوں اور معصیت کے اندھیروں نے جن کو گھیر رکھا ہو انہیں نہایت نرمی و ملائمت اور شفقت و محبت کے ساتھ تذکیر و نصیحت کی جانی چاہیے اور ان پر سختی و تشدد کرنا ان کے حق میں سخت برا بن جاتا ہے اور وہ ضد ہٹ دھرمی میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے راہ راست پر آنے کی بجائے اور زیادہ گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں لہذا جو شخص ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرتا ہے اور انہیں ہلاکت و بربادی کی خبر دیتا ہے وہ گویا انہیں ہلاکت و بربادی میں ڈالنے کا خود موجب بنتا ہے اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ ارشاد گرامی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گناہ گاروں کو بھی مغفرت کی بشارت دینا چاہیے ان کے قلب و ذہن کو دین و ایمان پر پختہ کرنا چاہیے اور انہیں رحمت خداوندی کا امیدوار و طلبگار بنانا چاہیے۔

 

                   منہ دیکھی بات کرنے والوں کی مذمت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن سب سے بدتر شخص وہ ہو گا جو فتنہ انگیزی کی خاطر دو منہ رکھتا ہے یعنی منافق کی خاصیت و صفت رکھتا ہے کہ وہ ایک جماعت کے پاس آتا ہے تو کچھ کہتا ہے دوسری جماعت کے پاس آتا ہے تو کچھ کہتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو منافقوں کی طرح دو رویہ یعنی دو منہ والے ہوتے ہیں کہ ہر فریق کو خوش رکھنے کی خاطر کبھی صحیح اور حق بات نہیں کہتے بلکہ منہ دیکھی بات کرتے ہیں وہ جس جماعت اور جس فریق کے پاس اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق اپنی زبان کھولتے ہیں زید کے پاس جاتے ہیں تو اس کی سی کہتے ہیں اور بکر کے پاس جاتے ہیں تو اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا (یعنی وہ نجات پائے ہوئے لوگوں کے ساتھ ابتداء میں جنت میں داخل نہ ہو گا) بخاری، و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں قتات کے بجائے نمام کا لفظ ہے۔

 

تشریح

 

قتات اور نمام کے ایک ہی معنی ہیں یعنی چغل خور اس شخص کو کہتے ہیں جو لگائی بجھائی کرتا ہے اور ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کر کے لوگوں کے درمیان فتنہ وفساد کے بیج بوتا ہے۔

 

 

               نماز کا بیان

 

                    جلدی نماز پڑھنے کا بیان

 

اور حضرت ام فردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ (ثواب کی زیادتی کے اعتبار سے) کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صرف حضرت عبداللہ ابن عمر عمری سے روایت کی جاتی ہے۔ اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد افضل ترین عمل یہی ہے کہ نماز کو اس کے اول وقت میں جماعت کے ساتھ پڑھا جائے۔ کتاب الصلوٰۃ کی حدیث نمبر پانچ کے فائدہ کے ضمن میں بتایا جا چکا ہے کہ افضل اعمال کے سلسلے میں بہت زیادہ حدیثیں وارد ہیں۔ جن میں مختلف اعمال کو افضل کہا گیا ہے۔ وہاں اس کی بھی وضاحت کر دی گئی تھی کہ جن جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہ اپنے اپنے موقع و مناسبت کی بناء پر یقیناً افضل ہیں۔

چنانچہ یہاں پھر سمجھ لیجئے کہ دوسری احادیث میں جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہاں افضلیت اضافی مراد ہے یعنی بعض اعمال بعض حیثیت سے افضل ہیں اور بعض اعمال کو دوسری وجوہ اور حیثیت سے دوسرے اعمال پر فضیلت حاصل ہے لیکن نماز علی الا طلاق یعنی بہمہ وجوہ ایمان کے بعد اعمال سے افضل و اشرف ہے۔

ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے راوی صرف ایک یعنی عبد اللہ ابن عمر عمری ہیں اور وہ بھی محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ عبداللہ ابن عمر عمری کے بارے میں غالباً پہلے بھی کسی حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے ہیں اس لیے انہیں عمری کہا جاتا ہے ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عبداللہ ابن عمر ابن حفص ابن عاصم ابن عمر فاروق۔

بہر حال ترمذی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو نہیں پہنچتی حالانکہ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی نماز آخر وقت میں دو دفعہ بھی نہیں پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وفات دے دی۔  (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نمازوں کو ان کے مختار اوقات میں پڑھا کرتے تھے۔ مکروہ اوقات میں نہیں پڑھتے تھے۔ صرف ایک مرتبہ بیان جواز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز آخر وقت میں پڑھی تھی تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز کا آخری وقت یہ ہے اور وقت کے اس حصے تک نماز جائز ہو سکتی ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس نماز کو شمار نہیں کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ آخر وقت میں پڑھی تھی کیونکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے وقت معلوم کرنے کے لیے آخر وقت نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک سائل کو ایک دن اول وقت میں اور ایک دن آخر وقت میں پڑھ کر دکھائی تھی اسے بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شمار نہیں کیا ہے اس لیے کہ تعلیم پر محمول ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میری امت کے لوگ اگر مغرب کی نماز کو (اس قدر) دیر کر کے نہ پڑھا کریں کہ ستارے جگمگانے لگیں تو ہمیشہ بھلائی، یا فرمایا کہ، فطرت (یعنی اسلام کے طریقے) پر رہیں گے ، (سنن ابوداؤد) اور اس روایت کو دارمی نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مغرب کے وقت فقط ستارے نظر آ جانے سے کراہیت نہیں آتی البتہ ستارے گنجان ہو کر جگمگانے لگتے ہیں تو جب وقت مکروہ ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ مغرب کی نماز تاخیر سے پڑھی تھی اور وہ بھی بیان جواز کے لیے ورنہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ اول وقت ہی مغرب کی نماز ادا فرماتے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت کے لوگوں کی تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتا تو انہیں (وجوب کے طریقہ پر) یہ حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو تہائی رات تک یا آدھی رات تک مؤخر کر کے پڑھیں۔  (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ)

 

 

٭٭حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تم اس نماز (یعنی عشاء کی نماز) کو دیر کر کے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں دوسری امتوں پر اس نماز کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس سے پہلے باب المواقیت کی حدیث نمبر تین میں گزر چکا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پانچوں وقت کی نماز پڑھائی اور کہا کہ (ھذا وقت الانبیاء من قبلک) اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی عشاء کی نماز پڑھتے تھے مگر جو حدیث یہاں ذکر کی گئی ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشاء کی نماز صرف اسی امت پر فرض ہے پہلی امتوں پر فرض نہیں تھی۔ لہٰذا محدثین نے ان دونوں حدیثوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ پہلی امتوں میں عشاء کی نماز صرف پیغمبر و رسول ہی پڑھتے تھے۔ کیونکہ یہ نماز ان کی امتوں پر واجب نہیں تھی بلکہ انہیں پر واجب تھی جیسا کہ بعض علماء کے قول کے مطابق تہجد کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت پر واجب نہیں ہے اس لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ارشاد ھذا وقت الانبیاء سے پہلی امتوں پر عشاء کا وجوب ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ یہ نماز انبیاء علیہ السلام ہی پڑھتے تھے اور اس کو حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام بھی عشاء کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نماز پہلی امتوں کے لوگ نہیں پڑھتے تھے اور یہ نماز اسی امت کے لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسطرح ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔

آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ ھذا وقت الا نبیاء من قبلک میں لفظ ھذا سے فجر کے وقت اسفار کی طرف اشارہ ہے کہ بخلاف دوسرے اوقات کے اس میں تمام انبیاء شریک ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس نماز یعنی دوسری عشاء کے وقت کو خوب جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس نماز کو تیسری تاریخ کے چاند چھپنے کے وقت پڑھا کرتے تھے۔  (ابوداؤد،دارمی)

 

تشریح

 

تیسری تاریخ کی شب میں چاند رات کے تقریباً پانچویں حصہ میں غروب ہوتا ہے ، اس طرح یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر ہی سے پڑھنا مستحب ہے۔ عشاء کی نماز کو دوسری عشاء اس لیے کہا گیا ہے کہ بسا اوقات مغرب کو بھی عشاء کہا جاتا ہے اس اعتبار سے یہ دوسری عشاء ہوئی۔

 

 

٭٭ اور حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، فجر کی نماز اجالے میں پڑھو کیونکہ اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے اور سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ (فانہ اعظم للاجر) (یعنی اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے)۔ نہیں ہیں۔  (جامع ترمذی ، ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں شروع کرنی چاہئے چنانچہ حنفیہ کا ظاہری مسلک یہی ہے کہ فجر کی نماز کی ابتداء و اختتام دونوں ہی اسفار میں ہوں۔

مگر حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو حنفی مسلک کے ایک جلیل القدر امام ہیں، فرماتے ہیں کہ ابتداء تو غلس (اندھیرے) میں ہونی چاہئے اور اختتام اسفار میں، اور اس کا طریقہ یہ ہو کہ قرأت اتنی طویل کی جائے کہ پڑھتے پڑھتے اجالا پھیل جائے۔ چنانچہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ تاویل اولیٰ اور احسن ہے کیونکہ اس طرح ان تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جن میں سے بعض تو غلس میں نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسفار میں نماز پڑھنا افضل ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔

ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق کی وجہ خود ایک حدیث بھی ہے جو شرح السنہ میں منقول ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں موسم کا اعتبار ہو گا یعنی جاڑے کے موسم میں تو غلس میں نماز پڑھنا بہتر ہو گا اور گرمی کے موسم میں اسفار کرنا بہتر ہو گا۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں

الحدیث (قَالَ مُعَاذٌ بَعْثَنِیْ رَسُوْلُ اصلی اللہ علیہ و سلم اِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اِذَا کَانَ فِی الشِّتَاءِ فَغَلِّسْ بِالفَجْرِ وَاطِلٍ القِرَآءَ ۃُ قَدْرَ مَا یُطِیْقُ النَّاسُ وَلَا تُمِلَّھُمْ وَاِذَا کَانَ فِی الصَّیْفِ فَاسْفِرْ بِالفَجْرِ فَاِنَ اللَّیْلِ قَصِیْرٌ وَالنَّاسُ نِیَامٌ فَاَ مْھِلْھُمْ حَتّٰی اَدْرَکُوْا یَعْنِی الصَّلٰوۃَ۔)

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یمن بھیجا تو یہ (بھی) فرمایا کہ جب سردی کا موسم ہو تو فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھنا اور قرأت طویل کرنا (مگر اتنی کہ) لوگوں پر بھاری نہ ہو کہ وہ تنگ ہو جائیں اور جب گرمی کا موسم ہو تو فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں پڑھنا کیونکہ (گرمی) میں رات چھوٹی ہونے کی وجہ سے لوگ سوئے رہتے ہیں اس لیے انہیں اتنا موقع دو کہ وہ نماز میں شریک ہو سکیں۔

بہر حال علماء حنفیہ کے نزدیک اسفار کی حد یہ ہے کہ طلوع آفتاب میں اتنا وقت رہے کہ اس میں قرأت مسنون (جو چالیس سے ساٹھ یا سو آیتوں تک ہے) ترتیل کے ساتھ پڑھی جا سکے۔ اور نماز کے بعد اگر طہارت میں کوئی خلل معلوم ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے پہلے وضو اور مذکورہ بالا طریقہ پر نماز کا اعادہ ممکن ہو سکے۔

 

 

٭٭حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور پھر وہ دس حصوں پر تقسیم کیا جاتا، اس کے بعد اسے پکایا جاتا اور پھر ہم سورج چھپنے سے پہلے اس پکے ہوئے گوشت کو کھا کر فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بظاہر اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصر کی نماز جلدی یعنی ایک مثل سایہ ہونے کے وقت یا اس سے تھوڑی دیر کے بعد پڑھی جاتی ہو گی جیسا کہ ائمہ ثلثہ اور صاحبین کا مسلک ہے اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے اور بعض حضرات نے فتوی بھی اسی روایت پر دیا ہے مگر حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور مسلک یہ ہے کہ عصر کا وقت دو مثل سائے کے بعد ہوتا ہے چنانچہ ان کی طرف سے اس حدیث کی یہ تاویل کی جائے گی کہ ہو سکتا ہے کہ گرمیوں میں ایسا ہوتا ہو کیونکہ اس وقت دن بڑا ہوتا ہے۔ نیز حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہدایہ کی شرح میں لکھا ہے کہ اگر عصر کی نماز سورج کے متغیر ہونے سے پہلے پڑھی جائے تو غروب آفتاب تک بقیہ وقت میں حدیث میں مذکورہ عمل جیسا عمل بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے چنانچہ جن لوگوں نے امراء و حکام کے ہمراہ کھانا پکانے والے ماہرین کو سفر میں کھانا پکاتے ہوئے دیکھا ہو گا وہ اسے بعید نہیں جانیں گے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لیے بہت دیر تک بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتظار کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تہائی یا اس سے بھی زیادہ رات جانے کے بعد تشریف لائے اور ہمیں معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر کے کام میں مشغول رہے تھے (کہ عادت کے مطابق سویرے نماز پڑھنے تشریف نہیں لائے) یا اس کے علاوہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کو کوئی عذر پیش آگیا تھا) آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آکر فرمایا، تم لوگ نماز کا انتظار کر رہے تھے (اور تمہارے لیے یہ مناسب بھی تھا کیونکہ) نماز کا انتظار تو تم ہی لوگ کیا کرتے ہو۔ تمہارے سوا کسی اور دین والوں نے نماز کا انتظار نہیں کیا۔ اور اگر مجھے اپنی امت پر گراں گزرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس نماز کو ہمیشہ اسی وقت پڑھا کرتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (تکبیر کا) حکم دیا اس نے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھائی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ تمہارے سوا کسی بھی دین کے لوگ (یعنی یہود و نصاریٰ) عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ نماز تو صرف اسی امت کے ساتھ مخصوص فرمائی گئی ہے اور کسی امت کو نصیب نہیں ہوئی ہے لہٰذا تم اس وقت جب کہ آرام کرنے کا وقت ہے اپنے نفس پر قابو پا کر اور مشقت اٹھا کر نماز کا جتنا زیادہ انتظار کرو گے اتنا ہی زیادہ ثواب پاؤ گے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عشاء کی نماز تہائی رات کے وقت پڑھنا افضل ہے جیسا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے مگر جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کا تعلق ہے تو یہ بھی ثابت ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کا اکثر حصہ اول وقت جمع ہو جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اول وقت ہی نماز پڑھ لیتے تھے اور جو حضرات تاخیر سے جمع ہوتے تھے وہ دیر سے پڑھتے تھے چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ جو نمازی اوّل وقت جمع ہو جائیں اول وقت نماز پڑھ لیں اور جو نمازی تاخیر سے جمع ہوں وہ دیر کر کے پڑھیں۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری نمازوں کے قریب قریب (اوقات میں) نماز پڑھا کرتے تھے مگر عشاء کی نماز تمہاری نماز سے کچھ دیر کر کے پڑھتے تھے اور ہلکی نماز پڑھتے تھے۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

نہی کے باوجود حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشاء کو عتمہ اس لیے کہا ہے کہ شاید اس وقت تک ان کو نہی کا حکم معلوم نہیں ہوا ہو گا یا پھر یہ نام چونکہ اہل عرب میں پہلے سے جانا پہچانا جاتا تھا اس لیے انہوں نے یہ سوچ کر کہ اس نام سے لوگ اس نماز کو اچھی طرح پہچان لیں گے عتمہ ہی کہا۔

بہر حال یہ حدیث بھی اس بات پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا ہی افضل و مستحب ہے۔  ہلکی نماز پڑھنے  کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے مگر علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں چھوٹی چھوٹی سورتیں اس وقت پڑھتے تھے جب کہ امامت فرماتے اور ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت مد نظر ہوتی۔ اور ویسے بھی یہ بات باعتبار اکثر کے فرمائی گئی ہے کیونکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں سورہ اعراف بھی پڑھی ہے۔ اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اتنی بڑی بڑی سورتیں پڑھنا بھی لوگوں پر گراں نہیں گزرتا تھا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسا کیف و سرور محسوس ہوتا تھا کہ طویل قرأت بھی انہیں ہلکی ہی معلوم ہوتی تھی اور از راہ شوق طویل قرأت میں زیادتی کے طالب رہتے تھے اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کی امامت میں یہ بات حاصل ہونا مشکل ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ جماعت کے ساتھ (با جماعت) نماز پڑھنے گئے۔ (اتفاق سے اس روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آدھی رات کے قریب تک تشریف نہ لائے (بعد ازاں آ کر ہم سے) ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا، چنانچہ ہم اپنی جگہوں (سے اٹھے نہیں بلکہ وہیں) پر بیٹھے رہے (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لیے ہیں اور (تمہیں معلوم ہو نا چاہئے کہ) جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمہارا یہ سارا وقت نماز ہی میں شمار کیا جائے گا (یعنی تمہیں اس انتظار کی وجہ سے برابر نماز پڑھنے کا ثواب ملتا رہے گا) اور اگر مجھے ضعیفوں کی کمزوری اور بیماروں کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں ہمیشہ یہ نماز آدھی رات تک دیر کر کے پڑھا کرتا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

جیسا کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرز چکا ہے کہ (مسلمانوں کے علاوہ) کسی بھی دوسرے دین کے لوگ عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے ، لہٰذا اس ارشاد کی روشنی میں حدیث کے الفاظ دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لیے ہیں، کی تشریح یہ کی جائے گی کہ دوسرے دین کے لوگ (مثلاً یہود و نصاریٰ) تو شام کی نماز پڑھ کر یا اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر کے اپنے اپنے بستروں پر جا کر نیند کی آغوش میں پہنچ گئے مگر چونکہ تمہارے نصیب میں اس نماز کی سعادت و فضیلت لکھی ہوئی ہے۔ اس لیے تم اب اس سعادت و فضیلت کی تکمیل کی خاطر نماز کی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہو۔ اور چونکہ تم اپنا آرام اپنی نیند اور اپنا چین سب اپنے پروردگار کی عبادت کے انتظار میں لٹا چکے ہو اس لیے تمہارا پروردگار بھی اس محنت و مشقت کا صلہ اس طرح تمہیں دے گا کہ تمہارے اس انتظار کے ایک ایک لمحے کو سراپا عبادت و باعث سعادت بنا دے گا بایں طور پر کہ تمہارا یہ جتنا وقت انتظار میں گزرا ہے یا جتنا وقت گزرے گا تو سمجھو کہ وہ نماز ہی میں گزرا ہے یا گزرے گا یعنی جتنا ثواب نماز پڑھنے کا ملتا ہے اتنا ہی ثواب اس انتظار کا بھی ملے گا۔

یا پھر اس جملے کا مطلب یہ ہو گا کہ دوسرے محلوں کے مسلمان جو اس مسجد میں حاضر نہیں ہیں عشاء کی نماز پڑھ کر سو رہے ہیں اور تم لوگ اب تک نماز عشاء کے انتظار میں یہاں بیٹھے ہو اس طرح ان مسلمانوں کے مقابلے میں تم زیادہ ثواب و فضیلت کے حقدار بنو گے ، یہی معنی ما بعد کے الفاظ  (وانکم لن ترالو الخ) کے زیادہ قریب اور مناسب ہیں۔

بہر حال۔ یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز میں آدھی رات تک تاخیر جائز ہے بلکہ عبادت کے سلسلے میں زیادہ محنت و مشقت اٹھانے کی وجہ سے مستحب اور افضل ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز (گرمی کے علاوہ دوسرے موسموں میں) تم سے بہت زیادہ جلدی پڑھتے تھے اور تم عصر کی نماز پڑھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ جلدی کرتے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد اتباع سنت پر لوگوں کو رغبت دلانا اور متوجہ کرنا ہے کہ ہر جگہ اور ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کر نے میں ہی بھلائی و سعادت ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عصر کی نماز میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (ظہر کی) گرمی کے موسم میں ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی پڑھ لیتے تھے۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

ظہر کے وقت کے سلسلے میں احادیث میں جو تعارض ہے کہ بعض حدیثوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز دیر (لیٹ) کر کے پڑھتے تھے اور بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جلدی پڑھ لیتے تھے۔ اس حدیث سے یہ تعارض ختم ہو جاتا ہے بایں طور کہ گرمی کے موسم میں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھا کرتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی پڑھتے تھے۔

 

 

٭٭ اور حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد عنقریب تم پر ایسے (لوگ) حاکم ہوں گے جنہیں دنیا کے چیزیں (یعنی خواہشات نفسانی) وقت (مستحب) پر نماز پڑھنے سے باز رکھیں گی، یہاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے گا (یعنی وقت کراہت آ جائے گا) لہٰذا تم اپنی نمازیں وقت پر پڑھتے رہنا (خواہ تنہا ہی کیوں نہ پڑھنی پڑے) ایک آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا پھر (دوبارہ) ان کے ساتھ بھی نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں! (ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرنا تاکہ ثواب بھی زیادہ ملے اور حکام کی مخالفت کرنے کی وجہ سے فتنہ و فساد بھی پیدا نہ ہو)۔ (سنن ابوداؤد)

 

 

٭٭اور حضرت قبیصہ ابن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میرے بعد تم پر ایسے حاکم ہوں گے جو نماز (وقت مستحب سے) تاخیر کر کے پڑھیں گے اور وہ نماز تمہارے لیے تو مفید ہو گی اور ان کے لیے وبال ہو گی لہٰذا جب تک وہ قبلہ (یعنی کعبۃ اللہ) کی طرف نماز پڑھتے ہیں تم بھی ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہنا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

فائدہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے وقت مستحب کی فضیلت حاصل کرنے کی خاطر ان کی نماز سے پہلے نماز پڑھ لی۔ اور پھر اس کے بعد ان کے ساتھ بھی پڑھی تو یہ دوسری نماز تمہارے لیے نفل ہو جائے گی جس کی وجہ سے تمہیں بہت زیادہ ثواب ملے گا اور اگر ان کی نماز سے پہلے نماز نہ پڑھی بلکہ ان کے ہمراہ پڑھی تو اس کے لیے تم پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا کیونکہ ان کے ساتھ وقت مکروہ میں تمہارا نماز پڑھنا فتنے کے خوف اور فساد کے دفعیہ کی غرض سے ہو گا۔

اسی طرح  وبال کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز ان کے لیے مواخذہ کا باعث ہو گی کہ جب وہ وقت مختار میں نماز ادا کرنے پر قادر تھے تو وقت سے تاخیر کر کے غیر مطلوب وقت میں نماز کیوں پڑھی اور پھر یہ کہ امور دنیا نے انہیں امور عقبی کی انجام دہی سے باز رکھا جو یقیناً کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت عبید اللہ ابن عدی ابن خیار کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ وہ (اپنی شہادت سے پہلے بغاوت کے ایام میں اپنے مکان کے اندر) محصور تھے چنانچہ (عبیدا اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) میں نے عرض کیا کہ آپ ہم سب کے امام (اور امیر) ہیں اور آپ پر جو کچھ مصائب و پریشانیاں) نازل ہوئی ہیں وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور (ہمارا حال یہ ہے کہ) ہمیں فتنے و فساد کا ایک امام نماز پڑھاتا ہے (جس کے پیچھے نماز پڑھنا) گناہ سمجھتے ہیں، (یہ سن کر) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نماز پڑھنا لوگوں کے تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے۔ لہٰذا جب لوگ نیکی و بھلائی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیکی و بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تو تم ان کی برائیوں سے بچو۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

فتنہ و فساد کے امام سے مراد باغیوں کا سردار ہے جس کا نام کنانۃ ابن بشیر تھا۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی نیکیوں میں تو شریک رہو یعنی اگر وہ نیک کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ مل کر وہی نیک کام کرو البتہ ان کی بدی میں شریک نہ رہو۔ اور نماز کا پڑھنا نیک ہی عمل ہے اس لیے باغیوں کے سردار کے پیچھے تمام پڑھ سکتے ہو اسے گناہ کی بات نہ سمجھو۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے ان کے عدل و انصاف اور ان کے حلم و بردباری کے عظیم وصف پر روشنی پڑتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے سخت موقعہ پر جب کہ باغیوں نے اپنے ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے انہیں مکان میں محصور کر رکھا تھا اور ان کے اوپر تکالیف و پریشانیوں کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو انہوں نے اس وقت بھی ان کی نیکی اور بھلائی کو از راہ بغض و انتقام برائی سے تعبیر نہیں کیا بلکہ اسے اچھا ہی کہا۔ یہ ارشاد اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ہر نیک و بد آدمی کے پیچھے نماز جائز ہو جاتی ہے جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے۔

 

                    نماز کے فضائل کا بیان

 

حضرت عمارہ ابن رویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عمیرہ رویبہ کے صاحبزادے اور قبیلہ بنی جثم بن ثقیف سے ہیں اور کوفی ہیں) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے سورج نکلنے اور چھپنے سے پہلے (دو نمازیں) یعنی فجر اور عصر کی پڑھیں تو وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہیں ہو گا۔  (رواہ صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں کو پابندی سے پڑھتا رہے تو وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا۔ بظاہر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں پر مداومت کرے گا، وہ دوسری نمازوں کو چھوڑنے یا دوسرے گناہوں کے صدور کے سبب دوزخ میں داخل نہیں کیا جائے گا حالانکہ جمہور علماء کرام کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ نمازیں صغیرہ گناہوں کا کفارہ تو ہو جاتی ہیں۔ کبیرہ گناہوں کا نہیں ہوتیں۔ چنانچہ علامہ طیبی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ صبح کا وقت عام طور پر آرام کا ہوتا ہے اسی طرح شام کا تجار وغیرہ کی مشغولیت کا ہوتا ہے لہٰذا جو آدمی ان دونوں موانع کے باوجود ان دونوں نمازوں کی محافظت کرتا ہے تو وہ بزبان حال اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ دوسرے اعمال میں بھی کمی زیادتی کرنے والا نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ) 29۔ العنکبوت:45) (بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے) لہٰذا اس بناء پر وہ بخشش کی سعادت سے نوازا جائے گا اور دوزخ میں داخل نہیں کیا جائے گا۔

اور ظاہر یہ ہے کہ اس حدیث سے ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت کے بیان میں مبالغہ مراد ہے کہ ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کی محافظت کرنے والا آدمی دوزخ میں داخل نہ کیا جائے گا اور باوجودیکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ہر عمل پر جزاء و سزا کا ترتب کرتا ہے مگر وہ چا ہے تو ان دونوں نمازوں کے ادا کرنے کے سبب وہ گناہ جو اس کے بندوں سے سرزد ہوئے ہوں بخش سکتا ہے

 

 

٭٭اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی ٹھنڈے وقت کی دونوں نمازیں (یعنی فجر و عشاء) پڑھتا رہا تو وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے پاس (آسمان سے) فرشتے رات دن آتے رہتے ہیں (جو تمہارے اعمال لکھتے ہیں اور انہیں بارگاہ الوہیت میں پہنچاتے ہیں) اور فجر و عصر کی نماز میں سب جمع ہوتے ہیں اور جو فرشتے تمہارے پاس رہتے ہیں وہ (جس وقت) آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بندوں کے احوال جاننے کے باوجود ان سے (بندوں کے احوال و اعمال) پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ پروردگار! ہم نے تیرے بندوں کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کے اعمال کو لکھنے اور انہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے لیے (فرشتوں کی دو جماعتیں بندوں کے ہمراہ رہتی ہیں۔ ایک جماعت تو دن کے اعمال لکھتی ہے اور پھر عصر کے بعد واپس جا کر بارگاہ الوہیت میں اپنی رپورٹ پیش کر دیتی ہے۔ دوسری جماعت رات کے اعمال لکھتی ہے۔ یہ فجر کی نماز کے بعد واپس جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بندوں کے رات کے اعمال کی رپورٹ دیتی ہے چنانچہ دن اور رات میں دو وقت ایسے ہوتے ہیں جب کہ یہ دونوں جماعتیں جمع ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ تو فجر کے وقت جب کہ رات کے فرشتے واپس جاتے ہیں اور دن کے فرشتے اپنی ڈیوٹی پر آتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مرتبہ ان دونوں جماعتوں کا اجتماع عصر کے وقت ہوتا ہے جب کہ دن کے فرشتے اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس جاتے ہیں اور رات کے فرشتے اپنے کام پر حاضر ہوتے ہیں۔

حالانکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور اس کا علم زمین و آسمان کے ذرے ذرے کو محیط ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کے رہنے والوں کے ایک ایک عمل کو جانتا ہے مگر جب فرشتے بندوں کے اعمال کی رپورٹ لے کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں تو ان سے پوچھتا ہے کہ جب تم اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس لوٹ رہے تھے تو بتاؤ کہ اس وقت میرے بندے کیا کر رہے تھے؟ اور اس کا یہ پوچھنا (نعوذ با اللہ) علم حاصل کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سوال سے اس کا مقصد فرشتوں کے سامنے اپنی بندوں کی فضیلت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو بھیجنا چاہا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تھا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ پروردگار کیا تو ایسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہے جو دنیا میں فساد اور خون ریزی و غارت گری کا بازار گرم کرے گی۔ اور پھر انہوں نے اپنی برتری و بڑائی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیری عبادت کے لیے تو ہم ہی کافی ہیں اور ہم ہی تیری عبادت و پرستش کر بھی سکتے ہیں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ ان سے یہ سوال کر کے ان پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ دیکھو! جس مخلوق کے بارے میں تمہارا یہ خیال تھا کہ دہ دنیا میں سوائے فتنہ و فساد پھیلانے کے اور کوئی کام نہیں کرے گی اب تم خود یکھ آئے ہو کہ وہ میری عبادت اور میری پر ستش کس پابندی اور کس ذوق و شوق سے کرتی ہے۔

بہر حال! اس حدیث کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کو رغبت دلا رہے ہیں کہ ان دونوں اوقات میں ہمیشہ پابندی سے نماز پڑھتے رہو تاکہ وہ فرشتے اللہ کے سامنے تمہارے اچھے اور بہتر اعمال ہی پیش کرتے رہیں اور رب قدوس تمہاری فضیلت و بڑائی اسی طرح فرشتوں کے سامنے ظاہر کرتا رہے۔

 

 

٭٭اور حضرت جندب قسری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ (دنیا و آخرت میں) اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے عہد میں کچھ مواخذہ کرے کیونکہ جس سے اس نے عہد و امان میں مواخذہ کیا تو (اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ) کہ اسے پکڑ کر دوزخ کی آگ میں اوندھے منہ ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم) اور مصابیح کے بعض نسخوں میں قسری کے بجائے قشیری ہے۔

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس آدمی سے بدسلوکی نہ کریں، اس کو قتل نہ کریں۔ اس کا مال نہ چھینیں، اس کی غیبت نہ کریں اور اس کو بے آبروئی نہ کریں۔ اگر کسی آدمی نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی یا اس کے ساتھ کوئی ایسا رویہ اختیار کیا جو اس کی جان و مال اور اس کی آبرو کے لیے نقصان دہ ہو تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں خلل ڈالا لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے آدمی سے سخت مواخذہ کرے گا اور جس بد نصیب سے اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کیا اس کے لیے نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہو گا۔

یا پھر  عہد و امان سے مراد نماز ہے کہ صبح کی نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں امن دینے کا وعدہ کر لیا ہے ، لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صبح کی نماز ہر گز قضا نہ کریں ورنہ ان کے اور پروردگار کے درمیان جو عہد ہے وہ ٹوٹ جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ کرے گا اور اس کے مواخذے سے بچانے کی کوئی ہمت بھی نہیں کر سکتا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اگر لوگوں کو اذان کہنے اور (نماز میں) پہلی صف میں کھڑے ہونے کا ثواب معلوم ہو جائے اور بغیر قرعہ ڈالے انہیں یہ حاصل نہ ہو سکے تو وہ ضرور قرعہ ہی ڈالیں (یعنی اگر لوگ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کے لیے آپس میں نزاع کریں اور قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ کس کا نام نکلتا ہے تو یہ مناسب ہے) اور اگر ظہر کی نماز کے لیے جلدی آنے کا ثواب جان لیں تو اس نماز میں دوڑتے ہوئے آیا کریں اور اگر عشاء و صبح کی نماز کی فضیلت معلوم ہو جائے (تو فوت نہ ہونے کی حالت میں بھی ان نمازوں کے لیے) سرین کے بل چل کر آئیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

اگر تھجیر کے معنی وہی لیے جائیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں یعنی ظہر کی نماز کے لیے جلدی آنا، تو اس فضیلت کا تعلق گرمی کے علاوہ دوسرے موسموں کی ظہر کی نماز سے ہو گا کیونکہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت پڑھنا مستحب ہے۔ یا پھر  تہجیر کے معنی طاعت کی طرف جلدی کرنا، ہوں گے اور بعض حضرات نے اس کے معنی نماز جمعہ کے لیے دوپہر کو جانا بھی لکھے ہیں۔ وا اللہ اعلم۔

سرین کے بل چل کر آنے ، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی پاؤں سے چلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اس طرح گھسٹتا ہوا آئے جس طرح ضعیف و معذور چل کر آتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، منافقین پر عشاء اور فجر سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں۔ اگر دونوں کے ثواب وہ جان لیں تو سرین کے بل چلتے ہوئے آیا کریں۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

منافقین کے مزاج میں عبادت کے سلسلے میں کسل و سستی بہت ہوتی ہے پھر جو نمازیں وہ پڑھتے ہیں وہ بھی محض اپنی جان بچانے اور مسلمانوں کو دکھانے سنانے کے لیے پڑھتے ہیں۔ فجر اور عشاء یہ دو وقت ایسے ہیں جو اول تو آرام و استراحت اور نیند کی لذت حاصل کرنے کے ہیں۔ نیز جاڑوں کے موسم میں سردی کے ہیں دوسرے یہ کہ ان اوقات میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے کوئی کسی کو کم ہی پہچانتا ہے اس لیے یہ دونوں نمازیں ان بدبختوں پر بہت گراں ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مخلص و صادق مومنین کو چاہئے کہ وہ اس خصلت سے بچیں تاکہ منافقین کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

 

 

٭٭اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو گویا اس نے نصف رات کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور جس آدمی نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو گویا اس نے تمام رات کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اگر حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صبح کی نماز کا ثواب عشاء کی نماز کے ثواب سے زیادہ ہے کہ جب ہی تو کہا گیا ہے کہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے والا ، نصف رات تک نماز پڑھنے والے کے برابر ہوتا ہے اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے والا پوری رات تک نماز پڑھنے والے کے برابر ہوتا ہے۔

یا پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی تو اسے آدھی رات تک نماز پڑھنے کا ثواب ملا پھر فجر کی نماز بھی جماعت سے ادا کر لی تو بقیہ نصف رات تک کا ثواب مل گیا اس طرح دونوں نمازوں کے پڑھنے سے پوری رات تک عبادت کرنے والے کے ثواب کا وہ حقدار ہو گیا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، دیہاتی لوگ نماز مغرب کے نام لینے میں تم پر غالب نہ آ جائیں راوی فرماتے ہیں کہ دیہاتی لوگ(مغرب کو) عشاء کہتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، نماز عشاء کے نام لینے میں بھی دیہاتی لوگ تم پر غالب نہ آ جائیں۔ اس نماز کا نام کتاب اللہ میں عشاء ہے (چنانچہ ارشاد ربانی ہے آیت ( وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ) 24۔ النور:58)  اور وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے اس نماز میں تاخیر کر دیتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

دیہاتی لوگوں سے مراد ایام جاہلیت کے دیہاتی لوگ ہیں جو مغرب کو تو عشاء کہتے تھے اور عشاء کو عتمہ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منع فرما دیا کہ یہ نام نہ لیے جائیں کیونکہ اس میں ان کا غالب ہونا لازم آتا ہے اس لیے کہ جب ان لوگوں کا رکھا نام استعمال کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے ان کی زبان کو اپنایا جس کی بناء پر وہ تم پر غالب رہے لہٰذا تم وہی نام استعمال کر و جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں یعنی مغرب اور عشاء۔

لہٰذا۔ بظاہر تو اس نہی کا تعلق دیہاتی لوگوں سے ہے کہ وہ غالب نہ ہوں لیکن حقیقت میں اس نہی کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے کہ وہ ان نمازوں کے ناموں کے سلسلے میں دیہاتی لوگوں کی موافقت نہ کریں تاکہ مسلمانوں پر ان کا غالب ہونا لازم نہ آئے۔

اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان اور اپنا کلام اصطلاح شریعت کے مطابق درست کریں اور جو باتیں کفار و فجار کی زبان زد ہوں ان سے پرہیز کریں۔

نہی اور علت نہی بیان فرمانے کے بعد فَاِنَّھَا بِحَلَابِ الْاِبِلِ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کو عتمہ کہنے کی وجہ کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے۔  تعتم صحیح روایت میں صیغہ معروف کے ساتھ ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ عتمہ تاریکی کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کو تاریکی میں پڑھتے تھے بایں طور پر کہ وہ شفق غائب ہونے کے بعد دودھ شروع کرتے تھے پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے۔ ایک دوسری روایت میں یہ لفظ صیغہ مجہول کے ساتھ مذکور ہے جس کے معنی یہ ہوں گے۔ اونٹنیوں کا دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کی نماز تاریکی میں پڑھی جاتی تھی۔

بہر حال ایام جاہلیت میں عرب کے لوگ عتمہ تاریکی کو کہتے تھے۔ جب اسلام کی مقدس روشنی نے عرب کی سر زمین کو کفر و شرک کے اندھیروں سے صاف کیا اور نمازیں مشروع ہوئیں تو عشاء کی نماز کو دیہاتی لوگ صلوۃ العتمہ کہنے لگے چنانچہ اس نام سے مسلمانوں کو روکا گیا اور اہل جاہلیت سے مشابہت کی بناء پر اس نام کو مکروہ قرار دے دیا گیا۔

یہ پہلے بھی کئی جگہ بتایا جا چکا ہے کہ جن روایتوں میں بجائے عشاء کی عتمہ کا لفظ آیا ہے وہ روایتیں اس نہی سے قبل کی ہوں گی۔

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ خندق کے روز فرماتے تھے کہ (کافروں نے) ہمیں درمیانی نماز یعنی عصر کے پڑھنے سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں میں آگ بھرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

غزوہ خندق کو غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں جو ٤ھ  یا  ٥ھ میں ہوا تھا۔ اس جنگ کو غزوہ خندق اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسی غزوہ کے موقعہ پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے دشمنوں سے بچاؤ کی خاطر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی۔ خندق کھود نے میں تمام مسلمانوں کے ہمراہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ ابی وامی) بھی بنفس نفیس شریک تھے۔ جس طرح دیگر مخلص مومنین دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر اللہ کے دین کی حفاظت اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کی کامیابی کے لیے اس محنت و مشقت میں مصروف رہتے تھے اسی طرح آقائے نامدار سرور کائنات فخر دو عالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی بڑی بڑی تکالیف برداشت فرما کر مصائب و رنج اٹھا کر بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ کر سردی کی شدید پریشانی اور زمین کو کھودنے پتھر اکھاڑنے کی سخت محنت جھیل کر اپنے جانثار رفقاء کے ہمراہ خندق کھودتے تھے۔

اسی جنگ میں بسبب تردد اور تیر اندازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چار نمازیں قضا گئی تھیں انہیں میں عصر کی نماز بھی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی نماز کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے یہ بد دعا فرمائی جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان کفار و مشرکین نے ہماری نمازیں قضا کرا کر ہمیں سخت روحانی تکلیف و اذیت میں مبتلا کیا ہے ، اللہ کرے وہ بھی دنیا و آخرت کے شدید عذاب میں مبتلا کئے جائیں۔

ایک معمولی سا خلجان یہاں واقع ہو سکتا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کو جبکہ کفار کی جانب سے بے انتہا تکلیف پہنچائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں بددعا نہیں کی اور یہاں بد دعا فرمائی اس کی وجہ کیا ہے؟۔

اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کا معاملہ تھا وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رحمت کا تقاضا تھا کہ اپنے نفس کے معاملہ میں کسی کے لیے بددعا نہ کریں مگر یہاں نماز کا سوال تھا جس کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے نہ تھا بلکہ حقوق اللہ سے تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بد دعا فرمائی۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ  صلوٰۃ وسطی عصر کی نماز ہے چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم میں سے اکثر جلیل القدر حضرات، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم وغیرہ کا قول یہی ہے لہٰذا قرآن شریف کی آیت کریمہ آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ:238) (یعنی محافظت کرو تم سب نمازوں کی اور درمیانی نماز کی) میں وسطی سے عصر کی نماز ہی مراد لی جائے گی۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کے تعین میں اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا اختلاف رہا ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت تک ان حضرات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث (جو آئندہ فصل میں آ رہی ہے) نہیں پہنچی ہو گی جس سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ  صلوٰۃ وسطیٰ سے عصر کی نماز مراد ہے۔ اس لیے وہ حضرات اپنے اجتہاد اور رائے کی بناء پر اس کے تعین میں اختلاف کرتے ہوں گے چنانچہ اس حدیث کے صحت کے بعد یہ متعین ہو گیا کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ وا اللہ اعلم۔

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، درمیانی نماز (یعنی قرآن مجید میں جو والصلوٰۃ الوسطی مذکور ہے وہ) عصر کی نماز ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

صلوٰۃ وسطیٰ(یعنی درمیانی نماز) سے عصر کی نماز اس لیے مراد لی جاتی ہے کہ یہی نماز دن کی دونوں نمازوں (یعنی فجر اور ظہر) اور رات کی دونوں نمازوں) یعنی مغرب و عشاء کے درمیان آتی ہے)۔

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے قول آیت ( اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہوْداً) 17۔ الاسراء:78)  (یعنی فجر کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے) کی تفسیر میں فرماتے تھے کہ صبح کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے حاضر (یعنی جمع) ہوتے ہیں۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

آیت (اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہوْداً) 17۔ الاسراء:78) کے معنی قرأت قرآن فجر ہیں اور اس سے مراد فجر کی نماز ہے۔ اسے قرآن اس لیے کہا ہے کہ قرأت نماز کا ایک رکن ہے جیسے کہ بعض مقامات پر نماز کو سجدہ یا رکوع کہا گیا ہے۔

بہر حال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں  مشہود سے مراد یہ ہے کہ بندوں کے دن اور رات کے اعمال لکھنے والے فرشتے اس نماز میں جمع ہوتے ہیں جیسا کہ اسی باب کی حدیث نمبر تین میں اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔

 

 

 

               اذان کا بیان

 

 

                    اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

 

اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے کوئی اور صحابی فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیر کہنی شروع کی۔ جب انہوں نے قد قامت الصلوٰۃ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کے جواب میں) فرمایا، اَقَامَھَا اوَاَدَمَھَا یعنی اللہ تعالیٰ نماز کو قائم و دائم رکھے اور تکبیر کے بقیہ کلمات کے جوابات وہی فرمائے جس کا ذکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان والی حدیث میں ہو چکا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اسی باب کی حدیث نمبر پانچ میں اذان کے کلمات اور ان کے جواب کو جس طرح ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تکبیر کے وقت مؤذن جو کلمات کہتا گیا۔ آپ بھی ویسے ہی کلمات کو دہراتے رہے البتہ حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الابا اللہ اور قد قامت الصلوٰۃ کے جواب میں اَقَامَھَا اوَاَدَمَھَاکہا۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اذان اور تکبیر کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔ (ابوداؤد، الترمذی)

 

تشریح

 

یوں تو پروردگار عالم اپنی رحمت و شفقت کے ناطے ہر وقت ہی اپنے بندوں کی دعا قبول کرتا ہے اور ان کے دامن امید کو اپنے فضل و کرم کے موتیوں سے معمور کرتا ہے مگر اس ارشاد کے ذریعے مسلمانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اذان و تکبیر کے درمیان کا وقت اتنا با برکت و با سعادت ہوتا ہے کہ اس وقت پروردگار عالم کے سامنے بندہ اپنی جس حاجت کے لیے بھی دامن پھیلاتا ہے اس کی مراد یقیناً پوری کی جاتی ہے اور مانگنے والا جو بھی دعا مانگتا ہے وہ ضرور قبول ہوتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس وقت اپنی دینی اور دنیاوی فلاح و سعادت اور کامیابی و کامرانی کے لیے ضرور دعا مانگا کریں۔

اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی منقول ہے کہ دعاء خواہ اذان کے بعد متصلاً ہی مانگی جائے یا کچھ دیر کے بعد، ہر صورت میں قبول ہو گی مگر صحیح اور اولیٰ یہ ہے کہ اذان کے فوراً بعد مانگ لینی چاہئے۔

 

 

٭٭اور حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا فرمایا کہ کم رد کی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ دعا جو اذان (ہونے کے بعد یا اذان شروع ہونے) کے وقت مانگی جاتی ہے ، اور دوسری وہ دعا جو (کفار کے ساتھ) جنگ میں مڈھ بھیڑ (یعنی آپس میں قتل و قتال) شروع ہو جانے کے وقت مانگی جاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں (جنگ میں مڈھ بھیڑ کے بجائے) یہ منقول ہے کہ دوسری وہ دعا جو بارش میں (کھڑے ہو کر) مانگی جائے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی) مگر دارمی کی روایت میں  تحت المطر  منقول نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک صحابی نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! اذان دینے والے تو بزرگی میں ہم سے بڑھے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس طرح وہ فرماتے ہیں (ساتھ ساتھ) تم بھی اسی طرح کہتے جاؤ اور جب (اذان کے جواب سے) فارغ ہو جاؤ تو جو چاہو مانگو، دیا جائے گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

صحابی کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ اذان دیتے ہیں وہ تو اذان دینے کی سعادت و برکت کی وجہ سے ہماری بہ نسبت زیادہ ثواب کے حقدار ہوتے ہیں اس لیے ہمیں بھی کوئی ایسا طریقہ بتا دیجئے جس پر چل کر ہم بھی ثواب میں ان کے ہم پلہ ہو جائیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ طریقہ بتا دیا کہ جب مؤذن اذان کے کلمات کہے تو تم بھی ان کے ساتھ اذان کے کلمات دہراتے جاؤ (سوائے حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح کے کہ ان کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الا باا اللہ کہنا چاہئے) اسی طرح تمہیں بھی ان کے اصل ثواب کی طرح ثواب ملے گا۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دوسری چیز اذان کے جواب سے فراغت کے بعد دعاء مانگنے کو بتا کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ اگر اذان کا جواب دینے کے بعد دعاء مانگی جائے تو فضیلت و بزرگی میں اور اضافہ ہو گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی اذان کے وقت مسجد میں موجود ہو تو اسے بھی اذان کے کلمات کا جواب دینا چاہئے۔ جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ اذان کے وقت مسجد میں موجود آدمی کو اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس وقت جب اجابت فعلی حاصل ہے تو اجابت قولی کی کیا ضرورت ہے۔ دل کو لگنے والی بات نہیں۔

 

 

٭٭حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا، سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ جب شیطان نماز کی اذان سنتا ہے تو بھاگتا ہے یہاں تک کہ مقام روحا تک پہنچ جاتا ہے۔ راوی کہتے روحا مدینہ سے چھتیں کوس کے فاصلے پر ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

شیطان سے مراد جنسی شیطان ہے یعنی اذان سن کر یا تو تمام شیطان بھاگ کھڑے ہوتے ہیں یا ان کا سردار بھاگ جاتا ہے اور صحیح یہی ہے۔ حدیث کے آخر جزو کا مطلب یہ ہے کہ اذان سن کر شیطان نماز پڑھنے والے سے اتنا دور ہو جاتا ہے جتنا دور مدینہ سے روحا ہے۔  راوی سے حضرت ابو سفیان، نافع ابن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ذات مراد ہے جنہوں نے اس حدیث کو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت علقمہ ابن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (ایک روز) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ان کے مؤذن نے اذان دی، چنانچہ مؤذن جس طرح کہتا تھا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی طرح (اس کے ساتھ ساتھ) کہتے رہے ، جب مؤذن نے حی علی الصلوٰۃ کہا تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا لا حول و لا قوۃ الا باللہ جب مؤذن نے حی علی الفلاح کہا تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لا حول و لاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کہا اور اس کے بعد مؤذن جو کچھ کہتا رہا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہتے رہے۔ (پھر فارغ ہو کر) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حی علی الفلاح کے جواب میں لاحول و لاقوۃ الا باللہ کے بعد العلی العظیم کا اضافہ مرویات میں نادر ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور اذان کہنے لگے۔ جب وہ (اذان دے کر) خاموش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس آدمی نے اسی طرح یقیناً (یعنی خلوص دل سے) کہا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (سنن نسائی)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو آدمی یقین و اعتماد کی پوری قوت اور دل کے پورے خلوص کے ساتھ ان کلمات کو یا تو اذان میں کہے یا اذان کے جواب میں کہے یا مطلقاً کہے تو وہ جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہو گا یا نجات پانے والوں کے ہمراہ جنت میں داخل ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب مؤذن کو شہادتین کہتے ہوئے سنتے تو فرماتے اور میں بھی اور میں بھی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

یعنی جب مؤذن اذان میں اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھدان محمدا رسول اللہ کہتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم شہادتین کے جواب میں دو مرتبہ فرماتے واناوانا (اور میں بھی اور میں بھی) یعنی جس طرح تم خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ کی رسالت کی گواہی دے رہے ہو اسی طرح میں بھی وحدانیت الٰہی اور رسالت محمد کی گواہی دیتا ہوں۔

اس سے معلوم ہوا کہ تمام امت کی طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ بھی اپنی رسالت کی گواہی دینے کے مکلف تھے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم امت کے افراد کی طرح اشھد ان محمد رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) یہ کہہ کر گواہی دیتے تھے یا اشھد انی رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں) کہہ کر گواہی دیتے تھے؟ چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ امت کے افراد کی طرح اپنی رسالت کی گواہی دیتے تھے جیسا کہ ابھی حدیث نمبر (۲۱) میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں گزرا ہے کہ انہوں اذان کے جواب میں اشھد ان محمداًرسول اللہ کہا

اور پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اذان کے جواب میں اشھد ان محمدا رسول اللہ ہی کہتے تھے)۔

اس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس روایت میں اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں چونکہ تعارض پیدا ہوتا ہے اس لیے کہا جائے گا کہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح فرماتے ہوں گے جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا اور کبھی اس طرح فرماتے ہوں گے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہاں بتا رہی ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی بارہ برس تک اذان دے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے اور اس کے اذان کے بدلے میں (اس کے نامہ اعمال میں) ہر روز(یعنی ہر اذان کے عوض) ساٹھ نیکیاں اور ہر تکبیر کے بدلہ میں تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اذان کی بہ نسبت تکبیر کا ثواب آدھا غالباً اس لیے ہوتا ہے کہ تکبیر خاص طور پر ان لوگوں کو مطلع کرنے کے لیے ہوتی ہے جو جماعت میں حاضر ہوتے ہیں اور اذان کے ذریعہ عمومی طور پر حاضرین اور غائبین سب ہی کو مطلع کیا جاتا ہے یا پھر اس کی وجہ یہ ہو گی کہ اذان دینے میں زیادہ محنت برداشت کرنی پڑتی ہے اور اس کی بہ نسبت تکبیر میں کم محنت ہوتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں مغرب کی اذان کے وقت دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

غالباً یہاں وہی مراد ہے جس کا تذکرہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث نمبر پانچ میں آ چکا ہے (یعنی اللھم ھذا اقبال لیلک و ادبار نھارک الخ)۔

 

                   اذان کا بعض احکام کا بیان

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بلال (فجر کی اذان خاص) رات کو دے دیتے ہیں لہٰذا جب تک ابن ام مکتوم اذان دیں تم (رمضان میں سحری) کھاتے پیتے رہا کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک نابینا آدمی تھے ، جب تک ان سے کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ تم نے صبح کر دی، تم نے صبح کر دی، وہ اذان نہ دیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دو مؤذن تھے ، ایک مؤذن تو فجر کے وقت سے پہلے رات کو اذان دیتا تھا اور دوسرا نماز فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد اذان دیتا تھا۔ چنانچہ حضرات شوافع کے یہاں دو مؤذن مقرر کرنا سنت ہے ایک فجر سے پہلے اخیر آدھی رات کو اذان دینے کے لیے اور دوسرا فجر کے اول وقت پر اذان دینے کے لیے۔

حضرات حنفیہ فرماتے ہیں کہ پہلا مؤذن سحر کے لیے یا تہجد کے لیے تھا، اس کا تعلق نماز فجر کی اذان سے نہیں تھا کیونکہ ایک روایت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی اذان وقت سے پہلے دینے سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ اسی لیے حنفیہ کے ہاں فجر کی نماز کے لیے وقت سے پہلے رات کو اذان دینا جائز نہیں ہے۔

حدیث کے آخری جملے اصبحت اصبحت (یعنی تم نے صبح کر دی، تم نے صبح کر دی) سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح ہو جانے کے بعد اذان دیتے تھے تو اس وقت تک سحری کھانا پینا کیسے جائز ہوا؟۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اصبحت کے معنی یہ ہیں کہ  صبح ہونے والی ہے اسی کو بطور مبالغہ اصبحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بلال کی اذان تمہیں تمہاری سحری کھانے سے نہ رو کے (کیونکہ وہ رات کو اذان دیتے ہیں) اور نہ فجر دراز (یعنی صبح کاذب) البتہ افق پر پھیلی ہوئی فجر (یعنی صبح صادق نمودار ہو جائے تو کھانا پینا چھوڑ دو) (صحیح مسلم) الفاظ جامع ترمذی کے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے صاحبزادے (ہم دونوں) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، جب تم سفر میں جاؤ تو (نماز کے لیے) اذان و تکبیر کہا کرو اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

غالباً یہ دونوں حضرات علم و ورع میں ہم پلہ ہوں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امام بننے کا حقدار اسے قرار دیا جو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بڑا ہو، یا پھر  اکبر (یعنی بڑے) سے مراد افضل ہے کہ دونوں میں سے جوا فضل ہو وہ امامت کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ افضلیت کی شرط اذان میں نہیں ہے ، تاہم چاہیے یہی کہ اذان وہ آدمی دے جو اقامت نماز کا علم رکھتا ہو، نیک اور دیندار ہو، بلند آواز اور خوش گلو ہو اور اذان کے کلمات صحیح صحیح ادا کر سکتا ہو۔

 

 

 

٭٭اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تم مجھے جس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اسی طرح تم بھی پڑھا کرو، اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے دیا کرے اور جو تم میں بڑا ہو وہ امام بن جایا کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ امامت کا مستحق وہی آدمی ہو گا جو علم و فضل میں سب سے بڑھا ہو گا اور اگر علم و فضل کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو آدمی عمر میں سب سے بڑا ہو گا وہ امام بنے گا۔

عمر سے مراد وہ عمر ہے جو ایمان و اسلام کی حالت میں گزری ہو یعنی جس آدمی کو اسلام قبول کئے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہو وہ حکماً ان لوگوں سے بڑا قرار دیا جائے گا جو اس کے بعد ایمان و اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے ہیں خواہ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ پہلے اسلام قبول کرنے والے آدمی کو دین و شریعت کا علم بعد میں اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ (جب) آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر غنودگی طاری ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم آرام کرنے کے لیے آخر رات میں ایک جگہ اتر گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارا خیال رکھنا (یعنی صبح ہو جائے تو ہمیں جگا دینا) یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سو گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (تہجد کی) نماز جس قدر ہو سکی پڑھی۔ جب صبح صادق ہونے کو ہوئی، تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے کجاوے سے تکیہ لگا کر فجر (مشرق) کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے (تاکہ صبح صادق ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا یہاں تک کہ جب ان کے اوپر دھوپ آ گئی اور اس کی گرمی پہنچی) تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھ کھلی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھبرا کر فرمایا کہ بلال یہ کیا ہوا؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے عرض) کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! مجھے بھی اس چیز نے پکڑ لیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ لیا تھا (یعنی نیند نے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، یہاں سے روانہ ہو جاؤ! چنانچہ سب لوگ تھوڑی دور تک اپنی اپنی سواریاں لے کر چلے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انہوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا، جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ) 20۔طہ :14)  یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

خیبر مدینہ سے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ہے ، بنو نضیر کے یہودی جب مدینہ سے اجڑے تو خیبر جا بسے اور پھر خیبر یہودیوں کی سازشوں کا اڈا اور مرکز بن گیا۔ لہٰذا اسلام کی حفاظت کی خاطر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان کے اس شر انگیز ٹھانے کو توڑ دیا جائے چنانچہ سات ہجری میں تقریباً سولہ سو مسلمان مجاہدین کا لشکر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں خیبر روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔ یہ محاصرہ تقریباً دس روز تک جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور خیبر کے تمام قلعوں پر قبضہ ہو گیا۔ اس غزوہ کی کامیابی کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہ کے سر رہا اور انہیں  فاتح خبیر کے عظیم لقب سے نوازا گیا کہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی لشکر کا جھنڈا انہی کے ہاتھ دیا تھا۔ اور یہی اسلامی لشکر کے کمانڈ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک خاص بہادری ظاہر کرائی کہ خیبر کا پھاٹک جو ستر آدمیوں سے بھی نہیں اٹھتا تھا انہوں نے تنہا اسے اکھاڑ پھینکا۔ جب فتح خیبر ہو گئی تو مسلمانوں اور وہاں کے یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی دو خاص دفعات یہ تھیں۔

(١) جب تک مسلمان چاہیں گے یہودیوں کو خیبر میں رہنے دیں گے اور جب نکالنا چاہیں گے تو ان کو خیبر سے نکلنا ہو گا۔

(٢) پیداوار کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیا جائے گا۔

بہر حال۔ حدیث میں مذکورہ واقعہ اسی غزوے سے واپسی کے وقت پیش آیا تھا۔

اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد جب آنکھ کھل گئی تھی تو اسی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قضا نماز کیوں نہ پڑھ لی؟ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہاں سے روانہ ہونے کا حکم دینے کا سبب کیا تھا؟ چنانچہ اس سلسلے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں حنفی علماء جن کے نزدیک طلوع آفتاب کے وقت قضا نماز پڑھنا منع ہے ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جگہ سے کوچ کرنے کا حکم اس وجہ سے دیا تھا تاکہ آفتاب بلند ہو جائے اور نماز کے لیے وقت مکروہ نکل جائے۔

شافعی علماء جن کے ہاں طلوع آفتاب کے وقت قضاء پڑھنی جائز ہے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں سے قضا نماز پڑھے بغیر فوراً اس لیے روانہ ہوئے کہ وہ جگہ شیاطین کا مسکن تھی جیسا کہ دوسری روایتوں میں اس کی تصریح موجود ہے چنانچہ صحیح مسلم ہی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ پھیل جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم دیا کہ ہر آدمی اپنی سواری کی عیال پکڑ لے (اور روانہ ہو جائے) اس لیے کہ اس جگہ ہمارے پاس شیطان آگیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف تکبیر کہنے کا حکم دیا، اذان کے لیے نہیں فرمایا، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قضاء نماز کے لیے اذان دینا ضروری نہیں ہے جیسا کہ قول جدید کے مطابق حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔ لیکن شافعی علماء کے نزدیک قول قدیم کے مطابق صحیح اور معتد مسلک یہی ہے کہ قضاء نماز کے لیے بھی اذان کہنی چاہئے۔

بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نماز کے لیے اذان کہی گئی تھی چنانچہ ہدایہ میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لیلۃالتعریس(یعنی مذکورہ رات) کی صبح کو نماز فجر کی قضا اذان و تکبیر کے ساتھ پڑھی تھی۔

شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سلسلے میں صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد کی کئی حدیثیں نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے تکبیر کہی۔ غر مرادف نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں صحیح طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت اذان و تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی تھی، لہٰذا اس روایت میں فاقام الصلوٰۃ کے معنی یہ ہیں کہ  چنانچہ انہوں نے نماز کے لیے اذان کے بعد تکبیر کہی۔

یہاں ایک ہلکا سا خلجان اور پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل بیدار رہتا ہے۔ تو دل کے جاگتے رہنے کے باوجود اس کی کیا وجہ تھی کہ صبح صادق طلوع ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مطلع نہیں ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کو دیکھنا آنکھوں کا کام ہے دل کا کام نہیں ہے لہٰذا دل کی بیداری کے باوجود صبح صادق کے طلوع ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے مطلع نہیں ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھیں سو رہی تھی۔

اور اگر کوئی یہ سوال کے بیٹھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کشف یا وحی کے ذریعہ اطلاع کیوں نہ دی گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف تھا، نیز اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ اس طریقے سے امت کو قضا کے احکام معلوم ہو گئے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو جب تک تم مجھے حجرہ سے نکلتا ہوا نہ دیکھ لو نماز کے لیے کھڑے نہ ہوا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

فقہاء نے لکھا ہے کہ تکبیر کہنے والا جب حی علی الصلوٰۃ کہے تو مقتدیوں کو اس وقت کھڑا ہونا چاہئے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی وقت اپنے حجرہ سے نکلتے ہوں گے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب نماز کی تکبیر ہو جائے تو تم (جماعت میں شامل ہونے کے لیے) دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ وقار و طمانیت کے ساتھ اپنی چال آؤ، جس قدر نماز تم کو (امام کے ساتھ) مل جائے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے (امام کے سلام کے بعد اٹھ کر) اسے پوری کر لو (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کو (حکماً) نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔

 

تشریح

 

عام طور پریہ دیکھا گیا ہے کہ جب نماز کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ لوگ جو دیر سے مسجد پہنچتے ہیں نماز میں شامل ہونے کے لیے اور خصوصاً اس وقت جب کہ امام رکوع میں چلا جاتا ہے بہت بے تکے طریقے سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور نماز میں شریک ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں کو اس حدیث سے متنبہ ہونا چاہئے کہ ان کا یہ طریقہ سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہے۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جماعت کھڑی ہو جانے پر بھاگ کر آنا جائز نہیں ہے بلکہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا کمزوری عقل اور غفلت کی علامت ہے کیونکہ نماز کے لیے مستعدی اور چستی اس طرح تو شریعت کی نظر میں قابل تعریف ہو گی کہ اگر کسی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہونے یا کسی رکعت کے چھوڑ جانے کا خوف ہو تو وہ پہلے ہی جلدی کر لیا کرے اور جماعت شروع ہونے سے پہلے مسجد پہنچ جایا کرے۔ (حضرت شیخ عبدالحق)۔

ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی آدمی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ دوڑتا ہوا آئے یا نہیں؟ چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ایسا آدمی دوڑ کر آ سکتا ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بقیع میں تھے کہ انہوں نے مسجد سے تکبیر کی آواز سنی تو دوڑتے ہوئے مسجد کی طرف آئے۔

اور بعض علماء نے یہ مناسب قرار دیا ہے کہ ایسے آدمی کو اس حدیث کے پیش نظر وقار و طمانیت کے ساتھ ہی چل کر مسجد آنا چاہئے کیونکہ جو آدمی نماز کا ارادہ کرتا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہو گا جو نا دانستہ یا کسی مجبوری و معذوری کی بناء پر لیٹ ہو جائے ورنہ اگر کوئی آدمی دانستہ نماز میں آنے کے لیے دیر کرے تو وہ اس میں شامل نہیں۔

بہر حال اس سلسلے میں صحیح اور مناسب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی تاخیر سے مسجد میں پہنچے تو اسے چاہئے کہ وہ جماعت میں شریک ہونے کے لیے وقار و طمانیت کے ساتھ تیز تیز چل کر آئے بالکل بے تکے طریقے سے دوڑتا ہوا نہ آئے تاکہ اس حدیث پر عمل بھی ہو جائے اور تکبیر اولیٰ کا ثواب بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ اسی طرح نماز جمعہ کا حکم بھی یہی ہے کہ اگر کسی آدمی کو مسجد پہنچنے میں دیر ہو جائے اور اس بات کا یقین ہو کہ اگر جلدی نہ کی تو امام سلام پھیر دے گا اور میں نماز سے رہ جاؤں گا تو اسے تیزی سے آ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو جانا چاہئے۔

 

 

٭٭حضرت زید ابن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ کے راستے میں (آرام کرنے کے لیے) آخر رات میں ٹھہرے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ (صبح کی) نماز کے لیے سب کو جگا دیں اور جب سب لوگ سو گئے۔ (تھوڑی دیر کے بعد نیند کے غلبے کی وجہ سے) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی آنکھ لگ گئی۔ (پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے بعد) تمام لوگ اس وقت جاگے جب کہ آفتاب طلوع ہو چکا تھا۔ سب لوگ(نماز قضاء ہو جانے کی وجہ سے) گھبرا گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ سوار ہو کر اس جنگل سے باہر نکل چلیں اور فرمایا کہ یہ ایک ایسا جنگل ہے جس پر شیطان مسلط ہے چنانچہ سب لوگ سوار ہو کر اس جنگل سے نکل آئے۔ (ایک جگہ پہنچ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (یہاں) اتر جاؤ اور وضو کر لو۔ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز کے لیے اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے ساتھ (صبح کی) نماز (قضاء با جماعت) پڑھی جب نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو گھبرایا ہوا دیکھا تو (تسلی دینے کے لیے) فرمایا کہ لوگو! اللہ تعالیٰ نے (سونے کے وقت) ہماری روحیں قبض کر لی تھیں اگر وہ چاہتا تو ہماری روحوں کو دوسرے وقت (یعنی آفتاب طلوع ہونے سے پہلے) واپس کر دیتا۔ لہٰذا اگر تم میں سے کوئی نماز کے وقت غافل سو جائے یا نماز پڑھنی بھول جائے اور (اس غفلت و نسیان سے) گھبرائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو اسی طرح (یعنی اذان و تکبیر اور جماعت کے ساتھ نیز نماز کی تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے) پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے کہ شیطان ان کے پاس آیا اور انہیں (کجاوے کا) سہارا لینے پر مجبور کر دیا اور جس طرح بچوں کو (سلانے کے لیے) تھپکی دی جاتی ہے شیطان انہیں تھپکتا رہا۔ یہاں تک کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نیند طاری ہو گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ویسا ہی بیان کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان سن کر فرمایا)، کہ میں اس بات کی (پوری یقین کے ساتھ) گواہی دیتا ہون کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ (یہ روایت امام مالک نے رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مرسلاً نقل کی ہے۔)

 

تشریح

 

اس قسم کا ایک واقعہ حدیث نمبر پانچ میں ذکر کیا جا چکا ہے مگر بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے واقعہ سے الگ کوئی دوسرا واقعہ ہے کیونکہ وہ واقعہ تو مدینہ اور خیبر کے راستے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان رونما ہوا تھا۔

حدیث کے الفاظ ینادی للصلوۃ او یقیم میں لفظ او جمع کا مفہوم ادا کر رہا ہے جیسا کہ حرف واو دو چیزوں کو جمع کرنے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کے معنی جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان اور تکبیر کہنے کا حکم دیا، یا پھر لفظ او اپنے حقیقی مفہوم یعنی شک کو ظاہر کر رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان یا تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ مگر صحیح اور اولیٰ پہلے ہی معنی ہیں کیونکہ اس کی تائید ابوداؤد کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں الحدیث (اَنَّہُ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ و سلم اَمَرَ بِلاَ لاً بِالَا ذَانِ وَالْاَ قَامَۃِ) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا)۔

فلیصلھا کما کان یصلیھا فی وقتھا (وہ اس نماز کو اس طرح پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا) یہ الفاظ بظاہر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر جہری نماز قضا ہوئی ہو تو اس کی قضا میں جہر ہی کے ساتھ پڑھائی جائے اور اگر سری نماز قضا ہوئی ہے تو اس کی قضا بھی سری ہی کے ساتھ پڑھ دی جائے۔ مگر بعض حنفی علماء نے اس سلسلے میں اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ قضاء نماز کو بہر صورت سر یعنی خاموشی کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔

اَضْجَحَہُ  اسندہ کے مفہوم میں ہے یعنی شیطان نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس طرح سہارا دیا کہ ان پر غفلت طاری ہو گئی، جیسا کہ پہلے واقعہ کے سلسلے میں گزر چکا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کجاوے سے سہارا لگا کر سو گئے تھے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قضاء نماز پڑھنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے ان اللہ قبض ارواحنا (اللہ تعالیٰ نے ہماری روحیں قبض کر لی تھیں) فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ ہم سب کا اس موقعہ پر سو جانا درحقیقت تقدیر الہٰی کی بناء پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر اس طرح غفلت کی نیند مسلط کر دی کہ ہم نماز کے وقت جاگ نہ سکے۔ مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیش آمدہ صورت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے نیند کی اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی کہ شیطان نے ایسا طریقہ اختیار کیا کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ غافل ہو کر سوئے رہے اور وقت پر نہ اٹھ سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگ سوتے رہے اور نماز قضاء ہو گئی۔ تو اس سے بظاہر دونوں باتوں میں تعارض نظر آتا ہے کہ پہلے تو غفلت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی پھر بعد میں اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف کی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خلق افعال سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اندر نسیان اور غفلت پیدا کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ اس نے شیطان کو اس بات پر قادر کر دیا کہ مذکورہ طریقوں یعنی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تھپکنے وغیرہ سے لوگوں کو غفلت کی نیند میں مبتلا کر دے۔

یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اعجاز شان کی زبردست غمازی کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معجزے کے طور پر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سو جانے کی پوری حقیقت و کیفیت بیان کر دی باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ظاہری آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ نہیں کیا تھا چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشھد انک رسول اللہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی اعجاز شان کی تصدیق فرمائی۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مسلمانوں کی دو چیزیں مؤذنوں کی گردنوں میں لٹکی ہوئی ہیں۔ ایک تو ان کے روزے اور دوسری ان کی نمازیں۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو اہم اور بنیادی اعمال ایسے ہیں جو مؤذن پر موقوف ہیں یعنی مؤذن ان اعمال کی صحت و تکمیل کے ذمہ دار ہیں۔ پہلی چیز تو روزہ ہے کہ مسلمان مؤذنوں کی اذان ہی پر اعتماد کرتے ہوئے افطار کرتے ہیں۔ اور دوسری چیز نماز ہے جس کی ادائیگی مؤذنوں کی اذان کے تحت ہوتی ہے۔

بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مؤذنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی عظیم ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بڑے احتیاط کے ساتھ اور اوقات کی پوری رعایت کرتے ہوئے اذان کہا کریں تاکہ مسلمانوں کے ان دونوں اعمال میں خلل واقع نہ ہو۔

 

                    مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

 

یہاں نماز کے مقامات سے جگہیں مراد ہیں جہاں جہاں نماز پڑھنا مکروہ یا غیر مکروہ ہے۔ چنانچہ ایسے مقامات کی وضاحت آئندہ احادیث میں کی جائے گی۔ مساجد کی فضائل و برکات کے سلسلہ میں بہت زیادہ احادیث منقول ہیں ان میں سے جن احادیث کو صاحب مشکوٰۃ نے منتخب کیا ہے وہ اس عنوان کے تحت نقل کی جائیں گی البتہ وہ احادیث جنہیں صاحب مشکوٰۃ نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ حدیث کی دوسری کتابوں میں نقل ہیں حصول سعادت و برکت کی خاطر ان میں بعض کے ترجمے یہاں نقل کئے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے ذہنوں میں مساجد کی عظمت و فضیلت کا احساس جاگزیں ہو جس کی وجہ سے وہ خدائے تعالیٰ کی عبادت کے لئے مسجد میں جانے کو دینی اور دنیاوی فلاح و کامرانی کا ذریعہ سمجھیں۔

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا، میرے بیٹے ! مسجد تمہارا گھر ہونا چاہئے ، کیونکہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسجدیں پرہیز گاروں کا گھر ہیں لہٰذا جس کا گھر مسجد ہو اللہ تعالیٰ اس کی راحت و رحمت کا اور پل صراط سے جنت کی طرف اس کے گزرنے کا ضامن ہوتا ہے۔

حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا جاتا ہے کہ شیطان سے بچنے کے لیے مسجد ایک مضبوط قلعہ ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ مساجد زمین کے اوپر اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں اور جس کی زیارت کی گئی ہے اس پر یہ حق ہے کہ وہ اپنی زیارت کرنے والے کا اعزاز و اکرام کرتا ہے یعنی جو آدمی مسجد میں جاتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی زیارت کرتا ہے۔ اس طرح مسجد میں جانے والا بندہ تو زیارت کرنے والا ہوا اور جس کی زیارت کی گئی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوئی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والے بندوں کا اعزاز و اکرام کرتا ہے اور انہیں اپنے فضل و کرم کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب کوئی آدمی مسجد میں نماز پڑھنے یا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے جگہ پکڑتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت و شفقت کی نظر فرماتا ہے جس طرح اس آدمی کے اہل خانہ جو مدت کے بعد اپنے گھر لوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں اتنی بات سمجھ لیجئے کہ جن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں جگہ پکڑنا ممنوع ہے تو اس کی شکل یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی مسجد میں کسی مخصوص جگہ کو ایسا اختیار کرتا ہے کہ اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ نہیں بیٹھتا تو یہ ممنوع ہے خواہ اس کا کسی مخصوص جگہ کو اختیار کرنا نماز پڑھنے اور ذکر اللہ ہی کے لیے کیوں نہ ہو کیونکہ اس طرح ریا و نمائش کا شبہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔

اور اس قسم کی وہ احادیث جن سے مسجد میں جگہ پکڑنے کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے اس بات پر محمول ہیں کہ مسجد کو کسی دنیاوی غرض و منفعت سے قطع نظر محض نماز پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے کی نیت سے جائے قیام قرار دیا جائے۔

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے چاروں کونوں میں جا کر دعا کی اور بغیر نماز پڑھے باہرنکل آئے اور پھر باہر آکر کعبہ کے سامنے آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔ (صحیح البخاری)

صحیح مسلم نے اس روایت کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔

 

تشریح

 

کعبہ کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمانا کہ  یہی قبلہ ہے اس بات کا اعلان کرنا تھا کہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دائمی طور پر ہو گیا ہے اور یہ قبلہ معین و مقرر ہو چکا ہے جو اب کسی حالت میں منسوخ نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ قبلہ اسی اگلی سمت ہے دوسری سمتوں سے اس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اور نہ اس کا مطلب یہ تھا کہ صرف باہر کی سمت سے قبلہ کی طرف متوجہ ہونا معتبر ہے اندر کے حصہ میں نماز درست نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ قبلہ کے اندر فرض نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ کعبہ کے اندر نفل پڑھنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک جائز ہے کیونکہ آگے آنے والی حضرت عبداللہ بن عمر فاروق کی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اس کے جواز کی واضح دلیل ہے۔

البتہ فرض پڑھنے کے سلسلہ میں علماء کے یہاں اختلاف ہے چنانچہ اکثر علماء کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو بھی جائز قرار دیتے ہیں مگر حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کعبہ کے اندر فرض نماز کی ادائیگی سے منع کرتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے روز) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم، اسامہ ابن زید، عثمان ابن طلحہ حجبی اور بلال ابن رباح رضی اللہ عنہم خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور حضرت بلال یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے اندر سے دروازہ بند کر لیا (تاکہ لوگ ہجوم نہ کریں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھوڑی دیر تک اندر (دعا وغیرہ میں مشغول رہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب کہ وہ یا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) خانہ کعبہ سے باہر آئے تو پوچھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (خانہ کعبہ کے اندر) کیا کر رہے تھے؟ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی ایک ستون آپ کے بائیں طرف تھا، دو داہنی طرف تھے تین پیچھے تھے ان دنوں خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے (اور اب تین ستون ہیں)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی تھی مگر اس سے پہلے اس مضمون کی حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ جو حدیث گزری ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خانہ کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی تھی۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اسی طرح ہو گی کہ یہ کہا جائے گا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ یہ حضرات خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دعا مانگتے ہوئے دیکھ کر حضرت اسامہ بھی کسی دوسرے کو نہ میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس کو نہ میں کھڑے تھے وہاں سے حضرت اسامہ تو دور تھے مگر حضرت بلال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ہی تھے اس لیے حضرت بلال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور چونکہ حضرت اسامہ اول تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے فاصلہ پر تھے دوسرے وہ خود بھی نماز میں مشغول تھے ، پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ نماز بھی جلد ہی پڑھ لی تھی۔ اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔

پھر اس کے علاوہ یہ بھی منقول ہے کہ بیت اللہ کی دیواروں سے تصویریں مٹانے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ کو پانی لانے کے لیے باہر بھیج دیا تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ جس وقت وہ باہر گئے ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عرصے میں نماز پڑھ لی ہو۔ بہر حال حضرت اسامہ اور حضرت بلال دونوں نے اپنے علم و مشاہدہ کے مطابق خبر دی ہے اور بہر صورت ادائیگی نماز کو ثابت کرنا ہی مختار ہے اس کی نفی نہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں ہزار نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مسجد حرام کو مستثنیٰ اس لیے کیا گیا ہے کہ مسجد حرام نہ صرف یہ کہ دوسری مساجد کے مقابلے میں زیادہ بابرکت ہے بلکہ اپنی عظمت و برکت اور فضیلت کے اعتبار سے مسجد نبوی سے بھی افضل ہے چنانچہ منقول ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے۔

اب اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ حرم شریف میں وہ کون سی جگہ ہے جہاں نماز ادا کرنے پر اتنا ثواب ملتا ہے ، چنانچہ پہلا قول یہ ہے کہ کوئی متعین جگہ نہیں ہے بلکہ پورا حرام اس فضیلت و برکت کا حامل ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ جس جگہ جماعت ہوتی ہے۔ علماء حنفیہ کے اقوال سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی قول کو بعض شافعی علماء نے بھی اختیار کیا ہے۔ علماء حنفیہ کے نزدیک ثواب کی اس زیادتی کی فضیلت خاص طور پر فرائض سے متعلق ہے نوافل سے نہیں۔

تیسرا قول یہ ہے کہ وہ جگہ خانہ کعبہ ہے۔ یہ چوتھا قول ان چاروں اقوال میں سب سے ضعیف ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لیے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو) مسجد حرام، مسجد اقصی، (یعنی بیت المقدس اور میری مسجد (یعنی مسجد نبوی)۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کہ خدا نے ان کی عظمت و بزرگی کی زیادتی کے سبب انہیں ایک امتیازی شان عطا فرمائی ہے۔ کیس دوسری جگہ کا سفر جائز نہیں ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ اس ممانعت اور نہی کا تعلق تقرب و عبادت سے ہے یعنی تقرب الی اللہ اور عبادت سمجھ کر ان تینوں جگہوں کے علاوہ اور کسی جگہ کا سفر نہ کرنا چائے۔

ہاں اگر کسی دوسری جگہ تحصیل علم، ادائے حقوق ، تجارت یا ایسی ہی کسی دوسری ضرورت کی بناء پر سفر کرنا ہو تو یہ الگ چیز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے البتہ اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر جانے کے سلسلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے تو اسے مباح قرار دیا ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے کہ یہ حرام ہے یعنی محض اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر پہنچ کر حصول برکت کی خاطر مستقل سفر کرنا مطلقاً جائز نہیں ہے۔

بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ نذر و منت کی نیت سے سفر کا قصد کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان تینوں مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ پہنچنے کی نذر مانی جائے تو اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس نہی کا تعلق صرف مساجد سے ہے یعنی حصول برکت اور زیارت کے ارادے سے ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کے لیے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں مساجد کے علاوہ دیگر مقامات خارج از مفہوم ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تینوں مقامات کے علاوہ دوسری جگہوں کا سفر کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ اس ارشاد کا مقصد دراصل ان تینوں مساجد کی اہمیت و عظمت اور فضیلت اور انکے لیے سفر کرنے کی سعادت و خوش بختی ظاہر کرنا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا مطمح نظریہ ہے کہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ اگر وہ سفر کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان تینوں مساجد کی زیارت کے لیے سفر کریں یہ مساجد سب سے زیادہ با عظمت و فضیلت اور متبرک ترین مقامات ہیں۔ ان کے علاوہ کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا کوئی فلاح و سعادت کی بات نہیں ہے بلکہ بے فائدہ صعوبت و پریشانیوں کو برداشت کرنا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور معرکۃ الآر تصنیف حجۃ اللہ البالغۃ میں اس حدیث کی وضاحت کے دوران تحریر فرمایا ہے کہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کچھ مقامات کو اپنے گمان و خیال کے مطابق با عظمت و بابرکت تصور کر کے وہاں کا سفر کرتے تھے اور ان مقامات کی زیارت کرنے کو سعادت و برکت کے حصول کا ذریعہ جانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح اپنے وہم و گمان کے مطابق کسی جگہ اور مقام کو باعث برکت و فضیلت سمجھنا اور پھر خاص طور پر اس کی زیارت کے لیے وہاں جانا نہ صرف یہ کہ حقیقت سے انحراف اور عقیدہ اور ذہن و فکر کی کمزوری کی علامت ہے بلکہ فتنہ و فساد کا سبب بھی ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عقیدہ و عمل کو راہ راست پر قائم رکھنے کی خاطر اس غلط طریقے کو بند فرما دیا تاکہ اسلامی شعائر کے ساتھ غیر شعائر جمع نہ ہو جائیں اور یہ طریقہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش کا سبب نہ بن جائے ، چنانچہ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ مزارات اولیاء اللہ کی عبادت کرنے کی جگہیں یہاں تک کہ کوہ طور پر یہ سب اس سلسلہ میں برابر ہیں کہ خاص طور پر زیارت یا حصول برکت و سعادت کے جذبہ سے ان مقامات کا سفر کرنا مناسب نہیں ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میرے مکان اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض (یعنی حوض کوثر) کے اوپر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی میرے مکان اور (مسجد نبوی میں) میرے منبر کے درمیان واقع جگہ پر عبادت کرے گا تو اسے اس عظیم سعادت کے صلے میں جنت کا ایک باغ ملے گا اور جو آدمی میرے منبر کے نزدیک عبادت میں مشغول رہے گا تو قیامت کے دن وہ حوض کوثر سے سیراب ہو گا۔

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے کیونکہ روضہ کے معنی ٹکرے کے ہیں لہٰذا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان و منبر کے درمیان کی جگہ وہ ٹکڑا ہے جو جنت سے زمین پر اس جگہ منتقل کیا گیا ہے اور یہ ٹکڑا زمین کے دوسرے حصوں کی طرح قیامت کے روز فنا نہیں ہو گا بلکہ جوں کا توں جنت میں واپس چلا جائے گا۔

علامہ تور پشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے منبر اور حجرہ رسول کے درمیان کی جگہ کو روضہ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تربت مبارک کی زیارت کرنے والے ، وہاں کے حاضر باش ملائکہ اور جن و انس ہمیشہ عبادت اور ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں ایک جماعت جاتی ہے تو دوسری جماعت آ جاتی ہے اس طرح لگاتار وہاں عبادت کرنے والوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے لہٰذا اس مناسبت سے اس جگہ کو روضہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جیسا کہ ذکر کے حلقوں کو ریاض جنت فرمایا گیا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم ہر ہفتے کو پیدل یا سواری پر مسجد قبا تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔  (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

قبا ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمانے کے وقت مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے قیام فرمایا تھا اور یہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مسجد بنائی تھی جو مسجد قبا کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسجد کی فضیلت بہت زیادہ ہے ، چنانچہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ صریح ارشاد منقول ہے کہ  مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرہ ادا کر نے کے مانند ہے۔

جلیل القدر اور با عظمت صحابی حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس میں دو مرتبہ حاضری دینے سے زیادہ میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مسجد قبا میں نماز پڑھوں اور اگر لوگ جان لیں کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا کتنا ثواب ہے تو وہ سفر کی مصیبت و مشقت جھیل کر دور دراز سے اس مسجد میں آنے لگیں۔

بہر حال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر ہفتے کے روز مسجد قبا جاتے تھے اور اس میں دو رکعت تحیۃ المسجد یا کوئی دوسری نماز جو تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہوتی ہو گی پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس مبارک عمل سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہفتے کے روز علماء، صلحاء اور بزرگوں سے ملاقات کرنا سنت ہے۔

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اللہ کے نزدیک تمام شہروں میں محبوب و پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور بدترین و ناپسندیدہ مقامات بازار ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مسجدیں اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مساجد محبوب و پسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں ہوتا ہے رب قدوس اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرتا ہے اور اسے خیر و بھلائی کی سعادت سے نوازتا ہے اس کے مقابلے میں بازار وہ جگہ ہے جہاں شیطان کا سب سے زیادہ تسلط رہتا ہے۔ حرص و طمع، خیانت و بددیانتی، جھوٹ اور اللہ کی یاد سے غفلت وہ چیزیں ہیں جو بازار کا جزو لاینفک اور شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ اللہ کے نزدیک بازار بد ترین و ناپسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنی ناگزیر ضروریات کی تکمیل کے علاوہ محض سیر و تفریح کی غرض سے بازاروں میں رہتا ہے اس پر محرومی و برائی کا سایہ رہتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوتا ہے۔

یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ بت خانے ، شراب خانے اور چکلے وغیرہ تو بازار سے بھی بد ترین ہیں پھر انہیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اور مبغوض ترین مقامات کیوں نہیں کہا گیا ہے؟ بازار کو کیوں کہا گیا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بازاروں کو قائم کرنے کا حکم شارع کی جانب سے ہے اور یہ چیزیں ایسی ہیں جن کو بنانے اور رکھنے کا حکم شارع کی جانب سے نہیں ہے لہٰذا ارشاد کا مطلب یہ ہے جن مقامات کو بنانا اور قائم رکھنا جائز ہے ان میں سے بد ترین اور ناپسندیدہ مقام بازار ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی اللہ کے لیے مسجد بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مکان بنا دیتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اللہ کے لیے مسجد بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے مسجد بناتا ہے ، نہ کہ لوگوں کو دکھانے سنانے کے لیے اور اپنا نام پیدا کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس آدمی کے لیے جنت میں مکان بنا دیتا ہے اسی لیے یہ کہا گیا ہے کہ جو آدمی مسجد بنا کر اس پر اپنا نام لکھتا ہے تاکہ تشہیر کا ذریعہ بنے تو یہ اس کے عدم اخلاص کی دلیل ہے۔

لفظ مسجداً میں تنکیر (عمومیت) تقلیل کے لیے ہے۔ یعنی اگرچہ کوئی آدمی مسجد کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ بنائے اسے اس کا بدلہ اسی طرح دیا جائے گا۔ جس طرح کسی بڑی اور عالی شان مسجد بنانے والے کو۔ چنانچہ روایت میں یہ الفاظ ہیں اگرچہ وہ مسجد بیٹر کے گھونسلے کی مانند ہو۔

یہ مسجد کی تنگی و اختصار میں مبالغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو نیت کو دیکھتا ہے اگر کوئی آدمی دنیا کی شہرت اور نمائش کے جذبے سے بالا تر ہو کر محض اللہ کی رضا و خوشنودی کی غرض سے اور اپنی نیت کے پورے اخلاص کے ساتھ مسجد بناتا ہے تو وہ جنت میں اللہ کی طرف سے ایک مکان کا حقدار ہو گا اگرچہ اس کی بنائی ہوئی مسجد کتنی چھوٹی اور مختصر کیوں نہ ہو۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی دن کے اول حصہ میں یا آخری حصہ میں مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے خواہ وہ صبح کو جائے یا شام کو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسجد گویا اللہ کا گھر ہے چنانچہ جو آدمی مسجد میں جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی زیارت کرنے والوں کی ضیافت کرتا ہے اور انہیں اپنی رحمت سے محروم نہیں رکھتا۔ مسجد میں جانے کی بہت سی نیتیں ہو سکتی ہیں ان میں سے ایک نیت یہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کی ابتداء میں حدیث انما الا اعمال بالنیات کے فائدہ کے ضمن میں نیت کے اس مسئلے اور اس کی اقسام کو مفصل طریقے سے ذکر کیا جا چکا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، نماز کا سب سے زیادہ اجر اس آدمی کو ملتا ہے جو باعتبار مسافت کے سب سے زیادہ دور ہو (یعنی جس آدمی کا گھر مسجد سے جتنا دور ہو گا اور وہ گھر سے چل کر نماز کے لیے مسجد آئے گا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا) اور جو آدمی نماز کے انتظار میں مسجد کے اندر (بیٹھا) رہتا ہے تاکہ امام کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کا ثواب اس آدمی سے زیادہ ہے جو (تنہا) اپنی نماز پڑھ کر سو جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی نماز میں اس لیے تاخیر کرے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھ سکے تو اسے اس آدمی کے مقابلے میں جو انتظار کئے بغیر تنہا نماز پڑھ کر سو جائے اگرچہ وہ وقت مختار ہی میں نماز کیوں نہ پڑھ لے زیادہ ثواب ملتا ہے اسی طرح ایک آدمی تو وہ ہے جو چھوٹی اور مختصر جماعت کے ہمراہ نماز پڑھ لیتا ہے یا کسی امام کے ساتھ نماز ادا کر لیتا ہے جو درحقیقت امام بننے کا حق نہیں رکھتا اور دوسرا وہ آدمی ہے جو انتظار کے بعد بڑی جماعت کے ہمراہ نماز پڑھنا ہے یا ایسے امام کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے جو امامت کا حق رکھتا ہے تو اس دوسرے آدمی کو پہلے آدمی کے مقابلے میں خصوصاً جب وہ کسل و جلد بازی کے جذبہ سے ایسا کرتا ہے اسے زیادہ ثواب ملے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے قریب کچھ مکان خالی ہوئے تو بنو سلمہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ مسجد کے قریب آ جائیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو جب ان کے اس ارادے کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! ہم نے یہی ارادہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بنو سلمہ! تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بنو سلمہ انصار مدینہ کا ایک خاندان ہے اس خاندان کے افراد مسجد نبوی سے دور رہتے تھے۔ جب مسجد نبوی کے قریب رہنے والوں میں سے کچھ لوگوں کا انتقال ہو جانے یا کسی دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے ان کے مکانات خالی ہوئے تو بنو سلمہ نے مسجد نبوی کے قریب رہنے کی سعادت حاصل کی غرض سے ان خالی مکانات میں منتقل ہونے کا ارادے کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے اس ارادہ کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم لوگ جہاں آباد ہو وہی جگہ سعادت و بھلائی کے اعتبار سے تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ تم لوگ مسجد سے جتنا دور رہو گے مسجد آنے کے لیے تمہیں اتنا ہی چلنا پڑے گا اور نماز کے لیے تم جتنے زیادہ قدم اٹھاؤ گے تمہارے نامہ اعمال میں ان کے بدلے اتنا ہی ثواب لکھا جائے گا اس لیے بھلائی و بہتری اسی میں ہے کہ تم اپنی سابق جگہ آباد رکھو۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اس روز (یعنی قیامت کے دن) اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (١) انصاف کرنے والا حاکم۔ (٢) وہ جوان جو اپنی جوانی کو اللہ کی محبت میں صرف کر دے۔ (٣) وہ آدمی جو مسجد سے نکلتا ہے تو جب تک وہ دوبارہ مسجد میں نہیں چلا جاتا اس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔ (٤) وہ دو آدمی جو محض اللہ کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں اگر یکجا ہوتے ہیں تو اللہ کی عبادت میں اور جدا ہوتے ہیں تو اللہ کی محبت میں یعنی حاضر و غائب خالص بوجہ اللہ محبت رکھتے ہیں۔ (٥) وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور (خوف خدا سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ (٦) وہ آدمی جس کو کسی شریف النسب اور حسین عورت نے (برے ارادے سے) بلایا اور اس نے (اس کی خواہش کے جواب میں) کہہ دیا ہو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (٧) وہ آدمی جس نے اس طرح مخفی طور پر صدقہ دیا ہو کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ معلوم ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہاں ان سات قسم کے خوش نصیب شخص کی وضاحت کی گئی ہے جو اپنے اعمال و کردار کی بناء پر قیامت کی روز میدان حشر میں اللہ کے سائے میں ہوں گے یعنی رب قدوس ان لوگوں کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سایہ خداوندی سے مراد عرش کا سایہ ہے۔ یعنی قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمت خداوندی کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوں گے۔

حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ساتواں آدمی وہ جو اللہ کی راہ میں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال اتنی پوشیدگی سے خرچ کرتا ہے کہ جب وہ اپنے دائیں طرف کے آدمی کو کوئی چیز یعنی روپیہ پیسہ یا مال وغیرہ دیتا ہے تو اس کے بائیں طرف بیٹھے ہوئے آدمی کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی اور اس طرح اس کے چھپانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ریا اور نمائش کا جذبہ نہ پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے ثواب سے محرومی رہے۔

بعض علماء نے اس کے حقیقی معنی ہی مراد لیے ہیں یعنی وہ آدمی اتنے مخفی طریقے سے صدقہ و خیرات کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ دائیں ہاتھ نے کس کو کیا دیا ہے؟ اس صورت میں یہ جملہ کمال پوشیدگی کے لیے کنایہ ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جماعت کے ساتھ آدمی کی نماز اس نماز سے جو گھر میں یا (تجارت وغیرہ کی مشغولیت کی بناء پر) بازار میں پڑھی جائے پچیس درجے فضیلت رکھتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اچھی طرح (یعنی آداب و شرائط کو ملحوظ رکھ کر) وضو کرتا ہے اور (کسی غرض کی وجہ سے نہیں بلکہ) صرف نماز ہی کے لیے مسجد آتا ہے تو وہ جو قدم اٹھاتا ہے اس کے ہر قدم کے عوض اس کے نامہ اعمال میں سے ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ کم ہو جاتا ہے (یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے) اور جب تک وہ نماز پڑھ کر اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے فرشتے برابر اس کے لیے یہ دعا کرتے رہتے ہیں۔ اَلَّلھُمَّ صَلِّی عَلَیْہِ اَللَّھُمَّ اَرْحَمْہُ اے اللہ ! اس کی بخشش کر! اے اللہ اس پر رحم کر، جب تک تم میں سے کوئی نماز کے انتظار میں رہتا ہے تو اس کا وہ وقت نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کوئی مسجد میں گیا اور نماز ہی کی وجہ سے وہاں رک گیا (تو گویا وہ نماز ہی میں ہے) اور فرشتوں کی دعاء میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اَلَّلھْمَّ اَغْفِرْلَہُ اَلَّلھْمَّ تَبْ عَلَیْہِ(یعنی اے اللہ ! اس بندے کی بخشش فرما، اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما) اور (یہ اس وقت تک ہوتا رہتا ہے) جب تک کہ وہ کسی (مسلمان) کو (اپنی زبان یا ہاتھ سے) ایذاء نہ پہنچائے اور با وضو رہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچیس درجے زیادہ ثواب کی فضیلت اسی وقت حاصل ہو گی جب کہ نماز جماعت کے ساتھ اور مسجد میں پڑھی جائے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے نمازی کے حق میں خدا کی رحمت و برکت کی دعا اس وقت تک کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ مسلمان کو اپنے کسی عمل یا اپنے کسی قول سے ایذاء نہیں پہنچاتا۔ گویا فرشتوں کے دعا کرنے کے حق میں یہ حدیث معنوی ہے۔ اس کے بعد حدث ظاہری کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب تک نمازی با وضو رہے یعنی اگر کوئی نمازی کسی مسلمان کو ایذاء پہنچائے گا یا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا تو فرشتے اس کے لیے رحمت و برکت اور مغفرت کی دعا نہیں کریں گے۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کی دعا کی فضیلت اسی وقت حاصل ہو گی جب کہ نمازی نماز پڑھ کر وہیں مصلٰی پر بیٹھا رہے اگر وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ جا بیٹھے گا تو یہ فضیلت حاصل نہیں ہو گی۔

بعض مشائخ اور بزرگ نماز پڑ کر ریاء و نمائش وغیرہ کے خوف سے مصلی سے اٹھ جاتے ہیں اور کسی گوشے وغیرہ میں بیٹھ کر ذکر و تسبیح میں مشغول ہو جاتے ہیں، گو ان کی نیت صحیح اور ان کا یہ طریقہ قابل جزاء و انعام ہے کہ انہیں ذکر و تسبیح کی فضیلت حاصل ہوتی ہے مگر نماز پڑھ کر مصلی ہی پر بیٹھے رہنے کی جو فضیلت ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہوتی۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابو سید (حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ کے صاحبزادے اور ساعدی انصاری ہیں، بدری صحابہ میں شامل اور سب سے بعد میں ٦٠ھ میں بعمر ٧٨ سال وفات پائی ١٢۔) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو۔ تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہئے۔ اَلَّلھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَبَ رَحْمَتِکَ (اے اللہ اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے) اور جب مسجد سے نکلے تو یہ دعا پڑھ لیا کرے۔ اَلَّلھُمَّ اِنِّی اَسْلئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ (اے اللہ ! میں تیرا ہی فضل چاہتا ہوں)۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

پہلی دعا کا مطلب تو یہ ہے کہ اے اللہ ! اس مقدس و محترم جگہ کی برکت سے یا اس مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق دینے کے سبب سے یا نماز کے حقائق ظاہر کرنے کے سبب سے مجھ پر اپنی رحمتوں، اپنی نوازشوں اور اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دے۔ دوسری دعا میں  فضل سے مراد حلال رزق ہے کیونکہ نماز سے فارغ ہو کر بندہ اسباب معیشت ہی کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہ حدیث حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد یعنی مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اس لیے کہ اس حدیث میں امر وجوب کے لیے ہے۔ حنفیہ کے نزدیک چونکہ تحیۃ المسجد واجب نہیں مستحب ہے اس لیے وہ حضرات کہتے ہیں کہ یہاں امر (حکم) وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم (کی عادت تھی کہ) جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو چاشت کے وقت آتے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھ کر (تھوڑی دیر تک) بیٹھے رہتے۔ (پھر مکان میں تشریف لے جاتے) (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

سفر سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ کر وہاں تھوڑی دیر تک اس لیے بیٹھے رہتے تھے تاکہ وہ صحابہ کرام جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عدم موجودگی کی وجہ سے آپ کی صحبت سے محروم رہتے تھے۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شرف ملاقات اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کی سعادت حاصل کر سکیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ سفر سے واپس آکر گھر جانے سے پہلے مسجد میں آکر نماز پڑھے اور تھوڑی دیر تک وہاں بیٹھا رہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی یہ سنے (یاد دیکھے) کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کوئی گم شدہ چیز تلاش کر رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کے جواب میں یہ کہہ دے کہ اللہ کرے تیری گم شدہ چیز تجھے نہ ملے۔ اس لیے کہ مسجدوں کو اس لیے نہیں بنایا گیا ہے (کہ ان میں جا کر گم شدہ چیزوں کو تلاش یا دریافت کیا جائے۔ صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس سلسلہ میں بظاہر تو مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقعہ پر یہ کلمات اس آدمی کی تنبیہ و توبیخ کے لیے صرف زبان سے ادا کئے جائیں دل سے بد دعا نہ کی جائے اور نہ درحقیقت یہ خواہش ہو کہ ایک مسلمان کی گمشدہ چیز اسے واپس نہ ملے۔ اور اگر کوئی آدمی درحقیقت دلی خواہش پر یہی کھتا ہے کہ ایسے آدمی کو اس کی گم شدہ چیز نہ ملے تاکہ آئندہ کے لیے اسے عبرت ہو اور اپنے اس نا مناسب فعل کی سزا پائے اور یہ کہ پھر آئندہ وہ ایسی حرکت نہ کرنے پائے تو ایک حد تک یہ بھی صحیح ہو گا۔

اس سلسلہ میں مسجد کی عظمت و تقدس کا تقاضا تو یہ ہے کہ صرف گم شدہ چیز تلاش کرنے ہی کی تخصیص نہیں بلکہ ہر وہ چیز ممنوع ہے جس کو اختیار کرنا مسجد کی بناء غرض کے منافی ہو جیسے خرید و فروخت وغیرہ۔ چنانچہ عہد سلف کے بعض علماء اسی بناء پر کہ مسجدیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہیں اور کسی مقصد کی تکمیل کے لیے نہیں مسجد میں کسی سائل کو صدقہ وغیرہ دینا بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت سائب ابن خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی ہیں فرمایا۔ ایک آدمی جماعت کی نماز پڑھا رہا تھا اور اس نے قبلہ کی طرف تھوک دیا (اتفاق سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم(اس کی طرف) دیکھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے مقتدیوں سے فرمایا کہ  آئندہ سے یہ آدمی تمہیں نماز نہ پڑھائے اس کے بعد اس آدمی نے جب ان کو نماز پڑھانی چاہی تو ان لوگوں نے اسے (امامت سے) روک دیا اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد بیان کر دیا وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں میں نے ہی لوگوں سے تمہیں امام نہ بنانے کے لیے کہا تھا اور راوی فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے (امامت سے روک دینے کا سبب بیان کرتے ہوئے یہ بھی) فرمایا تھا کہ، تم نے (اس ممنوع فعل کا ارتکاب کر کے) اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔ (ابوداؤد)

 

 

٭٭اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی نماز میں تشریف لانے میں (خلاف عادت اتنی) تاخیر فرمائی کہ قریب تھا کہ سورج نکل آئے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جھپٹتے ہوئے تشریف لائے چنانچہ نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کے ہمراہ) نماز پڑھی (اس طرح کہ) نماز میں تخفیف کی (یعنی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد ہم سے بآواز بلند فرمایا کہ  جس طرح تم لوگ بیٹھے ہو اسی طرح اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا  پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہوشیار! میں آج صبح کی نماز میں دیر سے آنے کی وجہ بیان کرتا ہوں (وہ یہ ہے) کہ میں نے آج رات (تہجد کی نماز کے لیے اٹھ کر وضو کیا اور جو کچھ میرے مقدر میں نماز تھی پڑھی اور نماز ہی میں مجھے اونگھ آ گئی یہاں تک کہ نیند مجھ پر غالب آ گئی (اس وقت) اچانک میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو اچھی صورت میں (یعنی اچھی صفت کے ساتھ) دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا، اے محمد! میں نے عرض کیا  پروردگار میں حاضر ہوں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا (تمہیں معلوم ہے) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟میں نے عرض کیا کہ  پروردگار نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ اسی طرح پوچھا (اور میں یہی جواب دیتا رہا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ، میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی (جس کا اثر یہ ہوا کہ) میرے سامنے ہر شے ظاہر ہو گئی اور تمام باتیں جان گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا  اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)!  میں نے عرض کیا کہ  پروردگار میں حاضر ہوں فرمایا (اب بتاؤ) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا  وہ کون سی چیزیں ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جماعت کے واسطے (مسجدوں میں) آ جانا اور نماز پڑھ کر (اور دعا وغیرہ کے لیے) مسجد میں بیٹھے رہنا، اور سختی کے ساتھ (جس وقت کہ سردی یا بیماری کی وجہ سے پانی کو استعمال کرنا تکلیف دہ معلوم ہو) اچھی طرح وضو کرنا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کس چیز کے بارے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کیا کہ درجات کے بارے میں فرمایا وہ کیا ہیں میں نے عرض کیا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا نرم لہجے میں بات کرنا اور رات کو اس وقت (تہجد کی) نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا  اچھا اب اپنے لیے جو چاہو دعا کرو۔ چنانچہ میں نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے ، برائیوں کے چھوڑنے ، مسکینوں کی دوستی، اپنی بخشش اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو کسی قوم میں گمراہی ڈالنا چاہئے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھا لے اور میں تجھ سے تیری محبت (یعنی یہ کہ میں تجھے دوست رکھوں یا تو مجھے دوست رکھے) اور اس آدمی کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے (یہ کہ میں اسے دوست رکھوں یا وہ مجھے دوست رکھے) اور ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت سے نزدیک کر دے گا سوال کرتا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ہم سے) فرمایا کہ  یہ خواب بالکل سچ ہے لہٰذا تم اسے یاد کرو اور پھر لوگوں کو سکھلاؤ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسمعیل سے اس حدیث کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے)۔

 

تشریح

 

اس حدیث کی وضاحت اسی باب کی حدیث نمبر ٣٤ کی تشریح میں کی جا چکی ہے اس لیے یہاں اب مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے تاہم اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا اور یہ سوال و جواب حالت خواب ہی میں ہوئے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ اعوذ باللہ العظیم وبوجھہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطن الرجیم یعنی میں اللہ عظمت والے بزرگ ذات والے اور ہمیشہ کی سلطنت والے کے ساتھ شیطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہونے کے وقت یہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان (اس آدمی کے بارے) میں کہتا ہے کہ یہ بندہ تمام دن میرے شر سے محفوظ رہا۔  (ابوداؤد)

 

 

٭٭اور حضرت عطاء ابن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (یعنی یہ دعا فرمائی) اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَناً یُعْبَدُ یعنی : اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کی عبادت کرنے لگیں۔ (اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) جن لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب (نازل) ہوا۔ (مالک رحمۃ اللہ مرسلاً)

 

تشریح

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار ! تو میری قبر کو اس معاملے میں بتوں کی مانند نہ کر کہ میری امت کے لوگ میری قبر کی خلاف شرع تعظیم کرنے لگیں یا بار بار زیارت کے لیے میلے کے طور آنے لگیں، یا میری قبر کو سجدہ گاہ قرار دے کر اپنی پیشانیوں کو جو صرف تیری ہی چوکھٹ پر جھکنے کی سزا وار ہے اس پر جھکانے لگیں اور سجدے کرنے لگیں۔

اس حدیث کو اور اس دعا کو بار بار پڑھیے اور ذرا آج کے حالات پر اس کو منطبق کیجئے پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعا کا تعلق آنے والے زمانے سے تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عرفانی نگاہوں نے اس وقت دیکھ لیا تھا کہ وہ وقت آنے والا ہے۔ کہ جب کہ میری قبر تو الگ رہی اولیاء اللہ کے مزارات پر سجدہ ریزی ہو گی مقبروں پر میلے لگیں گے وہاں عرس قوالیاں ہوں گی، قبروں پر چادریں اور پھولوں کا چڑھاوا چڑھے گا۔ غرض کہ جس طرح ایک بت پرست قوم اللہ کی عبادت و فرمانبرداری سے سرکشی اور تمرد اختیار کر کے بتوں کے ساتھ معاملہ کرتی ہے میری امت کے بد قسمت اور بد نصیب لوگ جو میرے نام کے شیدائی کہلائیں گے ، میرے محبت سے سرشاری کا دعوی کریں گے۔ میری لائی ہوئی پاک و صاف شریعت کی آڑ میں میرے دین کے نام پر وہی معاملہ قبروں کے ساتھ کریں گے لہٰذا آپ نے دعا فرمائی کہ اے پروردگار ! تو میری امت کو ایسی گمراہی میں مبتلا نہ کیجئے کہ وہ میری قبر کو پوجنے لگیں۔

جملہ اشتد غضب الخ کا تعلق دعا سے نہیں ہے بلکہ یہ جملہ مستانفہ یعنی ایک الگ جملہ ہے گویا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا کی تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیوں کر رہے ہیں تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اشتد الخ یعنی میں اپنی امت پر انتہائی شفقت و مہربانی کے لیے یہ دعا کر رہا ہوں کہ مبادا یہ بھی اس لعنت میں مبتلا نہ ہو جائیں جس طرح کہ یہود وغیرہ اس لعنت میں مبتلا ہو کر اللہ ذوالجلال کے غضب میں گرفتار ہوئے۔

 

 

٭٭اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات  حیطان میں نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ اس حدیث کے بعض رایوں نے کہا ہے کہ حیطان سے مراد بساتین (یعنی باغات) ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے (کیونکہ) یہ روایت بجز حسن بن ابی جعفر کی سند کے اور کسی سند سے منقول نہیں ہے اور انہیں بھی یحیٰ ابن سعید وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

 

٭٭  اور حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی نماز کے برابر اور محلے کی مسجد میں اس کی پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمعہ ہوتا ہے (یعنی جامع مسجد میں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس میں) اور میری مسجد (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم) میں اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ذریعہ مساجد کے مراتب اور ان میں نماز پڑھنے کے ثواب کے فرق و درجات کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ سب سے کم تر درجہ تو خود کسی کے گھر کا ہے یعنی اگر کوئی آدمی مسجد کے بجائے اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو اسے صرف اسی ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرتا ہے تو اسے پچیس نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اسی طرح جامع مسجد میں نماز پڑھنے والے کو پانچ سو اور بیت المقدس و مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں نماز پڑھنے والے کو اس کی ایک نماز کے بدلے میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر کوئی آدمی مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرے پھر تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں یعنی اسے ایک نماز کے عوض ایک لاکھ نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !زمین کے اوپر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مسجد حرام میں نے عرض کی کہ پھر اس کے بعد؟ فرمایا،  مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) پھر میں نے پوچھا کہ ان دونوں مسجدوں (کی بناء) کے درمیان کتنا فرق تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  چالیس سال پھر اس کے بعد فرمایا، اب تو ساری زمین تمہارے لیے مسجد ہے (یعنی اس کا ہر حصہ مسجد کا حکم رکھتا ہے کہ) جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کعبۃ اللہ کو بنانے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور بیت المقدس کی بناء رکھنے والے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک ہزار برس سے زیادہ کا فرق ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کس اعتبار سے فرمایا کہ کعبۃ اللہ اور بیت المقدس کی بناء کے درمیان صرف چالیس سال کا فرق ہے۔ اس کے جواب میں علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ)

اس حدیث میں ان دونوں مسجدوں کی بناء اول کی طرف اشارہ ہے اور یہ ثابت ہے کہ کعبہ کے بانی اولیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں ہیں۔ اسی طرح بیت المقدس کے بھی بانی اولیٰ حضرت سلیمان نہیں ہیں بلکہ کعبہ کی بناء سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے رکھی ہے پھر حضرت آدم کے بعد ان کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل گئی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان کی اولاد میں سے کسی نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی ہو اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا فرق رہا ہو۔ پھر اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو بنایا اور حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیر کی۔

علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ

مجھے اس حدیث کی توثیق علامہ ابن ہشام کے اس مقولہ سے معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے کتاب التسبیحات میں لکھا ہے کہ

جب حضرت آدم کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہو گئے تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب بیت المقدس کی سیر کر کے اسے بناؤ چنانچہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل میں بیت المقدس بنایا اور اس میں عبادت کی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کی بناء پر چالیس سال کے عرصے کا فرق ہو۔

بعض علماء سے اس حدیث کی توجیہ یہ منقول ہے کہ

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بنایا تو مسجد کی حد مقرر کر دی تھی اسی طرح بیت المقدس کی بھی حد مقرر کر دی ہو گی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ انکی حدود کو مقرر کرنے کا درمیانی وقفہ چالیس سال کا ہو۔

 

                   ستر ڈھانکنے کا بیان

 

نماز صحیح طور پر ادا ہونے کی جہاں اور بہت سی شرائط ہیں ان میں ایک شرط ستر (یعنی شرم) گاہ کا چھپانا بھی ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ کے مصنف اس باب میں اسی سلسلہ کی حدیثیں بیان کریں گے اس کے علاوہ اس باب میں مصنف ان لباسوں کے بارے میں بھی احادیث نقل کریں گے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے نمازیں میں پڑھی ہیں۔

 

 

٭٭حضرت عمر ابن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو یاک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کپڑے کو اپنے جسم سے اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کے دونوں کنارے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھوں پر تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اشتمال اسے کہتے ہیں کہ کپڑے کا وہ کنارہ جو داہنے کندھے پر ہے بائیں ہاتھ کے نیچے سے نکالا جائے اور پھر وہ کنارا لے کر جو دائیں ہاتھ کے نیچے سے بائیں ہاتھ پر ڈالا گیا ہے دونوں کو ملا کر سینے پر گرہ لگائی جائے لیکن گرہ لگانے کی ضرورت صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ کپڑے کے کنارے لمبے نہ ہوں اور ان کے کھل جانے کا خون ہو، اگر کنارے لمبے ہوں تو پھر گرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ یمن کے سفیروں کے لباس سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض شارحین کی عبارتوں میں گرہ لگانے کی قید ذکر نہیں کی گئی ہے۔

ان احادیث میں  مشتمل  متوشح اور مخالف بین طرفیہ کے جو الفاظ آئے ہیں سب کے ایک ہی معنی ہیں اور سب کی ایک ہی مذکور بالا صورت ہوتی ہے۔

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، تم میں کوئی آدمی ایک کپڑے میں (اس طرح) نماز نہ پڑھے کہ اس کے کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اشتمال کی صورت میں تو نماز پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر ہوتا ہے اور اگر کندھے پر کپڑے کا کچھ حصہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہو گی اور اس کی حکمت علماء یہ لکھتے ہیں کہ صرف ایک ہی کپڑا اگر ہو اور اسی کا تہ بند کر لیا جائے اور اس کا کچھ حصہ کندھوں پر ڈالا نہ جائے تو اس صورت میں ستر کھل جانے کا اندیشہ رہتا ہے اور پھر یہ کہ رب ذوالجلال کے دربار میں حاضری کا وقت ہونے کی وجہ سے یہ بے ادبی کی شکل ہے۔

حضرت امام اعظم، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی صرف ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھے کہ اس کے کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو مگر ستر چھپا ہوا ہو تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن کراہت کے ساتھ ہو گی۔ حضرت امام احمد اور دوسرے علماء سلف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس صورت میں اس آدمی کی نماز نہیں ہو گی۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اسے چاہئے کہ اس کپڑے کی دونوں طرفوں میں مخالفت رکھے (یعنی اشتمال کی جو صورت بیان کی گئی ہے وہی اختیار کرے۔)۔ (صحیح البخاری)

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس کے کنارے دوسرے رنگ کے تھے یا اس کے کناروں پر کچھ کام کیا ہوا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر کئے ہوئے کام کو دیکھا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اس چادر کو ابی جہم کے پاس لے جاؤ (اور اسے اس کے حوالہ کر کے) ابی جہم کی انبجانیہ لے آؤ کیونکہ اس چادر نے مجھے میری نماز میں حضوری قلب کی دولت سے باز رکھا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں (یہ بھی منقول ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  میں نماز کے دوران اس چادر کے نقش و نگار کی طرف دیکھنے لگا اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ میری نماز خراب نہ کر دے۔

 

تشریح

 

خمیصہ ایک چادر کو کہتے ہیں جو خز کی یا صوف کی ہوتی ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور دھاری دار ہوتی ہے لہٰذا جملہ  لھا اعلام یا تو خمیصہ کی تاکید ہے یا اس کا بیان ہے۔ یہ چادر ایک صحابی حضرت ابوجہم نے تحفہ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اس کو اوڑھ کر نماز پڑھی اور نماز کے آداب کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر اس کی دھاریوں پر پڑی تو تو قلب مبارک میں کچھ فرق محسوس ہوا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو صحابہ سے فرمایا کہ اسے ابو جہم کو واپس کر آؤ، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ اس چادر کو واپس کر دینے سے ایک مخلص صحابی کی دل شکنی ہو اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرما دیا کہ اس کے بدلہ میں ان سے ابنجا نیہ لے آؤ۔ انبجان ایک شہر کا نام ہے اس شہر کی بنی ہوئی چاردیں بالکل سیاہ ہوتی تھیں۔ اس شہر کی مناسبت سے چادر کو انبجانیہ کہا جاتا تھا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظاہری نقش و نگار پاک نفوس اور صاف قلوب کو بھی متاثر کرتے ہیں اور یہ تاثیر قلب کی انتہائی صفائی اور لطافت کی بناء پر ہوتی ہے جیسے کہ کسی صاف و شفاف اور سفید چادر پر ایک معمولی سیاہ سا نقطہ بھی پڑ جاتا ہے تو فوراً ظاہر ہو جاتا ہے اور ناگوار محسوس ہوتا ہے اور چادر جنتی زیادہ سفید ہوتی ہے وہ سیاہ نقطہ اتنا ہی زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہی حال ان نفوس قدسیہ کا ہے جس کے قلب و دماغ تعلق مع اللہ اور ریاضت و مجاہدہ کی بناء پر اتنے پاک و صاف ہو جاتے ہیں کہ گناہ و معصیت الگ ہے کسی معمولی مباح شے کا ادنی سا تصور بھی قلب و دماغ پر اثر انداز ہو جاتا ہے لیکن ان کے مقابلے پر آلود گان تیرہ باطن بھی ہوتے ہیں جن کے دل و دماغ پر بڑے بڑے گناہ کا بھی اثر نہیں ہوتا۔

ہمارا خیال ہے کہ اس حدیث کے ذریعے اصل امت کو یہ تعلیم دینا مقصد ہے کہ نماز کے سلسلے میں ایسی چیزوں سے احتیاط رکھنی چاہئے جو نماز میں دھیان بٹانے کا سبب بنتی ہوں۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مکان کے ایک حصے میں ایک پردہ ڈال رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اس پردے کو ہمارے سامنے سے ہٹا لو کیونکہ اس کی تصویریں نماز میں برابر میری سامنے رہتی ہیں۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پردہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیوار گیری کے طور پر دیوار پر لگا رکھا ہو گا مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ پردہ چھپر کھٹ کے طریقے پر تھا۔ بہرحال حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ پردہ اسی وقت سے لگا رکھا ہو گا جب تک کہ انہیں حدیث نہیں معلوم نہیں ہوئی ہو گی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں منع فرما دیا تو انہوں نے وہ پردہ اتار ڈالا۔

 

 

٭٭اور حضرت عقبہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں کسی نے ایک ریشمی قبا تحفہ کے طور پر بھیجی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے پہن کر نماز پڑھ لی نماز پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قبا کو اس طرح اتار پھینکا جیسے کوئی بہت برا جانتا ہو پھر فرمایا کہ (ریشمی کپڑے شرک و کفر سے) بچنے والوں کے لائق نہیں۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

فروج اس قبا کو کہتے ہیں جس میں پیچھے کی طرف چاک ہوتا ہے۔ یہ فروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اکیدر بادشاہ رومہ یا بادشاہ اسکندریہ نے تحفۃً بھیجی تھی۔ چونکہ اس وقت مردوں کو ریشمی کپڑا پہننا حرام نہیں تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے زیب تن فرما لیا اور اس میں نماز پڑھ لی مگر یہ سوچ کر کہ ریشمی کپڑا پہننے سے رعونت پائی جاتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ناپسند فرما کر اتار دیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس عمل سے یہ ظاہر فرما دیا کہ اگرچہ اس کا پہننا مباح ہے لیکن اللہ کے نیک بندے اور متقی و پرہیز گار لوگ چونکہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہ مناسب اور بہترین نہیں ہے کہ وہ ریشمی کپڑا پہنیں۔ پھر بعد میں ریشم کا پہننا تمام مسلمان مردوں کے لیے خواہ متقی ہوں یا غیر متقی، حرام ہو گیا ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ یہ نہی اس حالت میں ہوئی ہو تو اس صورت میں متقی عن الشرک مراد ہو گا یعنی مسلمانوں کو یہ پہننا نہ چاہئے۔

 

 

٭٭اور حضرت سلمہ ابن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! میں ایک شکاری آدمی ہوں، کیا میں ایک ہی کرتے میں نماز پڑھ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں (پڑھ لیا کرو) لیکن اسے باندھ لیا کرو خواہ اسے کانٹے ہی سے کیوں نہ اٹکا لیا جائے۔  (ابوداؤد ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

چونکہ شکاری لوگ شکار میں کم کپڑے پہنتے ہیں اور زیادہ کپڑے پہننے سے شکار کرنے میں رکاوٹ ہوتی ہے اس لیے اس صحابی کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ میں چونکہ شکار کھیلنے والا آدمی ہوں اور شکار کے وقت عموماً صرف ایک کرتا ہی پہنے ہوئے ہوتا ہوں اس کے نیچے لنگی بھی نہیں ہوتی تاکہ شکار کے پیچھے دوڑنے میں آسانی رہے تو کیا میں صرف ایک کرتہ ہی میں نماز پڑھ لیا کروں؟

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم ایک کرتہ ہی میں نماز پڑھ سکتے ہو لیکن اس کرتے کا چاک اگر اتنا کھلا ہوا ہو کہ رکوع و سجود کے وقت ستر کھلنے کا اندیشہ رہے تو اس کے چاک کو باندھ لیا کرو۔ اگر اس وقت چاک بند کرنے کی کوئی چیز موجود نہ ہو تو اس میں کانٹا لگا کر ہی اسے بند کر لیا کرو تاکہ ستر نہ کھلے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) اس سے فرمایا کہ،  جاؤ اور وضو کرو! وہ آدمی جا کر وضو کر آیا۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس آدمی کو وضو کرنے کے لیے کیوں فرمایا؟ (حالانکہ وہ با وضو تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، وہ آدمی اپنا ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور جو آدمی ازار لٹکائے ہوے ہو اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا۔  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اسبال اسے فرماتے ہیں کہ کوئی بھی کپڑا اتنا لمبا پہنا جائے کہ وہ ناز و تکبر کے طور پر نیچے زمین تک لٹکا ہوا ہو۔ گو یہ ازار ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن اس کا استعمال اکثر و بیشتر ازار ہی کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا پائجامہ، لنگی اور کرتا وغیرہ غرور تکبر کی بناء پر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مکروہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی کو ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ جو آدمی ازار لٹکائے ہوئے ہوا اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا یعنی اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کو کمال قبول نہیں کرتا اور ثواب نہیں دیتا اگرچہ اصل نماز ہو جاتی ہے۔

باوجود اس کے کہ وہ آدمی با وضو تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے وضو کرنے کا حکم اس حکمت کی بناء پر دیا تاکہ وہ آدمی اس کا سبب معلوم کرنے میں غور و فکر کرے اور پھر اسے اس فعل شنیع کی برائی کا احساس ہو، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی برکت اور ظاہری طہارت یعنی وضو کی وجہ سے اس کا باطن غرور و تکبر کی آلائش سے پاک و صاف کر دے کیونکہ ظاہری طہارت باطنی صفائی و پاکیزگی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بالغہ عورت کی نماز بغیر دوپٹے کے (یعنی سر ڈھانکے بغیر) نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد ، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

حائض  سے مراد بالغہ عورت ہے جو حیض کی عمر کو پہنچ جائے خواہ اسے حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کا سر اور اس کے بال ستر میں شامل ہیں لہٰذا اگر کوئی عورت ننگے سر نماز پڑھے گی تو اس کی نماز نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر عورت اتنا باریک کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھے کہ اس کپڑے میں سے بال یا بدن کا رنگ دکھائی دیتا ہو تو اس کی نماز نہیں ہوتی لیکن یہ سمجھ لیں کہ یہ حکم آزاد عورت کا ہے لونڈی اس حکم میں داخل نہیں ہے تو اس کی نماز ننگے سر بھی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس کا سر ستر نہیں اس کا ستر مرد کی طرح ناف کے نیچے سے زانو کے نیچے تک نیز پیٹ، پیٹھ اور پہلو بھی۔

 

 

٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ اگر عورت کے پاس تہمد (یعنی پائجامہ وغیرہ) نہ ہو اور وہ صرف دوپٹہ اور کرتہ میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ہاں ہو جائے گی) بشرطیکہ کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس سے اس کے پاؤں کی پشت چھپ جاتی ہو۔ (ابوداؤد) اور ابوداؤد نے کہا کہ ایک جماعت نے اس روایت کو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر موقوف قرار دیا ہے یعنی انہوں نے کہا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نہیں ہے بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول ہے۔

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے پاؤں کی پشت بھی ستر میں شامل ہے اس کو نماز میں ڈھانکنا واجب ہے۔

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں سدل کرنے اور مرد کو منہ ڈھانکنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

سدل کے معنی یہ ہیں کہ کپڑے کو اپنے سر یا کندھوں پر ڈال کر دونوں طرف سے اسے لٹکا دیا جائے چنانچہ کپڑا استعمال کرنے کا یہ طریقہ مطلقاً ممنوع ہے کیونکہ اس سے غرور و تکبر کی شان پیدا ہوتی ہے اور نماز میں تو یہ طریقہ بہت ہی برا ہے۔ اس طرح نماز پڑھنے سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے۔

بعض علماء فرماتے ہیں کہ  سدل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی کپڑا اوڑھ کر اپنا ہاتھ اس کے اندر کرے اور اسی طرح رکوع و سجدہ کرتا رہے۔ چونکہ یہ طریقہ یہودیوں کا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے

عرب میں پگڑی کے کونہ سے منہ پر ڈھاٹا باندھ لیتے تھے جس سے دہانہ چھپ جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں اس سے بھی منع فرمایا ہے کیونکہ اس طرح نہ تو قرأت اچھی طرح ہوتی ہے اور نہ سجدہ پورے طور پر ہوتا ہے۔ ہاں اگر نماز میں کسی کو ڈکار آئے یا منہ سے بدبو آئے تو اسے ہاتھ سے منہ ڈھانک لینا مستحب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت شداد ابن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، (جوتے اور موزے پہن کر نماز پڑھنے میں) یہودیوں کی مخالفت کرو کیونکہ وہ لوگ جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

یہودی جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرو اور جوتے پہن کر (اگر وہ پاک و صاف ہوں) اور موزے پہن کر نماز پڑھ لیا کرو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کی مخالفت ظاہر کرنے کی غرض سے کسی مباح چیز پر عمل کرنا بہتر ہے اور وجہ یہ ہے کہ اس طرح چونکہ گمراہ لوگوں کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے وہ مباح چیز بھی عزیمت یعنی اولویت کا حکم پیدا کر دیتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اصحاب کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اچانک اپنے جوتے اتار کر اپنی بائیں طرف (دور ہٹا کر) رکھ لیے جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا کہ تمہیں جوتے اتارنے پر کس چیز نے مجبور کر دیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنے جوتے اتار ڈالے ہیں اس لیے ہم نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (اس لیے میں نے تو جوتے اس لیے اتارے تھے کہ) میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے خبر دی کہ میرے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے (اس لیے میں نے جوتے اتار دئیے تھے) تم میں سے جو آدمی مسجد میں آئے تو پہلے وہ اپنے جوتے دیکھ لیا کرے۔ اگر ان میں نجاست لگی ہوئی معلوم ہو تو انہیں صاف کر لے (اور انہیں پہنے ہی پہنے) نماز پڑھ لے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی)

 

تشریح

 

قذر (قاف کے زبر اور دال معجمہ کے ساتھ) اس چیز کو کہتے ہیں جسے طبیعت مکروہ رکھے اس لفظ سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جوتے میں ایسی نجاست نہیں لگی ہو گی جس سے نماز درست نہ ہوتی ہو بلکہ کوئی گھناؤنی چیز جیسے رینٹھ وغیرہ لگی ہو گی کیونکہ اگر نجاست لگی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم از سر نو نماز پڑھتے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جتنی نماز پڑھ لی تھی نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا اعادہ کیا اور نہ از سر نو نماز پڑھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا خبر دینا اور پھر اس خبر کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جوتوں کو اتار دینا اس لیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مزاج اقدس میں چونکہ صفائی اور ستھرائی بہت زیادہ تھی اس لیے جوتوں پر اس گھناؤنی چیز کا لگا رہنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مزاج کے مناسب نہیں تھا اور بعض شوافع حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی نمازی کے کپڑے وغیرہ پر نجاست لگی ہوئی ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو تو نماز ہو جاتی ہے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول قدیم ہے۔

بہرحال۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت واجب ہے کیونکہ صحابہ نے کوئی سبب پوچھے بغیر محض آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جوتے اتارتے دیکھ کر اپنے جوتے فوراً اتار ڈالے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسے جائز رکھا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو تو اپنے جوتے کو نہ اپنی دائیں طرف رکھے اور نہ بائیں طرف ہی رکھے کیونکہ ادھر دوسرے آدمی کی دائیں جانب ہو گی۔ ہاں اگر کوئی بائیں جانب نہ ہو تو ادھر رکھ لے (ورنہ) اسے چاہئے انہیں اپنے دونوں پیروں کے درمیان (یعنی اپنے آگے پیروں کے پاس) رکھ لے اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا  (اگر جوتے پاک ہوں تو ان کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ) انہیں پہنے ہی پہنے نماز پڑھ لے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ نماز کے دوران جوتے اپنی دائیں طرف نہ رکھے جائیں اور بائیں طرف بھی اس لیے نہ رکھے جائیں کہ جو آدمی اس کے بائیں طرف کھڑا ہو گا یہ جوتا جو اپنے بائیں طرف رکھا گیا ہے اس آدمی کے دائیں طرف پڑے گا۔ لہٰذا جب اپنی دائیں طرف جوتا رکھنا پسند نہ کیا تو اس جوتے کو دوسرے آدمی کے دائیں طرف کیوں رکھا جائے کیونکہ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے اپنے ساتھی کے لیے بھی اس چیز کو پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے اسے اپنے ساتھی کے لیے بھی نا پسند کرے۔

 

 

٭٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں سرور کائنات کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک بوریہ پر نماز پڑھ رہے ہیں اور اسی پر سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک کپڑا اوڑھے ہوئے جو اپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم پر لپٹا ہوا تھا نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز ہر اس چیز پر جائز ہے جو نمازی اور زمین کے درمیان حائل ہو خواہ وہ چیز بوریہ وغیرہ کی قسم سے ہو یا کپڑے اور صوف وغیرہ کی قسم سے۔ گو اس حدیث میں صرف بوریے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن علماء کے پاس اور دلائل ایسے ہیں جس کی رو سے وہ بوریے کے علاوہ کپڑے وغیرہ پر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔

قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر نماز پڑھنا افضل ہے اس لیے کہ خشوع و خضوع نماز کی اصل روح ہے اور یہ چیزیں زمین پر نماز پڑھنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی مجبوری ہو مثلاً سردی یا گرمی کی وجہ سے بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر کچھ بچھا لینا ہی بہتر ہو گا۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جو چیزیں زمین سے اگی ہوئی نہ ہوں اس پر نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے یعنی بوری وغیرہ پر نماز پڑھنا تو افضل و بہتر ہے اور کپڑے وغیرہ پر نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عمر و بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی ننگے پاؤں اور کبھی جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (ابوداؤد)

 

 

 

٭٭اور حضرت محمد ابن منکدر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف تہبند باندھ کر جسے انہوں نے اپنی گدی کی طرف باندھ رکھا تھا نماز پڑھی حالانکہ ان کے کپڑے کھونٹی پر لٹکے ہوئے تھے ان سے کسی کہنے والے نے کہا کہ، آپ نے صرف تہبند میں نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ، میں نے یہ اس واسطے کیا تاکہ تم جیسا احمق مجھے دیکھے بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ہم میں سے وہ کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

مشجب کا عام فہم معنی کھونٹی ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ مشجب اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کپڑے لٹکائے یا رکھے جاتے ہیں یا اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کبھی کبھی پانی ٹھنڈا ہونے کے لیے مشک لٹکا دی جاتی تھی۔

بہر حال حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کپڑے اس پر رکھ دیے تھے اور نماز صرف ایک کپڑے میں اس طرح پڑھ رہے تھے کہ اس کپڑے کا تہبند کر رکھا تھا اور اس کے کونے اوپر کے گلے میں باندھ رکھے تھے چنانچہ ایک آدمی نے اس طریقے کو خلاف سنت سمجھتے ہوئے برا خیال کیا اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ اتنے سارے کپڑوں کی موجودگی میں بھی صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ میں صرف ایک کپڑے میں نماز اس لیے پڑھ رہا ہوں تاکہ تم جیسا کم علم مجھے دیکھے اور جان لے کہ نماز صرف ایک کپڑے میں بھی پڑھی جا سکتی ہے یہ خلاف سنت نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی مقصد کے تحت اسے ڈانٹا اور کہا کہ احمق تو اسے برا کیوں سمجھ رہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زمانہ میں ہم میں سے وہ کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے ، ہمارے پاس تو صرف ایک ایک کپڑا ہوتا تھا اسی میں ہم نماز پڑھتے تھے اور اسی کو دوسری ضرورتوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔

اس بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ دو کپڑوں میں نماز پڑھنا افضل ہے واجب نہیں ہے کیونکہ اس میں تنگی ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے ایک کپڑے میں نماز کبھی تو اس لیے پڑھی کہ ان کے پاس کپڑا ہی صرف ایک تھا اور کبھی بیان جواز کی خاطر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھ لی۔

الحاصل اگر کوئی آدمی ایک ہی کپڑے میں نماز اس لیے پڑھتا ہے کہ اس کے پاس دوسرا کپڑا موجود نہیں ہے یا بیان جواز کی خاطر پڑھتا ہے تو جائز ہے۔ اور اگر کوئی آدمی سستی و کاہلی اور بہ نیت حقارت پڑھے گا تو یہ مناسب نہیں ہو گا۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کسی کو صحابہ کے ترک سنت پر لعن و طعن کرنا نہیں چاہئے اور ان کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔ یعنی اگر کسی صحابی سے کوئی ایسا فعل صادر نظر آئے جو بظاہر خلاف سنت معلوم ہوتا ہے تو اس بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے کہ یہ بیان جواز کے لیے ہے یا پھر اس میں کوئی عذر ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا سنت ہے کیونکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ہم اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور ہمیں کوئی برا نہیں کہتا تھا۔ اس پر حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا) اسی وقت تھا جب کہ کپڑوں کی قلت تھی اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے کپڑوں کے بارے میں وسعت بخش دی ہے تو دو کپڑوں میں ہی نماز پڑھنا بہتر ہے۔  (مسند احمد بن حنبل)

 

 

 

 

 

               سترہ کا بیان

 

 

یہاں سترہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے نمازی کے سامنے کھڑا کیا جائے جیسے دیوار، ستون، یا لکٹری لوہا وغیرہ۔ نماز کے آگے سترہ اس لیے کھڑا کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے سجود کی جگہ متمیز ہو جائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے والا آدمی گنہگار نہ ہو۔ سترے کہ لمبائی کم سے کم ایک ہاتھ اور موٹائی کم از کم ایک انگشت ہونا ضروری ہے۔

مقتدیوں کے لیے امام کا سترہ کافی ہے یعنی اگر امام کے آگے سترہ کھڑا ہو تو مقتدیوں کے آگے سے گزرنا جائز ہے اگرچہ ان کے سامنے کوئی چیز حائل نہ ہو۔

امام اور سترہ کے درمیان سے گزر جانا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ کوئی نمازی پیچھے سے پہلی صف میں خالی جگہ دیکھے تو اس کے لیے جائز ہے کہ پچھلی صفوں کے سامنے سے گزرتا ہوا پہلی صف میں خالی جگہ پہنچ کر کھڑا ہو جائے کیونکہ یہ پچھلی صف والوں کا قصور ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ کر پہلی صف میں جگہ کو پر کیوں نہ کیا۔ سترے کے مفصل احکام آگے احادیث کی تشریح کے ضمن میں آئیں گے۔

 

                   سترہ کے بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم صبح کے وقت عیدگاہ تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آگے آگے ایک نیزہ (بھی) لے جایا جاتا جو عیدگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آگے کھڑا کر دیا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

معمول یہ تھا کہ سترہ کرنے اور ڈھیلے وغیرہ توڑنے کے لیے اکثر اوقات خدام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ایک نیزہ لے کر چلتے تھے چنانچہ عید گاہ میں سامنے چونکہ کوئی دیوار وغیرہ نہیں تھی بلکہ میدان ہی میدان تھا اس لیے وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نیزہ جاتا تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سامنے کھڑا کر دیتے تھے۔

 

                    اللہ کی تعریف اور سترے کے سامنے سے گزرنے کا حکم

 

اور حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ابطح کے مقام پر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو سرخ چمڑے کے ایک خیمے میں دیکھا اور میں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لیتے ہوئے دیکھا اور دوسرے لوگوں کو (بھی) میں نے دیکھا کہ وہ پانی حاصل کرنے میں بڑی عجلت کر رہے تھے۔ چنانچہ جس آدمی کو اس پانی میں سے کچھ مل گیا اس نے (برکت حاصل کرنے کے لیے) اسے (اپنے بدن اور منہ پر) مل لیا اور جس آدمی کو کچھ نہ ملا اس نے ساتھ والے کے ہاتھ کی تری (ہی) لے کر مل لی پھر میں نے بلال کو دیکھا کہ انہوں نے نیزہ لے کر اسے گاڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سرخ دھاری دار جوڑا پہنے اور دامن اٹھائے (خیمے سے) نکلے اور نیزے کی طرف کھڑے ہو کر صحابہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ آدمی اور چوپائے نیزہ کے سامنے آ جا رہے تھے۔ (صحیح مسلم، صحیح البخاری)

 

تشریح

 

ابطح ایک نالہ کا نام ہے جو منیٰ کے راستہ میں مکہ کے قریب ہی واقع ہے اس نالے کو محصب اور بطحا بھی کہتے ہیں۔ ابطح کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس نالہ میں سنگریزے ہیں۔

حلہ دو کپڑوں یعنی لنگی اور چادر کو کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو حلہ زیب تن فرما رکھا تھا وہ سرخ دھاری دار تھا پورا کپڑا سرخ نہیں تھا جو مردوں کو پہننا مکروہ تحریمی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ سترے کے سامنے سے آدمیوں اور چوپاؤں کا گزرنا درست ہے۔

 

 

 

               عیدین کا بیان

 

 

                   قربانی کا وقت

 

اور حضرت براء راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی نے (قربانی کا جانور) نماز سے پہلے ذبح کیا تو گویا اس نے اپنے (محض کھانے کے) واسطے ذبح کیا (اس لئے اسے قربانی کا ثواب حاصل نہیں ہوا) جس آدمی نے نماز کے بعد ذبح کیا تو بلا شبہ اس کی قربانی ادا ہو گئی اور (اس طرح) اس نے مسلمانوں کے طریقے کو اپنایا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جمہور علماء کا مسلک یہی ہے مگر تعجب ہے کہ اتنی واضح اور صحیح احادیث کے باوجود حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ معلوم کیوں جمہور علماء کے مسلک کے خلاف یہ کہا کہ قربانی کا وقت شروع ہو جانے کی بعد قربانی کر لینی جائز ہے۔ خواہ نماز ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو جیسا کہ ابھی پیچھے ان کا مسلک نقل کیا گیا ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیدگاہ میں قربانی کرتے تھے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عید گاہ میں ذبح اور نحر کرتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

بکری ، دنبہ بھیڑ ، گائے بھینس اور اونٹ یہ جانور خواہ نر ہوں یا مادہ ، ان کے علاوہ دوسرے جانور کی قربانی جائز نہیں، اونٹ کے علاوہ بقیہ جانوروں کے حلال کرنے کو  ذبح کہتے ہیں اور اونٹ کے حلال کرنے کو  نحر  کہتے ہیں نحر کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اونٹ کو کھڑا کر کے اس کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے جس سے وہ گر پڑتا ہے۔ اگرچہ اونٹ کو ذبح کرنا بھی جائز ہے لیکن نحر افضل ہے۔

 

                    مسلمانوں کے لیے خوشی کے دو دن

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ لہو و لعب کرتے (اور خوشیاں مناتے) تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ  یہ دو دن کیسے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ  ان دونوں دنوں میں ہم زمانہ جاہلیت میں کھیلا کودا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دونوں دنوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دئیے ہیں اور وہ عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن ہیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

زمانہ جاہلیت میں اہل مدینہ کے لیے دو دن مقرر تھے جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے تھے اور خوشیاں منایا کرتے تھے ان میں سے ایک دن  نوروز تھا اور دوسرا دن  مہر جان۔ نوروز کے دن آفتاب برج حمل میں جاتا ہے اور مہر جان کے دن برج میزان میں داخل ہوتا ہے۔ چونکہ ان دونوں دنوں میں آب و ہوا معتدل ہوتی ہے۔ اور رات دن برابر ہوتے ہیں اس لیے ان دنوں کو حکام نے خوشی منانے کی لیے مقرر کر لیا تھا چنانچہ وہی رسم لوگوں میں چلی آتی تھی۔ یہاں تک کہ جب اہل مدینہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو شروع میں پرانی عادت کے مطابق ان دونوں میں پہلے زمانے کی طرح خوشی منایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان دنوں کی حقیقت دریافت فرمائی تو وہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہ کر سکے صرف اتنا بتا سکے کہ پرانے زمانے سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے اور ان دنوں سے ہم اسی طرح خوشی مناتے چلے آتے ہیں، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان دنوں سے تمہیں اب کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دنوں سے بہتر تمہیں عیدین کے دو دن عنایت فرما دئیے ہیں تم ان بابرکت دنوں میں خوشی منا سکتے ہو۔ گویا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک طرف تو یہ اشارہ فرمایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ حقیقی عید اور خوشی عبادت کے دن منائے۔ لہٰذا اس حدیث میں عیدین کے دن لہو و لعب میں مشغول ہونے کی ممانعت ہے۔ دوسری طرف یہ اشارہ خفی ہے کہ عیدین میں بہت معمولی طریقے پر کھیل کود اور اس انداز اور اس طریقے سے خوشی منانا کہ جس میں حدود شریعت سے تجاوز اور فحاشی نہ ہو جائز ہے۔

یہ حدیث نہایت طبع انداز میں یہ بتا رہی ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار کی تعظیم کرنا اور ان میں خوشی منانا، نیز ان کی رسموں کو اپنانا ممنوع ہے نیز یہ حدیث غیر مسلموں کی عید و تہوار میں شرکت و حاضری کی ممانعت کو بھی ظاہر کر رہی ہے۔ بعض علماء نے تو اسے سخت جانا ہے کہ اس عمل پر کفر کا حکم لگایا ہے چنانچہ ابو حفص کبیر حنفی فرماتے ہیں کہ جو آدمی نوروز کی عظمت و توقیر کے پیش نظر اس دن مشرکوں کو تحفہ میں انڈا بھیجے (جیسا کہ اس روز مشرکین کا طریقہ ہے) تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس کے تمام اعمال نابود ہو جاتے ہیں۔

حضرت قاضی ابو المحاسن ابن منصور حنفی کا قول ہے کہ  اگر کوئی اس دن وہ چیزیں خریدے جو دوسرے دنوں میں نہیں خریدتا ہے (جیسا کہ ہمارے یہاں دیوالی کے روز کھیلیں اور مٹھائی بنے ہوئے کھلونے وغیرہ خریدے جاتے ہیں یا اس دن کسی کو تحفہ بھیجتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم ہو جیسا کہ مشرک اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو وہ آدمی کافر ہو جاتا ہے ، اور اگر کوئی آدمی محض اپنے استعمال اور فائدہ اٹھانے یا حسب عادت کسی کو ہدیہ بھیجنے کی نیت سے خریدتا ہے۔ تو کافر نہیں ہوتا لیکن یہ بھی مکروہ ہے لیکن اس طرح کافروں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اس لیے اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔

اس طرح اگر کوئی آدمی عاشورہ کے دن خوشی مناتا ہے تو خوارج کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور اگر اس دن غم و الم ظاہر کرنے والی چیزیں اختیار کرتا ہے تو روافض کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے لہٰذا ان دونوں باتوں سے بچنا چاہیے۔ یہ بات بھی جانے لیجئے کہ نوروز کی عظمت و توقیر کے سلسلہ میں روافض مجوسیوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ اسی دن حضرت عثمان شہید کئے گئے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلاف منعقد ہوئی تھی۔

فتاوی ذخیرہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ہولی اور دیوالی دیکھنے کے لیے بطور خاص نکلتا ہے وہ حدود کفر سے قریب ہو جاتا ہے کیونکہ اسی میں اعلان کفر ہوتا ہے لہٰذا ایسا آدمی گویا اپنے عمل سے فکر کی مدد کرتا ہے اسی پر  نوروز دیکھنے کے لیے نکلنے کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بعض مسلمان ایسا کرتے ہیں۔ یہ بھی موجب کفر ہے۔

تجنیس میں مذکور ہے کہ ہمارے مشائخ اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جس آدمی نے اہل کفار کے معتقدات و معاملات میں سے کسی چیز کے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھا تو وہ حدود کفر میں داخل ہو جائے گا۔ اسی پر اس مسئلہ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسے ہال ہوا و ہوس انسان مثلاً شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے نام نہاد صوفیا کے کسی کلام یا کسی قول کے بارہ میں اچھا خیال رکھے اور یہ کہے کہ یہ کلام معنوی ہے یا یہ کہے کہ فلاں قول ایسا ہے جس کے معنی صحیح ہیں تو اگر حقیقت میں وہ کلام و قول کفر آمیز ہو تو اس کے بارہ میں اچھا عقیدہ رکھنے والا اور اسے صحیح کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح  نوادر الفتاویٰ میں منقول ہے کہ جو آدمی غیر مسلموں کی رسومات کو اچھا جانے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ عمدۃ الاسلام میں لکھا ہے کہ جو آدمی کافروں کی رسومات ادا کرے مثلاً نئے مکان میں بیل اور گائے اور گھوڑے کو زرد و سرخ رنگ کرے یا بندھن دار باندھے تو کافر ہو جاتا ہے۔

حاصل یہ کہ ان معتقدات و رسومات سے قطعاً احتراز کرنا چا ہے جن سے اسلام اور شریعت کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو بلکہ ان کی بنیاد خالص غیر اسلامی و غیر شرعی چیزوں پر ہے۔

 

                   عید میں نماز سے پہلے اور بقر عید میں نماز کے بعد کھانا پینا چاہیے

 

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عید کے دن بغیر کچھ کھائے پئے عید گاہ تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ اور بقر عید کے دن بغیر نماز پڑھے کچھ نہیں کھاتے پیتے تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

عید کے روز نماز سے پہلے کھانے پینے کا سبب گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے۔ بقر عید کے روز آپ غرباء و مساکین کا ساتھ دینے اور ان کی دلجوئی کی خاطر بقر عید کی نماز کے بعد ہی کچھ تناول فرماتے تھے۔ کیونکہ غرباء و مساکین کو تو کچھ کھانا پینا اسی وقت نصیب ہوتا تھا جب قربانی ہو جاتی اور اس کا گوشت ان لوگوں میں تقسیم ہو جاتا اس لیے آپ ان کی وجہ سے خود بھی کھانے پینے میں تاخیر فرماتے تھے۔

 

                   تکبیرات عیدین

 

اور حضرت کیثر ابن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ کیثر کے دادا سے یعنی اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (جامع ترمذی ، ابن ماجۃ، دارمی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے تحریمہ اور رکوع کی تکبیروں کے علاوہ سات تکبیریں کہیں۔ اسی طرح دوسری رکعت میں قیام اور رکوع کی تکبیروں کے علاوہ پانچ تکبیریں کہیں۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسی پر عمل ہے اس سلسلہ میں مفصل بحث آگے آ رہی ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت جعفر ابن محمد مرسلا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما عیدین اور استسقاء کی نماز میں سات اور پانچ تکبیریں کہا کر تھے اور (عیدین و استسقاء کی) نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے ، نیز قرأت بآواز بلند پڑھتے تھے۔ (شامی)

 

تشریح

 

جعفر سے مراد امام جعفر صادق ابن محمد باقر ابن علی یعنی امام زین العابدین ابن حضرت امام حسین ابن علی ابن حضرت علی کرم اللہ وجہ ہیں۔ سات اور پانچ کی وضاحت حدیث بالا تاکید کی ہے کہ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرار سے پہلے پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے ، یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت سعید ابن عاص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو موسیٰ و حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم عید و بقر عید کی نماز میں کتنی تکبیریں کہتے تھے؟ تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ  جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم جنازہ میں چار تکبیریں کہتے تھے اسی طرح عیدین کی نماز میں بھی چار تکبیریں کہا کرتے تھے حضرت حذیفہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ  ابو موسیٰ نے سچ کہا  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حضرت ابو موسیٰ کے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم عیدین کی نماز میں بھی ہر رکعت میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اس طرح کہ پہلی رکعت میں تو قرأت سے پہلے تکبیر تحریمہ سمیت چار تکبیریں کہتے تھے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع کی تکبیر سمیت چار تکبیریں کہتے تھے۔

اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ تکبیرات عید کے سلسلہ میں متضاد احادیث منقول ہیں اسی وجہ سے ائمہ کے مسلک میں بھی اختلاف ظاہر ہوا ہے چنانچہ تینوں اماموں کے نزدیک عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے ہاں تو پہلی رکعت میں سات تکبیریں مع تکبیر تحریمہ کے ہیں اور اسی طرح دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں تکبیر قیام سمیت ہیں جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک پہلی رکعت میں سات تکبیریں تکبیر تحریمہ کے علاوہ اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں تکبیر قیام کے علاوہ ہیں۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ تین تکبیریں پہلی رکعت میں اور تکبیر رکوع کے علاوہ تین تکبیریں دوسری رکعت میں ہیں جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ نیز اسی کو حضرت عبداللہ ابن مسعود نے بھی اختیار کیا ہے جبکہ حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق حضرت عبداللہ ابن عباس کا مسلک ہے یہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن سے حضرت امام شافعی استدلال کرتے ہیں تو ان کی صحت و ضعف اور ان کی اسناد و طرق کے بارہ میں بہت زیادہ اعتراضات ہیں جس کو یہاں نقل کرنے کا موقع نہیں ہے۔ علماء حنیفہ اپنے مسلک کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ تکبیرات عیدین کے سلسلہ میں جب متضاد اور مختلف احادیث سامنے آئیں توہم نے ان میں سے ان احادیث کو اپنا معمول بہ قرار دیا جن میں تکبیرات کی تعداد کم منقول تھی کیونکہ عیدین کی زائد تکبیریں اور رفع یدین بہر حال خلاف معمول ہیں اس لیے کم تعداد کا اختیار کرنا ہی اولیٰ ہو گا۔

 

                   امام خطبہ دیتے عصا وغیرہ کا سہارا لے لے

 

اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کمان پیش کی گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سہارا لے کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس طرح عصاء وغیرہ ٹیک کر خطبہ پڑھا جاتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصاء کے بجائے کمان ٹیک کر اس کے سہارے خطبہ ارشاد فرمایا۔

 

 

٭٭اور حضرت عطاء بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تو اپنے نیزے پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے۔ (شافعی)

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز میں شریک ہوا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان و تکبیر کے بغیر خطبہ سے پہلے نماز شروع فرمائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو (خطبہ کے لیے) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تعریف بیان فرمائی۔ لوگوں کو نصیحت کی اور انہیں عذاب و ثواب (کے احکام یاد دلائے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے پر ترغیب دلائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے (وہاں بھی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا، ان کو نصیحت کی اور انہیں عذاب و ثواب (کے احکام) یاد دلائے۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطیب کے لیے مناسب ہے کہ وہ خطبہ دیتے وقت کسی چیز مثلاً تلوار، کمان برچھی، عصا یا کسی آدمی کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔

 

                   عید گاہ جانے کا طریقہ

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب عید کے دن (عید گاہ) ایک راستہ سے تشریف لے جاتے تو واپس دوسرے راستہ سے ہوتے تھے۔ (جامع ترمذی ، دارمی)

 

تشریح

 

عیدگاہ جانے کے لیے ایک راستہ اختیار کرنا اور واپسی کے لیے دوسرا راستہ اختیار کرنا مسنون ہے ، اس کی حکمت اسی باب کی فصل میں ایک حدیث کی فائدہ کے ضمن میں بیان کی جا چکی ہے۔

عیدگاہ جاتے ہوئے۔ راستہ میں یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔ و اللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد پڑھتے رہنا چاہیے۔ صاحبین کے نزدیک تو عید و بقر عید دونوں موقع پر راستہ میں یہ تکبیر بلند آواز سے پڑھنی چاہیے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ عید الفطر میں تو یہ تکبیر آہستہ آواز سے۔ اور بقر عید میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے۔

 

                   عذر کی وجہ سے عیدین کی نماز شہر کی مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) عید کے دن بارش ہونے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو مسجد میں نماز پڑھائی۔ (ابوداؤد ، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیدین کی نماز شہر سے باہر جنگل میں ادا فرماتے تھے مگر جب بارش ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی ہی میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ عیدین کی نماز جنگل میں (یعنی عیدگاہ میں) ادا کرنا افضل ہے۔ ہاں کوئی عذر پیش آ جائے تو پھر شہر کی مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے۔

اس سلسلہ میں اہل مکہ کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ عیدین کی نماز مسجد حرام ہی میں ادا کریں جیسا کہ آجکل عمل ہے اسی طرح اہل مدینہ بھی عیدین کی نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتے ہیں۔

 

                   عید کی نماز تاخیر سے اور بقر عید کی نماز جلدی پڑھ لینی چاہیے

 

اور حضرت ابی الحویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ کریم نے حضرت عمرو بن حز کو جو نجران میں تھے یہ (حکم لکھ کر بھیجا کہ بقر عید کی نماز جلدی اور عید کی نماز تاخیر سے ادا کرو نیز (خطبہ میں) لوگوں کو پند و نصیحت کرو۔ (شافعی)

 

 

تشریح

 

نجران ایک شہر کا نام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمرو ابن حزم کو وہاں کا عامل بنا کر بھیجا تھا جب کہ ان کی عمر صرف سترہ سال تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ احکام لکھ کر بھیجے تھے تاکہ وہ اس پر عمل کریں۔ بقر عید کی نماز جلدی ادا کر لینے کے لیے اس واسطے فرمایا تاکہ لوگ نماز سے جلدی فارغ ہو کر قربانی وغیرہ میں مشغول ہو جائیں۔ اس طرح عید کی نماز تاخیر سے ادا کرنے کے لیے اس واسطے فرمایا بلکہ لوگ سے پہلے صدقہ فطر ادا کر لیں۔

 

                   چاند کی شہادت زوال کے بعد آئے تو عید کی نماز دوسرے دن پڑھی جائے

 

اور حضرت عمیر بن انس اپنے چچاؤں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے تھے ، نقل کرتے ہیں کہ  ایک قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شہادت دی کہ انہوں نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو افطار کا حکم دیا اور فرمایا کہ صبح عید گاہ جائیں۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

رمضان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو اہل مدینہ نے عید کا چاند نہیں دیکھا چنانچہ انہوں نے تیس تاریخ کو روزہ رکھا۔ اتفاق سے اسی روز ایک قافلہ باہر سے مدینہ آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس بات کی شہادت دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قافلہ کی شہادت کو مانتے ہوئے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر دیں۔ اور چونکہ چاند ہونے کی یہ شہادت زوال آفتاب کے بعد آئی تھی اور نماز عید کا وقت نہ رہا تھا۔ جیسا کہ ایک روایت میں یہ صراحت بھی ہے کہ انھم قدموا اخر النھار (یعنی قافلہ دن کے آخری حصہ میں مدینہ پہنچا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز عید کا کے بارہ میں یہ حکم دیا کہ کل صبح ادا کی جائے۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسی پر عمل ہے کہ آفتاب بلند ہونے کے بعد نماز عید کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور زوال آفتاب تک رہتا ہے۔

شرح منیہ لکھا کہ  اگر کوئی ایسا عذر پیش آ جائے جو عید الفطر کے روز زوال آفتاب سے پہلے نماز عید کی ادائیگی کے لیے مانع ہو تو عید کی نماز اس روز پڑھنے کی بجائے دوسرے روز زوال آفتاب سے پہلے ادا کر لی جائے۔ اگر دوسرے دن بھی کوئی عذر نماز کی ادائیگی کے لیے مانع ہو تو پھر نماز نہ پڑھی جائے۔

بخلاف بقر عید کی نماز کے کہ اگر اس کی ادائیگی کے لیے کوئی عذر پہلے اور دوسرے روز مانع ہو تو تیسرے روز بھی اس کی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ ویسے بقر عید کی نماز میں بلا عذر بھی دوسرے یا تیسرے دن تک تاخیر جائز ہے مگر مکروہ ہے۔

 

                    عیدین کی نماز میں اذان و تکبیر نہیں ہے

 

ابن جریج فرماتے ہیں کہ عطا نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ  نہ تو عید کے دن (نماز عید کے لیے) اذان دی جاتی تھی اور نہ بقر عید کے دن  ابن جریج فرماتے ہیں کہ  کچھ مدت کے بعد پھر میں نے دوبارہ عطاء سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ  مجھے حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا ہے کہ عید کے دن نماز عید کے لیے اذان نہیں ہے نہ تو امام کے باہر آنے کے وقت اور نہ امام کے باہر آ جانے پر ، اور نہ تکبیر ہے اور نہ نداء ہے اور نہ کچھ اور ، اس دن نہ نداء ہے نہ تکبیر۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ابن جریج نے یا تو عطاء سے دوبارہ اس مسئلہ کی تفصیل معلوم کی ہو گی یا بعینہ وہی مسئلہ پوچھا ہو گا۔ بہر حال عطاء نے دوسری مرتبہ کے جواب میں صرف عیدالفطر کا ذکر کیا عید الاضحیٰ کا نہیں، وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ یہ سمجھے کہ صرف عید الفطر کا ذکر کر دینا ہی کافی ہے سائل عیدالفطر پر عید الا ضحیٰ کو بھی قیاس کر لے گا۔

نداء سے  الصلوٰۃ الصلوٰۃ  یا اس طرح کہ دوسرے الفاظ جو نماز کی اطلاع دینے کے لیے استعمال کئے جائیں کہنا مراد ہے  لانداء کے بعد لفظ  لاشی لانداء کی تاکید کہ لیے لایا گیا ہے ، پھر اس کے بعد حدیث کے آخری الفاظ لا نداء یومذ ولا اقامۃ بھی تاکید کے لیے دوبارہ استعمال کئے گئے ہیں۔ (شیخ عبدالحق)

ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ لفظ  لانداء اول سے آخر تک پہلے جملہ کی تاکید ہے اور مناسب یہ ہے کہ لفظ نداء سے اذان مراد لی جائے کیونکہ عیدین کے موقع پر اذان و تکبیر کی بجائے الصلوٰۃ جامعۃ پکار کر کہنا تمام علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ گویا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کے مطابق حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ عیدین کی نماز کے لیے جس طرح اذان و تکبیر مشروع نہیں ہے اسی طرح نماز کی اطلاع کے لیے کوئی اور لفظ مثلاً  الصلوٰۃ جامعہ پکارنا بھی مشروع نہیں ہے جب کہ حضرت ملا علی قاری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں اذان و تکبیر تو مشروع نہیں ہاں نماز کی اطلاع دینے کے لیے نداء یعنی  الصلوٰۃ جامعۃ پکار کر کہنا مستحب ہے۔

لہٰذا ان دونوں اقوال کے باہم اختلاف و تضاد کو اس تطبیق کے ذریعہ ختم کیا جائے حضرت شیخ نے نداء کی جو نفی کی ہے وہ عیدگاہ کے اندر بطریقہ التزام کے ہے یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ اول تو عید گاہ کے اندر اور دوسرے بطریق التزام نداء نہ دی جائے اور حضرت ملا علی قاری نے نداء کو جو مستحب لکھا ہے تو اس کا تعلق عید گاہ سے باہر اور کبھی کبھی کہنے سے ہے یعنی  الصلوٰۃ جامعۃ عید گاہ سے باہر اور کبھی کبھی پکار کر کہنا مستحب ہے۔ وا اللہ اعلم۔

 

                   عیدین میں خطبہ نماز کے بعد پڑھنا چاہے

 

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بقر عید کے دن (عید گاہ) جاتے تو (پہلے) نماز شروع کرتے جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو (خطبہ کے لیے) کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ، لوگ اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہے چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہیں لشکر بھیجنا ہوتا تو (اس وقت) لوگوں کے سامنے اس کا ذکر فرماتے ہیں اور لشکر بھیجتے یا لوگوں کی کوئی اور حاجت ہوتی (یعنی مسلمانوں کے فائدہ کی کوئی بات ہوئی) تو اس کے بارہ میں حکم فرماتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (اپنے خطبہ کے دوران) یہ فرمایا کرتے تھے صدقہ دو ، صدقہ دو، صدقہ دو ، چنانچہ عورتیں زیادہ صدقہ خیرات یاد کرتیں تھیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مکان واپس تشریف لاتے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانہ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد چاروں خلفاء کے دور خلافت میں نیز اس کے بعد تک بھی) یہی معمول جاری رہا (کہ خطبہ نماز کے بعد ہوتا اور خطبہ منبر پر نہیں بلکہ زمین ہی پر کھڑے ہو کر پڑھا جاتا رہا) یہاں تک کہ (امیر معاویہ کی جانب سے مدینہ کا حکم) مروان ابن حکم مقرر ہوا (ایک مرتبہ عید کے دن) میں مروان ابن حکم ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے عید گاہ آیا (جب ہم عید گاہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ) وہاں کثیر ابن صلت نے مٹی اور کچی اینٹ کا منبر بنا رکھا تھا۔ اچانک مروان مجھے اپنے ہاتھ کے سامنے کھینچنے لگا گویا وہ مجھے منبر کی طرف کھینچ رہا تھا (تاکہ نماز سے پہلے خطبہ پڑھے) اور میں اس کو نماز کی طرف کھینچ رہا تھا (تاکہ وہ پہلے نماز پھر خطبہ پڑھے) جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ پہلے خطبہ پڑھنے پر مصر ہے تو میں نے کہا کہ  ابو سعید ! جھگڑا نہ کرو، جس بات کو تم جانتے ہو اب وہ متروک ہے (یعنی میں نے مصلحت کے پیش نظر خطبہ سے پہلے نماز پڑھنا چھوڑ دیا ہے اور مصلحت یہ ہے کہ اگر خطبہ نماز کے بعد پڑھا جائے گا تو لوگ اٹھ اٹھ کر جانے لگیں گے) میں نے کہا کہ ہر گز نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جو چیز میں جانتا ہوں تم اس سے بہتر چیز لا ہی نہیں سکتے میں نے یہ بات تین مرتبہ اس سے کہی۔ پھر (مروان کے اس فعل کی وجہ سے) ابو سعید (عید گاہ سے) چلے گئے (اور جماعت میں شریک نہیں ہوئے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

صدقہ و خیرات یعنی اللہ کے نام پر اپنا مال خرچ کرنے کی جو اہمیت و فضیلت ہے اس کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے خطبہ میں لفظ تصدقوا تین مرتبہ تاکیداً فرمایا کرتے ہیں، یا یہ کہ تین مرتبہ فرمانا تین حالتوں کی طرف اشارہ ہے (١) صدقہ دو اپنی زندگی کے واسطہ (٢) صدقہ دو اپنی موت کے لیے (٣) اور صدقہ دو اپنی آخرت کے لیے۔

مخاضر دو آدمیوں کے اس طرح باہم ہاتھ پکڑے ہوئے چلنے کو فرماتے ہیں کہ ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کولھے کے قریب ہو۔

مروان ابن حکم ٢ھ میں پیدا ہوا تھا مگر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شرف زیارت حاصل نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح کثیر ابن صلت کے بارہ میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے زمانہ مبارک ہی میں ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی وجہ سے صاحب جامع الاصول نے انہیں صحابہ میں شمار کیا جب کہ بعض محققین نے انہیں تابعی کہا ہے۔ ان کا مکان عید گاہ کے قریب تھا انہوں نے ہی عیدگاہ میں منبر بنایا تھا تاکہ عیدین کا خطبہ اس پر کھڑے ہو کر پڑھا جائے جیسا کہ جمعہ کا خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر پڑھنا مسنون ہے۔ لہٰذا ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے مروان ابن حکم نے عید گاہ میں منبر بنوایا ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ ثم انصرف کے یہ معنی بھی محتمل ہو سکتے ہیں کہ مروان منبر کی طرف آیا تاکہ خطبہ پڑھے اور اس نے حضرت ابو سعید کی یہ بات نہ مانی کہ پہلے نماز پڑھی جائے پھر خطبہ پڑھا جائے۔

عیدین کی نماز کا طریقہ: عیدین کی نماز دو رکعت ہے جس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا نیت کر کے اور تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھے لے پھر سبحانک اللہم پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر تحریمہ کے دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کے بعد لٹکا دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر تو قف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائے بلکہ ہاتھ باندھے لے اور اعوذ با اللہ ، بسم اللہ ، پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھ کر رکوع و سجدہ کر کے کھڑا ہوا۔ پھر دوسری رکعت میں پہلے سورۃ فاتحہ اور دوسری سورۃ پڑھ لے اس کے بعد تین تکبیریں اس طرح کہے جس طرح پہلی رکعت میں سبحانک اللہم پڑھ کر کہی تھی۔ لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور نماز پوری کرے۔ نماز کے بعد امام کو چاہیے کہ وہ منبر پر کھڑے ہو کر دو خطبے پڑھے۔ عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام و مسائل بیان کرے اور عید الاضحیٰ کے خطبہ میں قربانی اور تکبیر تشریق کے احکام بیان کرے۔

تکبیر تشریق یعنی ہر فرض نماز کے بعد فرض نماز پڑھنے والے کے ایک مرتبہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و للہ الحمد کہنا واجب ہے۔ یہ تکبیر عرفہ یعنی ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک کہنا چاہیے۔ یہ تکبیر عورت اور مسافر پر واجب نہیں۔ ہاں اگر یہ لوگ کسی ایسے آدمی کی مقتدی ہوں جن پر تکبیر کہنا واجب ہے تو ان پر بھی تکبیر واجب ہو جائے گی۔ (علم الفقہ)

 

                    قربانی کا بیان

 

حنفی مسلک میں قربانی ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو مقیم اور غنی ہو یعنی نصاب کا مالک ہوا گرچہ نصاب نامی نہ ہو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک قربانی سنت موکدہ ہے حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی مشہور اور مختار قول یہی ہے۔

 

                   قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو دنبوں کی جو سینگوں والے (یعنی جن کے سینگ لمبے تھے یا یہ کہ سینگ ٹوٹے ہوئے نہ تھے) اور ابلق (یعنی سیاہ رنگ کے) تھے قربانی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر (خود) اپنے ہاتھ سے انہیں ذبح کیا  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پہلو (یا کلے) پر پاؤں رکھے ہوئے تھے اور بسم اللہ وا اللہ اکبر کہتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ اگر وہ ذبح کے آداب جانتا ہو تو قربانی کا جانور خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ورنہ بصورت دیگر اپنی طرف سے کسی دوسری آدمی سے ذبح کرائے اور خود وہاں موجود رہے۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا (یعنی بسم اللہ کہنا) حنفیہ کے نزدیک شرط ہے اور تکبیر کہنی (یعنی و اللہ اکبر کہنا) علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ ویقول بسم اللہ و اللہ اکبر میں اس طرف اشارہ ہے کہ لفظ و اللہ اکبر واؤ کے ساتھ کہنا افضل ہے۔ ذبح کے وقت درود پڑھنا جمہور علماء کے نزدیک مکروہ ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک سنت ہے۔

 

                   قربانی کے دنبہ کی صفات

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (قربانی کے لیے) ایک ایسے سینگ دار دنبہ کے لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو (یعنی اس کے پاؤں سیاہ ہوں) سیاہی میں بیٹھا ہو (یعنی اس کا پیٹ اور سینہ سیاہ ہو) اور سیاہی میں دیکھا ہو (یعنی اس کی آنکھوں کے گرد سیاہی ہو) چنانچہ (جب) آپ کے لیے قربانی کے واسطے ایسا دنبہ لایا گیا (تو) فرمایا کہ  عائشہ ! چھری لاؤ (جب چھری لائی تو) پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر (رگڑ کر) تیز کرو، میں نے چھری تیز کی ، آپ نے چھری لی اور دنبے کو پکڑ کر اسے لٹایا پھر جب اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو یہ فرمایا کہ اللھم تقبل من محمد و ال محمد و من امۃ محمد (یعنی اے اللہ ! اسے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ، آل محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اور امت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی طرف سے قبول فرما) پھر اسے ذبح کر دیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جب جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو، اس کے سامنے چھری تیز کرنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک ایسے آدمی کو درے سے مارا تھا جس نے ایسا کیا تھا۔ اسی طرح ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا بھی مکروہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذبح کرتے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے اس سے مراد صرف ثواب میں امت کو شریک کرنا تھا نہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کی طرف سے قربانی کی تھی کیونکہ ایک دنبہ یا ایک بکری کی قربانی کئی آدمیوں کی طرف سے درست نہیں ہے۔

 

                   کس عمر کے جانور کی قربانی کرنی چاہیے؟

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  تم (قربانی میں صرف) مسنہ جانور ذبح کرو، ہاں اگر مسنہ نہ پاؤ تو پھر دنبہ بھیڑ کا جزعہ ذبح کر لو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مسنہ یا جزعہ کسی خاص جانور کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اصطلاح ہے جو قربانی کے جانور کی عمر کے سلسلہ میں مستعمل ہوتی ہے۔ چنانچہ حنفی مسلک کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے کہ اونٹوں میں وہ اونٹ مسنہ کہلاتا ہے جو پورے پانچ سال کی عمر کا ہو اور چھٹے برس میں داخل ہو چکا ہو۔ گائے ، بھینس اور بیل میں مسنہ اسے فرماتے ہیں جو پورے دو سال کی عمر کا ہو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ بھیڑ اور دنبہ میں مسنہ وہ ہے جو اپنی عمر کو پورا ایک سال گزار کر دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ لہٰذا ان جانوروں میں قربانی کے لیے جانور کا مسنہ ہونا ضروری ہے۔ ہاں دنبہ اور بھیڑ کا اگر جزعہ بھی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ جزعہ بھیڑ یا دنبہ کا وہ بچہ کہلاتا ہے جس کی عمر ایک برس سے تو کم ہو مگر چہ مہینہ سے زیادہ ہو۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جزعہ کی قربانی اس صورت میں جائز ہو گی جب کہ وہ اتنا فربہ ہو کہ اگر اسے مسنہ کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے تو دور سے دیکھنے والا اسے بھی مسنہ گمان کرے اگر وہ فربہ نہ ہو بلکہ چھوٹا ہو اور دبلا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔

بظاہر حدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مسنہ بہم نہ پہنچے یا اس کی قیمت میسر نہ ہو تو جزعہ کی قربانی درست ہے ورنہ بصورت دیگر اس کی قربانی درست نہیں ہو گی۔ بلکہ فقہاء لکھتے ہیں کہ یہ استحباب پر محمول ہے یعنی مستحب تو یہی ہے کہ اگر مسنہ مل جائے اور اس کے خریدنے کی استطاعت ہو تو جزعہ کی قربانی نہ کرے۔ ویسے اگر مسنہ ہوتے ہوئے بھی کوئی جزعہ کی قربانی کرے گا تو درست ہو گئی۔

 

                   بکری کے بچہ کی قربانی

 

اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بکریوں کا ایک ریوڑ دیا تاکہ وہ اسے صحابہ کرام میں بطریق قربانی کے تقسیم کر دیں چنانچہ (انہوں نے تقسیم کر دیا) تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا اور انہوں نے اس کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اس کی قربانی تم کر لو  ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے ! دنبہ کا ایک بچہ ملا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اس کی قربانی کر لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

عتود بکری کے اس بچہ کو فرماتے ہیں جو موٹا تازہ ہو اور ایک سال کی عمر کا ہو۔ لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بکری کے ایک سال کے بچہ کی قربانی جائز ہے چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ کا یہی مسلک ہے۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ  عتود  بکری کے اس بچے کو فرماتے ہیں جو چھ مہینہ سے زیادہ کا ہو اس صورت میں یہ حکم صرف عقبہ ابن عامر کے ساتھ مخصوص ہو گا۔ دوسروں کے لیے عتود کی قربانی جائز نہیں ہو گی۔ جزعہ کے بارہ میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے۔ یعنی دنبہ کا وہ بچے جو چھ مہینے سے زیادہ کا ہو۔

 

                   عید گاہ میں قربانی افضل ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید گاہ میں قربانی کے جانور کو ذبح اور نحر کیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

باب صلوٰۃ العیدین کی پہلی فصل کے آخر میں ذبح اور نحر کے معنی اور ان کے باہم فرق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ عید گاہ میں قربانی کرنا افضل ہے۔

 

                   قربانی کے حصے

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قربانی کے لیے) گائے اور ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے کافی ہے۔ (صحیح مسلم ، سنن ابوداؤد)

 

                   قربانی کرنے والے کے لیے کچھ ہدایتیں

 

اور حضرت ام سلمہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے تو تم میں سے جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ (اس وقت تک کہ قربانی نہ کرے) اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے ایک روایت میں یوں ہے کہ  نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن کتروائے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  جو آدمی بقر عید کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کے لینے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بقر عید کا چاند دیکھنے لینے کے بعد قربانی کر لینے تک بال وغیرہ کٹوانے سے اس لیے منع فرمایا گیا ہے تاکہ احرام والوں کی مشابہت حاصل ہو جائے۔ لیکن یہ ممانعت تنزیہی ہے لہٰذا بال وغیرہ کا نہ کٹوانا مستحب ہے اور اس کے خلاف عمل کرنا ترک اولیٰ ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے۔

 

                   عشرہ ذی الحجہ کے نیک اعمال کی فضیلت

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  دنوں میں کوئی دن نہیں ہے جس میں نیک عمل کرنا اللہ کے نزدیک ان دس دنوں (ذی الحجہ کے پہلے عشرہ) سے زیادہ محبوب ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا (ان ایام کے علاوہ دوسرے دنوں میں) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی (ان دنوں کے نیک اعمال کے برابر) نہیں ہے؟ فرمایا ہاں ! اس آدمی کا جہاد جو اپنی جان و مال کے ساتھ (اللہ کی راہ میں لڑنے) نکلا اور پھر واپس نہ ہوا (ان دنوں کے نیک اعمال سے بھی زیادہ افضل ہے۔) (صحیح البخاری ٰ

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر جہاد ایسا ہو جس میں مال و جان سب اللہ کی راہ میں قربان ہو جائے اور جہاد کرنے والا مرتبہ شہادت پا جائے تو وہ جہاد البتہ اللہ کے نزدیک ان دس دنوں کے نیک اعمال سے بھی زیادہ محبوب ہے کیونکہ ثواب نفس کشی و مشقت کے بقدر ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دینے سے زیادہ نفس کشی اور مشقت کیا ہو سکتی ہے؟

چونکہ رمضان کے نیک اعمال کی بھی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کی مراد یہ ہو کہ ان دنوں کے نیک اعمال ایام رمضان کے نیک اعمال کے علاوہ دوسرے دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں یا رمضان کے نیک اعمال اس حیثیت سے سب سے زیادہ محبوب نہیں کہ ان دنوں میں فرض روزے رکھے جاتے ہیں۔ اور بہت زیادہ برگزیدہ و مقدس ترین شب یعنی لیلۃ القدر بھی رمضان ہی میں آتی ہے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے اعمال اس اعتبار سے سب سے زیادہ محبوب ہیں کہ بہت زیادہ برگزیدہ اور با عظمت و فضیلت دن یعنی  عرفہ انہیں دنوں میں آتا ہے۔ اور افعال حج بھی انہیں ایام میں ہوتے ہیں

 

                    قربانی کے وقت کی دعا

 

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذبح کے دن (یعنی عید قرباں کے دن) دو دنبے جو سینگ دار ابلق اور خصی تھے ذبح کرنے چا ہے تو ان کو قبلہ رخ کیا اور یہ پڑھا۔ یعنی میں اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اس حال میں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں جو توحید کو ماننے والے تھے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں بلاشبہ میری نماز، میری تمام عبادتیں، میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں اے اللہ ! یہ قربانی تیری عطاء سے ہے اور خالص تیری ہی رضا کے لیے ہے تو اس کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اس کی امت کی جانب سے قبول فرما ساتھ نام اللہ کے اور اللہ بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذبح کیا۔ (احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، دارمی) نیز مسند احمد سنن ابوداؤد اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (دونوں دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کئے ہیں کہا بسم اللہ و اللہ اکبر ، اے اللہ ! یہ قربانی میری جانب سے ہے اور میرے امت کے ہر اس فرد کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔

 

تشریح

 

خصی سے مراد وہ ہے جس کے بیضے کوٹ کر اس کی شہوت ختم کر دی جاتی ہے اس کی قربانی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ایسا خصی فربہ ہوتا ہے اور اس کا گوشت لذیذ ہوتا ہے۔

وما انا من المشرکین (اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں) اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نبوت ملنے سے پہلے کس شریعت کے مطابق عبادت کیا کرتے تھے؟ چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ نبوت ملنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کے مطابق ہوتی تھی، بعض علماء کا قول یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق آپ عبادت کیا کرتے تھے۔

اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی بھی شریعت کے مطابق عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی فہم اور اپنے وجدان کے موافق آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ البتہ یہ بات بالکل اجماعی طور پر محقق اور ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم زندگی کے کسی بھی دور میں بت برستی کی نجاست میں ملوث نہیں ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کس نوع اور کس طریقہ کی تھی؟ تو اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ وہ غیر معلوم ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت کس طرح عبادت کرتے تھے؟

عن محمد وامتہ میں مشارکت یا تو ثواب پر محمول ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذبح کے وقت یہ الفاظ فرما کر اپنی قربانی کے ثواب میں اپنی امت کو بھی شریک فرما لیا۔ یا اسے حقیقت پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے مگر اس صورت میں کہا جائے گا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں واضح ترین بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دنبہ تو اپنی طرف سے قربان کیا اور دوسرے دنبہ کی قربانی امت کی طرف سے کی۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر قربانی کرنے والا ذبح کرنے پر قادر ہو تو اس کے لیے اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانور ذبح کرنا مستحب ہے اگرچہ عورت ہی کیوں نہ ہو۔

 

                   میت کی طرف سے قربانی جائز ہے

 

اور حضرت خش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو دو دنبے قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ کیا؟ یعنی جب ایک دنبہ کی قربانی کافی ہے تو دو دنبوں کی قربانی کیوں کرتے ہیں؟) انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یہ وصیت فرمائی تھی کہ (ان کے وصال کے بعد) میں ان کی طرف سے قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اس سلسلہ میں دونوں ہی احتمال ہیں یا تو حضرت علی المرتضیٰ اپنی قربانی کے علاوہ دو دنبے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے قربان کرتے ہوں گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی زندگی میں دو دنبوں کی قربانی کرتے تھے ، یا پھر یہ کہ حضرت علی المرتضیٰ ایک دنبہ کی قربانی تو اپنی طرف سے کرتے ہوں گے اور ایک دنبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کا یہ ہمیشہ کا معمول تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہر سال قربانی کرتے تھے۔

یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اگرچہ بعض علماء نے اسے جائز نہیں کہا ہے۔ ابن مبارک کا قول یہ ہے کہ  میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میت کی طرف سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ اس کی طرف سے قربانی نہ کی جائے ، ہاں اگر میت کی طرف سے قربانی کی ہی جائے تو اس کا گوشت بالکل نہ کھایا جائے بلہ سب کا سب اللہ کے نام پر تقسیم کر دیا جائے

 

                   عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے

 

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ، فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم (قربانی کے جانور کے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں  یہ روایات جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن ابن ماجہ کی روایت لفظ  والاذن ختم ہو گئی ہے۔

 

تشریح

 

حضرت امام شافعی کے نزدیک اس بکری کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تھوڑا سا بھی کٹا ہوا ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے اگر کان آدھے سے کم کٹا ہوا ہو۔

حضرت امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی کا عمل اس حدیث پر ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے جو بہت جامع ہے کیونکہ اس مسلک سے اس حدیث میں اور فتادہ کی حدیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ  حضرت قتادہ حضرت ابن کلیب سے یہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عضبائے قرن و اذن (کی قربانی) سے منع فرمایا ہے۔  قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید ابن المسیب سے پوچھا کہ  یہ عضائے اذن کیا ہے؟  تو انہوں نے فرمایا کہ جس کا کان آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔

حنیفہ کے نزدیک کیسے جانور کی قربانی جائز نہیں؟ اس مسئلہ میں حنیفہ کا جو مسلک ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ  ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں ہے جس کے کان پیدائشی نہ ہوں، اسی طرح ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں جس کی دم اور ناک تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو، جو جانور اندھا یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے جس جانور کے تھن خشک ہو گئے ہوں اس کی قربانی بھی درست نہیں او ایسے جانور کی بھی درست نہیں جس میں مغز نہ رہا ہو اور نہ ایسے لنگڑے کی جو قربانی کی جگہ تک نہ جا سکے اور نہ ایسے بیمار کی جو گھاس نہ کھا سکے نہ ایسے جانور کی جس کے خارش ہو، وہ بغیر دانت کے جانور کی جو گھاس نہ کھا سکتا اور نہ نجاست خور جانور کی ، ہاں ایسے جانور کی قربانی درست ہے جس کا کان لمبائی میں یا اس کے منہ کی طرف سے پھٹ جائے اور لٹکا ہوا یا پیچھے کی طرف پھٹا ہوا، اس صورت میں کہا جائے گا یہ حدیث کہ جس سے ایسے جانور کی قربانی کی ممانعت معلوم ہو رہی ہے نہی تنز یہی پر محمول ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ، راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے کہ ہم ایسے جانور کی قربانی کر دیں جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے ہوں۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

حنفی مسلک میں ایسے جانور کی قربانی جائز و درست ہے جس کے پیدائش ہی سے سینگ نہ ہوں یا ٹوٹے ہوئے ہوں یا ان کا خول اتر گیا ہے لہٰذا یہ حدیث نہی تنزیہی پر محمول کی جائے گی۔ البتہ ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہو گی جس کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں۔

 

 

٭٭اور حضرت براء ابن عازب راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھاگیا کہ کیسے جانور کی قربانی لائق نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ کی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چار طرح کے جانور قربانی کی قابل نہیں ہیں۔ (١) لنگڑا۔ جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو یعنی جو چل نہ سکے۔ (٢) کا نا جس کا کانا پن ظاہر ہو یعنی آنکھ سے بالکل دکھائی نہ دیتا ہو یا تہائی یا تہائی سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو۔ (٣) بیمار۔ جس کی بیماری ظاہر ہو یعنی جو بیماری کی وجہ سے گھاس نہ کھا سکے۔ (٤) ایسا دبلا کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ (مالک ، احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

                   فربہ جانور کی قربانی بہتر ہے

 

اور حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایسے سینگ دار فربہ دنبہ کی قربانی کرتے تھے جو سیاہی میں دیکھتا تھا یعنی اس کی آنکھوں کے گرد سیاہی تھی، سیاہی میں کھاتا تھا اس کا منہ سیاہ تھا اور سیاہی میں چلتا تھا یعنی اس کے پاؤں بھی سیاہ تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

علماء لکھتے ہیں کہ ایسے جانور کی قربانی کرنا جو بہت فربہ اور موٹا ہو مستحب ہے۔ چنانچہ ایک فربہ بکری کی قربانی دو دبلی بکریوں کی قربانی سے افضل ہے۔ ایسے ہی زیادہ گوشت والی بکری کی قربانی کم گوشت والی بکری کی قربانی سے افضل ہے بشرطیکہ گوشت خراب نہ ہو یعنی زیادہ گوشت والی بکری کا گوشت خراب ہو تو پھر اس کی قربانی افضل نہیں ہے۔

 

                   جذع کی قربانی

 

قبیلہ بنی سیلم کے (ایک فرد) حضرت مجاشع راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ جذع (یعنی وہ دنبہ یا بھیڑ جس کی عمر چھ مہینے سے زیادہ ہو) کافی ہے اس بچے سے کہ کفایت کرے اس کو  ثنی۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی ، ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس طرح کہ اس بکری کی قربانی جائز ہے جو ایک سال سے زیادہ کی ہو اسی طرح جزع کی قربانی بھی جائز ہے۔

ثنی بھی ایک اصلاحی لفظ ہے جو قربانی کے جانور کی عمر کے سلسلہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بکری میں  ثنی وہ بکری کہلاتی ہے جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو۔ بیل اور گائے میں  ثنی وہ ہے جو دو سال کر کے تیسرے سال میں ہو، اونٹ میں  ثنی وہ ہے جو پانچ سال پورے کرنے کے بعد چھٹے سال میں داخل ہو چکا ہو۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنبہ کی جزع (یعنی چھ ماہ کے بچہ) کی قربانی بہتر ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

دنبہ کے جزع کی قربانی کی تعریف سے دراصل لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ دنبہ کے چھ مہینہ کے بچہ کی قربانی جائز ہے بخلاف بکری کے جزع کی کہ اس کی قربانی درست نہیں۔

 

                   قربانی میں شرکت

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (ایک) سفر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے کہ عید قربان آ گئی، چنانچہ گائے (کی قربانی) میں ہم سات آدمی اور اونٹ (کی قربانی) میں دس آدمی شریک ہوئے (جامع ترمذی، سنن نسائی ، ابن ماجہ) امام جامع ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے

 

تشریح

 

اسحٰق ابن راہو یہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر عمل کیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے لیے ایک اونٹ میں دس آدمیوں کو شریک ہو جانا چاہیے بلکہ تمام علماء کے نزدیک یہ اس حدیث کے ذریعہ منسوخ قرار دے دی گئی ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ جس طرح گائے کی قربانی سات آدمیوں سے درست ہے اسی طرح اونٹ کی قربانی بھی سات آدمیوں کی طرف سے کی جا سکتی ہے۔

 

ایک سبق آموز واقعہ

 

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سوال کرنا ایک زخم ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا منہ زخمی کرتا ہے بایں طور کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی عزت و آبرو کو خاک میں ملاتا ہے کہ یہ اپنے منہ کو زخمی کرنے ہی کے مترادف ہے لہٰذا جو شخص اپنی عزت و آبرو باقی رکھنا چا ہے کہ وہ سوال سے شرم کرے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلا کر اپنی عزت و آبرو کو باقی رکھے اور کوئی شخص اپنی آبرو کو باقی رکھنا ہی نہیں چاہتا تو وہ لوگوں کے ہاتھ پھیلا کر اپنی عزت خاک میں ملا لے یعنی اسے باقی نہ رکھے یہ گویا سوال کرنے و الے کے لیے تہدید اور تنبیہ ہے کہ کسی سے سوال نہ کرنا چاہئے۔ ہاں اگر سوال ہی کرنا ہے تو پھر حاکم سے سوال کرے یا ایسی صورت میں سوال کرے کہ اس کے لیے کوئی واقعی ضرورت اور مجبوری ہو۔ (ابوداؤد ، نسائی ، ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر تم سوال ہی کرو تو کم سے کم ایسے شخص سے تو کرو جس پر تمہارا حق بھی ہے اور وہ حاکم یا بادشاہ ہے کہ جس کے تصرف میں بیت المال اور خزانہ ہو تم ان سے اپنا حق مانگو، اگر تم مستحق ہو گے وہ تمہیں بیت المال سے دیں گے۔

 

                   عطاء سلطانی کو قبول کرنے کا مسئلہ

 

علامہ طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا عطاء سلطانی بادشاہ و حاکم کا عطیہ قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ اگر بیت المال اور خزانے میں حرام مال زیادہ ہو تو اس میں سے کچھ مانگنا یا اس سے عطیہ سلطانی قبول کرنا حرام ہے اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر حلال ہے۔

حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی واقعی مجبوری اور ضرورت ہو کہ کسی سے مانگے بغیر چارہ کار نہ ہو مثلاً کسی کا ضامن بن گیا ہو، طوفان و سیلاب کی وجہ سے کھیتی باڑی تباہ ہو گئی ہو یا کسی حادثے و مصیبت کی وجہ سے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو ایسی صورتوں میں سوال کرنے کی اجازت ہے بلکہ اگر کوئی شخص حالت اضطراری کو پہنچ گیا ہو خواہ وہ اضطراری حالت کپڑے کی طرف سے ہو کہ ستر چھپانے کو کپڑا نہ ہو یا کھانے کی طرف سے ہو کہ شدت بھوک سے جان نکلی جاتی ہو تو پھر ایسی صورت میں کسی سے مانگ کر اپنی اضطراری حالت کو دور کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح اس شخص کے لیے بھی سوال کرنا واجب ہوتا ہے جو حج کی استطاعت رکھتا تھا مگر حج نہیں کیا یہاں تک کہ مفلس ہو گیا تو اب اسے چاہئے کہ وہ لوگوں سے سفر خرچ مانگ کر حج کے لیے جائے

 

 

               جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان

 

                   مستغنی سائل کے لیے وعید

 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص لوگوں سے ایسی چیز کی موجود گی میں سوال کرے جو اسے مستغنی بنا دینے والی ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں پیش ہو گا کہ اس کے منہ پر اس کا سوال بصورت خموش یا کدوش یا کدوح ہو گا۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! مستغنی بنانے والی کیا چیز ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پچاس درہم یا اس قیمت کا سونا۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

خموش جمع ہے خمش کی ، خدوش جمع ہے خدش کی اور کدوح جمع ہے کدح کی۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ قریب المعنی ہیں بایں طور کہ ان سب کے معنی کا حاصل زخم ہے گویا حدیث میں لفظ او راوی کا شک ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تینوں میں سے کوئی ایک لفظ ارشاد فرمایا ہے۔

لیکن دوسرے بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ تینوں الفاظ متبائن ہیں یعنی ان تینوں کے الگ الگ معنی ہیں خموش کے معنی ہیں لکڑی کے ذریعے کھال چھیلنا، خمش کے معنی ہیں ناخن کے ذریعے کھال چھیلنا اور کدح کے معنی ہیں دانتوں کے ذریعے کھال اتارنا، گویا اس طرح قیامت کے روز سائلین کے تفاوت احوال کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کم سوال کرے گا اس کے منہ پر ہلکا زخم ہو گا، جو شخص بہت زیادہ سوال کرے گا اس کے منہ پر بہت گہرا زخم ہو گا جو شخص سوال کرنے میں درمیانہ درجہ اختیار کرے گا اس کے منہ پر زخم بھی درمیانی درجے کا ہو گا۔

 

 

٭٭حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے پاس اتنا مال ہو جو اس کو مستغنی کر دے مگر وہ اس کے باوجود لوگوں سے سوال کرتا ہے تو گویا وہ زیادہ آگ مانگتا ہے یعنی جو شخص بغیر ضرورت و حاجت کے لوگوں سے مانگ مانگ کر مال و زر جمع کرتا ہے تو وہ گویا دوزخ کی آگ جمع کرتا ہے۔ نفیلی رحمۃ اللہ جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں ایک اور جگہ یعنی ایک دوسری روایت میں نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ مستغنی ہونے کی کیا حد ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسرے لوگوں سے مانگنا ممنوع ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبح اور شام کے بقدر۔ نفیلی نے ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جواب اس طرح نقل کیا ہے کہ اس کے پاس ایک دن یا ایک رات و ایک دن کے بقدر خوراک ہو راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف ایک دن فرمایا یا ایک رات و ایک دن فرمایا ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

صبح اور شام کے کھانے کے بقدر، مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنی مقدار میں غذائی ضروریات موجود ہوں کہ وہ دن و رات اپنا پیٹ بھر سکے تو وہ غنی کہلائے گا یعنی اس کے لیے اب جائز نہیں ہو گا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔

ابھی اس سے پہلے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی جو روایت گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ مال کی تعداد کہ جس کی وجہ سے آدمی مستغنی ہو جائے اور کسی سے سوال نہ کرے ، پچاس درہم ہے یعنی جو شخص پچاس درہم کا مالک ہو گا اس کے لیے کسی سوال کرنا حرام ہو گا یہاں جو یہ روایت نقل کی گئی ہے اس میں یہ مقدار صبح و شام کے کھانے بقدر بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد حضرت عطاء بن یسار کی جو روایت آ رہی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا مالک ہو وہ مستغنی کہلائے گا اس کے لیے کسی سے سوال کرنا مطلقاً جائز نہیں ہو گا۔

گویا یہ تین روایتیں ہیں جن میں باہم اختلاف ہے لہٰذا حضرت امام احمد، ابن مبارک اور اسحاق رحمہم اللہ کا عمل تو پہلی روایت پر ہے جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، بعض علماء نے تیسری روایت کو معمول بہا قرار دیا ہے۔ جو عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور حضرت امام ا عظم ابوحنیفہ نے دوسری روایت کو اپنے مسلک کی بنیاد و قرار دیا ہے جو سہیل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے لہٰذا حضرت امام اعظم کا یہی مسلک ہے کہ جو شخص ایک دن کی غذائی ضروریات کا مالک ہو گا وہ مستغنی کہلائے گا اور اس کے لیے کسی سے سوال کرنا حرام ہو گا، گویا حضرت امام صاحب کے نزدیک یہ حدیث دوسری احادیث کے لیے ناسخ ہے۔ واللہ اعلم۔

 

 

٭٭حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص سے نقل کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا یا اس کی قیمت کے بقدر سونا وغیرہ کا مالک ہو اور اس کے باوجود وہ لوگوں سے تو مانگے تو اس نے گویا بطریق الحاح سوال کیا۔ (مالک ، ابو داؤد، نسائی)

 

تشریح

 

بطریق الحاح کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اضطراری کیفیت کے علاوہ اور بلا ضرورت انتہائی مبالغہ کے ساتھ لوگوں سے مانگا جو ممنوع اور برا ہے ، چنانچہ قرآن کریم میں فقراء کی بایں طور تعریف کی گئی ہے کہ آیت (ولا یسألون الناس الحافا)۔ وہ لوگوں سے بطریق الحاح نہیں مانگتے۔

 

                   کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا انتہائی محتاجگی کے وقت جائز ہے

 

حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ تو غنی کے لیے یعنی اس شخص کے لیے جو ایک دن کی خوراک کا مالک ہو اور نہ تندرست و توانا اور صحیح الاعضاء کے لیے مانگنا حلال ہے ہاں اس فقیر کے لیے مانگنا حلال ہے جسے فقر و فاقہ نے زمین پر ڈال دیا ہو اسی طرح اس قرض دار کے لیے بھی مانگنا حلال ہے جو بھاری قرض کے نیچے دبا ہو یاد رکھو جو شخص صرف اس لیے لوگوں سے مانگے کہ اپنے مال و زر میں زیادتی ہو تو قیامت کے دن اس کا مانگنا اس کے منہ پر زخم کی صورت میں ہو گا۔ نیز دوزخ میں اسے گرم پتھر اپنی خوراک بنائے گا اب چا ہے کوئی کم سوال کرے چا ہے کوئی زیادہ سوال کرے۔ (ترمذی)

 

 

تشریح

 

زمین پر ڈال دیا ہو، یہ کنایہ ہے شدت محتاجگی اور مفلسی نے زمین پر ڈال رکھا ہے کہ اٹھنے کی بھی سکت نہیں رکھتا۔ گویا مطلب یہ ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا صرف انتہائی محتاجگی ہی کے وقت جائز ہے حدیث کا آخری جملہ بطور تنبیہ و تہدید کے ارشاد فرمایا گیا ہے جیسا کہ کافروں ، ظالموں اور خدا کے باغیوں کے بارے میں بطور تہدید قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ آیت (فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ  ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَاراً) 18۔ الکہف:29)۔ جو چا ہے مومن ہو جائے اور جو چا ہے کافر ہو جائے۔ ہم نے تو ظالموں کے لیے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے۔

 

 

٭٭حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کسی چیز کا سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ کیا تمہارے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے؟ اس نے عرض کیا کہ صرف ایک موٹی سی کملی ہے جس میں سے کچھ حصہ اوڑھتا ہوں اور کچھ حصہ بچھا لیتا ہوں اس کے علاوہ ایک پیالہ بھی ہے جس میں پانی پیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان دونوں چیزوں کو لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ ان چیزوں کو کون خریدتا ہے ایک شخص نے کہا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم میں خریدنے کے لیے تیار ہوں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان چیزوں کو ایک درہم سے زیادہ میں کون خریدنے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دو یا تین بار فرمایا ایک شخص نے کہا کہ میں ان چیزوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ دونوں چیزیں اس شخص کو دے دیں اور اس سے دو درہم لے کر انصاری کو دئیے اور اس سے فرمایا کہ اس میں سے ایک درہم کا کھانے کا سامان خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ وہ شخص کلہاڑی خرید کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کلہاڑی میں اپنے دس مبارک سے ایک مضبوط لکڑی لگا دی اور پھر اس سے فرمایا کہ اسے لے کر جاؤ لکڑیاں کاٹ کر جمع کرو اور انہیں فروخت کرو، اب اس کے بعد میں تمہیں پندرہ دن تک یہاں نہ دیکھوں یعنی اب یہاں نہ رہو جا کر اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور محنت کرو چنانچہ وہ شخص چلا گیا اور لکڑیاں جمع کر کر کے فروخت کرنے لگا کچھ دنوں کے بعد جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا تو کہاں وہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مانگنے آیا تھا درہم اب وہ دس درہم کا مالک تھا، اس نے ان درہموں میں سے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ خرید لیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حالت کی اس تبدیلی کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ صورتحال تمہارے لیے بہتر ہے بہ نسبت اس چیز کے کہ کل قیامت کے دن تم اس حالت میں آؤ کہ تمہارے سوال تمہارے منہ پر برے نشان یعنی زخم کی صورت میں ہو اور یہ یاد رکھو کہ صرف تین طرح کے لوگوں کو سوال کرنا مناسب ہے ایک تو اس محتاج کے لیے کہ جس کو مفلسی نے زمین پر گرا دیا ہو دوسرے اس قرض دار کے لیے جو بھاری اور عدم ادائیگی کی صورت میں ذلیل کرنے والے قرض کے بوجھ سے دبا ہو اور تیسرے صاحب خون کے لیے جو درد پہنچائے یعنی اس شخص کے لیے جس پر دیت واجب ہو خواہ اس نے خود کسی ناحق خون کیا ہو اور اس کا خون بہا اس کے ذمہ ہو یا کسی دوسرے شخص نے کوئی خون کر دیا ہو اور اس کی دیت اس نے اپنے ذمہ لی ہو مگر اس کی ادائیگی کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے بھی جائز ہے کہ اس خون بہا کے بقدر کسی سے مانگ کر ادائیگی کر دے۔ ابوداؤد، اور ابن ماجہ نے اس روایت کو یوم القیامۃ تک نقل کیا ہے۔

                   صرف خدا سے اپنی حاجت بیان کرنی چاہئے

 

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص فاقہ یعنی سخت حاجت سے دوچار ہو اور اس کو لوگوں کے سامنے بطور شکایت بیان کر کے ان سے حاجت روائی کی خواہش کرے تو اس کی حاجت پوری نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے صرف اللہ سے اپنی حاجت کو بیان کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ اور اطمینان عطا فرمائے گا بایں طور کہ اسے جلد ہی یا تو موت سے ہمکنا کر دے تاکہ وہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے نجات پا کر رحمت خداوندی سے ہمکنار ہو یا اسے کچھ دنوں میں مالدار بنا دے گا تاکہ وہ اپنی حاجت پوری کر کے اطمینان محسوس کرے۔ (ابو داؤد، ترمذی)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جملے اوغنی اٰجل میں لفظ اجل مصابیح کے اکثر نسخوں اور جامع الاصول میں عین سے یعنی عاجل مرقوم ہے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ و اطمینان عطا فرمائے گا بایں طور کہ اسے جلد ہی دولت مند و مالدار بنا دے گا۔ مگر خود جس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ و اطمینان عطا فرمائے بایں طور کہ اسے جلد ہی دولت مند و مالدار بنا دے گا مگر خود سنن ابوداؤد، اور ترمذی میں کہ جہاں سے یہ روایت نقل کی گئی ہے یہ لفظ اٰجل ہے ہے اور صحیح بھی یہی ہے چنانچہ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کی اس آیت کریم کی روشنی میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ۔ آیت (وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰہ يَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجاً               ۝ ۙ  وَّيَرْزُقْہ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۭ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰہ فَہوَ حَسْبُہ) 65۔ الطلاق:3-2)۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے نکلنے کی جگہ پیدا فرما دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوتا ہے۔

 

                   اگر ضرورت ہی ہو تو نیک بختوں سے سوال کرو

 

حضرت ابن فراسی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد مکرم حضرت فراسی رضی اللہ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا میں لوگوں سے مانگ سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہر حالت میں خد اہی پر بھروسہ رکھو ہاں اگر کسی شدید ضرورت اور سخت حاجت کی وجہ سے مانگنا ضروری ہے تو پھر نیک بختوں سے مانگو۔ (ابوداؤد ، نسائی)

 

تشریح

 

ضرورت و حاجت کے وقت نیک بختوں سے مانگنے کے لیے اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے پاس حلال مال ہوتا ہے وہ بردبار اور مہربان ہوتے ہیں مانگنے والوں کی پردہ دری نہیں کرتے اور ان کے ناموں کو اچھالتے نہیں یہی وجہ ہے کہ بغداد کے فقراء و مساکین اپنی ضرورت و احتیاج کے وقت حضرت امام احمد بن حنبل ہی کے دروازے پر جاتے تھے اور ان سے اپنی ضرورت و حاجت بیان کرتے تھے۔

حضرت امام موصوف رحمۃ اللہ کے تقویٰ و احتیاط کا کیا عالم تھا؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے گھر والوں کو خمیر کی ضرورت ہوئی جسے انہوں نے حضرت امام احمد کے صاحبزادے ہی کے گھر سے منگوا لیا، حضرت امام احمد کے صاحبزادے قاضی کے عہدہ پر فائز تھے اور ان کی سعادت و بھلائی کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھر کے دروازے ہی کے پاس سوتے تھے تاکہ کوئی محتاج و ضرورت مند واپس نہ ہو جائے بہرحال امام احمد کے گھر والوں نے اس خمیر سے روٹی پکائی اور جب حضرت امام موصوف کے سامنے کھانا آیا تو انہیں بذریعہ کشف روٹی کے بارے میں کوئی شبہ گزرا انہوں نے گھر والوں سے پوچھا تو انہوں نے صورتحال بتائی ، حضرت امام موصوف نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا ان کی وجہ سے گھر والوں نے بھی نہیں کھایا اور پوچھا کہ یہ کھانا فقراء کو دے دیا جائے ، انہوں نے فرمایا کہ دے دو مگر اس شرط کے ساتھ کہ انہیں بھی صورتحال سے مطلع کر دینا چنانچہ فقراء نے بھی اسے لینے سے انکار کر دیا آخرکار گھر والوں نے پورے گھر کا کھانا امام موصوف کی اجازت کے بغیر ہی دریا میں ڈال دیا۔

 

                   کام کی اجرت بیت المال سے لینی جائز ہے

 

حضرت ابن ساعدی کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا چنانچہ جب میں زکوٰۃ کی وصولی سے فارغ ہو گیا اور زکوٰۃ کا مال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچا دیا تو انہوں نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کی اجرت دئیے جانے کا حکم فرمایا میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا ہے لہٰذا میرے لیے اس کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ذمہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو چیز تمہیں مل رہی ہے اسے قبول کر لو، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ مبارک میں جب میں نے زکوٰۃ وصول کرنے کا کام کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اس کی اجرت عطا فرمانی چاہی تو میں نے بھی یہی عرض کیا جو اب تم کہہ رہے ہو، چنانچہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز بغیر طلب اور بغیر طمع دی جائے تو تم اسے لے کر کھاؤ اور جو کچھ تمہاری ضرورت و حاجت سے زائد ہو اسے خدا کی راہ میں خیرات کر دو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے کسی بھی کام اور کسی بھی خدمت کی اجرت بیت المال سے لینی جائز ہے خواہ وہ خدمت فرض ہی کیوں نہ ہو جیسے قضاء احتساب اور درس و تدریس وغیرہ بلکہ امام وقت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ ایسے لوگوں کی بلکہ ان لوگوں کو بھی جو بیت المال کے معاملے میں ان ہی کے حکم میں شامل ہیں خبر گیری رکھے۔

یہ حدیث اور وہ حدیث جو اسی کے مثل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس کے سوال اور اس کی طمع کے بغیر کوئی چیز دے تو اس کو قبول کرنا واجب ہے چنانچہ حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لیکن جمہور علماء اس امر کو استحباب یا اباحت پر محمول کرتے ہیں۔

 

 

                   کن مقامات پر سوال کرنا مناسب ہے

 

حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرفہ کے دن ایک شخص کو لوگوں سے مانگتے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ بدنصیب آج کے روز اس جگہ پر تو خدا کے علاوہ دوسروں سے مانگ رہا ہے پھر انہوں نے اس شخص کو درہ سے مارا۔ (رزین)

 

تشریح

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ تیری کتنی حرماں نصیبی اور بدبختی ہے کہ آج کے دن کہ جو قبولیت دعا کا دن ہے اور جگہ یعنی میدان عرفات میں کہ جو مقدس و بابرکت جگہ ہے تو خدا سے صرف نظر کر کے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھر رہا ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ مقدس و بابرکت مقامات مثلاً مساجد وغیرہ میں لوگوں سے مانگنا نامناسب بات ہے۔

 

                   طمع افلاس اور محتاجگی ہے

 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! جان لو کہ طمع محتاجگی ہے اور آدمیوں سے ناامید ہونا تونگری و بے پروائی ہے ، انسان جب کسی چیز سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ (رزین)

 

تشریح

 

طمع محتاجگی ہے کا مطلب یہ ہے کہ طمع محتاجگی کی ایک صورت ہے یا یہ مطلب ہے کہ طمع محتاجگی کا ذریعہ ہے یعنی طمع کی وجہ سے انسان محتاج بنتا ہے بایں طور کہ اپنی طمع پوری کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ ناامید ہونا تونگری و بے پروائی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے ناامیدی مستغنی اور بے پرواہ بنا دیتی ہے حضرت ابوالحسن شاذلی رحمۃ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے کسی نے علم کیمیا جو صرف دو لفظوں میں منحصر ہو طلب کیا تو انہوں نے اس سے فرمایا کہ مخلوق خدا سے صرف نظر کرو یعنی کسی انسان سے امیدیں قائم نہ کرو اور اللہ سے اس چیز کے بارے میں اپنی طمع منقطع کر لو جو تمہاری قسمت میں لکھی ہوئی چیزوں کے علاوہ ہے یعنی خدا نے جو چیزیں تمہارے مقدر میں لکھ دی ہیں اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی امید نہ رکھو۔

طمع کے معنی ہیں اس چیز پر نظر رکھنا یعنی اسے حاصل کرنے کی خواہش کرنا کہ جس کے حاصل ہونے میں شک ہو یعنی کسی چیز کے بارے میں یہ خیال ہو کہ اس کا مالک دے گا یا نہیں ہاں اگر کسی ایسی چیز کی کسی ایسے شخص سے حصول کی خواہش ہو جس پر اس کا ہو اس شخص سے کمال تعلق اور محبت و مروت کی بنا پر یقین ہو کہ وہ چیز مل جائے گی تو اسے طمع نہیں کہیں گے۔

 

                   سوال نہ کرنے والے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بشارت

 

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص میرے ساتھ اس بات کا عہد کرے کہ وہ لوگوں کے آگے دست سوال دراز نہیں کرے گا تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں (ثوبان کہتے ہیں کہ) میں کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا چنانچہ ثوبان رضی اللہ عنہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے خواہ وہ کتنی ہی تنگیوں میں کیوں نہ مبتلا رہے ہو۔ (ابوداؤد ، نسائی)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ میں اس شخص کے لیے اس بات کی ضمانت لوں گا کہ وہ بغیر کسی عذاب کے ابتداء ہی میں جنت میں داخل کیا جائے گا گویا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کسی کے اگے دست سوال دراز نہ کرنے والا ان شاء اللہ خاتمہ بالخیر کی سعادت سے نوازا جائے گا۔

لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لیجئے کہ اس بارے میں وہ صورت مستثنی ہے جب کہ موت کا خوف ہو کیونکہ انتہائی شدید ضرورت ممنوع چیزوں کو بھی مباح کر دیتی ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ایسی پوزیشن میں ہو کہ اگر کسی سے کچھ نہ مانگے تو جان کے لا لے پڑ جائیں تو اس کے لیے مانگنا اور اپنا جان کو بچانا ضروری ہو گا بلکہ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سخت بھوک میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے کچھ مانگ کر نہ کھائے اور اسی حالت میں وہ مر جائے تو گنہگار مرے گا۔

 

                   سوال نہ کرنے کا حکم

 

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بلایا اور اس بات کا اقرار کرایا کہ کبھی بھی کسی سے کوئی چیز نہیں مانگو گے چنانچہ میں نے اس بات کا اقرار کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ اگر تمہارا کوڑا بھی گر جائے تو کسی سے نہ مانگو یعنی کسی سے اٹھانے کے لیے بھی نہ کہو بلکہ تم خود سواری سے اتر کر اٹھا لو۔ (احمد)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آخری ارشاد ترک سوال کے بارے میں بطور مبالغہ ہے کیونکہ اگر کسی کا کوڑا گر جائے اور وہ اسے اٹھانے کے لیے کسی سے کہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے بلکہ حقیقت میں تو وہ اسی کی چیز ہے جسے وہ صرف اٹھا کر دینے کے لیے کہہ رہا ہے لیکن چونکہ اس میں بھی ایک طرح کا سوال ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور مبالغہ اس سے بھی منع فرمایا۔

 

 

               خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان

 

                   مال و زر کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جذبہ

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو مجھے یہ گوارا نہ ہوتا کہ تین راتیں گزر جاتیں اور وہ تمام سونا یا اس کا کچھ حصہ علاوہ بقدر ادائے قرض کے میرے پاس موجود رہتا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو میرے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ بات یہ ہوتی کہ میں تمام سونا تین رات کے اندر اندر ہی لوگوں میں تقسیم کر دیتا ، اس میں سے اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھتا ہاں اتنا سونا ضرور بچا لیتا جس سے میں اپنا قرض ادا کر سکتا کیونکہ قرض ادا کرنا صدقہ سے مقدم ہے۔

اس ارشاد گرامی سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انتہائی سخاوت فیاضی کا وصف سامنے آتا ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنے مال و زر کی خیرات نکالتے ہیں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اپنی آسائش و راحت کے ذرائع مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً عالیشان بلڈنگیں بناتے ہیں کوٹھیاں تعمیر کرتے ہیں یا اسی قسم کی دوسرا آسائش زندگی کے لیے بے تحاشا مال خرچ کرتے ہیں مگر ان کے اوپر دوسرے لوگوں کے حقوق ہوتے ہیں وہ ان کے حقوق کی ادائیگی تو کیا کرتے ان کی طرف ان کا دھیان بھی کبھی نہیں جاتا تو یہ کوئی اچھی اور پسندیدہ بات نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر انتہائی غلط ہے۔

شریعت و اخلاق ہی نہیں بلکہ محض عقل و دانش اور انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے بھی کیا یہ بات گوارا کی جا سکتی ہے کہ ایک شخص تو دولت و حرص و ہوس کا پتلا بن کر اپنی تجوریاں بھرے بیٹھا ہوا بے مصرف مال و زر کے انبار لگائے ہوئے ہو اور سونے چاندی کے خزانے جمع کئے مگر ایک دوسرا شخص اس کے آنکھوں کے سامنے نان جویں کے لیے بھی محتاج ہوا ور اس کی تجوری کا منہ نہ کھلے ، ایک غریب بھوک و افلاس کے مارے دم توڑ رہا ہو مگر اس کے اندر اتنی بھی ہمدردی نہ ہو کہ اس غریب کو کھانا کھلا کر اس کی زندگی کے چراغ کو بجھنے سے بچائے؟

جی ہاں! آج کے اس دور میں بھی جب کہ سوشلزم ، مساوات اور انسانی بھائی چارگی و ہمدردی کے نعرے ہمہ وقت فضا میں گونجتے رہتے ہیں کون نہیں دیکھتا کہ مال و زر کے بندے اپنی ادنی سی خواہش کے لیے تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں اپنی دنیاوی آسائش و راحت کی خاطر مال و زر کے تختے بچھا دیتے ہیں مگر جب بھوک و پیاس سے بلکتا کوئی انہیں جیسا ان کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو ان کی جبین پر بل پڑ جاتے ہیں اور ان کے منہ سے نفرت و حقارت کے الفاظ ابلنے لگتے ہیں وہ شقی القلب یہ نہیں سوچتے کہ اگر معاملہ برعکس ہوتا تو ان کے جذبات و احساسات کیا ہوتے؟ لہٰذا جنگ زرگری کے موجودہ دور میں مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانی برادری کے لیے یہ ارشاد گرامی ایک دعوت عمل اور مینارہ نور ہے۔

 

                   سخی کے لیے فرشتوں کی دعا اور بخیل کے لیے بد دعا

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روزانہ صبح کے وقت دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک فرشتہ تو سخی کے لیے یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما یعنی جو شخص جائز جگہ اپنا مال خرچ کرتا ہے اس کو بہت زیادہ بدلہ عطا فرما بایں طور کہ یا تو دنیا میں اسے خرچ کرنے سے کہیں زیادہ مال دے دے یا آخرت میں اجر و ثواب عطا فرما اور دوسرا فرشتہ بخیل کے لیے بد دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کو تلف (نقصان) دے اور یعنی جو شخص مال و دولت جمع کرتا ہے اور جائز جگہ خرچ نہیں کرتا بلکہ بے محل اور بے مصرف خرچ کرتا ہے تو اس کا مال تلف و ضائع کر دے۔ (بخاری و مسلم)

 

                   سخاوت کا حکم

 

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس جگہ مال خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہو وہاں اپنا مال خرچ کرو اور یہ شمار نہ کرو کہ کتنا خرچ کروں اور کیا خرچ کروں نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں شمار کرے گا (یعنی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں برکت ختم کر کے تمہارا رزق کم کر دے گا بایں طور کہ اسے ایک معدودع و محدود چیز کی مانند کر دے گا یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال و زر کے بارے میں تم سے محاسبہ کرے گا اور جو مال تمہاری حاجت و ضرورت سے زائد ہو اسے حاجت مندوں سے روک کر نہ رکھو نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں اپنی زائد عطاء و بخشش روک لے گا، نیز یہ کہ تم سے جو کچھ بھی ہو سکے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

لفظ لاتحصی (اور یہ شمار نہ کرو الخ) کے ایک معنی تو وہی ہیں جو اوپر ترجمے میں مذکور ہوئے ہیں اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ مال کو جمع کرنے کے لیے نہ شمار کرو اور اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ترک نہ کرو۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے تم اپنی حیثیت و قدرت کے مطابق جو کچھ بھی خرچ کر سکو اسے خدا کی راہ میں جرور خرچ کرو خواہ وہ مقدار تعداد کتنا ہی کم کیوں نہ ہو بلکہ اسے حقیق بھی نہ سمجھو کیونکہ خلوص نیت کے ساتھ خدا کی راہ میں خرچ کیا جانے والا ایک ذرہ بھی خدا کے نزدیک بہت وقیع اور میزان عمل میں بہت وزنی ہے۔

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے اولاد آدم میری راہ میں اپنا مال خرچ کر میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اے اولاد آدم! تو دنیا کے فانی مال کو میری راہ میں خرچ کر تاکہ آخرت میں تجھے اموال عالیہ حاصل ہوں۔

بعض حضرات نے اس کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ جو کچھ میں نے تجھے عطا کیا ہے اس میں سے تو لوگوں کو دے تاکہ میں تجھے دنیا و عقبی میں اس سے زیادہ عطا کروں گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے کہ آیت (وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَہوَ يُخْلِفُہ) 24۔سبأ:39)۔ تم جو کچھ بھی خدا کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہو خدا تمہیں اس کا بدلہ عطا کرتا ہے۔

 

                   ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنے کا حکم

 

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے اولاد آدم! جو مال تمہاری حاجت و ضرورت سے زائد ہو اسے خدا کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنا تمہارے لیے دنیا و آخرت میں بہتر ہے اور اسے روکے رکھنا یعنی خرچ نہ کرنا اللہ کے نزدیک بھی اور بندوں کے نزدیک بھی تمہارے لیے برا ہے ! بقدر کفایت مال پر کوئی ملامت نہیں ہے اور جو مال تمہاری حاجت سے زائد ہو اسے خرچ کرنے کے سلسلے میں اپنے اہل و عیال سے ابتداء کرو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

ولا تلام علی کفاف(بقدر کفایت مال پر کوئی ملامت نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اتنا مال اپنے پاس بچائے رکھو جو تمہاری زندگی کی بقاء کے لیے ضروری ہو بایں طور کہ اس کی وجہ سے تمہاری غذائی ضرورت پوری ہو اور تم کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچے رہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ بقاء زندگی کے بقدر مال کا تعین اشخاص و احوال اور زمانہ کے مطابق ہوتا ہے یعنی بعض اشخاص کے بقاء زندگی کے بقدر مال کی مقدار کم ہوتی ہے اور بعضوں کے لیے زیادہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی واقعی ضروریات زندگی کے لیے کم مال درکار ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے زیادہ مقدار ضروری ہوتی ہے اسی طرح بعض دنوں میں بقاء زندگی کے لیے کم مال درکار ہوتا ہے اور بعض دنوں میں زیادہ مقدار میں ضروری ہوتا ہے نیز بعض حالات میں تھوڑا مال کفایت کر جاتا ہے اور بعض حالات میں زیادہ مال کی ضرورت ہوتی ہے حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی حیثیت کے مطابق کسی واقعی ضرورت و حاجت کے بقدر مال و زر بچائے رکھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ و ابدا بمن تعول کا مفہوم یہ ہے کہ سخاوت خرچ کے معاملے میں اپنے اہل و عیال اور ان لوگوں کو مقدم رکھنا چاہئے جن کا نفقہ اپنے اوپر واجب ہو یعنی ان لوگوں کو دو ، جب ان سے بچ رہے تو دوسرے لوگوں کو دینا چاہئے اور اس انداز سے خرچ کرنا کوئی مستحسن بات نہیں ہے کہ اپنے اہل و عیال تو ضرورت مند و محتاج رہیں اور دوسروں کو دیا جائے۔

حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد بھی حدیث قدسی (اللہ تعالیٰ کا ارشاد) ہے اگرچہ حدیث میں صراحتا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہی ارشاد کے لیے یہ اسلوب اختیار فرمایا ہو۔ واللہ اعلم۔

 

                   صدقہ دینے والے اور بخیل کی مثال

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی ہے جن کے جسم پر لوہے کی زرہیں اور ان زرہوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے ان دونوں کے ہاتھ ان کی چھاتیوں اور گردن کی ہنسلی کی طرف چمٹے ہوئے ہوں چنانچہ جب صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کے حلقے اور تنگ ہو جاتے ہیں اور اپنی جگہ پر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سخی انسان جب خدا کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کا قصد کرتا ہے تو اس جذبہ صدق کی بنا پر اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے قلب و احساسات کے تابع ہوتے ہیں بایں طورکہ وہ مال خرچ کرنے کے لیے دراز ہوتے ہیں اس کے برخلاف ایسے مواقع پر بخیل انسان کا سینہ تنگ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سمٹ جاتے ہیں۔

اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ جب سخی انسان خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو توفیق الٰہی اس کے شامل حال ہوتی ہے بایں طور کہ اس کے لیے خیر و بھلائی اور نیکی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے اور بخیل کے لیے نیکی و بھلائی کا راستہ دشوار گزار ہو جاتا ہے۔

 

 

                   بخل کی مذمت

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ظلم سے بچو کیونکہ قیامت کے روز ظلم اندھیروں کی شکل میں ہو گا (جس میں ظالم بھٹکتا پھرے گا) اور بخل سے بچو کیونکہ بخل نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے جو تم سے پہلے گزرے ہیں بخل ہی کے باعث انہوں نے خونریزی کی اور حرام کو حلال جانا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

ظلم کا اصل مفہوم ہے کسی چیز کو اس کی غیر جگہ استعمال کرنا مثلاً انسان کی تخلیق کا مقصد ہے خدا کی عبادت و اطاعت کرنا اور نیک راہ پر چلنا اب اگر انسان کا نفس امارہ اسے اس کی تخلیق کے اصل مقصد سے ہٹا کر خدا سے بغاوت و سرکشی اور برائی کے راستے پر چلاتا ہے تو یہ ظلم کہلائے گا۔ لہٰذا ظلم کا مفہوم تمام گناہوں کو شامل ہے یعنی جو بھی گنہگار ہو گا۔ وہ ظالم کہلائے گا۔ ظلم اندھیروں کی شکل میں ہو گا، کے بارے میں علامہ طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ اپنے ظاہر معنی پر محمول ہے یعنی قیامت کے روز ظلم گناہ ظالم کے سامنے اندھیروں کی صورت میں ہو گا جس میں ظالم بھٹکتا پھرے گا اور ان کی وجہ سے نجات کا راستہ نہیں پائے گا جس طرح کہ مومن صالح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ قیامت کے روز نجات کی راہ اس طرح پائیں گے کہ ان سب کی سعادت نیک بختی کا نور ان کے آگے آگے دوڑتا ہو گا جس کی روشنی میں جنت کی ابدی سعادتوں کا راستہ ان کے سامنے ہو گا اور وہ اس پر اطمینان و آسانی چل کر اپنے مولا کی خوشنودی اور رحمت کو پا لیں گے۔

نیز یہ بھی احتمال ہے کہ اندھیروں سے قیامت کے دن ہولناکیاں اور شدائد مراد ہوں یعنی ایک ظلم قیامت کی بہت سی ہولناکیوں اور شدائد کا باعث ہو گا۔

بخل سے بچنے کے لیے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ بخل بھی نہ صرف یہ کہ ظلم ہی کی ایک قسم ہے بلکہ ظلم کی ایک بہت بڑی قسم ہے یہی وجہ ہے کہ ظلم سے بچنے کا حکم عمومی طور پر فرمانے کے بعد پھر بھی بعد میں بطور خاص بخل سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔

بخل کو خونریزی اور حرام کو حلال جاننے کا باعث بتایا گیا ہے کیونکہ اپنے مال و زر کو دوسروں کی راحت بھلائی کے لیے خرچ کرنا اور اس طرح اپنے مسلمان بھائیوں کی خبر گیری درحقیقت آپس کی محبت و ملاپ کا ذریعہ اور سبب ہے اس کے برعکس بخل ترک ملاقات اور انقطاع تعلقات کا سبب ہے جس کا آخری نتیجہ آپس کی دشمنی اور مخاصمت ہے اور یہ بالکل ظاہری بات ہے کہ جب ایک دوسرے سے دشمنی اور مخاصمت ہوتی ہے تو پھر خونریزی بھی ہوتی ہے اسی دشمنی اور مخاصمت کا ایک دوسرا پہلو حرام باتوں کو مباح و حلال سمجھ لینا بھی ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی شخص ہو وہ دشمنی کے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے دشمن کی عورتوں کو، اس کے مال و زر کو اوور اس کی آبرو ریزی وغیرہ کو حلال جانتا ہے اسی لئے جہاں ایک طرف بخل کو خونریزی کا سبب بتایا گیا ہے وہیں دوسری طرف اسے حرام کو حلال سمجھ لینے کا باعث بھی فرمایا گیا ہے۔

 

                   ایک ایسا زمانہ آئے جب کوئی صدقہ لینے والا نہیں ہو گا

 

حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔خدا کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرو، کیونکہ انسانی زندگی میں ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب ایک شخص صدقہ کا مال لے کر نکلے گا مگر وہ کسی ایسے شخص کو نہ پائے گا جو اس کا صدقہ قبول کر لے بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ اگر تم صدقہ کے اس مال کو کل لے کر آتے تو میں قبول کر لیتا آج تو مجھے اس کی حاجت و ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

خدا کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرو، کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تو خدا کی راہ میں اپنا مال و زر خرچ کرنے کو غنیمت اور اپنے حق میں باعث سعادت جانو کیونکہ ابھی تو صدقہ کے مال کو قبول کرنے والے بہت سے مل جانتے ہیں لیکن ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ صدقہ کے مال کو قبول کرنے والا کوئی شخص ڈھونڈے سے نہیں ملے گا کیونکہ یا تو اس وقت سب ہی لوگ مالدار ہوں گے یا پھر یہ کہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف میلان اور رغبت کی وجہ سے ان کے دل غنی و بے پرواہ ہوں گے۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ اس زمانے کی طرف اشارہ جب کہ یہ فانی دنیا اپنی عمر کی آخری حدوں کو پہنچ چکی ہو گی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام اس عالم میں تشریف فرما ہوں گے۔

 

                   افضل صدقہ

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ثواب کے اعتبار سے کونسا بڑا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا افضل صدقہ وہ ہے کہ تم خدا کی راہ میں اس وقت اپنا مال خرچ کرو جب کہ تم توانا و تندرست ہو اور مال جمع کرنے کی حرص رکھتے ہو، فقر و افلاس سے ڈرتے رہو اور حصول دولت کے امیدوار ہو یاد رکھو صدقہ خیرات کے معاملے میں ڈھیل نہ دو، یہاں تک کہ جب تمہاری جان حلق میں آ جائے تو کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں کے لیے ہے اور اتنا مال فلاں کے لیے ہے۔ درآنحالیکہ اس مال کا مالک فلاں وارث ہو جائے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ افضل اور بہت زیادہ ثواب کا باعث وہ صدقہ ہوتا ہے جو زندگی کے اس دور میں ادا ہو جب کہ صحت تندرستی رفیق جان ہو، کیونکہ زندگی کے اس حصہ میں درازیِ عمر کی امید مال جمع کرنے کی حرص کا باعث ہوتی ہے صحت مند و تندرست انسان نہ صرف یہ کہ جنگ زرگری کے میدان میں آگے رہنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس کی جبلت طبعی، بخل کی طرف مائل ہوتی ہے اندر کا چھپا ہوا شیطان اسے فقر و محتاجگی سے ڈراتا رہتا ہے اور اس کے دل میں یہ وسوسہ و خیال پیدا کرتا ہے کہ خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کی وجہ سے کہیں مفلس و قلاش نہ بن جاؤں نیز زیادہ سے زیادہ دوسلت حاصل کرنے آرزو بسا اوقات حرص و ہوس کا روپ اختیار کر لیتی ہے لہٰذا زندگی کے اس حصے میں خدا کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کرنا درحقیقت نیک بختی و سعادت کی معراج ہے۔

حدیث کے آخری جملے ولا تمہل الخ کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دینے اور خیرات کرنے میں اتنی تاخیر، سستی اور غفلت نہ کرو کہ جب زندگی کا پیمانہ لبریز ہونے لگے جان نکل کر حلق میں آ جائے تو کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں شخص کے لیے ہے اور اتنا مال فلاں نیک کام کے لیے حالانکہ اس وقت وہ مال وارثوں کا ہو جاتا ہے بایں طور کہ وارثوں کا حق متعلق ہو جاتا ہے۔

بہرحال اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا بڑی فضیلت اور ثواب کی بات ہے مگر جب مرنے کا وقت آئے تو اس وقت اپنے مال کو نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا یا اسے اس وقت خدا کی راہ میں خرچ کرنا زیادہ ثواب کا باعث نہیں ہے۔

 

                   خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے سرمایہ دار خسارے میں ہیں

 

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس وقت پہنچا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعبہ کے سایہ میں تشریف فرماتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر مبارک مجھ پر پڑی تو فرمایا رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بہت ٹوٹے میں ہیں میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کون ہیں وہ لوگ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو زیادہ مال جمع کرتے ہیں ہاں! وہ لوگ مستثنی ہیں جو اپنے ادھر ادھر اور اس طرف یعنی اپنے آگے اپنے پیچھے اپنے دائیں اپنے بائیں غرض یہ کہ ہر طرح اور ہر جگہ خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ کم ہی ہیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے چونکہ فقر افلاس کو اپنی زندگی کا امتیاز بنا لیا تھا اور اس طرح انہوں نے دنیا کی آسائشوں سے منہ موڑ کر غنا و تونگر پر فقر افلاس کو ترجیح دے رکھی تھی اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تسلی اور ان کے اطمینان قلب کی خاطر یہ بات ارشاد فرمائی۔ گویا اس ارشاد گرامی میں دنیا سے بے رغبتی اور فقر کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔

 

                    عابد بخیل پر جاہل سخی کی فضیلت

 

حضرت ابوہریررہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سخی اللہ کی رحمت کے نزدیک ہے ، بہشت کے قریب ہے ، لوگوں کے قریب ہے (یعنی سب ہی اسے عزیز رکھتے ہیں) اور آگ سے دور ہے۔ مگر بخیل جو کہ اپنے اوپر واجب حقوق کی بھی ادائیگی نہ کرے اللہ کی رحمت سے دور ہے ، بہشت سے دور ہے ، لوگوں سے دور ہے اور آگ سے نزدیک ہے بلاشبہ اللہ کے نزدیک عابد بخیل سے جاہل سخی بہت پیارا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

جاہل سخی سے عابد کی ضد یعنی وہ سخی مراد ہے جو فرائض تو ادا کرتا ہو مگر نوافل کا پابند نہ ہو اسی طرح عابد بخیل سے مراد وہ بخیل ہے جو نوافل بہت زیادہ ادا کرتا ہے خواہ عالم ہو یا عالم نہ ہو۔

 

                   بحالت تندرستی صدقہ دینے کی فضیلت

 

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی شخص کا اپنی تندرستی کی حالت میں ایک درہم خدا کی راہ میں خرچ کرنا اپنے مرنے کے وقت راہ خدا میں ایک سو درہم خرچ کرنے سے بہتر ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال کم تعداد میں اور کم مقدار میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا مرتے وقت بہت زیادہ مال خرچ کرنے سے بہتر ہے اور اس کے مقابلے میں بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔

 

                   موت کے وقت خیرات کرنے والے کی مثال

 

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنی موت کے وقت خیرات کرتا ہے یا غلام آزاد کرتا ہے اس شخص کی مانند ہے جو کسی کو ایسے وقت میں تحفہ (یعنی کھانا) بھیجتا ہے جب کہ اس کا پیٹ بھر چکا ہوتا ہے۔ (ترمذی، نسائی ، دارمی اور امام ترمذی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مرتے وقت خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا یا غلام کو آزاد کرنا کم ثواب کا باعث ہوتا ہے جس طرح کہ کسی ضرورت مند کو ایسے وقت کھانا دینا کم ثواب کا باعث ہوتا ہے جب کہ اس کا پیٹ بھر چکا ہو لہٰذا جس طرح کسی شخص کو اس کی بھوک کی حالت میں کھانا کھلانا یا اس کے ساتھ سخاوت کرنا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کا باعث ہے اسی طرح صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنا یا غلام کو آزاد کرنا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کی بات ہے۔

 

                   ایمان اور بخل دو متضاد صفتیں ہیں

 

حضرت ابوسعید راوی رضی اللہ عنہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مومن میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں ایک تو بخل دوسری بد خلقی۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ مناسب اور لائق نہیں ہے کہ مومن کامل میں یہ دونوں بری خصلتیں جمع ہوں یا یہ مراد ہے کہ کسی مومن کامل میں یہ دونوں بری خصلتیں اس درجے کی نہیں ہوتیں کہ وہ کبھی اس سے جدا ہی نہ ہوں اور وہ ان کی موجودگی سے مطمئن اور راضی ہو ہاں اگر کبھی بمقتضائے طبیعت بشری کوئی مومن کامل بد خلقی کرے یا اس میں بخل پیدا ہو جائے پھر بعد میں اسے ندامت و شرمندگی ہو اور ان کی وجہ سے وہ پشیمان ہو نیز اپنے نفس کو ملامت کرے تو یہ کمال ایمان کے منافی نہیں ہو گا۔

خلق ان امور پر عمل کرنے کا نام ہے جن کی شریعت نے تعلیم دی ہے۔ خلق یا اخلاق دوسرے سے جھک کر خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنے یا تمام معاملات میں نرمی برتنے ہی کا نام نہیں ہے جیسا کہ عام لوگوں میں مشہور ہے اس لیے کہ بعض امور میں شدت اور سختی اختیار کرنا ہی تقاضائے ایمان ہے لہٰذا یہاں حدیث میں مذکور بد خلقی سے مراد یہ ہے کہ ان امور کی خلاف ورزی کرنا جن کی اسلام نے تعلیم دی ہے۔

 

                   بخل کے لیے وعید

 

امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت میں نہ تو مکار داخل ہو گا نہ بخیل نہ خدا کی راہ میں کسی کو مال دے کر احسان جتانے والا۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں جنت میں ابتداء بغیر عذاب کے داخل نہیں ہوں گے بلکہ یہ اپنے اپنے جرم کی سزا پا لیں گے تو عذاب کے بعد جنت میں داخل ہوں گے۔

بخیل سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے مال میں سے حق واجب ادا نہ کرے۔  منان کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمے میں مذکور ہیں اس کے دوسرے معنی کاٹنے والا ہیں یعنی وہ شخص جو اپنے اعزا اور رشتہ داروں سے ترک تعلقات کرے اور مسلمانوں سے محبت و مروت کا معاملہ نہ کرے۔

 

                   بدترین خصلتیں کیا ہیں

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان میں جو خصلتیں ہوتی ہیں ان میں سے دو خصلتیں سب سے بدترین ہیں۔ ایک تو انتہائی درجہ کا بخل اور دوسری انتہائی درجہ کی نامردی۔ (ابوداؤد)

وسنذکر حدیث ابی ہریرہ لایجتمع الشح والایمان فی کتاب الجہا ان شاء اللہ تعالیٰ

 

                   خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

 

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے بعض نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ ہم میں کون سی بیوی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جلد ملاقات کرے گی یعنی آپ کے وصال کے بعد ہم میں سب سے پہلے کس بیوی کا انتقال ہو گا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات نے بانس یا سرکنڈے کا ایک ٹکڑا لے کر اپنے ہاتھ ناپنے شروع کیے ان سب میں حضرت سودہ کے ہاتھ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ تھیں سب سے لمبے تھے مگر پھر بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ تھا اور ہم میں سے جس نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یعنی سب سے پہلے جس کا انتقال ہوا وہ حضرت زینب تھیں اور وہ صدقہ و خیرات کرنے کو بہت پسند کرتی تھیں۔ (بخاری) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ازواج مطہرات کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تم میں میں سے مجھ سے جلد ملنے والی وہ ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپس میں ہاتھوں کی لمبائی ناپتی تھیں کہ ان میں سے کون سی لمبے ہاتھوں والی ہے ، چنانچہ ہم میں سب سے لمبے ہاتھ والی حضرت زینب تھیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے سب کام کرتی تھیں اور صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔

 

تشریح

 

فعلمنا بعد (مگر پھر بعد میں ہمیں معلوم ہواالخ) کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا تو ہم نے پہلے تو ہاتھ کی لمبائی کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا کہ واقعۃً جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے وہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جلد ملاقات کرے گی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سب سے پہلے جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ و خیرات کی کثرت تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی وہ ہے جو سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتی ہے۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چمڑے کی دباغت کا کام انجام دیتی تھیں پھر اس کو فروخت کرتی اور قیمت ملتی اسے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے اس کی راہ میں خرچ کرتی تھیں۔

 

بنی اسرائیل کا واقعہ

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک مرتبہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے اپنے دل میں یا کسی اپنے دوست سے کہا کہ میں آج رات میں خدا کی راہ میں کچھ مال خرچ کروں گا چنانچہ اس نے اپنے قصد و ارادہ کے مطابق خیرات کے لیے کچھ مال نکالا ، تاکہ اسے کسی مستحق کو دے دے اور وہ مال اس نے ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ چور ہے کہ جس وجہ سے خیرات کے مال کا مستحق نہیں ہے جب صبح ہوئی اور لوگوں کو الہام خداوندی کے سبب یا خود اس چور کی زبانی معلوم ہوا تو بطریق تعجب لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج کی رات ایک چور کو صدقہ کا مال دیا گیا ہے۔ جب صدقہ دینے والے کو بھی صورتحال معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ اے اللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے باوجودیکہ صدقہ کا مال ایک چور کے ہاتھ لگا اور پھر کہنے لگا کہ آج کی رات پھر صدقہ دوں گا تاکہ وہ مستحق کو مل جائے چنانچہ اس نے صدقہ کی نیت سے پھر کچھ مال نکالا اور اس مرتبہ بھی غلط فہمی میں وہ مال ایک زانیہ کے ہاتھ میں دے دیا، جب صبح ہوئی تو پھر لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج تو ایک زانیہ صدقہ کا مال لے اڑی وہ شخص کہنے لگا کہ اے اللہ! تعریف تیرے ہی لیے ہے اگرچہ اس مرتبہ صدقہ کا مال ایک زانیہ کے ہاتھ لگ گیا اور پھر کہنے لگا کہ آج کی رات پھر صدقہ دوں گا چنانچہ اس نے پھر کچھ مال صدقہ کی نیت سے نکالا اور اس مرتبہ پھر غلط فہمی میں وہ مال ایک غنی کے ہاتھ میں دے دیا، جب صبح ہوئی تو پھر لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج کی رات تو ایک دولت مند کو مل گیا۔ جب وہ شخص سویا تو خواب میں اس سے کہا گیا کہ تو نے جتنے صدقے دئیے ہیں سب قبول ہو گئے۔ کیونکہ صدقہ کا جو مال تو نے چور کو دیا ہے۔ وہ بے فائدہ اور خالی از ثواب نہیں ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے چوری سے باز رہے اور صدقہ کا جو مال تو نے زانیہ کو دیا ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے زنا سے باز رہے اور صدقے کا جو مال تو نے دولت مند کو دیا ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے عبرت حاصل کر لے اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ (بخاری و مسلم الفاظ بخاری کے ہیں)

 

تشریح

 

صدقہ دینے والے نے خدا کی تعریف یا بطریق شکر کی کہ خدا کا شکر ہے کہ میں نے صدقہ تو دیا اگرچہ وہ غیر مستحق ہی کے ہاتھ لگا یا پھر بطریق تعجب یا اپنے دل کے اطمینان کے لیے اس نے خدا کی تعریف کی۔

بہر کیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی اسرائیل کے اس شخص کا یہ واقعہ اس لیے بیان فرمایا تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ خدا کی خوشنودی کی خاطر صدقہ و خیرات بہر نوع بہتر اور باعث ثواب ہے جس کسی کو بھی صدقہ دیا جائے گا ثواب ضرور پائے گا۔

 

                   صدقہ خاتمہ بخیر کی سعادت سے نوازتا ہے

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صدقہ کرنا اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ دنیا میں عافیت و سکون کے ساتھ رکھتا ہے اور اس پر بلائیں نازل نہیں کرتا۔

بری موت سے بچاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے والا مرنے کے وقت بری حالت سے محفوظ رہتا ہے یعنی نہ تو اسے شیطان اپنے وسوسوں میں مبتلا کر پاتا ہے اور نہ وہ شخص کسی ایسی سخت بیماری و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ضبط کا دامن چھوڑ کر کفر و کفران کی دلدل میں پھنس جائے ، حاصل یہ کہ خدا کی خوشنودی و رضا کی خاطر اپنا مال و زر خرچ کرنے والا  خاتمہ بالخیر کی ابدی سعادت سے نوازا جاتا ہے۔

 

 

 

 

               تعزیر کا بیان

 

                   مجرم کے منہ پر نہ مارو

 

حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی شخص (کسی مجرم کو سزاء) مارے تو اس کو چاہئے کہ وہ (اس مجرم کے) منہ کو بچائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو بطور حد کوڑے مارے جائیں یا بطور تعزیر و تادیب اس کی پٹائی کی جائے تو بہرصورت یہ ضروری ہے کہ اس کے چہرے کو بچایا جائے یعنی اس کے چہرے پر نہ مارا جائے۔

 

                   بدزبانی کی سزا

 

اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر کوئی شخص کسی (مسلمان) کو کہے  اے یہودی  تو اس کو بیس کوڑے مارو ، اور اگر اے مخنث  کہے تب بھی اس کے بیس کوڑے مارو اور جو شخص محرم عورت سے زنا کا مرتکب ہوا اس کو مار ڈالو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

مخنث  اس کو کہتے ہیں جس کے اعضاء اور بات چیت کے انداز میں زنانہ پن ہو اور حرکات و سکنات میں عورتوں کے مشابہ ہوا جس کو زنخا اور زنانہ بھی کہا جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص کسی غلام پر یا کسی کافر پر زنا کی تہمت لگائے تو اس کو تعزیر (کوئی سزا) دی جانی چاہئے۔ اسی طرح اس شخص کو بھی تعزیر دی جائے جو کسی مسلمان پر زنا کے علاوہ کسی اور برائی کی تہمت لگائے مثلاً ان الفاظ کے ذریعہ اس کو مخاطب کرے اے فاسق ، اے فاجر ، اے کافر ، اے خبیث اے چور ، اے منافق ، اے لوطی یعنی اغلام باز ، اے یہودی ، اے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے والے ، اے سود خوار ، اے دیوث اے مخنث ، اے خائن ، اے رنڈی کی اولاد اے بدکار عورت کے بچے ، اے زندیق ، اے کتے ، اے زانیوں یا چوروں کے پشت پناہ اور اے حرام زادے

اگر کوئی شخص کسی مسلمان شخص کو ان الفاظ کے ذریعہ مخاطب کرے تو وہ قابل تعزیر نہیں ہو گا ، اے گدھے ، اے کتے ، اے بندر ، اے بکرے ، اے الو ، اے سانپ ، اے بیل ، اے بھیڑئیے ، اے حجام ، اے حجام کی اولاد (درآنحالیکہ وہ کسی حجام کی اولاد نہ ہو) اے ولد الحرام ، اے ناکس ، اے منکوس ، اے مسخرے ، اے ٹھٹھے باز ،عیار اے بیوقوف اور اے وہمی ، لیکن اس سلسلہ میں یہ واضح رہے کہ علماء نے اس شخص کو تعزیر دینا پسند کیا ہے جو مذکورہ بالا الفاظ کے ذریعہ کسی ایسے شخص کو مخاطب کرے جو شرفاء میں سے ہو۔

خاوند کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تعزیر (کوئی سزا) دے جب کہ وہ کہنے کے باوجود اس کے سامنے زینت و آرائش کرنے سے اجتناب کرتی ہو یا وہ اس کو اپنے بستر پر (ہم بستری) بلائے اور وہ انکار کر دے ، یا وہ نماز نہ پڑھتی ہو ، یا غسل جنابت ترک کرتی ہو اور یا اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے باہر آتی جاتی ہو۔

جو شخص محرم عورت سے زنا کا مرتکب ہو اس کو مار ڈالو۔ حضرت امام احمد نے اس ارشاد کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے جب کہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صرف زجر، تہدید سے ہے۔ بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ یہ ارشاد اس بات پر محمول ہے کہ جو شخص حلال اور ہلکا جان کر کسی محرم عورت سے زنا کرے اس کو مار ڈالا جائے ورنہ محرم عورت کے ساتھ زنا کا بھی وہی حکم ہے جو دوسری عورتوں کے ساتھ زنا کا ہے کہ اگر زانی محصن (شادی شدہ) ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے اور اگر غیر محصن (کنوارا) ہو تو کوڑے مارے جائیں۔

 

                   مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا

 

اور حضرت عمر فاروق راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر تم کسی ایسے شخص کو پکڑو جس نے خدا کی راہ میں خیانت کی ہو (یعنی اس نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ چرا لیا ہو) تو اس کا مال و اسباب جلا ڈالو اور اس کی پٹائی کرو۔ (ابو داؤد ، ترمذی) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

اس کا مال و اسباب جلا ڈالو  کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ، بعض حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ جو شخص مال غنیمت میں سے کچھ چرائے بطور سزا اس کا مال و اسباب جلانا جائز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم کہ  اس کا مال و اسباب جلا ڈالو اسلام سے ابتدائی زمانہ میں نافذ تھا مگر بعد میں منسوخ قرار دے دیا گیا۔ یا یہ کہ یہ ارشاد دراصل تغلیط اور تشدید پر محمول ہے حضرت امام احمد نے اس حکم کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس شخص کا تمام مال و اسباب جلا دیا جائے۔ البتہ اگر اس کے سامان میں قرآن کریم ، ہتھیار اور جانور بھی ہوں تو ان کو نہ جلایا جائے ، نیز بطریق تعزیر اس کی پٹائی کی جائے اور یہ بات پہلے بیان کی چکی ہے کہ مال غنیمت کی چوری کرنے والا قطع ید کا سزا وار نہیں ہوتا۔