FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

               نماز میں قرأت کا بیان

 

 

 

                   کتنی رکعتوں میں قرأت فرض ہے

 

نماز میں قرأت یعنی قرآن کریم پڑھنا تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر فرض ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ کتنی رکعتوں میں پڑھنا فرض ہے؟ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک پوری نماز میں قرأت فرض ہے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں للا کثر حکم الکل (اکثر کل کے حکم میں ہے) کے کلیہ کے مطابق تین رکعت میں فرض ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق در رکعتوں میں قرأت فرض ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک قول مشہور ہے کے مطابق امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے موافق ہے۔ حضرت حسن بصری اور حضرت زفر رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک صرف ایک رکعت میں قرأت فرض ہے۔

 

                   نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا بیان

 

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی نے (نماز میں) سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز پوری نہیں ہوئی۔ (صحیح البخاری، مسلم) اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ اور اس کے بعد قرآن سے کچھ نہ پڑھے۔

 

تشریح

 

صحیح مسلم کی آخری روایت کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے ساتھ قرآن کی کوئی اور سورۃ یا اور کچھ آیتیں پڑھنا بھی ضروری ہے۔

 

نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے مسئلے میں آئمہ کے مسلک

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اگر کوئی آدمی سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہو گی۔ چنانچہ اسی حدیث سے امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے کیونکہ حدیث نے صراحت کے ساتھ ایسے آدمی کی نماز کی نفی کی ہے جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی۔

حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں ہے بلکہ واجب ہے۔ اس حدیث کے بارے میں امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں نفی کمال مراد ہے یعنی سورہ فاتحہ کے نماز ادا تو ہو جاتی ہے مگر مکمل طور پر ادا نہیں ہوتی۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے آیت (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ) 73۔ المزمل:20) (یعنی قران میں سے جو پڑھنا آسان ہو وہ پڑھو، اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں بلکہ مطلق قرآن کی کوئی بھی سورۃ یا آیتیں پڑھنا فرض ہے۔ اس کے علاوہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ایک اعرابی کی نماز کے سلسلے میں یہ تعلیم فرمائی تھی کہ فاقرؤا ما تیسر معک من القران (یعنی تمہارے لیے قرآن میں سے جو کچھ پڑھنا آسان ہو وہ پڑھو)

بہر حال۔ حنفیہ مسلک کے مطابق نماز میں فرض کہ جس کے بغیر نماز ادا نہیں ہوتی قرآن کی ایک آیت یا تین آیتوں کا پڑھنا ہے خواہ سورہ فاتحہ ہو یا دوسری کوئی سورۃ اور سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اس کے بغیر نماز ناقص ادا ہوتی ہے۔

 

 

                   سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ادا ہوتی ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی نماز پڑھے اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی وہ نماز ناقص ہے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ) تین مرتبہ (فرمایا کہ وہ نماز ناقص ہے) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (یہ سن کر) کسی نے پوچھا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں (تو اس وقت بھی پڑھیں؟) انہوں نے کہا کہ (ہاں ! مگر) اپنے دل میں آہستہ سے پڑھو کہ بس تم ہی سن سکو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ میں نے نماز (یعنی سورہ فاتحہ) اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے۔ (اس طرح کہ حمد و ثنا تو میرے لیے ہے اور دعا بندے کے لیے) اور بندہ جو کچھ مانگے وہ اسے دیا جائے گا چنانچہ جب بندہ کہتا ہے کہ  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ  (یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہان کا پروردگار ہے) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری تعریف بیان کی، جب بندہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ(یعنی اللہ بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب بندہ کہتا ہے ملک یوم الدین کہ اللہ انصاف کے دن کا مالک ہے تو اللہ فرماتا ہے  میرے بندے نے میری تعظیم کا اظہار کیا ہے جب بندہ کہتا ہے اِیاکَ نَعْبُدُ وَاِیاکَ نَسْتَعِینُ یعنی (اے پرودگار! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے (یعنی عبادت اللہ کے لیے ہیں اور مدد مانگنا بندے کے لیے ہے) اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَیھِمْ غَیرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیھِمْ وَلَا الضَّآلِّینَ یعنی (اے پروردگار) ہم کو سیدھے راستے پر چلا ان لوگوں کے راستے جن پر تیرا فضل و کرم رہا ہے نہ کہ ان کے راستے پر جن پر تیرا غضب رہا ہے اور نہ گمراہوں کے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندہ کے لیے ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

قسمت الصلوٰۃ بینی و بین عبدی نصفین (میں نے نماز اپنے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے) میں نے نماز سے مراد سورہ فاتحہ ہے جیسے کہ ترجمے میں ظاہر کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقتدی کو بھی سورہ فاتحہ پڑھنے کے لیے کہا اور مابعد کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب سورہ فاتحہ کی ایسی فضیلت ہے تو مقتدی کو بھی سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں۔ تین آیتیں یعنی الحمد سے ملک یوم الدین تک تو خالص اللہ تعالیٰ کی مدح و ثنا میں ہیں اور ایک آیت یعنی ایاک نعبد و ایاک نستعین میں بندے کی جانب سے حاجت کی طلب اور مدد کی درخواست ہے اور بعد کی جو تین آیتیں ہیں وہ صرف بندے کی دعا پر مشتمل ہیں۔

 

بسم اللہ سورہ فاتحہ کا جزء نہیں ہے

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بسملہ (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) داخل فاتحہ اور اس کا جزء نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے کیونکہ اگر بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کا جزء قرار دے کر بجائے ساتھ کے آٹھ آیتیں شمار کی جائیں تو تقسیم صحیح نہیں ہو گی اور ایک طرف تو ساڑھے چار آیتیں ہو جائیں گی اور ایک طرف ساڑھے تین رہ جائیں گی لہٰذا اس صورت میں نصف نصف تقسیم صحیح نہیں رہے گی۔ نیز یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سورہ فاتحہ کی سات آیتوں میں سے  صراط الذین انعمت علیھم بھی ایک آیت ہے۔

سورہ فاتحہ کے سلسلے میں اس باب کے پہلی حدیث کے فائدہ کے ضمن میں آئمہ کے مذاہب کو نقل کیا گیا تھا اور حنفی مسلک کی وضاحت کی گئی تھی لیکن اس موقعہ پر اس بحث میں کچھ تشنہ رہ گئی تھی اس لیے ہم یہاں کچھ وضاحت کے ساتھ اس بحث کو پیش کرتے ہیں۔

 

مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں

سورہ فاتحہ کے سلسلے میں ائمہ کے ہاں دو بحثیں چلتی ہیں اول تو یہ کہ مطلقاً سورہ فاتحہ پڑھا فرض ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس بحث کی توضیح پہلے کی جا چکی ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اور امام اعظم کے نزدیک واجب ہے۔ دوسری بحث یہ ہے کہ سورہ فاتحہ مقتدی کو پڑھنی چاہئے یا نہیں؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول سے تو یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صحیح روایت میں منقول ہے کہ مقتدی پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے خواہ بلند آواز کی نماز ہو یا آہستہ آواز کی۔ اور یہی حضرت امام احمد کا بھی مسلک ہے ، امام مالک کے نزدیک فرض نہیں مگر آہستہ آواز کی نماز میں مستحب ہے ہمارے امام اعطم ابو حنیفہ اور صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف و امام محمد کا مذہب یہ ہے کہ آہستہ آواز اور بلند آواز دونوں قسم کی نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا مقتدی پر فرض نہیں ہے بلکہ حنفی فقہاء تو اس کو مکروہ تحریمی لکھتے ہیں۔

 

امام محمد کے مسلک کی تحقیق

ابھی ہم نے اوپر لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم اور صاحبین کا متفقہ طور پر یہ مسلک ہے کہ مقتدی پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض نہیں ہے مگر اس سلسلے میں کچھ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے جس کی بنیاد پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امام محمد کا مسلک امام اعظم اور امام ابو یوسف سے کچھ مختلف ہے چنانچہ ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اور کچھ دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام محمد اس کے قائل ہیں کہ آہستہ آواز کی نماز میں مقتدی پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے ہم سمجھتے ہیں کہ امام محمد کی طرف اس قول کی نسبت کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کیونکہ امام محمد کی کتابوں سے بالکل صاف طریقہ یہ پر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ میں شیخین یعنی امام اعظم اور امام ابو یوسف سے بالکل متفق ہیں۔ چنانچہ امام محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ

لا قرأَۃَ خلف الا مام فیما جھر فیہ ولا فیما لم یجھر بذلک جاءت عامۃ الاثار وھو قول ابی حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی۔

نماز خواہ بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی کسی حال میں بھی امام کے پیچھے قرأت نہیں ہے اسی کے مطابق ہمیں بہت سے احادیث پہنچی ہیں اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا ہے۔

نیز امام موصوف نے اپنی دوسری تصنیف کتاب الاثار میں قرأت خلف الامام کے عدم اثبات میں احادیث و آثار کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرمایا

وبہ ناخذلانری القراء ۃ خلف الا مام شیء من الصلوٰۃ یجھر فیہ او لا یجھر فیہ۔

اور یہی (یعنی عدم قرأت خلف الامام) ہمارا بھی مسلک ہے ہم قرأت خلف الامام کو کسی بھی نماز میں خواہ وہ بلند آواز کی نماز ہو یا آہستہ آواز کی نماز روا نہیں رکھتے۔

بہر حال مذکورہ بالا مذہب کو دیکھتے ہوئے یہ بات ظاہر ہوئی کہ سورہ فاتحہ کے سلسلہ میں حنفیہ دو چیزوں کے قائل ہیں۔ اول تو یہ مقتدی پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا کسی بھی حال میں فرض نہیں خواہ وہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی اور دوسری یہ کہ اگر کوئی مقتدی سورہ فاتحہ پڑھتا ہے تو گویا وہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس موقعہ پر ہم صرف اتنی بات صاف کریں گے کہ مقتدی پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض کیوں نہیں ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں۔

تو جانتا ہے کہ جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ مقتدی پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے اس کی سب سے بڑی دلیل اس باب کی پہلی حدیث ہے یعنی لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب ان حضرات کے نزدیک امام کا پڑھنا مقتدی کے حق میں کافی نہیں بلکہ ہر ایک آدمی کو بطور خود پڑھنا ضروری ہے۔

امام اعظم فرماتے ہیں کہ امام کا پڑھنا مقتدی کے لیے کافی ہے۔ جب امام نے پڑھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت نے پڑھا، چنانچہ وہ اپنے اس قول کی تائید میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں من کان لہ امام فقراء ۃ الا مام قراء ۃ لہ (یعنی جو آدمی کسی امام کے پیچھے نماز پڑھے۔ تو اس امام کی قرأت اس (مقتدی) کی بھی قرأت سمجھی جائے گی) گو بعض علماء نے اگرچہ اس حدیث کی صحت میں کلام کیا ہے۔ مگر حقیقت میں ان کا کلام صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث بہت سی اسناد سے ثابت ہے جن میں سے بعض اسناد تو اس درجے کی صحیح و سالم ہیں کہ اس میں کسی کلام کی گنجائش ہی نہیں۔

بہر حال اس حدیث سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے۔ کہ مقتدی کو قرأت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ تو سورہ فاتحہ کی اور نہ کسی اور سورۃ کی۔ اس موقع پر یہ احتمال بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا کہ شاید اس حدیث کا تعلق بلند آواز کی نماز سے ہو کیونکہ یہ بات بھی صحیح طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد عصر کی نماز کے وقت تھا۔ جو آہستہ آواز کی نماز ہے اور جب آہستہ آواز کی نماز میں یہ حکم ہے تو بلند آواز کی نماز میں تو بدرجہ اولیٰ یہی حکم ہو گا۔

 

                   بسم اللہ بآواز بلند پڑھنی چاہئے یا آہستہ

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقاء نامدار صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما نماز الحمد اللہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز شروع کرتے وقت سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے لیکن سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا تمام ائمہ کے نزدیک متفق علیہ ہے کیونکہ دوسری احادیث سے بسم اللہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے خواہ بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کا جزء مانا جائے جیسا کہ شوافع فرماتے ہیں خواہ نہ مانا جائے جیسا کہ حنفیہ فرماتے ہیں۔

حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہاں الحمد اللہ رب العالمین سے مراد سورہ فاتحہ ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سورہ فاتحہ سے نماز شروع کرتے تھے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی نے الم پڑھا تو اس سے مراد سورہ بقرہ ہی لی جاتی ہے اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورۃ کا جزء ہے لہٰذا اس قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔

حنفیہ کی جانب سے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہاں مطلق نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے بلکہ آہستہ سے پڑھتے تھے اور بآواز بلند نماز کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے کیونکہ یہ بات پوری صحت کی ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ بآواز بلند پڑھی جانے والی نماز میں بھی آہستہ سے پڑھتے تھے۔

حضرت شیخ ابن ہمام نے بعض حفاظ حدیث (یعنی وہ لوگ جن کو بہت زیادہ احادیث زبانی یاد رہتی تھیں) سے نقل کیا ہے کہ کوئی بھی ایسی حدیث ثابت نہیں ہے جس میں بسم اللہ کا بآواز بلند پڑھنا بصراحت ثابت ہو تو وہاں اگر کوئی ایسی حدیث ثابت بھی ہے کہ جس سے بسم اللہ بآواز بلند پڑھنا ثابت ہوتا ہے تو اس کی اسناد میں کلام کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت سے بسم اللہ آہستہ پڑھنا بکثرت منقول ہے اور اگر اتفاقی طور پر کسی کے بارے میں بآواز بلند پڑھنا ثابت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو انہوں نے لوگوں کی تعلیم کے لیے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی ہو گی یا پھر ان مقتدیوں کی روایت ہے جو ان کے بالکل قریب نماز میں کھڑے ہوتے تھے کہ اگر وہ، بسم اللہ آہستہ سے بھی پڑھتے تھے تو مقتدی سن لیتے تھے اور اسی کو انہوں نے بآواز بلند پڑھنے سے تعبیر کیا۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب جامع ترمذی میں اس مسئلے سے متعلق دو باب قائم کئے ہیں ایک باب میں تو ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے بسم اللہ بآواز بلند پڑھنا ثابت ہے اور دوسرے باب میں وہ احادیث نقل کی ہیں جو آہستہ آواز سے پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور امام موصوف نے ترجیح انہیں احادیث کو دی ہے جن سے بآواز آہستہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے اور کہا ہے کہ اس طرف (یعنی بسم اللہ آہستہ پڑھنے کے مسلک کے حق میں) اکثر اہل علم مثلاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین کرام وغیرہ ہیں۔

 

 

                   آمین کہنے کے حکم

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب امام (سورہ فاتحہ کی قرأت کے بعد) آمین کہے تو (چونکہ اس وقت فرشتے آمین کہتے ہیں اس لیے) تم بھی آمین کہو۔ کیونکہ جس آدمی کی آمین فرشتوں کے آمین سے مل جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس آدمی کا (آمین) کہنا فرشتوں کے کہنے سے مل جاتا ہے اس کے پہلے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ یہ الفاظ صحیح البخاری کے ہیں مسلم کی حدیث کے الفاظ بھی اس کے مثل ہیں۔

اور صحیح البخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب قرآن کا پڑھنے والا (یعنی) امام یا کوئی بھی مطلقاً پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ (اس وقت) فرشتے آمین فرماتے ہیں اور جس آدمی کی آمین فرشتوں کی آمین سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے تو اس کے پہلے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

 

تشریح

 

آمین کے معنی یہ ہیں کہ  اے اللہ ! میری دعا قبول کر! چنانچہ جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ آمین کہیں۔

آمین کہنے والے فرشتوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اعمال کو لکھتے ہیں لیکن بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں ان کے علاوہ دوسرے فرشتے مراد ہیں۔

 

 

                   مقتدی کی نماز کا طریقہ

 

اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم (با جماعت) نماز پڑھو تو (پہلے) اپنی صفوں کو سیدھی کرو پھر (تم میں سے) ایک آدمی تمہارا امام بنے ، چنانچہ جب وہ امام تکبیر تحریمہ یعنی) اللہ اکبر کہے تو تم (بھی اللہ اکبر) کہو، جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کرے گا اور جب امام (رکوع میں جانے کے لیے) اللہ اکبر کہے اور رکوع میں جائے تم بھی اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں چلے جاؤ اور امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے سر اٹھاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ امام کا پہلے سر اٹھانا پہلے رکوع کرنے کا بدلہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو اللہ تمہاری تعریف سنتا ہے۔ اور صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ  فتلک بتلک یعنی امام سے پہلے سر اٹھانا پہلے رکوع کرنے کا بدلہ ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ امام مقتدی سے پہلے رکوع سے سر اس لیے اٹھاتا ہے تاکہ امام اور مقتدی کے رکوع کی مقدار برابر ہو جائے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد واضح طور پر یوں ہے کہ  جب امام رکوع میں تم سے پہلے گیا تو گویا اس وقت تمہارے اور امام کی رکوع کی مقدار برابر نہ رہی مگر جب امام نے رکوع سے تم سے پہلے سر اٹھایا اور تم نے اس کے بعد سر اٹھایا تو گویا تمہاری اس تاخیر سے وہ لمحہ پورا ہو گیا جس میں امام نے رکوع میں جانے میں تم سے پہل کی تھی اور جس طرح تم رکوع میں امام کے بعد گئے اس طرح رکوع سے اٹھے بھی امام کے بعد ہی لہٰذا امام اور مقتدی دونوں کے رکوع کی مقدار پوری ہو گئی۔

اس روایت سے معلوم ہتا ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمد کہے تو مقتدی اللہم ربنا لک الحمد کہیں مگر ایک دوسری روایت میں ربنا و لک الحمد (واؤ کے ساتھ) کے الفاظ مروی ہیں۔ نیز ایک روایت میں اللہم ربنا ولک الحمد بھی مروی ہے۔

یہ حدیث حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اس مسئلے میں مستدل ہے کہ امام رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لک الحمد کہیں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک امام، مقتدی اور منفرد تینوں ہی کو یہ دونوں کلمات کہنے چاہئیں صاحبین سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے لیکن اس قید کے ساتھ کہ امام ربنا لک الحمد آہستہ آواز سے کہے۔

منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والے آدمی کے بارے میں متفقہ طور پر یہ حکم ہے کہ وہ دونوں کلمات کہے اگرچہ صرف ایک پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اکتفاء ربنا لک الحمد پر کیا جائے۔ دونوں کلمات کہنے کی صورت میں سمع اللہ اٹھتے ہوئے اور ربنا لک الحمد حالت قیام میں کہا جائے۔

حدیث کا آخری جملہ واذا قرأ فانصتوا (یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو) حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے خاموش رہنا چاہئے قرأت نہ کرنی چاہئے خواہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی۔

 

                   نماز میں قرأت کا طریقہ

 

اور حضرت ابو قتا دہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں (یعنی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور ایک سورۃ) پڑھتے تھے اور بعد کی دونوں رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں (بھی) آیت سنا دیا کرتے تھے اور دوسری رکعت کی بہ نسبت پہلی رکعت کو زیادہ طویل کرتے تھے اسی طرح عصر اور فجر کی نماز میں بھی کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ظہر کی نماز میں یوں تو قرأت سری (یعنی آہستہ آواز سے) سے ہوتی ہے اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی پڑھتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بسا اوقات ظہر کی نماز میں کوئی آیت یا سورۃ بآواز بھی پڑھ دیا کرتے تھے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ جان لیں کہ سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ یا کوئی آیت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ یا لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فلاں سورت کی قرأت کر رہے ہیں۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ یہاں ظہر کی تخصیص تقیدی ہیں ہے بلکہ اتفاقی ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر نماز میں ایسا ہی کرتے تھے۔

 

پہلی رکعت کو طویل کرنے کا مسئلہ

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی رکعت کو دوسری رکعتوں سے زیادہ طویل کرنا چاہئے چنانچہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہی ہے کہ تمام نمازوں میں پہلی رکعت کو دوسری رکعت کی بہ نسبت زیادہ طویل کرنا چاہئے۔ حنفیہ میں سے حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی مسلک یہی ہے ، ان حضرات نے ظہر، عصر اور صبح کی نمازوں میں پہلی رکعت کو طویل کرنے کے مسئلے کو احادیث سے ثابت کیا ہے اور مغرب و عشاء کو ان تینوں پر قیاس کیا ہے۔ عبدالرزاق نے اس حدیث کے آخر میں معمر سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ  ہمارا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پہلی رکعت کو اس لیے طویل کرتے تھے کہ لوگ پہلی رکعت پالیں، امام ابوداؤد اور ابن خزیمہ رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے بھی یہی لکھا ہے۔

حضرت امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک پہلی رکعت کو طویل کرنا صرف فجر کی نماز کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ وقت نیند و غفلت کا ہوتا ہے۔ ورنہ تو دونوں رکعتیں چونکہ استحقاق قرأت میں برابر ہیں۔ اس لیے مقدار قرأت میں بھی برابر ہونی چاہئیں چنانچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر رکعت میں تیس آیتوں کی مقدار قرأت کیا کرتے تھے جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے پہلی رکعت کو طویل کرنے کا اثبات ہوتا ہے تو یہ اس بات پر محمول ہے کہ چونکہ پہلی رکعت میں دعا کے استفتاح (یعنی سبحانک اللہم اور اعوذ باللہ و بسم اللہ پڑھی جاتی ہے اس لیے پہلی رکعت طویل معلوم ہوتی تھی نیز یہ کہ طوالت تین آتیوں سے بھی کم کی مقدار میں ہوتی تھی۔

خلاصہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک احب یعنی اچھا ہے۔

 

                   نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قیام کی مقدار

 

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ظہر اور عصر کی نماز میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے قیام (کی مقدار) کا اندازہ کرتے ، چنانچہ ہم نے اندازہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں الم تنزیل السجدہ پڑھنے کے بقدر قیام کرتے تھے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  ہر رکعت میں تیس آیتیں پڑھنے کے بقدر قیام کرتے تھے اور (ظہر کی) آخری دو رکعتوں میں اس کے نصف کے بقدر قیام کا ہم نے اندازہ کیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

الم تنزیل السجدہ کے بقدر کا مطلب یا تو یہ ہے کہ دونوں رکعتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مجموعی قیام کی مقدار سورہ الم تنزیل السجدہ ہوتی تھی یا اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر رکعت میں الم السجدہ پڑھنے کے بقدر قرأت کرتے تھے اس آخری مطلب کی تائید دوسری روایت بھی کرتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر رکعت میں تیس آیتوں کے بقدر قرأت کرتے تھے اور الم تنزیل السجدہ میں انتیس آیتیں ہیں، اگر پہلے مطلب کو صحیح مانا جائے تو یہ دوسری روایت کے خلاف ہو گا لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ یہ کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر رکعت میں سورہ االم تنزیل السجدہ کی بقدار قرأت کرتے تھے۔

 

آخری رکعتوں میں قرأت کا مسئلہ

حدیث کی ان الفاظ و حزرنا قیامہ فی الا خرین یعنی (ظہر) کی آخری دو رکعتوں میں اس سے نصف کا ہم نے انداز کیا ہے۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی آخری دونوں رکعتوں میں بھی سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت جو پہلی دونوں رکعتوں کی سورتوں سے مختصر ہوتی تھی پڑھتے تھے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک قول جدید کے مطابق یہی ہے لیکن ان کے ہاں فتوے ان کے قول قدیم پر ہے جو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت پڑھنا ضروری نہیں ہے۔

لہٰذا اس حدیث کی تاویل یہ ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فعل سنت پر محمول نہیں بلکہ بیان جواز پر محمول ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کبھی کبھی کوئی اور سورہ بھی ملا کر قرأت کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اس طرح پڑھنا بھی جائز ہے لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ تمام ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا ہی سنت ہے بلکہ حنفیہ کا کہنا تو یہ کہ اگر کوئی آدمی سورہ فاتحہ بھی نہ پڑھے بلکہ صرف تسبیح (یعنی سبحان اللہ وغیرہ کہہ لے تو بھی جائز ہے لیکن قرأت افضل ہے ، امام نخعی، امام ثوری اور کوفہ کے تمام علماء کرام کا قول بھی یہی ہے۔

محیط میں یہ لکھا کہ اگر کوئی آدمی آخری دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بجائے قصداً سکوت اختیار کرے تو یہ خلاف سنت ہونے کی وجہ سے ایک غلط فعل ہو گا۔ حسن بن زیاد نے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں قرأت کرنا واجب ہے۔ ابن شیبہ نے حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے کہ پہلی دونوں رکعتوں میں قر اءت کرو اور آخری دونوں رکعتوں میں تسبیح پر اکتفاء کرو اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی آدمی آخری دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورۃ بھی پڑھ لے تو سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا  اور یہی صحیح بھی ہے کیونکہ آخری دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا سنت ہے اور کسی دوسری سورت کا ترک کرنا واجب نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ سہو کسی واجب کو چھوڑ دینے یا واجب پر عمل نہ کرنے ہی کی وجہ سے ضروری ہوتا ہے۔

حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں اولیٰ اور صحیح یہ ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورۃ کا پڑھنا مکروہ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دونوں رکعتوں میں کبھی کبھی سورہ فاتحہ کے علاوہ اور کوئی سورۃ یا کچھ آیتیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے لیکن سورہ فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورۃ کا نہ پڑھنا ہی مستحب ہے۔

 

                   ظہر کی نماز کی قرأت

 

اور حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز میں سورہ واللیل اذا یغشی پڑھا کرتے تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سورۃ سبح اسم ربک الاعلی پڑھا کرتے تھے اور عصر کی نماز میں بھی اسی قدر (کوئی آیت یا سورۃ) پڑھتے تھے اور صبح کی نماز میں اس سے لمبی قرأت کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جس طرح دیگر احادیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فلاں نماز میں فلاں سورۃ پڑھتے تھے اور اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ سورۃ پہلی رکعت میں پڑھتے تھے یا دوسری میں۔ یا ایک رکعت میں بغیر پہلی دوسری کے تعین کے پڑھتے تھے۔ اس طرح اس حدیث میں بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز میں سورہ واللیل اذا یغشی کس رکعت میں پڑھتے تھے آیا پہلی رکعت میں یا دوسری میں؟

اس سلسلہ میں دوہی احتمال ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی سورۃ کو دونوں رکعتوں میں پڑھتے تھے یا یہ کہ ایک سورۃ کا کچھ حصہ تو پہلی رکعت میں پڑھتے تھے اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں (پہلے احتمال میں تکرار لازم آئے گا اور دوسرے میں تبعیض (یعنی کسی ایک سورۃ کا کچھ حصہ پہلی رکعت میں اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں پڑھنا لازم آئے گا، اور یہ دونوں یعنی تکرار و تبعیض غیر اولیٰ ہیں اگرچہ جائز ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تکرار و تبعیض ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک رکعت میں پوری سورۃ پڑھنا اگرچہ وہ چھوٹی ہو افضل ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ ایک رکعت میں کسی سورۃ کا کچھ حصہ پڑھا جائے اگرچہ وہ سورت طویل ہو۔ ہاں اس مسئلے میں تراویح مثتثنیٰ ہے کیونکہ اس میں تو پورا قرآن سارے مہینہ میں ختم کرنا افضل ہے لہٰذا ان سے دونوں احتمالات اور ان میں پیدا شدہ اشکالات کو دیکھتے ہوئے کوئی ایسا تیسرا حتمال پیدا کیا جائے گا جو حدیث کی منشاء کے مطابق اور اس سے مناسب ہو اور وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مذکورہ سورۃ کے علاوہ کوئی دوسری سورۃ بھی پڑھتے تھے خواہ پہلی رکعت میں پڑھتے ہوں یا دوسری میں۔

 

                   مغرب کی نماز کی قرأت

 

اور حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو مغرب کی نماز میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

                   فقہاء کی جانب سے نمازوں میں تعین قرأت کی دلیل

 

اور حضرت ام فضل بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو مغرب کی نماز میں سورہ والمرسلات عرفا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہ احادیث اور وہ حدیث جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی نماز میں سورہ اعراف، سورہ انفال اور سورہ دخان پڑھتے تھے یا اسی قسم کی دوسری احادیث سب اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نمازوں میں کسی خاص اور متعین سورۃ کا پڑھنا ضروری نہیں ہے بلکہ نمازی کی آسانی و سہولت پر موقوف ہے کہ وہ جس نماز میں جو بھی سورۃ چا ہے پڑھ سکتا ہے۔ فقہا جو یہ لکھتے ہیں کہ فجر و ظہر میں طوال مفصل، عصر و عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل پڑھنا چاہئے تو ان کے تعین قرأت کی اصلی دلیل یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو اس زمانہ میں کوفہ کے گورنر تھے ایک خط لکھا تھا اس میں یہ مذکورہ تفصیل لکھی تھی اس کے مطابق نمازوں میں قرأت کا اس طرح تعین قرار پایا۔ اس مسئلہ کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ اقدس میں طول و قصر کے سلسلے میں قرأت کا مسئلہ اختلاف احوال و اوقات اور مصلحت جواز کے ساتھ مختلف تھا پھر بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس مکتوب گرامی کی روشنی میں قرأت کا ایک نہج اور اصول مقرر کیا گیا جس کو فقہاء کی اصطلاح میں طوال مفصل (طوال مفصل سورہ حجرات سے سورۃ والسماء ذات البروج تک اور  اوساط مفصل سورہ والسماء ذات البروج سے سورہ لم یکن (البینۃ) تک اور  قصار مفصل سورہ لم یکن کے بعد سے سورہ الناس تک کی سورتوں کو کہا جاتا ہے ١٢۔) اور اوساط مفصل اور قصار مفصل کا نام دیا گیا اور ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوئی دلیل براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی قول و فعل سے ہاتھ لگی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طریقہ کے مطابق کبھی کبھی قرأت کرتے ہوں جس کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا ہے اور کبھی کبھی اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہی معمول رہتا ہو جو ان احادیث میں مذکور ہے۔ بہر حال ہم تو سمجھتے ہیں کہ فقہاء کے مقرر کردہ اس اصول کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول ہی دلیل کے لیے کافی ہے؟

 

                   فرض نماز پڑھنے والے کو نفل نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرنا جائز ہے یا نہیں؟

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھ کر آتے اور پھر اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتے تھے چنانچہ (ایک دن) انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھی اور پھر آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور (نماز میں) سورہ بقرہ شروع کر دی (جب قرأت طویل ہوئی تو) ایک آدمی سلام پھیر کر جماعت سے نکل آیا اور تنہا نماز پڑھ کر چلا گیا لوگوں نے (جب یہ دیکھا تو اس سے کہا کہ  فلا نے ! کیا تو منافق ہو گیا ہے (کیونکہ جماعت سے جان بچا کر نکل بھاگنا تو منافقوں ہی کا کام ہے) اس نے کہا  نہیں اللہ کی قسم (میں منافق نہیں ہوا ہوں) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر حقیقت حال بیان کروں گا  چنانچہ وہ آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! ہم اونٹوں والے ہیں، دن کو کام کرتے ہیں (یعنی) اونٹوں کے ذریعے پانی کھینچ کر درختوں کی آبپاشی کرتے ہیں اور دن بھر محنت و مشقت میں لگے رہتے ہیں) معاذ رات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھ کر آئے اور ہمیں نماز پڑھائی اور سورہ بقرہ شروع کر دی (لمبی قرأت ہونے اور اپنے تھکے ہوئے ہونے کی وجہ سے میں بد دل ہو گیا) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا  معاذ! کیا تم فتنے پیدا کرنے والے ہو؟ (یعنی کیا تم لوگوں سے جماعت ترک کرا کر انہیں دین سے بیزار اور فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ بہتر یہ ہے کہ) تم سورہ والشمس وضحھا سورہ والضحی سورہ واللیل اذا یغشی اور سورہ سبح اسم ربک الا علی پڑھا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہ آدمی نعوذ باللہ جماعت یا نماز سے متنفر نہیں ہوا تھا بلکہ چونکہ دن بھر کی محنت و مشقت کی وجہ سے تھکا ماندہ تھا اس لیے جب قرأت لمبی ہوئی اور نماز نے طوالت اختیار کی تو یہ مجبور ہو کر جماعت سے نکل آیا اور اپنی نماز تنہا پڑھ لی۔ اسی وجہ سے جماعت سے نکلتے ہوئے باوجود اس کے کہ سلام پھیرنے کا کوئی موقعہ و محل نہ تھا اس نے سلام پھیرا کیونکہ اس نے سوچا کہ نماز سے سلام پھیر کر نکلے تاکہ کم سے کم نماز پوری ہونے کی مشابہت تو ہو ہی جائے۔

ایک دوسری روایت میں سبح اسم ربک الاعلی کے بعد کچھ اور سورتیں بھی ذکر کئی گئی ہیں مثلاً اذا السماء انفطرت اذا السماء انشقت اور سورہ بروج و سورۃ طارق۔

حضرات شوافع نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ فرض نماز پڑھنے والے کو نفل نماز پڑھنے والے کی اقتدا کرنا جائز ہے اس لئے کہ حضرت معاذ ابن جبل جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے تو ان کی فرض نماز ادا ہو جاتی تھی اور اپنی جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھتے تھے نفل رہتی تھی اور ان کے مقتدیوں کی نماز فرض ہوتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو جائز رکھا انہیں اس عمل سے منع نہیں کیا۔

علماء حنفیہ کے نزدیک چونکہ فرض نماز پڑھنے والے کے لئے نفل نماز پڑھنے والے کی امامت میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اس لیے حضرات سوافع کو جواب دیا جاتا ہے کہ نیت ایک ایسی شے ہے جس پر کوئی دوسرا آدمی مطلع نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ خود نیت کرنے والا یہ نہ بتائے کہ اس نے کیا نیت کی تھی۔ لہٰذا یہ غالب ہے کہ حضرت معاذ ابن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ بہ نیت فرض نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے طریقہ نماز سیکھنے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کی برکت و فضیلت حاصل کرنے نیز تہمت نفاق سے بچنے کی خاطر بہ نیت نفل نماز پڑھتے ہوں پھر اپنی قوم کے پاس آ کر انہیں فرض نماز پڑھاتے ہوں گے تاکہ دونوں فضیلتیں حاصل ہو جائیں لہذا حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو اس صورت پر محلول کرنا اولیٰ ہے کیونکہ یہ شکل تو بالا تفاق سب علماء کے نزدیک جائز ہے بخلاف پہلی شکل کے کہ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔

 

امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام کے لیے ضعیف و کمزور مقتدیوں کی رعایت کے پیش نظر نماز میں تخفیف کرنا سنت ہے اگر اسے اس بات کا احساس ہو کہ پیچھے مقتدی ضعیف و کمزور ہیں یا دن بھر کی محنت و مشقت سے تھکے ماندے ہیں یا نہیں کوئی دوسری مجبوری و تکلیف لا حق ہے تو اسے نماز ہلکی پھلکی پڑھانی چا ہے اتنی لمبی قرأت نہ کرنی چاہئے جس سے ضعیف و کمزور لوگ تکلیف و پریشانی محسوس کریں اور اس بناء پر جماعت کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

 

                   نماز عشاء کی قرأت

 

اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو عشاء کی نماز میں سورہ والتین و الزیتون پڑھتے ہوئے سنا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے اچھی کوئی آواز نہیں سنی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح باطنی طور پر دنیا کے سب سے مکمل و اکمل انسان تھے اسی طرح مبداء فیاض نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ظاہری جسمانی حس و خوبصورتی کے بھی سب سے اعلیٰ و ارفع مرتبے پر فائز کیا تھا پھر یہ کہ جس طرح اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حسن صورت کا سب سے اعلیٰ نمونہ بنایا تھا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حسن آواز میں بھی سب سے امتیازی درجہ عنایت فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ شہادت کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے زیادہ کوئی اچھی آواز نہیں سنی محض ایک جذباتی عقیدت کا تاثر یا مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت کی شہادت ہے جس کی صداقت کو اپنے تو الگ رہے کبھی بیگانوں نے بھی چیلنج کرنے کی جرات نہیں کی۔

جیسا کہ ابھی حدیث نمبر ٨ کی تشریح  کے ضمن میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ یہاں بھی اس حدیث جس کی یہی وضاحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشاء کی نماز میں سورہ والتین و الزیتوں ایک رکعت میں پڑھتے تھے اور دوسری رکعت میں کسی دوسری سورۃ کی قرأت فرماتے تھے۔

 

                   نماز فجر کی قرأت

 

اور حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی نماز میں سورہ ق و القران المجید یا ایسی ہی (طویل) کوئی دوسری سورۃ پڑھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی نماز کے بعد کی دوسری نماز ہلکی پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی نماز کے علاوہ اوقات کی نمازیں زیادہ لمبی نہیں پڑھتے تھے اور فجر کی نماز میں طویل قرأت کیا کرتے تھے کیونکہ ہنگام صبح گاہی بارگاہ الوہیئت میں دعاؤں کے قبول ہونے اور برکت و سعادت حاصل ہونے کا وقت ہوتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عمرو ابن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو فجر کی نماز میں واللیل اذا عسعس (یعنی سورہئ اذا الشمس کورت) پڑھتے سنا ہے۔ (صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت عبدا اللہ ابن سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے بعد ایک مرتبہ) آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں مکہ میں فجر کی نماز پڑھائی اور سورہ مومن یعنی قدافلح المومنون شروع کی جب آپ موسیٰ وہارون یا عیسیٰ کے ذکر پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کھانسی اٹھی (جس کی وجہ سے سورۃ پوری کئے بغیر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں چلے گئے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرأت میں سورۃ قدا فلح المومنوں شروع کی اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت (ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاہ ہٰرُوْنَ) 23۔ المومنون:45) پر کہ جس میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا ذکر ہے یا اس آیت (وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّہٓ) 23۔ المومنون:50)  پر کہ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے پہنچے تو ان جلیل القدر پیغمبروں کے ذکر سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل بھر آیا اور رونے لگے جس کی وجہ سے کھانسی کا غلبہ ہو گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس گریہ و کھانسی کی وجہ سے سورۃ پوری نہ کر سکے اور اس آیت پر قرأت ختم کر کے رکوع میں چلے گئے۔

 

                   جمعہ کے روز نماز فجر کی قرأت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں الم تنزیل اور دوسری رکعت میں ھل اتی علی الانسان پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرات شوافع اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمعہ کے روز نماز فجر میں حدیث میں مذکورہ سورتیں ہی پڑھنی چاہئیں مگر حنفیہ چونکہ تعین سورۃ سے منع کرتے ہیں اس لیے فرماتے ہیں کہ یہ اولیٰ نہیں ہے کہ کسی خاص سورۃ کو کسی روز خاص نماز کے ساتھ اس طرح متعین کر لیا جائے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری سورت پڑھی ہی نہ جائے۔ ان حضرات کے نزدیک تعین قرأت و سورۃ کی ممانعت کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر کسی خاص نماز کے ساتھ کسی خاص سورۃ کو متعین کر دیا جائے گا تو لوگ اسی ایک سورۃ کو لازم و واجب سمجھ کر پڑھیں گے اور اس کے علاوہ دوسری سورتوں کو پڑھنا مکر وہ سمجھیں گے۔

ہاں اگر کوئی آدمی مثلاً اس حدیث کے مطابق جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں الم تنزیل سورۃ السجدہ) اور دوسری رکعت میں ھل اتی علی الانسان(سورۃ دہر) حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت کی برکت حاصل کرنے اور اتباع سنت کے جذبے سے پڑھا کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ ان سورتوں کے علاوہ کبھی کبھی کوئی دوسری سورت بھی پڑھ لیا کرے تاکہ کم علم اور عوام یہ نہ سمجھیں کہ ان سورتوں کے علاوہ کوئی دوسری سورت پڑھنی جائز نہیں ہے۔

اس کے علاوہ حنفیہ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس عمل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دوام ثابت نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی کبھی یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے لہٰذا کبھی کبھی پڑھنا تو ہر آدمی کے لیے افضل ہے۔

اس موقعہ پر یہ مسئلہ بھی سن لیجئے کہ اگر کوئی آدمی صبح کی نماز میں سورۃ سجدہ پڑھے تو اسے سجدہ تلاوت بھی کرنا چاہئے اگرچہ شوافع کے کچھ علماء نے بعض ایام میں امام کے لیے اس کو ترک کرنا ہی اولیٰ قرار دیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سجدہ تلاوت کرنا ہی ثابت ہے۔

 

                   نماز جمعہ کی قرأت

 

اور حضرت عبید اللہ ابن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں خلیفہ (یعنی اپنا قائم مقام گورنر) مقرر کیا اور خود مکہ چلا گیا چنانچہ (اس کی عدم موجودگی میں) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی اور انھوں نے پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ اذا جائک المنافقون پڑھی اور فرمایا کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو جمعہ کے روز (یعنی نماز جمعہ) ان دونوں سورتوں کو پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (صحیح مسلم)

 

 

                   نماز عیدین و جمعہ کی قرأت

 

اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم عیدین و جمعہ کی نماز میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتاک حدیث الغاشیۃ(یہ سورتیں) پڑھا کرتے تھے۔ اور حضرت نعمان فرماتے ہیں کہ  جب عید اور جمعہ ایک دن جمع ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (عید و جمعہ میں) کی دونوں نمازوں میں یہی دونوں سورتیں پڑھتے تھے۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کی عیدین اور جمعہ کی نماز میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب موکدہ ہے وہیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز جمعہ میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبیدا اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو وا قد لیثی سے پوچھا کہ  آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم عید اور بقر عید کی نماز میں کیا پڑھتے تھے؟ انھوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں نمازوں میں سورۃ ق والقران المجید اور سورہ اقتربت الساعۃ پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کمال قرب رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احوال و کوائف سے بخوبی واقف تھے اس لیے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے حضرت ابو واقد لیثی سے یہ سوال اس لیے کیا تھا تاکہ ان نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت کے بارے میں جان سکیں البتہ یہ کہا جائے گا کہ اس سوال سے ان کا مقصد یہ تھا کہ حاضرین اس سوال و جواب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت کا علم بخوبی حاصل کر سکیں اور اس واقفیت کو اپنے ذہن میں قائم رکھ سکیں۔

 

                   فجر کی نماز سنت کی قرأت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی دونوں سنت رکعتوں میں سورہ قل یا ایھا الکافرون و قل ھو اللہ احد پڑھتے تھے۔ (رواہ صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی دونوں سنت رکعتوں میں سورہ بقرہ کی یہ آیت قولوا امنا باللہ وما انزل الینا اور (سورۃ آل عمران کی) یہ آیت قل یا اھل الکتب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

پہلی آیت جو سورہ بقرہ کی ہے پورے طور پر یوں ہے۔

آیت (قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَہ مُسْلِمُوْنَ)2۔ البقرۃ:163)

(مسلمانو!) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا ہوئیں ان پر اور جو دیگر پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں ان سب پر (ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (خداواحد) کے فرمانبردار ہیں۔ دوسری آیت جو سورة آل عمران میں ہے وہ پوری یہ ہے۔

آیت (قُلْ یَاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدُ اِلَّا اﷲ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْأً وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اﷲ فَاِنْ تَوَلَوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔ (ال عمران ٣: ٦٤)

(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) فرما دیجئے کہ اے اہل کتاب (یہودیو اور عیسائیو جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم) کی گئی ہے اس کی طرف آؤ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے۔ اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (اللہ کے) فرمانبردار ہیں۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی سنتوں میں کبھی کبھی تو یہ دونوں آیتیں پڑھتے ہوں گے اور اکثر بیشتر قل یا ایہا لکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے ہوں گے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں سورت کا کچھ حصہ خاص طور سے سورۃ کے درمیان سے پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔

ابتداء نماز میں بسم اللہ پڑھنا

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نمازبسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرتے تھے اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہے۔

 

تشریح

 

بسم اللہ سے شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابتدا نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ آواز سے پڑھتے اس کے بعد قرأت شروع کرتے تھے۔ آہستہ آواز کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ یہ حدیث پہلے گزرنے والی احادیث کے خلاف نہ رہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نماز کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے فرمایا کرتے تھے۔

میرک شاہ نے کہا ہے کہ امام جامع ترمذی کا اس کو ضعیف الاسناد کہنا محل غور ہے کیونکہ یہ حدیث حسن ہے اور اس کی اسناد بالکل صحیح ہے۔

 

                   آمین بآواز بلند کہی جائے یا آہستہ

 

اور حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (نماز میں) غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھا اور پھر دراز آواز سے آمین کہی۔ (ابوداؤ، دارمی، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

دراز آواز سے آمین کہنے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آمین بآواز بلند کہی یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظ آمین میں الف کو مد کے ساتھ یعنی کھینچ کر کہا۔

آمین کہنے کا مسئلہ بھی ائمہ کے یہاں مبحث فیہ ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ بات جاننی چاہیے کہ اس مسئلے میں تو سب ائمہ متفق ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا ہر نمازی کے لیے سنت ہے خواہ منفرد ہو یا امام کے ساتھ اسی طرح مقتدی کو بھی آمین کہنا سنت ہے خواہ امام کہے یا نہ کہے۔ اب اختلاف اس چیز میں ہے کہ آیا آمین بآواز بلند کہی جائے یا آہستہ آواز سے؟ چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک آمین بآواز بلند کہنی چاہئے۔

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک آمین آہستہ آواز سے کہنی چاہئے چنانچہ وہ ان احادیث کے بارے میں جن سے آمین بآواز بلند کہنا ثابت ہے اور جو شافع وغیرہ کی مستدل ہیں یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام احادیث اس بات پر محمول ہیں کہ ابتداء اسلام میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم تعلیم کی خاطر آمین بآواز بلند کہتے تھے تاکہ صحابہ کرام یہ جان لیں کہ سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنا چاہئے۔ صحابہ جب یہ سیکھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم آمین آہستہ آواز سے کہنے لگے چنانچہ حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ احمد، ابو یعلی، طبرانی ، دارمی، اور حاکم نے شعبہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ

علقمہ ابن عائل اپنے والد مکرم حضرت وائل سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے (یعنی وائل) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب  غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پر پہنچے تو آہستہ آواز سے آمین کہی۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا  چار چیزیں ایسی ہیں جنہیں امام کو آہستہ آواز سے پڑھنا چاہئے۔

(١) اعوذ با اللہ (٢) بسم اللہ (٣) سبحانک اللہم (٤) آمین

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بھی آمین آہستہ آواز سے کہتے تھے اس کے علاوہ یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کلمات دعا کو آہستہ آواز سے پڑھنا ہی اولیٰ اور صحیح ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْيَةً) 7۔ الاعراف:55) یعنی اپنے رب سے دعا گڑ گڑا کر اور چپکے سے کرو۔

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آمین بھی دعا ہی ہے لہٰذا آمین کو آہستہ سے کہنا اس آیت عمل پر کرنا ہے۔ نیز یہ کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ آمین قرآن کا لفظ نہیں ہے اس لیے مناسب یہی ہے کہ اس کی آواز قرآن کے الفاظ کی آواز سے ہم آہنگ نہ ہو جس طرح کی مصحف (یعنی اوراق قرآن) میں لکھنا جائز نہیں ہے۔

 

                   آمین کی برکت

 

اور حضرت ابو زہیر نمیری فرماتے ہیں کہ ایک رات کو ہم آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ (باہر) نکلے اور ایک ایسے آدمی کے پاس آئے جو دعا کرنے میں از حد ازاری کر رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  واجب کیا اگر ختم کیا  ایک آدمی نے پوچھا کہ (یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)) کس چیز کے ساتھ ختم کرے؟ فرمایا  آمین کے ساتھ۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

واجب کیا اگر ختم کیا  کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ آدمی اپنی دعا پر آمین کہہ کر مہر لگا دے یا آمین پر ختم کر دے تو اس کے لیے جنت و مغفرت واجب ہو گئی یعنی یہ جنت و مغفرت کا حق دار ہو گیا یا اس کی دعا قبول ہو گئی۔

ختم کے دو معنی نقل کئے گئے ہیں مہر لگانا یا ختم کرنا۔ پہلے معنی اس حدیث امین خاتم رب العالمین کی مناسب سے زیادہ اولیٰ و بہتر ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آمین اللہ رب العالمین کی مہر ہے اس کی وجہ سے آفات و بلائیں ختم ہوتی ہیں جس طرح سے کہ مہر سے خط محفوظ رہتا ہے یا وہ چیزیں قابل اعتماد ہوتی ہیں جن پر مہر لگی ہوئی ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے پروردگار سے دعا مانگے تو اس کو چاہئے کہ دعائیہ کلمات کہنے کے بعد آمین بھی کہے تاکہ اس کی برکت کی وجہ سے وہ بارگاہ قاضی الحاجات میں مقبولیت کے مرتبے سے نوازی جائے اور وہ دعا کامل رہے کیونکہ آمین بمنزلہ مہر کے ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب میں طویل قرأت بھی کرتے تھے

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب کی نماز میں سورہ اعراف (اس طرح) پڑھی کہ اسے دونوں رکعتوں میں تقسیم کر دیا۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی نماز میں قرأت مختصر کرتے تھے مگر کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیان جواز کے لیے طویل قرأت بھی کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ مغرب کی نماز میں طویل قرأت کرنا جائز ہے۔ چنانچہ مغرب کی نماز میں سورہ اعراف پڑھنا اسی مقصد کے تحت تھا جہاں تک تنگی وقت کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغرب کا وقت طویل قرأت کی گنجائش رکھتا ہے خصوصاً جب شفق کا اطلاق سفیدی پر کیا جائے۔

دونوں رکعتوں میں تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سورۃ کا کچھ حصہ تو پہلی رکعت میں پڑھا اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں۔ اس طرح پوری سورۃ کو دونوں رکعتوں میں ختم کیا۔

 

                   معوذتین کی فضیلت

 

اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی مہار پکڑے چل رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا  عقبہ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں جو پڑھی گئی ہیں (یعنی مجھ پر نازل کی گئی ہیں) نہ بتلا دوں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے (معوذتین یعنی) قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس سکھائیں۔ عقبہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ان دونوں سورتوں سے زیادہ خوش نہیں دیکھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز پڑھنے کے لیے اترے تو لوگوں کو نماز میں یہی دونوں سورتیں پڑھائیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا  عقبہ ! تم نے (ان کی فضیلت کو) دیکھا؟۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

بہترین سورتوں  کا مطلب یہ ہے کہ شیطان مردود کے مکر و فریب اور نفس کی گمراہی سے اللہ کی پناہ مانگنے کے سلسلہ میں معوذتین بہترین سورتیں ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ سورتیں سکھانے کے بعد جب دیکھا کہ وہ ان سورتوں کو دیکھ کر کچھ زیادہ خوش نہیں ہوئے کیونکہ دوسری سورتوں کی طرح ان سورتوں میں اللہ کی وحدانیت اور پاکیزگی کا بیان نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی نماز میں انہیں سورتوں کو پڑھ کر فرمایا کہ عقبہ ! تم نے اس سورتوں کی فضیلت دیکھی کہ میں نے ان کو فجر کی نماز میں جو تمام نمازوں سے افضل نماز ہے اور جس میں طویل قرأت کرتا مستحب ہے پڑھا۔

 

                   جمعہ کے روز نماز مغرب کی قرأت

 

اور حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کے روز مغرب کی نماز میں قل یا ایھا الکافرون اور قال ھو اللہ احد پڑھا کرتے تھے یہ حدیث شرح السنتہ میں منقول ہے اور ابن ماجہ نے یہ حدیث عبداللہ ابن عمر سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کی ہے لیکن اس میں  لیلۃ الجمعۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔

 

تشریح

 

حدیث میں مغرب سے مغرب کی فرض نماز مراد ہے یعنی آپ جمعہ کے روز مغرب کی فرض نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھا کرتے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ نماز مغرب سے مغرب کی سنتیں مراد ہوں۔ وا اللہ اعلم

ابن حبان نے قل ھو اللہ کے الفاظ کے بعد یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ وفی العشاء سورۃ الجمعۃ والمنافقون یعنی شب جمعہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشاء کی نماز میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون پڑھا کرتے تھے۔

ابن مالک نے کہا ہے کہ  یہ حدیث یا اسی قسم کی دوسری حدیث دوام پر محمول نہیں ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ہمیشہ کا معمول نہیں تھا۔ بلکہ کبھی آپ دوسری سورتیں پڑھا کرتے تھے اور کبھی ان سورتوں کی قرأت کرتے تھے تاکہ لوگ یہ جان لیں کہ ہر ایک سورۃ کو پڑھنا جائز ہے۔ کسی خاص سورۃ کو پڑھنا ضروری نہیں ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے کتنی مرتبے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی مغرب کی نماز کے بعد اور فجر کی نماز سے پہلے دونوں سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے سنا ہے اس حدیث کو ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا مگر ان کی روایت میں  بعد المغرب کے الفاظ نہیں ہیں۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی دونوں سنتوں اور فجر کی دونوں سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد دونوں سورتیں اتنی کثرت سے پڑھا کرتے تھے کہ میں ان کا شمار نہیں کر سکتا۔

 

 

٭٭اور حضرت سلیمان ابن یسار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی آدمی کے پیچھے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کے مشابہ نماز نہیں پڑھی مگر فلاں آدمی کے پیچھے سلیمان فرماتے ہیں کہ میں نے بھی اس آدمی کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ وہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں کو طویل پڑھتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں کو ہلکی پڑھتے تھے ، عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے۔ مغرب کی نماز میں قصار مفصل اور عشاء میں اوساط مفصل اور فجر کی نماز میں طوال مفصل پڑھا کرتے تھے اور ابن ماجہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے مگر ان کی روایت صرف و یخفف العصر تک ہے (سنن نسائی)

 

تشریح

 

فلاں آدمی کے تعین کے سلسلے میں بعض حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ذات مراد ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے  فلاں آدمی سے مراد وہ آدمی ہے جس کو خلیفہ مروان نے مدینہ میں حاکم مقرر کر رکھا تھا۔

اس حدیث میں ظہر اور عصر کی قرأت کا اجمالی طور پر ذکر کیا ہے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز میں طوال مفصل پڑھتے تھے۔ بلکہ صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ظہر کی نماز میں طویل قرأت کرتے تھے۔ اسی طرح عصر کی نماز کے بارے بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس میں قصار مفصل پڑھتے تھے یا اوساط مفصل؟ صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے

بہر حال نمازوں کی قرأت کے سلسلے میں فقہاء نے ایک اصول و نہج بنایا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نمازوں میں قرأت کرنے کے سلسلے میں عملی طور پر کوئی خلجان واقع نہ ہو اور وہ یہ کہ فجر اور ظہر کی نماز میں طوال مفصل و عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب قصار مفصل پڑھی جائیں۔ اس مسئلہ کی وضاحت اس سے پہلے بھی ایک حدیث کی تشریح کے ضمن میں کی جا چکی ہے اور وہاں اس کے اصطلاحی ناموں کی تعریف بھی کی گئی ہے چنانچہ ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجئے کہ فقہاء کی اصطلاح میں  مفصل سے سورہ حجرات سے سورہ والناس تک کی سورتیں مراد ہیں ان سورتوں کو مفصل اس لیے کہا گیا ہے کہ  فصل کے معنی جدا ہونے کے ہیں چنانچہ سورت حجرات سے ان چھوٹی چھوٹی سورتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ایک دوسری سے درمیان میں بسم اللہ ہونے کی وجہ سے جدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر مفصل یعنی سورہ حجرات سے سورہ و الناس تک کی سورتوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

(١) چھوٹی سورتیں (٢) متوسط سورتین(٣) بڑی سورتیں۔

سورہ حجرات سے سورہ بروج تک کو طوال مفصل یعنی مفصل کی بڑی سورتیں فرماتے ہیں۔

سورہ بروج سے سورہ لم یکن (البینہ) تک کو او ساط مفصل یعنی مفصل کی متوسط سورتیں فرماتے ہیں۔

اور سورہ لم یکن سے سورہ و الناس تک کو قصار مفصل کی چھوٹی سورتیں کہتے ہیں۔

 

                   امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا بیان

 

اور حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم لوگ فجر کی نماز میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب قرأت شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑھانا بھاری ہو گیا۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ  شاید تم لوگ امام کے پیچھے قرأت کیا کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا  جی ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سوائے سورہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو اس لیے کہ جو آدمی یہ سورۃ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) نسائی نے یہ روایت بالمعنی نقل کی ہے اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کا جواب سن کر) فرمایا جب ہی تو میں یوں کہتا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے کہ قرأت مجھ پر بھاری ہو رہی ہے ، جب میں بآواز بلند پڑھا کروں تو تم لوگ بجز سورہ فاتحہ کے اور کچھ مت پڑھا کرو۔

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں بآواز بلند قرأت کر رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے مقتدی صحابہ کرام بجائے اس کے کہ خاموشی اختیار کر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت سنتے خود بھی قرأت کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقتدیوں کی قرأت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت پر اثر انداز ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز میں خربطہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے قرأت کرنا مشکل ہو گیا کیونکہ بسا اوقات کامل چیز پر ناقص چیز بھی اثر انداز ہو جاتی ہے جیسا کہ کتاب الطہارت کی ایک حدیث میں گذر چکا ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی نماز میں قرأت شروع کی اور پھر اچانک رک گئے اور پھر اس رکنے کا سبب یہ بیان کیا کہ کچھ ایسے لوگ میرے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں جو ٹھیک طرح سے وضو نہیں کرتے یعنی ان کا وضو نا قص رہ جاتا ہے جو میری نماز و قرأت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ائمہ کے ہاں (اس مسئلے میں) اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ امام اور منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے مگر مقتدی کے لیے واجب نہیں ہے خواہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے

آیت (وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ) 7۔ الاعراف:204) (نماز میں) جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموشی اختیار کرو۔

امام صاحب اس حدیث کو ابتداء پر محمول کرتے ہیں یعنی یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا پھر بعد میں منسوخ ہو گیا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم (جہری) نمازی سے جس میں قرأت بآواز بلند کی جاتی ہے فارغ ہوئے (اور نمازیوں کی طرف متوجہ ہو کر) فرمایا  ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا ہاں! یا رسول اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (میں جبھی تو دل میں) کہتا تھا کہ کیا ہو گیا ہے کہ میں قرآن پڑھنے میں الجھتا ہوں  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے یہ سنا تو ان نمازوں میں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قرأت بآواز بلند کرتے تھے آپ کے ساتھ قرأت کرنے سے رک گئے۔ (مالک ، مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد ، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس حدیث سے بصراحت سے معلوم ہو گیا ہے کہ صحابہ جہری نماز میں امام کے پیچھے مطلقاً کچھ نہیں پڑھتے تھے نہ تو سورہ فاتحہ کی قرأت کرتے تھے اور نہ کسی دوسری سورت و آیت کی لہٰذا حنفیہ کا مسلک ثابت ہوا کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کے لیے قرأت کرنا جائز نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث اس سے پہلے گزرنے والی حدیث کے لیے ناسخ ہو جس میں کہا گیا ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں اسلام لائے ہیں اس لیے ان کی روایت کردہ حدیث بھی اس حدیث کے بعد کی ہوئی اور ظاہر ہے کہ بعد کا حکم پہلے حکم کے لیے ناسخ ہوا کرتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بیاضی روایت کرتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نمازی اپنے پروردگار سے (حالت نماز میں) مناجات کرتا ہے لہٰذا اسے چاہئے کہ جو مناجات وہ کرتا ہے اس پر غور کرے (یعنی ذکر و قرأت حضور قلب اور خشوع اور خضوع کے ساتھ کرے) اور قرآن کو پڑھنے میں تم میں سے کوئی ایک دوسرے سے اونچی آواز نہ کرے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی قرآن پڑھے خواہ نماز میں پڑھے یا نماز کے علاوہ پڑھے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی آواز دوسرے نمازی یا دوسرے قاری کی آواز سے اونچی نہ ہو۔ اس طرح کسی ذکر کرنے والے یا سونے والے کے سامنے بھی اونچی آواز سے نہ پڑھے تاکہ ان لوگوں کو اس کی وجہ سے تکلیف نہ پہچنے

 

                   امام کی متابعت ضروری ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ، لہٰذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

فاذا اکبر فکبروا کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ مقتدی تکبیر، امام کے تکبیر کہنے کے بعد کہیں۔ نہ تو اس کے ساتھ ساتھ کہیں اور نہ اس سے پہلے کہیں اور یہ حکم تکبیر تحریمہ میں تو واجب ہے البتہ دوسری تکبیرات میں مستحب ہے۔

حدیث کے دوسرے جزء فاذا قرا سے مراد مطلق ہے یعنی خواہ امام بلند قرأت کرے یا آہستہ سے پڑھے۔ دونوں صورتوں میں مقتدیوں کو خاموشی سے اس کی قرأت سننا چاہئے اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فانصتوا  یعنی چپ رہو فرمایا۔ فا ستمعوا یعنی سنو نہیں فرمایا ارشاد ربانی ہے۔

آیت (وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ)  7۔ الاعراف:204)

یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو (بلند آواز سے پڑھنے کی صورت میں) اسے سنو اور آہستہ آواز سے پڑھنے کی صورت میں) خاموش رہو۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کے لیے کچھ پڑھنا مطلقاً ممنوع ہے خواہ نماز جہری (بآواز بلند ہو یا سری بآواز آہستہ)

 

سورہ فاتحہ کی قر اءت میں ائمہ کے مسلک

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنا خواہ نماز جہری ہو یا سری واجب ہے اور سورہ فاتحہ کے علاوہ کوئی سورۃ وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔

حضرت امام احمد، حضرت امام مالک اور ایک قول کے مطابق خود حضرت امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا بھی مسلک یہ ہے کہ مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ کا پڑھنا صرف سری نماز میں واجب ہے جہری نماز میں محض امام کی قرأت سننا کافی ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں خواہ نمازی سری ہو یا جہری دونوں صورتوں میں مطلقاً قرأت مقتدی کے لیے ممنوع ہے نیز صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک بھی مقتدی کو پڑھنا مکروہ ہے۔

حضرت امام محمد جو حضرت امام اعظم کے جلیل القدر شاگرد اور فقہ حنفیہ کے امام ہیں فرماتے ہیں کہ  صحابہ  کی ایک جماعت کے قول کے مطابق امام کے پیچھے مقتدی اگر سورہ فاتحہ کی قرأت کرے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ عمل اس دلیل پر کیا جائے جو زیادہ قوی اور مضبوط ہو، چنانچہ حنفیہ کی دلیل یہ حدیث ہے۔

الحدیث (مَنْ کَانَ لَہ اِمامٌ فَقِرَاءَ ۃٌ الْاِ مَام قِرَاءَ ۃٌ لَہٗ۔

یعنی (نماز میں) جس آدمی کا امام ہو تو امام کی قرأت ہی اس (مقتدی) کی قرأت ہو گی۔

یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ البخاری و مسلم کے علاوہ سب ہی نے اسے نقل کیا ہے اور ہدایہ میں تو یہاں تک مذکورہ ہے علیہ اجماع الصحابۃ یعنی اسی پر صحابہ کا اتفاق تھا۔

 

 

                   جو آدمی قرأت پر قادر نہ ہو وہ کیا پڑھے

 

اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں (فوری طور پر) قرآن میں سے کچھ یاد کر لینے پر قادر نہیں ہو سکتا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے جو میرے لیے کافی ہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم یہ پڑھ لیا کرو سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول ولا قوۃ الا باللہ یعنی اللہ پاک ہے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ بہت بڑا ہے ، گناہوں سے بچنے کی توفیق اور عبادت کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس آدمی نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! یہ تو اللہ کے لیے ہے میرے لیے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اپنے لیے) تم یہ پڑھ لیا کرو۔ اللھم ارحمنی وعافنی واھدنی وارزقنی یعنی اے پروردگار مجھ پر رحم فرما، مجھ کو عافیت سے رکھ! مجھے ہدایت عطا کر ! اور مجھے رزق دے  پھر اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کیا اور ان کو بند کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھ نیکی سے بھر لیے۔ (سنن نسائی کی روایت الا باللہ تک ختم ہو گئی ہے۔)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جب سائل نے قرأت کا کوئی بدل دریافت کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بتا دیا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اور ان کو بند کیا اور اپنے اس عمل سے گویا اس بات کا اقرار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ فرمایا ہے میں نے اسے سچ و برحق جانا اور اسے یقین و اعتماد کے ساتھ اپنے دل و دماغ میں جا گزین کر لیا ہے جس طرح کہ جب کسی آدمی کو کوئی قیمتی و اعلی چیز ہاتھ لگتی ہے تو وہ اس چیز کو اپنی مٹھی میں بند کر لیتا ہے۔

مصنف مشکوٰۃ (علیہ الرحمۃ) نے اس حدیث کو باب القرات میں نقل کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائل قرآن میں سے اتنا بھی یاد نہ کر سکتا تھا جس سے اس کی نماز درست ہو جاتی۔ مگر یہاں ایک اشکال واقع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بات کچھ بعید ہی معلوم ہوتی ہے کہ ایک آدمی جو عربی زبان سے پوری طرح واقف تھا کیا وہ اتنا بھی یاد نہ کر سکتا تھا کہ وہ نماز میں پڑھ سکے۔ پھر یہ کہ جتنے کلمات اسے بتائے گئے ہیں۔ اگر وہ ان کلمات کی بقدر بھی قرآن میں سے کچھ یاد کر لیتا تو اس کی نماز کی ادائیگی کے لیے کافی تھا۔

اس اشکال کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ سائل اسی وقت مسلمان ہوا تھا کہ نماز کا وقت آگیا اور چونکہ وہ فوری طور پر اس قادر نہیں ہو سکتا تھا کہ قرآن میں سے کچھ یاد کر سکے اس لیے آسانی و سہولت کے پیش نظر یہ کلمات سکھا دئیے گئے۔

یا پھر اس حدیث کو ابتدائے اسلام پر محمول کیا جائے گا کہ ان دونوں احکام و مسائل کے نفاذ کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ آسانی و سہولت کو پیش نظر رکھا گیا تھا  یہ توجیہ زیادہ اولیٰ ہے۔

 

                   احکام الٰہی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کی ایک مثال

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ و سلم جب (کسی نماز میں) سبح اسم ربک الا علی پڑھا کرتے تھے تو سبحان ربی الاعلی کہتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم احکام الہٰی پر کس قدر عمل کرتے تھے؟ اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا بنیادی اصول یہی تھا کہ پروردگار عالم جو حکم دے فوراً اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اس کے بعد اس حکم پر اپنے متبعین کو بھی عمل کرائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی نماز میں سورہ اعلیٰ پڑھا کرتے تھے چونکہ اس سورۃ کے ابتدائی الفاظ سبح اسم ربک الاعلی کا مطلب ہے کہ  اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرو جو بلند مرتبہ ہے اس لیے آپ اس حکم کی بجا آواری یہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ سبحان ربی الاعلی میں اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرتا ہوں جو بلند مرتبہ ہے۔

 

 

                   نماز میں کن آیتوں کی قرأت کے بعد کہنا چاہئے؟

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  تم میں سے جو آدمی سورہ والتین و الزیتون پڑھے ، اور (اس آیت) (اَلَيْسَ اللّٰہ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ) 95۔ التین:8)  یعنی کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ پر پہنچے تو یہ الفاظ کہا کرے بلیٰ و انا علی ذلک من الشھدین (یعنی ہا! اور میں اس کی شہادت دینے والوں میں سے ہوں) اور جو آدمی سورہ لا اقسم بیوم القیمۃ پڑھے اور (اس آیت) الیس ذلک بقدر علی ان یحیی الموتی (یعنی کیا اس اللہ) کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اٹھائے) پر پہنچے تو کہے بلیٰ (یعنی ہاں وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے) اور جو آدمی سورہ والمرسلات پڑھے اور اس (آیت) فبای حدیث بعدہٗ یومنون یعنی اس کے بعد یہ کون سی بات پر ایمان لائیں گے) تو کہے اٰمنا باللہ (یعنی ہم اللہ پر ایمان لائے) ابوداؤد اور ترمذی نے اس روایت کو (والتین کی آیت) وانا علی ذلک من الشاھدین تک نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

ان آیتوں یا اس قسم کی دوسری آیتوں کے جواب دینے کے سلسلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ خواہ یہ آیتیں نماز میں پڑھی جائیں یا نماز سے باہر پڑھی جائیں بہر صورت ان کے جواب میں مذکورہ الفاظ کہنے چاہئیں اور نماز خواہ نفل ہو یا فرض۔ حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ نماز سے باہر پڑھنے اور نفل نمازوں میں قرأت کرنے کی شکل میں تو جواب دینا چاہیے فرض نمازوں میں نہیں!

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ صرف نماز سے باہر پڑھنے کی صورت میں جواب دیا جائے نماز میں نہیں، خواہ فرض ہو یا نفل تاکہ یہ وہم نہ ہو جائے کہ یہ الفاظ بھی قرآن ہی کے ہیں۔

علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی حدیث کے ظاہری اطلاق پر نظر کرتے ہوئے کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم تو نمازی کے بارہ میں ہے (لہٰذا چاہیے کہ یہ جواب نماز میں بھی دیئے جائیں) تو ہم کہیں گے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ حکم نفل نمازوں کے بارہ میں ہو، فرض نمازوں کے بارہ میں نہ ہو۔ کیونکہ خود آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات (یعنی تہجد، کی نماز میں جب کسی آیت پر پہنچتے جس میں رحمت خداوندی کا ذکر ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس جگہ قرأت روک کر پروردگار سے طلب رحمت کی درخواست کیا کرتے تھے اور جب کسی آیت پر پہنچتے جس میں عذاب الہٰی کا ذکر ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس جگہ قرأت روک کر پروردگار کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے  نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس معمول یا حکم کو کسی صحابی نے بھی جہری فرائض نماز کے سلسلے میں روایت نہیں کیا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے پاس تشریف لائے اور ان کے سامنے سورہ رحمن اول تا آخر پڑھی صحابہ خاموشی اختیار کئے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (جب سورۃ ختم کر لی تو) فرمایا کہ  یہ سورۃ میں نے جنات کے سامنے اس رات میں پڑھی تھی جبکہ وہ اسلام قبول کرنے اور قرآن سننے کے لیے) جمع ہوئے تھے اور وہ جواب دینے میں تم سے بہتر تھے چنانچہ جب میں اس آیت (فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ) 55۔ الرحمن:13) (یعنی اللہ کی کون سے نعمتوں کو تم جھٹلاتے ہو؟) پر پہنچتا تو وہ یہ جواب دیتے لا بشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد (یعنی اے پروردگار ! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے اور تمام تعریفیں تیرے لیے ہی ہیں  اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

                   دونوں رکعتوں میں ایک سورۃ پڑھنا

 

حضرت معاذ ابن عبد اللہ جہنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو فجر کی دونوں رکعتوں میں سورہ اذازلزلت الارض پڑھتے سنا ہے اور میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قصداً ایسا کیا تھا یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھول گئے تھے۔ (ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ فجر کی دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورۃ اذا زلزلت الارض اس طرح پڑھی کی پہلی رکعت میں پوری سورت پڑھی پھر دوسری رکعت میں بھی وہی سورۃ پوری پڑھی اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایسا قصداً بیان جواز کے لیے کیا تھا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اصل سنت اس طرح بھی ادا ہو جاتی ہے۔ ویسے جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو بات یہی ہے کہ افضل عدم تکرار ہے۔ یعنی ایک ہی سورۃ دو رکعتوں میں مکرر نہ پڑھی جائے اور خصوصاً فرائض میں تو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عروہ ابن زبیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی نماز پڑھی اور دونوں رکعتوں میں سورہ بقرہ پڑھی۔  (مالک)

 

تشریح

 

دونوں رکعتوں میں سورہ بقرہ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سورۃ کا کچھ حصہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رکعت میں پڑھا اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں اور یہ بھی بیان جواز کے لیے کیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس پر مداومت ثابت نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ایک رکعت میں پوری سورۃ ہی پڑھتے تھے دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورۃ اس طرح متفرق طور پر پڑھانا نادر ہے۔

 

                   حضرت عثمان نماز فجر میں سورۂ یوسف کثرت سے پڑھتے تھے

 

اور حضرت فرافصہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (فرافصہ مدینہ طیبہ کے رہنے والے اور مشہور تابعی ہیں۔ آپ قبیلہ بنی حنفیہ کی طرف نسبت کی وجہ سے حنفی کہے جاتے ہیں۔) ابن عمیر حنفی (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے سورہ یوسف، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (سن سن کر) یاد کی ہے کیونکہ وہ اس سورت کو فجر کی نماز میں کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ (مالک)

 

تشریح

 

اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ علماء تو نمازوں میں کسی خاص متعین سورت پر مداوت کرنے کو مکروہ لکھتے ہیں تاکہ قرآن کی بقیہ سورتوں کا ترک کرنا لازم نہ آئے حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ معمول اس کے منافی ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ علماء جو مکروہ لکھتے ہیں اس سے انکی مراد تمام نمازوں میں کسی متعین سورت پر مداومت کرنا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو معمول ثابت ہے وہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ تو صرف فجر کی نماز ہی میں سورہ یوسف بہت کثرت سے پڑھتے تھے تمام نمازوں میں نہیں۔

بعض علماء نے سورہ یوسف کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ سورہ یوسف کے پڑھنے پر مداومت کرنا شہادت کی سعادت حاصل ہونے کا سبب ہے جس کا واضح ثبوت خود حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی ہے کہ آپ شہید ہوئے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عامر ابن ربیعہ (حضرت عامر آل خطاب کے حلیف تھے۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے آپ بدر اور دوسرے غزوات میں شریک رہے اور ٣٢ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے صبح کی نماز پڑھی۔ انھوں نے دونوں رکعتوں میں سورہ یوسف اور سورہ حج کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔ کسی نے حضرت عامر سے پوچھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فجر کے طلوع ہوتے ہی (نماز کے لیے) کھڑے ہو جاتے ہوں گے؟(یعنی وہ اول وقت میں نماز شروع کر دیتے ہوں گے کیونکہ اتنی طویل قرأت جب ہی ممکن ہے) انھوں نے فرمایا کہ  ہاں۔ (مالک)

 

تشریح

 

فجر کی نماز کے لیے اول وقت کھڑے ہو جانا متفقہ طور پر سب کے نزدیک جائز ہے لہٰذا یہ حدیث جواز پر محمول ہے مختار یعنی اولیت پر نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث سے کسی طرح بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ اول وقت کھڑے ہوتے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبد اللہ) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ مفصل کی کوئی بھی چھوٹی بڑی سورت ایسی نہیں ہے جو میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگوں کو فرض نماز پڑھاتے وقت نہ سنی ہو۔ (مالک)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان جواز کے طور پر مفصل کی سورتیں مختلف اوقات میں نمازوں میں پڑھ کر لوگوں کو بتا دیا کہ نماز میں ہر سورت کا پڑھنا جائز ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبد اللہ ابن عتبہ ابن سعود (تابعی) فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب کی نماز میں سورہ حم دخان پڑھی ہے اس روایت کو نسائی نے مرسلا نقل کیا ہے (کیونکہ عبد اللہ ابن عتبہ تابعی ہیں)۔

 

تشریح

 

یہاں دونوں ہی احتمال ہیں کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں حم دخان پوری سورۃ پڑھی یا پھر یہ کہ اس کا کچھ حصہ تھوڑا تھوڑا کر کے دونوں رکعتوں میں پڑھا۔ وا اللہ اعلم

 

                   رکوع کا بیان

 

لغت میں رکوع  کے معنی جھکنا  ہیں اور اصطلاح شریعت میں یہ نماز کا ایک رکن ہے یعنی وہ حالت ہے جب کہ قیام میں قرأت سے فارغ ہو کہ جھکتے ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس بارے میں یہ امتیاز امت محمدیہ کو ہی حاصل ہے کہ رکوع صرف اسی امت کی نماز میں مشروع ہے دوسری امتوں کی نمازوں میں مشروع نہیں تھا۔

 

                    رکوع و سجود کو ٹھیک طریقے سے ادا کرنا چاہیے

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقاء نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مسلمانو! رکوع اور سجود ٹھیک طریقے سے کیا کرو، اللہ کی قسم میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھ لیا کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اقیموا الرکوع والسجود کا مطلب یہ ہے کہ رکوع و سجود قاعدہ کے مطابق اور ٹھہر ٹھہر کر نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ کیا کرو۔ ان ارکان کو جلدی جلدی ادا نہ کیا کرو کہ جس سے نہ رکوع ہی پوری طرح ادا ہو اور اور نہ سجدہ ہی حقیقی معنے میں کہلانے کا مستحق ہو۔

اپنے پیچھے سے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم لوگ میرے سامنے ہونے کی صورت میں نظر آتے ہو اسی طرح از راہ معجزہ تم لوگ میرے پیچھے رہنے کی حالت میں بھی میری نظروں میں رہتے ہو اور تمہاری حرکات و سکنات سب پر میری نظر رہتی ہے۔ اس مسئلے کی وضاحت اچھے طریقے پر باب صفۃ الصلوٰۃ کی تیسری فصل میں کی جا چکی ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قومہ و سجدہ

 

اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیام و قعود کے علاوہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کا رکوع، سجدہ، دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع سے سر اٹھانا یہ چاروں چیزیں مقدار میں تقریباً برابر ہوتی تھیں۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارکان نماز کی مقدار اس طرح بیان کی جاری ہے کہ چار ارکان یعنی رکوع ، قومہ ، سجدہ اور جلسہ سب آپس میں تقریباً برابر ہوتے تھے البتہ قیام میں چونکہ قرأت کرتے تھے اور قعود میں التحیات پڑھتے تھے اس لیے یہ دونوں ارکان بقیہ ارکان کے مقابلہ میں طویل ہوتے تھے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ و سلم جب سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر (رکوع سے) کھڑے ہوتے تو (اتنی دیر تک ٹھہرے رہتے کہ ہم (اپنے دل میں) کہنے لگتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رکعت چھوڑ دی پھر آپ سجدے میں جاتے اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ ہم (اپنے دل میں) کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سجدہ چھوڑ دیا ہے۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع سے سر اٹھاتے تو قومہ میں کافی دیر تک کھڑے رہا کرتے تھے یہاں تک کہ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اتنی دیر تک قومہ میں رہنا ہمیں اس گمان میں مبتلا کر دیتا تھا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رکعت کو کہ جس کے رکوع سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے ہیں ختم کر دیا ہے اور اب از سر نو نماز شروع کر دی ہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدے سے اٹھ کر دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ میں اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ ہمیں خیال گزرتا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پہلے سجدے کو کہ جس سے ابھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر اٹھایا ہے ختم کر دیا ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قومہ و جلسہ میں اتنی طوالت نفل نمازوں میں کرتے ہوں گے اور یہ بھی امکان ہے کہ بیان جواز کی خاطر فرض نمازوں میں بھی کبھی کبھی کر لیتے ہوں گے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے رکوع و سجود میں یہ دعا بہت کثرت سے پڑھتے تھے۔ سبحانک اللھم ربنا و بحمدک اللھم اغفرلی اے اللہ تو پاک ہے ، اے ہمارے پروردگار ! میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں، اے اللہ تو میرے گناہ بخش دے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ قرآن میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ فسبح بحمد ربک واستغفرہ یعنی اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کرو اور اس سے مغفرت مانگو اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کے لیے رکوع و سجود میں اپنے پروردگار کی تسبیح و تعریف کرتے اور اس سے مغفرت مانگتے تھے کیونکہ خشوع و خضوع کے تمام مواقع و احوال میں رکوع و سجود ہی افضل ترین مواقع و محل ہیں۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع و سجود کے علاوہ بھی اس دعا کا ورد کرتے تھے چنانچہ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ سورہ اذاجاء کہ جس میں یہ آیت مذکور ہے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخر عمر میں یہی ذکر تھا۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رکوع و سجود میں یہ کہا کرتے تھے۔ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح فرشتوں اور روح (یعنی جبرائیل) کا پروردگار بہت پاک ہے اور نہایت پاک ہے۔  (صحیح مسلم)

 

                   رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے کی ممانعت

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  لوگو خبردار رہو ! مجھے اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ میں اس حالت میں رکوع یا حالت سجدہ میں قرآن پڑھوں ! لہٰذا تم رکوع میں اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرو اور سجدے میں دعا کی پوری پوری کوشش کیا کرو۔ مناسب ہے کہ یہ دعا تمہارے لیے قبول کی جائے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ نہی تحریمی ہے اور قیاس بھی یہی کہتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز کی تمام حالتوں (ہیئتوں میں سے ہر حالت و ہیبت کو ذکر کی انواع میں سے ہر ایک نوع کو ذکر کے لیے مقرر کیا ہے مثلاً قیام کو جو کہ نماز کی تمام حالتوں و ہیئتوں میں سب سے زیادہ افضل اور رکن اعظم ہے قرآن پڑھنے کے لیے مقرر کیا ہے جو تمام اذکار میں سے سب سے افضل و اعلیٰ درجے کا ذکر ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی جانب سے حالت قیام کو صرف قرآن پڑھنے کے لیے مقرر کرنے کے بعد کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس کے خلاف کیا جائے اور اگر کوئی اس کے خلاف کرے گا تو وہ یا فعل حرام کا مرتکب ہو گا یا اس کا یہ فعل مکروہ ہو گا۔ اسی طرح دوسرے ارکان کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ میں رکوع و سجود میں قرآن پڑھوں کیونکہ رکوع و سجود اس لیے مقرر کئے گئے ہیں کہ ان میں پروردگار عالم کی بڑائی بیان کی جائے اور دعا مانگی جائے۔

 

                    رکوع میں بڑائی بیان کرنےکا مطلب یہ ہے کہ سبحان ربی العظیم پڑھو

 

سجدہ میں دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے تو سمجھ لیجئے کہ دعا کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ دعا کی ایک قسم تو یہ ہوتی ہے کہ پروردگار سے اپنے مطلب و مراد کے لیے درخواست کی جائے اور دعا کی دوسری قسم یہ ہوتی ہے کہ پروردگار کی حمد و ثنا اور تکبیر کی جائے اور اس کے ذکر میں مشغول رہا جائے کیونکہ رحیم و کریم کی تعریف وغیرہ بیان کرنا اور اس کے ذکر میں مشغول رہنا بھی حقیقت میں دعا ہی ہے۔ لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کرنے کا جو حکم فرمایا گیا ہے وہ دونوں قسم کی دعاؤں پر شامل ہے اس سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کا ذکر پر اکتفا کرنا اور صریحاً دعا سے منع کرنا بھی دعا کے حکم میں عین بجا آوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ من شغلہ ذکری عن مسلتی اعطیتہ افضل اعطی السائلین (یعنی جس آدمی کو میرے ذکر نے مجھ سے سوال کرنے سے روکا (اس طرح کہ وہ آدمی میرے ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے مجھ سے سوال نہ کر سکا) تو میں اس آدمی کو اس چیز سے کہ جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں (بہتر (چیز) بخشتا ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ آدمی اس وقت پروردگار کے ذکر میں خلوص دل سے مشغول رہے۔

بعض محققین حنفیہ نے ان دونوں چیزوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ نوافل میں تو صریح دعا مانگنی چاہئے اور فرائض میں صرف تسبیحات پر اکتفاء کرنا چاہئے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب امام (رکوع سے اٹھتے ہوئے) سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم لک الحمد کہو کیونکہ جس آدمی کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ہم آہنگ ہو جائے تو اس کے پہلے کئے ہوئے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس موضوع سے متعلق باب القرأت کی پہلی فصل میں اچھی طرح وضاحت کی جا چکی ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی عمل اختیار کرے گا تو انشاء اللہ اس وعدے کے مطابق اس کے تمام صغیرہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ کبیرہ گناہوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اللہ چا ہے گا تو انہیں بھی از راہ فضل و کرم بخش دے گا کیونکہ اس کی ذات بڑی رحیم و کریم اور غفور ہے۔

 

                   قومہ کی دعا

 

اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب رکوع سے اپنی پشت مبارک اٹھاتے تو یہ کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اس آدمی کی حمد کو جس نے اس کی حمد و ثنا کی۔ اے اللہ اور اے ہمارے پروردگار ! تیرے ہی لیے تمام تعریف ہے آسمانوں بھرنے ، زمین بھرنے اور بقدر بھر نے اس چیز کو جس کو تو آسمانوں اور زمینوں کے بعد پیدا کرنا چاہئے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حنفیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ کلمات میں ربنا لک الحمد کے بعد کے کلمات یعنی ملا السموت سے آخر تک صرف نفل نمازوں میں پڑھنے چاہئیں۔ فرائض میں نہیں

 

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو یہ کہتے تھے  اے اللہ اور اے ہمارے پروردگار ! تیرے ہی لیے تمام تعریف ہے آسمانوں بھرنے زمین بھرنے اور اس چیز کے بھرنے کی بقدر جس کو تو آسمانوں اور زمین کے بعد پیدا کرنا چاہے۔ اے ہر قسم کی تعریف اور بزرگی کے مستحق تیری ذات اس تعریف سے بالاتر ہے جو بندہ کرتا ہے ہم سب تیرے ہی بندے ہیں۔ اے اللہ ! تو نے جو چیز عطا فرما دی ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس چیز کو تو نے دینے سے روک دیا اس کو کوئی دینے والا نہیں اور دولتمند کو اس کی دولتمندی تیرے عذاب سے کوئی نفع نہیں دیتی (یعنی عذاب سے نہیں بچا سکتی)۔  (صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت رفاعہ ابن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ (یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کی حمد و ثنا کو قبول کیا جس نے اس کی حمد و ثنا کی) کہتے (ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے یہ کلمات کہے تو) ایک آدمی نے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا کہا ربنا ولک الحمد حمدا کثیراً طیباً مبارکاً فیہ (یعنی اے ہمارے پروردگار ! تیرے لیے ہی تعریف اور بہت تعریف ہے (ایسی تعریف) جو (شرک و ریا کی آمیزش سے) پاک اور (کثرت اخلاص و حضوری قلب کی وجہ سے) بابرکت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ابھی (ان کلمات کو) کون پڑھ رہا تھا؟ اس آدمی نے عرض کیا کہ میں تھا ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  میں نے کچھ اوپر تیس فرشتوں کو دیکھا جو آپس میں اس بات میں جلدی کر رہے تھے کہ ان کلمات کے ثواب کو پہلے کون لکھے۔ (صحیح البخاری)

 

                   تعدیل ارکان کا حکم اور ائمہ کے مسلک

 

اور حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کسی آدمی کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رکوع اور سجدے میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی) اور امام ترمذی نے فرمایا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

شرح منیۃ المصلی میں لکھا ہے کہ تعدیل ارکان یعنی رکوع و سجود میں اتنا ٹھہرنا کہ جسم کے تمام اعضاء بدن اپنی اپنی جگہ آ جائیں۔ اس حدیث کی بنا پر حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل اور حنفیہ میں حضرت امام بو یوسف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک فرض ہے اور اس کی ادنی مقدار ایک تسبیح کے بقدر ہے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک تعدیل ارکان واجب ہے۔

پھر منیۃ المصلی میں یہ بھی لکھا ہے کہ رکوع سے اٹھ کر کھڑے ہونا یعنی قومہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا یعنی جلسہ اور طمانیت یہ سب چیزیں بھی حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک فرض اور حضرت امام ابو حنفیہ و حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک سنت ہیں۔ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی رائے یہ ہے کہ قومہ اور جلسہ کے بارے میں مناسب اور بہتر یہ ہے کہ ان دونوں کو واجب کہا جائے۔ وا اللہ اعلم۔

 

                   رکوع و سجود کی تسبیحات

 

اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت  فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 56۔ الواقعہ:74) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کو (سبحان ربی العظیم) کی صورت میں اپنے رکوع میں شامل کر لو اور جب یہ آیت سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى 87۔ الاعلی:1) نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس کو (سبحان ربی الاعلی کی صورت میں) اپنے سجدوں میں داخل کر و۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

 

٭٭اور حضرت عون ابن عبداللہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اس کو رکوع میں سبحان ربی العظیم تین مرتبہ کہنا چاہئے تب اس کا رکوع پورا ہو گا اور یہ ادنی درجہ ہے اور جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اسے سجدے میں سبحان ربی الاعلی تین مرتبہ کہنا چاہئے تب اس کا سجدہ پورا ہو گا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

رکوع میں ان تسبیحات کو تین مرتبہ کہنا ادنی درجہ کمال سنت کا ہے ورنہ تو اصل سنت ایک مرتبہ میں ادا ہو جاتی ہے اور کمال سنت کا اوسط درجہ پانچ مرتبہ ہے اور اعلیٰ درجہ سات مرتبہ کہنا ہے اور انتہائے کمال کی کوئی حد نہیں ہے گو بعض حضرات نے دس مرتبہ کہا ہے اور بعض حضرات نے تو تقریباً قیام کی مقدار تک کہا ہے لیکن بہر صورت میں امام کو مقتدیوں کی رعایت لازم ہو گی۔

فنی طور پر اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ حدیث منقطع کو مستدل بنانا غلط نہیں ہے کیونکہ متفقہ طور پر سب کے نزدیک فضائل اعمال کے سلسلہ میں حدیث منقطع پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدے میں سبحان ربی الاعلی پڑھتے تھے اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم (قرأت میں) کسی آیت رحمت پر پہنچتے تو وہاں رک جاتے اور طلب رحمت کی دعا کرتے اور جب کسی آیت عذاب پر پہنچتے تو وہاں رک کر عذاب سے پناہ مانگتے۔ (ترمذی، سنن ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو سبحان ربی الاعلی تک نقل کیا ہے اور جامع ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

علماء حنفیہ اور علماء مالکیہ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نفل نماز پر محمول کرتے ہیں کیونکہ ان حضرات کے نزدیک فرض نماز میں درمیان قرأت دعا مانگنی اور پناہ مانگنی جائز نہیں ہے لیکن اس حدیث کو جواز پر حمل کرنا بھی ممکن ہے کیونکہ ہو سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بیان جواز کی خاطر فرض نماز میں بھی ایسا کیا ہو۔ شیخ جزری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو مسلم نے بھی نقل کیا ہے لہٰذا مؤلف مشکوٰۃ کو یہ حدیث دوسری فصل کی بجائے پہلی فصل میں نقل کرنی چاہئے تھی۔

 

 

٭٭اور حضرت عوف ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھی چنانچہ جب آپ رکوع میں گئے تو سورہ بقرہ  پڑھنے کے) بقدر ٹھہرے اور (رکوع میں) یہ کہتے جاتے تھے۔ قہر و بادشاہت اور بڑائی و بزرگی کا ملک (خدا) پاک ہے۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

یہ فرض نماز کا ذکر نہیں ہے بلکہ بعض حضرات کے قول کے مطابق یہ تہجد کی نماز تھی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ نماز کسوف تھی۔

 

 

٭٭اور حضرت ابن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ  میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد اس نوجوان یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علاوہ کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کے مشابہ ہو۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  ہم نے ان کے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ، رکوع کا دس تسبیحات (کے بقدر) اور سجدے کا دس تسبیحات (کے بقدر) اندازہ کیا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جتنی دیر میں وہ رکوع یا سجدہ کرتے تھے ہم دس تسبیحیں پڑھ لیا کرتے تھے لہٰذا وہ بھی دس یا دس سے کم و بیش تسبیحات پڑھتے ہوں گے۔

 

 

٭٭اور حضرت شفیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ (نماز میں) اپنے رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کر رہا تھا چنانچہ جب وہ نماز پڑھ چکا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بلایا اور کہا کہ تم نے پوری (طرح) نماز نہیں پڑھی۔ حضرت شفیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آدمی سے یہ بھی کہا کہ اگر تم (ایسی نماز سے بغیر توبہ کئے ہوئے) مر جاؤ تو تم غیر فطرت پر (یعنی اس طریقہ اسلام کے خلاف) مرو گے جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پیدا کیا۔ (صحیح البخاری)

 

 

٭٭اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چوری کرنے کے اعتبار سے سب سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری کرے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! نماز کی چوری کیسے ہوتی ہے؟ فرمایا  رکوع و سجود کا پورا نہ کرنا۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

مال کی چوری کرنے والے سے نماز کی چوری کرنے والا آدمی اس لیے برا ہے کہ مال چرانے والا کم سے کم چوری کے مال سے دنیا میں فائدہ تو اٹھا لیتا ہے اور پھر یہ کہ مالک سے معاف کرنے کے بعد یا سزا کے طور پر (اسلامی قانون کے مطابق) اپنے ہاتھ کٹوا کر وہ مواخذہ آخرت سے بچ جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف نماز کی چوری کرنے والا آدمی ثواب کے معاملے میں خود اپنے نفس کا حق مارتا ہے اور اس کے بدلہ میں عذاب آخرت کو لے لیتا ہے لیکن اس نقصان و خسران کے علاوہ اس کے ہاتھ اور کچھ نہیں لگتا۔

 

 

٭٭حضرت نعمان بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا  شراب پینے والے ، زنا کرنے والے ، اور چوری کرنے والے کے بارے میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے (کہ وہ کس قدر گناہ گار ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سوال حدود نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ گناہ کبیرہ ہیں جن کی سزا بھی ہے اور بد ترین چوری وہ چوری ہے جو انسان اپنی نماز میں کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) انسان اپنی نماز میں چوری کیسے کرتا ہے فرمایا  رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کرتا۔ (مالک، دارمی)

 

تشریح

 

نقل کردہ روایت میں لفظ ترون تا کے زبر کے ساتھ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تم کیا اعتقاد کرتے ہو؟ لیکن ایک نسخے میں تا کے پیش کے ساتھ بھی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ راوی کے الفاظ میں یہ سوال حدود نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ وجہ سوال کو ظاہر کر رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس وقت کیا تھا جب کہ ان افعال کی برائی صحابہ کرام کو اچھی طرح معلوم نہ تھی جب ان افعال بد کی حدود (سزائیں) متعین ہو گئیں تو پھر سب کے ذہن میں ان کی برائی راسخ ہو گئی اور ان میں کوئی شبہ نہ رہا۔

 

                   سجدہ کی کیفیت اور اس کی فضیلت کا بیان

 

زمین پر سر ٹیکنا اور عاجزی کا اظہار کرنا  سجدہ کے لغوی معنی ہیں۔ اصطلاح شریعت میں سجدہ کہتے ہیں  اللہ کے سامنے اپنی عبودیت اور کمال عجز و انکساری کے اظہار کے طور پر بندے کا اپنے سر کو زمین پر ٹیک دینا۔

 

                   اعضاء سجدہ

 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مجھے (جسم کی) سات ہڈیوں یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، گھٹنے اور دونوں پاؤں کے پنجوں پر سجدے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ممنوع ہے کہ ہم کپڑوں اور بالوں کو سمیٹیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ سجدے میں جسم کے کس کس عضو کو زمین پر ٹیکنا چاہئے چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ سجدے کے وقت پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے پنجوں کو زمین پر ٹیکنا چاہئے۔ اکثر ائمہ کے نزدیک سجدہ ناک اور پیشانی دونوں سے کرنا چاہیے بغیر ان دونوں کو زمین پر لگائے سجدہ جائز نہیں ہے مگر حضرت امام اعظم ابو حنفیہ اور صاحبین رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم فرماتے ہیں کہ اگر محض پیشانی ہی ٹیک کر سجدہ کر لیا جائے تو جائز ہے البتہ بغیر عذر کے ایسا کرنا مکروہ ہے۔ حضرت امام شافعی اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک محض ناک کو زمین پر ٹیک کر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کوئی ایسا عذر پیش ہو کہ پیشانی کو زمین پر ٹیکنا ممکن نہ ہو تو جائز ہے ، اس سلسلے میں حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دو قول ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ جائز نہیں ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ۔

سجدے میں دونوں پاؤں کو زمین پر رکھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی آدمی سجدے میں دونوں پاؤں زمین سے اٹھا لے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی اور ایک پاؤں اٹھا لے گا تو سجدہ مکروہ ہو گا۔ سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کو قبلے کی طرف رکھنا فرض ہے خواہ ایک ہی انگلی رکھی جائے۔ اگر انگلیاں قبلہ کی سمت نہ ہوں گی تو جائز نہیں ہو گا۔

در مختار میں ایک جگہ مذکور ہے کہ  پیشانی اور دونوں پاؤں کے ساتھ سجدہ کرنا فرض ہے اور دونوں پیروں میں کم سے کم ایک انگلی زمین پر رکھنا شرط ہے اور ہاتھوں اور زانوؤں کو زمین پر رکھنا سنت ہے ، حنفیہ اور شافعیہ کا مسلک یہی ہے۔

 

سجدے میں بال اور کپڑے کو ہٹانے اور سمیٹنے کی ممانعت

حدیث جملے کا مطلب یہ ہے کہ سجدے میں جاتے ہوئے بالوں اور کپڑوں کو اس غرض سے سمیٹنا اور ہٹانا تاکہ وہ خاک آلود اور گندے نہ ہوں ممنوع ہے ، ویسے بھی بغیر اس مقصد کے یوں ہی کپڑوں اور بالوں کو سمیٹنا یا دامن وغیرہ کا باندھ لینا ممنوع ہے۔

بالوں کو سمیٹنے کا مطلب یہ ہے کہ سر کے بالوں کو جمع کر کے دستار وغیرہ کے اندر کر لیا جائے تاکہ سجدے میں لٹکنے نہ پائیں۔ اس سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ بالوں کو ایسے ہی چھوڑ دینا چاہئے تاکہ وہ بھی سجدہ کریں۔

 

                   سجدہ میں طمانیت کا حکم

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سجدے میں (اطمینان سے) ٹھہرو! اور تم میں سے کوئی آدمی (سجدے میں) اپنے دونوں ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے۔  (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سجدے میں  اعتدال  یعنی ٹھہرنے سے مراد یہ ہے کہ سجدہ میں طمانیت یعنی خاطر جمعی سے ٹھہرا جائے اور سجدہ میں جو تسبیح پڑھی جاتی ہے اسے اطمینان سے پڑھا جائے۔

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  سجدہ میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ پشت کو ہموار رکھا جائے۔ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے جائیں، کہنیاں زمین سے اوپر اٹھی رہیں اور پیٹ زانوں سے الگ رہے۔

 

                   سجدہ میں ہاتھوں اور کہنیوں کو رکھنے کا طریقہ

 

اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم سجدہ کرو تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھو اور کہنیوں کو زمین سے اونچا رکھو۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

سجدہ میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں زمین پر کانوں کے سامنے رکھی رہیں۔ انگلیاں آپس میں ملی ہوں، اور یہ کہ ہاتھ کھلے رہیں کسی کپڑے وغیرہ کے اندر انہیں چھپا نا مکروہ ہے۔

کہنیوں کو اونچا رکھنے کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ دونوں کہنیاں زمین سے اونچی رہیں یا پھر یہ کہ دونوں پہلوؤں سے اونچی رہیں۔ بہر صورت یہ حکم خاص طور پر مردوں کے لیے ہے عورتیں اس حکم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ عورتوں کو تو سجدے میں کہنیوں کو زمین پر پہلوؤں سے ملی ہوئی رکھنے کا حکم ہے اس لیے کہ اس طرح جسم کی نمائش نہیں ہوتی اور پردہ اچھی طرح ہوتا ہے۔

 

 

 

٭٭اور ام الومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب سجدے میں جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اتنا فرق رکھتے تھے کہ اگر بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں کے نیچے سے گزرنا چاہئے تو گذر سکتا تھا۔ یہ الفاط ابوداؤد کے ہیں جیسا کہ خود بغوی نے شرح السنتہ میں اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور مسلم نے یہ حدیث بالمعنی نقل کی ہے (جس کے الفاظ یہ ہیں) کہ حضرت میمونہ نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (اس طرح) سجدے کرتے تھے کہ اگر بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں میں سے نکلنا چاہتا تو نکل جاتا۔

 

تشریح

 

ہاتھوں کے درمیان فرق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ میں اپنے دونوں بازو پہلو سے اور پیٹ اور ران سے الگ رکھتے تھے۔

حدیث میں بکری کے بچے کے لیے  بھمۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ بھمۃ بکری کے اس بچہ کو کہتے ہیں جو بڑا ہو کر اپنے پاؤں چلنے لگتا ہے اور جب بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت اسے  سخلۃ کہتے ہیں۔

ہذا لفظ ابی داؤد سے مصنف مشکوٰۃ کا مقصد صاحب مصابیح پر اعتراض کرنا ہے کہ اس حدیث کو جس کے الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ پہلی فصل میں نقل کرنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ پہلی فصل میں تو صرف شیخین یعنی البخاری و مسلم کی روایت کردہ احادیث ہی نقل کی جاتی ہیں۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مالک ابن بحینہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب سجدہ کر تے تو اپنے ہاتھوں کو اتنا کشادہ رکھتے تھے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو جاتی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بحینہ حضرت عبد اللہ کی والدہ کا نام ہے اور مالک ان کے والد کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مالک اور ابن کے درمیان کے الف کو باقی رکھ کر مالک کو تنوین کے ساتھ پڑھتے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ مالک بحینہ کے بیٹے کا نام ہے بلکہ یہ جانیں کے بحینہ کے لڑکے حضرت عبداللہ ہی ہیں اور ابن مالک و ابن بحینہ دونوں نسبتیں انہیں کی ہیں۔

بہر حال۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب نماز پڑھتے دیکھا تھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بدن مبارک پر کپڑا نہ تھا، یا ان کی مراد یہ ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بغل کی جگہ معلوم ہوتی تھی اور  بغلوں کی سفیدی اس لیے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بغل مبارک بالکل سفید اور صاف و شفاف تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پورا بدن ہی آئینہ کی طرح سفید اور صاف و شفاف تھا، دوسرے لوگوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بغلیں سیاح اور مکدر نہ تھیں۔

 

                   سجدے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سجدے میں یہ کہتے تھے۔(اللھم اغفرلی ذنبی کلہ دقہ وجلہ واولہ واخرہ وعلانیتہ وسرہ) اے اللہ ! میرے تمام چھوٹے بڑے ، پہلے پچھلے ، کھلے ہوئے اور چھپے ہوئے گناہ بخش دے۔ (صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ آپ سجدے میں کبھی کبھی یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ احتمال بھی ہے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس دعا کو تسبیح یعنی سبحان ربی الاعلی کے ساتھ پڑھتے ہوں گے یا بغیر تسبیح کے صرف اسی دعا پر اکتفاء فرماتے ہوں گے۔

چھپے ہوئے گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جو انسان کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں ورنہ تو اللہ کے نزدیک چھپے ہوئے کھلے ہوئے گناہ دونوں یکساں ہیں۔ یعلم السر و اخفی یعنی وہ (خدا) پو شیدہ سے پوشیدہ چیزوں کو بھی جانتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو بستر پر موجود نہ پایا، میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تلاش کر رہی تھی کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاؤں کو جا لگا (چنانچہ میں نے دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم بار گاہ الہٰی میں سجدہ ریز تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں پاؤں مبارک کھڑے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ کہہ رہے تھے اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَا فَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِہ ثَنَا ءً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَاَ اَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ اے اللہ ! میں تیری خوشنودی کے ذریعے تیرے غیظ و غضب سے (یعنی ان افعال سے مجھ پر یا میری امت پر تیرے غضب کا ذریعہ بنیں پناہ مانگتا ہوں، تیری معافی کے ذریعے تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے (یعنی تیری رحمت کے ذریعے تیرے قہر سے) پناہ کا طلبگار ہوں۔ میں تیری تعریف کا شمار و احاطہ نہیں کر سکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ خود تو نے اپنی تعریف کی ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے چھونے سے مرد کا وضو نہیں ٹوٹتا جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے کہ عورت کو چھونا ناقص وضو نہیں ہے۔

لا احصہ ثناء علیک کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار ! مجھ میں اتنی طاقت و قوت نہیں ہے کہ تیری ایسی تعریف کر سکوں جو تیری شان کے لائق ہو۔ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف میں کہا ہے کہ۔

آیت (فَلِلّٰہ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَرَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ       36  وَلَہ الْكِبْرِيَاۗءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۠ وَہوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ       37ۧ ) 45۔ الجاثیہ:36۔37)

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو پروردگار ہے آسمانوں کا اور پروردگار ہے زمین کا، پروردگا جہانوں کا ہے اور زمین و آسمانوں میں اسی کے لیے بڑائی و بزرگی ہے اور وہ غالب و دانا ہے۔ (قرآن)

 

                   سجدہ پروردگار سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  بندے کا اللہ سے قریب ترین ہونا اس وقت شمار ہوتا ہے جب کہ وہ سجدہ میں ہو اس لیے تم (سجدے میں) بہت زیادہ دعا کیا کرو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یوں تو خداوند قدوس ہر وقت اور ہر حال میں اپنے بندوں سے نزدیک رہتا ہے مگر سب سے زیادہ نزدیک اس وقت ہوتا ہے جب بندہ سجدہ میں ہوتا ہے یعنی سجدے کی حالت میں اللہ بندہ سے راضی ہوتا ہے اور دعا قبول کرتا ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا ہے کہ سجدہ میں کثرت سے دعا مانگنی چاہئے تاکہ وہ قبولیت کے درجے کو پہنچے۔

 

                   سجدہ تلاوت کے وقت شیطان کی آہ و بکا

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب ابن آدم (یعنی بندہ مومن) سجدے کی آیت پڑھتا ہے اور (پڑھنے والا یا سننے والا) سجدہ کرتا ہے تو اس وقت شیطان لعین روتا ہوا ایک طرف ہٹ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ  واحسرتا! ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا اور (اس کے بدلے میں) وہ جنت کا حقدار ہے اور مجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو میں نے (سجدہ نہ کر کے پروردگار کی) نافرمانی کی چنانچہ (اس کے نتیجے میں) مجھے آگ ملی۔ (صحیح مسلم)

 

                   کثرت سجدہ جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کا ذریعہ ہے

 

اور حضرت ربیعہ ابن کعب (حضرت ربیعہ بن کعب نام اور ابو فراس کنیت ہے۔ آپ سفر و حضر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہے اور ٢٣ ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔) فرماتے ہیں کہ میں رات کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہا کرتا تھا اور وضو کا پانی دوسری ضروریات (مثلاً مسواک، جائے نماز وغیرہ) پیش کیا کرتا تھا (ایک روز) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ  (دین و دنیا کی بھلائیوں میں سے جو کچھ مانگنا چاہتے ہو) مانگو! میں نے عرض کیا  میری درخواست تو صرف یہ ہے کہ جنت میں مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت نصیب ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  (جس مرتبے کو تم پہنچنا چاہتے ہو یہ تو بہت عظیم ہے اس کے سوا) کچھ اور مانگو۔ میں نے عرض کیا  میری درخواست تو بس یہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سو اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے) تم کثرت سے سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ربیعہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ضروریات پیش کرنے پر معمور تھے۔ اس لیے ان کی اس خدمت اور جذبہ اطاعت و فرمانبرداری کے صلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ تم دین و دنیا کی جو بھی بھلائی چاہتے ہو مانگ لو۔ ظاہر ہے کہ ایک وفادار خادم اور جاں قربان کرنے والا غلام اس سے بڑی اور کیا تمنا رکھ سکتا ہے کہ اس کا وہ آقا جس کی خدمت نے اس کو دین و دنیا کی عظیم سعادتوں سے نواز رکھا ہے جنت میں بھی اسے ان کی رفاقت کی سعادت حاصل ہو جائے چنانچہ انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! میری سب سے بڑی تمنا اور سب سے بڑی خواہش تو بس یہی ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اس دنیا میں اپنے قدموں میں جگہ دے رکھی ہے اسی طرح جنت کی پر سعادت فضا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کا شرف حاصل ہو جائے ، پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چاہا کہ یہ اس کے علاوہ کچھ اور مانگ لیں مگر جب دیکھا کہ انہیں اپنی اس خواہش پر اصرار ہے تو فرمایا کہ  اس عظیم مرتبے اور اس بڑی سعادت کو حاصل کرنے کے لیے تم کثرت سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔ یعنی اگر تمہارا یہی اصرار ہے اور تم اسی خواہش کی تکمیل چاہتے ہو تو پھر آؤ تم کو میں ایک ایسا راستہ بتا دیتا ہوں جو تمہاری منزل مقصود تک جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا اپنا تو کام یہ ہونا چاہئے کہ نماز پڑھتے رہو اور بارگاہ خداوندی میں کثرت سے سجدے کر کے اپنی عجز و بے چارگی کا اظہار کیا کرو اور سجدہ میں دعا کرتے رہا کرو، ادھر میں بھی تمہارے لیے دعا کرتا ہوں اور حصول مقصد اور تمہاری اس خواہش کی تکمیل کے لیے کوشش کرتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ میں تمہیں جو بتاؤں یعنی جو حکم دوں اس پر پورا پورا عمل کرتے رہو کہ راہ سعادت حاصل ہونے کی تدیبر یہی ہے اور انشاء اللہ اس کے بعد تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔

فتح قفل ارچہ کلید است اے عزیز

جنبش از دست تومی خواہند نیز

یعنی: عزیز من! قفل اگرچہ کنجی ہی سے کھلتا ہے لیکن تمہارے ہاتھ کی حرکت بھی تو ضروری ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی خدمت کرنا اور ان کی رضا اور خوشنودی کو پوری کرنا در حقیقت فضیلت و سعادت کے حصول کا ذریعہ ہے خاص طور پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا کو مد نظر رکھنا تو دین و دنیا کی سب سے بڑی سعادت و بھلائی ہے۔

اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ بھی ہے کہ طالب صادق کو چاہئے کہ اس کا مطلوب صرف آخرت کی نعمتیں ہوں کہ جن کو دوام و بقاء حاصل ہے دنیا کی لذتوں کی طرف التفات نہ کرے کہ جو فانی اور ختم ہو جانے والی ہیں۔ لیکن شرط یہ بھی ہے کہ بندگی میں اپنی طرف سے کوئی قصور نہ ہو کیونکہ محض آرزو اور تمنا ہی منزل مقصود تک نہیں پہنچاتی بلکہ اس میں اپنی طرف سے کوشش و سعی کو بھی دخل ہوتا ہے جیسا کہ بڑوں نے کہا ہے کہ  کسی تمنا اور آرزو کے ہوتے ہوئے کوشش و سعی نہ کرنا بلکہ بیکار بیٹھنا ٹھنڈے لوہے کو کوٹنا ہے۔

کارکن کار بگزرار گفتار

کاندریں راہ کار دار دکار

یعنی عمل کرو زبانی جمع خرچ سے بچو، کیونکہ اس راستے میں تو صرف عمل ہی عمل ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت معدان بن طلحہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے عرض کیا کہ  مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ اس کے کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے۔ ثوبان (میرا سوال سن کر) خاموش رہے ، میں نے دوبارہ عرض کیا وہ پھر بھی خاموش رہے جب میں نے تیسری مرتبہ عرض کیا انھوں نے فرمایا کہ یہی سوال میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (میرے سوال کے جواب میں) فرمایا تھا کہ  تم کثرت سے بارگاہ خداوندی میں سجدہ کیا کرو، تم ایک سجدہ اللہ کے حضور میں کرو گے تو اس کی وجہ سے اللہ تمہارا ایک درجہ بلند کر دے گا اور اس کی وجہ سے ایک گناہ کم کر دے گا۔  معدان فرماتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے ملاقات کی اور ان سے بھی وہی سوال کیا (جو ثوبان سے کیا تھا) چنانچہ انھوں نے بھی مجھے وہی جواب دیا جو ثوبان نے دیا تھا۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت معدان کے دو مرتبہ سوال کرنے پر بھی حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب اس لیے نہ دیا تاکہ سائل کو رغبت زیادہ ہو، اور آتش شوق بھڑک کر جواب کی اہمیت و عظمت کا احساس کر سکے اور عملی قوت پوری طرح بیدار ہو جائے۔

سجدوں سے مراد کوئی خاص سجدے نہیں بلکہ نماز کے سجدے بھی مراد ہو سکتے ہیں اور سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔

 

                   سجدہ کرنے کا طریقہ

 

حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کرنے کا ارادہ کرتے تو پہلے اپنے دونوں گھٹنے (زمین پر) ٹیکتے اور پھر دونوں ہاتھ رکھتے اور جب سجدے سے اٹھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے پھر دونوں گھٹنے اٹھاتے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیمہا کا مسلک بھی یہی ہے کہ سجدہ کرتے وقت پہلے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیکنے چاہئیں اس کے بعد دونوں ہاتھ رکھے جائیں اسی طرح سجدے سے اٹھتے وقت پہلے دونوں ہاتھ اور پھر دونوں گھٹنے اٹھانے چاہئیں ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (سجدے سے) گھٹنوں کے بل اٹھتے تھے اور اپنے دونوں ہاتھ رانوں پر ٹیکتے تھے۔

علماء نے اعضاء سجدہ کو زمین پر رکھنے کے سلسلے میں ایک اصول متعین کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اعضاء سجدہ کو زمین پر ٹیکنا زمیں کے قرب کے اعتبار سے ہے یعنی جو عضو زمین سے زیادہ قریب ہو اسے پہلے زمین پر رکھا جائے اسی ترتیب سے تمام عضو رکھے جائیں اور سجدے سے اٹھتے وقت اس کا عکس ہونا چاہئے۔ یعنی جو عضو زمین سے سے زیادہ قریب ہو اسے سب سے بعد میں اٹھانا چاہئے۔

زمین پر ناک اور پیشانی ٹیکنے کے سلسلے میں مسئلہ تو یہ ہے کہ ناک اور پیشانی یہ دونوں عضو کے حکم ہیں کہ دونوں عضو ایک ساتھ زمین پر ٹیکنے چاہئیں لیکن بعض حضرات کا قول یہ بھی ہے کہ ناک زمین سے زیادہ قریب ہے اس لیے پہلے ناک رکھی جائے اس کے بعد پیشانی ٹیکی جائے۔

علامہ شمنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ  سجدے میں جاتے وقت اگر کسی عذر مثلاً موزے وغیرہ کی بناء پر گھٹنوں کو دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھنا دشوار ہو تو پہلے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک لیے جائیں اس کے بعد دونوں گھٹنے رکھے جائیں

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے کوئی جب سجدہ کرے تو وہ اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اسے چاہئے کہ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی)

اور ابو سلیمان خطابی نے کہا ہے کہ حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اس حدیث سے زیادہ (صحیح) ثابت ہے چنانچہ کہا گیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔

 

تشریح

 

اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ زمین پر بیٹھنے کے وقت اپنے دونوں گھٹنے زمین پر پہلے رکھتا ہے۔ اس طرح سجدہ میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے زمین پر نہ ٹیکے جائیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کی بیٹھک سے مشابہت دی ہے باوجود یہ کہ اونٹ بیٹھتے وقت زمین پر پاؤں رکھنے سے پہلے ہاتھ رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا گھٹنا پاؤں میں ہوتا ہے اور جانور کا گھٹنا ہاتھ میں ہوتا ہے لہٰذا جب کوئی آدمی سجدے میں جاتے وقت زمین پر پہلے گھٹنے رکھے گا تو اونٹ کے بیٹھنے سے مشابہت ہو گی۔

بہر حال۔ یہ حدیث اوپر کی حدیث کے مخالف ہے کیونکہ پہلی حدیث تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پہلے گھٹنے زمین پر ٹیکے جائیں اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ جیسا کہ اوپر کی حدیث کی تشریح  میں بتایا جا چکا ہے جمہور علماء حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اوپر کی حدیث پر جو حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیکے جائیں۔

حضرت امام مالک اور اوزاعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہم اور کچھ دوسرے علماء حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلے زمین پر دونوں ہاتھ ٹیکے جائیں۔

ان دونوں احادیث کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اوپر والی حدیث زیادہ صحیح، قوی تر اور مشہور تر ہے اور حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے اس حدیث کو مرتبہ صحت پر پہنچا کر اسے ترجیح دی ہے اور فن حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ جب دو حدیثیں ایک دوسرے کے مخالف ہوتی ہیں تو عمل قوی تر اور صحیح تر پر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو حضرت وائل کی روایت سے منسوخ قرار دیا ہے۔

نیز ایک روایت میں حضرت ابن خزیمہ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب سجدے میں جاتے تھے تو (سجدے کی) ابتدا گھٹنے سے کرتے تھے یعنی پہلے گھٹنوں کو زمین پر ٹیکتے تھے۔ انہی وجوہات کی طرف مولف مشکوٰۃ نے قال ابو سلیمان الخ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔

 

                   دونوں سجدوں کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم دونوں سجدوں کے درمیان یہ کہا کرتے تھے اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِی وَاھْدِنْیِ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِی۔ اے اللہ مجھے بخش دے مجھ پر رحم کر، مجھے ہدایت فرما (دونوں جہاں کی بلاؤں اور امراض ظاہری و باطنی سے) مجھے محفوظ رکھ اور مجھے رزق عطا فرما۔  (ابوداؤد، جامع ترمذی)

 

 

 

٭٭اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم دونوں سجدوں کے درمیان یہ کہا کرتے تھے کہ رب اغفرلی اے میرے پروردگار مجھے بخش دے۔ (سنن نسائی ، دارمی)

 

تشریح

 

اس روایت کو ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے مگر ان کی روایت میں یہ دعائیہ کلمات تین مرتبہ مذکور ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا تین مرتبہ پڑھتے تھے۔

 

                   جلدی جلدی سجدہ کرنے کی ممانعت

 

حضرت عبدالرحمن ابن شبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے کوے کی طرح ٹھونگ مارنے اور درندوں کی طرح (ہاتھوں کو) بچھانے سے منع فرمایا ہے اور (اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ) کوئی آدمی مسجدوں میں جگہ مقرر کرے جیسا کہ اونٹ مقرر کرتا ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

اس حدیث میں تین چیزوں سے منع کیا جا رہا ہے پہلی تو یہ کہ جس طرح کوا زمین سے دانہ چگنے کے لیے جلدی جلدی چونچ زمین پر مار کر دانہ اٹھاتا ہے اس طرح سجدے سے سر جلدی جلدی نہ اٹھایا جائے۔ دوسری چیز یہ کہ جانور مثلاً کتے اور بھڑئیے وغیرہ جس طرح اپنے پہنچے زمین پر بچھا کر بیٹھتے ہیں اس طرح سجدے کے وقت پہنچے زمین پر نہ بچھا دئیے جائیں۔ تیسری چیز یہ کہ جس طرح اونٹ اپنے بیٹھنے کی ایک جگہ متعین و مقرر کر لیتا ہے کہ اس کے علاوہ دوسرا اونٹ اس جگہ نہیں بیٹھ سکتا اسی طرح مسجد میں کوئی جگہ متعین نہ کی جائے کہ اس جگہ کسی دوسرے کو نہ بیٹھنے دیا جائے کیونکہ مسجد سب کے لیے ہے جو جہاں چا ہے بیٹھ سکتا ہے اپنے لیے کسی ایک جگہ کو متعین و مقرر کر کے وہاں دوسرے کو بیٹھنے سے روکنا مکروہ و ممنوع ہے۔

علامہ حلوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ  ہمارے علماء کے نزدیک یہ مکروہ ہے کہ مسجد میں کسی خاص کپڑے کو اس لیے متعین کر لیا جائے کہ اس علاوہ کسی دوسرے کپڑے میں نماز پڑھی ہی نہ جائے کیونکہ اس طرح عبادت اس خاص کپڑے کے ساتھ عادت بن جاتی ہے کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے کپڑے میں نماز پڑھنا دشواری و گرانی کا باعث بنتا ہے حالانکہ عبادت جب عادت ہو جاتی ہے تو اسے ترک کر دینا چاہئے چنانچہ اس وجہ سے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ پر اس کو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مسجد میں کسی جگہ کو اپنے لیے متعین کر لینا اور اس جگہ کسی دوسرے کو بیٹھنے سے روکنا شریعت کی نظر میں کوئی مستحسن فعل نہیں ہو سکتا جب کہ اس سے مقصد بھی کوئی اچھا نہ ہو۔

 

                   دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ممنوع ہے

 

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اے علی! جو چیز میں اپنے لیے محبوب رکھتا ہوں وہ چیز تمہارے لیے بھی محبوب رکھتا ہوں اور جو چیز اپنے لیے نا پسند کرتا ہوں وہ چیز تمہارے لیے بھی نا پسند کرتا ہوں ، دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء نہ کرو۔ (جامع ترمذی)

 

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس یوں تو پورے عالم ہی کے لیے سراپا رحمت و شفقت تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لوگوں کے لیے تو بے انتہا شفیق تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفقت و محبت ہی کا یہ اثر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس چیز کو اپنے لیے پسند فرماتے تھے۔ وہی چیز اپنی امت کے افراد کے لیے بھی پسند فرماتے تھے اور جس چیز کو اپنے لیے نا پسند سمجھتے اسے اپنی امت کے لوگوں کے لیے بھی نا پسند سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اسی جذبے کا اظہار حضرت علی المرتضیٰ سے فرمایا اور یہ ظاہر کر دیا کہ چونکہ میں دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا اس لیے تمہارے اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی مجھے یہ چیز پسند نہیں ہے اس لیے اس سے بچو۔

 

اقعاء کی تحقیق

اقعاء کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح بیٹھا جائے کہ کولہے زمین پر لگے ہوئے ہوں اور رانیں اور پنڈلیاں کھڑی ہوں اور ہاتھ زمین پر رکھے ہوں جس طرح کتا زمین پر بیٹھتا ہے۔ اقعاء کے صحیح معنی تو یہی ہیں البتہ بعض حضرات نے اس کا مطلب یہ کیا ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان پاؤں کے پنجوں کو کھڑا کر کے ایڑیوں پر بیٹھا جائے۔ ان کے علاوہ علماء نے اور بھی کئی معنی لکھے ہیں۔ بہر حال اقعاء کی جو بھی شکل اختیار کی جائے۔ دونوں سجدوں کی درمیان اسے اختیار کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔

 

                   رکوع میں کمر سید ھی کرنی چاہئے

 

اور حضرت طلق ابن علی حنفی فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ بزرگ و برتر اس بندے کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا جو اپنی نماز کے سجود و رکوع میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا۔  (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

بارگاہ خداوندی میں وہی نماز مقبولیت کے درجے کو پہنچتی ہے جس کے تمام ارکان پوری طرح ادا کئے جاویں اگر کوئی رکن اپنے قواعد و آداب کے مطابق درست نہیں ہو تو نماز قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچتی چنانچہ رکوع و سجود چونکہ نماز کے اہم ترین رکن ہیں اس لیے ان میں اگر نقص رہ جاتا ہے تو گویا پوری نماز ناقص رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ نماز اتمام و کمال کے مرتبے کو نہیں پہنچتی لہٰذا اس حدیث کے ذریعے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ رکوع و سجود (کو پوری) احتیاط کے ساتھ ادا کرنا چاہئے یعنی پہلے رکوع و سجود سے اٹھنے کے بعد کمر کو اچھی طرح سیدھا کر لینا چاہئے اس کے بعد دوسرا رکوع و سجدہ کیا جائے اگر ایسا نہیں کیا جائے گا پہلے رکوع و سجدہ سے اٹھ کر کمر کو سیدھی کئے بغیر دوسرے رکوع و سجدے میں جلدی جلدی جائے گا تو وہ رکوع و سجود ادا کہلانے کا مستحق نہیں ہو گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا اس کی نماز کی طرف رب قدوس نظر بھی نہیں کرے گا یعنی اسے قبول نہیں کریگا۔

 

                   دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں

 

اور حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  جو آدمی اپنی پیشانی زمین پر رکھے (یعنی سجدہ کرے) تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو بھی زمین پر وہیں رکھے جہاں پیشانی رکھی ہے پھر جب (سجدہ سے) اٹھے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو بھی اٹھائے کیونکہ جس طرح چہرہ سجدہ کرتا ہے اسی طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔  (مالک)

 

تشریح

 

نمازی جب سجدے میں جاتا ہے تو صرف اس کی پیشانی اور ناک ہی سجدے میں نہیں جاتیں بلکہ اس کا ہر عضو بارگاہ خداوندی میں جھکتا ہے اور سجدہ کرتا ہے اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ سجدے کے وقت ہاتھوں کو بھی زمین پر پیشانی رکھنے کی جگہ یعنی پیشانی کے برابر رکھنی چاہئیے تاکہ ہاتھوں کا سجدہ بھی پورا ہو جائے۔

 

                   سجدے میں دونوں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟

 

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سجدے میں دونوں ہاتھوں کو پیشانی کے برابر رکھا جائے۔ چنانچہ حنفیہ کا مختار مسلک بھی یہ ہے شوافع کا مختار مسلک یہ ہے کہ سجدے میں دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر رکھے جائیں۔

حدیث کے الفاظ فلیضع کفیہ علی الذی الخ کا مطب صحیح طور پر یہی ہے کہ دونوں ہاتھ پیشانی کے برابر رکھے جائیں لیکن اس کے یہ معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں کہ دونوں ہاتھوں کو بھی زمین پر اسی طرح رکھے جس طرح پیشانی رکھی ہے یعنی قبلہ رخ رکھے۔ وا اللہ اعلم۔

 

                   تشہد کا بیان

 

شہادت کے معنی گواہی دینا اور ایسی سچی خبر دینا کہ اس میں دل و زبان کے ساتھ ہو یعنی جو خبر زبان سے دی جائے وہی دل میں بھی ہو۔  تشہد کہتے ہیں گواہ ہونے کو اور اس علم کے اظہار کرنے کو جو دل میں ہے۔

اصطلاح شریعت میں تشہد اشھد ان لا الہ الا اللہ واشد ان محمدا رسول اللہ کو اور اس ذکر کو جو قعدہ نماز میں پڑھا جاتا ہے کہتے ہیں۔ گویا التحیات کو تشہد اسی لیے کہا گیا ہے کہ اس میں شہادتین کا کلمہ بھی پڑھا جاتا ہے

 

                   التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم تشہد (یعنی التحیات) میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر رکھتے تھے اور اپنا (داہنا) ہاتھ مثل عدد تریپن کے بند کر کے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔

اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے تھے اور داہنے ہاتھ کی اس انگلی کو جو انگوٹھے کے قریب ہے۔ (یعنی شہادت کی انگلی کو) اٹھاتے اور اس کے ساتھ دعا مانگتے (یعنی) اس کو اٹھا کر اشارہ و حدانیت کرتے) اور بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مثل عدد  تریپن کا مطلب یہ ہے کہ اہل حساب گنتی کے وقت انگلیوں کو جس طرح بند کرتے جاتے ہیں کہ انہوں نے ہر انگلی کو ایک عدد متعین کے لیے مقرر کیا ہوا ہے کہ انہیں اکائیوں کے لیے یہاں رکھا جائے اور دہائی، سینکڑہ اور ہزار کے لیے فلاں فلاں جگہ۔ لہٰذا راوی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہادت کی انگلی کو اشارے کے لیے اٹھاتے وقت بقیہ انگلیوں کو اس طرح بند کیا جس طرح تریپن کے عدد کے لیے انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ چھنگلیا، اس کے قریب والی انگلی اور بیچ کی انگلی کو بند کر لیا جائے۔ شہادت کی انگلی کھلی رکھی جائے اور انگوٹھے کے سرے کو شہادت کی انگلی کی جڑ میں رکھا جائے۔ یہ عدد تریپن (٥٣) کہلاتا ہے۔ چنانچہ حضرت امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اسی طریقے کو اختیار کیا ہے۔

 

حنفیہ کے نزدیک شہادت کی انگلی اٹھانے کا طریقہ

ابھی آپ نے عدد تریپن کی وضاحت پڑھی اسی طرح ایک عدد تسعین (٩٠) ہوتا ہے اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی کو بند کر لیا جائے اور شہادت کی انگلی کو کھول دیا جائے اور انگوٹھے کا سرا بیچ کی انگلی کے سرے پر رکھ کر حلقہ کی شکل دے دی جائے۔ حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ شہادت کی انگلی اٹھانے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اور حضرت امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے نیز حضرت امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے اور یہی طریقہ آگے آنے والی صحیح مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر سے مروی ہے ، اسی طرح احمد ، و ابوداؤد نے بھی حضرت وائل ابن حجر سے نقل کیا ہے۔

حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ داہنے ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کر لی جائیں اور شہادت کی انگلی کھلی رکھی جائے۔

بعض احادیث میں انگلیوں کو بند کئے بغیر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا بھی ثابت ہے چنانچہ بعض حنفی علماء کا کا مختار مسلک یہی ہے اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل بھی مختلف رہا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی تو اشارہ بغیر عقد کے کرتے ہوں گے اور کبھی عقد کے ساتھ کرتے ہوں گے۔ اسی بنا پر ان مختلف احادیث کی توجیہ کہ جن سے یہ دونوں طریقے ثابت ہوتے ہیں یہی کی جاتی ہے۔

ماوراء النھر (یعنی بخارا و سمر قند وغیرہ) اور ہندوستان (ممکن ہے کہ صاحب مظاہر حق علامہ نواب قطب الدین کے زمانے میں عمل عقد و اشارت کے ترک کے قائل ہوں مگر اب تو سب حنفی اس کے قائل ہیں۔) کے حنفیہ نے اس عمل عقد و اشارت (یعنی داہنے ہاتھ کی انگلیوں کو بند کر کے شہادت کی انگلی کو اٹھانے) کو ترک کیا ہے ، گو متقدمین کے ہاں یہ عمل جاری تھا مگر متأخرین نے اس میں اختلاف کیا ہے لیکن حرمین اور عرب کے دوسرے شہروں کے علماء کے نزدیک مختار مسلک عمل عقد و اشارت کرنا ہی ہے۔

علامہ شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جن کا شمار محققین حنفیہ میں ہوتا ہے فرمایا ہے کہ  اول تشہد (التحیات) میں شہادتین تک تو ہاتھ کھلا رکھنا چاہئے اور تہلیل کے وقت انگلیوں کو بند کر لینا چاہئے نیز (شہادت کی انگلی سے) اشارہ کرنا چاہئے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ  اشارہ کرنے کو منع کرنا روایت اور درایت کے خلاف ہے۔

محیط میں مذکور ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھانا حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک سنت ہے اور حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی اسی طرح ثابت ہیے۔ علامہ نجم الدین زاہدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  ہمارے علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ عمل اشارت سنت ہے۔

لہٰذا جب صحابہ کرام تابعین، ائمہ دین، محدثین عظام، فقہائے امت اور علمائے کوفہ و مدینہ سب ہی کا مذہب و مسلک یہ ہے کہ التحیات میں شہادتین کے وقت دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھانا یعنی اشارہ وحدانیت کرنا چاہئے اور یہ کہ اس کے ثبوت میں بہت زیادہ احادیث اور اقوال صحابہ وارد ہیں تو پھر اس پر عمل کرنا ہی اولیٰ و ارجح ہو گا۔

اشارہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچے تو شافعیہ کے نزدیک الا اللہ کہتے وقت شہادت کی انگلی اٹھالی جائے اور حنفیہ کے نزدیک جس وقت لا الہ کہے تو انگلی اٹھائے اور جب الا اللہ کہے تو انگلی رکھ دے۔ اس سلسلہ میں اتنی بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انگلی سے اوپر کی جانب اشارہ نہ کیا جائے تاکہ جہت کا وہم پیدا نہ ہو جائے۔

حدیث کے الفاظ یدعوبھا) (اس کے ساتھ دعا مانگتے) کا مطلب یہی ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ و سلم شہادت کی انگلی اٹھا کر اشارہ وحدانیت کرتے جس کی طرف ترجمہ میں یہ بھی اشارہ کر دیا گیا ہے یا پھر دعا سے مراد ذکر ہے کو دعا بھی کہتے ہیں کیونکہ ذکر کرنے والا بھی مستحق انعام و اکرام ہوتا ہے۔

حدیث کے آخری جملے  بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو زانو کے قریب یعنی ران پر کھلا ہوا قبلہ رخ رکھتے تھے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب (نماز میں التحیات پڑھنے کے لیے) بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی دائیں ران پر اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اپنے انگوٹھے کو اپنی بیچ کی انگلی پر رکھتے (یعنی اس طرح حلقہ بنا لیتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم (کبھی) اپنے بائیں ہاتھ سے بایاں گھٹنا پکڑ لیتے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جیسا کہ ابھی پہلے بتایا جا چکا ہے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھاتے وقت یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ چھنگلیاں اور اس کے قریب والی انگلی کو بند کر لیا جائے اور انگوٹھے کے سرے کو بیچ کی انگلی کے سرے پر رکھ کے حلقہ بنا لیا جائے اور شہادت کی انگلی اٹھالی جائے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک التحیات پڑھنے کے لیے بیٹھتے وقت ہی اس طرح حلقہ بنا لینا چاہئے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ حلقہ انگلی اٹھاتے وقت ہی بنانا چاہئے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تو (قعدہ میں التحیات کی بجائے) یہ پڑھا کرتے تھے۔ السلام علی اللہ قبل عبادہ السلام علی جبریل السلام علی میکائیل السلام علی فلان  اللہ پر سلام ہے ، میکائیل پر سلام ہے اس کے بندوں پر سلام بھیجے سے پہلے جبرائیل پر سلام ہے اور فلاں (یعنی فرشتوں میں سے کسی فرشتے پر یا انبیاء میں سے کسی نبی پر سلام ہے۔  چنانچہ (ایک دن) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (نماز پڑھ کر) فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ  اللہ پر سلام نہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ (تو خود) سلام ہے یعنی پروردگار کی ذات تمام آفات و نقصانات سے محفوظ و سالم ہے وہ بندوں کو تمام ظاہری و باطنی آفات و نقصانات سے سلامتی دیتا ہے اور چونکہ اس کے لیے اور اس کی طرف سے سلامتی ثابت ہے اس لیے سلامتی کے لیے دعا تو اس کے لیے کرنی چاہئے جس کو نقصانات و آفات کا خوف ہو اور جو اس کی سلامتی کا محتاج ہو لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز (کے قعدہ) میں بیٹھے تو یہ کہے التحیات اللہ والصلوات والطیبات اسلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکا تہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین سب تعریفیں اور بدنی عبادتیں (یعنی نماز وغیرہ اور مالی عبادتیں (یعنی زکوٰۃ وغیرہ) اللہ ہی کے لیے ہے۔ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم پر سلام اور اللہ کی برکتیں ہوں۔ ہم پر بھی سلام اور اللہ کے سب نیک بندوں پر سلام۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی ان کلمات کو کہتا ہے تو اس کی برکت زمین و آسمان کے ہر نیک بندے کو پہنچتی ہے۔ (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کلمات کو شہادتین پر ختم فرمایا جو تمام اعمال کی اصل اور خلاصہ ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ  میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔  پھر فرمایا اس کے بعد بندے کو جو دعا اچھی لگے اسے اختیار کرے اور اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج حاصل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم بارگاہ خداوندی میں باریاب ہوئے تو اللہ جل شانہ کی تعریف میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ کلمات زبان سے ادا فرمائے

التحیات اللہ والصلوات والطیبات۔

تمام تعریفیں اور مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔

اس کے جواب میں بارگاہ الوہیئت سے فرمایا گیا۔

السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔

اے نبی تم پر سلام اور اللہ کی برکتیں و رحمتیں!۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔

علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔

ہم پر بھی سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام۔

تب جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا۔

اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہٗ و رسولہ۔

میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔

بہر حال السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین میں  نیک بندوں کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ بد بخت و بدکار بندوں پر سلام بھیجنا یا ان کو سلام کہنا مناسب نہیں ہے۔ اس کی سعادت کے حقدار اور لائق تو وہی بندے ہیں جو اپنے عقیدہ و فکر اور اعمال و کردار کے اعتبار سے اللہ اور اللہ کے رسول کی نظر میں پسندیدہ ہیں جنہیں  صالح کہا جاتا ہے اور  بندہ صالح وہی ہے جو حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں کی رعایت کو مد نظر رکھتا ہے اور دونوں کو پورا کرتا ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ  صالح دراصل اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کے ذاتی و نفسانی ارادے و خواہشات موت کے گھاٹ اتر جائیں اور اللہ تعالیٰ کی مراد و مقصد پر قائم رہے (جس کی وجہ سے وہ بند صالح کہلانے کا مستحق ہو) لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ پروردگار کی رضا و خواہش پر اس کیفیت کے ساتھ راضی اور اپنے تمام امور کو خداوند عالم کی طرف اس طرح سونپنے والا ہو جائے جیسا کہ نومولود بچہ دایہ کے ہاتھ میں یا میت نہلانے والوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

علماء فرماتے ہیں کہ  جب بندہ اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا جذبہ بندگی و اطاعت اس قدر لطیف و پاکیزہ ہو جاتا ہے تو وہ یقینی طور پر تمام دنیاوی و جسمانی اور نفسانی آفات اور بلاؤں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔

آخر میں۔ اتنی بات اور سمجھتے چلے کہ التحیات کو دونوں قعدوں میں پڑھنا چاہئے اور یہ کہ درمیان کا قعدہ (یعنی جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے ہیں) واجب ہے اور آخری قعدہ (جس میں سلام پھیرا جاتا ہے) فرض ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح ہمیں قرآن کی کوئی سورۃ سکھاتے تھے اسی طرح تشہد سکھایا کرتے تھے چنانچہ کہا کرتے تھے  التَّحِیاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّیبٰتُ لِلّٰہِ السَّلَامُ عَلَیکَ اَیھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہ  تمام با برکت تعریفیں اور تمام مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم! تم پر سلام اور اللہ کی برکت و رحمتیں  ہم پر بھی سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ (صحیح مسلم)

اور مولف مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ میں نے نہ تو صحیحین (یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں) اور نہ جمع بین صحیحین میں لفظ  سلام علیک اور  سلام علینا  بغیر الف لام کے پایا ہے البتہ اس طرح اس کو صاحب جامع الاصول نے جامع ترمذی (کے حوالہ) سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

اس روایت میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تشہد یعنی التحیات کے جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں اس پر حضرات شافعیہ عمل کرتے ہیں اور التحیات میں انہی الفاظ کو پڑھتے ہیں لیکن حنفیہ حضرات کے ہاں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روایت کردہ تشہد کے الفاظ پر جو اس سے پہلی روایت میں گذرے ہیں عمل کیا جاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روایت کردہ تشہد کے بارے میں محدثین صراحت کرتے ہیں کہ یہ صحیح تر ہے۔

چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  تشہد کے سلسلے میں جتنی احادیث مروی ہیں ان سب میں سے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث سب سے زیادہ صحیح تر ہے۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پر عمل کرتے ہیں اور صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم کا معمول بھی انہیں کی حدیث کے مطابق تھا۔ پھر یہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ تشہد کے لیے حکم فرمایا تھا کہ اسے لوگوں کو سکھایا جائے ، چنانچہ مسند امام احمد ابن حنبل میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابن مسعود کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اسی تشہد کو لوگوں کو سکھائیں۔

ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح مجھے قرآن کی تعلیم دیتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے تشہد سکھایا۔

پھر حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایتوں میں یہ بھی بڑا فرق ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو تو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے وہ تشہد اختیار فرمایا ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے یعنی  التحیات للہ الذاکیات للہ الطیبات للہ السلام علیک ایھا النبی الخ۔

بہر حال علماء لکھتے ہیں کہ یہ پوری بحث صرف اولیت و افضلیت سے متعلق ہے یعنی حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تشہد پڑھنا افضل ہے اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تشہد پڑھنا افضل ہے۔ لیکن جہاں تک جواز کا سوال ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے جو تشہد بھی چا ہے پڑھ لیا جائے جائز ہو گا۔

روایت کے آخری الفاظ ولم اجد (الخ) سے دراصل مولف مشکوٰۃ، صاحب مصابیح پر ایک اعتراض کر رہے ہیں وہ کہ یہ صاحب مصابیح نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تشہد میں  سلام علیک اور  سلام علینا  کو بغیر الف لام کے ذکر کیا ہے۔ حالانکہ اس طرح یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول نہیں لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر کرنا صحیح نہیں ہے۔ وا اللہ اعلم۔

 

                    اشارہ کے وقت شہادت کی انگلی کو متحرک رکھنا

 

اور حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  پھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم (سجدے سے سر اٹھا کر اس طرح) بیٹھے (کہ) اپنا بایاں پاؤں تو بچھا لیا اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا اور دائیں ران پر دائیں کہنی الگ رکھی (یعنی کہنی کو ران پر رکھتے وقت اسے پہلو سے نہیں ملایا) اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی) بند کر کے (حنفیہ کے مسلک کے مطابق درمیان والی انگلی اور انگوٹھے کا) حلقہ بنایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہادت کی انگلی اٹھائی اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس انگلی کو حرکت دیتے تھے اور اس سے اشارہ (توحید) کرتے تھے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی)

 

تشریح

 

یہ حدیث ایک مسلسل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام نماز کی تفصیل ذکر کی گئی ہے چونکہ اس موقع پر موضوع کی رعایت کے پیش نظر جلسہ کی کیفیت ذکر کرنی مقصود تھی اس لیے ثم جلس سے اس ٹکڑے کو ذکر کیا گیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ شہادت کی انگلی کو اٹھا کر اسے متحرک رکھنا چاہئے چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے کہ اشارہ کے وقت انگلی کو ہلاتے رہنا چاہئے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں انگلی کو متحرک نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ اس کے بعد کی حدیث نے لا یتحرکھا کہہ کر صراحت کے ساتھ اس فعل سے منع کر دیا ہے۔

جہاں تک اس حدیث کے الفاظ کا تعلق ہے تو کہا جائے گا کہ یہاں  یتحرکھا  یعنی حرکت دینے سے مراد انگلی کا اٹھانا ہی ہے کیونکہ انگلی کو اٹھانے میں بھی بہر حال حرکت ہوتی ہے اس توجیہ سے اس حدیث میں اور ما بعد کی حدیث میں تطبیق بھی ہو جائے گی۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب (قعدے میں) دعا کرتے (یعنی کلمہ شہادت پڑھتے تھے) تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے لیکن اس کو ہلاتے نہ تھے (ابوداؤد سنن نسائی) اور ابوداؤد نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ  اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر اشارے (والی انگلی) سے تجازو نہ کرتی تھی۔

 

تشریح

 

ابوداؤد کے روایت کردہ آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ انگلی اٹھانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر انگلی ہی پر رہتی تھی دوسری طرف نہیں دیکھتے تھے تاکہ خیالات کی رو دوسری طرف نہ جائے بلکہ مضمون توحید دل میں رہے اور خشوع و خضوع حاصل رہے۔

 

 

                   اشارہ صرف ایک انگلی سے کرنا چاہئے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی تشہد میں (شہادت کی) دونوں انگلیوں سے اشارہ کرتا تھا چنانچہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ  ایک انگلی سے اشارہ کرو۔ ایک ہی انگلی سے اشارہ کرو۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی، بیہقی)

 

تشریح

 

جیسا کہ ابوداؤد و نسائی نے صراحت کی ہے حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ قعدہ میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیوں سے اشارہ وحدانیت کرتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھا تو انہیں اس طریقہ سے منع فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ قاعدہ کے مطابق صرف ایک ہی انگلی یعنی داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرو۔

 

                   قعدہ میں ہاتھوں پر ٹیک لگا کر نہیں بیٹھنا چاہئے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھے (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی نماز میں اٹھتے ہوئے ہاتھوں پر سہارا دے۔

 

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزء کا مطلب تو یہ ہے کہ جب کوئی آدمی قعدے میں بیٹھے یا قعدہ سے کھڑا ہونے لگے تو اسے چاہئے کہ ہاتھ پر ٹیک نہ لگائے۔

دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ سجدے وغیرہ سے اٹھتے وقت بھی ہاتھوں کا سہارا نہ لیا جائے یعنی ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے بغیر گھٹنے کی طاقت سے اٹھا جائے چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا عمل اسی حدیث پر ہے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر ہی سجدے وغیرہ سے اٹھتے ہیں۔ ان کی مستدل وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدے وغیرہ سے اٹھتے وقت ہاتھوں کو زمین پر ٹیکا تھا حنفیہ اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل ضعف اور کبر سنی پر محمول ہو گا کہ اس وقت چونکہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے بغیر ہاتھوں کو ٹیکے ہوئے اٹھنا ممکن نہیں تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہاتھوں کو سہارا دے کر اٹھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر عذر ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر نہیں اٹھتے تھے۔

 

                   قعدہ کی مقدار میں فرق

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم پہلی دو رکعتوں میں (یعنی پہلے قعدے میں) تشہد کے لیے اس قدر بیٹھتے تھے گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم گرم پتھر پر بیٹھے ہیں اور (جلد ہی) کھڑے ہو جاتے تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی آدمی گرم پتھر پر زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتا بلکہ جلد ہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے قعدے میں چونکہ صرف التحیات پڑھتے تھے دیگر دعا و درود و غیرہ نہیں پڑھتے تھے اس لیے التحیات پڑھتے ہی کھڑے ہو جاتے تھے اس کے برعکس آخری قعدہ میں چونکہ التحیات کے ساتھ درود اور دوسری دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں اس لیے اس میں بیٹھنے کی مقدار پہلے قعدے میں بیٹھنے کی مقدار سے زیادہ ہوتی تھی۔

 

 

٭٭حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح ہم کو قرآن کی کوئی سورۃ سکھاتے تھے اسی طرح تشہد بھی سکھاتے تھے (یعنی جس طرح باعتبار قرأت قرآن کی الفاظ مختلف ہیں اسی طرح تشہد کے الفاظ بھی مختلف ہیں چنانچہ اس روایت میں تشہد کے الفاظ اس طرح ہیں بِسْمِ اﷲ وَ بِاﷲ التَّحِیَّاتُ لِلّٰہ الصَّلٰواتُ الطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اﷲ وَ بَرَکَاتُہ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہ، وَرَسُوْلہٗ اَسْاَلُ اﷲ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُ بِاﷲ مِنَ النَّارِ  یعنی اللہ کے نام اور اللہ کی توفیق کے ساتھ شروع کرتا ہوں اور تمام تعریفیں اور تمام مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم پر سلام ہو اور اللہ کی برکت و رحمتیں اور ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں اللہ سے جنت کی درخواست کرتا ہوں اور دوزخ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ (سنن نسائی)

 

                   شہادت کی انگلی شیطان کے لیے باعث تکلیف ہے

 

اور حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز یعنی قعدے میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور (شہادت کی) انگلی سے اشارہ (وحدانیت) فرماتے اور نظر انگلی پر رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لو ہے سے زیادہ سخت ہے یعنی شہادت کی انگلی سے اشارہ وحدانیت کرنا شیطان پر نیز وغیرہ پھینکنے سے زیادہ سخت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ شیطان کی آرزو اور تمنا تو یہ ہے کہ ہر آدمی ضلالت و گمراہی اور کفر و شرک میں مبتلا ہو جائے لیکن جب وہ ایک نمازی کو دیکھتا ہے کہ وہ اس کی تمنا و آزور کے برخلاف کفر و شرک سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے اللہ کی وحدانیت کا اظہار کر رہا ہے تو اس کی امیدوں پر اوس پڑ جاتی ہے اور اس وقت اسے اتنی ہی شدید تکلیف پہنچتی ہے جتنی کہ اس کو نیزہ وغیرہ مارنے سے پہنچ سکتی ہے۔

 

                   التحیات آہستہ آواز سے پڑھنا سنت ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  تشہد (یعنی التحیات) آہستہ آواز سے پڑھنا سنت ہے (ابوداؤد، جامع ترمذی) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

جب کوئی صحابی کسی فعل کے بارہ میں یہ کہے کہ  یہ سنت ہے تو اس کا یہ قول  قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم میں ہو گا یعنی وہ حدیث مرفوع ہو گی۔ چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کے پیش نظر جمہور محدثین اور فقہا کا مسلک یہی ہے کہ تشہد یعنی التحیات آہستہ آواز سے پڑھنا چاہئے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے اور اس کی فضلیت کا بیان

 

لغوی طور  پر  صلوۃ کے معنی دعا، رحمت اور استغفار کے ہیں اور درود کا مطلب ہے بندوں کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اللہ جل شانہ کی ایسی رحمت کو طلب کرنا جو دنیا و آخرت کی بھلائی کو شامل ہو۔

ا اللہ تعالیٰ نے بندوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر صلوٰۃ و سلام یعنی درود بھیجنے کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد بانی ہے۔

آیت (يٰٓاَيُّہا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْہ و سلموْا تَسْلِيْماً) 33۔ الاحزاب:56)

اے ایمان والو تم آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) پر سلام اور رحمت بھیجو۔

علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم وجوب کے لیے ہے چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جتنی مرتبہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک سنا جائے ہر ہر بار درود بھیجا جائے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جس طرح پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کی گواہی دینی فرض ہے اسی طرح پوری عمر میں صرف ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنا فرض ہے۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ درود بھیجنا مستحب و مسنون اور شعار اسلام میں ہے جس پر بیحد و حساب اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔

حضرت قاضی ابوبکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تو فرماتے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ نے مومنین پر فرض کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجا جائے اور چونکہ اس سلسلے میں کوئی خاص وقت متعین نہیں کیا اس لیے واجب ہے کہ درود و سلام زیادہ سے زیادہ بھیجا جائے اور اس میں غفلت نہ برتی جائے  لیکن بعض حضرات نے حضرت قاضی ابوبکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قول کے مقابلے میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔

 

التحیات میں درود پڑھنا فرض ہے یا سنت

حضرت امام اشافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے التحیات میں درود پڑھنے کو فرض کہا ہے لیکن علماء نے صراحت کی ہے کہ امام اشافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول شاذ ہے اس مسئلے میں امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا موافق کوئی عالم نہیں ہے۔

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا معتمد و مفتی بہ قول یہ ہے کہ کوئی آدمی اگر ایک ہی مجلس میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک کئی مرتبہ سنے تو اس پر صرف ایک مرتبہ درود بھیجنا واجب ہے اور ہر مرتبہ بھیجنا مستحب ہے اور التحیات میں درود پڑھنا سنت ہے۔

صلوٰۃ و سلام کے الفاظ کا استعمال غیر انبیاء کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ علماء کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ناموں سے ساتھ صلوٰۃ و سلام کے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسم گرامی کے ساتھ صلی اللہ علیہ و سلم یا دوسرے انبیاء کے اسماء کے ساتھ علیہ السلام کے الفاظ بولے اور لکھے جاتے ہیں تو اس طرح انبیاء کے علاوہ کسی دوسری آدمی کے نام کے ساتھ ان الفاظ کا استعمال جائز ہو گا یا نہیں؟ چنانچہ جمہور علماء فرماتے ہیں کہ  ان الفاظ کا استعمال صرف انبیاء کے لیے مخصوص ہے۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کے لیے ان الفاظ کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے البتہ دوسرے لوگوں کے اسماء کے ساتھ غفر اللہٗ رحمۃ اللہ اور رضی اللہ وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے جائیں۔

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نقل کیا ہے کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگوں پر درود بھیجنا خلاف اولیٰ ہے۔ بعض حضرات نے حرام اور مکروہ بھی کہا ہے اس مسئلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ  غیر انبیاء اور ملائکہ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا ابتدا اور مستقلاً مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ یہ اہل بدعت کا شعار ہے البتہ انبیاء کے ساتھ ان پر بھیجنا جائز ہے مثلاً اس طرح کہا جا سکتا ہے صلی اللہ علی محمد و علی الہ و اصحابہ و سلم یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کی آل اولاد پر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ پر اللہ کی رحمت و برکت : وا اللہ اعلم

 

                   التحیات میں درود پڑھنے کا طریقہ

 

حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت کعب ابن عجرہ (صحابی) سے میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ چیز بطور ہدیہ پیش نہ کروں جس کو میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے؟ میں نے عرض کیا  جی ہاں ! مجھے وہ ہدیہ ضرور عنایت فرمائیے انہوں نے فرمایا کہ  ہم چند صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اور اہل بیت نبوت پر ہم درود کس طرح بھیجیں؟ اللہ نے ہمیں یہ تو بتا دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام کس طرح بھیجا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس طرح کہو! اللہم صل علی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجیدا اے اللہ ! محمد پر آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر رحمت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی بیشک تو بزرگ و برتر ہے۔ اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر برکت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی بیشک تو بزرگ و برتر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

صحابہ کے سوال کا حاصل یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود اور سلام بھیجیں تو سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سکھایا۔ کہ التحیات میں ہم  السلام علیک ایھا النبی  کہا کریں۔ اب یہ بھی بتا دیجئے کہ درود کس طرح بھیجیں؟

صحابہ کے قول  اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام کس طرح بھجیں  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لسان اقدس کے ذریعے ہمیں سلام بھیجنے کی تعلیم دی۔ اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے تعلیم اس لیے کہا گیا ہے کہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے جو بھی احکام بیان فرمائے ہیں وہ از خود اور اپنے ذہن و فکر سے نہیں بیان فرمائے ہیں بلکہ وہ احکام بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیئے گئے اس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی لسان اقدس کے ذریعہ نافذ فرمایا۔

آل کی تعریف و تحقیق

اہل و عیال کو کہتے ہیں اس کے معنی  تابعدار  بھی مراد لیے جاتے ہیں چنانچہ  وعلی آل محمد  میں آل کے تعین کے سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ  ال محمد سے مراد صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل و عیال ہیں۔ کچھ حضرات نے کہا ہے کہ آل سے مراد تابعداد مراد ہیں بعض علماء کی رائے ہے کہ ہر مومن آل محمد میں سے ہے کسی نے کہا کہ ہر متقی مومن آل محمد میں شامل ہے یہ سب علماء کے اقوال ہیں لیکن بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں آل سے مراد تابعدار ہیں۔ گو بعض علماء نے  آل کی تفسیر  اہل بیت سے کی ہے یعنی ان حضرات کے نزدیک  آل محمد سے اہل بیت یعنی وہ لوگ مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور  جنہیں بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ  اہل بیت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات اور اولاد شامل ہیں اور چونکہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کا ربط بھی ان سب سے حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے بہت زیادہ تھا اس لیے وہ بھی اہل بیت میں داخل ہیں۔

کما صلیت علی ابراہیم  میں صرف حضرت ابراہیم کی تخصیص کی گئی ہے اور کسی نبی کا ذکر نہیں کیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو حضرت ابراہیم علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جد امجد ہیں، نیز یہ کہ اصول دین میں شریعت محمدی ان کے تابع ہے۔

اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر برکت نازل کر کا مطلب یہ ہے کہ  رب قدوس! تو نے ہمارے سرکار و سردار رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو جو شرف و فضیلت عطا فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جو بزرگی و بڑائی دی ہے اس کو ہمیشہ اور باقی رکھ!

روایت کے آخری الفاظ الا ان مسلما لم یذکر الخ کا مطلب یہ ہے کہ مسلم نے جو روایت نقل کی ہے اس کے پہلے اور دوسرے دونوں ہی درود میں  علی ابراہیم کے الفاظ نہیں ہیں یعنی اس کے الفاظ اس طرح ہیں  کما صیلت علی آل ابراہیم  اور  کما بارکت علی آل ابراہیم

 

                   التحیات میں درود پڑھنے کا طریقہ

 

اور حضرت ابوحمید ساعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  صحابہ نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود کس طرح بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  یہ کہو؟ اللہم صل علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبارک علی محمد وازواجہ وذریتہ کما بارکت علی ال ابراہیم انک حمید مجید اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات پر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات پر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد پر برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر برکت نازل فرمائی، بے شک تو بزرگ و برتر ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

درود کے الفاظ مختلف طریقے سے وارد ہوئے ہیں جیسا کہ ابھی آپ نے دیکھا۔ پہلی حدیث میں درود کے الفاظ کچھ اور ہیں اور اس حدیث کے الفاظ کچھ اور چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ پہلی حدیث میں جو درود ذکر کیا ہے وہ پڑھ لینا کافی ہے بعض روایتوں میں و ارحم کما رحمت و  ترحمت کے الفاظ بھی مذکور ہیں مگر یہ الفاظ صحیح طور پر ثابت نہیں ہیں۔

بعض محدثین نے وضاحت کی ہے کہ جس حدیث میں ان الفاظ و ترحم علی محمد وال محمد کما ترحمت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم کا بھی اضافہ ہے وہ حدیث حسن ہے۔ وا اللہ اعلم

 

                   درود بھیجنے کی فضیلت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

چونکہ ارشاد ربانی ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثا لھا یعنی جو آدمی ایک نیکی کرتا ہے تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ہے اس لیے جو آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس خوشخبری کے مطابق اس آدمی پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ہے۔

 

 

٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس (مرتبہ) رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے دس گناہوں کو معاف کرے گا اور (تقرب الی اللہ کے سلسلے میں) اس کے دس درجے بلند کرے گا۔ (سنن نسائی)

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر اکثر درود پڑھنے والے ہیں۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

ابن حبان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ خوشخبری عظمی محدثین کرام پر زیادہ صادق آتی ہے چونکہ کوئی جماعت محدثین سے زیادہ درود نہیں بھیجتی اس لیے قیامت کے دن تمام لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قریب یہی مقدس طبقہ ہو گا۔

 

                   فرشتے امتیوں کے سلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچاتے ہیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے جو زمین پر سیاحت کرنے والے ہیں میری امت کا سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں۔  (سنن نسائی ، دارمی)

 

تشریح

 

اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو روضہ اقدس سے دور رہتے ہیں اور انہیں روضہ مقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں ہوتا، چنانچہ ایسے لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر قلیل یا کثیر تعداد میں سلام بھیجتے ہیں تو فرشتے ان کا سلام بارگاہ نبوت میں بصد عقیدت و احترام پیش کرتے ہیں۔

البتہ وہ حضرات جنہیں اللہ نے اپنے محبوب کے روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت سے نواز رکھا ہے۔ جب وہ بارگاہ نبوت میں سلام پیش کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچانے کے لیے فرشتوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ روضہ اقدس پر حاضر ہونے والوں کے سلام آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم خود سنتے ہیں۔

اس حدیث سے چند باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اول یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حیات جسمانی حاصل ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس دنیا میں زندگی حاصل تھی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قبر میں بھی زندگی حاصل ہے۔

دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم خوش ہوتے ہیں جو سلام بھیجنے والے کے حق میں انتہائی سعادت و خوش بختی کی بات ہے۔

سوم یہ کہ جب فرشتے کسی امتی کا سلام بارگاہ نبوت میں پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سلام قبولیت کے درجہ کو پہنچ گیا ہے۔ اور اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام بھیجے والے کے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں نیز ایک روایت میں مذکور ہے کہ  جب فرشتے سلام لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں تو سلام بھیجنے والے کا نام بھی لیتے ہیں مثلاً وہ فرماتے ہیں۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! مولانا محمد قطب الدین محی الدین آپ کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کرتے ہیں۔ یا آپ کا ایک ادنی غلام عبداللہ جاوید ابن مولانا محمد عبدالحق خدمت اقدس میں نذرانہ سلام پیش کرتے ہیں۔ یا فقیر محمد اصغر خدمت عالیہ میں سلام عرض کرتا ہے۔

جاں می دہم درآز والے قاصد آخر باز گو

در مجلس آں نازنیں حرفے کہ ازامامی رود

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سلام بھیجنے والے کے سلام کا جواب دیتے ہیں

 

 

 

٭٭  اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب کوئی آدمی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ (سنن ابوداؤد، بیہقی)

 

تشریح

 

اہل سنت و الجماعت کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ آقائے نامدار فخر دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ ابی و امی) عالم برزخ میں زندہ ہیں مگر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عالم برزخ میں زندہ نہیں ہیں بلکہ جب کوئی آدمی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی روح مبارک جسم میں لوٹ آتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام کا جواب دیتے ہیں۔

اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ روح لوٹانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روح مبارک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقدس بدن میں ہمہ وقت موجود نہیں رہتی صرف سلام بھیجنے کے وقت اسے کچھ وقت کے لیے بدن میں واپس کر دیا جاتا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی روح مبارک چونکہ ہمہ وقت مشاہدہ رب العزت میں مستغرق رہتی ہے اس لیے اس کو حالت استغراق و مشاہدہ سے ہٹا کر اس عالم کی طرف متوجہ کر دیا جاتا ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے امتیوں کے درود و سلام سنیں اور اس کا جواب دیں۔ چنانچہ روح مبارک کے اسی متوجہ کرنے اور آگاہ کرنے کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ  اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے ورنہ تو تمام انبیاء صلوات اللہ علیہم اجمعین اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔

اب سوال یہ رہ گیا کہ حدیث میں مذکورہ فضیلت خاص طو پر ان لوگوں سے متعلق ہے جو روضہ اقدس پر حاضری دیتے ہیں اور اس کی زیارت کرتے ہیں یا عمومی طور پر سب لوگوں کے لیے ہے؟ تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فضیلت کا تعلق عمومی طور پر ہے۔ یعنی خواہ کوئی آدمی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مزار اقدس پر حاضر ہو کر سلام پیش کرے یا کسی دور دراز علاقے سے سلام بھیجے۔سلام بھیجے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ جو آدمی روضہ اقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں کر سکتا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا سلام فرشتوں کے واسطے سے سنتے ہیں جیسا کہ تیسری فصل میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنے والی حدیث سے بھی معلوم ہو جائے گا۔

 

                   گھروں کو قبر نہ بنایا جائے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ رکھو اور میری قبر پر عید (کی طرح میلہ) نہ مقرر کرو۔ تم مجھ پر درود پڑھا کرو۔ کیونکہ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود میرے پاس پہنچتا ہے۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزء کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اول یہ کہ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ سمجھ لو کہ جس طرح مردے اپنی قبر میں پڑے رہتے ہیں تم بھی اپنے گھروں میں مردوں کی طرح پڑے رہو ان میں نہ عبادت کرو اور نہ کچھ نمازیں پڑھو بلکہ اسی طرح گھروں میں بھی عبادت کرو اور کچھ نمازیں پڑھو تا کہ اس کے انوار و برکات گھر اور گھر والوں کو پہنچیں اور اس کی شکل یہ ہونی چاہئے کہ فرض نمازیں تو مساجد میں ادا کرو اور سنن و نوافل اپنے گھر آ کر پڑھو کیونکہ نوافل مساجد کی بہ نسبت گھر میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔

دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ۔ اپنے گھروں میں مردے دفن نہ کرو۔ اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا نہ کیجئے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو اپنے گھر ہی زیر زمین آرام فرما ہیں۔ کیونکہ یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کو ایسا نہ کرنا چاہئے۔

تیسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ قبروں کو سکونت کی جگہ قرار نہ دو جیسا کہ آجکل اولیاء اللہ کے مزارات اور قبرستانوں پر ان کے خدام مجاوروں نے سکونت اختیار کر رکھی ہے ، تاکہ دل کی نرمی اور طبیعت و مزاج کی شفقت و رحمت ختم نہ ہو جائے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ قبروں کی زیارت کر کے اور ان پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس آ جاؤ۔

حدیث کے دوسرے جزء میری قبر کو عید (کی طرح) قرار نہ دو  کا مطلب یہ ہے کہ میری قبر کو عید گاہ کی طرح نہ سمجھو کہ وہاں جمع ہو کر زیب و زینت اور لہو و لعب کے ساتھ خوشیاں مناؤ اور اس سے لطف و سرور حاصل کرو۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنے انبیاء کی قبروں پر اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔

حدیث کے اس جزء سے آج کل کے ان نام نہاد ملاؤں اور بدھ پرستوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے جنھوں نے اولیا اللہ کے مزارات کو اپنی نفسانی خواہشات اور دنیاوی اغراض کا منبع و مرجع بنا رکھا ہے اور ان مقدس بزرگوں کے مزارات پر عرس کے نام سے دنیا کی وہ خرافات اور ہنگامہ آرائیاں کرتے ہیں جن پر کفر و شرک بھی خندہ زن ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے حوالے مانڈوں نذر و نیاز اور لذت پیٹ و دہن نے ان کی عقل پر نفس پرستی اور ہوس کاریوں کے وہ موٹے پردے چڑھا دیئے ہیں جن کی موجودگی میں نہ انہیں نعوذ باللہ قرآنی احکام کی ضرورت ہے اور نہ انہیں کسی حدیث کی حاجت۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین

بعض علماء نے اس جزء کی تشریح یہ کی ہے عید کی طرح سال میں صرف ایک دو مرتبہ ہی میری قبر کی زیارت کے لیے نہ آیا کرو بلکہ اکثر و بیشتر حاضر ہوا کرو۔ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی قبر کی زیادہ سے زیادہ زیارت اور اس محیط علم و عرفان اور منبع امن و سکون پر اکثر و بیشتر حاضری پر امت کے لوگوں کو ترغیب دلائی ہے۔

حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجو، اگر کوئی آدمی میرے روضے سے دور ہے اور بعد مسافت اختیار کئے ہوئے ہے تو اس کو اس کا خیال نہ کرنا چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا ہی مجھ پر درود بھیجتا رہے کیونکہ جہاں سے بھی درود بھیجا جائے گا میرے پاس پہنچ جائے گا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مشتاقان زیارت کی جنہیں روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت حاصل نہیں ہو سکی۔ تسلی فرمائی ہے کہ اگرچہ مجبوریوں کی بنا پر تم مجھ سے دور ہو لیکن تمہیں چاہئے کہ توجہ اور حضور قلب سے غافل نہ رہو کہ

قرب جانے چوں بود بعد کانے سہل ست

 

                   درود نہ بھیجنے پر وعید

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھے پر درود نہ بھیجا، خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس پر رمضان آیا اور اس کی بخشش سے پہلے گذر گیا اور خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس کے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک نے اس کے سامنے بڑھاپا پایا اور انھوں نے اسے جنت میں داخل نہیں کیا۔ (جامع ترمذی)

 

 

تشریح

 

اس حدیث میں تین قسم کے لوگوں کے لیے و عید بیان کی جا رہی ہے ، سب سے پہلے ان لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جن کے سامنے سرور کائنات فخر دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر مبارک کیا جائے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہ بھیجیں کہ ان کی ناک خاک آلود ہو یعنی وہ ذلیل و خوار ہوں اور ہلاک ہوں۔

بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مجلس میں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم گرامی لیا جائے ہر مرتبہ درود بھیجنا یعنی صلی اللہ علیہ و سلم کہنا واجب ہوتا ہے کیونکہ اس کے ترک پر اتنی شدت کے ساتھ وعید بیان فرمائی جا رہی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ پچھلے صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ ہر مرتبہ درود بھیجنا واجب نہیں ہے صرف ایک مرتبہ درود بھیجنا واجب ہے البتہ ہر مرتبہ درود بھیجنا مستحب و افضل ہے اب اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ وجوب کی دلیل آخرت کی وعید ہوتی ہے اور چونکہ اس وعید کا تعلق آخرت سے نہیں ہے اس لیے اس کا انتہائی امر یہ ہے کہ یہ وعید ہر مرتبہ درود بھیجنے کے استحباب و افضلیت پر دلالت کرتی ہے نہ کہ وجوب پر۔

دوسرے قسم کے لوگ جن کے لیے وعید بیان کی جا رہی ہے وہ ہیں جو رمضان کے حقوق ادا نہیں کرتے نہ تو روزہ ہی ٹھیک سے رکھتے ہیں اور نہ رمضان میں عبادتیں ہی پورے ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور چونکہ یہ تمام چیزیں مغفرت اور بخشش کا ذریعہ ہیں اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے لیے تباہی و ہلاکت ہو جو رمضان میں اس مقدس مہینے کے فضل و شرف سے محروم رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس مہینے میں بخشش کی سعادت سے نوازے بھی نہیں جاتے اور یہ مہینہ اپنی تمام سعادتوں کے ساتھ گذر جاتا ہے۔

تیسری قسم کے لوگ جن سے اس نوعیت کا تعلق ہے وہ ہیں جو اپنے ماں باپ کے اطاعت گذار فرمانبردار نہیں ہیں۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا، ان کے حقوق ادا نہ کئے ، اس کی رضا مندی و خوشنودی کا خیال نہیں رکھا اور خاص طور پر ان کی کبر سنی میں ان کی خدمت اور دیکھ بھال نہیں کی اور درحقیقت بڑے بدنصیب ہیں کیونکہ انھوں نے ان چیزوں کو ترک کر کے آخرت کا عذاب اور نقصان مول لیا ہے کہ یہ چیزیں جنت میں داخل ہونے کا سبب اور ذریعہ ہیں۔

 

                   درودو سلام کی فضیلت

 

اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم (صحابہ کے پاس) تشریف لائے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک پر بشاشت کھیل رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کے دریافت کرنے کے بعد یا دریافت کرنے سے پہلے ہی) فرمایا۔ میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے تھے ، وہ کہتے تھے کہ پروردگار فرماتا ہے ، کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی امت میں سے جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم درود بھیجے گا میں اس پر دس مرتبہ رحمت نازل کروں گا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں سے جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجے گا میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا۔ (سنن نسائی و دارمی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ اپنی امت کے حق میں انتہائی مشفق و مہربان تھے اور امت کے لیے خیر کی طلب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انتہائی غرض و خواہش تھی اس لیے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے یہ عظیم خوشخبری دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک خوشی و مسرت سے کھل اٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ عظیم خوشخبری صحابہ کرام اور ان کے واسطے سے پوری امت تک پہنچا دی۔

 

                   درودو سلام بھیجنے کی کوئی مقررہ حد نہیں ہے

 

اور حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود بھیجتا ہوں (یعنی کثرت سے درود بھیجنا چاہتا ہوں اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بتلا دیجئے کہ) اپنے لیے دعا کے واسطے جو وقت میں نے مقرر کیا ہے اس میں سے کتنا وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے کے لیے مخصوص کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس قدر تمہارا جی چا ہے ! میں نے عرض کیا  کیا چوتھائی (وقت مقرر کر دوں)؟ فرمایا  جتنا تمہارا جی چا ہے اور اگر زیادہ مقرر کرو تمہارے لیے بہتر ہے میں نے عرض کیا  تو پھر دو تہائی مقرر کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس قدر تمہارا جی چا ہے اور اگر زیادہ مقرر کرو تو تمہارے لیے بہتر ہے میں نے عرض کیا  اچھا تو پھر میں اپنی دعا کا سارا وقت ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے درود کے واسطے مقرر کئے دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  یہ تمہیں کفایت کرے گا، تمہارے دین و دنیا کے مقاصد کو پورا کرے گا۔ اور تمہارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اجعل لک من صلوتی میں لفظ  صلوٰۃ سے مراد دعا ہے۔ حضرت ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہت زیادہ درود بھیجوں۔ چونکہ میں نے اپنے اوقات میں سے ایک خاص وقت کو اس لیے مقرر کر رکھا ہے کہ میں اس وقت اپنے نفس کے لیے دعا کیا کرتا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ اسی وقت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کروں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی مقرر فرما دیجئے کہ اس وقت کا کتنا حصہ میں درود بھیجنے پر صرف کروں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس درخواست پر درود بھیجنے کے لیے اس وقت کا کوئی حصہ مقرر نہیں فرمایا بلکہ اسے ان کے اختیار پر چھوڑ دیا اور فرما دیا کہ تم تو خود ہی جانتے ہو کہ درود بھیجنے کی کتنی فضیلت ہے اور اس کے کیا فضائل و برکات ہیں اس مقدس کام کے لیے تمہاری سعادت جتنا وقت چاہئے مقرر کر لو، تاہم یہ سمجھ لو کہ تم اس کام کے لیے جتنا زیادہ سے زیادہ وقت دو گے اسی قدر تمہارے حق میں بہتر ہو گا۔ چنانچہ جب انھوں نے اپنے اس پورے وقت کو درود بھیجنے پر صرف کرنے کا اظہار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اظہار اطمینان و خوشنودی فرمایا اور فرمایا کہ تم نے ایک مستقل وقت کو اس مقدس عمل کے لیے متعین کر کے درحقیقت دنیا اور آخرت کی بھلائی اور مقاصد کو حاصل کر لیا ہے کیونکہ جب بندہ اپنی طلب اور رغبت کو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور محبوب چیز میں خرچ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو اپنی خواہشات اور اپنے مطالب پر مقدم رکھتا تو خداوند اقدس اس کے تمام امور و مہمات میں اس کا مددگار و حامی ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام دنیوی و دینی مقاصد پورے ہو جاتے ہیں من کان اللہ کان اللہ لہ یعنی جو اللہ تعالیٰ کا ہو کر رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ درود شریف کی یہ برکت و فضیلت ہے کہ جو آدمی اس کا ورد رکھے اور اسے اپنی زندگی کا ایک ضروری جزء بنا لے تو اس کے لیے دین و دنیا دونوں جگہ آسانیاں اور سہولتیں فراہم ہو جاتی ہیں اور اس کے تمام مقاصد خیر پورے ہو جاتے ہیں۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  جب میرے شیخ بزرگوار حضرت عبد الوہاب متقی نے مجھے مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے رخصت فرمایا تو یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ جاؤ ! اور یاد رکھو کہ اس راہ میں اداء فرض کے بعد کوئی عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے کے مماثل نہیں ہے لہٰذا (ادائے فرض کے بعد) تم اپنے اوقات کو اسی مقدس مشغلے میں صرف کرنا اور کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہونا

حضرت شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ  اس کے لیے کوئی عدد مقرر فرما دیا جائے (کہ میں اتنی تعداد میں درود پڑھ لیا کروں) شیخ عبدالوہاب نے فرمایا  اس سلسلے میں کسی عدد کا تعین کرنا شرط نہیں ہے بلکہ درود شریف اتنی کثرت کے ساتھ پڑھنا کہ اس کے ساتھ رطب اللسان ہو جاؤ اور اسی کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ اور اسی میں مستغرق ہو جاؤ

حصن حصین کے مصنف علام نے مفتاح میں لکھا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے کے بے شمار فوائد ہیں، اور دنیا اور آخرت میں اس کے لیے بے انتہا ثمرات مرتب ہوتے ہیں خصوصاً تنگی و پریشانی، کسی خاص مہم ، فکرات اور مطلب برآوری کے سلسلہ میں اس کا بارہا تجربہ ہوا ہے چنانچہ خود میرا تجربہ ہے کہ میں اکثر خوف و ہلاکت کی جگہ گھر گیا اور مجھے وہاں سے اگر نجات ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے کے صدقہ میں۔

 

                   درود کے بعد مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے

 

اور حضرت فضالہ ابن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) جبکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوتے تھے اچانک ایک آدمی آیا اس نے نماز پڑھی اور پھر یہ دعا مانگی۔ اللہم اغفرلی وارحمنی اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما!(یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے تم نے (دعا کی ترکیب ترک کر کے) جلدی کی اور پھر فرمایا کہ جب تم نماز پڑھو تو (نماز کے بعد دعا کے لیے) بیٹھو اور اللہ کی تعریف کہ جس تعریف کے وہ لائق ہے بیان کرو اور مجھ پر درود بھیجو، پھر (تم جو چاہو اللہ سے مانگو (گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دعا کے یہ آداب و طریقے سکھائے) حضرت فضالہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ایک دوسرے آدمی نے نماز پڑھی (آخر میں) اس نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بھی بیان کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجا (مگر اس نے دعا نہیں مانگی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ  اے نماز پڑھنے والے ، دعا بھی مانگو قبول کی جائے گی۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں نماز پڑھ رہا تھا رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم (بھی وہیں) تشریف فرماتھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی حاضر تھے ، چنانچہ (نماز کے بعد) جب میں بیٹھا تو اللہ جل شانہ، کی تعریف بیان کرنا شروع کی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجا، اس کے بعد میں اپنے (دینی و دنیاوی مقاصد کے) لیے مانگنے لگا (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  مانگو! دئیے جاؤ گے۔ مانگو دیئے جاؤ گے (یعنی دعا مانگو ضرور قبول ہو گی)۔  (جامع ترمذی)