FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

باب : اناج اناج کے بدلے (ایک جنس سے ) برابر برابر وزن سے ہو۔

908: سیدنا معمر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے غلام کو گندم کا ایک صاع دے کر بھیجا اور کہا کہ اس کو بیچ کر جَو لے آ۔ وہ غلام لے کر گیا اور ایک صاع اور کچھ زیادہ ”جو“ لے آیا۔ جب معمرؓ  کے پاس آیا اور ان کو خبر کی تو معمرؓ  نے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ جا اور واپس کر دے۔ اور مت لے مگر برابر برابر۔ کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے کہ اناج، اناج کے بدلے برابر برابر بیچو اور ان دنوں ہمارا اناج جَو تھا لوگوں نے کہا جَو اور گیہوں میں تو فرق ہے (اس لئے کمی بیشی جائز ہے )، تو انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں دونوں ایک جنس کا حکم نہ رکھتے ہوں۔

باب : قبضہ کر لینے سے پہلے گندم کی بیع منع ہے۔

909: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اناج خریدے پھر اس کو (اس وقت تک) نہ بیچے جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کر لے۔ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ میں ہر چیز کو اسی پر خیال کرتا ہوں۔

910: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے (مدینہ کے عامل) مروان بن الحکم سے کہا کہ تو نے سود کی بیع کو درست کر دیا؟ مروان نے کہا کہ کیوں میں نے کیا کیا؟ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ تو نے سند (رسید) کی بیع جائز رکھی، حالانکہ رسول اللہﷺ نے اناج کی بیع کرنے سے منع کیا جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کر لیا جائے۔ تب مروان نے لوگوں سے خطاب کیا اور ان کو سند (رسید) بیع سے منع کر دیا۔ (راوی حدیث) سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے چوکیداروں کو دیکھا کہ وہ ان سندوں کو لوگوں سے چھین رہے تھے۔

باب : ڈھیر کئے مال کو خریدنے کے بعد (آگے بیچنے کے لئے ) اس کی جگہ تبدیل کرنے کے متعلق۔

911: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اناج خریدے پھر اس کو نہ بیچے ، جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کر لے۔ اور ہم اناج کو سواروں سے ڈھیر لگا کر خریدا کرتے تھے پھر رسول اللہﷺ نے ہمیں اس ڈھیر کو اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے سے پہلے بیچنے سے منع فرما دیا۔

باب : ماپے ہوئے اناج کو ڈھیر کے ساتھ بیچنے کے متعلق۔

912: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیع مزابنہ سے منع کیا، اور وہ یہ ہے کہ اپنے باغ کا پھل اگر کھجور ہو تو خشک کھجور کے بدلے ناپ کر بیچے اور جو انگور ہو تو سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچے اور کھیت ہو تو سوکھے اناج کے بدلے ماپ کر بیچے۔ آپﷺ نے ان سب سے منع فرمایا (کیونکہ سب میں کمی بیشی کا احتمال ہے )۔

باب : کھجور کی بیع برابر برابر حساب سے۔

913: سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے بنی عدی میں سے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا تو وہ جنیب (ایک عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا۔ رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا خیبر میں سب کھجور ایسی ہی ہوتی ہے ؟ وہ بولا نہیں اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ! ہم یہ کھجور (ملی جلی) کھجور کے دو صاع دے کر ایک صاع خریدتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ایسا مت کرو بلکہ برابر برابر لو، یا ایک کو بیچ کر اس کی قیمت کے بدلے دوسری خرید لو اور ایسے ہی اگر تول کر بیچو تو بھی برابر برابر فروخت کرو۔

باب : کھجور کا ڈھیر (وزن غیر معلوم ) کو معلوم الوزن کھجور کے بدلے بیچنے کے متعلق۔

914: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کھجور کا وہ ڈھیر جس کا وزن معلوم نہ ہو ماپی ہوئی معلوم وزن کھجور کے ساتھ بیچنے سے منع فرمایا۔

باب : پکنے سے پہلے پھل کو نہ بیچا جائے۔

915: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے پھلوں کو پکنے سے پہلے (یعنی جب تک آفت وغیرہ سے پاک نہ ہو جائیں) منع کیا (یا یہ کہا کہ) ہمیں منع کیا پھلوں کے بیچنے سے جب تک وہ (کسی آفت وغیرہ سے ) پاک نہ ہو جائیں۔

916: ابو البختری رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے کھجور کے درختوں کی بیع (یعنی ان کے پھلوں کو بیچنے )کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے کھجور کی بیع سے (اس وقت تک) منع کیا ہے جب تک کہ وہ کھائے جانے یا کھلائے جانے اور کاٹ کر رکھنے کے لائق نہ ہو۔ (راوی کہتے ہیں میں نے ) کہا کہ ”یوزن“ سے کیا مراد ہے ؟ تو ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ کاٹ کر محفوظ رکھنے کے قابل ہو جائے۔

باب : پھل کی صلاحیت کے ظاہر ہونے سے پہلے بیچنے کی ممانعت۔

917: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے کھجور کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا جب تک وہ لال یا زرد نہ ہو جائے (کیونکہ جب سرخی یا زردی اس میں آ جاتی ہے تو سلامتی کا یقین ہو جاتا ہے ) اور اسی طرح بالی (سٹہ) جب تک سفید نہ ہو جائے اور آفت سے محفوظ ہو جائے بیچنے سے منع فرمایا۔ بیچنے والے کو بیچنے سے اور خریدنے والے کو خریدنے سے منع فرمایا۔

باب : بیع مزابنہ کی ممانعت۔

918: بشیر بن یسار مولیٰ بنی حارثہ سے روایت ہے کہ سیدنا رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہؓ  نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے بیع مزابنہ سے منع کیا (یعنی درخت پر لگی ہوئی کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا) مگر عرایا والوں کو اس کی اجازت دی۔ (اس سے مراد وہ غریب لوگ ہیں جنہیں کوئی باغ والا ایک درخت دے دے کہ اس کا پھل آپ استعمال کر لیں)۔

باب : عرایا کی بیع اس کے اندازہ سے جائز ہے۔

919: سیدنا زید بن ثابتؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عریہ (جس کی تعریف اوپر بیان ہوئی) میں اس بات کی رخصت دی کہ ایک گھر کے لوگ اندازے سے خشک کھجور دیں اور اس کے بدلے درخت پر موجود تر کھجور کھانے کو خرید لیں۔

باب : عرایا کی بیع کتنی مقدار تک جائز ہے۔

920: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نے عرایا میں اندازے سے بیع کی اجازت دی بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہو یا پانچ وسق تک (راوئ حدیث داؤد کو شک ہے کہ کیا کہا پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم)۔

باب : پھل کی بیع میں آفت آ جائے تو کیا کیا جائے ؟

921: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تو اپنے بھائی کے ہاتھ پھل بیچے پھر اس پر کوئی آفت آ جائے (جس سے پھل تلف ہو جائیں) تو اب تجھے اس سے کچھ بھی لینا حلال نہیں۔ تو کس چیز کے بدلے اپنے بھائی کا مال لے گا، کیا ناحق لے گا۔

باب : پچھلے باب سے متعلق اور (آفت کے وقت) قرض خواہوں کو اتنا لینا چاہیئے جتنا (مقروض) کے پاس ہو۔

922: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ کے دَور میں درخت پر (لگا ہوا) میوہ خریدا جو قدرتی آفت سے تلف ہو گیا اور اس پر قرض بہت زیادہ ہو گیا (میوہ کے تلف ہو جانے کی وجہ سے ) تب رسول اللہ نے فرمایا کہ اس کو صدقہ دو۔ لوگوں نے اسے صدقہ دیا لیکن اس سے بھی اس کا قرض پورا نہیں ہوا۔ آخر رسول اللہﷺ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ بس اب جو مل گیا سو لے لو اور اب کچھ نہیں ملے گا۔

باب : جو شخص کھجور کا درخت بیچے اور اس درخت پر پھل موجود ہو (تو وہ پھل کس کو ملے گا خریدنے والے کو یا بیچنے والے کو؟)۔

923: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص کھجور کے درخت کو تابیر کے بعد خریدے تو اس کا پھل بائع کو ملے گا مگر جب مشتری پھل کی شرط کر لے اور جو شخص غلام خریدے تو اس کا مال بائع کا ہو گا مگر جب مشتری شرط کر لے۔ (بائع بیچنے والا اور مشتری خریدنے والا ہوتا ہے )۔

باب : بیع مخاہرہ اور محاقلہ کے بیان میں۔

924: زید بن ابی انیسہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابو الولید مکی نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا اور وہ عطاء بن ابی رباح کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہﷺ نے بیع محاقلہ، اور مخابرہ سے منع کیا اور کھجور کے درخت بھی اس وقت تک خریدنے سے منع کیا، جب تک ان کے پھل سرخ یا زرد نہ ہو جائیں یا کھانے کے قابل نہ ہو جائیں۔ اور محاقلہ یہ ہے کہ کھڑا کھیت معین اناج کے بدلے بیچا جائے۔ اور مزابنہ یہ ہے کہ کھجور کے درخت کا پھل خشک کھجور کے چند وثق کے بدلے بیچا جائے اور مخابرہ یہ ہے کہ تہائی یا چوتھائی پیداوار یا اس کی مثل پر زمین دے (جس کو ہمارے ملک میں بٹائی کہتے ہیں)۔ زید نے کہا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنی ہے کہ وہ اسے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔

باب : کئی سالوں کے لئے بیع منع ہے۔

925: ابو زبیر اور سعید بن میناء سے روایت ہے کہ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے محاقلہ، مزابنہ سے اور معاومہ سے اور مخابرہ سے منع فرمایا ہے۔ (راویوں میں سے ایک نے کہا کہ معاومہ سے مراد یہ ہے کہ اپنے درخت کا پھل کئی سال کے لئے بیچ دیا جائے ) اور آپ نے استثنا کرنے سے منع کیا (یعنی ایک مجہول مقدار نکال لینے سے جیسے یوں کہے کہ میں نے تیرے ہاتھ یہ غلہ بیچا مگر تھوڑا اس میں سے نکال لوں گا یا یہ باغ بیچا مگر اس میں سے بعض درخت نہیں بیچے کیونکہ اس صورت میں بیع باطل ہو جائے گی اور جو استثناء معلوم ہو جیسے یوں کہے کہ یہ ڈھیر غلہ کا بیچا مگر اس میں سے چوتھائی نکال لوں گا تو بالاتفاق صحیح ہے ) اور آپﷺ نے عرایا کی اجازت دی۔

926: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کئی سال کے لئے بیع کرنے سے (یعنی درخت کو یا زمین کو) بیع کرنے سے منع کیا ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ پھل کی کئی سال کی بیع سے منع کیا۔

باب : دو غلاموں کے بدلہ میں ایک غلام کی بیع جائز ہے۔

927: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا اور اس نے رسول اللہﷺ سے ہجرت پر بیعت کی۔ لیکن آپﷺ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ غلام ہے۔ پھر اسکا مالک اسکو لینے آیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اسکو میرے ہاتھ بیچ ڈال پھر آپﷺ نے دو کالے غلام دیکر اس کو خرید لیا۔ اس کے بعد آپﷺ کسی سے بیعت نہ لیتے جب تک یہ پوچھ نہ لیتے کہ وہ غلام ہے (یا آزاد)؟۔

باب : بیع مصراۃکی ممانعت کا بیان۔ (مصرات سے مراد دودھ والا جانور ہے جس کا دودھ کچھ وقت تک روک لیا گیا ہو تاکہ دودھ زیادہ نظر آئے )۔

928: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص دودھ چڑھی ہوئی بکری خریدے تو اس کو تین روز تک اختیار ہے چاہے تو اس کو رکھ لے یا واپس کر دے اور اس کے ساتھ کھجور کا ایک صاع بھی دے۔

باب : جس کا کھانا حرام ہے اس کی بیع حرام ہے۔

929: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  کو خبر پہنچی کہ سیدنا سمرہؓ  نے شراب بیچی ہے تو انہوں نے کہا سمرہؓ  پر اللہ کی مار! کیا اسے رسول اللہﷺ کے اس فرمان کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی (اس وجہ سے کہ) ان پر چربی کا کھانا حرام ہوا تو انہوں نے اسے پگھلایا اور بیچ دیا

باب : شراب کی بیع حرام ہے۔

930: عبدالرحمن بن وعلہ السبئ (جو مصر کے رہنے والے تھے ) سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  سے انگور کے شیرہ کے بارے میں پوچھا تو سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے لئے شراب کی ایک مشک تحفہ میں لایا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام کر دیا ہے تو اس نے کہا کہ نہیں۔ تب اس نے دوسرے سے کان میں بات کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے کیا بات کی؟ اس نے کہا کہ میں نے اس کو بیچنے کا کہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جس (اللہ) نے اس کا پینا حرام کیا ہے اس نے اس کا بیچنا بھی حرام کر دیا ہے۔ (یہ سن کر) اس شخص نے مشک کا منہ کھول دیا اور اس میں جو کچھ تھا سب بہہ گیا۔

باب : مردار، بتوں اور خنزیروں کی بیع حرام ہے۔

931: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ جس سال مکہ فتح ہوا، انہوں نے مکہ میں رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی بیع کو حرام کر دیا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مردار کی چربی کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ یہ کشتیوں میں لگائی جاتی ہے اور کھالوں میں ملی جاتی ہے اور لوگ اس سے روشنی کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں وہ حرام ہے۔ پھر اسی وقت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہود کو تباہ کرے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کو حرام کیا (یعنی اس کا کھانا) تو انہوں نے اس کو پگھلایا پھر بیچ کر اس کی قیمت کھائی۔

باب : کتے کی قیمت ، رنڈی (فلمسٹار، ہیرو اور ہیروئن اور چکلے والے اور چکلے والی وغیرہ سب) کی خرچی اور نجومی کی مٹھائی لینا منع ہے۔

932: سیدنا ابو مسعود انصاریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کتے کی بیع، کسی رنڈی فاحشہ کی خرچی اور نجومی کی مٹھائی سے منع کیا۔

باب : بلی کی قیمت لینا منع ہے۔

933: ابو زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابرؓ  سے کتے کی قیمت اور اور بلی کی قیمت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے اس سے سختی سے منع کیا۔

باب : پچھنے لگانے والے کی کمائی خبیث ہے۔

934: سیدنا رافع بن خدیجؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کتے کی قیمت خبیث ہے اور رنڈی کی خرچی خبیث ہے اور پچھنے لگانے والے کی کمائی خبیث ہے۔

باب : پچھنے لگانے والی کی اجرت کے جائز ہونے کا بیان۔

935: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ کو بنی بیاضہ کے ایک غلام نے پچھنے لگائے ، پھر نبیﷺ نے اس کو اس کی اجرت دی۔ اور اس کے مالک سے سفارش کی کہ وہ اس کے ٹیکس میں تخفیف کرے۔ اگر (سینگی لگانے والے کی اجرت) حرام ہوتی تو آپﷺ اس کو مزدوری ہرگز نہ دیتے۔

936: حمید کہتے ہیں کہ سیدنا انس بن مالکؓ  سے پچھنے لگانے والے کی کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ابو طیبہ سے پچھنے لگوائے پھر آپﷺ نے ان کو دو صاع اناج دینے کا حکم فرمایا اور اس کے مالکوں سے فرمایا کہ اس سے محصول کم لیں۔ (یعنی جو خراج اس سے لیتے تھے ) اور آپﷺ نے فرمایا کہ دواؤں میں جن سے تم علاج کرتے ہو، افضل دوآپچھنے لگانا ہے یا یہ فرمایا: تمہاری بہترین دواؤں میں سے ہے۔

باب : بیع ”حَبَلِ الْحَبَلَةِ“ کے متعلق۔

937: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگ اونٹ کا گوشت حبل الحبلہ تک بیچتے تھے۔ اور حبل الحبلہ یہ ہے کہ اونٹنی جنے پھر اس کا بچہ (اونٹنی) حاملہ ہو اور وہ جنے تو رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا۔

باب : بیع ”ملامسہ“ اور ”منابذہ“ منع ہے۔

938: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں دو قسم کی بیع اور دو قسم کے لباس سے منع فرمایا۔ بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع کیا۔ اور بیع ملامسہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کا کپڑا اپنے ہاتھ سے چھوئے رات یا دن کو اور نہ الٹے مگر اسی لئے یعنی بیع کیلئے۔ اور منابذہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنا کپڑا دوسرے کے کپڑے کی طرف پھینک دے ، اور دوسرا اپنا کپڑا اس کی طرف پھینک دے اور یہی ان کی بیع ہو۔ بغیر دیکھے اور بغیر رضا مندی کے اظہار کے۔

باب : کنکری کی بیع (جتنی چیزوں کو کنکری لگے ) اور دھوکہ کی بیع کے متعلق

939: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کنکری کی بیع اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔

باب : نجش (چڑھتی کی) بیع منع ہے۔

940: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نجش (یعنی بغیر لینے کے ارادے کے صرف بھاؤ بڑھانے کے لئے زیادہ قیمت لگانے ) سے منع فرمایا۔

باب : بھائی کے سودے پر سودا کرنا منع ہے۔

اس باب کے بارے میں حدیث عقبہ کتاب النکاح میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 800)۔

باب : مال (بازار میں آنے سے پہلے ) راستہ میں جا کر لینا منع ہے۔

941: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سودا بیچنے والوں سے (آگے جا کر مت ملو) (جب تک وہ بازار میں نہ آئیں اور مال والوں کو بازار کا بھاؤ معلوم نہ ہو) اگر کوئی آگے جا کر ملے اور مال خرید لے اور پھر مال کا مالک بازار میں آئے (اور بھاؤ کے دریافت میں معلوم ہو کہ اس کو نقصان ہوا ہے )، تو اس کو اختیار ہے (چاہے تو بیع فسخ کر سکتا ہے )۔

باب : شہر والا ، باہر (سے آنے) والے کا مال نہ بیچے۔

942: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سواروں سے (جو مال لے کر آئیں) آگے جا کر ملاقات کرنے سے اور شہری کو باہر (سے آنے ) والے کا مال بیچنے سے منع کیا۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے پوچھا کہ شہری کو دیہاتی کی بیع سے کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا کہ شہر والے کو نہیں چاہئیے کہ باہر (سے آنے ) والے کا (مال بکوانے میں) دلال بنے (بلکہ اس کو خود بیچنے دے )۔

باب : ذخیرہ اندوزی کرنا (کہ مزید قیمت چڑھے ) منع ہے۔

943: سیدنا معمر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی ذخیرہ اندوزی کرے وہ گنہگار ہے۔ لوگوں نے سعید بن مسیب سے کہا کہ تم تو خود ذخیرہ اندوزی کرتے ہو، تو انہوں نے کہا سیدنا معمرؓ  جنہوں نے یہ حدیث بیان کی ہے وہ بھی ذخیرہ اندوزی کیا کرتے تھے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے تھے جس کی لوگوں کو اشد ضرورت ہو بلکہ وہ زیتون کے تیل کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے اور یہ جائز ہے )۔

باب : بیع خیار۔ (سودا منسوخ کرنے کا اختیار کب تک ہے )۔

944: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: کہ جب دو آدمی خرید و فروخت کریں تو ہر ایک کو جدا ہونے سے پہلے (معاملہ توڑ ڈالنے کا) اختیار ہے جب تک ایک جگہ رہیں۔ یا ایک دوسرے کو (معاملہ کے نافذ کرنے کا اور بیع کے پورا کرنے کا) اختیار دے۔ اب اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دیا (اور کہا کہ وہ بیع کو نافذ کر دے ) پھر دونوں نے اس پر بیع کر لی، تو بیع لازم ہو گئی۔ اور جو دونوں بیع کے بعد جدا ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بیع کو فسخ نہیں کیا، تب بھی بیع لازم ہو گئی۔

باب : اسی سے متعلق اور خرید و فروخت میں سچائی اور حقیقت حال کے بیان کے متعلق۔

945: سیدنا حکیم بن حزامؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بائع اور مشتری دونوں کو جب تک جدا نہ ہوں (سودا ختم کر دینے کا) اختیار ہے۔ پھر اگر وہ دونوں سچ بولیں گے اور بیان کر دیں گے (جو کچھ عیب ہے چیز میں یا قیمت میں) تو ان کی بیع میں برکت ہو گی اور جو جھوٹ بولیں گے اور (عیب کو) چھپائیں گے تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جائے گی۔ (ان کی تجارت کو کبھی فروغ نہ ہو گا۔ حقیقت میں، تجارت ہو یا زراعت یا ملازمت، ایمانداری اور راست بازی وہ چیز ہے جس کی وجہ بدولت ہر کام میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس نقصان ہی نقصان ہے )۔

باب : جو لوگوں سے بیع میں دھوکا کھا جاتا ہے ، اس کا بیان۔

946: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ایک شخص نے ذکر کیا کہ اسے بیوع میں فریب دیا جاتا ہے ، تو آپ نے اس کو فرمایا کہ جب تو بیع کیا کرے تو کہہ دیا کر کہ فریب نہیں ہے (یعنی مجھ سے فریب نہ کرو یا اگر تو فریب کرے گا تو وہ مجھ پر لازم نہ ہو گا) پھر جب وہ بیع کرتا تو یہی کہتا (مگر ”لاخلابة“ کے بدلے اس کی زبان سے ”لا خیابة“ نکلتا کیونکہ وہ ”لام“ نہیں بول سکتا تھا)۔

باب : (نبیﷺ کا فرمان کہ) جو شخص دھوکہ دے اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

947: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے راستے میں اناج کا ایک ڈھیر دیکھا تو آپﷺ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو انگلیوں پر تری آ گئی۔ آپﷺ نے پوچھا کہ اے اناج کے مالک یہ کیا ہے ؟ وہ بولا یا رسول اللہﷺ! یہ بارش سے بھیگ گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تو نے اس بھیگے ہوئے اناج کو اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے ؟ جو شخص دھوکہ دے وہ مجھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔

باب : سونے کی بیع چاندی کے ساتھ جائز ہے۔

948: مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں یہ کہتا ہوا آیا کہ سونے کے بدلے روپوں کو کون بیچتا ہے ؟ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ نے کہا اور وہ سیدنا عمر بن خطابؓ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اپنا سونا مجھے دے پھر ٹھہر کر آنا۔ جب ہمارا نوکر آئے گا تو تیری قیمت دے دیں گے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ ہرگز نہیں، تو اس کے روپے اسی وقت دیدے یا اس کا سونا واپس کر دے۔ اس لئے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے : کہ چاندی کو سونے کے بدلے بیچنا سود ہے مگر (یہ کہ) دست بدست (ہو) اور گندم کا گندم کے بدلے بیچنا سود ہے مگر (یہ کہ) دست بدست (ہو) اور” جو“ کا ”جو“ کے بدلے بیچنا سود ہے مگر (یہ کہ) دست بدست (ہو) اور کھجور کا کھجور کے بدلے بیچنا سود ہے مگر (یہ کہ) دست بدست (ہو)۔

باب : سونے کی بیع سونے کے ساتھ، چاندی کی بیع چاندی کے ساتھ، گندم کی بیع گندم کے ساتھ اور ہر اس چیز کی بیع جس میں سود ہو برابر برابر اور دست بدست جائز ہے۔

949: سیدنا عبادہ بن صامتؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے میں، چاندی کو چاندی کے بدلے میں، گندم کو گندم کے بدلے میں، ”جو“ کو” جو“ کے بدلے میں، کھجور کو کھجور کے بدلے میں اور نمک کو نمک کے بدلے میں برابر برابر ٹھیک ٹھیک دست بدست (ہو تو جائز ہے ) پھر جب قِسم بدل جائے (مثلاً گندم کے بدلے جو) تو جس طرح چاہے (کم و بیش) بیچو مگر دست بدست ہونا ضروری ہے۔

باب : سونے کی بیع چاندی کے ساتھ ادھار منع ہے۔

950: ابو المنہال کہتے ہیں کہ میرے ایک شریک نے چاندی حج کے موسم تک ادھار بیچی اور میرے پاس آ کر بتایا، تو میں نے کہا یہ تو درست نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے بازار میں بیچی ہے اور کسی نے منع نہیں کیا۔ پھر میں سیدنا براء بن عازبؓ  کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ مدینہ میں تشریف لائے اور ہم ایسی بیع کیا کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر دست بدست (نقد) ہو تو قباحت نہیں اور اگر ادھار ہو تو سُود ہے۔ تم سیدنا زید بن ارقمؓ  کے پاس جا کہ ان کی سوداگری مجھ سے زیادہ ہے (تو وہ اس مسئلہ سے بخوبی واقف ہوں گے ) میں ان کے پاس گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا۔

باب : ایک دینار کو دو دینار کے بدلے اور ایک درہم کو دو درہم کے بدلے نہ بیچو۔

951: سیدنا عثمان بن عفانؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک دینار کو دو دینار کے بدلے مت بیچو ور نہ ایک درہم کو دو درہم کے بدلے بیچو۔

باب : جس ہار میں سونا اور نگینے ہوں اس کو (اسی حالت میں) سونے کے بدلے بیچنے کے متعلق۔

952: سیدنا فضالہ بن عبید انصاریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ خیبر میں تشریف فرما تھے اور آپﷺ کے پاس ایک ہار لایاگیا کہ اس میں نگینے تھے اور سونا بھی تھا، وہ لوٹ (غنیمت) کا مال تھا جو بک رہا تھا، تو آپﷺ نے اس کا سونا الگ کرنے کا حکم دیا تو اس کا سونا جدا کیا گیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اب سونے کو سونے کے بدلے برابر تول کر بیچو۔

باب : نقد کی بیع میں بھی سود ثابت ہوتا ہے۔

953: سیدنا عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابو سعید خدریؓ  سیدنا ابن عباسؓ  سے ملے اور ان سے پوچھا کہ تم جو بیع صرف کے بارے میں کہتے ہو تو کیا تم نے یہ رسول اللہ سے سنا ہے یا اللہ تعالیٰ کے کلام پاک میں پایا ہے ؟ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ ہرگز نہیں میں ایسا کچھ نہیں کہتا۔ رسول اللہﷺ کو تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بھی (اس حکم کو) نہیں جانتا لیکن سیدنا اسامہ بن زیدؓ  نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا خبردار! کہ ادھار میں سُود ہے۔ (لیکن حدیث اسامہ بن زید بعض علماء کے نزدیک منسوخ الحکم ہے اور بعض نے کہا کہ اس کی تاویل ہو گی اور وہ یہ کہ ان اموال پر محمول ہیں جو سودی نہیں وغیرہ۔ یا یہ حدیث مجمل ہے )۔

954: ابو نضرۃکہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباسؓ  سے (بیع) صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس میں کوئی قباحت نہیں دیکھی (اگرچہ کمی بیشی ہو بشرطیکہ نقد و نقد ہو) پھر میں سیدنا ابو سعید خدریؓ  کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے (بیع) صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو زیادہ ہو وہ سود ہے میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباسؓ  کے کہنے کی وجہ سے اس کا انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے نہیں بیان کروں گا مگر (صرف) وہ جو میں نے رسول اللہ سے سنا ہے۔ ایک کھجور والا آپﷺ کے پاس ایک صاع عمدہ کھجور لے کر آیا اور رسول اللہ کی کھجور بھی اسی قسم کی تھی۔ تب رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ یہ کھجور کہاں سے لایا؟ وہ بولا کہ میں دو صاع کھجور لے کر گیا اور ان کے بدلے ان کھجوروں کا ایک صاع خریدا ہے کیونکہ اس کا نرخ بازار میں ایسا ہے اور اس کا نرخ ایسا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تیری خرابی ہو، تو نے سود دیا۔ جب تو ایسا کرنا چاہے تو اپنی کھجور کسی اور شے کے بدلے بیچ ڈال، پھر اس شے کے بدلے جو کھجور تو چاہے خرید لے۔ سیدنا ابو سعیدؓ  نے کہا کہ پس جب کھجور کے بدلے کھجور دی جائے ، اس میں سود ہو تو چاندی جب چاندی کے بدلے دی جائے (کم یا زیادہ) تو اس میں سود ضرور ہو گا (اگرچہ نقد و نقد ہو) ابو نضرہ نے کہا کہ اس کے بعد پھر میں سیدنا ابن عمرؓ  کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اس سے منع کیا (شاید ان کو سیدنا ابو سعیدؓ  کی حدیث پہنچ گئی ہو) اور میں سیدنا ابن عباسؓ  کے پاس نہیں گیا، لیکن مجھ سے ابو الصہباء نے بیان کیا کہ انہوں نے اس کے بارے میں سیدنا ابن عباسؓ  سے مکہ میں پوچھا تو انہوں نے مکروہ کہا۔

باب : سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت ہے۔

955: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے ،اور سود کھلانے والے ، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں سب پر لعنت فرمائی ہے۔ اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔

باب : واضح حلال کو لینا چاہیئے اور مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

956: سیدنا نعمان بن بشیرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے اور سیدنا نعمان نے اپنی انگلیوں سے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کیا (یعنی یہ بتانے کے لئے کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے ) کہ یقیناً حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے لیکن حلال و حرام کے درمیان ایسی چیزیں ہیں جو دونوں سے ملتی ہیں، یعنی ان میں شبہہ ہے۔ اور ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ تو جو شبہات سے بچا، وہ اپنے دین اور آبرو کو سلامت لے گیا اور جو شبہات میں پڑا، وہ آخر حرام میں بھی پڑا اس چرواہے کی طرح جو حِما (یعنی روکی ہوئی زمین) چراگاہ کے آس پاس چراتا ہے۔ قریب ہے کہ اسکے جانور حِما کو بھی چر جائیں گے۔ خبردار! ہر بادشاہ کے لئے چراگاہ یا حدود ہوتی ہیں اور آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ کی روکی ہوئی چیز اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔ جان رکھو بیشک بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ سنور گیا تو سارا بدن سنور گیا اور جو وہ بگڑ گیا تو سارا بدن بگڑ گیا اور یاد رکھو کہ وہ ٹکڑا دل ہے۔

باب : جس نے کسی کا قرضہ دینا ہو اور اس سے بہتر دیدے اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اچھی طرح ادائیگی کرے۔

957: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص کا رسول اللہﷺ پر قرض تھا۔ اس نے آپﷺ کو سختی سے ادائیگی کا کہا تو صحابہ ث نے اُس کو سزا دینے کا قصد کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یقیناً جس کا حق ہے اس کو کچھ کہنا جائز ہے (یہ اخلاق دلیل ہیں نبوت کے )۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو ایک اونٹ خرید کر دو۔ انہوں نے کہا ہمیں تو اسکے اونٹ سے بہتر ملتا ہے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہی خرید کر دو کیونکہ تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو قرض کو اچھی طرح ادا کریں

باب : بیع میں قسم اٹھانے کی ممانعت۔

958: سیدنا ابو قتادہ انصاریؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ تم بیع میں بہت زیادہ قسم کھانے سے بچو اس لئے کہ وہ مال کی نکاسی کرتی ہے پھر (برکت کو) مٹا دیتی ہے۔

959: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ ان کو دیکھے گا، نہ ان کو گناہ سے پاک کرے گا اور ان کے لئے بڑے درد کا عذاب ہے۔ ایک تو وہ شخص جو جنگل میں حاجت سے زیادہ پانی رکھتا ہو اور مسافر کو اس پانی سے روکتا ہو، دوسرا وہ شخص جس نے کسی کے ہا تھ کوئی مال عصر کے بعد بیچا اور قسم کھائی کہ میں نے اتنے پیسوں کا لیا ہے اور خریدار نے اس کی بات کو سچ سمجھا، حالانکہ اس نے اتنے پیسوں کا نہیں لیا تھا (یعنی جھوٹی قسم کھائی اور عصر کے بعد کی بات اس وجہ سے کہ وہ متبرک وقت ہے فرشتوں کے جمع ہونے کا یا وہ اصل وقت ہے خرید و فروخت کا) اور تیسرا وہ شخص جس نے امام سے دنیا کی طمع کے لئے بیعت کی۔ پھر اگر امام نے اس کو دنیا کا کچھ مال دیا تو اس نے اپنی بیعت پوری کی اور اگر نہ دیا تو پوری نہ کی (تو اس شخص نے بیعت کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دیا اور وہ اس کے عہد کے بھروسے پر رہے اور یہ دنیا کی فکر میں تھا اسے عہد کی پرواہ نہ تھی)۔

باب : اونٹ بیچتے وقت اس پر سوار ہونے کا استثناء کرنا جائز ہے۔

960: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ جہاد کیا تو آپﷺ مجھ سے (راستے میں) ملے اور میری سواری پانی کا ایک اونٹ تھا جو تھک چکا تھا اور بالکل نہ چل سکتا تھا۔ آپﷺ نے پوچھا کہ تیرے اونٹ کو کیا ہوا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیمار ہے یہ سن کر رسول اللہﷺ پیچھے ہٹے اور اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لئے دعا کی، تو پھر وہ ہمیشہ سب اونٹوں کے آگے ہی چلتا رہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اب تیرا اونٹ کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ آپﷺ کی دعا کی برکت سے اچھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اسے میرے ہاتھ بیچتا ہے ؟ مجھے شرم آئی اور ہمارے پاس پانی لانے کے لئے اور کوئی اونٹ بھی نہ تھا، آخر میں نے کہا کہ ہاں بیچتا ہوں۔ پھر میں نے اس اونٹ کو آپﷺ کے ہاتھ اس شرط سے بیچ ڈالا کہ میں مدینے تک اس پر سواری کرونگا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے ، مجھے (لوگوں سے پہلے مدینہ جانے کی) اجازت دیجئے۔ آپﷺ نے اجازت دے دی۔ میں لوگوں سے آگے بڑھ کر مدینہ آ پہنچا۔ وہاں میرے ماموں ملے اور اونٹ کا حال پوچھا، تو میں نے سب حال بیان کیا۔ انہوں نے مجھے ملامت کی (کہ تیرے پاس ایک ہی اونٹ تھا اور گھر والے بہت ہیں، اسکو بھی تو نے بیچ ڈالا اور اسکو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سیدنا جابر کا فائدہ منظور ہے ) سیدنا جابرؓ  نے کہا کے جب میں نے آپﷺ سے اجازت مانگی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے کنواری سے شادی کی ہے یا نکاحی سے ؟ میں نے کہا کہ نکاحی سے۔ آپ نے فرمایا کہ کنواری سے کیوں نہ کی کہ وہ تجھ سے کھیلتی اور تو اس سے کھیلتا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! میرا باپ میری کئی چھوٹی چھوٹی بہنیں چھوڑ کر فوت ہو گیا یا شہید ہو گیا ہے تو مجھے بُرا معلوم ہوا کہ میں شادی کر کے ان کے برابر ایک اور لڑکی لاؤں جو نہ انکو ادب سکھائے اور نہ ان کو دبائے ، اس لئے میں نے ایک نکاحی سے شادی کی تاکہ انکو دبائے اور تمیز سکھائے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ پھر جب رسول اللہﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو میں صبح ہی اونٹ آپ کی خدمت میں لے گیا تو آپﷺ نے اسکی قیمت مجھے دی اور اونٹ بھی لوٹا د یا۔

باب : قرض میں سے کچھ معاف کر دینا۔

961: سیدنا کعب بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے عہد میں ابن ابی حدرد سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضہ کیا تو دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے سنا اور آپﷺ گھر میں تھے۔ آپﷺ نے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر نکل کر ان کے پاس آئے اور پکارا کہ اے کعب بن مالک! وہ بولے کہ یا رسول اللہﷺ میں حاضر ہوں۔ آپﷺ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دے تو سیدنا کعب نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نے معاف کیا۔ تب آپﷺ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا کہ اٹھ اور اس کا قرضہ ادا کر دے۔

باب : طاقتور کا قرض ادا کرنے میں دیر کرنا ظلم ہے اور حوالہ کا بیان۔

962: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مالدار ہو (یعنی اتنا کہ قرض ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو) اس کا قرض کے ادا کرنے میں دیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کوئی مالدار پر لگا دیا جائے تو اس کا پیچھا کرے۔ (یعنی مالدار قرض دینے کا ذمہ اٹھا لے تو قبول کر لینا چاہیئے اور اس سے تقاضا کرنا چاہیئے )۔

باب : تنگ دست کو مہلت دینے اور معاف کر دینے کے متعلق۔

963: سیدنا حذیفہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: کہ ایک شخص فوت ہو گیا، تو وہ جنت میں گیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تو کیا عمل کرتا تھا؟ پس اس نے خود یاد کیا یا یاد دلایا گیا تو اس نے کہا کہ میں (دنیا میں) لوگوں کو مال بیچتا تھا تو مفلس کو مہلت دیتا تھا اور سکہ یا نقد میں درگزر کرتا تھا (اس کے نقصان یا عیب سے اور قبول کر لیتا تھا) اس وجہ سے اس کی بخشش ہو گئی۔ سیدنا ابو مسعودؓ  نے کہا کہ میں نے بھی یہ رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔

964: عبد اللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے کہ انکے والد سیدنا ابو قتادہؓ  نے اپنے ایک قرضدار سے قرض کا مطالبہ کیا تو وہ چھپ گیا۔ پھر اسکو پایا تو وہ بولا کہ میں نادار ہوں۔ سیدنا ابو قتادہؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم؟ اس نے کہا اللہ کی قسم۔ تب سیدنا ابو قتادہؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ فرماتے تھے : جس شخص کو پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے ، تو وہ نادار کو مہلت دے یا اسکو (قرض) معاف کر دے

باب : جو شخص مفلس کے پاس بعینہ اپنا مال موجود پائے (تو وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے )۔

965: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی مفلس (یعنی دیوالیہ) ہو جائے پھر دوسرا شخص اپنا اسباب اس کے پاس پائے ، تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔

باب : بیع اور رہن کے بارے میں۔

966: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک یہودی سے محدود مدت تک ادھار اناج خریدا اور اپنی لوہے کی زرہ اسکے پاس گروی کر دی۔

باب : پھلوں میں سلف کرنا (یعنی ادھار بیع کرنا)۔

967: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے اور لوگ پھلوں میں ایک سال اور دو سال کے لئے سلف کرتے تھے (یعنی ادھار بیع کرتے تھے ) تب آپﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی کھجور میں سلف کرے تو مقرر ماپ میں یا مقرر تول میں ایک مقررہ میعاد تک سلف کرے۔

باب : شفعہ کا بیان۔

968: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے شفعہ کا ہر اس مشترک مال میں حکم کیا جو بٹا نہ ہو (وہ) زمین ہو یا باغ۔ ایک شریک کو درست نہیں کہ دوسرے شریک کو اطلاع دئیے بغیر اپنا حصہ بیچ ڈالے پھر دوسرے شریک کو اختیار ہے چاہے لے اور چاہے نہ لے۔ اب اگر بغیر اطلاع کے بیچ ڈالے۔ تو وہ شریک زیادہ حق دار ہے (غیر شخص سے اسی دام کو خود لے سکتا ہے )۔

باب : ہمسائے کی دیوار میں لکڑی (شہتیر، گاڈر وغیرہ) رکھنا۔

969: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے (گاڈر، شہتیر رکھنے ) سے منع نہ کرے (کیونکہ یہ مروت کے خلاف ہے اور اپنا کوئی نقصان نہیں بلکہ اگر ہمسایہ ادھر چھت ڈالے تو دیوار کی حفاظت ہے )۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  (لوگوں سے ) کہتے تھے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اس حدیث سے دل چراتے ہو، اللہ کی قسم میں اس کو تم لوگوں میں بیان کروں گا۔

باب : جو آدمی بالشت جتنی زمین بطور ظلم لے لیتا ہے تو (قیامت میں) سات زمینیں گلے کا ہار ہوں گی۔

970: سیدنا عروہ بن زبیرؓ  سے روایت ہے کہ ارویٰ بنت اویس نے سعید بن زیدؓ  پر دعویٰ کیا کہ انہوں نے میری کچھ زمین لے لی ہے۔ اور ان سے مروان بن حکم کے پاس مقدمہ پیش کیا تو سعیدؓ  نے کہا کہ بھلا میں اس کی زمین لوں گا اور میں رسول اللہﷺ سے سن چکا ہوں۔ مروان نے کہا کہ تم رسول اللہﷺ سے کیا سن چکے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین ظلم سے اُڑا لے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو سات زمین تک کا طوق پہنا دے گا۔ مروان نے کہا کہ اب میں تم سے کوئی دلیل نہیں مانگوں گا۔ اس کے بعد سعیدؓ  نے کہا کہ اے اللہ اگر ارویٰ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھ اندھی کر دے اور اسی کی زمین میں اس کو مار۔ راوی نے کہا کہ ارویٰ نہیں مری یہاں تک کہ اندھی ہو گئی اور ایک روز وہ اپنی زمین میں جا رہی تھی کہ گڑھے میں گری اور مر گئی۔

باب : جب راستہ کے بارے میں اختلاف ہو تو سات ہاتھ چوڑان رکھ لو۔

971: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب راستے کے متعلق تمہارا اختلاف ہو جائے تو اس کی چوڑان سات ہاتھ رکھ لو۔

 

 

 

کتاب: کھیتی باڑی کے مسائل

 

باب : زمین کو کرایہ پر دینے کی ممانعت میں۔

972: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس کے پاس زمین خالی ہو تو وہ اس میں کاشتکاری کرے۔ اگر خود نہ کرے تو اور کسی کو دے (بطور رعایت بلا کرایہ) کہ وہ اس میں کاشتکاری کرے۔

باب : گندم (مقررہ) کے ساتھ زمین کرایہ پر دینا۔

973: سیدنا رافع بن خدیجؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے عہد میں محاقلہ کیا کرتے تھے۔ زمین کو ثلث، ربع پیداوار اور معین اناج پر کرایہ دیتے ایک روز ہمارے پاس میرے چچاؤں میں سے ایک آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں اس کام سے منع کیا جس میں ہمارا فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشی میں ہمیں زیادہ فائدہ ہے ، ہمیں محاقلہ سے یعنی زمین کو ثلث یا ربع پیداوار پر یا معین مقدار پر کرایہ پر چلانے سے منع کیا گیا ہے۔ اور حکم فرمایا ہے کہ زمین کا مالک خود اس میں کھیتی کرے یا دوسرے کو کھیتی کے لئے دیدے اور آپﷺ نے کرایہ پر یا کسی اور طرح پر دینا بُرا جانا ہے۔

باب : سونے اور چاندی کے بدلہ میں زمین کرایہ پر دینا۔

974: سیدنا حنظلہ بن قیس انصاریؓ  کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا رافع بن خدیجؓ  سے زمین کو سونے اور چاندی کے بدلے کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ لوگ رسول اللہﷺ کے عہد میں نہر کے کناروں پر اور نالیوں کے سروں پر پیداوار پر زمین کرایہ پر چلاتے تھے تو بعض اوقات ایک چیز تلف ہو جاتی اور دوسری بچ جاتی اور کبھی یہ تلف ہو جاتی اور وہ بچ جاتی، تو لوگوں کو کچھ کرایہ نہ ملتا مگر وہی جو بچ رہتا، اس لئے آپﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ لیکن اگر کرایہ کے بدلے کوئی معین چیز (جیسے روپیہ اشرفی غلہ وغیرہ) جس کی ذمہ داری ہو سکے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

باب : ٹھیکہ پر زمین دینا۔

975: سیدنا عبد اللہ بن سائب کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبد اللہ بن معقلؓ  کے پاس گئے اور ان سے مزارعت (بٹائی) کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ ثابتؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے مزارعت سے منع کیا اور مؤاجرۃ کا (یعنی روپے اشرفی پر کرایہ چلانے کا) حکم فرمایا اور فرمایا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

باب : (کسی کو) زمین مفت دے دینا۔

976: طاؤس سے روایت ہے کہ وہ مخابرہ کرتے تھے تو عمرو (طاؤس سے ) کہتے ہیں کہ میں نے ان (طاؤس) سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن! اگر تم مخابرہ کو چھوڑ دو تو بہتر ہے ، کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مخابرہ (زمین کو بٹائی کر دینے ) سے منع کیا ہے تو طاؤس نے کہا کہ اے عمرو! مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو صحابہ میں زیادہ جاننے والا تھا یعنی سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے مخابرہ سے منع نہیں کیا بلکہ یوں فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو مفت زمین دیدے تو معین اجرت کرایہ لے کر دینے سے بہتر ہے۔

باب : پانی پلانے اور زمین کا معاملہ کھیتی اور پھل کی مقدار کے بدلے۔

977: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے خیبر کو (خیبر والوں کے ) حوالے اس شرط پر کیا کہ جو پھل یا اناج پیدا ہو وہ آدھا ہمارا ہے اور آدھا تمہارا۔ تو آپﷺ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کو ہر سال سو وسق دیتے ، (جن میں) اسی (80)وسق کھجور کے اور بیس (20)جَو کے۔ جب سیدنا عمرؓ  خلیفہ بنے اور اموال خیبر کو تقسیم کیا تو نبیﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کو اختیار دیا کہ یا تو تم بھی زمین اور پانی کا حصہ لے لو یا اپنے وسق لیتی رہو تو وہ مختلف ہو گئیں، بعضوں نے زمین اور پانی لیا اور بعضوں نے وسق لینا منظور کیا۔اُمّ المؤمنین عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما نے زمین اور پانی لینے والوں میں سے تھیں۔

باب : جس نے درخت لگایا (اس کا ثواب)۔

978: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو مسلمان درخت لگائے پھر اس میں سے کوئی کھائے ، تو لگانے والے کو صدقہ کا ثواب ملے گا اور جو چوری ہو جائے گا اس میں بھی صدقہ کا ثواب ملے گا اور جو درندے کھا جائیں، اس میں بھی صدقہ کا ثواب ملے گا اور جو پرندے کھا جائیں، اس میں بھی صدقہ کا ثواب ملے گا اور اس پھل کو کوئی کم نہ کرے گا، مگر صدقہ کا ثواب اس کو ملتا رہیگا۔

باب : ضرورت سے زیادہ پانی بیچنے کے متعلق۔

979: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ضرورت سے زائد پانی بیچنے سے منع فرمایا۔

باب : ضرورت سے زیادہ پانی اور گھاس روکنے کے بارے میں۔

980: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ زائد پانی اس وجہ سے نہ روکا جائے کہ اس کی وجہ سے گھاس بھی روکی جائے۔

 

 

 

کتاب: وصیت، صدقہ اور ہبہ وغیرہ کے متعلق۔

 

باب : اس شخص کو وصیت کا شوق دلانا جسکے پاس وصیت کے قابل کوئی چیز ہو

981: سالم، سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو، جس کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو،لائق نہیں کہ وہ تین راتیں گزارے مگر اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہونا چاہئیے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا کہ میں نے جب سے یہ حدیث رسول اللہﷺ سے سنی ہے مجھ پر ایک رات بھی ایسی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت نہ ہو۔

باب : ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہ کی جائے۔

982: فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ٍحجۃ الوداع میں میری عیادت کی جس میں مَیں ایسے درد میں مبتلا تھا کہ موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے جیسا درد ہے آپ جانتے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور میرا وارث سوا ایک بیٹی کے اور کوئی نہیں ہے ، کیا میں دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپﷺ نے فرمایا ”نہیں“۔ میں نے عرض کیا آدھا مال خیرات کر دوں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ ایک تہائی خیرات کر اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں محتاج چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور تو جو کچھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے خرچ کرے گا تو اس کا ثواب تجھے ملے گا یہاں تک کہ اس لقمے کا بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا میں اپنے اصحاب سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو پیچھے رہے گا (یعنی زندہ رہے گا) اور ایسا عمل کرے گا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشی منظور ہو، تو تیرا درجہ بڑھے گا اور بلند ہو گا اور شاید تو زندہ رہے ، یہاں تک کہ تجھ سے بعض لوگوں کو فائدہ ہو اور بعض لوگوں کو نقصان۔ یا اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کر دے اور ان کو ان کی ایڑیوں پر مت پھیر لیکن بیچارہ سعد بن خولہ! راوی نے کہا کہ ان کے لئے رسول اللہﷺ نے اس لئے رنج کا اظہار کیا کہ وہ مکہ میں ہی فوت ہو گئے تھے۔

983: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ کاش لوگ ایک تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کیا کریں، کیونکہ رسول اللہﷺ نے تہائی کی رخصت فرمائی اور فرمایا کہ تہائی بھی بہت (زیادہ) ہے۔

باب : نبیﷺ کا کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کرنا۔

984: طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیؓ  سے پوچھا کہ کیا رسول اللہﷺ نے (مال وغیرہ کے بارے میں) وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا کہ پھر مسلمانوں پر کیوں وصیت فرض ہوئی؟ یا ان کو وصیت کا حکم کیوں ہوا؟ انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔

985: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نہ کوئی درہم و دینار چھوڑا نہ بکری یا اونٹ اور نہ (کسی مال کے لئے ) وصیت کی۔

986: اسود بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ذکر کیا کہ سیدنا علیؓ  رسول اللہﷺ کے وصی تھے ، تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے ان کو کب وصی بنایا؟ میں آپﷺ کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی تھی یا آپﷺ میری گود میں تھے کہ اتنے میں آپﷺ نے طشت منگوایا پھر آپﷺ میری گود میں گر پڑے اور مجھے خبر نہیں ہوئی کہ آپﷺ وفات پا چکے ہیں پھر (علیؓ  کو) کس وقت وصیت کی۔

باب : نبیﷺ کی وصیت کہ مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دو اور سفیروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔

987: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جمعرات کا دن، کیا ہے جمعرات کا دن؟ پھر روئے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہو گئیں۔ میں نے کہا کہ اے ابن عباس! جمعرات کے دن سے کیا غرض ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ پر بیماری کی شدت ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس (دوات اور تختی) لاؤ کہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ۔ (یہ سن کر) لوگ (کاغذ قلم کے متعلق) جھگڑنے لگے اور پیغمبر کے پاس جھگڑا نہیں چاہئیے تھا۔ کہنے لگے کہ رسول اللہﷺ کا کیا حال ہے ؟ کیا آپﷺ سے بھی لغو صادر ہو سکتا ہے ؟ پھر سمجھ لو آپﷺ سے اچھی طرح سے سمجھ لو۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ کہ میں جس کام میں مصروف ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس میں تم مشغول ہو (جھگڑے اور اختلاف میں) میں تم کو تین باتوں کی وصیت کرتا ہوں ایک تو یہ کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا۔ دوسری جو سفارتیں آئیں ان کی خاطر اسی طرح کرنا جیسے میں کیا کرتا تھا۔ (تاکہ اور قومیں خوش ہوں اور ان کو اسلام کی طرف رغبت ہو) اور تیسری بات سیدنا ابن عباسؓ نے نہیں کہی یا سعید نے کہا کہ میں بھول گیا۔

باب : صدقہ واپس لینے کی ممانعت (ہے )۔

988: امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطابؓ  کہتے ہیں کہ میں نے ایک عمدہ گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا اور جس کو دیا تھا اس نے اس کو تباہ کر دیا میں سمجھا کہ یہ اس کو اب سستے داموں بیچ ڈالے گا۔ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو مت خرید اور اپنے صدقے کو مت پھیر۔ اس لئے کہ صدقے میں لوٹنے والا اس طرح ہے جیسے کتا جو قے کر کے پھر اسکو کھا جاتا ہے

989: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ ہبہ کو لوٹانے والا اس طرح ہے جیسے کتا قے کر کے پھر اپنی قے کو کھا جاتا ہے

باب : جس نے اپنی ساری اولاد میں سے ایک کو کچھ عطیہ دیا۔

990: سیدنا نعمان بن بشیرؓ  کہتے ہیں کہ میرے والدؓ  نے اپنا کچھ مال مجھے ہبہ کیا۔ میری ماں عمرہ بنت رواحہؓ  بولی کہ میں اس پر اس وقت خوش ہوں گی کہ تو اس (مال کے ہبہ کرنے ) پر رسول اللہﷺ کو گواہ کر دے۔ میرے والد بشیرؓ  رسول اللہﷺ کے پاس اس مال پر گواہ بنانے کے لئے گئے تو آپﷺ نے پوچھا کہ کیا تو نے اپنی سب اولاد کو ایسا ہی (مال) دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ پھر میرے والد واپس آئے اور وہ ہبہ واپس لیا۔ (ہبہ کا معنی تحفہ ہے )۔

991: سیدنا نعمان بن بشیرؓ  کہتے ہیں کہ میرے والدؓ  مجھے رسول اللہﷺ کے پاس اٹھا کر لے گئے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! گواہ رہئیے کہ میں نے (اپنے بیٹے ) نعما ن کو فلاں فلاں چیز اپنے مال میں سے ہبہ کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا سب بیٹوں کو تو نے ایسا ہی دیا ہے جیسا نعمان کو دیا ہے ؟ میرے والدؓ  نے کہا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تو مجھ کو گواہ نہ کر اور کسی کو کر لے۔ اس کے بعد فرمایا کہ کیا تجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ سب تیرے ساتھ نیکی کرنے میں برابر ہوں؟ میرے والد نے کہا کہ ہاں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تو ایسا مت کر (یعنی ایک کو دے اور باقی کو نہ دے )۔

باب : جو آدمی کسی کو اس کی زندگی تک کسی چیز کا عطیہ دیتا ہے۔

992: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کو اس کی زندگی تک اور اس کے ورثاکو کوئی چیز (ہبہ) اور یوں کہے کہ یہ میں نے تجھے دیا اور تیرے بعد تیرے وارثوں کو جب تک ان میں سے کوئی باقی رہے ، تو وہ اسی کا ہو گا جس کو عمریٰ دیا گیا۔ اور دینے والے کو واپس نہ ملے گی اس لئے کہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں میراث ہو گی۔

993: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے مالوں کو روکے رکھو اور ان کو مت بگاڑو کیونکہ جو کوئی عمریٰ دے وہ اسی کا ہو گا جسکو دیا جائے ، وہ زندہ ہو یا مردہ اور (اسکے مرنے کے بعد)اسکے وارثوں کا ہے

 

 

 

کتاب: وراثت کے مسائل

 

باب : مسلمان، کافر کا اور کافر، مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔

994: سیدنا اسامہ بن زیدؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہ مسلمان کافر کا وارث بنتا ہے اور نہ کافر مسلمان کا وارث بنتا ہے۔

باب : حصہ داروں کو ان کے حصے دے دو۔

995: سیدنا ابن عباسؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: حصہ والوں کو ان کے حصے دے دو۔ پھر جو بچے وہ اس شخص کا ہے جو سب سے زیادہ میت سے نزدیک ہو۔ (یعنی عصب)۔

باب : کلالہ (جس میت کا نہ باپ ہو اور نہ اولاد) کے ورثے کا بیان۔

996: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے پاس آئے اور میں بیمار تھا اور بے ہوش۔ آپﷺ، نے وضو کیا تو لوگوں نے آپﷺ کے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا، مجھے ہوش آگیا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرا ترکہ؟ (ترکہ تو کلالہ کا ہو گا)۔ (کلالہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں اور جمہور کے نزدیک کلالہ سے مراد وہ میت ہے جس کے نہ تو والدین ہوں اور نہ اولاد)۔ تب (کلالہ کی) میراث کی آیت نازل ہوئی۔ (راوی شعبہ) کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن المنکدر سے پوچھا کہ کیا یہ آیت ”فتویٰ پوچھتے ہیں مجھ سے کہہ دو اللہ فتویٰ دیتا ہے تم بیچ کلالہ کے “ (النسآء:176) نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے کہا یہی آیت نازل ہوئی تھی۔

997: معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا تو رسول اللہﷺ کا ذکر کیا اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کا ذکر کیا۔ پھر کہا کہ میں اپنے بعد کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں چھوڑتا جیسے کلالہ کا مسئلہ۔ اور میں نے کوئی مسئلہ ایسا بار بار نہیں پوچھا جتنا کلالہ کا۔ اور آپﷺ نے بھی مجھ سے ایسی سختی کسی بات میں نہیں کی جتنی کلالہ کے مسئلہ میں کی۔ یہاں تک کہ اپنی انگلی مبارک میرے سینے میں چبھو کر فرمایا کہ اے عمر! تجھ کو وہ آیت کافی نہیں ہے جو گرمی کے موسم میں سورۂ نساء کے اخیر میں اتری تھی۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اگر میں زندہ رہا تو کلالہ کے بارے میں ایسا حکم (صاف صاف) دوں گا کہ اس کے موافق ہر شخص فیصلہ کرے جو قرآن پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا۔

باب : اس بارے میں کہ کلالہ والی آیت سب سے آخر میں اتری۔

998: سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ آخری سورت جو پوری اتری وہ سورۂ توبہ ہے اور آخری آیت جو اتری وہ کلالہ کی آیت ہے۔

باب : جس نے کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔

999: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپﷺ پوچھتے کہ کیا اس نے اتنا مال چھوڑا ہے جو اس کے قرضہ کو کافی ہو؟ اگر لوگ کہتے ہیں کہ ہاں چھوڑا ہے تو نماز پڑھتے اور نہیں تو لوگوں سے فرما دیتے کہ تم اپنے ساتھی پر نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر فتوحات کا دروازہ کھول دیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں مومنوں کا خود ان کی جانوں سے زیادہ نزدیک ہوں (یہ انتہائی محبت ہے کہ خود ان سے زیادہ انکے دوست ہوئے ) اب جو کوئی قرضدار مرے تو قرض کا ادا کرنا میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ اسکے وارثوں کا ہے۔

 

 

 

کتاب: وقف کے مسائل

 

باب : اصل (زمین ، باغ وغیرہ) کو اپنے پاس رکھنا اور اس کے غلہ (آمدن) کو صدقہ کرنا۔

1000: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  کو خیبر میں ایک زمین ملی تو وہ اس بارے میں رسول اللہﷺ سے مشورہ کرنے کو آئے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے خیبر میں ایک زمین ملی ہے اور ایسا عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپﷺ اس کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو زمین کی ملکیت کو روک رکھے (یعنی اصل زمین کو) اور اس کا صدقہ کر دو (یعنی اسکی پیداوار کا) پھر سیدنا عمرؓ  نے اس کو اس شرط پر صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے ، نہ خریدی جائے ، نہ وہ کسی کی میراث میں آئے اور نہ ہبہ کی جائے۔ اور اس کو صدقہ کیا فقیروں اور رشتہ داروں اور غلاموں میں (یعنی ان کی آزادی میں مدد دینے کے لئے ) اور مسافروں اور ناتوان لوگوں میں یا مہمان کی مہمانی میں اور جو کوئی اس کا انتظام کرے ، وہ اس میں سے دستور کے موافق کھائے یا کسی دوست کو کھلائے لیکن مال اکٹھا نہ کرے (یعنی روپیہ جوڑنے کی نیت سے اس میں تصرف نہ کرے )۔

باب : موت کے بعد کس چیز کا ثواب انسان کو ملتا رہتا ہے ؟

1001: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا۔ دوسرے اس علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد کا جو اس کے لئے دعاء کرے۔

باب : اس شخص کی طرف سے صدقہ (کرنا) جو فوت ہو گیا اور اس نے کوئی وصیت بھی نہیں کی۔

اس باب کے با رے میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کتاب الزکوٰۃ میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 532)۔

 

 

 

کتاب: نذر (ماننے ) کے مسائل

 

باب : جو چیز اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہو، اس کو پورا کرنا چاہیئے۔

1002: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  نے طائف سے لوٹنے کے بعد جعرانہ مقام پر رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے جاہلیت میں ایک دن مسجد حرام میں اعتکاف کرنے کی نذر کی تھی، آپﷺ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جا اور ایک دن کا اعتکاف کر۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے خمس میں سے ایک لونڈی ان کو عنایت کی تھی، جب آپﷺ نے سب قیدیوں کو آزاد کر دیا تو سیدنا عمرؓ  نے ان کی آوازیں سنیں، وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے آزاد کر دیا۔ سیدنا عمرؓ  نے پوچھا یہ کیا (کہہ رہے ) ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے قیدیوں کو آزاد کر دیا ہے۔ سیدنا عمرؓ  نے (اپنے بیٹے سے ) کہا کہ اے عبد اللہ! اس لونڈی کے پاس جا اور اس کو بھی چھوڑ دے۔

باب : نذر پوری کرنے کا حکم۔

1003: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ سیدنا سعد بن عبادہؓ  نے رسول اللہﷺ سے مسئلہ پوچھا کہ میری ماں پر نذر تھی اور وہ اس کے ادا کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی، آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے تو ادا کر دے۔

باب : جس نے نذر مانی کہ وہ کعبہ شریف پیدل چل کر جائے گا، اس کے متعلق۔

1004: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  کہتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ بیت اللہ تک ننگے پاؤں پیدل جائے گی، تو مجھے رسول اللہﷺ سے پوچھنے کا کہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو جائے۔

1005: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دونوں بیٹوں کے درمیان (ان پر) ٹیک لگائے جا رہا تھا تو آپﷺ نے پوچھا کہ اس کو کیا ہوا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے اپنے نفس کو عذاب میں مبتلا کرنے سے بے پرواہ ہے اور آپﷺ نے اس کو سوار ہونے کا حکم کیا۔

باب : نذر ماننے کی ممانعت اور یہ کہ نذر کسی چیز کو واپس نہیں کر سکتی۔

1006: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے نذر سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا (یعنی کوئی آنے والی بلا نہیں رکتی اور تقدیر نہیں بدلتی) یہ صرف بلکہ بخیل سے مال نکلوانے کا ذریعہ ہے (یعنی بخیل یوں تو خیرات نہیں کرتا اور جب آفت آتی ہے تو نذر ہی کے بہانے روپیہ دیتا ہے اور مسکینوں کو فائدہ ہوتا ہے )۔

1007: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: نذر کسی ایسی چیز کو آدمی سے نزدیک نہیں کرتی جو اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں نہیں لکھی لیکن نذر تقدیر کے موافق ہوتی ہے۔ نذر کی وجہ سے بخیل کے پاس سے وہ مال نکلتا ہے جس کو وہ نکالنا نہیں چاہتا۔

باب : جو نذر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ہو اور جس چیز کا وہ مالک نہیں، اس کو پورا نہ کیا جائے۔

1008: سیدنا عمران بن حصینؓ  کہتے ہیں کہ ثقیف اور بنی عقیل ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ ثقیف نے رسول اللہﷺ کے صحابہؓ میں سے دو شخصوں کو قید کر لیا اور رسول اللہﷺ کے صحابہؓ نے بنی عقیل میں سے ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور عضباء (رسول اللہﷺ کی اونٹنی) کو بھی اس کے ساتھ پکڑا۔ پھر رسول اللہﷺ اس کے پاس آئے اور وہ بندھا ہوا تھا۔ اس نے کہا یا محمد! یا محمد! آپﷺ اس کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے ؟ وہ بولا کہ آپﷺ نے مجھے کس قصور میں پکڑا اور حاجیوں کی اونٹنیوں پر سبقت لے جانے والی (یعنی عضباء کو) کس قصور میں پکڑا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ بڑا قصور ہے اور میں نے تجھے تیرے دوست ثقیف کے قصور کے بدلے میں پکڑا ہے۔ یہ کہہ کر آپﷺ چلے تو اس نے پھر پکارا یا محمد، یا محمد! اور آپﷺ نہایت رحمدل اور مہربان تھے آپﷺ پھر اس کی طرف لوٹے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے ؟ وہ بولا کہ میں مسلمان ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بات اگر تو اُس وقت کہتا جب تو اپنے کام کا مختار تھا (یعنی گرفتار نہیں ہوا تھا) تو بالکل نجات پاتا۔ پھر آپﷺ لوٹے تو اس نے پھر پکارا یا محمد، یا محمد!ﷺ آپﷺ پھر آئے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے ؟ وہ بولا کہ میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائیے اور میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ لے (یعنی کھانا پانی اس کو دیا)۔ پھر وہ ان دو شخصوں کے بدلے چھوڑا گیا جن کو ثقیف نے قید کر لیا تھا۔ راوی نے کہا کہ انصار کی ایک عورت قید ہو گئی اور عضباء بھی قید ہو گئی۔ پھر وہ عورت بندھی ہوئی تھی اور کافر اپنے گھروں کے سامنے اپنے جانوروں کو آرام دے رہے تھے کہ اس نے اپنے آپ کو بندھنوں سے آزاد کر لیا اور اونٹوں کے پاس آئی، جس اونٹ کے پاس جاتی وہ آواز کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتی، یہاں تک کہ عضباء کے پاس آئی تو اس نے آواز نہیں کی اور وہ بڑی مسکین (شریف) اونٹنی تھی۔ عورت نے اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس کو ڈانٹا تو وہ چلی۔ کافروں کو خبر ہو گئی تو وہ عضباء کے پیچھے چلے (اپنی اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر) لیکن عضباء نے ان کو تھکا دیا (یعنی کوئی پکڑ نہ سکا کہ عضباء اتنی تیز رو تھی) اس عورت نے نذر مانی کہ اے اللہ! اگر عضباء مجھے بچا لے جائے تو میں اس کی قربانی کروں گی۔ جب وہ عورت مدینہ میں آئی اور لوگوں نے دیکھا تو کہا کہ یہ تو عضباء رسول اللہﷺ کی اونٹنی ہے۔ وہ عورت بولی کہ میں نے نذر کی ہے کہ اگر عضباء پر اللہ تعالیٰ مجھے نجات دے تو اس کو نحر کروں گی۔ یہ سن کر صحابہؓ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے بیان کیا، تو آپﷺ نے (تعجب سے ) فرمایا کہ سبحان اللہ! اس عورت نے عضباء کو کیا بُرا بدلہ دیا (یعنی عضباء نے تو اس کی جان بچائی اور وہ عضباء کی جان لینا چاہتی ہے ) اس نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ عضباء کی پیٹھ پر اس کو نجات دے تو وہ عضباء ہی کی قربانی کرے گی۔ جو نذر گناہ کے لئے کی جائے وہ پوری نہ کی جائے اور نہ وہ نذر پوری کی جائے جس کا انسان مالک نہیں۔

باب : نذر کے کفارہ میں۔

1009: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ (یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا لباس پہنانا یا غلام آزاد کرنا یا تین دن کے روزے رکھنا)۔

 

 

 

کتاب: قسم کے مسائل

 

باب : باپ (دادا) کی قسم اٹھانے کی ممانعت۔

1010: سیدنا عمر بن خطابؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم کو باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا میں نے (باپ دادا) کی قسم نہیں کھائی ہے ، نہ اپنی طرف سے نہ دوسرے کی طرف سے (حکایت کرتے ہوئے )۔

1011: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص قسم کھانا چاہے وہ کوئی قسم نہ کھائے سوائے اللہ تعالیٰ کی قسم کے۔ اور قریش اپنے باپ دادا کی قسم کھایا کرتے تھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنے باپ دادا کی قسم مت کھاؤ۔

باب : طاغوت (بت اور جھوٹے معبودوں) کی قسم کی ممانعت۔

1012: سیدنا عبدالرحمن بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مت قسم کھاؤ بتوں کی اور نہ اپنے باپ داداؤں کی۔

باب : جو ”لات“ و ”عزیٰ“ کی قسم کھائے اس کو ”لا الٰہ الا اللہ“ کہنا چاہیئے

1013: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے اپنی قسم میں یہ کہے کہ لات کی قسم! تو اسے چاہیئے کہ لا الٰہ الا اللہ کہے۔ اور جو کوئی کسی دوسرے سے کہے کہ آؤ جواء کھیلیں تو وہ صدقہ کرے۔ ایک روایت میں ”لات“ کے ساتھ ”عزیٰ“ کا بھی ذکر ہے۔

باب : قسم میں ”ان شاء اللہ“ کہنا مستحب ہے۔

1014: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے نبی سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے کہا کہ میں آج رات ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا (ایک روایت میں نوے ہیں، ایک میں ننانوے اور ایک میں سو) ہر ایک ان میں سے ایک لڑکا جنے گی، جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان کے ساتھی یا فرشتے نے کہا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ کہو۔ لیکن انہوں نے نہیں کہا، وہ بھول گئے۔ پھر کسی عورت نے بچہ نہ جنا سوائے ایک کے اور وہ بھی آدھا بچہ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو ان کی بات ردّ نہ جاتی اور ان کا مطلب پورا ہو جاتا۔

باب : قسم کا مطلب قسم اٹھوانے والے کی نیت کے موافق ہو۔

1015: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم کا مطلب قسم کھلانے والے کی نیت کے موافق ہو گا۔

باب : جو اپنی (جھوٹی) قسم کے ذریعہ مسلمان کا حق مارتا ہے ، اس کے لئے جہنم واجب ہے۔

1016: سیدنا ابو امامہ (یعنی حارثی)ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص مسلمان کا حق (مال ہو یا غیر مال جیسے مردے کی کھال گوبر وغیرہ یا اور قسم کے حقوق جیسے حق شفعہ حق شرب حد قذف بیوی کے پاس رہنے کی باری وغیرہ) قسم کھا کر مار لے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جہنم کو واجب کر دیا اور اس پر جنت کو حرام کر دیا۔ ایک شخص بولا یا رسول اللہﷺ! اگر وہ ذرا سی چیز ہو تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگرچہ پیلو کی ایک ٹہنی ہی ہو۔

1017: سیدنا وائل بن حجرؓ  کہتے ہیں کہ حضر موت سے ایک شخص اور کندہ کا ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔ حضر موت والے نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اس شخص نے میری زمین دبا لی ہے جو میرے باپ کی تھی۔ کندہ والے نے کہا کہ وہ میری زمین ہے ، میرے قبضہ میں ہے ، میں اس میں کھیتی کرتا ہوں، اس کا کچھ حق نہیں ہے۔ تب رسول اللہﷺ نے حضر موت والے سے فرمایا کہ تیرے پاس گواہ ہیں؟ وہ بولا کہ نہیں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو پھر اس سے قسم لے لو۔ وہ بولا یا رسول اللہﷺ! وہ تو فاجر ہے قسم کھانے میں اس کو ڈر نہیں اور وہ کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا، وہ قسم کھا سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے یہی ممکن ہے۔جب وہ قسم کھانے چلا، رسول اللہﷺ نے اسے جاتے ہوئے فرمایا: دیکھو! اگر اس نے دوسرے کا مال ناحق اڑا لینے کو قسم کھائی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے گا۔

باب : جو قسم اٹھائے اور پھر دیکھے کہ قسم کے خلاف (کرنے ) میں بہتری ہے تو وہ کفارہ دے اور وہ کام کرے جس میں بہتری ہے۔

1018: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس چند اشعریوں کے ساتھ آپﷺ سے سواری مانگنے کے لئے آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تم کو سواری نہیں دوں گا اور نہ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کوئی سواری ہے۔ پھر ہم ٹھہرے رہے جتنی دیر کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس اونٹ آئے ، تو آپﷺ نے سفید کوہان کے تین اونٹ ہمیں دینے کا حکم کیا۔ جب ہم چلے تو ہم نے یا بعضوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں برکت نہ دے کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور سواری مانگی تو آپﷺ نے قسم کھائی کہ ہمیں سواری نہ ملے گی، پھر آپﷺ نے ہمیں سواری دی۔ پھر لوگوں نے آ کر رسول اللہﷺ سے کہا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں سوار نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے سوار کیا اور میں تو اگر اللہ چاہے تو کسی بات کی قسم نہ کھاؤں گا مگر پھر اس سے بہتر دوسرا کام دیکھوں گا تو اپنی قسم کا کفارہ دوں گا اور وہ کام کروں گا جو بہتر ہے۔

1019: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص کو رات کے وقت رسول اللہﷺ کے پاس دیر ہو گئی، پھر وہ اپنے گھر گیا تو بچوں کو دیکھا کہ وہ سو گئے ہیں۔ اس کی عورت کھانا لائی تو اس نے قسم کھا لی کہ میں اپنے بچوں کی وجہ سے نہ کھاؤں گا پھر اس کو کھانا مناسب معلوم ہوا اور اس نے کھا لیا۔ بعد میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے بیان کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی بات کی قسم کھائے لیکن پھر دوسری بات اس سے بہتر سمجھے تو وہ کرے اور قسم کا کفارہ دیدے۔

باب : قسم کے کفارہ میں۔

1020: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ کہ تم میں سے کوئی اپنے گھر والوں کے بارے میں (نقصان دے قسم پر) اصرار کرے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ گناہ کی بات ہے کہ وہ کفارۂ قسم ادا کر کے اپنی قسم توڑ لے۔ (یعنی اسے اپنی قسم پر باقی رہنے کی بجائے قسم توڑ کر کفارہ قسم ادا کرنا چاہیئے )۔

 

 

 

کتاب: خون کی حرمت اور قصاص و دیت کے مسائل

 

باب : خون ، اموال اور عزت کی حرمت کا بیان۔

1021: سیدنا ابو بکرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بیشک زمانہ گھوم کر اپنی اصلی حالت پر ویسا ہو گیا جیسا اس دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان بنائے تھے۔ سال بارہ مہینے کا ہے اور اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں (یعنی ان میں لڑنا بھڑنا درست نہیں)۔ تین مہینے تو لگاتار ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب، (قبیلہ) مضر کا مہینہ جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ پھر آپﷺ چپ ہو رہے ، یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ آپﷺ اس مہینے کا نام کچھ اور رکھیں گے ، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ مہینہ ذوالحجہ کا نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ ذوالحجہ کا مہینہ ہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کونسا شہر ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ پھر چپ ہو رہے ، یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ آپﷺ اس شہر کا کچھ اور نام رکھیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ (البلد) مکہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کونسا دن ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ چپ ہو رہے ، یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ آپﷺ اس دن کا نام کوئی اور رکھیں گے۔ (پھر) آپﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ یوم النحر نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! بیشک یہ یوم النحر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہاری جانیں اور تمہارے مال(راوی کہتا ہے میرا خیال ہے کہ بھی کہا) اور تمہاری آبروئیں (عزتیں) تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے یہ دن حرام ہے اس شہر میں، اس مہینے میں۔ (جس کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ایسے ہی مسلمان کی جان، عزت اور دولت بھی حرام ہے اور اس کا بلاوجہ شرعی لے لینا درست نہیں ہے ) اور عنقریب تم اپنے پروردگار سے ملو گے ، تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ پھر تم میرے بعد کافر یا گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (یعنی آپس میں لڑنے لگو اور ایک دوسرے کو مارو۔ یہ نبیﷺ کی آخری نصیحت اور بہت بڑی اور عمدہ نصیحت تھی۔ افسوس کہ مسلمانوں نے تھوڑے دنوں تک اس پر عمل کیا آخر آفت میں گرفتار ہوئے اور عقبیٰ جدا تباہ کیا)۔ جو (اس وقت، اس مجمع میں) حاضر ہے وہ یہ حکم غائب (جو حاضر نہیں ہے ) کو پہنچا دے۔ کیونکہ بعض وہ (غائب) شخص جس کو (حاضر شخص) یہ بات پہنچائے گا (اب) سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو گا۔ پھر فرمایا کہ دیکھو میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔

باب : قیامت کے دن سب پہلے (ناحق) خون کا فیصلہ ہو گا۔

1022: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں میں خون (قتل) کا فیصلہ کیا جائے گا۔

باب : کونسی چیز مسلمان کے خون (بہانے ) کو حلال کرتی ہے ؟

1023: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان جو یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں اس کا پیغمبر ہوں، (اس کو) مارنا درست نہیں مگر تین میں سے کسی ایک بات پر۔ 1۔ اس کا نکاح ہو چکا ہو اور وہ زنا کرے۔ یا 2۔جان کے بدلے جان (یعنی کسی کا خون کرے )۔ یا 3۔ جو اپنے دین سے پھر جائے اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے۔

باب : اس آدمی کے بارے میں (کیا حکم ہے ) جو اسلام سے مرتد ہو گیا اور قتل کیا اور لڑائی کی۔

1024: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ (قبیلہ) عکل کے آٹھ آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے اسلام پر بیعت کی۔ پھر ان کو (مدینہ کی) ہوا ناموافق ہو گئی اور ان کے بدن بیمار ہو گئے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اونٹوں میں نہیں چلے جاتے کہ (وہاں) ان کا دودھ اور پیشاب پیو؟ انہوں نے کہا کہ اچھا۔ پھر وہ نکلے اور اونٹنیوں کا پیشاب اور دودھ پیا اور ٹھیک ہو گئے ، تو انہوں نے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ بھگا لے گئے۔ یہ خبر رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے ان کے پیچھے جماعت بھیجی۔ وہ گرفتار کر کے لائے گئے تو اپا کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور آنکھیں سلائی سے پھوڑ دی گئیں پھر دھوپ میں ڈال دئیے کئے یہاں تک کہ مر گئے۔

باب : اس آدمی کا گناہ جس نے قتل کی رسم ڈالی۔

1025: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ جب کوئی خون (قتل) ظلم سے ہوتا ہے تو آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر اس کے خون کا ایک حصہ پڑتا ہے (یعنی گناہ کا) کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کی راہ نکالی۔

باب : جس نے جس چیز سے اپنے آپ کو ہلاک کیا(تو وہ) اسی طریقہ کے ساتھ جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔

1026: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے مار لے ، تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا (اور) اس کو اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ، مارتا رہے گا اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے ، تو وہ اسی زہر کو جہنم کی آگ میں پیتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہے گا اور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے ، تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گرا کرے گا اور ہمیشہ اس کا یہی حال رہے گا (کہ اونچے مقام سے نیچے گرے گا)۔

1027: سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اور مشرکوں کا جنگ میں سامنا ہوا تو وہ لڑے۔ پھر جب آپﷺ اپنے لشکر کی طرف جھکے اور وہ لوگ اپنے لشکر کی طرف گئے ، تو آپﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص تھا (اس کا نام قزمان تھا اور وہ منافقوں میں سے تھا) وہ کسی اکا دکا کافر کو نہ چھوڑتا بلکہ اس کا پیچھا کر کے تلوار سے مار ڈالتا (یعنی جس کافر سے بھڑتا اس کو قتل کر دیتا)، تو صحابہؓ نے کہا کہ جس طرح یہ شخص آج ہمارے کام آیا ایسا کوئی نہ آیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ تو جہنمی ہے۔ ایک شخص ہم میں سے بولا کہ میں اس کے ساتھ رہوں گا (اور اس کی خبر رکھوں گا کہ وہ جہنم میں جانے کا کونسا کام کرتا ہے کیونکہ ظاہر میں تو بہت عمدہ کام کر رہا تھا)۔ پھر وہ شخص اس کے ساتھ نکلا اور جہاں وہ ٹھہرتا یہ بھی ٹھہر جاتا اور جہاں وہ دوڑ کر چلتا یہ بھی اس کے ساتھ دوڑ کر جاتا۔ آخر وہ شخص (یعنی قزمان) سخت زخمی ہوا اور (زخموں کی تکلیف پر صبر نہ کر سکا) جلدی مر جانا چاہا اور تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور اس کی نوک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں، پھر اس پر زور ڈال دیا اور اپنے آپ کو مار ڈالا۔ تب وہ شخص (جو اس کے ساتھ گیا تھا) رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا ہوا؟ وہ شخص بولا کہ آپﷺ نے ابھی جس شخص کو جہنمی فرمایا تھا اور لوگوں نے اس پر تعجب کیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ میں تمہارے واسطے اس کی خبر رکھوں گا۔ پھر میں اس کی تلاش میں نکلا وہ سخت زخمی ہوا اور جلدی مرنے کے لئے اس نے تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور اس کی نوک اپنی دونوں چھاتیوں کے بیچ میں، پھر اس پر زور ڈال دیا یہاں تک کہ اپنے آپ کو مار ڈالا۔ رسول اللہﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ آدمی لوگوں کے نزدیک جنتیوں کے سے کام کرتا ہے اور وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک شخص لوگوں کے نزدیک جہنمیوں کے سے کام کرتا ہے اور وہ (انجام کے لحاظ سے ) جنتی ہوتا ہے۔

باب : جس نے کسی کو پتھر کے ساتھ قتل کیا (تو بدلے میں) وہ بھی اسی طرح قتل کیا جائے گا۔

1028: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ ایک لونڈی کا سر دو پتھروں میں کچلا ہوا ملا تو اس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟ فلاں نے ، فلاں نے ؟ یہاں تک کہ ایک یہودی کا نام لیا، تواس نے اپنے سر سے (ہاں میں) اشارہ کیا۔ وہ یہودی پکڑا گیا تواس نے اقرار کر لیا تب رسول اللہﷺ نے اس کا سر بھی پتھر سے کچلنے کا حکم دیا۔

باب : جس نے کسی آدمی کے ہاتھ پر دانت گاڑ دیئے اور (کھینچنے سے ) کاٹنے والے کے دانت گر پڑے۔

1029: سیدنا عمران بن حصینؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے ہاتھ پر (دانتوں سے ) کاٹا۔ اس نے اپنا ہاتھ کھینچا، تو اس (کاٹنے والے ) کے سامنے کے دانت گر پڑے۔ (پھر جس کے دانت نکل پڑے تھے ) اس نے رسول اللہﷺ سے فریاد کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو کیا چاہتا ہے ؟ کیا یہ چاہتا ہے کہ میں اس کو حکم دوں کہ وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں دے اور پھر تو اس کو چبا ڈالے جیسے اونٹ چبا ڈالتا ہے۔ اچھا تو بھی اپنا ہاتھ اس کے منہ میں دے کہ چبائے پھر تم اپنا ہاتھ کھینچ لینا (یعنی اگر تیرا جی چاہے تو اس طرح قصاص ہو سکتا ہے کہ تو بھی اپنا ہاتھ اس کے منہ میں دے پھر کھینچ لے یا تو اس کے بھی دانت ٹوٹ جائیں گے یا تیرا ہاتھ زخمی ہو گا)۔

باب : زخم کا بھی قصاص ہے مگر یہ کہ دیت لینے پر راضی ہوں۔

1030: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا ربیعؓ  کی بہن اُمّ حارثہ رضی اللہ عنہا (جو سیدنا انسؓ  کی پھوپھی تھیں) نے ایک آدمی کو زخمی کر دیا (اس کا دانت توڑ ڈالا تھا) پھر انہوں نے یہ جھگڑا(مقدمہ) رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قصاص لیا جائے گا قصاص لیا جائے گا۔ اُمّ ربیع نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ کیا فلاں (عورت) سے قصاص لیا جائے گا؟ (یعنی اُمّ حارثہ سے ) اللہ کی قسم اس سے قصاص نہ لیا جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ اے اُمّ ربیع! اللہ کی کتاب قصاص کا حکم کرتی ہے۔ اُمّ ربیع نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم اس سے کبھی قصاص نہ لیا جائے گا۔ پھر اُمّ ربیع یہی کہتی رہی، یہاں تک کہ وہ (جس کا دانت ٹوٹا تھا اس کے کنبے والے ) دیت لینے پر راضی ہو گئے۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اس کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کو سچا کر دیتا (یعنی ان کی قسم پوری کر دیتا) ہے۔

باب : جس نے قتل کا اقرار کیا اور پھر وہ (قاتل، قتل کے لئے مقتول کے ) ولی کے سپرد کر دیا گیا اور اس (ولی) نے اسے معاف کر دیا۔

1031: علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ ان کے والدؓ  نے انہیں بتایا کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک شخص دوسرے کو تسمہ سے کھینچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اس نے میرے بھائی کو مار ڈالا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا تو نے اس کو قتل کیا ہے ؟ وہ (پہلا شخص) بولا اگر یہ اقرار نہیں کرے گا تو میں اس پر گواہ لاؤں گا۔ تب وہ شخص بولا کہ بیشک میں نے اس کو قتل کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے کیسے قتل کیا ہے ؟ وہ بولا کہ میں اور وہ دونوں درخت کے پتے جھاڑ رہے تھے کہ اتنے میں اس نے مجھے گالی دی اور مجھے غصہ دلایا تو میں نے کلہاڑی اس کے سر پر ماری اور وہ مر گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تیرے پاس کچھ مال ہے جو اپنی جان کے بدلے میں دے ؟ وہ بولا میرے پاس کچھ نہیں سوائے اس چادر اور کلہاڑی کے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تیری قوم کے لوگ تجھے چھڑائیں گے ؟ اس نے کہا کہ ان کے پاس میری اتنی قدر نہیں ہے۔ تب آپ نے وہ تسمہ مقتول کے وارث کی طرف پھینک دیا اور فرمایا اسے لے جاؤ۔ وہ لے کر چل دیا۔ جب پیٹھ موڑی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ اس کو قتل کرے گا تو اس کے برابر ہی رہے گا (یعنی نہ اس کو کوئی درجہ ملے گا نہ اس کو کوئی مرتبہ حاصل ہو گا کیونکہ اس نے اپنا حق دنیا ہی میں وصول کر لیا)۔ یہ سن کر وہ لوٹا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر میں اس کو قتل کروں گا تو اس کے برابر رہوں گا اور میں نے تو اس کو آپ کے حکم سے پکڑا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو یہ نہیں چاہتا کہ وہ تیرا اور تیرے بھائی کا گناہ سمیٹ لے ؟ وہ بولا ”جی ہاں کیوں نہیں“۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ اسی طرح ہو گا۔ پھر اس نے اس کا تسمہ پھینک دیا اور اس کو چھوڑ دیا۔

باب : اس عورت کی دیت جس کے پیٹ پر مارا گیا جس کی وجہ سے (اس کے ) پیٹ والا بچہ گر (کر مر) گیا اور وہ عورت بھی مر گئی۔ اس (عورت) کی دیت اور اس کے بچے کی دیت۔

1032: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ (قبیلہ) ہذیل کی دو عورتیں لڑ پڑیں۔ ایک نے دوسری کو پتھر سے مارا، تو وہ بھی مر گئی اور پیٹ والا بچہ بھی مر گیا۔ ان لوگوں نے رسول اللہﷺ سے فیصلہ چاہا تو آپ نے فیصلہ کیا کہ اس کے بچے کی دیت ایک غلام یا ایک لونڈی ہے اور عورت کی دیت مارنے والی کے کنبے والے دیں۔ اور اسکی (دیت میں) اس کی اولاد اور دیگر ورثاء کو وارث بنایا۔ سیدنا حمل بن نابغہ ہذلیؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم اس کا تاوان کیونکر دیں جس نے نہ پیا نہ کھایا نہ بولا نہ چلایا یہ تو آیا گیا (یعنی لغو ہے ) رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایسی قافیہ دار عبارت بولنے کی وجہ سے یہ کاہنوں کا بھائی ہے۔

باب : وہ نقصان جس کی دیت نہیں ہوتی۔

1033: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: کہ کنوئیں کا زخم لغو ہے اور کان کا زخم لغو ہے اور جانور کا زخم لغو ہے اور معدنیاتی کان یا دفینہ میں پانچواں حصہ (بطور زکوٰۃ) ہے۔ (رکاز وہ خزانہ ہے جو زمین میں دفن شدہ ملے )۔

 

 

 

کتاب: قسم دلانے کے مسائل

 

باب : قسم کون اٹھائے۔

1034: سیدنا سہل بن ابی حثمہ اپنی قوم کے بڑے لوگوں سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن سہل اور محیصہؓ دونوں کسی تکلیف کی وجہ سے خیبر گئے محیصہؓ  نے آ کر بتایا کہ عبد اللہ بن سہلؓ  مارے گئے اور ان کی نعش چشمہ یا کنواں میں پھینک دی گئی ہے۔ وہ یہود کے پاس آئے اور کہا کہ اللہ کی قسم تم نے ان کو قتل کیا ہے۔ یہودیوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا۔ پھر محیصہ اور ان کا بھائی حویصہ جو ان سے بڑا تھا اور عبدالرحمن بن سہل تینوں (رسول اللہﷺ کے پاس) آئے۔ محیصہ نے بات کرنا چاہا کہ وہی (عبد اللہ بن سہلؓ  کے ساتھ) خیبر کو گئے تھے ، تو رسول اللہﷺ نے محیصہ سے فرمایا کہ بڑے کی بڑائی کر اور بڑے کو کہنے دے۔ پھر حویصہؓ  نے بات کی اور پھر محیصہ نے بات کی۔ رسول اللہﷺ نے محیصہؓ  سے فرمایا کہ یا تو یہود تمہارے ساتھی کی دیت دیں یا جنگ کریں۔ پھر رسول اللہﷺ نے یہود کو اس بار ے میں لکھا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ اللہ کی قسم ہم نے اس کو قتل نہیں کیا تب رسول اللہﷺ نے حویصہ، محیصہ اور عبد الرحمنؓ سے فرمایا کہ تم قسم کھاتے ہو کہ اپنے ساتھی کا قصاص لو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر یہود تمہارے لئے قسم کھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں (ان کی) قسم کا کیا اعتبار۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس کی دیت اپنے پاس سے دی اور سو اونٹ ان کے پاس بھیجے یہاں تک کہ ان کے گھر میں پہنچا دیئے گئے۔ سیدنا سہلؓ  نے کہا کہ ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماردی تھی۔

باب : جاہلیت کے مسئلہ قسامت کو بحال رکھنا۔

1035: رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے ایک انصاری صحابیؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے قسامت کو اسی طور پر باقی رکھا جیسے جاہلیت کے زمانہ میں تھی۔

کتاب: حدود کے مسائل زانی کی حد

باب : غیر شادی شدہ اور شادی شدہ کی حدِ زنا۔

1036: سیدنا عبادہ بن صامتؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ پر جب وحی اترتی تو آپﷺ کو سختی معلوم ہوتی اور چہرہ مبارک پر مٹی کا رنگ آ جاتا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن آپﷺ پر وحی اتری اور آپﷺ کو ایسی ہی سختی معلوم ہوئی۔ جب وحی موقوف ہو گئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے سیکھ لو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راستہ کر دیا۔ اگر شادی شدہ ، شادی شدہ سے زنا کرے اور غیر شادی شدہ، غیر شادی شدہ سے زنا کرے تو شادی شدہ کو سو (100) کوڑے لگا کر سنگسار کر دیں اور غیر شادی شدہ کوسو (100) کوڑے لگا کر ایک سال تک وطن سے باہر نکال دیں۔

باب : زنا کے معاملہ میں شادی شدہ کو رجم کرنا۔

1037: سیدنا عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  نے رسول اللہﷺ کے منبر پر بیٹھ کر فرمایا کہ اللہ جل شانہ نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب اتاری،اسی کتاب میں رجم کی آیت بھی تھی (لیکن اس کی تلاوت موقوف ہو گئی اور حکم باقی ہے ) ہم نے اس آیت کو پڑھا اور یاد رکھا اور سمجھا۔ رسول اللہﷺ نے بھی رجم کیا اور ہم نے بھی آپﷺ کے بعد رجم کیا۔ میں ڈرتا ہوں کہ جب زیادہ مدت گزرے گی تو کوئی یہ نہ کہنے لگ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں رجم نہیں ملتا۔ پھر گمراہ ہو جائے اس فرض کو چھوڑ کر جس کو اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس شخص پر جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے مرد ہو یا عورت رجم حق ہے۔ (اور یہ صورت میں ہی ہے کہ) جب گواہ قائم ہوں زنا پر یا حمل ہو یا (زانی) خود اقرار کرے۔ (رجم ، آدھا زمین میں گاڑ کر اوپر سے پتھر مار مار کر ختم کر دینے کو کہتے ہیں)۔

باب : جس نے اپنے اوپر زنا کا اقرار کر لیا۔

1038: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس چھوٹے قد کا آدمی جس کے بال پراگندہ اور جسم مضبوط تھا، اس پر چادر تھی اور اس نے زنا کیا تھا، لایا گیا۔ آپﷺ نے دو بار اس کی بات کو ٹالا پھر حکم کیا تو وہ سنگسار کیا گیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ جب ہم اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتے ہیں تو تم میں سے کوئی نہ کوئی پیچھے رہ جاتا ہے اور بکرے کی طرح آواز کرتا ہے اور کسی عورت کو تھوڑا دودھ دیتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ میرے قابو میں ایسے شخص کو دے گا تو میں اس کو ایسی سخت سزا دوں گا جو دوسروں کے لئے نصیحت ہو۔ راوی نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سیدنا سعید بن جبیرؓ  سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے چار بار اس کی بات کو ٹالا۔ اور ایک روایت میں دو دفعہ یا تین دفعہ کا ذکر ہے۔

باب : زنا کا اقراری چار دفعہ اقرار کرے۔ اور جس کو رجم کرنا ہے (اس کے لئے ) گڑھا کھودنا اور زنا سے حاملہ عورت کی سزا میں وضع حمل تک تاخیر اور جس کو رجم کیا گیا اس کی نماز جنازہ کا بیان۔

1039: سیدنا بریدہؓ  سے روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمیؓ  رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے کہ زنا کر بیٹھا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپﷺ مجھے پاک کریں۔ آپﷺ نے ان کو پھیر دیا۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہا! میں نے زنا کیا ہے۔ آپﷺ نے ان کو پھیر دیا اور ان کی قوم کے پاس کسی کو بھیجا اور دریافت کرایا کہ ان کی عقل میں کچھ فتور ہے ؟ اور تم نے کوئی بات دیکھی؟ انہوں نے کہا کہ ہم تو کچھ فتور نہیں جانتے اور جہاں تک ہم سمجھتے ہیں ان کی عقل اچھی ہے۔ پھر تیسری بار ماعزؓ  آئے تو آپﷺ نے ان کی قوم کے پاس پھر بھیجا (اور یہی دریافت کرایا) تو انہوں نے کہا کہ ان کو کوئی بیماری نہیں ہے اور نہ ان کی عقل میں کچھ فتور ہے۔ جب وہ چوتھی بار آئے (اور انہوں نے یہی کہا کہ میں نے زنا کیا ہے مجھے پاک کیجئے حالانکہ توبہ سے بھی پاکی ہو سکتی تھی مگر ماعزؓ  کو شک ہوا کہ شاید توبہ قبول نہ ہو)، تو آپﷺ نے ان کے لئے ایک گڑھا کھدوایا پھر وہ آپﷺ کے حکم پر رجم کئے گئے۔ راوی کہتا ہے (اس کے بعد) غامدیہ کی عورت آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہﷺ! میں نے زنا کیا ہے مجھے پاک کیجئے۔ آپﷺ نے اس کو پھیر دیا۔ جب دوسرا دن ہوا تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپﷺ مجھے کیوں لوٹاتے ہیں؟ شاید آپ ایسے لوٹانا چاہتے ہیں جیسے ماعزؓ  کو لوٹایا تھا۔ اللہ کی قسم میں تو حاملہ ہوں (تو اب زنا میں کیا شک ہے )۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا اگر تو نہیں لوٹتی (اور توبہ کر کے پاک ہونا نہیں چاہتی بلکہ دنیا کی سزا ہی چاہتی ہے ) تو جا، جننے کے بعد آنا۔ جب ولادت ہو گئی تو بچہ کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائی اور کہا: لیجئے یہ بچہ پیدا ہو گیا ہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا جا اس کو دودھ پلا جب اس کا دودھ چھٹے۔ (شافعی اور احمد اور اسحٰق کا یہی قول ہے کہ عورت کو رجم نہ کریں گے جننے کے بعد بھی جب تک دودھ کا بندوبست نہ ہو ورنہ دودھ چھٹنے تک انتظار کریں گے اور امام ابو حنیفہ اور مالک کے نزدیک جنتے ہی رجم کریں گے ) جب اس کا دودھ چھٹا تو وہ بچے کو لے کر آئی اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا اور عرض کرنے لگی کہ اے اللہ کے نبیﷺ! میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپﷺ نے وہ بچہ ایک مسلمان کو پرورش کے لئے دے دیا۔ پھر آپ کے حکم سے ایک گڑھا کھودا گیا اس کے سینے تک اور لوگوں کو اس کے سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ  ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا تو خون اڑ کر سیدنا خالدؓ  کے منہ پر گرا۔ سیدنا خالدؓ  نے اس کو بُرا کہا اور یہ بُرا کہنا رسول اللہﷺ نے سن لیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ خبردار اے خالد (ایسا مت کہو) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر (ناجائز) محصول (ٹیکس) لینے والا (جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور حقوق العباد میں گرفتار ہوتا ہے اور مسکینوں کو ستاتا ہے ) بھی ایسی توبہ کرے تو اس کا گناہ بھی بخش دیا جائے (حالانکہ دوسری حدیث میں ہے کہ ایسا شخص جنت میں نہ جائے گا) پھر آپﷺ نے حکم کیا تو اس پر نماز پڑھی گئی اور وہ دفن کی گئی۔

باب : زنا میں ذمی یہود پر بھی رجم ہے۔

1040: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ رسول اللہﷺ یہود کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا کہ تورات میں زنا کی کیا سزا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم دونوں کا منہ کالا کر کے (گدھوں پر) اس طرح سوار کرتے ہیں کہ ان کا منہ (گدھوں) کی دم کی طرف ہوتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اچھا تو اگر تم سچ کہتے ہو تورات لاؤ۔ وہ لے کر آئے اور پڑھنے لگے ، جب رجم کی آیت آئی تو جو شخص پڑھ رہا تھا اس نے اپنا ہاتھ اس آیت پر رکھ دیا اور آگے اور پیچھے کا مضمون پڑھ دیا۔ سیدنا عبد اللہ بن سلامؓ  (یہودیوں کے عالم جو مسلمان ہو گئے تھے ) وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ، انہوں نے کہا کہ آپﷺ اس شخص سے کہئے کہ اپنا ہاتھ اٹھائے۔ اس نے ہاتھ اٹھایا تو رجم کی آیت ہاتھ کے نیچے تھی۔ پھر آپﷺ کے حکم سے وہ دونوں رجم کئے گئے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نے کہا کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ان کو رجم کیا میں نے دیکھا کہ مرد اپنی آڑ سے عورت کو پتھروں سے بچا رہا تھا۔( یعنی پتھر اپنے اوپر لیتا محبت سے )۔

باب : لونڈی کو مارنا جب کہ وہ زنا کرے۔

1041: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ لونڈی جو شادی شدہ نہیں ہے ، وہ زنا کرے تو کیا سزا ہو گی؟آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو کوڑے لگاؤ، پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ۔ پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ۔ پھر اس کو بیچ ڈالو اگرچہ ایک رسی قیمت کی آئے۔ ابن شہاب کو شک ہے کہ بیچنے کا حکم تیسری بار کے بعد دیا، یا چوتھی بار کے بعد۔

باب : مالک اپنے غلام پر حد قائم کرے۔

1042: سیدنا ابو عبد الرحمنؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ  نے خطبہ پڑھا تو کہا کہ اے لوگو! اپنی لونڈی، غلاموں کو حد لگاؤ خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں (یعنی کوڑے مارو)۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کی ایک لونڈی نے زنا کیا، تو آپﷺ نے مجھ کو اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ دیکھا تو اس کے ہاں ابھی قریب ہی ولادت ہوئی تھی۔میں ڈرا کہ کہیں اس کو کوڑے ماروں (تو) وہ مر ہی نہ جائے۔ میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے اچھا کیا (جو کوڑے لگانا موقوف رکھا)۔ ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ میں اس کو اس وقت تک چھوڑو جب تک وہ اچھی ہو جائے (یعنی نفاس سے صاف ہو۔ یہی حکم ہے مریضہ کا۔ اس کو بھی حد نہیں ماریں گے جب تک کہ تندرست نہ ہو جائے )۔

 

 

 

کتاب: چوری کی حد کا بیان

 

باب : جس چیز (کی چوری) میں ہاتھ کاٹنا واجب ہے ، اس کا بیان۔

1043: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر چوتھائی دینار یا زیادہ کی چوری میں۔

باب : جس چیز کی قیمت تین درہم ہے (اس کی چوری میں) ہاتھ کاٹا جائیگا۔

1044: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سپر کی چوری پر جس کی قیمت تین درہم تھی، ایک چور کا ہاتھ کاٹا تھا۔

باب : انڈے کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔

1045: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس چور پر لعنت کرے جو انڈہ چراتا ہے ، تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور رسی چراتا ہے ، اور اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔

باب : حدود میں سفارش کی ممانعت ہے۔

1046: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش کو اس عورت کی فکر پیدا ہوئی جس نے رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں، فتح مکہ کے موقعہ پر چوری کی تھی۔ لوگوں نے کہا کہ اس بارے میں رسول اللہﷺ سے کون سفارش کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ اپا کے سامنے سوائے سیدنا اسامہ بن زیدؓ  کے اتنی جرأت کون کر سکتا ہے جو کہ رسول اللہﷺ کا چہیتے ہیں۔ آخر وہ عورت رسول اللہﷺ کے پاس لائی گئی اور سیدنا اسامہؓ  نے اس کی سفارش کی، تو آپﷺ کے چہرے کا رنگ (غصے کی وجہ سے ) بدل گیا اور آپﷺ نے فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کی حد میں سفارش کرتا ہے ؟ سیدنا اسامہؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے لئے معافی کی دعا کیجئے۔ جب شام ہوئی تورسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ پڑھا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسے اس کو شایان ہے ، پھر اس کے بعد فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کو اسی بات نے تباہ کیا کہ جب ان میں عزت دار آدمی چوری کرتا تھا توا س کو چھوڑ دیتے تھے اور جب غریب (ناتواں) چوری کرتا تھا تو اس پر حدقائم کرتے تھے۔ اور میں تو، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) محمدﷺ کی بیٹی بھی چوری کرے ، تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ اُمّ  ا لمؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ (ہاتھ کٹنے کے ) بعد اس عورت نے اچھی توبہ کی اور نکاح کر لیا اور وہ میرے پاس آتی تھی تو میں اس کے مطلب کو رسول اللہﷺ سے عرض کر دیا کرتی تھی۔

 

 

 

کتاب: شراب کی حد کا بیان

 

باب : شراب پینے میں کتنے کوڑے حد ہے ؟

1047: حضین بن مندر ابو ساسان کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمان بن عفانؓ  کے پاس موجود تھا کہ ولید بن عقبہ کو لایا گیا کہ انہوں نے صبح کی دو رکعتیں پڑھی تھیں پھر کہا کہ میں زیادہ کرتا ہوں تمہارے لئے۔ تو دو آدمیوں نے ولید پر گواہی دی جن میں سے ایک حمران تھا کہ اس نے شراب پی ہے۔ دوسرے نے یہ گواہی دی کہ وہ میرے سامنے (شراب کی) قے کر رہا تھا۔ سیدنا عثمانؓ  نے کہا کہ اگر اس نے شراب نہ پی ہوتی، تو شراب کی قے کیوں کرتا؟ سیدنا عثمانؓ  نے سیدنا علیؓ  کو کہا کہ اٹھو اس کو حد لگاؤ (یہ سیدنا عثمانؓ  نے سیدنا علیؓ  کی عزت اور عظمت بڑھانے کے لئے حکم دیا اور امام کو یہ امر جائز ہے )۔ سیدنا علیؓ  نے سیدنا حسنؓ  سے فرمایا کہ اے حسن! اٹھ اور اس کو کوڑے لگا۔ سیدنا حسنؓ  نے کہا کہ عثمان خلافت کا سرد لے چکے ہیں تو گرم بھی انہی پر رکھو۔ سیدنا علیؓ  اس بات پر حسنؓ  سے غصہ ہوئے اور کہا کہ اے عبد اللہ بن جعفر ص! اٹھ اور ولید کو کوڑے لگا۔ (انہوں نے ) کوڑے لگائے اور سیدنا علیؓ  گنتے جاتے تھے۔ جب چالیس کوڑے لگائے ، تو سیدنا علیؓ  نے کہا کہ بس ٹھہر جا۔ پھر کہا کہ رسول اللہﷺ نے چالیس کوڑے لگائے اور سیدنا ابو بکرؓ  نے بھی چالیس لگائے اور سیدنا عمرؓ  نے اسی کوڑے لگائے اور سب سنت ہیں اور میرے نزدیک (یہ چالیس لگانا) زیادہ بہتر ہے۔

1048: سیدنا علیؓ  کہتے ہیں کہ اگر میں کسی پر حد قائم کروں اور وہ مر جائے ، تو مجھے کچھ خیال نہ ہو گا مگر شراب کی حد میں۔ اگر کوئی مر جائے تو اس کی دیت دلاؤں گا، کیونکہ نبیﷺ نے اس کو بیان نہیں فرمایا۔ (یعنی اسی (80) کوڑے لگانا نبیﷺ کی سنت نہیں ہے )۔

باب : تعذیر کے کوڑے کتنے ہیں؟

1049: سیدنا ابو بردہ انصاریؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارا جائے مگر اللہ کی حدوں میں سے کسی حد میں۔

باب : جو حد کو پہنچا، پھر سزا مل گئی، تو یہ اس کے لئے کفارہ ہے۔

1050: سیدنا عبادہ بن صامتؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم مردوں سے بھی ایسے ہی عہد لیا جیسے عورتوں سے لیا تھا، ان باتوں پر کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے ، چوری نہ کریں گے ، زنا نہ کریں گے ، اپنی اولاد کو نہ ماریں گے ، ایک دوسرے پر طوفان نہ جوڑیں گے۔ پھر جو کوئی تم میں سے عہد کو پورا کرے ، اس کا ثواب اللہ تعالیٰ پر ہے اور جو تم میں سے کوئی حد کا کام کرے اور اس کو حد لگا دی جائے ، تو وہی گناہ کا کفارہ ہے۔ اور جس کے گناہ پر اللہ تعالیٰ پردہ ڈال دے تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ) چاہے تو اس کو عذاب کرے اور چاہے تو بخش دے۔

 

 

 

کتاب: فیصلے اور گواہی کے بیان میں۔

 

باب : فیصلہ ظاہری بات پر ہو گا اور دلیل دینے میں چرب زبانی سے کام لینے کی وعید۔

1051: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جھگڑنے والے کا شور اپنے حجرے کے دروازے پر سنا، تو باہر نکلے اور فرمایا کہ میں بشر (انسان) ہوں اور میرے پاس کوئی مقدمہ والا آتا ہے اور ممکن ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے بہتر بات کرتا ہو، اور میں سمجھوں کہ یہ سچا ہے اور اس کے موافق فیصلہ کر دوں تو جس کو میں کسی مسلمان کا حق دلا دوں وہ انگارے کا ایک ٹکڑا ہے ، وہ چاہے اس کو لے لے یا چھوڑ دے۔

باب : بڑے لڑاکے ، جھگڑالو کے بیان میں۔

1052: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب مردوں میں بُرا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مرد ہے جو بڑا لڑاکا جھگڑالو ہو۔

باب : مدعی علیہ پر قسم کے ساتھ فیصلہ۔

1053: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اگر لوگوں کو وہ کچھ دلا دیا جائے جس کا وہ دعویٰ کریں، تو بعض دوسروں کی جان اور مال لے لیں گے۔ لیکن مدعی علیہ کو قسم کھانا چاہئیے۔

باب : قسم اور گواہ کے ساتھ فیصلہ۔

1054: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کیا۔ (یہ اس صورت میں ہے جب دو گواہ نہ ہوں۔ ایک گواہ ہو تو مدعی ساتھ قسم کھائے )۔

باب : فیصلہ کرنے والا غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔

1055: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے عبید اللہ بن ابی بکرہ جو کہ سجستان کے قاضی تھے کو لکھوایا اور میں نے لکھا کہ تم دو آدمیوں کے درمیان تم اس وقت فیصلہ مت کرو جب تک تم غصے میں ہو، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ کوئی آدمی دو شخصوں کے درمیان اس وقت فیصلہ نہ کرے ، جب وہ غصے کی حالت میں ہو۔

باب : جب حاکم (قاضی وغیرہ) سوچ کر کوشش سے فیصلہ کرے ، پھر صحیح فیصلہ کرے یا غلطی کرے (تو اس کا حکم)۔

1056: سیدنا عمروبن عاصؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب حاکم سوچ کر کوشش سے فیصلہ کرے پھر صحیح کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور جو سوچ کر فیصلہ دے اور غلطی کر بیٹھے تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔

باب : فیصلہ دینے میں فیصلہ دینے والوں میں اختلاف۔

1057: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ دو عورتیں اپنے اپنے بچے لئے جا رہی تھیں کہ اتنے میں بھیڑیا آیا اور ایک کا بچہ لے گیا۔ ایک نے دوسری سے کہا کہ تیرا بیٹا لے گیا۔ اور دوسری نے کہا کہ تیرا بیٹا لے گیا ہے۔ آخر دونوں اپنا فیصلہ کرانے کو سیدنا داؤدؑ کے پاس آئیں۔ انہوں نے بچہ بڑی عورت کو دلا دیا (اس وجہ سے کہ بچہ اس کے مشابہ ہو گا یا ان کی شریعت میں ایسی صورت میں بڑے کو ترجیح ہو گی یا بچہ اس کے ہاتھ میں ہو گا)۔ پھر وہ دونوں سیدنا سلیمانؑ کے پاس آئیں اور ان سے سب حال بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ چھری لاؤ ہم بچے کے دو ٹکڑے کر کے تم دونوں کو دے دیں گے (اس سے بچے کا کاٹنا مقصود نہ تھا بلکہ حقیقی ماں کا دریافت کرنا منظور تھا)، تو چھوٹی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے ایسا مت کر وہ بڑی کا بیٹا ہے۔ سیدنا سلیمانؑ نے وہ بچہ چھوٹی کو دلا دیا (تو سیدنا سلیمانؑ نے سیدنا داؤدؑ کے خلاف حکم دیا، اس لئے کہ دونوں مجتہد تھے اور پیغمبر بھی تھے اور مجتہد کو دوسرے مجتہد کا خلاف درست ہے۔ مسائل اجتہادی میں کوئی حکم توڑنا درست نہیں مگر شاید سیدنا داؤدؑ نے اس فیصلہ کو قطع نہ کیا ہو گا یا صرف بطور فتویٰ کے ہو گا) سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ اس حدیث میں میں نے اسی دن سکین کا لفظ سنا ہے جو چھری کو کہتے ہیں ورنہ ہم تو مدیہ کہا کرتے تھے۔

باب : حاکم (قاضی وغیرہ) جھگڑا کرنے والوں کے درمیان اصلاح کرائے

1058: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے دوسرے شخص سے زمین خریدی، پھر جس نے زمین خریدی تھی اس نے سونے کا ایک مٹکا (برتن) اس میں پایا۔ خریدنے والا (بیچنے والے سے ) کہنے لگا کہ تو اپنا سونا لے لے ، میں نے تجھ سے زمین خریدی تھی، سونا نہیں خریدا تھا۔ اور بیچنے والے نے کہا کہ میں نے تیرے ہاتھ زمین اور جو کچھ اس میں تھا بیچا تھا(تو سونا بھی تیرا ہے۔ سبحان اللہ بائع اور مشتری دونوں کیسے خوش نیت اور ایماندار تھے ) راوی کہتا ہے کہ پھر دونوں نے ایک شخص سے فیصلہ چاہا، وہ بولا کہ تمہاری اولاد ہے ؟ ایک نے کہا کہ میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ اس نے کہا کہ اچھا اس کے لڑکے کا نکاح اس کی لڑکی سے کر دو اور اس سونے کو دونوں پر خرچ کروا ور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بھی دو۔ (غرض صلح کرا دی اور یہ مستحب ہے تاکہ دونوں خوش رہیں)۔

باب : بہترین گواہ۔

1059: سیدنا زید بن خالد جہنیؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: کہ میں تم کو بتلاؤں کہ بہتر گواہ کون ہے ؟ جو گواہی کے لئے بلائے جانے سے پہلے اپنی گواہی ادا کر دے۔

 

 

 

کتاب: گری پڑی چیز کے مسائل

 

باب : گری پڑی چیز کے بارے میں حکم۔

1060: سیدنا زید بن خالد جہنیؓ  جو کہ رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے ہیں کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے سونا یا چاندی کے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے بندھن اور اس کی تھیلی کی پہچان رکھ، پھر سال بھر تک لوگوں میں مشہور کر، اگر کوئی نہ پہچانے تو اس کو خرچ کر ڈال، لیکن وہ تیرے پاس امانت رہے گا اور صرف کرنے کے بعد جب اس کا مالک کسی دن بھی آئے تو اس کو ادا کرنا ہو گا۔ اور آپﷺ سے اس اونٹ کے بارے میں پوچھا گیا جو بھولا بھٹکا ہو، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے اس سے کیا کام ہے ؟ اس کا پاؤں اس کے ساتھ ہے ، مشکیزہ ہے ، پانی پیتا ہے ، درخت کے پتے کھاتا ہے ، یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک پالیتا ہے اور آپﷺ سے گمشدہ بکری کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو لے لے کیونکہ بکری تیری ہے یا تیرے بھائی کی ہے یا بھیڑئیے کی ہے۔

باب : حاجی کی گری پڑی چیز۔

1061: سیدنا عبدالرحمن بن عثمان التیمیؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حاجیوں کی پڑی ہوئی چیز لینے سے منع کیا۔

باب : جس نے گمشدہ چیز رکھ لی، وہ گمراہ ہے۔

1062: سیدنا زید بن خالد جہنیؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جس نے گری پڑی چیز مشہوری کئے بغیر رکھ لی، وہ گمراہ ہے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ گری پڑی چیز کی پہچان کرانا اور بتلانا ضروری ہے )

باب : لوگوں کی اجازت کے بغیر انکے جانوروں کا دودھ دھونے کی ممانعت

1063: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی دوسرے کے جانور کا دودھ نہ نکالے مگر اس کی اجازت سے۔ کیا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی کوٹھڑی میں کوئی آئے اور اس کا خزانہ توڑ کر اس کے کھانے کا غلہ نکال لے جائے ؟ اسی طرح جانوروں کے تھن ان کے کھانے کے خزانے ہیں۔ تو کوئی کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر نہ دھوئے (مگر جو بھوک کی وجہ سے مر رہا ہو، وہ بقدر ضرورت لے لے )۔

 

 

 

کتاب: مہمان نوازی کے مسائل

 

باب : جو میزبانی نہیں کرتا اس کے لئے حکم۔

1064: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ہمیں بھیجتے ہیں پھر ہم کسی قوم کے پاس اترتے ہیں اور وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے ، تو کا کیا خیال ہے ؟ (یعنی انہیں کیا کرنا چاہیئے ) آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تم کسی قوم کے پاس اترو، پھر وہ تمہارے واسطے وہ سامان کر دیں جو مہمان کے لئے چاہیئے ، تو تم قبول کرو اگر وہ نہ کریں، تو ان سے مہمانی کا حق جتنا مہمان کو چاہیئے ، لے لو۔

باب : مہمانی دینے کا حکم۔

1065: سیدنا ابو شریح خزاعیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مہمانی تین دن تک ہے اور مہمان نوازی میں تکلف ایک دن ایک رات تک چاہئیے اور کسی مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا رہے ، یہاں تک کہ اس کو گناہ میں ڈالے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس کو کس طرح گناہ میں ڈالے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کھلانے کے لئے کچھ نہ ہو۔

باب : ضرورت سے زائد مالوں کے ذریعہ (ضرورتمند کے ساتھ) ہمدردی کرنا

1066: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ ہم سفر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک شخص اونٹنی پر سوار آپﷺ کے پاس آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس زائد سواری ہو، وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس سفر خرچ (اپنی ضرورت سے ) زائد ہو، وہ اس کو دیدے جس کے پاس سفر خرچ نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے بہت سی قسم کے مال بیان کئے ، یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ ہم سے کسی کا اس مال میں کوئی حق نہیں ہے جو اس کی ضرورت سے زائد ہو۔

باب : سفر میں (زاد راہ) کم پڑ جائے تو باقی ماندہ چیزوں کو اکٹھا کر لینے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا حکم۔

1067: ایاس بن سلمہ اپنے والدؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک لڑائی کے لئے نکلے ، وہاں ہمیں (کھانے اور پینے کی) تکلیف ہوئی (یعنی کمی واقع ہو گئی) یہاں تک کہ ہم نے سواری کے اونٹوں کو نحر کرنے کا قصد کیا، تو رسول اللہﷺ کے حکم پر ہم نے اپنے اپنے سفر خرچ کو جمع کیا اور ایک چمڑا بچھایا، اس پر سب لوگوں کے زادِ راہ اکٹھے ہوئے۔ سلمہؓ  نے کہا کہ میں اس کے ناپنے کے لئے لمبا ہوا، تو اس کو اتنا پایا کہ جتنی جگہ میں بکری بیٹھتی ہے اور ہم (لشکر کے ) چودہ سو آدمی تھے۔ پھر ہم لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا اور اس کے بعد اپنے اپنے توشہ دان کو بھر لیا۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وضو کا پانی ہے ؟ ایک شخص ڈول میں ذرا سا پانی لے کر آیا، تو آپﷺ نے اس کو ایک گڑھے میں ڈال دیا اور ہم سب چودہ سو آدمیوں نے اسی پانی سے وضو کیا، خوب بہاتے جاتے تھے۔ اس کے بعد آٹھ آدمی اور آئے اور انہوں نے کہا کہ وضو کا پانی ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وضو کا پانی گر چکا۔

 

 

 

 

کتاب: جہاد کے مسائل

 

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِی سَبِیْلِ اللهِ …﴾ کے متعلق اور شہداء کی روحوں کا بیان۔

1068: مسروق کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے اس آیت ”ان لوگوں کو مردہ مت سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، روزی دئیے جاتے ہیں“ کے بارے میں پوچھا، تو سیدنا عبد اللہؓ نے کہا۔ ہم نے اس آیت کے بارے میں (رسول اللہﷺ سے ) پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں، جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں اور جہاں چاہتے ہیں جنت میں چگتے پھرتے ہیں، پھر اپنی قندیلوں میں آ رہتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے پروردگار نے ان کو دیکھا اور فرمایا کہ تم کچھ چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ اب ہم کیا چاہیں گی؟ ہم تو جنت میں جہاں چاہتی ہیں چگتی پھرتی ہیں تو  پروردگار جل و علا نے تین دفعہ پوچھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے ہماری رہائی نہیں (یعنی پروردگار جل جلالہ برابر پوچھے جاتا ہے ) تو انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہم یہ چاہتی ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے بدنوں میں پھیر دے (یعنی دنیا کے بدنوں میں) تاکہ ہم دوبارہ تیری راہ میں مارے جائیں۔ جب ان کے رب نے دیکھا کہ اب ان کو کوئی خواہش نہیں، تو ان کو چھوڑ دیا۔

باب : بیشک جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔

1069: سیدنا ابو بکر بن عبد اللہ بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو دشمن کے سامنے (یعنی میدانِ جہاد میں) یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ یہ سن کر ایک غریب اور میلے سے کپڑوں والا شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ اے ابو موسیٰ تم نے (خود) رسول اللہﷺ کو ایسا فرماتے ہوئے سنا ہے ؟ (سیدنا ابو موسیٰ نے ) کہا: ہاں۔ راوی کہتا ہے ، یہ سن کر وہ اپنے دوستوں کی طرف گیا اور کہا کہ میں تم کو سلام کرتا ہوں اور اپنی تلوار کا نیام توڑ ڈالا پھر تلوار لے کر دشمن کی طرف گیا اور اپنی تلوار سے دشمن کو مارتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔

باب : جہاد کی ترغیب اور اس کی فضیلت۔

1070: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے جو اس کی راہ میں نکلے اور نہ نکلے مگر جہاد کے لئے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے پیغمبروں کو سچ جانتا ہو۔ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) ایسا شخص میری حفاظت میں ہے یا تو میں اس کو جنت میں لے جاؤں گا یا اس کو اس کے گھر کی طرف ثواب اور مالِ غنیمت کے ساتھ پھیر دوں گا۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ کوئی زخم ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگے ، مگر یہ کہ وہ قیامت کے دن اسی شکل پر آئے گا جیسا دنیا میں ہوا تھا، اس کا رنگ خون کا سا ہو گا اور خوشبو مشک کی۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ اگر مسلمانوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں کبھی بھی کسی لشکر سے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے پیچھے نہ رہتا۔ لیکن میرے پاس (سواریوں وغیرہ کی) اتنی گنجائش نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کے پاس (سواریوں وغیرہ کی) وسعت ہے اور میرے جانے کی صورت میں مسلمانوں کو پیچھے رہنا دشوار ہو گا۔قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں پھر مارا جاؤں پھر جہاد کروں پھر مارا جاؤں پھر جہاد کروں پھر مارا جاؤں۔

باب : بندے کی درجات کی بلندی جہاد سے ہے۔

1071: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے ابو سعید! جو اللہ کے رب ہونے سے اور اسلام کے دین ہونے سے اور محمدﷺ کے نبی ہونے سے راضی ہوا، اس کے لئے جنت واجب ہے یہ سن کر سیدنا ابو سعید خدریؓ  نے تعجب کیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! پھر فرمائیے۔ آپﷺ نے پھر فرمایا اور فرمایا کہ ایک اور عمل ہے جس کی وجہ سے بندے کو جنت میں سو درجے ملیں گے اور ہر ایک درجہ سے دوسرے درجہ تک اتنا فاصلہ ہو گا جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ سیدنا ابو سعیدؓ  نے عرض کیا کہ وہ کون سا عمل ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔

باب : لوگوں میں افضل وہ مجاہد ہے ، جو اپنی جان اور اپنے مال سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے۔

1072: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ کون شخص افضل ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرتا ہے۔ اس نے کہا پھر کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ مومن جو پہاڑ کی کسی گھاٹی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے۔

باب : جواس حال میں فوت ہو جائے کہ نہ تو جہاد میں شریک ہوا اور نہ کبھی دل میں خیال پیدا ہوا۔

1073: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص فوت ہو جائے اور نہ جہاد کیا ہو اور نہ جہاد کرنے کی نیت کی ہو تو وہ منافقت کی ایک خصلت پر فوت ہوا۔ عبد اللہ بن سہم (راوئ حدیث) کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک نے کہا کہ ہم خیال کرتے ہیں کہ یہ حدیث رسول اللہﷺ کے زمانے سے متعلق ہے۔ (یہ ابن مبارک کا مؤقف ہے۔ علامہ البانی نے لکھا ہے کہ اسے آپﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے )۔

باب : سمندری جہاد کی فضیلت میں۔

1074: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اُمّ حرام بنت ملحان جو کہ سیدنا عبادہ بن صامتؓ  کے نکاح میں تھیں، کے پاس جاتے تھے (کیونکہ وہ آپﷺ کی محرم تھیں یعنی رضاعی خالہ یا آپﷺ کے والد یا دادا کی خالہ) وہ آپﷺ کو کھانا کھلاتیں تھیں۔ ایک روز رسول اللہﷺ ان کے پاس گئے ، تو انہوں نے آپﷺ کو کھانا کھلایا اور سر کی جوئیں دیکھنے لگیں۔ اسی دوران رسول اللہﷺ سو گئے۔ پھر آپﷺ ہنستے ہوئے جاگے ، تو اُمّ حرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے چند لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لئے اس سمندر کے بیچ میں سوار ہو رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر چڑھتے ہیں یا بادشاہوں کی طرح تخت پر۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپﷺ للہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کرے۔ آپﷺ نے دعا کی پھر سر رکھا اور سو رہے اور پھر ہنستے ہوئے جاگے۔ میں نے پوچھا کہ آپﷺ کیوں ہنستے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے چند لوگ میرے سامنے لائے گئے جو جہاد کے لئے جاتے تھے اور بیان کیا جس طرح اوپر گزرا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں کرے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو پہلے لوگوں میں سے ہو چکی۔ پھر اُمّ حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سیدنا معاویہؓ  کے دورِ خلافت میں سمندر میں (جزیرہ قبرص فتح کرنے کے لئے ) سوار ہوئیں (جو تیرہ سو برس کے بعد سلطان روم نے انگریزوں کے حوالے کر دیا) اور جب دریا سے نکلنے لگیں تو جانور سے گر کر شہید ہو گئیں۔

باب : اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دینے کی فضیلت۔

1075: سیدنا سلمانؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن رات پہرہ چوکی دینا، ایک مہینہ بھر روزے رکھنے اور عبادت کرنے سے افضل ہے اور اگر اسی دوران فوت ہو جائے گا تو اس کا یہ کام برابر جاری رہے گا (یعنی اس کا ثواب مرنے کے بعد بھی موقوف نہ ہو گا بڑھتا ہی چلا جائے گا یہ اس عمل سے خاص ہے ) اور اس کا رزق جاری ہو جائے گا (جو شہیدوں کو ملتا ہے ) اور وہ فتنہ والوں سے بچ جائے گا۔ (یعنی قبر میں فرشتوں والی آزمائش یا عذاب قبر سے یا دم مرگ شیطان کے وسوسے سے )۔

باب : صبح یا شام کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں چلنا، دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔

1076: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں صبح کو یا شام کو چلنا دنیا اور ما فیہا سے بہتر ہے۔

باب : اللہ تعالیٰ کے قول ﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃالْحَاج﴾ کے متعلق۔

1077: سیدنا نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے منبر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص بولا: مجھے مسلمان ہونے پر کسی عمل کی پرواہ نہیں، جب میں حاجیوں کو پانی پلاؤں۔ دوسرا بولا کہ مجھے اسلام کے بعد کسی عمل کی کیا پرواہ ہے کہ میں مسجد حرام کی مرمت کروں۔ تیسرا بولا کہ ان چیزوں سے تو جہاد افضل ہے۔ سیدنا عمرؓ  نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ رسول اللہﷺ کے منبر کے سامنے جمعہ کے دن اپنی آوازیں بلند نہ کرو لیکن میں جمعہ کی نماز کے بعد آپﷺ سے اس بات کو جس میں تم نے اختلاف کیا پوچھوں گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے ؟ …“ (التوبہ:19) آخر آیت تک۔

باب : شہادت کی طلب کی ترغیب میں۔

1078: سیدنا سہل بن حُنیفؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ سے سچائی کے ساتھ شہادت مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو شہیدوں کا درجہ دے گا اگرچہ وہ اپنے بچھونے پر ہی فوت ہو۔

باب : اللہ تعالی کی راہ میں شہادت کی فضیلت۔

1079: سیدنا انسؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص جنت میں چلا جائے گا، پھر اس کو دنیا میں آنے کی آرزو نہ رہے گی اگرچہ اس کو ساری زمین کی چیزیں دی جائیں، لیکن شہید پھر آنے کی اور دس بار قتل ہونے کی آرزو کرے گا اس وجہ سے کہ جو انعام و اکرام (شہادت کی وجہ سے ) دیکھے گا۔ (یعنی اس کو بار بار حاصل کرنا چاہے گا)۔

باب : عملوں کا دارو مدار نیت پر ہے۔

1080: سیدنا عمر بن خطابؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اعمال کا اعتبار نیت سے ہے اور آدمی کے واسطے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔ پھر جس کی ہجرت اللہ اور رسول اللہﷺ کے واسطے ہے ، تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لئے ہی ہے اور جس نے ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے نکاح کے لئے کی، تو اس کی ہجرت اسی کے لئے جس مقصد کے لئے اس نے ہجرت کی ہے۔

باب : شہداء سے اللہ تعالیٰ راضی اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی۔

1081: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ کچھ لوگ نبیﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیجیں جو ہمیں قرآن و سنت سکھائیں۔ آپﷺ نے ان کی طرف ستر آدمی انصار میں سے بھیجے ان کو قراء (قاری حافظ لوگ) کہا جاتا تھا اور ان میں میرے ماموں حرامؓ  بھی تھے وہ (قراء) قرآن پڑھتے تھے اور اکٹھے بیٹھ کر رات کو ایک دوسرے کو پڑھاتے اور پڑھتے تھے اور دن کو پانی لا کر مسجد میں رکھ دیتے اور لکڑیاں (جنگل سے )لا کر بیچتے تھے اور (اس قیمت کا) کھانا خریدتے اور اہل صفہ کو کھلاتے تھے۔ پھر نبیﷺ نے ان کو لوگوں کے پاس بھیج دیا (جو تعلیم کے لئے کچھ آدمی مانگتے تھے )۔ لیکن انہوں نے ان قراء کو اس سے پہلے کہ وہ اس علاقے میں جاتے (جس میں ان کو بلایا گیا تھا) شہید کر دیا۔ ان قراء نے کہا ”اللھم بلغ عنا نبینا“ الخ یعنی اے اللہ ہماری طرف سے ہمارے نبی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہم اللہ کو مل گئے ہیں اور ہم اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ ہم سے راضی ہو گیا ہے۔ سیدنا انسؓ  فرماتے ہیں میرے ماموں حرامؓ  کے پاس ایک کافر آیا اور اس نے پیچھے سے ایک نیزہ مارا اور پار کر دیا تو سیدنا حرامؓ  نے کہا” فزت ورب الکعبة“ یعنی کعبہ کے رب کی قسم میں تو کامیاب ہو گیا۔ پھر(جب یہ واقعہ ہو چکا تو )نبیﷺ نے فرمایا: تمہارے (مسلمان)بھائی شہید ہو گئے ہیں اور انھوں نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ ہم اللہ کو مل گئے ہم اللہ سے راضی ہو گئے اور وہ ہم سے راضی ہو گیا۔

باب : شہداء پانچ قسم کے ہیں۔

1082: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک شخص جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں ایک کانٹے دار شاخ دیکھی تو (راستے سے ) ہٹا دی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ دیتے ہوئے اس کو بخش دیا۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ شہید پانچ ہیں۔ جو طاعون (وبا یعنی جو مرض عام ہو جائے اس زمانہ میں طاعون قے و دست سے ہوتا ہے ) سے فوت ہو جائے جو پیٹ کے عارضے سے مرے (جیسے اسہال یا پیچش یا استسقا سے ) اور جو پانی میں ڈوب کر مرے اور جو دب کر مرے اور جو اللہ کی راہ میں مارا جائے۔

باب : طاعون(کی موت)ہر مسلمان کے لئے شہادت کی موت ہے۔

1083: سیدہ حفصہ بنتِ سیرین کہتی ہیں کہ مجھ سے سیدنا انس بن مالکؓ  نے کہا کہ یحییٰ بن ابی عمرہ کس عارضے میں فوت ہوئے ؟ میں نے کہا کہ طاعون سے فوت ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔

باب : قرض کے سوا شہید کا ہر گناہ کر دیا جاتا ہے۔

1084: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: قرض کے سوا شہید کا ہر گنا معاف کر دیا جاتا ہے۔

1085: سیدنا ابو قتادہؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ صحابہؓ میں (خطبہ پڑھنے کو) کھڑے ہوئے اور ان سے بیان کیا کہ تمام اعمال میں افضل (عمل) اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور بولا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جاؤں، تو میرے گناہ مجھ سے مٹا دیئے جائیں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں اگر تو اللہ کی راہ میں مارا جائے ، صبر کے ساتھ اور تیری نیت اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو اور تو (دشمن کے ) سامنے رہے پیٹھ نہ موڑے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے کیا کہا؟ وہ بولا کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جاؤں تو میرے گناہ معاف ہو جائیں گے ؟ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں اگر تو صبر کے ساتھ مارا جائے ، خالص نیت سے اور تیرا منہ سامنے ہو پیٹھ نہ موڑے مگر قرض معاف نہ ہو گا، کیونکہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے اس بات کو بیان کیا ہے۔

باب : جو مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو گیا، وہ شہید ہے۔

1086: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص میرا مال (ناحق) لینے کو آئے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنا مال اس کو نہ دے۔ پھر اس نے کہا کہ اگر وہ مجھ سے لڑے ؟ آپﷺ نے فرمایا تو بھی اس سے لڑ۔ پھر اس نے کہا کہ اگر وہ مجھ کو مار ڈالے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو شہید ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اگر میں اس کو مار ڈالوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں جائے گا۔

باب : اللہ تعالی کے قول ﴿رجال صدقواما عاھدوا الله علیہ﴾ کے متعلق۔

1087: ثابت کہتے ہیں کہ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ میرے چچا جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا ہے (یعنی ان کا نام بھی انس تھا)، رسول اللہﷺ کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اور یہ امر ان پر بہت مشکل گزرا اور انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کی پہلی لڑائی میں غائب رہا اب اگر اللہ تعالیٰ دوسری کسی لڑائی میں مجھے آپﷺ کے ساتھ کر دے ، تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں اور اس کے سوا کچھ اور کہنے سے ڈرے (یعنی کچھ اور دعویٰ کرنے سے کہ میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا کیونکہ شاید نہ ہو سکے اور جھوٹے ہوں)۔ پھر وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ احد کی لڑائی میں گئے۔ راوی کہتا ہے کہ سیدنا سعد بن معاذؓ  ان کے سامنے آئے (اور بخاری کی روایت میں ہے کہ شکست خورد ہو کر)، تو انسؓ  نے ان سے کہا اے ابو عمرو (یہ کنیت سعد بن معاذؓ  کی ہے ) کہاں جاتے ہو؟پھر (ان کا جواب سنے بغیر خود ہی) کہا میں تو اُحد پہاڑ کے پیچھے سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ انسؓ  نے کہا کہ پھر وہ کافروں سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے (لڑائی کے بعد) دیکھا تو ان کے بدن پر اسی (80)سے زائد تلوار، برچھی اور تیر کے زخم تھے۔ ان کی بہن یعنی میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے کہا کہ میں نے اپنے بھائی کو نہیں پہچانا مگر ان کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر (کیونکہ سارا بدن زخموں سے چور چور ہو گیا تھا)۔ اور یہ آیت ”وہ مرد جنہوں نے اپنا اقرار اللہ تعالیٰ سے پورا کیا … بعض تو اپنا کام کر چکے اور بعض انتظار کر رہے ہیں اور نہیں بدلا انہوں نے کچھ بھی بدلنا“ نازل ہوئی۔ صحابہ کہتے تھے کہ یہ آیت انکے اور انکے ساتھیوں کے بارے میں اتری۔

باب : جو شخص اس لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو

1088: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ رسول اللہﷺ! آدمی لوٹ کے لئے لڑتا ہے اور آدمی نام کے لئے لڑتا ہے اور آدمی اپنا مرتبہ دکھانے کو لڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنا کونسا ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو اس لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو، وہ اللہ کی راہ میں لڑتا ہے۔

باب : جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے لڑے۔

1089: سیدنا سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ لوگ سیدنا ابو ہریرہؓ  کے پاس سے جدا ہوئے تو ناتل، جو کہ اہل شام میں سے تھا (ناتل بن قیس خرامی یہ فلسطین کا رہنے والا تھا اور تابعی ہے اس کا باپ صحابی تھا) نے کہا کہ اے شیخ! مجھ سے ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ اچھا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت میں پہلے جس کا فیصلہ ہو گا وہ ایک شخص ہو گا جو شہید ہو گیا تھا۔ جب اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمت اس کو بتلائے گا اور وہ پہچانے گا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے اس کے لئے کیا عمل کیا ہے ؟ وہ بولے گا کہ میں تیری راہ میں لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے جھوٹ کہا۔ تو اس لئے لڑا تھا کہ لوگ تجھے بہادر کہیں۔ اور تجھے بہادر کہا گیا۔ پھر حکم ہو گا اور اس کو اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور ایک شخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا، وہ شخص پہچان لے گا تب کہا جائے گا کہ تو نے اس کے لئے کیا عمل کیا ہے ؟ وہ کہے گا کہ میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے تو نے اس لئے علم پڑھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن تو نے اس لئے پڑھا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں، دنیا میں تجھ کو عالم اور قاری کہا گیا۔ پھر حکم ہو گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور ایک شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال دیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا اور وہ پہچان لے گا، تو اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے اس کے لئے کیا عمل کئے ؟ وہ کہے گا کہ میں نے تیرے لئے مال خرچ کرنے کی کوئی راہ ایسی نہیں چھوڑی جس میں تو خرچ کرنا پسند کرتا تھا مگر میں نے اس میں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے ، تو نے اس لئے خرچ کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو لوگوں نے تجھے دنیا میں سخی کہہ دیا پھر حکم ہو گا اور اسے منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

باب : (اللہ کی راہ میں )شہید کئے جانے پر بہت زیادہ ثواب۔

1090: سیدنا براءؓ  کہتے ہیں کہ بنی نبیت (جو انصار کا ایک قبیلہ ہے ) کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپﷺ اس کے بندے اور اس کے پیغام پہنچانے والے ہیں۔ پھر آگے بڑھا اور لڑتا رہا، یہاں تک کہ مارا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس نے عمل تھوڑا کیا اور ثواب بہت پایا۔

باب : جو جہاد کرے پھر نقصان اٹھائے یا غنیمت حاصل کرے۔

1091: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی لشکر یا فوج کا ٹکڑا جہاد کرے ، پھر غنیمت حاصل کرے اور سلامت رہے ، تو اس کو آخرت کے ثواب میں سے دو تہائی دنیا میں مل گیا اور جو لشکر یا فوج کا ٹکڑا خالی ہاتھ آئے اور نقصان اٹھائے (یعنی زخمی ہو جائے یا مارا جائے )، تو اس کو آخرت میں پورا ثواب ملے گا۔

باب : اس آدمی کا ثواب، جس نے غازی کا ساز و سامان تیار کر کے دیا۔

1092: سیدنا زید بن خالد جہنیؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جس نے کسی غازی کا اللہ کی راہ میں سامان کر دیا، اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھر بار کی خبر رکھی، اس نے بھی جہاد کیا (یعنی اس نے جہاد کا ثواب کمایا)۔

باب : جس نے سامان جہاد اکٹھا کیا، پھر بیمار ہو گیا، تو اس کو چاہیئے کہ وہ سامان اس آدمی کے حوالہ کرے جو جہاد کا ارادہ رکھتا ہو۔

1093: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کے ایک جوان نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں اور میرے پاس سامان نہیں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ فلاں کے پاس جاؤ اس نے جہاد کا سامان کیا تھا مگر وہ شخص بیمار ہو گیا۔ وہ اس شخص کے پاس گیا اور کہا کہ رسول اللہﷺ نے تجھے سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ سامان مجھے دیدے۔ اس نے (اپنی بی بی یا لونڈی سے کہا کہ)اے فلانی! وہ سب سامان اس کو دیدے اور کوئی چیز مت رکھ اللہ کی قسم کوئی چیز نہ رکھ کیونکہ تیرے لئے اس میں برکت ہو گی۔

باب : مجاہدین کی عورتوں کی عزت و حرمت اور جو مجاہد کے پیچھے اس کے گھر میں خلیفہ بنتا ہے ، پھر اس کی خیانت کرتا ہے (اس کا گناہ)۔

1094: سیدنا سلیمان بن بریدہ اپنے والدؓ  سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجاہدین کی عورتوں کی حرمت گھر میں رہنے والوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت اور جو شخص گھر میں رہ کر کسی مجاہد کے گھر بار کی خبر گیری کرے ، پھر اس میں خیانت کرے ، تو وہ قیامت کے دن کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے کا کہ اس کے عمل میں سے جو چاہے لے لے۔ (پھر آپﷺ نے فرمایا کہ) تمہارا کیا خیال ہے ؟

باب : نبیﷺ کے فرمان کہ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا…“ کے متعلق۔

1095: سیدنا ثوبانؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے (یعنی قیامت) اور وہ اسی حال میں ہوں گے (یعنی غالب اور حق پر ہوں گے )۔

1096: سیدنا عبدالرحمن بن شماسہ مہری کہتے ہیں کہ میں مسلمہ بن مخلد کے پاس بیٹھا تھا اور ان کے پاس سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  بھی تھے۔ عبد اللہؓ  نے کہا کہ قیامت قائم نہ ہو گی مگر بدترین مخلوق پر اور وہ بدتر ہوں گے جاہلیت والوں سے۔ اللہ تعالیٰ سے جس بات کی دعا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو دیدے گا۔ وہ اسی حال میں تھے کہ سیدنا عقبہ بن عامرؓ  آئے تو مسلمہ نے ان سے کہا کہ اے عقبہ! تم نے سنا کہ عبد اللہ کیا کہتے ہیں؟ عقبہؓ  نے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، لیکن میں نے تو رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ میری امت کا ایک گروہ یا ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر لڑتی رہے گی، اور اپنے دشمن پر غالب رہے گی جو کوئی ان کی مخالفت کرے گا ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ بیشک (نبیﷺ نے ایسا فرمایا) پھر اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جس میں مشک کی سی بو ہو گی اور ریشم کی طرح بدن پر لگے گی، وہ کسی شخص کو نہ چھوڑے گی جس کے دل میں ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا مگر اس کو موت آ جائے گی۔ اس کے بعد سب بُرے (کافر) لوگ رہ جائیں گے ، انہی پر قیامت قائم ہو گی۔

1097: فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہمیشہ مغرب والے (یعنی عرب یا شام والے ) حق پر غالب رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو گی۔

باب : (ان) دو آدمیوں کے بارے میں کہ ایک نے دوسرے کو قتل کیا (لیکن) دونوں جنت میں جائیں گے۔

1098: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل دو شخصوں کو دیکھ کر ہنستا ہے کہ ایک نے دوسرے کو قتل کیا، پھر دونوں جنت میں گئے لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ کیسے ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوا۔ اب جس نے اس کو شہید کیا تھا، وہ مسلمان ہوا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑا اور شہید ہوا۔

باب : جو کافر کو قتل کرے ، پھر نیکی پر قائم رہے ، (تو) وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔

1099: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دونوں جہنم میں اس طرح اکٹھا نہ ہوں گے کہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچا دے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان کافر کو قتل کرے ، پھر نیکی پر قائم رہے۔

باب : اللہ تعالیٰ کی راہ میں سواری دینے کی فضیلت۔

1100: سیدنا ابو مسعود انصاریؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک اونٹنی نکیل سمیت لایا اور کہنے لگا کہ یہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے بدلے تجھے قیامت کے دن نکیل پڑی ہوئی سات سو اونٹنیاں ملیں گی۔

1101: سیدنا ابو مسعود انصاریؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرا (سواری کا) جانور جاتا رہا، اب مجھے سواری دیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے۔ ایک شخص بولا یا رسول اللہﷺ! میں اسے وہ شخص بتلا دوں جو سواری دے گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی نیکی کی راہ بتائے ، اس کو اتنا ہی ثواب ہے جتنا نیکی کرنے والے کو ہے۔

باب : اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ﴾ کے متعلق۔

1102: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر اللہ تعالیٰ کے فرمان ”کافروں کے لئے زور کی تیاری کرو جتنی طاقت ہو“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سنا۔ آپ فرما رہے تھے ” خبردار رہو کہ زور سے مراد تیر اندازی ہے ، خبردار رہو کہ زور سے مراد تیر اندازی ہے (پھر) خبردار رہو کہ زور سے مراد تیر اندازی ہے “۔

باب : تیر اندازی (نشانہ بازی) کی ترغیب کے بیان میں۔

1103: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ (چند روز میں) عنقریب کئی ملک تمہارے ہاتھ پر فتح ہوں گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کافی ہو جائے گا پھر کوئی تم میں سے اپنے تیروں کا کھیل نہ چھوڑے (یعنی نشانہ بازی سیکھے : پستول سے ، کلاشنکوف سے ، راکٹ اور میزائل وغیرہ سے )۔

1104: سیدنا عبدالرحمن بن شماسہ سے روایت ہے کہ فقیم لخمی نے سیدنا عقبہ بن عامرؓ  سے کہا کہ اس بڑھاپے میں تم ان دونوں نشانوں میں آتے جاتے ہو، تم پر مشکل ہوتاہو گا۔ سیدنا عقبہؓ  نے کہا کہ اگر میں نے رسول اللہﷺ سے ایک بات نہ سنی ہوتی، تو میں یہ مشقت نہ اٹھاتا۔ حارث نے کہا کہ میں نے ابن شماسہ سے پوچھا کہ وہ کیا بات تھی؟ انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے فرمایا: جو کوئی نشانہ بازی سیکھ کر چھوڑ دے ، وہ ہم میں سے نہیں ہے یا گنہگار ہے۔

باب : قیامت تک گھوڑوں کی پیشانی میں خیر و برکت موجود ہے۔

1105: سیدنا جریر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، آپﷺ ایک گھوڑے کی پیشانی کے بال انگلی سے مل رہے تھے اور فرماتے تھے کہ گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک برکت بندھی ہوئی ہے یعنی ثواب اور غنیمت (دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی)۔

1106: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانیوں میں برکت ہے۔

باب : اشکل گھوڑے کی کراہیت میں۔

1107: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اشکل گھوڑے کو بُرا جانتے تھے۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ اشکل گھوڑا وہ ہے جس کا داہنا پاؤں اور بایاں ہاتھ سفید ہو یا داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں سفید ہو۔ (اور اہل لغت کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اشکل اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کے تین پاؤں سفیدی والے ہوں اور پر سفیدی نہ ہو)۔

باب : گھوڑ دوڑ اور گھوڑوں کو مضمر کرنا۔

1108: سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان تضمیر شدہ گھوڑوں کی حفیا سے ثنیۃالوداع تک دوڑ کرائی (ان دونوں مقاموں میں پانچ یا چھ میل کا فاصلہ ہے اور بعض نے کہا کہ چھ یا سات میل کا) اور غیر تضمیر شدہ گھوڑوں دوڑ ثنیۃ  سے بنی زریق کی مسجد تک مقرر کی اور سیدنا ابن عمرؓ  ان لوگوں میں تھے جنہوں نے گھوڑ سواری میں مقابلہ کیا تھا۔

باب : ان لوگوں کے متعلق جو عذر کی وجہ سے (جہاد سے ) پیچھے رہ گئے اور اللہ تعالیٰ کے قول کے ﴿لَا یَسْتَوی الْقَاعِدُوْنَ …﴾کے متعلق۔

1109: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا براءؓ  سے سنا وہ اس آیت ”گھر بیٹھنے والے اور لڑنے والے مسلمان برابر نہیں ہیں (یعنی لڑنے والوں کا درجہ بہت بڑا ہے )“ کے بارے میں کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا زید کو حکم دیا وہ ایک ہڈی لے کر آئے اور اس پر یہ آیت لکھی۔ تب سیدنا عبد اللہ بن اُمّ مکتوم نے اپنی نابینائی کی شکایت کی (یعنی میں اندھا ہوں اس لئے جہاد میں نہیں جا سکتا تو میرا درجہ گھٹا رہے گا) اس وقت یہ الفاظ اترے ”وہ لوگ جو معذور نہیں ہیں“ ( اور معذور تو درجہ میں مجاہدین کے برابر ہوں گے )۔

باب : جس کو بیماری نے جہاد سے روکے رکھا۔

1110: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ ایک لڑائی میں تھے کہ آپﷺ نے فرمایا: مدینہ میں چند لوگ ایسے ہیں جب تم چلتے ہو یا کسی وادی کو طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہیں (یعنی ان کو وہی ثواب ہوتا ہے جو تم کو ہوتا ہے ) (یہ وہ لوگ ہیں) جو بیماری کی وجہ سے تمہارے ساتھ نہ آ سکے۔