فہرست مضامین
- محبت دعائیں دیتی ہیں
- میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا
- گھنگرو ٹوٹ گئے
- عجیب لوگ
- گرمیِ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
- حالات کے قدموں ٍ پہ قلندر نہیں گرتا
- یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں
- اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
- حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
- اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو
- ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
- ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے
- درد سے میرا دامن بھر دے، یا اللہ !
- نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
- دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایا نہ تھا
- رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
- تہہ میں جو رہ گئے وہ موتی نکالئے
- منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے
- ہر طرف سطوت ارژنگ دکھائی دے گی
- بتاؤ کیا خریدو گے؟
- بول سمندر
محبت دعائیں دیتی ہیں
قتیل شفائی
جمع و ترتیب : اعجاز عبید
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے
زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیل جان سے جائے پر التجا نہ کرتے
٭٭٭
کھلا ہے جھوٹ کا بازار ، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار ، آؤ سچ بولیں
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقع اظہار ، آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنامِ عظمت کردار ، آؤ سچ بولیں
سنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی منصف ہے
پکار کر سرِ دربار ، آؤ سچ بولیں
تمام شہر میں ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار ، آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار ، آؤ سچ بولیں
چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئینہ بردار ، آؤ سچ بولیں
قتیل جن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کدھر گئے وہ گنہ گار، آؤ سچ بولیں
٭٭٭
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا
تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے
اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے
تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا
٭٭
اپنے جذبات میں نغمات رچانے کے لیے
میں نے دھڑکن کی طرح دل میں بسایا ہے تجھے
میں تصور بھی جدائی کا بھلا کیسے کروں
میں نے قسمت کی قسمت کی لکیروںسے چرایا ہے تجھے
پیار کا بن کے نگہبان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا
٭٭
تیری ہر چاپ سے جلتے ہیں خیالوںمیں چراغ
جب بھی تو آئے جگاتا ہوا جادو آئے
تجھ کو چھو لوںتو پھر اے جانِ تمنا مجھ کو
دیر تک اپنے بدن سے تری خوشبو آئے
تو بہاروں کا ہے عنوان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا
٭٭
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا !
٭٭٭
تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیل اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے
٭٭٭
پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمیں پر رات بھاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
تمہیں کیا! آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
یہ کیسی راز داری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
٭٭٭
گھنگرو ٹوٹ گئے
مجھے آئی نہ جگ سے لاج
— میں اتنے زور سے ناچی آج
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
کچھ مجھ پہ نیا جوبن بھی تھا
کچھ پیار کا پاگل پن بھی تھا
کبھی پلک پلک مری تیر بنی
کبھی زلف مری زنجیر بنی
لیا دل ساجن کا جیت –
وہ چھیڑے پایلیا نے گیت
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
میں بسی تھی جس کے سپنوں میں
وہ گِنے گا اب مجھے اپنوں میں
کہتی ہے مری ہر انگڑائی
میں پیا کی نیند چُرا لائی
میں بن کے گئی تھی چور—
مگر مری پایل تھی کمزور
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
دھرتی پہ نہ میرے پیر لگیں
بِن پیا مجھے سب غیر لگیں
مجھے رنگ ملے ارمانوں کے
مجھے پنکھ لگے پروانوں کے
جب ملا پیا کا گاؤں —
تو ایسا لچکا میرا پاؤں
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
٭٭٭
رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں
ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں
اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں
حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں
جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
وہ خدا ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو نہ کلیساؤں میں
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
مجھ سے کرتے ہیں قتیلؔ اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں مرے شعر ہیں مقبول حسیناؤں میں
٭٭٭
ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے
ہم جب اس کے سحر سے نکلے سب راستے ساتھ لائے تھے
جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اپنے دل میں ساری رات
پیار کی باتیں کرتے کرتے اس کے نین بھر آئے تھے
میرے اندر چلی تھی آندھی ٹھیک اسی دن پت جھڑ کی
جس دن اپنے جوڑے میں اس نے کچھ پھول سجائے تھے
اس نے کتنے پیار سے اپنا کفر دیا نذرانے میں
ہم اپنے ایمان کا سودا جس سے کرنے آئے تھے
کیسے جاتی میرے بدن سے بیتے لمحوں کی خوشبو
خوابوں کی اس بستی میں کچھ پھول میرے ہمسائے تھے
کیسا پیارا منظر تھا جب دیکھ کے اپنے ساتھی کو
پیڑ پہ بیٹھی اک چڑیا نے اپنے پر پھیلائے تھے
رخصت کے دن بھیگی آنکھوں اس کا وہ کہنا ہائے قتیل
تم کو لوٹ ہی جانا تھا تو اس نگری کیوں آئے تھے
٭٭٭
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
پہلے مزاجِ راہ گزر جان جائیے
پھر گردِ راہ جو بھی کہے مان جائیے
کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں
میری سنیں تو دل کا کہا مان جائیے
اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس
یہ آپ ہیں تو آپ پہ قربان جائیے
شاید حضور سے کوئی نسبت ہمیں بھی ہو
آنکھوں میں جھانک کر ہمیں پہچان جائیے
٭٭٭
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی
جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا اِن سے بھی منہ پھیرو گے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی
کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشا جی
تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشا جی
بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشا جی
اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھُلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشا جی
نہیں صرف قتیل کی بات یہاں، کہیں ساحرؔ ہے کہیں عالیؔ ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی
٭٭٭
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
ایک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
ہر آنگن میں سجے نہ تیرے اجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال
بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ہرنی جیسی چال
بیچ میں رنگ محل ہے تیرا کھائی چاروں اور
ہم سے ملنے کی اب گوری تو ہی راہ نکال
یہ دنیا ہے خود غرضوں کی لیکن یار قتیل
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جئے ہزاروں سال
٭٭٭
ہاتھ دیا اس نے جب مرے ہاتھ میں
میں تو ولی بن گیا اک رات میں
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں
شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی
درد مہکنے لگا جذبات میں
ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں
ربط بڑھایا نہ قتیل اس لیے
فرق تھا دونوں کے خیالات میں
٭٭٭
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
وہ میرا دوست ہے سارے جہاںکو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
٭٭٭
عجیب لوگ
اداسی کے ہزاروں زاویے ہیں
تجھے دیکھوں میں کس کس زاویے سے
ترے چہرے پہ سرسوں پھولتی ہے
مری آنکھوں میں جلتے ہیں دیے سے
مگر وہ لوگ بھی مجھ سے ملے ہیں
جو روئے ہیں نہ جن کے لب ہلے ہیں
٭٭٭
گرمیِ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیال سے ہم
شعلۂ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
٭٭٭
حالات کے قدموں ٍ پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا
حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندۂ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمۂ تر پر نہیں گرتا
کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
٭٭٭
یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلا گیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے اپنا ہاتھ جلاؤں میں
سنتا ہوں اب کسی سے وفا کر رہا ہے وہ
اے زندگی خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں
اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی
عہد فراق آ کہ تجھے آزماؤں میں
بدنام میرے قتل سے تنہا تو ہی نہ ہو
لا اپنی مہر بھی سر محضر لگاؤں میں
اُس جیسا نام رکھ کے اگر آئے موت بھی
ہنس کر اُسے قتیل گلے لگاؤں میں
٭٭٭
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں
کوئی آنسو تیرے دامن پر گرا کر
بُوند کو موتی بنانا چاہتا ہوں
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں
چھا رہا ہے ساری بستی میں اندھیرا
روشنی کو، گھر جلانا چاہتا ہوں
آخری ہچکی ترے زانو پہ آئے
موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں
٭٭٭
حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے
ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن
نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے
نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کو
وہ جلوہ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو کیا کیجے
ترے ملنے سے جو مجھ کو ہمیشہ منع کرتا ہے
اگر وہ بھی ترا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجے
خدا کا گھر سمجھ رکّھا ہے اب تک ہم نے جس دل کو
قتیل اس میں بھی اک بُتخانہ بن جائے تو کیا کیجے
٭٭٭
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں گر پھول تو جُوڑے میں سجا لے مجھ کو
میں کھُلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو
ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے، مجھ کو
مجھ سے تُو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے ترا، آج ستا لے مجھ کو
باندھ کر سنگِ وفا کر دیا تو نے غرقاب
کون ایسا ہے جو اب ڈھونڈ نکالے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیل
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
٭٭٭
ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو
یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
انسان کا اگر قد و قامت نہ بڑھ سکے
تم اِس کو نقصِ آب و ہوا کہہ لیا کرو
اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجات ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو
لے دے کے اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیل
جب دِل جلے تو اُس کو دیا کہہ لیا کرو
٭٭٭
ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے
ہم جب اس کے سحر سے نکلے سب راستے ساتھ لائے تھے
جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اپنے دل میں ساری رات
پیار کی باتیں کرتے کرتے اس کے نین بھر آئے تھے
میرے اندر چلی تھی آندھی ٹھیک اسی دن پت جھڑ کی
جس دن اپنے جوڑے میں اس نے کچھ پھول سجائے تھے
اس نے کتنے پیار سے اپنا کفر دیا نذرانے میں
ہم اپنے ایمان کا سودا جس سے کرنے آئے تھے
کیسے جاتی میرے بدن سے بیتے لمحوں کی خوشبو
خوابوں کی اس بستی میں کچھ پھول میرے ہمسائے تھے
کیسا پیارا منظر تھا جب دیکھ کے اپنے ساتھی کو
پیڑ پہ بیٹھی اک چڑیا نے اپنے پر پھیلائے تھے
رخصت کے دن بھیگی آنکھوں اس کا وہ کہنا ہائے قتیل
تم کو لوٹ ہی جانا تھا تو اس نگری کیوں آئے تھے
٭٭٭
درد سے میرا دامن بھر دے، یا اللہ !
پھر چاہے دیوانہ کر دے یا اللہ !
میں نے تجھ سے چاند ستارے کب مانگے
روشن دل، بیدار نظر دے، یا اللہ !
سورج سی اک چیز تو ہم سب دیکھ چکے
سچ مچ کی اب کوئی سحر دے، یا اللہ !
یا دھرتی کے زخموں پر مرہم رکھ دے
یا میرا دل پتھر کر دے، یا اللہ !
٭٭٭
نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں
کیا خبر کب کسی انسان پہ چھت آن گرے
قریۂ سنگ ہے اور کانچ کی تعمیریں ہیں
لُٹ گئے مفت میں دونوں، تری دولت مرا دل
اے سخی! تیری مری ایک سی تقدیریں ہیں
ہم جو ناخواندہ نہیں ہیں تو چلو آؤ پڑھیں
وہ جو دیوار پہ لکھی ہوئی تحریریں ہیں
ہو نہ ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیل
جس کے ہاتھوں میں قلم پاؤں میں زنجیریں ہیں
٭٭٭
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایا نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
کیا ملا آخر تجھے، سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دلِ ناداں، تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا
اف یہ سناٹا کہ آہٹ تک نہ ہو جو جس میں مخل
زندگی میں اس قدر ہم نے سکوں پایا نہ تھا
خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم
حال دل کہنے کے قابل کوئی ہمسایا نہ تھا
ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے، اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا
وہ پیمبر ہو کہ عاشق، قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا
صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیل
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
٭٭٭
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
غم لکھے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
دشمنی دھوپ کی ہے سایۂ دیوار کے ساتھ
کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں
غمِ ہستی بھی تو شامل ہے غم یار کے ساتھ
لفظ چنتا ہوں تو مفہوم بدل جاتا ہے
اک نہ اک خوف بھی ہے جرأتِ اظہار کے ساتھ
بخش دے مجھ کو بھی اعزاز مسیح و منصور
میں نے بھی پیار کیا ہے رسن و دار کے ساتھ
دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری، صیاد! مگر پیار کے ساتھ
دو گھڑی آؤ مل آئیں کسی غالب سے قتیلؔ
حضرت ذوقؔ تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ
٭٭٭
تہہ میں جو رہ گئے وہ موتی نکالئے
طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالئے
اپنی حدوں میں رہئے کہ رہ جائے آبرو
اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالئے
خوشبو تو مدتوں کی زمیں دوز ہو چکی
اب صرف پتیوں کو ہوا میں اچھالئے
صدیوں کا فرق پڑتا ہے لمحوں کے پھیر میں
جو غم ہے آج کا اسے کل پر نہ ٹالئے
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لئے
کہہ دو صلیب شب سے کہ اپنی منائے خیر
ہم نے تو پھر چراغ سروں کے جلا لئے
دنیا کی نفرتیں مجھے قلاش کر گئیں
اک پیار کی نظر مرے کاسے میں ڈالئے
محسوس ہو رہا ہے کچھ ایسا مجھے قتیلؔ
نیندوں نے جیسے آج کی شب پر لگا لئے
٭٭٭
منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے
نیندیں چرا رہے ہیں وہ جھونکے ہواؤں کے
تیری گلی سے چاند زیادہ حسیں نہیں
کہتے سنے گئے ہیں مسافر خلاؤں کے
پل بھر کو تیری یاد میں دھڑکا تھا دل مرا
اب دور تک بھنور سے پڑے ہیں صداؤں کے
داد سفر ملی ہے کسے راہ شوق میں
ہم نے مٹا دئیے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے
جب تک نہ کوئی آس تھی، یہ پیاس بھی نہ تھی
بے چین کر گئے ہمیں سائے گھٹاؤں کے
ہم نے لیا ہے جب بھی کسی راہزن کا نام
چہرے اتر اتر گئے کچھ رہنماؤں کے
اُگلے گا آفتاب کچھ ایسی بلا کی دھوپ
رہ جائیں گے زمین پہ کچھ داغ چھاؤں کے
٭٭٭
ہر طرف سطوت ارژنگ دکھائی دے گی
رنگ برسیں گے زمیں دنگ دکھائی دے گی
بارش خون شہیداں سے وہ آئے گی بہار
ساری دھرتی ہمیں گلرنگ دکھائی دے گی
پربتوں سے نکل آئیں گے تھرکتے پیکر
نغمہ زن، خامشی سنگ دکھائی دے گی
راز میں رہ نہ سکے گی کوئی اظہار کی لے
اک نہ اک صورت ماہنگ دکھائی دے گی
سوچ کو جرات پرواز تو مل لینے دو
یہ زمیں اور ہمیں تنگ دکھائی دے گی
تاج کانٹوں کا سہی ایک نہ ایک دن لیکن
عاشقی زینتِ اور نگ دکھائی دے گی
جب بھی ہر کھے گا کوئی پیار کے معیار قتیل
ساری دنیا مرے پاسنگ دکھائی دے گی
٭٭٭
بتاؤ کیا خریدو گے؟
جوانی، حسن، غمزے، عہد، پیماں، قہقہے، نغمے
رسیلے ہونٹ، شرمیلی نگاہیں، مرمریں بانہیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
بھرے بازو، گٹھیلے جسم، چوڑے آہنی سینے
بلکتے پیٹ، روتی غیرتیں، سہمی ہوئی آہیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
زبانیں، دل، ارادے، فیصلے، جانبازیاں، نعرے
یہ آئے دن کے ہنگامے، یہ رنگا رنگ تقریریں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
صحافت، شاعری، تنقید، علم و فن، کتب خانے
قلم کے معجزے، فکرو نظر کی شوخ تصویریں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
اذانیں، سنکھ، حجرے، پاٹھ شالے، داڑھیاں، قشقے
یہ لمبی لمبی تسبیحیں، یہ موٹی موٹی مالائیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
علی الاعلان ہوتے ہیں یہاں سودے ضمیروں کے
یہ وہ بازار ہے جس میں فرشتے آ کے بک جائیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
٭٭٭
بول سمندر
بول سمندر بول کہ تجھ میں کتنا پانی
جتنا تجھ میں اتریں اتنی بڑھ جائے حیرانی
بول سمندر بول کہ تجھ میں کتنا پانی
اوپر اوپر چپ چپ رہنا
اندر اندر چھپ چھپ بہنا
لیکن پونم رات جب آئے تب کرنا من مانی
بول سمندر بول کہ تجھ میں کتنا پانی
سیڑھی تجھ میں کون لگائے
کوئی تیری تھاہ نہ پائے
ہر اک راہ کٹھن ہے تیری ہر منزل طوفانی
بول سمندر بول کہ تجھ میں کتنا پانی
جھانک ذرا تو میرے اندر
میرا من بھی ایک سمندر
فرق ہے اتنا تجھ میں پانی مجھ میں ہے حیرانی
بول سمندر بول کہ تجھ میں کتنا پانی
٭٭٭
نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے
اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے
کیا ملے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے
سب نے پہنا تھا بڑے شوق سے کاغذ کا لباس
جس قدر لوگ تھے بارش میں نہانے والے
مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے
در و دیوار پہ حسرت سی برستی ہے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے
٭٭٭
ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو
یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
انسان کا اگر قد و قامت نہ بڑھ سکے
تم اِس کو نقصِ آب و ہوا کہہ لیا کرو
اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجات ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو
لے دے کے اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیل
جب دِل جلے تو اُس کو دیا کہہ لیا کرو
٭٭٭
ٍوعدۂ حور پہ بہلاۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
خاک بولے گے کہ دفناۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
یوں ہر اک ظلم پہ دم سدھے کھڑے ہیں
جیسے دیوار میں چنواۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
اُس کی ہر بات لبیک بھلا کیوں نہ کہیے؟
زر کی جھنکار پہ بُلواۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
جس کا جی چاہے وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگواۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
ہنسی آۓ بھی تو ہنستے ہوۓ ڈر لگتا ہے
زندگی یوں تیرے زخماۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
آسماں اپنا، زمیں اپنی نہ سانس اپنی تو پھر
جانے کیس بات پہ اِتراۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
جس طرح چاہے بنا لے ہمیں وقت قتیل
درد کی آنچ پہ پگلاۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
٭٭٭
ماخذ: اور دوسری ویب سائٹس تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
قتیل شفائی کوئی لفظ نہیں بہت اعلٰی
قتیل ؔ نام ہے اس ٹھنڈک کا جو خوشبو کے احساس سے پیدا ہوتی ہے اور اپنے نے اس صفحہ کی گود میں جتنے جتن کے ساتھ اس ٹھنڈک کو اکٹھا کیا ہے یہ لائقِ تحسین ہے۔۔۔۔۔۔سدا خوش رہیے۔۔۔محمد ندیم۔۔۔۔ایم اے اردو۔۔۔۔۔
ستائش، حیرانی اور افسوس کے ملے جلے احساسات کے ساتھ آپکا بہت شکریہ کہ اتنی خوبصورت کوشش آپ نے کی اور قتیل صاحب کی شعری میں سے کچھ منتخب کر کے یہاں لکھا۔ مہربانی۔ ستائش اسی بات کی کہ آپ نے بھولے بسرے نغموں کی طرح قتیل صاحب کی شاعری کو منتخب کیا ، حیرانی اس امر پر کہ کسی نے بھی دو لفظ آپکی حوصلہ افزائی کے لیئے رقم نہیں کیئے اور اسی بات کا افسوس بھی۔
سلامت رہیئے اور اسی طرح کچھ اور شہہ پارے لکھیئے