ٹی وی سیرئل
(اسکرپٹ اور اسکرین پلے)
فہرست مضامین
- ماہ پارہ نور
- ٹی وی سیریل : ماہ پارہ نور
- خلاصہ
- ایپی سوڈ۔ ۱ (
- ماہپارہانکاسردEpisode:1)
- EPISODE NO.2
- EPISODE NO.3
- EPISODE NO.4
- Episode 5
- Episode ۔ 6
- Episode ۔ 7
ماہ پارہ نور
حصہ اول
غیاث الرحمان
ٹی وی سیریل : ماہ پارہ نور
اردو ادب کی تمام نثری اصناف میں ’’اسکرپٹ رائٹنگ‘‘ کی صنف سب سے کم عمر ہے۔ چونکہ یہ نئی صنف ہے اور اس صنف میں لکھنے والے بھی بہت کم ہیں اور پڑھنے والے تو شاذو نادر ہی ملیں گے۔ اس لیے اس صنف کو ابھی اتنی مقبولیت نہیں ملی جتنی کہ اردو کی دیگر نثری اصناف کو حاصل ہے اسکرپٹ رائٹنگ دراصل کسی مقصدسے کی جاتی ہے؟ اس کا اصل مقصد فلم بنانا یا سیریل تیار کرنا ہوتا ہے۔ وہ کام پورا ہو جائے تو پھر اس مخصوص تحریر کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے اسکرپٹ شائع بھی نہیں ہوتی اور چونکہ اسکرپٹ کہیں رسالوں یا کتابوں میں شائع نہیں ہوتی تو اردو کے تمام قارئین کی نظروں سے بھی نہیں گزرتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسکرپٹ رائٹنگ کے فن پر کہیں کسی ادبی محفل میں کوئی گفتگو بھی نہیں ہوتی ہے اور یہ فن ابھی تک نقادوں کی زد میں نہیں آیا۔ ورنہ اس کے بھی اصول و ضوابط مرتب ہو چکے ہوتے۔ ابھی تک چونکہ اس تحریری عمل کے کوئی خاص اصول و ضوابط طے نہیں ہیں اس لیے یہ فن بالکل ہی آزاد ہے اور ہر اسکرپٹ رائٹر اپنی مرضی و مقصد کے تحت اپنی صلاحیتوں اور انداز تحریر کے مطابق مخصوص ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اسکرپٹ لکھتا ہے۔ پھر اس میں صرف رائٹر یا قلم کار کی مرضی یا چاہت کا پورا دخل نہیں ہوتا بلکہ اسکرپٹ رائٹر کو جگہ جگہ پروڈیوسر ، ڈائریکٹر اور دیگر حضرات کے چاہے ان چاہے مشہوروں کے مطابق اپنی اسکرپٹ میں رد و بد ل کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکرپٹ رائٹنگ کے فن میں آمد کا کوئی دخل نہیں یہ سارا کاسارا عمل آورد کی کارفرمائی ہے۔ قلم کار کو دل چاہے یا نہ چاہے دوسروں کی مرضی کے مطابق اپنی تحریر کو موڑنا پڑتا ہے اور قدم قدم پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ، تاہم اچھے اسکرپٹ رائٹر اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اس فن میں چابکدستی دکھا جاتے ہیں۔
اسکرپٹ رائٹنگ کا صرف اور صر ف پیسہ کمانا مقصد ہوتا ہے، اس سے کسی طرح کی شہرت ، عزت یا بلندیِ وقار کے بار ے میں سوچنا حماقت ہے میری نظر میں اسکرپٹ رائٹنگ ایک مزدوری سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ عمل ایک اچھا ذریعۂ معاش ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس میں جسمانی محنت سے زیادہ ذہنی اور فکری صلاحیتیں کار فرماں ہوتی ہیں۔ان مزدوروں کی زیادہ پذیرائی ہوتی ہے جو زیادہ محنت اور ایمان داری سے کام کرتے ہیں۔اس عمل میں بھی وہی رائٹر س کامیاب ہوتے ہیں جو رڈائریکٹرس ، پروڈیوسرس کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ایسے رائٹرس کو کام بھی زیادہ ملتا ہے اور پیسہ بھی۔ یہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی قلم کار اگر اچھا افسانہ نگار یا ناول نگار ہے تو وہ اچھا اسکرپٹ رائٹر بھی ہو۔ بلکہ اسکرپٹ رائٹنگ کی صلاحیتیں کسی بھی ایک عام انسان میں پنپ سکتی ہیں۔تاہم اس فن کے لیے تخلیقی ذہن ہونا انتہائی ضروری ہے ، پھر بھی اسکرپٹ رائٹنگ کا عمل سیکھنے سے آ سکتا ہے جبکہ دوسری تخلیقات سیکھنے سے نہیں آ سکتیں۔
اسکرپٹ رائٹنگ کسی نہ کسی مقصد کے لیے کی جاتی ہے۔ خواہ ریڈیو کے لیے ہو ، ٹیلی ویژن کے لیے ہو یا فلم کے لیے۔ ویسے اسکرپٹ رائٹنگ کی اولین شکل ڈرامہ نگاری ہے اس میں بھی کتابی ڈرامہ اور اسٹیج ڈرامہ دو الگ الگ اضاف ہیں کسی بھی ڈرامے کو اگر اسٹیج کرنا چاہیں تو اس کے لیے اسکرپٹ تیار کرنا ہوتی ہے۔ اسکرپٹ دراصل ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر اس چیز کا عکس موجود ہوتا ہے جو آپ اسٹیج پر یا فلم میں دکھانا چاہتے ہیں۔اس لیے ایک اسکرپٹ رائٹر کو بیک وقت کئی صلاحیتوں کا ماہر ہونا چاہے۔تبھی وہ ایک اچھا اسکرپٹ رائٹر بن سکتا ہے۔ اسکرپٹ لکھتے وقت قلم کار کے اندر کئی فنکار موجود ہوتے ہیں اس کو بیک وقت پرڈیوسر اور ڈائریکٹر کی حیثیت بھی اختیار کرنی ہوتی ہے ، وہ ایک کیمرہ مین بھی ہوتا ہے۔وہ تصّورات میں فلم کے مختلف کردار بھی نبھا رہا ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں ایک اچھا اسکرپٹ رائٹر ، لائٹ مین (Costume Designer)کاسٹیوم ڈیزائنز اور فلور منیجر کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہا ہوتا ہے، تب جا کے اچھی اسکرپٹ تیار ہوسکتی ہے۔
یہ واضح رہے کہ ہر میڈیم کے لیے اسکرپٹ رائٹنگ کا عمل اور فن جداگانہ ہوتا ہے یعنی جو اسکرپٹ اسٹیج کے لیے تیار کی گئی ہے وہ ریڈیو میں کام نہیں آئے گی۔ اس طرح فلم کی اسکرپٹ میں اور ٹیلی ویژن کی اسکرپٹ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ پھر ایک میڈیم میں الگ الگ (Format)فارمیٹ کے لیے الگ انداز سے اسکرپٹ تیار کی جاتی ہیں۔ مثلاً ٹیلی ویژن میں ڈاکیومینٹری (Documentary)الگ فارمیٹ ہے، ٹیلی فلم الگ فارمیٹ ہے اور سیریل الگ فارمیٹ ہے اور ان کی اسکرپٹ میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ سب کا انداز الگ الگ ہوتا ہے۔جس طرح ڈاکیومینٹری میں زیادہ زور ریسرچ یا تحقیق پر دیا جاتا ہے اور دستاویز حاصل کیے جاتے ہیں پھر اکثر ڈاکیومینٹری فلم شوٹ کر لی جاتی ہے۔ پھر ان فوٹیج Footageاور موجود دستاویز یا تحقیق کے نتائج پر مبنی حوالات کا سہار ا لیتے ہوئے اسکرپٹ تیار کی جاتی ہے اس اسکرپٹ میں ڈائلاگ برائے نام ہی ہوتے ہیں ، یہاں اسٹیٹمنٹ (Statement)اور Narrationکی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔جبکہ ٹیلی فلم میں ایک کہانی ہوتی ہے اس کے کچھ کردار ہوتے ہیں اور ایک مقررہ محدود وقت مدّ نظر رکھتے ہوئے اس کی شوٹنگ کے ارتقائی مراحل کو دھیان میں رکھتے ہوئے اسکرپٹ تیار کی جاتی ہے۔
ٹی وی سیریل کے لیے جو اسکرپٹ لکھی جاتی ہے و ہ بالکل ہی الگ ہوتی ہے یہاں آپ کے پاس بہت گنجائش ہوتی ہے اپنی فنکاری دکھانے کی۔ویسے تو یہاں بھی ایک کہانی کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں بھی مختلف کردار ہوتے ہیں اور یہ ایک سلسلہ وار یا قسط بہ قسط عمل ہوتا ہے کچھ سیریل کے قسطوں کی تعداد پہلے سے مقرر ہوتی ہے اور کچھ سیریل غیر مقررہ قسطوں کے لیے ہوتے ہیں۔ جہاں قسطوں کی تعداد محدود ہوتی ہے وہاں قلم کار کو معلوم ہوتا ہے کہ اس مخصوص کہانی کو کتنی طوالت دینی ہے اور ایک قسط میں کہانی کو کتنا آگے بڑھانا ہے ، کس موڑ پر چھوڑ دینا ہے ،ٹی وی سیریل میں یہ ضروری ہے کہ ہر قسط میں کہانی کو ایسے مقام پر چھوڑا جائے کہ ناظرین کو تجسّس پیدا ہو اور ان کی تشنگی بر قرار رہے اور اگلی قسط کا انتظار کرتے رہیں۔ جس ٹی وی سیریل کے قسطوں کی تعداد مقرر نہیں ہے ان میں نئے نئے تجربوں کی گنجائش بڑھ جاتی ہے لیکن اس میں بھی یہ لازم ہے کہانی کا تسلسل اور ہر قسط میں تجسّس قائم رہے۔ یہاں واضح کرنے کے لیے ان فارمیٹ کو فکشن کی اصناف سے مثال دی جا سکتی ہے یعنی ٹیلی فلم جیسے مختصر افسانہ، فیچر فلم جیسے ناول اور سیریل جیسے داستان ٹی وی سیریل کی اسکرپٹ یوں تو پہلے ہی مکمل ہو جانی چاہیے۔ تاہم دوران شوٹنگ اگر اس میں موقع و محل کی مناسبت سے کچھ تبدیلی کرنا چاہیں تو قلم کار کو اس کے لیے بھی تیار رہنا ہوتا ہے اور وہ تبدیل شدہ تحریر بھی ایسی محسوس ہونی چاہیے کہ وہ رائٹر کے ذہن میں پہلے سے موجود تھی۔ کہانی میں جب اسے جوڑا جائے تو ناظرین کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ یہاں پیوند لگایا گیا ہے بلکہ یہ تبدیلی اس کہانی کا ناگزیر حصّہ ہی لگے۔ جب سیریل کی اسکرپٹ پوری طرح مکمل ہو جائے تواس پورے سیریل کا خلاصہ تیار کر لیں جو ایک دو صفحوں سے زیادہ نہ ہو۔جسے One Line Storyکہا جاتا ہے۔جس میں پوری کہانی سمجھ میں آ جائے اور ہر قسط میں کیا ہو گا اس کا بھی علم ہو جائے کسی بھی سیریل کو پاس کرنے کی ایک ایکسپرٹ کمیٹی ہوتی ہے اس کمیٹی کے ممبران صرف خلاصہ پڑھ کر ہی اس سیریل کو پاس یا فیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس لیے یہ خلاصہ نہایت فنکارانہ اور مؤثر انداز سے لکھا جانا چاہیے۔ خلاصے کے بعد سیریل میں آنے والے سبھی کرداروں کی فہرست ان کے مختصر تعارف کے ساتھ درج کی جانے چاہیے۔ اس فہرست کے بعد اگر ممکن ہوسکے تو اس سیریل کا Title Songیا نغمۂ آغاز بھی لکھ دیں بہتر ہو گا۔
اس مختصر مقدمے میں اتنی گنجائش نہیں کہ اسکرپٹ رائٹنگ کے بارے میں تفصیل سے لکھا جائے۔اس موضوع پر خادم کی مفصّل کتاب ’’اسکرپٹ رائٹنگ : فن تکنیک اور اقسام‘‘ (زیر طبع) ملاحظ کہ وہ ا کامہ فرمائیں۔
زیر نظر کتاب ’’ٹی وی سیریل : ماہ پارہ نور‘‘ ایک قسط وار سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امید ہے قارئین کو پسند آئے گی۔
(غیاث الرحمن)
خلاصہ
ٹی وی سیریل: ماہ پارہ نور
یہ داستان 1857ء کے بعد شمالی ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر میں جنم لیتی ہوئی ایک محبت کی کہانی ہے۔ یہ کہانی محض ایک فکشن ہے۔ اور حقائق سے اس کوکا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے سارے کردار تخیّلی ہیں یہ ناول ڈاکٹر غیاث الرحمن سید کی تخلیق ہے۔ اس میں بڑی خوبصورتی سے اس دور کی قصباتی زندگی ، مسلم سماج اور تہذیبی قدرو ں کو پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی مختلف واقعات کو نہایت دلچسپ اور متجسس پیرائے میں ڈھالا گیا ہے کہ قاری وسامع کی دلچسپی بر قرار ہے۔
یہ سیریل شروع ہوتا ہے ایک ہندوستانی (چودھری شجاعت حسین ) کے ذریعہ ایک فرنگی افسر کی اتفاقیہ جان بچائے جانے کے واقعہ سے بعد میں اس احسان کے بدلے شجاعت حسین کو ایک خطہ کی جاگیر عطا کی جاتی ہے۔ شجاعت حسین کے ایک گہرے دوست ہیں (نور محمد بیگ) جو شجاعت حسین کی خوشی و غم کے ساتھی ہیں ، لیکن انگریزوں سے نفرت کرتے ہیں اور شجاعت حسین کے بھی انگریزوں سے رسم و راہ بڑھانے پر زیادہ خوش نہیں ہیں۔نور محمد کی اکلوتی بیٹی ہے (ماہ پارہ) جو دونوں خاندانوں کی نور نظر اور لخت جگر ہے۔ شجاعت حسین کا اکلوتا بیٹا (طاہرحسین ) ہے۔دونوں بچے ایک ساتھ کھیلتے ہیں۔جبکہ ماہ پارہ اور طاہر حسین کا بچپن کا عشق گہرا ہوتا جاتا ہے۔شجاعت حسین اپنے بیٹے طاہر حسین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ بھیج دیتے ہیں اور ماہ پارہ اس کی واپسی کا انتظار کرتی ہے۔ادھر ہندوستان میں حالات بدل جاتے ہیں۔ جس افسر نے چودھری شجاعت کو جاگیر بخشی تھی وہ مارا جاتا ہے۔ اس جگہ دوسرا انگریزافسر عہدہ سنبھا لتا ہے۔ جو نہایت بدمزاج اور ظالم ہے۔ ہندوستانیوں کو صعوبتیں دینا اس کا دلچسپ مشغلہ ہے۔ ایک مرتبہ اس کی نظر ماہ پارہ پرپڑ جاتی ہے اور وہ اس کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔نور محمد بیگ کو ہر طرح کالا لچ دیتا ہے اس سے کام نہیں چلتا ہے تو مظالم پر اتر آتا ہے۔ بھیس بدل بدل کر ماہ پارہ کو دیکھنے یا اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ماہ پارہ کے عشق میں اتنا مجبور ہو جاتا ہے کہ نور محمد سے گڑ گڑانے لگتا ہے۔بس ہر صورت میں ماہ پارہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
نور محمد اس سے کہتے ہیں کہ تم انگریزی اہلکار ہو، اور ہم ہندوستانی ایسے افسروں سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘ وہ کہتا ہے کہ میں اس نوکری سے استعفیٰ دیتا ہوں اس کے مستعفی ہونے سے اس کا کوڈ مارشل ہوتا ہے اور فوجی عدالت اس کو ایک سال کی قیدِ با مشقت کی سزا سناتی ہے۔
نور محمد چین کی سانس لیتا ہے کہ چلو بات ٹل گئی لیکن وہ جیل سے رہا ہونے کے بعد ان کے گھر آ جاتا ہے۔ نور محمد ٹالنے کے لیے اس سے کہتے ہیں کہ تم شراب پیتے ہو اور حلال نہیں کھاتے ہو یہ ہمارے مذہب میں حرام ہیں۔وہ وعدہ کرتا ہے کہ آج سے کبھی شراب نہیں پئے گا اور کوئی بھی حرام گوشت نہیں کھائے گا اور وہ کئی مہینوں تک ایسا کر کے ثابت کر دیتا ہے۔پھر نور محمد کہتا کہ ہم مسلمان ہیں اور تم کرسچن ہو یہ شادی ممکن نہیں ہے۔ کچھ دنوں میں وہ انگریز ایک مسجد کے امام کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمان ہو جاتا ہے۔پھر نور محمد کے پاس آتا ہے۔اب نور محمد کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے وہ اس سے کہتے ہیں کہ اچھا کل آنا آج کی رات ہمیں سوچنے کی مہلت دو۔ دوسرے دن جب وہ آتا ہے تو ان کے گھر میں بڑاسا تالا بند پاتا ہے۔ آس پڑوس والوں سے پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ رات ہی نور محمد اپنے خاندانی افراد کے ساتھ کہیں چلے گئے ہیں۔وہ ان کی تلاش میں مارا مارا ایک شہر سے دوسرے شہر گھومتا ہے۔مدت بعد نور محمد اس کو مزدوری کرتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں وہ ان کا چپکے چپکے پیچھا کرتا ہوا جاتا ہے۔ماہ پارہ کو دور سے دیکھ کر اطمینان کی سانس لیتا ہے ایک دن پھر وہ ان کے گھر پہنچ جاتا ہے۔نور محمد اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں بہت ٹالنے کے بعد بھی وہ بضد ہے تو نور محمد پھر اس سے کہتے ہیں تم نے اپنی محبت کو پانے کے لیے واقعی بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اور ہم بھی در بدر پھرتے رہے اب میں بہت کمزور ہو گیا ہوں۔مجھ میں اب طاقت نہیں کہ کہیں اور جا سکوں۔ میں ہارا تم جیت گئے تمھاری محبت کامیاب ہوئی۔کل نیک تاریخ ہے اور جمعہ کا مبارک دن بھی ہے جاؤ کل آنا۔تمھارامدعا پورا ہو گا۔
دوسرے دن وہ صبح آتا ہے۔نور محمد نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ان کی بیگم اپنے مہمان کی خاطر و مدارات کرتی ہیں ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد نور محمد اس مہمان کو اپنے گھر کے پیچھے باغ میں لے جاتے ہیں کہ ’’آؤ تمھیں تمہاری محبت ماہ پارہ سے ملادوں باغ کے ایک کونے میں لے جا کر ایک تازہ قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘‘ اس میں ماہ پارہ سورہی ہے وہ انگریز بے ہوش ہو کر اسی قبر پر گرجاتا ہے۔اس پوری داستان کے بیچ ماہ پارہ اور طاہر کی محبت کو پروان چڑھتے دکھایا جائے گا ساتھ ہی چودھری شجاعت حسین کی انگریزوں سے بڑھتی قربت اور نور محمد بیگ کی انگریزوں سے نفرت دونوں دوستوں میں اختلاف کا باعث بنتی ہے۔ انھیں اختلافات کے مد نظر طاہر اور ماہ پارہ کی محبت میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ شجاعت حسین اپنے بیٹے طاہر کو انگلینڈ بھیج دیتے ہیں جبکہ ماہ پارہ اس کی راہ دیکھتے دیکھتے اپنی پا 4nter Cut To scene no کیزہ محبت کو برقرار رکھتے ہوئے راہئی اجل ہو جاتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
غیاث الرحمن
ایپی سوڈ۔ ۱ (
ماہپارہانکاسردEpisode:1)
کردار
۱۔ ماہ پارہ نور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جوان)
۲۔ ماہ پارہ نور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(بچی)
۳۔ طاہر حسین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(بچہ)
4۔ نور محمد بیگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ماہ پارہ کے والد)
۵۔ بیگم روشن آرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ماہ پارہ کی والدہ)
۶۔ ماسٹر صاحب
۷۔ مکتب کے بچے
۸۔ سیاحExtras Tourist
سین نمبر 1
بیرونی:۔Exterior
کردار
ماہ پارہ نور(جوان) کچھ ٹورسٹس(Tourist)
(کیمرہ وائڈ رینج سے ہرے بھرے کھیتوں ،پودوں کو کور کرتا ہوا دور سے ایک نوجوان خوبصورت لڑکی کو فوکس کرتا ہے ، لڑکی سفید لباس پہنے، بال کھولے ہوئے کیمرے کی طرف پیٹھ کیے ہوئے ہے اور آہستہ آہستہ دور جاتی ہوئی ہوا سے بال اور دوپٹہ اڑ رہا ہے۔ انہیں سنبھالتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ دن کی تیز روشنی آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے اور ڈھلتا ہوا سورج کھنڈروں کے پیچھے دکھائی دے رہا ہے۔ لڑکی کھنڈروں میں کھیتوں اور دیواروں کے پیچھے گزرتی ہوئی گم ہو جاتی ہے۔ اور کچھ ٹورسٹس تاریخی عمارتوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے دکھائے دیتے ہیں۔ پھر ایک بھاری مردانہ آواز ابھرتی ہے۔
مردانہ آواز:۔ تاریخ کے اوراق میں بے شمار محبت کرنے والوں کی داستانیں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ لیلیٰ مجنوں ، شیریں ،فرہاد، ہیر، رانجھا اور سوہنی مہیوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن نہ جانے کتنے ایسے پیار کرنے والے ہوں گے جن کی ان گنت داستانیں ان بیابانوں میں پربتوں سے گرتے ہوئے جھرنوں میں ، جھیل کی گہرائیوں میں ، ندیوں کے تیز بہاؤ میں اور ایسے ہی ویران وبوسید کھنڈروں میں گم ہو چکی ہیں۔ ایسی ہی گمنام محبت کی ایک ادھوری کہانی نے اسی قصبے میں جنم لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(کیمرے میں کھنڈروں کا منظر تحلیل ہوتا ہوا اسکرین پر ایک پرانے قصبے کا منظر ابھرتا ہے۔ کیمرہ زوم کرتا ہوا ایک پرانی عمارت کو فوکس کرتا ہے اور آہستہ آہستہ عمارت کے اندر داخل ہوتا ہے۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر2
اندرونی:۔Interior(مکتب/اسکول کے اندر کا منظر)
کردار
ماسٹر صاحب، بچپن کے طاہر حسین، ماہ پارہ اور کلاس کے بچے
اسکرین پر ایک مکتب کا منظر ابھرتا ہے، فرش پر بچھی ہوئی پٹی پر کچھ بچے بیٹھے اپنا سبق یاد کر رہے ہیں ، لڑکے سفید کرتا پائجامہ اور ٹوپی پہنے ہوئے ہیں جب کہ بچیاں سفید شلوار جمپر پہنے دوپٹے سے سر ڈھکے ہوئے ہیں۔ ایک ماسٹر صاحب ہاتھ میں چھڑی لیے ہوئے ہیں۔کیمرہ ایک نہا ت خوبصورت بچی کے چہرے پر رک جاتا ہے۔جو نظریں نیچی کیے ہوئے اپنی پڑھائی میں مصروف ہے۔ اس سے تھوڑی دور پر ایک لڑکا جس کی نظریں اپنی کتاب کی بجائے اس لڑکی کے چہرے پر جمی ہوئی ہیں۔
ماسٹر صاحب:۔ طاہر حسین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (گرجدار آواز میں )
(سب بچے ایک دم رک جاتے ہیں پوری کلاس میں سناٹا چھا جاتا ہے)
ماسٹرصاحب:۔ اپنی جگہ کھڑے ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔
(لڑکا کھڑا ہو جاتا ہے۔)
ماسٹر صاحب:۔ تمہیں روز کہا جاتا ہے کہ تم اپنی نظریں ماہ پارہ کے چہرے کی بجائے اپنی کتاب پر رکھا کرو لیکن تم اپنی ضد سے باز نہیں آتے؟۔
(سب بچے کھکھلا کر ہنس پڑتے ہیں ،ماسٹر صاحب خفا ہو کر سب کو ڈانٹتے ہیں۔)
ماسٹر صاحب:۔ خاموش۔۔۔۔۔۔۔
(سب سہم جاتے ہیں ، ماسٹر صاحب پھر کہتے ہیں )
ماسٹر صاحب:۔ طاہر حسین۔۔۔۔۔تمہیں آخری بار ہدایت دی جاتی ہے کہ اگر تم نے اپنا دل پڑھائی میں نہیں لگایا تو تمہارا نام اس مکتب سے کاٹ دیا جائے گا ، آج تمہیں سزا کے طور پر چھٹی ہونے تک یوں ہی کھڑا رہنا ہو گا۔
(خوبصورت بچی ماہ پارہ اداسی سے کھڑے ہوئے لڑکے کی طرف دیکھتی ہے پھر اپنی پڑھائی میں لگ جاتی ہے، کبھی بے چین ہو کر پہلو بدلتی ہے ،اپنے پاؤں دباتی ہے ، کافی دیر کے بعد ماہ پارہ کو طاہر حسین کی سزا برداشت نہیں ہوتی ہے تو وہ ماسٹر صاحب سے التجا کرتی ہے )
ماہ پارہ:۔ ماسٹر صاحب مجھے سبق یاد ہو گیا۔۔۔۔
ماسٹر صاحب:۔ شاباش تم بہت محنتی اور ذہین بچی ہو۔۔۔ مجھے یقین ہے ہرسال کی طرح اس سال بھی سب سے ذہین بچے کا انعام تمہیں کو ملے گا۔
ماہ پارہ:۔ حضرت جی۔۔۔۔۔ آپ خفا نہ ہو تو آپ سے ایک درخواست ہے۔
(ماسٹر صاحب خوش ہو کر)
ماسٹر صاحب:۔ ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔بولو۔۔۔۔۔
ماہ پارہ:۔ حضرت جی آج آپ طاہر حسین کو معاف کر دیجئے ،میرے پیروں میں بہت درد ہو رہا ہے۔
ماسٹر صاحب:۔ ارے یہ کیا بات ہوئی ،سزا طاہر حسین کو مل رہی ہے اور درد تمہارے پیروں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
(پھر ماہ پارہ اپنے پیر ماسٹر صاحب کو دیکھاتی ہے۔)
ماسٹر صاحب:۔ (دل ہی دل میں ) یقیناً۔۔۔طاہرحسین۔۔۔۔۔۔۔اور ماہ پارہ میں کوئی روحانی رشتہ ضرور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک۔۔۔۔میاں طاہر حسین آج آپ کی سزا معاف کی جاتی ہے ،لیکن آئندہ خیال رہے۔
(طاہر حسین بیٹھ جاتا ہے، ماسٹر صاحب کچھ سوچ میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، پھر گھنٹی بجتی ہے )
(اور پھر چھٹی ہو جاتی ہے، بچے خوشی سے باہر کی طرف دوڑ جاتے ہیں۔ )
Cut To Scene No ۔ 2/B
سین نمبر 2/B
بیرونی:۔ (قصبے کی گلیاں۔ اسکو ل کے باہر کا منظر)
وقت:۔ دن
کردار
ننھی ماہ پارہ ، طاہر حسین، اسکول کے دیگر بچے۔
اسکول کی چھٹی کے بعد سارے بچے اسکول سے باہر نکل رہے ہیں ، چھوٹی ماہ پارہ اور طاہر حسین ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے، اپنے کندھوں پر اسکول بیگ لٹکائے ہوئے خوش خوش گلیوں سے گزر رہے ہیں ، کیمرہ انہیں کبھی آگے سے اور کبھی پیچھے سے Followکرتا ہے، گلی کے ایک موڑ پر آ کر دونوں رک جاتے ہیں ، دونوں ایک دوسرے کو کچھ دیر دیکھتے ہیں ، پھر ایک دوسرے کا ہاتھ چھوڑ کر الگ الگ راستوں پر مڑ جاتے ہیں ، ماہ پارہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے، اور بار بار مڑ مڑ کر طاہر کو دیکھتی ہے، طاہر حسین وہیں کھڑا ہوا ہے۔ کافی دور جا کر ماہ پارہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے، پھر طاہر حسین بھی اپنا بستہ ادھر ادھر گھماتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف چل دیتا ہے۔
(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)
سین نمبر۔ 2/C
بیرونی: مدرسے کے باہر کا منظر
وقت : دن
کردار
ماہ پارہ، طاہر حسین اور کچھ بچے
مدرسے کے باہر طاہر حسین اپنا بیگ کندھے میں لٹکائے ایک پتھر یا ٹوٹی ہوئی دیوار پر بیٹھا ہے دوسرے بچے مدرسے سے آرہے ہیں۔ دورسے ماہ پارہ اپنا اسکول بیگ لٹکائے مدرسے کی طرف آتی دکھائی دیتی ہے۔ طاہر حسین اس کو دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے اور دوڑ کر اس کے پاس آتا ہے ماہ پارہ بھی اس کو دورسے دیکھ لیتی ہے وہ بھی دوڑتی ہوئی اس کی طرف آتی ہے۔ دونوں خوشی سے ملتے ہیں۔
ماہ پارہ : ارے واہ۔ ۔ ۔ طاہر ! آج تو تم مجھ سے پہلے آ گئے۔
طاہر : ہاں نور ، آج تومیں بہت پہلے ۔ ۔ سب سے پہلے آ گیا بہت دیر سے میں تمہاری راہ دیکھ رہا تھا۔ تم اتنی دیر میں کیوں آئی ہو۔ ۔ ؟
ماہ پارہ : دیر میں کہاں ! میں تو توز اسی وقت آتی ہوں ابھی تو مدرسے کی گھنٹی بھی نہیں ہوئی۔ آج تم کچھ زیادہ پہلے آ گئے۔
(دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر مدرسے کی طرف بڑھتے ہیں تبھی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔دونوں بچے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے، بھاگتے ہوئے مدرسے میں داخل ہو جاتے ہیں۔)
Scene Cut over to next scene
سین نمبر۔ 2/D
اندرونی : Interior(مدرسے کے اندر کا منظر)
وقت : دن
کردار
(ماسٹر صاحب ، طاہر حسین ، ماہ پارہ ، اور کلاس کے بچے۔ کمرے کے اندر پٹّیا ں بچھی ہوئی ہیں۔ گھنٹی کی آواز سن کر سب بچے دوڑ تے ہوئے کلاس میں گھستے ہیں کچھ بچے آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ کچھ شور مچا رہے ہیں اور شیطانی کر رہے ہیں۔پٹّیوں پر بیٹھ کر اپنے اپنے دوستوں کے لیے جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تبھی ماہ پارہ اور طاہر اندر آتے ہیں۔)
ایک بچہ: (چلّا کر کہتا ہے ) ’’طاہر حسین یہاں آ جاؤ میں نے تمھارے لیے جگہ سنبھال لی ہے۔‘‘
ایک لڑکی : ’’ماہ پارہ میں نے تمھارے لیے جگہ سنبھالی ہے۔یہاں آ جاؤ میرے پاس‘‘
(طاہر اور ماہ پارہ الگ الگ بیٹھ جاتے ہیں اور دورسے ایک دوسرے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں۔کچھ بچے شیطانی کر رہے ہیں تبھی ماسٹر صاحب کلاس میں داخل ہوتے ہیں ان کو دیکھتے ہی سب بچے خاموش ہو جاتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو کر سب ایک ساتھ کہتے ہیں )
سب بچے : آداب عرض ہے۔ حضرت جی…..‘‘
ماسٹر صاحب: جیتے رہو ، بیٹھ جاؤ……..
(سب بچے بیٹھ جاتے ہیں )
ماسٹر صاحب: ہاں بچو! کل میں نے آپ کو تاج محل کے بارے میں پڑھایا تھا۔ یاد ہے نا۔ ۔ ؟
سب بچے : جی، حضرت جی،
ماسٹر صاحب: ٹھیک ہے۔اب آپ سب اپنی اپنی سلیٹ نکالو اور تاج محل پر دس سطریں لکھو۔ ۔ ۔ آج بڑے ماسٹر صاحب آنے والے ہیں آپ کا لکھا ہوا ، وہی دیکھیں گے سب سے اچھا مضمون لکھنے والے دو بچوں کو انعام دیا جائے گا۔تو شروع کرو، صاف صاف اور خوش خط لکھنا اور اچھے جملے بنانا ، تب انعام ملے گا،ٹھیک ہے؟سلیٹ پر سب سے اوپر اپنا نام ضرور لکھنا۔
(ماسٹر صاحب خاموشی سے کلاس میں ٹہلتے ہیں طاہر حسین اور ماہ پارہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ماسٹر صاحب انھیں دیکھ کر خفا ہوتے ہوئے کہتے ہیں۔)
ماسٹر صاحب: ’’طاہر حسین تم نے ابھی تک لکھنا شروع نہیں کیا۔ ۔ ؟‘‘
(دونوں سہم جاتے ہیں اور گردن جھکا کے لکھنے لگتے ہیں )
(ایک گھنٹہ کی ٹن سے آواز آتی ہے)
ماسٹر صاحب: بس اب لکھنا بند کرو، وقت پورا ہوا لاؤ سب بچے اپنی اپنی سلیٹ یہاں رکھ دو۔
(سب بچے اپنی اپنی سلیٹ ماسٹر جی کے پاس رکھ دیتے ہیں۔بعد میں طاہر حسین اپنی سلیٹ لے کر ماسٹر جی کے پاس آتا ہے۔ ماسٹر جی اس کے ہاتھ سے سلیٹ لے کر پڑھنے لگتے ہیں پوری سلیٹ پر ماہ پارہ ، ماہ پارہ لکھا ہوا ہے۔
ماسٹر صاحب: (خفا ہو کر) یہ کیا لکھا تم نے۔ میں نے تاج محل پر مضمون لکھنے کے لیے کہا تھا اور تم نے پوری سلیٹ پر ماہ پارہ ماہ پارہ لکھ رکھا ہے۔ (پھر پیچھے کھڑی ہوئی ماہ پارہ کو دیکھ کر )لاؤ بیٹی ماہ پارہ ۔ ۔ ۔ تمھاری سلیٹ دیکھیں۔(اس کی سلیٹ پر طاہر حسین، طاہر حسین لکھا ہوا ہے ماسٹر صاحب چونک جاتے ہیں۔)
ماسٹر صاحب: اب یہ سلیٹیں بڑے ماسٹر صاحب کو کیسے دکھائی جا سکتی ہیں۔ وہ بہت خفا ہو جائیں گے۔لو اپنی سلیٹیں واپس لو اور انھیں فوراً مٹا دو۔
(دونوں بچے سلیٹیں واپس لے کر اداسی سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے ہیں ، ماسٹر صاحب دوسرے بچوں کی سلیٹیں چیک کرنے لگتے ہیں۔ طاہر اور ماہ پارہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر گھنٹی بجنے لگتی ہے اور سب بچے خوشی سے کھڑے ہو کر کلاس سے باہر بھاگنے لگتے ہیں )
(سین تحلیل ہو جاتا ہے)
Over to next Scene
سین ۔ 2/E
بیرونی: Exteriorمدرسے کے باہر کا منظر ، قصبے کی گلیاں
وقت : دن
کردار
ماہ پارہ، طاہر حسین، مدرسے کے بچے، گلی میں آتے جاتے کچھ لوگ Extras۔
بچے بھاگتے ہوئے مدرسے کے باہر آتے ہیں اور ادھر ادھر چلے جاتے ہیں۔ سب کے بعد میں ماہ پار ہ اور طاہر نکلتے ہیں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے آپس میں باتیں کرتے ہیں
طاہرحسین : تاج محل پر مجھے ایک بھی جملہ یاد نہیں آ رہا تھا بس اتنا یاد تھا کہ تاج محل دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت ہے، لیکن مجھے لگا کہ وہ تم سے زیادہ خوبصورت نہیں ہے اس لیے میں نے تمھارا ہی نام لکھ دیا۔
ماہ پارہ : مجھے تو تاج محل پر پورا مضمون یاد تھا اور یہ بھی یاد تھا کہ اس محل کو شاہ جہاں نے اپنی بیگم نور جہاں کے لیے بنوایا تھا۔ پھر بھی سلیٹ پر میں تمھارا ہی نام لکھتی رہی اور پتہ بھی نہیں چلا۔
(دونوں ہنستے ہیں ، پھر ایک جگہ رکتے ہیں جہاں سے دونوں کے راستے الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ ماہ پارہ اپنے گھر کی طرف چل دیتی ہے۔طاہر وہیں رک کر تھوڑی دیر اسے دیکھتا رہتا ہے وہ بھی مڑ مڑ کر اس کو دیکھتی ہے۔ پھر ایک جگہ رک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ تھوڑی دیر رک کر واپس طاہر کی طرف دوڑ جاتی ہے طاہر بھی اس کی طرف دوڑنے لگتا ہے دونوں پاس آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔دونوں کی سانسیں پھولی ہوئی ہیں۔
طاہرحسین : (پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہتا ہے) کیوں …….کیوں واپس آ گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ گھر نہیں جانا ہے۔؟
ماہ پارہ : ہاں …….جانا تو ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں تم سے الگ ہونے کو دل نہیں چاہتا۔
طاہر : میرا بھی دل یہی چاہتا ہے کہ تم سے کبھی بھی الگ نہ ہوؤں میں گھر جا کر امی سے پوچھ کے تمھارے گھر آ جاؤں گا۔
ماہ پارہ : تم تو روز آتے ہو۔ آج بھی آ جانا۔ہمارے باغیچے میں بہت سی تتلیاں آئی ہوئی ہیں۔شام کو تتلیاں پکڑیں گے۔
(دونوں مسکراتے ہوئے الگ الگ راستوں میں چلے جاتے ہیں۔)
سین نمبر3
اندرونی:۔(نور محمد بیگ کا گھر)
کردار
نور محمد بیگ ،اس کی بیگم روشن آرا ، بیٹی ماہ پارہ اور ماسٹر صاحب
نور محمد بیگ کے گھر کا اندرونی حصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور محمد بیگ اپنی بیوی روشن آرا اور اکلوتی بیٹی ماہ پارہ نور کے ساتھ ہیں۔ نور محمد بیگ پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں ، بیٹی سرہانے بیٹھی سر دبا رہی ہے۔ اور بیوی گرم پوٹلی سے نور محمد بیگ کے پیٹ کی سکائی کر رہی ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ ماہ پارہ نور دوڑتی ہوئی دروازہ کھولتی ہے۔ باہر ماسٹر صاحب کھڑے ہیں۔ بچی انہیں دیکھ کر خوش ہو جاتی ہے اور جھک کر سلام کرتی ہے۔
ماہ پارہ:۔ آداب حضرت جی۔۔۔۔
ماسٹر صاحب:۔ جیتی رہو بیٹی کیا بیگ صاحب ہیں گھر میں ؟
ماہ پارہ:۔ جی میں ابھی ابو کو بلاتی ہوں۔۔۔
(ماہ پارہ دوڑتی ہوئی کمرے میں آتی ہے اور خوشی سے کہتی ہے۔)
ماہ پارہ:۔ ابو۔۔۔ماسٹر صاحب آئے ہیں آپ سے ملنے کے لیے۔
(نور محمد اپنی بیوی کو اشارہ کرتے ہیں بیوی دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے پھر ماہ پارہ سے کہتے ہیں۔)
نور محمد:۔ ہاں یہیں بلا لاؤ ماسٹر صاحب کو۔
(ماہ پارہ دوڑتی ہوئی دروازے سے ماسٹر صاحب کو لے کر آتی ہے)
ماہ پارہ: آئیے۔۔۔۔۔ آ جائیے۔۔۔۔ حضرت جی۔۔۔ابو کی کچھ طبیعت خراب ہے اندر ہی آ جائیے۔
ماسٹر صاحب:۔ ٹھیک ہے چلو۔۔۔ السلام علیکم بیگ صاحب۔
کہتے ہوئے ماہ پارہ کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ نور محمد بیگ اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماسٹر صاحب انہیں روک دیتے ہیں ’’کیا طبیعت کچھ ناساز ہے۔؟‘‘
نور محمد بیگ:۔ جی حضرت۔۔۔ایک پرانا عارضہ ہے، کبھی کبھی جگر میں درد بڑھ جاتا ہے۔
ماسٹر صاحب :۔ تو کیا حکیم سے رجوع کیا؟
نور محمد بیگ:۔ نہیں جناب وہ ہمارے دوست ہیں نا چودھری شجاعت حسین کی والدہ صاحبہ کی دوا میرے لیے اکیسر کا کام کرتی ہے۔ انہیں سے دوا منگوا لوں گا۔
ماسٹر صاحب:۔ اچھا۔۔۔۔اچھا، سنا ہے کہ چودھری صاحب کی والدہ بڑی اچھی حکمت جانتی ہیں۔
نور محمد بیگ:۔ جی ہاں ان کی تشخیص بہت اچھی اور نسخے بھی بہت کارگر ہیں۔
(اس بیچ ماہ پارہ اندر سے ایک تھال میں پانی کا گلاس اور کچھ ناشتہ لے کر آتی ہے۔ تپائی سرکا کر رکھتی ہے۔
نور محمد بیگ:۔ لیجئے جناب نوش فرمائیے۔
ماسٹر صاحب:۔ جی شکریہ۔۔۔۔۔ پانی پیتے ہیں۔
نور محمد بیگ:۔ کیسے زحمت کی کیا میرے لائق کچھ خدمت ہے۔؟
ماسٹر صاحب :۔ ارے نہیں جناب کوئی خاص کام نہیں ہے بس ادھر سے گزر رہا تھا سوچا آپ سے ملاقات ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے خیریت ہی معلوم کرتا چلوں۔
نور محمد بیگ:۔ شکریہ جناب آپ کی کرم فرمائی کا۔
ماسٹر صاحب:۔ ہاں ایک بات ضرور میں کئی دنوں سے چاہتا تھا کہ آپ کے گوش گزار کروں لیکن موقع ہی نہیں ملتا تھا۔
نور محمد بیگ: جی۔۔۔جی فرمائیے۔
(اسی بیچ ماہ پارہ کمرے سے چلی جاتی ہے)
ماسٹر صاحب: بیگ صاحب میں بڑا پریشان ہوں اور محو حیرت بھی۔
(سوچ میں ڈوبتے ہوئے)
نور محمد بیگ:۔ کیوں کیا ہوا؟
ماسٹر صاحب:۔ کچھ واقعات رونما ہو جاتے ہیں جن پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے،لیکن اللہ کے کرشموں کو تسلیم کرنا ہی عین عبادت ہے۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ جب کبھی بھی میں نے چودھری شجاعت حسین کے بیٹے طاہر حسین کو سزا دی ہے اس کا براہ راست اثر آپ کی صاحبزادی ماہ پارہ پر صاف عیاں ہوتا ہے۔مثلاً آج ہی میں نے طاہر حسین کو کھڑے رہنے کی سزا دی اور ماہ پارہ کے پیروں پر اس کا اثر ہوا۔ پچھلے دنوں میں طاہر حسین کے گال پر طمانچہ مارا اور نشان ماہ پارہ کے رخسار پر ابھر آئیے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں بچوں میں کوئی روحانی تعلق ضرور ہے۔
(نور محمد بیگ مسکراتے ہوئے)
نور محمد:۔ ضرور ہو گا ماسٹر صاحب ،آخر شجاعت حسین بھی تو میرا بچپن کا دوست ہے۔ یہ تو ہم بھی محسوس کرتے ہیں کہ دونوں بچوں میں بہت زیادہ قربت ہے۔دونوں ایک دوسرے کے بغیر زیادہ دیر نہیں رہ سکتے۔اکثر طاہر حسین یہیں ہمارے گھر ہی آ جاتا ہے۔شاید اس وقت بھی وہ دونوں یہیں کھیل رہے ہوں گے۔
(نور محمد بیگ اپنی بیگم کو آواز دیتے ہوئے)
نور محمد بیگ:۔ بیگم۔۔۔۔۔ کیا آج طاہر میاں آئے تھے۔؟
(روشن آرا پردے کے پیچھے سے)
روشن آرا:۔ جی ہاں طاہر حسین اور ماہ پارہ پیچھے باغیچے میں ہم سے پوچھ کر گئے ہیں۔
(نور محمد ماسٹر صاحب کو دیکھ کر مسکراتے ہیں )
Inter Cut To scene no 4
سین نمبر4
بیرونی:۔ (باغیچہ)
کردار
طاہر حسین، ماہ پارہ
کیمرہ دور سے ایک باغیچے کو کور کرتا ہے ، ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلے ہیں ، ہلکی سی ہوا چل رہی ہے۔پیڑوں کی ڈالیاں جھوم رہی ہیں۔ پرندے ہوا میں اڑ رہے ہیں ، ننھی سی ماہ پارہ ایک تتلی کا پیچھا کر رہی ہے، طاہر حسین اس کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے ،لیکن کامیابی نہیں مل پا رہی ہے، پھر طاہر حسین ایک خوبصورت گلاب کے پودے کے پاس رک کر پھول توڑتا ہے۔
ماہ پارہ بیٹھی ہوئی تتلی کو چپکے سے پکڑنا چاہتی ہے، پھول توڑتے ہوئے طاہر حسین کی انگلی میں کانٹا چبھ جاتا ہے اور ماہ پارہ کی انگلی میں اچانک تکلیف ہوتی ہے، تتلی اڑ جاتی اور ماہ پارہ اپنی انگلی کو دیکھتی ہے، اس کی انگلی پر ایک خون کا قطرہ ابھر آتا ہے۔طاہر کی انگلی پر بھی خون کا قطرہ دکھائی دیتا ہے، دونوں بچے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ طاہر حسین ماہ پارہ کی طرف پھول بڑھاتا ہے۔ ماہ پارہ خوشی سے پھول لے لیتی ہے اور اپنی انگلی اس کو دکھاتی ہے۔ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں ، دونوں خون کے قطرے ایک دوسرے میں مل جاتے ہیں ، ماہ پارہ اور طاہرحسین ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ،مسکراتے ہیں اور پھر تتلی کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔
(اسکرین پر منظر تحلیل ہوتا ہے)
Cut To Previous scene No ۔ 3 Part ۔ II
سین نمبر 3(حصہ دوم)
اندرونی:۔ نور محمد بیگ کا گھر۔
کردار
نور محمد ،بیگم روشن آرا، ماسٹر صاحب
(اسکرین پر نور محمد بیگ کے گھر کا منظر ابھرتا ہے، ماسٹر صاحب سے کچھ باتیں کرتے ہوئے۔) Montaz
(ماسٹر صاحب مسکراتے ہوئے اٹھتے ہیں )
ماسٹر صاحب:۔ اچھا جناب۔۔۔۔ اب اجازت دیجئے۔۔۔۔،آپ کا کافی وقت ضائع کیا۔
نور محمد بیگ:۔ نہیں صاحب بیماری میں وقت کاٹے نہیں کٹتا۔۔۔ آپ تشریف لائے اچھا لگا۔
(نور محمد اٹھ کر انہیں دروازے تک چھوڑنے جاتے ہیں ، ماسٹر صاحب خدا حافظ کہتے ہوئے دروازے کے باہر جاتے ہیں ، تبھی طاہر حسین اور ماہ پارہ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ نور محمد بیگ دونوں بچوں کو خوشی سے لپٹا لیتے ہیں پھر طاہر حسین ان سے اجازت لے کر جانے لگتے ہیں۔)
طاہر حسین:۔ اچھا چچا جان۔۔۔۔شام ہو گئی ہے، امی انتظار کر رہی ہوں گی میں چلتا ہوں۔
نور محمد بیگ:۔ اچھا بیٹے ،ابو سے کہئے گا کہ وقت ملے تو ہمیں دیکھنے آ جائیں۔
(مسکراتے ہیں ، دونوں بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں ، ماہ پارہ طاہرحسین کو دور تک جاتا دیکھتی ہے اور جب وہ گلی کے موڑ سے مڑ جاتا ہے تو اداس سی ہو جاتی ہے۔نور محمد بیگ اپنی بیٹی کو غور سے دیکھتے ہیں اور دل ہی دل میں مسکراتے ہیں۔ ماہ پارہ اندر چلی جاتی ہے، نور محمد بیگ جیسے ہی دروازہ بند کرنے لگتے ہیں۔ باہر سے کسی کے پکارنے کی آواز آتی ہے۔
آواز:۔ ’’بیگ صاحب۔۔۔۔۔ بیگ صاحب۔۔۔۔۔‘‘
Cut to Next Scene No ۔ 5
سین نمبر5
بیرونی:۔(نور محمد بیگ کے گھر کا باہری حصہ)
وقت:۔ دن؍شام
کردار
نور محمد بیگ، قصبے کے کچھ لوگ، مسجد کے امام صاحب
(نور محمد اپنے گھر کا دروازہ کھولتے ہیں ان کے گھر کے سامنے قصبے کے کچھ لوگ کھڑے ہیں ان کے ساتھ مسجد کے امام صاحب بھی ہیں۔)
امام صاحب:۔ السلام علیکم نور محمد بیگ صاحب۔
نور محمد:۔ وعلیکم السلام ، امام صاحب، جی تشریف لائیے (گھر کے اندر بلانے کا اشارہ کرتا ہے)
امام صاحب:۔ نہیں بیگ صاحب، اس وقت تو بیٹھیں گے نہیں ، مغرب کا وقت بھی ہونے والا ہے اس وقت دراصل ہم آپ کے پاس ایک کام سے آئے ہیں۔
نور محمد:۔ حضرت آپ نے کیوں زحمت کی مجھے بلوا لیا ہوتا۔
امام صاحب:۔ ارے بھئی، کئی روز سے آپ سے ملاقات نہیں ہوئی، جب آپ نماز میں نہیں دکھائی دیے و تشویش ہوئی پوچھنے پر پتہ چلا کہ آپ کی طبیعت خراب چل رہی ہے، آپ سے ملنے کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ آپ کی مزاج پرسی ، دوسرا یہ کہ مسجد کا ایک حصہ خستہ حال ہو گیا ہے، اس کی تعمیر کے لیے ہم قصبہ کے کچھ صاحب ثروت لوگوں سے رجوع کر رہے ہیں ، تاکہ کچھ چندہ اکٹھا کر سکیں ، پہلے شجاعت صاحب کے یہاں گئے تو وہ حضرت پورا ہی خرچ اکیلے اٹھانے کی ضد کرنے لگے، ہم نے کہا کہ میاں یہ ثواب کا کام ہے اوروں کو بھی کمانے دیجئے تب جان چھوٹی۔
نور محمد:۔ التجا تو میں بھی یہی کرنا چاہتا ہوں ، تعمیر کا پورا خرچ خادم کے ذمہ کر دیجئے لیکن آپ نے ایسی بات کہہ کے قصہ ہی ختم کر دیا۔ اب فرمائیے میرے لیے کیا حکم ہے۔
امام صاحب:۔ بھئی ہم نے تو اس قصبے کے چالیس حضرات کو منتخب کیا ہے اور آپ ان میں سے ایک ہیں سوا روپیہ فی کس وصول کر رہے ہیں ، بس اتنی زحمت کر دیجئے۔
نور محمد:۔ جی بہت بہتر، میں مغرب کے بعد ماہ پارہ کے ہاتھوں آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا۔
امام صاحب:۔ بہت اچھا میاں ، ارے ہاں آپ کی طبیعت کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں اب مزاج کیسا ہے۔۔۔؟
نور محمد:۔ اللہ کا شکر ہے، سینے میں درد ہے، لیٹے رہتا ہوں تو ٹھیک تھوڑا سا چل پھر لوں تو تکلیف بڑھ جاتی ہے۔
(دور سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے)
امام صاحب:۔ لو مغرب کی اذان ہونے لگی، اچھا جناب، اجازت دیجئے، پھر ملاقات ہو گی، اور ہاں آپ اپنی صحت کا خیال رکھئے ، خدا حافظ
نور محمد:۔ خدا حافظ
(امام صاحب اور سبھی افراد چلے جاتے ہیں ، نور محمد دروازہ بند کر دیتے ہیں۔)
(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)
Cut to Next Scene
سین نمبر6
بیرونی:۔(Exterior)
(نور محمد کے گھر کا باہری حصہ ، گلی کا منظر، مسجد کا باہری حصہ)
وقت:۔ شام مغرب کے وقت کے بعد
کردار
(ماہ پارہ ، اس کی ماں بیگم روشن آرا، امام صاحب، اور کچھ لوگ)
( نور محمد کے گھر کا دروازہ کھلتا ہے، باہر ماہ پارہ اپنی ماں کے ساتھ نکلتی ہے، اور وہ ماہ پارہ کے ہاتھ میں سوا روپیہ دے کر مٹھی بند کر دیتی ہے۔)
بیگم روشن آرا:۔ لو بیٹی، یہ پیسے کس کے مٹھی میں بند کر لو، اور مسجد میں جا کر امام صاحب کو ہی دینا، ٹھیک ہے، کسی اور کو مت دے دینا۔
ماہ پارہ:۔ اچھا امی جان میں امام صاحب کو ہی دوں گی ، کسی اور کو نہیں دوں گی۔
بیگم:۔ ٹھیک ہے بیٹی آپ دے کر جلدی سے آئیے ، تب تک ہم یہیں کھڑے ہیں۔
(ماہ پارہ مٹھی بند کر کے مسجد کی طرف جاتی ہے، کیمرہ اس کو Followکرتا ہے، وہ قصبے کی گلی سے گزر کر مسجد کے پاس پہنچ جاتی ہے، مسجد کی سیڑھیوں سے نمازی اترتے دکھائی دیتے ہیں ، ان کے پیچھے امام صاحب بھی آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، انہیں دیکھ کر ماہ پارہ ادب سے سلام کرتی ہے۔
ماہ پارہ:۔ آداب، امام صاحب
امام صاحب:۔ جیتی رہو بیٹی
ماہ پارہ:۔ (مٹھی کھول کر پیسے ان کی طرف بڑھاتی ہوئی )یہ لیجئے امام صاحب، ابو نے بھیجے ہیں ،
امام صاحب:۔ (مسکرا کر نیچے جھکتے ہیں ) شاباش، بیٹی، اللہ آپ کو اور آپ کے ابو امی کو جزائے خیر عطا کرے۔
(اس سے پیسے لے کر چہرے کو غور سے دیکھتے ہیں اور دل ہی میں بڑ بڑاتے ہیں۔)
ماشاء اللہ یہ بچی ہے یا نور کا مجسمہ ، یہ تو انسان نہیں بلکہ اللہ کا کرشمہ لگتی ہے،
ماہ پارہ: اچھا امام صاحب میری امی گھر کے باہر میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔
امام صاحب:۔ اچھا بیٹی، خدا حافظ۔
(ماہ پارہ واپس اسی راستے سے بھاگتی ہوئی آتی ہے،گھر کے باہر اس کی ماں انتظار کر رہی ہے، خوشی سے ماہ پار کو گود میں اٹھا کر گھر کے اندر چلی جاتی ہے اور دروازہ بند کر دیتی ہے۔
Inter Cut to scene Continue
ماہ پارہ اپنی امی کے ساتھ گھر میں لیٹے ہوئے نور محمد کے پاس جاتی ہے، نور محمد اسے پیار سے لپٹا لیتا ہے۔
نور محمد:۔ پیسے دے آئی بیٹی۔۔۔۔
ماہ پارہ:۔ جی ابو۔۔۔۔۔
نور محمد:۔ شاباش، میری بیٹی کتنی سمجھدار ہو گئی ہے، میرے کتنے کام کرتی ہے۔
(سب خوشی سے ہنستے ہیں )
(تب ہی دروازہ پر دستک ہوتی ہے، سب چونک جاتے ہیں ، نور محمد پلنگ سے اٹھ کر آہستہ آہستہ دروازے تک جاتے ہیں ذرا سا دروازہ کھول کر دیکھتے ہیں اور چونک جاتے ہیں۔)
End of Episode NO.1
EPISODE NO.2
کردار
۱۔ چودھری شجاعت حسین
۲۔ بیگم ام ہانی(بیوی)
۳۔ بیگم ناصرہ زمانی (ماں )
4۔ طاہر حسین(بیٹا)
۵۔ جارج روبن (فرنگی افسر)
۶۔ مرزا نور محمد بیگ(دوست)
۷۔ ہندوستانی نوجوانوں کا دستہ (پانچ ،چھ جوشیلے نوجوان)
۸۔ آس پڑوس والے، قصبے کے لوگ
سین نمبر1
بیرونی:۔ نور محمد بیگ کے گھر کا باہری حصہ
کردار
نور محمد بیگ اور دلاور
نور محمد بیگ اپنے گھر کا دروازہ کھولتے ہیں ، سامنے دلاور کھڑا ہے، وہ کچھ گھبرایا ہوا سا ہے۔
نور محمد بیگ:۔ کیا بات ہے دلاور۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم اتنے گھبرائے ہوئے سے کیوں ہو؟
دلاور:۔ بیگ صاحب ، جلدی چلئے، آپ کو چودھری صاحب نے بلایا ہے۔
نور محمد بیگ:۔ چودھری شجاعت حسین نے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں ، سب خیر تو ہے نا۔۔۔۔۔۔۔؟
دلاور:۔ یہ پتہ نہیں لیکن اس قصبے کے سبھی اہم لوگ چوپال کے پچھلے حصے میں جمع ہو رہے ہیں ، چودھری صاحب نے مجھے بھیجا کہ آپ کو بھی چپکے سے بلا لاؤں۔
نور محمد بیگ:۔ اچھا چلو۔۔۔۔۔۔
ایک قدم بڑھاتے ہی ان کے سینے میں درد اٹھتا ہے اور وہ دوہرے ہو کر وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔
پھر دلاور انہیں سہارا دے کر اندر لے جاتا ہے، اندر سے ان کی بیگم روشن آرا دوڑتی ہوئی آتی ہے۔
روشن آرا:۔ یا خدا۔۔۔۔۔۔۔ ارے آپ اٹھے ہی کیوں ہیں ؟ اتنی طبعیت خراب ہے آپ کو آرام کی سخت ضرورت ہے اور آپ چل دیے عوام کی خدمت کرنے۔۔۔۔۔۔۔ چلئے اندر چل کر لیٹ جائیے۔
(پھر دلاور سے مخاطب ہو کر)
ذرا آپ شجاعت بھائی کو بھیج دیجئے گا۔
دلاور:۔ ٹھیک ہے بھابھی صاحبہ ! میں چودھری صاحب کو بتا دوں گا۔ دلاور چلا جاتا ہے، نور محمد بیگ کو ان کی بیگم سہارا دے کر اندر لے جاتی ہے، کیمرہ دلاور کا تعاقب (Follow) کرتا ہے، قصبے کی گلیوں سے گزرتا ہوا ایک بوسیدہ سے مکان پر فوکس کرتا ہے، دروازہ اندر سے بند ہے، دلاور دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، اندر سے ذرا سا دروازہ کھول کر کوئی دیکھتا ہے۔
Cut to Next Scene
سین نمبر2
اندرونی:۔ چوپال کا اندرونی حصہ
کردار
معظم علی خان، جعفر مہدی، شجاعت حسین اور دلاور
گھر کے اندر قصبے کے کچھ ذمہ دار لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور کوئی سنجیدہ گفتگو چل رہی ہے، سب کے چہروں سے تشویش کے آثار صاف دکھائی دے رہے ہیں ، دلاور اندر داخل ہوتا ہے۔دروازہ پھر بند ہو جاتا ہے، دلاور ایک طرف بیٹھ جاتا ہے ایک لیڈر نما شخص کہتا ہے۔
معظم علی خان:۔ حضرات !میرٹھ میں جو بغاوت کی آواز اٹھی اس کی گونج دہلی میں سنائی دی اور یہ آگ چاروں طرف پھیل چکی ہے اور اب فرنگی بھیڑیوں کی طرح خونخوار ہو چکے ہیں اور اس بغاوت کو کچلنے کے لیے وہ بڑے سخت قدم اٹھا رہے ہیں۔ لکھنؤ ،بنارس اور فیض آباد میں بے شمار معصوم ہندوستانیوں کو یا تو پھانسی پہ لٹکادیا گیا ہے یا گولیوں سے بھون ڈالا گیا ہے اور اب یہ آگ شہروں سے نکل کر گاؤں اور قصبوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے رد عمل میں ہندوستانیوں کا خون بھی جوش میں آ چکا ہے کچھ جانباز ہندوستانیوں کی الگ الگ ٹولیاں بن چکی ہے جو ان فرنگیوں سے لوہا لے رہی ہیں۔
جعفر مہدی:۔ (ایک ادھیڑ عمر کے صاحب ) ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ فرنگیوں کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں جو انہیں پل پل کی خبر دے رہے ہیں۔ بلکہ خود کئی فرنگی افسر مقامی لوگوں کا بھیس بدل کر قصبوں میں گھوم رہے ہیں۔ یہ پتہ لگانے کے لیے کہ کون کون بغاوت میں شامل ہیں۔ ابھی مظفر نگر اور سہارنپور کے کچھ جانباز آئے تھے وہ کسی فرنگی افسر کو تلاش کر رہے تھے، وہ ہم سے پوچھ رہے تھے کہ کیا ہم نے کسی فرنگی کو بھیس بدلے ہوئے اس قصبہ میں تو نہیں دیکھا۔ ان نوجوانوں کے تیور بہت خطرناک لگ رہے تھے۔
چودھری شجاعت حسین:۔ خدا خیر کرے ، ویسے ابھی تک تو ہمارے قصبے میں امن و امان ہے؟ لیکن پتہ نہیں کب کوئی چنگاری شعلہ بن جائے ، ہم سبھی کو محتاط رہنا ہو گا۔
(سب لوگ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگتے ہیں ، دور سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے، لوگ ،آہستہ آہستہ باہر کی طرف جانے لگتے ہیں ، دلاور شجاعت کے پاس آ کر کچھ کہتا ہے، شجاعت سرہلا کر اس کو جواب دیتا ہے ، دونوں باہر کی طرف جاتے ہیں۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر3
اندرونی:۔ (شجاعت حسین کی حویلی)، رات کا وقت۔
کردار
شجاعت حسین، اس کی والدہ اور بیگم ، طاہر حسین
شجاعت حسین اپنے خاندان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں ، نوکر اوپر کا کام کر رہا ہے ،کھانا ختم کر کے شجاعت اپنی والدہ سے کہتا ہے۔
شجاعت:۔ امی جان آپ نے نور محمد کے لیے دوائیاں تیار کر دی ہیں نا۔۔۔؟
والدہ:۔ ہاں بیٹے، وہ وہاں اس کی چوکی پر ہی دوائی کی پوٹلی رکھی ہے۔
بیگم ناصرہ:۔ خدا تمہارے والد کو غریقِ رحمت کرے، اپنے وقت کے بڑے حکیموں میں شمار ہوتا تھا ان کا ان کے کچھ نسخے بڑے ہی کارگر ہیں ، جو میں نے سیکھ رکھے ہیں ، کسی دردمند کی تکلیف دور ہو جائے اس سے بڑھ کر ثواب اور کیا ہو گا۔ یہ دوائیں ابھی پہنچا آؤ اور میری طرف سے دعائیں بھی کہہ دینا۔
شجاعت حسین:۔جی امی جان، عشا ء کی نماز پڑھ کر ادھر ہی چلا جاؤں گا۔
طاہر حسین:۔ (مچل کر ) ابو ۔ ابو میں بھی آپ کے ساتھ چلوں چچا جان کے گھر۔
بیگم ام ہانی:۔ (طاہر کی ماں ) کوئی ضرورت نہیں ، اتنی رات میں جانے کی ، ابھی مغرب تک تو وہیں تھے، تمہیں تو بہانا چاہیے ماہ پارہ کے ساتھ کھیلنے کا۔
شجاعت:۔ ارے ڈانٹتی کیوں ہو بچے کو؟ آپ کے لیے تو ہمارا بھی یہی حال تھا۔ (پھر دونوں والدہ کو دیکھ کر جھینپ جاتے ہیں )
شجاعت بات بناتے ہوئے بیٹے طاہر اس وقت تو کافی رات ہو گئی۔ اب تو وہ لوگ بھی آرام کرنا چاہیں گے۔
شجاعت حسین دوا کی پوٹلی اٹھا کر باہر نکل جاتا ہے، ساتھ میں نوکر بھی باہر چلا جاتا ہے۔ دروازہ شجاعت کی بیگم اندر سے بند کر لیتی ہے، پھر اندر آ کر اپنے بیٹے سے کہتی ہیں۔
بیگم ام ہانی:۔ کیوں طاہر میاں۔۔۔۔ ماہ پارہ کے ساتھ کھیلنا آپ کو بہت اچھا لگتا ہے۔
طاہر حسین:۔ جی امی جان۔۔۔۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ماہ پارہ کو اپنے ہی گھر بلا لیا جائے یا پھر میں ہی اس کے گھر رک جاؤں۔
(ماں مسکراتی ہے ، دادی دوسرے کمرے میں جا کرپان تیار کرنے کے بعد منھ میں ڈالتی ہیں۔)
بیگم ام ہانی:۔ بیٹے صاحب تھوڑے بڑے ہو جائیے، پوری تعلیم حاصل کر لیجئے پھر ایک دن ماہ پارہ کو پالکی میں بٹھا کر خوب دھوم دھام کے ساتھ اپنے گھر لے آئیں گے۔
طاہر حسین:۔ (خوش ہو کر ) سچ امی جان۔۔۔۔۔؟
ام ہانی:۔ ہاں بالکل سچ ماہ پارہ کی امی سے ہم کہہ بھی چکے ہیں کہ بڑی ہو کر ماہ پارہ ہمارے گھر کی زینت بنے گی۔۔۔۔
طاہر حسین:۔ بڑی ہو کر کیوں ابھی کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟
ام ہانی:۔ (مسکرا کر)صاحب زادے،ابھی آپ بھی بہت چھوٹے ہیں اور پھر ماہ پارہ تو آپ سے بھی چھوٹی ہے اس کو بھی ہر وقت اپنے امی ابو کی تو یاد ستائے گی نا۔۔۔۔۔؟
طاہر حسین:۔ ارے ہاں وہ تو اپنے ابو ،امی سے بہت محبت کرتی ہے۔
(طاہر حسین دوسرے کمرے میں اپنی دادی کے پاس جا کر لیٹ جاتا ہے، جو ابھی لیٹی ہوئی تسبیح پڑھ رہی ہیں ، تسبیح ختم کر کے وہ طاہر پر دم کرتی ہیں پھر طاہر ان سے کہتا ہے)
طاہر حسین:۔ دادی جان، آج ایک کہانی سنائیے نا۔۔۔۔۔۔۔
بیگم ناصرہ:۔ اچھا ٹھیک ہے، تو سنو، پہلے تکیے پر ٹھیک سے سر رکھو۔
(اس کا تکیہ ٹھیک سے لگاتی ہیں اور ریشمی چادر پیروں پر ڈالتی ہیں )
ہزاروں سال پہلے ملک یونان میں ایک راجہ تھا، جو ایک بڑا ہی رحم دل اور انصاف پرست تھا ، اس کی حکومت میں چاروں طرف امن و امان تھا، ساری رعایا خوشحال تھی،اس کا ایک شہزادہ تھا۔ بہت خوبصورت ،بہت دلیر، بہت ذہین، بالکل تمہارے جیسا۔۔۔۔۔ اس کو گھڑ سواری اور تلوار بازی کا بہت شوق تھا۔۔۔۔۔۔
بھئی ہوں ہاں بھی کرتے رہو، ورنہ مجھے نیند آ جائے گی۔
طاہر حسین:۔ اچھا دادی تو آگے بتائیے ، پھر کیا ہوا؟
بیگم ناصرہ:۔ ’’پھر ہوا یہ ایک رات وہ اپنے محل کی چھت پر آرام سے لیٹا ہوا تھا، ہر طرف چاند کی روشنی پھیلی ہوئی تھی، جگمگاتے ہوئے تارے پورے آسمان میں بکھرے ہوئے تھے، وہ شہزادہ اپنے پلنگ پر لیٹے لیٹے آسمان کو دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا، وہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔ کاش مجھے ایک ایسی سیڑھی مل جائے جس پر چڑھ کر میں اس چاند تک پہنچ جاؤں اور ان جھلملاتے ہوئے تاروں کو اپنے ہاتھوں سے چھو سکوں۔۔۔۔۔۔۔ تبھی اس نے دیکھا چاند سے جھلملاتے ہوئے تاروں کی ایک قطار اس کے محل کی چھت پر آ گئی ہے جب اس نے غور سے دیکھا وہ تاروں کی قطار نہیں بلکہ ایک لمبی سی چمکتی ہوئی سیڑھی ہے اور اس سیڑھی سے ایک خوبصورت بالکل سرخ لباس پہنے، ننھی سی پری اتر رہی ہے اور وہ پری اس کے بالکل پاس آ کے کھڑی مسکرا رہی ہے۔‘‘
طاہر حسین:۔ دادی جان۔۔۔۔۔ کیا وہ لال پری بالکل ماہ پارہ جیسی تھی۔۔۔۔؟
بیگم ناصرہ:۔ ہاں۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔ بالکل ماہ پارہ جیسی نور کی بنی ہوئی اتنی ہی خوبصورت ،اتنی ہی نازک اور جب شہزادے نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو۔۔۔۔؟ تو اس نے کہا میں لال پری ہوں ، پھر شہزادے نے پوچھا تم یہاں کیوں آئی ہو ، تو پری نے کہا شہزادے میں آپ سے ملنے آئی ہوں اور آپ کو اپنے ساتھ اپنے دیش چاند پر لے جانے آئی ہوں کیا۔آپ میرے ساتھ چلیں گے۔۔۔۔ تو شہزادے نے کہا ’’ہاں لال پری میں ضرور چلوں گا مجھے تو چاند پر جانے کا بہت شوق ہے لیکن پہلے میں اپنی امی اور ابو سے اجازت لے لوں۔‘‘ پھر پری نے کہا ’’شہزادے اگر آپ کی امی ،ابو اجازت نہیں دیں گے؟ تو پھر میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا ، لیکن تم۔۔۔۔‘‘(دادی نے طاہر حسین کی طرف دیکھا۔۔۔۔ وہ گہری نیند سوچکا تھا ، بیگم ناصرہ نے اس کو ریشمی چادر پوری اڑھا دی، لیمپ کی روشنی دھیمی کر کے خود بھی کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر4
بیرونی
کردار
شجاعت حسین، بیگم روشن آرا اور کچھ دیگر لوگ
چودھری شجاعت حسین عشا کی نماز پڑھ کر مسجد کی سیڑھیاں اتر رہے ہیں ، ان کے ساتھ کچھ اور نمازی بھی مسجد سے باہر نکل رہے ہیں مسجد سے اتر کر شجاعت حسین ایک گلی میں مڑ جاتے ہیں ، ہاتھ میں دوائی کی پوٹلی ہے، اندھیرے میں آگے بڑھتے ہیں اور نور محمد بیگ کا دروازہ کھٹکھٹا تے ہیں ، اندر سے روشن آرا کی آواز آتی ہے۔
بیگم روشن آرا:۔ کون صاحب ہیں۔۔۔۔؟
شجاعت حسین:۔بھابھی میں ہوں ،شجاعت حسین
(دروازہ کھلتا ہے)
بیگم روشن آرا:۔ آداب بھائی صاحب!
شجاعت حسین:۔آداب بھابھی۔۔۔۔۔۔ کیا نور محمد سوگئے ہیں۔۔۔۔۔؟
بیگم روشن آرا:۔نہیں بھائی صاحب ، درد کی وجہ سے انہیں نیند کہاں آنے والی، آپ ہی کا انتظار کر رہے ہیں ، آئیے، اندر تشریف لائیے۔
(شجاعت حسین روشن آرا کے پیچھے اندر جاتے ہیں )
سین نمبر5
اندرونی:۔( نور محمد بیگ کا گھر)
کردار
شجاعت حسین ،بیگم روشن آرا، نور محمد بیگ، ماہ پارہ
(چودھری شجاعت حسین نور محمد بیگ کے گھر میں ہیں ، نور محمد اپنے پلنگ پر لیٹے ہیں ، ماہ پارہ ان کا سر دبا رہی ہے۔ شجاعت حسین کو دیکھتے ہی خوشی سے آداب کرتی ہے۔
ماہ پارہ:۔ آداب چچا جان۔
شجاعت:۔ جیتی رہو، میری بیٹی۔۔۔۔۔ بھئی نور محمد السلام علیکم!
نور محمد بیگ:۔ (آنکھیں کھول کر )وعلیکم السلام۔۔۔۔۔
ماہ پارہ:۔ (پلنگ سے اتر کر دروازے تک جا کے واپس آ کر پوچھتی ہے) چچا جان کیا طاہر نہیں آیا۔۔۔۔؟
شجاعت حسین:۔نہیں بیٹے، وہ آنا تو چاہ رہا تھا ،لیکن اس کی امی نے روک دیا اور اب تو وہ اپنی دادی سے کہانی سنتے سنتے سو بھی چکا ہو گا۔
(ماہ پارہ مایوس ہو جاتی ہے،شجاعت نور محمد سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے۔
’’ارے بھئی یہ کیا حال بنا رکھا ہے پہلے خبر کیوں نہیں کی۔۔۔۔؟‘‘
نور محمد بیگ:۔ آج ہی دوپہر سے درد میں زیادہ شدت ہوئی ہے۔
شجاعت:۔ مجھے دلاور نے ساری تفصیل بتا دی ہے، لیجئے بھابھی امی جان نے یہ دوائیں بھیجیں ہیں ، ایک چمچ سفوف تین مرتبہ گرم پانی کے ساتھ اور ایک شیشی میں تیل ہے اس سے مالش کر کے گرم ریت سے سکائی کیجئے گا اور اس میں ایک تعویذ بھی ہے جو داہنے بازوں میں باندھ لیجئے گا، اللہ نے چاہا تو بہت جلد فائدہ ہو گا۔
(بیگم روشن آرا۔۔۔۔۔ دوائیں لیتی ہیں اور دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہیں )
نور محمد بیگ:۔ کیا بات ہے چودھری صاحب ، دلاور کو کیوں بھیجا تھا بلانے کے لیے سب خیریت تو ہے نا۔۔۔۔۔؟
شجاعت:۔ نہیں بھئی، حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
نور محمد:۔ کیا ہوا۔۔۔۔۔؟
شجاعت:۔ وہی میرٹھ کی بغاوت نے سخت گیری اختیار کر لی ہے، ہر طرف افراتفری ہے۔
نور محمد بیگ:۔ خدا غارت کرے ان فرنگیوں کو، ہم ہندوستانیوں کا چین سکون چھین رکھا ہے، نہ جانے کب ان کے ظلم سے چھٹکارا ملے گا۔
شجاعت:۔ بھئی ہم لوگ بھی تو کم نہیں ، ہمارے کچھ غیر دانشمند نوجوان جوش میں آ جاتے ہیں اور انہیں معصوموں پر ظلم کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔
نور محمد:۔ اس ذلت کی زندگی سے تو موت بہتر ہے چودھری صاحب، اگر ہم سب ہندوستانی ایک ہو جائیں تو ان مٹھی بھر انگریزوں کی جڑیں اکھاڑ پھینکیں گے۔۔۔۔۔؟
شجاعت:۔ اچھا۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔۔ ابھی پہلے تو تم اپنی حالت دیکھو میاں ، جو ش میں انسان ہوش کھو بیٹھتا ہے۔
نور محمد:۔ چودھری صاحب! دشمنوں کے ساتھ بھی آپ کی یہ نرمی۔۔۔۔۔۔
شجاعت:۔ کوئی نرمی ورمی نہیں ہے میں ظلم کا جواب سختی سے دینے کا عادی ہوں لیکن بغیر سوچے سمجھے کوئی قدم اٹھانا، نادانی ہے، اچھا خیر تم اب آرام کرو۔۔۔۔ میں چلتا ہوں۔
روشن آرا:۔ ارے بھائی صاحب رکئے، میں شربت لا رہی ہوں۔
شجاعت:۔ نہیں بھابھی، اس وقت کچھ بھی نہیں ، مجھے بھی نیند آ رہی ہے، جلدی گھر پہنچ کر سونا چاہتا ہوں۔( شجاعت باہر کی طرف جاتا ہے ، ماہ پارہ دوڑی ہوئی ان کے پیچھے دروازے تک آتی ہے)
ماہ پارہ:۔ اچھا چچا جان خدا حافظ۔۔۔۔۔
(دروازہ بند ہو جاتا ہے)
Cut to Next Scene
سین نمبر6
بیرونی:۔ قصبے کی گلیاں ؍رات کا وقت
کردار
شجاعت حسین، ایک فرنگی افسر
شجاعت حسین لوٹ کر اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے ، دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ شجاعت تیز تیز قدم بڑھاتا ہے۔
رات کے سناٹے میں پیچھے سے کسی کے بھاری قدموں سے دوڑنے کی آواز محسوس ہوتی ہے اور نزدیک آتی جا رہی ہے، اندھیرے میں ایک سایہ ابھرتا ہے ، شجاعت تھوڑا سا بچ کر ایک طرف ہٹ جاتا ہے وہ سایہ بھاگتا ہوا ، لڑکھڑاتا ہے اور آگے جا کر گر پڑتا ہے، آگے گلی میں زمین پر ایک آدمی اوندھے پڑا ہوا ہے، شجاعت نزدیک پہنچ کر ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، جھک کر اس آدمی کو چھوتا ہے ، نبض دیکھتا ہے ،پھر ناک کے پاس ہاتھ لے جا کر سانس چلنے کا یقین کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر ایک دم چونک جاتا ہے۔
End of 2nd Episode
EPISODE NO.3
سین نمبر: 1
بیرونی (Exterior)
وقت: رات
کردار
شجاعت حسین، زخمی انگریز افسر
چودھری شجاعت حسین گرے ہوئے آدمی کی نبض تلاش کر رہا ہے اور اس کی ناک پر ہاتھ لے جا کر سانس کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا ہے، سانس چل رہی ہے یہ اطمینان کر کے ادھر ادھر دیکھتا ہے ،بے ہوش آدمی کو ہلا کر ڈولا کر ہوش میں لانے کی کوشش کرتا ہے ، اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہے۔
شجاعت حسین:۔ارے بھائی ،ہوش میں آؤ (اس کے گال تھپ تھپاتا ہے) آنکھیں کھولو، کون ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس قصبے کے ہو یا کوئی مسافر، اٹھو۔۔۔۔۔ ہوش میں آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ اجنبی ہوش میں نہیں آتا۔۔۔۔۔ پھر شجاعت اپنے آپ سے کہتا ہے۔
شجاعت:۔ پتہ نہیں یہ کون ہے، مصیبت کا مارا ، لباس سے تو یہ اس قصبے کا ہی لگتا ہے، لیکن پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
(کتوں کے بھونکنے کی آوازیں مسلسل آ رہی ہیں کبھی مدھم ہو جاتی ہیں اور کبھی تیز ) (شجاعت پھر بڑ بڑاتا ہے)
شجاعت:۔ اگر اس کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو یہ مر جائے گا اور یہاں اس وقت کسی کی مدد ملنا بھی ممکن نہیں ہے، چلو فی الحال اس کو گھر ہی لے چلتے ہیں بعد میں سوچیں گے کہ کیا کیا جائے۔
(شجاعت بمشکل تمام اس بے ہوش آدمی کو اپنے کندھے پر لادنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس کو لے کر گھر کی طرف چل دیتا ہے۔
بے ہوش آدمی کافی بھاری ہے شجاعت چلتے چلتے تھک جاتا ہے ، ایک جگہ کسی چبوترے پر آدمی کو لٹا دیتا ہے اور خود سانس لینے کے لیے کچھ دیر بیٹھ جاتا ہے پھر وہ اپنے لباس کو دیکھتا ہے، اس کا خون بہہ رہا ہے ،وہ غور سے بے ہوش آدمی کو دیکھتا ہے وہ ایک انگریز ہے جو مقامی لباس پہنے ہوئے ہے، وہ اس کو ٹٹولتا ہے اس کی کمر سے بیلٹ میں پستول بندھا ہوا ہے، پھر شجاعت ادھر ادھر دیکھتا ہے ، دور دور تک کوئی نہیں ،دوبارہ ہمت کر کے اس کو پھر اٹھاتا ہے اور اپنے گھر کی طرف چل دیتا ہے، گھر پہنچ کر دروازہ آہستہ آہستہ کھٹکھٹاتا ہے ، اس کی بیوی دروازے کھولتی ہے اور اپنے شوہر کو اس حالت میں دیکھ کر گھبرا جاتی ہے، گھبرائی ہوئی وہ اس سے کئی سوال کر ڈالتی ہے، لیکن شجاعت کسی کا بھی جواب دیے بغیر اندر گھس جاتا ہے، اور دروازہ بند ہو جاتا ہے۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر2
لوکیشن:۔ اندرونی انٹریئر(شجاعت حسین کے گھر کا منظر)
وقت: رات
کردار
شجاعت حسین، ناصرہ بیگم، ام ہانی، ماہ پارہ
گھر کے اندر بے ہوش مریض کو شجاعت ایک پلنگ پر لٹا دیتا ہے، اس کی بیوی پریشان ہے، ماں دوسرے کمرے میں اپنے پوتے ،طاہر کے ساتھ سورہی ہے، بیوی پوچھتی ہے۔
بیگم ام ہانی:۔ (پریشان ہو کر) آخر آپ بتاتے کیوں نہیں کہ یہ کون ہے اور اس کو ہوا کیا ہے۔؟
شجاعت:۔ (ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپکے سے اشارہ کرتا ہے اور سرگوشی میں کہتا ہے) ایک مصیبت کا مارا ہے، کسی نے اس کو زخمی کر دیا، یہ مجھے بے ہوش پڑا ہوا ملا۔
ام ہانی:۔ کون ہے یہ۔۔۔(اس کے چہرے پر روشنی ڈالتے ہوئے غور سے دیکھتی ہے)
شجاعت:۔ پتہ نہیں کوئی اجنبی مسافر ہے۔
ام ہانی:۔ لیکن صورت سے کوئی فرنگی لگتا ہے۔
شجاعت:۔ ہاں شاید فرنگی ہے لیکن مصیبت زدہ ہے۔
(ان کی آوازیں سن کر بیگم ناصرہ زمانی (ماں ) دوسرے کمرے سے اٹھ کر آ جاتی ہے۔)
ماں :۔ کیا بات ہے، تم لوگ کچھ پریشان لگ رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔؟
(پھر شجاعت کے کپڑوں پر لگا خون دیکھ کر ایک دم چونک پڑتی ہے۔)
یہ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خون کیسا ہے ؟کیا کسی سے لڑائی ہوئی ہے۔۔۔۔؟
(اجنبی بے ہوش کو دیکھ کر ) یہ کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے۔)
شجاعت:۔ (تسلی دیتے ہوئے )امی۔۔۔۔۔۔ امی جان آپ پریشان مت ہوئیے، یہ ایک اجنبی مسافر ہے، زخمی ہو کر بے ہوش ہو گیا تھا،میں اس کو یہاں اٹھا لایا کہ شاید یہ زندہ بچ جائے۔
ام ہانی:۔ لیکن امی جان یہ فرنگی ہے، مقامی لباس پہن رکھا ہے۔
ماں :۔ لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔۔۔ یہ ناپاک اور نجس انسان کو اپنے گھر کیوں لے آئے۔؟
شجاعت:۔ امی جان یہ مر رہا ہے، اس کو ہماری مدد کی ضرورت ہے اور خاص طور پر آپ کی مدد کی ضرورت ہے، اس کا خون کافی بہہ چکا ہے، اس کا علاج صرف آپ ہی کر سکتی ہیں۔
ماں :۔ اس کا علاج کرے میری جوتی، اس کو وہیں پھنک آؤ جہاں سے اٹھا لائے ہو، اب تو اس پورے گھر کو پاک کرنا ہو گا۔
شجاعت:۔ امی جان۔۔۔۔؟ اتنی سنگ دل مت بنئے ،یہ فرنگی ہوا تو کیا ہوا ، ہے تو انسان ہی نا اور یہ تعلیم تو آپ ہی نے مجھے دی ہے کہ کسی کی بھی مصیبت میں اس کی مدد کرنی چاہیے وہ اپنا ہویا بیگانہ آپ سے تو جانوروں تک تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔ یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب میں چھوٹا تھا ایک زخمی کبوتر اپنے آنگن میں آ کر گرا تھا، آپ ہی نے اس کو اٹھا کر اس کا علاج کیا تھا اور اس مرتے ہوئے کبوتر کو بچا لیا تھا، یاد ہے نا اور جب وہ کبوتر تندرست ہوکے ہمارے ساتھ رہنے لگا تھا تو آپ کتنی خوش ہوئیں تھیں پھر ایک روز جب اس کبوتر کو بلی کھا گئی تو آپ کتنا روئیں تھیں۔ کئی روز تک آپ نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا امی جان خدا کے لیے اس کا علاج کیجئے۔ دیر ہو گئی تو یہ مر جائے گا۔
امی کی نظروں میں وہ منظر چھا جاتا ہے، پھر وہ فرنگی کا علاج شروع کر دیتی ہے، رات بھر اس کے زخموں پر لیپ لگا کر اس کے سر پر پٹیاں رکھ کر علاج ہوتا رہا۔ اچانک صبح کے وقت دروازے پر شور ہونے لگا، باہر سے آنے والی آوازوں نے ان سب کو جگا دیا فرنگی اب بھی بے ہوش تھا۔ شجاعت اپنی ماں ، بیوی اور بیٹے کے ساتھ گھبرایا ہوا تھا ، اس کی بیوی نے اوپری منزل کے جھروکے سے جھانک کر دیکھا۔بڑے دروازے کے باہر کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں اور وہ دروازہ پیٹ رہے تھے۔
ہجوم:۔ ’’ دروازہ کھولو، ورنہ توڑ دیں گے‘‘۔باہر سے شور کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
’’جلدی دروازہ کھولو، ورنہ ہم تم سب کو مار ڈالیں گے‘‘
(’’شجاعت حسین اپنی تلوار لے کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا تو اس کی بیوی آ کر اس کے قدموں سے لپٹ گئی۔‘‘)
ام ہانی:۔ خدا کے لیے آپ باہر نہ جائیں ، ان لوگوں پر خون سوار ہے، وہ کئی لوگ ہیں ، آپ ان کا مقابلہ اکیلے نہیں کر پائیں گے۔
شجاعت:۔ لیکن میں ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بھی تو نہیں بیٹھ سکتا۔
ام ہانی:۔ تھوڑا انتظار کر لیجئے ان کا جوش کم ہونے دیجئے۔خدا کے لیے رک جائیے۔
(اسی وقت طاہر ان کے پاس آتا ہے ،ماں بھی شجاعت کو سمجھاتی ہے ،باہر شور بدستور جاری ہے۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر3
بیرونی۔ شجاعت کے گھر کا باہری منظر
کردار
چودھری منظور،محلے کے کچھ لوگ اور باغی نوجوانوں کا ہجوم دروازے کے باہر ہندوستانی جانبازوں کا دستہ ہے، وہ دروازہ پیٹ رہے ہیں ، آس پڑوس والے ڈرے سہمے اپنے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ پھر ایک دو لوگ ہمت کر کے آگے بڑھتے ہیں ، محلے کا ایک عمر رسیدہ شخص ان لوگوں سے پوچھتا ہے۔
چودھری منظور:۔ اے نوجوان ہندوستانی بھائیو! کیا بات ہے، آپ لوگ اتنے غصّے میں کیوں ہیں اور چودھری صاحب کا دروازہ توڑنے پر کیوں آمادہ ہیں۔۔۔۔۔؟
ایک نوجوان:۔ کل رات ایک فرنگی افسر جو ہندوستانیوں کے لباس میں جاسوسی کر رہا تھا اس کو ہم نے جنگل میں زخمی کر دیا تھا، لیکن وہ ہمیں چکمہ دے کر اس قصبے کی طرف بھاگ آیا ہے۔
چودھری منظور:۔ لیکن اس فرنگی سے چودھری شجاعت کا کیا لینا دینا، ان کے گھر پر کیوں چڑھ آئے ہو؟
دوسرا نوجوان:۔ہم لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہیں ، رات میں اندھیرے کی وجہ سے اسے ڈھونڈ نہیں سکے لیکن اب اجالے میں دیکھا تو اس کے خون کے نشان اس دروازے تک آ کر ختم ہو گئے ہیں ، ہمیں یقین ہے کہ وہ زخمی فرنگی اس گھر میں چھپا ہو گا، ہم اس کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔
(محلے کے اور دوسرے لوگ بھی جمع ہو جاتے ہیں اور ان نوجوانوں کوسمجھا بجھا کر اطمینان دلاتے ہیں۔)
چودھری منظور احمد:۔چودھری شجاعت حسین پکے ہندوستانی ہیں وہ کسی فرنگی کو اپنے یہاں پناہ نہیں دیں گے۔
نوجوان:۔ تو پھر وہ دروازہ کیوں نہیں کھول رہے ہیں۔۔۔۔۔۔؟
منظور احمد:۔ ہوسکتا ہے، وہ آپ کا شور سن کر کچھ گھبرا گئے ہوں ، ان کی بوڑھی والدہ اکثر بیمار رہتی ہیں ، آپ لوگ اطمینان رکھئے، ہم چودھری شجاعت سے بات کر کے تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلوا لیں گے آپ لوگ بیٹھ جائیے۔
نوجوان:۔ ہم یہیں پہرہ دیں گے جب تک کہ یہ دروازہ نہیں کھلتا اور جب تک ہم اس مکان کی تلاشی نہیں لے لیتے۔
(نوجوان کا جوش کچھ کم ہوتا ہے، منظور احمد اپنے گھر سے پانی چائے اور ناشتہ لا کر ان نوجوانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں سب کے سب دروازے پر ڈیرہ جما کر بیٹھ جاتے ہیں۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر4
اندرونی انٹریئر
وقت: رات
کردار
شجاعت حسین، ان کی ماں ، ان کی بیگم ،بچہ طاہر حسین، زخمی انگریز افسر، نور محمد بیگ اور نوکر۔
(اندر شجاعت حسین کا خاندان گھبراہٹ کے ساتھ مریض کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتا ہے، کئی دن یوں ہی گزر جاتے ہیں آخر کار ان کی محنت کامیاب ہوتی ہے اور فرنگی آنکھیں کھول دیتا ہے، لیکن کمزوری کے باعث اٹھ نہیں سکتا۔)
(کبھی کبھی شجاعت اور اس کی بیوی چھپ چھپ کے باہر کے نوجوانوں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، باہر ان نوجوانوں نے کیمپ لگا رکھا ہے، باہر نکلنا ممکن نہیں ہے، شجاعت بہت پریشان ہے ، رات کو اندھیرے میں ان کے گھر کی پچھلی دیوار میں آہٹ ہوتی ہے کوئی ان کی دیوار پر ضرب لگا رہا ہے۔وہ سب پریشان ہو جاتے ہیں ،فرنگی بھی چونک جاتا ہے اور اپنی پستول نکال کر تیار ہوتا ہے لیکن کمزوری کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر گر جاتا ہے، چودھری شجاعت حسین اس کی پستول اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔دیوار کے بالکل پاس آ جاتا ہے۔ اندر اس کی بوڑھی ماں ، بیوی اور بیٹا بہت گھبرائے ہوئے ہیں ، جیسے ہی دیوار کی ٹوٹی ہوئی ایک اینٹ اندر گرتی ہے، ماں پر دل کا دورہ پڑتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتی ہے، ادھر شجاعت حسین دیوار میں ہوئے سوراخ سے للکارتا ہے،’’ خبردار اگرکسی نے اندرگھسنے کی کوشش کی تو گولی چلا دوں گا‘‘۔لیکن ادھر سے ان کے دوست مرزا نور محمد بیگ کی آواز آتی ہے۔)
نور محمد بیگ:۔ چودھری صاحب آواز اونچی مت کیجئے، باہر لوگ آپ کے خون کے پیاسے ہیں ، میں آپ کی مدد کرنے آیا ہوں ، دیوار میں اتنا راستہ ہو جائے کہ آپ لوگ باہر نکل سکیں۔
شجاعت حسین خوش ہو جاتے ہیں ، لیکن اس کی بیوی کہتی ہے کہ امی کو دیکھئے کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔ شجاعت حسین ان کی طرف بڑھتا ہے۔
باہر دروازے پر پھر شور بلند ہوتا ہے، نوجوانوں کا صبر کا باندھ ٹوٹ چکا ہے، وہ دروازہ توڑنے پر آمادہ ہیں ،کدال اور کلہاڑیوں سے دروازہ توڑا جا رہا ہے ، شجاعت حسین دیکھتا ہے کہ اس کی امی پر بے ہوشی طاری ہو رہی ہے، ادھر نور محمد بیگ دیوار میں سوراخ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ ایک ایک کر کے، وہ سب باہر نکل سکیں۔ سب سے پہلے طاہر کو وہ سوراخ سے باہر نور محمد کو دے دیتا ہے، پھر فرنگی کو بمشکل باہر نکالتا ہے، اس بیچ امی کو ہوش آ جاتا ہے وہ بھی چادر اوڑھے باہر نکل جاتی ہے، اس کے بعد ام ہانی کو باہر نکالتا ہے، بعد میں خود کو دیوار کے سوراخ سے باہر نکالتا ہے، باہر آتے ہی وہ سب کے سب سامنے دیکھ کر چونک جاتے ہیں۔
End of 3rd Episode
EPISODE NO.4
کردار
۱۔ چودھری شجاعت حسین
۲۔ بیگم ام ہانی(بیوی)
۳۔ بیگم ناصرہ(ماں )
4۔ بیٹا طاہر حسین
۵۔ جارج روبن (فرنگی افسر)
۶۔ نوکر رحیم میاں
۷۔ مرزا نور محمد بیگ
سین نمبر1
بیرونی
کردار
دیوار کے باہر شجاعت کا وفادار نوکر کھڑا ہوا ہے، اسے دیکھ کر شجاعت کہتا ہے۔
شجاعت:۔ ارے تم یہاں کیسے۔۔۔۔۔؟
نور محمد بیگ:۔ چودھری صاحب ! یہی رحیم میاں نے ہی تو مجھے خبر کی کہ آپ مصیبت میں ہیں اور اسی نے یہ ترکیب بھی سمجھائی کہ آپ کو اس طرح باہر نکالا جا سکتا ہے، ادھر سب سنسان جنگل ہے، کوئی آپ کو دیکھ بھی نہیں پائے گا۔
(سب رحیم میاں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔)
اب جلدی یہاں سے چل دیجیے، وقت ضائع کرنا خطرے سے خالی نہیں۔
نور محمد بیگ طاہر حسین کا ہاتھ پکڑتے ہیں ، شجاعت حسین فرنگی کو سہارا دے کر چلتا ہے اور بہو اپنی ساس کو سہارا دیتی ہے ،بیگم ناصرہ (ماں ) نور محمد سے پوچھتی ہے۔
بیگم ناصرہ:۔ نور محمد، اب تمہاری طبیعت کیسی ہے۔۔۔۔؟
نور محمد:۔ امی جان آپ کی دوا نے تو جادو کا اثر کیا ، میں تین خوراک میں ہی اچھا ہو گیا۔
(سامنے بیل گاڑی کھڑی ہے، اس میں ایک ایک کر کے سب سوار ہو جاتے ہیں ، رحیم میاں گاڑی ہانکتا ہے اور نور محمد بیگ انہیں ہاتھ ہلا کر الوداع کہتا ہے گاڑی جنگل کی طرف بڑھ جاتی ہے۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر 2
بیرونی (Exterior)
وقت: دن (صبح)
کردار
شجاعت حسین، ان کی ماں ، بیگم اور بیٹا،نوکر، جارج رابن اور کچھ انگریز سپاہی
صبح ہوتے ہوتے گاڑی انگریزوں کی چھاؤنی تک پہنچ جاتی ہے، ہر طرف فوجی ٹینٹ لگے ہوئے ہیں ، گاڑی کو دیکھ کر تین چار فوجی بندوقیں تانے گاڑی کو گھیر لیتے ہیں ، لیکن جارج روبن کو دیکھ کر سیلوٹ دیتے ہیں۔ جارج گاڑی سے اترتا ہے اور فوجیوں کو حکم دیتا ہے کہ۔
جارج روبن:۔ یہ ہمارے خاص مہمان ہیں ان کے ٹھہرنے کا اعلیٰ انتظام کرو۔
(پھر سب لوگ گاڑی سے اترتے ہیں ، انہیں ایک خوبصورت ٹینٹ میں لے جایا جاتا ہے، جارج روبن بھی ان کے ساتھ ہے۔)
جارج روبن:۔ (شجاعت حسین سے کہتا ہے) آپ کا احسان میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ آپ نے اور آپ کے خاندان نے میری جان بچائی ہے میری وجہ سے آپ کو اپنی زندگی خطرے میں ڈالنی پڑی۔ آپ کو اپنا گھر ، اپنا قصبہ چھوڑنا پڑا، اتنا بڑا احسان میں بھول نہیں سکتا۔ کچھ دن آپ یہاں ہماری چھاؤنی میں آرام سے رہیں ، جلدی ہی میں آپ کا کچھ انتظام کر دوں گا۔ ابھی مجھے اپنے آفس جانا ہو گا۔
شجاعت:۔ نہیں جناب ہم نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو ہمارا انسانی فرض تھا۔
جارج روبن:۔ Thank You very Much جلد ہی میں میں آپ سے ملوں گا۔
جارج روبن باہر چلا جاتا ہے۔
Over To Scene No.3
Exterior ۔ Front Gate
بھیڑ شجاعت حسین کا دروازہ توڑ کر ان کے گھر میں گھس گئی۔
Over to Scene No ۔ 4
Interior ۔
جانباز نوجوان سبھی کمروں کی تلاشی لیتے رہے، پھر ان کی نظریں ٹوٹی ہوئی دیوار پر پڑیں ایک ایک کر کے سب باہر نکلے۔
Over To Scene No ۔ 1
Interior
باہر سنسان جنگل ہے، اور ایک کچا راستہ جنگل کی طرف جاتا ہوا دور تک دکھائی دے رہا ہے، نوجوانوں کی ٹولی اس راستے کی طرف دوڑ جاتی ہے۔
Cut to Next Scene)
سین نمبر۔3
Interior
ایک بڑے سے ہال میں اسٹیج سجاہوا ہے، انگریز اور ہندوستانی شرفاء کا مجمع ہے، ہر طرف سجاوٹ ہے، فوجی جوان ادھر ادھر گھوم رہے ہیں ، چودھری شجاعت حسین اپنی والدہ اور بیگم اور بیٹے کے ساتھ سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ سبھی مہمان آ چکے ہیں۔ یہ مخصوص تقریب جارج روبن کے زندہ بچ جانے اور ان کی جان بچانے والے خاندان کے اعزاز میں ہو رہی ہے، مہمان خصوصی کی آمد پر سبھی موجودہ سامعین کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پروگرام شروع ہوتا ہے، مہمان خصوصی کو ڈائس پر بلایا جاتا ہے، مہمان خصوصی خود کرنل جارج روبن ہی تھے۔
کرنل جارج روبن:۔ (کھڑے ہو کر اعلان کرتے ہیں۔)
لیڈیز اینڈ جنٹلمین آج ہمیں یہ اعلان کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ ہمارے دوست جن کی وجہ سے ہم آج زندہ آپ کے سامنے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین کو حکومت برطانیہ کی طرف سے اعزاز دیا جا رہا ہے، آج سے انہیں ’آغا خان بہادر‘ کا لقب دیا جاتا ہے، اور ساتھ ہی انہیں اس قصبے کا نواب بنایا جاتا ہے۔ (تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے پورا ہال گونج اٹھتا ہے)
چودھری شجاعت اور اس کے خاندان والوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے)چودھری صاحب کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے اور خود کرنل جارج روبن اپنے ہاتھوں سے انہیں خلعت پہناتے ہیں اور سرکاری فرمان ان کو عطا کرتے ہیں اور انہیں گلے لگاتے ہیں۔پروگرام ختم ہوتا ہے، سبھی لوگ باہر نکلنے لگتے ہیں۔
سین نمبر4
بیرونی Exterior
وقت: دن
کردار
شجاعت حسین کا خاندان، انگریز سپاہی
ہال کے باہر سجی ہوئی بگھی کھڑی ہے، نواب چودھری شجاعت حسین آغا خان بہادر اپنے خاندان کے ساتھ ہال سے باہر آرہے ہیں ، فوجی سپاہی انہیں سیلوٹ کرتے ہیں اور رہبری کرتے ہوئے عزت کے ساتھ انہیں بگھی میں سوار کرتے ہیں بگھی روانہ ہوتی ہے۔(کیمرہ اس کو Followکرتا ہوا آگے بڑھتا ہے، بگھی ایک عالی شان حویلی کے سامنے رکتی ہے، دربان آگے بڑھ کر بگھی کا دروازہ کھولتا ہے، پھر جھک کر سلام کرتا ہے، نواب صاحب اتر کر اپنے خاندانی افراد کے ساتھ حویلی میں داخل ہو جاتے ہیں۔
Cut to Next Scene
سین نمبر5
بیرونی (Exterior)
وقت: دن
کردار
باغی نوجوانوں کی ٹولی
جنگل میں ہندوستانی باغی نوجوانوں کی ٹولی چودھری شجاعت حسین کے بچ نکلنے اور ساتھ ہی فرنگی افسر کو بھی بچا لے لینے کی وجہ سے برہم ہے، سبھی جوان ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر مشورہ کرتے ہیں۔
ایک نوجوان:۔ آخر وہ بھاگا کیسے؟ اور ہم کو آہٹ بھی نہیں ہوئی۔
دوسرا:۔ اس کی مدد کرنے والا کون ہے۔۔۔؟
اس کو تلاش کر کے سزا دینا ضروری ہو گیا ہے، تاکہ قصبے والوں کو پتہ چلے کہ ہم سے دغا بازی ٹھیک نہیں۔
پہلا نوجوان:۔ ہاں ہاں چلو اس کا پتہ لگاتے ہیں۔
دوسرا:۔ ارے ٹھہرو۔۔۔۔۔۔
چودھری یہاں سے نکل کر فرنگی کو ضرور چھاؤنی لے گیا ہو گا، وہ فرنگی افسر ضرور انگریز فوج کے ایک بڑے دستے کو ہم پر حملہ کرنے کو بھیجے گا ایسا نہ کوہ ہم سب اس قصبے میں گھر جائیں۔
تیسرا:۔ ہاں۔۔۔۔ اس وقت اس قصبے میں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے، اب یہاں سے چلو۔۔۔۔ سب الگ الگ روپوش ہو جائیں ، ورنہ ہم سب مارے جائیں گے
پہلا:۔ ہاں چلو، بھاگو۔
(سب نوجوان جنگل میں الگ الگ بھاگ جاتے ہیں۔)
Cut to Next Scene
کچھ مہینوں بعد
سین نمبر6
بیرونی Exterior
وقت: رات
کردار
نور محمد بیگ، بیگم روشن آرا، ماہ پارہ
مرزا نور محمد بیگ اپنے گھر میں سورہے ہیں ، دوسرے پلنگ پر ان کی بیوی اور ماہ پارہ سورہی ہیں ، قندیل کی مدھم روشنی میں سارا ماحول پراسرار لگ رہا ہے، آدھی رات گزر چکی ہے، دور سے کتے کے رونے کی آواز آ رہی آر ہی ہے، اچانک ان کے گھر کے دروازے پر دستک ہوتی ہے، بیگم چونک کر اٹھ پڑتی ہے، دوبارہ دستک ہوتی ہے وہ اپنے شوہر کو ہلا کر جگاتی ہیں ، نور محمد بھی چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے۔
نور محمد:۔ اتنی رات گئے، اس وقت کون ہوسکتا ہے۔۔۔۔؟
بیگم روشن آرا:۔ پتہ نہیں ، (خوف زدہ ہو کر )
یا خدا تو خیر کر۔۔۔۔۔ یارب ہماری جان و آبرو کی تو حفاظت فرما۔
(تھوڑے وقفے کے بعد پھر دستک ہوتی ہے، اب ان کی بیٹی ماہ پارہ بیگ بھی جاگ جاتی ہے، نور محمد پلنگ سے اتر کر دروازے کی طرف بڑھتا ہے، اس کے پیچھے پیچھے اس کی بیوی اور بیٹی بھی دروازے تک جاتے ہیں۔ پھر دستک ہوتی ہے، نور محمد کپکپاتے ہاتھوں سے دروازے کی زنجیر کھولتا ہے، اس کی بیوی بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی ہے، ایک ہاتھ میں لیمپ لیے کھلتے ہوئے دروازے کو دیکھتی ہے، دروازہ کھولتا ہے اور سب کی نظریں وہیں ٹھہر جاتی ہیں۔
End of 4th Episode
Episode 5
کردار
(1)مرزا نور محمد بیگ(2) بیگم روشن آرا (3) ماہ پارہ نور (4)دلاور ) ڈرائیور
(6) کچھ بچے(7) چھوٹا طاہر حسین (8) بڑا طاہر حسین (9) جوان ماہ پارہ(10) انگریز جوان
سین نمبر (1)
Exterior بیرونی
رات کا وقت
کردار
دلاور، نور محمد بیگ، روشن آرا، ماہ پارہ
دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ نور محمد دروازہ کھولتے ہیں۔ دروازے پر دلاور کھڑا ہے۔
دلاور: السلام وعلیکم بیگ صاحب
نور محمد: ارے دلاور، وعلیکم سلام، تم اس وقت۔۔؟
دلاور: ہاں جناب، بہت چھپتے چھپاتے ہوئے آیا ہوں۔
نور محمد: آ جاؤ، اندر آ جاؤ۔
(دلاور اندر داخل ہوتا ہے نو ر محمد دروازہ اندر سے بند کر دیتے ہیں۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر (2)
وقت: رات, لوکیشن: نور محمد کا گھر
Interior (اندرونی)
کردار
دلاور، نور محمد، بیگم روشن آرا ء اور ماہ پارہ
دلاور، نور محمد کے ساتھ گھر کے اندر آتا ہے، سب لوگ چلتے ہوئے کمرے میں آتے ہیں۔
نور محمد: بھئی ابھی تک تم کہاں تھے؟ یہاں میں نے تمھیں بہت ڈھونڈنا چاہا۔ کئی لوگوں سے پوچھا بھی، لیکن تمہارا کہیں پتہ نہ چلا۔
دلاور: جی ہاں جناب! میں روپوش ہو گیا تھا۔ دراصل ہوا یہ کہ اس انگریز افسر کے ساتھ چودھری شجاعت صاحب کے پورے خاندان کو خاموش سے بچا لے جانے کا الزام میرے سر لگا۔ اور باغی نوجوان میری جان کے پیچھے پڑ گئے۔ تو میں بھی یہاں سے بھاگ گیا، اور چودھری صاحب کے پاس ہی پہنچ گیا۔
نور محمد: اچھا، تو کیا حال ہے ہمارے دوست کا، ان کے یہاں سے چلے جانے کے بعد تو کوئی خبر نہ ملی میں بڑا فکر مند ہوں ، وہ خیریت سے تو ہیں ؟
دلاور: جی جناب، اُن کے تو خوب ٹھاٹ ہیں۔ انگریز افسر کی جان بچانے کے عیوض میں تو انھیں خوب نوازا گیا۔ ایک پورے علاقے کی جاگیر عطا کی گئی۔ بہت مال و دولت ملا ہے۔ ان کی سفارش سے مجھے بھی انگریز فوج میں نوکری مل گئی ہے۔
نور محمد: چلو، شجاعت حسین کی خیریت پا کر اطمینان ہوا۔ لیکن دلاور، تم نے بھی انگریزوں کی ملازمت قبول کر لی۔
دلاور: تو کیا کرتا۔ اِدھر تو باغی نوجوان میرے خون کے پیاسے پھر رہے ہیں۔ میرا کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔ اب خدا کا شکر ہے میں بہت مزے میں ہوں۔
(اسی بیچ بیگم روشن آرا، اور چھوٹی ماہ پارہ ناشتہ لے کر آتی ہیں۔)
دلاور: ارے بھابھی صاحبہ اس زحمت کی کیا ضرورت ہے۔
بیگم روشن آرا: اس میں زحمت کی تو کوئی بات نہیں۔ آپ کیا شجاعت بھائی کے ساتھ ہی رہتے ہیں ؟
دلاور : جی ہاں بھا بھی، ان کو تو انگریزوں نے ایک بہت بڑی حویلی دے دی ہے، اسی حویلی کے ایک حصّے میں میں بھی رہتا ہوں۔
بیگم روشن آرا: ان کی بیگم اور والدہ کیسی ہیں ؟
دلاور: بہت مزے میں۔
ماہ پارا: اور طاہر حسین۔۔ ؟
دلاور: وہ بھی خوب مزے میں ہیں ، ان کا تو شہر کے بہت بڑے اسکول میں داخلہ بھی ہو گیا ہے۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے لگے ہیں۔ وہ تو موٹرکار میں اسکول جاتے اور آتے ہیں۔ چودھری صاحب تو انگریزوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
(ماہ پارہ کی آنکھوں میں خوشی اور چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔)
بیگم روشن آرا: بھائی صاحب جب آپ وہاں جائیں تو بھابھی جان اور امّی جان سے میرا سلام عرض کر دیجئے گا۔
دلاور: جائیں کیا مطلب؟ ارے بھا بھی صاحبہ میں تو آپ سب کو اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں۔
نور محمد: (چونک کر) کیا مطلب؟
دلاور: مطلب یہ کہ چودھری شجاعت حسین صاحب نے خاص طور پر مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ آپ سب کو یہاں سے شہر لے چلوں ، چودھری صاحب نے آپ کے لیے ایک اچھے مکان کا انتظام کر دیا ہے، اور آپ کے لیے انگریزوں کے دفتر میں ایک معقول نوکری کی بھی سفارش کی ہے۔ آپ کو ساتھ لے جانے کے لیے چودھری صاحب نے ایک موٹر کار اور ڈرائیور بھی بھیجا ہے جو قصبے کے باہر، شہر جانے والی سڑک پر چھوڑ آیا ہوں۔ اب آپ جلدی سے تیار ہو جائیے۔ صبح ہونے سے پہلے پہلے ہمیں یہاں سے نکل جانا ہو گا۔
نور محمد: (خفا ہوتے ہوئے) ہرگز نہیں۔ میں انگریزوں سے نفرت کرتا ہوں ، ان کا احسان لینا تو بہت دور، میں ان سے رابطہ بھی نہیں رکھنا چاہتا۔ شجاعت حسین سے کہہ دینا کہ انھیں ان کے انگریز دوستوں کے ساتھ ان کی عیش و عشرت بھری دنیا مبارک ہو، اپنا گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔
دلاور: ارے بیگ صاحب اتنے جذباتی مت بنئے۔ اس قصبے میں کیا رکھا ہے۔ ہر وقت خوف و ہراس میں گھُٹ گھُٹ کے جینے کیا فائدہ، میرے ساتھ شہر چلئے۔ بیٹی ماہ پارہ کا بھی وہاں کے اسکول میں داخلہ ہو جائے گا۔ بھابھی صاحبہ بھی میم صاحب کہلائیں گی اور آپ کو بھی اعلیٰ عہدہ مل جائے گا۔ تھوڑا عقلمندی سے کام لیجئے۔ (روشن آرا کی طرف دیکھتے ہوئے) اب بھابھی جان آپ ہی ذرا بیگ صاحب کو سمجھائیے۔
نور محمد: جی نہیں ۔۔ چودھری شجاعت حسین میرا بچپن کا دوست ضرور ہے، لیکن ہم دونوں کے خیالات الگ الگ ہیں شروع سے اس کا جھکاؤ انگریزوں کی جانب رہا ہے۔ اور مجھے ان سے انتہائی نفرت رہی ہے، جو آج بھی قائم ہے۔مجھے اپنے اصول پیارے ہیں۔ عیش و عشرت مجھے نہیں چاہیے۔
دلاور: بیگ صاحب ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے۔ اب انگریزوں کا غلبہ اور زیادہ ہونے والا ہے۔ ہندوستانیوں پر ان کے مظالم اور بھی بڑھ جائیں گے۔ ان سے بغاوت کرنے والوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کے پھینک دیا جائے گا۔ وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ بھی انگریزوں کے حامیوں میں شامل ہو جائیے۔ رتبہ بلند ہو جائے گا۔ ورنہ آپ بھی باغیوں کی فہرست میں آ جائیں گے۔ ذرا انجام سوچئے۔
نور محمد: دلاور میاں ، جو ارادوں کے پکّے ہوتے ہیں وہ انجام سے نہیں ڈرتے۔ میں انگریزوں سے نفرت کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔
دلاور: بیگ صاحب ، ایک مرتبہ اور سوچ لیجئے۔ ہمارے پاس یہاں سے نکل جانے کا وقت بہت کم ہے۔ ایسا موقع بار بار نہیں آتا۔
نور محمد: میں موقع پرست نہیں ہوں۔ میرا ارادہ مستحکم ہے اور کوئی طاقت مجھے اپنے ارادوں سے ڈگمگا نہیں سکتی۔ چودھری شجاعت حسین سے کہہ دینا کہ مجھے اس کی دوستی پر ناز تھا۔ لیکن اب شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔
(دور سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔)
دلاور: لیجئے جناب فجر کی اذان بھی ہونے لگی۔ اب میرا یہاں رُکنا ٹھیک نہیں۔ اچھا اب اجازت دیجئے میں چلتا ہوں۔
نور محمد: ٹھیک ہے دلاور میاں ، اللہ آپ کو بھی نیک توفیق دے، اور صحیح راہ دکھائے۔
(سب لوگ اُٹھتے ہیں ، دروازے تک دلاور کو چھوڑنے آتے ہیں ، نور محمد دروازہ کھولتا ہے، اور دلاور باہر جانے لگتا ہے۔)
دلاور: (ہاتھ ملاتے ہوئے) اچھا بیگ صاحب، خدا حافظ۔
نور محمد: خدا حافظ۔
(دلاور باہر چلا جاتا ہے، نور محمد دروازہ اندر سے بند کر دیتا ہے۔)
Cut to Next Scene
Scene ۔ No. 14/B
اندرونی
Interiorشجاعت کی نئی کوٹھی
وقت : دن
کردار
طاہر حسین ، اس کی ماں ، دادی اور شجاعت حسین کا نوکر وغیرہ
شجاعت حسین کے نئے عالیشان مکان کا اندرونی حصّہ بڑے سے کمرے میں خوبصورت فرنیچر سلیقے سے سجاہوا ہے نوکر کپڑے سے فرنیچر صاف کر رہا ہے۔ایک طرف صوفے پر طاہر بیٹھا ہوا ہے اور اپنی نئی نئی کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہے انگریزی کتابوں میں خوبصورت رنگین تصویریں دیکھ رہا ہے ایک تصویر پر اس کی نظر یں رک جاتی ہیں۔ اس تصویر میں ایک چھوٹی سی بچی اسکول جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے وہ خیالوں میں ڈوب جاتا ہے۔اس کو چھوٹی سی ماہ پارہ قصبے کے اسکول میں جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔تبھی اس کی ماں اس کے پاس آتی ہے۔
بیگم امی جان: کیوں طاہر میاں ، آپ کو اپنے اسکول کی نئی کتابیں پسند آئیں ؟
طاہر : جی ہاں امی جان ، یہ کتابیں تو بہت اچھی ہیں ،لیکن ان میں کیا لکھا ہے یہ مجھ سے پڑھا نہیں جاتا۔
اُمِّ ہانی : کوئی بات نہیں بیٹے۔ یہ انگریزی کی کتابیں ہیں۔ابھی تک تو آپ مدرسے میں پڑھتے آئے ہیں۔اب یہاں نئے اسکول میں نئی زبان میں تعلیم ہو گی۔ جلد ہی آپ یہ انگریزی زبان بھی سیکھ جائیں گے۔
طاہر : امی جان ، ماہ پارہ کو بھی یہیں بلا لیجیے نا، وہ بھی میرے ساتھ اس نئے اسکول میں جانے لگے گی اور اس کو بھی انگریزی آ جائے گی۔
اُمِّ ہانی : ہاں بیٹے! ہم سب نے تو یہی سوچا ہے اس لیے تو آپ کے ابّا جان نے دلاور بھائی کو وہاں بھیجا ہے ان سب کو بلانے۔ماہ پارہ اس کی امی اور ابّو سب لوگ آ جائیں گے۔
طاہر : (خوشی سے مچل کر) سچ امی جان،
اُمِّ ہانی : ہاں ، بالکل سچ
طاہر : تو ماہ پارہ یہاں آ جائے گی ، اور ہمارے ساتھ رہے گی؟
اُمِّ ہانی : ہاں ، ہاں بیٹے وہ اب ہمارے ساتھ اس مکان میں رہے گی۔
طاہر : تو ماہ پارہ کب آئے گی یہاں ، مجھے تو اس کی بہت یاد آ رہی ہے۔
(تبھی طاہر کی دادی دوسرے کمرے سے نکل کر آ جاتی ہیں )
دادی (ناصرہ زمانی): ارے یہ ماں بیٹوں میں کیا باتیں ہو رہی ہیں۔؟
(وہ ایک صوفے پر بیٹھ جاتی ہے)
اُمِّ ہانی : (مسکراتے ہوئے اپنی ساس سے کہتی ہیں ) امّی جان ! طاہر میاں کو ماہ پارہ کی یاد ستا رہی ہے۔اس کی بغیر ان کا وقت کاٹے نہیں کٹ رہا ہے۔
دادی (ناصرہ): تھوڑا صبر کرو طاہر میاں ، آپ ہی کو کیا ، ہمیں بھی ماہ پارہ کی یاد ستا رہی ہے۔
(تبھی شجاعت حسین بھی دوسرے کمرے سے نکل کر اسی جگہ آ جاتے ہیں )
شجاعت حسین: ارے بھئی کیا میٹنگ ہو رہی ہے کوئی اہم مسئلہ زیرِ بحث ہے کیا؟ حکومت برطانیہ میں کوئی نیا ملک شامل ہو گیا ہو گا اور وہاں کا نظام چلانے کے لیے غور و خوض کیا جا رہا ہو گا۔
دادی (ناصرہ): اس سے بھی بڑا مسئلہ میاں۔
بیگم اُمِّ ہانی: اجی صاحب ،ہمارے طاہر میاں کا جی نہیں لگ رہا ہے ماہ پارہ کے بغیر۔ اتنے دن گزر گئے آخر کب تک صبر کریں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بھی ماہ پارہ اور ان کی امی ابو کا بے چینی سے انتظار ہے۔
شجاعت حسین: ہاں بھئی میں نے اسی لیے دلاور کو بھیجا ہے انھیں لینے کے لیے بس آج کل میں وہ انھیں ساتھ لے کر آتا ہی ہو گا۔(بات بدلتے ہوئے) ارے ہاں بیگم !آج تو آپ کچھ نئے انگریزی پکوان بنانے والی تھیں ، انگریزی میموں کے ساتھ اتنے دنوں سے آپ مشق کر رہی ہیں۔
اُمِّ ہانی : بنانے والی تھی نہیں ، پکوان تیار ہیں ، آج ہم نے کئی انگریزی Dishesتیار کی ہیں ، لیکن ان کے کھانے کا سلیقہ بھی انگریزوں جیسا ہو تو لطف آئے گا۔
شجاعت حسین: بالکل صحیح فرمایا آپ نے ہم نے تو انگریزوں کے ساتھ کلب جا جا کر انگریزو ں کے انداز میں چھری کانٹے سے کھانا سیکھ لیا ہے۔ بیگم پریشانی ہو گی تو آپ کو۔
بیگم اُمِّ ہانی: جی نہیں ، کیتھرین جن سے ہم کھانا بنانا سیکھ رہے ہیں انھیں نے ہمیں کھانا کھانے کی ٹریننگ بھی دی ہے۔
بیگم ناصرہ: ارے خاک پڑے اس انگریزی انداز پر ہم تو اپنے ہی انداز میں کھائیں گے۔
(سب ہنستے ہیں )
بیگم اُمِّ ہانی: چلیے کھانا تیار ہے……
(سب لوگ کھانے کی میز کی طرف بڑھتے ہیں )
سین تحلیل ہو جاتا ہے۔
Over to next Scene
سین نمبر (3)
بیرونی Exterior
وقت: دن
کردار
دلاور، ڈرائیور
دور سے کیمرہ Wide range کور کرتا ہوا، ایک بڑی سی پرانے طرز کی کوٹھی کو فوکس کرتا ہے۔ اس کوٹھی کو مختلف زاویوں سے دکھایا جاتا ہے۔ جس سے اس کی شان و شوکت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دور سے ایک پرانی قسم کی کار کوٹھی کی طرف آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
کار کوٹھی کے پاس آتی ہے۔ اس سے دلاور اُترتا ہے۔ ڈرائیور کار لے کر آگے بڑھ جاتے ہے۔ دلاور کا ر سے اُتر کر کچھ دیر وہیں کھڑا رہتا ہے۔ اور اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا مسکراتا ہے۔ کیمرہ آس پاس کے منظر کو کور کرتا ہوا، کوٹھی کے دروازے کو فوکس کرتا ہے۔ پھر دلاور آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا دروازے تک پہنچتا ہے۔ تبھی کچھ بچے سفید پینٹ اور شرٹ پہنے ہوئے ہاتھ میں کرکٹ کا بیٹ اور بال لیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔)
Cut to Next Scene
سین نمبر (4)
بیرونی Exterior
وقت: دن چودھری شجاعت حسین کا نیا مکان
کردار
چودھری شجاعت حسین، بیگم ام ہانی، طاہر حسین، دلاور اور دو گھریلو نوکر
ڈائننگ ٹیبل پر شجاعت حسین ان کی بیوی اور بیٹا انگریزوں کے اسٹائل میں چھوری کانٹے کے ساتھ کیک وغیرہ کھا رہے ہیں۔
(باہر سے دلاور داخل ہوتے ہوئے۔)
دلاور: ا السلام علیکم چودھری صاحب کیا میں آ سکتا ہوں۔
شجاعت حسین: ہاں ، ہاں ، آؤ دلاور۔۔ (وہ دروازے کی طرف دیکھتے ہیں ) بہت اچھے وقت پر آئے ہو۔
(اتنے میں طاہر حسین اپنی کرسی سے اُٹھ کر بھاگتا ہوا۔ دروازے تک جاتا ہے، اور پھر لوٹ کر آتا ہے۔)
شجاعت: ارے بھئی تم اکیلے کیسے؟ تم تو کو ہم نے بیگ صاحب کے ساتھ ان کے اہلِ خانہ کو لینے بھیجا تھا۔ پھر وہ لوگ کہاں ہیں ؟‘‘
طاہر حسین: ہاں ہاں ، دلاور چاچا، آپ تو ماہ پارہ کو لینے گئے تھا نا۔۔ پھر وہ ہے کہاں ، امّی نے کہا تھا کہ آپ ہماری ماہ پارہ کو ہمارے اس نئے مکان میں لانے گئے ہیں ۔۔ پھر وہ آئی کیوں نہیں ۔۔ ؟‘‘
دلاور: چودھری صاحب! (پھر طاہر کو دیکھتے ہوئے) طاہر میاں ، آپ کی ماہ پارہ ابھی تو نہیں ، آئی۔ لیکن اگلی بار وہ ضرور آ جائیں گی، اب آپ جائیے اپنے نئے نئے دوستوں کے ساتھ کھیلئے۔ باہر آپ کے دوست کرکٹ کھیلنے کے لیے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
(طاہر حسین اپنا بیٹ اُٹھا کر باہر بھاگ جاتا ہے)
(پھر دلاور شجاعت کی بیگم سے کہتا ہے) بھابھی صاحبہ میں بڑے اچھے وقت پر آیا ہوں ، بڑی بھوک لگی ہے اور خوشبو بھی بڑی اچھی آ رہی ہے۔
بیگم ام بائی: ہاں ہاں ، ضرور بھائی صاحب لیجئے۔
شجاعت: ارے بھئی ہماری بیگم آج کل انگریزی میم سے انگریزوں کے پکوان سیکھ رہی ہیں۔ اور روز کوئی نہ کوئی انگلش ڈش تیار کرتی ہیں۔ آج انھوں نے دیکھئے بڑا لذیذ کیک بنایا ہے۔
(دلاور کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔)
دلاور: (چھری کانٹے کو اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیتا ہے)
معاف کیجئے گا چودھری صاحب، آپ کو تو انگریزی اسٹائل اچھی طرح آ گیا۔ لیکن میں ابھی تک دیسی ہی ہوں ، بہت کوششوں کے بعد بھی ابھی تک چھوری کانٹا پکڑنا بھی نہیں آیا۔
(وہ ہاتھ سے ہی کیک اُٹھا کر کھانے لگتا ہے۔)
شجاعت: کیا بات ہے دلاور، تمھیں میں نے جس مقصد کے لیے بھیجا تھا وہ پورا کیوں نہیں ہوا۔ وہاں ہمارے چلے آنے کے بعد سب خیریت تو ہے نا۔۔ ؟ نور محمد بیگ، اس کی بیگم اور بیٹی تمہارے ساتھ کیو ں نہیں آئے۔۔ ؟
دلاور: کیا بتاؤں ، چودھری صاحب میں نے بیگ صاحب سے بہت التجا کی، لیکن وہ نہیں مانے۔
Flash Back
(پھر دلاور ان کو پورا قصّہ سناتا ہے۔ اور نور محمد بیگ سے ملاقات اور ان کے انکار کا پورا منظر Flash Back میں دکھائی دیتا ہے)
Over to Scene 14
کیمرہ شجاعت کے چہرے کو فوکس کرتا ہے
Back to Scene 16
شجاعت حسین: ناسمجھ اور ناعاقبت اندیش ہے نور محمد عقلمندی اس میں ہوتی ہے کہ انسان ہوا کا رُخ پہنچانے۔ اپنا نہیں تو کم سے کم اپنے بیوی بچوں کا تو خیال کر لیتا۔ وہاں رہ کر سوائے مصیبتوں کے کچھ نہیں ملے گا اسے۔ خیر، اس کی قسمت میں نے اپنی دوستی کا فرض پورا کر دیا۔ میں نے جارج روبن صاحب سےسفارش کر کے اس کے لیے اتنی اچھی نوکری کا انتظام کیا تھا۔ تمام عمر عیش کرتا۔ لیکن عقل پر پتھر پڑے ہیں اس کے، بڑا آیا وطن پرست۔
Cut to Next Scene (New Scene 17)
سین نمبر (5)
بیرونی Exterior
وقت: دن
کردار
چھوٹا طاہر حسین اور بڑا طاہرحسین، کرکٹ کھیلتے ہوئے کچھ بچے اور نوجوان
میدان میں کچھ بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ بچہ طاہر حسین بالنگ کر رہا ہے۔ دوڑتا ہوا آتا ہے۔ ایک بال کرنے کے بعد دوسری بال کے لیے دوڑتا ہے۔ دوڑتے دوڑتے ایک دم سے بڑا ہو جاتا ہے۔ دوسرے بچے بھی نوجوان دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی بال پر بیٹس مین شاٹ مارتا ہے۔ بڑا طاہر حسین کیچ لینے کے لیے دوڑتا ہے۔ اور چھلانگ لگا کر کیچ پکڑ لیتا ہے۔ کیچ لیتے وقت اس کے ہاتھ میں چوٹ لگ جاتی ہے سب کھلاڑی خوشی سے شور مچاتے ہیں۔
Cut to Scene 18
سین نمبر (6)
Exterior
وقت: دن
کردار
جوان ماہ پارہ، انگریز فوجی افسر رابرٹ ولیم
ہرے بھرے کھیت میں دوڑتی ہوئی ماہ پارہ ایک دم سے رُک کر بیٹھ جاتی ہے اس کے ہاتھ سے سبزی کا گچھا گر جاتا ہے۔ وہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو پکڑ کر کراہتی ہے۔ اس کی ایک انگلی سے خون نکل رہا ہے۔
(کیمرہ ماہ پارہ کے خوبصورت چہرے کو فوکس کرتا ہے، اس کی آنکھوں میں اداسی بھی ہے اور انتظار بھی۔)
ماہ پارہ: (اپنے ہاتھ کو دیکھ کر کہتی ہے) ’’طاہر میاں ، آج پھر تم نے چوٹ کھائی ہے۔۔۔۔‘‘ اور کتنا ہمیں ستاؤگے؟
ماہ پارہ اپنے ڈوپٹے سے انگلی کا خون صاف کرتی ہے پھر اُٹھ کر سبزی کا گچھا اُٹھاتی ہے، اور قصبے کی طرف جاتی ہے۔ کیمرہ اس کو Follow کرتا ہے۔
جیسے ہی وہ قصبے کی گلی میں مڑتی ہے، وہ سامنے کسی کو دیکھ کر چونک جاتی ہے۔ اس کے چہرے پر خوف اور غصّے کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ سامنے گھوڑے پر بیٹھا ایک انگریز اس کا راستہ روکے ہوئے۔
End of Episode: 5
Cut to Next Scene No. 19
Episode ۔ 6
سین نمبر (1)
Exterior (بیرونی)
قصبے کی گلی
وقت: دن
کردار
نوجوان ماہ پارہ، انگریز افسر رابرٹ ولیم کچھ سپاہی اور قصبے کے لوگ
ماہ پارہ سہمی ہوئی کھڑی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں کھیتوں سے توڑی ہوئی سبزیاں ہیں۔ وہ جلدی سے دوپٹّے سے اپنا سر ڈھکنے کی کوشش کرتی ہے۔ سامنے انگریز افسر گھوڑے پر بیٹھا ہوا اس کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ اس کے پیچھے کچھ فوجی بھی کھڑے ہیں۔ افسر ماہ پارہ کو سر سے پاؤں تک گھورتا ہے۔ ماہ پارہ نفرت سے اس کو دیکھتی ہے۔ ڈرتی ہوئی، اپنا بدن چراتی ہوئی، ان لوگوں سے بچ کر گلی کے ایک موڑ میں مُڑ جاتی ہے۔ سب لوگ وہیں کھڑے ہیں انگریز افسر کی آنکھوں میں شرارت جھلکتی ہے۔ اور اس کی ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے۔ وہ بڑبڑا تا ہے۔
رابرٹ ولیم (انگریزافسر): ‘Wonder Beauty’ بہت خوبصورت Innocent اتنی خوبصورت لڑکی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ (اپنے ساتھیوں سے) یہ لڑکی کون ہے، اور کہاں رہتا ہے پتہ لگاؤ۔ ایسی Beautiful لڑکی کو اس Dirty Village میں نہیں ، ہمارے Modern Bungalow میں ہونے کو مانگٹا، جاؤ پیچھا کرو اس کا۔
(سپاہی اس گلی میں دوڑ جاتے ہیں ، قصبے کی تنگ گلیوں میں دور تک دوڑ تے رہتے ہیں۔ پھر چھوٹی چھوٹی گلیوں میں تینوں سپاہی الگ الگ گلیوں میں دھونڈتے رہتے ہیں ایک گلی میں سپاہی کو ماہ پارہ نظر آتی ہے۔سپاہی اس کو دیکھ کر وہیں رک جاتا ہے ماہ پارہ گھبرائی ہوئی دوڑتی ہوئی اپنے گھر کی طرف بھاگتی رہی ہے اس کے ہاتھوں سے جگہ جگہ سبزی کے گچھّے گرتے رہتے ہیں۔سپاہی لوٹ جاتا ہے۔پھر تینوں سپاہی واپس آتے ہیں )
ایک سپاہی: ’’معاف کیجئے سر، وہ لڑکی کہیں دکھائی نہیں دی۔‘‘
( رابرٹ ولیم غصّے سے تمتما جاتا ہے۔ اور گھوڑے پر بیٹھے ہی بیٹھے اس سپاہی کے سینے پر لات مارتا ہے۔ سپاہی زمین پر گر جاتا ہے وہ غصّے سے بڑبڑا رہا ہے۔)
رابرٹ ولیم: Hopeless Fellows you stupid ٹم سے اٹنا نہیں ہوسکٹا۔ آخر وہ لڑکی کہاں غائب ہو سکٹا ہے۔ ٹم لوگ ناکارہ ہو، جاؤ ٹم کیمپ میں واپس جاؤ، ہم خود اس کاپٹہ لگاٹا ہے۔
(فوجی افسر گھوڑے سے اُتر کر گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے پیدل اسی طرف چل دیتا ہے جدھر ماہ پارہ گئی تھی۔ سپاہی، افسر کو سیلیوٹ کر کے واپس مُڑ جاتے ہیں۔ اور آپس میں باتیں کرتے ہیں )
سپاہی (۱): یہ ظالم افسر پتہ نہیں اس قصبے کا کیا حال کرے گا۔
سپاہی(۲): ارے پہلے تو نور محمد صاحب کی خبر نہیں ، یہ ہر حال میں پتہ لگا لے گا کہ ماہ پارہ ان کی بیٹی ہے۔
سپاہی(۱): کیا تم جانتے ہو اس لڑکی کو۔
سپاہی (۲): ہاں ، میں کیا، اس قصبے کے سبھی لوگ، اور آس پاس کے سبھی گاؤں والے جانتے ہیں کہ ماہ پارہ نور محمد بیگ صاحب کی لڑکی ہے۔ جس کی خوبصورتی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔
سپاہی (۳): ہاں ، ہم نے تو یہ بھی سناہے کہ بڑے بڑے نوابوں ، اور راجاؤں کے پیغام آرہے ہیں ماہ پارہ کے لیے۔ لیکن نور محمد بیگ سب کو انکار کر دے رہے ہیں۔
سپاہی (۲)َ: انکار کیوں نہیں کریں گے۔ ماہ پارہ تو بچپن سے ہی چودھری شجاعت حسین کے بیٹے طاہر حسین سے منسوب ہے۔ ان کی تو بچپن سے محبت مشہور ہے۔ اور قصبے کے سبھی لوگوں کو ان کی شادی کا بہت انتظار ہے۔
سپاہی (۱): یار یہ ظالم افسر جب سے یہاں آیا ہے سب کا جینا مشکل کر دیا ہے اس نے، ذرا ذرا سی بات پر اتنی سخت سزائیں دیتا ہے کہ دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر اسے پتہ چل گیا کہ تم لوگ اس لڑکی کو جانتے ہو تو پتہ نہیں وہ تمہارا کیا حشر کر ے گا۔
سپاہی (۲): اب جو حشر ہو سو ہو، لیکن ہم ماہ پارہ کا پتہ بتا نے کا گناہ نہیں کر سکتے۔ خدا کرے ماہ پارہ اور اس کا خاندان اس کے ظلم سے محفوظ رہے۔
سپاہی (۳): دُعا تو یہی ہے ہماری بھی، لیکن اس بھیڑئیے کی نظروں سے بچنا مشکل ہے۔
سپاہی (۱): چلو اب جلدی سے یہاں سے نکل چلیں ، پہنچ کر رپورٹ کر دیں نہیں تو ہماری پھر شامت آ جائے گی۔
سارے سپاہی آپس میں گفتگو کرتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔
(منظر تحلیل ہوتا ہے۔ Scene Dissolves
Over to next scene
سین نمبر (2)
Exterior (بیرونی)
چودھری شجاعت حسین کی حویلی کا باہری حصّہ
وقت: دن
کردار
چودھری شجاعت حسین، دلار اور کچھ دیگر لوگ (Extras) ڈرائیور اور دو سپاہی
کیمرہ دور سے حویلی کو کور کرتا ہوا۔ دروازے کو فوکس کرتا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے۔ اندر سے دلاور اور کچھ اور لوگوں کے ساتھ چودھری شجاعت حسین بڑے سجے ہوئے نکلتے ہیں ہاتھ میں چھڑی، منہ میں پائپ، سر پر ہیٹ، انگریزوں کی طرح قدم بڑھاتے ہوئے باہر آتے ہیں ، تبھی ایک سپاہی دوڑتا ہوا آتا ہے، وہ ہانپتا ہوا کہتا ہے۔
سپاہی: چودھری صاحب۔۔۔۔۔۔ چودھری خان بہادر صاحب۔
(سب لوگ اس کی طرف حیرت سے دیکھتے ہیں۔)
شجاعت: ارے کیا ہوا، کیا مصیبت آ گئی۔ کچھ بولتے کیوں نہیں ؟
سپاہی: خان بہادر صاحب جلدی چلئے غضب ہو گیا۔
دلاور: ارے آخر ہوا کیا ہے، ا ور تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ چودھری صاحب کو کہاں چلنے کے لیے کہہ رہے ہو؟
سپاہی: چودھری صاحب، آپ کو جلدی ہیڈکواٹر (Head Quarter) بلایا گیا ہے۔ وہاں غضب ہو گیا۔
شجاعت حسین: کیا ہوا، تم بولتے کیوں نہیں۔
دلاور: تم صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ کیا ہوا ہے، اگر تم نہیں بتاؤ گے تو خان بہادر صاحب ہرگز بھی ہیڈ کواٹر نہیں جائیں گے۔ ابھی ان کا کلب جانے کا وقت ہو رہا ہے۔
سپاہی: خدا کے لیے، خان بہادر صاحب، ابھی آپ کی ضرورت ہیڈکواٹر میں ہے شہر کے سبھی رؤساء اور سارے انگریز افسران وہاں جمع ہو رہے ہیں۔
دلاور: آخری کیوں ، کوئی تو وجہ ہو گی۔۔ تم صاف صاف بتاؤ۔
سپاہی: حضور غضب ہو گیا، جارج روبن اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
(سب کے چہرے حیرت سے فق ہو جاتے ہیں۔)
شجاعت حسین: کیا۔۔ ؟ جارج روبن کا انتقال ہو گیا کیسے؟
سپاہی: حضور یہی تو نہیں معلوم۔ وہاں چل کر ہی پتہ چلے گا۔
شجاعت حسین: چلو دلاور۔۔
دلاور: جی چودھری صاحب چلئے۔
ڈرائیور کار کا دروازہ کھولتا ہے۔پچھلی سیٹ پر شجاعت حسین بیٹھتے ہیں۔ اگلی سیٹ پر دلاور۔ کار چلنے لگتی ہے۔ کار کے پیچھے سپاہی اور دوسرے لوگ دوڑنے لگتے ہیں۔ کار آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)
Scene No: 2/B
اندرونی ، Interior
چودھری شجاعت حسین کی کوٹھی کا اندرونی حصّہ
وقت : دن
کردار
طاہر کی والدہ اُمِّ ہانی اور دادی بیگم ناصرہ
(طاہر کے ولایت جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں )
گھر کے بڑے بیڈروم میں طاہر کی ماں اور دادی دو بڑے بڑے صدوق میں طاہر کے کپڑے اور دوسرا سامان سجا رہی ہیں اور آپس میں گفتگو کر رہی ہیں۔
دادی (بیگم ناصرہ): بہو۔ ۔ ۔ سنا ہے کہ ولایت میں بہت سردی پڑتی ہے شاید پورے سال بھر ہی وہاں جاڑوں کا موسم رہتا ہے۔
اُمِّ ہانی : جی ہاں امی جان میں نے بھی یہی سنا ہے اپنے گھر جو کیتھرین آتی ہے نا وہ ہی بتا رہی تھی کہ وہاں تو ہر چیز پر برف کی موٹی سی پرت جمی رہتی ہے کیا سڑکیں کیا مکان اور کیا پیٹر پودے۔
دادی : اللہ خیر کرے ، ہمارا لال کیسے اتنے جاڑ ے برداشت کرے گا؟
اُمِّ ہانی : اس لیے تو اتنی تیاریاں کی جا رہی ہیں طاہر میاں کے لیے دو گرم کوٹ اور ایک بہت بڑا اوور کوٹ بھی سلوایا گیا ہے۔
دادی : ہائے بی بی۔ہم نے کوٹ تو سنا ہے لیکن یہ اوور کوٹ کیا بلا ہے؟
اُمِّ ہانی : امّی جان ، یہ اوور کوٹ پورا لباس پہن کر کوٹ پہنے کے بعد کوٹ کے اوپر ایک لمبا سا کوٹ پہنا جاتا ہے طاہر کے ابو بتا رہے تھے کہ ولایت میں یہ رواج ہی ہے کہ ایک کوٹ کے اوپر دوسرا بڑا کوٹ پہنا جائے تبھی انسان وہاں کی سردیوں کو برداشت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
دادی (ناصرہ): اے بی بی اس عجیب لباس کو میں بھی تو دیکھوں کہاں ہے اوور کوٹ ؟
اُمِّ ہانی : امّی جان وہ کپڑے تو ابھی درزی لایا ہی نہیں۔طاہر کے ابو نے اس شہر کے سب سے اچھے درزی سے طاہر میاں کے سارے گرم کپڑے سلوائے ہیں۔ یہ وہی درزی ہے جو انگریزوں کے کپڑے سیتا ہے۔ آج کپڑے لانے والا ہے ، آتا ہی ہو گا۔
دادی (ناصرہ): اے دلہن ! بچے کے لیے ایک دو رضائیاں بھی رکھ دو۔
اُمِّ ہانی : (ہنستے ہوئے) نہیں امی جان اس کی کوئی ضرورت نہیں وہاں ولایت میں خوب اچھے اور کافی گرم کمبل آسانی سے مل جاتے ہیں ، پھر یہاں سے رضائیاں لاد کر کیا لے جائے گا۔
دادی (ناصرہ): اچھا تو کھانے پینے کی چیزوں میں سوکھے میوے ،میتھی کے لڈّو ، باجرے کی پوریاں اور ہاں کافی مقدار میں زعفران بھی رکھ دینا بچے کو ذرا سی سردیوں میں تو نزلہ زکام ہو جاتا ہے۔
اُمِّ ہانی : جی امی جان۔ ان سب چیزوں کا انتظام میں پہلے ہی کر چکی ہوں ، لیکن طاہر میاں پانی کے جہاز سے ولایت جا رہے ہیں۔ انھیں ولایت پہنچنے میں کافی روز لگ جائیں گے ، کھانے پینے کا سامان خراب ہونے کا خدشہ ہے طاہر میاں تو کچھ نہیں لے جانا چاہتے ہیں لیکن میں انھیں بتائے بغیر ہی بہت ساری ضرورت کی چیزیں رکھ دے رہی ہوں کام میں آئیں گی۔
دادی (ناصرہ): ارے ہاں ، یاد آیا ، اے دلہن ، اس روز مولوی صاحب آئے تھے تو میں نے ان سے طاہر میاں کے لیے ایک تویز بنانے کی درخواست کی تھی انھوں نے وعدہ بھی کیا تھا ذرا نوکر کومسجد بھیج کر ان سے تعویذ بھی منگوا لینا۔
اُمِّ ہانی : امی جان وہ تعویذ تو مولوی صاحب خود ہی آج دوپہر آئے تھے دینے کے لیے اس وقت آپ ظہر کی نماز پڑھ رہی تھیں۔وہ تعویذ میں نے قرآن شریف کے ساتھ رکھ دیا ہے۔
دادی : چلو بہت اچھا ہوا۔ ۔ ۔ اب طاہر میاں اور شجاعت حسین کہاں ہیں ؟
اُمِّ ہانی : خان بہادر تو دلاور بھائی اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ کلب جانے کے لیے نکل گئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ طاہر میاں اپنے کمرے میں ہیں۔
دادی : اے بی بی ، ہمارے بچے کے ولایت جانے کے دن قریب آرہے ہیں اس کے ساتھ جتنا وقت گزر جائے اچھا ہے ، یوں اسے اکیلا نہ چھوڑا کرو۔ اس کو بھی یہیں بلا لو۔ ۔ وہ بھی تو دیکھ لے اس کے ساتھ لے جانے والے سامان میں کوئی کمی تو نہیں۔
اُمِّ ہانی : امی ۔ ۔ ۔ طاہر میاں تو ویسے ہی چڑ چڑا رہے ہیں وہ تو ولایت جانا ہی نہیں چاہتے یہ تو آپ بھی اچھی طرح جانتی ہیں۔ پھر اتنا زیادہ سامان لے جانے میں بھی وہ بہت برہم ہیں۔
دادی : ہاں بی بی۔ ۔ ۔ یہ شجاعت حسین کی ضد ہے ورنہ میں اپنے جگر کے ٹکڑے کو کبھی آنکھوں سے دور نہ ہونے دیتی اچھا تم طاہر میاں کی دل جوئی کرو ، میں ذرا عصر کی نماز ادا کر لوں۔
اُمِّ ہانی : (صندوق بند کرتے ہوئے کہتی ہیں ) ٹھیک ہے امی ، تیاریاں تو تقریباً پوری ہو چکیں ، بس درزی کا انتظار ہے۔میں دیکھتی ہوں طاہر میاں کو۔
(دادی دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہیں ، اُمِّ ہانی بکھرے ہوئے سامان کو ٹھیک کرتی ہے۔)
منظر تحلیل ہو جاتا ہے
Over to next scene
سین نمبر (3)
اندرونی (Interior)
چودھری شجاعت کی حویلی کا اندرونی حصّہ
وقت: دن
کردار
طاہر حسین اور ان کی والدہ (اُمّ ہانی)
(طاہر حسین بہت اُداس اپنے کمرے میں ٹہل رہے ہیں۔ اور اپنے آپ سے گفتگو کر رہے ہیں۔)
طاہر حسین: اُف، یہ کیسی مجبوری ہے، ہر طرف پہرے، ہر طرف پابندی، نہ جانے ماہ پارہ کیسی ہو گی، نہ جانے اس پر کیا گزر رہی ہو گی۔ آخر یہ انتظار کب تک؟ ماہ پارہ! اب ہم سے آپ کی جدائی برداشت نہیں ہوتی۔ اتنے سال ہم نے کس شدت سے گزارے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ اور آپ پربھی کیا گزرتی ہو گی اس کا اندازہ بھی ہے ہمیں۔۔۔۔
(تبھی طاہر حسین کی ماں اندر آ جاتی ہے)
ماں : بیٹے طاہر حسین۔۔ (وہ چونک جاتا ہے)
طاہر: جی امّی جان، آئیے۔
ماں : کیا ہو رہا ہے، کیا سوچ رہے ہو؟
طاہر: ایک وہی سوچ، اس کے سوا میری زندگی میں اور ہے ہی کیا؟
ماں : مجھے احساس ہے بیٹے، تمہارے درد کو میں اچھی طرح سمجھتی ہوں۔
طاہر: پھر امّی جان آپ میرے درد کا علاج کیوں نہیں کرتیں ؟
ماں : بیٹے ہر زخم کا علاج وقت ہوتا ہے۔ اچھے وقت کا انتظار کرو۔ ذرا حالات سازگار ہو جائیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا اور انشاء اللہ تمہاری محبت ضرور کامیاب ہو گی۔
طاہر: آخر کب تک انتظار کروں ، یہ وقت اور حالات کب سازگار ہوں گے۔
ماں : بیٹے ہمت اور عقلمندی سے کام لو۔ تم جانتے ہی ہو کہ اس قصبے پر انگریزوں نے پابندی لگا دی ہے۔ نہ وہاں کوئی جا سکتا ہے اور نہ ہی بغیر اجازت وہاں سے کوئی باہر نکل سکتا ہے اور نور محمد بھائی پر تو انگریزوں نے بغاوت کا مقدمہ چلا رکھا ہے۔ ان سے یا ان کے خاندان کے افراد سے جو بھی ملے گا وہ بھی شک کے گھیرے میں آ جائے گا۔
طاہر: لیکن امّی جان، ایسی مصیبت کی گھڑی میں تو ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے تھا نا۔۔ ؟
ماں : تم ٹھیک کہتے ہو بیٹے، لیکن تمہارے ابّا کا مزاج تم اچھی طرح جانتے ہو۔ اب تو نور محمد بھائی صاحب سے ملنا تو دور ان کا ذکر بھی انھیں گوارا نہیں۔ وہ خود ان کے سب سے بڑے دشمن ہو رہے ہیں۔
طاہر: امّی جان، کم سے کم آپ مجھے اس قصبے کا نام اور ماہ پارہ کا پتہ بتا دیجئے۔ میں کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ کر ماہ پارہ سے ملنا چاہتا ہوں۔
ماں : خدا کے لیے ایسا غضب مت کرنا۔ ابھی تمھیں ولایت جانا ہے، تمہارا داخلہ انگلینڈ کے سب سے اچھے کالج میں ہوا ہے جب تم اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ہندوستان لوٹو گے تب تک حالات سازگار ہو جائیں گے۔
طاہر: امّی جان، آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ میں ولایت نہیں جانا چاہتا۔
ماں : لیکن بیٹے، اب کوئی چارہ بھی نہیں۔ تم اپنے والد کا غصّہ جانتے ہی ہو، پھر انھوں نے کتنے بڑے افسروں سے سفارش کر کے تمھیں داخلہ دلوایا ہے تمہارے جانے کی ساری تیاریاں ہو چکی ہیں تمہارے جانے کی خوشی میں تمہارے ابّا روز ہی پارٹیاں کر رہے ہیں۔ شہر کے سبھی بڑے لوگوں میں اس بات کی شہرت ہے کہ چودھری شجاعت حسین خان بہادر کا لڑکا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ولایت جا رہا ہے۔۔ تم بھی خوشی خوشی چلے جاؤ صرف تین سال کی ہی تو بات ہے۔ جب تم کامیاب ہوکے لوٹو گے تو تمہارے ابّا تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کو تیار ہوں گے۔ اور پھر تم خود بھی اپنا فیصلہ لینے کے قابل ہو جاؤ گے۔
طاہر: جی ہاں ۔۔ اب کوئی چارہ بھی نہیں مجبوراً ہی سہمی مجھے ولایت جانا پڑ رہا ہے۔ لیکن امّی جان، جانے سے پہلے ایک بار، صرف ایک بار میں ماہ پارہ سے ملنا چاہتا ہوں۔ تاکہ اس کو دلاسہ دے سکوں کہ وہ میرا انتظار کرے۔
ماں : بیٹے ماہ پارہ ایک ہندوستانی لڑکی ہے اس کے خیالات نہایت پاک و پاکیزہ ہیں۔ وہ تمہارا انتظار زندگی بھر کرے گی۔
تبھی دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ ماں بیٹے چونکتے ہوئے کمرے سے باہر نکلتے ہیں۔
Cut to Next scene no. 4
سین نمبر (4)
(Interior)
چودھری شجاعت حسین کی حویلی کا اندرونی حصّہ
وقت: دن
کردار
طاہر حسین ، ان کی والدہ ، ایک نوکر اور دلاور
طاہر حسین اور ان کی ماں دونوں کمرے سے نکل کر دالان کی طرف بڑھتے ہیں تبھی گھر کا نوکر دروازہ کھولتا ہے۔ اندر دلاور داخل ہوتا ہے دلاور گھبرایا ہوا ہے۔
طاہر کی ماں : (اس سے پوچھتی ہے) کیا بات ہے دلاور، تم ا تنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔ سب خیر تو ہے نا؟
دلاور: کچھ خیر نہیں بھابی۔ غضب ہو گیا، جارج رابن کا قتل ہو گیا اور پورے شہر میں فساد ہو گیا ہے۔
ماں : (حیرت زدہ ہو کر) خدا خیر کرے۔۔۔
دلاور: چودھری صاحب نے مجھے بھیجا ہے کہ آپ کو خبر کر دوں کہ گھر سے کوئی بھی باہر نہ جائے۔ اور خاص طور پر طاہر میاں کے لیے کہا ہے کہ وہ بالکل بھی باہر قدم نہ رکھیں دو تین دن چودھری صاحب بھی گھر نہیں آئیں گے وہیں ہیڈ کواٹر میں رُکیں گے۔ ان کے کپڑے اور ضروری سامان مجھے لے جانا ہے۔
ماں : ٹھیک۔۔ (نوکر کو آواز دیتی ہیں ) رحیم میاں ، ذرا دلاور بھا ئی کا ساتھ دیجئے۔
رحیم میاں : (نوکر) جی، ٹھیک ہے بیگم صاحب۔
دلاور نوکر کے ساتھ اندر چلا جاتا ہے۔ ماں دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہیں۔ طاہر وہیں کھڑا ہوا کچھ سوچتا ہے۔
Cut to Next Scene
سین نمبر (5)
Exterior
ماہ پارہ کے قصبے کی گلی
وقت: دن
کردار
(انگریز افسر) قصبے کے کچھ لوگ (Extra)ایک سپاہی
رابرٹ ولیم ایک گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے قصبے کی گلی میں پیدل آگے بڑھتا ہے۔ کیمرہ اس کو کبھی پیچھے سے اور کبھی آگے سے فوکس کرتا ہے، وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ہے، جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔ اس کو دیکھ کر لوگ سہم کر یا تو گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔ یا پھر اپنا رستہ بدل کر دوسری گلیوں میں چلے جاتے ہیں۔
انگریز افسر چلتے چلتے ایک جگہ رک جاتا ہے۔ زمین میں پڑی ہوئی چیز کو غور سے دیکھتا ہے۔ کیمرہ اس چیز کو فوکس کرتا ہے۔ وہ سبزی کا ایک پودا ہے۔ رابرٹ کو یاد آتا ہے کہ سہمی ہوئی ماہ پارہ کے ہاتھوں میں اسی طرح کی سبزی کا گٹھا تھا۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ بھاگتی ہوئی اس خوبصورت لڑکی کے ہاتھوں سے ہی یہ سبزی کا پودا گرا ہو گا۔ وہ آگے بڑھ جاتا ہے تھوڑی دوری پر پھر سے اس کو وہی سبزی کا ایک اور گچھا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اس طرح گری ہوئی سبزی کے پودوں کے سہارے آگے بڑھتا ہے ایک مکان کے سامنے بہت ساری سبزی گری ہوئی ہے وہ وہیں رُک جاتا ہے۔ یہ نور محمد بیگ کے مکان کا باہری حصّہ ہے۔ وہ دروازے تک بڑھنا ہی چاہتا ہے کہ پیچھے سے گلی میں دوڑتے ہوئے سپاہی کی آواز سن کر وہیں رُک جاتا ہے اور پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہے۔
سپاہی: سرکار! حاکم۔۔
رابرٹ: What non sense کیا ہو گیا۔ کیوں مرے جا رہے ہو
سپاہی: سرکار، آپ کے لیے ہیڈکوارٹر سے ایک ضروری پیغام آیا ہے۔
رابرٹ: Emergency message ۔۔ کیا message ہے؟
سپاہی: حاکم آپ کو ہیڈکوارٹر فوراً بلایا گیا ہے۔ وہاں جارج صاحب کو قتل کر دیا گیا ہے۔
رابرٹ: What ۔۔ چلّاتا ہے۔
اور پھر اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر واپس گھوڑا دوڑاتا ہوا گلی میں گم ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے سپاہی بھی دوڑتا ہوا چلا جاتا ہے۔
(سین تحلیل ہو جاتا ہے)
Cut to Next scene
سین نمبر (6)
اندرونی (Interior)
چودھری شجاعت حسین کی حویلی
وقت: دن
کردار
طاہر حسین، دلاور
دلاور ایک بیگ میں سامان باندھ کر باہر جانا چاہتا ہے تبھی طاہر ان سے کہتا ہے۔
طاہر: دلاور چاچا۔۔ ؟
(دلاور رُک جاتا ہے اور اس کی طرف محبت سے دیکھتا ہے)
دلاور: جی طاہر میاں ۔۔ ؟
طاہر:۔ دلاور چاچا کیا پورے میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔
دلاور: جی ہاں ، میاں ، پورے شہر میں بھی اور آس پاس کے سبھی قصبوں اور دیہاتوں میں ، انگریز کے سپاہی بھوکے بھیڑیوں کی طرح قاتل کی تلاش میں گھوم رہے ہیں۔ اور جو بھی سامنے آ رہا ہے اس کو بے دردی سے مار رہے ہیں۔ کئی معصوم ہندوستانیوں کو تو جان سے مار ڈالا گیا ہے۔
طاہر: لیکن چاچا، ماہ پارہ کا… میرا مطلب ہے ہمارا وہ قصبہ جہاں نور محمد چاچا رہتے ہیں۔ وہ تو یہاں سے کافی دور ہے نا، وہاں تو فساد کی آگ نہیں پہنچی ہو گی۔
دلاور: کیا۔ مالیر پورہ۔۔ ہاں دور تو ہے لیکن انگریزوں کی تو اس قصبے پر خاص نظر ہے۔ اب تو وہاں کے لیے پکّی سڑک بھی بنا دی گئی ہے کہ سپاہیوں کو وہاں تک جانے آنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔وہاں بھی یقیناً ہنگامہ ضرور ہو رہا ہو گا۔۔ اب میاں مجھے اجازت دیجئے باہر سپاہی میرا انتظار کر رہے ہیں ، مجھے ہیڈکوارٹر جلدی پہنچنا ہے۔
طاہر: ٹھیک ہے، شکریہ چاچا۔۔
دلاور اپنا بیگ اُٹھا کر باہر نکل جاتا ہے، طاہر۔۔ کچھ سوچ کر مسکراتا ہے اور بڑبڑاتا ہے۔
’’مالیر پورہ، تو یہ نام ہے اس قصبّے کا جہاں میری ماہ پارہ رہتی ہے۔۔ اب تو وہاں کے لیے پکّی سڑک بھی بن گئی ہے۔۔ اب مجھے وہاں پہنچنا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔۔ اور مشکل بھی ہو تو کیا۔ میں آ رہا ہوں ، ماہ پارہ۔۔ ؟
طاہر اُسی وقت گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔
Cut to Next scene
سین نمبر (8)
بیرونی (Exterior)
سنسان سڑک، جنگلوں اور ہرے بھرے پیڑ پودوں سے گزرتی ہوئی
وقت: دن
کردار
طاہر حسین، کچھ دیہاتی لوگ (Extras)
جنگلوں اور ہر ے بھرے پیڑوں کے بیچ سے گزرتی ہوئی سنسان سڑک پر طاہر دوڑا جا رہا ہے۔ راستے میں اکّا دُکّا دیہاتی بھی نظر آ جاتا ہے۔ کبھی طاہر اس سے رُک کر مالیر پورا کا راستہ اور دوری پوچھنے لگتا ہے۔
کیمرہ طاہر کو کبھی پیچھے سے دور جاتا ہوا دکھاتا ہے، ا ور کبھی سامنے سے نزدیک آتا ہوا۔
طاہر بھاگتے ہوئے کافی تھک چکا ہے۔ پھر بھی لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھ رہا ہے۔
ایک جگہ وہ چکرا کے گر جاتا ہے
Cut over to scene 9
سین نمبر (9)
اندرونی Interior
وقت: دن
کردار
ماہ پارہ، نور محمد اور ان کی بیگم
نور محمد اور ان کی بیگم گھر کے اندر بیٹھے ہیں ماہ پارہ کچن سے پیتل کا گلاس اور پانی کا بڑا بدنا لے کر آتی ہے، اور کمرے میں آتے ہی لڑکھڑا کر گر جاتی ہے۔ نور محمد اور ان کی بیگم ایک دم چونک کر اُٹھ جاتے ہیں اور ماہ پارہ کو اُٹھانے دوڑ جاتے ہیں۔ پانی فرش پر بکھر جاتا ہے۔
بیگم: ’’بیٹی ۔۔ سنبھل کے۔‘‘
نور محمد: ارے کیا ہوا۔ ماہ پارہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے نا؟
(دونوں ماہ پارہ کو سہارا دے کر اُٹھاتے ہیں )
ماہ پارہ: (آہستہ سے بڑ بڑاتی ہے) طاہر میاں ! آپ کو غش کیوں آ گیا، کیا بہت پیاس لگی ہے۔۔ ‘‘
(ماں باپ اس کو دیکھتے ہیں۔)
بیگم: جی بیٹی، آپ نے کچھ کہا۔۔ ؟
ماہ پارہ: نہیں امّی جان۔۔ میں ٹھیک ہوں ، شلوار کے پائنچے میں پیر پھس گیا تھا۔
نور محمد: بیٹی کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔۔ ؟
ماہ پارہ: نہیں ابّو، میں بالکل ٹھیک ہوں۔
بیگم: بیٹی آپ تھوڑی دیر لیٹ جائیے۔ صبح سے کا م کر رہی ہیں۔
ماہ پارہ: نہیں ، امّی، ابو۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ خوامخواہ ہی پریشان ہو رہے ہیں۔ بس یونہی کئی دن سے کھیتوں میں نہیں گئی ہوں نا۔ گھر میں پڑے پڑے پیر بھی اکڑ گئے ہیں ۔۔ ابّو جان میں ذرا کھیتوں تک ہو آؤں۔
نور محمد: لیکن بیٹی۔۔
بیگم: کوئی بات نہیں ، جاؤ بیٹی، تازہ ہوا میں طبیعت سنبھل جائے گی۔
نور محمد: ٹھیک، لیکن سنبھل کر جانا۔ آگے پیچھے اچھی طرح دیکھ لینا۔
ماہ پارہ: آپ بالکل بے فکر رہئے، میں سنبھل کر جاؤں گی اور جلدی ہی آ جاؤں گی۔ماہ پارہ اپنا دوپٹّہ سنبھالتی ہوئی گھر سے نکل جاتی ہے۔ اِدھر نور محمد اور ان کی بیگم آپس میں باتیں کرتے ہیں۔
بیگم: اس حادثہ کے بعد ہماری پھول سی ماہ پارہ بالکل مرجھا سی گئی ہے۔ اور اس دن سے گھر سے باہر بھی نہیں نکلی۔ اس لیے آج جب اس کا جی چاہا تو میں نے اجازت دے دی۔
نور محمد: وہ تو ٹھیک ہے بیگم، لیکن اس منحوس فرنگی افسر کا خطرہ تو اب بھی برقرار ہے۔ سنا ہے کہ وہ بہت ظالم افسر ہے۔
بیگم: وہ تو محض ایک حادثہ تھا۔ فرنگی کتنے بھی ظالم سہی، لیکن عیاش نہیں ہوتے اس حادثے کو ہمیں بھی بھول جانا چاہیے۔
نور محمد: خدا کرے یہ محض ایک حادثہ ہی ہو۔ لیکن اس روز سے اپنی ماہ پارہ بہت ہی سہمی ہوئی ہے۔
بیگم: میں جانتی ہوں کہ کھیتوں میں جانا تو اس کا ایک بہانہ ہے اس کی سب سہیلیاں کہتی ہیں کہ ما ہ پارہ قصبے کے باہر شہر جانے والی سڑک کے کنارے گھنٹوں بیٹھی رہتی ہے۔۔ اس کو اب بھی انتظار ہے کہ طاہر میاں اس سے ملنے آئیں گے۔
نور محمد: ہاں ۔۔ ضرو آئیں گے، مجھے بھی یقین ہے، میں اگر اس طرح نظر بند نہ ہوتا تو ماہ پارہ کو شہر لے جا کر طاہر میاں سے ضرور ملوا لاتا۔
بیگم: اللہ ہماری بیٹی کی حفاظت کرے۔ انشاء اللہ ان دونوں بچوں کی محبت ضرور کامیاب ہو گی۔
Cut to scene 10
سین نمبر (10)
بیرونی (Exterior)
وقت: دن
کردار
ماہ پارہ،طاہر حسین، چار پانچ سپاہی کچھ قصبے کے لوگ (Extras)
ماہ پارہ کھیتوں کے بیچ سے بھاگتے ہوئے، قصبے کے باہر، سڑک کے کنارے ایک پتھر پر جا کے بیٹھ جاتی ہے اور بہت غور سے شہر جانے والی سڑک کو دیکھنے لگتی ہے۔ بہت دور سے سڑک پر لڑکھڑا کر بھاگتا ہوا طاہر حسین دکھائی دیتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ماہ پارہ کی بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ وہ بے قرار ہو کر کھڑی ہو جاتی ہے وہ طاہر کو پہچان نہیں پا رہی ہے لیکن اس کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ طاہر کو پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ تبھی طاہر حسین دور سے چلّاتا ہے۔
طاہر: ماہ پارہ۔۔ (اس کی آواز جنگل میں گونج جاتی ہے)
ماہ پارہ: (بے چین ہو کر) طاہر حسین…!
طاہر : ماہ پارہ۔
ماہ پارہ: طاہر حسین۔۔
دونوں کی آوازیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ ماہ پارہ بھی طاہر کی طرف سڑک پر دوڑ جاتی ہے۔
دونوں ایک دوسرے کو آواز دے رہے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔
یہیں منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔
End of Episode 6
Episode ۔ 7
سین نمبر (1) (پرانا سین)
بیرونی Exterior
وقت: دن
کردار
طاہرحسین، ماہ پارہ، چار پانچ سپاہی کچھ Extras
قصبے کے باہر سڑک پر ماہ پارہ اور طاہر حسین ایک دوسرے کو آواز دیتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آتے ہوئے Slow motion میں دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے ہی وہ ایک دوسرے کے پاس آتے ہیں شہر کی طرف سے سپاہیوں کی ایک جیپ پہنچ جاتی ہے۔ اور دونوں کے ملنے سے پہلے سپاہی طاہر کو پکڑ کر جیپ میں کھینچ لیتے ہیں اور جیپ واپس شہر کی طرف جانے لگتی ہے ماہ پارہ بہت دور تک اس جیپ کے پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔
جیپ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اور ماہ پارہ تھک کے سڑک پر گر کے بے ہوش ہو جاتی ہے۔
پھر کچھ قصبے کے لوگ سڑک پر گزرتے ہوئے ماہ پارہ کو پہچان لیتے ہیں اور اس کو اُٹھا کر گاؤں کی طرف چل دیتے ہیں۔
(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)
Cut to Next scene
سین نمبر (2)
اندرونی Interior
وقت : رات
کردار
شجاعت حسین، ان کی بیگم، والدہ، دلاور اور رحیم میاں
شجاعت حسین کی حویلی کے اندر کا منظر۔ سب لوگ بے چین بیٹھے ہیں۔
شجاعت حسین: آخر طاہر حسین کہاں گئے ہوں گے، اور کس کے ساتھ؟
بیگم: سمجھ میں نہیں آ رہا ہے، آج تک کبھی بھی مجھ سے بغیر پوچھے وہ کہیں نہیں گیا۔ آج نہ جانے کہاں چلا گیا۔
شجاعت حسین: میں نے کہلوایا بھی تھا کہ ان حالات میں کوئی بھی گھر سے باہر نہ نکلے۔ دلاور ذرا پتہ لگاؤ۔ وہ کہاں ہوں گے۔
دلاور: جی چودھری صاحب، میں نے سپاہی بھیج کر طاہر میاں کے سبھی دوستوں سے معلوم کروا لیا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو کوتوال صاحب سے کھوج بین کرواؤں ۔۔
شجاعت: ہاں ،کوتوال صاحب کو خبر کر دو۔ آخر دو روز ہو گئے۔۔ یہ تو بتاؤ کہ آخری بار۔ اُن کی کس سے بات ہوئی ا ور کیا بات ہوئی۔
بیگم: میرے ہی ساتھ تھے۔ تھوڑے اُداس لگ رہے تھے۔
شجاعت: اُداس۔۔ کیوں ؟
بیگم: یونہی۔۔ ولایت جانے کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہم سب سے دوری کا احساس ستا رہا تھا۔ اسے (ان کی آنکھوں میں وہ منظر آ گیا (Flash back)
شجاعت کی والدہ:ہاں ، بالکل، ہم سب سے دور ہونے کا احساس تو ہو گا اسے، آخر بچہ ہی تو ہے،ابھی پھر کبھی بھی گھر والوں سے دور نہیں رہا۔
دلاور:۔ چودھری صاحب میں کوتوال صاحب سے مل کر آتا ہوں۔
( تبھی دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ سبھی لوگ چونک کر دروازے کی طرف دیکھتے ہیں )
شجاعت: رحیم میاں ، ذرا دیکھئے کون ہے دروازے پر۔
(نوکر دروازہ کی طرف بڑھتا ہے تبھی دلاور اسے روک دیتا ہے)
دلاور: ٹھہرئیے، میں دیکھتا ہوں۔
(دلاور اُٹھ کر دروازے کی طرف جاتا ہے ، اور دروازہ کھول کر باہر نکل جاتا ہے) سب لوگ اس کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں دلاور پھر اندر آ جاتا ہے، سب اس کو دیکھتے ہیں۔
شجاعت: کون ہے دلاور۔۔ ؟
دلاور: چودھری صاحب، کوتوالی سے سپاہی آیا ہے، کوتوال صاحب نے کہلوایا ہے کہ ابھی آپ کوتوالی آ جائیے، کوئی ضروری کام ہے۔
شجاعت: اس وقت۔۔ کیا ضروری کام ہوسکتا ہے۔ چلو، چلتے ہیں۔
(دلاور اور شجاعت باہر چلے جاتے ہیں )
(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)
Cut to Next scene
سین نمبر (3)
اندرونی (Interior)
نور محمد کا گھر
وقت: رات
کردار
نور محمد، ان کی بیگم، ماہ پارہ
پلنگ پر ماہ پارہ لیٹی ہوئی ہے۔ اس کے سراہنے اس کی ماں بیٹھی ہوئی ہے۔ دوسرے پلنگ پر نور محمد نیم دراز ہیں۔ ماہ پارہ کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹّی بدلتی ہے۔ ماہ پارہ کی آنکھوں میں کپکپاہٹ ہوتی ہے۔
ماں : (خوشی سے) دیکھئے جی، ہماری بیٹی کو ہوش آ رہا ہے۔
(نور محمد جلدی سے اُٹھ بیٹھتے ہیں ، اور ماہ پارہ کے قریب آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں )
نور محمد: ماہ پارہ، بیٹی، آنکھیں کھولو،
ماں : ہاں بیٹی، آنکھیں کھولو۔
(ماہ پارہ، آہستہ آہستہ آنکھیں کھولتی ہیں )
ماں : اللہ تیرا شکر ہے، آج دو دن بعد ہوش آیا ہے۔
نور محمد: (اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر) بیٹی ماہ پارہ۔۔ ، اُٹھو بیٹی، ہمیں بتاؤ کیا ہوا۔۔
ماں : آپ بیٹی کو سنبھالیے، میں اس کے لیے ہریرا بنا کے لاتی ہوں ، دو دن سے بھوکی پیاسی ہے میری لاڈلی۔
(ماں اُٹھ کر کچن میں چلی جاتی ہے، نور محمد بیٹی کے پاس بیٹھ جاتے ہیں )
نور محمد: بیٹی اب کیسا لگ رہا ہے (وہ اُٹھنے کی کوشش کرتی ہے)
نہیں نہیں تم ابھی لیٹی رہو۔
(تبھی ماں ایک تھال میں کچھ کھانے کے لیے لے کر آتی ہے)
ماں : بیٹی، یہ لو گرم گرم ہریرا ، تمہاری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔
ماہ پارہ: مجھے یہاں کون لایا۔
نور محمد: قصبے کے لوگ تمھیں اُٹھا کر یہاں لائے، وہ بتا رہے تھے کہ تم انھیں سڑک کے کنارے بے ہوشی کے عالم میں ملی۔ یہ تو بھلا ہو ان لوگوں کا انھوں نے تمھیں پہچان لیا۔ اور گھر پہنچا گئے۔ ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔
ماں : (چمچہ سے ماہ پارہ کو ہریرا پلاتے ہوئے) بیٹی تمھیں ہوا کیا تھا۔ تم بے ہوش کیسے ہوئی تھی۔ حکیم صاحب تمھیں دیکھ گئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ تمھیں کوئی چوٹ بھی نہیں لگی۔ ذہنی طور پر پریشانی کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی۔ وہ تو حکیم صاحب نے ہمیں دلاسہ دیا کہ اپنے آپ ہوش آ جائے گا، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ورنہ ہم تو بڑے پریشان ہو گئے تھے بیٹی۔
ماہ پارہ: (آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے) امّی جان، ابّو جان، وہ طاہر… طاہر میاں ۔۔
نور محمد: ہاں ، ہاں بیٹی، بولو، کیا طاہر میاں کہاں ۔۔ ؟
ماہ پارہ: طاہر میاں آئے تھے۔۔ مجھ سے ملنے، لیکن… لیکن وہ… وہ سپاہی انھیں گرفتار کر کے لے گئے۔
(اس کی آنکھوں میں وہ سارا منظر آ جاتا ہے)
(Flash back of scene previous Episode)
(فلیش بیک سے واپسی کے بعد، ماہ پارہ رونے لگتی ہے)
ماہ پارہ: وہ ظالم سپاہی، طاہر میاں کو لے کر چلے گئے۔
نور محمد: فکر مت کرو بیٹی، طاہر میاں کو کچھ نہیں ہو گا۔ شجاعت حسین کے تعلقات سبھی فرنگیوں سے اور اہلکاروں کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ تم اب آرام کرو طاہر میاں کی فکر مت کرو۔
(ماں ماہ پارہ کو چادر اڑھاتی ہے، نور محمد ، دوسرے پلنگ پر لیٹ جاتے ہیں ، اور ماں لالٹین کی روشنی کم کر دیتی ہیں )
(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)
Cut to Next scene
سین نمبر (4)
اندرونی Interior
شہر کو توال کا کمرہ
وقت: رات
کردار
طاہر، شجاعت، دلاور، کوتوال اور کچھ سپاہی
کوتوال صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ ایک فائل کو الٹ پلٹ کر رہے ہیں۔ تبھی ایک سپاہی اندر آ کر کہتا ہے۔
سپاہی: حاکم، چودھری شجاعت حسین خان بہادر آئے ہیں۔
کوتوال: انھیں عزت کے ساتھ لے کر آؤ۔
(سپاہی واپس چلا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد شجاعت اور دلاور کو لے کر اندر آتا ہے۔ کوتوال ان کا کھڑے ہو کر خیر مقدم کرتا ہے۔)
شجاعت: السلام علیکم کوتوال صاحب۔
کوتوال: وعلیکم السلام ، چودھری صاحب، آئیے، تشریف لائیے۔
(شجاعت کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں دلاور اُن کے برابر میں کھڑا رہتا ہے، سپاہی سیلیوٹ کر کے واپس چلا جاتا ہے)
شجاعت: کہئے جناب، کیسے یاد فرمائی؟ ویسے تو میں خود ہی آب سے ملنے آ رہا تھا کہ تبھی آپ کے سپاہی نے آپ کا پیغام دیا۔
کوتوال: جی ہاں ، جناب کیا بتائیں۔ اتنی رات میں آپ کو ہرگز زحمت نہ دیتا۔ کوئی اور کام ہوتا تو میں خود ہی آپ کی خدمت میں آ جاتا۔ لیکن بات ہی کچھ ایسی ہے جو آپ کو بلانا پڑا۔
شجاعت: جی میں سمجھ سکتاہوں۔ یقیناً آپ میرے نامعقول بیٹے طاہر حسین کی کسی خبرسے پریشان ہوں گے۔
کوتوال: جی ہاں چودھری صاحب۔ طاہر میاں کو سپاہی مالیر پورہ قصبے کے حدود سے گرفتار کر کے لائے ہیں۔ کل رات تو انھیں وہیں قریب کے کیمپ میں روکے رکھا۔ آج دیر شام جب پتہ چلا کہ طاہر میاں آپ کے صاحبزادے ہیں تو میں نے انھیں یہاں فوراً بلا لیا کہ اس کی کسی کو خبر نہ ہو، ورنہ آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کل حالات کیسے ہیں اور مالیر پورا جانے والوں پر فوراً بغاوت کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔
شجاعت: میں شکر گزار ہوں جناب آپ کا۔ دراصل طاہر میاں کسی کے بہکاوے میں آ کر یا ناسمجھی میں اِدھر کا رُخ کیا ہو گا۔
کوتوال: جی نہیں جناب، ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ کے صاحبزادے وہاں کی ایک لڑکی ماہ پارا سے عشق فرماتے ہیں اس کی محبت میں مجنوں بن بیٹھے ہیں ۔۔ ان کی گرفتاری کی خبر پھیل جائے تو اس میں آپ کے رتبے پر بھی حرف آئے گا۔ اس لیے میں ان پر بغیر کوئی چارا جوئی کیے اتنی رات میں آپ کو سونپ رہا ہوں۔
شجاعت: جی آپ کا بے انتہا شکریہ۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتائیے گا۔ ویسے میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔۔ اب کہاں ہیں صاحبزادے ؟
کوتوال: (سپاہی کو گھنٹی بجا کے بلاتا ہے) (سپاہی اندر ہے) لے آؤ بھئی ہمارے خاص مہمان کو۔
(سپاہی واپس جا کر، طاہر حسین کو اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ طاہر نظر یں نیچی کئے ہوئے شرمندہ سا ہے۔)
شجاعت: اچھا جناب اجازت دیجئے، آپ کو میری وجہ سے کافی زحمت ہو گئی۔ یہ اولاد کی وجہ سے ماں باپ کو کہاں کہاں ذلّت اُٹھانی پڑتی ہے۔ خیر آپ کا شکریہ۔
(کوتوال سے ہاتھ ملا کر۔ دلاور طاہر اور شجاعت وہاں سے چلے جاتے ہیں )
Cut to Next scene
سین نمبر (5)
اندرونی Interior
وقت: رات
کردار
شجاعت حسین، ان کی بیگم، والدہ، دلاور، رحیم
شجاعت حسین کی حویلی، اندر کا منظر۔
شجاعت کی بیگم اور ان کی والدہ بے چین بیٹھے ہیں۔ رحیم میاں دونوں کے سامنے سے خالی گلاس اُٹھا کر لے جاتا ہے۔
بیگم: (ٹھنڈی لمبی سانس کھینچ کر) پتہ نہیں میرا لال کہاں اور کس حال میں ہو گا۔ اب پتہ نہیں کوتوال صاحب نے چودھری صاحب کو کیوں بلایا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
والدہ: بہو تم فکر مت کرو۔ ہمارا بچہ جہاں بھی ہو گا، اللہ کی امان میں ہو گا۔ اب شجاعت میاں گئے ہیں کوتوال صاحب سے ملنے وہ ضرور کسی نہ کسی طرح انھیں ڈھونڈ کر پتہ لگا لیں گے۔ طاہر میاں جلد ہی گھر لوٹ آئیں گے۔
(تبھی شجاعت حسین کی آواز گونجتی ہے)
شجاعت: جی ہاں ، طاہر حسین ولد چودھری شجاعت حسین خان بہادر تشریف لے آئے ہیں۔
(شجاعت، دلاور اور ان کی پیچھے طاہر دروازے سے اندر آتے ہیں )
بیگم: اوہ۔۔ میرا لال واپس آ گیا۔
والدہ: اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
شجاعت: جی ہاں ۔۔ جشن منائیے، طاہر میاں کو ہیرے جواہرات میں تولیے۔ کیونکہ انھوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ان کی آنے والی پشتیں بھی ان کے اس کارنامے پر فخر کریں گی۔
والدہ: شجاعت میاں ، ایسے طنزیہ جملے کیوں بول رہے ہو۔ کیا کیا ہمارے پوتے نے؟
شجاعت: بہت نام کمایا ہے، جو آج تک ہمارے خاندان میں کبھی نہیں ہوا، وہ آپ کے پوتے نے کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔
بیگم: آخر ہوا کیا ہے۔ آپ اتنے ناراض کیوں ہو رہے ہیں ؟
شجاعت: پوچھئے اپنے نور نظر، لخت جگر سے کیا کیا انھوں نے۔ ارے یہ گرفتار ہوئے ہیں ، حوالات میں ایک رات گزاری ہے۔ ہمارے سارے نام و ناموس کو خاک میں ملا ڈالا ہے۔ انھوں نے۔
بیگم: خدا خیر کرے، ایسا کیوں ہوا۔۔ ؟
شجاعت: عشق کا بھوت سوار ہے ان کے دل و دماغ پر، مجنوں ہو کر در در کی ٹھوکریں کھانا چاہتے ہیں۔ برسوں سے ہم جس رشتے کو بھول چکے ہیں ، یہ حضرت اسے استوار کرنا چاہتے ہیں ایسے نازک حالات میں پیدل، پھٹے حال مجنوں کی طرح پہنچ گئے مالیر پورہ قصبے میں ، جب کہ وہاں جانے آنے والوں پر سخت نظر رکھی جا رہی ہے۔ وہ تو بھلا ہو کوتوال صاحب کا کہ انھوں نے ہماری آبرو رکھ لی، اور کیس وہیں دبا دیا۔ ورنہ ہماری بے عزتی جو ہوتی سو ہوتی، اور یہ خان بہادر کا عہدہ بھی ہم سے چھن جاتا۔ یہ عیش و عشرت کی زندگی خانہ بدوش کی طرح گزارنی پڑتی۔۔ اب تو ہمارے دوست جارج روبن بھی نہیں رہے، اور یہاں ایک ظالم افسر ہے۔ اس کے ہتّے چڑھ جاتے تو ان کی کھال ادھیڑ دیتا۔
والدہ: اب جانے بھی دو شجاعت، اللہ نے خیر کی، تم بھی اپنا غصّہ تھوک دو، بچہ نا سمجھ ہے، نادانی کر بیٹھا، آؤ طاہر میاں ، اندر چلو۔۔ (طاہر کا ہاتھ پکڑ کر وہ اس کو اندر لے جاتی ہے) شجاعت غصّے سے پیر پٹختے ہوئے دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ دلاور بھی چپکے سے دبے پاؤں واپس باہر کی طرف چل دیتا ہے۔
(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)
Cut to scene next
سین نمبر (6)
بیرونی Exterior
نور محمد کے گھر کا باہر ی حصّہ
وقت: دن
کردار
ماہ پارہ اس کی ماں ، اور نور محمد
گھر کے آنگن میں ایک کھلی چارپائی پر ماہ پارہ اپنے بال کھولے ہوئے دھوپ میں بیٹھی ہے۔ کیمرہ اس کو پیچھے سے کور کرتا ہوا۔ آس پاس کے ماحول کو بھی دکھاتا ہے۔ گھر کے اندر سے ماہ پارہ کی ماں اپنے ہاتھوں میں چٹائی، سوپ اور ایک برتن میں اناج نکال کر اسے صاف کرنے لگتی ہے۔ تھوڑی دیر میں نور محمد بھی باہر آنگن میں آتے ہیں۔ اور کہتے ہیں۔
نور محمد: بیگم، میں ذرا کھیتوں تک جا رہا ہوں ، اپنی فصل دیکھ آؤں ، اور ہاں واپسی میں مجھے دیر ہوسکتی ہے۔ حمیر پورہ گاؤں میں چو پال بلائی گئی ہے۔ ذرا وہاں بھی چلا جاؤں گا۔
بیگم: ٹھیک، لیکن شام ڈھلنے سے پہلے آ جائیے گا۔
(تبھی ماہ پارہ مچل کر کہتی ہے)
ماہ پارہ: ابّو، ابّو۔۔ میں بھی چلوں آپ کے ساتھ، کھیتوں میں گئے ہوئے بہت دن ہو گئے۔
(نور محمد اپنی بیوی کو دیکھتے ہیں۔)
نور محمد: ہاں ، ہاں بیٹی لیکن میں تو وہاں سے حمیر پورہ گاؤں چلا جاؤں گا۔ ایسا کرو کہ تم اپنی والدہ کے ساتھ تھوڑی دیر میں چلی جانا۔
بیگم: ہاں ۔۔ بیٹی، میں بھی چاہتی ہوں کہ تم باہر نکلو، کھلی ہوا میں ۔۔ خدا خدا کر کے تمہاری طبیعت اب سنبھلی ہے۔ میں ذرا یہ اناج بنا لوں۔ پھر تھوڑی دیر میں ہم دونوں ہی چلیں گے۔ پیر بابا کی مزار پر بھی جانا ہے۔ میں نے تمہارے لیے منت مانی تھی۔۔ وہاں دوپہر میں دمّو خالا اور ان کی تینوں بیٹیاں بھی آئیں گی۔ ان سے بھی ملاقات کر لینا۔
(ماہ پارہ خوش ہو جاتی ہے۔)
ماہ پارہ: ارے واہ، دمّو خالا اپنی بیٹیوں کے ساتھ آ رہی ہیں ، یہ تو بہت اچھی بات ہے، بہت دن ہوئے ان سے ملے ہوئے۔ تو ٹھیک ہے ابّو آپ جائیے، میں امّی جان کے ساتھ چلی جاؤں گی۔
(نور محمد گھر سے باہر گلی میں چلے جاتے ہیں۔)
(ماہ پارہ چارپائی سے اُٹھ کر اپنی ماں کے پاس چٹائی پر آ جاتی ہے۔)
ماہ پارہ: (ماں کے ہاتھ سے سوپ لے کر کہتی ہے۔) لائیے امّی جان یہ اناج میں بنا لیتی ہوں ، آپ تیار ہو جائیے۔
(ان کی ماں مسکراتی ہوئی اُٹھتی ہے، اور گھر کے اندر چلی جاتی ہے۔)
منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔
Cut to Next scene
سین نمبر (7)
اندرونی (Interior)
شجاعت حسین کی حویلی اندر کا منظر
وقت: دن
کردار
شجاعت حسین، ان کی بیگم، ان کی والدہ، دلاور اور رحیم میاں
(شجاعت حسین کی بیگم اور والدہ بیٹھی ہوئی کچھ کام کر رہی ہیں۔)
والدہ: بہو، آج یہ کیا پھیلا رکھا ہے۔ کوئی خاص پکوان بنانے کا ارادہ ہے کیا؟
بیگم: جی امّی جان، آج بہت دنوں بعد چودھری صاحب نے مغلئی کھانے کی فرمائش کی ہے تو مجھے بھی خوشی ہو رہی ہے کہ چلو ان انگریزی کھانوں سے تو اوب چکے تھے۔
والدہ: مجھے تو ایک آنکھ نہ بھائے انگریزی کھانے، کیک، پوڈنگ اور جانے کیا کیا واہیات چیزیں ، کھانے کو کھالو، لیکن طبیعت سیر تو اپنے ہی کھانوں سے ہوتی ہے۔ بی بی۔۔ ‘‘
بیگم: جی بالکل صحیح فرمایا آپ نے، اسی لیے آج میں قورمہ، بریانی شامی کباب اور متنجن بنا رہی ہوں ، شاید انھوں نے کچھ انگریز افسروں کو دعوت پر بلایا ہے۔
والدہ: ارے کیا دعوتیں اور کیا پارٹیاں ۔۔ طاہر میاں کے ولایت چلے جانے کے بعد تو جیسے اس گھر کی رونق ہی چلی گئی۔ پورے گھر میں سنّاٹا پسرا پڑا رہتا ہے۔ کسی کام میں کیا، عبادت میں بھی دل نہیں لگتا۔ اللہ ہمارے بچے کی حفاظت کرے۔
بیگم: امّی جان ہم سب یہاں ہیں ، تب بھی ہمارا دل نہیں لگ رہا ہے۔ اب سوچئے طاہر میاں ، وہاں اجنبی ملک میں اجنبی ماحول میں اور سبھی اجنبی لوگوں کے بیچ اکیلے۔ ان پر کیا گزر رہی ہو گی۔
والدہ: ہاں بی بی، یہ سوچ کر ہی کلیجہ منھ کو آتا ہے۔
بیگم: پورے دو مہینے ہو گئے۔ طاہر میاں کے ولایت پہنچنے کی اطلاع کے علاوہ کوئی اور خیر خبر نہ ملی، اور نہ ہی کوئی خط و کتابت ہوئی۔
(تبھی دروازے سے پر دستک ہوئی ہے۔)
بیگم: رحیم میاں ، دیکھئے دروازے پر کون ہے۔
(رحیم میاں دوڑ کے دروازے پر جاتے ہیں ، دروازہ کھولتے ہیں باہر سے دلاور آتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔)
دلاور: السلام علیکم ، امّی جان اور بھابھی جان۔
والدہ: جیتے رہو، میاں۔
بیگم: وعلیکم السلام، دلاور بھائی۔۔ اور سنائیے شہر کے کیا حال ہیں۔
دلاور: ارے بھابھی شہر کے حالات کے ساتھ ساتھ میں تو ولایت کے بھی حال آپ کو سنانے آیا ہوں ؟
بیگم: کیا مطلب۔۔ ؟
دلاور: مطلب یہ کہ جلدی سے آپ کچھ میٹھا، حلوہ، سوئیاں یا شیر خرمہ کا انتظام کیجئے۔
والدہ: کیا کوئی خوش خبری لائے ہو میاں۔
دلاور: ایسی ویسی نہیں بلکہ بہت بڑی خوشخبری لایا ہوں۔
بیگم: کیا خوش خبری ہے۔ ذرا ہم بھی تو جانیں ۔۔
دلاور: ایسے نہیں پہلے آپ میٹھے کا انتظام کیجئے۔۔ اور چودھری خان بہادر صاحب کہاں ہیں ۔۔ ؟
(تبھی شجاعت حسین دوسرے کمرے سے نکل کر وہیں آ جاتے ہیں۔)
شجاعت حسین: ارے دلاور، کیا شور مچا رکھا ہے، کیا خوشخبری لے کر آئے ہو؟
دلاور: خوشخبری تو ہے لیکن بغیر میٹھے کے یہ منھ نہیں کھلنے والا۔
شجاعت: تم بہت بڑے رشوت خور ہو رہے ہو، تمہارے کرتوت کی خبریں ہیں میرے پاس، لوگ کہتے ہیں کہ دلاور کوئی بھی کام بغیر لیے دیئے نہیں کرتا۔
(سب مسکراتے ہیں )
دلاور: جی ہاں حضور، وہ سچ کہتے ہیں۔ آپ نے مجھے ایسے محکمے میں نوکری دلوائی ہے جس میں تنخواہ تو صرف بیٹھے رہنے کی ملتی ہے۔ پھر کام کچھ لیے دیے بنا کیوں کروں ۔۔ ؟
(سب ہنس دیتے ہیں۔)
شجاعت: بیگم، یہ دلاور بہت ڈھیٹ ہو گیا ہے۔ یہ ایسے ہرگز نہ مانے گا۔ کچھ میٹھے کا انتظام کرو۔
بیگم: (مسکراتی ہے) ٹھیک ہے۔ رحیم میاں ۔۔ نعمت خانے میں کیک اور پوڈنگ رکھا ہے۔ ذرا لے آئیے۔
دلاور: جی نہیں بھابی صاحبہ، ولایت کی خبر، ولایتی مٹھاس سے نہیں بلکہ دیسی مٹھاس سے ہی سنائی جائے گی کچھ تازہ تازہ حلوہ، سوئیاں۔۔۔۔۔۔۔
بیگم: اس کی بات کاٹتے ہوئے۔) یا شیر خرمہ۔۔ ؟
(سب لوگ قہقہہ لگاتے ہیں۔)
بیگم: رحیم بھائی، ذرا انتظام کیجئے۔ میں ابھی باورچی خانے میں آتی ہوں۔
شجاعت: اچھا اب بتاؤ بھی، کیا خوش خبری ہے۔
دلاور: جی چودھری صاحب۔۔ ابھی میں ہیڈکوارٹر سے سیدھے چلا آ رہا ہوں ، آج صبح ہی وہاں کا سرکاری ہفتہ وار ڈاک کا تھیلا کھلا، ویسے تو میں ہر ہفتے ہی ڈاک پر نظر رکھتا ہوں۔ آج خوشی سے اچھل پڑا۔ اس میں آپ کے نام طاہر میاں کا خط دیکھ فوراً ہی جھپٹ پڑا اور وہ لفافہ لے کر، سارے کام چھوڑ سیدھا آپ کی خدمت میں دوڑا چلا آیا ہوں۔
(دلاور اپنے اندر والی جیب سے ایک لفافہ نکال کر شجاعت کی طرف بڑھاتا ہے۔)
بیگم: (خوشی سے اچھل جاتی ہیں ) کیا، ہمارے طاہر میاں کا خط آیا ہے۔۔۔۔؟
(خوشی سے ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑتے ہیں۔)
والدہ: اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ اس خط کے انتظار میں تو ایک پل چین نہیں تھا۔
شجاعت: (خوش ہو کروہ خط دیکھتے ہیں )دلاور، یقیناً یہ خوش خبری ہم سب کے لیے بہت بڑی ہے۔ اس کے عیوض میں ہر مٹھاس پھیکی ہے۔
(اپنے ہاتھ کی بڑے سے نگ والی انگوٹھی نکال کر دلاور کو دیتے ہیں۔)
تمہارے لیے تو یہ انعام بھی کم تر ہے۔
(دلاور جھک دونوں ہاتھوں سے انگوٹھی لیتا ہے۔ اسے چومتا ہے۔ سر، آنکھوں سے لگاتا ہے اور پھر بہت ادب کے ساتھ وہ انگوٹھی شجاعت حسین کو واپس کر دیتا ہے۔)
دلاور: حضور، آپ کا دیا بہت کچھ ہے میرے پاس، آپ نے مجھے کوڑے دان سے اُٹھا کر مخمل کی مسند عطا کی ہے۔ آپ کے احسانوں کے تلے سر سے پاؤں تک دبا ہوا ہوں ۔۔ لیکن گستاخی کی معافی چاہوں گا، آج یہ انعام قبول کرنے سے قاصر ہوں ۔۔ کیوں کہ طاہر میاں سے میں بھی اتنی ہی محبت کرتا ہوں ، جتنی کہ آپ میں نے بچپن سے انھیں اپنے ہاتھوں میں کھلایا ہے۔ پھر اس خبر کے لیے انعام قبول کرنے کی جسارت کیسے کر سکتا ہوں۔
(سب کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے شجاعت لفافہ لیتے ہیں ، اور دلاور کو گلے سے لگا لیتے ہیں۔)
شجاعت: طاہر حسین ہمارے اکلوتے بیٹے ہیں ، ہمارے خاندان کا روشن چراغ ہمارا لخت جگر، آنکھوں کا نور، دل کا سرور، ہمارا وجہ غرور ہیں طاہر (تھر تھراتے ہوئے ہاتھوں سے لفافہ کھولتے ہیں۔ اور بھیگی ہوئی آنکھوں سے خط پڑھنا شروع کرتے ہیں۔)
(کیمرہ خط کی تحریر کو فوکس کرتا ہے۔ اور تحریر پر طاہر کا چہرہ Super impose ہوتا ہے۔)
’’لائق صد احترام، عالی مقام، میرے مشفق ابّا جان!
دنیا کی ہر شے سے عزیز، پیکر نور، مجسمۂ ایثارو محبت پیاری امّی جان! سایۂ رحمت و برکت، مینارِ قدر و منزلت، دُعائے مجسم دادی جان!‘‘
(سب کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔ کیمرہ باری باری سب کے چہروں کو فوکس کرتا ہے۔)
’’آپ سب کی دعاؤں کے طفیل میں خیریت سے ہوں ، اور بہت آرام سے ہوں ، اور اللہ سے یہی دعا ہے کہ آپ بھی وہاں بخیر ہوں۔ دیگر احوال یہ ہے کہ میں یہاں آتے ہی اپنے تعلیمی کاموں میں مصروف ہو گیا۔ نیا ملک، نیا ماحول، اور نیا طریقۂ تعلیم۔ شروع شروع میں کافی دقتیں ہوئیں۔ لیکن اب سنبھل رہا ہوں۔ یہ ملک بہت سرد ہے۔ سردیاں اتنی کہ برداشت کرنا مشکل تھا۔ لیکن آپ سبھی کی یادوں کی تمازت مجھے جینے کا حوصلہ دیتی رہیں۔ یہاں کھانے پینے، رہنے اور پڑھائی کا بہت اچھا انتظام ہے۔ آپ کسی بھی طرح کی کوئی فکر نہ کیجئے گا۔ چونکہ میں سرکاری خرچ پر یہاں آیا ہوں ، تو سرکاری مہمان کی طرح ہی مجھے دیکھا جاتا ہے اور میری ساری خط و کتابت بھی سرکاری ڈاک میں مقررہ وقت پر ہی ہو گی۔ آپ جب بھی مجھے خط لکھیں ، مندرجہ ذیل پتہ لکھ کر ہیڈکوارٹر میں بھیجئے گا۔ وہ آسانی سے مجھ تک پہنچ جائے گا۔ اور ہاں دلاور چاچا کیسے ہیں ؟ ان سے میرا سلام کہئے گا۔ ان کا مجھ پر ایک احسان ہے، جو میں وطن واپسی پر ان کا شکریہ ادا کروں گا۔ باتیں بہت سی کرنی ہیں لیکن قلم ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ اس لیے اجازت چاہتا ہوں۔
خدا حافظ
فقط آپ کا فرماں بردار
طاہر حسین
(کچھ دیر پورے ماحول میں خاموشی چھا جاتی ہے، پھر شجاعت دلاور سے پوچھتے ہیں۔)
شجاعت: دلاور، یہ طاہر میاں تمہارے کس احسان کی بات کر رہے ہیں۔
دلاور: واللہ اعلم! مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں ، اور حضور میری کیا اوقات کہ شہزادے سلامت پر احسان کروں۔‘‘
(دلاور سوچنے لگتا ہے۔ اس کو یاد آتا ہے، جب طاہر نے ان سے اس قصبے کا نام پوچھا تھا اور دلاور نے مالیر پورا اور وہاں جانے والی پکّی سڑک کا ذکر کیا تھا۔)
Flash back (Episode ۔ Scene 6)
(پھر شجاعت کی آواز پر چونک جاتا ہے۔)
شجاعت: کیوں دلاور کہاں کھو گئے۔
دلاور: (چونک کر) جی نہیں ، کہیں نہیں ، یونہی طاہر میاں کی یاد آ گئی تھی۔
(ماحول کو سنجیدہ دیکھ کر)
’’ارے بھابھی جان، ابھی تک میٹھا تیار نہیں ہوا۔۔ ؟
بیگم: ہاں ، دلاور بھائی، یہ لیجئے، رحیم میاں نے سب کچھ تیار کر دیا ہے۔
(رحیم میاں بڑے سے تھال میں سیویّوں کے کٹورے لے کر آتے ہیں۔ سب لوگ مزے سے سویاں کھاتے ہیں۔)
تبھی دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ دلاور دوڑ کر دروازہ کھولتا ہے۔ سامنے کچھ سپاہیوں کو دیکھ کر چونک جاتا ہے۔
End of Episode ۔ 7
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید