FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

مئے شبانہ

 

 

 

               عبد الرشید طارق

ماخوذ از ملفوظات اقبال، مع حواشی و تعلیقات از ڈاکٹر ابواللیث صدیقی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

میری انتہائی خوش نصیبی ہے کہ بچپن ہی سے اقبال کے نام گرامی سے واقف ہو گیا۔ میری والدہ اکثر ’’ ماں کا خواب‘‘،’’ بلبل‘‘ اور ہمدردی کی نظمیں 1؎ سنایا کرتی تھیں، چنانچہ سب سے پہلی نظمیں جو میں نے ازبر کیں یہی تھیں۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو دادا جان حاجی احمد بخش صاحب حضرت علامہ (رحمۃ اللہ علیہ) اور گرامی مرحوم کے واقعات سنایا کرتے، اس زمانے کے جب حضرت علامہ (رحمۃ اللہ علیہ) بھاٹی دروازے میں سکونت پذیر تھے اور یہ تینوں بزرگوار گاہے گاہے اکٹھے مل بیٹھتے تھے۔ جب تک میں ثانوی درسگاہ میں داخل نہ ہوا، میرے دل میں ان سے ملاقات کی خواہش پیدا نہ ہوئی یا اگر ہوئی تو میں اسے محسوس نہ کر سکا کیونکہ اپنی بے بضاعتی کے پیش نظر ایسی خواہش کو دل میں جگہ دینا مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا لیکن ایک موقعہ پر مجھے اس کا احساس بڑا زور دار ہوا۔ 1923ء یا1924ء میں مجھے سال بخوبی یاد نہیں، انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کا مقام انعقاد ہمارا مدرسہ واقع بیرون بھاٹی دروازہ قرار پایا اور یہ بھی سننے میں آیا کہ ڈاکٹر اقبال جلسے میں ضرور شریک ہوں گے اور اپنی نظم سنائیں گے۔ یہ خبر جس قدر سرور اور انبساط کی حامل تھی، نتیجہ میں اتنی ہی مایوس کن ثابت ہوئی۔ علامہ مرحوم کو دیکھنے کی آرزو بر نہ آئی اور مزید بہت مدت تک شرمندۂ تکمیل نہ ہوئی۔ بہر کیف میری آتش شوق پیہم مایوسی کے باعث سرد پڑ گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد کونسل کے انتخابات کا چرچا اٹھا اور معلوم ہوا کہ علامہ بھی امیدوار ہیں۔ ہمارے خاندان کے ہر فرد کی دلی تمنا تھی کہ ان کے مقابل کوئی کھڑا نہ ہو لیکن ملک محمد دین نے مخالفت کا اعلان کر دیا اور لاہور اور اس کے مضافات کے مسلمان بدقسمتی سے فرقہ پرستی کے گرداب میں الجھ گئے۔ کشمیری اور ارائیں کا سوال پیدا ہوا۔ لڑائی، جھگڑے، دنگا و فساد تک نوبت پہنچی، ارائیں ہو کر ڈاکٹر صاحب کی اعانت کرنے کی وجہ سے ہمارے خاندان کو بائیکاٹ کی دھمکیاں دی گئیں۔ پڑوس کے ایک صاحب ریش بزرگ سے میری جھڑپ بھی ہو گئی۔ میں اقبال اقبال پکار رہا تھا۔ ہم نے اپنے مکان کے در و دیوار ’’ اقبال‘‘ لکھ لکھ کر سیاہ کر ڈالے تھے۔ اس بزرگ کو ہمارے افعال بالکل نہ بھائے۔ خواہ مخواہ برہم ہو گئے۔ کہنے لگے’’ اقبال آخر ہے کیا، صرف شاعر اور بیت گو۔ حقہ لے کر تمام دن گڑگڑاتا رہتا ہے۔ دو کش لگائے، دھواں چھوڑا اور ایک آدھ شعر لکھ دیا اور کام ہی کیا ہے۔ مسلمانوں کی کیا خدمت کی ہے اس نے؟‘‘ میری عمر ہی کیا تھی بمشکل پندرہ ہو گی۔ لازماً تند ہو گیا۔ اتنے میں دادا آ گئے اور میں پٹنے سے بچ گیا۔

اس الیکشن کا بھلا ہو کیونکہ انہی ایام میں مجھے ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے کے متعدد مواقع ملے۔ جہاں کہیں جلسہ ہوتا ہم اپنے محلے کی والنٹیر کور لے کر ان کے اشعار پڑھتے وہاں جا پہنچتے اور عین سٹیج کے قریب جگہ پاتے۔ ہماری کور کا گیت جواب شکوہ میں سے ذیل کے بند ہوا کرتے تھے:

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟

وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

الیکشن کا نتیجہ نکلا، علامہ اقبال نے اپنے حریف کو زبردست شکست دی اور ان کا جلوس نکالا گیا۔ جب جلوس بھاٹی دروازہ میں اونچی مسجد کے پاس آ کر رکا تو ہم سب پھولوں کے ہار لے کر آگے بڑھے اور ان کے گلے میں ڈال دیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے ان کا قرب اس قدر زیادہ میسر ہوا اور میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ان کے سامنے لب کشائی کی۔ اس کے بعد یہ آرزو اور بھی بڑھ گئی۔ کہ ان کے نیاز زیادہ سے زیادہ حاصل کیے جائیں۔ بالآخر کافی عرصہ کے بعد دادا جان ہم تینوں بھائیوں کو لے کر اس مرغوب آستانے پر پہنچے۔ یہ شاید 1927ء کا واقعہ ہے۔ ان کی کوٹھی میکلوڈ روڈ پر کئی بار آتے جاتے دیکھی تھی۔ کوٹھی اور سڑک کے درمیان ایک لمبی سی گلی تھی جس کے بائیں جانب کھلی زمین تھی جہاں مکی کے لمبے لمبے پودے میں نے اکثر کھڑے دیکھے تھے۔ دروازے پر دو پست اور بوسیدہ ستون اس کی حدود کو واضح کرتے تھے۔ وہاں سے دور کوئی ڈیڑھ سو قدم کے فاصلے پر کوٹھی کے دو تین ستون اور لکڑی کی سرخ جھالر سی دکھائی دیتی تھی۔ سامنے ان کا ڈرائنگ روم تھا۔ اس کے جنوب میں زنان خانہ کا دروازہ تھا اور شمال میں ڈائننگ روم کے مسقف برآمدے سے ملا ہوا ایک غیر مسقف تھڑا تھا۔ کوٹھی کی ظاہری ہئیت (بعد میں باطنی کے متعلق بھی یہی رائے قائم کی) غیر وقیع اور ٹوٹی پھوٹی تھی۔ شکست و ریخت کے آثار متعدد مقامات سے ہویدا تھے۔ رہائش کی مانورزونی ہمیں کھٹکی ، ہم تینوں بھائیوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تو سراپا حیرت و استفسار پایا۔ مگر یارائے سخن کسے تھا۔ دل آنے والی ملاقات کے لیے دھڑک رہا تھا۔ اور حضرت علامی کو ڈرائنگ روم کے باہر کھڑکی کے نیچے آرام کرسی پر نیم دراز دیکھ کر دل کی دھڑکن اور بھی تیز ہو گئی۔ تھڑے میں ایک چارپائی بچھی تھی۔ آرام کرسی کے سامنے اور ادھر ادھر دو تین کرسیاں دھری تھیں ہم ذرا قریب پہنچے تو شمال کی جانب اور کمرے نظر آئے۔ جہاں دو چارپائیوں پر دو آدمی بیٹھے تھے۔ یہ ملازمین کے کوارٹر تھے۔ اور ان سے ذرا پرے ڈاکٹر صاحب کا کتب خانہ تھا۔ اس کے اور ڈرائنگ روم کے درمیان ایک چھوٹا سا میدان تھا۔ ان دو بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے ایک پتلا دبلا آدمی اٹھا اور ہماری طرف بڑھا۔ اس کے سر پر بغیر پھندنے والی رومی ٹوپی تھی۔ جس کی لالہ رنگی زمانے کے ہاتھوں مٹیالی ہو گئی تھی۔ ڈاڑھی خشخشی اور مونچھیں بھوری تھیں ، آنکھیں ہنستی ہوئی یہ ڈاکٹر صاحب کا ملازم علی بخش تھا۔ دادا جان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور جا کر اطلاع دی ڈاکٹر صاحب نے وہیں سے آئیے حاجی صاحب کہہ کر بلایا۔ ہم بارگاہ میں بصد عجز و نیاز پہنچے، مصافحہ کیا اور کرسیوں پہ جن میں علی بخش نے اور بھی شامل کر دی تھیں بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب حاجی صاحب سے باتیں کرنے لگے۔ مولانا گرامی مرحوم کا ذکر آیا تو فرمانے لگے کہ کسی کو چاہیے کہ ان کے ہمراہ رہ کر ان کا کلام قلم بند کرتا جائے۔ انہیں اپنا کلام سارا زبانی یاد ہے۔ مگر لکھایا لکھایا بہت کم ہے، ہماری جانب دیکھ کر پوچھا کہ کون ہیں ِ؟ حاجی صاحب نے فرمایا کہ میرے پوتے ہیں آپ کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے نام اور پڑھائی کی بابت پوچھا ہم نے بتایا کہ حاجی صاحب کہنے لگے یہ لوگ مدت سے مصر تھے کہ آپ کے نیاز حاصل کریں َ ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ آپ ہی کے اشعار گنگناتے رہتے ہیں۔ ان کو تو آپ سے غائبانہ عشق ہو گیا ہے ڈاکٹر صاحب نے حقہ کی نے کو منہ میں لیا۔ ہلکے ہلکے کش لگائے اور مسکرا کر فرمایا حاجی صاحب نوجوانوں کی آئندہ نسلیں میری مٹھی میں ہیں ‘‘۔

کس قدر الہامی اور صداقت سے لبریز فقرہ ہے۔ نوجوانوں کے قلوب پر ان کی زبردست گرفت کا اندازہ آج بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔

رخصت ہونے کو اٹھے تو دوبارہ مصافحہ کرتے وقت بھائی حمید نے ڈاکٹر صاحب کا ہات چوم لیا جس سے بھائی مجید اور میرے دل میں رشک کے جذبات موجزن ہوئے۔ ہم مصافحہ پہلے کر چکے تھے اور دوبارہ کرتے ہوئے حجاب اور آداب مانع ہوئے اس لیے تمام راستہ تاسف ہوتا رہا کہ اس سعادت سے ہم کیوں محروم رہے۔

گفتگو میں بیشتر حصہ عموماً ڈاکٹر صاحب کا ہوتا تھا۔ ہم ذرا سی بات چھیڑ دیتے۔ کوئی سوال پوچھ بیٹھتے اور وہ حقائق و معارف کے دریا بہانا شروع کر دیتے ایک ہی صحبت میں مختلف موضوعات زیر بحث آتے۔ اسلامیات، فلسفہ، اور سیاسیات، سے لے کر روز مرہ کے مشاغل پر بھی اس انداز سے گفتگو فرماتے کہ گویا انہیں ہر علم و فن پر احاطہ ہے۔ یہ احساس ہرگز نہ ہوتا تھا کہ وہ محض ٹالنے کی خاطر یا اپنا تبحر منوانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ خلوص اور خیالات و جذبات کی صحت ان کے اسلوب بیان سے مترشح تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوا کہ اگر انہیں موضوع ناپسند ہو ا یا اگر یہ کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی تو صرف ’’ہوں ‘‘ فرما دیا کرتے۔ لیکن اس سے کسی کی دل شکنی کبھی مقصود نہ ہوتی۔ بے معنی سوالات سے البتہ ضرور چڑھ جایا کرتے تھے۔ میرے سامنے ایک واقعہ پیش آیا وہ عرض کرتا ہوں :

پچھلی گرمیوں میں ایک روز شام کے وقت میں اور صوفی تبسم نے ڈاکٹر صاحب کے یہاں چلنے کی ٹھانی ایک اور صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی رفاقت کی خواہش ظاہر کی۔ وہ سائیکل پر تھے کہ ہم تانگے میں لہٰذا وہ ہم سے آگے نکل گئے۔ جب ہم جاوید منزل پہنچے تو ڈاکٹر صاحب پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے اور یہ صاحب پاس بیٹھے تھے ڈاکٹر صاحب بہت برہم نظر آتے تھے۔ میں نے اس سے قبل انہیں برہمی و غیظ و غضب کی حالت میں صرف ایک مرتبہ دیکھا تھا اور وہ بھی ای نوجوان مرزائی مبلغ کو انہوں نے دھکے دے کر اپنی کوٹھی سے باہر نکال دیا تھا۔ لیکن موجودہ کیفیت اس سے قدرے مختلف تھی۔ اس میں افسوس کا عنصر غالب تھا۔ ہم ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ صوفی صاحب کو کہنے لگے۔

Sufi Who is this young man?

صوفی یہ نوجوان کون ہے؟

ہمیں حیرت ہوئی کہ الٰہی کیا ماجرا ہے۔ چنانچہ نہ تو صوفی صاحب جواب دے سکے اور نہ ہی کوئی اور اس لیے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ فرمانے لگے۔

He comes here asks Dr. Sahib

What is your opinion about psychology. Now what opinion can I give him about psychology.

دیکھیے نا یہ مجھ سے آ کر پوچھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی نفسیات کی بابت کیا رائے ہے؟ آپ ہی کہیے میں نفسیات کی بابت کیا رائے دوں َ؟

ہمیں اک گونہ تسلی ہوئی کہ خیر معاملہ اتنا نازک نہیں ، لیکن ڈاکٹر صاحب کے بشرے اور لہجے سے ظاہر تھا کہ انہیں اس سے کافی تکلیف ہوئی ہے۔

اس واقعہ سے صرف یہی چیز نہیں ہوتی کہ وہ مہمل استفسارات سے تنگ پڑ جاتے تھے بلکہ ان کی جبلی کم آزاری بھی عیاں ہو جاتی تھی۔ انہوں نے انگریزی میں اس لیے پوچھا کہ ان صاحب کی ظاہری ہئیت اور ملانی صورت سے یہ گمان نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انگریزی زبان سے واقف ہیں اور اس کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے گی۔

ڈاکٹر صاحب کی زبان میں بے حد رس اور شیرینی تھی۔ ایک بار ان کے پا س بیٹھ کر گھنٹوں اٹھنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ ان کے سامنے کوئی بھی بیٹھا ہو اسے اپنی علمی کم مائیگی اور ان کی رفعت و بلند مرتبی کا احسا س ہرگز نہ ہوتا تھا۔ جیسے کوئی نہایت ہی مشفق اور بے تکلف دوست کے سامنے بیٹھا ہو۔ ایک روز جون 1929ء کو ہم تینوں دادا جان بھائی مجید اور میں ان کے آستانہ پر پہنچے ڈاکٹر صاحب ڈرائنگ روم میں صوفے پہ بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر لکھنا چھوڑ دیا اور بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ اس روز ان کی ذات کے کئی اور پہلو مشاہدہ کیے۔ ہماری گفتگو کا رخ اسلام اور مشاہیر اسلام کی طرف پھرا تو انہوں نے ہمیں عہد اولیٰ کے مسلمانوں کے ایثار اور اولوالعزمی کے واقعات سناتے ہوئے تاریخ اسلامی میں سے ایک ورق سنایا جس کا تعلق حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور قسطنطنیہ کی اولین فتح سے تھا۔ نوے برس کی عمر میں ان کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو یاد کر ے ڈاکٹر صاحب پر کمال رقت طاری ہو گئی ان کا چہرہ گلاب کی طرح سرخ ہو گیا آواز حلق میں رک گئی اور بولنے کی ہر سعی کے ساتھ ان کا چہرہ زیادہ گلگوں ہوتا گیا یہاں تک کہ آنسوؤں کا تانتا بندھ گیا۔ اس قصے کے بعد کامل سکوت چھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب سب سے زیادہ متاثر تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہماری موجودگی کو بھول گئے ہیں۔ کمر ے میں شام کی تاریکی پیدا ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ چلیے باہر برآمدے میں چل کر بیٹھیں۔ علی بخش نے پلنگ اورکرسیاں پہلے ہی بچھا رکھی تھیں َ پانی کا چھڑکاؤ بھی کر دیا تھا علی بخش نے حقہ اٹھایا اور ہم سب باہر آ گئے۔ ایک ملاقاتی کے آنے کی اطلاع دی گئی۔ اجازت پر ایک نوجوان بغل میں چند کتابیں دبائے آگے بڑھا اور جھک کر آداب بجا لایا۔ شکل و صورت اورلباس سے ہندوستانی معلوم ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے استفسار پر بولا کہ حیدر آباد (دکن) سے محض حضور کے نیا ز حاصل کرنے آیا ہوں۔ تھوڑے توقف کے بعد اٹھا اور ایک کتاب ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیا اور کہا کہ اس پر اپنے ہاتھوں سے کوئی شعر لکھ دیں۔ وہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی اپنی تصنیف پیام مشرق تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے دیکھ کر فرمایا کہ بھئی اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب میرا ہی توہے پھر اور کیا لکھوں ؟ اس نے اصرار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے اوراق ذرا الٹے پلٹے قدرے توقف کیا جیسے کچھ سوچ رہے ہیں پھر علی بخش کو آواز دے کر کہا کہ قلمدان اٹھا لاؤ۔ علی بخش ایک بڑا سا سیاہی مائل قلمدان لایا جس میں شیشے کی ایک بڑی دوات اور شاید د و قلم تھے۔ قلمدان کے وسط میں اٹھانے کے لیے ایک لوہے کا محرابی کند تھا۔ علی بخش نے قلم سیاہی میں ڈبو کر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں دبا دیا اور انہوں نے کتاب کے سرورق پر ذیل کا شعر رقم فرما دیا:

سروری در دین ما خدمت گری است

عدل فاروقی و فقر حیدری است ۳

وہ نوجوان بہت خوش ہوا اور ذرا دیر اور بیٹھ کر چلا گیا۔ اتنے میں پاس کے سینما سے شور و غوغا بلند ہوا۔ ایک شاعر اور فلسفی کی قیام گاہ جسے کامل سکون اور سکوت میسر ہونا چاہیے تھا غوغا آرائی کے اس سیل بے پناہ میں غرق ہو گئی۔ ہم خاموش بیٹھے تھے اس نے چونکا دیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور کہا:

’’ڈاکٹر صاحب ! یہ شور تو آ پ کے آرام میں بہت مخل ہوتا ہو گا‘‘؟

انہوں نے فرمایا ’’ہاں مگر اب عادت ہو گئی ہے‘‘۔

’’آپ اس کوٹھی کو بدل کیوں نہیں دیتے یہ تو یوں بھی بہت بوسیدہ اور پرانی ہے۔ آپ اس کا کتنا کرایہ دیتے ہیں ‘‘؟

’’ایک سو تیس روپے‘‘۔

’’اتنے روپوں میں تو آپ کو ایک بہت اچھی کوٹھی مل سکتی ہے ‘‘۔

’’ٹھیک ہے مگر میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ کوٹھی دو یتیم ہندو بچوں کی وراثت ہے، میرے چلے جانے سے ان کو بہت تکلیف ہو گی۔ اتنا کرایہ شاید اور کوئی نہ دے‘‘۔

اس پاکیزہ جذبے کے اظہار سے ہم عش عش کر اٹھے۔ اللہ اللہ! یہ وہ اقبال ہیں جن کے متعلق لوگوں کے دلوں میں عجیب و غریب خیالات اور نظریے جاگزیں تھے۔ کوئی ملحد قرار دیتا تھا کوئی دہریہ۔ متذکرہ الیکشن کے دوران میں مخالف پارٹی کا پروپیگنڈہ ان کی ذات گرامی میں خردہ گیری تک محدود رہا اور ان کی نامسلمانی کو ثابت کرنے کے لیے عموماً ان کے اس شعر کا حوالہ دیا جاتا تھا:

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

اور نادان یہ نہ سمجھے کہ وہ اس ڈھنگ سے مسلم قوم کے مذہبی جمود کو غیرت کی گرمی سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کم نظر ان کی بیتابی جان کا اندازہ نہ کر سکے اس لیے کہ انہیں کبھی توفیق نہ ہوئی کہ ان کا قرب حاصل کریں ، ان کے پاس بیٹھیں اور ظاہر کی بجائے باطن کی جھلک دیکھیں۔ وہ ا ن کے کلام کی روح کو نہ پہنچ سکے۔ جب یہ شعر جو خود قوم کی دوں ہمتی اور ہنگامی جوش و خروش کا آئینہ دار ہے سنا کہ:

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

تو اسے بے دین کہا۔ شکوہ سن کر تو اسے پہلے ہی زندیق بنا دیا تھا۔ یہ سب تعصب بے عقلی اور جہالت کی کارفرمائیاں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے جواب نے میرے خیالات کی رو کو اس بہاؤ میں پھینک دیا تھا اور میرا خیال ہے کہ باقی دونوں حضرات بھی یہی کچھ سوچتے ہوں گے۔ اتنے میں علی بخش ڈاکٹر صاحب کے لیے کھانا لے آیا۔ لکڑی کے درمیانہ سائز کے خوان میں تولیے کے اوپر ایک چینی کی طشتری میں دلیا تھا۔ دودھ اور چمچے کے پاس تھے بس ان کی یہ غذا تھی۔ ڈاکٹر صاحب چارپائی پر ہی کھانے لگے۔ وہ کھا چکے تو ہم ذرا اور ٹھہر کر چلے آئے۔

اب ہم اکثر ان کی ملاقات کو جانے لگے۔ جس روز دادا نہ جا سکتے ہم دونوں بھائی جا پہنچتے۔ میں واپس آ کر عموماً ہر ملاقات کی تفصیل اپنی ڈائری میں رج کر لیا کرتا تھا۔ مجھے ڈائری لکھنے کی عادت سکول ہی میں پڑ گئی تھی۔ اور آج جب میں ان پرانی تاریخوں کو الٹ پلٹ کر دوبارہ دیکھتا ہوں تو اک عجب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اور ان خوش قسمت اور گراں بہا لمحات کی یاد قلب کی گہرائیوں میں بھی ارتعاش پیدا کر دیتی ہے۔ تب کیا پتا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ان یادداشتوں کی قدر و منزلت نہ صرف میری بلکہ ہر اقبال پرست کی نگاہ میں افزوں ہو جائے گی۔ میں یہاں 1930ء کی ایک ملاقات ڈائری سے من و عن نقل کرتا ہوں :

23جون 1930ء

عشق درد انگیز را ہر جادہ در کوے تو برد

بر تلاش خود چہ می نازد کہ رہ سوے تو برد

شام کے کوئی سات بجے کے قریب بھائی مجید اور میں ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی واقع میکلوڈ روڈ پہنچے۔ تمازت آفتاب کے اثرات ابھی کافی تیز تھے، لیکن ملاقات کی دھن میں ہم نے کوئی پروا نہ کی اور تیزی سے قدم اٹھاتے چلے گئے۔ دادا جان نے ایک مخملی جائے نماز، سفید سیپ کی تسبیح اور کچھ کھجوریں (خاص مدینہ منورہ کی جن میں گٹھلی نہ تھی) حجاز سے ڈاکٹر صاحب کے لیے بھیجی تھیں َ انہیں ان کی خدمت میں پیش کرنے جا رہے تھے تمام راستہ لبوں سے یہی دعا نکلتی رہی کہ وہ کہیں باہر نہ تشریف لے گئے ہوں۔ دروازے میں داخل ہوئے تو نگاہ شوق دور ہی سے اٹھی اور بے حد مسرور ہوئی کہ وہ محبوب انسان حسب معمول باہر برآمدے میں چارپائی پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے کسی ملاقاتی سے محو گفتگو تھے۔

علی بخش آیا اور ہمیں ڈاکٹر صاحب کے حضور میں لے گیا۔ ہم نے مودبانہ سلام عرض کیا، ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ اٹھایا اور کمال تلطف سے ’’آئیے‘‘ فرمایا اور کرسیوں کی طرف اشارہ کیا ہم قریب ترین خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

کونسل سے آنے والے انتخابات اور امیدوار زیر بحث تھے۔ ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کی غوغا آرائی اور فضول سے متاسف تھے آپ کو افسوس تھا کہ مسلمان انتخابات میں اپنی انفرادی اور ملی طاقت کو ضائع کر کے اپنی ذہنی، اخلاقی اور سیاسی پستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے مخاطب سے فرمایا:

’’قومیت ۴ ؎ کا سوال نہایت ناپسندیدہ سوال ہے۔ کوشش کرنا چاہیے کہ یہ نہ اٹھے۔ اس کے لیے چاہیے کہ ایسے لوگوں کی ایک کانفرنس بلائی جائے جو انتخابات اور ووٹوں کے سلسلے میں بہت زیادہ گرم جوش (Enthusiastic) ہوں امیدواروں کے کوائف اور حالات معلوم کرنے کے لیے اس کانفرنس کی یہ کوشش ہو کہ رائے عامہ کا جائزہ لے اور معلوم کرے کہ عوام کا رخ کیا ہے۔ اور وہ زیادہ تر کس امیدوار کے حق میں ہیں۔ اس کے بعد کانفرنس کے اراکین، جن کی تعداد طاق ہو تاکہ رائے شماری میں آسانی ہو، کی رائے لینا چاہیے اور اکثریت کے فیصلے کے مطابق مجوزہ امیدوار کی اعانت اور مدد کریں ‘‘۔

ڈاکٹر صاحب چپ ہو گئے اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سر میں کنگھی کرنے لگے۔ ان کے بال چھوٹے چھوٹے اور سپید مگر سیاہی مائل وہ انگلیوں کے درمیان اور ان کے زور سے اس طرح نگوں ہو جاتے تھے جیسے گندم کے زرد اور سنہری کھیت ہوا کی موجودگی میں۔ اسی انداز میں وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور دادا جان کی بابت پرسش کی۔ عرض کیا کہ زیارت حرمین سے واپس آئے اور کراچی ہی سے بغداد کی جانب روانہ ہو گئے ہیں آپ کی خدمت میں سلام بھیجا ہے۔

’’خدا کرے اس مقدس ارض کی زیارت مجھے بھی نصیب ہو دیکھو بھئی *حاجی صاحب سے کہنا کہ اس سفر سے فائدہ اٹھائیں ان سے کہنا کہ فارسی نظم یا نثر میں اپنا سفر نامہ مرتب کریں یہ چیز یقیناً بڑی اچھی ہو گی‘‘۔

ڈاکٹر صاحب کی عظیم شخصیت کا خوف میرے دل سے اب اٹھ چکا تھا اور اس کی جگہ اب کمال محبت بلکہ پرستتش نے لے لی تھی مگر انہیں براہ راست مخاطب کرنے میں ابھی ذرا جھنک محسوس کرتا ہوں۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس شرف اور سعادت سے محروم رہنا بھی سخت ناپسند ہے۔ چنانچہ میں نے جسارت سے کام لیا اور عرض کی کہ حاجی صاحب ہر خط میں آپ کی خیریت پوچھتے ہیں اور آپ کو اشعار تو ضرور لکھتے ہیں اور آپ کا یہ شعر تو بڑے مسرور ہو کر لکھا ہے:

زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں

ڈاکٹر صاحب بھی اس سے بہت مسرور ہوئے اور ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ میں نے عرض کیا کہ اس شعر کے پیش نظر انہوں نے اپنی عقیدت اور نیاز کا اظہار کرنے کے لیے جو ان کو آپ کی ذات سے ہے جائے نماز تسبیح اور کھجوریں بطور تحفہ بھیجی ہیں زمزم کا نام بھی نہیں لیا۔

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا خوب! مجھے ان دنوں ایک تسبیح اور جائے نماز کی ضرورت ھتی جائے نماز تو ان شا ء اللہ بڑی احتیاط اور حفاظت سے رکھی جائے گی۔ دیار حبیب کا تحفہ ہے اور تم جانتے ہو کہ اس پر کھڑے ہونا اس کو خراب کرنے کے مترادف ہے (اپنی اس بات پہ وہ خود ہی ہنس پڑے) پھر علی بخش کو بلا کر اسے ہدایت فرمائی کہ ان چیزوں کو ان کے ملاحظہ کے لیے پیش کیا جائے۔

ذرا وقفہ کے بعد پھر فرمایا : ’’یہ کھجوریں مجھے حقیقت میں بڑی پسند ہیں َ مرتبہ سالک صاحب کو منگانے کے لیے کہا ہے مگر وہ عموماً بھول جاتے ہیں َ اچھا اب تم حاجی صاحب کو کب خط لکھو گے؟‘‘

عرض کیا کہ اس جمعرات کو۔

’’تو میری طرف سے شکریہ ادا کر دینا۔ پھر جب وہ واپس آئیں گے تو میں زبانی بھی شکریہ ادا کر دوں گا۔ ان سے کہنا کہ ان کی جائے نماز بہت دلپسند اور مرغوب تحفہ ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھ دینا کہ (ڈاکٹر صاحب ذرا سا ہنسے اور کہا):

’’من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے نمازی بن نہ سکا‘‘

تھوڑے سے سکوت کے بعد پھر کہنے لگے۔ ’’چند دنوں تک شاید میں بھی بغداد جاؤں ‘‘ 18جولائی کے بعد یقین سے کہہ سکوں گا۔ پہلے فلسطین جاؤں گا جہاں دیوار گریہ کی تقسیم اوقات کی بابت شہادت دینا ہے۔ وہاں سے پھر تمام قابل دید مقامات اور زیارت گاہوں سے پھرتا پھراتا واپس آؤں گا۔ اس کے بعد غالباً افغانستان کا سفراختیار کروں گا جہاں امیر نادر خاں نے آنے کی دعوت دی ہے‘‘۔

سفر کی باتیں جو شروع ہوئیں تو انہیں اپنے سفر مدراس کے تجربات اور مشاہدات یاد آ گئے جہاں وہ لیکچر دینے کے لیے گئے تھے یا شاید ایک مسلمان جرنیل کی یاد نے ایک اور جلیل القدر مسلمان جرنیل کی یاد تازہ کر دی فرمانے لگے :

’’میسور میں جہاں کہیں بھی گیا تو دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی زبانوں پر ایک ہی نام ہے اور وہ سلطان شہید کا تھا۔ ہر مقام پہ جہاں دو تین آدمیوں کی محفل گرم ہوئی ایک ہی قصہ تھا، ایک ہی رنگین داستان تھی جسے ہر کوئی بیان کرتا اور سارے ادب سے سر جھکائے سنتے اور سلطان شہید کی معرکہ آراء زندگی تھی۔ بازاروں میں دوکانداروں کا موضوع سخن بھی یہی تھا۔ دو تین مجلسوں میں جہاں مجھے جانے کا اتفاق ہوا یہی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے عمداً کئی مرتبہ گفتگو کا رخ دوسری باتوں کی طرف پھیرا لیکن ہر بار پھر سلطان ٹیپو کا تذکرہ آ جاتا اور پھر اخیر تک گریز نہ ہوتا، ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سلطان مرا نہیں زندہ ہے اور عنقریب ان کے درمیان آئے گا‘‘۔

مسلمانوں کے اس عقیدے کے باعث گفتگو کا رخ مرزا غلام احمد قادیانی اور بہاء اللہ کی تعلیمات کی طرف پلٹا اور فرمایا: ’’پچھلے دنوں ایک امریکن خاتون جس نے بہائی مذہب اختیار کر رکھا تھا میرے پاس آئی اور بہاء اللہ کی بات باتیں کرتی رہی۔ میں نے قرآن پاک کی چند آیات پڑھ کر سنائیں اور جب اسے ان کے مطالب اور معانی سے آگاہ کیا تو اچھل پڑی کہ ہیں یہ تعلیمات تو ہمارے بہا آقا کی ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ نہیں یہ تو خدا کے احکام ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم ہے۔ بہاء اللہ نے صرف ان میں تھوڑا سا تغیر کر کے اپنا لی ہیں۔ اس کا دعویٰ در حقیقت سراسر باطل ہے۔ تم دونوں کی تعلیمات میں بے حد مشابہت اور مماثلت پاؤ گی۔ یا اگر سچ پوچھو تو بہا ء اللہ کی تعلیمات علوم قرآنیہ کی فرع ہے۔ اس سے اس کی تشفی ہو گئی مگر جاتے ہوئے بہاء اللہ کی تعلیمات کا ایک مختصر سار سالہ چھوڑ گئی‘‘۔

پھر مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس تحریک نے مسلمانوں کے ملی استحکام کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور آئندہ پہنچائے گی اگر اس کا استیصال نہ کیا گیا۔ اس ضمن میں کہنے لگے ’’سیالکوٹ کی ایک مسجد میں مرزا صاحب دعوی مسیحیت کے ابتدائی ایام میں صبح صبح اپنے عقیدت مندوں کے حلقہ میں تازہ الہامات سنایا کرتے تھے۔ ایک روز مجھے جو دل لگی سوجھی تو میں بھی وہاں جا پہنچا۔ اور کہا کہ مجھے بھی کچھ الہامات ہوئے ہیں۔ سنیے میں نے عربی کے چند جملے جن میں احمدیوں اور ان کے مذہب کی بابت مزاحیہ رنگ میں نوک جھونک تھی سنائے جس سے وہ طائفہ سخت برہم ہوا اور مجھے بھاگنا پڑا‘‘۔

ا س کے بعد اور بہت سے موضوعات پر باتیں کرتے رہے جن کا تعلق زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں سے تھا۔ آپ مسلمانوں کے تنزل اور زبوں حالی سے بہت متاثر تھے۔

کہنے لگے ’’مغل بادشاہوں میں بہت سی کمزوریاں تھیں اور ان کی سلطنت کے انحطاط کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے بحری طاقت کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۸۔ ہسپانیہ اور دیگر ممالک میں ان کے سیاسی زوال اور ادبار کی وجہ بھی بحری طاقت کا نہ ہونا تھا‘‘۔

اب دس بجنے والے تھے اٹھنے کو جی نہ چاہتا تھا اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب نے کوفت یا اکتا جانے کا کوئی اظہار کیا لیکن ان کے آرام ہی کے پیش نظر ہم نے مناسب سمجھا کہ رخصت کی اجازت لیں ڈاکٹر صاحب نے ’’اچھا‘‘ فرمایا اور ہم چلے آئے۔

حضرت علامہ اپنے ہندو دوستوں ۹ کے بہت مداح تھے، مگر وہ بحیثیت قوم ان کی سو د خوارانہ ذہنیت اور مسلم آزار سرشت کی شکایت بھی کیا کرتے اور اس چیز کو قطعاً ناپسند فرماتے تھے کہ مسلمان سیاسی معاشرتی یا اقتصادی پہلو میں ان کے غلام بن کر زندگی بسر کریں۔ ایک روز جبکہ میں صوفی غلام مصطفے تبسم اور بدر الدین بدر اور پنجابی کے ایک مشہور شاعر بابو کرم سراج الدین نظامی صاحب اور دو ایک اور دوست ان کے پاس بیٹھے تھے تو کانگرس اور مسلم لیگ کا تذکرہ چھڑا۔ نئے انڈیا ایکٹ کے نفاذ کی آمد آمد تھی اور کوششیں ہو رہی تھیں کہ مسلمانوں کو کانگرس میں شامل کیا جائے۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اچھے خاصے مخلص کارکن ہیں۔ اور دل سے خواہاں ہیں کہ مسلمان بھی کانگرس کے دوش بدوش جہاد حریت میں شریک ہوں آپ فرمائیے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہاں جواہر لال نہرو مخلص ہیں مگر کانگرس ساری مخلص نہیں وہ خالص ہندوؤں کی جماعت ہے۔ اس لیے ہر حال میں انہی کے حقوق اور مفاد کو مد نظر رکھتی ہے اگر مسلمان اکے دکے ہو کے کانگرس میں شامل ہوں تو ملت اور اس کے مفاد سے غداری کریں گے۔ اپنی وحدت ملی کو پارہ پارہ کریں گے یہ بات نہ ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کو اپنی سیاسی شخصیت کو کسی صورت بھی کھونا نہ چاہیے اور انہیں یہ کوشش کرنا چاہیے کہ جب تک کانگرس بحیثیت ایک قوم کے ان کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرے۔ اس میں ہرگز شامل نہ ہوں اور علیحدہ رہ کر اپنے حقوق آزادی کے لیے لڑیں۔ میرا ایمان ہے کہ مسلمان دل میں آزادی کی تڑپ ہندو سے زیادہ ہے‘‘۔

اسی ملاقات میں صوفی صاحب نے بابو کرم کا تعارف کرایا۔ بابو کرم نے اپنی چند پنجابی نظمیں سنائیں جو ڈاکٹر صاحب نے پسند فرمائیں َ کہنے لگے بابو صاحب آپ کی پنجابی زبان بڑی ستھری اور ٹھیٹ ہے۔ آپ اگر مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ) کی مثنوی کی کچھ حکایات خالص پنجابی میں منتقل کرنے کی کوشش کریں تو ضرور کامیاب ہو سکتے ہیں َ صوفی صاحب آپ کو موزوں حکایات بتا سکتے ہیں َ یہ فارسی اور پنجابی دونوں زبانوں کی خدمت ہو گی‘‘۔ انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ پنجابی نظم ۱۰ میں تصوف کے بڑے بڑے ذخیرے پنہاں ہیں خصوصاً فرید (رحمۃ اللہ علیہ) کے دوہے ٭۔ فارسی کے بعد شاید یہ دوسری زبان ہے جو تصوف سے مملو ہے۔

اس روز سراج الدین نظامی کو ہم اس لیے اپنے ہمراہ لے گئے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو ان کا کلام سنائیں چنانچہ جب ڈاکٹر صاحب سے اجازت لی گئی تو وہ خوب فرما کر تکیے پر آدھا لیٹ کر بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے۔ نظامی صاحب نے دبی زبان میں پہلے لے کو دہرایا اور پھر ’’بال جبریل‘‘ سے وہ غزل گائی جس کا مطلع ہے:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

سراج الدین نظامی کی آواز بڑی میٹھی اور رسیلی ہے، کسی ساز کی ہم آہنگی کے بغیر بھی سننے والے پر اک کیفیت طاری ہو جاتی ہے ار پھر جب اقبال کے کلام کو موسیقی کے پردوں میں نظر بند کیا جائے تو یہ کیفیت اور بھی موثر اور دیرپا ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب بہت محظوظ ہوئے اس لیے کہ تھوڑی دیر کے بعد فرمانے لگے بھئی کوئی فارسی کی غزل یاد ہے تو سناؤ! جس پر نظامی صاحب نے زبور عجم میں سے وہ غزل سنائی جس کا مطلع یہ ہے:

آشنا ہر خار را از قصہ ما ساختی

در بیابان جنون بردی و رسوا ساختی

ڈاکٹر صاحب اور بھی سننے کے تمنائی تھے کہ لیکن نظامی صاحب کو صرف یہی غزل ازبر تھی، لہٰذا وعدہ کیا کہ کچھ دنوں تک فارسی کی چند غزلیں یاد کر کے حاضر خدمت ہوں گا۔ یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ اگرچہ متعدد موقعوں پر جب ہم گئے تو ڈاکٹر صاحب نے نظامی صاحب کو یاد فرمایا۔

جنوری 1935ء میں میں صوفی صاحب اور میرے دوست سید الطاف حسین ان کی بارگاہ میں بیٹھے تھے کہ ایک پست قامت سپید رنگ ، کہنہ سال اجنبی حاضر ہوا۔ ا س کے پاؤں میں بھاری بھرکم فل بوٹ تھے۔ بدن پر سیاہ لبادہ تھا۔ اور سر پر سیا ہ رنگ کی قراقلی اور ہاتھ میں ’’جاوید نامہ‘‘ کا ایک نسخہ تھا۔ سلام علیکم کہا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا لہجہ غیر مانوس لیکن فاضلانہ تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ ایرانی النسل ہے ور جب اس نے فارسی میں گفتگو آغاز کی تو اندازہ پختہ ہو گیا۔ اس کی فارسی بالکل جدید تھی کچھ لہجہ بھی ویسا تھا۔ میں پوری طرح نہ سمجھ سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارا تعارف کرایا تو معلوم ہوا کہ نو وارد کا نام موسیٰ جار اللہ ہے اور وہ روسی عالم اور جید ہیں۔ ادھر ادھر کی بہت سی باتیں ہوتی رہیں اور پھر اس بزرگ نے ’’جاوید نامہ‘‘ نکالا تعریفیں ہونے لگیں اور کہنے لگا کہ دو باتیں آپ سے سمجھنے آیا ہوں۔ اس کے بعد دین اور سیاست اور نظریہ لادینی کی بابت استفسار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مسئلے پر بہت روشنی ڈالی مغربی سیاست اور وطنیت کے زہر آلود نظریے کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام جغرافیائی حد بندیوں سے بالا تر ہے۔ اس میں رنگ نسل اور قومیت کی تمیز نہیں۔ اسلام میں دین اور سیاست کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری چیز جس کی بابت روسی عالم نے وضاحت چاہی وہ یہ شعر تھا:

ایں ز حج بیگانہ کرد آں از جہاد ۱۲

جس پر ڈاکٹر صاحب نے بہاء اللہ ایرانی اور مرزا غلام احمد قادیا نی کے مخترع مذاہب، ان کے اسباب و علل اثرات و نتائج بد پوری تفصیل سے بیان فرمائے۔

اسی سال انہوں نے قادیانی مذہب کے خلاف اپنا پہلا بیان دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ پیر کا دن تھا اور مئی کی چھ تاریخ چار کو میرا امتحان ختم ہوا جس سے فراغت حاصل کر کے اک گونہ آزادی اور سرور کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے کھانا کھایا اور ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی کی راہ لی۔ شاید باہ بجنے والے تھے اور وہاں پہنچا۔ دل میں پہلے خیال آیا کہ بڑا ناموزوں سا وقت ہے شاید ڈاکٹر صاحب آرام فرما رہے ہوں یا فرمانے والے ہوں اور میں خواہ مخواہ مخل ہوں مگر اس بارگاہ میں ناامیدی اور مایوسی مفقود ہے میں نے ذر ا ٹھٹک کر سامنے والے کمرے کی چق اٹھا کر دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کاؤچ پر بیٹھے کسی امتحان کے پرچ ملاحظہ کر رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور اجازت چاہی انہوں نے عینک میں سے دیکھا اور کہا آؤ بھئی طارق۔ مجھے اس سے بے اندازہ خوشی ہوئی۔ میں جا کر دیوار سے لگی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مزاج پرسی کی اور کہنے لگے طبیعت اچھی ہے البتہ آواز ویسی ہی ہے بھوپال پھر علاج کے لیے جاؤں گا۔ اس اثنا می وہ پرچہ دیکھتے رہے بڑے غور سے ایک ایک لفظ پڑھتے جوابات پرکھتے پھر کہیں جا کر نمبر لگاتے۔ آخر ایک پرچوں کے ڈھیر پر رکھ دیا۔ حقہ پینے لگے اور پوچھا۔ حاجی صاحب کا کیا حال ہے اب عرصے سے ادھر نہیں آئے۔ ذرا دیر اور بیٹھ کر اٹھے اور کہنے لگے۔ چلو دوسرے کمرے میں چلیں۔ ہم اٹھ کر ساتھ والے چھوٹے کمرے میں آ بیٹھے اور جسے ڈاکٹر صاحب بطور خواب گاہ استعمال کرتے تھے وہاں ایک پلنگ ایک کرسی اور چند سوٹ کیس دھرے تھے۔ وہاں ایک پلنگ ایک کرسی اور چند سوٹ کیس دھرے تھے چند کتابیں بکھری پڑی تھیں علی بخش ڈاکٹر صاحب کے لیے کھانا لے آیا۔ شاید شوربا پکا تھا۔ ان کے کھاتے کھاتے چودھری محمد حسین صاحب بھی تشریف لے آئے۔ ان دنوں مسلمانوں کی طرف سے شور بلند ہو رہا تھا کہ مرزائیوں کو اسلام سے خارج کر کے ایک علیحدہ اقلیت شمار کیا جائے۔ قادیانی عقائد کے خلاف مسلمانوں میں کافی جوش و خروش تھا اور طبقہ علماء نے اس فرقہ پر کفر کا فتویٰ بھی لگا دیا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اس نوع کے ریزولیوشن بھی پیش کیے گئے جن سے ہلچل مچ گئی۔ گورنر پنجاب نے ایڈریس کے جواب میں مسلمان قو م کی بے ربطی، باہم نفاق و افتراق اور بے لیڈری پر اظہار تاسف بھی کیا۔ میں نے مرزائی ریشہ دوانیوں اور طرز تبلیغ کی چند مثٓلیں اپنے اسلامیہ کالج کے زمانے کی سنائیں۔ ڈاکٹر صاحب اس بارے میں ایک بیان کی فکر کر چکے تھے۔ اب جو یہ موضوع چھیڑا تو ان میں جوش و خروش پیدا ہو گیا اور فیصلہ کیا کہ مزید باختر کے بغیر اسے شائع کرا دیا جائے۔ انہوں نے علی بخش کو آوا ز دی اور کاغذ قلم دوات لانے کو کہا۔ مجھ سے فرمایا کہ میں بیان لکھتا جاؤں۔ چنانچہ میں نیچے دری پر بیٹھ گیا۔ ایک سوٹ کیس سے میز کا کام لیا۔ میں بیان لکھتا جاتا اور ڈاکٹر صاحب بڑے غور سے سنتے اور درمیان میں متعدد مقامات پر تصحیح فرماتے جاتے تھے۔ کئی ایک جملے کٹوا کر دوبارہ لکھوائے وہ یقیناً ماسبق سے زیادہ واضح اور برجستہ ہوتے۔ خصوصاً اکبر مرحوم کے اس شعر کا پہلا ترجمہ :

گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ

انا الحق کہو اور پھانسی نہ پاؤ

موجودہ ترجمے سے بالکل مختلف ہے۔ لفظی اور کم وقیع تھا۔ کراس اور چین کے الفاظ اور آخری جملہ بعد کی سوجھ کا نتیجہ تھے پہلی سعی جس قدر منثور تھی دوسری اتنی ہی مترنم اور دلکش تھی۔ یہ ان کا شاعرانہ کمال تھا۔ کہ ترجمہ پر اصل کا گما ن ہوتا ہے۔

اس ترجمہ کی بات سے یاد آیا کہ استاد محترم ڈاکٹر تاثیر ایک روز کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کی انگریزی کی تحریر میں بڑی شیرینی اور روانی ہے۔ لیکن جب کبھی انہیں اپنے اشعار کا مطلب ا س زبان میں بیان کرنا ہوتا تو عموماً مجھے ترجمہ کرنے کو کہتے جس پر میں نے کہا کہ آپ تو خود بہت اچھا ترجمہ کر سکتے ہیں جو مجھ سے ممکن نہیں تو فرمانے لگے کہ جب میں اپنے اشعار کا ترجمہ انگریزی میں کرنے لگتا ہوں تو وہ ترجمہ کے بجائے خود ایک دوسری نظم بن جاتی ہے۔٭٭

بات دور نکل گئی ڈاکٹر صاحب اس قسم کے بیانات لکھواتے وقت آہستہ آہستہ اور سوچ سمجھ کر لکھوایا کرتے تھے۔ نہ صرف معانی و مطالب بلکہ الفاظ کی برجستگی ،موزونی اور نشست کا خیال بھی رکھتے، لیکن اس کوشش میں تکلف اور آورد کا شائبہ تک نہ تھا ان کی نگاہیں اپنے سامنے دور کسی غیر مرئی شے پر جم جاتیں جس کی حقیقت اور وجود سے گویا ہم لوگوں کو آشنا کرتے جاتے۔ بیان لکھ چکنے کے بعد ان کو پڑھ کر سنایا کرتے۔ انہوں نے دوایک اور تبدیلیاں کیں۔ اب اس کی نشر و اشاعت کا سوال درپیش ہوا۔ چودھری صاحب نے شاید انگریزی اخبارات میں چھپوانے کا ذمہ لیا مجھ سے فرمایا کہ اردو اخبارات میں سب سے پہلے زمیندار کے دفتر جاؤں اور مولانا ظفر علی خاں سے کہوں کہ وہ خود اس کا ترجمہ کریں ڈاکٹر صاحب کا یقین تھا کہ اس کا بہترین ترجمہ وہی کر سکتے ہیں۔ میں وہیں سے بائسکل لے کر زمیندار کے دفتر دوڑا۔ لیکن مولانا سے ملاقات نہ ہو سی۔ وہ لاہور سے باہر تھے۔ واپس آ کر صورت احوال بیان کی ا سکے بعد یاد نہیں کیا فیصلہ ہوا۔ بہرکیف وہ اخبارات میں چھپا اور اک شور برپا ہوا۔ لوگوں نے حسب عادت اسے صحیح بھی سمجھا اور غلط بھی۔ دوست بھی برہم ہوئے اور دشمن بھی، ڈاکٹر صاحب کی سیاست دانی کی صحت پہ بحث و تمحیص کے دفتر کھلے۔

تکلیف اور بیماری کے وقت بھی ڈاکٹر صاحب کی شگفتہ مزاجی اور خوش دلی نہ جاتی، نہ صرف اشعار میں بلکہ زندگی میں بھی ان سے بڑھ کر خوش امید اور رجا پسند شاید ہی کوئی ہو۔ ان کی مزاج پرسی کرنے والے کو ان کی تکلیف کی شدت کا ہرگز احساس نہ ہونے پاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب ہم عیادت کو گئے تو گلے کی شکایت کے باوجود کوئی دو گھنٹہ لطیفہ بازی کرتے رہے۔

میں نے ڈاکٹر صاحب کو انتہائی دکھ اور غم کے عالم میں بھی دیکھا مگر ایسا کبھی بھی نہ ہوا کہ غم و اندوہ کے احساس نے انہیں مغلوب کر لیا ہو، ان کے لب پر حرف شکایت کبھی بھی نہ سنا، نہ کبھی وہ تقدیر اور قدرت کی سخت گیری سے نالاں ہوئے چہرے پر کبھی ایسی شکن نظر نہ آئی کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ الم و یاس یا ناامیدی ایام نے ان کی روح کو صدمہ پہنچایا ہے۔

اگست 1930ء میں ان کے والد محترم نے وفات پائی ۱۳۔ ہم فاتحہ خوانی کے لیے حاضر ہوئے تو اپنے کتب خانے کے باہر تشریف رکھتے تھے۔ والد محترم کی دو چار باتیں کیں کچھ واقعات سنائے اور پھر گفتو کا رخ پھیر دیا۔ اپنی کوٹھی بنانے کے ارادے سے اور اس کی تکمیل کے امکانات کی بابت باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ ہمارے دلوں سے ان کے صدمے کا خیال جاتا رہا۔

اس کے پانچ سال بعد ان کے انتہائی ضبط کی بہترین مثال دیکھنے میں آئی۔ 23مئی1935ء کو اپنی خواہش سے مجبور ہو کر میں اور صوفی صاحب شام کو کوئی چھ بجے جاوید منزل پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب کو نئی کوٹھی میں سکونت پذیر ہوئے بمشکل آٹھ دن ہوئے ہوں گے۔ ہم مبارک باد عرض کرنے گئے تھے علی بخش نے ہمیں پرچ میں سے دیکھا اور آگے بڑھ کر پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کیسے آ گئے ہیں ؟ کیا آپ کو اطلاع مل گئی ہے؟ ہم سراپا حیرت و استفسار پا کر علی بخش سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ جاوید کی والدہ ابھی ابھی رحلت کر گئی ہیں َ ہمارے دل پر جو گزری وہ محتاج بیان نہیں۔ ہم دونو ں آہستہ آہستہ آگے بڑھے ، درمیانی کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب دائیں جانب طعام گاہ کے دروازے کے قریب فرش پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔ ہمارے سلام کی آواز سن کر انہوں نے سراٹھایا اور ہمیں پہچان کر کہا اچھا ہوا آپ آ گئے میں بالکل اکیلا تھا۔ ان کی آواز دھیمی مگر پر سکون تھی۔ چہرہ اداس اور مغموم تھا۔ لیکن اس کے باوجود صبر و شکیب کا حامل تھا۔ اس پر اشک آفرینی اور آہ و بکا کا کوئی اثر پیدا نہ تھا جو کہ انسانی کمزوری کا خاصہ ہے اور اس لیے کہ عام انسان موت کی ماہیت سے بے خبر اور ا س کی حقیقت سوے ناآشنا ہوتا ہے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کیا اور کیسے گفتگو کریں اور ڈاکٹر صاحب کامل سکوت میں بیٹھے نہ جانے کیا سوچ رہے تھے کہ آخر صوفی صاحب نے زبان کھوی اور افسوس کے چند کلمات کہے میں نے بھی وہی دہرا دیے۔ اور پوچھا کہ بیگم صاحبہ کو کیا تکلیف تھی؟ اب اچھی طرح یاد نہیں ہے کہ گمان ہ کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ فرمایا کہ وہ عرصے ی سے صاحب فراش تھیں۔ دل کے پاس پھوڑ ا ہو گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا مگر وہ نہ مانیں اور آخر کار ختم ہو گئیں۔ ان کی زبان میں رقت آ گئی، ذرا دیر خاموشی کے بعد کہنے لگے، بڑی نیک بخت عورت تھی، بیماری کی حالت میں بھی لڑکیوں کو قرآن پاک پڑھانے سے احتراز نہ کرتی۔ حقی المقدور گھر کا سارا کام کاج خود ہی کرتی۔ اس قدر سمجھ دار اور باسلیقہ تھی کہ جی خو ش ہوتا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں آئے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے۔ ایک وہ بیمار دوسرے نئی کوٹھی میں آنے کی افراتفری روز مرہ کی استعمال کی اشیاء بھی کہیں سے کہیں رکھی جا سکتی ہیں لیکن مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ اپنی موت کو سر پر دیکھ کر اس نے چارپائی پر ہی فہرست مرتب کی اور اس میں لکھا کہ فلا ں چیز فلاں جگہ پڑی ہے۔ اور فلاں چیز فلاں جگہ۔ تاکہ ہم لوگوں کو تلاش و جستجو میں تکلیف کا سامنا نہ ہو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گئے اور ذر ا دیر کے بعد کہا: ’’مجھے زیادہ فکر اب جاوید اور منیرہ کی ہے۔ ان کی دیکھ بھال مشکل ہو جائے گی‘‘۔

یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مرزا جلال الدین صاحب تشریف لے آئے اور تجہیز و تکفین کے بارے میں ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا، انہوں نے ہدایا ت دیں ور وہ رخصت ہو گئے۔ ا س کے بعد خواجہ عبد الوحید آئے اور افسوس کرنے لگے کہ باوجود اتنی قربت کے انہیں تاخیر سے اطلاع ملی۔ اب احباب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے کمرہ بھر گیا اور مشک کافور کی بو سے دماغ میں موت کا بھیانک خیال سما گیا۔ گرمیوں کی راتیں تھیں حدت کافی تھی۔ مجھے شہر واپس آنا پڑا یہ یاد نہیں کہ کس کام چند دوستوں کو بھی اطلاع کر دی اور پھر جاوید منزل کا رخ کیا۔ جنازہ نماز عشا کے کافی دیر بعد اٹھایا گیا اور بی بی پاکدامناں کے قبرستان میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو زیادہ چلنے پھرنے کی عادت پہلے ہی نہ تھی۔ اب تو کمزوری اور نقاہت کے باعث قدم اٹھانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے پاؤں میں پمپ شو تھا۔ شلوار اور بند گلے کا کوٹ پہنے ہوئے تھے اور سر پر سیاہ رنگ کی مخملی ٹوپی تھی۔ جنازے میں کافی پیچھے سر کو نیچے ڈالی خاموشی سے چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے جا رہے تھے۔ جب قبرستان میں پہنچے تو لحد ابھی تیار نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ذرا ہٹ کر اس کی جانب منہ کر کے ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ لوگ گورکنوں کو مختلف ہدایات دے رہے تھے۔ کوئی اس کی لمبائی اور چوڑائی پوچھ رہا تھا تو دوسرا پتھر کی سلوں کی بابت پوچھ رہا تھا۔ کوئی سقے کو آوازیں دے رہا تھا تو کوئی قرات خواں مولوی کو بلا رہا تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس تمام عرصے میں زبان سے شاید ایک لفظ نہ نکالا۔ وہ کامل سکون میں قبر پر نظر جمائے بیٹھے تھے۔ گیارہ بج چکے ہوں گے جب ہم سب وہاں سے لوٹے۔

مادر جاوید کی وفات ڈاکٹر صاحب کے دل پر ایک زخم چھوڑ گئی جو ان کی اپنی موت سے مندمل ہوا۔ لیکن اس اثناء میں بھی ان کی خوش طبعی اور مزاح پرستی میں فرق نہ آیا۔ اس حادثے کے کچھ دن بعد ہم تین چار دوست شام کے وقت ڈاکٹر صاحب کے پلنگ کے اردگرد بیٹھے تھے۔ پلنگ پورچ کی شمالی جانب بچھا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب تکیے پہ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ صنف نازک کی باتیں چھوڑ یں تو مسکرا کر بولے ’’عورتیں جب میرا کلام پڑھتی ہیں تو خیال کرتی ہیں کہ میں بڑا جوان ہوں۔ جاوید کی والدہ کی وفات کے بعد سے مجھے شادی کے کئی پیغامات آ چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بڑی ذہین اور پڑھی لکھی لڑکی کا خط آیا، لکھا تھا کہ میں ہر وقت آپ کا کلام پڑھتی رہتی ہوں ، آپ مجھ سے شادی کر لیں ! میں نے جواب دیا کہ میرا کلام پڑھتی رہو تو اچھا ہو گا‘‘۔ یہ سنا کر آپ بھی ہنسے اور ہمیں بھی خوب ہنسایا۔

بھوپال سے وظیفہ کا اعلان ہوا تو 2جون کو میں ان کی خدمت میں ہدیہ تہنیت پیش کرنے گیا۔ وہ وسطی کمرے میں پلنگ پر لیٹے تھے۔ بے حد کمزور اور لاغر ہو گئے تھے نظام کی خاموشی پر جب میں نے اظہار تاسف کیا تو کہنے لگے ’’بھئی وہاں معاملہ اٹھا تھا اور منظوری ملنے والی تھی کہ یہاں کے دو آدمیوں 14؎ نے اس کی سخت مخالفت کی‘‘۔ میں حیرت زدہ ہو گیا کہ وہ کون بدبخت انسان ہو سکتے ہیں اور جب انہوں نے نام بتائے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ دونوں مسلمانان ہند کی جلیل القدر ہستیاں مانی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب وفات پا چکے ہیں ، دوسرے سرکاری فرائض کی ادائیگی میں ہوائی جہازوں پر دنیا کے چکر کاٹتے پھرتے ہیں۔

پھر میں نے Introduction to the Study of Quran جو وہ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، کے متعلق تذکرہ چھیڑا تو فرمانے لگے ’’ہاں ذر ا صحت اچھی ہو تو لکھنا شروع کروں گا چاہتا ہوں کہ کوئی پڑھا لکھا، وسیع النظر اور صحٰح المشرب فاضل دیوبند میسر آ جائے۔ مجھے حوالجات تلاش کر کے دیتا رہے اور لکھتا جائے۔ انگریزی سے واقف ہو تو نہایت ہی اچھی بات ہے۔ میں تنخواہ بھی دینے کو تیار ہوں۔ ایک بار کتاب شروع کی تو انشاء اللہ اسلام کے بارے میں یورپ کی تمام Theories(نظریات) کو توڑ پھوڑ کے رکھ دوں گا۔ ارادہ ہے کہ قانون کی تمام کتب بیچ کر فقہ، حدیث اور تفاسیر خرید لوں۔ یہ اب میرے کسی کام کی ہیں ‘‘۔ اس کے بعد میں جب کبھی جاتا تو اس کتاب کی بابت ضرور استفسار کرتا اور ہمیشہ خدا سے صحت کی دعا کرتے۔

9ستمبر 1935ء کو وہ بھوپال سے لوٹے (جہاں وہ علاج کی غرض سے جاتے تھے) تو صحت قدرے اچھی تھی۔ کھانسی کو افاقہ تھا، البتہ یہاں آ کر انہیں نزلہ اور زکام کی شکایت ہو گئی۔ شہید گنج کے حادثے کو دو ماہ کے قریب ہوئے تھے۔ انہیں اس کا بڑا رنج ہوا تھا۔ بہر کیف ان کی رائے تھی کہ مسلمانوں کو قانون شکنی نہ کرنا چاہیے۔ کہنے لگے ’’حکومت نے گولی چلا کر سخت ٹھوکر کھائی ہے! دراصل بات یوں ہے کہ خود حکومت کے قبضے میں بے شمار مسجدیں ہیں اور ان پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کی غرض سے مسجدشہید گنج پر سکھوں کے تصرف کو جائز قرار دیا ہے‘‘۔

1935ء کا سال میرے لیے بڑا باسعادت سال ثابت ہوا۔ اس میں مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے متعدد مواقع میسر آئے، خصوصاً 25جون کے بعد اس روز علی بخش آیا اور کہنے لگا کہ جاوید کو پڑھا دیجیے۔ بھلا مجھے کیا عذر ہو سکتا تھا؟ دوسرے دن میں چھ بجے جاوید منزل پہنچ گیا۔ علی بخش نے دو کرسیاں اور ایک میز بچھا رکھی تھی۔ جاوید آ گیا اور ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ وہ انگریزی کی کتاب پڑھ رہا تھا، تلفظ اچھا تھا اور یوں بھی رواں لیکن جب میں نے مطلب بیان کرنے کو کہا تو نہ کر سکا۔ مجھے بے حد افسوس ہوا کہ اس نے اپنے والد بزرگوار کی فطانت سے زیادہ حصہ نہ پایا۔ البتہ اس میں ایک بات ضرور تھی۔ وہ عام معلومات ضرور حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اور بات بات پر سوال کرتا تھا۔تھوڑے عرصے بعد ڈاکٹر صاحب بھی باہر تشریف لے آئے۔ وہ بنیان اور دھوتی میں ملبوس تھے۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہماری جانب بڑھے۔ اور کہنے لگے:’’بھئی طارق تمہیں تکلیف دی ہے ، میں نے علی بخش کو بھی منع کر دیا تھا اور لیکن وہ کہنے لگا کہ کیا حرج ہے!‘‘ میں نے اس ی تائید کی اور کہا کہ میں تو بلکہ ا پر نازاں ہوں۔ کہ آپ کی خدمت کا موقع ملا۔ اس کے بعد جاوید کی بابت باتیں ہوتی رہیں۔ انہیں بھی گلہ تھا کہ جاوید دل لگا کر محنت نہیں کرتا اور دوسری باتوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ پھر ہمیں چھوڑ کر وہ ٹہلنے لگ پڑے جتنے روز میں گیا یونہی ہوتا رہا۔ پڑھائی سے فارغ ہو کر میں ان کے پاس جا بیٹھتا۔ کچھ دیر فیض یاب ہو کر چلا آتا۔ اس زمانے میں میں نے ایک مقالہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر لکھا تھا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ صوفی نہ تھے۔ ایک شام میں نے ڈاکٹر صاحب سے یہی سوال کیا تو فرمانے گے کہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حقیقت میں صوفی نہ تھے۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب نفخات الانس کا حوالہ دیا اور کہا کہ صوفیوں کی اصطلاحات اور زبان کے استعمال سے کوئی صوفی تھوڑا ہی بن جائے گا۔ جس طرح Cowl پہننے سے کوئی پادری نہیں بن جاتا۔

اس سلسلے میں انہوں نے خواجہ حافظ (رحمۃ اللہ علیہ) کی شاعری، ان کی سہل نگاری، تن آسانی اور حجرہ نشینی کی تعلیم اور جبر و قدر کے غلط نظریے کے تباہ کن نتائج پر روشنی ڈالی فرمانے لگے’’ صوفی عمل کی تلقین کرتا ہے اور یہ خواجہ حافظ (رحمۃ اللہ علیہ) کے یہاں مفقود ہے اس کا اثر جو کچھ ہندی مسلمانوں پر ہوا وہ ظاہر ہے‘‘ یہاں سے پلٹے تو فرمانے لگے ’’میں ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل سے ناامید نہیں ہوں مجھے یقین ہے کہ عنقریب ان میں سے کوئی Guiding Spirit 15؎ نمودار ہو گی۔ ،، فقر کی بابت پوچھا تو فرمایا ’’فقر سے میری مراد افلاس اور تنگدستی نہیں بلکہ استغناء دولت سے لاپروائی ہے۔ دولت جو ہر مردانگی کی موت ہے۔ اس سے جرات اور بہادری جاتی رہتی ہے:

میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا

تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری

اس کی مثال میں انہوں نے اپنے سفر انگلستان کے مشاہدات بیان فرمائے اور کہنے لگے کہ جہاں روپے پیسے کا سوال ہو وہاں انگریز کی ذہنیت اور ہندو کے بنیا پن میں سر مو فرق نہیں رہتا۔ انگریز پیدائشی طور پر جوئے باز اور قمار باز ہے معمولی سے معمولی خدمت کے صلے میں بھی وہ انعام اور اکرام کا خواہاں رہتا ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہنے لگے ’’میں لندن جا رہا تھا گاڑی میں کئی مسافر تھے اور میرے سامنے تاش کھیلی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ دو پارٹنر ہیں جو جیتے ہی جاتے ہیں َ انہوں نے ہر مسافر کو کھیلنے کی دعوت دی اور کوئی بیس پونڈ ہتھیا لیے۔ میں انہیں غور سے دیکھنے لگا تو ان کی چالوں (Trick)کو بھانپ گیا۔ میں نے جوا کبھی نہیں کھیلا مگر جب انہوں نے مجھے بھی دعوت دی تو میں تیار ہو گیا۔ چنانچہ میں کھیلا اور لندن پہنچتے پہنچتے ان سے بیس کے بیس پونڈ جیت لیے۔ جب میں گاڑی سے اترا تو وہ دونوں قمار باز میرے دائیں بائیں ہو گئے خوشامد اور چاپلوسی کی باتیں کرنے لگے۔ کہ میں کسی طرح وہ جیتی ہوئی رقم ان کے حوالے کر دوں ، اپنی غریبی کا دکھڑا روئے اور ہندوستانیوں کی فراخدلی کی تعریفیں کرنے لگے۔ مگر میں نے جب یہ کہا کہ تم کھیل میں دغا اور فریب کاری سے کام لیتے ہو اور میں پولیس میں تمہاری رپورٹ کر دوں گا تو فوراً نو دو گیارہ ہو گئے۔‘‘

بال جبریل میں جہاں انہوں نے کئی مقامات پر اہل مغرب کی قمار بازی اور زر پرستی کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں ملا اور پیر کے خلاف بھی جائز درشتی سے کام لیا ہے۔ اکثر احباب کو شک تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا غیض کسی اصلیت پر مبنی نہیں ، وہ محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اس طبقہ کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ شکوک جب ان پر آشکار کیے گئے تو انہوں نے موجودہ زمانے کے پیروں کی دوں ہمتی، فرو مائیگی اور کم سوادی کے ذیل میں دو واقعات سنائے کہنے لگے ’’جن دنوں میری رہائش انارکلی میں تھی تو ایک سرحدی پیر چند مریدوں کی معیت میں آئے اور کہا کہ وہاں سرحد میں ہمارے مریدوں کا سال کے سال اجتماع ہوا کرتا ہے، ایک تو جگہ تنگ ہے اور دوسرے اشیائے خوردنی کم ملتی ہیں ، آپ گورنر بہادر کی طرف سے ایک درخواست لکھ دیں اور کہ ہمیں اس مقام پر چند مربع اراضی مرحمت فرمائیں کہ کاشت سے آمدنی کی صورت بھی بن جائے۔ پیر صاحب میرے پرانے دوست تھے مجھے یہ سن کر صدمہ ہوا کہ پیر صاحب آپ سید ہیں َ سید کونینؐ کی اولاد میں سے ہیں جس نے غیر کے سامنے کبھی دست سوال دراز نہ کیا۔ آپ زمین انگریز سے مانگتے ہیں جس کا اس پر کوئی حق نہیں ، آپ اس سے کیوں نہیں مانگتے جو ارض و سما کا مالک ہے۔ اس وقت تو پیر صاحب برہم ہو کر چل دیے۔ لیکن یہ الفاظ میری زبان سے کچھ ایسے درد سے نکلے تھے کہ بغیر اثر کیے نہ رہے، دوسرے روز پیر صاحب اکیلے آئے آنکھوں میں آنسو تھے، کہنے لگے کل مریدوں کی موجودگی میں مجھے آپ کے الفاظ گراں گزرے لیکن جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے سچ فرمایا تھا۔ میں اب ایسی دریوزہ گری نہ کروں گا۔ ان کے چلے جانے کے کوئی ہفتہ عشرہ بعد مجھے ان کا تار موصول ہوا جس میں لھا تھا کہ زمین مل گئی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہوئی کہ پیر صاحب جب دہلی گئے تو ان کے بے شمار فوجی مریدوں نے ان کا تعارف کمانڈ انچیف سے کرایا۔ سپاہیوں کو خوش کرنے کے لیے ان سے پوچھا کہ تمہارے پیر صاحب کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو کہو۔ مریدوں نے زمین کی احتیاج ظاہر کی تو کمانڈر ان چیف نے اسی وقت سر مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب کو خط لکھا اور زمین دلوا دی‘‘۔

دوسرا واقعہ

جب میں یہاں جاوید منزل میں آ گیا تو ایک روز ایک پیر صاحب مجھے ملنے آئے۔ دوپہر کا وقت تھا، گرمی پورے زوروں پر تھی، دھوپ پر نظر نہ جمتی تھی کہ ایک شخص پسینے میں شرابور ہانپتا ہوا آیا اور پیر صاحب کے قدموں میں گرا۔ یہ ان کا مرید تھا۔ کہنے لگا حضور کی آمد کی اطلاع ملی تھی صبح صبح ہی مغلپورہ سے چل پڑا کئی مقامات پر گیا لیکن آپ وہاں سے تشریف لے گئے تھے آخر معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ مل گئے حضور میری حالت بڑی خراب ہے۔ فاقہ مست ہو گیا ہوں دو سو روپیہ کا قرض دار ہو چکا ہوں ، ملازمت ملتی نہیں آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میری مشکلات کا خاتمہ ہو۔ یہ کہا اور جیب سے دو روپے نکال کر پیر صاحب کی نذر گزاری۔ پیر صاحب نے روپے جیب میں ڈالے اور ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب آئیے دعا کیجیے۔ میں نے کہا آپ دعا پہلے مانگ لیجیے میں بعد میں مانگوں گا۔ پیر صاحب نے آنکھیں میچ لیں اور زیر لب کچھ کہنے لگے۔ دعا ختم کی ہاتھ منہ اور داڑھی پر پھیرے مرید پر پھونک ماری۔ وہ پھولا نہ سمایا، خوش تھا کہا پیر صاحب اب میری باری ہے۔ چنانچہ میں نے ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند کہنا شروع کیا۔ ’’اے خدا ! آج کل کے پیر و مرشد بھٹک گئے ہیں انہیں راہ ہدایت دے پیر صاحب نے صدائے احتجاج بلند کی اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہوش کی دوا کیجیے۔ میں نے کہا کہ دیکھنے پیر صاحب میں آ پ کی دعا میں مخل نہ ہوا تھا مجھے بھی اطمینان سے دعا مانگ لیجے۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا اے خدا آج کل کے مریدوں کو بھی ہدایت دے کہ وہ اپنے پیروں کے کہنے میں نہ آئیں پیر صاحب نے پھر ٹوکا، لیکن میں نہ رکا، یہ نادان مرید کہتا ہے کہ میں دو سو روپے کا قرض دار ہو گیا ہوں ، لیکن نہیں جانتا کہ اب دو سو دو روپے کا قرض دار ہو گیا ہے۔ پیر صاحب اب زیادہ برہم ہو گئے کہنے لگے دیکھیے یہ نامناسب ہے آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ میں نے کہا اچھا دعا ختم کر دیتا ہوں لیکن ایک شرط پر کہ آپ یہ دو روپے مرید کو واپس کیجیے اور اسے قرضے سے سبکدوش کرنے کا بندوبست کیجیے۔ اور اسے نوکری دلائیے۔ پیر صاحب ناراض تو بہت ہوئے لیکن اسی وقت دو روپے واپس کر دیے۔ اور باقی شرائط پورا کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ تو پیروں کی کیفیت ہے‘‘۔

’’جی ہاں ‘‘ ہم میں سے کسی نے کہا۔

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

اگر ڈاکٹر صاحب نے ’’بال جبریل ‘‘ میں یہ شعر کہا:

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب

تو اس میں کوئی تعجب نہیں وہ نماز کو صحیح معنوں میں مومن کی معراج سمجھتے تھے۔ اس چیز کا وہ اکثر خود مشاہدہ کر چکے تھے۔ ایک روز نماز کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’بعض مقامات ایسے ہیں جہاں خدا کے آگے سر بہ سجود ہونے میں اک کیف اور سرور حاصل ہوتا ہے۔ لیکن بعض مقامات میں اس کا الٹ۔ میں صبح کی نماز حتی الامکان قضا نہیں ہونے دیتا۔ اور مجھے اس کی ادائیگی میں خاص لطف اور سکون میسر ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے دنوں جب افغانستان گیا تو وہاں نماز فجر ادا کی تو مجھے قطعاً سرور حاصل نہ ہوا اور اک خلا سا محسوس کیا مجھے سخت حیرانی ہوئی۔ جب اپنے محترم رفیق سید سلیمان ندوی 16؎ سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی انہی احساسات کی تائید کی اور کہا کہ نماز میں باوجود کامل خضوع کے پہلا سا سرور نہیں ملا۔

جب ڈاکٹر صاحب دوسری گول میز کانفرنس سے واپس تشریف لائے تو کہنے لگے ’’ہندوستان واپس آتے ہوئے میں نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے تاریخی مقامات کا معائنہ کیا۔ مسجد قرطبہ میں جس کی فضا صدیوں سے بے اذاں پڑی تھی حکام کی اجازت لے کر نماز ادا کی، سجدے میں گر کر خدا کے حضور گڑگڑایا کہ اللہ اللہ! یہ وہی سر زمین ہے جہاں مسلمانوں نے سینکڑوں برس حکومت کی، یونیورسٹیاں قائم کیں اور یورپ کو علم اور فضل سکھایا۔ جن کے دبدبے سے شیروں کے دل ہلتے تھے اور جن کے احسان کے نیچے آج تمام فرنگستان دبا ہوا ہے۔ آج بھی اسی قوم کا ایک فرد انہی کی تعمیر کردہ مسجد میں اغیار کی اجازت لے کر نماز پڑھ رہا ہوں۔ میری آنکھوں سے خون جگر آنسو بن کر ٹپک رہا تھا۔ اور میرے دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ اے خدا یہ تیرے پاک بندوں کی سرزمین ہے۔ یہ پر شکوہ مسجد یہ قصر حمراء اور یہ عالیشان قلعے ان کی عظمت کے گواہ ہیں اے خدا تو ان کو محفوظ رکھ۔ ‘‘

اس دعا کو ڈاکٹر صاحب اس وقت بھی دہرا رہے تھے ان کی آواز بھاری ہو گئی اور آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ ہم سب کی زبان سے آمین نکلا۔ تو فرمانے لگے:

’’ہسپانیہ میں میں نے ایک چیز کا مشاہدہ کیا ہے اور وہ مسلمانوں کا انمٹ نقش ہے جو وہاں کی در و دیوار سے ہویدا ہے۔ وہاں کی فضا میں عربوں کی نشاۃ ثانیہ Moorish Revivalکے آثار پیدا ہیں ‘‘۔

یہ چند یادداشتیں ان بیش قیمت لمحوں کی باقی رہ گئی ہیں جو کبھی کبھار ا س محبوب ہستی کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملا۔ اپنی قسمت پر نازاں ہوا کرتا تھا کہ چھوٹی عمر میں ہی اس آستاں تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اب ان شاء اللہ یہ سعادت اپنی موت تک جاری رہے گی۔ دل میں یہ خیال تک بھی نہ آیا تھا کہ وہ اتنی جلد خود وفات پا جائیں گے اور ہم تشنہ کام رہ جائیں گے۔ اس محرومی کو اب عمر بھر رویا کریں گے۔ افسوس:

وہ محفل اٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دور جام آیا

عبد الرشید طارق

ایم۔ اے

٭٭٭

* دادا جان اس سے بہت عرصہ بیشتر ایک حج ادا کر چکے تھے ڈاکٹر صاحب انہیں حاجی صاحب کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ہم سب۔

٭ ڈاکٹر صاحب نے فرید کا یہ مشہور بیت سنایا:

اٹھ وے فریدا جاگ سویرے تے جھاڑو دے مسیت

تو ستا تے رب جاگدا تیری ڈاہڈے نال پریت

٭٭ موجودہ ترجمہ یہ ہے:

O friend pray for the Glory of the Briton’s name No more the claim of Persia’s Mystic Saint Say I am God sans Chains sans Cross sans Shame.

٭٭٭

 

 

 

حواشی

 

1۔ ماں کا خواب، بلبل اور ہمدردی علامہ اقبال کے دور اول کے کلام کا نمونہ ہیں اور بانگ درا میں شامل ہیں۔ ماں کا خواب اور ہمدردی دونوں ماخوذ ہیں۔ ہمدردی ولیم کوپر کی نظم سے ماخوذ ہے، اس کا پہلا شعر یہ ہے:

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

اس نظم پر بانگ درا میں لکھا ہے کہ بچوں کے لیے نظم کا مضمون اور اسلوب بیان نہایت رواں اور پختہ ہونے کے باوجود سادہ آسان اور دلنشیں ہے اور لطافت شعری سے خالی نہیں اور آٹھ اشعار پر مشتمل اس نظم کا اخلاقی نتیجہ اس آخری شعر میں ہے:

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

ماں کا خواب بھی ماخوذ نظموں میں ہے اور اگرچہ اس کے عنوان میں بھی لکھا گیا ہے کہ بچوں کے لیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جس صبر و شکر اور راضی برضائے الٰہی ہونے کا موضوع ہے وہ سادہ اور آسان اسلوب کے باوجود صرف بچوں سے خطاب نہیں ہو سکتا:

میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب

بڑھا اور جس سے مرا اضطراب

یہ ایک مرحوم بچے کی کہانی ہے جسے ماں خواب میں دیکھتی ہے۔ اور بچے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے دیے ہیں۔ یہ بچہ آہستہ آہستہ چلتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں دیا نہیں جلتا۔ ماں اپنے مرحوم بیٹے کی جدائی پر اپنے غم اور اس کی بے وفائی کا ذکر کر کے اشکبار ہوتی ہے۔ بیٹا جواب دیتا ہے کہ گریہ و زاری سے میری کوئی بھلائی نہیں، تیرے آنسوؤں نے اس دیے کو بجھا دیا۔ یہ ساری تمثیل بچوں کے ذہنی ادراک سے ذرا بالاتر ہے۔

بلبل کے عنوان سے کوئی نظم نہیں، غالباً پرندے کی فریاد کی طرف اشارہ ہے جو بچوں میں ایک نہایت مقبول نظم ہے:

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

2۔ حضرت ایوب انصاریؓ: بانگ درا کے حصہ سوم میں بلاد اسلامیہ کے عنوان سے پہلی نظم میں ایک بند یہ ہے:

خطہ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار

مہدی امت کی سطوت کا نشان پائیدار

صورت خاک حرم یہ سر زمین بھی پاک ہے

آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے

نگہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا

تربت ایوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا

اے مسلماں ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر

سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر

حضرت ایوب انصاریؓ صحابہ کرامؓ میں سے ہیں۔ خالد نام اور ابو ایوب کنیت تھی۔ مدینہ منورہ کے قبیلہ بنو نجار سے تعلق رکھتے تھے۔ ہجرت کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص میزبانی کا شرف حاصل کرنے کا خواہشمند تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ ناقہ بیٹھے گا وہیں آپ قیام فرمائیں گے۔ ناقہ حضرت ایوب انصاریؓ کے مکان کے قریب بیٹھ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تقریباً سات ماہ یہاں قیام فرمایا۔ حضرت ایوب انصاریؓ کا شمار اسلام کے جانباز مجاہدین میں ہوتا ہے اور اکثر غزوات میں آپ نے شرکت فرمائی ہے۔ امیر معاویہ کے زمانہ خلافت میں جب قسطنطنیہ کی مہم روانہ ہوئی تو آپ اس میں شریک تھے اور قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب ہی آپ کو شہادت نصیب ہوئی۔ مسلمانوں نے آپ کو وہیں دفن کر دیا۔ مزار مبارک آج بھی مرجع خلائق ہے۔ اس کے قریب ہی ایک مسجد ہے جسے سلطان محمد فاتح نے تعمیر کرایا تھا۔ پورا علاقہ حضرت ایوب انصاری کے نام سے ہی مشہور ہے۔ راقم کو بھی اس کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔

حضرت ایوب انصاری کی شہادت 48ھ مطابق668ء کا واقعہ ہے۔ آپ کے روحانی اثر اور تصرف کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سلاطین آل عثمان اپنی تخت نشینی کے موقع پر اپنی تلوار آپ کے مزار پر جھکاتے تھے۔*

3۔ سروری در دین ما خدمت گری است

عدل فاروقی و فقر حیدری است

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب کے باب میں علامہ کے کلام میں بکثرت اشعار ملتے ہیں۔

4قومیت کا لفظ یہاں وضاحت طلب ہے۔ علامہ کی مراد ذات پات، برادری اور نسل سے ہے۔ مثلاً ہندوؤں کی چار ذاتوں کی طرح بعض مسلمان بھی مسلمانوں کو شیخ، سید، مغل، پٹھان کی چار ذاتوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان کو کہیں ذات اور کہیں قوم کہتے ہیں۔ پنجاب میں نو مسلم شیخ کہلاتے تھے اور اب بھی کہلاتے ہیں۔ اسی طرح راجپوت، جاٹ وغیرہ کہ غیر مسلم بھی تھے اور مسلم بھی۔ ظاہر ہے اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ اللہ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے یعنی خدا سے ڈرنے والا اور انسانوں کو جو قبیلوں میں تقسیم کیا گیا تو صرف تعارف یا پہچان کے لیے۔ عام طور پر انتخابات میں اس طرح کے سوال اٹھتے تھے جس سے جمہوری انتخاب کا مقصد ہی فوت ہو جاتا تھا۔ علامہ نے انتخابات کے لیے جس قسم کی تجویز پیش کی وہ اس سے ملتی جلتی ہے جسے امریکی نظام میں (Primary Elections) کی صورت حاصل ہے۔

* Beals Oriental Biographical Dictionary 1891- p.12

5۔ سلطان ٹیپو شہید کے بارے میں پہلے لکھا جا چکا ہے۔ یہاں ایک بات نہایت اہم یہ ہے کہ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سلطان مرا نہیں زندہ ہے اور عنقریب ان کے درمیان آئے گا۔ شہیدوں کے لیے یوں بھی قرآن حکیم میں ارشاد ہے کہ ان کو مردہ نہ کہو، وہ مرے نہیں زندہ ہیں، البتہ تم ان کو اپنی ان ظاہر بیں نظروں سے نہیں دیکھ سکتے۔ سلطان ٹیپو کے بارے میں دوبارہ ظاہر ہونے کا عقیدہ علامہ کے خیال میں درست نہ ہو گا کیونکہ وہ مہدی کے انتظار کے سلسلے میں اظہار خیال کر چکے ہیں کہ اس عقیدہ کا نفسیاتی پس منظر کیا ہے یعنی لوگ بجائے اپنی قوت پر بھروسہ کرنے کے:

مردے از غیب بروں آید و کارے بکند

کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

6۔ بہاء اللہ: بہاء اللہ کا تعلق اس تحریک سے ہے جو بہائی یا بابی تحریک کے نام سے موسوم ہے جس کی ابتداء شیراز کے مرزا علی محمد باب (ولادت 1820ء) سے ہوئی۔ یہ شیخ احمد کے شیعہ فرقے شیخیہ کے زیر اثر وجود میں آئی۔ علامہ نے ان کے عقائد کی تفصیل ایران میں ما بعد الطبیعیات کے ارتقا*میں بیان کی ہے۔ علی محمد باپ کے قتل کے بعد اس کے جانشین بہاء اللہ ہوئے۔

7مرزا غلام احمد قادیانی: علامہ اقبال نے بہت کھل کر مرزا غلام احمد کے بارے میں لکھا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو جہاد کے تصور

* Development of Metaphysics p.143-44-45

سے بیگانہ کرنا، ختم نبوت کے بنیادی اسلامی عقیدہ کو متزلزل کر کے اسلام کی اساس کو منہدم کرنا اور قرآن و حدیث کی تاویل کی ایک ایسی سمت اختیار کرنا تھا جو قطعاً اسلام کی روح کے منافی تھی۔ یہ سازش بھی برصغیر میں انگریزوں کی سیاسی سازشوں میں سے ایک سازش تھی۔ علامہ اقبال نے جواہر لال نہرو کو لکھا تھا کہ قادیانی نہ مسلمانوں کے وفادار ہو سکتے ہیں اور نہ ہندوستان کے۔

علامہ اقبال کا یہ تجزیہ کہ سلطنت مغلیہ کے انحطاط کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے بحری طاقت کی طرف توجہ نہ دی: اسپین اور دیگر ممالک میں بھی مسلمانوں کے سیاسی زوال میں دیگر عناصر کے علاوہ یہ عنصر بھی شامل تھا۔ اپنے دور عروج میں مسلمانوں کی ترقی اور توسیع کا ایک بڑا سبب ان کی بحری طاقت تھی۔ نویں صدی عیسوی میں یہ طاقت اپنے انتہائی عروج پر تھی۔ ایشیاء اور افریقہ کے ساحلوں کے ساتھ تجارتی تعلقات اسی پر منحصر تھے۔ بحیرۂ روم کی تجارتی جہاز رانی صرف ان حصوں تک محدود تھی جو مسلمانوں کے زیر حکومت تھے۔ بحر ہند طالع آزمائی کا میدان تھا۔ دسویں صدی کے وسط تک مسلمانوں کے جہاز چین کے شہر خانفو تک پہنچ چکے تھے جو اب کینٹن کہلاتا ہے اور اس شہر میں مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی تھی۔ مسلمانوں کے جہاز کوریا اور جاپان تک آتے جاتے تھے*۔

۔۔۔۔

*تفصیلات کے لیے منجملہ اور مآخذ کے دیکھئے میراث اسلام،مرتبہ طامس آرنلڈ ترجمہ عبد المجید سالک مجلس ترقی ادب لاہور196خاص طور پر مقالہ جغرافیہ ا ور تجارت از جے ایچ کریمرز۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

9ممکن ہے بعض ہندو دوستوں کو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ پسند کرتے ہوں لیکن ایک دو (مثلاً جوگندر سنگھ) کے علاوہ خصوصی تعلقات کسی ہندو سے ثابت نہیں ہوتے ورنہ ان کی تحریروں اور مکاتیب میں کہیں نہ کہیں اشارے ہوتے۔ ایک مہاراجہ کشن پرشاد شاد (حیدر آباد) ہیں۔ لیکن وہ ایک صوفی منش انسان تھے اور یہی ان کے اور علامہ کے تعلقات کا محور تھا۔ پنجاب کی سیاست میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوستانہ تعلقات کا امکان کم تھا۔ علامہ واضح طور پر چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی سیاسی شخصیت اور قومی تشخص کو فراموش نہ کریں۔ اسی لیے وہ انفرادی طور پر مسلمانوں کی کانگریس میں شرکت کے خلاف تھے کیونکہ کانگریس مسلمانوں کے اس الگ ’’ سیاسی وجود‘‘ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور علامہ کے لیے یہ اس مملکت کی اساس تھی جو پاکستان کے نام سے وجود میں آیا۔ علامہ نے درست فرمایا کہ مسلمان کے دل میں آزادی کی تڑپ ہندو سے زیادہ ہے۔ سرسید نے بھی اپنے رسالہ اسباب بغاوت ہند میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے، جنگ آزادی کے دوران اور اس کے بعد مسلمان علماء کا جو سیاسی کردار رہا۔ وہ اس کا گواہ ہے کہ ان علماء نے قید و بند اور دار و رسن کو قبول کیا اور جہاد آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ تحریک آزادی میں جس زبان اور ادب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہ اردو زبان اور اس کا شعر و ادب تھا جسے ہندو مسلمانوں کی زبان کہتے تھے۔ آزادی کی جدوجہد میں خاص مسلمانوں کے کردار پر آج بھی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ کا ریکارڈ صحیح رہے۔

10بلاشبہ پنجابی میں تصوف کا نہایت اعلیٰ درجے کا ذخیرہ موجود ہے اردو میں بھی اس ذخیرہ کی کمی نہیں۔ اردوئے قدیم کا پہلا دور ہی صوفیائے کرام کا دور ہے اور یہ سلسلہ ابتدا سے آج تک جاری ہے*۔

*اس موضوع پر مطالعے کے لیے بعض مآخذ اور مصادر یہ ہیں :

1اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام۔ مولوی عبد الحق

2پنجاب میں اردو، محمود شیرانی

3نقوش سلیمانی، سید سلیمان ندوی

4مقالات شیرانی (مجلس ترقی ادب لاہور)

5 تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند، پنجاب یونیورسٹی لاہور

11۔ دین اور سیاست کے بارے میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ بالکل واضح ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ دین یا مذہب خالص ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے اور سیاست کا تعلق اجتماعی اور عمومی معاملات و مسائل سے ہے۔ اس لیے اس مکتبہ فکر کے حامیوں کے نقطہ نظر کے مطابق دین اور سیاست کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔ دراصل فکری طور پر مغرب میں کلیسا کی گرفت کے دور اقتدار میں سیاست ایک طرح کے پروہتی نظام کا شکار ہو کر رہ گئی تھی کہ کلیسا کے عہدہ دار ہی ایک دینی پشت پناہی کا سہارا لے کر سیاست کے سیاہ سفید کے مالک تھے۔ اس کے رد عمل کے طور پر لادینی سیاست وجود میں آئی۔ علامہ کے نزدیک

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

دور جدید میں اشتراکی نظریات و افکار میں بھی یہی کمزوری ہے کہ وہ مذہب یا خدا کو سیاست اور اجتماعی معاملات سے خارج سمجھتے ہیں۔

12جہاد کی اہمیت کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات پر اظہار خیال کیا جا چکا ہے کہ علامہ کے نزدیک مرزا غلام احمد کی تحریک جہاد کے خلاف ایک غیر اسلامی تحریک یا سازش تھی۔ حج کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے اور ہر صاحب استطاعت پر یہ واجب ہے۔ سال میں ایک مرتبہ سارے عالم اسلامی سے فرزندان توحید، حرم کعبہ اور مدینہ منورہ میں جمع ہوتے ہیں۔ نہ رنگ و نسل کا کوئی امتیاز رہتا ہے، نہ وطن اور زبان کا، سب کا ایک لباس، سب کا ایک عمل، یہ ایمان افروز نظارہ اسلام کی عالمگیر اخوت اور یگانگت کا سب سے بڑا مظہر ہے اور اس سے اسلامی عالمگیریت کے اس تصور کو تقویت پہنچتی ہے جو علامہ کا مقصد حیات تھا۔

13۔ علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد عرف نتھو تھے۔ یہ عرف یوں پڑا کہ نور محمد صاحب کی ولادت سے پہلے ان کے والدین کے کئی لڑکے یکے بعد دیگرے پیدا ہو کر انتقال کر گئے تھے، اس لیے ان کی ولادت سے پہلے اور بعد میں بہت سی ایسی رسمیں ادا کی گئیں جو اسلامی نہ تھیں ان میں ایک رسم یہ تھی کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کی ناک یا کان چھید دیتے تھے اور اس میں نتھ یا دریا پہنا دیتے تھے چنانچہ نور محمد صاحب کی بھی ناک چھید دیتے تھے اور اس میں نتھ یا دریا پہنا دیتے تھے چنانچہ نور محمد صاحب کی بھی ناک چھید دی گئی اور کئی سال تک وہ اس نتھ کو پہنے رہے، اسی وجہ سے عرف عام نتھو ہو گیا۔

علامہ کے سوانح نگاروں نے نور محمد صاحب کے حالات کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں۔ سیالکوٹ کے بازار چوڑی گراں میں جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے۔ کشمیریوں کے چند خاندان آباد تھے۔ اسی محلہ میں نور محمد صاحب پیدا ہوئے۔ رہنے کے لیے قدیم طرز کا ذاتی مکان تھا۔ مزاج میں قناعت، توکل اور درویشی تھی۔ یہی خصوصیات بیٹے کو باپ سے ورثہ میں ملیں۔ نور محمد صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن دینی اور اخلاقی تربیت جس طرح انہوں نے اس کی اس کا ذکر علامہ کے یہاں موجود ہے۔ 17 اگست 1930ء کو ان کا انتقال ہوا۔

14۔ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دو آدمی کون تھے۔ معتبر راوی بتاتے ہیں کہ ایک سر سکندر حیات اور دوسرے سر فیروز خان نون کی طرف اشارہ ہے۔

15۔ ویسے علامہ اقبال، مہدی یا آنے والی Guiding Spirit کے زیادہ قائل نہ تھے، لیکن یہاں ذکر سیاست کا تھا اور علامہ کا اشارہ قائد اعظم کی طرف ہو گا جو مسلمانوں کے عظیم قائد کی حیثیت سے نمودار ہو چکے تھے۔ علامہ نے اپنے ایک خط میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ خط لاہور سے 21جون1937ء کو بہ صیغہ راز قائد اعظم کو لکھا گیا*۔

مائی ڈیر مسٹر جناح

نوازش نامہ کل موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کی بے پناہ مصروفیت سے آگاہی رکھنے کے باوجود آپ کو اکثر لکھتے رہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ اس وقت مسلمانوں کو اس طوفان بلا میں جو شمال مغربی ہندوستان اور شاید ملک کے گوشے گوشے میں اٹھنے والا ہے، صرف آپ ہی کی ذات گرمی سے رہنمائی کی توقع ہے۔۔۔۔

16سید سلیمان ندوی: علامہ شبلی نعمانی کے نامور شاگرد

*اقبال نامہ حصہ دوم، ص19-18

اور جانشین، عالم و فاضل، والد کا نام ابو اسحق تھا۔ عربی کی تعلیم دار العلوم ندوہ میں حاصل کی اور یہیں سے مولانا شبلی سے عقیدت اور وابستگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ عرصہ تک ندوہ کے اڈیٹر بھی رہے اور کچھ مدت پٹنہ کالج میں عربی اور فارسی کے استاد کی حیثیت سے گزاری۔ سب سے بڑا کارنامہ علامہ شبلی کی یادگار دار المصنفین اعظم گڑھ کا قیام اور تصنیف و تحقیق کا سلسلہ جو اس ادارے نے شروع کیا اور اب تک جاری ہے۔ سید صاحب نے خود سیرت النبیؐ کو جو ان کے استاد کا قابل فخر کارنامہ ہے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ علامہ اقبال کے ساتھ افغانستان کے سفر میں شریک تھے۔ 1952ء میں کراچی میں وفات ہوئی۔ بکثرت تصانیف ان کی موجود ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/2153.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید