فہرست مضامین
لفٹ
نسترن احسن فتیحی
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
اُس سچّائی کے نام جو سادہ لفظوں میں ظاہر ہو کر دلوں کو مسخّر کر لیتی ہے۔
پہلا باب
نقش پائے رفتگاں
شہریار
ادھورے ڈرافٹ کیے ہوئے خط پر پروفیسر سنہا نے ایک اچٹتی نظر ڈالی جسے چند لمحوں قبل وہ بڑے انہماک سے مکمل کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ مگر اب ان کا موڈ یکسر بدل چکا تھا۔ کیونکہ اچانک انہیں یاد آ گیا تھا کہ اجے کے وائیوا کی تاریخ سر پر آ چکی ہے، مگر یہ لڑکا پچھلے دو تین دنوں سے نظر ہی نہیں آیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اسٹاف روم کی طرف جا ہی رہے تھے کہ سامنے سے آتے ہوئے چپراسی کو دیکھ کر انھوں نے پوچھا۔
’’پردیپ میری ڈاک ہے ؟‘‘
’’لاؤ یہیں دے دو، اور سنو تم نے اجے کو دیکھا ہے ؟‘‘
’’وہ تو پچھلے دو دنوں سے نہیں آئے۔ ‘‘
’’ہوں … ایسا کرو، اچھا چھوڑو، جاؤ میں خود کچھ کرتا ہوں، ہاں دھیان رکھنا اگر کہیں دکھ جائے تو بھیج دینا۔‘‘
’’ٹھیک ہے صاحب‘‘
پردیپ کو تاکید کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں واپس آ گئے اور ڈاک دیکھنے لگے۔ کوئی اہم ڈاک نہیں تھی، اسے ایک طرف رکھ کر وہ سوچنے لگے۔ دو دن بعد اجے کے پی ایچ ڈی کا وائیوا ہے۔ اکسپرٹ کی حیثیت سے ماس کمیونیکیشن کے ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ اور ڈین آ رہے تھے اور ابھی تک اجے نے انھیں یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کے لیے ہوٹل کی بکنگ ہوئی یا نہیں۔ انھیں اپنے اس طالب علم پر مکمل اعتماد تھا مگر اس کے مزاج کی نرمی اور دھیما پن انھیں پسند نہیں تھا۔ وہ اس کی اس کمی کو اس کی کاہلی سمجھتے تھے۔ سچ سچ میں اس کا یوں غائب ہو جانا انھیں گراں گزرتا تھا۔
’’بہت امپریکٹیکل (Impractical) لڑکا ہے۔ ‘‘ انھوں نے جھنجھلا کر سوچا اور کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگے۔ فون پر انھوں نے کسی کو تاکید کی کہ انھیں آج ہی اجے سے ملنا ہے اس لیے اس سے کہو کہ فوراً مجھ سے آ کر ملے۔
٭٭٭
اجے آرٹس فیکلٹی سے نکلا اور بوجھل قدمو سے اپنے ہوسٹل کی طرف بڑھنے لگا۔ یونیورسٹی کی صاف شفاف چوڑی سڑکیں جن پر دو رویہ تناور درخت اپنی شفقت کا سایہ کیے کھڑے تھے۔ مختلف شعبوں کی سربستہ بلند عمارتیں دعوت عمل دیتی ہوئی اپنی کشش کا جادو سارے ماحول میں گھول رہی تھیں۔ مختلف ہوسٹل کی عمارتوں کے حاشیے پر نمایاں سرخ اور سبز رنگ اسے ٹریفک لائٹ سے مشابہ لگیں۔ آج اس کی نظروں میں جیسے عمارتوں کا یہ رنگ بھی ایک نئے مفہوم کے ساتھ اجاگر ہو رہا تھا۔ جیسے یہاں آنے اور جانے والے اسٹوڈنٹس کے لیے شعوری کوشش کے طور پر انھیں یہ رنگ عطا کیا گیا ہے۔ آج اس کے لیے بھی جیسے سبز رنگ نمایاں ہوتا جا رہا تھا۔ اور وہ آگے اور آگے بڑھنے پر مجبور تھا… اسے اپنی بیوقوفی پر ہنسی آئی… یہ تو اس کے لیے کتنی اہم بات تھی کہ دو دن بعد اس کا یہ طویل اور صبر آزما سفر اپنے اختتام پر پہنچنے والا تھا… اور اس کے آگے زندگی کے سفر کا ایک نیا باب کھلنے والا تھا… اب ایک نئے سفر کے آغاز کی تیاری کرنی تھی… مگر مستقبل کی (uncertainty) اسے پریشان کر رہی تھی… نئی سمت کا تعین ابھی ہوا نہیں تھا اور پرانا سفر ختم ہو رہا تھا… تقریباً بارہ تیرہ سال کا طویل عرصہ کیسے سمٹ کر ماضی کی کوکھ میں سما گیا تھا… اتنے سالوں میں یہ ماحول اس کی عادتوں میں، اس کی سانسوں میں، اس کی خواہشوں میں بس گیا تھا… اس سے ٹوٹنے کا تصور اسے تکلیف پہنچا رہا تھا… پی ایچ ڈی کا وائیوا اُس کے دل میں خوشی کے احساسات اجاگر نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ اس وائیوا کے بعد اس کی اسکالرشپ بند ہو جائے گی… جو اس کے لیے فی الحال چند مسائل کھڑے کرے گا۔ مگر اس سے زیادہ اسے یہ بات کچوٹ رہی تھی کہ اب اس کیمپس سے اس کا رشتہ ختم ہو رہا ہے۔ جہاں اس نے اپنی زندگی کے بہترین سال گزار دیے تھے … جب وہ اپنی جڑوں سے نکل کر یہاں آیا تھا تو ایک ننھا پودا تھا… یہاں کی آب و ہوا یہاں کی مٹی اور اس کیمپس کے ماحول نے صرف اس کی پرورش کی تھی بلکہ اب یہ ماحول اس کی جڑوں میں اتر گیا تھا۔ اب پھر نئی راہوں پر قدم رکھنے کے لیے کمربستہ ہونا ہے۔ زندگی کا یہ تربیتی دور ختم ہوا۔ اب عملی زندگی کا نیا باب کھلنے والا ہے … نئی سمتوں کا یہ سفر کتنے چہروں کو نظروں سے اوجھل کر دے گا، جس میں ایک چہرہ آسی کا بھی ہو گا… دل میں ایک ہوک سی اٹھی… کاش… کاش اس سفر میں ہر قدم پر، ہر مقام پر آسی اس کے ساتھ چل پاتی… مگر نہ جانے کیوں اسے یہ نا ممکن سا لگتا ہے … جبکہ آسی کی ہر بات، ہر ادا آنکھوں کی وہ خاموش چمک سب اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ وہ بھی یہی چاہتی ہے … یہ نا ممکن نہیں، مگر اس کے اندر ایک آواز اٹھتی ہے کہ یہ نام اس کی زندگی کا مرگ ترشنا بن کر رہ جائے گا… اس لیے یہ لمحے جن میں اس کے ساتھ آسی شامل ہے اس کی مٹھی سے ریت کی طرح پھلستے جا رہے ہیں۔ جنھیں چاہ کر بھی وہ اپنی مٹھی میں بند نہیں کر پا رہا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا کسی ذی روح کے بس میں نہیں … ان لمحوں کو پھسلنا ہے گم ہونا ہے کیونکہ وقت ہمیشہ کی طرح بے رحم ہے اور انسان ہمیشہ کی طرح بے بس۔ اپنی سوچوں میں غلطاں وہ ہوسٹل کے قریب پہنچ گئے۔ ہوسٹل کے گیٹ کے قریب بوڑھا برگد اداس کھڑا تھا جیسے اجے سے ٹوٹنے والے رشتے کی خبر اس تک پہنچ گئی ہو۔ کتنی نسلوں کو کامیاب یا ناکام اس نے یہاں سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا ہو گا… ہر درد اور ہر خوشی کو اپنے بوڑھے سینے میں یہ کتنی خاموشی سے اتار لیتا ہے … اجے کو لگا اس بوڑھے برگد کے درخت کی وسیع القلبی اسے بھی حوصلہ دے رہی ہے۔
٭٭٭
زندگی وقت کے دریا پر گرے تنکے کی طرح ہے جو بہتے بہتے کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے … اجے کو اپنی تعلیمی زندگی کا خیال آتا ہے تو لگتا ہے وہ وقت گرد سفر کی طرح کہیں دور رہ گیا… بحر حوادث میں غوطے لگاتے لگاتے وہ کہاں نکل آیا ہے … اب سامنے میدان عمل ہے، جس میں وہ اپنی ساری توجہ اور ساری توانائیوں کے ساتھ اتر آیا ہے۔
اس نے وقت کے بہتے ہوئے دریا میں کچھ ہی کھویا ہے اور زیادہ پایا ہے … اپنی زندگی سے وہ مطمئن ہے لیکن شاید یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ چاہے کتنا بھی پالے … اس کی خوشی ماند پڑ جاتی ہے کچھ کھو دینے کی کسک کے سامنے … مگر وہ اپنے ان احساسات کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتا… بہت خوبصورتی سے نکال اور بچا لے جاتا ہے خود کو، احساسات کی اس بھٹی سے … اس لیے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں اتنا مصروف ہے کہ اسے اپنے حال کی خبر نہیں رہتی تو ماضی کو کہاں تک ڈھوئے۔ وہ تو کبھی کبھی یادوں کے بگولے اتنے تیز آتے ہیں، جو اسے اڑا لے جاتے ہیں پل دو پل کے لیے … اس کی بیوی سیما کہتی ہے۔
’’آپ کے جیسا پریکٹیکل آدمی شاید ہی کوئی ہو گا۔ ‘‘ جبکہ اس کے محسن اس کے استاد کہا کرتے تھے … ’’بہت امپریکٹیکل لڑکا ہے ‘‘ جیسے یہ کل ہی کی بات ہو… کل اور آج میں اتنا تضاد کیوں آیا… یہ کبھی اس نے سوچا نہیں مگر کچھ کچھ اندازہ تو ہے … شاید وہ آج میں اتنا ڈوب جانا چاہتا ہے کہ کل کو بھول سکے۔
اس کل کو جو پندرہ سال پیچھے چھوٹ گیا ہے اور اب وہ صرف اجے نہیں … ڈاکٹر اجے ورما ہے … پینتالیس سالہ ڈاکٹر اجے ورما… جن کے سامنے پندرہ سال پہلے والے ایک اجے کا مستقبل نہیں، بلکہ اس جیسے ہزاروں اجے کا مستقبل ہے … متعدد مسائل ہیں جن سے انھیں جوجھنا ہے۔
اجے ورما نے گھر سے آئے ہوئے خط کو دوبارہ اٹھا کر پڑھا… ان کی بیوی سیما نے لکھا ہے …
’’آپ جلد گھر آنے کی کوشش کیجیے، بابا بہت بیمار ہیں … ماں کا بلڈ پریشر بھی بہت کم (Low) ہو گیا ہے۔ مگر مجھے بابا کی چنتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں صرف آپ کی چھوی پانے کی لالسا ہے۔ بہت دنوں سے آپ گھر آئے بھی نہیں … یہ اچھا موقع ہے …‘‘
خط کی یہ مخصوص چند لائنیں اجے ورما کتنی بار پڑھ چکے ہیں۔ ہر بار دل اڑن کھٹولے پر سوار ہونے کے لیے مچل بھی اٹھا ہے۔ مگر آج کل یونیورسٹی کے حالات ایسے نہیں کہ وہ کہیں جا سکیں … مگر دل بے چین ہے … لگتا ہے کہ چاروں طرف بوڑھے قریب المرگ بابا کا پیکر ابھرتا مٹتا رہتا ہے … دل اور دماغ میں جنگ ہو رہی ہے اور وہ گہری بے چینی میں مبتلا ہیں … انھیں خود نہیں معلوم کہ جیت کس کی ہو گی۔ ایسے مشکل لمحوں میں انھوں نے ہمیشہ ہر فیصلہ وقت پر چھوڑا ہے … وقت سے بڑا منصف کون ہے ؟
اپنے وائیوا کے دو سال بعد ایسے ہی کسی مشکل لمحے میں جب پروفیسر سنہا کی وجہ سے انھیں اپنی ہی یونیورسٹی میں لکچرار کی نوکری ملی تھی تو انھیں کیسی خوشی ملی تھی… انھیں ایسا لگا تھا کہ ان کی اپنی یونیورسٹی پورے پدرانہ شفقت کے ساتھ باہیں پھیلائے ان کی منتظر کھڑی ہے اور اس طرح ان کی عملی زندگی کا دوسرا باب شروع ہو گیا تھا… جو زیادہ مستحکم، زیادہ اطمینان بخش تھا… مگر گزرتے ہوئے ماہ و سال نے جن با توں کا شدت سے احساس کرایا تھا… وہ تھا بدلتی ہوئی قدروں کا احساس… پہلے جب وہ خود یہاں کے طالب علم تھے تو حالات مختلف تھے … ماحول مختلف تھا… مگر اب لگتا ہے کہ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ کبھی کبھی تو انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی یونیورسٹی ہے جس کی آغوش شفقت میں انھوں نے پرورش پائی ہے۔
آج کل یونیورسٹی کے حالات سے وہ کافی کشیدہ خاطر ہو رہے ہیں … آئے دن اسٹوڈنٹ یونین اور مینجمنٹ کے بیچ ٹکراؤ ہوتے رہتے ہیں … یہ ٹکراؤ بڑی معمولی با توں سے شروع ہو کر طول پکڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کے بیچ کوئی تیسری طاقت پس پردہ کام کرتی ہے جو ان میں صلح ہونے ہی نہیں دینا چاہتی۔ اس طاقت کے پاس ایک چنگاری کو ہوا دینے کی بہت سی وجہیں اور بہت سی شکلیں ہوتی ہیں اور یہ ناسمجھ نیا خون ابال کھاتا رہتا ہے … اس جوش میں کئی بار وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس ساری لڑائی میں وہ مقصد ہی فوت ہو گیا ہے جس کے لیے اس نے لڑائی شروع کی تھی اور اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں وہ لوگ جو اس آنچ کو ہوا دیتے ہیں … مگر ان ساری نا امیدیوں کے بیچ انھیں آر کے پاٹھک کا چہرہ ایک روشنی کی کرن کی طرح یاد آتا ہے۔ وہ جوشیلا نوجوان جو کچھ بھی غلط برداشت نہیں کر پاتا… جو اسٹوڈنٹ یونین کے لیڈر سے زیادہ فعال ہے … جو سب کے فلاح کے لیے ہر وقت تیار کھڑا رہتا ہے۔ جس کی بات لڑکے بھی مانتے ہیں اور مینجمنٹ بھی اسے اہمیت دیتی ہے اور ایسے ہی لوگ امید کی وہ کرن ہیں جو بگڑے ہوئے حالات کو سنبھالنے میں پوری مدد کر سکتے ہیں۔ اس لیے وہ پر امید ہیں کہ حالات سنبھالے جا سکیں گے۔ حالات سنبھلتے ہی انھیں گھر جانا ہے۔
٭٭٭
اجے ورما کی آنکھ کھلی تو صبح صادق کا اجالا پھیل رہا تھا۔ چڑیوں کی چہکار سے سارا ماحول اپنی ننداسی آنکھیں کھولنے پر جیسے مجبور ہو گیا ہو… یہ ان کی چہل قدمی کا وقت تھا… سیما کے رہنے پر صبح صبح ایک پیالی چائے مل جاتی تھی مگر آج کل ماں بابا کی بیماری سے سیما کا زیادہ وقت گھر پر گزرتا تھا۔
وہ دروازہ کھول کر باہر آئے اور دروازہ بولٹ کرتے ہوئے صاف ستھری سڑک پر نکل آئے … اپنے دھیمے دھیمے مخصوص انداز میں وہ چہل قدمی کرتے ہوئے ایک سمت بڑھ رہے تھے … صبح کی چہل قدمی سے انھیں جو تازگی اور توانائی ملتی تھی وہ سارے دن کے لیے انھیں تر و تازہ رکھتی… اس وقت ان کا دماغ بڑی تیزی سے اپنے ایکیڈمکس کے مسائل کے حل اور غور و خوض میں جٹا رہتا تھا… مگر آج معاملہ کچھ مختلف تھا… وہ یونیورسٹی کے پرسکون ریسیڈینشیل ایریا سے نکل کر ہوسٹل کی طرف بڑھ رہے تھے تاکہ انھیں حالات کا اندازہ ہو سکے کہ طالب علموں نے کل رات پھر کچھ ہنگامہ تو نہیں کیا… یہ ہنگامہ پچھلے تین دنوں سے چل رہا تھا… بات صرف یہ تھی کہ دو طالب علموں کی آپسی لڑائی پر ایک چاقو سے زخمی ہوا اور سزا کے طور پر یونیورسٹی انتظامیہ اور وی سی نے ان دونوں کو معطل (Suspend) کر دیا تھا۔ اس کے بعد ان لڑکوں کا خیرخواہ گروپ انھیں واپس لینے کے لیے پہلے کلاسز ڈسٹرب کرتا رہا اور جب اس پر سنوائی نہیں ہوئی تو توڑ پھوڑ اور تشدد پر اتر آئے۔ انتظامیہ بڑے صبر و استقلال سے حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر کچھ فاسق و فاجر قوتیں بجھتی ہوئی آگ میں تیل ڈال جاتیں اور نئی عقل جس میں جوش زیادہ اور ہوش کم تھا، نئے ولولے کے ساتھ ہنگامہ کھڑا کر دیتی۔
جب وہ ہوسٹل کے قریب پہنچے تو دور دور تک سنّاٹے کا راج تھا… نہ کہیں کوئی آواز… نہ کہیں کوئی ہلچل… اور نہ کہیں کوئی گزرے ہوئے طوفان کے نشانات انھیں ایک قلبی اطمینان حاصل ہوا۔ حالانکہ اس وقت کی خاموشی سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا غلط تھا… ممکن ہے دیر رات تک یہ اودھم بازی کر کے لوٹے ہوں اور اب گھوڑے بیچ کر سو رہے ہوں … مگر ان کے اندر سے ایک آواز اٹھی تھی کہ سب ٹھیک ہے … ورنہ یہ عمر تو وہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر یہ لوگ ساری رات، سارا دن اشتعال اور سراسیمگی میں نظر آتے ہیں۔ ابھی نظر آنے والا یہ سکون ان کے اندر کے یقین کو پختہ کر رہا تھا… ’’عجیب ہوتی ہے یہ عمر بھی… مگر طالب علم اب اپنے کیریئر یا مستقبل کی طرف سے فکرمند کم نظر آتے ہیں … تبھی تو ان خرافات میں عمر کا یہ قیمتی حصہ گنوا رہے ہیں۔ ہماری پیڑھی نے انھیں بہت زیادہ معاشی استحکام عطا کر دیا ہے اس لیے ان کا بے فکرا پن بڑھ گیا ہے … اب لوح و قلم کی اس منزل پر کتنے لڑکے ہیں جو اپنی تعلیمی ذمہ داری کو اچھی طرح نبھا رہے ہیں … ایسے لڑکوں کو اب انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ یہی سب سوچتے ہوئے ان کے قدم واپسی کے لیے مڑ چکے تھے … آج صبح کی اس خاموشی میں صرف ایک بات خلاف معمول تھی اور وہ یہ کہ ان کے جیسے صبح کی سیر کے شائقین میں سے کوئی بھی آج انھیں سڑک پر نہیں ملا تھا۔ شاید یونیورسٹی کے ہنگامی حالات کے پیش نظر مصلحت پسندی نے سب کو گھر کے اندر ہی رہنے پر مجبور کر دیا ہو…
’’کیا واقعی وقت اتنا خراب آ گیا ہے کہ آج ہم سب اپنے ہی بچوں سے ڈرنے لگے ہیں۔ ‘‘ ان کے لبوں پر بڑی تلخ سی مسکراہٹ ابھر آئی۔
گھر پہنچ کر معمول کے مطابق انھوں نے غسل کیا… غسل خانے سے باہر آتے ہی ملازمہ اور اخبار آ چکے تھے۔
’’وملا چائے لے آؤ‘‘
’’جی ساب‘‘۔
چائے آنے تک وہ مقامی خبروں والے کالم میں یونیورسٹی کی تازہ ترین خبریں پڑھ کر حالات سے واقف ہو چکے تھے۔ دونوں لڑکوں کو کچھ شرائط اور تنبیہ کے ساتھ واپس لے لیا گیا تھا۔ فی الحال حالات سنبھل گئے تھے … مگر وہ سوچ رہے تھے کہ کیا یہ فیصلہ دانش مندانہ تھا… کیا اس سے فاتر العقول اور شرپسند عناصر کو توانائی اور شہ نہ ملے گی… ان کی نظر میں اس وقت لڑکے غلطی پر تھے اور انھیں ان کی غلطی کا احساس جبر سے نہیں پیار سے کرانے کی ضرورت تھی۔ مگر اب تو استاد ہوں یا طالب علم، انتظامیہ ہو یا مقتدرین سب کے بیچ ایک خط فاصل کھینچ دی گئی ہے۔ گروپ بازی کا زمانہ ہے …اب گروپ بازی صرف قوم اور مذہب، رنگ و نسل کے نام پر نہیں ہوتی… بلکہ الگاؤ اور پھوٹ کا رواج بڑے وسیع پیمانے پر قائم ہوتا جا رہا ہے … اب اس پھوٹ کے لیے کسی باہری طاقت اور عقل کی ضرورت نہیں بلکہ اب ایسی طاقتیں اور عقل اپنی ہی زمین پر کاشت کی جانے لگی ہیں۔ اس لیے اس کی اتنی قسمیں ہیں کہ اس کا حساب کرنے کے لیے شاید پوری اکیسویں صدی درکار ہو گی۔
انھوں نے ٹی کوزی اٹھا کر اپنے لیے ایک کپ چائے اور انڈیلی… ذرا سی شکر ڈال کر کپ لبوں سے لگا لیا… سیاہ چائے کی تلخی ان کے خیالات کی تلخی کو نہ جانے کس حد تک کم کر پائی تھی کہ انھوں نے سامنے سے پاٹھک کو آتے ہوئے دیکھا… وہ کل سے اس کا انتظار کر رہے تھے …
’’نمستے سر‘‘
سر کی ہلکی سی جنبش سے جواب دے کر انھوں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’بیٹھ جاؤ‘‘
وہ بڑی سعادت مندی سے سامنے کی کرسی پر ٹک گیا۔
’’کہاں تھے کل… میں اس قدر پریشان رہا۔ صبح ہی لڑکوں نے کلاس واک آؤٹ کروا دیا تھا… گھر آنے کے بعد حالات کا علم ہو نہیں سکا… آج اس اخبار سے تفصیل معلوم ہوئی ہے۔ …‘‘
’’سوری سر… کل سارا دن بھاگ دوڑ میں مصروف تھا۔ اسٹوڈنٹ یونین سے بات چل رہی تھی… مگر‘‘
’’مگر کیا…؟ کوشش تو کامیاب ہوئی ہی… اسٹوڈنٹ نہیں مانے … مینجمنٹ مان گئی۔ ‘‘
’’اب کیا کہوں سر… ہماری کوشش نے کچھ نہیں کیا۔ اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ سب کچھ بالا بالا ہی طے ہو گیا۔ ‘‘
’’بالا بالا، کیا مطلب؟‘‘
’’اب کیا بتاؤں سر… جنہیں معطل کیا گیا تھا، وہ معمولی لڑکے نہیں تھے۔ انڈسٹریلسٹ (Industrialist) کے بیٹے تھے۔ وہ چیف منسٹر کو الیکشن کیمپنگ کے لیے ایک موٹی رقم دیتا ہے۔ اس لیے وی سی کو منسٹر صاحب کا فون آیا تھا… اس لیے ‘‘
’’اوہ… آئی سی…‘‘ ان کے اندر جیسے کچھ ٹوٹ سا گیا…
’’سر آپ کلاس لینے آ رہے ہیں … ان کی طویل خاموشی کو پا ٹھک نے توڑتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں … ہاں … بالکل، لو تم چائے لو…‘‘
’’نہیں سر… ابھی پی کر آ رہا ہوں۔ اجازت دیجیے۔ اور کوئی کام سر…‘‘
’’نہیں شکریہ…‘‘ پاٹھک کو انکار کرتے ہوئے خیال آیا انھیں گھر کے لیے ریزرویشن کروانا ہے مگر اپنے طالب علموں سے اپنا نجی کام کروانا ان کے اصولوں کے خلاف تھا… پاٹھک کو رخصت کرنے کے بعد وہ تیار ہونے چلے گئے۔
٭٭٭
وہ ایک طویل عرصے کے بعد گاؤں آ رہے تھے … کئی سالوں سے یہ ہوتا آ رہا تھا کہ موسم گرما کی چھٹیوں میں سیما اور ان کا اکلوتا بیٹا وجے گاؤں جاتے … کھلے آنگن، آم اور گاؤں کی دوسری بہاروں کا مزہ لوٹتے اور چھٹیاں ختم ہونے پر ماں، بابا کو ساتھ لے کر واپس آ جاتے … ماں بابا کا جب تک دل لگا رہتا یہاں رہتے۔ جب ہزار اسکوائر فٹ کے گھیرے میں دل اوبنے لگتا واپس اپنے چار بیگھے والے گاؤں کے گھر میں واپس چلے جاتے۔
مگر اس سال گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے ہی سیما کو جانا پڑا تھا۔ بابا کی متواتر بیماری سے اس بار انھیں لانا بھی شاید ممکن نہ تھا… اس لیے وہ جا رہے تھے … اپنی تعلیمی اور درس و تدریس کی سرگرمیوں میں وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے کتنے دور ہو گئے تھے … اس کا احساس آج گاؤں جاتے وقت شدت سے ہو رہا تھا…
ان کی با اصول زندگی نے انھیں ایک متناسب جسم اور قد و قامت عطا کیا تھا… بال بھی صرف کنپٹیوں پر سفید ہوئے تھے اور سامنے ایک موٹی سی سفید لٹ ان کے وقار میں اضافہ کرتی تھی اور ان سب کے باوجود ان کا نرم و ملائم چہرہ جو ان کے مزاج کی غمازی کرتا تھا، انھیں ان کے عمر سے پانچ چھ سال کم کا ہی لگنے میں مدد کرتا تھا۔ مگر وہ ان ساری با توں سے ہمیشہ بے پروا تھے اور ان کی سنجیدگی و متانت سے سامنے والے پر ایک خاص قسم کا رعب پڑتا تھا… آج گاؤں کا سفر کرتے ہوئے انھیں اپنے دل میں اس شوق بے پایاں کا اندازہ ہوا جو اس وقت امنگ اور تجسس سے لبریز تھا۔ اپنی مصروفیتوں میں ہر جذبہ اور شوق انھوں نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں اپنی مردہ آرزوؤں کے ساتھ تھپک تھپک کر سلا دیا تھا۔
ٹرین سے اتر کر انھوں نے ادھر ادھر دیکھا چھوٹا سا اسٹیشن وہی تھا… یہاں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی… یہاں سے ان کا گاؤں گیارہ کلومیٹر دور تھا… جہاں جانے کے لیے اسٹیشن کے باہر سے تانگے یا رکشہ ملا کرتے تھے۔ وہ تیزی سے اپنا سفری بیگ کندھے پر ڈالے باہر آئے … مگر یہاں انھیں ایک بھی تانگہ نظر نہ آیا … البتہ آٹو رکشہ کی قطار موجود تھی… سیما نے انھیں بتایا تھا کہ اب آٹو رکشہ چلنے لگا ہے … اس لیے وہ ایک کے پاس گئے اور بیٹھتے ہوئے کہا… شیتل پور چلو‘‘
’’ستر روپے صاحب… دوسری سواری بیٹھا لوں تو فی آدمی پندرہ روپیہ‘‘۔
’’نہیں تم چلو… مجھے جلدی ہے …‘‘
اشارہ پاتے ہی آٹو والا فوراً بڑھا اور بھیڑ سے نکالتے ہی ہوا سے باتیں کرنے لگا اور تانگے سے گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے والا راستہ صرف بیس منٹ میں طے ہو گیا۔
آٹو سے اتر کر وہ اس نام بھر کو ’’آٹواسٹینڈ‘‘ سے آگے بڑھے لیکن یہاں آ کر انھیں عجیب سا لگ رہا تھا… گرد و پیش پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی کچھ بھی تو پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا… ایک دو چیزوں کے علاوہ… غربت پہلے جیسی تھی… اور بستی کے کنارے بہتی ہوئی ندی پر جو باندھ باندھا گیا تھا وہ آج بھی اپنے پست قد پر اپنا نا تواں سر اٹھائے کھڑا بستی والوں کو منھ چڑا رہا تھا… جیسے کہہ رہا ہو میں صرف تمھاری جھوٹی تسلی کے لیے یہاں کھڑا ہوں … ورنہ ہر برسات میں پانی کے ریلے میں اپنا کمزور وجود کھو کر تمھیں برباد کروانا ہی میرا کام ہے … اور انہی دو چیزوں کے علاوہ سب کچھ بدل گیا تھا… بستی کے بیچ سے نکلتی ہوئی سڑک جو پہلے بہت کشادہ تھی اب اتنی تنگ ہو گئی تھی کہ وہاں سے گزرتے ہوئے گھٹن کا احساس ہو رہا تھا… کیونکہ سڑک کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی بے شمار دکانیں بن گئی تھیں … جن میں بچوں اور انسانوں کی بہتات نظر آ رہی تھی۔ جن کے چہروں پر وحشت اور بھوک برس رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں کے لوگوں نے ترقی کی خواہش میں یہ دکانیں کھولی ہیں … جن میں کہیں مکھی بھنکتی ہوئی جلیبیاں اور پاؤ بک رہے تھے … تو کہیں رنگوں کی آمیزش سے ہری لال پیلی مٹھائیاں بنی ہوئی تھیں … جو دور سے ہی پکار پکار کر کہہ رہی تھیں کہ اگر اپنی زندگی سے تنگ آ چکے ہو تو مجھے کھالو میں تمھیں اس کرب سے نجات دلانے کی طاقت رکھتی ہوں۔
اجے ورما حیران تھے کہ یہ اسی ہندستانی ترقی یافتہ سماج کا حصہ ہے جس نے بڑے جوش و خروش سے آزادی کی پچاسویں سالگرہ منائی تھی۔ اور نئی صدی کا بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ خیرمقدم کیا… یہ اسی ہندستانی سماج کا حصہ ہے جس نے نیوکلیئر بم بنانے میں ترقی یافتہ ملکوں سے کندھے سے کندھا ملا لیا ہے۔ جہاں کے ملک کے رہنماؤں کے گھر کی سجاوٹ (Interior Decoration) کے لیے غیرملکی ایکسپرٹ آتے ہیں۔ مگر قوم کے رہنماؤں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ ملک کے یہ سات آٹھ کروڑ بچے جو آج بھی تعلیم سے محروم ہیں … کیا اس نئی صدی سے ان کا کوئی مطالبہ نہیں … یا اس ملک کو ان کی ضرورت نہیں … ان کی فکر کسی کو تو کرنی چاہیے … کسی کو تو کرنی ہی ہو گی… اپنی سوچوں کے ساتھ وہ ان تنگ سڑکوں سے نکل کر ایک چوڑی شاہراہ پر آ گئے … جس کے دونوں طرف ہرے بھرے کھیت لہلہا رہے تھے … یہ منظر سابقہ منظر سے بالکل مختلف تھا… یہاں موسم بہار کی رنگینی اور قدرت کی فیاضی قابل دید تھی… کہیں سرسوں کے پیلے پھول سبز اور زرد رنگ کا ایسا دلکش منظر پیش کر رہے تھے کہ لمحہ بھر میں پچھلے چند لمحوں میں اپجی ذہن کی ساری کدورتیں دھل گئیں …
سامنے چند متمول گھرانوں کے پختہ مکانات نظر آنے لگے۔ جن میں سے ایک ان کا اپنا مکان بھی تھا جو صاحب خانہ کی خوش مذاقی کا جیتا جاگتا ثبوت لگ رہا تھا۔ بڑے سے گیٹ کے ساتھ والی دیوار سے جو بوگن ویلیا لگایا گیا تھا اس کی چند خودسر شاخیں باہر کی طرف جھکی اپنی جوانی کی بہار لٹا رہی تھیں۔ اس کی شوخ گلابی رنگ کے پھولوں سے لدی سڈول شاخیں بربس نظروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں … نزدیک پہنچ کر وسیع پھاٹک کے چھوٹے دروازے کو انھوں نے ہلکے سے کھولا اور اندرداخل ہو گئے۔
٭٭٭
لائبریری سے نکلتے وقت لکچرر میتابوس کی ٹکر کسی سے اتنی زبردست ہوئی کہ چند لمحے حواس درست کرنے میں لگ گئے۔ میتا نے غصے سے تلملاتے ہوئے کہا…
’’کیا بے ہودگی ہے ‘‘…
’’اے … دیکھ کے چلا کر…‘‘
میتا نے حیران ہو کر نظریں اٹھائیں۔ یہ کوئی بد وضع، بدقماش سا شخص تھا… کمر کے گرد کس کر باندھا ہوا گمچھا، شرٹ کے بٹن اوپر سے نصف سینے تک کھلے ہوئے، ٹائٹ جینس گلے میں موٹی چین، ہونٹ تمباکو کھانے سے سیاہ… یہ یقیناً کوئی طالب علم نہیں تھا… اس نے مشتبہ نظروں سے اسے دیکھا اور بغیر الجھے ہوئے اپنی کتابیں سمیٹنے لگی… اب وہ اوباش سا لڑکا بھی لائبریری میں داخل ہونے کے لیے مڑ چکا تھا۔
یہ اتفاقیہ حادثہ یہیں ختم ہو جاتا کیونکہ یہ فلم ’’میرے محبوب‘‘ جیسا کوئی رومانی سین نہیں تھا… نہ ہی کسی ایکشن فلم کی طرح ویلن کی انٹری ہوئی تھی… مگر اس حادثے نے اچانک ایک نیا موڑ لیا اور میتا کی نظر اس کے کمر سے بندھے ہوئے اس کٹار پر پڑی جو بڑی خوبصورتی سے کمر پر بندھے ہوئے کپڑے میں چھپانے کی کوشش کی گئی تھی پھر بھی نظر آ رہا تھا…
میتا نے تیزی سے کتابیں سمیٹیں اور لائبریری میں دوبارہ داخل ہو گئی۔ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ اس طرح کے آدمی کی آمد کسی ناخوشگوار واقعے کی پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اب تک وہ آدمی کاؤنٹر پر بیگ چھوڑ کر اندر کے دروازے سے لائبریری میں داخل ہو چکا تھا۔ میتا نے کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے شخص سے جلد بازی میں سرگوشی کی تو اس آدمی نے پیچھے سے اسے آواز دی۔
’’جناب… ایک منٹ‘‘۔
اس لڑکے نے ذرا سا گردن خم کر کے دیکھا اسے ہی پکارا جا رہا تھا… وہ چہرے پر ایک ناگواری کا تاثر لیے پلٹا…
’’کیا بات ہے …؟‘‘ پھر میتا پر نظر پڑتے ہی ذرا سا چونکا۔
’’آپ کس ایئر کے اسٹوڈنٹ ہیں ذرا اپنا شناختی کارڈ دکھایئے ‘‘ کاؤنٹر پر کھڑا آدمی کچھ زیادہ مٹھاس سے کام لے رہا تھا۔
’’نہیں ہے کارڈ، وارڈ… تو…‘‘؟
’’دیکھیے جناب، وہ ایسا ہے …‘‘
میتا کو لگا یہ آدمی چاقو کٹار کے نام سے ڈر گیا ہے اس لیے ہکلا رہا ہے … اسی لیے اس کی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے مخل ہوئی…
’’دیکھیے آپ یہاں کے اسٹوڈنٹ ہوں یا نہیں، یہاں کا یہ طریقہ ہے کہ اندر آپ اپنا کوئی سامان لے کر نہیں جا سکتے۔ ‘‘
’’میں نے بیگ یہاں رکھ دیا ہے ‘‘۔ وہ ترش روئی سے بولا۔
’’لیکن آپ نے کمر میں جو کپڑا باندھ رکھا ہے اس کے نیچے ایک چھرا چمک رہا ہے اور آپ اس طرح کی چیز لے کر یہاں نہیں گھوم سکتے۔ ‘‘
میتا کی بے دھڑک تیز آواز کئی آتے جاتے لوگوں کو متوجہ کر چکی تھی اور اب لوگ ان کے اردگرد جمع ہوتے جا رہے تھے۔ کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے آدمی کا چہرہ فق ہو چکا تھا۔ جیسے اسے یقین ہو کہ آج وہ یا یہ لڑکی اپنی جان سے جائیں گے۔
اس مشکوک سے لڑکے کو اتنی نوجوان دکھنے والی اس دبلی پتلی لڑکی سے اس ہمّت کی امید نہیں تھی… اس لیے وہ بھی ذرا حیران نظروں سے اسے دیکھ کر کسیلی آواز میں بولا۔
’’ادھر اپنی بہن پڑھتی ہے اس کو لینے آیا تھا‘‘ پھر نہ جانے کیا سوچ کر اس نے اپنا بیگ اٹھایا… میتا کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا ہوا جھٹکے سے واپس باہر نکل گیا۔ اس کے قریب سے گزرتے وقت میتا کو گمان ہوا کہ اس نے منھ میں ہی چبا کر یہ اصوات گھونٹ لیے تھے جس کی بھنک میتا کے کان میں بھی پڑ گئی تھی… ’’س…ا…ل…ل…ی‘‘
اس کے جاتے ہی کاؤنٹر والا آدمی اس پر برس پڑا۔
کمال کرتی ہیں آپ بھی… اس شہر میں آپ کا رہنا محال کر دے گا۔ ‘‘
’’آپ جانتے ہیں اسے …؟‘‘ میتا کے لہجے میں تضحیک تھی۔ اب اسی کے ڈپارٹمنٹ کے ایک لکچرار جو اسے پہچان رہے تھے، آگے بڑھے۔
’’مس میتا آپ کا یہ طریقہ دانش مندانہ نہیں تھا… آپ کو بیچ میں بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘
چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں … اور یہ محسوس کر کے میتا کو افسوس ہوا کہ زیادہ تر لوگ اس کی اس جرأت پر نیگیٹو کمنٹ کر رہے تھے۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا۔
’’ابھی آپ ٹمپریری لکچرر ہیں ٹھیک سے رہیے ورنہ پتّہ کٹ جائے گا۔ ‘‘
میتا نے سوچا… آج کل ٹھیک سے رہنے کا مفہوم نہ جانے کیا ہے۔ ظلم اور جبر کے آگے سر جھکاتے رہنا… ان سے بچ بچا کر نکلتے رہنا… یا ان کے جیسا بن جانا جو بھی ہو… یہ سب اسے منظور نہیں … اس نے تو اپنے تئیں وہی کیا ا تھا جواسے ٹھیک لگا… ہاں کچھ لڑکے لڑکیوں کی نظروں میں تحسین کی جھلک پائی اس نے۔ مگر وہ خاموش تھے۔ شاید بڑھ کر سراہنے کی ہمت ان میں نہیں تھی… وہ اب وہاں سے نکل کر باہر چلی آئی… اسے حیرت ہو رہی تھی کہ آج ڈر ایک عام آدمی کے کتنے اندر تک اتر گیا ہے کہ وہ اکثریت میں ہو کر بھی چند شیطانی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی ہمت نہیں کر پاتے … آج صحیح سوچ رکھنے والے لوگ معذور ہو گئے ہیں … اسی لیے فاسق و فاجر قوتیں مضبوط ہوتی جا رہی ہیں …‘‘ تاسف کا ایک اندیکھا بگولا میتا کو اپنے گھیرے میں لیتا جا رہا تھا… اور ایسے میں اس کا دل بے چین ہو اٹھتا کہ وہ ایک ایک کو جھنجھوڑ کر جگائے اور کہے کہ تمہارا یہ ڈر… یہ خوف ہی تمھیں غیر محفوظ بنا رہا ہے … مگر لوگ اسے ہی سمجھاتے ہیں … کہ وہ غلط ہے … بے وقوف ہے … اپنی جان جوکھم میں ڈالنا عقلمندی نہیں … عقلمندی تو یہ ہے کہ ہر حالات میں اپنا دامن بچا کر نکلتے رہو… اب انسانیت کے کندھے پر کوئی ذمہ داری نہیں … ہر ذی نفس نے اپنی اپنی ذمہ داری خود اٹھا لی ہے، اس لیے اپنی ترقی، اپنا تحفظ، اپنی پسند کا خیال رکھو…مگر وہ ایسا سوچ ہی نہیں پاتی تھی… پھر بھی لڑکی تھی… لمحے بھر کو لگا اس نے کہیں بہت غلط آدمی سے دشمنی تو نہیں کر لی۔ اس نے کسی رکشے کے لیے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو کچھ دوری پر راجیش جاتا نظر آیا اس نے تیز قدم اٹھاتے ہوئے راجیش کو آواز دی۔ اس وقت راجیش کی موجودگی سے اسے بڑی تقویت ملی۔ راجیش سے اس نے کینٹین چل کر ساتھ ایک کپ کافی پینے کی پیشکش کی۔ اور دونوں ساتھ کینٹین کی طرف بڑھ گئے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس لڑکے کا مکروہ چہرہ اور آنکھ کے پاس کٹے کا گہرا نشان جیسے ذہن سے چپکا چلا آ رہا ہو۔ اس نے اپنے ذہن کو جھٹک کر اس خیال سے پیچھا چھڑانا چاہا… اور راجیش سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔
٭٭٭
گرلس ہوسٹل کے وارڈن روم سے نکل کر میتا گیٹ کی طرف بڑھی۔ کلاس میں وقت سے پہنچنا تھا… مگر گیٹ کے پاس دو چار لڑکیاں کھڑی واچ میں سے کچھ بحث کر کے اسے زچ کیے دے رہی تھیں۔
’’کیا بات ہے ؟‘‘ میتا نے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’میڈم…‘‘ لڑکیاں جوش سے اس کی طرف بڑھیں
’’وہ ہم لوگ واچ میں سے کہہ رہے تھے کہ دو منٹ کے لیے بھیا سے ملنے دے، کوئی ضروری کام ہے، تو یہ مانتا ہی نہیں ‘‘
’’کہاں ہیں تمہارے بھیا؟ اور تم میں سے کس کے بھائی آئے ہیں …‘‘ میتا نے ایک طائرانہ نظر سب کے چہرے پر ڈالی۔ اس کے اس سخت انداز سے لڑکیاں سہم کر خاموش ہو گئیں۔
’’دیکھو… یہ وزٹنگ آور نہیں ہے۔ واچ میں اپنی طرف سے اس طرح کی چھوٹ دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے اس سے بحث کرنا فضول ہے۔ ہاں ابھی نکلتے وقت میں جو بھی میسج ہو گا لے لوں گی اور ضروری سمجھا تو آپ کو مطلع بھی کر دوں گی۔ ناؤ آل آف یو موو فرام ہیئر (Now all of you move from here)
میتا کے بے حد سنجیدہ چہرے اور روکھے انداز نے لڑکیوں کے حوصلے پست کر دیے اور وہ اپنے لمبوترے چہرے کے ساتھ پلٹ کر اندر جانے لگیں۔ ان کے جانے کے بعد میتا نے پلٹ کر دیکھا ایک لڑکا کچھ مضطرب سا گیٹ کے باہر کھڑا تھا… وہ اس سے بات کرنے کے ارادے سے جب اس طرف بڑھی تو پہلے اس نے نظریں چرانے کی کوشش کی مگر میتا کو اپنی سمت ہی آتے دیکھ کر وہ بوکھلا کر پلٹا اور تیز قدموں سے وہاں سے رفوچکر ہو گیا۔
میتا کو سخت کوفت ہوئی… یقیناً یہ کوئی فلرٹ کا معاملہ ہو گا… اس نے تاسف سے سوچا اور اپنی راہ پر بڑھ گئی۔ یہاں بطور وارڈن رہتے ہوئے اسے چھ ماہ ہی ہوئے تھے اور اس مختصرسے عرصے میں اسے لگنے لگا تھا کہ اچانک اس پر ایک اہم ذمہ داری آن پڑی ہے … کچی عمر کی پروان چڑھتی ہوئی لڑکیاں … قدم قدم پر بے وقوفی کرتی ہیں۔ نہیں جانتیں کہ ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں ان کے مستقبل میں ایک نہ حل ہونے والا سوال بن سکتی ہیں۔
اس لیے میتا ہر پل، ہر آن ان کے ہر فعل اور عمل سے خود کو آگاہ رکھتی… اور اس کے لیے اسے الگ سے کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی تھی۔ اس کی یہ آگہی ایسی ہی تھی جیسے وہ اپنے نام سے، اپنے وجود سے، اپنے شوق سے، اپنے گرد و پیش سے اور ہر اس مانوس چیز سے آگاہ تھی جس کے لیے اسے کوئی غور و فکر اور کوشش نہیں کرنی پڑتی تھی۔ بس خودبخود عادتاً اس کے دل و دماغ، احساسات و جذبات کے در ان لڑکیوں کے لیے وا تھے جو اس کی نگہداشت میں تھیں … اسی لیے وہ ان سب میں سب سے زیادہ مقبول اور ہردلعزیز وارڈن تھی۔ اس کے سامنے دبنگ لڑکیوں کی نظریں بھی اپنی غلطی پر جھک جاتی تھیں اور بہت بے وقوف اور مسکین سمجھی جانے والی لڑکیاں بھی بلا جھجھک اپنی پریشانیوں میں اس کے پاس دوڑی آتی تھیں۔
میتا کو خود بھی نہیں پتہ چلا کہ کب وہ اپنے عمل، اپنی سوچ سے ایک ایسا سایہ دار درخت بن گئی ہے جو اپنے سر پر سورج کی تپش روک کر دوسروں کو ٹھنڈک اور چھاؤں عطا کرتا ہے۔ اسے تو بس اتنا معلوم تھا کہ وہ جو بھی کرتی ہے اس سے اسے سکون اور خوشی ملتی ہے۔ ایک ایسا گہرا قلبی اطمینان جو اسے سکون سے ہمکنار کر دیتا ہے … اور جس کے آگے ہر خلش ماند پڑ جاتی ہے۔
وہ کلاس میں داخل ہی ہونے والی تھی کہ پیچھے سے راجیش نے آواز دی۔
’’میتا کلاس کے بعد فری ہو، تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے دو بجے ملو، اس وقت سے میں بالکل فری ہوں ‘‘۔
میتا نے کہا اور کلاس میں داخل ہو گئی۔
دو بجے میتا اور راجیش پھر کینٹین میں بیٹھے تھے۔
’’ایسی کیا خاص بات ہے راجیش کہ ابھی ملنا ضروری تھا۔ ‘‘
کل تمہیں بتایا تو تھا کہ میں یہ شہر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ‘‘
’’ہاں … تو…‘‘؟
’’تو…؟…‘‘ راجیش نے حیرت سے اسے دیکھ کر اسی کا لفظ دہرایا پھر کہا ’’جانے سے پہلے ایک بار تم سے ملنا چاہتا تھا۔ ‘‘
’’ارے تو کیا آج ہی جا رہے ہو؟‘‘
’’ہاں بس دو گھنٹے بعد …‘‘
میتا نے دیکھا راجیش کے چہرے پر ایک کشمکش ہے، یہ بہت خاموش طبع اور سنجیدہ لڑکا تھا… بہت کم بولتا تھا۔ اس سے بات چیت جاری رکھنے کے لیے خود ہی بولنا پڑتا تھا… مگر میتا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس کے جانے کی بات کو کس طرح لے۔ وہ گھر جا رہا تھا… یہ کوئی بری بات تو نہیں تھی۔ اس نے ایم ایس سی فائنل میں بہت اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ہاں نوکری کے لیے پریشان تھا، اچانک میتا کو ایک خیال آیا۔
’’تم اپنا Email-Address دے دو کوئی پوسٹ نکلی تو تمہیں Inform کروں گی۔ ‘‘
راجیش ہنسا… ’’وہ گاؤں ہے میتا… دور دور تک یہ سہولیات نہیں ‘‘۔
’’اچھا‘‘ پھر دو لمحے کے لیے چپی چھا گئی۔
’’میتا کل تم نے کہا تھا نا… کہ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ آپ نے جو کیا ہے اسے کوئی سرا ہے ؟ یہ یقین دلائے کہ صحیح کیا ہے۔ ‘‘ راجیش نے اچانک پوچھا۔
’’ہاں کہا تھا۔ ‘‘
’’آج میرا بھی دل چاہ رہا ہے کہ تم مجھے کچھ یقین دلاؤ۔ ‘‘
’’میتا نے چونک کر راجیش کو دیکھا… اب اس کی سمجھ میں سب آ رہا تھا۔
’’اف راجیش… تم بھی وہی نکلے …‘‘ میتا کی آواز میں کرب تھا۔
’’راجیش تم لڑکے اتنے Stupid کیوں ہوتے ہو، میں تمھیں ایک سنجیدہ اور سلجھا ہوا انسان سمجھتی تھی… یقیناً اس وقت یونیورسٹی میں میرے جتنے دوست ہیں لڑکے یا لڑکیاں ان میں ذہنی سطح پر میں تم سے بہت قریب ہوں۔ مگر یہ کیوں ہوتا ہے کہ دو انسان اگر مرد ہیں تو اچھے دوست ہو سکتے ہیں ان خوبیوں کے باعث مگر دو انسان اگر مرد اور عورت ہیں تو وہ صرف اچھے دوست نہیں ہو سکتے۔ ‘‘
’’کوئی بات نہیں … تم اب اس قدر پریشان مت ہوؤ۔ میں جانے سے پہلے صرف تمھارا ذہن لینا چاہتا تھا۔ ‘‘ راجیش نے بڑی خوبصورتی سے اپنی آواز کو سہج بنا لیا تھا۔
’’سوری راجیش… در اصل میں اس مسئلے پر پہلے ہی بہت پریشان رہی ہوں … تمھیں تو بتا ہی چکی ہوں گھر والوں نے زبردستی میری انگیجمنٹ انل سے کر دی ہے۔ میں ابھی شادی کرنا ہی نہیں چاہتی اور گھر سے مسلسل دباؤ بنا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی نظروں میں میری یہ تعلیم پی ایچ ڈی کسی چیز کی اہمیت ہی نہیں۔ ‘‘
’’میں سمجھ سکتا ہوں …‘‘ راجیش نے تسلی دینے کی کوشش کی۔
’’کہاں سمجھا تم نے بھی راجیش، جبکہ تمھیں تو میں ہمیشہ بتاتی تھی کہ انل سے انگیجمنٹ ہونے سے میں کتنی پریشان ہوں ‘‘۔ میتا نے اداس ہو کر کہا۔
’’تمہاری ان ہی با توں کو تو میں نے غلط سمجھ لیا۔ پر اب بھول جاؤ… اٹس او کے (It’s OK) ‘‘۔
’’سوری میں نے تمھیں ہرٹ (Hurt) کیا۔ ‘‘ میتا نے پھر کہا۔
’’اور میں نے تمھیں ہرٹ (Hurt) کیا۔ حساب برابر، چلو کسی کا کسی پر قرض نہیں رہا۔ ‘‘ راجیش کی آواز کی تہہ میں کچھ تھا جس نے میتا کو اندر تک ہلا دیا۔
’’اب چلیں ‘‘۔ راجیش نے اٹھتے ہوئے کہا۔
دونوں اپنے اپنے دلوں کی کیفیت چھپاتے باہر آئے۔
’’راجیش… تم بہت اچھے انسان ہو، اگر میری زندگی کا Aim کبھی شادی ہوا نا تو تمھیں ڈھونڈ کر تم سے ہی کروں گی۔ ‘‘ میتا نے معلوم نہیں ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے اپنی طرف سے مذاق کیا یا اس کے دل میں کچھ ایسے خیال پیدا ہوئے مگر راجیش کے بڑھتے قدم رک گئے۔ اس نے میتا کو بہت غور سے دیکھا۔ پھر دھیرے سے کہا۔
’’تم لڑکیوں کی، ان ہی با توں سے ہم لڑکے ایسی بیوقوفیوں میں پڑ جاتے ہیں کہ پھر تم لوگ ہمیں Stupid کہو، جانتی ہو تمھارا یہ جملہ ایک پاگل دل کو ہمیشہ انتظار کی کیفیت میں رکھنے کے لیے کافی ہے۔ ‘‘ پھر وہ بغیر رکے، بغیر میتا کا جواب سنے تیز تیز قدم اٹھاتا آگے نکل گیا۔
اور میتا ٹھگی سی کھڑی رہ گئی۔
٭٭٭
’’مجھے گاؤں آئے ہوئے پندرہ دن ہو گئے … تم نے واپس جانے کے بارے میں کیا سوچا؟ ساتھ چل رہی ہو یا تمہارا ریزرویشن کینسل کرواؤں۔ ‘‘ اجے ورما نے اپنی بیوی کی طرف دیکھ کر کہا۔ سیما جو دھلے ہوئے کپڑوں کے تہہ بنانے میں منہمک تھی۔ اس سوال سے چہرے پرسوچ کی ایک پرچھائی لہرائی۔
’’بابا کی حالت ایسی تو نہیں کہ چھوڑ کر جایا جا سکے۔ اب آپ جائیں، میں کچھ دنوں بعد ہی آ جاؤں گی۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے …‘‘ کہتے ہوئے اجے کو لگا دھیرے دھیرے وہ اس سیدھی سادی گھریلو عورت پرکتنا منحصر رہنے لگے ہیں۔ زندگی کے زیادہ تر معاملات جو گھر اور خاندان سے متعلق ہیں، اس میں خود وہ کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ سب کچھ سیما پر چھوڑ رکھا ہے۔ اسی لیے پورے سکون اور انہماک سے اپنے درس و تدریس کے کام کے لیے خود کو وقف کر دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر وقت، ہر فیصلہ سیما کا انھیں قابل قبول ہو مگر دونوں صورتوں میں کہیں کوئی تناؤ نہیں … اب تو سیما کے بغیر زندگی کے سفر میں ایک قدم اٹھانا نا ممکن لگتا ہے۔ کیسے اور کب دو اجنبی ایک دوسرے کی زندگی میں رفتہ رفتہ یوں شامل ہو جاتے ہیں اور جس کے خواب پلکوں پر سجا کر کئی را توں کی نیند قربان کر دی جاتی ہے، دن کا سکون کھو جاتا… اس کا عکس کسی پرچھائیں کی شکل میں بھی زندہ نہیں رہ پاتا… یہ ان کی کیسی بے بسی ہے کہ یہ دو نام… آسی اور سیما ان کی سوچوں میں ایک ساتھ چلتے ہیں … دو متوازی خط مستقیم کی طرح… کبھی سیما کی محبت اور وفاؤں کا دل معترف ہونے لگتا ہے تو جانے کن کونوں کھدروں سے آسی کی سلونی نمکین شکل اپنی ہر باریکی کے ساتھ اجاگر ہو کر ان کے جذبوں کا مذاق اڑانے لگتی ہے۔ کبھی آنکھیں بند کر کے ماضی کے ان روشن دنوں میں ڈوبنے کی سعی کرنا چاہیں تو سیما کا پیکر اپنی تمام وفاؤں اور خلوص کے ساتھ ایک روشن مینار کی طرح ایستادہ نظر آتا ہے کہ اس کے آگے ہر روشنی پھیکی لگنے لگتی ہے۔ بہرحال وہ خود کو ان خوش قسمتوں میں شمار کرتے ہیں جنھیں ایسی عورتوں کا ساتھ ملا جنھوں نے ہمیشہ انھیں مضبوط کیا، سہارا دیا اور محبت دی۔ اور کسی بھی انسان کو کامیابی کی منزل تک پہچانے کا یہی سب سے عمدہ راستہ ہے۔ محبت اور خلوص، توجہ اور اپنا پن، مجروح دل اور منتشر ذہن کے لیے ایسا مرہم ہیں جو بہت چپکے سے ہمارے اندر نرم نرم سی تبدیلی کا دریا بہا دیتے ہیں … اور ہمارے اندر کی چھپی ہوئی خوبیوں کو ایسے باہر نکال لاتے ہیں کہ شخصیت کا چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے … آج ان کی کامیاب زندگی بھی ان ہی با توں کی مرہون منت ہے … انھوں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر سیما کی طرف دیکھا، وہ اب تہہ کیے ہوئے کپڑے الماری میں رکھ رہی تھی ان کی سوچوں سے بے خبر۔ اس کی لمبی چوٹی اس کی پشت پر کسی وزنی زنجیر کی طرح جھول رہی تھی… یہ وہ زنجیر تھی جس نے ان کے جیسے ٹوٹے بکھرے انسان کو سمیٹ کر ہمیشہ کے لیے اپنی قید میں لے لیا تھا۔ سیما نے اس وقت انھیں بہت ہمت سے سنبھالا تھا… جب وہ خود کو بہت مظلوم اور ہارا ہوا سمجھ رہے تھے۔ ان دنوں وہ کتنے خودغرض ہو گئے تھے، انھیں سوچ کر آج بھی شرمندگی ہوتی ہے … مگر سیما کی ہمت نے انھیں بدلنے پر مجبور کر دیا… انھیں تباہی کی طرف جانے سے روک لیا، اجے نے سوچا رام کے ون باس میں یقیناً سیتا کا بہت اہم رول ہو گا۔ اگر سیتا ساتھ نہ ہوتی تو کیا پتا رام کے ون باس کی کہانی کوئی اور موڑ لے لیتی۔
سیما نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا…
’’آپ اماں اور وجے کو دیکھیں کہاں ہیں ؟ اور بابا کے کمرے میں آ جائیں۔ میں چائے وہیں لے کر آتی ہوں۔ ‘‘
اجے نے چپل پیر میں ڈال کر ایک منٹ سوچا… اس پانچ آنگنوں والے گھر میں وہ اماں اور وجے کو کدھر ڈھونڈھنے پہلے جائیں۔ دونوں جہاں بھی ہوں گے ساتھ ہی ہوں گے۔ ان کے قدم اپنے آپ ہی اس آنگن کی طرف اٹھے جس میں آم کے پیڑ لگے تھے۔ وجے یقیناً دادی کے ساتھ کیریاں تڑوا رہا ہو گا۔
اماں اور وجے کیریوں والے آنگن میں مل گئے۔ دونوں کتنے خوش تھے … اماں کی ضعیفی اور وجے کا بچپن دونوں ہم آہنگ ہو گئے تھے۔ بڑھاپے میں انسان کی خواہشات، خواب سب کچھ پھر سے محدود ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے بچپن کی معصومیت کی آمیزش اس عمر میں شامل ہو جاتی ہے۔ اجے بڑے والہانہ پن سے عمروں کے اس تضاد کے باوجود ایک سی خوشی کی چمک دونوں کے چہروں پر دیکھ رہے تھے۔ تبھی اماں کی نظر ان پر پڑی اور وہ اجے کی طرف بڑھیں۔
’’ارے اجے بیٹا… تجھے مل گئی فرصت اپنی کتابوں سے۔ ‘‘
’’کہاں اماں … پندرہ دن سے تو فرصت میں ہی ہوں۔
ہاں اب فرصت کے دن ختم ہونے کا افسوس ہو رہا ہے۔ ‘‘ اجے نے بڑھ کر ماں کو سہارا دیا۔ پھر کہا۔
’’اب چلئے بابا کے پاس چائے آنے والی ہے، وجے تم بھی ہٹو اب یہاں سے۔ ‘‘
’’ہاں بیٹا وجے یہ کیریاں ماں کو دے آ… کب سے کہہ رہی ہوں، شہر جانے سے پہلے اچار ڈال لے، مگر وہ بے چاری بھی کیا کرے … جب آتی ہے سارے کام اسی پر پڑ جاتے ہیں …‘‘ اماں نے بڑھتے ہوئے کہا۔
’’اماں … بابا کو سمجھاؤنا… سب لوگ ساتھ چلتے، وہاں علاج بھی اچھا ہو جائے گا… وجے نے گزارش کے انداز میں ماں سے کہا۔ تو وہ بولیں۔
’’بیٹا اپنے بابا کی ضد تجھے معلوم ہے، وہ ابھی کہیں نہیں جائیں گے۔ ویسے بھی کٹنی کا موسم ہے۔ فصل اپنے سامنے نہیں کٹوائیں گے تو سال بھر کی محنت پر پانی پھر جائے گا… پر تم لوگ تو گاؤں سے الگ ہو کر یہ سب بھول ہی گئے۔ ‘‘
ہم سب حالات کے ہاتھ میں بے بس کٹھ پتلی ہیں … حال کے ٹھوس شکنجے میں مقید… اپنے اپنے مسائل کے تانے بانے میں الجھے ہوئے … اجے نے سوچا اور ایک ٹھنڈی سانس لی۔
بابا کے کمرے میں پہنچ کر انھوں نے دیکھا چائے آ چکی تھی۔ سیما بابا کو کوئی دوا کھلا رہی تھی… بابا نے اپنی نحیف مسکراہٹ سے بیٹے کا اپنے کمرے میں خیرمقدم کیا… سیما نے اجے کو چائے کی پیالی پکڑاتے ہوئے بتایا کہ ٹیبل پر اس کی ڈاک ہے۔ اور اماں کو چائے دینے کے لیے مڑی۔ اماں بابا کی پائنتی بیٹھ چکی تھیں … اجے نے بابا کے سرہانے دائیں طرف رکھے گول میز پر سے اپنی ڈاک اٹھائی، گاؤں میں خط گھر تک پہنچنے کا وقت یہی ہے۔ سہ پہر کے بعد شام کی چائے کے ساتھ ہی یہاں خطوط ہاتھ میں آ پاتے ہیں … پوسٹ آفس یہاں سے دس کلومیٹر دور جو ہے۔ پہلے انھوں نے تار دیکھا… سمینار کی ڈیٹ بڑھا دی گئی تھی۔ انھوں نے اطمینان کی سانس لی… اب تک انھوں نے پیپر بھی تیار نہیں کیا تھا… خط میتا کا تھا… انھوں نے اسے بغیر پڑھے جیب میں ڈال لیا… بعد میں پڑھیں گے۔
’’سب ٹھیک تو ہے … کیا بلانے کا تار ہے ‘‘۔ بابا نے اپنی ساری توانائی اکٹھی کر کے سوال کیا۔
’’نہیں بابا… سب ٹھیک ہے۔ ایک گوشٹھی تھی جو ابھی نہیں ہو گی، اسی کا تار ہے۔ میں اپنے ایک ودیار تھی سے کہہ کر آیا تھا کہ سوچنا ملتے ہی تار کر دینا۔ ‘‘
’’اچھا…‘‘ ماں بابا دونوں کے چہروں پر اطمینان کا پرتو دیکھا جا سکتا تھا۔ اپنے بیٹے بہو کے قریب اور ساتھ ہونے کا احساس دونوں بزرگوں کو گدگد رکھتا تھا… اور ان لوگوں کی جدائی کا خیال اسی حد تک انھیں مغموم کر جاتا… مگر سیما نے بڑی خوبصورتی سے یہ سارے مسائل سلجھا رکھے تھے۔ اگر ان لوگوں کو چھوڑ کر جانا بھی پڑتا تو اس وقفے میں وہ کسی ذمہ دار آدمی کو سب کچھ سمجھا کر جاتی تاکہ کوئی پریشانی نہ ہو۔ ویسے وہ زیادہ سے زیادہ وقت ماں بابا کو دیا کرتی تھی… اسی لیے ماں بابا اپنی بہو پر جان چھڑکتے تھے … ماں اور بابا کی اسی خوشی کے لیے تو اجے نے آج سے پندرہ سال پہلے اپنی اس خوشی کی قربانی دی تھی… جو ان کے لیے شہہ رگ سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ اور ایک جھٹکے سے اسے خود سے الگ کر کے اجے کو لگا تھا کہ قطرہ قطرہ زندگی اس زخمی احساس کی نس سے ٹپک کر ان سے الگ ہو رہی ہے اور وہ زندگی کے ولولوں اور امنگوں سے خالی ہوتے جا رہے ہیں … حالانکہ یہ فیصلہ انھوں نے اور آسی نے پورے ہوش و حواس میں ایک ساتھ بیٹھ کر کیا تھا… ان دونوں نے پورے پانچ سال ایک دوسرے کی قربت میں گزارے تھے۔ اپنی سوچ اور پسند کی یکسانیت نے دونوں کو گہرا دوست بنا دیا تھا۔ کبھی بھی دونوں کے بیچ کوئی عہد و پیماں نہیں ہوئے تھے۔ دونوں نے کبھی کسی محبت کا اقرار بھی نہیں کیا تھا… مگر نہ جانے کیسے اور کب ایک دوسرے پر اپنا حق سمجھنے لگے تھے اور اس وقت تک سمجھتے رہے تھے جب تک ان کے گھر والوں کا مطالبہ شروع نہیں ہوا تھا کہ اب ان کے شب و روز پر کسی اور کا بھی حق ہے اور وہ جلد از جلد اس کار خیر کی ادائیگی کے لیے تیار ہو جائیں … تب اجے اور آسی جیسے نیند سے جاگے تھے۔ تب دونوں کو احساس ہوا تھا کہ مذہب کی یہ کھائی دونوں کے درمیان کتنی گہری اور خوفناک ہے … ایک ہونے کے لیے اس کھائی کو پاٹنا ہو گا… اور یہ کھائی تو کتنے اپنے سگوں کو کھا جائے گی… سب کے ارمانوں اور امنگوں کو کھا جائے گی… اور یہ سوچ کر اجے کانپ گیا تھا کہ اپنی خوشی کے لیے وہ اس کھائی میں اپنے ماں، باپ، رشتے، ناطے، مذہب، سماج سب کو دھکا دے دے … وہ تو بہت نرم دل، نرم طبیعت کا مالک تھا… اس کے دل میں اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ آسی کے مذہب کا احترام بھی موجود تھا۔ اسی لیے وہ نہ تو اپنا مذہب چھوڑنا چاہتا تھا نہ ہی آسی سے چھوڑنے کے لیے کہنا چاہتا تھا۔ اسی لیے دونوں نے خاموشی سے اس کڑوی کسیلی حقیقت کا زہر پی لیا تھا… اور چپکے سے الگ الگ منزلوں کی طرف مڑ گئے تھے … ایک دوسرے کے چہرے کا کرب دیکھنے کے لیے نہیں رکے تھے۔
آج اجے کو اتنا اطمینان تو ہے کہ ان کی وہ قربانی رائے گاں نہیں گئی ہے۔ ماں اور بابا کا بڑھاپا طمانیت اور خوشی سے ہم کنار کرنے کے لیے انھوں نے جو بھی کیا ہے … اس کا پھل آج کتنا خوشگوار حال لے کر آیا ہے۔
٭٭٭
دور دور تک اندھیرے اور سناٹے کا راج تھا… صرف جھاڑیوں سے جھینگروں کے بولنے کی تیز آوازیں سناٹے میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں … چھت سے ہک کی شکل میں لٹکی ہوئی ایک لمبی کڑی میں لالٹین جھول رہی تھی… اجے سر کے نیچے دونوں ہاتھ رکھے بہت دیر سے لالٹین کو ہلکے ہلکے ہلکورے لیتے دیکھ رہے تھے۔ کھڑکی سے ہوا کے خوشگوار جھونکے گاہے بگاہے آ جاتے … سرہانے میں 1991 کی سنسس رپورٹ (Census of India-1991) کی موٹی سی کتاب پڑی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے پیٹرومیکس کے ختم ہوتے ہوئے تیل میں اس کی روشنی نے دم توڑا تھا اور لالٹین کی ناکافی روشنی کے باعث اجے کو کتاب رکھ دینی پڑی تھی… نظر لالٹین پر تھی مگر ذہن میں وہ اپنے اس مضمون کو مرتب کر رہے تھے جو اس رپورٹ کو دیکھ کر ذہن میں چل رہا تھا… نہ جانے وہ کتنی دیر اس طرح رہے … لیکن جب سیما نے کمرے میں قدم رکھا تو اجے کی آنکھ لگ چکی تھی… اس نے احتیاط سے کتاب بند کر کے میز پر رکھی۔ لالٹین کی لو دھیمی کی، کھڑکی پر سے پردے سرکائے اور بہت چپکے سے اجے کے برابر لیٹ گئی۔
اچانک اجے نے ہاتھ بڑھا کر سیما کو اپنی طرف کھینچ لیا… وہ ذرا سا کسمسائی پھر اجے کی طرف کروٹ لے کر ہلکی روشنی میں ان کے چہرے کو غور سے دیکھا… آپ سوئے نہیں … میں سمجھی…‘‘
’’تم ٹھیک سمجھی… ابھی آنکھ لگ گئی تھی پر تمھارے آنے سے کھل گئی۔ ‘‘
’’سوجایئے۔ ‘‘
’’نہیں … سو سو کر تو یہاں بور ہو چکا ہوں … تمھیں کام سے فرصت نہیں اور مجھے سونے سے۔ ‘‘
’’ہاں …مگر وہاں معاملہ الٹ جاتا ہے، وہاں آپ کو فرصت نہیں ملتی، میں تو آپ سے بات کرنے کے لیے بھی ترس جاتی ہوں …‘‘ سیما نے ہنس کر کہا۔
’’اچھا اس لیے یہاں مجھ سے بدلہ چکا رہی ہو۔ خیر مجھے معلوم ہے تم بہت تھک چکی ہو مگر مجھ سے کچھ دیر بات کرو دو دن میں میں چلا ہی جاؤں گا۔ دن میں تو تمھیں فرصت ہی نہیں ملتی۔ ‘‘
’’کیا کوئی خاص بات ہے ؟ ارے ہاں میتا نے کیا لکھا ہے …‘‘
’’ہاں اس نے ایک اہم خبر یہ دی ہے کہ پروفیسر متھلیش نیشنل یونیورسٹی کے وی سی ہو گئے ہیں۔ یہاں سے جا کر انھیں مبارک باد کا تار بھیج دوں گا۔ سچ بہت خوشی ہوئی یہ جان کر۔ اور اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ راجیش اپنے گاؤں جانے والا ہے … اس لیے وجے کے آنے پر وہ اس کے لیے کوئی اور ٹیوٹر تلاش کر لے گی‘‘۔ اجے ورما نے تفصیل بتائی۔
’’ارے ہاں مجھے یاد آیا… میں آپ سے کہنے والی تھی وجے کو ساتھ لے جائیں … یہاں بالکل نہیں پڑھ رہا ہے۔ اب تو چھٹیاں بھی ختم ہوئیں … میں جلد ہی آ جاؤں گی۔ ‘‘
’’لیکن مجھے اگلے مہینے سمینار میں جانا ہے وجے کو تنہا کیسے چھوڑوں گا۔ ‘‘
’’ایک ہفتے کے لیے میتا کے پاس چھوڑ جائیں۔ وہ ہوسٹل سے گھر آ جائے گی۔ وجے میتا کے ساتھ آرام سے رک جائے گا۔ ‘‘
’’یہ مجھے پسند نہیں سیما… اپنے لیے کسی اور کو۔ ‘‘ اجے کچھ اور کہتے کہ سیما نے کہا۔
’’میتا اپنوں سے بڑھ کر ہے … اور ہماری مجبوری ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے … ایسا ہی سہی، اچھا اب تمھیں بہت نیند آ رہی ہے اس لیے سوجاؤ۔ کل بات کریں گے۔ ‘‘ انھوں نے سیما کی بند ہوتی ہوئی پلکوں کو دیکھ کر کہا اور دھیرے سے خود کو الگ کر کے اٹھ بیٹھے … اب انھیں نیند نہیں آ رہی ہے۔ روشنی کی کمی کے باعث کوئی کام کرنا بھی ممکن نہ تھا… گرمی کی رات تھی مگر گاؤں میں بجلی نہ ہونے کے باعث یہ رات طویل لگتی تھی… سب باہر بڑے آنگن میں یوکلپٹس کے نیچے چارپائی ڈال کر سوتے۔ بابا اپنے کمرے میں۔ مگر آج موسم کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ شام سے کہیں سے اچانک کالے بادلوں نے کھلے شفاف آسمان پر یلغار کر کے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا تھا… چاند کی آخری تاریخوں میں ویسے ہی ساری دنیا اندھیرے میں ڈوبی نظر آ رہی تھی، بادلوں نے اسے اور گہرا کر دیا تھا۔ بادلوں کے ساتھ ہوا کے جھونکے بھی چل رہے تھے جنھوں نے گرمی سے اچانک نجات دلا دی تھی۔ موسم کے انہی تیوروں نے آج سب کو اپنے کمروں میں دبکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہاں پورے گھر میں بجلی کی وائرنگ تھی مگر لائٹ شاید ہی کبھی آتی… اور اگر کبھی آ بھی جاتی تو لالٹین کی روشنی سے بھی شرمندہ ہوتی رہتی۔ اجے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں … اس لیے وہ کمرے کا دروازہ کھول کر صحن میں نکل آئے۔ انھیں یاد آیا اپنے تعلیمی دور کے آخری دنوں میں وہ یوں ہی را توں کو اٹھ کر بے چینی سے ٹہلا کرتے … ایک مسلمان لڑکی کے لیے دل میں جو نرم گوشے پیدا ہو گئے تھے وہ کسی سے بتا بھی نہیں سکتے تھے۔ جب بھی آسی کا خط آتا اپنی چھوٹی بہن سے ان کی لڑائی ضرور ہوتی۔ اسے انگریزی کی اتنی سمجھ نہیں تھی۔ بس نام پڑھ لیتی اور انھیں چھیڑنے کے لیے آنگن کی دیوار کے ان درازوں میں چھپا دیا کرتی جہاں اینٹوں کے درمیان سرخی جھڑ کر سوراخ بن گئے تھے۔ پھر کہتی آنگن کی بائیں طرف والی دیوار میں ہے تمھاری چٹھی ڈھونڈ لو تو جانوں۔ وہ اسے رعب میں لینے کی کوشش کرتے پر وہ کہاں کسی کا رعب مانتی تھی۔ تنگ آ کر اس کی چھوٹی موٹی سی چٹیا کو زور سے کھینچتے … وہ اوئی اوئی کرتی پھر بھی نہ دیتی… وہ اس کی بات مان کر پوری دیوار کا چکر لگاتے پھر بھی نہ ملتی اور تھک ہار کر بیٹھ جاتے تو جھٹ سے اٹھتی ایک سوراخ میں گھسیڑے ہوئے اینٹ کے ٹکڑے کو نکال کر پھینکتی پھر اس کے پیچھے سے خط نمودار ہوتا… وہ تڑے مڑے خط کے اس حشر پر اپنا سر پیٹ لیتے۔ ان خط میں کچھ نہیں ہوتا روزمرہ کی عام سی باتیں، مصروفیتیں، خیریت مگر جب تک یہ خط ہاتھ میں نہ آ جاتا کیسی بے چینی رہتی… خط دے کر وہ کہتی… ٹھہرو بھیا… ماں کو بتاتی ہوں تمھیں آسیہ نام کی لڑکی چٹھی لکھتی ہے۔ ‘‘
وہ اس کا کان پکڑ کر پاس بٹھاتے۔ ’’پائل تو کبھی سنجیدہ رہا کر۔ ‘‘
’’یہ سنجیدہ کیا کسی اور لڑکی کا نام ہے۔ ‘‘ اس کی کھی کھی شروع ہو جاتی۔
’’ارے تو نے کبھی اپنے بارے میں سوچا ہے … اتنی بڑی ہو گئی ہے نہ پڑھتی لکھتی ہے، نہ کوئی اور کام سیکھتی ہے۔ ‘‘
’’سوچنا تو چاہتی ہوں بھیا… پر سوچ نہیں پاتی۔ ‘‘ وہ مسکین سی شکل بنا کر کہتی۔
’’کیوں ؟‘‘
’’کیونکہ جب سوچنے کے لیے لیٹتی ہوں تو نیند آ جاتی ہے۔ ‘‘ پھر زور کی ٹھٹھول مار کر وہاں سے بھاگ جاتی۔
اب نہ ہنسی کی وہ گونج تھی، نہ آسی کے خطوط، نہ وہ عمر اور نہ اس عمر کا بے فکرا پن… سب کی دنیا اب الگ الگ محور پر گھوم رہی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن پائل سے وہ دو سال سے نہیں ملے … اب تو وہ خود تین بچوں کی ماں ہے … اپنے گھر میں سکھی ہے یہی ان سب کے لیے بہت ہے۔ اپنی سوچوں میں ڈوبتے ابھرتے واپس وہ کمرے میں آ کر سونے کے لیٹ گئے۔ کیونکہ وہ خود اپنی اس عادت سے پریشان تھے … ماضی ان کے پیچھے بھوت بن کر پڑا رہتا… تنہا دیکھا نہیں کہ دھر دبوچا۔
٭٭٭
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید