FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

لفظ​

 

 

                   صبا اکبر آبادی​

 

 

 

 

 

 

ہے عجب حال جہانِ فتنہ گر کیا کیجئے

اجنبی لگنے لگے دیوار و در کیا کیجئے

ہر نظارہ ہو گیا ہے بے اثر کیا کیجئے

دیکھئے کیا ، شکوہ ضعفِ اثر کیا کیجئے

 

ہو اگر عَالم میں ہر سو انجمن آرائی ہے

اب تو ہم ہیں اور ہمارا گوشہ تنہائی ہے

 

دل میں بے رنگی سی ہے اَب رنگ دنیا دیکھ کر

جی بہلتا ہی نہیں گلزار و صحرا دیکھ کر

کوئی موج اُٹھتی نہیں امواجِ دریا دیکھ کر

فائدہ کیا بزمِ ہستی کا تماشہ دیکھ کر

 

گرمی محفل کہاں ، بزمِ زمانہ سَرد ہے

رنگِ گلشن بھی نگاہِ شوق میں اب گرد ہے

 

 

مشکلاتِ زندگی میں طرزِ آسانی نہیں

اَب کسی محفل میں کوئی نغمہ سامانی نہیں

بحرِ ہستی پر سکوں طاری ہے ، طغیانی نہیں

پیاس جو دل کی بُجھا دے وہ کہیں پانی نہیں

 

ذہن لاغر ہو گیا ہے ضعفِ جاں کا زور ہے

فکر کے لب خُشک ہیں بس العطش کا شور ہے

 

 

اہلِ فن عُزلت گزیں ہیں اہلِ دل ہیں گوشہ گیر

اب جو ہیں منبر نشیں اپنی جگہ سَب بے نظیر

نونہالانِ چمن سے ہیں تمنائیں کثیر

اپنے دامِ فکر میں ہم خود ہی رہتے ہیں اسیر

 

اَب نہ وہ محنت ، نہ وہ مشقِ سخن کا دور ہے

اور تھا اپنا زمانہ ، یہ زمانہ اور ہے

 

 

اَب کہاں جا کر سنایا جا سکے غم کا اثر

اب خذف کے مول بِکتے ہیں معانی کے گُہر

رفتہ رفتہ ہو گئے رُخصت جو تھے اہلِ نظر

قدر داں گُم ہو گئے کیا کیجئے عرضِ ہُنر

 

اب شبابِ شعر کیا آئے گا عہدِ شیب میں

فکر حاضر نذر کرنا ہے حضورِ غیب میں

 

 

اپنی عُمرِ شاعری میں یہ رہا اپنا چلن

خدمتِ اربابِ دانش صحبتِ اہلِ سخن

منجلی کرتے رہے آئینہ افکار و فن

پھر کہیں جا کر ہوا شاداب مدحت کا چمن

 

آتشِ افکار سے انفاس تھے دہکے ہوئے

تھے کبھی الفاظ پھولوں کی طرح مہکے ہوئے

 

لفظ کیا ہے فکرِ انسانی کا اِک سادہ لباس

باوجود سادگی ہیں رنگ جس کے بے قیاس

لفظ ، بنیادِ تخیل ، لفظ خطبوں کی اساس

لفظ ، اظہارِ تکبر ، لفظ اندازِ سپاس

 

لفظ پتھر بھی ہے ، موتی بھی ، ثمر بھی پھول بھی

لفظ ہی مردُود بھی ہے لفظ ہی مقبول بھی

 

لفظ فطرت کا نگینہ ، لفظ شعروں کا نکھار

نثر کا زیور ہے ، باغِ نظمِ رنگیں کی بہار

لفظ قرطاس و قلم کی آبرُو کا ذمہ دار

لفظ اوراقِ کتاب زیست پر نقش و نگار

 

گو بظاہر لفظ اِک اُلجھی ہوئی آواز ہے

نغمگی سوزِ ہستی کے لئے یہ ساز ہے

 

 

 

 

لفظ ناموسِ ادب ہے لفظ جذبے کا نقاب

وقت پر اُبھرے تو روشن ہو مثالِ آفتاب

لفظ کے جُرعے اثر کرتے ہیں مانندِ شراب

لفظ ہی جانِ تکلم لفظ ہی روحِ کتاب

 

حکمرانی لفظ کی ہے عِلم کی اقلیم پر

عظمتیں مجبور ہیں خود لفظ کی تعظیم پر

 

 

لفظ تھے اپنے کھلونے ، لفظ اپنے مشغلے

زندگی لفظوں میں گذری انکے سائے میں پلے

ہر قدم پر سامنے الفاظ کے تھے مرحلے

لفظ ہر جانب ہمیں انگلی پکڑ کر لے چلے

 

گردشیں کرتی رہی لفظوں پہ ساری زندگی

ہم نے لفظوں کے مکانوں میں گذاری زندگی

 

 

لفظ کو جب دی بُلندی اِک ستارہ بن گیا

آتشِ دل میں تپایا تو شرارہ بن گیا

اِک ذرا سی جنبشِ لب پا کے پارہ بن گیا

رنگ جس میں بھر دیا جانِ نظارہ بن گیا

 

لفظ کی عینک لگا کر ایک دنیا دیکھ لی

لفظ کے ذرے میں ہم نے روحِ صحرا دیکھ لی

 

 

لفظ کی تقدیس پر آنے نہیں پایا ہے حرف

اِس خزانے کو غلط صُورت نہیں کرتے تھے صرف

شعلہ سامانی میں بھی بن کر رہا مانندِ برف

لفظ کا سب پر ہوا ہے نشہ لیکن، حسبِ ظرف

 

لفظ مے بھی ہے، سبُو بھی، جام بھی، مینا بھی ہے

لفظ ہی رُوحِ عنب ہے ساغرِ صہبا بھی ہے

 

 

 

دن گذر جاتے تھے اکثر لفظ کی تصحیح میں

راتیں کٹ جاتی تھیں پیہم کوشش توضیح میں

ذہن رہتا تھا پریشاں لفظ کی تشریح میں

پھر کہیں بڑھتا تھا دانہ لفظ کا تسبیح میں

 

ذہن رہتا تھا سمندر میں سفینے کی طرح

پھر کہیں اِک لفظ ملتا تھا نگینے کی طرح

 

 

ذہن میں اکثر اُبھر آتا تھا اِک سادہ سوال

کس طرح امکان کی صورت میں بدلا ہے محال

یہ سمندر ، یہ زمیں ، یہ کوہ و صحرا ، یہ نہال

کیوں بنے ، کیسے بنے ، کس نے دکھایا یہ کمال

 

جُڑ گئے کیسے ستارے پردہ افلاک پر

فرش سبزے کا بچھایا ہے یہ کس نے خاک پر

 

 

عالمِ اسباب کیا ہے اور مُسبب کون ہے

خالقِ ہر دوسَرا جب کون تھا اب کون ہے

پالتا ہے جو کرم سے سب کو وہ رَب کون ہے

جس نے پیدا کر دیا ہے کھیل یہ سب ، کون ہے

 

فرش مٹی کا بچھا پردے فلک کے تن گئے

بازگشتِ لفظ سے کس کی دو عالم بن گئے ؟

 

 

 

ملہم غیبی نے فوراً دے دیا اس کا جواب

غور اپنے نفس پر کر کبھی غفلت مآب

دل میں اطمینان پیدا کر غلط ہے اضطراب

خالقِ کُل کی یہ صناعی ہے بے حد و حساب

 

رب اعلیٰ وہ جو ہے آغاز و بے انجام ہے

نیستی کو ہست کر دینا اُسی کا کام ہے

 

 

 

عالمِ خاموش کو جس نے عطا کر دی صدا

ایک سناٹا تھا وہ اب جو ہے معمور نوا

پتھروں کو جس نے قدرت سے سکھایا بولنا

پاؤں کی آہٹ سی ہوتی ہے جو چلتی ہے ہوا

 

جا بجا فانوس روشن کر دیئے الفاظ کے

بے زبانی میں خزانے بَھر دیئے الفاظ کے

 

 

پہلا لفظ کُن تھا ، یہ دنیا ہے جس کی باز گشت

ہیں اُسی کی گونج یہ کوہ و دمن دریا و دشت

عالمِ وحدانیت میں کیا ہو بحثِ ہفت و ہشت

حرف دو تھے ، لفظِ واحد بن کے ہے یہ سر گذشت

 

اُس کی قدرت ہے نُمایاں عالمِ ایجاد سے

ذاتِ واحد ہے مبرا ، ہے مگر اعداد سے

ارواں بھی لفظ ہے جادہ بھی اور منزل بھی لفظ

حَال بھی اِک لفظ ہے ، ماضی و مستقبل بھی لفظ

قتل بھی اِک لفظ ہے ، مقتول اور قاتل بھی لفظ

ایک لفظِ حق ہے اُس کے سامنے باطل بھی لفظ

 

آشنائے حق جو ہو باطِل سے وہ ڈرتا نہیں

جو سمجھ لے لفظ کے معنی کبھی مرتا نہیں

 

 

 

کربلا بھی لفظِ حق کی مستقل تفسیر ہے

خونِ اہلِ بیت سے لکھی ہوئی تحریر ہے

کربلا بابِ حَریمِ صَبر کی تعمیر ہے

اِس زمیں پر گُلشنِ فردوس کی تصویر ہے

 

پانچ حرفوں میں نہاں قرآن کی تعلیم ہے

ایک لفظِ کربلا منزلِ گہہِ تعظیم ہے

 

 

آئیے بزمِ عزا سے کربلا چلتے ہیں ہم

خاک بر سَر ، دَست بر دل ، اے صبا چلتے ہیں ہم

اپنی آنکھوں میں لئے اشکِ عزا چلتے ہیں ہم

جَانبِ دربارِ مقتولِ جَفا چلتے ہیں ہم

 

ہیں گُلِ باغِ نبی جس میں، وہ گُلشن دیکھ لیں

فاطمہ کے لال کا پُر نور مَدفن دیکھ لیں

 

 

 

کربلا ہر ذرہ جس کا ہے جوابِ آفتاب

کربلا خوابِ خلیل اللہ کی تعبیرِ خواب

کربلا حق کی بلندی کا نشاں رفعت مآب

کربلا گنجینہ انوارِ ابنِ بو تراب

 

کربلا مختص ہے شبیر گرامی کے لئے

کربلا جس پر فلک خم ہے سلامی کے لئے

 

 

کربلا پہنائے سطحِ خاک کا رنگیں ورق

کربلا کے لفظ میں توقیرِ مذہب کا سبق

کربلا باطل شکار و کربلا عنوانِ حق

کربلا جس کے بیاں سے دل ہوئے جاتے ہیں شَق

 

کربلا جس میں ہے اِک مردِ جَری سویا ہوا

کربلا ہر ذرہ جس کا خون سے دھویا ہوا

٭٭٭

ٹائپنگ: سیدہ شگفتہ

ماخذ: اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید